نومبر و دسمبر ۲۰۰۹ء

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جواباتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اسلامی یونیورسٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی؟محمد مشتاق احمد 
آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورتڈاکٹر عبد القدیر خان 
جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار ۔ چند غلط فہمیاںمحمد عمار خان ناصر 
موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاجمولانا مفتی محمد زاہد 
معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفساراتمحمد زاہد صدیق مغل 
حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباقمولانا محمد وارث مظہری 
مولانا فضل محمد کے جواب میںحافظ محمد زبیر 
مکاتیبادارہ 
’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘ادارہ 
امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائیادارہ 
الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثراتادارہ 
’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینارادارہ 
انا للہ وانا الیہ راجعونادارہ 
تعارف و تبصرہادارہ 

مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان ۔ ایک سوالنامہ کے جوابات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۱۔ پاکستان میں موجودہ کشمکش کے بارے میں اور خاص طورپر طالبان کی قسم کے گروہوں کے سامنے آنے سے جو صورت حال پیدا ہوئی ہے، اس کے اسباب کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ اس میں پاکستانی ریاست، ایجنسیوں اور امریکا کا کیا کردار ہے؟
جواب : پاکستان کی موجودہ کشمکش کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اس فکری اور نظریاتی پس منظر کوسامنے رکھا جائے جس میںیہ کشمکش اس مقام تک پہنچی ہے۔ یہ فکری اور نظریاتی کشمکش قیام پاکستان کے بعد فوراً ہی شروع ہوگئی تھی کہ پاکستان کے معاشرتی ڈھانچے اور دستوری وقانونی نظام کی بنیا د کیاہو گی؟ وہ عناصر جنھوں نے برصغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے داخلے کے وقت سے ہی اس خطے پر برطانوی راج کی مزاحمت کاآغاز کر د یاتھا اور مختلف اوقات، مراحل اور علاقوں میں سراج الدولہ ؒ سے لے کر شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ کی تحریک ریشمی رومال تک مسلح مزاحمت اور اس کے بعد سے ۱۹۴۷ء تک عدم تشدد پرمبنی جدوجہد کے ذریعے برطانوی تسلط سے وطن عزیز کی آزادی کے لیے متحرک کردار ادا کیاتھا، ان کا مقصد اور ایجنڈا یہ تھا کہ مسلمانوں کے لیے اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس نئی ریاست میں معاشرتی ڈھانچے کی تشکیل اسلامی شریعت اور احکام وقوانین کی بنیاد پر ہو اور پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ملک کے طور پر دنیامیں اپنا کردار ادا کرے۔ 
سراج الدولہؒ ، ٹیپو سلطانؒ ، شاہ عبدالعزیزؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ، حاجی شریعت اللہؒ ، سرداراحمد خان کھرلؒ ، تیتو میرؒ ، فقیر ایپی ؒ ، حاجی صاحب ترنگزئیؒ اور ۱۸۵۷ء کے ہزاروں مجاہدین سمیت ان گروہوں میں سے جس گروہ کو جہاں موقع ملا، اس نے اپنے زیر تسلط علاقے میں اسلامی شریعت کا اجرا ونفاذ کرکے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے کے مقصد کو واضح کیا حتی کہ برصغیر کے بڑے علاقے میں مسلح جدوجہد ترک کر کے جب پرامن اور عدم تشدد پر مبنی تحریک آزادی کو آگے بڑھایا گیا تو بھی مقصد آزادی یہی قرار پایا کہ برطانوی تسلط سے نجات پانے کے بعد مسلم معاشرہ میں اسلامی شریعت کے اجرا ونفاذ کا اہتمام کیا جائے گا۔ چنانچہ مسلم لیگ کا دو قومی نظریہ، مولانا محمدعلی جوہر کی تحریک خلافت اور مجلس احرار اسلام کی حکومت الٰہیہ اسی جذبہ اور نظریہ کی ترجمان اورعکاس تھی۔ 
دوسری طرف وہ عناصر اور طبقات جنھوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سو سالہ اور باقاعدہ برطانوی راج کے نوے سالہ دور میں ایک نو آبادیاتی نظام کے کل پرزوں کا کردار ادا کیا تھا اور اپنے فکر ومزاج کو اسی کے مطابق ڈال کر اپنا مستقبل اس کے ساتھ وابستہ کر لیا تھا، پاکستان کے معاشرتی اور سیاسی ڈھانچے میں کوئی نظریاتی اور تہذیبی انقلاب ان کے مزاج اور مفادات کے خلاف تھا، اس لیے انھوں نے نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے اور اپنا تمام وزن اس کے پلڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا اور اب تک وہ ایسا ہی کر رہے ہیں۔
ان عناصر وطبقات کو تین معاملات میں برتری حاصل رہی ہے:
  • برطانوی دور میں سیاسی، انتظامی اورمعاشی نظم ونسق ان کے ہاتھ میں تھا جو آزادی اور قیام پاکستان کے بعد بھی انھی کے ہاتھ میں رہا۔
  • بین الاقوامی رجحانات بالخصوص نئی عالمی استعماری قوتوں کی پشت پناہی بھی انھیں حاصل چلی آ رہی ہے، اس لیے کہ جن قوتوں نے خلافت عثمانیہ کو ختم کرا کے اس کے مرکز ترکی کو سیکولر جمہوریہ بنانے میں کامیابی حاصل کر لی تھی، انھیں اسلام کے نام پر ایک نئے ملک کا قیام اور ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل کسی طرح گوارا نہیں تھی جبکہ سرمایہ دارانہ بلاک اور سوشلسٹ بلاک کے درمیان جاری عالمی سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی ضرورت یہ تھی کہ سوویت یونین کے خلاف مسلمانوں کے مذہبی رجحانات بالخصوص ان کے جذبہ جہاد سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس لیے مغربی بلاک نے یہ حکمت عملی طے کی مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے تو سوویت یونین کے خلاف فائدہ اٹھایا جائے، لیکن ان کے نفاذ شریعت کے پروگرام کو کسی جگہ بھی کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ سرمایہ دارانہ بلاک کی یہ حکمت عملی پاکستان کے ان داخلی عناصر وطبقات کی پشت پناہ بنگئی جو اس ملک میں نو آبادیاتی نظام کے تسلسل کو باقی رکھنے میں اپنی عافیت محسوس کر رہے ہیں۔
  • ملک کے تعلیمی نظام پر بھی انھی کا کنٹرول تھا، اس لیے اس بات کا بطور خاص اہتمام کیا گیا کہ ریاستی تعلیمی اداروں میں ایسے رجال کار اور افراد تیار نہ ہونے پائیں جو نوآبادیاتی نظام میں کسی قسم کی تبدیلی اور اسلامی شریعت کے احکام وقوانین کے نفاذ واجرا کا ذریعہ بن سکیں۔
اس تناظرمیں وہ عناصر وطبقات جو برطانوی تسلط سے آزادی کا اصل مقصد نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ اور اسلامی احکام وقوانین کے اجرا ونفاذ کو قرار دیے ہوئے تھے، انھوں نے پرامن سیاسی، جمہوری اور دستوری جدوجہد کے ذریعے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد کی منظوری سے لے کر ۱۹۷۳ء کے دستور میں ملک کو اسلامی ریاست قرار دلوانے اور ملک کے تمام قوانین کو قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کی ضمانت حاصل کرنے تک تمام مراحل پرامن سیاسی اور دستوری جدوجہد کے ذریعے طے کیے۔ انھیں دو سو سالہ تحریک آزادی کے شاندار پس منظر کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کی اسلام کے ساتھ جذباتی وابستگی اور نفاذ اسلام کے لیے دینی قوتوں کے متحرک کردار کی پشت پناہی حاصل تھی اور ملک کی رائے عامہ ان کے ساتھ تھی، اس لیے وہ تمام تر رکاوٹوں کے باوجود مسلسل پیش رفت کرتے رہے۔
اس دوران ایک اوراہم واقعے نے نفاذ شریعت کے حوالے سے حکمران طبقات سے عوام کی مایوسی میں اضافہ کیا۔ وہ یہ کہ بہاول پور، سوات، قلات، خیرپور اور دیگر ایسی ریاستوں میں جہاں برطانوی استعمار کے تسلط کے دوران بھی عدالتی سطح پر شرعی قوانین کی عمل داری موجود تھی، پاکستان کے ساتھ ان کے الحاق کے ساتھ ہی ان میں شرعی قوانین کا نظام ختم کر دیا گیا جس نے عوام اور دینی حلقوں میں اس سوچ کو پختہ کر دیا کہ آزادی کے مقصد کے حصول، نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ اور اسلامی شریعت کی عمل داری کے لیے جو کچھ کرنا ہے، خود انھی کو کرنا ہے اور ملک کی رولنگ کلاس سے اس کے لیے کسی حمایت یا سہولت کی توقع عبث ہے۔ 
اس پس منظر میں جب افغانستان میں سوویت یونین کی باقاعدہ افواج کی آمد کے بعد وہاں جہاد کے عنوان سے قومی خود مختاری اور آزادی کی جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے دینی حلقوں اور عوام کا اس طرف متوجہ ہوناایک فطری امر تھا۔ جہاد افغانستان میں افغان عوام کا ایجنڈا یہ تھا کہ وہ سوویت یونین کے تسلط سے آزادی حاصل کرناچاہتے تھے جب کہ پاکستان کے دین کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھنے والوں کا ایجنڈا یہ تھاکہ وہ اپنے افغان بھائیوں کی مدد کے ساتھ ساتھ یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ سوویت یونین کی فوجوں کی واپسی کے بعد جب افغانستان میں اسلامی شریعت کی عمل داری قائم ہو گی تو اس سے پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کرنے والوں کو بھی تقویت ملے گی اورا ن کے لیے اپنے مقصد اورمنزل کی طرف پیش رفت آسان ہو جائے گی۔ سوویت یونین کی شکست اورعالمی سرد جنگ میں سرمایہ دارانہ بلاک کی کامیابی کی حد تک یہ ایجنڈا عالم اسلام کے بیشتر ممالک اور مغربی استعماری قوتوں کے مفاد میں بھی تھا، اس لیے انھوں نے افغان جہاد کو مکمل طور پر سپورٹ کیا، لیکن یہ طے کر کے کیا کہ سوویت یونین کے خلاف مسلمانوں کے جذبہ جہاد سے تو پوری طرح فائد ہ اٹھایا جائے مگرا س کے نتیجے میں شریعت کے نفاذ کے ایجنڈے کو افغانستان میں بھی پوری قوت کے ساتھ روک دیا جائے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا اور جونہی جہاد افغانستان نے روسی فوجوں کی افغا نستان سے واپسی اور عالمی سطح پر سوویت بلاک کے بکھر جانے کا ہدف حاصل کر لیا، مجاہدین کے بارے میں سر مایہ دارانہ بلاک کا طرز عمل تبدیل ہو گیا۔ افغانستان میں مجاہدین کی مستحکم حکومت بنوانے کی بجائے ان کے مختلف گروپوں کو باہمی خانہ جنگی کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا بلکہ اس خانہ جنگی کی حوصلہ افزائی کر کے مجاہدین کو بتدریج کمزور کرتے چلے جانے کی حکمت عملی طے کر لی گئی جس کے نتیجے میں تاریخ انسانی کا یہ اندوہناک المیہ سامنے آیا کہ جن ممالک اور قوتوں نے جہاد افغانستان کے ثمرات دونوں ہاتھوں سے سمیٹے، انھوں نے جنگ لڑنے اور قربانیاں دینے والے مجاہدین کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ 
جہاد افغانستان کے نتیجے میں 
  • عالمی سطح پر سوویت یونین کے مقابلے میں سرمایہ دارانہ بلاک کو فتح حاصل ہوئی، 
  • مشرقی یورپ کی ریاستیں آزاد ہوئیں،
  • بالٹیک ریاستوں نے کسی جدوجہد کے بغیر آزادی کی منزل حاصل کر لی، 
  • وسطی ایشیا کی ریاستوں نے خود مختاری حاصل کی،
  • دیوار برلن ٹوٹی اور جرمنی ایک بار پھر متحد ہو گیا،
  • پاکستان نے بلوچستان کے ساحلوں تک سوویت یونین کی رسائی کے خوف سے نجات پائی، 
مگران سب نے جہاد افغانستان کے ثمرات سے اپنی اپنی جھولیاں بھرنے کے بعد مجاہدین کو تنہا چھوڑ دیا۔ جہاد افغانستان سے بیرونی قوتوں نے اپنے اپنے مقاصد حاصل کر لیے، لیکن جنگ لڑنے اور اس میں لاکھوں جانوں کی قربانی دینے والوں کا اپنا مقصد کہ افغانستان ایک اسلامی ریاست بنے اورا س میں شریعت اسلامی کا نفاذ ہو، ادھورا رہ گیا۔ 
مجاہدین کے مختلف گروپوں کو اکٹھا بٹھانا، ان کا کوئی مشترکہ ایجنڈا طے کرنا اور ان کے مستقبل کی حدود اور دائرۂ کار کا تعین کرنا جہاد افغانستان میں ان کو سپورٹ کرنے والوں اور ان کو قربانیوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی ذمہ داری تھی، لیکن جب سب نے اپنا اپنا حصہ وصول کر کے گھروں کی راہ لی اور مجاہدین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا تو ظاہر ہے کہ اب مجاہدین کے مختلف گروپوں نے اپنا اپنا ایجنڈا خود ہی طے کرنا تھاجو انھوں نے کیا اور اسی کے تلخ نتائج نہ صرف جنوبی ایشیا کے پورے خطے کو بلکہ مجاہدین سے لاتعلقی اختیار کرنے والوں کو بھی بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ 
طالبان کے مختلف گروہوں نے اسی صورت حال کی کوکھ سے جنم لیا ہے اور اس پس منظر سے آنکھیں بند کرتے ہوئے ان کے کردار اور نفسیات کو سمجھنا ممکن ہی نہیں ہے۔ جہا د افغانستان میں حصہ لینے والے مجاہدین کو تین حصوں میں تقسیم کر کے ان کے کردار کا الگ الگ تجزیہ کرنا بھی موجودہ صورت حال کے صحیح ادراک کے لیے ضروری ہے۔ 
جنگ میں حصہ لینے والے مجاہدین کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے ان باشندوں پر مشتمل ہے جنھوں نے سوویت یونین کے فوجی تسلط سے آزادی اور اپنے ملک کے اسلامی نظریاتی تشخص کی بحالی کے لیے جنگ لڑی۔ انھوں نے جب دیکھا کہ جہاد افغانستان کے نتیجے میں سوویت فوجوں کی واپسی اور مجاہدین کی حکومت قائم ہو جانے کے باوجود جہاد کے اصل مقصد یعنی نفاذ شریعت کی طرف کوئی موثر پیش رفت نہیں ہو رہی بلکہ بدامنی، افراتفری، لاقانونیت اور خانہ جنگی بڑھتی جا رہی ہے تو وہ طالبان کی صورت میں سامنے آئے اور ملک کے ایک بڑے حصے میں پانچ سال تک پرامن حکومت قائم کر کے جہاد افغانستان کے منطقی ہدف کو دنیاکے سامنے واضح کر دیا اور اب وہ امریکی اتحاد کی فوجوں کے خلاف اسی طرح جنگ لڑ رہے ہیں جیسے انھوں نے سوویت یونین کی فوجوں کے خلاف لڑی تھی اور وہ اسے بھی آزادی اور خود مختاری کی جنگ سمجھتے ہیں۔ 
جہاد افغانستان میں شامل مجاہدین کا دوسرا بڑا حصہ ان ہزاروں پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو سوویت فوجوں کی واپسی کے بعد وطن واپس آئے۔ ان کے مستقبل کے بارے میں ان کی راہنمائی اور ان کے جذبات وتجربات کو صحیح رخ پر لگانے کے لیے منصوبہ بندی پاکستان کے قومی حلقوں کی ذمہ داری تھی، مگرایسا نہیں ہوا۔ شاید کچھ ذمہ دار حلقوں نے انھیں اس لیے کھلا چھوڑ دیا ہو کہ ان سے کشمیر میں اسی طرح فائدہ اٹھایا جا سکے گا جس طرح افغانستان میں ان سے فائدہ اٹھایا گیا تھا، مگر غالباً عالمی قوتوں نے ایسا نہیں ہونے دیا جس کے نتیجے میں مجاہدین کے ان گروپوں نے بھی اپنا اپنا ایجنڈا خود طے کیا اور اپنے اپنے ذہنی رجحانات کے مطابق میدان کار منتخب کر لیا۔ بہت سے افراد کی صلاحیتیں فرقہ وارانہ کشمکش کو بڑھانے میں استعمال ہوئیں جب کہ بہت سے گروہوں نے پاکستان کو افغانستان پر قیاس کرتے ہوئے نفاذ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کر لیااور ملک کی رولنگ کلاس کا طرزعمل اس مسلح جدوجہد کے لیے بتدریج راستہ ہموار کرتاچلا گیا۔ 
مثلاً سوات میں نفاذ شریعت کے لیے جب جدوجہد شروع ہوئی تو طالبان کا کہیں بھی کوئی وجود نہیں تھا اور اس تحریک کا پس منظر صرف اتنا تھا کہ سوات کے عوام مطالبہ کر رہے تھے کہ انھیں ان کے ریاستی دور کا وہ عدالتی نظام واپس کر دیا جائے جو نہ صرف برطانوی دور میں بلکہ ۱۹۶۹ء تک پاکستان کے دورمیں بھی رائج رہا ہے۔ ان کے خیال میں شرعی قوانین پر مبنی وہ عدالتی نظام انھیں سستا اور فوری انصاف مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے عقیدہ ومذہب سے بھی مطابقت رکھتا ہے، اس لیے وہی ان کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ ان کایہ موقف قبول کر لیا گیا اور ایک آرڈیننس کے ذریعے انہیں یہ نظام مہیا کرنے کا اعلان کر دیا گیا، لیکن وہ آرڈیننس محض الفاظ کا ہیر پھیر تھا جس کی حقیقت واضح ہونے کے بعد عوام کے جذبات میں شدت پیدا ہوئی اور رفتہ رفتہ موجودہ حالات تک بات جا پہنچی۔ اس قسم کے ماحول میں جہاد افغانستان میں حصہ لینے والے پاکستانی مجاہدین کے بعض گروہوں نے نفاذ اسلام کے لیے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا جس کی ملک کے سنجیدہ دینی حلقوں نے کبھی حمایت نہیں کی اور خود ہم بھی اس طریق کارکو کھلے بندوں غلط قرار دینے والوں میں شامل ہیں، لیکن اس کے پس منظر اور اسباب وعوامل کو نظر انداز کر دینا بھی ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ 
جہاد افغانستان میں شامل مجاہدین کا تیسرا حصہ دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے ان ہزاروں افراد پر مشتمل تھا جنھوں نے سوویت افواج کے خلاف جنگ میں عملاً حصہ لیا، مگراس جنگ کے خاتمہ کے بعد اپنے اپنے ملک میں واپس جانے میں ان کے تحفظات تھے اور انھیں خدشہ تھا کہ وطن واپسی کی صورت میں ان کی جان اور آزادی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ان کے لیے پاکستان ہی پناہ گاہ ہو سکتاتھا چنانچہ انھوں نے یہاں رہ جانے کو ترجیح دی اور پاکستان میں آباد ہونے کے لیے مختلف صورتیں اختیار کیں۔ ان کا بڑا حصہ پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں آباد ہوا۔ ان کے بارے میں ایک مجموعی پالیسی طے کرنا اور انھیں منظم طریقے سے پاکستانی معاشرے میں ایڈجسٹ کرنا حکومت پاکستان کی ذمہ داری تھی جس کی طرف پوری توجہ نہیں دی گئی اور انھیں بھی اپنے اپنے جذبات اور صلاحیتوں کے اظہار کے لیے کھلا چھوڑ دیا گیا۔ مجاہدین کے اسی حصے میں سے القاعدہ وجود میں آئی جس نے مشرق وسطی میں ا مریکی فوجوں کی موجودگی کوبھی اسی نظر سے دیکھا جس نظر سے وہ افغانستان میں سوویت یونین کی موجودگی کو دیکھتے تھے اوران کے لیے اس صورتحال کو قبول کرنا مشکل تھا کہ اگر افغانستان میں سوویت یونین کی مسلح افواج کی موجودگی افغانستان کی قومی خود مختاری اور آزادی کے منافی تھی تو مشرق وسطی میں امریکی افواج کی موجودگی ان ممالک کی قومی خود مختاری کے لیے خطرہ کیوں نہیں ہے او را گر افغانستان سے سوویت فوجوں کی واپسی کی جنگ، آزادی کی جنگ اور جہاد تھی تو مشرق وسطی سے امریکی اتحاد کی فوجوں کی واپسی کی جنگ، آزادی کی جنگ اور جہاد کیوں نہیں ہے؟
ہمارے نزدیک افغانستان میں طالبان کا منظر عام پر آنا، پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے مسلح گروپوں کا متحرک ہونا اور مشرق وسطی میں القاعدہ کا وجود اور قوت حاصل کرنا جہاد افغانستان کی سپورٹر قوتوں کی اس غفلت، بے پروائی اور لاتعلقی کا منطقی نتیجہ تھا جو انھوں نے سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد جان بوجھ کر اختیار کرلی تھی، اس لیے اس صورت حال کا صرف مسلح گروپوں کا تنہا ذمہ دار قرار دینا زمینی حقائق اور انصاف کے تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ عام طور پر یہ سمجھاجاتا ہے کہ یہ صورت حال نائن الیون کے المناک سانحہ کے بعد نمودار ہوئی ہے، مگریہ بات درست نہیں ہے بلکہ خود نائن الیون کاحادثہ بھی انھی اسباب وعوامل کے باعث پیش آیا ہے۔ البتہ نائن الیون کے المناک سانحہ نے ان اسباب وعوامل کو مہمیز دی ہے اور ان کی قوت کار میں اضافہ کیا ہے جس کے بعد صورت حال تیزی کے ساتھ مزید بگڑتی چلی گئی ہے۔ 
نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی اتحاد کی فوجیں آئیں اور طالبان کی حکومت ختم ہوئی تو مجاہدین کے مختلف گروپوں میں اشتعال کا بڑھنا اور ان میں باہمی تعاون اورہم آہنگی کا فروغ بھی ایک فطری امرتھا جس کا سب سے زیادہ اثر پاکستان کی داخلی صورت حال پر پڑا اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ عالمی قوتوں اور پاکستان کی رولنگ کلاس نے مشترکہ طور پر اس مرحلے میں یہ حکمت عملی طے کر لی کہ مجاہدین کے مختلف گروپوں کی شدت اور اشتعال کوکم کرنے کی کوششوں کی بجائے علاج با لمثل کے طور پر اسے مزید بڑھانے کا ماحول پیدا کیا جائے اور وقفہ وقفہ سے مختلف علاقوں میں انھیں اشتعال دلا کر سامنے لایا جائے اور پھر اجتماعی کارروائی کے ساتھ انھیں کچل دیا جائے۔ سوات اور وزیرستان میں یہی کچھ ہوا ہے اور اب جنوبی پنجاب میں اسی قسم کی صورت حال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ہمارے خیال میں پاکستان میں شدت پسندی اور اس کے ذریعے مختلف طبقات کے درمیان کشمکش کا یہ ماحول اس پس منظر سے ہٹ کر بھی بعض عالمی اور علاقائی قوتوں کی ضرورت ہے جس کے لیے وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ یہ مسلح شدت پسندی اور دہشت گردی کراچی میں قومیت اور زبان کے حوالے سے اپناکام دکھا چکی ہے۔ بلوچستان میں یہی ایجنڈا قومیت کے نام سے پیش رفت کررہا ہے۔ سوات اور وزیرستان میں اس نے شریعت کے نفاذ کاعنوان اختیار کیا ہے۔ سنی او ر شیعہ مسلح تصادم کے پیچھے یہی بیرونی مفادات کار فرما ہیں اور اب دیوبندی بریلوی کشمکش کو فروغ دے کر پنجاب میں یہ صورت حال پیداکرنے کی کوشش میں بھی یہی عوامل متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ 
سوال نمبر ۲: ان انتہاپسندانہ تنظیموں کے وجود میں آنے میں مدارس کا کیا کردار ہے؟
جواب : انتہا پسندانہ جماعتوں کی تنظیم سازی اور ٹریننگ میں دینی مدارس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ مدارس قرآن وسنت کی تعلیم دیتے ہیں اور اسلامی عقائد کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت کے فروغ اور مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام وقوانین کے نفاذ کی تعلیم وترغیب دیتے ہیں اور چونکہ یہ مسلح تحریکیں اپنا مقصد اور ایجنڈا اسی کو بتاتی ہیں، اس لیے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ تنظیمیں مدارس کی وجہ سے وجود میں آئی ہیں۔ 
مذکورہ بالامقاصد کے لیے ملک میں جو جماعتیں اور افراد پرامن طور پر اور سیاسی وجمہوری جدوجہد کے ذریعے کام کر رہی ہیں، وہ بھی انھی دینی مدارس کے تعلیم یافتہ ہیں اور جو لاکھوں علماء کرام، مدرسین اور خطبا وائمہ ملک بھر میں انتہائی امن وسکون کے ساتھ اور پورے امن وسلامتی کے ماحول میں دینی خدمات کی انجام دہی میں مصروف ہیں، انھوں نے بھی انھی مدارس میں تعلیم پائی ہے۔ دینی مدارس سے تعلیم پانے والے وہ حضرات جونہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں پرامن طور پر تعلیمی اور دعوتی خدمات بجا لا رہے ہیں اور وہ حضرات جو مسلح جدوجہد کاراستہ اختیار کیے ہوئے ہیں، ان کے درمیان تناسب آٹے اور نمک کا بھی نہیں ہے، اس لیے یہ کہناکہ انتہا پسندانہ تنظیموں کے قیام میں دینی مدارس کا کوئی کردار ہے، قطعی طور پر درست بات نہیں ہے۔ بالخصوص مجاہدین کے گروپوں کی تنظیم سازی تو جہاد افغانستان کے دور میں آئی ایس آئی کے زیر سایہ ہوئی ہے اور اسی کا تسلسل اب بھی چلا آرہا ہے۔ پھر مجاہدین کی ٹریننگ بھی مدارس کے ماحول میں نہیں ہوئی بلکہ ان کی تنظیم سازی اور لانچنگ کی راہ ہموار کرنے والوں نے ہی ان کی ٹریننگ کے سارے مراحل طے کرائے ہیں۔ پھرایک اور پہلو پر غور کرنابھی ضروری ہے کہ عالمی سطح پر القاعدہ کے جس نیٹ ورک کو مبینہ دہشت گردی کی سب سے بڑی علامت قرار دیا جاتا ہے، اس کے بیشتر ارکان یونیورسٹیوں اور کالجوں کے تعلیم یافتہ ہیں، لیکن ان کی وجہ سے یونیورسٹیوں اور کالجوں کو انتہا پسندی کا سرچشمہ قرار نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح اگردینی مدارس کے تعلیم یافتہ حضرات کی کچھ تعداد اس عمل میں شریک ہے تو اس کی ذمہ داری دینی مدارس پر ڈال دینا بھی انصاف کی بات نہیں ہے۔ 
برصغیر میں دینی مدارس کے موجودہ آزادانہ نظام کا آغاز ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد ہوا تھا اور ان کی تاریخ کم وبیش ڈیڑھ سو سال پر محیط ہے، جب کہ موجودہ شدت پسندی کی تنظیموں کی عمرربع صدی کے لگ بھگ ہے، اس لیے بھی مدارس کے ڈیڑھ سو سالہ پرامن کردار کو نظر انداز کر کے انھیں شدت پسندی اور انتہا پسندی کے موجودہ گروپوں کی تنظیم وتشکیل کاذمہ دار قرار دینا درست نہیں ہے۔ 
سوال نمبر ۳: پاکستان کے بیشتر مدارس میں دوسرے مسلکوں اور مذاہب کو گوارا نہ کرنے کا جو سخت رویہ پایا جاتا ہے، اس کے بارے میں آپ کے احساسات کیا ہیں؟ یہ رویہ مدارس کے طلبہ کی ذہنیت کی تشکیل کس طرح کرتا اور دوسروں سے نفرت کی حوصلہ افزائی کیسے کرتا ہے؟ مزید یہ کہ اس سے دہشت گردی کیسے جنم لیتی ہے؟ اس سلسلے میں آپ کیا اصلاحات تجویز کریں گے؟
جواب: دینی مدارس کی بنیاد چونکہ مسلکی ترجیحات پر ہے، اس لیے دوسرے مسالک اورمذاہب کے بارے میں عدم برداشت کی فضا مدارس میں بہرحال موجود ہے جو کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے اوردینی قوتوں کی اجتماعیت کی راہ میں رکاوٹ ہے، لیکن کیا اس سے دہشت گردی نے جنم لیا ہے؟ یہ سوال توجہ طلب ہے، اس لیے کہ دینی مدارس میں سب سے زیادہ نفرت قادیانیوں کے خلاف پائی جاتی ہے، لیکن دینی مدارس کے اساتذہ وطلبہ نے ان کے خلاف کبھی مسلح جدوجہد نہیں کی بلکہ قادیانیوں کے خلاف نفرت کے اظہار اور حکومت سے ان کے بارے میں اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہمیشہ پرامن تحریک کا راستہ اختیار کیا ہے۔ اسی طرح دینی مدارس میں دیوبندی، بریلوی اختلافات اور حنفی اہل حدیث کشمکش بھی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے، لیکن اس نے کبھی مسلح تصادم کی شکل اختیار نہیں کی، اس لیے سنی اور شیعہ گروہوں کے درمیان مسلح ٹکراؤ یا اس طرح کی شدت پسندی کے دیگر مظاہر کی جڑیں دینی مدارس کی بجائے کہیں اور تلاش کرنا ہوں گی اور اس کے لیے دینی مدارس کو ذمہ دار قرار دینا حقیقت پسندانہ بات نہیں ہوگی۔ 
نیز یہ بھی ایک معروضی حقیقت ہے کہ دینی مدارس کے مختلف مکاتب فکر کے الگ الگ وفاقوں کے باہمی میل جول اور بہت سے امور میں مشترکہ پالیسیوں اور موقف کے اظہار کے بعد دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے مابین عدم برداشت کی شدت میں مسلسل کمی آرہی ہے اور دن بدن فضا پہلے سے بہتر ہو رہی ہے۔ متعدد دینی تحریکات میں مختلف مکاتب فکر کے طلبہ نے مشترکہ جدوجہد کی ہے، اس لیے مختلف مکاتب فکر کے دینی مدارس کے طلبہ اور اساتذہ کے درمیان باہمی عدم مفاہمت اورعدم تعاون کی وہ فضا اگر موجود ہے جسے عدم برداشت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جس میں بتدریج سست رفتار بہتری کے آثار سامنے آرہے ہیں، لیکن اسے دہشت گردی کا باعث قرار دینے کابہرحال کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں دینی مدارس کے وفاقوں کو اس سلسلے میں کردار ادا کرنا ہوگا کہ جس طرح وہ اعلیٰ سطح پر باہمی ملاقاتوں، مفاہمت اور تعاون کا اہتمام کرتے ہیں، اسی طرح مدارس کے اساتذہ اور طلبہ تک بھی اس کا دائرہ وسیع کریں۔ 
سوال نمبر ۴: مدارس کے طلبہ سمیت بہت سے مسلمان، مسلمانوں کو درپیش تمام مسائل کا ذمہ دار اغیار کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو قرار دیتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ طرز فکر داخلی سطح پر اپنا احتساب کرنے اور متنوع مشکلات میں خود اپنی کمزوریوں کا اعتراف کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے جس کی مسلمانوں کو شدید ضرورت ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ سوچ مسلمانوں کے لیے اپنے مسائل کا حل خود تلاش کرنے میں مانع بن رہی ہے؟
جواب: ہمارے خیال میں یہ تاثر درست نہیں ہے کہ دینی مدارس کے طلبہ اور بہت سے مسلمان خود کو درپیش تمام مسائل کا ذمہ دار اغیارکی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو قرار دیتے ہیں بلکہ دنیا بھر کی ہزاروں مساجد اور مدارس میں روزانہ یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ ہمارے مسائل اور مشکلات کی وجہ دینی تعلیمات سے دوری اور قرآن وسنت کے احکام پر عمل نہ کرنا ہے۔ ہر باشعور طالب علم اور دینی کارکن اپنی گفتگو کا آغاز اسی سے کرتاہے اور اسی وجہ سے دینی مدارس نے اپنے ذمے یہ بنیادی کردار لے رکھا ہے کہ معاشرہ میں دینی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور مسلمانوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات واحکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی جائے، البتہ مسلم معاشرہ میں عام مسلمانوں کی دینی تعلیمات سے دوری کے اسباب میں اغیار کی سازشوں کاذکر ضرور ہوتا ہے اور یہ بات غلط بھی نہیں ہے، اس لیے کہ مسلم ممالک پر استعماری تسلط کے دور میں ایسا پالیسی کے تحت کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات سے دور رکھا جائے اور بیشتر ممالک میں غیر ملکی استعمار کا تسلط ختم ہوجانے کے بعد اس کی جگہ لینے والی مسلمان حکومتوں نے بھی اس پالیسی کے تسلسل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے معاشی وسائل پر اغیار کے غاصبانہ قبضہ، مسلم ممالک کی معیشت پر عالمی اداروں کا کنٹرول، مسلم ممالک کے سیاسی معاملات میں عالمی قوتوں کی مسلسل مداخلت، مسلمانوں کی تہذیب وثقافت کی نفی کرتے ہوئے مسلم معاشروں میں مغربی تہذیب وثقافت کی جارحانہ یلغار اور مغر ب کے ایجنڈے سے انحراف کرنے والے مسلم ممالک پر مسلح جنگ مسلط کردینے کی کارروائیاں اب ایسی ڈھکی چھپی باتیں نہیں ہیں جن سے آنکھیں بند کی جا سکیں اور اگر اس فضا میں یہ کہا جاتا ہے کہ عالم اسلام کی موجودہ مشکلات ومسائل کے پیچھے عالمی استعمار کی سازشیں کا رفرما ہیں تو یہ کوئی خلاف حقیقت بات نہیں ہے۔ البتہ اغیار کی ان سازشوں اور مسلم ممالک پر عالمی استعمار کے ریموٹ کنٹرول نوآبادیاتی تسلط سے عالم اسلام کونجات دلانے کے لیے مسلم امہ کی قیادت کچھ نہیں کر پا رہی۔ یہ بات بہرحا ل افسوس ناک ہے۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ میں فکری بیداری کا ماحول پیدا کیا جائے، علم وآگہی کو فروغ دیا جائے، مرعوبیت کی فضا سے نکلنے کی کوشش کی جائے اور نئی نسل کو تعلیم وتربیت کے ساتھ ملی حمیت اور تدبر وحوصلہ کی صفات سے بہرہ ور کیا جائے۔ ہمارا ایمان ہے کہ ملت اسلامیہ آج بھی قرآن وسنت کی تعلیمات سے آگاہی حاصل کر کے ان پر عمل کا ماحول پیدا کر لے، حریت فکر اورملی حمیت کے جذبہ سے سرشار ہو جائے، اپنے وسائل اور صلاحیتوں سے از خود فائدہ اٹھانے کی تدبیر اختیار کرے اور دوست ودشمن کی حقیقت پسندانہ بنیاد پر پہچان کرنے کا حوصلہ کرلے تو وہ اپنے مسائل اور مشکلات کو خود حل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے تعلیم کے مسلسل فروغ اور فکری بیداری کی ضرورت ہے جس کے لیے دینی مدارس زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 
سوال نمبر ۵: آپ کی راے میں تمام غیر مسلموں کو اسلام کا دشمن قرار دینا کیسا ہے؟
جواب: تمام غیر مسلموں کو اسلام کا دشمن سمجھنا درست نہیں ہے اور نہ ہی سنجیدہ اہل علم ایسا سمجھتے ہیں۔ غیر مسلموں میں بہت تھوڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے عالمی سطح پر میڈیا اور لابنگ کے وسائل پر ایسے محدود لوگوں کا تسلط زیادہ ہے جس کی وجہ سے اس قسم کی عمومی فضا نظر آتی ہے، ورنہ مشرق ومغرب میں ہر جگہ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اسلام سے واقف ہونا چاہتی ہے، اسلام کو سمجھنا چاہتی ہے اور بہت سے اسلامی احکام وقوانین کے بارے میں اپنے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک وشبہات اور کنفیوژن کو دورکرنا چاہتی ہے اور ان سے بھی کہیں زیادہ تعداد دنیا میں ایسے غیر مسلموں کی ہے جو سرے سے اسلام اور اس کی تعلیمات سے بے خبر ہیں اور ان کواسلام کے پیغام اور تعلیمات سے باخبر کرنا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ 
سوال نمبر ۶: آپ کے خیال میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیاں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کا رویہ مسلمانوں کے ایک بنیادی فریضے یعنی دعوت پر کس طرح اثر انداز ہوا ہے؟
جواب: اسلام کے نام پر دہشت گردی کی کارروائیاں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کا رویہ مسلمانوں کے ایک بنیادی فریضے یعنی دعوت پر یقیناًاثر انداز ہوتا ہے، لیکن اس مسئلے کا صرف یہی ایک پہلو نہیں ہے۔ دوسرے پہلو بھی ساتھ ساتھ قابل توجہ ہیں۔ مثلاً دعوت مسلمانوں کے بنیادی دینی فرائض میں سے ہے اور اس کے مستقل تقاضے اور آداب ہیں جن کو ملحوظ رکھناضروری ہے، لیکن اسلام کے عقائد واحکام کا تحفظ ودفاع اور مسلمانوں کے دینی ماحول کو مغربی تہذیب وثقافت کی یلغار سے بچانا بھی مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے اور اس سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ دعوت وتبلیغ کے اپنے تقاضے ہیں اورتحفظ ودفاع کے الگ سے اپنے تقاضے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو دوسرے کی وجہ سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اصل بات تقسیم کارکی ہے۔ دونوں شعبے الگ الگ طرح کے رجال کار چاہتے ہیں۔ جیسے کسی بھی ملک کی وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کا ماحول الگ الگ ہوتا ہے، فوجی ہیڈ کوارٹر اور وزارت خارجہ کی زبان اور لہجہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ایک جنرل اور سفارت کار کے طرز گفتگو میں فرق نظر آتا ہے، اسی طرح یہاں بھی فرق ناگزیر ہے۔ البتہ باہمی ربط ومشاورت ضروری ہے اور دونوں کا ایک دوسرے کی ضروریات کو ملحوظ رکھنا مشترکہ مفاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
دفاع سے ہماری مراد متشددانہ کارروائیاں نہیں ہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف غیرمسلم قوتوں کے اقدامات اور کارروائیوں پر نظر رکھنا، ان کی نشاندہی کرنا، ان کے سدباب کے لیے ضروری اسباب فراہم کرنا اور متعلقہ افراد وطبقات کو اس طرف توجہ دلا کر مقابلہ کے لیے تیارکرنا ہے جو ظاہر ہے کہ صرف اس وجہ سے ترک نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے دعوت اسلام کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ دعوت کی راہ میں ہمارے نزدیک اصل رکاوٹ یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر مسلمانوں کے عمل کا ماحول کمزور ہے جس کی وجہ سے مسلمانوں سے غیرمسلموں کے متاثر ہونے کی وہ فضا دوبارہ نہیں بن رہی جو قرون اولیٰ میں اسلام کے فروغ کاسب سے بڑا ذریعہ تھی۔ 
سوال نمبر ۷: غیرمسلموں کے بارے میں ان کے خیالات کے پیش نظر، پاکستان کی اسلامی تحریکیں اور مدارس کس حد تک ایسی مسلم گروہ پسندی یا فرقہ پرستی کو فروغ دینے کے ذمہ دار ہیں جس کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں؟
جواب: گروہ بندی اورفرقہ بندی کے مفہوم کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے کسی بھی قسم کے اختلاف کو ہمارے ہاں گروہ بندی اور فرقہ بندی کا باعث سمجھا جانے لگا ہے، حالانکہ شرعی احکام میں فقہی اختلاف شروع سے چلا آرہا ہے اور عقائد کی تعبیرات میں تنوع بھی ابتدا سے موجود ہے۔ یہ اختلاف اورتنوع فطری بات ہے جس کی ضرورت ، اہمیت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس اختلاف اورتنوع سے انکار ہمارے نزدیک اسلام کے فطری مذہب ہونے کی نفی کے مترادف ہے۔ البتہ اختلاف کو اپنے دائرے میں رہناچاہیے، اسے امت میں تقسیم کا باعث نہیں بننا چاہیے اور مختلف مکاتب فکر کو ایک دوسرے کا وجود تسلیم کرتے ہوئے اور باہمی اختلاف رائے کا احترام کرتے ہوئے مشترکہ دینی مقاصد کے لیے مشترکہ جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ پاکستان میں اب سے پہلے ایسا ہوتا آیاہے اور اب بھی اس کے امکانات اور ماحول موجود ہے۔ پاکستان کی اسلامی تحریکوں نے مختلف مواقع پر باہمی تعاون واشتراک کا مظاہرہ کیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ باہمی اختلاف اور ملی تقاضوں سے بے خبر نہیں ہیں اور بوقت ضرورت اپنے اختلافات کے باوجود مل جل کرکام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اورجب اسلامی تحریکیں کسی مشترکہ مقصد کے لیے باہمی اشتراک وتعاون کا کوئی فورم قائم کرتی ہیں تو انہیں دینی مدارس کاتعاو ن اور سپورٹ بھی حاصل ہوتی ہے، تاہم اس ماحول کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اوران عناصر سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے جو مختلف مکاتب فکر کے اختلاف کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی وقتاً فوقتاً کوشش کرتے رہتے ہیں۔ 
سوال نمبر ۸: آپ کی راے میں مدارس کے موجودہ نظام تعلیم میں کون سی ایسی تبدیلیاں کی جانی چاہییں جن کے نتیجے میں طلبہ اور علما میں دوسرے مذاہب کے بارے میں وہ مثبت طرز فکر پیدا ہو سکے جو دعوتی سرگرمیوں کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے؟
جواب: دینی مدارس کا بنیادی مقصد معاشرے میں دینی تعلیمات کافروغ، مسلمانوں کے عقائد وثقافت کا تحفظ، اسلامی احکام وفرائض پر عمل درآمد کا ماحول برقرا ر رکھنا اور مسلمانوں کو دینی تعلیم اور فرائض وواجبات کی ادائیگی کے لیے رجال کار فراہم کرنا ہے۔ اس لیے ان کے تعلیمی نظام ونصاب میں کسی ایسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے جوانہیں ان اہداف سے ہٹا ئے، البتہ ان مقاصد کے لیے دینی مدارس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے ہم بہت سی تبدیلیوں کی حمایت کرتے ہیں اورایک عرصہ سے ان کے لیے مسلسل آواز بھی بلند کر رہے ہیں، مثلاً یہ کہ :
  • اسلامی تعلیمات واحکام کے ساتھ ساتھ دوسر ے معاصر مذاہب وادیان کی بنیادی تعلیمات، ان کی تاریخ اور ان کے پیروکاروں کے موجود ہ ثقافتی ومذہبی تناظر سے آگاہی بھی علماء اسلام کے لیے ضرور ی ہے اور دینی مدارس کو اپنے نصاب میں اسے اہمیت دینی چاہیے۔ 
  • عالمی سطح پر بولی جانے والی زبانوں، ابلا غ کے جدید ذرائع، دعوت کے مروجہ اسلوب اور تہذیب ومعاشرت کے جدیدمسائل سے طلبہ اور علما کو واقف کرانا بھی دینی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ 
  • مختلف مذاہب اور مکاتب فکر کے علماء کرام اور طلبہ کے درمیان باہمی ملاقاتوں اور عصر حاضر کے مسائل پر باہمی تبادلہ خیالات کا اہتمام ہونا چاہیے۔ 
  • علماء وطلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدل ومناظرہ کے ماحول سے نکل کر بریفنگ اور لابنگ کے اسلوب کو اختیار کریں اور دین کی دعوت ودفاع کے دونو ں میدانوں میں معروضی حقائق اور عقل عام کے ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت حاصل کریں۔ 
  • اوران سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کا تعلیمی معیار بلند ہو اور اسلامی علوم وفنون پر ان کی گرفت مضبوط ہو۔
سوال نمبر ۹: نفاذ شریعت کے بارے میں پاکستان کے اسلامی گروہوں اور مدارس کے نقطہ نظر کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا آپ یہ محسوس نہیں کرتے کہ احتجاج، حتیٰ کہ تشدد یا حکومتی فرمان کے ذریعے سے شریعت نافذ کرنے کا عمومی طرز فکر لاحاصل ہے، کیونکہ بہت سے مسلمان خود بھی روایتی تصور کے تحت شریعت پر مبنی کسی ریاست کے محکوم بننا پسند نہیں کرتے؟ معاشرے کے با رسوخ طبقات کے ہاں شریعت اور اس کی تعبیر کے حوالے سے جو سوالات، الجھنیں اور تحفظات پائے جاتے ہیں، آپ کے خیال میں ان کا ازالہ کیے بغیر شریعت کا موثر نفاذ ممکن ہے؟
جواب: یہ سوال مختلف سوالات کامجموعہ ہے جن کاالگ الگ جواب ضروری ہے۔
اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ نفاذ شریعت کے لیے رائے عامہ، ووٹ اورسیاسی عمل ہی سب سے زیادہ موثراور درست ذریعہ ہے، لیکن یہ پاکستان کے معروضی حالات میں کافی نہیں ہے، اس لیے کہ پاکستان کی رولنگ کلاس نفاذ شریعت کے حوالے سے عوام کے جذبات کا احترام کرنے اورقیام پاکستان کے نظریاتی اور ثقافتی مقاصد کے سامنے سرنڈر ہونے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوئی اور نہ آئندہ ہوگی۔ وہ صرف احتجاج اور دباؤ کی زبان کو سمجھتی ہے اور پاکستان کے حکمران طبقات کی نفسیات یہ ہے کہ وہ احتجاج اور دباؤ کے بغیر کوئی بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، چنانچہ پاکستان میں اب تک نفاذ شریعت کے جس قدر اقدامات ہوتے ہیں، وہ عوامی دباؤ اور اسٹریٹ پاور کے پر جوش اظہار کے نتیجے میں ہوئے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں اگر رائے عامہ کی قوت کااستعمال موثرہوگا تو وہ صرف احتجاج ، اسٹریٹ پاور اورعوامی دباؤ کے ذریعے ہی ہوگا، جیسا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی بحالی کے لیے وکلاء کی تحریک میں اس کاایک بارپھر تجربہ ہو گیا ہے۔ اس لیے جب پاکستان میں نفاذ شریعت کی عوامی جدوجہد کی بات کی جاتی ہے توا س سے مراد اسٹریٹ پاور اور عوامی احتجاج ہی ہوتاہے کہ اس کے سوا پاکستان کی رولنگ کلاس سے کوئی بات منوانے کا اور کوئی ذریعہ موجود نہیں ہے اور پاکستان کے عوام اپنے مطالبات منوانے کے لیے اسی کوموثر ہتھیار سمجھتے ہیں۔ البتہ اس عوامی تحریک کا پرامن اور دستور وقانون کے دائرے کے اندر رہنا اور کبھی بھی قسم کے تشدد سے اسے پاک رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کے اندر کسی بھی مطالبے کے لیے ہتھیار اٹھانا، مسلح جدوجہد کا ماحول پیدا کرنا، عوام کو خوف وہراس میں ڈالنا اور لاقانونیت کی فضا پیدا کرنا ہمارے نزدیک جائز نہیں ہے اور ہم نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی ہے۔
جہاں تک حکومتی فرمان کے ذریعے احکام شریعت کے نفاذ کی با ت ہے تو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر ۱۹۲۴ ء میں خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک احکام شریعت کے نفاذ کے لیے حکومتی فرمان اورریاستی نظام ہی ایک موثر ذریعے کے طور پر کار فرما رہا ہے اور یہ اسلام کی چودہ سوسالہ روایات کا حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآن وسنت کی بنیادی تعلیمات کا تقاضا بھی ہے۔ کوئی بھی حکم اور قانون اس وقت تک حکم یا قانون نہیں کہلا سکتا جب تک اس کے پیچھے ریاستی قوت اور حکومتی فرمان نہ ہو۔ حکومتی فرمان کے بغیر سوسائٹی کو شرعی احکام وقوانین کا پابند بنانے کی بات نظری طور پر کتنی ہی دلفریب کیوں نہ ہو، عملی طور پر ناممکن ہے۔ کارل مارکس نے بھی کمیونزم کی حقیقی منزل اسی کو قرار دیا تھا، لیکن یہ محض نظری بات تھی جو عملی دنیا میں ایک قدم نہیں چل سکی اور کارل مارکس کے پیروکاروں کو اس سے ایک درجہ نیچے اتر کر بھی سوشلزم کے لیے ریاستی قوت اور حکومتی فرامین کا جس شدت کے ساتھ استعمال کرنا پڑا، وہ انسانی تاریخ کا ایک اندوہناک باب بن چکا ہے۔ اسلام صرف اخلاقی تعلیمات اور عقائد وعبادات کا نام نہیں ہے بلکہ قرآن وسنت میں معاشرتی، خاندانی اور قومی زندگی کے بارے میں سیکڑوں احکام وقوانین موجود ہیں جن کے نفاذ واطلاق کے لیے ریاستی قوت اور حکومتی فرمان ناگزیر حیثیت رکھتے ہیں اور اسی بات سے فقہاء اسلام نے خلافت وحکومت کے فرض وواجب ہونے پر استدلال کیا ہے کہ چونکہ قرآن وسنت کے بہت سے احکام وفرائض کا نفاذ حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جو چیز کسی فرض کی ادائیگی کے لیے موقوف علیہ کا درجہ رکھتی ہو، وہ خود بھی فرض ہوتی ہے، اس لیے خلافت کا قیام مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے۔ 
جہاں تک معاشرہ کے بارسوخ طبقات کے تحفظات کی بات ہے تو دنیا کے کسی بھی معاشرے میں اس کے بارسوخ طبقات کے تحفظات ایسے ہر قانون کے حوالے سے ہر وقت موجود رہتے ہیں جن سے ان کے مفادات پر زد پڑتی ہو اور وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ا س لیے اگر حکومت کا وجود اور اس کے فرامین صرف بارسوخ طبقات کے تحفظات ومفادات کے لیے ہوتے ہیں تو صرف شریعت اسلامیہ کے لیے نہیں، بلکہ دنیا کے کسی بھی دستور وقانون کے لیے حکومتی فرمان کی ضرورت مشکوک ہو جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ بہت سے مسلمان روایتی تصور کے تحت شریعت پر مبنی کسی ریاست کا محکوم بننا پسند نہیں کرتے تو اس سلسلے میں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ کیا کسی بھی ملک میں بہت سے لوگوں کا اس ملک کے دستور وقانون کے روایتی تصور پر مبنی نظام واحکام کی پابندی کو پسندنہ کرنا ا س امر کا جوازبن جاتا ہے کہ اس روایتی تصور کو ہی ختم کر دیا جائے؟ آج کی دنیا میں اکثریت کے رجحانات کو دیکھا جاتا ہے اور اس کے مطابق نظام چلایا جاتاہے۔ اسی اصول پر دنیا بھر میں مسلمانوں کے عمومی رجحانات کو دیکھ لیا جائے کہ وہ اسلام اور شریعت کے روایتی تصور کے مطابق زندگی بسر کرنا پسند کرتے ہیں یا مارٹن لوتھر کی پروٹسٹنٹ تعلیمات کے طرز پر اسلام کی ’’ری کنسٹرکشن‘‘ کو قبول کرتے ہیں؟ اس تاریخی حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مسلمانوں کے عمومی ماحول نے دنیا بھر میں کسی جگہ بھی مارٹن لوتھر یا اکبر بادشاہ کی طرز کی ری کنسٹرکشن کو کبھی قبول نہیں کیا تو محض روایتی تصور کی پھبتی کے ساتھ امت مسلمہ پر چند لوگوں کے خیالات کو مسلط کرنے کا کیا جواز ہے؟ 
دوسری بات یہ کہ جس طرح دنیا میں کسی بھی دستور وقانون کی تعبیر وتشریح کے لیے کچھ مسلمہ اصول اور متعین پراسیس موجود ہوتا ہے جس سے ہٹ کر اس کی کوئی تعبیر وتشریح قابل عمل نہیں قرار پاتی، اسی طرح قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کے بھی کچھ متعینہ اصول اور ایک ایسا علمی اور عملی طریق کار موجود ہے جس پر چودہ سوسال سے امت کا اجماعی اور جمہوری تعامل چلا آ رہا ہے۔ اسے نظر انداز کر کے قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح کو چند افراد کے تصورات وخواہشات کا اسیر نہیں بنایاجا سکتا۔ قرآن وسنت کے احکام وقوانین کے دو درجے ہیں۔ ایک وہ منصوص احکام جن کی قرآن وسنت میں پوری صراحت کے ساتھ وضاحت کر دی گئی ہے۔ ان کے بارے میں کسی نئی تعبیر وتشریح کو قبول کرنا خود قرآن وسنت کی نفی کے مترادف ہے۔ دوسرا درجہ اجتہادی اور استنباطی مسائل واحکام کا ہے۔ ان میں اجتہاد واستنباط کا راستہ قیامت تک کھلا ہے، لیکن کسی بھی اجتہاد یا استنباط کو قانون یا حکم کا درجہ اس وقت حاصل ہوگا جب امت مسلمہ کاجمہوری ماحول یا کم از کم وہ سوسائٹی جس کے تناظر میں وہ اجتہاد کیا گیا ہے، اسے عمومی طورپر قبول کرلے گی۔ اس سے پہلے اس کی حیثیت محض ایک رائے کی ہے جسے اختیار کرنے اور پیش کرنے کا تو ہر شخص کو حق حاصل ہے، لیکن اسے سوسائٹی پر مسلط کرنے کا کسی شخص کو حق حاصل نہیں ہے۔ میں مثال کے طور پر علامہ محمد اقبالؒ کی ایک اجتہادی رائے کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ قادیانیوں کوعقیدہ ختم نبوت اور دیگر مسلمہ اسلامی عقائد سے انحراف کی بنیاد پر فقہی احکامات کے مطابق گردن زدنی قرارد ینے کی بجاے مسلم معاشرہ میں دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ایک غیر مسلم اقلیت کے طورپر قبول کر لیا جائے۔ یہ ایک اجتہادی رائے تھی جس سے ہر شخص کو اختلاف کا حق حاصل تھا، لیکن یہی رائے جب تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کامتفقہ موقف قرار پائی اور پاکستان کی پارلیمنٹ نے بھی اسے قبول کر لیا تو اسے شرعی حکم اور ملکی قانون کا درجہ حاصل ہو گیا۔
ہمارے ہاں بدقسمتی سے ایک غلط روایت نے جنم لیاہے اور بارسوخ طبقات کے اثر ورسوخ کے ذریعے اسے مسلسل فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ یہ کہ قرآن وسنت کے بارے میں کچھ لوگوں کی پیش کردہ تعبیرات وتشریحات کو براہ راست ریاستی قوت کے ذریعے قانون کا درجہ دے دیا جاتا ہے اور درمیان کے ایک ناگزیر مرحلہ کو یکسر نظرا نداز کر دیا جاتا ہے کہ اسے علمی حلقوں اور عمومی ماحول میں بھی قبولیت کا درجہ حاصل ہوا ہے یا نہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قانون کے کاغذات میں تو اس کا وجود ہوتا ہے، لیکن عام معاشرہ میں اسے قبولیت اور احترام کا مقام نہیں ملتا اور عجیب طرح کی کنفیوژن پیدا ہو جاتی ہے۔ اکبر بادشاہ کے اجتہادات کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا اور آج بھی ایسا ہو رہا ہے جس کی ایک مثال پاکستان کے سابق صدر محمد ایوب خان مرحوم کے دور میں نافذ ہونے والے عائلی قوانین ہیں جو قانون کی فائلوں میں تو موجود ہیں، لیکن ملک کاعام مسلمان اب بھی نکاح، طلاق اور ورا ثت کے مسائل میں ان قوانین کی پروا کیے بغیر کسی مفتی سے فتویٰ لینے کو ہی ترجیح دیتا ہے اور اسلامی احکام پر عمل کے خواہشمند کسی بھی مسلمان کے لیے ملکی قانون کی بجائے مفتی کا فتویٰ ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اس بنا پر اس عمل میںیہ ایک ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے کہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح میں کسی بھی نئی رائے، اجتہاد یا استنباط کو براہ راست ریاستی قوت کے ذریعے قانون کا درجہ دینے کی بجائے علمی حلقوں اور عمومی ماحول میں اس کی قبولیت کا انتظار کیا جائے، جیساکہ قادیانیوں کے بارے میں علامہ محمد اقبالؒ کی اجتہادی رائے کے ساتھ ہوا ہے۔ 
سوال نمبر۱۰: علما اور مدارس کے ہاں فقہی اجتہادات اور شریعت کو آپس میں گڈمڈ کر دینے کا جو رجحان پایا جاتا ہے، اس کے بارے میں آپ کا احساس کیا ہے؟ (اگر یہ غلط ہے تو) اس غلط رجحان کی عکاسی طبقہ علما کے ہاں بین المذاہب تعلقات، تصور جہاد اور نفاذ شریعت کے سوال میں کس انداز سے ہوتی ہے؟ علما کے ہاں شریعت، فقہ اور بدلتے ہوئے معاشرے کا بہتر فہم پیدا کرنے کے لیے آپ کے نزدیک کون سے اقدامات ضروری اور ناگزیر ہیں؟
جواب: شریعت اگر اسلامی احکام وقوا نین کانام ہے تو فقہی اجتہادات کوا س سے الگ نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ اسلامی احکام وقوانین کا ایک بڑا حصہ فقہی اجتہادات پر مبنی ہے۔ خلافت راشدہ کے دور میں بھی بہت سے احکام وقوانین کی بنیاد فقہی اجتہادات پر ہوتی تھی، اس لیے شریعت اور فقہی اجتہادات کو ایک دوسرے کے مقابل لانے کا تصور ہی بنیادی طور پر غلط ہے۔
قرآن وسنت کے منصوص اور صریح احکام تو ہمیشہ کے لیے ناقابل تغیر ہیں، البتہ وہ منصوص احکام جو صریح نہیں ہیں، ان کی تعبیر وتشریح استنباط اور اجتہاد کے ذریعے کی جاتی ہے اوروہ احکام جو منصوص نہیں ہیں، ان کا تعین بھی منصوص احکام کی روشنی میں اجتہادات کی صورت میں کیا جاتا ہے، اس لیے شریعت اور اجتہاد باہم لازم وملزوم ہیں اورجس طرح منصوص اور صریح احکام شریعت کا حصہ ہیں، اسی طرح استنباطی اور اجتہادی مسائل واحکام بھی شریعت کا ہی حصہ ہیں، اس فرق کے ساتھ کہ غیر صریح اور غیر منصوص مسائل واحکام میں ان کے اسباب وعلل اور عرف وتعامل کی تبدیلی کے ساتھ تغیر وتبدل کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے اور اسلامی احکام وقوانین میں حرکت پذیری کا یہ امکان ہی انہیں ہر زمانے اور ماحول کے لیے قابل عمل بنا تا ہے۔
جہاں تک بین المذاہب تعلقات، تصور جہاد اور نفاذ شریعت جیسے مسائل کا تعلق ہے، ان کے بارے میں مسلمہ فقہی مذاہب میں پوری تفصیل کے ساتھ احکام وضوابط موجود ہیں جن کی بنیاد پر آج کے حالات اور ضروریات کے تناظر میں نئی قانون سازی بھی کی جا سکتی ہے اور ہمارے نزدیک قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے طے کردہ ۲۲ دستوری نکات اسی طرز کے اجتہاد اور قانون سازی کی عکاسی کرتے ہیں جب کہ وفاقی شرعی عدالت کے بہت سے فیصلے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی متفقہ قانونی سفارشات بھی اسی اجتہادی عمل کا حصہ ہیں۔ 
اس حوالے سے علماء کرام اور دینی مدارس کے حلقوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ عالم اسلام کے مختلف حصوں میں ہونے والے اجتہادی عمل اور علمی مساعی سے آگاہی حاصل کریں۔ معاشرتی اور عالمی ماحول سے واقف ہوں، انسانی سوسائٹی کے جدید مسائل اور تقاضوں سے باخبر ہوں۔ معاصر مذاہب، نظام ہاے زندگی اور دستوری وقانونی ارتقاء پر ان کی نظر ہو اور اس پورے تناظر کوسامنے رکھ کر وہ اپنی علمی ذمہ داریوں اور کردار کا تعین کریں، کیوں کہ اسی صورت میں وہ اپنے علمی ودینی فریضے سے صحیح طور پر سبکدوش ہو سکتے ہیں۔ دینی مدارس اورعلمی مراکز کو اس سلسلے میں خصوصی کورسز اور محاضرات کا اہتمام کرنا چاہیے اور دینی مدارس کے طلبہ واساتذہ کے ساتھ ساتھ مساجد کے ائمہ وخطبااور دینی جماعتوں کے کارکنوں کو بھی اس دائرے میں شریک کرنا چاہیے۔
سوال نمبر ۱۱: صوبہ سرحد میں طالبان کی طرف سے سکھوں پر جزیہ کے نفاذ اور عورتوں کے ساتھ ان کے برتاؤ کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں؟ کیا آپ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی حیثیت اور عورتوں کے معاشرتی کردار کے حوالے سے طالبان کے تصورات سے اتفاق کرتے ہیں؟ اگر نہیں تو اس پر آپ کی تنقید کیا ہے؟
جواب: صوبہ سرحد کے طالبان کی طرف سے اگر سکھوں پر جزیہ نافذکیا گیا ہے تو یہ غلط ہے۔ پاکستان کے دستور کے تحت ملک کے تمام غیر مسلم اقلیتوں کی حیثیت شرعاً ’’معاہد‘‘ کی ہے یعنی وہ اقلیتیں جوایک معاہدہ کے تحت ملک کی آبادی کا حصہ بنی ہیں اوریہ معاہدہ ملک کا دستور ہے۔ ان کے ساتھ وہی معاملات روا رکھے جائیں گے جو دستور میں طے کیے گئے ہیں اوراس سے ہٹ کر ان کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ 
ہمارے خیال میں غیر مسلموں اور عورتوں کے بارے میں پاکستان کے تناظر میں علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات اور ۱۹۷۳ء کے دستور کے بعد اسلامائزیشن کے سلسلے میں ہونے والی قانونی پیش رفت اور ارتقا ہی نفاذ شریعت کا صحیح معیار ہے جس سے انحراف جائز نہیں ہے۔
سوال نمبر ۱۲: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان معیشت، بین الاقوامی تعلقات اور پاکستان میں مختلف نسلی گروہوں کے باہمی تعلقات کے پیچیدہ مسائل سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت اور وژن سے بہرہ ور ہیں؟ اگر حکومت اور اقتدار طالبان کو مل جائے تو آپ کے خیال میں ان کا ان مسائل سے نمٹنے کا طریق کار اور نتائج کیا ہوں گے؟
جواب: طالبان کوہم دو الگ الگ حصوں میں سمجھتے ہیں۔ افغانستان کے طالبان کے بارے میں ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ وہ جہاد افغا نستان کے دوران سوویت افواج کی واپسی کے بعد افغانستان میں پیدا کی گئی افراتفری، خانہ جنگی اور جہاد کے نظریاتی اہداف کو نظرانداز کیے جانے کے نتیجے میں سامنے آئے تھے اورافغانستان کے ایک بڑے حصے میں منظم حکومت قائم کرکے انھوں نے شرعی نظام نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے زیر حکومت علاقے میں امن بھی قائم کیا تھا جب کہ افغانستان میں امریکی افواج کی آمد کے بعد ان کا خیال ہے کہ وہ اسی طرح قومی آزادی اور اسلامی تشخص کی بحالی کی جنگ لڑ رہے ہیں جیسے انھوں نے روسی افواج کی موجودگی کے خلاف جنگ لڑی تھی۔
وہ افغانستان کے مخصوص حالات اور کلچر کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہاں کے حالات وضروریات کو بہتر طور پر سمجھتے ہوئے ان سے نمٹنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، البتہ جب ان کی حکومت قائم تھی، اس دوران ہم نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک میں دستوری حکومت قائم کریں اور دستور سازی اور قانون سازی کے حوالے سے پاکستان کے علماء کرام کی پارلیمانی جدوجہد کو سامنے رکھ کر اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے دستوروقانون کی تشکیل کے مراحل طے کریں۔ اس وقت ہم نے انھیں یہ مشورہ بھی دیاتھاکہ وہ بین الاقوامی معاملات اور ملک کے معاشی واقتصادی ڈھانچے کی تشکیل میں ان بین الاقوامی ماہرین سے مشاورت کا اہتمام کریں جواسلامی تعلیمات پر یقین رکھتے ہیں اور ان کی ترویج وتنفیذ میں کردار ادا کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ایسے ماہرین نہ صرف مسلم ممالک میں موجود ہیں بلکہ مغربی دنیا اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں میں بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اب اگر افغانستان میں ان کی دوبارہ حکومت قائم ہوتی ہے جس کے امکانات کا عالمی پریس میں مسلسل اظہار کیا جا ر ہا ہے تو ہمارا انھیں یہی مشورہ ہوگا کہ :
(۱) دستوری حکومت تشکیل دیں، 
(۲) پاکستان کے دینی حلقوں کی پارلیمانی جدوجہد سے راہ نمائی حاصل کریں، اور
(۳) مختلف شعبوں میں ان مسلم ماہرین سے مشاورت کا اہتمام کریں جو نفاذ اسلام پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ 
مگر پاکستان میں طالبان کے نام سے کام کرنے والے گروہوں کے بارے میں ہماری رائے یہ نہیں ہے اورہم سمجھتے ہیں کہ یہ گروہ اگرچہ نفاذ شریعت کے بارے میں پاکستان کی رولنگ کلاس کے مسلسل منافقانہ رویے کے رد عمل میں نمودا ر ہوئے ہیں، لیکن ایک تو ان کا طریق کار درست نہیں ہے اور دوسرا ان کی جدوجہد کا فائدہ ان قوتوں کو مل رہا ہے جو پاکستان میں افراتفری اور خانہ جنگی کا ماحول قائم کرنا چاہتی ہیں اور جن کی خواہش ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پر ایسی الٹی سیدھی حرکتیں وقتاً فوقتاً ہوتی رہیں جو رائے عامہ کو نفاذ شریعت کے عمل اور جدوجہد سے متنفر کرنے کا باعث بنیں۔ پاکستان میں طالبان کے گروہوں نے متعدد ایسی حرکات کی ہیں جو اس ضمن میںآتی ہیں۔ ہو سکتا ہے بہت سے طالبان غیر شعوری طور پر اس سازش کاحصہ بنے ہوں، لیکن شعوری طور پر اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والوں کے وجود سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس بنا پر ہماری رائے یہ ہے کہ پاکستانی طالبان شعوری یا غیرشعوری طور پر ان قوتوں کے حق اور فائدے میں استعمال ہو رہے ہیں جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے اور ان کی سرگرمیوں سے ملک اور اسلام دونوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ہمارے نزدیک پاکستان میں نفاذ اسلام کے لیے قرار داد مقاصد، علماء کرام کے ۲۲ دستوری نکات اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی دفعات کی بنیاد پر سیاسی اور دستوری جدوجہد ہی صحیح راستہ ہے اور طالبان یا اس طرز پر کام کرنے والے تمام گروہوں کو ملک کے جمہور علما کے موقف اور پالیسی پر واپس آجانا چاہیے۔ 
سوال نمبر ۱۳: مدارس اور مذہبی گروہوں نے جہاد افغانستان میں حصہ لینے کا جو فیصلہ کیا، آپ کی رائے میں اس کے نتائج بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی سطح پر ان کی توقعات کے مطابق نکلے یا برعکس؟ کیا آپ کے خیال میں یہ حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے کچھ اہم پہلووں سے صرف نظر کیا گیا؟ اگر غلطی تھی تو کہاں اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا آپ مذہبی قیادت کے لیے اس پالیسی پر ناقدانہ غور کرنے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟ اگر ہاں تو اس کے لیے آپ کیا مناسب اورموثر اقدام تجویز کرتے ہیں؟ 
جواب: افغانستان میں روسی افواج کی آمد کے بعد جہاد کا اعلان دراصل افغانستان کے علماء کرام نے کیا تھا اور پاکستان کی متعدد دینی جماعتوں اورمدارس کے طلبہ واساتذہ نے اس کی نہ صرف حمایت کی تھی بلکہ اس میں عملی طور پر شرکت بھی کی۔ یہ حمایت اور تعاون اس بنیاد پر تھا کہ اپنے وطن کی آزادی اور قومی خود مختاری کی بحالی کے لیے افغان عوام کی جنگ نہ صرف ان کاحق ہے بلکہ یہ شرعی فریضہ اور جہاد بھی ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اس جہاد آزادی میں ان سے تعاون اور ان کی امداد دنیا بھر کے مسلمانوں بالخصوص پڑوسی مسلمانوں پر شرعاً واجب ہے۔ وہ جہاد کی فضیلت واہمیت اور اس کے احکام ومسائل قرآن وسنت اورفقہ میں مسلسل پڑھتے چلے آرہے تھے جن پر عمل درآمد کا انھیں موقع سامنے نظر آر ہا تھا۔ نیزمسلم ممالک پر استعماری قوتوں کے تسلط اور عالم اسلام کے وسائل اور متعدد مقامات پر غیر مسلم طاقتوں کے قبضہ اور وہاں کی اکثریتی مسلم آبادی کو آزادی اور اسلامی تشخص سے محروم کردینے کے تناظر نے انھیں مسلط قوتوں کے خلاف نفرت وانتقام کے جذبہ سے بھی سرشار کر رکھا تھا، چنانچہ انہو ں نے پورے جوش وخروش کے ساتھ اس میں حصہ لیا۔ 
ابتدا میں افغان علماء کے اس اعلان جہاد اور پاکستان کے دینی حلقوں کی طرف سے ان کی حمایت وتعاون کو دیوانے کا خواب سمجھا گیا اور کھلم کھلا یہ کہاگیا کہ یہ چند مذہبی دیوانے اور بے وقوف ہیں جو ایک عالمی طاقت کے ساتھ ٹکرا کر اپنا سر پھوڑنے جا رہے ہیں، مگران دیوانوں کی یہ دیوانگی جاری رہی۔ کم وبیش تین سال تک یہ کیفیت یہ تھی کہ ان مجاہدین نے عام طورپر میسر معمولی ہتھیاروں کے ساتھ فقر وفاقہ کے ماحول میں گوریلا جنگ لڑی۔ انھیں پاکستانی حکومت اور اس کے بعد پاکستانی عوام کی تھوڑی بہت حمایت حاصل تھی۔ اس زمانے میں یہ مجاہدین شیشے کی بوتلوں میں پٹرول اور صابن کا محلول بھر کر مصنوعی بم بنا یا کرتے تھے اورا نھیں ٹینک شکن ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ ان تین چار برسوں میں ان مجاہدین کے استعمال میں آنے والے ہتھیار اگرکسی جگہ یادگار کے طور پر محفو ظ کیے گئے ہوں تو انھیں دیکھ کر اس دور کی جنگ کے ماحول کا آج بھی بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اس بے سروسامانی کی جنگ کے نتیجے میں جب افغانستان کے ایک بڑے حصے میں مجاہدین کے مختلف گروپوں نے اپنے زیر اثر علاقے قائم کر لیے اور یہ نظر آنے لگاکہ یہ جنگ جاری رہ سکتی ہے تو امریکہ اور دیگر بہت سے ممالک نے اس جنگ میں سوویت یونین کی ہزیمت کے امکانات دیکھ کر اس میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا اورپھر افغان مجاہدین کے پاس جدید ہتھیاروں اور وسائل کی ریل پیل ہو گئی۔ 
ہمارے خیال میں اس مرحلے میں افغان مجاہدین کے مختلف گروپوں کی قیادت سے غلطی ہوئی کہ انھوں نے بیرونی امداد اور سرمایہ دارانہ بلاک کی معاونت اور حمایت کی حدود طے کرنے کی بجائے انھیں جنگ میں ایک شریک کار کے طور پر قبول کر لیا۔ مجاہدین کے مختلف گروپوں کو ملاکر ایک اتحاد قائم کیاگیا اور سرمایہ دارانہ بلاک نے اس جنگ کواپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہماری رائے یہ ہے کہ اگر افغان مجاہدین کی قیادت کچھ مزید صبر سے کام لے کر بیرونی امداد وتعاون کو انتہائی ضرورت کی حد تک محدود رکھتے ہوئے پالیسی سازی کے معاملات پر اپنی گرفت قائم رکھتی تو نتائج بہت مختلف ہوتے لیکن ایسا نہ ہو سکا، جب کہ ہماری معلومات کے مطابق اس موقع پر افغان مجاہدین کے آٹھ مختلف گروپوں کے متحدہ محاذ کی قیادت میں اس مسئلے پر اختلاف رائے بھی ہو ااور متحدہ محاذ کے سیکرٹری جنرل مولانا نصراللہ منصور شہید نے سرمایہ دارانہ بلاک کے سامنے افغان مجاہدین کی قیادت کی خود سپردگی کے اس رویے سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ غالباً مولانا نصراللہ منصور شہید کاموقف یہ تھا کہ بیرونی قوتوں سے امداد لی جائے، لیکن پالیسی سازی پر اپنا کنٹرول قائم رکھا جائے، مگر وہ اپنے موقف کو منوا نہ سکے اور اتحاد سے الگ ہوگئے۔ 
اس کے بعد صورت حال یہ بن گئی کہ افغان مجاہدین اپنے وطن کی آزادی، افغانستان کی قومی خود مختاری اور ایک شرعی اسلامی حکومت کے قیام کے لیے لڑ رہے تھے، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک سے آنے والے ہزاروں نوجوان اپنے افغان بھائیوں کی امدادا ور جہاد میں عملی شرکت کے جذبہ سے لڑ رہے تھے، لیکن عالمی قوتیں بالخصوص سرمایہ دارانہ بلاک اس جنگ کے ذریعے سوویت یونین کو شکست دینے کے مقصد کے تحت اس جنگ کو مکمل طو ر پر سپورٹ کر رہا تھا اوراسی وجہ سے ایسا ہوا کہ سوویت افواج کی واپسی کے بعد سرمایہ دارانہ بلاک نے اپنا ہدف حاصل کر کے جنگ سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور پہلے دونوں گروہ جہاد افغانستان کے نظریاتی اہداف کے حصول کے لیے سرگرداں ہو گئے۔ 
یہی وہ موقع ہے جب پاکستان میں، جو جہا د افغانستان کا سب سے بڑا پشت پناہ اور مجاہدین کا بیس کیمپ تھا، حکومتی سطح پر اختلافات پیدا ہوئے۔ جنرل محمد ضیاء الحق شہید اس جنگ کواس کے منطقی نتائج تک پہنچانے اور افغان مجاہدین کی حکومت کے قیام اور استحکام تک اس میں عملاً شامل رہنے کا عزم رکھتے تھے، جب کہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو مرحوم اس جنگ کواسی مرحلہ پر مکمل سمجھتے ہوئے اس سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اسی کشمکش کی فضا میں جنیوا معاہدہ نے جنم لیا جو جہاد افغانستان اورافغان عوام کے بارے میں عالمی قوتوں کی منافقانہ پالیسیوں کا شاہکار تھا اور اس نے افغانستان میں ایک مستحکم حکومت ونظام کے قیام کی بجائے خانہ جنگی اور خلفشار کا ماحول پیدا کیا۔ 
اسی خلفشار اور خانہ جنگی سے طالبان نے جنم لیا جنھوں نے افغانستان کے ایک بڑے حصے کو کچھ عرصے کے لیے بدامنی اور لاقانونیت سے تو نجات دلا دی لیکن وہ اپنی حکومتی ترجیحات میں ایسی ترتیب قائم نہ کر سکے کہ اپنے اصل اہداف کی طرف موثر پیش رفت جاری رکھ سکتے۔ ظاہر بات ہے کہ طالبان کی حکومت کا وجود میں آنا مقامی حالات کا نتیجہ تھا جوعالمی قوتوں کے ایجنڈے اور مفادات سے مطابقت نہیں رکھتا تھا، چنانچہ کچھ عرصہ تک تو ان کے بارے میں خاموشی اختیار کی گئی اور انھیں عالمی ایجنڈے میں فٹ کرنے کے لیے اپنے ڈھب پر لانے کی کوشش ہوتی رہی لیکن جب یہ بات طے ہوگئی کہ انھیں عالمی ایجنڈے اور پروگرام میں ایڈجسٹ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے تو ان سے جان چھڑانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ یہ مرحلہ وہ تھا جب افغانستان کے جہاد میں شریک ہونے والے عرب مجاہدین نے مشرق وسطی میں اسرائیل، بیت المقدس، تیل کی دولت کے استحصال اورامریکی افواج کی موجودگی کے تناظر میں اپنا ایجنڈا طے کیا اور اس کی طرف پیش رفت کاپروگرام بنایا اور ظاہر بات ہے کہ یہ بھی عالمی قوتوں کے مفاد اور ایجنڈے سے متصادم بات تھی۔ 
افغان طالبان اور عرب مجاہدین کا دائرۂ کار الگ الگ تھا، لیکن نظریاتی اہداف مشترک تھے، اس لیے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی، ہم آہنگی اور تعاون کی فضا موجود تھی۔ دوسری طرف یہ دونوں گروہ عالمی استعمار کے پروگرام اور ایجنڈے کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے تھے، کیوں کہ مشرق وسطی میں اسرائیل کو تحفظ فراہم کرنا اور افغانستان میں ایک نظریاتی اسلامی حکومت کا راستہ روکنا عالمی استعمار کی اولین ترجیحات تھیں، چنانچہ وہ جنگ جو اس سے پہلے افغان مجاہدین اور سوویت افواج کے درمیان تھی، اب وہی معرکہ افغان مجاہدین، عرب مجاہدین اور امریکی استعمار کے درمیان معرکہ آرائی میں تبدیل ہوگیا۔
ہمارے خیال میں اس مرحلے میں مجاہدین کی قیادت کو اپنی ترجیحات کے تعین میں حقیقت پسندانہ طورپر معروضی حالات کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا جو نہیں رکھا جا سکا اور بازی الٹ گئی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر دونوں جنگیں بیک وقت لڑنے کی بجائے افغانستان میں طالبان کی حکومت کو مستحکم کرنے کو ترجیح دی جاتی جس کے لیے ایک دستوری حکومت کا قیام، عالمی سطح پر حکمت عملی کے ساتھ رائے عامہ کی حمایت کاحصول اور عالم اسلام کی دینی قوتوں کو نظریاتی اورملی اہداف کے لیے مجتمع کرنا سب سے زیادہ ضروری امور تھے۔ مشرق وسطی کی جنگ کو اس وقت تک تھوڑا موخر کر لیا جاتا تو یہ ایک بہتر حکمت عملی ہوتی، لیکن ایسانہ ہو سکاا ورہم اس امکان کو نظر انداز نہیں کرتے کہ ایسا نہ ہوسکنے کے پیچھے ان دونوں گروہوں کے مجاہدین کے ا نتہائی خلوص کے باوجود ان دیکھے ہاتھ حرکت میں رہے ہوں گے۔ 
نائن الیون کے المناک سانحہ نے اس صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی پیدا کر دی اور وہ کام جو ابھی کئی سالوں میں ہونے تھے، اس کے لیے مہینے اور ہفتے بھی طویل دکھائی دینے لگے۔ اس مرحلہ میں افغان طالبان اور عرب مجاہدین میں سے کسی ایک کو دوسرے کے لیے قر بانی دینا تھی اور ہمارے خیال میں اگر یہ قربانی عرب مجاہدین دے دیتے تو افغان طالبان کو سنبھلنے اور عالم اسلام میں اپنے بہی خواہوں سے رابطہ و مشاورت کے ساتھ کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کا تھوڑا سا موقع مل جا تا، لیکن یہ بھی نہ ہوا اور اپنے عرب مجاہدبھائیوں کی خاطر افغان طالبان نے پورے خلوص کے ساتھ اپنی حکومت کی قربانی دے دی۔ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر عرب مجاہدین افغا ن طالبان کے لیے قربانی دیتے، تب بھی بالآخر نتیجہ یہی ہونا تھا اور جوکچھ ہو رہا ہے، اس کا ہونا طے پا چکا تھا۔ ہمیں اس سے اتفاق ہے، لیکن ہمارا وجدان یہ کہتا ہے کہ اگر طالبان حکومت اور عالم اسلام میں ان کے بہی خواہوں کو باہمی مشاورت ورابطہ اور کوئی راستہ نکالنے کے لیے سنبھلنے کا تھوڑا سا وقت مل جاتا تو نتائج کی شدت کو کم کر نے کے امکانات بہرحال موجود تھے۔ بہرحال اب جو ہونا تھا ہوچکا اور اس کے بعد کے مراحل بتدریج طے ہو رہے ہیں۔ ہمیںیقین ہے کہ افغان قوم کے موجودہ حالات زیادہ دیر تک قائم نہیں رہیں گے اور ان میں نئی کروٹ کے آثار اب افق پر واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لیے افغان طالبان کو ماضی کے تجربات سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کی نئی منصوبہ بندی اورصف بندی کرناہوگی اور دوست دشمن کی پہچان بلکہ نادان اور دانا دوستوں کے درمیان فرق کے لیے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کرنا ہو گا۔
جہاں تک پاکستان کے ان ذیلی علاقوں کاتعلق ہے جنہوں نے جہاد افغانستان میں اپنے افغان بھائیوں کی مدد کی اور ان کے ساتھ شریک کارہوئے، مختلف مراحل کی ان غلطیوں اور کوتاہیوں کے باوجود ان کا یہ فیصلہ اور کردار بالکل درست تھا اور اس پرکسی قسم کی ندامت کے اظہار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ان کی قربانیوں سے عالمی سطح پر متحارب دو قوتوں میں سے ایک نے فائدہ اٹھایا اور اپنے مقاصد حاصل کیے، لیکن اگر وہ اس جنگ میں شریک نہ ہوتے اور خاموشی اختیار کر لیتے تو یہی فوائد دوسری عالمی قوت کے پلڑے میں چلے جاتے۔ مجاہدین کے عمل اور قربانیوں سے کسی ایک قوت کو تو فائدہ پہنچناتھا اور جب بھی کوئی گروہ یا قوت اس قسم کے ماحول میں کوئی کردار اد ا کرتی ہے تو لازمی طورپر کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور کسی کو نقصان بھی ہوتا ہے۔ اگر قومیں اپنے فیصلے اس بنیاد پر کرنے لگیں تو شاید ہی کوئی قوم یا طبقہ کسی معرکہ میں کوئی کردار ادا کر سکے۔ فیصلوں کی بنیاد اپنے اہداف پرہوتی ہے، اس لیے افغان مجاہدین اوران کے پاکستانی مدد گاروں نے جو فیصلہ کیا تھا، عالمی سطح پر اس کاایک نتیجہ منفی ہے کہ طاقت کاتوازن نہیں رہا اور دو قوتوں کے آمنے سامنے رہنے سے کمزور قوتوں کو جو سہارا مل جاتا تھا، وہ نہیں رہا اور اب ساری دنیا ایک ہی عالمی طاقت کے رحم وکرم پر ہے، لیکن اس کے فوائد بھی ہوئے ہیں جن کا تذکرہ ہم ابتدا میں کرچکے ہیں کہ اس سے نہ صرف مشرقی یورپ، وسطی ایشیا اور بالٹک ریاستوں کو خود مختاری ملی ہے بلکہ جرمنی کو بھی اتحاد نصیب ہو اہے۔ 
باقی رہی بات جہاد افغانستان کے نظریاتی اہداف کی کہ افغانستان کی قومی خود مختاری بحال ہو اور وہاں ایک نظریاتی اسلامی حکومت قائم ہو تو تمام تر خرابیوں اوروقتی ناکامیوں کے باوجود اس کے امکانات کا دروازہ بند نہیں ہوا اور شاید افغان مجاہدین اپنے ہی ماضی کی ایک روایت دہرانے جا رہے ہیں۔ محمود غزنویؒ کو سومنات تک پہنچنے کے لیے سترھویں کامیاب حملے سے پہلے سولہ ناکام حملوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن کیا سومنات محمود غزنویؒ کی قدم بوسی سے انکار پر زیادہ دیر قائم رہ سکا تھا؟ 

اسلامی یونیورسٹی دہشت گردی کا نشانہ کیوں بنی؟

محمد مشتاق احمد

۲۰ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو ہماری مادر علمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد بد ترین دہشت گردی کا نشانہ بنی ۔ سہ پہر تین بجے کے قریب ایک خود کش حملہ آور نے خواتین کے کیمپس کے سامنے بنے ہوئے کیفے ٹیریا میں خود کو دھماکہ سے اڑادیا اور دوسرے خود کش حملہ آور نے اس کے چند لمحوں بعد امام ابو حنیفہ بلاک میں کلیۂ شریعہ و قانون میں شعبۂ شریعہ کے سربراہ کے دفتر کے سامنے خود کو دھماکہ سے اڑا دیا ۔ سوال یہ ہے کہ ان خود کش حملہ آوروں کا ہدف کیا تھا اور وہ کیا پیغام دینا چاہتے تھے ؟ مختلف لوگوں نے اس سوال کے مختلف جواب دیے ہیں جن کا ہم ذیل میں جائزہ لیں گے۔

