الشریعہ — جنوری ۲۰۲۴ء

رسول اکرمﷺ کا طرز حکمرانیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۸)ڈاکٹر محی الدین غازی 
رفتید، ولے نہ از دلِ ما!ڈاکٹر محمد مشتاق احمد 
ڈاکٹر محمد الغزالیؒمحمد آصف محمود ایڈووکیٹ 
ڈاکٹر محمد الغزالیؒمراد علی 
عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
’’حرمتِ مسجدِ اقصیٰ اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘: تین اہم سوالاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مسئلہ فلسطین کے تاریخی مراحلالجزیرہ 
"مسئلہ فلسطین " کی تقریب رونمائیمولانا محمد اسامہ قاسم 
’’مسئلہ فلسطین‘‘ادارہ 

رسول اکرمﷺ کا طرز حکمرانی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حکمرانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مستثنیات، تحفظات، پروٹوکول اور پرسٹیج کا کوئی تصور نہیں، اور عالمِ اسباب میں اس طرز حکومت کے کامیاب اور مثالی ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود ایک عام آدمی جیسی زندگی اختیار کی اور لوگوں کے درمیان گھل مل کر رہے۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں عام آدمی کی مشکلات و مسائل سے براہ راست واقفیت رہی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اپنے حکمرانوں کو اپنے ساتھ مشکلات و مسائل کا شکار دیکھ کر عام آدمی میں مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا  ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اپنے لیے پروٹوکول اور تحفظات کا اہتمام کر سکتے تھے، اور اس کائنات میں یہ اگر کسی کا استحقاق ہو سکتا ہے تو وہ آپؐ کی ذات گرامی ہے، لیکن آپؐ نے اپنے گرد ایسا کوئی دائرہ نہیں کھینچا اور رہن سہن، نشست و برخاست، سفر و حضر، اور بول چال میں کسی قسم کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔ 

ہمارے ہاں پروٹوکول کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ کوئی بڑی شخصیت فون پر کسی سے بات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس شخص کو لائن پر لایا جائے پھر بڑے صاحب گفتگو کی زحمت فرمائیں گے، جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ  عنہ کہتے ہیں کہ ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے میں پہل کر سکیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا، ہم ابھی سلام  کا لفظ کہنے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ حضورؐ سلام میں پہل فرما دیتے۔ اس بظاہر چھوٹی سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ سنتِ نبویؐ میں پروٹوکول کا درجہ کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی سنتِ نبویؐ کا یہ حسین منظر بھی ذہن میں تازه کر لیں کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ایک صحابی کے ننگے بدن پر چھڑی لگ گئی، چھڑی ذرا سخت لگی اور بعض روایات کے مطابق خراش بھی آگئی۔ اس صحابیؓ نے مجلس میں ہی بدلے کا تقاضہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پروٹوکول، پرسٹیج، یا تحفظ کا سوال نہیں اٹھایا، چھڑی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے دی اور کپڑا ہٹا کر ننگی کمر بدلے کے لیے اس کے سامنے کر دی۔ یہی سادگی اور بے تکلفی ہمارے طرز حکومت کا حصہ بنے گی تو سنتِ نبویؐ کی برکات حاصل ہوں گی۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اردگرد مستثنیات اور تحفظات کے جو دائرے کھینچ رکھے ہیں وہ سنت نبویؐ اور ہمارے درمیان ایک ایسی خلیج کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں جنہیں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عبور کرنے کا ہم میں حوصلہ نہیں۔  ہمیں حکومت و سیاست میں سنتِ نبویؐ کی پیروی کیلئے نوآبادیاتی نظام کے تحفظات و امتیازات سے نجات حاصل کرنا ہو گی، حاکم و رعیت کے درمیان اجنبیت و بیگانگی کی دیوار گرانا ہوگی، اور عام لوگوں کے ساتھ ان کی آبادیوں میں گھل مل کر رہنا ہو گا۔

؏     گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!

———————————————————


’’لمحۂ فکریہ!‘‘

برادرِ مکرم مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر، جنہیں میں لڑکپن سے حضرت کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، نے مجلہ الشریعہ کے معاملات سے  علیحدگی اختیار کر کے مجھے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میرا علمی و فکری کام کا کچھ ذوق تو ہے لیکن سمجھ بوجھ اور استعداد اس درجہ کی نہیں جو اس کام کیلئے ضروری ہے۔ میں کمپیوٹر سائنس کا آدمی ہوں اور اس حوالے سے میرا ایک چھوٹا سا  سلسلہ techurdu.org کے عنوان سے چل رہا ہے جس پر میں اپنے شعبے کے حوالے سے وقتاً‌ وقتاً‌  طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں۔

والد محترم اور میرے مخدوم حضرت مولانا زاہد الراشدی اپنی تدریسی مصروفیات اور دینی اجتماعات کے مشاغل کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں دے پاتے، اور اس عمر میں صحت کے مسائل کے ساتھ انہیں زیادہ آرام کی ضرورت بھی ہوتی ہے، چنانچہ اس حوالے سے بھی میری ذمہ داری کچھ بڑھ گئی ہے۔  میرا اندازہ ہے کہ والد محترم کے ساتھ میری صبح شام کی رفاقت اور غلطی کی صورت میں کان کھینچنے کی سہولت کے پیش نظر مجھے یہ عہدہ سونپا گیا ہے، ورنہ الشریعہ اکادمی کے رفقاء اور ذمہ داران میں سے اس کیلئے بہت بہتر انتخاب ہو سکتا تھا۔ بہرحال میں توقعات پر پورا اترنے کی حتی الوسع کوشش کروں گا، ورنہ ناکامی کی صورت میں تبدیلی کا راستہ بہرحال موجود ہے۔

ناصر الدین خان عامر

مدیر منتظم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۸)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(464) إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا

إِذَا فجائیہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے بعد والی بات اس سے پہلے والی بات کے فورًا بعد پیش آئے۔ البتہ اس بات میں تحیر کا پہلو غالب رہتا ہے۔ درج ذیل آیت میں بھی إِذَا کا ترجمہ ’فورًا‘ موزوں نہیں ہوگا۔ یعنی یہ بات تو حیرت انگیز طور پر افسوس ناک ہے کہ لوگ تکلیف سے نجات پاکر جب اللہ کی رحمت سے ہم کنار ہوتے ہیں تو شکر گزار بننے کی بجائے اللہ کی آیتوں میں چال بازیاں شروع کردیتے ہیں۔ لیکن یہ بات اس لفظ میں شامل نہیں ہے کہ وہ یہ کام فوراً کرتے ہیں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً‌ مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُمْ إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا قُلِ اللَّہُ أَسْرَعُ مَکْرًا إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ۔(یونس: 21)

”لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ان سے کہو،اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں“۔ (سید مودودی، إِنَّ رُسُلَنَا کا ترجمہ ہوگا ہمارے فرشتے۔ إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ مقولہ کا حصہ نہیں بلکہ مستقل جملہ ہے۔)

”اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے، بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جب تکلیف پہنچنے کے بعد ہم نے لوگوں کو ذرا رحمت کا مزہ چکھادیا تو فوراً ہماری آیتوں میں مکاری کرنے لگے تو آپ کہہ دیجئے کہ خدا تم سے تیز تر تدبیریں کرنے والا ہے اور ہمارے نمائندے تمہارے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

”اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں (فتح محمد جالندھری، أسرع مکرا کا ترجمہ ہوگا حیلہ کرنے میں تیز تر ہے، نہ کہ جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ تیز رفتار ہونے اور جلدی کرنے میں فرق ہے۔)

بہت سے لوگوں نے أَسْرَعُ مَکْرًا کا ترجمہ ”تم سے تیز تر چال چلنے والا“ کیا ہے، یہاں ’تم سے‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ لفظ کی رو سے ’تیز تر‘ کافی ہے۔

 (465) ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ

لغت میں ذریۃ کا مطلب اولاد بیان کیا گیا ہے۔ ان کا نوجوان ہونا ضروری نہیں ہے۔کسی قوم کے افراد پر ذریت کا اطلاق ہوتا ہے۔  قرآن کے استعمالات کو دیکھیں تو کہیں یہ لفظ بالکل چھوٹے بچوں کے لیے آیا ہے، جیسے: وَلَہُ ذُرِّیَّةً‌ ضُعَفَاءُ۔ (البقرۃ: 266) اور کہیں نسل کے لیے جس میں سب شامل ہوتے ہیں، جیسے: کَمَا أَنْشَأَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ۔ (الانعام: 133)

درج ذیل آیت میں غالباً زمخشری کی تفسیر سے متأثر ہوکر بعض لوگوں نے ذریۃ کا ترجمہ نوجوان کردیا ہے۔ جو تفسیری اضافہ تو ہوسکتا ہے، لیکن لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ کا ترجمہ ہوگا ’اس کی قوم کے کچھ افراد“۔

فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَءِہِمْ أَنْ یَفْتِنَہُمْ۔(یونس: 83)

”(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا“۔ (سید مودودی، اس ترجمے میں عَلَی خَوْفٍ کا ترجمہ ’ڈر سے‘ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا: ’ڈر کے باوجود‘)

”تو موسی کی بات نہ مانی مگر اس کی قوم کے تھوڑے سے نوجوانوں نے، ڈرتے ہوئے فرعون اور اپنے بڑوں سے کہ مبادا وہ ان کو کسی فتنہ میں ڈال دے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے مگر اس کی قوم کی اولاد سے کچھ لوگ فرعون اور اس کے درباریوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں انہیں ہٹنے پر مجبور نہ کردیں“۔ (احمد رضا خان، ’قوم کی اولاد سے کچھ لوگ‘ سے بہتر ہے ’قوم کے کچھ لوگ‘)

”تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا۔ مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے“۔ (فتح محمد جالندھری، ذریۃ کا ترجمہ لڑکے نہیں بلکہ لوگ کرنا چاہیے)

”پھر بھی موسٰی پر ایمان نہ لائے مگر ان کی قوم کی ایک نسل اور وہ بھی فرعون اور اس کی جماعت کے خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ کسی آزمائش میں نہ مبتلا کردے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں ذریۃ کے لیے ’نسل‘ موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ’کچھ لوگ‘ مناسب ترجمہ ہے۔)

”پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے“۔ (محمد جوناگڑھی، ان کے اپنے حکام کہاں تھے؟ قوم کے بڑے لوگ تھے۔)

مذکورہ بالا آیت میں عَلَی خَوْفٍ کا موزوں تر ترجمہ ہوگا ڈر کے باوجود۔ نہ کہ ڈر سے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں:

(علی) فی قولہ: علی خوف من فرعون بمعنی (مع) مثل وآتی المال علی حبہ أی آمنوا مع خوفہم، وہی ظرف مستقر فی موضع الحال من (ذریة)، أی فی حال خوفہم المتمکن منہم وہذا ثناء علیہم بأنہم آمنوا ولم یصدہم عن الإیمان خوفہم من فرعون.

(466) کَانَ النَّاسُ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌

اس جملے کا ترجمہ عام طور سے لوگوں نے صیغہ ماضی سے کیا ہے۔ یعنی لوگ ایک دین پر تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین کفر پر یا دینِ اسلام پر۔ تو کچھ مفسرین نے دینِ اسلام مراد لیا اور اس سے پہلے ایک جملہ محذوف مانا کہ وہ اس دین پر باقی نہ رہے، تو اللہ نے نبی بھیجے۔ بعض مفسرین نے أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ سے دینِ کفر مراد لیا۔ انھیں کوئی جملہ محذوف کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں کان زمانہ ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کان محض اثبات کے لیے آیا ہے، جیسے: وَکانَ اللَّہُ غَفُوراً رَحِیما۔ ’اللہ غفور اور رحیم ہے‘۔ یہ رائے قدیم مفسرین کے یہاں بھی ملتی ہے۔ (دیکھیں تفسیر قرطبی)

اس کی ایک بہت مماثل نظیر یہ جملہ ہے:  کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ (آل عمران: 110) ’تم بہترین امت ہو‘ یہاں بھی کان ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔

اس توجیہ کے مطابق ترجمہ ہوگا:

’لوگ ایک امت ہیں‘

یعنی اللہ نے انھیں ایک فطرت پر تخلیق کیا ہے۔ تمام انسان اس پہلو سے ایک امت ہیں کہ ان کے اندر وہ خصوصیات مشترک ہیں جو انھیں دوسری مخلوقات سے ممیز کرتی ہیں۔ وہ سب ایک نوع ہیں اور سب آدم کی اولاد ہیں، سب اس زمین کی بااختیار مخلوق (خلیفہ) ہیں اور عرصہ امتحان میں ہیں۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے دیکھیں:  

کَانَ النَّاسُ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ فَبَعَثَ اللَّہُ النَّبِیِّینَ۔(البقرۃ: 213)

”ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے“۔(سید مودودی)

”لوگ ایک ہی امت بنائے گئے۔ (انھوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے“۔(امین احسن اصلاحی)

”لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے“۔ (احمد رضا خان)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:

”سب لوگ ایک ہی امت ہیں، تو اللہ نے نبی بھیجے۔“

 وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ فَاخْتَلَفُوا۔(یونس: 19)

”ابتداء ً سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے“۔ (سید مودودی)

”اور لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”اور (سب) لوگ (پہلے) ایک ہی اُمت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا جدا ہوگئے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیداکرلیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:

”سارے انسان ایک ہی امت ہیں، تو انھوں نے اختلاف کیا“۔

درج ذیل دونوں آیتوں کے مخاطب بھی تمام بنی نوع انسان ہوسکتے ہیں، یعنی اللہ انھیں یاد دلاتا ہے کہ وہ سب ایک انسانی گروہ ہیں، اور ان کا رب اللہ ہے۔

إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ۔ (الانبیاء: 92)

”تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو۔)

وَإِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ۔ (المومنون: 52)

”اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری ناراضگی سے بچو“۔

جہاں تک ان آیتوں کی بات ہے جن میں یہ بات کہی گئی ہے کہ تم کو ایک امت نہیں بنایا گیا، تو اس سے مراد مشترک عقیدے والی امت ہے۔ جیسے:

وَلَوْ شَاءَ اللَّہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌۔ (النحل: 93)

”اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک امت بنادیتا“۔

دراصل تمام انسان اس مفہوم میں ایک امت ہیں کہ وہ سب انسان ہیں اور ان کے اندر مشترک انسانی خصوصیات ہیں۔ جب کہ وہ اس مفہوم میں ایک امت نہیں بنائے گئے کہ لازمی طور پر ان کا دین اور عقیدہ بھی ایک ہوتا۔

(467) یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ

درج ذیل آیت میں یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ روز قیامت کے بارے میں ہے یا دنیا کی زندگی کے بارے میں؟  یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ کا جملہ  یحشرھم کا حال ہے یا لم یلبثوا کا؟ مترجمین نے دونوں باتیں اختیار کی ہیں۔ معنوی لحاظ سے اسے لم یلبثوا کا حال بناکر دنیا کی زندگی سے متعلق ماننا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہا جائے کہ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے یا یہ کہا جائے کہ وہ پہچاننے کی کوشش کررہے ہوں گے، دونوں صورتوں میں تعارف کی معنویت واضح نہیں ہوتی۔ جب کہ اگر اسے دنیا کی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ قیامت کے دن انھیں لگے گا کہ دنیا میں وہ صرف گھڑی بھر کو رہے، وہ وقت  اتنا مختصر تھا کہ گویا ایک دوسرے کو سمجھنے میں ہی گزر گیا۔ درج ذیل ترجمے دیکھیں:  

وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَأَنْ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً‌ مِنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ۔ (یونس: 45)

”اور جس دن اللہ ان کو اکٹھا کرے گا (اس دن وہ محسوس کریں گے کہ) گویا بس وہ دن کی ایک گھڑی رہے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جس دن انہیں اٹھائے گا گویا دنیا میں نہ رہے تھے مگر اس دن کی ایک گھڑی آپس میں پہچان کریں گے“۔ (احمد رضا خان)

”اور جس دن خدا ان کو جمع کرے گا (تو وہ دنیا کی نسبت ایسا خیال کریں گے کہ) گویا (وہاں) گھڑی بھر دن سے زیادہ رہے ہی نہیں تھے (اور) آپس میں ایک دوسرے کو شناخت بھی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے“۔ (سید مودودی)

آخری دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔

(468) مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ

اس جملے میں مِنْہُ کی ضمیر کا مرجع عذاب ہے۔ ترجمہ ہوگا کہ ’اس کی کس چیز کی مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘

قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتًا أَوْ نَہَارًا مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ۔ (یونس: 50)

”آپ فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو تو عذاب میں کون سی چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی مانگ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر اس کا عذاب تم پر رات کو آئے یا دن کو تو اس میں وہ کون سی چیز ہے کہ مجرموں کو جس کی جلدی ہے“۔ (احمد رضا خان)

”(ان سے) کہو کہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر رات میں آدھمکے یا دن میں، تو کیا چیز ہے جس کے بل پر مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں بھی  مِنْہُ کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا۔)

”اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے (تو تم کیا کر سکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟“ (سید مودودی، یہاں بھی  مِنْہُ  کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا)

”کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو اگر اس کا عذاب تم پر (ناگہاں) آجائے رات کو یا دن کو تو پھر گنہگار کس بات کی جلدی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری، اس میں سقم یہ ہے کہ مستقبل کا ترجمہ کیا گیا ہے، دوسرا سقم یہ ہے کہ مِنْہُ  کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ ’کس بات‘ کہنے کے لیے مِنْہُ  نہیں آئے گا۔)

(469) وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ

درج ذیل جملے کے ترجمے میں مترجمین نے الگ الگ جہتیں اختیار کی ہیں:

وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ شُرَکَاءَ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ۔(یونس: 66)

”اور جو لوگ اللہ کے ماسوا کو پکارتے ہیں یہ شریکوں کی پیروی نہیں کررہے بلکہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو مَا یَتَّبِعُ کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شرکاء کی پیروی کی نفی کیوں کی جارہی ہے؟ ان کی اتباع کوئی جائز امر تو ہے نہیں۔  شرکاء کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ نفس کی پیروی کرنا۔

”اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ ان کا بھی اتباع نہیں کرتے- یہ صرف اپنے خیالات کا اتباع کرتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو سابقہ دونوں افعال کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ یہ توجیہ بھی تکلف سے بھرپور ہے۔ اس میں بھی وہ معنوی اشکال موجود ہے جو سابقہ ترجمہ میں ہے۔

”اور یہ جو خدا کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

اس ترجمے میں معنوی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن لفظی لحاظ سے اشکال یہ ہے کہ اس معنی کی ادائیگی کے لیے ’شیئا‘ مفعول بہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے موقع پر مفعول بہ کو حذف نہیں کیا جاتا ہے۔

”اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ ہی نہیں کیا گیا ہے۔

”اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکا کی عبادت کررہے ہیں کس چیز کی اتباع کر رہے ہیں۔ محض بے سند خیال کی اتباع کر رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور کاہے کے پیچھے جارہے ہیں وہ جو اللہ کے سوا شریک پکار رہے ہیں، وہ تو پیچھے نہیں جاتے مگر گمان کے“۔ (احمد رضا خان)

درج بالا دونوں ترجمے آیت کے الفاظ کے عین مطابق ہیں۔ مزید یہ کہ کسی طرح کے نحوی یا معنوی اشکال سے بھی خالی ہیں۔ وَمَا یَتَّبِعُ میں ما استفہامیہ ہے اور شرکاء مفعول بہ ہے یدعون کا۔

(470) ترجمے میں ترتیب کا لحاظ

أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ۔ الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ۔ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ۔(یونس: 62 - 64)

”سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمے میں جملوں کی ترتیب بدل گئی ہے۔ یہ دو خبریہ جملے ہیں، ہر جملے کی اپنی الگ معنویت ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے۔

”سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں، انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“۔ (احمد رضا خان)

رفتید، ولے نہ از دلِ ما!

