الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء

مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرومولانا مفتی محمد تقی عثمانی 
مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلوڈاکٹر محمد عمار خان ناصر 
مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟انڈپینڈنٹ اردو 
مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟بنوریہ میڈیا 
اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)ڈاکٹر محی الدین غازی 
صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)عبد اللہ صغیر آسیؔ 
پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ءعلامہ سید یوسف بنوریؒ 
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادتمولانا مفتی محمد تقی عثمانی 
اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)محمود الحسن عالمیؔ 
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادیمیٹا اے آئی 
ماہ صفر اور توہم پرستیمولانا محمد طارق نعمان گڑنگی 
نُکتہ یا نُقطہ؟ڈاکٹر رؤف پاریکھ 
توہینِ مذہب کے مسائل کے حل کے لیے جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہےانسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز 
The Two Viable Paths for the Qadiani Communityمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 

مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی


(مبارک ثانی کیس کے سلسلہ میں چیف جسٹس جناب فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے پینل کے روبرو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی استنبول (ترکی) سے بذریعہ ویڈیو لنک ہونے والی یہ گفتگو یوٹیوب چینل ’’انور غازی پاڈکاسٹ‘‘ پر موجود ایک ویڈیو سے حاصل کی گئی ہے۔)


تقی عثمانی: ……… موقع دیا، آواز آ رہی ہے؟
فائز عیسیٰ: جی ذرا سا اگر آپ آواز بلند کر سکیں یا مائیک کے پاس آ جائیں، آ تو رہی ہے مگر تھوڑی سی اگر، سب لوگوں کو سنائی نہیں دے گی شاید۔
تقی عثمانی: میں دو باتوں کی معذرت چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ میں ملک سے باہر ہوں، ایک بین الاقوامی میٹنگ ہے جس سے میں اٹھ کر آیا ہوں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میرے گلے کی تکلیف کی وجہ سے میری آواز ذرا بدلی ہوئی ہے، تو پتہ نہیں آپ حضرات کو سننے میں کوئی دشواری نہ ہو، میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ بلند آواز سے آپ سے بات کروں۔ ذرا آپ مجھے بتا دیں کہ آواز سننے میں آ رہی ہے یا نہیں؟
فائز عیسیٰ: اب بالکل اچھی طرح سے آپ کی آواز آ رہی ہے۔
تقی عثمانی: جی بہت اچھا۔ دیکھیے اس فیصلے کے بارے میں جو چھ فروری کا فیصلہ تھا، اور جو نظر ثانی کی اس کا فیصلہ……
فائز عیسیٰ: آپ کے سامنے ہے؟
تقی عثمانی: جی اس وقت میں چونکہ باہر ہوں، سارے کاغذات میرے پاس نہیں ہیں لیکن فیصلے دونوں میں نے پڑھے ہیں اور اس کے اوپر اچھی طرح غور کیا ہے، اور دونوں فیصلوں کے بارے میں ہم نے مفصل تحریر بھیجی ہے۔ ایک تو چھ فروری کے فیصلے سے متعلق تھی، وہ آپ حضرات کو پہلے ہی پہنچ چکی تھی، آپ نے اس کا نظرثانی کے فیصلے میں بھی حوالہ دیا ہے۔ اور دوسری تحریر جو نظرثانی کے فیصلے میں جو آپ حضرات نے فیصلہ دیا، اس کے اوپر ایک مفصل تبصرہ وہ میں نے اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب وغیرہ نے لکھ کر دیا تھا، وہ شائع تو ہوا ہے لیکن آپ کے پاس نہیں پہنچا تھا۔ جن صاحب نے آج ویڈیو لنک پر خطاب کرنے کے بارے میں مجھ سے ذکر کیا ، تو میں نے ان کو بھیج دیا تھا کہ وہ عدالت میں پیش کر دیں کہ نظرثانی کے فیصلے کے متعلق جو کچھ ہمیں اشکالات ہیں یا جو ہمارے لحاظ سے اس میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کی تفصیل اس تبصرے کے اندر موجود ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ آپ تک پہنچی ہے یا نہیں۔
فائز عیسیٰ: وہ منگوا لیں گے، میرے سامنے تو نہیں ہے، مگر آپ سے اگر سن لیں کیونکہ کبھی کبھی پڑھنے میں، پھر غلطی ہو جائے گی، بہتر ہے کہ ہم چاہ رہے تھے کہ ڈائریکٹ ہی آپ سے سنیں، آپ سب سے، کیونکہ پہلے بھی تو ہم نے منگوائے تھے، ہو سکتا ہماری سمجھ میں غلطی ہو، آپ جب کوئی بات کریں گے تو ہو سکتا اس سے ہمیں مزید وضاحت مل جائے۔ تو اگر آپ کو یاد ہیں چیدہ چیدہ باتیں اس میں سے یا تمام باتیں تو ہم ان کو نوٹ کرتے جائیں گے۔
تقی عثمانی: ٹھیک ہے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے یہ گزارش کی تھی کہ جب نظرثانی کے لیے اس کیس کو منظور کر لیا گیا اور اس منظور کرنے کے بعد آپ نے بہت سے لوگوں کو نوٹس دیے اور ان سے کہا کہ وہ اپنی آراء لکھ کر بھیجیں یا خود پیش ہوں۔ تو اس میں متعدد اطراف سے آپ کے پاس جوابات آئے۔ ان میں ہمارا وہ جواب بھی تھا جس پر شاید پانچ یا سات حضرات کے دستخط تھے۔ اس میں جو جو نکات اٹھائے گئے تھے، نظرثانی کے وقت میں ضروری تھا کہ ان سارے نکات کو ایک ایک کر کے ذکر کر کے اس کے اندر کوئی غلطی تھی یا اعتراض وہ درست نہیں تھا تو اس کے اوپر بحث کی جاتی۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ سارے نکات آپ حضرات تک پہنچے، آپ نے اس کا بہت ہی سرسری ذکر کیا، اور سرسری ذکر کر کے ان باتوں کا جو دلائل اس میں دیے گئے تھے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جب کسی شخص کو آپ طلب کریں اور وہ اپنی رائے پیش کرے جو مقدمے کے اہم مسائل پر مشتمل ہو تو فیصلے میں ضروری ہوتا ہے کہ ان تمام نکات کو اور ان تمام دلائل کو مفصل زیر بحث لایا جائے، اور مفصل زیر بحث لایا جا کر اس کو بتایا جائے کہ اس میں جو تبصرہ کیا جا رہا ہے وہ اس کے ساتھ صحیح ہے یا غلط ہے۔
اب مثال کے طور پر سارے لوگوں نے سوائے ایک کے یہ آپ سے عرض کیا تھا کہ چھ فروری کے فیصلے میں آپ نے جو آیاتِ کریمہ درج کی تھیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ فیصلوں میں قرآن و سنت کے حوالے دیتے ہیں، یہ ہمارے لیے ایک اچھی بات ہے، لیکن جب قرآن کریم کی آیات کو آؤٹ آف کانٹیکسٹ دیا جاتا ہے تو وہ اللہ بچائے تحریف تک بات پہنچ جاتی ہے۔ تو اس مقدمے کے تناظر میں جو مبارک ثانی کے کیس میں ہماری بالکل سمجھ سے باہر ہے۔ اور کوئی بھی آدمی جب اس کو پڑھے گا ان آیات کو اور اس کے بعد آپ کا یہ ریمارک پڑھے گا کہ اگر یہ آیات ذہن میں ہوتیں اور آئین کی دفعات موجود ہوتیں تو یہ مقدمہ درج ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یعنی ایک طرح سے آپ ان آیات کو بنیاد بنا رہے ہیں اس بات کی……
فائز عیسٰی: نہیں نہیں، تقی عثمانی صاحب! میں معذرت چاہتا ہوں آپ برا نہ مانیں (تقی عثمانی: نہیں نہیں برا نہیں مانتا) میں نے بیچ میں آپ کو روکا، اگر ذرا سی وضاحت یوں کر دوں، یقیناً‌ ہمیں بہت سارے وہ ملے کاغذات جن لوگوں کو ہم نے نوٹسیں دیں۔ اگر جتنے نکات ان میں تھے ان سب کو اگر ہم اٹینڈ نہیں کر پائے تو اس میں میری کوتاہی ہے۔ مگر پھر تو وہ فیصلہ نہیں ہوتا وہ تو ایک کتاب بن جاتی۔ اب ایک یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جی بہت لمبے ہو جاتے ہیں فیصلے۔ پتہ نہیں میں صحیح کرتا ہوں یا غلط کرتا ہوں مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ فیصلے اتنے لمبے نہ ہوں کہ کوئی پڑھے ہی نہیں۔ تو ہم جو سمجھ پائے، یقیناً‌ غلط سمجھے ہوں گے ناں، اسی لیے تو یہ درخواست دی گئی ہے سرکار کی طرف سے ۔
تو اب ہم اگر مزید آگے کی طرف بڑھیں تو بہتر ہو گا اگر آپ بنیاد بنائیں یہ جو فیصلہ ہے ۲۹ مئی والا ، ۲۰۲۴ء کا، کیونکہ اب تو پرانی بات (چھ فروری والی) تو ختم ہو گئی، وہ اس میں ضم ہو گئی ہے۔ تو اس میں جو آپ سمجھتے ہیں کہ نقائص ہیں، غلطیاں ہیں یا آپ کے اعتراضات ہیں، جو آپ بہتر سمجھنا چاہیں تو آپ براہ کرم تجاویز دیجیے ، ہماری راہنمائی فرمائیے، اور اگر ہمیں سمجھ نہیں آئی تو ہم آپ سے سوال پوچھ لیں گے اور پھر کوشش کریں گے کہ بہتری کی طرف چلیں۔ تو آگے کو دیکھنا چاہیے اس لیے آپ کی بات بھی بالکل صحیح ہے۔
میں پتہ نہیں صحیح کرتا ہوں یا غلط کرتا ہوں ابھی سے نہیں بلکہ چیف جسٹس بلوچستان کے وقت سے بھی میں، جہاں تک میری کم علمی ہے، تو میں قرآن شریف و حدیث مبارکہ و فقہاء کا حوالہ دیتا ہوں فیصلوں میں کیونکہ ہم آخر کار اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں (تقی عثمانی: بے شک، بہت اچھی بات ہے) ۔ اگر دوسرے ملک اپنے ملکوں کے حوالے دیتے ہیں تو ہماری جو تاریخ اتنی زبردست تاریخ ہے تو ہم اپنے حوالے بالکل نہیں دیتے ہیں۔ ہم اپنے فیصلوں میں امریکہ، برطانیہ ، وہاں بھی کرنا چاہیے مگر بہت ساری باتیں …… اس میں یقیناً‌ غلطی بھی ہو گی، وہ شخص سب سے بہتر ہے جو کہ کوئی کام نہ کرے تو اس سے غلطی بھی نہیں ہو گی (تقی عثمانی: صحیح بات ہے) میٹرک کا ایگزیم نہ دو تو میٹرک میں فیل ہونے کا چانس ہی نہیں ہے۔ تو یہ میں کبھی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں کہ میں غلطی سے بالاتر ہوں (تقی عثمانی: ما شاء اللہ) اسی لیے آپ کو زحمت دی اور ہم بہت مشکور ہیں کہ آپ کانفرنس اٹینڈ کر رہے ہیں، اور اس کو چھوڑ کر کے آئے ہماری رہنمائی کی ہے۔
تو براہ کرم ۲۹ مئی کے فیصلے میں اگر آپ ہمیں صرف بتا دیں کہ یہ جگہ غلط ہے، یہ پیراگراف غلط ہے تو ہم اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کی بات میں آپ کے دلائل میں ہم ایگری کریں تو ما شاء اللہ آپ تو ہمارے ساتھ رہ چکے ہیں، ہم تو آپ کی بڑی قدر کرتے ہیں آپ تو شریعت کورٹ کے ممبر بھی تھے، اور میں بتا رہا تھا کہ ابھی واپس شریعت کورٹ فعال ہو چکی ہے۔
تو اگر ہم وہاں سے آغاز شروع کریں ۲۹ مئی سے …… آپ ساتھ ساتھ اپنی تجاویز بھی دیتے جائیں تو ہم ان کو نوٹ کرتے جائیں گے۔ آپ برا نہ مانیں وہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ جو آپ کے سارے نکات جو پہلے کے تھے وہ ہم نے ضم نہیں کیے اپنے فیصلے میں، تو اس کا میں قصوروار ٹھہرا۔ مگر جیسے میں نے بات کی کہ وہ کتاب بن جاتی، کیونکہ نہ صرف آپ کے تھے بلکہ بہت سارے اور بھی تھے۔
تقی عثمانی: نہیں نہیں میں دیکھیے آپ کی مشکلات کو سمجھتا ہوں، میں خود جج رہا ہوں، اور جج کے اوپر کتنا بوجھ ہوتا ہے فیصلوں کو لکھنے کا، یہ میں جانتا ہوں۔ اور اسی لیے خود میں بھی حتی الامکان کوشش یہ کرتا تھا کہ بہت زیادہ تفصیلی فیصلے نہ ہوں تاکہ لوگوں کی سمجھ میں آ سکیں۔ لیکن بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں بہت لمبے لمبے فیصلے بھی لکھنے پڑ جاتے ہیں، جب معاملہ کوئی بہت حساس نوعیت کا ہو تو بہت لمبے فیصلے بھی لکھنے پڑ جاتے ہیں۔
اب آپ نے جب نظرثانی کا فیصلہ لکھا، اس میں جو پہلا حصہ ہے نا، وہ تو بڑا قابلِ استقبال ہے کہ آپ نے ختمِ نبوت کے دلائل دیے، لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی، ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ یہ معاملہ مسلّمہ ہے، تمام مسلمانوں کے درمیان، آئین کی رو سے بھی، قوانین کی رو سے بھی، اس کے اوپر مزید رائے کی ضرورت نہیں تھی، جتنا وقت آپ نے اس پر لگایا اگر آپ ان نکات پر لگاتے تو شاید یہ شکایات پیدا نہ ہوتیں۔ لیکن بہرحال جو ہو گیا سو ہو گیا۔ جو اصل ہمارے لیے تشویش کی بات ہے جس کے لیے میں چھ فروری کے فیصلے کا بھی حوالہ دے رہا ہوں ۔
فائز عیسٰی: نہیں، اس کو چھوڑ دیجیے، ۲۹ مئی سے آپ بات کیجیے، اب وہ ختم ہو گیا نا، چھ فروری گیا، اب اس کی کوئی ریلیونس رہی نہیں۔ اب کوئی درخواست آئی ۲۹ مئی کو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، قانونی حیثیت نہیں ہے۔
تقی عثمانی: صحیح ہے۔ تو اب اگر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے تو اس طرف جانے کی ہمیں ضرورت بھی نہیں، بس مجھے اس کا خطرہ ہے کہ وہ اپنی جگہ intact رہے وہ فیصلہ۔
فائز عیسیٰ: جی میں وہ وضاحت کر دوں کہ جب ریویو ہو جائے تو پھر وہ ختم ہو جاتا ہے۔
تقی عثمانی: اب ہم اس کو بھول جاتے ہیں، ٹھیک ہے؟
عدالت سے نئی آواز: جی مفتی صاحب! جب ۶ فروری کے فیصلے پر نظرثانی کا فیصلہ آ گیا ۲۹ مئی کو، تو ۶ فروری کے فیصلے کا وجود ختم ہو گیا، اور ہم نے نگرانی کو تسلیم کر لیا اور ۶ فروری کا فیصلہ ختم کر دیا۔ آپ تو ماشاء اللہ جج رہے ہیں، اس بات کو سمجھیں گے، اب فیلڈ میں ۲۹ مئی ۲۰۲۴ء کا حکم ہے، اب اس پر کوئی ابہام پیدا ہو رہا ہے جسے آپ سمجھتے ہیں، میں نے آپ کی ایک ویڈیو دیکھی …… تو اب اس میں تھوڑی سی آپ ہمیں رہنمائی کر دیں کہ نظرثانی شدہ فیصلے میں جو جو آپ سمجھتے ہیں، سقم ہے، یا جس سے کوئی پیچیدگی پیدا ہو رہی ہے یا اس کا کوئی احتمال ہے، اس کی وضاحت فرما دیں تاکہ ہم اس کو دیکھ سکیں۔
تقی عثمانی: دیکھیے، اس میں جو سب سے زیادہ سنگین بات ہے اس فیصلے کے اندر وہ پیرا گراف نمبر ۷ اور پیراگراف نمبر ۴۲ ہے۔
۷ میں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ احمدی اپنے ایک نجی ادارے میں تعلیم دے رہے تھے۔ جس سے آپ نے یہ گویا assume (فرض) کر لیا کہ قادیانی لوگ جو ہیں وہ اپنے نجی ادارے بنا سکتے ہیں اور اس میں تعلیم و تبلیغ کر سکتے ہیں۔
اسی طرح نمبر ۴۲ میں آپ نے باقاعدہ تبلیغ کا لفظ استعمال کر کے فرمایا کہ یہ اگر اپنے مذہب کی تبلیغ کریں تو یہ ان کی، ایک عجیب اصطلاح استعمال فرمائی آپ نے، تو ان کے گھر کی تنہائی میں شامل ہو گی۔ گھر کی تنہائی سے آپ نے غالباً‌ ترجمہ کیا ہے ان کی پرائیویسی کا شاید، تو اس میں تبلیغ کی آپ نے غیر مشروط اجازت دے دی ہے۔ غیر مشروط کے ساتھ آپ نے ایک لفظ اور بڑھایا ہے کہ قانون کے مطابق۔
اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو پی پی سی کا ۲۹۸سی ہے، اس میں دو لفظ الگ الگ بیان کیے ہیں، ہم نے اپنی تحریر میں وہ بات واضح کی ہے۔ یعنی جس چیز سے قادیانی حضرات کو منع کیا گیا ہے وہ دو حصوں میں منقسم ہے ۲۹۸سی میں:
(۱) ایک حصہ ہے preaches or propagates ایک تو یہ ہے،
(۲) اور پھر آگے ہے or invites others to their faith
تو ظاہر ہے کہ قانون میں کوئی لفظ redundant (فاضل) نہیں ہوتا۔ تو اگر ہم preaches کو اور propagation کو دوسروں کے متعلق قرار دیں گے تو invites others to their faith کا جملہ redundant ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی اور مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے نہ تبلیغ کر سکتے ہیں نہ پریچنگ کر سکتے ہیں۔ ۲۹۸سی اگر آپ براہ کرم نکالیں، میرے پاس اس وقت مواد پورا موجود نہیں ہے۔
فائز عیسیٰ: جی میرے سامنے ہے، میں پڑھ دوں آپ کے لیے یا اس کی ضرورت نہیں؟
تقی عثمانی: جی ضرور پڑھ دیں، تھوڑا اچھا ہو گا۔
فائز عیسیٰ: جی میں پڑھ دیتا ہوں، انگریزی میں ہے تو انگریزی میں پڑھوں گا۔
تقی عثمانی: ظاہر ہے، انگریزی میں پڑھیں آپ۔
فائز عیسیٰ:
Any person of the Qadiani group or the Lahori group (who call themselves “Ahmadis” or by any other name) who directly or indirectly poses himself as a Muslim or calls, or refers to his faith as Islam, or preaches or propagates his faith, or invites others to accept his faith, by words, either spoken or written or by visible representation or in any manner whatsoever outrages the religious feelings of Muslims shall be punished with imprisonment for either description for a term which may extend to three years and shall also be liable to a fine.
فائز عیسیٰ: میں آپ کا پوائنٹ سمجھ رہا ہوں، جی میں بالکل سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ مطلب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ دو پیراگرافس اس میں ابہام ظاہر کر رہے ہیں کہ کہیں یہ ۲۹۸سی کے برعکس ہیں، یہ آپ کا پوائنٹ ہے؟
تقی عثمانی: جی بالکل یہ میرا پوائنٹ ہے کہ جو قابل اعتراض پیراگرافس ہیں، in clear clash with law یعنی ۲۹۸سی کے بالکل مخالف ہے جو آپ نے پیراگراف ۴۲ لکھا ہے۔
فائز عیسیٰ: آپ کہہ رہے ہیں کہ ان دو پیراگرافس کو ختم کر دیں یا ……
تقی عثمانی: دیکھیے، اگر بات کو مختصر کیا جائے تو میری گزارش یہ ہے کہ پیرا گراف نمبر ۷ یہ پورا حذف کیا جائے، اور پیراگراف نمبر ۴۲ اس کو مکمل حذف کیا جائے اور اس کے جو متعلقات ہیں یعنی کئی جگہ اس چیز کا حوالہ آیا ہے وہ اگرچہ ضمناً‌ آیا ہے، لیکن اگر آپ اس کو حذف کر دیں تو امید ہے کہ وہ خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ لیکن جو سب سے اہم چیز جو میں چاہتا ہوں، آپ کی خدمت میں اس کی تجویز پیش کرتا ہوں، وہ یہ ہے۔
فائز عیسیٰ: آپ مجھے شرمندہ نہ کریں، ہم آپ کی بڑی قدر کرتے ہیں۔
تقی عثمانی: بہت شکریہ، بہت شکریہ۔
فائز عیسیٰ: آپ میرے بڑے بزرگ ہیں، آپ بالکل بغیر جھجھک کے ہمیں بتائیے، انسان غلطی کا پتلا ہے اور میں تو (تقی عثمانی: ما شاء اللہ یہ آپ کا) یہ آپ نے بڑی اچھی بات کی کہ یہ دو پیرا گرافس ہیں اور اس کے متعلقات جو آپ کہہ رہیں کہ آٹومیٹیکلی ختم ہو جائیں گے۔
تقی عثمانی: اب میں تھوڑا سا آگے بڑھتا ہوں …… آپ نے دیکھا کہ یہ مسئلہ کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ تو آپ کو ہوا ہو گا، اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ ہمارے ایمان کا بہت بڑا اہم عقیدہ ہے۔ اور اس کے اوپر آپ نے دیکھا کہ کتنا بڑا فیصلہ آئینِ پاکستان نے کیا، کس طرح ترمیم دستور کے اندر کی گئی۔ تو اس میں ہم جب کسی مسئلے میں الجھ گئے ہیں کہیں تو ہمیں محض technicalities کی بنیاد پر بات کو بے دلی سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ جب نظرثانی کریں یا کسی غلطی کی کریکشن کریں تو کھلے دل کے ساتھ کریں۔ اور اس کے لیے میں کہتا ہوں کہ ان دو پیراگرافس کو حذف کرنے کے بعد ان کے متعلقات خودبخود حذف ہو جائیں گے۔
(اور) میں یہ چاہتا ہوں کہ (پیراگراف) ۴۹ جیم جو آخری آرڈر کے کلمات ہیں، جو ایک طرح سے آپ نے پورے فیصلے کا آرڈر نکالا ہے، وہ ذرا براہ کرم اپنے سامنے رکھیے۔
فائز عیسیٰ: جی رکھ لیا۔ جی فرمائیے۔
تقی عثمانی: میں نے اس کی جگہ ایک عبارت تجویز کی ہے وہ یہ ہے کہ:
’’جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ پیشِ نظر مقدمے کے ملزم پر مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵بی، ۲۹۵سی، ۲۹۸بی، ۲۹۸سی کا اطلاق ہوتا یا نہیں، ضمانت کے اس مقدمے میں جبکہ ملزم کا ٹرائیل ابھی باقی ہے، ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ اس پر کوئی فیصلہ دیں، کیونکہ ٹرائیل کورٹ میں ابھی مقدمہ چل رہا ہے۔ ٹرائیل کورٹ کو چاہیے کہ ہمارے فیصلے مؤرخہ چھ فروری سے متاثر ہوئے بغیر مقدمے کی کاروائی جاری رکھے اور تمام حالاتِ مقدمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ ملزم پر مذکورہ دفعات کے تحت جرم بنتا ہے یا نہیں؟ خالص میرٹ پر اس کا فیصلہ کرے۔ اور اس طرح نظرثانی کی تمام درخواستیں جزوی طور پر منظور کی جاتی ہیں۔‘‘
فائز عیسیٰ: آپ یہ عبارت بھیج دیں گے ہمیں؟
تقی عثمانی: جو صاحب میرے رابطے میں ہیں، میں ان کو بھیج دیتا ہوں۔
فائز عیسیٰ: ٹھیک ہے، مزید کوئی بات؟
تقی عثمانی: جی میں یہ چاہتا ہوں، میری گزارش یہ ہے کہ اس معاملے کو، زیادہ لٹک گیا ہے یہ، اور اس کی وجہ سے اضطراب انتشار بھی پیدا ہوا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے کہ آپ نے متعلقہ حضرات کو بلایا، ان کو سنا، اور اس کے بعد آپ نے کوئی فیصلہ کیا۔ اب یہ آخری بار ہو رہا ہے، اس آخری بار میں براہ کرم جتنے اشکالات پیدا ہوئے، اشکال کیا پیدا ہوا میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
وہ یہ ہے کہ قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے جو ۲۹۸سی کے بالکل خلاف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے جو اپنے فیصلے میں قومی اسمبلی کے اندر جو تقریریں ہوئی تھیں اس وقت اور اس میں یہ کہا گیا تھا۔ میں اس پہلو کو ذرا تھوڑی وضاحت سے عرض کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو۔
فائز عیسیٰ: جی اجازت ہی اجازت ہے۔
تقی عثمانی: اچھا، تو وہ یہ ہے کہ اس اسمبلی میں جو تقریریں ہوئی تھیں اس میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ہم ان کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے کر غیر مسلم اقلیت کے ان کو حقوق دیں گے۔ یہ بات جو تھی نا، یہ اسلام کی تاریخ کے تمام کیسز کے بالکل برعکس تھی۔ یعنی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر۔
فائز عیسیٰ: یہاں میں ذرا آپ کو، برا نہ مانیے، کیونکہ پارلیمان میں کیا ہوا؟ وہ تو ریکارڈ کا حصہ ہے نا، میں پارلیمان کو تو کوئی حکم نہیں دے سکتا ہوں کہ آپ یہ کریں یا وہ کریں، یا پارلیمان نے جو کہا وہ غلط ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
تقی عثمانی: نہیں نہیں، بالکل ٹھیک ہے، میں اور بات کرنا چاہ رہا ہوں، ذرا پوری کر لوں، آپ اس کے بعد ذرا ……
فائز عیسیٰ: پھر میں غلط سمجھا، معاف کیجیے گا۔
تقی عثمانی: یعنی پوری اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی نبوت کا جھوٹا مدعی پیدا ہوا ہو، اور اس کے متبعین کی جماعت ہوئی ہو، اور اس کو دارالاسلام میں ذمی یا غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ جنگ ہوئی، آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہوں گے، آپ نے تاریخ پڑھی ہے۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ کیا ہوا، طلیحہ بن خویلد کے ساتھ کیا ہوا، بعد میں کتنے جھوٹے مدعی اہلِ نبوت پیدا ہوئے، ان کے ساتھ کیا ہوا۔
فائز عیسیٰ: تقی عثمانی صاحب، آپ کی میں بہت عزت کرتا ہوں، اگر ذرا فیصلے پہ رہیں …… اس میں یہ نہیں کہ میں آپ سے ڈِس ایگری کر رہا ہوں مگر فیصلے میں تو ہم نے ایسی کوئی …… آپ نے جو باتیں کیں جو نشاندہی کی وہ میں نوٹ کر لیں، اب میں زیادہ اس ڈیبیٹ کو بڑھانا نہیں چاہتا ہوں کیونکہ اب پارلیمان میں جو کچھ ہوا ……
تقی عثمانی: نہیں نہیں، ہم پوری عزت کرتے ہیں پارلیمنٹ کی بھی عدالت کی بھی، میری بات پوری ہو جائے تو شاید آپ کا اشکال دور ہو جائے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تاریخِ اسلام میں کہیں بھی کسی بھی مدعی نبوت یا اس کے پیروکاروں کو ذمی کی اصطلاح کے طور پر یعنی غیر مسلم اقلیت کے طور پر مانا نہیں گیا۔ لیکن پاکستان واحد ملک ہے کہ اس میں یہ کہا گیا کہ چونکہ پاکستان جنگ کے ذریعے نہیں حاصل کیا گیا بلکہ جمہوری طریقے پر اور انتخابات کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے، لہٰذا ہم غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کے پابند ہیں، اپنے اس معاہدے کے تحت جس کے تحت ہمارا پاکستان بنا تھا۔
لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ شروع سے، جب سے قادیانیوں کے خلاف کوئی تحریک مسلمانوں کی شروع ہوئی ہے، چاہے وہ علماء کی طرف سے ہو یا کسی اور طرف سے ہو، اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ شریعت کا اصل حکم ان پر نافذ کیا جائے، یہ زندیق ہیں۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ ہم ان کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ یہ گویا ایک طرح سے رعایت دی گئی قادیانیوں کو کہ اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کر لیں تو ہم ان کو غیر مسلم اقلیت کے تمام حقوق دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہی باتیں پارلیمنٹ میں کہی گئی تھیں اور یہی باتیں بعد میں بھی دہرائی گئی ہیں۔ ہمیں اس پر تنقید نہیں کرنی ہے، ہمیں ان کو ماننا ہے کہ ہم غیر مسلم اقلیت ان کو ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن اس صورت میں جب کہ وہ خود اپنے آپ کو مانیں۔ اگر وہ خود غیر مسلم اقلیت ہو کر، اعتراف کر کے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت کے طور پر رجسٹر کرائیں، اور اس میں کوئی ایسی علامت نہ رکھیں جس سے لوگوں کو یہ دھوکہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی کوئی قسم ہے، تو آج بھی ہمارے پاس پارلیمنٹ کے اندر ان کے لیے اقلیتوں کی سیٹوں میں ایک سیٹ ان کی موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہے، آپ زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ ان میں ایک ہے نا سیٹ احمدیوں کے لیے؟
فائز عیسیٰ: جی ہوتی تو تھی، میں ابھی چیک کر کے بتاتا ہوں آپ کو۔
تقی عثمانی: تو ایک سیٹ ان کی موجود ہے۔ اسی طریقے سے اقلیتوں کا ایک بورڈ ہوتا ہے، اس کے اندر بھی ان کی سیٹ موجود ہے۔ اب وہ حضرات اپنا جو حق آئینی ہے کہ ایک سیٹ ان کی اسمبلی میں ہے، ایک سیٹ ان کی بورڈ میں ہے، لیکن اس کو حاصل کرنے کے لیے ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ جو ترمیم آئین کے اندر ہوئی ہے وہ درست ہوئی ہے اور ہم اس کو مانتے ہیں، ہم اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت قرار…
فائز عیسیٰ: میں ذرا اٹارنی جنرل صاحب سے معاونت اس پوائنٹ پر کر لوں۔
اٹارنی جنرل: سترہویں ترمیم سے پہلے تو مخصوص کی گئی تھیں اقلیتوں کے لیے ان کے مذہب (فائز عیسٰی: یہ قادیانیوں کی بات کر رہے ہیں) جی ۲۰۰۲ء تک (اسمبلی میں سیٹ) تھی، آخری اسمبلی ۱۹۹۷ء کی، اس میں تھی۔ احمدیوں کے لیے ایک سیٹ ہوتی تھی۔ اب ۲۰۰۲ء کے بعد سے وہ بس غیر مسلموں کے لیے ہے، اس میں یہ نہیں ہے کہ کس اقلیت کی کتنی ہو گی، اب دس سیٹیں ہیں وہ کسی کی بھی ہو سکتی ہیں، اب وہ والی تفریق نہیں ہے۔
فائز عیسیٰ: مفتی صاحب آپ نے سنا؟ انہوں نے کہا پہلے وہ specific سیٹ تھی مگر ۲۰۰۲ء کے بعد specificity ختم ہو گئی، اب باقی غیر مسلموں میں وہ ضم ہو گئے ہیں ……
تقی عثمانی: ٹھیک ہے، مگر بہرحال اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم کے طور پر رجسٹر کرا لیں اب بھی تو جو سیٹیں مخصوص کی گئیں ہیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے، اگر وہ غیر مسلم اقلیت ہونا تسلیم کر لیتے ہیں، اپنے آپ کو رجسٹر کرا لیتے ہیں، تو پھر ان کی سیٹ ہو سکتی ہے وہاں پر، اب بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔
فائز عیسیٰ: جی اس پر تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
تقی عثمانی: ٹھیک ہے نا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا باوجود ساری سہولیات … میں نے عرض کیا تھا کہ اصل مطلب وہ تھا جو مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوا تھا، لیکن پاکستان چونکہ ایک معاہدے کے تحت بنا ہے، اس معاہدے کے تحت بننے کی وجہ سے علماء نے بھی یہ نہیں سوال اٹھایا کہ ان کے خلاف جنگ کرو ان کو مارو، بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو، اور غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کو جو حقوق حاصل ہیں وہ دیے جائیں۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کریں، غیر مسلم اقلیت کے طور پر اپنے آپ کو رجسٹر کرائیں۔ البتہ رجسٹر اس طرح کرائیں کہ اس میں مسلمان کا یا اسلام کے شعائر کا یا مسلمانوں کے کسی لفظ سے لوگوں کو دھوکہ نہ دیں۔ بلکہ کوئی اپنا الگ نام رکھیں، الگ ان کی اصطلاحات ہوں ، اور یہ تسلیم کریں کہ ہم غیر مسلم اقلیت ہیں۔ 
بلکہ ایک موقع پر جناب چیف جسٹس میں نے ایک تجویز پیش کی تھی جب ایک مسئلہ آیا تھا کہ اقلیتی بورڈ شاید کوئی ادارہ ہے ہمارے ہاں، کسی وقت اس میں یہ خیال آیا تھا کہ کسی احمدی کو بھی اس میں شریک کیا جائے، قادیانیوں … تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ مخالفت اس لیے کہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کیا ہی نہیں لہٰذا وہ اس سیٹ کے کیسے حقدار ہو سکتے ہیں؟
میں نے اس موقع پر ایک تجویز دی تھی اپنے دوستوں سے مشورہ کیے بغیر لیکن میرے خیال میں وہ بڑی منصفانہ تجویز تھی، وہ یہ کہ حکومت یا آپ اس وقت چیف جسٹس کے طور پر، جو اُن کے سربراہ ہیں اس وقت تیسرے خلیفہ ہیں یا چوتھے، ان کو آپ پیشکش کریں کہ ہمارے پاس اقلیتی سیٹیں موجود ہیں، اگر آپ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو براہ کرم اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت رجسٹر کرائیں اور آپ اقلیتوں کے حقوق کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اپنے آپ کو صرف یہاں پاکستان میں نہیں بلکہ پورے عالمی بنیاد پر اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر راضی ہو جاتے ہیں تو وہ جتنے سارے حقوق غیر مسلموں کے آئین نے دیے ہیں یا بحیثیت اقلیت ان کو حاصل ہوتے ہیں وہ سارے حاصل ہوں گے، ہمیں اس میں کوئی اشکال نہیں ہو گا۔
لیکن اگر وہ یہ کہیں نہیں صاحب آپ نے تو فیصلہ ہی غلط کیا، آپ کا آئین غلط ہے، آپ نے ہمیں غیر مسلم قرار دیا تو ہم پر ظلم کیا، تو پھر اس صورت میں جب وہ اس کو نہیں مانیں گے تو آئین کی دی ہوئی وہ سہولتیں جو غیر مسلم اقلیتوں کے لیے ہیں وہ اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اور یہ بات ظہیر الدین بنام ریاست والے فیصلے میں بھی کہی گئی ہے۔ لہٰذا…
فائز عیسیٰ: میں سمجھ گیا آپ کی بات، میں ایک بات آپ کو ذرا بتا دوں ، آپ کو یقیناً‌ پتا ہو گی … آئین کی شق ۲۶۰ کی ذیلی شق ۳، وہ میں پڑھ دیتا ہوں۔
260(3) In the constitution and all enactments and other legal instruments unless there is anything repugnant in the subject or context
(a) "Muslim" means a person who believes in the unity and oneness of Almighty Allah, in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him), the last of the prophets, and does not believe in, or recognize as a prophet or religious reformer, any person who claimed or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him); and
(b) "non-Muslim" means a person who is not a Muslim and includes a person belonging to the Christian, Hindu, Sikh, Buddhist or Parsi community, a person of the Quadiani Group or the Lahori Group who call themselves 'Ahmadis' or by any other name or a Bahai, and a person belonging to any of the Scheduled Castes.
تو آئین نے تو اس کی بالکل وضاحت کر دی ہے، ہماری رائے کیا ہے، ہم سب پابند ہیں اس کے، ہم تو حلف اٹھاتے ہیں، پابند کر دیا سب کو بلکہ پوری ریاست کو، جتنے شہری رہتے ہیں سب کو پابند کیا ہوا ہے، تو اس میں کوئی ابہام کی بات نہیں ہے، کہ ہے؟ میں نے دو شقیں پڑھیں۔
تقی عثمانی: اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ آئین میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ لیکن اس کی ایپلی کیشن اس معنیٰ میں کہ کونسی غیر مسلم اقلیت کو وہ حقوق حاصل ہوں گے؟
فائز عیسیٰ: جی یہ بات سمجھ گیا، مزید کوئی بات ہے تقی صاحب؟ کیونکہ مجھے پتہ ہے آپ کو سیمینار اٹینڈ کرنا ہے۔ آپ نے ہماری راہنمائی کی، بہت بہت شکریہ۔
تقی عثمانی: بس یہ جو آخری بات میں نے آپ سے کہی، آپ نے کہا تھا میں لکھ کر بھیج دوں کہ ایک تو ۴۲ کو حذف کرنا چاہتا ہوں اور ایک پیراگراف ۱۷ کو۔
فائز عیسیٰ: پیراگراف ۷۔
تقی عثمانی: ذرا معافی چاہتا ہوں میری گنتی ذرا کمزور ہے۔ پیراگراف ۷ اور پیراگراف ۴۲، اس کو تو میں نے عرض کیا کہ مکمل حذف کیا جائے، اور متعلقات۔
فائز عیسیٰ: (ظرافت کے ساتھ) ما شاء اللہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی عمر کیا ہے، یا نہیں پوچھ سکتا؟
تقی عثمانی: (مسکراتے ہوئے) جی ضرور پوچھیں۔ یہ اکتوبر آنے والا ہے اس میں شمسی حساب سے میں ۸۲ سال کا ہو جاؤں گا۔
فائز عیسیٰ: چلیں میری بھی سالگرہ اکتوبر میں ہوتی ہے، ما شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو مزید عمر دے اور تندرست رکھے، ہماری رہنمائی کرتے رہیے گا۔
تقی عثمانی: جی ہم تو حاضر ہیں جناب، ہم تو سترہ سال یہاں رہے ہیں آپ کے سپریم کورٹ میں۔
فائز عیسیٰ: …… اب عدالتی دروازہ تو کھلا رہتا ہے کسی کو کوئی بھی بات ہے، اب دیکھیں درخواست دی ہم نے فورً‌ا لگا دی، کوئی چھپائی نہیں کوئی دبائی نہیں، فورً‌ا لگا دی ( تقی عثمانی: ما شاء اللہ، بہت اچھا) پہلے بھی آئی تھی درخواست، اب یہ ضرور آپ کہہ سکتے ہیں کہ فیصلے میں تجویز آپ کا حق ہے، نہ صرف حق ہے بلکہ میرے خیال میں تو آپ رہنمائی کرتے … دیکھ لیں گے اس میں غلطی ہے، نہیں ہے۔ بہت بہت آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری رہنمائی فرمائی، اگر کوئی اور بات نہیں ہے تو پھر میں دوسرے ……
تقی عثمانی: بات کوئی اور نہیں ہے gist (مُخ) صرف جو ہے میری اس وقت کی گزارش کا وہ پیرا گراف ۷ اور پیراگراف ۴۲ اور آخری ۴۹ جیم۔
فائز عیسیٰ: جی وہ ٹیکسٹ آپ بھیجیے گا پھر ……
تقی عثمانی: میں آپ کو بھیجتا ہوں۔ دیکھیے میں صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اب اگر آپ کوئی فیصلہ دیں نا، تو وہ فیصلہ براہ کرم پورے دل سے دیں، اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ رہنے دیجیے کہ جس کی وجہ سے یہ سمجھا جائے کہ یہ بے دلی سے بات کی گئی ہے۔
فائز عیسیٰ: دل اور دماغ، یا دل؟
تقی عثمانی: (ظرافت کے ساتھ) نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ ما شاء اللہ آپ نے خود ظاہر کیا کہ آپ کو اپنی کسی غلطی سے اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، یہ اتنی اچھی صفت ہے کہ…
فائز عیسیٰ: نہیں، میں تو پھر گنہگار ٹھہرا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ……
تقی عثمانی: تو جب خود آپ کا یہ ذہن ہے اور حدیث بھی موجود ہے اس کے اوپر، حضرت فاروق اعظمؓ کے فیصلے موجود ہیں اس بات کے اوپر کہ بھئی اگر کسی …
فائز عیسیٰ: اسی لیے پرانے زمانے میں لوگ قاضی بنتے نہیں تھے کہ یہ تلوار کی دھار کے اوپر بیٹھنے کے برابر ہے۔ پھر آپ کو پتہ ہے کہ منصور نے کیا کیا قاضی بننے کے لیے، وہ نہیں بننا چاہ رہے تھے، وہ تو خیر آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں وہ سارے واقعے ……
تقی عثمانی: یہ صحیح ہے بالکل، جناب فاضل چیف جسٹس صاحب آپ سینئر ہیں، میں تو بہت جونیئر تھا آپ کے ……
فائز عیسیٰ: نہیں آپ ہمارے بزرگ ہیں، میں آپ سے بہت کم عمر ہوں، علم میں بھی اور عمر میں بھی۔
تقی عثمانی: میں آپ سے صرف یہ گزارش کر رہا ہوں کہ آپ ما شاء اللہ اتنے کھلے دل کے آدمی ہیں کہ ہر غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہیں، اور یہی بڑے آدمی کی علامت ہوتی ہے کہ بڑی سے بڑی غلطی پر وہ ……
فائز عیسیٰ: بڑا نہیں ہوں مگر میں غلطی کا پتلا ہوں یہ اعتراف کرنے میں کوئی …
تقی عثمانی: لہٰذا میری گزارش جو ہے کہ (پیراگراف) ۴۹ والی ……
فائز عیسیٰ: وہ ذرا آپ نے لمبی بات کی مگر جب ہمیں ٹیکسٹ بھیجیں گے ……
تقی عثمانی: میں ابھی بھیجتا ہوں، اس پر آپ ضرور غور فرمائیے گا تو اس سے سارا اضطراب ختم ہو جائے گا۔
فائز عیسیٰ: ٹھیک ہے، ان شاء اللہ، جی آپ کی بات پر غور کریں گے ہم۔
تقی عثمانی، جی ضرور، میں ان کو جو مجھ سے رابطے میں تھے، ظفر اقبال صاحب، میں ان کو بھیج رہا ہوں۔
فائز عیسیٰ: بہت بہت شکریہ، ان کو فارورڈ کر دیں، وہ ہمیں پرنٹ آؤٹ دے دیں گے۔
تقی عثمانی: میں فورً‌ا بھیج رہا ہوں۔ مگر براہ کرم اس کو دیکھیے گا ضرور ، اس پر غور ضرور کیجیے گا۔
فائز عیسیٰ: جی جی ضرور دیکھیں گے، ان شاء اللہ۔ آپ کو زحمت دی ہے اسی لیے، اس لیے تو نہیں بلایا کہ بغیر غور کیے …… ایک دفعہ پھر میں اپنی طرف سے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے وقت نکالا اور یقیناً‌ آپ کو کچھ دشواری ہوئی ہو گی آنے میں ادھر اور ہم سے ایڈریس کرنے میں۔
تقی عثمانی: یہاں میں انٹرنیشنل کانفرنس ہے جس کو میں چیئر کر رہا ہوں، ان سے میں…… ( فائز عیسیٰ: کون سے ……؟) یہ ہماری ایک کانفرنس ہے ’’شریعہ کونسلنگ فار دی اسلامک فائنانشل انسٹیٹیوشنز‘‘۔ تو وہ اسٹینڈرڈز تیار کر رہی ہے اسلامک فائنانس کے، تو اسٹینڈرڈز تیار کرنے میں بیس ملکوں کے علماء اس میں شریک ہیں، اور یہ تیس سال سے کر رہی ہے، اس کے اوپر یہ سمجھیے کہ تقریباً‌ دو ہزار صفحات کے اسٹینڈرڈز سارے اسلامک بینکس کے لیے کہ وہ کس طرح کام کریں گے وہ تیار کیے گئے ہیں اور تیار کیے جا رہے ہیں، بہت ہی دیدہ ریزی کا کام ہے تو وہ ……
فائز عیسیٰ: کون سے شہر میں ہیں آپ؟
تقی عثمانی: میں اس وقت استنبول میں ہوں، ترکی میں۔
فائز عیسیٰ: استنبول میں، اچھا ٹھیک ہے، ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔
تقی عثمانی: نہیں جناب، شکریہ آپ کا کہ آپ نے اس قابل سمجھا کہ اس موضوع کے اوپر ……
فائز عیسیٰ: آپ شرمندہ نہ کریں ہمیں۔
تقی عثمانی: جزاک اللہ، بہت بہت شکریہ۔
فائز عیسیٰ: چلیں بہت بہت شکریہ، تھینک یو۔

مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی


مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم جناب قاضی فائز عیسیٰ نے ۲۴ اگست کو دوبارہ سماعت کے بعد سابقہ فیصلہ کے متنازعہ حصے حذف کر دیے ہیں جس پر ملک بھر میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اور دینی قیادتوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے جو ہمارے خیال میں انتہائی خوش آئند ہے اور قومی و ملّی معاملات کو بہتر طریقہ سے حل کرنے کے جذبہ کا اظہار ہے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے مجھے بھی حاضری کے لیے کہا گیا تھا جس پر میں نے خود حاضری کی بجائے چیف جسٹس محترم کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کے نام ایک مکتوب میں اپنے موقف اور جذبات و احساسات کا اظہار کر دیا اور اس کا انہوں نے جواب بھی مرحمت فرمایا ہے جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔ یہ خط و کتابت اگرچہ ذاتی نوعیت کی ہے مگر متعلقہ قومی و دینی مسائل کے حوالہ سے ہے اس لیے ’’الشریعہ‘‘ کے ذریعہ اسے تاریخ کے ریکارڈ میں شامل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، چنانچہ انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ابوعمار زاہد الراشدی)

باسمہ تعالیٰ
۱۹ اگست ۲۰۲۴ء
محترمی ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
مجھے آج عدالتِ عظمیٰ کے رجسٹرار آفس سے ’’مبارک ثانی کیس‘‘ پر بائیس اگست کو ہونے والی بحث کے موقع پر سپریم کورٹ میں حاضری کا نوٹس موصول ہوا ہے، یاد آوری کا تہہ دل سے شکریہ!
 اس موقع پر حاضری بعض ذاتی وجوہ کی بنا پر میرے لیے مشکل ہو گی۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا پروفیسر ساجد میر اور محترم حافظ نعیم الرحمٰن کی موجودگی میں اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا کہ ان قائدین کا موقف ہی میرا موقف ہو گا۔ البتہ آپ کے ساتھ ذاتی طور پر ون ٹو ون بے تکلفانہ گفتگو کے طور پر کچھ باتیں کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
(۱) قادیانیوں نے ۱۹۷۴ء کے بعد سے اپنے بارے میں دستورِ پاکستان کا فیصلہ تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف دنیا بھر میں لابنگ اور ذہن سازی کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے مگر کوئی ریاستی ادارہ اس کا نوٹس نہیں لے رہا اور دستورِ پاکستان اپنی عملداری کے لیے ریاستی اداروں کی مسلسل راہ تک رہا ہے۔ 
(۲) ۱۹۸۴ء کے بعد سے قادیانیت کے حوالہ سے تمام تر بحث و مباحثہ بین الاقوامی فورموں اور اداروں میں منتقل ہو چکا ہے جو دن بدن وسعت پذیر ہے مگر ریاست کے بارے میں بین الاقوامی ماحول میں ہونے والے اس بحث و مباحثہ میں کوئی ریاستی ادارہ سنجیدگی کے ساتھ ریاست اور دستور کی نمائندگی اور دفاع کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا بلکہ ریاستی اداروں سے ہٹ کر قومی و دینی حلقوں کی طرف سے بھی اس کا کوئی باقاعدہ نظم اور اہتمام دکھائی نہیں دے رہا جس کی وجہ سے یکطرفہ بریفنگ اور لابنگ کے نتیجہ میں بین الاقوامی فورموں میں ہونے والے یکطرفہ فیصلوں کو بین الاقوامی فیصلے قرار دے کر ان کی پابندی کو ضرور قرار دیا جا رہا ہے اور ان کی پابندی کے لیے یہ سارے پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔
(۳) صرف قادیانیت کا مسئلہ نہیں بلکہ دستورِ پاکستان کے تحت ملک میں نافذ ہونے والے شرعی قوانین کم و بیش سب کے سب اسی صورتحال سے دوچار ہیں جبکہ بین الاقوامی ماحول میں ریاست اور دستور کی نمائندگی اور دفاع کا کوئی نظم موجود نہ ہونے کے باعث (۱) ناموسِ رسالتؐ (۲) حدود و قصاص (۳) خاندانی قوانین اور دیگر دینی معاملات بھی اسی طرح یکطرفہ فیصلوں کے دباؤ کا شکار ہیں۔
(۴) ’’مبارک ثانی کیس‘‘ کا تسلسل دیکھ کر مجھے ’’جسٹس منیر انکوائری کمیشن‘‘ کا ماحول یاد آ رہا ہے کہ کس طرح معاملات و مسائل کو بلاوجہ پھیلا کر امت کے اجتماعی موقف کو کنفیوژن سے دوچار کر دیا گیا تھا اور پوری تحریک خلفشار کا شکار ہو گئی تھی، مجھے خدانخواستہ اب بھی اس کا خطرہ محسوس ہر رہا ہے۔ 
(۵) میرے خیال میں اس کیس کے مباحث کو مزید پھیلانے اور ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کا ماحول بنانے کی بجائے دستوری، دینی اور قومی تقاضوں کے دائرے میں جلد از جلد سمیٹنا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور جن پہلوؤں کی میں نے اس عریضہ کے آغاز میں نشاندہی کی ہے، ان کی طرف خصوصی توجہ درکار ہے۔ 
دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت عدالتِ عظمیٰ کو اس مرحلہ میں باوقار سرخروئی سے بہرہ ور فرمائیں اور ہم سب کو ملک کے نظریاتی، دستوری اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے بہتر خدمت سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین۔
شکریہ!  والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
گوجرانوالہ

