محترم مجیب الرحمٰن شامی کی خدمت میں!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مجیب الرحمٰن شامی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست اور ملک کے ممتاز دانشور ہیں جنہوں نے دینی و قومی تحریکات میں ہمیشہ اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کی ہے اور اپنے دائرہ کار میں صفِ اول کے راہنما کا کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے ایک نشری گفتگو میں قادیانیوں کے شہری حقوق اور ان کے بقول قادیانیوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا تذکرہ کیا ہے اور ملک کی دینی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔
جہاں تک مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا مفتی منیب الرحمٰن سمیت ملک کی دینی قیادت سے ان کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ قادیانیوں کے شہری حقوق کے بارے میں دن بدن بڑھتی چلی جانے والی کنفیوژن کا باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی متوازن حل نکالیں، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ بلکہ ہماری درخواست یہ ہو گی کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکاتِ ختمِ نبوت کی طرح تمام مکاتبِ فکر کی قیادتیں ایک بار پھر ’’کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت‘‘ کا فورم بحال کر کے اس نئی صورتحال پر اجتماعی راہنمائی اور قیادت فراہم کریں۔ جس میں حسبِ سابق قانون دان حلقوں، تاجر برادری، سیاسی راہنماؤں اور دیگر اہلِ دانش کی بھرپور نمائندگی موجود ہو تاکہ ان کا موقف اور فیصلہ پہلے کی طرح اب بھی قومی حیثیت کا حامل سمجھا جائے۔
مگر شامی صاحب محترم نے خود قادیانیوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا تذکرہ تو فرمایا ہے جبکہ اس میں تلخ لہجہ کی آمیزش کے ساتھ قادیانیوں کی طرف سے مسلسل سامنے آنے والی زیادتیوں کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے، اس پر ان سے ہمارا شکوہ بنتا ہے۔ شامی صاحب محترم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہم نے دوسری غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کے مسلمہ شہری حقوق کی ہمیشہ حمایت کی ہے، بلکہ قادیانیوں کو ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کرنے کا اصولی فیصلہ بھی مسلّمہ شہری حقوق کے دائرہ میں کیا گیا تھا۔ ورنہ ماضی میں اسلامی ریاست میں ختمِ نبوت کے منکرین کو غیر مسلم اقلیت کے دائرہ میں بطور شہری تسلیم کرنے کی کوئی روایت کم از کم ہمارے مطالعہ اور علم کے مطابق موجود نہیں ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے تمام دینی مکاتب فکر کی قیادتوں کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا متفقہ مطالبہ ایک نئی روایت تھی جو مسلمہ دینی قیادتوں نے اجتہادی فیصلہ کے طور پر قائم کی تھی، اور اب تک وہ اس پر متفق اور قائم چلے آ رہے ہیں۔ ا سکے پیچھے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا برطانوی حکومت سے یہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کا شمار مسلمانوں سے الگ امت کے طور پر کیا جائے اور انہیں کسی بھی حوالہ سے مسلمانوں کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا یہ مطالبہ آج کے عالمی ماحول اور اس میں اقوام و طبقات کے مسلّمہ شہری حقوق کے دائرہ میں ہی تھا جسے دینی قیادت نے قبول کر کے قادیانیوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرنے کا مطالبہ کیا، اور اس مطالبہ کو ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے متفقہ فیصلہ کی رو سے تسلیم کر کے دستور و قانون کا حصہ بنا لیا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ملک میں بسنے والی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی وہ تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے جو آج کے عالمی عرف و قانون میں کسی بھی ملک کی کسی بھی اقلیت کے لیے تسلیم شدہ ہیں۔
مگر شامی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قادیانیوں نے دستور و قانون کے اس فیصلہ بلکہ اس کے ساتھ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے تمام متعلقہ فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ اور ان کے اس انکار اور ہٹ دھرمی کے باعث ۱۹۸۴ء کا وہ امتناعِ قادیانیت کا قانون لانا پڑا جس میں ان پر متعینہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یہ پابندیاں دستور و قانون کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے کی قادیانی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھیں جو اس ہٹ دھرمی کے بدستور قائم رہنے کی وجہ سے مسلسل چلی آ رہی ہیں۔ ورنہ اگر قادیانی دستوری فیصلہ کو تسلیم کر لیتے تو ان کے لیے پابندیوں کی کسی الگ فہرست کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ جو قوانین اور حدود دیگر اقلیتوں کے لیے موجود ہیں وہی ان کے لیے بھی کافی تھے۔
محترم شامی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قادیانیوں نے پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں اور قوم کے تمام طبقات اور مکاتبِ فکر کے متفقہ موقف کو نہ صرف مسترد کر رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف وہ عالمی سطح پر منفی پراپیگنڈا اور ہر سطح پر لابنگ میں بھی مسلسل سرگرمِ عمل ہیں، جو بجائے خود ملک و قوم کے خلاف سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ شامی صاحب سے گزارش ہے کہ ان کا موقف یقیناً قابل توجہ ہے اور اس پر دینی مکاتب فکر کی قیادتوں کے متفقہ غور و خوض کی ضرورت ہم بھی محسوس کر رہے ہیں مگر اس کے لیے کسی ’’ہجوم‘‘ یا ’’بے لگام مذہبی قیادت‘‘ کے خلاف غصہ نکالتے چلے جانے کی بجائے اس کے حقیقی اسباب کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، اور کوئی بھی یکطرفہ بات ملک کی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ہم بارہا اعلانیہ کہہ چکے ہیں بلکہ میں نے خود چند سال قبل چناب نگر میں منعقدہ احرار کانفرنس میں کھلے بندوں یہ عرض کیا تھا کہ قادیانی ملک کے دستور و قانون کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں اور اس کے مطابق اپنی شہری حیثیت تسلیم کریں تو ہم ان کے ان تمام شہری حقوق کی حمایت کریں گے جو آج کے دور میں مسلّمہ ہیں، اس کے بغیر ان کا کوئی واویلا پاکستانی قوم سے موقف تسلیم کرانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۴)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی

(511) لَا یَتَنَاہَوْنَ کا ترجمہ
لغت کے لحاظ سے ’تناھی عن‘ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک کسی کام سے باز آنا اور دوسرا کسی کام سے ایک دوسرے کو منع کرنا۔ درج ذیل آیت میں دونوں طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ لیکن موخر الذکر معنی زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس لفظ کا زیادہ استعمال ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تناھی اور انتھی دو الفاظ ہیں، جن میں سے تناھی زیادہ تر ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے اور انتھی باز آنے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں باز آنے کے لیے انتھی کثرت کے ساتھ آیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں تناھی کا مطلب اگر باز آنا لیتے ہیں تو کسی خاص مفہوم کا اضافہ نہیں ہوتا ہے لیکن اگر ایک دوسرے کو منع کرنا مراد لیتے ہیں تو ان کی مزید ایک بڑی برائی کا علم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ برائیوں کے ارتکاب کے علاوہ ان کے اندر سے نھی عن المنکر کی صفت بھی معدوم ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے برائیوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا تھا۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
کَانُوا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوہُ۔ (المائدۃ: 79)
’’جو برا کام انھوں نے کررکھا تھا اس سے باز نہ آتے تھے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’جس برائی کو اختیار کرلیتے اس سے باز نہ آتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے بہتر ہیں:
’’آپس میں منع نہ کرتے برے کام سے جو کررہے تھے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اُنہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا‘‘۔ (سید مودودی)
’’(اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(512) مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ترجمہ کیا گیا ہے: ’’جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَإذْ قَالَ اللّہُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ أأنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاُمِّیَ إلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللّہِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی أنْ أقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ۔ (المائدۃ: 116)
’’اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ’’اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنالو؟‘‘ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا‘‘۔ (سید مودودی)
مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ’’جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو میرے لیے درست نہیں ہے‘‘۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جو میرے لیے ہرگز درست نہیں ہے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ وہ بات میں کیسے کہہ سکتا ہوں جو میرے لیے کسی بھی طرح درست ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ ایک بندے کے لیے یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ وہ خود کو معبود کہے۔ گویا یہ تو بعد کی بات ہے کہ یہ کہنے کا حق تھا یا نہیں، اس سے پہلے تو یہ بات کسی طرح درست ہی نہیں تھی کہ اسے کہنے کا سوال پیدا ہوتا۔
(513) تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا
درج ذیل آیت میں لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا بیان ہے لَنَا کا، نہ کہ لَنَا پر معطوف ہے۔ اگر معطوف ہوتا تو لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا سے پہلے واو ہوتا۔
قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنَا أنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً مِنَ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِنْکَ۔(المائدۃ: 114)
’’عیسیٰ بن مریم(ع) نے (دعا کرتے ہوئے) کہا اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے قدرتی نشانی بن جائے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو‘‘۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں غلطی سے عطف کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ (اور کی بجائے یعنی) درست ہے:
’’(تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(514) لَا أُعَذِّبُہُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں لَا اُعَذِّبُہُ آیا ہے، جو حال یا مستقبل کے لیے ہے۔ اگر لَمْ اُعَذِّبْہُ ہوتا تو ماضی کا مفہوم ہوتا۔ بعض مترجمین نے غلطی سے یہاں ماضی کا ترجمہ کردیا، ملاحظہ ہو:
قَالَ اللّہُ إنِّی مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإنِّی اُعَذِّبُہُ عَذَابًا لَا اُعَذِّبُہُ أحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ۔ (المائدۃ: 115)
’’اللہ نے جواب دیا میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی‘‘۔ (سید مودودی)
’’ جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہو گی‘‘۔ (احمد علی)
’’کہ عالمین میں کسی پر نہیں کیا ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’جیسی دنیا جہان میں کسی کو بھی نہیں دی ہوگی‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے کہ لَا اُعَذِّبُہُ کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے:
’’خدا نے فرمایا میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا لیکن جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ اہل عالم میں کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
(515) وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ
کفّ عن فلان سوءًا کا مطلب ہوتا ہے: فلاں شخص سے برائی کو دور کردیا، دفع کردیا۔ فیروزابادی لکھتے ہیں: وکفَفْتُہ عنہ: دَفَعْتُہ وصَرَفْتُہ (القاموس المحیط)
درج ذیل آیت میں اللہ تعالی حضرت عیسی سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: وَإذْ کَفَفْتُ بَنِی إسْرَائِیلَ عَنْکَ۔ الفاظ کی رو سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو یعنی ان کے شر کو حضرت عیسی سے دور رکھا، یا بنی اسرائیل کو حضرت عیسی پر قابو پانے سے دور رکھا۔
وَإذْ کَفَفْتُ بَنِی إسْرَائِیلَ عَنْکَ إذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْہُمْ إنْ ہَذَا إلَّا سِحْر مُبِین۔ (المائدۃ: 110)
’’اور یاد کرو جب کہ بنی اسرائیل کے شر کو میں نے تم سے دور رکھا جب کہ تم ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ان کے کافروں نے کہا کہ یہ تو بس صریح جادو ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے میں الفاظ کی رعایت نہیں ہوسکی:
’’پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادو گری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا‘‘۔ (سید مودودی)
ایک تو یہ کہ کفّ کا مطلب بچانا نہیں بلکہ دفع کرنا اور دور رکھنا ہے۔
دوسرے یہ کہ إنْ ہَذَا إلَّا سِحْر مُبِین میں ہَذَا کا ترجمہ ’یہ نشانیاں‘ نہیں ہوگا بلکہ ’جو کچھ پیش کررہا ہے‘ وہ ہوگا۔ کیوں کہ ہَذَا ہے ہَذہ نہیں ہے۔
(516) أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں غَیْرِکُمْ کا ترجمہ غیر مسلم کرنا مناسب نہیں ہے۔ جب آدمی اپنے مقام پر ہوتا ہے تو اپنے جان پہچان کے لوگوں کو گواہ بناتا ہے، لیکن جب وہ سفر میں ہوتا ہے تو اجنبی لوگوں کو گواہ بنانے پر مجبور ہوتا ہے، وہ مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔
یَاأیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إذَا حَضَرَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّۃِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ أوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إنْ أنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْأرْضِ فَأصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃُ الْمَوْتِ۔ (المائدۃ: 106)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے دو عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کرلو)‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(517) الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْأَوْلَیَانِ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں الْأوْلَیَانِ کا مفہوم اور اعراب سمجھنے میں لوگوں کو کافی دشواری پیش آئی اور انھوں نے تکلف سے بھرپور تاویلات اختیار کیں۔
زمخشری لکھتے ہیں: والْأوْلَیانِ الأحقان بالشہادۃ لقرابتہما ومعرفتہما۔ وارتفاعہما علی: ہما الأولیان کأنہ قیل ومن ہما؟ فقیل: الأولیان۔ وقیل: ہما بدل من الضمیر فی یقومان، أو من آخران۔ ویجوز أن یرتفعا باستحق، أی من الذین استحق علیہم انتداب الأولیین منہم للشہادۃ لاطلاعہم علی حقیقۃ الحال۔ (الکشاف)
کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
فَإنْ عُثِرَ عَلَی أنَّہُمَا اسْتَحَقَّا إثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْأوْلَیَانِ۔ (المائدۃ: 107)
’’لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص جو ان کی بہ نسبت شہادت دینے کے لیے اہل تر ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر اگر پتہ چلے کہ وہ کسی گناہ کے سزاوار ہوئے تو ان کی جگہ دو اور کھڑے ہوں ان میں سے کہ اس گناہ یعنی جھوٹی گواہی نے ان کا حق لے کر ان کو نقصان پہنچایا جو میت سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ حاصل کیا ہے تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہوں جو (میت سے) قرابت قریبہ رکھتے ہوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں وصی گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’پھر اگر خبر ہوجاوے کہ وہ دونوں حق دباگئے گناہ سے تو دو اور کھڑے ہوں ان کی جگہ جن کا حق دبا ہے ان میں سے جو بہت نزدیک ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
یہاں لوگوں نے الْأوْلَیَانِ کو آخَرَانِ کا بدل بنایا، یعنی دوسرے وہ دو کھڑے ہوں جو زیادہ قریب ہوں یا زیادہ اہل تر ہوں۔ حالاں کہ الْأوْلَیَانِ واضح طور سے اسْتَحَقَّ کا فاعل ہے۔ اگر اسے فاعل نہ بناکر کچھ اور بنائیں گے تو یہ سوال باقی رہے گا کہ اسْتَحَقَّ کا فاعل کون ہے اور اسْتَحَقَّ مثنی کے بجائے واحد کے صیغے میں کیوں ہے۔
دراصل اس آیت میں الْأوْلَیَانِ کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ دو افراد جو گواہ بننے کے لیے زیادہ اہل ہیں، مفسرین و مترجمین کا ذہن عام طور سے ادھر ہی گیا ہے۔ الْأوْلَیَانِ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو افراد جو گواہی دینے کے لیے زیادہ اہل تر قرار دیے گئے۔ یعنی جنھوں نے دوسروں کی حق تلفی کرکے آگے بڑھ کر گواہی دی۔ اگر یہ دوسرا مطلب اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور اعراب کی پیچیدگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ان کا مرتکب گناہ ہونا سامنے نہیں آیا تھا وہی گواہی دینے کے لیے اہل تر اور زیادہ حق دار تھے۔
الْأوْلَیَانِ کے موخر الذکر مطلب کے مطابق ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’پس اگر پتہ چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دوسرے دو ان میں سے کھڑے ہوں جن کی مقدم گواہوں نے حق تلفی کی ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی انھوں نے کی ہے جو شہادت کے زیادہ حق دار تھے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(518) انتقم کا ترجمہ
اردو میں انتقام کا لفظ بدلہ لینے کے معنی میں مشہور ہوگیا، اس کا اثر اردو میں ترجمہ کرنے والوں پر بھی محسوس ہوتا ہے۔ عربی زبان میں انتقم کا اصل مطلب ہوتا ہے سزا دینا۔ جب زیادتی کرنے والے کو اس کی زیادتی کی سزا دی جاتی ہے اور سزا دینے والا وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی تو خاص اس صورت میں بدلہ لینے کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے۔ ایک پہلو سے وہ سزا دینا ہوتا ہے اور دوسرے پہلو سے بدلہ لینا بھی ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی یہ لفظ اللہ کے لیے آیا ہے وہاں سزا دینا ہی درست ترجمہ ہے۔ اللہ کے لیے بدلہ لینے کی تعبیر نہ مناسب ہے اور نہ ہی حقیقت لفظ اور حقیقت حال کے مطابق ہے۔ اللہ کو کوئی گزند نہیں پہنچاسکتا کہ اللہ اس کا بدلہ لے۔ قرآن میں جہاں جہاں انتقم کے مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں وہاں مجرموں کو سزا دینے کا سیاق ہے۔
القاموس المحیط میں ہے: وانْتَقَمَ: عاقَبَہ۔
لسان العرب میں ہے: وانْتَقَمَ اللہُ مِنْہُ أیْ عاقَبَہ۔
اس تفصیل کے بموجب بہتر یہ ہے کہ انتقم کا ترجمہ سزا دینا کیا جائے۔ مختلف آیتوں کے کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:
(۱) إنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ۔ (السجدۃ: 22)
’’بیشک ہم مجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ہم گنہگاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’(یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گاروں سے انتقام لینے والے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درست ترجمہ ہوگا:
’’بیشک ہم مجرموں کو سزا دینے والے ہیں‘‘۔
(۲) فَإمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَإنَّا مِنْہُمْ مُنْتَقِمُونَ۔ (الزخرف: 41)
’’تو اگر ہم تمہیں لے جائیں تو ان سے ہم ضرور بدلہ لیں گے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اگر ہم تم کو (وفات دے کر) اٹھا لیں تو ان لوگوں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اب تو ہمیں اِن کو سزا دینی ہے خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں‘‘۔ (سید مودودی)
(۳) یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَی إنَّا مُنْتَقِمُونَ۔ (الدخان: 16)
’’جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے تو بیشک انتقام لے کر چھوڑیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جس دن ہم سب سے بڑی پکڑ پکڑیں گے بیشک ہم بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔(احمد رضا خان)
’’جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم پورا بدلہ لے کر رہیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درست ترجمہ ہے:
’’جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم سزا دے کر رہیں گے‘‘۔
(۴) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الاعراف: 136)
’’تب ہم نے اُن سے انتقام لیا‘‘۔(سید مودودی)
’’تو ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے ان کو کیفر کردار کو پہنچادیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۵) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الحجر: 79)
’’تو ہم نے ان سے بھی بدلہ لیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جن سے (آخر) ہم نے انتقام لے ہی لیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تو ہم نے ان سے بھی انتقام لیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے انھیں سزا دی‘‘۔
(۶) فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِینَ أجْرَمُوا۔ (الروم: 47)
’’پھر ہم نے مجرموں سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ پھر ہم نے گناہ گاروں سے انتقام لیا‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے مجرموں کو سزا دی‘‘۔
(۷) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الزخرف: 25)
’’تو ہم نے ان سے انتقام لیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’تو ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’آخر کار ہم نے اُن کی خبر لے ڈالی‘‘۔ (سید مودودی)
(۸) فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الزخرف: 55)
’’پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر جب انہوں نے وہ کیا جس پر ہمارا غضب ان پر آیا ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’ہم نے انھیں سزا دی‘‘۔
(۹) وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّہُ مِنْہُ وَاللّہُ عَزِیز ذُو انْتِقَامٍ۔ (المائدۃ: 95)
’’لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور جو پھر (ایسا کام) کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درست ترجمہ ہے:
’’اور جس نے دوبارہ یہ حرکت کی تو اللہ اسے سزا دے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور سزا دینے والا ہے‘‘۔
قرآن کی سائنسی تفسیر
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری
مترجم : ڈاکٹر سید متین احمد شاہ

Baljon نے 1961ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب: 1880- 1960 Modern Muslim Koran Interpretation میں ایک حصہ قرآن کی سائنسی تفاسیر کے لیے خاص کیا ہے1۔تفسیر -خاص طور پر جدید دور میں – کے بارے میں بیسویں صدی کی ستر کی دھائی میں تین اور مصنفین- ذہبی، شرقاوی اور جانسن - کی سامنے آنے والے مرکزی تصانیف ، جو قرآن کی جدید تفسیر کے ساتھ خاص یا ان سے تعلق رکھتی ہیں، میں انھوں نے اس طرزِ تفسیر کے تجزیے اور وضاحت کے لیے ایک معتد بہ حصہ خاص کیا ہے2۔ یہ گفت گو انھی مطالعات کا تسلسل ہے۔ اس میں اس رجحان پر بات ہوگی اور کسی حد تک انھی موضوعات کا احاطہ ہوگا، جو دیگر اہلِ علم نے زیرِ بحث لائے ہیں؛ تاہم اس رجحان کا یہ مطالعہ گذشتہ صدی کے آخری چوتھائی حصے پر عمومی طور پر روشنی ڈالے گا۔ مصنف کی عربی، انگریزی اور اردو زبانوں سے شناسائی کے باعث یہ مطالعہ انھی زبانوں میں لکھی گئی تصانیف تک محدود ہوگا اور عرب ، جنوبی ایشیا اور انگریزی دنیا کا جائزہ لے گا۔
(1)
اٹھارویں صدی مسلمانوں اور اہلِ یورپ کے مابین کشمکش کے باب میں حدِ فاصل ہے۔ 1798ء میں مصر پر فرانسیسی قبضہ ان ممالک کے درمیان طاقت کے بدلتے توازن کا نقطۂ عروج تھا۔ اس صدی کے دوران میں مسلمانوں کو اہلِ یورپ کے ساتھ تعامل کا ایک بڑا موقع ہاتھ آیا۔ یہ تعامل زیادہ تران کی اپنی سرزمینوں پر پیش آیا جہاں ان کا سامنا یورپی فوجیوں، سائنس دانوں، اطبا، انجینئروں، تاجروں اور اہلِ انتظام سے ہوا، تاہم یورپ کے بعض حصوں میں بھی ان کے ساتھ تعامل ہوا جہاں ان کے طرزِ زندگی، اداروں اور رویوں کے بارے میں ان کی سوچ کی تشکیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف اگر مغربی تہذیب کے کئی ایسے پہلو تھے جنھوں نے مسلمانوں کا غصہ بھڑکایا تو دوسری طرف اس کے متعدد پہلو ایسے بھی تھے جن کی انھوں نے اپنے معاشروں میں پائے جانے والے امور سے زیادہ مدح و ستائش کی۔ یورپی جدیدیت کے پہلوؤں میں سے جس پہلو کو عام طور پر زیادہ پسند کیا گیا- اور جسے مسلمانوں نے اہلِ یورپ کی ترقی اور قوت کا سب سے بڑا عنصر بھی سمجھا – وہ ان کی غیرمعمولی ترقی تھی جو انھوں نے علم ، خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی ، کے میدان میں کی3۔