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

3 جمادی الثانی 1445ھ (18 دسمبر 2023ء) کو استاذِگرامی پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی، رکن شریعت اپیلیٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان،  کا انتقال ہوا۔ ان کے ساتھ تقریباً 3 دہائیوں کا تعلق تھا جس میں انھوں نے میرے مشفق مربی اور مرشد کا کردار ادا کیا۔ ان کی وفات کی خبر نے بہت دکھی کیا، لیکن ہم کہیں گے وہی جس سے ہمارا رب راضی ہو۔

3 دہائیوں کا قصہ چند صفحات میں نہیں بیان کیا جاسکتا لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ ان کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر تھوڑی سی گفتگو ضرور ہو تاکہ نئی نسل کو معلوم ہو کہ کیسے اساطین تھے جو ہم نے کھو دیے ہیں!

غزالی صاحب کے ساتھ ابتدائی تعارف

غزالی صاحب کے ساتھ پہلا تعارف1995ء میں ہوا جب میں اسلامی یونیورسٹی میں ایل ایل بی آنرز شریعہ و قانون کا طالب علم تھا۔ ان دنوں وہ سوشل سائنسز کا کورس پڑھاتے تھے لیکن جس سیکشن کو وہ پڑھاتے تھے میں اس سیکشن میں نہیں تھا۔ (ہمارے سیکشن کو یہ کورس ایک اور عظیم استاذ پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر صاحب نے پڑھایا۔) دوسرے طلبہ سے غزالی صاحب کے علمی تبحر کے علاوہ ان کی شفقت کی کہانیاں سن کر دل میں ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا لیکن ان کے رعب اور جلال کی وجہ سے ان سے ملاقات میں سلام کے سوا کچھ بات نہیں ہوسکی۔ ان دنوں اسلامی یونیورسٹی میں سیمینارز کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری تھا اور تقریباً ہر ہفتے کسی اہم موضوع پر سیمینار ہوتا تھا جس میں ممتاز اہلِ علم کو سن کر، دیکھ کر، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ غزالی صاحب سے ایسے سیمینارز میں سیکھنے کا موقع ملا اور ایک آدھ دفعہ سوال (اور کسی حد تک اعتراض) کی جسارت بھی کی جسے انھوں نے کمال تحمل سے سنا اور پھر بہت خوبی سے اپنا موقف واضح کیا۔ اب دل میں ان کے رعب کے ساتھ احترام نے بھی جنم لیا۔

انھی دنوں ایک صاحب کے ساتھ حدیث و سنت کی حجیت پر بحث چل رہی تھی۔ میں نے ان کے سامنے ایک دلیل یہ رکھی (جو مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب سے سیکھی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہی دلیل ان سے قبل مولانا ابو الاعلی مودودی نے بھی دی تھی) کہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر ایسے احکامات کو اللہ کا حکم قرار دیا گیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت شدہ ہیں، جیسے قرآن مجید میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کہیں نہیں دیا گیا لیکن جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تو پہلے قبلے کے متعلق قرار دیا گیا کہ وہ قبلہ ہم نے ہی مقرر کیا تھا (وَمَا جَعَلۡنَا ٱلۡقِبۡلَةَ ٱلَّتِي كُنتَ عَلَيۡهَآ إِلَّا لِنَعۡلَمَ مَن يَتَّبِعُ ٱلرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيۡهِۚ)۔ ان صاحب نے اس کے جواب میں (غلام احمد پرویز سے مستعار لی گئی) دلیل پیش کی لیکن اسلوب استہزائیہ تھا (جیسے عام طور پر منکرینِ حدیث کا ہوتا ہے)۔ان دنوں میں مولانا تقی عثمانی صاحب کو خطوط لکھ کر ان سے مختلف امور میں رہنمائی حاصل کرتا تھا۔ ایک خط میں اس طرف توجہ دلائی اور ان سے درخواست کی کہ وہ خود اس پر کچھ لکھیں تو شاید زیادہ مفید ہو۔ انھوں نے جواب میں کہا کہ یہ شخص شہرت کا طالب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔ مجھے (شاید نوجوانی کے جوش کی وجہ سے) یہ جواب مطمئن نہیں کرسکا۔ میں ایک دن ان صاحب کی تحریر، مولانا تقی عثمانی صاحب کے نام اپنا خط اور ان کا جواب لے کر غزالی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے ساتھ دو تین اور اصحاب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان کے سامنے مدعا پیش کیا۔ انھوں نے ان صاحب کی تحریر مانگی اور چند سطریں پڑھ کر اچانک جلال میں آگئے اور کہا کہ ایسے بے ہودہ لوگ بحث کے لائق نہیں ہوتے، مولانا تقی عثمانی صاحب نے بالکل درست تشخیص کی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے طور پر  مجھے اس اعتراض کا جواب بھی دیا (یہ کہانی پھر سہی) لیکن انھوں نے بھی زور دیا کہ ان صاحب کو منہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

اس کے بعد بھی غزالی صاحب سے وقتاً فوقتاً استفادے کا سلسلہ جاری رہا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کی جلالی طبیعت کی وجہ سے ان کے ساتھ تفصیلی بحث نہیں ہوسکی۔ ان کے برادر بزرگ استاذِ گرامی ڈاکٹر محمود احمد غازی (رحمہ اللہ) کے ساتھ تعلق کی نوعیت دوسری تھی۔ وہ بظاہر بہت بارعب اور سنجیدہ تھے، علمی دنیا میں ان کا مرتبہ اپنی جگہ، یونیورسٹی کی انتظامیہ میں بھی وہ اعلی مقام پر تھے (نائب صدرِ جامعہ) اور اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ بھی ان کا تعلق تھا۔ اس بنا پر ان سے بات کرنی بظاہر بہت دشوار ہونی چاہیے تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان سے تفصیلی بحث میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ غازی صاحب کے ساتھ بے تکلفی اور غزالی صاحب کے ساتھ نسبتاً سنجیدہ تعلق پر مبنی  یہ سلسلہ کئی برسوں تک چلتا رہا۔

پیر و مرشد

اس تعلق میں تبدیلی تب آئی جب 2008ء میں استاذِ گرامی ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب (رحمہ اللہ) کے اصرار پر میں نے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں مختلف پروجیکٹس پر کام شروع کیا۔ اب غزالی صاحب کے ساتھ بے تکلفی کے اسباب بھی بن گئے۔ایک دن ادارے کے ایک سیمینار میں شرکت کےلیے پہنچا تو دیکھا کہ غزالی صاحب سٹیج سے دور، دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ سر آپ کو آگے بیٹھنا چاہیے۔ کہنے لگے، حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے! پھر مسکرا کر کہا، کہ یہ جگہ اس لیے بہتر ہے کہ جب دیکھا کہ مقررین محض وقت ضائع کررہے ہیں، تو اٹھ کر نکل گئے!

ایک دن ادارے میں سیمینار میں گفتگو کی باری میری تھی۔ غزالی صاحب مقررہ وقت سے 5 منٹ قبل پہنچ گئے۔ دعا سلام اور حال احوال پوچھنے کے بعد اچانک گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر کہا کہ وقت ہوگیا ہے، بسم اللہ کریں۔ میں نے کہا کہ بزرگوں کو آنے دیں، سر۔ کہنے لگے:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن، اسدؔ
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا!

پھر کہا، آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ آپ بھی سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود ہوں گے۔ چنانچہ میں نے میزبان اور دیگر مہمانوں کی آمد کا مزید انتظار کیے بغیر اپنا مقالہ پڑھنا شروع کیا۔ کچھ دیر میں لوگ آگئے لیکن (شاید غزالی صاحب کو دیکھ کر ہی) کسی نے اعتراض نہیں کیا، نہ ہی برا مانا۔ یہ ان کی تربیت کا ایک انداز تھا۔ اس دن سے میں نے انھیں اپنا مرشد مان لیا تھا۔

ادارے میں چونکہ میرے مقالات بالعموم فقہ اور اصول کے موضوع پر ہوتے تھے، تو ایک دن غزالی صاحب نے مجھے مخاطب کرکے کہا: مولانا مشتاق احمد نعمانی! آپ یہ مقالات کتابی صورت میں کیوں شائع نہیں کرتے؟ میں نے کہا، کہ ارادہ ہے لیکن دیکھیں کب توفیق ملتی ہے؟ انھوں نے دعا بھی دی اور تحسین بھی کی، پھر کہا کہ آپ نام کے ساتھ نعمانی کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے عرض کی کہ میں خود کو اس نسبت کا حق ادا کرنے کا اہل نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد بھی اکثر وہ مجھے اسی نسبت کے ساتھ پکارتے تھے۔ یہ ان کی محبت اور حوصلہ افزائی کا انداز تھا۔

شریعت اپیلیٹ بنچ، سپریم کورٹ، کی رکنیت

2010ء میں غزالی صاحب سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے رکن بنے اور اس کے بعد ان کے ساتھ مختلف مقدمات کے قانونی اور فقہی پہلوؤں پر بارہا تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ وہ مقاصدِ شریعت اور قواعد فقہیہ کے ذریعے شریعت کے عمومی مزاج کی بہت عمدہ وضاحت کرتے تھے اور اس پہلو سے ان کے طریقِ استدلال اور منہج پر شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا گہرا اثر نظر آتا تھا لیکن اس کے ساتھ ان کے کام کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ نصوص، بالخصوص قرآن کی کی آیات، سے برمحل استدلال کرتے تھے۔ ان کا استحضار قابل رشک اور ان کا استدلال قابلِ تقلید ہوتا۔

شریعت اپیلیٹ بنچ میں دو طرح کے مقدمات آتے ہیں: ایک، حدود مقدمات میں سیشن کی عدالت کے فیصلے کے خلاف پہلی اپیل وفاقی شرعی عدالت کو، اور دوسری اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو ہوتی ہے؛ دوم، جب کسی قانون کو "قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے تصادم" کی بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنچ کیا جائے (جسے "شریعت درخواست" کہا جاتا ہے) تو پھر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں ہوتی ہے۔ پہلی قسم کے مقدمات بھی اہم ہوتے ہیں لیکن غزالی صاحب کی زیادہ دلچسپی شریعت درخواستوں کی اپیلوں میں ہوتی تھی کیونکہ ان کے ذریعے قوانین سے غیر اسلامی امور دور کرنے کا موقع ملتا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس بنچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہوتا تھا اور غزالی صاحب کو مسلسل یہ گلہ رہا کہ ہمارے جو بھی چیف جسٹس بنے، انھوں نے ان اپیلوں کی سماعت سے مسلسل گریز کا رویہ اختیار کیا۔ غزالی صاحب وقتاً فوقتاً انھیں یاد دلاتے بھی رہے۔ چنانچہ ایک بار چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انھیں یہ کام سونپ دیا کہ وہ ان تمام اپیلوں کے متعلق ایک جامع رپورٹ ان کےلیے تیار کریں جس کے بعد وہ ان مقدمات کی سماعت کا سلسلہ شروع کرلیں گے۔ غزالی صاحب نے 1989ء سے 2019ء تک 30 سال کے زیرِ التوا مقدمات کے متعلق ایک جامع رپورٹ تیار کرکے ان کے حوالے کی لیکن کوئی عمل درآمد کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ البتہ 2020ء میں چیف جسٹس گلزار احمد نے شریعت درخواستوں کی اپیلوں کے بجاے حدود مقدمات کی اپیلوں کےلیے چند دن شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے مقدمات رکھے۔ پھر رات گئی، بات گئی۔

ستمبر 2023ء میں جب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا، تو مجھے سیکرٹری کی ذمہ داریاں دیتے ہوئے خصوصاً شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے زیرِ التوا مقدمات پر رپورٹ کا کام سونپا۔ مجھے غزالی صاحب کی رپورٹ کا علم تھا۔ میں نے ان سے رابطہ کیا، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر انھوں نے قاضی صاحب سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا۔ قاضی صاحب نے انھیں بتایا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ کے بعد اب مقدمات کی سماعت کےلیے بنچ بنانے کا اختیار تنہا چیف جسٹس کے پاس نہیں رہا، بلکہ اب چیف جسٹس اور دو سینیئر ججوں پر مشتمل کمیٹی اس کافیصلہ کرتی ہے، البتہ میری کوشش ہوگی کہ جنوری سے ہم اس کی سماعت کا سلسلہ شروع کرلیں۔ غزالی صاحب نے انھیں بتایا کہ انھوں نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ پہلے سے تیار کی ہوئی ہے۔ قاضی صاحب کے کہنے پر غزالی صاحب نے اس رپورٹ کی نقل مجھے دے دی۔ میں نے تمام مقدمات کی فائلیں منگوا کر انھیں پڑھا اور پھر غزالی صاحب کے مشورے اور رہنمائی میں ایک لائحۂ عمل تیار کیا، لیکن معلوم نہیں تھا کہ تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا ہوا ہے اور  18 دسمبر کو غزالی صاحب کا انتقال ہوا۔ شریعت اپیلیٹ بنچ بھی اب ادھورا رہ گیا ہے۔ آگے کا کام مشکل ہوگیا ہے لیکن، ان شاء اللہ، غزالی صاحب کی یہ آخری خواہش پوری کرنے کی ہم پوری کوشش کریں گے۔ یہ صرف غزالی صاحب کی خواہش ہی نہیں، آئینی ذمہ داری بھی ہے اور ایمان کا تقاضا بھی۔

'نرا وکیل ہی نہ رہ جائے!'

شریعت اپیلیٹ بنچ میں زیرِ التوا مقدمات سے یاد آیا کہ سودی قوانین کے خلاف شریعت درخواستوں پر وفاقی شرعی نے 1991ء میں فیصلہ دیا تھا اور انھیں اسلامی احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا تھا، لیکن اس فیصلے کے خلاف حکومت اپیل میں گئی تو شریعت اپیلیٹ بنچ نے 1999ء میں اپنا فیصلہ دیا اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ تاہم جب اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں، تو ان کی سماعت کے بعد 2002ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ نے اپنا 1999ء کا فیصلہ ختم کردیا اور مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت میں از سرِ نو سماعت کےلیے بھیج دیا۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کا یہ دوسرا فیصلہ آئینی اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر بہت کمزور تھا۔ غزالی صاحب کے لائق فائق فرزند احمد حمزہ غزالی نے اپنا ایل ایل ایم کا مقالہ اس فیصلے کے تنقیدی جائزے پر میری نگرانی میں لکھا۔ چونکہ اس دوران میں حمزہ نے وکالت بھی شروع کی تھی جس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ابتدائی مرحلے پر قدم جمانے میں بھی بہت وقت لگتا ہے، اس لیے مقالہ لکھنے میں حمزہ نے کافی وقت لگایا۔ غزالی صاحب اس سلسلے میں بہت فکرمند تھے اور کبھی مجھے گھر پر بلا کر، کبھی فون پر اس سلسلے میں فکرمندی کا اظہار کرتے اور مجھے کہتے کہ اپنے شاگرد سے کام لیں۔ وہ خصوصاً اس بات پر زور دیتے کہ حمزہ کہیں نرا وکیل ہی نہ رہ جائے! حمزہ نے، ما شاء اللہ، بہت ہی عمدہ مقالہ لکھا جو اس موضوع پر برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن غزالی صاحب کی خوشی دیدنی تھی!

غزالی صاحب کی حیثیت میرے لیے تو پیر و مرشد کی تھی۔ جب بھی کسی الجھن کا سامنا کیا، بے چینی محسوس کی، رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی، انھیں پیغام بھیجا، اور وہ ہمیشہ کھلے دل سے استقبال کرتے۔ بلکہ بارہا تو ایسا ہوا کہ ان کی جانب سے ملاقات کےلیے کہا گیا اور میں ادھر ادھر کے مسائل میں گرفتار، نہ جاسکا، تو پھر شرمندگی محسوس ہوتی، پھر حمزہ کا وسیلہ پکڑتا اور ان کے ذریعے غزالی صاحب کی بارگاہ میں ملاقات کےلیے عرضی پیش کرتا، لیکن انھوں نے ایک بار بھی انکار نہیں کیا۔ ان کے ہاں حاضری ہوتی، تو مجھے ان کی صحت اور آرام کا بھی خیال رہتا اور کوشش ہوتی کہ انھیں زیادہ زحمت نہ دوں، لیکن مغرب سے عشاء کا وقت ہوجاتا، وہ اصرار کرکے مجھے نماز پڑھانے کےلیے آگے کرتے، کبھی میری مان کر حمزہ کو آگے کردیتے (حمزہ کی تلاوت، ما شاء اللہ، بہت پیاری ہے)، اور پھر عشاء کے بعد بھی دیر تک محفل جاری رہتی۔ اس دوران میں ان کی مہمان نوازی کا بھی لطف اٹھاتا، ان کی خوبصورت گفتگو کا بھی حظ لیتا اور ان سے بھرپور رہنمائی بھی حاصل کرتا۔ اس محفل کا اثر پھر اگلے کئی دنوں، بلکہ ہفتوں تک جاری رہتا۔

پشتو اور پشتونوں سے محبت

غزالی صاحب کو اپنے برادرِ بزرگ غازی صاحب کی طرح پشتو اور پشتونوں کے ساتھ خصوصی محبت تھی۔ غازی صاحب سے تو ہم نے پشتو کا ایک آدھ ہی جملہ سنا تھا لیکن غزالی صاحب تو بڑی روانی سے اور صاف لہجے میں پشتو بولتے تھے۔ کئی بار انھوں نے کہا کہ اس کا کریڈٹ ان کے مدرسے کے زمانۂ طالب علمی کے دوستوں اور اساتذہ کو جاتا ہے جن میں بہت سے پشتو بولنے والے تھے۔ پشتونوں اور افغانوں سے خصوصاً اور وسط ایشیائی اقوام سے عموماً ان کو دلچسپی تھی اور ان کے احوال سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتے۔ دو دفعہ میں افغانستان گیا اور واپس آیا تو غزالی صاحب کے ساتھ تفصیلی نشستیں وہاں کے حالات کے بارے میں ہوئیں۔ چند مہینے قبل ملاقات میں انھوں نے خود افغانستان کی سیر کی خواہش کا اظہار کیا اور ہمارے دوست ڈاکٹر احمد خالد حاتم (صدر، کاردان یونیورسٹی، کابل) جنھوں نے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور سپریم کورٹ میں غزالی صاحب کے ساتھ کام کیا، کا نمبر لے کر ان سے آنے جانے کے متعلق تفصیلی رہنمائی لی۔ بعد میں کچھ صحت کے مسائل اور کچھ مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ پروگرام نہیں بن سکا، لیکن اس خواہش کا اظہار انھوں نے متعدد بار کیا۔

