کچھ ’’حزب التحریر‘‘ کے بارے میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ان دنوں برطانیہ کے قومی ذرائع ابلاغ میں ’’حزب التحریر‘‘ کا تذکرہ چل رہا ہے اور ۷ اگست ۱۹۹۴ء کو ویمبلے کانفرنس ہال لندن میں حزب التحریر کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی ’’بین الاقوامی خلافت کانفرنس‘‘ کے حوالہ سے مختلف امور زیر بحث ہیں۔ اس کانفرنس میں برطانیہ بھر سے ہزاروں مسلمانوں نے شرکت کی جن میں یونیورسٹیوں کے طلبہ اور طالبات نمایاں تھے جس سے یہ تاثر عام ہوا کہ حزب التحریر کو برطانیہ کے پڑھے لکھے مسلمانوں میں گہرا اثر و رسوخ حاصل ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی و مذہبی حلقوں میں حزب التحریر سنجیدہ گفتگو کا موضوع بنی ہوئی ہے اور سیاسی حلقوں کے ساتھ ساتھ مذہبی حلقوں میں بھی اس کے عقائد اور اس کے راہ نماؤں کی مختلف تحریرات پر روایتی انداز میں تبصرہ ہو رہا ہے۔
برطانیہ میں حزب التحریر کے امیر ایک فلسطینی عالم دین الشیخ عمر بکری محمد ہیں جو اچھا علمی ذوق رکھتے ہیں اور ’’اصول الدین‘‘ کے متخصص استاذ ہیں۔ لندن میں ’’شریعہ کالج‘‘ کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ انہوں نے قائم کر رکھا ہے جس میں نوجوانوں کو بطور خاص ’’اصول دین‘‘ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ خود شافعی المذہب ہیں لیکن دوسرے فقہی مذاہب کے اصول و جزئیات پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں۔ میری ان سے متعدد ملاقاتیں ہو چکی ہیں، پہلی ملاقات کا انتظام گزشتہ سال لندن میں سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کے نوجوان نے کیا تھا جن کا خلافت کے احیاء و قیام کے لیے جوش و جذبہ اور محنت قابل رشک ہے۔ اس ملاقات میں الشیخ عمر بکری محمد سے یہ معلوم کر کے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ حزب التحریر کے بانی الاستاذ تقی الدینؒ النبہانی ہیں۔ استاذ نبہانی کے لٹریچر سے میں اس سے قبل متعارف تھا اور ان کی متعدد تصانیف میری نظر سے گزر چکی تھیں۔ بلکہ جس دور میں ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ کا ایک حصہ عربی میں شائع کیا جاتا تھا، استاذ نبہانی کے ایک دو مضمون ان کی کتابوں سے ہم نے نقل بھی کیے۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ استاذ نبہانی کون بزرگ ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں، زندہ ہیں یا فوت ہو چکے ہیں، لیکن ان کے طرز تحریر سے میں متاثر تھا کیونکہ انہوں نے اسلام کے اصول و احکام کو اس اسلوب میں پیش کیا ہے جو آج کی ضرورت ہے اور جس سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنوں میں اسلام کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو دور کر کے اسے اسلام کی خدمت کے لیے تیار کیا جا سکتا ہے۔
اس پس منظر میں شیخ عمر کے ساتھ میری پہلی ملاقات حزب التحریر سے ذہنی قرب کا باعث بنی۔ الاستاذ تقی الدینؒ النبہانی کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ فلسطین کے رہنے والے تھے، شافعی المذہب تھے اور عالم اسلام میں خلافت اسلامیہ کا احیاء و قیام ان کی زندگی کا سب سے بڑا مشن تھا، اور یہ افسوسناک خبر بھی کہ ان کا انتقال ہو چکا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
الشیخ عمر بکری محمد کے ساتھ اس کے بعد متعدد ملاقاتیں ہوئیں جن میں وہ بیشتر سوالات اور خدشات زیر بحث آئے جو خود میرے ذہن میں پیدا ہوگئے تھے یا بہت سے احباب نے حزب التحریر کے بارے میں مجھ سے ذکر کیے تھے۔ اہل علم میں اختلاف رائے کی گنجائش ہر وقت ہوتی ہے لیکن دیانت داری کی بات یہ ہے کہ ان ملاقاتوں میں ہونے والی طویل گفت و شنید کے بعد مجھے کوئی ایسا وزنی خدشہ یا سوال نظر نہیں آتا جسے حزب التحریر کی مخالفت یا اس کے خلاف محاذ آرائی کی بنیاد بنایا جا سکے۔
میرے ذہن میں سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ حزب التحریر کا فکری دائرہ کیا ہے اور کیا وہ اہل سنت کے مسلمہ فقہی مکاتب فکر سے ہٹ کر کسی نئے خودساختہ مذہبی مکتب فکر کی داعی تو نہیں ہے؟ اس کے جواب میں شیخ عمر کا کہنا ہے کہ وہ اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں، اس کے تمام فقہی مذاہب کا احترام کرتے ہیں، خود شافعی المذہب ہیں اور فقہی مذاہب کی پیروی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ البتہ نئے پیش آمدہ مسائل اور دورِ جدید کی مشکلات کے حل کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ فقہی مذہب کے طے کردہ اصولوں کی روشنی میں قرآن و سنت سے ان مسائل کا حل براہ راست استنباط کیا جائے۔ وہ اجماع صحابہؓ کو حجت سمجھتے ہیں او رخبرِ واحد کو بھی اعتقادات کے علاوہ باقی امور میں حجت مانتے ہیں۔
میرے ذہن میں دوسرا خدشہ خلافت کے قیام کے لیے ان کی جدوجہد کے طریق کار کے بارے میں تھا۔ کیونکہ اس وقت عالمی صورتحال اور عالم اسلام کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ایسی تحریک ملت اسلامیہ کے مفاد میں نہیں ہے جو مخالف قوتوں کی بیداری اور ہوشیاری میں اضافہ اور مسلمانوں کی قوت کے بلاوجہ ضیاع کا باعث بنے۔ مگر یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا کہ کام کو آگے بڑھانے کی ترتیب ان کے ذہن میں بھی کم و بیش وہی ہے جو گزشتہ تجربات کے پیش نظر خود میرے ذہن میں قائم ہو چکی ہے۔ وہ یہ کہ پہلے اہل علم اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو ذہنی اور فکری طور پر خلافت کے قیام کے لیے تیار کیا جائے اور ان کے ذہنوں میں خلافت کے احیاء کی صورت میں جو خدشات مغرب کے ذرائع ابلاغ نے مسلسل پراپیگنڈہ کے ذریعے پیدا کر دیے ہیں انہیں دور کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی رائے عامہ کو مسلم ممالک میں موجود و مسلط کافرانہ نظاموں کے خلاف منظم کیا جائے اور مسلمانوں کی پرامن اجتماعی قوت کے ساتھ کسی مناسب مقام پر خلافت کے احیاء کی طرف پیش رفت کی جائے۔
یہ تو تھے میرے ذاتی خدشات جن کا ذکر میں نے شیخ عمر سے دوٹوک طور پر کیا اور ان کے جوابات سے میں اس حد تک ضرور مطمئن ہوں کہ اگر کسی مسئلہ پر اختلاف موجود بھی ہے تو وہ اہل سنت کے مسلمات کے دائرہ سے باہر نہیں ہے اور باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ مسائل کو طے کرنے اور مشترکہ مقاصد کے لیے مل جل کر آگے بڑھنے کے امکانات موجود ہیں۔
اب میں ان خدشات و سوالات کی طرف آتا ہوں جو مختلف مذہبی حلقوں کی طرف سے حزب التحریر کے اعتقادات کے بارے میں اٹھائے گئے ہیں اور بعض مقامات پر اس سلسلہ میں اشتہارات بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔ اس ضمن میں الشیخ عمر بکری محمد کے ساتھ ایک خصوصی ملاقات کا اہتمام کیا گیا جو ۳ ستمبر ۱۹۹۴ء کو اسلامک سنٹر اپٹن پارک لندن کے خطیب مولانا قاری عبد الرشید رحمانی کی رہائش گاہ پر ہوئی۔ اس ملاقات میں قاری صاحب موصوف کے علاوہ ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسیٰ منصوری، جامع مسجد ویمبلڈن پارک لندن کے خطیب مولانا کلام احمد اور مولانا قاری محمد شریف بھی شامل تھے۔ ملاقات میں شیخ عمر نے ان سوالات کے جوابات دیے جو بعض مذہبی حلقوں کی طرف سے ان کے بارے میں کیے جا رہے ہیں اور ان بیشتر اعتراضات کو بے بنیاد قرار دیا جو حزب التحریر کے حوالہ سے سامنے لائے جا رہے ہیں۔
مثلاً ایک اعتراض یہ تھا کہ حزب التحریر کے لوگ ’’عذاب قبر‘‘ کے منکر ہیں۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ غلط ہے کیونکہ وہ عذاب قبر کے قائل ہیں اور عذاب قبر سے پناہ کی دعا مانگتے ہیں، البتہ ان کے نزدیک عذاب قبر کا مسئلہ اعتقادی نہیں اخباری ہے، اس لیے وہ عذاب قبر کے منکر کی تکفیر نہیں کرتے بلکہ اسے گنہگار سمجھتے ہیں۔
دوسرا اہم سوال یہ تھا کہ وہ سعودی حکمرانوں کی تکفیر کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں شیخ عمر نے کہا کہ وہ سعودی حکمرانوں سمیت کسی مسلم حکمران کو کافر نہیں کہتے سب کو مسلمان سمجھتے ہیں، البتہ وہ مسلم ممالک میں اس وقت جو نظائم رائج ہیں ان کو کافرانہ نظام قرار دیتے ہیں اور ان نظاموں کے خلاف جدوجہد کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔
ایک اور سوال یہ تھا کہ حزب التحریر والے غیر محرم خواتین کے ساتھ مصافحہ اور تقبیل کو جائز کہتے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے زوردار لہجہ میں لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھا اور کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟ کیونکہ وہ شافعی ہیں اور شوافع کے نزدیک تو عورت کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس لیے وہ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اور پھر یہ امور زنا کے مقدمات میں سے ہیں اس لیے ان کے جواز کی بات نہیں کہی جا سکتی۔
الغرض اس نوعیت کے متعدد سوالات تھے جو بعض حلقوں کی طرف سے حزب التحریر کے خلاف زبانی اور تحریری طور پر پھیلائے جا رہے ہیں لیکن شیخ عمر کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کے دوران ان میں سے کوئی اہم بات پایۂ ثبوت تک نہیں پہنچ سکی۔
اس موقع پر یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم دراصل فقہی و مسلکی محنت اور اجتماعی ملی مسائل کے لیے جدوجہد کے الگ الگ دائروں کا لحاظ نہیں کر پاتے اس لیے اکثر اوقات الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں تک فقہی اور مسلکی محنت کا تعلق ہے وہاں فقہ و مسلک کی بنیاد پر جس قدر حدود و قیود ضروری ہوں ان میں کوئی حرج نہیں، اور کسی بھی فقہ و مسلک کے لیے ان حدود و قیود کے بغیر محنت آگے نہیں بڑھ سکتی۔ لیکن جہاں اجتماعی ملی مسائل مثلاً خلافت اسلامیہ کا احیاء، عالم اسلام کا اتحاد، ظالمانہ و کافرانہ نظاموں سے نجات، اور عالمی استعمار کے خلاف مشترکہ جدوجہد جیسے امو رکی بات آئے گی وہاں فقہی اور مسلکی حدود کو بہرحال نظر انداز کرنا ہوگا۔ اور اہل سنت کے تمام فقہی و اعتقادی مکاتب فکر احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ، ظواہر، ماتریدیہ، اشاعرہ اور سلفیہ کا یکساں احترام کرتے ہوئے سب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ ورنہ مسلم ممالک کو ظالمانہ و کافرانہ نظاموں سے نجات دلانے اور خلافت اسلامیہ کے قیام کے شرعی فریضہ کی تکمیل کی جدوجہد میں ہم اپنا کردار صحیح طور پر ادا نہیں کر سکیں گے۔
ان گزارشات کے ساتھ برطانیہ اور دیگر ممالک کے دینی حلقوں اور اہل علم سے گزارش کروں گا کہ وہ حزب التحریر کے بارے میں منفی ردعمل کا شکار نہ ہوں۔ اگر علمی اور دینی بنیاد پر کوئی اختلافی مسئلہ سامنے آئے تو اسے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ یہی سلامتی کا راستہ ہے۔
سیرتِ نبویؐ کا سب سے نمایاں پہلو
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی انسانی تاریخ کی وہ منفرد اور ممتاز ترین شخصیت ہے جس کے حالات زندگی، عادات و اطوار، ارشادات و فرمودات، اور اخلاق حسنہ اس قدر تفصیل کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر موجود ہیں کہ آنحضرتؐ کی زندگی ایک کھلی کتاب کے طور پر نسل انسانی کے سامنے ہے اور آپؐ کی معاشرتی و خاندانی حتیٰ کہ شخصی اور پرائیویٹ زندگی کا بھی کوئی پہلو تاریخ کی نگاہوں سے اوجھل نہیں رہا۔ اسے محض اتفاق قرار نہیں دیا جا سکتا کہ انسانی تاریخ اپنے دامن میں جناب رسول اللہؐ کے سوا کسی اور شخصیت کے احوال و اقوال کو اس اہتمام کے ساتھ محفوظ نہیں رکھ سکی۔ بلکہ یہ قدرتِ خداوندی کا اظہار اور اللہ تعالیٰ کے تکوینی فیصلے کا آئینہ دار ہے کہ جب اللہ رب العزت نے اپنے پاکیزہ کلام قرآن کریم میں جناب محمد رسول اللہؐ کی زندگی کو پوری نسل انسانی کے لیے اسوہ اور نمونہ قرار دیا تو اس اسوۂ حسنہ او رنمونۂ کامل کا اپنی تمام جزئیات و تفصیلات کے ساتھ تاریخ کے صفحات پر محفوظ رہنا اس حکم خداوندی کا منطقی تقاضہ ہے۔ اور یہ منطقی تقاضہ ایک معجزہ کے طور پر تاریخ انسانی کا ناقابل فراموش باب بن چکا ہے۔
انسانی فطرت ہے کہ ایک انسان زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے پہلے اپنے سے بہتر شخص کے عمل و کردار کو بطور نمونہ دیکھنا چاہتا ہے۔ اور جو شخص کسی بھی حوالے سے اس کی نظروں میں بہتر اور خوب قرار پاتا ہے اس کی پیروی کو وہ اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’آئیڈیل کی تلاش‘‘ کا تصور اسی انسانی فطرت کا اظہار ہے اور اللہ رب العزت نے نسل انسانی کی ہدایت و راہنمائی کے نظام میں اس کی فطرت کے اس پہلو کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم کی سب سے پہلی سورہ الفاتحہ میں انسان کو ہدایت کے لیے جو دعا سکھائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ
’’اے اللہ! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا ، نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جو تیرے غضب کا شکار ہوئے۔‘‘
یہ انعام یافتہ لوگ جن کے نقش قدم پر چلنے کی سورہ فاتحہ میں تلقین کی گئی ہے بلاشبہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے سچے پیروکاروں کا مقدس گروہ ہے جو اپنے کردار و اخلاق کے اعتبار سے نسل انسانی کا سب سے ممتاز طبقہ ہے۔ اور نسل انسانی نے اپنے اپنے دور میں اس طبقہ کے ہر فرد سے راہنمائی اور ہدایت حاصل کی ہے۔ لیکن ان نیک اور پارسا شخصیات کی زندگیاں اپنی اپنی جگہ ہدایت کا منبع ہونے کے باوجود آج کے انسان کے لیے تاریخ کے صفحات پر اس انداز سے محفوظ نہیں ہیں کہ وہ ان سے اپنی زندگی کے مسائل و مشکلات میں راہنمائی حاصل کر سکے۔ سوائے جناب محمد رسول اللہؐ کی حیات مبارکہ کے کہ آج کا انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں راہنمائی حاصل کرنا چاہے تو اسے آنحضرتؐ کے حالاتِ زندگی یا اقوال و ارشادات میں راہنمائی کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور مل جائے گی۔ یہ محض عقیدت کا اظہار نہیں بلکہ ایک مسلمہ حقیقت ہے جسے آزمائش کی کسی بھی کسوٹی پر آج بھی پرکھا جا سکتا ہے۔
آج نسل انسانی جس ذہنی انتشار، دلی بے اطمینانی اور معاشرتی انارکی کا شکار ہے اس نے ان تمام نظریات، افکار، فلسفوں اور نظاموں کے بھرم توڑ کر رکھ دیے ہیں جن کے تانے بانے خود انسان ہزاروں برس سے اپنے اردگرد بنتا آرہا ہے، اور جن کے سہارے انسانی معاشرہ کو امن و سکون کی منزل سے ہمکنار کرنے کا کوئی بھی خواب تعمیر کا دامن نہیں تھام سکا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بے راہ روی کے تپتے ہوئے ریگستان میں بھٹکنے والی انسانی کی راہنمائی اس سرچشمۂ ہدایت کی طرف کی جائے جو سب سے زیادہ محفوظ، شفاف، شفا بخش اور خوش ذائقہ ہے۔ اور بلاشبہ وہ جناب رسول اللہؐ کا اسوہ حسنہ ہے جس کی پیروی کے بغیر نسل انسانی امن و سکون کی حقیقی منزل سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سراپا مجموعۂ صفاتِ حمیدہ ہے۔ آپؐ کی حیات مبارکہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اربابِ بصیرت اور اہلِ فکر و دانش سے خراج عقیدت وصول نہ کر چکا ہو۔ لیکن آنحضرتؐ کی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو جس نے دوست و دشمن سب کو اس بارگاہ خیر و حسن میں سرنیاز خم کرنے پر مجبور کر دیا، آپؐ کے اخلاق کریمانہ ہیں جسے
- قران کریم نے ’’خلق عظیم‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
- ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کان خلقہ القرآن کہہ کر اسے قرآن پاک کی عملی تعبیر و تفسیر قرار دیا ہے۔
- جناب رسالت مآب ایک حدیث میں خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ’’مجھے اچھے کام مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے‘‘۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ آنحضرتؐ نے اچھے کاموں یعنی مکارم اخلاق کو جن بلندیوں سے ہمکنار کیا ان کی مثال پیش کرنے سے تاریخ آج تک قاصر ہے۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو بھی اچھی عادات اور بہتر معاملات کی تلقین فرمائی ہے۔ اور اخلاق کریمانہ انہی دو امور سے عبارت ہے۔
- ایک حدیث میں ارشاد نبویؐ ہے مجھے تم سب میں سب سے زیادہ اچھا وہ شخص لگتا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں اور سب سے برا میرے نزدیک وہ ہے جو برے اخلاق کا حامل ہے۔
- ایک اور حدیث کے مطابق آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ صاحب ایمان شخص اچھے اخلاق کی بدولت ان لوگوں جیسا مقام حاصل کر لیتا ہے جو رات بھر نفل پڑھنے اور دن کو روزہ رکھنے کے عادی ہیں۔
- ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا کہ زیادہ کامل ایمان ان لوگوں کا ہے جو اچھے اخلاق والے ہیں۔
- ایک صحابیؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! انسان کو سب سے بہتر چیز کون سی عطا ہوئی ہے؟ فرمایا، اچھے اخلاق۔
- حضرت معاذ بن جبلؓ فرماتے ہیں کہ مجھے نبی اکرمؐ نے آخری ملاقات میں جو وصیت کی اس میں فرمایا کہ تم لوگوں کے ساتھ اپنے اخلاق بہتر بناؤ۔
- ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ اپنے بارے میں یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! تو نے جس طرح میری جسمانی بناوٹ کو بہتر بنایا ہے اس طرح میری عادات و اخلاق کو بھی بہتر کر دے۔
- حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جس نے جھوٹ ترک کر دیا اس کا ٹھکانہ جنت کے آغاز میں ہوگا، جس نے حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کیا اس کا ٹھکانہ جنت کے درمیان ہوگا، اور جس نے اپنی ساری عادات و اخلاق کو بہتر بنا لیا اسے جنت کے سب سے اوپر والے حصہ میں جگہ ملے گی۔
اخلاق و عادات کے حوالہ سے جناب رسول اللہؐ نے صرف اپنی زندگی اور عمل کا نمونہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اپنی تعلیمات و ہدایات میں اچھے اور برے اخلاق کے درمیان ایک حد فاصل قائم کر دی ہے۔ آپؐ نے اخلاق حسنہ کا ایک ایسا معیار مقرر کر دیا ہے جو ڈیڑھ ہزار سال کے لگ بھگ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اس باب میں حرف آخر ہے۔ آپؐ نے اچھے اخلاق کی تفصیل بیان فرمائی ہے، اچھی عادات کا ذکر کیا ہے، ان میں سے ہر ایک کے فوائد سے لوگوں کو آگاہ کیا ہے، اور پھر خود ان پر عمل کر کے اس کا نمونہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح جناب نبی کریمؐ نے برے اخلاق اور بد عادات کا تذکرہ فرمایا ہے، ان کے نتائج سے لوگوں کو خبردار کیا ہے، اور خود اس سے بچ کر بری عادات سے گریز کی عملی تربیت دی ہے۔
یہ انسانی معاشرہ پر درسگاہِ نبویؐ کا سب سے بڑا احسان ہے کہ اسے اخلاق کریمانہ کی تعلیم اور اس پر عملدرآمد کا پورا پیکیج ایک ہی جگہ حسین توازن کے ساتھ مل رہا ہے۔ اور جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ان کی تربیت یافتہ جماعت (صحابہ کرامؓ) کی اجتماعی زندگی بھی کھلی کتاب کی صورت میں لوگوں کے سامنے ہے جو اجتماعی اخلاق و آداب اور عادات و اطوار میں قیامت تک انسانی معاشرہ کی راہنمائی کرتی رہے گی۔
دینی تحریکات میں باہمی تعاون کو فروغ دینے کی ضرورت
مولانا سعید احمد عنایت اللہ
(۶ اگست ۱۹۹۴ء کو اسلامک کلچر سنٹر ریجنٹ پارک لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے دوسرے سالانہ تعلیمی سیمینار سے مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے استاذِ حدیث فضیلتُ الشیخ محمد سعید احمد عنایت اللہ کا خطاب۔)
جس طرح کفر اللہ کی نقمت اور ناراضگی کی علامت اور کائنات میں سب سے مبغوض شے ہے، کیونکہ ’’ولا یرضٰی لعبادہ الکفر‘‘ (حق تعالٰی اپنے بندوں کے کفر کو پسند نہیں کرتے) کا اعلان ہے، اسی طرح اسلام خالقِ کائنات کی سب سے بڑی نعمت اور پسندیدہ چیز ہے۔ ’’وان تشکروا یرضہ لکم‘‘ (اگر تم شکر کرو تو تم سے خوش ہے) کا اصول اسی نعمت کی عظمت کو واضح کر رہا ہے۔
حضراتِ کرام! اسلام ایسی نعمت ہے جس کو چھپانا اور اس کے محاسن کو بندوں تک نہ پہنچانا اس کی سب سے بڑی بے قدری ہے کیونکہ ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس‘‘ میں اس خیر کو عام کرنا ہی اس امت کا نصب العین اور اولین فریضہ بتایا گیا ہے۔ اس نصب العین کے حصول اور اس نعمتِ کاملہ شاملہ کو تمام انسانیت تک پہنچانے کے لیے مؤثر ترین طریق کار اور نت نئی راہوں کی تلاش اور تمام وسائلِ نشر کو بروئے کار لانا اہلِ علم و فکر کی طرف سے جہادِ عظیم ہے۔ ’’وجاھدھم بہ جھادًا کبیرا‘‘ میں اسی واجب کی ادائیگی کا حکم ہے اور ’’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ‘‘ میں اس کے مؤثر ترین طریق کار کو بالاجمال بیان کیا گیا ہے۔ اسی جہادِ عظیم کی بدولت تو انسان کو اس کائنات میں خلعت خلافتِ ربانی عطا کی گئی تھی۔ پھر اس نعمت کو عام کرنا صرف ہمارے لیے شرف کا باعث نہیں بلکہ پوری انسانیت کی سعادت اس سے وابستگی میں مضمر ہے۔ اسلام حق تعالٰی کی رضامندی اور نصرت کا سبب ہی نہیں بلکہ وہ اپنے معقول ترین نظامِ عقائد، نظامِ عبادت، نظامِ معاملات و اخلاقیات، اور ان کے ظاہری و باطنی محاسن کے اعتبار سے پُرکشش اور جذاب بھی ہے۔ اس لیے اس کو دینِ کامل اور تمام نعمتِ الٰہی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ وہ اس قدر غنی ہے کہ اکیلے تمام انسانیت کی جملہ ضروریات کو پورا کرتا ہے اور واحد کفیل ہے۔ ’’الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی‘‘ میں اسی کمال و جمال کی طرف اشارہ ہے۔
حضرات کرام! غور فرمائیں کہ برتری کی جملہ صفات پر مشتمل دین کوئی کم انعام ہے؟ بلکہ اس کی طرف منسوب ہونے پر ہم جس قدر فخر کریں کم ہے۔ یہی احساسِ برتری حضراتِ صحابہ کرامؓ میں پیدا گیا اور پیغمبر علیہ السلام کے تزکیہ اور تطہیر نے سب سے پہلے ان سے احساسِ کمتری کو ختم کر کے احساسِ برتری کو ان میں پیدا کیا، پھر انہوں نے اعلان کیا کہ ’’نحن قوم اعزنا اللّٰہ بالاسلام‘‘ اور یہ اعلان کیا کہ ’’بعثنا اللّٰہ لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد‘‘۔
مگر اعدائے اسلام اور حاقدینِ ملتِ اسلامیہ نے امت کے شرف و کرامت کو لوٹنے اور عباد الرحمٰن کو اس نعمتِ دین سے محروم کرنے کی مذموم سعی میں بھی کوئی کسر روا نہ رکھی اور بقول قرآن اس اضلال کو ہدف بنایا۔ ’’ودوا لو تکفرون کما کفروا فتکونون سواء‘‘ کہ یہ کفار مسلمانوں کو دوبارہ کفر کی پستیوں میں لوٹا دیں اور ذلت میں برابر ہو جائیں، اس غرض کے حصول کی خاطر ان میں دین کی وجہ سے احساسِ برتری نہ رہے اور دین کی نسبت پر فخر کی بجائے اس کو باعثِ پستی خیال کریں۔ ان میں اصولِ دین اور مبادی اسلام کے بارے میں تشکیک و تذبذب کو پیدا کیا، اور اس کے لیے ان کو ہماری صفوں سے کئی ایجنٹ اور بھی مل گئے جنہوں نے ذاتِ باری تعالٰی، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کو ہدفِ تنقید بنایا۔ اس کے علاوہ اعدائے دین و ملت نے ہماری نسلوں کے اخلاق کے فساد کے لیے تمام وسائل کو صرف کر دیا۔ نظامِ مغرب نے تو مظاہرِ حیات میں ایسا مشغول کر دیا کہ اہمیت کے باوجود واجباتِ دینیہ کی ادائیگی کی کہاں فرصت رہی؟
مگر دوسری طرف حامیانِ ملتِ اسلامیہ اور دعاۃ حق نے ان تمام شکوک و شبہات کے رد اور دین کی حقانیت کی وضاحت کے لیے انتھک کوششیں کیں، جس کے اثرات جب نوجوان نسلوں پر مرتب ہونا شروع ہوئے اور مسلمانوں کی کثیر تعداد نے جہادی تحریکوں میں بھی شمولیت اختیار کر لی، تو اعدائے دین نے نیا حربہ اختیار کیا اور حامیانِ حق کے لیے ایسے القابات اختیار کیے جو آج کے معاشرے میں ناپسندیدہ افراد اور حامل رد افکار ہوں۔ انہیں رجعت پسند، بنیاد پرست، انتہا پسند، دہشت گرد جیسے خطابات دیے اور ان القابات کی حسبِ منشا تفسیر و تشریح کی تاکہ نئی نسلوں کو اصل دین کے رشتہ سے توڑ سکیں۔
اس پر مزید افسوس یہ ہے کہ دیارِ کفر میں نہیں، دیارِ اسلام میں ہی ان کو طبقہ حاکمہ یا طبقہ عالیہ میں سے ایسے افراد اور قوی ہاتھ مل گئے جنہوں نے بلادِ اسلامیہ میں بھی اہلِ دین اور اہلِ جہاد کے لیے نفرتوں کے بیج بوئے اور ان کی زندگی اپنی ہی سرزمین پر تنگ کر دی، کہ جو کام کھلے دشمن نہ کر سکے ان کے ان خفیہ ہاتھوں نے سر انجام دینا شروع کر دیا۔
حضرات کرام! اب اعدائے اسلام اور دشمن کے ان خفیہ ہاتھوں ہر دو کے خلاف جدوجہد اور ان کی مساعی کو ناکام بنانا امت کے اہلِ فکر، اہلِ درد اور اربابِ علم و دانش کا جہادِ عظیم ہے۔ نئی نسلوں کو تشکیک و تذبذب کی دلدل سے نکال کر اسلام کی طرف نسبت میں احساسِ برتری پیدا کرنا اور دینِ کامل میں مکمل طور پر قناعت پیدا کرنا آج کے دور کے داعی کے نام کھلا چیلنج ہے۔ جس کے لیے محض فتوٰی بازی، حدتِ اسلوب، اور شدتِ لسان ہرگز کارگر نہ ہو گی۔ خود صاحبِؐ اسوۂ حسنہ کو بتا دیا گیا تھا کہ شدت و حدت تو ہرگز دعوت کے کام میں کام نہ دے گی ’’لو کنت فظًا غلیظ القلب لانفضوا من حولک‘‘۔ بلکہ راہِ حق سے بھٹکی افکار کی منتشر انسانیت کو حق کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ارشاد باری ’’ادع الٰی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ‘‘ نے اسلوبِ حکیمانہ اور حلاوتِ لسان کو داعی پر واجب فرمایا جس سے کوئی مستثنٰی نہیں۔