محترم المقام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کے نوازش نامہ میں مذکور پہلے دو نکات پر میں سواے اس کے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا کہ آپ کی تشویش بجا ہے لیکن اس معاملے میں عدالت کچھ نہیں کر سکتی، اور کم از کم موجودہ مقدمے کے تناظر میں تو بالکل بھی نہیں کر سکتی۔ موجودہ مقدمے کا دائرہ پہلے ہی بہت زیادہ پھیل چکا ہے، جس کی نشاندہی آپ نے بھی کی ہے، اور پھر یہ مقدمہ تو درحقیقت ختم ہو چکا ہے، نظرثانی کا مرحلہ بھی گزر چکا ہے، اس وقت تو صرف عبارت کی تصحیح ہی کی جا سکتی ہے اور اس سے زیادہ کچھ کرنا عدالت کے لیے آئین و قانون کی رو سے ممکن ہی نہیں ہے۔
آخری تین نکات پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے چونکہ موقع عنایت کیا ہے، اور چونکہ میں نے آپ کو ہمیشہ ایک شفیق مرشد کے طور پر دیکھا ہے، اس لیے میں دل کی باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں (کوئی تو ہے جس کے سامنے دل کی باتیں رکھی جا سکتی ہیں)۔
تیسرے نکتے پر عرض ہے کہ یہ ناچیز خود بھی، موجودہ ملازمت سے قبل بھی اور ملازمت کے دوران میں بھی، مسلسل مختلف مواقع پر بار بار توجہ دلاتا رہا ہوں، اور الحمد للہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے چیف جسٹس بننے کے بعد قصاص و دیت اور حدود کے جرائم کے علاوہ بھی بہت سارے مقدمات میں قرآن و سنت سے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں استدلال کا رجحان نظر آنے لگا ہے، یہاں تک کہ بظاہر جن قوانین کو سیکولر سمجھا جاتا ہے، ان کے تحت دائر مقدمات میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین کی تعبیر کی بات ہونے لگی ہے۔
سب سے اہم مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ۲۰۲۳ء کے متعلق تھا جس میں چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ تمام قوانین کی ایسی تعبیر لازم ہے جو قرآن و سنت کے احکام سے ہم آہنگ ہو۔ اس فیصلے کو فُل کورٹ کی تائید حاصل ہے۔ یہی بات بعد میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے الیکشن ایکٹ ۲۰۱۷ء کے تحت ایک مقدمے کے فیصلے میں بھی لکھی۔
نیز شریعت اپیلیٹ بینچ جو سالہا سال سے غیر فعال تھا، اس میں نئے عالم حج کا تقرر کر کے ان مقدمات کی سماعت شروع کی جو ۳۵ سال سے زیر التوا تھے اور کوئی انھیں سماعت کے لیے مقرر کر ہی نہیں رہا تھا۔
ان امور کی نہ صرف یہ کہ تحسین مذہبی طبقے اور علمائے کرام نے نہیں کی، بلکہ توجہ دلانے کے باوجود ان کی جانب سے مکمل خاموشی ہی رہی۔ اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دستور اور قانون کی اسلامیت کے معاملے میں کمزوری کی ذمہ داری کیا صرف عدالتوں پر عائد ہوتی ہے ، یا ہمارے علمائے کرام بھی اس میں کسی حد تک قصور وار ہیں؟ عدالتیں اگر بیرونی دباؤ کا شکار نظر آرہی ہیں، تو اس تاثر کی صحت یا عدم صحت سے قطع نظر کیا یہ علمائے کرام کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ عدالتوں کے اسلامی فیصلوں کی تائید کر کے اس نصرت فراہم کریں؟ ہمارا دینی طبقہ مسلسل بد گمانی میں کیوں مبتلا ہے اور اچھے کاموں کی تحسین کے بجاے ان میں بھی سازش کا جال کیوں تلاش کرنے پر تلا ہوتا ہے؟
اب چند معروضات چوتھے اور پانچویں نکات پر۔
مبارک ثانی کیس میں ’’تسلسل‘‘  تو خود مذہبی طبقے کے اصرار پر ہے اور اس وجہ سے اسے جسٹس منیر انکوائری کمیشن سے تشبیہ دینا، میری ناقص راے میں، درست نہیں ہے۔ جسٹس منیر تو مذہبی طبقے کو گھیر نا چاہتے تھے اور یہ دکھانا چاہتے تھے کہ یہ تو مسلمان کی تعریف پر ہی متفق نہیں ہیں۔ اس کے برعکس قاضی صاحب نے پوری صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ مسلمان کی جو تعریف آئین میں دی گئی ہے، یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے، ختم نبوت پر کامل اور غیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا، اور یہ کہ غامدی صاحب کی راے کہ ہم کسی کو کافر یا غیر مسلم نہیں کہہ سکتے، آئین سے متصادم ہے۔ پھر یہ ہنگامہ، اے خدا، کیا ہے؟!
تاہم إمارة الصبیان کا نظارہ ہم نے بچشمِ سر دیکھا جب سوشل میڈیا پر اور منبر و محراب پر ایک طوفان کھڑا کیا گیا۔ عدالت نے پہلے ایک پریس ریلیز جاری کی۔ اس پریس ریلیز کا ہی ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جاتا، تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا؛ لیکن صبیان معاملہ ختم کرنے پر کہاں آمادہ تھے ؟ انھوں نے معاملہ آگے بڑھایا، تو عدالت نے نظر ثانی کا موقع دیا اور پھر نظر ثانی کے دائرے سے آگے جا کر ۸ دینی مدارس اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی نوٹس کیا، لیکن صبیان نے سوئی دسویں ادارے المورد پر ٹکا کر رکھ دی، حالانکہ جب اس کا نام لیا گیا، تو موقع پر موجود جسٹس (ر) شوکت صدیقی سمیت کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ پھر نظر ثانی کے موقع پر سب کو تفصیل سے سنا گیا، ان کی تحریرات دیکھی گئیں اور وہ سب کچھ ہوا جو نظر ثانی میں نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ بھی صبیان کو مطمئن نہیں کر سکا۔ ایک دفعہ پھر عدالت نے پریس ریلیز جاری کی، لیکن صبیان اس سے کہاں مطمئن ہوتے۔ اب عدالت نے عبارت کی تصحیح کا موقع عنایت کیا، تو صبیان سپریم کورٹ پر ہی چڑھ دوڑے، اور ہمارے بزرگ ابھی تک اس معاملے میں آگے بڑھ کر اپنا کر دار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
میری سوچی سمجھی راے ہے کہ اگر ہمارے بزرگ علمائے کرام خود اس معاملے کو ابتدا سے دیکھتے اور إمارۃ الصبیان کی زد میں نہ آتے، تو سرے سے نظر ثانی کی ہی ضرورت نہیں تھی۔ پچھلے چند سالوں سے بعض صبیان نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ قادیانیوں جو افعال اپنے گھروں میں سر انجام دیتے ہیں، ان پر بھی توہین قرآن اور توہین رسالت کے مقدمات قائم کیے جائیں۔ ایسا پہلے نہیں تھا۔ دوسری آئینی ترمیم کے وقت اسمبلی اور خصوصی کمیٹی کی پوری کارروائی میں کہیں ایسا نہیں ہے۔ وہاں تو اس کے بر عکس یہ ہے کہ غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد انھیں دیگر اقلیتوں کی طرح مذہبی آزادی کا حق حاصل ہو گا (کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود کو غیر مسلم مانیں، اور جب تک وہ ایسا نہ مانیں، تب تک انھیں یہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے؟ اس پر اپنی معروضات آگے پیش کروں گا۔)
امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ۱۹۸۴ء کے ذریعے مجموعۂ تعزیرات میں اضافہ کی گئی دفعات ۲۹۸-بی اور ۲۹۸-سی کا اطلاق بھی ہمیشہ عوامی سطح پر کیے جانے والے افعال پر کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی تصریح وفاقی شرعی عدالت نے مجیب الرحمان کیس میں بھی کی ہے بلکہ اس کیس میں تو وفاقی شرعی عدالت نے یہاں تک کیا ہے کہ قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے لیے وہی احکام ذکر کیے ہیں جو دار الاسلام میں ذمیوں کی عبادت گاہوں کے لیے ہیں۔ نیز اس فیصلے میں کہا گیا کہ غیر مسلم کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے لیکن وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔
۱۹۹۳ء کے ظہیر الدین کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں ایک رکن نے تو سرے سے مجموعۂ تعزیرات کی ان دفعات کو ہی مذہبی آزادی کے آئینی حق سے متصادم قرار دیا؛ تین ججوں نے کہا کہ یہ متصادم نہیں ہیں؛ ایک حج نے آدھی بات ایک فریق کی مانی اور آدھی دوسرے فریق کی۔ اہم بات یہ ہے کہ اکثریتی (تین جوں کے فیصلے میں بھی ساری بحث اس پر ہے کہ کون سے امور ” قادیانی مذہب‘‘ کے لازمی اجزا میں شامل ہیں اور کون سے نہیں، کیونکہ جو کام کسی مذہب کے لازمی اجزا میں شامل ہوں، ان کی اجازت (معقول قیود کے اندر ) دی جا سکتی ہے۔ نیز اس فیصلے میں قرار دیا گیا کہ قادیانیوں کو  ’’دیگر اقلیتوں کی طرح‘‘ اپنے مذہب پر عمل کا حق حاصل ہے اور کوئی قانون یا انتظامی حکم ان سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔
ان دونوں مقدمات میں مسئلہ یہ اٹھایا گیا تھا کہ قادیانی دوسروں کے سامنے خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتے۔ ان میں یہ سوال سرے سے تھا ہی نہیں کہ قادیانیوں کے افعال بذاتِ خود توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت ہیں۔
۲۰۲۲ء کے طاہر نقاش کیس میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات اٹھائی گئی کہ قادیانیوں کے اپنی عبادت گاہ کے اندر قرآن کا مصحف رکھنا توہینِ قرآن ہے اور کلمہ طیبہ لکھنا تو ہینِ رسالت ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہے جب تک کوئی توہین پر مبنی فعل انجام نہ دیا جائے۔
ہمارے علمائے کرام کو ان تین فیصلوں پر اعتراض نہیں ہے، لیکن موجودہ فیصلے پر اعتراض ہے، حالانکہ موجودہ فیصلے میں:
  • قادیانیوں کے عقائد کو ”مذہب ‘‘  نہیں کہا گیا؛
  • قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے لیے ذمیوں کی عبادت گاہوں کے احکام ذکر نہیں کیے گئے؟
  • صراحت کی گئی کہ قادیانی خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتے، نہ ہی مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال کر سکتے ہیں؛
  • صراحت کی گئی کہ عوامی سطح پر مذہبی آزادی کا حق قانون، اخلاق اور امنِ عامہ کے تابع ہے؛
  • صراحت کی گئی کہ نجی سطح پر کیے جانے والے افعال پر بھی قانون کے تحت معقول قیود عائد کی جا سکتی ہیں۔
یہ آخری بات تو خصوصاً اہم ہے کیونکہ یہ بات تو مجیب الرحمان، ظہیر الدین اور طاہر نقاش کے فیصلوں سے زیادہ سخت ہو گئی ہے، لیکن پھر بھی تنقید اسی بات پر کی جا رہی ہے۔
ابھی پچھلے دنوں مولانا اعجاز مصطفیٰ صاحب نے لکھا تھا:
’’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن ان آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ اپنے مذہب کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر کر سکیں گے؟‘‘
شاید فاضل صاحبِ علم کی نظر اس پہلو کی طرف نہیں گئی کہ اگر ”اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر‘‘ بھی وہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے مذہب کا اظہار یا ایک دوسرے کو اس کی تبلیغ نہیں کر سکیں گے، تو پھر ’’اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق‘‘ یکسر بے معنی ہو جاتا ہے۔ پھر ہمارے اکابر نے دوسری آئینی ترمیم کے وقت یہ کیوں کہا تھا کہ قادیانیوں کو بطور غیر مسلم اقلیت شہری حقوق میسر ہوں گے؟
اب رہا وہ سوال کہ کیا یہ حقوق اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ پہلے یہ خود کو غیر مسلم مان لیں، تو اس ناچیز کی رائے میں اسمبلی اور خصوصی کمیٹی کی کارروائی، آئینی ترمیم، امتناع قادیانیت آرڈی نینس اور وفاقی شرعی عدالت و سپریم کورٹ کے فیصلوں، کہیں سے بھی اس شرط کا وجود معلوم نہیں ہوتا۔ خود ہمارے علمائے کرام آئین کی دفعہ ۱۸۹ کو نہیں مان رہے جس کا کہنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا سب پر لازم ہے؛ خود میری ناقص راے میں دفعہ ۴۵ میں حمل المطلق علی المقید ضروری ہے کیونکہ صدر ہر سزا کو معاف نہیں کر سکتا؛ یہی کچھ دفعہ ۲۴۸ کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ صدر، وزیر اعظم و غیر کو قانون سے استثنا مطلقاً حاصل نہیں ہے؛ اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں؛ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میرے اور آپ کے شہری حقوق ہمیں میسر ہیں۔
اگر ہمارے علمائے کرام کے نزدیک قادیانی ریاست کے باغی ہیں، تو تاویل کے علاوہ منعہ بھی ثابت کرنا ہو گا، اور اس کے بعد بھی انھیں باغی قرار دینا حکومت کے دائرۂ کار میں آئے گا، نہ کہ عدالت کے اختیار میں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدالت تو آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اس لیے قانون میں کوئی سقم ہے، تو اس سقم کا دور کرنا پارلیمان کا کام ہے، نہ کہ عدالت کا۔ پارلیمان قرار داد پاس کرنے کے بجاے قانون میں ترمیم کیوں منظور نہیں کر لیتی؟
یہ چند باتیں بے ساختہ اور بے سوچے سمجھے لکھی گئیں۔ اگر کہیں میں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہو، تو آپ کی شفقت، رافت اور اصاغر نوازی سے امید یہی ہے کہ آپ نہ صرف نظر انداز کریں گے، بلکہ میرے حق میں دعا بھی کریں گے۔
اس وقت عدالت کے سامنے معاملہ ”عبارت کی تصحیح‘‘ کی حد تک ہے۔ اگر فقرہ ۴۲ کی تصحیح کی جائے، تو شاید معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے۔ اس لیے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ ضرور تشریف لائیں اور معاملہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ عدالت کی رہنمائی اور اس ابتلا سے ملک و قوم کو نکالنے کا کام آپ جیسے بزرگ اصحابِ علم و تقوی ہی کر سکتے ہیں۔
والسلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ
نیاز مند
محمد مشتاق احمد
۱۴ صفر ۱۴۴۶ھ
(۲۰ اگست ۲۰۲۴ء)

مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلو

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر


گزشتہ فروری میں سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کے حوالے سے اپنا فیصلہ جاری کیا تو مذہبی طبقے کے لیے یہ ایک بم پھٹنے جیسی صورت حال تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذہبی طبقے نے آج تک احمدیوں کے بارے میں کی گئی قانون سازی سے متعلق ریاستی اور عدالتی زاویہ نظر کو ٹھیک طور پر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور عدلیہ کی مسلسل تصریحات کے باوجود اپنی من مانی قانونی تشریحات میں مصروف رہا۔ زیر بحث مقدمے میں نجی حدود میں مذہبی آزادیوں کے اصول کا اطلاق بظاہر ایک نئے معاملے (یعنی احمدی کمیونٹی کے پیروکاروں کے لیے مذہبی لٹریچر کی اشاعت اور فراہمی) پر کیا گیا، لیکن یہ اصول عدالتی وقانونی سطح پر پہلے دن سے طے کر دیا گیا تھا۔ بہرحال مذہبی طبقے کے لیے عموماً‌ اور دینی قیادت کے لیے خصوصاً‌ اس صورت حال کی نوعیت ناگہانی آفت کی تھی اور دینی وسیاسی قیادت کا جو ابتدائی اور فوری ردعمل سامنے آیا، وہ جارحانہ اور مقدمے کی تفصیلات سے بے خبری پر مبنی تھا۔

اس تناظر میں مذہبی طبقوں کے پاس اس کے سوا کوئی فوری آپشن نہیں تھا کہ وہ احتجاج اور مذمت اور سازشوں کی دہائی دینے کا راستہ اختیار کر کے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ مارچ میں مقدمے پر نظر ثانی کی درخواست دائر ہونے کے بعد نچلی سطح کی قیادت، خصوصاً‌ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما مولانا اللہ وسایا صاحب نے چیف جسٹس اور ان کے سیکرٹری ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کے خلاف ایک منفی پراپیگنڈا مہم شروع کر دی اور فتوے بازی کا معروف اور آزمودہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے عدالت پر دباو ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ تاہم یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی اور جولائی کے آخر میں نظر ثانی شدہ فیصلہ زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ مذہبی موقف کے خلاف آ گیا۔

اس مرحلے پر مختلف دیوبندی تنظیموں نے شخصی الزام تراشی اور فتوے بازی کا پہلے سے بڑھ کر سنگین اسلوب اختیار کیا اور بعض دیوبندی تنظیموں کے ذمہ داران کی طرف سے یہ سرٹیفکیٹ تک جاری کر دیا گیا کہ چیف جسٹس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم قرار پا چکے ہیں، جیسے یہ حضرات آپ کی طرف سے شفاعت کے امیدواروں کی اسکروٹنی پر مامور ہوں۔ نعوذ باللہ۔ تاہم صورت حال اس پہلو سے زیادہ سنگین ہو گئی کہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے تحریک لبیک پاکستان اور اس کے ہم نوا عناصر بھی شامل ہو گئے اور چیف جسٹس کے قتل وارتداد کے فتوے جاری کر کے سارے معاملے کو اس رخ پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جس پر سلمان تاثیر اور آسیہ کیس کو بڑھایا گیا تھا۔

اس ساری صورت حال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کے سامنے تین بڑے چیلنج تھے جن سے اسے بیک وقت نبرد آزما ہونا تھا:

۱۔ عدالت کے سامنے مذہبی موقف کی ترجمانی،

۲۔ ذیلی تنظیمی جتھوں کی طرف سے گولہ باری کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ افہام وتفہیم کا راستہ نکالنا، اور

۳۔ اس پورے معاملے کو تحریک لبیک جیسے عناصر کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے سے بچانا۔

چنانچہ دیوبندی قیادت نے قومی سطح پر مذہبی نقطہ نظر کی ترجمانی کو تدریجاً‌ اپنے ہاتھ میں لیا، ایک نسبتاً‌ متوازن موقف پیش کرنے کا اہتمام کیا اور الزام تراشی اور بدزبانی کے اسلوب پر غیر ذمہ دار عناصر کو مناسب انداز میں سرزنش کی۔ اس ضمن میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے ۲۹ جون کو روزنامہ اسلام میں ’’ریاست مدینہ کے کلمہ گو غیر مسلم شہری“ کے عنوان سے ایک اہم تحریر شائع ہوئی جس میں سیرت نبوی سے استشہاد کرتے ہوئے مصلحت اور حکمت کے مختلف پہلو واضح کیے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ ملک کی دینی قیادت اور ریاستی اداروں کو مصلحت کے ان پہلووں کا لحاظ رکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے اس بحران کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اسی بحث کے دوران میں والد گرامی کی طرف سے ’’ایک تلخ تجربہ اور مشاہدہ“ کے عنوان سے درج ذیل تحریر بھی سوشل میڈیا پر شائع ہوئی:

’’۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دور کی بات ہے جب میں گوجرانوالہ شہر کی کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا سیکرٹری جنرل تھا۔ کسی قصبہ میں تحریک ختم نبوت کے جلسہ کی اجازت لینے کے لیے ایک ذمہ دار دینی راہنما مجھے ساتھ لے کر اے سی گوجرانوالہ کے پاس گئے اور درخواست پیش کی۔ انھوں نے کچھ دیر تامل کا اظہار کیا تو درخواست دہندہ نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آپ مرزائی تو نہیں ہیں؟ اے سی صاحب نے کہا، مولوی صاحب! مجھے یہ گالی نہ دو، میں اجازت دے دیتا ہوں۔ دفتر سے باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کیا ہے؟ بولے کہ اس کے بغیر اجازت نہیں ملنا تھی۔ اس وقت تو میں نے اس کو ذاتی اور انفرادی مزاج سمجھ کر نظر انداز کر دیا، مگر نصف صدی کے مسلسل تجربہ اور مشاہدہ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بعض حلقوں میں اس کی شاید باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ’’فن “ اب ایک تن آور درخت کی صورت میں پوری قوم کے لیے مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائیں۔ آمین ثم آمین“

سپریم کورٹ کے فیصلے پر مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی قیادت میں اپنا تفصیلی موقف پیش کیا جو قانونی نکات اور مذہبی استدلالات، دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے آخر میں بھی جذباتی اور غیر ذمہ دار عناصر کو یہ نصیحت کی گئی کہ :

’’ہم بصد ادب علمائے کرام اور خطبائے عظام سے گزارش کرتے ہیں: ختم نبوت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، اس پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عدالتی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں متانت، وقار اور اسلامی اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے۔ تہذیب سے گری ہوئی گفتگو اور گالی گلوچ سے حاملین دین کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور یہ ہمارے عظیم ترین مقصد کے لیے نقصان دہ ہے۔“

ان اقدامات سے افہام وتفہیم کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ نتیجہ خیز مکالمے کا امکان پیدا ہوا اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۲ اگست کو سپریم کورٹ میں فیصلے میں تصحیح کے حوالے سے وفاق کی درخواست کی سماعت کے موقع پر نمایاں ترین کردار مولانا فضل الرحمٰن اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا رہا۔ کسی قسم کی بدتمیزی یا تلخ کلامی سے کام لیے بغیر خوش اسلوبی سے دیوبندی قیادت نے عدالت کو اپنے نقطہ نظر کے حق میں قائل کر لیا اور عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں سابقہ فیصلوں کے متنازعہ پیراگراف حذف کرنے کا اعلان کر دیا۔

فیصلے کے بعدبہت سے قانون دان حضرات نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کئی تحفظات ظاہر کیے ہیں جو تکنیکی طور پر درست ہوں گے، لیکن اس کا ایک پہلو بلکہ بنیادی پہلو سیاسی بھی ہے۔ سیاسی زاویے سے دیکھا جائے ریاستی اداروں اور دیوبندی قیادت نے سمجھ داری اور سیاسی پختگی کے ساتھ صورت حال کو ایک بڑے خلفشار میں بدلنے سے بظاہر روک دیا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ دیوبندی قیادت کو جو تینوں چیلنجز درپیش تھے، وہ حالیہ قضیے کی حد تک ان سب سے بیک وقت نبردآزما ہونے میں کامیاب رہی ہے۔

جہاں تک فیصلے کے قانونی مضمرات کا تعلق ہے تو مختصر حکم نامے میں چونکہ ان پیراگرافس کی تعیین نہیں کی گئی جو سابقہ فیصلوں سے حذف کیے گئے ہیں، اس لیے سردست اس پر کوئی رائے زنی بھی نہیں کی جا سکتی۔ بعض چینلز پر جو متعین پیراگرافس ذکر کیے گئے ہیں، ان کا حکم نامے میں تصریحاً‌ کوئی ذکر نہیں اور اس کو فی الحال ایک قیاس ہی کہا جا سکتا ہے جو ممکن ہے، درست ہو۔ لیکن حقیقی صورت حال تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر ہی واضح ہوگی اور تبھی یہ دیکھا جا سکے گا کہ حذف شدہ پیراگرافس کے کے بعد قانون کی مجموعی تعبیر کیا بنتی ہے اور کیا وہ اعلیٰ عدلیہ کی اب تک کی تعبیر سے مختلف ہے یا اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر عدالت میں موجود ذمہ دار علماء کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا گیا ہے تو مذہبی حلقوں کے اس بڑے اعتراض کا ازالہ یقیناً‌ کر دیا جائے گا کہ کچھ پیراگرافس سے قادیانیوں کو اپنے گھروں کے اندر مسلمانوں کو تبلیغ کی اجازت دینے کا تاثر ملتا ہے جو ظاہر ہے، قانون کے خلاف ہے۔

البتہ اس مرحلے پر اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کی توجہ بعض ضروری أمور کی طرف مبذول کروانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی ایک تحریر میں دیوبندی قیادت کی ایک خوبی اور صلاحیت کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:

’’کسی بھی طبقے کے لیے، معاشرے میں قائدانہ نوعیت کا کوئی کردار ادا کرنے کے لیے جن فکری وعملی اور مزاجی خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، ان میں دوسرے طبقوں کے ساتھ ، اختلاف کے باوجود، کسی نہ کسی سطح پر تعلق کو قائم رکھنے اور باہمی تعامل کے لیے ممکنہ مشترک بنیادوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی خصوصیت غالباً‌ سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دیوبندی مزاج میں یہ خصوصیت، جیسا کہ بیان کی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے، بدرجہ اتم موجود ہے اور دیوبندی روایت کو مذہبی فکر وعمل کے میدان میں حاصل امتیاز کے ایک بنیادی سبب کا درجہ رکھتی ہے۔“ (ماہنامہ الشریعہ، جنوری ۲۰۱۹ء)

اس ضمن میں ۷۴ء کے آئینی فیصلے کے تناظر میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ایک مختصر خط کا حوالہ دینا یہاں برمحل ہوگا جو انھوں نے مولانا سمیع الحق مرحومؒ کے استفسار کے جواب میں لکھا تھا اور ماہنامہ ’’الحق “ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا۔ مولانا نے اس میں قادیانی مسئلے کے حوالے سے دینی طبقوں کو تین بنیادی مشورے دیے تھے:

۱۔ آئینی فیصلے کی صورت میں جو قدم اٹھایا گیا ہے، وہ کافی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس معاملے میں ریاست پر غیر ضروری بوجھ ڈالتے چلے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔

۲۔ ریاست کے کار پرداز طبقات کو دینی واعتقادی بنیاد پر طعن وتشنیع اور فتوے بازی کا نشانہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔

۳۔ اس مسئلے کو ’’وجاہت “ کا مسئلہ بنانے کا راستہ اختیار نہ کیا جائے جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اسے مذہبی سیاست کا موضوع بنا کر اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔

خط کا متن حسب ذیل ہے:

’’برادرم مولانا سمیع الحق صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ موصول ہوا۔ مرزائیت کا اللہ تعالیٰ نے خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ان کا معاملہ دوسرے کافروں کی طرح ہے۔ یہ سکھ، پارسی، عیسائی اور ہندو کی طرح ہو چکے ہیں۔ نکاح وغیرہ کے مسائل حل ہو گئے۔ ہمارےٹکٹ پر یہ ممبر نہیں بن سکیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ باقی مسائل کے بارہ میں ہم کو امید رکھنی چاہیے کہ حل ہو جائیں گے۔ میں اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ بعض خود غرض اور اقتدار پسند افراد کہتے پھرتے تھے کہ حکومت مرزائی ہو گئی ہے، مرزائی نواز ہے، یہ ٹال رہی ہے۔ میرے بھائی! یہ کافی ہے۔ باقی میں سمجھتا ہوں، مرزائیت کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ کم از کم اس مسئلے کو ہم اپنی وجاہت کا مسئلہ نہیں بنا سکتے۔ جیسے دینی ضرورت پیش آئے گی، کریں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے۔ فقط (۱۸ ۔ اکتوبر ۱۹۷۴ء) “

یہ تینوں نصیحتیں بہت برمحل اور اہم تھیں، لیکن افسوس ہے کہ تینوں پر ہی دینی طبقات نے کوئی توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ صورت حال اس وجہ سے بھی بگڑتی چلی گئی ہے کہ اعلیٰ سطحی دینی قیادت کی توجہ مرکوز نہ رہنے سے ذیلی سطح کے تنظیمی اسٹرکچر اپنی حکمت عملی کے اہداف اور سرگرمیوں کا رخ متعین کرنے میں ایک طرح سے خود مختار ہوتے چلے گئے ہیں ۔

اس مقدمے کے مختلف مراحل پر میں تسلسل سے اس پہلو کی طرف ذمہ دار دینی قیادت کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ چنانچہ ۲۵ اپریل کو سوشل میڈیا پر اپنی تحریر میں عرض کیا کہ:

’’ختم نبوت اور توہین مذہب کے ایشوز بنیادی طور پر اکابر اور ذمہ دار اہل علم کی نگرانی اور گرفت سے نکل کر تنظیمی سطح کے مہم جوؤں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ اپنے طور پر کوئی نہ کوئی جتھہ کوئی قانونی یا عدالتی "کارنامہ" انجام دے کر داد سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور ذمہ دار فورمز یا شخصیات کو مجبوراً ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
پچھلے سال قادیانیوں کو اپنے گھروں میں قرآن کے نسخے رکھنے سے روکنے کی کوشش کو عدالت عظمی نے غلط قرار دیا، وہ بھی ایسا ہی کیس تھا۔ ابھی جس کیس میں تفسیر صغیر کی تقسیم کو جرم قرار دلوانے کی کوشش کی گئی، اس کی نوعیت بھی یہی ہے۔ میں ذمہ داری سے بتا سکتا ہوں کہ جو جو اکابر اور بزرگان عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے نظر آئے، ان میں سے کوئی بھی اس مقدمے اور اس کی تفصیلات سے پہلے واقف نہیں تھا۔ … ذمہ دار قیادت سے گزارش ہے کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور ایسے اقدامات پر مشاورت کا کوئی فورم بنا لیں تاکہ ہر چار چھ مہینے کے بعد پورے مذہبی طبقے کو کچھ افراد کی حماقتوں پر شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ “

سپریم کورٹ کی طرف سے نظر ثانی شدہ فیصلہ آنے سے پہلے، یکم جون کو سوشل میڈیا پر ایک تحریر میں، میں نے عرض کیا تھا کہ :

’’عدالتیں کئی دفعہ سیاسی صورت حال کو بھی مدنظر رکھتی ہیں۔ اس لیے کسی نہ کسی انداز کی فیس سیونگ ہمارے خیال میں مذہبی طبقوں کو دینی چاہیے تاکہ ہارجیت کی لڑائی میں مشغول ہو جانے کے بجائے انھیں ذرا توقف کر کے پوری صورت حال پر غور کرنے کا موقع مل سکے۔ مذہبی طبقوں میں صورت حال کا درست ادراک رکھنے والا عنصر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے، لیکن جذباتیت اور تصادم کی فضا میں اس کے لیے کوئی کردار ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت اس بحران میں کچھ افاقہ ہونے پر نچلی سطح کی ’’نیم خود مختار“ تنظیموں کے لیے آئندہ کی حکمت عملی کا رخ طے کرنے اور کچھ قدغنین وغیرہ عائد کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر قیادت کو اس کی نزاکت یا سنگینی کا کچھ ادراک ہو تو امید ہے کہ اس نازک صورت حال سے، آگے بڑھنے کے کچھ مثبت راستے نکل آئیں گے۔ ان شاء اللہ“

ہمارے خیال میں مبارک ثانی کیس کے حالیہ تجربے کی روشنی میں اعلیٰ سطحی دینی قیادت کو اب سنجیدگی کے ساتھ اس پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اس کے ساتھ مذہبی طبقات کے رویے اور طرز گفتگو میں اس امر واقعہ کا ادراک بھی جھلکنا چاہیے کہ ختم نبوت کے عقیدے پر تو تمام مسلمان متفق ہیں، لیکن منکرین ختم نبوت کے ساتھ سیاسی اور قانونی لحاظ سے کیا معاملہ کرنا ہے، اس میں ایک واضح اختلاف موجود ہے۔ مذہبی علماء یا تنظیمیں اس معاملے کی یک طرفہ طور پر اجارہ دار بن کر ریاست اور معاشرے پر اپنا موقف مسلط نہیں کر سکتیں۔ اس میں ریاست بھی فریق ہے، مذہبی علماء بھی ’’ایک “ فریق ہیں، معاشرے کے دیگر طبقات بھی فریق ہیں اور ملک کے شہری اور ایک اقلیتی گروہ ہونے کی حیثیت سے خود احمدی کمیونٹی بھی ایک فریق ہے۔ نزاع کے متوازن اور قابل عمل تصفیے میں ان سب فریقوں کے نقطہ نظر کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔

اس ضمن میں ہماری قومی تاریخ اور سیاست کا یہ سبق ہر وقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خصوصاً‌ ۸۰ء کی دہائی سے مختلف اقسام کی سیاسی یا مذہبی ریڈیکلائزیشن کو فروغ دینا اور اس عمل کو اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے استعمال کرنا ہماری مقتدرہ کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ مذہبی دائرے میں سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، سب کے سب طبقے کسی نہ کسی حوالے سے اس عمل سے گزر چکے ہیں اور ابھی امکانات محدود نہیں ہوئے۔ اس سارے عمل کی قیمت معاشرے کو دینی پڑتی ہے اور بعض صورتوں میں خود مقتدرہ بھی اس کی زد میں آتی ہے، لیکن وہ بھی مقصد کے لحاظ سے سازگار ہوتی ہے، یعنی جب تک کسی قوت کو استعمال کیا جا سکے، استعمال کیا جائے اور جب وہ حد سے کچھ متجاوز ہونے لگے تو ریاست کے تحفظ کے لیے مقتدرہ ہی نجات دہندہ کے طور پر موجود ہو۔

اس کی جو قیمت بطور ایک تہذیبی قوت کے، مذہب کو ادا کرنی پڑے گی بلکہ یہ ادائیگی شروع ہو چکی ہے، وہ معاشرے کی سطح پر مذہب سے لاتعلقی یا الحاد اور ریاست کی سطح پر سیکولرائزیشن ہے۔ مذہب ایک غضب ناک قوت کی شکل میں متحرک ہو تو فہیم اور تعمیری سوچ رکھنے والے عناصر کے لیے اس میں کشش نہیں رہتی۔ جب ایک کے بعد دوسرا مذہبی طبقہ ریڈیکلائز ہو کر کسی نہ کسی عنوان سے اپنی من مانی ریاست اور معاشرے سے منوانے کو ریت بنا لے گا تو ریاست کی برداشت کا پیمانہ بھی آخر بھر جائے گا اور نتیجتاً سیکولرائزیشن کا بیانیہ قوت پکڑے گا۔

مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟

انڈپینڈنٹ اردو


 سیشن کورٹ، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں سماعتوں، سزاؤں، ضمانتوں، فیصلوں، نظرِ ثانی اور پھر قائمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی میں بحث، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاج، علمائے کرام کی جانب سے بیانات اور سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دھواں دھار بحث تک پہنچنے والا یہ مقدمہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کے سب سے اہم اور مشہور مقدمات میں سے ایک ہے۔
اس سارے معاملے کی ابتدا آج سے پانچ سال قبل ہوئی۔ سات مارچ 2019 کو صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں احمدیہ کمیونٹی کے چند اراکین نے مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر بچوں میں تقسیم کی، جسے ’تفسیرِ صغیر‘ کہا جاتا ہے۔
اس واقعے کے تقریباً تین سال بعد چھ دسمبر 2022 کو چنیوٹ کے علاقے چناب نگر میں اس کے خلاف قانون کی تین شقوں کے تحت مقدمہ درج ہوا۔
ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 ہے۔
اس قانون کے مطابق اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں ’کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو‘ تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے۔ اس کی سزا عمر قید ہے۔
298 سی کا تعلق احمدیہ مذہب سے ہے اور اس کے تحت احمدی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس کی سزا تین برس قید ہے۔
اس کے بعد سات جنوری 2023 کو پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ یہ تفسیر تقسیم کر رہے تھے۔ البتہ ابتدائی ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی، جو پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔ جب یہ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے چھ فروری 2024 کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کر لی۔
اس فیصلے کو مذہبی طبقے نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور خاص طور پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔
پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کی جو سپریم کورٹ نے منظور کر لی۔ 
سپریم کورٹ نے کہا کہ 2019 میں ہونے والے واقعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔
عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم اس نے 2019 میں تفسیر تقسیم کی جو پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے، لیکن یہ قانون 2021 میں لاگو ہوا، اس کا اطلاق 2019 کے واقعات پر نہیں ہو سکتا کیوں کہ 2019 میں ایسا کرنا جرم نہیں تھا۔
یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی زیرِ بحث آیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف تک بھی پہنچا۔
کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں اور علمائے کرام کی رائے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی جائے۔
اس کے بعد 17 اگست 2024 کو وفاقی حکومت نے بھی اس معاملے پر اضافی نظرِ ثانی کی درخواست دے دی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 22 اگست 2024 کو نظرِ ثانی پر سماعت کرنے کے بعد مبارک ثانی کی ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے علما کی تجاویز پر فیصلے کے پیراگراف سات اور 42 حذف کرنے کا حکم دیا۔
پیراگراف سات میں لکھا گیا تھا کہ’ایف آئی آر میں ملزم پر مجموعہ تعزیرات 295 بی کا تو ذکر کیا گیا لیکن کسی قانونی شق کا صرف ذکر کرنا ملزم کے اس دفعہ کے تحت جُرم کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
پیراگراف 42 میں لکھا تھا کہ آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے، نہ ہی عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے۔
اس فیصلے کے اگلے روز یعنی جمعے کو کیی مذہبی جماعتوں نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ علما نے جمعے کے خطبے میں بھی اس مقدمے کا ذکر کیا اور بقول ایک امام مسجد جسٹس فائز عیسی نے غلطی مان کر بڑا پن دکھایا ہے۔ 

(انڈپینڈنٹ اردو ۔ 22  اگست   2024ء)

https://www.independenturdu.com/node/175437

مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟

بنوریہ میڈیا


(بنوریہ میڈیا کے فکری مذاکرہ کی ایک نشست کا کچھ حصہ)

ڈاکٹر جہان یعقوب: 
۱۹۷۴ء کو جو ایک فیصلہ دیا گیا جس کے تحت قادیانی، لاہوری، مرزائی، وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی شکل میں نبوت کے اجراء کو مانتے ہیں، ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ پھر ۱۹۸۴ء تک ان کو موقع دیا گیا، چوہتر سے لے کر چوراسی تک ان کو موقع دیا گیا کہ پاکستان کہ قانون کے مطابق یہ اپنی حیثیت کو تسلیم کر لیں، اپنے آپ کو اقلیتوں میں شمار کریں۔ لیکن انہوں نے جب اس قانون کو تسلیم نہیں کیا اور کھلے عام اس کے ساتھ بغاوت کا رویہ رکھا تو اسے کے بعد آرڈیننس کی شکل میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آیا ۱۹۸۴ء میں، جس کے ذریعے ان کو پابند کیا گیا کہ وہ اسلامی شعائر کو استعمال نہ کریں۔ یہ ایک بہت اہم فیصلہ تھا جو ہمارے کانسٹیٹیوشن کا حصہ بنا۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ۲۰۱۹ء میں ایک تحریف شدہ ترجمہ ’’تفسیرِ صغیر‘‘ کے نام سے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کی کھلے عام توہین موجود ہے، اس ترجمے کو ایک کالج میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک تعلیمی ادارے میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس پر ایف آئی آر کٹوانے کے لیے قانون کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، لیکن ۲۰۱۹ء سے لے کر ۲۰۲۴ء تک اس پر جو بھی کاروائی ہوتی ہے وہ محض ایک ۔۔ جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی، کئی سال کے بعد تو جا کر ایف آئی آر کا اندراج ہوتا ہے۔ پھر اس آدمی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، ہائی کورٹ سے، سیشن کورٹ سے ضمانت اس کی مسترد ہو جاتی ہے۔ پھر اچانک سپریم کورٹ سے اس آدمی کو نہ صرف ضمانت ملتی ہے بلکہ ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس تفسیر کو بھی یہ لوگ اپنے حلقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ تو تحریفِ قرآن کی گویا کہ سپریم کورٹ سے جو ہماری عدالتِ عظمیٰ ہے وہاں سے اجازت دی جا رہی ہے۔ 
مفتی سید فصیح اللہ شاہ: 
یہ تفسیر صرف ان کے حلقے میں تقسیم نہیں ہوئی بلکہ سنی نوجوانوں تک بھی گئی، میرے علم میں خود ذاتی طور پر ہے کہ یہاں کراچی کے بعض مدارس کے طلباء کے پاس بھی پائی گئی کہ بھئی مفت میں تقسیم ہو رہی ہے۔ اور دھوکہ یہ دیا گیا کہ بھئی یہ ’’تفسیر کبیر‘‘ کا خلاصہ ہے، تو تفسیرِ کبیر بھی انہی کی ہے ایک۔ اب امام رازیؒ کی جو تفسیر کبیر ہے، اب طلباء تو نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید امام رازیؒ کی تفسیرِ کبیر کا یہ خلاصہ مل گیا، اچھی تفسیر ہے۔

https://www.facebook.com/100079527124592/videos/791326632909244

اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی


(527) مُخْتَالًا فَخُورًا کا ترجمہ

قرآن مجید میں تین جگہ مختال کا لفظ آیا ہے اور تینوں جگہ اس کے ساتھ فخور آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں کے درمیان اگر فرق سامنے رہے تودرست ترجمہ کرنے میں مدد ملے گی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اور بعض دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ اختیال کا مطلب ہے اترانا یعنی جسمانی حرکت سے اپنے تکبر کو ظاہر کرنا اور فخر کا مطلب ہے فخر جتانا اور شیخی بگھارنا یعنی زبان سے اپنے تکبر کا اظہار کرنا۔ اختیال فعل ہے اور فخر قول ہے۔ فخر اور اختیال کے استعمالات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ احادیث میں خیلاء کا لفظ آیا ہے، جنگ کے وقت اور صدقے کے وقت اسے پسندیدہ بتایا گیا اور ظلم و زیادتی کے وقت اسے ناپسندیدہ بتایا گیا۔  

وإن مِن الخُیلاء ما یُبغضُ اللہُ، ومنہا ما یحبُّ اللہُ فأما الخُیلاءُ التی یحبُّ اللہُ فاختیالُ الرجلِ نفسَہ عند اللقاءُ، واختیالُہ عند الصدقۃِ، وأما التی یُبغِضُ اللہُ فاختیالُہ فی البغیِ۔ (سنن أبی داود)

اسی طرح لباس گھسیٹ کر چلنے کے سیاق میں خیلاء کا لفظ آیا۔

إِنَّ الَّذِی یَجُرُّ ثَوْبَہُ مِنَ الْخُیَلَاءِ، لَا یَنْظُرُ اللَّہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (سنن ابن ماجہ)

اترانے والی چال کو مشیۃ الاختیال کہتے ہیں۔گویا اختیال اور خیلاء کے الفاظ وہاں آئے ہیں جہاں اترانے اور جسمانی حرکتوں سے تکبر کا اظہار کرنے کا موقع ہے۔

دوسری طرف فخر کا استعمال وہاں ہوا ہے جہاں آدمی زبان سے اظہار کرتا ہے جیسے حسب و نسب کے معاملے میں فخر۔

أَرْبَعٌ فِی أُمَّتِی مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ، لَا یَتْرُکُونَہُنَّ: الْفَخْرُ فِی الْأَحْسَابِ...الحدیث۔ (صحیح مسلم)

إِنَّ اللَّہَ أَذْہَبَ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الجَاہِلِیَّۃِ وَفَخْرَہَا بِالآبَاءِ۔ (سنن الترمذی)

 ان استعمالات کی روشنی میں مختال کا ترجمہ اترانے والا اور فخور کا ترجمہ بڑائی جتانے والا اور شیخی بگھارنے والا ہوگا۔ عام طور سے لوگوں نے فرق کا لحاظ کیے بغیر الگ الگ جگہوں پر الگ الگ طرح سے ترجمہ کیا ہے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:

(۱)  إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ (لقمان: 18)

بے شک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی  اتراتا بڑائیاں کرتا (شاہ عبدالقادر)

’’بیشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’خدا کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سید مودودی)

’’کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)

پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

(۲)  وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۔ (الحدید: 23، 24)

’’اور خدا کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا جو (خود بھی) بخل کریں اور دوسروں کو (بھی) بخل کی تعلیم دیں‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)

’’اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل پر اکساتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

(۳)  إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا. الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۔ (النساء: 36، 37)

’’اللہ کو خوش نہیں آتا جو کوئی ہو اتراتا اور بڑا ئی کرتا وہ جو بخل کرتے ہیں اور سکھاتے ہیں لوگوں کو بخل‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’بیشک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا جو آپ بخل کریں اور اوروں سے بخل کے لیے کہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا، جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)

پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔

آخر الذکر ترجمے میں ایک بات اور قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ دیگر مترجمین کے برخلاف اس میں الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ سے پہلے ’’اور‘‘ لگاکر وہاں سے نیا جملہ بنایا گیا ہے اور پھر وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُہِینًا کو خبر بنایا گیا ہے، جب کہ وہ جملہ جسے خبر بنایا گیا ہے خود واؤ سے شروع ہورہا ہے۔ زمخشری نے خبر کو محذوف مانتے ہوئے اس توجیہ کو ممکن بتایا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس میں حذف ماننے کا غیر ضروری تکلف ہے۔ ’’الذین‘‘ کو ’’مَن‘‘  کا بیان مان لینے میں کسی تکلف کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ سورہ حدید کی اسی طرح کی عبارت والی آیتوں میں بیان والی توجیہ قوی تر ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہاں صاحب تفہیم نے بیان والا ترجمہ کیا ہے، وہی ترجمہ یہاں بھی ہونا چاہیے۔ سورہ حدید والی آیتیں سورہ نساء والی آیتوں کی توجیہ کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

(528) ثُمَّ جَائُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ

درج ذیل آیت میں إِذَا آیا ہے۔ یہ فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے، لیکن اسے مستقبل کا معنی دیتا ہے۔ جیسے: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ۔ (النصر: 1)، درج ذیل آیت میں یہ پہلو نظر انداز ہوگیا اور لوگوں نے حال کا ترجمہ کردیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں نحوی ترکیب کے لحاظ سے یَحْلِفُونَ حال ہے جَاءُوکَ سے۔ لیکن ترجمہ حال کا نہیں ہوگا بلکہ ترجمہ اس طرح ہوگا کہ وہ آکر قسمیں کھاتے ہیں۔بعض صورتوں میں حال فعل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے فورًا بعد واقع ہوتا ہے، اس کی قرآن میں بہت سی مثالیں ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہے:  

فَکَیْفَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیہِمْ ثُمَّ جَائُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ۔ (النساء: 62)

’’تو کیسی (ندامت کی) بات ہے کہ جب ان کے اعمال (کی شامت سے) ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو تمہارے پاس بھاگے آتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت کے بغیر حال کا ترجمہ کیا گیا ہے البتہ یحلفون کا ترجمہ مناسب اسلوب میں ہے۔

’’پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)

’’کیسی ہوگی جب ان پر کوئی افتاد پڑے بدلہ اس کا جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا پھر اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں، اللہ کی قسم کھاتے‘‘۔(احمد رضا خان)

درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت بھی نہیں ہے اور یحلفون کا ترجمہ بھی موزوں نہیں ہے۔ یہاں قسمیں کھاتے ہوئے آنے کا کیا مطلب ہے؟!

’’پھر وہ کیسا جب ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں کے کیے سے، پیچھے آویں تیرے پاس قسمیں کھاتے اللہ کی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اس وقت کیا ہوگا جب ان کے اعمال کی پاداش میں ان کو کوئی مصیبت پہنچے گی، پھر یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت تو ہے البتہ یحلفون کا ترجمہ موزوں نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

’’پھر اس وقت کیا ہوگا جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑے گی؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس آکر قسمیں کھائیں گے‘‘۔

(529) قُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا

اس عبارت سے دو مفہوم نکل سکتے ہیں، ایک یہ کہ فِی أَنْفُسِہِمْ کا تعلق قُلْ لَہُمْ سے مانا جائے، ترجمہ ہوگا ان سے ان کے سلسلے میں بلیغ بات کہو۔ دوسرا یہ کہ فِی أَنْفُسِہِمْ کا تعلق قَوْلًا بَلِیغًا سے مانا جائے، تب ترجمہ ہوگا ان سے ان کے دل میں اتر جانے والی بات کہو۔ موخر الذکر مفہوم زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے اپنے بارے میں بات کہنا مراد لیں تو بات محدود ہوجاتی ہے  اور اس کی مراد متعین کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔  ترجمے ملاحظہ ہوں:  

وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا۔ (النساء: 63)

’’اور ان سے کہہ ان کے حق میں بات کام کی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور ان سے خاص ان کی ذات کے متعلق کوئی مضمون کہہ دیجیے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)

’’اور ان سے خود ان کے باب میں دل میں دھنسنے والی بات کہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’ اور ان کے معاملہ میں ان سے رسا بات کہو‘‘۔ (احمد رضا خان)

درج ذیل ترجمے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں ، کہ ان سے جو بات بھی کہو وہ ان کے دل میں اتر جانے والی ہو۔

’’اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے‘‘۔ (سید مودودی)

(530) خُذُوا حِذْرَکُمْ

درج ذیل عبارت میں بعض لوگوں نے خُذُوا حِذْرَکُمْ کا ترجمہ اسلحہ لے لو، ہتھیار لے لو کیا ہے۔ حذر کا مطلب اسلحہ نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی سے بچنے کے لیے ہوشیار اور بیدار رہنا ہوتا ہے۔ اسلحہ رکھنا اس کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ زمخشری نے اس تعبیر کی اچھی وضاحت کی ہے:

یقال: أخذ حذرہ، إذا تیقظ واحترز من المخوف، کأنہ جعل الحذر آلتہ التی یقی بہا نفسہ ویعصم بہا روحہ۔ والمعنی: احذروا واحترزوا من العدوّ۔ (الکشاف)

یعنی اپنی ہوشیاری ہی کو اپنے بچاؤ کا سامان بنالینا۔  ترجمے ملاحظہ ہوں:

یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَکُمْ۔ (النساء: 71)

’’مومنو! (جہاد کے لیے) ہتھیار لے لیا کرو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’اے ایمان والو، اپنے اسلحہ سنبھالو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجمے لفظ کی وسعت کو محدود کردیتے ہیں۔ یہاں دشمنوں سے بچاؤ کرنے کی ساری صورتیں مراد ہیں۔

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو‘‘۔ (سید مودودی)

’’اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اپنے بچاؤ کا سامان کرو‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)

خُذُوا حِذْرَکُمْ کا مفہوم درج ذیل آیت سے بخوبی متعین ہوجاتا ہے۔ یہاں ہتھیار رکھ دینے اور خُذُوا حِذْرَکُمْ کہہ کر بچاؤ کا سامان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے:

وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِنْ کَانَ بِکُمْ أَذًی مِنْ مَطَرٍ أَوْ کُنْتُمْ مَرْضَی أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَکُمْ وَخُذُوا حِذْرَکُمْ۔ (النساء: 102)

’’اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)، اس آیت میں خُذُوا حِذْرَکُم سے ہتھیار اٹھانا مراد نہیں ہے۔

(531) لَیُبَطِّئَنَّ کا ترجمہ

درج ذیل عبارت میں لَیُبَطِّئَنَّ فعل لازم ہے، باب تفعیل کی وجہ سے اس میں مبالغے کا مفہوم شامل ہے، یہاں اس کے معنی زیادہ سستی اختیار کرنے اور دیر لگانے کے ہیں۔ یہاں اس لفظ کا مطلب دوسروں کو روکنے یا دوسروں کی تاخیر کا سبب بننا نہیں ہے، کیوں کہ اس کے لیے باء کا صلہ آتا۔ جیسے حدیث میں ہے، مَنْ بَطَّأَ بِہِ عملُہ لَمْ یَنْفَعْہ نَسَبُہ۔ لسان العرب میں ہے: وبَطَّأَ فُلَانٌ بِفُلَانٍ: إِذا ثَبَّطَہ عَنْ أَمرٍ عَزَمَ عَلَیْہِ۔

دوسری بات یہ ہے کہ سیاق کلام اپنی خود کی تاخیر سے متعلق ہے، دوسروں کی ہمت شکنی اور دوسروں کے لیے تاخیر کا باعث بننے سے متعلق نہیں ہے۔ ترجمے ملاحظہ کریں:

وَإِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ۔ (النساء: 72)

’’تم میں ایسے لوگ بھی گھس گئے ہیں جو لوگوں کو روکیں گے‘‘۔ (ذیشان جوادی)

ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خود تو جی چراتا ہی ہے دوسروں کی بھی ہمتیں پست کرتا ہے اور ان کو جہاد سے روکنے کے لیے ایسی باتی کرتا ہے کہ وہ بھی اسی کی طرح بیٹھ رہیں۔ (تفہیم القرآن)

درج بالا ترجمے درست نہیں ہیں، جب کہ نیچے دیے ہوئے ترجمے مناسب ہیں:

’’ہاں، تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ (عمداً) دیر لگاتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

(532) بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ

درج ذیل عبارت میں ایک سوال یہ ہے کہ تَقُولُ کا فاعل کون ہے۔ بعض لوگوں نے رسول کو مانا ہے۔ لیکن اس صورت میں سوال یہ ہے کہ رسول کی کون سی بات مراد ہے، رسول کی کوئی بات تو پیچھے مذکور نہیں ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ تَقُولُ کا فاعل خود طائفۃ ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ طائفۃ  کی بات پیچھے مذکور ہے  وَیَقُولُونَ طَاعَۃٌ۔ اس لحاظ سے دوسری صورت اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔

ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں تبییت سے صرف مشورے کرنا اور سرگوشیاں کرنا مراد نہیں ہے، بلکہ سازشیں کرنا مراد ہے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:

وَیَقُولُونَ طَاعَۃٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللَّہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ۔ (النساء: 81)

’’اور کہتے ہیں کہ قبول کیا پھر جب باہر گئے تیرے پاس سے مشورت کرتے ہیں بعضے بعضے ان میں رات کو سوائے تیری بات کے اور لکھتا ہے اللہ جو ٹھہراتے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور یہ لوگ منھ سے تو کہتے ہیں کہ (آپ کی) فرمانبرداری (دل سے منظور ہے) لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے بعض لوگ رات کو تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور جو مشورے یہ کرتے ہیں خدا ان کو لکھ لیتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

’’وہ منھ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے‘‘۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجموں میں تَقُولُ کا فاعل رسول کو مانا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں طائفۃ  کو اور یہی بہتر ہے۔

’’اور کہتے ہیں ہم نے حکم مانا پھر جب تمہارے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان میں ایک گروہ جو کہہ گیا تھا اس کے خلاف رات کو منصوبے گانٹھتا ہے اور اللہ لکھ رکھتا ہے ان کے رات کے منصوبے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں کی ایک جماعت، جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورے کرتی ہے، ان کی راتوں کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، ’’آپ نے یا اس نے‘‘، یہ دونوں تو نہیں ہوسکتا، صحیح ’’اس نے‘‘ ہے۔)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

’’یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان کا ایک گروہ جو کچھ تمہارے پاس کہہ رہا تھا اس سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے، (یعنی تم سے اطاعت کا دم بھرتا اور بعد میں اس سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے)، اللہ ان کی یہ ساری سازشیں لکھ رہا ہے‘‘۔

(533) وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً

مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَکُنْ لَہُ نَصِیبٌ مِنْہَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَکُنْ لَہُ کِفْلٌ مِنْہَا۔ (النساء: 85)

’’جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمہ درست ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے میں کم زوری ہے۔

’’جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)

یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً  سے اچھی بات کی مخالفت میں کہنا نہیں بلکہ بری بات کے حق میں کہنا مراد ہے۔

جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے۔

(534) تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ

قرآن مجید میں یہ اسلوب متعدد بار استعمال ہوا ہے، جیسے: مَغْفِرَۃٌ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 157)،  فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِنَ اللَّہ۔ (آل عمران: 159)، یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 171)، وغیرہ۔

اسی طرح یہاں تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ آیا ہے۔ اللہ کی طرف سے توبہ کا مطلب اللہ کی بندوں پر مہربانی ہوتا ہے۔

بندہ جب اللہ سے توبہ کرے تو اس کے لیے توبۃ إلی اللہ  آتا ہے۔  ترجمہ کرتے ہوئے لوگوں کا ذہن اس طرف نہیں گیا اور انھوں نے مشکل ترجمے کیے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:

تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ۔ (النساء: 92)

’’بخشوانے کو اللہ سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لیے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’یہ اِس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے‘‘۔ (سید مودودی)

مذکورہ بالا ترجمے توبۃ من اللہ کے نہیں بلکہ توبۃ الی اللہ کے ہیں۔

’’یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لیے) ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

 درج بالا ترجمے میں توبہ کا ترجمہ توبہ کرکے پھر قوسین کے ذریعے اشکال کو دور کرنے کی پرتکلف کوشش کی گئی۔

’’یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی توبہ ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجمہ بھی کم زور ہے، کیوں کہ اوپر کفارے کا ذکر ہے، توبہ کا نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

’’یہ اللہ کی طرف سے مہربانی ہے۔‘‘ یعنی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے اس مشکل صورت حال سے نکلنے کا یہ طریقہ بتایا۔

(535) تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا

درج ذیل آیت میں تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا حال واقع ہوا ہے وَلَا تَقُولُوا سے۔ گویا یہاں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ دنیا کے طلب گار ہیں، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کی طلب کے سبب سے ایسا نہ کرو۔  

وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللَّہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ۔ (النساء: 94)

’’اور مت کہو جو شخص تمہاری طرف سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں چاہتے ہو مال دنیا کی زندگ کا تو اللہ کے یہاں بہت غنیمتیں ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)

’’اور جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں تم جیتی دنیا کا اسباب چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہتری غنیمتیں ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اُسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور جو تم سے سلام علیک کرے تو اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجموں میں کم زوری ہے۔ کیوں کہ تبتغون سے پہلے حرف استفہام نہیں ہے۔ اور اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر دنیا طلبی تھی۔

درج ذیل ترجمے مناسب ہیں، ان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ دنیوی طلب تمھارے اندر ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیوی طلب کی وجہ سے ایسا نہ کرنا۔  

’’اور جو تمہیں سلام کرے اس کو دنیوی زندگی کے سامان کی خاطر یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اللہ کے پاس بہت سامانِ غنیمت ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)

’’اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے نزدیک بہت سے غنیمتیں ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)

عبد اللہ صغیر آسیؔ


اگر رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ ایک داعیِ اسلام کی حیثیت سے کیا جائے تو یہ بات بڑی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ آپ ﷺ نے دعوت کے فریضے کو ادا کرتے ہوئے ان اصولوں سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا اور اسی طرح آپ ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓو صحابیاتؓ کے دعوتی کردار میں بھی انہی اصولوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دعوت کی کامیابی میں مرکزی کردار ایک داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تربیت یافتہ اور انسانی نفسیات کا عالم ہو گا، اس قدر اس کی دعوت مؤثر ہو گی، رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے مؤثر ہونے کی ایک اہم وجہ آپ ﷺ کا ذاتی کر دار تھا اور دوسری وجہ آپﷺ کا اسلوبِ دعوت تھا۔ آپﷺ نے ہمیشہ مخاطبین کی ذہنی استعداد، قلبی میلانات و رجحانات اور ان کے خاندانی و علاقائی پس منظر کو سامنے رکھ کر دعوت کا کام کیا۔
پیغمبر اسلامﷺ کی صحابیاتؓ بھی دعوت و تبلیغ میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور طرز عمل کو پیش نظر رکھتی تھیں، انہوں نے دعوت و تبلیغ کے اس منصب کو احسن انداز سے نبھایا اور جس طرح انسانی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت دی، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ عصر حاضر میں چونکہ دعوت دین کا کام اپنے زور و شور پر ہے، جس طرح مرد حضرات دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے ہیں، اسی طرح خواتین بھی اس میدان میں پیش پیش ہیں لیکن موجودہ دور میں دعوت و تبلیغ کا طریقہ کار جس پر صحابیاتؓ کار بند تھیں، اس کا کافی حد تک فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ صحابیاتؓ کا وہ اسلوب جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا تھا کہ مخاطب کی ذہنی سطح اور نفسیاتی پہلو کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے، بہت سی عصر حاضر کی داعیہ اس سے ناآشنا ہیں۔ موجودہ دور میں دعوت ِدین کے وہی آداب و اصول کارگر ثابت ہوں گے رسول اللہﷺ، صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ نے اختیار کیے۔
صحابیاتؓ کے اسی اسلوبِ دعوت کی عصر حاضر میں کیسے تطبیق کی جائے اور انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے دعوت دینے کا کیا لائحہ عمل بنایا جائے کہ دعوت مخاطب کے دل میں اثر انداز ہو جائے، اس سلسلے میں چند اسالیب ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں جن کو اپنا کر ہماری خواتین ان تمام تر خوبیوں کو جان سکتی ہیں جو ایک بہترین داعیہ میں ہونا بہت ضروری ہیں اور جن کے بغیر وہ اپنے دعوت کے اہداف کو پوری طرح حاصل نہیں کر سکتیں، صحابیاتؓ کی زندگی انہی خوبیوں سے بھری پڑی تھی، یہی وجہ تھی کہ اسلام کی تبلیغ میں وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ ان اسالیب میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔

۱۔ اُصولِ تدریج کا لحاظ رکھنا

عصر حاضر کی داعیات کا فرض ہے کہ دعوتِ دین میں اصولِ تدریج کا پہلو سامنے رکھیں۔ تدریج کا مطلب یہ ہے کہ داعی ایک ہی بار میں شریعت کے تمام احکامات کو بیان نہ کر دے کہ سامع کے لئے ان کو سننا اور سمجھنا ناممکن ہو جائے بلکہ آہستہ آہستہ اس کے سامنے سارے احکام پیش کرے۔ اگر اس نظام کو حکیمانہ ترتیب سے پیش نہ کیا جائے تو مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے بلکہ الٹا اس کا شدید نقصان ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا حضرت یوسف بن ماہک بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت عائشہؓ کے پاس موجود تھا تو ایک عراقی نے آکر سوال کیا کہ: اي الكفن خير؟ قالت: ويحك، وما يضرك؟ قال: يا ام المؤمنين، اريني مصحفك، قالت: لم؟ قال: لعلي اولف القرآن عليه فإنه يقرا غير مؤلف، قالت: وما يضرك ايه قرات قبل، إنما نزل اول ما نزل منه سورة من المفصل، فيها ذكر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام، ولو نزل اول شيء لا تشربوا الخمر، لقالوا: لا ندع الخمر ابدا ولو نزل لا تزنوا، لقالوا: لا ندع الزنا ابدا، لقد نزل بمكة على محمد صلى الله عليه وسلم، وإني لجارية العب بل الساعة موعدهم والساعة ادهى وامر سورة القمر آية 46، وما نزلت سورة البقرة والنساء إلا وانا عنده، قال: فاخرجت له المصحف فاملت عليه آي السورة۔1 (کفن کیسا ہونا چاہئے؟ ام المؤمنین نے کہا: افسوس اس سے مطلب! کسی طرح کا بھی کفن ہو تجھے کیا نقصان ہو گا۔ پھر اس شخص نے کہا ام المؤمنین مجھے اپنے مصحف دکھا دیجئے۔ انہوں نے کہا کیوں؟ (کیا ضرورت ہے) اس نے کہا تاکہ میں بھی قرآن مجید اس ترتیب کے مطابق پڑھوں کیونکہ لوگ بغیر ترتیب کے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا پھر اس میں کیا قباحت ہے جونسی سورت تو چاہے پہلے پڑھ لے (جونسی سورت چاہے بعد میں پڑھ لے اگر اترنے کی ترتیب دیکھتا ہے) تو پہلے مفصل کی ایک سورت، اتری (اقرا باسم ربك) جس میں جنت و دوزخ کا ذکر ہے۔ جب لوگوں کا دل اسلام کی طرف راغب ہو گیا (اعتقاد پختہ ہو گئے) اس کے بعد حلال و حرام کے احکام اترے، اگر کہیں شروع شروع ہی میں یہ اترتا کہ شراب نہ پینا تو لوگ کہتے ہم تو کبھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے اس کے بجائے مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت جب میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی یہ آیت نازل ہوئی (بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر‏) لیکن سورۃ البقرہ اور سورۃ نساء اس وقت نازل ہوئیں، جب میں ( مدینہ میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے اس عراقی کے لیے اپنا مصحف نکالا اور ہر سورت کی آیات کی تفصیل لکھوائی۔)
گو حضرت عائشہؓ کا اس انداز سے سمجھانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح اسلامی تعلیمات تدریجاً نازل ہوئی ہیں اسی طرح ایک داعی کو بھی تدریجاً اسلام کی دعوت پیش کرنی چاہیے تاکہ مخاطب تھوڑی تھوڑی چیزوں کو اچھے طریقے سے سمجھ لے اور ان پر عمل شروع کر دے۔ دعوت کے تدریجی اسلوب کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہوئے مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ: دعوت و تبلیغ میں تدریج کے اصول کا لحاظ رکھا جائے تو صحیح اور درست نتائج پیدا ہوں گے، اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو نتائج بھی حوصلہ افزا نہیں ہوں گے1۔ شریعت اسلام نے تمام احکام کے اندر انسانی طبائع اور جذبات کی بڑی حد تک رعایت فرمائی ہے تاکہ انسان کو ان پر عمل کرتے ہوئے کسی قسم کی کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہو۔ لہذا عصر حاضر کی داعیات کے لیے ضروری ہے کہ اصول تدریج کے پہلو کو نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کو ہر جگہ اور ہر لمحہ اسے موقع کے مطابق نافذ کریں۔

۲۔ ترغیب و ترہیب کے ذریعے دعوت دینا

عصر حاضر کی داعیات کے لیے لازم ہے کہ وہ دعوت میں وعدے اور وعیدوں والے مضامین کو اچھے اور سہل انداز میں بیان کریں جیسا کہ صحابیاتؓ لوگوں کو دین حق کی طرف آنے کی نا صرف ترغیب دیتیں بلکہ دین حق کی طرف نہ آنے کے برے نتائج سے بھی آگاہ کرتی تھیں۔ یہ امر اس لئے ضروری ہے کہ ترغیب و ترہیب سے مخاطب کے دل میں احکام کے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، پھر عمل کرنے کی توفیق ہو جائے گی، کیونکہ شروع شروع میں طبیعت کے خلاف کام کرنے سے طبعیت مکدر ہوتی ہے اور طبیعت پر اس کا کرنا گراں گزرتا ہے لہٰذا اگر کوئی اس امر پر آمادہ کرنے والا اور ابھار نے والا ہو تو طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے۔ ورنہ طبیعت کے خلاف کوئی بھی کام بغیر لالچ یا بغیر خوف کے نہیں ہوتا، پھر عادت ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ: ترغیب و ترہیب ایک حیثیت سے احکام ہی میں سے ہیں۔ مثلاً جنت اور دوزخ کا مضمون عقیدہ کے درجہ میں تو احکام میں ہی داخل ہے اور عقائد میں سے ہے اور دوسری حیثیت سے ترغیب و ترہیب ہے۔ یعنی جہاں احکام سنانا اور جنت و دوزخ کا مقصد بتانا مقصود نہ ہو، وہاں ترغیب و ترہیب ہے2۔ یعنی بیک وقت ایک داعیہ کو اپنے مخاطبین کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جبار و قہار ہونے کی صفات سے متنبہ کروانا چاہیے اور خوف اور امید کے درمیان کی ایک فضا میں دعوت کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔

۳۔ مخاطب کی آسانی اور سہولت کو مد نظر رکھنا

عصر حاضر میں ایک داعیہ کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ وہ مخاطب کی سہولت اور آسانی کو پیش نظر رکھے، دین کو مشکل نہ بنائے، یہی دعوتی عمل اس کی قبولیت کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عام مسلمانوں کے لیے ہمیشہ آسانی اور سہولت کے پہلو کو پیش نظر رکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نبی کریمﷺ کے اس طرز عمل کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں: مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَأْثَمْ فَإِذَا كَانَ الْإِثْمُ كَانَ أَبْعَدَهُمَا مِنْهُ وَاللَّهِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ قَطُّ حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ4۔ (نبی ﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا حکم دیا جاتا تو آپﷺ ان میں سے آسان کو اختیار کرتے، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا۔ اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپﷺ اس سے بہت دور رہتے، اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے کبھی اپنے ذاتی معاملے میں کسی سے بدلہ نہ لیا، البتہ (جب) اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو آپﷺ اللہ کے لیے ضرور انتقام لیتے تھے۔) کیونکہ انسان فطرتاً سہولت پسند ہے اس لئے عصر حاضر کی داعیہ کا فرض ہے کہ وہ دین کو مشکلات کا مجموعہ نہ بنائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو، دین کو لوگوں کے لیے آسان بنا کر پیش کرے۔ دینی معاملات میں تشدد پسندی اور سختی سے حتی الوسع پرہیز کرے اور اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو جو حل سب سے آسان ہو، اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

۴۔ مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھنا

دعوت و تبلیغ کے میدان میں حکمت کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ داعی مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی دعوت پیش کرے۔ عصر حاضر میں اس امر کی بہت ضرورت ہے کہ ایک داعی یا داعیہ مخاطب کی ذہنی استعداد کے مطابق دعوت دے، اگر داعی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو نظر انداز کرتے ہوئے منطقی استدلال اور فلسفیانہ انداز میں گفتگو شروع کر دے یا کسی صاحب علم اور دانشور شخص کو دعوت دیتے وقت گفتگو کا غیر علمی اور غیر عقلی اسلوب اختیار کرے تو اس صورت میں دعوت یقیناً غیر مؤثر ہو جاتی ہے، اس لئے داعی اور داعیہ کا فرض ہے کہ وہ مخاطب کی ذہنی استعداد اور کیفیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کا فریضہ بالکل اسی نہج پر اسی طرح ادا کرے جیسے صحابیاتؓ نے کیا۔ پیغمبر ِ اسلام ﷺ نے غارِ حرا کا واقع بیان کرتے ہوئے حضرت خدیجہؓ فرمایا: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ5۔ ( مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔) حضرت خدیجہؓ کی اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپﷺ میں دعوت ِ دین کا کام کرنے کا جذبہ بڑھ گیا، ان کی حوصلہ افزائی سے یہ بھی پہلو نکلتا ہے کہ داعی در حقیقت ایک بے مثال استاد اور مربی کی طرح ہوتا ہے جو سامع کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے اس کے ذہنی پس منظر، اس کی استعداد اور اس کے مزاج کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ وہ ایک بدوی اور شہری، پڑھے لکھے اور ان پڑھ اور عقل و تجربہ کے مختلف مدارج رکھنے والے انسانوں سے مختلف طریقوں اور اسالیب سے گفتگو کرتا ہے۔

۵۔ اعجاز و اختصار

ایک بہترین داعی یا داعیہ کے لیے عصر حاضر میں اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دعوت کی فضول تکرار اور بے فائدہ و طویل بیان کہیں لوگوں کو دعوت کے مضامین ہی سے متنفر نہ کر دے۔ نبیﷺ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے صحابیاتؓ بھی اپنی دعوت کو مختصرا ًمخاطب کے سامنے رکھتی تھیں۔ مثلاً حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا اپنی اولاد کو مختصراً نصیحت کرنا، آپؓ نے مفلسی میں زندگی بسر لی لیکن جب اللہ نے ان کی مالی حالت بہتر کر دی تو پھر کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے لگیں، بیماری کے بعد شفاء یاب ہو کر انہوں نے بہت سے غلام بھی آزاد کئے اور اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: انفقوا وتصدقوا ولا تنتظروا الفضل6۔ (خرچ کرو، صدقہ و خیرات دو اور فراوانی کا انتظار نہ کرو۔)۔ لہذا عصر حاضر کے داعی اور داعیہ کے لیے لازم ہے کہ اس کا کلام معقول اور دل کو لگنے والے دلائل ہوں۔ بلاشبہ فصاحت و بلاغت ایک ایسا وصف ہے کہ جو دعوت کو مؤثر بنا سکتا ہے، انسان کی زبان، اندازِ تخاطب اور طرزِ گفتگو کا اثر اس کے مخاطب پر بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس لئے ایک داعی کو چاہیے کہ اپنا لہجہ میٹھا اور الفاظ نرم رکھے۔ اسی عنوان پر کلام کرتے ہوئے قاری طیب صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’مبلغ اپنے کلام کو فصاحت و بلاغت سے آراستہ کرے، خواہ وہ حکمت سے کام لے یا موعظت اور مجادلہ کے میدان میں آئے، بہرحال بے تکلفانہ انداز سے فصاحت لسانی اس کا شعار ہو نا چاہیے، تاکہ مخاطب صحیح عنوان سے صحیح مقاصد ہی اخذ کر سکے۔ اگر کلام میں پیچیدگی اور بے ترتیبی ہو گی تو مخاطب صحیح اثر قبول نہ کر سکیں گے7۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے خطبے بھی نہایت مختصر ہوا کرتے تھے۔ بات جتنی مدلل اور مختصر ہوگی، سامع کو اسی قدر وہ متاثر کرے گی، عموماً لوگ لمبی گفتگو سے اکتا جاتے ہیں اور دعوت چاہے کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو، اس کے قابل قدر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

۶۔ مخاطب کی تعریف یا حوصلہ افزائی کرنا

ایک داعی یا داعیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعوت میں سامعین کی تعریف یا حوصلہ افزائی کا بھی خصوصی طور پر خیال رکھے البتہ اس سلسلے میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مناسب حد تک تعریف یا حوصلہ افزائی سامع کو فطری طور پر پسند آجاتی ہے اور وہ گفتگو میں غیر ارادی طور پر دلچسپی لیتا ہے، صحابیاتؓ کی سیرت سے بھی یہ اسلوبِ دعوت نظر آتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب لوگ دور دراز سے صحابیاتؓ کی خدمت میں طلب علم، مسائل دینیہ کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے آتے تو وہ نہایت کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے ان کا خیر مقدم کرتی تھیں۔ جیسا کہ ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ایک آپؓ سے مسئلہ پوچھنے میں حیا اور شرم مانع ہوئی تو آپؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: لا تستحي أن تسألني أما كنت سائلا عنه أمك التي ولدتك فانما أنا أمك8۔ (تو اس بات کو پوچھنے میں شرم نہ کر جو تو اپنی سگی ماں سے پوچھ سکتا ہے جس نے تجھے جنا ہے، میں بھی تو تیری ماں ہوں۔) اگر حضرت عائشہؓ کی طرح آج کی داعیہ بھی مخاطب کی حوصلہ افزائی کرے گی تو مخاطب میں یہ ہمت پیدا ہو جائے گی کہ وہ دین کی بات کو سن بھی سکے اور پھر اس پر عمل بھی کر سکے۔

پاکستانی خواتین کی کردار سازی

عصرِ حاضر میں پاکستان کی خواتین اور بالخصوص داعیات کے لئے دعوت کے میدان میں بھی صحابیاتؓ کی زندگی عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ بنیادی طور پر ہم اگر آج کے ماڈرن اور جدید ترقی یافتہ دور کی بات کریں تو وقت کے تقاضے بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معیار زندگی بھی بدل گئے ہیں، اب لوگ سوشل میڈیا کی زندگی میں رہتے ہیں لہذا داعیات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس علمی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے جدید دور کے تقاضوں سے اچھی طرح باخبر ہوں اور ان تمام وسائل اور ذرائع کو اچھی طرح جان لیں جو اس دعوت کے میدان میں ان کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
(جاری)

پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء

علامہ سید یوسف بنوریؒ


الحمد للہ کہ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء مطابق ۹ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۵ء کے مبارک دن مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک جدید اور مقدس باب کا افتتاح ہوگیا، یہ تاریخ پاکستان کی قومی زندگی کی کتاب میں ایک نئے باب کا آغاز ہے، اور پاکستان کی عزت و مجد کے عنوانات میں ایک شاندار عنوان کا اضافہ ہے۔ مہاجر قوم کے بعد مجاہد قوم! اور ہجرت کے بعد جہاد! سبحان اللّٰہ، نور علیٰ نور۔ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قابلِ قدر اور لائقِ صد تشکُّر نعمت ہے۔
چند اہم حقیقتیں اور قابلِ عبرت بصیرتیں بھی اس مبارک افتتاح میں منظر عام پر آگئیں:
۱۔ ہندوستانی حکومت کی بدنیتی، مکاری، عیاری اور نفاق۔
۲۔ ان سے حسنِ معاشرت اور بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کی توقعات سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم
۳۔ پاکستانی عساکر و افواجِ قاہرہ کے مجاہدانہ ولولے اور عزائم، سرفروشانہ جذبات اور احساسات، دین و وطن پر مر مٹنے کی پوری اہلیت و صلاحیت اور میدانِ کارزار میں استقلال و استقامت اور ذوق و شوقِ شہادت۔
۴۔ پاکستانی افواجِ منصورہ کی فنی مہارت، قابلیت، بحری، بری اور فضائی افواجِ قاہرہ کے فوق العادۃ حیرت انگیز کار نامے جن سے سلف صالحین کے محیر العقول کارناموں کی یاد تازہ ہو گئی اور اقوامِ عالم کے سامنے پہلی مرتبہ پاکستانی فوجوں کے جوہر اس طرح کھلے کہ دشمنانِ اسلام پر بھی سکتہ طاری ہوگیا اور آخر اُن کو بھی پاکستانی افواج کی برتری اور قابلیت، نیز سرفروشانہ و جاں نثارانہ خصوصیت کا اعتراف کرنا پڑا: والفضل ماشھدت بہ الأعداء ’’بزرگی وہ ہے جس کی دشمن بھی شہادت دیں۔‘‘
۵۔ دشمن قیدیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے بعد انتہائی ہمدردانہ، شریفانہ اور حوصلہ مندانہ، انسانیت نواز سلوک۔
۶۔ پاکستانی افواج اپنے ملکی دفاع کی پوری قابلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ حملہ آور دشمن کی چند در چند فوجی طاقت اور سامانِ جنگ کی فراوانی کے باوجود ہر محاذ پر منہ توڑ جو اب دے سکتی ہیں۔
۷۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں أیدہ اللّٰہ بنصرہٖ کے حسنِ تدبر، مجاہدانہ عزیمت، اہلیت، قیادت اور شجاعت و جواں ہمتی کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی تدبر کے جوہر بھی اس طرح منظر عام پر آگئے کہ دنیائے اسلام کو اس کا یقین ہوگیا کہ موصوف دنیائے اسلام کی قیادت کی صلاحیت کے مالک ہیں۔
۸۔ پاکستانی قوم بھی اس قدر باشعور اور سمجھدار ہے کہ ملکی دفاع کے نازک ترین مرحلہ پر اپنے تمام باہمی اختلافات اور ذاتی منافع کو یکسر پسِ پشت ڈال کر اپنے حکمرانوں کی ہر آواز پر لبیک کہنے، تعاون کر نے اور تن، من، دھن سب کچھ قربان کر نے کے لیے تیار ہو گئی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اتحاد اور تنظیم کا مکمل مظاہرہ کیا اور اس قدر حوصلہ مند ہے کہ دشمن کی تباہ کن بمباریوں سے شکستہ خاطر اور ہراساں ہونے کے بجائے اس کے جوش و خروش اور ذوق و شوقِ شہادت میں چند در چند اضافہ ہوتا ہے، و الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔

قابلِ عبرت نتائج و حقائق

ان بصیرت افروز حقائق اور عبرت انگیز واقعات سے جو عظیم نتائج نکلے ہیں وہ بھی قوموں کی زندگی کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں:
۱۔ جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دینے کے لیے پاکستانی قوم میں ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔
۲۔ دشمنانِ اسلام کے دلوں پر پاکستانیوں کا رعب چھا گیا تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ’’تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر اس سے ہیبت اور رعب طاری کر دو‘‘ کی تفسیر سامنے آگئی۔
۳۔ مسلمان اگر اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد و توکل سے بہرہ ور ہوں تو ان کی امداد و نصرت کے لیے ابھی اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد نو بنو انداز میں ضرور آتی ہے۔
۴۔ امریکہ ہو یا روس، برطانیہ ہو یا فرانس یہ سب کفر کی طاغوتی طاقتیں ہیں، ان سے کسی بھی خیر کی توقع رکھنا خالص حماقت ہے اور اُخروی سے پہلے دُنیوی خسران کا موجب ہے۔
۵۔ پاکستان کو صرف اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی پوری پوری جدوجہد کرنی چاہیے، اور ارشادِ خداوندی: وَأَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ (الانفال ۶۰) ’’اور جو بھی طاقت و قوت تم ان کے مقابلہ کے لیے مہیا کر سکتے ہو اس کی تیاری کرو۔‘‘ پر مکمل طور سے عمل کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تقصیر یا تغافل ہرگز روا نہ رکھنا چاہیے۔
بہرحال ہندوستانی حکومت نے تمام بین الاقوامی اُصول پسِ پشت ڈال کر بغیر کسی سابقہ اعلانِ جنگ کے رہزنوں کی طرح پوری فوجی طاقت و قوت اور تیاری کے ساتھ پاکستان پر چو طرفی حملہ کر دیا اور اپنی بربریت اور بہیمانہ سلوک میں بھی اصلاً کوتاہی نہیں کی، لیکن احکم الحاکمین کے قانونِ قدرت نے کمزوروں کا ساتھ دیا اور آیتِ کریمہ کی:
وَنُرِیْدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ أَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ۔ (القصص ۵)
’’اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو روئے زمین پر کمزور سمجھ لیا گیا ہے ان پر احسان فرمائیں اور انہی کو مقتدیٰ (بین الا قوامی قائد) بنا دیں اور انہی کو ان کے ملک و سلطنت کا وارث بنا دیں۔‘‘
تفسیر و تشریح ایک بار پھر دنیا کے سامنے آگئی کہ مٹھی بھر، ناتواں اور (ہر لحاظ سے) کمزور افراد کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت و طاقت بخشی کہ دشمن کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور آج دشمن کے ۱۶ سو سے زیادہ مربع میل رقبہ پر پاکستانی فوجیں قابض ہیں اور پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے۔ صدرِ مملکت سے لے کر چپڑاسی تک اور تاجر و صنعت کار سے لے کر معمولی مزدور اور آجر تک خواص و عوام ساری قوم میں حیرت انگیز اور بے مثل اتحاد و تعاون کی روح پورے طور پر کار فرما ہے اور پوری قوم دشمن کے سامنے بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ (آہنی دیوار) بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔

نعمتِ خداوندی اور اس کا شکریہ

۱۔ اللہ تعالیٰ کی اس لائقِ فخر نعمتِ عظمیٰ کا شکر یہی ہے کہ ہم صلاح و تقویٰ کی اسی پاکیزہ زندگی کو مستقل طور پر اختیار کر لیں جو اس وقت ہنگامۂ رزم و حرب نے پوری قوم کے اندر پیدا کر دی ہے، اور خوف و خشیتِ خداوندی اور ذکرِ الٰہی کو اپنا شعار بنا لیں۔ اور منکرات و فواحش کو جو اس اسلامی ملک میں غیر ملکی تہذیب و تمدن کے تسلُّط اور ان یورپین خدا ناشناس قوموں کی قابلِ شرم نقالی کی بنا پر رائج ہوچکے ہیں، یک قلم ترک کر دیں۔ اور مغرب کی گندی، مہنگی اور بزدل بنا دینے والی معاشرت کے بجائے سیدھی سادی اور سستی اسلامی معاشرت کو مستقل طور پر اپنا لیں۔ اجتماعی زندگی میں فوق العادت طبقاتی تفاوت کو جہاں تک ممکن ہو ختم کر دیں۔ شجاعت و بہادری کے احساسات کو بیدار کر نے والے خصائل، ایثار و مروت، جفا کشی و سخت کوشی، جواں مردی و حوصلہ مندی کو اختیار کر لیں۔ راحت پسندی و تن پروری، بے روح نام و نمود اور نمائش پسندی کو خیر باد کہہ دیں۔ خصوصاً غریبوں اور کمزوروں پر ترحم و شفقت کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ بیدار کریں، ہر نوجوان فوجی بنے اور مجاہدانہ احساسات سے سرشار ہو۔ الغرض ایک ایسے صالح معاشرہ کی تشکیل کی جائے جو باللیل رھبان وبالنھار فرسان (رات میں تہجد گزار اور دن میں شہسوار) کی تفسیر ہو۔

کسی قوم کی موت

حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم میں دو مرض پیدا ہوجائیں: (۱) ایک دنیا کی محبت (۲) دوسرے موت کا ڈر، تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قوم مر چکی۔ اور جب کسی قوم کو ان دونوں بیماریوں سے نجات نصیب ہو جاتی ہے تو وہ قوم حیاتِ ابدی سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث آئی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم پر دنیا کی قومیں اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس زمانہ میں ہم مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہو گی؟ فرمایا: نہیں! تم اتنے زیادہ ہو گے کہ اس سے پہلے کبھی تمہاری اتنی تعداد نہ ہوئی ہوگی، مگر تمہاری مثال ایسی ہو گی جیسے سیلاب پر خس و خاشاک، دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا ہو جائے گا۔ پوچھا کہ: وہن کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے خوف۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام، ج:۲، ص:۵۹۰، ط:حقانیہ)
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کا عددی اکثریت پر کبھی بھی مدار نہیں رہا ہے، نہ ہی عددی اکثریت میں اسلام کی قوت مضمر ہے، بلکہ مسلمانوں کی طاقت و قوت کا راز یہ ہے کہ اُن کے قلوب دنیا کی محبت سے پاک اور موت کے خوف سے اُن کے دل آزاد ہوں۔
آپ نے دیکھا کہ اس موجودہ معرکۂ حق و باطل میں مسلمانوں کا جو جوہر سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے وہ مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں دنیوی زندگی کی بے وقعتی اور شہادت کی موت کو لبیک کہنے کا ذوق و شوق ہے۔ دنیا نے ایک بار پھر اسلامی روح اور اسلامی قوت و طاقت کا منظر دیکھ لیا اور مسلمان افواج کی بے نظیر شجاعت اور شوقِ شہادت نے تاریخ میں ایک نئے اور شاندار باب کا اضافہ کر دیا۔ یہ واقعہ دورِ حاضر کی تاریخ کا سنہرا باب ہے جس کو عصرِ حاضر کا مؤرخ زریں حروف میں لکھے گا۔ کاش! اگر ہماری قوم کی غالب اکثریت میں یہ ہی روح کار فرما ہو جائے تو دنیا اور اس کی قیادت کا نقشہ ہی بدل جائے، پر نہ دنیا پر امریکہ کی بالادستی نظر آئے نہ روس کی۔

