مارچ ۲۰۰۹ء

مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
عالمی امن کے فروغ میں اہلِ قلم کا کردارپروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین 
حضرت مجدد الف ثانیؒ کا دعوتی منہج و اسلوبپروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک 
میرے شعوری ارتقا کی پہلی اینٹافضال ریحان 
آداب القتال : توضیحِ مزیدمحمد مشتاق احمد 
غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۳)سید منظور الحسن 
جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پر ایک نظر!مولانا عبد المالک طاہر 
مکاتیبادارہ 
’’عصر حاضر میں تدریس حدیث کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر سیمینارحافظ عبد الرشید 
’’چہرے کا پردہ : واجب یا غیر واجب؟‘‘ڈاکٹر انوار احمد اعجاز 

مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی نظام عدل ریگولیشن کا نفاذ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمد کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد اس کے نتیجے کے طور پر اس خطے میں ’’نظام عدل ریگولیشن‘‘ کے نفاذ کے اعلان سے سوات اور ملحقہ علاقوں میں امن کے قیام کی امید دکھائی دینے لگی ہے۔ تحریک طالبان کے سربراہ مولوی فضل اللہ نے دس دن کے لیے عارضی جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔ مولانا صوفی محمد نے مینگورہ میں بہت بڑے عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا مطالبہ پورا ہو گیا ہے، اب وہ اپنی تمام کوششیں سوات میں امن قائم کرنے پر صرف کریں گے اور اس وقت تک سوات میں رہیں گے جب تک مکمل طو رپر امن قائم نہیں ہو جاتا۔ اب تک سامنے آنے والی خبروں کے مطابق متعلقہ علاقوں کے لوگ ا س معاہدے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں، بازار کھلنے لگے ہیں اور زندگی کی رونقیں بحال ہوتی نظر آ رہی ہیں۔
مالاکنڈ ڈویژن میں یہ مطالبہ گزشتہ دو عشروں سے جاری تھا کہ وہاں مروجہ عدالتی سسٹم کی جائے شرعی عدالتوں کا نظام قائم کیا جائے اور اس کے لیے مولانا صوفی محمد کی سربراہی میں ’’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘‘ نے ایک عوامی تحریک منظم کر رکھی تھی جس کے نتیجے میں ایک مرحلے میں کم وبیش تیس ہزار کے لگ بھگ مسلح افراد مینگورہ کی سڑکوں پر کئی دنوں تک دھرنا دیے بیٹھے رہے تھے اور ان کا مطالبہ یہ تھا کہ انھیں شرعی عدالتی نظام فراہم کیا جائے جہاں قاضی حضرات قرآن وسنت کے مطابق ان کے مقدمات کے فیصلے کریں۔ یہ مطالبہ تو پاکستان کے دینی حلقوں کا پورے ملک کے لیے چلا آ رہا ہے، لیکن سوات وغیرہ کے مطالبہ میں یہ شدت اس لیے تھی کہ وہاں پاکستان کے ساتھ ریاست سوات کے باقاعدہ الحاق تک شرعی عدالتوں کا نظام موجود تھا اور جن لوگوں نے وہ دور دیکھ رکھا ہے، انھیں یاد تھا کہ ان عدالتوں میں سادگی اور سرعت کے ساتھ فیصلے ہوتے تھے، خرچ اخراجات بھی نہیں ہوتے تھے اور پھرچونکہ فیصلے ان کے عقیدہ ومذہب کی روشنی میں ہوتے تھے، اس لیے ان کے لیے قابل قبول بھی ہوتے تھے۔ لیکن نئے عدالتی نظام کی پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور بالآخر وہ مجبور ہوئے کہ اپنے لیے اسی پرانے عدالتی نظام کا مطالبہ کریں جو ریاستی دور میں وہاں موجود ورائج تھا۔ جناب آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی وزارت اعلیٰ کے دور میں اس مطالبہ کو اصولی طور پر پذیرائی بخشی گئی اور ’’نفاذ شریعت ریگولیشن‘‘ کا نفاذ عمل میں لایا گیا، لیکن اس کی عملی صورت حال یہ تھی کہ اس ریگولیشن میں شرعی اصطلاحات کے سوا شرعی عدالتوں کے نظم کا کوئی حصہ موجود نہیں تھا اورمروجہ عدالتی نظام پر ہی شرعی اصطلاحات کا لیبل چسپاں کر کے مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی تھی، مگر یہ فریب زیادہ دیر تک نہ چل سکا اور مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی نے اسے مسترد کر کے نئے شرعی نظام عدل کے نفاذ کا مطالبہ شروع کر دیا۔ اس دوران نائن الیون کا سانحہ ہوا اور افغانستان میں طالبان کی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ کا شکار ہوئی تو طالبان کی حمایت میں عوامی ریلی نکالنے پر مولانا صوفی محمد گرفتار ہو گئے اور افغانستان کی نئی صورت حال کے نتیجے میں پاکستان کے قبائلی علاقے اور خاص طور پر وزیرستان اور سوات کے خطے بھی بدامنی کا شکار ہوتے چلے گئے۔ تحریک طالبان کے نام سے پاکستان کے ان علاقوں میں ایک نئی تحریک وجود میں آئی جس کی سربراہی مولوی فضل اللہ کر رہے ہیں۔ اس تحریک اور اس کے جواب میں حکومت پاکستان کے فوجی آپریشن نے مسلح تصادم کی صورت اختیار کر لی اور پورے علاقے کا امن تباہ ہو کر رہ گیا۔
تحریک طالبان کی طرف سے اعلان ہوتا رہا کہ خطے میں شرعی عدالتوں کا نظام رائج کر دیا جائے تو وہ مسلح مزاحمت ختم کر دیں گے جبکہ حکومت کی طرف سے نظام عدل ریگولیشن کے نفاذ کے بار بار وعدے کے باوجود اسے شاید اس لیے مسلسل ٹالا جاتا رہا کہ اس سے پہلے طالبان کی طرف سے ہتھیارڈالنے کا اعلان کیا جانا چاہیے۔ یہ آنکھ مچولی کئی ماہ سے جاری تھی اور اس دوران صوبہ سرحد کی حکومت کے ساتھ مولانا صوفی محمد کے مذاکرات کا سلسلہ بھی چلتا رہا جس کے نتیجے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ امیر حیدر خان ہوتی اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمد کے درمیان یہ معاہدہ ہوا کہ مولانا صوفی محمد کی شرائط کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ کے ضلع کوہستان میں شرعی نظام عدل نافذ کیا جائے گا۔ اس پر تحریک طالبان کے سربراہ مولوی فضل اللہ نے دس روز کے لیے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے اور ان کے ساتھ مولانا صوفی محمد کے مذاکرات تادم تحریر جاری ہیں۔ موجودہ صورت حال میں مولانا صوفی محمد کاموقف یہ نظر آ رہا ہے کہ نفاذ شریعت کے لیے جدوجہد اور اس کا مکمل نفاذ ہماری اصل منزل ہے، لیکن اس کے لیے تحریک کا پرامن ہونا اور سرکاری فورسز کے ساتھ مزاحمت ترک کرنا ضروری ہے اور وہ مولوی فضل اللہ اوران کے رفقا کو اسی موقف پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جہاں تک مروجہ عدالتی نظام کی بجائے شرعی نظام عدل کے نفاذ کا تعلق ہے، ہم تحریک نفاذ شریعت محمدی اور تحریک طالبان کے اس موقف اور مطالبہ کے ہمیشہ سے حامی رہے ہیں کہ ان کا یہ موقف اور مطالبہ درست ہے، لیکن اس کے لیے تحریک کے طریق کار پر بھی ہم نے ہمیشہ تحفظات کا اظہار کیا ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کے لیے ہتھیاراٹھانے اور سرکاری فورسز کے ساتھ مسلح مزاحمت کو کبھی جائز نہیں سمجھا، حتیٰ کہ مولانا صوفی محمد کے دور میں بھی جبکہ وہ پرامن تحریک کے داعی تھے اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لیے راے عامہ اور عوامی دباؤ کی قوت کو استعمال کر رہے تھے، ہم نے اس دور میں بھی ان کے ہاتھوں میں ہتھیار دیکھ کر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اگرچہ یہ فرق ضرور رہا ہے کہ مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے کارکنوں کے ہاتھوں میں اسلحہ زیادہ تر دباؤ کے لیے رہا ہے اور اس کے استعمال کی نوبت کم آئی ہے، لیکن مولوی فضل اللہ کی تحریک طالبان کے ہاتھوں میں ہتھیار نہ صرف استعمال ہوئے ہیں بلکہ بہت افسوس ناک حد تک استعمال ہوئے ہیں، لیکن اس سب کچھ کے باوجود ان کے اس موقف اور مطالبہ سے ہمیں اتفاق رہا ہے اور آج بھی ہے کہ مروجہ عدالتی نظام ہمارے معاشرہ کے لیے قطعی طو رپر موزوں نہیں ہے اور اس سے جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ عوام کوانصاف نہیں ملتا، برس ہر برس مقدمہ کے فیصلے کے انتظار میں گزر جاتے ہیں، بے پناہ اخراجات ہوتے ہیں، دشمنیاں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جاتی ہیں اور جھوٹ اور فریب کا ہر طرف دور دورہ ہو گیا ہے۔ یہ صرف مالاکنڈ ڈویژن اور سوات کے لوگوں کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے اور ہر جگہ برطانوی عدالتی نظام کے یہ اثرات عام نظر آ رہے ہیں۔
برطانوی عدالتی نظام کی ناکامی اس وقت بھی محسوس کی جا رہی تھی جب اس کی باگ ڈور خود برطانوی حکومت کے ہاتھ میں تھی اور بہت سے انصاف پسند انگریز افسران بھی چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ ہمارا عدالتی نظام ہندوستان کے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے اور اس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ہم ایک شہادت پیش کرنا چاہ رہے ہیں جو برطانوی سول سروس (آئی سی ایس) کے ایک اہم انگریز افسر پنڈرل مورن نے تحریر کی ہے۔ پنڈرل مورن قیام پاکستان سے قبل ضلع امرتسر کے ڈپٹی کمشنر رہے ہیں اور انھوں نے اسی بنیاد پر سول سروس سے استعفا دے دیا تھا کہ وہ برطانوی نظام کو جنوبی ایشیا کے عوام کے ساتھ زیادتی کا باعث سمجھ رہے تھے۔ ڈپٹی کمشنری سے استعفا کے بعد وہ ریاست بہاول پور کے وزیرمال رہے۔ انھوں نے ’’اجنبی حکمران‘‘ کے نام سے اپنی یادداشتیں قلم بند کی ہیں جن کا اردو ترجمہ سید محمد نقوی بی اے نے کیا اور اسے لارک پبلشرز، اورنگ زیب مارکیٹ، بندر روڈ کراچی نے شائع کیا۔ کتاب او رمصنف کا تعارف کراتے ہوئے ناشرنے لکھا ہے کہ:
’’یہ کتاب ایک زیرک اور روشن خیال انگریز پنڈرل مورن نے، جو آئی سی ایس کا رکن اور امرتسر کا ڈپٹی کمشنر تھا، قصے کے دل چسپ پیرایے میں لکھی ہے۔ وہ اس ملک کے لیے برطانوی اور مغربی جمہوریت کی بجائے ایک پنچایتی اور مشرقی نظام کا حامی تھا اور اسی وجہ سے اسے استعفا دینا پڑا۔‘‘
جبکہ خود پنڈرل مورن نے اس کتاب میں ایک جگہ لکھا ہے کہ
’’سمجھ میں نہ آتا تھا کہ انگریزی قانون کا نظام جو سیدھے سادے ہندوستانیوں کے لیے قطعاً ناموزوں ہے، ان پر کیوں مسلط کر دیا گیا ہے۔ شروع زمانے کے انگریز افسر بھی اسے بارہا مطعون کر چکے ہیں۔ وارن ہیسٹنگز کا خیال تھا کہ ہندوستانیوں پر ایک ایسا نظام قانون مسلط کر دینا بدترین ظلم ہے جو ہندوستان کے حالات کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔ میکالے نے لکھا تھا: ’’زمانہ ماضی کے ایشیائی اور غیر ایشیائی جابر حکمرانوں کے مظالم کا مقابلہ جب سپریم کورٹ کے انصاف سے کیا جائے تو ان کے مظالم ایک نعمت معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ مٹکاف کو بھی ہماری عدالتیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں جو اتنے ’’عظیم الشان کارخیر‘‘ کے لیے قائم کی گئی ہیں اور وہ جانتا تھا کہ لوگ ان عدالتوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس نے ایک سو سال پہلے کی عدالتوں کی جو تصویر کھینچی تھی، آج بھی حرف بہ حرف اس عدالت پر پوری اترتی ہے کہ ’’ہماری عدالتیں کیا ہیں! بے ایمانی کا اکھاڑہ ہیں .... بیچ میں جج بیٹھتا ہے اور چاروں طرف سازشوں کا مجمع لگتا ہے..... ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے دھوکہ دے اور کسی طرح اسے انصاف نہ کر نے دے۔ وکیل تو سچ بولنا جانتے ہی نہیں۔‘‘
شروع میں ہی یہ ثابت ہو چکا تھا کہ انگریزی قانون اور عدالتیں یہاں کے لیے ہرگز موزوں نہیں۔ یہ بھی معلوم تھا کہ کس چیز کی ضرورت ہے اور بارہا اس کی وضاحت بھی کر دی گئی تھی۔ گورنروں، کونسلوں اور انتظامی بورڈوں نے کئی مرتبہ بڑی سہانی پالیسیاں بنائیں اور خوب صورت قراردادیں منظور کیں۔ بعضوں نے لکھا ہے کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ سیدھے سادے کاشت کاروں کے لیے حصول انصاف کے طریقے آسان بنائے جائیں کیونکہ یہ لوگ قانونی موشگافیاں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ فنی باریکیوں، لفاظی اور پیچیدگیوں سے پیچھا چھڑائیں اور ہر قاعدے، ضابطے اور کاروائی کو آسان اور مختصر بنا دیں۔ ہمیں ایسی عدالتیں قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن میں ناقابل فہم فارموں کا گورکھ دھندا نہ ہو کیونکہ یہ فارم گنوار کاشت کاروں کی سمجھ سے باہر ہوتے ہیں اور ان کا مطلب صرف پیشہ ور وکیل سمجھتے ہیں۔ عدالتیں ایسی ہوں جو ہر داد خواہ کے لیے کھلی ہوں، جہاں ہر شخص اپنے مقدمہ کی پیروی خود کر سکے اور اپنے حریف کے دو بدو کھڑا ہو کر الزام ثابت کر سکے یا اپنی صفائی پیش کر سکے۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام بھی وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو پنڈرل مورن نے لکھا تھا بلکہ پاکستان کے کسی بھی حصے کے عوام سے ان کے دل کی بات پوچھی جائے تو ان کا جواب اس سے مختلف نہیں ہوگا اور پنڈرل مورن کے ذکر کردہ تجزیہ کے مطابق ملک کے کسی بھی علاقے کی صورت حال کا تجزیہ کیا جائے تو رپورٹ وہی سامنے آئے گی جو پنڈرل مورن نے کم وبیش پون صدی قبل دے دی تھی، البتہ سوات اور ملحقہ علاقوں کے عوام کے جذبات میں زیادہ شدت کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے لوکل سطح پر پنچایتی طرز کا سادہ، سستا اور آسان سایہ عدالتی نظام نصف صدی تک خود اپنے ہاں دیکھ رکھا ہے، لیکن وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور ورلڈ اسٹیبلشمنٹ کو صرف اس لیے ہضم نہیں ہو رہا کہ اسے عرفی زبان میں ’’شرعی نظام‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے دنیا کے کسی حصے میں دوبارہ قیام کا موقع دینے کا مطلب عالمی سطح پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو صدیوں سے دنیا میں اسلامی نظام کے اثرات اور اس کی دوبارہ واپسی کے امکانات کو ختم کرنے کے لیے مغربی استعمار جو مسلسل محنت کر رہا ہے، اسے بریک لگ گئی ہے بلکہ یوٹرن کے خدشات محسوس کیے جانے لگے ہیں۔ ہمارے خیال میں سوات کے معاہدۂ امن پر بہت سے بین الاقوامی حلقوں اور دانش وروں کے جزبز ہونے اور جھنجھلاہٹ دکھانے کی وجہ بھی یہی ہے۔
ہمیں مولانا صوفی محمد کے بہت سے نظریات وافکار سے اختلاف ہے جن کا ہم کھلے بندوں اظہار کر چکے ہیں اور ان کی جدوجہد کے طریق کار پر ہمارے تحفظات بدستور موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود ہم موجودہ معروضی تناظر میں انھیں تین باتوں پر خراج تحسین پیش کرنے کے ضروری سمجھتے ہیں کہ: ۱۔ وہ مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو ان کی خواہش کے مطابق شرعی عدالتی نظام دلوانے میں کامیاب رہے ہیں، ۲۔ انھوں نے نفاذ شریعت کے لیے مسلح جدوجہد کو پرامن تحریک میں تبدیل کرنے کے مقصد کی طرف موثر پیش رفت کی ہے اور ۳۔ ان کی کوششوں سے اس خطہ میں امن کے قیام کی امید روشن دکھائی دینے لگی ہے۔ ہم صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ جناب امیر حیدر خان ہوتی اورمولانا صوفی محمد کو اس اہم پیش رفت پر مبارک باد دیتے ہیں اور دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس معاہدے کی منزل تک پہنچنے کی جس طرح ہمت اور حوصلہ عطا فرمایا ہے، اسے تکمیل تک پہنچانے اور موثر بنانے کے مراحل بھی اسی حوصلہ وہمت اور جرات وتدبر کے ساتھ سر کرنے کی توفیق عطا فرمائیں تاکہ مالاکنڈڈویژن کے عوام اپنی خواہش کے مطابق شرعی قوانین کے سایے میں پرامن زندگی بسر کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین۔

عالمی امن کے فروغ میں اہلِ قلم کا کردار

پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین

(دسمبر ۲۰۰۸ میں اکادمی ادبیات اسلام آبادکے زیر اہتمام منعقد ہونے والی دو روزہ ’’قومی اہل قلم کانفرنس‘‘میں پڑھا گیا۔)

’’ماضی کا فن کار ظلم و تشدد کے موقع پر کم از کم خاموشی اختیار کر سکتا تھا ۔ ہمارے اپنے زمانے میں جبرو تشدد نے اپنی شکل بدل لی ہے ، جب صورتِ حال یہ ہو تو فن کار خاموشی یا غیر جانب داری کیسے اختیا ر کر سکتا ہے؟ اسے کوئی نہ کوئی راستہ ، موافقت یا مخالفت کا اختیار کرنا پڑے گا ۔ بہر حال آج کے حالات میں میرا موقف یقیناًمخالفانہ ہو گا‘‘۔  البئر کامیو (Albert Camus) 
خواتین و حضرات ...! معاشرہ تحریر و تخلیق کے ذریعے خود کوتلاش کرتا ہے ۔ تخلیقاتِ انسانی ،معاشرتی، تہذیبی اور مادی زندگی کا اہم اور منفرد اظہار ہوتی ہیں۔ اِن کا تعلق پوری زندگی کے تجربوں اور خود زندگی کی رُوح کے اظہار سے ہے۔ اہلِ قلم شعوری و غیر شعوری طور پر زندگی سے خام موادلے کر ایسی دنیا تخلیق کرتے ہیں جس کے معنی و اقدار ایک طرف اہلِ قلم کے حقیقی تجربے کو دوام بخشتے ہیں تو دوسری طرف زندگی میں خیر کا اضافہ کر کے خود زندگی کو تازہ دم کر دیتے ہیں ۔لیکن ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب لکھنے والا سنجیدہ ہو ،اور زندگی سے اس کا پورا تعلق ہو ۔ اہلِ قلم اپنے زمانے کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں چھوٹے بڑے، واضح اور غیر واضح سارے عکس دکھائی دیتے ہیں ۔جو قلم کار اپنے عہد کے لیے یہ کام نہیں کرتا وہ نہ صرف غیر ذمہ دار ہے بلکہ اُس کے اہلِ قلم ہونے پر بھی شک کیا جا سکتا ہے کیونکہ سچاقلمکار معاشرہ کے اجتماعی شعور کا آئینہ دار ہوتا ہے جو اُسے اپنے احساسات سے باخبر بھی کرتا ہے اور اسے بدلتا بھی ہے۔ ایسے دور میں جیسا کہ آج کا دور ہے تبدیلیوں اور احساسات کا اظہار نہ کرنا اور مصلحتِ وقت کے پیشِ نظر خاموش ہو جانا یا زہر کے پیالے سے ڈر جانا سماج اور انسانیت دونوں سے غداری ہے ۔جب ایک نظام دم توڑ رہا ہو، ایک طبقہ ختم ہو رہا ہو اور دوسرا اس کی جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہو تو اہلِ قلم بھی تاریخ کی اس پیش قدمی میں لازمی طور پر شامل ہو جاتے ہیں ۔ ایسے میں وہ اگر مصلحت کا شکار ہو کر دم توڑتے نظام و نظریات کا ساتھ دینے لگیں تو بذاتِ خود معاشرہ کے ذہنی ارتقا میں رکاوٹ بن جاتے ہیں ۔
آج کی دنیا تاریخ کی بے رحمی کا شکار ہے اور ایک ایسے دور سے گذر رہی ہے جہاں ہر چیز کی شکل دھندلائی ہوئی ہے ۔ جہاں انسانیت اور امن و آشتی کی ہر قدر بے معنی ہو کر بد امنی ، دہشت گردی کے سامنے سسک سسک کر دم توڑ رہی ہے۔ دہشت اور خونریزی نے ذہنِ انسانی کو کُہر آلود کر دیا ہے ۔ ہر وقت ، جگہ جگہ، کسی نہ کسی شکل میں جنگ جاری ہے۔ قوموں ، نسلوں ، زبانوں ، فرقوں اور طبقات کے مابین جنگ کے پیچھے مفادات کی ایک دنیا ہے۔ ایسے میں امن کا قیام کثیر الجہتی ہے۔ طاقتور کی حاکمیت کے لیے ساز گار حالات یاکمزور کے لیے تحفظ کے اسباب، اس کے پیچھے بھی مفادات کی ایک دنیا ہے ۔ ہر لمحہ جنگ کی صورتحال نے خوف اور بدامنی کا طوفان برپا کر رکھا ہے چنانچہ اس وقت عالمی امن کا قیام فروغِ انسانیت کا تقاضا ہے ۔
لیکن آج کے گھمبیرحالات میں عالمی امن کی بھی کئی توضیحات ہیں ۔عالمی سامراجیت کو کھل کھیلنے کے لیے پر امن حالات درکار ہیں ۔دنیا کے وسائل تک بغیر مزاحمت کے رسائی ایک مہیب جنگی قوت کے زیرِ سایہ ایک ایسا عالمی امن جس میں گلوبلائزیشن کا عمل پھلتا پھولتا رہے ۔ اِس امن کے فروغ کے لیے بھی اہلِ قلم کی خدمات ساری دنیا میں درکار ہیں اور عالمی سامراج کو وافر مقدار میں یہ خدمات حاصل بھی ہیں ۔
عالمی امن کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ دنیا میں زخم خوردہ ، مظلوم انسانوں (جو گذشتہ کئی عشروں سے ظلم و ستم کا شکار ہیں اور ایک انقلاب کے خواہاں ہیں ۔ یہ انقلاب کسی نہ کسی کے خلاف تو ضرور ہو گا) میں انتقام کی آگ نہ بھڑک اُٹھے ۔ وہ اپنی حالتِ زار کومقدر سمجھ کر گہری نیند سو جائیں بصورتِ دیگر انتشار اور بد امنی پیدا ہو گی اور امن برباد ہو جائیگا ۔ اہلِ قلم کو یہاں بھی اچھی خاصی قیمت مل جاتی ہے ۔ کچھ اہلِ جنوں قلم و قرطاس کے سہارے شوقِ شہادت بھی پیدا کر تے ہیں ان کا خیال ہے جب تک عدل و انصاف اور مساوات نہیں ہو گی ۔امن فروغ نہیں پائے گا ۔
عالمی امن کی ایک اورجہت تحلیل ہوتی ہوئی ریاستوں ،پسماندہ قوموں ، مفلس اور جاہل نسلوں کو بھی درکار ہے تاکہ وہ اپنی بقا کی جدو جہد بغیر کسی خونریزی کے کر سکیں ۔ اپنی مرضی سے بنائے ہوئے ایجنڈے کی تکمیل بغیر کسی بیرونی مداخلت کے کر سکیں ۔ اس امن کا تقاضا یہ ہے کہ عراق، افغانستان، کشمیر ،افریقہ اور لاطینی امریکہ میں جنگ ختم ہو جائے عوام اپنی مرضی کا نظام اور حکومتیں قائم کر یں یہاں بھی اہلِ قلم کی بڑی قبیل بر سرِ پیکار ہے۔ 
قلم بھی تو دو دھاری تلوار ہے جو حملہ بھی کرتا ہے اورمزاحمت بھی ۔ امن اور جنگ دونوں کے پاس ’’قلم کار‘‘ایک کارندے کے طور پر کام کرتا ہے ۔قلم نفرتوں کو ابھارتا ہے ،جنگی ترانے لکھتا ہے، رجز تخلیق کرتا ہے ، ستم زدہ انسانوں کے بین لکھتاہے۔ نوحے رقم کرتاہے ، ہر ایک جواز کا ساتھ دیتاہے ۔ اپنی ماہیئت میں نہ جنگ کا کوئی ضمیر ہے نہ قلم کی کوئی اوقات ۔ سوال صرف اتنا ہے کہ ہتھیار کس کے ہاتھ میں ہے۔ 
آج دنیا اندرورنی و بیرونی طور پر ایک ڈھادینے والی کشمکش کے کرب میں مبتلا ہے اور ضرورت محسوس کر رہی ہے کہ موجودہ سماجی و سیاسی اداروں اور اخلاقیات و اقدار کا از سرنو جائزہ لے کر انھیں سلجھائے ،تاکہ نئی اقدار کی تشکیل ممکن ہو سکے ۔ لیکن ہمارا منجمد نظامِ فکر گلے میں ہڈی کی طرح اٹک گیا ہے۔ تاریخ کے جدلیاتی عمل کے کیمیاوی امتزاج کی تلاش اور شدید ذہنی کشمکش کی اکھاڑ پچھاڑ ہی ہمارے اس تہذیبی تعطل کا حقیقی سبب ہے ۔ایسی پیچیدہ صورت حال میں ہی اہلِ قلم کی ذمہ داری اور ان سے حلفِ وفاداری اُٹھوانے کے مسائل سامنے آتے ہیں کیونکہ کسی بھی سماج اور تہذیب میں نیا احساس ،تازہ افکار اور نیا شعور اہلِ قلم کے وسیلے سے ہی داخل ہو تا ہے۔چنانچہُ روحِ عصر اہلِ قلم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ان لمحوں کو اپنی گرفت میں لائیں جو آج دنیا پر سے گذر رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہمارا نظام خیال اپنی بدلی ہوئی صورت میں حرکت میں آتا جائے گا، ہماری تخلیقی قوتوں کے سوتے بھی ہر سمت میں کھلتے جائیں گے۔
اہل قلم نے ہمیشہ اپنے عہد کو متاثر کیا ہے ، اسے بدلا ہے ، اسے نیا دماغ اور نئی فکر دی ہے اسے پھیلا یا اور بڑا کیا ہے ۔ اور ہمیشہ ’’ عظیم احمقوں‘‘ کے سامنے’’ نہیں ‘‘کہنے کی جرأت کی ہے ۔ لکھاری معاشرے کا ذمہ دار شخص ہوتا ہے ۔ کوئی محسوس کرے یانہ کرے، لیکن قلم کار ہر لمحہ کو، ہر واقعہ کو صحیح پس منظر میں سب سے پہلے سمجھ لینے کی صلاحیت اور قوت رکھتا ہے اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانا اور روشنی دکھانا اس کا فرض بن جاتا ہے۔ ژاں پال سارتر نے کہا تھا کہ ’’ ادیب لکھتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے یہ فرض سنبھال لیا ہے کہ اس دنیا میں جہاں آزادی کو ہر دم کھٹکا لگا رہتا ہے ،آزادی کے نام کو آزادی سے مخاطب ہونے کی سرگرمی کو جاوداں بنا دیا جائے ۔‘‘ اہل قلم کو آج یہ فریضہ انجام دینا ہے ۔ 
خواتین و حضرات !آج ادیبوں او دانشوروں کی بڑی تعداد کے سامنے یہ کہنے کی جسارت کروں گاکہ حیات و کائنات کے مسائل کا علاج محض فقرے بازی کے تعویذ گنڈوں سے ممکن نہیں ۔ دنیا کو قلمی ہر کاروں اور گورکنوں کی بجائے ایسے اہلِ قلم کی ضرورت ہے جو زندہ رہ کر موت کاقلمی تجزیہ کرنا جانتے ہوں ۔ جو کسی شاعر یا نثر نگا ر کی درجن بھر خصوصیات گنوانے ، روایتی انداز میں غزلیں ، نظمیں کہنے یا بندھے ٹکے موضوعات پر افسانے لکھنے کی بجائے عصری مسائل پر غور و فکر کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں ۔ جو روایت کو اپنا کر روایت کو توڑنے کی قوت کے حامل ہوں جو عالمی مسائل کے حل کے لیے تبدیلی کا نیا شعور دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ قطع نظر اس بات کے کہ دنیا ہر لمحہ ایک مہیب عالمی جنگ کے سائے میں ہے، یہ طے ہے کہ یہ ان مفتوحہ قوموں کی مانند نہیں ہے جو صدیوں تک محض حملہ آوروں کا انتظار ہی کرتی رہتی تھیں ۔ یا د رہے کہ انسان کا مقدر صفحہ ہستی سے معدوم ہو جانانہیں بلکہ کائنات کی وسعتوں میں پھیلی ابدی حرکت سے ہم آہنگ ہونا ہے ۔ دنیا کو بد امنی کے اندھیروں سے نکلنا ہو گا آج ہمارے پاس روشنی کی طرف سفر کرنے کے لیے زبردست صلاحیت موجود ہے ۔ اہلِ قلم کو خود احتسابی کے ذریعے اس صلاحیت سے رشتہ جوڑنا ہوگا۔ یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم ذاتیات و نظریات سے بالا تر ہو کر انسانیت کا ساتھ دیں گے۔ خود احتسابی بہت مشکل کام ہے۔ لیکن یہ اُن پر فرض ہو جاتی ہے جو حق و انصاف اور امن و آشتی کے علمبردار کہلانا پسند کرتے ہیں۔ مگر حق و انصاف کے تار تار لباس اور امن و آشتی کی اڑتی ہو ئی دھجیوں سے نظریں بچا کر اور کترا کر نکل جاتے ہیں ۔ کوئی اہل قلم اپنے عہد کی اجتماعی دانش سے ماوراتخلیقات فراہم نہیں کرتا ۔ اگر کرتا ہے تو وہ محض لفاظی اور پراپیگنڈہ ہوتا ہے ۔ آج کے عہد کی دانش زبر دست سائنسی صلاحیت رکھتی ہے وہ تمام قوانین اور اُصول جو سائنس نے دریافت کیے ہیں وہی اس عہد کی ترقی کی بنیادبن سکتے ہیں ۔ فکر اور نظریے کی فرسودگی جس نے ماضی میں انسانوں پر جنگیں ہی جنگیں مسلط کیں ، سائنس نے ان کو شکست دے دی ہے سائنس کی اس فتح میں اہلِ قلم کو حصہ داربننا چاہیے، یہی وہ حصہ داری ہے جو اہلِ قلم و فکر کو ایک باوقار عالمی امن کی جانب لے جائے گی۔ 
حاضرین !کسی نے کہا تھا کہ ’’ امنِ عالم کے لیے ایک جنگ ہونی چاہیے ‘‘ ۔ یہ جنگ تلوار سے بھی ہو سکتی ہے قلم سے بھی۔ چلی کے پیبلونرودا (Pablo Neruda)نے یہ جنگ قلم سے لڑی۔ فرانزفینن(Frantz Fanon) نے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی ۔ فرانس کے مفاد میں ژاں پال سارتر(Jean Paul Sartre)بھی اس جنگ کا داعی تھا۔ فیض احمد فیض اور حبیب جالب کا قلم بھی اس امن کو ترستا رہا ۔ آج بھی اہلِ قلم اس جنگ میں شریک ہیں مگر ضرورت حکمت و دانائی کی ہے کہ پہلے وہ حدود طے کر لی جائیں جو عالمی امن کو جنم دیں ۔ یا اگر وہ موجود ہیں تو اسے فروغ دیں ۔یہ حدود مبنی ہیں انسانوں کے حقوق ، ان کی آزادی اور عزت و احترام پر ۔ یہ سب کچھ کسی نئے عمرانی معاہدے یا بڑے سیاسی منشور سے ہی ہو گا۔ اہل قلم کا فرض ہے کہ وہ اس سیاسی منشور کو دنیا کے سامنے لے کر آئیں ، لوگوں کے ذہنوں کی آبیاری کریں اور انسانی قوت کو اس جارحیت کے سامنے لاکھڑا کریں جو امن اور جنگ دونوں ہتھیاروں سے انسانوں کے خلاف جاری ہے ۔
سامعین!دنیا میں اس وقت عالمی امن نہیں ایک عالمی ڈیٹر نس قائم ہے ۔ یہ ڈیٹر نس (Deterrence)ایک ایسا آتش فشاں ہے جو انسانی کائنات کو کبھی بھی کسی وقت بھی جلا کر بھسم کر سکتا ہے ۔ انسانوں کی حاصل کردہ ایٹمی صلاحیت اُسے ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ موت کی نیند سلا سکتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس طاقت کے پیچھے ایک خوف ہے اور یہ خوف محض نفسیاتی ہے بلکہ اسے ownership اور status quoنے پیدا کیا ہے ۔ یہ طبقاتی بالادستی کے تہس نہس ہو جانے کا خوف ہے اس کا مقابلہ ضمیر اور دانائی کی طاقت سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ کہتے ہیں پاکیزہ قلم ضمیر کی روشنائی سے لفظ لکھتا ہے ۔ اور پھر اس لفظ کی بڑی وقعت ہوتی ہے ۔جبکہ دانائی وہ دماغ ہے جو قلم کے راستے کتا ب میں پھیلتا ہے اور دنیا کے سامنے حقیقی عالمی امن کے قیام کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔ یہی پیغمبروں کا راستہ ہے ، یہی انقلابیوں کی راہ ہے ، یہی نسل در نسل دی گئی شہادتوں کا ثمر ہے ۔ قلم و قرطاس کا یہ راستہ اہل قلم کی میراث بنے گا، تب ہی ہم عالمی امن کی طرف بڑھیں گے۔ 