حضراتِ کرام! دینِ اسلام کے محاسن، ایمان کی حلاوت اور کشش میں کچھ فرق نہیں پڑا، صرف وہ سوز و گداز مطلوب ہے جس کی طرف ’’لعلک باخع نفسک ان لا یکونوا مومنین‘‘ کے پاک ارشاد کا اشارہ ہے۔ لہٰذا اسلام کے لیے کام کرنے والوں سے فکر و تدبر کے ساتھ مسلسل جدوجہد، جملہ وسائل اور ذرائع کا بے دریغ استعمال مطلوب ہے۔ جن کی زندگی میں کہیں بخل نہیں، بس نہیں، راحت نہیں، وہ تو اپنی تمام تر صلاحیتوں، تمام مادی اشیاء اور اموال و جان کا حق تعالٰی شانہ کے ساتھ سودا کر چکے ہیں ’’ان اللہ اشترٰی من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃ‘‘ والی آیت میں اسی مبارک عقد کا ذکر ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ ہم وہ امت ہیں جس کو ’’اعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ‘‘ کے خطاب سے مخاطب کیا گیا ہے تاکہ اپنی جملہ صلاحیتوں کو مجتمع کر کے نعمتِ الٰہی کو پھیلانے اور اعدائے دین کے عزائم کو خاک میں ملانے پر صرف کر دیں۔
برادرانِ ملتِ اسلامیہ! کل کی ندامت و حسرت سے بچنے کے لیے اسلام اور امت کی خاطر اپنی ہر قوت کو صرف کرنا ہی عین بقا کا راستہ ہے، اور دین کو ضائع کر کے کچھ تھوڑا بہت بچا لینا عین ہلاکت کا راستہ ہے۔ ’’ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکۃ‘‘ کے شان نزول کو دیکھ لیں، اس نے اسی حقیقت کو منکشف فرمایا ہے۔ لہٰذا ہماری گزارش ہے کہ اس نعمتِ عامہ اور امانتِ ربانی کی حفاظت اور آئندہ نسلوں کی سپردواری کے فریضہ کی ادائیگی کے لیے:
- اولاً اس کام کو ایک مختصر طبقہ تک محدود نہ کر دیں، نہ یہ کسی مخصوص جماعت یا حکومت کی ذمہ داری ہے، بلکہ اہلِ اسلام کے مختلف طبقات کی عموماً اور علمِ دین کے حاملین کی خصوصاً۔
- ثانیاً ہر طبقہ دوسرے کو معاون سمجھے۔ اور دعوتِ دین کا کام کرنے والے مختلف شعبوں کے افراد ایک دوسرے سے حقد و حسد یا مخالفت کی بجائے ان کی تحسین اور حوصلہ افزائی کریں۔ یہ بات محض رسمی نہ ہو بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہم سب کی جدوجہد اور کوششیں مل کر بھی دین کا کماحقہٗ حق ادا نہیں کر سکتیں، چہ جائیکہ ہم اکیلے۔ تعاون اور تحسین کے ان جذبات کے ساتھ مساجد کے خطبا، مدارس کے مدرسین، تبلیغ و دعوت کا کام کرنے والے، دعا اور خانقاہوں کے مشائخ، اپنے اپنے کام کو اس انہماک سے کریں کہ جیسے ان کا محاسبہ صرف اسی کام کے بارے میں ہو گا۔ مگر دوسرے شعبہ میں کام کرنے والے کو ہدفِ تنقید نہ بنائیں بلکہ تحسین و حوصلہ افزائی فرمائیں۔
- ثالثاً اہلِ علم کا ایک طبقہ فکری محاذ پر وقف ہو کر رہ جائے۔ جو ایک طرف تو اسلام کے جملہ نظام کے محاسن کو بیان کر کے نئی نسل کو تو اس کی جامعیت کا قائل کرے، اور دوسری طرف اعدائے اسلام کی پیدا کردہ تشکیک، تذبذب اور کسی بھی نظام میں تنقید و تنقیص کا مسکت اور تسلی بخش رد پیش کرے۔ نیز اس دور میں مجموعی طور پر امتِ اسلامیہ کو درپیش مسائل و مشاکل کے قرآن و سنت کی روشنی اور اسلافِ صالحین کی سیرت سے ان کے حلول سلجھائے۔
حضراتِ کرام! یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ اعدائے دین اور تمام ایجنٹ اور دشمن کے خفیہ ہاتھ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی کے لیے متحد ہو کر انتھک کوششیں کریں اور اس کی خاطر اپنے تمام وسائل کو بے دریغ استعمال کریں، اس کی خاطر ہر قربانی کریں۔ اور ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے یہ تماشا دیکھتے رہ جائیں، جس کے نتیجہ میں سوائے حسرت اور ندامت کے ہمارے ہاتھ کچھ نہ آئے۔ حالانکہ اللہ کی نصرت اور تائید ہمارے ساتھ ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ’’ان تنصروا اللّٰہ ینصرکم‘‘ اور وعدہ برحق ہے ’’وانتم الاعلون۔ واللّٰہ معکم‘‘ اور عزت، شرافت و کرامت تو صرف اللہ، اس کے رسول اور اہلِ ایمان کا حق ہے ’’وللّٰہ العزۃ ولرسولہ وللمومنین‘‘۔
قرآن و سنت سپریم لاء ہے - ہائیکورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ (۲)
ادارہ
(ربطِ مضمون کے لیے ملاحظہ ہو شمارہ جولائی ۱۹۹۴ء)
(۱۱) یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ دیباچہ کا ایسا طرزِ بیان نہیں ہوتا۔ یہاں فرق یہ ہے کہ دیباچہ میں قانون کے واضع کا منشا بیان کیا جاتا ہے اور ایوان کے سامنے قانون کی تمام شقوں پر غور کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔ اس طرح دیباچہ اگر قانون کے منشا کو پورا نہ کرتا ہو تو ترمیم کیا جا سکتا ہے۔ میری نے لکھا ہے کہ ’’دیباچہ اور عنوان میں ترامیم کی اجازت اس صورت میں ہوتی ہے جب کہ قانون میں کی گئی ترامیم نے اس کی ضرورت پیدا کر دی ہو۔‘‘ اس کے برعکس قرارداد کا منشا عوام کے نمائندوں پر یہ مینڈیٹ واضح کرنا اور ان کو اس کا پابند بنانا ہے۔ بدقسمتی سے یہ امر کبھی عدالتوں کے نوٹس میں نہ لایا گیا۔ انہوں نے اسے دیباچہ کے طور پر ہی تعبیر کیا اور تعبیر میں بھی انگریزی روایت اختیار کی۔
(۱۲) اس دیباچہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہر دستور کا جزو بنایا گیا۔ عاصمہ جیلانی کیس میں اسے نظریاتی اساس قرار دیا گیا۔ فیصلہ میں سے چیف جسٹس حمود الرحمان (۳) کی چند سطور درج ذیل ہیں:
’’ہمیں بنیادی اقدار کی تلاش میں مغرب کے ماہرینِ قانون کی طرف دیکھنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ہمارا اصل الاصول یہ ہے کہ تمام کائنات پر قانونی اقتدارِ اعلٰی بلاشرکتِ غیرے اللہ تعالٰی کا ہے اور اس کا تفویض کردہ اختیار اس کی ہدایات کے ماتحت مقدس امانت ہے۔ یہ اصل الاصول ناقابلِ تغیر و استثنٰی ہے۔ اسے قرارداد مقاصد میں دستور ساز اسمبلی نے پوری صراحت کے ساتھ درج کیا ہے۔ یہ قرارداد اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور کی‘‘ ۔۔۔۔ ’’اقتدارِ اعلٰی کے بارے میں تصور یہ ہے کہ یہ ناقابلِ تغیر اور تقسیم ہے۔ اس طرح تمام تر نظامِ سیاسی ایک مقتدر کی جانب سے امانت کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔‘‘
(۱۳) اس بارہ میں بے نظیر بھٹو کیس میں (۷) فیصلہ سے چند سطور اور:
’’فاضل جج نے چاروں دساتیر کے دیباچوں پر انحصار کیا جو کہ پاکستان کے نظریہ کی فصیح اور مستند توثیق ہے۔ لہٰذا اس میں کسی کی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے نظریہ کی اساس مسلم قومیت پر ہے اور اس میں اسلامی نظریہ شامل ہے جسے دستور میں اسلامی احکامات سے موسوم کیا گیا ہے اور یہ مسلم قوم کا اہم ترین محرک تھا‘‘ ۔۔۔ ’’میرے نزدیک یہ دو قومی نظریہ کی توثیق ہے۔ اسلامی نظریہ، نظریۂ پاکستان کے ساتھ اس طرح پیوستہ ہے کہ اسے اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ دو قومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ اس طرح ’’پاکستان کی سالمیت‘‘ میں پاکستان کا نظریہ ہی نہیں اسلامی نظریہ بھی شامل ہے۔ سالمیتِ پاکستان پر کوئی حملہ پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی پر حملہ متصور ہو گا، اور اسی طرح پاکستان کے اقتدارِ اعلٰی پر حملہ پاکستان کی سالمیت پر حملہ ہو گا۔‘‘
(۱۴) اسلامی احکامات سے متصادم قوانین کو منسوخی کے خلاف دستور میں تحفظ دیا گیا تھا۔ جسے (۸) ۷ فروری ۱۹۷۹ء کو ہائیکورٹس میں شریعت بنچوں کے قیام سے ختم کر دیا گیا، اور بعد میں ۱۹۸۰ء میں (۹) کے ذریعے ان بنچوں کے بجائے وفاقی شرعی عدالت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ہر دو عدالتوں کو اسلامی احکامات سے متصادم قوانین کو مقررہ تاریخ کے بعد غیر مؤثر قرار دینے کا اختیار ملا۔ البتہ بعض قوانین کو اس دائرہ سماعت سے استثنٰی دی گئی تھی۔ یہ عدالت اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور بہت سے قوانین کو منسوخ کر چکی ہے۔ چنانچہ یہ دلیل، کہ آرٹیکل ۳۰(۲) اور ۲۲۷(۲) قوانین کو منسوخی سے تحفظ دیتے ہیں اور عدالتیں انہیں باطل قرار نہیں دے سکتیں، بے وزن ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ دونوں آرٹیکل منسوخ نہیں کیے گئے۔
(۵) یہ واضح ہے کہ اگر تحفظ دیے گئے قوانین کے بارے میں مزید آئینی اقدام سے یہ تحفظ ختم کر دیا جاتا تو یہ بھی عدالتی دائرہ میں آجاتے۔ یہی اقدام دراصل ۲ مارچ ۱۹۸۵ء کو (۱۰) آرٹیکل ۲۔اے کے دستور میں شمولیت کی صورت میں اٹھایا گیا۔ آرٹیکل ۲۔اے اس طرح ہے:
’’قراردادِ مقاصد میں درج اصول، جنہیں گوشوارہ میں دوبارہ لکھا گیا ہے، کو آرٹیکل ہذا کے ذریعہ دستور کا مؤثر جزو بنایا جاتا ہے۔‘‘
(۱۶) یہ آرٹیکل بعد میں آٹھویں ترمیم کا جزو بنا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ قراردادِ مقاصد دستور کا محض دیباچہ نہیں رہی، یہ دستور میں داخل کر دی گئی ہے اور اسے اس کا مؤثر حصہ بنا دیا گیا ہے۔ بالکل ان الفاظ میں جو کہ ضیاء الرحمان کیس میں اس غرض کے لیے تجویز کیے گئے تھے۔ اس صورتحال میں اگر کوئی عدالت قراردادِ مقاصد کے دستور پر کنٹرول کا انکار کرتی ہے تو وہ ضیاء الرحمان کیس میں سپریم کورٹ کے مینڈیٹ اور دستور کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ بہرحال ہائیکورٹس کے مختلف بنچوں میں اس بارے میں کافی اختلاف رائے ہے، سپریم کورٹ نے ان میں سے کسی کیس میں اپنا آخری فیصلہ نہیں دیا۔ اس طرح غیر یقینی صورتحال باقی ہے جسے دور کرنا ضروری ہے۔
(۱۷) ہمیں علم ہے کہ کچھ جج صاحبان نے یہ نقطۂ نظر اختیار کیا ہے کہ آرٹیکل ۲۔اے از خود مؤثر اور حاوی نہ ہے۔ دستور میں اسلامائزیشن کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل (آرٹیکل ۲۲۷(۲)) اور فیڈرل شریعت کورٹ (آرٹیکل ۲۰۳۔بی) قائم کی گئی ہیں۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔اے کے تحت یہ کام نہیں ہو سکتا۔ ان کے نزدیک وجہ یہ ہے کہ دستور کا ایک آرٹیکل دوسرے سے بالاتر نہیں ہو سکتا۔
(۱۸) مذکورہ بالا وجوہات کا جائزہ لینے سے پہلے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ دستور کو ایک ایسی دستاویز خیال کیا جاتا ہے جس کے تحت حکومت چلائی اور کنٹرول کی جاتی ہے۔ اس میں بالعموم وہ بنیادی اصول درج کیے جاتے ہیں جن کے تحت حکومت بنتی اور کام کرتی ہے۔ حکومت کی کوئی ایک مستقل شکل نہیں ہوتی بلکہ اس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بہت بعد میں یہ معمول بن گیا ہے کہ دستور میں بنیادی حقوق اور مملکت کی پالیسی اصولوں کے بارے میں اعلان شامل کیا جاتا ہے۔ تمام تحریری دساتیر میں ایک چیز مشترک ہے کہ اسے اساسی اور نامیاتی یا بالاتر قانون کے طور پر دیگر قوانین پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایسی غیر دستوری دفعات، جو دستور میں شامل کر دی جائیں، کو بھی دستوری دفعات کا سا تقدس اور دیگر قوانین پر بالادستی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس طور ان دفعات کے ساتھ تصادم کی بنا پر دیگر دفعات یا قوانین کو جزوی یا کلی طور پر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس بارہ میں ضیاء الرحمان کیس (۲) کا حوالہ پوری طرح منطبق ہوتا ہے۔
(۱۹) مزید برآں دستور بالعموم ہر دفعہ کے اطلاق کے لیے علیحدہ علیحدہ مشینری فراہم نہیں کرتا۔ یہ عام طور پر ایک ہی جامع دفعہ فراہم کرتا ہے جو ہر سقم سے پاک ہوتی ہے۔ دستور کا آرٹیکل ۱۹۹ اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کے علاوہ ہر عدالت کا یہ فرض ہے کہ وہ دستور کے ہر لفظ اور دفعہ کو مقننین کے منشا کے مطابق معانی پہنائے اور دستور کے کسی لفظ یا دفعہ کو فاضل یا فالتو نہ بننے دے۔ آئیے اس سیاق میں مقننہ کا قراردادِ مقاصد کی پشت پر منشا معلوم کریں۔ یہ کہا جا چکا ہے کہ یہ قوم کے ساتھ قائد اعظم کے کیے گئے وعدہ کی تکمیل کے لیے تھی۔ قائد ِملت نے اس بات کی واشگاف صراحت دستور ساز اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں کر دی تھی جس کا متعلقہ حصہ اوپر درج کیا جا چکا ہے۔ قرارداد کے اپنے الفاظ اس امر پر واضح ہیں کہ یہ لوگوں کی طرف سے اپنے نمائندوں کے لیے مینڈیٹ ہے۔
(۲۰) عدالتوں نے دستور میں اس پر ’’دیباچہ‘‘ کے عنوان کی وجہ سے اس کی حقیقی حیثیت کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح آرٹیکل۳۰(۲) اور ۲۲۷(۲) میں درج قیود بھی اس کی اس حیثیت کو مجروح کرنے کا باعث ہوئیں۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے قیام اور آرٹیکل ۲۔اے وضع کرنے سے قرارداد کی مؤثر حیثیت پر دونوں عذرات ختم ہو گئے ہیں۔ اس طرح اب آرٹیکل ۳۔اے اور ۲۔اے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں مؤثر بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