دہشت گردی کے لرزہ خیز واقعات ۔ چند چبھتے ہوئے سوالات 

دہشت گردی کی کاروائیوں پر نظر رکھنے والوں کے لیے یہ مفروضہ قابل قبول نہیں ہوسکتا کہ حملہ آوروں نے اسلامی یونیورسٹی کو محض اس بنا پر ہدف بنایا کہ اسے ہدف بنانا آسان تھا ۔ اسی طرح یہ بات بھی کسی طرح قبول نہیں کی جاسکتی کہ یونیورسٹی کے اندر جو دو ٹارگٹ چنے گئے وہ محض اتفاقاً ہی چنے گئے تھے اور ان کے چناؤ کے پیچھے کوئی خاص مقصد کارفرما نہیں تھا ۔ اگرچہ یہ بالکل ممکن ہے کہ بعض اوقات خود کش حملہ آور اپنے اصل ٹارگٹ تک کسی وجہ سے نہ پہنچ سکے تو کسی اور متبادل ٹارگٹ کو نشانہ بنالے ، اور ایسا بھی بعض اوقات ہوجاتا ہے کہ خود کش حملہ آور غلطی میں کسی غلط جگہ کو ٹارگٹ کرلیتا ہے ۔ تاہم کسی بھی اس طرح کے واقعہ کی تحقیق میں پہلا مفروضہ یہی ہونا چاہیے کہ ہدف اور وقت کا انتخاب سوچا سمجھا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں نے اسلامی یونیورسٹی میں ان اہداف کو کیوں چنا اور دہشت گردی کے لیے اس وقت کے انتخاب کی وجہ کیا تھی؟ بعض لوگوں نے ان حملوں کو خود کش حملے ماننے سے انکار کیا ہے اور اس پر بھی انھیں یقین نہیں ہے کہ یہ حملے طالبان یا القاعدہ کی جانب سے کیے گئے ہیں ۔ ان لوگوں کی جانب سے جو مختلف conspiracy theories پیش کی جاتی ہیں، ان پر آگے ہم نظر ڈالیں گے لیکن پہلے ہم ان نظریات پر بحث کریں گے جن کی رو سے یہ خود کش حملے تھے اور ان کی ذمہ داری طالبان یا القاعدہ پر عائد ہوتی ہے ۔ 
اولاً : اسلامی یونیورسٹی میں غیر ملکی اساتذہ اور طلبا موجود ہیں ۔ 
چونکہ اسلامی یونیورسٹی میں غیر ملکی اساتذہ اور طلبا کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں اور ’’غیر ملکی ‘‘ ہونا آج کل پاکستان میں خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے اس لیے میڈیا میں ابتدائی رپورٹس میں اس بات کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ اسلامی یونیورسٹی میں بہت سے غیر ملکی مقیم ہیں ۔ ان لوگوں کو شاید یہ معلوم نہیں کہ یہ غیر ملکی وزیرستان میں مقیم غیر ملکیوں کی طرح نہیں ہیں ، بلکہ ان کے پاس ویزا ، پاسپورٹ اور دیگر تمام ضروری دستاویزات موجود ہوتی ہیں اور انھیں وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کی جانب سے اسلامی یونیورسٹی میں اقامت اور تعلیم و تدریس کی باقاعدہ اجازت دی گئی ہے ۔ یہ غیر ملکی آپ کے لیے خطرہ نہیں ہیں ، بلکہ آپ کے لیے اثاثہ اور سرمایہ ہیں ۔ 
مغربی طاقتوں کے اشاروں پر کھیلنے والے بعض مہم جو صحافیوں نے یہ نکتہ اٹھانے کی بھی کوشش کی ہے کہ اسلامی یونیورسٹی سے دہشت گردوں کو افرادی قوت ملتی ہے کیونکہ یہاں جہاد اور دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ جیسا کہ آگے ہم واضح کریں گے ، اسلامی یونیورسٹی میں دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی ،بلکہ دہشت گردی کی نظریاتی بنیادیں اکھاڑی جاتی ہیں اور طلبا کے سامنے جہاد کی صحیح تصویر اور تعبیر پیش کی جاتی ہے اور جہاد کے بارے میں دہشت گردوں کی جانب سے پیش کی گئی مسخ شدہ تعبیرات کی غلطی واضح کی جاتی ہے ۔ تاہم یہاں سوال یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ اسلامی یونیورسٹی دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے تو کیا دہشت گرد یہ حملے کرکے خود اپنی محفوظ پناہ گاہ کو غیر محفوظ کرنا چاہتے ہیں ؟ 
ثانیاً : وارننگ 
ایک نظریہ یہ بھی پیش کیا جارہا ہے کہ ان حملوں کا مقصد اسلامی یونیورسٹی کو وارننگ دینا ہے کہ وہ ’’غیر اسلامی حرکتوں‘‘ سے باز آئے ۔ اس نظریہ کے مطابق خواتین کا کیفے ٹیریا اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہ ’’فحاشی کا مرکز ‘‘ بن گیا تھا اور کلیۂ شریعہ کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کہ وہاں سے طالبان اور القاعدہ کے تصور جہاد کے خلاف قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی بنیاد پر جواب سامنے آرہا تھا ۔ اس نظریہ کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ ان حملوں کے ذریعہ ایسی آوازوں کو خاموش رہنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ اس نظریہ پر بھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس مقصد کے لیے خود کش حملہ ضروری تھا ؟ کیا عام بم دھماکہ یا ریموٹ کنٹرول دھماکہ یا دیگر بارودی مواد کا استعمال اس وارننگ کے لیے کافی نہیں تھا ؟ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ خود کش حملوں سے جتنی دہشت پھیلتی ہے وہ دہشت گردی کے دیگر طریقوں سے نہیں پھیلتی ۔ 
ثالثاً : اسلامی یونیورسٹی پر حملے آسان تھے 
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب نے ملبہ کسی اور پر ڈالنے کا اپنا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھتے ہوئے ان حملوں پرپہلا رد عمل یہی ظاہر کیا کہ یہ حملے اسلامی یونیورسٹی کی سیکیورٹی ناقص ہونے کی وجہ سے ہوئے ۔ بعض دیگر افراد نے بھی اس طرح کی رائے ظاہر کی ہے ۔ جی ایچ کیو پر حملہ، لاہور میں حملوں اور پشاور میں دھماکوں کے بعد نیز وزیرستان میں جاری جنگ کی وجہ سے یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ فوج کے زیر نگرانی تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کا حملہ متوقع ہے ۔ اس کے بعد وفاق کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کو بھی متوقع ہدف گردانا گیا جس کے نتیجے میں ایسے تقریباً تمام اداروں میں تعطیلات کا اعلان کیا گیا ۔ اس کے بعد دہشت گردوں نے متبادل ہدف کی تلاش شروع کی اور اسلامی یونیورسٹی اس وجہ سے نشانہ بنی کہ سیکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہ ہونے کے سبب یہاں دہشت گردی کی کاروائی کرنا نسبتاً آسان تھا ۔ گویا اسلامی یونیورسٹی اصل میں ہدف نہیں تھی بلکہ صرف اس وجہ سے ہدف بنی کہ اس پر حملہ آسان تھا ۔ 
یہ نظریہ کئی سوالات تشنہ چھوڑ دیتا ہے ۔ پہلا سوال یہ ہے کہ اس طرح کے آسان اہداف تو اور بھی بہت سے تھے ، پھر ان سب کو چھوڑ کر اسلامی یونیورسٹی کو کیوں نشانہ بنایا گیا ؟ مثال کے طور پر اسلامی یونیورسٹی سے چند سو گز کے فاصلہ پر نیشنل یونیورسٹی فاسٹ کا کیمپس ہے اور اسلامی یونیورسٹی پر حملوں کی تیاری کرتے ہوئے اور اسلامی یونیورسٹی میں داخل ہونے سے قبل دہشت گردوں کی نظر یقیناًفاسٹ کے اس کیمپس پر بار بار پڑی ہوگی ۔ اس کے باوجود انھوں نے فاسٹ کو چھوڑ کر اسلامی یونیورسٹی کو نشانہ بنایا ۔ کیا فاسٹ کے کیمپس میں سیکیورٹی کے انتظامات جی ایچ کیو یا ایف آئی اے کی بلڈنگ سے بھی زیادہ سخت تھے جن کی بنا پر دہشت گردوں نے وہاں داخلہ کی کوشش نہیں کی ؟ 
یہ بھی ایک سوال ہے کہ اسلامی یونیورسٹی میں بھی کئی دیگر آسان ہدف تھے ، ان سب کو چھوڑ کر بالخصوص کلیۂ شریعہ اور خواتین کے کیفے ٹیریا کو کیوں نشانہ بنایا گیا ؟ پھر یہ کہ اسلامی یونیورسٹی اگر واقعی آسان ہدف تھا تو یہاں خود کش حملوں کی کیا ضرورت تھی ؟ دونوں خود کش حملہ آور اپنے ساتھ تقریباً پانچ پانچ کلو کا دھماکہ خیز مواد لائے تھے ۔ کیا اس سے کہیں زیادہ ہلاکت خیز مواد خواتین کے کیفے ٹیریا میں یا کسی بھی دوسری بلڈنگ میں نصب نہیں کیا جاسکتا تھا ؟ جو لوگ کینٹ ایریا میں آرمی چیف کی رہائش گاہ کے قریب پل کے نیچے بم نصب کرسکتے ہیں ان کے لیے اسلامی یونیورسٹی میں ایسا کرنا کیا مشکل تھا ؟ پھر خود کش حملہ آور کیوں استعمال کیے گئے ؟ خود کش حملہ آور تو یقیناًدہشت گردوں کا سب سے زیاہ اہم ہتھیار ہیں ۔ پھر اتنے soft target پر انھیں کیوں ضائع کیا گیا ؟ یہ بھی ایک سوال ہے کہ پچھلے چند دنوں میں دہشت گردوں نے جو حملے کیے انھوں نے لوگوں کو یرغمال بنانے کی کوشش کی ۔ اسلامی یونیورسٹی میں جو دو حملے ہوئے ان میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی ۔ پھر خود کش حملوں کی کیا ضرورت تھی ؟ 
دھماکوں کی ٹائمنگ بھی قابل غور ہے ۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ، دونوں دھماکے تقریباً تین بجے کے قریب ہوئے ۔ خواتین کے کیمپس میں صبح کی کلاسز ساڑھے آٹھ بجے سے شروع ہوکر ڈیڑھ بجے ختم ہوجاتی ہیں ۔ پھر شام کی کلاسز ڈھائی بجے سے شروع ہو کر ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہتی ہیں ۔ اگرچہ اکا دکا کلاسز اس کے بعد بھی آٹھ بجے تک چلتی ہیں لیکن ساڑھے پانچ بجے کے بعد خواتین کے کیمپس میں عموماً سناٹا ہوتا ہے ۔ ڈیڑھ بجے سے ڈھائی بجے تک کلاسز کا وقفہ ہوتا ہے ۔ جن طالبات کی کلاسز شام کو نہیں ہوتیں وہ ڈیڑھ بجے کے بعد ہاسٹلز یا گھروں کو چلی جاتی ہیں ۔ البتہ جن طالبات کی کلاسز شام کو ہوتی ہیں ان میں بیشتر ، بالخصوص وہ جو ہاسٹل میں مقیم نہ ہوں ، اس وقفہ میں کیفے ٹیریا میں جاکر کھانا کھاتی ہیں ۔ اس لیے اس وقفہ میں خواتین کے کیمپس کے سامنے گاڑیوں کا رش بھی لگا ہوتا ہے اور کیفے ٹیریا میں بھی بہت زیادہ طالبات موجود ہوتی ہیں ۔ 
مردوں کے کیمپس میں صبح کی کلاسز ساڑھے آٹھ بجے سے شروع ہوکر ڈیڑھ بجے ختم ہوتی ہیں جبکہ شام کی کلاسز کلیۂ شریعہ میں ساڑھے تین بجے شروع ہوتی ہیں اور آٹھ بجے تک چلتی ہیں ۔ ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک کلاسز میں وقفہ ہوتا ہے جس میں بیشتر طلبا ہاسٹلز میں یا مردوں کے کیفے ٹیریا میں جاتے ہیں ۔ اسی طرح اس وقفہ میں اسٹاف کے اکثر ارکان بھی کھانے اور نماز کے لیے دفتروں سے باہر ہوتے ہیں ۔ جو بسیں طلبا کو دیگر ہاسٹلز سے یا راولپنڈی اسلام آباد کے دیگر مقامات سے لاتی ہیں وہ تقریباً تین بج کر بیس منٹ پر پہنچتی ہیں ۔ اس لیے سوا تین بجے سے ساڑھے تین بجے تک کلیۂ شریعہ کے برآمدوں اور صحن میں بہت زیادہ رش ہوتا ہے ۔ ساڑھے تین بجے کے بعد آٹھ بجے تک کلیۂ شریعہ کی تمام کلاسز بالعموم بھری ہوئی ہوتی ہیں ۔ 
جب تین بجے خواتین کے کیفے ٹیریا میں دھماکہ ہوا اس وقت یقیناًوہاں رش تھا ، اگرچہ اس سے زیادہ رش ڈیڑھ بجے سے ڈھائی بجے تک ہوتا ہے ، لیکن کلیۂ شریعہ کے برآمدے ، صحن اور کلاس رومز میں خال خال ہی کوئی پایا جاتا تھا ۔ اگر یہ دھماکے صرف پندرہ منٹ کی تاخیر سے ہوتے تو خواتین کے کیفے ٹیریا میں رش کی کیفیت تو تقریباً اسی طرح ہوتی، لیکن کلیۂ شریعہ میں رش یقیناًبہت زیادہ ہوتا اور اس صورت میں کلیۂ شریعہ میں زخمی اور جاں بحق ہونے والوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی ۔ کیا دھماکوں کی منصوبہ بندی کرنے والوں سے وقت کے تعین میں کوئی غلطی ہوئی ؟ یا وہ کلیۂ شریعہ میں بہت زیادہ تباہی پھیلانا نہیں چاہتے تھے اور اس وجہ سے انھوں نے ساڑھے تین بجے کے بجائے تین بجے دھماکہ کیا ؟ 

سازش کے نظریات 

اب کچھ ان نظریات پر بھی روشنی ڈالی جائے جنھیں ’’ سازش کے نظریات ‘‘ (conspiracy theories) کہا جاتا ہے ۔ اگرچہ سنجیدہ حلقوں میں عام طور پر سازش کے نظریات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا لیکن پھر بھی ان نظریات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے کیونکہ ان سے بعض اوقات چند اہم سوالات سامنے آجاتے ہیں خواہ یہ نظریات خود ان سوالات کے تشفی بخش جواب نہ دے سکیں ۔ 
اولاً : اسلامی یونیورسٹی پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے یہ حملے کیے گئے ۔ 
بعض طلبا کی جانب سے یہ رائے پیش کی گئی ہے کہ ان حملوں کا اصل مقصد یہ ہے کہ اسلامی یونیورسٹی پر حکومت کی جانب سے مختلف قسم کی پابندیاں عائد کی جائیں ۔ یہ صحیح ہے کہ بعض انتہا پسند سیکولر حلقوں کو اسلامی یونیورسٹی کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا ۔ یہ بھی صحیح ہے کہ وقتاً فوقتاً مختلف حکومتوں نے اسلامی یونیورسٹی کے اسلامی اور بین الاقوامی تشخص کو ختم کرنے کی کوششیں بھی کی ہیں ۔ لیکن اس نظریہ پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا خود کش حملہ آوروں نے اس لیے اسلامی یونیورسٹی کو ہدف بنایا کہ وہ اسلامی یونیورسٹی کا اسلامی تشخص ختم کرنا چاہتے تھے ؟ ان حملہ آوروں کے ذہن میں کیا تھا ؟ 
یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ طالبان ، بالخصوص سوات کے طالبان ، کے دلوں میں اسلامی یونیورسٹی کے لیے نرم گوشہ تھا ۔ صوبائی حکومت کے ساتھ معاہدہ میں مولانا صوفی محمد کے اصرار پر یہ بات شامل کی گئی کہ قاضیوں کی تقرری کے لیے اسلامی یونیورسٹی کے کلیۂ شریعہ کے فاضل طلبا کو ترجیح دی جائے گی ۔ پھر یہ بات حکومت نے شرعی نظام عدل ریگولیشن مجریہ ۲۰۰۹ء میں بھی شامل کرلی ۔ سوات طالبان کے ترجمان مسلم خان ، جو اس وقت حکومتی تحویل میں ہیں ، سے جب پوچھا گیا کہ شرعی قوانین کے ماہر قاضی کہاں پائے جاتے ہیں جن کی تقرری کا آپ مطالبہ کرتے ہیں ؟ تو ان کا جواب یہ تھا کہ اسلامی یونیورسٹی کے کلیۂ شریعہ سے فارغ التحصیل طلبا اس ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں ۔ پھر اچانک کیا ہوا کہ اسلامی یونیورسٹی اور اس کا کلیۂ شریعہ ان کی نظر میں کھٹکنے لگی ؟ کیا اس موضوع پر بھی طالبان اور القاعدہ میں اختلافات پائے جاتے ہیں کہ ان کا ایک گروہ تو کلیۂ شریعہ کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور دوسرا گروہ اسے اپنے دشمنوں میں شمار کرتا ہے ؟ 
ثانیاً : یہ حملے امریکا کے اشارہ پر اور وزیرستان میں جنگ کو جواز دینے کے لیے کیے گئے -
یہ نظریہ عمران خان نے بڑے شد و مد سے پیش کیا ۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کے مختلف کونوں میں جنگوں کے جواز کے لیے اس طرح کے غیر انسانی کھیل کھیلے جاتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو خود کش حملہ آور خواتین کے کیفے ٹیریا اور کلیۂ شریعہ کو نشانہ بنانے کے لیے آئے کیا وہ امریکا کے لیے اپنی جان دے رہے تھے ؟ اس کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکا یا اس کے حواری تو سات پردوں کے پیچھے چھپے ہوتے ہیں اور خود کش حملہ آور کو معلوم نہیں ہوتا کہ درحقیقت وہ امریکا کے لیے آلۂ کار بن رہا ہے ۔ اس کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ ان خود کش حملہ آوروں کو جب ان اہداف کی طرف بھجوایا جارہا تھا تو ان کے مرشد اور امیر نے ان کے سامنے کیا جواز رکھا تھا ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ خود کش حملہ آور اپنے ہدف کے جواز کے متعلق یکسو نہ ہو ؟ کیا خود کش حملہ آوروں کا ذہن اتنا مفلوج ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ جائز اور ناجائز ہدف کی تمیز نہیں کرسکتا ؟ کیا اطاعت امیر کا جذبہ ان کے دلوں میں اتنا راسخ کیا جاچکا ہوتا ہے کہ امیر کے ہر حکم وہ چون و چرا کے بغیر بالکل صحیح مان لیتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تو اس سے زیادہ سنگین سوال سامنے آجاتا ہے ۔ کیا خود کش حملہ آوروں کے مرشد اور امیر دوسروں کے اشاروں پر کھیلتے ہیں اور ان خود کش حملہ آوروں کو محض ہتھیار اور آلہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں ؟ اگر ایسا ہے تب بھی انھوں نے ان حملہ آوروں کو یہ یقین تو دلایا ہوگا کہ ان اہداف پر حملہ کرنے سے وہ دین اور امت کے دشمنوں کو بڑا نقصان پہنچائیں گے ۔ 
ثالثاً : اسلامی یونیورسٹی سے انتقام لیا گیا -
بعض لوگوں کی جانب سے یہ رائے بھی پیش کی گئی ہے کہ دہشت گردی کے ان حملوں کے ذریعہ اسلامی یونیورسٹی سے کسی قسم کا انتقام لیا گیا ۔ اس نظریہ کے حق میں ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ دیگر حملوں کے برعکس ان حملوں کی ذمہ داری ابھی تک طالبان یا کسی اور تنظیم نے قبول نہیں کی ۔ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کی روایت اس لیے قائم ہوئی تھی کہ رائے عامہ کو ان تکالیف اور اسباب کی طرف توجہ دلائی جائے جن کی وجہ سے لوگ دہشت گردی کی کاروائی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔ اس کی مثال میں فلسطینی ہائی جیکروں کی کاروائیاں پیش کی جاسکتی ہیں ۔ تاہم بعد میں یہ روایت بتدریج کمزور ہوئی کیونکہ اس طرح کی کاروائیوں میں عام لوگوں کا بہت نقصان ہوتا ہے اور رائے عامہ دہشت گردوں کے خلاف ہوجاتی ہے ۔ نیز دوسرے فریق کی جانب سے بدلہ اور جوابی کاروائی کا اندیشہ بھی ہوتا ہے ۔ ایک اور وجہ یہ ہوتی ہے کہ ’’ پراسرار اور نامعلوم ‘‘ دشمن کے روپ میں آکر دہشت گرد بہت زیادہ دہشت پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ پاکستان میں دہشت گردی کے اکثر واقعات کی ذمہ داری مختلف تنظیموں نے قبول کی ہے کیونکہ اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کاروائی کو اپنی طاقت کا مظاہرہ بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ اسلامی یونیورسٹی میں حملے اگر طالبان یا القاعدہ کی جانب سے ہوئے ہیں تو پھر اس خاموشی کا کیا مطلب ہے ؟ کیا انھیں رائے عامہ کی مخالفت کا اندیشہ ہے ؟ اگر ہاں ، تو پھر انھوں نے حملے کیے کیوں ؟ کیا انھیں حکومت کی جانب سے جوابی کاروائی کا اندیشہ ہے ؟ حکومت تو پہلے ہی وزیرستان میں جنگ شروع کرچکی ہے ۔ پھر کیوں وہ اپنی شناخت چھپانا چاہتے ہیں ؟ 
تاہم اس نظریہ پر بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں ۔ پہلا سوال تو یہ ہے کہ انتقام کس سے کس بات کا لیا گیا ؟ نیز کیا انتقام لینے والے اپنے ہدف کو کسی اور ایسے طریقہ سے نشانہ نہیں بناسکتے تھے جس سے عام طلبا و طالبات کو نقصان نہ پہنچتا ؟ یہ صحیح ہے کہ کلیۂ شریعہ میں دھماکہ ایسے وقت کیا گیا جب وہاں طلبا کی تعداد نہایت کم تھی لیکن اس کے باوجود اگر دہشت گرد وہاں کسی کو نشانہ بنانا چاہتے تو اس کے لیے خود کش حملہ کی کیا ضرورت تھی ؟ اور یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا خود کش حملہ آوروں کے مرشد اور امیر کرائے کے ٹٹوں (Mercenaries)کے طور پر کام کرتے ہیں ؟ خود کش حملہ آورروں کے پیچھے کسی کا بھی ہاتھ ہو ، اور منصوبہ بندی کرنے کا والوں کا اصل ہدف کچھ بھی ہو ، ان نوجوانوں کے ذہن میں کیا تھا جنھوں نے خود کو ان خود کش حملوں کے لیے پیش کیا ؟ اس سوال کا جواب مل جائے تو القاعدہ اور طالبان کے نظریات اور خود کش حملوں کی حقیقت کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں ( یا خوش فہمیاں ) دور ہوجائیں گی ۔ 
رابعاً : بلیک واٹر کی سرگرمیاں -
پیچھے مذکور تین نظریات کی طرح سازش کا ایک اور نظریہ بھی پیش کیا جارہا ہے ۔ اسلام آباد میں پچھلے کچھ عرصہ میں بدنام زمانہ امریکی پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کی سرگرمیوں کے حوالہ سے مختلف خبریں میڈیا میں گردش کرتی رہی ہیں ۔ اسلامی یونیورسٹی پر حملوں کے ضمن میں بھی بعض مشکوک قسم کی حرکات کا حوالہ دیا جارہا ہے جن کا تعلق بلیک واٹر سے جوڑا جارہا ہے ۔ مثال کے طور پر ایک سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ خواتین کے کیفے میں ہونے والا دھماکہ ہر لحاظ سے کلیۂ شریعہ میں ہونے والے دھماکہ سے زیاہ خوفناک اور تباہ کن تھا اور خواتین کے کیفے میں اس وجہ سے تباہی بھی زیادہ پھیلی ، لیکن حکومتی سیکیورٹی فورسز نے آتے ہی کلیۂ شریعہ کا محاصرہ کرلیا اور اسے ہر طرف سے سیل کرلیا ۔ انھوں نے ایسی کوئی کاروائی خواتین کے کیفے میں نہیں کی ۔ اس کی کیا وجہ تھی ؟ 
کلیۂ شریعہ میں ہونے والے دھماکہ پر اور پہلو سے بھی سوال اٹھایا جاتا ہے ۔ امام ابو حنیفہ بلاک کا ایک تو مین گیٹ ہے جس میں سے داخل ہونے کے بعد پہلے کلیۂ شریعہ کے دفاتر آتے ہیں ۔ اس مین گیٹ کے علاوہ چار دروازے اور بھی ہیں ۔ ان میں دو دروازے دروازہ لڑکوں کے پاسٹلز کی جانب ہیں ۔ پہلا دروازہ اما م ابو حنیفہ بلاک میں موجود میڈیکل سیکشن کی طرف کھلتا ہے ۔ دوسرا دروازہ اس کے بعد آتا ہے جو کلیۂ عربی میں کھلتا ہے ۔ اسی طرح دو دروازے یونیورسٹی کی کارپارکنگ کی طرف ہیں ۔ ان میں ایک دروازہ پارکنگ کی جانب سے کلیۂ اصول الدین میں دوسرا کلیۂ شریعہ میں کھلتا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل تک یونیورسٹی انتظامیہ صرف مین گیٹ کھلا رکھتی تھی لیکن ایک دفعہ جب امام ابن خلدون بلاک کے طلبا نے احتجاج کرتے ہوئے مین گیٹ کو تالہ لگادیا تو انتظامیہ کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ پھر کسی دروازہ سے بلاک کے اندر جانا ممکن نہیں رہا تھا ۔ اس واقعہ کے بعد دونوں بلاکس میں تمام دروازے کھلے رکھے جاتے تھے ۔ تاہم کچھ عرصہ بعد ، شاید سیکیورٹی کے نقطۂ نظر سے ، دوبارہ تمام دروازے بند کردیے گئے اور صرف مین گیٹ کھلا رہنے دیا گیا ۔ بہت عرصہ بعد پہلی دفعہ ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۹ ء کو ایسا ہوا کہ کلیۂ عربی کا دروازہ کھول دیا گیاتھا اور اسی دن کلیۂ شریعہ میں یہ دھماکہ ہوا ۔ اگر صرف مین گیٹ کھلا ہوتا تو دھماکہ کے بعد افراتفری میں شاید اور بھی زیادہ نقصان ہوتا ۔ یہ بھی واضح رہے کہ امام ابوحنیفہ بلاک کے مین گیٹ پر دو سیکیورٹی گارڈز تعینات ہوتے ہیں جبکہ کلیۂ عربی اور دیگر دروازوں کے کھلے ہونے کی صورت میں ان پر کبھی ایک گارڈ متعین ہوتا ہے اور کبھی وہاں کوئی بھی گارڈ نہیں ہوتا ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یونیورسٹی کی سیکیورٹی پر مامور انتظامیہ میں کہیں کوئی کالی بھیڑ پائی جاتی ہے ؟
سازش کے نظریات پر یقین رکھنے والے بہت سے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ حملے خود کش نہیں تھے ۔ حکومت اور میڈیا میں بالعموم دہشت گردی کی ہر کاروائی اور ہر دھماکہ کو خود کش حملہ قرار دینے کی روایت پائی جاتی ہے ۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ حکومت کو یہ کہہ کر پیچھا چھڑانے کا راستہ مل جاتا ہے کہ خود کش حملہ آور کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ دوسرے، اس کا الزام فوراً طالبان ، القاعدہ یا اس طرح کی کسی اور تنظیم پر عائد کردی جاتی ہے ۔ کلیۂ شریعہ میں ہونے والے دھماکہ کے بارے میں بعض میڈیا رپورٹس میں جسے خود کش حملہ آور قرار دیا جارہا تھا اس کے متعلق بعد میں معلوم ہوا کہ وہ بے چارہ خود اس دھماکہ کے متاثرین میں تھا ۔ اسلامی یونیورسٹی نے باقاعدہ پریس ریلیز میں وضاحت کی کہ کلیۂ عربی میں زیر تعلیم خلیل الرحمان شہید خود کش حملہ آور نہیں تھے بلکہ اس حملے کا شکار ہوئے ۔ ساز ش کے نظریات پر یقین رکھنے والے لوگ کلیۂ شریعہ میں ہونے والے دھماکہ کو خود کش حملہ نہیں مانتے ۔ 
ہماری ناقص رائے میں اس دھماکہ کے متعلق یہ سوالیہ نشان اس وقت تک قائم رہے گا جب تک حکومت کی جانب سے باقاعدہ تحقیقی رپورٹ سامنے نہ آئے جس کی رو سے یہ ثابت ہو کہ یہ واقعی خود کش حملہ تھا ۔ تاہم کیفے ٹیریا میں ہونے والا دھماکہ تو یقیناًخود حملہ کش حملہ آور نے کیا تھا جس نے پہلے سیکیورٹی گارڈ شوکت کو زخمی بھی کیا تھا ۔ تو کیا یہ دونوں واقعات ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے نہیں تھے ؟ کیا محض اتفاقاً دونوں دھماکے یکے بعد دیگرے ہوئے ؟ یہ بات وزنی نہیں لگتی ۔ تاہم تحقیقاتی اداروں کو اس امکان پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ کلیۂ شریعہ میں ہونے والے دھماکہ کا محرک اور مقصد خواتین کے کیفے ٹیریا میں ہونے والے حملہ کے محرک اور مقصد سے مختلف ہو ، خواہ دونوں کے لیے پلاننگ ایک جگہ کی گئی ہو ؟ کیا حکومت ان دھماکوں کی آزادانہ تحقیقات کراسکتی ہے ؟ کیا تحقیقاتی اداروں کی رپورٹس سے قوم کو آگا کیا جائے گا ؟ کیا اسلامی یونیورسٹی کے ان معصوم طلبا و طالبات کے قاتلوں سے انصاف لیا جاسکے گا؟ 

دہشت گردی کے واقعات اور روایتی دینی طبقہ کا رویہ 

اوپر ذکر کیا گیا کہ حکومت ذمہ داری سے بچنے کے لیے دہشت گردی کی ہر کاروائی کو خود کش حملہ اس قرار دیتی ہے ۔ اس کے متوازی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ روایتی دینی طبقہ میں سے کئی لوگ واضح طور پر ثابت شدہ خود کش حملہ کو بھی خودکش حملہ ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لاشعوری طور پر وہ حملہ آوروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر اگر کبھی وہ اسے خود کش حملہ مان بھی لیتے ہیں تو اس کے بعد سازش کے نظریات پیش کرتے ہیں کہ یہ حملہ طالبان نے نہیں کیا ، بلکہ کسی اور نے کیا ہے ۔ پھر اگر طالبان خود کسی حملہ کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں تو یہ لوگ کچھ اور طرح کے عذر تراشنے لگتے ہیں ۔ مثلاً اسلامی یونیورسٹی کے حملوں کے ضمن میں بعض لوگوں نے یہ نکتہ پیدا کرنے کی کوشش کی کہ حملہ آوروں کا اصل ہدف خواتین کیمپس کے عقب میں موجود نالے کے پار واقع امریکن سکول تھا ! بعض اوقات جب طالبان کی جانب سے واضح طور پر ہدف کے متعلق بھی تصریح آجاتی ہے تو یہ لوگ اس ہدف کے آس پاس کسی ایک یا ایک سے زائد امریکی ، یا غیر ملکی ، بالخصوص غیر مسلم ، شخص یا ادارے ، کی تلاش شروع کردیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس حملے میں عام لوگ ، بچے ، خواتین اور بوڑھے کتنی بڑی تعداد میں نشانہ بنے ۔ خیبر بازار پشاور میں دھماکہ ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اصل ہدف تو شاید صوبائی اسمبلی کی عمارت تھی جہاں اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا ۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو کیا اسمبلی کی عمارت کو ہدف بنانا شرعاً جائز تھا ؟ کیا وہاں موجود لوگ واجب القتل یا کم از کم مباح الدم تھے ؟ سوات طالبان کے ترجمان حاجی مسلم خان سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ آپ کے حملوں کی زد میں عام لوگ آجاتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو لوگوں کو آگاہ کیا ہوا ہے کہ سیکیورٹی فورسز سے دو سو گز کے فاصلہ پر رہیں! اسی طرح جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے تو جنازہ پر بھی حملہ کی ذمہ داری قبول کی تو ان کا جواب یہ تھا کہ جنازہ تو کب کا پڑھا جاچکا تھا ، وہاں تو اس کے بعد بینڈ باجا بجایا جارہا تھا ۔ ( واضح رہے کہ یہ ایک پولیس آفیسر کا جنازہ تھا۔) بعض لوگوں نے یہ بات بھی بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ پھیلائی کہ اس جنازہ پر جس نے حملہ کیا تھا اس نے حملہ سے پہلے دو تین دفعہ بلند آواز سے لوگوں سے کہا تھا کہ آپ لوگ ہٹ جائیں اور پولیس کو سلامی کی کاروائی پوری کرنے دیں ۔ گویا یہ کہہ کر خود کش حملہ آور نے عام لوگوں کے قتل سے براء ت کا اعلان کرلیا ! 
بہت سے لوگ اب بھی یہ بات ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ خود کش حملہ آوروں کی یہ کھیپ پاکستان کے اندر ہی تیار کی جارہی ہے اور یہ خود کش حملہ آور پاکستانی ہی ہیں ۔ آخر کب تک ہم خودفریبی میں مبتلا رہیں گے ؟ بونیر میں شلبانڈی گاؤں کے پولنگ سٹیشن پر جس نوجوان نے خود کش حملہ کیا تھا اس کی وصیت خود سوات طالبان نے ریکارڈ کرکے اپنے پراپیگنڈے کے لیے استعمال کی ۔ ( تفصیل کے لیے سوات طالبان کی تیار کردہ ویڈیو ’’ سوات ۔ ۳ ‘‘ ملاحظہ کریں ۔ ) اس نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ شلبانڈی سے بدلہ لینے جارہا ہے کیونکہ وہاں کے بعض لوگوں نے تین طالبان کمانڈروں کو قتل کرکے ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی تھی ۔ کیا اس نوجوان کو یا اس کے مرشدین کو بدلہ کے متعلق شریعت کے احکام کا علم نہیں تھا ؟ اس خود کش حملہ میں ، جو ایک پولنگ سٹیشن پر کیا گیا تھا ، بڑی تعداد میں عام لوگ اور عورتیں جاں بحق اور زخمی ہوئیں ۔ کیا پولنگ سٹیشن پر حملہ جائز تھا ؟ یہاں ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ جمہوریت کے شرک ہونے کی بحث شروع کردیں۔ 
کاش ہمارے دوست یہ بات جان لیں کہ ہمارا واسطہ جن لوگوں سے ہے، ان کے نزدیک ہم میں سے اکثر مرتد اور واجب القتل ہوچکے ہیں۔ کیا اسلامی یونیورسٹی پر حملوں کے بعد ہمارے ان نادان دوستوں کی آنکھیں کھل جائیں گی یا اس کے لیے اس سے زیادہ بڑے پیمانہ پر تباہی کی ضرورت ہے؟ 

آزادی کی پر تشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت

ڈاکٹر عبد القدیر خان

کشمیر کے مجوزہ حل کے بارے میں پرویز مشرف اور خورشید محمد قصوری نے کئی بیانات دیے ہیں اور یہ غلط تاثر دیا ہے کہ جیسے ہندوستان کشمیر کو پلیٹ پر رکھ کر ان کو دے رہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا بنیادی اصول یہ رہا ہے کہ کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ یعنی ناقابل جدا حصہ ہے اور ہندوستان بشمول کشمیر کی سرحد میں ایک انچ کا بھی ردوبدل نہ ہوگا۔ آپ خود ہی سوچیے اور ان دو سابق حکمرانوں سے دریافت کیجیے کہ وہ کون سی شرائط تھیں جن پر ہندوستان قضیہ کشمیر کو حل کرنے پر راضی تھا یا ہمیں دینے کو تیار تھا؟ حیدر آباد، جونا گڑھ اور مانا ودر کو بھی نہ بھولیے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے راہنماؤں کی سب سے بڑی غلطی یا بلنڈر یہ رہا ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی قسمت اور مستقبل کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت تک ستر ہزار سے لے کر ایک لاکھ کشمیری تک نوجوان ہلاک ہو چکے ہیں اور حالات پہلے سے زیادہ مایوس کن ہیں۔ اگر مقبوضہ کشمیر کے تمام رہنماؤں کو حقیقت کا احساس ہوتا تو ان کو چاہیے تھا کہ سب مل کر الیکشن میں حصہ لیتے۔ لوگوں کو ثبوت دیتے کہ عوام کی اکثریت ان کے ساتھ ہے اور پھر متحد ہو کر اپنے حقوق مانگتے۔ ایک آزاد پالیسی بناتے اور زیادہ سے زیادہ اندرونی خود مختاری لے کر اپنی حالت پر خود کنٹرول رکھتے۔ اپنے عوام کی خدمت کرتے، لیکن میر واعظ عمر فاروق، پروفیسر گیلانی، یاسین ملک وغیرہ ابھی تک آنکھیں کھولے خواب دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی انہیں کشمیر کو آزاد کرا کے پاکستان کے حوالے کروا دے گا۔ اب پاکستان میں تو ابھی آمریت، ڈکٹیٹر شپ، لوٹ مار، رشوت ستانی اور لوٹا بازی ہے۔ 
کوئی بھی جدوجہد اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک ایک طاقتور، بہادر، سنجیدہ ملک آپ کی کھل کر مسلسل مدد نہ کرتا رہے۔ پاکستان کو تو مشرف نے امریکہ اور ہندوستان کے ہاتھوں کوڑی کے داموں بیچ دیا ہے۔ اس کی اپنی حالت خستہ اور قابل رحم ہے اور وہ آپ کی کیا مدد کرے گا؟ آپ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور متحد ہو کر اپنے لیے سہولتیں اور زیادہ سے زیادہ اندرونی خودمختاری حاصل کر کے اپنے عوام کی مدد کریں اور خوشحالی اور امن مہیا کریں۔ کشمیری لیڈروں کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ۱۹۶۵ء کی جنگ کے بعد پاکستان نے ۹۵ فی صد کشمیر کو کھو دیا تھا اور ۵ فیصد گنجائش تھی۔ وہ مشرف نے کارگل میں پنگا لے کر ہمیشہ کے لیے ضائع کر دی۔ میں نے ابھی عرض کیا کہ جب تک کوئی طاقتور، نڈر پڑوسی ملک کھل کر کسی جدوجہد کی مدد نہ کرے، اس وقت تک کوئی جدوجہد کامیاب نہیں ہو سکتی۔ چند مثالیں پیش کرتا ہوں: 
  1. پہلی مثال کشمیر کی ہی ہے، کیوں کہ نہ تو ہم طاقتور تھے اور نہ ہی کھل کر کشمیریوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ ستر ہزار سے زیادہ کشمیری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ وہ اس طرح کشمیر کو آزاد کرا لے گا تو وہ احمقوں کی دنیا میں رہتا ہے۔ 
  2. دوسری مثال فلسطین کی ہے۔ اگر آپ ۱۹۴۹ء میں اسرائیل کا رقبہ اور حدود دیکھیں تو تقریباً ایک چوتھائی تھا، کیوں کہ عرب حکمران اس معاملہ میں سنجیدہ نہ تھے۔ آج اسرائیل چار گنا بڑا ہے اور عرب ان کے آگے غلاموں کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہیں۔ نہایت بری طرح شکستیں کھا کر اور لاکھوں بے گناہ لوگوں کو مروا کر فلسطینی لیڈر ابھی تک کوئی سبق حاصل نہ کر سکے۔ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا، اسرائیل وسیع سے وسیع تر ہوتا جائے گا اور فلسطینی اور عرب زبانی جمع خرچ کر کے ذلیل و خوار ہوتے جائیں گے۔ اگر پچاس سال پہلے مصالحتی رویہ اختیار کر لیتے تو آج اسرائیل اپنے قیام کو قائم رکھنے میں دشوار ی محسوس کر رہا ہوتا۔ 
  3. ابھی ابھی سری لنکا میں تامل باغیوں کا حشر آپ کے سامنے ہے۔ جب تک ہندوستان کھل کر مدد کرتا رہا، انہوں نے سری لنکا کی فوج کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ جونہی بین الاقوامی دباؤ اور کشمیر کو دیکھ کر اس نے ایک ملکی مفاد والی پالیسی اختیار کر لی، تامل ختم کر دیے گئے۔ سب لیڈر مارے گئے اور تقریباً ایک لاکھ بے گناہ لوگوں نے چند خود غرضوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے جان دے دی۔ اگر بیس سال پہلے مصالحتی پالیسی اختیار کر کے معاہدہ کر لیتے تو اپنے علاقہ میں مکمل اندرونی خودمختاری مل جاتی اور لوگ خوش و خرم رہتے۔ اب وہ دوسرے درجہ کے ناقابل بھروسہ شہری بن گئے ہیں۔ 
  4. اسپین میں دہشت گرد تنظیم ای ٹی اے نے بھی وہی اندھی پالیسی اختیار کی اور دہشت گردی کا طریقہ اختیار کیا۔ لاتعداد لوگ مارے گئے اور نتیجہ صفر نکلا اور وہ کبھی بھی ایک آزاد ملک حاصل نہیں کر سکیں گے۔ 
  5. شمالی آئر لینڈ میں آئی آر اے نامی دہشت گرد تنظیم نے کئی برس دہشت گردی کی مہم جاری رکھی۔ ہزاروں لوگ قتل ہوئے مگر بعد میں عقل و فہم نے غلبہ حاصل کیا اور برٹش گورنمنٹ سے معاہدہ کر کے اب حکومت کر رہے ہیں اور اپنے عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔
  6. چیچنیا نے چند کم عقل لیڈروں کی احمقانہ پالیسی و دہشت گردی کی وجہ سے ملی ملائی آزادی کھو دی۔ صدر یلٹسن کے مشیر سکیورٹی جنرل لیبیڈ نے چیچنیا کو تقریباً مکمل آزادی دے دی تھی۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے علاقے کے حالات ٹھیک کرتے، انہوں نے پڑوسی علاقوں داغستان، انگوشتیا اور اوسیٹیا میں دہشت گردی شروع کر دی اوراس خام خیالی کا شکار ہو گئے کہ روسی وہاں سے بھاگ جائیں گے۔ صدر پوٹن نے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مغربی ممالک نے انگلی تک نہ اٹھائی کیوں کہ وہ خود عراق، افغانستان اور فلسطین میں دہشت گردی کر رہے تھے یا مدد کر رہے تھے۔ اگر چیچنیا کے لیڈر صبر و تحمل اور عقل و فہم سے کام لیتے تو آج ایک آزاد ملک ہوتے۔ 
  7. مشرقی تیمور کی تحریک آزادی اس لیے کامیاب ہوئی کہ وہاں کی عیسائی آبادی کی امریکہ اور یورپی ممالک نے کھل کر حمایت کی اور انڈونیشیا پر دباؤ ڈال کر اور دھمکیاں دے کر اس کو آزاد کرا دیا۔ فلسطین میں وہ اسرائیل کے حامی ہیں۔ 
  8. اری ٹیریا کی جنگ آزادی اس لیے کامیاب ہوگئی کہ بغاوت کرنے والے لوگوں کی سوڈان اور دوسرے عرب ممالک نے کھل کر مدد کی اور ایتھوپیا اس جنگ کے خرچ کو برداشت کرنے کے قابل نہ تھا۔
  9. مشرقی پاکستان میں لوگ اس لیے کامیاب ہوئے کہ ہندوستان اور روس نے کھل کر ان کی سامان اور فوجیوں سے مدد کی، ورنہ وہ کبھی نہیں جیت سکتے تھے۔ ہماری فوجی ڈکٹیٹر شپ نے ان کویہ موقع فراہم کیا تھا۔
  10. مشرقی پنجاب میں اتنی بہادر اور جنگجو قوم سکھ آزادی کی جنگ ہار گئے۔ باہر سے کوئی مدد گار نہ تھا اور پاکستان خود اس قابل نہیں تھا کہ وہاں کوئی گڑبڑ کرتا اور جواب میں کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ ہزاروں سکھ مارے گئے اور نتیجے میں کچھ نہ ملا۔
  11. ایک اور شرانگیزی جس میں امریکہ براہ راست ملوث ہے، وہ چین کے صوبہ سنگیانگ میں دہشت گردی ہے۔ ایک خود ساختہ امریکی ایجنٹ رابعہ غدیر کو واشنگٹن میں بٹھا کر اور تمام سہولتیں دے کر چین کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ رابعہ غدیر اور سنگیانگ کے شہریوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی غیر ملک ان کی مدد نہیں کر سکتا۔ چین ایک بنانا ری پبلک نہیں ہے۔ رابعہ اور اس جیسے مفاد پرستوں نے سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو مروا دیا۔ ان کا مستقبل چین کے ساتھ ہے اور ان سے گفت وشنید کے ساتھ وہ اپنے لیے بہت سی مراعات حاصل کر سکتے ہیں۔ رابعہ جیسے خود غرض امریکہ میں بیٹھ کر عیاشی کر تے رہیں گے اور وہیں مر جائیں گے اور بے گناہ سیدھے سادھے لوگوں کو مرواتے رہیں گے۔ 
  12. ایک اور واقعہ تبت کا ہے۔ آج سے پچاس سال سے پہلے غیر ملکی ایجنٹوں کی شہ پر دلائی لامہ نے چین کے خلاف بغاوت کی اور ہزاروں دہشت گرد مارے گئے۔ یہ شخص آج ایک سیاست دان بن کر پوری دنیا میں پھرتا رہتا ہے اور عیاشی کرتا پھرتا ہے، جب کہ اپنی عوام کو پیچھے چھوڑ کر مشکلات میں جھونک دیا ہے۔ پروپیگنڈا کے قطعی برخلاف چینی حکومت اور عوام اپنی اقلیتی طبقوں کے ساتھ بے حد فراخ دل اور ہمدرد ہیں۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں، میں اور میرے چند رفقائے کار اپنے اہل و عیال کے ساتھ لہاسہ (lhasa) گئے تو یہ ایک نہ بھولنے والا تجربہ تھا۔ ہم نے بہت مشہور پوٹالا محل دیکھا اور بہت سے خوبصورت علاقہ جات دیکھے۔ دلائی لامہ کا گرمی کا محل ایک خوبصورت باغ میں تھا اور اس میں اس کی استعمال کی چیزیں بالکل اسی طرح رکھی ہوئی تھیں جس طرح وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ جب اس نے بغاوت کی تو چیئرمین ماؤزے تنگ نے اپنے نہایت قابل جنرل لی چیو کو ان کی سرکوبی کو روانہ کیا ۔ انہوں نے جلد ہی دہشت گردوں کا صفایا کر دیا اور دلائی لامہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ ہندوستان بھاگ گیا اور اب تک مزے اڑا رہا ہے۔ مجھے وہاں تبت کے کمانڈر نے بتایا کہ اگرچہ وہاں موسم سرما میں ناقابل برداشت سردی تھی، لیکن جنرل لی نے محل کے باہر باغ میں ٹینٹ لگا کر قیام کیا اور تمام عرصہ وہیں ٹھہرے رہے۔ انہوں نے دلائی لامہ کے مذہبی تقدس کا خیال رکھ کر محل میں ایک دن یا رات نہیں گزاری۔ اگر آج بھی دلائی لامہ تبت واپس چلا جائے تو چینی حکومت اس کو عزت و احترام سے خوش آمدید کہے گی اور وہ اپنے عوام کے لیے بہت کچھ اچھے کام کر سکتا ہے۔ 
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں چند خود غرض، مفاد پرست اور شہرت کے بھوکے لیڈروں نے لیڈری اختیار کر کے ہزاروں بے گناہ اور کم سمجھ عوام کا قتل کرا دیا اور عیش و عشرت سے زندگی گزارتے رہے۔ 
(روزنامہ جنگ لاہور، ۹ ستمبر ۲۰۰۹ء)

جہاد کی فرضیت اور اس کا اختیار ۔ چند غلط فہمیاں

محمد عمار خان ناصر

(مصنف کی زیر ترتیب کتاب ’’جہاد: ایک مطالعہ‘‘ کا ایک باب۔)

معاصر جہادی تحریکوں کی طرف سے اپنے تصور جہاد کے حق میں بالعموم جو طرز استدلال اختیار کیا جاتا ہے، اس کی رو سے جہاد ایک ایسا شرعی حکم کے طورپر سامنے آتا ہے جو عملی حالات اور شرائط وموانع پر موقوف نہیں، بلکہ ان سے مجرد دین کے ایک مطلق حکم کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے جب بھی ایسے حالات پائے جائیں جن میں نظری اور اصولی طور پر جہاد کی ضرورت اور تقاضا پید اہو جائے تو جہاد فرض ہو جاتا ہے اور اس فریضہ کی ادائیگی کے لیے عملاً اقدام نہ کرنے والے مسلمان اور ان کے حکمران گناہ گار اور ایک شرعی فریضے کے تارک قرار پاتے ہیں۔ اسی تصور کے زیر اثر کسی مخصوص صورت حال میں جہاد کا اعلان کرنے کو ایک اجتماعی سیاسی اور انتظامی فیصلہ نہیں سمجھا جاتا جس کا اختیار مسلمانوں کے نظم اجتماعی کو حاصل ہو، بلکہ اسے ایک نظری دینی حکم سمجھتے ہوئے علما اور اہل فتویٰ سے راے طلب کی جاتی ہے کہ آیا اب جہاد فرض ہو چکا ہے یا نہیں اور اس کی بنیاد پر یہ قرار دیا جاتا ہے کہ چونکہ شرعاً جہاد فرض ہو چکا ہے جبکہ ارباب حل وعقد یا عام مسلمان جہاد کے فرض ہو جانے کے باوجود اس سے روگردانی کر رہے ہیں، اس لیے وہ گناہ گار ہیں اور چونکہ اللہ اور اس کے رسول کی معصیت میں ارباب اقتدار کی اطاعت ناجائز ہے، اس لیے جذبہ جہاد سے سرشار افراد یا گروہوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ارباب حل وعقد کے فیصلوں اور پالیسیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے طو رپر منظم ہو کر اس فرض کفایہ کو انجام دینے کے لیے جدوجہد کریں۔
یہ استدلال کئی پہلووں سے تنقیح اور تنقید کا تقاضا کرتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن وسنت کے نصوص اور فقہ اسلامی کی روشنی میں اس سوال کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کیا کسی جارح کے خلاف جنگ کے مخصوص اسباب پائے جانے پر ’جہاد‘ کی فرضیت علی الاطلاق نوعیت کی ہے یا اس میں عملی حالات وامکانات کا بھی دخل ہے؟ کیا نظری طو رپر جہاد کا تقاضا کرنے والے اسباب اور بواعث پائے جانے اور عملاً اس کے فرض ہو جانے کے مابین کوئی لزوم پایا جاتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں کیا جب بھی کوئی ایسا سبب پایا جائے جو جہاد کا تقاضا کرتا ہے تو کیا بس سبب کا پایا جانا مسلمانوں پر جہاد کو عملاً فرض قرار دینے کے لیے کافی ہے یا ا س کے لیے کچھ مزید شرائط کا پایا جانا بھی ضروری ہے؟ اسی طرح یہ سوال بھی اس بحث کا ایک اہم سوال ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں کسی مخصوص صورت حال میں جہاد کے فرض ہونے یا نہ ہونے اور اس کے لیے عملی اقدام کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ آیا اس کا فیصلہ ارباب فتویٰ اور علما کریں گے یا مسلمانوں کے ارباب حل عقد؟ آیا یہ نظم اجتماعی کا حق خاص (Prerogative) ہے یا مسلمانوں کے گروہ نجی سطح پربھی اس کا فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں؟
یہاں ہم فقہی زاویہ نگاہ سے اسی سوال کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیں گے۔

جنگی استعداد، کامیابی کے امکانات اور دیگر مصالح کی رعایت

جہاد کی فرضیت کے حوالے سے ایک عام او رقابل اصلاح تصور یہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کسی جگہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی کا ارتکاب کیا جائے اور مسلمان ان کی چیرہ دستی کا شکار ہوں، دوسرے مسلمانوں پر ان کی مدد کرنے اور کفار کو ان کے ظلم وستم سے روکنے کے لیے جہاد فرض ہو جاتا ہے اور یہ ان کی شرعی ذمہ داری قرار پاتی ہے کہ اپنی حربی طاقت، دشمن کے خلاف کامیابی کے امکانات، جنگ کے فوائد یا نقصانات کے مجموعی تناسب یا کسی بھی نوعیت کے دوسرے مصالح سے بے نیاز ہو کر صرف خدا کے بھروسے پر مظلوم مسلمانوں کی نصرت کے لیے میدان جنگ میں کود پڑیں۔ 
قرآن وسنت، فقہ اسلامی اور عقل عام سے اس تصور کی تائید نہیں ہوتی، بلکہ اس کے برعکس یہ واضح ہوتا ہے کہ کسی مخصوص صورت حال میں مسلمانوں پر جہاد کا عملاً فرض ہونا بہت سی دوسری شرائط کے پائے جانے اور موانع کے مفقود ہونے پر منحصر ہے۔ مثلاً:
کیا ظالم گروہ کے خلاف نتیجہ خیز اقدام کے لیے مطلوبہ صلاحیت اور استعداد مسلمانوں کو میسر ہے؟
کیا معروضی حالات میں اس اقدام سے مطلوبہ ہدف کا حصول انسانی تدبیر اور اسباب کے دائرے میں ممکن ہے؟
کیا دین وملت کے وسیع تر مصالح اس کی اجازت دیتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے قتال ہی کی راہ اختیار کی جائے؟
فقہا نے جنگ میں کامیابی اور ناکامی کے امکانات کے لحاظ سے حکمت عملی اختیار کرنے کو باقاعدہ موضوع بحث بنایا ہے اور جگہ جگہ یہ واضح کیا ہے کہ مسلمانوں پر ذمہ داری اتنی ہی عائد ہوتی ہے جس سے عہدہ برآ ہونا حالات اور مواقع کے لحاظ سے ممکن ہو۔ فقہی ذخیرے میں جابجا ایسی تصریحات موجود ہیں جن میں فقہا نے کسی نظری شرعی اصول کی بنا پر نہیں بلکہ حکمت عملی اور نتائج کے لحاظ سے کسی معاملے کی شرعی حیثیت کا فیصلہ کیا ہے۔ 
مثال کے طور پر امیر لشکر کے انتخاب کے حوالے سے وہ یہ ہدایت دیتے ہیں کہ اسے محتاط اور سمجھ دار ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ وہ مواقع اور امکانات کو مد نظر رکھتے ہوئے حکمت عملی بنانے کے بجائے مسلمانوں کی جانوں کو بے فائدہ ضائع کرواتا رہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۶۱، ۶۲) بلکہ سرخسی نے یہ بھی لکھا ہے کہ لشکر پر اپنے امیر کی اطاعت واجب ہے، لیکن اگر وہ کسی ایسے کام کا حکم دے جس سے لشکر کے ہلاکت میں مبتلا ہونے کا یقین ہو تو لشکر کو چاہیے کہ وہ اس خاص معاملے میں امیر کی اطاعت نہ کرے۔ (شرح السیر الکبیر ۱-۱۷۳، ۱۷۴)
★ ماوردی نے مبارزہ کی شرائط میں ایک شرط یہ بیان کی ہے کہ مبارز کو اپنی شجاعت اور مہارت پر اتنا اطمینان ہو کہ دشمن پر غلبہ پانے کا یقین ہو، ورنہ اسے مبارزہ سے منع کیا جائے گا۔ دوسری شرط یہ ہے کہ امیر لشکر خود مبارزت کے لیے میدان میں نہ اترے، کیونکہ امیر لشکر کی ہلاکت پورے لشکر کی ہزیمت کا باعث بن سکتی ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ:
ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقدم علی البراز ثقۃ بنصر اللہ سبحانہ وانجاز وعدہ ولیس ذلک لغیرہ (الاحکام السلطانیہ ۱/۶۷)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبارزت کا فیصلہ اللہ کی طرف سے مدد اور کامیابی کے وعدے کے بھروسے پر کیا تھا اور یہ خصوصیت کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے۔‘‘
★ سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ مسلمانوں کی استطاعت سے باہر ہو تو پسپائی اختیار کر لینا بھی بالکل درست ہے، بلکہ اس پر سیدنا عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ جب ایک جنگ میں سالار لشکر نے پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور نتیجے میں شہید ہو گئے تو سیدنا عمر نے فرمایا:
یرحم اللہ ابا عبید لو انحاز الی کنت لہ فئۃ (شرح السیر الکبیر ۱/۱۳۶)
’’اللہ ابو عبید پر رحم کرے، اگر وہ پلٹ کر میرے پاس آجاتا تو میری حیثیت اس کے لیے پشت پناہ جماعت کی ہوتی۔‘‘
★ فقہا فرماتے ہیں کہ اہل حرب اگر دار الاسلام میں گھس کر مسلمانوں کے اموال ونفوس یا قیدیوں پر قبضہ کر لیں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ انھیں ان سے چھڑانے کے لیے ان کا پیچھا کریں، لیکن اگر کفار اپنے قلعوں میں داخل ہو جائیں اور ان سے قیدیوں کو چھڑانے کے امکانات معدوم ہو جائیں تو پھر مسلمان ان کا پیچھا کرنے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ (ابن نجیم، البحر الرائق ۱۳/۲۹۰) بلکہ بعض فقہا اس صورت میں بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر کفا ر کسی ایک آدھ مسلمان کو گرفتار کر کے ساتھ لے گئے ہوں تو بھی ان کا پیچھا کرنا لازم نہیں۔ فقہ شافعی کی کتاب ’مغنی المحتاج‘ میں اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ:
لان ازعاج الجنود لخلاص اسیر بعید (مغنی المحتاج، ۶/۲۴)
’’کسی ایک قیدی کی رہائی کے لیے پورے کے پورے لشکر کو حرکت میں لانا قرین قیاس بات نہیں ہے۔‘‘
فقہا نے مسلمان خواتین کے دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہو جانے کو بجا طو رپر زیادہ اہمیت کا معاملہ قرار دیا اور یہ کہا ہے کہ اگر کفار مسلمانوں کا مال چھین کر دار الحرب کی طرف واپس جا رہے ہوں تو ان کے اپنے علاقے میں داخل ہونے سے پہلے پہلے ان کا پیچھا کر کے ان سے مال واپس حاصل کرنا واجب ہے، لیکن اگر کوئی مسلمان خاتون دشمن کے ہاتھوں قید ہو جائے تو کفار کے دار الحرب میں داخل ہو جانے کے باوجود ان کا پیچھا کرنا ضروری ہے، لیکن یہاں بھی فقہا شرعی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے عملی امکانات کو پوری طرح ملحوظ رکھتے ہیں اور یہ واضح کرتے ہیں کہ مسلمان خواتین کو چھڑانے کے لیے کفار کا پیچھا کرنا اس وقت تک لازم ہے جب تک وہ ابھی دار الحرب کے سرحدی علاقے میں ہوں۔ اگر وہ اپنی آبادیوں میں پہنچ کر قلعوں اور چار دیواریوں میں داخل ہو چکے ہوں تو ایسا کرنا لازم نہیں ہوگا۔ ((شرح السیر الکبیر، ۱/۲۱۶ تا ۲۱۸۔ ابن نجیم، البحر الرائق ۱۳/۲۹۰)
اس فقہی جزئیے سے ایک بات تو یہ واضح ہوتی ہے کہ فقہا مسلمانوں کے مرد قیدیوں کو مال کے حکم میں شمار کرتے ہیں اور ان کو چھڑانے کے لیے کفار کا پیچھا کرنے کو اسی وقت تک ضروری سمجھتے ہیں جب تک وہ دار الاسلام میں ہوں۔ دار الحرب کے حدود میں داخل ہو جانے کے بعد وہ مال واسباب اور مرد قیدیوں کو چھڑانے کے لیے پیچھا کرنے کو لازم نہیں قرار دیتے۔ دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ فقہا اس صورت میں بھی جبکہ دشمن دار الاسلام میں داخل ہو کر مسلمانوں کی خواتین اور بچوں کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے جا رہا ہو، ان کو چھڑانے کے لیے قتال کی فرضیت کو تین واضح شرائط کے ساتھ مشروط کرتے ہیں:
ایک یہ کہ مسلمانوں کے پاس ان کو چھڑانے کی طاقت ہو۔ (لہم علیہم قوۃ
دوسرے یہ کہ دشمن مسلمان قیدیوں کو لے کر دار الحرب میں اپنے قلعوں اور محفوظ مقام پر نہ پہنچ چکا ہو۔ اگر وہ مسلمانوں کی گرفت سے نکال چکا ہو تو اس کا پیچھا کرنا لازم نہیں۔ (وان ترکوہم ولم یتبعوہم رجوت ان یکونوا فی سعۃ من ذلک)۔
تیسرے یہ کہ دشمن کا پیچھا کرنے سے اس بات کی امید ہو کہ مسلمان اس کے دار الحرب میں داخل ہونے سے پہلے اس کو جا لیں گے۔ اگر اس کی توقع نہ ہو تو دشمن کا پیچھا نہ کرنے کا فیصلہ درست ہوگا۔ (کانوا فی سعۃ من ان یقیموا ولا یتبعوہم)۔
فقہا کا بیان کردہ یہ مشہور جزئیہ بھی کہ اگر مشرق میں کوئی مسلمان خاتون دشمن کے ہاتھوں قید ہو جائے تو مغرب کے مسلمانوں پر اس کو چھڑانا لازم ہے، اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے۔ البحر الرائق میں ہے:
وفی البزازیۃ: امراۃ مسلمۃ سبیت بالمشرق وجب علی اہل المغرب تخلیصہا من الاسر ما لم تدخل دار الحرب لان دار الاسلام کمکان واحد اھ ومقتضی ما فی الذخیرۃ انہ یجب تخلیصہا ما لم تدخل حصونہم وجدرہم (البحر الرائق ۱۳/۲۹۰)
’’بزازیہ میں ہے کہ مشرق میں اگر کوئی مسلمان عورت (کفار کے ہاتھوں) قید ہو جائے تو مغرب کے رہنے والوں پر اسے چھڑانا واجب ہے، جب تک کہ وہ دار الحرب میں داخل نہ ہو جائے۔ کیونکہ دار الاسلام ایک ہی علاقے کا درجہ رکھتا ہے (اس لیے دار الاسلام کی حدود میں اسے چھڑانا بحیثیت مجموعی پورے دار الاسلام کے ذمے ہے)۔ جبکہ ذخیرہ میں درج جزئیے کا تقاضا یہ ہے کہ (دار الحرب میں داخل ہونے کے بعد بھی) جب تک مسلمان خاتون کفار کی آبادی کے علاقے اور ان کے قلعوں میں نہ داخل نہ ہو جائے، اسے چھڑانا مسلمانوں پر واجب ہے۔‘‘
★ فقہا یہ تصریح کرتے ہیں کہ اگر کفار کا کوئی بہت بڑا لشکر مسلمانوں کے علاقے میں داخل ہو جائے تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اکا دکا افراد اور چھوٹی چھوٹی جماعتوں کو میدان میں نہیں آنا چاہیے:
لو دخل ملک عظیم منہم طرف بلادنا لا یتسارع لدفعہ الآحاد والطوائف لما فیہ من عظم الخطر (شرح البہجۃ، زکریا بن محمد بن زکریا، ۵/۱۳۰۔ مغنی المحتاج، ۶/۲۴)
’’اگر کفار کا کوئی طاقت ور بادشاہ بلاد اسلام کے کسی علاقے میں داخل ہو جائے تو مسلمانوں کے جتھے یا افراد اس کے مقابلے کے لیے نہ لپکیں، اس لیے کہ خطرہ بہت بڑا ہے۔‘‘ 
اسی طرح اگر مسلمانوں کے کسی علاقے پر حملہ ہو جائے اور وہاں کے لوگ مدافعت کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو اس علاقے کو خالی کر دینا اور نقل مکانی کر کے دوسری جگہ چلے جانا بھی بالکل درست ہے:
وفی تجنیس خواہر زادہ: واذا لم یکن بالمسلمین قوۃ وجاء ہم من العدو ما لا طاقۃ لہم بہ فلا باس بان ینفروا حتی یلحقوا بالمسلمین (تاتارخانیہ ۵/۲۲۳)
’’تجنیس خواہر زادہ میں ہے کہ اگر مسلمانوں کے پاس طاقت نہ ہو اور دشمن اتنی بڑی تعداد میں آ جائے کہ اس کا مقابلہ بس سے باہر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ مسلمان وہاں سے منتقل ہو کر (کسی دوسرے علاقے کے) مسلمانوں کے پاس چلے جائیں۔‘‘
فقہا اس کی بھی تصریح کرتے ہیں کہ اگر مخصوص حالات میں غیر مسلموں کے ساتھ دب کر صلح کرنا یا ان کی بعض ناگوار شرائط کو قبول کرنا مصلحت کا تقاضا ہو تو ایسا کرنا بالکل درست ہے:
★ ماوردی لکھتے ہیں کہ اگر معاہدہ صلح میں دشمن کی طرف سے یہ شرط لگائی جائے کہ ان میں سے جو شخص اسلام قبول کر کے مسلمانوں کے پاس آ جائے گا، مسلمان اسے واپس بھیجنے کے پابند ہوں گے تو ان کی اس شرط کو تسلیم کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس مسلمان کی جان خطرے میں نہ ہو۔ اگر اس کی جان جانے کا خوف ہو تو پھر یہ شرط جائز نہیں۔ اسی طرح مسلمان ہو کر آنے والی خواتین کو واپس بھیجنا بھی جائز نہیں۔ (الاحکام السلطانیہ ۱/۸۶، ۸۷)
★ اگر کفار مسلم حکومت سے خراج طلب کریں اور مسلمان ان کے ساتھ جنگ کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو فقہا خراج کی ادائیگی کو نہ صرف جائز بتاتے ہیں بلکہ اس کو بہتر قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ کچھ مال ادا کر کے مسلمانوں کی جانوں او رمالوں کو محفوظ کر لینا بہتر ہے، کیونکہ دوسری صورت میں نفوس واموال کا زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ 
★  اگر کسی موقع پر مصلحت اس بات میں ہو کہ مسلمان اپنا کوئی علاقہ یا قلعہ خالی کر کے کافر حملہ آوروں کے حوالے کر دیں تو ایسا کرنا درست ہے اور اس ضمن میں ان کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی پابندی لازم ہوگی۔ سرخسی لکھتے ہیں:
ولو ان اہل المدینۃ الذین احاط بہم المشرکون قالوا لہم نخرج عنکم بنسائنا وذراینا ونسلم لکم المدینۃ وما فیہا فخرجوا علی ہذا او لم یخرجوا او خرج بعضہم ثم راوا عورۃ للمشرکین فلا باس بان یغیروا علیہم ویقاتلوہم من غیر نبذ ..... اذا تمکنوا من ذلک ولو قالوا نصالحکم علی ان نخرج عنکم والمسالۃ بحالہا فلیس لہم ان یقاتلوہم حتی ینبذوا الیہم (سرخسی، ۵/۱۷۱۹، ۱۷۲۰)
’’اگر کفار کسی شہر کا محاصرہ کر لیں اور اہل شہر ان سے یہ کہیں کہ ہم اپنے اہل وعیال کو یہاں سے نکال کر شہر اور اس میں موجود مال ومتاع کو تمہارے سپرد کر دیتے ہیں (تو ایسا کرنا درست ہے، البتہ اس صورت میں) اگر انھیں شہر سے نکلنے سے پہلے یا مکمل یا جزوی طور پر نکلنے کے بعد دشمن کو زک پہنچانے کا موقع ملے تو وہ دشمن کو اپنے ارادے میں تبدیلی کی اطلاع دیے بغیر اس پر حملہ کر کے اس سے جنگ کر سکتے ہیں۔ ہاں، اگر انھوں نے اس شرط پر صلح کا باقاعدہ معاہدہ کیا ہو کہ ہم یہاں سے نکل جائیں گے تو اب (معاہدے کی پابندی لازم ہوگی اور) معاہدہ توڑنے کا باقاعدہ اعلان کیے بغیر وہ ان سے جنگ نہیں کر سکتے۔‘‘
★  اگر دار الحرب میں کسی شہر کے باشندے اجتماعی طور پر اسلام قبول کر لیں تو فقہا کے نزدیک اس شہر کو ’دار الاسلام‘ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اب اگر کفار حملہ کر کے ان کو اس شہر سے بے دخل کر دیں، لیکن پھر دوبارہ انھیں اس میں بسنے کی اجازت دے دیں تو مسلمانوں کو اختیار ہے کہ چاہیں تو اس میں مقیم رہیں اور چاہیں تو اس کو چھوڑ کر دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائیں۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۲۴۹۔۲۵۱) اس جزئیے کے مضمرات کو کھولیے تو واضح ہوگا کہ ’دار الاسلام‘ قرار پانے والے اس شہر کے مسلمانوں کے لیے نہ ابتداءً ا یہ لازم ہے کہ وہ اس پر اپنا قبضہ قائم رکھیں، نہ کفار کی طرف سے بے دخل کیے جانے کے بعد یہ ضروری ہے کہ وہ دوبارہ اس پر کنٹرول حاصل کریں اور نہ شہر میں سکونت کا حق دوبارہ ملنے کے بعد ہی یہ لازم ہے کہ وہ لازماً اس میں اقامت اختیار کریں، بلکہ ان تینوں صورتوں میں انھیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس شہر کو کفار کے حوالے کر کے دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائیں۔ 
★  اگر دار الحرب کے اندر کسی ایسے علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر اسلام قبول کر لیں جو جغرافیائی لحاظ سے دار الاسلام سے کٹا ہوا ہو اور اس کا دفاع ممکن نہ ہو تو فقہا کے نزدیک نہ صرف یہ کہ اس پر قبضے کو برقرار رکھنا ضروری نہیں، بلکہ وہ اس بات کو بہتر قرار دیتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اس جگہ کو چھوڑ کر دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائیں۔ اور اگر اس شہر کے باشندے دار الاسلام کی طرف ہجرت کرنے کے بجائے وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیں تو فقہا اس کو سوء اختیار قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دارالاسلام کے کسی شہری کو اس کی رضامندی کے بغیر وہاں نہ چھوڑا جائے کیونکہ وہاں رہنے سے اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۵/۲۱۹۰، ۲۱۹۱) 
مذکورہ تفصیل سے واضح ہے کہ فقہا کے نزدیک جہاد کسی اندھا دھند اور نتائج وعواقب سے بے پروا ہو کر کیے جانے والے جذباتی اقدام کا عنوان نہیں۔ وہ اصولی طور پر قتال کی ذمہ داری عائد ہونے سے لے کر میدان جنگ کی تدابیر اور دشمن کے ساتھ معاہدے کی شرائط تک، ہر معاملے میں اس بنیادی نکتے کا لحاظ رکھنے کو ضروری قرار دیتے ہیں کہ مسلمان دشمن سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور ان کے اقدام کے نتیجے میں کامیابی کا امکان غالب دکھائی دیتا ہو ، جبکہ اگر مسلمانوں کی جان ومال کی قربانی رائیگاں جانے کا خدشہ ہو تو فقہا کے نزدیک نہ صرف یہ کہ ایسی صورت میں جہاد وقتال کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی بلکہ وہ خطرہ مول نہ لینے کو زیادہ بہتر حکمت عملی قرار دیتے ہیں۔

ذمہ داری قبول کرنے میں مختلف گروہوں کا اجتہادی اختیار

سورۂ انفال میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَلاَیَتِہِمْ مِّنْ شَیْْءٍ حَتَّی یُہَاجِرُوْا وَإِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ إِلاَّ عَلَی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ (آیت ۷۲)
’’اور جو لوگ ایمان لائے ہیں لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی، تم پر ان کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ہجرت نہ کر لیں۔ اور اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد طلب کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر لازم ہے، البتہ کسی ایسی قوم کے خلاف ان کی مدد نہیں کر سکتے جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے۔ اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو، دیکھ رہا ہے۔‘‘
یہاں یہ ہدایت کی گئی ہے کہ اگر مسلمانوں میں سے کچھ افراد دار الکفر میں مقیم ہوں اور اہل کفرکے ظلم وستم کا شکار ہوں تو ان کی امداد دو باتوں کوملحوظ رکھتے ہوئے دار الاسلام کے باسیوں پر فرض ہے: ایک یہ کہ وہ ان سے دین کے معاملے میں مدد کے طالب ہوں اور دوسری یہ کہ کافر قوم کے ساتھ مسلمانوں کا صلح کامعاہدہ نہ ہو۔ یہ دونوں قیدیں بے حد اہم ہیں۔ ان میں سے پہلی قید یہ واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کا نظم اجتماعی، اہل کفر کے نظم اجتماعی کے تحت زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کو ظلم وستم سے بچانے کا فیصلہ ان کی نصرت اور ہمدردی کے جذبے سے ازخود نہیں بلکہ مظلوم فریق کی طرف سے مدد طلب کیے جانے پر ہی کرے گا۔ یہ ایک بے حد حکیمانہ ہدایت ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مظلوم فریق صبر اور تحمل کے ساتھ اپنے حالات کا مقابلہ خود کرنا چاہتا اور اپنے لیے داخلی سطح پر کوئی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتا ہے یا کسی وجہ سے بیرونی مداخلت کو قرین مصلحت نہیں سمجھتا یا مسلمانوں کے جس گروہ سے مدد کی توقع کی جا سکتی ہے، اس سے مدد لینے کو مناسب نہیں سمجھتا یا قومی اور قبائلی عصبیت کے زیر اثر اپنی قوم کے حق خوداختیاری کو زیادہ قابل ترجیح سمجھتا ہے تو اسے اس کا فیصلہ کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے جسے نظر انداز کرتے ہوئے اسے ظلم وستم سے بچانے کی کوئی ذمہ داری قرآن مجید مسلمانوں کے نظم اجتماعی پر عائد نہیں کرنا چاہتا۔ 
دوسری قید یہ واضح کرتی ہے کہ خود حفاظتی کے دائرے سے باہر اس اختیار کا توسیعی استعمال دنیا میں بسنے والی مختلف قوموں کے باہمی تعلقات اور بین الاقوامی معاہدات کالحاظ رکھتے ہوئے ہی کیا جائے گا۔ یہ ہدایت اس تناظر میں بطور خاص قابل توجہ ہے کہ قرآن مجید نے سورۂ انفال کی آیت ؟؟ میں یہ اجازت دی ہے کہ اگر مسلمانوں کو اپنے ساتھ معاہدہ کرنے والا کسی غیر مسلم گروہ سے بد عہدی کا خدشہ بھی ہو تو اس کے ساتھ معاہد ہ توڑا جا سکتا ہے، جبکہ یہاں دار الکفر کے مسلمانوں کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ ان پر بالفعل ظلم ہو رہا ہو اور وہ مسلمانوں سے مدد کے طالب ہوں، تب بھی معاہدے کی پاس داری کی جائے گی اور مظلوموں کی مدد کے لیے کوئی جنگی اقدام نہیں کیا جائے گا۔ اس سے واضح ہے کہ قرآن اس صورت میں معاہدہ ختم کر کے مدد کے طالب مسلمانوں کی مدد کو کم از کم لازم ہرگز قرار نہیں دے رہا۔
مذکورہ آیت کی تشریح میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے ’تفہیم القرآن‘ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ قابل ملاحظہ ہے۔ فرماتے ہیں:
’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی بڑا اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا برئ من کل مسلم بین ظہرانی المشرکین۔ ’’میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت وحفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو۔‘‘ اس طرح اسلامی قانون نے اس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔ ..... ان دینی بھائیوں کی مدد کا فریضہ اندھا دھند انجام نہیں دیا جائے گا بلکہ بین الاقوامی ذمہ داریوں اور اخلاقی حدود کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے ہی انجام دیا جا سکے گا۔ اگر ظلم کرنے والی قوم سے دار الاسلام کے معاہدانہ تعلقات ہوں تو اس صورت میں مظلوم مسلمانوں کی کوئی ایسی مدد نہیں کی جا سکے گی جو ان تعلقات کی اخلاقی ذمہ داریوں کے خلاف پڑتی ہو۔‘‘ (تفہیم القرآن ۲/۱۶۱، ۱۶۲)
قرآن مجید نے دوسری جگہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اگر اسلام کا دعویٰ کرنے والا کوئی گروہ کفار کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کا ساتھ نہ دے سکے بلکہ اپنی ایمانی واخلاقی کمزوری کی وجہ سے یا اپنی قبائلی اور سیاسی مجبوریوں کے تحت خود مسلمانوں ہی کے خلاف میدان جنگ میں اتر آئے تو اس کی اس مجبوری کی بھی رعایت کی جائے اور اگر وہ میدان میں آنے کے باوجود عملاً مسلمانوں کے ساتھ جنگ نہ کرنا چاہے تو ان کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ چنانچہ سورۂ نساء کی آیات ۸۸ تا ۹۱ میں اللہ تعالیٰ نے عہد نبوی میں مختلف مشرک قبائل سے تعلق رکھنے والے ان کمزور مسلمانوں سے متعلق ہدایات بیان کی ہیں جو زبان سے تو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن اس کے عملی تقاضے پورے کرنے اور ہجرت کر کے مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جانے کا حوصلہ نہیں رکھتے، بلکہ موقع پرستی کی نفسیات اور حالات کے دباؤ کے تحت مسلمانوں کے خلاف فتنہ وفساد برپا کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان میں سے جو گروہ تو فتنہ وفساد میں عملاً ملوث ہوں، انھیں بے دریغ قتل کیا جائے، لیکن اگر ایمان لا کر ہجرت نہ کرنے والے ایسے گروہ کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہے تو اس کے خلاف کوئی اقدام نہ کیا جائے۔ اسی طرح اگر کوئی گروہ اپنی قوم کے دباؤ کے تحت مسلمانوں کے خلاف میدان جنگ میں تو آ گیا ہے لیکن وہ مسلمانوں یا اپنی قوم میں سے کسی کے ساتھ بھی لڑنے کی ہمت نہ پا کر لڑائی سے الگ تھلگ رہنا چاہتا ہے تو اس کے خلاف بھی کوئی جنگی اقدام جائز نہیں۔ ارشاد ہوا ہے:
إِلاَّ الَّذِیْنَ یَصِلُونَ إِلیٰ قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ أَوْ جَآء وْکُمْ حَصِرَتْ صُدُورُہُمْ أَنْ یُقَاتِلُوْکُمْ أَوْ یُقَاتِلُوْا قَوْمَہُمْ وَلَوْ شَاءَ اللّٰہُ لَسَلَّطَہُمْ عَلَیْْکُمْ فَلَقَاتَلُوْکُمْ فَإِنِ اعْتَزَلُوْکُمْ فَلَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ وَأَلْقَوْْ إِلَیْْکُمُ السَّلَمَ فَمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ عَلَیْْہِمْ سَبِیْلاً (النساء ۹۰)
’’ہاں، وہ (کمزور) مسلمان جن کا تعلق کسی ایسی قوم سے ہو جس کے ساتھ تمھارا معاہدہ ہے یا وہ اس حال میں تمھارے مقابلے میں آ گئے ہوں کہ اپنے دلوں میں نہ تو تمھارے خلاف لڑنے کرنے کا حوصلہ پاتے ہوں اور (تمھارے ساتھ مل کر) اپنی قوم کے خلاف (تو ایسے لوگوں کے خلاف جنگ نہ کرو)۔ اگر اللہ چاہتا تو انھیں تم پر مسلط کر دیتا اور وہ تمھارے ساتھ لڑتے۔ پس اگر وہ تم سے الگ رہیں اور تمھارے ساتھ لڑائی نہ کریں اور تمھیں صلح کا پیغام دیں تو اللہ نے تمھیں ان کے خلاف اقدام کرنے کا کوئی اختیار نہیں دیا۔‘‘
اسلوب بیان سے صاف واضح ہے کہ اگرچہ ان گروہوں کا ہجرت نہ کرنا ان کے ایمان کی کمزوری کی دلیل ہے، لیکن جب تک وہ مسلمانوں کی جماعت میں باقاعدہ شامل نہ ہو جائیں اور حقوق وفرائض کی ادائیگی کا باقاعدہ معاہدہ نہ کر لیں، قرآن نہ صرف یہ کہ جنگ کے موقع پر مسلمانوں کی حمایت کرنے یا ان کا ساتھ دینے کی کوئی ذمہ داری ان پر عائد نہیں کرتا، بلکہ خود مسلمانوں کے خلاف مجبوراً میدان جنگ میں اتر آنے کی صورت میں بھی ان کی مجبوریوں کا لحاظ رکھنے کو لازم قرار دیتا ہے۔ 
ہجرت مدینہ کے بعد فتح مکہ تک کا زمانہ کفر اور اسلام کی کشمکش کا جاں گسل مرحلہ تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعے سے جزیرۂ عرب میں اسلام کے غلبے کا جو ہدف مقرر کیا گیا تھا، اس کی تکمیل کا سارا دار ومدار اس کشمکش میں قریش کی شکست اور مکہ مکرمہ کی فتح پر تھا، لیکن اس کے باوجود آپ نے مدینہ منورہ کے مسلمانوں کے علاوہ عرب کے مختلف علاقوں اور اطراف میں بسنے والے مسلمان افراد یا گروہوں میں سے کسی پر بھی اس جہاد میں شریک ہونے یا اس میں مسلمانوں کی مدد کرنے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کی، حتیٰ کہ خود مدینہ میں موجود مسلمان گروہوں پر بھی اس سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی جو کسی گروہ نے ازخود اپنے لیے قبول کی تھی۔ 
۱۲ ہجری میں دوسری بیعت عقبہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے یہ عہد لیا تھا کہ اگر آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مدینہ تشریف لے آئیں تو انصار آپ کے دشمنوں سے آپ کی حفاظت کریں گے۔ آپ نے فرمایا:
ابایعکم علی ان تمنعونی مما تمنعون منہ نساء کم وابناء کم (ابن ہشام، ۱/۴۰۲)
’’میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم جس طرح اپنی عورتوں اور بچوں کا دفاع کرتے ہو، میرا بھی کرو گے۔‘‘
جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو اس موقع پر آپ نے مدینہ کے انصار اور ان کے معاہد یہود کے ساتھ جو معاہدہ کیا، اس میں بھی یہ طے کیا گیا کہ:
ان بینہم النصر علی من دہم یثرب (ابن ہشام، ۱/۴۵۴)
’’مدینہ پر حملہ آور ہونے والے دشمن کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرنا فریقین پر لازم ہوگا۔‘‘
اس بیعت اور معاہد ے کی رو سے انصار کی ذمہ داری محض مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت تک محدود تھی، جبکہ مدینہ کے باہر کیے جانے والے عسکری اقدامات کے لیے وہ مسؤل نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ غزوۂ بدر سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے تجارتی قافلوں سے تعرض کے لیے جو سریے بھیجے، وہ سب کے سب مہاجرین پر مشتمل تھے اور ان میں انصار کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر ۲ ہجری میں سریہ عبیدہ بن الحارث کے بارے میں ابن اسحاق کی تصریح ہے کہ اس میں تمام مجاہدین مہاجر تھے، جبکہ انصارمیں سے ایک بھی شخص شامل نہیں تھا۔ (ابن ہشام، ۱/۵۲۴) سریہ حمزہ اور سریہ عبد اللہ بن جحش کے بارے میں بھی ابن اسحاق کا یہی بیان ہے۔ (ابن ہشام، ۱/۵۲۸۔ ابن ہشام، ۱/۵۳۳)
اس کے بعد ۲ ہجری میں آپ کو قریش کے ایک تجارتی قافلے کے بارے میں معلوم ہوا جو شام کی طرف سے آ رہا تھا تو آپ نے صحابہ کو یہ کہہ کر نکلنے کی ترغیب دی کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ قریش کے اس قافلے کو مال غنیمت کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ لگا دے (ابن ہشام، ۱/۵۳۷) لیکن وادی ذفران میں پہنچ کر آپ کو معلوم ہوا کہ مکہ سے قریش کا لشکر بھی اپنے قافلے کی حفاظت کے لیے نکل پڑا ہے اور جنگ وپیکار کی نوبت آ سکتی ہے تو آپ نے اس موقع پر صحابہ کی راے معلوم کی۔ مہاجرین میں سے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا مقداد بن اسود نے کھڑے ہو کر جنگ میں آپ کے ساتھ دینے کا عزم ظاہر کیا۔ اس کے بعد آپ نے جنگ کے بارے میں خاص طور پر انصار کی راے معلوم کرنا چاہی۔ ابن اسحاق لکھتے ہیں:
ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشیروا علی ایہا الناس وانما یرید الانصار وذلک انہم عدد الناس وانہم حین بایعوہ العقبۃ قالوا یا رسول اللہ انا براء من ذمامک حتی تصل الی دیارنا فاذا وصلت الینا فانت فی ذمتنا نمنعک مما نمنع منہ ابناء نا ونساء نا فکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یتخوف الا تکون الانصار تری علیہا نصرہ الا ممن دہمہ بالمدینۃ من عدوہ وان لیس علیہم ان یسیر بہم الی عدو من بلادہم (ابن ہشام، ۱/۵۴۴)
’’پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو، مجھے مشورہ دو۔ آپ کا روے سخن انصار کی طرف تھا، کیونکہ تعداد میں وہی زیادہ تھے اور جب انھوں نے بیعت عقبہ کی تھی تو یہ کہا تھا کہ یا رسول اللہ، جب تک آپ ہمارے علاقے میں نہیں پہنچ جاتے، آپ کی (حفاظت کی) کوئی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوگی۔ ہاں، جب آپ ہمارے پاس آ جائیں گے تو آپ کی حفاظت ہمارے ذمے ہوگی۔ ہم اسی طرح آپ کی حفاظت کریں گے جیسے اپنے عورتوں اور بچوں کی کرتے ہیں۔ اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ کھٹک تھی کہ انصار مدینہ منورہ میں حملہ آور ہونے والے دشمن کے علاوہ (مدینہ سے باہر) کفار کے مقابلے میں آپ کی مدد کرنے کو اپنے اوپر لازم نہیں سمجھتے اور نہ (معاہدے کی رو سے) اس بات کو اپنی ذمہ داری تصور کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں لے کر دشمن کے علاقے میں جائیں۔‘‘
مذکورہ واقعے سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے ساتھ جنگ کے معاملے میں بھی، جو ان کی قوت اور طاقت کو توڑ کر بیت اللہ کو ان کے قبضے سے آزاد کرانے اور جزیرۂ عرب میں دین توحید کو غالب کرنے کے نبوی مشن کی تکمیل کے تناظر میں بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ تھا، انصار کو فریضہ جہاد کا مکلف نہیں ٹھہرایا، بلکہ چونکہ وہ اپنی بیعت کی رو سے اصلاً مدینہ منورہ کی حد تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور دفاع کے ذمہ دار تھے، اس لیے اس سے باہر جنگ کے لیے ان کی رضامندی کا یقین حاصل کرنا ضروری سمجھا۔ جب اس نہایت اہم اور نازک معاملے میں مسلمانوں کے ایک گروہ کو ان کے عہد ومیثاق کے دائرے سے باہر، فریضہ جہاد کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا تو یہ اس امر کی صریح دلیل ہے کہ شارع کے نزدیک اس فریضے کی حیثیت نماز اور روزے جیسے احکام کی نہیں ہے جو ہر حال میں مسلمانوں پر فرض ہوں، بلکہ وہ اس بات کی گنجایش کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی گروہ کسی مخصوص صورت حال میں اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے اپنے حالات اور استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے ہی اپنی ذمہ داری کا دائرہ متعین کرے اور پھر جس حد تک وہ اس ذمہ داری کو قبول کر لے، اس سے آگے اسے اس معاملے میں ماخوذ نہ ٹھہرایا جائے، الا یہ کہ وہ خود اس پر رضامند ہو۔
اب آئیے، اس ضمن میں فقہا کے نقطہ نظر کا جائزہ لیتے ہیں۔ اوپر ہم مستند فقہی عبارات کی روشنی میں واضح کر چکے ہیں کہ فقہا کسی بھی صورت حال میں جہاد کی فرضیت کے معاملے میں مسلمانوں کی قوت واستعداد اور جنگ میں کامیابی کے امکانات کے سوال کو نظر انداز نہیں کرتے، چنانچہ وہ نہ صرف یہ کہ دوسرے علاقوں کے مسلمانوں کی مدد کے لیے اس شرط کا لحاظ رکھتے ہیں، بلکہ اگر دشمن خود ان کے علاقے پر حملہ آور ہو کر ان کے اموال اور عورتوں اور بچوں پر قبضہ کر لے تو انھیں ان کے قبضے سے چھڑانے کے لیے بھی اسی صورت میں لڑائی کو فرض قرار دیتے ہیں جب مسلمانوں کے پاس اس کی طاقت ہو اور جنگ کے نتیجہ خیز اور کامیاب ہونے کا امکان انھیں غالب دکھائی دیتا ہو۔ یہاں ہم ا س ضمن میں سرخسی کی ’شرح السیر الکبیر‘ سے ایک نہایت واضح اور فیصلہ کن تصریح نقل کرنا چاہیں گے جو اس بحث میں فقہا کے نقطہ نظر کو غیرمبہم طریقے سے واضح کر دیتی ہے۔ 
سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر مسلمانوں کے لشکر کے حملے کے نتیجے میں دار الحرب کے اندر کسی علاقے کے لوگ مسلمان ہو جائیں اور اس کے نتیجے میں ایک ایسا ’دار الاسلام‘ قائم ہو جائے جو جغرافیائی لحاظ سے دار الاسلام سے کٹا ہوا ہو اور چاروں اطراف سے دشمن کے درمیان گھرا ہوا ہونے کی وجہ سے اس کا دفاع ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا اس علاقے پر قبضے کو برقرار رکھنا ضروری بلکہ مناسب بھی نہیں۔ سرخسی اس طرح کے فیصلے کو ’سوء اختیار‘ قرار دیتے ہوئے اس بات کو بہتر قرار دیتے ہیں کہ مسلمان اس کو چھوڑ کر دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائیں۔ تاہم وہ مزید واضح کرتے ہیں کہ اگر اس علاقے کے مقامی مسلمان باشندے وہیں رہنے کو ترجیح دیں جبکہ دار الاسلام سے آئے ہوئے لشکر کی راے میں ایسا کرنے خطرے سے خالی نہ ہو تو امیر لشکر کو چاہیے کہ وہ مقامی باشندوں کو اپنے فیصلے کے نتائج کا خود ہی سامنا کرنے دے اور اپنے لشکر کے کسی فرد کو وہاں چھوڑ کر اس کی جان کو خطر ے میں نہ ڈالے۔ سرخسی کی اصل عبارت یہ ہے:
ولو ان جندا من المسلمین دخلوا دار الحرب وعلیہم امیر من قبل الخلیفۃ فدخلوا دار الحرب وخلفوا مدائن کثیرۃ من مدائن المشرکین فنزلوا علی مدینۃ من مدائنہم فدعاہم المسلمون الی الاسلام فاجابوہم الیہ فان المسلمین یقبلون ذلک منہم اذا اسلموا لان القتال انما شرع لقبول الاسلام قال اللہ تعالیٰ ’’تقاتلونہم او یسلمون‘‘ فاذا اسلموا یجب القبول منہم ثم الامیر یدعہم فی ارضہم ویستعمل علیہم امیرا من المسلمین یحکم بحکم اہل الاسلام لان المدینۃ صارت دار الاسلام فلا بد من امیر بینہم یجری فیہم حکم المسلمین فان کان القوم اذا انصرف عنہم ذلک الجند من المسلمین لم یقدروا علی ان یمتنعوا من اہل الحرب وابوا ان یتحولوا الی دار الاسلام فان الامیر یدعہم وما اختاروا لانفسہم لانہم اساء وا فی الاختیار فیترکہم وسوء اختیارہم ولا یجبرون علی التحویل لانہم احرار مسلمون فی مدینۃ الاسلام فلا یجبرون علی التحویل ولا یدع عندہم احدا من المسلمین مخافۃ علیہ الا تطیب نفسہ لان فیہ تعریضا علی التلف ولا یجوز تعریضہ علی التلف الا برضاہ (شرح السیر الکبیر، ۵/۲۱۹۰، ۲۱۹۱) 
’’اگر مسلمانوں کا کوئی لشکر دار الحرب میں داخل ہو جائے اور خلیفہ کی طرف سے ان پر کسی کو امیر بھی مقرر کیا گیا ہو اور یہ لشکر کفار کے بہت سے شہروں کو چھوڑ کر گزر جائے اور کسی شہر پر حملہ کر کے وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دے جسے وہ قبول کر لیں تو مسلمانوں کے لشکر کو ان کا اسلام لانا قبول کرنا ہوگا، کیونکہ جنگ کا حکم اسی لیے دیا گیا ہے کہ کفار اسلام لے آئیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اسلام لے آئیں۔ اس کے بعد امیر لشکر ان کو انھی کے شہر میں رہنے دے اور ان پر ایک مسلمان حاکم مقرر کر دے جو ان پر اسلامی احکام کے مطابق فیصلے کرے، کیونکہ یہ شہر اب دار الاسلام بن گیا ہے اور اس کا ایک ایسا حاکم ہونا ضروری ہے جو اسلامی احکام کے مطابق فیصلے کرے۔ پھر اگر اس بات کاخدشہ ہو کہ لشکر کے چلے جانے کے بعد وہ لوگ اہل حرب سے اپنے دفاع پر قادر نہیں ہوں گے (تو امیر لشکر انھیں دار الاسلام کی طرف منتقل ہونے کی ترغیب دے) اور اگر وہ دار الاسلام کی طرف منتقل ہونے پر آمادہ نہ ہوں تو امیر لشکر انھیں اپنے اختیار پر عمل کرنے کی اجازت دے دے، کیونکہ انھوں نے خود اپنے حق میں ایک غلط فیصلہ کیا، چنانچہ وہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دے اور دار الاسلام کی طرف منتقل ہونے پر مجبور نہ کرے، کیونکہ وہ آزاد مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ایک شہرمیں رہ رہے ہیں، چنانچہ انھیں وہاں سے منتقل ہونے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اس صورت میں وہ (دار الاسلام سے آنے والے) مسلمانوں میں سے کسی کو ان کے پاس ٹھہرنے پر مجبور نہ کرے، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ جان کو لاحق خطرے کی وجہ سے اس پر راضی نہ ہو، اور کسی کی رضامندی کے بغیر اس کو خطرے میں ڈالنا جائز نہیں۔‘‘
قرآن مجید، سیرت نبوی اور فقہ اسلامی کی ان تصریحات سے واضح ہے کہ مسلمانوں کے کسی گروہ کو دشمن کی جارحیت سے بچانے کے لیے ہر قسم کی صورت حال میں پوری امت مسلمہ پر جہاد کی فرضیت کا تصور علمی وعقلی اعتبار سے ایک بے بنیاد تصور ہے۔ دین وشریعت اور عقل عام کی رو سے جہاد کی ذمہ داری ادا کرنا بہت سے اسباب وعوامل کے مہیا ہونے اور بہت سے نظری وعملی مصالح کی رعایت پر موقوف ہے۔ یہ ایک اجتہادی معاملہ ہے جس میں مسلمانوں کے مختلف گروہ یا نظم ہاے حکومت معروضی حالات کی روشنی میں اپنے اپنے مصالح کے پیش نظر کسی مظلوم گروہ کی عملاً نصرت کرنے یا اس کے برعکس، اس معاملے سے الگ رہنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ عملی حالات، کامیابی یا ناکامی کے امکانات، قوت وطاقت کے تناسب اور اس طرح کے دوسرے امور کو نظر انداز کر کے ہر صورت حال میں جہاد کو فرض قرار دینا اور اس طرح ایک اجتہادی معاملے کو قطعی اور منصوص حکم کا درجہ دے دینا محض ایک جذباتی رویہ ہے جس کا قرآن وسنت اور فقہ اسلامی سے کوئی تعلق نہیں۔

