الشریعہ — مئی ۲۰۲۴ء

یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۲)ڈاکٹر محی الدین غازی 
صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۱)ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل 
تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۱)ڈاکٹر ابراہیم موسٰی 
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہمولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری 
مولانا در محمد پنہور ؒ: تعارفِ حیات و خدماتمولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی 
أدھم شرقاوی کی تصنیف ’’رسائل من القرآن‘‘ سے منتخب رسائلادھم شرقاوی 
مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ قُدس کے ساتھ مسلمانوں کا ایمانی و جذباتی تعلقمولانا محمد طارق نعمان گڑنگی 
مٹتا ہوا فلسطینالجزیرہ 
ایران کا اسرائیل پر ڈرون حملہہلال خان ناصر 
دینی جماعتوں اور خطباء کرام سے متحدہ علماء کونسل اپیلمتحدہ علماء کونسل پاکستان 
"الحاج سید امین گیلانیؒ: شخصیت وخدمات"مولانا حافظ خرم شہزاد 
مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں ایران کا کردارمولانا حافظ امجد محمود معاویہ 
’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘مولانا جمیل فاروقی 
إلى معالي رئيس مكتب رابطۃ العالم الإسلامي في إسلام آبادمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
The Role of Iran in the Middle East Warمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
Regarding Muslim World League`s Conference Invitationمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
جاگتے رہنا! دینی مدارس، ان کے وفاق، علماء کرام اور دینی جماعتیںڈاکٹر محمد امین 

یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۷ اپریل ۲۰۲۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ کے زیر اہتمام اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مسئلہ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیاجا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ ایک اہم موضوع پر اس سیمینار کا اہتمام کیا جس میں جمعیۃ کے سیکرٹری جنرل مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے عمرہ اور بحرین کے حالیہ سفر کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں اور وہاں کے دوستوں کے جذبات سے ہمیں آگاہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
غزہ اور فلسطین کے حالیہ معرکہ کے بارے میں ایک بار پھر یاددہانی کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کی معروضی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں تین فریق آمنے سامنے ہیں جن کے درمیان محاذ آرائی کا بازار گرم ہے:
  • اسرائیل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے لیے سرگرم عمل ہے،
  • ایران دولتِ فاطمیہ کی بحالی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے،
  • جبکہ عرب ممالک کسی واضح ایجنڈے کے بغیر اپنی حکومتیں، ریاستیں اور بادشاہتیں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں،
  • اور ایک ممکنہ فریق ترکیہ ہے جو خلافتِ عثمانیہ کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے اور اس کے لیے مناسب مواقع کی تلاش میں ہے۔ 
باقی پورا عالمِ اسلام خاموش تماشائی ہے اور مسلم حکومتیں اس سلسلہ میں کوئی عملی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔
اس معرکہ میں بیت المقدس کی حرمت، فلسطین کی آزادی، اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی اپنی حمیت اور جذبات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں، مگر اس سے زیادہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے انہیں اپنی حکومتوں کی طرف سے کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں رائے عامہ کی بیداری، پبلک اجتماعات کا اہتمام، سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے علاوہ تجارتی بائیکاٹ کے محاذ پر بھی مختلف حلقوں کی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر انہیں منظم اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس میں عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ ریاستی اداروں اور حکومتی حلقوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔ 
جہاں تک تجارتی بائیکاٹ کا تعلق ہے، یہ بھی جنگ کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کا مکہ والوں نے شعب ابی طالب میں جو محاصرہ کیا تھا اور تین سال تک معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا ماحول قائم رکھا تھا، وہ معاشی جنگ ہی کا اظہار تھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدر کے غزوہ کا آغاز قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے کی مہم سے کیا تھا، جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  کہ تم قافلہ کو روکنے کی طرف جا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا رخ بدر کی طرف موڑ کر معرکہ بپا کروا دیا۔ صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کی طرف سے یہ یکطرفہ اور غلط شرط مسلمانوں کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بنی تھی کہ باہم صلح کے دور میں قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص انہیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا گیا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہو گی۔ اس شرط پر مسلمانوں کے اضطراب بالخصوص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بے چینی کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاہدہ کی خاطر منظور کر لیا تھا۔ مگر بعد میں مکہ والوں کو خود یہ شرط واپس لینا پڑی تھی جس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کے مطابق انہیں قریش کے دو نمائندوں کے ساتھ واپس بھیج دیا، مگر واپس مکہ مکرمہ جانے کی بجائے انہوں نے راستہ میں قریش کے ایک نمائندہ کو قتل کر کے محفوظ جگہ ٹھکانہ بنا لیا جس میں رفتہ رفتہ وہ لوگ جمع ہوتے گئے جو مسلمان ہو گئے تھے مگر معاہدہ کی رو سے مدینہ منورہ والے انہیں پناہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان لوگوں نے مضبوط جتھہ اور مرکز بنا کر قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا شروع کر دیا تھا جس کے کچھ عرصہ جاری رہنے پر مکہ والوں نے اپنی تجارت کو خطرہ محسوس کیا تو خود وفد بھیج کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اڈے کو ختم کرنے کی گزارش کی اور اس کے لیے انہوں نے مذکورہ شرط واپس لے لی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی ناکہ بندی اور تجارتی بائیکاٹ بھی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے اور جہاد کا ایک شعبہ ہے۔ پھر قرآن کریم نے جہاد کے مسائل کے ذکر میں ’’ولا ینالون من عدو نیلاً‌‘‘ فرما کر یہ اعلان کیا کہ حالتِ جنگ میں دشمن کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا جہاد کا حصہ اور عملِ صالح ہے۔ اس لیے اگر ہم آج غزہ کے مجاہدین کی اور کوئی مدد نہیں کر سکتے تو اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا منظم بائیکاٹ کر کے عملاً‌ اس جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور ہمیں یہ کام منظم اور مربوط طریقہ سے وسیع ماحول میں کرنا چاہیے اور ہمارے آج کے اس سیمینار کا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کو منظم کرنا اس جہاد میں ہماری عملی شرکت کا قابلِ عمل ذریعہ ہے اور ہمیں ہر طرح سے اس میں شریک ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۲)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(490)  وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ

وَوَاعَدْنَا مُوسَی ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً۔ (الاعراف: 142)
”ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کردیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی“۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجمے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ لیلۃ کا ترجمہ ایک بار ’شب و روز‘ اور اس کے بعد دو بار ’دن‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ لیلۃ سے یہاں مراد اگرچہ دن اور رات ملا کر پورا وقت ہے لیکن یہاں اصل رات ہے اور دن اس میں ضمنی طور پر شامل ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر بھی اس کے لیے لیلۃ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ اس میں رات کی خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ دن کا لفظ اس خصوصیت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ کا مطلب صرف اضافہ کرنا نہیں بلکہ مکمل کرنا ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ان دونوں خامیوں کو دور کردیا گیا ہے۔
”اور وعدہ ٹھیرایا ہم نے موسی سے تیس رات کا اور پورا کیا ان کو اور دس سے، تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات“۔ (شاہ عبدالقادر)

(491) کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ

درج ذیل دونوں جملوں میں ربط قائم کرنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک جملے کو بیچ میں محذوف مانا ہے۔ حالاں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیا ہے اسی کا تقاضا ہے کہ وہ انسانوں کو قیامت کے دن جمع کرے۔ لَیَجْمَعَنَّکُمْ میں جو تاکید ہے وہ کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے، گویا وہ اس کی رحمت کا ظہور ہے۔ 
کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (الانعام: 12)
”اس نے مخلوق پر رحمت کرنا اپنے اوپر لازم کر لی ہے (اس لیے جلدی سزا نہیں دیتا) وہ قیامت تک جس میں کوئی شک نہیں ہے تم سب کو اکٹھا کرتا رہے گا (پھر یکجا کرکے لائے گا)“۔ (محمد حسین نجفی)
”اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا“۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں قوسین میں مذکور جملہ غیر ضروری ہے اور عبارت کے مفہوم کو کم زور کرتا ہے۔ درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:
”اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اس نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کر لیا ہے وہ تم سب کو قیامت کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ضرور جمع کرے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(492) وَلَا یُطْعَمُ کا ترجمہ

درج ذیل جملے میں اطعام یعنی کھلانے اور نہیں کھلائے جانے کی بات ہے۔ یہاں یہ بات نہیں بتائی جارہی ہے کہ اللہ کھاتا نہیں ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ کھلاتا ہے اور اللہ کو کھلایا نہیں جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ سب کی ضرورت پوری کرتا ہے اور اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالی تو ہر چیز سے بے نیاز ہے، تاہم یہاں کھانے سے بے نیازی کا بیان نہیں بلکہ کھلانے والوں سے بے نیازی کا بیان ہے۔ وَلَا یُطْعَمُ کے الفاظ کا مفہوم یہی ہے۔
وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ۔ (الانعام: 14)
”اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے“۔ (سید مودودی)
”اور وہ کھلاتا ہے اور کھانے سے پاک ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور وہ کھلاتا ہے کھاتا نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجمے وَلَا یُطْعَمُ کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتے ہیں۔
”اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا“۔ (شاہ عبدالقادر)
درج بالا دونوں ترجمے بھی باریکی کے ساتھ لفظ کا مفہوم ادا نہیں کرتے۔ اسے کوئی کھانے کو نہیں دیتا اور اسے کھلایا نہیں جاتا میں باریک فرق ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی لفظ کی پوری رعایت کے ساتھ درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”اور وہ کھلاتا ہے اور اس کو کھلایا نہیں جاتا“۔

(493) ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ کا ترجمہ

درج ذیل عبارت میں فتنۃ کا ترجمہ کرنے میں لوگوں کو دشواری ہوئی ہے، اسی لیے لوگوں نے فتنہ کے مختلف ترجمے کیے ہیں، جیسے: عذر، فریب، شرک، بناوٹ وغیرہ۔ اس دشواری کی وجہ شاید یہ ہے کہ قیامت کے دن فتنہ کی تو کوئی گنجائش ہوگی نہیں، پھر اس وقت فتنہ کیسے ہوگا۔ 
ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ۔ (الانعام: 23)
”تو وہ اِس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ (یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے“۔ (سید مودودی)
یہ ترجمہ درست نہیں ہے کیوں کہ اس دن تو وہ کوئی فتنہ نہیں اٹھاسکیں گے۔
”تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس کے (کچھ چارہ نہ ہوگا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”پھر ان کی کچھ بناوٹ نہ رہی مگر یہ کہ بولے ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے“۔ (احمد رضا خان)
”پھر ان کے فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا مگر یہ کہ وہ کہیں گے کہ اللہ اپنے رب کی قسم! ہم مشرک نہیں تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”پھر نہ رہے گی ان کی شرارت مگر یہی کہ کہیں گے قسم ہے اللہ کی اپنے رب کی ہم شریک نہ کرتے تھے“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں: 
”ان کی فتنہ سازی کا حال یہ ہوا کہ انھوں نے کہا اے اللہ، ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے“۔ گویا دنیا کی فتنہ سازی آخرت کی اس بے بسی پر جاکر ختم ہوئی۔

(494)  فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ

درج ذیل عبارت میں اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ، امر کا جملہ نہیں ہے، بلکہ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ کا مفعول بہ ہے۔ ترجمہ اس کی رعایت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے گویا کہ زمین میں سرنگ یا آسمان میں سیڑھی ڈھونڈنے کو کہا جارہا ہے:
وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِآیَۃٍ۔ (الانعام: 35)
”اور اگر ان کا منھ پھیرنا تم پر شاق گزرا ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ تلاش کرلو یا آسمان میں زینہ پھر ان کے لیے نشانی لے آؤ“۔ (احمد رضا خان)
”اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)
”تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو“۔ (سید مودودی، ’اگر تم میں کچھ زور ہے‘ کی جگہ ’اگر تمہارے بس میں ہو‘  مناسب ہے۔)
درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:
”اور اگر ان کا اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے تو اگر تم زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی زینہ ڈھونڈ سکو کہ ان کے پاس کوئی نشانی لا دو تو کر دیکھو“۔(امین احسن اصلاحی)
”اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تواگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈھ لو پھر کوئی معجزہ لے آؤ تو کرو“۔ (اشرف علی تھانوی)

(495) قُلْ أَرَأَیْتَکُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ

درج ذیل دونوں آیتوں کا تعلق مستقبل سے ہے، بعض لوگوں نے دونوں آیتوں کا ترجمہ حال کا کیا ہے اور بعض نے دوسری آیت کا ترجمہ حال کا کیا ہے۔
قُلْ اَرَاَیْتَکُمْ اِنْ اَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللَّہِ تَدْعُونَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ اِلَیْہِ اِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ۔ (الانعام: 40، 41)
”ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو“۔ (سید مودودی)
حال کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے عَذَابُ اور السَّاعَۃُ کا الگ ہٹ کر ترجمہ کرنا پڑا۔ جب کہ (یونس: 50) اور (الانعام: 47) میں اسی طرح کے جملوں کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے اور عذاب کا ترجمہ عذاب کیا ہے۔
”کہہ دو، بتاؤ، اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آدھمکے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو؟ بلکہ اسی کو پکاروگے تو وہ دور کردیتا ہے اس مصیبت کو جس کے لیے تم اس کو پکارتے ہو اگر چاہتا ہے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان کو بھول جاتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)۔ بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لیے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں مستقبل کا ترجمہ کرتے کرتے کچھ جملوں کا حال کا ترجمہ کردیا ہے۔
 درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
”آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لیے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(496)  اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ

اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ کا موزوں ترجمہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا ہے نہ کہ ایک دوسرے کو استعمال کرنا۔
وَقَالَ اَوْلِیَاؤُہُمْ مِنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ۔ (الانعام: 128)
”تو جو انسانوں میں ان کے دوستدار ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے، پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے“۔ (سید مودودی)

(497)  وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا

درج ذیل آیت میں نُوَلِّی کا لفظ آیا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے دوست بنانا، نہ کہ مسلط کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات مستقبل میں قیامت میں پیش نہیں آئے گی، کیوں کہ وہاں تو سارے ظالم ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ یہ زمانہ حال کا بیان ہے کہ اللہ ظالموں کو دنیا میں ایک دوسرے کا دوست بناتا ہے۔ گذشتہ آیت میں ایسے اولیاء کا ذکر بھی آیا ہے۔ 
وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ۔ (الانعام: 129)
”اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا“۔ (احمد رضا خان)
”اسی طرح ہم مسلط کردیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے پر بسبب ان کی کرتوتوں کے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں“۔(فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مسلط کرنا درست نہیں ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مستقبل سے کرنا مناسب نہیں ہے:
”دیکھو، اس طرح ہم (آخرت میں) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر) کرتے تھے“۔ (سید مودودی)
”اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور اسی طرح ہم ساتھ ملادیں گے گنہ گاروں کو ایک دوسرے سے بدلا ان کی کمائی کا“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
”اسی طرح ہم دوست بنادیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے کا، اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے رہے ہیں“۔

(498)  فَرْشًا کا ترجمہ

درج ذیل جملے میں حَمُولَۃً اور فَرْشًا دو الفاظ آئے ہیں۔ حَمُولَۃ سے مراد اونچے قد کے مویشی ہیں جیسے اونٹ گائے، اور فَرْش سے مراد چھوٹے قد کے مویشی ہیں جیسے بھیڑ بکری۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُولَۃً وَفَرْشًا۔  (الانعام: 142)
”اور مواشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور چارپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے (یعنی چھوٹے چھوٹے) بھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
البتہ درج ذیل ترجمے میں فرش کا ترجمہ جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں کیا ہے:
”پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں“۔ (سید مودودی)
اس ترجمے کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ بھیڑ بکریوں کو زمین پر لٹاکر ذبح کیا جاتا ہے اور ان کی کھال کا بستر بنتا ہے۔ لیکن یہ توجیہ درست نہیں ہے کیوں گائے بیل بھی زمین پر لٹاکر ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کی کھال بھی استعمال میں آتی ہے۔ 

(499)  مِنْ إِمْلَاقٍ کا ترجمہ

قرآن میں ایک جگہ وَلَا تَقْتُلُوا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ (الاسراء: 31) آیا ہے، جس کا ترجمہ ہوگا: ”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔“ جب کہ درج ذیل مقام پر خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ کی جگہ مِنْ اِمْلَاقٍ آیا ہے۔ یہاں ”افلاس کا ڈر اور اندیشہ“ ترجمہ نہیں ہوگا بلکہ ”افلاس کا سبب“ ترجمہ ہوگا۔ دونوں میں لطیف فرق یہ ہے کہ افلاس کے ڈر کا مطلب یہ ہے کہ ابھی افلاس کی حالت نہیں ہے مگر کثرت اولاد سے افلاس کا اندیشہ ہے، جب کہ افلاس کے سبب کا مطلب یہ ہے کہ افلاس طاری ہوچکا ہے۔ اس طرح دونوں جگہوں پر الگ الگ کیفیتوں کے بارے میں رہنمائی کردی گئی۔
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ مِنْ اِمْلَاقٍ۔ (الانعام: 151)
”اور مت مار ڈالو اولاد اپنی کو ڈر افلاس سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو“۔ (سید مودودی)
”اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں:
”اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد مفلسی سے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث“۔ (احمد رضا خان)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۱)

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

سہیل طاہر مجددی

اللہ تقدس و تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے جس نے ہم سب کو خاتم النبیین والمرسلین ﷺ کے ذریعے نور ہدایت عطا کیا اور حضرت محمد ﷺ پر کروڑوں درود جنہوں نے ہمیں خُدا سے اقرب ترین راہ وصل سمجھایا اور خود اس پر عمل فرما کر ہماری عقول کو وہم کے فتنوں سے بچایا!
ہم نے یہ مختصر رسالہ صوفیہ کرام کے بعض ایسے مقامات اور کلام کی وضاحت کے لئے لکھا ہے جسے سمجھے بغیر لوگ ان کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ ہماری محنت کو قبول فرمائے آمین ثُم آمین ۔ اس مقالے کی خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان میں ان حقائق کو اس ترتیب کے ساتھ موضوع نہیں بنایا گیا، اگرچہ بمبئی سے شائع ہونے والے شمارے "انوار القدس" میں مراتب وجود کے تین مراتب پر بحث ملتی ہے، تاہم یہ شمارہ فسادات تقسیم ھند 1947 کی نذر ہوگیا۔ اس شمارے کا کچھ مواد محمد ذوقی صاحب کی کتاب "سردلبراں" کے ضمیمہ میں نشر کیا گیا ہے مگر وہ بیان گنجلگ ہونے کی بنا پر حصول مقصد کے لئے نارسا ہے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد خان صاحب کی کتاب "اعیان ثابتہ "بھی اہم ہے، تاہم مختصر ہونے کے علاوہ اس کے بیان میں بعض غلطیاں بھی ملتی ہیں۔ اس رسالہ کی تیاری میں ہم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی "مراۃ العارفین"، ابوسعید مبارک کی "تحفہ مراسلہ"، شیخ اکبر کی "فصوص الحکم "اور "الفتوحات المکیہ"، عبدالرحمٰن جامی کی "لوائح "، مجدد الف ثانی کی "معارف لدنیہ "اور "مکتوبات شریف"، داراشکوہ کی "حق نما"، اور عبدالرحمٰن لکھنوی کی "تنزلاتِ ستہ "وغیرہ سے مدد لی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ قاری کو وہ بنیادی کلید ہاتھ آجائے گی جس سے وہ فکری طور پر صوفیہ کرام کے معاملات کو سمجھ سکے اور بدگمانیاں زائل ہو جائیں ، اگرچہ ان کے قدم پر ذوق نصیب ہو یا نہ ہو مگر اس کی برکت سے کچھ نا کچھ اس ذوق و شوق میں برکت کے آثار ضرور پیدا ہو جائیں گے جو کہ محمود و مطلوب ہیں۔
قدیم ذات کا مخلوق کے ساتھ ربط کیا و کیسے قائم ہے؟ تمام مذاہب کی مباحث الہیات نیز فلسفے کی مباحث وجودیات میں یہ چوٹی کا سوال رہا ہے جس کے متعدد جوابات دئیے گئے۔ بعض گروہ ثنویت (duality) کے قائل ہوئے (کہ مثلاً خدا کے علاوہ مادہ بھی قدیم ہے یا ایک کے بعد دوسری مخلوق کا سلسلہ ازل سے اس طرح جاری ہے کہ ایک مخلوق دوسری مخلوق ہی سے وجود پزیر ہوتی ہے) جبکہ بعض نے کہا کہ عالم حادث ہے جو عدم سے وجود پزیر ہوا (یعنی یہ نہ تھا اور پھر ہوا)۔ محقق صوفیائے کرام نے بھی اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کے ساتھ اس بحث میں اپنا حصہ ڈالا، ان کے موقف کو "توحید وجودی" یا "وحدت الوجود" جیسے نام دئیے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں صوفیہ کے اس موقف پر روشنی ڈالی جائے گی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی عبارات کو کس نظام فکر پر پیش کر کے پڑھا جانا چاہئے۔ صوفیہ کا موقف سمجھنے کے لئے مراتب وجود سمجھنا ضروری ہے جس سے متعدد غلط فہمیاں خود بخود کافور ہو جاتی ہیں جیسے یہ کہ صوفیہ ذات باری کے عالم کے ساتھ اتحاد یا اس میں حلول کے قائل ہیں یا تنزلات کے نتیجے میں خدا ہی کائنات بن گیا ہے وغیرہ۔ اس مقالے کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں "مراتب وجود" جبکہ دوسرے میں اس پر متفرع ہونے والے توحید وجودی کے بعض مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔

1۔ مراتب وجود

ابتدائی تعارف

وجودی و شہودی فکر میں مراتب وجود چھ 1  (اور بعض کے مطابق پانچ 2)ہیں: 3 (1) مرتبہ لاتعین یا ذات، (2) وحدت یا وجود مطلق، (3) وحدانیت، (4) عالم امر و روح، (5) عالم مثال اور (6) عالم ناسوت (یہ زمان و مکان سے متعلق مخلوقات کا عالم ہے)۔ ہر مرتبہ وجود اپنے ماقبل سے "لاعین ولا غیر" (he-not he) کی نسبت رکھتا ہے، یعنی خود اپنے تشخص (identification) میں ایسے احکام (particularities) سے عبارت ہے جو اسے ماقبل مرتبے سے ممیز و الگ (distinguish) کرتا ہے جبکہ بعض احکام یا جہات میں یہ ماقبل کے ساتھ متصل بھی ہوتا ہے تاکہ نچلے مراتب میں عالم قائم رہے۔ ہر اوپری مرتبے کے لحاظ سے نچلا مرتبہ اعتباری یا حکمی (relative) ہے: یعنی پہلے کے لحاظ سے دوسرا اور دوسرے کے لحاظ سے تیسرا درجہ اعتباری ہے کہ ہر درجے میں احکام آہستہ آہستہ مشخص و متعین (identified یعنی زیادہ عام سے کم عام) ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اشیاء کی تشخیص اور غیریت (otherness / distinction) ان احکام سے عبارت ہے جو ان پر نچلے درجے میں متحقق ہیں۔ اس کے برعکس (یعنی نیچے سے اوپر کی جانب) ترتیب میں دیکھا جائے تو مشخص اشیاء کے احکام کی نفی کرنے سے وہ اپنے سے اوپری یعنی وسیع تر مرتبہ وجود کے حقائق میں جمع ہوتی چلی جائیں گی یہاں تک کہ مرتبہ احدیت اور لاتعین آجائے جو کسی بھی حکم کو قبول نہیں کرتا اور جہاں انسانی عقل و فہم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح نیچے کی جہت میں عالم ناسوت کے بعد عدم آجاتا ہے۔
شیخ ابن عربی (م1240ء) نے ان تنزلات سے متعلق امور کو مختلف مقامات و عبارات میں بیان کیا ہے، اگرچہ انہیں اس تفصیل کے ساتھ کسی ایک مقام پر نہ لکھا ہو۔ جس طرح کوئی کلامی یا فقہی مذہب کسی ایک شخص کے خیالات کا نام نہیں ہوتا اسی طرح صوفی افکار ہیں، لہذا کسی ایک ہی شخصیت کے ہاں سب امور کا تذکرہ پایا جانا ضروری نہیں۔ جس طرح اصول فقہ کی تعلیم کے لئے طلبا کو وہ جامع اصولی نظام پڑھایا جاتا ہے جو کئی اہل علم کی صدیوں کی محنت کے بعد تیار ہوا، اسی طرح صوفی فکر کی تعلیم بھی ایک جامع نظام فکر کے ذریعے کرائی جاتی ہے اور یہاں ہم اسے ہی پیش نظر رکھیں گے۔ مجدد الف ثانی (م1624ء) "مکتوبات" میں فرماتے ہیں کہ شیخ اکبر نے کمالِ معرفت سے اس مُشکل مسئلہ (یعنی توحیدِ وُجُودی) کو واضح اور تشریح والا بنایا نیز اسے ابواب اور فصلوں میں تقسیم کیا اور صرف و نحو کی طرح اسے مدون کیا4۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ درجات وجود کا ذکر کرتے ہیں تاکہ صوفی فکر قابل فہم ہو سکے۔ ہر مرتبے کے لئے صوفیہ قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہیں، اس تعارفی تحریر میں بعض دلائل ذکر کئے جائیں گے۔

مرتبہ اول: مقام لاتعین

مرتبہ لاتعین (unconditioned or unqualified) سے مراد ذات باری ہے جو وجود مطلق سے بھی ماوراء ہے ("وجود مطلق" دوسرا مرتبہ ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے)۔ لاتعین وہ مرتبہ و مقام ہے جہاں اندیشہ، قیاس، وہم اور گمان کا گزر نہیں اور عقل و الفاظ یہاں ناپید ہیں۔ وجودیہ کے لٹریچر سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ لاتعین ذات اور وجود مطلق گویا ہم معنی ہیں اور لاتعین ان کے نزدیک مطلق یا نرا وجود ہے جبکہ شہودیہ کے نزدیک لاتعین ذات اور وجود مطلق الگ مراتب ہیں، یعنی ذات باری وجود مطلق سے ماوری ہے۔ تاہم یہ تاثر اصطلاحات کے خلط مبحث سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ بعض وجودیہ دو مراتب کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کر دیا کرتے تھے، اصلاً دونوں کے موقف میں فرق نہیں۔
مرتبہ لاتعین کے مفہوم کی ادائیگی کے لئے یہ الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں، ہر لفظ خاص جہت سے اس مفہوم کو ادا کرنے والا ہے:
۱۔ ذاتِ بَحت، ۲۔ ذَاتِ ساذَج، ۳۔ ذَاتِ بِلاِ اعتِبار، ٤۔ غَیب ہُوَیَّة، ٥۔ غَیب الغُیُوب، ٦۔ الغَیب المَسْکُوت عَنْهٗ، ۷۔ مُنقَطِع اَلوِجدانی، ۸۔ مُنقَطِع اَلإِشَارات، ۹۔ مَرتَبَةُ ہُوَیَّة، ۱۰۔ اَزَلُ لااَزال، ۱۱۔ مَجہُول اَلنَعت، ۱۲۔ عَینِ کافُور5

مرتبہ دوئم: تجلی اول یا دائرہ وحدت (یا عالم ھاھوت6)

تجلی کا مفہوم

ذات باری نے اپنا ظہور بذریعہ تجلی فرمایا ہے۔ اس ضمن میں پہلی تجلی کو "تعین اول" یا "وحدت" کہتے ہیں جس نے لاتعین ذات کو باقی تمام تجلیات سے الگ کر دیا ہے اور بطور برزخ تمام تجلیات اور لاتعین کے مابین حائل ہو گئی ہے۔ تجلی سے لغوی مراد جلوہ دکھانا ہے جس کا ایک طریقہ ظاہر ہونا اور دوسرا پردہ ھٹا دینا ہے۔ مگر صوفی فکر کے اندر تعینات میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ الله نے خود اپنی ذات سے ایک وجود کو جلوہ بخشا جو صفات الٰہیہ کے وجود و قیام کی وجہ بن گیا ہے۔ تجلی کی اصطلاح قرآن میں مذکور ان الفاظ سے ماخوذ ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی اس خواہش کے جواب میں ارشاد فرمائے کہ اے اللہ مجھے اپنا آپ دکھا۔ ارشاد ہوا:
فَلَمَّا تَجَلَّیٰ رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ 7 (پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی)
تجلی کو صوفیہ "تنزل" بھی کہتے ہیں۔ یہاں یہ اپنے لغوی مفہوم میں نہیں ہے کیونکہ تنزل میں کسی شے کا اوپر سے نیچے آنے کا مفہوم ہے جبکہ صوفیہ کے نزدیک بھی ذات باری "الانَ كَمَا كَانَ" ہے، یعنی الله متغیر نہیں ہوا، نیز وہ جہات سے پاک ہے۔ یہاں یہ مجازی معنی میں ہے، یعنی چونکہ بااعتبار لاتعین یہ تجلی ہے اس لیے اس کو تنزل قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلی تجلی اور تجلی اعظم ہے یعنی وہ تجلی جس نے تمام تجلیات کو ذات باری سے بلاواسطہ تعلق سے روک دیا ہے یا جو حجاب بن گئی ہے۔
اس مرتبہ تعین کو سمجھانے کے لیے صوفیہ نے اس کو ایک دائرہ بنام "وحدت" سے بیان کیا ہے۔ ذیل کی صورت میں اس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس دائرے کی دو قوسیں ہیں جن کے درمیان ایک برزخ ہے جو دونوں قوسوں کو جدا کرتی ہے جیسا کہ اس شکل سے ظاہر کیا گیا ہے۔ دو قوسوں پر محیط اس دائرے کا نام "وحدت" ہے۔ اوپری اور نچلی قوسوں کا نام علیٰ الترتیب "احدیت" اور "واحدیت" ہے اور جو دو مراتب کو ظاہر کررہی ہیں، دونوں کے مابین جو خط ہے وہ "برزخِ کُبریٰ" کہلاتا ہے۔ مقام "لاتعین" کو دائرے سے باہر دکھایا گیا ہے جو یہ ظاہر کررہا ہے کہ ذات باری اس پہلی تعیین سے ماوراء ہے۔ دو قوسوں اور برزخ کی تفصیل یوں ہے:
شکل ۱: دائرہ وحدت
الف) مرتبہ احدیت
احدیت تعین اول ہے، یعنی پہلی تجلی۔ یہ پہلی تعیین "ہونے" (یعنی وجود) کی ایک ایسی قابلیت محضہ ہے جو سب قابلیتوں پر مشتمل ہے، بشمول وہ جمیع صفات و اعتبارات جو وجود اور عدم دونوں سے متعلق ہیں۔ فرض کریں کہ آپ ہر قید، حکم اور نسبت کو ختم کردیں تو آخر میں ایک ایسا وجود باقی رہ جائے گا جو نسبتوں و قیود سے پاک ہوگا، اسے وجود مطلق، ناقابل عدم اور واجب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس جس وجود پر عدم جائز ہو اسے ممکن کہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر جمیع تعیینات، صفات و اعتبارات کو نظر انداز کرنے کے بعد جو قابلیت محضہ باقی بچے وہ مرتبہ احدیت ہے، اسے اولیت بھی کہتے ہیں اور باطن بھی۔ اس بالائی قوس کی حقیقت اندیشہ یا وہم و گمان یا قیاس یا کسی بھی ادراکی ذریعہ سے ناقابل گرفت ہے، البتہ یہ تجلی اعظم یعنی "وجود" ہے انسانی فکر یا سوچ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس کا قیام کب، کہاں اور کیسے سے بالکل آزاد ہے، اسی لئے صوفیہ لاتعین کے تعین اول کے تعلق کو تجلی اعظم کے مفہوم کے سوا کسی اور طرح سوچنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ مثالیں یہاں ہیچ ہیں۔ اوپری قوس کے برعکس زیریں قوس کا رخ مخلوق کی طرف ہونے کی وجہ سے شئون ہم انسانوں پر ظاہر ہوگئے ہیں، جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔ اس مقام پر صفات اور شئون کی تمیز بھی ختم ہے (نوٹ: تمیز قائم نہ ہونے کا مطلب معدوم ہونا نہیں)۔ اس مرتبے کو ذات باری کا تنزیہی پہلو بھی کہتے ہیں، سورہ اخلاص میں لفظ "احد" تنزیہی تقاضوں کے بیان کے لئے ہی استعمال ہوا ہے جہاں ذات باری کی شان ضمیر غائب "ھو" سے بیان ہوئی، یعنی وہ ذات کو تعین و ادراک سے ماوراء ہے وہ "احد" ہے، اس سے متعلق ہر ادراک اس کی شان "واحدیت" پر مبنی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
يا رسولَ اللہ أين كان رَبُّنا عزَّ وجلَّ قَبلَ أنْ يَخلُقَ خَلقَہٗ؟ قال: كان في عَماءٍ ما تَحتَۂ ھَواءٌ، وما فَوقَہٗ ھَواءٌ ثم خلَقَ عَرشَہ علی الماءِ8
مفہوم: ایک صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہمارا رب کہاں تھا تو آپ نے فرمایا "عماء" میں جس کے نہ نیچے ہوا تھی اور نہ اوپر، پھر اس نے پانی پر اپنا عرش پیدا کیا
"عماء" کا ایک معنی بادل ہے، حدیث کے لفظ "عماء" سے شیخ مرتبہ احدیت مراد لیتے ہیں۔ بادل اپنے سے اوپر اور نیچے ہوا میں معلق ہوتا ہے، شیخ کہتے ہیں کہ "عماء" میں موجود اس تشبیہہ کی ذات باری سے تنزیہہ بیان کرنے کے لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے اوپر اور نیچے البتہ ہوا نہ تھی۔ اسی طرح ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ تھا جبکہ کچھ اور نہ تھا" (كَانَ اللَّہُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُہُ9
یاد رہے کہ وجود کا معنی "ہونا" ہے اور یہ معنی اسی ذات کے لئے درست ہوسکتے ہیں جو "از خود" ہو (کہ یہ از خود ہونا وجود کے مفہوم میں شامل ہے) اور از خود ہونا صرف ذات واجب کی شان ہے۔ اس کے برعکس جس کا ہونا کسی کے رہین منت ہو وہ "موجود" تو ہو سکتا ہے لیکن "وجود" نہیں، اس لئے کہ وہ ہوتا نہیں بلکہ "ہونا کیا جاتا "ہے۔ اسی لئے صوفیہ کہتے ہیں کہ وجود تنہا ذات باری کو سزا وار ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ وجود نہیں (ماسوا اللہ کے ہونے کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے مختلف پیرائے استعمال کئے جاتے ہیں، مثلاً وجود کا خیال، وجود کا شہود، وجود کی پرچھائی، وجود کا عکس وغیرہ، تحریر کے مناسب مقام پر اس پر بات ہوگی)۔
(جاری)

حواشی

  1. لائحہ پنجم، از لوایحِ جامیؒ
  2. تنزلاتِ ستہ از عبدالرحمٰن لکھنویِ، نیز رسالہ حق نما از داراشکوہ
  3. مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی نورالخلائق، مکتوب اول، "تنزلاتِ ستّہ" از عبدالرحمٰن لکھنویؒ، نیز "حق نما " از داراشکوہ
  4. مکتوبات امام ربانیؒ  (مختلف مقامات سے کشید کیا گیا)
  5. مکتوب ۸۹، جلد سؤم، معرفۃالحقائق
  6. فرھنگ اصطلاحات تصوف173، نیز سر دلبراں 399 
  7. القرآن: الاعراف 143
  8. سنن جامع ترمذی: رقم الحدیث 3109 نیز ابن ماجہ: : رقم الحدیث 182  
  9. صحیح بخاری  : رقم الحدیث 3019 نیز 6982 

تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۱)

