لاؤڈ اسپیکر اور علماء کرام
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ان دنوں پاکستان کی وفاقی حکومت کے ایک مبینہ فیصلہ کے حوالہ سے لاؤڈ اسپیکر دینی حلقوں میں پھر سے موضوع بحث ہے اور لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مساجد کی چار دیواری کے اندر محدود کر دینے کے فیصلہ یا تجویز کو مداخلت فی الدین قرار دے کر اس کی پرجوش مخالفت کی جا رہی ہے۔
ایک دور تھا جب لاؤڈ اسپیکر نیا نیا متعارف ہوا تو مساجد میں اس کے استعمال کے جواز و عدم جواز اور نماز میں لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے سے امام کی آواز مقتدیوں تک پہنچنے کی شرعی حیثیت کی بحث چھڑ گئی تھی۔ ایک مدت تک ہمارے فتاوٰی اور علمی مباحث میں اس کا تذکرہ ہوتا رہا۔ تب لوگوں کی خواہش تھی کہ آواز کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی غرض سے اس مفید ایجاد سے دینی مقاصد کے لیے فائدہ اٹھایا جائے مگر علماء کرام اس میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے۔ اب جبکہ اس مفید ایجاد کے بے تحاشا اور زائد از ضرورت استعمال نے اس کے منفی پہلو کو اجاگر کیا ہے اور اس کے استعمال کو محدود کرنے کی خواہش عام لوگوں میں ابھر رہی ہے تو علماء کرام کا ایک طبقہ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس نے اہل فکر و دانش کو الجھن اور پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے جبکہ اپنے دلوں میں علماء کرام کے لیے احترام اور عقیدت کا جذبہ رکھنے والے لوگ بھی اس طرز عمل پر خود کو مطمئن نہیں پا رہے۔
جہاں تک لاؤڈ اسپیکر کا تعلق ہے یہ محض ایک آلہ ہے جو ایک شخص کی آواز کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچانے کا کام دیتا ہے۔ اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب یہ آلہ موجود نہیں تھا دین اس وقت بھی موجود تھا اور اب جبکہ اس سے زیادہ مفید اور موثر آلات کے استعمال میں آنے سے اس کی پہلے والی اہمیت باقی نہیں رہی، دین تب بھی قائم ہے۔ اس لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے مسئلہ کو دین کا سوال بنانے کی بجائے اس کی افادیت اور نقصانات کے حوالہ سے دیکھنا ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے بے تحاشا استعمال نے عام آدمی کی پریشانی میں اضافہ کیا ہے۔ ایک ایک محلہ میں تین تین چار چار مساجد میں انتہائی طاقتور قسم کے لاؤڈ اسپیکرز کے بیک وقت استعمال سے اہل محلہ کے کانوں اور دماغوں میں شور و غل کی جو دھماچوکڑی مچتی ہے وہ یقیناً دین، مسجد اور علماء کے ساتھ ان کے تعلق میں اضافہ کا باعث نہیں بنتی اور دینی نقطۂ نظر سے اس کا نتیجہ نقصان کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوتا۔ پھر شرعی نقطۂ نظر سے بیمار لوگوں، مطالعہ کرنے والوں، آرام کرنے والوں، اور آپس میں ضروری گفتگو کرنے والوں کے معاملات میں یہ بلند آہنگ خلل اندازی بجائے خود توجہ طلب ہے۔ لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو محدود کرنے کی تجویز کی دین کے نام پر مخالفت کا ہمیں کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ بلکہ ایک لحاظ سے یہ ذمہ داری خود علماء کرام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مسئلہ کے شرعی و اخلاقی تقاضوں اور مفاد عامہ کو سامنے رکھتے ہوئے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال اور اس کی آواز کے دائرہ کے لیے حدود کا تعین کریں اور اس پر عمل درآمد کا اہتمام کریں۔
چنانچہ ہم لاؤڈ اسپیکر کی آواز کو مسجد کی چار دیواری میں محدود کر دینے کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ اضافہ بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کار خیر کو صرف مسجد تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ بازاروں، سینماؤں، شادی بیاہ کی تقریبات، ٹیپ ریکارڈنگ کی دکانوں اور دیگر تمام مقامات پر لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو ممنوع قرار دیا جائے تاکہ عام شہری لاؤڈ اسپیکر کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے پیدا ہونے والے شوروغل سے نجات حاصل کر سکیں۔
مصائب و مشکلات کے روحانی اسباب
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر
ساری دنیا عموماً اور پاکستان خصوصاً آج جن مصائب میں مبتلا ہے، اس کا عظیم سبب بد اعتقادی اور بے عملی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذین عملوا لعلھم یرجعون۔ (الروم ۵)
’’پھیل پڑی ہے خرابی خشکی میں اور دریا میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ اللہ تعالیٰ چکھائے ان کو کچھ مزا ان کے کاموں کا تاکہ وہ رجوع کر لیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں یہ امر واضح کر دیا ہے کہ خشکی و سمندر، بر و بحر میں جو فتنے اور فسادات برپا ہیں وہ انسانوں کے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کی وجہ سے ہیں۔ پورا مزہ اور بدلہ تو مرنے کے بعد ہی ملے گا مگر انسانوں کی شرارتوں کا کچھ بدلہ اللہ تعالیٰ ان کو ان مصائب اور تکالیف کی وجہ سے دیتا ہے جو خود ان کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ مگر ہمیشہ سے اکثریت ایسے لوگوں کی رہی ہے اور اب بھی ہے کہ ان حوادثات سے عبرت حاصل نہیں کرتی اور ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ گردشیں آئیں، دور بدلا، زمانہ بدلا، مگر بے عمل مسلمان نہ بدلا۔ بقول مفتی محمد نعیم صاحب لدھیانویؒ ؎
زمیں بدلی زماں بدلا
مکیں بدلے مکاں بدلا
نہ تو بدلا نہ میں بدلا
تو پھر بدلا تو کیا بدلا؟
اور جوں جوں مسلمانوں میں گناہ، فریب، مکر، دغا، چوری، زنا، حرام خوری، ڈکیتی، حیلہ سازی اور دیگر جرائم بڑھتے رہیں گے، مصائب بھی بڑھتے رہیں گے۔ کیونکہ ان کے اسباب ہمارے ہاتھوں کے کرتب ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم سے کیوں جدا ہوا؟ آج پوری قوم، کیا مرد کیا زن اور کیا بوڑھے اور کیا جوان، مختلف قسم کے جسمانی دردوں میں کیوں مبتلا ہے؟ اور باہر کے اختلافات کا تو کہنا ہی کیا ہے، اسمبلی ہال تک میں آپس میں چپقلش کے روحانی اسباب درج ذیل حدیث شریف سے بخوبی سمجھ آجائیں گے۔
مشہور تابعی حضرت عطاءؒ بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہؓ بن عمرؓ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک نوجوان آیا اور اس نے پگڑی کے شملہ کے لٹکانے کے بارے میں حضرت عبد اللہؓ سے سوال کیا۔ حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ میں تجھے انشاء اللہ العزیز علم کے مطابق خبر دوں گا۔ فرمایا کہ ہم دس آدمی جن میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت ابن مسعود، حضرت حذیفہ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف اور ابو سعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے، مسجد نبوی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے، اتنے میں ایک نوجوان انصاری آیا اور اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، پھر بیٹھ گیا اور آپ سے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ! مومنوں میں کون سا مومن افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا، جس کے اخلاق اچھے ہوں۔ اس نوجوان نے سوال کیا کہ کون سا مومن عقلمند اور دانا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ وہ مومن دانا ہے جو موت کو کثرت سے یاد کرے اور موت آنے سے پہلے اس کے لیے خوب تیاری کرے۔ وہ نوجوان پھر خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوئے اور حاضرین کو خطاب کرتے ہوئے، جن کی اکثریت مہاجرین کی تھی، فرمایا، اے مہاجرین! پانچ چیزیں ہیں، ان کے تم پر وارد ہونے اور تمہارے ان میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تمہیں ان سے سابقہ نہ پڑے۔
(۱) لم تظہر الفاحشۃ فی قوم قط حتی یعملوا بہا الاظہر فیھم الطاعون و الا وجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم۔
’’کبھی کسی قوم میں بے حیائی نہیں پھیلی یہاں تک کہ وہ اس کی مرتکب ہو مگر اس میں طاعون اور ایسے درد ظاہر ہوں گے جو پہلے لوگوں میں نہ تھے۔‘‘
بوڑھے مرد اور عورتیں تو کیا آج نوجوان نسل اور بالکل نئی پود اور بچے بھی جسمانی طور پر ایسے ایسے دردوں میں مبتلا ہیں کہ نہ تو ڈاکٹروں کے ٹیکے اور کیپسول کارآمد ہوتے ہیں اور نہ حکیموں کی گولیاں اور سفوف۔ ظاہری اسباب تو سبھی ہی بیان کرتے ہیں کہ خوراکیں اصلی نہیں، کھاد کا اثر اور اشیا میں ملاوٹ کا ثمرہ ہے۔ بے شک یہ ظاہری اسباب ہیں اور شریعت ان کا انکار نہیں کرتی، مگر ان دردوں کا روحانی سبب، جس سے لوگ اغماض کرتے ہیں، زنا، بے پردگی اور دیگر ہر قسم کی بے حیائی ہے جو ٹی وی، وی سی آر اور ہر جدید طریقے سے پھیلائی جاتی ہے اور اکثریت کے رگ و ریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
(۲) ولم ینقصوا المکیال والمیزان الا اخذوا بالسنین وشدۃ المونۃ وجور السلطان علیھم۔
’’اور وہ ماپ اور تول میں کمی نہیں کرے گی مگر چیزوں کی گرانی اور سخت مشقت اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہو گی۔‘‘
اشیا میں ملاوٹ کی بیماری کے علاوہ ماپ اور تول میں کمی ناقابل تردید حقیقت ہے اور اس کے نتیجہ میں اشیا کی گرانی اور حکومت کی طرف سے آئے دن بجلی، سوئی گیس، جہازوں، ریلوں اور بسوں کے کرایوں میں اضافہ اور نئے نئے ٹیکس لگانے کا معنوی اور روحانی سبب قوم کا پیمانوں اور تول میں کمی کرنا ہے۔ ظاہری سبب تو یہی بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں یہ بھاؤ ہے مگر افسوس کہ روحانی سبب سے بالکل آنکھیں بند کرتے ہیں۔
(۳) ولم یمنعوا الزکوٰۃ الا منعوا القطر من السماء ولولا البھا ثم لم یمطروا۔
’’اور وہ قوم زکوٰۃ نہیں دے گی مگر آسمان سے بارش اس پر روک دی جائے گی، اگر چوپائے نہ ہوں تو اس پر بارش نہ برسائی جائے۔‘‘
آج مسلمان کہلانے والی قوم کی دولت جس طرح شیطانی کاموں میں صرف ہوتی ہے، اس کی نسبت سے زکوٰۃ وغیرہ نیک کاموں پر اس کا عشر عشیر بھی صرف نہیں ہوتا، اور بارش نہ ہونے کی وجہ سے بعض علاقے پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کی بے زبان مخلوق چوپائے اور جانور نہ ہوں تو بارش سے کلیتاً لوگ محروم رہیں۔ مگر حیوانات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسانوں پر بھی رحمت فرماتا ہے۔ محکمہ موسمیات تو مون سون کی ہواؤں سے کڑی جوڑتا ہے مگر اصل سبب زکوٰۃ جیسے فریضہ سے گریز ہے اور بعض نام نہاد مسلمان سنی کہلا کر بھی زکوٰۃ اور عشر سے بچنے کے لیے رافضی بن جاتے ہیں۔
(۴) ولم ینقضوا عہد اللہ وعہد رسولہ الا سلط اللہ علیھم عدلھم من غیرھم واخذ بعض ما کان فی ایدیھم۔
’’اور وہ قوم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدہ کو نہیں توڑے گی مگر اللہ تعالیٰ اس قوم پر ان کے مخالف دشمنوں کو مسلط کر دے گا جو اس سے بعض حصہ لے لیں گے جو اس کے قبضہ میں ہو گا۔‘‘