مرورِ وقت کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد جدید یورپی علم، خصوصاً طبعی علوم اور ٹیکنالوجی، کی ضرورت کے ادراک کے لیے اٹھی4۔ یہ ضرورت فکری اور عملی ضرورتوں کے تحت محسوس کی گئی۔ فکری اعتبارات سے قطعِ نظر، عملی پہلو سے علمِ جدید کا حصول مسلمانوں کے لیے واحد راستہ نظر آیا جو بڑھتی ہوئی عسکری کم زوری، معاشی بدحالی اور پس ماندگی کا مداوا ہو سکتا تھا۔ انیسویں صدی کے دوران میں مسلمانوں میں جدید یورپی علم کے نفع بخش پہلوؤں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کا احساس بڑھتا گیا۔ کئی مسلم حکم رانوں نیز مفکرین کو شدت سے اس ضرورت کا احساس ہوا۔محمود ثانی( م 1839ء) ، محمد علی پاشا(م 1849ء)، خیرالدین تیونسی (م 1889ء)، رِفاعہ الطَہطاوی (م 1871ء)، جمال الدین افغانی(م 1897ء)، محمد عَبْدُہُ (م 1905ء) اور سرسید احمدخان (م 1898ء) نے ان علوم کے حصول کی صدا بلند کی۔ جن کے پاس سیاسی قوت تھی اور عملی سطح پر انھوں نے احوال کو بہتر بنانا چاہا – جن میں سے بعض یورپ کے خیالات اور اداروں سے متاثر تھے – انھوں نے تبدیلی کا کام شروع کر دیا۔
ہماری راے میں، قرآن کی سائنسی تفسیر کے مظہر کا آغاز ،مسلمانوں کو طبعی علوم کے حصول کے لیے مہمیز دینے کے علم کے طور پر شروع ہوا۔ یہ استدلال پیش کیا گیا کہ مسلمانوں سے ایسا کرنے کا مطالبہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہے، اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور یہ بہت قابلِ ستائش کام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس موضوع کے ساتھ نئے موضوعات اور دلائل جمع کیے گئے، جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔ ان میں سے اہم ترین بات یہ تھی کہ قرآن (اور حدیث) میں ایسی متعدد سائنسی صداقتیں موجود ہیں، جن کا انکشاف نزولِ قرآن سے بہت بعد میں ، موجودہ دور ہی میں ہو سکا ہے۔ جن قرآنی آیات میں اس طرح کی سائنسی صداقتوں کا وجود سمجھا گیا، انھیں بڑی قوت کے ساتھ قرآنی کی اعجازی حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس استدلال میں یہ بات شامل تھی کہ قرآنِ کریم تخلیقِ کائنات کے بارے میں بنیادی حقائق، بلکہ سائنسی حقائق اور قوانین کے ایک بڑے ذخیرے، جیسے بگ بینگ تھیوری (Big Bang) پر مشتمل ہے۔ یہ باتیں اس حقیقت کے اثبات کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قرآن، محدود انسانی علم کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے غیرمحدود علم پر مشتمل ہے۔ ان امور کی روشنی میں اب کئی مسلمان اہلِ علم کی طرف سے یہ بات کثرت سے کہی جا رہی ہے کہ قرآن نہ صرف علمِ خداوندی، حیات بعدالموت اور ان اصولوں پر مشتمل قابلِ اعتماد مصدر ہے جن پر انسانی طرزِ عمل کو استوار ہونا چاہیے، بلکہ وہ سائنسی علم کا بھی ایک قابلِ اعتماد مرجع ہے5۔
گذشتہ چودہ صدیوں میں تفسیرِ قرآن کے پیچھے یہ عنصر کارفرما رہا ہے کہ اس میں انسان کے لیے ہدایت کا سامان ہے تاکہ وہ موجودہ دنیا اور آخرت میں ایک اچھی زندگی گزار سکے۔ اس کا سب سے پہلا مطالبہ ایمان کا ہے جو اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے کہ اس ایمان کے اجزا کی تفصیلی وضاحت کرے۔دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کا عمل تقویٰ پر مبنی ہو۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، آیت ’’إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات‘‘ کی توضیح پورے قرآن میں کی گئی ہے، اس لیے یہ کہنا شاید غلط نہیں ہو گا کہ جس مرکزی بات کی طرف قرآن توجہ دلاتا ہے، وہ صراطِ مستقیم کی توضیح ہے جو ایمان اور عملِ صالح کا جامع ہے6۔
مسلمان ہمیشہ یہ بات سمجھتے رہے ہیں کہ قرآن انسان کی اس بنیادی ضرورت کے ضروری علم پر مشتمل ہے، تاہم انھوں نے بمشکل ہی اس کو تمام میدانوں کے لیے تفصیلی علم کا مصدر سمجھا ہے۔ جو لوگ اس نظریے کی طرف میلان رکھتے ہیں یا انھیں اس کا قائل سمجھا گیا ہے کہ قرآن میں ہر چیز بشمول سائنس کا علم ہے، معدودے چند رہے ہیں اور انھیں متعین کرنا ممکن ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے کہ ان کا رویہ جمہور مسلمان اہلِ علم سے منحرف رہا ہے۔محمد حسین الذہبی، جنھوں نے قرآن کی سائنسی تفسیر کی بنیادیں ابتدائی عہد کی مسلم فکری روایت میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اس حوالے سے صرف یہ نام پیش کر سکے ہیں: غزالیؒ، جلال الدین سیوطیؒ اور ابوالفضل المُرسی7۔اس طرح کے اہلِ علم کے جو اقوال ملتے ہیں -جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ قرآن مخصوص سائنسی معلومات کا مصدر ہے- مبہم سے ہیں اور ان کا اسلوب یقینی نہیں ہے8۔
(2)
سائنسی تفسیر کا رجحان انیسویں صدی کے نصفِ آخر کے کچھ مسلمان اہلِ علم کی تحریروں میں نمایاں یا کسی حد تک ممتاز ہوا ہے۔ان میں سے ایک مصری طبیب محمد بن احمد الاسکندرانی ہیں جنھوں نے 1880ء میں قاہرہ سے ایک کتاب ’’كشف الأسرار عن النورانيۃ القرآنيۃ فيما يتعلق بالأجرام السماويۃ والأرضيۃ‘‘ اور ایک دوسری کتاب 1883ء میں استنبول سے شائع کی۔اس کتاب کا عنوان’’تبيان الأسرار الربانيۃ في النبات والمعادن والخواص الحيوانيۃ‘‘ تھا۔ان دونوں کتابوں میں مصنف نے طبعی علوم سے متعلق بعض سوالات کی تشریح ان قرآنی آیات کی روشنی میں کی ہے جو مصنف کو سوالات کے جواب کے سلسلے میں مفید مطلب معلوم ہوئیں۔ مصر میں اس رجحان کی ترجمانی احمد مختار الغازلی (مصنف’’رياض المختار‘‘) ، طبیب عبداللہ فکری باشا، محمد توفیق صدقی (م1920ء، مصنفِ کتاب’’الدين في نظر العقل الصحيح‘‘، قاہرہ 1323ھ) اور عبدالعزیز اسماعیل، (مصنفِ کتاب’’الإسلام والطب الحديث‘‘، قاہرہ 1938ء) نے کی۔
تاہم یہ رجحان طنطاوی جوہری کی تحریروں، خصوصاً ان کی تفسیر’’الجواھر في تفسير القرآن الكريم‘‘ (1940ء)، میں اوجِ کمال پر پہنچا9۔ یہ 26 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ہے۔ جوہری نے بڑے زوروشور سے کہا کہ قرآن کی 750 آیات ایسی ہیں جو واضح طور پر طبعی کائنات سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر متعدد دیگر آیات بھی ہیں ، جو، ان کے نزدیک، اگرچہ طبعی کائنات سے اس سطح کا براہ راست تعلق نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف جوہری کہتے ہیں کہ قانونی امور سے متعلق آیات 150 سے زیادہ نہیں ہیں10۔ وہ مسلمان اہلِ علم پر سخت انداز میں تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کے اساسی اہمیت کے موضوع، طبعی علوم، سے لاعلمی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے بجائے فقہ پر زیادہ توجہ مبذول کی ہے، جوان کے نزدیک، کم اہمیت کی چیز ہے۔ جوہری یہاں ایک بار پھر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ترجیحات کی ترتیب تبدیل کریں اور سب سے زیادہ اہمیت طبعی علوم کو دیں۔ حسبِ ذیل اقتباس اس موضوع پر جوہری کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے:
اے امتِ اسلام!... میراث کی چند ایک آیات ہیں، جن میں ریاضی کا صرف ایک حصہ شامل ہے، لیکن ان 750 آیات کا کیا کیجیے جن میں کائنات کی تمام نیرنگیاں سما گئی ہیں؟ یہ سائنس کا دور ہے، یہ [اپنی مکمل شکل میں ] نورِاسلام کے ظہور کا زمانہ ہے، یہ عہدِ ترقی ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہمیں کونی علوم سے متعلق آیات پر اسی نہج پر توجہ کیوں نہیں دینی چاہیے جس پر چل کر ہمارے اسلاف نے آیاتِ میراث پر توجہ دی؟ میں، الحمد للہ، یہ بات کہتا ہوں کہ آپ کو اس تفسیر میں سائنسوں کا لُبِ لُباب ملے گا۔ ان علوم کا مطالعہ، میراث کے مطالعے سے زیادہ برتر ہے، کیوں کہ اول الذکر کی حیثیت ’فرضِ کفایہ‘ کی ہے، جب کہ ثانی الذکر کا مقصود علم میں ترقی ہے جو عمیق ایمان کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کی حیثیت ہراس شخص پر ’فرضِ عین‘ کی ہے جو ان کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہو11۔
اوپر کی بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں، جنوبی ایشیا کے علما کے مقابلے میں، مصری علما ’سائنسی تفسیر‘ کے حوالے سے زیادہ معروف تھے، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرسید احمد خان سائنس اور سائنسی افکار سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور ان کی دینی آرا پر ان کے عہد کے سائنسی خیالات کا رنگ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سرسید کے ہم مذہبوں کی نظر میں وہ اس معاملے میں اس حد تک جا چکے تھے کہ انھیں ’نیچری‘ کا تحقیر آمیز خطاب ملا۔ سرسید نے قرآنی آیات کے ایک بڑے حصے کی تفسیر طبعی علوم کے دائرے میں رہ کر کی، یہاں تک کہ انھوں نے معجزات پر مبنی آیات کی تشریح بھی اسی انداز سے کی۔ سرسید کا کہنا تھا کہ سائنسی حقائق تک رسائی کے لیے سماوی صحیفوں کی طرف دیکھنے کے بجائے ابتدائی طور پر سائنسی طریقِ کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ سرسید نے مذہب اور سائنس کے مابہ النزاع امور کے ساتھ ایک طویل عرصہ زورآزمائی کی اور ایسے اصولوں کے استخراج کی کوشش کی جو دونوں کے درمیان مطابقت کا کام دے سکیں۔ اس کشمکش کے حل کے لیے انھوں نے فطرت کو ’Work of God‘ (فعلِ خداوندی) اور قرآن کو (جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں) ’Word of God‘ (قولِ خداوندی)کہا۔ ان کا یہ پختہ نظریہ تھا کہ ’ورڈ آف گاڈ ‘اور ’ورک آف گاڈ ‘میں کبھی تعارض نہیں ہو سکتا۔ جن صورتوں میں کہیں تعارض ہے تو اس کے حل کے لیے سرسید نے مختلف اصول وضع کیے۔ تاہم جب ہم ان کی تفسیر یا تحریروں کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کا رجحان ’ورک آف گاڈ‘ کی طرف ، ’ورڈ آف گاڈ‘ کی بنسبت زیادہ ہے12۔
مُرُورِ وقت کے ساتھ سائنس اور مذہب (یا صحیح لفظ میں اسلام) کے درمیان خطوطِ امتیاز موجودہ صدی میں کئی مسلم مفکرین کے ذہنوں میں دھندلے ہوتے چلے گئے، تاہم اس رجحان کا ارتقا اسلام اور سائنس کے تعلق اور طبعی علوم کے مسائل کی تفہیم سے تعلق رکھنے والی آیات کی تفسیر کے صحیح منہج کےحوالے سے ایک نہیں بلکہ کئی نقطہ ہاے نظر اور رجحانات کے ظہور کا باعث بنا ہے۔
ایک موضوع جس سے سابقہ، معاصر اسلامی مباحث میں کثرت سے پیش آ رہا ہے، یہ ہے کہ قرآن سائنس کے حصول کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے متعدد آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں اللہ کی نشانیوں کے طور پر قدرتی مظاہر کا ذکر کیا جاتا ہے یا جن میں انسان کو ان مظاہر پر تدبر اور مشاہدے کی ترغیب دی جاتی ہے13۔ دوسرے لفظوں میں یہ آیات اس غرض کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قدرتی مظاہر کے صحیح مشاہدے سے انسان کا سائنسی علم ترقی کرتا ہے جو کہ مطلوب ہدف ہے۔ اس طرح سائنس کا حصول نہ صرف کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم (کائنات میں جاری قوانین کا علم ) حاصل کرنے اور اسے مسخر کرنے کی انسان کی مخفی تمنا کا جواب ہے، بلکہ یہ ایک دینی عمل اور فریضہ بھی ہے۔
اس تصور کی سب سے طاقت ور تعبیر ہمیں جنوبی ایشیا کے معروف فلسفی شاعر محمد اقبال (م1938ء) کے ہاں ملتی ہے۔ اس فکر کی تعبیر یوں تو ان کے مختلف اشعار میں بیان کی گئی ہے، لیکن سب سے زیادہ مؤثر اور مربوط انداز میں ، جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے، اسے The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں بیان کیا گیا ہے۔ اقبال نے قرآن کی کئی آیات نقل کی ہیں جو یا تو فطرت کے مظاہر میں (خدا کی) ’نشانیوں‘ کو بیان کرتی ہیں، یا اہلِ ایمان کو ان پر غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے تقریباً وہی آیات نقل کی ہیں جنھیں موجودہ صدی کے دیگر مسلم اہلِ علم نے نقل کیا ہے14، لیکن اقبال نے ان آیات کو نسبتاً بڑی معنویت کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک تو اس پہلو سے کہ ان آیات نے مسلم فکر کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے اور نتیجتاً تاریخِ انسانیت پر ان کا اثر بہت گہرا ہے۔
اقبال کا خیال ہے کہ اس کائناتی تدبر میں قرآن کا براہِ راست ہدف ، انسان میں اس چیز کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی علامت یہ فطرت ہے15۔ اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ آیات جو کائنات پر تدبر کی دعوت دیتی ہیں، وہ اسلامی ثقافت کی حقیقی روح کی ترجمان ہیں، کیوں کہ معرفت کے مقاصد کے لیے ان کا ارتکاز متناہی اور محسوس امور پر ہوتا ہے16۔ یہ علامت فکر اور اسلامی تہذیب کی امتیازی علامت ہے جو اسے یونانی فکر سے ممتاز کرتی ہے جس کے ساتھ اپنی تاریخ کے آغاز میں اسے تعامل کا سابقہ پیش آیا تھا۔ یونانی فکر زیادہ تر حقیقت کے بجائے نظریے سے اعتنا کرتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ہم اقبال کی طرف رجوع کرتے ہیں:
قرآن حقیقتِ اعلیٰ کی نشانیاں فطرت کے تمام مظاہر میں دیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غور و فکر کرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے، کیوں کہ وہ انسان جو ان آیات کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا، وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ زندگی کے ٹھوس حقائق کے مشاہدے کی اس دعوت اور نتیجتاً آہستہ آہستہ پیدا ہونے والے اس احساس سے قرآن کی تعلیمات کے مطابق کائنات اپنی اصل میں حرکی اور متناہی ہے اور فروغ پذیری کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلم مفکرین اور اس یونانی فکر کے درمیان کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی جس کا انھوں نے اپنی فکری تاریخ کی ابتدا میں بڑے انہماک سے مطالعہ کیا تھا17۔
اوپر ذکر کردہ وجوہات کی بنا کر یہ بات باعثِ تعجب نہ ہو گی کہ اقبال کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسلام کا ظہور ، استقرائی عقل کا ظہور تھا18۔ اقبال مسلمان اہلِ علم اور سائنس دانوں کے کردار سے واقف تھے جو انھوں نے علم کی مختلف شاخوں، جیسے ریاضی، فلکیات، طبیعیات اور کیمیا میں ادا کیا۔ یہ حصہ اگرچہ علم کے متعین میدانوں سے تعلق رکھتا ہے، تاہم جس چیز نے اقبال کو حقیقی معنیٰ میں خوشی سے سرشار کیا، وہ عقلِ انسانی کے ارتقا میں اسلام کا تاریخی رول تھا۔ تاریخ میں اسلام کا مرکزی کردار یہ تھا کہ اس کی تعلیمات کے زیرِ اثر سائنسی روح اور سائنسی منہاج کا وہ راستہ ہم وار ہوا جو آج کی جدید سائنس کی برومندیوں کا مصدر ہے19۔
اقبال نے جس بات پر زور دیا ہے، وہ اسلام اور سائنس کے سوال کی معاصر بحث کا ایک جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔ اس موضوع پر لکھنے والے متعدد عظیم مسلم مصنفین پورے طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ فطری مظاہر سے تعلق رکھنے والی یا ان پر غور و فکر پر ابھارنے والی آیات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سائنسی ابحاث میں دل چسپی لیں اور یہ چیز اسلام کے ضروری مطالبات میں سے ہے۔جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اقبال اس بات سے آگاہ تھے کہ قرآن کی طرف سے عائد کردہ اس تدبرِ فطرت کا بنیادی ہدف ، انسان میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی یہ فطرت ایک علامت ہے20۔ اس موضوع پر جو لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے، اس کے وسیع مطالعے اور اس باب میں پیش کیے گئے اساسی امور پر توجہ مبذول کرنے سے انسان جو تاثر لیتا ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کا مذکورہ بالا ملاحظہ (جس کی بنت کاری اتنے مربوط اور دقیق اسلوب میں کی گئی ہے کہ معدودے چند عقول ہی اسے گرفت میں لے سکتی ہیں۔ )اپنے قارئین اور سامعین پر قابلِ ذکر اثر نہیں مرتب کر سکا۔ ذاتی طور پر اقبال کا روحانیتِ اسلام اور اس کی تعلیمات پر یقین اس قدر راسخ اور ان کی ذات کا جزوِ لازم تھا کہ ان کے نزدیک مشاہدۂ کائنات کے تصور سے خالق کی تذکیر ایک ناگزیر امر ہے۔ اقبال کے بعد کی نسلوں کے ہاں بظاہر لگتا ہے کہ مظہرِ فطرت ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ ’سائنسیت‘ اور انسان کی خدمت کے لیے قوانینِ فطرت کی دریافت کا نام ہے۔
(3)
حالیہ عشروں میں مسلمان اہلِ علم نے اس گفت گو کے ضمن میں ایک موضوع متعارف کروایا ہے، جو اگرچہ اس سے پہلے بھی اسلامی روایت کا جز رہا ہے، تاہم وہ کسی حدتک نیا ہے۔ ہم یہ بات دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اقبال نے پوری قوت سے تجربی طریقِ کار کو متعارف کروانے میں اسلامی کلچر کے رول پر زور دیا ہے جو ان کے نزدیک سائنسی حقائق تک رسائی کا وسیلہ ہے، تاہم ایسا نہیں لگتا کہ اقبال تجربے اور مشاہدے پر اعتماد کیے بغیر محض قرآن کے گہرے مطالعے کی اساس پر یہ باور کرتے ہیں کہ علم کی حدود اور آفاق کی توسیع کی جا سکتی ہے اور یہ کہ صرف سماوی کتاب سائنسی تحقیق کا بدل ہو سکتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسلام اور سائنس کی حالیہ بحث میں ایسے کوئی حتمی تصورات نہیں ملتے جو تجربی طریقِ کار کے مؤثر ہونے کی نفی کرتے ہوں، تاہم اس تصور پر زور دیا جاتا ہے کہ قرآن سائنسی حقائق کا خزینہ ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ انسان اکثر اس بات پر متحیر ہوتا ہے کہ دو مصادر -قرآن اور سائنس دانوں کے استعمال کردہ تجربی طریقِ کار- کے درمیان اصل تعلق کیا ہے؟ تاہم یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔
بظاہر لگتا ہے کہ قرآن کے تمام علوم کا مخزن ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے جو بات محرک ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن پر لوگوں کے ایمان کو راسخ کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں اس کا مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ دیگر اسبابِ اعجاز -لغوی وغیرہ- کے علاوہ قرآن اعجاز کے ایک بہت مؤثر پہلو، سائنسی اعجاز کا بھی حامل ہے21۔
ایک معروف معاصر ماہرِ ارضیات زغلول نجار ہیں جو علومِ ارض کے ساتھ اسلام سے متعلق بھی وسیع علم رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن تکرار کے ساتھ پہاڑوں کے زمین کی میخیں ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ یہ پہاڑ زمین کی اوپر کی سطح کو نہ صرف ہلنے سے روکے ہوئے ہیں، بلکہ وہ زمین کے ٹھہراؤ کے لیے میخوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ نجار کہتے ہیں کہ یہ حقیقت قرآن کے نزول کے تیرہ صدیوں کے بعد انیسویں صدی کے نصف میں جا کر معلوم ہو سکی ہے22۔ پہاڑوں کے بارے میں آخری دور میں علوم جن حقائق تک پہنچے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نجار کہتے ہیں: ’’یہ ان بے شمار شہادتوں کی چند مثالیں ہیں جو قرآن کے الوہی مزاج اور رسالتِ محمدیہ کے صدق کا اثبات کرتی ہیں کہ کسی بھی انسان کو انیسویں صدی کے نصف سے پہلے ان حقائق کا پتا نہیں تھا اور 1960ء سے پہلے یہ بات اس شکل میں سامنے نہیں آئی تھی۔ ‘‘23
موریس بوکائی کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس گذشتہ دو عشروں سے مسلمانوں میں نہایت مقبول رہی ہے۔ اس کتاب کا مرکزی تصور یہ ہے کہ سائنسی طریقِ کار سے قطعی طور پر ثابت شدہ مواد اور وحی کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے۔ بوکائی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآنی متن اور جدید سائنسی حقائق کے درمیان مطابقت کا مطالعہ کیا ہے24 اور اس مطالعے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ قرآن میں کوئی ایک بھی بیان ایسا نہیں ہے کہ جدید سائنسی نقطۂ نظر سے اس کی تردید ممکن ہو25۔ انھوں نے اسی طریقِ مطالعہ کو بائبل پر بھی منطبق کیا لیکن نتائج بالکل مختلف تھے۔ یہاں تک کہ اس کی پہلی کتاب، کتابِ پیدائش میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو جدید سائنسی حقائق سے مکمل طور پر بعید ہیں۔)26 (یہ بات اہم ہے کہ بوکائی نے کتاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے:
حضرت محمد ﷺ کے زمانے کی معلومات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابلِ تصور معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کے بہت سے وہ بیانات جو سائنس سے متعلق ہیں، کسی بشر کا کام ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات مکمل طور پر صحیح ہے کہ قرآن کو وحی ِ آسمانی کا اظہار سمجھا جائے، لیکن ساتھ ہی اس استناد کے سبب جو اس سے فراہم ہوتی ہے، نیز ان سائنسی بیانات کی وجہ سے جن کا آج بھی مطالعہ کرنا بنی نوعِ انسان کے لیے ایک چیلنج ہے، اس کو ایک انتہائی خصوصی مقام حاصل ہے27۔
مصر کے عبدالرزاق نوفل نے اسلام اور سائنس کے تعلق پر متعدد معروف کتابیں تحریر کی ہیں۔ اپنی کتاب القرآن والعلم الحديث کے بالکل ابتدائی باب إعجاز القرآن میں مصنف قرآن کو ایک ’معجزۂ سرمدی‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ذکر کرتے ہیں کہ ماضی میں مسلمانوں نے قرآن کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا جیسے اس کی بلاغت، ادبی اسلوب، نغماتی وصف، پیش گوئیاں (جن کی تائید رونما ہونے والے واقعات نے کی۔) اور اس کے تشریعی احکام28۔ نوفل آگے چلتے ہوئے کہتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں قرآن کا سائنسی اعجاز ، ناقابلِ انکار حقیقت بن گئی ہے۔ ’’جدید دور میں علوم کی فکری پیش رفت نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ قرآن ، سائنس کی کتاب ہے جس نے تمام علوم و حکمت کی بنیادیں پیش کر دی ہیں۔جب بھی علم کی کوئی نئی شاخ سامنے آتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے یا تو پہلے ہی اس طرف متوجہ کیا ہوتا ہے یا کم از کم اس کی طرف اشارہ دیا ہوتا ہے۔‘‘29 نوفل آگے چل کر قرآن کے سائنسی معجزات کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے قرآن کی ایک یا زائد آیات ذکر کرتے ہیں اور پھر ہمارے دور کے مسلمہ سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں جو قرآن سے مطابق معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے:’’أنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا ‘‘(الأنبياء: 21: 30۔) (آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں پھاڑ دیا۔) جب Laplace نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا، تو نوفل کہتے ہیں: ’’یہ بات سائنس کی فتح مندی سمجھی گئی، اگرچہ قرآن نے یہ بات صدیوں پہلے کہ دی تھی۔‘‘(کذا) 30 نوفل کہتے ہیں کہ ’’اگر ہمیں غیر عرب دنیا کو بھی مخاطب کرنا ہے کہ قرآن ایک سائنسی معجزہ ہے، [ایسی کتاب] جو جدید سائنس کی مبادیات ، حتی کے اس کی نئی ترقیوں پر بھی مشتمل ہے، تو پھر کیا قرآن کا یہ معجزاتی پہلو اہلِ مغرب کو اس کی اعجازی نوعیت کے بارے میں قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا؟ ‘‘31
ایک دوسرا علمی کام جو مسلمانوں میں غیر معمولی دل چسپی کا موجب بنا ہے، کیتھ ایل مور(Keith L.Moore) کی علم الجنین (Embryology) پر معروف کتابThe Developing Human ہے۔ ہم یہاں اس کے تیسرے ایڈیشن کا حوالہ دے رہے ہیں جو عبدالمجید زِندانی کی طرف سے’’ قرآن و حدیث کے تعلق سے مطالعہ: اسلامی اضافہ جات کے ساتھ‘‘ شائع ہوا تھا۔ زندانی یمن کے معروف عالم ہیں جو اعجازِ قرآن و سنت کی کمیٹی (جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔) کے روحِ رواں رہے ہیں۔
مُور کی کتاب پر اپنے دیباچے میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ اس کتاب کا متن پہلے والا ہی ہے ’’البتہ انسانی جنینیات کے حوالے سے قرآن وسنت کے بیانات کے متعدد حوالہ جات کا اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اول تو مجھے علم الجنین کے وجود سے پہلے ساتویں صدی عیسوی میں محفوظ کیے گئے ان بیانات کی درستی پر حیرت ہوئی۔ اگرچہ مجھے دسویں صدی میں شان دار مسلم تاریخ کے سائنس دانوں اور طب کے میدان میں ان کی کچھ کارکردگی سے شناسائی تھی، لیکن مجھے قرآن وسنت میں موجود حقائق کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسلامی اور دیگر طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم الجنین کے بارے میں ان قرآنی بیانات کے مفاہیم کو معاصر سائنسی علم کی اساس پر سمجھیں۔ (یہ بات بڑی تاکید سے کہی گئی ہے۔) ‘‘32
اس مقالے کی مقصد کے پیشِ نظر ہمارے لیے بنیادی دل چسپی کی چیز کیتھ مور کا نقطۂ نظر نہیں ہے، بلکہ ہماری اصل دل چسپی ان ’’اضافہ جات‘‘ ، طریقِ مطالعہ اور ان ’’اضافہ جات ‘‘کے بین السطور مقاصد سے ہے۔ یہ بات قابلِ ملاحظہ ہے کہ ’’اضافہ جات‘‘ ، علم الجنین سے متعلق قرآن وسنت کے مواد کے بہت جامع اور محتاط مطالعے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جہاں تک اس کام کے مقصد کا تعلق ہے، اس کے لیے عبدالمجید زندانی کے قلم سے ’’اسلامی اضافہ جات کے تعارف‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ:
قرآن و حدیث کئی مقامات پر اللہ کی تخلیق پر عمیق غور و فکر اور مشاہدے کے لیے انسان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بیان کردہ متعدد میدانوں میں، جدید طریقوں کے استعمال کے ذریعے ، جدید تحقیقات نے حیرت انگیز ملتے جلتے نتائج پیش کیے ہیں۔ جوہری اعتبار سے چودہ سو سال قبل پیش کردہ قرآن و سنت کے واضح بیانات اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر ثابت شدہ عصرِ حاضر کے حقائق کے درمیان اتفاق ہے۔ ایک طرف قرآن و حدیث کی نصوص اور دوسری طرف ثابت شدہ سائنسی حقائق کے اس دل چسپ اتفاق کی طرف مسلمانوں اور غیر مسلموں کی توجہ مبذول کی گئی تھی۔۔۔ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والی قرآنی نصوص اور آپ کی احادیث میں ، جنین (Embryo) کے ارتقا کے مراحل کے بارے میں موجود معلومات کو پا کر علم الجنین کے ماہرین کو حیرت ہو گی۔ یہ نصوص ان حقائق سے نقاب کشائی کرتے ہیں جن سے متعلق ساتویں صدی عیسوی میں قرآن کے نزول کے بعد مدتوں تک انسان کو غلط فہمی لاحق رہی ہے۔ یہ بات کہنے کی حاجت نہیں کہ سائنس کی قرآنی نصوص کے ساتھ مکمل ہم آہنگی واضح ہو جائے گی ، کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا علم سچا ہے۔‘‘33