حضرت مجدد الف ثانیؒ کا دعوتی منہج و اسلوب

پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ورک

(۲۲ فروری ۲۰۰۹ء کو ہمدرد مرکز، لٹن روڈ، لاہور میں شیر ربانی اسلامک سنٹر، سمن آباد لاہور کے زیر اہتمام منعقدہ ’’امامِ ربّانی مجدد الف ثانی کانفرنس‘‘ میں پڑھا گیا۔)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد نبو ت کا دروازہ تو ہمیشہ کے لیے بند ہو چکا ہے، تاہم قرآن نے دعوت و تبلیغ اور بنی نوعِ انسان کی ہدایت کی ذمہ داری پوری امتِ محمدیہ پر ڈال دی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر یہ ذمہ داری امت کے علما پر عائد کی اور ان کے دعوتی کردار کو علمائے بنی اسرائیل کے مماثل قرار دیا ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا:
ان اللّٰہ عزوجل یبعث لہٰذہ الامۃ علی رأس کل مائۃ سنۃ من یجدّد لھا دینھا‘‘(۱) 
’’بے شک اللہ تعالیٰ ہر صدی کے اختتام پراس امت میں ایک ایسا فرد پیدا فرمائے گا جو اس دین کی تجدید کرے گا۔‘‘
اسلام چونکہ ایک ایسا دین ہے جو قیامت تک کے لیے ہے اس لیے ایک مناسب وقفے کے بعد امت کے لیے ایسے افراد کا وجود ناگزیر ہو جا تاہے جو ایک طرف تو اسلامی احکام کی تشریح و تعبیر عصر حاضر کے احوال و ظروف میں کرنے کی خدا داد صلاحیتوں سے مالامال ہوں اور دوسری طرف دینِ اسلام میں در آنے والی بدعات پر تنقید کرکے اسلام کی ری سائیکلنگ کا فریضہ بھی انجام دیں ۔تاریخِ اسلام پر نظر رکھنے والے اہلِ علم جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنی حکمت کے مطابق تجدید و احیائے دین کا یہ کام بسااوقات ایک فرد سے لیا تو کبھی پوری جماعت سے ۔ کسی دور میں تجدید واحیائے دین کی تحریک محض کسی خا ص علاقے کی ضرورت تھی تو بسا اوقات یہ ضرورت پورے عالمِ اسلام کی تھی۔

شیخِ مجددؒ کی دعوتی کوششوں کا تاریخی پس منظر 

شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی ؒ (۹۷۱۔۱۰۳۴ھ/ ۱۵۶۳۔۱۶۲۴ء)کے دور کا تنقیدی مطالعہ اس حقیقت کو مبرہن کرنے کے لیے کافی ہے کہ ا س وقت تجدیدِ دین کی ایک عالمگیر تحریک کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی، او ر بجا طور پر شیخِ مجدد ؒ کے تجدیدی کارناموں اور دعوتی کوششوں نے اس ضرورت کو بطریقِ احسن پورا کیا ۔ شیخِ مجدد کی تحریک اتنی ہمہ جہت اور بھر پور تھی کہ اپنے عالمگیر اثرات کی وجہ سے تاریخِ اسلام میں اس کی کوئی مثال کم ہی ملتی ہے۔ شیخِ مجددؒ کے اصل نام کے بجائے ’’ مجددِ ا لفِ ثانی ؒ ‘‘ کا زبان زدِ عام لقب در اصل آپؒ کی عالمگیر دعوتی کوششوں کا اعتراف اور اس حقیقت کا اقرار ہے کہ اسلام کی گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ میں تجدیدِ دین کا جو کارنامہ شیخِ مجدد ؒ نے انجام دیاہے، وہ سب سے بڑھ کر ہے۔شیخ احمد سرہندیؒ کی کامیاب اور مقبولِ عام کوششوں کے نتیجے میں پورے عالمِ اسلام اور خاص طور پر برّ صغیر میں اسلام کو نئی زندگی نصیب ہوئی۔ شیخ مجددؒ نے تجدید واحیا ئے دین کا جو عظیم الشان کام انجام دیا اس کی صحیح قدروقیمت اسی وقت واضح ہو سکتی ہے جب اس پسِ منظر اور ماحول کو سمجھا جائے جس میںیہ کارنامہ انجام دیا گیاہے۔

ہندوستان کی داخلی صورتِ حال

اسلام کی پہلی ہزاری کے اختتام پر عالمِ اسلام اور خاص طور پر برّ صغیر کی جو صورتِ حال تھی اس کے تاریخی مطالعہ کے بعد جو منظر ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے، وہ بڑا زلزلہ انگیز تھا ۔ اسلا م داخلی اور خارجی فتنوں کی زد تھا اور اپنے اصل تشخص سے بڑی تیزی کے ساتھ محروم ہو رہا تھا ۔داخلی فتنوں میں نام نہاد صوفیا کی تعلیمات اسلامیانِ ہند کے لیے گمراہی کا سبب بن رہی تھیں۔ کچھ نام نہاد اہلِ تصوف ہندو فلسفہ کو اسلام کے پیراہن میں پیش کر رہے تھے ۔ عوام الناس اورکم علم لوگ شریعت و طریقت کو دو متوازی دھارے سمجھ کر شدید گمراہی میں مبتلاہو رہے تھے ۔ شیخِ مجددؒ سے پہلے کی پوری ایک صدی وحدۃ الوجودی صوفیا کے عروج کی صدی کہی جا سکتی ہے۔ جب ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کے نام پر ہر طرف بدعات ضلالہ کا سیلاب بہہ رہا تھا۔
اس دور میں ہندوستان میں جوتحریکیں سخت انتشار انگیز اور اسلامیت کے لیے خطرناک اور باعثِ تخریب تھیں۔ ان میں سے ایک ذکری عقیدہ اور فرقہ ہے جس کی بنیاد نبوت محمد ی صلی اللہ علیہ وسلم کے الفِ اوّل پر اختتام اور الفِ ثانی کے لیے ایک نئی نبوت اور ہدایت کے آغاز پر ہے۔یہ تحریک بلوچستان میں پھلی پھولی اس فرقہ کابانی ملا محمد ۹۷۷ھ کو بمقام اٹک پیدا ہوا۔دوسری تحریک جس نے اسلامیانِ ہند کو اس وقت شدید اضطراب میں مبتلا کیاوہ ہندوستان میں ’’فرقہ روشنائیہ ‘‘ کا ظہور تھا اس فرقہ کا بانی بایزید المعروف ’’ پیر روشن ‘‘ تھا۔ یہ وحدہ الوجود کا قائل تھا اور نبوت کا دعوی دار تھا۔ اس دور کی ایک اور بڑی زلزلہ انگیز تحریک ’’ مہدویت‘‘ تھی۔ جس کے بانی سید محمد جونپوری تھے انہوں نے مہدی ہونے کا دعوی کیا، وہ اگرچہ ۹۱۰ھ میں فوت ہوگئے لیکن اس تحریک کے اثرات پوری ایک صدی تک باقی رہے۔ اس تحریک کے اثرات ہندوستان اور افغانستان تک جاپہنچے۔
دسویں صدی کے وسط میں احمد نگر کے والئ سلطنت برہان نظام شاہ نے شیخ طاہر بن رضی اسماعیلی قزوینی کے اثر سے، جوایران سے شاہ اسماعیل صفوی کے خوف سے بھاگ کر آئے تھے ، شیعہ مذہب قبول کر لیا اور خلفائے ثلاثہ پر علی الاعلان تبرّا کرنے کا حکم دیا۔ دوسری طرف میر شمس الدین عراقی نے کشمیر میں بڑی سرگرمی سے شیعہ مذہب پھیلایا۔ خود ۹۵۰ھ میں مغل بادشاہ ہمایوں فوجی امداد کے لیے عازمِ ایران ہوا ۔ ایران میں شاہ طہماسپ نے ہمایوں کو تشیع قبول کرنے کی دعوت دی ، ہمایوں اگرچہ شیعہ نہ ہوا تاہم اس کے دل میں شیعہ کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوا۔ ہندوستان کے داخلی حالات کا یہ ایک مختصر سا منظر ہے جو ہم نے اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ 

روایتی مذاہب پر تنقید کا عالمی رجحان 

دوسری طرف عالمی سطح پر بھی مذہب کے حوالے سے نئے رجحانات مذہبی حلقوں میں اضطراب پید ا کر رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی دوراوراس دور کا انسانی معاشرہ بہتے ہوئے دریا کی طرح ہوتا ہے جس کی ہر موج دوسری موج سے متصل اور مربوط ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی ملک خواہ وہ دنیا سے کتنا ہی کٹا ہوا کیوں نہ ہو گردوبیش میں آنے والے اہم واقعات ، علمی اور فکری تحریکوں سے یکسرغیر متاثر نہیں رہ سکتا۔ اس دور میں دنیا کے فکری محاذ پر دو بڑی اہم تحریکوں کا ظہورہوا،ان میں سے ایک اہلِ نقطہ یا’’نقطوی تحریک‘‘ ہے۔ اس مذہب کا ظہور ایران میں ہوا، محمود پسیخوانی گیلانی نے استرآباد میں ۸۰۰ھ میں اس نئے مذہب کا اعلان کیا۔ یہ ۸۳۲ھ میں فوت ہوا، دسویں اور گیارھویں صدی ہجری میں اس فرقے نے بڑا زور پکڑا۔ ان لوگو ں کا نقطہ نظر یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف عربوں کے رسول ہیں اور ان کی نبوت صرف ایک ہزار سال کے لیے تھی اور اب دوسری ہزاری میں سیادت اور قیادت اہلِ عجم کے لیے مقدر ہو چکی ہے۔ نقطویوں کے نزدیک نبوتِ محمدی اپنی مدت پوری کرچکی تھی اور دینِ اسلام منسوخ ہو چکا تھا، لہٰذا دنیا کو ایک نئے دین کی ضرورت تھی۔
ایران میں شاہ عباس نے ۱۰۰۲ھ میں نقطویوں کا وسیع پیمانے پر قتل عام کروایا، یہ لوگ بھاگ کر ہندوستان آگئے ان میں مولانا حیاتی کاشی بھی تھے، جو ۹۹۳ھ میں احمد نگر میں موجود تھے۔ اسی طرح شریف آملی جو نقطوی فرقہ کا بڑا عالم تھا، بھی ہندوستان چلا آیا، اکبر اس کا بڑا معتقد تھا۔ بعض محققین کا خیال ہے کہ میر شریف آملی نے محمود پیسخوانی کی تحریروں سے ثبوت پیش کرکے اکبر کو ’’ دینِ الٰہی‘‘ کے اختراع کی ترغیب دی۔ اس نے محمود پیسخوانی کی پیش گوئی بیان کی کہ ۹۹۰ھ ؁ میں ایک شخص ظاہر ہو گا جو دین باطل مٹا کر دین حق قائم کرے گا۔ اکبر نے ہزاری منصب دے کر اسے اپنے مقربین کے زمرہ میں شامل کر لیا۔ بنگالہ میں اسے دینِ الٰہی کا داعی مقرر کیا۔ وہ اکبر کے چار مخلص ترین یاروں میں شامل تھا۔ ابوالفضل بھی نقطوی تحریک سے متاثر تھا۔ ابوالفضل کو گمراہ کرنے میں بنیادی کردار شریف آملی ہی کا تھا۔ اکبر کی خواہش پر ملاعبدالقادر بدایونی نے مہابھارت کا فارسی میں ترجمہ کیا، جس کے دیباچے میں ابوالفضل نے اکبر کے لیے جو القابات استعمال کیے ہیں، وہ صرف انبیاہی کے لائق ہیں۔(۲) اکبر در حقیقت نبوت ہی کا دعوی دار تھا، تاہم شدید عوامی ردِ عمل کے خوف سے اس نے اس کا عام اعلان نہیں کیا۔ تاریخ کے تجزیاتی مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نقطوی تحریک ہی ’’ دینِ الٰہی‘‘ کی بنیاد ہے اور ان میں باہم بہت سی اقدار مشترک ہیں۔ (۳) 
قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ ایک اور تحریک جس سے غالباً اکبر متاثر ہوا وہ مارٹن لوتھر (۱۴۴۳۔۱۵۴۶ء) کی تحریک ہے۔ مارٹن لوتھر پروٹسٹنٹ فرقہ کا بانی تھا جسے جدید عیسائیت میں ’’ مجتہدِ مطلق‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ مارٹن لوتھر نے عیسائی مذہب کے بنیادی تصورات کی چولیں ہلاکر رکھ دیں اور عقلی بنیادوں پر دین کی نئی تعبیر پیش کی،اگر ان تاریخی حوالوں کو پیش نظر رکھا جائے جن کے مطابق اکبر کے دربار میں عیسائی علما کا ایک مستقل گروہ اقامت پذیر تھا اور تورات وانجیل کے فارسی تراجم بھی خاص طور پر بادشاہ کے لیے حاصل کیے گئے تو اس بات میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ اکبر عیسائی مذہب میں برپا ہونے والی پروٹسٹنٹ تحریک سے پوری طرح آگاہ تھا اور وہ اسلام میں بھی اسی نوعیت کی تبدیلیوں کا خواہاں تھا ۔ اسی پس منظر میں ملامبارک نے بادشاہ کے لیے ۹۸۷ھ میں ’’ مجتہد مطلق‘‘ کا منصب تخلیق کیا،تاکہ بادشاہ اپنی مرضی سے مذہب کی ’’تشکیلِ نو‘‘ کر سکے۔ہندوستا ن اور عالمی سطح پر مذہب کے حوالے سے جنم لینے شکوک و شبہات کے تناظر میں حضرت مجدد ؒ کی تحریکِ دعوت کو درپیش چیلنجز کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

شیخ مجدد ؒ کی دعوتی کوششیں، دائرہ کار اور اثرات 

ہندوستان میں شیخِ مجدد ؒ کے سامنے کئی محاذ فوری توجہ کے متقاضی تھے ۔ ایک تویہ کہ نام نہاد صوفیا کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں کا قلع قمع کرکے اسلام کو اس کی اصل اور حقیقی شکل و صورت میں پیش کیا جائے ۔شیخ مجدد الف ثانی ؒ نے اپنے مکتوبات میں ’’بدعت حسنہ‘‘ کے تصور کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا او ر اس طرزِ فکر کو دین کی بنیادیں منہدم کرنے کے مساوی قرار دیا۔ (۴) بدعات کے رد میں حضرت مجددؒ کی کوششوں نے اسلامیانِ ہند اور متساہل صوفیا پر جو اثرات مرتب کیے اس کے لیے یہاں ہم صرف ایک مثال بیان کرنے پر اکتفا کریں گے۔ چشتی نظامی سلسلے کے مشہور شیخ شاہ کلیم اللہ جہاںآبادی (م ۱۱۴۳ھ) نے اپنے خلیفہ خاص حضرت شیخ نظام الدین اورنگ آبادی کو جو خطوط لکھے ہیں ان میں بعض خطوط میں ہدایت کی ہے کہ چونکہ اس وقت بادشاہ کے ساتھ اورنگ آباد میں مجددی خاندان کے صاحبزادے بھی ہیں اس لیے سماع و قوالی کی مجلس منعقد کرنے میں احتیاط برتی جائے مباداکہ ان حضرات کو گرانی اور تکدر ہو۔ (۵) جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت مجدد ؒ کی دعوتی کوششوں کے نتیجے میں صوفیا کے طر زِ عمل میں نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی ۔
وحدۃ الوجود کا عقیدہ مسلمان صوفیا میں ہمیشہ موجود رہا ہے ،یہ عقیدہ اصلاً راہِ سلوک کی منازل میں سے ایک منزل ہے، راہِ سلوک کے مبتدی کے لیے اس کی حقیقت کو سمجھنا آسان نہیں ،جب بعض غیر محتاط صوفیانے عوامی سطح پر اس عقیدے کی تبلیغ شروع کی تو اس سے طرح طرح کی غلط فہمیوں کا پیدا ہونا فطری بات تھی اس لیے حضرت مجددؒ کے سامنے دوسرا محاذ یہ تھا کہ وحدۃالوجود ی صوفیاکے نقطہ نظرکو اس انداز میں علمی تنقید کا نشانہ بنایا جائے کہ اہلِ تصوف کی حرمت بھی قائم رہے اور شریعت کا دامن بھی تار تار نہ ہو نے پائے ،اور حق یہ ہے کہ شیخ مجددؒ نے اس نازک منصب کو جس طرح نبھایا ہے وہ بے مثال ہے ۔ شیخ مجددؒ نے جس اسلوب میں شریعت و طریقت کے باہم لازم وملزوم ہونے کے اصل اسلامی تصور کو پھر سے دریافت کیا ہے اس پر امت مسلمہ ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی ۔آپؒ نے شریعت کو طریقت کی لونڈی سمجھنے والے نام نہاد صوفیا پر شدید تنقید کی اور دلائل سے ثابت کیا کہ طریقت ،شریعت کے تابع اور اس کی خادم ہے۔حضرت مجددؒ کی دعوتی کوششوں سے اہلِ تصوف کے طرزِ عمل میں بھی نمایاں تبدیلی پیدا ہوئی۔
تیسرا محا ذرافضی فتنہ کاتھا جس کے تیزی سے پھیلتے ہوئے اثرات کو روکنا ضروری تھا۔حضرت مجددؒ نے اپنے تبلیغی دوروں میں رافضی فتنے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اس کے اثرات کو روکنے کی کامیاب کوشش کی ۔آپ نے اہلِ سنّت کے عقائد کی حقانیت کو اپنے مکتوبات میں جابجا دلائلِ قطعیہ سے واضح کیا ۔جس کی مکمل تفصیل مکتوباتِ امام ربانی ؒ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں ۔
چوتھا محاذ نبوتِ محمدی کی ابدیت پر چھائے ہوئے شکوک و شبہات کے گہرے بادل تھے جن کی تاریکیوں میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا تھا ، یہ فتنہ بھی آپؒ کی فوری توجہ کامتقاضی تھا ۔اگرچہ اسلامیانِ ہند کے لیے اسلام کو دوبارہ بازیاب کر نا ،نام نہاد صوفیا کے بر عکس روشن دلائل سے طریقت پر شریعت کی برتری ثابت کرنااور وحدۃ الوجود کے عقیدہ کا فیصلہ کن علمی تعاقب آپؒ کے عظیم تجدیدی کار نامے ہیں لیکن ان تمام کار ناموں میں سے آپ ؒ کاسب سے بڑا کار نامہ ،جس کے جلو میں باقی سب کارنامے چلتے ہوئے نظر آتے ہیں، نبوتِ محمدی کی ابدیت کو ثابت کرنا اور عامۃ الناس کو اس عقیدے پر مستحکم کرنا ہے ۔ شیخ مجددؒ کے رسالہ’’ اثبات النبوت‘‘ کو اسی پسِ منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ آپؒ نے اس رسالے میں نبوتِ محمدی کی ابدیت پر وارد کیے جانے والے اعتراضات کا خالص علمی انداز میں جائزہ لیاہے ۔اکبر کے اسلام دشمنی پر مبنی رویے کی بنا پر ہندوستان ضلالت اور گمراہی کا مرکز بن چکا تھا اور حکومتی سرپرستی میں جس طرح اسلامی اقدار کا تمسخر اڑایا جارہاتھا اس نے اسلامیانِ ہندکو شدیدکرب میں مبتلاکر رکھا تھا ۔
اس وقت اگر حالات کی رفتار یہی رہتی اور اس کا راستہ روکنے والی کوئی طاقتور شخصیت یا کوئی انقلاب انگیز واقعہ پیش نہ آتا تو عالمِ اسلام اور بالخصوص ہندوستان کاانجام اندلس سے مختلف نہ ہوتا۔اس دور کا تاریخی جائزہ لینے کے بعدیہ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ داعیان اسلام اور حق پرست علما کے لیے یہ دور بڑا ہی فتنہ پرور اور صبر آزماتھا ۔ سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کے بقول حضرت شیخِ مجددؒ کے سامنے اصلاحِ احوال کے ممکنہ طریقے تین ہی تھے: 
  • ایک ،شیخِ مجدد ملک وقوم کو اس کے حال پر چھوڑ کر گوشہ نشین ہوجاتے۔ طالبینِ حق کی تربیت کرتے اور ذکر وفکر کے اندر مشغول رہ کر خلقِ خدا کو روحانی فوائد پہنچاتے۔ اور اس عہد کے ہزاروں علما ومشائخ اس طرز عمل پر کار فرما تھے، ملک میں ہزاروں خانقاہیں، یہ خدمت خاموشی اور یکسوئی سے انجام دے رہی تھیں۔ لیکن یہ چیز حضرت مجددؒ کی افتادِ طبع اور اس بلند منصب کے خلاف تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرفراز فرمایا تھا۔آپ ؒ روایتی پیری مریدی کے قائل نہ تھے اورسچی بات تو یہ ہے کہ حضرت مجدد ؒ کو عوام الناس میں جو عزت و وقار اور احترام حاصل تھا اگر آپؒ روایتی پیری مریدی پر اتر آتے تو بلامبالغہ آپؒ کے ارد گرد مریدین کا جمِ غفیر جمع ہو جا تا ۔ 
  • حضرت شیخِ مجددؒ کے پاس دوسرا آپشن (Option)یہ تھا کہ بادشاہِ وقت کی اسلام دشمنی،جس کے سینکڑوں دلائل موجود تھے، کے خلاف مسلح محاذ آرائی کرتے اور اپنے ہزاروں بااثر مریدوں کی قیادت فرماتے ہوئے سلطنت کے اندر انقلاب بر پا کر دیتے۔یہ ایک سیاسی ذہنیت رکھنے والے کوتاہ نظر داعی یا قائد کا طرزِ عمل تو ہو سکتا ہے جو دعوت اور نصیحت پر محاذ آرائی کو ترجیح دیتا ہے اور اپنی بد تدبیری سے حکومت اور اہلِ اقتدار کو اپنا حریف اور مدمقابل بنا لیتا ہے اور نتیجہ کے طور پر غلبۂ دین کے امکانات کو محدود اورتنگ کر لیتاہے، لیکن حضرت مجدد صاحبؒ جیسے دور اندیش اور داعیانہ مزاج رکھنے والے شخص کے لیے اس راہ کو اختیار کرنا ممکن نہ تھا جس میں وقتی طور پر کامیابی کے امکان کے با وصف خلقِ خدا کے لیے جانی نقصان اور ملک میں شدید انتشار کا اندیشہ تھا ۔ 
  • حضرت مجددؒ کے پاس تیسرا آپشن (Option)یہ تھا کہ آپؒ ار کانِ سلطنت اور امرا سے تعلقات استوار کرتے اور ان کی دینی حمیت کو ابھارتے اور انھیں بادشاہ کو نیک مشورہ دینے پر آمادہ کرتے اور اس ذریعے سے باد شاہ کی رگِ اسلامیت کوبیدار کرنے کی کوشش کرتے اور خود ہر طرح کے جاہ ومنصب سے کامل استغناکا ثبوت دیتے کہ آپؒ کا کوئی شدید ترین مخالف بھی آپؒ پر جاہ طلبی اور حصولِ اقتدار کی تہمت نہ لگا سکتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی داعیانہ زندگی کو حرزِ جاں بنانے والا ایک سچا داعی وقتی کامرانیوں کے بجائے مستقبل پر نظر رکھتا ہے اور مدعو کی ہدایت سے مایوس نہیں ہوتا،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ حدیبیہ کے موقع پر ایسی شرائطِ صلح کو بھی قبول کر لیا جن سے بظاہر مسلمانوں کی کمزوری کاتاثر بڑا نمایاں ہوتا تھا، لیکن داعی اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتی پسپائی کو مستقبل کے دعوتی امکانات کی بنا پر قبول فرمایااور بالآخر آپ کی داعیانہ بصیرت کا ساری دنیا نے کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ صرف دو سال کے قلیل عرصہ میں ۸ ھ تک ہزاروں لوگ مسلمان ہوگئے ۔ حضرت مجددؒ نے بھی محاذ آرائی کے بجائے سنّتِ نبوی کی پیروی میں دعوت کے امکانات کوپیشِ نظر رکھا اور یہی تیسرا رستہ اختیار فرمایا۔ آپؒ نے کرسئ اقتدار کی بجائے صاحبانِ اقتدار کو اپنی دعوت کاہدف بنایا ۔ درباری امرا میں کئی ایک آپؒ کے مرید تھے اور کئی ایک آپؒ سے محبت وعقیدت رکھتے تھے اور دین کی گہری حمیت ان کے اندر موجود تھی۔ حضرت مجددؒ نے انہی درباری امرا سے مراسلت کا سلسلہ شروع کیا۔ آپؒ نے صفحۂ قرطاس پر اپناسینا چاک کر کے رکھ دیا۔ جس دلسوزی، للہیت اور درد واخلاص کے ساتھ یہ خطوط احاطہ تحریر میں لائے گئے ہیں، چار صدیوں کا طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ان کی قوتِ تاثیر میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بجا طور پر دعوت کے سنگلاخ میدان میں قدم رکھنے والے اولوالعزم داعیانِ اسلام کے لیے یہ خطوط نصاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ خطوط شیخِ مجددؒ کے زخمی دل کے صحیح ترجمان اور ان کے لخت ہائے جگر ہیں، جنہوں نے ہندوستان کی عظیم مغلیہ سلطنت میں عظیم الشان انقلاب بر پا کر دیا۔(۶) 
آپ ؒ کی دعوتی کوششوں کا نقطہ عروج جہانگیر کا دور ہے جب ۱۰۲۷ھ میں آپ کے داعی پوری دنیامیں پھیل چکے تھے۔ آپ ؒ نے اپنے بہت سے خلفا کو تبلیغ و ہدایت کے لیے مختلف مقامات کی طرف روانہ فرمایا ۔ ان میں سے ستر (۷۰) مولانا محمد قاسمؒ کی قیادت میں ترکستان کی طرف روانہ کیے گئے ۔ چالیس(۴۰) حضرات مولانا فرح حسینؒ کی امارت میں عرب ،یمن ، شام اور روم کی طرف بھیجے گئے ، دس(۱۰) تربیت یافتہ حضرات مولانامحمد صادق کابلیؒ کے ماتحت کاشغر کی طرف اور تیس(۳۰) خلفا مولانا شیخ احمد برکیؒ کی سرداری میں توران ، بدخشاں اور خراسان کی طرف گئے ۔ اوران تمام حضرات کو اپنے اپنے مقامات پر زبردست کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ (۷) حضرت مجددکے خلیفہ اجل حضرت خواجہ محمد معصومؒ او ر سید آدم بنوریؒ اور ان کے مخلص اور با عظمت خلفا اور جانشینوں کی کوششیں بار آور ہوئیں اور رفتہ رفتہ ہندوستان بارھویں صدی ہجری میں پوری دنیائے اسلام کا روحانی اور علمی مرکز بن گیا ۔ مجددی خانقاہیں اوران کے قائم کردہ مدارس سے ایک عالم نے فیض اُٹھایا جس کاسلسلہ تاحال جاری ہے ۔