اسلامی ریاست میں اقدام جہاد کا حق 

فقہ اسلامی میں جہاد وقتال کا ذکر مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داریوں کے ضمن میں کیا گیا اور اسی بنا پر یہ قرار دیا گیا ہے کہ اس سے متعلق امور میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کااختیار مسلمانوں کے ارباب حل وعقد کو حاصل ہے۔ کم وبیش تمام فقہی کتابوں میں اسلامی شریعت کے اس اصول کو ’امر الجہاد موکول الی الامام‘ (جہاد کا معاملہ ارباب حل وعقد کے سپرد ہے) یا اس کے ہم معنی الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ فقہا کا بیان کردہ یہ اصول انسانی عقل اور تجربہ ومشاہدہ سے حاصل ہونے والی راہنمائی پر مبنی ہے۔ انسانی معاشرت تعاون وتناصر اور امداد باہمی کے اصول پر قائم ہے۔ انسانی معاشرت کی ساخت، اس کے گوناگوں مظاہر اور اس کی تشکیل میں کارفرما نفسیاتی، حیاتیاتی اور سماجی اسباب وعوامل پر نظر رکھنے والا ہر شخص اس بات سے واقف ہے کہ اس کی ابتدا افراد کی احتیاج باہمی سے ہوتی ہے جو انسانی تعلقات کو نشو ونما اور ارتقا کے مختلف مراحل سے گزار کر بتدریج اس مقام پر لے آتی ہے جہاں ریاست کی صورت میں ایک ’معاہدۂ عمرانی‘ کا وجود میں آنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس ’معاہدۂ عمرانی‘ کی اساسات کو منطقی مقدمات کی صورت میں ترتیب دیجیے تو وہ تین ہیں:
پہلا یہ کہ انسان چونکہ اپنی متنوع اور مختلف احتیاجات کی تکمیل اپنی انفرادی سطح پر نہیں کر سکتا، لہٰذا ان احتیاجات اور تقاضوں کی تکمیل کے لیے وہ ایک ’معاشرہ‘ تشکیل دیتا ہے۔ بنی نوع انسان نے اپنی نسل کی بقا، اس کی نشوونما اور ارتقا، اپنی انفرادی واجتماعی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے اور اپنی نفسی ومادی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے معاشرہ واجتماع کے قیام کو اپنی فطرت کی روشنی میں ہمیشہ ناگزیر سمجھا ہے۔ قرون اولیٰ کے قبائلی نظاموں سے لے کر ازمنہ وسطیٰ کی ریاستوں اور بادشاہتوں اور دور جدید کے عالمی سیاسی ومعاشی نظاموں تک جس قدر بھی ارتقا وقوع پزیر ہوا ہے، اس کے پیچھے احتیاج باہمی کا یہی اصول کار فرما ہے۔ 
دوسرا یہ کہ معاشرہ اپنی نوعیت اور کردار ہی کے لحاظ سے حقوق وفرائض کی تقسیم اور ان کی نگہبانی کے لیے ایک نظم اجتماعی کا تقاضا کرتا ہے جو معاشرت کے تسلسل اور اس کے تحفظ کا ضامن ہو۔ انسان ذمہ داریوں کی تقسیم کے اصول سے فطری طور پر آشنا ہے، اور اس نے اس اصول کو جہاں محدود اور چھوٹی معاشرتی سطحوں پر برتا ہے، اسی طرح وسیع تر پیمانے پر بھی اس بات کا اہتمام کیا ہے کہ مشترک گروہی مفادات کی دیکھ بھال اور اجتماعی امور کے انتظام وانصرام کی ذمہ داری اپنے میں سے اہل اور قابل لوگوں کو سونپ دے جو معاشرے کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کو انجام دیں۔ انسانی بود وباش نے جیسے ہی ایک معاشرے کی صورت میں ڈھلنا شروع کیا اور افراد کے باہمی تعلقات ومعاملات ایک محدود دائرے سے اٹھ کر ایک وسیع تر سطح پر انجام پانا شروع ہوئے، حقوق وفرائض کی تقسیم، افراد پر قوانین وضوابط کی حد بندیاں لگانے، اور ان کی نگہبانی کے لیے ایک اجتماعی نظم قائم کرنے کی ضرورت سامنے آ گئی اور افراد نے خود اپنی ہی مصلحت اور سہولت کے پیش نظر اپنے اندر میں سے چند افراد کو ایک بالاتر اتھارٹی تسلیم کر لیا۔ 
تیسرا یہ کہ نظم اجتماعی اپنے قیام اور تسلسل کے لیے اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ افراد اپنی بنیادی ضرورتوں اور حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی کچھ آزادیوں اور اختیارات سے دست بردار ہو جائیں۔ چونکہ ایک اجتماعی نظام افراد کی ان ضروریات اور حقوق کی دیکھ بھال اور تحفظ کا ضامن ہوتا ہے جو اس نظام کے بغیر تکمیل نہیں پا سکتیں، اس لیے اس اصلح وانفع نظام کو برقرار رکھنے کے لیے افراد کو اپنی ایسی آزادیوں سے دست بردار ہونا پڑتا ہے جن کااستعمال اس اجتماعی نظام کی بقا کے لیے خطرہ بن سکتا اور نتیجتاً اسے درہم برہم کر سکتا ہے۔ گویا اپنی آزادیوں اور اختیارات کے ایک حصے سے دست برداری نظم اجتماعی کی طرف سے اس خدمت کی ایک لازمی قیمت ہے جو وہ افراد معاشرہ کے تحفظ اور اس کے انتظام وانصرام کی صورت میں انجام دیتا ہے۔ 
اس تقسیم کار سے چند بنیادی فائدے حاصل ہوتے ہیں: ایک یہ کہ معاملات وامور کو الل ٹپ طریقے سے انجام دینے کے بجائے انھیں اہلیت اور صلاحیت اور اجتماعی فراست کے ساتھ انجام دینے کا بندو بست ہو جاتا ہے۔ دوسرے یہ کہ معاملات کے فیصلے کو انفرادی ہاتھوں میں چھوڑنے اور افراد کی خواہشات وتعصبات کے رحم وکرم پر چھوڑنے سے جس انتشار، بد نظمی اور فسادکا رونما ہونا یقینی ہے، اس کا سدباب ہو جاتا ہے اور ایک با اختیار قوت حاکمہ ان سب غیر فطری تجاوزات سے نمٹنے کے لیے مناسب وسائل اور قوت کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ تیسرے یہ کہ نظم اجتماعی اپنے دائرۂ اختیار میں آنے والے تمام افراد اور گروہوں کو ایک وحدت کی صورت دے کر دوسرے نظم ہاے اجتماعی کے ساتھ تعامل پر قادر ہو جاتا ہے۔ یہ نظم اجتماعی کا خارجی کردار ہے، اور ایک سیاسی نظام کے تحت رہنے والے طبقات اور گروہ اپنے نظم اجتماعی ہی کے توسط سے دنیا کے دوسرے نظاموں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔ 
فطرت کی راہنمائی اور عقل وتجربہ کی روشنی پر مبنی یہ وہ حکیمانہ انتظام ہے جو انسان نے کم وبیش ہر دور میں اختیار کیا اور جسے بالعموم نسل انسانی کے عقلا وحکما کی تائید حاصل رہی ہے۔ جنگ کے لیے حکومت واقتدار کی شرط اگر غور کیجیے تو اسی اصول کا ایک لازمی تقاضا ہے جس کو دنیا کے مہذب اور متمدن معاشرے، کم از کم نظری طور پر، تسلیم کرتے ہیں۔ جنگ، جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے، دو افراد کے مابین نہیں، بلکہ دو گروہوں کے مابین ہوتی ہے۔ اس کا محرک بھی گروہی ہوتا ہے، اس کے فریق بھی دو یا دو سے زیادہ گروہ ہوتے ہیں اور اس کے تمام مراحل بھی گروہی سطح پر ہی انجام پاتے ہیں۔ چنانچہ وہ معاملات جو اصلاً افراد کے باہمی ربط سے متعلق ہیں، اگر ان میں افراد کو نظم اجتماعی کو بائی پاس کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تو جن امور کا تعلق ہی اصلاً اجتماع اور معاشرہ سے ہے، ان کو بدرجہ اولیٰ نظم اجتماعی ہی سے متعلق قرار دینا چاہیے۔ یہ تقسیم کار کا ایک بدیہی تقاضا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نوعیت کی کچھ اجتماعی ضرورتیں اگر تشنہ تکمیل ہوں تو افراد یا گروہ اپنی نجی حیثیت میں نہ ان کی انجام دہی کے مکلف ہوتے ہیں اور نہ ان سے متعلق عقلی وشرعی ہدایات کے براہ راست مخاطب۔مثال کے طور پر یہ ایک بدیہی معاشرتی ضرورت ہے کہ لوگوں کے مابین پیدا ہونے والے تنازعات کا تصفیہ اس طریقے سے کیا جائے کہ عدل وانصاف کا بول بالا ہو ہو اور معاشرتی ارتقا کا دھارا کسی خلل کے بغیر اپنے فطری بہاؤ پر بہتا رہے۔ تاہم اس ضرورت کی تکمیل کا مکلف کوئی فرد یا کوئی گروہ نہیں بلکہ معاشرہ بحیثیت مجموعی ہے۔ چنانچہ اگر کسی جگہ پر اس ضرورت کی تکمیل کا کوئی انتظام میسر نہ ہو اور کچھ مخلص اور باہمت افراد کے دل میں اس کا داعیہ پیدا ہوجائے تو عقل و فطرت کا مطالبہ ان سے یہ نہیں ہوگا کہ وہ براہ راست لوگوں کے فیصلے کرنا شروع کر دیں، بلکہ یہ ہوگا کہ وہ معاشرے کے مختلف طبقات اور گروہوں کو اس ضرورت کا احساس دلا کر انھیں مجتمع کرنے کی کوشش کریں تاکہ تنازعات کے تصفیے کے لیے اجتماعی سطح پر ایک منظم اور با اختیار قانونی وعدالتی نظام وجود میں لایا جا سکے۔ اگر کوئی گروہ اس کے بغیر ’عدل وانصاف‘ کا بول بالا کرنے کی کوشش کرے گا تو اپنے اقدامات سے الٹا مزید فساد، انارکی اور خون ریزی کا مرتکب ہوگا۔ 
یہ تو افراد کی سطح پر ظلم وعدوان سے نمٹنے کی صورت حال ہے۔ اگر واسطہ کسی منظم گروہ کی سرکشی اور ظلم وعدوان سے ہو تو صورت حال اور زیادہ نازک ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت میں بیشتر اوقات جنگ اور خون ریزی کی نوبت آ پہنچتی ہے۔ جنگ اگر تو محض جذبہ انتقام کی تسکین کا ذریعہ اور انسانوں کے نفوس واموال کی اباحت بذات خود کوئی مطلوب ومقصود چیز ہو تو ظاہر ہے کہ جنگ کو کسی قاعدے اور ضابطے سے مقید کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن اگر انسانی جان ومال محترم اور ا خدا داد فطری آزادی لائق احترام چیز ہیں اور ان سے کسی ناگزیر ضرورت کے بغیر تعرض نہیں کیا جا سکتا تو پھر یہ بات شرط اولیں کی حیثیت رکھتی ہے کہ اس اباحت پر عمل کے دوران میں اخلاقی حدود قائم رہیں اور جس گروہ کے خلاف کسی اخلاقی اصول کی پامالی کی پاداش میں اقدام جنگ کیا جا رہا ہے، خود اس کے خلاف یہ اقدام بھی اخلاقیات کی قیمت پر نہیں بلکہ ان کی پاس داری کرتے ہوئے کیا جائے۔ چنانچہ انسانی علم ودانش کے سامنے یہ سوال ہمیشہ سے موجود رہا ہے کہ جس طرح جنگ کا مقصد فی الواقع ایک ایسا جائز اور مشروع مقصد ہونا چاہیے جس کی خاطر انسانوں کے جان ومال سے تعرض کیا جا سکے، اسی طرح اس مقصد کے حصول کا عملی طریقہ بھی ہر حال میں اخلاقیات کا پابند ہونا چاہیے، اور یہ بات کسی صورت میں بھی گوارا نہیں کی جانی چاہیے کہ ایک جائز مقصد کی خاطر تلوار اٹھاتے ہوئے ناگزیر خون ریزی سے بالواسطہ یا بلاواسطہ تجاوز کیا جائے یا کسی بھی اخلاقی قدر کو پامال کیا جائے۔ 
اگر جنگ کسی اخلاقی اصول کے تحت اور اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ایک متعین مقصد کے حصول کی خاطر کی جائے گی تو دو بدیہی تقاضوں کے تحت یہ ضروری ہوگا کہ جنگ کا اقدام ایک بااختیار اور منظم قوت حاکمہ ہی کے تحت کیا جائے۔ پہلا تقاضا اخلاقی حدود کی پاس داری کا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دوران جنگ میں جوش انتقام کے تحت جنگ جوؤں کے بے قابو ہو جانے کا جو امکان یقین کے درجے میں پایا جاتا ہے، اس سے نمٹنے کے لیے ایک بالادست قوت موجود ہو جو زیادتیوں اور تجاوزات کی روک تھام کر سکے اور خلاف ورزی کا مرتکب ہونے والوں کو قرار واقعی سزا دے سکے۔ یہ اختیار کسی ایسے جتھے کے سربراہ کو حاصل نہیں ہوتا جو اتفاقیہ اور عارضی طور پر وجود میں آ گیا ہو اور اس کا جو فرد جب چاہے، محاسبے کے کسی خوف سے بے پروا اس سے الگ ہو جانے کی قدرت رکھتا ہو۔ اس کے لیے ایک باقاعدہ اور منظم حکومت کا موجود ہونا ضروری ہے جس کے تحت رعیت ایک قانونی معاہدے کی رو سے اپنے مقرر کردہ حکمران کی اطاعت کی پابند ہو اور اس کا یہ حق تسلیم کرے کہ وہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والوں پر دست اندازی کا پورا پورا اختیار رکھتا ہے۔ 
دوسرا تقاضا عملی نوعیت کا ہے۔ اگر جنگ سے محض خون ریزی برپا کرنا نہیں، بلکہ سرکش گروہوں کی قوت کو توڑنے کا ہدف واقعی حاصل کرنا مقصود ہے تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے ایک منظم اور منضبط جدوجہد درکار ہے۔ یہ تنظیم وانضباط کسی بااختیار قوت حاکمہ کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتا، اس لیے کہ فتح وشکست کے امکانات کے لحاظ سے جنگ کا فیصلہ کرنے سے لے کر جنگ جوؤں کے انتخاب، لشکر کی تنظیم وترتیب، محاذ جنگ کی حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے، میدان جنگ سے حاصل ہونے والی غنیمت کے انتظام وانصرام، دشمن کے ساتھ صلح وجنگ کے معاملات طے کرنے، اور دشمن پر غلبے کی صورت میں متبادل سیاسی وقانونی نظم کو رو بہ عمل کرنے تک تمام مراحل ایسے ہیں کہ ان کی ذمہ داریوں سے ایک باقاعدہ اور منظم حکومت ہی عہدہ برآ ہو سکتی ہے۔ 
انھی وجوہ سے کسی بھی قوم کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لیے حکومت واقتدار کی شرط کو دنیا کے ہر اس فلسفہ جنگ میں تسلیم کیا گیا ہے جو جنگ کے حوالے سے ’اخلاقیات‘ اور ’قانون‘ کو زیر بحث لاتا ہے۔ یہ شرط نہ صرف آسمانی شریعتوں میں تسلیم کی گئی ہے بلکہ عام انسانی عقل وتجربہ کے دائرے میں غور کرنے والے ماہرین قانون بھی اسے لازمی قرار دیتے ہیں۔ قرون وسطیٰ کے مشہور مسیحی عالم تھامس ایکویناس (Thomas Acquinas) فلسفہ قانون پر اپنی شہرۂ آفاق کتاب "The Summa Theologica" میں لکھتے ہیں:
In order for a war to be just, three things are necessary. First, the authority of the sovereign by whose command the war is to be waged. For it is not the business of a private individual to declare war, because he can seek for redress of his rights from the tribunal of his superior. Moreover it is not the business of a private individual to summon together the people, which has to be done in wartime. And as the care of the common weal is committed to those who are in authority, it is their business to watch over the common weal of the city, kingdom or province subject to them. And just as it is lawful for them to have recourse to the sword in defending that common weal against internal disturbances, when they punish evil-doers, according to the words of the Apostle (Rm. 13:4): "He beareth not the sword in vain: for he is God's minister, an avenger to execute wrath upon him that doth evil"; so too, it is their business to have recourse to the sword of war in defending the common weal against external enemies. Hence it is said to those who are in authority (Ps. 81:4): "Rescue the poor: and deliver the needy out of the hand of the sinner"; and for this reason Augustine says (Contra Faust. xxii, 75): "The natural order conducive to peace among mortals demands that the power to declare and counsel war should be in the hands of those who hold the supreme authority." 
’’جنگ کے جائز ہونے کے لیے تین شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ سب سے پہلی شرط اقتدار اعلیٰ کے حامل وہ ارباب اختیار ہیں جن کے حکم سے جنگ برپا کی جائے گی، اس لیے کہ یہ کسی فرد کا کام نہیں ہے کہ وہ ذاتی طور پر جنگ کا اعلان کر دے، کیونکہ فرد اپنے حقوق کے حصول کے لیے اپنے حکمرانوں کے مقرر کردہ منصفوں کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ حق بھی کسی فرد کو حاصل نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو جمع ہونے کا حکم دے، جو کہ جنگ کی حالت میں کرنا پڑتا ہے۔ اور چونکہ اجتماعی ضرورتوں کی نگہداشت کی ذمہ داری اقتدار پر فائز لوگوں پر ڈالی گئی ہے، اس لیے یہ انھی کا کام ہے کہ وہ اپنے زیر اقتدار شہر، سلطنت یا صوبے کی اجتماعی بہبود کی نگہبانی کریں۔ اور جیسے انھیں پولس رسول کے ان الفاظ کے مطابق اجتماعی بہبود کو داخلی اختلال سے محفوظ رکھنے کی خاطر بد کاروں کو سزا دینے کے لیے تلوار اٹھانے کا حق ہے، ’’وہ تلوار بے فائدہ لیے ہوئے نہیں اور خدا کا خادم ہے کہ اس کے غضب کے موافق بد کار کو سزا دیتا ہے‘‘ (رومیوں ۱۳:۴) ، اسی طرح انھیں بیرونی دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے بھی ان کے خلاف جنگ کے لیے تلوار اٹھانے کا حق حاصل ہے۔ اسی لیے ارباب اقتدار سے کہا گیا ہے کہ ’’غریبوں کو نجات دلاؤ، اور محتاجوں کو گناہ گاروں کے پنجے سے چھڑاؤ‘‘ اور اسی وجہ سے آگسٹائن نے کہا ہے کہ ’’انسانوں کے مابین امن کو قائم رکھنے کے لیے موزوں اور فطری ترتیب کا تقاضا یہ ہے کہ جنگ کا اعلان اور اقدام کرنے کا اختیار انھی کو حاصل ہو جنھیں لوگوں پر اقتدار اعلیٰ حاصل ہے۔‘‘
فلسفہ قانون کے مسلم اہل علم کے ہاں بھی حقوق وفرائض کی یہ تقسیم مسلم ہے، چنانچہ جب وہ ریاست وحکومت کے قیام کو مسلمانوں کا اجتماعی فریضہ قرار دیتے ہیں تو اس کی دلیل ہی یہ دیتے ہیں کہ احکام شریعت کے مطابق فصل نزاعات، اقامت حدود اور کفار کے ساتھ جہاد وقتال جیسے فرائض اس کے بغیر انجام نہیں دیے جا سکتے۔ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
اعلم انہ یجب ان یکون فی جماعۃ المسلمین خلیفۃ لمصالح لا تتم الا بوجودہ وہی کثیرۃ جدا یجمعہا صنفان: احدہما ما یرجع الی سیاسۃ المدینۃ من ذب الجنود التی تغزوہم وتقہرہم وکف الظالم عن المظلوم وفصل القضایا وغیر ذلک .... وثانیہما ما یرجع الی الملۃ وذلک ان تنویہ دین الاسلام علی سائر الادیان لا یتصور الا بان یکون فی المسلمین خلیفۃ ینکر علی من خرج من الملۃ وارتکب ما نصت علی تحریمہ او ترک ما نصت علی افتراضہ اشد الانکار ویذل اہل سائر الادیان ویاخذ منہم الجزیۃ عن ید وہم صاغرون والا کانوا متساوین فی المرتبۃ لا یظہر فیہم رجحان احدی الفرقتین علی الاخری ولم یکن کابح یکبحہم عن عدوانہم (حجۃ اللہ البالغہ، ۲/۱۴۸)
’’جان لو کہ مسلمانوں کی جماعت میں ایک خلیفہ کا وجود ضروری ہے، کیونکہ بے شمار مصالح ایسے ہیں جو اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے۔ یہ مصالح اصلاً دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق معاشرے کی تنظیم وتدبیر اور اس کی حفاظت سے ہے، مثلاً حملہ آور اور قاہر دشمنوں سے لوگوں کا دفاع، مظلوم کو ظالم کے شر سے بچانا اور مقدمات کا تصفیہ وغیرہ۔ دوسرے وہ جن کا تعلق دینی وملی مصالح سے ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ دین اسلام کی عظمت وشان کو دوسرے تمام ادیان پر ثابت کر دینا اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مسلمانوں کا ایک خلیفہ ہو جو دین سے نکلنے والوں، دین کے محرمات کا ارتکاب اور اس کے واجبات کو ترک کرنے والوں پر سخت ترین نکیر کر سکے اور تمام اہل ادیان کو مغلوب کر کے ان سے ذلت وپستی کی حالت میں جزیہ وصول کر سکے۔ اگر خلیفہ نہیں ہوگا تو تمام اہل مذہب مرتبے میں ایک دوسرے کے برابر ہوں گے، نہ اہل اسلام کسی کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں برتری حاصل ہوگی اور نہ ان کو مسلمانوں کے خلاف ظلم وعدوان سے روکنے والا کوئی ہوگا۔‘‘
’ازالۃ الخفاء‘ میں لکھتے ہیں:
’’خداے تعالیٰ جہاد وقضا واحیاء علوم دین واقامت ارکان اسلام ودفع کفار از حوزۂ اسلام فرض بالکفایہ گردانید وآں ہمہ بدون نصب امام صورت نگیرد ومقدمہ واجب واجب است۔‘‘ (ازالۃ الخفاء، ۱/۳)
’’اللہ تعالیٰ نے جہاد، قضا، علوم دین کے احیا، ارکان اسلام کی اقامت اور بلاد اسلام کو کفار کے حملوں سے محفوظ رکھنے کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور یہ تمام مقاصد حکمران کے تقرر کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتے، اور واجبات جس امر پر موقوف ہوں، وہ بھی واجب ہی قرار پاتا ہے۔‘‘

جہادی تنظیموں کی حیثیت

مذکورہ بحث سے اس اہم سوال کا جواب واضح ہوتا ہے جو معاصر تناظر میں نجی سطح پر منظم ہو کر اسلامی ریاست کے حدود سے باہر عسکری کارروائیاں کرنے والی تنظیموں کے بارے میں بہت شدت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ فقہا کسی ابہام کے بغیر یہ قرار دیتے ہیں کہ اس قسم کا کوئی اقدام کرنے کا اختیار کسی فرد یا گروہ کو حاصل نہیں۔ یہ ارباب حل وعقد کا Prerogative ہے جسے ان کی اجازت کے بغیر ازخود استعمال کرنے والے تادیب وتعزیر کے مستحق ہیں۔ 
بعض اہل علم نے معاصر جہادی تنظیموں کی کارروائیوں کے جواز کے حق میں یہ استدلال کیا ہے کہ فقہا کی تصریحات کی رو سے اگر دار الاسلام کا کوئی گروہ تصریحاً یا اشارتاً حکومت کی رضامندی سے غیر مسلموں کے علاقے میں جا کر جنگ کارروائیاں کرے تو وہ اسلامی حکومت ہی کی طرف سے سمجھی جائیں گی اور حکومت ہی ان کی ذمہ دار قرار پائے گی اور اگر ایسا کوئی گروہ اپنا کوئی امیر مقرر کر لے تو اسے وہی قانونی وشرعی اختیارات حاصل ہوں گے جو امام کی طرف سے مقرر کردہ کسی امیر کو حاصل ہوتے ہیں۔ (محمد مشتاق احمد، ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت‘‘، ص ۲۵۲)
تاہم اس فقہی جزئیے کا اصل محل یہ نہیں ہے اور اسے معاصر اسلامی ریاستوں پر منطبق کرنا درست نہیں۔ فقہا نے یہ جزئیہ کسی غیر مسلم ملک کے خلاف جنگ کا اعلان یا آغاز کرنے کے ضمن میں نہیں، بلکہ دار الحرب یعنی ایک ایسے ملک میں کارروائیاں کرنے سے متعلق لکھا ہے جس کے ساتھ اسلامی حکومت کا برسر جنگ ہونا پہلے سے طے ہو۔ اس سے یہ کسی طرح اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ایسا کوئی گروہ کسی ایسے ملک کے خلاف برسر جنگ ہونے کا فیصلہ بھی خود کر سکتا ہے جس کے ساتھ اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو یا معاہدہ تو نہ ہو لیکن اصولی طور پر اس کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہو۔ اگر اسلامی حکومت کسی ملک کے ساتھ معاہدہ رکھتی ہے اور کوئی گروہ ازخود اس کے خلاف جنگ کا فیصلہ کرتا ہے تو بدیہی طور پر اسے حکومت کا تائید یافتہ اقدام نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ اگر اسلامی حکومت ایسے گروہوں کو معاونت اور امداد فراہم کرتی ہے تو یقیناًاس کی ذمہ دار وہی ہوگی، لیکن اس صورت میں ایک دوسرا اخلاقی سوال پیدا ہو جائے گا کہ آیا اسلامی حکومت نے اس سے پہلے معاہدہ ختم کرنے کی بنیادی شرط پوری کی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں کی تو ارباب حل وعقد بھی گناہ گار ہیں اور جہادی تنظیموں کے شرکا بھی، اس لیے کہ اس صورت میں یہ معصیت ہے جس کا اگر حکومت کی طرف سے حکم ہو تو بھی اس کی پیروی ناجائز ہے۔
۱۹۴۸ء میں کشمیر میں مقامی سطح پر بھارت کے خلاف جنگ آزادی کا آغاز کیا گیا تو مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہما اللہ کے مابین اس نکتے پر ایک اہم اور دلچسپ بحث ہوئی کہ آیا پاکستانی حکومت مجاہدین کی عسکری اور افرادی امداد کر سکتی ہے یا نہیں۔ مولانا عثمانی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت کا عملاً مجاہدین کو مدد فراہم کرنا گویا اس بات کا اعلان ہے کہ وہ معاہدے کی پابند نہیں رہی، جبکہ مولانا مودودی کا استدلال یہ تھا کہ حکومت کا اس بات کا واضح اعلان اور اقرار نہ کرنا اور پہلے کی طرح سفارتی اور سیاسی تعلقات قائم رکھنا اس امر کو تسلیم کرنے سے مانع ہے۔ بحث کے آخر میں مولانا مودودی نے یہ قرار دیا کہ چونکہ پاکستانی حکومت کی طرف سے مجاہدین کشمیر کی امداد کے باوجود بھارتی حکومت نے اسے نبذ عہد کے مترادف نہیں سمجھا، اس لیے قانونی طور پر اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گا کہ صرف کشمیر کی حد تک دونوں حکومتیں امن معاہدے کی پابند نہیں رہیں، جبکہ عمومی طور پر یہ معاہدہ برقرار ہے۔ (یہ دلچسپ مراسلت ’’انوار عثمانی‘‘ مرتبہ انوار الحسن شیرکوٹی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے)۔
مولانا کے استدلال میں یہ خامی موجود ہے کہ قرآن عملاً کوئی اقدام کرنے سے پہلے معاہدے سے براء ت کی ہدایت کرتا ہے جو کہ اس صورت میں نہیں پایا گیا۔ پھر یہ کہ وہ بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستانی حکومت کی امداد کو نقض معاہدہ کے مترادف نہ سمجھنے سے بھارتی حکومت کا کشمیر کی حد تک معاہدے کو کالعدم سمجھنا اخذ کر رہے ہیں، حالانکہ بھارتی حکومت نے اس پر یقیناًاحتجاج کیا ہوگا، جبکہ اس کا سفارتی تعلقات کو برقرار رکھنا ایک سیاسی مصلحت کے تحت تھا نہ کہ کسی باقاعدہ باہمی افہام وتفہیم کا نتیجہ۔ بہرحال اس استدلال کو مان لیا جائے تو بھی وہ اس پر مبنی ہے کہ پاکستانی حکومت کا مجاہدین کی مدد کرنا علانیہ تھا اور حکومت اس کا انکار نہیں کرتی تھی۔ چنانچہ اس سے اس کا جواز اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ حکومت بظاہر تو معاہدے کی پابندی کا دم بھرتی رہے اور مجاہدین کی امداد کی ذمہ داری قبول نہ کرے، لیکن خفیہ طور پر ان کی معاونت اور امداد کا سلسلہ جاری رکھے۔ یہ صریحاً غدر اور خیانت ہوگا جس کا اخلاقی طور پر کوئی جواز تلاش نہیں کیا جا سکتا۔

مسلم علاقے پر غیر مسلموں کا تسلط

اگر مسلمانوں کے کسی علاقے پر غیر مسلموں کا تسلط قائم ہو جائے تو ایسی صورت میں مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں یا دوسرے اہل اسلام کی شرعی ذمہ داری کیا ہے؟ یہ سوال بھی معاصر تناظر میں بے حد اہمیت کا حامل بن گیا ہے اور اسی وجہ سے عام طور پر علمی بحث ومباحثہ کا موضوع بھی بنا رہتا ہے۔ اس ضمن میں عام طور پر فقہا کا موقف یہ بتایا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں شرعی فریضہ یہ ہے کہ قریبی مسلم ریاستوں کی طرف سے مداخلت یا خود اس علاقے کے مسلمانوں کی طرف سے جدوجہد آزادی کی صورت میں کفار کے غلبے کو چیلنج کیا جائے اور قابض قوت کو ہر حال میں وہاں سے باہر نکالا جائے۔ اس سے ہٹ کر مفاہمت کا طرز عمل اختیار کرنا اور کفار کے تسلط کو قبول کر لینا شرعاً جائز نہیں اور ایسا کرنے پر ساری دنیا کے مسلمان گنہگار ہوں گے۔ ’الموسوعۃ الفقہیۃ‘ میں ہے:
اذا استولی الکفار علی بقعۃ من دار الاسلام صار الجہاد فرض عین علی جمیع افراد الناحیۃ التی استولی علیہا الکفار رجالا ونساء ا صغار وکبارا اصحاء ومرضی فاذا لم یستطع اہل الناحیۃ دفع العدو عن دار الاسلام صار الجہاد فرض عین علی من یلیہم من اہل النواحی الاخری من دار الاسلام وہکذا حتی یکون الجہاد فرض عین علی جمیع المسلمین ولا یجوز تمکین غیر المسلمین من دار الاسلام ویاثم جمیع المسلمین اذا ترکوا غیرہم یستولی علی شئ من دار الاسلام (الموسوعۃ الفقہیۃ، دار: دار الاسلام، ۲۰/۲۰۱، ۲۰۲)
’’اگر کفار دار الاسلام کے کسی علاقے پر قابض ہو جائیں تو مقبوضہ علاقے کے رہنے والے تمام افراد پر، چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں، چھوٹے یابڑے، تندرست یا بیمار، جہاد فرض عین ہو جائے گا۔ اگر اس علاقے کے لوگ دشمن کی مزاحمت پر قادر نہ ہوں تو اس علاقے سے متصل دار الاسلام کے دوسرے علاقوں پر جہاد فرض ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ سلسلہ بڑھتے ہوئے دنیا کے تمام مسلمانوں پر جہاد کے فرض عین ہونے کی صورت اختیار کر لے گا۔ غیر مسلموں کو دارالاسلام پر قابض رہنے دینا جائز نہیں اور اگر انھیں دار الاسلام کے کسی بھی حصے پر قابض رہنے دیا گیا تو سب کے سب مسلمان گنہگار ہوں گے۔‘‘
اسی طرح یہ بات بھی عام طور پر کہی جاتی ہے کہ فقہا کے نزدیک اقدامی جہاد کے لیے تو حکومت واقتدار کی شرط عائد ہوتی ہے، لیکن اگر کفار کا قبضہ وتسلط کسی ایسے علاقے پر قائم ہو جائے جو اس سے قبل مسلمانوں کے زیر نگیں تھا تو اس کو ان کے قبضے سے آزاد کرانے کے لیے فقہا باقاعدہ نظم حکومت کے قیام کو ضروری نہیں سمجھتے، بلکہ ان کے نزدیک جتھہ بندی کی صورت میں نجی سطح پر بھی جنگ آزادی کا اہتمام کرنا مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں پر فرض ہے۔
ہماری رائے میں فقہا کے موقف کی مذکورہ تعبیر فقہی ذخیرے کے معروضی مطالعے پر مبنی نہیں اور اسے فقہا کے زاویہ نگاہ کی درست ترجمانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں ہم خود فقہا کی تصریحات کی روشنی میں ان کے موقف کی درست تعیین کی کوشش کریں گے۔
فقہی ذخیر ے کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ فقہا نے مسلمانوں کے ملک پر کفار کے حملے کی شکل میں چار امکانی صورتیں اور ہر امکانی صورت کے لیے الگ الگ احکام بیان کیے ہیں:
پہلا امکان یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت مقابلے کے لیے پوری طرح تیار اور مستعد اور اپنی جنگی منصوبہ بندی کو روبہ عمل کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر بہرہ ور ہو۔ اس صورت میں علاقے کے تمام باشندوں کے لیے لازم ہے کہ وہ جنگی خدمات پیش کرنے کے لیے حاضر رہیں اور اہل حل وعقد کی طرف سے طلب کیے جانے کی صورت میں ان کی صواب دید اور ہدایات کے مطابق اپنی مقررہ ذمہ داری کو انجام دیں۔ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
اذا جاء العدو صار الجہاد علیہم فرض عین فوجب علی الجمیع فلم یجز لاحد التخلف عنہ فاذا ثبت ہذا فانہم لا یخرجون الا باذن الامیر لان امر الحرب موکول الیہ وہو اعلم بکثرۃ العدو وقلتہم ومکامن العدو وکیدہم فینبغی ان یرجع الی رایہ لانہ احوط للمسلمین (المغنی، ۹/۱۷۴)
’’اگر دشمن حملہ آور ہو تو سب لوگوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے پیچھے رہنا جائز نہیں رہتا۔ اتنی بات تو طے ہے، تاہم یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان کے لیے حکمران کی اجازت کے بغیر دشمن کے مقابلے میں جانا درست نہیں، اس لیے کہ جنگ کا معاملہ حکمران کے سپرد ہے اور وہ دشمن کی قلت وکثرت سے اور اس کے چھپنے کی جگہوں اور جنگی تدبیروں سے بھی با خبر ہے، اس لیے مسلمانوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ اس معاملے میں حکمران کی رائے پر اعتماد کیا جائے۔‘‘
دوسرا امکان یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت دشمن کی منظم مزاحمت پر قادر نہ رہے، ملک میں بد نظمی کی کیفیت پیدا ہو جائے اور صورت حال اس قدر نازک اور سنگین ہو جائے کہ ارباب حل وعقد کی طرف رجوع کرنا بھی ممکن نہ رہے ۔ اس صورت میں سب لوگوں کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ارباب حل وعقد کی طرف سے ہدایات کے انتظار میں رہنے کے بجائے اپنی صواب دید اور صلاحیت کے مطابق دشمن کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں۔ ’المغنی‘ میں ہے:
الا ان یتعذر استئذانہ لمفاجاۃ عدوہم لہم فلا یجب استئذانہ لان المصلحۃ تتعین فی قتالہم والخروج الیہ لتعین الفساد فی ترکہم (المغنی، ۹/۱۷۴)
’’اگر دشمن کے اچانک حملے کی صورت میں حکمران سے اجازت لینا ممکن نہ رہے تو پھر اس سے اجازت لینا ضروری نہیں، کیونکہ اب مصلحت اسی میں ہے کہ لوگ دشمن کے ساتھ لڑنے کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ (اس صورت میں حکمران کی اجازت کے انتظار میں) دشمن کو آگے بڑھنے کا موقع دینا نقصان کا باعث ہوگا۔‘‘
یہاں یہ نکتہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ فقہا کے نزدیک مذکورہ صورت میں مسلمانوں کی سول آبادی پر دشمن کی مزاحمت کی ذمہ داری صرف اس وقت عائد ہوتی ہے جب ان کا ظن غالب یہ ہو کہ وہ مزاحمت کر کے دشمن کی پیش قدمی کو روک سکتے ہیں۔ اگر اس کے برعکس اندیشہ ہو تو پھر مسلمانوں کے جان ومال کو بے فائدہ خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیے۔ شافعی فقیہ زکریا بن محمد بن زکریا لکھتے ہیں:
لو دخل ملک عظیم منہم طرف بلادنا لا یتسارع لدفعہ الآحاد والطوائف لما فیہ من عظم الخطر (شرح البہجۃ، زکریا بن محمد بن زکریا، ۵/۱۳۰)
’’اگر کفار کا کوئی بہت بڑا بادشاہ دار الاسلام کے کسی علاقے میں داخل ہو جائے تو اس کی مزاحمت کے لیے لوگ انفرادی طور پر یا جتھوں کی صورت میں نہ لپکیں، کیونکہ اس طریقے میں خطرہ بہت بڑا ہے۔‘‘
تیسرا امکان یہ ہے کہ مسلمانوں کے ارباب حل وعقد اور عوام، دونوں ہی اجتماعی طور پر دشمن کی موثر مزاحمت پر قادر نہ رہیں اور نوبت حکومت واقتدار اور سرزمین کے دفاع کے بجائے جان ومال کے انفرادی دفاع تک آ پہنچے۔ ایسی صورت میں فقہا ہر اس شخص کو جس کی جان ومال کو خطرہ لاحق ہو، اپنے دفاع کا حق دیتے ہیں، تاہم یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اگر اسے یہ توقع ہو کہ دشمن کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد اسے قتل نہیں کیا جائے گا تو اس کے لیے سرنڈر کر دینا بھی جائز ہے۔ فقہ شافعی کی کتاب ’المنہاج‘ میں ہے:
یدخلون بلدۃ لنا فیلزم اہلہا الدفع بالممکن فان امکن تاہب لقتال وجب الممکن ...... والا فمن قصد دفع عن نفسہ بالممکن ان علم انہ ان اخذ قتل وان جوز الاسر فلہ ان یستسلم (۶/۲۲، ۲۳)
’’کفار اگر حملہ کر کے ہمارے کسی شہر میں داخل ہو جائیں تو وہاں کے باشندوں پر دفاع کی ہر ممکن کوشش کرنا لازم ہے۔ اگر باقاعدہ تیاری کے ساتھ لڑائی ممکن ہو تو وہی لازم ہوگی، بصورت دیگر جس شخص پر دشمن حملہ آور ہو، اگر اسے یقین ہو کہ پکڑنے کے بعد اسے قتل کر دیا جائے گا تو وہ اپنی جان کا ہر ممکن دفاع کرے اور اگر اسے توقع ہو کہ اسے قیدی بنا لیا جائے گا تو اس کے لیے دشمن کے سامنے سرنڈر کرنا جائز ہے۔‘‘
’مغنی المحتاج‘ میں ہے:
لان المکافحۃ حینئذ استعجال للقتل والاسر یحتمل الخلاص ہذا ان علم انہ ان امتنع من الاستسلام قتل والا امتنع علیہ الاستسلام اما المراۃ فان علمت امتداد الایدی الیہا بالفاحشۃ فعلیہا الدفع وان قتلت لان الفاحشۃ لا تباح عند خوف القتل وان لم تمتد الایدی الیہا بالفاحشۃ الآن ولکن توقعتہا بعد السبی احتمل جواز استسلامہا ثم تدفع اذا ارید منہا (۶/۲۳)
’’اس صورت میں مزاحمت کرنے کا مطلب موت کو آواز دینا ہے، جبکہ قید کی صورت میں جان بچنے کا امکان پایا جاتا ہے۔ تاہم گرفتاری دینا اس وقت درست ہوگا جب اس کو یقین ہو کہ سرنڈر نہ کرنے کی صورت میں اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اگر قتل کا خوف نہ ہو تو پھر سرنڈر کرنا ممنوع ہے۔ اگر یہ صورت حال عورت کو درپیش ہو تو اگر اسے پتہ چل جائے کہ دشمن اس کی آبرو ریزی کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنا دفاع کرے، چاہے اسے قتل ہی کیوں نہ کر دیا جائے، کیونکہ قتل کے خوف سے عصمت گنوا دینا جائز نہیں۔ اور اگر دشمن کی طرف سے فی الفور تو اس کی آبرو پر ہاتھ نہ ڈالا جائے، لیکن قید ہو جانے کے بعد اس کا خدشہ ہو تو عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ گرفتاری دے دے اور پھر جب دشمن اس پر دست درازی کرنا چاہے تو اس وقت اپنا دفاع کرے۔‘‘
چوتھا امکان یہ ہے کہ غیر مسلم، مسلمانوں کی مزاحمت کو کچل کر ان کے علاقے پر قبضہ کرنے اور اپنی سیاسی وعسکری بالادستی قائم کرنے میں کام یاب ہو جائیں۔ اس صورت کے حوالے سے ہمارے ہاں فقہا کا موقف عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا اقتدار ختم ہو جانے کی صورت میں قابض قوت کے خلاف جہاد کی ذمہ داری عمومی طور پر مسلمانوں پر عائد ہو جائے گی اور ان پر لازم ہوگا کہ انفرادی طور پر یا جتھوں کی صورت میں کفار کے تسلط سے اپنے علاقے کو آزاد کرانے کے لیے ہر ممکن جدوجہد کریں۔ اس رائے کے حق میں بالعموم اس فقہی جزئیے سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اگر کفار دار الاسلام کے کسی علاقے پر حملہ آور ہوں تو اس علاقے کے سب باشندوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔ مرغینانی لکھتے ہیں:
فان ہجم العدو علی بلد وجب علی جمیع الناس الدفع تخرج المراۃ بغیر اذن زوجہا والعبد بغیر اذن المولی (ہدایہ، ۵/۴۴۲)
’’اگر دشمن کسی شہر پر حملہ آور ہو جائے تو سب لوگوں پر اس کا مقابلہ کرنا واجب ہے، چنانچہ عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر اور غلام اپنے آقا کی اجازت کے بغیر نکلنے کا پابند ہوگا۔‘‘
ہمارے نزدیک مذکورہ فقہی جزئیے سے یہ استدلال درست نہیں، اس لیے کہ اس جزئیے میں دراصل اس صورت حال کا حکم بیان کیا گیا ہے جب کفار مسلمانوں کے ملک پر حملہ آور ہوں، مسلمانوں کی حکومت ابھی باقی ہو اور کفار کا غلبہ وتسلط قائم نہ ہوا ہو، لیکن مسلمانوں کی باقاعدہ افواج دشمن کے مقابلے کے لیے ناکافی ہوں۔ گویا یہاں مسلمانوں کی حکومت کے معدوم ہونے کی نہیں بلکہ ایمرجنسی کی ایک صورت حال زیر بحث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس صورت کو فقہا اپنی اصطلاح میں ’نفیر عام‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران تمام شہریوں کو جنگی خدمات کے لیے طلب کر لے۔ فقہا کی عبارات سے یہ امر بالکل واضح ہے۔ ابن قدامہ کا جو اقتباس ہم نے اوپر نقل کیا ہے، اسے دوبارہ دیکھیے:
اذا جاء العدو صار الجہاد علیہم فرض عین فوجب علی الجمیع فلم یجز لاحد التخلف عنہ فاذا ثبت ہذا فانہم لا یخرجون الا باذن الامیر لان امر الحرب موکول الیہ وہو اعلم بکثرۃ العدو وقلتہم ومکامن العدو وکیدہم فینبغی ان یرجع الی رایہ لانہ احوط للمسلمین (المغنی، ۹/۱۷۴)
’’اگر دشمن حملہ آور ہو تو سب لوگوں پر جہاد فرض عین ہو جاتا ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے پیچھے رہنا جائز نہیں رہتا۔ اتنی بات تو طے ہے، تاہم یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ان کے لیے حکمران کی اجازت کے بغیر دشمن کے مقابلے میں جانا درست نہیں، اس لیے کہ جنگ کا معاملہ حکمران کے سپرد ہے اور وہ دشمن کی قلت وکثرت سے اور اس کے چھپنے کی جگہوں اور جنگی تدبیروں سے بھی با خبر ہے، اس لیے مسلمانوں کا فائدہ اسی میں ہے کہ اس معاملے میں حکمران کی رائے پر اعتماد کیا جائے۔‘‘
ابن الہمام لکھتے ہیں:
ہذا اذا لم یکن النفیر عاما فان کان بان ہجموا علی بلدۃ من بلاد المسلمین فیصیر من فروض الاعیان سواء کان المستنفر عدلا او فاسقا فیجب علی جمیع اہل تلک البلدۃ النفر (فتح القدیر ۵/۴۳۹)
’’یہ اس صورت میں ہے جب نفیر عام نہ ہو۔ اگر حکمران کی طرف سے نفیر عام ہو اور دشمن مسلمانوں کے کسی شہر پر حملہ آور ہو جائے تو پھر حکمران خواہ عادل ہو یا فاسق، اس کے طلب کرنے پر جہاد ہر شخص پر فرض ہو جائے گا اور اس شہر کے تمام باشندوں پر نکلنا واجب ہو جائے گا۔‘‘
ویجب ان لایاثم من عزم علی الخروج وقعودہ لعدم خروج الناس وتکاسلہم او قعود السلطان او منعہ (۵/۴۴۰)
’’(دشمن کے حملہ آور ہونے کی صورت میں) جو شخص جہاد کے لیے نکلنے کا عزم رکھتا ہو لیکن دوسرے لوگوں کے نہ نکلنے اور سستی کا مظاہرہ کرنے یا حکمران کے جہاد سے گریز کرنے یا اس کی طرف سے ممانعت کی وجہ سے نہ نکلے تو لازم ہے کہ ایسا شخص گناہ گار قرار نہ پائے۔‘‘
جہاں تک زیر بحث صورت یعنی مسلمانوں کی مزاحمت کے دم توڑ جانے اور کفار کے تسلط کے عملاً قائم ہو جانے کا تعلق ہے تو فقہا مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں پر جہاد کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں کرتے، بلکہ غیر مسلموں کے قبضے کو نہ صرف ایک امر واقعی (de facto) بلکہ ایک امر قانونی (de jure) تسلیم کرتے ہوئے مسلمانوں کے لیے ایک مختلف لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں۔ ذیل میں ہم دو نکتوں کے حوالے سے فقہا کے موقف کی وضاحت کریں گے: 
ایک یہ کہ آیا مسلمانوں کے کسی علاقے پر کفار کا غلبہ وتسلط بالفعل قائم ہو جانے سے اس سرزمین کی شرعی وقانونی حیثیت میں کوئی فرق رونما ہوتا ہے یا نہیں؟ 
دوسرا یہ کہ اس صورت حال میں مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں کے لیے فقہا کیا لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں۔ 
پہلے نکتے کو لیجیے:
یہ تصور کہ اگر کسی علاقے پر اہل اسلام کا سیاسی غلبہ ایک دفعہ کسی خاص درجے میں قائم ہو جائے تو اس میں شرعی لحاظ سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی اور حالات وواقعات کا تغیر صورت حال کے فقہی حکم پر کسی طرح سے اثر انداز نہیں ہوتا، کم از کم ہمارے علم کی حد تک فقہی ذخیرے کے لیے ایک بالکل اجنبی تصور ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ فقہا سیاسی اور عسکری صورت حال کی تبدیلیوں اور تغیرات کو پوری طرح ملحوظ رکھتے اور فقہی احکام پر ان کے اثرات کو پوری طرح تسلیم کرتے ہیں۔ فقہی جزئیات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ فقہا کے نزدیک علاقوں اور شہروں کی قانونی حیثیت میں یہ تبدیلی دار الاسلام کے حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی ہو سکتی ہے اور اس سے خارج ہو جانے کی صورت میں بھی۔ چنانچہ اگر کفار مسلمانوں پر غلبہ پا کر ان کی حکومت واقتدار کا خاتمہ کرنے اور اس کی جگہ اپنا تسلط قائم کرنے میں کام یاب ہو جائیں تو فقہا اس صورت میں کفار کے غلبے کو بالفعل اور قانوناً تسلیم کرتے ہوئے اس علاقے کو ’دار الحرب‘ کی حیثیت دے دیتے ہیں۔ یہ اصول درج ذیل فقہی جزئیات سے بالکل واضح ہے:
★  جن شہروں کو مسلمانوں نے خود آباد کیا ہو، فقہا کے نزدیک ان میں غیر مسلموں کو اپنے مذہبی شعائر وعلامات کے اظہار، اسلامی شریعت میں حرام کردہ چیزوں مثلاً خنزیر اور شراب وغیرہ کی علانیہ خرید وفروخت یا اپنی عبادت گاہیں قائم کرنے کی اجازت نہیں۔ یہی حکم غیر مسلموں کے آباد کردہ ان علاقوں کا ہے جہاں مسلمانوں نے سکونت اختیار کر کے اسلامی احکام وشعائر کو جاری کر دیا ہو۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۱/۵۶۔۵۸) البتہ جن شہروں میں غیر مسلم آباد ہوں اور مسلمانوں نے وہاں آبادی اختیار کر کے اسلامی احکامات مثلاً اقامت جمعہ وعیدین اور حدود وغیرہ کا اجرا نہ کیا ہو، اس میں اہل ذمہ کو مذہبی شعائر وعلامات کے اظہار اور عبادت گاہوں کے قیام کا حق حاصل ہے۔ یہ اصول بیان کرنے کے بعد فقہا شہروں اور علاقوں کی مذکورہ حیثیت میں تبدیلی کا امکان بھی واضح کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں کے اہل حل وعقد کسی مصلحت کے تحت کسی شہر سے مسلمانوں کی آبادی کو ختم کرنا اور احکام اسلام کے نفاذ کو موقوف کرنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں اور اس کے بعد اس شہر کا فقہی حکم بھی بدل جائے گا اور اہل ذمہ کو اپنے شعائر وعلامات کے اظہار کی آزادی حاصل ہو جائے گی۔
★  اگر مسلمانوں کے کسی علاقے پر کفار قبضہ کر لیں اور پھر اہل اسلام دوبارہ ان پر غلبہ حاصل کر لیں تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کفار کے کسی علاقے کو فتح کرنا اور اس صورت میں وہاں کے باشندوں سے اسی طرح معاملہ کرنا لازم ہوگا جیسا کہ کفار کے کسی علاقے کو فتح کرنے کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ ان قابض کفار کو اجنبی اور غاصب قرار دے کر وہاں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا، بلکہ قانونی طور پر وہاں کے باشندے شمار کرتے ہوئے جزیہ وصول کر کے انھیں وہاں رہنے کی اجازت دی جائے گی۔ (ابن قدامہ ،المغنی، ۶/۳۵، ۳۶)
★  دار الاسلام میں شامل کسی شہر کے اہل ذمہ اگر عقد ذمہ کو توڑ کر دار الاسلام سے الگ ہو جائیں تو اب ان کا حکم وہی ہوگا جو دار الحرب کے باقی تمام علاقوں کا ہے۔ چنانچہ اب اگر وہ دار الاسلام میں شامل ہوئے بغیر عقد ذمہ سے مختلف نوعیت کا کوئی معاہدۂ صلح کرنا چاہیں تو مسلمانوں کا حکمران اپنی صواب دید کے مطابق ان کے ساتھ معاہدہ کر سکتا ہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۵/۱۷۰۴)
★  امام ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مرتد ہو جانے کے بعد دار الاسلام ہی میں مقیم رہے تو اس کے مرنے کے بعد اس کا مال اس کے مسلمان ورثا میں تقسیم کیا جائے گا، لیکن اگر وہ مرتد ہو کر اپنے مال سمیت دار الحرب میں چلا جائے اور وہاں اس کا انتقال ہو تو اس کے ترکے کے حق دار غیر مسلم ورثا ہوں گے۔ (جصاص، احکام القرآن، ۲/۱۰۲، ۱۰۴) سرخسی نے اس اصول پر یہ تفریع کی ہے کہ اگر دار الاسلام کے کسی علاقے کے لوگ اجتماعی طور پر مرتد ہو کر اپنے علاقے میں کفر کے احکام کو جاری کر دیں اور پھر ان میں سے کوئی شخص مر جائے تو اس کا ترکہ اس کے غیر مسلم ورثا میں تقسیم کیا جائے گا، اس لیے کہ ان کا علاقہ دار الحرب قرار پا چکا ہے اور دار الحرب میں مرنے والے مرتد کے ترکے کا حکم یہی ہے۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۵/۱۹۲۱) ایک مزید فرع یہ ہے کہ کسی علاقے کے باشندے اجتماعی طور پر مرتد ہو جائیں تو ان کا علاقہ دار الحرب قرار پاتا ہے اور اہل اسلام کے لیے ضرورت او رمصلحت کے تحت ان کے ساتھ اسی طرح موادعہ یعنی صلح کا معاہدہ کرنا جائز ہے جیسے دیگر کافر ریاستوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ (ابن الہمام، فتح القدیر ۵/۴۵۹)
★  فقہی ضابطہ یہ ہے کہ اگر کوئی حربی امان لے کر دار الاسلام میں آئے تو اس کی امان صرف اس وقت تک برقرار رہتی ہے جب تک وہ دار الاسلام میں مقیم رہے۔ اس کے بعد جب وہ اپنے ملک میں واپس چلا جائے تو اس کی امان ختم ہو جاتی ہے۔ فقہا اس پر یہ تفریع کرتے ہیں کہ اگر کوئی حربی امان لے کر دار الاسلام کے کسی علاقے میں آئے اور پھر اس علاقے پر اسی کے ملک سے تعلق رکھنے والے اہل کفر غالب آ جائیں تو مسلمانوں کی جانب سے اس حربی کو دی جانے والی امان ختم ہو جائے گی، کیونکہ اہل کفر کے قابض ہو جانے کے بعد یہ علاقہ دار الحرب قرار پا چکا ہے، چنانچہ یہ ایسے ہی ہے جیسے وہ اپنے ملک میں واپس چلا گیا ہو۔ اس صورت میں اگر مسلمان دوبارہ اس علاقے پر قبضہ کریں اور وہ مستامن حربی وہیں موجود ہو تو سابقہ امان کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اب اس کے ساتھ ’مستامن‘ کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔ (سرخسی، شرح السیر الکبیر، ۵/۱۹۴۷)
★  احناف کا مسلک یہ ہے کہ اہل کفر اگر دار الاسلام میں داخل ہو کر مسلمانوں سے مال واسباب چھین لیں تو جب تک وہ واپس اپنے علاقے میں نہ چلے جائیں، اس لوٹے ہوئے مال پر سے مسلمانوں کی ملکیت ختم نہیں ہوتی۔ چنانچہ اگر اس سے پہلے ہی مسلمان ان سے اپنا مال واپس حاصل کرنے میں کام یاب ہو جائیں تو تمام مالک اپنی اپنی چیزیں کسی معاوضے کے بغیر واپس لینے کے حق دار ہیں۔ لیکن اگر کفار اپنے علاقے میں داخل ہو جائیں تو پھر مسلمانوں کی ملکیت اس مال سے ختم ہو جاتی ہے اور کفار اس کے مالک بن جاتے ہیں۔ اس ضابطے پر تفریع کرتے ہوئے سرخسی لکھتے ہیں کہ اگر اہل کفر مسلمانوں کے کسی علاقے پر قابض ہو کر مسلمانوں کے اموال واسباب پر قبضہ کر لیں تو چونکہ یہ علاقہ دار الحرب بن چکا ہے، اس لیے کفار ان اموال واسباب کے مالک قرار پائیں گے۔ اب اگر مسلمان دوبارہ اس پر غالب آئیں تو اصل مالکوں کے لیے اپنے اموال کو حاصل کرنے کی دو صورتیں ہیں۔ اگر تو وہ مسلمانوں کے مابین تقسیم نہیں ہوا تو مالک کو اپنی چیز کسی معاوضے کے بغیر لینے کا حق ہے، لیکن اگر مال تقسیم ہو چکا ہے تو اسے قیمت ادا کر کے اپنی مملوکہ چیز واپس حاصل کرنے کا اختیار ہوگا۔ (سرخسی، المبسوط، ۱۰/۱۴۳، ۱۴۴۔ شرح السیر الکبیر ۵/۱۹۵۷)
مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہے کہ دار الاسلام پر اہل کفر کا غلبہ قائم ہو جانے کے بعد فقہا جملہ قانونی معاملات میں اسے دار الحرب کی حیثیت دیتے ہیں۔ اب جہاں تک اس نئی صورت حال کے حوالے سے اہل اسلام کی شرعی ذمہ داری کا تعلق ہے تو فقہا کا زاویہ نگاہ اس باب میں کسی بھی لحاظ سے جذباتی، نظری یا غیرعملی نہیں، بلکہ وہ زمینی حقائق اور عملی امکانات کو پوری طرح ملحوظ رکھ کر ہی مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں کے لیے کوئی شرعی لائحہ عمل تجویز کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر کسی علاقے کے مسلمان کفار کی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع نہ کر سکیں تو فقہا قریب ترین علاقے کے لوگوں پر اور اسی طرح علی الترتیب ساری دنیا کے مسلمانوں پر جہاد کو فرض قرار دیتے ہیں، تاہم اس کے ساتھ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ حکم اس وقت ہے جب ابھی جنگ جاری ہو اور غیر مسلم حملہ آور اپنا تسلط قائم کر کے دار الاسلام کو قانونی طور پر دارالحرب میں تبدیل نہ کر چکے ہوں۔ ابن نجیم لکھتے ہیں:
فان لم یفعلوا عجزا وجب علی من ببلدتہم علی ما ذکرنا ہکذا ذکروا وکان معناہ اذا دام الحرب بقدر ما یصل الابعدون وبلغہم الخبر والا فہو تکلیف ما لا یطاق (البحر الرائق ۱۳/۲۸۹)
’’اگر کسی علاقے کے مسلمان حملہ آور کفار کی مدافعت نہ کر سکیں تو قریبی علاقے کے مسلمانوں پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، جیساکہ ہم نے ذکر کیا۔ فقہا کی اس بات کا مطلب یہ ہے کہ مدد کرنا اسی وقت لازم ہے جب جنگ کے ختم ہونے سے پہلے پہلے دور افتادہ علاقے کے مسلمانوں تک خبر پہنچ سکتی ہو اور وہ ان کی مدد کے لیے وہاں سے آ سکتے ہوں۔ اگر ایسا نہ ہو تو (دور کے مسلمانوں پر جہاد کو فرض قرار دینا) تکلیف مالا یطاق کے ضمن میں آتا ہے۔‘‘
ابن نجیم کی تصریح سے واضح ہے کہ کفار کے حملے کی زد میں آنے والے مسلمانوں کی مدد کرنے کا فریضہ دوسرے علاقوں کے مسلمانوں پر اصلاً کفار کے تسلط کو قائم ہونے سے روکنے کے لیے اس وقت عائد ہوتا ہے جب جنگ ابھی جاری ہو اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے پہنچنا ممکن ہو۔ اگر دوسرے مسلمانوں تک اطلاع پہنچنے اور ان کے مدد کے لیے آنے سے پہلے ہی مسلمان میدان جنگ میں شکست کھا کر مغلوب ہو جائیں تو مذکورہ جزئیے کی رو سے انھیں کفار کے تسلط سے آزاد کرانے کی کوئی ذمہ داری کم از کم فرض کے درجے میں دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوتی۔ مزید برآں یہ بھی واضح ہے کہ ہمسایہ علاقوں کے مسلمانوں یہ ذمہ داری ان کی اپنی قوت واستعداد اور عملی حالات وامکانات کو نظر انداز کرکے عائد نہیں کی جا سکتی، اس لیے کہ ان شرائط کے مفقود ہونے کی وجہ سے اگر براہ راست حملے کی زد میں آنے والے علاقے کے لوگ فرضیت جہاد کے حکم سے مستثنیٰ قرار پاتے ہیں تو دوسرے علاقوں کے اہل اسلام پر جہاد کو فرض قرار دیتے ہوئے ان کی رعایت کرنا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوگا کہ جس علاقے کے مسلمان اپنے مسلمانوں کی مدد کے لیے حملہ آور فوج سے لڑنا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ان کا کوئی معاہدہ نہ ہو۔ قرآن مجید نے مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے یہ شرط ’فعلیکم النصر الا علی قوم بینکم وبینہم میثاق‘ (تم پر ان کی مدد کرنا لازم ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف ان کی مدد نہیں کر سکتے جس کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہو) کے الفاظ میں خود پوری صراحت کے ساتھ بیان کی ہے۔
عملی حالات کی رعایت کے اسی فقہی اصول کو ملحوظ رکھتے ہوئے فقہا نے خود مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری کا تعین کرتے ہوئے بھی اس صورت میں جب ابھی کفار کا تسلط مسلمانوں کے علاقے پر قائم نہ ہوا ہو اور اس صورت میں جب یہ تسلط عملاً متحقق ہو چکا ہو، فرق کیا ہے۔ ان کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ جب تک کفار کا غلبہ وتسلط عملاً پایہ تکمیل کو نہ پہنچا ہو، مسلمانوں کی حکومت قانوناً موجود ہو اور جنگ کا بازار بھی ابھی گرم ہو، اس وقت تک مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ جس درجے میں بھی دشمن کے غلبے کی راہ میں حائل ہو سکیں، ضرور ہوں اور اپنی حکومت، آزادی اور جان ومال کے تحفظ اور دفاع کے لیے دشمن کے ساتھ بر سر پیکار رہیں، لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو اور کفار اپنا تسلط قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو فقہا ان کے خلاف جدوجہد کو ہر حال میں جاری رکھنے کی کوئی ذمہ داری مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں پر عائد نہیں کرتے۔ فقہا نے اس صورت سے متعلق شرعی احکام کی باقاعدہ وضاحت کی ہے، لیکن کسی مسلم ریاست کی طرف سے اعلان جنگ کے بغیر مقبوضہ علاقوں کے مسلمانوں پر جدوجہد آزادی کی ذمہ داری عائد کرنے کا ان کے ہاں کوئی ذکر نہیں ملتا، بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اس علاقے پر کفار کے قبضے کو بالفعل اور قانوناً تسلیم کرتے ہوئے اس دائرے میں رہتے ہوئے مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں کے لیے دینی لائحہ عمل واضح کیا ہے۔ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کے علاقے پر قبضے کے بعد غیر مسلم حکومت وہاں کی مسلمان آبادی کو داخلی خود مختاری دے کر مسلمانوں میں سے ہی کسی شخص کو ان کا حاکم مقرر کر دے۔ اس صورت میں مسلمانوں کے لیے غیر مسلم حکومت کے زیر سایہ رہتے ہوئے اس آزادی سے فائدہ اٹھانا اور اسلامی قوانین کو جاری رکھنا ضروری ہوگا۔ ابن عابدین لکھتے ہیں:
کل مصر فیہ وال مسلم من جہۃ الکفار یجوز منہ اقامۃ الجمع والاعیاد واخذ الخراج وتقلید القضاء وتزویج الایامی لاستیلاء المسلم علیہم واما طاعۃ الکفر فہی موادعۃ ومخادعۃ (رد المحتار ۴/۱۷۴)
’’جس شہر میں کفار کی جانب سے مسلمان حاکم مقرر کیا جائے، اس کی طرف سے جمعہ اور عیدین کی اقامت، خراج کی وصولی، قاضیوں کے تقرر اور بیواؤں کی شادی کے اقدامات درست ہوں گے کیونکہ ان پر ایک مسلمان حاکم ہے۔ باقی رہا کفار کی اطاعت کا مسئلہ تو مجبوری کے تحت ان کو بظاہر راضی رکھنا اور ان کے ساتھ مصالحانہ تعلقات قائم کرنا جائز ہے۔‘‘
شافعی فقیہ شہاب الدین الرملی نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ اس صورت حال میں مسلمانوں کے لیے اس علاقے سے ہجرت کرنا نہ صرف یہ کہ واجب نہیں بلکہ ناجائز ہے:
لا تجوز لہم الہجرۃ منہ لانہ یرجی باقامتہم بہ اسلام غیرہم ولانہ دار اسلام فلو ہاجروا منہ صار دار حرب (فتاویٰ شہاب الدین الرملی، بہامش فتاویٰ ابن حجر المکی، ۴/۵۳)
’’مسلمانوں کے لیے وہاں سے ہجرت کرنا جائز نہیں، کیونکہ ان کے وہاں ٹھہرنے کی صورت میں امید ہے کہ اور لوگ بھی اسلام قبول کریں گے۔ نیز یہ علاقہ دار الاسلام ہے اور اگر مسلمان وہاں سے ہجرت کر آئیں گے تو یہ دار الحرب میں تبدیل ہو جائے گا۔‘‘
دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ غیر مسلم حکومت کی طرف سے کسی غیر مسلم کو ان کا حاکم مقرر کیا جائے۔ اس صورت میں مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ وہ جمعہ وعیدین کی اقامت کا اہتمام کریں، ایک اجتماعی فیصلے کے تحت نزاعات کے تصفیے کے لیے غیر سرکاری سطح پر قضا کا نظام قائم کریں اور اس بات کی جدوجہد کرتے رہیں کہ ان پر حاکم بھی کسی مسلمان ہی کو مقرر کر دیا جائے :
واما فی بلاد علیہا ولاۃ کفار فیجوز للمسلمین اقامۃ الجمع والاعیاد ویصیر القاضی قاضیا بتراضی المسلمین ویجب علیہم طلب وال مسلم(رد المحتار ۴/۱۷۴، ۱۷۵)
’’جن شہروں میں غیر مسلم حاکم ہوں، وہاں مسلمانوں کے لیے جمعہ اور عیدین کی اقامت جائز ہے، اور اگر مسلمان باہمی رضامندی سے کسی کو قاضی مقرر کر لیں تو وہ شرعاً قاضی قرار پائے گا، اور مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ وہ اپنے لیے کسی مسلمان حاکم کا مطالبہ کریں۔‘‘
تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ غیر مسلموں کی جانب سے غلبہ حاصل کرنے کے بعد مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگا دی جائے اور ان کے لیے اپنے مذہب پر عمل کرنے کو مشکل بنا دیا جائے۔ اس صورت کے بارے فقہا کے ہاں ہمیں کوئی تصریح نہیں مل سکی، لیکن اگر ان کے اس اصول کو پیش نظر رکھا جائے کہ وہ کفار کے غلبے کے بعد اس علاقے کو قانوناً دار الحرب قرار دیتے ہیں تو یہاں اسی جزئیے کا اطلاق ہوگا جو وہ دار الحرب کے حوالے سے عمومی طور پر بیان کرتے ہیں، یعنی یہ کہ دار الحرب میں اگر دین پر قائم رہنا اور اس پر عمل کرنا دشوار ہو تو بشرط استطاعت دار الحرب سے ہجرت کر کے دار الاسلام میں منتقل ہو جانا واجب ہے۔
مذکورہ بحث سے واضح ہے کہ اگر کفار کسی مسلمان علاقے پر غلبہ حاصل کر لیں اور مسلمانوں کی طرف سے حکومتی یا نجی سطح پر کامیاب مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے غیر مسلموں کا غلبہ تام ہو جائے تو کلاسیکی فقہ کی رو سے اب اس علاقے کو قانوناً دار الحرب کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فقہا کے نزدیک اب دار الاسلام کے آزاد علاقے میں قائم کوئی حکومت تو اس علاقے کو کفار سے چھڑانے کے لیے جہاد کر سکتی ہے، لیکن مقبوضہ علاقے کے لوگ دار الحرب کی قانونی پوزیشن کے دائرے میں ہی اپنا لائحہ عمل متعین کرنے کے پابند ہیں۔ 
بعض اہل علم نے اس صورت میں فقہا کا موقف اس فقہی جزئیے کی روشنی میں متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ اگر دار الاسلام کے کچھ باشندے عارضی طور پر امان لے کر دار الحرب میں گئے ہوں اور اس دوران میں اسی دار الحرب کے کفار دار الاسلام پر حملہ کر کے مسلمان عورتوں اور بچوں کو قید کر لائیں تو امان لے کر دار الحرب میں جانے والے مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ وہ معاہدۂ امان کو توڑ کر ان قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے جنگ کریں۔ وجہ استدلال غالباً یہ ہے کہ اس صورت میں چونکہ دار الحرب میں ٹھہرے ہوئے مسلمان اپنے طور پر ہی منظم ہو کر جنگ کریں گے، اس لیے اگر مسلمانوں کے کسی علاقے پر کفار کا تسلط ہو جائے اور وہاں کے مسلمان نجی طور پر عسکری مزاحمت کو منظم کرنا چاہیں تو ان کے لیے بھی ایسا کرنا درست ہوگا۔ (محمد مشتاق احمد، ’’جہاد، مزاحمت اور بغاوت‘‘، ص ۲۵۳ تا ۲۵۶)
تاہم ہمارے نزدیک یہ استنتاج محل نظر ہے، اس لیے کہ فقہا نے یہ بات مستامن مسلمانوں کے حوالے سے کہی ہے جو محدود سطح کی عارضی امان لے کر دار الحرب میں گئے ہوں۔ اس سے ان مسلمانوں کے لیے جو آزاد دار الاسلام کے نہیں بلکہ مقبوضہ علاقے (جو فقہا کے نزدیک قانونی طور پر دار الحرب کی حیثیت اختیار کر چکا ہے) کے باشندے ہوں اور مستقل شہری کی حیثیت سے وہاں مقیم ہوں، کوئی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرخسی نے ان افراد کی یہ ذمہ داری دار الاسلام اور اس کے شہریوں کے ساتھ ان کے تعلق یعنی ’ولایت‘ کی بنیاد پر بیان کی ہے نہ کہ مسلمان ہونے کی بنیاد پر، چنانچہ اس صورت میں اگر وہ جنگ کریں گے تو ان کی پشت پر ایک منظم ریاست موجود ہوگی اور وہ اس کی رعایا ہونے کی حیثیت سے اسی کے باشندوں کو بچانے کے لیے جنگ کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا اس صورت میں دار الحرب کے مسلمان شہریوں کی کوئی ذمہ داری بیان نہیں کرتے، کیونکہ حنفی فقہ کی رو سے ان کے اور دار الاسلام کے مابین ولایت کا کوئی تعلق نہیں اور نفی ولایت کا یہ قانون یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ ہے، چنانچہ جس طرح ان کا کوئی قانونی حق دار الاسلام پر عائد نہیں ہوتا، اسی طرح دار الاسلام کے افراد کے حوالے سے بھی کوئی قانونی حق یا ذمہ داری ان پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک زیر بحث صورت یعنی کسی مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں کے اپنی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کا تعلق ہے تو نہ ان کی اپنی کوئی منظم حکومت موجود ہے اور نہ ان کی جنگ آزادی کو کسی دوسری مسلمان حکومت کی قانونی پشت پناہی حاصل ہے، اس لیے اس صورت کو مذکورہ فقہی جزئیے پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر کوئی مسلم حکومت مقبوضہ علاقے کے مسلمانوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے انھیں قابض قوت کے خلاف عسکری کارروائیاں کرنے کا حکم دے اور علانیہ ان کے اقدامات کی ذمہ داری اٹھائے تو ایسا کرنا درست ہے۔ اس صورت میں ان مسلمانوں کی حیثیت مسلم ریاست کے کارندوں کی ہوگی، وہ اسی کی سرپرستی اور پالیسی کے تحت آزادی کی جنگ لڑیں گے اور وہ اپنے اقدامات اور فیصلوں کے لیے بھی اس کو جواب دہ ہوں گے۔ 
غیر مسلم حکومت کے زیر سایہ رہتے ہوئے اس کے خلاف عسکری کارروائیوں کا عدم جواز اخلاقی اصولوں کا تقاضا بھی ہے اور حکمت ومصلحت کا بھی۔ مصلحت کا اس پہلو سے کہ حکومت کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی کرنے کے بعد مخالف اقدام سے بچنے کے لیے ظاہر ہے کہ اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر غیر مسلم حکومت فوراً عسکری عناصر پر قابو پا لے گی۔ اخلاقی اس لحاظ سے کہ جب ایک شخص کسی مخصوص سیاسی وحکومتی نظام کے دائرۂ اختیار میں رہ رہا ہوتا ہے تو وہ درحقیقت اس نظام کے ساتھ ایک خاموش قانونی وعمرانی معاہدے میں بندھا ہوتا ہے۔ 
فقہا کی عبارات سے واضح ہے کہ اگر کسی مسلمان کو دار الحرب میں کفار کی طرف سے صراحتا یا دلالتاً عارضی طور پر ہی امان دے دی جائے اور اس کے مقابلے میں اس سے توقع یہ کی جائے کہ وہ بھی دار الحرب کی حکومت یا باشندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا تو اس شخص پر اس امان کی پابندی لازم ہے ۔ زیر بحث صورت میں یہ سوال زیادہ نازک ہو جاتا ہے، اس لیے کہ غیر مسلم حکومت کے زیر سایہ رہنے والے مسلمان وہاں کی حکومت کی طرف سے کسی عارضی نہیں بلکہ مستقل امان کے حامل ہوتے ہیں اور وہاں کے شہری ہونے کی حیثیت سے اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ اس کے دائرۂ اختیار (Jurisdiction) میں نہ اس کے اختیار کو چیلنج کریں گے اور نہ اس کے کسی قانون کی خلاف ورزی کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے بھی اپنی انتقامی کارروائیوں کے لیے مرکز مکہ مکرمہ کو نہیں بنایا، بلکہ ساحل سمندر کے قریب ایک آزاد علاقے میں اپنے گروہ کو منظم کیا اور اسی کو اپنی کارروائیوں کے لیے مرکز بنایا۔
برصغیر میں انگریزی دور اقتدار میں بعض اہل علم نے بعد کے سیاسی وقانونی تغیرات کو نظر انداز کرتے ہوئے ابتدائی دور کے فقہی فتووں کی روشنی میں ہندوستان پر دار الحرب کے احکام جاری ہونے کی رائے ظاہر کی تو مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے بجا طور پر اس نقطہ نظر پر تنقید کی اور یہ واضح کیا کہ مسلمانوں کے اجتماعی طور پر نئے نظم حکومت کی اطاعت کو قبول کر لینے کے بعد ہندوستان کو دار الحرب قرار دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’ہندوستان اس وقت بلاشبہ دار الحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے۔ لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے، انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لا پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں رہا، بلکہ ایک ایسا دار الکفر ہو گیا جس میں مسلمان رعیت کی حیثیت سے رہتے ہیں اور قانون ملکی کے مقرر کیے ہوئے حدود میں اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی رکھتے ہیں۔ ایسے ملک کو دار الحرب ٹھہرانا اور ان رخصتوں کو نافذ کرنا جو محض دار الحرب کی مجبوریوں کو پیش نظر رکھ کر دی گئی ہیں، اصول قانون اسلامی کے قطعاً خلاف ہے اور نہایت خطرناک بھی ہے۔‘‘ (سود، ص ۲۴۹)
’’ہندوستان عام معنی میں اس وقت سے دار الکفر ہو گیا ہے جب سے مسلم حکومت کا یہاں استیصال ہوا۔ جس زمانہ میں شاہ عبد العزیز صاحب نے جواز سود کا فتویٰ دیا تھا، اس زمانہ میں واقعی یہ مسلمان ہند کے لیے دار الحرب تھا، اس لیے کہ انگریزی قوم مسلمانوں کی حکومت کو مٹانے کے لیے جنگ کر رہی تھی۔ جب اس کا استیلا مکمل ہو گیا اور مسلمانان ہند نے اس کی غلامی قبول کر لی تو یہ ان کے لیے دار الحرب نہیں رہا۔ ایک وقت میں یہ افغانستان کے مسلمانوں کے لیے دار الحرب تھا۔ ایک زمانہ میں ترکوں کے لیے دار الحرب ہوا، مگر اب یہ تمام مسلمانوں حکومتوں کے لیے دار الصلح ہے۔‘‘ (سود، ص ۳۴۹)
رہا یہ سوال کہ فقہا نے دار الحرب میں امان کے حامل مسلمانوں کے لیے اس صورت میں اہل حرب کے خلاف اقدام کو جائز قرار دیا ہے جب ان کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کوئی اقدام کیا جائے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ فقہی جزئیہ ان مسلمانوں سے متعلق ہے جو دار الحرب کے شہری نہ ہوں بلکہ انھیں عارضی طور پر وہاں قیام کی اجازت دی گئی ہو۔ اس عارضی قیام کے دوران میں ان کا کفار کے خلاف کوئی اقدام نہ کرنا چونکہ امان کے ساتھ مشروط ہوتا ہے، اس لیے جیسے ہی کفار کی طرف سے امان کی خلاف ورزی کی جائے گی، مسلمان بھی معاہدے کے پابند نہیں رہیں گے۔ تاہم وہ مسلمان جو دار الحرب کے باقاعدہ شہری ہوں، ان کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ وہ کسی عارضی اور مشروط معاہدے کے تحت نہیں، بلکہ مستقل معاہدے کے تحت وہاں رہ رہے ہیں اور ریاست اور رعایا کے مابین اس عمرانی معاہدے کی ایک لازمی شق یہ ہوتی ہے کہ اگر ریاست کی طرف سے رعایا پر جسمانی یا مالی نا انصافی کی جائے تو مظلوم ریاست کے قانونی اختیار کے دائرے میں رہتے ہوئے اور اس کو چیلنج کیے بغیر اس کے خلاف دو میں سے کوئی ایک طریقہ ہی اختیار کر سکتا ہے:
ایک یہ کہ وہ اپنی داد رسی اورحفاظت کے لیے خود ریاست ہی کے اثر ورسوخ رکھنے والے عناصر کی مدد حاصل کرے۔ قدیم دور میں، جبکہ حکومتی مشینری نظام عدل وانصاف کے سامنے جواب دہ نہیں ہوتی تھی، اس کے لیے بالعموم کسی بااثر اور طاقت ور گروہ یا شخصیت کی پناہ حاصل کی جاتی تھی، جبکہ جدید جمہوری ریاستوں میں اس مقصد کے لیے عدل وانصاف کا باقاعدہ نظام موجود ہے جو اس طرح کے کسی بھی اقدام کا محاسبہ کر سکتا ہے۔ اگر انصاف میسر ہو تو یہ صورت سب سے بہتر اور سہل ہے۔ 
دوسرا یہ کہ وہ اس نا انصافی پر صبر کا مظاہرہ کرے، جیسا کہ مکہ مکرمہ کے مستضعفین کو قرآن مجید میں بھی اس کی تعلیم دی گئی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر انھیں اس کی تلقین کی۔ 
اس کے سوا اس ریاست کی شہریت کو برقرار رکھتے ہوئے کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اگر وہ غیر مسلم ملک کی شہریت سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کر لیں تو پھر ان کے لیے یہ جائز ہوگا کہ وہ کسی دوسرے خطے کی طرف منتقل ہو جائیں اور وہاں پر امن زندگی بسر کرنا شروع کر دیں، جیسا کہ مہاجرین حبشہ نے کیا۔ اسی طرح اگر وہ کفار کا علاقہ ترک کر کے ان کے دائرہ اختیار سے باہر کوئی اجتماعی نظم بنا لیں اور ظلم وستم کرنے والے کفار کے خلاف انتقامی کارروائیاں کریں، جیسا کہ ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں نے کیا تھا تو اس پربھی شرعاً کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ گویا غیر مسلم حکومت کے قانونی دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کسی عسکری کارروائی کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ عسکری کارروائی خواہ محض انتقام کی غرض سے ہو یا کسی متبادل حکومت کے قیام کے لیے، دونوں صورتوں میں ایک ایسے خطہ زمین کا حصول ضروری ہے جو غیر مسلم دائرہ اختیار میں نہ آتا ہو یا اسے اس سے کاٹ کر اس پر متوازی نظم حکومت قائم کر دیا جائے۔ دنیا کا کوئی بھی قانونی فلسفہ ان کے سوا کوئی اور صورت تجویز نہیں کرے گا، اور اسی وجہ سے فقہا نے غیر مسلم حکومت میں ظلم وستم کا شکار ہونے والے مسلمانوں کے لیے وہاں رہتے ہوئے جہاد کا کوئی حکم بیان نہیں کیا، بلکہ یہ کہا ہے کہ ایسی صورت میں اگر ان کے لیے ممکن ہو تو وہ دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائیں۔
اوپر کی بحث میں ہم نے کلاسیکی فقہی نقطہ نظر کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ کلاسیکی فقہی ذخیرے میں جن سیاسی اصولوں کی بنیاد پر مذکورہ جزئیات وضع کی گئی ہیں، ان میں زمانے اور تاریخ کے ارتقا نے بے حد تغیر پیدا کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے قدیم مسلمہ سیاسی اصول بے وقعت ہو گئے ہیں اور بہت سے نئے مسلمات کو دنیا میں فروغ حاصل ہو گیا ہے جن کے تحت پیدا ہونے مختلف قانونی مسائل کرنے سے قدیم فقہی اصول قاصر ہیں۔ کلاسیکل فقہی آرا جس سیاسی ماحول میں قائم کی گئیں، اس میں اقوام کے حق خود اختیاری کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور دنیا کے سیاسی ضابطہ اخلاق میں ہر طاقت ور قوم کا یہ حق تسلیم کیا جاتا تھا کہ وہ کسی دوسری قوم کے علاقے پر قابض ہو کر اسے اپنا محکوم بنا لے۔ خود اسلامی سلطنت کی توسیع اسی اصول کے تحت ہوئی تھی۔ چنانچہ فقہا نے مسلمانوں کے علاقوں پر کفار کے قبضے کو رائج الوقت تصور کے تحت بین الاقوامی سیاست کا عام معمول سمجھتے ہوئے اسے عملاً قبول کیا اور ایسے علاقوں پر دار الحرب کے قانونی احکام جاری کر دیے۔ دور جدید میں یورپین نیشنل ازم کے سیاسی فلسفے کے تحت ارتقا پانے والے تصورات اور بین الاقوامی قانون اس قدیم روایت سے بالکل مختلف اور متضاد ہے اور اس میں مخصوص علاقوں پر مخصوص قوموں کے حق خود ارادی کو بین الاقوامی قانون کے ایک بنیادی اصول کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس سیاسی فلسفے سے نہ صرف ساری غیر مسلم دنیا متاثر ہوئی ہے بلکہ اسی کے اثرات کے تحت عرب اور مسلم دنیا میں بھی قومیت کا فلسفہ مستحکم اور مضبوط ہو چکا ہے۔ یہ فلسفہ قوموں میں جو مخصوص نفسیاتی کیفیت پیدا کرتا ہے، مقبوضہ مسلم ممالک میں عسکری مزاحمت کی تحریکیں اسی کا مظہر ہیں۔اس صورت حال پر قدیم فقہی تصورات اور جزئیات کا کلی انطباق مشکل ہے، کیونکہ اگر کفار کے تسلط کے عملاً قائم ہو جانے کو پیش نظر رکھا جائے تو فقہی تصور کی رو سے مقبوضہ علاقے کو دار الحرب اور قابض قوم کی حکومت کو قانوناً جائز قرار پانا چاہیے، جبکہ جدید بین الاقوامی قانون کی رو سے ایسے تسلط کو جائز تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس اگر اس تسلط کے قانونی عدم جواز کو وزن دیتے ہوئے اس صورت حال کو فقہا کی بیان کردہ اس صورت کے مماثل قرار دیا جائے جس میں کفار کا تسلط ابھی قائم نہیں ہوا تو یہ بھی درست دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ کفار کا تسلط عملاً قائم ہو چکا ہے۔چنانچہ بہتر یہ ہے کہ اس صورت حال پرقدیم فقہی جزئیات کو منطبق کرنے کے بجائے فقہی اصولوں کی روشنی میں صورت حال کی نوعیت متعین کی جائے۔ 
اجتہادی فقہی احکام دنیا کے عرف پر مبنی ہوتے ہیں اور عرف کے تغیر سے ان میں تغیر کا آنا لازم ہے، اس لیے بحث کا بنیادی نکتہ یہ قرار پانا چاہیے کہ کسی علاقے غیر ملکی تسلط کے عملاً قائم ہو جانے سے اس کا حق حکومت قانوناً ثابت نہیں ہوتا اور اس ملک کے باشندے اس سے آزادی حاصل کرنے اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کا پورا پورا حق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد اگلا سوال یہ ہے کہ آیا وہ اس مقصد کے لیے قابض قوت کے خلاف کوئی عسکری جدوجہد منظم کر سکتے ہیں؟ ہمارے نزدیک ایک بنیادی شرط کے ساتھ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ وہ یہ کہ مسلح جدوجہد کا فیصلہ چند افراد یا گروہ اپنی صواب دید پر نہیں، بلکہ راے عامہ کی بنیاد پر اور اس کی تائید کے ساتھ کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس فیصلے کا تعلق پوری قوم سے ہو اور اس کے مثبت یا منفی اثرات بھی پوری قوم پر مرتب ہوتے ہوں، اس میں ان کی راے یا مرضی کے بغیر ازخود کوئی فیصلہ کر کے اسے پوری قوم پر مسلط کر دینے کا حق شرعی اور اخلاقی طور پر کسی فرد یا گروہ کو حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ اگر مقبوضہ علاقے کے لوگوں کی اکثریت حالات سے سمجھوتہ کرتے ہوئے اپنی سیاسی قیادت کی وساطت سے غیر مسلم حکومت کی اطاعت قبول کرنے یا اس کے خلاف عسکری مزاحمت کے بجائے جمہوری سیاسی جدوجہد کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر لے تو ان کی رائے کے برخلاف قابض قوتوں کے خلاف کوئی ایسا اقدام افراد یا گروہوں کے لیے جائز نہیں ہو سکتا جس کے منفی اثرات اکثریت کو بھی بھگتنا پڑیں۔ 
اگر کچھ گروہ ان کے اس فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اس طرح کا اقدام کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ کسی آزاد علاقے میں اپنے آپ کو ایک الگ گروہ کے طور پر منظم کریں اور اپنی وضع کردہ حکمت عملی کے مطابق قابض طاقت کے خلاف جنگ کریں۔ چنانچہ معاہدہ حدیبیہ کے بعد ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں نے قریش کے ظلم وستم اور جبر کا انتقام لینے اور انھیں اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی پر آمادہ کرنے کے لیے اپنی جنگی کارروائیوں کو ذریعہ بنانے کا فیصلہ کیا تو مکہ اور مدینہ دونوں سے ہٹ کر ایک آزاد علاقے کو اپنا مرکز بنایا، تاکہ ان کے اقدامات کی ذمہ داری مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں پر عائد نہ کی جا سکے۔ فقہا نے اس سے یہی اصول اخذ کیا ہے۔ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
فیجوز حینئذ لمن اسلم من الکفار ان یتحیزوا ناحیۃ ویقتلون من قدروا علیہ من الکفار ویاخذون اموالہم ولا یدخلون فی الصلح (المغنی ۲۱/۱۳۱)
’’جو کفار اسلام قبول کر چکے ہوں، ان کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی علاقے میں الگ ہو جائیں اور جن کفار کو قتل کرنا اور ان کے مال چھیننا ان کے لیے ممکن ہو، چھینیں اور (کفار کے ساتھ صلح کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ) صلح میں شامل نہ ہوں۔‘‘
البتہ اس شرط کے عملاً پائے جانے یا نہ پائے جانے کے حوالے سے بعض صورتوں میں اجتہادی اختلاف کی گنجایش یقیناًرہے گی۔ مثال کے طور پر اگر مسلمانوں کے ارباب حل وعقد اقتدار غیر مسلم قابضین کے سپرد کر دیں تو یہ کہنا ایک حد تک قرین قیاس ہے کہ ارباب حل وعقد چونکہ مسلمانوں کے معتمد نمائندے ہیں اور انھوں نے اپنی نمائندہ حیثیت ہی میں یہ فیصلہ کیا ہے، اس لیے پوری قیم ان کے اس فیصلے کی پابندی کرنے کی مکلف ہے، لیکن اس پر یہ معارضہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ حکومت واقتدار کسی اجنبی طاقت کو سونپ دینے کا اختیار دراصل انھیں حاصل ہی نہیں تھا ، اس لیے عوام ان کے اس فیصلے کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے پابند نہیں ہیں اور اگر وہ قابض قوت کے خلاف کوئی مزاحمتی جدوجہد کرنا چاہیں تو یہ اولوالامر کی اطاعت کے اصول کے منافی نہیں ہوگا۔ یہ اور اس طرح کی بعض دوسری مثالوں میں عملی صورت حال کی نوعیت کو طے کرنا اور اس کے لحاظ سے مذکورہ شرائط کے پائے جانے یا نہ پائے جانے کا فیصلہ کرنا بہرحال ایک اجتہادی معاملہ ہے۔ اس کی تعیین کا نہ نظری طور پر کوئی حتمی پیمانہ موجود ہے اور نہ عام طور پر کسی صورت حال کو سیاہ اور سفید کے واضح خانوں میں تقسیم کرنا ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح کے معاملات میں Gray areas کا امکان بہرحال موجود رہے گا اور کسی مخصوص صورت حال پر اس حوالے سے کوئی حکم لگاتے وقت اس گنجایش کو لازماً ملحوظ رکھنا ہوگا جو کسی بھی حکم کے اطلاق کی صورت میں بالعموم موجود ہوتی ہے۔ بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ کوئی بھی گروہ اس اخلاقی اصول کو ہر حال میں ملحوظ رکھے کہ اس کے اختیار کردہ لائحہ عمل اورفیصلوں کی ذمہ داری اسی پر عائد ہو اور اس کے نتائج کسی دوسرے گروہ کو نہ بھگتنے پڑیں جو اس سے اتفاق نہیں رکھتا۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ۔

