دسمبر ۱۹۸۹ء

آہ! الشیخ عبد اللہ عزامؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
حضرت مولانا عزیر گلؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
پیرِ طریقت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒمولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی 
اسلام کا فطری نظاممولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 
کیا افغان مجاہدین کی جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
دینی تعلیم اور مدارس کی اہمیتحضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی 
تلاوتِ قرآنِ مجید باعث خیر و برکت ہےمحمد اسلم رانا 
کیا بائیبل میں تحریف پر قرآن کریم خاموش ہے؟محمد عمار خان ناصر 
علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داریقاضی محمد اسرائیل 
کیا واقعی سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟غازی عزیر 
موت کا منظرحکیم سید محمود علی فتحپوری 
عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیتمولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی 
توہینِ صحابہؓ کے مرتکب کو تین سال قید با مشقت کی سزاادارہ 
منقبتِ صحابہؓسرور میواتی 
تعارف و تبصرہادارہ 
قرآنی نظام اپنے لیے ماحول خود بناتا ہےشیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی 

آہ! الشیخ عبد اللہ عزامؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ روز ایک مجاہد فلسطینی عالم الدکتور الشیخ عبد اللہ عزامؒ پشاور میں اپنے دو بیٹوں سمیت بم کے دھماکہ میں جامِ شہادت نوش کر گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ جمعہ کی نماز پڑھ کر گاڑی میں اپنی رہائش گاہ پر واپس جا رہے تھے کہ گاڑی میں نصب کیا ہوا بم پھٹا اور تینوں باپ بیٹے شہید ہوگئے۔
ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہیدؒ سعودی عرب کے رہنے والے تھے، یونیورسٹی کے پروفیسر تھے، جہادِ افغانستان کے آغاز کے ساتھ ہی جذبۂ جہاد سے سرشار ہو کر ملازمت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے محاذِ جنگ پر آگئے۔ مختلف محاذوں پر جنگ میں حصہ لیا، افغان مجاہدین کی حمایت و امداد کے لیے ادارہ قائم کیا، جہادِ افغانستان پر مقالات اور کتابیں لکھیں، ’’الجہاد‘‘ کے نام سے ایک معیاری عربی جریدے کی اشاعت کا اہتمام کیا اور ان جذبۂ جہاد سے سرشار عرب نوجوانوں کی راہنمائی اور قیادت کی جو مختلف ممالک سے جہادِ افغانستان میں شرکت کے لیے محاذوں پر پہنچے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہیدؒ جہادِ افغانستان کو بجا طور پر ملتِ اسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کا آغاز سمجھتے ہوئے اس میں شریک تھے اور دنیا بھر کے مسلم علماء کو جہاد میں شریک دیکھنے کے خواہشمند تھے۔ شہادت کی آرزو ان کے دل میں تھی اور زبان ہر وقت شہادت اور جہاد کے ذکر سے تر رہتی تھی۔ انہوں نے اپنی منزل پا لی ہے اور اپنے رب کی بارگاہ میں سرخرو جا پہنچے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی یہ قربانی اس دنیا میں بھی رائیگاں نہیں جائے گی، افغان مجاہدین کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہوں گے اور جہادِ افغانستان دنیا بھر میں احیائے اسلام کی جدوجہد کا نکتۂ آغاز ثابت ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر عبد اللہ عزام شہیدؒ اور ان کے بیٹوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور ان کے عظیم مشن کو کامیابی سے ہمکنار فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا عزیر گلؒ

تحریکِ آزادی کے عظیم مجاہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سترہ نومبر کو روزنامہ جنگ لاہور کے آخری صفحہ پر ایک کونے میں یہ خبر نظر سے گزری کہ تحریکِ آزادی برصغیر کے نامور مجاہد اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے رفیق حضرت مولانا عزیر گلؒ انتقال فرما گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ علالت اور ضعف و نقاہت کی خبریں کافی عرصہ سے آرہی تھیں اور عمر بھی سو سال سے تجاوز کر چکی تھی مگر اس کے باوجود دل اس خبر پر یقین کرنے کو تیار نہ ہوا۔ خبر کو بار بار پڑھا، ذمہ دار علمائے کرام کے تعزیتی پیغامابت بھی ساتھ تھے اس لیے مانے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، زبان پر بے ساختہ انا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوا کہ موت ہر ذی روح کا مقدر ہے۔ جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے بہرحال جانا ہے۔ ’’کل من علیھا فان ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘۔
مولانا عزیر گلؒ کون تھے؟ آج کی نسل اس سے باخبر نہیں ہے اور نئی نسل کو اس کے ماضی اور اقدار و روایات سے باخبر رکھنے کی ذمہ داری جن حضرات پر ہے انہیں نہ اس کی ضرورت کا احساس ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت ان کے ذہنوں میں موجود ہے۔ مولانا عزیر گلؒ اس قافلۂ حریت کے فرد تھے جس نے برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف عسکری، تہذیبی، تعلیمی اور سیاسی جنگ لڑی اور بالآخر اسے شکست دے کر اس خطۂ زمین کی آزادی کی راہ ہموار کی۔
اس قافلۂ حریت کے ایک عظیم سالار شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ تھے جنہوں نے اس صدی کے دوسرے عشرہ میں متحدہ ہندوستان کی آزادی کا منصوبہ بنایا اور ملک کے طول و عرض میں مجاہدین آزادی کی فوج منظم کی۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ترکی اور افغانستان کی حکومتوں کو جنگِ آزادی میں ہمنوا بنا کر ان کا تعاون حاصل کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ یہ منصوبہ برطانوی سی آئی ڈی کے کاغذات میں ’’ریشمی خطوط سازش کیس‘‘ کے نام سے اس کے ریکارڈ کا ایک اہم حصہ ہے اور ہماری تاریخ میں ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ’’دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا‘‘ کے مصداق یہ منصوبہ عین اس وقت برطانوی سی آئی ڈی کے ہتھے چڑھ گیا جب کہ ملک کے اند رحریت پسند افواج کی تربیت و تنظیم کا کام کم و بیش مکمل ہو چکا تھا اور ترکی کی خلافت عثمانیہ سے عسکری و سیاسی تعاون کے حصول کے لیے حجاز مقدس میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ترک حکام کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھے۔ جہادِ آزادی کی منصوبہ بندی کے بارے میں ریشمی رومالوں پر لکھے گئے خفیہ خطوط برطانوی کارندوں کے ہتھے چڑھتے ہی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور ان کے رفقاء کو گرفتار کر لیا گیا اور متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں تحریک سے تعلق رکھنے والے تمام حضرات حراست میں لے لیے گئے۔
مولانا عزیر گلؒ اس تحریک اور منصوبہ بندی میں شیخ الہندؒ کے معتمد رفیق تھے اور انہی کے ساتھ گرفتار ہو کر مالٹا جزیرہ میں کم و بیش پونے چار سال تک نظر بند رہے۔ مولانا عزیر گلؒ مالاکنڈ ایجنسی کے رہنے والے تھے، دارالعلوم دیوبند میں شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ سے دینی تعلیم کی تکمیل کی اور پھر انہی کے لیے وقف ہو کر رہ گئے۔ آزاد قبائل میں فرنگی فوجوں کے ساتھ مسلسل لڑنے والے حریت پسند قبائل کے ساتھ شیخ الہندؒ کے خصوصی روابط تھے اور اس علاقہ میں شیخ الہندؒ کے شاگردوں اور حریت پسند رفقاء کی ایک بڑی تعداد مصروفِ جہاد تھی۔ قبائل کے ساتھ خفیہ روابط کے لیے مولانا عزیر گلؒ کو شیخ الہندؒ کے معتمد ایلچی کی حیثیت حاصل تھی اور وہ باہمی رابطہ کا ایک اہم ذریعہ تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ کو مولانا عزیر گلؒ پر کس قدر اعتماد تھا اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹوں کے مطابق حجازِ مقدس میں ترک حکام کے ساتھ شیخ الہندؒ کا جو خفیہ معاہدہ طے پانے والا تھا اسے ہندوستان کے معتمد رفقاء تک پہنچانے کی ذمہ داری مولانا عزیر گلؒ کے سپرد ہوئی تھی۔ مولانا عزیر گلؒ اپنے استاد اور قائد حضرت شیخ الہندؒ کے عاشق زار تھے، مالٹا کی تنہائیوں میں خدمت کی سعادت حاصل کی اور اپنے عظیم استادؒ کے عظیم مشن میں ان کی رفاقت کا حق ادا کر دیا۔
مولانا عزیر گلؒ حضرت شیخ الہندؒ کی زندگی تک ان کے ساتھ متحرک رہے مگر ان کی وفات کے بعد پھر کام میں وہ مزہ نہ ملا اور قیام پاکستان کے بعد تو بالکل ہی گوشہ نشین ہوگئے۔ مالاکنڈ ایجنسی میں سخاکوٹ سے دو میل کے فاصلے پر ’’سیرے‘‘ نامی گاؤں ان کا آبائی گاؤں ہے، وہیں سکونت اختیار کر لی۔ راقم الحروف کو متعدد بار حضرت مولانا عزیر گلؒ کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی۔ تب صحت مند اور چاق و چوبند تھے، مزاج میں بے تکلفی، نمود و نمائش سے دلی نفرت اور مہمان نوازی ان کی خصوصیات تھیں۔ اپنے محبوب استاذ حضرت شیخ الہندؒ کی یادوں کے سہارے جی رہے تھے، انہی کا تذکرہ اکثر زبان پر رہتا اور بہت سے دوست تو یہی محبوب تذکرہ سننے ان کی مجلس میں جایا کرتے تھے۔
مولانا عزیر گلؒ کا سینہ تحریک آزادی کی کئی ان کہی کہانیوں کا مخزن تھا، اے کاش کہ اس خزانہ کو تاریخ کے ریکارڈ میں محفوظ کرنے کا کوئی اہتمام ہو جاتا مگر اب کفِ افسوس ملنے سے کیا فائدہ۔ وہ اپنی یادوں اور خزانوں سمیت ہم سے رخصت ہو چکے ہیں اور اپنے رب کے پاس جا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کریں اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔

پیرِ طریقت مولانا حافظ غلام حبیب نقشبندیؒ

مولانا ضیاء الرحمٰن فاروقی

برصغیر پاک و ہند کو عالمِ اسلام میں یہ امتیازی حیثیت حاصل ہے کہ اس سرزمین پر اولیائے کرام اور صوفیائے عظام کی قدوم میمنت لزوم سے دینِ اسلام سے والہانہ محبت، اسلامی حمیّت و غیرت کا چراغ روشن ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہوں یا خواجہ سید علی ہجویریؒ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ کا فیضان ہو یا خواجہ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کی تعلیمات ہوں، حضرت لعل شہباز قلندرؒ کی درخشندہ تاریخ ہو یا خواجہ نظام الدین اولیاء کے کارنامے، سب اکابرین کی تاریخ ساز جدوجہد اور محنت و عرق ریزی نے انسانیت کے مردہ قلوب کو اسلام کی تابندہ روشنی سے منور کیا۔ 

عہدِ حاضر میں پوری دنیا کفر و ضلالت اور الحاد مغربیت کی زد میں جاں بلب ہے۔ مسلم ممالک تک لادینیت کے زہر سے آلودہ ہیں۔ دہریت اور جدت طرازی نے ایک ارب بیس کروڑ مسلمانوں کی ثقافت و معاشرت اور تہذیب و تمدن کو تبدیل کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ غوایت و گمراہی کے ان مہیب سایوں، شرک و کفر اور بدعات و توہمات کے اندھیروں میں صرف ایک روشنی کی کرن اکابرین و اسلاف اور اولیاء عظام کی تعلیمات کی صورت میں پوری ملت اسلامیہ کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ اہلسنت والجماعت کے تمام مکاتبِ فکر ولایت و ریاضت کے چار روحانی سلسلوں میں منسلک ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ سے سلسلہ قادریہ، خواجہ شہاب الدین سہروردیؒ سے سلسلہ سہروردیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے سلسلہ چشتیہ، حضرت مجدد الف ثانیؒ سے سلسلہ نقشبندیہ، برصغیر پاک و ہند بنگلہ دیش میں ذکرِ الٰہی، صفائی قلب، تزکیہ نفس اور انسانیت کی سچی تعمیر کے لیے روبہ عمل ہیں۔ 
ہم زیرِ نظر مضمون میں عہدِ حاضر کی ایک ایسی برگزیدہ ہستی اور عبقری صفت انسان کا تذکرہ کریں گے جو سلسلۂ نقشبندیہ کا درخشندہ ماہتاب ہے جس کی عطر بیزی سے دنیا کے ۲۲ ممالک کے مسلمانوں کے قلوب معطر ہو رہے ہیں۔ سلسلہ نقشبندیہ کی یہ عظیم شخصیت اور لاکھوں مسلمانوں کے پیشوا حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کے نام سے معروف ہیں۔ حال ہی میں جن کا سایہ اہلِ پاکستان کے سر سے اٹھ گیا ہے وہ لاکھوں مریدوں کو یتیم کر کے خلد بریں میں پہنچ چکے ہیں۔ آپ کے جنازے میں ایک لاکھ افراد شریک ہوئے۔ خانقاہ نقشبندیہ چکوال میں آج بھی اندرون اور بیرون ملک سے ہزاروں سوگواروں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ 
حضرت پیر غلام حبیب صاحبؒ ۱۹۰۴ء بمطابق ۱۳۲۲ھ کو موضع کورڈھی وادی سون سکیسر ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میں قاری قمر الدین صاحب سے حفظ قرآن مکمل کیا۔ آخری تعلیم یعنی دورہ حدیث اور تفاسیر کی کتب شیخ الحدیث مولانا سید امیر فاضل دیوبند سے حاصل کی۔ تفسیرِ قرآن کے لیے آپ نے اپنے عہد کے نامور علماء اور جید اساتذہ کے فیض صحبت سے حظ وافر حاصل کیا۔ آپ کے ایک معتقد اور خصوصی شاگرد کے مطابق آپ نے ۱۹۴۲ء میں حرم کعبہ میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ سے تفسیر قرآن کے اہم رموز سیکھے۔ علاوہ ازیں علمِ تفسیر میں آپ نے نامور مفسر اور عہد حاضر کے نابغۂ روزگار، قرآنی علوم کے ماہر حضرت مولانا حسین علی واں بچھراں اور شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ سے شرفِ تلمذ پایا۔
۱۹۵۱ء میں آپ نے وطنِ مالوف کو خیرباد کہا اور مستقل طور پر چکوال میں مقیم ہو گئے۔ حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ نے جن دنوں چکوال میں قدم رکھا پورا علاقہ معصیت و کفران اور ضلالت و غوایت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ چاروں طرف دین سے بے رغبتی، جہالت اور شرک و کفر کے مہیب سائے دراز تھے۔ صحابہ کرامؓ، خلفاء راشدینؓ اور اہل بیت عظامؓ کا نام لینا اور ان کے فضائل بیان کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ جہالت و کفر کی اس سیاہ وادی میں قدم رکھنے کے بعد آپ نے ایک جامع مسجد میں درس و تدریس اور ذکرِ الٰہی کی محافل کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ ہجوم اور عقیدت مندوں کا قافلہ بڑھتا گیا۔ آپ نے تھوڑے عرصے بعد دارالعلوم حنفیہ کے نام سے ایک دینی مدرسہ کا آغاز کیا۔ 
تعلیمی امور کے ساتھ آپ نے اپنے دور کی ہر دینی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا پیر غلام حبیبؒ نے ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت میں بے مثال کردار ادا کیا۔ آپ نے علاقہ بھر میں قادیانیت کے کفر سے لوگوں کو آگاہ کیا، خود طویل عرصے تک جیل کاٹی۔ 
چکوال میں تشریف آوری سے بہت قبل آپ نے مشہور روحانی سلسلہ نقشبندیہ سے تعلق استوار کیا۔ اس کے لیے آپ احمد پور شرقیہ (بہاولپور) تشریف لے گئے۔ یہاں آپ نے حضرت فضل علی قریشیؒ کے سلسلۂ عالیہ کے ایک چشم و چراغ حضرت پیر عبد المالک صدیقیؒ نقشبندی سے شرفِ بیعت حاصل کیا۔ روحانی منازل طے کرتے ہوئے تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے بے مثال ترقی حاصل کی اور اپنے مرشد کے خانوادہ سے خلافت کے خلعت سے مرقع ہوئے۔ سلسلۂ نقشبندیہ کے فروغ اور روحانیت کی اعلیٰ اقدار کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے حضرت پیر غلام حبیب صاحبؒ نے بے پناہ محنت کی، آپ کی عرق ریزی، جہدِ مسلسل، سعیٔ پیہم کا نتیجہ تھا کہ پاکستان اور غیر ملکوں سے لاکھوں انسان آپ کے آستانہ پر حاضر ہوئے۔ دیکھتے دیکھتے چکوال کی چھوٹی سی مسجد اور مختصر سا دینی مدرسہ برصغیر کی نامور خانقاہ بن گئی۔ پاکستان کی چالیس سالہ تاریخ میں کسی خانقاہ سے اتنے لوگ منسلک نہیں ہوئے جتنے حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کے حلقۂ ارادت میں لوگوں نے شرفِ بیعت پایا۔ آپ کو ایک نظر دیکھنے والا کوئی انسان آپ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا، موصوف حسن و جمال اور قدرتی تاثیر کی بے پایاں دولت سے بہرہ ور تھے۔ دن رات میں بائیس بائیس گھنٹے آپ وعظ و تلقین میں گزارتے، بڑھاپے کی عمر تک آپ کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ 
حضرت پیر غلام حبیبؒ سال بھر میں تین چار مرتبہ بیرون ملک دوروں کے لیے تشریف لے جاتے۔ امریکہ، برطانیہ، زمبیا، فرانس، فیجی، ماریشیس، طاوی اور ۲۲ اسلامی و غیر اسلامی ممالک میں آپ کے مریدوں کی تعداد لاکھوں سے متجاوز ہے۔ حال ہی میں جب سے آپ کی وفات کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی ہے دنیا بھر سے آپ کے مریدوں اور عقیدتمندوں کی کیفیت انتہائی قابلِ دید ہے جیسے ان کے سر سے حقیقی باپ کا سایہ اٹھ گیا ہے۔ 
حضرت پیر غلام حبیب نقشبندی کے قائم کردہ دارالعلوم میں تین سو طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ آپ کی زندگی ہی میں دارالعلوم اور خانقاہ کی پرشکوہ تعمیرات کی تکمیل ہو چکی ہے۔ چکوال کے پورے علاقے میں ایسے تعمیرات ناپید ہیں۔ 
آپ کی وفات ۲۱ ستمبر بروز جمعرات ۱۹۸۹ء کو ہوئی، دنیا بھر سے علماء، صلحاء، مشائخ، سیاست دان، ڈاکٹرز، پروفیسرز اور عام مسلمانوں نے (جنازہ میں) شرکت کی۔ حضرت پیر غلام حبیب نقشبندیؒ کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادہ اور ممتاز عالم دین حضرت مولانا عبد الرحمٰن قاسمی کی دستاربندی ہوئی، اس تقریب میں ملک بھر کے ہزاروں افراد شریک ہوئے۔ 