اسلام میں محبت کی اساسیات غزالیؒ کے حوالے سے

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

مترجم : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

تعارف

یہ مضمون محبت کے متنوع تصورات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ محبت کی مخصوص اسلامی صورتوں کو بحث میں شامل کرتا ہے، خاص طور پر ان صورتوں کو جنہیں قرون وسطیٰ کے مسلم مفکر و ماہر الہیات امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی 1111ء) نے پیش کیا تھا۔ مقصد محبت کے اسلامی تصور کو ”اگاپے“ (agape) کے غالب مسیحیت مرکزی تصورات اور محبت کی کفارہ پر مبنی شکلوں سے ممیز کرنا ہے جو فی زمانہ بین المذاہب مکالمے کو تشکیل دے رہے ہیں۔ اس مضمون کا استدلال ہے کہ ہمیں محبت کے مختلف تصورات کو تلاش کرنے اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پوپ بینیڈکٹ نے اپنے 2006ء کے ریجنزبرگ لیکچر سے مسلم دنیا کو بدنام کیا۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا ماخذ عیسائی علم کلام کے کچھ خاص طبقوں میں پائے جانے والے تصوراتِ محبت اور اسلام میں محبت کے اصول کو یکساں سمجھ بیٹھنا ہے۔ تاریخی طور پر، اسلام کا علم کلام رحمت کے اردگرد مرکوز ہے، جب کہ محبت انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ تجرباتی تعلقات کے ایک لاہوتی نظام کی زایدہ ہوتی ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح غزالی کی محبت کے مظاہر محبت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ کرتے ہیں۔ معرفت الٰہی، ادراک اور اطاعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے غزالی مسلم الٰہیاتی نظام اور دائرہ کے اندر محبت کا ایک پیچیدہ تجرباتی تصور پیش کرتے ہیں۔ یہ تجویز کرنا کہ عیسائیت اور اسلام میں محبت مشترک ہے، جیسا کہ بعض نے کیا ہے، دونوں ہی ثروت مند روایتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا، بلکہ ہر روایت میں محبت کے تصورات بہت مختلف ہیں۔
’’وہ اور بیو بولتے نہیں۔ اس نے اب تک اس سے سیکھ لیا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ اس جانور پر مرکوز رکھے جس کو وہ مار رہے ہیں۔ اسے وہ چیز دے جس میں اسے اب اس کے مناسب نام سے پکارنے میں دشواری نہیں ہوتی: محبت۔‘‘ (جے، ایم، کوئٹزی، ڈسگریس)
’’محبت فرض تھی اور فرض محبت۔‘‘ (وکرم چندر، سیکرڈ گیمز)
اکتوبر2007ء میں عالم اسلام کے 138 ماہرینِ دینیات، بڑی شخصیات اور زعما نے ایک محضر پر دستخط کیے جس کا عنوان تھا: A Common Word Between Us and You (ہمارے اور آپ کے مابین ایک کلمۂ سواء) (1) اس یادداشت میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مسلمان اور مسیحی دونوں ”محبت کی مشترک قدر“ پر اتفاق رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ امن و سلامتی کے داعی ہیں۔ محبت کی اس قدر مشترک کے دو جزء ہیں: ایک خدا سے محبت اور دوسری پڑوسی سے محبت۔ اس کے بعد سے اب تک اس یادداشت پر مزید 256 لوگ دستخط کر چکے اور اس بیان کو منظور کر چکے ہیں۔
یہ مصالحانہ اقدام مسلمانوں کی جانب سے دراصل اس سخت بدمزگی کا جواب تھا جو مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین سولہویں پوپ بینیڈکٹ کے اس خطاب کے بعد پیدا ہوئی جو انہوں نے 12 ستمبر 2006ء کو دیا تھا جس میں انہوں نے اسلام پر ایک جارحانہ تبصرہ کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”غیر عاقلانہ کام کرنا خدا کے نیچرکے خلاف ہے“(2) انہوں نے دعوا کرتے ہوئے کہ مسیحیت نے اب تعقلی رویہ اختیار کر لیا ہے اس کا تقابل اسلام سے کیا اور اس کے لیے بطور حوالہ بازنطینی بادشاہ مینویل ثانی کا ایک فقرہ نقل کیا کہ: ”مجھے بتاؤ محمدﷺ کیا چیز نئی لے کر آئے؟ ظالمانہ اور غیر انسانی حکم کہ مذہب کو بزور شمشیر پھیلایا جائے کے علاوہ اسلام میں آپ کو کچھ نیا نہ ملے گا“(3) پوپ کے اس رمارک سے مسلمانوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے تھے۔ تو متذکرہ بالا مسلم بیان (The Common Word) پوپ کے اسی بیان کا جواب ہے۔ اِس بیان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں (Love) محبت کو اسلام اور مسیحیت کی ایک قدر مشترک کے طور پر لیا گیا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ”محبت“ اسلام اور مسیحیت دونوں میں یقیناً‌ ہے مگر دونوں میں علمیاتی طور پر وہ بالکل مختلف انداز میں فنکشن کرتی ہے۔ اگلی سطور میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔
مجھے دونوں مذاہب میں ایک غلط یکسانیت پیدا کرنے پر اعتراض یوں ہے کہ دونوں کے مابین ظاہری مشابہتوں پر نہ جا کر دونوں کی انفرادیت پر نظر رہنی چاہیے۔ اس جائزہ میں اسلام کی سیاسی دینیات یا دوسرے لفظوں میں اسلام میں محبت کی سیاسیات پر ہی ارتکاز رہے گا۔ دونوں مذاہب میں ”محبت“ کے تصور کا تقابل یہاں میں نہیں کروں گا۔(4)
چونکہ اسلام میں محبت کے مباحث کو پہچاننے اور سمجھنے کا مطلب ہے اسلام میں محبت کے نظام کے ان ظاہری آیپریٹس (ذہنی تصوراتی خاکے) کو سامنے لانا(5) جو کہ ایسا تصور ہے جسے مشیل فوکو نے وضع کیا اور بعد میں جارجیو اگامبین نے اس کو وسیع کیا۔ یہ آ پیریٹس ”مکمل طور پر ایک متضاد چیزوں کی تشکیل کا ڈسکورس ہے'' جس میں فوکو کے خیال میں فن تعمیر کی شکلیں، ضابطے، قوانین، سائنسی، اخلاقی اور فلسفیانہ تجاویز شامل ہوں گی۔(6)
(وضاحت: آپریٹس سے مراد ایسا ذہنی تصوراتی خاکہ ہے جو چند الفاظ و اصطلاحات سے مل کر اپنے زمانی و مکانی اور روایتی سیاق میں ایک خاص معنی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اسلامی روایت میں ”محبت کی آپریٹس“ سے وہ معنی مراد ہوں گے جن کا ارتقاء اسلامی کلامی و اخلاقی ادب کے دائرہ میں ہوا۔ لیکن عیسائی روایت کے سیاق میں یہی لفظ (Love) ایک مختلف معنی دے گا۔ یعنی سیاق بدل جائے تو ایک ہی لفظ اور ایک ہی اصطلاح دو بالکل مختلف معنی دے گی)
میں یہاں پیشگی طور پر دینیاتی رشتوں پر روشنی ڈالوں گا۔ اسلام کے مختلف اظہارات (سنی، شیعہ، اباضی، زیدی، اسماعیلی) میں اللہ تعالیٰ کو عموماً‌ رحمان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن رحمانیت اور محبت میں فرق ہے۔ کئی مصنفین مثلاً ایس ایچ نصر اور غازی بن محمد بن طلال رحمت و رحمانیت کو محبت سے جا ملاتے ہیں۔(7) تو بے پناہ رحمت محبت سے الگ کیسے ہے؟ رحمت اپنے آپ میں ایک مستقل صفت ہے جو اس عالم میں جاری و ساری ہے۔ اسلامی دینیات میں اِس عالم کا ظہور خدا کی صفت رحمت کا ہی ظہور ہے۔ اور اسلام کے سیاسی نظریہ میں یہ رحمت بندھی ہوئی ہے، اطاعت کے عہد سے محبت کے عہد سے نہیں۔ یہ واضح ہے کہ جدید احساسات میں اطاعت دقیانوسی ہو کر رہ گئی ہے۔ اور محبت کا مسیحی ڈسکورس ہی غالب ہے، یہاں تک کہ سیکولر ڈومین میں بھی۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محبت کے اسلامی تصورات کی روایت دب کر رہ گئی ہے۔ اس مشترکہ بیان میں جدید دور کی بین المذاہب مذاکرات کی سیاست کے چلتے روایت کی عطا کردہ مسلمہ موضوعیت کے مسلمہ اور ممتاز پہلووں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس میں کاسموپولیٹن ازم اور محبت پر مبنی بین المذاہب ہم آہنگی پر ابھارا جاتا ہے۔ مسلم علمی تاریخ میں جن تصورات کو بہت احتیاط و نزاکت سے برتا گیا ہے ان کو خلط ملط محض اس لیے کیا جا رہا ہے کہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ مسیحت کی طرح اسلام میں بھی ”محبت“ ایک بنیادی قدر ہے۔ مگر اسلامی روایت کی یہ کانٹ چھانٹ بہت خطرناک ہے۔(8)
ایک دوسرے لیول پر Love کی ایک خاص ترکیب مغرب کے سیاسی نظریات میں سرایت کر گئی ہے۔ جو غالباً یوروپ کے مسیحی کلچر اور تہذیب سے ماخوذ ہیں۔ اگمبین ان کو Apparatus یا ذہنی تصوراتی خاکے کا نام دیتا ہے۔ جن کے ذریعہ انسانوں پر زیادہ سے زیادہ تسلط جما لیا جاتا ہے۔(9) تو محبت کے بارے میں کوئی گفتگو جب دو روایتوں میں خلط ملط کر کے ہو جیسے کہ اسلامی و مسیحی روایتیں، تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ ایک روایت کو دوسری کا تابع بننا پڑے گا، اور جو زیادہ مضبوط و توانا ہو گی دوسری کو اس کے مطابق ڈھال دیا جائے گا۔ جو بڑے اور مضبوط وسائل والی ہو گی اس کا تسلط ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے کامن ورڈ لکھنے والوں نے بے شعوری میں اسلامی روایت کو مسیحی روایت کے تابع بنا ڈالا ہے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض ہے کہ محبت کے غالب تصور کو ”اگاپے“ سے تعبیر کیا جائے جو مسیحیت میں خدا سے بے لوث محبت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس طرح کی بے لوث و بے فائدہ محبت انسانوں میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ خدا کی رحمت سے ہی مل پاتی ہے۔ ”اگاپے“ کو اسلام کے تصور محبت سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا(10)۔ ”اگاپے“ ایک قسم کا مخصوص مسیحی تصورِ محبت ہے جس کی جڑیں حقیقی گناہ میں پائی جاتی ہیں اور جس کے لیے کفارہ کا تصور ہونا لازمی ہے جو اسلام میں ہے ہی نہیں۔(11) مقصد یہ ہے کہ دیانت، استناد اور تکثیریت کے علمیاتی اور جدلی فائدے ظاہر کیے جائیں اگر اس میں غفلت برتی گئی تو ایک نالج ٹریڈیشن ڈی گریڈ ہو جائے گی۔ اور اس سے انسانی تکثیریت کا نقصان ہو گا۔(12)

محبت، اختلاف اور منطقیت

اسلامی تعلیمات میں محبت کے مقام اور اس کے منطقی وصف کی "کامن ورڈ“ کے بیان سے مغایرت، اسلام کی کلاسیکل تعلیمات سے ہر واقف کار پر آشکارا ہے کہ جہاں قرآن (3:64) اہل کتاب یعنی یہود و نصاری اور مسلمانوں کو ایک کلمۂ جامعہ کی طرف بلاتا ہے وہاں اشتراک کی یہ دعوت ہر سہ فریق کے درمیان ایک مشترکہ قدر توحید اور کفر و شرک کی مخالفت پر مرکوز ہے۔ اور جگہوں پر جہاں بھی قرآن یا مختلف مسلم فرقوں کا علم کلام محبت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ ایک مختلف فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی اس پر کلام کرتا ہے۔ جو مذکورہ بالا کامن ورڈ سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر کامن ورڈ کا بیان اُس قدر مشترک کا حوالہ دیتا ہے جو خدا کی توحید، رسولوں کے اقرار اور خدا کی حاکمیت پر مبنی ہے۔ یہاں تک تو کامن ورڈ اور اسلام کی روایتی دینیات میں اتفاق و ہم آہنگی ہے۔ مگر آگے کامن ورڈ کے شارحین جو بات کر رہے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی کہتی ہے۔ اسلام میں ایمان مجمل کا ہر فقرہ، کامن ورڈ کے مطابق، ”خدا کی محبت و اخلاص“ کی ایک حالت کا بیان ہے۔ ان کی یہ وضاحت بظاہر بے ضرر سی ہے۔ مگر جب اُس کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وضاحت کائنات میں جاری و ساری محبت کے ایک پہلو کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے۔ جو کہ ایمان و عبادت دونوں کو محبت کا ہی ایک عمل سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ چیز اسلام کی بنیادی دینیات سے جوہری طور پر مختلف ہے۔
روایتی سطح پر اسلام ایک ایمانی روایت ہے۔ دین کا پہلا مطالبہ خدا کی اطاعت اور اس کے آگے سراَفگندگی ہے۔ دین اُن اعمال کو کہا جاتا ہے جو نجات کے حصول کے لیے ضروری ہیں کیونکہ دنیا دارالعمل اور دارالتکلیف ہے۔(13) اسلام کو ایک دین مان کر بندہ ایک ماورائی خدا کی فرماں برداری کا عہد کرتا ہے۔ اطاعت اور سراَفگندگی محبت کے مماثل نہیں، جیسا کہ میں آگے چل کر وضاحت کروں گا۔ کم ازکم عہد متوسط کے ماہرین دینیات تو یہی بتاتے ہیں کہ محبت خدا کی فرماں برداری کا ثمرہ ہونا چاہیے۔ جب اطاعت پائی گئی تو خدا سے محبت کا رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ خدا اور بندہ کے مابین حمد و ثنا کا تعلق خالق اور مخلوق کے رشتہ سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے اطاعت و فرماں برداری اور خود سپردگی ضرور ہونی چاہیے۔
اس کے برعکس مسیحیت میں محبت کی ایک خاص حساسیت پائی جاتی ہے جو مسیحی دینیات کے لیے بہت بنیادی ہے۔ ایچ جی ویلز ایک ناول نگار اور مؤرخ ہے متکلم نہیں۔ اُس نے عیسیٰ مسیح کو متفکرانہ انداز میں اِن لفظوں میں بیان کیا ہے: ”انہوں نے ایک نیا سادہ اور زبردست عقیدہ دیا یعنی ایک عالمگیر محبت کرنے والے باپ خدا کا اور اس کی آسمانی بادشاہت کے آنے کا۔“(14) خدا کا محبت کرنے والا باپ ہونا خدا کے تثلیثی تصور کا ایک جزء اور خدا کے مسلم تصور سے بہت دور ہے۔ اسلام خدا کے تثلیثی تصورات کی مخالفت کرتا ہے۔
آگسٹینین مسیحیت میں محبت کا مقام اور کردار ایک پیچیدہ و مختلف لاہوتی نظام اور امیجری کا حصہ ہے(15) جس کی اصلی بنیاد کفارہ میں پیوست ہے۔ اور جس میں قربانی کی ضرورت انسان کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ مسیح علیہ السلام کی صلیب والی قربانی محبت کی علامت ہے۔ یوں ”اپنے پڑوسی سے پیار کرو“ والا اور صلیب کے ذریعہ تلافی کرنے والا پیار مسیحیت کے تثلیثی دینیاتی نظام کا حصہ ہے۔ مسیحیت کا یہ رول غالب یوروپی مسیحی پس منظر اس کے سیاسی تثلیثی و دینیاتی مفروضوں اور ضرورتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ لیکن اسلام جیسی کسی روایت کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کو اس میں غالب اخلاقی اور فلسفیانہ نظریات کے سہارے بے شعوری طور پر ملایا جا رہا ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں ”مسیحی محبت“ کی وجودیات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر سکیں۔
خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ: اسلام کا اختلاف کیا ہے؟
کامن ورڈ کے مصنفین نے جس چیز سے صرف نظر کر لیا ہے یا اُسے بائی پاس کر گئے ہیں وہ ہے اسلام میں خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ۔ اسلام میں اس سے زیادہ اساسی اور جوہری اور کوئی چیز نہیں جتنی یہ ہے کہ خدا تمام مخلوقات کے لیے رحیم ہے۔ اسلام کا یہ وہ بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے جس پر اہل کلام اور فقہاء متصوفین (جو روحانی، فلسفیانہ اور فقہی دقائق کے ترجمان ہیں) سب وسیع طور پر متفق ہیں۔
اسلامی دینیات میں خدا کی دو صفات بطور خاص مستقل اور اہم ہیں۔ یہ ہیں: رحمان اور رحیم کی۔ رحمان جس نے رحمت اپنے اوپر واجب کر لی یا جس کی رحمت کے کوئی حدود نہیں۔ رحیم جس کی رحمت ہر چیز کو محیط ہو(16)۔ یہ بحث بھی موجود ہے کہ خدا کی صفات کا کوئی بھی بیان کیا ان کے معنی کی وسعتوں کا احاطہ کر سکتا ہے کیونکہ ہر صفت کے لیے استعمال کیا گیا لفظ مختلف معانی اور خصوصیتوں کو بتاتا ہے حالانکہ خدا کے ۹۹ نام (اسماء حسنی) ہیں۔ پھر بھی انسانی علم خدائی صفات کے کلی ادراک سے قاصر ہے (17) جیسا کہ فرمایا: ”اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی پھر بھی تیرے رب کے کلمات (صفات) ختم نہیں ہوں گے۔ قرآن (18:109)(18)۔ خدا کی یہ دو صفات خدا کے لیے مخصوص ہیں انہیں مخلوق کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جیسے بعض اور صفات کا معاملہ ہے مثلاً‌ قادر ہونا یا تخلیق کی صفات کو محدودیت کے ساتھ انسانوں کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔
علاوہ بریں دو اسماء صفات استثنائی ہیں اور دوسرے الفاظ ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان میں ایک ہے: اللہ جو عربی زبان میں اِس کائنات کے خالق و مالک کے لیے مختص ہے۔ دوسرا رحمان ہے یعنی انتہائی درجہ کا مہربان جس کی رحمت کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔ اِسے اللہ کا مترادف بھی مانا جا سکتا ہے۔(19) (جیسا کہ خود قرآن نے کہا ہے: ”کہو تم اُسے اللہ کہو یا رحمان کہہ کر پکارو، کیونکہ اسی کے ہیں سارے اسماء حسنیٰ (قرآن:۱۱۱) رحمانیت میں کوئی بھی مخلوق اُس کی شریک نہیں ہو سکتی۔ میں آگے وضاحت کروں گا کہ یہ لامحدود اور واجب رحمت ہی اصل میں تمام وجود کا سرچشمہ ہے۔ اسلام کے معروف فقیہ، متکلم و مفکر امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی ۱۱۱۱ء) اللہ کی صفات کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ رحمان اللہ کا مترادف ہے(20)۔ انہوں نے رحمان کی تشریح میں رحمت کی دو قسمیں کی ہیں: رحمت تامہ، اس میں اللہ تعالیٰ صالحین کی ضرورتوں کی دست گیری کرتے ہیں اور رحمت عامہ جو ساری مخلوقات (قطع نظر صالح و غیر صالح کے) کو عام ہے۔جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔(21) غزالی اِس میں مزید اضافہ کرتے ہیں:
”یوں تو الرحمان رحم سے مشتق ہے لیکن اُس کی یہ رحمت بندوں کی پہنچ سے باہر ہے، یہ رحمت اخروی سعادت سے متعلق ہے۔ تو الرحمان اولاً‌ تو وہ ہے جس نے تمام بندوں کو پیدا کر کے ان پر رحمت کی، دوسرے وہ جس نے ایمان کی راہ دکھائی، تیسرے آخری سعادت بخشی، چوتھے آخر میں خدا کا جلوہ دیکھنے کی عزت انہیں بخشی“۔(22)ِ
عبد الکریم الجیلی (متوفی 1408) ایک اہم صوفی مصنف ہیں۔ ان کی رائے میں رحمت وجود کے ہر ذرہ سے مترشح ہوتی ہے۔ اور جتنی بھی مخلوقات ہیں سب میں جاری و ساری ہے۔(23) دوسرے لفظوں میں تخلیق اور رحمت الٰہی لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام میں علم الاسماء والصفات یہ بتاتا ہے کہ رحمت ہی تمام تخلیق کی مقتضی ہوئی۔
امام محیی الدین ابن عربیؒ (متوفی 1240) تصوف کے نہایت دقیق النظر شارح ہیں وہ لکھتے ہیں:
”رحمت میں مبالغہ ہوتا ہے تو رحمت واجبہ اور رحمت امتنانیہ دو قسموں کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن فرماتاہے: ورحمتی وسعت کل شیئی (قرآن،7:156) کائنات کا وجود اسی رحمت امتننانیہ کا مظاہرہ ہے۔ جو لوگ عذاب کا شکار ہوں گے یہی رحمت ان کے ابدی مستقر میں سامان ِراحت بنے گی۔ فرائض کے بجا لانے سے رحمتِ واجبہ کا حصول ہوتا ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام سے کہا: خدا کی رحمت کی وجہ سے ہی تم اِن کے لیے نرم و مہربان ہو (3:159) اور فرمایا: ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے (قرآن:22:107) یہ سب رحمتِ امتنانیہ کی مثالیں ہیں۔ ساری کائنات اسی سے قائم ہے اور پھر یہ رحمت وسیع ہو گئی۔…………جو جانتے ہیں کہ دنیا کے وجود کا سبب کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے یہ چاہا کہ وہ جانا جائے تو اُس نے خلق کو پیدا کیا اور اپنے آپ کو اُن سے پہچنوایا انہوں نے اُسے پہچان لیا۔ اِس لیے ہر چیز اس کی حمد کرتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رحمت کا تعلق سب سے پہلے کس چیز سے ہوا“(24)
یہاں نوٹ کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہاں محبت کو نہیں بلکہ رحمت کو وہ صفتِ حاکمہ بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے دنیا میں ظہور فرمایا۔
(جاری)


حواشی و تعلیقات

(1) http://www.acommonword.com
(2) Pope Benedict XVI, "Faith, Reason and the University: Memories and Reflections", 706. https://familyofsites. bishopsconference.org.uk/wp-content/uploads/sites/8/2019/07/BXVI-2006-Regensburg-address.pdf
(3) Ibid.
(4) See Heydarpoor, "Love in Christianity and Islam: A Contribution to Religious Ethics".
(5) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge: Selected Interviews and Other Writings", 194; Giorgio Agamben, "What Is an Apparatus?".
(6) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge", 194.
(7) طلال،کتا ب کے مقدمہ میں ممتاز اسکالر ایس ایچ نصر دعوا کرتے ہیں کہ خدا نے اپنے آپ سے محبت کی: احببت۔ جبکہ روایت میں اصل بات یوں ہے: احببت ان اعبد (میں نے چاہا کہ میری عبادت کی جائے) (احببت ان اعرف کے الفاظ بھی بعض روایات میں آئے ہیں (مترجم)۔ اس کے علاوہ جہاں بھی رحمت کی اصطلاح آئی ہے مقدمہ نگار اس کو محبت سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔حالانکہ تصوف کے سب سے بڑے محقق شارحین مثلاً‌ ابن عربی بتاتے ہیں کہ خدا کی رحمت عامہ (رحمانیہ) ہی ہر وجود کا سبب ہے۔ نصر استدلال کرتے ہیں کہ رحمت و مہربانی میں محبت بھی شامل ہے۔ لیکن خدا کی صفات کو اس طرح ایک دوسرے سے بدلا جا سکتا ہو تو پھر اتنی ساری صفات کا ہونا بے معنی ہو جائے گا۔ ابن عربی کی تحریروں میں رحمت پر بحث کے لیے ملاحظہ کریں:  
Shaikh, SaÊdiyya, Sufi Narratives of Intimacy, 75-81
(8) کامن ورڈ کی زبان اور غازی بن محمد بن طلال کی کتاب میں بہت مشابہت ہے جس میں تجزیہ کی بڑی کمی ہے وہ بس مختلف ذرائع سے لیے گئے حوالوں کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔
(9) Agamben, "What Is an Apparatus?", 13.
(10) Nygren, "Agape and Eros", pt. 1. A study of the Christian idea of love.--pt. 2. The history of the Christian idea of love.
(11) Gandolfo, "The Power and Vulnerability of Love a Theological Anthropology", 178, 82. Gandolfo establishes how the theological anthropology of redemption is a product of original sin that creates vulnerability. Original sin as a doctrine is absent in Islam.
(12) Quijano, Coloniality of Power, Eurocentrism, and Latin America, 533-580; Mignolo, Decoloniality and Phenomenology, 360-387; "Foreword: On Pluriversality and Multipolarity".
(13) 
(14) Wells, The Outline of History: Being a Plain History of Life and Mankind, 529.
(15) Kant, Critique of Pure Reason, 584.
(16) Hamza, Rizvi, and Mayer, An Anthology of Qur'anic Commentaries, 299-302.
(17) Asad, The Message of the Quran, 27.
(18) See these various translations from which I have benefited. Ibid; Khalidi, The Qur'an.
(19) al-Azmeh, The Emergence of Islam in Late Antiquity: Allah and His People, 67, 89. Al-Azmeh observes the universalizing perspectives of monotheism and notes that Rhmnn was the proper name of the montheistic deity of Christians as well as of henotheistic and monolatric deities.
(20) al-Ghazali, المقصدالاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنیٰ 63; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنی Translated with Notes, 53.
(21) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 62; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God, 54.
(22) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 63.
(23) 1:88.عبدالکریم الجیلی، الانسان الکامل فی معرفۃ الاوائل والاواخر۔
(24) ابن العربی، الفتوحات المکیہ،  7:294-295 ،  باب 558- معرفۃ معانی اسماء اللہ الحسنی۔