افغانستان کے ساتھ خصوصی لگاؤ غازی صاحب کو بھی بہت تھا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ میرے والد صاحب کا ایم فل کا مقالہ اقبال اور افغانستان کے موضوع پر ہے، تو انھوں نے میرے والد صاحب سے ملاقات اور یہ مقالہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے تو افغانستان سے بھی محبت ہے اور اقبال سے بھی۔ کچھ یہی حالت غزالی صاحب کی بھی تھی۔ اسی طرح انھیں قائدِ اعظم سے بھی والہانہ محبت تھی اور پاکستانیت تو ان کی رگ رگ میں رچی بسی تھی۔ ان کے موبائل پر کالنگ ٹیون کے طورپر پاکستان کا ترانہ سنا جاتا۔

'رگِ فاروقیت'

غزالی صاحب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے اور مجدد الف ثانی کے الفاظ میں ان کی رگِ فاروقیت جب پھڑک اٹھتی، تو پھر وہ سماں دیکھنے والا ہوتا۔ حق و باطل کے معرکے میں وہ کسی مداہنت کے قائل نہیں تھے اور ڈنکے کی چوٹ پر بلند آہنگ سے کلمۂ حق کہنا ان کی ایسی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے بڑے بڑے ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے اور ان کو دیکھ کر راستہ چھوڑ دیتے۔ ان کے برادرِ بزرگ غازی صاحب بہت متحمل مزاج اور وسیع الظرف تھے اور لوگوں کی بے ہودگی کا سامنا  ایک خندۂ زیرِ لب کے ساتھ کرتے تھے۔ غزالی صاحب ان کے اس تحمل کے بھی شدید ناقد تھے اور بعض اوقات اسے docility سے تعبیر کرتے (ان فاروقی برادران کے مزاجوں کا موازنہ ایک بہت دلچسپ موضوع ہے، آگے اس ضمن میں خود غزالی صاحب کے بعض کلمات پیش کروں گا)، لیکن بعض اوقات ان کی رگِ فاروقیت بھی پھڑک اٹھتی، تو پھر عجیب ہی منظر ہوتا۔ یہ خصوصاً تب ہوتا جب قائدِ اعظم، علامہ اقبال یا پاکستان کے متعلق کوئی ہلکی یا غلط بات کہی جاتی۔ غزالی صاحب میں فاروقیت کی یہ خصوصیت بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔

ایک دن یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کی میٹنگ تھی۔ تمام پروفیسر بیٹھے تھے۔ یونیورسٹی کی علمی پالیسی پر بحث ہونی تھی لیکن صدرِ جامعہ کا طول طویل خطبہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ غزالی صاحب نے ایک چٹ پر یہ عبارت لکھ کہ مجھے دی اور پھر اٹھ کر چلے گئے: "اگر دنیا میں کہیں لایعنی گفتگو کا مقابلہ ہو، تو یہ ۔۔۔ اس مقابلے میں اول انعام کے حق دار قرار پائیں گے۔"

جمعہ کی نماز عموماً فیصل مسجد میں ہی پڑھتے تھے۔ ایک دن مصر کے ایک پروفیسر خطبے دے رہے تھے۔ خطبہ کیا تھا، سورۃ ہود میں انبیاے کرام علیہم السلام کے متعلق وارد آیات کی مادی اور اشتراکی تعبیر پر مبنی ایک طویل تقریر تھی۔ میں پچھلی صفوں میں تھا، لیکن اچانک دیکھا کہ غزالی صاحب جو اگلی صفوں میں تھے، اٹھ کھڑے ہوئے اور خطیب کو ٹوکا کہ یہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ چمچوں کڑچوں کو یہ بہت برا لگا، لیکن فاروقی خون کے سامنے کون دم مار سکتا تھا۔ خطیب نے بوکھلا کر خطبہ فوراًہی ختم کردیا۔ نماز کے بعد میں غزالی صاحب کو ڈھونڈ رہا تھا، لیکن رش کی وجہ سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ میں اپنے دفتر آیا (ان دنوں میں شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہا تھا)، تو کچھ ہی دیر میں غزالی صاحب تشریف لائے۔ ابھی تک جلال کی کیفیت میں تھے۔فرمایا کہ ان احمقوں کو یہ علم نہیں ہے کہ یہ پاکستان ہے، مصر نہیں ہے۔ مزید فرمایا کہ اگلی صفوں میں بڑے بڑے نابغے بیٹھے تھے لیکن کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس بے ہودہ یاوہ گوئی پر اعتراض کرتا، اس لیے مجبوراً مجھے ہی کہنا پڑا۔ میں نے عرض کی یہ کام آپ ہی کرسکتے تھے۔ بہرحال، یہ صرف جذباتی معاملہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے علی وجہ البصیرت باطل جانتے تھے اور اس وجہ سے انھوں نے میرے دفتر میں بیٹھے بیٹھے یونیورسٹی کے بعض اعلی حکام کو اس معاملے پر تفصیلی تنقیدی پیغام بھیجا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صاحب اس کے بعد فیصل مسجد میں خطبہ دینے کےلیے کبھی نہیں آئے۔

خود احتسابی

یہ بات واضح رہے کہ جو معیار غزالی صاحب نے دوسروں کےلیے مقرر کیا تھا، اپنے لیے اس سے کہیں زیادہ کڑا معیار مقرر کیا تھا۔ خود احتسابی کی جو صفت میں نے ان میں دیکھی شاذ ہی کہیں اور نظر آئی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایک پیغام کو یہاں جوں کا توں نقل کروں۔ ایک دن انھوں نے مجھے لکھا کہ مجھے ان کے موقف میں یا کام میں کوئی بات غلط نظر آئے، تو میں مداہنت بالکل نہ کروں۔ میں نے عرض کی کہ ایسی کوئی بات مجھے نظر آئی، تو ادب و احترام کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے میں، ان شاء اللہ، ضرور توجہ دلاؤں گا۔ اس پر انھوں نے لکھا:

"میں جس طرح کی بے تکلفی برتتا ہوں وہی بے تکلفی آپ سے برتنے کی امید رکھتا ہوں اور اللہ تعالی کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ یہ بات آپ سے کہنے میں بالکل سچا اور مخلص ہوں ۔آپ اس کو ہرگز تواضع پر محمول نہ کریں اور میری چھوٹی بڑی ہر غلطی پر متنبہ کیا کریں اور یقین جانئے ناصحانہ تنقید چاہے جارحانہ ہو وہ سن کر میں بہت خوش ہوتا ہوں اور الحمد للہ ہر ہما شما کی تعریف کا اثر میرے نفس امٌارة پر بالکل نہیں ہوتا۔البتہ اگر کوئی صاحب علم اگر کسی بات کی تحسین کرے تو  مزید کام کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے ۔2010 میں شرعی عدالت کے جج بننے کے چھ ماہ کے اندر اندر ہی میرے دنیا میں سب سے بڑے کیا ، بلکہ واحد معلم ومربی، مخلص بھائی اور بے تکلف دوست دنیا سے رخصت ہوگئے اس وقت سے باوجود کوشش کے کوئی ایسا نہیں مل سکا جو میرے دل میں ان کی جگہ لے سکے۔اور محاورے میں نہیں بلکہ حقیقت میں تنہا محسوس کرتا ہوں، حمزہ سلمہ کو اس ڈھب پر لانے کی کوشش کرتا ہوں، وہ کبھی کبھار دائرہ ادب میں رہتے ہوئے مجھ پر ہلکی پھلکی تنقید کر بھی لیتا ہے مگر بہرحال وہ میرا بیٹا اور میں اس کا باپ ہوں وہ تنقید میں کہاں تک جاسکتا ہے؟اس ساری گذارش کا مقصد ، جو کہ دل کی گہرائیوں سے کررہا ہوں ، یہ ہے کہ آپ سے امید رکھتا ہوں کہ میرے حقیقی بھائی جان کی جگہ آپ لیں اور میرا ہاتھ تھام لیں ۔حالیہ بیماریوں کے ہجوم میں اب ذہنی و علمی و فکری تنہائی کا  یہ احساس شدید تر ہوگیا ہے۔آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر میرے اور بھائی جان مرحوم کے درمیان جو بے تکلفی کی سطح تھی وہ ایسی تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے پر ایسی سخت تنقید کرتے تھے کہ کوئی اجنبی دیکھتا تو ہمیں جانی دشمن ہی سمجھتا۔امید ہے آپ میری گذارش پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہوں گے ۔"

اس کے جواب میں میں کیا عرض کرتا؟ میں تو سکتے میں چلا گیا۔ کچھ دیر میں ان کا دوسرا پیغام آیا:

" اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام- جو انبیاء کے بعد افضل البشر ہیں اور ہمارے لئے قابل تقلید- تو محسوس ہوگا کہ وہ آپس میں بہت بے تکلف تھے اور ایک دوسرے پر ایسی کڑی تنقید کرتے تھے کہ کسی اور معاشرت میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایک مثال یاد آئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بزرگترین اصحاب شیخین تھے رضی اللہ عنہما،جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مانعین زکوة کے خلاف لشکر بھیجنے چاہتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں بڑے خدشات اور تحفظات تھے۔کئی دن شیخین کے مابین اس پر بحث مباحثہ ہوتا رہا، ایک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دوران گفتگو یہ فرمایا:"أجبٌار في الجاهلية خوٌار في الاسلام؟ اب آپ بتائیے کہ آج اگر کوئی اپنے قریبی رفیق اور دوست سے ایسے الفاظ کہ دے تو وہ دوستی کتنے دل چل سکتی ہے؟ اس بات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہماری معاشرت اسلام کے معیار سے کتنی پست ہوچکی ہے ۔اور یہ سب عجمیت کے اثرات ہیں، یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال عجمیت کے اثرات کے اتنے بڑے ناقد تھے۔"

آج بھی یہ پیغام پڑھ کر آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

نفیِ ذات

غزالی صاحب حقیقی معنوں میں صوفی تھے۔ لوگ ان کے رعب اور جلالی مزاج کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ شاید ان میں انانیت ہو لیکن جو انھیں جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک فقیر منش اور سادہ مزاج آدمی تھے جو پروٹوکول اور 'ہٹو بچو' کی صداؤں سے ہمیشہ گریز کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مجلس میں کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں جہاں ان کی انفرادیت اور خصوصی حیثیت کسی پر واضح نہ ہو۔ نفیِ ذات کے بے شمار مناظر ہم نے دیکھے ہیں۔ 2019ء میں جب ہم شریعہ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام پاکستان میں قوانین کی اسلامیت کے موضوع پر ایک تین روزہ کانفرنس کی تیاریاں کررہے تھے، تو قدم قدم پر ان کی جانب سے رہنمائی اور مدد میسر رہی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ خود صرف سامع کی حیثیت سے ہی شریک ہوسکیں گے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے اور منت سماجت کے بعد انھیں قائل کیا کہ وہ ایک سیشن کی صدارت کریں۔ اسی طرح افتتاحی تقریب میں بڑی مشکلوں سے ان کو راضی کیا کہ وہ سٹیج پر رونق افروز ہوں۔ اس تقریب میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کلیدی خطبہ دے رہے تھے اور اس موقع پر غزالی صاحب کے قد کاٹھ کی شخصیت کا سٹیج پر موجود ہونا ضروری تھا۔ خواجہ صاحب خود بھی صوفی منش آدمی ہیں۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں غزالی صاحب کا تذکرہ تو کیا سو کیا، یہ بھی ذکر کیا کہ وہ خود غزالی صاحب کے فرزند حمزہ کے شاگرد ہیں جن سے انھوں نے عربی سیکھنے کی کوشش کی!

آج یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے ساتھ میرا تعلق اسی کانفرنس کی وجہ سے بنا اور اس کا سبب بھی غزالی صاحب ہی بنے تھے۔ قاضی صاحب کے ساتھ میری ایک مختصر ملاقات 2015ء میں جسٹس جواد خواجہ صاحب کے چیمبر میں ہوئی تھی جب میں نے ایک فیصلے میں خواجہ صاحب کی معاونت کی تھی اور پھر اس فیصلے کا اردو ترجمہ بھی کیا، تو خواجہ صاحب اس ترجمے پر نظرِ ثانی کررہے تھے اور اس وقت قاضی صاحب بھی ان کے چیمبر میں موجود تھے، تو ان سے بھی ملاقات ہوگئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کوئی ملاقات اگلے کئی برسوں تک نہیں ہوئی۔ 2019ء میں اس کانفرنس کےلیے تیاری کے سلسلے میں غزالی صاحب نے تجویز کیا کہ اس میں سپریم کورٹ کے کسی جج کو بھی آنا چاہیے اور پھر انھوں نے خود قاضی صاحب کا نام لیا۔ میں نے عرض کی کہ میں ان کی خدمت میں عرضی تو ڈال دیتا ہوں لیکن اس کی منظوری آپ کی کوشش کے بغیر شاید ممکن نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ میں بات کرلوں گا۔ چنانچہ میں نے خط لکھا اور پھر غزالی صاحب نے قاضی صاحب سے بات کی، تو قاضی صاحب نے مجھے فون کیا اور کانفرنس کے بارے میں معلومات لیں۔ پھر کہا کہ آپ کی رسائی ایسے لوگوں تک ہے جنھیں میں انکار نہیں کرسکتا! یوں قاضی صاحب کانفرنس میں پینل ڈسکشن میں حصہ لینے کےلیے آگئے۔ (انگریزی محاورے کے مطابق، باقی تاریخ ہے!) لیکن غزالی صاحب نے مجھے اس بات کا تذکرہ کرنے سے روکا تھا کہ قاضی صاحب کو اسلامی یونیورسٹی لانے کا سبب وہ بنے۔

اصاغر نوازی

مجھ پر غزالی صاحب کی شفقت کے مظاہر بہت ہی نرالے تھے۔ ایک تو انھوں نے کبھی مجھے اپنے در سے بغیر کوئی تحفہ دیے جانے نہیں دیا۔ جب بھی ان کی خدمت میں حاضری دی، اٹھنے سے پہلے انھوں نے مجھے کوئی کتاب، کوئی قلم، کوئی تسبیح ضرور پکڑائی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبِ علم قلم کے بغیر صاحبِ علم نہیں بن سکتا۔ چنانچہ ان کی واسکٹ یا کوٹ کی جیب میں ایک دو قلم ضرور موجود رہتے اور اگر دیکھتے کہ میری واسکٹ یا کوٹ کی جیب میں قلم نہیں ہے، تو تنبیہ بھی کرتے اور اپنی جیب سے ایک قلم نکال کر دے دیتے۔ پھر ان کی تنبیہ سے بچنے کی خاطر میں نے یہ اہتمام شروع کیا کہ کہیں اور میرے پاس قلم ہو یا نہ ہو، لیکن ان کے پاس جاؤں تو ضرور ایک قلم جیب میں موجود ہو۔

آخری دور میں تسبیح کے متعلق بھی ان کا یہی طرزِ عمل رہا۔ مجھے کئی دفعہ انھوں نے تسبیح کا تحفہ دیا۔ ایک دن کہنے لگے کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عرب اسے "مسبّحہ" کہتے ہیں لیکن یہ اصل میں "مذکّرہ " (یاد دلانے والی) ہے کیونکہ یہ ہاتھ میں ہو تو بندہ کچھ نہ کچھ ذکر یا ورد کر ہی لیتا ہے، جیب میں پڑی ہو، تو ہاتھ لگتے ہی یاد آجاتا ہے کہ اللہ کا نام لینا چاہیے۔

فقہاء کے وعدے

غزالی صاحب کی بزرگانہ شفقت تو، الحمد للہ، مسلسل میسر رہی، اس شفقت کے ساتھ وقتاً فوقتاً تنبیہ بھی کرتے اور ایک آدھ دفعہ ہلکی سی ڈانٹ بھی پلائی، لیکن اس پر اللہ کا شکر گزار ہوں کہ وہ مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ زیادہ تر ان کا گلہ یہ رہتا کہ بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں خود بھی بہت تشنگی محسوس کرتا اور اس لیے ہر ملاقات پر وعدہ کرتا کہ اگلی ملاقات جلد ہی ہوگی (ان شاء اللہ کی قید کے ساتھ)۔ کئی بار انھوں نے جوش ملیح آبادی کا یہ جملہ سنایا جو انھوں نے خود غزالی صاحب سے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولویوں کے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (غزالی صاحب کے مزاج کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ جوش ملیح آبادی کی محفل میں مستقل جایا کرتے تھے۔ ان کے کئی دلچسپ واقعات انھوں نے سنائے ہیں لیکن انھیں کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں۔) میں دبے الفاظوں میں انھیں یاد دلاتا کہ وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کی قید لگی ہوئی تھی اور یہ قید تو قسم کے ساتھ بھی لگ جائے تو بندہ حانث نہیں ہوتا۔ وہ کہتے کہ ہاں، فقہاء کو یہ حیلہ آتا ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو تو اسے اللہ کی مشیئت سے مشروط کردیں۔

جب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے مجھ سے اپنے اس خواہش کا تذکرہ کیاکہ وہ چیف جسٹس بنیں تو میں ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں معاونت کےلیے باقاعدہ ذمہ داری قبول کروں، تو جن چار بزرگوں سے میں نے رہنمائی لی، ان میں ایک غزالی صاحب تھے (باقی تین میں ایک میرے والد گرامی تھے، دوسرے استاذ گرامی پروفیسر عمران احسن خان نیازی اور تیسرے استاذ گرامی پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز)۔ اس موقع پر غزالی صاحب نے بہت تفصیلی رہنمائی دی، سپریم کورٹ میں کام کے مواقع اور وہاں ممکنہ مسائل کے متعلق بھرپور آگاہی بھی دی اور اس پہلو پر خصوصی تاکید کی کہ کام کی نوعیت ایسی ہو جو آپ کے علمی مقام کے مناسب ہو۔