(4)
ہم نے اہلِ علم کے بیان کردہ جو متاثر کن شواہد ذکر کیے ہیں ( اور کئی اور بھی جو جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر درج نہیں کیے جا سکے۔) ان کے باوجود بعض بہت سنجیدہ سوالات ہیں جو قرآن اور سائنس کے تعلق کے بارے میں ہیں، جو ہنوز نہایت عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ تعرض کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
جو اہلِ علم قرآن کے سائنسی معجزات کے تصور کی بات کرتے ہیں، ان کے موقف کی ایک کم زوری، ان کی طرف سے قرآن اور سائنس میں مطابقت دکھانے کی غیر سنجیدہ جلد بازی ہے۔ وہ اس جذبے سے اس حد تک بے قابو ہو جاتے ہیں کہ علمی احتیاط اور فکری بلوغ کا خون ہو جاتا ہے۔ وہ نتائج نکالنے میں جلدی کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ کسی حقیقت کو جاننے سے زیادہ ان پر کسی نظریے کے اثبات کی دھن سوار ہے۔ معاصر اسلامی ڈسکورس عجلت پسندی اور فکری پختگی کی کمی کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے اپنا اختصاص اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں بگ بینگ جیسے سائنسی نظریات کا معاینہ کر سکوں کہ آیا وہ قطعی طور ثابت شدہ ہیں یا محض مفروضات ہیں؛ لیکن مسلمان اہلِ علم کا ایک پورا گروہ ہے جو اپنے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر قرآن کی طرف دوڑتا ہے تاکہ اس کی ایک یا دو آیات کے بیان سے اس کی عظمت کو ثابت کرے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ قرآن نے برسوں پہلے یہی حقیقت بیان کی تھی جو سائنس دان اب کہ رہے ہیں۔ (ہمارے نزدیک اگر قرآن میں بگ بینگ تھیوری کی تائید میں کوئی آیت نہ بھی ہوتی، تب بھی وہ اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے مقدس ہی ہوتا۔) تاہم آئیے ہم مذکورہ جذبے کے حوالے سے قرآن سے کچھ مثالوں کو سامنے رکھتے ہیں جنھیں بظاہر قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے جدید نظریات کے اثبات کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
ہم ایک کتاب پر نظر ڈالتے ہیں جو حالیہ سالوں میں مسلمان اہلِ علم کے درمیان گردش کرتی رہی ہے جسے نور باقی نے تصنیف کیا۔ اس میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ بگ بینگ تھیوری کی تائید سورۂ فلق 113: 2 آیت سے ہوتی ہے۔ فعل، فلق کا معنی ہے پھاڑنا، شگاف ڈالنا۔۔ٹکڑے کرنا، توڑنا34۔ سورۂ فلق کی اس آیت میں، سورت کے سیاق کے پیش نظر، علما نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے "کہ دیجیے میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں۔" آیت میں چوں کہ 'فلق' کا معنیٰ موجود تھا، اس سے ہلوک نور بکی نے غلط طور پر یہ مفہوم مراد لیا کہ یہاں بڑے دھماکے (بگ بینگ، جو کائنات کے وجود میں آنے کا سبب بنا) کے رب کی پناہ مانگی گئی ہے۔ اس لیے مصنف نے سورۂ فلق کی پہلی دو آیات کا ترجمہ کیا:"میں (مابعد نظریۂ انفجارِ عظیم جس نے کائنات کو وجود دیا) سے ہر اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو پیدا کی گئی ہے۔ اسی مصنف نے آیت {وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاھَا بِأيْدٍ وَإنَّا لَمُوسِعُونَ} [الذاريات: 47] کا ترجمہ یوں کیا ہے: "ہم کائنات کو وسعت دے رہے ہیں۔"35 ہم فتح اللہ خان کی کتاب God, Universe and the Man: The Holy Qur'an and the Hereafter دیکھتے ہیں36۔ یہ مصنف مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ وہ اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس توانائی کے ذریعے ایٹم بنا ہے، اس کی طرف واضح اشارہ آئن سٹائن کی مساوات E=mc2 سے کیا گیا ہے۔ لہذا تمام کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ آیت کے دوسرے حصے میں مصنف کے نزدیک کائنات کے پھیلاؤ کے معروف نظریے کا بیان ہے۔ آیت کے دونوں حصوں کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات، جو کہ توانائی سے پیدا ہوئی ہے، پھیل رہی ہے37۔ اس ساری اپروچ میں ایک بڑا مسئلہ، جس کی طرف اوپر ہم مختصر اشارہ کر آئے ہیں، یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قرآن کی ترجیحات کو بدل دیتی ہے۔ قرآنی آیات اس اپروچ کے مطابق ہمیں کائناتی حقائق کا علم دیتی ہیں گویا قرآن انھی حقائق کا بنیادی مصدر ہوا۔ یہ بات واضح ہے کہ کائنات کے بارے میں ان حقائق کو انسان خود اپنی کاوشوں سے دریافت کر سکتا ہے ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ سائنسی مظاہر جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ قرآن نے ان کی طرف اشارہ کیا ہے، دنیا کے سامنے قرآنی اعجاز کے طور پر پیش کیے جانے سے پہلے اکثر حالات میں انسانوں -عموماً غیر مسلموں- نے دریافت کیے ہیں۔
ان سب باتوں کو ایک طرف رکھیے، ایک نکتہ ہنوز تشنہ رہتا ہے کہ قرآن کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟ وہ کون سی اساسی چیزیں ہیں، جنھیں قرآن انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے؟ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ ؒ کا ایک فرمان مشعل راہ ہے؛ وہ فرماتے ہیں:
قرآن کے بنیادی مقاصد پانچ ہیں۔ پہلی چیز احکام ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا چیزیں اوامر ہیں اور کیا نواہی۔ یہ احکام عبادات سے لے کر معاملات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ موضوع فقہاء کا ہے۔ دوسرا موضوع گم راہ فرقوں -یہود، نصاریٰ، مشرکین اور منافقین- کا ہے۔ یہ موضوع متکلمین کی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے۔ تیسرا موضوع وہ قصص ہیں جو مخلوق کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہیں (تذکیر بآلاء اللہ)، اللہ کے کمال کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ نے زمین آسمان پیدا کیے اور ساری مخلوق کو کسبِ رزق کے طریقے سکھائے ۔ تیسرا موضوع تذکیر بایام اللہ کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کس طرح اللہ نے گذشتہ امتوں کے ساتھ معاملہ کیا؛ بعض کو انعامات سے سرفراز کیا اور بعض کو سزا دی۔ پانچواں موضوع تذکیر بالموت و مابعد الموت کا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ جن آیات کو قرآن کی سائنسی آیات کہا جاتا ہے، وہ شاہ ولی اللہ ؒ کی تقسیم کے مطابق تذکیر بآلاء اللہ کے زمرے میں آتی ہیں۔
تاہم اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ زمین، آسمان، سیارے، بارش، سمند ر اور پہاڑ وغیرہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ قرآن ان کے بارے میں انسانیت کو باخبر کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ کائناتی مظاہر کے بارے میں نشانیوں والی آیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی توجہ ان بنیادی حقائق کی طرف منعطف کی جائے تاکہ وہ کائناتی مظاہر کے مقابلے میں زیادہ بڑے اور اہم درجے کے مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان آیات کو ان کے سیاق سے ہٹا کر دیکھنا ان کے مجوزہ مقاصد سے آزاد کرنا ہے۔ انھیں قرآن کے اصل خطاب سے جدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کے حقیقی مفاہیم اور اہمیت سے دور کر دیا جائے۔ اس طرح کی باتیں کہ قرآن ہر قسم کے علم کی کتاب ہے38، ہوش مند ، پختہ اور ذمے دار اہلِ علم کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح قرآن کے بارے میں اس طرح کے چلتے ہوئے بیانات کہ اس میں ہر قسم کا علم ہے، ان کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تراث میں کوئی تائیدی دلیل موجود نہیں ہے۔ ایک طرف دیکھا جائے تو اس قسم کے پر جوش بیانات میں کارفرما رویوں کا انجام غالبا اس بات پر ہوتا ہے کہ قرآن کو ہمیشہ بدلتی رہنے والی سائنس کے تابع کیا جائے اور اسلامی علما کو غلامانہ وفاداری کے کردار پر مجبور کیا جائے جو سائنس دانوں کے اشاروں پر چلیں اور کتابِ عزیز کو جدید نظریات کے تابع بنائیں۔ دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس قسم کے مبالغہ آمیز دعوے کہ قرآن تمام اساسی علوم کا مصدر ہے ، علمیاتی پراگندگی اور فکری آوارگی کا باعث ہیں اور یہ چیز کتاب اللہ اور سائنس دونوں کے لیے مضر ہے۔
حواشی
(1) مرحوم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا ایک مقالہ” “Scientific Exegesis of the Qur'an کے نام سے اڈنبرگ یونی ورسٹی کے مطالعاتِ قرآنی پر معروف مجلے Journal of Qur‘anic Studiesکے شمارہ Vol:3, No:1 (2001) میں شائع ہوا۔ قرآنِ کریم کی تفسیر کے جدید رجحانات میں سائنسی تفسیر کا رجحان خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے پیشِ نظر اس مقالے کو اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ (مترجم)
See J.M.S.Baljon, Modern Muslim Koran Interpretation 1880-1960 (Leiden: Brill, 1961),pp.88-98.
(2) محمد حسین الذہبی، التفسير والمفسرون، طبع سوم (قاہرہ: مکتبہ وہبہ، 1985ء) ، دیکھیے خصوصا ، ج 2،ص 454- 468؛ عفت محمد الشرقاوی، اتجاھات التفسير في مصر في العصر الحديث(قاہرہ: مکتبۃ الکِیلنی، 1972ء)، ص 367- 377؛
Jansen, J.J.G. The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, Leiden: Brill, -1974, pp. 35-54.
فہد عبد الرحمن الرومی، منھج المدرسۃ العقليۃ الحديثۃ، طبع سوم، (بيروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1407ھـ)، ص 269- 283۔
(3) دیکھیے:
lbert Hourani, Arabic Thought in the Liberal Age, 1798-1939 (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1970); Bernard Lewis, The Emergence of Modern Turkey, II edition (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1968), and Gulfishan Khan, Indian Muslim Perceptions of the West During the Eighteenth Century (Karachi: Oxford University Press, 1998).
(4)
Cf. J.J.G. Jansen, The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, p. 41
خصوصا یہ الفاظ :”یقینا (مسلمانوں میں) جدید سائنسی تفسیر اور مغرب کے عرب اور مسلم دنیا پر اثر کے درمیان ایک تعلق ہے۔انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں مسلم اقلیم کے زیادہ سے زیادہ حصے یورپی تسلط کے نیچے آ گئے۔ مصرخود بھی 1882ء میں برطانوی فوج کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔۔۔یورپ کا یہ تسلط ، بہترین یورپی ٹکنالوجی کے باعث ممکن ہوا تھا۔بہت سے مخلص مسلمانوں کے لیے کسی تفسیر میں یہ بات پڑھنا وجہ تسلی ہے کہ جن سائنسوں اور اصولوں نے یورپ کو مسلمانوں پر غلبہ دیا ، ان کی بنیاد اصل میں ان اصولوں اور سائنسوں پر قائم ہے جو قرآن میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ “
(5) قابل ذکر بات یہ ہے کہ ارضیات کے ایک نام ور مسلمان پروفیسر زغلول النجار کی کتاب ہے۔
Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än ( Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.)
(6) مذکورہ کتاب شاید قرآن کے بنیادی مقاصد کو بیان کرنے کی ایک غیر ماہرانہ کوشش ہے۔ اس پر ایک واضح، بلیغ اور صحیح وضع کردہ بیان کے لیے دیکھیے: شاہ ولی اللہ دھلوی، الفوز الكبير في أصول التفسير، ترجمہ:رشید احمد انصاری، اس کے ساتھ مولانا تقی عثمانی، تفسیر کے چند ضروری اصول (لاہور: ادارہ اسلامیات، 1982ء)، ص 4، 5۔نیز دیکھیے:بدر الدین الزرکشی، البرھان في علوم القرآن(قاہرہ: الحلبی، 1957ء)، ج 1، ص 16- 21۔
(7) دیکھیے ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 454- 464۔یہ بحث کہ قرآن ، بشمول سائنسی علم، ہر قسم کے علم کو شامل ہے، اس کی تائید قرآن کی دو آیات( الأنعام 6: 38، اور النحل 16: 89)سے کی جاتی ہے۔اگر ہم ان آیات پر قرآن کی تفاسیر کی طرف مراجعت کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس اختلاف کی بمشکل ہی کوئی بنیاد ہے۔
(8) نفسِ مرجع۔
(9) (قاہرہ: الحلَبی، 1340ھ- 1351ھ)۔
(10) یہ بات کہ قرآن کی کائنات سے متعلق آیات، قانون سے متعلق آیات سے زیادہ ہیں، زیرِ بحث گفت گو کے تحت آنے والی ایک مکرر گفت گو بن چکی ہے۔750 کا عدد بھی ان قلم کاروں کی بڑی تعداد نے نقل کیا ہے جو ان کے طرزِ فکر کے حامی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری نے مسلم اہلِ دانش کے ایک طبقے پر کتنا اثر ڈالا ہے۔
(11) دیکھیے: ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 483- 484۔
(12) دیکھیے: سرسید احمد خان، تفسیر القرآن(لاہور: دوست ایسوسی ایٹس، 1994ء)، مختلف مقامات سے۔نیز دیکھیے: سی ڈبلیو ٹرول۔Sayyid Ahmad Khan: A Reinterpretation of Muslim Theology (کراچی: آکسفرڈ، نیویارک، دھلی: آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، 1979ء)، خصوصاً، باب 5۔
(13) جوآیات اس حوالے سے نقل کی جاتی ہیں،ان کا بغور مطالعہ یہ دکھاتا ہے کہ ان آیات کا اصل مقصد بجائے خود فطری مظاہر پر غور و فکر کی ترغیب دینا نہیں ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ 'مومن' ان کائناتی چھوٹے حقائق کے مشاہدے سے بلند ہو کر اعلیٰ، بڑے حقائق کی معرفت حاصل کرے - ایسے حقائق جو خدا کے علم، حکمت، قدرت، شفقت اور رحمت کو ظاہر کرتے ہیں، ایسے حقائق جو مکمل طور پر یہ واضح کرتے ہیں کہ موجودہ زندگی کے بعد قیامت اور آخرت آئے گی۔
(14) مثال کے طور پر دیکھیے: البقرۃ 2: 164؛ الفرقان25: 45- 46؛الغاشيۃ 88: 17- 20؛الروم30: 22؛ الرعد 13: 14؛الانشقاق 84: 16- 19؛ العنكبوت 29: 20؛ النحل 16: 12؛ فصلت 41: 20؛ النور 24: 44؛ يونس 10: 66؛ الفرقان 25: 62؛ لقمان 31: 27 وغیرہ۔
(15) محمد اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam (لاہور: ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، 1982ء)، ص 13۔
(16) نفسِ مرجع، ص 131۔
(17) نفسِ مرجع، ص 126۔
(18) نفسِ مرجع، ص 125۔
(19) نفسِ مرجع ، خصوصی طور پر دیکھیے: ص 129- 131۔
(20) نفسِ مرجع، ص 13۔
(21) یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1980ء میں مکہ میں مسلم ورلڈ لیگ نے ایک کمیٹی بعنوان Committee on the Scientific Miracles of the Qur'an and Sunnah بنائی۔
(22) دیکھیے:النجار
Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än (Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.), pp. 47-50.
(23) نفسِ مرجع، ص 50۔
(24) موریس بوکائی، The Bible, the Qur'än and Science (لاہور: پروگریسو بکس، س ن)، صvii۔
(25) نفسِ مرجع، ص viii۔
(26) نفسِ مرجع، ص viii۔
(27) نفسِ مرجع، ص 251- 252۔
(28) عبدالرزاق نوفل، القرآن والعلم الحديث (قاہرہ: دار المعارف، 1959ء)، ص 11ff۔
(29) نفسِ مرجع، ص 29۔
(30) نفسِ مرجع، ص 29۔
(31) نفسِ مرجع، ص 29۔
(32) کِیتھ مُور، The Developing Human: Clinically Oriented Embryology یہ کتاب عبدالمجید الزندانی کے قلم سے اسلامی اضافات کے ساتھ شائع ہوئی۔ طبعِ ثالث(جدہ:دار القبلہ، 1983ء)، ص viii c۔ خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔یہ بات قابلِ فہم ہے کہ مُور کو ایسے کہنا چاہیے تھا۔ تاہم،کلمۂ ناشر کا ایک جز آسانی سے قابل فہم نہیں جو دارالقبلہ براے اسلامی ادب جدہ کی طرف سے لکھا گیا ہے:”مجھے یہاں ایک نکتے کی وضاحت کرنے دیجیے۔ یہ قرآن ، باوجود اس بات کے کہ وہ سائنی امور کو بیان کرتا اور ان کی تصدیق کرتا ہے، سائنس کی کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوع کی ہدایت کی بہترین کتاب ہے۔ (سورۃ البقرۃ 2: آیت 2) خالقِ فطرت کے 'جہان' (کذا: درست 'لفظ'ہے۔) ہونے اوراس کے اپنے دعوے کے مطابق:”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔(سورہ 2، آیت 2)اسے ان امورکی تصدیق کرنی چاہیے جنھیں سائنس مشاہدے، تحقیق اور تجربے /۔ سے ثابت کرتی ہے۔“(ص۔viii b.)(خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔) مذکورہ بالا بیان کی دلالتوں پر غور کرتے ہوئے انسان کچھ تردد کا شکار ہو جاتا ہے۔میں اگر سمجھنے میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ بات ، قرآن کے اس مقامِ بلند سے لگا نہیں کھاتی جو اسلام کی رو سےاسے حاصل ہے۔
(33) نفسِ مصدر، ص 12 اے۔
(34) ہلوک نور باقی ، Verses From The Holy Quran And The Facts Of Science، ترجمہ: Metin Beynam (کراچی: انڈس پبلشنگ کارپوریشن، 1992ء)۔
(35) نفسِ مصدر، ص 308-314۔نیز دیکھیے: ص 223- 232۔اگر میں ذاتی لحاظ سے عرض کروں تو مجھے بنيناھا بأيد کی روایتی تفہیم زیادہ آسان محسوس ہوتی ہے جس کے مطابق یہ آیت اللہ کی قوتِ تخلیق پر زور دے رہی ہے ،کہ اس نے آسمان جیسی مشکل چیز کو پیدا کرڈالا۔اس بات کی تائیدکلمۂ أيد کے استعمال سے ہوتی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تنہا خدا نے آسمان کو بلا کسی کی مدد کے پیدا کیا، کیوں کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے۔
(36) (لاہور: Wajidalis، 1982ء)۔
(37) نفسِ مصدر، ص 48۔بعید از قیاس ہونے کے علاوہ یہ تفسیر روایتی تفسیر کے روحانی لحاظ سے مالامال پہلوسے محروم معلوم ہوتی ہے جو بہت قوت سے انسان کو خداے برتر کی یاددلاتا ہے۔
(38) - ابراہیم بی سید در ایم اے کے لودھی، ادارت:Islamization of Attitudes and Practices in Science and Technology (Herndon, VA:The International Institute of Islamic Thought and the Association of Muslim Social Scientists, ، 1989ء)، ص 119۔
صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
سہیل طاہر مجددی

توحید وجودی اور معیت باری تعالیٰ
اس لحاظ سے ذات باری کو ہر شے سے ایک ایسی وجودی معیت حاصل ہے جو اس معیت سے مختلف ہے جو جوہر کو جوہر، جوہر کو عرض اور عرض کو عرض سے حاصل ہے اور نہ ہی یہاں حال و محل کے اتحاد جیسی کوئی شرط ہے۔ کائنات کی تخلیق کا مطلب نہ یہ ہے کہ ذات باری نے اپنے سوا پہلے سے موجود کسی شے (مثلاً ھیولی) کو کسی خاص ڈھب پر ڈھال دیا ہے اور نہ یہ ہے کہ اس نے وجود کو اس طرح کسی شے کی ذاتی صفت بنا دیا ہے کہ خلق کے بعد دو مستقل وجود ہوگئے ہیں، نہ یہ کہ اپنی ذات اور صفات ہی کو کائنات بنا دیا ہے اور نہ یہ کہ وہ اعیان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے بلکہ یہ مؤثر اور اثر کے مابین ایسا احاطہ قیومی ہے جو اعیان (یعنی اثر) کے احکام کا پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے۔ امام غزالی آیت اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ51(اللہ آسمانوں و زمین کا نور ہے) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ذات باری ہر شے کے ساتھ اس طرح ہے جیسے اشیاء کے ساتھ نور ہے کہ وہ ہر شے کو ظاہر کرنے والا ہے اور صاحب عقل جانتے ہیں کہ ظاہر کرنے والا اس شے سے کلی طور پر جدا نہیں ہوتا جو ظاہر کی جاتی ہے52۔ شیخ ابن عربی واشگاف انداز سے اس معاملے کو واضح فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ "عین وجود اشیاء" ہونے اور "عین اشیاء" ہونے میں فرق ہے۔ اشیاء اپنی تعیینات و احکام کے لحاظ سے وجود مطلق کا غیر ہیں، صرف اس اعتبار سے عین ہیں کہ ان کا موجود ہونا خود اپنی طرف سے نہیں بلکہ بذریعہ تجلی جو ان میں ظاہر ہوا اپنی اصل میں وہ وجود مطلق ہی کی جانب سے ہے کیونکہ وجود وجود ہی سے مستعار ہو سکتا ہے نہ کہ عدم سے۔ پس "بااعتبار ظہور" وجود ایک ہے مگر با اعتبار مظاھر وجود (locus of manifestation) تعیینات متعدد ہیں53۔ اعیان ثابتہ کی حقیقت ہونا ذات باری کا اول و باطن ہونا ہے، تو بطور وجود ان مظاہر کے ظہور کا منبع ہونا آخر و ظاہر ہونا ہے۔ قرآن میں آیا:
ھُوَ الْأوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ 54 (وہی ہے اول، اور وہی ہے آخر، اور وہی ہے ظاہر، اور وہی ہے ہاطن)
شیخ کہتے ہیں کہ وجود کا بذریعہ اعیان یہ ظہور ایسا نہیں کہ جو ظاہر ہوگیا وہ اب غیب نہ رہا بلکہ ذات باری کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی جس صفت و اسم کو ظاہر کرتے ہیں بیک وقت وہ غیب میں چھپی ہوئی بھی رہتی ہے۔ اعیان ثابتہ منصفہ ظہور میں آنے کے باوجود درجہ ثبوت میں جوں کے توں باقی رہتے ہیں، اس کی صفت کا ظہور اس کی غیوبت کو کم کرنے والا نہیں۔ ایک حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ اگر اول و آخر اور جن و انس وغیرہ سب مل کر اللہ سے کچھ مانگیں اور اللہ انہیں وہ سب عطا کر دے تو اس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی سمندر میں سوئی ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں آتی ہے55۔ پس وہ ظاہر و باطن ایک ساتھ ہے۔
یاد رہے کہ اعیان وجود سے مستفیذ نہیں ہوتے بلکہ مظہر وجود ہونے سے مستفیذ ہوتے ہیں56۔ شیخ "مظہر" کو وجود کے ظہور کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ جو عالم کو ذات باری کی نشانی یا علامت کہا جاتا ہے، شیخ اسے اس کے ظاہری معنی میں مراد لیتے ہیں (یعنی عالم "مظہر وجود" ہونے کے معنی میں نشانی ہے)۔ جس شے کو ذات باری اپنے ظہور کا ذریعہ یا نشانی بنائے وہی موجود ہو پاتی ہے، یعنی کوئی شے اس کی نشانی بنے بغیر موجود ہو ہی نہیں سکتی اور ظہور کے اسی پہلو کو شیخ "تشبیہہ " کہتے ہیں، پس تنزیہہ و تشبیہہ بھی ایک ساتھ ہیں۔ اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ اس عالم میں اٹھنے والی ایسی کوئی نگاہ نہیں کہ وہ اٹھے مگر اس کا مشاہدہ نہ کرے57 ۔ آفاق و انفس میں ذات باری کی نشانیاں ہونے کو آپ اسی مفہوم میں دیکھتے ہیں:
سَنُرِيھِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنفُسِھِمْ حَتَّیٰ يَتَبَيَّنَ لَھُمْ أنَّہُ الْحَقُّ58 (ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں عالم اور خود ان کے نفس میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے)
صوفی فکر کے بعض اقوال کا معنی
صوفی فکر میں "انا الحق" نیز "شاھد و مشہود، شاکر و مشکور اور حامد و محمود ایک ہیں" جیسی جو عبارات ملتی ہیں، وہ عینیت و معیت ("ھو") کے اسی پہلو سے ہیں، تاہم ان عبارات کا مطلب غیریت ("لاھو") کے اس پہلو کا انکار کرنا نہیں جو صوفی فکر کے مطابق تعیینات کی صورت مخلوق کے لئے ثابت اور حقیقی نیز حکم باری ہونے کی بنا پر نافذ ہیں۔ مرتبہ فنا میں محض عینیت کی جانب نگاہ کر کے بات کہنا سکر ہے جبکہ اس کے ساتھ غیریت کی جانب توجہ برقرار رکھنا صحو ہے، بعض صوفیہ حالت سکر میں "انا الحق" جیسی بات کہتے ہیں59۔ عینیت کے اس تناظر میں قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جب رب تعالی نے انہیں ندا فرمائی تو ایک درخت سے آپ کو یہ آواز سنائی دی کہ میں ہی رب ہوں:
فَلَمَّا أتَاھَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأيْمَنِ فِي الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَكَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ أن يَا مُوسَیٰ إنِّي أنَا اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِينَ60 (جب موسی علیہ السلام وہاں پہنچے تو وادی (طور) کے دائیں کنارے پر بابرکت مقام پر واقع ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسی بے شک میں ہی اللہ ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہوں)
ایک حدیث میں آتا ہے:
اللھم لك الحمد انت نور السموات والارض ولك الحمد انت قيوم السموات والارض، ولك الحمد انت رب السموات والارض ومن فيھن. انت الحق، وقولك الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، والجنۃ حق، والنار حق، والساعۃ حق61
مفہوم: "اے میرے اللہ! حمد و ثنا تیرے ہی لئے ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور حمد و ثنا تیرے ہی واسطے ہے، تو ہی زمین و آسمان کا قیوم ہے اور حمد و ثنا تیرے ہی لئے ہے، تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب کا رب ہے، تو حق ہے اور تیرا کلام حق ہے اور تیرا وعدہ حق ہے اور تیری ملاقات حق ہے اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے"
غور کیجئے کہ ذات باری کے ساتھ متعدد امور کو "حق" ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآئً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ62
مفہوم: "اے اللہ میں تیرے عذاب کی تیرے عفو سے پناہ چاہتا ہوں، اور تیرے غضب کی تیری رضا سے پناہ چاہتا ہوں، اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں کماحقہ تیری تعریف بیان نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی"
امام غزالی63 کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اولاً اللہ کے افعال پر نظر فرمائی تو اس کے فعل سے اس کے فعل کی پناہ چاہی، پھر اس درجے سے ترقی فرما کر افعال کے مصدر یعنی صفت کا ذکر فرما کر ایک صفت سے دوسرے کی پناہ چاہی، پھر صفات سے ترقی فرما کر ذات کی جانب بڑھے اور اس سے اسی کی پناہ چاہی۔ غور کیجئے کہ رب سے رب ہی کی پناہ طلب کی جارہی ہے۔ پھر اس مقام پر اپنی ذات کے حوالے کو توحید میں نقص سمجھتے ہوئے آپﷺ مزید آگے بڑھے اور فرمایا کہ میں تیری تعریف کرنے سے عاجز ہوں تو ویسا ہی ہے جیسا تو نے خود اپنی تعریف کی۔ اس جملے کا پہلا حصہ فنائے نفس کی جانب اشارہ ہے اور دوسرا اس جانب کہ ثنا گو اور جس کی ثنا کی گئی ایک ہی ذات ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ فنا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ پھر جب بندے کے سب افعال اسی کی جانب سے ہیں تو بندے کا اس کا شکر کرنا ایسا ہی ہے جیسے وہ خود ہی شاکر ہے۔ اگر ایک شخص اپنی بنائی ہوئی تصویر کی تعریف کرے تو وہ دراصل اپنی تعریف کرتا ہے64۔ تم ایک ربوٹ بناؤ اور اس میں گویائی کی صلاحیت پیدا کرو جس سے وہ تمہاری تعریف کرے تو تم نے خود اپنی ہی تعریف تو کی!