مصنف ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کیوغ اسکول آف گلوبل افیئرز اینڈ ہسٹری ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں مرزا فیملی پروفیسر آف اسلامک تھاٹ اینڈمسلم سوسائٹیز ہیں۔
مترجم ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ادارہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ mohammad.ghitreef@gmail.com

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہ

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

اقبال نے جدید فلسفہ و سائنس پر جس علم الکلام کی بنیاد رکھی، اپنی دقت و پیچیدگی کی وجہ سے صرف خواص اہل علم کا ایک طبقہ ہی اس سے مستفید ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مزید دو اسباب کی بنا پر فکرِ اقبال کی توضیح زیادہ بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہو سکی: ایک تو اقبال کی شاعری کے سحر حلال نے عوام و خواص کو اس طرح مسحور کیا کہ ان کی توجہ ’’خطبات‘‘ کی طرف ملتفت نہ ہو سکی۔ دوسرے، ’’خطبات‘‘ میں اقبال کی ایسی تجدد پسندانہ آرا سامنے آئیں ،جو راسخ العقیدہ اسلامی فکر سے براہ راست طور پر متصادم تھیں اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست خود مولانا سید سلیمان ندوی تھے، جنہیں اقبال معاصر ہندوستانی علماء میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور جن سے اقبال کے علمی استفادے کا تعلق تادم آخر برقرار رہا۔ اقبال کے فکر و فلسفے کی بنیاد پر کلامی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے والوں میں سب سے اہم نام ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱۹۰۴ء۔۱۹۶۹ء) کا ہے۔

تعارف

ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بالترتیب فارسی اور عربی میں بی اے اور ایم اے کیا اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے ۔وہاں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۶۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ فلسفہ اور اسلام کے موضوع پر انہوں نے متعدد اہم کتابیں تصنیف کیں۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کی نظر میں علامہ اقبال کے بعد برصغیر ہند میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین ہی مسلمان فلسفی کہلانے کے مستحق ہیں(۱)۔ وہ فکر اقبال کے شیدائی اور حکمت اقبال کے خوشہ چیں تھے۔ بلکہ ان کے اپنے دعوی کے مطابق، ان کی فکر اسی سے ماخوذ اور اسی کی تشریح و توضیح پر مبنی ہے۔ انہوں نے بطور خاص اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر ایک نیا فلسفیانہ نظریہ تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اقبالیات پر ان کی کتاب "حکمت اقبال" اور اسلامی فکر و فلسفے کے حوالے سے ان کی کتابیں :Ideology of the Future اور " قرآن اور علم جدید" خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ ان دونوں میں انہوں نے خاص طور پر اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر فکر اسلامی کا نیا ڈھانچہ تیار کرنے یا بالفاظ دیگر اقبال کے تعمیر کردہ ڈھانچے پر نئی منزلیں اٹھانے کی کوشش کی اور اس نے اہل علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ اگرچہ ان کی فکری کاوش پر جس طرح گفتگو ہونی چاہیے تھی، وہ نہ ہو سکی۔

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا احساس ہے کہ مغرب کا مادی نظریہ ٔ حیات و کائنات دنیا کے تمام مذہبی نظامہائے فکر کے لیے ایک عظیم چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس نے مسیحیت سمیت دنیا کے مختلف مذاہب کی ما بعد الطبیعاتی فکر کے قالب کو بدل ڈالا ۔ اب وہ ایک عرصے سے اسلام پر یلغار کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے موجودہ اسلامی نسلوں میں ذہنی ارتداد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ موجودہ دنیا میں کفر نئے فلسفے کے لباس میں جلوہ گر ہو کر سامنے آیا ہے(۲)۔ اسلام کے تہذیبی انحطاط کی وجہ بھی مغرب کے یہی غلط فلسفیانہ تصورات ہیں ،جن سے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں ہی طبقہ یکساں طور پر متاثر ہے۔ جب کہ غلط طور پر اس کا اہم سبب بے عملی کو بتایا جاتا ہے ۔حالانکہ بے عملی اصلاً‌ اسلامی معتقدات پر یقین و اعتماد کے انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اسلامی نظریہ ٔحیات و کائنات میں فکری و عملی سطح پر مسلمانوں کے لیے کشش و جاذبیت اس لیے باقی نہیں رہی کہ موجودہ دور میں اس کی غلط تعبیر و تشریح کی گئی ۔دوسری طرف مغرب کے فلسفیانہ تصورات میں بھی یک گونہ حق و صداقت کا پہلو موجود ہے، جو ہمارے دامن فکر کو اپنی طرف کھینچتا رہا اور ہم اسلامی فکر میں اس کی گنجائش محسوس نہ کرتے ہوئے اس کے تئیں ایک حد تک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا رہے(۳)۔ مغربی فکر کی تنقید اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ علم بالوحی اور علم بالحواس کے صحیح اور متوازن کردار کی تعیین کے ساتھ ر ایک مستحکم فکری نظام تشکیل دینے کی کوشش نہ کی جائے۔
اس بنیادی احساس کے تحت ڈاکٹر رفیع الدین کا طریق فکر و عمل یہ ہے کہ جدید فلسفہ و سائنس کے احساس پر اٹھائی گئی مغرب کے مادی افکار کی عمارت کو اسی کے فکری تیشوں سے توڑنے کی کوشش کی جائے۔ تاہم دوسری طرف اس کے ان پہلوؤں سے مطابقت و ہم آہنگی کی راہیں بھی تلاش کی جائیں جن کی بنیاد پر اسلامی فکر کو ایک نئے قالب میں پیش کیا جا سکے ۔اسلامی فکر کا نیا قالب ان کی نظر میں دراصل وہی ہے جس کی تشکیل عصر حاضر میں اقبال کی فکر سے ہوئی۔ درحقیقت فکر اقبال کی خوبی بھی یہی تھی اور خامی بھی یہی کہ اس کے تشکیلی مادے میں مغرب کی مادی بنام سائنسی فکر کے وہ عناصر بھی شامل کیے گئے تھے جو اسلامی فکر کی ظاہری و باطنی ساخت اور روح کے مغائر تھے۔
محمد رفیع الدین مذہب کو ایک فلسفیانہ حقیقت کی شکل میں پیش کرنے کے اس لیے خواہاں نظر آتے ہیں کہ ان کی نظر میں وہ گہرے طور پر فلسفیانہ حقائق سے مربوط ہے ۔ایک معنی میں فارابی کی فکری کی پیروی کرتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ نبوت بجائے خود ایک فلسفہ ہے(۴)۔ گویا اسلام کی فکری قدروں کی تعیین و پیمائش کا ایک میزان فلسفہ بھی ہے جسے وہ "حکمت" سے تعبیر کرتے اور اس کا ماخذ قرآن کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ فلسفہ معروف معنوں میں وہ فلسفہ نہیں ہے جو یونانی اور مغربی کارگاہوں میں ڈھل کر اپنے الفاظ و تصورات کا ایک پیکر محسوس رکھتا ہے ۔ فلسفہ وہ عقلی کاوش ہے جو غلط مفروضات کی بنیاد پر غلط نتائج پیدا کرتا ہے لیکن اگر اس عقلی کاوش کے مفروضات و اساسات درست ہوں تو ان سے صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وحی اپنے اندر عقلی تسکین کا مکمل سامان نہیں رکھتی۔ اس لیے عقل چاہتی ہے کہ:
’’جن سوالات کے جواب خدا کی وحی پہلے ہی دے چکی ہے یہ ان سوالات کا کوئی ایسا جواب بھی ڈھونڈ نکالے جو اس کے اپنے لیے بھی مکمل طور پر تسکین بخش ہو‘‘(۵)۔
عقل کی اس غیر معمولی اہمیت کے اعتراف کے باوجود وہ اس کی نارسائی کے معترف ہیں اور یہ تصور رکھتے ہیں کہ حقیقت اعلی کا مکمل ادراک کسی بھی طور پر عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اس کے صرف جزوی ادراک پر ہی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل وجدان کے ذریعے ہوتی ہے ۔فلسفہ اور سائنس دونوں ہی اپنی فعلیت میں وجدان سے کام لیتے ہیں ۔گویا حقیقت تک رسائی کا عقل کے بعد دوسرا اہم انسانی ذریعہ وجدان ہے۔ تاہم عقل کی طرح وجدان کو بھی مغالطے لاحق ہوتے ہیں اور ان مغالطوں کی بنیاد پر جس تصور حیات کی تشکیل ہوتی ہے وہ انسان کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا دیتا ہے(۶)۔ وہ اپنی فلسفیانہ فکر میں وجدان کو وہی اہمیت دیتے نظر آتے ہیں جو فکر اقبال میں غالب و محسوس نظر آتی ہے۔
سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم و کشمکش کی بحث میں وہ اہل دانش کے اس طبقے کے ساتھ ہیں جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ سائنس کا علم بھی اقداریت سے خالی (valueless) نہیں ہے۔ سائنسی تحقیق پہلے سے طے شدہ کسی مفروضے اور اعتقادی اصول پر قائم ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں خالی الذہن اور معروضی ہوتا ہے۔ ہر سائنس داں اپنی سائنسی تحقیق کے پس پشت کچھ مفروضات (assumptions) رکھتا ہے، جو خود حقیقت کائنات کے کسی عقیدے سے ماخوذ ہوتے ہیں اور اس کی تحقیق کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں(۷)۔ اقبال نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن رفیع الدین اپنی مختلف تحریروں میں ایک اہم اصول اور کلیے کے طور پر اس کا اعادہ کرتے ہیں جس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ سائنس بجائے خود اپنا ایک عقیدہ رکھتی ہے اور اس معنی میں وہ خود ایک مذہب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ سید حسین نصر اور ضیاء الدین سردار جیسے معاصر مسلم مفکرین نے اب اس پہلو کو زیادہ واشگاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم پرویز ہود بھائی اور نضال قسوم جیسے دانشوروں کی ایک تعداد اس نقطہ ٔ نظر کی شدید ناقد ہے۔
رفیع الدین کی نگاہ میں اسلام کے تئیں علمائے اسلام کی طرف سے سب سے اہم ذمہ داری مغربی فلسفہ ٔ حیات و کائنات کے مقابلے میں ایک ایسے فلسفہ ٔ حیات و کائنات کو دنیائے علم میں متعارف کرانا ہے جس سے ایک طرف مغرب کے مادی فلسفوں کی اصولی تردید ہوتی ہو جب کہ دوسری طرف وہ اسلام کی فلسفیانہ روح کا صحیح ترجمان اور اس کے ابدی وغیر متبدل حقائق کا جامع ہو ۔اس فلسفے کے خد و خال پر انہوں نے اپنی مختلف کتب اور تحریروں میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، جس کو وہ "نصب العین" کے فلسفے کا نام دیتے ہیں(۸)۔ زیادہ تفصیل کے ساتھ انہوں نے اپنی کتاب ’’منشور اسلام ‘‘میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے(۹)۔ سوال یہ ہے کہ انسان کی وہ فطری قوت محرکہ کیا ہے جو اس کو کارگاہ حیات میں متحرک رکھتی ہے اور جس سے تمام تر اعمال و افعال کے چشمے پھوٹتے ہیں؟۔ مارکس، فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل جیسے مادیت پرست فلسفیوں کی نگاہ میں وہ بالترتیب انسان کی معاشی ضرورت، جنسی خواہش اور جبلی امنگ ہے۔ اصل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے غلط مطالعہ و تجزیے سے ان نظریات کو تشکیل دیا گیا ہے ۔انسان کی بنیادی قوت متحرکہ اصلاً‌ اس کا نصب العین اور اس سے محبت ہے۔ نصب العین سے محبت ہی انسانی فطرت کا تقاضا اور انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ بھی وہی ہے(۱۰)۔ جہاں تک اس نصب العین کے وجود و تشکیل کی بات ہے تو وہ دراصل خودی کی پیداوار ہے جسے وہ خود شعوری کا بھی نام دیتے ہیں۔ قدرت کے تمام تر مظاہر کا باعث یہی خودی یا خود شعوری ہے :
’’نصب العین کی محبت مادہ اور جبلت سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خودی کے ایک مرکزی اور دائمی وصف کے طور پر خود بخود موجود ہے ۔ انسان کی خودی خدا کی محبت کے شدید جذبے کی وجہ سے جو ایک پرزور عمل کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ،تخلیق و ارتقا کے ایک مسلسل دور سے گزر رہی ہے ‘‘(۱۱)۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’اگر انسان اپنے نصب العین یا آدرش کے اظہار سے صحیح طور پر واقف نہ ہو ،جس کی وجہ تعلیم نبوت و وحی سے دوری ہوتی ہے تو اس کا اظہار وہ غلط طریقے سے کرتا ہے۔ اپنا ایک غلط آئیڈیل منتخب کر کے اسی سے خدا کی صفات منسوب کرتا اور اس کو اپنا معبود تصور کر لیتا ہے‘‘ (۱۲)۔
اس طرح ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی فکر کے مطابق، اخلاق کا بنیادی پیمانہ انسان کا اپنا نصب العین ہے۔ نصب العین سے ہی کسی قوم کے اخلاقی افکار و محرکات تشکیل پاتے ہیں۔مغربی اخلاقیات کی اسی تناظر میں قدر پیمائی کرنی چاہیے۔ اقبال کے نظریہ ٔ خودی سے ماخوذ اس فلسفیانہ نظریے میں نصب العین کے تصور کا اضافہ انہوں نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ اقبال نے اس کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے تا ہم اس کو کوئی واضح اور مرکزی حیثیت نہیں دی ہے جو رفیع الدین کے فلسفے میں نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے فلسفے کا دوسرا اہم عنصر نظریہ ٔ ارتقا ہے، جس کو انہوں نے مختلف نئے پہلوؤں سے پیش کرنے اور اپنے نتائج فکر مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جدید مسلم دانش وروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ڈارون کے نظریہ ٔ ارتقا کو درست تصور کرتا ہے اور اس خیال کا حامی ہے کہ : "نوع انسانی نوع حیوانات کی اولاد ہے جو اپنے جسم، دماغ اور نظام عصبی کی ساخت میں انسان سے کم تر درجے کی تھی"(۱۳)۔ وہ اسے قرآنی نظریہ ٔ ارتقا کا نام دیتے ہیں: "حقیقت ارتقا دنیا کے علمی مسلمات میں سے ہے اور قرآن اس کی مخالفت نہیں کرتا ،بلکہ تائید کرتا ہے‘‘(۱۴)۔ البتہ وہ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے سبب ارتقا کے نظریے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہیں ،جس کے مطابق مادے کے اندر ارتقا کا سلسلہ بغیر کسی شعوری محرک اور عقلی تنظیم کے ابتدا سے جاری ہے ،جسے ڈارون کشمکش حیات، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح (survival of fittest) کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نظریہ ٔ ارتقا کا پہلا حصہ درست ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرا حصہ بھی درست ہو لیکن غلطی یہ ہوئی ہے کہ ان دونوں حصوں کو باہم مخلوط کر دیا گیا ہے۔ کائنات کا وجود و بقا سنت تدریج سے عبارت ہے اور انسان بھی اس سے مستثنی وجود نہیں ہے۔ مزید برآں انسان کے نوعی و جسمانی ارتقا کی طرح اس کا نفسیاتی ارتقا بھی ہوا ہے اور اس ارتقا کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مرحلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ انسان کی خود شعوری معراج کمال کو نہ پہنچ جائے۔ اسی کے ساتھ کائنات کی بھی تکمیل ہو جائے گی جو گویا بجائے خود نمو و ارتقا کے مرحلے میں ہے (۱۵)۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم ’’کن‘‘ (ہوجا) سے یہ مطلب اخذ کرنا غلط ہے کہ کائنات اس حکم کے تحت فورا وجود میں آگئی۔ اس آیت کا مطلب فقط اتنا ہے کہ کائنات خدا کے حکم سے وجود میں آئی ہے۔ اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ اس حکم کو تدریج پر محمول کیا جائے اور اس تصور تدریج میں یہ امر شامل ہے کہ کائنات کی تشکیل وجود کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آفرینش کائنات،تخلیق وہبوط آدم،زمین وآسمان اور پہاڑوں پر خدا کی طرف سے امانت پیش کیے جانے( الاحزاب:۷۲) جیسے اس سلسلے کے تمام واقعات کو انہوں نے مجاز و تمثیل پر محمول کیا ہے(۱۶)۔
وہ اپنے اس فلسفۂ ارتقا کے تناظر میں اسلام کے ما بعد الطبیعاتی تصورات کی تشریح و وضاحت کرتے ہیں۔ چناں چہ نبوت کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ انسان کے اندر خود شعوری کی محبت کمزور پڑ جاتی ہے جس کے بعد صحیح نصب العین کے ساتھ اس کے عملی تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں رہتی۔ ایسے میں اس مشکل مرحلے سے انسان کو نکالنے اور خود شعوری کی تربیت کے لیے نبی کا ظہور ہوتا ہے جس کی خود شعوری خدا کی خصوصی عنایت سے یکایک نقطہ ٔ کمال تک پہنچ جاتی ہے اور کائنات کی خود شعوری اس کی خود شعوری پر اس طرح حاوی ہو جاتی ہے کہ اس کے بیان یا کلام کے نفسیاتی اور جسمانی میکانیہ کو اپنے تصرف میں لے لیتی ہے۔ چونکہ کائنات کے ہر عمل پر ایک فرشتہ مقرر ہے۔ ایک فرشتہ اس قانون پر بھی مقرر ہے اور اسے ہی جبرئیل سے موسوم کیا جاتا ہے(۱۷)۔
کائنات اپنی تکمیل کی تگ و دو میں مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ پہلی تکمیل زندہ خلیہ کے وجود میں آنے اور دوسری تکمیل مکمل جسم انسانی کے وجود میں آنے سے ہوئی۔ جب کہ تیسرے مرحلے میں ارتقا کا عمل کامل نبی کے ظہور پر ختم ہوا اور اب چوتھی تکمیل جس کے لیے ارتقا کی قوتیں کام کر رہی ہیں، نوع بشر کا روحانی کمال ہوگا اور اس کی بنیاد تیسری تکمیل یعنی نبوت کاملہ ہوگی(۱۸)۔
اقبال کی طرح ان کی فکر کا محرک یہ خیال ہے کہ پوری اسلامی فکر کی تنظیم نو (reconstruction) کی ضرورت ہے تاہم یہ اہم بات ہے کہ بعض ان نقاط فکر پر جن کے حوالے سے اقبال کی فلسفیانہ فکر کو تنقیدات و اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا ہے ، انہوں نے نام لیے بغیر اقبال سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے نقطہ ٔ نظر کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔ چناں چہ ’’خطبات‘‘ کی ایک عبارت سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جیسے اقبال کو خود خدا کی ذات میں تغیر کا پہلو نظر آتا ہو۔ رفیع الدین پرزور طور پر اقبال کا نام لیے بغیر اس کا رد و ابطال کرتے ہیں(۱۹)۔ اسی طرح وہ اقبال کے اس نقطہ ٔ نظر کی تردید کرتے نظر آتے ہیں کہ انسان خدا کے ساتھ معاون فاعل بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اقبال پر شدید ترین تنقیدیں کی جاتی رہی ہیں(۲۰)۔