اسلام کا فطری نظام

مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

سمندر کا ایک ایک قطرہ، ریت کا ایک ایک ذرہ، درختوں کا ایک ایک پتہ، اور زمین و آسمان کا ایک ایک شوشہ بزبانِ حال ہر باشعور کو پکار پکار کر یہ دعوتِ فکر دیتا ہے کہ تمہارا اپنے آقائے حقیقی کے ساتھ ایک ازلی رشتہ اور ایک ابدی علاقہ ہے جس نے تمہاری جسمانی راحت و آرام کا جو اہتمام فرمایا ہے اس سے کہیں زیادہ اس نے تمہاری کائناتِ روحانی کی آسائش و زیبائش کا معقول اور واضح تر انتظام کیا ہے۔ یہ بہتے ہوئے دریا، یہ ابلتے ہوئے چشمے، یہ لہلہاتے ہوئے سبزے، یہ چہچہاتے ہوئے پرندے، یہ اونچی اونچی پہاڑیاں، یہ گھنی اور گنجان جھاڑیاں، یہ تناور اور پھل دار درخت، یہ خوش رنگ اور خوشبودار پھول اور پتیاں، یہ چرند و پرند، یہ نباتات و جمادات، یہ ارض و سماء اور یہ مادی عالم کے جملہ تغیرات، کیا یہ دعوت نہیں دیتے کہ زندگی کے ہر ہر لمحہ میں عبد اپنے معبود کو یاد رکھے؟ جلوت و خلوت، ظاہر و باطن، امارت و غربت، کسی حالت میں بھی اس کے خیال سے غافل نہ ہو۔ عبدِ منیب کا اپنے معبودِ حقیقی کے ساتھ یہ تعلق چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، صحت و سقم اور سفر و حضر ہی کی کیفیات تک ہرگز محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحے اور حیاتِ ناپائیدار و مستعار کی ہر گھڑی میں وہ اپنے معبود ہی کی بے نیازی و عظمت کا اقرار کرتا ہوا نظر آئے گا۔ کسی آن اور کسی شان میں بھی عبدِ مُسلم کا ربط اپنے پروردگار سے ہرگز منقطع نہیں ہو سکتا۔ 

بندہ اپنی بندگی اور بے چارگی کے تعلقات کو اپنے رب ذوالمنن اور اس کے الطاف و عنایات کے ساتھ وابستہ و استوار رکھنے کے بغیر بندہ کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہو سکتا۔ بندہ کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خوف اور ڈر رکھنے کے باوجود بھی اس کی رحمت و رأفت کی قوی امید اور اس کی نصرت و دستگیری پر کامل اعتماد اور آسرا کرے اور ہر وقت اس کی توجہ کا مرکز صرف وہی ذاتِ کبریائی ہی ہو۔ کھانے پینے کی کوئی مجلس ہو یا کھیل و شغل کی کوئی محفل، بے تکلف کا کوئی گوشۂ تنہائی ہو یا جلوت کی رنگینی، بازار کی رونق ہو یا حجرہ کا کوئی زاویۂ خمول، میدانِ کارزار ہو یا شادی کی بزم، کہیں بھی اس کے ہاتھوں سے اپنے معبودِ حقیقی کی رضا جوئی کا مضبوط اور مستحکم سر رشتہ ہرگز جدا نہیں ہو سکتا اور زندگی کے کسی لمحہ میں بھی وہ اپنے معبود کی عظمت و جلالت کے خیال سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالیٰ کی بندگی اور بندوں کی بے چارگی کے ان مستحکم روابط اور تعلقات کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو کسی وقت منفک نہیں ہو سکتے۔
ربِ قدیر سے مناجات کرتے ہوئے عبدِ منیب جب فطرت کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی تمام نفسیات کا جائزہ لیتا اور اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ کرتا ہے اور جب اس عمیق مطالعہ کے بعد اپنا سر اٹھاتا ہے تو حسبِ ارشاد خداوندی ’’فِطْرَۃَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا‘‘ اگر وہ اس فطرت سے بیگانہ نہیں ہو چکا تو وہ خدائے ذوالجلال کے سامنے سر نیاز جھکا کر رقت انگیز لہجے اور محبت خیز لے میں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ
ہمیشہ تیرے در پر ہو سر تسلیم خم میرا
رہے تیرے تصرف میں زبان میری قلم میرا

فطرتِ صحیحہ تک رسائی کا طریقہ

نفسانی خواہشات انسان کو انجام بینی سے روک کر تن آسانی اور راحت کا گرویدہ بنانے پر آمادہ اور مذہبی تقاضوں پر غفلت کے پردے ڈالنے میں مصروف و کوشاں رہتی ہے۔ اکتسابِ اخلاقِ فاضلہ، خیر و شر کی حقیقی تمیز اور زندگی کے اعلیٰ ترین مقصد و مرام تک پہنچنے اور ان کمالات کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں جو مذہب پر کاربند ہو کر آنے والے سفر میں بھی رفیقِ سفر رہتے ہیں۔ 
اگر کوئی متنفس ایسا باقی نہ رہے جو خدائے بزرگ و برتر کی رضاجوئی کے لیے اپنی جان و مال سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ اور روزِ جزاء کے مواخذہ سے بچنے کے لیے اپنی تمام خواہشاتِ نفسانی اور نفسِ امّارہ کا مقابلہ کر سکتا ہو؛‎  اور اگر تمام باتوں کو، جو کسی نہ کسی حیثیت سے مذہب و دین کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں، فنا کر دیا جائے تو یہ دلفریب اور دلکش دنیا نہ صرف یہ کہ بے لطف و بے رونق بن جائے گی بلکہ درندوں کا جنگل، وحشی جانوروں کا اکھاڑہ، اور شیطانوں کی بستی بن جائے گی۔ پس اس بات کے تسلیم کر لینے میں ذرّہ بھر تامل نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں اخلاق و روحانیت، تہذیب و تمدن اور تمدنی ترقیات اور عمدہ اخلاق کی بنیاد مذہب ہی نے قائم کی ہے اور مذہبیت کی عمر نسلِ انسانی کی عمر سے ایک دن بھی کم نہیں ہے۔ اور مذہب کوئی وہمی اور خیالی چیز نہیں بلکہ ایک واضح حقیقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور چیز حقیقی نہیں، اور وہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور صداقت تصور میں نہیں آ سکتی۔ 
مگر یہ یاد رہے کہ مذہب سے مراد اس جگہ الٰہی، الہامی اور آسمانی مذہب ہے جس میں تمام عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات نیز حیات بعد الممات اور اسی طرح بے شمار دیگر احکام مشرح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ باقی دھرمی یا فلسفی، محض عقلی اور خودساختہ نظریات کو مذہب کہنا ہی اشد غلطی ہے اور ان بے بنیاد مذاہب کو عالمِ انسانیت میں کبھی کوئی اہمیت حاصل ہی نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔ مذہب صرف وہ ہے جو رسول اور نبی کے ذریعہ دنیا میں شایع ہوا، جس کی نشر و اشاعت کے لیے بہت سے انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام وقتاً فوقتاً دنیا میں مبعوث ہوتے رہے، جنہوں نے فطرت اللہ کے موافق نسلِ انسانی کی بہترین رہنمائی کی اور توجہ الی اللہ کے لیے اظہارِ عبودیت کے مختلف اور متنوع اعمال و اشغال بتائے اور اس طرح فطرتِ انسانی کی شگفتگی کے ساتھ ہی ساتھ دین الفطرت بھی شگفتہ ہوتا گیا۔ 
جن لوگوں نے عقلِ صحیح اور الہامِ ربانی سے بے نیازی برتی اور اپنے ارادہ اور اختیار کا غلط استعمال کیا تو وہ فطرت اللہ کی تلاش میں آوارہ اور گم کردہ راہ بن کر انبیاء و ملائکہ، جنات و بنی آدم، احبار و رہبان، چاند و سورج، ستارے و فرضی ارواح، دریا و پہاڑ، درخت و آگ وغیرہ کو معبود سمجھ کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ اور اب بھی مختلف ملکوں میں متعدد قوموں میں آب و تاب کے ساتھ رنگ برنگ خودساختہ دلائل سے اس کجری کی ترویج کی جا رہی ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ 
بدل کے بھیس زمانے میں پھر سے آتے ہیں
اگرچہ پیر ہے آدم، جواں ہیں لات و منات
الغرض خدا تعالیٰ کی رضاجوئی اور فطرت اللہ کے موافق زندگی بسر کرنا وحی الٰہی کے بغیر بالکل ناممکن ہے کیونکہ انسان خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے اور اپنے علم و واقفیت کو کیسے ہی اعلیٰ سے اعلیٰ معیار اور مقام تک پہنچائے پھر بھی وہ بغیر امدادِ خداوندی اور وحیٔ الٰہی کے اور بدون رہبریٔ رسول اور راہنمائی نبیؔ کے نہ تو اپنی سعادت اور نجاتِ اخروی کے طریقوں سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ نیکی اور بدی کا پورا تعیّن کر سکتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے انسان کو توجہ دلائی ہے کہ تمہاری جسمانی پیدائش، بدنی پرورش اور روحانی تربیت کے تمام سامانوں کا پیدا اور مہیا کرنے والا صرف تمہارا حقیقی پروردگار ہے اور اس کی ربوبیت کے بغیر نہ تو تمہارا وجود ممکن ہے اور نہ تمہاری روحانی ترقی اور مقصدِ حیات سے ہم کنار اور فائز المرام کرنے کا کوئی اور موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان ہادیانِ برحق کو تعلیم ربانی پیش کرنے کا نہایت مدلل و پُر اثر و دل نشین اور یقین آور ملکہ عطا فرمایا جس سے جاہل و عالم، دیہاتی و شہری، نوجوان و بوڑھا، مرد و عورت، غرض ہر طبقہ اور ہر حیثیت کا آدمی یکساں متاثر و مستفید ہوتا رہا اور اب بھی مستفیض ہو سکتا ہے۔ 
انوارِ نبوت سے اب تک دن رات میں اک تابانی ہے
اے مہرِ درخشاں کیا کہنا، اے شمعِ شبستاں کیا کہنا
اور ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کامل و مکمل دین، ناقابلِ ترمیم و تنسیخ شریعت اور معراجِ کمال تک پہنچانے والا بہترین اسوۂ حسنہ دے کر مبعوث فرمایا جو تمام عالم کی ہدایت اور رہبری کے لیے بھیجے گئے۔ چونکہ آپ وحیٔ الٰہی مبسط اور خداوند تعالیٰ کے مخاطب اور احکامِ خداوندی کے سب سے پہلے تعمیل کنندہ اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خواہاں اور سب سے بڑھ کر حق تعالیٰ کے فرمانبردار اور مطیع تھے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو لوگوں کے لیے مکمل نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا تھا لہٰذا وہی سب سے بہتر وحیٔ الٰہی کے منشاء و مراد کے سمجھنے اور سمجھانے والے تھے۔ اور اسی لیے آپؐ کی اطاعت عین خدا تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آپؐ ہی کے مکمل نمونے کی پیروی سے دینِ حق دنیا میں قائم ہے۔ آپؐ کا ہر ایک حکم دین کے معاملے میں ایسا ہی واجب التعمیل اور ضروری ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا حکم۔ اور ظاہر ہے کہ آپؐ کا ہر ایک حکم خدا تعالیٰ ہی کے منشاء کے ماتحت ہوتا تھا، خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف آپؐ کسی کو کوئی حکم نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی موقع پر آپؐ سے کوئی اجتہادی لغزش سرزد ہوتی تھی تو اللہ تعالیٰ تنبیہ نازل فرما کر اصلاح فرما دیا کرتے تھے اور اس لغزش پر آپؐ کو ہرگز برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔ 
آپؐ کے ایسے احکام کو جو قرآن کریم کے سوا ہیں وحی خفی اور حدیث کہتے ہیں۔ اور یہ ایک واشگاف حقیقت ہے کہ صحیح وحی خفی اور حدیث یقیناً وحی جلی اور قرآنِ کریم ہی کی تفسیر اور اس کی تشریح ہے، اس کی مخالف ہرگز نہیں۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا اور آپؐ کی نافرمانی سے منع کیا گیا ہے کہ امت کے لیے آپؐ بہترین نمونہ ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۔ (پ ۵ ۔ النساء ۱۱)
’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔‘‘
نیز فرمایا کہ:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہُ۔ (پ ۳ ۔ آل عمران ۴۰)
’’اے رسول! آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو تم میری اتباع کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا۔‘‘
اور ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا ہے:
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃُْ حَسَنَۃُْ۔ (پ ۲۱ ۔ احزاب ۳)
’’مسلمانو! تمہارے واسطے جناب رسول اللہ کا طرزِ عمل پیروی کے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘
غرض کہ جیسے آپؐ کی ہستی مخلوقِ خدا میں سب سے اعلیٰ و ارفع ہے، اس طرح آپؐ کا اُسوۂ حسنہ بھی بے مثل اور بے نظیر ہے جس کا تمام عالم میں کوئی بدل ہی نہیں ہے۔
شرابِ خوشگوارم ہست و یار مہرباں ساقی
ندارد ہیچکس یارے چنیں یارے کہ من دارم
جس طرح قرآن کریم میں آپؐ کی اطاعت اور اتباع کو امت کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے اور تمام امت پر آپؐ کے عمدہ ترین اسوۂ حسنہ کی پیروی ضروری بتائی گئی ہے اسی طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیاں الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اس کی خواہش میری خواہش کے تابع نہ ہو۔ اور پروردگارِ عالم نے قسم اٹھا کر یہ حکم بیان کیا ہے کہ تیرے رب کی (یعنی مجھے اپنی ذات کی) قسم کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے تاوقتیکہ آپ کو ہر بات اور ہر معاملہ میں اپنا فیصلہ اور حَکَم تسلیم نہ کریں اور پھر دل میں ذرہ بھر تنگی محسوس نہ کریں اور آپ کے حکم کے سامنے گردنِ تسلیم خم نہ کر دیں۔ ’’فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ‘‘- (النساء ۶۵)
اس کے بعد بھی اگر کسی آبلہ فریب کو یہ مغالطہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور آپؐ کی اطاعت اور اتباع ہمارے لیے لازم نہیں اور آپؐ کے ارشادات کی حیثیت محض تاریخی واقعات کی سی ہے جن کے انکار سے کفر لازم نہیں آتا تو اس ہٹ دھرمی کا علاج یہاں نہیں بلکہ کسی اور جہان ہی میں ہو سکتا ہے۔ اور خود حالات اس کو بتائیں گے کہ دارِفانی میں اس کا کن سے عشق و پیار تھا اور دنیا میں اس نے کیا کمایا اور کیا کھویا۔ 
بوقتِ صبح شود، ہمچو روزِ معلومت
کہ باکہ باختۂ عشق در شبِ دیجور

کیا افغان مجاہدین کی جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۲ و ۱۳ نومبر ۱۹۸۹ء کو جامعہ اشرفیہ مسلم ٹاؤن لاہور میں حرکۃ الجہاد الاسلامی (عالمی) کا سالانہ اجتماع ہوا جس کی صدارت حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر نے کی اور اس کی مختلف نشستوں سے ملک کے اکابر علماء کرام اور نے خطاب فرمایا۔ مدیر الشریعہ نے اپنے خطاب میں جہاد افغانستان کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اہم سوالات کا جائزہ لیا، ان کا خطاب درج ذیل ہے۔ ادارہ الشریعہ)