غزالی صاحب نے کئی بار اس خواہش کا اظہار کیا کہ استاذِ گرامی پروفیسر نیازی سے تفصیلی نشست ہو۔ نیازی صاحب نے عرصہ ہوا گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ غزالی صاحب نے ایک آدھ دفعہ ان سے فون پر بات کی اور دو تین دفعہ مجھے کہا کہ ان کے گھر چلتے ہیں، بلکہ ایک دفعہ یہ بھی کہا کہ نیازی صاحب کی پسندیدہ نمکین مٹن کڑاہی اور تکہ بنا کر چلتے ہیں، لیکن وہ جو شکیل بدایونی نے کہا تھا کہ مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں، کبھی تم نہیں، والا معاملہ تھا۔ سو یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ وہ نیازی صاحب کی فقاہت کے بھی قائل تھے اور خصوصاً تراث کی فقہی کتب کے تراجم کے متعلق ان کی صلاحیت کے معترف تھے۔ (نیازی صاحب نے بدایۃ المجتہد، کتاب الاموال، موافقات اور ہدایہ کے علاوہ مبسوط اور بدائع الصنائع کے کئی ابواب کے انگریزی تراجم کیے ہیں۔) غزالی صاحب کی خواہش تھی کہ وہ خود بھی فقہ کی کسی مختصر مگر جامع کتاب کا انگریزی ترجمہ کریں۔ مجھ سے انھوں نے کتاب تجویز کرنے کےلیے کہا، تو میں نے انھیں امام محمد کی الجامع الصغیر کا مشورہ دیا اور عرض کیا کہ حضرت عبد الحی لکھنوی کی شرح کے ساتھ جو متن ملتا ہے، اسی کو مد نظر رکھنا بہتر ہوگا۔ ہمارے شاگردِ رشید مولانا محمد رفیق شینواری نے فوراً ہی اس کے دو نسخے  مہیا کیے، ایک ان کےلیے اور ایک میرے لیے۔ (بعد میں شینواری صاحب نے امام سرخسی کی شرح الجامع الصغیر بھی مجھے تحفہ کی۔ شینواری صاحب عام مولویوں سے مختلف ہیں کیونکہ وہ صرف لینے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ دینا بھی جانتے ہیں اور انھوں نے اور بھی کتب کے تحفے دیے ہیں۔ ) بہرحال غزالی صاحب نے اس کا آغاز تو کیا، لیکن کچھ عرصے بعد مجھے کہا کہ بہت کوشش کی، پر طبیعت ادھر نہیں آتی! چنانچہ یہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔

سوشیالوجی آف اسلام

غزالی صاحب فقہی جزئیات کے بجاے شریعت کی کلیات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور اس کا ایک خوبصورت مظہر ان کی کتاب سوشیالوجی آف اسلام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا، غزالی صاحب برسوں سوشل سائنسز پڑھاتے رہے۔ ان علوم کے متعلق ان کا ایک سوچا سمجھا موقف تھا جسے وہ شاگردوں کی کئی نسلوں تک منتقل کرتے رہے۔ ان کی تحریرات، خصوصاً شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب کے انگریزی ترجمے اور اس پر ان کی تحقیق، میں اس کی بہترین توضیح ملتی ہے، لیکن آخری عمر میں انھوں نے خصوصاً سوشیالوجی آف اسلام لکھ کر ایک جامع کتاب لکھی جو محققین کےلیے بھی مفید چیز ہے اور نصابی کتاب کا کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔

یہ کتاب انھوں نے مجھے تحفہ کی، تو میں پکار اٹھا: ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبۡغِ ! پھر انھیں بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اسلامی یونیورسٹی کے اکیڈمک کونسل میں بی ایس سوشیالوجی کے چار سالہ پروگرام کا نصاب منظوری کےلیے پیش کیا گیا۔ یہ نصاب سوشیالوجی کے شعبے کے بورڈ اور سوشل سائنسز کی فیکلٹی کے بورڈ سے منظور کیا جاچکا تھا اور اب حتمی منظوری کےلیے اکیڈمک کونسل میں پیش کیا گیا۔ وہاں سے بھی تقریباً منظور ہو ہی چکا ہوتا، اگر میں نے اس پر اعتراض نہ کیا ہوتا۔ میرا اعتراض یہ تھا کہ اس نصاب میں اور کسی بھی دیگر یونیورسٹی کے نصاب میں فرق کیا ہے؟ یہی نصاب پڑھانا تھا، تو اسلامی یونیورسٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ (شکر ہے کسی نے ابن انشا کے انداز میں یہ نہیں کہا، کہ غلطی ہوگئی، آئندہ نہیں بنائیں گے۔) چار سالہ نصاب میں صرف دو مقامات پر بس ابن خلدون کا نام نظر آیا ہے۔ کیا یہی علوم کی اسلامیت کی معراج ہے؟ میرے اعتراض کے بعد اکیڈمک کونسل نے اس نصاب کی منظوری مؤخر کردی اور پھر ایک خصوصی کمیٹی بنائی جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا۔ (یہ الگ بات ہے کہ اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ کم از کم اس وقت تک تو نہیں ہوئی جب تک میں اسلامی یونیورسٹی میں موجود رہا۔) غزالی صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بہت داد دی۔ غزالی صاحب کی یہ کتاب اس موضوع پر پائے جانے والے خلا کو بہت خوبصورتی اور عمدگی سے پر کرتی ہے۔

غزالی صاحب کے ساتھ دسمبر میں ہی جو آخری بالمشافہ ملاقات ہوئی اس میں بھی اس کتاب کا تذکرہ آیا۔ اس دن غزالی صاحب سپریم کورٹ تشریف لائے تھے۔ میں ایک اہم مقدمے کی سماعت کی وجہ سے کورٹ روم نمبر 1 میں چیف جسٹس کی معاونت کےلیے بیٹھا تھا۔ وقفے میں دفتر آیا، تو پی اے نے بتایا کہ ڈاکٹر غزالی صاحب آئے تھے اور آپ کا پوچھ رہے تھے۔ میں نے ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن بات نہیں ہوسکی۔ میں نے دوبارہ کورٹ میں جاتے ہوئے اپنے پی اے سے کہا کہ غزالی صاحب میرے بہت ہی محترم استاذ ہیں، ان سے رابطے کی کوشش جاری رکھیے اور رابطہ ہو، تو ان کی خدمت میں میری جانب سے معذرت پیش کرکے انھیں بتائیے کہ اس مقدمے کی وجہ سے میرا کورٹ میں بیٹھنا مجبوری ہے اور میں فارغ ہوتے ہی ان سے رابطہ کروں گا۔ میں دوسرے وقفے میں دفتر آیا، تو انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ غزالی صاحب وہیں تشریف فرما تھے اور ایک چٹ پر کچھ لکھ رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو اٹھے اور گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کےلیے پیغام چھوڑ رہا تھا لیکن اچھا ہوا کہ آپ سے ملاقات ہوگئی۔ کچھ دیر بیٹھے رہے اور چند نصیحتوں اور تنبیہات سے نوازنے کے بعد چل پڑے۔ میں انھیں گاڑی تک چھوڑنے آیا، تو راستے میں سوشیالوجی آف اسلام کا تذکرہ آیا اور انھوں نے پوچھا کہ بھائی مراد علی نے اس کتاب کی اشاعت میں دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن وہ بھی شاید آپ کی طرح وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کی قید لگاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں مراد کے کان کھینچوں گا اور وہ فوراً ہی آپ سے رابطہ کرے گا۔ (وہ مراد کی بہت تعریف کرتے تھے اور ایک دفعہ فرمایا کہ صالحیت اور صلاحیت کا اجتماع بہت کم لوگوں میں نظر آیا ہے اور یہ نوجوان بھی ان لوگوں میں ہے۔) انھوں نے کہا کہ اس دن قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اچانک ہی اس طرف دھیان گیا کہ نظریۂ علم کی حیثیت سے تجربیت (Empiricism) کو تو ہمیشہ انبیاے کرام کے معاندین نے پیش کیا ہے، اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: وَكَذَٰلِكَ مَآ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ فِي قَرۡيَةٖ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوهَآ إِنَّا وَجَدۡنَآ ءَابَآءَنَا عَلَىٰٓ أُمَّةٖ وَإِنَّا عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِم مُّقۡتَدُونَ۔  پھر فرمایا کہ مذکورہ کتاب میں تجربیت کی بحث پڑھ کر اس آیت سے میرے استدلال کے متعلق بتائیے گا کہ کیا آپ اس سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ پھر انھوں نے اپنے استدلال کی مختصر وضاحت کی اور کہا کہ تفصیلی بحث کےلیے گھر پر تشریف لائیے گا۔ معلوم نہیں تھا کہ اس کے بعد ان سے ملاقات ان کے جنازے میں ہی ہوگی!

فلسطین کا دکھ

اس ملاقات کے بعد ان سے فون پر تو رابطہ رہا اور تقریباً روزانہ ہی ان کی جانب سے ایسا پیغام ملتا جس میں وہ فلسطین کے متعلق اپنے دلی دکھ کا اظہار کرتے اور پھر اس دوران میں چونکہ اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ بھی آئی، تو انھوں نے اس سلسلے میں تفصیلی پیغامات دیے۔

اکتوبر سے دسمبر تک ڈھائی مہینوں میں غزالی صاحب کے اکثر پیغامات کا تعلق فلسطینیوں کے قتلِ عام ، ان کے جہاد اور امت کی اس ضمن میں ذمہ داریوں کے متعلق تھے۔فلسطین میں مظالم نے انھیں بہت زیادہ دکھی کردیا تھا اور وہ مسلسل اس کے متعلق پریشانی میں مبتلا رہے۔ دوسرا دکھ مقامی تھا اور وہ بھی بہت گہرا تھا۔ یہ دکھ اسلامی یونیورسٹی کی بربادی کا تھا۔

اسلامی یونیورسٹی کی بربادی کا دکھ

وہ یونیورسٹی جس کی بنیادوں میں ان کا خونِ جگر تھا، جس کی خدمت میں انھوں نے زندگی صرف کی تھی، وہ پچھلے چند برسوں میں جس طرح بربادی کا شکار ہوئی، اس کا ان کو بہت صدمہ تھا۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوئی، انھیں یونیورسٹی ہی کی فکر میں سرگرداں پایا۔ اس ضمن میں بارہا انھوں نے چانسلر ڈاکٹر عارف علوی، صدرِ پاکستان، کو پیغامات بھیجے، ان کی توجہ کئی امور کی طرف دلائی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ علوی صاحب سے سخت مایوس ہوئے تھے۔ اسی طرح انھوں نے سعودی عرب میں پرو چانسلر اور دیگر عہدیداروں کو بھی بارہا متوجہ کیا۔ پھر جب انھیں معلوم ہوا کہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد پہلے قائدِ اعظم یونیورسٹی اور پھر اسلامی یونیورسٹی کے مسائل کی طرف توجہ کی ہے اور ان کے بورڈز کی میٹنگ بلانے کےلیے کہا ہے، تو انھیں بہت خوشی ہوئی۔ انھوں نے چیف جسٹس کے نام طویل پیغام میں یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد اور یہاں موجود امکانات  پر بھی تفصیلی رہنمائی دی اور ساتھ ہی یہاں کے مسائل کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے تدارک اور آگے بہتری کےلیے کئی تجاویز بھی دیں۔ مجھ سے بھی وہ مسلسل رابطے میں رہے اور کئی پیغامات جو انھوں نے مختلف اعلی عہدیداران کو بھیجے تھے، مجھے بھی بھیجے۔ ایسے ہی ایک پیغام میں، جو 11 دسمبر کو بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ سے ایک  دن قبل انھوں نے بھیجا، اس میں لکھا:

"نئے قاضی القضات صاحب کی بار بار یاد دہانی اور تقاضوں سے مجبور ہو کر جامعہ کے اعلی ترین فیصلہ ساز فورم کا اجلاس پیر 11 دسمبر 2023 کو ایوان صدر میں بلایا گیا ہے ۔اب دیکھیں کہیں یہ یہ دسمبر بھی ایک اور شرمناک سرینڈر کا پیش خیمہ نہ ثابت ہو جب 16 دسمبر 1971 کی ایک منحوس صبح کو چشم فلک نے  ہماری افواج کا کا ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنا دیکھا اور شرم سے منہ موڑ لیا،لگتا ہے اسی دلخراش اور شرمناک بزدلی کی شکست مان لینے کا خمیازہ ابھی تک پاکستان بھگت رہا ہے، وہ سرینڈر ایک جغرافیائی حصہ سے دستبرداری تھی۔ اگر خدانخواستہ آنے والے کل 11 دسمبر 2023 کو بھی اسی ہزیمت اور شکست خوردہ رویہ کو باقی رکھا گیا تو یہ دشمنان اسلام کی ایک اور بڑی فتح ہوگی وہ دشمنان اسلام و انسانیت جن کی صفیں اب کچھ عرصہ سے  بکھرتی نظر آرہی ہیں (خاص طور پر 7 اکتوبر کے مجاہدانہ اقدام اور تاریخ کی سب سے سنگین نسل کشی کے بعد) اللہ تعالی کی فیصلہ کن تقدیر سے دشمنانِ اسلام اور انسانیت کی سب تدبیریں الٹتی نظر آرہی ہیں اور 63 دن سے دنیا دیکھ رہی ہے اور سن رہی ہے کہ اعداء اللہ اور  اولیاء الشیطان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں ۔۔۔"

یہ پیغام جو انھوں نے خود وھاٹس ایپ پر لکھا تھا، اے فور سائز کے 8 صفحات پر آتا ہے۔ سوچیے کہ اس ایک پیغام کے لکھنے میں انھوں نے کتنا خونِ دل صرف کیا ہوگا! یہ پیغام ایک عظیم الشان دستاویز ہے اور اسے اسلامی یونیورسٹی کے ریکارڈ کا باقاعدہ حصہ بننا چاہیے۔ اس میں انھوں نے نہ صرف یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد کی وضاحت کی ہے، بلکہ اس کی بربادی کے ذمہ داران کا سراغ بھی دیا ہے اور اس کی اصلاح کےلیے لائحۂ عمل بھی تجویز کیا ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں:

"یہ جامعہ اسلامیہ عالمیہ،  علوم اسلامیہ کے ایسے ماہرین کی ایک جماعت تیار کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی جو مشرق و مغرب میں اسلام کا روشن انقلابی اور حیات بخش پیغام عالم انسانیت کو ان کی زبان میں پہنچانے کا عظیم فریضہ ،  جو شہادت حق کا فریضہ ہے اور امت کے اصل مقصد کو قرآن کریم میں بیان کرتا ہے اس مقدس فریضہ کو انجام دے ۔ یہی  اس ملت اسلامیہ کا نصب العین ہے اور اسی عمل کی وجہ سے یہ امت بطور عالمگیر تہذیب و تمدن و ثقافت کے خیر امت قرار دی گئی ہے ۔اس ادارہ کا بنیادی تصور کچھ حضرات کے ذہن میں پہلے سے تھا،جیسے علامہ اقبال رحمہ اللہ ، قائد اعظم رحمہ اللہ اور ایک مرد مؤمن شہید وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم کے سامنے تھا جب انہوں نے تاریخی قراداد مقاصد پارلیمان سے منظور کروائی۔"

آگے اس یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:

"اسی  اعلی مقصد (انسانیت کے سامنے اسلام کے ابدی پیغام کی ٹھوس علمی،فکری اور تہذیبی بنیادوں پر گواہی اور دعوت دینے کا مقصد) کے لیے اس عظیم ادارہ کا قیام 15 ویں صدی ہجری کے آغاز میں کیا گیا، اسی اعلی اور ارفع نصب العین کے لئے یہ بنیادی اصول مقرر کیے گئے: 1۔یہ جامعہ علوم اسلامیہ ساری امت مسلمہ کے لئے کام کرے گی۔ 2۔اس جامعہ اسلامیہ عالمیہ میں تمام اسلامی دنیا سے بہترین اور اپنے میدان میں مانے ہوئے اساتذہ لائے جائیں گے اور اس طرح یہاں اس امت مسلمہ کے جوہر قابل جمع کیے جائیں گے، یہاں کے اساتذہ اور طلبہ میں مقامی عنصر مغلوب اور امت مسلمہ کا حصہ غالب رکھا جائے گا اور کبھی 50 % سے زیادہ اساتذہ اور طلبہ میں مقامی عنصر  نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ 3۔ اس جامعہ علوم اسلامیہ میں علم کو خرید وفروخت کے لئےتقسیم کبھی نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا سے قابل ترین طلبہ کا اعلی معیار پر انتخاب کیا جائے گا،ان کو وظائف دے کر عزت و تکریم کے ساتھ لایا اور رکھا جائے ،یہ ملک اپنے وسائل ان بہترین طلبہ اور اعلی پایہ کے اساتذہ اور محققین کی خدمت کے لئے وقف کردے گا۔ 4۔یہاں ہر طالب علم کو 60 % اسلامی علوم و فنون میں مہارت کے لئے تربیت دی جائے گی اور 40 % فی صد ضروری اور مفید  عصری علوم و فنون کی تعلیم دی جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں روز اول سے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بیک وقت پڑھانے کا اہتمام کیا گیا ۔"

اس کے بعد انھوں نے جامعہ کے چند نامی گرامی اساتذہ کا ذکر کیا، جو مختلف اسلامی ممالک سے یہاں پڑھانے کےلیے آئے:

" واقعہ یہ ہے کہ اس جامعہ کے ابتدائی سالوں میں بڑی حد تک اعلی معیار تعلیم و تحقیق کو قائم رکھا گیا۔اساتذہ میں بہت سے انمول ہیرے جواہر یہاں لائے گئے۔ان میں عالم اسلام کے معروف اور معتبر ترین حضرات شامل تھے،مثال کے طور پر یہاں محمد قطب (مشہور مفسر سید قطب شہید کے بھائی )شعبہ تعلیم وتربیت میں  پڑھاتے رہے،اس شعبہ کا ابتدائی مقصد اسی جامعہ کے آئندہ کام آنے والے اساتذہ اور محققین کی تیاری تھی ،بعد میں اس کے تربیت یافتہ فاضل سکالر دیگر جامعات عالم میں خود اپنی جگہ پالیتے۔محمد قطب کے علاوہ اس وقت موجود عالم اسلام کے معروف اور بے نظیر عالم،مفکر،فقیہ اور فلسفی ڈاکٹر حسن الشافعی صاحب مدظلہ اور موجودہ شیخ الازھر ڈاکٹر محمد الطیب،سوڈان کے مشہور فاضل سکالر پروفیسر طیب زین العابدین، مصر کے اسلامی معاشیات کے معروف ماہر پروفیسر عبد الرحمن یسری،سوڈان کے مشہور و معروف ماہر نفسیات پروفیسر مالک بدری مرحوم ( صدر عالمی اسلامی اتحاد ماہرین نفسیات ) شامل ہیں ۔"

پھر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نامی گرامی طلبہ کا ذکر کیا جو مختلف اسلامی ممالک میں اہم عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ اس کے بعد فساد کی جڑ کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا:

"اس جامعہ علوم اسلامیہ میں جو در حقیقت پاکستان کی واحد SPECIALIZED UNIVERSITY تھی اس میں علوم اسلامیہ کی مرکزی حیثیت کو رفتہ رفتہ ختم کیا گیا ،یہ کام خائن ،خائب وخاسر جابر پرویز کے دور حکومت ( 2008- 1999) میں شروع کیا گیا اور دھیرے دھیرے اور  دبے پاؤں اس جامعہ کو سیکولرائز اور کمرشلائز کردیا گیا، تھوک کے حساب سے نئے نئے شعبے صرف سیکولر میدانوں میں کھلتے چلے گئے، چاہے اس میں مطلوبہ قابلیت کے اساتذہ اور محققین میسر ہوں یا نہ ہوں ۔ اشتہار بازی کے ذریعہ مقامی طلبہ کو رفتہ رفتہ بغیر کسی قابلیت کے امتحان کے دھڑا دھڑ بھرتی کرلیا گیا اور سالانہ فیسوں میں اربوں روپے جمع کیے جانے لگے ۔ گیا ،علوم اسلامیہ کے شعبے سمٹتے چلے گئے، یا لپیٹ کر رکھ دیے گئے ۔"