موجودہ پر تشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج

مولانا مفتی محمد زاہد

گزشتہ دنوں بی بی سی اردو کی ویب سائٹ پراس کے ایک نامہ نگار کا ایک شذرہ شائع ہوا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے اپنی بات کا آغاز اسی کو نقل کرنے سے کیا جائے:
’’بائیس اور تیئس مئی کے دو روز میں نے اتر پردیش کے قصبے دیوبند میں گزارے، وہی دیوبند جس نے گزشتہ ڈیڑھ سو برس میں ہزاروں جید سنی علماء پیدا کیے، جن کے لاکھو ں شاگرد بر صغیر اور دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آج بھی دارالعلوم دیوبند سے ہر سال چودہ سو کے لگ بھگ طلباء عالم بن کر نکل رہے ہیں۔ دیوبند، جس کی ایک لاکھ سے زائد آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ساٹھ فیصد ہے، وہاں پہنچنے سے قبل میرا تصور یہ تھا کہ یہ بڑا خشک سا قصبہ ہوگا جہاں علماء کی آمریت ہوگی اور ان کی زبان سے نکلاہوا ایک ایک لفظ علاقے کی مسلم آبادی کے لیے حکمِ مطلق کا درجہ رکھتا ہوگا، جہاں موسیقی سے متعلق گفتگو تک حرام ہوگی، ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کو دور دورسے پرنام کرتے گزرتے ہوں گے، وہاں کسی کو جرات تک نہیں ہوگی کہ بغیر داڑھی کے یا ٹخنوں سے اونچی شلوار کے بغیر بلا سرزنش آباد رہ سکے۔ دیوبند میں مسلمان محلوں میں اذان کی آواز بلند ہوتے ہی دوکانوں کے شٹر گر جاتے ہوں گے اور سفید ٹوپی، کرتے پاجامے میں ملبوس باریش نوجوان چھڑی گھماتے ہوئے نظر رکھ رہے ہوں گے کہ کون مسجد کی جانب نہیں جا رہا۔ اسی لیے جب میں نے کچھ سفید باریش نوجوانوں کو دارالعلوم کے قریب ایک حجام کی دوکان پر اطمینان سے اخبار پڑھتے ہوئے دیکھا تو فلیش بیک مجھے اس ملبے کے ڈھیر کی جانب لے گیا جو کبھی حجام کی دکان ہوا کرتا تھا۔ جب میں نے ٹوپیاں فروخت کرنے والے ایک دکان دار کے برابر ایک میوزک شاپ کو دیکھاجس میں بالی وڈ، مصالحہ اور علمائے کرام کی تقاریر پر مبنی سی ڈیز اور کیسٹیں ساتھ ساتھ بِک رہے تھے تو میرا دماغ اس منظر میں اٹک گیا جس میں سی ڈیز اور کیسٹوں کے ڈھیر پر پٹرول چھڑکا جا رہا ہے۔ جب میں نے بچیوں کو ٹیڑھی ٹیڑھی گلیوں اور بازاروں سے گزرتے ہوئے اسکول کی جانب رواں دیکھا تو دل نے پوچھا یہاں لڑکیوں کے اسکولوں میں کسی کو بم فٹ کرنے کا خیال کیوں نہیں آ یا؟ جب میں نے برقعہ پوش خواتین کو سائیکل رکشے میں جاتے دیکھا تو لا شعور نے پوچھا یہاں محرم کے بغیر خواتین بازار میں آخر کیسے گھوم پھر سکتی ہیں؟ کیا کوئی انہیں درّے مارنے والا نہیں؟ جب میں نے بینڈ باجے والی ایک بارات گزرتی دیکھی تو انتظار کرتا رہا کہ دیکھیں کچھ نوجوان بینڈ باجے والوں کو ان خرافات سے منع کرنے کے لیے کب آنکھیں لال کرتے ہیں۔ جب مجھے ایک اسکول میں لنچ کی دعوت ملی اور میزبان نے کھانے کی میز پر تعارف کرواتے ہوے کہا، یہ ہیں مولانافلاں فلاں اور یہ ہیں قاری صاحب۔ یہ ہیں جگدیش بھائی اور ان کے برابر ہیں مفتی فلاں فلاں اور وہ جو سامنے بیٹھے مسکرا رہے ہیں، وہ ہیں ہم سب کے پیارے لال موہن جی ..... تو میں نے اپنے ہی بازو پر چٹکی لی کہ کیا میں دیوبند میں ہی ہوں!
اب میں واپس دلّی پہنچ چکا ہوں اور میرے سامنے ہندوستان اور پاکستان کا ایک بہت بڑا تفصیلی نقشہ پھیلا ہوا ہے۔ میں پچھلے ایک گھنٹے سے اس نقشے میں وہ والا دیوبند تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جو طالبان، سپاہِ صحابہ اور لشکرِ جھنگوی جیسی تنظیموں کا دیوبند ہے!!!! ‘‘
بی بی سی کے اس شذرے میں دیوبند کی جو روادارانہ تصویر کھینچی گئی ہے اور جس طرح سے معاشرے میں پائی جانے والی ’خلافِ شرع‘ چیزوں کے بارے میں وہاں کی یہ پالیسی واضح ہورہی ہے کہ زبانی امر بالمعروف ونہی عن المنکراور عملی طور پر عدمِ مداخلت کی راہ اختیار کی جائے، وہ صرف آج کے دیوبند کی نہیں ہے بلکہ شروع دن سے ہے۔ آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے وہاں کوئی جاتا تو وہ بھی یہی کچھ محسوس کرتا۔ ظاہر ہے کہ اتنے طویل عرصے تک قائم رہنے والی عملی صورتِ حال کو نہ تو محض اتفاق قرار دیا جاسکتاہے اور نہ ہی اس کی وجہ محض مداہنت کو قرار دیا جاسکتا ہے۔ بہت سے حلقوں کے لیے آج کل ’دیوبندی اسلام‘ ایک معمّا بناہواہے۔ ان لوگوں کی خدمت میں یہ بنیادی گزارش ہے کہ دیوبندی فکر سے سیاسی پہلو کو الگ نہیں کیا جاسکتا، اس لیے کہ دوحوالے ایسے ہیں جو اس فکرکو سیاسی سوچ سے جوڑتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ دارالعلوم دیوبند کے بانیان اور ابتدائی سرپرستان میں ایسے لوگ شامل تھے جو ۱۸۵۷ء کے معرکے میں شامل رہے تھے یا کم از اس تحریک کے مقاصدسے گہری ہمدردی رکھتے تھے۔ دوسراحوالہ یہ کہ ان حضرات کا سلسلۂ تأثر اور شاگردی شاہ ولی اللہؒ اور شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ سے جاکر ملتاہے اور یہ دونوں شخصیات محض عقائد وعبادات وغیرہ کی تفہیم کی حدتک ہی عالمِ دین نہیں تھے، بلکہ اپنے وقت کے پایے کے سیاسی واجتماعی مفکر بھی تھے، اس لیے جو شخص دیوبندی فکر سے اس کا صحیح پس منظر سمجھ کر وابستہ ہے، وہ خود کو اپنے زمانے کے حالات اور ان کے مسلمانوں اور اپنے ملک پر مرتب ہونے والے اثرات سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔
البتہ بی بی سی کے شذرہ نگاراگر حجّاموں اور سی ڈیز کی دکانیں جلانے، دوسرے مذاہب یا مخالف فرقوں کی عبادت گاہوں پر حملے کرنے والادیوبند تلاش کرنے نکلے تھے اور وہ انہیں نہیں ملا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں، اس لیے کہ اس طرح کا دیوبند کبھی موجود تھا ہی نہیں۔ اس طرح کا دیوبند پچھلی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ کے اوراق میں بھی کہیں نہیں ملے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دیوبند بنانے یا ابتدا میں اس کی سر پرستی کرنے والوں میں کئی لوگ ۱۸۵۷ء کے معرکوں کا حصہ رہے تھے اور یقیناًیہ ایک عسکری جدوجہد تھی جس کو برائے نام اور بہت کمزور سہی، ایک مسلمان بادشاہ کی چھتری حاصل تھی، لیکن اس تحریک کے متوقع نتائج سامنے نہ آسکے اور آخری مسلمان بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون لے جایا گیا جہاں انہوں نے عبرت ناک انداز سے اپنی اسیری کے ایام گزارے اور ہندوستان جس پر اب تک کمزور سی برائے نام مسلمان بادشاہت قائم تھی، براہِ راست انگریزوں کے زیرِ اقتدار چلا گیا۔ اس کے بعدان حضرات کی طرف سے عسکری رنگ رکھنے والی تحریک وہ تھی جو تحریکِ ریشمی رومال کے نام سے معروف ہوئی۔ اس کے روحِ رواں شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کے ماسٹر مائنڈ مولاناعبید اللہ سندھی تھے۔ اس اسکیم کا بھی ایک حصہ اس کے بارے میں اس وقت کی خلافت کو اعتماد میں لیا جانا اور اس کا تعاون حاصل کرنا تھا۔ گویا یہ تحریک بھی خالصتاً پرائیویٹ عسکری تحریک نہیں تھی۔ یہ تحریک بھی درمیان میں رہ گئی اور شیخ الہند ؒ گرفتار ہو کر مالٹا چلے گئے، لیکن ہندوستان کی آزادی جیسے مقاصد سے یہ لوگ اب بھی دستبردار نہیں ہوئے ، البتہ طریقِ کار اور پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی یہ آئی کہ مقاصد کے حصول کے لیے عسکری راستہ اختیار کرنے کی بجائے پر امن سیاسی جدوجہد کی پالیسی کو اپنایا گیا، جیساکہ خود حضرت مولانا حسین احمدمدنی ؒ وغیرہ کی تصریح آئندہ سطور میں آرہی ہے ۔ دیوبندی حلقوں میں سیاسی معاملات پر اختلافِ فکر ونظر تو پہلے ہی موجود تھا، لیکن شیخ الہند کے انتقال کے بعد کے حالات میںیہ اختلاف زیادہ نمایاں ہوگیا اور بنیادی طور پر دیوبندی مکتبِ فکرمیں دوبڑے سیاسی رجحانات زیادہ متعارف ہوئے۔ ایک کی نمایاں شخصیات میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ تھے،جبکہ علماءِ سہارنپور خصوصاً حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کا سیاسی رجحان بھی کافی حد تک اس سے مشابہت رکھتا تھا۔ دوسرے رجحان کی نمائندگی کرنے والے علماء میں حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ اور جمعیت علماءِ ہند سے وابستہ دیگر علماء تھے، لیکن ان دونوں طبقوں میں قدرِ مشترک یہ تھا کہ دونوں نے ہی پر امن سیاسی جد وجہد کا راستہ اختیار کیا۔
آج کل ملک میں جو پرتشدد کارروائیاں ہو رہی ہیں، ان سب کی نسبت عموماً دیوبندی مکتبِ فکر کی طرف کی جا رہی ہے۔ ان میں سے بعض تنظیموں کے لوگوں کی دیوبندی مکتبِ فکر کی نسبت واضح ہے، بعض کی ان کی طرف نسبت غلط بھی ہوسکتی ہے، بہت سی کارروائیوں کے بارے میں کچھ کہنا ہی انتہائی مشکل ہوتا ہے، اور غلط نسبت کی وجوہات میں حالات کے گڈمڈہونے اور بعض لوگوں کی بدنیتی کے علاوہ شاید دیوبندی قیادت کی غیر محتاط یا غیر واضح روِش بھی شامل ہو، البتہ اس بات کا انکار انتہائی مشکل ہوگا کہ دیوبندیت کی طرف نسبت رکھنے والوں میں ایسے کچھ نہ کچھ عناصر ضرور موجود ہیں جو نیک نیّتی سے متشددانہ یا غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل کی تائید کرتے یا کم از کم اس سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ آج مجھے پرتشدّد جدوجہد پر یقین رکھنے والے انھی نوجوانوں سے بات کرنی ہے جو واقعی خود کو علماء دیوبند کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ ان حضرات کے لیے ایک تو خود وہ تصویر قابلِ غور ہے جو بی بی سی کے شذرے میں پیش کی گئی ہے۔ یہ صورتِ حال کوئی بھی شخص کسی بھی وقت دیوبند جاکر دیکھ سکتاہے اور جیساکہ پہلے عرض کیا گیا، دیوبند کا یہ طرزِ عمل شروع ہی سے یہ رہا ہے اور یہ بزرگانِ دیوبند کی سوچی سمجھی پالیسی یا ان کے فہمِ دین کا حصہ ہے۔ ہمارے دور کے یہ نوجوان جس طرح کا دیوبند اپنے ذہنوں میں لے کر اس سے راہنمائی اور انسپائریشن لے رہے ہیں، انہیں واقعی یہ سوچنا چاہیے کہ اس طرح کا دیوبند عملاً کہیں موجود بھی رہا ہے؟ ان لوگوں کے لیے علماء دیوبند کی نمایاں شخصیات میں سے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری اورحضرت مولانا محمد الیاس وغیرہ سے زیادہ حضرت مولانا حسین احمد مدنی آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہوتاہے کہ وہ حضرت مولانا مدنی ؒ اور جمعیت علماء ہندسے وابستہ بزرگوں کے فکروعمل کے پیروکار ہیں، حالانکہ خود مولانا مدنی ؒ وغیرہ کی فکرمیں اس طرح کی سوچ کہیں نہیں ملتی۔ ایک تو کسی مخصوص فرقے کو ختم کرنے کا وہ طریقہ انہوں نے کبھی اختیار نہیں کیا جو آج ان کی طرف نسبت رکھنے والے بعض لوگوں نے اپنایا ہواہے۔ دوسرے اس انداز کا نفاذِ شریعت جیسا آج بعض لوگوں کے ہاں ہمیں نظر آتا ہے، مولانامدنی ؒ کے ہاں دور دور تک اس کا تصور نہیں ملتا۔ دیوبند ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ اس میں حضرت مولانا مدنی ؒ کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے طلبہ جو ان کے جاں نثار بھی تھے اوران کی تعداد بھی بہت بڑی تھی، ان کو ساتھ لے جاتے اور دیوبند کے پولیس اسٹیشن، کچہری یا کسی اور سرکاری عمارت پر قبضہ کرکے اپنے مطالبات انگریز حکومت کے سامنے پیش کر دیتے یا مسلّح ہو کر دیوبند میں اسی طرح کی شریعت نافذ کرنے کا اعلان کردیتے جو آج بعض جگہوں پر کبھی کبھار نظر آجاتی ہے، لیکن حضرت مدنی ؒ سمیت دیوبند کے کسی بزرگ کو اس طرح کی نہیں سوجھی۔ جہاں تک میں نے مطالعہ کیا ہے، مجھے حضرت مدنی ؒ اور ان کے ہم فکر حضرات کی سیاسی فکر میں اس طرح کے نفاذِ شریعت کا کوئی خانہ نظر نہیں آیا۔ حضرت مدنی ؒ اور ان کے ہم نوا علماء کی سیاسی فکر کے بنیادی عناصر درجِ ذیل ہیں :
۱۔ یہ حضرات ہندوستان کو اپنا وطن اور گھر سمجھتے تھے، صرف اپنے مخصوص علاقے یا صوبے کو نہیں، پورے ہندوستان کو جو اُس وقت ایک ملک کی شکل میں موجود تھا۔ وہ اپنے اس وطن سے محبت کرتے اور اس کی سا لمیت پر یقین رکھتے تھے، اسی لیے ان حضرات کا شمار نیشنلسٹ اور وطن پرور علماء میں ہوتا تھا۔ یہ عنصر حضرت مدنی ؒ کے مکتوبات وغیرہ کے علاوہ جمعیت علماءِ ہند کے نمایاں صاحبِ قلم عالم مولانا محمد میاں ؒ کی تصانیف میں بہت کثرت سے مل جائے گا۔ مولانا محمد میاں ؒ کے مطابق شاہ ولی اللہ ؒ کی کوششوں کا منشا اور باعث بھی یہ تھا کہ ’’ آپ کے قلبِ حساس میں بربادئ وطن کا درد تھا‘‘۔ مولانا محمد میاں ہی شاہ ولی اللہؒ کے دور کا نقشہ کھینچتے اور نوحہ لکھتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ایک گروپ نے نادرشاہ کو بلایا تو دوسرے گروپ نے ابدالی کو دعوت دی۔ نوعیت میں کسی قدر فرق رہا، مگر وطن اور اہلِ وطن کو نقصان پہنچانے میں دونوں ایک دوسرے سے بڑھے رہے‘‘۔
یہ حضرات اپنے اس وطن کو متحد رکھنا چاہتے تھے، انہیں یہ بات بھی گوارا نہیں تھی کہ لسانی، صوبائی یانسلی بنیاد پر تو درکنار، مسلمانوں کی حکومت قائم کرنے کے لیے بھی اس ملک اور وطن کے ٹکڑے ہوں، حالانکہ انہیں یقین تھا کہ متحدہ ہندوستان میں جو حکومت قائم ہوگی، اس میں غلبہ ہندؤوں کا ہوگا ۔ وہ حضرات ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے، اس لیے ہندوستان ان کا وطن تھا۔ ہماری نسل کے لوگ پاکستان ہی میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے، ظاہر ہے کہ ہمارا وطن یہی ہوگا، کیا اپنے اس وطن سے اسی انداز سے محبت کرنا، اس کی سا لمیت کے لیے فکرمند ہونا اور ہر ایسی تحریک کے بارے میں محتاط رہنا جس سے اس کی سا لمیت پر حرف آتا ہو، خواہ اس میں نام اسلام ہی کا استعمال ہو رہا ہو، جمعیت علماء ہند کے ان علماء کی اتباع کا تقاضا نہیں ہے؟ 
۲۔ یہ حضرات اپنے وطن ہندوستان کی انگریزوں سے مکمل اور جلد آزادی چاہتے تھے۔
۳۔ ہندوستان کی انگریز سے آزادی میں ان کے پیشِ نظر ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ اس سے عالمِ اسلام کی آزادی اور سربلندی کا راستہ کھلے گا۔ گویا شریعت کے جزوی احکام کی بزورِ طاقت نفاذ سے زیادہ ان کی نظر اس بات پر تھی کہ کن پالیسیوں سے بحیثیتِ مجموعی عالمِ اسلام کی قوت اور سربلندی کے بارے میں کیا نتائج مرتب ہوں گے۔
۴۔ وہ ان مقاصد کے حصول کے لیے عدمِ تشدد پر مبنی طریقۂ کار اختیار کرنے کو اپنی طے شدہ پالیسی قرار دیتے تھے۔
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، ۱۸۵۷ء کے معرکے اور تحریک ریشمی رومال سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کے بعد انہوں نے عسکری کی بجائے سیاسی جدوجہد کے راستے کو اپنایا۔ ان دو عسکری تحریکوں پر بھی کسی نہ کسی درجے میں مسلمان بادشاہ یا خلافت کی چھتری موجود تھی۔ یہ بھی واضح تھا کہ پر امن سیاسی جدوجہد سے یہ مقاصد جلدی حاصل ہونے والے نہیں ہیں، چنانچہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جو بین الأقوامی حالات بنے، وہ اگر نہ بنتے تو نہیں کہا جاسکتا کہ حصولِ آزادی میں اور کتنا طویل عرصہ لگ سکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان حضرات کو حصولِ مقاصد کے لیے کسی شارٹ کٹ کی تلاش نہیں تھی، ان کی نظر جلد از جلد منزل کے حصول یا رفتارکی تیزی سے زیادہ راستے کے درست اور بے خطرہونے پر تھی۔ سیاسی اور پر امن سیاسی جد وجہد کی راہ اپنانا دیوبندی سیاسی فکر کی دونوں بڑی شاخوں میں قدرِ مشترک ہے۔ تحریکِ پاکستان کے حامی علماء نے بھی یہی راستہ اختیار کیا اور پاکستان بن جانے کے بعد نفاذِاسلام کے لیے بھی پرامن راستے ہی کو ترجیح دی، اس میں یہ بات ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنی کہ یہ راستہ طویل اور دور ہو سکتا ہے۔
حضرت مولانامدنی ؒ اپنے ایک طویل سیاسی مکتوب میں جس میں وہ اس اعتراض کا بھی جواب دے رہے ہیں کہ وہ ہندؤوں کے ساتھ مل گئے ہیں، فرماتے ہیں :
’’ اگر [ہندؤوں کے ساتھ ملنے سے] یہ مراد ہے کہ میں کانگریس کاممبر ہوگیاہوں تو میں کانگریس کا اس وقت سے ممبر ہوں جب سے کہ مالٹا سے ہندوستان آیا۔ اس سے پہلے میں انقلابی تشدد آمیز خیالات کے ساتھ انگریزی موجودہ اقتدار کا مخالف تھا اور اسی بنا پر مالٹا کی چار برس کی قید ہوئی تھی، اور واپسی مالٹا کے بعد عدمِ تشدد کے ساتھ انگریزی اقتدار کا مخالف اور ہندوستان کی آزادی کاحامی ہوگیا ہوں۔ ۱۹۲۰ء سے برابر سالانہ فیس ممبری اس میں اور جمعیت علماء میں ادا کرتاہوں۔ خلافت کا بھی اسی وقت سے ممبر ہوں، مگر خلافت فنا ہوگئی، اس لیے اب اس میں کوئی حصہ نہیں رکھتا، اور میں ہر اس انقلابی جماعت میں شریک ہونے کو تیار ہوں جو انگریزی اقتدار کو ہندوستان سے ختم کرنے یا کم کرنے کی سچائی سے کوشاں ہو، اور اپنی پالیسی عدمِ تشدد کی رکھتی ہو۔‘‘ ( مکتوبات شیخ الاسلام ۲/۱۲۶، مکتوب نمبر ۳۶)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولانا مدنی ؒ کے نزدیک کسی بھی جماعت کے ساتھ تعاون کی بنیادی دو شرطوں میں سے ایک یہ تھی کہ وہ جماعت عدمِ تشدد کی پالیسی رکھتی ہو۔ اپنے ایک عربی مکتوب میں فرماتے ہیں جس کا ترجمہ مرتبِ مکتوبات مولانا نجم الدین اصلاحی ہی کے الفاظ میں پیش ہے :
’’انگریز دجالوں کی طرف سے میرے پاس نوٹس آیا ہے کہ تمہاری گرفتاری کا سبب یہ ہے کہ تم موجودہ آئین پسند حکومت کی بیخ کنی کرنا چاہتے ہو اور [برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کی] جنگی کارروائیوں میں رکاوٹ پیدا کرتے ہو۔ میں نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اقوامِ عالم کے نزدیک آزادی انسان کا پیدائشی حق ہے اور حکومت بھی اس فریضے کو تسلیم کرتی ہے، چنانچہ اسی پیدائشی حق کے لیے میری تگ و دو اور تحریک ہے، لیکن میں اس مقصد کے حاصل کرنے کے لیے ہنگامہ اور زیادتی کو پسند نہیں کرتا، اور نہ میں نے جنگی کارروائیوں میں رکاوٹ ومداخلت کی ہے۔ جس نے خبر دی وہ جھوٹا ہے، لہٰذا مجھ کو فوراً رہا کرنا چاہیے، مگر اب تک جواب نہیں آیا۔ اختیارات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں ۔والسلام‘‘
اپنے ایک طویل مکتوب (مکتوبات جلد اول، مکتوب نمبر۶۳) میں مغلیہ بادشاہ اکبر کی ’روادارانہ مذہبی‘ پالیسیوں سے کافی حدتک اتفاق کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ اگر اس [اکبر] کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم ازکم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے پاتی تو ضرور بالضرور برہمنوں کی یہ چال [کہ نفرت کی فضا پیدا کرکے لوگوں کو اسلام سے روکا جائے] مدفون ہوجاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے ۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پرقبضہ کیا تھا، بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا تھا، مگر ادھر تو اکبر نے نفسِ دینِ اسلام میں کچھ [؟] غلطیاں کیں جن سے مسلم طبقہ میں اس سے بدظنی ہوئی، اگرچہ بہت سے بد ظنی کرنے والے غافل اور کم سمجھ تھے ، ادھر برہمنوں کے غیظ وغضب میں اپنی ناکامیاں دیکھ کر اشتعال پیدا ہوا۔‘‘
مولانا مدنی ؒ کی اس رائے سے، ظاہر ہے کہ دیگر اہل علم ودانش کو اختلاف ہو سکتا ہے بلکہ اختلاف ہے۔ یہاں صرف مولانا مدنی ؒ کی سیاسی فکر کے خد وخال بیان کرنا مقصود ہیں۔ مذہب کے بارے میں اکبر کی پالیسیوں کو ہم سمجھنے میں آسانی کے لیے اُس وقت کے سیکولر ازم سے تعبیر کرسکتے ہیں اور آج کا سیکولرازم یقیناًمسلمانوں کو اکبر کے سیکولر ازم سے زیادہ ہی مذہبی آزادیاں دیتاہوگا، کم نہیں۔ آج کا پاکستان نظریاتی اور دستوری طور پر سیکولر ریاست نہیں ہے۔ اس کا دستور نہ صرف اسلام کو ریاست کا سرکاری مذہب قرار دیتاہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو بھی تسلیم کرتاہے اور یہ بھی ضروری قراردیتا ہے کہ اس کا کوئی قانون قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہوگا۔ اصطلاحی لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایسی ریاست ہے جو اللہ ورسول کی ’التزامِ اطاعت‘ کیے ہوئے ہے اور یہ بھی اہلِ علم جانتے ہیں کہ کسی فرد کے مسلمان ہونے کے لیے اتناہی کافی ہے کہ وہ اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اپنے اوپر لازم سمجھے، عملاً اطاعت نہ بھی کرے تب بھی وہ رہتا مسلمان ہی ہے۔ اس لیے ریاستِ پاکستان ایک ایسے مسلمان کی طرح ہے جس کے عمل میں کمی کوتاہی تو ہے، لیکن وہ اصولی طور پر اللہ ورسول کی اطاعت کو لازم سمجھتا اور اس پر ایمان رکھتاہے۔ پھر عملی طور پر اور شعائرِ اسلام کے احترام کے عمومی رویّے کے اعتبار سے بھی یہ ملک آج کے بہت سے مسلمان ملکوں اور اکبر کے ’روادارانہ‘ دورکے مقابلے میں بسا غنیمت نظر آئے گا۔ اگر اسے ہم تھوڑی دیر کے لیے ایک سیکولر سٹیٹ بھی مان لیں تو بھی حضرت مولانا مدنی ؒ بعض اعلیٰ وارفع مقاصد کے پیشِ نظراس طرح کے سیکولر ازم کے بارے میں نرم گوشہ اور رویّہ رکھ رہے ہیں۔ ان اعلیٰ مقاصد میں اسلام کی تبلیغ واشاعت اور غیر مسلموں کے سامنے اس کی روادارانہ تصویر پیش کرنا جس سے وہ اسلام سے دور ہونے کی بجائے قریب ہوں، خاص طوپر قابلِ ذکر ہیں۔ جمعیت علماء ہند کے دیگر رہنماؤں کے ہاں ہو سکتا ہے اکبری دور کے ساتھ یہ نرم گوشہ اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ مل جائے ۔ اکبر کا یہ سیکولرازم یا مذہبی رواداری کا رویّہ ایک غیر مسلم ریاست کے اندر نہیں تھا بلکہ دارالاسلام میں تھا ، اس لیے کہ مغلیہ دور کے ہندوستان کو علماء دارالاسلام قرار دیتے ہیں۔ اگر پاکستان میں اس سے بہت کم درجے کی ’لادینیت‘ کے ساتھ نہ تو نرم گوشہ رکھنے کا کہا جائے، نہ اسے برقرار رکھنے کی بات کی جائے، بلکہ اس صورتِ حال کے خاتمے کے لیے بھر پور جدوجہد کی ضرورت کو تسلیم کیا جائے اور صرف اتنا کہا جائے کہ یہ جدوجہد پر امن اور غیر متشددانہ ہو اور اس سے ریاستِ پاکستان کے ساتھ جنگ یا اس سے بغاوت کا تأثر نہ ابھرے تو اکبری دور کے بارے میں مولانا مدنی ؒ کے لب ولہجہ کی روشنی میں یہ کوئی غلط بات نہیں ہوگی۔
اکبری دور ہی کے بارے میں مولانا محمدمیاں ؒ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مجدد الفِ ثانی ؒ نے اکبر کے خلاف بغاوت کیوں نہیں کی؟ اس کی ایک وجہ تو مولانا محمد میاں ؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ ’’نصِّ حدیث کے بموجب مسلمان بادشاہ سے بغاوت صرف اسی وقت جائز ہے جبکہ واضح اور بیّن طور پر اس سے ارتکابِ کفرہو‘‘ جبکہ مولانا ؒ کی نظر میں اکبر کے کفر میں تردد کی گنجائش موجود تھی، اس لیے بموجبِ نصّ حدیث اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں تھی۔ دوسری وجہ مولانا محمد میاں ؒ کی نظر میں مجدد صاحب کے بغاوت نہ کرنے کی یہ تھی کہ جہاد کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ معروف جہاد بالسیف کا ہے، دوسرا طریقہ جہاد کا وہ ہے جو مکّی دور میں اختیار کیا گیا۔ مجدد صاحب نے جہاد تو کیا لیکن دوسرے طریقے سے۔ اس دوسرے طریقے کی وضاحت میں مکی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا ؒ لکھتے ہیں:
’’ اور پھر غور کرو کہ یہ انقلاب تلوار کی طاقت سے ہوا یا حق وصداقت، اخلاق وضمیر، ایثار اور قربانیوں کی خاموش قوت سے؟ بلاشبہ یہ قوی اور نہایت مضبوط طریقۂ جنگ ہے جو اس وقت تک کیا جاتا ہے جب تک اس کی کامیابی کے امکانات باقی رہیں اور اسی طرزِ جنگ [ مکی دور کے طریقے ] کو مقاومت بالصبرکے مذہبی لفظ سے تعبیر کیا جاتاہے ، اور آج کل کی اصطلاح میں عدمِ تشدد کی جنگ کہا جاتا ہے۔‘‘
آگے چل کر مولاناؒ ، سیوطی کی االاتقان کے حوالے سے بتلاتے ہیں کہ جنگ کے دونوں طریقے یعنی مکی اور مدنی طریقے یا تلوار اور عدمِ تشدد والے طریقے آج بھی مشروع ہیں۔ ان میں کوئی طریقہ منسوخ نہیں ہے،بلکہ عدمِ تشدد والے طریقے کے بارے میں مولانا کے الفاظ ’’ جو اس وقت تک جاری رکھا جاتاہے جب تک اس کی کامیابی کے امکانات باقی رہیں‘‘ سے تو بظاہر یہ معلوم ہورہا ہے کہ مولانا کے نزدیک اصل طریقہ یہی ہے۔ جب تک اس میں کامیابی کے امکانات ہوں، اسے استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طریقے یعنی مقاومت بالصبر یا جہاد باللسان والے طریقے کی افضلیت پر حدیث ’’افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر ‘‘سے استدلال کرنے کے بعد مولانا فرماتے ہیں: ’’ بہر حال اس طرزِجہاد کے لیے ضرورت تھی کہ حضرت مجدد صاحب اپنی صداقت نیز سلطان اور سلطنت کی خیر خواہی کا آخری ثبوت پیش کریں۔‘‘ (علماء ہند کا شاندار ماضی، جلد اول ص ۱۸۰ )اس کا مطلب یہ ہوا کہ جمعیت علماءِ ہند کے ایک بلند مرتبہ راہ نما کی نظر میں اگر مسلمان حکمران غلط راستے پر چل نکلے تو سلطان اور سلطنت یا زیادہ بہتر لفظوں میں ریاست کے ساتھ خیر خواہی کا آخری ثبوت پیش کرنا بھی ایک طرزِ جہاد کا حصہ ہو سکتا ہے۔
نیز مولانا محمد میاں ؒ ہی کی نظر میں قطع نظر اس سے کہ شاہ صاحب کی طرف یہ نسبت کس حد تک صحیح ہے شاہ ولی اللہؒ کی فکر کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ’’قران حکیم کی رو سے ہمہ گیرحق و صداقت، انسانی شرف وعظمت اور اعلیٰ اخلاق کے نام پر جو جدّ جہدہو، وہ اسی وقت جہاد قرار دی جاسکتی ہے جب کہ نہ قومی یانسلی اقتدار کا تصور سامنے ہو اور نہ ہی فرقہ پرستی اور دھڑے بندی کی کوئی شکل فتنہ وفساد کی تخم ریزی کرسکے۔‘‘ ( علماء ہند کا شاندار ماضی، جلد دوم ص ۱۹) پھر مولانا نے جہاں عدمِ تشدد کی اس پالیسی کی شرعی بنیادیں جا بجا بیان فرمائی ہیں، وہیں عملی اور زمینی حقائق کی روسے بھی اب تک کی عسکری کوششوں کی عدمِ کامیابی کی وجوہات کا جائزہ لے کر عدمِ تشدد کی اس نئی پالیسی کی پر زور وکالت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ پالیسی اختیار کرنے والے بزدل، بے عمل یا عافیت پسندلوگ نہیں تھے ، بلکہ یہ وہی قافلہ ہے جو پہلے عسکری کوششوں میں دادِ شجاعت دے چکاہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’ حضرت سید صاحب شہید ؒ کی تحریک کےِ آغاز سے ۱۹۱۵ء تک یعنی صرف پچاسی سال کے عرصے میں ہندوستان کی صرف یہی ایک جماعت ہے جس نے چار مرتبہ [عسکری] انقلاب کی جدوجہد کی۔ بے عمل اعتراض کرنے والوں کے پاس اب بھی پر تشدد انقلاب کے لیے کوئی پروگرام نہیں۔‘‘ ( علماء ہند کا شاندار ماضی، جلد پنجم ۳۲۲) مولانا نے عسکری کوششوں کو ترک کرنے کی جو وجوہات بیان کی ہیں، ان کا خلاصہ یہی ہے کہ بدلے ہوئے اس وقت میں ان کے بار آور ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ ان عسکری کوششوں میں بہادری، دشمن کو پریشان کرنے اور جزوی کامیابیوں کی متعدد مثالیں ملتی ہیں، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان حضرات نے ان کی بنیاد پر خوش فہمیوں اور بہادریوں کے چند قصوں میں ذہن کی سوئی اٹکائے رکھنے کی بجائے پالیسی سازی کے لیے زمینی حقائق اور اب تک کے تجربات کا سنجیدگی سے جائزہ لیا اور اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی کہ کیا اس طرح کی جد وجہد میں جزوی اور عارضی کامیابیوں اور کچھ عرصے کے لیے کسی ریاست کو پریشان رکھنے کے علاوہ فیصلہ کن کامیابی کے بھی امکانات ہیں یا نہیں؟ اسّی سال کے عرصے پر محیط پالیسی کو تقدّس کا درجہ دے کراس پر جمود اور تاویلات وتوجیہات کے ذریعے اس کی وکالت کرتے رہنے کی بجائے زمینی حقائق کی روشنی میں اب تک کے سفر کا ازسرِ نو جائزہ لے کر نیا راستہ تلاش کرنا ان حضرات کی جدّ وجہد کا ایک اہم باب ہے جس کا اثر ان کے نام لیواؤں اور متبعین میں بھی نظرآنا چاہیے۔ مثلاً ایک جگہ مولانا محمد میاں فرماتے ہیں : ’’ جلیانوالہ باغ اور پنجاب کے مارشل لانے ہندوستانیوں کو کافی سبق دے دیا کہ شورشِ بغاوت کو ایک جابر اور قاہر حکومت کس طرح کچل سکتی ہے۔‘‘ (غالباً حضرت تھانوی ؒ نے بھی یہ فرمایاہے کہ ریاست کا عسکری مقابلہ عموماً ریاست ہی کرسکتی ہے، غیر ریاستی عناصر نہیں) مزید فرماتے ہیں کہ ’’ کوئی بیرونی طاقت پشت پر نہ ہو تو سوال یہ ہوتا ہے کہ اسلحہ اور قوت کے ساتھ انقلابی جدوجہد کے لیے خرچ کا کیا انتظام ہو؟‘‘ 
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مولانا محمد میاں اب تک کے تجربات سے یہ سمجھے ہیں کہ ایک ریاست کے اندر رہ کر اس کے خلاف لڑنے کی ایک بہت بڑی شرط یہ ہے کہ باہر کی کوئی مضبوط طاقت اس کی پشت پناہی کررہی ہو۔ اس سے پہلے مولانا یہ فرماچکے ہیں کہ جرمنی کی شکست کے بعد برطانیہ کے خلاف عسکری جدوجہد کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوگئے تھے۔ اس قسم کے خرچے کا اگر انتظام ہو بھی جائے جس کی نفی مولانا مذکورہ بالا اقتباس میں فرمارہے ہیں، تب بھی یہ سوال برقرار رہے گا کہ کسی طاقت کے خرچے پر چلنے والی عسکری تحریک اپنے مقاصد حاصل کرے گی یا خر چہ دینے والی طاقت کے؟ ایک جگہ انہوں نے بڑی صراحت کے ساتھ فرمایا ہے : ’’ اٹھارہویں صدی کے آغاز تک سرفروشوں کی کثرت سامانِ فتح ہوا کرتی تھی، لیکن اب توپوں، رائفلوں وغیرہ جدید آلاتِ حرب [ دوسرے لفظوں میں ٹیکنالوجی] اور فراہمئ سرمایہ [دوسرے لفظوں میں اقتصادی قوت] پر فتح وشکست کو منحصر کردیا تھا۔‘‘ ( شاندار ماضی ۵/۱۶۰) ایک جگہ علماء سے پرُ تشدد جدوجہد کا مطالبہ کرنے والوں سے پوچھتے ہیں کہ شیخ الہند ؒ نے کیا اپنی عمر کے پچاس سال صرف نہیں کیے تھے؟ لیکن اب وہی شیخ الہندمولا محمد میاں کے الفاظ میں ’’ ۴۲ سال بعد مسلمانوں کوایک مشترکہ اور آئینی جدوجہد کی ہدایت فرمارہے ہیں۔‘‘ (شاندار ماضی ۵/۳۶۵)۔
بات ذرا دور نکل گئی، اصل میں یہ کہہ رہا تھا کہ اکبر کے مذہبی طرزِ عمل کو، جو دینی اعتبار سے آج کے سیکولرزم سے بھی گیا گزرا تھا، بعض اعلیٰ وارفع مقاصد کے لیے حضرت مولانا مدنی ؒ قابلِ گوارا سمجھ رہے ہیں۔ مذکورہ اقتباس کے بعد مولانا مدنیؒ نے اپنے مدّعا کے ثبوت کے لیے صلحِ حدیبیہ اور اس کے اثرات کا ذکر کیا۔ اس کے بعدان اعلیٰ مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے جن کی خاطریہ ڈھیلی ڈھالی پالیسی اختیار کی جاسکتی ہے، وہ فرماتے ہیں ( اصل مقصود حضرت کا یہی اقتباس پیش کرنا تھا، تمہید ذرا لمبی ہوگئی، اقتباس اگرچہ طویل ہے لیکن پڑھنے کے قابل ہے) : 
’’ آپس میں اختلاط ہونا، نفرت میں کمی آنا، مسلمانوں کے اخلاق اور ان کی تعلیمات کا معائنہ کرنا، دلوں سے ہٹ اور ضد کا اٹھ جانا، یہی امور تھے جنہوں نے افلاذ اکباد قریش کو کھینچ [کر ] صلحِ حدیبیہ کے بعد مسلمان بناتے ہوئے مکہ سے مدینے کو پہنچا دیا۔ حضرت خالدبن ولید، عمرو بن العاص اس طرح حلقہ بگوش اسلام بن گئے کہ قریش کی ہستی فنا ہو گئی ۔
’’الغرض اختلاط باعث عدم تنافر ہے اور وہ اقوام کو اسلام کی طرف لانے والا اور تنافرباعث ضد اور ہٹ اور عدم اطلاع علی المحاسن ہے اور وہ اسلامی ترقی میں سد راہ ہونے والا۔ اور چونکہ اسلام تبلیغی مذہب ہے، اس لیے اس کا فریضہ ہے کہ جس قدر ہو سکے، غیر کو اپنے میں ہضم کرے نہ یہ کہ ان کو دور کرے۔ اس لیے اگر ہمسایہ قومیں ہم سے نفرت کریں تو ہم کو ان کے ساتھ نفرت نہ کرنا چاہیے، اگر وہ ہم کو نجس اور ملچھ کہیں تو ہم کو ان کو یہ نہ کہنا چاہیے، اگر وہ ہم سے چھوت چھات کریں تو ہم کو ان سے ایسا نہ کرنا چاہیے، وہ ہم سے ظالمانہ برتاؤ کریں تو ہم کو ان سے ظالمانہ غیر منصفانہ برتاؤ نہ کرنا چاہیے۔ اسلام پدر شفیق ہے، اسلام مادر مہربان ہے، اسلام ناصح خیر خواہ ہے، اسلام جالب اقوام ہے، اسلام ہمدرد بنی نوع انسان ہے۔ اس کو غیروں سے جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا پر کاربند ہونا شایاں نہیں، بلکہ اس کی غرض [تبلیغ ] کے لیے سد یاجوج ہے۔ کفر نے کبھی اسلام سے عدل وانصاف نہیں کیا۔ [کیف وان] یظہروا علیکم لا یرقبوا فیکم الا ولا ذمۃ الخ وغیرہ شاہد عدل ہیں۔ مگر اسلام نے انصاف، عدل واحسان کو کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور نہ چھوڑنا مناسب تھا، اگرچہ جذبات انتقامیہ بہت کچھ چاہتے تھے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کچھ لوگوں کی یہ سازش ہو کہ وہ منافرت اور تلخی کا ماحول پیدا کر کے لوگوں کے قبولِ اسلام میں رکاوٹ بنیں، جیسا کہ آج آگ کل ایسی طاقتوں کی کوشش ہے جن کے ہاتھ میں میڈیا کی طاقت ہے کہ وہ اسلام کی خاص قسم کی تصویر پیش کرکے لوگوں کو اسلام سے دور رکھیں، تو اکبری پالیسی جیسی چیزوں اور بعض غیر مسلموں کی طرف سے انتہائی توہین آمیز رویے کو بھی گوارا کیا جاسکتاہے، اس لیے کہ مولانا مدنی ؒ کے مذکورہ مکتوب میں ہندؤوں کے اسی طرح کے رویے کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ سائل کے ساتھ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ایک ریلوے اسٹیشن پر اس کا ہاتھ غلطی سے کھانا بیچنے والے ایک ہندو کی پتیلی کے صرف ڈھکن کو لگ گیا تھا۔ اس پر اس نے نہ صرف اس سارے کھانے کو پلید قرار دے کر ضائع کرنے کا ذلت آمیزفیصلہ سنادیا بلکہ ہاتھ لگانے والے مسلمان سے بطور تاوان اس کھانے کی قیمت کا بھی مطالبہ کیا جو اس مسلمان نے اداکردی۔ اس پر سائل نے مولانا مدنی ؒ سے یہ سوال کیا ہے کہ اگرچہ ہمارے مذہب میں کافر کا جھوٹا پاک ہے، لیکن ہندؤوں کے اس طرزِ عمل کے ردّ عمل میں کیا ہم بھی ان کے ساتھ یہی طرز اختیار نہ کریں۔ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مدنی ؒ کے نزدیک اسلام کی تبلیغ، لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کے قریب کرنا اور منافرت کی فضاکم کرنا پالیسی کا اہم ترین حصہ ہے۔ 
مولانا محمد میاں ؒ نے ایک جگہ یہ بھی بتایا ہے کہ شیخ الہند ؒ جو انقلاب لانا چاہتے تھے، اس کے ذریعے وہ ایک جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح جمعیت علماء ہند کے ۱۹۳۹ء کے ایک اجلاس کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ جمعیت علماء جمہوری اصول کو پسند کرتی ہے اور اس کے نزدیک اسلامی جمہوریت کا جو خاکہ ہے، وہ یورپین جمہوریت کے اصول سے بہت ارفع واعلیٰ ہے۔ اسلامی جمہوریت میں اکثریت اور اقلیت پورے اطمینان اور تحفظِ حقوق کے ساتھ زندگی بسر کرتی ہے۔‘‘ (شاندار ماضی ۶/ ۴۷ ) اسی کے ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان علماء کرام نے ایک ایسے جمہوری سیاسی نظام میں بھرپور حصہ لیا جو نہ صرف خالصتاً انگریزوں کابنایا ہواتھا، بلکہ اسے اس وقت چلا بھی براہِ راست انگریز ہی رہے تھے، چنانچہ انگریزی دور میں ہونے والے تقریباً تمام انتخابات میں جمعیت علماء ہند نے کسی نہ طرح اپنا کردار ادا کیا ۔
حضرت مدنی ؒ کے اندازِ فکر میں ایک بات یہ بھی ملتی ہے کہ اگر کسی معاملے کے بگڑنے میں حضرت کے خیال میں غیروں کی بجائے اپنوں کی غلطی کا دخل تھا تو اس کا انہوں نے کھل کر اظہار فرمایا جو یقیناًبڑا مشکل کام ہوتاہے ۔ مثلاً ایک خط میں ہندؤوں کی طرف سے ہونے والے مظالم کی ایک شکایت کے جواب میں فرماتے ہیں : 
’’جو مظالم بہار اور گڈھ مکتیشر وغیرہ میں دل گداز واقع ہوئے ہیں، یقیناًنہایت رنجیدہ اور سنگین ہیں، مگر میرے محترم! تصویر کے دوسرے رخ سے غافل رہنا بھی تو درست نہیں۔ ابتداء کس نے کی؟ کبھی اس پر غور فرمایاکہ نہیں؟ نواکھالی، پترہ میں ایسے ہی مظالم پہلے کس نے کیے تھے ؟‘‘ (مکتوبات جلد دوم، مکتوب نمبر ۸۵ )
اسی خط میں آگے چل کر فرماتے ہیں : 
’’ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: الفتنۃ نائمۃ، لعن اللہ من ایقظہا (او کما قال) کا کیا مصداق ہے، جب کہ ان خباثتوں کی ابتدا مسلمانوں ہی سے ہو رہی ہے تو کس پر قصور کہا جا سکتا ہے۔‘‘ 
بریلی سے ایک صاحب نے اس بات کی شکایت کی کہ آزادی کے بعد مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں، مسلمانوں کو دھمکیاں مل رہی ہیں،ان کو اپنی املاک سے محروم کیا جارہاہے، غیر مسلموں کے جلسوں میں کھلے عام اسلام کو برا بھلا کہا جارہاہے اور یہ سب کچھ حکومت کی ناک کے نیچے ہورہاہے۔ (حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں پر اس طرح کے مظالم سے آزاد ہندوستان کی تاریخ بھری پڑی ہے۔)سائل نے اس بات پر بھی دکھ کا اظہار کیا کہ تحریکِ آزادی میں ہم نے ان ہندوؤں کی خاطر اپنوں سے مقابلہ کیا۔ جن کے لیے یہ سب کچھ کیا تھا، انہی کی طرف سے ہمارے ساتھ یہ برتاؤ کیا جارہا ہے۔ سائل نے حضرت ؒ سے راہ نمائی طلب کی کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ جواب میں تفصیلی مکتوب میں حضرت ؒ نے ایک تو یہ فرمایا کہ ہندوستان آزاد کرا کے ہم نے ہندو پر کوئی احسان نہیں کیا، اپنا کام کیا ہے، لہٰذا دوسروں سے کسی صلے کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے۔ دوسری بات اس خط میں بھی حضرت ؒ نے یہی فرمائی کہ اس ساری خرابی کے اصل ذمہ دار مسلمان ہی ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں :
’’ آج آپ مجھ سے راہ نمائی دریافت فرما رہے ہیں۔ خود کردہ را علاجے نیست، اگرمیں کہوں تو کیوں غلط ہوگا! ہمارے بھائیوں نے کیا کیا نہیں کیا اور کیا کیا نہیں کر رہے ہیں ؟
چوں از قومے یکے بے دانشی کرد
نہ کہ را منزلت ماند نہ مہ را
اگر ایک کی بے عقلی کا یہ حال ہوتو قوم کی اکثریت کی بے دانشی کا کیا نتیجہ ہوگا؟ بہرحال جو حالت آپ نے موجباتِ اضطراب کی ذکر فرمائی ہیں، وہ موجودہ کرتوتوں ہی کے نتائج ہیں، فإلی اللہ المشتکی‘‘
گویا حضرت ؒ کے نزدیک یہ ساری خرابی مسلمان قوم کی اکثریت کی بے عقلی کا نتیجہ تھی۔ مسلمانوں نے ووٹ کے زور پر، پر امن جد وجہد کے ذریعے اگر ملک حاصل کرلیا تھا اور اس جرم کی سزا میں ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کردیا تھا تو اس کی ذمہ داربھی بے عقل مسلمان اکثریت تھی۔ قطع نظر اس سے کہ امرِ واقعہ کیا تھا اور قطع نظر اس سے کہ کیا مذہبی منافرت کے معاملے میں ہندو اتنا ہی معصوم تھا، جس نکتے کی طرف یہاں توجہ دلانا مقصود ہے، وہ حضرت ؒ کی اخلاقی جرأت ہے جو اس قسم کے مکتوبات سے واضح ہورہی ہے ۔ حضرت ؒ نے دیانت داری سے جو درست سمجھا، وہی کہا، بغیر لگی لپٹی رکھے کہا، تقریباً اسی لہجے میں کہا جس میں وہ پرایوں کی غلطیاں بیان فرماتے تھے۔ یہ نہیں سوچا کہ میرا مخاطب مجھ سے کیا سننا چاہتا ہے، بلکہ یہ دیکھا کہ مجھے کیا کہنا چاہیے ۔ اپنوں کے بارے میں اس طرح کی جرأتِ اظہار غیروں سے بھی زیادہ مشکل ہوتی ہے۔ حضرت ؒ کو یقیناًاندازہ ہوگا کہ اس کی کیا قیمت چکانا پڑتی ہے اور واقعی حضرت ؒ نے یہ قیمت چکائی بھی، لیکن کہا وہی جس کو دیانت دارانہ طور پر درست سمجھتے تھے۔ یہی فریضہ مختلف مواقع پر ذرا مختلف انداز سے سہی، مولانا تھانوی اور علامہ عثمانی نے بھی انجام دیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے موجودہ ماحول میں قیادت اور جرأتِ اظہارکے اس معیار کی موجودہ دینی قیادت سے کس حد تک توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے پیرو کاروں کو صرف ان کی پسندکی غزل سنانے کی بجائے ان لوگوں میں اگر غلطی محسوس کریں تو صراحت کے ساتھ اس کی نشاندہی کریں، انہیں سمجھانے کی کوشش کریں، اس لیے کہ قیادت کا کام راہ نمائی کرنا بھی ہوتا ہے، صرف اپنی مقبولیت کا تحفظ کرنا نہیں۔
تیسری بات جس پر حضرت مدنی ؒ نے اس مکتوب میں زور دیا ہے، وہ یہ ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ غیروں کے ان مظالم اور بد تمیزیوں کے باوجود صبراور رجوع الی اللہ پر ہی اکتفا کریں، امن وامان کا مسئلہ پیدا نہ کریں۔ اس موضوع پر تفصیل سے مدلل بات کرتے ہوئے آخر میں فرماتے ہیں :
’’مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ احکامِ خداوندی پر مضبوطی سے گامزن رہیں اور اپنے مصائب اور تکلیف کے متعلق استقلال سے اللہ تعالی پر اعتماد رکھیں، ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ ، اور صبرِ جمیل پر مضبوط رہیں اور جزع فزع نہ کریں۔ جو مصائب پیش آئیں، ان کو صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں ، اور انما اشکو بثی وحزنی الی اللہ پر عمل کریں، امن وامان میں کوئی خلل پیدانہ کریں وفقنا اللہ وإیاکم لما یحبہ ویرضاہ، آمین۔‘‘
امن وامان میں خلل پیدا نہ کرنے والی بات مولانا مدنی ؒ ایک خالص اسلامی حکومت کے زیرِ سایہ نہیں فرما رہے بلکہ ایک غیر مسلم حکومت کے بارے میں فرما رہے ہیں جس کے بارے میں لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ نام تو سیکولرازم کا لیتی ہے اور تمام مذاہب کے مانے والے شہریوں کو برابر قرار دیتی ہے، لیکن عملاً مسلمانوں کی جان ومال کے تحفظ میں ناکام ہے بلکہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں حکومتی شہ کا تأثر بھی موجود ہے۔ اوپر کی سطور میں دوبارہ ملاحظہ فرمالیں کہ حضرت ؒ مسلمانوں پر مظالم اور اسلام کو برا بھلا کہنے کے کس طرح کے ماحول میں یہ لائحۂ عمل تجویز فرمارہے ہیں۔ صرف اپنوں کی غلطیوں کا احساس رکھنے، صبر کرنے اور نقضِ امن سے بچنے کے علاوہ کسی اور چیز کی تعلیم نہیں ہے ۔ پتا چلا کہ حضرت مدنی ؒ کے ہاں یہ بھی ایک راستہ اور لائحۂ عمل ہوسکتاہے جس پر وہ اپنے اس مکتوب میں شرعی اور واقعاتی دلائل پیش کرہے ہیں۔ آج اگر کوئی صاحب اسی طرح کے صبرِ جمیل اور امن وامان خراب نہ کرنے کا مشورہ دے دے اور اس کے ساتھ ظلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھانے اور پرامن جدوجہد کرنے کا بھی کہے ( جس کا حضرت ؒ کے اس مکتوب میں ذکرنہیں ہے) تو مجھے نہیں معلوم اس کے بارے میں ہمارے جذباتی لوگوں کا کیا فتویٰ ہوگا۔
ان حوالہ جات کے پیش کرنے کا ایک مقصد تو ان لوگوں کے سامنے تصویر کا دوسرا رخ پیش کرنا ہے جو محلے میں پھٹنے والے چھوٹے سے پٹاخے کو بھی دیوبندیت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ کسی طبقے کی طرف منسوب چند لوگوں کی غلطیوں کو اس پورے حلقۂ فکر کی منسوب کرنا درست نہیں ہوتا، جیسا کہ کسی مسلمان کی غلطی کا ذمہ دار اسلام اور اسلامی تعلیمات کو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ دوسرے یہ ارشادات ہمارے ان جذباتی لوگوں کے سامنے پیش کرنے مقصود ہیں جن کے ذہنوں میں دیوبندیت بالخصوص حضرت مولانا مدنی ؒ کے منہجِ فکر کی ایک عجیب وغریب تصویر بیٹھی ہوئی ہے اور شعلہ بیان خطابتوں اور نعروں کی گہما گہمی میں مطالعہ، مباحثہ اور تبادلۂ آرا کا ماحول نہ ملنے کی وجہ سے وہ تصویر اتنی راسخ ہوگئی ہے کہ اس سے ہٹ کر کسی بات کا تصور ہی ان کے لیے ناقابلِ قبول ہوتاہے۔ آپ تجربہ کرکے دیکھ لیجیے، ان بزرگوں کے مذکورہ ارشادات ان کا حوالہ دیے بغیر کسی جذباتی نوجوان کے سامنے پیش کرکے دیکھ لیجیے اس کا کیا ردّ عمل ہوتا ہے، بلکہ ہوسکتاہے کئی لوگوں کے لیے یہ باور کرنا ہی مشکل ہوجائے کہ جمعیت علماءِ ہند کے اکابر اور حضرت مولانا مدنی ؒ جیسے بزرگوں کی زبان وقلم سے عدمِ تشدد، محض صبر اور رجوع الی اللہ پر اکتفا کرنے اور بدامنی پیدا نہ کرنے جیسے الفاظ بھی نکل سکتے ہیںیا اس طرح کے لفظ ان کی ڈکشنری میں موجود بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ ہم ان بزرگوں کے نام لینے اور نعرے لگانے جیسے انتہائی ضروری کام میں آج کل اتنے مصروف ہیں کہ ان کے بارے میں مطالعے کی فرصت نہیں ملتی ۔ مجھے خود ایک مرتبہ اس طرح کا تجربہ ہوا ۔ کسی موضوع پر بات چیت کے دوران میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا حوالہ دیا کہ دشمن سے ملاقات یعنی جنگ کی کبھی تمنا نہ کرو، ہاں اگر جنگ ہو ہی جائے تو ڈٹ کر مقابلہ کرو۔ اس پر ایک اچھے خاصے عالم نے بڑی حیرت بلکہ شاید کسی قدر جذباتی انداز سے پوچھا: ’’ کہاں ہے یہ حدیث؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’بخاری میں!‘‘۔ اس پر وہ خاموش تو ہوگئے، لیکن مجھے یہ احساس ہوا شاید ہم لوگوں نے اپنے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا نقشہ ہی کچھ ایسا اپنے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھایا ہے کہ ان کے نزدیک یہ ناممکنات میں سے ہے کہ اللہ کے نبی جنگ کے بارے میں ایسی ’بزدلانہ‘ بات کہہ سکتے ہیں۔
اوپر چند بزرگوں کے حوالے سے ان کے جو اقوال نقل کیے گئے ہیں، ضروری نہیں کہ ان تمام باتوں سے ان کے معاصر یا ان سے بڑے دوسرے بزرگوں کواتفاق ہی ہو۔ بعض باتوں سے دیگر اہلِ علم و دانش کو اختلاف بھی ہوسکتا ہے، یہاں صرف یہ کہنا ہے کہ آج کے بعض جذباتی حلقوں بالخصوص نوجوانوں نے جو راستے اپنے لیے اختیار کیے ہیں، اگر تو وہ انہیں محض اپنی سمجھ بوجھ سے اختیار کیے ہوئے ہیں تو ست بسم اللہ، ہمیں اس مجلس میں ان سے بحث کرنا مقصود نہیں، لیکن چونکہ بہت سے لوگ اسے دیوبندی فکر کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں، اس لیے انہیں یہ واضح کردینا چاہیے کہ ان امور میں وہ علماء دیوبند کے متبع نہیں ہیں بلکہ اپنا الگ منہجِ فکر رکھتے ہیں۔ اور اگر وہ واقعی علماءِ دیوبند کی اتباع چاہتے ہیں تو انہیں یہ فیصلہ کرلیناچاہیے کہ علماء دیوبند میں پائے جانے والے متعدد رجحانات میں سے وہ کس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ بس ان سے اتنی گزارش کریں گے اس رجحان کے بزرگوں کی تعلیمات اور ان کے مزاج ومذاق کو پورے طور پر سمجھنے کی بھی کوشش فرمالیں۔ چونکہ عام طور پر اس طرح کے حضرات کے ذہن میں ہوتا ہے کہ وہ حضرت مدنی ؒ اور جمعیت علماء ہند کے اکابر کی پیروی کررہے ہیں، اس لیے صرف انہی کے فرمودات نقل کرنے کو کافی سمجھا گیا ہے، وگرنہ ان میں سے کئی باتیں دیگر بزرگوں کے حوالے سے بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ امید ہے کہ ان بزرگوں کے نام سے پیش کی جانے والی یہ باتیں قابلِ غور ضرور سمجھی جائیں گی۔ اسی کے ساتھ دیوبندی حلقے کی قیادت چاہے وہ سیاسی قیادت ہو ، مدارس اور وفاق کی قیادت ہو، اساتذۂ کرام ہوں ، دینی صحافت سے وابستہ حضرات ہوں، ان پر وقت نے بہت بڑی ذمہ داری عائد کردی ہے۔ وہ ذمہ داری امریکا، حکومتِ وقت اور موجودہ نظام کو گالیاں دینے کی نہیں۔ یہ کام کتنا ہی مستحسن سہی، اتنامشکل نہیں ہے جتنا اپنوں سے اگر کچھ غلطیاں ہورہی ہوں، ان کے بارے میں ان کی راہ نمائی کرنا مشکل اور صبر وعزیمت کا متقاضی ہے اور اسی کی ایک جھلک حضرت مولانا مدنی ؒ کے بعض مکتوبات میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مصلحت پسندی کے خول سے نکل کر یہ کام اب دیوبندی قیادت کو کرناہی پڑے گا۔ اب تک بھی بہت تاخیر ہو چکی ہے، مزیدتاخیر مزید نقصان کا باعث ہوگی۔ میرا اندازہ ہے کہ اگر دلیل اور ڈھنگ سے بات کی جائے تو رائیگاں نہیں جائے گی۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ اپنے حلقوں پر پالیسی امور کو عقیدے اور تقدّس کا درجہ دینے کی بجائے ان پر عام بحث کا ماحول اور ایک متعین نقطۂ نظر سے ہٹی ہوئی کسی بات کو کم از کم سننے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ آج امریکا اور برطانیہ سمیت اتحادی افواج کو افغانستان میں جو ناکامیاں ہو رہی ہیں، ان پر مغرب میں عام بحث ہورہی ہے ، پالیسیوں پر تنقیدیں ہو رہی ہیں، مباحثے ہو رہے ہیں، ناکامیوں کے تذکرے ہو رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے تو یہ ڈر لگتاہے کہ یہی کھلا پن شاید مغرب کے لیے سب بڑی طاقت ثابت ہو۔
(بشکریہ ماہنامہ ’الصیانہ‘ لاہور)

معاصر مجاہدین کے معترضین سے استفسارات

محمد زاہد صدیق مغل

پچھلے کچھ عرصے میں مجاہدین کی انقلابی و جہادی حکمت عملی (یعنی ریاست کے اندرتعمیر ریاست) کے حوالے سے بہت سے خدشات کا اظہار کیا جانے لگا ہے اور اس ضمن میں ماہنامہ ’الشریعہ‘ نے باقاعدہ اس موضوع پر خاص نمبر نکالنے کا اہتمام کیا۔ یہاں ہمارا مقصد ان مضامین پر کوئی نقد پیش کرنا نہیں۔ پہلے ان کے پیش گزاروں کے سامنے چند سوالات رکھنا ہے تاکہ معاملے کا دوسرا رخ ان کے سامنے آسکے۔ امید ہے یہ حضرات سوالات کے علمی جوابات مہیا فرمائیں گے۔ دھیان رہے کہ اس سوال نامے کا مقصد نفس موضوع پر اپنی کوئی اصولی رائے بیان کرنا نہیں (کیونکہ اس کے لیے ایک الگ مضمون اور پیرایے کی ضرورت ہے) بلکہ اس کا مقصد جہادی حکمت عملی کے ناقدین کے مفروضات کو قبول کرتے ہوئے یہ دیکھنا ہے کہ آیا ان کے فکری منہج سے برآمد ہونے والے درج ذیل متعلقہ مضمرات و تضادات (anomalies) کا کوئی تسلی بخش جواب مل سکتا ہے یا نہیں تاکہ ان کی فکر ی جامعیت سب پر واضح ہوسکے۔ سوال نامے میں ربط کو برقرار رکھنے کے لیے کسی مخصوص قلم کار اور مضمون کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے سوالات کو چار عنوانات میں تقسیم کرکے ماہنامہ ’الشریعہ‘ دسمبر ۲۰۰۸ میں شائع شدہ تینوں مضامین (بقلم مولانا زاہد الراشدی، محمد مشتاق احمد، حافظ زبیر) اور ان پر ڈاکٹر فاروق خان صاحب کے تبصرے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ 

(۱) مجاہدین اور عالمی قوانین کی پاسداری پر 

یہ بات علمی (خصوصاً لبرل و سیکولر) حلقوں میں زور و شور سے اٹھائی جانے لگی ہے کہ مسلمان ریاستوں نے UNO کے چارٹر کے تحت عالمی قوانین پر دستخط کررکھے ہیں جن کی رو سے جہادی تحریکات کی جدوجہد شرعاً جائز نہیں ہے۔ اس دلیل پر درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں: 
ا۔ کسی غیر شرعی قانون کی شرعی حیثیت کیا ہوتی ہے؟ مثلاً سود ادا کرنے کے قانون کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ 
  •  کیا ہیومن رائٹس پر مبنی عالمی قوانین شرعی ہیں یاغیر شرعی؟ (i) 
۲۔ کسی غیر شرعی قانون و معاہدے پر دستخط کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا ایسا معاہدہ کرنا شرعاً جائز ہوتا ہے؟ 
۳۔ کیا کسی مسلمان حاکم کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی رعایا کی طرف سے کسی غیر شرعی و کفریہ قوانین و معاہدوں پر دستخط کرے؟ 
۴۔ پھر اگر ایسا معاہدہ کرہی لیا جائے تو کیا کسی غیر شرعی قانون و معاہدے پر عمل کرنا شرعاً واجب ہوتا ہے؟ 
  • یعنی کیا غیر شرعی معاہدہ لازم (Binding) ہوتا ہے؟ 
  • اگر کوئی مسلمان حاکم اپنی رعایاکی طرف سے کسی ایسے غیر شرعی قانون پر دستخط کردے تو کیا مسلمان عوام ان کی پابندی پر شرعاً مجبور ہوگی؟ کیا معصیت میں حکمرانوں کی اطاعت کرنا لازم ہوتی ہے؟ 
۵۔ اگر معاہدے کا ایک فریق معاہدے کی کھلے عام مخالفت کرے توکیا اس کے بعد بھی دوسرے فریق پر معاہدے کی پابندی لازم رہتی ہے؟ کیا مشرکین مکہ نے جب صلح حدیبیہ کی مخالفت کی تھی تو معاہدہ کالعدم قرار دینے میں مسلمان حق بجانب تھے یا نہیں؟ 
  • تاریخی تناظر میں بتایا جائے کہ کیا ہر جگہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی یا مجاہدین نے؟ اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے کی تو پھر مسلمان ریاستوں اور مجاہدین کو ان قوانین کی دہائی دینے کا کیا مطلب؟ 
۶۔ کیا ’اسلامی حکومت‘ اور ’مسلمانوں کی حکومت‘ ایک ہی شے کے دونام ہیں یا ان میں فرق ہے؟ 
  • کیا ’مسلمانوں کی کافر حکومت‘ ایک محال شے ہے؟ 
  • ظاہر ہے علماء نے ہیومن رائٹس کی جن شقوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے، وہ اب بھی عالمی کفریہ قوانین کا حصہ ہیں تو کیا ہیومن رائٹس کے واضح کافرانہ قانون کو ماننے اور ان پر دستخط کرنے کے بعد بھی ’مسلمان حکومتیں‘ اسلامی ہی رہیں؟ 
  • کیا اس کافرانہ قانون پر دستخط ثبت کرنا بذات خود کسی ریاست کے غیر اسلامی ہونے کی دلیل نہیں؟ 
۷۔ لہٰذا دور حاضر میں وہ ’اسلامی حکومت‘ ہے ہی کہاں جو مسلمانوں کی طرف سے معاہدہ (اور وہ بھی غیر شرعی) کرنے کی مجاز ہو اور اس کا کیا گیا معاہدہ مسلمانوں پر لازم ہو؟ 
۸۔ اسلامی جدوجہد کا مقصد موجودہ سرمایہ دارانہ قانون پر مبنی نظام کی جزوی اصلاح (reform) کرنا ہے یا اسے تبدیل (replace) کرنا؟ 
  • اگر مقصد صرف جزوی اصلاحات کرنا ہی ہے تو پھر کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ یہ قانونی نظام اصولاً اسلامی ہی ہے (جو کہ اصلاً نہیں ہے)؟ 
  • اور اگر مقصد اسے تبدیل کرنا ہے تو اس قانون کے اندررہ کر جدوجہد کرنے کا کیا معنی ہوا؟ دنیا میں وہ کون سا قانون ہے جسے ’اپنانے اور اختیار کرنے‘ کے نتیجے میں وہ تبدیل ہوگیا ہو اور اس قانون پر مبنی نظام تہہ تیغ ہوگیا ہو؟ کیا قانون کے اندر رہتے ہوئے کارروائی کرنے کا مطلب اس قانون کی ابدیت کو ماننا نہیں ہے؟ (ii) 
۹۔ بعض علماء کرام صرف مجاہدین ہی کے خلاف ’متفقہ فتویٰ‘ کیوں چھپواتے ہیں: 
  • ایسی کافر ریاست کا ’متفقہ شرعی حکم ‘ کیوں بیان نہیں کیا جاتا جو مسلم علاقوں پر لشکر کشی کر دے؟ 
  • ایسے مسلمان حکمرانوں کے بارے میں شریعت کا ’متفقہ حکم‘ کیوں نہیں بتایا جاتا جو کفا ر کو معصوم مسلمانوں کے قتل عام کرنے کی اجازت دے (iii) اور اس کے بدلے کے طور پر Friends of Pakistan سے اربوں ڈالر وصول کرے؟ 

(۲) خود کش حملے کے اطلاق کی بحث پر 

جن لوگوں کا خیال ہے کہ خود کش حملہ صرف اس وقت جائز ہے جب وہ میدان جنگ میں ہو اور اس کا ٹارگٹ تبعاً بھی غیر محاربین نہ ہوں، ان سے سوال ہے کہ: 
۱۔ موجودہ جنگی ہتھیاروں کے پس منظر میں میدان جنگ اور میدان امن کے فرق کا تعین کیسے کیا جائے گا؟ 
الف) موجودہ دور کی جنگی حکمت عملی میں سب سے پہلے اسی چیز کی کوشش کی جاتی ہے کہ دشمن کی سپلائی لائن اور Strategic جگہوں کو توڑا جائے (مثلاً بجلی گھر، پل اور نیٹ ورکنگ کے ادارے وغیرہ تباہ کرنا)۔ کیا یہ چیزیں بھی میدان جنگ کے قدیم تصور میں شامل ہوتی ہیں؟ پھر ظاہر ہے اس میں بھی لازماً ’غیر محاربین‘ ہلاک ہوتے ہیں۔ (ایسا تو ہونہیں سکتا کہ بم گرانے سے قبل تمام لوگوں کو وہاں سے ہٹا دیا جائے)، کیا اسلامی فوج کے لیے بھی ایسا کرنا غیر شرعی فعل ہوگا کہ اس میں غیر محاربین ہلاک ہوجاتے ہیں؟ 
ب) آج کل کے دور میں محارب تلوار لے کر آبادی سے باہر کسی میدان میں تو آتا نہیں، تو کیا اب بھی صرف ایسے ہی فوجی کو مارا جائے گا جو عملاً بندوق اٹھائے ہو اور دوسرے کسی کو نہیں، چاہے وہ ’میدان امن‘ میں قائم اپنے آفس میں بیٹھے کمپیوٹر کی مدد سے ہی اصل جنگ کیوں نہ لڑ رہے ہوں؟ 
ج) اگر دوران جنگ غیر محاربین کا تبعاً مرجانا بھی ہر حال میں غلط ہی ہے تو کیا پھر جدید اسلحہ ترک کرکے مسلمان صرف صرف تلوار سے جنگ لڑیں کہ کسی غیر محارب کے مرنے کا احتمال تو تیر چلانے تک میں بھی موجود ہے؟ 
د) اگر دوران جنگ پاکستانی فوج بھارت پر میزائل چلائے تو کیا آپ اسے یہی مشورہ دیں گے کہ ’دیکھنا کہیں تمہارا میزائل اور بم کسی غیر محارب کی جان نہ لے؟‘ اگر ہاں تو پھر ان میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تعریف و توصیف کے کیا معنی کیونکہ ان ہتھیار وں سے تو ایسی رعایت ممکن ہی نہیں؟ 
ھ) کیا پاکستانی فوج اس وقت دیر، بونیر اور سوات (اور اس سے قبل وانا وغیرہ) میں جو آپریشن کررہی ہے، وہ وہاں اس باریک فرق کو ملحوظ رکھتی ہے اور کیا اس کے ہاتھوں سینکڑوں غیر محارب نہیں مررہے؟ سب جانتے ہیں کہ دوران آپریشن وہ معصوم عوام کا قتل کرکے اسے collatral damage کا خوبصورت نام دیتی ہے (iv)۔ تو ایسے فوجی آپریشن اور ان میں شامل فوجیوں کا شرعی حکم کیا ہے؟ 
و) امریکہ اور اس کے اتحادی (بشمول پاکستان) اس وقت بغداد، فاٹا، افغانستان، فلسطین وغیرہ پر جہازوں کی مدد سے جو بم گرارہے ہیں، وہ کس ’میدان جنگ‘ پر گر رہے ہیں؟ اگر یہ لوگ میدان جنگ اور امن کے قدیم تصورات کی رعایت کرنے کے پابند نہیں تو صرف مسلمان مجاہدین کو ان کی دہائی کیوں دی جاتی ہے؟ 
۲۔ درج ذیل کا حکم کیا ہے؟ 
الف) شریعت میں شب خون مارنے کی جو اجازت موجود ہے، اس کا اطلاق کیا ہے؟ 
ب) بخاری شریف کی روایت کے مطابق دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دشمن اسلام کعب بن اشرف کو اس کے گھر میں گھس کر خفیہ طریقے سے قتل کیا گیا (حالانکہ اس وقت مسلمانوں کا مکہ والوں سے امن معاہد ہ بھی تھا)۔ کیا یہ قاتلانہ حملہ میدان جنگ میں کیا گیا تھا؟ 
۳۔ پھر جو مفکرین موجودہ دستوری و جمہوری پاکستان کو اسلامی قرار دیتے ہیں ، ظاہر ہے ان کے مطابق پارلیمنٹ عوام کی نمائندہ ہے اور وہ جو کرتی ہے، اصولاً و قانوناً عوامی خواہشات ہی کا مظہر ہوتاہے ۔
  • اس وقت پاکستان پر جو امریکی حملے جاری ہیں (اور اس سے قبل امارت افغانستا ن پر جو حملے ہوئے) وہ اصولاً ہماری پارلیمنٹ کی اجازت سے ہورہے ہیں اور پارلیمنٹ محض عوام کی نمائندہ ہے۔ کیا اس منطق سے ساری پاکستانی عوام حربی نہیں ٹھہری کہ وہ ایک حربی کافر کا ساتھ دے رہے ہیں؟ ظاہر ہے پاکستانیوں نے ان امریکی حملوں کے خلاف اتنی چستی بھی نہیں دکھائی جتنی کہ چیف جسٹس کی بحالی کے لیے دکھائی۔
۴۔ جن لوگوں کی رائے یہ ہے کہ خود کش حملہ ہر حال میں حرام ہے تو اس کی علت حرمت کیاہے ؟
الف) اگر یہ حرمت اس فعل کے خود کشی ہونے کی بنا پر عمومی اور ہر حال میں ہے تو ۶۵ء کی جنگ میں خود کشی کرنے والے پاکستانی فوجیوں کا حکم کیا ہے؟ راشد منہاس کی خود کشی کو کیا کہا جائے گا؟ 
ب) اگر یہ حرمت معصوم لوگوں کو مارنے کی وجہ سے ہے تو پھر علت حرمت ’خود کش حملہ‘ نہیں بلکہ کسی دوسرے انسان کا ’قتل ناحق‘ ہوئی۔ اس صورت میں خود کش حملے کی تخصیص کیوں کی جاتی ہے؟ جس طرح قتل نا حق خود کش حملے سے حرام ہے، اسی طرح بمبار طیارے اور ہیلی کاپٹر سے بم گرا کر بھی حرام ہے، تو پھر پاکستانی پائلٹ اور فوج پر فتویٰ کیوں نہیں لگایا جاتا؟ 
۵۔ اگر خود کشی کی علت حرمت اپنی جان لینا ہے اور یہ ہر حال میں حرام ہے، تو جس طرح اپنی جان لینا حرام ہے، اسی طرح بلاوجہ اپنے جسم کے کسی عضو کو کاٹ دینا بھی حرام ہی ہے۔ فرض کریں ایک شخص یہ جانتے ہوئے بھی کہ کسی دوسرے شخص کی جان بچاتے وقت میری ٹانگ یا بازو لازماً کٹ جائے گی، اس کی جان بچا کر اپنی ٹانگ یا بازو کٹوالیتا ہے تو اس فعل کا شرعی حکم کیا ہوگا؟ اگر یہ جائز ہے تو جس دلیل کی بنا پر یہاں استثناء پیدا کیا گیا، وہی دلیل خود کشی کے لیے کیوں غیر معتبر ہے؟ 
  • پھر کیا ایسے حملوں کو ’فدائی حملوں‘ کے بجائے ’خود کش‘ کہنا بذات خود ایک مخصوص طرز فکر کی ترجمانی کرنا نہیں ہے؟ 
۶۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ خود کش حملہ جدید ہتھیاروں (مثلاً ٹینک یا جنگی جہاز) کی عدم دستیابی کی وجہ سے بم دشمن کے علاقے میں پہنچانے کا محض ایک ذریعہ ہے؟ اگر مجاہدین کے پاس بھی جنگی جہاز وغیرہ ہوتے تو کیا انہیں یہ حملے کرنے کی ضرورت پڑتی؟ 