صوفیہ کے ہاں بعض عبارات میں "کائنات کو حق " کہہ دیا جاتا ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر عالم کے تمام اعتبارات و تخصیصات سے قطع نظر کر لیا جائے تو معاملہ ذات باری کی جانب لوٹ جائے گا، قرآن میں ارشاد ہوا: إلَيْہِ يُرْجَعُ الْأمْرُ كُلُّہُ65 (اور اسی کی جانب سب امور کا لوٹایا جانا ہے)۔ اسی طرح صوفی فکر میں جو اس قسم کے اقوال ملتے ہیں کہ "مقام فنا میں ایک مقام ایسا ہے جہاں نہ عابد ہے اور نہ معبود"، تو اسے بھی مراتب وجود کے درج بالا نظام میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان مراتب وجود کے مطابق "حضرت الوھیت" (یعنی جہاں عابد و معبود متحقق ہیں) دوسرے تعین سے متعلق ہے جس سے پرے مقام وحدت ہے جہاں نہ عابد ہے اور نہ معبود، صرف وجود مطلق و ذات باری ہے۔ اس عبارت میں "فنا" سے مراد بندے کے شعور کا زائل ہو جانا ہے، جب شعور عبد زائل ہو جائے تو اس سے پرے مقام پر عابد و معبود متحقق نہیں رہتے کہ بندہ تو وہاں علمی طور پر فنا کے گھاٹ اتر چکا، یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔ ایسی ہر عبارت اس نظام فکر میں کسی خاص وجہ پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی لئے امام غزالی کہتے ہیں کہ اگر کوئی کہے میں "خدا کے سوا کسی کو نہیں پہچانتا" تو اس کا قول بھی درست ہے اور اگر کہے کہ "میں خدا کو نہیں پہچانتا" تو یہ بھی درست ہے کہ ان دونوں باتوں میں وجہ کلام مختلف ہے66۔ اسی وجودی معیت کے پیش نظر صوفیا کے بعض اقوال "مشاہداتی وحدت" کی جانب اشارہ کرتے ہیں جیسے یہ کہ اس کائنات میں اٹھنے والی ایسی کوئی نگاہ نہیں جو اٹھے مگر وہ رب کا مشاہدہ نہ کرے، نیز بعض عارفین کا حال یہ ہے کہ انہوں نے پہلے شے کو دیکھا پھر ذات باری کو دیکھا (یہ وہ ہیں جو معلول سے علت کا استدلال کر کے ذات باری کو ثابت کرتے ہیں)، جبکہ بعض وہ ہیں جنہوں نے ہر شے کے ساتھ ذات باری کو دیکھا اور پھر وہ بھی ہیں جنہوں نے ہر شے سے پہلے خدا کو دیکھا پھر شے کو دیکھا۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ آخری درجہ صدیقین کا مشاہدہ ہے جبکہ پہلا علمائے راسخین کا67، ان مراتب کا ذکر قرآن میں یوں ہوا:
سَنُرِيھِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِھِمْ حَتَّیٰ يَتَبَيَّنَ لَھُمْ أنَّہُ الْحَقُّ أوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أنَّہُ عَلَیٰ كُلِّ شَيْءٍ شَھِيدٌ68 (ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں عالم اور خود ان کے نفس میں بھی دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا آپ کے رب کی یہی بات کافی نہیں کہ وہ ہر شے پر گواہ ہے؟)
یعنی "یہ عالم خدا پر شاہد ہے" سے "خدا عالم پر شاہدہے" کا سفر ہے۔
الغرض شیخ اور صوفیہ پر اتحاد کا الزام لگانے والوں سے معاملے کو سمجھنے میں سخت چوک ہوئی، یہ الزام تب درست ہو سکتا تھا جب وہ یہ کہتے کہ خالق و مخلوق کے وجود کا ظرف یا محل بھی ایک ہے۔ وجود کی ایک صورت واجب الوجود جبکہ دوسری ممکن الوجود ہے اور یہ دونوں اعتبار جدا ہیں۔ نیز جب پہلے قدم پر اعیان کو "انفعالی استعداد" کہہ کر انہیں "فعلی استعداد" (یعنی اسمائے الہیہ) کا غیر کہہ دیا گیا تو اس کے بعد اعیان میں ظاہر ہونے والے وجود کا منبع وجود مطلق قرار دینے سے اتحاد کیسے ثابت ہوگیا جبکہ غیریت اس سے پہلے ہی متحقق ہو چکی؟ رہا حلول کا الزام تو وہ اتحاد کے الزام سے بھی زیادہ بے معنی ہے کیونکہ حلول کا مطلب ایک شے کا دوسری میں اس طرح گم ہوجانا ہے کہ وہ اپنی جداگانہ شناخت کھو بیٹھے جبکہ صوفیہ اس مسئلے میں ایسی بات کے قائل نہیں، رب رب ہی رہتا ہے اور عبد عبد، شیخ کہتے ہیں کہ بندہ رب کی کسی صفت ذاتی سے متصف نہیں ہوتا69۔ قرآنی آیت مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا يَبْغِيَانِ70 (اس نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں، (البتہ) ان کے مابین ایک آڑ حائل ہے ، وہ دونوں اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتے) پر شیخ کہتے ہیں کہ دو سمندروں سے مراد وجود واجب اور وجود ممکن ہیں اور ان کے مابین ایسی برزخ حائل ہے جو دونوں کو جدا رکھتی ہے71۔ شیخ کہتے ہیں کہ جو لوگ صرف "ھو" پر نظر کرتے ہیں وہ بھینگے ہیں اور جو "ھو" کے ساتھ "لاھو" کو بھی دیکھتے ہیں وہ اہل معرفت ہیں72۔ پھر جب رب اور بندے کے مابین سمیع و بصیر نیز رؤوف و رحیم کی نسبت مشترک ہونے کے باوجود شرک لازم نہیں آتا تو وجود کی نسبت مشترک ہونے سے کیوں کر لازم آیا؟ اسی طرح بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا کہ وجود کا تحقق چونکہ خارج میں پائے جانے والے افراد و تعیینات کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو توحید وجودی کا مطلب یہ ہوا کہ ذات باری کے وجود کو خارجی وجود کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے جبکہ یہ صرف غلط فہمی ہے کیونکہ صوفیہ تعینات سے عبارت وجود خارجی کے اعتبار سے توحید وجودی کا قول اختیار نہیں کرتے۔
وجودی معیت اور نصوص
وجود کی وحدت کا درج بالا تصور شیخ کے نزدیک ذات باری کے اسم "محیط" کا مفہوم ہے73۔ درج ذیل آیات کا یہی مضمون ہے:
أنَّہُ عَلَیٰ كُلِّ شَيْءٍ شَھِيد74 (بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے)
إنَّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيط75 (بے شک وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے)
اسی طرح ذات باری کے اسم "جامع" کو بھی شیخ اسی معنی میں دیکھتے ہیں76۔ جنگ بدر میں آپﷺ کی جانب سے پھینکے گئے سنگ ریزوں پر قرآن کا یہ تبصرہ "ھو ولا ھو" کی اسی حقیقت کا بیان ہے:
وَمَا رَمَيْتَ إذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّہَ رَمَیٰ77 (آپ نے وہ سنگ ریزے نہیں پھینکے جبکہ آپ نے پھینکے بلکہ وہ تو اللہ نے پھینکے)
اس آیت میں نفی و اثبات کے جمع کے اسلوب پر توجہ رہے: وَمَا رَمَيْتَ سے بندے کے پھینکنے کی نفی کی گئی، إذْ رَمَيْتَ سے اس کا اثبات کیا گیا اور پھر وَلٰكِنَّ اللَّہَ رَمَیٰ سے نفی کی گئی78۔ اسی بنا پر شیخ ابن عربی درج ذیل آیات میں بیان کردہ ذات باری کی مخلوق کے ساتھ معیت و قرب جیسے امور کو علمی معیت کے بجائے وجودی معیت پر محمول کرتے ہیں:
وَھُوَ مَعَكُمْ أيْنَ مَا كُنتُمْ79 (اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو)
مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَیٰ ثَلَاثَۃٍ إلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ إلَّا ھُوَ سَادِسُھُمْ وَلَا أدْنَیٰ مِن ذٰلِكَ وَلَا أكْثَرَ إلَّا ھُوَ مَعَھُمْ أيْنَ مَا كَانُوا80 (کہیں بھی تین کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے، اور نہ ہی پانچ کی سرگوشی ہوتی ہے مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ ان سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے)
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ81 (اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس کے قریب ہیں)
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ82 (اور ہم (مرنے والے) سے تمہارے مقابلے میں زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھتے نہیں)
اس آیت میں "لَّا تُبْصِرُونَ" (مگر تم دیکھتے نہیں) پر توجہ رہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو اس باب میں صوفیہ دراصل وہی بات کہتے ہیں جو متکلمین کہتے ہیں کیونکہ متکلمین "علم" کو صفت کہتے ہیں جبکہ صوفیہ صفت کو ایک مرتبہ وجود یا تجلی کہتے ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک زیر بحث آیت میں اللہ کو بواسطہ اس تجلی ہی مخلوق کے ساتھ وجودی معیت ہے۔ مزید ارشاد ہوا:
فَأيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ83 (پس تم جدھر بھی رخ کرو، وہ وہاں جلوہ گر ہے)
وَھُوَ اللّہُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأرْضِ84 (آسمانوں اور زمین میں وہی اللہ ہے)
اللّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ85 (بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے)
يَدُ اللّہِ فَوْقَ أيْدِيھِمْ86 (ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے)
حدیث میں ارشاد ہوا:
لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّهِ ثُمَّ قَرَأ: {ھُوَ الأوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}87 (اگر تم ایک رسی زمین کی گہرائی میں ڈالو تو وہ اللہ ہی پر گرے گی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وہی ہے اول، اور وہی ہے آخر، اور وہی ہے ظاہر اور وہی ہے باطن)
الغرض اس مضمون کی متعدد نصوص ہیں جو شیخ کے نظام فکر میں اپنے ظاہر پر مفہوم ہو جاتی ہیں۔
وجودیہ و شہودیہ کے اختلاف کی حقیقت
یہاں سے صوفیہ کی یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ مخلوق (ممکنات) کا کوئی حقیقی وجود نہیں، وجود صرف واجب کو حاصل ہے جو از خود قائم ہوتا ہے۔ کائنات کے وجود کو خدا کے وجود سے اتنی نسبت بھی نہیں جتنی کہ مثلاً ہاتھ میں پکڑے پین کی حرکت کو حاصل ہے جو ہاتھ کی حرکت سے بالواسطہ حرکت کرتا ہے کہ پین کی حقیقت ہاتھ کے مقابلے میں عدم نہیں۔ جب وجود اور اسماء کی طرف نظر کرو گے تو ان کے عکوس (یعنی مخلوق) معدوم ہی نظر آئیں گے، جب عدم کے ظہور کے پس پردہ کار فرما تجلی کی جانب نظر کرو گے تو ظاہر شدہ مخلوق کے باطن میں اسماء ہی کا عکس جھلکتا دکھائی دے گا۔ شہودیہ اور وجودیہ میں اس سے زیادہ فرق نہیں کہ دونوں ایک سکے کے دو رخوں میں سے ایک جانب پر زیادہ زور دیتے دکھائی دیتے ہیں: وجودیہ کہتے ہیں عکوس اسماء میں جو چمکا ہے اس کا منبع و حقیقت اسماء کی تجلی ہے، شہودیہ کا زور اس پر ہے کہ جو چمکا ہے اس کی حقیقت معدوم ہونا ہے اور دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جو چمکا ہے وہ وجود میں شامل نہیں۔ وجودیہ اور شہودیہ میں فرق کو مزید تکنیکی انداز میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ وجودیہ دائرہ اول کے مرتبہ واحدیت کے شئون "وجود" پر زور دیتے ہیں جبکہ شہودیہ مرتبہ "شہود" پر۔
اہم وضاحت
اس ضمن میں آخری بات یہ یاد رہے کہ عالم ذات باری کی حقیقت و ماہیت ظاہر نہیں کرتا بلکہ صرف اس کا یہ مرتبہ ظاہر کرتا ہے کہ "وہ ہے"، یہ ہمیں صرف اس کی صفات و اسماء کا علم دیتا ہے جبکہ ذات باری ہمیشہ پردہ خفا میں رہتی ہے88۔ اگرچہ صوفیہ بات سمجھانے کے لئے آئینے اور روشنی کی مثالیں پیش کرتے ہیں، تاہم شیخ سمیت وہ اس بات کے مدعی نہیں کہ ہم وجود مطلق کی حقیقت نیز اعیان ثابتہ کے خارجی وجود کے ساتھ اس کی نسبت احاطہ کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں۔ اعیان میں وجود حقیقی، ازلی و مطلق نہیں جھلکتا کہ وہ وراء الوراء ہے بلکہ بذریعہ تجلی جو جھلکتا ہے وہ وجود کے مقابلے میں بس سائے و عکس کی مانند ہے یا اس سے بھی کم تر ہے نیز وہ بھی اس وجود کا عکس جو صفات و اسماء کے مرتبے پر متحقق ہوا ۔ جب خود "ہمارے وجود" کی ماہیت ہی ہم پر واضح نہیں تو اس سے پرے معاملے میں سوائے حیرت اور کچھ میسر نہیں۔ ذات باری کو عالم سے ایسی وجودی معیت حاصل ہے جس کی حقیقت ہم پر واضح نہیں۔ امام غزالی اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے ایک صاحب مال اپنے کنگلے غلام کو کپڑے و گھوڑا وغیرہ دے کر اس کا نام مالک رکھ دے تو اس نام رکھنے سے وہ حقیقتاً تو کجا مجازاً بھی غنی نہیں بنے گا کیونکہ عاریتاً مال حاصل کرنے والا یہ غلام اب بھی اسی طرح فقیر ہوگا جیسے پہلے تھا اور غنی صرف مال دینے والا ہی کہلائے گا کہ اسی کی جانب رجوع اور ابتدا ہے89۔ پس اسی طرح آئینہ وجود میں اعیان کے عکس جھلکنے پر انہیں موجود ہونے کا شہود عطا کر دینے سے وہ اعیان "وجود" سے متصف نہیں ہوجاتے بلکہ وجود کے مقابلے میں کالعدم ہی رہتے ہیں۔ صوفیہ "وجود واحد" کے مسئلے میں اسی طرح حیرت میں ہیں جیسے اشاعرہ مسئلہ جبر و قدر میں "فاعل واحد" کے مسئلے میں حیرت میں ہیں، یعنی دلیل قطعی سے اتنا تو ثابت ہے کہ فاعل حقیقی ایک ہی ہوسکتا ہے، رہی بندے کی فاعلیت تو اس کی حقیقت معلوم نہیں۔ اسی طرح صوفیہ بندے کے وجود کو کبھی غیر حقیقی کہتے ہیں تو کبھی سایہ۔ اسی لئے امام غزالی کہتے ہیں کہ توحید کے ادراک کا تیسرا درجہ "لا فاعل الا اللہ" ہے تو چوتھا درجہ "لا موجود الا اللہ"90، نیز کہتے ہیں کہ جس طرح سورج تمام عالم میں پھیلنے والے نور کا سرچشمہ ہے، اسی طرح وہ معنی جسے ادا کرنے سے عبارت قاصر ہے اور جسے قدرت ازلیہ کے نام سے موسوم کیا گیا وہ اس وجود کا سرچشمہ ہے جو تمام موجودات پر فائز ہوا، لہذا اس معنی میں خدا کے سوا کوئی شے موجود نہیں91۔ روشنی کی یہ مثال قرآنی آیت اللّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ (بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے) میں بیان کردہ مثال سے ماخوذ ہے۔ شیخ ابن عربی اس معاملے کو بیان کرنے کے لئے حدیث کے الفاظ "نفس الرحمان" اور "عماء" نیز قرآنی الفاظ "كَلِمَاتُ اللّہِ" استعمال کرتے ہیں، یعنی یہ عالم اللہ کے کلمات ہیں92۔
خلاصہ بحث
درج بالا بحث سے واضح ہوا کہ:
- "وجود" یا "پایا جانا" ایسی بلند تر صفت ہے جو تمام موجودات کے مابین کسی نہ کسی طور پر برزخی کیفیت کے ساتھ مشترک ہے۔ "دو مستقل وجود اور موجود" کا مفروضہ نہیں مانا جا سکتا کہ یہ ثنویت و کھلا ہوا شرک ہے۔ اولاً موجود ایک ہی ذات کو ماننا ہوگا، اس کے بعد جب مخلوق کے موجود ہونے کی بات ہوگی تو تین باتیں ماننا ہوں گی:
الف) اس کا وجود مستقل نہیں عطائی ہوگا
ب) اس وجود کا ماخذ و منبع مستقل وجود مطلق ہی ہو سکتا ہے
ج) اس ماخذ کے ساتھ اسے گوں نا گوں "ھو" کی نسبت ہوگی، یعنی وجود مطلق، مستقل یا واجب اور وجود متعین، محتاج یا ممکن کے مابین وجود کی نسبت مشترک ہوگی
اس کے بعد صوفیہ کا کہنا ہے کہ مستقل وجود کے مقابلے پر محتاج وجود کو سائے، خیال و عکس وغیرہ سے زیادہ نسبت نہیں۔ اس اعتبار سے یہ قول کہ "موجود صرف ذات باری ہے (لا موجود الا اللہ)" دو معانی کا حامل ہے:
1) اس کے سوا دیگر موجودات کالعدم ہیں
2) محتاج وجود مستقل وجود سے قائم ہونے کی بنا پر اس کے ساتھ "ھو" کی نسبت رکھتا ہے کہ عکس کا قیام بدون وجود ممکن نہیں - صوفیہ جنہیں تجلیات، تنزلات یا مراتب وجود کہتے ہیں، ان میں ایسی کوئی تعلیم نہیں جسے اتحاد یا حلول کی صورت شرک قرار دیا جا سکے، ایسے فتوے ان کے موقف کو نہ سمجھنے کی بنا پر جاری کئے جاتے ہیں اور اس غلط فہمی کی وجہ صوفیہ کی عبارات کو ان کے مخصوص نظرئیے سے ہٹا کر پڑھنا اور پھر ان کے شرکیہ لوازمات پیدا کر لینا ہے وہ بھی ایسے جن کے وہ صراحتاً منکر ہیں
- شیخ کے ہاں لاتعین، وجود مطلق اور وجود متعین کے درجات بیک وقت اتصال و انفصال، تنزیہہ و تشبیہہ نیز ظہور و خفا جیسے امور کسی درجے میں قابل فہم بنا دیتے ہیں اور نتیجتاً متعدد نصوص کے ظاہری معنی درجہ خفا کے ساتھ متعین ہوتے ہیں
- اس نظام فکر کے بعض اجزاء عقلی استدلال پر مبنی ہیں، بعض نصوص پر اور بعض کا تعین الہام و کشف پر مبنی ہے۔ صوفیہ کا کہنا ہے کہ کشف و الہام سے انہی امور کی جزوی تفصیل معلوم ہونا ممکن ہے جن کے نشان راہ نبی کی وحی نے مقرر کر دئیے ہوں
جو لوگ شیخ ابن عربی اور صوفیہ کی فکر کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ساری فکر گویا افلاطون (م 347 ق م) سے مستعار لی ہے، ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ افلاطون اور نیو افلاطونی فکر سے ہمیں وجود کے یہ پانچ مراتب تلاش کر کے دکھائیں۔ افلاطون کے ہاں بس ایک ایسے عالم مثال کا ذکر ملتا ہے جہاں اس عالم ناسوت کی اشیاء بایں معنی ایک مثالی صورت میں موجود ہیں کہ عالم ناسوت میں اس مثالی شے کی کاپیاں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ مثلاً خارج میں جو "انسان" پائے جاتے ہیں وہ لمبے و چھوٹے قد، موٹے و پتلے، گورے و کالے، بھوری و کالی آنکھ وغیرہ والے ہوتے ہیں۔ رہا ذہن میں متصور ہونے والا وہ "مجرد انسان" جو ان تمام تشخصات سے پاک ہو، تو وہ خارجی مشاھدے میں نہیں آتا کہ خارج میں ہر انسان ایسے تشخصات کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ یہاں سے سوال پیدا ہوا کہ آخر ان تشخصات سے پاک اس "مجرد انسان" کے تصور کا ماخذ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے کے لئے افلاطون کہتے ہیں کہ ذہن میں موجود مادی تشخصات وغیرہ سے پاک تصور انسان کا منبع عالم مثال میں موجود "مثالی انسان" ہے جس کی کاپیاں مختلف انسانوں میں یہاں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ افلاطون کے اس عالم مثال کو شیخ ابن عربی کی فکر میں "اعیان ثابتہ" کے مشابہہ کہا جاتا ہے جبکہ یہ موازنہ بھی غلط ہے کیونکہ شیخ کے ہاں کسی شے کی کاپی ظاہر ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ عالم ناسوت میں ظاہر ہونے والی ہر شے یکتا طور پر مرتبہ اعیان میں ثابت ہے اور وہ اپنی یکتا استعداد کے ساتھ اللہ تعالی کی یکتا مخلوق -کے طور پر موجود ہوتی ہے اور ہر ہر شے میں انفرادیت و یکتائیت کا یہ احساس بھی اس بنا پر ہے کہ اس پر ذات باری کی صفت "ھویت" کی تجلی ہے۔ پھر افلاطون یہ نہیں بتاتے کہ آخر عالم مثال کی ان مثالی صورتوں کا منبع کیا ہے جبکہ شیخ اعیان ثابتہ کو ذات باری کے اسماء و صفات کے ساتھ جوڑ کر اس خلا کو پر کرتے ہیں۔ شیخ کی فکر سے قبل فلسفے کے معلوم نظریات میں یہ بات کسی کے ہاں نہیں ملتی کہ عالم ذات باری کی صفات و اسماء کی تجلی ہے، مباحث وجودیات و کاسمولوجی میں یہ ان کا خصوصی کنٹریبیوشن ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ذات باری کے اسمائے حسنی کی جو تفصیل قرآن و سنت میں مذکور ہے، پچھلی امتوں کی دستیاب کتب میں وہ مفقود ہے۔