شیخ مجدد ؒ کے اسلوبِ دعوت کے نمایاں پہلو

  • ایک مسلم ریاست میں دعوتِ دین کا محفوظ اور بہتر ین طریقہ کیا ہے؟ایک داعی کا ہدف اقتدار ہے یا صاحبِ اقتدار؟ شیخِ مجددؒ کی دعوتی زندگی کایہ پہلو آج کے وارثانِ محراب ومنبر، پیرانِ طریقت اور داعیانِ اسلام کے خصوصی توجہ کا متقاضی ہے ،جو اقدار اور جاہ و منصب کے لیے ماہئ بے آب کی طرح تڑپتے ہیں ۔ شیخِ مجددؒ نے انقلاب کی بجائے اصلاح کا اسلوب اختیار فرمایا ۔ ایک ایسے دور میں جب آپؒ ہر اعتبار سے درجۂ کمال پر تھے،اور جہانگیرنے آپ کو قیدکر لیا۔اگر آپؒ چاہتے تو جہانگیر کا تختہ الٹ سکتے تھے، لیکن آپ نے اپنے صاحبزاگان اور مریدین کو صبر کی تلقین کی۔ اگرچہ اقتدار کے مصاحبین داعی کو اقتدار کے لیے خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ سازش داعی کی بے لوثی سے بے نقاب ہوجاتی ہے اور اگرصاحبِ اقتدار میں فطری سلامتی کی معمولی رمق بھی ہو تو وہ بہت جلد ایک سچے داعی کے سامنے اپنی گردن کو جھکادیتاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی حکمتِ عملی میں یہ بات بڑی واضح تھی کہ آپ نے شاہانِ عالم کے نام دعوتی خطوط میں ان کو قبولِ اسلام کی صورت میں اقتدار کی سلامتی کی ضمانت مرحمت فرمائی ۔حضرت مجددؒ کی دعوتی زندگی میں بھی یہ پہلو نکھر کر سامنے آتاہے ۔ آپؒ نے کرسئ اقتدار کو اپنا ہدف بنانے کی بجائے صاحبِ اقتدار کی اصلاح کو اپنا مطمعِ نظر بنایا۔ آخرکار جہانگیر کو اپنی غلطی کا احساس ہو ا اور اس نے آپؒ کو پورے وقار کے ساتھ رہا کرنے کا حکم دیا اور بادشاہ جس شخص کو وہ اپنے سامنے جھکانا چاہتاتھا خود اس کے عقیدت مندوں میں شامل ہو گیا۔
    عدمِ تشدد کے ذریعے اپنی بات منوانا دورِ حاضر کا ایک معروف فلسفہ ہے ،اور امریکہ میں بارک حسین اوباما کی کامیابی کے پیچھے کالی نسل کے امریکیوں کی پچاس سالہ عدمِ تشدد پر مبنی تحریک ہی کا رفرما ہے ۔عام طور پر مہاتما گاندھی کو ’’تحریکِ عدمِ تشدد‘‘ کا بانی کہا جاتا ہے،لیکن شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ جس طرح حضرت مجدد کو ’’ دو قومی نظریہ ‘‘کا بانی کہا جاتا اسی طرح آپؒ بجا طور پر ’’تحریکِ عدمِ تشدد‘‘ کے بھی بانی ہیں ۔آپؒ نے ریاست سے ٹکر لیے بغیر جس طرح اپنے مشن کی تکمیل فرمائی۔ یہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ گاندھی جیسا قوم پرست لیڈر جس کی برّ صغیر کی تاریخ پر گہری نظر ہواور جو اکبر کا قدردان بھی ہو ،وہ حضرت مجدد ؒ کی تحریکِ دعوت اور اس کے اثرات سے آگاہ نہ ہو؟ معلوم یہ ہو تا ہے کہ گاندھی نے عدمِ تشدد کا سبق حضرت مجددؒ کی دعوتی تحریک ہی سے اخذ کیا ہے۔ 
  • داعی اپنی دعوتی کوششوں کا ہدف ہر طبقے کو بناتا ہے ،تاہم عام لوگ سوسائٹی کے سرکردہ افراد کو ہمیشہ رول ماڈل(Role Model) کے طور پر دیکھتے ہیں،اس لیے داعی کو سوسائٹی کے مؤ ثر افراد پر خصوصی محنت کرنی چاہیے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کے اسلام کی جو خصوصی دعافرمائی تو اس کا اصل منشا بھی یہی تھا ۔حضرت مجدد ؒ کے اسلوبِ دعوت میں یہ چیز بڑی نمایاں ہے کہ آپؒ کے لکھے گئے دعوتی خطوط کی بڑی تعداد وہ ہے جن میں آپؒ نے امرا اور معاشرے کے سرکردہ افراد کو اپنا مخاطَب بنایا ہے۔اور ان کے سماجی اثرو رسوخ کی آڑ میں اصلاحِ احوال کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔ حضرت مجدد ؒ نے جن امرائے دربار اور اراکینِ سلطنت کے نام دعوتی خطوط لکھے ان میں خان اعظم ،مرزا عزیز الدین، خان جہان خاں لودھی، خان خاناں مرزا عبدالرحیم ، مرزا دراب ، قلیج خاں، اور سید فرید بخاری وغیرہ تھے۔ حضرت مجد د ؒ کے خطوط کی بڑی تعداد سید فرید بخاریؒ کے نام ہے، جو اکبری دور اور بعد ازاں جہانگیر کے دور میں دربار میں خاص اثرو رسوخ کے مالک تھے۔ 
  • مجدد ؒ صاحب کے اسلوبِ دعوت کا ایک اور پہلو جو دعوتی تحریکوں اور ان کے کار کنان کے لیے قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ صرف وہی داعی اپنے مشن میں کامیاب ہوتا ہے جو اپنے دور کے وسائلِ دعوت کو اپنے مشن کی کامیابی کے لیے احسن انداز میں استعمال کرتا ہے۔حضرت مجدد ؒ نے ایک طرف اگراپنے ذاتی کردار سے خلقِ خدا کو اپنی دعوت کی طرف متوجہ کیا ہے تو دوسری طرف آپؒ نے دعوتی خطوط کو اپنی تبلیغ کے لیے ایک مؤثر ترین ذریعے کے طور پر اختیار فرمایا ، گویا آپؒ نے اپنے دور کی ’’میڈیا وار ‘‘ میں دعوتی خطوط کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ۔
    حضرت مجددؒ کی دعوتی تحریک کے مطالعہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صرف وہی داعی اپنے مشن میں کامیاب ہوتا جو اپنے دور کے مزاج ،زبان اور محاورے سے اچھی طرح واقف ہو اور لوگوں کو اس اسلوب میں مخاطب کرے جو ان کے لیے اجنبی نہ ہو۔ حضرت مجدد ؒ نے اس اسلوب کا خوب لحاظ کیا ہے ،آپؒ کے دعوتی مکتوب فارسی اور عربی زبان کے خوبصورت نثر پارے ہیں ،جو اس دور کی زندہ زبانیں تھیں ،اور آپؒ نے لوگوں کو جس محاورے میں مخاطب کیا ہے، اس دور کی سکہ رائج الوقت یہی تھا۔ دورِ حاضر میں داعیانِ اسلام کے لیے یہ اسلوب خاص طور پر قابلِ توجہ ہے جو نہ صرف اپنے مخاطَبین کی زبان اور محاورے سے ناواقف ہیں بلکہ اس فکری پسِ منظر سے بھی نابلد ہیں جس میں آج کی نئی نسل کی ذہنی تشکیل ہو رہی ہے، اوریہی چیز ان کی دعوت کے غیر موثر ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔دورِ حاضر میں وارثانِ محراب ومنبر پر اصحابِ کہف کی مثال صادق آتی ہے،جن کی زبان اور سکہ دونوں لوگوں کے لیے اجنبی تھے۔ 
  • ایک داعی کو عام آدمی کی نسبت زیادہ برد بار اور متحمل مزاج ہونا چاہیے۔ جس طرح فصلوں کے موسم ہوتے ہیں اسی طرح دلوں کے بھی موسم ہوتے ہیں جو بات ایک وقت میں کسی انسان یا سوسائٹی کے لیے اجنبی اور غیر مانوس ہوتی ہے کسی دوسرے وقت میں وہی چیز ان کی نظر میں تریاق سے بڑھ کر ہوتی ہے اس لیے داعی کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنا بڑا ضروری ہے ۔اس پہلو سے شیخِ مجدد کی دعوتی زندگی ہماری خصوصی توجہ کی مستحق ہے ، آپؒ نے دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے بڑے تحمل کے ساتھ مناسب اور موزوں وقت کا انتظار کیا،اگرچہ شیخِ مجدد ؒ اپنی تجدیدی اور دعوتی کوششوں کا آغاز ۹۹۸ھ میں اس وقت کرچکے تھے جب آپ ؒ عہدِ اکبری میں آگرہ تشریف لائے، اس دور میں ملّا مبارک اور اس کے بیٹوں (ابوالفضل اور فیضی) کا طوطی بولتا تھا ،تاہم و ہ حضرت مجدد ؒ کے مقام و مرتبے سے پوری طرح آگاہ تھے ۔ (۸) بادشاہ اکبر کا انتقال ۱۰۱۴ھ میں ہوا ،اس وقت حضرت مجددؒ کی عمر ۴۳ سال تھی اوردرباری امرا سید صدر جہاں ،خان خاناں اور مرتضیٰ خان وغیرہ کے ذریعے بادشاہ تک آپؒ کے نصیحت آمیز پیغامات پہنچ چکے تھے،تاہم آپؒ نے کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں فرمایااور دعوت و تبلیغ میں بڑی حکمت کے ساتھ تدریج کے اصول کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قدم بقدم آگے بڑھتے رہے، بالآ خرحضرت مجددؒ کے زیر اثر امراکا ایک ایسا مضبوط حلقہ قائم ہوگیا، جنہوں نے یہ عہد کیا کہ مستقبل میں اسی شہزادے کی حمایت کریں گے جو ملک میں اسلامی شریعت کی بحالی کا وعدہ کرے گا،چنانچہ جہانگیر نے یہ عہد کیا اور ان کی کوششوں سے وہ اکبر کا جانشین ہوا۔ حضرت مجدد ؒ کے زیر اثر امرا کی وجہ سے ہی شہزادہ خسرو بادشاہ نہ بن سکا ۔بعد کے دور میں دارا شکوہ اور اورنگ زیب عالمگیرؒ کی بظاہر سیاسی کشمکش کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے ، یہ در اصل حضرت مجددؒ کی فکر سے اکبر کی فکر کا فیصلہ کن ٹکڑاؤ تھا جس میں شیخ مجددؒ کی فکر کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اکبری دور میں شیخِ مجددؒ کی دعوتی حکمتِ عملی کو مکی عہدِ نبوت کے مشابہ قرار دیا جاسکتا ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبرو تحمل کے ساتھ دارِ ارقمؓ اور بعدازاں شعب ابی طالب میں داعیانِ اسلام کی تربیت میں ہمہ تن مصروف تھے اور ان کو مختلف قبائلِ عرب کی طرف داعی اور مبلغ بناکر بھیج رہے تھے ،جن کی دعوتی کوششوں کے نتیجہ میں عرب کاکوئی گھرانہ اسلام کی برکات سے محروم نہ رہا۔ شیخِ مجدد ؒ کی اس حکمتِ عملی کے حقیقی اثرات اور ثمرات بھی بعد کے دور میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
  • حضرت شیخِ مجدد کی دعوتی زندگی سے ایک اور اسلوب جوہمارے سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح ایک داعی بدترین حالات میں بھی دستیاب مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے اور دلوں کی زمین کو دعوت کے بیج کی تخم ریزی کے لیے ہموار کر لیتا ہے۔بعض غلط فہمیوں کی بنا پر جب جہانگیر نے حضرت مجددؒ کو قید خانے میں ڈال دیا تو ایامِ اسیری میں حضرت مجدد ؒ نے حضرت یوسف ؑ کی سنّت کو اس طرح زندہ کیا کہ سینکڑوں قیدی آپؒ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے اور ان میں سے بہتوں نے آپؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ڈاکٹرٹی ۔ڈبلیو۔ آرنلڈ اپنی کتاب (The preaching of Islam) میں لکھتے ہیں:
    ’’شہنشاہ جہانگیر (۱۶۰۵۔۱۶۲۸ء) کے عہد میں ایک سنی عالم شیخ احمد مجدد نامی تھے، جو شیعہ عقائد کی تردید میں خاص طور پر مشہور تھے، شیعوں کو اس وقت دربار میں جو رسوخ حاصل تھا ، ان لوگوں نے کسی بہانہ سے انہیں قید کرادیا ، دو برس وہ قید میں رہے، اور اس مدت میں انہوں نے اپنے رفقائے زنداں میں سے سینکڑوں بت پرستوں کو حلقہ بگوش بنالیا۔‘‘ (۹)
    انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس (Encyclopedia of religion and Ethics) میں ہے:
    ’’ہندوستان میں سترھویں صدی عیسوی میں ایک عالم جن کا نام شیخ احمد مجددؒ ہے ، جو ناحق قید کر دیے گئے تھے، ا ن کے متعلق روایت ہے کہ انہوں نے قید خانہ کے ساتھیوں میں سے کئی بت پرستوں کو مسلمان بنا لیا۔ ‘‘(۱۰)
    قید سے رہائی کے بعد بھی آپؒ نے بڑی دانائی سے دعوت و تبلیغ کے مواقع پیدا فرمائے ۔ جہانگیر نے توزک میں لکھا ہے کہ میں نے حضرت کو خلعت اور ہزار روپیہ خرچ عنایت کیا، اور ان کوجانے اور ساتھ رہنے کا اختیار دیا لیکن انہوں نے ہمرکابی کو ترجیح دی۔حضرت مجددؒ نے دعوت و اصلاح کے لیے اس موقع کو غنیمت جاناآپؒ اپنے صاحبزادگان کے نام مکتوب میں لکھتے ہیں: اس عرصہ کی ایک ساعت کو دوسری جگہوں کی بہت سی ساعتوں سے بہتر تصور کرتا ہوں۔ (۱۱) آپ شاہی لشکری کے ساتھ تقریباً ساڑھے تین سال تک رہے۔ آپؒ نے اپنی بے لوث دعوت سے شاہی دربار اور پوری لشکرگاہ کو خانقاہ میں تبدیل کر دیا۔ جہانگیر پر تو اس کا اثر یہ ہو اکہ نورجہاں، جو نہ صرف سلطنت کی ملکہ تھی بلکہ جہانگیر کے دل کی بھی ملکہ تھی، اپنی تمام تر کفر سامانیوں کے باوجود اسے شیعیت کی طرف مائل نہ کر سکی۔جہانگیر کے اندر نئے دینی رجحان پیدا ہوئے، اس نے منہدم مساجد کی دوبارہ تعمیر ، اور مفتوحہ علاقوں میں دینی مدارس کے قیام میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کی۔ ۱۰۳۱ء میں قلعہ کانگڑا کی فتح کے موقع پر اس نے جس طرح اپنی اسلامیت کا اظہار کیااور وہاں شعائر اسلام کا اجرا کرایا۔ اس سے بھی جہانگیر کے اندر آنے والی مذہبی تبدیلی کاا ندازہ کیاجا سکتا ہے ۔(۱۲) مکتوبات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ خود جہانگیر نے یہ چاہا کہ دربار میں ہر وقت چار ایسے علما حاضر رہیں جو مسائلِ شرعیہ کی وضاحت کریں، اور ان سے رہنمائی حاصل کی جاتی رہے۔(۱۳) شاہی خاندان اور درباری امرا کے ساتھ حضرت مجدد الف ثانی ؒ اور ان کے خاندان کے تعلقات اس قدر خوش گوار ہوئے کہ اس کے اثرات عالمگیرؒ کی وفات تک واضح طور پر محسوس کیے جا سکتے ہیں۔اورنگ عالمگیرؒ حضرت مجددؒ کے صاحبزادے خواجہ محمد معصومؒ بیعت وارادت کا تعلق رکھتا تھا، (۱۴) بادشاہ نے متعدد بار حضرت مجددؒ کے صاحبزادے خواجہ محمد معصومؒ سے درخواست کی کہ وہ سفر وحضر میں ان کے ساتھ رہا کریں، لیکن انہوں نے منظور نہ کیا، اور اس کے بجائے اپنے فرزند گرامی خواجہ سیف الدین ؒ کو دہلی بھیج دیا۔ مکتوبات معصومیہ میں مکتوب نمبر ۲۲۱ اور مکتوب نمبر ۲۴۷ بادشاہ کے نام ہیں جبکہ مکتوبا ت سیفیہ میں اٹھارہ مکتوب بادشاہ کے نام ہیں، جن سے بادشاہ کے مجددی خاندان سے قریبی تعلقات کا پتہ چلتا ہے۔ 
  • اگر داعی مدعو کی زبان ،ان کی ثقافت اور کلچر سے واقف ہو تو اس کے لیے دعوت کا کام آسان ہو جاتا ہے اور اگر داعی انہی میں سے ایک فرد ہو تو مدعو کے لیے اجنبیت بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔حضرت مجدد ؒ کی دعوتی کوششوں میں بھی یہ حکمتِ عملی بھی بڑی نمایاں ہے کہ آپؒ نے مختلف علاقوں کی طرف جو مبلغ اور دعاۃ روانہ فرمائے ان میں سے اکثر لوگ یا تو انہیں علاقوں سے تعلق رکھتے تھے یا پھر وہ ان علاقوں کی زبان اور لوگوں کے پسِ منظر سے پوری طرح واقف تھے جس کی وجہ سے ان کی کوششیں باآور ثابت ہوئیں ۔ بہت سے علما ومشائخ جو اپنے اپنے علاقوں میں احترام کے حامل تھے آپؒ نے انہیں بیعت وخلافت کے بعد ان کے اپنے علاقوں کی طرف روانہ فرمایا ، ان میں شاہِ بدخشاں کے معتمد علیہ شیخ طاہر بدخشی ؒ ، طالقان کے جید شیخ عبدالحق شادمانی ؒ ،مولانا صالح کولابی ؒ ، شیخ احمد برسیؒ ، مولانا یار محمدؒ ، اور مولانا یوسفؒ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ ؒ نے ان میں سے اکثر حضرات کو خلافت واجازت عطافر ماکر اپنے اپنے علاقوں اور مقامات کو واپس بھیج دیا، اسی طرح آپ نے پورے ہندوستان کے کونے کونے میں اپنے داعی روانہ فرمائے ۔(۱۵) 
المختصر حضرت مجدد الف ثانی ؒ کی دعوتی تحریک تاریخِ اسلام کی ایک عظیم الشان تحریک تھی جس نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے عالمِ اسلام کو متاثر کیا ۔حضرت مجددؒ کی دعوتی کوششوں کے نتیجے میں اکبر کے انتقال کے ساتھ ہی ’’دینِ الہٰی ‘‘ بھی موت کی وادی میں داخل ہو گیا ،بدعات کا سیلاب رک گیا ، اورلوگوں کا رسالتِ محمدی کی ابدیت پر ایمان مستحکم ہوا ۔حضرت مجددؒ نے اسلام کی سر بلندی کے لیے ہر طرح کے مصائب و آلام کو برداشت کیا اور نبوی اسلوبِ دعوت کو اپنے عمل سے زندہ کیا ۔ 

حواشی و تعلیقات

(۱) ’’سنن ابی داود‘‘،کتاب الملاحم ،باب ما یذکرفی قرن المائۃ ،ح:۴۲۹۱
(۲) اسی دیباچے میں ابوالفضل نے اکبر کے لیے اس طرح کے القاب وضع کیے ہیں، مثلاً :’’ سلطان عادل وبرہان کامل‘‘ ، ’’دلیل قاطع خدادانی و حجت ورحمت روحانی‘‘ ، قافلہ سالار حقیقی و مجازی‘‘ پیشوائے خدا شناساں ومقتدائے بدی اساساں ‘‘ ، ’’ قبلہ خدا آگاہان‘‘ ، ’’ پردہ بر انداز اسرار غیبی وچہرہ گشائے صورت لا ریبی‘‘ ، ’’ قاسم ا رزاق بندگان الٰہی‘‘، ’’ ہادی علی الاطلاق ومہدی استحقاق‘‘ ۔ ( دیباچہ’’ مہا بھارت‘‘بحوالہ:’’تحریک نقطوی اور’’ دینِ الہٰی‘‘ پر اس کے اثرات ‘‘ماہنامہ ’’معارف ‘‘ اعظم گڑھ انڈیا،جلد:۱۷۰،شمارہ:۱ ،جولائی ۲۰۰۲ء)
(۳) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
’’تحریک نقطوی اور’’ دینِ الہٰی‘‘ پر اس کے اثرات ‘‘ماہنامہ ’’معارف ‘‘ اعظم گڑھ انڈیا،جلد:۱۷۰،شمارہ:۱ ،جولائی ۲۰۰۲ء
(۴) ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘ ،جلد اوّل، دفتر سوم مکتوب نمبر :۱۸۶ ،بنام خواجہ عبدالرحمن کابلی
(۵) پروفیسر خلیق احمد نظامی’’تاریخ مشائخ چشت ‘‘، صفحہ ۴۱۸۔۴۱۹
(۶) ماخوذ از ’’تاریخِ دعوت و عزیمت ‘‘(سید ابو الحسن علی ندوی ؒ ) مجلس نشریاتِ اسلام ، کراچی ،جلد چہارم 
(۷) خواجہ محمد احسان مجددی سرہندی، ’’روضیۃ القیومیۃ‘‘، ص: ۱۴۴۔ ۱۶۷ ،(مکتبہ نبویہ ،لاہور،۲۰۰۲ء) مجلدات :۴
(۸) علامہ محمد ہاشم کشمی ، ’’زبدۃ المقامات‘‘،ص:۱۳۲ ،(مکتبہ انوارِ مدینہ ،نور آباد ، سیالکوٹ ،۱۴۰۷ھ) 
(۹) ڈبلیو آرنلڈ The preaching of Islam ص،۴۱۲
(۱۰) Encyclopedia of religion and Ethics (جلد ۸، ص، ۷۴۸) 
(۱۱) ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘، مکتوب نمبر ۴۳ دفتر سوم 
(۱۲) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:توزک جہانگیری ،ص، ۳۴۰
(۱۳) ’’مکتوباتِ امام ربانی‘‘،مکتوب نمبر ۵۳بنام شیخ فرید بخاری ، دفتر اول ، مکتوب نمبر ۱۹۴ بنام صدر جہاں دفتر اول 
(۱۴) مکتوب سیفیہ ، مکتوب نمبر ۸۳ بنام صوفی سعداللہ افغانی
(۱۵) تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:’’ روضیۃ القیومیہ‘‘،ص، ۱۲۸۔۱۲۹ ، ایضاً ’’حضرات القدس‘‘،ص ، ۲۹۹۔۳۶۸

میرے شعوری ارتقا کی پہلی اینٹ

افضال ریحان

ممتاز عالم دین علامہ زاہد الراشدی اور ان کے علمی وفکری گھرانے کا میں دیرینہ نیاز مند ہوں۔ جس زمانے میں شیرانوالہ گیٹ کے اندر واقع مولانا احمد علی لاہوری کی مسجد میں مولانا مفتی محمود کا خطاب سننے اور مولانا عبیداللہ انور کی زیارت کرنے جایا کرتا تھا، انہی دنوں سے علامہ زاہد الراشدی کا آشنا ہوں۔ جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان مجلہ میں ان کی مصروفیات او ر تحریریں پڑھتا تھا، البتہ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ نوجوان علامہ صاحب میرے ممدوح حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کے نور نظر ہیں۔ جب معلوم ہوا توا ن کی قدر ومنزلت مزید بڑھ گئی۔ ہوش سنبھالنے کے بعد میں نے اپنی زندگی میں جو دوسری کتاب شروع سے آخر تک پورے انہماک کے ساتھ پڑھی، وہ تھی مولانا سرفراز خان صفدر کی کتاب ’’گلدستہ توحید‘‘۔ اس کتاب نے میرے اندر یہ لگن پیدا کی کہ قرآ ن مجید کو اسی انہماک و استغراق کے ساتھ الحمد سے والناس تک ترجمے کے ساتھ پڑھوں۔ ساتھ ساتھ نظریہ توحید کے حوالے سے نوٹس بھی لیتا جاؤں اور غور بھی کرتا جاؤں۔ اس کے بعد مولانا کی کتاب ’’آنکھوں کی ٹھنڈک‘‘ پڑھی جو سنت سے محبت اور شرک و بدعات سے کنارہ کشی کا سبق سکھاتی ہے۔ یوں مولانا سے مودت کا ایک تعلق سا بن گیا۔ اسی پس منظر میں مولانا سرفراز خان صفدر سے ایک یادگار ملاقات بھی ہوئی جس کی تفصیل آئندہ پر اٹھائے رکھتے ہیں اور اصل موضوع پر واپس آتے ہیں۔ مابعد علامہ زاہدالراشدی سے تعلق کی قدرت نے ایک اور سبیل پیدا کردی۔ یہ ہیں نوجوان محقق جناب عمار خان ناصر۔ المورد میں اس ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات بھلے لگے۔ جس طرح فکری ونظری طور پر ایک زمانے میں ان کے جد امجد سے قربت پیدا ہوئی تھی، اس طرح اسی دادا کے ہونہار پوتے سے بھی اپنائیت محسوس ہوئی۔ یہ معلوم ہونے پرکہ آپ علامہ صاحب کے صاحبزادے اور حضرت مولانا کے پوتے ہیں، خوشی اور مسرت ہوئی۔ یہاں ایک دلچسپ واقعہ پیش خدمت ہے:
ایک بار میں جناب عمار خان صاحب سے ملنے ان کے گھر گوجرانوالہ گیا۔ مقصد حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کی زیارت تھا۔ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک نہایت خلیق چاندی جیسی داڑھی والے بزرگ نے بالا خانے پر واقع حجرے میں بٹھایا، چائے کاپوچھا اور بتایا کہ عمار خان صاحب آنے ہی والے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔ تھوڑے انتظار کے بعد عمار خان صاحب تشریف لائے اور ہم انہیں ساتھ لے کر گکھڑ منڈی کے لیے روانہ ہو گئے۔ ابھی چند قدموں کا فاصلہ طے کیا تھا کہ میں نے عمار خان سے پوچھا کہ آپ کے والد محترم سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ آج کل یہیں ہیں یا باہر گئے ہوئے ہیں؟ وہ فوراً بولے ابھی اوپر جن حضرات کے درمیان بیٹھے تھے، ان میں آپ کے سامنے والے میرے والد صاحب ہی تھے۔ انہی قدموں پر واپس اسی حجرے میں گیا، علامہ صاحب کو سلام کیا اور کہا ’’ سوری جناب! میں آپ کو پہچان نہیں سکا تھا‘‘۔ پھر علامہ صاحب سے حسب سابق دعائیں وصول کرتا عمار صاحب کے پاس گاڑی میں آ گیا۔ ہم جب گکھڑ کے قریب پہنچے تو عمار خان صاحب نے اپنا موبائل مجھے تھماتے ہوئے کہا کہ آپ ذرا اباجان سے بات کر لیں۔ ادھر سے علامہ زاہد الراشدی بول رہے تھے: ’’سوری ریحان صاحب، میں بھی آپ کو پہچان نہیں سکا تھا۔ مجھے تو اب فون پر عمار نے بتایاہے کہ میں افضال ریحان کے ساتھ آیا ہوں‘‘۔ ہے نا یہ دلچسپ واقعہ! ساحر لدھیانوی نے یہ شعر تو کسی اور محل کے لیے کہا تھا، لیکن حسب حال ہے:
میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں
وہ تبسم وہ تکلم تری عادت ہی نہ ہو
اس کے بعد شیخ الحدیث مولانا سرفراز خان صفدر کی زیارت ہوئی تو دل بہت خراب ہوا۔ یہ خیال ذہن میں بار بار آتا رہا کہ کاش میں انہیں اس حال میں دیکھنے کے لیے نہ ہی آتا تو اچھا ہوتا۔ جس شخصیت کو میں نے کبھی چاک وچوبند اپنے ساتھ شاہی مسجد کی سیڑھیاں چڑھتے اترتے دیکھا تھا، شفقت سے اپنا بازو میرے کندھے پر پھیلاتے باتیں کرتے سنا تھا، آج وہ بزرگی کے ہاتھوں بے بسی سے یوں لیٹے تھے کہ ان کے لیے اپنی سائیڈ بدلنا بھی محال تھا۔ ہمیں (میرے دو کزن ایوب اور اعظم بھی میرے ساتھ تھے) کچھ پلانے کے لیے انہوں نے جو بولا، ان کی سمجھ صرف بھائی عمار ہی کو آ سکی۔ وقت انسانی زندگی میں کتنی اور کیسی تبدیلیاں لاتا ہے، اسے ہم اپنی آنکھوں سے ملاحظہ کر سکتے تھے۔ ہماری زبان پر یہ قرآنی الفاظ آئے: ومن نعمرہ ننکسہ فی الخلق افلا یعقلون۔ 
کسی نے سچ کہا ہے کہ زمانے میں ثبات ایک تغیر کو ہے۔ ہم اس تغیر کو ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھتے اور اپنے تصورات میں محسوس کرتے ہیں، لیکن اس کی گیرائی اور گہرائی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ افسوس! ہم اس تغیر کی ماہیت کو اپنی اپنی ذہنی تنگناؤں تک محدود سمجھ بیٹھے ہیں، حالانکہ اس کائنات میں صرف انسانی زندگی کے اندر ہی تبدیلیاں نہیں آتیں، ہر لمحہ لاکھوں بلبلے بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ خاک سے نمو پا نے والے کروڑوں پھول روز کھلتے، مر جھاتے، بکھرتے او ر خاک میں ملتے ہیں۔ انسانی زندگی میں ایک نوع کی تبدیلی تو وہ ہے جو بچے سے بوڑھے ہونے تک محض جسم میں نہیں، تصورات ونظریات اور خیالات میں بھی آتی ہے۔ پھر یہ تبدیلیاں محض افراد تک محدود نہیں، اقوام اور ان کی سوسائٹیوں میں بھی ایسی ہی جوہری تبدیلیاں آتی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ خاک کے یہ پتلے دوبارہ خاک ہو جاتے ہیں، جبکہ انسانی سوسائٹی کا سفر علمی، فکری اور شعوری حوالوں سے جاری وساری رہتا ہے۔ افراد یا اقوام کے بڑھتے ہوئے شعور پر تو قدغنیں اور بندشیں لگائی جا سکتی ہیں، لیکن بنی نوع انسان کے شعوری ارتقا کو روکنا ناممکن ہے۔ وقت کا پہیہ ہمیشہ آگے کو چلتا ہے، پیچھے نہیں مڑتا۔ جو اقوام ایسی کاوشیں کرتی ہیں، زمانہ انہیں جھٹک دیتا ہے۔ نتیجتاً وہ خود پسماندہ رہ جاتی ہیں، اسی لیے حکم دیا گیا ہے کہ زمانے کو برا مت کہو۔ زمانہ تو خود خدا ہے۔ لیکن جن اقوام نے انسان کی پہچان نہیں کی، وہ خدا کی پہچان کیا خاک کریں گی۔ کل یوم ھو فی شان۔
ہم صرف یہ گزارش کرتے ہیں کہ انسان نے ہزاروں صدیوں کے سفر کی فطرت اور تجربات سے جو کچھ سیکھا ہے، اسے مقدس الفاظ کی زنجیریں نہ پہنائی جائیں۔ زمانے کے ارتقا کو برا نہ کہاجائے کہ زمانہ تو خود خدا ہے۔ زمانی حقیقتوں کو مقدس الفاظ سے کمتر نہ سمجھا جائے، اس لیے کہ ایک Word of God ہے تو دوسرا Work of God ۔ پروردگار عالم کے قول وفعل میں تضاد آخر کیسے ممکن ہے؟ اگر کسی کی کم نظری کو ایسا کوئی تضاد دکھائی دیتا ہے تو پھر لازم ہے کہ وہ اقوال کی تشریح افعال کی روشنی میں کرے۔ بس یہی میرا وہ شعوری ارتقا ہے جس کی پہلی اینٹ میرے نہاں خانوں میں مولانا سرفراز خان صفدر نے استوار کی تھی۔ 
(بشکریہ روزنامہ پاکستان ،لاہور) 