(۳) بغیر ریاست جہاد پر 

جن مفکرین کے خیال میں ریاستی سطح کے علاوہ کسی صورت جہاد جائز ہی نہیں، ۱ن سے سوال ہے کہ: 
۱۔ کیا دفاعی جہاد کے لیے بھی یہی شرط عائد کی جائے گی؟ اگر ہاں تو شرعی دلائل اور اقوال فقہا سے اس کی دلیل بتائی جائے۔
  • دور حاضر میں جاری اکثر و بیشتر جہاد اقدامی ہیں یا دفاعی؟ 
۲۔ کتب فقہ میں شرائط جہاد کے ضمن میں ریاست کا ذکر ملتا ہے یا امیر کا؟ 
  • اگر شرط امیر کی ہے تو کیا یہ شرط دور حاضر کے ہر جہاد میں پوری ہوتی ہے یا نہیں، خصوصاً طالبان کے جہاد میں کہ انہوں نے تو ریاست بھی قائم کردی تھی؟ 
  • اگر کہا جائے کہ امیر سے مراد تمام مسلمانوں کا مشترکہ امیر ہے تو اس صورت میں کیا پاکستانی حکومت (بلکہ تمام مسلمان حکومتوں) کا اعلان جہاد بھی غیر معتبر نہیں ہو گا؟ کیوں کہ پاکستان تمام مسلمانوں کی نہیں بلکہ مخصوص جغرافیائی حدود پر قائم ایک قومی ریاست ہی ہے اور اس کے حکمران تمام مسلمانوں کے حکمران نہیں مانے جاتے۔
۳۔ ’جہاد کب لازم ہوگا‘ یعنی اعلان جہاد کے لیے طالبان کے بجائے پاکستانی ریاست کے حکمرانوں کے اعلان کا اعتبار کیوں ضروری سمجھا جاتا ہے، جبکہ طالبان نے ایک اسلامی ریاست قائم کرکے دکھا بھی دی ہے؟ آخر طالبان کی آواز پر لبیک کہنا کیوں ضروری نہیں؟ 
  • کیا فریضہ جہاد کی ادائیگی کے لیے مسلمانوں کو فاسق و فاجر، طاغوتی نظام کے حامی اور استعمار کے ایجنٹ حکمرانوں پر اعتماد کرنا چاہیے؟ 
  • کیا اسلام قومی اور وطن پرستانہ ریاستوں کے قیام و بقا کا حامی ہے؟ 
  • پھر جن مفکرین کے خیال میں اعلان جہاد کی اصل ذمہ داری پاکستانی حکومت پر ہے، کیا انہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے؟ کیا نائن الیون کے بعد پاکستان کھل کر مکمل طور پر استعمار کی ایک باج گزرا ریاست کے طور پر سامنے نہیں آگیا؟ 
۴۔ پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک جن عالمی قوانین کے پابند ہیں، ان میں واضح طور پر درج ہے کہ مذہب کے لیے کوئی جنگ نہیں لڑی جائے گی اور جہاد تو ہوتی ہی مذہبی جنگ ہے تو کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ مسلمان ریاستیں اس قانون پر دستخط کر کے جہاد کی منکر ہوچکیں؟ کیا اس کے بعد بھی وہ ’اسلامی ریاستیں ‘ کہلانے کی مستحق رہتی ہیں؟ 
۵۔ چنانچہ وہ ’اسلامی ریاست ‘ ہے کہاں جو جہاد کا اعلان کرے گی؟ اب سوال یہ ہے کہ جب اسلامی ریاست سرے سے موجود ہی نہ ہو یا وہ اتنی بزدل ہوکہ کفر کے غلبے کے مقابلے میں ذلت کی زندگی کو شہادت پر ترجیح دینے لگے یا کفر کی آلہ کار بن چکی ہو تو ایسی صورت میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وجور کا مداوا کیا ہو؟ نیز اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کیا کیا جائے؟ 
۶۔ عدم یا انہدام ریاست کے جواب میں : 
الف) اگر کہا جائے کہ مسلمانوں کو اسلامی ریاست قائم یا بحال کرکے پھر جہاد کرنا چاہیے تو سوال یہ ہے کہ جب عدم و انہدام اسلامی ریاست کی وجہ غلبہ کفر تھا اور بقول آپ کے بغیر جہاد اسلامی ریاست قائم ہوچکی (یعنی کفر مغلوب ہوگیا) تو پھر جہاد کس لیے کیا جائے گا؟ جہاد کا مقصد کفر کی مغلوبیت ہی تو تھی؟ پھر انقلابی جدوجہد کیے بغیر اسلامی ریاست کیسے قائم ہوگی؟ 
ب) اگر کہا جائے کہ مسلمانوں کو پر امن جمہوری طریقوں سے تعمیر ریاست کی جدوجہد کرنی چاہیے تو سوال یہ ہے کہ جمہوری و دستوری طریقے سے آج تک کون سی اسلامی ریاست قائم ہوسکی ہے؟ اسلامی ریاست تو درکنار، کیا خود جمہوری ریاستیں دنیا میں جمہوری طریقے سے کہیں قائم ہوسکی ہیں؟ اگر ایسا ہی تھا تو امریکہ، برطانیہ، فرانس، چائنہ، روس وغیرہم کے خونی انقلابات کی ضرورت کیوں پڑی؟ (v) کیا جمہوریت مسلمانوں کی تاریخ و علمیت سے خود بخود برآمد ہوئی یا جمہوری ادارے استعمار نے ان پر بالجبر مسلط کیے؟ 
ج) اگر کہا جائے کہ ایسی جگہیں جہاں غلبہ کفار کی وجہ سے مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے، انہیں وہاں سے ہجرت کر جانا چاہیے تو سوال یہ ہے کہ یہ حکم کس شرعی دلیل اور منطق سے اخذ کیا گیا ہے کہ جب حملہ آور کافر بذریعہ قوت اسلامی ریاست تباہ کرکے اس پر قابض ہوجائے تو مسلمانوں کو اپنی ریاست پلیٹ میں رکھ ان کے سامنے پیش کرکے خود وہاں سے نکل جانا چاہیے ؟ کیا کسی باغیرت قوم کے لیے ایسا کرنا ممکن ہوسکتا ہے؟ اور پھر ہجرت کرکے جائیں تو کہاں جائیں، جب کہ تقریباً ہر مسلم ریاست ہی سرمایہ دارانہ قانون پر مبنی قوم پرستانہ ریاست بن چکی ہو؟ 
۷۔ یہ بات درست ہے کہ جہاد (خصوصاً اقدامی جہاد) کا درست ترین طریقہ کسی اسلامی ریاست کے ماتحت ہونا ہی ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ جب اسلامی ریاست ہی مفقود ہو تو ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ کیا درست طریقہ میسر نہ ہونے کا بہانہ بنا کر مقاصد الشریعہ کے فوت ہوتے رہنے کو قبول کرلیا جائے ؟ درج ذیل کا حکم کیا ہے : 
الف) عوام کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر حکومتی اداروں کی نااہلی کی بنا پر عوام الناس نے اپنی حفاظت کے لیے پرائیویٹ سیکورٹی کا بندوبست کر رکھا ہے۔ کیا یہ ناجائز ہے؟ 
ب) نظام قضا کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے، مگر حکومت کی عدم توجہ کے باعث علما نے نجی سطح پر یہ کام جاری رکھا ہے۔ کیا یہ بھی شرعاً ناجائز ہے؟ 
ج) مساجد کا انتظام بھی اسلامی ریاست کی اہم ذمہ داری ہے، مگر حکومت کی نالائقی کی بنا پر اب مسجد کمیٹی کی بنیاد پر یہ کام ہونے لگا ہے۔ کیا مسلمانوں کا اس طریقے سے نماز کا بندوبست کرنا شرعاً جائز ہے (جب کہ اس انتظام میں بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں)؟ 
د) علوم اسلامیہ کی ریاستی سرپرستی ختم ہوجانے کے بعد علما نے نجی سطح پر ان کی حفاظت کے لیے مدارس کا جال بچھا دیا۔ کیا یہ انتظام شرعاً ناجائز ہے؟ 
ھ) راسخ العقیدہ علما کے اس فتوے کے باوجود کہ جاندار کی تصویر حرام ہے، انہی علماء کا یہ کہنا ہے کہ حالات کے تقاضوں کے تحت مجبوراً دفاع اسلام کے لیے ٹی وی پر آنا جائز ہے۔ کیا آپ کے نزدیک یہ بات بھی شرعاً ناجائزہے؟ اگر نہیں تو جہاد کے لیے ایسی رخصت کیوں نہیں نکل سکتی؟ 
۸۔ یہ بات بھی درست ہے کہ قتل کی صورت میں فرد کو خود قصا ص لینے کے بجائے صبر کرنا چاہیے، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ریاست نہ صرف یہ کہ قتل کرنے والوں سے اغماض کرنے کو اپنی مستقل پالیسی بنالے بلکہ ان کی پشت پناہی بھی کرے تو پھر فرد کو کیا کرنا چاہیے؟ 
۹۔ کیا یہ بات فاتر العقلی نہیں کہ ایک طرف تو ریاست نصیحت و اصلاح نہیں بلکہ پوری ریاستی قوت و جبر کے ساتھ کسی نظام باطل کے استحکام و پھیلاؤ میں مصروف عمل ہو مگر اس کا مقابلہ کرنے والے محض نصیحت کو کافی سمجھتے رہیں؟ کیا جہاں اصلاح کے لیے قوت کی ضرورت ہے، وہاں محض نصیحت سے کام چل سکتا ہے؟ انسانی زندگی کی وہ کون سی صف بندی ہے جو محض نصیحت کی بنیاد پر قائم رہ سکتی ہے؟ (vi)

(۴) فرضیت جہاد کی علت پر 

جن مفکرین کے خیال میں جہاد کی علت کفر و شرک نہیں بلکہ ظلم ہے ۱ن سے سوال ہے کہ: 
۱۔ شرعاً عدل و ظلم سے کیا مراد ہے؟ 
  • کیا ماورائے اسلام عدل و ظلم کی کوئی تعریف کرنا ممکن ہے؟ اگر ممکن ہے تو وہ تعریف بیان کردی جائے ۔
۲۔ کیا قرآن کی رو سے کفر و شرک اپنی تمام تر تشریحات میں ظلم کی تعریف میں شامل ہیں یا نہیں؟ اگر شامل ہیں تو کفروشرک کو علت جہاد سے مستثنیٰ کیسے کیا جاسکتا ہے؟ 
  • کیا کفر و طاغوت پر مبنی نظام اجتماعی بذات خود اس کے ظلم ہونے کی دلیل ہے نہیں؟ 
  • کیا اسلامی نقطہ نگاہ سے ایسے نظام اجتماعی کے قیام و ابدی بقا کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ 
  • اگر کفروطاغوت پر مبنی نظام نوع انسانی پر مسلط ہو تو کیا اس کے خلاف جہاد کرنا لازم ہوگا یا نہیں؟ 
۳۔ صحیح روایات سے ثابت ہے کہ قرون اولیٰ میں کسی علاقے پر حملہ کرنے سے پہلے اسلامی فوج کفار کو تین میں سے کسی ایک بات کا اختیار دیتی: (الف) اسلام قبول کرلو، (ب) غلبہ اسلام قبول کرکے چھوٹے ہو کر جزیہ دینے پر راضی ہوجاؤ یا (ج) جنگ کرو۔ کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ غلبہ کفر فرضیت جہاد کی علت میں شامل ہے؟ 
  • کیا کہیں ایسا بھی ہوا کہ اسلامی فوج نے ان تین کے علاوہ محض ’ظلم‘ ختم کرنے کے آپشن پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہو؟ 
  • کہیں ایسا تو نہیں کہ ’ظلم‘ نہ کہ کفر کو علت جہاد قرار دینے کا مقصد جدید مفکرین کی پیروی کرتے ہوئے اسلام کو دور حاضر کے نام نہاد مہذب عالمی قوانین کی مطابق ثابت کرنا ہے جن کے مطابق جذہبی جنگ بربریت کی علامت ہے؟ (vii) 
۴۔ جہاد کا مقصد کفر کی مغلوبیت ہوتی ہے یا اس کا سرے سے مکمل خاتمہ؟ اگر مقصد مغلوبیت ہوتی ہے تو یہ کہہ کر کہ ’اسلام کفر کو ختم نہیں کرنا چاہتا‘ کفر کو علت جہاد سے نکالنے کے کیا معنی ہوئے؟ 
  • کیا جہاد کسی ایک فرد کے خلاف ہوتا ہے یا کسی باطل نظام اجتماعی اور اس کے سرکردہ افراد کے خلاف؟ 
  • اگر یہ فرد سے نہیں ہوتا تو پھر علت جہاد میں متعدی و لازم کی تخصیص کرکے کفر کو علت جہاد سے کیسے نکال دیا گیا؟ 
۵۔ قرآنی آیات: قاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ نیز حتی یعطوا الجزیۃ عن ید وھم صاغرون کے مطابق جہاد کا مقصد و منتہا کیا قرار پاتا ہے؟ 
۶۔ پھر علت کفر کی ساری بحث کا مجاہدین کی جدوجہد کے عدم جواز سے کیا تعلق ہے؟ کیا اس وقت جو نظام نافذ العمل ہے، وہ ’متعدی ظلم‘ ہے یا نہیں؟ 
درج بالا نظریاتی مسائل کے علا وہ مضامین میں تحریک مجاہدین کی چند عملی خامیوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے مگر ان کا تعلق اس جدوجہد کے عدم جواز سے نہیں، لہٰذا ہم ان سے صرف نظر کرتے ہیں۔ 

حواشی

i۔ خود مولانا زاہد الراشدی صاحب نے اپنی تحریروں میں متعدد عالمی قوانین کا غیر شرعی و قرآن وسنت کے منافی ہونا واضح کیا ہے ۔
ii۔ درحقیقت ناقدین مجاہدین اور مجاہدین کے درمیان بنیادی اختلاف اسی نکتے پر ہے کہ موجودہ نظام کی حیثیت کیا ہے، نیز اس میں کس قسم کی اور کتنی تبدیلی درکار ہے۔ ناقدین چونکہ موجودہ نظام کی ہمہ گیر جاہلیت کو سمجھتے نہیں لہٰذا :
  • وہ موجودہ نظام کی جزوی اصلاح کے قائل ہیں اور ان کے خیال میں پرامن اور اصلاحی سیاست (reformist politics) کے ذریعے اس نظام کی اسلامی اصلاح کرنا ممکن ہے ۔
  • اسی لیے یہ طبقہ نافذ العمل قانون سے ماورا ہر قسم کی انقلابی جدوجہد و صف بندی کا مخالف ہے (۱ن کے خیال میں صرف وہی جدوجہد شرعاً جائز ہے جس کی نافذ العمل قانون اجازت دیتا ہو، گویا اب شرعی و غیر شرعی کا فیصلہ سرمایہ دارانہ قانون کی روشنی میں ہوگا) ۔
اس کے مقابلے میں انقلابیوں اور مجاہدین کا بنیادی مقدمہ ہی یہ ہے کہ : 
  • نافذ العمل نظام اور قانون جاہلیت خالصہ ہیں اور 
  • ان میں جزوی اصلاحات کی نہیں بلکہ مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔
  • لہٰذا نافذ العمل قانون سے ماورا جدوجہد و صف بندی عمل میں لانا منطقی لازمہ ہے ۔
درحقیقت کسی نافذ العمل نظام (جسے ہم status quo کہہ سکتے ہیں ) میں تبدیلی لانے کے لیے برپا کی جانے والی جدوجہد کی نوعیت، اس کے طریقہ کار اور نافذ العمل قانون کے بارے میں رویے کا انحصار درج ذیل باتوں پر ہوتا ہے: 
اولاً) مطلوبہ تبدیلی کی نوعیت: یعنی آپ کس قسم کی تبدیلی لانا چاہتے ہیں، موجودہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے اور اس کے اندر رہتے ہوئے اس کی غلطیوں کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا آپ کا مقصد اس کی جگہ کوئی دو سرانظام قائم کرنا ہے ۔
دوئم) مطلوبہ تبدیلی کی ہمہ گیریت: اگر آپ نظام کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں یا اسے تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو کس حد تک، یعنی اس اصلاح یا تبدیلی کا مقصد انسانی زندگی کے تمام گوشوں پر اثر انداز ہونا ہے یا چند ایک پر۔
چنانچہ جو شخص موجودہ نظام کو جتنا حق سمجھتا ہوگا، اتنا ہی وہ اس کے اندر رہنے اور اس کی اصلاح کا بھی قائل ہوگا، اسی قدر وہ نافذ العمل قانون کے دائرے کے اندر رہنے کی بات بھی کرے گا اور اسی نسبت سے کسی انقلابی جدوجہد کے باطل ہونے پر بھی مصر ہوگا۔ اس کے برعکس جس شخص کا تصور تبدیلی جتنا زیادہ ہمہ گیر ہوگا، وہ status quo سے اتنا ہی دور ہوگا، اسی قدر وہ انقلابی جدوجہد کا بھی قائل ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب 
iii۔ ڈیلی ٹائمز کی ایک خبر کے مطابق اب تک کیے گئے ڈروں حملوں میں تیرہ اہم طالبان سمیت سات سو بے گناہ پاکستانی مارے جاچکے گئے ہیں ۔
iv۔ فوج کے ہاتھوں اسی قسم کے نقصان کے بدلے کے طور پر ہی حکومت پاکستان نے سوات وغیرہ کے علاقے کے لیے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
v۔ قیام جمہوریت کے لیے کیے جانے والے ظلم و بربریت کی تفصیلات کے لیے دیکھیے: Michael Man کی کتاب The Dark Side of Democracy۔ آج بھی عراق، افغانستان اور پاکستان وغیرہ میں جمہوری اقدار کی حفاظت و فروغ کے لیے قتل و غارت کا بازار گرم ہے ۔
vi۔ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیے اور غور کیجیے کہ خاندان، تعلیمی اداروں (اسکول، کالج ، یونیورسٹیاں، مدارس) منڈی و بازار سے لے کر پولیس، فوج اور دیگر ریاستی اداروں میں سے کون سا ادارہ ہے جو بغیر قانونی جبر کے قائم ہے؟ 
vii۔ کفر کے بجائے کسی فرضی تصور ظلم کو علت جہاد قرار دینا غامدی صاحب کی بلند خیالی ہے اور یہ بالکل واضح ہے کہ غامدی صاحب کے قانون جہاد کا مقصد مسلمانوں کو اسلام کے نام پر جہاد کرنے سے روکنا ہے کیونکہ ان کے خیال میں جہاد اسلام کی خاطر نہیں بلکہ ’ماورائے اسلام مجرد تصور ظلم ‘ کی خاطر لڑنے کا نام ہے۔ اب وہ تصور ظلم کیا ہے، اس کی وضاحت غامدی صاحب کے ذمہ ہے۔

حدیث غزوۃ الہند اور مسئلہ کشمیر پر اس کا انطباق

مولانا محمد وارث مظہری

(ہمارے ہاں جہادی تصورات و عزائم کے اظہار میں بالخصوص مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بھارت میں مقیم مسلمانوں کے زاویہ نظر کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ذیل کا مضمون اسی تناظرمیں شائع کیا جا رہا ہے۔ مصنف، دار العلوم دیوبند کے قدیم فضلا کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری اور ماہنامہ ’’ترجمان دار العلوم‘‘ کے مدیر ہیں۔ مدیر)

کشمیر کے تنازع کی بنیاد پر ایک عرصے سے پاکستان کی جہادی تنظیموں نے ہندوستان کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اقدامی اور جارحانہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ شخصی اور خفیہ (proxy) نوعیت کی جنگ ہے جس کی اسلام میں کسی بھی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اسلام کے تمام تر مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ پاکستان کے معتبر دینی و علمی حلقے اسے محض ایک قومی و سیاسی لڑائی تصور کر تے ہیں۔ اسے اسلامی جہاد کی شکل میں نہیں دیکھتے۔ لیکن پاکستان کی مختلف جہادی تحریکیں، جنھیں ملک کے علما اور اسکالر ز کے ایک گروپ کی بڑے پیمانے پر عوامی تائید حاصل ہے، دونوں ملکوں کے اس تنازع کو جہاد کی شکل میں دیکھتی ہیں، بلکہ اسے اپنے جہادی مہم کا پہلا پڑاؤ تصور کرتی ہیں۔ دوسرا پڑاؤ پورے ہندوستان کو دارالاسلام (پاکستان) میں شامل کر نا اور اس کے بعد کے مراحل میں دنیا کے دوسرے خطوں پر اسلامی ’بالا دستی ‘(hegemony) قائم کرنا ہے۔ ہم نے بالا دستی کا لفظ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے۔ در اصل پاکستان اور عرب ممالک کی ریڈیکل مسلم تحریکوں کا ذہن پوری طرح ماضی کی استعماری اور حال کی امپریل طاقتوں کی سفاکانہ جولانیوں سے متاثر ہے۔ وہ ان کی سیاسی بالادستی کو کاؤنٹر کرنے کے لیے اسلامی سیاسی بالا دستی کا تصور رکھتی ہیں جو اسلام میں سراسر اجنبی ہے۔ قرآن (الصف : ۹)اور حدیث (الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ) میں غلبۂ اسلام سے مراد اسلام کا نظریاتی ا ورروحانی غلبہ ہی ہوسکتا ہے اور بلا شبہ دوسرے مذاہب و نظریات کے مقابلے میں اسلام کو یہ غلبہ پہلے بھی حاصل تھا اور اب بھی حاصل ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبرانہ مشن بنیادی طور پر یہی تھا جس میں آپ پوری طرح کامیاب رہے، ورنہ دوسری صورت میں کو ئی یہ کہہ سکتاہے ،جیسا کہ ایک عرب مصنف سلیمان البدر نے دعویٰ کیا تھا کہ (نعوذ با للہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم دینی سطح پر کامیاب لیکن تاریخی سطح پر ناکام رہے۔ ( عربی روزنامہ الانباء کویت، ۹؍دسمبر ۱۹۹۶ بحوالہ: عربی ماہنامہ البیان لندن، اپریل /مئی ۱۹۹۷) خود اسلام پر اسلام کے ماننے والوں کی طرف سے کیے جانے والے ظلم و ستم میں سے ایک بڑاظلم یہ ہے کہ آج غیر مسلموں کے ساتھ پیش آنے والی ہر چھوٹی بڑی قومیت، علاقائیت یا دوسری بنیادوں پر واقع ہونے والی لڑائی یا تنازع کو عوام کا دل جیتنے اور دنیا کما نے کے لیے جہاد سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔اس سے دنیا بھر میں اسلام کی جو رسوائی ہورہی ہے، اس کی مثال ماضی میں کم ملتی ہے۔ 
ہند وپاک کے مابین کشمیر کا تنازعہ پچھلے ساٹھ سالوں سے جاری ہے جس کو حل کر نے کی مختلف سطحوں پر کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ اس تعلق سے پاکستان کے حصے میں آنے والی ناکامیوں اور مایوسیوں کی بناپر وہاں کی جہادی تحریکوں کے علاوہ علما اور اہل دانش کی ایک بہت بڑی تعدادنے بھی اسے اسلامی جہادو قتال سے تعبیر کرنا شروع کردیا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اسے بعض معروف علما کی طرف سے فرض عین قرار دینے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔ اب جہاد کو ہی غایت اور وسیلہ سمجھنے کی بالقصد غلطی میں مبتلا ایک بڑا جہادی حلقہ کشمیر سے متعلق اپنے نام نہاد جہاد کوعین اس حدیث رسول کامصداق تصور کرنے لگا ہے جس میں ہندوستان پر غزوے کی بات کہی گئی ہے۔ صحاح ستہ میں سے صرف نسائی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے غزوۂ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کر دوں گا۔ اگر قتل ہوگیا تو میں افضل ترین شہدا میں شمار ہوں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔‘‘ (۱۱/۲۶)
اس قبیل کی ایک دوسری روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبانؓ سے مروی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
’’میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنھیں اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے۔ ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا اور دوسرا گروہ وہ ہے جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا‘‘۔
الفاظ کی کمی زیادتی کے ساتھ نسائی کے علاوہ یہ حدیث مسند احمد بن حنبل ،بیہقی اور طبرانی وغیرہ میں بھی نقل کی گئی ہے۔
کشمیر کے مسئلے پر اس حدیث کے انطباق سے مختلف ملکوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان جاری کش مکش کے مقابلے میں اس کی حیثیت بالکل منفرداور ممتاز ہو جاتی ہے۔ اس صورت میں اس بات کا امکان شدید طور پر بڑھ جاتا ہے کہ ہندوستان پر غزوے (چڑھائی) کی’’ فضیلت‘‘ کے مد نظر شہادت کے لیے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے بے تاب افراد اور جماعتیں کشمیر کو اپنی امیدوں کا مرکز تصور کر لیں۔ فی الواقع بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر غزوۃ الہند کے تعلق سے مختلف سائٹس (مثلاً: ww.ghazwatulhind.com) اس نقطہ نظر کی تبلیغ میں مشغول ہیں۔ ایک سائٹ پرغزوۃالہند پر ریکارڈ شدہ کسی عرب کی انگریزی تقریر صاف طور پر سنی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں اس موضوع پر مقالات شائع ہوتے رہے ہیں۔ ہمارے سامنے پاکستان کے مؤقر اردو مجلے’’محدث‘‘ لاہور کا اگست۲۰۰۳ کا شمارہ ہے۔ اس میں غزوۂ ہند پر بیس صفحات کا ایک مضمون شامل ہے۔ مقالہ نگار ڈاکٹر عصمت اللہ انٹرنیشنل اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ادارۂ تحقیقات اسلامی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں ۔اس میں کشمیر کے نام نہاد جہاد کو اس حدیث پر منطبق کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔اسی حدیث کے تحت پاکستان کے نام نہاد جہادیوں کی ایک تعداد پورے ہندوستان کے ساتھ جہاد وقتال کی بات کرتی ہے اور غالب گمان یہی ہے کہ اس میں ملوث بھی ہے، لیکن ’’محدث‘‘ نے مذکورہ مقالے میں واضح طور پر اس نقطہ نظر سے اختلاف کیا ہے اور جا بجا فٹ نوٹس میں اس پر عالمانہ تنقید کی ہے۔ پاکستان کے مؤقر دینی و علمی پرچوں میں یہ بحث نظر نہیں آتی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کی غالب راے اس کے خلاف ہے۔ لیکن اس تعلق سے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ موجودہ جہادی سرشت کی ترکیب میں علم و دلائل کو کم اور اندھی جذباتیت اور موجودہ سیاسی صورت حال سے متاثر رد عمل کی نفسیات کو دخل زیادہ ہے۔ پاکستان سمیت عرب و غرب کی ساری جہادی تحریکات اسی ضمن میں آتی ہیں۔ اس لیے بجا طور پر یہ حدیث ان کے ہاتھوں کا کھلونا بنی ہوئی ہے اور مزید بن سکتی ہے۔ معصوم ذہنوں کواس سے پھانسنے کا کام لیا جا رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ممبئی حملے کے نوجوان جہادیوں کے ذہن کو اس حدیث کے ذریعے mould کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ قابل تشو یش بات یہ ہے کہ اس حدیث کے تحت اگر بالفرض کشمیرانڈیاسے علاحدہ ہو جائے، تب بھی اس کے ساتھ تاقیامت جہاد کاتصور قائم رہتا ہے۔ یہ نہایت افسوس ناک پہلو ہے۔اس جہادکی زد ہندوستانی مسلمانوں پر جس طرح پڑ رہی ہے اور پڑ سکتی ہے، وہ بالکل ظاہر ہے۔ اس اعتبار سے یہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے سنجیدہ فکر علما و اہل دانش کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
بد قسمتی سے جہاد سے متعلق نظریہ ان اسلامی نظریات میں سے ایک ہے جو تحریف اور افراط وتفریط کا سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں۔اس کی ابتدا اسلام کی پہلی صدی سے ہی ہو گئی تھی جب مسلمانوں کی باہمی جنگ و جدال کو ایک گروہ نے جہاد کے ہی نکتۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کی۔ بخاری کی کئی روایتوں میں حضرت عبداللہ بن عمر کی اس پر تنقید موجود ہے۔ جہاد و قتال کی اس غلط تعبیر و تشریح کی مستقل روایت کا نتیجہ ہے کہ دوسروں کے ذریعے کیے جانے والے ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اعمال کو اپنے لیے حلال اور دینی کارنامہ سمجھ لیا گیا جس کی ایک بد ترین مثال خود کش حملہ ہے۔ اس کے علاوہ غیر حکومتی (پرائیویٹ) سطح پر جہاد کا تصور بھی اس کی نمایاں مثال ہے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے، ’’سیمی‘‘ نے بھی اس حدیث کی اپنے حلقوں میں تقسیم و اشاعت کی تھی۔ ’’ سیمی‘‘ کے علاوہ کسی قابل ذکر ہندوستانی عالم نے اس کی ’’پاکستانی تشریح‘‘ نہیں کی۔
اس حدیث سے متعلق غور و فکر کے چند اہم پہلو درج ذیل ہیں:
  • پہلی بات تو یہ کہ یہ حدیث صحاح ستہ میں سے صرف نسائی میں مذکور ہوئی ہے، حالاں کہ اس حدیث میں غزوۃ الہند کی جو فضیلت بیان کی گئی ہے، اس کا تقاضا تھا کہ یہ صحابۂ کرام خصوصاً اکابرصحابہؓ کے درمیان زیادہ سے زیادہ مشہور ہو اور فتح قسطنطنیہ(ترکی )کی پیش گوئی کی طرح بلکہ اس سے زیادہ اس کو اہمیت حاصل ہو۔فتح قسطنطنیہ سے متعلق حدیث صحیحین میں واضح الفاظ کے ساتھ روایت کی گئی ہے۔ 
  • اگر یہ حدیث صحیح ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ یہ صحیح ہو تو حقیقت میں اس کی پیش گوئی اسلام کے ابتدائی دور میں ہی پوری ہو چکی ہے۔ علما کی اکثریت اس پر متفق ہے اور یہی بات عقل و قیاس کے عین مطابق ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کے عہد خلافت ۱۵ھ میں حضرت حکمؓ اور حضرت مغیرہ بن العاصؓ کے ذریعے تھانہ، بھروچ وغیرہ اور اس کے بعد حضرت عثمانؓ و حضرت علیؓ کے زمانۂ خلافت میں سندھ و گجرات کے مختلف شہروں کے راستے سے صحابۂ کرامؓ نے ہندوستان میں قدم رکھا اور دعوتی و سیاسی سطح پر اسلام کے تعارف و اشاعت کی کوششیں کیں۔
  • بعض علما اور شارحین حدیث کی راے میں اس سے ۹۳ھ میں محمد بن قاسم ثقفی کے ذریعے سندھ پر کیا جانے والا حملہ مراد ہے جو بڑے پیمانے پر ہندوستان میں اسلام کی اشاعت اور استحکام کا ذریعہ بنا۔مسند احمد بن حنبل میں با ضابطہ اس جملے کے ساتھ یہ حدیث روایت کی گئی ہے کہ :’’سندھ و ہند کی طرف لشکر کی روانگی ہوگی‘‘۔ اس سے جہاں اس شبہے کو تقویت ملتی ہے کہ ہو نہ ہو، یہ حدیث دور اموی میں اسی خاص سیاسی مقصد کے لیے وضع کی گئی، وہیں اس کے صحیح ہونے کی صورت میں یہ واقعہ حدیث کا قریب ترین مصداق نظر آتاہے۔ محدث کے مذکورہ مقالے میں ادارے کی طرف سے تنقیدی نوٹ میں اسی کو ترجیح دیا گیا ہے۔
  • اس حدیث سے واضح طور پر کسی متعین واقعے (غزوے) کو ہی مراد لیا جا سکتا ہے نہ کہ واقعات (غزوات) کا تسلسل، جیسا کہ اوپرذکر کردہ مضمون میں ثابت کرنے کی کوشش گئی ہے۔ بعض دیگر علما کو بھی یہ خیال گزرا ہے جو سراسر حدیث کے الفاظ اور مضمون کے خلاف ہے۔
  • نہایت اہم سوال ہے کہ کیا برصغیر ہند پر مسلم حکمرانوں کی طرف سے متعدد اور مسلسل جنگی یا جہادی کارروائیوں ، تقریباً ۶۰۰ سال تک برصغیر ہند پر مسلمانو ں کی حکومت اور اس کی آدھی آبادی کے اہل اسلام پر مشتمل ہونے کے با وجود اس بات کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ اس کو جہاد و قتال کا ہدف قرار دیا جائے؟ برصغیر ہند میں اب باضابطہ دو مسلم ملک وجود میں آچکے ہیں۔ موجودہ ہندوستان میں اسلام کی پر امن دعوت کے تمام تر ذرائع اور امکانات موجود ہیں۔ یہ پہلو اس کے علاوہ ہے کہ دونوں ملک باہم اشتراک و تعاون کے معاہدوں سے جڑے ہوئے ہیں اور علما کی متفقہ راے کے مطابق آج پوری دنیا ایک عملی معاہدے کے تحت زندگی گزار رہی ہے۔ مولانا انور شاہ کشمیری اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے اہم علما آج سے تقریباً پون صدی پیشتر اس کا اعلان کرچکے تھے۔ ا س صورت حال میں کشمیر کی نام نہاد آزادی کے نام پر کی جانے والی’ پراکسی‘ جنگ فریق ثانی کے ساتھ دھوکے کی کارروائی اور اسلام کے تسلیم شدہ اصولوں کے ساتھ کھلی بغاوت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
  • محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، امیر تیمور، نادر شاہ وغیرہ مسلم حکمرانوں کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ اس حدیث کو ہندوستان پر اپنی لشکر کشی کے جواز کے طور پر پیش کریں ۔ ان کے درباری علما انھیں یہ نکتہ سجھا سکتے تھے، لیکن ہندوستانی تاریخ پر لکھی گئی کتابوں میں ان کے حالات میں یہ بات نہیں ملتی۔ شاہ ولی اللہؒ نے مراٹھوں کے زور کو توڑنے کے لیے احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر چڑھائی کی دعوت دی، لیکن انھوں نے اس حدیث کو دلیل نہیں بنا یا۔
  • پیغمبرانہ پیش گوئیوں کے تعلق سے یہ بات ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ ان کی زبان بالواسطہ اور علامتی ہوتی ہے۔ اس کے صحیح مفہوم ومصداق تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بہت کچھ تاویل و قیاس کی ضرورت پڑتی ہے، اس لیے ان کی توجیہ و تفہیم محض امکانی اور قیاسی حد تک ہی ممکن ہے۔
بہر حال یہ اندھی اور افسوس ناک جسارت ہے کہ غزو ۃالہندسے متعلق حدیث کو نام نہاد جہاد کشمیر اور ہند و پاک کی محاذ آرائی پر محمول کیا جائے۔ یہ صریح طور پر اللہ کے رسول کے ساتھ آپ کے نام نہاد متبعین کی طرف سے برتا جانے والا ظلم ہے۔ برصغیر ہند وپاک کی جہادی تحریکات اپنی نفسیات اور طرز عمل میں خوارج کی طرح ہیں جن سے متعلق پیغمبر اسلام نے واضح پیش گوئی کی تھی کہ وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے کہ جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ وہ انھی کی طرح سے، جیسا کہ حضرت علیؓ نے ان سے متعلق کہا تھا، کلمۂ حق سے باطل مراد لیتے ہیں۔ (کَلِمَۃُ حَقٍّ اُرِیْدَ بِہَا الْبَاطِلُ)
اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اہل علم و فکر خصوصاً علما کا طبقہ اسلامی نصوص کے ساتھ اس کھلواڑ اور احیائے اسلام کے نام پر تخریب اسلام کی کوشش کاسخت نوٹس لے۔ جہاد اسلام میں فتنے کے خاتمے کے لیے مشروع کیا گیا، لیکن اس وقت فتنہ پھیلانے کے لیے جہاد کیا جا رہا ہے۔ عوام کو اس پہلو کی خطرناکیوں اور اس کے نتائج سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس تعلق سے ہند وپاک کے علما کی ذمہ داری خاص طور پر بڑھی ہوئی ہے۔ مسلم حلقوں کی طرف سے دہشت گردی کے الزامات کے دفاع کے لیے جہاں آئے دن سیمینار اور کانفرنسیں منعقد ہور ہی ہیں، وہیں با ضابطہ طور پر ایسے علمی پروگراموں کے بھی انعقاد کی ضرورت ہے جن کے توسط سے یہ محاسبہ کیا جا سکے کہ کس طرح اسلام کے نام پر اسلام کے نام نہاد سپاہی جہاد کے عنوان سے دہشت گردی کے فروغ میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ اسلامی جہاد کے روایتی تصورات پرنظر ثانی کی شدید ضرورت ہے ۔ اقدامی جہاد اسی طرح تکثیری معاشرے میں جہاد کی اجازت دینا محض دعوتی امکانات کوتباہ کر نا اور امت مسلمہ کی تباہ حالیوں میں اضافہ کرنا ہے۔ اسلام کی سیاسی فکر میں پائے جانے والے خلا او ر مختلف تضادات کو نظری سطح پر جب تک دور نہ کیا جائے، آج کے جمہوری اور مشترکہ معاشرے کے ساتھ اس کے تصادم کوختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے مسلمانوں کے اندر ایک شدید اجتماعی اخلاقی بحران کے پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے آثار صاف نظر آرہے ہیں۔ صرف الزامات کا لفظی سطح پر دفاع اور دہشت گردی کی سادہ اور عمومی اندازکی مذمت کافی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت خود جہادی تحریکات کے خلاف ’جہاد ‘چھیڑنے کی ضرورت ہے اور یہ جہاد بلاشبہ علما اور اہل فکر ہی کر سکتے ہیں۔

مولانا فضل محمد کے جواب میں

حافظ محمد زبیر

ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے مئی /جون ۲۰۰۹ء کے شمارے میں جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے استاذ الحدیث مولانا فضل محمد صاحب کا محبت نامہ پڑھنے کو ملا۔ مولانا نے راقم الحروف کے ایک مضمون پر نقد کرتے ہوئے بندہ ناچیز کی طرف الحاد، ظلم، کفر، امریکہ کی وفاداری، یہود و نصاریٰ کی ہمدردی، قرآن و حدیث کے ساتھ تمسخر، حدیث کے انکار، قرآن کے مفہوم میں تحریف، اجماع امت کی خلاف ورزی، نئی شریعت بنانے اور ڈھٹائی اور سرکشی وغیرہ اوصاف کی نسبت کی ہے۔ مولانا کی ان مہربانیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم اس علمی مسئلے کی تنقیح کی طرف آتے ہیں جسے مولانانے اپنی سادہ لوحی اورفرقہ وارانہ تعصب کی وجہ سے لاشعوری طور پر الجھانے کی خوب کوشش کی ہے۔ 
(۱) ہمارے مضمون کا خلاصہ یہ تھا کہ معاصر جہاد کئی قسم کا ہے، لہٰذا جہاد کی ہر قسم کے بارے میں اہل علم کی آرا میں بھی اختلاف ہے۔ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد میں پروفیسر برہان الدین ربانی اور أحمد شاہ مسعود کی جمعیت اسلامی افغانستان، گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی، مولوی یونس خالص اور جلال الدین حقانی کی حزب اسلامی خالص گروپ، عبد الرب رسول سیاف کی اتحاد اسلامی برائے آزادی افغانستان، صبغت اللہ مجددی کی جماعت افغانستان قومی محاذ آزادی، محمد نبی کی حرکت انقلاب اسلامی، مولوی محمد أسامہ کی حزب سعادت ملی و اسلامی افغانستان اور سید أحمد گیلانی کی جماعت افغان مجاہدین اسلامی اتحاد روس کے خلاف جہاد کرتی رہیں۔ روس کے خلاف جہادکے دوران عالم اسلام کے مشرق سے مغرب تک تقریباً تمام علما ان جماعتوں کے جہاد کو ’جہادفی سبیل اللہ‘ قرار دیتے رہے۔ ۱۹۸۹ء میں جب روس نے جنیوا معاہدے کے تحت اپنی افواج افغانستان سے نکال لیں تو یہی اسلامی جہادی تحریکیں ایک دوسرے کے خلاف جہاد میں مصروف ہو گئیں۔ چنانچہ ۱۹۸۹ء سے ۱۹۹۶ء تک ڈاکٹر نجیب اللہ، برہان الدین ربانی، أحمد شاہ مسعود، جنرل عبد الرشید دوستم اور گلبدین حکمت یار وغیرہ کے باہمی جہاد کے نتیجے میں تقریباً پچاس ہزار مسلمان شہید ہو گئے اور کابل شہر کا ایک تہائی حصہ تباہ ہو گیا۔ ۱۹۹۴ء میں صوبہ قندھار کے مقامی پشتونوں نے ’طالبان‘ کے نام سے ایک تحریک کی بنیاد رکھی اور ان سب جہادی تحریکوں کے خلاف ’جہاد فی سبیل اللہ‘ شروع کر دیا۔ برہان الدین ربانی، کمانڈر أحمد شاہ مسعود، گلبدین حکمت یار جو روس کے خلاف جہاد میں سارے عالم اسلام کے ہیرو تھے، ’طالبان‘ کے نزدیک باغی اور غدار ٹھہرے اور ’مجاہدین ‘ کی بجائے ’مفسدین‘ اور واجب القتل قرار پائے۔
ہمیں یہاں یہ بحث نہیں کرنی کہ ان میں سے کون غلط تھا اور کون صحیح؟ ہم تو اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ برہان الدین ربانی، أحمد شاہ مسعود اور گلبدین حکمت یار روس کے خلاف جہاد میں’ مجاہد‘ تھے اور طالبان کے خلاف لڑتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو مجاہد ہی سمجھ رہے تھے۔ اسی طرح ’طالبان‘ جب ان کے خلاف جہاد کر رہے تھے تو وہ ان جہادی رہنماؤں کے جہاد کو جہاد نہیں بلکہ ’فساد‘ سمجھتے تھے۔اس سارے اختلاف کی تفصیل ہم نے اپنے ایک مضمون میں بیان کر دی ہے جو کہ ماہنامہ ’الأحرار‘ کے جنوری تا جون ۲۰۰۸ء کے شماروں میں بالاقساط شائع ہو چکا ہے۔
مقصود کلام صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں سادہ لوح مذہبی طبقہ کسی کو مجاہد قرار دینے کے لیے بس اسی کو کافی سمجھتا ہے کہ اس کے سر پر عمامہ اور چہرے پر داڑھی ہو، شلوار ٹخنوں سے اوپر ہو اور آپ کے فرقے سے تعلق رکھتا ہو۔ اب چاہے ’جہاد‘ کے نام پر یہ شخص’ فساد‘ پھیلاتا پھر، ‘ بس یہ مجاہد ہے اور اس کے مجاہد ہونے میں کوئی کلام نہیں ہے اور جو کلام کرے گا، وہ گمراہ، راندۂ درگاہ اور واجب القتل ہوگا۔ اگر مجاہد ہونے کا یہی معیار ہے تو سوال یہ ہے کہ طالبانِ افغانستان نے روس کے خلاف جہادکرنے والے مجاہدین کو کیوں ’مفسدین‘ قرار دیا؟ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ عمامہ باندھ کر، ڈاڑھی چھوڑ کر اور شلوار ٹخنوں سے اوپر کر کے جہاد کا نعرہ لگانے والے ہر شخص کی اندھا بہرا ہو کر حمایت نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا قرآن و سنت اور حالات و واقعات کی روشنی میں تجزیہ کرناچاہیے۔ یہ افغانستان کے طالبان ہی کا منہج ہے اور اسی منہج کی اتباع کرتے ہوئے ہم نے بعض معاصر جہادی تحریکوں اور ان کے اعمال و افعال پر نقد کیا ہے۔
(۲) معاصر جہاد کے بارے میں دنیا کے کس خطے میں علما کا اختلاف نہیں ہے؟ پاکستان کی ہی مثال ہی لے لیں:
’طالبان تحریک پاکستان‘ کے نزدیک کشمیر میں آئی ایس آئی اور حکومت پاکستان کی سرکردگی میں ہونے والا جہاد ’جہاد‘ نہیں ہے کیونکہ ان کے نزدیک ’جہاد‘ کبھی طاغوت کے تعاون سے نہیں ہوتا۔ہمارے پاس ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں طالبان تحریک کے بعض رہنماؤں نے کشمیری تحریکوں کے مجاہدین کو پاکستان کی طاغوتی حکومت کی سرپرستی میں ہونے والے ’جہاد‘ سے رجوع اور توبہ و استغفار کی دعوت دی ہے۔ اسی طرح ہم پر شدید نقد کرنے والے مولانا عبدالمالک طاہر صاحب نے بھی بعض جہادی تحریکوں کے بارے میں ہمارے موقف کی حمایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں:
’’وزیرستان، سوات، لال مسجد اور تکفیری ٹولے کی حد تک حافظ صاحب کی بات وزنی معلوم ہوتی ہے اگرچہ لہجہ اور انداز ناصحانہ نہیں ہے۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء، ص ۴۳) 
اور تو اور، آج پوری دنیا کے مجاہدین کا جو فکری امام ہے یعنی أبو البصیر الطرطوسی، انہوں نے بھی اپنے ایک مقالے ’الجماعات الجھادیۃ بین الاعتراف بالخطأ والتراجع عن الثوابت‘ میں جہادی تحریکوں کے بعض اعمال و افعال پر تنقید کی صحت کا اعتراف کیا ہے اور یہ لکھاہے کہ عمل جہاد اور مجاہد میں بہت فرق ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’و المجاھد وارد فی حقہ الصواب و الخطأ...فالمجاھد إذا أخطأ قیل أخطأ و إذا أصاب قیل أصاب... فالجھاد شئ و المجاھد شئ آخر لا یخلط بینھما إلا جاھل ظالم‘۔
’’مجاہد سے صحیح اور غلط، دونوں کام صادر ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ غلطی کرے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے غلطی کی ہے اور جب درست کام کرے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے صحیح کیا ہے۔ جہاد اور چیز ہے اور مجاہد اور چیز۔ ان کو کوئی جاہل اور ظالم ہی گڈمڈ کر سکتا ہے۔‘‘
(۳) اسی طرح لال مسجد کے جہاد کے بارے میں بھی بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث علما کی رائے یہی تھی کہ ان کا مطالبہ درست ہے، لیکن طریقہ کار اور منہج غلط ہے۔مولانا فضل محمد صاحب نے لال مسجد کی تحریک کو ایک اصلاحی تحریک قرار دیا ہے۔اگر وہ صر ف ایک اصلاحی تحریک ہی تھی تو وفاق المدارس العربیہ کے أکابر نے ان کے طریقہ کارپر نقد کیوں کی اور أکابر علمائے دیوبند کی طرف سے غازی برادران کے منہج کی تائید کیوں نہ ہوئی؟ آنٹی شمیم کا اغوا، چلڈرن لائبریری پر قبضہ اور دو پولیس موبائل گاڑیوں اور اہلکاروں کا اغوا وغیرہ ایسے اقدامات تھے جو لال مسجد کی تحریک کو صرف ایک اصلاحی تحریک نہیں رہنے دیتے بلکہ اسے ’خروج‘ کی بحث میں داخل کر دیتے ہیں۔ اصلاحی تحریک تو ’تبلیغی جماعت‘ جیسی ہوتی ہے جو امت کی اصلاح کی خاطرگالیاں اور جوتے کھا لیتے ہیں، لیکن اف تک نہیں کرتے۔ بہر حال لال مسجد کے جہاد کے بارے میں ہمارا موقف وہی ہے جو وفاق المدارس العربیہ اور پاکستان کے جمیع مکاتب فکر کے علما کاتھا یعنی غازی برادران کا مطالبہ درست لیکن طریقہ کاراور منہج غلط تھا۔ ہم یہ بھی وضاحت کرنا چاہیں گے کہ علمائے دیوبند کی طرح ہم بھی لال مسجد کے حکومتی آپریشن کی سخت مذمت کرتے ہیں اور اس کو ظلم و زیادتی اور قتل ناحق قرار دیتے ہوئے قابل قصاص سمجھتے ہیں۔
(۴) شمالی اور جنوبی وزیرستان کے جہاد کے بارے میں ہماری رائے یہ تھی کہ یہ ایک دفاعی جہاد تھا اور حکومت نے امریکہ کی رضامندی کی خاطر قبائلی علاقوں پر چڑھائی کی جس کی وجہ سے وہاں ’دفاعی جہاد‘ کی تحریک کا آغاز ہوا جس نے آہستہ آہستہ ایک ’انتقامی تحریک‘ کی صورت اختیار کر لی۔اس کی تفصیل ہم نے اپنے مضمون میں کسی قدر بیان کر دی ہے اور اگر کسی نے مفصل پڑھنا ہوتو ماہنامہ ’الأحرار‘ میں شائع ہونے والے ہمارے مذکورہ مضمون کا مطالعہ کر سکتا ہے۔ قبائلی علاقوں کا شروع سے یہ معاملہ رہا ہے کہ یہاں حکومت پاکستان کی عملداری (writ)نہ ہونے کے برابر رہی ہے اور یہاں حکومت پاکستان کے قوانین بھی کبھی لاگو نہیں رہے۔ ان قبائلی علاقوں کا جہادصرف اور صرف امریکہ کے خلاف تھا، پس حکومت پاکستان کو ان کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ لیکن جب حکومت نے ابتدا کرتے ہوئے ان علاقوں پر بمباری اور چڑھائی کی تو ’فمن اعتدی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل مااعتدی علیکم‘ اور ’إذا أصابھم البغی ھم ینتصرون‘ اور ’فقاتلوا التی تبغی حتی تفیء إلی أمر اللہ‘ کے مصداق ان قبائلیوں کا یہ دفاعی جہا د اور ان کا اپنے اوپر حملہ کرنے والے مقاتل و محارب سیکورٹی فورسز کو قتل کرنا ہمارے نقطہ نظر میں شرعاً بالکل درست تھا۔ اب تک ہمارے علم کی حد تک یہ ایک دفاعی جہاد ہے، اگرچہ پاکستان میں ہونے والے خود کش حملوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ حملے بھی قبائلی علاقوں کے مجاہدین کروارہے ہیں۔ایک دوسری رائے یہ بھی ہے کہ یہ طالبان کے روپ میں را، سی آئی اے اور موسادکے ایجنٹ ہیں جو افواج پاکستان، پولیس، انتظامیہ اور معصوم شہریوں پر اس قسم کے خود کش حملے کرواتے ہیں۔
(۵) اسی طرح سوات کے جہاد کے بارے میں بھی ہماری رائے یہ ہے کہ ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ اور’ تحریک طالبان سوات‘ کے مطالبات درست ہیں، لیکن ان میں’ تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ کا منہج درست ہے جو صوفی محمد کی قیادت میں پرامن طریقے سے اس علاقے میں شریعت کا نفاذ اور حکومتی مظالم سے نجات چاہتے ہیں جبکہ ’طالبان تحریک سوات‘ کے نفاذ شریعت کے طریقہ کار کو ہم درست نہیں سمجھتے۔جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب نے بھی ماہنامہ ’الشریعہ‘ کے اداریے میں اس رائے کااظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے عسکری منہج و طریقہ کار کو درست نہیں سمجھتے اور نفاذ شریعت کے لیے پرامن جدوجہدپر یقین رکھتے ہیں۔ جناب مولانا زاہد الراشدی فرماتے ہیں:
’’جہاں تک مروجہ عدالتی نظام کی بجائے شرعی نظام عدل کے نفاذ کا تعلق ہے، ہم تحریک نفاذ شریعت محمدی اور تحریک طالبان کے اس موقف اور مطالبے کے ہمیشہ سے حامی رہے ہیں کہ ان کا یہ موقف اور مطالبہ درست ہے، لیکن اس کے لیے تحریک کے طریق کار پر بھی ہمیشہ تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے لیے ہتھیار اٹھانے اور سرکاری فورسز کے ساتھ مسلح مزاحمت کو بھی جائز نہیں سمجھا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ ، مارچ ۲۰۰۹ء ص ۳)
مولانا صوفی محمد صاحب کی رائے بھی یہی ہے کہ سوات اور مالاکنڈ میں نفاذ شریعت کے لیے پرامن طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔یہ واضح رہے کہ ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ اور ’تحریک طالبان‘ دو مختلف تحریکیں ہیں ۔’تحریک نفاذ شریعت محمدی ‘مولانا صوفی محمدصاحب کی تحریک ہے ۔مولانا صوفی محمد صاحب کسی دور میں نفاذ شریعت کے لیے ’خروج‘ اور ’عسکری منہج‘ کے قائل تھے، لیکن حالات کے ساتھ ساتھ ان پر واضح ہوتا چلا گیا کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے عسکری طریقہ کار سوائے فساد کے اور کچھ نہیں ہے۔ تحریک طالبان سوات کے امیر مولوی فضل اللہ ہیں جو مولانا صوفی محمد کے داماد بھی ہیں اور شروع میں صوفی صاحب کی تحریک کے ایک کارکن بھی تھے۔مولوی فضل اللہ ابھی تک اسی فکر کے قائل ہیں جن سے مولانا صوفی محمد اپنے تجربات کی روشنی میں رجوع کر چکے ہیں۔ مولانا صوفی محمد صاحب کی تحریک ایک پرامن تحریک تھی جو نفاذ شریعت کے لیے احتجاجی سیاست کے طریقہ کار کو اپنائے ہوئے تھی۔ اپنی اس رائے کا اظہار وہ اخبارات میں گاہے گاہے کرتے رہتے تھے اور ان کے عمل سے بھی ان کے اسی منہج کا اظہار ہوتا تھا۔ 
ہم نے سوات کے جہاد کو ایک غلطی کہا تھاکیونکہ ہمارے نزدیک یہ مسلمان حکومت کے خلاف ’خروج‘ ہے۔ ہم اس موقف کے بھی حامی ہیں کہ ہماری موجودہ حکومت ظالم و غاصب ہے اور ہم شرعی دلائل کی روشنی میں یہ بھی رائے رکھتے ہیں کہ ظالم وغاصب حکمرانوں کے خلاف خروج جائز تو کیا واجب ہے، لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں اور جن حالات میں یہ خروج ہواہے، ان حالات میں اس سے سوائے فتنہ اور فساد کے کچھ بر آمد نہیں ہوا ہے۔ 
(۶) مولانا فضل محمد صاحب نے بعض جہادی تحریکوں کے اعمال و افعال سے علمی اختلاف رکھنے پر بندہ ناچیز پر تو فتووں کا ایک طویل برسٹ فائر کر دیاہے، لیکن حضرت مولانا کی خدمت میں عرض ہے کہ سوات کے موجودہ جہاد کے بارے میں علما و مذہبی تحریکوں کے بیسیوں موقف ہیں:
  • ۳۰؍اپریل ۲۰۰۹ء کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں تحریک نفاذ شریعت محمدی کے حق میں ایک اجلاس کے دوران جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ کے مقامی امیر صاحب نے ضلع بونیر میں داخل ہونے، مزارات کو گرانے اور حجامت پر پابندی لگانے والے طالبان کو ’ظالمان‘ کا نام دیا اور کئی ایک بریلوی اور دیوبندی علما نے ان کی رائے کی تائید بھی فرمائی۔ اس اجلاس میں راقم الحروف بھی شریک تھا۔
  • جامعہ بنوری ٹاؤن میں وفاق المدارس العربیہ کے اجلاس میں أکابر علمائے دیوبند نے سوات کے طالبان کی متشددانہ کارروائیوں کی مذمت کی۔ اس خبر کو روزنامہ’ اسلام‘ نے ۱۸؍ مئی ۲۰۰۹ء کو شائع کیا ہے، اگرچہ خبر میں یہ درج نہیں کہ ان متشددانہ کاروائیوں سے ان علما کی مراد کیا ہے؟ بہرحال اتنی بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ أکابر علمائے دیوبند بھی طالبان مجاہدین کے ہر ہر فعل کو’ جہاد ‘نہیں سمجھتے۔
  • اہل حدیث اور دیوبندی علما کی ایک بڑی جماعت طالبان کے مزارات کو گرانے اورمعصوم شہریوں پر خود کش حملوں کے خلاف ہے اور ان کی ان کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے۔بعض اہل حدیث علما کا کہنا یہ ہے کہ جب اسلام میں عیسائیوں کے گرجاگھر، یہودیوں کے کنیسا اور ہندوؤں کے مندر ڈھانے کی اجازت نہیں تو مسلمانوں کے درباروں کو گرانے کا حکم بھی بالأولیٰ نہیں ہے۔ان علما کا کہنا یہ ہے کہ آیت مبارکہ ’ولو لادفع اللہ الناس بعضھم ببعض لھدمت صوامع و بیع و صلوات و مسجد یذکر فیھا اسم اللہ کثیرا‘ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دربار گرانا جائز نہیں ہے، اگرچہ ان میں ہونے والے شرکیہ افعال کی تقبیح ایک شرعی حکم ہے۔
  • روزنامہ ’اسلام‘ جیسا مذہبی اور دیوبندی اخبار سیکورٹی فورسز کے ساتھ کارروائیوں میں جاں بحق ہونے والے ’طالبان‘ کے لیے ’اتنے عسکریت پسند ہلاک‘ کی شہ سرخیاں شائع کرتا ہے۔ یہ اخبار نہ تو سوات کے طالبان کو’ مجاہد‘ قرار دیتا ہے اور نہ ہی انہیں’ شہید‘ لکھتا ہے۔ بعض اوقات عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی خبر میں ’مخبر‘ کا نام ہوتا ہے اور بعض اوقات بغیر مخبر کے نام کے خبر جاری ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صرف مخبر کی خبر نہیں ہے بلکہ اخبار کے منتظمین کی رائے بھی ہے۔
  • جامعہ نعیمیہ لاہور میں ’مجلس ملی شرعی ‘کے تحت جاری ہونے والے ایک اعلامیہ میں دیوبندی، اہل حدیث اور بریلوی علما نے مزارات کو گرانے اور مذہبی شخصیات کو نقصان پہنچانے کے واقعات کی مذمت کی ہے جس کی رپورٹ ماہنامہ محدث، مئی ۲۰۰۹ (ص ۴۷) میں موجود ہے۔ اس مجلس میں علما نے اس بات کا بھی اقرار کیا کہ طالبان کی تحریک میں شرپسند اور غیر ملکی ایجنٹ بھی موجود ہیں جو دہشت گردی پھیلا رہے ہیں۔
  • ۹؍ مئی ۲۰۰۹ء کے اخبارات کی خبر یہ ہے کہ علماے بریلویہ نے سارے پاکستان میں ’یوم مذمت طالبان‘ منایا۔
  • ملا عمر اور شیخ اسامہ بن لادن تک پاکستانی حکومت کے خلاف ہونے والے طالبان ’جہاد‘ کے حق میں نہیں ہیں۔ مؤرخہ یکم جون ۲۰۰۹ء کو روزنامہ اسلام میں جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن صاحب کا بیان تھا کہ پاکستان میں مسلح جدوجہد ملک اور اسلام دونوں کے حق میں نقصان دہ ہے، لیکن انہوں نے ساتھ ہی حکومتی آپریشن کی بھی مذمت کی۔
  • لاہور میں تبلیغی جماعت کے مرکز’مسجد ابراہیم‘ کے باہر ایک دفعہ راقم الحروف نے ان گناہ گار آنکھوں سے انتظامیہ میں شامل تبلیغی بھائیوں کو دیکھا کہ وہ مسجد سے باہر جہادی اخبار بیچنے والوں کو وہاں سے بھگا رہے تھے۔
  • بعض دیوبندی مصلحین کا کہنا یہ ہے کہ سوات میں اس وقت دو طاغوتوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ حکومت پاکستان بڑا طاغوت ہے اور طالبان چھوٹا طاغوت ہیں۔
  • بعض اہل حدیث علما طالبان کی اس مسلح تحریک کو مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت سے تعبیر کر رہے ہیں اور خطبات جمعہ میں حکومتی آپریشن کو جائز قرار دیتے ہیں۔
  • مولانا فضل الرحمن اور ان کی جماعت صدر زرداری کی اس حکومت میں باقاعدہ شامل ہے جو طالبان کے’ جہاد‘ کو بغاوت کا نام دیتی ہے اور ان پر آتش و بارود کی بارش برساتی ہے۔ اسی طرح مولانافضل الرحمن اور ان کی جماعت سے وابستہ علما کا طالبان کے خلاف زرداری حکومت کی کارروائیوں کے باوجود حکومتی عہدوں اور اسمبلیوں کی ممبری سے استعفا نہ دینا حضرت کی نظر میں کیا گستاخی شمار نہیں ہوتا؟ کیا جمعیت علمائے اسلام کے علما صرف اس وجہ سے حضرت کے فتاویٰ و القابات سے محروم ہیں کہ وہ علماے دیوبند کے حلقہ سے تعلق رکھتے ہیں؟
  • بعض دیوبندی علماء ’مذبذبین بین ذلک‘ کی کیفیت میں ہیں اور طالبان یا حکومت، کسی کے حق میں بھی کسی رائے کا اظہار نہیں کر رہے۔ ان کے بارے میں پنجابی طالبان کا کہنا یہ ہے کہ یہ اپنے دارالعلوموں کی مسندوں اور گدیوں کو بچانے کی فکر میں ہیں۔ جبکہ بعض دیوبندی علما آپریشن کی تو مخالفت کرتے ہیں اور طالبان کے ساتھ مصالحت پر زور دیتے ہیں، لیکن طالبان کے منہج کی حمایت نہیں کر رہے ہیں جیسا کہ وفاق المدارس العربیہ کا بھی یہی موقف ہے۔
  • ۲۸؍ مئی ۲۰۰۹ء کو جامعہ منظور الإسلامیہ لاہور میں ہونے والی علماء کانفرنس جماعۃ الدعوۃ کے مرکزی رہنما أمیر حمزہ صاحب نے کہا کہ وہ افغانستان کے طالبان کے تو حق میں ہیں، لیکن پاکستان میں حکومت پاکستان کے ساتھ لڑنے والے طالبان کے حق میں نہیں ہیں۔ بریلوی، دیوبندی اور اہل حدیث علماء نے اس مجلس میں اس بات کا بھی اقرار کیا کہ طالبان کی صفوں میں شر پسند اور را کے ایجنٹ موجود ہیں جو مجاہدین نہیں، دہشت گرد ہیں۔ اس خبر کو روزنامہ ’اسلام‘ نے جاری کیا ہے۔ 
  • جماعت اسلامی اور تنظیم اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں بھی طالبان کے خلاف حکومتی آپریشن کی مذمت میں تو مظاہرے اور دھرنے دیتی نظر آتی ہیں، لیکن ان کے منہج و طریقہ کار کی تائید نہیں کر رہی ہیں۔ ۳۱؍ مئی ۲۰۰۹ء کو قرآن آڈیٹوریم لاہور میں ہونے والے اجلاس میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فرید پراچہ نے مولانا مودودی ؒ کے اقوال کی روشنی میں جماعت کا یہ منہج بیان کیا کہ جماعت، پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے کسی بھی قسم کی مسلح بغاوت یا عسکری طریقہ کار کو درست نہیں سمجھتی۔
  • سوات کے مذہبی عوام کی اکثریت نہ اس وقت حکومت کی حمایت کرتی ہے اور نہ ہی طالبان کے حق میں ہے۔ ہاں صوفی محمد کی تحریک کو سوات کے عوام کی اکثریت کا اعتماد ضرور حاصل ہے۔ سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والے جتنے بھی افراد سے ہماری ملاقات ہوئی ہے، ان سب کا کہنا یہی ہے کہ ہم کسی کی بھی حمایت نہیں کرتے ہیں۔
  • جتنے معروف مذہبی کالم نگار ہیں، مثلاً عرفان صدیقی، ڈاکٹر شاہد مسعود اور حامد میر وغیرہ، سب حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں اور طالبان کے نظریہ اسلام اور طریقہ کار سے بھی بیسیوں اختلافات رکھتے ہیں۔ عرفان صدیقی سوات میں افواج پاکستان کی کامیابی کی دعائیں مانگتے رہے ہیں۔ حامد میر کا کہنا ہے کہ باجوڑ امریکی حملے میں مولوی فضل اللہ کے بھائی شہید ہو گئے تھے اور مولوی فضل اللہ کا جہاد اپنی بھائی کی شہادت کا ردعمل ہے۔
  • ماہنامہ الشریعہ کے مارچ ۲۰۰۹ء اور ماہنامہ محدث کے مئی ۲۰۰۹ء کے اداریوں میں سوات کے طالبان کے منہج کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ پہلا رسالہ معتدل دیوبند ی حلقہ اثر کا نمائندہے جبکہ دوسرا رسالہ متوازن اہل حدیث طبقہ فکر کا رہنما ہے۔ اہل حدیث کی جماعت ’جماعۃ السنۃ پاکستان‘نے بھی اپنے ہفت روزہ اخبار ’حدیبیہ‘ میں طالبان کے منہج کو غلط قرار دیتے ہوئے ان کو ہزاروں افراد کے قتل کا سبب قرار دیا ہے۔
  • بعض اہل حدیث اور دیوبندی علماء کاکہنا یہ ہے کہ سوات میں مزارات کو گرانے، لوگوں سے بھتہ وصول کرنے ، لاشوں کو قبروں سے نکال کر درختوں پر لٹکانے،اغوا برائے تاوان اورذبح کرنے جیسے واقعات وقوع پذیر تو ہوئے ہیں لیکن ایسے کام طالبان کے روپ میں را‘ سی آئی اے اور موساد کے ایجنٹ کر رہے ہیں یاپھر وہ چور اور ڈاکو یہ سب کام کر رہے ہیں جو طالبان کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ۳۱؍ مئی ۲۰۰۹ء کو قرآن آڈیٹوریم لاہور میں ہونے والے ایک اجلاس میں تنظیم اسلامی کے بانی جناب ڈاکٹر اسرار أحمد اور معروف اہل حدیث عالم دین مولانا عبد الرحمن مدنی صاحب نے یہی موقف بیان کیا۔
  • سوات کے بعض مقامی علما بھی طالبان کے منہج کے حق میں نہیں ہیں۔مثلاً سوات’چار باغ‘ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک معتبر دیوبندی عالم دین مولانا مقصود عالم نے طالبان کے منہج پر شدید نقد کیا۔ اسی طرح مولوی فضل اللہ کے استاذ مولانا بلگرامی نے بھی مولوی فضل اللہ کے طریقہ کار پر شدید نکتہ چینی کی جس کے جواب میں مولوی فضل اللہ نے ان کو کہاکہ میں نے شیر کی دم پکڑ رکھی ہے، اگر اسے چھوڑ دوں گا تو وہ مجھے کھا جائے گا۔ اسی طرح مولانا صوفی محمد نے بھی مولوی فضل اللہ کے ہتھیار اٹھانے پر کڑی تنقید کی ہے اور اسے اپنی تحریک سے خارج بھی کر دیاہے۔
  • بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس وقت سوات و گرد و نواح میں جو بھی متشددانہ کارروائیاں ہوئی ہیں، وہ را کے ایجنٹوں اور چور ڈاکوؤں کی نہیں بلکہ’ طالبان تحریک پاکستان‘ ہی کی کاروائیاں ہیں اور ان کاروائیوں کی یہ تحریک ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے، جیسا کہ بی بی سی سے ایک انٹرو یو کے دوران طالبان تحریک کے ترجمان نے لاہور کے حالیہ خود کش حملوں کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والے بعض مذہبی افراد کا نقطہ نظر یہی ہے۔ان حضرات کا کہنا یہ ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ متشددانہ کارروائیاں طالبان کی نہیں ہیں، ان کے اس تجزیے کی بنیاد نہ تو مشاہدہ ہے اور نہ ہی خبر، بلکہ محض ظن و تخمین ہے اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ذاتی ظن و تخمین اور قیاس کے مقابلے میں خبر کو ترجیح ہوتی ہے، چاہے وہ خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔ سوات سے تعلق رکھنے والے ایک ثقہ صاحب نے اپنے ایک عزیز طالب سے نقل کیا ہے کہ ان کے وہ عزیز ’طالب‘ اس وقت مولوی فضل اللہ کی مجلس میں موجود تھے جب انہوں نے اپنے خلاف بولنے والے دیوبندی عالم دین مولانا مقصود عالم کو قتل کرنے کا پروانہ جاری کیا۔ ان عالم دین کو بعد میں شہید بھی کر دیا گیا۔ یہ لوگ کئی ایک مقامی طالبان کمانڈروں کے حوالے سے یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ حکم ہے کہ جو بھی جہاد یعنی ہمارے خلاف بولے، اس کو ذبح کر دو۔ ان لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ یہاں پنجاب میں کئی ایک مذہبی جماعتوں اور خاص طور پریونیورسٹیوں میں مختلف مکاتب فکرسے تعلق رکھنے والے ایسے نوجوان جہادی عناصر موجود ہیں جو طالبان کے فکر سے شدید متاثر ہیں اور وہ ان سب کاروائیوں کودرست قرار دیتے ہیں اور ان کی توجیہات بھی ان کے پاس موجود ہیں اوران نوجوانوں کے نظریات جان کر معلوم ہوتا ہے کہ طالبان تو اپنی انتہا پسندی میں ابھی ان سے بہت پیچھے ہیں۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ طالبان تحریک کی طر ف سے جو بھی سمعی وبصری اور تحریری لٹریچر عام کیا جا رہا ہے، اس کو پڑھ کر بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ طالبان کس قدر متشددانہ اور انتہا پسند افکار کے حامل ہیں۔ ہمیں بھی گمنام ایڈریس سے ایسا لٹریچر گاہے بگاہے موصول ہوتا رہتا ہے۔ ان حضرات کی دلیل یہ بھی ہے کہ کبھی طالبان کی طرف سے اس بات کی تردید موصول نہیں ہوئی کہ ہم نے مزار نہیں گرائے یا ہم بھتہ وصول نہیں کرتے یا ہم لوگوں کو ذبح نہیں کرتے یا اپنے مخالف علما کواپنے خلاف بولنے پر قتل کی دھمکیاں جاری نہیں کرتے، جبکہ بی بی سی پر بھی طالبان کے بیانات مسلسل آ رہے ہیں اور ان کا ایف ایم ریڈیو بھی تاحال کام کر رہا ہے۔ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ بھی ہے کہ اگر یہ بات درست ہے کہ یہ کام مولوی فضل اللہ کی اجازت سے نہیں ہوئے تو پھریہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جو شخص چار ہزار افراد کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اس سے یہ امید رکھنا کہ وہ مالاکنڈ کے پچاس لاکھ عوام کا بوجھ سنبھال سکتا ہے، عبث و بے کار ہے۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ مولوی فضل اللہ کے استاذ مولانا بلگرامی اور مولانا صوفی محمد دونوں حضرات مولوی فضل اللہ کے طریقہ کار سے نہ صرف اختلاف کرتے ہیں بلکہ اس پر کڑی نکتہ چینی بھی کرتے ہیں جیسا کہ مولانا صوفی محمد کے بیانات اس مسئلے میں اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ کئی ایک نوجوان علمائے دین کو طالبان کے خلاف بات کرنے پرقتل کی دھمکیاں جاری کی گئیں اور متعلقہ علاقوں کے لوگ اس کے گواہ ہیں۔دی نیوز میں تحریک شریعت محمدی کے ترجمان مولانا عزت خان کا انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کے بارے میں مزید کوئی بیان دے کر ان سے دشمنی مول نہیں لینا چاہتے۔
  • بعض تجزیہ نگاروں کاکہنا یہ بھی ہے کہ فوج ایسا کرنا چاہے تو اس کے لیے مولوی فضل اللہ کوختم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور سوات کاموجودہ آپریشن سیکورٹی فورسز اور ایجنسیوں کا ڈرامہ ہے۔ فوج نے خود ہی مولوی فضل اللہ کی تحریک کو پروان چڑھایا اور آپریشن کے حالات پیدا کیے۔ اس آپریشن سے فوج نے کئی ایک مقاصد حاصل کیے ہیں۔ پہلا مقصد تو یہ تھا کہ امریکہ کو یہ باور کرایا جائے کہ ہم اپنے علاقوں میں خود ہی آپریشن کر رہے ہیں لہٰذا تمہیں یہاں آنے یا ڈرون حملے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا مقصدیہ تھا کہ اس بہانے امریکہ سے کوئی ایڈاوانس ٹیکنالوجی مثلاً أواکس طیارے وغیرہ حاصل کر لی جائے۔ تیسرا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کی گرتی معیشت کو عالمی امداد کے ذریعے کچھ سہارا مل جائے۔ ان لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ بیت اللہ محسود کی طرح فوج مولوی فضل اللہ کو بھی ایک ہیر وکے طور پر باقی رکھنا چاہتی ہے تاکہ امریکہ سے ملنے والی امداد کا سلسلہ جاری رہے۔ان لوگوں نے یہ بھی نکتہ اٹھایا ہے کہ پلاننگ کے بغیر آپریشن کرنے کے پیچھے یہی مقصد کارفرما تھا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہو تاکہ پاکستان کو ساری دنیا کی ہمدردیاں اور مالی امدادحاصل ہو اور افواج پاکستان کا یہ آپریشن ایک ایسا ہی ڈرامہ ہے جیسا کہ امریکہ نے خود ہی ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کروا کر مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی ایک عالمی تحریک چلانے کا فیصلہ کیاتھا۔
یہ تمام آرا اور تجزیے بیان کرنے سے مقصود صرف یہ ہے کہ علما اور أصحاب علم و فضل معاصرجہاد کے بارے میں کئی نقطہ ہاے نظر کے حامل ہیں۔ جب مذہبی تحریکیں، دیوبندی جماعتیں، مصلحین، مفکرین اور مختلف مکاتب فکر کے علما اتنی ساری آرا رکھتے ہیں تو ایک رائے کا اظہار اگر حافظ زبیر نے بھی کر دیا تو کیا قیامت آگئی ہے کہ اسے راندۂ درگار اور ملحد قرار دے دیا جائے۔ تحریک نفاذ شریعت محمدی کی موافقت کرنے والے علما تو بہت ہیں لیکن پاکستانی طالبان کے منہج اور طریقہ کار سے اتفاق کرنے والے علما نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اور ہمیں صوفی صاحب کی نفاذ شریعت کے لیے تاحال پر امن تحریک اور طریقہ کار سے اتفا ق ہے۔سوات کے طالبان کی موجودہ تحریک سے سراسر فائدہ امریکہ کو پہنچ رہا ہے۔امریکہ بدمعاش نے افغانستان میں لڑنے والے طالبان کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کر دیا ہے۔اس طرح اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔اپنی جان بھی بچائی ہے اور پاکستان کو بھی کمزور کیا ہے۔
(۷) جہاں تک خود کش حملوں کے ’جہاد‘ کامعاملہ ہے تو یہ حملے سیکورٹی فورسز پر بھی ہوتے ہیں اور عام شہریوں پر بھی۔ عام شہریوں پر بھی اس قسم کے حملوں کو بہت سے لوگ’ جہاد‘ کا نام دیتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مروجہ سینما بینی ایک گناہ کبیرہ ہے لیکن گناہ کبیرہ کا مرتکب ’اہل سنت ‘کے نزدیک کافر نہیں ہوتا کہ اس کا خون مباح الدم ہو جائے۔ یہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتب اسلام سے خارج ہو جاتاہے۔پس اہل سنت کے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکب مسلمانوں کاقتل عام ’جہاد‘ نہیں’فساد فی الأرض‘ ہے اورا ہل علم کی رائے میں ایسا قتل عام کرنے والے قرآن کی آیت ’من قتل نفسا بغیر نفس أو فساد فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعاً‘کے مصداق پوری نوع انسانی کے قاتل ہیں اور ’ومن یقتل مؤمنا متعمدا فجزاؤہ جھنم خالدا فیھاوغضب اللہ علیہ و لعنہ و أعدلہ عذابا عظیما‘ کے مصداق ملعون‘ مغضوب علیہ اور جہنمی ہیں۔ پاکستان کے جمیع مکاتب فکر کے علماء میں سے کوئی ایک عالم دین بھی ایسا نہیں ہے جو شہریوں پر اس قسم کے خود کش حملوں کو ’جہاد ‘قرار دیتا ہو۔اسی قسم کے حملے بعض اوقات مساجد اور بعض اوقات پرامن عوامی مقامات(public places) پر ہوتے ہیں کہ جس میں اگر دو چار پولیس یا سیکورٹی فورسز والے مرتے ہیں تو کئی ایک معصوم شہری بھی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ہمارے نزدیک ایسے خودکش حملے جن میں معصوم شہری شہید ہوں ’جہاد‘ نہیں ہیں۔ملا عمر اور شیخ اسامہ بن لادن تک پاکستانی علاقوں میں ایسی کاروائیوں کو جائز قرار نہیں دیتے۔ہمارے ناقد و ممدوح حضرت مولانا فضل محمد صاحب نے بھی اس مسئلے میں ہماری حمایت کی ہے کہ ایسے خود کش حملے درست نہیں ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:
’’ہاں پاکستانی علاقوں میں یا مساجد اور امام باڑوں میں یا پبلک مقامات میں اس طرح خود کش حملوں کو ہم جائز نہیں سمجھتے۔‘‘(ماہنامہ الشریعہ مئی و جون‘ ص ۱۳۷)
ہم مولانا فضل محمدصاحب سے سوال کرتے ہیں کہ یہاں آپ کی دینی حمیت اور غیر ت کو کیا ہو گیاہے؟حا فظ زبیر نے تو ایک علمی رائے کا اظہار کیا تھا اور آپ نے اسے راندہ درگار، ملحد اور ظالم تک قرار دے دیا اور یہاں جہاد کے نام پر معصوم شہریوں کو شہید کیاجا رہا ہے اور آپ اس کو بس’ناجائز‘ کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ کیوں نہیں کہتے کہ ایسے خود کش حملہ آور ’مردار‘ ہیں اور یہ ’جہاد‘ نہیں ’فساد فی الأرض‘ ہے۔ مولانا! یہاں آپ نے یہ فتویٰ کیوں نہ جاری کیا کہ اگر طالبان یہ کام کر رہے ہیں تو وہ طالبان نہیں ’ظالمان‘ ہیں۔حافظ زبیر مسلمانوں کا قتل عام تو نہیں کر رہا، اس نے تو علمی اختلاف کیا تھا۔ یہ تو صریحاً قتل عام ہے۔ مولانا! کم از کم اس فعل کو حرام ہی کہہ دیتے۔ جب ایک خود کش حملہ آور کو معلوم ہے کہ اس کے حملے سے پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کے ساتھ عام شہری بھی شہید ہوں گے تو کیا اب بھی یہ قتل عمد نہیں ہے؟ کیا بیسیوں معصوم شہریوں کے ایسے قاتل پر کوئی شرعی حکم لگانے سے پہلے کا سو بچوں کے قاتل ’جاوید‘ کی طرح نفسیاتی تجزیہ شروع کر دیں گے کہ اس کا یہ قتل عام کن عوامل کا در عمل ہے؟ 
ألمیہ تو یہ ہے کہ اس قسم کے خود کش حملے بھی’ جہاد‘ کے نام سے ہورہے ہیں اور ان خود کش حملہ آوروں کی ویڈیوز،سی ڈیزاور نیٹ پر ویڈیو کلپس(clips) بھی دستیاب ہیں۔ یہ خود کش حملہ آور قرآنی آیات پڑھتے ہوئے خود کش حملے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔یعنی یہ خود کش حملہ آور اپنے ہر ہر حملے کو عین ’جہاد فی سبیل اللہ‘ سمجھتے ہیں لیکن مولانا فضل محمد صاحب فرماتے ہیں کہ ان خود کش حملہ آوروں کے بعض حملے شرعاً جائز نہیں ہیں۔پس معلوم یہ ہوا کہ کسی مجاہد کے صرف سمجھنے سے اس کا ہر فعل ’جہاد‘ نہیں بن جاتا، بلکہ اس کے افعال کا قرآن و سنت کی نصوص کی روشنی میں جائزہ لیا جائے گا اور پھر اس پر ’جہاد‘ کا حکم لگایا جائے گا۔ ہم مولانا سے یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ جب آپ کسی مجاہد کے ہر اقدام کو ’جہاد ‘قرار نہیں دیتے بلکہ مجاہدین کے افعال کی تنقیح کرتے ہیں تو یہی کام جب ہم نے کیا تو آپ نے ہمارے اوپر فتووں کی بوچھاڑ کر دی۔ 
اوپر کی بحث سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی ہے کہ معاصر جہاد کے بارے میں کوئی مجمل رائے دینے کی بجائے خود مجاہدین، اہل علم، علماء و فقہاء اوربندہ ناچیز کے ناقدین مولانا عبد المالک طاہر صاحب اور مولانا فضل محمد صاحب مسئلے کو نکھارتے ہیں اور معاصر مجاہدین کے بعض افعال کو’ جہاد‘ قرار دیتے ہیں اور بعض کو شرعاً ناجائز کہتے ہیں۔ یہ حضرات مجاہدین کی بعض کاروائیوں کے حق میں ہیں اور بعض کے خلاف اور یہی کام جب ہم نے کیا تو مولانا کے معتوب ٹھہرے۔
(۸) مجاہدین کی طرح اہل علم حضرات بھی مختلف جہادی تحریکوں کے حوالے سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔جب اسامہ بن لادن اور بعض دوسرے جہادی فکر رکھنے والے علماء نے سعودی عرب کے شاہوں پر تنقید کرنا شروع کی اور ان کے خلاف خروج کو واجب قرار دیا تو سعودیہ کے کبار اہل علم نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں پر کڑی تنقید کی۔ سعودی علماء کا کہنا یہ تھا کہ شاہی خاندان اور حکمرانوں میں فسق و فجور اور ظلم و زیادتی ہے لیکن ان کے خلاف خروج سے پیدا ہونے والے مفاسد اس سے بڑھ کر ہیں جو ان کی امارت و حکومت کی صورت میں فی الحال موجود ہیں۔ سعودی عرب کے مفتی اعظم اور مجتہد العصر امام بن باز رحمہ اللہ تعالی نے اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں کے ان افکار پر کڑی تنقیدیں کیں۔امام بن باز رحمہ اللہ تعالی شیخ اسامہ بن لادن کو ان کے انتہاء پسندانہ افکار سے رجوع کی دعوت دیتے ہوئے نصیحت فرماتے ہیں:
’’ونصیحتی للمسعری والفقیہ وابن لادن وجمیع من یسلک سبیلھم أن یدعوا ھذا الطریق الوخیم وأن یتقوا اللہ ویحذروا نقمتہ وغضبہ وأن یعودوا إلی رشدھم وأن یتوبوا إلی اللہ مما سلف منھم واللہ سبحانہ وتعالی وعد عبادہ التائبین بقبول توبتھم و الإحسان إلیھم۔‘‘ (مجموع فتاوی و مقالات متنوعۃ: ص ۱۰۰)
’’مسعری‘ فقیہ اور اسامہ بن لادن اور جوشخص بھی ان کے رستے کو اختیار کرے‘ کو میری نصیحت یہ ہے کہ وہ اس گندے رستے کو چھوڑ دیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کے انتقام اور غضب سے بچیں اور رشد و ہدایت کی طرف لوٹ آئیں اور جوکچھ ہو چکا، اس سے اللہ کی جناب میں توبہ کریں کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کے ساتھ احسان کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
ایک اور جگہ شیخ الإمام فرماتے ہیں:
’’أن أسامۃ بن لادن من المفسدین فی الأرض‘ و یتحری طریق الشر الفاسدۃ‘‘۔ (جریدۃ المسلمون والشرق الأوسط‘ ۹ جمادی الأولی ۱۴۱۷ھ)
’’اسامہ بن لادن زمین میں فساد پھیلانے والوں میں سے ہے اور شر و فساد کے برے طریقے پر گامزن ہے۔‘‘
علامہ بن باز مجتہد العصر ہیں۔اور صرف میں انہیں مجتہد نہیں کہتا، عرب و عجم کے علماء ان کو مجتہد مانتے ہیں۔کروڑوں مسلمان ان کے فتاوی پر عمل کرتے ہیں اور ان کے متبع ہیں۔ہمیں امام بن بازؒ کے اس فتوی سے اتفاق ہے یا نہیں؟ہم یہاں یہ بات نہیں کر رہیں۔بحث تو یہ ہو رہی ہے کہ معاصر جہاد کے بارے میں خود مجاہدین بھی اور أصحاب علم و فضل بھی ایک آزادانہ رائے اور سوچ رکھتے ہیں لہذا ایسا معاملہ نہیں ہے کہ دنیا کے جس خطے میں بھی جہاد ہو رہا ہے ‘ علماء اور مجاہدین اندھے بہرے ہو کر اس کی تائید شروع کر دیں‘بلکہ وہ تحقیق کی روشنی میں ہی کسی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔اور یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ان کی رائے درست ہی ہو ‘ ان سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے ۔لیکن اگر کوئی شخص ان کی نیت اور خلوص پر ہی شبہ کرنا شروع کر دے تو یہ بہر حال زیادتی اور کج روی ہے۔أئمہ اہل سنت شیخ بن باز ؒ ‘ شیخ صالح العثیمینؒ ‘ شیخ صالح الفوزان اور علامہ ألبانی ؒ وغیرہ جیسے کبار اور مجتہد علماء کی مروجہ جہاد کے بارے میں علمی رائے سے دلائل کی بنیاد پر علمی اختلاف رکھنے اور بیان کرنے کا حق تو ہر کسی کو حاصل ہے لیکن ان کے اس موقف کی وجہ سے ان أئمہ اہل سنت کو شخصی و ذاتی طعن و تشنیع کا موضوع بنانا ‘ ایک غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکت ہے۔ علاوہ ازیں محدث العصرشیخ ناصر الدین البانی، فقیہ الزمان امام محمد بن صالح العثیمین اور علامہ شیخ صالح الفوزان رحمہم اللہ أجمعین وغیرہ جیسے جلیل القدر علماء کی آراء بھی درج ذیل ویب سائٹ پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں: http://www.asliahlesunnet.com 
(۹) مولانا فضل محمد صاحب سے ہمیں یہ بھی شکایت ہے کہ انہوں نے ’وما کان المؤمنون لینفروا کافۃ فلو لا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین‘ کی آیت کا سہارا لیتے ہوئے اپنے آپ کو اور اپنے مکتبہ فکر کے علماء کو جہاد و قتال سے مستثنیٰ قرار دیا، حالانکہ ’طائفۃ‘ جمع کا صیغہ ہے اور تین سے جمع شروع ہو جاتی ہے۔ پس مولانا کے نقطہ نظر کے مطابق جامعہ بنوری ٹاؤن کے تین اساتذہ کے علاوہ بقیہ پر تو جہاد فرض عین ہو جاتا ہے ۔اس وقت پاکستان میں دیوبند کے تقریباً ساڑھے بارہ ہزار مدارس ہیں کہ جن میں تقریباً ۳۰ لاکھ طالب علم زیر تعلیم ہیں اور ہزاروں اساتذہ پڑھا رہے ہیں۔
مولانا نے سوات کے جہاد کے بارے میں اپنی کسی رائے کا اظہار کرنے سے قصداً گریز کیاہے۔اگر تو وہ اس جہاد کے حق میں ہیں تو انہیں کتمان علم سے کام نہیں لینا چاہیے تھے اور اگر وہ اس کے خلاف ہیں تو انہیں مصلحت کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مولانا سوات کے جہاد کے بارے میں قارئین شریعہ کو شرعی رہنمائی ضرور فراہم کریں گے۔ لیکن یہ شکوہ ہم مولانا ضرور کریں گے کہ جن مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار أحمد کو آپ نے استہزاء و تضحیک کا نشانہ بنایا ہے، آج انہی دو حضرات کی تحریکیں مجاہدین سوات کے خلاف حکومتی آپریشن کی مذمت میں پیش پیش ہیں۔آئے روز ان دونوں تحریکوں کی طرف سے حکومت پاکستان کے آپریشن بند کرنے کے بارے میں مظاہرے ، دھرنے اور سیمینارز ہوتے رہتے ہیں جن کو مولانا نشستن برخاستن سے تعبیر کرتے ہیں۔مولانا! آپ اور آپ کے مکتبہ فکرکے علماءء و طلبہ کو تو اللہ تعالی نے مجاہدین کے حق میں اس قدر نشستن اور برخاستن کی بھی توفیق نہیں دی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اگر دیوبندی مدارس کے ہزاروں علمائے دین اور لاکھوں طلبہ صرف نشستن و برخاستن ہی کر لیا کرتے تو آج سوات اور مالاکنڈ میں فوجی آپریشن کی نوبت نہ آتی۔ہمارے یہ علماء ہمیشہ اس وقت حرکت کرتے ہیں جب پانی سروں سے گزر جاتا ہے۔یہ علماء اگر پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے پر امن احتجاج اور نشستن و برخاستن کا طریقہ کار أپناتے تو آج حالات بہت مختلف ہوتے۔ حضرت مولانا فضل محمد صاحب! ڈاکٹر اسرار أحمد صاحب تو آپ کے بقول صرف نشستن و برخاستن فرما رہے ہیں، لیکن حضرت اگر آپ کو کوئی شخص یہ کہے کہ آپ اور آپ کے حلقہ فکر کے علماء کی مثال تو’زمین جنبد نہ جنبد گل محمد‘ والی ہے تو آپ یقیناًاس پر ناراض ہوں گے۔بندہ ناچیز دوبارہ یہ گزارش کرتا ہے کہ علمائے دیوبند کو وقت کے تقاضوں کو سامنے رکھتے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ایک پرامن آئینی، قانونی اور احتجاجی تحریک کی بنیاد رکھنی چاہیے اور یہی احتجاجی تحریک معاصر جہاد کے حوالے سے ان متشددانہ پالیسیوں اور کاروائیوں کو صحیح منہج اور رخ دے سکتی ہے جن پر یہ علماء حضرات گاہے بگاہے اپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہتے ہیں۔
(۱۰) جہاد کشمیر کے بارے میں ہماری رائے بالکل واضح ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اسی صورت حل ہو گا جب پاکستانی حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کرے گی۔أصحاب علم و فضل کی رائے یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور ایجنسیاں کشمیر میں جہادی تحریکوں کو اپنا آلہ کار بنا کر اپنے مقاصد پورا کرتی ہیں اور جہادی تحریکوں اور مجاہدین کشمیر کے مقاصد سے انہیں کوئی غرض نہیں ہے۔اور یہی رائے’ طالبان تحریک پاکستان‘ کی بھی ہے جو گاہے بگاہے کشمیری جہادی تحریکوں اور ایجنسیوں کے باہمی تعلقات پر شدید نقد کرتے رہتے ہیں۔ پس مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کو اپنی آزادی کے لیے پر امن سیاسی و آئینی جدو جہد جاری رکھنی چاہیے جیسا کہ وہاں تقریباً ۲۶ کشمیری تحریکیں اس جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہم اس پرامن سیاسی جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں اور بھارت کو ایک ظالم اور غاصب ملک سمجھتے ہیں۔ بعض مذہبی رہنماؤں کا کہنا یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے میں حکومت پاکستان کو سیاسی سطح پر انڈیا کی حکومت سے کسی معاہدے کے ذریعے کوئی معاملہ طے کرلینا چاہیے ۔تنظیم اسلامی کے بانی ڈاکٹر اسرار أحمد سالہا سال سے اسی موقف کو بیان کرتے چلے آئے ہیں۔ہمارے نزدیک یہ بھی مسئلے کا ایک حل ہے اور ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کشمیری جہادی تحریکوں کے ذریعے انڈیا کی سیکورٹی فورسرز کو کوئی محدود جانی و مالی نقصان تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اگر اس مسئلے کو بزور بازو ہی حل کرنا ہے تو وہ صرف ریاست پاکستان کے براہ راست جہاد ہی سے ہو سکتا ہے۔اور جب تک پاکستان میں شریعت نافذ نہیں ہوتی اس وقت تک کشمیر کو آزاد کروا کر پاکستان سے اس کے الحاق کے لیے ہونے والے اس جہاد کو اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہونے والا’جہاد فی سبیل اللہ‘ قرار دینا ایک زیادتی اور خلاف واقعہ أمرہے۔کشمیر کا موجودہ جہاد بھی ’جہاد ‘ ہے لیکن جہاد آزادی ہے۔