بعینہہ ناقدین کا یہ تبصرہ بھی بے معنی ہے کہ توحید وجودی کی فلاں صورت مثلاً شنکر اچاریہ (م820ء) کے ہاں بھی موجود تھی۔ یہ ایسا ہی اعتراض ہے جیسے عیسائی و ھندو وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں بہت سی تفصیلات بائبل یا ویداؤوں سے ماخوذ ہیں۔ چنانچہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ھندو تعلیمات نے بھی توحید وجودی کی یہی تفصیل پیش کی تھی یا وہ "ہمہ اوست" (سب کچھ خدا ہے) کا نظریہ تھا؟ سنسکرت ماخذات کے مطابق اس ضمن میں ایک مشہور نظریہ یہ تھا کہ "پرماتما سو گیا ہے اور یہ عالم جس میں ہم جی رہے ہیں یہ اس کا خواب ہے"۔ کیا صوفیہ نے اسے قبول کیا؟ بھلا وہ اسے کیسے قبول کر سکتے تھے جبکہ قرآن نے ذات باری کی شان "لَا تَأخُذُہُ سِنَۃ وَلَا نَوْم"93 (نہ اسے انوگھ آتی ہے اور نہ نیند) بتائی ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیہ نے اگر مثال لی تو نور، سائے اور آئینے کی، اول الذکر دو قرآن سے لی گئی ہیں اور تیسری حدیث سے (کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا)۔ چنانچہ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ صوفی فکر کے بعض اجزاء ھندو تعلیمات میں موجود تھے تب بھی دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا صوفیہ نے اس کی تفصیل کو نصوص کے تقاضوں کے پیش نظر توحید کے اسلامی تصور سے ہم آہنگ رکھا یا نہیں؟ کیا خود عدم سے تخلیق کا نظریہ بھی پچھلی امتوں میں موجود نہیں رہا؟ تو کیا اسے بھی اس بنا پر رد کر دیا جائے کہ یہ نظریہ تو ماقبل اسلام ایک عیسائی پادری جان فلاپنس (م570ء) نے بیان کیا تھا؟
الغرض کسی بھی مفکر کی فکر میں اپنے سے ماقبل مفکرین کی فکر سے جزوی مماثلتیں موجود ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ اصل کنٹریبیوشن وہ مجموعی تصویر ہوتی ہے جو ایک شخص پہلے سے میسر اجزاء کے ساتھ چند نئے اجزاء ملا کر پیش کرتا ہے۔ مجموعی تصویر دیکھ لینے کے بعد پہلے سے موجود بعض اجزاء کے ساتھ جزوی مماثلتیں تلاش کر لینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پوری تصویر ہی کسی سے مستعار ہے۔
آخری بات یہ کہ "مائیتھالوجی" کے لفظ سے اگرچہ لوگ چڑنے لگے ہیں، تاہم ہر مذہب کی ایک مائیتھالوجی ہوتی ہے (مائیتھالوجی کو ڈی گریڈ کرنے کے پس پشت فکر انسانی کے ارتقاء سے متعلق بعض جدید فلاسفہ کے اس قسم کے خیالات بھی ہیں کہ پہلےدور کا انسان مائیتھالوجی پر یقین کرتا تھا، پھر فلسفہ آگیا اور پھر سائنس کے بعد اس کی ضرورت ختم ہوگئی وغیرہ)۔ مائیتھالوجی سے ہماری مراد عالم ناسوت یا عالم مشاھدہ سے ماوراء حقائق ہیں جن کے علم کا بنیادی ماخذ انبیاء کی وحی ہوتی ہے۔ دیگر مذاہب کی طرح اسلام کی بھی اس معاملے میں کوئی تخصیص یا استثناء نہیں کہ درج بالا معنی میں یہ بھی مائیتھالوجی کا حامل ہے۔ بھلا اہل اسلام اس معنی میں مائیتھالوجی سے کس طرح شرمسار ہو سکتے ہیں جبکہ قرآن و سنت ایسے امور کے بیانات سے بھرے ہوئے ہیں؟ مثلاً قصہ آدم و حوا علیہما السلام اور ابلیس، ذریت آدم سے عہد الست لیا جانا، زمین و آسمان و پہاڑوں پر امانت کا پیش کیا جانا وغیرہ جیسے امور کا انکار بھلا کیسے ممکن ہے؟ اسلامی مائیتھالوجی کی تدوین صوفی فکر نے کی ہے اور ذات باری کے اسماء حسنی اس اسلامی مائیتھالوجی کی بنیاد ہے۔ شیخ ابن عربی کو اس لئے بھی "شیخ اکبر" کہا جاتا ہے کہ وہ اس علم کے اسی طرح مدون ہیں جیسے امام شافعی (م820ء) اصول فقہ کے۔
حواشی
51. القرآن: النور 35
52. مشکاۃ الانوار: 63 – 64
53. الفتوحات المکیۃ: 2 / 21 ، نیز 2/ 160 ، نیز 3 / 484
54. القرآن: الحدید 3
55. صحیح مسلم: 2577
56. الفتوحات المکیۃ: 2 / 484
57. الفتوحات المکیۃ: 3 / 449
58. القرآن: فصلت 53
59. مشکاۃ الانوار 57
60. القرآن:القصص 30
61. سنن نسائی: 1620
62. شعب الایمان لبیہقی،: 3837
63. احیاء العلوم: 4 / 87
64. احیاء العلوم: 4 / 86
65. القرآن:ھود 123
66. شرح معانی اسماء الحسنی 49
67. مشکاۃ الانوار 63
68. القرآن:فصلت 53
69. الفتوحات المکیۃ: 1 / 366 – 367 نیز 3/ 224 نیز 3 / 378
70. القرآن:الرحمن 19-20
71. الفتوحات المکیۃ: 3 / 347
72. الفتوحات المکیۃ: 2 / 438 ، نیز 2 / 303
73. الفتوحات المکیۃ: 4/ 193
74. القرآن:فصلت 53
75. القرآن:فصلت 54
76. الفتوحات المکیۃ: 2/ 516
77. القرآن:الانفال 17
78. الفتوحات المکیۃ: 2 / 216
79. القرآن:الحدید 4
80. القرآن:المجادلۃ 7
81. القرآن:ق 16
82. القرآن:الواقعۃ 85
83. القرآن:ق 16
84. القرآن:البقرۃ 115
85. القرآن:الانعام 3
86. القرآن:نور 35
87. ترمذی: 3298
88. الفتوحات المکیۃ: 3 / 405
89. مشکاۃ الانوار 54
90. احیاء العلوم: 4 / 245 – 246
91. شرح اسماء الحسنی 58
92. الفتوحات المکیۃ: 2 / 390 ، نیز 3 / 148۔ عالم کو کلمۃ اللہ کہنے کا استدلال کلمۃ "کن" نیز قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کو "کلمۃ اللہ" کہے جانے سے ہے (آل عمران 45، النساء 171)
93. القرآن:البقرۃ 255
تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۳)
اسلام میں محبت کی اساسیات غزالیؒ کے حوالے سے
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی
مترجم : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

خلاصہ
محبت کے مروجہ تصورات انسانی تاریخ کے ایک انتہائی پیچیدہ تجربے کی محض ایک تکرار ہیں۔ یہاں تک کہ محبت کے سیکولرائزڈ ورژن بھی محبت کے خاص باقی رہ گئے لاہوتی اثرات رکھتے ہیں58۔ تاہم مختلف مذہبی روایات میں محبت کی کہانی بہت مختلف ہے جیسا کہ اسلام کے معاملے میں ہے، جس کا یہاں اظہار میں نے ممتاز مسلم مفکر غزالیؒ کی مدد سے کیا۔ اگر محبت کے مسلم تصورات کو اس روایت کی تاریخی اساس کے لحاظ سے پیش کیا جائے تو وہ بھی محبت کے متنوع تصور کا ایک حصہ ہو سکتے ہیں اور محبت کی بالادستی والی تفہیم کو کم کر سکتے ہیں۔
سیاسی الٰہیات اور سیاست کے مباحثوں میں مسلم الٰہیاتی تصورات اور اس کے رحمت و محبت کے تصورات کی عدم موجودگی نے عام طور پر مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ اسلام میں محبت جیسے تصور کے مظاہر کا اس کی اساس سے آگاہی کے بغیر ترجمہ صرف غلط تعبیر اور الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔
اسلام کا اخلاقی نظریہ ادراک، معرفت اور اطاعت کے مظاہر پر مبنی ہے۔ حکم "اپنے پڑوسی سے پیار کرو!" عیسائی الہیات کی ایک مرکزی تعلیم ہے اور اس کے عقیدۂ کفارہ سے جڑی ہے۔ مسیحی محبت، اور "اپنے پڑوسی سے پیار کرو" والا بیانیہ کفارہ کے عقیدہ سے مربوط ایک عمل ہے اور یہ عیسائیت کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ جی ہاں، آپ کو اپنے پڑوسی کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آنا اور عزت اور مہربانی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی خدا کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے۔ آپ سوئیں اور آپ کا پڑوسی بھوکا ہو یہ اسلام میں ناقابل برداشت ہے۔
اسلامی الٰہیات میں فوکس "خدا کی عبادت" یا "خدا کی خدمت" پر ہے۔ خدا کی خدمت کا مطلب خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ ایسی تعلیمات ہیں جن میں خدا انسان سے مخاطب ہے، اور ایک بیان میں مخاطب حضرت موسیٰ ہیں جن سے خدا کہتا ہے: ''میں بیمار تھا اور تم نے میری عیادت نہیں کی؟'' موسیٰ نے جواب دیا 'اے رب، کیسے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے؟'' خدا نے جواب دیا: ''میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تم اس کے پاس جاتے تو تم مجھے اس کے ساتھ پاتے 59۔
اس سے پہلے بائبل میں بھی میں اسی طرح کا بیان موجود ہے (میتھیو 25:31-46) جسے حضرت محمدﷺ کی احادیث کی صورت میں مسلم روایت میں بھی جگہ ملی۔ مثلاً اس روایت کے دیگر مسلم متون میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بھوکے تھے اور تکلیف میں تھے جنہیں ان کے ساتھی انسانوں نے کھانا نہیں کھلایا یا تسلی نہیں دی۔ جب بندہ اس بات سے پریشان ہوتا ہے کہ وہ خدا کی عیادت کیسے کر سکتا، اسے کھانا کیسے کھلا سکتا اور تسلی کیسے دے سکتا ہے، تو اسے بتایا جاتا ہے کہ بیماروں، مسکینوں اور بھوکوں کی خدمت کرنا خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف ہے۔ اس میں شامل تشبیہ یہ تو بتاتی ہے کہ احسان کے یہ اعمال خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف ہیں، لیکن ان کو کبھی بھی جسمانی طور پر خود خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف نہیں سمجھا گیا۔ یاد رکھیں کہ شروع سے ہی مسلم الٰہیات خالق اور مخلوق کے درمیان واضح فرق رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایک جیسی روایات اور روایات میں مماثلت سطحی طور پر یہ تاثر دے سکتی ہے کہ مسلم اور عیسائی روایات میں ایک ہی جیسے نظریات ہیں جب کہ وہ واقعی مختلف ہیں۔ ہر ایک کا ایک پیچیدہ الٰہیاتی نظام ہوتا ہے۔اسی طرح اس کے دینیاتی دائرہ میں محبت کا مقام نازک اور نتیجہ خیز نتائج کے ساتھ باہم مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا ہے۔”کامن ورڈ“ کے مصنفین اسلام اور عیسائیت کے درمیان غیر مفید اور غلط مذہبی مفاہمت کے چکر میں دونوں کے عقیدہ اور نتائج میں نمایاں فرق کو نظر انداز کر ڈالتے ہیں۔
غزالیؒ کی تعلیمات سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کو نہ جان سکنے کا اثبات دوسرے لفظوں میں انسان کے مطلق اور کلی علمیاتی دعوے کی نفی ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کچھ لوگ خدا کو خالص سریان یا مطلق ماورائی بنانے کے لئے بہت پرجوش ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جس خدا سے محبت کی جانی چاہیے اُسے جاننے کی خواہش اور جس خدا کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے اس سے محبت کی خواہش کسی اور ہی چیز کی تلاش ہو؟ کیا یہ اپنی مرضی کا سراسر استعمال نہیں ہو سکتا جو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہے کہ ہماری خدا کو ایک فریم دینے کی کوشش ہمارے جدلیاتی افق سے نہ بچ پائے۔ کیا خدا کو جاننے کی یہ خواہش اپنے آپ میں طاقت کی خواہش نہیں ہوگی؟ اسلامی روایت و اسلامی نظریہ اللہ کے اسرار کے تصور کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو انسانوں کی مکمل گرفت سے باہر ہے۔
تاہم، جب کوئی مسیحی دنیا کے رہنماؤں کے نام کھلے خط میں "ہمارے اور آپ کے درمیان ایک مشترکہ بیان" پڑھتا ہے، تو اس کو کسی اسلامی خصوصیت کا احساس نہیں ہوتا60۔ اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں سے کئی جو یورپ اور شمالی امریکہ میں مقیم مسلمان دانشور ہیں، پوپ کو یاد دلاتے ہیں کہ قرآن کے خدا نے اپنے لیے رحمت تجویز کی تھی (قرآن 6:12؛ 6:54 دیکھیں)۔ وہ اسے ایک اور ارشاد خداوندی یاد دلاتے ہیں۔ یعنی یہ قرآنی آیت کہ: ”میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے“ (الاعراف 7:156)۔
تاہم ان حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ”رحمت“ کی توضیح محبت، مہربانی اور شفقت سے بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی لفظ رحمت سے کلمہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ (خدائے رحمن و رحیم کے نام سے) جس کو مسلمان عموماً روز ہی استعمال کرتے ہیں، نکلا ہے۔ کامن ورڈ کے مصنفین سے میرا اختلاف یہ ہے کہ میرے نزدیک مسلم علم کلام میں خدا کی رحمت خدا کی قدرت کا ایک عمل ہے۔ جبکہ دوسری جانب محبت ایک ایسا عمل ہے جس میں محبت کرنے والا اور محبوب دونوں ایک دوسرے سے بندھے ہوتے ہیں جیسا کہ امام غزالی نے واضح کیا ہے61۔
اسلام میں محبت کا مقام اعمال کے اس دائرہ میں واقع ہے جہاں عمل اور وجود دونوں میں تفریق نہیں ہوتی۔جہاں وجودیات اور اعمال میں فرق نہیں کرتے۔ فکری سرگرمی میں خلوص اور سوشل اور اخلاقی کاموں میں محبت پوری طرح راسخ اور جمی ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں محبت کی سیاسیات (یعنی تصورات محبت) کو صیقل کرنے کی غرض سے اسلامی وسائل کا جائزہ لینا چھوٹی چیزوں (مائکریونٹس) پر مرتکز رہتا ہے، جو اجتماعی زندگی کو تشکیل دیتی ہیں۔ یعنی فرد، خاندان اور کمیونیٹی کو۔ یہ جائزہ بھی خطرہ سے خالی نہیں۔ اس لیے کہ خاندان کا تصور کم ازکم روایتی خاندان کا جس قسم کے اختیارات کو تشکیل دیتا ہے ان میں بھی خاصے اختلافات موجود ہیں۔ سماج ان افراد کا مجموعہ ہے جو مشترکہ مفادات کی بنیاد پر جمع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ قوم یا کمیونیٹی وابستگی کے ایک شدید احساس پر مبنی ہوتی ہے۔ محبت کی سیاسیات سماجی زندگی کے مرکز میں جس چیز کو دوبارہ لاتی ہے وہ معیاریت کے مسائل کی ضرورت پر غور و فکر کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فرائض و واجبات کو اختیار کرنا۔ جس کو کہ آج کے ”حقوق“ کلچر کی فضا کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ لبرٹی کو دوسری تمام اقدار پر غلبہ دیتی ہے۔ محبت کی سیاسیات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان چیزوں پر بھی غور کریں کہ جن کے باعث ہم اپنی اجتماعیت کو انسانی سماج کے بطور تصور کر پاتے ہیں۔لیکن اس میں ہمیں تنوع و تکثیریت پر بھی زور دینا ہو گا۔
حواشی و تعلیقات
58. ایگلٹن:The Event of Literatureایگلٹن لزومیت کے ساتھ متصادم ہے۔جوایک ایساتصورہے جسے فلسفی وجودی اصطلاحات میں ”کسی چیز کے وجودکی نوعیت کے بارے میں ایک سوال“کے طورپر پیش کرتے ہیں۔محبت وہ ہے جوایگلٹن کے ذہن میں ایک وجودی زمرہ کے طورپر آتی ہے۔ پھروہ ایک جوہرکی طرح محبت سے رجوع کرنے کی تجویز پیش کرتاہے۔مثلامحبت کواخلاقی طورپر ایپروچ کرنا۔ایک انسان کا جوہر کیاہے؟وہی ہے جس سے انسانی محبت کا ظہورہوتاہے۔(17-18 )دوسروں سے محبت کے لیے سب سے پہلے ان کے بارے میں ایک خاص انداز کا احساس کرناہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایک خاص اندازمیں برتاؤکرنابھی ہے۔(۱۶)یہاں ایگلٹن محبت کوہونے (Being)کی وجودیات سے عمل کی اخلاقیات کی طرف دھکیل رہاہے۔لیکن اس کی اگلی لائن ہی ایک مختلف وجودی موڈکی طرف پھسل جاتی ہے۔”یہی وجہ ہے کہ خیرات کی مثال غیروں کی محبت ہے دوستوں کی نہیں۔اجنبیوں سے محبت کرنے کی کوشش میں ہم محبت کوپیٹ کے گڑھے میں گرم چمک (مطلب کسی کا پیٹ بھرنا)سمجھ بیٹھنے کا امکان کم ہی رکھتے ہیں“(۲۶۔۱۶)غزالی کی سوچ یہ ہے کہ محبت کوپیٹ کے گڑھے میں گرم چمک (ان کی ضرورتیں پوری کرنا)یقینا سمجھاجاسکتاہے۔ایسی محبت جس میں دوست اورغیرسب شامل ہوسکتے ہیں۔جوچیز مسرت آگیں ہوتی ہے اس سے محبت کی جاتی ہے۔کسی سے محبت کرنا،غزالی کہیں گے،اس کے بارے میں ایک خاص انداز کا احساس کرنااوراس کے ساتھ ایک خاص طرح کا برتاؤکرنادونوں ہوسکتاہے۔ایگلٹن واضح طورپرمحبت کے ساتھ ایک وجودیات کوجوڑرہاہے نہ اس کی مظہریت کو۔اسی لیے وہ جذبات اورعمل میں علیحدگی قائم کرتاہے۔
59. الغزالی:کتاب المحبۃوالعشق والانس والرضا،احیاء علوم الدین ص 268
60. http://www.acommonword.com
61. Aijaz Ahmad, In Theory: Classes, Nations, Literatures, (London:Verso, 1992), 190
62. جیساکہ اعجاز احمدنے کہا:جوچیز راسخ العقیدہ اسلام کے لیے مسئلہ ہے وہ یسوع کی نہیں بلکہ عیسائیت کی حیثیت ہے۔اورجس طرح سے یسوع مسیحی عقیدہ میں ظاہرہوتے ہیں۔کیونکہ راسخ العقیدہ عیسائیت اسلام کوایک بدعت مانتی ہے توراسخ العقیدہ اسلام نے بھی تاریخی طورپر عیسائیت کے کچھ بنیادی عقیدوں کومکمل طوپر توہین آمیز اورکفریہ سمجھاہے جیسے کہ تثلیث کا نظریہ اور مسیح علیہ السلام کوخداکابیٹاتصورکرنا۔
نوٹ:
To cite (this article: Ebrahim Moosa (15 Jan 2024): Decolonizing the Politics of Love: A GhazÄlian Genealogy of Love in Islam, Political Theology, DOI: 10.1080/1462317X.2024.2304442 To link to this article:
https://doi.org/10.1080/1462317X.2024.2304442)
کتابیات : References
Agamben, Giorgio. What Is an Apparatus?: And Other Essays. Stanford, CA: Stanford University Press, 2009.
Al-Azmeh, Aziz. The Emergence of Islam in Late Antiquity: Allah and His People. New York: Cambridge University Press, 2014.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ammad b. Muh. ahmad, al-Mustasfa min eIlm al-Usulالمستصفی من علم الاصول. 2 vols. Madina: Sharika al-Madina al-Munawwara li al-T. iba a wa al-Nashr, 1413/1993.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad.کتاب المحبۃ والشوق والرِِضا,احیاء علوم الدین 5 vols. 4, 257-314. Beirut: Dar al-Kutub al-eIlmaya, 1421/ 2001.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad کتاب شرح عجائب القلب،احیاء علوم الدین5 vols, 3, 3-44. Beirut: Dsr al-Kutub al-elmiya, 1421/2001.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad المقصدالاسنی فی شرح معانی الاسماء اللہ الحسنی Beirut: Dar Ibn H. azm, 1424/2003.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad: Love, Longing, Intimacy and Contentment کتاب المحبۃ والشوق والرِِضا؛ احیاء علوم الدین. Ä Book XXXVI of the Revival of the Religious Sciences Translated by Eric L. Ormsby. Cambridge: The Islamic Texts Society, 2011.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad and Mah. Mahmood Biju. Mizanu al-Amal. Damascus: Dar al-Taqwa, 1428/2008. (میزان العمل)
Asad, Muhammad. The Message of the Quran. Bristol: The Book Foundation, 2003.
Burrell, David B., Nazih Daher. Al-Ghazali The Ninety-Nine Beautiful Names of God المقصدالاسنی فی شرح معانی الاسماء اللہ الحسنی Translated with Notes. Cambridge: Islamic Texts Society, 1992.
Cleary, Thomas. The Qur'an: A New Translation. Starlatch Press, 2004.
Eagleton, Terry. The Event of Literature. New Haven: Yale University Press, 2012.
Foucault, Michel, and Colin Gordon. Power/Knowledge: Selected Interviews and Other Writings, 1972-1977. 1st American ed. New York, N.Y.: Pantheon Books, 1980.
Gandolfo, Elizabeth O'Donnell. The Power and Vulnerability of Love a Theological Anthropology. Minneapolis, MN: Fortress Press, 2015.
Hamza Feras, Sajjad Rizvi, and Farhana Mayer, eds. An Anthology of Qur'anic Commentaries. Volume 1 on the Nature of the Divine. This paperback edition published 2010 ed, 5. Oxford: Oxford University Press in Association with the Institute of Ismaili Studies, 2010.
Heydarpoor, Mahnaz. Love in Christianity and Islam: A Contribution to Religious Ethics. London: New City, 2005.
Ibn erabi Abu Bakr Muhyuddin, and Ah. mad Shams al-ddin (ed). al-Futuhat al-Makkiya. 1st ed. 9 vols. Beirut: Dar al-Kutub al-eIlmiya 1420/1999.
Jili, 'Abd al-Karim.. al-Insan al-Kamil fí Maerifat al-Awaeil wa al-Awakhir.1st ed. 2 vols. Cairo: Maktabat al-Thaqafaya, 2004.
Kant, Immanuel. Critique of Pure Reason. Translated by Paul Guyer. Cambridge: Cambridge University Press, 1998.
Khalidi, Tarif. The Qur'an. Deluxe ed.. New York: Penguin Books, 2008.