اس کے بعد ان اساتذہ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اس یونیورسٹی کےلیے زندگیاں وقف کیں لیکن یہاں کے ناقدروں نے انھیں یہاں سے جانے پر مجبور کیا اور پھر وہ جہاں گئے وہاں کے لوگوں نے ان کی قدر شناسی کرتے ہوئے ان کے علم سے فائدہ اٹھایا۔ اس کے بعد بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس کی مناسبت سے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کیسے اس اعلی سطحی بورڈ کو، جو امت کی نمائندگی کرتا تھا، یکسر مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے:

"بورڈ آف ٹرسٹیز جو اس ثمر بار گلشن بہار کا محافظ اور نگراں تھا اور جس میں از روئے دستور و قانون تمام امت مسلمہ کے ممتاز ترین مفکرین اور قائدین فکر و دانش کی موجودگی لازمی قرار دی گئی تھی اب اس سیاہ تاریک طویل رات میں( خاص طور پر سعودی قبضہ غاصبانہ کے بعد از 2012 تا 2023) اس گلشن بہار بے خار کو بلبلوں سے چھین کر کرگسوں کے حوالے کیا جاچکا ہے یعنی اب عالم اسلام کے معروف اور معتبر اہل علم و فضل کو اس اعلی مجلس سے باہر کردیا گیا  اور  یہ اعلی محفل کب کی برباد کردی گئی ہے اب خلیجی تیلیوں اور ان کے طفیلیوں کا یہاں ڈیرہ لگا ہوا ہے ۔ان ہی کی اکثریت اب غالب ہے اور سنا ہے کہ اگر کبھی کوئی بولا تو جارج آرویل کے انیمل فارم کی طرح کچھ "خنازیرو عبدة الطاغوت" اس پر فوراً غرانے لگتے ہیں ۔"

آگے انھوں نے تفصیلی لائحۂ عمل تجویز کیا ہے جس میں ایک نکتہ یہ ذکر کیا:

"صدر جامعہ، تمام نائب صدر،ڈین ،ڈائریکٹر جنرل ، ڈائریکٹر، اور صدر ہائے شعبہ فی الفور  برخواست کردیے جائیں اور فورا ایک اور ذیلی مجلس اہل علم و دانش کی تشکیل دے کر ایک  نئی  بہترین visionary ٹیم کو ذمہ داریاں سونپ دی جائیں اور کوئی کام رکنے نہ پائے ۔"

ایک اور اہم نکتہ انھوں نے یہ ذکر کیا:

"جامعہ علوم اسلامیہ میں ہوش ربا فیسوں کا فورا مکمل خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے بہ عجلت ضروری فنڈ مہیا  کردئے جائیں اور عہد نو کا آغاز کردیا جائے۔اگر کام ہوتا نظر آئے گا تو دنیا میں اہل خیر کی کمی نہیں وہ خود آگے آکر ان شاء اللہ العزیز اس اس ادارہ کو طلبہ سے پیسے اینٹھنے کی ذلت و رسوائی سے بچائے رکھے گا اور جامعہ واقعی عملا امت مسلمہ کے لئے قابل فخر منصوبہ مستقبل سازی کا مقام حاصل کرکے رہے گی۔"

الحمد للہ، 11 دسمبر کو بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ ہوئی تو اس میں عزت مآب چیف جسٹس نے تقریباً انھی نکات پر بات کی جس کے نتیجے میں بورڈ نے اسلامی یونیورسٹی کو فسادیوں کے ٹولے کے قبضے سے چھڑانے کےلیے چند بہت ہی اہم فیصلے کیے اور، ان شاء اللہ، اس کے اثرات جلد ہی سامنے آئیں گے۔ اسی رات میں نے غزالی صاحب کو مختصر پیغام بھیج کر انھیں خوش خبری دی کہ اسلامی یونیورسٹی کو بربادی سے بچانے کےلیے جو اقدامات انھوں نے تجویز کیے تھے، تقریباً ان سب کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ رات گئے انھیں تنگ کرنا مناسب نہیں ہوگا، اس لیے کال کرنے کے بجاے مختصر پیغام دیا اور کہا کہ صبح آپ سے تفصیلی بات کروں گا۔ ان کا فوراً ہی جواب آیا:

“Thank you brother for the update. I will lose my night sleep if the details are not shared NOW. PLEASE DON'T DELAY.”

میں ابھی پیغام پڑھ ہی رہا تھا کہ ان کی کال آئی اور پھر تقریباً آدھا گھنٹہ ان کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ایک ایک بات کی تفصیل پوچھی اور پھر بہت زیادہ اطمینان کا اظہار کیا۔ بار بار الحمد للہ کہتے رہے۔ پھر کہا کہ اب میں سکون سے سو سکوں گا۔

اس کے ایک ہفتے بعد ہی ان کا انتقا ل ہوا!

اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنا دے  اور ان کو اعلی علیین میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرمائے!

ڈاکٹر محمد الغزالیؒ

محمد آصف محمود ایڈووکیٹ

ہمارے استاد، سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کے جج، جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ جو ڈاکٹر محمد الغزالی کو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں میں کس بندہ آزاد کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔ جو نہیں جانتے وہ البتہ کبھی جان ہی نہیں پائیں گے کہ یہ کیسا عالی مرتبت انسان تھا جواس دنیا سے اٹھ گیا۔ڈاکٹر غزالی پر لکھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔یہ ایک کوہ کنی ہے اور ہم جیسوں میں کوئی فرہاد نہیں۔

مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ڈاکٹر غزالی کا شاگرد تھا۔ ایم اے انگریزی کی کلاس میں انہوں نے ہمیں ّ اسلام اور جدید مغربی فکرْ کا مضمون پڑھایا تھا۔ ہم حیران اور بے زار سے تھے کہ انگریزی ادب کی کلاس میں یہ مضمون کہاں سے آ یا۔ پھر ایک دن شام ڈھل چکی تھی تو ڈاکٹر غزالی کلاس لینے آئے۔ ہم جو ان دنوں انگریزی ادب کی Love at first sight پر مضامین باندھا کرتے تھے ، ان سے پہلی ہی کلاس میں ایسے مرعوب ہوئے کہ آج ستائیس بعد دل کو ٹٹولتا ہوں تو اسی مرعوبیت کے حصار میں پاتا ہوں۔

جسٹس غزالی پر لکھنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ مرعوبیت سے قلم بھاری ہو جاتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے سارے رنگ اور کتابوں میں رہ جاے والا عالم دین کا سارا بانکپن وہ ساتھ لیے پھرتے تھے۔

مناصب سے بے نیاز ، عجب سی شان بے نیازی تھی ۔ تصنع نہیں تھا مگر تہذہبی رچاؤ میں ڈوبا رکھ رکھاؤ تھا ۔ تند خو نہ تھے مگر رعب ایسا تھا کہ ان کے سامنے بڑوں بڑوں کی قوت گویائی سلب ہو جاتی تھی، غلطی پر ٹوکتے تھے اور سر محفل ٹوکتے تھے ، سامنے جتنا بڑا صاحب منصب ہوتا تھا اسی شدت سے ٹوکتے تھے ، ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تھے جیسے صحرا کی وسعتیں پر پوری رات کا چاند دھیرے دھیرے اتر جائے۔

میں انہیں دیکھ کر سوچا کرتا تھا اگر زوال کے اس عہد میں ایک عالم کی وجاہت اور شان یہ ہے تو مسلمانوں کے دور عروج میں کیا ہوتی ہو گی۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر غزالی جیسا کوئی نہ تھا۔ ایک فرد نہیں وہ ایک پوری تہذیب تھے۔ مسلمانوں کی فکری اور سماجی وجاہت ان میں مجسم تھی۔ سیدنا مسیح کے الفاظ مستعار لوں ڈاکٹر محمد الغزالی اس زمین کا نمک تھے۔

جنازہ پڑھا جا چکا تو یادوں کی سمت دریچے کھل گئے۔ ایک شام افتخار اور میں نے کلاس بنک کی۔ نیف ڈیک سینیما ان دنوں آباد ہوا کرتا تھااور یہاں رونقیں ہوتی تھیں۔ سات بجے فلم کا شو شروع ہوتا تھا۔ ہم یونیورسٹی سے نکلے ہی تھے کہ ایک کار ہمارے پاس آ کر رک گئی۔ اسے ڈاکٹرصاحب ڈرائیو کر رہے تھے۔ شیشہ نیچے کر کے انہوں نے شفقت بھرے مگر انتہائی بارعب لہجے میں حکم دیا: بیٹھ جائیے۔

ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔

کہاں جا رہے ہیں؟

ایک تو کلاس بنک کی تھی اور پکڑے گئے۔ اوپر سے پکڑے بھی غزالی صاحب کے ہاتھوں گئے۔ ہوش تو پہلے ہی ٹھکانے نہ تھے، اب اچانک سوال ہوا توہم گڑ بڑا گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔ میں نے کہا، سر آب پارہ جا رہے ہیں اور افتخار نے کہا، سر ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب مسکرائے، گھڑی کو دیکھا اور کہنے لگے: اچھا، آپ آب پارہ جا رہے ہیں اور آپ ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں آپ کو نیف ڈیک اتار دیتا ہوں، وقت پہلے ہی کم ہے، آپ کو تاخیر نہ ہو جائے۔

چوری پکڑی جا چکی تھی، پسینے چھوٹ چکے تھے۔ میں نے کہا سر توبہ توبہ، نیف ڈیک کیا کرنا ہے ہم نے۔ ہم تو آب پارہ اور پھر ہاسٹل جا رہے ہیں۔لیکن غزالی صاحب کے سامنے سچ بولنا بھی آسان کام نہ تھا تو ڈھنگ سے جھوٹ کون بول سکتا تھا۔

گاڑی میں مکمل خاموشی رہی۔ اور پھر نیف ڈیک کے سامنے جا کر گاڑی رک گئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ جلدی سے اتر جائیے، وقت کم ہے۔ یہاں سے آب پارہ بھی نزدیک ہے اور ہاسٹل ون بھی۔

بائیس سال بعد ایک روز کالم میں، میں نے یہ واقعہ لکھا تو مجھے ایک کال آئی۔ بھائی آصف، میں محمد الغزالی بول رہا ہوں۔ یہ دو عشروں بعد ڈاکٹر صاحب سے میرا پہلا رابطہ تھا۔

یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ان ڈھائی عشروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا دو تین بار ہی رابطہ ہو سکا۔ آخری رابطہ ان کے انتقال سے چند دن پہلے ہوا۔ جن ان کے انتقال کی خبر سنی تو ان کانمبر ڈائل کرنے لگا ، دیکھا تو وہاں ان کا ایک واٹس ایپ میسج پڑا تھا جو میں ابھی دیکھ ہی نہیں سکاتھا۔ لکھا تھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟۔۔۔۔۔۔ میں عام حالات میں، ہر گز یہ واقعہ نہ لکھتا لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا ڈاکٹر صاحب کے انتقال سے گہرا تعلق ہے اس لیے یہ واقعہ لکھ رہا ہوں۔

واقعہ یوں ہے کہ چند روز پہلے ان کا فون آیا۔ میں اس وقت ٹاک شو کرنے سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ کہنے لگے: میں آپ کے لاء آفس کے نیچے کھڑا ہوں، باہر آئیے۔ میں نے عرض کی کہ سر میں اس وقت سٹوڈیو میں ہوں آپ حکم کریں میں شو کے بعد حاضر ہو جاتا ہوں۔ حکم ملا: شو کیجیے، اس کے بعد مجھے فون کیجیے۔

میں سارا پروگرا م یہی سوچتا رہا کہ اللہ خیر کرے، جسٹس صاحب نے یہ زحمت کیوں کی۔ میں نے شروع میں عرض کی کہ جو غزالی صاحب کو جانتے ہیں وہی جانتے ہیں وہ کس مزاج کے آدمی تھے۔ میری موجودگی میں انہوں نے صدر پاکستان کی دعوت رد کر دی تھی کہ اور کہا تھا کہ مغرب کے بعد وہ گھر سے نہیں نکلتے، ( تب شائد ان کی والد علیل تھیں) صدر صاحب نے ملنا ہے تو یہ ملاقات دن میں رکھا کریں۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے عرض کی سر صدر پاکستان وقت طے کر چکے ہیں، آپ پلیز تشریف لے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: صدر صاحب کے آفس کو ہم سے پوچھ کر وقت طے کرنا چاہیے تھا اور ملاقات کی خواہش ہم نے نہیں کی صدرمحترم نے کی ہے تو انہیں ہماری مصروفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نہیں جا سکتے۔

اب ڈاکٹر غزالی اچانک، عشاء کے بعد، دفتر کے باہر کھڑے تھے تو وجہ کیا تھی۔میں نے پریشان ہوکر پروگرام کے فورا بعد، انہیں فون کیا تو وہ شدید پریشان تھے۔ اذیت میں تھے۔

کہنے لگے: آپ کو معلوم ہے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے؟

عرض کی کچھ کچھ معلوم ہے۔

کہنے لگے میں آپ کو تفصیل بھیج رہا ہوں اسے پڑھیے۔

ان کا واٹس ایپ ملا۔ میں نے پڑھا، یہ حیران کن اور تکلیف دہ حد تک اذیت ناک معلومات تھیں۔میں نے پڑھ کر پھر فون کیا۔ کہنے لگے کیا یہ چیزیں آپ کے علم میں تھیں؟ میں نے عرض کی کہ کچھ کچھ علم میں تھیں کچھ کا علم نہیں تھا۔ کہنے لگے: اگر آپ کے علم میں ہیں تو کیا میں آپ کی خاموشی کاسبب جان سکتا ہوں؟ میں نے کہا سر میں سمجھا نہیں۔ کہنے لگے آپ کے اور ہمارے سامنے ہماری یونیورسٹی، ہمارا ادار ہ جو امت مسلمہ کی فکری امانت ہے وہ تباہ ہو رہا ہے، اور آپ خاموش ہیں ۔ آپ کیون خاموش ہیں؟ آپ اس پر کم از کم ایک کالم تو لکھیں۔

میں نے ان سے وعد ہ کر لیا کہ ضرور لکھوں گا۔ مجھے معلومات کو کالم کی شکل میں مرتب کرتے تین دن لگ گئے اور ان تین دنوں میں ہر صبح ان کا پیغام آتا،بھائی آصف کالم کہاں ہے؟وہ شاید صبح اخبار دیکھتے اورکالم نہ پا کر مجھے واٹس ایپ کرتے۔

ان کا آخری میسج ان کے انتقال کے بعد میں نے پڑھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟

جسٹس صاحب کے جنازے میں بتایا جا رہا تھا کہ ان کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک ہے۔ میں کھڑا سوچتا رہاکہ کیا اس ہارٹ اٹیک کی بھی کوئی وجہ تھی؟ میرے خیال میں اس کی دو وجوہات تھیں۔ وہ فلسطین پر بہت دکھی تھے اور اسلامی یونیورسٹی کے معااملات نے ان کی روح کو گھائل کر دیا تھا۔

ان کے آخری ایام کے واٹس ایپ میسج میرے پاس امانت ہیں، یونیورسٹی بی او ٹی، صدر پاکستان یا جناب چیف جسٹس چاہیں تو یہ ان کی خدمت میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ذاتی پیغام رسانی تھی، اسے عام حالات میں سامنے نہیں لانا چاہیے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں جس معاملے کی اذیت نے جسٹس صاحب کوزندگی کے آخری دنوں میں تکلیف دیے رکھی اس اذیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

یونیورسٹی کے معاملات سیدھے ہو جائیں تو ڈاکٹر محمد الغزالی کی روح کو شاید اس سے کچھ تسکین ملے۔ و ہ ا س جامعہ کے لیے اپنے آخری دنوں میں شدید دکھی تھے۔

اسلامی یونیورسٹی میں اصلاح احوال جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی کا ان کے شاگردوں اور دوستوں پر قرض ہے۔

(بشکریہ روزنامہ ترکش)

ڈاکٹر محمد الغزالیؒ

مراد علی

ڈاکٹر محمد الغزالی کا پہلا تعارف ڈاکٹر محمود احمد غازی کے برادر خورد کے طور پر ہوا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی اسلام آباد وارد نہیں ہوئے۔ 2015ء میں اسلامی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد دوسرے ماہ، اپریل کے مہینے میں شریعہ اکیڈمی میں جہاد کے موضوع پر دو روزہ ورک شاپ تھا، جس میں پہلے دن کا ایک سیشن غزالی صاحب چیئر کر رہے تھے یہی ان کی پہلی براہ راست زیارت تھی۔

اس وقت آپ ادارہ تحقیقات اسلامی میں پروفیسر اور سہ ماہی عربی مجلے “الدراسات الاسلامیہ” کے مدیر تھے۔ یونی ورسٹی کے اولڈ کیمپس لائبریری مستقل جانا ہوتا تھا، ایک عجیب سی مسحور کن جگہ تھی ایک ادنی سا حساس انسان وہاں انس محسوس کرسکتا تھا۔ یہ اس بات کی شہادت تھی کہ یہاں کئی ایک غیر معمولی علمی ہستیاں رہی ہیں۔ ملاقات کی بہت چاہ تھی لیکن آپ کا جلال حائل ہوجاتا کہ ملے بھی تو کیسے!