علماے دیوبند کی خدمت میں دردمندانہ گزارش

پاکستانی حکومت کی تکفیر، ان کے خلاف خروج اور خود کش حملوں کی تحریک اصلاً دیوبندی تحریک ہے۔ ہمارے محترم و معزز دیوبندی علماء حکمرانوں کی تکفیر یا ان کے خلاف خروج کے بارے میں تو کسی مثبت یا منفی فتوی کے اظہار سے خاموش ہیں، جبکہ فروعی مسائل مثلاً طلاق ثلاثہ وغیرہ کے بارے میں باقاعدہ فوٹو کاپی فتووں کے انبار ہر دارالعلوم کے دار الافتاء میں ہر وقت موجود رہتے ہیں۔اس مسئلہ تکفیر اور خروج کی وجہ سے ۲۵ لاکھ افراد بے گھر ہو گئے۔ ہزاروں مسلمان شہید ہوئے اور ہزاروں زخمی ہیں۔ لاکھوں افراد کھانے اور پینے کی بنیادی سہولیات سے محروم ہو گئے۔ مائیں بچوں سے محروم ہوگئیں۔ ہنستے مسکراتے شہر بے آباد ہوگئے۔ معصوم شہریوں کے گھر بار اور أموال تباہ ہو گئے۔ عالم اسلام تو کیا، عالم کفر بھی اس کو دنیا کا ایک عظیم ترین سانحہ قرار دے رہاہے۔کیا اب بھی یہ مسئلہ اس قابل نہیں ہے کہ ہمارے علماء اس کے بارے میں کسی اجتماعی علمی رائے کا اظہار کریں؟ کیا مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ اور تصویر کا مسئلہ سوات و مالاکنڈ کے مسئلے سے زیادہ اہم تھا کہ اس کے بارے میں تو علماء کی طرف سے فتوے بھی آ گئے اور کتابیں بھی لکھی گئیں، لیکن اس قدر عظیم سانحے پر ایسی خاموشی کیوں؟تحریک طالبان کی طرف سے مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے وجوب پر اس قدر لٹریچر، ویڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں جس کا کوئی شمار نہیں ہے اور یہی لٹریچر ہے جو اس وقت مسلمانوں کے مابین باہمی جنگ و جدال کی علمی بنیادہے۔ ’طالبان تحریک پاکستان‘ کا موقف موجودہ حکمرانوں اور سیکورٹی فورسزکے بارے میں بالکل دو ٹوک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حکمران اور سیکورٹی فورسز فلاں فلاں أسباب کی بنیاد پر کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کے خلاف خروج ہر حال میں واجب اور ان کا قتل عام جائز ہے۔
ہماری رائے یہ ہے کہ اگر علمائے دیوبند کو واقعتاً ان دو مسائل میں طالبان سے اتفا ق ہے توا نہیں طالبان کے منہج کی صریحاًتائید کرنی چاہیے اورحکومت کے خلاف خروج کا اجتماعی فتویٰ جاری کرنا چاہیے تاکہ اگردیوبندی نوجوان یہ جہاد کررہا ہے تو علیٰ وجہ البصیرۃ کرے اور یہ کہہ سکے کہ جن کا میں مقلد ہوں وہ سب اس جہاد کے ’جہاد‘ ہونے پر متفق ہیں اور یہ مفتیان کرام دیوبندی عوام کو سیکورٹی فورسزکے خلاف کھڑا کر کے اس ملک کو صحیح معنوں میں’میدان کربلا‘ بنا دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ علمائے دیوبند موجودہ حکمرانوں کے اعمال کو تو کفریہ قرار دیتے ہیں لیکن ان کی تکفیر نہیں کرتے اور ان کے خلاف خروج کو شرعاً یا مصلحتاً جائز نہیں سمجھتے تو اس صورت میں علماء کی خاموشی کوکتمان علم کے سوا کیا نام دیا جائے؟ کیا انہیں یہ خوف لاحق ہے کہ اگر انہوں نے طالبان کے خلاف کوئی اجتماعی فتویٰ جاری کیا تو سوات(چار باغ) کے دیوبندی عالم دین مولانا مقصود عالم کی طرح انہیں بھی بے دردی سے شہید کر دیا جائے گا یا طالبان ان کے دارالعلوموں پر خود کش حملے کریں گے یا ان کے بیوی بچوں کو اغواء کرنے کی دھمکیاں جاری کریں گے؟ 
سوات کی تحریک دیوبندی مجاہدین کی تحریک ہے۔علمائے دیوبند نے دیوبندی نوجوان کی رہنمائی کیوں نہ کی؟یہ ایک بنیادی سوال ہے۔اسلامی بینکاری کی طرح سوات کے خروج اور جہاد کے حق یا مخالفت میں کسی دارلعلوم یا جامعہ سے کوئی کتاب شائع کیوں نہیں ہوئی؟ حکومت پاکستان اور سیکورٹی فورسز اپنی کاروائیوں کو ’راہِ حق‘ اور جہاد کا نام دے رہی ہیں۔ ایک عام فوجی جوان’ طالبان‘ کو باغی سمجھتے ہوئے ان کے خلاف لڑ رہا ہے اور اپنے تئیں شہادت کے مرتبے پر فائز ہو رہا ہے۔ یہی معاملہ طالبان کا بھی ہے۔علمائے دیوبند کو واضح کرنا چاہیے کہ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون باطل ہے؟ کون شہید ہے اور کون مردار ہے؟تاکہ ایک فوجی جوان یا دیوبندی’ طالب ‘کو اطمینان ہو کہ میں جو اپنے مسلمان بھائی کو قتل کر رہا ہو تو اس قتل کے جواز میں میرے پاس فتویٰ موجود ہے۔مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے، ساری قوم تباہی کے دہانے تک پہنچی ہوئی ہے اور علمائے حق خاموش تماشائی بنیں رہیں، یہ ممکن نہیں ہے۔اگر سوات میں فوجی آپریشن کامیاب ہو بھی جائے تو پھر بھی تحریک طالبان کی فدائی اور گوریلا کاروائیاں تو جاری رہیں گی لہٰذا اس فتویٰ کی ضرورت باقی رہتی ہے۔مسلمان حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کا مسئلہ اب نہ ختم ہونے والے مسلح تصادم کے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے کہ جس کی شرعی حیثیت علماء کو واضح کرنی ہو گی۔

مکاتیب

ادارہ

(ا)
محترم قارئین الشریعہ اور اکابر تبلیغ ، 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مفتی محمد عیسیٰ خان صاحب گورمانی کی کتاب ’’کلمۃ الہادی الیٰ سواء السبیل‘‘ پر تقریظ کے نام سے میرا ایک خط چھپا ہے۔ میںیہ وضاحت کر دیناضروری سمجھتا ہوں کہ یہ تقریظ نہیں، بلکہ میرا ذاتی خط ہے جومیں نے مفتی محمدعیسیٰ صاحب کو اس کتاب پر تبصرہ کی خواہش پر تحریرکیا اور محض ازراہ تفنن طبع کچھ جملے مزاح کے شامل کیے گئے۔ خط کے آخر میں مولانا کویہ مشورہ دیا گیا تھا کہ نہ اس خط کو شائع فرمائیں اور نہ ہی کتاب شائع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمارا اپنانقصان ہے۔ صرف ایک شخصیت کی تقریروں کی وجہ سے پوری جماعت کو لپیٹ میں لے لینا ہمارے اکابر کی روایت نہیں۔
مجھے افسوس ہے کہ مفتی صاحب مدظلہ العالی نے میر اذاتی خط عوام کے لیے شائع فرماکر غلطی کی ہے۔ میں تبلیغی جماعت کے اکابر کادل وجان سے احترام کرتا ہوں۔ جماعت کا کام قابل تعریف ہے اور علمائے کرام شاید وہ کام نہیں کر سکے جو تبلیغی جماعت نے گزشتہ ستر سال میں کیا ہے۔ کوتاہیاں کہاں نہیں ہوتیں۔ تبلیغی جماعت کے اصحاب خطا سے پاک نہیں۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو معصوم نہیں سمجھتے، لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ افراد کی کمزوریوں کو پوری جماعت کے نظام کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جائے۔ ’’کلمۃ الہادی‘‘ کے چھپنے سے کوئی دینی خدمت نہیں ہوئی، بلکہ اس سے مخالفین جماعت کو فائدہ پہنچا ہے۔ 
قاضی محمد رویس خان ایوبی 
رئیس مجلس افتاء، آزاد جموں وکشمیر
(۲)
گرامی قدر جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج شریف! 
ماہنامہ الشریعہ کا باقاعدہ قاری ہوں۔ آپ نے آزادانہ علمی بحث کے ذریعے مسائل کو سمجھنے کا بہترین طریقہ اختیار کیا ہے جو قابل قدر ہے۔ بعض حضرات کی بے جا تنقیدسے دل برداشتہ نہ ہوں اوریہ سلسلہ جاری رکھیں۔
تازہ شمارہ (مئی/جون ۲۰۰۹ء) میں مولانا مفتی محمد طیب صاحب صدر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کی گفتگو شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے ’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ یہ درست نہیں ہے، کیوں کہ تمام محدثین اس بات پرمتفق ہیں کہ یہ کوئی حدیث نہیں ہے۔ حتی کہ صحیح، ضعیف اور موضوع سند کے ساتھ بھی اس کا تذکرہ نہیں ملتا۔ ’’ونقل المناوی عن السبکی انہ قال: ولیس بمعروف عندنا ولم اقف لہ علی سند صحیح ولا ضعیف ولا موضوع، واقرہ الشیخ زکریا الانصاری فی تعلیقہ علی’’ تفسیر البیضاوی‘‘۔
امیدہے کہ اس کی تصحیح فرما دیں گے تاکہ غلط فہمی دور ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ حق کو جاننے اور عمل کی توفیق سے نوازے۔ آمین۔ احباب کو سلام۔ 
(مولانا) محمد یاسین ظفر 
پرنسپل جامعہ سلفیہ ، فیصل آباد 
(۳)
مکرمی پروفیسر محمد اکرم ورک صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے کہ مزاج شریف بخیر ہوں گے۔ مارچ ۲۰۰۹ء کے ’الشریعہ‘ میں چھپنے والے آپ کے مضمون ’’حضرت مجدد الف ثانیؒ کا منہج واسلوب‘‘ کی بعض عبارات کی وجہ سے ذہن میں کچھ الجھاؤ کی سی کیفیت پیدا ہونے کی وجہ سے آپ سے مختصر سی بات ہوئی اور بعدمیں مدیر الشریعہ جناب عمار خان ناصر صاحب سے بھی بات ہوئی۔ مدیر صاحب کے حکم پرکچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ امید کرتا ہوں کہ آپ ٹھنڈے دل سے مطالعہ فرما کر نہایت ہی شفقت کے ساتھ جواب سے نوازیں گے۔ 
آپ نے لکھا ہے: 
’’ ہندوستان میں شیخ مجدد ؒ کے سامنے کئی محاذ فوری توجہ کے متقاضی تھے۔ ایک تو یہ کہ نام نہا د صوفیا کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کا قلع قمع کر کے اسلام کو اس کی اصل اور حقیقی شکل وصورت میں پیش کیا جائے۔‘‘ ( الشریعہ، مارچ ۲۰۰۹ء ص ۱۳) 
ہندوستان کی داخلی صورت حال کے تحت آپ نے لکھاہے: ’’داخلی فتنوں میں نام نہاد صوفیا کی تعلیمات اسلامیان ہند کے لیے گمراہی کا سبب بن رہی تھیں۔ کچھ نام نہاد اہل تصوف ہندو فلسفہ کو اسلام کے پیراہن میں پیش کر رہے تھے۔‘‘ (ایضاً ص ۱۱) 
اسی صفحہ پر آپ نے اٹک کے ملا محمد کے وضع کر دہ عقیدہ ذکری اور بایزید المعروف ’’پیر روشن‘‘ مدعی نبوت کے وضع کردہ ’’فرقہ روشنائیہ‘‘ اور سید محمد جونپوری کی تحریک’’ مہدویت‘‘ کو اور احمدنگر کے والی سلطنت برہان نظام شاہ کے شیخ طاہر بن رضی اسماعیلی قزوینی کے زیر اثر آ کر شیعہ مذہب قبول کرلینے اور خلفائے ثلاثہ پر علی الاعلان تبرا کرنے اور کروانے اور کشمیر میں میر شمس الدین عراقی کے شیعیت کو فروغ دینے اور شہنشاہ ہمایوں کے دل میں شیعوں کے لیے نرم گوشہ پیدا ہو جانے کو ’’نام نہاد صوفیاء‘‘ کی پھیلائی ہوئی گمراہی کانتیجہ قرار دیا ہے۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ مذکورہ بالا جملہ نتائج کے حصو ل کے لیے کوشش کرنے والے ’’نام نہاد صوفیاء‘‘ کے ہجوم میں سے بہت زیادہ مشہور صرف پانچ صوفیوں کے نام کیا ہیں؟ ہر نام کے ساتھ اس کے سلسلہ طریقت کا نام اور درگاہ کا نام جس سے وہ ’’نام نہاد صوفی‘‘ منسوب ومشہور ہو، ضرور بتائیں تاکہ ہم جان سکیں کہ سلسلہ نقشبندیہ، سلسلہ قادریہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ اویسیہ کے کس کس نام نہاد صوفی اور سجادہ نشین نے کس کس درگاہ وآستانہ سے مذکورہ بالا نتائج باطلہ کے حصو ل کے لیے اتنا زیادہ کام کیا کہ پورا ہندوستان ہی گمراہی کی اتھا ہ گہرائیوں اور تاریکیوں میں بھٹکتا پھر رہا تھا؟ ہم تو مذکورہ بالا جملہ عیوب اور اہل تصوف میں خلیج کالامتناہی سلسلہ تصور کرتے ہیں۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہماری غلط فہمی کا ازالہ فرماکر احسان عظیم سے نواز یں اور ہمیں بتا دیں کہ حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ نے مکتوبات شریف میں یا اپنی کس کتاب کے کس صفحے پر مذکورہ بالاجملہ عیوب ونتائج باطلہ کو نام نہاد صوفیا سے منسوب کیا ہے؟ 
حکیم الامت حضر ت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں: 
’’اولیائے امت ؒ کا وجود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ رہنے والے معجزات ہیں کہ انہی کی برکت سے لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں، انہی کی بدولت شہروں سے بلائیں دفع کی جاتی ہیں، انہی کی دعاؤں سے حق تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور انہی کے وجود کی برکات سے عذاب دفع کیے جاتے ہیں۔‘‘ ( جمال الاولیاء، ص ۲۳)
کس قدر دکھ کی بات ہے کہ گمراہی پھیلانے والے ’’نام نہاد صوفیاء‘‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے آپ نے چشتی نظامی سلسلہ کے مشہور شیخ شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی کا تذکرہ کیا ہے اور ثبوت کے طو ر پر حضرت ؒ کے ان خطوط کا تذکرہ پروفیسر خلیق احمد نظامی کی کتاب تاریخ مشایخ چشت، ص۴۱۸ کے حوالے سے کیاہے جو انہوں نے اپنے خلیفہ خاص حضرت شیخ نظام الدین اورنگ آبادی کی طرف تحریر فرمائے تھے کہ مجددی خاندان کے صاحبزادوں کی موجودگی کو ملحوظ رکھتے ہوئے سماع وقوالی کی مجالس کے انعقاد میں احتیاط برتی جائے تاکہ مجددی شہزادوں کو گراں نہ گزرے۔ (الشریعہ ، مارچ ص۱۳) احقر نہایت ہی ادب سے عرض کرتا ہے کہ کیا آپ شیخ شاہ کلیم اللہ ؒ کی گمراہ کن سرگرمیوں میں کچھ روشنی ڈالنا پسند فرمائیں گے؟ اگر انہیں تو پھر ایسی تلخ مثال دینے کے لیے صرف اسی بزرگ ہستی کا انتخاب کیوں فرمایا؟
شاہ جیؒ کا اپنے خلیفہ کو احتیاط کا حکم صادر فرمانا تو اضع کے طور پر تھا کہ یہی صوفیا ء کرام کی شان ہے کہ دوسرے سلسلہ کے صوفی کے سامنے طریقت کے اختلافی امور سے اجتناب فرماتے تھے۔ صوفیاء کرام میں مولویانہ تشدد نہیں ہوتاکہ جہاں دیکھا مناظروں کے دنگل جمالیے۔ مکتوبات شریف میں حضرت مجدد الف ثانیؒ نے دوسرے سلاسل کے اختلافی اعمال کی بھی اچھائیاں بیان فرماتے ہوئے سلسلہ نقشبندیہ میں شمولیت کی ترغیب فرمائی ہے۔ اس ضمن میں مکتوبات شریف حصہ چہارم دفتر اول کے مکتوب نمبر ۲۶۰ کا بغور مطالعہ فرمائیں جو آ پ ؒ نے حضرت میاں شیخ محمدصادق ؒ کی طرف تحریر فرمایا تھا۔ آپ ؒ فرماتے ہیں:
’’ اے فرزند ! جان لے کہ جب طریقہ نقشبندیہ میں سیر کی ابتدا قلب سے ہے جو عالم امر سے ہے تو بات کی ابتدا بھی عالم امر سے کی گئی۔ برخلاف مشایخ کرام کے باقی طریقوں کے جو شروع میں تزکیہ نفس کرتے ہیں اور قالب یعنی وجود کو پاک فرماتے ہیں اور بعد ازاں عالم امر میں آتے ہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کومنظورہو، اس میں عروج کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی نہایت ان بزرگوں کی بدایت میں مندرج ہے اوریہ طریق سب طریقوں سے اقرب ہے۔‘‘ 
دیکھیے کس قدر کمال، خوبصورتی اور حکمت کے ساتھ حضرت شیخ مجددؒ نے دوسرے سلاسل میں بھی نورانیت کوتسلیم کرتے ہوئے سلسلہ نقشبندیہ کو اقرب قرار دیا ہے۔ اسی کو صوفیا تواضع کہتے ہیں جس کاعملی ثبوت چشتی نظامی سلسلہ کے مذکورہ بالا بزرگ ؒ نے دیا تھا، لیکن افسوس کہ آپ نے کہاں کی بات کو کہاں لا کر چسپاں کر دیا۔ 
حضرت شیخ مجدد نے مکتوبات شریف میں کچھ مقامات پر علما سے بے شک اختلاف کیاہے، لیکن کسی ایک جگہ بھی کسی نام نہاد صوفی کوتنقیص وتنقید کانشانہ نہیں بنایا، کیوں کہ طریقت کے چاروں سلاسل کی خلافت سے فیض یاب صوفیاء عوام کے قلوب پر حکمرانی کرتے ہیں۔ آپ نے پورے مضمون میں کسی ایک مقام پر بھی صوفیاء کرامؒ کی خدمات اسلام کا تذکرہ نہیں کیا بلکہ نام نہاد صوفیا کہہ کر تصوف کی تردید ہی کی ہے۔
آپ کو بخوبی معلوم ہو گاکہ نقشبندیوں اور چشتیوں کے مابین سماع اور اس کی جزئیات مثلاً مزامیر اور رقص اور ذکر بالجہر وغیرہ پر اختلاف پایا جا تاہے۔ مجددی صاحبزادوں کے جذبات کااحترام کرتے ہوئے چشتی صوفی بزرگ شیخ کلیم اللہ ؒ جہاں آبادی نے اپنے خلیفہ صاحب کو نقشبندیوں اور چشتیوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دینے والے امور کے متعلق احتیاط برتنے کا حکم صادر فرمایا تھا، نہ کہ ان امور سے منع کیا یا انہیں غلط قرار دیا۔ مزامیر کے ساتھ سماع چشتیوں میں ہنوز جاری ہے، لیکن صوفیاء کرام اب بھی ایک دوسرے کے جذبات کااحترام کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ 
آپ نے لکھا ہے کہ:
’’ شیخ مجدد الف ثانی ؒ نے اپنے مکتوبات میں بدعت حسنہ کے تصور کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس طرز فکر کو دین کی بنیادیں منہدم کرنے کے مساوی قرار دیا۔‘‘ ( الشریعہ ص ،۱۳)
شیخ مجدد ؒ نے مکتوبات شریف میں بدعات حسنہ کو دین کی بنیادیں منہدم کرنے کے مساوی کس جگہ قرار دیا ہے؟ لغوی اعتبار سے بدعت ہر اس نئی چیز یاعمل یا عقیدہ کو کہا جاتا ہے جس کاوجود پہلے سے ثابت نہ ہو۔ مثلاً کلام الٰہی کے تیس پارے بنائے گئے۔ ہر پارہ میں رکوع قائم کیے گئے، قرآن کریم پر اعراب لگائے گئے، بلاک بنا کر چھاپنے اور جلد بندی کا کام شروع ہوا۔ حدیث شریف کو کتابی شکل دے کر احادیث کے مختلف مجموعہ جات کو مختلف نام دینا، احادیث کی اسناد بیان کرنا اور راویوں پر جرح کر کے ان کی قسمیں اور درجات یعنی صحیح وحسن وضعیف و معضل ومرفوع وغیرہ بنانا، غرض علم حدیث کامکمل فن اورفقہ کے اصول اور علم کلام اوران کے تمام قاعدے ضابطے اور نماز کے لیے زبان سے بول کر نیت کرنا اور رمضان شریف میں بیس تراویح ادا کرنا، ایمان مجمل اور ایمان مفصل یاد کرنا اور کروانا، حج کے لیے اونٹوں کی بجائے بحری وہوائی جہازوں اور کاروں وبسوں پر بیٹھ کرسفر کرنا اور طریقت کے جملہ سلاسل ومشاغل اور مسائل، مراقبے، چلہ کشی وپاس انفاس اور تصور شیخ اور شریعت کے چار وں سلسلے حنفی، شافعی ،مالکی اور حنبلی اورسلاسل طریقت قادری وچشتی وسہروردی اورنقشبندی اور دینی مدارس اورطریقہ حفظ قرآن اور اولیا کے عرس کا اہتمام کرنا، ختم بخاری ودستار بندی اور مساجد میں با تنخواہ امام وموذن مقرر کرنا، مساجد کے گنبد ومینار اوررائے ونڈ اورشیرشاہ بائی پاس ملتان میں بڑے بڑے تبلیغی اجتماعات کرنا، آٹھ سالہ دورہ حدیث، درس نظامی اوراس کا تمام لٹریچر اور کتب نحو وصرف اور اسناد کا اجرا وغیرہ، ان تمام کاموں کو بدعات حسنہ کہا جاتا ہے۔ 
جب آ پ سے فون پر بات ہوئی تو آ پ نے فرمایا تھا کہ حضرت مجددؒ بدعت حسنہ کو نہیں مانتے تھے۔ مہربانی فرما کر حضرت مجدد ؒ کی ان تحریرات وملفوظات ومکتوبات کے مکمل حوالے بتا دیجیے جہاں شیخ مجددؒ نے مذکورہ بالا جملہ امور کا رد لکھا ہو، جیسا کہ حضرت ؒ نے زبان سے بول کر نماز کی نیت کرنے اور کفن میں پگڑی کے اضافے اور دستار کے شملے کو دائیں جانب چھوڑنے اور تشہد میں انگلی کھڑی کرنے پر کلام فرمایا ہے۔ کیا امام ربانیؒ نے طریقت کے چار سلاسل قائم کرنے اور تصور شیخ اورفقہ کے چاروں سلاسل اور کتب احادیث کی تدوین و درجہ بندی اور مندرجہ بالا دیگر بدعات حسنہ کا انکار کیا ہے؟ اگر نہیں اور واقعی نہیں تو پھر آپ کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ حضرت مجدد ؒ بدعت حسنہ کو نہیں مانتے بلکہ اسے دین کی بنیادیں منہدم کر دینے کے مساوی قرار دیتے ہیں؟ 
ہو سکتا ہے جواباً آپ حضرت مجددؒ کی یہ عبارت پیش کریں:
’’کہنے والوں نے کہا ہے کہ بدعت دوقسم ہے، حسنہ اور سیۂ۔ حسنہ اس نیک عمل کانام رکھتے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے خلفاء راشدینؓ کے زمانہ کے بعد پیداہوئی ہو اور کسی سنت کو اٹھانے اور دور کرنے والی نہ ہو۔ اورسیۂ اس کو کہتے ہیں جوسنت کو مٹانے اور دور کرنے والی ہو۔ یہ فقیر ان بدعتوں میں سے کسی بدعت کے اندر حسن ونورانیت کا مشاہدہ نہیں کرتا اور ظلمت وکدورت کے سوا کسی شے کا احساس نہیں ہوتا۔‘‘ (مکتوبات شریف حصہ سوم، دفتر اول، مکتوب نمبر ۱۸۶) 
سوچنے کی بات ہے کہ حضرت شیخ مجددؒ ایک طرف تو بدعت کی کسی قسم میں بھی نورانیت وحسن نہیں پاتے، جب کہ دوسری طرف شریعت وطریقت کے جملہ سلاسل کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ بذات خود سلسلہ نقشبندیہ سے نہ صرف منسلک ہیں بلکہ مکتوبات شریف میں جابجا اس میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں اورتصور شیخ کومرید کے لیے ذکر الٰہی سے بھی بڑھ کر نافع قرار دیتے ہیں۔ (مکتوبات، حصہ سوم، دفتر اول، مکتوب ۱۸۷) حالانکہ یہ کام نہ تو آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اورنہ ہی صحابہؓ سے اورنہ ہی تابعین سے ثابت ہیں۔ تو پھر کیا خاکم بدہن حضرت شیخؒ کے قول وفعل میں تضاد تھا؟ ہر گز، نہیں بلکہ جسے علماء اسلام بدعت حسنہ قرار دیتے ہیں، اسے حضرت ؒ سرے سے بدعت ہی تسلیم نہیں کرتے بلکہ اسے سنت سے ثابت سمجھتے ہیں۔ باقی رہ گئی بدعت ضلالہ تو س میں حسن ونورانیت کہاں سے آسکتی ہے؟ کیوں کہ بدعت اسی کو کہتے ہیں جو پہلے سے ثابت نہ ہو۔ 
آپ نے جویہ لکھا ہے، آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے کہ ’’بدعت حسنہ کے نام پر ہر طرف بدعات ضلالۃ کاسیلاب بہہ رہا تھا‘‘( الشریعہ، ص ۱۱) ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ حضرت مجددؒ نے بدعت حسنہ کی مخالفت نہیں کی بلکہ بدعت حسنہ کا مقدس نام لے کر پیش کی جانے والی بدعات ضلالہ سے بیزاری کا اظہار فرمایا تھا۔ اندریں حالات حضرت مجددؒ نے بدعت حسنہ کی اصطلاح سے اجتناب فرمایا اور علماء اسلام کے موقف کو تقویت دینے کے لیے بدعت حسنہ کو سنت قرار دیا۔ 
ملا طاہر لاہوری کے نام مکتوب شریف میں حضرت مجدد ؒ نے برملا فرمایا ہے کہ:
’’سنت اور بدعت دونوں پورے طو ر پر ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک کا وجود دوسرے کے نقص ونفی کو مستلزم ہے، پس ایک کو زندہ کرنا دوسرے کو مارنے کو مستلزم ہے۔ یعنی سنت کو زندہ کرنا بدعت کے مارنے کا موجب ہے اوربالعکس۔ پس بدعت خواہ اس کو حسنہ کہیں یا سیۂ، رفع سنت کو مستلزم ہے۔ ‘‘( مکتوبات، حصہ چہارم، دفتر اول، مکتوب ۲۵۵) 
غور فرمائیں کہ مجددؒ نے کس قدر وضاحت کے ساتھ بتادیا ہے کہ ان کے نزدیک بدعت صرف اور صرف وہی ہے جو سنت کی ضد ہو نہ کہ سنت کے تحت یا اس کے مطابق۔ حضرت مجددؒ اسے بدعت تسلیم ہی نہیں کرتے جس کا اشارہ تک بھی سنت میں ملتا ہو۔ یعنی علمائے اہل سنت بدعت حسنہ اسے کہتے ہیں جس کی اصل سنت میں موجود ہو، گو اشارۃً ہی ہو۔ اس کی بہترین مثال حضرت فاروق اعظمؓ کا وہ قول ہے جو انہوں نے تراویح کی باقاعدہ جماعت کے اجرا پر فرمایا تھا کہ ’’ نعمت البدعۃ ہذہ‘‘ تو بڑی اچھی بدعت ہے۔ تراویح کی جماعت کی اصل سنت نبوی میں ہونے کے باوجود حضرت فاروق اعظمؓ نے اس پر لفظ بدعت کا اطلاق فرمایا۔ امیرالمومنینؓ کی اتباع میں ہم اہل سنت اس کے مماثل امور کو بدعت حسنہ کہتے ہیں، لیکن حضرت مجدد ؒ اس کے لیے سنت کا لفظ زیادہ موزوں قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ سے کہ حضرت مجددؒ نے قیاس اور اجتہاد فقہی کو بدعت حسنہ کہنے کی سخت مخالفت فرمائی۔ (دیکھیے مکتوبات، حصہ سوم، دفتر اول، مکتوب ۱۸۶) یعنی آپ اسے بھی سنت میں داخل سمجھتے ہیں کیوں کہ قیاس اور اجتہاد کی بھی کچھ نہ کچھ اصل صدر اول میں ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذا حضرت مجددؒ اسے سنت ہی قرار دیتے ہیں۔ اس طرح مجددصاحب ؒ اور اسلاف اہل سنت کی بات میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں ہے۔
حضرت مولانا سعید احمد نقشبندیؒ نے اس مکتوب کے حاشیہ میں علامہ محمد مراد مکی محشی کی اسی مکتوب کے تحت حاشیہ میں لکھی گئی عبارت پیش کی ہے کہ:
’’اور اس بارے میں آپ ؒ کا قول علماء اسلاف ؒ کے اس قول کے مخالف نہیں کہ بدعت کی دوقسمیں ہیں، حسنہ وسیۂ۔ و ہ بدعت حسنہ سے ایسی شے مراد لیتے ہیں جس کی صدراول میں اصل موجود ہو، اگر چہ اشارۃً ہی ہو جیسے مسجدوں کے مناروں، مدارس اور مسافرخانوں کی تعمیر اور کتابوں کی تدوین اور دلائل کی ترتیب اوراسی طرح کی اور چیزیں۔ اور بدعت سیۂ سے ایسی چیز مراد لیتے ہیں جس کی صدر اول میں بالکل اصل موجود نہ ہو۔ تو امام ربانی ؒ قسم اول پر بدعت کے نام کا اطلاق نہیں کرتے، کیوں کہ اس کی اصل صدر اول میں موجود ہوتی ہے، لہٰذا وہ چیز بدعت اور محدث نہیں۔ بلکہ آپ بدعت صرف قسم ثانی کو قرار دیتے ہیں کیوں کہ وہی درحقیقت بدعت اور محدث ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔ تو علماے اسلاف اور حضرت شیخ مجددؒ کے درمیان نزاع لفظی ہے کہ قسم اول پر بدعت کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ حضرت شیخ محمد مظہر دہلویؒ مقاماتِ سعیدیہ میں فرماتے ہیں ’’ بدعت حسنہ امام ربانی ؒ کے نزدیک سنت میں داخل ہے اور آپ بموجب حدیث ’’کل بدعۃ ضلالۃ‘‘ اس پر بدعت کا اطلاق نہیں فرماتے۔ اس بارے میں آپ ؒ اوردوسرے علماء کرام کے درمیان، جو بدعت حسنہ کے قائل ہیں، نزاع لفظی ہے۔ توہر بدعت جو مخالف سنت نہ ہو، علماء کے نزدیک وہی بدعت حسنہ ہے اورامام ربانی کے نزدیک وہ سنت میں داخل ہے۔ شاہ عبدالغنی ؒ انجاح الحاجۃ حاشیہ ابن ماجہ میں حدیث ’’من احدث فی امرنا ہذا مالیس منہ ‘‘ کے تحت فرماتے ہیں: ’’یعنی وہ چیز جودین کے وسائل میں نہ ہو کیوں کہ شے کا وسیلہ اورذریعہ اس میں داخل ہوتا ہے، اسی لیے شیخ مجددؒ کے نزدیک و ہ علوم جود ین کے وسائل ہیں جیسے صرف ونحو سنت میں داخل ہیں اور آپ اس پر بدعت کا اطلاق نہیں کرتے، کیوں کہ امام ربانیؒ کے نزدیک بدعت میں کوئی حسن اور خوبی نہیں‘‘۔ 
حضرت مولانا محمدسعید احمد نقشبندی مزید فرماتے ہیں: 
’’نیز معمولات اہل سنت کے مطابق امام ربانیؒ اپنے پیر ومرشد کی مجلس عرس شریف میں شریک ہوتے تھے۔ حضرات القدس ۲/۲۹پر ہے کہ آپ بتقریب عرس حضرت خواجہ ؒ دہلی تشریف لائے۔ آپ خود اپنے مکتوبات شریف کے دفتر اول، جلد دوم، حصہ چہارم، مکتوب ۲۳۳ میں فرماتے ہیں کہ: ’’در ایام عرس حضرت خواجہ جیو قدس سرہ بحضرت دہلی رسیدہ بخاطر داشت کہ درملازمت علیہ نیز برسد۔ دریں اثنا خبر کوچ منتشر گشت بضرورت توقف نمودہ۔‘‘ حضرت خواجہ جیو ؒ کے عرس مبارک کے ایام میں فقیر دہلی آیا اور ارادہ تھا کہ حضرت (شیخ فرید) کی خدمت عالی میں بھی حاضر ہو۔ آنے کی تیار ی میں تھاکہ آپ کے تشریف لے جانے کی خبر مشہور ہوگئی تو ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ فوت شدگان کی فاتحہ دلاتے تھے اور ایصال ثواب کرتے تھے۔ مکتوبات شریف میں آپ کے اس عمل کی تصریح موجود ہے۔ مزارات بزرگان پر تشریف لے جاتے تھے اورقبر پر پڑے ہوئے اچھاڑ کو تبرک جانتے اور عقید ت کے ساتھ قبول کرتے تھے۔‘‘ (حضرات القدس ۲/۷۹) 
مندرجہ بالا تحقیق سے خوب ثابت ہے کہ حضرت مجدد ؒ بدعت حسنہ کوسنت میں داخل سمجھتے تھے۔ حضرت شیخؒ بدعت کا اطلاق عقائد باطلہ پر کرتے تھے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: 
’’بدعتی گروہ جنہوں نے مختلف بدعات اختیار کی ہیں اور اہل سنت سے جدا ہوئے ہیں۔ ان تمام گروہوں کے درمیان فرقہ خوارج وروافض درست معاملہ اور حق سے دور جا پڑے ہیں۔ وہ گروہ جو اکابر دین کو گالیاں دینا اور طعن کرنا ایمان کا جزو اعظم تصورکرتا ہو، ایمان سے کیا حصہ رکھے گا۔ روافض کے بارہ فرقے ہیں اور سب کے سب اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تکفیر کرتے اور خلفاء راشدینؓ کو گالی دینا عبادت جانتے ہیں۔‘‘ ( مکتوبات، دفتر دوم، حصہ اول، مکتوب ۳۶) 
اس عبارت سے خوب ثابت ہے کہ حضرت امام ربانیؒ نئے عقائد کو بدعت سمجھتے تھے جیسا کہ آپ ؒ نے خوارج وروافض کو بدعتی گروہ اور ان کے عقائد تقیہ وتبرا بازی وغیرہ کو بدعات قرار دیا ہے، جب کہ عقائد اہل سنت اور اہل تصوف کے مشاغل ومراقبے اور چلے اور عرس اور حضرات صوفیاء کرام کو کبھی بھی تنقید وتنقیص کانشانہ نہیں بنایا۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ آپ نے توحضرت مجددؒ کو اولیاء ہند ؒ کے مقابل لاکر کھڑا کر دیا اور آپ کی ذات مقدسہ سے وہ کچھ منسوب کر ڈالا جو حضرت مجددؒ کے خواب وخیال میں بھی نہ تھا۔ بہرحال آپ کے کہنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ حضرت مجددؒ کے ہم عصر صوفیاء کرام سے لے کر آج تک کے قادری، چشتی، سہروردی اور نقشبندی سلاسل کے جملہ صوفیاء کرام حضرت شیخ احمد سرہندیؒ سے وابستگی کو باعث فخر وبرکت سمجھتے ہیں۔ الحمدللہ۔ 
محمد یاسین عابد 
علی پور چٹھہ
(۴)
جناب گرامی قدر مولانا عمار خان ناصر زیدت معالیکم 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
خدا کرے آنجناب معہ دیگر احباب بخیریت ہوں۔ مئی /جون ۲۰۰۹ء کا شمارہ ایک مولوی صاحب نے دکھلایا کہ دیکھیں شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدرؒ کے پوتے کیسے گمراہ ہوگئے ہیں۔ جب میں نے شمار ہ دیکھا تو مجھے آنجناب سے عقیدت پیدا ہو گئی اور اسی شمارے سے اتنا متاثر ہوا کہ ایک پکا بریلوی عقائد کا ایڈووکیٹ اور معروف غیر مقلد مولوی صاحب اور ایک محقق شیعہ نوجوان عالم (جو تینوں میرے دوست ہیں) الشریعہ کے سالانہ خریدار بنا ڈالے اور وہ بھی متاثرہو کر خریدار بنے ہیں، بلکہ الشریعہ کاحضرت شیخ الحدیثؒ نمبر بھی انہوں نے خریدا ہے۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ سے راقم الحروف ناکارہ کو طویل عرصہ سے عقیدت تھی۔ حضرت کے چند مکتوبات گرامی جو اس ناکارہ کے نام ہیں، ان کی فوٹو کاپی ارسال خدمت ہے۔ حضرت مولانا عبدالحق خان بشیر دامت برکاتہم سے بھی عقیدت وتعلق ہے۔ حضرت نے اپنی جملہ مطبوعات ہدیۃً عنایت فرمائی ہیں، خط وکتابت بھی ہوتی ہے، حتیٰ کہ میری بیماری پر حضرت میری عیادت کو راقم اثیم کے غریب خانہ پر بنفس نفیس تشریف بھی لائے تھے۔ الشریعہ میں ان کامضمون دیکھا اور آنجناب کا مضمون بھی بڑے شوق سے پڑھا۔ آنجناب کے موقف پر بڑی خوشی ہوئی۔ راقم آثم حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتیؒ کی طرح اہل تشیع کے کفر کاقائل نہیں ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ سے خود اس ناکارہ نے یہ مسئلہ دریافت کیا تو مولانا تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ شیعوں کو کافر نہیں کہتا، زیادہ سے زیادہ بدعتی کہتا ہوں۔ 
اگر چہ بعض کتب شیعہ میں تحریف قرآن کی روایات پائی جاتی ہیں، لیکن شیعہ عقائد کی کتابوں میں وہ تحریف قرآن کے قائل نہیں، جیسا کہ قرآن مجید کی متعدد تفاسیر شیعہ علماء نے لکھی ہیں۔ تحریف قرآن کی لچر اور بے ہودہ روایات تو بعض کتب اہل سنت میں بھی موجود ہیں اوراہل سنت کی عقائد کی کتابوں میں شیعوں کو اسلامی فرقہ شمار کیا گیا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ پر خود بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے، وہ کیسے دوسروں کو کافر کہہ سکتے ہیں۔ میری اس عبارت کا مطلب یہاں دفاع تشیع نہیں ہے۔ ضمناً یہ بات اس عریضہ میں آ گئی ہے۔ 
آنجناب نے مفتی عبدالغفار ارکانی صاحب کی جس کتاب کا تذکرہ فرمایا ہے، وہ کہاں سے دستیاب ہے؟ ہمارے ہاں مصیبت یہ ہے کہ ہمارے پرانے علماء کرام اسی پرانی تحقیق اور روش پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں اور اسے ہی حرف آخر سمجھ رہے ہیں۔ اگر وہ حضرات باہر کی دنیا میں جھانک کر ملاحظہ فرمائیں اور کنویں کے مینڈک نہ بنیں اور روشن خیالی اور گمراہی تصور نہ فرمائیں تو شاید اس امت کے حالات درست ہو سکیں۔ آنجناب جیسے علمی خانوادہ سے تعلق رکھنے والے علماے کرام بھی اس خول سے باہر آنا چاہتے ہیں تو آنجناب پر گمراہی کے فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ نہایت افسوس ناک امر ہے۔ تاہم دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آنجناب کو درازی عمر عطا فرماتے ہوئے دین مبین کی مزید خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ 
سید مہر حسین بخاری 
بیت التوحید، کامرہ کلاں، ضلع اٹک

’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘

ادارہ

(۱۷ اگست ۲۰۰۹ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ’’دینی مدارس کا نظام بین الاقوامی تناظر میں‘‘ کے زیر عنوان ایک فکری نشست منعقد ہوئی جس میں اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ممتاز احمد اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ کے استاد ڈاکٹر افتخار اقبال نے گفتگو کی، جبکہ الشریعہ اکادمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد عمار خان ناصر نے نقابت کے فرائض انجام دیے۔ اس تقریب کی روداد افادۂ عام کے لیے یہاں شائع کی جا رہی ہے۔)

محمد عمار خان ناصر 

دینی مدارس کا نظام اور ان کا سماجی کردار، یہ اس وقت ہر سطح پر، ملکی سطح پر اور بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ زیر بحث آنے والا موضوع ہے۔ تعلیم کے دائرہ میں، سیاست کے دائرے میں ہے اور بین الاقوامی سطح پر تہذیب وثقافت کی جو ایک کشمکش ہے، اس دائرے میں بھی ان مدارس کے نصاب ونظام کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے ہم مختلف عنوانات پر وقتاً فوقتاً کئی پروگرام منعقد کر چکے ہیں جن میں دینی مدارس کے نصاب ونظام اور ان کے معاشرتی کردار کے مختلف پہلو زیر بحث آتے رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے خاص طور پر تدریس حدیث کے منہج اور اس میں کن کن پہلوؤں سے بہتری پیدا کرنے کی گنجائش ہے، اس عنوان پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بھی مختلف موضوعات پر نشستیں منعقد ہوتی رہی ہیں۔ کافی عرصے سے ہماری خواہش تھی کہ دینی مدارس کے کردار کا وہ تناظر بھی سامنے لایا جائے جوبین الاقوامی سطح پر زیر بحث آتا ہے اور جو بین الاقوامی سطح پر پالیسی سازوں اور مفکرین کی دلچسپی کا موضوع ہے۔ ظاہر ہے کہ نصاب کے جو فنی اور تعلیمی پہلو ہیں، وہ بین الاقوامی سطح پر اس طرح دلچسپی کا موضوع نہیں ہیں، لیکن دینی مدارس کا ایک سماجی کردار ہے، معاشرے کی اسلامی تشکیل میں ان کا ایک کردار ہے جو سیاسی لحاظ سے بھی، تہذیبی لحاظ سے بھی اور عالم اسلام اور مغرب کے مابین فکری کشمکش کے لحاظ سے بھی بین الاقوامی سطح پر بحث ومباحثہ کاموضوع ہے۔ یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آنا چاہیے کہ مغرب کے لوگ جو اپنے زاویے سے اس پورے سسٹم کو دیکھتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرتے ہیں، ان کا کیا نقطہ نظر ہے؟ ان کے تحفظات کیا ہیں؟ ان کی طرف سے تبدیلی، بہتری او ر اصلاح کا جو مطالبہ کیا جاتا ہے، اس کا پس منظر کیا ہوتا ہے؟ 
ہمارے نہایت محترم بزرگ ڈاکٹر ممتا زاحمد صاحب گزشتہ کم وبیش پینتیس سال سے اس موضوع پر اور خاص طو ر پر پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے دینی مدارس کے کردار کے حوالے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ کافی عرصہ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیں۔ ہیمپٹن یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں استاد ہیں اور آج کل بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ایک ذیلی ادارے ’’اقبال انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ ‘‘ کے ڈائریکٹر کے طو رپر فرائض انجام دے رہے ہیں۔ دینی مدارس کے نصاب ونظام اوراس کے مختلف پہلوؤں پر ان کے تحریری مقالات، مونو گراف بھی چھپ چکے ہیں۔ کافی سالوں سے ہمارا ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب سے رابطہ بھی ہے اور ہماری یہ خواہش اورکوشش رہی کہ کسی موقع پر ان کو زحمت دی جائے کہ وہ تشریف لائیں اور ان کے مشاہدات اور مطالعہ وتجزیہ سے ہم مستفید ہوں۔ میں ڈاکٹر صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنا قیمتی وقت میں عنایت کیا۔ ان کے ساتھ بنگلہ دیش سے ہمارے معزز مہمان ڈاکٹر افتخار اقبال صاحب بھی تشریف لائے ہیں۔ انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی میں انہوں نے ۲۰۰۵ء میں پی ایچ ڈی کی ہے اور ڈھاکہ یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ میں تدریس کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تحقیق کا خاص موضوع بھی یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں مدارس کانظام کیا ہے اور وہ قومی حوالے سے کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر ممتازا حمد صاحب کی عنایت سے ہمیں ان کو بھی یہاں زحمت دینے کا موقع ملا۔ میں ڈاکٹر صاحب کا، ان کے ادارے کا اور ان کے رفقا جناب عمر قذافی صاحب اور جناب محمد اسماعیل صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ان کی توجہ اور تعاون سے آج کی اس نشست کا انعقاد ممکن ہوا۔ 

ڈاکٹر ممتاز احمد 

سب سے پہلے میں عزیز محترم عمار کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے کچھ ٹوٹے پھوٹے خیالات آپ کے سامنے پیش کر سکیں۔ ایک مد ت سے میری خواہش تھی کہ میں ’’ الشریعہ اکادمی ‘‘ میں حاضر ہوں۔ میں ان کے والد معظم مولانا زاہد الراشدی کے مداحوں میں سے ہوں۔ صرف ایک باراسلام آباد میں میری ان سے ملاقات ہوئی، لیکن ایک ہی ملاقات میں انہوں نے میرا دل موہ لیا اور اس کے بعد ان کی تحریروں کودیکھ کر ایک طرح سے میرے دل میں ان کے لیے محبت پیدا ہوتی گئی۔ میں سمجھتاہوں کہ اس وقت پاکستان کی دینی صحافت میں جس قدر خوبصورت نثر لکھنے والے یہ دونوں باپ بیٹا ہیں، میرے نزدیک بہت کم اس پایے کی نثر دینی صحافت میں لکھی جا رہی ہے بلکہ ادبی صحافت میں بھی اس کی مثال کم ملتی ہے۔ 
دوسری چیز مجھے جو ’’الشریعہ اکادمی‘‘ اور اس کے لکھنے پڑھنے والے لوگوں میں نظر آئی اور جو پاکستان کے کسی بھی دینی حلقے اور کسی بھی مدرسے میں مجھے دیکھنے میں نظر نہیں آئی، وہ ہے اختلاف رائے کو رواداری کے ساتھ قبول کرنا، دوسرے کی رائے کو احترام کے ساتھ سننا، اگر اس سے اتفاق نہ ہو تو نہایت ہی احترام کے ساتھ اس سے اختلاف کا اظہار کرنا۔ یہ ایک ایسی خوشگوار اور ایسی حیرت انگیز روایت اس ادارے نے قائم کی ہے کہ آپ کو پورے پاکستان میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ آپ پورے پاکستان کے مدارس کودیکھ لیں۔ پورے پاکستان کے علمی خانوادوں کو دیکھ لیں۔ آپ کو یہ روایت نہیں ملے گی کہ باپ اور بیٹا ایک دوسرے کے ساتھ دینی اور علمی مسائل پر برسر بحث ہیں، ایک دوسرے سے اختلاف کا اظہار کر رہے ہیں اور محبت اور احترام کا رشتہ پھر بھی قائم ہے۔ کیا آپ کسی عام مدرسے میں اس کا تصور کر سکتے ہیں؟ میرے نزدیک ناممکن ہے اور یہ اتنی خوشگوار اور حیرت انگیز چیز ہے کہ اس کی جتنی بھی قدر کی جائے، وہ کم ہے۔ اس وجہ سے کہ ہمارے ہاں لوگ اختلاف رائے کی بنیاد پر نہ صرف ذاتی دشمنیاں بنا لیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے پر بھی تیار ہو جاتے ہیں اور یہاں صورت یہ ہے کہ ایک ہی گھر میں باپ اور بیٹا ایک دوسرے کے ساتھ علمی اور دینی مسائل پر بحث ومباحثہ کر رہے ہیں، لیکن ایک دوسرے کے لیے احترام اور محبت کا اور باپ بیٹے کا رشتہ وہی ہے جو روایتی طور پر ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں اس کی کوئی اور روایت نہیں ملے گی۔ 
تیسری چیز جو اس ادارے میں، میں نے دیکھی، وہ یہ کہ علمی مسائل پر از سر نو بحث کرنے اور گفتگو کرنے سے ڈر اور خوف نہیں ہے۔ ہمارے ہاں کچھ مسائل کو چیک ؟؟ بنا لیا گیا ہے اور کچھ مسائل کو ہم نے قالینوں کے نیچے دبا کر رکھا ہوا ہے کہ اس کا تو نام بھی نہ لو۔ الشریعہ وہ پرچہ ہے جس میں دین کے اکثر علمی اور مذہبی مسائل پر کھل کر بحث ہوتی ہے اور لوگوں کو اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کے مواقع دیے جاتے ہیں۔ الشریعہ وہ پرچہ ہے جس میں الشریعہ میں لکھنے والوں کے خلاف، ان کی اپنے رائے کے خلاف لوگوں کی چیزیں چھپتی ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ ہماری دینی روایت کا بہت ہی قیمتی اثاثہ ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مزید استحکام اور ترقی بخشے اور مولانا زاہدالراشدی اوران کے بیٹے عمار کی کوششوں میں برکت دے اور اس روایت کو باقی جگہوں پر بھی پھیلانے میں اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال ہو۔ 
میں عمار کا بہت شکریہ ادا کرتاہوں کہ انھوں نے ہمیں دعوت دی، یہ فورم مہیا کیا اور اتنے اچھے لوگوں سے ملنے کا موقع دیا۔ میرا تعلق انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے ایک ادارے ’’اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ‘‘ سے ہے۔ یہ ادارہ چند سال پہلے قائم کیا گیا تھا اور اس ادارے کے قائم کرنے کا مقصد یہ تھا کہ عالم اسلام اور پاکستان کوجو مسائل درپیش ہیں، ان مسائل پر لوگوں کو وعظ کر کے اپنی رائے کو ان اوپر ٹھونسنے کے بجائے اسلامی نقطہ نظر سے گفتگو کی جائے، مکالمے کیے جائیں، لوگوں کی باتیں سنی جائیں اور ان باتوں کی روشنی میں ایک اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اوراگر اتفاق رائے نہ بھی ہو سکے تویہ کوئی بری بات نہیں ہوگی۔ یہی بہت ہوگا کہ ہم نے لوگوں کی بات سنی اور انہوں نے ہماری بات سنی۔ مسائل کی کچھ تشریح ہوئی، لوگوں کے اندر اور خود ہمارے اندر اس بات کا شعور پیدا ہوا کہ یہ وہ مسائل ہیں جن کا سامنا اس وقت عالم اسلام کو کرنا پڑر ہا ہے اور جن پر ایک تسلسل کے ساتھ گفتگو کرنا ضروری ہے۔ ان میں جمہوریت کا مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی کامسئلہ ہے۔ ریڈیکل ازم ( Redicalism) کا مسئلہ ہے، Terrorism کا مسئلہ ہے اورا س کے علاوہ دوسرے بہت سے مسائل ہیں۔ مغرب سے ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ جدیدیت اور اسلام کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی؟ آج کی سیاست میں مسلمانوں کا رول کیا ہونا چاہیے؟ پاکستان کی حد تک ریاست اور معاشرے کے تعلقات کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر کیسے استوار کیا جا سکتا ہے؟ معیشت میں، معاشرت میں، قانون میں، زندگی کے ہر میدان میں ہم اسلام کی تعلیمات پر کس طرح عمل پیرا ہو سکتے ہیں جس سے اسلام کی صحیح روح ہمارے سامنے واضح ہو۔ اسلام کے بارے میں یہ جو تصور عام کر دیا گیا ہے کہ اسلام کامقصد صرف ہاتھوں کو کاٹنا، سنگسار کرنا، پتھر مارنا، کوڑے مارنا اور لوگوں کی گردنیں کاٹنا اور خودکش حملے کرنا اور ہائی جیکنگ کرنا ہے۔ یہ اسلام نہیں ہے، بلکہ اسلام وہ ہے جو ہمیں آپس میں محبت، بھائی چارہ، حسن سلوک، حسن اخلاق، صبر اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ تو یہ ’’اقبال انسٹیٹیوٹ‘‘ کا مقصد ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم بے شمار کام کرتے ہیں۔ پبلک لیکچرز کا اہتمام کرتے ہیں، سیمینار زکرتے ہیں، کانفرنسز کرتے ہیں۔ جس طرح آج کی نشست ہوئی ہے، اس طرح کی نشستوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ کچھ پبلی کیشنز بھی ہمارے پیش نظر ہیں۔ آپ میں سے جو بھی اسلام آباد آئے تو ہمارے ادارے ’’اقبال انسٹیٹیوٹ‘‘ کا ضرور وزٹ کرے۔ ہمارا دفتر فیصل مسجد کے کیمپس میں ہے۔ اور جو شخص بھی ہمیں جہاں اورجس وقت بلانا چاہے، ہم خود حاضر ہونے کے لیے تیار ہیں۔ 
ان ابتدائی کلمات کے بعد اب میں کچھ گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔ 
آج کل کے اخبارات میں آپ بھی دیکھ رہے ہیں، آپ کو خود بھی اندازہ ہو گا کہ امریکی معاشرے میں کیا ہو رہا ہے۔ سب سے اہم خبریں جو امریکی اخبارات میں اور پھر ان کی وساطت سے پوری دنیا کے دوسرے اخبارات میں چھپ رہی ہیں، وہ امریکی معیشت اور امریکی اقتصادی کساد بازاری سے متعلق ہیں۔ آپ نے پڑھا ہو گا کہ امریکہ کے بینک ناکام ہو گئے ہیں، امریکی انشورنش کمپنیاں ناکام ہو گئیں اور سالانہ امریکی خسارہ ایک ٹرلین ڈالر یعنی ایک ہزار ارب ڈالر ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ امریکا کو دو بلین ڈالر روزانہ چین سے لیناپڑتا ہے اور جب تک امریکا کو چین سے یہ قرضہ نہ ملے، اس وقت تک اس کی معیشت نہیں چل سکتی۔ یہ سپر طاقت کی معیشت کا حال ہے کہ چینی قرضوں کے بغیر گزارا نہیں ہے۔ 
اس سب کے باوجود امریکہ میں ایک انڈسٹری ایسی ہے جوگزشتہ سات آٹھ سال سے مسلسل بڑھ رہی ہے، ترقی کر رہی ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کون سی انڈسٹری ہے؟ وہ ہے اسلام کی انڈسٹری۔ اسلام پر جو کتابیں شائع ہو رہی ہیں، ٹیلی ویژن پروگرام ہو رہے ہیں، سیمینار زہو رہے ہیں، کانفرنسز ہو رہی ہیں ا ور یونیورسٹیوں میں جو تحقیقی وتصنیفی کام ہو رہے ہیں، ان کے حجم کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لیے میں اس کو اسلام انڈسٹری کہتا ہوں۔ اس انڈسٹری میں بہت کام ہو رہا ہے۔ ۱۹۷۶ء میں جب میں پہلی بار امریکہ گیا تو یونیورسٹی آف شگاگو کے بک اسٹور میں یہ دیکھنے کے لیے گیا کہ اسلام کے متعلق کتنی کتابیں ہیں۔ وہاں ایک سیکشن تھاجس پر World Religions لکھا ہوا تھا۔ اس میں خاصی بڑی تعداد میں کتابیں تھیں۔سب سے زیادہ عیسائیت کے متعلق، پھر یہودیت اور پھر ہندومذہب کے متعلق۔ اس وقت مجھے یونیورسٹی آف شگاگو کے بک اسٹور میں اسلام کے متعلق صرف تین کتابیں ملیں۔ یہ وہ یونیورسٹی ہے جو تحقیقی سطح کی یونیورسٹی ہے۔ لیکن آپ اگر آج یونیورسٹی آف شگاگو میں جائیں تو تین چاربڑے شیلف اسلام سے متعلق کتابوں سے آپ کوبھرے ہوئے نظر آئیں گے۔ 
جب ۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ پیش آیا تو اس کے فوراً بعد دو تین مہینے کے اندر قرآن مجید کے تقریباً پچاس لاکھ مسطے امریکہ میں فروخت ہوئے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ امریکہ میں اتنی تعداد میں لوگوں نے قرآن مجید خریدا، لیکن اس میں بے وقوفی کی اور بری بات یہ ہے کہ نائن الیون کے واقعے کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے ایک دفعہ ایک امریکی سے میں نے سوال کیا کہ نائن الیون کے واقعہ کوسمجھنے کے لیے قرآن مجید کو کیوں پڑھا جا رہا ہے؟ کیا جن لوگوں نے طیارہ ہائی جیک کیا، انھوں نے قرآن مجید میں یہ پڑھا ہوگا کہ کس طرح ہائی جیک کرنا ہے؟ بہرحال امریکی عوام میںیہ تجسس ضرور پایا جاتا ہے کہ ہم دیکھیں تو سہی کہ وہ کون سی کتاب ہے جو مسلمانوں کو اس طرح کے دہشت گردی کے کاموں پر اکساتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر بری بات میں اچھی بات بھی نکل آتی ہے۔ اس طرح اسلام کے متعلق نہایت اچھی او ر اسی طرح الٹی سیدھی، جو کتاب بھی لکھی گئی، اس کو امریکہ کے پبلشرز نے چھاپنا شروع کر دیا۔
۲۰۰۵ء میں، میں نے امریکہ کا جو ہائیر ایجوکیشن کا میگزین ہے جو عام طورپر یونیورسٹی کے اساتذہ کے لیے ہوتا ہے، اس کے چار پانچ شمارے دیکھے۔ اس میں جتنی Jobs خالی تھیں، وہ اسلامیات کے اساتذہ کے لیے تھیں اور لکھا ہوا تھا کہ ہمیں اس وقت اسلامک اسٹڈیز پڑھانے کے لیے ایک پروفیسر چاہیے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انہیں کوئی بندہ بھی نہیں ملا تو اسلامک اسٹڈیز پڑھا سکے۔ سعودی عرب کے ایک شہزادہ ہیں، پرنس ولید جنھوں نے بہت سا پیسہ جوا کھیل کر کمایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں امریکی یونیورسٹیوں میں اسلام پڑھانے کے لیے پچاس ملین ڈالر دیتا ہوں۔ بیس پچیس ملین ڈالر انہوں نے جارج سٹائن یونیورسٹی کو او ر بیس پچیس ملین ڈالر ہارورڈ یونیورسٹی کو دیا۔ ایک صاحب مجھ سے مشورہ لے رہے تھے کہ کون سی یونیورسٹی کوپیسہ دیں۔ میں نے کہا کہ پرنس ولید کو رقم دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام امریکہ کی اپنی ضرورت ہے اور مجبوری ہے اور اب اسلام ایک حقیقت بن چکا ہے۔ وہ اس پر خرچ کریں گے اور سعودی عرب کو پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام اب ان کے گلے کی ایک ہڈی بن چکاہے، اس کو اگلنے یا نگلنے دونوں کے لیے ان کو اپنے وسائل اور ذرائع خرچ کرنے پڑیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہارورڈ کی اپنی Endowment تیس چالیس بلین ڈالر کی ہے تو پرنس ولید کے بیس بائیس ملین ڈالر کی کیا حیثیت ہے؟ یہ تو سمندر میں قطرے کے برابر ہے۔ بہرحال سعودیوں کا ایک اپنا مزاج ہوتا ہے۔ انہوں نے پیسے دے دیے۔ 
یہ اسلام انڈسٹری ہے اور اس انڈسٹری کا مرکز نگاہ مدرسہ ہے۔ اب امریکہ میں صحافت کے میدان میں، یونیورسٹی کے میدان میں ہر شخص مدارس کے موضوع پر اپنے آپ کو سمجھتا ہے اور ہر شخص مدارس کے نظام تعلیم پر اس طرح اتھارٹی سے بات کرتا ہے جیسے وہ دارالعلوم یا بنوری ٹاؤن سے پڑھا ہوا ہو۔ ایک دفعہ ہیلری کلنٹن نے سینٹ میں مدارس کے بارے میں بات کی تومیں ٹیلی ویژن پر سن رہا تھا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا، ایسا لگتا ہے جیسے یہ بنوری ٹاؤن کی پڑھی ہوئی ہے۔ اس کے بات کرنے کا انداز ایسا ہی تھا کہ مدرسوں میں یہ ہو رہا ہے اور وہ ہو رہا ہے۔ 
ایک اور بات یہ کہ وہاں کے لوگوں کی مدارس کے بارے میں جو باتیں ہیں، کچھ تو وہ ہیں جو سنی سنائی ہیں او ر کچھ وہ باتیں ہیں جو یہاں کے صحافی لکھتے ہیں اور وہ ان کو پڑھتے ہیں۔ وہ ہمارے پاکستانی صحافیوں کی لکھی ہوئی چیزیں پڑھتے ہیں۔ نیو یارک ٹائمزکے پاس مدارس کے بارے میں جاننے کے لیے کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ پاکستان میں موجود کچھ صحافی ہیں، وہ لکھتے ہیں اور وہ ان کو پڑھتے ہیں۔ اب یہ سارے صحافی جو انھیں بتا رہے ہیں کہ مدرسہ میں کیا ہو رہا ہے، میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے بھی آج تک مدرسہ میں قدم تک نہیں رکھا۔ لیکن وہ بڑے تیقن کے ساتھ ایسے لکھتے ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے ان لوگوں نے ساری زندگی مدارس میں Study کرنے میں لگائی ہو۔ یہ لوگ غلط سلط باتیں لکھتے ہیں اور جو کچھ بھی ہوتا ہے، اس کو لندن ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ چھاپ دیتا ہے۔ اس کے بعد وہ لوگ اس کو پالیسی پڑھتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ کیا ان کے خیالات بنیں گے۔
اس کی چند مثالیں دیتا ہوں۔ نیویار ک میں دو سال پہلے ایک اسکو ل خلیل جبران ا کیڈمی کے نام سے تھا اور یہ خلیل جبران ایک لبنان کے سیکولر رومانی شاعر تھے۔ نیویارک میں کچھ عرب عیسائیوں نے ایک اسکول قائم کیا جس میں زبانیں پڑھائی جاتی تھیں۔ امریکہ میں میٹرک کی تعلیم میں لازم ہوتا ہے کہ غیر ملکی کم از کم دو زبانیں جرمن، فرنچ یونانی اور اٹالین وغیرہ سیکھیں۔ انہوں نے دیگر زبانو ں کے ساتھ ساتھ خلیل جبران اکیڈمی میں عر بی زبان کو بھی ساتھ شامل کر لیا، کیوں کہ اس میں عرب زیادہ تھے۔ اس پر یہ شور مچ گیا کہ اب نیویارک میں مدرسہ قائم ہو گیا ہے۔ نیویارک کی سٹی کونسل اس کے پیچھے پڑ گئی، اس کی پرنسپل کو استعفا دینا پڑا اور اس ادارے کو جو امدادمل رہی تھی، روک لی گئی۔ پچھلے سال میں نے پڑھا کہ اس کی جو پرنسپل تھی، اس نے خودکشی کرنے کی کوشش کی لیکن معلوم ہو گیا تو بچ گئی۔ 
ا س کے علاوہ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب صدر اوباما انتخابی مہم چلا رہے تھے تو ان کے خلاف کسی نے شور مچادیا کہ وہ پانچ سال کی عمر میں انڈونیشیا گئے تھے او ر سی این این نے یہ خبر لگادی کہ یہ تو مدرسہ کا پڑھا ہوا آدمی ہے اور شاید ان کے گمان میں ان مدارس میں بم بنائے جاتے ہیں اور تعلیم نہیں دی جا تی۔ بہرحال اس کے بعد صدر اوبامہ اور اس کی بیوی نے مسلسل دو ماہ تک تردید کی کہ انڈونیشیا میں جو اسکول ہوتا ہے، اس کو مدرسہ کہاجاتا ہے اور اس میں جنرل ایجوکیشن ہوتی ہے جس میں میتھ، بیالوجی وغیرہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔ 
۱۱؍ستمبر۲۰۰۱ء سے پہلے امریکہ میں اور مغرب میں کوئی شخص بھی مدرسہ سے واقف نہ تھا۔ میں نے ۱۹۷۵ء میں مدارس پر کام کرنے کا ارادہ کیااور مغربی پاکستان میں بھی کچھ مدارس کا چکر لگایا۔ میرے خیال میں اس وقت کسی کو معلو م نہ تھا کہ مدرسہ کس چڑیا کا نام ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کی رینج میں اچانک مدرسہ آگیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انیس ہائی جیکرز جنہوں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیا تھا، ان میں سے کوئی بھی مدرسہ کا پڑھا ہوا نہ تھا۔ آپ ان انیس کی لسٹ دیکھ لیں۔ ان میں سعودی تھے، کویتی تھے اور جرمن تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ عطا محمدجس نے پہلا حملہ کیا، وہ جرمنی کی کسی انجینئرنگ یونیورسٹی کا پڑھا ہو اتھا۔ پھروہاں پر یہ بات ہو رہی تھی کہ طالبان مدرسوں کے پڑھے ہوئے ہیں اور یہ دہشت گردی کر رہے ہیں، دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں، اس لیے ان مدارس کو بند کر دینا چاہیے۔ میں نے ایک شخص سے کہا کہ بھائی! یہ دیکھو کہ عطامحمد تو ایک جرمن یونیورسٹی کا پڑھا ہوا تھا تو کیا آپ اس یونیورسٹی کو بند کر دیں گے؟ اس لیے کہ سب سے بڑا دہشت گرد تو وہی تھاجس نے first attack کیا۔ اس کے بعد دیکھیں !خالد شیخ محمد کا نام آپ نے سنا ہو گا۔ بہت معروف آدمی ہے اور راولپنڈی میں پکڑا گیا ہے۔ اس نے اس بات کا اعتراف کیا ہے اور کہتے ہیں کہ اب بھی معترف ہے کہ وال اسٹریٹ جرنل کے جرنلسٹ کی ہلاکت میں اس کا ہاتھ تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ نائن الیون کی اوریجنل پلاننگ بھی اسی نے کی تھی۔ آپ کو معلوم ہے کہ خالد شیخ محمدکہاں کا پڑھا ہوا ہے؟ بنوریہ کا یا حقانیہ کا یا دارالعلوم کا نہیں، لندن اسکول آف اکنامکس کا جو لندن کا سب سے ممتاز ادارہ ہے۔ تو میں لوگوں سے یہ کہا کرتا تھا کہ اگر آپ کا معیار یہ ہے کہ ہر وہ ادارہ جس سے کوئی دہشت گرد پڑھ کر نکلا ہے، اس پر پابندی لگادینے چاہیے تو ٹونی بلیئر صاحب کو سب سے پہلے لندن اسکول آف اکنامکس کو بند کر دینا چاہیے جس نے سب سے بڑا دہشت گرد پیدا کیا ہے۔ 
اس طرح کی بہت سی باتیں مغرب میں زیر بحث آتی رہتی ہیں۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مغرب میں، وہاں کے پریس میں، وہاں کے اداروں میں اور عام پبلک میں کس طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ طالبان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ سب کے سب مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں اور خاص طور پر شمال مغرب کے صوبہ کے جو مدارس ہیں، وہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس نقطہ نظر کے مطابق پاکستان کے سارے مدارس طالبان ہی کی طرح کے لوگ پیدا کر رہے ہیں جو لڑتے ہیں، گولیاں چلاتے ہیں، راکٹ چلاتے ہیں، جو لوگوں کو کوڑوں کی سزا دیتے ہیں، بم بناتے ہیں، جھگڑتے ہیں، لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں، پتھروں سے سنگسار کرتے ہیں۔ صبح ایک آدمی کو پکڑا اور ایک آدھ گھنٹہ اس سے تفتیش کی، اگلے آدھ گھنٹے میں اس کا سرقلم کر دیا۔ لیں جی انصاف ہوگیا ۔ تو اس طرح کا تاثر پایا جاتا ہے کہ طالبان چونکہ پاکستان کے مدارس کے پڑھے ہوئے ہیں، اس لیے سارے پاکستان کے مدارس طالبان ہی پیدا کر رہے ہیں۔ یہ تاثر بہت گہرا اور مضبوط ہے۔ 
جب واشنگٹن یا امریکہ کے دوسرے شہروں میں اس طرح کی کانفرنسز ہوتی ہیں تو میں کہتا ہوں کہ دیکھیں آپ کو دو چیزوں کے بارے میں بنیادی فرق کرنا پڑے گا۔ پاکستان میں ایک تو وہ مدارس ہیں جو پاکستان بننے سے پہلے موجود تھے اور پاکستان بننے کے بعد اس میں ایک تدریجی ارتقا ہوا ۔ طلبہ کی تعداد بڑھتی گئی تو پورے پاکستان میں، سندھ میں، سرحدمیں، بلوچستان میں، پنجاب میں اور آزاد کشمیر میں ایک تدریجی رفتار کے ساتھ ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ یہ وہ مدارس ہیں جو خالص دینی تعلیمی کے لیے بنائے گئے اور ان میں سوائے دینی تعلیم کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ 
اس کے بعد ۱۹۸۰ء کی دہائی میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس کی مزاحمت کے لیے کچھ افغان مجاہدین کے گروپ منظم کیے گئے۔یہ آپ سب جانتے ہیں کہ پانچ یا چھ گروپوں کومنظم کیا گیا اور ان مجاہد تنظیموں کا ہیڈ کوارٹر پشاور تھا۔ ان کو تائید حاصل تھی پاکستان حکومت کی، سعودی حکومت کی، آئی ایس آئی کی، برٹش حکومت کی اور سب سے بڑھ کر امریکہ کی تائید حاصل تھی۔ اس دوران جو افغان مہاجرین پاکستان میں آئے ہوئے تھے، ان کی تعداد ایک اندازہ کے مطابق ۵ ملین کے لگ بھگ تھی۔ پچاس لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین پاکستان میں پشاور اور بلوچستان کے بارڈر پر موجود تھے۔ ان کے لیے رہائشی کیمپ لگائے گئے اور اس کے لیے مسلمان ممالک نے امداد دی۔ 
اس وقت سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ جو مہاجرین ہیں، ان کے بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا ہو گا۔ ان مہاجرین کے کیمپ میں اسکول کھولے گئے۔ سوال یہ ہے کہ یہ اسکول کس کی مدد سے کھولے گئے؟ یہ اسکول سعودی عرب کی امداد سے اور امریکی ڈالر کی امداد سے کھولے گئے اور ان سکولوں میں دو چیزیں مقصود تھیں، بلکہ میرے خیال میں تعلیم وہاں ثانوی مقصد تھا جبکہ پہلا مقصد وہاں نوجوان افغان مہاجرین کو جہاد کے لیے اور سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے تیار کرناتھا۔ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ مدارس جو مہاجرین کے کیمپ میں قائم کیے گئے، مدارس نہیں تھے جہاں تعلیم دی جاتی تھی بلکہ یہ پاکستان اور افغان سرحد پر قائم کیے گئے جنگی کیمپ تھے جہاں جنگی تربیت دی جاتی تھی۔ ان کو مدارس کا نام دے دیا گیا۔ ان اداروں کا بنیادی تشخص تعلیم تھا ہی نہیں، ان اداروں کا بنیادی تشخص لڑاکا فوج کو تیار کرنا تھا جو امریکی ڈالر لے کر، سعودی ریال لے کر، پاکستانی آئی ایس آئی کا روپیہ لے کر افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کریں جو ایک اچھا مقصد تھا۔ میںیہ نہیں کہتا کہ سوویت یونین کو نکالنے کااچھا مقصد نہیں تھا۔ لیکن دیکھیں، ہو کیا رہا ہے۔ یہ ادارے تیار کیے جا رہے ہیں سوویت یونین کے خلاف جہادی تیار کرنے کے لیے، جنگجو تیار کرنے کے لیے اور اس کو مذہبی جواز دینے کے لیے ان اداروں کا نام ٹریننگ سنٹر نہیں رکھا جاتا بلکہ مدرسہ کانام دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جو لڑاکا فوج تیار ہوتی ہے، اس کوہم کہتے ہیں کہ مدارس جنگجو تیار کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ’’مدارس‘‘ کس نے قائم کیے؟ کس کا پیسہ لگا تھا؟ برطانیہ کا پیسہ لگا تھا، سعودیوں کا پیسہ لگا تھا، امریکہ کا پیسہ لگا تھا۔ اگریہ آگ ہے تو امریکہ کی لگائی ہوئی ہے۔ میں ان لوگوں سے صاف کہتا ہوں کہ آپ لوگ اس سے بری الذمہ نہیں ہیں۔ باقی جن دینی مدارس کا بنیادی تشخص حقیقتاً مدرسے کا ہے، وہ بالکل اس سے الگ تھلگ رہے۔ وہ تو قال اللہ وقال الرسول کی بات کرتے رہے۔ 
۸۳۔ ۱۹۸۴ء کی بات ہے۔ میں یونیورسٹی آف اٹلانٹا میں گیا تو وہاں ایک امریکی پروفیسر ہیں جان سٹرے۔ وہ افغانستان میں تین چار سال رہے۔ انہوں نے وہاں پشتو بہت اچھی سیکھی، دری بھی سیکھی۔ دری وہ ایسے بولتے تھے جیسے ایک Nativeآدمی بولتا ہے۔ افغانستان سے ان کو بہت دلچسپی تھی۔ وہاں ایک کانفرنس تھی۔ میں وہاں گیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہUSIGکو اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے ۲۵ملین ڈالر دیے گئے ہیں کہ پاکستان میں افغان مہاجرین کے جو اسکول چل رہے ہیں، ان کے لیے نصابی کتاب تیار کریں۔ ذرا خیال فرمائیے! افغان مہاجرین کے بچوں کو جو کتابیں پڑھائی جانے والی تھیں، وہ کہاں تیار ہو رہی ہیں؟ امریکہ میں۔ ان نصابی کتابوں کو تیار کرنے کے لیے پیسہ کون دے رہا تھا ؟ امریکہ کا اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ۔ تیار کرنے والے کون تھے؟ امریکی۔ چنانچہ پہلی جماعت کے لے کر پانچویں جماعت تک کے لیے نصابی کتابیں اس زمانے میں تیار ہوئیں۔ اس قاعدے کودیکھنے کا موقع اس خاکسار کوبھی ملا ہے ۔ اس میں الف، A سے اللہ ہے جس میں ظاہر ہے کہ کوئی بری بات نہیں ہے لیکن ب،B سے بندوق ہے۔ K سے کلاشنکوف ہے ۔ Jسے جہاد ہے۔ Tسے ٹینک ہے۔ R سے Russian Soldier ہے اور R سے Rocket ہے اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ہیں۔ پورے کا پورا قاعدہ ہے جو بچوں کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ تو لڑنے جھگڑنے کی اور دہشت گردی کے لیے ذہن سازی کون کر رہا ہے؟ ہم نے تونہیں کی۔ یہ امریکیوں نے کی ہے۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مدارس سے جو لوگ نکلتے ہیں، بہت ہی لڑاکا ہوتے ہیں، ان میں رواداری نہیں ہوتی۔ آپ خود بتائیں جس نے T سے ٹینک پڑھا ہو اور S سے Suicide Bombing پڑھا ہو اور K سے کلاشنکوف پڑھا ہو، کیا اس سے آپ امن کی، رواداری کی، صلہ رحمی کی، حسن اخلاق کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ 
تویہ صورت حال ہے۔ جب امریکہ کے لوگ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ مدارس سے ایسی نسل نکل رہی ہے جو جنگجو ہے اور دہشت گرد ہے تو میں ان سے کہتا ہوں کہ جناب! یہ پھل آپ کا لگایا ہوا ہے۔ یہ پودا آپ کا لگایا ہوا ہے جو اب بار آور ہو کر آپ کے خلاف تیار ہے۔ 
ایک اور چیز کہی جاتی ہے کہ مدارس میں جہاد اور قتال کی تعلیم دی جاتی ہے، دوسروں سے نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے، فرقہ واریت کے جذبات پیدا کیے جاتے ہیں، امریکہ سے اور مغرب سے نفرت کے جذبات پیدا کیے جاتے ہیں۔ یہ تاثر ہے امریکہ کا مدارس کے بارے میں کہ پاکستان کے مدارس میں کوئی پڑھائی وغیرہ نہیں ہوتی، صرف جنگ کی تربیت دی جاتی ہے۔ گویا ہر مدرسہ ایک ملٹری ٹریننگ کیمپ ہے۔ نیویارک سے ایک امریکی افسر ۹۹۰ ا ء میں پاکستان آیا او ر مدرسہ حقانیہ میں مولانا سمیع الحق صاحب سے ملاقات کی۔ نیویارک ٹائمز کے فرنٹ پیج پر اس نے ایک Story لکھی اور اس کا نام رکھا: University of Jihad ۔ اسی طرح اس نے دارالعلوم بنوری ٹاؤن کا وزٹ کیا اور اس کا عنوان رکھا: Jihad Factory ۔ اسی طرح یہ بات عام طورپر وہاں کے اخبارات میں لکھی جاتی ہے اور میڈیا میں آتی ہے کہ یہاں کے جو مدارس ہیں، ان میں دہشت گردی کو ہوا دی جا رہی ہے۔ مدارس میں جو معصوم طلبہ ہیں، ان کے ذہنوں میں نفرت بھری جا رہی ہے۔ جہاد اور قتال کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ خودکش حملوں کی تربیت دی جارہی ہے۔ ہندوؤں، یہودیوں، عیسائیوں اور یہاں تک کہ شیعوں کو قتل کرنے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ اس لیے ان مدارس سے کوئی اچھی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یہاں سے جو پڑھ کر نکلے گا، وہ وحشی ہوگا، درندہ ہوگا ، خونخوار ہوگا۔ گویا یہ تاثر قائم کیا گیا ہے کہ یہ مدارس ملٹری کیمپ اور جہاد کی فیکٹریاں بن چکے ہیں۔ 
ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ مذہبی حلقے نے اورہمارے علماء کرام نے ان تعصبات کو مضبوط کرنے کے لیے کیا رول ادا کیا ہے۔ ایک صاحب ہمارے حلقے میں ایک جانے پہچانے عالم دین ہیں۔ میں ان کا نام نہیں لوں گا۔ وہ خود کو طالبان کا باوا آدم اور طالبان کی تاریخ کا موجد کہتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے امیر ملا عمر ان کے مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں، حالانکہ ملاعمر نے ان کے مدرسے میں قدم تک نہیں رکھا۔ جب کبھی کوئی میڈیا کا آدمی اور صحافی ان کے مدرسے میں ملنے آتا تھاتو وہ بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ ملاعمر نے ہمارے ہی مدرسہ سے ڈگری حاصل کی ہے اور طالبان رہنماؤں میں فلاں وزیر، فلاں وزیر، فلاں وزیر ہمارے مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ معلوم نہیں ان کا مقصد کیا تھا۔ میرے خیال میںیہ بات ہے کہ ان کے ہاں جو امریکی صحافی آتاہے، وہ ان سے جو کچھ سننا چاہتا ہے تو وہی بات وہ ان کو سنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ شاید وہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکیوں کے سامنے یہ بات کرنے سے کہ میں طلبہ کو یہاں جہاد کی تعلیم دے رہا ہوں اور یہ بڑے ہو کر امریکہ کے خلاف جہاد کریں گے اورفلسطین کو فتح کریں گے اور یہی میرے بچے کشمیر پر جا کر حملہ کریں گے، ان کے خیال میں شاید اس سے امریکیوں کی نظر میں ان کی قدروقیمت بڑھ جائے گی۔ یہ بھی ایک طریقہ ہے اپنی قدر وقیمت بڑھانے کا۔ ان کا طریقہ واردات یہی ہے۔ جب بھی کوئی امریکی صحافی ان کے پاس آتا ہے تو نہایت مبالغہ کے ساتھ بڑھا چڑھا کر باتیں کرتے ہیں۔ 
اسی سلسلے میں، میں ایک اور بات بھی کہوں گا۔ لال مسجد کے المیہ سے پہلے ہونے والے واقعات نے بھی ہے مدارس اور علما کے بارے میں ایک منفی تاثر اور تعصب قائم کرنے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔ ۲۰۰۷ء کے شروع میں جب یہ مسئلہ شروع ہوا تو میں اس وقت امریکہ میں تھا اور وہاں ان کے اخبارات کو مسلسل دیکھ رہا تھا۔ مدرسہ حفصہ کی طالبات کی طرف سے سب سے پہلے ایک پبلک لائبریری پر قبضہ کیا گیا۔ اس کے بعد پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں ہوئیں اور ایک یا دو پولیس والوں کو وہ پکڑ کر لے گئے اور ایک دو دن تک انہیں محبوس رکھا۔ اس کے بعد ایک خاتون کو اغوا کیا گیا اور کہا گیا کہ وہ بدکاری کو فروغ دے رہی تھی۔ اس کے بعد ڈی وی ڈی کی دوکانوں پر حملہ کیا گیا اوران میں سے ایک دو کو جلا دیا گیا۔ ان کو دھمکیاں دی گئیں اور ہراساں کرنا شروع کر دیا گیا۔ اور سب سے آخر میں چینیوں کو اغوا کر کے لے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ غازی عبدالرشیدمرحوم اور غازی عبد العزیز کے دھواں دار بیانات اور جمعہ کے خطبے ہوتے رہے اور وہ روزانہ پریس کانفرنسز کر رہے تھے کہ ہم یہ کر دیں گے، ہم وہ کر دیں گے۔ اگر شرعی نظام نافذ نہ کیا گیا تو ہم ریاست کے خلاف بغاوت کریں گے۔ پھر کہا گیا کہ اگر شریعت نافذ نہ کی گئی تو ہماری بچیاں شہادت کے لیے تیار ہیں۔ پھر اس کے ساتھ آپ کیا دیکھتے تھے کہ بڑی بچیاں اسلام آباد میں انٹرنیشنل میڈیا کے سامنے، سی این این کے کیمروں کے سامنے کھڑی ہیں، سر سے پاؤں تک سیاہ برقعوں میں ملبوس اور ہاتھوں پر دستانے ہیں۔ اور کیا دیکھتے ہیں کہ ہاتھ میں آٹھ دس فٹ کی لاٹھی۔ آپ نے تصویریں دیکھی ہوں گی۔ 
نیویارک ٹائمز میں، میں نے پہلی تصویر دیکھی جو اس کے فرنٹ پیج پر شائع ہوئی۔ اتنی بڑی تصویر تھی، آپ یقین جانیے کہ وہ تصویر اتنی خطرناک نظر آرہی تھی کہ چہرہ بالکل بندہے، تھوڑی سی آنکھیں نظر آرہی ہیں، پورا جسم سیاہ کپڑے میں ملبوس ہے، ہاتھوں پر دستانے اور ہاتھوں میں بارہ فٹ کی لاٹھی اٹھائی ہوئی ہے۔ نیویارک ٹائمز میں تصویر کے ساتھ لکھا ہو اہے کہ اگر ہمارے مطالبات نہ مانے گئے تو ہم اس حکومت کے خلاف بغاوت کریں گی۔ ہم سٹرکوں پر لڑیں گی، ہم پولیس سے لڑیں گی۔ جب یہ تصاویر شائع ہوئیں تواس وقت امریکہ کی رائے عامہ پر کا اس کا کیا اثر ہوا، آپ کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ جو باہر رہتا ہے، اس کو اندازہ ہے۔ ایک متعلمہ لال مسجد کی چھت پر کھڑی ہے، ایک دروازے پر ہے اور کچھ مین گیٹ کے سامنے تین قطاروں میں۔ ان تصویروں کو دیکھ کر ان کے ذہین میں ایک مسلمان خاتون کا تاثر قائم نہیں ہوا بلکہ ہٹلر کے گسٹاپو کا تاثر قائم ہوا۔ اس کے بعد اگر ہم شکایت کریں کہ مغرب ہمارے بارے میں غلط تاثر رکھتا ہے تو شاید ہم حق بجانب نہیں ہوں گے۔ ہماری بہنیں لاٹھیاں لہرا تے ہوئے اسٹیٹ کو چیلنج کر رہی تھیں اور میڈیا کو بتا رہی تھیں کہ ہم اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکومت سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہیں اور شہادت کے لیے تیار ہیں۔ بعد میں جولائی میں لال مسجد کا واقعہ ہوا۔ صدر مشرف نے نہایت بے حیائی اور بے غیرتی کے ساتھ جس طرح بچیوں کو بھون ڈالا، وہ الگ داستان ہے، لیکن مغربی میڈیا میں مدارس کے بارے میں پہلے سے موجود تعصبات میں لال مسجد کے واقعہ نے جو کردار ادا کیا ہے، اسے کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
ایک اور بات یہ ہے کہ مغرب کے میڈیا اور اخبارات میں مدارس کی تعداد کے بارے میں خاصی مبالغہ آمیز باتیں شائع ہوتی ہیں۔ میں نے مختلف اخبارات میں چھ، سات اور آٹھ لاکھ مدارس کی رپورٹیں پڑھی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ میں جسے ایک پاکستانی رپورٹر نے تیار کیا ہے، مدارس کی تعداد ایک لاکھ بتائی گئی ہے۔ اسی طرح طلبہ کی تعداد تیس لاکھ، چالیس لاکھ اور آخری رپورٹ کے مطابق پچاس لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہ سب ہوائی باتیں ہیں۔ کسی نے مدرسہ کا سروے نہیں کیا، نہ ہی کوئی مدارس سے پوچھنے کے لیے گیاہے اور نہ ہی ان کو کسی ادارے وفاق المدارس یا تنظیم المدارس نے بتایا ہے۔ 
آپ کو ایک مزے کی بات بتاؤں۔ ایک چھوٹے سائز کا اخبار کرسچن سائنس مانیٹر آتاہے جو میرے نزدیک صحیح خبریں شائع کرتا ہے۔ آج سے چار پانچ سال پہلے ایک خبر اس کے صفحہ اول پر شائع ہوئی اور اس کی ہیڈلائن گوجر خان سے متعلق تھی۔ میں پڑھ کر چونک اٹھا کہ شاید پہلی دفعہ کسی امریکی اخبار میں میرے شہر گوجرخان کی ہیڈ لائن لگی ہے۔ اس کی سرخی یہ تھی کہ صدر مشرف کی کوششوں کے باوجود پاکستان میں مدارس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ خبر گوجر خان کی تھی اور ان کے راولپنڈی کے نمائندے نے دی تھی۔ اس میں لکھا تھا کہ اس نے سروے کیا ہے جس کے مطابق گوجرخان میں پچاس مدرسے ہیں۔ گوجرخان میرا شہر ہے اور میں سال میں کم از کم دو مرتبہ اپنے شہر ضرور آتا ہوں۔ میں شہر کے چپے چپے سے واقف ہوں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ جس محلے میں ہم رہتے ہیں، اس کے بارے میں لکھا تھا کہ چھ مدرسے توا س محلے میں ہیں۔ میں نے ذہن پر بہت زور دیاکہ کون سے چھ مدرسے اس محلے میں ہیں۔ میں اسی وقت اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھا اور اس کے ایڈیٹر کو ای میل بھیجا۔ میں نے کہا کہ آپ نے جس محلے میں چھ مدرسے بتائے ہیں ، میرا اسی محلے سے تعلق ہے اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ پورے شہر گوجرخان میں آٹھ یا دس مدارس سے زیادہ نہیں ہیں۔ ان آٹھ میں بھی میں جن کو صحیح طور پر مدرسہ کہوں، ن کی تعداد چار ہے۔ میں نے کہا کہ یہ مبالغہ ہے، لہٰذا آپ دوبارہ اپنے نمائندہ سے تصدیق کر لیں۔ اگر میں پاکستان کے جنگ یا ڈان کو ای میل کرتا تو وہ میرا ای میل ردی کی ٹھوکری میں پھینک دیتے۔ لیکن امریکہ کے اخبار کرسچن سائنس مانیٹر کی بڑائی ہے کہ اگلے دن اس کے ایڈیٹر کا مجھے ای میل آتا ہے اور وہ لکھتا ہے کہ آپ کا بہت شکریہ۔ آپ نے ہمیں توجہ دلائی کہ اس خبر میں بہت مبالغہ آرائی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ میں موجودنہ تھا۔ ہمارے جو اسلام آباد میں نمائندے ہیں، انھوں نے ہمیں رپورٹ بھیجی تھی۔ لیکن اب جب آپ نے اس پر اعتراض اٹھایا ہے تو ہم نے اسلام آباد کے ایک دوسرے صحافی کو ۵۰۰ ڈالر دیے ہیں اور اس کو کہا ہے کہ وہ گوجر خان جائے اور اس صحافی کو ساتھ لے جائے جس نے پچاس مدارس کی رپورٹ دی ہے اور جا کر دیکھے کہ وہ پچاس مدرسے کہاں ہیں۔ اس کے چار یا پانچ دن کے بعد مجھے ایڈیٹر کا ای میل آیا اور اس نے کہا کہ آپ کی بات کسی حد تک صحیح تھی۔ جس صحافی کو ہم verify کرنے کے لیے بھیجا تھا، اس نے انیس مدرسے بتائے ہیں۔ میں نے جواب میں اس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد لکھاکہ یہ انیس کی تعداد بھی مبالغہ پر مبنی ہے۔ 
اصل بات یہ ہے کہ باہر کی دنیا میں جن لوگوں نے مدارس پر کام کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار یا ایک لاکھ مدرسے ہیں تو وہ پاکستان کی ہر مسجد کو مدرسہ شمار کرتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں خطیب صاحب یا امام صاحب صبح بچوں کو تھوڑا سا قرآن پڑھا دیتے ہیں تو وہ باہر لکھ دیتے ہیں ’’مسجد امیر حمزہ‘‘ اور اس کے نیچے لکھ دیتے ہیں ’’مدرسہ تجوید القرآن‘‘۔ تو وہ لوگ اس کو بھی مدرسہ شمار کر لیتے ہیں ۔ یہ ایک Trickہے جس کو جاننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ ساری رپورٹس میرے نزدیک صریح جھوٹ پرمبنی ہیں اور اسلام آباد میں بیٹھ کر کی جانے والی اس رپورٹنگ کو انٹرنیشنل میڈیا تحقیق کے بغیر من وعن قبول کر لیتا ہے۔ مثلاً ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں دس سے پندرہ فی صدلوگ مدرسہ میں پڑھ رہے ہیں۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کس طرح مبالغہ آمیز ی کی جاتی ہے۔ 
آخر میں ایک اور چیز کا میں ضرور ذکر کرنا چاہوں گا۔ چار سال پہلے جب مدارس کے بارے میں بہت شوروغل مچا کہ مدارس کس چڑیا کانام ہے، یہ مدارس والے کیا کر رہے ہیں اور کیا پڑھا رہے ہیں تو ورلڈبینک والوں نے مجھ سے کہا کہ میں ان کو مدارس کے نظام کے بارے میں ایک لیکچر دوں۔ خیر میں نے لیکچر دیا تو اس کے بعد تین چار سوال آئے ۔ ان میں ایک سوال یہ تھا کہ مدرسہ کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے، پیسہ کہاں سے آتاہے اور کون دیتاہے۔ اگر آپ انٹرنیشنل رپورٹس پڑھیں تو یہی تاثر ملتا ہے کہ سارے مدرسے سعودی فنڈز سے چل رہے ہیں۔ سعودی فنڈز کے بغیر کوئی مدرسہ چل نہیں سکتا ۔ میں نے انہیں کہا کہ بات یہ ہے کہ سعودی فنڈنگ کے بارے میں تو زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جب ۱۹۷۹ء کے بعد عراق اور سعودی عرب کے درمیان شیعہ سنی محاذ آئی شروع ہوئی تو اس وقت کچھ سنیوں کو، کچھ اہل حدیث کو سعودیوں نے پیسہ دیا تھا۔ اس سے پہلے بھی تو مدرسے چل رہے تھے۔ ان کو فنڈز کہاں سے ملتا تھا؟ دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب نے اگر پیسہ دیا ہے تو وہ اپنے ہم عقیدہ مدارس کو دیا ہے۔ خاص طور پر اہل حدیث کو خوب پیسہ دیا ہے۔ میں نے کہا کہ جو دیہات میں چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں، ان کو کون فنڈ دے رہا ہے؟ ان کو تو کمیونٹی فنڈنگ دے رہی ہے۔ 
میں نے انہیں بتایا کہ میں پشاور گیا تو وہاں جی ٹی روڈ پر ایک مدرسہ تھا جس میں چالیس کے لگ بھگ طلبہ تھے اور ان میں دس پندرہ کے قریب کتابیں پڑھنے والے تھے، باقی چھوٹے طلبہ تھے۔ میں نے اس مدرسہ کے مولانا صاحب سے پوچھا کہ آپ کے مدرسہ کا ذریعہ آمدن کیا ہے؟ انہوں نے پہلے تو ہچکچاہٹ ظاہر کی ۔ پھر وہ مجھے مدرسہ کے احاطے سے باہر لے گئے اور سامنے جی ٹی روڈ پر دو دوکانیں دکھائیں جو جنرل اسٹور کی طرح تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ان دوکانوں کا مالک بہت نیک اور اچھا آدمی ہے۔ وہ ایک دوکان کی آمدن اپنے پورے خاندان پر صرف کرتا ہے اور دوسری دوکان کی پوری آمدن مدرسہ کو دے دیتا ہے جس سے ہمیں کسی اور سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بنگلہ دیش میں، میں نے ایک مدرسہ کی چھپی ہوئی رپورٹ دیکھی جس میں عطیات کے بارے میں لکھا ہوا تھاکہ انڈے چار عدد، دو مرغیاں، فلاں نے اتنے کلو چاول دیے ، فلاں نے اتنی چیز دی۔ ان سب چیزوں کا حساب کتاب لکھا ہوا تھا۔ یہ وہ واقعات ہیں جو امریکیوں کو معلوم نہیں۔ 
دوسرا سوال جوورلڈ بینک کی تقریر کے دوران مجھ سے لوگوں نے پوچھا، وہ مدرسے کے نظام تعلیم سے متعلق تھا۔ کیا وجہ ہے کہ مدرسے سے جو لوگ نکلتے ہیں، بہت بد ذہن ہوتے ہیں، ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ دنیا کے حالات کیا ہیں، معیشت کیسے چل سکتی ہے، معاشرت کیسے چلتی ہے، سیاسی نظام کیسے چل سکتا ہے وغیرہ۔ وہ اپنی زندگی میں مست ہیں، ہر جگہ اپنے مذہبی ذہن کو لیے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں اس کا جواب دینے وا لا ہی تھا کہ سامعین میں سے چھ آفیسرز کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اپنا تعارف کرانا شروع کر دیا۔ ایک کا تعلق مالی سے تھا، دوسرے کاتعلق مالیکانیا سے تھا، تیسرا نائیجیریا سے تھا، چوتھاتنے کاؤں سے تھا، پانچواں گمبیا سے تھا اور ایک شاید کسی اور ملک سے تھا۔ان سب نے کہا کہ ہم مدرسو ں کے پڑھے ہوئے ہیں۔ ہماری ابتدائی اورہائی اسکول تک کی تعلیم مکمل دینی تعلیم ہوئی ہے۔ اس کے بعد ہم کالجوں میں گئے ہیں۔ ان میں سے چا رآدمیوں کے پاس اکنامکس میں امریکی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہے اور دونے کہا کہ ہم نے انجینئر نگ میں پی ایچ ڈی کی ہے اور وہ اس وقت ورلڈ بینک کے بڑے ماہرین معاشیات میں سے تھے۔ میں نے ان لوگوں سے کہا کہ آپ نے جو سوال کیا تھا، اس کا جواب تو آپ کو مل گیا ہے۔ گویا مدرسہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد، پوری دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بھی یہ ممکن ہے کہ یہ لوگ جدید تعلیم میں بھی اتنی ہی کامیابی حاصل کریں جتنی انہوں نے دینی تعلیم میں کی۔
میں بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے ملاہوں۔ ان میں بیشتر مدرسے کے پڑھے ہوئے ہیں۔ سید سجاد حسین شاہ، ڈاکٹر سید علی اشرف، ڈاکٹر سید علی احسن، یہ سب مدرسے کے پڑھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح ڈھاکہ یونیورسٹی اور بنگلہ دیش کی دیگر یونیورسٹیوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جو ٹاپ کے پروفیسر ہیں، وہ سب مدرسہ کے پڑھے ہوئے ہیں۔ مدرسے میں پڑھنے کے بعد ان کا ذہنی افق صرف مدرسہ ومسجد کی امامت وخطابت اور مدرسہ کی استادی تک محدود نہیں رہا، بلکہ وہ معاشرہ میں ہر سطح پر کردار ادا کر رہے ہیں۔ 
یہاں پاکستان میں بعض مدارس کے بارے میں مجھے بتایا جاتا ہے کہ اگر کوئی طالب علم دسویں جماعت کی تعلیم کی تیاری کرتا ہوا نظر آتا ہے تو اسے مدرسہ سے فارغ کر دیا جاتا ہے کہ یہ دین کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جانا چاہتا ہے۔ غالباً آپ کا خیال یہ ہے کہ وہ آپ کے شکنجے سے نکل گیا ہے اور اس نے دینی تعلیم کو چھوڑ دیا ہے۔ میں گزارش کروں گا کہ اگر آپ لوگوں نے اسے دینی تعلیم دی ہے تو وہ اس تعلیم کی شمع ہر جگہ روشن کرے گا، خواہ وہ کسی یونیورسٹی میں پڑھا رہا ہو، خواہ کسی اسکول میں اور خواہ وہ پولیس میں پہرے دار کے طورپر کام کر رہا ہے۔ اگر آپ چاہیں کہ آپ کے مدرسہ کا پڑھا ہوا ہر فرد امامت خطابت ہی کرے تو یہ مناسب نہیں ہے۔ 
میں آپ سے اجازت چاہتاہوں۔ آپ کا بہت شکریہ۔ 