مسلمانوں کی بنیادی قوت

یہ حقیقت بالکل ظاہر و عیاں ہے کہ موجودہ اسباب و وسائل کی مادی دنیا میں ہم مسلمان ان کفر کی طاغوتی طاقتوں اور اسلام دشمن قوموں کے مقابلہ پر خواہ روس ہو یا امریکہ، جرمنی ہو یا برطانیہ، بہت پسماندہ ہیں۔ مادی وسائل اور حیرت انگیز سائنسی ترقیات میں ہم ان سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے عقلاً بھی ان کے مقابلہ کا یہی مختصر اور محکم راستہ ہے کہ ہم اس رب العالمین سے اپنا رشتہ مضبوط جوڑ لیں اور عبدیت کا تعلق اُستوار کر لیں جو اِن تمام مادی وسائل کا خالقِ حقیقی ہے اور اس کی قدرتِ کاملہ اور قوتِ قاہرہ کے سامنے ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ بھلا اس خالق کائنات کی قدرتِ کاملہ کے سامنے ان ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے جن کا وہ خود پیدا کرنے والا اور حقیقی موجد ہے!
اس کا یہ مقصد ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہم مادی اسباب و وسائل سے بے نیازی اختیار کر نے اور غفلت برتنے کا درس دے رہے ہیں۔ یہ تو خود خداوندی حکم ہے کہ جتنی بھی طاقت و قوت تمہاری استطاعت میں ہو، دشمنانِ اسلام کے مقابلہ کے لیے اس کو فراہم کرنے میں مطلق کوتاہی نہ کرو۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اعتماد کا اصل سرچشمہ وہ ذات قدسی صفات ہونی چاہیے، جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام محیر العقول وسائل ہیں اور وہی اُن کا حقیقی مالک و متصرف ہے۔ آپ نے دیکھا چینی قوم جو اَب سے بیس سال پہلے تک دنیا کی پست ترین افیمی قوم سمجھی جاتی تھی آج وہ قوم اپنی ہمت و جرأت اور تنظیم و اتحاد، جفاکشی و سخت کوشی اور سرفروشی کی بدولت نہ صرف صنعت و حرفت میں بلکہ فنی و حربی قوت اور فوجی طاقت میں امریکہ اور روس کے لیے بھی وبالِ جان بنی ہوئی ہے اور وہ دنیا جو کچھ سرخ خطرہ سے لرزہ براندام ہوا کرتی تھی، اب زرد خطرہ سے پریشان اور حواس باختہ ہے، حتیٰ کہ اس نے اب امریکہ و روس کے ایوانِ سیاست و تدبیر کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔ اگر ستر کروڑ چینی، امریکہ و روس کو مرعوب کر سکتے ہیں تو کیا دنیا کے ستر کروڑ مسلمان اگر آج تنظیم و اتحاد، ہمت و عزیمت، ایثار و محنت اور سرفروشی کی نعمت سے سرفراز ہو جائیں تو وہ ان طاغوتی طاقتوں کو مغلوب و مقہور نہیں کر سکتے؟
آج اگر دنیا کی مسلمان قومیں اور حکومتیں اغیار کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ و مامون ہو جاتیں اور جو قدرتی ذخائر ان بلادِ اسلامیہ میں قدرت نے پیدا کیے ہیں ان سے ان ’’عیار سفید فام‘‘ قوموں کے بجائے خود وہ مستفید ہونے لگیں تو دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور باعزت قوم مسلمان بن جائیں۔
الغرض وقت کا تقاضا ہے کہ مادی ترقیات میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ اغیار سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں، مگر اس سے پہلے اللہ جل شانہٗ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور تعلُّق استوار کریں تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی نعمتوں سے بھی مسلمان ہی سرفراز ہوں گے۔ فَاعْتَبِرُ وْا یَا أُولِیْ الْأَبْصَارِ۔
https://www.banuri.edu.pk/bayyinat-detail/پاک-بھارت-جنگ

حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی


(جامعہ دارالعلوم کراچی کے یو ٹیوب چینل پر نشر ہونے والی تین آڈیوز کی گفتگو)

اسماعیل ہنیہؒ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا

اسماعیل ہنیہؒ، ہمارا محبوب قائد، ہمارا محبوب مجاہد اور جانباز، اس نے اپنی جان دے کر اپنا خون دے کر آزادئ فلسطین کی تحریک کی شمع کو جلا دیا، اور جلا دیا، زیادہ جلا دیا، اس کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ قرآن کریم نے فرمایا ’’من المؤمنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ‘‘ (الاحزاب) مومنین میں ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا ہوتا ہے اس کو سچا کر دکھاتے ہیں۔ ’’فمنھم من قضیٰ نحبہ ومنھم من ینتظر‘‘ (الاحزاب) ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی خواہش پوری کر لی یعنی اللہ کے راستے میں جان دینے کی شہادت کی خواہش پوری کر لی، اور بعض وہ ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ کب ہمیں اللہ کے راستے میں شہید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
تو اسماعیل ہنیہؒ نے الحمد للہ جو عہد کیا تھا اللہ تعالیٰ سے۔ اور وہ اثر یہ تھا کہ جو ان کا نعرہ ہے ’’نصر او استشہاد‘‘ یا فتح ہو گی یا ہم شہید ہوں گے۔ تو انہوں نے اپنے اس عہد کو اللہ تعالیٰ کے بحضور پورا کر دکھایا۔ اس کے خاندان کے ستر افراد اس جہاد میں شہید ہو چکے ہیں۔ اس کے بیٹے اس کے پوتے اسی جہاد میں شہید ہوئے۔ اور جب ان بیٹوں پوتوں کی شہادت کے وقت میں نے ٹیلیفون پر اسماعیل ہنیہؒ کو تعزیت کی تو انہوں نے بالکل ایسے جیسے مبسوط اور نشاط والی آواز کے ساتھ یہ کہا کہ حضرت یہ تو میرے غزہ کے سارے شہداء ہی ایسے ہیں، میرے بیٹوں کی کوئی خصوصیت نہیں، وہ بھی غزہ کے شہداء کے ساتھ شامل ہو گئے، اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید ہو کر سرخرو ہو گئے۔ اس پر کسی غم کا اظہار نہیں، کسی تکلیف کا اظہار نہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر اور جہاد میں استقامت کا عزم ان کی باتوں سے واضح تھا۔
جب میں نے پرسوں اس واقعے پر وہاں کے جو ان کے دوسرے سربراہ ہیں خالد مشعل، ان سے ٹیلیفون پر بات کی تو ان کو بھی ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی تصویر، اور اس بات پر اعتماد کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور ان کو مقام عطا فرمایا شہادت کا، اور اس مقامِ شہادت کی وجہ سے ان شاء اللہ فلسطین کے جہاد کی تحریک دبے گی نہیں، اور زیادہ بڑھے گی اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔

اسماعیل ہنیہؒ کے قائدانہ اوصاف

اسماعیل ہنیہؒ جن کی کنیت ابوالعبد ہے، وہ حافظِ قرآن تھے، اور غزہ کے علاقے میں انہوں نے قرآن کریم کی ترویج اور نشر و اشاعت کے لیے ایسا نظام بنایا تھا کہ وہاں بچہ بچہ حافظ ہو رہا تھا۔ میری بذاتِ خود ان سے ملاقات ہوئی، میں ان سے ملنے کے لیے دوحہ گیا، ان کی شخصیت میں مجھے ایک صحیح مسلمان قائد کے اوصاف نظر آئے۔ ایک طرف وہ متدیِّن انسان تھے، حافظِ قرآن تھے، قرآن کریم کی تلاوت جس بہترین اور اعلیٰ تجوید کے ساتھ وہ کرتے تھے اور اس کے ساتھ امامت بھی کرتے تھے، وہ غیر معمولی تھی۔ ان کے والد ایک مسجد میں مؤذن تھے۔ اور وہ بتلاتے ہیں کہ میرے بچپن سے میرے والد مجھے نمازِ فجر سے پہلے بیدار کر کے اپنے ساتھ لے کر جایا کرتے تھے فجر کی اذان کے لیے، اور انہوں نے میری دینی تربیت اس انداز سے کی کہ الحمد للہ اسلام میری رگ و پے میں سما گیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے بڑی خدمات لیں اور بالآخر حماس کی یہ جدوجہد، یہ جہاد جو دس مہینے سے فلسطین میں جاری ہے، اس کی قیادت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے کرائی ہے۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ذات میں جوش اور ہوش دونوں کا حسین امتزاج ہو۔ بعض اوقات لوگوں پر جوش غالب آجاتا ہے، وہ صرف جذباتی ہو جاتے ہیں، اور فکر و تدبر اور عقل سے کام کم لیتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فکری اور نظریاتی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں، اور جب عمل کا وقت آتا ہے تو ان کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ میں نے اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ کی ذات میں جوش اور تدبر دونوں کا ایسا حسین امتزاج دیکھا جو بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے۔

اسماعیل ہنیہؒ کی ایران میں شہادت سے پیدا ہونے والے سوالات

ان کو ایران میں شہید کیا گیا۔ ایران بظاہر وہ واحد ملک ہے جو حماس کی سرکاری سطح پر حمایت بھی کر رہا ہے اور اس کو تھوڑی بہت امداد بھی دے رہا ہے۔ اور کوئی ملک سرکاری سطح پر حماس کا حامی نہیں، نہ کوئی مؤثر امداد جہاد کے سلسلہ میں فراہم کر رہا ہے۔ ایران واحد ملک تھا جس نے بہرحال زبانی طور پر اور تھوڑی بہت عملی طور پر مالی امداد حماس کو فراہم کی۔ لیکن یہ عجیب معمہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے دوحہ میں مقیم ہیں اور مختلف ملکوں میں جاتے آتے رہتے ہیں۔ وہ ترکی گئے، وہ روس گئے، وہ مصر گئے، اور مستقل طور پر دوحہ میں مقیم ہیں، لیکن ایران ہی میں ان کو دردناک قتل کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ کیا کوئی اتفاق ہے؟
اس میں ایک پہلو ایسا معمہ ہے جس کی کوئی توجیہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ یہ کہ جب کبھی اس قسم کا عالمی سطح پر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس کی پوری تفصیلات میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل جاتی ہیں، دیکھایا جاتا ہے کہ کہاں وہ شہید ہوئے؟ دیکھایا جاتا ہے کہ جس جگہ وہ شہید ہوئے وہاں پر کیا تباہی مچی ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ گائیڈڈ میزائل کے ذریعے ان کو شہید کیا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس عمارت کے اندر وہ مقیم تھے، اس گائیڈڈ میزائیل نے اگر کوئی عمارت کو نقصان پہنچایا، اگر گائیڈڈ میزائیل آ کر عمارت پر گرا تو ظاہر ہے کہ وہ میزائیل صرف آدمی کو ہلاک نہیں کرے گا، وہ عمارت کو بھی نقصان پہنچائے گا، وہ اس کے اندر اور کوئی عملہ ہو گا تو اس کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ لیکن یہ عجیب و غریب معمہ ہے کہ وہ گائیڈڈ میزائیل جاتا ہے اور جا کر صرف اسماعیل ہنیہؒ کو اور اس کے محافظ کو شہید کرتا ہے۔ اور نہ اس عمارت کی کوئی تصویر آ رہی ہے کہ اس حملے کے بعد اس عمارت کا کیا بنا؟ نہ یہ تصویر آ رہی ہے کہ اس گائیڈڈ میزائیل کے ذریعے اور کیا نقصان پہنچا؟ خبر صرف یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہؒ اور ان کے محافظ شہید کر دیے گئے۔ آخر کیوں ایسا؟
نیویارک ٹائمز کی خبر یہ ہے کہ جس جگہ اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ مقیم تھے اس جگہ دو ماہ پہلے سے لا کر بم رکھا ہوا تھا۔ یہ اطلاع بھی آ رہی ہے۔ وہ کیسے رکھا گیا تھا؟ اگر وہ بات صحیح ہے جو نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے تو وہ بم اگر دو مہینے پہلے سے رکھا ہوا تھا تو میزبانوں نے ان کو وہاں ٹھہرانے سے پہلے، ان تفتیشی اداروں کو کیوں حرکت میں نہیں لائے کہ جو ایسی جگہوں کی حفاظت کے لیے بموں کے ڈسپوزل والی ایجنسیاں ہوتی ہیں۔
اور یہ متضاد باتیں آ رہی ہیں کہ بم پہلے سے رکھا ہوا تھا یا گائیڈڈ میزائیل کے ذریعے ان کو ہلاک کیا گیا۔ ان متضاد باتوں کو واضح کرنا ایرانی حکومت کا فرض تھا کہ وہ ان تفصیلات کو سامنے لائے کہ حقیقت کیا ہے۔ اور صرف وہی کیوں ۔۔۔ شہید ہوئے؟ اور کیا ان کو تنہا چھوڑا ہوا تھا کہ صرف وہ اور ان کے محافظ ہی موجود تھے؟ اور جو کسی سرکاری مہمان کو رکھنے کے لیے جو حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں، کیا اس کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے؟ وہ کہاں تھے اور وہ حفاظتی انتظامات، ان کو کیوں نقصان نہیں پہنچا؟
یہ سوالات ہیں جو ہر انسان کے دل میں اور دماغ میں اٹھ رہے ہیں۔ اور اس سے شبہات کو تقویت مل رہی ہے، اور ان شبہات کا ازالہ ایران کی حکومت کے ذمے ہے۔ اس کا واحد راستہ یہ تھا کہ وہ ساری صورتحال کی تفصیل دنیا کے سامنے رکھ دیتا، اس جگہ کی تصویریں دیتا جہاں پر یہ واقعہ رونما ہوا۔ اس کے ماحول کی تصویریں دیتا، اس عمارت کا کیا حال بنا جس عمارت پر حملہ ہوا یا بم پھٹا جو بھی صورت تھی، لیکن ایرانی خبر رساں ادارے بالکل خاموش ہیں۔ اس سے یہ شبہ کوئی محض وہم نہیں رہتا بلکہ شبہے کو بڑی تقویت ملتی ہے کہ ایرانی حکومت نے اس معاملے میں یا تو غفلت کا ثبوت دیا، یا دوسرے بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ضروری طور پر خود ایرانی حکومت اس میں ملوث تھی۔ جو بھی شبہات ہوں ایرانی حکومت کا فرض ہے اس کو تفصیل کے ساتھ وہ سارے واقعات دنیا کے سامنے لائے اور دنیا کے سامنے اس کی تصویریں پیش کرے کہ کس طرح اتنا بڑا واقعہ ہو گیا جس پر ساری دنیا ہل گئی ہے لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں۔

اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)