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ جناب صدر، قابل احترام علماء کرام اور میرے مجاہد بھائیو!
میں حرکۃ الجہاد الاسلامی کے امیر مولانا قاری سیف اللہ اختر کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس اجتماع میں حاضری اور جہاد افغانستان کے بارے میں کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ وقت مختصر ہے اور علماء کرام کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جنہوں نے آپ سے مخاطب ہونا ہے اس لیے انتہائی اختصار کے ساتھ کسی تمہید کے بغیر جہاد افغانستان کے بارے میں عام طور پر کیے جانے والے دو اہم سوالوں کا جائزہ لوں گا۔
میرے محترم بھائیو! آپ حضرات میں سے بہت سے دوست وہ ہیں جو محاذ جنگ پر جا کر عملاً جہاد میں شریک ہو چکے ہیں اور بہت سے نوجوان ایسے ہیں جن کے دلوں میں جہاد کا جذبہ موجزن ہے اور وہ محاذ جنگ پر جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جہاد افغانستان کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے پھیلائے جانے والے شکوک کا جائزہ لیا جائے تاکہ ذہنوں میں کسی قسم کا خلجان باقی نہ رہے۔ جہادِ افغانستان کے بارے میں اس وقت جن دو سوالوں پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے ان میں:
  1. ایک یہ ہے کہ جب روسی افواج افغانستان سے چلی گئی ہیں تو اب جہاد جاری رکھنے کا شرعی جواز کیا باقی رہ گیا ہے اور کیا افغانستان میں ہونے والی موجودہ جنگ مسلمان کی مسلمان کے ساتھ جنگ نہیں ہے؟
  2. دوسرا سوال یہ ہے کہ افغان مجاہدین نے اب تک جو جنگ لڑی ہے اس میں انہیں امریکہ، پاکستان اور دوسرے ممالک کی پشت پناہی حاصل تھی مگر اب ان ممالک کی پالیسیوں میں تبدیلی نظر آرہی ہے اور پشت پناہی اور امداد کی پہلی کیفیت باقی نہیں رہی۔ ان حالات میں افغانستان کی جنگ اب کس حال میں ہے، اس کا مستقبل کیا ہے اور اس کے جیتنے کے امکانات کس حد تک ہیں؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے اس کے جواب میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ ایک یہ کہ سب سے پہلے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جہاد افغانستان کا اصل ہدف کیا تھا۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ افغان مجاہدین نے روسی فوجوں کے خلاف جہاد کا آغاز کیا تھا اس لیے روسی فوجوں کی واپسی کے ساتھ ہی یہ جہاد ختم ہوگیا ہے۔ کیونکہ جب افغانستان میں جہاد کا آغاز ہوا تھا اور افغان علماء نے جہاد کا فتوٰی دے کر ہتھیار اٹھائے تھے اس وقت افغانستان میں روسی فوجوں کا کوئی وجود نہیں تھا۔ افغان علماء نے کابل میں کمیونسٹ نظام کے تسلط اور اسلامی اقدار و روایات کے خلاف کابل کی کمیونسٹ حکومت کے اقدامات کے علی الرغم علم جہاد بلند کیا تھا۔ روسی فوجیں تو بہت بعد میں آئی ہیں اور اس وقت آئی ہیں جب افغان مجاہدین باقاعدہ عملی جنگ کے ذریعے افغانستان کا ایک اچھا خاصا علاقہ کابل کی کمیونسٹ حکومت کے تسلط سے آزاد کرا چکے تھے۔ روسی فوجیں کابل میں اپنی حکومت اور نظام کو بچانے کے لیے آئی تھیں اور کمیونسٹ انقلاب کو مجاہدین کے ہاتھوں شکست سے بچانے کے لیے جنگ میں شریک ہوئی تھیں۔
اس پس منظر میں آپ دیکھیں کہ کابل میں جس کمیونسٹ حکومت اور کمیونسٹ نظام کے خلاف افغان مجاہدین نے جہاد کا آغاز کیا تھا، کیا اس کا خاتمہ ہوگیا ہے؟ اگر کابل کی حکومت موجود ہے اور اپنے نظریاتی موقف اور نظام و انقلاب پر قائم ہے تو اس کے خلاف افغان مجاہدین کا جہاد بھی اپنی مکمل شرعی حیثیت کے ساتھ جاری ہے۔ یہ جس طرح پہلے دن شرعی جہاد تھا آج بھی شرعی جہاد ہے اور اس وقت تک شرعی جہاد رہے گا جب تک کابل پر کمیونسٹ انقلاب کا تسلط ختم نہیں ہو جاتا اور اس کی جگہ ایک خالص نظریاتی شرعی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔
دوسری گزارش سوال کے اس پہلو کے بارے میں ہے کہ یہ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے اور دونوں طرف سے مسلمان ہلاک ہو رہے ہیں۔ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا کہ جو نام نہاد مسلمان کفر کی حمایت و حفاظت کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں ان کا مسلمان ہونا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے۔ میں انہی بھائیوں کی زبان میں بات کرتا ہوں جو کہتے ہیں کہ یہ مسلمان اور مسلمان کی جنگ ہے اس لیے شرعاً اسے جہاد کہنے کا جواز باقی نہیں رہا۔ دیکھیے! جس نوعیت کی جنگ آج افغان مجاہدین روسی استعمار کے خلاف لڑ رہے ہیں اسی طرح کی جنگ ہمارے اکابر نے برٹش استعمار کے خلاف لڑی تھی۔ برطانوی استعمار نے اسی طرح برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش پر قبضہ کر کے اپنا نظام مسلط کیا تھا اور ہمارے بزرگوں نے، علماء حق نے، اکابر نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا تھا۔ شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اس جہاد کا فتوٰی دیا تھا اور علماء حق نے مختلف اوقات میں مختلف محاذوں پر انگریزوں سے جنگ لڑی تھی۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان جنگوں میں فرنگی کی فوجوں میں مسلمان تھے یا نہیں تھے؟ کئی ریاستوں کے مسلم حکمران اور ان کی فوجیں فرنگی مقاصد کے لیے مجاہدین آزادی کے خلاف جنگ میں شریک ہوئی تھیں یا نہیں؟
شہدائے بالاکوٹ کو دیکھ لیجئے۔ امیر المؤمنین سید احمد شہیدؒ اور امام المجاہدین شاہ اسماعیل شہیدؒ نے جن سکھوں اور انگریزوں کے خلاف جہاد کیا تھا کیا ان کے ساتھ مسلمان نہیں تھے؟ کیا کفار کی فوج میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے شریک ہو جانے سے یہ جنگ مسلمان اور مسلمان کی جنگ بن گئی تھی اور شرعی جہاد نہیں رہا تھا؟ ۱۸۵۷ء کے جہاد آزادی کو دیکھ لیجئے۔ ہم آج تک اپنی تقریروں میں کہتے ہیں کہ مسلمان کہلانے والے نوابوں، جاگیرداروں، سرداروں، خان بہادروں اور وڈیروں نے اس جنگ میں انگریز کا ساتھ دیا تھا، انگریزی فوج کو سپاہی مہیا کیے تھے۔ ہم مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے خاندان کی انگریزی حکومت سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے مرزا قادیانی کی کتابوں سے یہ حوالے دیتے ہیں کہ اس کے باپ نے اور دادا نے انگریزی فوج کے لیے ۱۸۵۷ء میں سینکڑوں گھوڑے اور سپاہی مہیا کیے۔ کفر کا فتوٰی تو مرزا غلام احمد قادیانی پر اس کے دعوائے نبوت کی وجہ سے لگا ہے، اس کے باپ اور دادا پر تو کسی نے کفر کا فتوٰی نہیں لگایا تھا۔ کیا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کے فرنگی فوجوں میں شامل ہو جانے سے اس کا جہاد ہونا مشکوک ہوگیا تھا؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً نہیں ہے کیونکہ ہم یہ مانتے ہیں کہ شہدائے بالاکوٹ کی جنگ شرعاً جہاد تھی اور ۱۸۵۷ء کا معرکہ شرعاً جہاد تھا تو افغان مجاہدین کی جنگ بھی مسلمان اور مسلمان کی جنگ نہیں بلکہ شرعی جہاد ہے۔
ایک بات میں علماء کرام سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی مسلمان کفر کے نظام کا حمایتی بن جائے اور نظامِ کفر میں شامل ہو کر جنگ میں مسلمانوں کے مقابل آجائے تو اس کا حکم شرعاً کیا ہے؟ کیا اس کو گولی مارنے سے اس لیے گریز کریں گے کہ وہ کلمہ پڑھتا ہے اور کیا اس کو گولی مرنے سے اس جنگ کی شرعی حیثیت تبدیل ہو جائے گی؟ میرے محترم بزرگو اور بھائیو! یہ سب پروپیگنڈا ہے اور جہاد افغانستان کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے جس کا مقصد مجاہدین کے حوصلوں کو پست کرنے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی حمایت سے روکنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اب ِآئیے دوسرے سوال کی طرف کہ امریکہ اور پاکستان کی افغان پالیسی میں محسوس کی جانے والی منفی تبدیلی کے بعد جہاد افغانستان کس حال میں ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟
اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ یہ کہنا ہی خلاف واقعہ ہے کہ افغان مجاہدین نے یہ جہاد امریکہ اور دوسرے ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے شروع کیا تھا۔ کیونکہ جب افغان علماء نے جہاد کا فتوٰی دیا تھا اور ان کی قیادت میں مجاہدین پہلے کابل حکومت اور پھر روسی فوجوں کے خلاف صف آرا ہوئے تھے تو امریکہ اور دوسرے حمایتوں کا کہیں دور دور تک کوئی پتہ نہیں تھا۔ اس وقت یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ چند بے وقوف مولوی ہیں، روسی فوجوں سے ٹکرانا ان کے بس کی بات نہیں، دو چار ہفتوں میں صاف ہو جائیں گے۔ لیکن جب مجاہدین ڈٹے رہے اور انہوں نے افغانستان کا کم از کم چالیس فیصد علاقہ روسی فوجوں کے تسلط سے محفوظ کر لیا تو امریکہ اور دوسری طاقتیں متوجہ ہوئیں اور انہوں نے افغان مجاہدین کی عملی امداد کی طرف سنجیدگی کے ساتھ توجہ دی۔ یہ امر واقعہ ہے کہ جہاد افغانستان کے آغاز کے بعد کم از کم تین سال تک مجاہدین نے تن تنہا جنگ لڑی ہے، روسی فوجوں کا اسلحہ چھین کر لڑی ہے، بے سروسامانی کی حالت میں لڑی ہے، فقر و فاقہ اور کسمپرسی کے عالم میں لڑی ہے اور ایمانی قوت کے ساتھ میدان میں ڈٹ کر دنیا کو بتایا ہے کہ ایمان اور جذبہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی قوت ہے۔
دوسری بات یہ ذہن میں رکھیں کہ امریکہ کی امداد کے بارے میں مجاہدین اور ان کے ہمنوا کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں رہے کہ یہ آخر وقت تک جاری رہے گی۔ سب جانتے ہیں کہ یہ امداد اپنے مفادات کے لیے امریکہ نے دی ہے۔ جب تک روسی فوجیں افغانستان میں موجود تھیں امریکہ کا مفاد اس میں تھا کہ مجاہدین کو امداد دی جائے اور انہیں مضبوط کیا جائے۔ اور جب روسی فوجیں چلی گئیں تو امریکہ کا مفاد اس میں ہے کہ مجاہدین کو کمزور کیا جائے اور کابل پر ان کی حکومت کو قائم ہونے سے ہر قیمت پر روکا جائے۔ یہ صرف امریکہ کا مفاد نہیں بلکہ اسلام آباد، ڈھاکہ، انقرہ، قاہرہ، خرطوم، جکارتہ اور دوسرے تمام مسلم دارالحکومتوں کا مشترکہ مفاد ہے کیونکہ اگر کابل میں خالص نظریاتی شرعی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو مسلم ممالک کے دارالحکومتوں میں منافقت کا اسلام کابل کی اسلامی حکومت کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں رکھتا، اسے میدان سے ہٹنا پڑتا ہے، دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اور مسلم ممالک میں منافقانہ اور دکھاوے کے اسلام کی شکست امریکہ کی شکست ہے، اس کے مفادات کی شکست ہے اور عالم اسلام پر اس کی بالادستی کی شکست ہے۔ اس لیے سب مل کر اس گٹھ جوڑ میں مصروف ہیں کہ کابل پر مجاہدین کی حکومت قائم نہ ہونے دی جائے اور ظاہر شاہ یا اس قسم کے کسی اور نام سے دکھاوے کی مسلمان حکومت کابل میں قائم کر دی جائے۔ لیکن میں افغان مجاہدین اور جہاد افغانستان کے زعماء کی بصیرت و جرأت کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے اس گٹھ جوڑ کو مسترد کر دیا ہے، وہ لمبی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں مگر کفر اور منافقت کے ساتھ مفاہمت پر آمادہ نہیں ہیں۔
میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ صورتحال کچھ بدل گئی ہے، حالات میں تغیر آیا ہے، مجاہدین کی مشکلات بڑھی ہیں، ان کی جنگ لمبی ہوئی ہے اور آزمائش کا عرصہ طویل ہوگیا ہے۔ لیکن جہاد کی کامیابی کا راستہ یہی ہے، کفر و منافقت کی مکمل شکست اور اسلام کی مکمل بالادستی کا راستہ یہی ہے۔ میں نے مجاہدین کو محاذ جنگ پر دیکھا ہے، ان کے مورچوں میں گیا ہوں اور ان کے عزم و حوصلہ کا مشاہدہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ مشکلات ان کی راہ میں حائل نہیں ہوں گی۔ میرا تجزیہ یہ ہے کہ جہاد افغانستان اپنی فطری رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، امریکہ اور اسلام آباد کے رویہ میں تبدیلی کے باوجود مجاہدین کے قدم رکے نہیں مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں اور فطری رفتار میں بڑھ رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب مجاہدین کابل پر شریعت اسلامیہ کی بالادستی کا پرچم لہرائیں گے اور میرے نزدیک وہ دن جہاد کے اختتام کا دن نہیں ہوگا بلکہ وہی دن پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک میں استعماری نظاموں اور منافقت کے اسلام کے خلاف جہاد کے آغاز کا دن ہوگا۔ خدا ہمیں وہ دن جلدی دکھائے اور اس دن کے لیے خود کو تیار رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