Lingis, Alphonso. "Subjectification." Continental Philosophy Review 40, no. 2 (2007): 113-123. doi:10.1007/s11007-007-9054-5.
Mignolo, Walter D. Foreword: On Pluriversality and Multipolarity." In Constructing the Pluriverse, edited by Reiter Bernd, ix-xvi. New York: Duke University Press, 2018.
Mignolo, Walter D. "Decoloniality and Phenomenology: The Geopolitics of Knowing and Epistemic/Ontological Colonial Differences." The Journal of Speculative Philosophy 32, no. 3 (2018): 360-387. doi:10.5325/jspecphil.32.3.0360.
Moosa, Ebrahim. "Allegory of the Rule (H. ukm): Law as Simulacrum in Islam" History of Religions 38, no. 1 (1998): 1-24. doi:10.1086/463517.
Moosa, Ebrahim. Ghazãli and the Poetics of Imagination. Chapel Hill, NC: University of North Carolina Press, 2005.
Nygren, Anders. Agape and Eros. Christian Idea of Love. Philadelphia, Westminster Press [1953], 1953. pt. 1. A study of the Christian idea of love.-pt. 2. The history of the Christian idea of love.
Quijano, Anibal. "Coloniality of Power, Eurocentrism, and Latin America." Nepantla 1, no. 3 (2000): 533-580.
Shaikh, Sadiyya. Sufi Narratives of Intimacy: Ibn erabi, Gender and Sexuality. Chapel Hill: University of North Carolina Press, 2012.
انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

اللہ رب العزت کا یہ احسان ہے کہ اس نے اسلام کی دولت سے سرفراز کیا ہے اور آپ ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا ہے ۔اسلامی شریعت نے زندگی کے تمام معاملات میں ہماری راہنمائی کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس ہم اسلامی شریعت کی تعلیمات کو سیکھ کر اپنی عملی زندگی میں اس کو نافذ کریں۔ آج کی گفتگو کا موضوع :’’انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں ‘‘ ہے ۔
انسانی جان کی اہمیت قرآنی آیات کی روشنی میں
اللہ رب العزت نے انسانی کی اہمیت قرآن حکیم میں بیان فرمائی ہے ذیل میں تین آیات مبارکہ پیش کی جا رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا1
’’یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں، دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔‘‘
۲۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ2
’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔‘‘
۳۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ3
’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا ، اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔‘‘
نفس انسانی کے حقوق سے متعلق احادیث
۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لاَ يَخُونُهُ وَلاَ يَكْذِبُهُ وَلاَ يَخْذُلُهُ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.4
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس سے جھوٹ نہ بولے، اور اس کو بے یار و مددگار نہ چھوڑے، ہر مسلمان کی عزت، دولت اور خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، تقویٰ یہاں ( دل میں ) ہے، ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے۔‘‘
۲۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ"5
’’حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مسلمان کا ، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، خون حلال نہیں ، مگر تین میں سے کسی ایک صورت میں ( حلال ہے ) : شادی شدہ زنا کرنے والا ، جان کے بدلے میں جان ( قصاص کی صورت میں ) اور اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہو جانے والا۔‘‘
درج بالا احادیث میں انسان کا مقام بیان کیا گیا ہے اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ اپنا مقام کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی شریعت کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے ۔ ذیل میں انسان کے اپنی ذات پر کیا حقوق ہیں ترتیب کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔
پہلا حق :اللہ کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کرنا
انسان پر اپنی ذات سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی اطاعت نہ کریں ،اس لیے اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے وہی اس امر کا مستحق ہے کہ اس کی بندگی بجالائی جائے ۔اسی امر کی طرف قرآن حکیم میں کئی مقامات پر اشارہ کیا گیا ہے ۔
۱۔ ارشاد باری تعالی ہے :
يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ◌ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ6
’’اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔‘‘
۲۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ7
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی (١) پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟‘‘
قرآن حکیم کا اولین مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرے ،اسی کے احکامات کو زندگی کے تمام معاملات میں عمل کرنے کی سعی کرے ۔اسی امر کی تعلیم آپ ﷺ نے دی ہے ذیل میں حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث پیش کی جا رہی ہے جس میں اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ حق بیان کیا گیا ہے ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ»، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّ حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا»، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ»8
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ، کہا : میں ( سواری کے ایک جانور پر ) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا ، میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی ( جتنی جگہ ) کے سوا کچھ نہ تھا ، چنانچہ ( اس موقع پر ) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول ! ز ہے نصیب ۔ ( اس کے بعد ) آپ پھر گھڑی بھر چلتے رہے ، اس کے بعد فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں ، اللہ کے رسول ! زہے نصیب۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ عز و جل کا کیا حق ہے ؟ ‘‘ کہا : میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ ارشاد فرمایا :’’ بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ ‘‘ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول ! زہے نصیب ۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا آپ جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو پھر اللہ پر ان کا حق کیا ہے ؟ ‘‘ میں نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے ۔ ‘‘
دوسرا حق : اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی کوشش کرنا
انسان کے اوپر دوسرا حق یہ ہے کہ اپنی ذات کو ان تمام امور سے اپنی حفاظت کرے جو آگ کی طرف لے جانے والے ہیں، اسی امر کی طرف قرآن حکیم میں کئی مقامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ موت سے قبل اپنی ابدی زندگی کی تیاری کی فکر کی جائے۔ ذیل میں اس سے متعلق آیات قرآن پیش کی جا رہی ہیں۔
۱۔: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ9
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ (١) جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ۔‘‘
۲۔يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ10
’’اے ایمان والو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت (١) اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘
۳۔وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ11
’’اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو۔‘‘
۴۔اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَا لَكُمْ مِنْ مَلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَكِيرٍ 12
’’اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے ، تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی (٢)۔‘‘
درج بالا آیات میں اس امر کی طرف دعوت دی جا رہی ہے کہ اہل ایمان اپنی آخرت کی فکر کو اولین ترجیح میں رکھیں اور اسی کے مطابق اپنے تمام امور بجا لانے کی کوشش کریں۔
آپ ﷺ نے اپنے متبعین کی اس انداز میں تربیت فرمائی ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنے رب کی بندگی اور اپنے رسول کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں ۔
۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تُنْظَرُونَ إِلَّا إِلَى فَقْرٍ مُنْسٍ، أَوْ غِنًى مُطْغٍ، أَوْ مَرَضٍ مُفْسِدٍ، أَوْ هَرَمٍ مُفَنِّدٍ، أَوْ مَوْتٍ مُجْهِزٍ، أَوِ الدَّجَّالِ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوِ السَّاعَةِ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ13
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے ( یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی ) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے۔‘‘
حضرت میمونؓ فرماتے ہیں:
اعْمَلُوا فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ الْمَرَضِ، وَفِي الْحَيَاةِ قَبْلَ الْمَوْتِ، وَفِي الشَّبَابِ قَبْلَ الْكِبَرِ، وَفِي الْفَرَاغِ قَبْلَ الشُّغْل14
’’مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے حالت صحت میں ،موت سے قبل زندگی میں ،نوجوانی میں بڑھاپے سے پہلے، مصروفیت آنے سے قبل فارغ وقت میں نیک اعمال کرو۔‘‘
عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: كُنَّا نَتَوَاعَظُ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ بِأَرْبَعٍ، كُنَّا نَقُولُ: «اعْمَلْ فِي شَبَابِكَ لِكِبَرِكَ، وَاعْمَلْ فِي فَرَاغِكَ لشُغْلِكَ، وَاعْمَلْ فِي صِحَّتِكَ لِسَقَمِكَ، وَاعْمَلْ فِي حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ»15
’’حضرت غنیم بن قیسؓ فرماتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی میں ایام میں ایک دوسرے کو چار چیزوں کی نصیحت کرتے تھے ،ہم کہتے تھے :نوجوانی میں بڑھاپے کے لیے عمل کرو، مشغولیت سے قبل فارغ وقت میں نیک اعمال کرو، حالت صحت میں نیک اعمال کرو، موت سے قبل زندگی میں نیک عمل کرو۔‘‘
تیسرا حق :طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالنا
تیسرا حق یہ ہے کہ اپنی طاقت اور بساط کے مطابق اپنے امور بجا لانے کی کوشش کی جائے حتی کہ عبادات میں بھی میانہ روی اختیار کی جائے تاکہ زندگی کے دیگر امور متاثر نہ ہوں ۔ذیل میں ایک صحابی کا عمل ذکر کیا جارہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کے ذریعے ہماری یہ تربیت کی ہے کہ ہم اپنے امور میں اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔
عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ لَهَا: مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، فَجَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ؟ قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُومُ، قَالَ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ فَقَالَ: نَمْ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قَالَ: سَلْمَانُ قُمِ الآنَ، فَصَلَّيَا فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ سَلْمَانُ16
’’حضرت عون بن ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ میں ( ہجرت کے بعد ) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بہت پراگندہ حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہیں جن کو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور ان کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں، اس پر سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہو گے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہو گئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔‘‘
چوتھا حق:جسم کے اعضاء (آنکھ، کان، ذہن کی حفاظت، ہاتھ، پاؤں، پیٹ، ذہن) کی حفاظت
ایمان لانے کے ایک بندہ مختلف ذمہ داریوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کو اپنے تمام اعمال کی کڑی نگرانی کرنی ہوتی ہے ۔اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے بالخصوص جسم کے تمام اعضاء کہ جن سے انسان اپنے امور بجا لاتا ہے ۔اسلامی شریعت نے یہ تعلیم دی ہے کہ ان اعضاء کی حفاظت کی جائے اس لیے کہ قیامت کے دن تمام اعضاء کو گویائی دی جائے گی جس کے نتیجے میں وہ ان تمام امور کو واضح کریں گے جو ان سے صادر کیے گئے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا17
’’جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘
قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ18
’’جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔‘‘
درج بالا آیات سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعضاء قیامت کے روز اس کے حق میں یا اس خلاف گواہی دیں گے، اس لیے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اعضاء سے کوئی ایسا کام نہ کرے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے تاکہ قیامت کے روز شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ لہذا جسم کے اعضاء کا حق قرآن حکیم میں واضح کردیا گیا ہےکہ ان کو درست راہ میں استعمال کیا جائے ۔
اسی طرح آپ ﷺ نے ذہن اور پیٹ میں جانے والی اشیاء کی نگہداشت کی تعلیم دی ہے، جس کی وضاحت درج ذیل حدیث میں کی گئی ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ» ، قَالَ: إِنَّا نَسْتَحِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: «لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنْ مَنِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ فَلْيَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَلْيَحْفَظِ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْيَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلَاءَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ»19
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہو۔‘‘
حقوق کی حفاظت پر فوائد و ثمرات
۱۔اللہ کے احکامات پر عمل
۲۔یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے
۳۔خیر کے کاموں میں رغبت بڑھ جاتی ہے۔
۴۔اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے
۵۔جسمانی صحت درست رہتی ہے
۶۔آخرت میں کامیابی ملے گی
محترم سامعین!
دین اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں انسان سے متعلق تمام امور کی راہنمائی دی گئی ہے ،اس لیے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے اس کے احکامات کو احسن انداز میں سیکھ کر اس کے مطابق عمل کریں۔ اللہ رب العالمین ہمیں دین اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین
حواشی
1. الإسراء:70:17
2. التين:4:95
3. المائدة:32:5
4. سنن ترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي شَفَقَۃِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ،ح1927
5. صحیح مسلم ،بَابُ مَا يُبَاحُ بِہِ دَمُ الْمُسْلِمِ،ح۱۶۷۸
6. البقرۃ :۲۱:۲
7. النحل :36:16
8. صحیح مسلم ،بَابُ مَنْ لَقِي اللہَ بِالْإيمَانِ وَھُو غَيْرُ شَاكٍّ فِيہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحُرِّمَ عَلَی النَّارِ،ح48
9. التحریم :6:66
10. البقرۃ:254:2
11. الزمر:55:39
12. الشوری47:42
13. سنن ترمذی،ح2306،حکم ضعیف (البانی)
14. الزهد والرقائق لابن المبارك،عبداللہ بن مبارک، بَابُ التَّحْضِيضِ عَلَی طَاعَۃِ اللّہِ عَزَّ وَجَلَّ،ح5
15. مسند احمد بن حنبل،ح1451
16. صحیح بخاری، بَابُ صُنْعِ الطَّعَامِ وَالتَّكَلُّفِ لِلضَّيْفِ،ح1948
17. الاسراء:36
18. النور:24:24
19. مسند احمد بن حنبل ،3671
تحفظ ماحولیات میں اسلام کا کردار و رہنمائی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

خالقِ کائنات نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی ایک مضبوط نظام عطا فرما کر پوری کائنات کو محفوظ و مامون بنا دیا جس پر قرآن مجید کی کئی آیات ِ مبارکہ شاہد ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
’’اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کروں اور ذروں کی شکل میں) چراغوں سے مزین فرما دیا ہے اور ہم نے ان(ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (یعنی سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اثرات ختم کرنے) کا ذریعہ (بھی) بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (الملک5)
مزید سورۃ الرحمن میں ارشادِ خداوندی ہے:
’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔‘‘(الرحمٰن5)
یعنی یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں جو منزلیں اور بروج ان کیلئے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ روگردانی ، اپنے اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں کیا مجال کہ دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر کریں ۔کیا ہی انوکھا ، عجیب تر اور حیرت کن نظم و ضبط نظام شمسی میں رکھا ہے۔
تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بر بن فرح الانصاری الخزرجی شمس الدین قطبی سورۃ الرحمن کی اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) اور ابو مالک (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ وہ (سورج اور چاند) حساب سے (اپنی اپنی) منازل میں چلتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے علیحدہ ہوتے ہیں (یعنی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے)۔‘‘
اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے، ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع و غروب ہوتا ہے، اسی سے ماہ و سال کا حساب بنتا ہے۔ اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے ۔
الغرض پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑا لیں ہر ذرے اور ہر کرے میں مکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے ہر قدرتی نظام میں ایک توازن پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز میں ایک نکھار اور تر و تازگی ہے۔
انسان نے جب بھی اس توازن کو عدم توازن میں لانے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے ۔تو واضح یہ ہوا کہ تخلیقِ کائنات میں کوئی کمی، کوئی کجی، کوئی نقص بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و مبرا ہے ۔یہ جو آج پوری دنیا مختلف قسم کی آلودگیوں میں گھری ہوئی نظر آتی ہے یہ انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے جس کا مختصر جائزہ یہ ہے -
جب دنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور ان کے وسیع پیمانے پہ استعمال کے دور میں قدم رکھا ، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گوناگوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی۔ اِس بے احتساب اور بھاگم بھاگ کی ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔
اس وقت انسانی جان کی بقا کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے ان میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔ جو موسم کی ناہمواری، درجہ حرارت کی کمی و زیادتی، خشک سالی، طوفان، سیلاب، قدرتی آفات اور دیگر انسانی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کثرتِ امراض جنم لیتے ہیں۔ اب تو فطری ماحول کی ناہمواری نے بھی انسانی وجود کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روئے زمین پر تمام جانداروں اور بالخصوص انسانی جان کے تحفظ کا انحصار جن باتوں پر کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک آلودگی سے پاک ماحول ہے۔ ہم سب کے لیے ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی اس سے پوری طرح اور بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کا تدارک سیرت النبی کی روشنی میں
واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ہم نے ہوا، پانی، مٹی، دھواں، درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی تک محدود کر دیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی کا(ISSUE) فقط انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ کار وسیع ہے اس کا اطلاق اخلاقی آلودگی، اقتصادی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی، ظاہری و باطنی آلودگی، ذہنی، فکری اور معاشرتی آلودگی پر بھی ہوتا ہے۔ ماحول ہی کی وجہ سے انسان جسمانی اور روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے اگر معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھو بیٹھے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جہاں پر شرفاء اور غرباء کے لیے ایام زندگی گزارنا مشکل ہو جاتے ہیں اور اگر معاشرہ اپنی طبعی اور احساسی اقدار کھو بیٹھے تو ہر گلی و کوچہ غلاظت اور گندگی کا ڈھیر بن جائے۔
پورا شہر ہر جگہ کھڑے بدبودار پانی کی وجہ سے فلڈ ایریا کی صورت اختیار کر لے تو پھر ایسی جگہ پر طبعی اور طبی لحاظ سے انسانی زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کی تعلیم دی ہے تاکہ انسان ذہنی، فکری اور جسمانی لحاظ سے محفوظ اور پرسکون زندگی گزار سکے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی سیرت طیبہ ان ہمہ قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا احاطہ کرتی ہے۔
طوالت کے خوف کی وجہ سے سیرت طیبہ ؐ میں سے یہاں پر فقط چند چیزوں کو ذکر کیا جاتا ہے:
پانی کو ضائع کرنے کی ممانعت
پانی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اس کو محفوظ کیا جائے اور ہر ممکن اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی کے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے جس قدر تاکید فرمائی ہے آدمی پڑھ کر حیران ہو جاتا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو ۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ و سننہا)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کر رہے تھے )پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسے دیکھ کر) فرمایا اے سعد!یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔ ‘‘(ایضا)
پانی کو نجاست سے بچانے کا حکم
جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح آپ نے پانی کو نجاست وغیرہ سے بھی بچانے کا حکم فرمایا ہے چاہے پانی ٹھہرا ہوا ہو یا جاری ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے ۔‘‘(ایضا)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط، رقم الحدیث: 1749)
پانی کے تحفظ کی احتیاطی تدابیر
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ممکن پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے چند مقامات ایسے ہیں جہاں سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے مثلا: غسل کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کیلئے صابن کے استعمال کے وقت ٹوٹی کو کھلا نہ رکھا جائے، برتن، کپڑے یا گھر کی صفائی کے لئے کسی بالٹی میں پانی ڈال کر استعمال کرنا چاہیے کیونکہ پائپ سے پانی زیادہ ضائع ہو جاتا ہے- اسی طرح مسواک اور وضو کرنے کے لئے بھی پانی لوٹا یا کسی برتن میں ڈال کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ حد درجے تک پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور گھر کے استعمال شدہ پانی کو گلیوں میں فضول نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ایک تو کھڑے پانی سے گلی ، محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے اور دوسرا اس سے جراثیم و بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے اسے فصلوں، کھیتوں یا کسی طریقے سے کار آمد بنانا چاہیے۔ اسی طرح ملکی سطح پر بھی بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے بڑے بڑے ڈیم اور بند قائم کیے جائیں اور اسے کار آمد بنایا جائے۔ پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنی چاہیے-
پانی کے ایک ایک گھونٹ پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اللہ اس بندے پر خوش ہوتا ہے جو کھانا کھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے یا جو بھی چیز پیئے اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعا والتوبۃ)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
’’یا اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہو جانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الرقاق)