(۲۱) قرارداد کی حیثیت کے بارے میں اولین عذر یہ ہے کہ یہ ازخود روبعمل اور مؤثر نہیں۔ (مطلب یہ ہے کہ اس میں یہ نہیں لکھا گیا کہ دستور کا کوئی دیگر آرٹیکل اس سے متصادم ہو تو وہ غیر مؤثر ہو گا)۔ اس عذر کو جانچنے کے لیے دستور کے حصہ اول پر ایک نظر ڈال لینا مناسب ہے، کیوں کہ قرارداد مقاصد اسی حصہ میں شامل ہے۔ اسے دستور میں آرٹیکل ۲۔اے کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل نمبر ۱ میں مملکت کا نام ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ درج ہے۔ فرض کیجئے حکومت کی کوئی ایجنسی یا محکمہ یا حکومت مملکت کے نام میں سے لفظ اسلامی ترک کر دے تو کیا کوئی شہری اس کو چیلنج کر سکتا ہے، اور ایسے چیلنج کے لیے کون سا فورم ہو گا؟ مملکت کے علاقوں کی تفصیل دستور کے آرٹیکل ۱(۲) میں درج ہے۔ اللہ معاف فرمائے اگر کوئی حکومت مملکت کے علاقوں میں سے کچھ کو منتقل کرنے کا ارادہ کر لے تو کیا کوئی محب وطن شہری اس ستم کو روکنے کے لیے ادعا کر سکے گا؟ آرٹیکل ۴ بھی دستور کے اسی حصہ میں شامل ہے اور ازخود روبعمل نہیں، مگر عدالتوں، خاص طور پر سپریم کورٹ نے بہت سے راہنما فیصلے صادر کیے ہیں، کیا اس نے ایسے فیصلوں میں اپنے اختیار سے تجاوز کیا ہے؟ اس سلسلہ میں منظور الٰہی (۱۱) اور ملک غلام مصطفٰی کھر (۱۲) کے مقدمات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے۔
(۲۲) دستور کے اسی حصہ میں آرٹیکل ۶ موجود ہے۔ یہ بھی ازخود روبعمل اور مؤثر نہ ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دفعہ بھی محض علامتی اور زیبائشی ہے اور ہر کوئی بلاخوف سزا، غداری اور بغاوت کے ارتکاب میں آزاد ہے؟ یہ قابلِ غور ہے کہ نیاز احمد کیس (۱۳) میں یہ قرار دیا گیا تھا کہ اسلام کو آرٹیکل ۲ میں پاکستان کا سرکاری مذہب لکھا گیا ہے۔ اس کا منشا یہ ہے کہ اسلام مملکت کی ظاہری شناخت ہے۔ اگر ایسا ہے تو دستور کے آرٹیکل ۱ تا ۶ محض استقراری اور علامتی کیوں نہیں؟ بڑے احترام کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ درست نقطۂ نظر یہ ہے کہ دستور کے ہر لفظ کو اس کے سادہ اور فطری معنی دینا ہوں گے اور دستور کا کوئی لفظ فاضل اور فالتو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے برعکس کبھی کسی عدالت نے کسی لادینی دستور کی اس حیثیت کو علامتی یا نمائشی قرار نہیں دیا خواہ عملی طور پر ایسا ہی کیوں نہ ہو۔ بلکہ عدالتوں نے ایسے دساتیر کے تحت مذہبی مدات پر اخراجات کی اجازت سے انکار کرتے ہوئے حکومتوں کو لادینیت پر پابند کیا ہے۔ اس پر امریکی اور بھارتی حوالے دیے جا سکتے ہیں۔
(۲۳) بلاشبہ یہ امر طے شدہ ہے کہ دستور کے آرٹیکل ۸ کی رو سے کوئی قانون جو بنیادی حقوق سے متصادم ہو گا وہ تصادم کی حد تک کالعدم ہو گا، جیسا کہ جسٹس مامون قاضی نے حبیب بنک کیس (۱۴) میں قرار دیا۔ ذیلی آرٹیکل (۲) حکومت کو ایسا قانون وضع کرنے کی ممانعت کرتا ہے وگرنہ وہ بھی کالعدم ہو گا۔ ہمارے نزدیک مزید قانون کے بغیر مؤثر ہونے کی یہی صورت ہے جسے ازخود روبعمل کہا جائے گا۔ دراصل موجودہ سیاق میں یہ اصطلاح کا غلط استعمال ہے۔ ازخود مؤثر اور روبعمل دفعہ وہ ہوتی ہے جس کے باطن میں اس کے مؤثر ہونے کے لیے مکمل مشینری موجود ہو، مگر یہاں یہ صورت نہیں۔ آرٹیکل ۸ صرف استقراری صورت نتیجہ فراہم کرتا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اعلٰی عدالتوں نے بے شمار مقدمات میں مداخلت کی ہے جن میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے سے زیادہ تقاضا نہیں کیا گیا۔ انگریزی نظام قانون میں مینڈیمس، سرشوراری یا امتناع کے اصول استوار ہیں جن کو ہمارے ہاں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اس بارہ میں، میں کسی فیصلہ کے حوالے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ ہمارے ہاں یہ اعلٰی عدالتوں کا روز کا معمول ہے۔
(۲۴) یہاں عبوری دستور ۱۹۷۲ء کے آرٹیکل ۱۴۱ اور ۱۴۲ اور اس سے پہلے کے دساتیر کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جن میں لا تعداد آرٹیکل ایسے ہیں جو آرٹیکل ۸ کی طرح ازخود روبعمل نہ ہونے کے باوجود عدالتوں نے ان کو مؤثر طور پر نافذ کیا ہے۔ یہ آرٹیکلز علاقائی اور مضمون کی نوعیت کے ہیں۔ فرض کریں، صوبائی، وفاقی مجالسِ قانون، اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتی ہیں تو ان کے بنائے ہوئے قانون باطل ہوں گے۔ اعلٰی عدالتوں نے باصرار یہ اعلان کیا کہ اس نوعیت کا دستوری تجاوز ثابت کیا گیا تو اسے کالعدم قرار دینے کا انہیں اختیار حاصل ہے۔ اس بارہ میں حوالہ جات نمبر (۱۵)، (۱۶)، اور (۱۷) ملاحظہ ہوں۔
(۲۵) دستور ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل ۱۹۹ کے تحت مظلوم کو دادرسی فراہم کی گئی ہے۔ مذکورہ آرٹیکل کی کلاز (۱) (اے) (i) حسبِ ذیل ہے:
’’(۱) دستور کے ماتحت ہائیکورٹ اگر مطمئن ہو اور قانون نے کوئی اور دادرسی فراہم نہ کی ہو تو متاثرہ شخص کی درخواست پر اس امر کا حکم صادر کر سکتی ہے کہ
(i) عدالت کے علاقائی دائرہ اختیار میں کسی شخص کو، جو وفاقی امور سے متعلقہ فرائض انجام دے رہا ہو، یا صوبہ یا بلدیاتی ادارہ کو کسی کام کے انجام دینے سے باز رہے، جسے انجام دینے کی قانون اسے اجازت نہ دیتا ہو، یا کسی کام ۔۔۔۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اس آرٹیکل کے تحت آرٹیکل ۱ تا ۶ یا ایسے ہی کسی دیگر آرٹیکل کے ضمن میں کوئی حکم صادر کیا جا سکتا ہے؟ جواب بہرصورت اثبات میں ہو گا کیوں کہ جب بھی کسی کیس میں ان کے اطلاق کی صورت پیش کی گئی ہو تو عدالتوں نے کبھی پس و پیش سے کام نہیں لیا۔ طارق ٹرانسپورٹ کمپنی کیس (۱۸) میں یہ قرار دیا گیا کہ ہائیکورٹ کے رٹ، احکامات اور ہدایات انگریزی اصول ہائے قانون کی حدود میں محدود نہیں بلکہ یہ قانون کے تحت کام کرنے والے کسی بھی شخص کو کسی کام سے ممانعت اور اسے مثبت طور پر انجام دینے کی ہدایت جاری کرنے تک وسیع ہیں۔۔۔
(۲۶) اب ہم دوسری وجہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا آرٹیکل ۲۔اے اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض پر تجاوز کر سکتا ہے؟ یہ امر محلِ نظر ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل محض ایک مشاورتی ادارہ ہے، یہ فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں۔ یہ پارلیمنٹ، صوبائی مجالسِ قانون، صدر اور گورنروں کو مشورہ اور رپورٹ پیش کر سکتی ہے، وہ ان رپورٹس پر غور کر سکتے ہیں مگر ان کے پابند نہیں۔ مزید برآں آرٹیکل ۲۲۷(۲) اور ۳۰(۲) کے تحت عدالتوں کو مداخلت سے روک دیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی مجالسِ قانون ہر طرح کی قانون سازی میں آزاد ہیں خواہ وہ کتنے ہی غیر اسلامی کیوں نہ ہوں۔
(۲۷) قانون سازی کی اس بے لگام آزادی پر پہلا چیک وفاقی شرعی عدالت کے قیام سے قائم ہوا جسے قانون کو اسلام کے منافی قرار دے دینے ہی نہیں بلکہ اسے اپنی پسند کی تاریخ سے غیر مؤثر کر دینے کا بھی اختیار ہے۔ کچھ قوانین کو بہرحال وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ اختیار سے باہر رکھا گیا۔ ان قوانین کے بارے میں اختیارِ سماعت وفاقی شرعی عدالت یا عام عدالتوں کو تفویض کیا جا سکتا ہے۔ مزید برآں مقننہ یہ خیال کر سکتی ہے کہ بڑے بڑے قوانین اسلامائز ہو چکے ہیں، اس لیے ضابطہ کار وضع کیے جائیں تاکہ لوگ عدالتی اعلانات سے آگے بڑھ کر دادرسی بھی حاصل کر سکیں۔ یہ وہ مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے آرٹیکل ۲۔اے کو دستور میں داخل کیا گیا ہے۔ اس طرح آرٹیکل ۲۔اے کا منشا وفاقی شرعی عدالت یا اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرہ سےبہت مختلف ہے ۔۔۔ یہ نہ تو تکرار ہے نہ دوہر overlapping ہے۔
(۲۸) اگر ہم آرٹیکل ۲۔اے کو دیکھیں تو یہ واضح ہے کہ مقننہ نے قانونِ الٰہی کو غالب حیثیت دی ہے اور انسان کے وضع کردہ قانون کو اس کے ماتحت بنایا ہے۔ اس صورت میں کوئی جج اس قانونِ الٰہی کی پیروی سے کیسے انکار کر سکتا ہے جب کہ وہ اپنے حلف کے تحت دستور کے تحفظ اور دفاع کا ذمہ دار ہے؟ اگر آرٹیکل ۲۔اے مؤثر اور نافذ ہے تو اقتدارِ اعلٰی کا سرچشمہ پارلیمنٹ یا عوام کے بجائے اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ کیا اس صورت میں آرٹیکل ۲۔اے کی خلاف ورزی یا اس سے فرار کی راہ اختیار کی جا سکتی ہے؟ یہاں ہمیں آرٹیکل ۲۷۰۔اے کا بہرصورت لحاظ رکھنا پڑے گا۔ یہ آرٹیکل دستور کے ہر آرٹیکل کو اس کے وجود اور نفاذ کی حد تک مساوی قرار دیتا ہے، البتہ ایک شرط بڑی واضح ہے کہ ہر آرٹیکل اپنے مخصوص وزن اور اہمیت کے لحاظ سے مؤثر ہو گا۔ اس طرح آرٹیکل ۲۶۸(۶) کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتا۔
(۲۹) ۱۹۷۳ء کے دستور کو بحال کرنے کے لیے صدارتی حکم نمبر ۱۴ سال ۱۹۸۵ء جاری کیا گیا۔ اسی حکم کے ذریعہ قراردادِ مقاصد کو دستور میں داخل اور اسے اس کا مؤثر اور قابلِ نفاذ حصہ بنایا گیا۔ حقیقتاً یہ ایک انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے۔ اس اقدام کا منشا اسلامیانِ پاکستان کی تشنہ تکمیل آرزوؤں کی تکمیل ہے، ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلام کے مطابق بنانا ہے ۔۔۔ ضیاء الرحمان کیس میں قراردادِ مقاصد کے مؤثر ہونے میں جن کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان سب کو آرٹیکل ۲۔اے کے ذریعہ دور کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اب یہ دستور کا محض دیباچہ نہیں رہی، یہ مملکت کے نظریہ، عقیدہ اور منزل سے متصادم تمام امور کو چیک کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی اہمیت پر مزید زور دینے کے لیے سردار علی بنام محمد علی کیس (۱۹) کا حوالہ نہایت مفید ہے۔ اس میں پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد افضل ظلہ نے اس پہلو سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ انہوں نے عاصمہ جیلانی کیس میں استعمال شدہ تراکیب کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کے مندرجات کی اہمیت کے بارے میں بہت کچھ کہا جاتا رہے گا۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں انتہائی اعلٰی، اہم نظریاتی اور آئینی اصول درج کیے گئے ہیں، جیسے بطور مثال اللہ تعالٰی کی حاکمیتِ اعلٰی کو مذکورہ کیس میں ٹھوس معانی پہنائے گئے اور ان کا بھرپور اطلاق کیا گیا۔ فاضل چیف جسٹس نے یہ بھی قرار دیا کہ اس قرارداد کو تمام رسمی، آئینی اور قانونی دستاویزات پر فوری طور پر عائد کرنا ہو گا۔ انہوں نے اس بات پر مزید زور دیا کہ عدالتیں اپنے دائرہ کار میں روزمرہ کے تحت اس قرارداد پر عمل پیرا ہوتی رہیں گی۔
(۳۰) پاکستان میں فوجداری نظام کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے سلسلے میں ایک زبردست پیش رفت شریعت ایپلٹ بنچ میں پاکستان کے چیف جسٹس محمد افضل ظلہ کے فیصلہ (۲۰) سے ہوئی۔ اس کیس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸ کو اسلامی احکامت کے منافی قرار دیا گیا تھا جیسا کہ یہ اسلام کے نظامِ فوجداری کے بنیادی اصولوں کے انصرام میں ناکام رہیں۔ یہاں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کا یہ اقتباس مناسب ہے:
’’تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸، جو انسانی جسم سے متعلقہ جرائم کے بارے میں ہیں، اسلامی احکامات کے منافی ہیں، چونکہ وہ:
(۱ے) قتل اور جروح عمد میں قرآن و سنت کے احکاماتِ قصاص کو منضبط نہیں کرتے،
(بی) شبہ عمد اور خطا کی بنا پر قتل اور جرح میں قرآن و سنت کے احکامِ دیت صفحہ قانون پر نہیں لاتے،
(سی) فریقین کے مابین معاوضہ پر سمجھوتہ کی بنیاد پر صلح کی گنجائش نہیں دیتے،
(ڈی) جرح اور قتل کے مقدمات میں بالترتیب مجروح یا مقتول کے ورثا کی طرف سے قصوروار کی معافی کی صورت میں عدالت صرف بطور تعزیر قید کی سزا، جو عمر قید سے بہرحال کم ہو، کو مدون نہیں کرتے،
(ای) نابالغ اور فاتر العقل کو قتل کی صورت میں سزائے موت سے مستثنٰی نہیں کرتے،
(ایف) قتل و جرح کو قرآن و سنت کی تشریحات کی روشنی میں فراہم کردہ سزاؤں کے ساتھ منضبط کرنے سے قاصر ہیں۔‘‘