دینی تعلیم اور مدارس کی اہمیت

حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

(پھلت ضلع مظفر نگر (انڈیا) میں ایک دینی مدرسہ کے افتتاح کے موقع پر مولانا سید ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کا بصیرت افروز خطاب)
 حضراتِ علماء کرام، برادرانِ عزیز! پھلت کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی ہر صاحبِ علم کو، خاص طور پر جو تاریخ کا طالب علم رہا ہو خصوصًا ہندوستان کی تاریخ کا، اس کے لیے یہ بالکل قدرتی بات ہے کہ اسے پھلت کے وہ نامور (افراد) یاد آجائیں جو صرف پھلت ہی کے لیے باعث فخر نہیں بلکہ تمام عالمِ اسلام کے لیے۔ بارہویں صدی ہجری جس میں اس عہد کا سب سے بڑا عالمِ دین، یہ میں پوری بصیرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اسرارِ شریعت کا سب سے بڑا شارح، مسلمانوں کی زندگی کو شریعت کے سانچے میں ڈھالنے کا قائد یعنی حضرت شاہ ولی اللہؒ، مجھے تاریخ لکھنے کے سلسلے میں خصوصاً شاہ ولی اللہؒ کے عہد کی شخصیتوں، تحریکوں پر قلم اٹھانے کے سلسلہ میں اس عہد کا مطالعہ کرنا پڑا، علامہ اقبالؒ نے مجدد الف ثانیؒ کے بارے میں کہا تھا:
وہ ہند میں سرمایۂ ملّت کا نگہبان
اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار
میں اسی مطالعہ اور فکر کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ اس پورے برصغیر میں اب تک حضرت شاہ ولی اللہؒ کا شروع کیا ہوا دور چل رہا ہے۔ عربی مدارس، دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور، ندوۃ العلماء لکھنؤ، اور جتنے بھی مدارسِ اسلامیہ ہیں، یہ سب امتداد اور تسلسل ہے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے مسلک و مزاج کا۔ ان کا مزاج ہے ولی اللہ اور اس وقت تک ہی ان میں خیر و برکت اور افادیت ہے جب تک ان میں ولی اللہ کا مزاج قائم ہے۔ اس لحاظ سے ہمارے لیے پھلت سیرگاہ نہیں بلکہ زیارت گاہ ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہؒ کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اخلاف اور خلفاء دونوں عطا کیے ہیں۔ اخلاف میں امام الہند شاہ عبد العزیزؒ، علومِ عقلیہ کے امام شاہ رفیع الدین دہلویؒ اور شاہ عبد القادرؒ جن کا ترجمہ قرآن پاک مشہور ہے۔ غیر عربی میں اب تک کسی بھی زبان میں ان سے بہتر کسی نے نہیں کیا۔ پھر ان کے چوتھے صاحبزادے شاہ عبد الغنی جن کو موقع نہیں ملا، اللہ نے ان کو نعم البدل یہ عطا فرمایا کہ شاہ اسماعیل شہیدؒ جیسا من اذکیاء العالم فرزند ملا۔ یہ تو ان کے اخلاف تھے۔ اور خلفاء میں آپ دیکھیں سید احمد شہیدؒ خلیفہ شاہ عبد العزیزؒ، مولانا عبد الحی شاہؒ، شاہ محمد اسحاقؒ جو درس و تدریس کے بھی امام ہیں اور سلسلۂ تصوف شریعت کے بھی ہیں۔ دہلی کو یہ خانوادہ پھلت کا عطیہ ہے۔ پھلت میں داخل ہوتے ہی یہ تمام تاریخ سامنے آ جاتی ہے اور یہ تاریخ وہی ہے عالمِ اسلام کی کہ جب دارالحکومت میں عہدوں کو حاصل کرنے کی وجہ سے، مصنوعی زندگی کی بنا پر قویٰ سست ہونے لگے، رگوں میں خون منجمد ہونے لگا تو قصبات نے نیا خون عطا کیا۔ آپ نے نہ صرف سلطنتِ مغلیہ کے دارالخلافہ بلکہ مرکزِ علم و سلوک و جذبۂ جہاد دہلی کو پھلت نے اتنا بڑا تحفہ عطا کیا۔ خانوادۂ ولی اللّٰہی، اس سے بڑھ کر تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ جس طرح لکھنؤ کو سہالی کے ایک قصبہ نے خانوادۂ علماء فرنگی محل عطا کیا ایسے ہی جب بغداد میں اضمحلال پیدا ہوا، حکومت کے شر نے قویٰ کو مضمحل کر دیا اور سوائے حصولِ منصب کے کوئی مقصد لوگوں کے سامنے نہ رہا تو ایران کے ایک قصبہ جیلان نے سیدنا عبد القادر جیلانیؒ کا تحفہ دیا جس نے پورے عالمِ اسلام کو عشقِ الٰہی کے سوز سے بھر دیا، جس کی لہریں افریقہ تک پہنچیں۔ ایسے ہی ایران کے ایک معمولی قصبہ نے امام غزالیؒ جیسا مفکر عطا کیا۔ 
الغرض قصبات نے ہر دور میں دارالحکومت کو ایسا چمکتا ہوا، چمکتا ہوا نیا خون عطا کیا جس نے پورے پورے ملکوں کو گرما دیا۔ بہت سے لوگ اس کو بھول جاتے ہیں کہ یہ نیا خون کس نے عطا کیا، بڑے بڑے شہروں کی تاریخ سامنے آجاتی ہے اور وہ آڑ بن جاتی ہے۔ جہاں ایسے مردم خیز قصبوں میں جا کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں کیسے کیسے باکمال پیدا ہوئے۔ خدا کے دین کی بھی کوئی حد نہیں، اس کی قدرت کی وسعت معلوم ہوتی ہے وہاں یہ ذہن بھی جاتا ہے جو نفسیاتی ردعمل بھی ہے کہ اب ایسے لوگ پیدا نہیں ہو سکتے۔ اور خدا کی مردے سے زندہ کو پیدا کرنے کی جو قوت ہے ’’یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ‘‘ (الروم ۱۹) اس کو بھول کر ذہن کے کسی گوشہ میں یہ بات ضرور آتی ہے کہ اب تو بس تاریخ کو اور ان کے کارناموں کو پڑھنا چاہیئے اور اپنے معاش میں لگنا چاہیئے تو آپ کے سامنے پھلت کا جو تاریخی تعارف کرایا گیا ہے اس نے مجھے آمادہ کیا کہ میں یہ آیت پڑھ کر سناؤں:
کُلًا نُّمِدُّ ھٰؤُلَآءِ وَ ھٰؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّکَ وَ مَا کَانَ عَطَآءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا۔ (الاسراء ۲۰)
ہم ان کو بھی بھر بھر کر دیتے ہیں اور ان کو بھی ھؤلاء و ھؤلاء اور دیتے رہیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ مضارع کا صیغہ حال اور مستقبل دونوں کے معنی دیتا ہے۔ یعنی یوں کہنا کہ ’’ہم دیتے ہیں‘‘ صحیح نہیں، اور ’’دیتے رہیں گے‘‘ یہ بھی صحیح نہیں۔ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ ’’دیتے رہیں گے‘‘۔ تمہارے رب کی دین میں کوئی راشننگ ہی نہیں ہے کہ اب اگر دے دیا تو انتظار کروائے گا برس کا۔ ہمارے رب کی عطاء میں کوئی راشن بندی نہیں کیونکہ اس کی بخشش لامحدود ہے۔ ’’وَمَا کَانَ عَطَاءُ رَبِّکَ مَحْظُوْرًا‘‘۔ اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے کہا تھا:
اللہ کی راہ اب تک ہے کھلی، آثار و نشاں بھی قائم ہیں
اللہ کے بندوں نے لیکن اس راہ پہ چلنا چھوڑ دیا
لیکن اس کی کچھ شرائط ہیں۔ ہمت بلند ہو، اخلاص و سعی ہو، اللہ تعالیٰ نے کوشش کی بھی جا بجا تاکید کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کوشش کرنے والے کی کوشش کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ یہ ملت تو محبوب ہے، رحمۃ للعالمینؐ کی ملت ہے، اشرف الامم ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کو انسانیت بھی عزیز ہے، اپنی پیدا کی ہوئی دنیا بھی عزیز ہے۔ جس ماحول کا ہمارے لیے انتخاب کیا گیا ہے یا ہمارا جس ماحول کے لیے انتخاب کیا گیا ہے اس کے ساتھ ہمارا جوڑ ہو اور ہم اس فضا میں اپنی افادیت ثابت کریں۔ ہمارے اکابر مجدد الف ثانیؒ ہوں یا شاہ ولی اللہؒ ہوں یا شاہ عبد القادرؒ ہوں، انہوں نے زمانے کی نبض پہچانی، انہوں نے دیکھا کہ زمانے کو روحانیت کی ضرورت ہے، علمِ صحیح کی ضرورت ہے، توحیدِ خالص کی، عہدوں اور انانیت سے بلند ہو کر اعمال میں روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے، طلبِ رضاء الٰہی کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی انہوں نے دیکھا کہ اس وقت انسانیت کس چیز کی پیاسی ہے۔ وہ زندہ رہنے کا استحقاق کھوتی چلی جا رہی ہے، اس سے جو مظالم سرزد ہو رہے ہیں، اس سے جو حق تلفیاں ہو رہی ہیں، اس سے جو خونِ انساں ارزاں ہو رہا ہے اور پانی کی طرح بہہ رہا ہے، کہیں اللہ تعالیٰ نسلِ انسانی کے خاتمہ کا فیصلہ نہ کر لے کیونکہ 
وَ اَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآءً وَ اَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ۔ (الرعد ۱۷)
جو جھاگ ہے وہ چلا جاتا ہے اور جو چیز نافع ہے وہ زمین میں باقی رہتی ہے۔ معلوم ہوا کہ بقا مربوط ہے نافعیت کے ساتھ۔ جو چیز اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہے، جو گروہ، کوئی مرکز، دعوت یا تحریک اپنی نافعیت کھو بیٹھتی ہے، وہ اس کی مستحق نہیں رہتی کہ قائم رہے، یہی سنت اللہ ہے۔ 
ان بزرگانِ دین نے دونوں کام کیے۔ ہماری نظر اس پر تو جاتی ہے کہ انہوں نے ملت کو کیا دیا۔ حدیث و تفسیر میں کیا نئی راہیں نکالیں، علومِ اسلامیہ میں کتنا عمق پیدا کیا، ماحول میں کیا روحانیت پیدا کی، لیکن ہماری نظر اس پر نہیں جاتی کہ انہوں نے غیر مسلموں کی نظر میں اسلام کا کس درجہ احترام پیدا کیا۔ سیرتِ نبویؐ کو غور سے دیکھنے، پڑھنے، مطالعہ کرنے پر کس طرح آمادہ کیا۔ مؤرخین نے بھی اس پر پردہ ڈالا۔ جہاں انہوں نے علم کے دریا بہائے، مسندِ درس بچھائی، وہیں اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کے دل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رحمۃ للعالمین ہونے کا، اسلام کے حقانی و مطابقِ عقل ہونے کا، اور اسلام کے اس دنیا کی پیاس بجھانے کا ثبوت دیا یقین دلایا۔ ہمارے سوانحی لٹریچر میں یہ پہلو بہت مغلوب رہ گیا ہے۔ 
آج میں کہتا ہوں کہ ملتِ اسلامیہ کو یہ دونوں کام کرنے ہیں۔ عقائد صحیحہ، عباداتِ مقبولہ، طلبِ خداوندی کے ذریعے ملت کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے صحیح بھی ہو، قوی بھی ہو۔ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ صرف صحیح ہونا کافی نہیں، قوی بھی ہو۔ صرف قوی ہونا کافی نہیں، صحیح بھی ہو۔ عبادت تو مشرکین بھی کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’وَ مَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ اِلَّآ مُکَآءً وَّ تَصْدِیَۃ‘‘ (الانفال ۳۵)۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خصوصًا اس زمانے میں ملت کا یہ فریضہ بھی ہو گیا ہے کہ اپنی نافعیت ثابت کرے۔ ہماری وجہ سے کتنی بلائیں ہیں جو ٹل رہی ہیں، ملک کے لیے باعث رحمت و برکت ہیں۔ یہ تب ہی ہو گا جب آپ صحیح انسان بن کر بازاروں، دفتروں میں جائیں جو انہیں سوچنے پر مجبور کرے کہ وہ کونسا مذہب ہے جس نے ہمیں ایسا انسان بنا دیا۔ ہمیں بتائیں کہ اس ملک کے لیے پہاڑ، دریا، سمندر اتنے ضروری نہیں جتنے کہ ہم۔ ہمارا پیامِ انسانیت، ہماری خداترسی۔ 
ہم ایسے دوراہے پہ آ گئے ہیں کہ ایک راستہ سیدھا ارتداد کی طرف جا رہا ہے۔ میں اس سے کم درجہ کا لفظ استعمال کرنے پر تیار نہیں۔ اگر کوئی آسمان سے ویسا اشارہ نہ ہوا، قدرتِ خداوندی کی کوئی مداخلت نہ ہوئی تو اس کے صاف آثار ہیں۔ آثار ہی نہیں بلکہ آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے۔ تصور کی آنکھ سے جس میں تصور نہیں بلکہ تصویر بھی شامل ہے کہ آئندہ نسل شاید اسلام کے بنیادی قائد سے بالکل ناآشنا ہو، صرف آشنا منفی طور پر ہی نہیں بلکہ اس کے بالمقابل اسلام کے برخلاف عقائد و تصورات کی حامل ہو، مشرکانہ عقائد کی قائل ہو۔ ایسے خطرناک دوراہے پر آگئے ہیں کہ اگر مسلمانوں کو اس کی توفیق نہ ہوئی کہ اس کے لیے اپنی ساری توانائی صرف کر ڈالیں تو شاید آنے والی نسل ۲۵ برس بعد، یہ تو زیادہ کہہ دیا، بلکہ ۱۵ برس کے بعد خطرہ ہے کہ وہ اللہ اور رسولؐ کے نام سے بالکل ناآشنا ہو۔ اس کی مثالیں سامنے آنے لگی ہیں کہ سکولوں کے بچے بہت سے اللہ کا لفظ صحیح نہیں لکھ سکتے، پوچھتے ہیں کہ ہم اللہ کس طرح لکھیں؟ اور آج نوجوانوں کی ایک تعداد یہ سمجھتی ہے کہ اس دھرتی کو کرشن یا رام چلاتے ہیں۔ ہندو علم الاصنام، ہندو دیومالا بچوں کے ذہنوں پر اثر کر رہی ہے۔ ابھی ٹی وی پر ’’رامائن‘‘ جو سیریل چل رہی ہے، کالج کی جو کتابیں پڑھائی جا رہی ہیں، اس سے جوانوں کے ذہن و دماغ متاثر ہو رہے ہیں۔ ’’یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا‘‘ (التحریم ۶)۔
معاملہ عالم و فاضل یا مفسر و محدث بنانے کا نہیں بلکہ معاملہ ہے جہنم سے بچانے کا، دوزخ کی آگ سے بچانے کا۔ ایک جلسہ میں ایک بہن ایسی تھی کہ جن کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ عورتوں نے پوچھا کہ بہن! سر میں درد ہے؟ کچھ پیٹ میں تکلیف ہے؟ بولیں، کچھ نہیں۔ پھر مزید اصرار پر بتایا کہ میں بچہ سوتا ہوا چھوڑ کر آئی تھی، اس سے کچھ فاصلے پر دیاسلائی رکھی ہوئی ہے، اگر وہ بچہ جاگ گیا اور چل کر وہاں تک گیا اور دیاسلائی سے تیلی نکال لی، پھر اپنے کپڑوں میں آگ لگا لی تو کیا ہوگا؟ عورتوں نے پوچھا کہ بچے کی عمر کیا ہے؟ بولی، ڈھائی سال کا ہے۔ سب نے کہا، ہوش کی باتیں کرو، وہ اتنا چھوٹا بچہ چارپائی سے کیسے اترے گا اور پھر چل کر وہاں تک جائے گا اور جا کر وہ یہی ایک کام کرے گا؟ جواب دیا، تمہارا بچہ ہوتا تو جانتیں، میرا بچہ ہے اس لیے مجھے ڈر ہے۔ 
میں پوچھتا ہوں کہ آج ہمارے ماں باپ کے دل میں یہ خیال پیدا کیوں نہیں ہوتا کہ اگر ہم نے بچہ کو کلمہ، نماز نہ سکھائی، توحید کا سبق یاد نہ کرایا، ابراہیم کی بت شکنی نہ سمجھائی تو کل وہ مشرک اٹھے گا۔ یہاں تو بالکل خطرات نہیں بلکہ مشاہدات ہیں، وہاں تو ایسا دور دراز کا اندیشہ تھا۔ میں ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ ایک لڑکا ڈھال کی سڑک پر سائیکل پر جا رہا ہے اور آگے گہری کھائی ہے۔ سائیکل سے اتر جاؤ۔ اسی طرح آج ہمارے سامنے گہری کھائی ہے، وہ کھائی ہندو دیو مالا کی ہے، بت پرستی کی ہے، مسلمانوں کے دلوں سے شرک و بت پرستی کی طرف سے ایسے گھن آنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔ یہ تکدّر، یہ تعفّن، یہ وحشت دور ہوتی جا رہی ہے حالانکہ ایک مسلمان کو سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا ہونا تھا کہ کل وہ مشرکانہ عقائد لے کر نہ اٹھے۔ حضرت خضر علیہ السلام کا ایک بچہ کو قتل کر دینے کا واقعہ تشریعی نہیں ہے، اس پر عمل آج نہیں ہو سکتا مگر یہ قصہ قرآن میں قیامت تک پڑھا جائے گا۔ اس کا مقصد و افادیت یہ ہے کہ مسلمان سمجھے کہ خاندان کے لیے فتنہ بننے والا بچہ کتنا منحوس ہوتا ہے۔ اس قصہ کو قرآن نے جگہ دی تاکہ معلوم ہو کہ یہ خطرہ کتنا بڑا تھا۔ 
پہلی بات تو یہ ہے کہ آئندہ نسلوں کو کھلی ہوئی بت پرستی سے، مشرکانہ عقائد سے بچانے کے لیے اپنے گھٹنے ٹیک دیجیئے، ہر ممکن کوشش کر ڈالیے، سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کے لیے خالی وقتوں میں پرائیویٹ کلاسز کا انتظام کرائیے یا ان مدارس و مکاتب میں داخل کرائیے۔ یہ مدارس و مکاتب آج ہماری ریڑھ کی ہڈی ہیں، سانس کا حکم رکھتے ہیں۔ اگر سانس چل رہی ہے تو ہم زندہ ہیں ورنہ ختم۔ اور اپنے ماحول کو مانوس کریں، فضا اگر یونہی اشتعال انگیز رہی تو کسی وقت چنگاری سے آگ لگ سکتی ہے۔ اگر ہمیں دیکھ کر ان کے چہروں پر ناگواری کے آثار نمودار ہوتے رہے، وہ دیکھتے رہے کہ نہ ہم میں اخلاقی کردار، نہ افادیت، ہم بھی وعدہ خلاف اس طرح یہ بھی۔ جس طرح ہم جھوٹ بولتے ہیں اسی طرح یہ بھی۔ تو صرف ہم اپنے لیے ہی نہیں بلکہ اسلام کے باقی رکھنے کے لیے بھی اس ملک میں خطرہ پیدا کر رہے ہیں۔ ہمارے اکابر جو افریقہ، مراکش، اسپین تک اسلام کو پھیلاتے چلے گئے، یہ صرف زبانی کام نہیں بلکہ اس میں کردار بھی شامل تھا جنہیں دیکھ کر خودبخود غیر مسلموں میں جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ اسلام کو قبول کریں۔ 
مسلم پرسنل لاء کی لڑائی اس لیے لڑی گئی تھی کہ عائلی تعلقات، میراث، طلاق، نکاح سب اسلامی طریقہ پر ہوں جس کے لیے سب مطالعہ کرنے والے علماء اپنے کمروں سے نکل کر میدان میں آئیں، اپنے عائلی قانون کی بھی حفاظت کرنی ہے، اپنے ملی تشخص کی بھی حفاظت کرنی ہے، اس کا قریب ترین ذریعہ یہ دینی مدارس و مکاتب ہیں۔ 
دوسرا کام یہ کرنا ہے کہ یہ تلخی جو پانی، ہوا، سانسوں اور ماحول اور فضا میں آ گئی ہے اسے دور کریں۔ اسلام کا تعارف کرائیں ورنہ کسی چیز کا موقع باقی نہ رہے گا۔ ’’پیامِ انسانیت کی تحریک‘‘ یہ ایک چہار دیواری ہے، یہ ایک حصار ہے، اس میں بیٹھ کر آپ قرآن شریف پڑھیے، مسجد بنائیے، نماز پڑھیے، خدانخواستہ یہ ٹوٹ گئی، خدا ہمیں اس دن کے لیے زندہ نہ رکھے جب یہ مسئلہ چہار دیواری کے اندر آجائے اور مدارس و مساجد سب خطرے میں پڑ جائیں۔

تلاوتِ قرآنِ مجید باعث خیر و برکت ہے

دشمنانِ اسلام کی غلط فہمی کا ازالہ

محمد اسلم رانا

مسلمانوں کے ہاں تلاوتِ کلام پاک روح افزاء ہے، ایمان افروز ہے، موجبِ اجر و ثواب ہے۔ صبح سویرے تلاوت اور بچوں کے قرآن پڑھنے کی آوازوں کا بلند ہونا مسلمان گھروں کی نشانی ہے۔ لفظ قرآن (سورہ زمر آیت ۲۸) قرأ سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں پڑھنا۔ کلامِ پاک کو قرآن یعنی ’’پڑھی ہوئی کتاب‘‘ اسی معنی میں کہا جاتا ہے۔ چونکہ یہ کتاب بکثرت اور بالخصوص پڑھی جانی تھی، کثرتِ تلاوت اس کا طرۂ امتیاز بننا تھا، اس لیے اللہ کریم نے اس کا نام ہی قرآن رکھا۔ تلاوتِ قرآن مجید کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں، خود قرآنِ حکیم میں ہی اس مقدس کتاب کی تلاوت کے احکام، آداب اور اجر و ثواب کا تفصیل سے مذکور ہے۔ 

حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاوتِ قرآنِ مجید کا حکم ہوتا ہے (سورہ کہف آیت ۲۷) چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں میں تلاوتِ قرآن بھی کی جاتی تھی (احزاب ۳۴)۔ قرآن مجید خوب صاف صاف، خوش خوانی سے (مزمل ۴) اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جانا چاہیے (بنی اسرائیل ۱۰۶) تاکہ سامعین کو ایک ایک لفظ خوب سنائی دے، ان کی سمجھ میں آئے اور وہ بھی لطف اٹھا سکیں۔ قرآن کفار کو بھی پڑھ کر سنایا جاتا تھا (عنکبوت ۵۱) مذکور ہے کہ قرآن شریف سن کر جنوں کو ایمان نصیب ہوا (احقاف ۲۹) قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لینی چاہیئے (نحل ۹۸) 

تلاوتِ کلام پاک موجبِ اجر و ثواب ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’بے شک جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے رہتے ہیں اور نماز کی پابندی رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے دیا ہے اس میں سے پوشیدہ و علانیہ خرچ کرتے رہتے ہیں وہ ایسی تجارت کی آس لگائے ہوئے ہیں جو کبھی ماند نہ پڑے گی تاکہ ان کو ان کے (اعمال کے) صلے (اللہ تعالیٰ) پورے دے اور اپنے فضل سے ان میں (کچھ) بڑھا بھی دے بے شک وہ بڑا مغفرت کرنے والا ہے بڑا قدر دان ہے۔‘‘ (فاطر ۲۹ و ۳۰ ۔ تفسیر ماجدی)

مزید وارد ہے کہ:

’’جب قرآن کریم پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر اور خاموشی سے سننے سے رحمتِ خداوندی حاصل ہو گی۔‘‘ (اعراف ۲۰۴)

اللہ اللہ تلاوتِ قرآنِ کریم کس قدر بلند و بالا، شان والا اور عالی مرتبت عمل ہے کہ اس سے مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے (انفال ۲)۔ تلاوت کی یہی ایک برکت کافی و وافی ہے، تلاوت کے استحسان کا اس سے بڑا ثبوت ممکن ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی ہے کہ

’’ہم نے قرآن نازل کیا ہے اور اس کی حفاظت بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔‘‘ (حجر ۹)

باری تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا معروف انتظام اس طرح فرمایا ہے کہ قرآنِ کریم بآسانی زبانی یاد (حفظ) ہو جاتا ہے۔ ہر ملک، قوم، نسل اور دور کے لوگ اس پاک کتاب کو برضاء و رغبت حفظ کر لیتے ہیں۔ کس قدر لطف کی بات ہے کہ قرآن حفظ کرنے والوں کی ایک کثیر تعداد نابینا حضرات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ امر انسانی محنت یا ذہانت پر منحصر نہیں ہے۔ تاریخِ عالم میں یہ شرف کسی بھی کتاب کے حصے میں نہیں آیا۔ ایک چھ سالہ بچہ کا غیر زبان عربی کی اس ضخیم کتاب کو حفظ کر لینا کرامت سے کم نہیں۔ قرآن نورِ الٰہی ہے جو سینوں میں اتر جاتا ہے۔ فرمان ربانی ہے:

’’بلکہ یہ قرآن تو آیتیں ہیں صاف ان لوگوں کے سینوں میں جن کو ملی ہے سمجھ۔‘‘ (عنکبوت ۴۹ ۔ مولانا محمود حسنؒ۔)

اور یہ سب برکت ہے تلاوت کی، عربی قرآن کو محض بغیر سوچے سمجھے پڑھنے کی۔ قرآن خوانی سے پڑھنے اور سننے والوں پر سرور و نشاط اور کیف و مستی کا ایک عجیب سماں طاری ہوتا ہے۔ مشہور امریکی مستشرق پروفیسر ہٹی لکھتے ہیں:

’’قرآن کے لفظی معنی ہیں تلاوت، تقریر، خطبہ۔ یہ کتاب ایک طاقت ور زندہ آواز ہے۔ زبانی تلاوت کے لیے مخصوص ہے۔ حظ اٹھانے کے لیے اسے اصل زبان میں ہی سننا چاہیئے۔ ترجمہ میں اس کا قافیہ پن، خوش بیانی، آواز کا زیروبم اور بہاؤ کھو جاتا ہے۔‘‘ (ہسٹری آف دی عربز ۔ ص ۱۲۷ ۔ پروفیسر فلپ کے ہٹی ۔ ۱۹۵۸ء)

ہر مسلمان کو تھوڑا بہت قرآن پاک زبانی یاد ہوتا ہے۔ قرآن حفظ ہونے کی بدولت گھروں، مدرسوں اور مسجدوں کے علاوہ سڑکوں، کھیتوں، جنگلوں، کارخانوں، فیکٹریوں، بازاروں، دکانوں، دفتروں، بسوں، ریلوں، فضاؤں، دریاؤں اور سمندروں میں زبانی پڑھا جاتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا برٹینکا رقم طراز ہے:

’’عام عبادت، درسگاہوں اور دیگر مواقع پر قرآن کا استعمال مثلاً اکثر عیسائی ملکوں میں بائیبل کے مطالعہ سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اسے بجا طور پر دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کہا گیا ہے۔‘‘ (انسائیکلو پیڈیا برٹینکا مطبوعہ ۱۹۱۱۔۱۹۱۰ جلد ۱۵ صفحہ ۸۹۸ کالم اول)

پروفیسر ہٹی لکھتے ہیں:

’’عہد ساز کتابوں میں سب سے کم عمر ہونے کے باوجود قرآن دنیا بھر میں لکھی جانے والی کتابوں میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے کیونکہ عبادت میں استعمال کے علاوہ یہ وہ مقرر درسی کتاب ہے جس سے ہر مسلمان عملی طور پر عربی پڑھنا سیکھتا ہے۔‘‘ (ایضًا ص ۱۲۶)

جنوبی افریقہ کے ایک مسیحی مشنری گرہارڈ نملز نے بائیبل اور قرآن کی زبانوں کے ضمن میں لکھا:

’’بخلاف عبرانی، آرامی اور یونانی، عربی کے زمانۂ حال تک بولے جانے میں قرآن کا بڑا ہاتھ ہے۔ ۱۵۰۰ برس پیشتر قوم یہود کے منتشر ہوجانے پر عبرانی زندہ زبان ہونے کی حیثیت سے ختم ہو کے رہ گئی۔ ان دنوں آرامی کہیں بھی نہیں بولی جاتی ہے۔‘‘ (کرسچیئنز آنسر مسلمز ۔ ص ۱۶ ۔ گرہارڈ نملز ۔ ۱۹۸۰ء)

(۲) قرآن مجید کی یہ عظمت اور لاثانی مرتبہ دشمنانِ اسلام کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ وہ ہمیشہ تلاوتِ کلام کے خلاف زہر اگلتے اور مسلمانوں کو اسے پڑھنے اور حفظ کرنے سے روکنے کی نامسعود مساعی میں مصروف رہتے ہیں۔ اس ضمن میں عالمِ عیسائیت کا مشہور ترین مناظر پادری فانڈر رقم طراز ہے:

’’محض یہی کافی نہیں کہ ہم اس کی طول طویل عبارات کو حفظ کر لیں اور ان کا مطلب بالکل نہ سمجھیں۔ ایسا کرنا طوطوں کا کام ہے انسان کی شان کے شایان نہیں ۔۔۔ بہت سے مسلمان قرآن کو بلند آواز سے پڑھنے پر قانع ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کے اور ان کے مردوں کے لیے بہت سا ثواب جمع ہو سکتا ہے۔ وہ قرآن کو عربی زبان میں پڑھتے ہیں اگرچہ ان میں کثیر التعداد لوگ ایسے بھی ہیں جو اس قریشی بولی کو بالکل نہیں سمجھتے۔ جو کتاب خدا کی طرف سے آنے کا دعوٰی کرے اس کو اس طرح سے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ ایسا کرنا ویسا ہی نامناسب ہے جیسے کسی کافر کا اپنی مشعل کو کسی غار میں چھپا دینا اور راہ دیکھنے میں اس سے مدد نہ لینا۔‘‘ (میزان الحق مصنفہ پادری سی جی فانڈر ڈی ڈی ۔ ص ۳۵۰ و ۳۵۱)

ہم عرض کریں گے کہ اگر طوطا بننا ممکن ہوتا تو پادری صاحب اور ان کے ہمنوا ضرور ٹیں ٹیں کرتے پھرتے اور بائبل کی طول طویل عبارات کو حفظ کرنے میں مسلمانوں سے ہرگز ہرگز پیچھے نہ رہتے۔ دراصل ’’ہاتھ نہ پہنچے تھو کوڑی‘‘ والا معاملہ ہے۔ 

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

اگر مسلمان قرآن کو عربی زبان میں پڑھتے ہیں اور اس قریشی بولی کو بالکل نہیں سمجھتے تو بھی اس سے ان کی عاقبت سنورتی ہے، عبادات ہو جاتی ہیں۔ مسیح میں خراٹے بھرنے والے پادری صاحب کیا جانیں کہ قرآن کی قریشی بولی بیس کروڑ عربوں کی مادری زبان ہے، عرب دنیا میں ہر جگہ بولی اور سمجھی جاتی ہے، چودہ سو برس بعد بھی برابر زندہ و پائندہ ہے۔ کثیر التعداد مسلمانوں کو قریشی بولی نہ سمجھنے کا طعنہ دینے والے پادری صاحب کیا یہ بتا سکیں گے کہ (عوام کا تو ذکر ہی کیا) عیسائی علماء بائبل کو اس کی اصل زبانوں میں ہی پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں؟ جواب یقیناً نفی میں ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ کوئی بڑے سے بڑا محقق بھی ان مردہ زبانوں کو صحییح طور پر سمجھنے کا دعوٰی نہیں کر سکتا۔ ہر بائیبل کے مترجمین اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپتے ہیں۔ مسلمانوں کی ’’مشعل‘‘ گھر گھر میں پڑی ہے جبکہ یار لوگوں کی ’’مشعل‘‘ غاروں کے اندر مرتبانوں میں محفوظ ہے یا قبرستانوں میں مردوں کے ساتھ مدفون ہے یا یونیورسٹیوں اور عجائب گھروں کی زینت ہے۔ 

(۳) اغیار تو اغیار سہی ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ ہونے کے دعویدار بھی دشمنانِ اسلام کے پہلو بہ پہلو کھڑے نظر آتے ہیں۔ ماہنامہ ’’بلاغ القرآن‘‘ لاہور بابت اکتوبر ۱۹۸۹ء تلاوتِ کلام پاک کی مخالفت میں رقم طراز ہے:

’’قرآن مجید میں اشارہ تک نہیں ملتا کہ قرآن مجید کو محض پڑھ لینے سے ثواب ملتا ہے ۔۔۔۔ یاد رکھیے کہ قرآن مجید کے محض پڑھ لینے سے کوئی ثواب نہیں ملتا۔‘‘ (ص ۷) 

تشابھت قلوبھم (بقرہ ۱۱۸) کے مصداق ان کے دل بے بصیرتی اور ناحق شناسی میں کافروں سے ملتے ہیں اور ان کے نظریات بھی دشمنوں والے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے کٹر مخالفین کی تقلید میں تلاوتِ کلام پاک کی مخالفت پر کمربستہ ہیں۔ محض پڑھنے کے حق میں انہیں قرآن میں اشارہ تک بھی نہیں ملتا ہے، قرآن سمجھنا تو بڑی بات ٹھہری۔ ہماری وضاحت کی روشنی میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو یہ پاک کتاب کبھی کھول کر دیکھنی بھی نصیب نہیں ہوئی، اسے سمجھنا ایسوں کا نصیب کہاں؟ اگر ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ یہ ہیں تو اہلِ کفر و الحاد کون ہوتے ہیں؟ خدا معلوم یہ لوگ کدھر کے ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ ہیں؟ اور ان کے اور غیر مسلموں کے درمیان فرق اور فاصلہ کیا ہے؟ کیا صرف ’’اہل الذکر والقرآن‘‘ کے لیبل کا؟ العیاذ باللہ۔ 

مذکورہ گذارشات کا مطلب تلاوتِ کلام پاک کی اہمیت و ثواب جتانا ہے۔ ہم یہ بالکل نہیں کہہ رہے کہ قرآن سمجھا نہ جائے یا اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اگر دنیاوی علوم و فنون سیکھنے کے لیے بھاری رقوم خرچ کر کے دس دس بیس بیس برس تعلیم حاصل کی جا سکتی ہے، گھر بار سے ہزاروں میل دور درسگاہوں میں مغز کھپائی کر سکتے ہیں، فیکٹریوں میں دھکے کھا سکتے ہیں تو قرآن مجید کا ترجمہ اور معانی سمجھنے کے لیے بھی مطلوبہ وقت ضرور نکالا جا سکتا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔

کیا بائیبل میں تحریف پر قرآن کریم خاموش ہے؟

ایک عیسائی پادری کے دعوٰی کا تحقیقی جائزہ

محمد عمار خان ناصر

دنیا کا ہر مذہب کوئی نہ کوئی مقدس کتاب رکھتا ہے، جیسا کہ اسلام میں قرآنِ کریم مقدس آسمانی کتاب ہے۔ عیسائیوں کی مقدس کتاب کا نام بائیبل ہے، یہ بنیادی طور پر دو حصوں میں منقسم ہے۔ 

  1. ایک وہ جس کو ’’عہدنامہ عتیق‘‘ کہا جاتا ہے جس میں تورات، زبور اور انبیاء کبار و صغار کے الہامی و تواریخی صحائف ہیں۔ اس کے جس متن پر یہود اور نصارٰی میں سے فرقہ پروٹسٹنٹ کا اتفاق ہے، یہود اسے ۲۴ اور فرقہ پروٹسٹنٹ والے ۳۹ صحائف میں تقسیم کرتے ہیں۔ جبکہ یہی عہدنامہ عتیق کیتھولک پطرسی کلیسا کی بائیبل میں ۷ کتابوں کے اضافے کے ساتھ ۴۶ کتابوں یعنی صحائف کی شکل میں موجود ہے۔ 
  2. دوسرا وہ ’’عہدنامہ جدید‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں چار اناجیل (منسوب بہ متی، مرقس، لوقا و یوحنا) رسولوں و حواریوں کے اعمال، پولس مقدس کے ۱۴ خطوط، دیگر حواریوں کے خطوط اور یوحنا عارف کا مکاشفہ ہیں۔ اس حصہ میں کل ۲۷ کتابیں ہیں۔ یاد رہے کہ یہود ’’عہدنامہ جدید‘‘ کو الہامی تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ حضرت عیسٰیؑ کی نبوت کے منکر ہیں۔ 

اب بائیبل میں سے تورات و انجیل پر ہمارا یعنی مسلمانوں کا بطریق قرآن یہ عقیدہ اور یقین ہے کہ یہ دونوں کتابیں تبدیل ہو چکی ہیں، بگڑ چکی ہیں، کیونکہ ان میں اس قدر تحریف ہوئی کہ یہ اپنی اصل صورت میں باقی نہیں رہیں۔ جبکہ مسیحی علماء اس قرآنی نص کا شدومد سے انکار کرتے ہیں۔ 

اب جاننا چاہیئے کہ تحریف کی دو قسمیں ہیں: اول، تحریفِ لفظی۔ دوم، تحریفِ معنوی۔ 

(۱) تحریفِ لفظی کہتے ہیں الفاظ کو بگاڑ ڈالنا، کلمات کو بدل ڈالنا۔ اس کے تین طریقے ہیں: (۱) تبدیلی (۲) زیادہ (۳) نقصان۔ اور تحریف لفظی تینوں طریقوں سے ان کتابوں میں موجود ہے جیسا کہ حضرت مولانا رحمت اللہ العثمانی الکیرانوی المکیؒ ’’اظہار الحق‘‘ میں اس کی صراحت ان الفاظ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ

ان التحریف اللفظی بجمیع اقسامہ اعنی تبدیل الالفاظ و زیادتھا و نقصانھا ثابت فی الکتب المذکورۃ۔ (اظہار الحق ۲۰۹)

(۲) تحریفِ معنوی کہتے ہیں (اصل) الفاظ کی غلط تفسیر و تعبیر اور تاویل کرنا جیسا کہ آج کل کے کچھ گمراہ فرقے قرآن کریم میں تحریفِ معنوی کرتے ہیں۔ 

یہ بھی جاننا چاہیئے کہ تورات و انجیل میں تحریف (لفظی و معنوی) کے بارے میں علماء اسلام کے ہاں تین مذاہب پائے جاتے ہیں۔ 

اول وہی ہے جو مولانا رحمت اللہؒ کی عبارت سے ظاہر ہے۔ اس پر اصحاب ظواہر میں سے علامہ ابن حزمؒ نے بہت زور دیا ہے اور ’’الفصل‘‘ میں یہود و نصارٰی کے عقائد، کتب اور ان کی بطالت کے بیان میں طویل بحث کی ہے، یہ مذہب جمہور علماء کا ہے۔ 

دوم یہ کہ ان کتب میں اگرچہ تحریف ہوئی لیکن بہت کم (تحریف سے بہرحال انکار نہیں)۔ شیخ الاسلام حضرت علامہ حافظ ابن تیمیہؒ کا میلان اسی جانب ہے۔ 

سوم یہ کہ ان کتب میں تحریف قطعًا واقع نہیں ہوئی الّا یہ کہ تحریف معنوی ثابت ہے۔ لیکن اس مذہب والوں نے یہ کہہ کر قرآن میں موجود نصوص کی سخت مخالفت کی ہے اور یہ مذہب ’’شذوذ‘‘ کے زمرہ میں شمار ہوگا کیونکہ قرآن کریم میں ہے:

’’یہ کلمات کو ان کی جگہوں کے مقرر ہونے کے بعد بگاڑ ڈالتے ہیں۔‘‘ (المائدہ)

اور 

’’یہ اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھ لیتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی جانب سے ہے۔‘‘ (البقرہ)

اور یہ مذہب اس لیے بھی ناقابلِ اعتبار ہے کہ قرآن میں ہر مقام پر لفظ تحریف کو ’’تاویلِ فاسد‘‘ کہنے سے قرآن اور ان کتابوں میں حفاظت کے سلسلے میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جبکہ سورۃ الحجر میں ’’انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون‘‘ میں مذکور لفظ ’’الذکر‘‘ کو مفسرین نے بالاتفاق ’’قرآن‘‘ کا لقب کہا ہے۔ 

تحریفِ لفظی کے سلسلے میں علامہ محمود آلوسیؒ فرماتے ہیں:

والجمھور علی ان تحریفھما بتبدیل کلام من تلقائھم۔ (روح المعانی ج ۱ ص ۲۹۸)
’’جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ان کتابوں کی تحریف یہود و نصارٰی کے اپنی طرف سے ڈالے جانے والے کلام کے ذریعے ہوئی۔‘‘

مدارک التنزیل میں ہے:

یزیلونہ و یمیلونہ عن مواضعہ التی وضعہ اللہ فیھا۔ (ج ۱ ص ۴۹۶)
’’کلمات کو زائل کر دیتے تھے اور ہٹا دیتے تھے ان مقامات سے جہاں پر اللہ نے ان کو رکھا تھا۔‘‘

خازن میں ہے:

وفی قولہ من بعد مواضعہ اشارۃ الی اخراجہ من الکتاب بالکلیۃ (ج ۱ ص ۴۹۶)
’’اللہ تعالیٰ کے قول ’’من بعد مواضعہ‘‘ میں اس جانب اشارہ ہے کہ وہ کلمات کو بالکل کتاب سے ہی نکال دیتے تھے۔‘‘

قارئین کرام! یہ تو قرآنی آیات اور ان کی تفسیر ہے۔ اس قدر صراحت کے باوجود ایک عیسائی پادری کے ایل ناصر قرآن کریم کی ان واضح آیات سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:

’’قرآن شریف میں تورات و انجیل میں تحریف کا الزام کہیں نہیں ہے۔‘‘ (تصدیق الکتاب ۔ ص ۴۸ ۔ از پادری کے ایل ناصر)

اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خود مسیحی علماء کے اقوال سے اس ناقابلِ تردید حقیقت کا ثبوت پیش کیا جائے۔ 

(۱) آرچ ڈیکن پادری برکت اللہ نے لکھا ہے:

’’حسن اتفاق سے ان معلموں کے ہاتھوں میں ایک رسالہ بھی تھا جو حضرت کلمۃ اللہ کی تعلیم اور آپ کے کلمات طیبات پر مشتمل تھا۔‘‘ (قدامت و اصلیت اناجیل اربعہ ۔ ج اول ص ۳۷)

اور ص ۸۵ پر لکھا ہے:

’’اور یہ رسالہ آہستہ آہستہ نقل ہونا بند ہو گیا اور ایک زمانہ آیا جب یہ رسالہ ناپید ہو گیا۔‘‘

(۲) پادری ایچ یو سٹینٹس کا کہنا ہے کہ:

’’بعض مصنفین نے خیال کیا ہے سناپٹک اناجیل کے مصنفین کے سامنے ایک اور انجیل تھی جو ہماری موجودہ اناجیل سے بہت پہلے کی تھی اور اب مفقود ہے۔‘‘ (تفسیر متی ۔ مترجمہ پادری طالب الدین بی اے ۔ ص ۱۸)

(۳) مسیحی مجلہ سہ ماہی ’’ھما‘‘ لکھنؤ (بابت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۷ء) رقم طراز ہے:

’’اب جبکہ نئے عہدنامہ کی کتابوں کو تصنیف ہوئے اٹھارہ صدیاں گزر چکی ہیں کیا ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کتابیں آج اپنی اصل صورت میں موجود ہیں؟ مسیحی علماء متفق الرائے ہیں کہ ان کتابوں کے اصل نسخے معدوم ہو گئے ہیں۔‘‘ (ص ۵)

(۴) مفسر کریز اسٹم اپنی تفسیر ’’ہوم لی‘‘ میں لکھتا ہے:

’’پیغمبروں کی بہت سی کتابیں ناپید ہوگئیں اس لیے کہ یہودیوں نے غفلت بلکہ بے دینی سے بعض کتابوں کو کھو دیا اور بعض کو پھاڑ ڈالا اور بعض کو جلا ڈالا۔‘‘ (ج ۹)

(۵) مشہورِ زمانہ مؤرخ موسیو دینان لکھتا ہے:

’’تورات میں بھی بہت سی اہم تبدیلیاں کی گئیں۔ نئی کتابیں مثل کتاب ’’استثناء‘‘ مرتب کی گئیں اور کہا یہ گیا کہ یہ کتابیں موسٰیؑ کی اصل شریعت کی حامل ہیں حالانکہ درحقیقت ان کی روح پرانی کتابوں سے بالکل مختلف تھی۔ (لائف آف موسس ص ۴)

اور ’’حیاتِ مسیح‘‘ میں یہی مصنف لکھتا ہے:

’’ابتدائی ڈیڑھ سو سال میں اناجیل کو کوئی مستند حیثیت حاصل نہ تھی۔ ان میں اضافے کرنے یا مختلف انداز سے ترتیب دینے یا ایک کی تکمیل دوسرے سے کرنے میں کوئی باک اور تامل نہ (ہوتا) تھا۔‘‘ (ص ۱۲)

(۶) مشہور متعصب اور عنّاد مسیحی عالم پادری فانڈر لکھتا ہے کہ:

’’ہم لوگ قائل ہیں کہ بعض حروف و الفاظ میں تحریف وقوع میں آئی اور بعض آیات کی بابت مقدم اور مؤخر اور الحاق کا شبہ ہے۔‘‘ (اختتام دینی مباحثہ ۔ ص ۵۰ ۔ طبع ۱۸۵۵ء)

(۷) مشہور عیسائی مؤرخ موشیم لکھتا ہے کہ:

’’بہت سے فریب کاروں نے خود کتابیں لکھیں اور انہیں مقدس حواریوں کی طرف منسوب کر دیا۔‘‘ (پہلی صدی ۔ حصہ دوم ۔ باب ۲/۱۷)

(۸) مفسر ہارسلے اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ:

’’مقدس متن میں تحریف کا وقوع شک و شبہ سے بالاتر ہے۔‘‘ (ج ۳ ص ۲۸۲)

(۹) مفسر ہورن تفسیر میں لکھتا ہے:

’’الحاق کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیئے کہ تورات میں اس قسم کے فقرے موجود ہیں۔‘‘ (ج اول ص ۶۸)

(۱۰) یہی مفسر لکھتا ہے:

’’ناقلوں نے نہایت بے باکی کے ساتھ عہد جدید کی ایک کتاب کے فقروں کو دوسری کتاب میں داخل کر دیا۔ اسی طرح حواشی کی عبارتوں کو متن میں شامل کر دیا۔‘‘ (جلد اول ص ۴۶۷)