ڈاکٹر افتخار اقبال

ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب میرے استاد ہیں اور مجھے مدرسہ اور اس کے نصاب ونظام سے انھوں نے ہی متعارف کرایا ہے۔ انہوں نے جو گفتگو کی ہے، وہ بہت جامع ہے اور اس کے بعد میں زیادہ بات کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔
پاکستان کے مدارس کے مسائل کا اور خاص طور پر جو مغرب میں غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، اس کا انہوں نے ذکر کیا۔ کم بیش یہی صورتحال بنگلہ دیش کے مدارس کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے۔ 
میری معلومات کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور بھار ت کے مدارس میں طلبہ کی مجموعی تعداد ساٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں ساٹھ فی صد طلبہ بنگلہ دیش میں جبکہ باقی چالیس فی صد پاکستان اور بھارت میں ہیں۔ بنگلہ دیش میں مدارس کے طلبہ کی تعداد ۳۵ لاکھ ہے۔ اس کی وجہ عام طورپر یہ سمجھی جاتی ہے کہ بنگلہ دیش ایک غریب ملک ہے اور آبادی زیادہ ہے اور وہاں کے لوگ عصری تعلیم کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے، لہٰذا زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیج دیتے ہیں۔ یہ وجہ کسی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن بالکلیہ درست نہیں ہے کیونکہ متوسطہ طبقات بھی او ر اعلیٰ طبقات بھی اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجتے ہیں۔ غربت کے علاوہ بھی کئی اسباب ہیں جن کے تحت لوگوں کا رجحان مدارس کی طرف زیادہ ہے۔ مدارس کانظام بہت مقبول ہے اور لوگ اسے بڑے احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ 
ایک وجہ یہ ہے کہ عصری تعلیم کے مدارس اورکالجز میں ملک کی سیاسی کشمکش کا بھی کافی اثر ہے۔ طلبہ میں مختلف سیاسی تنظیمیں ہیں اور آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے عصری تعلیمی اداروں کا ماحول اور فضا تعلیم کے لیے اچھا نہیں ہے۔ پھر وہاں کا ماحول سیکولر ہے جبکہ بنگلہ دیش کے عوام کا عمومی مزاج مذہبی نوعیت کا ہے، اس لیے لوگ پسند نہیں کرتے کہ اپنے بچوں کو عصری اداروں میں بھیجیں۔ پھر یہ کہ بنگلہ دیش کی جتنی آبادی ہے، سرکاری نظام تعلیم اس کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ چنانچہ مدارس نے اس خلا کو پر کیا ہے اور وہ وہاں کے لوگوں کی خدمت کرتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کی ان کے ساتھ زیادہ وابستگی ہے اور انہیں کہیں باہر سے فنڈنگ کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
نائن الیون سے پہلے عرب ممالک سے مدارس کو فنڈنگ ملتی تھی جو نائن الیون کے بعد کم وبیش بند ہو چکی ہے، لیکن مدارس کے نظام میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ ان کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ ہم نے مدارس کے ذرائع آمدن پر باقاعدہ سروے کیا تو معلوم ہواکہ یہ نظام مکمل طور پر وہاں کی مقامی آبادی کی معاونت پر مبنی ہے۔ سروے میں مقامی لوگوں کے تعاون کی ۲۳ مختلف صورتیں آئیں۔ مثلاً زکوٰۃ وصدقات اورگھر میں جو کچھ کھانا پکایا گیا ہو، اس کا ایک حصہ مدارس کو بھیج وغیرہ۔ ا س طرح کی ۲۳ کے قریب مختلف صورتوں میں مدارس کو معاونت ملتی رہتی ہیں۔ چونکہ یہاں بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے، اسلام کے ساتھ وابستگی قائم رہتی ہے، ان کی اصلاح ہوتی ہے، اس لیے مدارس کے اس کردار کی وجہ سے مقامی آبادی ان کے ساتھ بہت زیادہ جڑی ہوئی ہے اور ان کی خدمت کو اپنا کام سمجھتی ہے۔ 

امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں ’’الشریعہ‘‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی

ادارہ

(۴ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی یاد میں شائع ہونے والی، ماہنامہ ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت پروفیسر حافظ خالد محمود نے کی جبکہ مہمان خصوصی کے طور پر ڈاکٹر حافظ محمود اختر (چیئرمین شیخ زاید اسلامک سنٹر لاہور) شریک ہوئے۔ تقریب میں نقابت کے فرائض الشریعہ اکادمی کے رفیق مولانا حافظ محمد یوسف نے انجام دیے جبکہ بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی نے تقریب کے اختتام پر دعائیہ کلمات ارشاد فرمائے۔ تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے مختلف ارباب علم ودانش نے حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی شخصیت وخدمات اور ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کے حوالے سے اپنے احساسات وتاثرات کا اظہار کیا۔ ذیل میں اس تقریب کی تفصیلی روداد پیش کی جا رہی ہے۔  مدیر)

مولانا ابو عمار زاہد الراشدی 

(ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ پہلے نمبر پر تو آنے والے معزز مہمانوں کا اور تمام حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ آپ حضرات کا تشریف لانا ہمارے لیے باعث حوصلہ افزائی ہے۔ اللہ پاک آپ کا آنا قبول فرمائیں۔ دوسرے نمبر پر حضرت شیخ کی خدمات کا اور علمی جدوجہد کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ بیک وقت دو ضخیم نمبروں کے باوجود ہم اس کے ایک حصے کا احاطہ بھی نہیں کر پائے۔ ’الشریعہ‘ نے اپنے ذوق کے مطابق اس کو سمیٹنے کی کوشش کی، اور ’المصطفیٰ‘ نے اپنے دائرے اور حساب کے مطابق اسے سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک حصہ بھی شاید ہم اس کا نہیں سمیٹ سکے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا، ان شاء اللہ العزیز۔ فوری طور پر دو تین مہینے میں جو کچھ ہو سکتا تھا، ہم نے کیا ہے اور اس کے ساتھ ایک پروگرام کا اعلان بھی کیا ہے کہ ہم حضرت شیخ کے حوالے سے یہ یہ کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ ہم اپنی ہمت اور بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کرنے کے باوجود کچھ نہیں کر پائے۔ بہرحال تھوڑا بہت جو کچھ ہوا، اللہ پاک اس کو قبول فرمائیں اور مزید پیش رفت کے لیے اسے بہتر اساس بنا دیں۔ اللہ پاک مجھے او ر آپ کو اس کام کو آگے بڑھانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ 

محمد عمار خان ناصر 

(ڈپٹی ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
چونکہ مہمانان گرامی خاصی تعداد میں تشریف فرما ہیں اور انھی کے ارشادات سننے کے لیے ہم سب حاضر ہوئے ہیں، اس لیے جو کوشش اور کاوش بھی ہم نے ’الشریعہ‘ اور ’المصطفیٰ‘ کی صورت میں کی ہے، میں اس کے صرف ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا۔ ہم اپنی جگہ پر محسوس کر رہے ہیں اور بجا طو رپر یہ محسوس کر رہے ہیں کہ حضرت رحمہ اللہ کی جو شخصیت ہے اور ان کا علمی کام ہے، اس کو کسی نہ کسی حد تک اپنی کوششوں کے ذریعے سے سمیٹنے کی کوشش کریں۔ اس کے باوجود، جیسا کہ والد گرامی نے فرمایا، اس کا کوئی ایک پہلو بھی ہم پوری طرح احاطے میں نہیں لا سکے۔ البتہ صرف اندازہ کرنے کے لیے کہ ان کی ذات سے اور ان کی خدمات سے جو فیضان دنیا میں پھیلا اور لوگ اس کے ساتھ جس طرح کی محبت، عقیدت اور استفادہ کا تعلق رکھتے ہیں، صرف دو چھوٹی چھوٹی باتیں عرض کر کے ایک جھلک آپ کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔
الشریعہ کی خصوصی اشاعت کا اعلان ہم نے حضرت کی وفات کے فوراً بعد کر دیا تھا۔ ۵؍ مئی کو حضرت کا انتقال ہوا۔ اس کے دو چار دن کے بعد ہم نے اس کا اعلان کر دیا۔ عملاً ہمیں مضامین اور تحریریں موصول ہونے کا سلسلہ مئی کے تقریباً آخر میں شروع ہوا جبکہ ساڑھے آٹھ سو صفحات کی اس ضخیم اشاعت کو ہم نے پریس میں اگست کے آخر میں بھیجا ہے۔ اس طرح جون سے اگست تک تین ماہ کے مختصر عرصے میں اہل قلم نے بڑی عقیدت سے اپنا وقت فارغ کر کے بڑی محنت سے یہ مواد لکھا بھی، اس کو تیار بھی کیا گیا اور اس کو ہم نے تیاری کے مراحل سے گزار کر پریس میں بھی بھیجا۔ میں سمجھتا ہوں کہ تین ماہ کے عرصے میں اتنے مواد کا جمع ہونا، لکھا جانا، تیاری کے مراحل سے گزر کر پریس میں چلے جانا یہ بذات خود ایک کرامت ہے جو عام حالات میں شاید ممکن نہ ہوتا۔ اس کے لیے جو جذبہ چاہیے، جو عقیدت چاہیے اور جو اسباب چاہییں، وہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خاص توفیق اس کام میں شامل حال رہی ہو۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس کا خط ہم نے خاصا چھوٹا رکھا ہے تاکہ کم ضخامت میں زیادہ مواد لوگوں تک پہنچے۔ اسی کو ہم اگر تھوڑا سا پھیلا دیں تو یہی مواد کم وبیش بارہ سو صفحا ت کے لگ بھگ چلا جاتا ہے۔ کم وبیش اس سے نصف مواد وہ ہے جو ہم نے فائلوں میں سنبھال کر رکھا ہے اور مختلف وجوہ سے اس کو نہ چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 
جہاں تک حضرت رحمہ اللہ کے حوالے سے قائم کی جانے والی ویب سائٹ کا تعلق ہے، وہ الحمد للہ اس سے بھی کم عرصے میں تیار ہوئی۔ تقریباً ایک ماہ کے عرصے میں برادر عزیز ناصر الدین خان عامر نے، اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی ہمت اور صلاحیت میں ترقی عطا فرمائیں، یہ ساری ویب سائٹ مکمل کی اور ساڑھے آٹھ سو صفحات کا سارا مواد اس پر منتقل کیا۔ ۵ ؍ستمبر کو یہ ویب سائٹ لانچ ہوئی ہے اور ماہ ستمبر کے اعداد وشمار کے مطابق مہینے کے آخر تک مختلف ممالک پاکستان، انڈیا، برطانیہ، امریکہ، سعودی عرب اور آسٹریلیا وغیرہ سے تیرہ سو سے زائد حضرات نے اس کو وزٹ کیا ہے۔ پھر اس میں ان کی دلچسپی کا عالم یہ ہے کہ ایسا نہیں کہ وہ ایک دفعہ آئے ہیں، دیکھا ہے اور وزٹ کر کے چلے گئے ہیں، بلکہ ان تیرہ سو حضرات نے ایک ماہ میں کئی ہزار مرتبہ اس ویب سائٹ کو دیکھا۔ مختلف اوقات میں بار بار آئے ہیں اور اس کے مختلف مضامین کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت کے فیضان اور ان کی خدمات کا سلسلہ تاقیامت جاری رکھے اور ہمیں اپنی اپنی استعداد کے لحاظ سے اس میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

مولانا قاری جمیل الرحمن اختر 

(مہتمم جامعہ حنفیہ قادریہ، لاہور)
آج ہم امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی یاد میں شائع ہونے والے الشریعہ کے خصوصی شمارہ کی تقریب رونمائی میں یہاں جمع ہیں۔ زیادہ تفصیل کا وقت نہیں اور بہت سے حضرات تشریف فرما ہیں جنھوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔ میں اس حوالے سے ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جب میں نے یہ شمارہ دیکھا تو بہت سے پہلو ایسے تھے جو ہمارے سامنے نہیں تھے۔ جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت اور جلوت تھی۔ جلوت کے گواہ تو صحابہ کرام تھے اور خلوت کی گواہ ازواج مطہرات تھیں۔ حضور اکرم کی گھر کی باتیں ہماری ماؤں نے بیان فرمائیں۔ اسی طرح اس شمارے میں گھر کی خواتین کے جو مضامین چھپے ہیں، ان سے حضرت کے گھریلو حالات کی بڑی خوب صورت تصویرسامنے آتی ہے۔ آپ یقین جانیے کہ فجر کی نماز کے بعد میں بیٹھا حضرت کے گھر کے حالات پڑھ رہا تھا تو بلامبالغہ عرض کر رہا ہوں کہ بعض ایسے واقعات تھے کہ ان کو پڑ ھ کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور بعض واقعات ایسے تھے کہ میں اکیلا بیٹھ کر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔ حضرت شیخ اور صوفی صاحب کی آپس کی پیار محبت کی باتیں اور بہت سیی چیزیں ہیں جو عام کتابوں میں نہیں ملتیں۔ خصوصاً اس حوالے سے کہ بچوں کی ہم نے تربیت کیسے کرنی ہے۔ آخر ہم بھی ان کے نام لیوا ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لیے بے قرار بھی ہیں اور دعائیں بھی کرتے ہیں اور کوششیں بھی کرتے ہیں۔ تو اس چیز سے الحمد للہ مجھے بہت فائدہ ہوا اور اللہ تعالیٰ سے امید بھی یہی ہے کہ جو جو ساتھی اس کو بغور پڑھے گا، اس کو بہت سی باتیں اس میں ملیں گی۔
حضرت کے صاحب زادے اور ہمارے کلاس فیلو، حضرت مولانا پیر رشید الحق عابد صاحب کا مضمون نہایت ہی اہم مضمون ہے۔ جب میں نے اس کوپڑھا تو یقین جانیے کہ میں حضرت کو جس انداز سے دیکھا کرتا تھا، وہ پوری باتیں انھوں نے اس میں ذکر کر دی ہیں۔ اللہ رب العزت ان کے علم وعمل میں اور عمر میں برکت عطا فرمائے۔
اسی طرح میرے والد صاحب کے ایک خلیفہ مجاز تھے حضرت مولانا عبد الحق صاحب جوہر آباد سے، بڑے متقی پرہیز گار تھے۔ جامعہ اشرفیہ کے بڑے بڑے اساتذہ ان کے شاگرد ہیں۔ حضرت مولانا اکرم کاشمیری بھی ان کے شاگرد ہیں۔ میں ایک دن ان کے پاس بیٹھا تھا۔ حضرت شیخ اس سے چند دن قبل میرے ہاں تشریف لائے تھے۔ تو حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں نے حضرت مولانا محمد اسحاق صاحب کو بڑے قریب سے دیکھا۔ ان کے اوپر جو انوار اور تجلیات تھیں حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی وساطت سے، وہ ایک الگ باب ہے۔ لیکن حضرت امام اہل سنت کے بارے میں فرمایا کہ میں نے ان کو اس حال میں دیکھا کہ ان پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی علمی تجلیات برس رہی تھیں۔ ان کا لوں لوں علم ہی علم ظاہر کر رہا تھا۔ یہ اللہ والوں کے ہاں ایک اصطلاح ہے کہ ذکر میں ان کا لوں لوں ذکر کرتا ہے۔ ان کا ایک ایک عضو اللہ کا ذکر کرتا ہے۔ حضرت رحمہ اللہ کے بارے میں انھوں نے یہ بات فرمائی اور یہ یقیناًبالکل صحیح بات ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ان کے روں روں سے، لوں لوں سے علم ٹپکتا تھا اور اللہ رب العزت نے اسی وجہ سے ان کو بہت اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا۔ 
اس موقع پر میں ایک دوست کا چھوٹا سا خواب بھی ذکر کردوں۔ مجھے حضرت کے جنازے کے بعد وہ آدمی ملا۔ میرے ہاں وہ جمعہ پڑھتا ہے۔ مجھے کہا کہ میں نے حضرت کا نام سنا تھا۔ دل میں خواہش تھی کہ جا کر ان کی زیارت کروں، لیکن موقع نہیں ملا۔ اچانک حضرت کے انتقال کی اطلاع ملی اور میں جنازے میں شریک ہو گیا۔ جنازے میں شرکت کے بعد جب گھر پہنچا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے ایک شخص دوکان پر اطلاع دے رہا ہے کہ حضرت مولانا سرفراز صاحب تیری دوکان پر تشریف لائے ہیں۔ میں حیران ہو گیا اور میں نے کہا کہ میں تو ان کا جنازہ پڑ ھ کر آیا ہوں، وہ کیسے آ گئے؟ بتانے والے نے یہ بھی بتایا کہ دو اور بھی بزرگ آئے ہیں اور ان کے آنے کا انداز اس قسم کا ہے کہ حضرت امام اہل سنت ایک پالکی میں ہیں اور ان دو بزرگوں نے پالکی اٹھائی ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ وہ کون بزر گ ہیں تو انھوں نے ایک نام تو حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کا لیا اور کہا کہ دوسرے بزرگ کا نام میں بھول گیا ہوں۔ میں نے اپنی عقیدت اور تعلق کی بنا پر کہا کہ دوسرا نام حضرت مدنی کا تو نہیں تھا؟ کہنے لگا کہ بالکل یہی تھا۔ کہنے لگا کہ میں نے دونوں بزرگوں کی بھی زیارت کی اور حضرت کی بھی زیارت کی۔ حضرت کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے جو حضرت کے پاس آ کر سوالات کر رہے ہیں ا ور حضرت ان کو فقہی جوابات دے رہے ہیں۔ اتنے میں میرا مصافحہ ہوا اور حضرت تشریف لے گئے۔
بہرحال حضرت کا ایک بلند علمی مقام ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں ان کے طرز پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم ان کی چیزوں کو اپنی زندگیوں میں لائیں۔ جس طرح ان کے ہاں اوقات کی پابندی تھی، ہمیں بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں حضرت کے غلاموں میں شامل فرمائے اور قیامت کے دن انھی کے ساتھ ہمارا حشر ہو۔ آمین

مولانا عبد الحق خان بشیر 

(ڈائریکٹر حق چاریار اکیڈمی، گجرات)
یہ تقریب الشریعہ اکادمی کی طرف سے ماہنامہ الشریعہ کی خصوصی اشاعت کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے تو میں الشریعہ اکادمی اور اس کے تمام منتظمین ومتعلقین کا شکریہ ادا کرتا ہوں، خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انھوں نے ایک اہم خدمت سرا نجام دی ہے۔ اس کے ساتھ ایک تھوڑا سا شکوہ بھی جو ہے تو بے موقع کہ حضرت امام اہل سنت کی شخصیت علمی اعتبار سے، روحانیت کے اعتبار سے، تقوے کے اعتبار سے اور کردار وعمل کے اعتبار سے جس اہم منصب اور جس اہم مقام پر تھی، چاہیے تھا کہ ان پر خصوصی نمبر کی اشاعت کے لیے کچھ مدت ہوتی، کچھ وقت ہوتا تاکہ احباب کھل کر اطمینان کے ساتھ کچھ لکھ سکتے۔ خود میں بھی، اگر عزیزم عمار خان ناصر میرے سر پر سوار نہ ہوتے اور صبح شام دس دس مرتبہ فون نہ کرتے تو شاید میں بھی نہ لکھ پاتا۔ بلکہ میں نے تو ایک دفعہ دھمکی بھی دے دی کہ اگر آپ اس کو کچھ موخر نہیں کر سکتے تو میں لکھنے سے قاصر ہوں، اس لیے کہ ان دنوں امام اہل سنت کے حوالے سے پورے پنجاب میں جو پروگرام ہو رہے تھے، ان پروگراموں میں شرکت کرنا ہوتی تھی پھر اپنی بھی صحت کچھ ایسی ہی تھی۔ بہرحال جیسا کہ برادرم مکرم مولانا زاہد الراشدی نے فرمایا کہ یہ ایک پیش رفت کا آغاز ہے۔ امام اہل سنت کی خدمات کے حوالے سے جو چیز منظر عام پر لائی جانی چاہیے تھی، وہ نہیں لائی جا سکی۔ اب بھی وقت ہے۔ ان شاء اللہ میں امید رکھتا ہوں کہ مختلف رسائل کی طرف سے یہ سلسلہ آگے بڑھے گا۔
برصغیر پاک وہند کے اندر جماعت دیوبند کو باقی تمام مکاتب فکر اور جماعتوں پر جو فوقیت اور برتری او ر جو امتیاز حاصل ہے، وہ صرف ایک ہے۔ ہم نے اکابرین دیوبند کی خدمات کو سیاسی دائرے میں بند کر دیا ہے اور علماے دیوبند کی انگریز کے خلاف جو خدمات ہیں، ہم ہمیشہ انھی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ ہم علماے دیوبند کی صرف علمی خدمات کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ کبھی تو ہم سیاسی حوالے سے سید حسین احمد مدنی کو کراچی کے خالق دینا ہال میں بیڑیاں پہنے کھڑا کرتے ہیں اور کبھی ان کو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سایے میں درس حدیث دیتا ہوا دکھاتے ہیں، لیکن آج تک ہم نے اس پر غور نہیں کیا کہ جماعت دیوبند کی سیاسی خدمات اپنے مقام پر، علمی خدمات اپنے مقام پر، روحا نی خدمات اپنے مقام پر، لیکن جو چیز جماعت دیوبند کو ہندوستان کے باقی مکاتب فکر پر فوقیت دیتی ہے، ممتاز کرتی ہے، وہ صرف ایک ہے اور وہ ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر اب تک جو اہل سنت والجماعت کا ایک متواتر فکر، ایک متواتر سلسلہ، علم وفکر، عقیدہ ونظریہ چلا آ رہا تھا، جماعت دیوبند نے مسلمانوں کا رشتہ اس سے ٹوٹنے نہیں دیا۔ یہی چیز ہے جو جماعت دیوبند کو باقی مکاتب فکر سے ممتاز کرتی ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ یہی چیز جو جماعت دیوبند کو باقی مکاتب فکر سے ممتاز کرتی ہے، وہی چیز امام اہل سنت کو باقی علما سے ممتاز کرتی ہے۔ 
کسی مقام پر امام اہل سنت نے نظریے کے معاملے میں کبھی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جب بھی اپنا موقف رکھا ہے، دوٹوک رکھا ہے۔ نظریے کے معاملے میں انھوں نے کبھی کسی کے ساتھ کمٹ منٹ نہیں کی، نظریے کے ساتھ کمٹ منٹ رکھی ہے، نظریے پر پختگی رکھی ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں اگر دو شخصیات نہ ہوتیں تو شاید اکابر علماے دیوبند کی حقیقی تعلیمات ہمارے ذہنوں سے بھی اتر چکی ہوتیں یا کم از کم وہ مقام ان کا نہ ہوتا جو ہمارے ذہنوں میں ہے۔ ایک شخصیت امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی ا ور دوسری شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ کی۔ ان دونوں شخصیات نے تحریری طو رپر ہر موضوع پر، ہر نظریے پر، ہر حوالے سے جماعت دیوبند کے موقف اور نظریے کو، اہل سنت والجماعت کے نظریے کو جس طرح اجاگر کیا ہے، اگر یہ دو شخصیات ہمارے ہاں موجود نہ ہوتیں تو شاید آج ہمارے پاس دار العلوم دیوبند کا، جماعت دیوبند کا خالص نظریہ موجود نہ ہوتا۔
میں اس وقت امام اہل سنت کی شخصیت کے حوالے سے تفصیلی بات نہیں کر سکتا او رنہ موقع ہے۔ صرف اپنی تربیت کے حوالے سے ایک چیز کا ذکر کروں گا کہ شیخ الحدیث امام اہل سنت نے میری تربیت کس طرح کی ہے۔ جب تک میں نصرۃ العلوم میں نہیں آیا تھا، گکھڑ میں مقیم تھا اور اسی طرح نصرۃ العلوم سے بھی جب میں چھٹی پر گھر جاتا تھا تو حضرت شیخ نماز کے وقت مجھے خود اپنے ساتھ لے کر مسجد میں جاتے اور گھر سے لے کر مسجد تک ان کا انداز یہ ہوتا تھاکہ یہ روڑا ہے، اس کو اٹھاؤ۔ یہ اینٹ ہے، کسی کو ٹھوکر لگے گی، اس کو اٹھاؤ۔ یہ اخبار کا ورق ہے، کسی کے پاؤں میں آئے گا، اس کو اٹھاؤ۔ گھر سے لے کر مسجد تک اور مسجد سے لے کر گھر تک یہی معاملہ ہوتا۔ اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ گھر کی گلی کے کونے میں دیکھتے کہ نالی بند ہے تو کھڑے ہو جاتے کہ ڈنڈا لو اور اس نالی کو صاف کرو۔ یہ سلسلہ دورۂ حدیث تک میرے ساتھ رہا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت میں ایک ہتک محسوس کرتا تھا، اس وقت سمجھتا تھا کہ یہ زیادتی ہو رہی ہے، یہ ظلم ہو رہا ہے، لیکن آج میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اگر شیخ نے اس انداز سے ہماری تربیت نہ کی ہوتی، ہم سے نالیاں صاف نہ کرائی ہوتی، ہم سے راستے صاف نہ کرائے ہوتے تو شاید ہمارے اوپر بھی صاحب زادگی کا خناس سوار ہوتا جو آج کے دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔ شاید اس فتنے کا بھوت ہمارے سروں پر بھی سوار ہوتا۔
ہمارے شیخ دو شخصیتوں کے تربیت یافتہ تھے اور دونوں کا نام حسین ہے۔ حسین احمد اور حسین علی۔ ہمارے شیخ کی علمی تربیت حسین احمد نے کی اور روحانی تربیت حسین علی نے کی اور ان دو حسینوں کی تربیت سے ایک وجود جو ہمارے سامنے آیا، ایک شخصیت جو ہمارے سامنے آئی، آج اس شخصیت کو دنیا امام اہل سنت کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ہمارے شیخ اکثر وبیشتر اپنے تلامذہ سے اور مختلف علاقوں سے آنے والے علما سے یہ بات سختی کے ساتھ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے اپنے اکابر کی وراثت اسی طرح تمہارے حوالے کر د ی ہے جس طرح وہ وراثت ہمارے حوالے کی گئی تھی۔ ہم نے اس کے اندر کسی قسم کی کوئی کمی بیشی نہیں کی۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ اس وراثت کو اسی طرح اگلی نسل تک پہنچاؤ۔ اگر تم نے اس وراثت کو اسی طرح اگلی نسل تک نہ پہنچایا تو قیامت کے دن ہمارے بھی ہاتھ تمہارے گریبانوں پر ہوں گے اور آنے والی نسل کے بھی ہاتھ تمہارے گریبانوں پر ہوں گے۔ 
اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس وراثت کی حفاظت کریں۔ خدا وند کائنات ہمیں اس وراثت کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی 

(مہتمم مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
یہ تقریب الشریعہ اکادمی کی طرف سے امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی شخصیت اور کردار اور خدمات کے حوالے سے شائع ہونے والے خصوصی نمبر کے بارے میں منعقد کی گئی ہے۔ برادر عزیز مولانا حافظ محمد عمار خا ن ناصر نے اس نمبر کے بارے میں اپنے تاثرات کے اظہار کے لیے حکم فرمایا تو میں نے ان سے گزارش کی کہ ہم سے اگر تاثرات نہ لیے جائیں تو اچھا ہے۔ بہتر یہ ہوگا کہ خاندان کے علاوہ جو دیگر حضرات مہمان تشریف لائے ہیں، ان کے تاثرات اگر اس حوالے سے سامنے آئیں تو وہ زیادہ مفید اور اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
بہرحال میں نے امام اہل سنت کے اس نمبر کا بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے اور اس کے علاوہ اب تک ان کے حوالے سے جتنی بھی تحریرات منظر عام پر آئی ہیں، تقریباً ساری الحمد للہ میری نظر سے گزری ہیں۔ ماہنامہ الشریعہ نے جو اشاعت پیش کی ہے، اس پر والد محترم حضرت صوفی صاحب کا ایک مقولہ مجھے مولانا عبد الحق صاحب کی تقریر سننے کے بعد بہت یاد آیا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کی کوئی بھی کوشش فائنل نہیں ہوتی۔ فائنل اتھارٹی خدا کی ذات ہے۔ انسان اپنی کوشش کر دے۔ وہ فرماتے تھے غلطیاں بعد والے نکالتے رہیں گے، تم کام کر دو۔ اس وجہ سے اس نمبر کے حوالے سے الشریعہ کی ساری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ انھوں نے بڑی کوشش کی ہے اور خصوصی طور پر مولانا عمار خان ناصر نے جو دماغ سوزی کی ہے اور تین چار مہینے اس پر جو شب وروز محنت کی ہے، اس پر داد نہ دینا میں سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی بخل کی بات ہے۔ کسی کو ان کے نظریات سے اختلاف ہو، ہو لیکن یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ مجموعی طور پر حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کے حوالے سے جو جامع چیزیں اس نمبر کے اندر آئی ہیں، اس سے پہلے جتنی بھی تحریرات منظر عام پر آئی ہیں، ان کے اندر یہ نہیں ہیں۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ جو چیزیں اس کے اندر ہیں، اس سے پہلے آنے والی تحریروں کے اندر وہ نہیں ہیں او ر جو چیزیں ان کے اندر ہیں، وہ ساری کی ساری اس کے اندر موجود ہیں۔ 
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمہ اللہ کی ایک تحریر جو ان کے مکاتیب میں شائع ہوئی ہے، اس کا حوالہ دینا یہاں ضروری سمجھوں گا۔ ان کے ایک شاگرد نے ان کو خط لکھا، غالباً ان کا نام مولانا عبد اللہ صاحب تھا جو مظاہر العلوم کے فارغ بھی تھے۔ انھوں نے لکھا کہ مجھے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر اس زمانے میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں تو میرا خیال یہ ہے کہ وہ سارے کام چھوڑ کر صرف تبلیغی کام کے اندر لگیں گے۔ حضرت شیخ نے جو جوابی خط لکھا، اس کا خلاصہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت شیخ نے بڑی سختی کے ساتھ ان کو لکھا کہ یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے، اس کو ذہن سے نکال دو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ایک جامع ذات تھی۔ وہ ہر وقت تمام چیزوں کو بیک وقت انجام دیتے تھے۔ وہ بیک وقت مجاہد بھی تھے، مبلغ بھی تھے، معلم بھی تھے۔ جتنے بھی شعبے ہیں، وہ بیک وقت انجام دیتے تھے۔ لیکن ہم کمزور لوگ ہیں، ہم بیک وقت یہ ساری چیزیں انجام نہیں دے سکتے۔ اللہ نے دین کے جس شعبے کے اندر لگا رکھا ہے، اس کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ کام لے رہا ہے۔
اس وجہ سے امام اہل سنت کی جامع الصفات شخصیت جو بیک وقت کئی صفات کی حامل تھی اور ان کو جاننے والے ان کے تمام پہلووں کو اس طرح نہیں لکھ سکتے جس طرح ان کی شخصیت تھی۔ یہ میرا دعویٰ ہے، کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ العلماء ورثۃ الانبیاء کہ علما، انبیا کے وارث ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ایک جامع شخصیت ہے اور جو صحیح معنی میں ورثا ہوں گے، وہ جامع شخصیات کے حامل ہوں گے۔ اس وجہ سے مجموعی طور پر اس نمبر کے اندر حضرت کی شخصیت کا جامع پہلو پیش کیا گیا ہے، میرے خیال کے مطابق کوئی پہلو رہا نہیں ہے۔ چاہے کم بیان ہوا ہو، لیکن موجود ضرور ہے۔ تفصیلات کے ساتھ بھی جو کتابیں لکھی جائیں گی، ان کے اندر بھی بہت سے پہلو تشنہ ہی رہیں گے۔ 
یہ تو اس کے اندر خوبی کی بات تھی۔ اور ایک بات جسے خامی کہہ لیں،وہ یہ کہ اس نمبر میں مسلکی بنیاد پر جو تنازعے کی تھوڑی سی صورت حال سامنے آئی ہے، میرے خیال کے مطابق یہ اس کا مقام نہیں تھا۔ اس کا علیحدہ مقام تھا۔ یہ نمبر حضرت کے مقام کو نمایاں کرنے کے لیے ہے نہ کہ اس نمبر کو متنازعہ بنانے کے لیے اور ان کی شخصیت پر اعتراضات کو اجاگر کرنے کے لیے۔ اس بحث کا مقام الگ ہے۔ کتابیں لکھی جائیں، پمفلٹ لکھے جائیں۔ اس نمبر کے اندر اس تنازعے کو نہیں چھیڑنا چاہیے تھا۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ میری سفارش ہے کہ اگر آئندہ اشاعت میں حضرت کے متعلق منظوم خراج عقیدت کو بھی شامل کر لیا جائے تو اس پہلو سے بھی عوامی تاثرات کی تسکین کا باعث ہوگا۔ میں نے مفسر قرآن نمبر شائع کیا ہے۔ مجھے پتہ ہے اس کے اندر کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، کن تحریروں کو نکالنا پڑتا ہے اور کن کو شامل کرنا پڑتا ہے۔ تو یہ چیز اگر اس کے اندر شامل کر لی جائے تو یہ نمبر میرے خیال کے مطابق ایک جامع نمبر ہے۔ اس کے بعد سوانح حیات تفصیلی مقالات لکھے جانے چاہییں۔ عوامی تاثرات کے حوالے سے کوئی مزید نمبر شائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

مولانا عبد القدوس خان قارن 

(استاذ الحدیث، مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ)
محترم حضرات! تحدیث نعمت کے طور پر میں اپنے عزیز عمار خان ناصر کے اس قابل قدر فخریہ کارنامے پر اس کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، اس کی ٹیم کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے عوام الناس کو حضرت امام اہل سنت کی شخصیت سے اور ان کی ذات سے روشناس کرانے کی حتی المقدور کوشش کی ہے۔ 
ایک تو میں درخواست کروں گا کہ اس کا کتابی پوائنٹ نمایاں کیا جائے۔ ایک دفعہ حضرت امام اہل سنت نے عینک تبدیل کرانا چاہی۔ آنکھوں میں پانی جاری ہوتا تھا تو فرمانے لگے کہ میری عینک کو تبدیل کیا جائے۔ فرمانے لگے کہ میں اور رسالے تو پڑھ لیتا ہوں، زاہد کی شریعت مجھ سے نہیں پڑھی جاتی۔ جن لوگوں کے پاس میں نے الشریعہ دیکھا ہے، بیس فیصد ان کا تاثر یہ تھاکہ ہم اس کی باریک لکھائی کی وجہ سے پڑھ نہیں سکے۔ 
جہاں تک مضامین کا تعلق ہے، ہر آدمی نے مضامین میں اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ میں آپ حضرات کے سامنے عقیدت کے اظہار اور آپ سے ایک اپیل کے طور پر عرض کروں گا کہ آپ نے مضامین میں پڑھا کہ حضرت شیخ الحدیث کی شخصیت ایک جامع شخصیت تھی۔ میں تو اپنے آپ کو علم، عمل، تقوے، للہیت کے لحاظ سے ایک ذرہ بھی ان کے مقابلے میں نہیں پاتا کہ کسی مسئلے میں ان سے اختلاف کر سکوں۔ جن کو ان کی علمیت کے ساتھ کچھ تناسب ہے، کچھ نسبت ہے، وہ اختلاف کریں۔ میری عقیدت یہ ہے کہ میں جزئیات میں بھی ان کا موافق ہوں اور کلیات میں بھی ان کا موافق ہوں۔ ایک ذرہ بھی ان کے ساتھ اختلاف کا میں سوچ بھی نہیں سکتا اور یہی عقیدت میری اپنے عم مکرم حضرت صوفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بھی ہے کہ جو انھوں نے لکھ دیا، وہی حرف آخر ہے۔ آپ حضرات سے بھی درخواست کروں گا کہ اگر آپ کو عقیدت ہے، محبت ہے تو اپنی علمیت اپنی جگہ، ان کی مسلمہ علمیت کے پیش نظر اختلاف اگر ذہن میں ہے بھی تو اس کو کاغذ پر نہیں آنا چاہیے۔ اس کو اشاعت میں نہیں آنا چاہیے۔
پھر میں مبارک باد کے ساتھ ایک شکوہ بھی کروں گا کہ ’الشریعہ‘ کے آخر میں شناختی کارڈ کی صورت میں ہی سہی، جو فوٹو آئی ہے، مجھے اس پر احتجاج ہے اور احتجاج کا میں حق رکھتا ہوں۔ یہ نہیں آنی چاہیے تھی۔ آپ حضرات میرے ساتھ اختلاف کریں گے کیونکہ آج اکثریت دوسری جانب جاتی ہے۔ اس میں حضرت کے نظریات کے ساتھ بے وفائی کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ آئندہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

پروفیسر غلام رسول عدیم

(چیف سیکریسی آفیسر، گوجرانوالہ بورڈ)
آج کی یہ نشست الشریعہ کے اس خاص نمبر کی مناسبت سے انعقاد پذیر ہوئی ہے جو امام اہل سنت حضرت شیخ الحدیث مولانا سرفراز رحمہ اللہ کی یاد میں شائع ہوا ہے۔ سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اذکروا محاسن موتاکم۔ اپنے گزشتگان ورفتگان کے محاسن بیان کیا کرو، ان کا تذکرہ کرتے رہو۔ ہم اسی فرمان رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آج یہاں اکٹھے ہیں کہ حضرت کے مکارم ومحاسن کا تذکرہ ہو۔ 
حضرات! جہاں تک حضرت کی جامع شخصیت کا تعلق ہے، اس میں نہ کسی اپنے کو نہ بیگانے کو اختلاف ہے۔ معاندت اگر ہٹ دھرمی سے کی جائے تو اور بات ہے، ورنہ اپنے بے گانے سب اس بات کے معترف رہے ہیں اور ہیں۔ آ پ نے جس انداز کی زندگی گزاری، جس تقویٰ وطہارت کی زندگی گزاری، جس محنت اور جفا کشی کی زندگی گزاری، جس انداز سے تعلیم وتربیت کا ایک منہاج اختیار کیا اور تعلیم وتدریس جو آپ کا اصل میدان تھا اور آپ کے ذوق کی مناسبت اس سے خصوصی تھی، وہ سب لوگ جانتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو دور سے جانتے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں جو قریب سے جانتے ہیں۔ 
جہاں تک اس خصوصی اشاعت کا تعلق ہے، اس میں آٹھ مختلف عناوین کے تحت مضامین کے الگ الگ حصے کر دیے گئے ہیں۔ پہلا حصہ سوانح کا ہے اور اس میں بڑے کامیاب اور شاندار قسم کے مضامین ہیں۔ حضرت نے اپنی آٹوبائیوگرافی بھی بیان کی ہے۔ یہ خود نوشت ہے، اس لیے ان کی وثاقت اور ثقاہت میں کسی کو کلام نہیں ہے۔ دوسرا حصہ حضرت کی تعلیم وتدریس سے متعلق ہے، اس میں مولانا فیاض خان سواتی نے نصرۃ العلوم کے حوالے سے بڑا جاندار مضمون لکھا ہے۔ مولانا قارن صاحب اور مولانا یوسف صاحب کے مضامین کو بھی بڑا کامیاب محسوس کرتا ہوں۔ تینوں مضمون بڑے کامیاب ہیں۔ جہاں تک آپ کی تصانیف کا تعلق ہے، تو سینتالیس کے قریب تصانیف پر ایک جامع اجمالی تبصرہ مولانا عبدالحق بشیر صاحب کا ہے جسے بہت کامیاب محسوس کرتا ہوں۔ اس حصے میں گیارہ مضامین ہیں۔ ان میں ڈاکٹر اکرم ورک اور حافظ سلیمان صاحب اور دوسرے حضرات کے مضامین ہیں۔ ایک نظر ڈالنے سے یہ ساری باتیں سامنے آتی ہیں۔ پھر وہ حصہ ہے جسے حضرت کے حوالے سے تاثرات کے لیے مختص کیا گیا ہے۔ اس میں ۲۳ مضمون ان لوگوں کے ہیں جو آپ سے صلبی ونسبی رشتہ رکھنے والے ہیں۔ ان میں مرد حضرات بھی ہیں او رخواتین بھی۔ اس کے آغاز میں حضرت مولانا راشدی کا مضمون ہے جس سے بہت سی باتیں جو ہمارے لیے پردۂ خفا میں تھیں، معلوم ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ گھر کے لوگ ہیں، گھر کے لوگوں نے حضرت کی اندرونی زندگی، آپ کی صالحیت، آپ کے خصائل وشمائل، ان کو بڑے اچھے انداز سے پیش کیا ہے۔ مجھے حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ مرد حضرات تو ہیں ہی، خواتین نے بھی ا شاندار طریقے سے معلومات فراہم کی ہیں اور ان میں ادبی شکوہ بھی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دودبان روشن حضرت والا کی نسبت کی وجہ سے اپنے اندر بہت سارے کمالات رکھتا ہے۔ خاص طور پر وہ مضمون جو آپ کی لخت جگر، اہلیہ مولانا قاری خبیب احمد عمر کا ہے جس کا عربی عنوان دیا گیا ہے: ذہب الذین یعاش فی اکنافہم (وہ لوگ رخصت ہو گئے جن کے دامن میں رہنے کی سعادتیں حاصل ہوا کرتی تھیں) اس مضمون میں اور خواتین کے دیگر مضامین میں تاثرات، گھر کی خدمات اور دوسری بہت سی باتیں بڑی تفصیل سے در آئی ہیں۔ اس کے بعد ۳۶ مضامین پر متضمن وہ حصہ ہے جس میں حضرت کے متوسلین، اہل علم، تلامذہ اور دوسرے بہت سے اہل قلم کی تحریریں ہیں جن کا ایک ایک کر کے ذکر کرنا تحصیل حاصل ہے۔ اس میں حضرت مفتی محمد عیسیٰ صاحب کا مضمون بڑا شاندار مضمون ہے۔ 
تین افراد کا ذکر کیے بغیر میں نہیں رہ سکتا۔ ایک حاجی لقمان اللہ میر جو حضرت کے خادم خاص تھے۔ مجھے پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس یاد آ گئے جن کو ان کی والدہ ام سلیم نے آپ کی خدمت کے لیے مختص کر دیا تھا۔ دس سال تک خدمت اقدس میں رہے اور ان کا تاثر یہ تھاکہ کبھی آپ نے ہوں تک نہیں کہا۔ کبھی ڈانٹا نہیں ڈپٹا نہیں۔ حاجی صاحب نے ، حالانکہ وہ کاروباری آدمی ہیں، اپنے بہت سے وسائل کو حضرت کے لیے مختص کر دیا اور بیماری کے عالم میں سارے کے سارے اخراجات انھوں نے اٹھا لیے۔ کسی نے اگر اس میں شرکت کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ میں ا س ضمن میں لا شریک ہوں۔ دوسرے صاحب مولانا محمد نواز بلوچ جنھوں نے آپ کی بہت خدمت کی اور ہر طرح سے کوشش کی اور ذخیرۃ الجنان کے عنوان سے جو کام وہ کر رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ ان کی نجات کا باعث ہوگا۔ تیسرے ڈاکٹر فضل الرحمن صاحب جو ایک سرکاری ملازم ہونے کے باوجود اپنی دوسری مصروفیات کے سوا حضرت کی خدمت میں برابر ومسلسل وہموار لگے رہے اور آخری لمحے تک آپ کو طبی امداد اور طبی سہولتیں پہنچاتے رہے۔ 
اس کے علاوہ وہ دو مضمون بھی مجھے بہت پرکشش لگے جو منہج فکر کے عنوان کے تحت شامل ہیں۔ ایک مولانا عبد الحق خان بشیر کا اور دوسرا عزیز مکرم عمار ناصر صاحب کا جس سے حضرت کیذہنی وفکری اور نظری راہ مستقیم سامنے آتی ہے۔ پھر افادات ہیں، مکاتیب ہیں جن سے بہت سی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ 
ایک مستشرق ڈاکٹر اسپنگلر نے بڑے تحیر آمیز اور بڑے تعجب آمیز انداز سے کہا تھا کہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص کی زندگی کو معلوم کرنے کے لیے مسلمانوں نے پانچ لاکھ افراد کو ریکارڈ کر لیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات وکوائف اور آپ کی سیرت اور آپ کے نظریات ساری باتیں معلوم کرنے کے لیے پانچ لاکھ افراد کے حالات صفحہ قرطاس پر منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ ہمارا علم اسماء الرجال ہے جس کا کوئی ثانی دنیا کے کسی ادب میں نہیں۔ عام معلومات کے دائرے میں ہم کہتے ہیں کہ ٹائن بی نے لکھا ہے تو مان لیتے ہیں کہ وہ بڑامورخ ہے۔ لیکن یہاں نہیں مانتے۔ اس لیے کہ بتانا ہوگا کہ کہاں سے بات چلی اور کس نے کس سے سنی۔ سلسلہ رواۃ جب تک مضبوط نہ ہوگا، ہم بات نہیں مانیں گے۔ وہاں تو یہ تھا کہ ایک شخص کی زندگی کو جاننے کے لیے پانچ لاکھ افراد کی زندگیاں سامنے آ گئیں۔ حضرات! یہاں بھی اسی سنت کے پیش نظر ایک شخص کی زندگی کے بارے میں بتانے کے لیے جانے کون کون سے لوگ جو پردۂ خفا میں تھے، خانوادے کے افراد اور دوسرے بہت سارے افراد، وہ سامنے آ گئے۔ بالخصوص گھر والوں کے بارے میں مولانا راشدی نے لکھا ہے کہ ہم نے ایک دن جائزہ لیا تو حضرت کی اولاد، پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں چالیس حفاظ کرام نکلے۔ کیسا روشن دودمان ہے۔ کیسا روشن خانوادہ ہے۔ پھر یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور آگے بڑھتا چلا جائے گا۔
حضرات! اس شمارے کے سلسلے میں ایک اور بات عرض کر دوں کہ میرے ذہن میں کچھ تجاویز تھیں۔ میرے خیال میں تھا کہ آپ کے اخلاف کو یہ کرنا چاہیے، وہ کرنا چاہیے، لیکن جونہی شمارہ ہاتھ لگا اور اس کا کلمہ حق پڑھا تو بے حد مسرت بھی ہوئی اور اطمینان بھی ہوا کہ ہمارے عزیز مکرم عمار خان ناصر نے یہ سلسلہ اس سے پہلے ہی شروع کر رکھا تھا۔ کوئی دو سال پہلے، کوئی سال پہلے، کوئی تین سال پہلے۔ اس میں چودہ منصوبے گنوائے گئے ہیں۔ بعض تو بروے کار ہیں جن پر کام ہو رہا ہے اور بعض زیر نظر ہیں، مثلاً انٹرنیٹ کا ہے یا سیمینارز کا ہے۔ ان پر کام ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ انھیں اس بات کی توفیق دے۔ یوں حضرت کی زندگی کے بے شمار گوشے سامنے آ جائیں گے اور اس مینارۂ نور سے جانے کب تک لوگ استینار کرتے رہیں گے۔ میں آخر میں علامہ اقبال کے الفاظ میں کہوں گا:
لکھی جائیں گی کتاب دل کی تفسیریں بہت
ہوں گی اے خواب جوانی تیری تعبیریں بہت
ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون
اٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تیر کون

پروفیسر حافظ محمود اختر 

(چیئرمین شیخ زاید اسلامک سنٹر، لاہور)
آج کی مجلس میں شرکت میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہے اور میں آج ان مختصر لمحات میں کچھ تو الشریعہ کے اس شمارے کے بارے میں بات کروں گا اور ایک بات بڑے مختصر انداز سے وہ کروں گا جو میں اکثر کیا کرتا ہوں۔
یہ ایک بالکل روز روشن کی طرح عیاں حقیقت ہے کہ علم اور روحانیت اور عمل کے اعتبار سے اور اسلاف کے ساتھ تعلق کے حوالے سے جو کچھ علماے دیوبند کے پاس موجود ہے، وہ کسی اور مسلک کے پاس نہیں ہے۔ یہ کوئی مسلکی تعصب کی بات نہیں ہے، بلکہ بالکل بجا کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسلک کے علما سے جو خدمات لی ہیں اور جو کچھ ان کے پاس ہے، وہ کسی اور کے پاس نہیں ہے۔ سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ یہ اپنے اندرونی وداخلی وسائل کی بنیاد پر او ر دین کے ساتھ اپنی محبت کی بنیاد پر یہ ساری خدمات انجام دے رہا ہے۔ ہمارے پاس کوئی خارجی وسیلہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود جس اخلاص کے ساتھ یہ مسلک دین کی خدمت پر لگا ہوا ہے، یہ اسی کا حصہ ہے۔ 
میں اپنے بھائی مولانا زاہد الراشدی صاحب سے ہمیشہ یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے پاس اتنا علمی ذخیر ہ موجود ہے، قیادت کرنے والی شخصیات موجود ہیں، لیکن ہمارے بہت سے لوگ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بکھرے ہوئے ہیں، کسی کے ساتھ دوسرے کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ مثلاً میں پنجاب یونیورسٹی میں پڑھاتا ہوں۔ مجھے معلوم تک نہیں کہ میرے مسلک کے اور کون کون سے ساتھی موجود ہیں۔ جو ساتھی موجود ہیں، وہ اپنے اپنے طو رپر کام کر رہے ہیں۔ ہم نے کبھی یہ بھی کوشش نہیں کی کہ چھ مہینے یا سال کے بعد آپس میں بیٹھ کر تبادلہ خیال کر لیں کہ ہمارے مسلک کی کوئی نئی کاوش سامنے آئی ہے، یا کسی بزرگ کی خدمات سامنے آئی ہیں۔ دوسرے سب لوگ دروس قرآن کے حوالے سے یا مطالعہ کتب کے حوالے سے یا کسی اور عنوان سے اکٹھے ہو جاتے ہیں، لیکن ہمارے اندر یہ کمی ہے اور میں اپنے آپ کو بھی اس کا مورد الزام ٹھہراتا ہوں کہ میں نے یونی ورسٹی کے اندر زندگی گزار دی لیکن یہ نہیں کر پایا۔ 
اصل یہ ہے کہ لوگوں کو اکٹھا کرنے کے لیے ایک پرکشش شخصیت کی اور پرکشش قیادت کی ضرورت ہوتی ہے۔ محترم راشدی صاحب سے میں کہتا رہا ہوں کہ ہمیں قیادت فراہم کیجیے، ہمیں اکٹھا کیجیے، ہم بکھرے ہوئے ہیں۔ اس سے فکری مرکزیت بھی آئے گی اور ہمارے اندر اجتماعیت کا پہلو بھی پیدا ہوگا۔ میں آ ج اس مجلس کی مناسبت سے بھی زاہد الراشدی صاحب سے گزارش کرتا ہوں کہ جس طرح انھوں نے گوجرانوالہ کے اندر یہ مرکز قائم کیا ہے، دوسرے مختلف مقامات پر اس طرح کے مراکز قائم کیے جائیں۔
میں مولانا زاہد الراشدی کا نام یونیورسٹی میں کسی لیکچر کے لیے پروپوز کرتے ہوئے جھجھک محسوس کرتا تھا کہ وہاں ایک اور ماحول ہے، ایک اور مسلک ہے، ایک اور نقطہ نگاہ ہے۔ ایک مرتبہ انھوں نے وہاں یونی ورسٹی کے اندر تقریر کی اور لوگوں نے ان کو میرے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھ لیا تو کہا کہ آپ کیسے ان کے واقف ہیں؟ میں نے کہا کہ ہم تو بچپن کے لنگوٹیے دوست ہیں، ہم نے بچپن اکٹھے گزارا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے آج تک ان کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ آپ نے چھپا کر کیوں رکھا ہوا تھا۔ ابھی پچھلے ہفتے میں نے یہ بات کی کہ حدیث اور سنت کے فرق کا جو موضوع ہمارے ہاں چل رہا ہے، اس پر لیکچر کرانے چاہییں، تاکہ ہمارے پی ایچ ڈی اور ایم فل کے جو اسٹوڈنٹس ہیں، ان کو اس کی حقیقت کا پتہ چلے اور گفتگو کے لیے ایسے عالم لانا کو چاہیے جو صحیح معنی میں اس پر گرفت رکھتا ہو۔ فوری طور پر بلا کسی اختلاف کے سب نے کہا کہ زاہد الراشدی صاحب کو لائیں۔ تو مرکزیت ان جیسے لوگ قائم کر سکتے ہیں۔ ہمیں پلیٹ فارم فراہم کر سکتے ہیں۔ بغیر کسی سیاسی مقصد کے، خالص دینی نقطہ نگاہ سے ہماری قیادت کریں۔ لاہور میں اگر ہم کوئی فنکشن کریں تو یہ ہماری فکری تربیت کریں۔ اسی طرح دوسرے چھوٹے شہروں میں بھی مرکز قائم ہوں جہاں مہینے دو مہینے کے بعد غیر سیاسی بنیاد پر فکری تربیت کا اہتمام کیا جائے۔ خالصتاً علم کی بات کی جائے اور کم از کم جو دیوبندی اساتذہ ہیں یا ان کے شاگرد ہیں، انھیں مل بیٹھنے کا ایک موقع تو فراہم ہو۔ 
دوسری بات یہ کہ مولانا سرفراز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہو یا دوسرے علماے دیوبند کی، ایک چیز میری زندگی کے محسوسات میں شامل ہے کہ ان کی تصانیف اور ان کے علمی کارنامے جو ہیں، ہماری لائبریریوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں شعبہ اسلامیات کے اندر حضرت مولانا کی شاید ایک یا دو کتابیں موجود ہوں اور اسلامک سنٹر میں پانچ چھ کتابیں ہوں گی۔ میں نے حضرت مولانا پر ایک چھوٹا سا آرٹیکل لکھا، چند صفحے کی کاوش کی، اس کے لیے بھی میں نے کوشش کی کہ لائبریری سے کوئی کتاب مل جائے۔ تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مولانا کے اس کام کو جو فروغ دینے والے لوگ ہیں، وہ اس چیز کا بھی اہتمام کریں کہ علماے دیوبند کی کتابوں اور خصوصی طور پرمولانا سرفراز صاحب کی کتابوں کو ایک مشن کے طور پر لائبریریوں تک پہنچایا جائے۔ یہ مولانا پر یا علماے دیوبند پر کوئی احسان نہیں ہوگا۔ لائبریریوں میں یہ کتابیں موجود ہونی چاہییں۔ علماے دیوبند اس کے محتاج نہیں کہ ان کی کتابیں لائبریریوں میں آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کتابوں کو فی الواقع لائبریریوں کی زینت بننا چاہیے۔ ہم مولانا کی اور علماے دیوبند کی کتابوں کو ایک تحریک کے طور پر علمی انداز سے، مثبت انداز سے مختلف لائبریریز کے اندر پہنچانے کا بندوبست کریں۔
آج کا دور ریسرچ کا دور ہے۔ کوئی شخص کسی تحریر کو پڑھتا ہے تو دیکھا جاتا ہے کہ نیچے حوالہ جات ہیں؟ کوئی کتابیات دی ہوئی ہے؟ اگر کتابیات نہ ہو، حوالے نہ ہوں تو لوگ کتاب کو رکھ دیتے ہیں کہ اس کی استنادی حیثیت تو ہے ہی نہیں۔ میں میں عرض کرتا ہوں کہ اگر تحقیق کے جدید تقاضوں کو سامنے رکھ کر مولانا سرفراز صفدر کا بطور محقق جائزہ لیا جائے تو باوجودیکہ مولانا کی بہت سی کتابیں پچاس ساٹھ سال پہلے کی لکھی ہوئی ہیں، ان کے اندر ایک بڑے اچھے محقق کی تمام صفات سب کتابوں کے اندر موجود ہیں۔ ایک محقق کے لیے جتنی بھی صفات بیان کی جاتی ہیں، میں نے اس معیار پر پورا اترنے والی مختلف کتابوں کا ذہن میں سوچا تو دیکھا کہ اس کی صفات بھی مولانا کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے، بالکل سچ کہہ رہا ہوں۔ 
باقی رہی بات ’الشریعہ‘ کی خصوصی اشاعت کی تو میں عزیز محترم عمار خان ناصر کو دعائیں دیتا ہوں، شکر گزار تو ہونا ہی ہے کہ انھوں نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ زاہد صاحب میرے ہم عمر ہیں۔ یہ ان کے بیٹے ہیں اور اگلی نسل سے ہیں۔ اس نسل میں ہمارے پاس ایک نوجوان ایسا موجود ہے۔ اس کے علاوہ اور کتنے ایسے نوجوان چھپے ہوئے بیٹھے ہیں جن کی صلاحیتوں سے ہم کام نہیں لے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی صلاحیتوں میں اور برکت ڈالے ۔ ایک نوجوان نے یہ کام کیا۔ میں خود حیران ہوں کہ یونیورسٹی کے اندر رسالے چھپتے ہیں تو ہم سر کی ٹھیکریاں توڑ دیتے ہیں، منتیں کرتے ہیں، لیکن آرٹیکل نہیں آتے اور یہاں ان کے خلوص کا اور مولانا رحمہ اللہ کے ساتھ لوگوں کی محبت کا یہ ایک اظہار ہے کہ اتنی محبت کے ساتھ بے حد جاندار مضامین لوگوں نے لکھے ہیں۔ یہ عمار خان کی جو لگن ہے کام کرنے کی، کام کے پیچھے پڑ جانے کی، یہ اس کا ثمر ہے۔ اس کی یہاں سے بھی تائید ہوئی ہے، مولانا عبد الحق صاحب نے فرمایا ہے کہ عمار خان ان کے پیچھے نہ پڑتے تو وہ کبھی نہ لکھ پاتے۔ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے افراد ہمارے پاس موجود ہیں، کام کرنے کا سلیقہ رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ ان افراد سے کام لیا جائے۔
میں مبارک بار دیتا ہوں الشریعہ اکادمی کہ انھوں نے الشریعہ کا یہ خصوصی شمارہ نکالا ہے۔ ہمارے استاذ محترم حافظ احمد یار صاحب کہا کرتے تھے کہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ پچاس یا ساٹھ سال سو سو سال بعد حدیثیں لکھی گئیں۔ وہ کہتے تھے کہ کسی شخصیت کے تمام پہلووں پر جامع مواد اکٹھا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس شخصیت کو فوت ہوئے کم از کم پچاس ساٹھ سال یا دونسلیں گزر گئی ہوں۔ یہ جو شمارہ آیا ہے، اس میں ان لوگوں کے تاثرات ہیں جو حضرت مولانا کے ساتھ بیٹھے، جنھوں نے کچھ سیکھا یا کچھ پڑھا۔ مولانا کے بہت سے شاگرد اور ملنے والے ایسے ہوں گے جو ایسی باتیں بتائیں گے جو اس کے اندر موجود نہیں ہیں اور کسی کو معلوم نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ ایسے بھی ہوں جو کہیں کہ اس بات کا علم صرف مجھے ہے۔ تو اس کام کا اگلا مرحلہ بھی آئے گا، اس لیے میری گزارش ہے کہ اس کو مزید بہتر اور جامع بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔ صرف اسی پر اکتفا نہ کر لیجیے کہ ہم نے حضرت مولانا پر ایک شمارہ شائع کیا تھا۔ ان کے حالات زندگی پر ایک جامع قسم کی دستاویز تیار کی تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ مولانا کا جو زندگی کا مشن تھا، مولانا نے جو کچھ زندگی کے اندر کیا، اس پروگرام کو اس مشن کو اور زیادہ موثر انداز سے دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اہتمام کریں۔ 
اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے خصوصی جوار رحمت میں جگہ دے، ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس قابل بنائے کہ ہم ان کے مشن کو آگے چلا سکیں۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

پروفیسر حافظ خالد محمود 

(اسلام آباد)
میں الشریعہ اکادمی کے منتظمین کا شکرگزار ہوں کہ انھوں نے اس بلند فکری وعلمی مجلس میں مجھے شرکت کی دعوت دی اور صدارت کی نشست پر بٹھا کرمیری عزت افزائی کی۔ 
مجھے یہ خوشی ہے کہ ہمارے حلقے کے اندر ’الشریعہ‘ کی طرز کے علمی رسالے نکلنے لگے ہیں۔ اس سے پہلے ہم دائیں بائیں دیکھتے تھے تو بعض طبقوں میں اچھے معیاری رسالے نظر آتے تھے۔ ہم سوچا کرتے تھے کہ ہم ہیں تو حق پر، ہمارے علما بڑے جید علما ہیں، جس طبقے سے ہمارا تعلق ہے، وہ بڑے عظیم لوگ ہیں۔ تقویٰ، تدین، علم وفضل، ہر اعتبار سے ہمیں پورا اطمینان تھا۔ ہم نے ان سے پڑھا۔ صوفی عبد الحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے میں نے حماسہ، متنبی اور سیرت ابن ہشام پڑھی۔ یہ سب دیکھے بھالے لوگ تھے۔ یونی ورسٹیوں میں بھی ہم گئے، اہل علم کی مجلسوں میں بھی گئے تو ہمیں اطمینان تھا کہ ہم جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس میں بڑے علم وفضل والے لوگ ہیں۔ صاحب تقویٰ وتدین لوگ ہیں۔ لیکن ہر دور اپنے تقاضے اپنے ساتھ لاتا ہے۔ اس کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ یہ تحقیق کا دور ہے، علمی وفکری دور ہے۔ اس کے تقاضوں کے مطابق چلیں گے اور انھیں سمجھیں گے تو ہم عصر حاضر کا جواب دے سکتے ہیں ورنہ مار کھا جائیں گے۔ ہمارے یہ الشریعہ اکادمی کے حضرات کافی حد تک اس پر پورے اتر رہے ہیں جو اطمینا ن بخش بات ہے۔
اور عمار خان ناصر کے بارے میں بعض حضرات سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا مجھے بڑی خوشی ہے کہ ان کے بڑے محققانہ مضامین آتے ہیں۔ کسی کو اختلاف رائے ہو تو علما کا حق ہوتا ہے۔ یہ ہم نے پرانی کتابوں میں بھی پڑھا ہے۔ کل ہی میں مولانا سرفراز خان صاحب مرحوم کی کتاب طلاق ثلاثہ کے مسئلے پر پڑھ رہا تھا تو اس میں مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے عائلی کمیشن کی رپورٹ پر جو تبصرہ لکھا تھا، اس کا بھی حوالہ تھا۔ وہ میں نے کتاب کافی عرصہ پہلے پڑھی ہوئی تھی۔ اس میں انھوں نے کہا تھاکہ طلاق ثلاثہ کے بارے میں تمام ائمہ متفق ہیں کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں ہوجاتی ہیں، سوائے امام ابن تیمیہ یا امام ابن قیم یا علامہ ابن حزم کے۔ تو مولانا سرفراز صاحبؒ نے لکھا کہ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کو غلطی لگی ہے، علامہ ابن حزم بھی ایک مجلس کی تین طلاقوں کے قائل تھے۔ تو مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ مطالعہ سے انسان کو کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ میرے ذہن میں یہی تھاکہ یہ تین لوگ ہیں، لیکن اس کے بعد پتہ چلا کہ صرف علامہ ابن تیمیہ ہیں اور علامہ ابن قیم ان کے شاگرد ہیں، انھوں نے تو کرنا ہی تھا۔ خیر مجھے یہ بات یاد آئی کہ مولانا امین احسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ میں علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم سے بڑی عقیدت رکھتا ہوں اور ان کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں، لیکن ان کا یہ موقف اطمینان بخش نہیں ہے، اس میں استدلال کی بڑی کمزوریاں ہیں۔ اب دیکھیں کہاں علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن قیم، لیکن ان سے بھی لوگ اختلاف رکھتے ہیں۔ تو علما کو یہ حق ہوتا ہے۔
الشریعہ کے خصوصی نمبر کی ابھی میں نے صرف ورق گردانی کی ہے۔ اس کی فہرست دیکھی تو کافی اطمینان ہوا۔ پھر پروفیسر عدیم صاحب کا جو تبصرہ میں نے سنا ہے، اس سے بھی مستفید ہوا ہوں اور اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ الحمد للہ نمبر بڑا معیاری ہے۔ جو کمی بیشی ہے، ان کی نشان دہی بھی بعض بزرگوں نے کی ہے۔ وہ بھی دور ہوتی رہے گی اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ اس سے پہلے استاذ گرامی حضرت مولانا صوفی عبد الحمید صاحب پر جو نمبر شائع ہوا ہے، اس میں جیسی ان کی بھرپور علمی شخصیت تھی، اس کی عکاسی نہیں ہوئی۔ ان کا سوچ کا انداز مولانا سرفراز صاحب سے ذرا مختلف تھا۔ مذہبی اختلاف نہیں تھا، لیکن ان کی سوچ کا ان کے فکر کا انداز اپنا تھا۔ تو اس انداز میں نمبر نہیں نکلا۔ 
مجھے ایک بڑے فلاسفر کا واقعہ یاد آگیا۔ جب وہ مرنے لگا تو اس نے اپنے خویش واقارب کو جمع کیا اور کہا کہ میں مرنے لگا ہوں تو مجھے تالی بجا کر رخصت کرو۔ انھوں نے کہا کہ آپ مرنے لگے ہیں، یہ تو ہمارے لیے پریشانی کی بات ہے اور آپ کہتے ہیں کہ تالی بجا کر رخصت کرو۔ اس نے کہا، ہاں اس لیے کہ آپ کے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ میں زندگی میں اپنا کردار صحیح طور پر انجام دے کر رخصت ہو رہا ہوں۔ میں جو سمجھتا تھا کہ میں نے زندگی میں علم کے اعتبار سے، فکر کے اعتبار سے، اپنی دانش اور سمجھ بوجھ کے اعتبار سے کیا کردار ادا کرنا ہے، اس میں، میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میں نے اپنا رول صحیح ادا کیا ہے۔ تمہیں فخر ہونا چاہیے۔ اس لیے اس انداز میں دنیا سے رخصت کرو۔ 
میں اسی کو سامنے رکھ کر کہتا ہوں کہ ہم ان دونوں بزرگوں سے بڑے متاثر ہیں۔ دعاگو بھی رہتے ہیں اور احترام بھی ہمارے دلوں میں ہے۔ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کتنا احترام ہے۔ ان لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھا ہے اور انھوں نے زندگی میں اپنا کردار صحیح سرانجام دیا ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کے کارناموں کو سمجھیں اور انھوں نے جو علمی وفکری سرمایہ چھوڑا ہے، اسے اگلی نسل تک خوب صورت انداز میں پہنچائیں۔ 
میں دوبارہ آپ حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اس قابل نہیں تھا۔ میں پچھلی صف کا آدمی ہوں۔ بہرحال میں اس عزت افزائی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس خانوادے نے مجھے علما کی اس مجلس میں صدارت کی نشست پر فائز کیا۔