مشرقی بنگال پاکستان کا حصہ تھا اور تقریباً ۳۰ سال تک پاکستان رہا، مگر جب پاکستانی حکمرانوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘‘ کو بھلا دیا، خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہوئے وعدہ کو پس پشت ڈالا اور قوم کو دھوکہ دیا تو اللہ تعالیٰ نے ہندوؤں، سکھوں اور روسیوں کو ان پر مسلط کیا۔ مشرقی پاکستان بھی گیا اور قوم کی عزت بھی گئی اور رسوائی سے ہم کنار ہوئی۔
(۵) وما لم یحکم اثمتھم بکتاب اللہ الا القی اللہ باسھم بینھم۔
’’اور جب برسراقتدار طبقہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرے گا تو اللہ تعالیٰ ان کی آپس میں لڑائی ڈال دے گا۔‘‘
پاکستان کا برسراقتدار طبقہ، کیا حزب اقتدار اور کیا حزب اختلاف، قرآن اور سنت کی حکمرانی سے گریزاں ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان کی ساری قوت اور توانائی ہی اپنے وجود کو قائم رکھنے اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے وقف ہے۔ اسمبلیوں میں بھی جھگڑے سے باز نہیں آتے۔ سیاسی اختلاف تو سبب ظاہری ہے، اصلی اور روحانی سبب قرآن و سنت سے روگردانی ہے جس کا وبال حکمران طبقہ اولاً بالذات اور عوام ثانیاً بالتبع بھگت رہے ہیں، اور نرے الفاظ سے قوم کو تھپکی دی جاتی ہے ؎
تفاوت ہی کچھ ایسی ہے یہاں لفظ و معانی میں
طلب کچھ اور ہے، مضمونِ دعا کچھ اور کہتا ہے
(مستدرک ج ۴ ص ۵۴۰ و ص ۵۴۱ ۔ قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح)
مسلمان بھائی سے ہمدردی کا صلہ
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
متن حدیث
عن ابی ھریرۃ قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسم من نفس عن مؤمن کربۃ من کرب الدنیا نفس اللّٰہ عنہ کربۃ من کرب یوم القیامۃ ومن ستر مسلما سترہ اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ و من یسرعن معسر یسرہ اللّٰہ فی الدنیا والاٰخرۃ واللّٰہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ و من سلک طریقا یلتمس فیہ علما اسھل اللّٰہ بہ طریقا الی الجنۃ وما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللّٰہ یتلون کتاب اللّٰہ ویتدار سونہ بینھم الا نزلت علیھم السکینۃ وغشیتھم الرحمۃ وحفتہم الملٰئکۃ وذکرھم اللّٰہ عز و جل فیمن عندہ ومن ابطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبہ۔ (مسند احمد طبع بیروت جلد ۲ ص ۲۵۲)
ترجمہ و تشریح
یہ بڑی مشہور حدیث ہے جو اکثر سنی اور سنائی جاتی ہے۔ اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بہت سی باتیں بیان فرمائی ہیں جو حقیقت میں بے مثال جواہر پارے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو شخص دنیا میں کسی مومن کی تکلیف کو دور کرے گا، قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو دور کر دے گا۔ کوئی شخص بیمار ہو جائے، کسی کو کوئی حادثہ پیش آجائے یا کوئی دیگر دنیوی تکلیف میں مبتلا ہو، اور دوسرا مسلمان اس تکلیف کو ہٹانے میں مصیبت زدہ کی اعانت کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن ایسے شخص کی پریشانیوں، تکالیف اور مصائب کو دور فرما دے گا۔
آپؐ نے دوسری بات یہ فرمائی کہ جس شخص نے کسی مسلمان بھائی کی ستر پوشی کی، اس کے عیوب کو ظاہر کرنے کے بجائے پردے میں رکھا، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایسے شخص کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اسے رسوا ہونے سے بچائے گا۔
آپؐ کا تیسرا جوہر پارہ یہ ہے کہ جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، مثلاً کسی مقروض کو مہلت دے دی اس پر سختی نہیں کی، تو فرمایا اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی پیدا فرمائے گا اور اسے کسی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا پڑے گا۔
چوتھی بات یہ فرمائی کہ جو شخص کسی مسلمان بندے کی مدد میں ہوتا ہے یعنی ضرورت کے وقت اس کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کی مشکل کے وقت مدد فرماتا ہے۔
آپ نے پانچویں نمبر پر فرمایا، جو شخص حصولِ علم کے لیے راستے پر چلا یعنی اس مقصد کے لیے سفر اختیار کیا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستے کو آسان فرما دیتا ہے۔ اس علم سے مراد دین کا علم ہے۔ پھر جب ایسا شخص علم حاصل کر کے اس پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اسے دوسروں تک پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے اور وہ آسانی کے ساتھ جنت میں پہنچ جاتا ہے۔
آپؐ کا چھٹا جوہر پارہ یہ ہے کہ جب کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے ایک گھر یعنی مسجد میں جمع ہوں اور وہاں اللہ کی کتاب کی تلاوت کریں اور آپس میں پڑھیں پڑھائیں تو خدا تعالیٰ کی جانب سے ان پر تسلی نازل ہوتی ہے اور اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ کے فرشتے ان کو ہر طرف سے گھیر لیتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر اس مخلوق کے سامنے کرتا ہے جو اس کے پاس ہے۔ اس مخلوق سے مراد اللہ کے فرشتے ہیں جن کے سامنے اللہ تعالیٰ مسجد میں جمع ہونے والے لوگوں کی تعریف بیان کرتا ہے کہ یہ اللہ کے کلام کو پڑھنے پڑھانے والے لوگ ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے عمل کی قبولیت پر فرشتوں کو گواہ بنا لیتا ہے اور ان کو اجر عظیم سے نوازتا ہے۔
آپؐ نے ساتویں بات یہ فرمائی، جس شخص کا عمل اس کو پیچھے کی طرف ہٹائے گا اس کا حسب نسب اس کو آگے نہیں بڑھائے گا، یعنی آگے کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ مطلب یہ ہے کہ درجات کی بلندی کا دارومدار اعمال پر ہے نہ کہ نسب پر، جس شخص کے اعمال ایسے ہیں جو اس کو ذلت و رسوائی کی طرف دھکیل رہے ہیں تو اس کا خاندان خواہ کتنا بھی اونچا ہو، اس کو عزت نہیں دلا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ اٹل قانون ہے کہ اگر اعمال اچھے نہیں تو نہ نسب کام آئے گا اور نہ خالی کسی اچھے آدمی کی طرف نسبت کام دے گی۔ لہٰذا ہر شخص کو اپنے اعمال کی درستگی اور فکر کی پاکیزگی کی طرف دھیان دینا چاہیے کہ اس کے بغیر نجات ممکن نہیں۔ جو لوگ محض نسب پر قناعت کر کے بیٹھ جاتے ہیں وہ کامیابی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔
پاکستان میں نفاذِ اسلام کے لیے وفاقی وزارتِ مذہبی امور کی سفارشات
ادارہ
ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے حکومت کی ہدایت پر وزارتِ مذہبی امور نے سفارشات پر مبنی تفصیلی رپورٹ مرتب کی ہے، جس میں نفاذِ شریعت کے لیے دستوری، عدل و انصاف، تعلیم، معیشت، ذرائع ابلاغ، اصلاحِ جیل خانہ جات، معاشرتی اور دفتری اصلاحات کے حوالے سے تفصیلی سفارشات پیش کی گئی ہیں۔ وزارت نے یہ رپورٹ ملک کی مذہبی تنظیموں اور اسلامی نظریاتی کونسل کی مدد سے تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کو کابینہ اپنے آئندہ اجلاس میں غور کرنے کے بعد پارلیمنٹ میں پیش کرے گی اور ملکی آئین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کے لیے دستور میں ترمیم کرنے کی تجویز پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔
جو سفارشات کی گئی ہیں ان کی تفصیلات یہ ہیں:
دستوری سفارشات میں آئین کے آرٹیکل 2 میں ترمیم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس میں ترمیم کر کے آرٹیکل 2 کو 2 (1) لکھا جائے۔ آرٹیکل 2 (2) اسلام کے احکام جو قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں منضبط ہیں، پاکستان کا سپریم لاء قرار پائیں گے۔ آرٹیکل 2 (3) آئین پاکستان 1973ء کی دفعہ 2 (30) اور 227 (2) میں شامل کسی امر کے باوجود کوئی قانون بشمول دستور کے یا کوئی رسم و رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہے، تناقص کی اس حد تک کالعدم ہو گا جس حد تک وہ قرآن و سنت میں منضبط احکامِ اسلام کا مناقض ہو۔ آرٹیکل (4) مملکت کوئی ایسا قانون وضع نہیں کرے گی جو کہ قرآن پاک اور سنتِ رسولؐ میں منضبط احکامِ اسلام سے متصادم، متناقض، یا ان کے منافی ہو، یا کوئی قانون جو اس شق کی خلاف ورزی میں وضع کیا گیا ہو، وہ خلاف ورزی کی حد تک کالعدم ہو گا۔
دستوری سفارشات کے مطابق آئین کی دفعہ 203 بی کی شق سی کو حذف کر کے اس شق کا اضافہ کیا جائے کہ قانون میں دستور یا ہر وہ رسم و رواج شامل ہے جو قانون کا اثر رکھتا ہو۔ اس کے علاوہ دفعہ 203 سی کی شق 9 کو حذف کر کے اس میں اس شق کا اضافہ کیا جائے کہ چیف جسٹس یا کوئی جج اس وقت تک اپنے عہدے پر فائز رہے گا جب تک اس کی عمر 70 سال کو نہ پہنچ جائے، سوائے اس کے کہ وہ یا تو خود اپنے عہدے سے استعفٰی دے یا دستور کے مطابق اس کو اپنے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
عدل و انصاف کے متعلق رپورٹ نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ عدالتی نظام میں تبدیلی وقت کی اہم اور فوری ضرورت ہے۔ معاشرے میں تبدیلی کے لیے مؤثر عدالتی نظام کو رائج کرنا ہو گا۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا عمل عدل و انصاف کے نظام میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس ضمن میں 5 تجاویز دی گئی ہیں:
- صوبائی، ضلعی اور تھانے کی سطح پر قاضی اور مفتی مقرر کیے جائیں۔
- سستا اور فوری انصاف مہیا کیا جائے، کورٹ فیس ختم کی جائے، اپیل کے زیادہ چینل ہوں، قاضی فیصلہ کرے اور تمام عدالتی مراحل میں سے گزر کر مقدمات کے حتمی و قطعی فیصلے کے لیے زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال مقرر کی جائے۔
- اسلام کا نظام احتساب بغیر کسی استثنا کے نافذ کیا جائے جو مرکز اور صوبائی سطح سے لے کر تھانے اور دیہات کی سطح پر نافذ العمل ہو۔
- جرائم کی روک تھام کے لیے موقع پر انصاف مہیا کیا جائے۔ ضابطہ فوجداری میں طریقہ تفتیش کے بارے میں اور عدالتی نظام میں اہم ترمیمات کی اشد ضرورت ہے، اس ضمن میں قاضی کورٹس کے مسودہ بل سے استفادہ کیا جائے۔
تعلیم کے سلسلے میں سفارشات پیش کی گئی ہیں کہ
- تعلیمی اداروں میں بالخصوص سکولوں میں کم از کم ایک نماز میں بچے باجماعت شریک ہوں۔
- طالبات کے لیے این سی سی ٹریننگ میں خاتون اساتذہ کا تقرر کیا جائے، بصورت مجبوری ریٹائرڈ معمر فوجیوں کو بھی مقرر کیا جا سکتا ہے۔
- علومِ جدید اور علومِ قدیم دونوں عمومی تعلیم اور دینی تعلیم کے حامل اداروں میں پڑھائے جائیں۔
- اسلامیات کی تعلیم کا معیار بلند کیا جائے اور اس میں تفسیر، حدیث، فقہ اور عقائد کی ٹھوس تعلیمات اتنی مقدار میں پڑھائی جائیں کہ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے ہر طالب علم کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر آ جائے۔
- پانچویں جماعت تک ناظرہ تعلیم قرآن کریم کے لیے اسلامیات کے مضمون سے الگ مستقل وقت رکھا جائے اور اس مرحلے تک پورے قرآن کریم کی ناظرہ تدریس مکمل کرائی جائے۔
- عربی زبان کو اسلامیات کی تعلیم کا مستقل جزو بنایا جائے۔
- مخلوط تعلیم کو ختم کرنے کے لیے بلاتاخیر کم از کم مدت کا تعین کیا جائے جس میں ضروری انتظامی امور کی تکمیل کی جا سکے۔ اور طالبات کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی جائیں جو ان کی فطری ضروریات کے مطابق ہوں۔ 2 خواتین یونیورسٹیوں کے قیام کے متعلق مرحوم جنرل محمد ضیاء الحق کے اعلان کو جلد از جلد عملی جامعہ پہنایا جائے۔
- طلبا کو ایسی غیر نصابی سرگرمیوں کی اجازت نہ دی جائے جو اسلام کے خلاف ہوں، مثلاً رقص و سرود اور مخلوط ڈرامے وغیرہ۔