چند تنقیدی ملاحظات

رفیع الدین کی کلامی و فلسفیانہ فکر و منہج پر درج بالا گفتگو کا خلاصہ تین اہم نکات پر مشتمل ہے: 
۱۔ سائنسی فکر میں قطعیت کا دعوی غلط ہے۔
۲۔ مغرب کے تمام مادی فلسفوں کا ابطال ضروری ہے۔
۳۔ ان فلسفوں کے ابطال و تردید کے بعد ان سے صالح عناصر کا استخراج کرتے ہوئے ان سے اسلام کی فلسفیانہ فکر کی تشکیل و ترتیب کی جانی چاہیے، جس کے امتیازی خدوخال میں اسلامی نظریہ ٔ ارتقا اور نصب العین کا تصور شامل ہے۔
رفیع الدین کی فلسفیانہ فکر کا سب سے جاذب نظر پہلو مغربی فکر کے ساتھ اسلامی فکر کی پیوند کاری یا بالفاظ دیگر، اسلام اور مغرب کی جدید فلسفہ و سائنس سے مرکب مادی فکر کے درمیان تطبیق و ہم آہنگی سے عبارت ہے ۔ مغرب کی مادی و ملحدانہ فکر سے صالح عناصر کی تجرید کی کوشش اصولی طور پر اعتراض سے بالاتر ہے تا ہم اس کی سب سے بڑی مشکل وہی ہے جس پر سید حسین نصر جیسے دانش ور زور دیتے ہیں کہ مغربی جدیدیت پر مبنی فکر ایک مکمل پیکج کی حیثیت رکھتی ہے اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے۔ اس لیے یہ عمل ناممکن نہیں تو مشکل ترین اور بغایت پر خطر ہے ۔اس سے مذہبی فکر کی داخلی شناخت کے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔ اس نوع کا عمل ایک لحاظ سے ’اسلامک سوشلزم‘ اور ’اسلامک مارکسزم ‘جیسے رجحانات اور کوششوں کے مشابہ بن جاتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد عالم اسلام کے بعض حصوں میں ابھر کر سامنے آئیں(۲۱)۔ ڈاکٹر رفیع الدین کا نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ اگر فرائڈ کے نظریہ ٔ لاشعور جنس میں معمولی سی ترمیم کر دی جائے تو پھر یہ نظریہ ہمہ تن قرآن کے نظریہ ٔ فطرت کی تفسیر بن جائے گا(۲۲)۔ بایں طور کہ فرائڈ جس جذبے کو جنسی محبت قرار دیتا ہے اسے خدا کے ساتھ محبت میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہی عمل انہوں نے ڈاروینی نظریہ ٔ ارتقا کے حوالے سے بھی کیا ہے جس کا ذکر اوپر آیا۔ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے اسلامی فکر کے ساتھ اس کی مطابقت کی کوشش کی ہے۔ مزید برآں فکر اسلامی کی تجدید کی بحث میں اسے ایک اصولی اور اساسی حیثیت دیتے ہوئے اپنے افکار مرتب کیے ہیں۔ لیکن اس اہمیت کے باوجود نظریہ ٔ ارتقا پر مذہبی غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے سوالات و تنقیدات کا کوئی علمی جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ حالاں کہ اس موضوع کا تقاضا تھا کہ اس نظریے کے مؤیدین و معارضین کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنے منتخب کردہ موقف کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے اگر مقدمہ ہی طے شدہ نہ ہو بحث کے مشمولات قابل اعتنا نہیں ٹھہرتے۔
تاویل نصوص کے حوالے سے ان کے رجحان پر بھی نو معتزلیت کی چھاپ نظر آتی ہے۔ لگتا ہے جیسے ان کی فکر بھی اس حوالے سے سرسید کی تاویلی فکر کے اثرات سے خالی نہ ہو۔ مزید برآں، جس طرح اپنے فلسفیانہ افکار کی تائید و توثیق میں وہ قرآن سے استشہاد کرتے ہیں، اس سے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی سادہ لوح اصحاب علم کی طرح یہ تصور رکھتے ہوں کہ قرآن تمام علوم کا ماخذ ہے(۲۳)۔ مطلب یہ کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلامی عقلیات اور فلسفے کی تشکیل میں یہ ضروری تصور کیا جائے کہ قرآن سے لامحالہ اس کی تائید ہوتی ہو۔ اس سے قرآن کی ما بعد الطبیعی حیثیت مستحکم ہونے کے بجائے بظاہر کمزور ہوتی ہے کہ قرآن کے مشمولات و ہدایات میں وہ چیزیں بھی فرض کی جائیں جو اس کے مقاصد میں شامل نہیں ہیں۔ فکر مغرب کے رد میں خاص طور پر ۱۹ویں صدی کے اواخر سے اسلامی فکری حلقات و شخصیات کی طرف سے جو مختلف النوع رد عمل آنا شروع ہوئے، اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ مغرب کی آئیڈیالوجی کا اسلامی آئیڈیالوجی سے تقابل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالاں کہ درست موقف وہی ہے جس کا اظہار حسین نصر نے کیا ہے کہ روایت پسندی پر مبنی (traditionalist) اسلام کی روح، اسلام کو ایک آئیڈیالوجی کی شکل میں قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔ جب روایت پسندی پر مبنی یا راسخ العقیدہ اسلام جدید دنیا کے آگے گھٹنے ٹیک دے تو پھر مذہب کو آئیڈیالوجی کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے (۲۴)۔
رفیع الدین کے منہج فکر کا ایک انفرادی پہلو اس کے لب و لہجے کی ادعائیت ہے جو بسا اوقات ان کے فلسفیانہ تفکر کو شاعرانہ تعلی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ Ideologies of Future میں لکھتے ہیں کہ ان کی فکر سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، تاریخ، قانون، تعلیم اور انفرادی و اجتماعی نفسیات کے فلسفے کی تنظیم نو کرتی ہے اور اس حوالے سے ایسے پہلوؤں کو زیر بحث لاتی ہے جن کی دوسرے فلسفیوں کو ہوا تک نہیں لگی(۲۵)۔ وہ اپنی فکر کو اہل علم کے رو برو برائے بحث و تنقید پیش نہیں کرتے بلکہ وہ اسے اس "داعیانہ ایقان" کے ساتھ پیش کرتے ہیں جیسے دوسروں کے پاس اس "اتمام حجت" کے بعد اسے اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ٔ کار نہ بچا ہو ۔اس ’’فکری نرگسیت‘‘ سے ان کے مرشد اقبال کا ذہن خالی تھا جو سمجھتے تھے کہ ان کی فکر میں کوئی قطعیت نہیں ہے اور نہ ہی ایسی فکر کے لیے اس امکان کو قبول کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال رفیع الدین کی فکر کو جدید علم کلام کے مباحث میں ایک نئے اور فکر ساز رجحان کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ رجحان جدیدیت اور روایت دونوں کا امتزاجی پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نہ وہ نہ تو جدیدیت پسندوں کی طرح اسلام کی بنیادی اور مابعد الطبیعاتی فکر کی نئی تشکیل یا تاویل کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ روایت کو عام روایت پسندوں کی مانند اس طرح جامد تصور کرتے ہیں کہ اس میں نئے افکار و نظریات کی قلمیں نہ لگائی جاسکیں۔

حواشی و مراجع

(۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، لاہور: ڈاکٹر رفیع الدین فاؤنڈیشن،۲۰۱۶ص،۴
(۲) قرآن اور علم جدید، ص،۳۴
(۳) ایضا، ص،۱۳۔۱۴
(۴) ایضا،۷۵
(۵) ڈاکٹر محمد رفیع الدین: اسلامی تحقیق کا مفہوم ،مدعا اور طریقہ کار۔ لاہور: دارالاشاعت الاسلامیہ۔ ۱۹۶۹. ص، ۱۴
(۶) قرآن اور علم جدید، ص،۶۶
(۷) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، اسلام اور سائنس ص،۳۔ اقبال اکادمی ،کراچی: پاکستان، ۱۹۶۵
(۸) قرآن اور علم جدید، ۲۰۔۲۲
(۹) ڈاکٹر محمد رفیع الدین ،منشور اسلام، (ترجمہ اردو ڈاکٹر ابصار احمد) لاہور: مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، ۱۹۹۴، دیکھیے، صفحات، ۱۸۔۶۱
(۱۰) قرآن اور علم جدید،۲۰
(۱۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان ،مقالہ در مجلہ اقبال ریویو،لاہور: اقبال اکادمی، جنوری،۱۹۶۱ص، ۸۶۔۸۸
(۱۲) قرآن اور علم جدید،ص،۲۴۴
(۱۳) ایضا، ص، ۱۴۲
(۱۴) ایضا،ص، ۱۱۰
(۱۵) ایضا،ص، ۲۵۸
(۱۶) ایضا،ص،۱۸۴
(۱۷) ایضا ،ص، ۲۹۹
(۱۸) ایضا، ص، ۳۰۲۔۳۰۳
(۱۹) قرآن اور علم جدید،۳۰۴
(۲۰) ایضا،۳۱۴
(۲۱) Seyyed Hossein Nasr, Traditional Islam in the Modern World, New York: Harper One, 2010,p.35
(۲۲) قرآن اور علم جدید ۳۳۲
(۲۳) علامہ انور شاہ کشمیری نے اس نقطہ ٔ نظر پر شدید تنقید کی ہے کہ قرآن میں سب کچھ پایا جاتا ہے۔ دیکھیے، مولانا انظر شاہ مسعودی کشمیری، تصویر انور، دیوبند: معہد الانور،۱۴۲۵ھ ص،۲۷۵۔۲۷۶
(۲۴) Traditional Islam in the Modern World, Prologue, p.12
(۲۵) Dr Muhammad Rafiuddin, Ideologies of Future, Lahore: Dr Muhammad Rafiuddin Foundation, 2008, p. xii

مولانا در محمد پنہور ؒ: تعارفِ حیات و خدمات

مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی


سندھ مردم خیز بھی ہے تو زر خیز بھی۔ سر زمین سندھ میں ہر دور میں بڑے بڑے علماء پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انہی علماء میں مولانا در محمد پنہور رحہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ بیک وقت مدرس، مفتی، مصنف حق گو اور فی البدیہ شاعر بھی تھے۔

نام و نسب

 مولانا در محمد پنہور بن حاجی امام بخش پنہور 1903ء سڈر عالیوال تحصیل میہڑ ضلع دادو میں پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت

 آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے گوٹھ کے مکتب سے حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے حصول کے لئے اس وقت کے جید عالم دین حضرت مولانا الاہی بخش ایری کے ہاں گوٹھ بانہوں لاکھیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جہاں پر ابتدائی کتب اردو، فارسی اور صرف وغیرہ پڑھنے کے بعد باقی مکمل علم وقت کے درویش صفت، عالم ربانی حضرت مولانا عبد الکریم ڈیرو کے پڑھ کر مکمل عالم دین بن گئے۔ مولانا عبد الکریم ڈیرو اس وقت گوٹھ گاہی مہیسر مہیڑ کے قریب مہیسروں کے قائم کردہ دینی درسگاہ تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ مولانا در محمد پنہور رحہ نے 1351 ہجری میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں گوٹھ سڈر عالیوال تحصیل میہڑ مدرسہ عربیہ فیض الکریم کے نام سے دینی درسگاہ کا آغاز کیا۔ دس سال تک اسی گاؤں میں قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے، حضرت مولانا عبد الکریم ڈیرو رحہ نے گاہی مہیسر کے مدرسہ کو الوداع کہ کر سید علی اکبر شاہ کے قائم کردہ عظیم الشان دینی درسگاہ دار القرآن میہڑ میں میں آئے تو مولانا در محمد پنہور رحہ بھی اپنے استاد کے حکم پر مدرسہ عربیہ فیض سڈر عالیوال چھوڑ کر 18 ذوالقعد 1361 ہجری گوٹھ گاہی مہیسر میں تعلیمی اور تدریسی خدمات سر انجام دینے لگے۔
1947ء سیلاب کی وجہ سے مولانا در محمد پنہور رحہ اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ سڈر عالیوال سے ہجرت فرما کر گوٹھ گرکن تحصیل میہڑ میں مستقل طور پر سکونت اختیار کی۔ مولانا در محمد پنہور رحہ گوٹھ گاہی مہیسر میں تقریباً گیارہ سال مسلسل پڑھانے کے بعد 16 ذوالقعد 1374 ہجری میں مدرسہ دار القرآن میہڑ میں مدرس مقرر ہوئے، جب استاذ القراء حضرت قاری محمد مدنی دیروی رحہ نے میہڑ میں مدرسہ عربیہ دار القرآن کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔ مولانا در محمد پنہور رحہ بھی وہیں پر ابتدائی اور بنیادی استاد مقرر ہوئے۔
1380 ہجری میہڑ کو چھوڑ کر گوٹھ گرکن میں اپنے استاد صاحب کے نام سے مدرسہ فیض الکریم قائم کیا۔
1380 ہجری میں حاجی رسول بخش ڈیرو کی کوشش سے ان کے قائم کردہ دینی ادارے مدرسہ عربیہ محمدیہ فرید آباد میں بطور استاد مقرر ہوئے۔ چار سال مسلسل فرید آباد پڑھانے کے بعد ایک سال مدرسہ عربیہ دار القرآن میہڑ میں تعلیمی خدمات سر انجام دینے لگے۔ 1395 ہجری میں سفر روانہ ہوئے، حج کی سعادت حاصل کرنے کے وطن واپس ہوئے۔ لیکن طبع ناساز ہوئی مختصر علالت کے بعد 4 شوال المکرم 1396 ہجری مطابق 1974ء کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ اور کاچھو کے مشہور قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کی وفات حسرت آیات پر سندھ کے مشہور ادیب اور شاعر حضرت مولانا عبد القیوم المعروف جوہر بروہی صاحب نے فارسی میں تاریخی مرثیہ لکھا ہے
وقت عالم دین در محمد ناگہان
ایں چنیں بر خاست غوغا شہر گرکن شد یتیم
چوں تاریخ کردم گفت ہاتف ایں چنیں
در محمد بود اوہم عالم فیض الکریم
(1396 ہجری)
حضرت مولانا در محمد پنہور رحہ اپنے دور کے مایہ ناز مدرس، مقرر اور اہل علاقہ کے نامور مفتی تھے۔ حضرت کی فتاویٰ کا مجموعہ ان کی اولاد کے ہاں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت کی صرف کی بیاض قلمی صورت میں بنام امداد الصرف اور نحو میں ہدایۃ المنظور بھی ہے اس کے علاوہ حضرت کی تمام اولاد اہل علم ہے۔

باقیات الصالحات

(1) مولانا محمد علی پنہور رحہ۔ اپنے والد گرامی سے علم حاصل کرنے کے بعد مختلف دینی مدارس میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ جیسا کہ مدرسہ عربیہ دار القرآن میہڑ، جامعہ مدینة العلوم بھینڈو شریف، اور عثمان شاہ کی ہڑی اور میر پور خاص میں پڑھانے کے بعد ٹنڈو جام میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سکونت اختیار کی۔ وہیں پر ایک دینی درسگاہ قائم کیا۔ جو کہ آج بھی جاری ہے۔ ان کے فرزند مولانا حسین احمد پنہور چلا رہے ہیں۔ مولانا محمد علی مختصر علالت کے بعد ٹنڈو جام میں وفات کی۔
(2) مولانا محمد منظور پنہور۔
(3) مولانا حافظ محمد مسعود پنہور میہڑ میں مدرسہ فیض القرآن و الحدیث کے مہتمم ہیں۔
(4) مولانا محمد منیر پنہور جامعہ محمدیہ فیض القرآن والحدیث میرو خان کے مہتمم ہیں۔
(5) مولانا محمد مختیار پنہور
(6) حافظ محمد شفیق پنہور
(7) محمد سعد پنہور
حضرت مولانا در محمد پنہور رحہ کے تلامذہ بھی بے شمار ہیں ۔ جو کہ مختلف علاقوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
مولانا عبد اللہ ورنا نال بلوچستان، مولانا الاہی بخش بلوچستانی حال نصیر آباد، حافظ محمد صادق شیخ رحہ نصیر آبادی، مولانا محمد ابراہیم چھٹو رحہ کرخ بلوچستان، مولانا حافظ ابوبکر رند حال کوٹری ضلع جامشورو، مولانا عبد الرحیم ساسولی پارکو بلوچستان، مولانا سیف اللہ چانڈیو، مولانا محمد رفیق قلندرانی خضدار، مولانا خدا بخش خاکی بلوچستان، مولانا محمد نال والے شامل ہیں۔
(مولانا جوہر بروہی کے سندھی مضمون سے اقتباس ماہنامہ الفاروق سندھی کراچی ربیع الثانی 1428 ہجری مطابق مئی 2007ء صفحہ 24)

_________________
مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی
ڈائریکٹر مولانا عبیداللہ سندھی اکیڈمی 
راجو گوٹھ تحصیل لکھی غلام شاہ ضلع شکارپور سندھ