مولانا مفتی محمد عیسیٰ خان گورمانی

(جامعہ فتاح العلوم، گوجرانوالہ)
ہمارے شیخ محی السنۃ مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ، اللہ جل شانہ کی عظیم قدرت اور عجیب نمونہ تھے اور ایسی شخصیات صدیوں بعد اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق پر مرحمت فرماتے ہیں۔ وہ بیک وقت علما کے لیے بھی حجت تھے، اہل علم حضرت کا نام لے کر کسی مسئلہ کو مستند سمجھتے تھے۔ کبار علما کو دیکھا جو ان کے معاصرین تھے بلکہ ان کے بڑے جو اساتذہ کے درجے میں تھے، وہ بھی حضرت کے علم وعمل کی توصیف کرتے تھے اور آپ کی تحسین میں رطب اللسان نظر آتے تھے۔
آپ مرجع خلائق تھے۔ ایک موقع پر حضرت شیخ کے شہر گکھڑ میں ایک مجلس منعقد ہوئی اور حضرت شیخ کو پیری مریدی کے سلسلے میں جو مقام حاصل ہے، اس کا تعارف کرانے کے لیے علما اور احباب کو بزرگوں کو بلایا گیا۔ میں نے کہا کہ بعض ہستیاں ایسی ہوتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے وقت کے مسند ارشاد کے ولی کامل ہوتے ہیں اور ان کا اس زمانے میں کوئی مقابل یا معارض نہیں ہوتا، لیکن ان پر علم غالب ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت بڑے مرشد کامل تھے، لیکن آپ پر نبوت اور نبوت کا جو لازمی عنصر ہے دعوت، اللہ کی کتاب کی تعلیم، یہ غالب تھا۔ ہمارے اکابر علما حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہما اللہ یہ بڑے اونچے درجے کے لوگ تھے۔ اپنے وقت کے بزرگوں سے جو صاحب ارشاد تھے، ان سے بھی بڑے اونچے تھے، لیکن ان پر علم غالب تھا۔ ہمارے شیخ پر بھی علم، حدیث، سنت، اللہ کی کتاب یہ عنصر غالب تھا۔ میں نے کہا کہ بندۂ خدا، تم کیا تعارف کراتے ہو! اس وقت حضرت شیخ بالکل صحت مند تھے۔ یہ تقریباً پندرہ سال پہلے کی بات ہے۔ 
کسی نے امام احمد کے بارے میں یہ کہا تھا کہ لا یحبہ الا مومن ولا یبغضہ الا مبتدع۔ ان کی محبت معیار ہے ایمان کا اور ان سے نفرت وبغض معیار ہے اس بات کا کہ وہ راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔ ابن تیمیہ اس مقام پر پہنچ گئے کہ اس وقت کے ان کے معاصرین نے کہا کہ جس حدیث کو ابن تیمیہ نہیں جانتے، وہ حدیث نہیں ہے۔ کل حدیث لم یعرفہ ابن تیمیۃ فہو لیس بحدیث۔ حالانکہ یہ بات اس طرح معیاری نہیں ہے، لیکن ایک محاورہ ہے، ایک بات ہے، ان کا تعارف ہے۔ 
ہمارے شیخ میں بہت بڑی صفات ہیں۔ کیا عرض کروں۔ تفصیل کا موقع نہیں۔ حضرت پر جمال غالب تھا۔ میں نے حضرت شیخ لاہوریؒ سے پڑھا ہے۔ دو ڈھائی مہینے ان کی خدمت میں شب وروز رہا ہوں۔ استاذ مولانا مفتی محمود صاحب میرے شیخ ہیں ، استاد ہیں۔ خلوت جلوت میں ان کے ساتھ سفر بھی کیا ہے۔ اس طرح ہمارے شیخ استاذ مولانا قاضی شمس الدین صاحب رحمہ اللہ۔ لیکن جو بردباری، تحمل، برداشت، حسن اخلاق، سلیقہ عوام کے ساتھ، علما کے ساتھ، حتی کہ تلامذہ کے ساتھ، ادنیٰ لوگوں کے ساتھ، وہ کہیں اور نہیں دیکھا۔ باوجود اس کے کہ تلامذہ سے، شاگردوں سے، خدام سے، معاصرین سے بہت سی باتیں خلاف طبع اور خلاف ادب بھی سرزد ہو جاتی تھیں، لیکن حضرت کی برداشت ایسی تھی کہ اس کے کیا کہنے! بڑ ے بڑے اکابر کو ہم نے مجلس میں لقمے دیے، لیکن اس انداز سے کہ کسی کو محسوس نہ ہو۔ حضرت سے میں نے ۱۹۵۷ء میں دورۂ حدیث پڑھا ہے۔ کئی بحثیں اور کئی مسائل ایسے ہوتے کہ میں کہتا کہ حضرت! آپ کی اس بات پر اطمینان نہیں ہوا جو آپ نے جواب دیا۔ فرمایا، صوفی لوگوں کو اطمینان بہت کم ہوتا ہے۔ میں کہتا کہ حضرت فلاں عالم نے یوں کہا ہے، فلاں نے یوں کہا ہے، فلاں نے یوں کہا ہے۔ ایسا معارضے کے انداز میں ہوتا، حالانکہ وہ استاذ ہیں، پڑھا رہے ہیں، ہماری حیثیت نہیں ہے۔ دو چار دفعہ تکرار سے فرمایا، بڑا وقت لگا۔ جب دیکھتے کہ یہ بات نہیں مانتے تو فرماتے، ’’اچھا مولوی صاحب، جو آپ کا دل چاہے۔‘‘ یہ حضرت کا بہت بڑا جلال ہوتا تھا۔
ایک وقت سب پر آنا ہے۔ حضرت اپنی زندگی کے ایام گزار کر چلے گئے، لیکن جو اللہ کے ایک بندے کو عبودیت کے حوالے سے جو کام کرنے چاہییں تھے، وہ سب انھوں نے کر کے دکھا دیے۔ علم میں، عمل میں، اخلاق میں، معاملات میں، عامۃ الناس اور معاصرین واکابر کے ساتھ برتاؤ میں، چھوٹوں پر رحم وکرم میں عبودیت کے مقام میں جو کچھ کرنا چاہیے تھا، ہماری نظر میں سب کچھ کیا۔ 
محدثین اور شراح حدیث کے اقوال پیش کرنے میں کمال حاصل تھا۔ زیادہ تر جو بات ہے حضرت کی، وہ ہے مسئلے کا اور کسی ایک موقف پر اپنی رائے دینا اور اس کو ترجیحی طور پر بیان کرنا۔ پھر یہ بڑا کمال دیکھا ہے کہ وہ اپنی رائے کبھی بیان نہیں کرتے تھے کہ میری یہ رائے ہے۔ کبھی نہیں سنا۔ پچیس سال میں حضرت کی خدمت میں شب وروز رہا ہوں۔ حضرت کے ساتھ فتویٰ لکھا ہے۔ پہلے بھی آنا جانا ہوتا تھا۔ جمہور کی رائے۔ اور ایک مسئلے پر کتنے ہی، صحابہ سے لے کر تابعین مجتہدین اپنے اکابر فقہا کی آرا پیش کرتے۔ اور مجھے ان سے بڑے اختلاف کرنے والے عالم نے جو ہمارے بھی استاد ہیں، کہا کہ یہ مولانا سرفراز صاحب کا طرۂ امتیاز ہے کہ وہ ایک موقف اور ایک مسئلے پر اتنی آرا جمہور کی پیش کر کے پھر فرماتے ہیں کہ یہ راجح ہے۔ 
میں نے اس نمبر میں مختصر مختصر مضامین سب دیکھے، بہت پسند آئے۔ محنت اور جانفشانی سے لکھے گئے ہیں اور ہمارے عزیز برادر مولوی عمار خان ناصر نے بڑی محنت اور جانفشانی سے ایک ایک لفظ کو اپنے مقام پر دیکھا ہے۔ بعض مقامات پر اصلاح بھی کی ہے اور بڑی محنت سے اس کو شائع کیا ہے۔ البتہ ہمارے برادر مولانا فیاض خان سواتی اور مولانا عبد القدوس خان قارن صاحب نے جس بات کی نشان دہی کی ہے، میں بھی یہ درخواست کروں گاکہ اس نمبر میں حضرت کے مسائل کو اور ان کی ذات کو جو محل بحث بنایا گیا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ تحقیق کا میدان ہے اور جاری رہے گا، لیکن جہاں تک حضرت کے مستند ہونے، معتبر ہونے، حجت ہونے کا مقام ہے، وہ اسی طرح برقرار رہے گا۔ اور ان کو یہ منصب کسی شخص نے نہیں دیا، ہم سمجھتے ہیں کہ علماے امت نے، ہمارے علماے دیوبند نے بلکہ معاصرین نے شرقاً غرباً، عرباً عجماً ان کو یہ مقام دیا ہے۔ وہ مستند ہیں، حجت ہیں اور ان کی بات حرف آخر ہے۔ ہاں، اس میں تحقیق کر سکتے ہیں اور میں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ہم نے اپنے دو استادوں کو عجیب پایا ہے۔ ایک استاد مفتی محمود اور ایک اپنے شیخ۔ وہ فرماتے تھے کہ مجھے کوئی علمی طور پر میری غلطی پرمتنبہ کرتا ہے تو میں خوش ہوتا ہوں۔ میں نے اپنے معاصرین میں ایسا کسی کو نہیں دیکھا۔ جب ہم اپنے شیخ سے یا مفتی محمود سے کسی مسئلے پر مذاکرہ کرتے تو کبھی انھوں نے ہمیں بند نہیں کیا یا اپنی استادی نہیں جتائی کہ میں استاد ہوں۔ کھلا میدان دیا کہ میری دلیل یہ ہے، آپ اپنی دلیل پیش کریں۔ ہمیں بولنے کا انداز سکھایا۔ ہمیں جرات دلائی۔ اس کے بعد واللہ کوئی بڑے سے بڑا افسر ہو، کوئی صدر ہو نواب ہو، کبھی دل میں احساس نہیں ہوا کہ ہم کس سے بات کر رہے ہیں۔ جب ہم استاد مفتی محمود صاحب سے اور مولانا سرفراز صاحب سے باتیں کرتے ہیں مسائل کی اور وہ حوصلہ دیتے ہیں، میدان دیتے ہیں اور حوصلہ افزائی فرماتے ہیں، خوشی کا اظہار فرماتے ہیں، اختلاف کی صورت میں بھی تو ہم کس سے گھبرا سکتے ہیں۔
بس یہی درخواست ہے کہ اس نمبر میں جو آخر میں بحث ہے حضرت شیخ کے حوالے سے کہ ہمیں ان باتوں سے اختلاف ہے اور ہم ان باتوں کو بطور تحقیق کے بیان کر سکتے ہیں، یہ عنصر نہیں ہونا چاہیے۔ باقی ما شاء اللہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب حضرات کی جنھوں نے اس میں کام کیا ہے، جنھوں نے مضامین لکھے، اللہ تعالیٰ ان کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے اور اس کو تادیر باقی رکھے اور جب دوسرا نمبر آئے تو اس میں اصلاحات کی جائیں، نقش ثانی بہتر از نقش اول کا مصداق بنایا جائے۔

الشریعہ کی خصوصی اشاعت کے بارے میں تاثرات

ادارہ

(۱)
محترم المقام مدیر الشریعہ گوجرانوالہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
’ الشریعہ‘ کا انتہائی جامع ومبسوط خصوصی شمارہ موصول ہوا۔ کتابت، طباعت، ترتیب وتہذیب اور عناوین کے اعتبا ر سے یہ ایک مثالی کتاب ہے جس میں امام اہل سنت کی زندگی کے تقریباً ہر گوشے پر فاضل اہل قلم اور ارباب علم ودانش نے دل کی گہرائیوں سے مقالات سپر دقلم کیے ہیں۔ ام عمار کی تحریر خوبصورت اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ اس میں بے ساختگی ہے، تصنع سے کوسوں دور۔ جناب مولانا عبدالحق خان بشیر کا امام اہل سنت کی کتب کامفصل تعارف لاجواب ہے۔ا للہ تعالیٰ الشریعہ کو آسمان صحافت کا آفتاب عالم تاب بنائے، آمین۔ 
(قاضی محمد رویس خان ایوبی 
رئیس مجلس افتاء آزاد جموں وکشمیر)
(۲)
امام اہل سنت والجماعت، شیخ الحدیث، استاذ العلماء حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی دینی خدمات متنوع ہیں۔ آپ نے تعلیم وتدریس، تصنیف وتالیف، وعظ وتذکیر، دعوت وتبلیغ اور ملک میں نفاذ اسلام کے لیے سیاسی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حق تعالیٰ شانہ نے آپ کو بے شمار صلاحیتوں اور قابل رشک صفات وکمالات سے نوازا تھا۔ دار العلوم دیوبند کے جن فضلا کے علم وفضل سے اہل اسلام کو غیر معمولی نفع پہنچا اور ان کے فیوض وبرکات حدود وثغور سے ماورا ہو گئے، ان میں حضرت شیخ الحدیثؒ کا نام نامی نمایاں ہے۔ آپ کی دینی خدمات میں غیر معمولی برکت کی وجہ یہ بھی ہے کہ علم وفضل اور زہد وتقویٰ میں فائق الاقران ہونے کے باوجود آپ نے ہمیشہ اپنے اساتذہ کو عقیدت کی نظر سے دیکھا، ان سے تعلق رکھا اور ان کی دعائیں لیں۔
حضرت شیخ الحدیث اکابر دیوبند سے نہ صرف والہانہ محبت رکھتے تھے بلکہ ان کی تحقیقات پر کلی اعتماد کرتے تھے اور ان کے مقابلے میں اپنی رائے کی نفی فرماتے تھے۔ اپنے متعلقین سے اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ’’عزیزان گرامی قدر! میں کسی بھی مسئلہ میں اپنی کوئی رائے نہیں رکھتا، بلکہ قرآن وسنت اورفقہ وتاریخ کے تمام افکارومسائل میں اکابرین علماے دیوبند کی اجماعی تحقیق پر اعتماد کرتا ہوں اوران کی تمام اجماعی تعلیمات کو حق جانتے ہوئے ان پر عمل پیراہونے کو اپنے لیے ہدایت اور نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ لہٰذا میں اپنے تمام تلامذہ، مریدین اور متعلقین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اکابرعلماے دیوبند کے مسلک پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہیں اور ان کا دامن کسی صورت میں چھوڑنے نہ پائیں۔ جو اکابر علماے دیوبند کے اجماعی مسلک کو قرآن وسنت کے مطابق سمجھتے ہوئے اس پر پوری طرح قائم رہے، وہ میرے متعلقین میں شامل ہے اور جس کا اکابر کی اجماعی تحقیق پر اعتماد نہ ہو، میرااُس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ نے حضرت شیخ الحدیث کی رحلت کے بعد مختصر وقت میں ایک وقیع خصوصی نمبر شائع کر کے حضرت کے تلامذہ، مریدین اور متعلقین کے لیے مسرت انگیز حیرت کا سامان مہیا کیا ہے۔ اس نمبر میں حضرت شیخ الحدیثؒ سے عقیدت ومحبت یا تلمذ کا تعلق رکھنے والوں نے اپنے اپنے انداز میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے اور حضرت کے متعلق اپنے جذبات، خیالات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اس خصوصی نمبر کے مطالعہ سے قدر مشترک، ایک ایسی ہستی کا تاثر ابھرتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے میراث انبیاء علیہم السلام میں حصہ وافر عطا فرمایا ہو (فمن اخذہ اخذہ بحظ وافر، او کما قال)۔ ان کی کتاب زندگی کا جس پہلو سے بھی مطالعہ کیا جائے، کہیں حرف گیری کی نوبت نہیں آتی۔ بلاشبہ علماے ربانیین ایسی ہی صفات کے حامل ہوتے ہیں۔
’’الشریعہ‘‘ کے رئیس التحریر اورحضرت شیخ الحدیثؒ کے علمی ونسبی جانشین حضرت مولانا زاہد الراشدی مدظلہ، مدیر مولانا محمد عمار خان ناصر سلمہ اور ان کے اصحاب تمام ارکان مبارک بادکے مستحق ہیں کہ انھوں نے چار ماہ کی مختصر مدت میں محنت شاقہ کے ساتھ ایک وقیع وضخیم نمبر قارئین کو مہیا کر دیا ہے جو نہ صرف حضرت شیخ الحدیثؒ کے ایمان افروز وسبق آموز حالات زندگی کا مرقع ہے بلکہ اس کے آئینے میں علماے دیوبند کے حسن وجمال اور فضل وکمال کا عکس بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ علما، طلبا، خطبا اور اہل علم اس خصوصی نمبر کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔
(مولانا محمد ازہر۔ ماہنامہ ’’الخیر‘‘ ملتان)
(۳)
بخدمت جناب حضرت اقدس حضرت مولانا زاہدالراشدی مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ مزاج گرامی!
ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ کا خصوصی نمبر بیاد حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ موصول ہوا۔ اول سے آخر تک خوب مطالعہ کیا۔ لکھنے والوں نے لکھا اور خوب لکھا۔ بہت ہی بہتر اور عمدہ لکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے۔ چند مہینوں میں اتنے ضخیم نمبر کا تیار ہونا حضرت کی ایک زندہ کرامت ہے۔
بندہ ناچیز نے حضرت صفدرؒ کی زیارت نہیں کی تھی، لیکن تصنیفات کے حوالے سے حضرت سے غائبانہ تعارف خوب تھا۔ اس خصوصی نمبر کے مطالعہ سے حضرت کی شخصیت کو ذاتی لحاظ سے سمجھنے کاموقع ملا۔ آپ کی گھریلو زندگی کے متعلق بہت معلومات حاصل ہوئیں۔ خصوصی طور پر یہ کہ حضرت اپنی اولاد کے حق میں شخصی آزادی کے قائل تھے۔ اپنا موقف نہیں ٹھونستے تھے، بلکہ اپنی اولاد کے موقف کو بھی سنتے تھے، جیساکہ آ پ کے کالم میں چندفقہی مسائل کا تذکرہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اپنی اولاد پر خوب اعتماد تھا۔ شاید انہی باتوں سے حضرت کی اولاد کو بھی آنکھوں کی ٹھنڈک بنایا اور تمام بیٹے علیحدہ علیحدہ اپنی جگہ پر کماحقہ حضرت کے جانشین ہیں۔ جس صاحبزادے کو بھی دیکھاجائے، وہ علم کا پہاڑ نظر آتاہے۔ اپنی اولاد کی صحیح تربیت اور پھر ان پر اعتماد اولاد کو والدین کا جانشین بناتا ہے۔ حضرت کی زندگی جوایک مجاہدانہ زندگی تھی۔ آپ کی زندگی بھی قابل رشک، اولاد بھی قابل رشک اور موت بھی قابل رشک اور جنازہ بھی قابل رشک تھا۔ اللہ تعالیٰ حضرت کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین۔ 
آپ نے حضرت کے شایان شان خصوصی نمبر کا اہتمام کر کے آنے والی نسل پر احسان عظیم کیا ہے کہ حضرت کی ذاتی شخصیت، علمی شخصیت اور مجاہدانہ وعالمانہ زندگی ہمیشہ زندہ وتابندہ رہے گی، کیوں کہ اس نمبر کے مطالعہ سے ہر آدمی سمجھ سکتاہے کہ حضر ت کیا تھے اور کیسے تھے؟ واقعی آپ نے بہت بڑاکام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کومنظور ومقبول فرمائے اوراس عظیم کام پر مدرسہ ہذا کے جملہ اراکین کی طر ف سے مبارکباد قبول فرمائیں۔ 
(مولانا) حفظ الرحمن اعوان 
نائب مہتمم مدرسہ تجوید القرآن رحمانیہ 
خانوخیل ضلع ڈیرہ اسماعیل خان
(۴)
محترم المقام حضرت علامہ زاہد الراشدی مدظلہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی! 
ایک ذاتی مجبوری کی بنا پر امام اہل سنت ؒ نمبر کی تقریب رونمائی میں شریک نہ ہو سکنے کابے حد افسوس ہے۔ معذرت خواہ ہوں۔ برادرم مولاناعمار خان ناصر کے حکم پر اپنے تاثرات لکھ کر بھیج رہا ہوں۔ 
اکابر علماء دیوبند ؒ کی خصوصیات کا جائزہ لیاجائے تو ان میں علوم دینیہ میں مہارت تامہ، عقلی علوم میں کامل دسترس، اخلاص، تقویٰ اور عاجزی وانکساری، باطنی کمالات بالفاظ دیگر شریعت وطریقت کی جامعیت، دنیا سے بے رغبتی ، سرکاری عہدوں سے نفرت، جمہورامت کے مسلک ’’ما انا علیہ واصحابی‘‘ کی پابندی، دینی مدارس ومکاتب کا بکثرت قیام، فرق باطلہ کا مقابلہ اور قرآن وحدیث کی اصلی تعلیمات کو نکھارنا اور پھیلانا نمایاں نظر آتے ہیں۔ حضرات شیخین یعنی حضرت امام اہل سنت اورحضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتیؒ اکابر علمائے دیوبند کی اس وراثت کے کامل امین تھے۔ دونوں حضرات نے اپنے اندر ان خصوصیات کو جذب کیا اور نسل در نسل ان کو منتقل کرنے کے لیے کوشاں رہے ۔ تقبل اللہ سعیہم۔
احقر کوچار پانچ دن پہلے حضرت امام اہل سنت نمبر موصول ہوا۔ میری حالت یہ ہے کہ جب گھر آتا ہوں تو سارے کام چھوڑکر اس خصوصی شمار ہ کو ہی پڑ ھتا رہتا ہوں۔ 
پرانی صحبتیں یاد آ رہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
علماء حق کی یہ علامت ہے کہ وہ مصائب وآلام کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دین اسلام کی خدمت میں مصروف اور قرآن وحدیث کی تعلیمات کو پھیلانے کے لیے ہر دم کوشاں رہتے ہیں اور اس سلسلے میں بے شمار انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ اہل اللہ کے جنازوں سے ان کی غیر معمولی مقبولیت کابخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت امام اہل سنتؒ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھاکہ آپ نے یتیمی کی حالت میں پرورش پائی، بے بسی وبے کسی کے عالم میں تعلیمی مراحل مکمل کیے اور بے سروسامانی کی حالت میں دینی خدمات کا سلسلہ شروع کیا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا قبول ہوا کہ دینی خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہو تا چلا گیا اور حضرت شیخ الحدیث ؒ کے جنازہ میں علما وصلحا کی کثیر تعداد میں شرکت اور عوام الناس کا ازدحام آپ کی خدمات کامنہ بولتاثبوت اعتراف تھا۔ آپ جیسی شخصیت صدیوں بعد پید اہوتی ہے۔ 
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم 
حضرت استاذ مکرم شیخ الحدیث کی زندگی کایہ پہلو بھی بیان کیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ آپ دورحاضر کے سب سے بڑے مسلکی ترجمان تھے۔ آپ نے تدریس، تقریر اور تحریر ہر اعتبار سے اکابر علما ء دیوبند کی عظمت اور مسلک کو اجاگر کیااور ان پرکیے گئے اعتراضات کے مدلل جوابات دیے اور اپنے مسلک کے لوگوں کو خود اعتمادی دی۔ اس سلسلے میں آپ مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوریؒ اور مولانامحمد منظور نعمانیؒ کے بعد نمایاں نظر آتے ہیں۔ 
حضرت شیخ الحدیث ؒ دنیا سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی حقیقی ومعنوی اولاد ان کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ آپ کامشن جاری ہے اور جاری رہے گا اور حضرت امام اہل سنت کے لیے ان کے چھوڑے ہوئے دینی کام مسلسل صدقہ جاریہ بنے رہیں گے۔ ان شاء اللہ 
ان کی یادوں کا دل سے طفیل! آج بھی
ربط ہے چاند اور چاندنی کی طرح
احقر اس خاص نمبر کی اشاعت پر حضرت مولانا زاہدالراشدی مدظلہ، مولانا عمار خان ناصر اوران کے رفقاے کار کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتاہے اور مزید ایسی خصوصی اشاعتوں کی توقع رکھتا ہے۔ واجرکم علی اللہ تعالیٰ ۔
(مولانا) مشتاق احمد 
استاذ جامعہ عربیہ ، چنیوٹ 

’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر سیمینار

ادارہ

۱۷ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو لاہور کے ایک ہوٹل میں ’’دینی تعلیم اور عصری تقاضے‘‘ کے عنوان پر ایک سیمینار منعقد ہوا جس کا اہتمام ’’تحریک اصلاح تعلیم‘‘ اور ’’صفہ اسلامک سنٹر‘‘ کے سربراہ ڈاکٹر محمدامین نے ایک قومی اخبار کے مذہبی ونگ کے تعاون سے کیا۔ سیمینار سے ڈاکٹر محمد امین کے علاوہ صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان، صوبائی وزیر جیل خانہ جات چودھری عبدالغفور، جسٹس منیر احمد مغل، معروف صحافی جناب عطاء الرحمن، ڈاکٹر محمد طاہر مصطفی، سید افتخار حسین شاہ اور دیگر مقررین کے علاوہ مولانا زاہد الراشدی نے بھی گزارشات پیش کیں۔ 
ڈاکٹر محمد امین پنجاب یونیورسٹی کے پرانے اساتذہ میں سے ہیں اور ایک عرصہ سے اصلاح تعلیم کے حوالہ سے سرگرم عمل ہیں۔ ان کی اصلاحی تحریک کا ہدف ملک میں مروج دونوں قسم کے نظام تعلیم ہیں۔ ان کی خواہش اور کوشش یہ ہے کہ ریاستی تعلیمی اداروں اور عصری تعلیم کے نظام میں دینی تعلیم اور انسان سازی کا جو خلا ہے، وہ پر کیا جائے اور دینی مدارس کے نظام تعلیم میں عصری تقاضوں کو شامل کرکے علماء کرام کو آج کے چیلنجز اور تقاضوں سے عہد ہ برآ ہونے کے لیے تیار کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے نئی نسل کے ذہنوں میں تقسیم اور باہمی دوری بڑھ رہی ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ دونوں قسم کے نظام تعلیم معاشرے میں اپنا کردار پوری طرح ادا نہیں کر رہے جس کی وجہ سے نہ تو صحیح معیار کے علماء کرام تیار ہو رہے ہیں اورنہ ہی جدید تعلیمی اداروں سے زمانے کی ضروریات کے مطابق مختلف شعبوں کے ماہرین صحیح طورپر پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کی تجویز یہ ہے کہ دونوں نظام ہائے تعلیم کو یکجا کر کے ایک مشترکہ نصاب وضع کیا جائے اور قومی تعلیمی پالیسی میں انقلابی اصلاحات کرکے ملک بھر میں ہر سطح پریکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے جو قومی اور عصری ضروریات کو بھی پورا کرے اور ملی ودینی تقاضوں پر بھی پورا اترتا ہو۔ اس مقصد کے لیے وہ ’’تحریک اصلاح تعلیم‘‘ کے عنوان سے کم وبیش ربع صدی سے مصروف کار ہیں اور وقتاً فوقتاً علماء کرام اور ماہرین تعلیم کے مشترکہ سیمینارز کا اہتمام کرنے کے علاوہ طلبہ کے لیے تربیتی کورسز اور ورکشاپس بھی منعقد کرتے رہتے ہیں۔ ۱۷؍ اکتوبر کا مذکورہ سیمینار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 
سیمینار سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی نے درج ذیل گزارشات پیش کیں:
دینی تعلیم کے حوالے سے تقاضوں کادائرہ قومی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی مسلسل پھیلتا جا رہا ہے جس کی طرف فوری اور سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے۔ مثلاً پاکستان کے چیف جسٹس محترم جناب جسٹس افتخار محمد چودھری نے گزشتہ دنوں ایک کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری قومی زندگی کے ہرشعبہ میں کرپشن، نااہلی اور بددیانتی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ قوم کو اس سے نجات دلانے کے لیے سب سے زیادہ ’’گڈ گورننس‘‘ کی ضرورت ہے اور اس ’’گڈ گورننس‘‘ کے لیے ہمیں حضرت عمرؓ سے راہنمائی لینا ہو گی اور انہیں آئیڈیل بنانا ہو گا۔ میں جسٹس صاحب محترم کی بات میں تھوڑا سا اضافہ کروں گا کہ حضرت عمرؓ صرف ’’گڈ گورننس‘‘ میں ہی نہیں بلکہ ’’ویلفیئر سٹیٹ‘‘ کے حوالے سے بھی آئیڈیل ہیں جس سے یورپی اقوام مسلسل استفادہ کررہی ہیں اور حضرت عمرؓ سے گڈ گورننس اور ویلفیئر سٹیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہمیں دینی تعلیم ہی کی طرف دیکھنا ہو گا اور اس خلا کو ظاہر ہے کہ دینی تعلیم ہی پر کر سکے گی۔ اسی طرح دو سال قبل لندن میں مسیحیوں کے پروٹسٹنٹ فرقہ کے عالمی سربراہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے جب یہ کہا کہ برطانیہ میں رہنے والے دو ملین سے زیادہ مسلمانوں کو یہ حق ملنا چاہیے کہ ان کے خاندانی نظام یعنی نکاح وطلاق ووراثت کے مسائل وتنازعات ان کے شرعی احکام کے مطابق طے کیے جائیں اور اس مقصد کے لیے برطانیہ کے جوڈیشل سسٹم کو مسلمانوں کی شرعی عدالتوں کے لیے اپنے دائرہ کے اندر گنجائش پیدا کرنی چاہیے تو اس پر اگرچہ شور مچ گیا اور مختلف حلقوں کی طرف سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ برطانیہ میں ایسا کس طرح ہوسکتا ہے، مگر میں نے لندن میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عرض کیاکہ بالآخر یہ ہونا ہی ہے، اس لیے کہ یہ مسلمانوں کا جائز حق ہے جسے امریکہ نے بھی اپنے دستور میں تسلیم کر رکھا ہے اور اس کے مطابق امریکہ کے مختلف شہروں میں شرعی عدالتیں کام کر رہی ہیں، لیکن اس کے ساتھ میرا یہ سوال ہے کہ ایسے جج اور قاضی تیار کرنا بھی اب ضروری ہو گیا ہے جو اسلامی شریعت اور فقہ پر مکمل عبور رکھنے کے ساتھ آج کے جوڈیشل سسٹم کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہوں اور آج کے تناظر میں شریعت کے مطابق مقدمات کے فیصلے کرسکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خلا بھی دینی تعلیم کے نظام کو ہی پر کرنا ہے۔ 
اس کے ساتھ ایک اور پہلو پر بھی نظر ڈال لیجیے کہ اسلامی بینکنگ کا جو سسٹم دورحاضر میں متعارف ہو رہا ہے اورمسلم ممالک کے ساتھ مغربی ممالک کے بہت سے بینک بھی اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں، اگرچہ اسے مکمل طور پر صحیح اسلامی بینکنگ قرا ر دینے میں بہت سے علماء کرام کے تحفظات ہیں، لیکن اس کا دائرہ مسلسل پھیل رہا ہے اور اس وقت اس کے لیے سب سے بڑا مقابلہ لندن اور پیر س کے درمیان ہو رہا ہے۔ ابھی چند روز قبل فرانس کی کابینہ نے اسلامی بینکنگ کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی غرض سے بعض قوانین میں ترامیم کی منظوری دی ہے جس کا مقصد یہ بیان کیا جاتاہے کہ لندن میں اسلامی بینکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا مقابلہ کیا جا سکے اور اس حوالے سے لندن اورپیر س کی کشمکش بہت دلچسپ صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہاں بھی یہ سوال سامنے ہے کہ اسلامی بینکنگ کے عملہ کے لیے کم از کم مشاورت کے درجہ میں ایسے افراد کی شدید ضرورت ہے جو اسلامی فقہ وشریعت کی پوری مہارت کے ساتھ ساتھ موجودہ معاشی نظام اور بینکنگ سسٹم پر بھی مکمل عبور رکھتے ہوں ا ور میرے خیال میں یہ بھی دینی تعلیم کے لیے عصری تقاضے اور چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ 
ان سب سے بڑھ کر ہمارے معاشرے میں کرپشن، نااہلی، بددیانتی، جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، کام چوری اور لوٹ کھسوٹ کی جو خوفناک صورت حال ہے، اس کا حل ایک معاشرتی تحریک اورانقلاب کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ہماری اصل ضرورت ایک معاشرتی انقلاب ہے جو ہمیں جھوٹ، مکاری اور کرپشن کی اس آکا س بیل سے نجات دلا دے جس نے قومی زندگی کے تمام شعبوں اور شاخوں کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ معاشرتی انقلاب بھی دینی تعلیم کے ذریعے ہی ممکن ہے اوراس کے لیے ہمیں قرآن وسنت کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ 
یہ چند تقاضے دینی تعلیم کے دائرے میں وسعت اور سنجیدہ منصوبہ بندی کی فوری ضرورت کا احساس دلا رہے ہیں اور ان کی طرف توجہ دیے بغیر ہمارا دینی تعلیم کا نظام اپنی ملی ودینی ذمہ داریوں سے صحیح طور پر عہدہ برآ نہیں ہو سکے گا۔ 
سیمینار کے مہمان خصوصی صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان تھے۔ انہوں نے اپنی گفتگو میں دینی مدارس کے کردار کے بارے میں فکر انگیز گفتگو کی جس کا کچھ حصہ درج ذیل ہے:
دینی مدارس کے بارے میں عمومی طوریہ تاثرپھیلتا جارہا ہے کہ وہ دہشت گرد تیار کر رہے ہیں اوردہشت گردی کی جو رَو اس وقت موجود ہے، وہ ان کی وجہ سے ہے۔ یہ بات سب سے پہلے امریکہ کی طرف سے کہی گئی تھی جسے لاشعوری طورپر ہمارے ہاں بھی قبول کر لیا گیا ہے اورہمارے میڈیا اور دانشوروں نے بھی وہی کچھ کہنا شروع کردیا ہے جبکہ یہ بات غلط ہے، اس لیے کہ ان دینی مدار س کی تاریخ تو صدیوں پرانی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ تو ابھی ایک عشرہ کی بات ہے۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کے موجودہ ماحول سے پہلے ان مدارس میں دہشت گرد کیوں پید انہیں ہو رہے تھے اور اس وقت ان پر یہ الزام کیوں نہیں تھا؟ 
اصل بات یہ ہے کہ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکہ کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جو مذہبی جذبہ کے ساتھ یہ جنگ لڑ سکیں اور ایسے افراد ظاہر ہے کہ دینی مدارس سے ہی مل سکتے تھے جبکہ اس وقت پاکستان کے فوجی حکمران کو بھی امریکہ کے ساتھ تعاون کے لیے اس کی ضرورت تھی۔ چنانچہ دینی مدارس سے ایسے افراد کو تلاش کیا گیا اور انہیں تیار کرکے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف صف آرا کردیاگیا۔ ان لوگوں نے پورے خلوص اورجذبہ جہاد کے ساتھ یہ جنگ لڑی اور سوویت یونین کوشکست دی۔ ان لوگوں کے خلوص اورجذبہ ایمانی میں کوئی شبہ نہیں، لیکن ان کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ تھے، ان کے مقاصد کچھ اور تھے۔ انہوں نے سوویت یونین کی شکست کے بعد ان مجاہدین کو تنہا چھوڑ دیا اور کہہ دیاکہ اب تمہاری ضرورت نہیں رہی۔ اپنی زندگی کا راستہ اور ذرائع خود تلاش کرو۔ انہیں اگر اس وقت فوج میں بھرتی کر لیا جاتا یا قومی پالیسی کے تحت کسی کام پر لگا دیا جاتا تو جو صورت حال آج پید ا ہو گئی ہے، یہ نہ ہوتی، لیکن امریکہ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا اور جن پاکستانی اداروں نے جہاد افغانستان میں ان کی پشت پناہی کی، وہ بھی پیچھے ہٹ گئے تو ظاہر بات ہے کہ جس شخص نے جدید ترین اسلحہ کی ٹریننگ حاصل کررکھی ہے اور سالہا سال تک اس کے استعمال کا تجربہ بھی کیا ہے، وہ زندگی گزارنے کے لیے اس کے علاوہ اور کون سا راستہ تلاش کرے گا؟ چنانچہ ایسے ہی ہو ا ،اس لیے ان مجاہدین کودہشت گردی کی طرف لے جانے کی ذمہ داری دینی مدارس پر نہیں ہے اورنہ ہی وہ انہیں اس مقصد کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس کی ذمہ داری ان قوتوں پر ہے جنہوں نے انہیں سوویت یونین کے خلاف جہاد کے لیے استعمال کیا اورپھر انہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے آزاد اور تنہا چھوڑ دیا۔ 
ہمارے ہاں عام طورپر دینی مدارس کے بارے میں جو شکایات پائی جاتی ہیں، دوسری طرف کے نظام تعلیم کے بارے میں بھی اس طرح کی شکایات اور خدشات موجودہیں، اس لیے کہ جس طرح دینی مدارس میں عصری علوم کی تعلیم نہیں دی جاتی، اس طرح ہمارے عصری تعلیمی نظام میں بھی دینی تعلیم کا ضروری عنصر موجود نہیں ہے اور جس طرح کی تعلیم ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں دی جا رہی ہے، اس سے پیداہونے والی نئی نسل آج کے آٹھ دس برس کے بعد ہمارے لیے اس سے بڑی مصیبت کھڑی کر سکتی ہے جس قسم کی مشکل سے ہمیں دینی مدارس کے حوالے سے آج واسطہ پڑرہا ہے، اس لیے کہ دینی اور اخلاقی قدروں کی طرف توجہ نہیں ہے۔ آنکھ کی شرم اور رشتوں کا احترام ختم ہو رہا ہے اور ہماری معاشرتی اقدار سے بالکل اجنبی پود وجود میں آ رہی ہے۔ا س لیے ہماری ضرورت صرف یہ نہیں ہے کہ ہم دینی مدارس میں عصری تعلیم کااہتمام کریں بلکہ اس طرح ہماری یہ بھی ضرورت ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں ضروری دینی تعلیم کو شامل کریں، کیونکہ اسی طرح توازن پیدا ہوگا اور ہم اپنی ملی ضروریات کے مطابق نئی نسل کو تیار کر سکیں گے۔ 
ہماری حکومت اس سلسلے میں کام کر رہی ہے اورایک مستقل کمیٹی اس کے لیے مصروف عمل ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ایک خاص سطح پر تعلیمی نصاب میں عصری اور دینی ضروریات کو یکجا کیا جائے جو ہر ایک کے لیے ضروری ہو۔ اس میں انگریزی، ریاضی، کمپیوٹر اوردیگر ضروری فنون وعلوم کی تعلیم بھی ہو اور اس درجہ کی دینی تعلیم بھی ہوکہ ایک مسلمان قرآن کریم کو پڑھ کر اسے سمجھ سکے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو پڑھ کر انہیں سمجھ سکے۔ یہ سب کے لیے ضروری ہے اور ملک کے تمام شہریوں کو اس کی تعلیم دینا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔ اس ضروری تعلیم کے بعد پھر اعلیٰ تعلیم کو مختلف شعبوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جس نے انجینئر بننا ہے، وہ انجینئر بنے۔ کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے، وہ ڈاکٹر بنے۔ جس کی وکیل بننے کی خواہش ہے، وہ وکیل بنے اور جو عالم دین بننا چاہتا ہے، وہ عالم دین بنے۔ اس لیے کہ جس طرح ہمیں ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں اور سائنس دانوں کی ضرورت ہے، اسی طرح معاشرہ میں علمائے کرام کی بھی ضرورت ہے اور ان کے بغیر بھی ہمارا نظام صحیح نہیں چل سکتا۔ البتہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگاکہ ہمیں کتنے ڈاکٹروں کی ضرورت ہے، کتنے وکیلوں کی ضرورت ہے اورکتنے علماے کرام ہمیں ضرور ی طورپر تیارکرنے ہیں۔ اس کے لیے وسیع طورپر پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے اورہم اس کے لیے کام کررہے ہیں۔ 
ہم دینی مدارس کی خدمات کااعتراف کرتے ہیں، ان کی ضرورت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے کردار کو ضروری سمجھتے ہیں البتہ ہماری کوشش ہے کہ انہیں ایک مجموعی قومی پالیسی کے دائرے میں لایاجائے اور اس کے لیے دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ گفتگو جاری ہے اور ان کا رویہ بہت مثبت اور حوصلہ افزا ہے جس سے امید ہے کہ ہم باہمی مشورہ اور بات چیت کے ساتھ کوئی ایسا راستہ تلاش کرلیں گے جس پر چل کر دینی مدارس اپنی کارکردگی کو اور زیادہ بہتر بنا سکیں گے۔

انا للہ وانا الیہ راجعون

ادارہ

مولانا اللہ یار خانؒ 

گزشتہ دنوں گوجرانوالہ کے بزرگ عالم دین مولانا اللہ یار خان طویل علالت کے بعد تریسٹھ برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مولانا اللہ یار خان مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے سینئر اساتذہ میں سے تھے اورنعمانیہ روڈ پر جامع مسجد فیروزی کے خطیب تھے۔ انہوں نے کم وبیش بیس برس تک مدرسہ نصر ۃ العلوم میں تدریسی خدمات سرانجام دیں۔ ان کی نماز جنازہ مدرسہ نصرۃ العلوم میں نماز عصر کے بعد مولانا زاہدا لراشدی نے پڑھائی جس میں ہزاروں کی تعداد میں شہریوں، علماء کرا م ، طلبہ اور دینی کارکنوں نے شرکت کی اور اس کے بعد انہیں ان کی وصیت کے مطابق قبرستاں کلاں میں حضرت مولانا صوفی عبدالحمیدخان سواتیؒ کے قریب دفن کردیا گیا۔ مولانا زاہدالراشدی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مولانا اللہ یارخان درویش صفت، حق گواور قناعت پسند عالم دین تھے۔ انہوں نے ساری زندگی دین کی تعلیم کو عام کرنے میں بسر کی اور سادگی، حمیت اور جہدمسلسل میں اپنے اکابر کی روایات کو باقی رکھا۔ مولانا صوفی محمد ریاض سواتی اور مولانا قاضی محمدیوسف کے علاوہ مرحوم کے فرزند مولانا محمدشعیب نے بھی خطاب کیا اور اس عزم کا اظہار کیاکہ وہ اوران کا خاندان اپنے مرحوم والد کے دینی وتعلیمی مشن کو جاری رکھیں گے۔
مولانا اللہ یارخان ؒ کا تعلق ضلع بھکر سے تھا، لیکن انہوں نے زندگی کا بڑا حصہ گوجرانوالہ میں بسر کیا۔ وہ خانقاہ سراجیہ کندیاں شریف اورعالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کے خصوصی متعلقین میں سے تھے۔ 
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کے درجات بلند کریں اور ان کے پس ماندگان کو ان کا سلسلہ حسنات جاری رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ آمین

الحاج میاں محمد رفیق ؒ 

گوجرانوالہ کی معروف سماجی شخصیت الحاج میاں محمد رفیق آف الہلال انڈسٹریز ۲۲؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو قضاے الٰہی سے انتقال کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحوم، مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی کے پرانے ساتھیوں میں سے تھے اور مدرسہ نصرۃ العلوم کے ساتھ ساتھ دیگر دینی اداروں کے ساتھ تعاون میں بھی پیش پیش رہتے تھے۔ وہ ایک دور میں جمعیۃ اہل سنت گوجرانوالہ کے صدر رہے اور انھی کی صدارت کے دور میں جی ٹی روڈ پر اٹاوہ پھاٹک کے قریب ایک اسلامی یونی ورسٹی کے قیام کا فیصلہ ہوا جس کا ابتدائی نام نصرۃ العلوم اسلامی یونی ورسٹی تجویز کیا گیا۔ پھر یہ فاروق اعظم اسلامی یونی ورسٹی میں تبدیل ہوا اور اس کے بعد حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی ؒ کی تجویز پر اسے ’’شاہ ولی اللہ یونی ورسٹی‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کے لیے شاہ ولی اللہ ٹرسٹ قائم کیا گیا جس میں ان کے ساتھ مولانا زاہد الراشدی، الحاج شیخ محمد اشرف مرحوم، میاں محمد عارف ایڈووکیٹ، الحاج شیخ محمد یعقوب اور پروفیسر غلام رسول عدیم نے سال ہا سال تک سرگرمی کے ساتھ کام کیا جبکہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی نے بھرپور سرپرستی فرمائی۔ الحاج میاں محمد رفیق مرحوم اس ادارے کے قیام کے لیے تن من دھن کے ساتھ سالہا سال تک سرگرم عمل رہے اور ان کی مساعی سے شاہ ولی اللہ کیڈٹ کالج اور شاہ ولی اللہ میڈیکل کمپلیکس کے ساتھ ایک بڑی مسجد تعمیر ہو چکی ہے۔
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے الحاج میاں محمد رفیق مرحوم کی وفات پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم ایک ان تھک اور پرخلوص راہ نما تھے اور ان کی تعلیمی ودینی خدمات ایک عرصہ تک یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’علامہ اقبال کا تصور اجتہاد‘‘

مرتبین: ڈاکٹر ایوب صابر، محمد سہیل عمر
صفحات: ۲۸۱
قیمت: ۲۵۰روپے
ناشرین: اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
زیر تبصرہ کتاب اقبال اکادمی پاکستان اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد کے زیر اہتمام ’’اقبال کا تصور اجتہاد‘‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں پڑھے جانے والے مقالات پر مشتمل ہے جو ۲۸ تا ۳۰؍اکتوبر ۲۰۰۷ء علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ سیمینار ہر مکتب فکر کا نمائندہ تھا۔ اس طرح موضوع پر متنوع ذہنوں کا کھلا اظہار سامنے آتا ہے۔ جو لوگ کھلے ذہن کے ساتھ پڑھتے ہیں، ان کے لیے بھر پور اور متنوع مواد یکجا صورت میں فراہم کیا گیا ہے۔ نمائندہ سیمینار کی یہی خوبی ہے۔ سیمینار سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد تو بڑی محدود ہوتی ہے، یہاں تک کہ سمینار میں مقالات پیش کرنے والے حضرات بھی پورے سیمینار میں شریک نہیں ہوتے، البتہ کتاب کی بدولت استفادے کا حلقہ وسیع ہو سکتا ہے۔
سیمینار کے لیے ذیلی عنوانات قائم کر کے مختلف دانشوروں کو مقالات پیش کرنے کا موقع دیا گیا تھا۔ مرتبین نے بارہ صفحات کے پیش لفظ میں مقالات کے بارے میں تعارفی سطور پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بعض شرکا کے زبانی پیش کردہ خیالات کا تذکرہ کرکے سیمینار کے ماحول کی تصویر مکمل کی ہے۔ مقالات کے عنوانات اور ان کو پیش کرنے والے اہل دانش کے نام حسب ذیل ہیں:
علامہ اقبال کے اصول اجتہاد
محمد خالد مسعود
اقبال کا تصور اجتہاد اور دور حاضر کے اجتہادی ادارے
پروفیسر عبدالجبار شاکر مرحوم
اقبال، اجماع امت اور قیام پاکستان
پروفیسر فتح محمد ملک
جدید سیاسی نظام اور اجتہاد
ابو عمار زاہد الراشدی
علامہ اقبال اور حدیث
ڈاکٹر خالد علوی مرحوم
عمل اجتہاد میں آزادی فکر کا کردار
عبداللہ
شریعت، مقاصد شریعت اور اجتہاد
محمد عمار خان ناصر
اقبال کے تصور اجتہاد پر اعتراضات کا جائزہ
ڈاکٹر ایوب صابر
زنجیر پڑی دروازے میں
محمد سہیل عمر
اقبال، اجتہاد اور اسلامی جمہوری ریاست
ڈاکٹر شاہد اقبال کامران
دور جدید کی تہذیبی ساخت، اسلام اور اقبال
ڈاکٹر نجیبہ عارف
وقت کے اجتہادی مسائل میں احمد رضا اور اقبال کا موقف
ڈاکٹر تنظیم الفردوس
کتاب میں شامل تمام مقالات استفادے کے لیے اپنے اندر بہت کچھ رکھتے ہیں۔ ان سب پر کچھ کہنے کے لیے صفحات میں گنجائش اور میرا کم علم، دونوں ہی مانع ہیں۔ ایک طالب علم کے طور پر ان مقالات سے جو کچھ میں نے اخذ کیا ہے، اس تبصرے میں اس کے ذکر پر اکتفا کروں گا۔ 
موضوع کے لحاظ سے بنیادی بات جس پر اکثر مقالات میں زور دیا گیا ہے، وہ جدید دور میں پارلیمان کے ذریعے اجتہاد ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کے خطبے کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔ اقبال نے جس طور میں یہ بات کہی تھی، بلا شبہہ وہ اقبال کی دور اندیشی کی آئینہ دار ہے۔ زیادہ تر اسلامی ممالک میں پارلیمانی دور اس وقت بھی خواب تھا اور ابھی تک خواب ہی ہے۔ پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں بھی پارلیمانی کار کردگی دیکھی جائے تو اجتہاد تو دور کی بات ہے، اپنی دستوری ذمہ داریوں کے پہلو سے ہی وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ قانون سازی جو کچھ بھی ہوئی ہے، وہ وزارت قانون کی مرہون منت ہے۔ اس میں ملکی، قومی اور عوامی ضروریات کا شاید ہی کبھی لحاظ رکھا گیا ہو۔ اس عملی صورت حال کو نظر انداز کر کے پارلیمان کو اجماع و اجتہاد کا سرچشمہ تصور کرنا عملی طور پر تو ممکن نہیں ہو سکتا۔ پھر اسے اقبال کے حوالے سے دیکھنا اقبال کے ساتھ زیادتی سے کم نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اقبال محض مفکر نہیں تھے بلکہ با عمل انسان تھے۔ علامہ کے نزدیک ’’فقہ میں مجرد فکر کے بر عکس حقیقی مسائل و واقعات کی قدر وقیمت پر زور‘‘ ہے۔ اقبال کے ہاں ’’قرآن کے حوالے سے بھی فکر کے بجائے عمل پر زور‘‘ نظر آتا ہے۔ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ کے پیش لفظ کا پہلا جملہ ہی یہ ہے :
The Qur'an is a book which emphasizes 'deed' rather than idea.
اس لحاظ سے پارلیمانی اجتہاد کی بات کتابی اور علمی دنیا میں تو کی جا سکتی ہے، مگر یہ تمام مباحث کسی عملی افادیت سے خالی ہوں گے۔ اس صورت حال کو ایک لمحہ کے لیے ایک جانب رکھ دیا جائے تو بھی پارلیمان کی جو شکل اقبال نے اپنے خطبہ اجتہاد میں پیش کی ہے، اس کی تعبیر میں لفظ layman کے لغوی معنوں کی مدد سے جو وضاحت مقالہ نگار، ڈاکٹر ایوب صابر نے کی ہے، وہ پارلیمان کی مروجہ اور معروف صورت کی بڑی حد تک نفی کر دیتی ہے۔ پہلے ہم اقبال کے الفاظ کو دیکھتے ہیں:
The transfer of the power of Ijtehad from individual representatives of schools to a Muslim legislative assembly which, in view of the growth of opposing sects, is the only possible form Ijma can take in modern times, will secure contributions to legal discussion from laymen who happen to possess a keen insight into affairs. In this way alone can we stir into activity the dormant spirit of life in our legal system, and give it an evolutionary outlook. 
The Ulema should form a vital part of Muslim legislative assembly helping and guiding free discussion on questions relating to law. 
اس اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ اجتہاد کا اختیار، انفرادی مسالک سے لے کر مسلمانوں کی قانون ساز اسمبلی کو منتقل کرنے سے ہی ہم قانونی سوالات میں زندگی کی روح دوڑا کر اسے انقلابی نقطہ نظر دے سکتے ہیں اور اس کام میں مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل اسمبلی علماے شریعت کی رہنمائی میں کام کرے گی۔ اقبال نے قانون ساز اسمبلی کے بارے میں کہا ہے کہ علما اور دیگر شعبوں کے ماہرین قانونی مباحث میں حصہ لیں گے۔ اقبال کے الفاظ layman کے عام مفہوم کے تحت بعض لوگوں نے اقبال کے نقطہ نظر سے شدید اختلاف کیا۔ جناب ایوب صابر نے layman کے ساتھ اقبال کے الفاظ ’’تیز بصیرت‘‘ کو مطابقت دینے کے لیے layman کے لغوی معنی ’’عام اور ان پڑھ آدمی‘‘ کے بجائے ’’غیر پادری‘‘ لے کر جو صراحت کی ہے، وہ توجہ کی مستحق ہے۔ اس کو سامنے رکھ کر اقبال کے جملوں میں layman سے مراد شریعت کے علاوہ دیگر شعبوں کے ماہرین لیے جا سکتے ہیں۔ ایسی اسمبلی جس میں مختلف شعبوں کے ماہرین شامل ہوں اور وہ علماے شریعت کی رہنمائی میں کام کرے، اس کی اجتہادی حیثیت پر اعتراض کی شاید ہی کچھ گنجائش رہ جائے۔ layman کے مفہوم کی اس شرح کے بعد، ڈاکٹر صاحب نے اس کے نتائج کو سمیٹنے سے گریز کیا اور بات کو ادھورا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے ان کی طرف اوپر اشارہ کیا ہے۔ 
البتہ یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ماہرین کی ایسی اسمبلی کس طرح تشکیل دی جائے۔ اس پر بھی ڈاکٹر ایوب صابر صاحب نے اپنے طویل مقالے میں توجہ نہیں دی۔ عملی اہمیت کے لحاظ سے اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ جمہوری نظام میں نمائندہ اسمبلیوں کو حکومت سازی، ان کی نگرانی اور مواخذے کی حیثیت تو دی جا سکتی ہے مگر ان کی اجتہادی حیثیت بہرحال محل نظر ہو گی۔ گہری بصیرت، بصارت اور مہارت کے بغیر کسی عمل کو ’اجتہاد‘ تصور کیا جانا کسی طرح معقول نظر نہیں آتا۔ اس بارے میں دستور کی روشنی میں اعلیٰ عدالتوں کو نظر ثانی کا جو اختیار حاصل ہے، وہ بھی اہمیت رکھتا ہے۔ دستور بنیادی قانون ہے۔ اس کے منافی کوئی بھی قانون بے حقیقت ہے۔ اسی طرح وفاقی شرعی عدالت قوانین کو شرعی معیاروں پر، پرکھنے کا اختیار رکھتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس جانچ پرکھ کے ساتھ دستور میں جو قیود عائد کی گئی ہیں، ان کو ختم کر کے عدالتی دائرۂ کار کو وسعت دی جائے۔ اسی طرح حاکم خان کیس میں قراردادمقاصد میں درج اصولوں کے منافی دستوری آرٹیکل کو غیر موثر قرار دینے سے گریز کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے، اس پر بھی ایک مقالہ خواں جناب عبداللہ نے سخت افسوس کا اظہار کیا ہے۔ موصوف نے کیس کا باقاعدہ حوالہ نہیں دیا مگر فیصلے پر اپنی برہمگی کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ علما حضرات کے نوٹس میں یہ فیصلہ نہیں آیا، وگرنہ فیصلہ پر مجالس اور خطبوں میں بات آگے بڑھتی۔ حاکم خان کیس کا فیصلہ یقینی طور پر نظر ثانی کا محتاج ہے۔ یہ فیصلہ بھی اس دور کی یاد گار ہے جب جج صاحبان اہل اقتدار کے ماتھوں کی جنبش کا زیادہ ہی احترام کیا کرتے تھے۔ عدلیہ کی بحالی کے بعد اعلیٰ عدلیہ نے واقعتا اپنی آزادی کا ثبوت دیا تو کسی نہ کسی مرحلے پر یہ فیصلہ بھی نظر ثانی میں آئے گا۔ بہر حال عبداللہ صاحب نے اپنے مقالے میں اس پہلو کی پورے زور کے ساتھ نشاندہی کی ہے۔
حدیث کی حجیت کے حوالے سے اقبال نقطہ نظر پر ڈاکٹر خالد علوی مرحوم نے اپنے مقالے میں بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔ انہوں نے اقبال کے نقطہ نظر کی صراحت بڑی خوبی سے کی ہے۔ اس مقالے کو بغور پڑھ لیا جائے تو اقبال کے راسخ العقیدہ ہونے کے بارے میں کوئی ابہام اور شک باقی نہیں رہتا۔ ڈاکٹر علوی صاحب نے بار بار اس جانب توجہ دلائی ہے کہ اقبال اپنی نثر اور نظم میں احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ ایک موقع پر، شبلی نے شاہ ولی اللہ کے ایک اقتباس کو جس طرح تروڑ مروڑ کر پیش کیا ہے، اس سے اقبال الجھن کا شکار نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ اقبال کا حدیث کی حجیت کے بارے میں ذہن صاف ہے۔
منصوص احکام کی ابدیت کے پہلو سے اقبال نے یہ بحث بھی کی ہے کہ عربوں کے رسم و رواج کے اثرات کو بھی دیکھنا ہو گا، لیکن اقبال خود ہی اس بارے میں کہتے ہیں کہ اس پہلو سے جستجو بڑی مشکل کام ہے۔ اس پہلو سے اقبال کے اٹھائے گئے سوالات کا حوالہ دیے بغیر جناب عمار خان ناصر نے مقاصد شریعت اور اجتہاد کے عنوان سے بڑی تفصیلی اور مدلل بحث کی ہے۔ اس بحث میں انہوں نے منصوص احکام کی ابدیت کے بارے میں جملہ سوالات کا مسکت جواب دینے کے بعد ان کی ابدیت کو ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے منصوص احکام میں وسعت، تقیید اور استثنا کی صورتوں پر بھی کھل کر بات کی ہے اور مثالوں کے ذریعے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے۔ فقہا کی آرا کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر جامد تقلید کا نہیں۔ اختصار سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ عمار صاحب نے موضوع پر مکمل مقالہ پیش کیا ہے۔ اس کا کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ خوب جم کر لکھا ہے۔ البتہ اسے اقبال کے تصور اجتہاد کے ساتھ جوڑنے سے گریز کی راہ اختیار کر کے تھوڑی سی زیادتی کی ہے۔ ان کا مقالہ کتاب کے سانچے میں بہت سجتا اور جچتا ہے، مگر اسے اقبال کے تصور اجتہاد سے مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔
کتاب میں جناب خالد مسعود کے مقالے کو اولیت دی گئی ہے۔ مقالے میں اقبال کے خطبہ اجتہاد سے بہت سے اقتباسات پیش کیے گئے ہیں۔ ان اقتباسات سے جو نتائج جناب خالد صاحب اخذ کرنا چاہتے ہیں، وہ خطبے سے کشید بھی کیے جائیں تو بہت زبردستی کرنا پڑے گی۔ ان کے نزدیک اقبال نے یہ خطبہ روایتی فقہ پر تنقید کے طور پر لکھا مگر مترجمین اور شارحین نے اسے روایتی فقہ کے سیاق و سباق ہی میں پیش کر کے خطبے کا مقصد فوت کر دیاہے۔ لیکن حیرت یہ ہے کہ خود انہوں نے اپنے مقالے میں بے شمار فقہی حوالوں کا سہارا لیا ہے۔ روایتی اور غیر روایتی فقہ کے مابین کوئی حد فاصل جناب خالد مسعود قائم کرنے کے بعد بات کو بڑھا سکتے تھے، مگر اس پہلو سے ان کے مقالے میں خلا محسوس ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اجتہاد کے موضوع پر اصول فقہ اور فقہی حوالوں سے نجات کی کوئی صورت کس طرح ممکن ہے؟ خالد صاحب اپنے علم و فضل کے باوجود اس کی وضاحت نہیں کر سکے۔ اقبال کے حوالے سے انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ فقہ جمود کا شکار ہے، لیکن خطبے میں اقبال نے اس جمود کو افسانہ قرار دیا ہے۔ جناب خالد صاحب اقبال کے اس جملے کو گول کر جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جناب خالد مسعود صاحب کے مقالے کو پورا احترام دے کر پڑھنے کے باوجود سمجھنے میں اپنی کم فہمی کو ہی قصور وار قرار دے سکتا ہوں۔ جناب خالد مسعود کے مقالے کا عنوان ’’اقبال کے اصول اجتہاد‘‘ ہے۔ مقالے کے شروع میں درج ذیل تین سوالات اٹھائے گئے ہیں:
’’اس سیمینار کے مجوزہ موضوعات میں ایک بہت ہی اہم سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا مصالح مرسلہ اور استحسان سے بہتر تصور وضع کرنا اقبال اور دیگر مفکرین کے لیے ممکن ہے؟ یہ سوال کئی پہلوؤں سے اہم ہے۔ ایک تو یہ سوال اجتہاد اور اصول فقہ کے حوالے سے ایسے ’’مفروضات‘‘ کے تجزیے کا طالب ہے جو ہمارے ہاں ’’مسلمات‘‘کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ 
دوسرے یہ عصر جدید کے اصول اجتہاد میں مصالح مرسلہ اور استحسان کے نئے مقام اور کردار پر بحث کا مطالبہ کرتا ہے۔
تیسرے یہ علامہ اقبال اور دیگر مفکرین کے ہاں اجتہاد کے ضمن میں بہتر تصور کی تلاش پر بحث چاہتا ہے۔ اس مختصر مقالے میں انہی سوالات کا جواب علامہ کے خطبہ اجتہاد میں تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
ان سوالات کا مقالے کے عنوان کے ساتھ کوئی تعلق مشکل ہی سے نظر آتا ہے۔ پورے مقالے میں ان سوالات کا کہیں تذکرہ نہیں ملتا۔ خاص طور پر ’’اصول فقہ میں وہ مفروضات جو مسلمات کی حیثیت اختیار کر گئے‘‘ کی کہیں نشاندہی نہیں کی گئی۔ آخر میں جو نتیجہ فکر پیش کیا گیا ہے، ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے :
’’قرآن و سنت اور اجماع میں جدید مسائل کے حل کے لیے واضح نصوص موجود نہیں ‘‘۔
یہ سب کچھ اقبال کے اصول اجتہاد کے عنوان کے تحت ہو تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ اقبال کے خطبہ اجتہاد سے آخری سطور نقل کر دینا کافی سمجھتا ہوں:
Believe me, Europe today is the greatest hindrance in the way of man's ethical advancement. The Muslim, on the other hand, is in possession of these ultimate ideas on the basis of a revelation, which, speaking from the inmost depths of life, internalizes its own apparent externality. With him the spiritual basis of life is matter of conviction for which even the least enlightened man among us can easily lay down his life; and in view of the basic idea of Islam that there can be no further revelation binding on man, we ought to be spiritually one of the most emancipated peoples on earth. Early Muslims emerging out of the spiritual slavery of pre-Islamic Asia were not in a position to realize the true significance of this basic idea. Let the Muslim of today appreciate his position, reconstruct his social life in the light of ultimate principles, and evolve, out of the hitherto partially revealed purpose of Islam, that spiritual democracy which is the ultimate aim of Islam. .
’’فرنگ کی موجودہ تہذیب انسان کی اخلاقی اور روحانی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے، لیکن مسلمانوں کے پاس زندگی کے بنیادی عقائد از روے وحی موجود ہیں۔ اگر وہ خودی سے آشنا ہو جائیں اور اسلام کی حقیقت ان پر آشکار ہو جائے تو اقوام اسلامی، روحانی اور سیاسی و معاشی طور پر پوری طرح آزاد ہو کر وقار کی زندگی بسر کر سکتی ہیں۔ ابتدائی صدیوں کے مسلمان قبل اسلام ایشیا کی دیرینہ غلامی میں سے ابھرے تھے۔ اس لیے وہ اسلام کی حقیقی غایت سے پوری طرح آشنا نہ ہو سکے۔ مسلمانوں نے پہلے جو کچھ کمالات دکھائے، ان سے کہیں زیادہ اب ممکن ہیں۔ مرور ایام سے اسلام کے عقائد اور اس کے نظریہ حیات کی ماہیت واضح تر ہو گئی ۔ مستقبل کا اسلام ماضی کے اسلام سے زیادہ شاندار اور نوع انسانی کا محسن ہو سکتا ہے۔ اسلام کی حقیقت کسی دور میں بھی پوری طرح معرض شہود میں نہیں آ سکی۔‘‘
جناب افتخار عارف کے خطاب سے چند جملے خاص طور پر اہم ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ :
’’شرائط اجتہاد کے سلسلے میں ایک بات عرض کروں کہ ہمارے جدید سکالرز تمسخر کے ساتھ اس پر گفتگو کرتے ہیں۔ یہ شرائط مثلاً عربی دانی، تقویٰ، سیاق و سباق، متون تک رسائی، حدیث کا علم، اجماع کا علم وغیرہ، جب ان کا ذکر ہوتا ہے مذاق کے ساتھ، یہ دیکھ کر مجھے وحشت سی ہوتی ہے۔ جہل پر اس طرح سے اصرار، میرے نزدیک یہ بات محل نظر ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ جناب افتخار عارف نے علما کی اقبال فہمی کے حوالے سے فرمایا:
’’اقبال نے بیس کی دہائی میں، خطبات کی اشاعت سے پیشتر، چھ برسوں میں معاصر فکرکے بڑے بڑے سماجی مفکر اور فلسفیوں کو پڑھا۔ اقبال نے ان کا ذکر کہیں نہ کہیں، انکار، اثبات، تصدیق ، تردید، استفادے اور استخراج کی صورت میں کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ علما جو فکر مغرب سے واقف نہیں ہیں، فکر اقبال سے پوری طرح فیض یاب ہو سکتے ہیں؟ مجھے یہ ماننے میں تامل ہے۔‘‘
اس طرح جناب افتخار عارف نے جدیدیوں اور قدیمیوں پر اظہار خیال میں لاگ لپیٹ سے کام نہیں لیا۔
کتاب میں املا کی اغلاط موجود ہیں، مگر اتنی زیادہ نہیں کہ تکلیف کا باعث ہوں۔ البتہ بعض اوقات سطور کا تکرار بہت بے جا ہے۔ کتاب کے آخر میں اگر شخصیات اور مضامین کا اشاریہ شامل کیا جاتا تو یقیناًکتاب کی افادیت میں اضافہ ہو جاتا۔ مقالہ نگار حضرات معروف لوگ ہیں، اس کے باوجود ان کے مختصر تعارف کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کتاب کا معیار طباعت چھاپنے والے اداروں کی شان کے عین مطابق ہے۔
(تبصرہ نگار: چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ)

’’جامعہ نامہ ‘‘

پاکستان میں ایک سے بڑھ کر ایک ایسی جامعات موجود ہیں جہاں ان کی تاسیسی تقریب سے لے کر اب تک وقتاً فوقتاً کئی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہے، لیکن شاید ہی ایسی کوئی جامعہ ہو جہاں تقریبات نہ صرف مسلسل منعقد ہو رہی ہوں بلکہ ان کے عنوانات کا تنوع جامعہ کے دانش گاہ ہونے کا بھی غماز ہو۔ یونیورسٹی آف گجرات کا ’ جامعہ نامہ ‘ پڑھ کر حیرت انگیز مسرت ہوئی کہ وطن عزیز کی جامعات میں سے کم از کم ایک جامعہ کی درس گاہیں نہایت مختصر مدت میں کسی دانش گاہ کی بنیاد رکھ رہی ہیں۔ 
’’جامعہ نامہ‘‘ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ یونی ورسٹی آف گجرات اور دیگر یونی ورسٹیوں کی اپروچ میں ایک بنیادی فرق ہے اوراس فرق کے پیچھے دو شخصیات کے وژن خلوص اور دیانت کا ہاتھ ہے: ایک پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین اور دوسرے شیخ عبدالرشید۔ ’’جامعہ نامہ‘ ‘ بنیادی طور پر شیخ عبدالرشید کے قلم سے نکلی ہوئی روداد ہے، لیکن یہ روداد لکھنے کی نوبت کبھی نہ آتی اگر ڈاکٹر محمد نظام الدین جیسا گوہر شناس، شیخ عبدالرشید کی گونا گوں صلاحیتوں کا ادراک نہ کر پاتا۔ اس لیے علم دوست ہونے کے ناطے ہمارا فرض بنتا ہے کہ سب سے پہلے پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کی علم پروری کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کریں جنہوں نے شیخ صاحب جیسے باصلاحیت فرد کو کام کرنے کا وسیع میدان اور موقع فراہم کر کے ایک نوخیز یونی ورسٹی کے درخشاں مستقبل کی بنیاد رکھی ہے۔ 
’ ’ جامعہ نامہ‘‘ میں بکھری ہوئی روداد سماجیات و پاکستانیات اور زراعت و معیشت سے لے کر حالاتِ حاضرہ اور تصوف و تفہیم تاریخ اور تعلیم و تدریس جیسے اہم موضوعات کاا حاطہ کرتی ہے۔ ان تقریبات کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہوئے شیخ عبدالرشید نے جملوں کی ساخت، تراکیب اور اقوالِ زریں کا بر محل استعمال کر کے قلم پر اپنی جاندار گرفت کا بھرپور اظہار کیا ہے۔ ہمارے ممدوح نے لگے بندھے مروجہ اصولِ رپورتاژ کی تقلید کے بجائے مجتہدانہ اسلوب اپنا کر انتہائی سنجیدہ مباحثوں و مذاکروں کو ایسے دل نشین ادبی پیرایے میں بیان کیا ہے کہ بہ زبانِ شاعر اعتراف کرنا پڑتا ہے : 
’’ایں سعادت بزورِ بازو نیست ‘‘ 
شعبہ باٹنی کے زیرِ اہتمام ’’زراعت! پاکستان میں معیشت کی بہتری کی امید‘‘ کے زیرِ عنوان منعقدہ ایک سیمینار کی روداد شیخ صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں :
’’ زراعت و خوراک سے انسان کا تعلق ازل سے ابد تک محیط ہے۔ حیاتِ انسانی کا دارو مدار کسان کی محنتِ شاقہ اور زرعی پیداوار میں کامیابی پر ہے۔ خوراک ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بھوک ایک ایسا مرض ہے جس کا سوائے خوراک کے کوئی علاج نہیں۔ اسی سے زراعت، منصوبہ بندی اور کسان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ غور کیا جائے تو خوراک ہی زندگی ہے۔ اس کی پیداوار میں ناکام ہونا تاریک مستقبل اور فنا کا باعث بنتا ہے۔ چرچل نے دوسری جنگِ عظیم میں اپنی فتح کو خوراک کی مسلسل اور بے روک فراہمی سے مشروط کر دیا تھا کیونکہ اگر زراعت ناکام ہو جائے تو اس کا نتیجہ قحط ہوتا ہے۔‘‘ 
مذکورہ اقتباس کا ذرا تنقیدی جائزہ لیجیے کہ ہمارے ممدوح نے کتنی خوبصورتی سے اپنی واقعیت پسندانہ فکر کو نہایت موزوں الفاظ کا جامہ پہنایا ہے اور پھر چرچل کے قول کو تفکیری روپ دے کر فنکارانہ چابک دستی سے ایڈجسٹ کیا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ زراعت کی ناکامی کا نتیجہ ’قحط‘ قرار دے کر شیخ صاحب نے قحط کی سنگینی سے آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ بعض اوقات ناگفتنی، گفتنی کی جگہ سنبھال لیتی ہے اور ان کہی ، کہی کے قائم مقام ہو جاتی ہے ۔ 
’’جامعہ نامہ‘‘ کے صفحہ ۱۳۸ پر اپنے ایک بصیرت افروز مضمون ’’اچھے استاد کے نمایاں اوصاف‘‘کا اختتام شیخ صاحب ان جھنجھوڑنے والے الفاظ میں کرتے ہیں: 
’’ استاد خود کو پیغمبروں کی میراثِ معلمی کے وارث کہتے ہیں، لہٰذا انہیں معلمِ انسانیت و فخرِ انسانیت کے اسوہ حسنہ سے راہنمائی حاصل کرکے اپنی کردار سازی کرنا ہے۔ پیغمبروں کے وارث ہونے کا دعوے دار استاد ہی اگر سیرتِ طیبہ کا پیرو کار نہ رہا تو اس سے بڑا گستاخِ رسول کون ہو سکتا ہے؟ ‘‘ 
شیخ عبدالرشید کا تنقیدی شعور ان کی بالغ نظری کا آئینہ دار ہے اور اس میں لمحہ گزراں سے گریز کے بجائے تفہیم و تنقیح پر مبنی تخلیقی اپج پائی جاتی ہے جس کا اظہار موصوف نے ڈاکٹر محمد نظام الدین کے مقالہ ’’عالمی امن کے فروغ میں اہلِ قلم کا کردار‘‘ کا جائزہ لیتے ہوئے صفحہ ۱۴۳ پر کچھ اس طرح کیا ہے : 
’’ آج کا عہد پریشاں نظری کا عہد ہے۔ پراگندگی کا فشار وجودِ حیات کو پھاڑ دینے کو ہے۔ ہر سمت آگ اور دھواں ہے، خون جل رہا ہے، نفرت و عناد کی بد بو پھیلی ہوئی ہے۔ سرفرازی و سربلندی صرف انہی کو حاصل ہے جو لاشوں پر کھڑے ہیں ۔.... ایسے میں کھربوں ڈالرز کے ہیبت ناک اسلحے کی طاقت سے عالمی امن مسلط کیا جا رہا ہے، ایک ایسا امن جس کا تحفظ سٹار وار سسٹم کرے گا جو گلوبل مارکیٹ کو پروان چڑھائے گا جہاں ہر چیز بِکے گی، کتاب بھی اور قلم بھی، ادب بھی اور نظریہ بھی۔ انسان وہی سوچے اور سمجھے گا جیسا اس سے چاہا جائے گا۔ ‘‘
’ ’جامعہ نامہ‘‘ کے مزید کئی پہلوؤں پر بات ہو سکتی ہے، لیکن اس مختصر تبصرے میں چونکہ تنقیدی محاکمہ مقصود نہیں، اس لیے سطورِ بالا پر اکتفا کرتے ہوئے ہم یونی ورسٹی آف گجرات کے متعلقین، خاص طور پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ شیخ عبدالرشید کی زبان و بیان کی خوبیوں کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے یونی ورسٹی آف گجرات کی ایسی فکری و تصنیفی نیو رکھ دی گئی ہے جس پر کھڑی ہونے والی عمارت بلامبالغہ بہت شاندار پر شکوہ اور نہایت عظیم ہو گی۔
(تبصرہ نگار: پروفیسر میاں انعام الرحمن)

’’انصاف کرو گے؟‘‘

ترجمہ کرنا مشکل کام ہے اور کوئی مشکل پسند ہی ترجمانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ ہر پس ماندہ قوم کی تاریخ میں ایسے مشکل پسندجنم لیتے رہے ہیں جو اپنی، ذہنی اعتبار سے پس ماندہ قوم تک ترقی یافتہ مہذب اقوام کے علوم و فنون کو ترجمہ کے ذریعے منتقل کرنے کا کٹھن فریضہ سر انجام دیتے رہے ہیں۔ اگر بات ایسی قوم کی ہو جس کے اپنے (معدودے چند) رجحان ساز رویے غیر ملکی زبان کے طلسم کا شکار ہوں تو ترجمانی کی ضرورت، ضرورت سے بڑھ کر فرضِ کفایہ کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ وطن عزیز میں زبان کے حوالے سے مقتدر طبقے کی مخصوص چال نے ایسے مخصوص چلن کو رواج دے رکھا ہے جس کے باعث اوسط ذہنی سطح کے حامل کسی فرد تک رجحان ساز رویوں کی پرچھائیں بھی نہیں پہنچ پاتی جس کے نتیجے میں رجحان ساز رویوں کا نوخیز پودا تناور درخت بننے سے بہت پہلے دم توڑ جاتا ہے۔ ایسے قابلِ افسوس (بلکہ قابلِ ماتم) تناظر میں، چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ نے قومی عدالتی پالیسی اور چند اہم مقدمات کا بر وقت ترجمہ کر کے نئی ابھرتی ہوئی رجحان ساز قومی فکر کو عام قاری تک پہنچانے کا قابلِ تحسین کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ 
’’انصاف کرو گے؟‘‘ زیرِ نظر مترجم تالیف کا عنوان ہی نہیں ہے بلکہ ایسا سوال ہے جس کی درستی میں اس کا جواب بھی پنہاں ہے۔ جی ہاں ! یہ ایک درست سوال ہے اور اس کے درست جواب میں ہماری قوم کے خوابوں کی تعبیر پوشیدہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران میں برطانوی وزیرِ اعظم چرچل نے بھی ایک درست اٹھائے گئے سوال کا درست جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ برطانوی قوم محکوم و مغلوب قوم نہیں بن سکتی، کیونکہ برطانوی عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بحیثیت قوم ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں اور اس وقت فقط انصاف ہی محکومیت و مغلوبیت کی راہ میں حائل ہو کرہماری آزادی کے تحفظ کے لیے مضبوط فصیل کا کام دے سکتا ہے۔ لہٰذا ’’انصاف کرو گے؟‘‘ جیسا درست سوال بروقت اٹھانے پر چودھری محمد یوسف ایڈ ووکیٹ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
فہرست پر سرسری نظر دوڑانے سے ہی عیاں ہو جاتا ہے کہ اس مترجم تالیف کے مشتملات میں نامیاتی تعلق تو سرے سے موجود نہیں، اس پر مستزاد یہ کہ کسی قسم کا منطقی ربط بھی بالکل نہیں پایا جاتا۔ ایسا الجھاؤ یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ چودھری صاحب کو مختلف النوع مقدمات اور طبع زاد تحریروں کو ایک ہی کتاب میں سمونے کی کیوں سوجھی؟ ہمارے خیال میں اس سوال کے جواب کا تعلق مترجم مولف کی شخصیت کے شعوری پہلو سے نہیں ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے اردو ادب کی صنف، غزل کی ماہیت کا تفہم کار آمد ثابت ہو سکتا ہے۔ غزل کے اشعار میں عام طور پر کوئی منطقی یا معنوی ربط نہیں ہوتا۔ ہر شعر دوسرے سے مختلف اور اپنی جگہ مکمل وحدت کا حامل ہوتا ہے۔ مثلاً میر تقی میر کی ایک مشہور غزل کے دو اشعار دیکھیے: 
ہستی اپنی حباب کی سی ہے 
یہ نمائش سراب کی سی ہے 
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے 
معنوی بعد کے باوجود، بہرحال دونوں ایک ہی غزل کے شعر ہیں اور بیان و معانی کے لحاظ سے اپنے اپنے مقام پر مکمل وحدت اور الگ الگ شناخت لیے ہوئے ہیں۔ غزل کی اس داخلی پیچیدگی نے ناقدین کو اس ا مر پر مجبور کیا ہے کہ وہ ’’وہ چیز‘‘ تلاش کریں جو ان مختلف وحدتوں کو ایک لڑی میں اس طرح پرو تی ہے کہ غزل بن جاتی ہے اور کسی کو اس پر اعتراض بھی نہیں ہوتا۔ تلاش کے اس عمل میں ظاہر بین نقاد ردیف، قافیہ، وزن، بحر وغیرہ کے پلڑے میں ناپ تول شروع کردیتے ہیں، لیکن گہرائی سے دیکھنے والے اسے شاعر کے ’’موڈ‘‘ کا نام دیتے ہیں کہ شاعر کا موڈ غزل کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے اور یہ موڈ ہی مختلف المعانی اشعار میں داخلی ربط پیدا کر کے انہیں غزل کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔ ہماری رائے میں محمد یوسف ایڈووکیٹ کی مترجم تالیف اگرچہ ظاہری طور پر چوں چوں کا مربہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں بھانت بھانت کی اشیا اکٹھی کر دی گئی ہیں، لیکن ذرا غور کرنے پر ان کے پیچھے کارفرما چودھری صاحب کا موڈ برآمد ہوتا ہے جو متنوع مشتملات کو باندھ کر کتاب کا روپ دے دیتا ہے۔
جہاں تک یوسف صاحب کے موڈ کا تعلق ہے، باغیانہ انداز میں سر اٹھا کر چلنا اس کا بنیادی وصف معلوم ہوتا ہے۔ نظریہ ضرورت کے خلاف بغاوت، این آر او کے خلاف بغاوت، اسلام کے قدامت پسندانہ ایڈیشن کے خلاف بغاوت، مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ ہر قسم کے استحصال کے خلاف بغاوت۔ چودھری صاحب کے موڈ کو سلام، ان کے باغیانہ تیور سر آنکھوں پر، لیکن سوال یہ ہے کہ جناب نے اردو کو دفتری زبان بنانے کے مقدمے کا تفصیلاً ذکر کیوں نہیں کیا؟ کیا یہ بھی استحصال کی بد ترین صورت نہیں ہے کہ قوم پر ایک غیر ملکی زبان پچھلے چھ عشروں سے مسلط ہے؟ یوسف ایڈووکیٹ اس استحصالی روپ سے بخوبی آگاہ ہیں،اسی لیے انہوں نے اردو دان حضرات تک عدالتی پیغام پہنچانے کے لیے جوڈیشل پالیسی اور بعض اہم مقدمات کا ترجمہ، تالیف کی صورت میں پیش کیا ہے اور ’’جوڈیشل پالیسی --- چند توجہ طلب نکات‘‘ کے زیرِ عنوان پچیس نکات پر مشتمل بصیرت افروز تبصرہ تحریر کرتے ہوئے اٹھارہویں نکتے میں اردو کی تنفیذ کے زیرِ التوا مقدمے کا مقدمہ قارئین کے توسط سے سپریم کورٹ میں دائر کر دیا ہے۔ صفحہ نمبر ۵۶ سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے : 
’’ اردو کے لیے اتنی طویل جدوجہد کے بعد اس کا حاصل کیا ہے؟ محض دستور کا آرٹیکل ۲۵۱۔ کیا دستوری آرٹیکل اسی لیے ہوتے ہیں کہ وہ کتابِ قانون کی زینت بنے رہیں؟ عدلیہ دستور کی محافظ ہے، کیا عدلیہ اس بارے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لیے دائر درخواستوں کو معرضِ التوا میں رکھ کر اپنی ذمہ داری کو پورا کر رہی ہے؟ ان حالات میں سپریم کورٹ سے ہی توقع رکھی جا سکتی ہے کہ وہ خود اردو کی ترویج کے لیے اقدامات کرے جس طرح عدلیہ اور انتظامیہ کی علیحدگی، قصاص و دیت کے احکامات، انسانی اعضاء کی خریداری کے بار ے میں سخت تادیبی قوانین کے اجرا کے سلسلے میں سپریم کورٹ نے موثر کردار ادا کیا۔ اس سے عام آدمی کو بے حد سہولت بھی پہنچے گی اور دستور کا تقاضا جسے ایک مدت سے نظر انداز کیا گیا ہے، پورا ہو گا۔‘‘ 
دو سو صفحات کی تالیف میں اردو کی اہمیت پر صرف دو تین صفحے، اونٹ کے منہ میں زیرے والی بات ہے لیکن دیر آید درست آید کے مصداق ہم توقع کرتے ہیں کہ چودھری صاحب کسی آئندہ کتاب میں اردو کی تنفیذ کا مقدمہ اپنے مخصوص باغیانہ تیور کے ساتھ بھر پور انداز میں لڑیں گے۔ 
جس طرح تقریباً ہر شاعر کے کلام میں کوئی نہ کوئی ترکیب، استعارہ، تلمیح وغیرہ بار بار ظاہر ہو کر شاعر کی افتادِ طبع کی غمازی کرتی ہے، اسی طرح ’’انصاف کرو گے؟‘‘ میں کم از کم چار مقامات ( صفحہ نمبر ۶۳، ۱۱۹، ۱۹۹، اور بیک ٹائیٹل) پر ایک پیراگراف کا حوالہ ہمارے ممدوح کے خاص مزاج کا پتہ دیتا ہے۔ یہ تکرار ظاہری لحاظ سے قارئین کے لیے تاکیدی پہلو لیے ہوئے ہے اور داخلی اعتبار سے چودھری صاحب کی اس سائیکی کی طرف نہایت ٹھوس اشارہ کرتا ہے جس کی بنیاد پر ان کے مخصوص موڈ کی تعمیر و تزئین ہوئی ہے۔ پیراگراف ملاحظہ کیجیے۔ عاصمہ جیلانی کیس میں جسٹس یعقوب علی خان نے یہ سطور لکھی تھیں : 
Let it be laid down firmly that the order which the usurper imposes will remain illegal and courts will not recognize its rule and act upon them as de jure. As soon as the first opportunity arises, when the coercive apparatus falls from the hands of the usurper, he should be tried for high treason and suitably punished. This alone will serve as a deterrent to would be adventurers. 
اگر ایک قانون دان کے دل و دماغ کو سطورِ بالا نے مسحور کر رکھا ہے تو اس پر ہمیں ہرگز حیرت نہیں ہے۔ ہاں، اگر قانون دان صاحب اس جہان سے سرسری گزر جاتے تو ہم ضرور کہتے کہ جناب! یہ جہانِ دگر تھا ۔ 
اس تالیف کے صفحہ ۱۳۶ تا ۱۴۸ میں یوسف ایڈووکیٹ کی ایک طبع زاد تحریر بعنوان ’’مسلم و غیر مسلم جج کی بحث‘‘ بھی شامل ہے۔ اس مضمون میں مصنف نے طنز کے تیر چلانے کی کوشش کی ہے، لیکن غالباً کمان پوری طرح کھینچے بغیر ہی تیر کمان سے نکل گئے ہیں اور چودھری صاحب دیکھتے ہی رہ گئے ہیں۔ البتہ اکا دکا تیر نشانے کے قریب بھی پہنچے ہیں جس سے امید بندھتی ہے کہ اگر چودھری صاحب نے تیر اندازی کی مشق جاری رکھی تو آخر ایک دن تیس مار خان بن ہی جائیں گے۔ اس مضمون میں غیر مسلم جج کی وکالت کرتے ہوئے مصنف نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم کی ’’خطباتِ بہاولپور‘‘ سے یہ اقتباس نقل کیا ہے : 
’’اسلام میں کسی معین طرزِ حکومت کو لازم قرار نہیں دیا گیا بلکہ عدل و انصاف کو لازم قرار دیا گیا ہے، چاہے اس کو کوئی بھی انجام دے۔ اگر آج حضرت ابوبکر، حضرت عمریا حضرت علی رضی اللہ عنہم زندہ ہوں تو میں بخوشی انہیں سارے آمرانہ اختیارات سونپنے کے لیے آمادہ ہوں، کیونکہ مجھے ان کی خدا ترسی پر پورا اعتماد ہے۔ اس کے بر خلاف اگر آج یزید زندہ ہو تو میں اس کو انگلستان کے مہر لگانے والے بادشاہ کے برابر بھی اپنا حکمران بنا نے کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘ 
چودھری صاحب مذکورہ اقتباس کو نقل کرنے کے بعدارشاد فرماتے ہیں: 
’’کریکٹر کی اہمیت کو الگ رکھ کر محض فنی مباحث علمی تفریح تو ہو سکتی ہے مگر دین سے اس کا کوئی تعلق جوڑنا دور کی کوڑی لانے والی بات ہے ۔ میں اسے نہیں جانتا، نہ ہی مانتا ہوں۔ ‘‘ 
ہم چودھری صاحب سے یہ پوچھنے کی جسارت کریں گے کہ اگر ’’کریکٹر‘‘ کی اہمیت ہی کلیدی ہے اور اس سلسلے میں فنی بحث علمی تفریح کے زمرے میں آجاتی ہے جس کا ’’دین‘‘ سے تعلق جوڑنے کی چنداں ضرورت بھی نہیں رہتی تو پھر کیا وطنِ عزیز کے جرنیل، سیاستدانوں کی بہ نسبت اتنے زیادہ بدکردار ہیں کہ ان کی طالع آزمائی کی مذمت اور سدِ باب کے لیے نہ صرف خواہ مخواہ کی فنی بحثیں چھیڑی جائیں بلکہ ’’انصاف کرو گے؟‘‘ جیسے دل فریب عنوانات کے تحت کتب بھی تالیف کی جائیں؟
(تبصرہ نگار: پروفیسر میاں انعام الرحمن)