معیشت کے بارے میں تجویز ہے کہ ملک کے نظامِ معیشت کو قرآن و سنت کی روشنی میں مرتب کیا جائے۔ نیز وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں معیشت کے تمام شعبوں کو سود سے پاک کیا جائے اور متبادل اسلامی نظامِ معیشت قائم کیا جائے اور اس کے لیے ضروری قانون ڈھانچہ فراہم کیا جائے۔ اس ضمن میں سفارشات میں کہا گیا ہے کہ
- پاکستان میں بینکنگ اور مالیاتی ادارے مضاربہ اور مشارکہ کی بنیاد پر چلنے چاہئیں اور اس مقصد کے لیے ضروری قانونی ڈھانچہ فراہم کرنا ناگزیر ہے۔ لہٰذا مالی کاروبار کے ان طریقوں میں بنیادی اہمیت بلاسود شراکتی تعامل کو دی جائے۔
- موجودہ مارک اپ سسٹم دراصل سود کا دوسرا نام ہے۔ لہٰذا اسے ختم کیا جائے۔
- جدید معاشی نظام میں وینچر کیپیٹل (زر مخطرہ) معیشت کی ترقی و فروغ کے لیے بنیادی محرک تسلیم کیا جاتا ہے۔ سرمایہ پیدا کرنے اور سرمایہ کاری کا اسلامی فلسفہ صرف وینچر کیپیٹل کی اجازت دیتا ہے، نہ کہ قرض پر دیے ہوئے پہلے سے طے کردہ سود کے سرمایہ کی۔ اسلام صرف قرض حسنہ دینے کی اجازت دیتا ہے۔
- مالی اداروں اور بینکوں میں مضاربت اور مشارکت کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے لین دین میں سود ختم کرنے کو یقینی بنائے۔
- بینکوں کا بااثر افراد کا قرضہ معاف کرنا شرعی لحاظ سے نہایت قابلِ اعتراض ہے کیونکہ یہ ان لوگوں کی دولت ہے جو بینک میں پیسہ جمع کراتے ہیں۔ یہ اختیار بینکوں اور مالیاتی اداروں کی انتظامیہ سے لے کر صرف عدالتوں کو ہوتا ہے کہ وہ ہر معاملہ کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔
- فکسڈ ٹیکسیشن کا نظام رائج کیا جائے۔
- بیرونی سودی قرضوں کی ادائیگی کی خاطر پاکستانی پروجیکٹس کے حصص زرمبادلہ کے عوض بیچے جائیں اور اس طرح حاصل ہونے والے زربیع سے غیر ملکی قرضے ادا کیے جائیں۔
- زکوٰۃ اور عشر کے موجودہ نظام میں اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔
- قرض حسنہ کو مجموعی طور پر اسلامی طریقہ کار کے مطابق رائج کیا جائے۔
- اسلام میں قرض معاف کرنے کی گنجائش سوائے قرضہ دینے والے کے کسی اور کو نہیں، اس لیے قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک حکمرانوں کے کہنے پر جو قرضے معاف ہوئے ہیں وہ واجب الادا ہیں۔
(ذرائع ابلاغ کے متعلق سفارشات)
- ذرائع ابلاغ کے اغراض و مقاصد قوم کو تفریحی، تعلیمی، اخلاقی، قانونی، معاشرتی اور سیاسی شعور سے آگہی اور معلومات فراہم کرنا ہیں۔ قومی مقاصد اور اسلامی تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے موعظہ حسنہ اور حکمتِ بالغہ سے رہنمائی حاصل کرنا ہو گی۔ ذرائع ابلاغ کا منتہائے مقصود یہ ہونا چاہیے کہ قوم کو نیکی، صداقت اور اچھائی کی طرف رہنمائی کریں۔
- ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر مخرب اخلاقی ڈراموں، فلموں، گانوں اور خلافِ اسلام پروگراموں کی نشر و اشاعت فی الفور بند کی جائے۔
- حکومت ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات و رسائل کے متعلق ایسا اہتمام کرے جس کی رو سے جھوٹی خبر یا اطلاع دینا یا شائع کرنا قابلِ تعزیر ہو۔
- اخبارات و رسائل اور دیگر ابلاغِ عامہ کو ناشائستہ اور غیر اخلاقی اشتہارات اور مواد کی اشاعت سے روکا جائے۔
- مخرب اخلاق ویڈیو سنٹر بند کیے جائیں، ڈش انٹینا کے بنانے، لگانے، درآمد کرنے اور استعمال کرنے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیا جائے۔
اصلاحِ جیل خانہ جات کے ضمن میں سفارش کی گئی ہے کہ
- قیدیوں کے اخلاق اور دینی اصلاح کے لیے جیل میں مستند علمائے دین کا تقرر کیا جائے جو تبلیغ کا کام انجام دے سکیں۔
- جو مسلم قیدی صوم و صلوٰۃ اور اسلامی شعائر کے پابند ہوں اور قرآن مجید حفظ کریں تو ان کی قید کی مدت میں کمی کی جائے۔
- اسلام کے نظامِ حدود و تعزیرات کے مطابق سزائیں دی جائیں تاکہ جرائم کا خاتمہ ہو۔
معاشرتی اصلاحات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
- ملک میں اسلام کا نظامِ حسبہ یعنی احتساب کو رائج کیا جائے۔
- لسانی اور علاقائی تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے۔
- مساجد کو مسلمانوں کی اجتماعی تقریبات کا مرکز و محور بنایا جائے۔
- عورتوں کو شرعی ستر و حجاب کا پابند بنایا جائے۔ اور حکومت یہ اہتمام کرے کہ میراث میں عورتوں کو شرعی حصہ ملے۔
- فرمانِ امتناعِ شراب میں جو منشیات رکھی گئی ہیں ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔
دفتری اصلاحات کے لیے تجویز پیش کی گئی ہے کہ
- دفاتر میں نظامِ صلوٰۃ کو مؤثر بنایا جائے۔
- تمام سرکاری و غیر سرکاری تقریبات میں رقص و سرود اور خلافِ شرع امور کو ممنوع قرار دیا جائے۔
- بیوروکریسی اور بالخصوص پولیس کی اصلاح کی جائے۔
- دفاتر میں خواتین کی سروسز کی مخلوق شکل میں حوصلہ شکنی کی جائے۔
(بشکریہ روزنامہ پاکستان، لاہور ۲۲ مئی ۱۹۹۴ء)
بلا سود بینکاری کا ادارہ
نافع اربن کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی لمیٹڈ
ادارہ
ہمارے ہاں قومی حلقوں میں یہ بات تسلسل کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے کہ بلاسود بینکاری کا کوئی نظام قابلِ عمل نہیں ہے، حالانکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے دس سال قبل بلاسود بینکاری کا نظام حکومت کے سامنے مرتب صورت میں پیش کر دیا تھا مگر اس کی اشاعت پر پابندی ہے، اور حکمران طبقے بلاسود بینکاری کے ناقابلِ عمل ہونے کا مسلسل دعوٰی کیے جا رہے ہیں۔ ورلڈ اسلامک فورم کے ڈپٹی چیئرمین اور اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر لندن کے ڈائریکٹر مولانا مفتی برکت اللہ (فاضل دیوبند) نے ہمیں ایک مالیاتی ادارے کا تعارف بھجوایا ہے جو بھیونڈی (انڈیا) میں خود ان کی زیرنگرانی کامیابی کے ساتھ بلاسود بینکاری کا کام کر رہا ہے۔ یہ تعارف قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔
انڈیا میں بلاسود بینکاری کی بنیاد پر کام کرنے والے ایک اور مالیاتی ادارہ ’’بیت النصر سوسائٹی‘‘ کا تعارف اور دنیا کے مختلف ممالک میں بلاسود بینکاری کا کام کرنے والے ۲۲ مالیاتی اداروں کی فہرست الشریعہ کے اگلے شمارہ میں پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(ادارہ)
مختصر تعارف اور طریقہ کار
نافع اربن کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹی کا قیام مہاشٹر کوآپریٹو سوسائٹیز ایکٹ 1960ء کے تحت عمل میں آیا ہے۔ اس سوسائٹی کے قیام کا مقصد ہندوستان میں غیر سودی بینک کاری کے لیے نئی راہیں دریافت کرنا، سود کے لین دین کو چھوڑ کر مکمل طور پر غیر سودی بینک کاری کے خطوط پر کام کرنا، صاف اور پاکیزہ ماحول میں کم لاگت والے رہائشی مکانات کی تعمیر کرنا، مسلمانوں میں سرمایہ کاری کا رجحان پیدا کر کے ان کے قیمتی سرمایے کو محفوظ کرنا اور انہیں مالی فائدہ پہنچانا، نیز حلال آمدنی کے ذرائع تلاش کرنا ہے۔
نافع کے ممبر کیسے بنیں؟
ہر اس شخص کے لیے جو سوسائٹی میں اپنی رقم جمع کرانا، قرض لینا، ضمانت دینا چاہتا ہے، سوسائٹی کا ممبر ہونا لازمی ہے۔ ممبر بننے کے لیے کم از کم دس روپے کے تین شیئرز (حصص) خریدنا ضروری ہے، اور ایک روپیہ داخلہ فیس بھی دینا پڑتی ہے۔ اگر ممبر چاہے تو دوسال بعد اپنی ممبر شپ ختم کر کے شیئر کی رقم واپس حاصل کر سکتا ہے۔
سوسائٹی کے دفتر میں مندرجہ ذیل ڈپازٹ اسکیموں کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں، مزید تفصیلات آپ سوسائٹی سے معلوم کر سکتے ہیں۔
اسپاٹ ڈپازٹ (Spot Deposit)
یہ روزانہ ڈپازٹ کی اسکیم ہے۔ یہ بینکوں میں کرنٹ اکاؤنٹ (Current A/C) کے مشابہ (قسم کا) کھاتہ ہے۔ البتہ اس میں آپ گھر بیٹھے بچت کر سکتے ہیں۔ اس اسکیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ آپ یہ اکاؤنٹ پانچ روپے سے کھول سکتے ہیں اور جب جتنی رقم چاہیں جمع اور نکال سکتے ہیں۔ اکاؤنٹ کھولنے کے ایک ماہ بعد تک آپ اس اکاؤنٹ سے پیسے نہیں نکال سکتے، اور تین ماہ بعد سے آپ کو اس اکاؤنٹ میں کم از کم سو روپے جمع رکھنا ضروری ہے، ورنہ نصف فیصد سروسز چارج لیا جائے گا۔ اس اکاؤنٹ کے لیے سوسائٹی کی جانب سے یہ سہولت ہے کہ ہمارا مقرر کردہ کلکٹر آپ کے مکان، دوکان یا آفس میں آ کر رقم وصول کرتا ہے۔
سیونگ ڈپازٹ (Saving Deposit)
آپ یہ اکاؤنٹ کم از کم پانچ روپے سے کھول سکتے ہیں اور جتنی رقم چاہیں جمع کر سکتے ہیں اور جب چاہیں واپس لے سکتے ہیں، اس میں کلکٹر کی سہولت نہیں ہے۔
ریکرنگ ڈپازٹ (Recurring Deposit)
اس ڈپازٹ کی رقم کم از کم پچیس روپے ماہانہ اور مدت دو سال ہے۔ مدت ختم ہونے سے قبل ضرورت پڑنے پر چند روز قبل آفس میں اطلاع دے کر رقم واپس لی جا سکتی ہے۔ سوسائٹی کا مقررہ کلکٹر ہر ماہ آپ کے مکان، دکان یا آفس سے رقم وصول کرتا ہے۔
فکسڈ ڈپازٹ (Fixed Deposit)
اس ڈپازٹ کی رقم کم از کم سو روپے اور مدت ایک سال ہے۔ مدت ختم ہونے سے قبل بوقت ضرورت چند روز پیشتر دفتر میں اطلاع دے کر رقم واپس لی جا سکتی ہے۔
قرضہ جات کے لیے شرائط
سوسائٹی سے قرض حاصل کرنے کے لیے قرض خواہ کو مندرجہ ذیل شرائط پورا کرنا ضروری ہے:
(الف) سوسائٹی کے رجسٹرڈ ممبران ہی قرض کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔
(ب) سوسائٹی کے ان ممبران کو جن کا کھاتہ سوسائٹی کے پاس کم از کم ایک سال سے باقاعدہ جاری رہا ہو، زیادہ سے زیادہ پچاس ہزار روپے قرض دیا جا سکتا ہے۔
(ج) نئے ممبران ممبرشپ حاصل کرنے کے تین ماہ بعد ہی قرض کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ شروع میں انہیں فی کس زیادہ سے زیادہ بیس ہزار روپے قرض دیا جا سکتا ہے۔
(د) قرض کی مطلوبہ رقم کے مطابق مندرجہ ذیل چار چیزوں کی ضمانت قبول ہو گی:
(۱) سونے کے زیورات (مالیت) کی %75 رقم بطور قرض حاصل ہو گی۔
(۲) سوسائٹی کے کھاتہ داروں کی ضمانت۔ یہ ضمانت کھاتے میں جمع شدہ رقم کی %80 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ (یہاں یہ بات دھیان میں رکھی جائے کہ ضامن حضرات اپنے کھاتے سے ضمانت شدہ رقم اس وقت تک نہیں نکال سکتے جب تک کہ قرض کی پوری رقم ادا نہیں کی جاتی۔)
(۳) ان پبلک لمیٹڈ کمپنیوں کے اکویٹی شیئرز (حصص) پہ جو کہ Bombay Stock Exchange کے تحت رجسٹرڈ ہوں، ایسے شیئرز کی موجودہ قدر %50 ویلیو قرض دیا جا سکتا ہے۔
(۴) اسکوٹر، موٹر سائیکل، آٹو رکشا اور ٹیکسی کے رہن پر جو کہ تھانہ P.T.O میں رجسٹرڈ ہوں اور پانچ سال سے زیادہ پرانی نہ ہوں، قرض دیا جائے گا۔ البتہ مندرجہ بالا قسم کا قرض (الف) اسکوٹر اور موٹر سائیکل کے رہن پر بارہ ہزار روپے یا ان کی موجودہ قدر کے %60، ان میں سے جو بھی کم ہو دیا جائے گا۔ (ب) آٹو رکشا اور ٹیکسی کے لیے پچیس ہزار روپے یا ان کی موجودہ قدر کے %60، ان میں سے جو بھی کم ہو دیا جائے گا۔ (ج) دکان کے مال کے ذخیرے پر %50۔
ہماری مزید خدمات
(الف) اجارہ: کرایہ پر دینا۔
(ب) مرابحہ: باہمی رضامندی کا سودا۔
(ج) مضاربت: نفع و نقصان میں شرکت کی بنیاد پر تجارتی سرمایہ کار۔
(د) مشارکت: حصہ داری (پارٹنرشپ) کی بنیاد پر تجارت میں سرمایہ کی فراہمی۔
(ھ) قرضِ حسنہ: قرضہ مربوط ڈپازٹ اسکیم۔ اس کے تحت بلاسودی قرض۔