آداب القتال : توضیحِ مزید

محمد مشتاق احمد

ماہنامہ ’’الشریعۃ ‘‘کے نومبر ۔ دسمبر ۲۰۰۸ء کی خصوصی اشاعت میں راقم الحروف کا ایک مضمون ’’ آداب القتال : بین الاقوامی قانون اور اسلامی شریعت کے چند اہم مسائل ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ۔ اس مضمون پر ’’ دہشت گردی : چند مضامین کا تنقیدی جائزہ ‘‘ کے عنوان سے جناب ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب کا تبصرہ جنوری ۲۰۰۹ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے ۔ میں ڈاکٹر صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میری تحریر کو تبصرے اور تنقیدکے لائق سمجھا ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے تبصرے میں جن تین نکات پر بحث کی ہے میں ان کی کچھ مزید وضاحت پیش کرنا ضروری محسوس کرتا ہوں کیونکہ میری ناقص رائے کے مطابق ان میں دو امور ۔ جہادی تنظیموں کی حیثیت اور خود کش حملوں کا عدم جواز ۔ ایسے ہیں جن میں ڈاکٹر صاحب نے شاید میرا مدعا صحیح نہیں سمجھا ورنہ ان امور کے متعلق میرے اور ان کے موقف میں کچھ خاص اختلاف نہیں پایا جاتا ، جبکہ ایک امر ۔ آزادی کی جنگ ۔ ایسا ہے جس میں مجھے ان کی رائے سے اختلاف ہے ۔ 

اولاً : جہادی تنظیموں کی قانونی حیثیت اور ان کی کاروائیوں کے لیے حکومت کی ذمہ داری 

ڈاکٹر صاحب نے جہادی تنظیموں کے متعلق میری رائے کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے : 
’’ اگر کسی ملک کے کچھ مسلح گروہ کسی دوسرے ملک میں کاروائی کریں لیکن انہیں حکومت نے باقاعدہ اجازت نہ دی ہو تو قانوناً پوزیشن یہ ہے کہ جب حکومت نے باوجود علم کے انہیں جانے دیا تو یہ اس کی جانب سے خاموش تائید ہے جو صریح اجازت کے قائم مقام ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ ایسے مسلح گروہوں کی کاروائی جائز ہے۔‘‘ ( ۱) 
میں نے اپنے مضمون میں یہ بات ’’ کچھ مسلح گروہوں ‘‘ کے بارے میں نہیں بلکہ ایسے ’’ بہت سارے لوگوں ‘‘ کے متعلق کہی ہے ’’جو منعۃ رکھتے ہوں‘‘ ، اور قانونی اصطلاح منعۃ کی وضاحت میں نے ’’فوجی اور سیاسی طاقت ‘‘ کے الفاظ کے ذریعے کی تھی ۔ ( ۲) پس میرے نزدیک یہ قانونی پوزیشن باقاعدہ تربیت یافتہ جنگجوؤں کے متعلق ہے جنہیں جنگ کے لیے خاص تربیت دی جاتی ہے اور جو دشمن کو سخت نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔ڈاکٹر صاحب نے میری بات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ’’ چنانچہ ایسے مسلح گروہوں کی کاروائی جائز ہے ‘‘ اور پھر اس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ یہ بات علی الاطلاق صحیح نہیں ہے ‘‘ کیونکہ معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ ضروری ہے کہ ’’ایک ملک اپنے شہریوں کی جانب سے کسی دوسرے ملک میں کی جانے والی مسلح کاروائی کی باقاعدہ ذمہ داری لے یا اس سے انکار کرے۔‘‘ ( ۳)
اس سلسلے میں پہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ میں نے اس بات کے علی الاطلاق صحیح ہونے کا دعوی ہر گز نہیں کیا ۔ میرے مضمون کا موضوع یہ نہیں تھا کہ کن صورتوں میں جنگ کی اجازت ہوتی ہے اور کن میں نہیں ؟ اس وجہ سے اس مضمون میں اس بات پر بھی کوئی بحث نہیں کی گئی کہ کن لوگوں کے خلاف مسلمان جنگی کاروائی کرسکتے ہیں اور کن کے خلاف نہیں ؟ میں نے مضمون کی ابتدا میں ہی واضح کردیا تھا کہ اس میں jus ad bellum کے مباحث کے بجائے گفتگو jus in bello کے مباحث تک محدود رہے گی ۔ ( ۴) اس کے باوجود میں نے اس مضمون میں مختصراً فقہا کے اس موقف کا ذکر کیا کہ جہاد کی فرضیت کی علت کفر نہیں بلکہ محاربہ ہے ، یعنی مسلمان غیر مسلموں کے خلاف اس بنا پر نہیں لڑ سکتے کہ وہ غیر مسلم ہیں بلکہ وہ صرف ان غیر مسلموں کے خلاف ہی لڑ سکتے ہیں جو اسلام یا مسلمانوں کے خلاف محاربہ کا ارتکاب کریں ۔ ( ۵) پس زیر بحث مسئلے میں راقم کا مفروضہ یہ تھا کہ مسلمان یہ کاروائی انہی لوگوں کے خلاف کررہے ہیں جن کے خلاف کاروائی کی انہیں شرعاً و قانوناً اجازت ہے ۔ باقی رہا ان لوگوں کا معاملہ جن کے خلاف جنگی کاروائی کی شرعاً و قانوناً اجازت نہیں ہے تو ان کے خلاف کاروائی خواہ چند افراد کریں ، یا مسلح تنظیمیں ، اور خواہ ان کو حکومت کی اجازت حاصل ہو یا نہ ہو بہر صورت ان کی کاروائی ناجائز ہوگی کیونکہ ایسی صورت میں جبکہ حکومت کو خود کاروائی کی اجازت نہیں ہے تو وہ افراد یا تنظیموں کو کاروائی کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے ؟ شرعی و قانونی طور پر یہ اصول مسلمہ ہے کہ آپ کسی کو وہی اختیارات تفویض کرسکتے ہیں جو آپ کو حاصل ہیں ۔ جو اختیار آپ کو حاصل نہیں ہے وہ آپ تفویض بھی نہیں کرسکتے ۔ 
میرے مضمون میں جس سیاق میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات بظاہر جنگی کاروائی حکومت کے بجائے کسی تنظیم نے کی ہوتی ہے اس لیے بعض لوگ اسے محض اس بنا پر ناجائز قرار دے دیتے ہیں کہ جنگی کاروائی کا اختیار صرف حکومت کے پاس ہے ، حالانکہ اس قسم کی کاروائیوں میں بعض کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ خواہ حکومت نے اس کی صریح اجازت نہ دی ہو اور بظاہر وہ کاروائی کسی تنظیم نے ہی کی ہو لیکن شرعاً و قانوناً اس کے متعلق اصول یہ ہوگا کہ حکومت اس کاروائی کے لیے ذمہ دار ہے کیونکہ اس قسم کی کاروائی حکومت کی خاموش تائید اور سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہوتی ۔ پس اصل سوال یہ تھا کہ کن صورتوں میں افراد یا تنظیموں کی کاروائی کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے ؟ اس سوال کا جواب امام سرخسی یہ دیتے ہیں کہ اگر حکومت نے اجازت دی ہو تو خواہ کاروائی تنہا ایک فرد کرے یا ایک مضبوط جتھا دشمن پر دھاوا بول دے ، ہر دو صورتوں میں حکومت ذمہ دار ہے ۔ تاہم اگر چند افراد نے حملہ کیا ہو جن میں دشمن کو سخت نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہ ہو اور ان کو حکومت نے اجازت بھی نہ دی ہو تو ان کی کاروائی کے لیے حکومت ذمہ دار نہیں ٹھہرے گی ، نہ ہی حکومت پر ان کی مدد لازم ہوگی ۔ البتہ اگر حملہ کسی مضبوط جتھے نے کیا ہو جس کا حکومت کے علم اور مرضی کے بغیر دشمن کے علاقے میں کاروائی کے لیے جانا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں خواہ حکومت نے انہیں باقاعدہ اجازت نہ دی ہو اور خواہ حکومت انہیں own نہ کرتی ہو ، بہر حال حکومت ان کے حملے کے لیے ذمہ دار ہے ۔ میں نے اس بات کی مزید وضاحت اپنے پچھلے مضمون میں ان الفاظ میں کی تھی : 
’’جب حکومت نہ صرف یہ کہ لوگوں کو مسلح تنظیمیں بنانے کا موقع دیتی ہے ، بلکہ انہیں ہر قسم کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے ۔۔۔ ان کی ٹریننگ ، ان تک اسلحہ کی فراہمی ، ان کو سرحد پار کاروائی میں مدد دینا اور پھر واپس آنے پر محفوظ پناہ گاہ فراہم کرنا، وغیرہ ۔۔۔جب ان میں سے ہر ہر مرحلہ حکومت کی تائید اور نگرانی میں طے پاتا ہو تو پھر صریح اجازت محض ایک کاغذی کاروائی (Formality) ہو جاتی ہے ۔اس کاغذی کاروائی کے بغیر بھی قانونی پوزیشن یہی ہوگی کہ ان مسلح تنظیموں کی کاروائیاں حکومت کی اجازت سے ہی متصور ہوں گی۔‘‘ ( ۶) 
ڈاکٹر فاروق صاحب کے تبصرے کے متعلق دوسری بات یہ عرض کرنی ہے کہ معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے کسی کاروائی کے لیے کسی ریاست کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے اصول یہ نہیں ہے کہ آیا وہ ریاست اس کاروائی کی باقاعدہ ذمہ داری لیتی ہے یا نہیں ؟ بلکہ معاصر بین الاقوامی قانون میں State Responsibility کے قاعدے کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے بھی یہی اصول کارفرما ہیں جو امام سرخسی نے ذکر کیے ہیں۔ ( ۷) مثال کے طور پر مشہور Curfo Channel Case میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے بارودی سرنگوں کے ذریعے واقع ہونے والے نقصانات کے لیے البانیا کو اس بنا پر ذمہ دار ٹھہرایا کہ اسے سمندر میں ان سرنگوں کی موجودگی کا علم تھا ۔ ( ۸) جب Nicaragua Case میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ نکاراگووا میں چھاپہ مار دستوں کی کاروائی کے لیے کیا امریکا ذمہ دار ہے جس نے ان دستوں کو مالی امداد دی اور ہتھیار فراہم کیے ؟ تو بین الاقوامی عدالت انصاف نے قرار دیا کہ امریکا کو ان دستوں کی کاروائی کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ ان دستوں کی کاروائی امریکا کے کنٹرول کے تحت ہورہی تھی ۔( ۹) Tadic Case میں بین الاقوامی فوجداری عدالت برائے یوگو سلاویا نے قرار دیا کہ ’’کنٹرول ‘‘ کے لیے کوئی لگا بندھا معیار نہیں مقرر کیا جاسکتا اور مختلف سطح کی کاروائی کے لیے درکار کنٹرول کا معیار مختلف بھی ہوسکتا ہے ۔ ( ۱۰) Namibia Case میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے یہ بھی طے کیا ہے کہ ’’کنٹرول ‘‘کے لیے ضروری نہیں کہ کاروائی ایسے علاقے سے ہوئی ہو جس پر ریاست کو قانونی اختیار ( sovereignty) حاصل ہو ، بلکہ اگر وہ ایسے علاقے سے ہوئی ہو جس پر ریاست کو صرف واقعتاً (Pbhysical) کنٹرول حاصل تھا تب بھی اس کاروائی کے لیے ریاست ذمہ دار ٹھہرے گی ۔ ( ۱۱) بلکہ Caire Case کے فیصلے سے یہ بھی واضح ہے کہ اگر کسی ریاستی ادارے کے کسی فرد نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے (ultra vires) کوئی کاروائی کی تب بھی اس کاروائی کے لیے وہ ریاست ذمہ دار ٹھہرے گی اگر اس فرد نے ریاستی ذرائع و وسائل اور سہولیات کا استعمال کیا ہو۔( ۱۲) جنیوا معاہدات کے پہلے اضافی پروٹوکول میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ ماتحتوں کی کاروائی کے لیے افسر بالا ذمہ دار ہوگا اگر اسے ماتحت کی جانب سے کاروائی کا علم تھا اور ماتحت کو روکنے کے لیے اس نے وہ اقدامات نہیں اٹھائے جنہیں اٹھانے پر وہ قادر تھا ۔ (۱۳) یہی اصول بین الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور میں بھی طے کیا گیا ہے ۔ ( ۱۴) 
میں نے اپنے مضمون میں ذکر کیا تھا کہ امام شیبانی اور امام سرخسی نے ذمہ داری کے اس اصول کی بنا پر قرار دیا تھا کہ اگر مسلمانوں سے امن معاہدہ کرنے والے کسی گروہ کے کسی فرد نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی تو اس کے باوجود اس گروہ کے ساتھ معاہدہ برقرار رہے گا بشرطیکہ خلاف ورزی کو اس فرد کا انفرادی عمل قرار دیا جاسکے ، اور اگر اس گروہ نے علم اور قدرت کے باوجود اس فرد کو معاہدے کی خلاف ورزی سے نہیں روکا تو اس پورے گروہ کو اس خلاف ورزی کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور امن معاہدہ غیر مؤثر ہوجائے گا ۔ ( ۱۵) اس اصول کی بنیاد چونکہ قرآن و سنت کی نصوص اور اسلامی شریعت کے قواعد عامہ پر تھی اس لیے امام شیبانی یا امام سرخسی کو کسی مدون بین الاقوامی قانون کے ضابطے کی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ تجزیہ آج کے مدون بین الاقوامی قانون کی رو سے بھی بالکل درست ہے ۔ اس بنا پر میں ڈاکٹر فاروق صاحب کی اس بات سے بصد ادب و احترام اختلاف کی جرأت کرتا ہوں کہ ’’ امام سرخسی نے جس وقت یہ بات تحریر کی تھی اس وقت بین الاقوامی قانون آج کی طرح مدون نہیں تھا ۔ ‘‘ ( ۱۶) 
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اگر حکومت امن معاہدے پر کاربند رہنے کی دعویدار ہو اور ساتھ ہی افراد یا تنظیموں کو امن معاہدے کی خلاف ورزی کی اجازت دیتی ہو تو یہ دھوکہ دہی ہے جو شرعاً ناجائز ہے ۔ ( ۱۷) تاہم سوال یہ ہے کہ کیا اس دھوکہ دہی کو صرف معاصر بین الاقوامی قانون نے ہی ناجائز ٹھہرایا ہے یا اس سے بہت پہلے اسے اسلامی شریعت نے بھی ناجائز قرار دیا تھا ؟ اگر اسلامی شریعت نے صدیوں پہلے اس کام کو دھوکہ دہی قرار دے کر اسے ناجائز ٹھہرایا تھا تو پھر فقہا کے دور میں بین الاقوامی قانون کے مدون ہونے یا نہ ہونے کا موضوع زیر بحث پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ پھر سوال یہ نہیں ہوگا کہ کیا یہ دھوکہ دہی اس وقت جائز تھی جبکہ بین الاقوامی قانون غیر مدون تھا ؟ بلکہ سوال یہ ہوگا کہ جب یہ دھوکہ دہی اس وقت بھی قرآن وسنت کی نصوص اور شریعت کے قواعد عامہ کی رو سے ناجائز تھی تو فقہا اسے جائز کیسے قرار دے سکتے تھے ؟ حاشا و کلا ! فقہا ہر گز کسی قسم کی دھوکہ دہی کو جائز نہیں قرار دے سکتے تھے ، بلکہ انہوں نے جس صورت میں جنگی کاروائی کے جواز کا ذکر کیا ہے وہ دھوکہ دہی کے ضمن میں آتا ہی نہیں ۔ جیسا کہ میں نے ابتدا میں ذکر کیا ، وہ اس قسم کی جنگی کاروائی کو اسی وقت جائز قرار دیتے ہیں جب یہ کسی برسر جنگ گروہ کے خلاف کی جائے ۔ باقی رہی بات ان گروہوں کی جن کے ساتھ مسلمان امن معاہدات میں بندھے ہوئے ہوں تو فقہا نے لفظ اور روح کے ساتھ ان معاہدات کی پابندی لازم ٹھہرائی ہے اور اپنے پچھلے مضمون میں بھی میں نے فقہا کی تصریحات پیش کی تھیں کہ وہ ان افعال کو بھی ناجائز ٹھہراتے ہیں جن میں معاہدے کے لفظ کی خلاف ورزی چاہے نہ ہوتی ہو لیکن اس کی روح کی خلاف ورزی ہوتی ہو ۔ ( ۱۸)

ثانیاً : آزادی کی جنگ 

جناب ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب نے مزاحمت اور آزادی کی جنگ کے جواز کے متعلق میرے موقف پر تنقید کرتے ہوئے اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی ہے : 
’’یہاں بھی اگر چند ایک چیزیں موجود ہوں تو جنگ جاری رکھی جاسکتی ہے ، ورنہ نہیں ۔ وہ شرائط یہ ہیں کہ ساری مزاحمتی قوت ایک لیڈر کے تحت منظم ہو ، ایک ایسا خطہ زمین موجود ہو جس میں مزاحمتی قوت امن و امان قائم کرسکے اور قانون کا نفاذ کرسکے ، رائے عامہ اس کی پشت پر ہو اور لڑائی جیتنے کی پوری طاقت موجود ہو ۔ اگر ان میں سے ایک بھی شرط پوری نہ ہو تو مسلح مزاحمت صحیح نہیں۔‘‘ ( ۱۹) 
میں پھر کہوں گا کہ میرے مضمون کا اصل موضوع مزاحمت اور آزادی کی جنگ کے جواز و عدم جواز پر بحث نہیں تھی ۔ اس وجہ سے اس موضوع پر تفصیلی بحث اس میں نہیں کی جاسکی ۔ میرے ایل ایل ایم کے مقالے میں اس موضوع پر تفصیلی بحث موجود ہے جس کا غالب حصہ میری کتاب ’’ جہاد ، مزاحمت اور بغاوت : اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ‘‘ کے حصۂ چہارم میں آگیا ہے ۔ میں یہاں مختصراً اشارات ہی پر اکتفا کروں گا۔ 
مزاحمت اور آزادی کی جنگ پر بحث دو مختلف زاویوں سے کی جاسکتی ہے ۔ ایک صورت یہ ہے کہ کسی علاقے پر غیروں کی جانب سے حملہ ہو اور وہاں کے لوگ اس حملے کے خلاف مدافعت اور مزاحمت کے لیے کھڑے ہوں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی ریاست کے اندر مقیم کوئی گروہ اس ریاست سے علیحدگی اور آزادی کے لیے مسلح جد و جہد کی راہ اختیار کرلے ، یا کسی ریاست پر بیرونی قبضہ مکمل ہونے کے بعد وہاں کچھ لوگ اس قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت شروع کریں ۔ پہلی صورت اضطراری ہے اور دوسری صورت اختیاری ۔ میں نے اپنے پچھلے مضمون میں بات پہلی صورت کے متعلق کہی تھی ۔ اس لیے یہاں بھی بحث اسی صورت تک محدود رکھوں گا ۔ 
ڈاکٹر صاحب جن شرائط کا ذکر کرہے ہیں وہ اس صورت میں بالکل ہی غیر متعلق ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ صورت دفاع کی ہے جو نہ صرف ہر ہر فرد کے لیے فرض عینی ہے بلکہ ہر ہر فرد کا شرعی ، قانونی اور فطری حق بھی ہے ۔ ( ۲۰) ایسی صورت میں اگر حملے کی زد میں آئے ہوئے علاقے کی حکومت کا ڈھانچہ تباہ ہوجائے لیکن ابھی اس علاقے پر قبضہ تکمیل تک نہ پہنچا ہو تو اس علاقے کے عام افراد کے لیے مزاحمت کا حق مغرب کے وضع کردہ بین الاقوامی قانون نے اس وقت بھی مانا تھا جب ایشیا و افریقا پر مغربی طاقتیں اپنا تسلط جمانے کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں۔ چنانچہ اس حق کو پہلے ان کے رواجی بین الاقوامی قانون (Customary International Law) کی رو سے ثابت شدہ سمجھا جاتا تھا ، پھر ۱۹۰۷ء کے چوتھے معاہدۂ ہیگ نے اسے باقاعدہ بین الاقوامی معاہدے کی صورت میں تسلیم کرلیا ۔ ( ۲۱) دوسری جنگ عظیم کے بعد جب آداب القتال کے بین الاقوامی قانون کی تدوین کے لیے ۱۹۴۹ء میں جنیوا معاہدات کیے گئے تو تیسرے جنیوا معاہدے نے پھر اس حق کو تسلیم کیا ۔ ( ۲۲)
اس قسم کی عوامی مزاحمت کو اصطلاحاً levee en masse کہا جاتاہے ۔ اب ظاہر ہے کہ یہ مزاحمت چونکہ ’’عوامی ‘‘ہے اس لیے یہ توقع عبث ہے کہ تمام مزاحمت کار کسی ایک لیڈر کے ماتحت منظم ہوں ، نہ ہی وہ کوئی مخصوص امتیازی لباس یا علامت استعمال کرسکتے ہیں ۔ اس کے باوجود معاہدۂ ہیگ اور معاہدۂ جنیوا نے ان مزاحمت کاروں کو ’’ مقاتل ‘‘ (Combatant) کی حیثیت دی ہے اور صراحت کی ہے کہ گرفتار ہونے پر ان کو ’’ جنگی قیدی ‘‘ (Prisoner of War) کی حیثیت حاصل ہوگی ۔ ( ۲۳)
بعض اوقات یوں بھی ہوسکتا ہے کہ حملے کے نتیجے میں کسی ریاست کی حکومت کا خاتمہ ہوجائے اور وہاں پر حملہ آوروں کا قبضہ بھی مکمل ہوجائے لیکن اس ریاست کی ’’جلاوطن حکومت ‘‘ (Government in Exile) کسی دوسری ریاست میں اس ریاست کے تعاون سے قائم ہوجائے اور وہ وہاں سے مزاحمت اور آزادی کی جنگ جاری رکھے ۔ دوسری جنگ عظیم میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں اور اسی بنا پر ۱۹۴۹ء کے تیسرے جنیوا معاہدے نے اس طرح کی مزاحمت کرنے والوں کے لیے بھی مقاتل اور جنگی قیدی کی حیثیت تسلیم کی ہے اور صراحت کی ہے کہ ان کو یہ حیثیت اس صورت میں بھی حاصل ہوگی جب جنگ کا دوسرا فریق اس حکومت یا لیڈر کو جائز تسلیم نہیں کرتا جس کے ماتحت یہ مزاحمت کرتے ہوں ۔ ( ۲۴) اسی شق کی وجہ سے ۱۹۵۰ء۔ ۱۹۵۱ء کی جنگ کوریا میں شمالی کوریا اور چین سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کو امریکا نے جنگی قیدی کی حیثیت دی حالانکہ اس وقت امریکا نے چین اور شمالی کوریا میں سے کسی کی حکومت تسلیم نہیں کی تھی ۔ اس شق کی رو سے امریکا پر لازم تھا کہ ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر حملے کے دوران میں طالبان حکومت کے ماتحت مزاحمت کرنے والے جن جنگجوؤں کو اس نے گرفتار کیا انہیں وہ جنگی قیدی کی حیثیت اور حقوق دیتا مگر دیگر بین الاقوامی قوانین کی طرح بش حکومت نے اس قانون کی بھی دھجیاں بکھیر دیں ۔ 
جیسا کہ ذکر کیا گیا، عوامی مزاحمت کار (levee en masse) کسی باقاعدہ کمان کے تحت منظم نہیں ہوتے اور ان کے ملک پر بیرونی حملہ آوروں کا قبضہ ابھی تکمیل نہیں پہنچا ہوتا ۔ سوال یہ تھا کہ جن لوگوں کے ملک پر بیرونی حملہ آوروں کا قبضہ ہوجاتا اور وہ باقاعدہ کمان کے تحت منظم طریقے سے اس قبضے کے خلاف مزاحمت کرتے ان کو کیوں مقاتل اور جنگی قیدی کی حیثیت نہیں دی جاتی تھی ؟ تیسری دنیا میں مزاحمت کاروں کا موقف یہ تھا کہ ان لوگوں کو بدرجۂ اولی یہ حیثیت حاصل ہونی چاہیے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جب تیسری دنیا کے ممالک میں مغربی قابض طاقتوں کے خلاف مزاحمت اور آزادی کی جنگوں کا سلسلہ تیز ہوا تو ظاہر ہے کہ ابتدا میں مغربی طاقتیں ان مزاحمت کاروں کو یہ حیثیت دینے پر آمادہ نہیں تھیں ۔ تاہم جب بتدریج تیسری دنیا کے ممالک نے مغربی طاقتوں کے قبضے سے آزادی حاصل کرلی تو پھر مغربی طاقتوں کے علی الرغم ۱۹۷۷ء میں جنیوا معاہدات پر دو مزید ملحقات کا اضافہ کیا گیا ۔ ان میں پہلے پروٹوکول کا تعلق ’’بین الاقوامی جنگوں ‘‘ (International Armed Conflict) سے ہے ۔ اس پروٹوکول نے ایک اصول تو یہ طے کیا کہ آزادی کی جنگ کسی ملک کا اندرونی معاملہ یا خانہ جنگی ( Civil War) نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی جنگ ہے ۔ ( ۲۵) اس اصول کے ماننے کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ اس جنگ میں لڑنے والوں کو مقاتل کی حیثیت اور اس میں قید ہونے والوں کو جنگی قیدی کی حیثیت دی جائے اور ان پر اس ملک کے اندرونی قانون کے بجائے بین الاقوامی قانون کا اطلاق ہو ۔ چنانچہ اس پروٹوکول نے اس کی باقاعدہ تصریح بھی کر لی ۔ ( ۲۶) مزید برآں ، اس نے امتیازی لباس اور علامت کی شرط میں نرمی کرکے چھاپہ مار کاروائی کے لیے بھی قانونی جواز فراہم کرلیا ۔ ( ۲۷) 
اس بحث میں اس اصول کا بھی اضافہ کیجیے کہ بیسویں صدی عیسوی کے اوائل سے ہی بین الاقوامی قانون نے یہ اصول تسلیم کیا ہوا ہے کہ قبضے (Occupation) کی وجہ سے کسی ریاست کو مقبوضہ علاقے پر قانونی اختیار حاصل نہیں ہوتا اور جلد یا بدیر قابض طاقت کو مقبوضہ علاقے نکلنا ہوگا ۔ چنانچہ ہندوستان تو ۱۸۵۷ء میں ’’برطانوی ہند‘‘ ( British India) میں تبدیل ہوگیا تھا لیکن فلسطین ۱۹۱۸ء میں ’’ برطانوی فلسطین‘‘ نہ ہوسکا ، بلکہ برطانیہ نے ’’ نظام انتداب ‘‘ (Mandate System) کے تحت بطور امانت (Trust)اس پر تسلط حاصل کیا اور ۱۹۴۸ء میں اس ’’ امانت ‘‘ سے جان چھڑالی ۔ اسی طرح ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کے تحت بعض علاقے یہودیوں کے حوالے کیے جن میں ریاست اسرائیل وجود میں آگئی ۔ ان علاقوں کے علاوہ بعض دیگر علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ۱۹۴۸ء کی جنگ میں اور پھر بعض مزید علاقوں پر ۱۹۶۷ء کی جنگ میں ہوا لیکن ( یروشلم سمیت ) وہ علاقے ریاست اسرائیل کا حصہ نہیں ہیں ، بلکہ بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے تحت اقوام متحدہ کا سرکاری موقف مسلسل یہ رہا ہے کہ یہ علاقے ’’ مقبوضہ فلسطینی علاقے ‘‘ (Occupied Palestinian Territories) ہیں اور ان علاقوں پر ریاست اسرائیل کے تسلط کی حیثیت قابض طاقت کی ہے ۔ ( ۲۸) اس لیے جلد یا بدیر اسرائیل کو ان علاقوں سے نکلنا ہوگا ، الا یہ کہ تمام متعلقہ فریق کسی آزادانہ بین الاقوامی معاہدے کے تحت ان علاقوں کے مستقبل کے متعلق کوئی اور فیصلہ کرلیں ۔ 
یہ تو اس معاملے کا قانونی پہلو ہوا ۔ باقی رہا شرعی پہلو تو ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ تمام شرائط پر بحث کی نوعیت ہی تبدیل ہوجاتی ہے اگر شریعت کے چند مسلمات کی روشنی میں ان شرائط کا جائزہ لیا جائے ۔ ان مسلمات میں ایک یہ ہے کہ دار الاسلام کے ایک ایک ذرے کے تحفظ کی ذمہ داری تمام امت پر فرض کفائی ہے ۔ ( ۲۹) یہ بھی شرعی مسلمات میں ہے کہ فرض کفائی بعض صورتوں میں فرض عینی کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔(۳۰) اس لیے اگر دار الاسلام کے کسی خطے پر بیرونی حملہ ہو تو اس حملے کے خلاف مدافعت صرف اس خطے کے باشندوں کا ہی درد سر نہیں ہے بلکہ وہ پوری امت کا مسئلہ ہے اور اگر اس خطے کے باشندے مدافعت کا فریضہ ادا نہ کرپارہے ہوں تو پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی نصرت کے لیے اٹھے ۔ اس نصرت کی راہ میں معاصر بین الاقوامی مزاحم نہیں ہے ، بلکہ معاصر بین الاقوامی قانون کی قیود کے تحت رہتے ہوئے بھی دفاع کا یہ اجتماعی فریضہ بطریق احسن ادا کیا جاسکتا ہے ۔ مسئلہ بین الاقوامی قانون یا اسلامی شریعت کے قواعد سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ پست ہمتی ، باہمی افتراق ، جہالت ، مادہ پرستی اور سب سے بڑھ کر ’’وہن‘‘ جیسے عوامل سے پیدا ہوتا ہے جن پر بحث میرے مضمون کے موضوع سے باہر ہے ۔ 