أدھم شرقاوی کی تصنیف ’’رسائل من القرآن‘‘ سے منتخب رسائل

ادھم شرقاوی

مترجم : مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

’’رسائل من القرآن‘‘ ادہم الشر قاوی کی تصنیف ہے جو کہ فلسطینی مصنف ہیں، لبنان کے شہر صور میں پیدا ہوئے، جامعہ لبنانیہ سے عربی ادب میں ایم فل کی سند حاصل کی ہے، مزید یہ کہ وہ اب تک 25 کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ کتائب القسام کے مجاہدین نے 27 رمضان المبارک کو کمین الابرار یا کمین الزنہ میں دشمن کو ہدف نے بنانے کا منصوبہ بنانے کی ویڈیو نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ جائے نماز پر مجاہدین موجود ہیں اور اس پر دشمن کو نشانہ بنانے کا نقشہ بنا رہے ہیں، ہاتھ میں مسواک اور قلم اور ساتھ ایک کتاب موجود ہے جس کا نام رسائل من القرآن ہے۔
اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن حکیم کی ایک آیت ذکر کرنے کے بعد قاری کتاب کو عمدہ اسلوب کے ساتھ اس امر کی تعلیم دی گئی ہے کہ ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہونے کے بجائے، نعمتوں میں قلت کا شکوہ کیے بغیر، اپنے وسائل کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی کی اس گاڑی کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھیں۔ اس میں اتنی جاذبیت ہے کہ اس کو پڑھنے والا شخص اپنے مصائب و مشاکل پر صبر کرنے کا عزم کر لیتا ہے، اپنے مقصدِ زندگی کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو جاتا ہے۔
صاحبِ کتاب سے جب سوال کیا گیا کہ کتائب القسام کے مجاہدین نے اس کتاب کی تشہیر کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا، مجاہدینِ غزہ صاحبِ فراست ہیں، ان کا ہر عمل عالمِ اسلام و باضمیر لوگوں کے لیے نصیحت کا سبب بن رہا ہے، انہوں نے اہلِ غزہ کو یہ پیغام دیا کہ جنگ کی طوالت کے باوجود ہم نے قرآن ہی سے اپنا رشتہ جوڑے رکھنا ہے، اور پورے عالم کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا ہر عمل قرآن ہی کے سائے میں کیا جا رہا ہے۔
اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر راقم الحروف نے ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا ہے، تاکہ اردو دان طبقہ بھی اس عظیم الشان کتاب سے مستفید ہو سکے، جو اپنے اندر امید کی بہاریں لیے ہوئی ہے۔ ذیل میں کتاب کے آغاز سے چند صفحات جبکہ کچھ درمیان سے صفحات کا انتخاب کر کے ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
(۱) اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ
یہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے انہی کے راستے پر چلو۔
اے اللہ! جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہے، میں اس کی ادائیگی سے قاصر ہوں، حضرت داؤدؑ کی طرح روزوں کی پابندی کرنے سے عاجز ہوں، میں صبرِ ایوبؑ کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا،
اور نہ ہی حضرت یونسؑ کی طرح تسبیح و تعریف کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی حضرت یحیٰی کی طرح اپنے دین کو تھامنے کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی غصِ بصر کے اس معیار تک پہنچ سکتا ہوں جس طرح حضرت یوسفؑ نے اس کا حق ادا کیا ہے، اور نہ ہی اتنا بڑا دل رکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرح اپنے دشمنوں سے کہوں کہ تم آزاد ہوچکے ہو، لیکن ان کی طرح میں بھی تیری محبت کا (اظہار / دعویٰ) کرتا ہوں۔
(۲) ورسلا قد قصصنٰھم علیک
اگر عامۃ الناس تیری قدر قیمت سے نا آشنا ہیں تو تجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اس لیے اللہ تیری قدر و منزلت سے خوب آگاہ ہے۔ 
حضرت نوحؑ کے میزان میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم ان کو جانتے ہیں، اور نہ ہی ان کے بارے میں ہماری عدمِ آگاہی سے ان کی شان میں کوئی کمی واقع ہوگی۔ 
ہارون رشید کی فوج میں 20 ہزار مجاہدین نے اپنے نام اس لیے درج نہیں کروائے اور نہ ہی معاوضہ وصول کرتے تھے تاکہ ان کا عمل خالصۃ اللہ ہی کے لیے ہو۔ 
سائب بن اقوع نے حضرت عمرؓ کو تھاوند میں مسلمانوں کی شہادت کی اطلاع دی، لوگوں کے سامنے ان کی قیادت اور معروف شخصیات کے اسما گرامی پیش کرنے کے بعد کہا گیا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں کوئی نہیں جانتا۔ (یہ جملہ سن کر) حضرت عمرؓ رونے لگے اور کہا، ان کی پیش کی گئی خدمات پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ان کو نہیں پہچانتا، لیکن اللہ رب العالمین ان سے خوب واقف ہے۔
(۳) ان الحسنات یذھبن السیئات
جب تم سے گناہ سرزد ہو تو اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہیے کہ میں معرکہ میں تو شکست کھا لی ہے، لیکن جنگ کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔ لہٰذا مایوسی کے قریب آئے بغیر وضو کا عمل کیجیے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھیں، اس کے بعد اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے سے مغفرت طلب کیجیے۔ اپنی آنکھوں کی پاکیزگی کے لیے دیکھ کر قرآن حکیم کی تلاوت کیجیے، اطاعت گزار بندوں کی مانند اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اپنے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ غفور ہے تاکہ انسان اس کا دامن تھامے رکھے۔
(۴) بل الانسان علیٰ نفسہ بصیرۃ
اگر ان اوصاف پر تیری مدح سرائی کی جائے جو تجھ میں موجود نہ ہوں تو اس کا ہرگز آپ کو فائدہ نہیں ہوگا۔ اور اگر تیری ان کمزوریوں پر مذمت کی جائے جو تجھ میں نہیں ہے تو ناقدین کی تنقید تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ اور جب انسان خیر کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کو ناپسند کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ انبیاء کرام کو بھی اس سے استثنا حاصل نہیں رہا۔ اور جب کوئی انسان فسق و فجور کی طرف بلاتا ہے تو معاشرے میں ایسے لوگوں کے بھی چاہنے والے موجود ہوتے ہیں، جس طرح فرعون و نمرود کو چاہنے والے تھے۔
مطرف بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام مالکؒ نے پوچھا کہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں نے کہا، آپ کے دوست آپ کے حق میں ہے، اور آپ کو ناپسند کرنے والے آپ کے حوالے سے اپنا غصہ نکالنے میں لگے رہتے ہیں۔ امام مالکؒ نے فرمایا، اچھا ہے لوگوں میں یہ روش ابھی بھی برقرار ہے، ہم اس امر سے پناہ چاہتے ہیں تمام لوگوں کی زبان ہمارے حق میں یا مخالفت میں یکجا ہو جائے۔
(۵) واٰتاکم من کل ما سألتموہ
وہ اللہ رب العالمین ہی کی ذات ہے جو انسانوں کو خوف سے نجات دیتی ہے، جو لاچار اور کمزور ہیں ان کو ہمت عطا فرماتا ہے، جو اس سے مدد کے طالب ہیں وہ ان کی نصرت کرتا ہے۔ جو غموں کو مداوا کرتا ہے، وہ اس شخص کو راہِ مستقیم دکھاتا ہے جو اس کا طالب ہو۔ اس لیے رات کے آخری پہر میں ۔۔ اس وقت دعاؤں کو رد نہیں کیا جاتا۔ اس بات پر یقین رکھو کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ یہ انعامات حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ تمہارا طعام حلال ہو، اسی امر کی طرف حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حلال رزق کی بدولت اللہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔
(۶) عسیٰ ربنا ان یبدلنا خیرا منھا
اس آیت کے توسط سے اپنی ان حسرتوں کی آگ کو بوجھاؤ جو ابھی حاصل نہیں ہو سکیں یا ان کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح زندگی میں جو مختلف مصائب و مشاکل آئی ہیں، یا آپ کے قریبی دوست نے آدھے راستے میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ آیت ان دکھوں کا مداوا بنتی ہے۔ اس لیے اللہ اپنی حکمت سے ہی بندے کو دیتا ہے اور لے بھی لیتا ہے۔ جو کچھ تیرے پاس ہے وہ اس کی رحمت ہے، اگر اس کی حکمت کا علم ہو جائے تو اس کا شکر بجا لاؤ، بصورتِ دیگر صبر کا دامن تھامے رکھو۔ کیونکہ اللہ کے فیصلوں میں خیر ہی ہوتی ہے اگرچہ عارضی طور پر اس سے آپ کو تکلیف ہو۔
(۷) وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین
حضرت آدمؑ وحوا کو اس امر کا علم نہ تھا کہ کوئی شخص جھوٹی قسم کے ذریعے ان کو جنت میں ہمیشگی پر آمادہ کر دے گا، لیکن ابلیس نے یہ کام کر دکھایا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ وہ برائیوں کو پرکشش بنانے کے لیے ان کے نام تبدیل کرتا رہتا ہے۔ جس طرح اس نے حضرت آدم و حوا کو ممنوعہ درخت کے پاس جانے کو جنت میں مستقل اقامت کی نوید سنائی۔
ہوشیار رہو! آج بھی شیطان اور اس کے ساتھیوں کا یہی طریقۂ واردات ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ شراب نوشی روح کی غذا ہے، برہنگی ایک فیشن ہے، زنا میں کشادگی ہے، اس لیے بیدار رہیے کہ کہیں شیطان تمہیں پرکشش ناموں سے راہِ راست سے نہ پھسلا دے۔
(۸) وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السماوات والارض اعدت للمتقین
مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے آپس میں مقابلہ کرو اس لیے کہ موت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ انسان یہ کہتا رہتا ہے کہ میں کل توبہ کر لوں گا، کل سے پڑھنے کی ترتیب بنا لوں گا، لیکن جیسے ہی کل آتی ہے تو انسان اپنے گزشتہ کیے گئے ارادوں کو عمل میں ڈھالنے سے قاصر رہتا ہے۔ لمبی امیدوں کی بدولت ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موت آنے میں ابھی کافی وقت ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، اس لیے کہ موت کی آمد میں کوئی شئی حائل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے خیر کے کاموں میں مسابقت کرو۔
حضرت صنابحیؒ فرماتے ہیں کہ ہم یمن سے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو خبر دی گئی کہ آپ ﷺ پانچ دن قبل رحلت فرما چکے ہیں۔ پانچ دن کی تاخیر نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے محروم کر دیا۔ لہٰذا بھلائی کے امور میں مسابقت کو اپنے وطیرہ بنا لو، ایسا نہ ہو کہ سستی و غفلت تمہیں جنت سے محروم کر دے۔
(۹) ولا یجرمنکم شنان قوم علیٰ الا تعدلوا
بغیر مشروط محبت و بغض ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کو ان دونوں صورتوں سے سابقہ پیش آیا۔ ان کے بھائیوں نے حسد کی بنا پر ان کو کنویں میں پھینک دیا، اور ملکہ مصر کی ان سے انتہا درجے کی محبت سیدنا یوسفؑ کے جیل جانے کا سبب بنی۔ 
کبھی کبھی ہم اپنے دلوں میں پیدا ہونے خیالات پر عمل کرنے کے حوالے سے بے باک ہو جاتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مسلم کسی کی پسند و ناپسند میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ تمہاری کسی سے بے جا محبت محبوب کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب نہ بن پائے۔ اور نہ کسی سے انتہا درجے کی نفرت اس فرد کی اچھائیوں کو برائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب بنے۔ عادل رہتے ہوئے ہر شئی کو اس کے مقام پر رکھیے۔
عبد اللہ بن محمد الوراقؒ فرماتے ہیں کہ ہم امام محمدؒ کے پاس گئے، انہوں نے ہم سے پوچھا، تم کہاں سے آرہے ہو؟ ہم نے جواب دیا، ابی کریبؒ کی مجلس سے۔ امام محمدؒ نے کہا، ان سے روایات لے کر تحریراً محفوظ کر لو اس لیے کہ وہ نیک بندے ہیں۔ ہم نے تعجب سے کہا کہ وہ تو آپ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ امام محمدؒ نے فرمایا، وہ اللہ کے نیک بندے ہیں، میرے بارے میں انہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
(۱۰) ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملھم قلت لا اجد ما احملکم علیہ تولوا واعینھم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون
غزوہ تبوک کے موقع پر ابولیلیؓ اور عبد اللہ بن مغفلؓ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور سواری کا مطالبہ کیا تاکہ اس پر جہاد میں شامل ہوا جا سکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، سواری تو دستیاب نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر اس حال میں واپس پلٹ رہے تھے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں۔ یہ صحابہ کرامؓ کی ایمانی کیفیت تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے عدمِ شرکت پر غم کی حالت میں آنسو سے تر آنکھوں کو رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے پلٹ رہے تھے، ذرا سوچو! معصیت کے کاموں سے رکنے میں کیسے فولادی قوت کے حامل ہوں گے۔
(۱۱) ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم
اللہ رب العالمین بہت سی ان صفات کو اپنے بندے کی شخصیت میں دیکھنا چاہتا ہے جو اسے بھی محبوب ہیں۔ ان میں ایک عفو درگزر بھی ہے۔ اس کو وہ بندے زیادہ محبوب ہیں جو اس کو عفو و درگزر کے حامل ہوں۔ 
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے یومیہ مالی صدقہ دینے کی ترغیب دی، یہ سن کر ایک صحابی حضرت علبہؓ بن زید جو مالی صدقہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے (لیکن رسول اللہ ﷺ کی ہدایت پر عمل کرنے کا جذبہ دیکھیے) وہ آپ ﷺ کی مجلس میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ آج سے میں اپنی عزت کو بطور صدقہ پیش کرتا ہوں۔ یعنی جو شخص بھی مجھ پر ظلم کرے گا میں اس کو معاف کر دوں گا۔ 
دوسرے روز رسول اللہ ﷺ نے حضرت علبہؓ بن زید کے بارے میں معلوم کیا۔ آپؓ نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ میں یہاں ہوں۔ آپ ﷺ نے ان کو بشارت سناتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔
(۱۲) قال یا بنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک
انسانی تاریخ میں سب سے مشکل اور پرکٹھن امتحان حضرت ابراہیمؑ کا تھا کہ سن عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن ان کی اولاد نہ تھی۔ جب اللہ رب نے عمر کے اس حصے میں اولاد سے سرفراز فرمایا تو اللہ رب العالمین کی جانب سے حکم آیا کہ اس کو ذبح کر دیا جائے۔ حضرت ابراہیمؑ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ انبیاء کے خواب وحی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے تاخیر کیے بغیر اس حکم کو نافذ کرنے لگے، اگرچہ وہ خواہش کے برخلاف تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اللہ کو اپنی ذات پر مقدم رکھا۔ اللہ جو ارحم الراحمین ہے، اس عمل سے یہ نہ چاہتا تھا کہ اس کے دوست کا نام ان لوگوں میں شمار کیا جائے جو اپنی اولاد کو ذبح کر دیتے ہیں۔ لیکن اس حکم کی حکمت یہ تھی جب حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے بعد حضرت ابراہیمؑ کا دل ان کی طرف مائل ہونے لگا تو اللہ نے ان کو آزمائش کے طور پر ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بہت سے دل ایسے ہوتے ہیں جن کے حوالے سے اللہ یہ پسند نہیں فرماتا کہ وہ کسی اور کے لیے دھڑکیں۔ اس لیے اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔
(۱۳) وقدمنا الیٰ ما عملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثورا
اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے۔ 
حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز بندے کو نامۂ اعمال دیا جائے گا، تو اس میں صلاۃ اور صیام اور اعمالِ صالحہ کے اجر سے خالی پائے گا۔ یہ دیکھ کر وہ فریاد کرے گا اے اللہ! یہ تو میرا اعمال نامہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں میرے کیے گئے اعمالِ حسنہ کا اجر موجود نہیں ہے، شاید کسی اور کا اعمال نامہ مجھے دیا گیا ہے۔ اس سے کہا جائے گا (یہ تو تیرا ہی اعمال نامہ ہے) اس لیے کہ تیرے رب سے نہ کوئی شئی مخفی رہتی ہے اور نہ وہ بھول سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا نامہ اعمال حسنات سے اس لیے خالی ہے کہ تو نے اپنی حیات میں نیکیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پس پشت برائیاں کیں اور ان کے عیوب کو ظاہر کرتا رہا۔
اس لیے ہر شخص کو چوکنا رہنے چاہیے کہیں تمہاری عبادات دوسروں کے لیے نعمت یعنی ان کے نامہ اعمال میں حسنات کے اضافہ کا ذریعہ تو نہیں بن رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نیکیاں اس شخص کے نامہ اعمال کی زینت بن جائیں جن کی امیدوں کی تکمیل میں تم نے روڑے اٹکائے ہوں، یا جن کا مالک ہڑب کیا ہو، یا جن کی عزت نفس مجروح کی ہو، یا مختلف واسطوں سے کسی عہدے پر قبضہ کر کے حق دار کا حق مارا ہو۔
(۱۴) وتوبوا الی اللہ جمیعا ایھا المومنون لعلکم تفلحون
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ بندے کے لیے سب سے بہترین ایام وہ ہیں جن میں وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔  جب بندہ توبہ کرتا ہے تو پکارنے والا پکارتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے رب سے صلح کر لی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی قریبی دوست ناراض ہو جاتا ہے تو اس کو راضی اور منانے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے جاتے ہیں تاکہ دوستی بحال ہو جائے اور ناراضگی کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ اللہ رب العالمین اس بات سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کو راضی کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جائیں۔  اگر آپ سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو چکا ہو جس سے تیرے دل میں اللہ کی محبت متاثر ہوئی ہو تو اس کو راضی کرنے کے لیے (شریعت کی ہدایت کے مطابق) متنوع طریقے استعمال کرو، جس طرح دنیا میں اپنے دوست کو راضی کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہو، اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے صدقہ، استغفار کے ساتھ نمازوں کے پابندی اور قرآن مجید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔
(۱۵) قرت عین لی ولک
یہ الفاظ آسیا بنت مزاحم کے ہیں جو انہوں نے اپنے شوہر فرعون سے اس وقت کہے تھے جب انہوں نے صندوق میں حضرت موسٰیؑ کو پایا۔ فرعون نے اس وقت یہ کہا تھا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرعون کے اس قول پر ارشاد فرمایا کہ اگر فرعون موسٰیؑ کو اپنی بیوی کی طرح آنکھوں کی ٹھنڈک بنا لیتا تو اللہ اس کی برکت سے اس کو ہدایت سے سرفراز کر دیتا۔ لیکن اللہ نے اس کی عدمِ رغبت کے سبب اس کو ہدایت سے نہیں نوازا۔
لہٰذا جو شخص کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرتے وقت دل میں یہ خیال کرے کہ اس کو اختیار کرنے میں خسارہ ہو گا تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ انسان کو اس کی نیت کے مطابق عطا کیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی عورت سے نکاح کرتے وقت یہ نیت رکھتا ہو کہ اس نکاح سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا تو اس کے نصیب میں وہی کچھ لکھا جائے گا جو اس نے سوچا ہوگا۔ اس لیے اپنے گمان اور گویائی کو اچھے انداز میں استعمال کرو اس لیے کہ بسا اوقات انسان کو اس کے قول کے مطابق نوازا جاتا ہے۔

مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ قُدس کے ساتھ مسلمانوں کا ایمانی و جذباتی تعلق

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ بیت المقدس سے مسلمانوں کا بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ یہ رشتہ کئی اہم پہلوؤں مثلاً‌ عقائد، عبادات، تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر مشتمل ہے۔ بیت المقدس کی یہ بابرکت اور مقدس سرزمین مسلمانوں کے لئے شروع سے ہی عقیدتوں کا مرکز رہی ہے، جو اسلام کے آغاز سے ہی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو سب سے اہم ترین عبادت نماز کیلئے قبلہ بنانے، نماز پڑھنے اور دیگر فضیلتوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، سیرت اور تاریخ کے مطالعے سے مسلمانوں اور بیت المقدس کے یہ تمام رشتے کھل کر سامنے آتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ دینی رشتے کے چند پہلو ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے عقیدہ کی رو سے زمین کا یہ بُقعہ ان بے شمار انبیاءؑ کا قبلہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ خانہ کعبہ سے پہلے آپ اسی طرف اپنا روئے مبارک کر کے اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کرتے تھے۔ نماز کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک رخ کر کے نماز پڑھی۔ یعنی ایک سال اور پانچ ماہ تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا، جیسا کہ سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ (صحیح مسلم 525، و صحیح البخاری 4492)
لیکن جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔ (سورۃ البقرۃ 144)
تو اس آیت کے نازل ہونے کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، لہٰذا بیت المقدس مسلمانوں کا اولین قبلہ شمار ہوتا ہے۔

مسجد اقصیٰ میں 250 نمازوں کا ثواب

نماز دین کا اہم ستون ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں افضل ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (صحیح الترغیب 1179)
چونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر ہوا۔

ثواب کی نیت سے سفر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عبادت کی نیت اور ارادے سے مسجد اقصیٰ کی زیارت کی ترغیب دی ہے، اور درج ذیل فرمان کے ذریعے مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی سے جوڑ دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: یعنی مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کی طرف ثواب اور برکت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ (رواہ البخاری 1189 و مسلم 1397)

نماز پڑھنے کی بہترین جگہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کو نماز پڑھنے کی بہترین جگہ قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور مسجد اقصیٰ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے، حشر نشر کی سرزمین ہے، اور عنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ، جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے ساری دنیا کی چیزوں سے بہتر اور محبوب ہو گی۔ (صحیح الترغیب 1179)

مسجد اقصیٰ کی زیارت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کو دیکھنے کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کیلئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا پوری دنیا سے زیادہ افضل ہو گا۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 2902)

نماز پڑھنے کی منت ماننا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر یا منت ماننے کو جائز اور درست قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے عرض کیا:
ترجمہ: اے اللہ کے رسول! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کے ہاتھوں مکہ مکرمہ کو فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں نماز پڑھ لو۔ اس نے پھر سوال کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے پھر سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی۔ (صحیح ابی داؤد 3305)

مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب

بیت المقدس شہر کے رہنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر کا ثواب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی، الا یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ لوگ کہاں کے ہوں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 4/599)

گناہوں کی معافی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز کو گناہوں کی معافی کا سبب قرار دیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں کیں: (1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے۔ (3) یا اللہ! جو آدمی اس مسجد اقصیٰ میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فر مالی ہیں (کہ ان کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کر لی گئی ہو گی۔ (صحیح ابن ماجہ 1164 و صحیح الترغیب 1178)

برکت کی دعا

بیت المقدس اس لحاظ سے بھی بابرکت اور مبارک خطہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارضِ شام کا نام لے کر برکت کی خصوصی دعا کی ہے۔ بیت المقدس ارضِ شام کا ہی علاقہ ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کیلئے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما۔ (صحیح البخاری 7094)
مذکورہ بالا تمام احادیث کا تعلق مختلف دینی عبادات اور اس کے ثواب سے ہے، اور ان ساری عبادتوں کا تعلق بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے عبادت اور بندگی کا ایک مضبوط تعلق اور رشتہ ہے جو قیامت تک کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کائنات میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، عبادت کا یہ رشتہ بھی قائم و دائم رہے گا۔