(۳۱) اس سلسلہ میں سندھ ہائیکورٹ کے برادر جج جسٹس وجیہ الدین نے اپنے فیصلے (۲۱) میں صراحت کی کہ قرارداد مقاصد میں درج اصول دستور کے دیباچہ میں درج محض نیک خواہشات نہیں ہیں بلکہ وہ دستور کے مؤثر حصہ میں داخل ہیں اور ہر طرح قابلِ نفاذ ہیں۔ قرارداد مقاصد کو اصل الاصول کہا جا سکتا ہے اور یہ پاکستان کے سیاسی وجود کے لیے ضمیر کے درجے میں ہے جو کہ اسلامی معاشرہ کی تعمیر کے لیے مستحکم ڈھانچہ فراہم کرتی ہے۔ اگر مملکت کا کوئی ادارہ قرارداد مقاصد کی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو اسے ’’اللہ کی مقرر کردہ حدود‘‘ اور قرآن و سنت میں درج ’’مقتضیاتِ اسلام‘‘ کے معیار پر پرکھتے ہوئے (بلااختیار غیر) قانونی قرار دیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں ایسے دفعاتِ قانون و دستور کو اللہ تعالٰی کے اعلٰی ترین قانون سے عدمِ مطابقت کی بنا پر نظرانداز اور پائمال کرنے کی پابند ہیں۔
(۳۲) گل حسن کیس میں تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۲۹۹ تا ۳۳۸ اور ۵۴ اور ۱۰۹ کو اسلامی احکامات کے منافی ہی نہیں قرار دیا گیا بلکہ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۲(اے،بی)، ۴۵۳، ۳۸۱، ۳۳۷ تا ۳۳۹(اے) کا شریعت ایپلٹ بنچ نے جائزہ لیا اور انہیں قرآن و سنت کے احکامات کے منافی قرار دیا گیا (حالانکہ ضوابطی قوانین کو جائزہ سے تحفظ دیا گیا تھا)۔ مذکورہ فیصلہ کو ۲۳ مارچ ۱۹۹۰ء سے مؤثر قرار دیا گیا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل نے ایک نظرثانی کی درخواست پیش کی جس پر سماعت کے دوران موصوف کی اس یقین دہانی پر کہ عدالت کے فیصلہ کی تعمیل میں قصاص دیت آرڈیننس ۵ ستمبر ۱۹۹۰ء کو جاری کر دیا جائے گا جو ۱۲ ربیع الاول ۱۴۱۱ھ کو مؤثر ہو گا۔ اس طرح مذکورہ نظرثانی غیر مؤثر ہوئی۔ شریعت ایپلٹ بنچ کے سربراہ، پاکستان کے چیف جسٹس جناب جسٹس محمد افضل ظلہ نے قرار دیا کہ اگر موعودہ آرڈیننس ۱۲ ربیع الاول سے جاری کیا گیا اور وہ پارلیمنٹ کی طرف سے عدمِ توجہی کی نذر ہو جاتا ہے تو تعزیرات و ضابطہ کی دفعات، جن کو منافی اسلام قرار دیا گیا ہے، غیر مؤثر ہو جائیں گی۔ اور خلا کی اس صورت میں قتل و جرح کے بارے میں قصاص و دیت کا اسلامی قانونِ عامہ یعنی قرآن و سنت میں درج اسلامی احکامات قانون کا درجہ پا جائیں گے۔ اور عدالتیں قتل و جرح سے متعلقہ مقدمات کی سماعت میں اسلامی قانونِ عامہ (۲۲) قرآن و سنت میں قصاص و دیت کے احکامات کی پیروی کریں گے اور اس بارے میں زائل شدہ آرڈیننس سے راہنمائی لے سکیں گے۔
(۳۳) بعد ازاں قصاص دیت آرڈیننس جاری کیا گیا مگر وہ قومی اسمبلی کے سامنے پیش نہ کیا گیا، اس طرح یہ زائل ہو گیا۔ اب یہ امر پوری طرح طے شدہ ہے کہ عدالتوں کو رہنمائی کے لیے مذکورہ آرڈیننس کی دفعات کا لحاظ رکھنا ہو گا کیوں کہ آرڈیننس کی موجودہ حیثیت اسلامی قانونِ عامہ کی ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مذکورہ اسلامی قانونِ عامہ کا اطلاق بجا طور پر اسلامی میراث کے ساتھ ہماری پیوستگی کا لحاظ رکھ کر کیا گیا ہے۔
(۳۴) اس بارہ میں مزید پیش رفت کے طور پر حبیب وہاب الخیری بنام وفاق پاکستان کیس (۲۳) میں وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ سے ہوئی۔ اس میں قرار دیا گیا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲ اور ۴۰۲(اے) اسلامی احکامات کے منافی ہیں۔ اور پاکستان کے سیاسی سیاق میں اولی الامر سے مراد سربراہِ مملکت، صدر یا صدر کا کوئی نمائندہ جیسے گورنر ہو گا، جسے تعزیر کے تحت سزا یافتگان کو مفادِ عامہ میں معافی کا اختیار دیا گیا ہو، ایسے کسی شخص کو حدود، قصاص اور دیت کے مقدمات میں معافی دینے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ اسلامی مملکت کے سربراہ کو قصاص اور دیت کے تحت دی گئی موت یا دیگر سزاؤں کی تبدیلی یا تخفیف کا بھی کوئی اختیار حاصل نہیں، کیونکہ ایسا اختیار صرف مظلوم کے ورثا یا جرح کے کیس میں مجروح کو حاصل ہے۔ ضابطہ فوجداری کی دفعات ۴۰۱، ۴۰۲، ۴۰۲(اے) حسب ذیل ہیں:
’’۴۰۱:
(۱) جب کوئی شخص کسی جرم میں سزایاب ہوا ہو تو صوبائی حکومت مجاز ہے کہ کسی وقت، غیرمشروط یا ایسی شرائط جن کو مجرم قبول کر لے، اس کی سزا معطل کر دے۔ یا جو سزا اس کے لیے تجویز کی گئی ہو، کلاً یا جزواً معاف کر دے۔
(۲) اگر کوئی شرط جس کی بنا پر سزا معطل یا معاف کی گئی ہو، صوبائی حکومت کی رائے میں پوری نہ کی گئی ہو، تو حکومت سزا کی معطلی یا معافی کو منسوخ کر سکتی ہے اور کوئی پولیس افسر اسے بلاوارنٹ گرفتار کر سکتا ہے تاکہ وہ باقی ماندہ سزا بھگتے۔
(۳) شرط جس پر دفعہ ہذا کے تحت سزا معطل یا معاف کی جائے، ایسی ہو سکتی ہے جسے رعایت پانے والا قبول کرے یا نہ کرے۔
(۴) احکام مندرجہ ضمن بالا فوجداری عدالت کے کسی ایسے حکم پر، جو اس مجموعہ کے تحت صادر کیا گیا ہو، یا کسی اور قانون کے تحت جس کی رو سے کسی کی آزادی سلب کی جا سکے، یا اس پر یا اس کی جائیداد پر کوئی ذمہ داری عائد کی جا سکے، لاگو ہوں گے۔
(۵) دفعہ ہذا کا کوئی مضمون صدر مملکت یا مرکزی حکومت کے معافی دینے، سزا کی مہلت دینے، موقوف کرنے، اور کم کرنے کے کسی اختیار میں خلل انداز نہ ہو گا، جب کہ ایسا اختیار انہیں تفویض کیا گیا ہو۔
(۶) صوبائی حکومت مجاز ہے کہ بذریعہ عام قواعد یا خاص احکام ہدایت کرے کہ کس طرح سزا معطل ہو گی یا کن شرائط پر درخواستیں پیش کی جائیں گی اور ان پر کارروائی کی جائے گی۔
۴۰۲:
(۱) صوبائی حکومت مجاز ہے کہ سزا یافتہ شخص کی مرضی کے بغیر مندرجہ ذیل میں سے کسی سزا کے عوض دوسری سزا، جو بعد میں لکھی گئی ہے، تبدیل کر دے: موت، قید سخت جو اس میعاد سے زیادہ نہ ہو جو اس پر قانوناً عائد ہو سکتی تھی، قید محض تا حدِ میعاد مذکورہ، جرمانہ۔
(۲) اس دفعہ کا کوئی مضمون تعزیراتِ پاکستان کی دفعات ۵۴ اور ۵۵ پر اثرانداز نہ ہو گا۔
۴۰۲(اے):
جو اختیارات بروئے دفعات ۴۰۱ اور ۴۰۲ حکومت کو عطا ہوئے ہیں، سزائے موت کی صورت میں وہ صدر مملکت بھی استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
(۳۵) اس سلسلہ میں ایک انتہائی قوی استدلال اور بھی ہے۔ سپریم کورٹ نے قطعیت سے طے کیا ہوا ہے کہ یہ قیاس کیا جائے گا کہ فطری انصاف کے اصول (اللہ کے قوانین) ہر قانون میں شامل کیے گئے ہیں اور ان سے متصادم ہر کارروائی باطل اور کالعدم ہو گی۔ اس نقطۂ نظر کے لحاظ سے یہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ ہم قانونِ الٰہی کو بالاتر قانون نہ سمجھیں اور ان سے متصادم اقدام باطل نہ ہو۔ مزید برآں سپریم کورٹ نے ایک حالیہ کیس میں قومی مفاد کو دستور کے تحت ایک اقدام کو ترجیح دی ہے۔ تمام دستوری مقتضیات کی موجودگی میں اگر ہم قانونِ الٰہی کو سپریم لا کی حیثیت سے تسلیم نہیں کرتے تو کیا اس کا یہ منشا نہ ہو گا کہ قانونِ الٰہی قومی مفاد میں نہیں۔ (ملاحظہ ہو وفاق پاکستان بنام محمد سیف اللہ خان، حوالہ ۲۴)۔
(۳۶) اوپر کی بحث کی روشنی میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۔اے مؤثر اور روبعمل ہے اور کوئی عدالت اسے نافذ کرنے سے انکار نہیں کر سکتی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت دستور کے باب ۳۔اے کے تحت دیے گئے دائرہ کار میں سماعت کرے گی، اور ہائیکورٹس دیگر تمام قوانین کے بارے میں سماعت کی مجاز ہوں گی۔ وہ ان کو اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن حکیم اور سنتِ رسولؐ میں درج ہیں، سے متصادم قرار دیتے ہوئے حالاتِ مقدمہ کے تحت دادرسی فراہم کریں گی۔
(۳۷) بنچ کے سامنے طے طلب اہم سوال یہ ہے کہ سزاؤں اور معافی کی تاریخوں سے قطع نظر، آرٹیکل ۲۔اے کا لحاظ رکھتے ہوئے، کیا صدر مملکت کو معافی کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ ہمارا جواب عدالتی فیصلوں اور قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں درج اصول ہائے قصاص و دیت (جس طرح کہ وہ آرڈیننس میں درج ہیں) کی روشنی میں نفی میں ہے۔ صدر پاکستان کو حدود، قصاص اور دیت آرڈیننس کے تحت دی گئی موت (اور دیگر سزاؤں) کی تبدیلی اور تخفیف کا کوئی اختیار حاصل نہ ہے۔ اس طرح ہماری یہ قطعی رائے ہے کہ ایسے مقدمات میں معافی کا اختیار مقتول کے ورثا کو (جرح کی صورت میں مظلوم) کو حاصل ہے۔ لہٰذا صدر کو وہ مقدمات جن میں سزائے موت دی گئی معافی، تبدیلی یا تخفیف کا اختیار حاصل نہیں تھا۔ البتہ تعزیر کے طور پر جو سزائیں دی گئی ہیں ان کا معاملہ مختلف ہے اور ان میں صدر مملکت کو معافی کا اختیار حاصل ہے۔ البتہ یہ اختیار اس شرط کے ساتھ مشروط ہو گا کہ معافی مفادِ عامہ میں ہو۔
(۳۸) حکمِ متنازعہ کے پیرا (بی) میں قتل کے جرم کے علاوہ مستورات کو فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں میں کوئی استثنٰی نہیں ہو گا۔ یہی صورتحال پیرا (سی) سے متعلق ہو گی۔ البتہ پیرا (ڈی) کے بارے میں ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ ساٹھ سال سے زائد عمر کے سزایاب جنہیں قصاص و دیت یا حدود کے تحت سزا نہیں دی گئی، حکمِ متنازعہ کے تحت معاف کی جا سکتی تھیں، لہٰذا ہم یہ قرار دیتے ہیں کہ صدر کو اس کا اختیار حاصل تھا۔ نتیجہ کے طور پر موجودہ رٹ درخواست منظور کی جاتی ہے اور قرار دیا جاتا ہے کہ مسئول علیہم کو دی گئی موت کی سزائیں صدر کی طرف سے عمر قید میں تبدیل نہیں کی جا سکتی تھیں۔
دستخط: ریاض احمد، جج
دستخط: راجہ افراسیاب خان، جج
دستخط: ملک محمد قیوم، جج
راجہ افراسیاب خان:
(۱) مجھے برادر جج شیخ ریاض احمد کے مجوزہ فیصلہ کو پڑھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ موصوف کے فیصلہ میں وجوہات اور حوالہ جات موجود ہیں۔ متنازعہ امور کی پبلک اہمیت کے پیشِ نظر میں مختصر سا نوٹ علیحدہ طور پر بھی لکھنا پسند کرتا ہوں۔
(۲) درخواست گذاران کے وکلاء نے موجودہ درخواست میں مورخہ ۸/۱۲/۱۹۸۸ کے صدر کے اس حکم کو چیلنج کیا ہے جو صدر نے وزیراعظم کے مشورہ پر جاری کیا۔ مذکورہ حکم کی رو سے صدر نے ۶/۱۲/۱۹۸۸ سے قبل فوجی اور دوسری عدالتوں سے دی جانے والی موت کی سزاؤں کو عمر قید میں تبدیل کیا تھا۔ صدر نے فوجی عدالتوں کی طرف سے مارشل لاء ریگولیشن نمبر ۳۱ کے تحت غیر حاضری میں دی گئی سزاؤں کو بھی معاف کیا تھا۔ البتہ یہ ہدایت جاری کی گئی کہ ایسے اشخاص کے مقدمات کی باقاعدہ سماعت عام عدالتوں میں کی جائے گی۔ ساٹھ سال سے زائد عمر کے سزایافتگان، جو گذشتہ پانچ سال سے قید میں ہیں، کی سزائیں معاف ہوں گی۔ مسلح افواج کے افراد کے علاوہ جو ڈرگز، سمگلنگ، بدعنوانی، خیانت، بنک فراڈ، رہزنی، ڈکیتی، قتل، زنا یا غیر فطری فعل کے جرائم کے سوا جرائم میں فوجی عدالتوں سے سزایافتگان معاف کر دیے جائیں، اور مسلح افواج کے افراد کے مقدمات پر افواج کے مجاز حکام نظرثانی کریں گے۔ صدر نے فوجی یا دیگر عدالتوں سے سزا پانے والوں کو بلاامتیاز تین ماہ کی معافی دی۔ اسی طرح یہ بھی ہدایت کی گئی کہ سماعت مقدمہ کے دوران جیل کا عرصہ سزا میں سے منہما کر دیا جائے گا۔
(۳) درخواست گزاران کی طرف سے بنیادی استدلال یہ اختیار کیا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۲۔اے کی روشنی میں پاکستان کی مختلف مجاز عدالتوں کی طرف سے دی گئی موت کی سزاؤں کی تبدیلی یا معافی کا سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں رکھتا۔ یہ استدلال کیا گیا کہ معافی کا اختیار اسلامی احکامات کے تحت مقتول کے ورثا کو حاصل ہے اور صدر دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔ یہ کہا گیا کہ قرارداد مقاصد دستور ساز اسمبلی کی طرف سے ۱۲/۳/۱۹۴۹ کو منظور کی گئی اور ۱۹۷۳ کے دستور کا جزو لاینفک بنائی گئی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ قرارداد مقاصد جو ابتدا میں ۱۹۵۶، ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۲ کے دساتیر میں دیباچہ کے طور پر شامل کی گئی تھی، ۱۹۸۵ میں ۱۹۷۳ کے دستور میں اس کے مؤثر جزو کے طور پر داخل کی گئی۔ اس غرض کے لیے آرٹیکل ۲۔اے ایزاد کیا گیا۔ مختصرًا آرٹیکل ۲۔اے کا منشا یہ ہے کہ تمام تر کائنات کا حقیقی حاکم و مقتدر علٰی اللہ تعالٰی ہی بلاشرکتِ غیرے ہے اور لوگوں پر حکمرانی کا اختیار ایک امانت ہے۔ ان اختیارات کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعہ کیا جائے گا۔ یہ کہا گیا کہ جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کے اصول، جس طرح کہ اسلامی احکامات نے ان کو متشکل کیا ہے، کی لفظاً اور معناً پوری پابندی کی جائے گی۔ مسلمانوں کو ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اسلامی احکامات کا پابند بنایا جائے گا۔ اقلتیوں کو ان کے عقائد پر عمل اور ثقافت کی ترقی کے لیے اپنے مذاہب کی تعلیمات کے مطابق پوری سہولت دی جائے گی۔ یہ بھی کہا گیا کہ بنیادی حقوق بشمول حیثیت، مواقع اور قانون کے سامنے برابر، سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف، فکر، اظہار، اور عقیدہ اور جماعت سازی کی آزادی کی ضمانت دی جائے گی۔ عدلیہ خودمختار اور آزاد ہو گی۔ پسماندہ علاقوں اور لوگوں کی ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جائیں گے۔ اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا، جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب (۲۵)میں تحریر فرمایا:
’’قرارداد مقاصد نے اس امر کی تصدیق کی کہ تمام تر کائنات پر مطلق اختیار صرف اور صرف اللہ تعالٰی کا ہے۔ اس ذاتِ برتر نے جو اختیار مملکتِ پاکستان کو عوام الناس کے ذریعہ تفویض کیا ہے، ایک مقدس امانت تھا۔ یہ قرارداد وفاقی مملکت جس میں منتخب نمائندوں کی حکمرانی کا اشارہ دیتی ہے اور اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، اور یہ جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری اور سماجی عدل کے اصولوں کی، جس طرح اسلام نے ان کو پیش کیا ہے، علم بردار ہے۔ ‘‘
آرٹیکل ۲۔اے سے بلا شک و شبہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاسی تشکیل کی بنیاد اللہ تعالٰی کے احکامات ہیں۔ جس طرح کہ یہ احکام قرآن حکیم میں درج ہیں۔ ان احکامات کی پیروی میں پاکستانی عوام ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی فلاح مضمر ہے۔ دوسرے لفظوں میں محروم طبقات جو کہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں، کو سماجی، اقتصادی اور سیاسی طور پر اٹھایا جائے گا تاکہ انہیں پاکستان کی اقتصادیات میں مستحکم کیا جائے۔ میرے نزدیک قرارداد مقاصد میں ان مقدس اصولوں کی صراحت کر دی گئی جو کہ ناقابل تغیر اور استثنٰی ہیں۔ اس طرح میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ یہ آرٹیکل دستور کی دیگر دفعات سے بلند تر درجہ کا حامل ہے۔ اس لحاظ سے عدالتیں قرآن و سنت کے اصولوں کے تحفظ کی پابند ہیں۔ اس نقطۂ نظر کو قیامِ پاکستان کے معاً بعد اعلٰی عدالتوں کے سامنے مناسب مقدمات میں متواتر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ عاصمہ جیلانی کیس (۳) میں یہ استدلال کیا گیا تھا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کے لیے اصل الاصول فراہم کرتی ہے۔ اس طرح یہ نہ صرف عبوری دستور بلکہ آئندہ دستور پر بھی بالادست ہے۔ اس استدلال کو سپریم کورٹ نے حسبِ ذیل قرار کے ساتھ مسترد کر دیا تھا۔
’’ہمیں بنیادی اقتدار کی تلاش میں مغرب کے ماہرینِ قانون کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا اصل الاصول یہ ہے کہ تمام کائنات پر قانونی اقتدارِ اعلٰی بلاشرکتِ غیرے اللہ تعالٰی کا ہے، اور اس کا تفویض کردہ اختیار اس کی ہدایات کے ماتحت مقدس امانت ہے۔ یہ اصل الاصول ہے جسے قرارداد مقاصد میں پوری صراحت کے ساتھ ثبت کیا گیا ہے۔ یہ اساسی اصول ناقابل تغیر و استثنٰی ہیں۔ یہ قرارداد ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو منظور ہوئی ۔۔۔‘‘
’’اگر اسے دستور میں داخل نہ کیا گیا یا یہ دستور کا جزو نہ ہو تو یہ دستور کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ اگرچہ یہ ایک ایسی دستاویز ہے جسے قبولیتِ عامہ حاصل ہے اور اسے کبھی منسوخ کیا گیا ہے اور نہ ہی اس سے کبھی برأت کا اظہار کیا گیا، اس کے باوجود اسے کسی دستوری دفعہ کی حیثیت حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ یہ دستور میں داخل نہ کر دی جائے یا اسے دستور کا حصہ بنا دیا جائے۔‘‘
درج بالا فیصلہ سے یہ عیاں ہے کہ سپریم کورٹ نے قراردادِ مقاصد کی اہمیت واضح کی ہے لیکن یہ بھی واضح کر دیا کہ کوئی دستاویز بالاتر قانون تسلیم نہیں کی جا سکتی جب تک کہ وہ دستور کا مؤثر حصہ نہ بنا دی جائے۔ پس مقننہ نے اس مشکل کو دور کرنے کے لیے قرارداد مقاصد کو دستور ۱۹۷۳ کا مؤثر حصہ بناتے ہوئے صدارتی حکم نمبر ۱۴ مورخہ ۲ مارچ ۱۹۸۵ جاری کیا گیا۔ دستور میں اس تبدیلی کا نوٹس سردار علی وغیرہ بنام محمد علی وغیرہ (۱۹) کیس میں لیا گیا اور یہ قرار دیا گیا کہ عدالتوں کو قرارداد مقاصد کی تنفیذ کا اختیار آرٹیکل ۲۔اے کے تحت حاصل ہو گا۔
اس طرح فاضل کونسل کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں بہرطور پر جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اسلامی قوانین کے نفاذ میں ایک اہم پیش رفت نفاذِ شریعت ایکٹ ۱۹۹۱ء کے نفاذ مورخہ ۱۸/۶/۱۹۹۱ سے ہوئی ہے۔ ایکٹ مذکورہ کی دفعہ نمبر ۳ میں لکھا ہے کہ اسلامی احکامات جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں پاکستان کا سپریم لا ہوں گے۔ اسی طرح ۲۴/۸/۱۹۹۱ کو تعزیراتِ پاکستان اور ضابطہ فوجداری کو قرآن و سنت کے مطابق بنانے کے لیے قانون فوجداری (ترمیم ثانی) آرڈیننس ۱۹۹۰ جاری کیا گیا۔ مذکورہ آرڈیننس کی دفعہ ۳۰۹ اور ۳۱۰ میں قصاص کی صورت میں راضی نامہ کا ضابطہ فراہم کیا گیا۔ دونوں دفعات کا متن زیرغور استدلال کی صراحت کے لیے درج کیا جاتا ہے۔
’’۳۰۹: ولی کا قتلِ عمد میں قصاص زائل کرنا:
(۱) قتلِ عمد کی صورت میں عاقل، بالغ ولی کسی وقت بھی اور بغیر معاوضہ کے اپنا حقِ قصاص زائل کر سکتا ہے۔ ‘‘
’’۳۱۰: قتلِ عمد میں قصاص کا راضی نامہ (صلح):
(۱) قتلِ عمد کی صورت میں عاقل، بالغ ولی کسی وقت بھی عوض صلح وصول کر کے اپنے حق قصاص پر راضی نامہ کر سکتا ہے۔‘‘
مختصرًا اوپر کی مذکورہ دفعات میں راضی نامہ اور معاوضہ وصول کر کے سزایافتگان کے ساتھ سمجھوتہ کی صورت فراہم کی گئی ہے۔ میرے نزدیک یہ دفعات دستور کے صدارتی اختیارات کے برعکس مؤثر ہوں گی۔ اس طرح اسلامی احکامات آرٹیکل ۲۔اے کے تحت روبعمل ہوں گے۔ میں برادر جج جسٹس شیخ ریاض احمد کے مجوزہ فیصلہ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں۔
حکم بمطابق فیصلہ
حوالہ جات
(1) Lettor No 8/15/88 Ptns Islamabad
(2) Ziau Rahman Case PLD 1972 SC 49
(3) Asma Jilani Case PLD SC 139
(4) Hussein Naqi Case PLD 1973 LAH 164
(5) Parliamentary Practice 531
(6) Benazir Bhuto Case PLD 1988 SC 416 AT 522
(7) President's Order No 3 of 1979
(8) President's Order No 1 of 1980
(9) President's Order No 14 of 1985
(10) Benazir Bhuto Case PLD 1988 SC 416
(11) Manzur Elahi Case PLD 1975 SC 66
(12) Malk Ghulam Mustafa Khar Case PLD SC 26
(13) Niaz aHmed Case PLD 1977 KAR 604
(14) Habib Bank Case PLD 1989 Karachi 371
(15) PLD 1975 SC 506 F.B Ali VS State
(16) PLD 1966 SC 854 East Pakistan Vs Siraj-ul-Haq
(17) PLD 1963 SC 486 Fazal-ul-Qadir Choudry vs Abdul Haq
(18) PLD 1958 SC 437
(19) PLD 1988 SC 287 Sardar Ali Case
(20) PLD 1989 SC 633 Gul Hasan Case
(21) 1990 CLC 428
(22) PLD FSC 236 Wahab Al-Khairy Case
(23) PLD 1989 SC 166
(24) Constitution Law and Pakistan Affairs 7
ایران کی مداخلت
نسیم ایوبی
شیعہ مذہب اپنی ولادت سے لے کر آج تک اہلِ سنت کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے۔ پہلی صدی ہجری سے یہ فرقہ اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف ہے۔ اہلِ سنت کے خلفاء کے خلاف سازشیں اور بغاوتیں اس فرقے کا منشور ہے۔ زیرزمین سرگرمیوں اور تقیہ کے بل بوتے پر اس گروہ نے مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو ختم کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ غیر مسلم بھی نہ کر سکے۔ مسلم ریاستوں کے خلاف دشمنوں کے ساتھ سازباز کر کے اسلامی ریاستوں کو ختم کرنے کے لیے اس گروہ نے ہر حربہ اختیار کیا اور علقمی جیسے رسوائے زمانہ شیعوں نے اسلامی ریاست کے خاتمہ کے لیے بھرپور کوششیں کیں۔ ان کی ان ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں مغرب عربی میں اور مصر افریقہ میں شیعہ ریاست قائم ہوئی۔ نتیجتاً قتل و غارت گری اور اہلِ سنت کی بے حرمتی کے وہ ہولناک واقعات رونما ہوئے جن سے دھرتی کا سینہ تھرتھرانے لگا۔ آخرکار اس گروہ کے اقتدار کا سورج غروب ہو گیا۔
صفیوں کے دور میں شیعہ نے پھر انگڑائی لی لیکن ترک عثمانیوں نے انہیں کچل کر رکھ دیا۔ یہ گروہ زیرزمین سرگرمیوں میں مصروف ہو گیا اور چمگادڑ کی طرح تاریکی شب میں کام کرنے لگا۔ شیعہ نے رات دن سازشوں کے جال تیار کیے تاکہ ایک بار پھر اپنی حکومت قائم کر سکیں۔ سالہا سال تک ان کی نسلیں مسلمانوں کے خلاف حسد، کینہ اور بغض کا دودھ پی کر پلتی رہیں۔ تقیہ کے سائے میں یہ لوگ جوان ہوئے۔ ’’اوپر سے کچھ اندر سے کچھ‘‘ ان کے مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے۔ لیکن جب اس گروہ کو اقتدار حاصل ہو جاتا ہے تو ان کی اصل حقیقت سامنے آتی ہے۔ تب یہ خلقِ خدا کی بربادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور پھر آبادیوں کی تباہی چشمِ فلک کو دعوتِ نظارہ دیتی ہے۔
رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے خاتمہ پر اس دینی گروہ کو ایران میں اقتدار حاصل ہوا۔ لبنان میں ان کے گروہ آمادۂ بغاوت ہوئے، اور یوں ایران کی نئی حکومت نشۂ اقتدار میں اس قدر مدہوش ہو گئی کہ اس شیعی فساد کو، جسے انہوں نے انقلاب کا نام دے رکھا تھا، بیرون ملک برآمد کرنے کی ٹھان لی۔ اس گروہ نے اپنی سرگرمیاں افریقہ، ایشیا، یورپ اور امریکہ تک وسیع کر دیں، انہوں نے اپنی توجہات کا ارتکاز زیادہ تر ان علاقوں پر کیا جہاں جہاں شیعہ اقلیت موجود تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی شیعی حکومت نے اپنا اولین ہدف افغانستان کو بنایا کیوں کہ افغانستان نہ صرف ایران کا ملحقہ پڑوسی ہے بلکہ یہاں فارسی زبان بولنے والوں کی معقول تعداد بھی موجود ہے۔ جن میں چھ سے دس فیصد تک شیعہ گروہ کے لوگ بھی موجود ہیں۔
چنانچہ ایران نے عراق کے ساتھ اپنی نو سالہ جنگ کے المناک اور ذلّت آمیز انجام کے بعد اپنی عسکری اور فکری قوت افغانستان کی طرف مبذول کر دی تاکہ اب افغانستان کو ایک شیعہ ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے سازش کی جائے۔ افغانستان ایران کے نقطۂ نظر سے ایک اہم علاقہ ہے۔ ’’ہزارہ‘‘ قبائل کا تعلق شیعہ مذہب سے ہے جو ’’پاسبان‘‘ کے صوبے میں آباد ہیں۔ اس طرح ایک قلیل تعداد افغانستان کے دیگر صوبوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ’’ایرانی نیشنل گارڈ‘‘ کے دستے ’’پاسبان‘‘ میں تعینات ہیں اور ایران نے اپنے خرچ سے صوبہ پاسبان میں ٹیلی فون لائنز کا جال بچھا دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ’’ہزارہ‘‘ قبیلے کے لوگ ازخود تو اتنا بڑا منصوبہ مکمل نہیں کر سکتے تھے۔
’’آیات‘‘ (آیت اللہ کی جمع) کی ایک بہت بڑی تعداد ’’تو مان نہ مان میں تیرا مہمان‘‘ کی مصداق بن کر صوبہ بامیان میں براجمان ہے۔ یہ لوگ مشیر منصوبہ بندی کے عہدوں فائز ہو کر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال چند یرغمالی ڈاکٹروں کی رہائی کے سلسلہ میں شیعہ گروہ کے ساتھ جو مذاکرات ہوئے ان میں ایرانی ’’آیات‘‘ کی ایک بڑی تعداد شریک ہوئی جس نے مذاکرات کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔ ایران نے بامیان کے صوبے میں عراق کے ساتھ جنگ کے خاتمہ کے بعد تقریباً چالیس ہزار مسلح جوان داخل کر دیے ہیں تاکہ اس صوبے میں شیعہ اسٹیٹ کے قیام کے لیے راہ ہموار کی جا سکے۔ بامیان کے کمانڈر مجاہد صفی الدین نے کہا کہ ان ایرانی فوجیوں کی سرگرمیوں کا واضح تعین ہنوز نہیں ہو سکا لیکن ایک آغا خانی مسٹر کیان نے کہا ہے کہ نجیب کو اقتدار سے الگ کرنے کے بعد ہم مجاہدین سے بھی دو دو ہاتھ کریں گے۔ یہ ایرانی مداخلت کار کب اور کیسے اپنے ناپاک منصوبے پر عملدرآمد کا آغاز کریں گے؟ ابھی اس بارے میں کوئی قطعی رائے دینا قبل از وقت ہے۔
ایران اس وقت بھی مسئلہ افغانستان میں مداخلت کرتا رہا ہے جبکہ وہ خود عراق کے ساتھ برسر پیکار تھا۔ ایرانی راہنما خمینی اور روسی لیڈر گورباچوف کے درمیان خط و کتابت سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ایران روسی غاصبوں کو افغانستان کی قسمت کا مالک سمجھتا ہے، کیوں کہ ایران نے روسی لیڈر کو توجہ دلائی تھی کہ افغانستان میں شیعہ کے مفادات کا تحفظ کیا جائے، جس کے جواب میں روس نے خمینی کو یقین دلایا کہ شیعہ کو افغانستان میں تمام حقوق دیے جائیں گے اور ان کا مکمل تحفظ کیا جائے گا۔