ثالثاً : خود کش حملوں کا جواز ؟ 

ڈاکٹر فاروق صاحب نے خود کش حملوں کے متعلق میری بحث کا نتیجہ ان الفاظ میں نکالا ہے : 
’’ اگر چار شرائط پوری کردی جائیں اسلامی شریعت کی رو سے خود کش حملہ جائز ہے۔‘‘ ( ۳۱) 
یہ بات میرے لیے انتہائی حیرت کا باعث بنی ہے کیونکہ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ان شرائط کے پوراکرنے پر خود کش حملہ اسلامی شریعت کی رو سے جائز ہوجاتا ہے بلکہ میرے اس مضمون کا تو بنیادی ہدف درحقیقت یہ امر تھا کہ اسلامی شریعت کی رو سے خود کش حملہ کسی صورت جائز نہیں ہوسکتا ۔ مضمون کی ابتدا میں ہی میں نے وضاحت کی تھی : 
’’بعض اوقات وضعی قانون کی بہ نسبت اسلامی قانون میں زیادہ پابندیاں پائی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی قانون کی رو سے خود کش حملوں کے جواز یا عدم جواز کی بحث میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ خود کشی جائز ہے یا ناجائز ؟ تاہم جب اس قسم کے حملوں کے جواز یا عدم جواز پر اسلامی قانون کی رو سے بحث کی جاتی ہے تو یہ سوال بہت اہم ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کا حملہ ’’خود کشی ‘‘ہے یا نہیں کیونکہ اسلامی شریعت کی رو سے خودکشی ایک بہت بڑا گناہ ہے ؟ ‘‘ ( ۳۲) 
جن چار شرائط کا ڈاکٹر صاحب ذکر کررہے ہیں ان کے متعلق میں نے تصریح کی تھی کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے کسی بھی حملے کے جواز کے لیے یہ چار شرائط ہیں اور اگر یہ پوری کردی جائیں تو بین الاقوامی قانون حملے کو ناجائز نہیں ٹھہراتا خواہ اس حملے میں حملہ آور دوسروں کے علاوہ خود اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کردے کیونکہ بین الاقوامی قانون برائے آداب القتال خود کشی کو ناجائز نہیں ٹھہراتا ، نہ ہی اس طریق جنگ کو ناجائز ٹھہراتا ہے ۔( ۳۳) اس کے بعد میں نے وضاحت کی تھی کہ چونکہ بین الاقوامی معاہدات برائے آداب القتال کی پابندی اسلامی شریعت کی رو سے لازم ہے اس لیے ان شرائط کی پابندی اسلامی شریعت کی رو سے بھی ضروری ہے، ( ۳۴) یہاں تک کہ مقاتل کی حیثیت کے لیے جن شرائط کی پابندی بین الاقوامی قانون نے لازم ٹھہرائی ہے میں نے ان کے متعلق بھی واضح کیا تھا کہ ان کی پابندی شریعت کی رو سے بھی لازم ہے۔ ( ۳۵) اس کے بعد میں نے تصریح کی تھی کہ بین الاقوامی قانون کی ان شرائط کے علاوہ کچھ اضافی قیود اسلامی شریعت نے مزید عائد کی ہیں اور ان میں سب سے اہم قید خودکشی کی ممانعت ہے۔ ( ۳۶) پھر میں نے ان فقہی جزئیات کی صحیح تعبیر پیش کرنے کی کوشش کی تھی جن سے بعض لوگ خود کش حملوں کے جواز کے لیے استدلال کرتے ہیں ( ۳۷) اور اس ضمن میں اس سوال پر بھی میں نے بحث کی تھی کہ کیا اس قسم کے حملوں میں اپنی زندگی ختم کرنے والا حملہ آور شہید ہوگا یا اسے خود کشی کا مرتکب ٹھہرایا جائے گا ؟ (۳۸) یہاں میں نے فقہا کی یہ رائے بھی ذکر کی تھی کہ دشمن پر حملہ کرتے ہوئے غلطی سے خود کو زخمی کرنے والے پر بھی فقہا دنیوی امور میں شہادت کے شرعی احکام کا اطلاق نہیں کرتے ۔ ( ۳۹) پھر اس بحث کا خلاصہ میں نے یہ نکالا تھا کہ جب مجاہد دشمن کی صفوں میں گھس کر ان کو قتل اور زخمی کرنے لگتا ہے اور پھر دشمن کے حملے کے نتیجے میں وہ قتل ہوجاتا ہے تو درحقیقت اس کے قتل کا باعث دشمن کا فعل بنا ہے ۔ اس کے برعکس خود کش حملے میں حملہ آور کی موت کا باعث خود اس کا اپنافعل ہوتا ہے ۔ اس لیے اول الذکر صورت کو خود کشی نہیں کہا جاسکتا جبکہ ثانی الذکر صورت خودکشی کی ہے جو حرام ہے۔ ( ۴۰) آخر میں میں نے یہ وضاحت بھی کی تھی کہ خودکشی کی ممانعت کے حکم کو اضطرار کے قاعدے کی بنیاد پر بھی معطل نہیں کیا جا سکتا۔ (۴۱) 
ڈاکٹر فاروق صاحب کہتے ہیں : 
’’ خود کشی کسی صورت میں بھی جائز نہیں ۔ قرآن و حدیث نے اس معاملے میں کوئی استثنا بیان نہیں کیا اور عقل عام سے بھی اس ضمن میں کوئی استثنا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ ‘‘ ( ۴۲) 
سوال یہ ہے کہ جب میں نے صراحت کی تھی کہ اضطرار کی حالت میں بھی خود کشی کی ممانعت معطل نہیں ہوسکتی تو ڈاکٹر صاحب تنقید کس بات پر کر رہے ہیں ؟ مزید برآں ، ڈاکٹر صاحب کی توجہ شاید اس بات کی طرف نہیں گئی کہ میں نے چند اور بھی ایسے شرعی قواعد ذکر کیے ہیں جو خود کش حملوں کے ذریعے پامال ہوتے ہیں اور جن کو اضطرار کی حالت میں بھی معطل نہیں کیا جاسکتا ، جیسے غدر کی ممانعت ، مسلمان کے قتل عمد کی ممانعت اور شرعی طور پر محفوظ جان و مال کو پہنچائے گئے نقصان کی تلافی کا وجوب ۔ ( ۴۳) مضمون کے آخر میں ساری بحث کا خلاصہ میں نے ان الفاظ میں پیش کیا تھا : 
’’ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اگر اسلامی شریعت کے قواعد کی پابندی کرتے ہوئے حملہ کیا جائے تو وہ ’’ خود کش حملہ ‘‘ نہیں ہوگا ۔ پس اسلامی آداب القتال کی پابندی کرتے ہوئے خود کش حملوں کے جواز کے لیے کوئی راہ نہیں نکالی جاسکتی ۔ ‘‘ ( ۴۴) 

حواشی 

۱ ۔ ڈاکٹر محمد فاروق خان ، دہشت گردی : چند مضامین کا تنقیدی جائزہ ، ماہنامہ ’’الشریعۃ ‘‘گوجرانوالہ ، جنوری ۲۰۰۹ء ، ص ۴۶ 
۲ ۔ محمد مشتاق احمد ، آداب القتال : بین الاقوامی قانون اور اسلامی شریعت کے چند اہم مسائل ، ماہنامہ ’’الشریعۃ ‘‘گوجرانوالہ، نومبر ۔ دسمبر ۲۰۰۸ ء ، ص ۴۶ 
۳ ۔ دہشت گردی ، ص ۴۷ 
۴ ۔ آداب القتال ، ص ۲۵ 
۵ ۔ ایضاً ، ص ۳۷ 
۶ ۔ ایضاً ، ص ۴۶ 
۷ ۔ State Responsibility کے قواعد کی وضاحت کے لیے دیکھیے : 
Malcolm N. Shaw, International Law (Cambridge University Press, 2003), 694-752. 
۸۔ ICJ 1949 Rep 4 at 155
۹ ۔ ICJ 1986 Rep 14 at 64-65
۱۰ ۔ 38 ILM 1999, 1518 at 1541
۱۱ ۔ ICJ 1971 Rep 17 at 54
۱۲ ۔ 5 RIAA 516 at 530
۱۳ ۔ ۱۹۷۷ء کے پہلے اضافی پروٹوکول کی دفعات ۸۶ ۔ ۸۶ 
۱۴ ۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے منشور ۱۹۹۸ء کی دفعات ۲۵ ۔ ۲۸ 
۱۵ ۔ آداب القتال ، ص ۳۶ 
۱۶ ۔ دہشت گردی ، ص ۴۷ 
۱۷ ۔ ایضاً 
۱۸ ۔ آداب القتال ، ص ۴۹ ۔ ۵۶ 
۱۹ ۔ دہشت گردی ، ص ۴۷ 
۲۰ ۔ کئی احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے انتہائی بلیغ انداز میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش میں اگر کوئی شخص قتل کردیا گیا تو وہ شہید ہوگا : 
من أرید مالہ بدون حق فقاتل فقتل دون مالہ فھو شھید ۔ (سنن الترمذی ، کتاب الدیات ، باب ما جاء فیمن قتل دون مالہ فھو شھید ، حدیث رقم ۱۳۴۰)
[جس کا مال چھینا جارہا ہو اور وہ مزاحمت کرتے ہوئے قتل کیا گیا تو وہ شہید ہے ۔ ]
من قتل دون مالہ فھو شھید ، و من قتل دون دینہ فھو شھید ، و من قتل دون دمہ فھو شھید ، و من قتل دون أھلہ فھو شھید۔ ( ایضاً ، حدیث رقم ۱۳۴۱ ) 
[جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ،اور جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ، اور جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ،اور جو شخص اپنے خاندان کی حفاظت کرتے ہوئے قتل ہوا وہ شہید ہے ۔ ] 
۲۱ ۔ ۱۹۰۷ء کے چوتھے معاہدۂ ہیگ کی دفعہ ۲ 
۲۲ ۔ ۱۹۴۹ء کے تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۴ الف کی ذیلی شق ۶ 
۲۳ ۔ Levee en masse کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے : 
Inhabitants of a non-occupied territory, who on the approach of the enemy spontaneously take up arms to resist the invading forces, without having had time to form themselves into regular armed units. 
۲۴ ۔ تیسرے جنیوا معاہدے کی دفعہ ۴ الف کی ذیلی شق ۲ 
۲۵ ۔ پہلے اضافی پروٹوکول کی دفعہ ۱ ، ذیلی دفعہ ۳ 
۲۶ ۔ ایضاً ، دفعہ ۴۳ 
۲۷ ۔ ایضاً ، دفعہ ۴۴ 
۲۸ ۔ مثال کے طور پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی جانب سے دیوار کی تعمیر کے قانونی جواز کے خلاف عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے لیے دیکھیے: 
Advisory Opinion on the Legality of the Construction of a Wall in the Occupied Palestinian Territory, ICJ 2004 Rep
۲۹ ۔ برہان الدین المرغینانی ، الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی، (بیروت : دار الفکر ، تاریخ ندارد) ، کتاب السیر ، ج ۲ ، ص ۳۷۸ 
۳۰ ۔ ایضاً 
۳۱ ۔ دہشت گردی ، ص ۴۷ 
۳۲ ۔ آداب القتال ، ص ۳۹
۳۳ ۔ ایضاً ، ص ۳۲
۳۴ ۔ ایضاً ، ص ۵۶ ۔ ۵۷ 
۳۵ ۔ ایضاً ، ص ۴۳ ۔ ۴۹ 
۳۶ ۔ ایضاً ، ص ۵۸ 
۳۷ ۔ ایضاً ، ص ۵۸ ۔ ۵۹ 
۳۸ ۔ ایضاً 
۳۹ ۔ ایضاً ، ص ۵۹ ۔ ۶۰ 
۴۰ ۔ ایضاً 
۴۱ ۔ ایضاً ، ص ۶۸ 
۴۲ ۔ دہشت گردی ، ص ۴۷ 
۴۳ ۔ آداب القتال ، ص ۶۰ ۔ ۶۸ 
۴۴ ۔ ایضاً ، ص ۶۸ 

غامدی صاحب کے تصور ’سنت‘ پر اعتراضات کا جائزہ (۳)

سید منظور الحسن

سنت کے ثبوت کے بارے میں غامدی صاحب کے موقف پر فاضل ناقد نے بنیادی طور پر چار اعتراض کیے ہیں:ایک اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں، جبکہ ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کے نزدیک سنت کے ثبوت کا معیاراخبار آحاد نہیں،بلکہ تواترعملی ہے، حالاں کہ تواتر کا ثبوت بذات خوداخبار آحاد کا محتاج ہے۔ تیسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب نے سنت کی تعیین کے جو اصول قائم کیے ہیں ، بعض اطلاقات میں خود ان کی خلاف ورزی کی ہے۔ چوتھا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کا سنت کی اصطلاح کوامت میں رائج مفہوم و مصداق سے مختلف مفہوم و مصداق کے طور پر بیان کرنا درست نہیں ہے۔ ان اعتراضات کی تفصیل اور ان پر ہمارا تبصرہ درج ذیل ہے۔

معیار ثبوت کی بنا پر فرق

فاضل ناقد نے بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب معیار ثبوت میں فرق کی بنا پر حکم کی نوعیت اور اہمیت میں فرق کو تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ تواتر کے ذریعے سے ملنے والے احکام کو ایک درجہ دیتے ہیں اور آحاد کے ذریعے سے ملنے والے احکام کو دوسرادرجہ دیتے ہیں۔ یہ تفریق درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تواتر، دین کے نقل کا ذریعہ ہے اور ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے۔ صحابۂ کرام کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے والا ہر حکم دین تھا۔ بعد میں کسی حکم کو لوگوں نے تواتر سے نقل کیا اور کسی کو اخبار آحاد سے۔ ذریعے کو فیصلہ کن حیثیت دینے کا مطلب یہ ہے کہ اسے شارع پر مقدم مان لیا جائے ۔ بالفاظ دیگر غامدی صاحب نے تواتر کی شرط عائد کر کے لوگوں کو دین کے شارع کی حیثیت دے دی ہے۔ (فکرغامدی۵۹۔۶۰)
فاضل ناقد کی اس تقریر سے نہ صرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تواتر عملی کے حوالے سے غامدی صاحب کی بات کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں، بلکہ یہ تاثر بھی ہوتا ہے کہ انھوں نے یہ تقریر ان مسلمات سے صرف نظر کرتے ہوئے کی ہے جو انتقال علم کے ذرائع کے بارے میں بدیہیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غامدی صاحب کے نزدیک اجماع و تواتر کی شرط کا بنیادی مقدمہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے فریضۂ منصبی کے لحاظ سے اس پر مامور تھے کہ وہ اللہ کا دین پورے اہتمام، پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ اوربے کم و کاست لوگوں تک پہنچائیں۔ علماے امت بھی اس امر پر متفق ہیں کہ دین کومکمل اور بغیر کسی کمی یا زیادتی کے انسانوں تک پہنچانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منصبی ذمہ داری تھی۔ یہی مقدمہ ہے جس کی بنا پر اکابر اہل علم کے ہاں دو باتیں اصولی طور پر ہمیشہ مسلم رہی ہیں:
ایک کہ یہ دین کا اصل اور بنیادی حصہ، جس کا جاننا اور جس پر عمل پیرا ہونا تمام امت کے لیے واجب ہے، تواتر اور تعامل ہی سے نقل ہوا ہے ۔ چنانچہ کوئی ایسی چیزجو اس سے کم تر معیار پر ثابت ہو، اسے اصل دین کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔
دوسری یہ کہ اخبار آحاد میں مجمع علیہ سنت کے فروع اور جزئیات ہی ہو سکتے ہیں جن کے ثبوت میں بھی بحث ہو سکتی ہے، بلکہ فقہا کے مابین بکثرت ہوئی ہے، اور جن کا جاننا ہر مسلمان کے لیے لازم بھی نہیں ہے۔
ان دو مسلمات کے حوالے سے جلیل القدر علماکی آرا درج ذیل ہیں۔

۱۔اصل دین کااجماع اورتواتر سے منتقل ہونا

امام شافعی نے اجماع و تواتر سے ملنے والے دین کو’’علم عامۃ‘‘اور ’’اخبار العامۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ دین کا وہ حصہ ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عامۃ المسلمین نے نسل در نسل منتقل کیا ہے ۔ ہر شخص اس سے واقف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت کے بارے میں تمام مسلمان متفق ہیں۔ یہ قطعی ہے اور درجۂ یقین کو پہنچا ہوا ہے ۔نہ اس کے نقل کرنے میں غلطی کا کوئی امکان ہو سکتا ہے اور نہ اس کی تاویل و تفسیر میں کوئی غلط چیز داخل کی جا سکتی ہے۔ یہی دین ہے جس کی اتباع کے تمام لوگ مکلف ہیں:
’’امام شافعی کہتے ہیں : سائل نے مجھ سے سوال کیا کہ علم (دین)کیا ہے اور اس علم (دین)کے بارے میں لوگوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟میں نے اسے جواب دیا کہ علم کی دو قسمیں ہیں:پہلی قسم علم عام ہے۔ اس علم سے کوئی عاقل،کوئی بالغ بے خبر نہیں رہ سکتا۔ اس علم کی مثال پنج وقتہ نماز ہے ۔ اسی طرح اس کی مثا ل رمضان کے روزے ، اصحاب استطاعت پر بیت اللہ کے حج کی فرضیت اور اپنے اموال میں سے زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ زنا، قتل، چوری اور نشے کی حرمت بھی اسی کی مثال ہے۔ان چیزوں کے بارے میں لوگوں کو اس بات کا مکلف بنایا گیا ہے کہ وہ جو جاننے کی چیزیں ہیں، ان سے آگاہ ہوں، جن چیزوں پر عمل مقصود ہے، ان پر عمل کریں، جنھیں ادا کرنا پیش نظر ہے، ان میں اپنے جان و مال میں سے ادا کریں اورجو حرام ہیں، ان سے اجتناب کریں۔اس نوعیت کی چیزوں کا علم کتاب اللہ میں منصوص ہے اور مسلمانوں کے عوام میں شائع وذائع ہے۔ علم کی یہ وہ قسم ہے جسے ایک نسل کے لوگ گذشتہ نسل کے لوگوں سے حاصل کرتے اور اگلی نسل کو منتقل کرتے ہیں۔ مسلمان امت اس سارے عمل کی نسبت (بالاتفاق) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرتی ہے۔ اس کی روایت میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نسبت میں اور اس کے لزوم میں مسلمانوں کے مابین کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔یہ علم تمام مسلمانوں کی مشترک میراث ہے۔ نہ اس کے نقل میں غلطی کا کوئی امکان ہوتا ہے اور نہ اس کی تاویل اور تفسیر میں غلط بات داخل ہو سکتی ہے۔ چنانچہ اس میں اختلاف کرنے کی کوئی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔‘‘ (الرسالہ۳۵۷۔۳۵۹) 
ابن عبدالبر نے اجماع اور تواتر سے ملنے والی سنت کو ’نقل الکافۃ عن الکافۃ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے اور اسے درجۂ یقین پر ثابت تسلیم کیا ہے۔انھوں نے اس کے انکار کو اللہ کے نصوص کے انکار کے مترادف قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کے نزدیک اس کا مرتکب اگر توبہ نہ کرے تو اس کا قتل جائز ہے:
’’سنت کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جسے تمام لوگ نسل در نسل آگے منتقل کرتے ہیں ۔ اس طریقے سے منتقل ہونے والی چیزکی حیثیت جس میں کوئی اختلاف نہ ہو، قاطع عذر حجت کی ہے۔ چنانچہ جو شخص ان (ناقلین) کے اجماع کو تسلیم نہیں کرتا، وہ اللہ کے نصوص میں سے ایک نص کا انکار کرتا ہے۔ ایسے شخص پر توبہ کرنا لازم ہے اور اگر وہ توبہ نہیں کرتا تو اس کا خون جائز ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے عادل مسلمانوں کے اجماعی موقف سے انحراف کیا ہے اور ان کے اجماعی طریقے سے الگ راہ اختیار کی ہے۔ سنت کی دوسری قسم وہ ہے جسے ’’آحاد راویوں‘‘ میں سے ثابت، ثقہ اور عادل لوگ منتقل کرتے ہیں اورجس کی روایت میں اتصال پایا جاتا ہے۔‘‘ (جامع بیان العلم وفضلہ۲/۴۱۔۴۲)
امام سرخسی نے عمومی معاملات میں کسی چیز کے مشروع ہونے کے لیے اس کے مشہور اور معلوم و معروف ہونے کو ضروری قرار دیا ہے۔ انھوں نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے اس پر مامور تھے کہ لوگوں کے لیے دین کے احکام کو واضح کریں ۔آپ نے اپنے صحابہ کو انھیں اگلی نسلوں کو منتقل کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اگر ان میں سے کوئی چیز کثرت اور شہرت کے ساتھ منتقل نہیں ہوئی، بلکہ خبر واحد کے طریقے پر منتقل ہوئی ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امت کے لیے اسے مشروع نہیں کیا۔ ’اصول السرخسی‘ میں لکھتے ہیں:
’’شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ لوگوں کے لیے حاجت طلب احکام کو واضح فرمائیں۔ چنانچہ آپ نے انھیں حکم فرمایا کہ بعد میں آنے والوں کے لیے ان ضروری مسائل کو منتقل کریں۔ اگر کوئی ایسا معاملہ ہوتا کہ تمام لوگ اس میں مبتلا ہوتے تو ، ظاہر ہے کہ، شارع (علیہ السلام) نے تمام لوگوں کے لیے اس کے بیان اور تعلیم کو نہیں چھوڑا ہے۔ اور انھوں نے آپ سے استفادہ کے بعد اس کو نقل کیے بغیر نہیں چھوڑا۔ اگر ان کی طرف یہ روایت مشہور نہیں ہوئی تو ہمیں معلوم ہے کہ یہ سہو ہے یا حکم منسوخ ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ جب متاخرین نے اس حکم کو نقل کیاہے تو ان کے درمیان یہ مشہور ہو گیا۔ اگر متقدمین میں بھی یہ ثابت ہوتا تو مشہور ہو جاتا۔ اورباوجود اس کے کہ عامۃ الناس کو اس کی معرفت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اس کو منفرد (تنہا) ہو کر روایت نہ کرتے۔‘‘ (۱/۳۷۸)
علامہ آمدی نے قرآن مجید کے خبر واحد سے ثابت ہونے کو اسی بنا پر ممتنع قرار دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ واجب تھا کہ آپ اسے قطعی ذریعے یعنی تواتر سے لوگوں تک پہنچائیں۔ نماز اور نکاح و طلاق جیسے مسائل جنھیں آپ لوگوں تک قطعی طور پر پہنچانے کے مکلف تھے، انھیں بھی آپ نے خبر واحد کے ذریعے سے نہیں، بلکہ تواتر ہی کے ذریعے سے لوگوں تک پہنچایا۔ ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جہاں تک قرآن مجید کا تعلق ہے تو اس کا اثبات خبر واحد کے ذریعے سے ممتنع ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ عموم بلویٰ مسائل میں سے ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں معجز ہے اور اس کی معرفت کا طریق دلیل قطعی پر موقوف ہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس کی اشاعت اور حد تواتر تک لوگوں تک پہنچانا واجب تھا۔... قرآن مجید کے علاوہ جن چیزوں کی اشاعت ہوئی اور جن میں خاص و عام سب شریک ہیں، ان میں عبادت پنجگانہ، بیع، نکاح، طلاق اور عتاق جیسے معاملات کے اصول و قواعد شامل ہیں۔ ان کے علاوہ وہ احکام بھی ان میں شامل ہیں جن کی اشاعت نہ کرنا جائز ہے۔ ان کا اثبات یا اجماعی حکم کے ذریعے سے ہے یا اس وجہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کی اشاعت کرتے رہے ہیں۔‘‘ (۲/۱۶۴)
خطیب بغدادی نے ’’الکفایہ‘‘ میں بیان کیا ہے کہ دین کے وہ امور جن کا علم قطعی ذرائع سے حاصل ہوا ہے، ان کے بارے میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی خبر کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی نہیں ہے تو اسے کسی ایسی بات پر جس کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعی ہے، فائق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:
’’مکلفین پر قطعیت اور علم سے حاصل شدہ دین کے کسی مسئلہ میں خبر واحد کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس کی علت یہ ہے کہ جب پتا نہ چلے کہ وہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے تو وہ اپنے مضمون کی وجہ سے بعید از قیاس ہوگی، سوائے ان احکام کے جن کا جاننا واجب نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی توثیق فرما دی اور ان کے بارے میں اللہ عزوجل سے خبر لائے تو ان میں خبر واحد مقبول ہوگی اور اس پر عمل کرنا واجب ہے اور اس میں جو کچھ بھی بطور شرع وارد ہو، تمام مکلفین کے لیے اس پر عمل کرناواجب ہے۔ یہ اسی طرح ہے، جس طرح حدود، کفارات، رمضان و شوال کے چاند دیکھنے، طلاق، غلام آزاد کرنے، حج، زکوٰۃ، وراثت، بیوع، طہارت، نماز اور ممنوعہ چیزوں کے حرام کرنے کے احکام میں وارد ہوا ہے۔‘‘ (۱/۴۳۲)
صاحب ’’احکام القرآن‘‘ اور فقہ حنفی کے جلیل القدر عالم ابو بکر جصاص نے قراء ت خلف الامام کی صحیح روایات کے باوجود اسے اس لیے قبول نہیں کیا کہ اس حکم کے بارے میں صحابہ کا اجماع نہیں ہے۔ اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک اجماع سے ملنے والے حکم کو خبر واحد سے ملنے والے علم پر فوقیت حاصل ہے:
’’...یہ بات اس روایت پر دلالت کرتی ہے جو امام کے پیچھے قراء ت کرنے کی نہی اور قراء ت کرنے والے کے رد کے بارے میں آئی ہے۔ اگریہ حکم عام ہوتا تو عمومی حاجت کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے آپ کا حکم مخفی نہ رہتا اور شارع علیہ السلام کی طرف سے اجتماعی حکم ہوتا اور صحابۂ کرام اس کو اسی طرح جانتے، جس طرح نماز میں قراء ت کو جانتے تھے، کیونکہ جس طرح اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے اور امام کے لیے نماز میں قراء ت کی معرفت ضروری ہے، اسی طرح امام کے پیچھے بھی قراء ت کی معرفت ضروری ہوتی۔ جب اکابر صحابۂ کرام سے امام کے پیچھے قراء ت کرنے کا انکار مروی ہے تو ثابت ہو گیا کہ یہ ناجائز ہے۔ جن حضرات نے قراء ت خلف الامام سے منع کیا ہے، ان میں سے حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت سعد، حضرت جابر، حضرت ابن عباس، حضرت ابوالدرداء، حضرت ابو سعید، حضرت ابن عمر، حضرت زید بن ثابت اور حضرت انس رضی اللہ عنہم شامل ہیں... اگر یہ ان فرائض میں سے ہوتی جن کی حاجت عموماً پڑتی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ان کے لیے واجب قرار دیتے۔ جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ صحابۂ کرام نے اس سے منع کیا ہے تو یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپ کی طرف سے تمام لوگوں کے لیے حکم نہیں تھا اور ثابت ہو گیا کہ یہ (قراء ت خلف الامام) واجب نہیں ہے۔ اس سے پہلے جو ہم نے ذکر کیا کہ اس مسئلے میں اکثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تمام لوگوں کے لیے حکم نہیں ہے، اس بارے میں اس کو واجب قرار دینے والے کا قول باعث طعن نہیں ہے۔ بعض اس کی قراء ت کو تاویل یا قیاس کے ذریعے سے واجب قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اس طرح کے حکم کے اثبات کے لیے ’کافہ‘ اور ’نقل امت کا طریق اختیار کیا جاتاہے۔‘‘ (جصاص، احکام القرآن ۳/۴۲۔۴۳) 
بعض روایتوں میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات صرف فقرا اور نادار اور معذور لوگوں کے لیے ہی جائز ہیں۔ کھانے پر قدرت رکھنے والے تندرست لوگوں کو انھیں دینا جائز نہیں ہے۔ اس بنا پر بعض اہل علم تندرست لوگوں کو زکوٰۃ دینے کی حرمت کے قائل ہیں۔ امام ابوبکر جصاص نے اس موقف کی تردید اس اصول پر کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج کے زمانے تک یہ بات عملی تواتر سے منتقل ہوئی ہے کہ زکوٰۃ و صدقات معذور یا تندرست کی تخصیص کے بغیر دیے جاتے ہیں: 
’’جو صدقات اور اموال زکوٰۃ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیے جاتے انھیں، مہاجرین و انصار اور اصحاب صفہ میں تقسیم کر دیا جاتا۔ باوجود اس کے کہ وہ کمانے پر قادر بھی تھے اور تندرست بھی تھے۔ اس سے واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تندرست لوگوں کو چھوڑ کر معذور لوگوں کے ساتھ مخصوص نہیں فرمایا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر آج تک تمام لوگوں کا یہی طریقہ ہے کہ وہ ضعیف اور تندرست فقیروں کو یکساں طور پر زکوٰۃ اور صدقات دیتے ہیں۔ اس میں وہ معذور اور تندرست میں فرق نہیں کرتے۔ اگر زکوٰۃ و صدقات تندرست فقرا پر حرام اور ناجائز ہوتے تو اس معاملے کی نوعیت عمومی اور روزمرہ کی ہونے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس کا حکم سب کے لییصادر ہوتا۔ جب قادر اور کمانے والے حاجت مند فقرا کو صدقات دینے کی نہی کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حکم عام نہیں ہے تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ تندرست اور معذور فقرا کو یکساں طور پر صدقات و زکوٰۃ دینا جائز ہے۔‘‘ (احکام القرآن ۳/۱۳۱) 
بعض روایتوں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صبح کے وقت قنوت پڑھنے کا ذکر ہے ۔ کیا ان روایتوں کی بنا پر اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول بہ عمل کے طور پر قبول کرنا چاہیے۔ اس مسئلے کے بارے میں ابن قیم نے بیان کیا ہے کہ اگر یہ عمل فی الواقع آپ کا معمول ہوتا اور آپ اسے امت میں جاری کرنا چاہتے تو آپ صحابہ کو اس کا امین بناتے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی کام آپ نے جاری فرمایا ہو اور پھر امت نے اسے ختم کر دیا ہو:
’’یہ بات یقیناًمعلوم ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر صبح قنوت پڑھتے، اور دعا میں بھی اس کو دہراتے اور صحابۂ کرام کو اس کا امین بناتے تھے تو امت اسے اسی طرح نقل کرتی، جس طرح اس نے صبح کی نماز کی جہری قراء ت کو، اس کی رکعات کو اور اس کے وقت کو نقل کیا ہے۔‘‘ (زاد المعاد ۹۵۔ ۹۶) 