(و) آشیانہ: گھر کی تعمیر کے لیے سرمایہ کی فراہمی۔
(ز) حج ڈپازٹ: حج و عمرہ کے لیے بچت اسکیم۔
(ح) سرمایہ کاری کے لیے مشاورت۔
(ط) صنعت کاروں، تاجروں اور نادار ماہروں (Professionals) کی مالی امداد۔
(ی) رہائشی منصوبے: روشن مستقبل کی توقع پر ان شاء اللہ سوسائٹی اوونرشپ کے فلیٹ تعمیر کرے گی جس میں قرضہ جات کی سہولیات ہوں گی۔ اس سلسلے میں بمبئی کا مشہور ادارہ بیت النصر ہمارے لیے مشعلِ راہ ہو گا۔
قرضہ جات پر معمولی سروس چارج لیا جاتا ہے جس کی مدد سے سوسائٹی کے اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔
’’بنیاد پرستی‘‘ کی اصطلاح کا اصل پس منظر
پروفیسر غلام رسول عدیم
پیشتر اس کے کہ اس بات کی وضاحت کی جائے کہ بنیاد پرستی کیا ہے، اس انگریزی لفظ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے جس کا یہ ترجمہ ہے۔ بنیاد پرستی انگریزی لفظ Fundamentalism کا ترجمہ ہے۔ اس لفظ کے سامنے آتے ہی اصل لفظ کی کئی جہتیں ہمارے سامنے آتی ہیں۔ لفظ Fundus کے معنی اناٹومی میں ہیں اساس، عضو، آنکھ کی گہرائی، وہ حصہ جس میں کوئی عضو واقع ہو۔ اصلاً یہ علم تشریح الاعضا (Anatomy) سے متعلق ہے اور اس کے معنی مقعد، قاعدہ، اساس یا پیندہ کے ہیں۔ اسی سے اسمِ صفت Fundamental بنا، جس کے معنی ہیں بنیادی، اساسی، اولیہ، اولی۔
چونکہ دورِ حاضر میں مختلف علمی سطحوں پر علوم و فنون کے ہزاروں دھارے بہ رہے ہیں اور دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور تعلیم گاہوں میں علم کی ہزاروں شاخیں زیرِ تدریس ہیں، لہٰذا ایک ایک لفظ مختلف علوم میں مختلف لغوی و اصطلاحی معانی دے رہا ہے۔ لفظ Fundamental بھی اپنے اشتقاقی معنی کو قائم رکھتے ہوئے ہر علم میں معنی کے خاص انعکاس لیے ہوئے ہے۔ منطق میں Fundamental Beliefs کے معنی یقینیاتِ اولیہ کے ہیں تو طبیعیات میں Fundamental Colours (اصلی رنگ)، Fundamental Quantities (بنیادی مقداریں) اور Fundamental Units (بنیادی اکائیاں) کے لیے مستعمل ہیں۔ صوتیات میں Fundamental Tones کے معنی بنیادی سُر کے ہیں تو مذہب میں Fundamentals ارکانِ دین کے لیے بولا جاتا ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ Fundamentals of Islam تو اس سے مراد لیے جاتے ہیں اسلام کے ارکانِ خمسہ یعنی کلمہ طیبہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج۔ اس لیے کہ سرکارِ رسالت مابؐ نے انہی پانچ ارکان کو اساسِ دین قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
بُنی الاسلام علیٰ خمسٍ شھادۃ ان لا الٰہ الا اللّٰہ و ان محمدا رسول اللّٰہ واقام الصلوٰۃ وایتاء الزکوٰۃ والحج و صوم رمضان۔ (بخاری)
’’اسلام کی بنیاد (Fundament) پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور نماز کا پورے اہتمام سے ادا کرنا اور (بشرط نصاب) زکوٰۃ ادا کرنا اور رمضان میں روزے رکھنا اور (بشرط استطاعت زاد راہ) حج خانہ خدا کی سعادت حاصل کرنا۔‘‘
Fundamental کو Ism کے لاحقے کی ترکیب کے ساتھ بمعنی نظریہ و عقیدہ لے لیا جاتا ہے۔ Fundamentalism کے معنی ہو گئے نظریۂ بنیاد، عقیدۂ بنیاد، مسلکِ بنیاد، بالفاظ دیگر بنیاد پرستی، بنیاد کے عقیدے سے وابستگی و چسپیدگی۔ یہی وہ بنیاد پرستی کا لفظ ہے جو Fundamentalism کے ترجمے کے طور پر کچھ عرصے سے ہمارے علمی، صحافتی حلقوں سے نکل کر اخباری دنیا میں عام ہو گیا۔ لفظی تحقیق کے بعد اس کی اصطلاحی توضیح پیش کی جاتی ہے۔
Fundamentalism (بنیاد پرستی) دراصل بیسویں صدی میں ایک مسیحی اصطلاح کے طور پر سامنے آئی جو ایک تحریک کی صورت میں پیش کی گئی۔ یہ تحریک مسیحی پروٹسٹنٹ فرقے کی متعارف کرائی ہوئی ہے۔ اس تحریک نے اس بات پر زور دیا کہ کتاب مقدس (Bible) ہر غلطی سے مبرا ہے۔ نہ صرف مسائل، عقائد اور اخلاق میں بلکہ ہر تاریخی پہلو میں بھی اس میں کوئی سقم نہیں۔ حتٰی کہ بائبل کے معتقدات اور امورِ غیبیہ مثلاً تخلیقِ انسانی، ولادتِ مسیح، مسیح کی آمدِ ثانی، دوبارہ حشر اجساد کے ضمن میں بائبل کا حرف حرف ہر شائبہ شک سے پاک اور صحت کے انتہائی معیار پر ہے۔ ابتدا میں اسی تحریک کو Fundamentalism کہتے تھے اور ان عقائد و ایمانیات پر جمے رہنے والے لوگوں کو Fundamentalist (بنیاد پرست) کہتے تھے۔ ہمارے ہاں جس حوالے سے یہ لفظ علمی حلقوں سے نکل کر عوامی، اخباری و اشتہاری حلقوں تک آ گیا ہے، اس کا پس منظر بالوضاحت ملاحظہ فرمائیے:
مغربی پس منظر
بنیاد پرستی (Fundamentalism) اپنے پس منظر کے اعتبار سے خالص مغربی اصطلاح ہے۔ یہ ایک تحریک کی صورت میں سامنے آئی۔ اس کی طرف زیادہ اعتنا اس وقت کیا گیا جب 1876ء میں بمقام Swamp Scott (امریکہ) بائبل کانفرنسوں کا آغاز ہوا۔ 1877ء میں بمقام نیویارک بائبل اجتماع ہوا۔ پھر نیاگرا میں ایک اہم کانفرنس ہوئی۔ فی الجملہ 20 سال کے عرصے میں مختلف بائبل کانفرنسیں منعقد ہوتی رہیں جن کے نتیجے میں بنیاد پرستوں نے پانچ اساسی نکات پر اتفاق کر لیا۔ وہ پانچ نکات جنہیں مسیحیت کے بنیادی عقائد کی حیثیت دی گئی، یہ تھے:
- بائبل کا مکمل فیضان روحانی (الہامی) اور ہر غلطی سے مبرا ہونا۔
- مسیحؑ کی الوہیت۔
- مسیحؑ کی بن باپ کے ولادت۔
- عقیدہ کفارہ۔
- رفع جسمانی اور دوبارہ آمد مسیحؑ۔
آخری نکتے کو اس زور سے پیش کیا گیا کہ Jessus is coming کے عنوان سے ایک کتابچہ 20 لاکھ کی تعداد میں امریکہ میں اور 10 لاکھ کی تعداد میں بیرون امریکہ تقسیم کیا گیا۔ The Fundamentals کے عنوان سے 12 کتابوں کا ایک سلسلہ شائع کیا گیا جس کے اخراجات کی ذمہ داری دو بھائیوں Lyman اور Milton Stewart نے اٹھائی۔ اس ضمن میں انہوں نے لاس اینجلز میں بائبل انسٹیٹیوٹ بھی قائم کیا۔ اول اول امریکہ اور کینیڈا میں اس تحریک کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ اس تحریک کے ذریعے مسیحیت کی قدامت پسندانہ سوچ پر زور دیا گیا۔
جب انیسویں صدی میں اور بیسویں صدی کے آغاز میں جدیدیت کی لہر چلی تو اس لہر کے مقابلے میں قدامت پرستی کا روپ دھار لیا۔ جب دور جدید میں انتقاد عالیہ Higher Criticism کو رواج ملا تو علمائے مسیحیت میں سے کچھ لوگوں نے بائبل کا تاریخی و ادبی پہلوؤں سے بھی مطالعہ کیا، جس کے نتیجے میں بائبل پر اعتمادِ کُلّی کی چولیں ڈھیلی ہوتی نظر آنے لگیں۔ جب ڈارون کا نظریہ ارتقا مقبول ہوا تو پوری بنی نوع انسان کی ثقافتی و تمدنی اقدار کو اسی عینک سے دیکھا جانے لگا۔ مسیحیت کی بھی اسی زاویہ نگاہ سے تعبیر کی جانے لگی۔ جرمنی کے فلسفی کانٹ (Kant) کے خیالات نے ایک عالم میں ہلچل مچا دی۔ سائنسی طریق فکر اور سائنسی طریق عمل استعمال کیا جانے لگا۔ عوام پر بائبل کی وہ گرفت نہ رہی جو پہلے تھی۔ اگرچہ اکثریت مسیحؑ کے ابن اللہ (نتیجتاً خدائی صفات کا حامل) ہونے کا اقرار تو کرتی رہی مگر پوری بائبل کو کلام الٰہی ماننے سے ہچکچانے لگی۔ Newton Clarke نے صاف کہہ دیا کہ بائبل کو اسی حد تک صحیح ہونے کی سند دینی چاہیے جس حد تک وہ سائنس اور تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے۔
1892ء میں نیویارک میں A. Briggs پر بے دینی کا مقدمہ چلایا گیا جو بائبل پر بے یقینی کے حامیوں کے لیے سنگ میل تھا۔ یہ شخص Union Theological Seminary میں ممتاز عالم اور محقق پروفیسر رہا تھا۔ اگرچہ اسے دہریت کے الزام سے تو بری کر دیا گیا مگر اسے Presbeterian کلیسا سے نکلنے پر مجبور کر دیا گیا۔
یوں بنیاد پرستی دورِ جدید کی آزادیٔ فکر (Liberalism) کے خلاف ایک جارحانہ مگر قدامت پرستانہ پروٹسٹنٹ تحریک کی حیثیت سے ابھری۔
1941ء میں بنیاد پرستوں نے American Council of Christian Churches کے قیام کے ساتھ سخت جارحانہ انداز اختیار کر لیا، تاہم جب ان رجعت پسندوں کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل نہ ہوئی تو راہِ اعتدال اختیار کرنے کے بارے میں سوچا گیا۔ 1942ء میں ایک معتدل طریق کار کی تنظیم بنائی گئی جس کا نام The National Association of Evangelicals رکھا گیا۔ یہ ایک قسم کی نو بنیاد پرستوں Neo Fundamentalists کی جماعت تھی جو اپنے عقائد میں سخت اور بے لچک تھے مگر طریق کار میں قدرے نرم تھے۔ 1950ء کے لگ بھگ دوسرے یورپی ممالک میں بنیاد پرستی کا چرچا ہونے لگا۔ اس کا ایک سبب تو Evangelicalism (انجیل پرستی) تھا، دوسرا مشنری جذبہ۔ (یاد رہے کہ انجیل پرست متی، لوقا، مرقس اور یوحنا کی اناجیل اربعہ کو مکمل طور پر الہامی جانتے تھے)۔
اب اس پس منظر میں بنیاد پرستی کا جائزہ لیا جائے تو واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مسیحیت جدید نقطۂ نگاہ اور عصری انتقادی کاوشوں کا ساتھ دینے کے بجائے انہیں اپنے خلاف یورشیں خیال کر کے ان کا مقابلہ کرنے لگی۔ یوں مسیحیت بنیاد پرستی کے نام پر انہی پانچ نکات کو اساسِ معتقدات بنا کر آزادیٔ فکر و عمل کا راستہ روکنے کے لیے کھڑی ہو گئی۔
آج بنیاد پرستی اپنے لغوی مفہوم تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کا طرز فکر کام کر رہا ہے جس نے اسے ایک اصطلاح بنا دیا ہے اور اصطلاح بھی طعن آمیز۔ ایک زمانے میں جب کہ ابھی بنیاد پرستی (Fundamentalism) کا لفظ اصطلاحاً ایجاد بھی نہیں ہوا تھا، مسیحیت کے علمبرداروں نے عقل و فطرت کی پرزور مخالفت کی۔ اصل میں یہ بنیاد پرستی کا اولین خاکہ تھا۔ یہ خاکہ پندرہویں صدی عیسوی میں تیار ہوا جب Renaissance کے ذریعے سے یونانی علوم و فنون کی ترویج ہوئی۔ 1453ء میں استنبول کے ترکوں کے قبضے میں چلے جانے سے کئی یونانی عالم بھاگ کر اٹلی پہنچے۔ 1477ء میں کیکسٹن نے انگلستان میں پہلا چھاپہ خانہ ایجاد کیا تو کتابیں عام ہاتھوں تک پہنچیں جس سے پورا یورپ علم کی روشنی سے منور ہو گیا۔ جون کولٹ (John Colet)، ٹامس مور (Thomas Moore)، ارسمس (Erasmas) جیسے علماء نے یورپ کی آنکھیں کھول دیں۔ اس کے نتیجے میں کچھ عرصہ بعد تحریکِ اصلاحِ مذہب (Reformation) سامنے آئی جس سے مسیحیت دو فرقوں میں بٹ گئی۔ پروٹسٹنٹس (Protestants) اور رومن کیتھولکس (Roman Catholics)۔
حق یہ ہے کہ پادریوں کی اخلاقی گراوٹ اور مذہبی توہم پرستی، راہب (Monks) اور راہبات (Nuns) جن کا افسر (Abbot) کہلاتا تھا، اس قدر پستی میں اتر گئے تھے کہ ردعمل کے طور پر جرمنی سے اٹھنے والی اصلاحِ کلیسا کی تحریک نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ میری ٹیوڈر (1553-1558) کے عہد میں جدید ذہن رکھنے اور اندھادھند پیروی سے روکنے والوں پر بے حد سختیاں کی گئیں۔ کوئی تین سو پروٹسٹنٹ زندہ آگ میں جلا دیے گئے۔ کرینمر (آرچ بشپ آف کنٹربری)، بشپ رڈلے اور لیٹیمر جیسے روشن فکر علماء کو روشن فکری کی پاداش میں زندہ جلا دیا گیا۔ علمبردارانِ مسیحیت نے جدید فکری ترقی اور علمی پیشرفت کے آگے بہت بند باندھنے کی کوشش کی۔ جمود پسندوں نے عیش پرستی کو شعار بنا لیا، مذہب کو جاہ طلبی، زراندوزی اور ہوس رانی کا وسیلہ بنا لیا۔ مذہبی تقریبات عشرت انگیز تفریحی جشنوں کی صورت اختیار کر چکی تھیں۔ مذہبی ضیافتیں بدچلنی کی تماشاگاہیں بن گئیں اور مرنے والوں کی برسیوں پر میلے لگتے۔ مجسموں کی پرستش بڑی ڈھٹائی سے کی جاتی۔
پادریوں نے ایسے ایسے فروعی مسائل پر اپنی توانائیاں صرف کر دیں جن سے فرقہ آرائی کو اس قدر ہوا ملی کہ عوام الناس کی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ چند زیربحث مسائل یہ تھے:
(ا) حضرت مسیحؑ کا پیشاب پاک تھا یا ناپاک۔
(ب) مائدہ آسمانی میں روٹی خمیری تھی یا فطیری۔
(ج) خدا اور مسیحؑ متحد الماہیت ہیں یا مشترک الماہیت۔
یہی وہ مذہب تھا جس نے انسانوں کو جمود زدہ کر کے رکھ دیا، علمی و تمدنی ترقی کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔
- کوپر لیکس اطالوی ہیئت دان (1473-1543) کو زمین کی گردش ثابت کرنے پر ذلیل و خوار کر کے اپنے انجام کو پہنچایا گیا۔
- برونو اطالوی ماہر فلکیات (1548-1600) کو، جو کوپر لیکس کا حامی تھا، قید و بند کی سختیوں کے ساتھ دھیمی آنچ سے ہلاک کر دیا گیا۔
- گلیلو اطالوی ہیئت دان () کو جدید فلکیاتی نظریات کی بنا پر ’’مقدس محکمہ احتساب‘‘ نے ہمیشہ کے لیے جلاوطن کر دیا۔
ان مذہب کے ٹھیکیداروں نے مذہب کو اس قدر ناکارہ بنا کر رکھ دیا کہ وہ علمی و تمدنی ترقی کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔ چونکہ علم و فن سے فرسودہ مذہبی خیالات بھی معرضِ خطر میں آتے تھے اور مذہب کا سارا فلسفہ اخلاق بھی ان کی زد میں تھا، لہٰذا علم و فن سے ہی انکار مذہبی لوگوں کا طرۂ امتیاز بن گیا۔ نہ صرف یہ بلکہ مذہب مسیحیت نے معاشرتی و معاشی کمزوریوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا۔ طبقاتی کشمکش کی پشت پناہی ہوئی۔ گیارہویں اور بارہویں صدی میں مغربی یورپ میں تقریباً نصف جاگیردار چرچ کے نمائندہ تھے۔ جاگیرداری کو زوال آیا تو سرمایہ داری نے سر اٹھایا۔ اب سرمایہ دار اور مذہبی رہنما متحد ہو کر عوام کو لوٹنے لگے۔ یوں مذہب نے ایک طرف جاگیردارانہ ذہنیت کی پیٹھ ٹھونکی اور دوسری طرف سرمایہ دارانہ نقطہ نگاہ کی پشت پناہی کے ساتھ عوام اور بادشاہ کی جنگ میں بادشاہ کا ساتھ دیا۔
یہی وہ پس منظر تھا جس میں مذہبی اجارہ داروں کو بنیاد پرست کہنے لگے۔ یہ بنیاد پرستی یورپی معاشرہ میں جامد اور ناکارہ مسیحی نقطہ نظر کی پیداوار تھی۔ اس کے مقابل میں اسلام کا ماضی علمی ترقیوں اور فنی تحقیقات میں روشنی کے سرچشمے ابالتا اور دل و نگاہ کو اجالتا ہے۔ یہاں ایک دور میں جو شخص عربی زبان نہیں جانتا تھا، علومِ طبعی پر دسترس ہی نہیں حاصل کر سکتا تھا۔ کوپر لیکس سے کہیں پہلے زرقالی نے حرکتِ زمین کا نقطہ نظر پیش کیا۔ (ابو اسحٰق ابراہیم بن یحیٰی زرقالی اندلسی قرطبی (1029-1087) اپنے دور کا سب سے بڑا منجم تھا۔ ابن صاعد کے ساتھ ٹولیڈو (اسپین) میں اصولِ جداول بنائے جنہیں زائچہ طلیطلی کہتے ہیں۔ ایک نئی اصطرلاب ایجاد کی جسے صفیحہ زرقالی کہتے تھے)۔ کسی عالم نے اس کی تردید نہیں کی۔ ابوالہیثم (960-1039) اور جابر بن حیان (متوفی 815) نے طبعی سائنسوں میں بے مثال کارنامے انجام دیے۔
آج مسیحیت کے ظالمانہ جمودی دور سے مستعار لے کر بنیاد پرستی کی اصطلاح مسلمانوں پر چسپاں کی جا رہی ہے۔ اس سارے ڈرامے کے پیچھے امتِ مسلمہ کی آزاد ریاستوں کے عوام الناس کو عموماً اور مغربی ممالک کی مسلم اقلیتوں کو خصوصاً اسلام سے برگشتہ کرنے کی مکروہ سازش ہے۔ مغربی لابیاں مسلمانوں کو بنیاد پرست کہہ کر ان پر پھبتی کستی ہیں کہ ماضی کا پادری مولوی کے روپ میں پھر زندہ ہو رہا ہے۔ یہ علم کا دشمن ہے، حکمت کا معاند ہے، سائنسی منہاجِ فکر کا قاتل ہے، جاگیرداری کا حامی ہے، برسراقتدار ٹولے کا پٹھو ہے، ایجاد و اختراع سے نفور ہے، اسے اسی طرح مسجد میں محصور کر دو جس طرح ماضی میں پادری کو چرچ میں بند کر دیا گیا تھا۔ دین کو مسجد سے باہر نہ نکلنے دو، مبادا کہ یہ عدالت، بازار، تعلیم گاہ، مارکیٹ، دفتر، دکان تک آ کر ہمیں ہمارے کوتکوں سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔
عوام الناس کے سامنے بنیاد پرستی (Fundamentalism) کو طعن آمیز کلمے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سادہ لوح حضرات بڑی معصومیت سے سارے پس منظر کو سامنے رکھے بغیر جوش میں کہہ اٹھتے ہیں کہ ہاں ہم تو بنیاد پرست ہیں، جس کی بنیاد ہی نہ ہو وہ ہوا میں کیسے جیے گا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ مغرب مسلمانوں پر بنیاد پرستی کا لیبل لگا کر انہیں جاہل، عقل دشمن، ضمیر فروش، تاریکی پسند اور جمود زدہ قرار دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ درآنحالیکہ وہ ایک متروک دین کا پیرو ہونے کی حیثیت میں روشنی کا منار، علوم و فنون کا دلدادہ، حکمت و فن کا شیدائی اور علم و عمل کا معیار ہوتا ہے۔ ایسی صورت حال میں کسی بھی مسلمان کو بنیاد پرست کہنا اس کے لیے گالی ہے، اس پر الزام ہے، تہمت ہے۔ مسلمان نہ بنیاد پرست ہے نہ باطل پرست۔ نہ جمود پرست ہے نہ خود پرست۔ وہ صرف اور صرف خدا پرست ہے اور بس۔
قرآن و سنت سپریم لاء ہے - ہائیکورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ (۱)
ادارہ
حاکم خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ پر علمی و فنی تنقید پر مشتمل مقالے کا اردو ترجمہ الشریعہ اکیڈمی کتابی شکل میں شائع کر چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے زیرتنقید فیصلہ میں یہ قرار دیا تھا کہ جب دستور کا کوئی آرٹیکل ’’قرارداد مقاصد‘‘ سے متصادم ہو گا تو عدالت چارہ گری نہیں کر سکتی۔ فیصلہ کے ناقد معروف قانون دان سردار شیر عالم خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے مقالہ میں فنی دلائل اور حوالوں سے ثابت کیا کہ اعلیٰ عدالتوں کا فرض منصبی ہے کہ وہ قرارداد میں درج اصولوں کی بالادستی قائم کرتے ہوئے دادرسی کریں۔ لاہور ہائی کورٹ کے فل بنچ کا فیصلہ اسی نقطہ نظر کا آئینہ دار ہے۔ یہ بنچ جسٹس ریاض احمد شیخ، جسٹس راجہ افراسیاب خان اور جسٹس ملک محمد قیوم پر مشتمل تھا۔ اس طرح ہائیکورٹ کا فیصلہ مطالعاتی افادیت کا حامل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ جناب چودھری محمد یوسف اور جناب عرفان مقبول بٹ ایڈووکیٹس نے مرتب کیا ہے جو کہ نذر قارئین ہے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر یہ صفحات عام بحث کے لیے حاضر ہیں۔
نوٹ: اصل فیصلہ پی ایل ڈی ۱۹۹۲ء لاہور صفحہ ۹۹ پر شائع ہوا۔ بنیادی فیصلہ جسٹس ریاض احمد شیخ نے لکھا، جب کہ راجہ افراسیاب نے فیصلہ سے اتفاق کرتے ہوئے اضافی نوٹ تحریر کیا۔
شیخ ریاض احمد، راجہ افراسیاب خان، ملک محمد قیوم، جج صاحبان
مسماۃ سکینہ بی بی بنام وفاق پاکستان
رٹ درخواست نمبر ۲۶ سال ۱۹۸۹ء منفصلہ ۱۴ جنوری ۱۹۹۲ء
فیصلہ
جسٹس شیخ ریاض احمد جج
(۱) ۱۹۸۸ء میں بے نظیر بھٹو کے وزارتِ عظمٰی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر پاکستان نے وزیراعظم کی ہدایت پر ۸ دسمبر ۱۹۸۸ء کو بظاہر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے تحت (اپنے حکم کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے) لکھا:
’’(اے) ۶ دسمبر ۱۹۸۸ء تک فوجی یا دیگر عدالتوں کی سنائی گئی موت کی سزاؤں کو عمر قید میں بدلنے کے لیے،
(بی) ایسی خواتین جو قتل کے علاوہ کسی دیگر جرم میں فوجی یا کسی دیگر عدالت کی دی گئی قید بھگت رہی ہیں، کو معافی دینے کے لیے،
(سی) مارشل لا کے تحت غیر حاضری میں دی گئی سزاؤں کو معاف کرنے (اور عام عدالتوں میں مقدمات کی سماعت کی ہدایت) کے لیے،
(ڈی) ایسے اشخاص جن کی عمر ساٹھ سال سے زائد ہے اور وہ فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں میں سے پانچ سال یا زائد قید بھگت چکے ہوں، ان کی سزاؤں کو معاف کرنے کے لیے،
(ای) ایسے تمام اشخاص (ماسوا مسلح افواج کے) جنہیں فوجی عدالتوں سے منشیات، سمگلنگ، رشوت ستانی، خیانت، بنک فراڈ، رہزنی، ڈکیتی، قتل، زنا، غیر فطری فعل کے علاوہ جرائم میں سزائیں ہوئی ہوں، ان کو معاف کرنے کے لیے، اور مسلح افراد کے مقدمات پر افواج کے مجاز حکام کی نظرثانی کے لیے،
(ایف) ہر قسم کے سزایافتگان (بشمول مسلح افواج کے افراد) کو تین ماہ کی معافی دینے کے لیے،
(جی) ایسے افراد جن کو فوجی عدالتوں کی سزاؤں میں معافی نہیں دی گئی، ان کو معافی دینے کے لیے،
(ایچ) فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کی کل سزا میں سے دورانِ سماعت حراست کا عرصہ کاٹی گئی سزا کے طور پر شمار کرنے کی ہدایت جاری کرنے کے لیے۔‘‘
(۲) اگرچہ متنازعہ حکم اختیارات کے استعمال کے بارے میں خاموش ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کے آرٹیکل ۴۵ کے سوا کوئی ایسی قانونی دفعہ نہیں جس کے تحت متنازعہ حکم جاری کیا جا سکتا ہو۔ متنازعہ حکم کا پیراگراف (اے) فوجی یا دیگر عدالتوں کی طرف سے ۶ دسمبر ۱۹۸۸ء سے پہلے دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے سے متعلق ہے، اس کلاز کو متعدد رٹ درخواستوں کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا اور اس قسم کے عمومی حکم پر مستغیث فریقوں کی طرف سے عذرات اٹھائے گئے۔ ایسی رٹ درخواستوں کو عدالتِ ہٰذا نے سماعت کے لیے منظور کیا اور حکم سے مستفید ہونے والے سزایافتگان کے ورثا کو نوٹس جاری کیے۔ کئی ایک مقدمات، جن میں سیشن (بشمول ایڈیشنل سیشن) ججوں کی طرف سے موت کی سزاؤں کی توثیق کے لیے ریفرینس زیرغور تھے، کے بارے میں کہا گیا کہ متنازعہ حکم کا ایسے مقدمات پر اطلاق نہیں ہوتا ہے، کیوں کہ مذکورہ سزائیں کسی طور پر قطعی نہیں ہیں۔ البتہ فوری سماعت کی خصوصی عدالتوں کی طرف سے سنائی گئی موت کی سزاؤں کی صورت مختلف ہے، کیوں کہ ایسی سزائیں عمل درآمد میں اس عدالت کے دو ججوں کی توثیق سے مشروط نہیں۔
(۳) دستور کے آرٹیکل ۲ الف کی روشنی میں آرٹیکل ۴۵ کی تعبیر اور اس کے احاطہ کار کے اہم سوال پر غور کے لیے چیف جسٹس صاحب نے موجودہ فل بنچ تشکیل دیا۔ ہر دو فریقین کے دلائل کو تفصیلاً سننے کے بعد ہم درج ذیل فیصلہ صادر کرتے ہیں۔
(۴) حکمِ متنازعہ کے بارے میں اولین کا استدلال یہ ہے کہ صدر مملکت کی جانب سے حکم اس کے مضمرات پر مناسب غور کے بغیر جاری کیا گیا ہے اور یہ حکم مکمل طور پر مبہم ہے۔ اس بارہ میں واقعاتی صورت حال کے تعین کے لیے ہم نے فاضل اٹارنی جنرل پاکستان کو صدر کے حکم، اور وزیر اعظم اور صدر کی خط و کتابت کی اصل فائل پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اٹارنی جنرل نے حکمِ مذکورہ کی اصل فائل پیش کی اور اس کی قانونی حیثیت پر کلام کرتے ہوئے یہ کہا کہ اس حکم کی قانونی حیثیت کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا اور فی الواقع صدر پاکستان نے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی ہدایت کی متابعت میں حکم جاری کیا ہے، اس طرح مزید بحث غیر ضروری ہے۔