ہم اقوال کے سلسلے میں صرف ان دس حوالجات پر اکتفا کرتے ہیں جو ہر مسلمان کے اس قرآنی عقیدہ کو پختہ کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے کہ تورات و انجیل کو حفاظت جیسی فضیلت حاصل نہیں کیونکہ یہ اقوال قرآن یا کسی مسلم مفسر و عالم کے نہیں بلکہ خود مسیحی فضلاء و علماء کے ہیں۔

جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے

لیکن ممکن ہے کہ آج کے بزعم خویش مسیحی متکلمین و مناظرین ان محققین پر اپنی علمی و تحقیقی افضلیت و فوقیت کی خوش فہمی میں مبتلا ہوں اور تورات و انجیل کی تحریف سے انکار کریں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تحریف کی چند واضح مثالیں بھی پیش کر دی جائیں تاکہ ان خودساختہ محققین کے دعوٰی کی حقیقت بے نقاب ہو سکے۔ 

مثال اول

وادیٔ مکہ کا ایک معروف نام فاران بھی ہے اور جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر اسی فاران سے دس ہزار صحابہ کرامؓ کی معیت میں وارد ہوئے۔ چنانچہ بائیبل میں اس واقعہ کو بطور پیش گوئی ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا تھا کہ:
’’خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر آشکارا ہوا۔ وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور دس ہزار مقدسوں کے ساتھ آیا۔‘‘ (تورات ۔ کتاب استثناء ۔ باب ۳۳ ۔ آیت ۱ تا ۳)
اس میں ’’سینا‘‘ کا لفظ موسٰی علیہ السلام کی شریعت بتلاتا ہے اور ’’سعیر‘‘ عیسٰی علیہ السلام کی۔ جبکہ فاران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو ظاہر کرتا ہے اور دس ہزار کا لفظ صحابہ کرامؓ کی تعداد بتلاتا ہے۔ اور یہی لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ اس میں وہی تعداد بتلائی جا رہی ہے جو صحابہ کرامؓ کی تھی۔ اس لیے مسیحی علماء نے اپنے معروف حربہ کے موافق اس کو اڑا دیا، موجودہ اردو ترجمہ یوں ہے:
’’وہ لاکھوں قدسیوں کے ساتھ آیا۔‘‘
اور عربی مترجم نے نہایت ہوشیاری سے لاکھوں کا لفظ بھی اڑا دیا اور ’’ربوات القدس‘‘ کر دیا یعنی ’’قدس کے ٹیلے‘‘۔ باوجودیکہ یہ صدہاسال سے اس فعلِ شنیع میں مصروف ہیں لیکن حیرت ہے کہ ابھی تک یہ عقل اور سمجھ سے پیدل ہیں۔ انگریزی ترجمہ کی طرف کسی نے خیال ہی نہیں کیا جو آج بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی نوید سنا رہا ہے:
"And he came with ten thousand of saint." (King James Version)

مثال دوم

بائیبل میں کثیر تحریف کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعلق مقامات و واقعات کی طرف اشارہ اس میں پایا جاتا ہے۔ سورہ آل عمران میں ایک لفظ ’’بَکَّۃَ‘‘ ہے جو مکہ مکرمہ کے لیے استعمال ہوا ہے، اور سورۂ ابراہیم میں مکہ مکرمہ کو ’’وَادٍ غَیْرَ ذِیْ زَرْعٍ‘‘ یعنی بنجر زمین کہا گیا ہے۔ یہی لفظ یعنی بکۃ زبور ۸۴ میں یوں مذکور تھا:
’’وہ وادی بکۃ سے گزر کر اسے چشموں کی جگہ بنا لیتے ہیں۔‘‘ (آیت ۶)
لیکن مسیحیوں کے تعصب و عناد کو دیکھیئے کہ مکہ مکرمہ کا نام تک اپنی کتاب میں گوارا نہیں کیا، لہٰذا موجودہ اردو ترجموں میں یوں ہے:
’’وہ وادی بُکا سے گزر کر ۔۔۔۔‘‘
یعنی لفظ کے ب پر پیش ڈال دیا جس کا معنی ’’رونا‘‘ ہے۔ عربی ترجمہ میں صراحت سے ’’عابرین فی وادی البکاء‘‘ مذکور ہے تو اس کا معنی ’’رونے کی وادی‘‘ ہو گیا ہے۔ جبکہ کیتھولک بائیبل میں  بکۃ کا ترجمہ ’’خشک وادی‘‘ کیا گیا ہے جو ’’غیر ذی زرع‘‘ کے لیے مناسب ہے۔ پروٹسٹنٹ محرفین کی اس حرکت کا مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے ان الفاظ میں محاسبہ کیا ہے کہ 
’’تغیر و تبدل اور اصلاح کرتے رہنا فرقہ پروٹسٹنٹ کے لیے ایک امر طبعی بن گیا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے جب کبھی ان کی کوئی کتاب دوسری بار طبع ہوتی ہے اس میں پہلے کی نسبت بے شمار تغیر و تبدل پایا جاتا ہے۔ یا تو بعض مضامین بدل دیے جاتے ہیں یا گھٹا بڑھا دیے جاتے ہیں یا کسی مبحث کو مقدم یا مؤخر کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (اظہار الحق ج ۱ ص ۴۶)
یہ بھی واضح رہے کہ یہ شرارت صرف اردو اور عربی ترجموں کی ہے۔ انگریزی (کنگ جیمز) بائیبل میں بھی بکۃ کا لفظ ہے (Valley of Baca)۔ 

مثال سوم 

انجیل متی میں یوں تھا:
’’اور انہوں نے اسے صلیب پر چڑھایا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے تاکہ وہ پورا ہو جائے جو نبی کی معرفت کہا گیا تھا کہ انہوں نے میرے کپڑے آپس میں بانٹ لیے اور میرے لباس میں قرعہ ڈالا۔‘‘ (باب ۲۷ آیت ۳۵)
جبکہ موجودہ اردو ترجمہ صرف اتنا ہے:
’’اور انہوں نے اسے مصلوب کیا اور اس کے کپڑے قرعہ ڈال کر بانٹ لیے۔‘‘
ملاحظہ کیجیئے کہاں اتنی لمبی توضیح اور کہاں یہ مختصر سی عبارت اور پھر ’’جو نبی کی معرفت الخ‘‘ والی اہم عبارت حذف کر دی گئی ہے۔ اور سنیئے موجودہ عربی ترجمہ اردو ترجمہ کی تائید سے منکر ہے:
ولما صلبوہ اقتسموا ثیابہ مقترعین علیھا لکی یتم ما قبل بالنبی اقتسموا ثیابی و علی لباسی القوا قرعۃ۔ 
’’اور جب انہوں نے اسے سولی دی تو اس کے کپڑے تقسیم کر لیے درآنحالیکہ وہ ان کپڑوں پر قرعہ ڈالنے والے تھے تاکہ پورا ہو جو کہا گیا نبی کے ذریعے انہوں نے تقسیم کر لیے میرے کپڑے اور میرے لباس پر انہوں نے قرعہ ڈالا‘‘۔ 

مثال چہارم

یوحنا کے پہلے خط ۸۰۷/۵ میں یوں تھا:
’’اس لیے کہ آسمان میں گواہی دینے والے تین ہیں۔ باپ، کلمہ اور روح القدس اور یہ تینوں ایک ہیں۔ اور زمین میں گواہی دینے والے بھی تین ہیں۔ روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔‘‘
جبکہ آج کے ترجموں میں ہمیں یہ عبارت ملتی ہے:
’’اور جو گواہی دیتا ہے وہ روح ہے کیونکہ روح سچائی ہے۔ اور گواہی دینے والے تین ہیں روح، پانی اور خون اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں۔‘‘
مصیبت یہ ہے کہ عربی ترجمہ میں بھی وہی ہے جو موجودہ ترجمہ سے حذف کر دیا گیا ہے:
فان الذین یشھدون فی السماءھم ثلثۃ الأدب والکلمۃ والروح القدس وھؤلاء الثلثۃ ھم واحد۔ والذین یشھدون فی الارض ھم ثلثۃ الروح والماء والدم والثلثۃ ھم فی الواحد۔
ناظرین تحریف کی چند مثالیں آپ نے ملاحظہ کیں، اب اس سلسلے میں عیسائی احباب کا ردعمل بھی ملاحظہ فرمائیں۔ مسیحی مجلہ ’’ھما‘‘ لکھنؤ (بابت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۷ء) اعتراف کرتا ہے کہ
’’انجیل مقدس کے مختلف نسخوں اور ترجموں میں ردوبدل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔‘‘ (ص ۷)
جب مقدس صحیفوں کا یہ حال ہے تو ان کے الہام کی بابت بھی پادری والش صاحب کی یہ تحریر بھی ملاحظہ ہو:
’’اسقف بٹلر صاحب نے کہا کہ انگلستان میں ایک بھی فاضل ایسا نہیں ہے جو پاک نوشتوں کے الہام کا قائل ہو۔‘‘ (قربت الٰہی ۔ ص ۵۹ ۔ مطبوعہ ۱۸۶۸ء)
اور تحریف کی بابت خود برمیاہ نبی نے الزام لگایا کہ
’’تم نے زندہ خدا رب الافواج ہمارے خدا کے کلام کو بگاڑ ڈالا ہے۔‘‘ (ہرمیاہ ۳۶:۲۲)
اور پولس رسول کہتا ہے کہ
’’انہوں نے خدا کی سچائی کو بدل کر جھوٹ بنا ڈالا۔‘‘ (رومیوں ۲۵:۱)
محترم قارئین! ہم نے اس بحث میں پادری کے ایل ناصر اور اس کے ہمنواؤں پر ’’اتمام حجت‘‘ کر دیا ہے اور بحمد اللہ تعالیٰ واضح کر دیا ہے کہ بائیبل جس کی نسبت یہ بڑی عجیب عجیب باتیں لکھتے ہیں اور اس کو غیر محرف اور Unchanged کہتے تھکتے نہیں وہ نہ صرف قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق تحریف شدہ ہے بلکہ خود ان کے بڑوں کے بقول محرف ہے اور تورات و انجیل کے قدیم نسخے بلکہ ان کی اصل زبانیں تک گم ہو چکی ہیں۔ 

علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داری

قاضی محمد اسرائیل

انبیاء علیہم السلام کو اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے دنیا میں مبعوث کیا۔ جب ایک نبی علیہ السلام کا انتقال ہوا تو دوسرا نبی اس کے بعد مبعوث کیا گیا۔ یہاں تک کہ سلسلہ رُسل کی آخری کرن آمنہ کے لال عبد اللہ کے درِّ یتیم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے پوری کائنات کے لیے رسولؐ بنا کر بھیجا اور یہ اعلان فرمایا کہ آپؐ کے بعد نبوت اور رسالت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ اب لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لیے یہ نبیوں والا کام اس امت کے علماء کے حوالے کر دیا گیا ہے اور خالقِ کائنات نے اعلان فرمایا کہ میرے بندوں میں سب سے زیادہ مجھ سے ڈرنے والے علماء ہیں۔ علماء کرام کے ادب و احترام کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ علماء کرام کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ میں ایک جھلک علماء کرام کے مقام اور مرتبے کی آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔

خالقِ ارض و سما رب العالمین نے قرآن پاک کے اندر اعلان فرمایا: 

’’کیا علم والے اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟‘‘ 

دوسری جگہ اعلان فرمایا: 

’’اللہ پاک جو لوگ ایمان لائے ان کے درجے اور مرتبے بلند کرے گا اور علم والے لوگوں کے بھی‘‘۔ 

اس آیت میں اللہ پاک نے علماء کرام کی عظمت اور رفعت کا ذکر کیا ہے۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’وہ شخص میری امت میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے، ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے عالم کی قدر نہ کرے‘‘ (ترغیب)

ایک اور مقام پر پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 

’’تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق کے سوا کوئی شخص ہلکا (ذلیل) نہیں سمجھ سکتا۔ ایک وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو گیا، دوسرا اہلِ علم، تیسرا منصف بادشاہ‘‘ (ترغیب)

ہماری آنکھوں کے نور، دلوں کے سرور سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کا مقام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’یا تو عالم بن یا طالب علم یا علم کا سننے والا یا (علم اور علماء) سے محبت کرنے والا، پانچویں قسم میں داخل نہ ہونا ورنہ ہلاک ہو جائے گا‘‘ (مقاصد حسنہ)

حضرت علامہ حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ پانچویں قسم سے مراد علماء کی دشمنی ہے اور ان سے بغض رکھنا۔ اسی مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

’’یا تو عالم بن یا طالب علم اور اگر دونوں نہ ہو سکے تو علماء سے محبت رکھنا ان سے بغض نہ رکھنا‘‘۔ (مجمع)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قرآن کریم کے حاملین (علماء و حفاظ) قیامت کے دن جنت والوں کے سردار اور چوہدری ہوں گے‘‘ (طبرانی)

حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی جو بہت بڑے بزرگ اور صوفی گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی باتوں کا مسلمانوں سے عہد لیا ان میں سے ایک یہ بات بھی تھی کہ میرے علماء کا احترام کرنا۔ علامہ شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عام عہد اس بات کا لیا گیا ہے کہ ہم علماء کرام کا اکرام اور اعزاز کریں اور ان کی تعظیم کریں اور ہم میں یہ قدرت نہیں ہے کہ ان کے احسانات کا بدلہ کر سکیں چاہے وہ سب کچھ دے دیں جو ہماری ملک میں ہے اور خواہ مدت العمر ان کی خدمت کرتے رہیں۔ اس معاہدے میں بہت سے طالب علم اور مریدین کوتاہی کرنے لگے ہیں حتٰی کہ ہم کو ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جو اپنے استاذ کے حقوق واجبہ ادا کرتا ہو۔ یہ دین کے بارے میں ایک بڑی بیماری ہے جس سے علم کی اہانت کا پتہ چلتا ہے اور اس ذات اقدس کے حکم کے ساتھ لاپرواہی کا پتہ چلتا ہے جس نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ 

مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ شعرانیؒ لکھتے ہیں، ہم لوگوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک عام عہد لیا گیا ہے کہ ہم علماء اور اکابر کی تعظیم کریں چاہے وہ خود اپنے علم پر عمل نہ کریں اور ہم لوگ ان کے حقوق واجبہ کو پورا کریں اور ان کے ذاتی معاملہ کو اللہ کے سپرد کر دیں۔ جو شخص ان کے حقوق واجبہ اکرام اور تعظیم میں کوتاہی کرے وہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔ اس لیے کہ علماء رسول اللہؐ کے جانشین ہیں اور ان کی شریعت کے حامل اور اس کے خادم۔ پس جو شخص ان کی اہانت کرتا ہے تو یہ سلسلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے اور یہ کفر ہے۔ اور تم غور کر لو کہ بادشاہ اگر کسی کو ایلچی بنا کر کسی کے پاس بھیجے اور وہ اس کی اہانت کرے تو بادشاہ ایلچی کی بات کس غور سے سنے گا اور اپنی نعمت کو جو اس اہانت کرنے والے پر تھی ہٹا لے گا اور اس کو اپنے دربار سے ہٹا دے گا، بخلاف اس شخص کے جو ایلچی کی تعظیم اور توقیر کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے اور بادشاہ بھی اس کو اپنا مقرب بنا لیتا ہے۔ 

علماء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ہیں، ان کی عزت کرنا فرض ہے، جو ان کی عزت کرے گا وہ ان شاء اللہ قیامت کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جگہ پائے گا۔ جب علماء کرام آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث اور جانشین ہیں تو پھر ہر موقعہ پر اور ہر موڑ پر علماء کو امت کی راہنمائی کرنی ہو گی اور امت کا فرض بنتا ہے کہ وہ علماء کا ساتھ دیں اور وقت کی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ علماء حق سے راہنمائی حاصل کرے اور علماء کی ضروریات زندگی میں ان کا خیال رکھے، کسی صورت میں علماء کا وقار مجروح نہ کیا جائے۔ علماء تو زمین کے ستارے ہیں ان سے روشنی لی جائے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ

’’علماء کی مثال زمین میں ایسی ہے جیسی آسمان میں ستارے جن کے ذریعے جنگل کے اندھیروں اور سمندروں میں راستہ پہچانا جاتا ہے۔ اگر ستارے بے نور ہو جائیں تو یہ بات اقرب ہے کہ راہبرانِ قوم راستہ سے بھٹک جائیں۔‘‘ (ترغیب)

علماء کو چاہیئے کہ اپنی روشنی سے پوری دنیا کو منور کریں، علم و تقوٰی سے پوری امت کو مستفید کریں۔ ایک مقام پر آپؐ نے فرمایا کہ 

’’نبوت کے درجہ کے بہت قریب ایک جماعت علماء کی ہے، دوسرے مجاہدین کی۔ اس لیے کہ علماء اس چیز کا راستہ بتاتے ہیں جو اللہ کے رسولؐ لے کر آئے ہیں اور مجاہدین اپنی تلواروں سے اس طرف متوجہ کرتے ہیں۔‘‘ (احیاء العلوم)

مضمون کو مختصر کرتے ہوئے شیرِ خدا علی المرتضٰیؓ کے ایک قول پر ختم کرتا ہوں، حضرت علیؓ نے فرمایا کہ

’’جب کوئی عالم مر جاتا ہے تو اسلام میں ایک ایسا رخنہ پیدا ہوتا ہے جس کو اس کا کوئی نائب ہی بھر سکتا ہے۔‘‘ (احیاء العلوم)

تمام امت پر یہ بات لازم ہے کہ وہ اپنے علماء کا ادب و احترام کریں، ان کی خدمت کریں، ان کے پاس جا کر دینی معلومات حاصل کریں، ان کی توہین سے بچیں اور ان لوگوں سے بھی دور رہیں جو علماء کرام کی توہین کرتے ہیں، علماء بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک مسلمانوں کو اپنے مذہبی راہنماؤں کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

کیا واقعی سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟

غازی عزیر

ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور شمارہ ماہ ستمبر ۱۹۸۹ء بمطابق صفر المظفر ۱۴۱۰ھ پیشِ نظر ہے (۱)۔ اس شمارہ میں ’’کیا سندھ کو نبی اکرمؐ کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے؟‘‘ کے زیر عنوان محترم ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب (ساکن پیرس) کی سیرت النبیؐ کے موضوع پر انسٹیٹیوٹ آف سندھالوجی، سندھ یونیورسٹی جام شورو (پاکستان) میں کی گئی چند سال پرانی ایک تقریر کے ابتدائی حصہ کو جو اس عنوان سے متعلق تھا ٹیپ کی ریل سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنی تقریر کی ابتداء میں سندھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اور اہلِ سندھ سے آپؐ کی ملاقات کے امکان پر گفتگو فرمائی تھی۔ بلکہ ماہنامہ ’’میثاق‘‘ کے ادارتی نوٹ کے مطابق ’’اس ضمن میں اپنی تحقیق کا حاصل سامعین کے سامنے رکھا تھا‘‘۔ محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کی تحقیق کے اس حاصل کے پیشِ نظر اور ان کے ہی حوالہ سے محترم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب (مؤسس و امیر تنظیم اسلامی لاہور) نے اپنی کتاب ’’استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ (۲) میں برصغیر میں اسلام کی آمد اور اشاعت کے ضمن میں سرزمینِ سندھ کی خصوصی اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ ’’سرزمینِ سندھ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے‘‘۔ اس ضمن میں راقم نے محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے پیش کردہ تمام دلائل کا بغور جائزہ لیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ اس کی حیثیت محض ظن و مفروضہ سے زیادہ کچھ نہیں، لہٰذا ضروری محسوس ہوا کہ اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اس بات کی حقیقت سے باخبر کروں۔ واللہ المستعان۔