۲۔اخبار آحادمیں دین کے فروعات

امام شافعی نے اخبار آحاد کے طریقے پر ملنے والے دین کو ’’اخبار الخاصۃ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ یہ علم دین کا وہ حصہ ہے جو فرائض کے فروعات سے متعلق ہے ۔ ہر شخص اسے جاننے اور اس پر عمل کرنے کا مکلف نہیں ہے۔ لکھتے ہیں:
’’دوسری قسم اس علم پر مشتمل ہے جو ان چیزوں سے متعلق ہے جو مسلمانوں کو فرائض کے فروعات میں پیش آتے ہیں یا وہ چیزیں جو احکام اور دیگر دینی چیزوں کی تخصیص کرتی ہیں۔ یہ ایسے امور ہوتے ہیں جن میں قرآن کی کوئی نص موجود نہیں ہوتی اور اس کے اکثر حصہ کے بارے میں کوئی منصوص قول رسول بھی نہیں ہوتا، اگر کوئی ایسا قول رسول ہو بھی تو وہ اخبار خاصہ کی قبیل کا ہوتا ہے نہ کہ اخبار عامہ کی طرح کا۔ جو چیز اس طرح کی ہوتی ہے، وہ تاویل بھی قبول کرتی ہے اور قیاساً بھی معلوم کی جا سکتی ہے۔سائل نے سوال کیا کہ پہلی قسم کے علم کی طرح کیا اس علم کو جاننا بھی فرض نہیں ہے؟ یاپھر اگراس کا جاننا فرض نہیں ہے توکیا اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس علم کا حصول ایک نفلی عمل ہے اور جو اسے اختیار نہیں کرتا ،وہ گناہ گار نہیں ہے؟ یا کوئی تیسری بات ہے جو آپ کسی خبر یا قیاس کی بنیاد پر واضح کرنا چاہیں گے؟میں نے کہا: ہاں، اس کا ایک تیسرا پہلو ہے۔اس نے کہا: اگر ایسا ہے تو پھر اس کے بارے میں بیان کیجیے اور اس کے ساتھ اس کی دلیل بھی واضح کیجیے کہ اس کے کون سے حصے کو جاننا لازم ہے اور کس پر لازم ہے اور کس پر لازم نہیں ہے؟میں نے بیان کیا کہ یہ علم کی وہ قسم ہے جس تک عامۃ الناس رسائی حاصل نہیں کر پاتے۔ تمام خواص بھی اس کے مکلف نہیں ہیں، تاہم جب خاصہ میں سے کچھ لوگ اس کا اہتمام کرلیں (تو کافی ہے البتہ) خاصہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تمام کے تمام اس سے الگ ہو جائیں۔چنانچہ جب خواص میں سے بقدر کفایت لوگ اس کا التزام کرلیں تو باقی پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اس کا التزام نہ کریں۔ البتہ التزام نہ کرنے والوں پر التزام کرنے والوں کی فضیلت، بہرحال قائم رہے گی ۔‘‘ (الرسالہ۳۵۹۔۳۶۰) 
امام شافعی نے ’’کتاب الام‘‘ میں بھی اطلاقی پہلو سے اسی بات کو بیان کیا ہے:
’’ اور یہ جاننے کے لیے کہ خاص سنن( یعنی احادیث) کا علم تو صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہے جس کے لیے اللہ عزوجل اپنے علم کے دروازے کھول دے نہ کہ وہ نماز اور دیگر تمام فرائض کی طرح مشہور ہے جن کے تمام لوگ مکلف ہیں۔‘‘ (۱/۱۶۷)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل علم کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ منصبی ذمہ داری تھی کہ اصل اور اساسی دین آپ کے ذریعے سے بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ امت کو منتقل ہو۔ لہٰذا آپ نے اصل اوراساسی دین سے متعلق تمام امور کوصحابہ کو منتقل کیا اور اپنی براہ راست رہنمائی میں اس طرح رائج اور جاری و ساری کر دیا کہ اسے اجتماعی تعامل کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آپ کے اس اہتمام کے بعد ان امور کا تعامل اورعملی تواتر سے نسل در نسل منتقل ہوتے چلے آنا لازم اور بدیہی امر تھا ۔لہٰذا ایسا ہی ہوا اور اصل اور اساسی دین کسی تغیر و تبدل اور کسی سہو و خطاکے بغیر نسلاً بعد نسلٍ امت کو منتقل ہوتا چلا گیا ۔ اصل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین کو بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ منتقل کرنے کا مکلف ہونااس بات کو لازم کرتا ہے کہ اصل اور اساسی دین کوانتقال علم کے قطعی ذریعے اجماع و تواتر پر منحصر قرار دیا جائے۔اگر اسے اخبار آحاد پر منحصر مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے انسانوں تک دین پہنچانے کی ذمہ داری کو نعوذ باللہ لوگوں کے انفرادی فیصلے پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ چاہیں تو اسے آگے پہنچائیں اور چاہیں تو نہ پہنچائیں اور یاد رہے تو پوری بات بیان کر دیں، بھول جائیں تو ادھوری ہی پر اکتفا کر لیں۔ یہ ماننا ظاہر ہے کہ’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ‘ اور’مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘ کے نصوص کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماے امت بجا طور پریہ تسلیم کرتے ہیں کہ اصل دین تواتر اور تعامل ہی سے نقل ہوا ہے اورخبار آحاد میں متواتر اور مجمع علیہ دین کے جزئیات اور فروعات ہی پائے جاتے ہیں۔اس بناپر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فاضل ناقد اگر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین کو پورے اہتمام،پوری حفاظت اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچانے کے مکلف تھے تو انھیں لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہو سکتی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دینی امر کے طور پر صحابہ میں عملاً جاری کی ہو اور وہ بعد میں اخبار آحاد پر منحصر رہ گئی ہو۔ 
جہاں تک فاضل ناقد کی اس بات کا تعلق ہے کہ تواتر، دین کے نقل کا ذریعہ ہے اور ذریعے کی بنیاد پر کسی چیز کے دین ہونے یا نہ ہونے میں فرق کرنا درست نہیں ہے تو اس میں توکوئی شبہ نہیں ہے کہ دین منتقل کرنے کا ذریعہ بذات خود دین نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ یہ ذریعہ ہی ہے جس کے قوی یا ضعیف ہونے کی بنا پر کسی چیز کے دین ہونے یا دین نہ ہونے کا فیصلہ ہوتا ہے۔دین کے ذرائع کی اہمیت اس قدرہے کہ خود خدا نے ایک جانب ان کی حفاظت کا غیر معمولی اہتمام کیا ہے اور دوسری جانب ان ذرائع پر اعتماد کو ایمان کا جزو لازم قرار دیا ہے۔ان میں سے ایک ذریعہ اللہ کے مقرب فرشتے جبریل علیہ السلام ہیں جنھیں قرآن نے صاحب قوت، مطاع اور امین اسی لیے کہا ہے کہ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کی بنا پر اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ کوئی دوسری قوت یا ارواح خبیثہ انھیں کسی بھی درجے میں متاثر یا مرعوب کر سکیں یا خیانت پر آمادہ کر لیں یا خود ان سے اس وحی میں کوئی اختلاط یا فروگزاشت ہو جائے۔ اس طرح کی تمام کمزوریوں سے اللہ تعالیٰ نے انھیں محفوظ کر رکھا ہے۔ محدثین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ہونے والی روایتوں کو جب مختلف اقسام میں تقسیم کیا تو اصل میں ذریعے ہی کو بنیا د بنا کر تقسیم کیا۔ جس روایت میں انھیں یہ ذریعہ زیادہ قوی محسوس ہوا، اسے انھوں نے خبر متواتر قرار دیا۔ ذریعے ہی کے قوی ہونے کی بنا پر روایات کو صحیح اور حسن قرار دے کر مقبول اور لائق حجت قرار دیا گیا اور ذریعے ہی کے ضعف کی بنا پر انھیں ضعیف،معلق، مرسل، معضل،منقطع، مدلس،موضوع، متروک، منکر، معلل کہہ کر مردود قرار دیا گیا۔
ذریعے کی صحت اور عدم صحت اور قوت اور ضعف کی بنا پر کسی چیز کو دین ماننے یا نہ ماننے کا فیصلہ اگر اخبار آحاد کے ذخیرے میں کرناسراسر درست ہے تو دین کے پورے ذخیرے میں اس بنا پر فیصلہ کرنا کیسے غلط ہو سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انتقال علم کا ذریعہ ہی اصل میں یہ فیصلہ کرتا ہے کہ باعتبار نسبت کون سی بات قطعی ہے اور کون سی ظنی ہے۔ تعجب ہے کہ یہ بات بیان کرتے ہوئے فاضل ناقد نے اس حقیقت واقعہ کو کیسے نظر انداز کر دیا کہ اصل دین کا قطعی الثبوت ہونا ہی اسلام کا باقی مذاہب سے بنیادی امتیاز ہے، ورنہ اگر دین کے اصل اور اساسی احکام بھی اس طرح دیے گئے ہیں کہ ان کے ثبوت میں اختلاف اور بحث ونزاع کی گنجایش ہے تو پھر دوسرے مذاہب اور اسلام میں استناد کے لحاظ سے کوئی فرق ہی باقی نہیں رہتا۔ 
یہاں یہ واضح رہے کہ جب کوئی صاحب علم خبر واحد کے مقابلے میں قولی و عملی تواتر کو ترجیح دیتا ہے یا اخبار آحاد پر تواتر عملی کی برتری کا اظہار کرتا ہے یا قرآن کی کسی آیت کے مقابلے میں خبر واحد کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے یا مسلمات عقل و فطرت کی بنا پر کسی روایت کے بارے میں توقف کا فیصلہ کرتا ہے تو یہ کوتاہ فہمی ہے کہ اس کے بارے میں یہ حکم لگایا جائے کہ اس نے نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا انکارکرنے کی جسارت کی ہے۔ اس کی اس ترجیح، اس انکار، اس تردید اور اس توقف کے معنی صرف اور صرف یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اس خبر واحد کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت کی صحت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔مزید براں اہل علم کے نزدیک کوئی روایت اگر سند کے اعتبار سے صحیح کے معیار پر پوری اترتی ہے تو اس کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ وہ فی الواقع حدیث رسول ہے۔ اس کے معنی صرف اور صرف یہ ہیں کہ اس روایت کو حدیث رسول کے طور پر ظن غالب کی حیثیت سے قبول کرنے کی اہم شرائط میں سے ابتدائی شرط پوری ہو گئی ہے ۔ اس کے بعد انھیں یہ دیکھنا ہے کہ وہ روایت قرآن وسنت کے خلاف تو نہیں ہے، عقل و فطرت کے مسلمات سے متصادم تو نہیں ہے۔ اس زاویے سے روایت کو پرکھنے کے بعد فہم حدیث کے حوالے سے وہ یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ روایت کا مفہوم عربی زبان کے نظائر کی بنا پر اخذ کیا جائے، اسے قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے، اس کا مدعا و مصداق موقع و محل کے تناظر میں متعین کیا جائے اور موضوع سے متعلق دوسری روایتوں کو بھی زیرغور لایا جائے۔ یہ اور اس نوعیت کے دیگر پہلووں کا لحاظ کیے بغیر جلیل القدر اہل علم کسی روایت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کر دینے کو صحیح نہیں سمجھتے اور ان تمام پہلووں سے اطمینان حاصل کر لینے کے بعد بھی اسے علم قطعی کے دائرے میں نہیں، بلکہ علم ظنی ہی کے دائرے میں رکھتے ہیں۔ اہل علم یہ التزام اس لیے کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کسی مشتبہ بات کی روایت دنیا اور آخرت، دونوں میں نہایت سنگین نتائج کا باعث بن سکتی ہے۔ تاہم، یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ ان تمام مراحل سے گزر کر یا گزرے بغیر اگر کوئی شخص کسی خبر واحد کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت پر مطمئن ہو جاتاہے تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اسے دین کی حیثیت سے قبول کرے۔ اس کے بعد اس سے انحراف ایمان کے خلاف ہے۔چنانچہ جناب جاوید احمد غامدی نے بیان کیا ہے:
’’...(اخبار آحاد) قرآن و سنت میں محصور اِسی دین کی تفہیم و تبیین اور اِس پرعمل کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کابیان ہیں۔ حدیث کا دائرہ یہی ہے۔ چنانچہ دین کی حیثیت سے اِس دائرے سے باہر کی کوئی چیز نہ حدیث ہو سکتی ہے اور نہ محض حدیث کی بنیاد پر اُسے قبو ل کیا جا سکتا ہے۔ 
اِس دائرے کے اندر ، البتہ اِس کی حجت ہر اُس شخص پر قائم ہو جاتی ہے جو اِس کی صحت پر مطمئن ہو جانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل یا تقریر و تصویب کی حیثیت سے اِسے قبول کر لیتا ہے ۔ اِس سے انحراف پھر اُس کے لیے جائز نہیں رہتا ، بلکہ ضروری ہو جاتا ہے کہ آپ کا کوئی حکم یا فیصلہ اگر اِس میں بیان کیا گیا ہے تو اُس کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔‘‘ (میزان۱۵)
جہاں تک فاضل ناقد کی اس بات کا تعلق ہے کہ غامدی صاحب نے تواتر کی شرط عائد کر کے لوگوں کو دین کے شارع کی حیثیت دے دی ہے تو ہماری درج بالا وضاحت کے بعد فاضل ناقد امید ہے کہ اس سادہ حقیقت پر مطلع ہو گئے ہوں گے کہ تواتر فقط دین کے انتقال کا ایک ذریعہ ہے اور اسے بطور ذریعہ قبول کرنے کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ اسے شارع کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے یا اسے دین پر حاکم مان لیا گیا ہے، تاہم اگر فاضل ناقد کے نزدیک اصول یہ ہے کہ دین کے انتقال کے ذریعے کو تسلیم کرنا اس ذریعے کو شارع کی حیثیت دینے کے مترادف ہے تو پھر خود فاضل ناقد کا اپنا موقف بھی اس اصول کی زد میں آتا ہے اور لوگوں کو شارع قرار دینے کا جو الزام انھوں نے غامدی صاحب پر عائد کیا ہے، اس کے ملزم وہ خود بھی قرار پاتے ہیں۔ تفہیم مدعا کے لیے فاضل ناقد کا مندرجہ بالا پیرا گراف مکرر طور پر درج ذیل ہے ۔ ہم نے اس میں فاضل ناقد او ر ان کے معیار ثبوت کے بارے میں موقف کے حوالے سے فقط یہ ترمیم کی ہے کہ ’’غامدی صاحب‘‘ کے الفاظ کو ’’زبیر صاحب‘‘ کے الفاظ سے اور ’’تواتر عملی‘‘ کے الفاظ کو’’اخبار آحاد‘‘ کے الفاظ سے تبدیل کر دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں فاضل ناقد کے مذکورہ اصول کا ان کے اپنے موقف پر انطباق، خود انھی کے اسلوب بیان میں واضح ہوگیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمل جو کہ تواتر عملی سے ہم تک پہنچاہو، سنت ہے، اور سنت دین ہے، گویا کہ ان کے نزدیک تواتر عملی سے ایک عمل دین بن جاتا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسراعمل جو تواتر عملی سے منقول نہ ہو بلکہ خبر واحد سے مروی ہو،وہ دین نہیں ہے۔ غامدی صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی عمل کے دین بننے میں اصل حیثیت تواتر عملی کی ہے۔گویایہ تواتر عملی ہی ہے جو کہ آپ کے کسی عمل کو دین بنا دیتا ہے اور کسی دوسرے عمل کو دین نہیں بناتا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب آپؐ کے کسی عمل کے دین بننے کے لیے اصل معیار تواتر عملی ٹھہرا تو معاذ اللہ تواتر عملی کی حیثیت آپؐ سے بڑھ کر ہو گئی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اعمال کو دین بنا دیتا ہے اور بعض کو دین نہیں بناتا، نتیجتاً اصل شارع تولوگ ہوئے ،نہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عمل کو لوگوں نے تواتر سے نقل کر دیا وہ دین بن گیا اور جس عمل کو تواتر سے نقل نہ کیا وہ دین نہ بن سکا،یعنی اصل حیثیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت لوگوں کے آپؐ کے اعمال پر عمل کی ہے ۔آپؐ کے جس عمل پر لوگوں نے تواتر سے عمل کیا ہے، وہ دین ہے اور جس پر تواترسے عمل نہیں کیا، وہ دین نہیں ہے۔‘‘
’’زبیر صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ قول و فعل جو اخبار آحاد سے ہم تک پہنچاہو، وہ سنت ہے، اور سنت دین ہے، گویا کہ ان کے نزدیک اخبار آحاد سے ایک عمل دین بن جاتا ہے اوراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دوسراعمل جو اخبار آحاد سے منقول نہ ہو بلکہ تواتر عملی سے منقول ہو،وہ دین نہیں ہے۔ زبیر صاحب کے نزدیک اللہ کے رسول صلی اللہعلیہ وسلم کے کسی عمل کے دین بننے میں اصل حیثیت اخبار آحاد کی ہے۔گویایہ اخبار آحاد ہی ہیں جو کہ آپ کے کسی عمل کو دین بنا دیتے ہیں اور کسی دوسرے عمل کو دین نہیں بناتے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب آپؐ کے کسی عمل کے دین بننے کے لیے اصل معیار اخبار آحاد ٹھہرے تو معاذ اللہ اخبار آحاد کی حیثیت آپؐ سے بڑھ کر ہو گئی جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اعمال کو دین بنا دیتے ہیں اور بعض کو دین نہیں بناتے۔ نتیجتاً اصل شارع توراوی ہوئے، نہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عمل کو راویوں نے اخبار آحاد سے نقل کر دیا، وہ دین بن گیا اور جس عمل کو اخبار آحاد سے نقل نہ کیا، وہ دین نہ بن سکا،یعنی اصل حیثیت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی نہیں ہے بلکہ اصل حیثیت لوگوں کے آپؐ کے اعمال کی خبر کی ہے ۔آپؐ کے جس عمل کو آحاد راویوں نے نقل کیا ہے، وہ دین ہے اور جس کو نقل نہیں کیا، وہ دین نہیں ہے۔‘‘

تواتر اور خبر واحد

فاضل ناقد نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ غامدی صاحب سنت کے ثبوت کا معیار تواتر عملی کو قرار دیتے ہیں، جبکہ تواتر کا ثبوت بذات خود خبر کا محتاج ہے۔ امت کی صدیوں پر محیط تاریخ میں کسی عمل پر تواتر سے تعامل کی حقیقت کو جاننے کا واحد ذریعہ خبر ہے۔ اگر مجرد طور پر تواتر عملی ہی کو ذریعۂ انتقال مان لیا جائے تودینی اعمال اور بدعات میں تفریق کرنی مشکل ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دین کے اصل اعمال نسل در نسل تواتر عملی سے منتقل ہوئے ہیں، اسی طرح بدعات بھی دینی اعمال کی حیثیت سے نسلاً بعد نسلٍ تواتر عملی ہی سے منتقل ہوئی ہیں۔ چنانچہ دینی اعمال کو بدعات سے ممیز کرنے کے لیے لازماً اخبار کے ذخیرے ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ (فکر غامدی ۶۱)
ہمارے نزدیک فاضل ناقد کی یہ بات بالکل سطحی ہے اور انتقال علم کے ذرائع سے ناواقفیت پر مبنی ہے۔ ماضی کا تواتر اپنے ثبوت کے لیے تاریخی ریکارڈ کا محتاج ہوتا ہے نہ کہ حدثنا واخبرنا کے ساتھ کسی کتاب میں لکھی ہوئی خبر واحد کا۔ تاریخی ریکارڈ سے مراد کتب حدیث میں مدون روایات کے علاوہ ہر دور کے علما وفقہا کی تصنیفات، تاریخ وادب کی کتب اور مختلف دینی علوم وفنون کے مباحث میں محفوظ وہ ذخیرہ ہے جو پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتا ہے کہ کون سی چیز متواتر ہے اور کون سی متواتر نہیں ہے،کون سا عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہے اور کون سا بعد کی پیداوار ہے، کس بات پر علماے امت متفق رہے ہیں اور کس پر ان کے مابین اختلاف ہوا ہے۔
تواتر کے ذریعے سے کیسے دین منتقل ہوا ہے ، اہل علم نے مختلف مسائل کے حوالے سے اسے جا بجا واضح کیا ہے۔امام شافعی کی درج ذیل عبارت سے واضح ہے کہ وہ عموم بلویٰ کی نوعیت کے احکام میں تواتر و تعامل ہی کو اصل معیار ثبوت کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ تدفین کے احکام ان کے نزدیک ہمیں خبر سے معلوم نہیں ہوئے، بلکہ عامہ کی عامہ کو روایت ہی کے ذریعے سے معلوم ہوئے ہیں:
’’مردوں کے احکام اور ان کو قبر میں داخل کرنے کے احکام ہمارے ہاں کثرت اموات، ائمہ اور ثقہ لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے مشہور ہیں۔ یہ ان احکام میں سے ہیں جن کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری نہیں ہے۔ ان کے بارے میں گفتگو کرنا ایسے ہی ہے، جیسے لوگوں کو اس بات کا مکلف کرنا کہ وہ اس کی معرفت حاصل کریں، حالاں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، مہاجرین اور انصار کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔ عامہ عامہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اس بات میں اختلاف نہیں کرتے تھے کہ میت کو سرہانے کی طرف سے پکڑ کر کھینچ لیا جائے، پھر کوئی شخص کسی دوسرے شہر سے آکر ہمیں سکھاتا ہے کہ میت کو قبر میں کیسے داخل کریں۔‘‘ (الام ۱/۳۰۰۔۳۰۱) 
دین کے ایک اہم رکن نماز جمعہ کے بارے میں شاہ ولی اللہ نے یہ تصریح کی ہے کہ اس کے لیے جماعت اور شہریت کا شرط لازم ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لفظاً منقول نہیں ہے۔ امت نے یہ بات آپ کے عمل سے براہ راست اخذ کی ہے:
’’امت کو یہ بات معناً پہنچی ہے نہ کہ لفظاً کہ نماز جمعہ میں جماعت اور شہریت شرط ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کے خلفا رضی اللہ عنہم اور ائمۂ مجتہدین رحمہم اللہ تعالیٰ شہروں میں جمعہ کراتے تھے اور اس بنا پر دیہاتیوں کا مواخذہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنے عہد میں کسی دیہات میں اس کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جمعہ کے لیے جماعت اور شہریت شرط ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغہ۲/۵۴)
علامہ انور شاہ کشمیری نے اسی پہلو کو ایک دوسرے زاویے سے بیان کیا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی حکم عملی طور پر ثابت ہو اور اس کا مصداق پوری طرح واضح ہو تو اسی کو سنت ثابتہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ رفع یدین کی مثال سے انھوں نے واضح کیا ہے کہ قیام میں رفع یدین کے وجوب یا عدم وجوب کا انحصار اسناد پر نہیں، بلکہ تعامل پر ہے۔ لکھتے ہیں:
’’جس حکم کا مصداق کثرت عمل کے باوجود خارج میں معلوم نہ ہو، وہ محض تعبیری وہم ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے برعکس جب کسی حکم میں عمل خارج میں ثابت ہو اور اس کا مصداق واضح ہو تو وہ سنت ثابتہ ہے، اس کا رد اور نفی کرنا کسی سے ممکن نہیں، چاہے اس کے لییاپنے پیادہ و رسالہ کو لے آئے۔ چنانچہ جس طرح رفع یدین کی مطلقاً نفی کسی کے لیے ممکن نہیں، اسی طرح خارج میں عمل کا اثبات کیے بغیر محض الفاظ پیش نظر رکھتے ہوئے (رکوع و) قومہ میں رفع یدین کے تعدد کو ثابت کرنا بھی ناممکن ہے۔توارث اور تعامل (یعنی نسل در نسل عمل کرنا) دین کا بڑا حصہ ہیں۔ میں ان میں سے اکثر کو دیکھ چکا ہوں کہ وہ اسانید کی تو پیروی کرتے ہیں، لیکن تعامل سے غفلت برتتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں ان میں سے کسی کو رفع یدین کو ترک کرنے کا منکر نہ پاتا۔‘‘ (فیض الباری۱/۳۲۰) 
فاضل ناقد نے غامدی صاحب کے اس موقف کی تردید کے لیے کہ سنت اجماع اور تواتر عملی سے منتقل ہوتی ہے اور اس کے مقابل میں اپنی اس راے کی تائید کے لیے کہ تواتر عملی کا اثبات اخبار آحاد کے بغیر ممکن نہیں ہے، نماز کی مثال کودلیل کے طور پر پیش کیا ہے ۔ انھوں نے یہ بیان کیا ہے کہ غامدی صاحب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کہ نماز تواتر عملی کے ذریعے سے ملی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کے اعمال کے بارے میں فقہا کے مابین ہمیشہ سے اختلافات موجود رہے ہیں۔ان اختلافی مباحث میں وہ اپنی آرا کے دلائل کے طور پر تواتر کو نہیں، بلکہ اخبار آحاد ہی کو پیش کرتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک اصل دلیل کی حیثیت خبر واحد کو حاصل ہے، نہ کہ تواتر کو۔ (فکرغامدی۶۲۔۶۳)
فاضل ناقد کی یہ بات فقہا کے کام کے صحیح فہم پر مبنی نہیں ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے کہ علماے امت اصل اور اساسی معاملات میں تواتر کے بجاے خبر واحد کو ترجیح دیتے ہیں۔ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ علما کی اکثریت اصل دین کے بارے میں اخبار آحاد پر انحصار کی قائل نہیں ہے، البتہ جزئیات اور فروعات میں اس پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔یعنی ایسا ہر گز نہیں ہے کہ وہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، قربانی اور دیگر سنن اور ان کی بنیادی تفصیلات کو حدثنا اور اخبرنا کے طریقے پر نقل کی گئی روایات کی بنا پر ثابت مانتے ہیں۔ ان کے ثبوت کا معیار ان کے نزدیک سرتاسر اجماع اور تواتر و تعامل ہی ہے۔ تاہم، اس ضمن میں بعض نہایت جزوی اور فروعی معاملات میں ان کے مابین اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ اختلافات جہاں تاویل، قیاس اور اجتہاد کی مختلف جہتوں کی بنا پر قائم ہوئے ہیں، وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت سے نقل ہونے والے اخبار آحاد کی بنا پر بھی قائم ہوئے ہیں۔چنانچہ فاضل ناقداگر غامدی صاحب کی محققہ سنن کی فہرست کو سامنے رکھیں اور ان میں سے ایک ایک چیز کو لے کر اس کے بارے میں علما و فقہا کی آرا کا جائزہ لیں تو ان پر یہ بات ہر لحاظ سے واضح ہو جائے گی کہ ان میں بنیادی طور پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ زکوٰۃ کی نوعیت، اس کی شروح اور حد نصاب میں کوئی اختلاف نہیں ہے،صدقۂ فطر میں کوئی اختلاف نہیں ہے، روزہ و اعتکاف کی شریعت میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حج و عمرہ کے مناسک میں کوئی اختلاف نہیں ہے،قربانی اور ایام تشریق کی تکبیروں کے حوالے سے کوئی اختلاف نہیں ہے،عید الفطر اور عید الاضحی میں کوئی اختلاف نہیں ہے، نکاح و طلاق اور ان کے حدود و قیود میں کوئی اختلاف نہیں ہے، حیض و نفاس میں زن و شو کے تعلق سے اجتناب پر کوئی اختلاف نہیں ہے، سؤر ، خون ، مردار اور خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیے گئے جانور کی حرمت کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اللہ کا نام لے کر جانوروں کا تذکیہ کرنے کے مسئلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اللہ کا نام لے کر اور دائیں ہاتھ سے کھانے پینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، ملاقات کے موقع پر ’السلام علیکم‘ کہنے اور اس کا جواب دینے میں کوئی اختلاف نہیں ہے، چھینک آنے پر ’الحمدللہ ‘اور اس کے جواب میں ’یرحمک اللہ ‘ کہنے پر کوئی اختلاف نہیں ہے، لڑکوں کا ختنہ کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے،میت کو غسل دینے، اس کی تجہیز و تکفین اورتدفین میں کوئی اختلاف نہیں ہے، مونچھیں پست رکھنے ،زیر ناف کے بال کاٹنے، بغل کے بال صاف کرنے، بڑھے ہوئے ناخن کاٹنے، ناک ،منہ اور دانتوں کی صفائی کرنے،استنجا کرنے، حیض و نفاس اور جنابت کے بعد غسل کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
چند جزوی چیزیں ہیں جن میں بعض فقہا اخبار آحاد کی بنا پر اختلاف کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک چیز مثال کے طور پر یہ ہے کہ رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد، تیسری رکعت سے اٹھتے ہوئے اور سجدے میں جاتے اور اس سے اٹھتے ہوئے رفع یدین کیا جائے۔اسی طرح ایک چیز یہ ہے کہ امام کے پیچھے تلاوت دہرائی جائے یا خاموشی سے سنا جائے۔ قیام میں ہاتھ ناف سے ذرا اوپر باندھے جائیں یا لازماً سینے ہی پر باندھے جائیں۔نماز میں قراء ت بسم اللہ سے شروع کی جائے یا اس کے بغیر شروع کی جائے۔سفر میں قصر نماز فرض ہے یا اختیاری ہے،جمع بین الصلاتین میں تقدیم کا طریقہ اختیار کیا جائے یا تاخیر کا ۔نمازی کے آگے گزرنے سے نماز قطع ہو گی یا نہیں۔ یہ اور اس نوعیت کے بعض فروعی مسائل کے بارے میں علما کے مابین اختلافات مذکور ہیں۔ یہ اختلافات زیادہ تر اخبار آحاد میں مسائل کے تنوع اور ان کی مختلف تعبیرات اور علما کے ہاں ان کی تاویلات میں اختلاف پر مبنی ہیں ۔ ان کی حیثیت فروعی ہے اور ان سے نہ تواتر پر کوئی حرف آتا ہے اور نہ ان سنن کے سنن ہونے میں کوئی تغیر واقع ہوتا ہے۔ امام حمید الدین فراہی نے اپنے مقدمۂ تفسیر میں اسی بات کو واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اسی طرح تمام اصطلاحات شرعیہ مثلاً نماز، زکوٰۃ، جہاد، روزہ، حج، مسجد حرام، صفا، مروہ اور مناسک حج وغیرہ اور ان سے جو اعمال متعلق ہیں تواتر و توارث کے ساتھ سلف سے لے کر خلف تک سب محفوظ رہے۔ اس میں جو معمولی جزوی اختلافات ہیں، وہ بالکل ناقابل لحاظ ہیں۔ شیر کے معنی سب کو معلوم ہیں اگرچہ مختلف ممالک کے شیروں کی شکلوں صورتوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہے۔ اسی طرح جو نماز مطلوب ہے، وہی نماز ہے جو مسلمان پڑھتے ہیں، ہر چند کہ اس کی صورت و ہیئت میں بعض جزوی اختلافات ہیں۔‘‘ (تدبر قرآن۱/۲۹)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے موقف پرجب ایک صاحب نے وہی اعتراض کیا جو فاضل ناقد نے نماز کے حوالے سے کیا ہے تو انھوں نے یہی بات بیان کی: 
’’ نماز کے جتنے اہم اجزاء ترکیبی ہیں ان سب میں تمام زبانی روایات متفق ہیں اور عہدرسالت سے آج تک ان کے مطابق عمل بھی ہو رہا ہے۔ اب رہے جزئیات مثلاً رفع یدین اور وضع یدین وغیرہ تو ان کا اختلاف یہ معنی نہیں رکھتا کہ نماز کے متعلق تمام روایات غلط ہیں بلکہ دراصل یہ اختلاف اس امر کا پتا دیتا ہے کہ مختلف لوگوں نے مختلف اوقات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مختلف دیکھا۔ چونکہ یہ امور نماز میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے، اور ان میں سے کسی کے کرنے یا نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اور حضور خود صاحب شریعت تھے اس لیے آپ جس وقت جیسا چاہتے تھے عمل فرماتے تھے۔ ....یہ اختلاف کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور یہ ہرگز اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ ادائے نماز کے متعلق سرے سے کوئی قولی و فعلی تواتر ہی نہیں پایا جاتا۔‘‘(تفہیمات ۱/۳۷۶۔۳۷۷)
اس تفصیل سے واضح ہے کہ نماز کے معاملے میں فقہا کے مابین پایا جانے والا سارا اختلاف فروع اور جزئیات میں ہے نہ کہ نماز کے ا صل اور اساسی ڈھانچے میں جس کو غامدی صاحب سنت سے تعبیرکرتے ہیں۔ چنانچہ فاضل ناقد اگر غامدی صاحب کی کتاب ’’میزان‘‘ کے باب ’’قانون عبادات‘‘ کا ملاحظہ کریں تو ان پر یہ بات واضح ہو گی کہ انھوں نے نماز کے متفقہ اور متواتر اعمال واذکار کو سنت کے عنوان سے الگ ذکر کیا ہے اور اخبار آحاد سے مروی اسوۂ حسنہ کو اس کی فرع کے طور پر الگ نقل کیا ہے۔ 
(جاری)

جہادی تنظیموں کے تنقیدی جائزہ پر ایک نظر!