محمود الحسن عالمیؔ


(13)اگر واقعی ہی ایسا ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک نہایت بڑی تحریک چلنی چاہیے تھی۔  لیکن اس کے بجائے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے یہودی لوگ اور بالخصوص یہودی ربی (علمائے یہود) صہیونیت کی حمایت کرتے ہیں۔
درحقیقت دوسری جنگ عظیم(1939ء) سے قبل صہیونیت کے خلاف مذہبی یہودیوں نے ایک عظیم جنگ برپا کی ہوئی تھی۔کہ تقریباً تمام ربی (علمائے یہود) اور ان کے پیروکار صہیونیت کی مخالفت میں نہایت سرگرم تھے لیکن بدقسمتی سے اِن میں سے اکثر یہودی جنگ عظیم دوم(کے سانحہءہولوکاسٹ )میں مارے گئے۔نتیجے کے طور پر زندہ بچ جانے والے یہودی اب تنہا ، یتیم اور بے سہارا ہو کر صہیونیت کے چمکتے دمکتے سراب میں اُلجھنے لگے۔نیز یہ کہ برسوں کی طویل جنگ نے صہیونیت کے بعض مخالفین کوبھی اِس خوف میں مبتلا کر دیا تھا کہ یہودیوں کی جان بچانے کے لیے اب فلسطینیوں اور دیگر لوگوں کے خلاف جنگ و جدل کی حمایت کرنا ضروری ہے۔
(14)اچھا !تو جنگ عظیم دوم کے سانحہء ہولوکاسٹ سے پہلے مذہبی یہودیوں کا صیہونیت پر ردعمل کیا تھا؟
 شروعات ہی سے تقریباً تمام بنیاد پسند یہودی ربیوں(علمائے یہود) اور اُن کے پیروکاروں نے صہیونی تحریک کی شدید مذمت کی ہے اور یہ مذمت قابل فہم بھی تھی کیونکہ یہ تحریک ہر اُس چیز کو اکھاڑ پھینکنے آئی تھی کہ جس کی جڑیں یہودیت سے وابستہ ہے۔صہیونیوں نے اپنی تحریک کو سرزمین مقدس پر یہودیوں کی بہتر زندگی کے لیے کوشاں ایک بے ضرر تحریک کے طور پیش کیا۔ لیکن ہمارے ربیوں(یہودی علماء) نے اِس (فریبِ نظر سے بچتے ہوئے) صہیونیت کو ایک ایسی جھوٹی مسیحی تحریک اور تورات مخالف تحریک کے طور پر فوراً پہچان لیا کہ جو عالمی سطح پر یہودیوں اور یہودیوں کے بین الاقوامی تعلقات کو خطرے میں ڈالے گی۔
ایک ایسی بنیاد پسند یہودی برادری صدیوں سے فلسطین میں موجود تھی کہ جس کے ربی(علماء ) خاص طور پر صہیونیت کی شدید مذمت کرتے تھے۔ اِس برادری کے یہودیوں نے فلسطینی عربوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے، حفظ ما تقدم یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ صہیونیت (بالآخر) اِس دوستی کو ختم کر دی گی۔  وہ مقدس سرزمین کی اس بے حرمتی پر بھی خوفزدہ تھے کہ جو غیر مذہبی صہیونیوں کی بڑی تعداد میں آباد کاری کے نتیجے میں رونما ہوئی تھی۔
اِس ساری صورتحال کے پیش نظر مختلف ممالک کے ربیوں(یہودی علماء) نے اِس تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باہمی ملاقاتیں کیں کہ اب کیا کرنے کی ضرورت ہے۔؟( نتیجے کے طور پر ) صہیونیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے روس ، پولینڈ اور جرمنی میں”اگوداتھ اسرائیل“ نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ آسٹریا اور ہنگری کے بنیاد پسند ربیوں(علماء) نے اپنے پیروکاروں کو صہیونی تحریک میں شامل ہونے سے منع کیا۔فلسطین میں یروشلم کی ”عیدہ چاریڈیس“ صہیونی قومی کونسل کے متبادل کے طور پر قائم کی گئی اور صہیونی کابینہ کی مخالفت کے پیش نظر ایک آزاد کابینہ کی بنیاد رکھی گئی۔
تاہم دوسری جنگ عظیم(ہولوکاسٹ) میں یورپی یہودیوں کی تباہی کے بعد صہیونیوں نے مذہبی یہودیوں کو اپنی تحریک میں پھنسانے کا موقع ہاتھ  سے جانے نہ دیا۔جو بنیاد پسند علمائے یہود اور فرقے بچ گئے تھے اُن کا صفایا کر دیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو رہنمائی سے یوں محروم کر دیا گیا کہ وہ خود کو بے دفاع اور کمزور محسوس کرنے لگ گئے۔اِس طریقہ واردات سے"یہودی لوگوں کے دفاع" کے وعدوں نے زندہ بچ جانے والوں سے ایک صہیونی ریاست کے قیام کی اپیل کرنا شروع کر دی۔
مزید برآں یہ کہ صہیونیوں نے یہودی عوام الناس کے اندر اپنی مخالفت کو کچلنے کے لیے وحشیانہ طریقے استعمال کیے۔ 1924ء میں انہوں نے ڈاکٹر ”یاکوف یسروئیل ڈیہان“ کو قتل کر دیا، جو کہ یروشلم کی (صہیون مخالف تنظیم) ”عیدہ چاریڈیس“ کے اسپیکر اور سفارت کار تھے۔ حتی کہ انہوں نے یہودیوں کے پرامن مظاہروں کو بھی روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، اور ایک مظاہرے کے دوران انھوں نے سرعام ربی(علامہ) ”پنچاس سیگیلوف“ کو قتل کر دیا۔  1948ء میں، انہوں نے یروشلم میں کئی دہائیوں سے آباد ربیوں(علمائے یہود) پر گولیاں چلائیں جو اردنی فوجیوں کے ساتھ صلح کرنے کے لیے نکلے تھے۔  ربی امر بلاؤ (1900-1974)، یروشلم میں ایک ممتاز صہیونی مخالف رہنما تھے جنھیں اپنی جدوجہد کے دوران کئی بار جانی حملوں کا سامنا ہوا اور آخرکار انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
لیکن اِن سب مظالم کو سہنے کو باوجود آج بھی دنیا بھر میں بہت سے ایسے یہودی مذہبی فرقے، تنظیمیں اور تورات کے مدارس باقی ہیں جن میں اصل یہودی عقیدے کی تعلیم دی جاتی ہے اور صہیونیت کی مذمت کی جاتی ہے۔  صہیونیت مخالف یہودیوں نے امریکہ، فلسطین اور دیگر ممالک میں صہیونی حکومت اور اس کے فیصلوں کے خلاف بے شمار مظاہرے کیے ہیں۔  ان کے بہادر رہنما صہیونیوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور مظلوموں کی آواز کو آج تک خاموش نہیں ہونے دئے رہے۔
صہیونی اسرئیلی ریاست اور دیگر جگہوں پر یہودیوں کے ایسے بڑے گروہ  وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ جو صہیونی یوم آزادی نہیں مناتے، صہیونی پرچم نہیں لہراتے اور صہیونی فوج میں خدمات نہیں دیتے۔
(15)آپ کے علم میں ہے کہ (یہودیوں کا قتل عام) ہولوکاسٹ ہوا تھا اِس لیے کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ یہودیوں کو اپنی حفاظت کے لیے کسی قسم کی قوت کی ضرورت ہے ؟
 تو کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ صہیونی اُن جرمن نازیوں سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ جن کو شکست دینے کے لیے(پانچ بڑی عالمی قوتوں یعنی) امریکہ و برطانیہ ، فرانس و روس اور چین کو چھ سال لگ گئے تھے ؟
دوم یہ کہ( اصل سوال یہ ہے) کہ کیا صہیونی واقعی ہی ہولوکاسٹ کے دورانیے میں یہودیوں کی حفاظت کرنا چاہتے تھے کہ نہیں ؟جب کہ وہ یہودیوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی سکت بھی رکھتے تھے۔مثال کے طور پر وہ اتحادیوں پر کچھ اِس طرح کا دباو ڈال سکتے تھے کہ اتحادی افواج یہودی قتل گاہوں پر بمباری کریں۔لیکن اِنھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ یہودیوں کو نازیوں کے ظلم سے بچانے کے لیے مالی مدد فراہم کرنے سے بھی مکمل طور پر انکار کر دیاحتیٰ کہ کچھ معمولات میں تو صہیونیوں کے نازیوں کے ساتھ تعاون کے بھی واضح ثبوت بھی ملتے ہیں۔(یہ ثبوت دستاویزات،پمفلٹس اور کتب کی شکل میں ناطوری یہود کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
https://nkusa.org
ثوم یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی حماس، حزب اللہ اور دیگر اِس جیسی کمزور تنظیموں سے بھی اپنا دفاع نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر وہ جرمنی جیسے طاقتور ملک کے خلاف یہودیوں کی حفاظت کیسے کر سکتے تھے ؟
چوتھی بات یہ کہ اگر دنیا میں کہیں یہود دشمنی پھیلتی ہے تو صہیونی اِس جگہ یہودیوں کی مدد کو نہیں پہنچتے۔  بلکہ، وہ اِس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور (اپنی مظلومیت کا رونا روتے) خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ غیر اسرائیلی یہودیوں کو اسرائیلی ریاست میں پناہ ملنے کی ترغیب مل سکے۔
پانچویں بات یہ کہ سیاسی صہیونیت  کے بانی(تھیوڈور ہرزل) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”نئی یہودی ریاست کی اقامت کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہود دشمنی کی آگ کے الاؤ کو روشن کیا جائے اور اسے یہودیوں کے پاؤں تلے رکھ دیا جائے، تاکہ وہ  اُس سرزمین کی طرف بھاگنا چاہیے جو صہیونیوں کو ملے گی۔“
یہ بالکل وہی حربہ ہے، جس کے ذریعے ہولوکاسٹ عمل میں لایا گیا ہے۔  لیکن آج وہ ہولوکاسٹ کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہودی صہیونیوں کے تحفظ کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔ صہیونیوں کے حصول اقتدار سے پہلے یہودی دنیا میں عام طور پر امن سے رہ رہے ہیں۔ جبکہ آج اِن کی ریاست دنیا کی اُن شاذ و نادر جگہوں میں شمار کی جاتی ہے جہاں مسلسل تشدد ہو رہا ہے اور اپنی ریاست کے علاوہ بھی صہیونی باقی دنیا میں بھرپور شر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعے پر چیخ چیخ کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہودیوں کو تحفظ کے لیے اُن کی نام نہاد پناہ میں آ جانا چاہیے۔
(16)کیا آپ اِس  بات سے  انکار کرسکتے ہیں کہ دنیا میں یہود دشمنی ہے، مثال کے طور پر ایران میں؟
 ایران میں یہود دشمنی ہے یہ بھی خالصتاً صہیونی  پروپیگنڈاہے۔ کیونکہ ایران میں یہودیوں کو خاص مراعات حاصل ہیں، حتی کہ مذہب کے معاملے میں بھی۔ مثال کے طور پر، یہودیوں کو کدوش(مذہبی عبادت) کے لیے شراب بنانے کی اجازت ہے، حالانکہ شراب مسلمانوں میں مطلقاً حرام ہے۔ پس اگر کہی بھی یہود دشمنی ہوتی ہے تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ صہیونی اِس دشمنی کو اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے اُبھارتے ہیں۔
(17) اگر یہودی تنظیم اور خود کا دفاع غلط ہے، تو  اگر دنیا میں کہیں واقعی ہی یہودیوں پر کوئی آفت آ جاتی ہے تو آپ کیا کریں گے؟
 آپ نے عمدہ سوال کیا۔جواب گہرا ہے پس اِسے آہستہ آہستہ جذب کریں کہ شاید آپ سمجھ جائیں۔
(1) ایک یہودی کے لیے ایمان اور تورات سب سے اولین ترجیح  پر آتے ہیں پھر اِس کی زندگی دوسری ترجیح پر آتی ہے۔پس ہم اپنے پورے جی جان سے اپنے عقائد کے وفادار ہے اور ہم محض اپنی جانیں بچانے کے عوض اپنے عقائد کا سودا ہرگز نہیں کرئے گئے۔بس مشکل وقت میں صرف اُسی قدر دفاع کرئے گئے کہ جس قدر دفاع کرنے کی اجازت ہمیں تورات دیتی ہے یعنی اپنے دفاع کے لیے اطاعت و فرمانبرداری کا طریقہ اختیار کرنے کی۔
(2) ہمارا کامل یقین ہے کہ  خداوند یکتا خیر و شر کا مالک ہے۔انسان اُس کے مخص اِک پیروکار کی حیثیت رکھتا ہے۔پس ہم اپنے آپ کو اُس کے احکامات سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرسکتے ہیں۔
(3) ہم سمجھتے ہیں کہ   خداوند یکتا اسرائیل(یعنی آل یعقوب) کا محافظ ہے۔  تاریخ نے کئی عظیم حکمران طاقتوں کا عروج و زوال دیکھا ہے لیکن یہودی اب بھی موجود ہیں اور رہیں گے۔  تنظیم اور خود دفاعی"سیلف ڈیفنس"کا عمل ہماری مدد نہیں کرئے گے، جیسا کہ اُس نے اُن عظیم حکمران طاقتوں کی مدد نہیں کی۔ صرف  خداوند یکتا ہی ہماری حفاظت اور مدد کر سکتا ہے۔
(4)  خداوند یکتا جو سزائیں ہم پر لاتا ہے وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بنتے ہوئے ہمارے فائدے کے لیے ہی ہوتی ہے اور ہمیں توبہ و استغفار کے لیے بیدار کرتی ہے۔توبہ، دعا اور صدقہ جیسے اعمال   خداوند یکتا کی طرف سے جاری کردہ سزاؤں کی شدت کم کرنے یا کسی حکم کو منسوخ کرنے کے حوالے سے متاثر کن حیثیت رکھتے ہیں۔
(5) کتاب مقدس تورات کی تعلیمات کی روشنی میں خود ساختہ تنظیم یا صہیونیت سنگین ترین گناہوں میں سے ایک ہے اور اس کی سخت ترین سزا ہے۔  جلاوطنی سے سرکشی اختیار کرنا یہودیوں کے لیے باعث نجات ہرگز نہیں ہے کہ یہ ماسوائے بدقسمتی کچھ نہیں ہے۔
(6) یہود مخالفت اصل میں مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خداوند کی پکڑ میں لاٹھی ہے۔پس ہمیں لاٹھی سے نہیں بلکہ لاٹھی پکڑنے والے سے مخاطب ہونا چاہیے یعنی  خداوند یکتا سے، کہ ہمیں دعا کے ذریعے اُسی سے مخاطب ہوتے ہوئے توبہ واستغفار طلب کرنی چاہیے۔
 ناطوری یہود درج ذیل بالا اپنے موقف کی حمایت و تائید میں تورات و تلمود اور دیگر کئی اہم یہودی مذہبی کتب سے دلائل کا ایک  ضخیم دفتر رکھتے ہیں جو کہ ناطوری یہود کی آفیشل ویب سائٹ پر آپ تفصیلی طور پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔یہاں صرف اُن چند اہم ترین آیات و اقوال کو پیش کیا جارہاہے کہ جو اختصار کے تقاضے کے ساتھ ساتھ جامعیت کا بھی حق ادا کرتی ہے۔
 "کتاب تلمود" میں صہیونیت کے خلاف دلائل میں سب سے اہم تین قسموں پر مبنی وہ تلمودی تصور ہے کہ بامطابق "تلمود ،کسوبوس 111اے" میں خداوند قادر مطلق نے یہودی قوم پر اِن تین وعدوں/ قسموں کی پاسداری و پابندی قیامت تک کے لیے اب عائد کر دی ہے:
1۔یہودی ارضِ مقدسہ(فلسطین ) کی جانب اب کھبی بھی کسی بھی قسم کے اجتماعی  نظم و قوت کے زیرِ اہتمام واپسی نہیں کرئے گئے۔
2یہودی دیگر اقوام کے خلاف ہرگز بغاوت نہیں کریں گئے کہ جو انھیں پناہ دئے گئی۔
3۔دیگر اقوام یہود کو زیر جبر و استحصال نہیں کرئے گئی۔
 صہیونیت نے خدا سے کیے گئے اِن  وعدوں / قسموں  کی کس طرح سختی سے خلاف ورزی کرتے ہوئے، بغاوت کا پرچم تھامے ، خدا کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔یہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ماضی کی تاریخ اور موجودہ حال کی روداد اِس کی عینی شاہد ہے۔
صہیونیت کے خلاف بنیادی طور پر اہم ترین دلائل کتابِ مقدس " تورات" میں درج احکاماتِ عشرہ (دس بنیادی خدائی احکامات) سے متعلق ہیں۔کہ اِن میں سے خصوصاً  دو خدائی احکام صہیونی اسرائیل کی قتل و غارتگری اور خطہء فلسطین پر قبضے اور وسائل چوری کی انتہائی مذمت کرتے ہیں۔یہ دو بنیادی احکام تورات میں دو مختلف جگہوں پر لیکن ایک ہی معنی و مفہوم کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ تورات کی کتاب خروج(20:13) میں ساتویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستناء(5:17) میں چھٹے بنیادی حکم کے طور پر خداوند تعالیٰ بالخصوص یہودی قوم کو اور بالعموم اقوام عالم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
"تم  خون نہ بہانا۔۔۔!"
پھر کتاب خروج (20:15) میں ناویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستناء(5:19) میں آٹھویں بنیادی حکم کے طور پر ارشاد فرماتا ہے:
تم چوری نہ کرنا۔۔۔!
یہودیوں کی جلاوطنی سے متعلقہ آیات:
”تم اُس اچھی زمین سے ہٹا دیے جاؤ گے جس کے تم وارث ہونے کے لیے آئے ہو، اور خداوند تمہیں زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں منتشر کر دے گا۔“
تورات، استثناء:28:63
”اور اگر تم میری نہیں سنو گئے اور میرے احکامات کی پیروی نہ بجا لاوں گئے تو میں تمہیں تمام اقوام میں منتشر کر دوں گا۔”
تورات ، احبار :26:33 
یہودیوں کی جلاوطنی آمد مسیح کے ساتھ ختم ہوگئی اِس موضوع سے متعلقہ آیات:
اور مسیح کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک شاخ پھوٹے گی۔1 اور خداوند کی روح، حکمت اور فہم کی روح، مصلحت اور قدرت کی روح، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح اُس میں قیام کرئے گی۔۔۔۔۔۔اور اس دن مسیحا کی حکومت قائم ہوگی جو لوگوں کے لیے ایک نشانی ہوگی۔ قومیں اس کی تلاش کریں گی اور اس کا قیام جلالی ہوگا۔10۔۔۔اور اسی دن خداوند دوسری بار اپنے ہاتھ کو بڑھائے گا کہ اپنی قوم کے بقیہ ( لوگوں)کو واپس لائے۔۔۔11 اور وہ قوموں کے لیے ایک نشانی کھڑا کرے گا اور آل یعقوب کے جلاوطنوں کو واپس جمع کرے گا اور یہودا(یہودی قوم) کے متفرق لوگوں کو زمین کی چاروں سمتوں سے اکٹھا کرے گا۔12
کتاب یسعیاہ:11(1-2)
چند اعلی اخلاقی تعلیمات سے متعلقہ آیات:
جو آپ اپنے ساتھ نہیں کرنا چاہتے  وہ دوسروں کے ساتھ بھی  نہ کریں۔ یہ پوری تورات ہے۔  باقی تفسیر ہے۔  جاؤ اور مطالعہ کرو۔
تلمود، شببوس 31 اے
خدا  کی طرح بنیں کہ جس طرح وہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے، اُسی طرح آپ کو بھی مہربان اور رحم دل ہونا چاہیے۔
 تلمود، شبوس 133 -بی 
جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری دنیا بچائی۔"
   کتابِ تلمود_مشناہ_سناہدرین:4:5
"اے انسان!وہ تجھ سے کیا چاہتا ہے،  سوائے اِس  کہ تو انصاف کرے، رحم دلی سے پیش آئے، اور اپنے رب کے حضور عاجزی سے رہے۔"
کتابِ تنک_نبییم_میکاہ: 6:8
 قارئین محترم!"ناطوری یہود" کا صہیونیت کے حوالے سے موقف ممکنہ دیانت داری سے پیش کرنے کی طالب علمانہ سعی کے بعد میں یہ وضاحت قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ناطوری یہود لاکھ بار "صہیونیت"کو  اپنے دائرہ مذہبِ(یعنی یہودیت) سے خارج کر لے لیکن یہ حقائق تو اپنے طور  پر عین موجود ہی رہے گئے کہ اولاً  یہ مانا سہی کہ صہیونی یہود/ صہیونیت دائرہ یہودیت سے خارج ہے لیکن پھر بھی ہم اُن کو یہودی نسل سے چاہ کر بھی  خارج نہیں کرسکتے۔عرض یہودی النسل ہونے کی بناء پر بلاآخر اُن کی شناخت و تشخیص تو یہودیت سے ہی  وابستہ رہے گئی۔دوم یہ کہ یہ حقیقت تو سبھی ناطوری یہود بھی مانتے ہیں کہ اگرچہ صہیونیت اپنی اصل میں ایک سیکولر تنظیم / تحریک تھی لیکن اب بدقسمتی سے اپنی لاعلمی/ مصالحت پسندی کی وجہ سے بہت سے مذہبی یہود بھی اِس کے ساتھ  وابستہ ہوچکے ہیں۔لہذا اِس بنیاد پر بھی ہم یہودی تشخص سے صرفِ نظر نہیں برت سکتے۔
عرض قارئین محترم! اِن سارے عقائد و نظریات کے تعارف کا حاصل یہ کہ  جیسا کہ معروف محاورہ ہے کہ اصل تعریف وہ کہ جو مخالف کرئے۔یعنی اگرچہ کہ  مذہبی بنیادوں پر تو ناطوری یہود بھی اسلام کی اصل کو اپنا مخالف ہی سمجھتے ہیں لیکن اِس مذہبی اختلاف و مخالفت کے باوجود یہ ناطوری یہود دیگر تمام غیر یہودی  مذاہب میں سے سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا تاریخی و قلبی اعتبار سے خیر خواہ پاتے ہیں۔ وہ اِس طرح  کہ یہ نمک حلال  ناطوری یہود اِس بات کو عین جانتے اور مانتے ہیں کہ جب جب غیر یہودی اقوام نے اِن پر ظلم کے شکنجے کستے ہوئے اُنھیں اپنی ہی زمینوں ، جاگیروں اور سلطنتوں سے بے دخل کیا تو غیر یہودی مذہبِ اسلام کے ماننے والے مسلمان ہی وہ واحد ترس اور عظیم الخلاق قوم تھے کہ جنھوں نے اپنی زمینوں ، اپنی سلطنتوں میں نہ صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت دی بلکہ مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے و عمل کے ساتھ ساتھ مکمل امن و امان کی پناہ بھی بخشی۔ بغیر کسی تفریق و امتیاز کے اپنی علم گاہوں، دکانوں اور کاروباروں میں  بھی شراکت داری کے برابر موقع فراہم کیے کہ یہ سلسلہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی فتح کردہ ریاست فلسطین (637ء)میں داخلے کی مکمل مذہبی آزادی سے لے کر ، اسلامی اندلس(711ء تا 1492ء) کی سائنسی تجربہ گاہوں  و  علمی یونیورسٹیوں میں شراکت سے ہوتا ہوا، سلطنت عثمانیہ(1517ء تا 1924ء) کی کاروباری دکانوں  تک ہمیشہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔عرض یہی اُن تمام تاریخی حقائق کا مختصراً خاکہ ہے کہ جن کی تسلیمات کی بنیاد  پر آج ناطوری یہود خود کو فکری ،قلبی اور تاریخی اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں دونوں کے قریب تر پاتے ہیں اور مسلمانوں کے مختلف ادوار حکومت کو اپنے سنہری ادوار میں شمار کرنے کے حق میں ہے۔لہذا میں بطورِ ملت اسلامیہ کے ایک رکن کے اِس بات کو ناطوری یہود کی نمک حلالی ، خدا خوفی اور انسان دوستی کی نیک نیتی پر ہی قیاس کرتا ہوں کہ جب آج خصوصاً  فلسطین اور عموماً پوری دنیا میں مسلمان ناحق مارے جارہے ہیں تو یہ ِان کے ساتھ عین اُسی طرح کھڑے ہیں کے کہ جیسے قیامِ اسرائیل سے پہلے جب کئی صدیوں تک لاکھوں  یہودی ناحق مارے جارہے تھے تو اُس وقت  صرف مسلمان ہی اِن کے ساتھ کھڑے تھے۔
میرے اِس سارےمضمون کے پس منظر میں حاصل یہ تین افکار ہے کہ اول یہ کہ فلسطین کی تولیت و حاکمیت کے حوالے سے مسلم قوم کے موقف کی تائید یہودی قوم و مذہب کی ہی بنیادی کتب سے ہوسکے تاکہ حق مزید نکھر کر اِتنا واضح ہوجائے  کہ چاہے کوئی یہودی "ناطوری کارتا گروہ"سے اختلاف کرئے یا اتفاق عرض دونوں صورتوں میں صہیونی اسرائیل کی حقیقت مزید واضح ہوسکے اور شاید اسی طرح کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ  اندرون اسرائیل اور بیرون اسرائیل دونوں طرفہ یہودی عوام الناس و علماء کی ایک اچھی  خاصی تعداد صہیونی اسرائیلی مظالم کے شدید مخالف ہے۔بلکہ میں تو یہاں تک عرض کرنا پسند کروں گا  کہ ہر رقیق القلب اور عقل سلیم کا حامل یہودی صہیونی اسرائیلی مظالم سے  اعلان برات کرنا پسند کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ناطوری کارتا سمیت 16 یہودی فعال تنطیمیں صہیونیت مخالف شمار کی جاتی ہیں۔
سوم حاصل فکر یہ کہ اِس وقت پوری انسانیت کو بلا لخاظ تفریق مذہب و وطنیت اسرائیلی مظالم کے مخالف ڈٹ جانا چاہیے کہ قطری نیوز چینل الجزیرہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء تا دم تحریر 25 جولائی 2024ءتک یعنی تقریباً 10 ماہ سے زائد کی اسرائیلی دہشت گردی کے زیر جبر غزہ اور مغربی کنارے میں کل تقریباً 40  ہزار مظلوم فلسطینیوں کی شہادتیں واقع ہوچکی ہے اور کل تقریباً  95 ہزار سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہوچکے ہیں۔جن میں سے نصف سے زائد شہدا کی تعداد فلسطینی معصوم بچوں اور عورتوں کی رپورٹ ہوئی ہیں نیز تقریباً 75 فیصد فلسطینی انفرا سٹرکچر  ( رہائش گاہیں ،گھر ،تعلیمی ادارے ، عبادت گاہیں ، ہسپتال ، پانی کے پائپ  اور سڑکیں وغیرہ) مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔جبکہ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ اعداد و شمار صرف سابقہ تقریباً 10 ماہ کی اسرائیلی دہشت گردی کا ثبوت ہے۔سابقہ 76سالوں سے صہیونی اسرائیل نے کون کون سی قیامت فلسطینیوں پر ڈھائی ہے اور کس کس طرح ڈھائی ہے اور کتنی لاشوں کے ناحق انبار لگا دیے ہیں اِس کا صحیح اندازہ لگانا شاید مشکل ہی نہیں بلکہ بڑے جگر گردے کا کام ہے۔بہرحال شاید اسی اندھی بربریت اور قتل و غارتگری کو دیکھ کر یورپ سمیت پوری دنیا کے ممالک میں فلسطین کے حق میں اور صہیونی اسرائیل مخالف مظاہرے رپورٹ ہو رہے ہیں جن کی آوازیں سوشل میڈیا کی برکت تلے اِن ممالک کی حکومتیں چاہ کر بھی مکمل طور پر دبا نہیں پا رہی۔
آخری حاصل فکر یہ کہ موجودہ تنازعہء فلسطین و اسرائیل ،اکتوبر 2023ءسے لے کر   قبل مسیح کی تاریخ تک سر زمینِ مقدس کی  تولیت و حاکمیت کے حوالے سے  جتنے بھی چھوٹے بڑے تنازعات اور جنگیں ہوئیں ہیں یا آئندہ ہوگئیں۔میرے طالب علمانہ فہم کے مطابق ازل سے لے کر اَبد تک اُن میں دو بڑے دھڑے"بلاکس " بنتے رہے ہیں پہلے اِن دھڑوں کی بنیاد پر سیاسی مقاصد و مفادات سے زیادہ مذہبی زاویہ نگاہ  کی فضاء غالب تھی۔کہ اِس کی مثال حصولِ فلسطین کے حوالے  سے جنگ طالوت و جالوت(تقریباً 1 ہزار قبل مسیح) سے لے کر مسلم و  صلیبی جنگوں(1095ء تا 1291ء) تک کی ہے۔ لیکن جنگ عظیم اول 1914ء تا 1918ء کے بعد سے  لے کر تا دم تحریر 2024ء تک جو حصولِ فلسطین کے حوالے سے دنیامیں بڑے  دھڑے  قائم ہیں اِن میں ماضی کی تاریخ کے عین برعکس ہمیں  فکری پس منظر میں مذہبی تشخص و تعصب سے زیادہ سیاسی و معاشی مفادات کارِ فرما  نظر آتے ہیں۔کہ اعلان بالفور 1917ء تا  تنازعہ اکتوبر 2023ء تک سبھی معاہدات و تنازعات کی گہرائی میں اصل بنیاد ہمیں مذہبی تشخص و تعصب سے زیادہ  سیاسی و معاشی مفاد  کی صورت میں نظر آتی ہے کہ اعلان بالفور1917ء سلطنت برطانیہ کا جنگ عظیم اول کے وقت ، اپنے اتحادی یہودیوں سے کیا جانے والے ایک سیاسی معاہدے کا نتیجہ تھا اور حالیہ صہیونی اسرائیل کے سابقہ  76 سالہ مظالم بھی ایک سیاسی منصوبے "دی گریٹر اسرائیل"کی خواہش کا نتیجہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج عرب و یورپ معاشی مفادات میں سانجھے داری ہونے کے باعث اسرائیلی مظالم پر اسلام  کی  نام نہاد ٹھیکے دار  سعودی  بادشاہت سمیت اکیس کے اکیس عرب مُسلم ممالک کی حکومتیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہوئے ہیں اور کچھ اِسی طرح کا  حال اسلام کے نام نہاد قعلے داروں یعنی پاکستان،ترکی و ملائیشیاء کا ہے کہ جن کے پاس ماسوائے چند مزاحمتی بیانات کے علاوہ عملی طور پر اِس انسانیت سوز  نسل کُشی کے خلاف کرنے کوکچھ نہیں  ہے۔
 وجہ  اولاً عین یہی ہے کہ  تمام مُسلم ممالک کے سیاسی و معاشی مفادات اسرائیلی پشت پناہ ریاستوں کے ساتھ جُرے ہوئے ہیں اور  دوم یہ کہ مسلم قوم (مجموعی اعتبار سے اور عملی طور پر ) اپنے قومی علم و اخلاق ، سیاسی وحدت اور اپنے فکری نظام میں یکسوئی کے اعتبار سے یورپی قوتوں کے  سامنے زوال پذیر ہوچکی ہے۔لہذا جہاں تمام 57 کے 57 مسلم ممالک کو فوری حکمت عملی کے تحت اپنی ایک سیاسی وحدت قائم کرتے ہوئے مل کر فلسطینی قاتل قوتوں کے مخالف عملی تدابیر اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے وہی  دُور اندیش حکمت عملی کے تحت اپنی قومی علمیت و اجتماعی  اخلاقیات ، سیاسی وحدت و اتحاد اور اپنے فکری نظام میں یکسوئی کے زوال کو دُور کرنے کی ایک پر امن راہ سلجھانی چاہیے تاکہ ہم عالمی اشرافیہ کی فکری و معاشی غلامی سے نکل کر حقیقی معنوں میں مکمل آزادی و خود مختاری حاصل کرتے ہوئے مظلوم انسانیت کی مسیحائی کا دم بھر سکے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادی

میٹا اے آئی

گوگل ٹرانسلیٹ


معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کونسے ہیں؟

 زیادہ معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز درج ذیل ہیں:

فیس بک:

 ایک سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم جس میں 2.9 بلین (تقریباً تین ارب) ماہانہ فعال صارفین ہیں۔

انسٹاگرام:

 بصری مواد پر مبنی سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم کے 1.2 بلین سے زیادہ فعال صارفین ہیں۔

ٹویٹر:

 440 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم۔

یوٹیوب:

 2.3 بلین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم۔

ٹک ٹاک:

 655 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک مختصر شکل کا ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم۔

سنیپ چیٹ:

 557 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک میسجنگ ایپ۔

ریڈڈٹ:

 430 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک سماجی خبروں اور مباحثے کی ویب سائٹ۔

پن ٹرسٹ:

 322 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک بصری دریافت اور منصوبہ بندی کی ویب سائٹ۔

لنکڈ اِن:

 310 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک پیشہ ور نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم۔

واٹس ایپ:

 2 بلین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک میسجنگ ایپ (میٹا کی ملکیت بھی)۔

وی چیٹ:

1.2 بلین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپ  (بنیادی طور پر چین میں استعمال ہوتی ہے)۔

ٹیلیگرام:

 500 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک میسجنگ ایپ۔

ڈسکارڈ:

 150 ملین سے زیادہ فعال صارفین والی کمیونٹیز کے لیے ایک مواصلاتی پلیٹ فارم۔

میڈیم:

 ایک بلاگنگ اور پبلشنگ پلیٹ فارم جس میں 100 ملین سے زیادہ فعال صارفین ہیں۔

ٹویچ:

  50 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ گیمرز اور تخلیق کاروں کے لیے لائیو سٹریمنگ پلیٹ فارم۔

نوٹ: یہ نمبرز ہو سکتا ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کی عکاسی نہ کریں، کیونکہ یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں!

سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذرائع آمدن

سوشل میڈیا پلیٹ فارم مختلف طریقوں سے پیسہ کماتے ہیں، بشمول:

ایڈورٹائزنگ:

   کاروباری اداروں اور تنظیموں کو اشتہار کی جگہ فروخت کرتے ہیں، صارفین کو ان کی آبادی، دلچسپیوں اور طرز عمل کی بنیاد پر ہدف بنائے گئے اشتہارات دکھاتے ہیں۔

 ڈیٹا منیٹائزیشن:

   صارف کے ڈیٹا کو جمع اور تجزیہ کرتے ہیں، بصیرتیں فروخت کرتے ہیں اور تیسرے فریق کو اشتہارات کے ہدف کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔

 سپانسر شدہ مواد:

    برانڈز اسپانسر شدہ پوسٹس اور کہانیوں کے ذریعے مصنوعات یا خدمات کو فروغ دینے کے لیے اثر و رسوخ اور پلیٹ فارمز کے ساتھ شراکت کرتے ہیں۔

 ملحق مارکیٹنگ :

  مصنوعات یا خدمات کو فروغ دے کر اور صارف کے مواد میں ملحقہ لنکس کو شامل کر کے کمیشن حاصل کرتے ہیں۔

مصنوعات اور خدمات کی فروخت :

   کچھ پلیٹ فارمز اپنی مصنوعات یا خدمات پیش کرتے ہیں، جیسے کہ Facebook کی مارکیٹ پلیس یا Instagram کا  خریداری کا فیچر۔

پریمیم سروسز:

صارفین کے لیے اضافی فیچرز یا سبسکرپشنز پیش کرتے ہیں، جیسے ٹویٹر بلیو یا یوٹیوب پریمیم۔

شراکت داری اور تعاون :

دیگر کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں تاکہ مربوط خدمات، جیسے ادائیگی کی پروسیسنگ یا میوزک اسٹریمنگ پیش کریں۔

 صارف کا تیار کردہ مواد :

صارف کے تخلیق کردہ مواد سے اپنے مقاصد کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں، جیسے کہ ٹوئٹر مومنٹس  یا   انسٹاگرام ریلز۔

لائسنسنگ اور رائلٹی :

اپنی ٹیکنالوجی، ٹریڈ مارک، یا دانشورانہ املاک کا دوسری کمپنیوں کو لائسنس دیتے ہیں۔

 وینچر کیپیٹل اور سرمایہ کاری :

کچھ پلیٹ فارمز سرمایہ کاروں سے فنڈ حاصل کرتے ہیں، جو ایکویٹی یا ملکیت کے ذریعے آمدنی کا باعث بن سکتے ہیں۔   

یاد  رہے  کہ مختلف پلیٹ فارمز مختلف آمدنی کے سلسلے کو ترجیح دیتے ہیں، اور کچھ منیٹائزیشن کی نئی حکمتِ عملیوں کے ساتھ تجربہ کر سکتے ہیں۔

تشہیر، فیس بک کا خاص ذریعہ آمدن (۹۷ فیصد)

فیس بک کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ اشتہارات ہیں۔ فیس بک اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ اشتہارات کے ذریعے بناتا ہے،خصوصاً:

 ڈسپلے اشتہارات:

   یہ گرافیکل اشتہارات ہیں جو فیس بک نیوز فیڈ کے دائیں جانب اور فیس بک آڈینس نیٹ ورک میں ظاہر ہوتے ہیں۔

 ویڈیو اشتہارات:

یہ ویڈیو اشتہارات ہیں جو صارفین کی نیوز فیڈز اور کہانیوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔

 کاروسیل اشتہارات :

   یہ ایسے اشتہارات ہیں جن میں متعدد تصاویر یا کارڈز ہوتے ہیں جن کے ذریعے صارف اسکرول کر سکتے ہیں۔

کولیکشن اشتہارات :

  یہ ایسے اشتہارات ہیں جو صارفین کو اشتہار سے براہ راست مصنوعات خریدنے کی سہولت  دیتے ہیں۔

اسٹوری اشتہارات :

یہ فل سکرین اشتہارات ہیں جو صارفین کی تحریروں کے درمیان ظاہر ہوتے ہیں۔

انسٹینٹ ایکسپیرینس اشتہارات :

  یہ تیزی سے لوڈ ہونے والے پوری اسکرین والے اشتہارات ہیں جو صارف کو بغیر کسی رکاوٹ کےنظر آتے ہیں۔

فیس بک مارکیٹ پلیس اشتہارات:

  یہ وہ اشتہارات ہیں جو فیس بک کے مارکیٹ پلیس سیکشن میں ظاہر ہوتے ہیں۔

 فیس بک کا ایڈورٹائزنگ پلیٹ فارم مخصوص علاقوں، دلچسپیوں، طرزاستعمال  اور مزید خصوصیات کی بنیاد پر مخصوص سامعین کو ہدف  بنانے کے لیے الگورتھم کا استعمال کرتا ہے۔ مشتہرین فیس بک کے ایڈورٹائزنگ اکاؤنٹ  کے ذریعے بجٹ سیٹ کر سکتے ہیں، اشتہار کی جگہ پر بولی لگا سکتے ہیں اور نتائج کو ٹریک کر سکتے ہیں۔2022 میں، فیس بک کی اشتہارات کی آمدنی کمپنی کی کل آمدنی کا تقریباً 97.5% تھی، جس میں فی صارف اوسط آمدنی (ARPU) $32.43 تھی۔

دنیا کی مسلمان آبادی

دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں چند دلچسپ حقائق یہ ہیں:

سب سے بڑی اقلیت:

  مسلمان دنیا کا سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہیں، جو کہ عالمی آبادی کا تقریباً 24.9 فیصد (1.9 بلین لوگ) ہیں۔

متنوع آبادی:

  مسلمان متنوع پس منظر سے آتے ہیں، 60% ایشیا میں، 20% مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں، اور 4% یورپ میں رہتے ہیں۔

سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی:

  مسلمانوں کی آبادی 2.9% سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے جو کہ عالمی اوسط 1.2% سے زیادہ ہے۔

نوجوان آبادی:

  مسلمانوں کی اوسط عمر 31 سال کی عالمی اوسط عمر کے مقابلے میں 24 سال ہے۔

شہری آبادی:

50% مسلمان شہری علاقوں میں رہتے ہیں، جکارتہ، کراچی اور لاگوس جیسے شہروں میں سب سے زیادہ تعداد کے ساتھ۔

لسانی تنوع:

مسلمان بہت سی زبانیں بولتے ہیں، جس میں عربی سب سے زیادہ بولی جاتی ہے، اس کے بعد اردو، بنگالی اور انڈونیشیائی زبانیں آتی ہیں۔

تعلیم:

40% مسلمانوں کے پاس ثانوی یا اس سے زیادہ تعلیم ہے، جس میں تمام خطوں میں نمایاں تغیرات ہیں۔

اقتصادی شراکت:

مسلمان عالمی تجارت، تجارت اور اختراع میں نمایاں حصہ ڈالتے ہیں، بہت سے مسلم اکثریتی ممالک تیزی سے اقتصادی ترقی کا تجربہ کر رہے ہیں۔

ثقافتی ورثہ:

اسلامی تہذیب نے پوری تاریخ میں سائنس، فن، ادب اور فن تعمیر میں اہم شراکت کی ہے۔

تنوع میں اتحاد:

تشریح اور عمل میں اختلاف کے باوجود، "امت" کا اسلامی تصور دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی پر زور دیتا ہے۔

یہ حقائق دنیا بھر میں مسلم آبادی کے تنوع، ترقی اور شراکت کو نمایاں کرتے ہیں۔  بھرپور مسلم کمیونٹیز کی  پیچیدگیوں کو پہچاننے اور سراہنے کی ضرورت ہے۔

دنیا کے کتنے مسلمان سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں؟

مختلف اندازوں اور رپورٹوں کے مطابق مسلمانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کے کچھ اعدادوشمار یہ ہیں:

تقریباً ڈِیڑھ ارب مسلمان آن لائن:

  عالمی مسلم آبادی کا تقریباً 71% انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے، یعنی  تقریباً 1.4 بلین مسلمان آن لائن ہیں (پیو ریسرچ سینٹر، 2020)۔

سوشل میڈیا کی رسائی:

   ایک اندازے کے مطابق 54% مسلمان سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں، جو کہ عالمی اوسط 57% (ہوٹ سوٹ ڈیجیٹل، 2022) سے تھوڑا کم ہے۔