زمینی اور فضائی آلودگی کا تدارک
زمینی اور فضائی آلودگی سے نجات پانے کا ایک ذریعہ شجر کاری بھی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر کاری کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ترغیب بھی دلائی اور درخت لگانے پر اجر ملنے کا مژدہ بھی سنایا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کاشت کرے پس اس میں سے پرندے ، انسان یا جانور کھالیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب المزارع)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس درخت میں سے جتنا کھا لیا جائے تو اس (درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس میں سے چوری ہو وہ بھی اس کا صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے درندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے پرندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے (غرض یہ کہ) جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہو جائے گا ۔‘‘(صحیح مسلم ، کتاب المساقاۃ)
صحابہ کرام ؓکا شجرکاری کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’میں ایک دن درخت لگا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! کیا کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !درخت لگا رہا ہوں ۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الادب)
حضرت قاسم مولی بنی یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’ان کے پاس سے ایک شخص گزرا ۔اس وقت وہ دمشق میں پودا لگا رہے تھے۔ اس شخص نے ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ بھی یہ (دنیاوی) کام کررہے ہیں حالانکہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے (ملامت کرنے میں) جلدی نہ کر۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالی کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (مسند احمد ، رقم الحدیث : 28270)
بلاضرورت درختوں کو کاٹنے کی ممانعت
حضرت عبد اللہ بن حبش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا -حضرت امام ابو داؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ: یہ حدیث مختصر ہے( پوری حدیث اس طرح ہے )کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘ (سنن ابو دائود، باب فِی قطعِ السدر)
بازار یا راہ گزر پہ گندگی پھیلانے کی ممانعت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں راستوں تک کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنی شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایک آدمی نے قطعا کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا) اللہ تعالی نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا۔‘‘ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لعنت کے تین کاموں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں اور سائے میں قضائے حاجت کرنے سے۔‘‘ (سنن ابو داؤد ، کتاب الطہارۃ)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لعنت والے تین مقامات سے بچو۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ لعنت والے مقامات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: جس سائے کو استعمال کیا جاتا ہو، اس میں یا راستے میں یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا۔‘‘ (مسند حمد ، رقم الحدیث : 2767)
قارئین کرام! پاکیزگی اور صفائی کے اعتبار سے اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے۔اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ہر سلیم الطبع انسان صفائی ستھرائی و خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور گندگی، ناپاکی اور غلاظت سے ناپسندیدگی و نفرت کا اظہار کرتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک کیلئے سیرت طیبہ ؐکی طرف رجوع کرنا چاہیے ،اور ماحول کو پاک صاف رکھ کر اپنا اور اپنے آنے والی نسلوں کا خیال رکھیں۔
یوم نکبہ اور فلسطینیوں کے لیے اس کی اہمیت
اسلامک ریلیف

آج یومِ نکبہ ہے، جسے اس سال غزہ میں فلسطینیوں پر مسلسل بمباری، نقل مکانی اور ناکہ بندی کے باعث یادگاری کے سالانہ دن کے طور پر نمایاں کیا جا رہا ہے۔ یہاں ہم اس دن کی ابتدا اور اہمیت کو دیکھیں گے:
یومِ نکبہ کیا ہے؟
یوم نکبہ ہر سال 15 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ فلسطینی وطن کی تباہی اور 1948ء میں فلسطینی آبادی کی اکثریت کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔
نکبہ کا مطلب عربی میں 'تباہ' کا ہے۔ اور یہ وہ لفظ ہے جو فلسطینیوں اور دیگر لوگوں نے اس تاریخی لمحے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اصطلاح اس کے بعد فلسطینیوں پر جاری ظلم و ستم اور علاقے پر قبضہ کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔
1998ء میں، یومِ نکبہ کا باضابطہ افتتاح فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے کیا، حالانکہ اس تاریخ کو 1949ء سے یادگاری اور مزاحمت کے احتجاج کے ساتھ نشان زد کیا گیا تھا۔
مئی 1948 میں کیا ہوا؟
مئی 1948ء میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا آغاز ہوا جس میں 700,000 (سات لاکھ) سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
1948ء کی فلسطین جنگ کے دوران، جو جنوری 1949ء تک جاری رہی، اسرائیلی افواج نے 530 سے زائد فلسطینی دیہاتوں کو تباہ کیا اور کئی قتلِ عام کیے، جس میں تقریباً 15,000 (پندرہ ہزار) افراد ہلاک ہوئے۔
فلسطین کے 78 فیصد تاریخی علاقے پر قبضہ کر لیا گیا اور اسے اسرائیل قائم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بقیہ زمین ان علاقوں میں تقسیم کی گئی تھی جو آج مقبوضہ مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ہیں۔
جنگ میں اسرائیلی فتح کے بعد یہودی آباد کاروں کو متروکہ مکانات دے دیے گئے۔ 1948ء میں جلاوطن ہونے والے بہت سے فلسطینیوں کی اولادیں آج تک فلسطین کے اندر اور پوری دنیا میں بے گھر ہیں۔ اس وقت تقریباً 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟
1920ء سے مئی 1948ء تک برطانیہ نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کے ایک معاہدے کے تحت ’’لازمی فلسطین‘‘ نامی علاقے پر حکومت کی، جو کہ ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ (اقوام متحدہ) کا پیش خیمہ ہے۔
دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے مینڈیٹ کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا، اور نو تشکیل شدہ اقوامِ متحدہ نے ایک یہودی ریاست کے قیام کی اجازت دینے کے لیے فلسطین کی دوبارہ حد بندی شروع کی۔
تقسیم کے مختلف منصوبوں میں سے کسی کو بھی فلسطینیوں یا عرب لیگ کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ تاہم جب مینڈیٹ ختم ہواتو اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا جس سے 1948ء کی فلسطین جنگ شروع ہوئی جسے ’’1948ء کی عرب اسرائیل جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
نکبہ کے بعد کیا ہوا؟
نکبہ کے بعد کے 76 سالوں میں اسرائیلی ریاست نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرنے، خاندانوں کو بے گھر کرنے اور اس عمل میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اس کی بڑی مثالوں میں 1967ء کی چھ روزہ جنگ تھی، جس میں اسرائیلی افواج نے غزہ اور مغربی کنارے سمیت تمام تاریخی فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے 300,000 (تین لاکھ) لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔
اس کے بعد کی دہائیوں میں خطے میں کشیدگی بہت زیادہ رہی ہے، پہلے کی نسبت کشیدگی کے زیادہ واقعات کے ساتھ۔ تاہم اس میں اضافہ کی موجودہ صورتحال واقعی بے مثال ہے۔ 35,000 (پینتیس ہزار) سے زیادہ لوگ ہلاک کیے جا چکے ہیں اور بہت سے بے گھر ہوئے ہیں جن میں وہ لوگ بھی ہیں جو نکبہ کے بعد غزہ منتقل ہوئے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران صرف رفح سے 450,000 (ساڑھے چار لاکھ) افراد بے گھر ہوئے۔
نکبہ سے پہلے فلسطین کیسا تھا؟
نکبہ سے فوراً پہلے فلسطین انگریزوں کے زیر انتظام تھا۔ ’’لازمی فلسطین‘‘ کا قیام شدید نوعیت کی یورپی نوآبادیاتی توسیع کے دور میں، اور عرب بغاوت (1916ء-2018ء) میں سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کی بے دخلی کے بعد ہوا۔
(برطانوی) مینڈیٹ کی مدت کے دوران فلسطین ایک مربوط سیاسی اکائی بن گیا جس کا دارالحکومت یروشلم تھا۔ اس دور میں بیوروکریسی، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں ترقی دیکھنے میں آئی۔ اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی ہجرت کو فروغ دینے اور فلسطینیوں کو خود مختاری سے محروم کرکے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی گئی۔
مینڈیٹ کی مدت سے پہلے فلسطین 400 سال تک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہا تھا۔
نکبہ کے طویل مدتی نتائج کیا ہیں؟
نکبہ کا نتیجہ دنیا کے سب سے طویل عرصے سے جاری غیر حل شدہ پناہ گزینی بحران کی صورت میں نکلا۔ جس میں غزہ اور مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن، لبنان اور شام جیسے پڑوسی ممالک میں تقریباً 6 ملین (ساٹھ لاکھ) فلسطینی پناہ گزین چلا آ رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر ، مشرق وسطیٰ میں فلسطینی پناہ گزینوں نے اپنے میزبان ممالک میں جنگوں اور مزید جلاوطنی کا سامنا کیا ہے۔
خطہ کا بڑا قبضہ جس کا آغاز نکبہ سے ہوا، فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ بہت سے قیمتی وسائل اس سرزمین میں موجود ہیں جن پر اب اسرائیل نے دعویٰ کیا ہوا ہے، جو فلسطینیوں کو ان تک رسائی اور ممکنہ طور پر اپنی معیشت کو بڑھانے سے روکتے ہیں۔
اسرائیلی قبضہ، جسے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا، ان کے وقار کو مجروح کرتا ہے اور غربت کا سبب بنا ہوا ہے۔ یہ نقل و حرکت اور تجارت کے ساتھ ساتھ پانی، سروسز، کھیتی باڑی، بازاروں، خاندانوں اور مذہبی مقامات تک رسائی کو محدود کرتا ہے۔ یہ غزہ، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو ایک دوسرے سے لاتعلق رکھتا ہے۔
غزہ 2007ء سے اسرائیلی ناکہ بندی کی زد میں ہے جس کی وجہ سے علاقہ کے اندر اور باہر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہے۔ اس کے انسانی مدد کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں پر بہت زیادہ مضمرات ہیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں ضروری اشیاء کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل ان کا "دوہرا استعمال" قرار دیتا ہے، یعنی اسے شہری اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایندھن، پانی کے فلٹرز، سولر پمپس اور سرجیکل آلات جیسی چیزوں کو اس بنیاد پر داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ اسلامک ریلیف کے عملے نے ایندھن کے بغیر کھانا پکانے کی دشواری کی خبر دی ہے، خاندان کے افراد دھوئیں کے باعث سانس کے مسائل کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس کھلی آگ پر کھانا پکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایندھن کے بغیر ہسپتال زندگی بچانے کے آپریشن نہیں کر سکتے، کوڑا کرکٹ جمع نہیں کیا جا سکتا، اور پانی نہیں پہنچایا جا سکتا۔ ایندھن کی کمی کے اثرات کو اس سے زیادہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔
یومِ نکبہ کیسے منایا جاتا ہے؟
بہت سے لوگوں کے لیے یومِ نکبہ فلسطینیوں پر ہونے والے تاریخی ظلم و ستم کی طرف توجہ مبذول کرنے اور اس بات کو اجاگر کرنے کا ایک موقع ہے کہ یہ اب بھی پوری طرح جاری ہے، خاص طور پر اس طرح کے سالوں میں، جب یومِ نکبہ بحران میں اضافے کے دوران آتا ہے۔
یہ دن مصائب کی داستان سے ہٹ کر فلسطین کی بھرپور ثقافت اور تاریخ کو منانے کا بھی وقت ہے، جو بہت سے لوگوں کے لیے اس علاقے اور اس کے لوگوں کی شناخت واضح کرتا ہے۔ فلسطینی نہ صرف لچکدار ہیں، بلکہ وہ باصلاحیت مصنفین اور رقاص، ہنرمند کڑھائی کرنے والے اور فراخ میزبان ہیں۔
گزشتہ سال، تاریخ میں پہلی بار، اقوامِ متحدہ نے یومِ نکبہ منایا۔ عالمی ادارے نے "فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافی کی یاد دہانی" کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے جاری بحران کو اجاگر کرنے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب میں تقاریر، موسیقی، تصاویر اور ذاتی شہادتیں شامل تھیں۔
30 سے زائد ممالک نے یومِ نکبہ منانے کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، جو کہ اسرائیل کی اپنی حمایت کے ساتھ فلسطینیوں کے مصائب کے اعتراف کو متوازن کرنے میں بہت سی ریاستوں کی نااہلی کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل اکثر یومِ نکبہ کی سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کی مخالفت کرتا ہے اور انہیں خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتا ہے۔
اسلامک ریلیف یومِ نکبہ کی بات کیوں کر رہا ہے؟
اسلامک ریلیف 1997ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں کام کر رہی ہے، ہنگامی ردعمل کی کوششوں اور ترقیاتی پروگرامنگ کے ذریعے ضرورت مند فلسطینیوں کی مدد کر رہی ہے۔
ہمارا بہت سے عملہ اور مقامی شراکت دار اکتوبر 2023ء سے بے گھر ہو گئے ہیں اور انہیں انہی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی ہم حمایت کرتے ہیں۔ غزہ میں ہمارا دفتر ان تقریباً 900,000 (نو لاکھ) عمارتوں میں شامل ہے جنہیں جاری بمباری کے سلسلہ سے تباہی یا نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بے پناہ چیلنجوں کے باوجود، ہم جب بھی اور جہاں بھی ہو سکے، خوراک اور پانی کی تقسیم، یتیموں کی کفالت اور دیگر امداد کے ذریعے غزہ میں کمزور لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ اشد ضرورت کے وقت یہ امداد ہزاروں خاندانوں کے لیے لائف لائن ہے۔
تاہم جاری تشدد کے براہ راست نتیجے کے طور پر ہمارے کام اور بہت سی عالمی اور مقامی انسانی تنظیموں کے کام کو روکا جا رہا ہے۔ جنگ بندی اور غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے بغیر ہم ان لوگوں کو جو مدد فراہم کر سکتے ہیں، جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے، وہ محدود اور ناکافی ہے۔
اسلامک ریلیف یومِ نکبہ کے اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ عطیہ دہندگان، فیصلہ سازوں اور عام لوگوں کو فلسطینی عوام کی دیرینہ جدوجہد اور مصائب کی یاد دلائے۔ ان کے مصائب کو تاریخ کی کتابوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے، یہ ایک گہرا اور تباہ کن انسانی بحران ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے۔ موجودہ کشیدگی کے 200 دنوں سے زیادہ عرصے سے خاندان الگ ہوئے ہیں، بھوکے کا شکار ہوئے ہیں اور ہلاک کیے گئے ہیں۔ یہ غزہ میں ہر ایک کے لیے موجودہ دور کی حقیقت ہے، لیکن آیا ان کا مستقبل بھی اسی طرح برقرار رہتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار آج عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں پر ہے۔
https://islamic-relief.org/news/explainer-nakba-day-and-its-significance-to-palestinians
15 May 2024
رُموزِ اوقاف
ابو رجب عطاری مدنی

منیر صاحب اردو کے سینیئر ٹیچر تھے، انہوں نے کلاس 6 میں پڑھاتے ہوئے جب یہ کہا کہ اچھی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی علامتوں کا خیال رکھا جائے تو دانش نے فوراً سوال کیا : سر! اگر ان علامتوں کو تفصیل سے بیان کردیں تو مہربانی ہوگی۔ منیر صاحب نے مارکر سنبھالا اور وائٹ بورڈ کی مدد سے طلبہ کو سمجھانا شروع کیا:
عزیز طلبہ! جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو کہیں ٹھہرتے ہیں اور کہیں نہیں ٹھہرتے، اسی طرح مختلف کیفیات مثلاً نرمی، سختی، خوشی، غم، تعجب (حیرانگی)، اِسْتِفْہام(سوال) خوف اور غصہ وغیرہ کا اظہار بولنے کی رفتار اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ سے کرتے ہیں، تحریر میں یہی کام مختلف علامتوں سے لیا جاتا ہے جنہیں رُموز ِ اوقاف (Punctuation) کہتے ہیں۔ ان علامتوں کے ذریعے پڑھنے والے کو تحریر کا مطلب سمجھنےمیں آسانی ہوتی ہے۔ چند علامتیں یہ ہیں:
۱۔ سکتہ ،
۲۔ وقفہ ؛
۳۔ رابطہ :
۴۔ خَتْمہ ۔
۵۔ سوالیہ ؟
۶۔ ندائیہ، فجائیہ !
۷۔ قوسین ()
۸۔ واوین ’’‘‘
(۱) سکتہ (Comma) (،)
اس علامت کا انگریزی نام ’’کاما ‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ سکتہ کی علامت (،) کسی مقام پر ہلکا سا توقف کرنے کے لئے لکھی جاتی ہے۔ مثلاً:
۱۔ جب دو یا زیادہ ایک ہی قسم کے کلمے ایک ساتھ آئیں توایسی صورت میں عام طور پر پہلے ایک یا دو لفظوں کے بیچ میں کاما آتا ہے اور آخری لفظ سے پہلے ’’اور‘‘ یا ’’یا “ آتا ہے جیسے : یہ کتاب مفید، نصیحت آموز اور آسان ہے۔ اسلم بہت سمجھدار، ذہین اور بااخلاق ہے۔
۲۔ ندائیہ لفظوں کے بعد، جیسے: اے بوڑھو، جوانو، بچو!
۳۔ ایک ہی قسم کے دویا زیادہ چھوٹے جملوں کے درمیان، جوکسی بڑے جملے کے اجزاء ہوں، جیسے: ’’وہ گھر پہنچا، نہاکر کپڑے بدلے، چائے پی اور مدرسے چلا گیا۔‘‘
(۲) وقفہ (Semicolon) (؛)
اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سکتہ (،) کی نسبت زیادہ ٹھہراؤکی گنجائش ہو، جیسے : مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کا م سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛ اس لئے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لئے استقامت ضروری ہے۔
(۳) رابطہ (Colon) (:)
کسی کا قول نقل کیا جائے، کسی اقتباس کو لکھا جائے، نظم یا نثر کی تشریح کی جائے؛ ایسے موقعوں پر اس علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مثالوں سے پہلے، شعر یا مصرعے کا حوالہ دینے سے پہلے، اس علامت کو لایا جاتا ہے، مثلاً:
۱۔ فقہ کے چار ماخذ یہ ہیں: قراٰن، حدیث، اجماع اور قیاس
۲۔ فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہٗ اللہُ یعنی جو مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ پاک اس کے عیب چھپائے گا۔ ( ابن ماجہ، 3 / 218، حدیث: 2544)
۳۔ مقولہ ہے: اَلْکِنَایَۃُ اَبْلَغ ُ مِنَ الصَّرِیْحِ کنایہ (یعنی اشارے میں کہی گئی بات) صریح (یعنی واضح بات)سے بھی بڑھ کر بلیغ (یعنی کامل ہوتی) ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 4 / 786)
(۴) ختمہ (Full Stop) (۔)
یہ علامت جملے کے خاتمے پر لگائی جاتی ہے، جیسے: میں وہاں گیا تھا۔ انگریزی کے مُخَفَّفَات کے بعد بھی یہ علامت لگا دیتے ہیں، جیسے: پی۔آئی۔اے۔
(۵) سوالیہ (Question Mark) (؟)
سوالیہ جملے کے آخر میں یہ علامت آتی ہے، جیسے: کیا بات ہے؟ تم کہاں سے آرہے ہو؟ اُس نے کیا کہا؟اب کس کی باری ہے؟
(۶) ندائیہ، فجائیہ (Exclamation Mark) (!)
یہ علا مت مُنادیٰ (یعنی جسے پکارا جائے اس ) کے ساتھ لائی جاتی ہے۔ جیسے: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آخرت کی فکر کیجئے۔ اس صورت میں اس کو “ ندائیہ“ کہیں گے۔ جب یہ علامت اُن الفاظ یا جملوں کے بعد آتی ہے جن سے کوئی جذبہ ظاہر کرنا ہوتا ہے، جیسے: غصہ، حقارت، نفرت، خوف، غم، خوشی، تعجب؛ تو اس کو “ فجائیہ“ کہا جاتا ہے، جیسے: افسوس! تم سے یہ امیدنہیں تھی۔ جذبے کی شدت کی مناسبت سے، ایک سے زیادہ علامتیں بھی لگا دیتے ہیں، جیسے: بس صاحب! بس!! کبھی تنبیہ کے موقع پر بھی استعمال کرتے ہیں، جیسے: “ خبردار! دیکھ کر! “
(۷) قوسین (Brackets) ()
عام طور پر جملۂ مُعْترِضہ (یعنی اصل کلام کے درمیان ضِمناً آنے والے جملے) کو قوسین میں لکھا جاتا ہے، جیسے: محمد جمیل عطاری (جو جامعۃ المدینہ میں پڑھاتے تھے ان) کا انتقال ہو گیا ہے۔
(۸) واوین (Inverted Commas) ’’‘‘
جب کسی کا قول، اسی کے الفاظ میں نقل کیا جاتاہے تو اس کے شروع اور آخر میں یہ علامت لاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ حصہ، باقی عبارت سے الگ ہے اور کسی دوسرے سے تعلق رکھتا ہے جیسے میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت، مولٰینا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 21، صفحہ 579 پر فرماتے ہیں:
’’(جو) اپنی جھوٹی تعریف کو دوست رکھے (یعنی پسند کرے) کہ لوگ ان فضائل سے اس کی ثناء (یعنی تعریف) کریں جو اس میں نہیں جب تو صریح حرامِ قطعی ہے۔‘‘
اسی طرح کسی مشہور شعر کے کسی ٹکڑے کو، کسی خاص ترکیب کو، یا نثر کے کسی خاص ٹکڑے کو جب اپنی عبارت میں شامل کرتے ہیں تو اس کو ممتاز کرنے کے لئے ’’ واوین‘‘ میں مقید کرتے ہیں، جیسے: ’’اللہ کرے دل میں اتر جائے مری بات‘‘۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی لفظ یا مجموعۂ الفاظ کو ایک خاص معنی میں، یا ایک خاص طرح استعمال کیا گیا ہے اور پڑھنے والوں کی توجہ کو اس خاص معنویت یا خاص انداز ِ استعمال کی طرف مبذول کروانا مقصود ہے؛ اس صورت میں بھی ان الفاظ یا اس لفظ کو ’’واوین‘‘ میں لاتے ہیں، جیسے: جو خود ’’پستیوں‘‘ کی طرف محو ِ سفر ہو دوسروں کو ’’بلندی‘‘ کا راستہ کیونکر دکھائے گا؟ کبھی بعض اصطلاحوں کو بھی ’’واوین‘‘ میں لکھا جاتا ہے، جیسے: غیبت ’’حرام‘‘ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
عزیز طلبہ! تالیف و تصنیف کرنے اور تحریروں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے مذکورہ رموزِ اوقاف اور ان کا استعمال خوب ذہن نشین کرلیجئے، ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔
https://www.dawateislami.net/magazine/ur/kitaab-zindagi/ramooz-e-auqaf
سینیٹر مشتاق احمد کے ’’غزہ بچاؤ دھرنا‘‘ میں مولانا زاہد الراشدی کی شرکت
سید علی محی الدین

شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی صاحب کی دیگر احباب کے ہمراہ گجرانوالہ سے (۱۲ جون ۲۰۲۴ء کو) ادارہ میں تشریف آوری ہوئی اور ہم ذوق احباب کے ساتھ شاندار مجلس سجی اور متعدد موضوعات پر تبادلہ خیالات ہوا۔ بعد ازاں مدیر ادارہ کی جانب سے مہمانوں کو ظہرانہ دیا گیا۔
نماز عصر کے بعد مرکزی جامع مسجد رحمانیہ میں مولانا راشدی صاحب نے موقع کی مناسبت سے قربانی کے موضوع پر مختصر خطاب فرمایا اور پھر قافلے کی معیت میں پہلے مولانا عبد الراؤف محمدی صاحب کی عیادت کی، اور ان کے برادر کبیر مولانا عبد القدوس محمدی صاحب سے ان کی صحت کے تفصیلی حالات معلوم کیئے۔
اور پھر نماز مغرب غزہ چوک (ڈی چوک) میں ادا کی۔ جہاں (سابق) سنیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قیادت میں سول سوسائٹی نے پورے پاکستان کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے پچھلے تقریبا ایک ماہ سے اہل فلسطین سے اظہار یک جہتی کے لیئے دھرنا دے رکھا ہے۔ نماز مغرب کے بعد سنیٹر مشتاق احمد سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے نہایت پرتپاک انداز میں مولانا راشدی صاحب اور ان کے ہمراہ آنے والے قافلے کو خوش آمدید کہا اور خوشی کا اظہار کیا۔
سنیٹر مشتاق احمد صاحب نے مختصر لیکن جامع بریفنگ بھی دی جو فلسطین کے تازہ ترین حالات، وہاں بچوں، عورتوں سمیت مظلوم انسانوں کے قتل عام اور اس پر عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی بالخصوص مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کا نوحہ پڑھا۔
بعد ازاں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے، جو اپنی پیرانہ سالی کے باوجود سخت گرمی کے موسم میں گجرانوالہ سے صرف اپنے مظلوم بھائیوں سے اظہار یک جہتی کے لیئے تشریف لائے تھے انہیں خطاب کی دعوت دی گئی، تو حضرت نے نہایت طاقتور انداز میں سنیٹر مشتاق احمد کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اربابِ اختیار کو صرف جنگ بندی کے لیئے اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت میں خود اس جنگ کا حصہ بننا چاہیے۔ اور مزید کہا کہ اہل فلسطین کے ساتھ تعلق اور وابستگی میں ہم بانیانِ پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے، جبکہ حکمران اپنی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے بانیانِ پاکستان کے موقف سے انحراف کر چکے ہیں۔
بعد ازاں سنیٹر مشتاق احمد نے دھرنا کیمپ کے مختلف گوشوں کا بھی دورہ کروایا جہاں اس دھرنے کے دو شہداء، فلسطین میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کے نام اور تصاویر وغیرہ تھیں، جنہیں دیکھ کر قیامت خیز مظالم کی وجہ سے آنکھیں تر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
اللھم انصر الاسلام و المسلمین۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔
قائدِ جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی صحبت میں چند ساعتیں!!