ذیل میں تمام تمہیدی گفتگو پر کلام کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف اصل موضوع اور ان شواہد پر بحث پیش کی جاتی ہے جنہیں فاضل ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر میں پیش کیا تھا، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’حضورؐ کی ملاقات سندھیوں سے کب اور کیسے ہوئی؟ اولًا میں مشرقی عرب میں جانے کی بات کرتا ہوں، اس لیے کہ وہیں سے آپؐ سندھیوں سے ملاقات کر سکتے ہیں یا سندھ جا سکتے ہیں۔ مسند احمدؒ بن حنبل حدیث کی مشہور کتاب ہے اور ابن حنبلؒ وہ شخص ہیں جو امام بخاریؒ کے استاد ہیں، انہوں نے اپنی مسند میں دو صفحات کی ایک طویل حدیث میں بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ عبد القیس کے لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے مدینہ آئے، رسول اللہؐ نے ان سے چیزیں دریافت کیں، فلاں شہر کیا ابھی موجود ہے؟، فلاں سردار یا فلاں شخص کیا ابھی زندہ ہے؟ ان سوالات پر وہ لوگ حیرت زدہ ہو گئے اور کہنے لگے یا رسول اللہؐ آپ ہمارے ملک اور ہمارے آدمیوں سے ہم سے بھی زیادہ واقف معلوم ہوتے ہیں۔ اس پر مسند احمد بن حنبل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو جواب نقل ہوا ہے وہ یہ ہے۔ میں وہاں گیا ہوں، بہت دن تک اس سرزمین کو میرے پاؤں روندتے رہے ہیں، قلعہ مشغل کی چابیاں میں نے حاصل کیں اور چشمہ زہرا پر بھی کھڑا ہوا۔‘‘ (۳)
ان سطور کے متعلق پہلی بات تو یہ عرض کرنی ہے کہ مسند احمدؒ میں دو صفحات کی ایسی کوئی طویل حدیث موجود نہیں ہے جس میں قبیلہ عبد القیس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین ہونے والے سوالات و جوابات کا محولہ مکمل متن مذکور ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے دو مختلف حدیثوں کے متن کو یکجا خلط ملط کر کے پیش کیا ہے۔ پہلی حدیث بطریق 
عبد اللہ حدثنی ابی ثنا اسماعیل بن ابراہیم قال ثنا عوف حدثنی ابوالقموص زید بن عدی قال حدثنی احد الوفد الذین وفدوا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عبد القیس قال فذکرہ (۵) 
مروی ہے مگر مسند احمد کی اس حدیث میں محترم ڈاکٹر صاحب کے بیان کردہ یہ الفاظ قطعًا موجود نہیں ہیں: ’’میں وہاں گیا ہوں، بہت دن تک اس سرزمین کو میرے پاؤں روندتے رہے ہیں‘‘۔ البتہ مسند احمد کی ایک دوسری حدیث جو بطریق
عبد اللہ حدثنی ابی ثنا یونس بن محمد ثنا یحیٰی بن عبد الرحمٰن العصری قال ثنا شہاب بن عباد انہ سمع بعض وفد عبد القیس وھو یقول فاذکرہ (۶)
مروی ہے، میں بنو عبد القیس کے اس حیرت زدہ قول 
بابی و امی یا رسول اللہ لانت اعلم باسماء قرانا منا (۷) 
کے جواب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مذکور ہے:
انی قد وطئت بلادکم وفسح لی فیھا (۸)
مگر افسوس کہ اس دوسری حدیث میں ڈاکٹر صاحب موصوف کا بیان کردہ اگلا جملہ (یعنی: قلعہ مشغل کی چابیاں میں نے حاصل کیں اور چشمۂ زہراء پر بھی کھڑا ہوا ہوں) موجود نہیں ہے۔ یہ جملہ اوپر بیان کی گئی پہلی حدیث میں اس طرح مذکور ہے:
’’فو اللہ لقد دخلتھا واخذت اقلیدھا ۔۔۔۔ وقفت علی عین الزارۃ (۹)
واضح رہے کہ جس قلعہ مشغل اور چشمۂ زہراء کا تذکرہ فاضل ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر میں کیا ہے وہ ہر دو حدیثوں میں سرے سے مذکور نہیں ہے البتہ اصل حدیث میں ’’المشقر‘‘ اور ’’عین الزارۃ‘‘ کے نام ضرور ملتے ہیں۔
اب مسند احمد کی ان دو حدیثوں کا مرتبہ و مقام بھی ملاحظہ فرما لیں۔ اول الذکر حدیث کے طریق میں ایک راوی ’’عوف بن ابی جمیلہ ابو سہل الاعرابی العبدی البصری‘‘ ہے جس کو بعض محدثین نے ’’ثقہ‘‘ ضرور بتایا ہے لیکن ائمہ جرح و تعدیل کا ساتھ ہی یہ قول بھی ہے کہ:
’’وہ قدری اور تشیع کرنے والا تھا۔‘‘
بندارؒ نے اس راوی کے متعلق تو یہاں تک فرمایا ہے:
’’واللہ لقد کان عوف قدریًا رافضیًا شیطانا‘‘
تفصیلی ترجمہ کے ساتھ تقریب التہذیب لابن حجر عسقلانیؒ، سوالات محمد بن عثمانؒ، تاریخ یحیٰی بن معینؒ، علل لابن حنبلؒ، تاریخ الکبیر للبخاریؒ، تاریخ الصغیر للبخاریؒ، سوالات حاکمؒ، جرح و والتعدیل لابن ابی حاتمؒ، میزان الاعتدال فی نقد الرجال للذہبیؒ، ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ، مقدمہ صحیح مسلمؒ اور مشاہیر علماء المصار (۱۰) وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔
زیر مطالعہ سند میں ضعف کی ایک دوسری علت ’’مجہول‘‘ راوی کی موجودگی ہے جس کی طرف ان الفاظ میں اشارہ ملتا ہے:
حدثنی احد الوفد الذین وفدوا علٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من عبد القیس۔
’’مجروح‘‘ اور ’’مجہول‘‘ رواۃ کی موجودگی کے باوجود اگر کوئی شخص اس حدیث کو ’’ضعیف‘‘ نہ کہہ کر ’’صحیح یا ثابت‘‘ اور ’’یقنی اور حتمی‘‘ سمجھتا ہو اسے ہم اس شخص کی کم عقلی یا حدیث شناسی کے مزاج سے نا آشنا ہی کہیں گے۔ 
مسند احمد کی اول الذکر روایت کی طرح اس کی آخر الذکر حدیث بھی محل نظر ہے۔ اس طریق کے ایک راوی ’’یحیٰی بن عبد الرحمٰن العصری البصری‘‘ کے متعلق امام ذہبی فرماتے ہیں:
لا یعرف لہ عن شہاب بن عباد (۱۱)
اور علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں:
’’لم اعرفہ‘‘ (۱۲)
محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظ اللہ اس راوی کے متعلق ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
’’عصری کے علاوہ اس طریق کے باقی رجال ثقات ہیں۔‘‘ (۱۳)
پھر اس طریق میں بھی ’’جہالت‘‘ موجود ہے جو ان الفاظ میں مذکور ہے:
انہ سمع بعض وفد عبد القیس وھو یقول ۔۔۔
پس ثابت ہوا کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے مسند احمد کی جن روایات کو دلیل بلکہ ان کے اپنے الفاظ میں ’’قطعی ثبوت‘‘ (۱۴) کے طور پر پیش کیا تھا وہ پایۂ اعتبار سے ساقط ہیں۔
اب محترم ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا اگلا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ فرماتے ہیں:
’’مشرقی عرب میں آپ کیوں گئے تھے، اس کا ایک دوسری روایت سے ہمیں پتہ چلے گا جو حدیث کی کتابوں میں نہیں بلکہ تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ ابن حبیب ایک بڑا مشہور مؤرخ گزرا ہے جس کی وفات ۲۴۵ ہجری میں ہوئی۔ اس کی کتاب ’’المحبر‘‘ میں ’’عرب کے میلے‘‘ کے نام کا ایک باب موجود ہے۔ ان میلوں کے سلسلے میں جو ہر سال لگا کرتے تھے وہ بیان کرتا ہے کہ عرب کے مشرق میں ’’دباء‘‘ نامی ایک مقام ہے (جو متحدہ عرب امارات میں حدیرہ نامی بندرگاہ کے شمال میں اب بھی موجود ہے) ۔۔۔ دباء میں سالانہ میلہ فلاں تاریخ کو ہوتا تھا۔ اس میں فلاں فلاں قسم کا سامان فروخت کے لیے آتا تھا۔ اس میں شرکت کرنے والے لوگ ہندی، سندھی، چینی، رومی، ایرانی، مشرق والے اور مغرب والے ہوتے تھے۔ یہ الفاظ ہیں جو ترجمہ کر کے میں نے آپ کو سنائے ہیں اور اس میں سندھ کا ذکر صراحت کے ساتھ آتا ہے ۔۔۔۔ اس واسطے سے گمان کیا جا سکتا ہے کہ غالبًا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ کا مال تجارت لے کر اس بڑے میلے میں شرکت کے لیے تشریف لائے ہوں گے اور وہاں چینیوں سے اور دیگر لوگوں سے بھی ملے ہوں گے۔ وہ مشہور حدیث کہ ’’علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے چاہے چین ہی جانا پڑے‘‘ ۔۔۔۔ غالبًا اس کی وجہ یہی ہو گی کہ رسولؐ اللہ نے دباء کے بازار میں چینی تاجروں کے پاس ان کا پیش کردہ سامان دیکھا ہو گا جن میں چینی ریشم اور دیگر سامان جو وہ لائے تھے آپؐ نے دیکھا ہو گا اور آپؐ متاثر ہوئے ہوں گے کہ اتنی اچھی صنعت ان کے ملک میں ہوتی ہے۔ چنانچہ آپؐ نے فرمایا ہو گا کہ ’’علم سیکھو چاہے چین جیسے دور دراز کے ملک ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ غالبًا حضورؐ نے ان سے پوچھا ہو گا کہ تم کتنی دور سے آئے ہو؟ چینیوں نے کہا ہو گا کہ ہم دو ماہ کی مسافت سے چل کر آئے ہیں ۔۔۔‘‘۔ اس واقعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع ملا تھا کہ سندھیوں کو دیکھیں۔ ممکن ہے کہ اور آگے جا کر سندھ میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے ہوں۔‘‘ (۱۵)
پہلے ڈاکٹر صاحب کی مذکورہ بالا تاریخی شہادت کا جائزہ پیش خدمت ہے۔ محمد بن حبیب جو امام ابن قتیبہ الدینوریؒ کے شیوخ میں سے گزرے ہیں، اسواق العرب قبل از اسلام کی بابت اپنی کتاب ’’المحبر‘‘ میں بیان کرتے ہیں:
ثم سوق دباء وھی احدی فرضتی العرب بایھا تجار السند والہند والصین واھل المشرق والمغرب فیقوم سوقھا اٰخر یوم من رجب۔ (۱۶)
’’دباء کے اسی میلہ کا ذکر محترم ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب Introduction to Islam میں ابن الکلبی کے حوالہ سے نقل کیا ہے (۱۷)۔ عین ممکن ہے کہ محمد بن حبیب نے کتاب المحبر میں دباء کے جس بازار کا تذکرہ کیا ہے وہ ابن الکلبی کی تحقیق سے ہی ماخوذ ہو۔ یہ ابن الکلبی کون ہے، یقینی طور پر معلوم نہیں ہو سکا۔ اگر ابن الکلبی سے محترم ڈاکٹر صاحب کی مراد ’’محمد بن سائب بن بشر ابوالنفر الکلبی الکوفی‘‘ ہے تو وہ عند المحدثین ’’کذاب، ساقط، لعین، لشئ، متروک الحدیث، ضعیف، کٹر رافضی اور ناقابل اعتبار‘‘ ہے۔ (تفصیلی ترجمہ کے لیے حاشیہ ۱۸)۔ 
مگر قرائن بتاتے ہیں کہ یہ ’’ابن الکلبی‘‘ محمد بن سائب نہیں بلکہ کوئی دوسرا شخص ہے کیونکہ محترم ڈاکٹر صاحب کی تصریح کے مطابق اس ابن الکلبی کا سنہ وفات ۸۱۹ء ہے اور یہ ایک مؤرخ اور قبل از اسلام عرب کی نوادرات کا ماہر ہے۔
مگر اس تاریخی شہادت سے زیادہ سے زیادہ جو بات پتہ چلتی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان اور سندھ سے تجار بھی اور دوسرے ممالک کے تجار کی طرح دباء کے سالانہ بازار میں اپنا اسبابِ تجارت لے کر آتے تھے۔ اس تاریخی شہادت سے یہ نتیجہ ہرگز اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعتًا دباء نامی مقام تک تشریف لے گئے تھے، یا آپؐ نے دباء کے میلہ میں جو سال میں صرف ایک مرتبہ یعنی ماہ رجب کے آخری دن لگتا تھا ضرور شرکت فرمائی تھی۔ تمام مستند تاریخی کتب صرف اس حد تک بتاتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس سالہ عمر میں نبوت سے قبل حضرت خدیجہؓ کا مالِ تجارت لے کر دوسری بار شام کے سفر پر تشریف لے گئے تو آپؐ کا قافلہ وادی الظہران، وادی القرٰی، مدائن اور ارض ثمود وغیرہ سے گزرتا ہوا بصرہ پہنچا جہاں آپؐ نے شام کے عیسائی پادریوں اور راہبوں کو دیکھا اور ان سے گفتگو فرمائی تھی۔
پس معلوم ہوا کہ فاضل ڈاکٹر صاحب نے اپنے دعوٰی کی تائید میں کوئی ٹھوس اور قابلِ شہادت پیش نہیں کی ہے بلکہ چند مفروضوں، گمان اور قیاس محض پر پوری تقریر کی عمارت کھڑی کی ہے کہ ایسا اور ویسا ہوا ہو گا حالانکہ فی الواقع ایسا اور ویسا کچھ نہیں ہوا ہے۔ قارئینِ کرام! ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے خط کشیدہ جملوں کو دہرائیں۔ یہ جملے خود آپ کو ہمارے دعوٰی کی تائید کرتے نظر آئیں گے۔ یقینًا ڈاکٹر صاحب موصوف کے پاس اپنے دعوٰی کی تائید میں کوئی ٹھوس تاریخی دلیل موجود ہوتی تو اس طرح قیاس آرائی اور جدل کی راہ اختیار نہ فرماتے۔ 
جہاں تک مشہور حدیث ’’اطلبوا العلم ولو بالصین فان طلب العلم فریضۃ علیٰ کل مسلم‘‘ کا تعلق ہے تو واضح رہے کہ یہ روایت بھی صحیح و سقیم احادیث پرکھنے کی کسوٹی پر کھری ثابت نہیں ہوتی بلکہ محدثین عظام میں سے امام بیہقیؒ کے نزدیک مشہور لیکن ضعیف الاسناد، حافظ ابن الصلاحؒ اور امام حاکمؒ کے نزدیک مشہور لیکن غیر صحیح، ابو علی نیشا پوریؒ کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت نہیں، امام احمد بن حنبلؒ اور ابن راہویہؒ کے نزدیک اس باب کی ہر روایت غیر ثابت ہے، امام ابن الجوزیؒ کے نزدیک یہ سب روایات غیر ثابت، واہیات بلکہ کچھ تو موضوع بھی ہیں۔ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی حفظہ اللہ نے اس کو ’’باطل‘‘ قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے راقم کا تحقیقی مقالہ طبع در ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور ملاحظہ فرمائیں (۱۹)۔
اب ڈاکٹر صاحب کو اختیار ہے کہ محض اپنے ذہن کی پیداوار اور گمان کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دباء کے میلے میں شریک کروائیں، وہاں چینیوں اور سندھیوں وغیرہ سے آپؐ کی ملاقات کروائیں، پھر اس بازار میں چینی تاجروں کے پاس ان کا سامان بالخصوص چینی ریشم وغیرہ آپؐ کو دکھائیں اور ان اسبابِ تجارت سے آپؐ کو متاثر بتاتے ہوئے یہ سوال کروائیں کہ تم کتنی دور سے آئے ہو؟ پھر خود ہی ان چینیوں کی طرف سے اس استفسار کا جواب بھی دلوائیں کہ دو ماہ کی مسافت سے چل کر آئے ہیں، پھر ان چینیوں کی صنعت یا ان کے وطن کی مسافت سے آپؐ کے متاثر ہونے کو اس مشہور حدیث کا سبب بیان کریں اور پھر بلادلیل ازخود الفاظ کے اس تانے بانے سے اس بات کا امکان بھی پیدا کر لیں کہ ’’آگے جا کر سندھ میں تجارت کے لیے تشریف لے گئے ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا صد ہزار شکر ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف سندھ تک ہی پہنچانے کے امکان پر اکتفا کر لیا ورنہ اگر وہ مذکورہ بالا مشہور حدیث کے پیشِ نظر یہ گمان کر لیتے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم چینیوں کے اسبابِ تجارت سے متاثر ہو کر ان کے ساتھ ان کے وطن تک تشریف لے گئے ہوں گے اور پھر اسی مسافت کی طوالت کو مدّنظر رکھتے ہوئے آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ارشاد فرمائی ہو گی، تو کیا ہم ان کا قلم تھام لیتے یا زبان پکڑ لیتے؟
اب ڈاکٹر صاحب کی تقریر کا اگلا اقتباس ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں:
’’اسی تذکرہ میں ابھی آپؐ نے سنا کہ ہند کا بھی ذکر ہے یعنی ہندوستان کا بھی جس کا بعد میں ایک اور حدیث میں ہمیں ثبوت ملتا ہے۔ ایک دن بعض لوگ اسلام قبول کرنے کے لیے دور سے مدینہ آئے۔ سیدناؐ نے پوچھا ۔۔۔۔ ’’یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانیوں کے سے نظر آتے ہیں ۔۔۔‘‘ بعینہٖ یہی الفاظ ہیں جو حدیث میں موجود ہیں اور یہ وہی شخص کہہ سکتا ہے جس نے ہندوستانیوں کو اور ہندوستانیوں کے لباس کو دیکھا ہو۔ یہ لوگ یمن کے ایک قبیلہ کے لوگ تھے جو مسلمان ہونے کے لیے آئے تھے۔‘‘ (۲۰)
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تقریر کے اس حصہ میں جس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اسے مشہور مؤرخین میں سے ابن ہشام، طبری، ابن سعد، ابن اثیر، اور ابن کثیر رحمہم اللہ نے اپنی ۔۔۔۔ میں بیان کیا ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ ۱۰ھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو یمن بھیجا، انہوں نے اطلاع بھیجی کہ قبیلہ بنو حارث بن کعب مسلمان ہو گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالدؓ بن ولید کو خط لکھا کہ اب مدینہ واپس آجاؤ اور نومسلم قبیلے کے چند لوگوں کو بھی ساتھ لے آؤ۔ جب وہ آئے تو ان کے ساتھ قبیلہ بنی حارث بن کعب کے نو مسلموں میں قیس بن الحصین ذوالعضہ ؓ، یزید بن عبد المدانؓ، یزید بن المحجلؓ، عبد اللہ بن قراد الزیادیؓ، شداد بن عبید اللہ القضانیؒ اور عمرو بن عبد اللہ النصیابیٌ وغیرہ شامل تھے۔ انہیں دور سے دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:
من ھٰؤلآء الذین کانھم رجال الھند؟
’’یہ کون لوگ ہیں جو اہلِ ہند کے سے معلوم ہوتے ہیں؟‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ مبارک کو علی تقدیر صحت’’دباء‘‘ کے میلہ یا سندھ یا ہندوستان تک آپؐ کی تشریف آوری کے زیر اثر کہنے کی بجائے ارضِ شام کے ہر دو تجارتی سفروں کے تجربات و مشاہدات کے زیرِ اثر کہنا زیادہ محتاط اور معقول بات ہے کیونکہ ان مقامات تک آپؐ کا سفر موقوف نہیں ہے، البتہ سراندیپ (سری لنکا)، سندھ، ہندوستان، ایران، روم، برِاعظم افریقہ کے جنوب مشرقی سواحل، یمن، بحر عرب اور خلیج فارس کے مختلف جزائر کے باشندوں کی بصری یا دوسری نواحی تجارتی منڈیوں میں آمد و رفت کتبِ تاریخ میں بکثرت مذکور و ثابت ہے۔
پھر اس وفد کے لوگوں کو دیکھ کر ہندوستانی باشندوں کے مشابہ بیان کرنا بھی قطعی طور پر معلوم اور ثابت نہیں ہے۔ وفد بنی الحارث کے اس واقعہ کو ابن ہشامؒ نے ’’سیرۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (۲۱) میں اور ابن کثیرؒ نے ’’بدایۃ والنہایۃ‘‘ (۲۲) میں ابن اسحاقؒ سے بلاسند نقل کیا ہے۔ طبریؒ نے بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد اپنی ’’تاریخ‘‘ میں نقل کیا ہے، مگر ابن اثیرؒ کی ’’کامل فی التاریخ‘‘ (۲۳) میں اس قول کا سرے سے کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جہاں تک ’’طبقات الکبرٰی‘‘ میں اس جملہ کے مذکور ہونے کا تعلق ہے تو مؤلف رحمہ اللہ نے اس واقعہ کو بیان کرتے وقت سندِ روایت کا التزام کیا ہے جو اس طرح ہے:
قال اخبرنا محمد بن عمر قال حدثنی ابراھیم بن موسٰی المخزومی عن عبد اللہ بن عکرمۃ بن عبد الرحمٰن بن الحارث عن ابیہ قال فذکرہ۔ (۲۴)
مگر اسے بھی محض اتفاق ہی کہیئے کہ ابن سعدؒ کا مذکورہ طریق بھی ہالک ہے اس میں ’’محمد بن عمر‘‘ دراصل مشہور مؤرخ ’’محمد بن عمر بن واقد الاسلمی الواقدی المدنی القاضی نزیل بغداد‘‘ ہے جس کے کذاب، متروک، غیر ثقہ اور وضّاع وغیرہ ہونے پر علمائے جرح والتعدیل کا اتفاق ہے۔ واقدی کے تفصیلی ترجمہ کے لیے ملاحظہ فرمائیں (۲۵)۔
پس واقدی کی اس روایت کے ساتھ محترم ڈاکٹر صاحب کی آخری دلیل کا سہارا بی باطل اور ناقابلِ اعتبار ثابت ہوا۔ اب معزز قارئین کو اختیار ہے کہ محترم ڈاکٹر صاحب کے محض ظن و تخمین، ذاتی قیاس آرائی، بے بنیاد مفروضوں، مشکوک اور مشتبہ شواہد کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سندھ و ہندوستان تک تشریف آوری کو حکم صحت صادر فرماتے ہوئے ایک روشن حقیقت تسلیم کر لیں یا پھر تاوقتیکہ اس کا کوئی ٹھوس، صحیح اور قابلِ اعتبار ثبوت سامنے نہ آئے، ہماری اس تحقیق سے اتفاق کرتے ہوئے ان سب امکانات کو قطعًا باطل اور حقیقت سے بعید ہی تصور فرمائیں۔ وما علینا الا البلاغ۔