مقبول پلیٹ فارمز:

  فیس بک (44%)، انسٹاگرام (25%)، ٹویٹر (15%)، اور یوٹیوب (14%) مسلمانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں (NPRP ریسرچ، 2020)۔

علاقائی تغیرات:

سوشل میڈیا کا استعمال مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے:

   -  مشرق وسطی اور شمالی افریقہ: 62% (عرب بیرومیٹر، 2020)

   -  جنوبی ایشیا: 45% (پیو ریسرچ سینٹر، 2020)

   -  جنوب مشرقی ایشیا: 54% (ہوٹ سوٹ ڈیجیٹل 2022)

   -  سب صحارا افریقہ: 38% (افروبارومیٹر، 2020)

زبان کی ترجیحات:

   بہت سے مسلمان سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنی مادری زبانوں میں ترجیح دیتے ہیں، جیسے کہ عربی، اردو، انڈونیشیائی اور ترکی۔

آن لائن رویے:

مسلمان سوشل میڈیا کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، بشمول دوستوں اور خاندان کے ساتھ جڑے رہنا، خبروں کا استعمال، تعلیم اور تفریح۔

یاد رہے کہ یہ اعداد تخمینہ ہیں اور ذریعہ اور طریقہ کار کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ تاہم، یہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کا تخمینہ بتاتے ہیں۔

ماہ صفر اور توہم پرستی

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


ماہ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: 
’’بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے‘‘ (القرآن)۔ 
قرآن و حدیث میں اس ماہ کی فضیلت سے متعلق کوئی حدیث مبارکہ وارد ہوئی ہے نہ ہی کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس سے اس ماہ میں بے برکتی، نحوست، حلال و حرام یا کوئی رسم یا روایت ثابت ہو۔ صفر عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ تین حروف (ص،ف،ر) کا مرکب ہے۔ اس کے معنی ہیں خالی ہونا، پیلا ہونا۔ چنانچہ ان معانی کی رعایت رکھتے ہوئے اس سے بہت سی چیزیں موسوم ہیں چند ایک کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(۱) ایک بیماری کو صفر کہا جاتا ہے، جس میں انسان کے پیٹ میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور چہرہ زرد پڑ جاتا ہے۔
(۲) ایک مہینے کا نام بھی صفر ہے اور یہ نام کئی وجوہ کی بنا پر رکھا گیا:
(ا) اس مہینے میں لوگ گھروں سے اناج اکٹھا کرنے کے لیے نکلتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہو جاتے۔
(ب) بعض اہلِ لغت کا خیال ہے اس ماہ اہلِ مکہ انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے مکہ سے باہر جاتے تھے، جس سے شہر مکہ خالی رہ ہو جاتا تھا۔
(ج) اہلِ مکہ زمانہ اسلام سے قبل چار مہینوں کا احترام کرتے تھے، ان میں کسی قسم کی لوٹ کھسوٹ قتل و غارت سے پرہیز کرتے تھے، ان میں سے ایک مہینہ محرم الحرام کا ہے، اس ماہ کے اختتام پذیر ہوتے ہی وہ قبائل سے جنگ کے لیے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ اس مناسبت سے اس ماہ کو صفر کہا گیا۔
ان لوگوں کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ صفر کا مہینہ منحوس اور رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے۔ اس ماہ میں آسمان سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ سب جاہلانہ و من گھڑت روایات ہیں۔ نحوست اور بدشگونی کو کسی ماہ یا کسی چیز کے ساتھ جوڑنا غیر شرعی اور بلا کسی دلیل کے ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں اس قسم کی خرافات پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ اس ماہ میں کوئی پر مسرت تقاریب، یا کسی کام کا افتتاح وغیرہ خصوصاً‌ شادی بیاہ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں اور یہ سوچ کر کہ اس ماہ کی نحوست اس کام میں بھی آجائے گی جس کی وجہ سے اس کام میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہ کی نحوست سے بچنے کے لئے طرح طرح کے کھانے بنا کر بانٹے جاتے ہیں خصوصاً‌ اس ماہ میں ابلے ہوئے کالے چنے، حلوہ پوری اور چوری وغیرہ تقسیم کرتے ہیں تاکہ اس ماہ کی نحوست سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ تمام باتیں من گھڑت بے بنیاد اور غلط ہیں قرآن و حدیث، صحابہ کرامؓ و سلف صالحین، ائمہ مجتہدین کسی سے بھی یہ رسومات و نظریات ثابت نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب باطل عقائد کی تردید فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
"مرض کا لگ جانا، الو اور صفر اور نحوست یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور جزامی شخص سے ایسے بچو اور پرہیز کرو جس طرح شیر سے کرتے ہیں۔ (بخاری شریف)
زندگی میں نحوست کب آتی ہے؟ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کی مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔ جیسے خوشیاں من جانب اللہ ہوتی ہیں ایسے ہی دکھ و تکالیف بھی من جانب اللہ ہوتی ہیں، کسی ماہ و سال یا شب و روز سے نحوست نہیں آتی سب اللہ کی مشیت و حکم کے تابع ہیں۔
ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ (التغابن)
’’کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی۔‘‘
انسان کی زندگی میں نحوست اس وقت ڈیرے جما لیتی ہے جب وہ رب العالمین کی احکام کو بھلا کر اپنی من مانی کرنے لگتا ہے۔ اپنی صبح و شام گناہوں و نافرمانیوں کی چادر اوڑھے گزارتا ہے۔ کفر و شرک کرتا ہے، حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا، جھوٹی گواہی دیتا ہے، نا انصافی کرتے ہے، بددیانتی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے، بے حیائی و فحاشی جیسے گناہوں میں ملوث ہوتا ہے نبی کی سنتوں کو چھوڑ کر بدعات کا راستہ اپناتا ہے۔ قرآن اس بات کو صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے: "جو کوئی اچھا کام کرے گا اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو کوئی خرابی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہو گا‘‘ (سورہ فصلت ۴۶) ایسی ہی سورہ یس کی آیت طائرکم معکم "تمھاری پریشانیاں تمھارے اعمال کی بدولت ہیں"۔  

دین میں بدعات و اختراعات سے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (بخاری، مسلم) 
"جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی، جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے"۔
یاد رکھیے کہ نحوست تو اس وقت آئے گی جب ہم دین میں پیدا کردہ رسومات و روایات پر عمل کریں گے۔ ایک دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام شریعت سننے کے بعد اس جملے کا تکرار کر رہا ہے کہ لا ازید علی ھذا ولا انقص کہ ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کو نہ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا‘‘۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ ایک دیہاتی جو کہ عموماً‌ موٹی عقل والے ہوتے ہیں، اسے یہ بات سمجھ آگئی کہ نبی کی بتائے ہوئے طریقوں میں کمی زیادتی درست نہیں مگر ہم جیسوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی؟ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہم دین میں پیدا کردہ غلط عقائد و نظریات اور نئی عبادات کو بلا سوچے سمجھے فوراً‌ قبول کرتے ہیں لیکن جو باتیں ہمیں علماء کرام منبرِ رسول پر بیٹھ کر قرآن و سنت کی روشنی میں سناتے اور بتاتے ہیں ان احکامات سے طرح طرح کے حیلے بہانے بنا کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں، زندگی میں برکتیں ایسے آئیں گی؟
اسلام ایک کامل و مکمل دینِ مبین اور ضابطۂ حیات ہے لہٰذا عبادات وہی معتبر اور قابلِ تحسین ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسول کی قائم کردہ حدود کے اندر ہوں۔ زندگی میں برکتیں اور سکون و اطمینان لانے کا صرف ایک ہی نسخہ ہے: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے بعد تم میں سے جو بھی زندہ رہا وہ آپس میں بہت اختلاف دیکھے گا لہٰذا تم پر لازم ہے کہ میرے اور میرے خلفاء راشدین جو کہ ہدایت یافتہ ہیں ان کے طریقے کو مشعل راہ بناؤ اور انہیں داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔ دین میں نئی عبادات سے بچتے رہنا، اس لئے کہ نئی عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے" (الجامع الترمذی)
رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے برے عقائد و بدعات سے محفوظ فرمائے، قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا بنائے اور سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

نُکتہ یا نُقطہ؟

ڈاکٹر رؤف پاریکھ


عربی میں ایک لفظ ہے نُکتہ۔ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہے: باریک بات، رمز کی بات، گہری بات، عقل کی بات۔ لطیفے یا چٹکلے کو بھی اردو میں نُکتہ کہتے ہیں۔ اسی سے نکتہ رَس کی ترکیب ہے یعنی گہری یا باریک بات تک پہنچنے والا، ذہین۔ باریک بات کو سمجھنے والے کو نکتہ سنج یا نکتہ شناس کہتے ہیں۔ نکتہ سنج کی ترکیب کو سخن شناس یا خوش گفتار کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نکتہ داں یعنی باریک بات یا عقل کی بات کو سمجھنے والا۔
نکتہ چیں اور نکتہ چینی میں بھی یہی نکتہ ہے اور نکتہ چیں کا مطلب ہے جو عیب ڈھونڈے۔ نکتہ چینی یعنی خامیاں چُننے کا عمل۔ لیکن یہ چینی اردو کی چینی یعنی شکر نہیں ہے بلکہ یہ فارسی کا چیں (چُننے ولا) اور چینی (چُننے کا عمل) ہے۔ نکتہ چینی اسی لیے سب کو بری لگتی ہے کہ اس میں اردو کی چینی نہیں ہوتی۔ غالب نے کہا:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
عربی میں ایک اور لفظ ہے نُقطہ۔ یہ اردو میں بھی مستعمل ہے اور اس کا مطلب ہے وہ باریک نشان جو کاغذ پر قلم رکھنے سے بنتا ہے، جسے ہندی میں بِندی اور انگریزی میں ڈاٹ (dot) کہا جاتا ہے۔ دائرے کے مرکز کو بھی نقطہ کہتے ہیں۔ جو دائرہ پرکار بناتا ہے اس کے وسط کے نشان کو نقطۂ پرکار کہتے ہیں،  اقبال کا مصرع ہے:
نقطۂ پرکارِ حق مردِ خدا کا یقیں
حروف پر جو باریک نشانات لگائے جاتے ہیں ان کا نام بھی نقطہ ہے، مثلاً حرف شین (ش) کے اوپر تین نقطے ہیں لیکن سین (س) پر کوئی نقطہ نہیں۔ جس حرف یا لفظ میں نقطہ ہو اسے منقوط یا منقوطہ کہتے ہیں۔ بغیر نقطے والے حرف یا لفظ کو غیر منقوط یا غیر منقوطہ کہتے ہیں۔ بعضوں نے اپنا زورِ کلام دکھانے کے لیے غیر منقوطہ شاعری بھی کی یعنی ایسی شاعری جس میں نقطے والا کوئی حرف نہیں آتا۔ انشاء اللہ خاں انشا نے صنعتِ غیر منقوطہ میں خاصا کلام کہا ہے، مثلاً ایک شعر دیکھیے:
سلسلہ گر کلام کا وا ہو
سامع دردِ دل کو سودا ہو
اس شعر کے کسی لفظ میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔ یہ غیر منقوط ہے۔ جس پر نشانہ لگایا جائے اسے بھی نقطہ کہا جاتا ہے اور اسی سے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ کی ترکیب بنی جس کا مطلب ہے نظر کا مرکز یا نشانہ اور مراد ہے دیکھنے کا زاویہ اور سوچنے کا انداز، اندازِ نظر، اندازِ فکر، خیال، رائے۔ لیکن بعض اوقات نکتہ اور نقطہ کو گڈمڈ کر دیا جاتا ہے اور بعض لوگ نقطۂ نظر اور نقطۂ نگاہ کو نکتۂ نظر یا نکتۂ نگاہ لکھتے ہیں جو غلط ہے۔ صحیح ترکیب ہے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ۔ نقطۂ عروج اور نقطۂ جوش وغیرہ میں بھی یہی نقطہ ہے اور ایسے مواقع پر نکتہ لکھنا درست نہیں۔
عربی میں نُکتہ کی جمع نِکات (نون کے نیچے زیر) ہے اور اسے نُکات (نون پر پیش) پڑھنا بالکل غلط ہے۔ میر تقی میر کی کتاب کا نام نِکات الشعرا ہے، شیخ مجیب الرحمٰن کے چھے (۶) نِکات تھے، فلاں حکومت کا پنج نِکاتی منصوبہ تھا، ان سب جملوں میں نِکات یعنی نون کے نیچے زیر پڑھنا چاہیے، یہاں نون پر زبر یا پیش پڑھنا صحیح نہیں۔
اصل میں عربی میں الفاظ کی جمع صرفی وزن پر بنائی جاتی ہے اور عربی الفاظ کی جمع کے اوزان میں سے ایک وزن ’’فِعال‘‘ (فے کے نیچے زیر) ہے۔ لہٰذا اس وزن پر جتنی بھی جمعیں بنیں گی سب کے پہلے حرف کے نیچے زیر ہو گا، مثلاً: جَبَل (یعنی پہاڑ) کی جمع جِبال، رَجُل (یعنی مرد) کی جمع رِجال، بَلَد (یعنی شہر) کی جمع بِلاد، خصلت کی جمع خِصال، روضہ (یعنی باغ) کی جمع رِیاض، کریم کی جمع کِرام، جیسے اساتذۂ کِرام یا صحابۂ کِرام۔ اسی طرح نُکتہ کی جمع نِکات۔
نُقطہ کی ایک جمع عربی میں نِقاط ہے (یہ بھی ’’فِعال‘‘ کے وزن پر ہے) اور دوسری نُقَط، یعنی نون پر پیش اور قاف پر زبر کے ساتھ۔ گویا نِقاط اور نُقَط کا لفظی مطلب ہو گا بہت سے نقطے۔ بے نُقَط کے معنی ہیں بغیر نقطوں کے۔ اردو میں محاورہ ہے بے نُقَط سنانا، یعنی فحش گالیاں دینا، مغلظّات بکنا۔ اس بے نقط کی وجہ تسمیہ غالباً یہ ہے کہ بعض لوگ جب گالی لکھتے تھے تو اس پر احتیاطاً نقطے نہیں لگاتے تھے۔
حاصلِ کلام یہ کہ نقطہ کی جمع نِقاط اور نُقَط ہے اور نکتہ کی جمع نِکات۔ نیز یہ کہ صحیح ترکیب نقطۂ نظر ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ ۱۳ مئی ۲۰۲۰ء)

توہینِ مذہب کے مسائل کے حل کے لیے جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے

انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز


توہینِ مذہب کے مسائل کو ان کی پیچیدہ نوعیت کے پیش نظر علیحدگی میں مؤثر طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ منقسم ردعمل نے نہ صرف اندرونی بحث و مباحثے کو کمزور کیا ہے بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر بھی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ لہٰذا، ایک متحدہ اور حکمتِ عملی پر مبنی طریقہ کار ضروری ہے جو جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو۔ اس کے لیے پائیدار قانونی اور علمی کوششوں کو ترجیح دینے، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور اور عالمی سطح پر ایک فعال، سفارتی موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک مربوط اور عقل پر مبنی حکمت عملی کے ذریعے ہی پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے اور اپنے مذہبی اصولوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ ’مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ اور مستقبل کا لائحہ عمل‘ کے موضوع پر ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس کے دوران کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ محمد راغب حسین کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، ممتاز عالمِ دین علامہ زاہد الراشدی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر قانون ڈاکٹر عطاء اللہ محمود وٹو، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عمران شفیق ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ سجاد حمید، اور شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد سے رفیق شنواری نے بھی خطاب کیا۔
عمران شفیق نے کیس کے فیصلے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے نظرثانی فیصلے میں کچھ غلطیوں کو درست کیا ہے، لیکن کئی مسائل ابھی تک حل طلب ہیں، جس کی وجہ سے تنازعہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نجی جگہوں پر مذہب کی تبلیغ کے حق سے متعلق ابہام بحث کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298سی میں سرکاری اور نجی شعبوں کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح 1973 کے آئین کے آرٹیکل 20 اور 22، جو مذہبی آزادی کی بات کرتے ہیں، نے ایسی کوئی تفریق برقرار نہیں رکھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرٹیکل آزادی فراہم کرتے ہیں لیکن حدود کے ساتھ۔ سپریم کورٹ کے منتظر تفصیلی فیصلے میں غلطیوں کو دور کرنے کے لیے انہوں نے اپیل کے فیصلے کے پیراگراف 5 سے 10 اور 14، اور نظرثانی کے فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کرنے کی رائے دی۔ مذکورہ پیراگرافوں کو حذف کرنے نتیجے میں، نظرثانی کے فیصلے کے پیراگراف 13، 15، 20، 21 اور 40 کو بھی حذف کرنے کی ضرورت ہوگی۔
سجاد حمید نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے مجیب الرحمان، ظہیر الدین اور طاہر نقاش سمیت متعدد ایسے متعلقہ مقدمات نمٹائے ہیں جہاں قادیانی برادری کے اقدامات کو آئینی فریم ورک بالخصوص آرٹیکل 20 اور 22 کے تحت چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ماضی کے ان مقدمات میں عدالتیں عقیدے کی نجی اور عوامی تبلیغ کے درمیان فرق کو واضح رکھتی ہیں۔
علامہ راغب حسین نے اس بات پر زور دیا کہ قادیانی مسئلہ کے حل کے لیے موجودہ نقطہ نظر بہت بکھرا ہوا ہے، جس میں علمائے کرام، وکلاء دانشور ایک اجتماعی نقطۂ نظر پیش کرنے کی بجائے الگ الگ کام کر رہے ہیں۔ نتیجتاً‌ یہ مقدمہ حد سے زیادہ سیاست زدہ اور مذہبی ہو گیا ہے۔ اس چیلنج کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے جذباتی رد عمل کی بجائے زیادہ علمی اور پائیدار طریقوں کی طرف تبدیلی ضروری ہے۔
رفیق شنواری نے نشاندہی کی کہ جب کہ سرکردہ اسلامی اسکالرز توہین رسالت کے معاملے پر متفق ہیں، پاکستانی قانون متعدد پہلوؤں پر غیر واضح ہے، جس میں گواہوں کی مطلوبہ تعداد اور قرآن اور دیگر پیغمبروں کے خلاف توہین کی سزا شامل ہیں۔ انہوں نے توہین رسالت پر جامع اور مستقل قانونی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس میں اس خلاء کو دور کرنے کے لیے متعلقہ اداروں کے درمیان تعاون شامل ہے۔
ڈاکٹر عطااللہ وٹو نے توہینِ مذہب کے سخت قوانین کے لیے تاریخی اور مذہبی حمایت کو اجاگر کرتے ہوئے سینٹ آگسٹین اور تھامس ایکویناس جیسی شخصیات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آرٹیکل 20 مذہب کی پیروی، اس کے اظہار اور تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے، لیکن خاص طور پر 1919 میں برطانوی حکومت کی جانب سے غیر مسلم قرار دی گئی جماعتوں اور 1935 کے بہاولپور کیس کے حوالے سے ابہام اور قانونی پیچیدگیاں برقرار ہیں۔ وٹو نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کس طرح پریشر گروپ ان ابہامات کا فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں، جس سے توہینِ مذہب کے قوانین کے نفاذ میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
علامہ زاہد الراشدی اور دیگر مقررین نے اس مسئلے کے بین الاقوامی پہلو پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ 1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے باوجود اس کمیونٹی کو بین الاقوامی طور پر ہمدردی اور مظلومیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے اس کے لیے عالمی سطح پر بھی ایک مضبوط بیانیہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ متحدہ اور اچھی طرح سے تیار شدہ موقف پیش کرنے میں ناکامی نے قادیانیوں کو بین الاقوامی فورمز پر قانونی نظیروں سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ یہ مسئلہ مختلف جہتوں میں پھیلا ہوا ہے اور اسے علیحدگی میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے زور دیا کہ اس کے لیے دوسرے مسلم ممالک کے نقطہ نظر کو سمجھنا اور مقامی اور عالمی سیاق و سباق کے درمیان کم ہوتے ہوئے فرق کو پہچاننا ضروری ہے۔ رحمٰن نے ایسے جارحانہ طریقوں کے خلاف خبردار کیا جن کی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور ان کی تعلیمات کو پھیلانے کے وسیع تر مقصد میں غلط تشریح کی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے قانون کی حکمرانی پر مبنی ایسی فعال حکمت عملی کی وکالت کی جس میں مقامی طور پر لوگوں کو تعلیم دینا، قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی موقف کو سفارتی طور پر پیش کرنا شامل ہے۔ شرکاء کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ آئی پی ایس اس طرح کے مشاورتی فورمز کا انعقاد جاری رکھے گا۔

The Two Viable Paths for the Qadiani Community

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی


Today, I would like to discuss a critical aspect of the Qadiani issue related to the preservation of the finality of prophethood, that when we and the Qadianis unequivocally acknowledge that their religion is distinct from ours and that we do not share the same faith, then why do the Qadianis insist on using the name, terms, symbols, and titles associated with the Muslim religion? Despite following a different and novel religion, why are they unwilling to adopt their own distinctive name, signs, terms, and rituals?
This is currently our primary point of contention with the Qadianis. They have leveraged this issue to confront Muslims in international institutions and the world media. Unfortunately, many international organizations and forums are supporting and backing them without sufficient justification.
In this context, I would like to present evidence to you, gentlemen, demonstrating that while we categorize the Qadianis as followers of a new religion separate from Islam, the Qadianis themselves have formally announced this at various stages. I would like to highlight five such occasions:
  1. Mirza Ghulam Ahmad Qadiani, in addition to his claim of prophethood, declared that those who did not believe in him, regardless of their location, were not Muslims. This was a clear indication that he did not consider Muslims worldwide as part of his religion if they did not accept his claims. Mirza Qadiani used harsh language towards those who did not believe in him, which I will not mention here. Given that Mirza Qadiani did not consider those who did not believe in him to be part of his religion, the Qadianis should abandon their insistence on being associated with the Muslim religion, as there is no justification for it.
  2. After the death of Mirza Qadiani's successor, Hakeem Nooruddin Bhairavi, the Qadiani religion split into two factions.
    Maulvi Muhammad Ali, the head of the Lahori group, along with many of his colleagues, declared that they considered Mirza Ghulam Ahmad Qadiani as their leader but did not accept him as a prophet. Mirza Bashiruddin Mahmood, the son of Mirza Qadiani and head of the Qadiani Jamaat at that time, declared them followers of a different religion and excluded them from the "Circle of Islam."
    This was a direct declaration that they considered only those who believed in Mirza Qadiani as their co-religionists, excluding all other groups and individuals worldwide.
    According to our perspective, both the Qadiani and Lahori groups have the same status and are unrelated to Islam. However, the Qadianis declared Mirza's followers as having a different religion because they did not consider Mirza Qadiani as a prophet. This clearly implies that they considered their religion as the most separate and distinct religion. It is therefore surprising that they are not willing to adopt different name, rituals, and symbols for this distinct religion.
  3. Before the Red Cliff Commission, established for the partition of Punjab during the creation of Pakistan, the Qadianis presented their case separately for the population of Qadian and Gurdaspur district, instead of identifying as Muslims. This led to Gurdaspur being annexed to India instead of Pakistan, resulting in the Kashmir issue. This was formal documentary evidence from the Qadianis that they were followers of a new religion separate from Islam.
  4. After the establishment of Pakistan, the prominent Qadiani leader Chaudhry Zafarullah Khan served as the foreign minister in the cabinet of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, the founder of Pakistan. However, after the death of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah when the funeral prayer led by Maulana Shabir Ahmad Usmani, Zafarullah Khan, despite being present, did not attend the funeral. According to national press records, he responded to inquiries by stating that he should be considered either an infidel minister of a Muslim government or a Muslim minister of an infidel government. This was also a clear indication that the religion of the Qadianis differed from that of the Muslims.
  5. During the 1974 debate in the elected parliament of Pakistan regarding the Qadiani issue, which ultimately led to the constitutional declaration of the Qadianis as a non-Muslim minority, the heads of both groups of the Qadiani Ummah, the Qadianis and the Lahoris, Mirza Nasir Ahmad and Maulvi Sadar Deen, were given the opportunity to present their positions before the National Assembly. They participated in the debate for several days. At that time, Mirza Nasir Ahmad made a clear announcement on the floor of the Parliament that he did not consider those who did not believe in Mirza Ghulam Ahmad Qadiani to be part of his religion and that they were all excluded from the "circle of Islam" according to him.
Regarding the separation of the Muslim and Qadiani religions, these five testimonies from the Qadiani camp themselves acknowledge their distinct religion from Islam. Additionally, the fact that the Qadiani religion has no connection to Islam and that they are followers of a new religion separate from Muslims has been repeatedly expressed collectively by Muslims. I will highlight ten significant testimonies here:
  1.  Immediately after Mirza Ghulam Ahmad Qadiani's claim of prophethood, renowned scholars from all schools of thought within Islam unanimously declared that Mirza Qadiani and his followers were outside the circle of Islam. Among them, Hazrat Allama Syed Muhammad Anwar Shah Kashmir, Hazrat Pir Meher Ali Shah Golravi, and Hazrat Maulana Sanaullah Amritsari are particularly noteworthy.
  2. Allama Muhammad Iqbal, the thinker of Pakistan, declared the Qadianis as separate from Muslims and urged the British government not to include them among Muslims.
  3. During the British era, the court of Bahawalpur State, after a thorough examination, declared that the Qadianis had no connection to Islam or Muslims. In that case, prominent figures like Hazrat Maulana Syed Muhammad Anwar Shah and Hazrat Maulana Ghulam Muhammad Ghotvi represented the Muslims.
  4. In 1953, prominent scholars from all schools of thought unanimously declared the Qadianis as followers of a different religion from Muslims and demanded that the Pakistani government declare them a non-Muslim minority. This issue sparked a widespread public movement across the country.
  5. In 1974, after carefully considering the arguments of both Muslims and Qadianis, the elected Parliament of Pakistan made a constitutional decision to recognize the Qadianis as a non-Muslim minority.
  6. During the era of the late President Zia-ul-Haq, a law was enacted to prevent Qadianis from using the name of Islam and the religious terms and symbols associated with Muslims. This law was subsequently ratified by the parliament elected in 1985, solidifying it as a national decision.
  7. During the tenure of Mr. Yusuf Raza Gilani, when the entire constitution was revised, the elected parliament of that time reaffirmed the decision to declare the Qadianis as a non-Muslim minority.
  8. Just a few months ago, this debate resurfaced in the assembly in relation to electoral amendments. The elected parliament then unanimously announced for the fourth time that the Qadianis were separate from Muslims.
  9. At the international level, The Muslim World League, during an international conference held in Makkah in 1974, announced that the Qadiani religion had no connection to Islam. This was a unanimous decision by the entire Islamic world.
  10. From the state court of Bahawalpur to the Supreme Court of Pakistan, this issue has been discussed multiple times in judicial forums. Both the Federal Sharia Court and the Supreme Court have issued clear decisions declaring the Qadianis as followers of a different religion from Islam and Muslims.
Respected readers! I have presented five decisions made by the Qadianis and ten decisions made by Muslims, drawn from historical records, which clearly establish that the religion of the Qadianis is distinct from that of Muslims and that they have no connection to Islam. Despite this overwhelming evidence, the Qadianis and their supporters stubbornly persist in their efforts to associate the Qadianis with Muslims.
I want to address the institutions and circles that are unnecessarily supporting the Qadianis, that they should acknowledge the ground realities and avoid wasting their time and ours by unjustly backing the Qadianis. The only options available to the Qadianis are to either repent from their erroneous beliefs and return to Islam. If this is not their destiny, they should abandon their stubbornness to be associated with Muslims by adopting a separate name and determining distinct terms and symbols for themselves. There is no other viable path for them.
(Published in The Daily Ausaf, Islamabad on the 2nd and 3rd of April, 2018)