غزالی صاحب کے شخصی اوصاف میں آپ کا جلال، بانک پن، تواضع، وقار اور ایک کلاسیکی حمیت نمایاں تھے، جو بھلے وقتوں کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے تھے۔ آپ کی نفاست بھی عمدہ تھی اور ذوق بھی، پہننے میں، بولنے میں اور لکھنے میں۔

2018ء میں دعوۃ اکیڈمی نے ڈاکٹر محمود احمد غازی سے متعلق ایک عالمی کانفرس کا انعقاد کیا تھا، جس کا افتتاحی خطاب غزالی صاحب نے ٹکسالی اردو اور اپنے مسحور کن لہجے میں دیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے گذشتہ صدی کے کسی عمدہ ادیب کو سن رہے ہیں۔

آپ کے جلال اور استغنا کے کئی واقعات سنے بھی ہیں اور براہِ راست دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب کے بہت قریبی مراسم تھے۔ ہم 2019ء کے آخری مہینوں میں ڈاکٹر قدیر سے ملنے گئے، جب کہا کہ اسلامی یونی ورسٹی سے تعلق ہے تو انھوں نے دونوں بھائیوں سے اپنی رفاقت کا تذکرہ بہت عقیدت سے کیا اور کہا کہ سنا ہے غزالی صاحب کو پروفیسر ایمریٹس بنایا جا رہا ہے۔

چند دنوں بعد فیصل مسجد میں یونی ورسٹی کے صدر ڈاکٹر یوسف درویش خطبۂ جمعہ دے رہے تھے، جس میں وہ عرب شاہوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، اس دن غزالی صاحب منبر سے کافی دور تھے لیکن کھڑے ہوئے، آپ کے خاص انداز سے لگ رہا تھا کہ صدر صاحب کے ارشادات آپ کی طبیعت پر بے حد گراں گزر رہے ہیں۔ اس دن خطبہ اتنا لمبا ہوگیا کہ بنو امیہ کے گورنروں کے خطبے یاد آئے۔ اس دن کی اذیت سب کو یاد ہوگی، خطبے کی طوالت نے لوگوں کو جمعہ پڑھے بغیر فیصل مسجد کے ہال سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

درویش صاحب کے اگلے خطبے پر غزالی صاحب اگلی صفوں تک پہنچ چکے تھے، اس دن انھوں نے خطبے کو طول دینے کے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد کی تعریفیں بھی شروع کیں۔ غزالی صاحب اپنے مخصوص انداز میں پھر کھڑے ہوگئے، صدر صاحب منبر سے اترے تو ہنگامہ ہوگیا، کافی وقت بعد جماعت کھڑی ہوئی۔ بعد میں تفصیلی روداد آئی تو پتا چلا کہ صدر صاحب کو غزالی صاحب نے ڈانٹ پلائی اور کہا کہ یہ سعودیہ نہیں کہ منبر پر ملوک کی قصیدیں پڑھی جائیں، دوبارہ منبر پر چڑھ کر اپنے الفاظ واپس لے لیں، درویش صاحب کی آواز بلند ہوئی تو غزالی صاحب نے مزید ڈانٹ پلا کر کہا: “اسکت”، اتنے میں درویش صاحب کے غلمان بھی پہنچ گئے اور غزالی صاحب کو ایک طرف کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک کو زوردار دھکا بھی دے مارا۔

یہ کام اس بندے نے سرانجام دیا جنھوں نے یونی ورسٹی میں پروفیسر امریٹس بننا تھا۔

شخصی تواضع کے بارے میں بھی کئی ایک واقعات ہیں، جب غازی صاحب وفاقی وزیر تھے، وزرا اور کئی اعلی مناصب پر فائز لوگوں کا گھر پر آنا جاتا رہتا تھا، غزالی صاحب ان کے ڈائیورز اور گاڈز کے ساتھ زمین پر چھٹائی بچھا کر محفل سجھاتے تھے۔

ایک بار استاد محترم ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے آفس میں جمعے سے قبل ایک یاد گار ملاقات ہوئی تھی۔ مشتاق صاحب کسی میٹنگ کےلیے باہر چلے گئے، ہم کچھ دوست ایک گھنٹے تک آپ کے ساتھ بیٹھے رہے بہت بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے، غازی صاحب کے کئی واقعات سنائے۔ سامنے الماری میں ایک کتاب پڑی تھی، کہا کہ ہمارے بھائی جان (غازی صاحب) کی انتظامی صلاحیتوں کو دیکھیے ناں ایسے نالائق آدمی سے بھی کتاب تیار کرائی ہے۔

دو برس قبل آپ کے صاحبزادے برادرم حمزہ غزالی کے ذریعے آپ سے وقت لیا، ملاقات کےلیے گھر گیا، اس ملاقات کا بنیادی غرض ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سیریز کو مزید بہتر انداز میں چھاپنے کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کرنا تھیں، پہلی فرصت میں ان کی تخریج کا مرحلہ تھا انھوں نے اتفاق کرلیا، میں نے کہا کہ آغاز “محاضرات فقہ” سے کریں گے، جس کی تخریج کےلیے مشتاق صاحب نے حامی بھری ہے۔ باقی کتب کےلیے بھی کچھ دوستوں نے رابطہ کیا ہے۔ اس سے بہت خوش ہوئے۔

ایک بار علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کا خطبہ تھا، غزالی صاحب بھی مدعو تھے، پروگرام کے اختتام پر شرکا میں یادگاری شیلڈز پیش کی جا رہی تھیں، جس پر غزالی صاحب نے کہا کہ اس سے بہتر ہے قلم دیے جائیں۔

گزشتہ دسمبر میں مشتاق صاحب کی معیت میں عشاء کے بعد ملاقات کےلیے جا رہے تھے، مشتاق صاحب نے جیب میں قلم رکھا اور کہا کہ غزالی صاحب پھر پوچھتے ہیں۔ جب پہنچے تو چند لمحوں کے بعد انھوں نے سب سے پہلے قلم پیش کیا، جیب میں جو قلم رکھا تھا وہ مجھے دیا۔

رات دیر تک بیٹھے رہے، آخر میں عربی کے کلاسیکی اشعار اپنے خاص آہنگ کے ساتھ پڑھتے رہے، عربی جیسے آپ کی مادری زبان ہو۔ اپنی دو کتب کا تحفہ عنایت کیا، جس میں ایک کتاب قرآنی میں بلاغت اور معانی سے متعلق تھی، کہا کہ اس کو تنقیدی نظر سے دیکھ کر مجھے تبصرہ بھیجیے اس کے بعد بھی اس تبصرے کا پوچھتے رہے۔

اب ہم کہاں اور یہ موضوع کہاں لیکن اس انداز میں یہ بات پنہاں تھی کہ انھیں علم کا کوئی زعم نہیں ورنہ ہم جیسے طفل مکتب سے کبھی یہ نہ کہتے۔

اسی سے متصل مشتاق صاحب سے کہا کہ امام شیبانی کی “الجامع الصغیر” کا انگریزی ترجمے کا ارادہ کیا ہے، اس بہانے ہمارا بھی کچھ بھلا ہوجائے گا، ہمیں بھی کچھ فقہ سمجھنے کا موقع ملے گا۔

تواضع کی ایسی مثالیں اب کتابوں میں ملتی ہیں۔

ابھی ان کی تازہ کتاب “سوشیالوجی آف اسلام” گزشتہ برس ہندوستان سے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے شائع کی۔ اس کتاب کو شائع کرنے میں ہماری خاص دلچسپی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ ناشر سے اجازت لینی پڑے گی۔ اسی دوران انھوں نے اپنی ایک اور کتاب دی کہ فی الحال اس کو دیکھیں۔ کچھ ہفتوں کے بعد میسج کیا کہ ظفر الاسلام صاحب نے اجازت دے دی ہے۔ کتاب پر کچھ بنیادی کام کرکے مسودہ ان کو بھیج دیا لیکن کہا کہ آنکھ کا آپریشن کیا ہے اس لیے وہ مسودہ دیکھنے کے قابل نہیں۔ معلوم نہیں اب وہ انھوں نے دیکھا بھی ہوگا یا نہیں۔

مولانا مودودی اور ان کے بڑے بھائی مولانا ابو الخیر مودودی کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب دونوں کے مراسم تھے۔ میں نے مولانا کے ساتھ ملاقات کا پوچھا تو کہا کہ مولانا جب بھی اسلام آباد آتے تھے تو ہم ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ جس وقت کوثر نیازی صاحب جماعت اسلامی سے الگ ہوئے اس کے چند دن بعد مولانا اسلام آباد تشریف لے آئے تو محفل میں کوثر نیازی صاحب کا ذکر چلا کافی باتیں ہوئیں مولانا خاموشی سے سنتے رہے، جب گفتگو ختم ہوئی تو مولانا نے کسی سے کہا: “ذرا کلی کرا لیجیے، پانی دے دیں۔”

آپ کا جلال بہت نمایاں تھا اور ایک صاحب علم کو موجودہ دور میں ایسا ہونا چاہیے۔ ہم نے بڑوں بڑوں کو آپ کے سامنے لرزتے دیکھا ہے۔

عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۹ نومبر ۲۰۲۳ء کو العصر فاؤنڈیشن اور مکتبہ یاران کراچی کے زیر انتظام ’’عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر سیمینار سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مکتبہ یاران اور العصر فاؤنڈیشن کراچی کا شکر گزار ہوں کہ علماء کرام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے اہلِ علم کی اس متنوع مجلس اور گلدستہ میں مجھے بھی حاضری کا شرف بخشا، عروس البلاد کراچی کے حضرات سے ملاقات ہوئی اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے، اللہ رب العزت اس کاوش کو قبول فرمائیں، انتظام کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہم سب کی حاضری کو قبول کرتے ہوئے اسے دارین کی سعادتوں اور خیر کا ذریعہ بنائیں۔

مجھے گفتگو کا عنوان دیا گیا ہے ”عصر حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں“ ۔پہلی بات یہ ہے کہ عصر حاضر کیا ہے اور انسانی سوسائٹی کی تاریخ میں عصر حاضر کی مجموعی کیفیت کیا ہے؟ انسانی تاریخ اور سماج میں مختلف ادوار آئے ہیں جنہیں آپ بیسیوں مراحل میں ترتیب دے سکتے ہیں، اچھے ادوار بھی آئے ہیں اور اعمال کے اعتبار سے برے ادوار بھی آئے ہیں، اچھے لوگوں کی حکمرانی بھی قائم ہوئی ہے اور بروں کی بھی قائم ہوئی ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کی زندگی میں تنوع اور تغیر ہے ؏ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ تغیر انسانی سوسائٹی کا حصہ ہے جس میں صرف ارتقا نہیں ہوتا بلکہ تنزل بھی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمانہ کو پیدا کیا تھا اس دن کے بعد سے زمانہ اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے، اپنے آپ کو بدلتا رہتا ہے، اچھے ادوار بھی آتے ہیں اور برے ادوار بھی آتے ہیں۔

آج ہم آزمائش ،امتحان اور تنزل کے دور میں ہیں۔ اگرچہ انسان نے اسباب میں بہت ترقی کی ہےمگر میرا سوال ہوتا ہے کہ خود انسان نے کیا ترقی کی ہے؟ مثال کے طور پر میڈیکل سائنس میں ہم نے بہت ترقی کی، علاج اور تشخیص کے نئے نئے اسباب بنائے ہیں، لیکن اگر ایک جملے میں بات کی جائے تو یہ ہے کہ انسانی علم اور ساری صلاحیتیں مشینوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ آپ اسے ارتقا کہیں یا تنزل ۔ ایک زمانہ تھا کہ معالج نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری اور اس کے سبب کے ساتھ علاج بھی بتا دیتا تھا، بلکہ بعض معالجین چہرہ دیکھ کر بیماری سمجھ جاتے تھے۔ اب ڈگریاں ہمارے پاس ہیں لیکن چہرہ دیکھ کر اور نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہے، اور یہ صلاحیت آلات اور مشینوں میں منتقل ہو گئی ہے۔ انسان بحیثیت انسان کمزور ہوتا جا رہا ہے، اسباب اور مشینیں اس پر غالب آتی جا رہی ہیں، یہی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ میں اس کی ایک اور چھوٹی سی مثال دوں گا کہ ہم لڑکپن اور جوانی میں پیدل پانچ چھ میل چل لیا کرتے تھے۔ میں بہت دفعہ پہاڑی علاقوں میں کئی کئی پیدل میل چلا ہوں ،لیکن آج اس عمر کا نوجوان دو میل پیدل نہیں چل سکتا۔ جسمانی صلاحیتیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور اسباب کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے، آپ اس کو ترقی یا تنزل جو بھی تعبیر کر لیں۔

یہی صورتحال تہذیبی، دینی اور علمی اعتبار سے بھی ہے، لیکن میں اس کو یہیں چھوڑتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ہم بحیثیت مسلمان ، بحیثیت امتِ مسلمہ، اور اس حیثیت سے کہ نسل انسانی کی قیادت اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو عطا فرمائی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر‘‘ قرآن کریم کے بقول انسانی معاشرے میں امتِ مسلمہ کی حیثیت قائد کی ہے ۔ اس وقت دنیا میں آٹھ ارب کے لگ بھگ انسان ہیں، ان میں مسلمان پونے دو ارب کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں، جو باقی چھ ارب انسان ہیں وہ کس کے رحم و کرم پر ہیں؟ ان تک قرآن مجید کی دعوت پہنچانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف کروانا، اور آخرت کا عقیدہ ان تک منتقل کرنا کس کا فریضہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانی سماج کی بہتری اور کامیابی کے لیے جو نظام دیا ہے، جو کتابوں میں بھی ہے اور جس کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے، اس نظام کو انسانی سماج میں دوبارہ عملی طور پر متعارف کرانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظام دیا کہ اس کے ذریعے تم دنیا میں بہتر زندگی گزار سکتے ہو، اور دنیا میں رہ کر عمل کر کے اس کا نمونہ دکھایا۔ اب اس نظام سے دنیا کو زبان کے ذریعے، قلم کاغذ کے ذریعے ، آج کی زبان میں سکرین کے ذریعے، اور عمل کے ساتھ متعارف کرانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

آج دنیا کو موجودہ نظام میں کیا چیلنجز درپیش ہیں، اس پر دو حوالے دوں گا۔ برطانیہ کے شاہ چارلس جنہوں نے طویل عرصہ شہزادہ رہ کر گزارا ہے، اپنے مزاج کے اعتبار سے لیکچرار اور دانشور ہیں، اگر کسی کو ذوق ہو تو چارلس کے لیکچرز ضرور دیکھیں۔ میں ان کے دو حوالے نقل کروں گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران شہزادہ چارلس نے کہا کہ دنیا کا موجودہ سسٹم ناکام ہو گیا ہے جو کہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہا ہے، لہٰذا ہمیں اس کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ اور کہا کہ میں اس کے لیے اہل دانش کو ایک مشورہ اور تجویز دوں گا کہ وہ متبادل کے طور پر اسلام کو اسٹڈی کریں۔ اور یہ ماضی کے حوالے سے نہیں بلکہ موجودہ سسٹم کی ناکامی کے تصور کے ساتھ اس کے متبادل کے طور پر۔ اور انہوں نے کہا کہ میں اسکالرز سے یہ کہوں گا کہ اسلام کو اسٹڈی کرتے ہوئے تین باتیں ذہن میں رکھیں: پہلی یہ کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں جو بتا رکھا ہے کہ اسلام ایسا ہے اور مسلمان ایسے ہیں، یہ بھول جائیں۔ دوسری یہ کہ اس وقت مسلمان جیسے نظر آ رہے ہیں اس کو بھی نظر انداز کر دیں۔ تیسری یہ کہ اسلام کو اوریجنل سورسز یعنی اصل مآخذ سے اسٹڈی کریں ۔ اگر آپ یہ تین باتیں سامنے رکھ کر اسلام کو اسٹڈی کریں گے تو میرا وجدان کہتا ہے کہ مستقبل کے لیے متبادل نظام ہمارے پاس اسلام کے سوا کوئی نہیں ہے۔

نیویارک میں پولیوشن پر ایک کانفرنس تھی۔ ماحولیاتی آلودگی آج کا بڑا مسئلہ ہے۔ شہزادہ چارلس نے کہا کہ میری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ پولیوشن کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہمیں وہ سماجی اصول اختیار کرنا ہوں گے جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں کہ سماج کیا ہے ، سماج کے اصول، تقاضے اور ضروریات کیا ہیں،اور وہ تقاضے کیسے حل ہوں گے۔

دنیا کے کرنٹ ایشوز میں ماحولیات اور معیشت سرفہرست ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے کیسے چھٹکارا ملے گا اور معیشت کیسے توازن پر آئے گی ۔ شہزادہ چارلس تو بادشاہت کی دنیا کا آدمی ہے، میں مذہبی دنیا کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ اس وقت پاپائے روم پوپ فرانسس ہیں، ان سے پہلے پوپ بینی ڈکٹ تھے، مسیحی دنیا میں مذہبی طور پر سب سے بڑا پیشوا پاپائے روم ہوتے ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، جن دنوں معیشت میں بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں بیٹھ گئی تھیں ، بڑا بحران پیدا ہو گیا تھا اور بڑے بڑے جلوس ہو رہے تھے، اس وقت پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے ایک کمیٹی بنائی کہ معاشی بحران اور اَن بیلنسڈ سسٹم کے بارے میں ویٹی کن سٹی کو کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی وہ آن لائن موجود ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ معیشت ڈی ٹریک ہو گئی ہے، اس کو بیلنس اور ٹریک پر لانے کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ معیشت کے وہ اصول اختیار کیے جائیں جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں۔

میں علماء کرام سے یہ باتیں اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ اپنے ذہن کو وسیع کر کے اپنے ماحول سے اوپر اٹھ کر دنیا کا منظر دیکھیں کہ جتنا فضا میں زیادہ بلند ہو کر دیکھیں گے اتنا کھلا ماحول نظر آئے گا۔ اہل دانش کے مختلف لیولز ہیں، میں سب کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے ایک لیول کی بات کی ہے جو مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اس حوالے سے اسلام کو اسٹڈی کر رہے ہیں۔

ایک مشاہدہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ یونیورسٹیوں میں اسٹڈی گروپس بنے ہوتے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیز کے کام کے انداز کا آپ کو پتہ ہے کہ کیسے کام کرتی ہیں۔ آج سے دس سال پہلے امریکہ کی ہنٹنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پاکستان تشریف لائے، میرے پاس بھی آئے اور کہا کہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور میرا موضوع امام ابو منصور ماتریدیؒ ہیں۔ اہلِ سنت کے ہاں علمِ کلام کے دو بڑے امام ہیں ابوالحسن اشعریؒ اور ابو منصور ماتریدیؒ۔ معتزلہ کے مقابلے میں بنیادی کام ابو الحسن اشعریؒ کا ہے کہ ان کی عقلیات کا روایت کی دنیا میں امام احمد بن حنبلؒ اور درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے مقابلہ کیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کا موقف یہ تھا کہ قرآن کی آیت یا حدیث پیش کرو، ورنہ جتنا مارنا ہے مارو، میں نہیں مانوں گا، ان کی استقامت اور قربانی نے اہل سنت کے عقیدے کو استحکام بخشا، جبکہ درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے یہ کام کیا۔ اللہ کی قدرت کہ معتزلہ کے بانی واصل بن عطا حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد ہیں اور ابو الحسن اشعریؒ واصل بن عطا کے شاگرد ہیں ’’یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی‘‘ ۔ امریکی پروفیسر نے کہا کہ میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں وہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پوچھیں لیکن ایک شرط پر کہ میں بھی سوال کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ علمی میدان میں معتزلہ کا مقابلہ تو ابو الحسن اشعریؒ نے کیا تھا، لیکن حنفی لوگ ابو الحسن اشعریؒ کی بجائے ابو منصور ماتریدیؒ کو اپنا امام کہتے ہیں ، تو ان کا کنٹریبیوشن کیا ہے؟ میں نے کہا کہ واقعی معتزلہ کا مقابلہ ابو الحسن اشعریؒ نے کیا ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، لیکن جب آدمی مقابلہ کر رہا ہوتا ہے تو محاذ پر مناظر کو بہت سی باتیں گھڑنی پڑتی ہیں اور بعض باتیں اوور (Over) کرنی پڑتی ہیں تاکہ مقابل کا منہ بند ہو جائے۔

اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ چار تک بیویوں کی اجازت ہے اس سے زیادہ کی نہیں۔ جبکہ مستشرقین کا ہم پر یہ اعتراض چلا آ رہا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے بعد باقی سب سے چار سے زیادہ بیویاں چھڑوا دیں لیکن اپنے پاس نو تھیں ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا۔ یہ اعتراض آج بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۰ءکی بات ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہؒ جو ہمارے بڑے اہل علم میں سے تھے، انہوں نے کہیں لکھ دیا کہ حضورؐ نے بھی پانچ بیویاں چھوڑ دی تھیں اور چار باقی رکھی تھیں، اس طرح کہ پانچ کو ازواجِ شرف یعنی اعزازی رکھا تھا جبکہ حقیقی بیویاں چار ہی تھیں۔ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ نئی بات کیسے کہہ دی۔ ہم نے ڈاکٹر حمید اللہ سے رابطہ کیا کہ یہ آپ نے کیا کہا؟ ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ میں نے مستشرقین کو جواب دینے کے لیے یہ بات بنائی ہے۔ ہم نے کہا ڈاکٹر صاحب! اگر آپ کی اور ہماری بات ہو تو آپ چاہے دس باتیں گھڑیں مگر یہ تو رسول اللہ کی بات ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے رجوع کیا اور کہا کہ میں امت سے بھی اور اللہ سے بھی معافی مانگتا ہوں۔ اس طرح مناظر کو بہت سی باتیں اوور کرنی پڑتی ہیں ۔

میں نے امریکی پروفیسر سے کہا کہ ابو الحسن اشعریؒ کو معتزلہ کے مقابلے میں کچھ باتیں اوور کرنا پڑی تھیں، جنہیں بعد میں ابو منصور ماتریدیؒ نے آ کر بیلنس کیا تھا، اور یہی ان کا کنٹریبیوشن ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا کہ میں بات سمجھ گیا ہوں۔

اس کے بعد میں نے ان سے سوال کیا اور کہا کہ ہم ما تریدی ہیں، ہمارے سینکڑوں مدرسین اصولِ عقائد پڑھاتے ہیں، لیکن ہم پڑھانے والوں میں سے نوے فیصد کو پتہ نہیں کہ ابو منصور ماتریدیؒ کون تھا؟ میں نے پوچھا کہ ہم عقائد پڑھانے والے حنفی مدرسین عام طور پر انہیں نہیں جانتے، تو تمہیں کس نے بتایا ہے کہ دنیا میں ماتریدیؒ بھی ایک آدمی تھا اور تمہیں اس کی قبر پر کون لے گیا ہے؟ تو اس نے پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کہا کہ ہم کچھ یونیورسٹیوں کے اہل دانش پروفیسرز کا گروپ ہے، پندرہ بیس سال سے ہماری ریسرچ جاری ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک تو سوسائٹی میں مذہب واپس آرہا ہے، اور دوسری بات یہ طے ہے کہ مذہب وہی واپس آئے گا جو واقعتاً‌ مذہب ہوگا۔ مذہب ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس مذہب کے پاس اپنی وحی اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات اصل حالت میں موجود ہوں، اور یہ بھی طے ہے کہ ایسا مذہب اسلام ہی ہے۔ یہ دو باتیں ہم ذہن میں طے کر کے اس پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی مختلف ادوار کی شخصیات میں سے ہماری ضروریات کون پوری کرتا ہے۔ ہم مغرب کے لوگ ہیں، ہمارا اپنا مزاج اور اپنی نفسیات ہیں۔ اس پر ہم نے پندرہ بیس شخصیات اسٹڈی کی ہیں جن میں غزالیؒ، ابن رشدؒ، ابن سینا اور ابن عبد السلامؒ وغیرہ شامل ہیں۔

میں نے پوچھا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم تین باتیں دیکھ رہے ہیں: روایت، درایت اور وجدانیات۔ (۱) روایت یعنی قرآن و حدیث (۲) درایت یعنی تفقہ، استنباط اور تعقل (۳) وجدانیات یعنی قلبی کیفیات، تصوف و سلوک۔ ہم ایسی شخصیت تلاش کر رہے ہیں جس میں یہ تینوں چیزیں موجود ہوں، وہ روایت میں بھی پکا ہو، درایت میں بھی مضبوط ہو، اور وجدانیات اور قلبی کیفیات میں بھی تجربہ رکھتا ہو۔انہوں نے بتایا کہ ہم پندرہ بیس شخصیات پر ریسرچ کر چکے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اب تک کہاں پہنچے ہیں؟ اس نے کہا، ہم سمجھے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں بہت سی مسلم شخصیات میں موجود ہیں، اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ روایت، درایت اور وجدانیات کا توازن کس شخصیت میں ہے۔ کیونکہ نسخے کے اجزا میں توازن بھی ضروری ہوتا ہے، اگر بیلنس بدل جائے تو نسخہ بدل جاتا ہے۔ اس پر ہم نے دو شخصیات کو فوکس کیا ہے، ایک پر میں اسٹڈی کر رہا ہوں یعنی ابو منصور ماتریدیؒ، اور دوسری شخصیت شاہ ولی اللہؒ کی ہے جس پر میرا ایک اور ساتھی اسٹڈی کر رہا ہے۔

میں نے ذکر کیا ہے کہ آج کی انسانی دنیا کو درپیش مسائل، یعنی عصر حاضر کے چیلنجز انسانی سماج کے دائرے میں، اس پر کہاں بات ہو رہی ہے اور کس سطح پر بات ہو رہی ہے؟ میں نے علماء کرام کے سامنے موجودہ چیلنجز میں سے ایک چیلنج پر آج کا ماحول عرض کیا ہے، یہ دعوت دینے کے لیے کہ صرف ایک دائرے میں نہ دیکھیں بلکہ غور و فکر کے بہت سے دائرے اور لیولز ہیں۔ یہ میں نے امت مسلمہ کی معروضی صورتحال عرض کی ہے، معیشت اور ماحولیات کے حوالے سے، اور پھر روایت، درایت اور وجدانیات کے توازن کے بارے میں کچھ حوالے دیے ہیں۔ اس کو یہیں سمیٹتے ہوئے اب یہ عرض کروں گا کہ بطور عالم ہماری حیثیت کیا ہے؟

جب پاکستان بنا تھا تو ہمارا بنیادی ویژن یہ تھا کہ ہم ایک ریاست قائم کریں گے جس میں اسلام کی حکمرانی کا نظم قائم کریں گے ، انسانی سماج قائم کرنے کی ترتیب بنائیں گے، اور دنیا کے سامنے اس کو نمونے کے طور پر پیش کریں گے۔ آپ قائد اعظم مرحوم کی تقریریں پڑھیں، ان میں یہ ویژن دیا گیا ہے کہ ہم اسلامی ریاست قائم کر کے قرآن و سنت کی عملداری قائم کریں گے، اسلامی سماج کی تشکیل کی کوشش کریں گے اور اسے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کریں گے۔ ہمارا یہ ویژن ریکارڈ پر موجود ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ ہوا کہ یہ سارے کام جو اسٹیبلشمنٹ نے کرنے تھے وہ سب کچھ نظرانداز کر دیا، ہم نے ریاست کا نظامِ تعلیم اور سسٹم وہی رہنے دیا اور اس کے ذمے کام سارا یہ ڈال دیا ۔ حالانکہ نوآبادیاتی دور کی اسٹیبلشمنٹ کی تربیت کا دائرہ اور تھا۔ گویا ہم مونجی والی مشین سے گندم کا کام لے رہے ہیں۔ میں نے وفاقی شرعی عدالت کے ایک جسٹس صاحب مرحوم سے نجی مجلس میں سوال کیا کہ دنیا میں کوئی اور ملک بھی ایسا ہے جس کے دستور میں طے کیا گیا ہو کہ ملک کا قانون یہ ہوگا، لیکن اس کے ایجوکیشن سسٹم میں وہ قانون نہ پڑھایا جاتا ہو؟ دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے؟ انہوں نے جواب گول مول کر دیا۔

ملک کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ ملک کا قانون قرآن اور سنت کے مطابق ہوگا، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا، اور قرآن و سنت کی عملداری لازم ہوگی۔ لیکن ملک کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت نہیں ہے۔ قانون بنانا مقننہ کی ذمہ داری ہے، قانون کے مطابق فیصلے کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ مقننہ، عدلیہ،انتظامیہ، تینوں کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت کا قانون کہیں نہیں پڑھایا جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ جو قانون پڑھانا لازمی نہیں ہے وہ نافذ کیسے ہوگا؟

ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ ملک میں جو کام بھی نہ ہو رہا ہو وہ علماء کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ ہمارے سابق گورنر پنجاب ایک جنرل صاحب تھے، وہ ایک دفعہ جامعہ اشرفیہ لاہور تشریف لائے اور علماء کرام سے خطاب فرمایا ۔ یہ ہمارے افسران کا مزاج ہے کہ جب سامنے علماء بیٹھے ہوں تو لمبی تقریر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کیا کر رہے ہیں؟ ملک میں انجینئر ضرورت کے مطابق نہیں ہیں، ڈاکٹروں کی کمی ہے، سائنس دانوں کی کمی ہے اور ملک ترقی نہیں کر رہا۔ میں نے اس پر کالم میں لکھا کہ جنرل صاحب! بات یہ ہے کہ آپ کے سوال ٹھیک ہیں لیکن جگہ غلط ہے۔ یہ نہر سے اِس پار کے نہیں اُس پار کے سوال ہیں۔ ایک طرف جامعہ اشرفیہ ہے، درمیان میں نہر ہے، اور دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ کام جن کے ذمے لگائے تھے ان سے جا کر پوچھیں۔ انجینئر نہیں مل رہے تو انجینئرنگ یونیورسٹی سے پوچھیں، اگر وکیل نہیں مل رہے تو لاء کالج میں جا کر پوچھیں، اگر ڈاکٹر نہیں مل رہے تو میڈیکل یونیورسٹی سے پوچھیں۔ ہاں اگر امام نہیں مل رہے تو ہم سے پوچھیں۔

۱۸۵۷ء کے بعد مسجد اور مدرسے کی ضرورت کے افراد تیار کرنے سے یعنی حافظ، امام، خطیب، قاری، مولوی اور مفتی بنانے کی ذمہ داری سے اس وقت کے ایجوکیشن سسٹم نے انکار کر دیا تھا، تو وہ خلا ہم نے پر کیا۔ ہم نے کہا تھا کہ مسجد اور مدرسہ آباد رہیں گے، اس لیے اگر آپ کو امام نہیں ملتے تو ہم سے بات کریں، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مسجدیں کم ہیں اور امام زیادہ ہیں۔ اگر پاکستان میں کہیں تراویح پڑھانے کے لیے حافظ نہیں ملتا، اگر جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب نہیں مل رہا ، قرآن مجید یاد کرانے کے لیے قاری نہیں مل رہا، اور فتویٰ دینے کے لیے مفتی نہیں مل رہا، تو ہم سے پوچھیں۔ لیکن اگر آپ کو ڈاکٹر اور انجینئر نہیں مل رہے تو یہ سوال جامعہ اشرفیہ میں کرنے کا نہیں ہے بلکہ پنجاب یونیورسٹی سے کرنے کا ہے۔

جو بات میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قوم کو تو ہر میدان میں افراد کی ضرورت ہے، اگر وہ پورے نہیں کریں گے تو قوم ہم سے مانگے گی۔ آج یہ مسئلہ درپیش ہے کہ معیشت اور تجارت کی دنیا میں اہلِ علم کی ضرورت ہے جبکہ اسلامی ماہرین کی ضرورت پوری کرنا اصلاً ریاستی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے جو اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن الحمد للہ ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ جو ضرورت کہیں پوری نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب آپ یہ ضرورت پوری کریں، اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم ہماری کارکردگی پر مطمئن ہے، اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ علماء اسے پورا کر لیں گے۔ ملک کے کسی بھی شعبے میں ملک کے دستور کے مطابق دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افراد فراہم کرنا اصلاً‌ ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ قوم ہم سے توقع کر رہی ہے تو ہمیں اپنی صف بندی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے کام کرنے سے معیشت کو اسلامی ماہرین ملتے ہیں تو ہمیں اسے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اپنی اصل ذمہ داری کو چھیڑے بغیر، دینی ضروریات، مسجد اور مدرسے کی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو فاضل کمائی ہے اس کی پلاننگ کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے جو ادارے کام کر رہے ہیں، جیسا کہ العصر فاؤنڈیشن، مکتبہ یاران، مختلف بڑے بڑے مدارس اور بہت سے ادارے کر رہے ہیں ، ایسے فورمز دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ہم کسی حد تک کام کر رہے ہیں۔ ہم ضرورت پوری نہیں کر سکتے لیکن کچھ نہ کچھ کرتے رہیں تاکہ رجحان باقی رہے، اور ہم آج کی دنیا کو اپنے ماضی سے وابستہ رکھنے کی کوئی کھڑکی کھلی رکھیں تاکہ مستقبل کو ہمارے بارے میں شکایت نہ ہو کہ جو کچھ تم کر سکتے تھے تم نے وہ نہیں کیا۔

میں نے اس نشست میں متفرق باتیں کیں اور عرض کیا کہ ہمیں آج کی ضروریات کو سمجھنا چاہیے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ ہمیں تخصص فی الافتاء میں بنیادی اصول پڑھایا جاتا ہے ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ ہمیں اپنے اہل زمانہ کو سمجھنا چاہیے، ان پر نظر رکھنی چاہیے، اور عصر حاضر کی ضروریات سمجھتے ہوئے انہیں پورا کرنے کے لیے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

’’حرمتِ مسجدِ اقصیٰ اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘: تین اہم سوالات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۶ دسمبر ۲۰۲۳ء بروز بدھ کو مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیراہتمام اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ’’حرمتِ مسجدِ اقصٰی اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان پر قومی سیمینار سے خطاب کا خلاصہ)


 بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں اس اجتماع میں ایک کارکن کے طور پر اپنا نام شمار کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حاضری قبول فرمائیں۔ میں بس دو تین سوالات عرض کرنا چاہوں گا، باقی قائدین جو خطاب فرمائیں گے وہ ہمارا ایجنڈا ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ اور اس پر عمل کیا جائے گا۔

 پہلا سوال ہمارے پاکستان کے حکمرانوں سے ہے کہ اسرائیل جب بنا تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ جبکہ آج ہم دو ریاستی حل کی بات پاکستان کی طرف سے کر رہے ہیں۔ میرا اسٹیبلشمنٹ سے سوال ہے کہ جناب! یہ موقف میں تبدیلی کب آئی ہے اور کس نے کی ہے؟ کل ہی ’’دو ریاستی حل‘‘ کا بیان آیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے موقف میں یہ تبدیلی کب آئی ہے، وہ اتھارٹی کون سی ہے جس نے قائد اعظم کے موقف کو مسترد کر کے دو ریاستی حل کی بات پیش کی ہے؟

  میرا دوسرا سوال عالمی اسٹیبلشمنٹ سے اور دو ریاستی حل پیش کرنے والوں سے ہے کہ جناب! آپ نے ۱۹۴۷ء میں دو ریاستی منصوبہ بنایا تھا اور اب تک اس کو عملی صورت میں نہیں لا سکے، بلکہ آپ ۷۵ سال سے ڈیڑھ ریاستی فارمولے کو فلسطین پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل مکمل ریاست ہے اور دوسری طرف فلسطین کو نارمل خودمختار ریاست بننے نہیں دیا جا رہا۔ اسرائیل کو آپ سپورٹ کر رہے ہیں، اسباب اور وسائل مہیا کر رہے ہیں، قوت مہیا کر رہے ہیں، اس کے پیچھے کھڑے ہیں، امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت۔ اسرائیل تو ایک مکمل طاقتور ریاست کے طور پر کھڑا ہے، جبکہ فلسطین جس کو ’’ریاست‘‘ کہتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی اور اسے ایک نارمل خودمختار ریاست آپ خود نہیں بننے دے رہے۔ یہ ڈیڑھ ریاستی فارمولا کہاں سے آیا ہے اور یہ ۷۵ سال سے کیوں مسلط ہے؟ یہ میرا ان سے سوال ہے کہ ایک بات کرو کہ یا ڈیڑھ ریاست کی بات کرو، یا دو ریاستوں کی بات کرو، یہ تضاد اور منافقت ختم کرو۔

  جبکہ تیسری بات کہ ایک اسٹیک ہولڈرز تو ریاستی ہیں، اور ایک اسٹیک ہولڈرز عوامی ہیں۔ ہمارے سماج اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب، حضرت مولانا ساجد میر صاحب ہیں، اور جناب سراج الحق صاحب ہیں۔ یہ ہمارے قائدین ہیں، ان سے میرا سوال ہے کہ ہمیں صرف کبھی کبھی اکٹھے نہیں ہونا چاہیے بلکہ قومی و ملی مسائل پر اکٹھے رہنا چاہیے، حالات ہم سے اکٹھے ہونے کا نہیں بلکہ اکٹھے رہنے کا تقاضہ کر رہے ہیں اور آنے والے انتخابات کا تو سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں صحیح رخ پہ چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔


مسئلہ فلسطین کے تاریخی مراحل

الجزیرہ

1917 — برطانوی اعلانِ بالفور

100 سال سے زیادہ پہلے، 2 نومبر 1917 کو، برطانیہ کے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ، آرتھر بالفور نے، برطانوی یہودی کمیونٹی کے ایک اہم شخصیت، لیونل والٹر روتھسچلڈ کو ایک خط لکھا تھا۔ خط مختصر تھا - صرف 67 الفاظ - لیکن اس کے مندرجات نے فلسطین پر ایک زلزلہ کا اثر ڈالا جو آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ اس نے برطانوی حکومت کو  ①فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی گھر کے قیام ② اور اس مقصد کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کا عہد کیا۔ اس خط کو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایک یورپی طاقت نے صیہونی تحریک کو ایک ایسے ملک کا وعدہ کیا جہاں فلسطینی عرب باشندے 90 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں۔

ایک برطانوی مینڈیٹ 1923 میں بنایا گیا اور یہ 1948 تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران، برطانویوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کیلئے امیگریشن کی سہولت فراہم کی – بہت سے نئے باشندے یورپ میں نازی ازم سے بھاگ رہے تھے – اور انہیں احتجاج اور ہڑتالوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ فلسطینی اپنے ملک کی بدلتی ہوئی آبادی اور ان کی زمینوں کو یہودی آباد کاروں کے حوالے کرنے کے لیے برطانوی قبضے سے پریشان تھے۔

1930 کی دہائی — فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری

بڑھتی ہوئی کشیدگی بالآخر عرب بغاوت کا باعث بنی، جو 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔  اپریل 1936 میں، نو تشکیل شدہ عرب قومی کمیٹی نے فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ برطانوی استعمار اور بڑھتی ہوئی یہودی امیگریشن کے خلاف احتجاج کے لیے عام ہڑتال کریں، ٹیکس کی ادائیگیاں روک دیں اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ چھ ماہ کی ہڑتال کو برطانویوں نے وحشیانہ طور پر دبایا، جنہوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاری کی مہم شروع کی اور  گھروں کو مسمار کیا، ایک ایسا عمل جسے اسرائیل آج بھی فلسطینیوں کے خلاف نافذ کر رہا ہے۔ بغاوت کا دوسرا مرحلہ 1937 کے آخر میں شروع ہوا اور اس کی قیادت فلسطینی کسان مزاحمتی تحریک نے کی، جس نے برطانوی افواج اور استعمار کو نشانہ بنایا۔ 1939 کے دوسرے نصف تک، برطانیہ نے فلسطین میں 30,000 فوجی جمع کر لیے تھے۔ دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی، کرفیو نافذ کیا گیا، گھروں کو مسمار کر دیا گیا، اور انتظامی حراستیں اور سرسری سماعتوں کے بعد موت کی سزائیں عام ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانویوں نے یہودی آباد کار برادری کے ساتھ تعاون کیا اور مسلح گروپس بنائے اور یہودی جنگجوؤں کی ایک برطانوی زیر قیادت "انسداد بغاوت فورس" کو خصوصی نائٹ اسکواڈز کا نام دیا۔ یشوف (اسرائیلی ریاست سے پہلے کی آبادکار برادری) میں ہتھیاروں کو خفیہ طور پر درآمد کیا گیا اور ہتھیاروں کی فیکٹریاں قائم کی گئیں تاکہ یہودی نیم فوجی دستہ ’’ہاگناہ‘‘ کو وسعت دے، جو بعد میں اسرائیلی فوج کا مرکز بن گئی۔ ان تین سال کی بغاوت میں 5000 فلسطینی مارے گئے، 15000 سے 20000 زخمی ہوئے اور 5600 قید ہوئے۔