بیت المقدس سے تاریخی رشتہ

بیت المقدس ہزاروں سال قدیم شہر ہے، بہت سے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے جیسے یبوسی، معموری، آرامی، کنعانی۔ قدیم زمانے میں اس شہر کو یبوس بھی کہا جاتا تھا جو کنعان کے قدیم قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام ہے۔ قوم یبوس عرب کی سب سے قدیم قوم ہے جو فلسطین میں سات ہزار پانچ سو سال قبل مسیح سے پہلے آباد ہوئی۔ چنانچہ بیت المقدس میں موجود پتھر کی تختیاں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں یبوسی اور کنعانی عربوں سے زیادہ قدیم کوئی قوم نہیں پائی گئی ہے۔ مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت المقدس کی بنیاد رکھنے والے اور اسے آباد کرنے والے یبوسی تھے، اور بیت المقدس کا پہلا نام یبوس تھا۔ارضِ فلسطین کو ارضِ کنعان بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے بھی رہ چکے ہیں۔ بیت المقدس کے دیگر ناموں میں ایک نام اورو سالم بھی ہے، جو ایک کنعانی نام ہے جس کا مطلب امن کا شہر ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اسے یورسالیم کہا جانے لگا جو اب یروشلم ہوگیا ہے، اور یہودی اسے یروشلم ہی کہتے ہیں۔ جس وقت افریقی اور رومن نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے اس وقت اس شہر کا نام ایلیا تھا۔ سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آیا تو اس کا نام تبدیل کر کے بیت المقدس رکھ دیا گیا، جس کے معنی ہیں پاک گھر، مبارک و مقدس سر زمین۔ (معجم البلدان 5/166)

معاہدہ عمریہ

جب سنہ 15 ہجری یا 638 عیسوی میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے۔ کیونکہ عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس نے یہ شرط رکھی تھی کہ بیت المقدس کی چابیاں لینے کیلئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس تشریف لائیں۔ چنانچہ کنیس القیامہ میں عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس اور عمائدین روم نے بیت المقدس آمد پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں۔ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کے باشندوں سے ایک معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ کے نام سے تاریخِ اسلام میں مشہور ہے۔ (فتوح البلدان، للبلاذری ص 144)
فتح بیت المقدس اور معاہدہ عمریہ طے پانے تک بیت المقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی تعلقات موجود نہیں تھے۔ معاہدہ عمری تاریخ میں سب سے صاف واضح اور مشہور دستاویز ہے۔ (تاریخ طبری ج 3 ص 6.8/6.9)
یہ معاہدہ بیت المقدس میں جابیہ کے مقام پر طے پایا۔ اس تاریخی معاہدے پر سیدنا خالد بن الولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے دستخط کیے۔ (فتوح البلدان ص 144)

مسلمانوں کی طویل حکومت

عربوں اور مسلمانوں نے اس شہر پر فتح عمری سے لے کر 1967 عیسوی تک حکومت کی، پھر وہ وقت آیا کہ جب بیت المقدس 88 سال کے عرصے تک یہودیوں کے قبضے میں رہا۔ پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے سنہ 583 ہجری بمطابق 1187م میں یہود کے جبر و تسلط سے آزاد کر دیا۔ عربوں اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اسلام کی برکت سے بیت المقدس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی، امن و امان کی بحالی اور استحکام، اور شہریوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ ممکن ہوا۔
امتِ مسلمہ کا فریضہ ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امتِ مسلمہ اس مقدس مسجد کی قدر کرتی، اس بابرکت مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی، اور ہر قسم کے کفر اور کفریہ تسلط سے پاک رکھتی۔ لیکن آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں، انہیں وہاں ہر قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے، یہودی ظالم انہیں بلڈوزروں سے روند رہے ہیں، بچوں کو قتل کر رہے ہیں، گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کی جا رہی ہے، یہ سب حالات تمام مسلمان رہنماؤں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہو کر متفق و متحد ہو جائیں، اور ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں اور جہاد کا پختہ عزم اور اعلان کریں تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑ جواب دیا جائے ؎
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں، جیسا اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر ’’تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں‘‘ والا قصہ بن جائے گا۔ یا اللہ! مسجد اقصیٰ کو ظالموں، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک فرما، فلسطینی مسلمانوں کے ضعف اور کمزوری کو ختم فرما، انہیں قوت عطا فرما، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما، آمین یا رب العالمین۔

مٹتا ہوا فلسطین

الجزیرہ

فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ایک سوچا سمجھا، منصوبہ بند اور پرتشدد عمل تھا۔ فلسطینیوں کو وسیع و عریض اراضی سے بے دخل کر دیا گیا۔ 1948ء میں بننے والے اسرائیل  سے 80 فیصد سے زیادہ فلسطینیوں کو راتوں رات پناہ گزین بنا دیا گیا۔ یہ عمل 1948ء میں مکمل ہوتا نظر آتا ہے، لیکن یہ 20ویں صدی کے آغاز میں شروع ہو چکا تھا ، اور یہ آج بھی جاری ہے۔

1917ء تا 1939ء

’’برطانوی مینڈیٹ‘‘  کا بنیادی مقصد تاریخی فلسطین کو ایسے سیاسی، انتظامی اور اقتصادی حالات کے تحت رکھنا تھا جو فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر کے قیام کو یقینی بنائے۔ فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ سے پہلے یہودی کل آبادی کا 3  فیصد تھے۔

1939ء تا 1945ء

برطانوی مینڈیٹ نے 1920ء اور 1930ء کی دہائیوں میں یورپ سے فلسطین میں یہودیوں کی امیگریشن میں سہولت فراہم کی۔ 1947ء تک یہودیوں کی آبادی دس گنا بڑھ کر فلسطین کا 33 فیصد ہو گئی۔

1946ء

1946ء میں صہیونی یہودیوں کا تاریخی فلسطین کے 6  فیصد علاقے سے بھی کم پر کنٹرول تھا۔

1947ء

اقوام متحدہ نے ایک منصوبہ تجویز کیا جس کے تحت تاریخی فلسطین کا 55 فیصد علاقہ یہودی ریاست اور 45 فیصد علاقہ غیر متصل عرب ریاست کے لیے مختص کیا گیا۔ یروشلم کو خصوصی بین الاقوامی حیثیت دی گئی۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ اس منصوبے نے ان کے زیر قبضہ زیادہ تر زمین چھین لی تھی۔ اس وقت ان کے پاس تاریخی فلسطین کا 94 فیصد علاقہ تھا اور ان کی آبادی 67  فیصد تھی۔

1947ء تا 1949ء

14 مئی 1948ء کو، جس دن برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہوئی، صہیونی تحریک نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ صہیونی فوجیوں نے کم از کم 750,000 فلسطینیوں کو بے دخل کیا، 530 سے زائد دیہات کو تباہ کیا اور تاریخی فلسطین کے 78  فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا۔ باقی 22  فیصد کو دو حصوں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی  میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1949ء میں اقوام متحدہ نے اسرائیل کو رکن ریاست کے طور پر قبول کیا۔ جبکہ کوئی فلسطینی ریاست کبھی وجود میں نہیں آئی۔

1967ء تا 1993ء

جون 1967ء (کی عرب اسرائیل جنگ) میں، اسرائیل نے مغربی کنارے میں توسیع کی، بشمول مشرقی یروشلم (بیت المقدس)  اور غزہ کی پٹی، اور تمام تاریخی فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اسرائیلی قبضے کو جدید تاریخ کا طویل ترین قبضہ بنا دیا ہے۔

1993ء

PLO کے رہنما یاسر عرفات نے اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کے ساتھ "اوسلو معاہدہ" پر دستخط کیے۔  مستقبل کے مذاکرات میں اس بات کا تعین کیا جانا تھا کہ تاریخی فلسطین کے 22  فیصد کے اندر فلسطینی کن علاقوں کو کنٹرول کریں گے، جن پر اسرائیل نے 1967ء میں قبضہ کیا تھا۔

1994ء تا 2014ء

فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے شہری حصوں میں خود مختاری کے کچھ اختیارات دیئے گئے تھے۔ تاہم اسرائیل کا ان پر سکیورٹی کنٹرول ہے اور وہ کسی بھی وقت حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

2014ء

آج بھی فلسطینیوں کی قومی امنگیں دم توڑ رہی ہیں۔ پورے تاریخی فلسطین میں، فلسطینیوں کو اسرائیلی حکمرانی کی طرف سے قبضے اور نوآبادیات، محاصرے اور جنگ، امتیازی سلوک اور دوسرے درجے کے سلوک کا سامنا ہے۔ مزید برآں، لاکھوں فلسطینی مہاجرین اپنے گھروں کو واپسی کے حق کے انتظار میں کیمپوں میں پڑے ہیں۔

فلسطینیوں کی نسل کُشی

اسرائیل کی ریاست بنانے کے لیے صہیونی افواج نے بڑے فلسطینی شہروں پر حملے کیے اور تقریباً 530 دیہات کو تباہ کر دیا۔ 1948 ءمیں تقریباً 13,000 فلسطینی مارے گئے، 750,000 سے زیادہ اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے اور پناہ گزین بن گئے – یہ صہیونی تحریک کی طرف سے فلسطین کی نسل کشی کا عروج تھا۔ آج مہاجرین اور ان کی اولاد کی تعداد سات ملین (ستر لاکھ) سے زیادہ ہے۔ بہت سے لوگ پڑوسی عرب ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں اور اپنے وطن واپس جانے کے منتظر ہیں۔

قیصاریہ

پالماچ، ایک صہیونی فوجی یونٹ جس کے کمانڈروں میں یتزاک رابن شامل تھا، نے فروری 1948ء میں اس گاؤں کے فلسطینی باشندوں کو بے دخل کر دیا۔

جفہ

(اسرائیلی) ریاست سے پہلے کی صہیونی نیم فوجی تنظیم Haganah نے  جفہ  کے باشندوں کو نکال دیا، 4000 سے کم فلسطینی باقی رہ گئے جو اجمی ضلع میں  یہودی بستی بنا دیے گئے۔  آج اسرائیل میں تل ابیب میونسپلٹی کے اندر جفہ شامل ہے۔

ایکر

اسرائیلی افواج نے مئی 1948ء میں ایکر پر قبضہ کر لیا۔ اس دور سے اب بھی قلعہ بندی کے آثار موجود ہیں جن میں ایک دیوار اور ایک مینار بھی شامل ہے۔

یروشلم (بیت المقدس)

تاریخی فلسطین کا دارالحکومت اور مقدس ترین شہر۔ شہر کے 80  فیصد سے زیادہ حصے پر صہیونیوں نے 1948ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ اور بقیہ 20  فیصد پر، جسے اب مشرقی یروشلم کہا جاتا ہے، 1967ء میں قبضہ کر لیا گیا تھا۔

علیحدگی کی دیوار

اسرائیل کی طرف سے تیار کی گئی کنکریٹ اور خاردار تاروں سے بنی دیوار جس کا راستہ بنیادی طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کے اندر واقع ہے۔ تعمیر کا آغاز 2002ء میں ہوا، اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اراضی کو ضبط کر لیا گیا اور فلسطینی آبادیوں کو یہودی بستی بنا دیا گیا۔

تل ابیب

جفہ کے قریب تاریخی فلسطین کے بحیرہ روم کے ساحل پر صہیونی تحریک کا 1909ء میں قائم کیا گیا شہر۔ یہ یروشلم کے بعد اسرائیل کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ تل ابیب میٹروپولیٹن ایریا اسرائیل کی 42 فیصد آبادی پر مشتمل ہے، جس میں تل ابیب اور اسرائیل کے وسطی اضلاع شامل ہیں۔ آج تل ابیب ایک اقتصادی مرکز ہے اور اسرائیل کے مالیاتی دارالحکومت کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کا پانچواں سب سے زیادہ وزٹ کیا جانے والا شہر ہے۔

ہائی وے 6

ہائی وے 6 شمالی اسرائیل سے جنوبی اسرائیل تک جاتی ہے۔ یہ اسرائیل کے انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسرائیلی آباد کاروں کو مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم کی گئی غیر قانونی بستیوں اور اسرائیل کے درمیان سفر کرنے میں مدد دیتا ہے۔

وادئ اردن

زمین کا سب سے نچلا حصہ، اس میں بحیرہ مردار بھی شامل ہے جو سطح سمندر سے 790 میٹر نیچے ہے۔ وادئ اردن تاریخی فلسطین اور اردن کے درمیان سرحدی علاقہ ہے۔ سیاسی طور پر، جب تک وادئ اردن میں اسرائیلی فوج موجود ہے، مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی امکان نہیں۔

شجاعیہ

غزہ شہر کے سب سے بڑے محلوں میں سے ایک، جس میں تقریباً 100,000 فلسطینی باشندے ہیں۔ اس علاقے کو 2008ء-2009ء میں اکثر اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 2014ء میں اسرائیل کے "آپریشن پروٹیکٹِو ایج" کے دوران، اسرائیلی فورسز نے پڑوس پر ایک بڑے فوجی حملے کا آغاز کیا، جس میں کم از کم 100 فلسطینی مارے گئے اور رہائشیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ عربی میں "شجاع" کا مطلب "حوصلہ" ہے۔

الشاطی مہاجر کیمپ

غزہ کی پٹی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ 1.8 ملین (اٹھارہ لاکھ) فلسطینیوں کا گھر ہے، جن میں سے زیادہ تر ان پناہ گزینوں کی اولاد ہیں  جو 1948ء میں فلسطین کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے نکالے گئے تھے۔ غزہ کے آٹھ پناہ گزین کیمپوں میں سے ایک الشاطی پناہ گزین کیمپ ہے۔

غزہ پورٹ

غزہ کی پٹی کی چھوٹی بندرگاہ غزہ شہر کے ضلع رِمل کے قریب واقع ہے۔ یہ بحیرہ روم کی واحد بندرگاہ ہے جہاں 1967ء سے اسرائیل کے قبضے اور ناکہ بندی کی وجہ سے دنیا بھر سے کسی بھی جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں ہے۔

رِمل

غزہ شہر کے سب سے خوشحال محلوں میں سے ایک، اس کی مرکزی سڑک ساحلی پٹی کو پرانے شہر سے جوڑتی ہے۔

https://remix.aljazeera.com/aje/PalestineRemix/maps_main.html

ایران کا اسرائیل پر ڈرون حملہ

ہلال خان ناصر

مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کی دشمنی کوئی پوشیدہ بات نہیں، سالہا سالوں سے ان دو ملکوں کی دھمکیوں اور بالواسطہ جھڑپوں کا تبادلہ چلا آرہا ہے، مگر ۱۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو اسرائیل پر ہونے والے ایرانی ڈرون حملوں نے ساری صورتحال کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا۔  اسرائیل پر کسی ملک کا براہ راست حملہ کرنا، امریکہ سے لڑائی مول لینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں عراق کے صدر صدام حسین نے جب اسرائیل کو نقشہ ارض سے مٹا دینے کے عزائم ظاہر کیے تو امریکہ اور نیٹو نے مل کر عراقی قوت کو اس طرح گرایا کہ اب تک عراق اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے جب اس خبر کو دیکھا جائے تو حیرت کے ساتھ ساتھ بہت سے سوالات بھی ذہن میں آتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے اس حملے سے اسرائیل کو ہونے والے نقصان کے بارے میں سوال اٹھایا جو کہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ۳۰۰ میزائیل اور ڈرونز میں سے صرف ۱ فیصد اپنے ہدف پر لگے جس سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا اور معمولی مالی نقصان پہنچا۔ اس سوال کا جواب خود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایک میٹنگ میں دیا کہ کتنے میزائیل مارے گئے اور کتنے اسرائیل کو لگے، یہ اہمیت کے حامل نہیں، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ایرانی فوج کی قوت بین الاقوامی میدان میں ابھر کر واضح ہوئی۔ 
بعض طبقات نے اس کو غزہ کے مجاہدین کے ساتھ یکجہتی کا اعلان سمجھا۔ درحقیقت یہ حملہ یکم اپریل ۲۰۲۴ء کو شام میں موجود ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کی جوابی کاروائی تھی جس میں ایرانی فوج کے اعلیٰ افسران مارے گئے۔ 
ایک سوال یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ عرب ممالک بھی اس خطے کے اقتدار کے امیدوار ہیں۔ اس واقعے میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا؟ اس کا جواب افسوسناک ثابت ہوا کیونکہ عرب ممالک بالخصوص سعودیہ عرب اور دبئی نے اسرائیل کو حملے کی قبل از وقت اطلاعات مہیا کیں اور اردن نے باقاعدہ جہازوں کے ذریعے ایرانی میزائیل اسرائیل پہنچنے سے پہلے تباہ کیے۔ لیکن اس حملے سے ۲ چیزیں واضح ہوتی نظر آئیں:
  1. عالمی میڈیا کی طرف سے بنائی گئی ایک ناقابل تسخیر اسرائیل کی تصویر دھندلی ہو گئی۔ ایران کے حملے کا اعلان سنتے ہی اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلا لی۔ قبل از وقت اطلاعات اور آئرن ڈوم فضائی دفاع سسٹم ہونے کے باوجود لگنے والے میزائیل اس بات کا ثبوت اور اسرائیل کے دفاعی ریکارڈ پر سوالیہ نشان ہے۔
  2. نہ تو ایران اور نہ ہی اسرائیل ایک باقاعدہ جنگ کے خواہاں ہیں۔ سی این این کی خبر کے مطابق ایرانی حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم کو میزائل روکنے کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ جوابی کاروائی کرنے سے منع کیا۔ امریکی افسران کے مطابق کسی جوابی کاروائی میں امریکہ اسرائیل کا ساتھ نہیں دے گا۔ اسی موقف کا حامل ایران بھی نظر آرہا ہے کیونکہ ۱۸ اپریل کو ایران کے شہر اصفہان پر ہونے والے اسرائیلی ڈرون حملے کو بہت حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق اس حملے کو معمولی ظاہر کرنے کیلیے ایران نے اس حملے سے ہونے والے نقصان کو چھپانے کی بھی کوشش کی۔

دینی جماعتوں اور خطباء کرام سے متحدہ علماء کونسل اپیل

متحدہ علماء کونسل پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترمی     ________ مزاج گرامی؟
گزارش ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ فورم متحدہ علماء کونسل پاکستان نے ملک کی موجودہ دینی و ملی صورتحال کو بہت سے حوالوں سے تشویش و اضطراب کا باعث قرار دیتے ہوئے ملک بھر کی تمام مکاتب فکر کی دینی جماعتوں اور خطباء کرام سے اپیل کی ہے کہ 
  1. 26 اپریل جمعۃ المبارک 2024ء کو یوم مطالبات اور یوم استغفار کے طور پر منایا جائے۔ اور جمعۃ المبارک کے خطبات میں اہم دینی و ملی مطالبات پیش کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام کیا جائے،
  2. بالخصوص مسئلہ فلسطین مسلمانوں اور مجاہدین کی حمایت اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے، امتِ مسلمہ کے اتحاد، مسلم حکمرانوں کے مؤثر کردار، معاشی بائیکاٹ کو منظم کرنے، اور فلسطینی بھائیوں کی زیادہ سے زیادہ امداد پر زور دیا جائے،
  3. سپریم کورٹ میں زیر بحث قادیانی کیس کے جلد از جلد فیصلے اور گزشتہ فیصلے سے پیدا ہونے والے ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔
  4. اسلام آباد کی مساجد و مدارس کے کنٹرول کے حالیہ اقدامات کو مسجد و مدرسہ کی آزادی کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت سے یہ اقدامات واپس لینے اور دینی جماعتوں سے مشترکہ موقف اور تحریک کا مطالبہ کیا جائے۔
  5. ٹرانس جینڈر کے قوانین کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے اس کی شریعت کے مطابق اصلاح پر زور دیا جائے اور اصلاح تک عمل درآمد روکنے کا مطالبہ کیا جائے۔
  6. ملکی معیشت کی سنگینی اور ابتر صورتحال کا ہمارے نزدیک ایک ہی حل ہے کہ قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر آئی ایم ایف کی شرائط کو مسترد کرنے کا اعلان اور ان معاہدات پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا جائے اور قومی خود مختاری کی بحالی کا اہتمام کیا جائے۔
  7. سودی قوانین کے خاتمے کے لیے دستور اور شریعت کے مطابق فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں اور عدالت عظمی میں دائر اپیلوں کو واپس لے کر دستور اور شریعت کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کیا جائے۔
یہ سارے معاملات شریعت اسلامیہ سے انحراف کے باعث اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا مظہر ہیں، جس کا قومی سطح پر احساس و ادراک کرتے ہوئے اجتماعی توبہ اور استغفار کی مہم چلائی جائے، تاکہ ہم اللہ تعالی کی ناراضگی کے ماحول سے نجات حاصل کر کے ملک و قوم کی حقیقی ترقی اور استحکام کی طرف گامزن ہو سکیں آپ سے گزارش ہے کہ اپنے حلقہ اثر اور متعلقین تک ان گزارشات کو پہنچانے کا اہتمام فرمائیں اور کوشش کریں کہ 26 اپریل بروز جمعہ المبارک کو یوم مطالبات اور یوم استغفار کا قومی ماحول بنایا جا سکے۔ 
امید ہے کہ آپ اس گزارش پر خصوصی توجہ فرمائیں گے۔
والسلام ، ابو عمار زاہد الراشدی     (صدر) 
سردار محمد خان لغاری    (سیکرٹری جنرل)
متحدہ علماء کونسل پاکستان
۲۳ اپریل ۲۰۲۴ء