یہی صورتحال سکردو، گلگت، چترال، ہنزہ، لگر، دیامر کی ان ریاستوں کی ہے جو کبھی خودمختار ریاستیں تھیں مگر اب پاکستان کے زیر انتظام وفاقی کنٹرول میں ہیں۔ ریاست کشمیر سے ان ریاستوں کو ۱۹۴۷ء سے پاکستان نے نامعلوم وجوہ کی بنا پر الگ کر رکھا ہے۔ پاکستان کے شمال میں واقع یہ علاقہ قطعی طور پر سنی اکثریت پر مشتمل تھا مگر غربت، جہالت، پسماندگی کے سبب آغاخانی فرقہ اسماعیلیہ کے امام کے زیرانتظام چلنے والے فلاحی ادارے ان غریب لوگوں کو اپنے دامِ تزویر میں پھنسا کر اس پورے علاقے کو اسماعیلی بنا رہے ہیں۔ آغاخانی اور ایرانی شیعہ حکومت کا پورا زور اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ آزاد کشمیر کے شمال میں سکردو سے لے کر واخان (افغانستان) کی پوری پٹی شیعہ ریاست میں تبدیل ہو جائے اور یوں پاکستان اور آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ ایک طرف سے ہندوستان، دوسری طرف سے روس اور چین، اور تیسری طرف سے افغانستان اور شیعہ ریاست کے درمیان گھر جائے۔ اور اس طرح پاکستان کے اندر اس سہ کالمی دباؤ کے ذریعے سے شیعہ حضرات کو سنیوں کے برابر حقوق دے کر فقہ جعفریہ کے نام پر ملک میں صحابہ کرامؓ کی عظمتوں کو تار تار کر دیا جائے اور خلفائے ثلاثہ ؓ اور ان کے پیروکاروں کو پس منظر میں دھکیل کر یہاں وہی تاریخ دہرائی جائے جو مختار ثقفی، حسن بن صباح اور دیگر شیعہ لیڈروں نے اسلام کے دورِ عروج کو ختم کرنے کے لیے کوفہ، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں دہرائی تھی۔
ان لوگوں کی پشت پناہی کے جی بی، سی آئی اے، را، اور خاد کر رہی ہیں۔ تاکہ وقت آنے پر شمالی علاقوں کی طرف سے شیعہ آبادی کو بغاوت پر ابھارا جائے اور بلوچستان میں ایران اور روس کے ذریعے بغاوت کی آگ بھڑکائی جائے، اور سندھ میں ہندوستانی ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری کروا کر پاکستان کو مختلف فرقہ ورانہ ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے، اور یوں اس عظیم اسلامی ملک کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
اگر ہمارے سنی علماء و سیاستدان اس خطرناک موقعہ دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث کے جھگڑوں میں الجھے رہے تو یہاں نہ دیوبندی ہوں گے، نہ بریلوی اور نہ اہلِ حدیث۔ اس ملک پر یا کمیونسٹوں کا راج ہو گا یا اصحابِؓ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا۔
اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس اور عالمِ اسلام
لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست
ادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کے زیراہتمام لندن میں منعقدہ فکری نشست میں آبادی کے کنٹرول کے مسئلہ پر اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کو تمام آسمانی مذاہب کی بنیادی تعلیمات اور انسانی اقدار کے منافی قرار دیتے ہوئے اس سلسلہ میں جامعہ ازہر اور وٹیکن سٹی کے موقف کے موقف کی پرزور حمایت کی گئی ہے اور ایک قرارداد کے ذریعے دنیا بھر کی مسلم حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ عالمِ اسلام کو کنڈوم کلچر اور جنسی انارکی کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے مشترکہ طور پر ٹھوس اور جرأت مندانہ موقف اختیار کیا جائے اور قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کو مسترد کرنے کا اعلان کیا جائے۔
یہ نشست اسلامک سنٹر سیلون روڈ اپٹن پارک لندن میں ۳ ستمبر ۱۹۹۴ء کو جمعیت علماء برطانیہ کے راہنما مولانا قاری عبد الرشید رحمانی کی زیرصدارت منعقد ہوئی جس میں مختلف جماعتوں کے راہنماؤں نے خطاب کیا۔
مفکرِ اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے بھی اس نشست سے خطاب کرنا تھا لیکن قاہرہ کانفرنس کے بارے میں رابطہ عالمِ اسلامی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کے لیے انہیں برطانیہ کا دورہ مختصر کر کے اچانک سعودی عرب روانہ ہونا پڑا، البتہ شرکاء کے نام ایک پیغام میں مولانا ندوی نے کہا کہ ملتِ اسلامیہ کو اس وقت یورپ کی خوفناک تہذیبی یلغار کا سامنا ہے اور یہ معرکہ ان صلیبی معرکوں سے زیادہ سخت اور خطرناک ہے جن میں یورپی حکومتیں عالمِ اسلام کا مقابلہ کرنے اور اسے زیر کرنے میں ناکام رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ صورتحال انتہائی نازک ہے اور مغربی کلچر ملتِ اسلامیہ کے تہذیبی دائروں کو توڑنے اور مذہبی اقدار کو مٹانے کے لیے اپنا پورا زور صرف کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے یہودی اور عیسائی دانشور اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود متحد ہو گئے ہیں۔ اس لیے عالمِ اسلام کی دینی قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو یکجا کر کے پوری سنجیدگی کے ساتھ اس فتنۂ عظمٰی کا مقابلہ کریں۔
حزب التحریر برطانیہ کے امیر الشیخ عمر بکری محمد نے کہا کہ دراصل مغربی قوتوں کو ملتِ اسلامیہ کی افرادی قوت کا خوف لاحق ہے اور وہ مغرب و مشرق میں آبادی کا توازن قائم کرنے کے لیے آبادی پر کنٹرول کے نام پر اس قسم کی حرکات کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی افرادی قوت کو بڑھانے کا حکم دیا ہے، اس لیے آبادی کو محدود کرنے کا تصور رسول اکرمؐ کی تعلیمات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی فکری اور اقتصادی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے عالمِ اسلام میں سیاسی بیداری کی مہم چلانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک ہم مکمل آزادی کے ساتھ اسلام کی مکمل عملداری کا اہتمام نہیں کرتے مغرب کی سازشوں کا اسی طرح شکار ہوتے رہیں گے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ سکولوں میں جنسی تعلیم، مانع حمل اشیاء کے کھلم کھلا فروغ، اور بدکاری کی حوصلہ افزائی جیسے اقدامات کی روک تھام صرف اسلام اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ انسانی اقدار کا مسئلہ ہے اور تمام مذاہب اس قسم کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’فری سیکس‘‘ کے فلسفہ نے مغربی معاشرہ کا جو حشر کیا ہے اور جس طرح اس سوسائٹی کو انسانی قدروں اور رشتوں سے محروم کیا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی ذی شعور انسان قاہرہ کانفرنس کے ایجنڈے کی حمایت نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مغرب خود تو آسمانی تعلیمات سے دستبردار ہو چکا ہے اور اب ہمیں بھی آسمانی تعلیمات سے دستبردار کرانا چاہتا ہے۔ لیکن عالمِ اسلام میں اس سلسلہ میں ہونے والے ردعمل نے واضح کر دیا ہے کہ مسلمان بے عمل یا بدعمل تو ہو سکتا ہے لیکن اپنے دین سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا کہ اقوامِ متحدہ مغربی ملکوں کی آلۂ کار ہے جو عالمِ اسلام پر امریکہ اور اس کے حواریوں کا تسلط برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اسی لیے اس کے قیام کے وقت مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ نے اسے کفن چوروں کی انجمن قرار دے دیا تھا اور گزشتہ نصف صدی کی تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا ارشاد بالکل درست تھا۔ انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کو عورتوں کے حقوق کا غم کھائے جا رہا ہے لیکن کوئی ان سے پوچھے کہ کیا بوسنیا میں مظالم کا شکار ہونے والی ہزاروں عورتیں ان کے نزدیک حقوق کی حقدار نہیں تھیں، اور ان کے لیے اقوامِ متحدہ نے کیا کردار کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ دراصل مغرب ابھی تک استعمار کا کردار ادا کر رہا ہے اور مسلمان ملکوں کو ظاہری آزادی کا فریب دے کر اقتصادی پالیسیوں اور اقوامِ متحدہ کے ذریعہ اپنا شکنجہ عالمِ اسلام پر مضبوط سے مضبوط تر کرتا جا رہا ہے۔
مجلسِ اقبالؒ لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا نے کہا کہ مغربی ممالک نہ مسلم ممالک کو معاشی اور سائنسی طور پر خودکفیل دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ مسلمانوں میں سیاسی اتحاد ہی کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اور مغربی حکومتوں کی تمام تر پالیسیوں کا محور یہ ہے کہ عالمِ اسلام ہمیشہ کے لیے ان کا دستِ نگر اور محتاج رہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمِ اسلام کا اتحاد اور اسلامی اقدار کی بالادستی ہی ان تمام مسائل کا حل ہے جس کے ذریعے ہم مغرب کے چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکتے ہیں۔
بزرگ عالم دین مولانا ابوبکر سعید نے کہا کہ قاہرہ کانفرنس کا ایجنڈا ہماری دینی غیرت کے لیے چیلنج ہے اور ہمیں چاہیے کہ پوری طرح متحدہ ہو کر اس کا مقابلہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ قاہرہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی سفارشات بے حیائی اور بدکاری کو فروغ دینے کی تجاویز ہیں جنہیں مسلم معاشرہ میں کسی طور پر بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔
صدر نشست مولانا قاری عبد الرشید رحمانی نے اس بات پر زور دیا کہ قرآن و سنت کی تعلیمات کو فروغ دیا جائے اور ’’فری سوسائٹی‘‘ کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے نئی نسل کی راہنمائی کی جائے۔
علماء قاہرہ کانفرنس کے فیصلوں پر نظر رکھیں۔ مولانا منصوری
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے کہا ہے کہ عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کو بہبودِ آبادی کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی قاہرہ کانفرنس کی کارروائیوں اور قراردادوں کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اسقاطِ حمل، شادی کے بغیر جنسی تعلقات، ہم جنسی اور سکولوں میں جنسی تعلیم کے حوالہ سے کانفرنس کی قابلِ اعتراض تجاویز پر پاکستان اور بعض دیگر مسلم ممالک کا طرزعمل بہتر ہے۔ لیکن اس پر اکتفا کر کے تمام امور سے بے فکر ہو جانے کا کوئی جواز نہیں ہے، کیونکہ مغرب کی تہذیبی اور ثقافتی یلغار کا طریق واردات ہمیشہ یہی رہا ہے کہ ’’تین قدم آگے بڑھو اور ردعمل زیادہ مخالف ہو تو ایک قدم پیچھے ہٹ جاؤ‘‘۔ اس طرح اسے ہر حملہ میں دو قدم آگے بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے اور ردعمل کا اظہار کرنے والے بھی مطمئن ہو جاتے ہیں کہ اسے ایک قدم پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اس لیے عالمِ اسلام کے دینی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کانفرنس کی کارروائیوں اور قراردادوں پر گہری نظر رکھیں اور اس سلسلہ میں ملتِ اسلامیہ کی بروقت راہنمائی کریں۔
علماء مغربی فلسفہ کی ماہیت کو سمجھیں اور انسانی معاشرہ کی راہنمائی کریں
حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی
مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے علماء کرام اور مسلم دانشوروں پر زور دیا ہے کہ وہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو دنیا کی دوسری اقوام تک پہنچانے کے لیے مربوط اور منظم پروگرام ترتیب دیں اور اسلامی تعلیمات کو آج کی زبان میں لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کریں۔ وہ ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء کو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں ورلڈ اسلامک فورم کے وفد سے بات چیت کر رہے تھے جو مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عیسٰی منصوری اور مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی پر مشتمل تھا۔
اس موقع پر مولانا ندوی نے کہا کہ علماء حق نے ہر دور میں وقت کے فتنہ اور ضرورت کو پہچانا ہے اور اس کے مطابق لوگوں کی راہنمائی کی ہے۔ ایک دور میں جب مسلم معاشرہ میں یونانی فلسفہ کے فروغ سے اعتقادی فتنوں نے سر اٹھایا تھا تو اس وقت کے اکابر علماء نے یونانی فلسفہ پر عبور حاصل کر کے اس کی زبان میں اسلامی عقائد کی وضاحت کی تھی اور مسلمانوں کو گمراہ ہونے سے بچایا تھا۔ جبکہ آج مغرب کے مادہ پرستانہ فلسفہ نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں اسلام کے عقائد و احکام کے بارے میں بے یقینی اور شکوک کے بیج بو دیے ہیں، علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغربی فلسفہ کی ماہیت کو سمجھیں، یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کریں اور مادہ پرستانہ فلسفہ کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس کی زبان میں اسلامی عقائد و احکام کی وضاحت کریں تاکہ تشکیک اور الحاد کے فتنہ کا صحیح طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔
مولانا ندوی نے کہا کہ مغربی تہذیب اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ کر اب زوال کا شکار ہونے والی ہے اور مغربی معاشرہ میں دن بدن وسیع ہونے والی بے چینی اور اضطراب نے اس تہذیب پر خود مغرب کے لوگوں کے اعتماد کو متزلزل کر دیا ہے اور وہ کسی نئے نظام اور پیغام کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت اسلام کے سوا دنیا کے کسی مذہب میں یہ سکت نہیں ہے کہ وہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق انسانی معاشرہ کی راہنمائی کر سکے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ علماء کرام اور مسلم دانشور اپنی ذمہ داری کا احساس کریں اور اسلام کے فطری احکام اور تعلیمات کو سادہ اور فطری انداز میں لوگوں کے سامنے لائیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر مسلم معاشرہ میں ان لوگوں کی تعداد بہت کم ہے جو اسلام سے نفرت رکھتے ہیں اور اس کے بارے میں معاندانہ رویہ اختیار کرتے ہیں، ان کے علاوہ باقی لوگوں تک اسلام کا پیغام صحیح انداز میں پہنچانے کا اہتمام کیا جائے تو ان میں سے بہت سے افراد اسے قبول کرنے کے لیے تیار ہوں گے، مگر اصل کوتاہی ہماری طرف سے ہے اور ہم دعوت اور تبلیغ کے تقاضے پورے نہیں کر رہے۔
مولانا ندوی نے ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ نظریاتی اور فکری محاذ پر صحیح سمت کام کا ذوق بیدار ہو رہا ہے۔
جاہلی اقدار پھر سے انسانی معاشرہ پر غالب آ گئی ہیں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ِطیبہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے اور انسانی معاشرہ بالآخر رسول اکرمؐ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی امن و فلاح کی منزل حاصل کرے گا۔ وہ ۹ ستمبر کو مرکزی جامع مسجد ویمبلی لندن میں جلسہ سیرت النبیؐ سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ محبتِ رسولؐ پر مسلمانوں کے ایمان کی بنیاد ہے، جس کے بغیر کوئی شخص مومن کہلانے کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ لیکن محبتِ رسولؐ کی بنیاد اطاعت اور اتباع ہے کیونکہ محبوب کے احکام کی تعمیل کے بغیر دنیا میں محبت کا کوئی بھی دعوٰی قابلِ قبول نہیں ہوتا اور خود رسول اکرمؐ نے بھی ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’جس نے میری اطاعت کی اس نے میری محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرا ساتھی ہو گا‘‘۔
مولانا راشدی نے کہا کہ آج دنیا جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہی ہے اور تہذیب و ترقی کے نام پر جاہلیت کی وہ تمام اقدار انسانی معاشرہ پر پھر سے غالب آ گئی ہیں جنہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹایا تھا، اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ رسول اکرمؐ کی تعلیمات سے دنیا کو آگاہ کیا جائے اور اسوۂ نبویؐ کے زیریں اصولوں سے انسانی معاشرہ کو روشناس کرایا جائے کیونکہ اور کوئی نظام اور تعلیم انسانی معاشرہ کو ان اندھیروں سے نجات نہیں دلا سکتی۔
مولانا قاری محمد عمران جہانگیری نے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ نئی نسل کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے اور رسول اکرمؐ کی تعلیمات اور اسوہ سے روشناس کرانے کا بطور خاص اہتمام کیا جائے۔ جلسہ سے مولانا حافظ عزیز الرحمٰن تاراپوری نے بھی خطاب کیا۔
اخبار و آثار
ادارہ
پروفیسر خلیق احمد نظامی سے فورم کے راہنماؤں کی ملاقات
ورلڈ اسلامک فورم کے راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا محمد عیسٰئ منصوری اور مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی نے ۳۱ اگست ۱۹۹۴ء کو آکسفورڈ سنٹر فار اسلامک اسٹڈیز میں بھارت کے ممتاز محقق، مصنف اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی سے ملاقات کی اور ان سے مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی کا شمار برصغیر کے چوٹی کے ماہرینِ تعلیم اور محققین میں ہوتا ہے اور وہ ’’شاہ ولی اللہ کے سیاسی مکتوبات‘‘، ’’تاریخِ مشائخِ چشت‘‘ اور ’’سلاطینِ دہلی کے مذہبی رجحانات‘‘ جیسی متعدد علمی اور تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں۔
فورم کے راہنماؤں نے پروفیسر نظامی کو فورم کے پروگرام اور سرگرمیوں سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ فکری بیداری اور ذہنی تربیت کا یہ پروگرام وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ماہنامہ الشریعہ کے چند شمارے دیکھ چکے ہیں جو ایک معیاری جریدہ ہے اور اہم مقصد کے لیے مفید کام کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ آکسفورڈ میں اسلامک اسٹڈیز کا سنٹر جو مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی نگرانی میں تعلیمی و تحقیقی خدمات سرانجام دے رہا ہے اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فرحان احمد نظامی، پروفیسر ڈاکٹر خلیق احمد نظامی کے فرزند ہیں اور مغربی دنیا کو اسلام کے بارے میں ضروری معلومات سائنٹفک بنیادوں پر مہیا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
مولانا منصوری کی والدہ محترمہ انتقال فرما گئیں
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری کی والدہ محترمہ کا گزشتہ دنوں انڈیا میں انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ فورم کے راہنماؤں مولانا زاہد الراشدی، مولانا مفتی برکت اللہ، پروفیسر عبد الجلیل ساجد، مولانا سید اسد اللہ طارق گیلانی، مولانا فیاض عادل فاروقی اور مولانا قاری محمد عمران خان جہانگیری نے مرحومہ کی وفات پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبرِ جمیل کی توفیق سے نوازیں۔ اور کہا کہ ہم مولانا منصوری اور ان کے خاندان کے اس غم میں شریک ہیں اور مرحومہ کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا گو ہیں، آمین یا رب العالمین۔
حضرت درخواستیؒ کی یاد میں گلاسگو میں تعزیتی جلسہ
عالمِ اسلام کی ممتاز دینی شخصیت اور جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی رحمتہ اللہ علیہ کی وفات حسرتِ آیات پر گزشتہ روز گلاسگو کی مرکزی جامع مسجد میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس کی صدارت پاکستان اسلامائزیشن فورم کے چیئرمین مولانا مفتی مقبول احمد نے کی اور اس میں مختلف طبقات کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اس موقع پر حضرت درخواستیؒ کی دینی و قومی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا کہ مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اپنے دور کے ولیٔ کامل اور مجاہد عالمِ دین تھے جنہوں نے ساری زندگی نفاذِ شریعت اور تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی اور بڑھاپے کے باوجود وہ علماء اور کارکنوں کو نفاذِ اسلام کی جدوجہد کے لیے مسلسل تیار کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ حضرت درخواستیؒ کی وفات سے ہم ایک خدا ترس بزرگ اور شفیق راہنما سے محروم ہو گئے ہیں۔ وہ ہمارے عظیم اسلاف کی نشانی تھے اور علم و فضل کی قدیم روایات کے امین تھے۔ حضرت درخواستیؒ اپنی طرز کے واحد بزرگ تھے اور اب مدتوں ان کا ثانی نہیں مل سکے گا۔
اس موقع پر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور تحریکِ ختمِ نبوت گلاسگو کے کارکن جناب محمد علی جاوید مرحوم کو ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کریم ختم کیا گیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی گئی۔
گلاسگو میں ’’پاکستان اسلامائزیشن فورم‘‘ کا قیام
برطانیہ کے شہر گلاسگو میں پاکستانی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے متعدد راہنماؤں نے پاکستان میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد سے تعاون، اور عالمی سطح پر اسلام اور پاکستان کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالہ کے لیے ’’پاکستان اسلامائزیشن فورم‘‘ قائم کیا ہے۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز مرکزی جامع مسجد گلاسگو میں ایک اہم اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی۔
اجلاس میں وطنِ عزیز پاکستان میں نفاذِ اسلام کے سلسلہ میں اب تک کیے جانے والے اقدامات کے خاتمہ کے لیے مغربی لابیوں کے دباؤ کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا اور طے پایا کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کو اس سلسلہ میں صحیح حالات سے باخبر رکھنے اور اسلام اور پاکستان کے بارے میں مخالف لابیوں کے منفی پراپیگنڈا کا جواب دینے کے لیے منظم جدوجہد کی جائے گی اور پاکستان کی دینی و سیاسی جماعتوں کو نفاذِ اسلام کی مشترکہ جدوجہد کے لیے تیار کرنے کی محنت کی جائے گی۔
اس مقصد کے لیے مولانا مفتی مقبول احمد کی سربراہی میں ’’پاکستان اسلامائزیشن فورم‘‘ قائم کیا گیا جس کا ہیڈکوارٹر گلاسگو میں ہو گا اور اس کے بنیادی ارکان میں مولانا زاہد الراشدی، چوہدری محمد یعقوب، فضل اکبر محمود، حاجی محمد صادق، حاجی صابر علی اور حاجی غلام مصطفٰی وائیں شامل ہیں۔ فورم کے سربراہ مولانا مفتی مقبول احمد نے اس موقع پر بتایا کہ اس سلسلہ میں گلاسگو میں ستمبر کے آخر میں نظامِ شریعت کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں نفاذِ اسلام کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے تجاویز اور سفارشات کو عملی شکل دی جائے گی، ان شاء اللہ تعالٰی۔
پاکستان کے دینی و سیاسی راہنماؤں کے نام ایک اہم مراسلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
باسمہٖ تعالٰی
بگرامی خدمت _________ زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ مزاج گرامی؟
گزارش ہے کہ روزنامہ جنگ لندن ۲۴ اگست ۱۹۹۴ء کی ایک خبر کے مطابق پاکستان کی قومی اسمبلی نے ملک کے دستور پر نظرثانی کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلہ میں آنجناب کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان پر ایک عرصہ سے بیرونی قوتوں اور لابیوں کی طرف سے مسلسل دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستان میں اسلامائزیشن کے حوالہ سے اب تک ہونے والے اقدامات پر نظرثانی کی جائے اور ملک کو ایک سیکولر ریاست قرار دے کر اس کا رشتہ مکمل طور پر ویسٹرن سولائزیشن کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان کے اندر بھی سیاسی کارکنوں اور دانشوروں کی ایک مضبوط لابی منظم کام کر رہی ہے جو حکومت اور اپوزیشن دونوں میں یکساں طور پر مؤثر اور متحرک ہے، جبکہ دینی سیاسی جماعتوں کا خلفشار اور باہمی بے اعتمادی اور عدمِ رابطہ کی فضا ان لابیوں کے لیے خاصی معاون ثابت ہو رہی ہے۔
اس پس منظر میں آٹھویں آئینی ترمیم سمیت ملک کے دستور پر مکمل نظرثانی کے لیے قومی اسمبلی میں خصوصی کمیٹی کا قیام یقیناً خطرات سے خالی نہیں ہے اور دینی سیاسی جماعتوں کو اس صورتحال پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔
جہاں تک دستورِ پاکستان پر نظرثانی کا مسئلہ ہے اس کی ضرورت بلاشبہ موجود ہے کیونکہ دستور ملک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی ضمانت دینے کے ساتھ ساتھ برطانوی استعمار کے ورثہ کے طور پر مسلط اس نو آبادیاتی نظام کا تحفظ بھی کر رہا ہے جو قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی اور اسلامی نظام کے مکمل نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس لیے میری تجویز یہ ہے کہ دینی و سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر دینی و آئینی ماہرین کی کمیٹی قائم کر کے اس سلسلہ میں دستور کے تضادات و ابہامات کی نشاندہی کریں اور ان کو دور کرنے کے لیے مشترکہ دستوری سفارشات پارلیمنٹ میں پیش کریں تاکہ وہ پاکستان کے اسلامی تشخص کے تحفظ اور اسلام کی عملداری کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داری صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ مجھے امید ہے کہ آنجناب ان گزارشات سے اتفاق کرتے ہوئے اس سمت عملی پیشرفت کی بھی کوئی صورت نکالیں گے۔
بے حد شکریہ، والسلام
ابوعمار زاھد الراشدی
چیئرمین ورلڈ اسلامک فورم