1947 — اقوام متحدہ کا تقسیمِ فلسطین کا منصوبہ

1947 تک، یہودی آبادی فلسطین کے 33 فیصد تک پہنچ چکی تھی، لیکن ان کے پاس صرف 6 فیصد زمین تھی۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا کیونکہ اس قرارداد نے فلسطین کا تقریباً 55 فیصد حصہ یہودی ریاست کو دیا تھا، جس میں زیادہ تر زرخیز ساحلی علاقہ بھی شامل تھا۔ حالانکہ اس وقت فلسطینیوں کے پاس تاریخی فلسطین کا 94 فیصد حصہ تھا اور وہ اس کی آبادی کا 67 فیصد تھے۔

1948 — نکبہ ( فلسطین کی نسلی صفائی)

14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی، صہیونی نیم فوجی دستے پہلے ہی سے فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر رہے تھے تاکہ صہیونی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دی جا سکے۔ اپریل 1948 میں یروشلم کے نواح میں واقع گاؤں دیر یاسین میں 100 سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچے مارے گئے۔ اس نے بقیہ آپریشنوں کے لیے راستہ ہموار کیا، اور 1947 سے 1949 تک، 500 سے زیادہ فلسطینی دیہات، قصبے اور شہر تباہ کیے گئے جس کو فلسطینی عربی میں نکبہ، یا "تباہ" کہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 15000 فلسطینی مارے گئے جن میں درجنوں قتل عام بھی شامل ہیں۔ صہیونی تحریک نے تاریخی فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ بقیہ 22 فیصد کو ان حصوں میں تقسیم کیا گیا جو اب مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ کی پٹی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 750,000 فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ آج ان کی اولادیں پورے فلسطین اور لبنان، شام، اردن اور مصر کے پڑوسی ممالک میں 58 غیر محفوظ کیمپوں میں ساٹھ لاکھ پناہ گزینوں کے طور پر مقیم ہیں۔

15 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنے قیام کا اعلان کیا۔  اگلے دن، پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی اور جنگ جنوری 1949 میں اسرائیل اور مصر، لبنان، اردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کے بعد ختم ہوئی۔ دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کم از کم 150,000 فلسطینی اسرائیل کی نئی بننے والی ریاست میں رہے اور تقریباً 20 سال تک سخت کنٹرول والے فوجی قبضے میں رہے، اس سے پہلے کہ انہیں بالآخر اسرائیلی شہریت دی گئی۔ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور 1950 میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنی انتظامی حکمرانی شروع کر دی۔ 1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کا قیام عمل میں آیا اور ایک سال بعد الفتح سیاسی جماعت قائم ہوئی۔

1967 —  نکسا (چھ روزہ جنگ اور یہودی بستیاں)

5 جون 1967 کو اسرائیل نے عرب فوجوں کے اتحاد کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی تاریخی فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ کچھ فلسطینیوں کے لیے، اس کی وجہ سے دوسری زبردستی نقل مکانی ہوئی، یا نکسا، جس کا عربی میں مطلب ہے "جھٹکا"۔ دسمبر 1967 میں، مارکسسٹ-لیننسٹ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کا قیام عمل میں آیا۔ اگلی دہائی کے دوران، بائیں بازو کے گروہوں کے حملوں اور طیاروں کے اغوا کے سلسلے نے دنیا کی توجہ فلسطینیوں کی حالت زار کی طرف مبذول کرائی۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ یہودی آباد کاروں کیلئے اسرائیلی شہری ہونے کے تمام حقوق اور مراعات کے ساتھ ایک دو سطح کا نظام بنایا گیا تھا۔ جب کہ فلسطینیوں کو فوجی قبضے کے تحت رہنا پڑتا تھا جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا تھا اور کسی بھی قسم کے سیاسی یا شہری اظہار پر پابندی عائد کرتا تھا۔

1987 تا 1993 — پہلا انتفاضہ

پہلی فلسطینی تحریک دسمبر 1987 میں غزہ کی پٹی میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک اسرائیلی ٹرک فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں سے ٹکرایا جس میں چار فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ نوجوان فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کے ساتھ احتجاج تیزی سے مغربی کنارے تک پھیل گیا۔ اس کے نتیجے میں حماس تحریک کا قیام بھی عمل میں آیا، جو اخوان المسلمون کی ایک شاخ تھی جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت میں مصروف تھی۔ اس وقت کے وزیر دفاع یتزاک رابن کی طرف سے "ہڈیوں کو توڑ دو" کی پالیسی کے ذریعے اسرائیلی فوج کے بھاری ہاتھ سے جوابی کارروائی کی گئی تھی۔ اس میں سرسری سماعت کے بعد سزائے موت، یونیورسٹیوں کی بندش، کارکنوں کی ملک بدری اور گھروں کو تباہ کرنا شامل تھا۔ تحریک بنیادی طور پر نوجوانوں کی طرف سے شروع کی گئی تھی اور اس کی رہنمائی بغاوت کی متحدہ قومی قیادت نے کی تھی، جو کہ اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے اور فلسطین کی آزادی کے قیام کے لیے پرعزم فلسطینی سیاسی دھڑوں کا اتحاد ہے۔

1988 میں عرب لیگ نے PLO کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا۔ جدوجہد کی خصوصیات عوامی تحریکوں، بڑے پیمانے پر مظاہروں، سول نافرمانی، منظم ہڑتالوں اور فرقہ وارانہ تعاون پر مشتمل تھی۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B’Tselem کے مطابق تحریک کے دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 1070 فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 237 بچے بھی شامل تھے۔ 175,000 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ تحریک نے عالمی برادری کو تنازع کا حل تلاش کرنے پر بھی آمادہ کیا۔

1993 — اوسلو معاہدہ اور فلسطینی اتھارٹی

پہلی تحریک 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کی تشکیل کے ساتھ ختم ہوئی۔ ایک عبوری حکومت جسے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی جیبوں میں محدود خود مختاری دی گئی تھی۔ PLO نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کیا اور مؤثر طریقے سے معاہدوں پر دستخط کیے جس کے تحت اسرائیل کو مغربی کنارے کے 60 فیصد اور علاقے کے زیادہ تر زمینی اور آبی وسائل کا کنٹرول مل گیا۔ فلسطین اتھارٹی کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک آزاد ریاست چلانے والی پہلی منتخب فلسطینی حکومت کے لیے راستہ بنانا تھا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ فلسطین اتھارٹی کے ناقدین اسے اسرائیلی قبضے کے ایک بدعنوان ذیلی ٹھیکیدار کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسرائیل کے خلاف اختلاف رائے اور سیاسی سرگرمی کو روکنے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کرتا ہے۔ 1995 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے گرد ایک الیکٹرانک باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی، جس سے تقسیم شدہ فلسطینی علاقوں کے درمیان تعامل ختم ہو گیا۔

2000 —  دوسرا انتفاضہ

دوسرا انتفاضہ 28 ستمبر 2000 کو اس وقت شروع ہوا جب لیکود کے اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے یروشلم کے پرانے شہر اور اس کے ارد گرد ہزاروں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے احاطے کا ایک اشتعال انگیز دورہ کیا۔ دو روز کے دوران فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں پانچ فلسطینی ہلاک اور 200 زخمی ہو گئے۔ اس واقعے نے بڑے پیمانے پر مسلح بغاوت کو جنم دیا۔ تحریک کے دوران اسرائیل نے فلسطینی معیشت اور انفراسٹرکچر کو بے مثال نقصان پہنچایا۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور علیحدگی کی دیوار کی تعمیر شروع کر دی جس نے بڑے پیمانے پر بستیوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے معاش اور معاشروں کو تباہ کر دیا۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت آبادکاری غیر قانونی ہے، لیکن گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں یہودی آباد کار چوری شدہ فلسطینی زمین پر بنائی گئی کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے کیونکہ صرف آبادکاروں کے لیے سڑکیں اور انفراسٹرکچر مقبوضہ مغربی کنارے کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے، جس سے فلسطینی شہروں اور قصبوں کو بنتوستانوں (جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں) میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جو کہ سیاہ فام جنوبی افریقیوں کے لیے الگ تھلگ انکلیو ہیں جنہیں ملک کی سابق نسل پرستی کی حکومت نے بنایا تھا۔

جس وقت اوسلو معاہدوں پر دستخط ہوئے، صرف 110,000 یہودی آباد کار مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں مقیم تھے۔ آج یہ تعداد 700,000 سے زیادہ ہے جو فلسطینیوں سے چھین لی گئی 100,000 ہیکٹر (390 مربع میل) سے زیادہ اراضی پر رہتے ہیں۔

2005  — غزہ کی آزادی اور ناکہ بندی

پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کا 2004 میں انتقال ہوا، اور ایک سال بعد، دوسری تحریک ختم ہوا، غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بستیوں کو ختم کر دیا گیا، اور اسرائیلی فوجی اور 9,000 آباد کار غزہ سے نکل گئے۔ ایک سال بعد، فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ حماس نے اکثریت حاصل کر لی۔ تاہم، فتح اور حماس کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی، جو مہینوں تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے۔ حماس نے فتح کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کر دیا، اور فلسطینی اتھارٹی کی مرکزی جماعت الفتح نے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول شروع کر دیا۔ جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر "دہشت گردی" کا الزام لگاتے ہوئے غزہ کی پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔

مصر سے متصل غزہ کی پٹی پر حملے

اسرائیل نے غزہ پر چار طویل فوجی حملے شروع کیے ہیں: 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں۔ ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں، اور دسیوں ہزار گھر، سکول اور دفتری عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تعمیر نوِ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ محاصرہ تعمیراتی سامان جیسے سٹیل اور سیمنٹ وغیرہ کو غزہ پہنچنے سے روکتا ہے۔ 2008 کے حملے میں فاسفورس گیس جیسے بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال شامل تھا۔ 2014 میں 50 دنوں کے دوران اسرائیل نے 2,100 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا جن میں 1,462 شہری اور 500 کے قریب بچے شامل تھے۔  آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نام سے کیے جانے والے اس حملے کے دوران تقریباً 11,000 فلسطینی زخمی ہوئے، 20,000 گھر تباہ اور 5  لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

https://www.aljazeera.com/news/2023/10/9/whats-the-israel-palestine-conflict-about-a-simple-guide

"مسئلہ فلسطین " کی تقریب رونمائی

مولانا محمد اسامہ قاسم

مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے حوالے سے معروضی صورتحال  اور امت مسلمہ کے موقف و جذبات سے نئی نسل کی آگاہی کے لئے مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب کے مقالات بیانات اور تحاریر کے مجموعے کو ہمارے برادر مکرم حافظ خرم شہزاد نے مرتب کیا جسے مولانا عبد القیوم حقانی صاحب نے اپنے ادارے سے شائع کرایا۔

اسلامک رائٹرز موومنٹ گوجرانوالہ کے زیر اہتمام 10 دسمبر بروز اتوار خلافت راشدہ اسٹڈی سینٹر میں مسلئہ فلسطین کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس میں خصوصی مہمانوں میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی ، خانوادہ امیر شریعت کے چشم و چراغ مولانا سید عطا اللہ شاہ ثالث ، مولانا ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی ، پروفیسر میاں انعام الرحمن ، مولانا امیر حمزہ ، حافظ خرم شہزاد، مولانا فضل الہادی اور مولانا امجد محمود معاویہ، حاجی بابر رضوان باجوہ، پیر سمیع الحق، سید حفیظ الرحمٰن شاہ، پیر احسان اللہ قاسمی، شکور عالم رانجھا، مولانا نصرالدین خان عمر، مولانا شمس الحق دیروی، مولانا محمد خبیب عامر، مولانا عمر شکیل، حافظ عبدالجبار کے علاوہ گوجرانوالہ شہر کے اکثر دینی جماعتوں کے نمائندے اور مدارس کے اساتذہ اور طلبا بھی تقریب میں شریک ہوئے۔

مہمان مقررین نے کتاب کی اشاعت پر مولانا زاہدالراشدی کو مبارکباد پیش کی، مقررین نے جن امور پر گفتگو کی درج ذیل ہیں۔

بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ حماس مجاہدین کی قربانیوں اور ہزاروں فلسطینیوں کی حالیہ شہادتوں کے باعث ایک بار پھر متنازعہ عالمی مسائل میں سرفہرست ہے، جس پر پوری نسلِ انسانی بالخصوص ملتِ اسلامیہ اور عرب دنیا کی ترجیحی بنیادوں پر سنجیدہ اور فوری توجہ ضروری ہے، اور یہ عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور مسلّمہ انسانی حقوق کی پاسداری کا بھی تقاضا ہے۔

بیت المقدس اور فلسطین پر صہیونیوں کا ناجائز قبضہ ایک عرصہ سے عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور اقوامِ عالم متعدد بار اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق اور بیت المقدس پر فلسطینیوں کے استحقاق کی حمایت کر چکی ہے لیکن اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی کے باعث عالمی رائے عامہ کی پرواہ کیے بغیر جارحیت اور اشتعال انگیزی کی راہ پر گامزن ہے۔ عراق کی ایٹمی تنصیبات پر شرمناک حملہ، لبنان میں مسلح مداخلت اور دنیا میں کسی بھی مسلمان ملک کی ایٹمی تنصیبات کو برداشت نہ کرنے کی دھمکیوں کے بعد مسجدِ اقصیٰ میں مظلوم مسلمانوں پر وحشیانہ حملہ یہ سب کچھ اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیز کاروائیوں کا ایک حصہ ہے اور مسلسل ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے۔

اس صورتحال میں عالم اسلام کے تمام طبقات بالخصوص مسلم حکومتوں سے ہماری گزارش ہے کہ اس معاملہ میں دینی حمیت اور ملی غیرت کے جذبہ و احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں، جس کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بلا کر فلسطینی عوام کی حمایت و پشت پناہی کے ساتھ ساتھ ان کی امداد کی حکمت عملی طے کی جائے۔

اقوام متحدہ میں مسلم ممالک خصوصاً‌ پاکستان، سعودی عرب، مصر اور ترکیہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی رائے عامہ کو اسرائیلی مظالم کے خلاف منظم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اور عالمی ماحول میں بیت المقدس کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کے لیے منظم اور مربوط لائحہ عمل ترتیب دیں۔

دنیا بھر میں مسلم ادارے، جماعتیں اور طبقات فلسطینیوں کی حمایت میں عوامی اجتماعات اور مظاہروں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں اور مسلم رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی مہم جاری رکھیں۔

غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن امداد و تعاون کے لیے مخیر شخصیات اور ادارے آگے بڑھیں اور قابل اعتماد ذرائع سے خوراک، علاج اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی بروقت اور مناسب فراہمی کی جدوجہد کریں۔

اکثر مسلم ممالک اور وہاں کی عوام نے جس طرح اس مسئلہ پر لبیک کہتے ہوئے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے وہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ دنیائے اسلام بیت المقدس اور فلسطین کے قضیہ کو پورے عالم اسلام کا مسئلہ سمجھتی ہے اور اس کے حل کے لیے ہر نوع کی قربانی کے لیے تیار ہے۔ ہم عالمِ اسلام کی سطح پر اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کے اس پرجوش اظہار  پر دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کو حقیقی اتحاد و استحکام کی منزل سے ہمکنار فرمائیں تاکہ اقوامِ عالم کی برادری میں ملتِ اسلامیہ اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے، آمین یا الٰہ العالمین۔

’’مسئلہ فلسطین‘‘

ادارہ

تالیف: علامہ زاہد الراشدی

مرتب: مولانا حافظ خرم شہزاد

ضخامت: ۲۲۱ صفحات

ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، نوشہرہ


ارضِ فلسطین انبیائے کرام علیہم السلام کا وطن ہے، بیت المقدس کی سرزمین ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت سے ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے والد آذر کے ساتھ آخری مکالمہ کے بعد اہلیہ محترمہ حضرت سارہؓ اور بھتیجے حضرت لوطؑ کے ساتھ بابل سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تھی اور اس سرزمین کو اپنا  مسکن بنا لیا۔ اس کے بعد یہ خطہ اہم دینی، سیاسی، تہذیبی واقعات اور تاریخی تبدیلیوں کا مرکز چلا آ رہا ہے۔

اس پر گفتگو کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کے ماضی کی تاریخ کو سامنے لایا جائے جو سینکڑوں کتابوں میں بکھری ہوئی ہے، اور یہ خطہ اہلِ علم و دانش کی گفتگو اور تحریروں کا محور و مرکز ہے۔ اس وقت یہ سرزمین اسرائیل اور یہود کے زیرتسلط ہے اور اب تک وہاں ہزاروں مظلوم مسلمان جامِ شہادت نوش کر گئے ہیں اور سینکڑوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر اب تک سینکڑوں مضامین و مقالات مختلف زبانوں میں لکھے جا چکے ہیں اور تاہنوز اس پر خامہ فرسائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلہ کی ایک حسین کڑی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کاوش بھی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب ’’مسئلہ فلسطین‘‘ میں حضرت علامہ صاحب نے مسئلہ فلسطین کا پس منظر، بیت المقدس اور مسلم حکمران، تاریخِ یہود اور اسرائیل، مسئلہ فلسطین اور مغرب، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث جیسے اہم موضوعات پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ اس اہم نظریاتی اور فکری مسئلہ کے جملہ متعلقات پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کے متنوع مضامین اور بیانات نہ صرف تاریخ کا حصہ ہے بلکہ امتِ مسلمہ میں فکری و نظریاتی بیداری کی لہر اور امید کی کرن بھی ہے۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب کے یہ مضامین و بیانات نوجوانانِ ملت اور مسلم حکمرانوں کی رہنمائی کا ذریعہ ہیں جسے حافظ خرم شہزاد صاحب اور حافظ کامران حیدر صاحب نے استاد مکرم حضرت مولانا عبد القیوم حقانی مدظلہ کی تحریک و ایماء پر کمال مہارت، سلیقے سے خوبصورت انداز میں مرتب کیا۔ یہ کاوش اپنے موضوع پر ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس سے خواص اور عام الناس یکساں طور پر مستفید ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیل سے حقیقی آزادی کا وسیلہ ثابت فرمائے۔

(ماہنامہ الحق، اکوڑہ خٹک — دسمبر ۲۰۲۳ء)