(۵) سزایافتگان کی طرف سے اس استدلال پر زور دیا گیا کہ دستور کے آرٹیکل ۴۵ کی رو سے صدر کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ سربراہ مملکت کے طور پر صدر کو یہ اختیارات عطا کیے گئے ہیں، لہٰذا ان اختیارات کے استعمال پر عذر نہیں کیا جا سکتا۔ مختصرًا کہا گیا کہ یہ عدالت حکمِ متنازعہ کی تعدیل کی مجاز نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صدر کا یہ اختیار مطلق ہے۔ اس بارہ میں بھارتی اور پاکستان کی سپریم کورٹس اور ہائی کورٹس کے بہت سے فیصلوں کا حوالہ دیا گیا۔ بہرحال زیرغور سوال محض حجت بازی اور ذہنی مشق نہیں بلکہ انتہائی اہم اور سنجیدہ سوال پر مشتمل ہے، جو کہ یہ ہے کہ آرٹیکل ۲۲۷ کو آرٹیکل ۲ الف کے ہمراہ دیکھا جائے تو اسلام میں فوجداری نظامِ عدل کے بارے میں احکامات کا صدر کے اختیارات پر کیا اثر ہے؟ غور طلب امر یہ ہے کہ جن مقدمات میں سزائے موت حد یا قصاص کے طور پر عائد ہوئی، کیا صدر پاکستان اپنے طور پر ان سزاؤں کو بدل دینے کا مجاز ہے؟ جب کہ اسلام کے نظامِ فوجداری میں صرف متوفی کا ولی قصاص کا حق زائل کر سکتا ہے، مملکت کے سربراہ کو اس بارہ میں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۶) اس نزاع کو طے کرنے کے لیے ہمیں دستور کے آرٹیکل ۲۲۷، آرٹیکل ۲ اے، اور حصہ ۷ باب ۳ اے کو قصاص و دیت آرڈیننس کے ہمراہ اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلوں کو مجموعی طور پر دیکھنا پڑے گا۔ آرٹیکل ۲۲۷ کے تحت مروجہ قوانین کو اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں، کے مطابق بنایا جائے گا اور اسلامی احکامات سے متصادم قانون وضع نہیں کیا جا سکتا۔ آرٹیکل ۲۲۸ کی رو سے اسلامی نظریاتی کونسل تشکیل کی گئی۔ آرٹیکل ۲۲۹ کے تحت پارلیمنٹ کی طرف سے کسی قانون کے اسلامی احکامات کے مطابق و منافی ہونے کے بارے میں ریفرینس بھیجا جا سکتا ہے۔ آرٹیکل ۲۳۰ کے تحت اسلامی نظریاتی کونسل کے فرائض کی صراحت کی گئی ہے۔ صدارتی حکم نمبر ۸۰/۱ کے ذریعے سے وفاقی شریعت کورٹ کے قیام کے لیے دستور ۱۹۷۳ء میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا۔ اس طرح وفاقی شرعی عدالت قائم ہوئی جسے یہ اختیار دیا گیا کہ وہ کسی بھی قانون کے بارے میں طے کرے کہ وہ اسلامی احکامات، جس طرح کہ وہ قرآن و سنت میں درج ہیں، سے متصادم ہے یا نہیں۔ اگر وفاقی شرعی عدالت یہ قرار دے کہ کوئی قانون اسلامی احکامات کے منافی ہے تو وہ اپنے فیصلے میں اس بارے میں وجوہات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ قانون کے اسلامی احکام سے تصادم کی حد واضح کرتے ہوئے فیصلہ کے موثر ہونے کی تاریخ مقرر کرے گی۔ آرٹیکل ۲۰۳ اے میں یہ لکھا گیا کہ ایسے فیصلے کے بعد قانون سازی کے وفاقی دائرہ میں صدر، اور صوبائی دائرہ میں متعلقہ گورنر قانون کو اسلام کے مطابق بنانے کے لیے اقدامات کریں گے۔
(۷) یہ بات اہم ہے کہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح علیہ الرحمہ کی وفات کے بعد چھ ماہ کے اندر پاکستان کی اولین دستور ساز اسمبلی نے مارچ ۱۹۴۹ء میں ایک قرارداد منظور کی جسے قراردادِ مقاصد کا نام دیا گیا۔ بعد میں یہ قرارداد دساتیر ۱۹۵۶، ۱۹۶۲، ۱۹۷۲، ۱۹۷۳ کا دیباچہ بنی۔ ضیاء الرحمان (۱) کیس میں سپریم کورٹ کے روبرو یہ استدلال پیش کیا گیا کہ قرارداد مقاصد پاکستان کی نظریاتی اساس ہے اور یہ دستور سے بالاتر دستاویز ہے۔ مگر اس استدلال کو مسترد کر دیا گیا اور یہ قرار دیا گیا کہ اختیارات کا سرچشمہ دستور کے قابل عمل حصے ہیں اور جب تک قرارداد مقاصد کو دستور کے موثر حصے میں داخل نہ کیا جائے یہ موثر نہیں ہو گی۔ پاکستان کی دستوری تاریخ میں قرارداد کو مختلف مراحل میں مملکت یا حکومت کی جانب سے اقدامات کو جائز بنانے کے لیے روبعمل لایا جاتا رہا۔ قرارداد کو عاصمہ جیلانی کیس (۲) میں قانونی نظام کا بنیادی پتھر، نظریہ کی ترجمان، مملکت اور قوم کی آخری منزل قرار دیا گیا۔ اس کے باوجود حسین نقی کیس (۳) میں اس کو دستور سے بالاتر دستاویز تسلیم نہیں کیا گیا اور اسے ناقابل نفاذ اور دیباچائی نوعیت کی حامل قرار دیا گیا۔ ضیاء الرحمان کیس میں چیف جسٹس حمود الرحمان نے اپنے فیصلہ میں لکھا:
’’میرے نقطہ نظر میں یہ کتنی ہی قابل احترام دستاویز کیوں نہ ہو مگر جب تک اسے دستور کا روبعمل حصہ نہ بنایا جائے یہ دستور کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔ عدالتیں دستور کی تخلیق ہونے کی بنا پر ازخود دستور کے کسی آرٹیکل کو ایسی کسی دستاویز سے متصادم قرار نہیں دے سکتیں۔ اس طرح ہم اپنے نظام کے تحت بھی ۱۹۴۹ء کی قرارداد مقاصد، جسے قبولیتِ عامہ حاصل رہی اور یہ کبھی منسوخ کی گئی اور نہ ہی اس سے کبھی براءت کا اظہار کیا گیا، مگر اس کے باوجود اسے دستوری دفعہ کی حیثیت حاصل نہیں ہو گی جب تک کہ یہ دستور کا روبعمل حصہ نہ بنا دیا جائے۔ اگر یہ محض دستور کے دیباچہ کے طور پر ہی رہے تو یہ ہر دوسرے دیباچے کا کام کرے گی، یعنی قانون وضع کرنے والے کے منشا کے بارے میں کوئی اشتباہ پیدا ہو تو یہ منشا کا تعین کرے گی مگر یہ اسے کنٹرول نہیں کر سکتی۔‘‘
(۸) پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کا منشا اسلامی مملکت کا قیام تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس وطن کے حصول کی تمام تر جدوجہد اسلام کے نام پر جاری و ساری ہوئی۔ ایک ہی نعرہ جس نے لوگوں کو اس تحریک کی حمایت پر جمع کر دیا تھا وہ تھا ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ‘‘۔ قائد اعظم علیہ الرحمہ نے اس حقیقت کو قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں واشگاف الفاظ میں واضح کر دیا تھا۔ انہوں نے کراچی بار ایسوسی ایشن کے روبرو ۲۵ جنوری ۱۹۴۸ء کو صراحت کرتے ہوئے بعض لوگوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈہ کو ناقابلِ فہم قرار دیا جس کے ذریعے سے وہ یہ غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر مرتب نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید فرمایا:
’’اسلامی نظریہ مثالی ہے۔ اس نے جمہوریت، مساوات، عدل اور حریت کے اصول جس طرح ہمیں سکھائے ہیں وہ اپنی اعلیٰ ترین شکل میں ہیں۔ اسلام ہر ایک کے ساتھ انصاف کا علمبردار ہے۔ آئیے مستقبل میں ان اقدار کو پاکستان کے دستور کی بنیاد بنائیں۔ اسلام محض رسمی عبادات کا مذہب نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ہر مسلمان کی زندگی کو منضبط کرتا ہے، حتٰی کہ سیاست اور معیشت اور اسی طرح کے دیگر شعبہ ہائے زندگی کو بھی۔ یہ ہر ایک کے لیے احترام، سلامتی، مساوات اور عدل کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہے۔۔۔‘‘
’’اسلام میں فرد اور فرد میں کوئی امتیاز نہیں۔ مساوات، آزادی اور اخوت کے اصول اسلام کی بنیاد ہیں۔‘‘
قائد اعظم نے مزید کہا کہ رسول اللہؐ نے تیرہ سو سال قبل جمہوریت کی تاسیس فرما دی تھی۔
(۹) قائد ملت (خان لیاقت علی خان) کی وہ تقریر جو انہوں نے دستور ساز اسمبلی میں قرارداد مقاصد پیش کرتے ہوئے ارشاد فرمائی، نہایت واضح ہے۔ اس کی چند سطور یہاں درج کرنا افادیت سے خالی نہیں:
’’جناب والا! میں اس موقعہ کو مملکت کی زندگی میں حصولِ آزادی کے بعد سب سے اہم موقعہ خیال کرتا ہوں کیوں کہ ہم نے آزادی حاصل کر کے اپنے عقائد کے مطابق تعمیرِ وطن کا صرف موقعہ حاصل کیا ہے۔ میں ایوان کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابائے قوم قائد اعظمؒ نے بے شمار مواقع پر اس امر کی صراحت کی ہے اور اس بارہ میں ان کے خیالات کی قوم نے بھرپور تائید کی ہے۔ پاکستان کی تاسیس کا مقصد محض یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمان اپنی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور روایات کے مطابق استوار کر کے دنیا پر عملاً ثابت کر دیں کہ اسلام دنیا کو درپیش بہت سے مسائل کا مداوا کر سکتا ہے۔‘‘
’’ہم پاکستانیوں کو مسلمان ہونے پر شرم محسوس نہیں ہوتی بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہم اپنے عقائد اور اقدار پر استقامت سے دنیا کی فلاح میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح، جناب! آپ دیکھیں گے کہ قرارداد کا دیباچہ غیر مبہم طور پر اس امرِ واقعہ کو تسلیم کرتا ہے کہ تمام اقتدار و اختیار لازماً اللہ تعالیٰ کے تابع ہو گا۔‘‘
’’لیکن ہم اسلامیانِ پاکستان یہ عزم رکھتے ہیں کہ تمام اختیارات اسلامی اصولوں اور احکامات کے مطابق استعمال کیے جائیں گے تاکہ ان کا بے جا اور غلط استعمال نہ ہو سکے۔ تمام تر اختیار و اقتدار مقدس امانت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سپرد فرمائی ہے تاکہ اسے انسان کی فلاح کے لیے استعمال کیا جائے اور اسے بندۂ ہوا و ہوس بننے سے روکا جا سکے۔‘‘
یہاں یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ قرارداد مقاصد ۱۹۴۹ء میں دیباچہ کے طور پر نہ پیش ہوئی اور نہ اس طور منظور ہوئی بلکہ اس کا تو اپنا دیباچہ ہے۔ درحقیقت یہ دستور کی ترتیب سے بہت سال پہلے پیش اور منظور ہوئی۔ یہ اصول ہے کہ دیباچہ ہمیشہ قانون کی تمام شقوں اور شیڈولز کی منظوری کے بعد پیش ہوتا ہے (۴)۔ ہاؤس آف لارڈز کے ضابطہ کار کے صفحہ نمبر ۴۷۸ میں یہی لکھا ہے۔ دستور ساز اسمبلی کے مباحث سے پتہ چلتا ہے کہ قرارداد پر طویل مباحث ہوئے اور غیر مسلم ارکان نے اس پر خاصی تنقید کی۔
(۱۰) یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہے کہ قرارداد کی ترتیب سے پہلے اسلامی دستور کی تدوین کے لیے تمام مکاتبِ فکر کے فاضل ترین علماء پر مشتمل ایک ٹیم نے بنیادی راہنما اصول مرتب کیے۔ اس مرحلہ کے بعد قرارداد ان اصولوں کی روشنی میں تیار ہوئی۔ قرارداد کے دیباچے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگوں کی طرف سے دستور سازی کا مینڈیٹ ہے۔ اس میں بنیادی اصول درج کر دیے گئے ہیں، تفصیل یوں ہے:
’’ہرگاہ کل کائنات پر اقتدار و حاکمیت کا مالک مطلق اللہ تعالیٰ بلا شرکتِ غیرے ہے۔ اور یہ اختیار امانت ہے جسے ذاتِ برتر کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کیا جائے گا۔ اور پاکستان کے عوام کا یہ منشا ہے کہ ایسا نظام ترتیب دیا جائے جس کی رو سے اسلام کے اصول ہائے جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری اور اجتماعی عدل کا پورا اتباع کیا جائے گا، اور جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو اسلامی تعلیمات اور مقتضیات کے مطابق ترتیب دیں۔‘‘
مغربی میڈیا اور عالمِ اسلام
لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی مجلسِ مذاکرہ
ادارہ
ابلاغِ عامہ کے عالمی ذرائع پر اس وقت مغرب کی بالادستی ہے اور اس کی پشت پر یہودی دماغ جس مہارت اور چابک دستی کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کی پہچان کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کی وجہ سے جدید ترین ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک میڈیا تک رسائی آج عالمِ اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔ اور دنیائے اسلام میں ہر جگہ مسلم دانشور اس سلسلہ میں سوچ بچار میں مصروف ہیں۔ اسی پس منظر میں ورلڈ اسلامک فورم کے زیر اہتمام ۲۸ مئی ۱۹۹۴ء کو لندن میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں میڈیا کے تکنیکی اور نظریاتی شعبوں سے تعلق رکھنے والے ڈیڑھ درجن کے قریب ماہرین نے شرکت کی۔ مذاکرہ کی اس مجلس کا اہتمام رابطہ عالمِ اسلامی کے لندن آفس کے ہال میں کیا گیا جس کی صدارت ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کی اور معروف دانشور پروفیسر اکبر ایس احمد (آف کیمبرج یونیورسٹی) بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ جب کہ فورم کے راہنماؤں مولانا محمد عیسٰی منصوری، پروفیسر عبد الجلیل ساجد، مفتی برکت اللہ، الحاج عبد الرحمٰن باوا، فیاض عادل فاروقی اور عمر جی بھائی کے علاوہ امپیکٹ انٹرنیشنل کے سید نیاز احمد، چاند ٹی وی کے محمد جمیل، ویڈیو وژن انٹرنیشنل کے سلیم مرزا، اسلامک اسٹینڈرڈ انٹرنیشنل کے جناب آصف محمد، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر حفیظ الرحمٰن، جناب محمد انور کھوکھر، جناب محمد مہیب الیاسی، جناب جمشید علی اور محترمہ فاطمہ یوسف نے بحث میں حصہ لیا۔
ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ذرائع ابلاغ آج دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کی جو تصویر پیش کر رہے ہیں اس کے منفی نتائج سے صرفِ نظر کرنا ممکن نہیں ہے اور اسلام کا ہم پر یہ قرض ہے کہ جدید ترین ذرائع ابلاغ کو اختیار کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات اور مسلمانوں کی تاریخ کو صحیح شکل میں سامنے لانے کا اہتمام کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی جنگ اب یورپ میں لڑی جا رہی ہے اور یہ مادی نہیں بلکہ علمی و فکری جنگ ہے جس کے نتائج پوری دنیا پر پڑیں گے، اس لیے مسلم دانشوروں کو سنجیدگی کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کرنا چاہیے۔
اسلامک سنٹر برالٹن کے ڈائریکٹر پروفیسر عبد الجلیل ساجد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج انسانیت کو درپیش مسائل کے حوالے سے اسلام کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے اور اسلام کی خدمت کے جذبہ سے کام کرنے والے افراد اور اداروں کے درمیان رابطہ و مشاورت کا اہتمام بہت زیادہ ضروری ہے۔
مہمانِ خصوصی پروفیسر اکبر ایس احمد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے لیے علماء کو آگے آنا چاہیے اور عالمی سطح پر ہونے والے بحث و مباحثہ میں انہیں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اس نشست کے اہتمام پر انہیں بہت خوشی ہوئی اور جب بھی علماء عالمی اور اجتماعی مسائل پر بات کرتے ہیں تو انہیں بے حد مسرت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کو علم، تہذیب، آزادی اور برابری کے مذہب کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے معاشرہ کا تنقیدی نقطہ نظر سے جائزہ لینا ہو گا اور اسلام کو پہلے اپنے معاشرہ پر نافذ کرنا ہو گا۔ آج اسلام اور پاکستان کو ایک بد اخلاق، بیمار اور بد تہذیب نظام کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کو جبر و قہر کے نمائندہ کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ راسخ العقیدہ مسلمانوں کو بنیاد پرست اور فنڈو کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ جذبات کے ساتھ نہیں بلکہ عقل و حکمت کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ خالی جذبات کے ساتھ ہم سفر کا کوئی مرحلہ طے نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہماری نئی نسل کا ایک بڑا حصہ اسلام کے ساتھ عقیدت اور وابستگی رکھتا ہے لیکن وہ اسلام کے حوالے سے آج کے مسائل کا حل چاہتا ہے اور اس سلسلہ میں کوئی معقول پیش رفت نہ دیکھ کر پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر یہودی، عیسائی یا ہندو اسلام کا دشمن نہیں ہے، ان میں ایسے افراد بھی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے حق میں لکھ رہے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو اسلام کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کی دعوت اور پیغام کو آج کی زبان میں جدید میڈیا کے ذریعے سے پوری دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے حوالہ سے عالمِ اسلام کو آج جس مسئلہ کا سامنا ہے اس کا حل مسلم حکومتوں یا میڈیا والوں کے ذمہ نہیں، علماء اور دانشوروں کے ذمہ ہے اور وہی اس چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے حضرات کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانا اور ان میں باہمی رابطہ و مفاہمت کا اہتمام ضروری ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے میڈیا سے متعلق مسائل پر بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا جائے جس میں مسلم دانشوروں اور علماء کے ساتھ ساتھ غیر مسلم ماہرین کو بھی دعوت دی جائے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ مختلف مذاہب کے دانشوروں کے درمیان مباحثہ و مذاکرہ کا اہتمام کیا جائے تاکہ اسلام کی خوبیوں اور فوائد کو تقابل کے ساتھ سامنے لایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں میں اتحاد و یک جہتی اور باہمی مفاہمت و اعتماد کی فضا کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے طرزعمل کو ترک کرنا ہو گا۔
جناب محمد انور کھوکھر، جناب محمد جمیل، جناب سلیم مرزا اور جناب آصف محمد نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے اس سلسلہ میں اب تک کی جانے والی انفرادی کوششوں کا جائزہ لیا اور اپنے تجربات کے حوالے سے سیٹلائیٹ میڈیا کے استعمال کے لیے متعدد عملی تجاویز پیش کیں۔ جبکہ محترمہ فاطمہ یوسف نے کہا کہ مغربی میڈیا خواتین کے حقوق کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو پراپیگنڈہ کر رہا ہے اس کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں مستقل مذاکرہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔
صدر مذاکرہ مولانا زاہد الراشدی نے اپنے اختتامی خطاب میں میڈیا کے ماہرین اور دانشوروں کے بھرپور اجتماع پر مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ اپنی اپنی جگہ اضطراب اور بے چینی کی آنچ میں جلنے والے دلوں کو ایک جگہ جمع کر کے ورلڈ اسلامک فورم نے اپنے سفر کا ایک مرحلہ طے کر لیا ہے اور اب ان دانشوروں کی تجاویز و آرا کی روشنی میں عملی کام کے لیے آگے بڑھنا آسان ہو گیا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی مسلم میڈیا کانفرنس کے سلسلہ میں پروفیسر اکبر ایس احمد کی تجویز کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے اس کے بارے میں مثبت فیصلہ کا جلد اعلان کر دیا جائے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
ورلڈ میڈیا میں مسلم ٹی وی چینل کا قیام
لندن میں ’’وڈیو وژن انٹرنیشنل‘‘ کے نام سے ایک نیا نشریاتی ادارہ قائم ہوا ہے جو سیٹلائیٹ ٹی وی چینل حاصل کر کے عالمِ اسلام کے بارے میں خصوصی پروگرام نشر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ وڈیو وژن انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جنرل محمد سلیم مرزا بمبئی سے تعلق رکھتے ہیں اور سیٹلائیٹ میڈیا میں انہیں خصوصی تکنیکی مہارت اور تجربہ حاصل ہے۔ انہوں نے اپنے پروگرام کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وڈیو وژن انٹرنیشنل ایک لمیٹڈ فرم کے طور پر لندن میں رجسٹرڈ ہو گئی ہے اور یہ ایک آزاد اور خودمختار نشریاتی ادارہ ہو گا جو اسلامی تعلیمات اور مسلم کلچر سے دنیا کو متعارف کرانے کے لیے مثبت اور معلوماتی پروگرام پیش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ میڈیا کے پروگراموں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں جو خلا اور کنفیوژن پایا جاتا ہے اسے دور کرنے کی ضرورت ہے اور وڈیو وژن انٹرنیشنل اس سلسلہ میں ورلڈ اسلامک فورم کے تعاون سے تفصیلی پروگرام مرتب کر رہا ہے جس میں دیگر تعلیمی، ثقافتی، تفریحی اور معلوماتی پروگراموں کے ساتھ ساتھ ’’ورلڈ مسلم نیوز‘‘ کے نام سے عالمِ اسلام کے حالات، سرگرمیوں اور خبروں سے دنیا کو باخبر رکھنے کا مستقل پروگرام بھی شامل ہو گا۔ انہوں نے بتایا کہ وڈیو وژن انٹرنیشنل اردو، عربی اور انگلش تین زبانوں میں پروگرام نشر کرے گا اور ہماری پوری کوشش ہو گی کہ ابتدائی تیاری اور گراؤنڈ ورک مکمل کر کے جلد از جلد نشریات کا آغاز کر دیا جائے۔
توہینِ رسالت کی سزا کا قانون اور مغربی لابیاں
لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکر کی نشست
ادارہ
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا زاہد الراشدی نے کہا ہے کہ سیکولر مغربی لابیاں پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے کے لیے مسیحی اقلیت کو ورغلا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور یہ خود مسیحی کمیونٹی کی مذہبی تعلیمات اور مفادات کے منافی ہے۔ وہ گزشتہ روز ختم نبوت سنٹر لندن میں ’’توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون‘‘ کے حوالے سے ورلڈ اسلامک فورم کی ماہانہ فکری نشست سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا قانون، جداگانہ الیکشن اور اس نوعیت کے دیگر مذہبی قوانین دراصل مغربی سیکولر لابیوں کے اس ہدف کے خلاف ہیں جو انہوں نے پاکستان کو لا دینی ریاست بنانے کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ لیکن سیکولر حلقے اپنی بات خود کہنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور مسیحی اقلیت کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
- حالانکہ گستاخِ رسولؐ کے لیے موت کی سزا کا حکم صرف اسلامی شریعت کا نہیں بلکہ بائبل نے بھی توہینِ رسالتؐ کی یہی سزا بیان کی ہے۔
- اسی طرح جداگانہ الیکشن خود مسیحی اقلیت کے سیاسی مفاد میں ہے، کیونکہ مخلوط انتخابات میں مسیحی کمیونٹی ان نشستوں کا بیس فیصد بھی حاصل نہیں کر سکتی جو اسے اس وقت پاکستان کی اسمبلیوں میں حاصل ہیں۔
اس لیے ہم نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ ان مسائل کو مسیحی مسلم تنازعہ کا رنگ نہ دیا جائے اور اس مقصد کے لیے مسیحی راہنماؤں سے مذاکرات و مفاہمت کی غرض سے متعدد بار پیشرفت کی گئی ہے مگر مسیحی راہنما مغرب کی سیکولر لابیوں کے چنگل سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔
منظور مسیح قتل کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ مغربی ذرائع ابلاغ اس سلسلہ میں یکطرفہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں، جبکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ اس کیس کی ایف آئی آر میں خود مسیحی کمیونٹی نے جن افراد کو نامزد کیا تھا وہ گرفتار ہیں اور قانونی تفتیش کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ انہیں بلاوجہ اس کیس میں ملوث کیا گیا ہے اور ان کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ منظور مسیح اور اس کے دو ساتھیوں کے خلاف تھانہ کوٹ لدھا ضلع گوجرانوالہ میں درج توہینِ رسولؐ کے مقدمہ کی مسلمانوں کی طرف سے پیروی کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ منظور مسیح قتل کیس کے بارے میں پاکستان کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد علی کا موقف یہ ہے کہ یہ بھارتی انٹیلی جنس ’’را‘‘ کی کارروائی ہے۔ اور سرگودھا پولیس نے دو شیعہ علماء کے قتل کے الزام میں گرفتار ملزموں کا یہ اعتراف پریس کے لیے جاری کیا ہے کہ منظور مسیح کا قتل بھی انہی کی کارروائی ہے، اس لیے ان تین متضاد موقفوں کے ہوتے ہوئے کسی کو متعین طور پر اس کا ذمہ دار قرار دینا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی نے توہینِ رسالتؐ کی سزا کے قانون پر نظرثانی کے لیے خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جس میں اسمبلی کے ارکان میں سے علماء، مسیحی راہنما، اور وزراء شامل ہیں۔ ہم نے پیشکش کی ہے کہ توہینِ رسالت کے مقدمات اور منظور مسیح قتل کیس کی انکوائری بھی یہی کمیٹی کر لے، لیکن مسیحی راہنماؤں نے اس پیشکش کو بھی قبول نہیں کیا۔ مولانا راشدی نے کہا کہ وہ لندن میں مسیحی راہنماؤں کے ساتھ مل کر کسی بھی فورم پر مل بیٹھنے اور ان مسائل پر کھلے دل کے ساتھ گفت و شنید کے لیے تیار ہیں اور ان کی ذاتی خواہش یہ ہے کہ مسلمان اور مسیحی راہنما آپس میں الجھنے کے بجائے متحد ہو کر ان قوتوں کا سامنا کریں جو اجتماعی زندگی سے مذہب کو قطعی طور پر بے دخل کرنے اور مذہبی اقدار و روایات کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے مسلسل مصروفِ عمل ہیں۔