مولانا حافظ خرم شہزاد

گذشتہ رات (۱۲ جون ۲۰۲۴ء) استادِمکرم مولانا زاہدالراشدی صاحب کے ہمراہ قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت ہوئی۔ پرتپاک مصافحے اور حال احوال کے بعد مجلس میں موجود مولانا عطاء الرحمٰن صاحب نے کہا کہ پچھلے دنوں مولانا زاہدالراشدی صاحب نے بھی جمعیۃ کا رکنیت فارم پُر کیا ہے۔ اس پر قائد جمعیت گویا ہوئے کہ " یہ رکنیت تو ہر بار کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو غیر فعال کارکن کہتے ہیں، حالانکہ جتنے یہ فعال ہیں شائد ہی کوئی اور ہو۔"
قائد جمعیۃ نے حضرت مولانا عبدالکریم قریشی رحمہ اللہ کا واقعہ بھی سنایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ "فضل الرحمٰن! جمعیت کے کسی کارکن کی رکنیت مت ختم کرنا، میرے نزدیک کسی کو جمعیت سے نکالنا اسلام سے نکالنے کے مترادف ہے۔"
اسی دوران میں نے اپنی حالیہ کتاب "سفرنامہ دارالعلوم دیوبند" پیش کی تو قائد جمعیت نے 1980ء میں منعقدہ دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ اجتماع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بھی والدِ محترم حضرت مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں پہلی بار دیوبند گیا تھا۔ اور پھر حضرت مفتی صاحب کے خطاب کا تذکرہ کیا کہ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان میں بھی اسی طرز کے اجتماع کے انعقاد کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا مگر 1980ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 2001ء میں توفیق سے نوازا اور ہم نے پشاور میں ڈیڑھ سوسالہ خدمات دارالعلوم دیوبند کے عنوان سے ایک مثالی عالمی اجتماع منعقد کیا جس میں کم و بیش پندرہ سے بیس لاکھ افراد شریک تھے۔
جامعہ نصرۃالعلوم گوجرانوالہ کے فاضل حافظ دانیال عمر نے مولانا راشدی کے گزشتہ نصف صدی کے دوران کے پانچ ہزار کے لگ بھگ اخباری کالموں کا اسکین کردہ مجموعہ ایک یوایس بی کی صورت میں قائد جمعیت کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا تو انہوں نے اس پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
اسی دوران قائد جمعیت کے سیکرٹری نے بتایا کہ آدھےگھنٹے تک وزیراعظم شہباز شریف ملاقات کے لیے آرہے ہیں، تو قائد محترم نے فرمایا کہ جلدی سے دستر خوان لگوائیں تاکہ مہمانوں کے ساتھ پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ کھانے کے بعد استاد گرامی مولانا زاہدالراشدی صاحب نے واپسی کے لیے قائد جمعیت سے اجازت طلب کی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ بھی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں شامل ہوں گے۔ قائد جمعیت نے میاں صاحب سے حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب کا تعارف کرانا چاہا تو انہوں نے کہاکہ میرا ان سے پرانا تعارف ہے پھر انہوں نے استاد محترم سے پوچھا کہ اب آپ ملتے نہیں ہیں تو انہوں نے مسکرا کر دوسری کوئی بات شروع کردی۔
چونکہ استادجی نے واپسی گوجرانوالہ کے لیے سفر کرنا تھا لہٰذا وزیراعظم اور قائد جمعیت کی ملاقات کے دوران ہی استادجی اجازت لےکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ گاڑی تک صاحبزادہ مولانا اسعد محمود صاحب چھوڑنے آئے۔ کم و بیش گھنٹہ ڈیڑھ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ہاں گزار کر رات دس بجے گوجرانوالہ کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ ملاقات میں جامعہ نصرۃالعلوم گوجرانوالہ کے فاضل مولانا دانیال عمر اور حافظ شاہد میر صاحب بھی موجود تھے۔
سوال و جواب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بزرگوں کے تفردات
سوال: بزرگوں کے تفردات کا ذکر ہوتا ہے تو اس بارے میں ہمارا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے؟ (حافظ دانیال عمر، گوجرانوالہ ۔ ۸ جون ۲۰۲۴ء)
جواب: تفرد یعنی کسی علمی مسئلہ پر انفرادی رائے ہر صاحبِ علم اور صاحبِ مطالعہ و تحقیق کا حق ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔ اکابر اہلِ علم کے تفردات کو صرف شمار ہی کیا جائے تو اس سے ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ مگر اپنی انفرادی رائے کو حتمی قرار دینا اور جمہور اہلِ علم کے علی الرغم اس پر اصرار کر کے دوسروں کو غلط قرار دینا درست طریقہ نہیں ہے۔ میں بھی ایک طالب علم کے طور پر بہت سے مسائل پر اپنی انفرادی رائے رکھتا ہوں، اس کا اظہار کرتا ہوں اور ضرورت پڑنے پر بحث و مباحثہ بھی کرتا ہوں۔ مگر اسے صرف ایک رائے سمجھتا ہوں، کبھی کسی پر اصرار نہیں کیا اور نہ ہی اسے حق کا معیار قرار دیا ہے۔ بلکہ کسی مسئلہ پر عمل کرنے کی بات ہوتی ہے تو عمل جمہور کی رائے پر کرتا ہوں یا کسی معتمد علمی مرکز مثلاً جامعہ دارالعلوم کراچی سے رجوع کرتا ہوں اور وہاں سے جو موقف آتا ہے میری رائے اس سے مختلف ہو تب بھی عمل اسی پر کرتا ہوں، اور بحمد اللہ تعالیٰ اسے ہی صواب اور باعثِ ثواب سمجھتا ہوں۔
’’مدرز مِلک بینک‘‘ اور رشتوں کا شرعی دائرہ
سوال: کراچی میں ماؤں کے دودھ کا بینک قائم ہوا ہے جس کے افتتاح کی خبر اور فوٹو شائع ہوئی ہے۔ اسلامی حوالے سے یہ کیسا اقدام ہے؟ (۱۵ جون ۲۰۲۴ء)
جواب: قرآن کریم نے ’’وامہاتکم اللٰتی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ‘‘ (النساء ۲۳) کے تحت دودھ پلانے والی ماں اور ماں کے دودھ میں شریک بہن کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر میاں بیوی کو ایک خاتون کا دودھ پینے کی وجہ سے بھائی بہن قرار دے کر نکاح ختم کر دیا تھا۔
یہ سلسلہ کہ دودھ بینک میں عورتیں اپنا دودھ جمع کرائیں گی اور وہ نومولود بچوں کو پلایا جائے گا، رشتوں کے شرعی نظام کو سبوتاژ کرنے کی کاروائی ہے، اس طرح یہ پتہ نہیں چلے گا کہ دودھ پینے کے باعث کون کس کا بیٹا ہے اور کون کس کی بہن ہے۔ دینی حلقوں اور علمی مراکز کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور بالخصوص وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کے سدباب کے لیے مؤثر قدم اٹھانا چاہیے۔
قادیانیوں کے بارے میں ایک جج صاحب کا متنازعہ فیصلہ
استفسار: ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کا ایک فیصلہ دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں جج صاحب نے قادیانیوں کو مسلمانوں کے ایک فرقہ کے طور پر لکھ دیا ہے۔ اس بارے میں آپ کا نقطۂ نظر معلوم کرنا تھا۔ (حافظ خرم شہزاد ۔ ۲۰ جون ۲۰۲۴ء)
جواب: اگر فیصلہ میں یہی لکھا گیا ہے تو اس کی تین وجوہ ہو سکتی ہیں:
- ایک یہ کہ خدانخواستہ حج صاحب کا اپنا خیال یہی ہو جس کا انہوں نے فیصلہ میں اظہار کر دیا ہے۔
- دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سرے سے اس مسئلہ کی اہمیت، حساسیت اور نزاکتوں سے بے خبر ہیں۔ اور اس کا امکان غالب ہے اس لیے کہ وکیل اور جج بننے کے لیے جو تعلیمی نصاب پڑھنا ضروری ہے اس میں اسلامی شریعت ، دستور پاکستان کے اسلامی تقاضوں اور دفعات اور پاکستانی عوام اور دینی حلقوں کے موقف و جذبات سے واقفیت کا کوئی باضابطہ نظم موجود نہیں ہے جس کے باعث اکثر حج صاحبان ان معاملات سے بے خبر اور لاتعلق رہتے ہیں۔
- جبکہ تیسری وجہ یہ بھی موجود ہے کہ ان عالمی اداروں، لابیوں اور این جی اوز کے کارندے ہماری عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر قومی اداروں میں ہر سطح پر مختلف مناصب پر موجود اور متحرک ہیں جو کوئی بھی موقع ملنے پر اس قسم کی حرکت کر گزرتے ہیں۔ اتھارٹیز کا کام تو زیادہ تر دستخط کرنا ہی رہ گیا ہے۔
اس صورتحال میں ختم نبوت پر کام کرنے والوں کو اگر باہمی طعن و تشنیع کا بازار گرم رکھنے سے فرصت ملے تو ان سارے پہلوؤں پر سنجیدہ توجہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جبکہ عالمی اداروں میں اس قسم کے مسائل پر ہونے والے بحث و مباحثہ اور لابنگ کے ماحول تک رسائی اور اس میں کوئی کردار ادا کرنا تو سرے سے ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے۔
قادیانیوں کا مسلمان ہونے کا دعویٰ
سوال: ایک شخصیت کے یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ جب قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں تو کسی اور کو انہیں غیر مسلم کہنے کا کیاحق ہے؟
جواب: قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں صاف طور پر ’’وماھم بمومنین‘‘ فرمایا ہے جو یہ کہتے تھے کہ
- ہم اللہ پر ایمان لائے،
- آخرت پر ایمان لائے،
- اور ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔
قرآن کریم نے صرف ان کے مسلمان ہونے کی نفی نہیں کی بلکہ ان کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا، ان کی بنائی ہوئی مسجد گرا دی اور غزوہ تبوک کے بعد ان کی کسی جہاد میں شرکت کو بھی ممنوع قرار دے دیا۔ اس لئے صرف خود کو مسلمان کہنا کافی نہیں ہے ایسے لوگ اگر مسلمان ہونے کے مسلمہ تقاضے پورے نہیں کرتے تو موقع محل کے مطابق انہیں اسلام کے نام پر کسی اسلامی عمل سے روک دینا بھی احکام قرآنی کا تقاضہ بنتا ہے۔
مسلمان مشتعل کیوں ہوتے ہیں؟
سوال: سوشل میڈیا پر اسلام مخالف ایک بات کہتے ہیں کہ مسلمان اتنے مشتعل کیوں ہوتے ہیں کوئی اعتراض کرے تو آرام سے کیوں جواب نہیں دیتے؟
جواب: میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جواب دلیل اور منطق کا ہوتا ہے گالی کا نہیں اور کوئی شخص بھی گالیوں کے جواب میں دلائل پیش نہیں کیا کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب کے جن دانشوروں نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دلیل سے بات کی ہے ان کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے، کتاب کے جواب میں کتاب لکھی گئی اور مقالے کے جواب میں مقالہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں بات استہزا، تحقیر اور توہین کی ہو وہاں دلیل کا کوئی کام باقی نہیں رہ جاتا۔ میں اس سلسلہ میں جنوبی ایشیا کی صورتحال کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہندو مصنفین میں سے پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ میں اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ پر سینکڑوں اعتراضات کیے جو اس کتاب میں اب بھی موجود ہیں۔ لیکن بات مباحثے کے انداز میں کی اور دلیل کا اسلوب اختیار کیا تو اس کے خلاف مسلمانوں نے کبھی جلوس نہیں نکالا اور اس کو مارنے کے درپے نہیں ہوئے بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا۔ اس سلسلہ میں تفصیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے رسائل اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کی باقاعدہ جواب تصنیف ’’حق پرکاش‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ اسی معاشرے میں ایک ہندو مصنف راج پال نے دلیل کے بجائے گستاخی کا لہجہ اختیار کیا اور ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کے ایمان اور غیرت کو للکارا تو اس کے جواب میں دلیل کا کوئی کردار باقی نہیں رہا تھا۔ اس کے جواب میں غازی علم الدین شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اس شاتم رسول کو ٹھکانے لگا دیا۔ مسلمانوں نے اپنے اس موقف کی ہمیشہ دوٹوک وضاحت کی ہے کہ استدلال، منطق اور تحقیق کا میدان اور ہے جبکہ طنز، استہزا، توہین اور تحقیر کا دائرہ اس سے مختلف ہے جسے کسی صورت میں بھی آزادیٔ رائے کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، مگر مغرب ان دونوں میں فرق نہیں کر رہا۔
’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین‘‘
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
مترجم : فضل الرحمٰن محمود

(ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب نے حدیث میں اپنے شیوخ واساتذہ کے حالات اور ان کی اسانید پر ایک کتاب ’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ ایک عربی مضمون میں آپ نے اپنی اس کتاب کا تعارف کرایا ہے، جس کا اردو ترجمہ ذیل میں پیش کیا جاتاہے۔ مترجم)
حال ہی میں میری کتاب ’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین ، سات جلدوں میں دارالکتب العلمیہ ، بیروت سے سنہ ۲۰۲۳ء میں شایع ہوئی ہے، جس میں ایک ہزار یا اس سے زائد شیوخ کے حالات درج ہیں۔ مجھ سے میرے ایک بھائی نے اس کتاب کا تعارف پیش کرنے کی درخواست کی ، جس سے اس کتاب میں بیان کیے گئے مضامین کا خلاصہ سامنے آجاے اور موضوعات سے آگاہی ہوجاے۔ان کی بات کا جواب حاضر ہے:
اس کتاب میں میرے شیوخ، ان کی اسانید، ان کی اپنے اساتذہ سے پڑھی اور سنی گئی کتابوں اور اجاز ت ناموں کا ذکر ہے۔ خاص طور برصغیر کے ان شیوخ کا ذکر ہے ، جو عربی مصادر میں نہیں ملتے ، تاکہ ہمارے دور کی اسنادی تاریخ محفوظ ہوجاے اور درس وتدریس اور اجازت حدیث دینے میں معروف محدثین وروات کے حالات کے لیے علمی دستاویز مہیا ہوسکے۔
کتاب کے آغاز میں چار تمہیدیں ہیں:
تمہید اول: برصغیر میں شروع سے لے کر شاہ ولی اللہ تک حدیث نبوی کی تاریخ
تمہید دوم: شاہ ولی اللہ کے بعد سےلے کر نذیر حسین دہلوی اور ان کے معاصرین تک کے حالات ۔ان میں ہندی وغیر ہندی مسندین شامل ہیں ،جن پر اکثر ہمارے شیوخ کی اسانید کا مدار ہے۔
تمہید سوم: دارالعلوم ، ندوۃ العلما ء کا اسناد و اجازت حدیث سے تعلق
تمہید چہارم: اجازت حدیث اور اس کی اقسام
اس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے۔ اس حصے میں میرے ان شیوخ کے حالات درج ہیں ، جن سے میں نے حدیث سنی ، ان کے درو س میں حاضر ہوا ،اور وہ تمام شیوخ جن سے میں نے اجازت حدیث حاصل کی، یا ان کے ساتھ تھوڑا یا لمبا عرصہ گزارنے کا شرف حاصل ہوا،یا ان کی دی گئی اجاز ت حدیث میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا، ان سب کو بہ قدر طاقت میں نےاسانید، اجازت ناموں ، رسائل اور خطوط کے حوالوں کے ساتھ ذکر کرکے سات طبقات میں تقسیم کیاہے:
طبقۂ اول: میرے وہ شیوخ جنھیں ابو االنصر الخطیب (م: ۴ ربیع الاول، ۱۳۲۴ھ) سے ’’اجازت خاصہ‘‘ یا ’’اجازت عامہ‘‘حاصل ہوئی۔
طبقۂ دوم: میر ےوہ شیوخ جنھیں شیخ ِمسند احمد بن حسن عطاس (م: ۶ رجب، ۱۳۳۴ھ) سے اجازت حاصل ہے۔
طبقۂ سوم: وہ شیوخ جنھوں نے محدث محمد بن جعفر کتانی (م: ۱۰ رمضان، ۱۳۴۵ھ) کا زمانہ پایا ہے۔
طبقۂ چہارم: وہ شیوخ جنھیں محدث کبیر علامہ بدر الدین حسنی (م: ۲۷ ربیع الاول، ۱۳۵۴ھ) سے اجازت حدیث حاصل ہوئی۔
طبقۂ پنجم: جنھیں علامہ مسند محمد عبدالباقی ایوبی انصاری (وفات مدینہ منورہ ،بہ روز اتوار، ۲۵ ربیع الثانی ، سنہ ۱۳۶۴ھ)سے اجازت حاصل ہوئی۔
طبقۂ شسشم: جنھیں حافظ عبد الحيالکتانی (م: ۱۲ رجب،۱۳۸۲ھ) سے شرف اجازت نامہ ملا۔
طبقۂ ہفتم: یہ میرے ہم عصر ہیں ۔ ان میں کچھ حضرات مجھ سے عمر میں کم اور بعض میرے شاگر د ہیں۔
اپنے شیوخ کے حالات کے لیے میں نے اپنی تالیفات: ’’من علمنی‘‘ اور ’’تاریخ ندوۃ العلماء‘‘وغیرہ سے استفادہ کیاہے۔ اس کتاب میں ان شیوخ کے حالات بھی مذکور ہیں ، جن سے میں نے بلاواسطہ اجازت حدیث حاصل کی ہے۔ ان میں سے کچھ کاذکر میرے سفرناموں میں مل جاے گا۔ میں نے ان کے بھیجے ہوے اجازت ناموں اور خطوط کو جمع کرکے اپنی اس ’’معجم ‘‘ میں موقع کی مناسبت سے درج کردیاہے۔
اس کتاب میں ان شیوخ کے حالات بھی موجود ہیں، جن سے ’’استدعاءات‘‘ کے ذریعے مجھے اجازت حدیث ملی۔بعض ’’استدعاءات‘‘ میرے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوے ہیں، کئی استدعاءات شیخ محمد بن عبد اللہ آل رشید کے لکھے ہوے ہیں ، ان کے علاوہ شیخ احمد عاشور کی ’’استدعاءجامع‘‘ شیخ محمد زیاد تکلہ، شیخ عمر نشوقانی، خالد سباعی، محمد بن ابو بکر باذیب، محمد ححود تمسمانی کی ’’الاستدعاءالمشرق‘‘شیخ ترکی فضلی کی ’’الاستدعاءالمکی‘‘ شیخ عمر حبیب اللہ کی ’’اجازات ہندیہ‘‘شیخ محمد سعید منقارہ، شیخ حمزہ الکتانی، شیخ ظہور احمد حسینی ودیگر کے استدعاءات کا ذکر ہے ۔ میں تمام اجازت دہندگان کا استیعاب نہیں کرسکا۔ شاید آئندہ اشاعتوں میں انھیں شامل کرسکوں اور نہ ہی طوالت کے خوف سے تمام ’’استدعاءات‘‘ کا ذکر کیا ہے، امید ہے کسی اور وقت میں اس کا ازالہ ہوسکے۔ان میں سے اکثر ’’استدعاءات‘‘بعض أثبات اور اجازت ناموں میں موجود ہیں۔
ساتویں جلد کے آخری حصے میں ان اہم مصادر کا بیان ہے ، جن سے میں نے اس’’ معجم‘‘ میں استفادہ کیاہے۔
شیوخ کے حالات ذکر کرنے میں ’’کتب تراجم‘‘ کے اسلوب کو سامنے رکھا ہے۔ شیخ کا نام، نسب، پیدایش، پرورش وتربیت، علمی حاصلات ومشغولیات ، ان کےاساتذہ ، میرے لیے ان کی اجازت حدیث اورمیراان سے استفادے کا ذکر ہے۔ اسی طرح ان کے فضائل ، کارناموں اور انھیں اپنے اساتذہ سےجو اجازت نامے ملے ہیں یا انھوں نے اپنے شاگردوں کو جو اجازت نامے دیے ، ان کے نمونے شامل کیے ہیں۔
اپنے شیوخ کے حالات لکھتے ہوے میری کوشش رہی کہ قارئین کے لیے مفید جزوی تفصیلات بھی شامل کتاب رہیں۔ اس حوالے سے میرا بھروسا اس وعدہ فراموش حافظے پر رہا ، جو وقت آنے پر دغا دے جاتا ہے۔ عمر رسیدگی انسانی ذہن پر بڑا اثر ڈالتی ہے:
أترجو أن تكون وأنت شيخ
كما قد كنت أيام الشباب
لقد كذبتك نفسك، ليس ثوب
خليق كالجديد من الثياب
(کیا تم بڑھاپے میں جوان نظر آنا چاہتے ہو، تمھارے نفس نے تمھیں دھوکا دیا ہے۔ پرانا کپڑا نئے کپڑے کی طرح نہیں ہوسکتا۔)
شیوخ کے حالات نقل کرتے ہوے بہ قدر ضرورت دینی ، فقہی وحدیثی فوائد بھی ذکر کیے ہیں اور بعض حضرات کی احادیث بھی حصول برکت کی خاطر بہ سند ذکر کردی ہیں۔
میری کوشش رہی کہ میں بغیر کسی ضرورت شرعی کے کسی کی برائی بیان نہ کروں ۔ اس طرح کی مثالیں اس کتاب میں بہت ہی کم ہیں۔ اس ضمن میں آپ ﷺ کا فرمان:’’ کامل مسلمان وہی ہے، جس کی زبان اور ہاتھ کے شرسے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘، میرے پیش نظر رہا۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا گوہوں کہ وہ اس کتاب کومقبول ونفع بخش بناے ، میری لغزشوں سے در گذر کرے، میرے گناہ معاف کرے، میرے باطن کو پاک کردے اور میرے دل کو صاف فرمادے۔ آمین
A New Round of the Qadiani Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

Hon'ble Chief Justice has reserved judgment on the case about Qadianis in the Supreme Court. A respected judge of the Lahore High Court has reviewed a case and deleted his remarks due to public protest after writing the Qadianis as a sect of Muslims in a decision of the case. And now the country's well-known journalist and intellectual Mr. Mujibur Rahman Shami has raised the question of the alleged civil rights of the Qadianis in a broadcast and has asked Maulana Mufti Muhammad Taqi Usmani, Maulana Fazlur Rahman, and Maulana Mufti Muneebur Rahman to take a mutual stance in this regard.
The continuation of these events indicates that the Qadiani issue is once again being brought to discussion at the national level and a new round has begun. On which the parties working on the mission of protecting the Islamic belief of “finality of prophethood” will have to pay serious attention and offer a common position (for which) a plan of action will have to be re-determined.
The continuation of the Qadiani issue until now is that due to the acceptance of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani as the Prophet of God and his teachings as the revelation of God, the Qadianis were unanimously declared non-Muslims by all the religious leaders of the Muslim Ummah. While the elected Parliament of Pakistan, through a unanimous decision of 1974, instead of recognizing the Qadianis as a part of the Muslim Ummah, declared them as a non-Muslim minority like other non-Muslim populations of the country, which Qadianis have not been accepting, and their position is that they are Muslims, while all those who do not recognize Mirza Ghulam Ahmad Qadiani as a Muslim are non-Muslims. After being constitutionally declared a non-Muslim minority, when the Qadianis flatly refused to recognize this decision and continued to present themselves as Muslims and continued their activities in the name of Islam, the “Imtina-e-Qadiyaniyyat Act” (the Anti-Islamic Activities of the Quadiani Group) was introduced to bind them to the constitutional provisions, but they did not recognize it either.
The current situation is that all the religious schools of thought and the public are demanding the government of Pakistan take steps to make the Qadianis bound by the constitutional decision and the law prohibiting Qadianiism (presenting as Islam). While the Qadianis have become a front against these decisions in human rights organizations at the global level, they have heated the propaganda and have been lobbying against Pakistan, the country's religious circles, and constitutional and legal decisions. As a result, international organizations and circles are constantly urging Pakistan to review the decisions of the constitution and laws that set the status of Qadianis as a non-Muslim minority, and that they should be given the status that they demand in the name of Islam presenting themselves as Muslims.
In this background, this new debate on the national level on the Qadiani issue needs to be addressed with deep seriousness and it is the responsibility of the religious circles to address the confusion that has been created in the understanding of the Qadiani issue over time, and organize joint deliberations to deal with the new pressure situation that is emerging from the international community. With new preparations, work towards saving the gains of the country’s religious struggles for the position of the Muslim Ummah on this most important religious and national issue.
In our view, three things are particularly noteworthy in this regard:
One is that we still have no arrangement to reach the international organizations and players that have been used as the front of the campaign against the Muslim Ummah and Pakistan in this issue. We have not yet been able to make any arrangements to present our position there and bring out the Qadiani deception, which was a very necessary task. We are suffering the consequences of not paying serious attention to it in the form of the present situation.
The second reason is that there is no common forum for discussion on this issue at the national level as it was during the movements of Khatam-e-Nabuwat in 1953, 1974, and 1984.
The third reason is that in the previous movements, along with the religious circles, there was an atmosphere of leadership and high-level representation of the business community, lawyers, teachers, students, journalists, and other classes, which is not visible now.
It will be sufficient to refer to an incident related to the situation of not having access to the international community. When the Qadiani issue was discussed in the Supreme Court of South Africa, the government of Pakistan and the religious leaders of the country played a practical role in it, which brought us success there. While this is continuously being discussed in the United Nations, European Union, Human Rights Commission, and other international organizations, we do not have any representation and activities in these places, the consequences of which are gradually coming to light.
In this context, we request all the religious leaders of the country to realize the pace and direction of the wind promptly and organize the re-alignment of the Movement of “Khatm-e-Nabuwat” (finalty of prophethood), so that we can save the results and achievements of the struggle done so far from being sabotaged, and also play an effective role to make the current struggle fruitful.
(An AI-assisted translation of an article published in the July 2024 issue of the monthly Nusratul-Uloom, Gujranwala)
The Pseudo-Believers of the State of Madina
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

According to a narration in Bukhari Sharif, Hazrat Saad bin Ubada (RA) stated that before the arrival of the Prophet (PBUH) in Medina, the tribes of this region had decided to establish a government. Abdullah bin Ubai was chosen as its head, but before his coronation, the Messenger of Allah arrived (may Allah honor him and grant him peace) causing the establishment of this government to fall into disrepair. Hazrat Saad Bin Ubada RA has described this area as "Ahl Hazihil Bahirah" (inhabitants of this sea belt) which is the sea belt from Medina to the port of Yanbu.
On the other hand, the Holy Prophet (PBUH) had been struggling to make his station/center in this area for at least two years. The Bait-e-Uqba Aula (pledge 1) and the Bait-e-Uqba Sania (pledge 2) with the representatives of Aus and Khazraj, the two tribes of Ansar-e-Madinah, were done in this very same context. According to this the Prophet (PBUH) formally appointed twelve Naqibs (representatives) who paved the way for the Misaq-e-Madina (Treaty of Medina) by meeting and communicating with the relevant tribes and leaders in the area. As a result, as soon as he arrived in Madinah, the Messenger of Allah (PBUH) gained the status of the head and his state and government were established. And then this government and state were transferred to Hazrat Abu Bakr (RA) after the departure of the Prophet (PBUH) and it took the title of "Khilafah-e-Rashida".
This ten-year reign of the Messenger of Allah (PBUH) is referred to as the "Riyasat-e-Madina (State of Madinah) in which the Ansar-e-Madinah (local/host Muslims) as well as the tribes of the Jews and other people were also a part. In this period, the inhabitants of the "State of Madinah" included Muslims and non-Muslims, as well as people (non-muslims) who took Shahadah (oath/creed to become a Muslim) and used to participate in worship and affairs with the Holy Prophet (PBUH). They claimed that (1) we believe in Allah Ta'ala (2) we believe in the Hereafter and (3) we bear witness that Prophet Muhammad (PBUH) is the Messenger of Allah. But the Holy Qur'an refused to recognize them as Muslims by saying, "Wa Ma Hum Bimu'mineen" (they are not Muslims) and "Ina Hum Lakaziboon" (they are liars). Therefore, in Islamic history, they are referred to as Munafiqeen (hypocrites).
They remained a part of the population of Madinah for ten consecutive years and many of their incidents are mentioned in the Qur'an and Hadith, some of which are being mentioned here so that the conduct of the Prophet (PBUH) could be understood regarding these non-Muslims who took Shahadah (outh/creed):
★ Abdullah bin Ubai also took Shahadah, but he was the leader of this group and for the rest of his life, after losing the rulership of this sea belt, he kept taking revenge from the Prophet (PBUH) and the people of faith.
★ In the Battle of Uhud, a thousand army under the leadership of the Messenger of Allah (PBUH) reached the foothills of Uhud to fight the Quraysh army, of which Abdullah bin Ubai led three hundred astray back. After the war ended, there was a consultation about these three hundred people who left the field, what should be done with them? And there were two opinions on whether to conduct an operation against them or not. So, by saying in the Holy Qur'an, the Muslims were stopped from such an action, "فما لکم فی المنافقین فئتین" Why have you divided into two groups regarding the hypocrites? So no action was taken against them.
★ This group created a storm of indecency in Madinah Munawarah for about a month by falsely slandering Um-al-Mu'mineen Hazrat Aisha RA, the details of which are mentioned in the Qur'an and hadiths. This entire campaign according to "والذی تولیٰ کبرہ" (as for their mastermind) was led by Abdullah bin Ubai. After this conspiracy and nefarious campaign, there is no need to explain the details of what actions and against whom they were taken by the Prophet (PBUH), is obvious to everyone.
★ In Surah al-Manafiqun, Allah Almighty mentions the planning of Abdullah bin Ubai and his companions that the Ansar (local Muslims) will be stopped from spending on the emigrants in Madinah and the emigrants will be expelled from Madinah. Hazrat Zayd bin Arqam RA reported this secret planning to the Holy Prophet (PBUH), then these hypocrites denied the report with oaths, on which Allah Almighty confirmed Hazrat Zayd Bin Arqam RA's report in Surah Al-Manafiqoon, and declared these hypocrites liars. Hazrat Zayd bin Arqam has also mentioned this in the Riwayt (report) of Bukhari Sharif.
★ The activities and actions of these hypocrites regarding their stay back and preventing others from participating in the battle of Tabuk, are mentioned in detail in the Surah At-Tawbah.
★ The action of the hypocrites to establish their very own station in the name of the mosque in Madinah has also been described in the Holy Quran, after which some decisions were announced about these hypocrites:
(1) The Prophet Muhammad (PBUH) was prohibited from leading their funerals.
(2) Saying prayers on their graves was also prohibited.
(3) The building was built in the name of the mosque was demolished and it was declared a front of Muslim enemies for infidelity, damage, and division among Muslims.
(4) Participation of these people in any future Jihad (war alongside Muslims) was prohibited.
(5) By saying "فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون" (your deeds will be observed by Allah, His Messenger, and the believers) their permanent collective monitoring was announced (in the Quran).
The purpose of these mentions is that during the ten-year reign of the Prophet (PBUH), these bearing-witness non-Muslims also lived along with other non-Muslims among the citizens. Actions were taken against them according to the situations arised, and actions have also been avoided under expediency and wisdom on occasions. In this regard, researchers should be attentive to planning for today's conditions and requirements. Our primitive opinion is that whether or not to act against such people depends on the requirements of the situation and the collective interest and needs of the Ummah, which should be determined by the authorities and the religious and academic leaders together.
(An AI-assisted translation of a column published in the Daily Ausaf, Islamabad on 29th June 2024)