"الحاج سید امین گیلانیؒ: شخصیت وخدمات"

مولانا حافظ خرم شہزاد

شاعر ختم نبوت الحاج سید امین گیلانی صاحب کو ہم سے رخصت ہوئے بیس برس بیت چکے ہیں، ان کی دینی و ملی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ ان کی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر اصحابِ علم و دانش کی نگارشات و تاثرات پر مشتمل ایک مجموعہ شائع ہو رہا ہے، ان شاء اللہ۔
مجموعے پر سید امین گیلانی صاحب کے صاحبزادہ الحاج سید سلمان گیلانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’میرے والد مرحوم نے اپنی سوانح حیات لکھی اور 1990ء تک کے حالات و واقعات قلمبند کر دیئے۔ ان دنوں ان کے ایک نوجوان دوست ان کے سفر و حضر کے رفیق ہوتے۔ انہوں نے وہ مسودہ اس پر مشاہیر کی آراء اور تبصرے تقاریظ لکھوانے کے لئے والد صاحبؒ کی اجازت سے اپنے پاس رکھ لیا۔ اور پھر ان سے کہیں گم ہو گیا اور دوبارہ شرمندگی کے مارے وہ ہم سب سے کٹ گئے۔اس بات کا والد صاحب کو تا زیست افسوس رہا۔ میرے دل میں آیا کہ اکثر واقعات تو مجھے یاد ہیں کیوں نہ میں انہیں احاطہ تحریر میں لاؤں۔ مگر میری اپنی مصروفیات اور سستی مری اس کوشش کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے کئی مرتبہ توجہ دلوائی مگر میں اس پر اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکا۔ آخر میں نے کووِڈ (کرونا) کے زمانے میں اپنی سرگزشت "میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی" لکھنا شروع کی تو اس میں والد صاحب مرحوم کے ہی کئی واقعات تحریر کئے۔
اسی اثنا میں میری شناسائی جناب خرم شہزاد صاحب سے ہوئی۔ ان کے اس ہنر سے مجھے آگاہی نہ تھی کہ وہ بہت عمدہ لکھاری ہیں اور والد صاحب کے بہت بڑے فین ہیں۔ میری کتاب چھپ گئی تو انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، پھر بڑی محبت سے مجھ سے فرمایا شاہ جی مجھے کچھ واقعات تو آپ کی سرگزشت سے مل گئے ہیں مگر میرا جی چاہتا ہے ان پر الگ ایک مستقل کتاب لکھوں۔ میں بہت خوش ہوا کہ آخر ایک بندہ تو یہ فرض کفایہ ادا کرنے کے لئے میدان میں نکلا۔ مجھ سے جو مسودہ مہیا ہو سکا میں نے انہیں بھیجا اور وہ اپنی کوشش سے جن جن ذرائع تک پہنچ کر ان کے متعلق واقعات کا حصول کر سکے وہ کئے اور یہ کتاب منصۂ شہود پر لانے میں کامیاب ہوئے۔
میں نے ایک سرسری نظر ڈالی اور اوکے کر دیا۔ میری کتاب شائع کرنے والے علامہ عبد الستار عاصم کوئی معمولی درجہ کے انسان نہیں۔ ’’قلم فاونڈیشن‘‘ کے بانی اور سی ای او ہیں، ہزاروں کتب شائع کر چکے ہیں اور وہ سب لوگ نابغہ روزگار ہستیاں ہیں۔ میرے والد مرحوم کے برسوں کے تربیت یافتہ اور رفیق ہیں ہم سب بہن بھائیوں کے پیارے اور فیملی فرینڈ ہیں۔ میری دونوں نثری کتابیں اپنے ہی ادارے سے شائع کی ہیں یہ کیسے ممکن تھا کہ اپنے محسن اپنے مربی کی زندگی کے حالات و واقعات پر مبنی کتاب کو چھاپنے کی حامی نہ بھرتے۔ سو عزیزم خرم شہزاد نے ان سے اس بابت بات کی اور انہوں نے آج مجھ سے فون پر اس نیک کام کرنے کا وعدہ کیا اور جلد سے جلد تکمیل کی یقین دہانی کروائی۔
میں ان دونوں دوستوں کا نہایت ممنون و متشکر ہوں کہ جو میرا کام تھا وہ انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا اور بطور احسن نبھایا۔ میری دعا ہے اللہ کریم ان کے علم، مال، جان، دولت، آل، اولاد سب میں برکت دے۔ دونوں جہانوں میں عفو و عافیت والا معاملہ کرے۔‘‘
اسی طرح مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب پیش لفظ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ
"شاعرِ اسلام الحاج سید امین گیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان مِلی شعراء میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جنہوں نے تحریکِ آزادی، تحریکِ ختمِ نبوت اور دیگر دینی و مِلی تحریکات میں مسلسل اور نمایاں کردار ادا کیا اور وہ ہماری دینی و مِلی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ مجھے اُن سے نیاز مندی حاصل رہی ہے اور مختلف تحریکات میں ان کی رفاقت کا اعزاز نصیب ہوا ہے۔ ان کی حیات، جدوجہد اور کلام کے حوالے سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے مختلف پہلوؤں پر کام کی ضرورت ہے جو کہ راہ نمائی اور جدوجہد کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے نئی نسل کا حق ہے۔ اللہ پاک بھلا کریں ان کے فرزند و جانشین الحاج سید سلمان گیلانی صاحب کا کہ وہ اس سلسلہ میں کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور زیرِ نظر مجموعہ بھی ان کی اسی کاوش کا اہم حصہ ہے۔
مجھے یہ جان کر قلبی مسرت ہوئی کہ عزیزِ محترم حافظ خرم شہزاد کو اس مجموعہ کے مرتب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جو میرے لیے بھی افتخار کا باعث ہے۔اللہ تعالیٰ عزیزم حافظ خرم شہزاد کی اس محنت کو قبولیت سے نوازیں اور نئی نسل کی صحیح سمت راہ نمائی کا ذریعہ بنائیں، آمین یارب العالمین"۔
مجموعے کی معلومات اور حصول کے لیے درج نمبر 03338214981 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں ایران کا کردار

مولانا زاہد الراشدی صاحب کا تبصرہ

مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ روز ایک مجلس میں اسرائیل پر ایرانی حملہ سے پیداشدہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ کا ایک حصہ ہے جسے زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی اس وقت جنگ کے تین بڑے فریق ہیں:
 ①  ایک فریق اسرائیل ہے جو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے لیے مسلسل جنگ لڑ رہا ہے اور پیش قدمی کرتا جا رہا ہے۔ ② دوسرا فریق ایران ہے جو ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ اور عراق، شام، یمن، لبنان میں اس کی موجودگی اور کردار اس کے سنجیدہ ہونے کی واضح علامت ہے۔ ③  جبکہ تیسرا فریق عرب ممالک اور اقوام ہیں جن کے پاس کوئی وژن نہیں ہے، اپنی بادشاہتوں اور حکومتوں کا تحفظ ہی ان کا واحد ایجنڈا دکھائی دے رہا ہے جس کے لیے وہ امریکہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسرائیل سے بھی توقعات وابستہ کرنے لگے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ کی عملی اور مؤثر حمایت اور امداد صرف اسرائیل کو حاصل ہے، جبکہ عربوں کو وہ زبانی تسلی دینے کے لیے بھی تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ④ اس کشمکش کا ایک ممکنہ فریق ترکیہ بھی ہو سکتا ہے جو خلافتِ ِعثمانیہ کے دور کو یاد کرتے ہوئے ماضی کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے، لیکن وہ ابھی پس منظر میں ہے اور اس کشمکش سے فائدہ اٹھانے کے لیے امکانات اور مواقع کی تلاش میں ہے۔
اس وسیع تر جنگ سے اس عالمی جنگ کا ماحول قریب آ رہا ہے جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحمِ کبریٰ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لیے ایران کو صرف تماشائی کردار سمجھنا اس جنگ کے پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر تینوں سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہو گا۔ اصل ضرورت مسلم حکمرانوں کا مل بیٹھ کر موجودہ تناظر کو پوری طرح سمجھتے ہوئے کوئی مشترکہ اور اجتماعی حکمتِ عملی طے کرنے کی ہے۔ جبکہ اہلِ فکر و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ گروہی، علاقائی اور قومی تعصبات کے چشموں سے آزاد ہو کر کھلی فضا میں زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور امتِ مسلمہ کی صحیح سمت راہنمائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘

علامہ زاہد الراشدی صاحب کا جواب

مولانا جمیل فاروقی

علامہ زاہد الراشدی صاحب سے راقم نے پوچھا کہ استاد جی! آپ ‘‘رابطہ‘‘ کی جانب سے اسلام آباد مختلف مسالک کے علماء کی تقریب میں مدعو تھے پھر بھی شریک نہیں ہوئے، خیریت تو ہے؟
استاد جی صبح صبح تر و تازہ اور فل گپ شپ کے موڈ میں ہوتے ہیں، پوچھا کیا عنوان تھا؟
راقم نے بتایا ’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘۔
استاد جی نے غمزدہ لہجے میں فرمایا کہ قبلۂ اول کے دامن میں ہمارے بچوں کی کھوپڑیوں کے مینار اور ہڈیوں کے پل تعمیر کیے جا رہے ہوں اور ہم غیر ضروری عناوین پر یہاں بانسری بجانے بیٹھ جائیں، اور ہماری تقریبات نشستند، گفتند، خوردند اور برخاستند تک محدود ہوں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ ہماری قومی حمیت کا جنازہ ہے۔ تم بتاؤ اس وقت اس عنوان کی ضرورت تھی یا مجھے اس عنوان کے تحت ہونے والی تقریب میں جانا چاہیے؟
میری خاموشی کو بھانپ کر استاد جی نے فرمایا: تم میرے مزاج سے واقف ہو کہ میں اتحادِ امت کا داعی ہوں بلکہ میں تو علاقائی سطح پر مسلکی ہم آہنگی سے شروع کر کے عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی پر ہر فورم پر بات کرتا ہوں اور اس کی ضرورت کو سمجھتا ہوں، مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ اب اس وقت امت پر کیا افتاد آن پڑی ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس وقت ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ 
؏ ’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘
استاد جی کا عالمی فورم ’’رابطہ عالمِ اسلامی‘‘ سے دردمندانہ مطالبہ یہ ہے کہ اسے قضیہ فلسطین اور غزہ کے حوالے سے کھل کر اپنا موقف امت کے سامنے رکھنا چاہیئے اور ہر فورم پر ۱۹۹۰ء کی دہائی کی طرح مؤثر آواز اٹھانی چاہیئے اور عالمی سطح پر صرف اور صرف القدس اور فلسطین کو موضوع بحث بنانا چاہیئے۔ استاد جی نے رابطہ کی دعوت کے جواب میں جو حرفِ انکار لکھا ہے وہ بھی مظلوم طبقات کے دل کی آواز ہے۔ استاد جی کا جوابی خط ملاحظہ کیجئے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

گرامی قدر عزت مآب جناب سعد بن مسعود الحارثی صاحب زیدت مکارمکم

رئیس مکتب الرابطۃ العالم الاسلامی اسلام آباد پاکستان

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟

۱۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو اسلام آباد میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور رابطہ کے حوالہ سے رابطہ عالمِ اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ یا دفرمائی کا   تہہِ دل سے شکریہ!

میرے مخدوم! ہم انتظار میں تھے کہ فلسطین کی موجودہ سنگین صورتحال اور مسجدِ اقصیٰ کو درپیش خطرات کے موضوع پر امتِ مسلمہ کے جذبات و احساسات کی ترجمانی اور فلسطینی مظلومین کی حمایت کے لیے رابطہ عالمِ اسلامی کا مؤقر فورم کوئی کردار ادا کرے گا۔ مگر اس سلسلہ میں مسلم حکمرانوں، او آئی سی اور رابطہ عالمِ اسلامی کے ماحول میں مکمل سناٹے کی کیفیت نے امت کو مایوس کیا ہے اور ’’یتحیر فیہا البسیب‘‘ کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ اس تناظر میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے عنوان پر سرگرمیاں میرے نزدیک بے وقت او ربے مقصد ہیں۔ مجھے اس موضوع کی اہمیت و ضرورت سے قطعی انکار نہیں ہے مگر یہ وقت اس کا نہیں بلکہ مسجدِ اقصیٰ اور فلسطینی مظلومین کے حق میں مؤثر آواز بلند کرنے اور امتِ مسلمہ کو عالمی استعماری قوتوں کے حصار سے نکالنے کی جدوجہد کا ہے۔ اس لیے میں بصدِ احترام ۱۴ اپریل کی مذکورہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت خواہ ہوں۔

شکریہ، والسلام، ابوعمار زاہد الراشدی 
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
۱۳  اپریل ۲۰۲۴ء‘‘

إلى معالي رئيس مكتب رابطۃ العالم الإسلامي في إسلام آباد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بسم الله الرحمن الرحيم
إلى معالي رئيس مكتب رابطة العالم الإسلامي في إسلام آباد، الفضيل الأخ سعد بن مسعود المؤقر، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
بعد التحية، قد تلقيت دعوة للمشاركة في المؤتمر الذي سيُعقد تحت إشراف رابطة العالم الإسلامي في إسلام آباد في 14 أبريل عام 2024م. يهدف هذا المؤتمر إلى تعزيز التواصل بين الأديان والثقافات. أشكركم من أعماق قلبي على هذه الدعوة.
أيها السيد المحترم، كان من المتوقع أن تتخذ رابطة العالم الإسلامي موقفًا قويًا تجاه المسجد الأقصى وتجاه المسلمين المظلومين في قطاع غزة. هذه المنطقة تشهد ظروفًا خطيرة تهدد بالإبادة الجماعية، حيث يتعرض الأطفال والنساء والشيوخ للعدوان والقتل، وتُدمر المساكن وتُقصف المساجد والمدارس والجامعات والمستشفيات.
كنا نأمل أن تلعب رابطة العالم الإسلامي دورًا فاعلًا في نصرة المسجد الأقصى والمظلومين في فلسطين، وكذلك نتوقع من جميع الدول العربية والإسلامية أن تتحرك للدفاع عن هذه القضية.
ومع ذلك، للأسف، لم تتحرك منظمة التعاون الإسلامي ورابطة العالم الإسلامي بالشكل المطلوب لمواجهة هذه الأزمة. وفي ظل هذه الظروف، يبدو أن تنظيم مؤتمر بعنوان "الوئام بين الأديان" ليس مناسبًا في هذا الوقت. على الرغم من أهمية هذا الموضوع، إلا أن تنظيم المؤتمر تحت هذا العنوان في هذا التوقيت والمكان غير مناسب. لذا، أعتذر بكل احترام عن حضور المؤتمر المذكور في 14 أبريل. شكرًا لكم.
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
ابوعمار زاھد الراشدی
خطیب الجامع کوجرانوالہ الباکستان

The Role of Iran in the Middle East War

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جعفر بھٹی

The Secretary General of Pakistan Shariah Council, Maulana Zahid ur Rashidi gave a statement on the situation created by the attack of Iran on Israel that it is a part of the war, which needs to be understood in the light of facts. He said that there are three major parties or stakeholders in the Middle East war: 
  • The first one is Israel, which is striving for a "Greater Israel" and is advancing continuously. 
  • The second one is Iran, which is striving for a "Fatimid Empire". Its presence and role in Iraq, Syria, Lebanon, and Yemen are evident in its seriousness. 
  • The third party or stakeholder is Arab countries and nations that don’t have any vision. It appears their sole agenda is to protect their kingdom and government. 
For this while, depending on America, expectations have also started to be made from Israel. In the current situation, only Israel is getting the USA’s effective support and aid. The USA is even unwilling to give verbal consolation to Arabs. 
  • One potential party in this conflict is Turkey’, which is planning to return to its past by reminding the era of the Ottoman Empire. But Turkey’ is still in the background and is looking for opportunities to take advantage of the conflict. 
By this wider war, the atmosphere of the world war is approaching near to which Prophet Muhammad Peace be upon him has said to be “Malaham-e-Kubra”. So, considering Iran to be only a spectator is equivalent to closing your eyes from the background, foreground, and bottom of this scenario. The need of the hour is to determine a common and collective strategy by Muslim rulers after fully understanding the current scenario. People of wisdom must check the ground realities after setting themselves free from group, regional, and national biases and play their role in guiding the Muslim Ummah in the right direction.

Regarding Muslim World League`s Conference Invitation

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مترجم : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

Subject: Regret Regarding Conference Invitation

Dear Dr. Saad bin Masood Al-Harithi,
(Head of the Office of the World Islamic League, Islamabad, Pakistan)

Assalam-u-Alaikum wa Rahmatullah wa Barakatuh.

I hope this letter finds you well. I extend my warm regards to you.
I am writing to express my gratitude for the invitation to the conference organized by the World Islamic League, which is scheduled to take place in Islamabad on April 14, 2024. The conference aims to focus on interfaith harmony and dialogue.
While I appreciate the significance of interfaith harmony, I find it necessary to address a pressing matter. As members of the Muslim Ummah, we have been eagerly anticipating a platform where we can effectively discuss the current situation in Palestine and the critical issue of Al-Aqsa Mosque. Unfortunately, the prevailing silence from Muslim regimes, the Organization of Islamic Cooperation (OIC), and the World Islamic League has left our community disheartened and bewildered.
Given this context, I believe that the timing of interfaith harmony activities may not align with the urgent need to advocate for Al-Aqsa Mosque and the oppressed Palestinians. The global colonial powers continue to impose a siege on the Muslim Ummah, and it is crucial that we raise our voices effectively in their support.
With utmost respect, I regret to inform you that I will not be able to participate in the conference on April 14. I hope that our collective efforts will eventually lead to positive change and justice for the oppressed.

Thank you for your understanding.

Sincerely,
Abu Ammar Zahid-ur-Rashdi
Khateeb Central Jamia Mosque, Gujranwala.
13th April, 2024

جاگتے رہنا! دینی مدارس، ان کے وفاق، علماء کرام اور دینی جماعتیں

ڈاکٹر محمد امین

حکومتِ پاکستان نے مغرب کے دباؤ پر فیٹف (FATF) کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اوقاف کے حوالے سے جو ظالمانہ قوانین بنائے تھے، اب ان پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے اور وزارت ِداخلہ نے اپنے نوٹیفیکیشن مؤرخہ ۸ مارچ ۲۰۲۴ء سے اسلام آباد کی مساجد کمیٹیوں ( چھوٹے مدارس اکثر مساجد ہی میں قائم ہوتے ہیں) کو توڑ کر انہیں حکومتی کنٹرول میں دےدیا ہے۔
 جیسا کہ پہلے ٹرانس جینڈر ایکٹ او ردوسرے قوانین کے بارے میں ہو چکا کہ پہلے اس کا نفاذ اسلام آباد کے وفاقی علاقے پر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد سارے صوبوں میں بتدریج اس کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا واضح خدشہ ہے کہ اگلے چند مہینوں میں مساجد اور مدارس کو حکومتی کنٹرول میں لانے کے یہ رولز سارے صوبوں میں نافذ کر دیے جائیں گے۔ 
دینی مدارس، ان کے وفاقوں، علماء کرام اور دینی جماعتوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ جاگتے رہیں اور ان قوانین کے نفاذ کے خلاف جدوجہد کرنے اور تحریک چلانے کا سوچیں، ورنہ جلد یا بدیر مساجد و مدارس حکومتی کنٹرول میں چلے جائیں گے اور ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