مولانا عبد المالک طاہر

ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے نومبر ؍دسمبر ۲۰۰۸ ء کے شمارے میں محترم جنا ب حافظ محمد زبیر کا مضمون پڑھنے کاموقع ملا۔ ’’ پاکستان کی جہادی تحریکیں، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ‘‘ کے زیر عنوان اپنے مضمون میں صاحب مضمون نے پاکستان کی جہادی تنظیمات کے حوالے سے اپنے افکار ونظریات (مع تجرباتی واقعات) حوالہ قلم کیے ہیں۔ وزیرستان، سوات، لال مسجد اور تکفیری ٹولے کی حد تک حافظ صاحب کی بات وزنی معلوم ہوتی ہے، اگرچہ لہجہ اور انداز ناصحانہ نہیں ہے۔ تحقیقی وتنقیدی مضامین میں اگر نصیحت کاپہلو غالب ہو تو مقابل فریق کے لیے بات سمجھنا اور اس پر غوروفکر کر کے نئی راہ متعین کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ جہاں تک معاملہ جہاد کے فرض عین ہونے اور جہادی تحریکوں کے کردار کا ہے تو اس میں حافظ صاحب کے نظریات سے بحث واختلاف کی گنجایش نہ صرف موجود ہے بلکہ آئندہ بھی رہے گی۔ چونکہ حالات وواقعات، اسباب وذرائع (جس پر جہاد کی فرضیت موقوف ہے) کے متعلق تجزیہ وتبصرہ سے راے قائم کرناایک فکری واجتہادی معاملہ ہے، اس لیے عقلاً وشرعاً نہ صرف اختلاف قابل برداشت بلکہ شریعت کی نظر میں مستحسن ہے، البتہ یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ جناب حافظ صاحب نے جہادی طبقے کے متعلق جو لب ولہجہ اختیار کیا ہے، وہ کسی طرح بھی فکرودانش کے حلقہ میں قابل تحسین نہیں ہے۔ یہاں ہم محترم حافظ صاحب کے بعض جملوں سے متعلق کچھ معروضات حوالہ قلم کریں گے۔ 
حافظ صاحب رقم طراز ہیں کہ عام طورپر جہادی تحریکوں کے رہنماؤں اورعلما کی تحریروں میں عوام الناس کو ایک مظالطہ دیا جاتاہے ’’کہ ریاست کے بغیر ہونے والے جہاد سے امریکہ کے ٹکڑے ہو جائیں گے یا انڈیا فتح ہو جائے گا یا اسرائیل دنیا سے مٹ جائے گا۔ ‘‘ اس مقام پر مضمون نگار کے شعلہ بار قلم سے مغالطہ دیا جاتا ہے کہ یہ الفاظ کسی طرح بھی مناسب نہیں۔ ’’مغالطہ دیا جاتا ہے‘‘ کا صاف مفہوم یہ ہے کہ عوام الناس کو دھوکا دیا جاتا ہے، حالانکہ دھوکہ دہی تو اس صورت میں ہو جب جہادی قیادت کی اپنی راے میں واقعتا ایسے جہاد سے دشمن کو شکست دینا ممکن نہ ہو۔ اگر جہادی طبقے کی راے غیر سرکاری جہاد سے کفر کی شکست کے امکان اوریقین کی ہے تو یہ جہادی طبقہ کا اخلاقی وشرعی حق ہے جس سے آپ اختلاف تو کر سکتے ہیں مگر ان کی نیت پر شک کرنا اور ان کی راے کو دھوکہ دہی کا نام دینا انصاف نہیں ہے۔ 
آگے چل کرسی این این اور بی بی سی وغیرہ (کفریہ نشریاتی اداروں) کی رپورٹنگ کو اطلاعات کہنا فاضل مضمون نگار کی جہادی طبقے پر ذاتی قسم کی مناقشت کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے ا ظہار کے لیے ’الشریعہ‘ جیسے عظیم فکری پلیٹ فارم کا استعمال کرنا اخلاقی حوالے سے اچھا نہیں ہے۔ اگر جہادی ذرائع ابلاغ (بالفرض) اپنی کاوشوں کی تشہیر میں مخصوص مقاصد کے لیے مبالغہ سے کام لیتے ہیں تو کیا بی بی سی جیسے ادارے غیر جانبدار رپورٹنگ کر رہے ہیں؟ 
حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ:
’’لاعلم اورسیدھے سادھے جذباتی نوجوانوں کے لیے ان تحریکوں کے معسکرات خرکار کیمپ ثابت ہوتے ہیں جو ان کو جبراً فریضہ قتال کی ادائیگی پر مجبور کرتے ہیں اور ان کی انتہا ایک مجاہد کے لیے اپنے گھروالوں کے لیے یہ الفاظ ہوتے ہیں کہ میں واپس جانا چاہتا ہوں، لیکن میرے لیے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ شہادت میرا مقدر بن چکی ہے، اگرمیں میدان جہاد میں شہید نہ ہوا تو یہ (مجاہدین) مجھے (خود) شہید کر دیں گے۔‘‘
غور کیجئے !یہ الفاظ جہاں مضمون نگار کی جہادی احباب کے ساتھ دیرینہ عداوت ظاہر کرتے ہیں، وہیں جناب کے جنگ وجہاد کے میدان سے عملاً بہت دور ہونے پر بھی شاہد ہیں۔ کیاایک ایسے مجاہد کو جو عسکری تربیت مکمل کر چکا ہو، اس کے ہاتھ میں آتشیں اسلحہ ہو، گرنیڈ ہوں، اسے اس انداز سے جبر کر کے روکا جا سکتا ہے؟ یا ایسا مجبور مجاہد تحریک کو (سوائے ناکامی کے) کچھ دے سکتا ہے؟ جناب کے پاس کن ذرائع سے ان مجبور ین کے حالات وکوائف پہنچ رہے ہیں، وہ قوم وملت کے سامنے لائے جائیں تاکہ یہ خرکار کیمپ عوام کے سامنے بھی آئیں۔ 
ایک مقام پر یوں لکھتے ہیں: 
’’ہمارے ہاں عام طورپر یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جہادی تحریکوں کے قتال کے نتیجے میں روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے، حالانکہ حقائق اس کے بالکل خلاف ہیں۔ روس کے ٹکڑے اس لیے ہو ئے کہ اس قتال کے پیچھے دو ریاستوں، امریکہ اور پاکستان کا پورا عمل دخل تھا۔‘‘
فاضل مضمون نگار اس بات کو ثابت کرنے کے لیے دماغ وقلم سمیت جسم کے دیگر حصوں کا بھی زور لگا رہے ہیں کہ روس کو شکست مجاہدین نے نہیں بلکہ امریکہ اور پاکستان کی ریاستوں نے دی ہے، لیکن جناب نے اس بات کی وضاحت گوارا نہیں کی کہ (۱) امریکہ، پاکستان کایہ عمل دخل روسی جارحیت کے کتنے سال بعد ہوا تھا؟ (۲) اس عمل دخل سے قبل جنگ اورمقابلہ کی نوعیت کیا تھی؟ (۳) امریکہ، پاکستان کا عمل دخل کس حد تک یاکس نوعیت کا تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ مغرب زدہ میڈیا آج تک جس امریکی دخل کو مجاہدین کی سپورٹ اور امداد کا نام دیتا آیا ہے، وہ محض عربوں کے خطیر جہادی فنڈ سے اسلحہ کی خریداری تھی۔ چونکہ روسی شکست میں امریکی مفاد تھا، اس لیے اسلحہ کی ترسیل اور افرادی قوت کے حصول میں امریکہ وپاکستان کی طرف سے کوئی رکاوٹ پیش نہ آئی اور میڈیا میں بھی ایسی روسی جارحیت کے خلاف لڑنے والوں کو ہیرو کا درجہ دیا گیا ( جس سے لڑنے والوں کی اکثریت ویسے ہی بے نیاز تھی)۔ جہاں تک محترم حافظ صاحب کا یہ کہنا ہے کہ اب امریکہ نے بمباری کے ذریعے مجاہدین کو پہاڑوں پر پناہ لینے پر مجبور کیا ہوا ہے، بخلاف روس کے تو اس ضمن میں گزارش ہے کہ شہری علاقوں پربمباری او روحشت ناک تشدد میں روس اور امریکہ میں کوئی خاص فرق نہیں۔ جہادی میدان کے کسی پرانے آدمی سے ماضی کے واقعات کاعلم جناب کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گا۔ 
صاحب مضمون فرضیت جہاد کو نماز پر قیاس کرکے آزادانہ تبصرے لکھ رہے ہیں اور اس حوالے سے جہادی قیادت اور مفتیان کرام کو مطعون کر رہے ہیں کہ وہ سارے لڑائی میں بیک وقت کیوں شریک نہیں ہوتے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ نمازانفرادی عبادت ہے اورجہاد اجتماعی عبادت ہے۔ نماز میں ہر آدمی اپنی عبادت کا قیام، رکوع، سجود، قراء ت وقعدہ وغیرہ خود مکمل کرے گابخلاف جہاد کے کہ اس میں کچھ لو گ دشمن اسلام کے سامنے فرنٹ لائن پر، کچھ خط دوم پر، کچھ قرار گاہ اور کچھ سامان وطعام وغیرہ کی ترسیل پر ہوں گے تو تب ہی یہ عبادت جاری رہ سکے گی۔ اس ضمن میں خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل موجود ہے کہ حضرت عثمان کو بدر کے موقع پر مدینہ میں ٹھہرا کر انہیں نہ صرف اہل بدر میں شمار کیا، بلکہ مال غنیمت میں پورا حصہ دیا۔ شریعت اسلامیہ میں جس طرح تقسیم اوقات کا اصول ہے کہ فلاں وقت میں سب آدمی یہی عبادت کریں، اسی طرح بعض فرائض واحکام میں تقسیم کارکی صورت بھی موجود ہے، جیسے فریضہ جہاد کہ اس میں تقسیم کار ثابت اور عقلاً وشرعاً یہی اس فریضہ کا اصول ہے۔ اگر ہم فرض ہونے کی صورت میں سب لوگوں پرلڑنا ہی فرض قراردیتے ہیں تو وہ اسلحہ جس کے ساتھ مجاہدین قتال کریں گے، مسلسل کیسے آئے گا؟ طعام وغیرہ طبعی ضروریات کا نظام کیوں کر چلے گا؟ نئے افراد کی ذہن سازی وتربیت کے بغیر ایک مکمل نظام کتنا عرصہ چل سکے گا؟ ایسا قتال جس میں اسلحہ کی ترسیل کی صورت نہ ہو، اور طبعی ضروریات کا انتظام نہ ہو اور نئے افراد کی کھیپ نہ ملے تو وہ کب تک جاری رہ سکتاہے اورایسے قتال کے کیا نتائج نکلیں گے، اس سے کوئی بھی ذی شعور انسان لاعلم نہیں۔ اور اگر کچھ افراد ان کاموں کے لیے ضروری ہیں تو ظاہر ہے وہ بھی جہادی تنظیموں کا حصہ ہیں۔ 
مضمون نگا رکے مذکورہ خیالات سے بھی میدان کار زار کی اصل صورت حال اور بنیادی ضروریات سے لاعلمی ظاہر ہوتی ہے۔ صر ف دفتر میں بیٹھ کر غصہ نکالنے کا فن جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک نماز کے قیام، رکوع کی طرح آج بھی لوگوں کے ہاتھوں تلواریں دے کر مقابلہ چاہتے ہیں کہ یہی صورت منقول ہے۔ یا پھر تمام مجاہدین کو قتال کی صرف ایک ہی صورت میں لگائیں تو فرض عین ادا ہوگا ورنہ نہیں، جبکہ صاحب بدائع الصنائع جہاد کی تعریف نقل کرتے ہیں:
الجہاد بذل الوسع والطاقۃ بالقتال فی سبیل اللہ عزوجل بالنفس والمال واللسان وغیر ذالک۔ 
’’اللہ کے راستے میں قتال کے اندر جان، مال، زبان او راس کے علاوہ معاونت کرنا ‘‘
گویا جہاد جس طرح نفس ( خود لڑکر) کے ساتھ ہے، اسی طرح زبان اور دیگر طریقوں کے ساتھ بھی ہے۔ اس مضمون میں ایک مقام پر جہادی تحریکوں کے مفتیان کرام کا بخاری پڑھانا یا میجر جنرل کے اعزازی عہدے کی سہولیات، پروٹوکول سے فائدہ اٹھانا جناب کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکا ہے، لیکن انہی میں سے بہت سوں کی عظیم جہادی قربانیاں، گرفتاریاں، نظر بندیاں، وحشیانہ تشدد برداشت کرنا حافظ صاحب کی نظروں سے کیوں اوجھل رہا ہے کہ جن کو مستثنیٰ کرنے کی انہیں اخلاقی جرات نہ ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ محترم کی قتال کے میدان کی اصل صورت حال سے لاعلمی ان کے لکھے گئے نظریات کے باعث ہے کہ بندکمرے میں بیٹھ کر قلم کی تلوار چلا رہے ہیں، یا پھر یہ کسی جہادی کمانڈر سے ذاتی نوعیت کے اختلاف کا شاخسانہ ہے جو کسی طرح بھی حقائق کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے کہ بعض جزوی واقعات کو بنیاد بناکر وہ تمام جہادی نظموں اور ان کے قائدین کو قلم کی نوک پر رکھ رہے ہیں۔ اس طرح کے جزوی واقعات کو بنیاد بنا کرا گر کوئی گروہ دیگر دینی اداروں اور نظموں کے متعلق بھی ایسی ہی انتہا پسندانہ رائے قائم کرتا ہے تو کیا یہ رائے درست ہو گی؟ 
مضمون نگار جس طریقہ کار یعنی ریاستی سطح پر قتال کو واحد حل قرار دیتے ہیں، وہ یقیناًایک پائیدار حل ضرورہے لیکن واحد نہیں ہے، دیگر طریقہ کار بھی ہیں، اگرچہ اصل اور مضبوط حل ریاست کا خود اس معاملہ کو لینا ہے۔ اس طرح جس بات کو ثابت کرنے کے لیے محترم حافظ صاحب نے خاصا زور صرف کیا ہے کہ ہم صرف غیر سرکاری سطح اور ریاستی طاقت کے بغیر فتح حاصل نہیں کر سکتے، اس کے جواب میں سب سے وزنی رائے مبتلی بہ کی ہو سکتی ہے اوروہ افغانستان اور عراق کے محاذ پر برسر پیکار افواج کے کمانڈروں کے حال ہی میں تسلسل کے ساتھ آنے والے بیانات ہیں جس میں مازک اسمتھ سمیت دیگر لوگوں نے اب تک کی صورت میں نہ صرف اپنی شکست تسلیم کی ہے، بلکہ آئندہ بھی فتح کے امکان کومسترد کیاہے۔ 
فاضل مضمون نگار ایک مقام پر یوں لکھتے ہیں کہ ’’قتال کی علت ظلم ہی ہے‘‘۔ یہ درست ہے کہ قتال کی ایک علت ظلم ہی ہے لیکن صرف ظلم کو علت قرار دے کر وہ دیگر آیات قرآنیہ کا کیاجواب دیں گے جن میں کفارکی سلطنت وشوکت کے خاتمے تک قتال کا حکم ہے۔ ارشاد خداو ندی ہے: ’وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ‘،یعنی تم ان کفار سے قتال کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ یہاں قتال کا حکم فتنے کو ختم کرنے کے لیے دیا جا رہا ہے اور مفسرین کرام کے نزدیک یہاں فتنہ سے مراد کافروں کا زور (شوکت وسلطنت) ہے۔ (تفسیر عثمانی) 
مضمون نگار کے ہاں قتال کی علت توظلم ہے، جبکہ فتنہ کا خاتمہ جس کو مذکورہ آیت میں بیان کیا گیاہے، یہ قتال کا منتہاے مقصودہے۔ یعنی اصل علت صرف ظلم ہے۔ اس پر سوال یہ ہے کہ بالفرض اگرکوئی کفریہ سٹیٹ (کافر حکومت) ظالم نہ ہو تو کیا ان کے خلاف جہاد نہیں ہوتا، جیساکہ مضمون نگارکے الفاظ سے مترشح ہے ؟ اگر ایسی کافر حکومت (غیر ظالم) کے خلاف جہاد نہیں ہو سکتا (جیسا کہ مضمون نگارکانظریہ ہے، کیونکہ ان کے خلاف قتال کے لیے ظلم والی علت نہیں پائی جاتی) تو پھر اس صورت میں ’قاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ‘ کا حکم کس کے لیے ہے؟ ا ور اگر کافر (غیر ظالم) حکومت کے خلااف جہاد ہو سکتاہے، (جیسا کہ قرآنی حکم ہے) تو پھر علت صرف ظلم کو قرار دینے پرکیوں مصر ہیں؟ اور اگر وہ یوں کہتے ہیں کہ انہوں نے ظلم اور کفر کو تقریباً لازم وملزوم قرار دے کر اس اشکال کو رفع کر دیا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اگر کفر وظلم لازم وملزوم ہیں توپھر ہرکافر کے خلاف جہادہونا چاہیے اوریہ بات بھی قرآن و حدیث کے خلاف اور خود ان کے اپنے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتی۔ 
موصوف یہاں احتجاج بلادلیل کے مرتکب ہوئے کہ اگر ایک علت نہیں پائی جاتی تو حکم ہی نہیں لگ سکتا، باوجود یکہ کوئی اورعلت پائی گئی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آدمی یوں کہے کہ فلاں آدمی نہیں مرا کیوں کہ وہ چھت سے نہیں گرا توایسے آدمی کی بات در ست نہیں ہوسکتی، کیوں کہ مر نے کے اور بھی اسبا ب ہیں۔ ممکن ہے ان اسباب میں سے کوئی سبب پایا گیا ہو۔ توجہاد اگرا یک علت سے نہیں تو ممکن ہے کسی دوسری علت کی وجہ سے واجب ہو۔ موصوف بھی ظلم کی علت کے عدم کی صورت میں حکم جہادکو ختم کر رہے ہیں، حالانکہ قرآن مجید نے تین اہداف جہاد بیان فرمائے ہیں: 
(۱) نصرۃ المستضعفین، ظالموں کے خلاف مظلوم لوگوں کی مدد ونصرت کرنا اور ان کو ظلم سے نجات دلانا جیسا کہ ’اذن للذین یقاتلون بانھم ظلموا‘ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ 
(۲) ردا لعدوان، کافروں کی شوکت وسلطنت کو توڑنا، جیسا کہ ’قاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ‘ میں بیان فرمایا گیاہے جب کہ فتنہ سے مراد کفار کا زور ہے۔ (تفسیر عثمانی) 
(۳) حفظ الدعوۃ، اسلام کی دعوت کی حفاظت ہو۔ دعوت کے پیچھے جزیہ ( مغلوبیت کا ٹیکس ) او رقتال کی طاقت ہو، جیساکہ ’کنتم خیرامۃ اخرجت للناس‘ کی تفسیر میں امام المفسرین سیدنا ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’تقاتلونھم علیہ‘، مطلب یہ ہے کہ تم بہترین امت ہو، اس لیے کہ تم دعوت سے انکار پر منکرین سے قتال کرتے ہو۔ (بحوالہ تفسیر کبیر) اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قتال جس طرح ظلم کی وجہ سے مشروع ہے، اسی طرح کفرکی سلطنت اور غلبہ کی صورت میں نیز اسلام کی دعوت کی حفاظت کی غرض سے بھی مشروع ہے۔ 

مکاتیب

ادارہ

(۱)
محترم جناب مدیر الشریعہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم محمد زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے تین قسطوں پر مشتمل مضمون (اسلامی معاشیات...) پر پیش کیے گئے جائزے کا جواب (شمارہ فروری ۲۰۰۹) دیا ہے۔ اس سلسلے میں دو تین باتیں پیش خدمت ہیں۔
عرض کیا گیا تھا کہ صدیق مغل صاحب کی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب پر تنقید میں بہت زیادہ شدت پائی جاتی ہے۔ ان کے انداز تحریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے ایک بلندپایہ علمی مرتبہ ومقام پر فائز شخص کسی معمولی علم رکھنے والے شخص پر سخت تنقید کر رہا ہو۔ اس پر صدیق مغل صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اس پر معذرت خواہ اور توجہ دلانے کے لیے ان کے شکرگزار ہیں، لیکن ایسی معذرت پر دوبارہ غور فرما لیا جائے جس پر ساتھ ہی فرماتے ہیں، اگر امر واقعہ ایسا ہی ہے، اور پھر ساتھ ہی اپنی بات کا جواز بھی بتا دیتے ہیں (جیسے غلط بات کو پوری شد ومد کے ساتھ فروغ دیا جا رہا ہو تو اس کا رد عمل بھی اتنے ہی زوردار انداز میں کرنا ضروری ہو جاتا ہے)۔ اسی پر بس نہیں، حضرت مولانا کی علم معاشیات پر مہارت کو ہی تسلیم نہیں کرتے اور پھر ان کے اساتذہ کے نام لے کر ان کی اور ان کے شاگرد مولانا کی علمیت ہی کا انکار کرتے ہیں۔ اس طرح کی باتوں کو یہاں زیربحث لانا ہی شاید سنجیدگی کے خلاف ہو۔
اقتباسات نقل کر کے نشان دہی کی گئی تھی کہ زاہد صدیق مغل صاحب نے اپنے بیان کردہ معنی کہاں سے کس طرح سمجھ لیے ہیں اور کس طرح کیا معنی پہنا دیے ہیں۔ اس کا خود جواب دینے کے بجائے پھر نئی بات اور نئے سوالات پیدا کر کے ان کا جواب دوسروں سے مانگتے ہیں۔ جزوی نہیں، اصولی باتیں کی گئی تھیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے نکلے ہوئے ہر ہر ادارہ کے خاتمہ (انھیں شریعت کے مطابق بنانا ممکن نہیں ہے) کومقصد قرار دے کر اسلامی اقتصادیات کا نقشہ تیار کرنا ان کا ہدف ہے، اس کی خود وضاحت کرنے کے بجائے نئے سوالات اٹھا کر دوسروں سے وضاحت طلب کرتے ہیں۔
عرض کیا گیا تھا کہ تین قسطوں پر مشتمل مکمل مضمون میں امام غزالیؒ کی دنیا سے بے رغبتی اور زہد اختیار کرنے سے متعلق تعلیمات کا ذکر کیا گیا۔ پھر دوبارہ اقتباس نقل کر کے تحریر فرمایا گیا تھا ’’ان تعلیمات کو بار بار پڑھیے اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر فیصلہ کیجیے کہ اسلامی معاشیات اس میں کہاں فٹ ہوتی ہے‘‘۔ عرض کیا گیا تھا کہ صرف ان باتوں کو سامنے رکھا گیا تو بازار ہی بند ہو جائے گا۔ معیشت ہی نہیں رہے گی تو اسلامی بنانے کا مسئلہ ویسے ہی ختم ہو جائے گا۔ صدیق مغل صاحب یہاں بھی اصل بات کی وضاحت کے بجائے اب بازار میں جانے کی سنتیں اور صنعتیں لگانے کے طریقوں کی نئی سے نئی بات چھیڑتے ہیں۔ ایسی بحثوں کو شروع کرنے کی کوشش کی نہ کوئی حد ہے نہ مقصد۔
عرض کیا گیا تھا کہ اسلامی دستور کے بارے میں ان کا نظریہ سب اکابر سے بالکل مختلف ومنفرد ہے۔ ان کی فکری فلسفیانہ باتوں کو سمجھنا کافی مشکل ہے۔ وہ قرارداد مقاصد (۱۹۴۹ء) منظور کرانے اور ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی شقوں کے شامل کرنے کو علما کی غلطی قرار دیتے ہیں، دستور کو اسلامی بنانے کی کوشش ہی کو سرے سے غیر اسلامی سمجھتے ہیں۔ (۱۹۵۱ء میں اپنے وقت کے دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، شیعہ چوٹی کے ۳۱؍ اکابر علما نے دستور کو اسلامی بنانے کے لیے متفقہ ۲۲ نکات تیار کیے۔ پھر بعد کے تمام اکابر علما آج تک یہ کوشش فرماتے رہے ہیں)۔ دستور کو اسلامی بنانے کے سلسلے میں مزید بہتری اور اس کے نفاذ میں رکاوٹوں کو دور کرنے کی بات تو کی جاتی ہے، لیکن صدیق مغل صاحب کی طرح کی بات تو شاید ہی کسی نے کی ہو۔
گزارشات ختم کرتے ہوئے عرض ہے کہ محترم جناب محمدزاہد صدیق مغل صاحب کی کسی بات پر مزید کچھ تحریر نہیں کیا جائے گا۔ اب تک کی گستاخی پر ان سے بہت زیادہ معذرت۔
پروفیسر عبد الرؤف
بالمقابل عید گاہ۔ مظفر گڑھ
(۲)
محترم جناب مدیر’الشریعہ‘ 
السلام علیکم! امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں غامد ی صاحب کے تصور سنت کے دفاع میں ان کے شاگرد جناب منظور الحسن صاحب کا مضمون اور پھر اس پر اگلے شمارے میں جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا تبصرہ پڑھا۔مولانا راشدی صاحب کا یہ کہنا صد فی صد درست ہے کہ جب تک خود غامدی صاحب اپنے تصور سنت پر ہونے والے شدید اعتراضات کے دفاع میں قلم نہیں اٹھائیں گے ‘ اس وقت تک مولانا ان کے کسی شاگرد کو کوئی جواب نہ دیں گے۔
راقم الحروف کی غامدی صاحب کے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں کہ جس میں آپ سمیت کئی اور افراد بھی شامل تھے‘ غامدی صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ جناب منظور الحسن صاحب ان کے ترجمان نہیں ہیں اور نہ ہی وہ منظور صاحب کی تحریر کو أون (own) کرتے ہیں۔غامدی صاحب نے تو یہاں تک کہا تھا کہ وہ منظور صاحب کی تحریر اس وقت پڑھتے ہیں جب کہ وہ کسی رسالے میں شائع ہو جاتی ہے۔
ہمارا اختلاف منظور الحسن صاحب سے نہیں ہے ۔ہم نے غامدی صاحب کے تصور سنت پر اعتراضات کیے ہیں۔ اگر تو اس کا دفاع غامدی صاحب کریں گے تو ہم جواب دیں گے ‘ ورنہ تو اس بات میں الجھنے اور وقت ضائع کرنے کا ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ جناب منظور الحسن صاحب نے غامدی صاحب کا فکر سمجھا ہے یا نہیں۔جب ہم نے غامدی صاحب سے یہ بات کہی کہ جناب منظور الحسن صاحب نے آپ کے فکر کی وضاحت میں یہ لکھاہے تو وہ کہتے ہیں‘ میری تحریر دکھائیں‘ منظور صاحب میرے ترجمان نہیں ہیں۔ان کو میری تحریر سمجھنے میں غلطی لگ سکتی ہے، لہٰذا میں منظور صاحب کی کسی تحریر کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ جب معاملہ یہ ہے تو ہمیں جناب منظور صاحب کا جواب دینے کی کیا ضرورت ہے۔معلوم نہیں ‘ پہلے کی طرح اب کی بار بھی انہوں نے غامدی صاحب کی فکر کو صحیح سمجھا ہے یا نہیں۔
غامدی صاحب ما شاء اللہ حیات ہیں۔ انہیں کسی ترجمان کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں اپنے اوپر ہونے والی نقد کی اپنی زندگی میں خود ہی وضاحت کرنی چاہیے۔شاید اس سے بحث کسی مفید نتیجے کی طرف بڑھ سکے۔منظور الحسن صاحب کے جواب کے طور پر غامدی صاحب کی اصول و مبادی کے مرکزی خیال پر ایک تحریر بعنوان ’ ’دین کے منتقل و حجت ہونے کا بنیادی ذریعہ: اجماع یا خبر واحد‘‘ بذریعہ ای میل ماہنامہ ’الشریعہ‘ میں اشاعت کے لیے بھیج رہا ہوں۔ اسی کو میری طرف سے جواب الجواب کے طور پر شائع کر دیا جائے۔
حافظ محمدزبیر
ایسوسی ایٹ‘ قرآن اکیڈمی 
۳۶۔کے‘ ماڈل ٹاؤن‘ لاہور
(۳)
جناب محمد عمار خان ناصر
السلام علیکم
میں الشریعہ کا دو سال سے قاری ہوں۔ میں نے سال پہلے ایک مضمون پر اپنی نقد ارسال کی تھی، مگر معلوم نہیں کیوں قابل اعتنا نہ ٹھہری۔ بہرحال اس وقت خط لکھنے کا سبب مفتی عبد الواحد صاحب کا آپ کی کتاب پر رد ہے اور آپ کی جانب سے اس کا جواب۔ 
آپ کے جوابی خط میں جو نقطے اٹھائے گئے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ وہ مفتی صاحب کے مضمون پر وارد نہیں ہوتے بلکہ وہ نکات اور اشکالات کسی اور بات کی غمازی کرتے ہیں۔ میں آپ کے خط سے جو کچھ سمجھا ہوں، وہ درج ذیل ہے۔
۱۔ آپ مجتہد مطلق کے درجے پر فائز ہیں، کیونکہ آپ کا یہ کہنا کہ ’’میں نے قرآن مجید کی نصوص کی روشنی میں یہ اخذ کیا ہے‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ قرآن وحدیث سے استنباط مقلد کا وظیفہ نہیں ہے۔ (ارشاد القاری الیٰ صحیح البخاری)
۲۔ آپ دلائل کے بغیر مفتی صاحب کے اعتراضات سے دامن بچانا چاہتے ہیں، کیونکہ آپ کا کہنا کہ ’’میرے موقف پر آپ نے سنت کی تشریعی حیثیت کوبالکل نظر انداز کرنے ..... کی پھبتیاں کسی ہیں‘‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے۔ حالانکہ اگر فرض کر لیا جائے کہ آپ کا نکتہ نظر کچھ اور ہے (جو آپ کی کتاب پڑھنے کے بعد ہی معلوم ہوگا) لیکن جن عبارات کا یہ حوالہ مفتی صاحب نے دیا ہے، ان پر تو یہ ’’پھبتیاں‘‘ بالکل صادق آتی ہیں۔ کچھ ان کا جواب تو ہونا چاہیے تھا۔ یہ کہہ دینا کہ یہ پھبتیاں ہیں، علمی انداز نہیں ہے جس کے آپ اور الشریعہ مدعی ہیں۔
۳۔ آپ اجماع کو حجت نہیں مانتے، حالانکہ تمام ائمہ مجتہدین کے نزدیک اجماع حجت ہے۔ آپ کی عبارت ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے دیت کی مقدار اور عاقلہ وغیرہ کے معاملات میں اہل عرب کے جس معروف کو اختیار کیا، اس کے ابدی شرعی حکم ہونے کے الگ سے یہ اور یہ دلائل ہیں‘‘ اس بات پر دلالت کر رہی ہے۔ دیت کی مقدار پر تمام صحابہ کا اور تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے۔ اگر منطقیات کے ذریعے دلیل شرعی کا ابطال جائز ہے تو یہ خود محتاج دلیل ہے۔
۴۔ آپ سنت کے مفہوم میں خلفاے راشدین کی سنت کو داخل نہیں کرتے۔ ’’تو صحابہ کی آرا اور فتاویٰ کو بھی اہل عرب کے عرف پر مبنی سمجھنا چاہیے‘‘ اس بات کی طرف دلالت کرتے ہیں، حالانکہ حضرت عمر کے نزدیک بھی دیت سو اونٹ ہی ہے۔ (کتاب الخراج)
۵۔ سنت کی تشریعی اور غیر تشریعی (قضا اور سیاسہ) تقسیم آپ کا اجتہاد ہے، جیسا کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کی جو مقدار مقرر فرمائی، وہ تشریع کے دائرے کی چیز ہے یا قضا اور سیاسہ کے دائرے کی‘‘ اس بات پر شاہد ہے۔ میں نے اپنے محدود مطالعے میں اہل سنت والجماعت کی اصول کی کتابوں میں یہ تقسیم نہیں پائی۔
۶۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قضا اور سیاست کے بارے میں آپ کا یہ نظریہ کہ اس کا اتباع لازمی نہیں ہے، محتاج دلیل ہے، بلکہ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ’واجتہادہ صلی اللہ علیہ وسلم بمنزلۃ الوحی لان اللہ تعالیٰ عصمہ من ان یتقرر رایہ علی الخطا‘ (حجۃ اللہ البالغہ)
میں امیدکرتا ہوں کہ مذکورہ بالا عبارات کو صحت مند تنقید کے طور پر لیا جائے گا اور الدین النصیحۃ کے تناظر میں پرکھا جائے گا۔ آپ سے گزارش ہے کہ اپنی کتاب ’حدود وتعزیرات‘ بذریعہ وی پی پی دیے گئے پتے پر ارسال کر دیں۔ جزاکم اللہ
محمد عمران خان عفی عنہ
مکان نمبر ۸۱۲۔ گلی نمبر ۷۴
جی نائن ون ۔ اسلام آباد