(بشکریہ روزنامہ نوائے وقت۔ جون ۱۹۹۴ء)
تعارف و تبصرہ
ادارہ
ڈاڑھی کی شرعی حیثیت
مصنف: حفظ الرحمٰن الاعظمی الندوی۔ ناشر: دارالکتاب الاسلامی، یو پی، انڈیا۔ صفحات: ۷۲ قیمت درج نہیں۔
ڈاڑھی ایک ایسا اسلامی شعار ہے جسے فرمانِ نبویؐ کے مطابق فطرتِ انسانی اور سنتِ انبیاءؑ قرار دیا گیا ہے اور اس کا منڈوانا حرام اور ہنود و مجوس کا شعار ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں اسی پر بحث کی گئی ہے اور احادیثِ صحیحہ، تعاملِ سلف صالحین، مسالک فقہاء اربعہ اور فتاوٰی علمائے اہلِ حدیث کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ ڈاڑھی کم از کم ایک قبضہ تک مسنون ہے، کٹوا کر اس سے چھوٹی کر لینا ناجائز و مکروہ ہے۔ نیز یہ ثابت کیا گیا ہے کہ ایک قبضہ سے زائد ڈاڑھی کا کاٹنا جائز اور درست ہے۔
رواداری اور دینی غیرت
مصنف: ڈاکٹر محمد صدیق شاہ بخاری۔ ناشر: عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، ننکانہ صاحب، ضلع شیخوپورہ۔ صفحات: ۸۸ قیمت درج نہیں۔
رواداری دینِ اسلام کا ایک اہم جزو ہے جس کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ دینی غیرت و حمیت بھی ایمانی سلامتی کی بنیاد ہے۔ دونوں کی اپنی اپنی جگہ حدود و قیود ہیں اور انہیں حدود میں رہ کر دونوں پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا وجودِ اطہر امتِ مسلمہ کے لیے نمونۂ کامل ہے اور اس نمونہ میں ہمیں دونوں پر عمل کے روشن ثبوت ملتے ہیں۔
- اگر ایک طرف وہ مہمان یہودی کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں، جو رواداری کا جزو ہے، تو دوسری طرف نمازِ فجر میں ایک مہینہ تک شہدائے بیر معونہ کے قاتلوں کے لیے بددعائیں کرتے نظر آتے ہیں، جو ایمانی و ملی غیرت کا تقاضا تھا۔
- ایک طرف اگر وہ سر پر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی تیمارداری کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف خوفناک سازشوں اور بدعہدیوں کے مرتکب یہودِ مدینہ کو ملک بدر کرتے نظر آتے ہیں۔
- اگر ایک طرف رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی کی نمازِ جنازہ پڑھاتے اور اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف کعب بن اشرف جیسے گستاخِ رسول یہودی سردار کے قتل کے احکامات جاری کرتے نظر آتے ہیں۔
غرض یہ کہ مروت و غیرت کے دو الگ الگ دائرے ہیں اور دونوں دائروں میں ہمارے لیے اسوۂ حسنہ موجود ہے۔ دونوں کو ملا دینا حماقت اور دونوں کی تفریق ختم کر دینا جہالت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے عصرِ حاضر کے صلحِ کل اور وسیع تر اتحاد کے علمبردار مذہبی و سیاسی راہنما رواداری و مروت کے نام پر غیرت و حمیت کا جس طرح جنازہ نکال رہے ہیں وہ ایک شرمناک حادثہ ہے۔
زیرتبصرہ کتاب میں اس موضوع پر بحث کی گئی ہے اور دلائل کے ساتھ مروت و غیرت کا فرق سمجھایا گیا ہے اور اس پر بے شمار قرآنی و حدیثی شواہد پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں سے پیغمبر اسلامؐ کا یہ فرمان خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ
’’جو شخص کسی بدعتی کی عزت کرے گا تو اس نے اسلام کو ڈھانے میں مدد دی۔‘‘
مسلم راہنماؤں کی اندھی مروت اور بہری رواداری کے برعکس غیر مسلموں کے طرزعمل پر شکوہ کرتے ہوئے مصنف رقمطراز ہیں کہ
’’مشہور گلوکار کیٹ سٹیونز (Cat Stevens) نے اسلام قبول کیا تو امریکی ریڈیو اسٹیشنوں نے اس کے پروگرام بند کر دیے۔ سلمان رشدی کے خلاف انٹرنیشنل گوریلے کے نام سے پاکستان میں فلم بنی تو برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔‘‘
کاش ہمارے راہنماؤں کی آنکھیں کھل سکیں۔ مصنف نے پاکستان میں اقلیتوں کی سرگرمیوں کا اور ان کے ذرائع ابلاغ کا بھی تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ کتاب موضوع و مواد کے اعتبار سے قابل قدر اور قابل مطالعہ ہے۔
خزینۂ رحمت
مصنف: مولانا عبد اللطیف مسعود۔ ناشر: انجمن اشاعتِ اسلام، جامع مسجد خضرٰی، نزد مشن گراؤنڈ ہائی اسکول، ڈسکہ۔ صفحات: ۱۹۲ قیمت : ۳۰ روپے۔
فرمانِ نبویؐ ہے کہ ’’الدعاء مخ العبادۃ‘‘ دعا عبادت کا مغز ہے۔ دوسرے موقعہ پر فرمایا کہ ’’الدعاء ھو العبادۃ‘‘ دعا عین عبادت ہے۔ جبکہ منکرینِ حدیث نے دعا کی اہمیت و ضرورت سے انکار کیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب میں مصنف نے دعا کی قبولیت کی شرائط، طریقِ دعا، آدابِ دعا، مقاماتِ قبولیت، فرض نمازوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا مانگنے کا ثبوت، اور حضور علیہ السلام کے اذکار و وظائف پر قابلِ قدر اور اچھی بحث کی ہے۔ البتہ مسئلہ توسل میں انہوں نے جمہور اہلسنت والجماعت کے خلاف موقف اختیار کیا ہے۔ وہ صرف نیک اعمال کے وسیلہ کے قائل ہیں، صالح رجال کے وسیلہ کے قائل نہیں، حالانکہ یہ جمہور کا مسلک ہے۔ اس وضاحت کے ساتھ کتاب کی باقی ابحاث قابلِ مطالعہ ہیں۔
عقیقہ اور ولیمہ اسلام کی نظر میں
مرتب: مولانا قاری محمد اجمل خان۔ ناشر: مکتبہ اشاعتِ اسلام، عبد الکریم روڈ، قلعہ گوجر سنگھ، لاہور۔ صفحات ۸۸ قیمت درج نہیں۔
عقیقہ اور ولیمہ دو اسلامی شعار ہیں جو بچہ کی ولادت اور شادی کی خوشی میں ادا کیے جاتے ہیں۔ ان دونوں شرعی رسوم میں آج کل بے شمار عوامی رسوم داخل ہو گئی ہیں۔ مولانا محمد اجمل خان کی یہ کتاب اسی موضوع پر ان کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو کچھ عرصہ قبل ماہنامہ بینات اور ماہنامہ البلاغ کراچی میں بالاقساط شائع ہو چکے ہیں۔
اس کی دو فصلیں ہیں: پہلی فصل میں عقیقہ کی وجہ تسمیہ، اس کی مشروعیت کے فلسفہ، احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں اس کی اہمیت و فوائد، اس کے شرعی طریقہ، اس کے فقہی احکام، اور اس میں شامل ہو جانے والی غلط رسومات پر بحث کی گئی ہے۔ اور دوسری فصل میں احادیث کی روشنی میں ولیمہ کی اہمیت و فلسفہ، اس کے فقہی احکام، اور اس میں شامل عوامی رسومات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب مفید اور قابلِ مطالعہ ہے۔
شاہ جیؒ کے علمی و تقریری جواہر پارے
مرتب: اعجاز احمد خان سنگھانوی۔ ناشر: کتب خانہ انور شاہ، کورنگی، ٹاؤن شپ، کراچی۔ صفحات: ۳۶۸ قیمت درج نہیں۔
عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ایک ایسا موضوع و عنوان ہے جس کو جتنا بھی پڑھتے اور لکھتے جائیں تشنگی ختم نہیں ہوتی۔ اس موضوع پر بے شمار کتب منظر عام پر آ چکنے کے باوجود نظر و فکر کو مزید کی تلاش رہتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی اسی موضوع پر لکھی گئی ہے جس میں امیرِ شریعتؒ کے فنِ خطابت کی تقریری جھلکیاں بھی ہیں اور فنِ ظرافت کی مجلسی بذلہ سنجیاں بھی۔ سواطع الالہام کے اوراق سے شاعرانہ کلام بھی اور پسِ دیوارِ زنداں کے حالات و واقعات بھی۔ اساتذہ و شیوخ کا ذکر بھی ہے اور ہم عصروں کا نذرانۂ عقیدت بھی۔ ان کا نسب نامہ حریت بھی ہے اور مرزا قادیانی کے نظریاتِ باطلہ کا رد بھی۔ غرض یہ کہ کتاب ہر اعتبار سے قابلِ تعریف اور قابلِ مطالعہ ہے۔
جذبِ دل
مجموعہ کلام: پروفیسر اسرار احمد سہاروی۔ ناشر: فروغِ ادب اکادمی، گوجرانوالہ۔ صفحات: ۲۲۴ قیمت: ۵۰ روپے۔
شاعری فلاح و صلاح کا ذریعہ بھی ہو سکتی ہے اور گمراہی و بے راہ روی کا باعث بھی۔ اس کے ذریعے سے قوموں کے اخلاق و کردار بگاڑے بھی جا سکتے ہیں اور سنوارے بھی۔ اس لیے شاعری برائے شاعری کوئی مقصد نہیں۔ عصرِ حاضر میں یہ فن حسن و عشق کی حدود میں بند ہو کر اپنی اہمیت و افادیت تقریباً کھو چکا ہے، تاہم اس دور میں اس فن کو فکری و روحانی اصلاح کے لیے استعمال کرنے والے شعراء کا وجود غنیمت ہے۔
پروفیسر اسرار احمد سہاروی کا زیرتبصرہ کلام بھی اس اعتبار سے قابل تعریف ہے کہ اس میں فلاح و صلاح کا پہلو نمایاں ہے۔ بعض متنازعہ شخصیات سے ان کی وابستگی و عقیدت باعثِ اختلاف ہونے کے باوجود ان کا طرز و ذوقِ شاعری بہرحال قابلِ تحسین ہے۔ ان کے حمدیہ کلام میں ان کے یہ اشعار پورے کلام کی جان ہیں:
؎
عالم پہ ہیں محیط ان کی نوازشیں
ہر ابتدائے درد کی وہ انتہا بھی ہیں
؎
خیرہ چشمی نے ہمیں کر دیا رسوا اسرار
حق ادا ہو نہ سکا ہم سے جبیں سائی کا
؎
یہ جان لو کہ تمہاری تلاش ہے ان کو
اسی وجہ سے وہ رہتے ہیں شاہ رگ کے قریں
نعتیہ کلام میں درج ذیل اشعار ان کے عشقِ رسولؐ کی مکمل عکاسی کرتے ہیں:
میں رہا گم کردہ راہ حقیقت مدتوں
خوبی قسمت سے ان کے آستاں تک آ گیا
؎
منزل شناس ہو نہیں سکتا سفیر شوق
جب تک تمہارا نقش قدم رہنما نہ ہو
؎
جستجو میں کہیں منزل کا تصور بھی نہ تھا
راہ بنتی گئی دیوانے جہاں سے گزرے
امتِ مسلمہ کی بے حسی پر شاعر کا شکائتی کلام ان کے درد و الم کی غمازی کرتا ہے:
آنکھیں کھلیں تو ہم کو بھی حاصل ہو کچھ نمود
کیا پائیں گے رہے جو یونہی محو خواب میں
دخترِ مشرق کی اخلاقی پستی پر شاعر کا ناصحانہ کلام ان کے دینی و اخلاقی ذوق کی نشاندہی کرتا ہے:
تو امانت دار زہرہ ہے تجھ کو جائز نہیں ہے عریانی
شوق میں اپنی خودنمائی کی، قدر و قیمت نہ اپنی پہچانی
نقوشِ ایثار
مولف: ثناء اللہ ساجد شجاع آبادی۔ ناشر: گوشہ علم و ادب، شجاع آباد۔ صفحات: ۳۵۲ قیمت ۱۰۰ روپے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مولانا ایثار القاسمی شہید کی تقریباً ستائیس سالہ زندگی کے نشیب و فراز اور حالات و واقعات پر بحث کی گئی ہے کہ سمندری کے علاقہ میں جنم لینے والے اس نوجوان شہید نے ٹاؤن شپ لاہور سے خطابت کا آغاز کیا، اوکاڑہ میں رفض و بدعت کے ایوانوں پر لرزہ طاری کیا، سپاہ صحابہؓ سے وابستگی اختیار کر کے گڑھ مہاراجہ کی خواب غفلت میں مبتلا روحوں کو بیدار کیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، جھنگوی شہیدؒ کی شہادت کے بعد جھنگ کے مضطرب اور بے چین سنی کو سہارا دیا، ۱۹۹۰ کے انتخابات میں ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوا، اور چند ماہ بعد ایم پی اے کی نشست سے دستبرداری کے بعد ضمنی انتخاب کے دوران شہید کر دیا گیا۔ مختصر زندگی میں شہرت کی بے شمار منزلیں طے کرنے والے عزم و استقلال کے اس پیکر مجسم کے حالات زندگی پر دلچسپ اور عمدہ کتاب ہے جس میں ان کی تقاریر کے اقتباسات، ان کے انٹرویوز، بحیثیت ایم این اے ان کی فلاحی خدمات، قومی اسمبلی سے خطاب کا متن، غیر ملکی دوروں کی رپورٹ، اخبارات و جرائد کے تبصرے اور شعراء کرام کا منظوم خراج عقیدت و تحسین سب کچھ شامل ہے۔ نیز پاکستان کے چند بد طینت اہلِ تشیع کی کفریہ عبارات بھی نقل کی گئی ہیں، کتاب ہر لحاظ سے قابلِ مطالعہ ہے۔