’’عصر حاضر میں تدریس حدیث کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر سیمینار

حافظ عبد الرشید

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر سیمینارز اور علمی و فکری نشستوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جو اکادمی کی سرگرمیوں کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ان سیمیناروں میں ملک اور بیرون ملک سے ممتاز اہل علم و دانش کو اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت دی جاتی ہے۔ اب تک دینی مدارس کے نظام و نصاب، تدریس کے طریقے اور تعلیم و تربیت کے مناہج کے عنوانات پر نشستیں ہو چکی ہیں۔ اسی سلسلے میں موّرخہ ۱۵ فروری ۲۰۰۹ ء بروز اتوار اکادمی میں ’’عصر حاضر میں تدریس حدیث کے تقاضے‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار ہو ا جس میں ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا مفتی برکت اللہ صاحب اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے نائب مہتمم مولانا مفتی محمد زاہد صاحب مدعو تھے۔ سیمینار کی صدارت اسلام آباد کے معروف عالم دین مولانا محمد رمضان علوی نے فرمائی ۔ سیمینار کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد مولانا حافظ محمد یوسف (استاد الشریعہ اکادمی) نے معزز مہمانان گرامی کا خیر مقدم کرتے ہوے ان کا شکریہ ادا کیا اور اکادمی کے ڈپٹی ڈائر یکٹر مولانا محمد عمار خان ناصر کو ابتدائی خطاب کی دعوت دی۔ 
مولانا محمد عمار صاحب نے اپنے مختصر خطاب میں عصر حاضر کے معروضی حالات اور نفسیات کے تناظر میں تدریس حدیث کے دو پہلووّں کی طرف توجہ دلائی۔ انھوں نے فرمایا کہ قرآن وحدیث ہمارے دینی نصاب کا مرکز و محور ہیں جبکہ دوسرے علوم ان کو سمجھنے کے لیے معاون و تابع کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر انہی د و بنیادی مآخذ سے اخذ شدہ ہیں۔ ہر دور میں اہل علم ودانش نے ان علوم کو استعمال کرتے ہوئے قرآن وسنت کی طرف رجوع کیا اور اپنے دور کے معروضی حالات ونفسیات کے تحت پیدا ہونے والے سوالات میں معاشرہ کی رہنمائی کی۔ اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آج کے دور میں حدیث کا مطالعہ کرتے ہوے فی الجملہ اسے قرآن کی شرح سمجھنے کے ساتھ ساتھ ہر ہر حدیث اور ایک ایک روایت کا قرآن کریم سے معنوی تعلق واضح کرنے کی ضرروت ہے کہ کس طرح قرآن نے ایک بات کہی اور حدیث نے اس پر احکام مرتب کیے، قرآن نے ایک عمومی اصول بیان کیا تو اس کی حکمت کی روشنی میں کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شمار حکیمانہ اور علمی فروع وجزئیات اخذ کیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ موجودہ دور میں مختلف فکری عوامل کے تحت ایک خاص قسم کی نفسیات وجود میں آئی ہے، ایک خاص ذہن بناہے جویہ سمجھنا چاہتا ہے کہ قرآن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے احکامات اخذ کیے اور کیسے ان پر عمل کیا، کیونکہ یہ بات طے ہے کہ جس علو ذہنی اور جس رسائی وگہرائی کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم سے علوم ومعارف اخذ کیے ہیں، کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ مولانا عمار صاحب نے دوسری بات یہ کہی کہ ہمارے ہاں حدیث عملاً فقہا کے استنباطات، اختلافات اور فقہی اجتہادات کی خادم بن کر رہ گئی ہے۔ اکثر علمی بحثوں میں اصلاً ٰیہ ہی زیر بحث ہوتاہے کہ اس حدیث سے فلاں فقہ نے کیا سمجھا ہے، پھر اسی کا معارضہ ومناقشہ ہوتاہے کہ اگر وہ یہ کہیں گے تو ہم اس کا یہ جواب دیں گے وغیرہ۔ حالانکہ نفس الامر میں حدیث قرآن کی خادم تو ہے لیکن اس کی شان اس سے بہت بلند ہے کہ اس کو انسانوں کے، خواہ وہ کتنے ہی بلند مرتبہ ہو ‘ اقوال و اجتہادات کا خادم اور ان کو سمجھنے کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ حدیث کو اس کی مستقل حیثیت و شان اور اصلی مرتبہ پر رکھ کر ہی پڑھنا چاہیے۔ اس کے ضمن میں جزوی طور پر فقہا کے اجتہادات کو زیر بحث لایا جائے تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ایک علمی ضرورت ہے۔ 
اس کے بعد اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی صاحب کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ میں حدیث کی تدریس و تفہیم سے متعلق تین باتیں عرض کروں گا: 
انہوں نے بعض روایات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیاکہ حدیث بیان کرتے ہوئے سامعین کے معروفات ومسلمات کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے ان کے ذہنوں میں نفرت پیداہو اور وہ اللہ اور رسول کی بات جھٹلانے کی منزل تک جاپہنچیں ۔ حدیث کے بیان کو لوگوں کے ایمان میں اضافے کا ذریعہ بننا چاہیے، اس میں تشکیک و شبہات کا نہیں اور جس طرح پبلک میں ذ ہنی سطح معروفات و مسلمات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اسی طرح کلاس کی ذہنی سطح کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے کیونکہ حدیث کے طلبہ کا جو ذہنی معیار آج سے پچاس سال پہلے تھا، وہ آج نہیں پایا جاتا۔ آج تو طلبہ اگر نفس حدیث اور اس کا ترجمۃالباب سے ربط ہی سمجھ لیں تو ان کی بڑی مہربانی ہو گی۔
دوسری بات انھوں نے یہ کہی کہ حضرت امام طحاوی ؒ کی کتاب ’’شرح معانی الآثار‘‘ احناف کے مستدلات کا بہت بڑا ماخذ ہے۔ انہوں نے اس کتاب کی وجہ تصنیف میں دو جملے لکھے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حدیث کا ظاہری تعارض و تضاد جب لوگو ں کے سامنے آتاہے تو ضعیف ایمان والے تشکیک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور ملحدین اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ایک مسئلہ میں دس حدیثیں متعارض ہیں، کس پر عمل کریں اور کس کو چھوڑیں۔اس تأثر کو ختم کرنے کے لیے امام طحاوی نے یہ کتاب تصنیف فرمائی ۔اگر تیسری صدی ہجری میں یہ صورت حال تھی کہ امام طحاویؒ کو یہ کتاب لکھنی پڑی تو آج ۱۵ویں صدی ہجری ہے اور امام طحاوی ؒ کے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت بھی دوچند ہے۔ آج بھی اس ذوق کو سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ احادیث کے باہمی تعارض کو ہم جھگڑے کے لیے استعمال نہ کریں بلکہ تطبیق و ہم آہنگی کو ظاہر کرنے کی کوشش کریں۔
تیسری بات حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالے سے یہ بیان کی کہ شاہ صاحب کے نزدیک حدیث تمام علوم دینیہ حتیٰ کہ قرآن کا بھی مأخذ ہے۔ انہوں نے علم اسرار دین کو علم حدیث کا ایک شعبہ بنایا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ گذشتہ ادوار میں جس طرح علما پر واجب تھاکہ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے قرآن کا اعجاز واضح کریں، آج کے دور میں بھی ان علما پر فرض ہے کہ وہ اعجاز قرآنی کو اس حوالے سے بھی ثابت کریں کہ قرآن نے سوسائٹی کے لیے جو قوانین واحکام پیش کیے ہیں اورجس طرح کے مصالح کو پیش نظر رکھا ہے، آج کا کوئی بھی نظام اس کی نظیر پیش نہیں کرسکتا۔ ایسے مکمل و اکمل اور معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے والے قوانین پیش کرنا کسی اکیلے انسان یا انسانوں کی کسی جماعت کے بس کی بات نہیں۔ یعنی حدیث پڑھاتے ہوئے آج کے زمانے کے مطابق اس کی لِم اور سِر کو بیان کرناضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید تحقیقات کا مطالعہ بھی ضروری ہے جس سے حدیث کی تفہیم میں آسانی پیدا ہوگی اور ایمان میں بھی اضافہ ہو گا۔ 
اس کے بعد مولانا مفتی محمد زاہد صاحب نائب مہتمم جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد نے نہایت پُر مغز علمی اور وقیع معلومات پر مشتمل خطاب فرمایا۔ انہوں نے تدوین حدیث کی تاریخ کو بنیاد بناتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کی طرف توجہ دلائی:
(۱) حدیث کی تدریس میں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ آیا اس سے ہمارے زمانے کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں۔ کیا ہمارا طریقہ تعلیم ایسا ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہونے والے فیض سے آج کی جیتی جاگتی زندگی کو سیراب کر سکیں؟
(۲) ہمارے ہاں (اس سے مراد پوری دنیا میں موجود وہ حضرات ہیں جو حدیث کے پڑھنے پڑھانے میں مصروف ہیں) حدیث کا مصرف یہ رہ گیا ہے کہ ہم اُسے ایسے ہتھوڑے کے طور پر استعمال کریں جس سے ایک دوسرے کا سر پھوڑا جا سکے، حالانکہ حدیث کی تاریخ میں کہیں بھی اس مقصد کے لیے اسے استعمال نہیں کیا گیا۔ ہمارے اکابرین مثلاً حضرت عمربن عبدالعزیز ؒ اور حضرت امام مالک ؒ نے باوجود حکومت و اقتدار کی قوت کے حدیث میں موجو د مختلف نوعیت کے اعمال کے رواج کو ختم نہیں کیا بلکہ اس خواہش کا اظہار کرنے والوں کو سختی سے روکا کیونکہ امت کی حکمت اس بات میں ہی ہے کہ امت میں مختلف آرا اور اجتہادات کا تنوع برقرار رہے۔ 
گلہائے رنگا رنگ سے ہے رونق چمن 
انہوں نے حضرت شیخ الہند ؒ کا ایک واقعہ نقل کر کے عمومی رویے کی نشاندہی فرمائی کہ حضرت شیخ الہندؒ حدیث کا درس دے رہے تھے کہ ایک حدیث ایسے ہی بلاتبصرہ گزر گئی۔ ایک طالب علم بولے کہ حضرت یہ حدیث احناف کے خلاف ہے تو حضرت نے فرمایا کہ ’’میں کیاکروں؟‘‘ یعنی یہ تو فقہا کے مستدلات ہیں اگر ہمارے خلاف کوئی حدیث آگئی تو کون سی آفت ٹوٹ پڑی۔ پچھلی حدیث ان کے بھی تو خلاف تھی۔ لیکن پھر وہی شیخ الہند ؒ باوجود اپنے اس معتدل مزاج کے ’’ایضاح الأدلۃ‘‘ لکھنے پرمجبور ہوئے کیونکہ فریق مخالف کی طرف سے تشدد کا مظاہر ہ ہو رہا تھا۔ 
مفتی صاحب نے فرمایا کہ جس طرح قرآن کریم میں ہر ہر آیت سے مختلف سوالوں کا جواب ملتا ہے، اسی طرح حدیث کے مجموعوں میں بھی ہر ہر حدیث سے بے شمار سوالوں کا جواب ملتا ہے، اس لیے جس طرح قرآن کریم کو آیات الاحکام کے ساتھ خاص کرنامناسب نہیں، اسی طرح حدیث کوبھی کسی خول میں بند کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔
(۳) دینی مدارس میں سال کے آخر میں احادیث کی جو تلاوت ہوتی ہے، اسے اجتماعی مطالعہ کی شکل دی جائے۔طلبہ کے پاس پنسلیں اور ڈائریاں ہوں اور اس پر انعام مقرر کیاجائے کہ کون احادیث باب سے ترجمۃ الباب سے ہٹ کر کتنے مسائل اخذ کرتا ہے۔ 
(۴) حدیث کا صرف یہ حق نہیں کہ اس پر کمروں میں بیٹھ کر تبادلہ خیال کیاجائے یا لائبریریوں میں تحقیق کی جائے۔ یقیناً یہ بھی اہم فریضہ ہے اور ضروری ہے لیکن عام معاشرتی زندگی میں حدیث کا چلن ہونا زیادہ اہم ہے ۔ جھو ٹ، سچ، غصہ، ناراضگی، محبت خداوندی، انابت الی اللہ، انفرادی زندگی، گھریلومسائل، سیاست و قانون تک میں حدیث چلتی پھرتی نظرآنی چاہیے۔ اس کے لیے عام لوگوں کا حدیث سے زیادہ سے زیادہ فہم کا تعلق قائم کر ناضروری ہے، اس کے لیے طلبہ کو اس کی مشق کرانی چاہیے کہ وہ لوگوں میں رائج زبان میں شستہ و عمدہ ترجمہ کرسکیں۔
اس کے بعد مولانا مفتی برکت اللہ صاحب نے خطاب کیا جس میں انہوں نے حدیث کی تحقیق و تخریج کے لیے جدید ذرائع ابلاغ کے استعمال پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے مختلف سائٹس کی نشاندہی کی جو حدیث کی تحقیق اور تخریج میں از حد معاون ثابت ہو سکتی ہیں ۔ انہوں نے اسی خواہش کا اظہار کیا کہ جیسے دنیا کے مختلف کونو ں میں مختلف علوم وفنون پر بڑے اچھے اچھے میوزیم بنائے گئے ہیں، ایسے ہی حدیث سے متعلق ایک جدید اور تحقیقی میوزیم ہونا چاہیے جس میں حدیث کے طرق و اسناد کے تنوع ((Diversity حدیث کی حفاظت میں محدثین و رواۃ کی بے مثال خدمات اور حفاظتِ حدیث پر مستند مواد کو بصری ذرائع سے پیش کیا جائے ۔ یہ بات آج کے متجسس ذہن، خاص طور پر مغربی ذہن کو اپنی جانب کھینچ لے گی اور وہ مبہوت ہو کر اسلام کی حقانیت کا یقین کر لے گا۔ انہوں نے یہ رائے بھی دی کہ اس طرح کے سیمینار ز میں پروجیکٹر (projector) اوردوسرے سمعی وبصری ذرائع کا استعمال ہونا چاہیے۔ 
تقریب کے آخر میں مولانا مفتی رویس خان صاحب آف میر پور آزاکشمیر نے بڑی شگفتہ گفتگو میں اس بات پر زور دیا کہ طلبہ حدیث جب حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے ذہن میں مختلف قسم کے اشکالات پیدا ہوتے ہیں، اساتذہ کرام کو چاہیے کہ ان اشکالات پر طلبہ کو ڈانٹنے یا مطعون کرنے کے بجائے ا ن کو سنیں، سمجھیں اور تسلی بخش جواب دینے کی کوشش کریں تاکہ طلبہ شرح صدر کے ساتھ حدیث کے مطلب کو جذب کرسکیں ۔ انہوں نے چند پُرلطف واقعات بھی سنائے جن سے محفل کشتِ زعفران بنی رہی اور حاضرین نے بہت حظ اُٹھایا۔ 
تقریب کے اختتام پر مولانا مفتی رویس خان صاحب نے دُعا کرائی اور شرکاے محفل کی چائے کے ساتھ تواضع کی گئی۔

مولانا اللہ وسایا کی الشریعہ اکادمی میں تشریف آوری

عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا صاحب ۲۰؍ فروری کو گوجرانوالہ کے دورہ کے موقع پر الشریعہ اکادمی میں بھی تشریف لائے اور نماز عصر کے بعد علماے کرام اور طلبہ کی ایک نشست سے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے تقاضوں کے حوالے سے تفصیلی خطاب فرمایا۔ انھوں نے ’’احتساب قادیانیت‘‘ کے عنوان سے اپنی ۲۵ جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب بھی الشریعہ اکادمی کی لائبریری کے لیے ہدیہ کی جس میں انھوں نے قادیانیت کے بارے میں گزشتہ ایک صدی کے دوران مختلف مکاتب فکر کے اکابر علماے کرام کی طرف سے لکھی جانے والی تحریروں کو یکجا کر کے کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہے۔ الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہد الراشدی نے الشریعہ اکادمی میں تشریف لانے اور ضخیم کتاب لائبریری کے لیے ہدیہ کرنے پر مولانا اللہ وسایا کا شکریہ ادا کیا ہے اور دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی دینی وعلمی خدمات کو قبولیت وثمرات سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔

’’چہرے کا پردہ : واجب یا غیر واجب؟‘‘

ڈاکٹر انوار احمد اعجاز

مصنفین: پروفیسر خورشیدعالم /حافظ محمد زبیر
صفحات ۴۱۲۔ قیمت:۳۵۰روپے۔ شائع کردہ: دارالتذکیر، غزنی سٹریٹ، اردو بازار، لاہور۔
علمی وفکری مسائل میں ارباب علم ودانش کو جب بحث ومباحثہ کا ماحول بہترین انداز میں نصیب ہو جائے تو ان کے ہاں باہمی مکالمے کا ذوق فزوں تر ہو کر تجزیہ واستدلال کی شاہر اہ پر چلتے ہوئے حقائق کی تفصیلات وجزئیات تک کا سفر طے کرتا ہے۔ عصر حاضر میں بعض دینی رسائل بڑے اہتمام کے ساتھ اس علمی روایت کو نہ صرف نبھا رہے ہیں بلکہ اس روایت کی ایک نئی روایت کی بھی تشکیل کر رہے ہیں۔ ان رسائل میں اشراق، الشریعہ اور حکمت قرآن کے نام بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔ 
’چہرے کا پردہ واجب یا غیر واجب‘ کے موضوع پر اگست ۲۰۰۵میں پروفیسر خورشید عالم کا مقالہ ماہنامہ اشراق میں اشاعت پذیر ہوا تھا۔ یہ مقالہ اپنے اندر موضوع کی مناسبت سے سیر حاصل مواد رکھتا تھا۔ پروفیسر خورشید عالم نے اس مقالے میں سورہ احزاب اور سورہ نور کی ترتیب نزولی، حجاب اور ستر کے مباحث اور امتیازات، لفظ ’جلباب‘ پہ لغت اور تفسیر کے حوالے سے تحقیق، ’الاماظہر منہا‘ کی تفسیر، غض بصر اور زینت ظاہری کے بارے میں عادتاً اور عبادتاً کی اصطلاح کے پس منظر میں محدثین اور فقہا کے نقطہ ہاے نظر کو نہایت احسن انداز میں پیش کیا گیا۔ یہ مقالہ اپنے اندر علمی وفکری بصیرت کا کافی سامان لیے ہوئے تھا۔ 
حافظ محمد زبیر نے ماہنامہ ’حکمت قرآن‘ کی دسمبر ۲۰۰۵ کی اشاعت میں اس مقالے کے مباحث پہ اپنا تنقیدی مقالہ ’’چہرے کاپردہ، واجب، مستحب یا بدعت؟‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ اس مقالہ کاایک جملہ یہ ہے: ’’ فاضل مصنف علما کے شذوذات سے استدلال کرتے ہوئے چہرے کے پردہ کے واجب یا مستحب تو کجا، بدعت قرار دینے کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔‘‘ حافظ محمد زبیر نے اپنے مقالہ میں پروفیسر خورشید عالم سے گزارش کی کہ علماے سلف کے موقف کو خلط ملط نہ کریں۔ انہو ں نے پردے کے واجب یاغیر واجب کی علمی عقدہ کشائی کومستحب اور بدعت تک پھیلانے کا معرکہ سرانجام دیا۔ 
پروفیسر خورشید عالم نے اشراق، مئی ۲۰۰۶ میں حافظ محمد زبیر کے علمی کام کا بھر پور جواب دیتے ہوئے ان کی علمی بددیانتی سے لے کر ان کے مبلغ علم تک کی قلعی اس طرح کھول دی کہ بیشتر پڑھنے والے حیران رہ گئے۔ پروفیسر صاحب نے لکھاکہ ’’انہوں نے اس جواب کو فقہی عنوان دے کر خلط مبحث سے کام لینے کی کوشش کی ہے اور خاص مکتب فکر سے تعلق کی بنا پر اپنے ذہن میں جمے ہوئے خیالات کو تحقیق کے بغیر جوں کا توں ’حکمت قرآن‘ کے صفحات تک منتقل کر دیا ہے۔‘‘
بہرحال اشراق اور حکمت قرآن کے صفحات پہ ان دو ارباب دانش کے مباحثات مسلسل اشاعت پذیر ہو کر بالآخر ماہنامہ اشراق، فروری ۲۰۰۷ میں اختتام پذیر ہوئے۔ یہ ۱۷ مقالے اپنے اندر موضوع کی مناسبت سے نہ صرف علمی وتحقیقی مواد رکھتے ہیں بلکہ جواب مقالہ اور پھر جواب الجواب کی صورت میں تحقیق مزید کاروپ بھی لیے ہوئے تھے۔ جن قارئین نے ان ہردو رسائل میں اس علمی بحث کوچلتے اور اظہار کی نت نئی صورتیں اختیار کرتے پڑھا ہوگا، یقیناًانہوں نے اس بحث سے بہت کچھ سیکھا ہو گا، خاص طور پر یہ کہ کس طرح اپنا نقطہ نظر دلائل کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے، جس موقف سے اختلاف ہو، اس کی کمزوری کو کس طرح علمی انداز سے واضح کیا جاتا ہے اور استدلال سے اپنے موقف کی برتری کس طرح واضح کی جاتی ہے۔ 
یہ کتاب اپنے اندر تحقیق اور جستجو کے شائقین کے لیے خاصا مواد رکھتی ہے، اور ابھی کسی اور محقق سے اس موضوع اور مواد پہ تحقیقی اور تنقیدی مطالعے کاحق مانگتی ہے۔ کاش کوئی اہل علم اور زیرک ناقد پیش کردہ مواد کا تنقیدی اور تحقیقی جائزہ پیش کر کے تشنگان علوم کی پیاس بجھا دے۔ البتہ حافظ محمد زبیر کے علمی مرتبے اور تحقیق کے اسلوب کے حوالے سے جو تاثر اس کتاب کے مطالعے سے قائم ہوتا ہے، اس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ انھیں تحقیق کے میدان میں ابھی خاصا سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ خلط مبحث سے کام لیتے ہوئے کس طرح غیر متعلقہ معاملات اٹھاتے ہوئے علمی دیانت کے منافی طرز اختیار کرتے ہیں۔ ان کی عربی دانی کی قابلیت جس طرح ان کے نادر نمونوں سے سامنے آتی ہے، اس کو کوئی اورمثال ابھی تک ہمارے سامنے نہیں ہے کہ وہ کس طرح جابجا الفاظ کے غلط معنی اور کئی مقامات پر احادیث کے غلط ترجمے کر کے ایک افسوس ناک اورغلط روایت کے امین ہونے کابھرپور ثبوت دے رہے ہیں۔ حکمت قرآن مارچ ۲۰۰۶ میں اشاعت پذیر ان کے مقالے میں اٹھارویں حدیث کا ترجمہ انہوں نے جس طرح سے کیا ہے، اس پر افسوس کاا ظہار ہی کیا جا سکتا ہے کہ اصل معاملہ کیا تھا اور حافظ محمدزبیر نے کیا سے کیا کر کے پیش کیا ہے۔ (ص۱۹۰) اسی طرح نہ الفاظ کی دلالت سے نہ معانی کی دلالت سے، نہ ہی لغت کی شہادت سے ’جلباب‘ کامعنی وہ نکلتاہے جو حافظ محمد زبیر نکالتے ہیں۔ (ص ۲۲۲) فضیل بن عباس والی روایت کا مکمل علمی تجزیہ (ص۲۲۷) پڑھ کر ہمیں حافظ محمد زبیر کی علمی استعداد اور طرز استدلال سے جو آگاہی ہوتی ہے، اس پر فاعتبروا یا اولی الابصار ہی کہا جا سکتا ہے۔ غلط تراجم، بودے استدلال، معانی میں تحریف، اور غیر متعلقہ معاملات اٹھانے کی روایت کے ساتھ ساتھ عربی لغت سے ناواقفی کے باعث اگر حافظ محمد زبیر، پروفیسر خورشید عالم کی طرف سے دیے گئے مشوروں کو قبول کر لیں اور آئندہ بحثوں میں زیادہ سنجیدگی اور محنت سے کام لیں تو اس مباحثے کا حق ادا ہو جائے گا۔ 
کتاب کے صفحات نمبر ۱۶۴، ۲۱۸ اور ۳۹۱ پر ایک ترکیب ’’فحش غلطی‘‘ استعمال ہوئی ہے۔ یہ ایساغلط العام بن چکا ہے کہ عموماً اس کو غلط سمجھا ہی نہیں جاتا۔ یہ ترکیب ہی غلط ہے ، اصل لفظ ہے فاش غلطی۔ فاش کا مطلب ہے ظاہر، کھلا، آشکار، صریح، جب کہ فحش کامطلب ہے گالی، بے ہودہ بات، یاقابل شرم بات۔ ایک لفظ فاحش بھی ہے جس کامطلب شرمناک، جسم، بھاری اور سخت ہے۔ لغت کی کتابوں میں فاش غلطی اور فاحش غلطی تو ان معنوں میں مستعمل ہیں جو ہمارے اہل قلم لکھنا چاہتے ہیں، لیکن فحش غلطی کاتو مطلب ہی اور ہے۔
محمداحسن تہامی نے اس تمام علمی بحث کی ۱۷ ؍اقساط کو ایک منظم ترتیب سے بے کم وکاست کتابی شکل میں محفوظ کرکے ارباب بصیرت کے حضور ایک فکری کاوش کے روپ میں پیش کر دیا ہے۔ ۴۱۲ صفحات پرپھیلا ہوایہ علمی معرکہ اپنے اندر سیکھنے، سمجھنے، علم کو برتنے، پیش کرنے اورعمل کے نئے زاویے سمجھانے کا پورا التزام لیے ہوئے ہے۔ یہ کتاب دارالتذکیر کی اشاعتی روایت کی حسین تر صورت ہے۔ پروف ریڈنگ کا کامل التزام اس کو یادگار بنا دینے کے لیے کافی ہے۔ ارباب بصیرت اس علمی کاوش سے ضرور استفادہ کریں۔