حواشی

  1. ماہنامہ میثاق لاہور ج ۳۸ عدد شمارہ ۹ ص ۴۵۔۴۸
  2. استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ مصنفہ ڈاکٹر اصرار احمد ص ۳۳
  3. ماہنامہ میثاق ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۷
  4. مسند احمدؒ ج ۴ ص ۲۰۶ طبع المکتب الاسلامی بیروت
  5. مسند احمد ج ۴ ص ۲۰۶ طبع المکتب الاسلامی بیروت
  6. مسند احمد ج ۴ ص ۲۰۶ طبع المکتب الاسلامی بیروت
  7. ایضًا
  8. ایضًا
  9. ایضًا
  10. تقریب التہذیب لابن حجرؒ ج ۲ ص ۸۹۔ سوالات محمد بن عثمانؒ ص ۶۹۔ تاریخ یحیٰی بن معینؒ ج ۴ ص ۱۴۰۔ علل لابن حنبلؒ ج ۱ ص ۱۳۴۔ تاریخ الکبیر للبخاریؒ ج ۴ /۱ ص ۵۸۔ تاریخ الصغیر للبخاری ج ۲ ص ۸۵۔ سوالات حاکمؒ ترجمہ ۴۴۴۔ جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج ۳ /۲ ص ۱۵۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۳ ص ۳۰۵۔ ضعفاء الکبیر العقیلیؒ ج ۳ ص ۴۲۹۔ مقدمہ صحیح مسلمؒ ص ۶۔ مشاہیر علماء المصار ترجمہ ۱۵۱۔
  11. میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۴ ص ۳۹۳
  12. مجمع الزوائد و منبع الفوائد للہیثمیؒ ج ۹ ص ۲۶۸
  13. سلسلۃ الاحدیث الصحیح للالبانی ج ۴ ص ۴۶۱
  14. ماہنامہ میثاق ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۶ سطر ۱۷
  15. ماہنامہ میثاق ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۶
  16. المحبر لابن حبیب ص ۲۶۵ و ۲۶۶ طبع حیدر آباد
  17. ضعفاء والمتروکین لابن الجوزیؒ ج ۳ ص ۶۲۔ تحقیق الغایہ للزاہدی ص ۳۳۲۔ نصب الرایہ للزیلعیؒ ج ۳ ص ۲۸۰، ۴۳۰، ۳۰۸، ۳۹۴، ۴۱۷۔ سنن الکبرٰی للبیہقیؒ ج ۶ ص ۲۶۱، ج ۱۰ ص ۲۹۰۔ سنن للدارقطنیؒ ج ۳ ص ۱۳۰، ۲۳۰، ۲۶۲۔ موضوعات لابن الجوزیؒ ج ۱ ص ۴۷، ۳۷۳، ج ۳ ص ۲۳۰۔ تاریخ یحیٰی بن معینؒ ج ۳ ص ۲۸۰، ۴۰۹، ۵۴۳۔ علل لابن حنبلؒ ج ۱ ص ۱۹۸۔ تاریخ الکبیر للبخاریؒ ج ۱ ص ۷۶۔ جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج ۳ ص ۲۷۰۔ مجروحین لابن حبانؒ ج ۲ ص ۲۵۳۔ کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ ج ۶ ترجمہ ۲۱۲۷۔ ضعفاء والمتروکین للدارقطنیؒ ترجمہ ۴۶۷۔ ضعفاء والمتروکین للنسائیؒ ترجمہ ۵۱۴۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۳ ص ۵۵۹۔ تہذیب التہذیب لابن حجرؒ ج ۹ ص ۱۸۰۔ تقریب التہذیب لابن حجرؒ ج ۲ ص ۱۶۳
  18. Introduction to Islam  (p 256)      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  19. ماہنامہ محدث لاہور ج ۱۸ عدد شمارہ ۔۔۔ بمطابق شوال تا ذوالحجہ ۱۴۰۸ھ
  20. ماہنامہ میثاق لاہور ج ۳۸ عدد ۹ ص ۴۸
  21. سیرۃ الرسول لابن ہشامؒ ج ۴ ص ۵۹۴ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت
  22. بدایۃ والنہایۃ لابن کثیرؒ ج ۵ ص ۹۸ طبع دارالکفر بیروت
  23. کامل فی التاریخ لابن اثیرؒ ج ۲ ص ۱۹۹ و ۲۰۰ طبع دار الکتاب العربی بیروت ۱۹۸۳ء
  24. طبقات الکبرٰی لابن سعدؒ ج ۱ ص ۳۴۰ و ۳۴۱ طبع دار صادر بیروت
  25. تاریخ یحیٰی بن معینؒ ج ۳ ص ۱۶۰۔ ضعفاء الکبیر للعقیلیؒ ج ۴ ص ۱۰۷۔ جرح والتعدیل لابن ابی حاتمؒ ج ۴ ص ۲۰۔ مجروحین لابن حبانؒ ج ۲۹۰۔ کامل فی الضعفاء لابن عدیؒ ج ۶ ترجمہ ۲۲۴۵۔ ضعفاء والمتروکون للنسائیؒ ترجمہ ۵۳۱۔ ضعفاء والمتروکون للدارقطنیؒ ترجمہ ۴۷۷۔ ضعفاء الصغیر للبخاریؒ ترجمہ ۳۳۴۔ میزان الاعتدال للذہبیؒ ج ۳ ص ۶۶۲۔ تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانیؒ ج ۹ ص ۳۶۸۔ 


موت کا منظر

حکیم سید محمود علی فتحپوری

یہ سرائے دہر مسافرو! بخدا کسی کا مکاں نہیں
جو مقیم اس میں تھے کل یہاں کہیں آج ان کا نشاں نہیں
یہ رواں عدم کوئے کارواں، بشر آگے پیچھے ہیں سب رواں
چلے جاتے سب ہیں کشاں کشاں، کوئی قید پیر و جواں نہیں
نہ رہا سکندرِ ذی حشم، نہ رہے وہ دارا اور نہ جسم
جو بنا گیا تھا یہاں اِرم (۱)، تہِ خاک اس کا نشاں نہیں
نہ سخی رہے نہ غنی رہے نہ ولی رہے نہ نبیؐ
یہ اجل کا خواب وہ خواب ہے کوئی ایسا خوبِ گراںنہیں
یہ موت ایک عجیب سر، کہ صفائے عقل ہے داں کدر
وہ ہے تیرے وقت کی منتظر، تجھے اس کا وہم و گماں نہیں
وہ جھپٹ کے تجھ پہ جب آئے گی تو بنائے کچھ نہ بن آئے گی
یہ عزیز جاں یوں ہی جائے گی کہ قضا سا پیکِ رواں نہیں
مگر اک حیاتِ حیات ہے، وہی جس میں سب کی نجات ہے
یہی بات سننے کی بات ہے، ایسی بات کا تو دھیاں نہیں
جو نبیؐ کے عشق کا غار ہے، وہ گلوں کا تاجِ وقار ہے
یہی ایک ایسی بہار ہے کبھی جس میں دورِ خزاں نہیں

(۱) شدّاد نے اس دنیا میں جنت بنائی تھی اس کی طرف اشارہ ہے۔ 

عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت

مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی

(دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ ’’دارالعلوم‘‘ نے نومبر ۱۹۸۹ء کے شمارہ میں ’’عورت کی سربراہی اسلام کی نظر میں‘‘ کے عنوان سے مفتیٔ دارالعلوم دیوبند کا یہ مقالہ شائع کیا ہے۔ مقالہ کی اہمیت کے پیشِ نظر ماہنامہ دارالعلوم کے شکریہ کے ساتھ اسے نقل کیا جا رہا ہے۔ اسی عنوان پر مدیر ’’الشریعہ‘‘ کا مقالہ آئندہ شمارہ میں ملاحظہ فرمائیں — ادارہ)

عورت کی سربراہی کا مسئلہ پاکستان میں آج کل موضوع سخن بنا ہوا ہے۔ ہندوستان میں بھی کچھ لوگ دلچسپی لے رہے ہیں اور اس بارے میں اخبارات میں بعض مفصل تحریریں نظر سے گزریں۔ علاوہ ازیں ایک فتوٰی بھی دیکھنے میں آیا جس میں اسلامی مملکت کے اندر عورت کی سربراہی کو قرآن و حدیث سے اور فقہی روایات سے مطلقًا جائز قرار دیا گیا ہے اور اس فتوے کو دارالعلوم دیوبند کی طرف منسوب کر کے مفتی اعظم دارالعلوم دیوبند کے نام سے شایع کیا گیا ہے حالانکہ دارالعلوم دیوبند سے جواز کا کوئی فتوٰی نہیں دیا گیا اور نہ اس فتوٰی نویس کا دارالعلوم سے کوئی تعلق ہے۔ اس فتوٰی اور اس کے غلط انتساب کی وجہ سے پاکستان میں خصوصًا اور ہندوستان میں عمومًا بڑا خلجان و اضطراب پایا جا رہا ہے اس لیے بعض بزرگوں کی درخواست پر اس کا تفصیلی جواب تحریر کیا جا رہا ہے۔ 

جنسی اعتبار سے عورت کی حیثیت

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے:
وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ (احزاب)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
الرجال قوامون علی النسآء بما فضل اللہ بعضھم علیٰ بعض (نساء)
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو اپنے گھروں میں رہنے کا حکم دیا ہے اور بلاضرورتِ شرعی باہر نکلنے سے انہیں منع فرمایا ہے۔ انہیں باہر کی جدوجہد سے یکسو ہو کر اپنے گھروں کی اصلاح و تربیت کا فریضہ انجام دینا چاہیئے نیز بہت سے اسباب و وجوہ کی بنیاد پر اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر حکمرانی اور بالادستی عطا فرمائی ہے۔ 
عورت ذات کو اللہ تعالیٰ نے ناقص العقل اور ناقص الدین بنایا، انہیں امامتِ صغرٰی، امامت کبرٰی، اذان، خطبہ، اقامتِ جمعہ، اقامتِ عیدین سے محروم رکھا، حدود و قصاص میں ان کی شہادت غیر معتبر قرار دی گئی، مردوں کے مقابلہ میں تنہا عورت کی گواہی آدھی قرار دی گئی، انہیں جنازہ میں جانے اور بغیر محرم کے سفر کرنے سے منع کیا گیا، جہاد جیسا اہم ترین رکن ان کے ذمہ واجب نہیں کیا گیا، وہ مردوں کی امامت نہیں کر سکتی ہیں۔ 
علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے عقل، علم، فہم، تدبر، حسن تدبیر ،قوت نظریہ، قوت عملیہ، قوت جسمانیہ، شجاعت، قوت، محنت، صبر و تحمل کے لحاظ سے مردوں کو عورتوں پر فضیلت دی ہے، پھر مرد لوگ عورتوں پر بڑا مال خرچ کرے ہیں، ان کا مہر دیتے ہیں، انہیں رہنے کے لیے مکان، نان نفقہ دیتے ہیں، اس لحاظ سے وہ عورتوں کے محسن ہیں اور محسِن ہی کو اپنے محسَن پر حکمرانی کا حق ہوتا ہے، محسَن اپنے محسِن پر حکمرانی کا حق نہیں رکھتا ہے۔ 

عورت کی حکمرانی و سربراہی

ان ہی اسباب و وجوہ کی بنا پر کسی اسلامی مملکت میں عورت کی حکمرانی و سربراہی موجب عدم فلاح اور علماء، محدثین و فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے۔ عورت کو حکمران بنانے والے سب ہی گنہگار ہوں گے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ۔
بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں:
لن یفلح قوم اسند وامرھم الی امرأۃ۔
اور بعض روایت میں ہے:
لن یفلح قوم تملکھم امرأۃ۔
اور ایک روایت میں ہے:
مخرج قوم الا یفلحون قائدھم امرأۃ فی الجنۃ۔ (اعلاء السنن ص ۳۱ ج ۵)
ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ عورت کو اپنا حکمران بنائیں گے اور اپنے ملک کی سربراہی کسی عورت ذات کے سپرد کر دیں گے وہ لوگ فلاح سے محروم رہیں گے۔ اسلامی تاریخ کے ہر دور میں امتِ مسلمہ کا اس بات پر اتفاق رہا ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کو نہیں سونپی جا سکتی۔ اس کے لیے جہاں اور شرائط ذکر کیے گئے ہیں ان میں ایک مذکر ہونا بھی شرط قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ قاضی ابوبکر ابن العربیؒ حدیث بخاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وھذا نص فی ان الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (احکام القرآن ص ۱۴۴۵ ج ۳)
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
ابن العربی کا یہ اقتباس علامہ قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ علماء کے درمیان اس میں اختلاف نہیں ہے۔
قال القاضی ابوبکر بن العربی ھذا نص من ان المراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (تفسیر القرآن للقرطبی ص ۱۸۳ ج ۱۳)
علامہ بغویؒ جو مشہور مفسر و محدث گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں:
اتفقوا علی ان المراۃ لا تصلح ان تکون امامًا لان الامام یحتاج الی الخروج لاقامۃ امر الجہاد والقیام بأمر المسلمین ۔۔۔ والمرأۃ عورۃ لا تصلح المبروز (شرح السنۃ للبغوی ص ۷۷ ج ۱۰ ۔ باب کراھیۃ تولیۃ النساء)
’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت حکومت کی سربراہ نہیں بن سکتی کیونکہ امام کو جہاد کے معاملات انجام دینے اور مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے اور عورت پوشیدہ (پردہ میں) رہنی چاہیئے، مجمع عام میں اس کا جانا جائز نہیں۔‘‘
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’حکمرانی کی چوتھی شرط مذکر ہونا ہے لہٰذا کسی عورت کی امامت منعقد نہیں ہو گی اگرچہ وہ تمام اوصاف کمال سے متصف ہو اور اس میں استقلال کی صفات پائی جاتی ہوں۔‘‘
علامہ ماوردیؒ جو اسلامی سیاست کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں اور ان کی مشہور کتاب ’’الاحکام السلطانیہ‘‘ اسلامی سیاست کا اہم ترین ماخذ سمجھی جاتی ہے اس میں انہوں نے عورت کی سربراہی تو کجا عورت کو وزارت کی ذمہ داری سونپنا بھی ناجائز قرار دیا ہے۔ انہوں نے وزارت تفویض اور وزارت تنفیذ ہر طرح کی ذمہ داری عورت پر ڈالنا ناجائز قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
فصل و اما وزارۃ التنفیذ فحکمھا اضعف و شروطھا اقل ۔۔ الخ۔ ولا یجوز ان تقوم بذلک امراۃ وان کان خبرھا مقبولا لما تضمنہ معنی الولایات المعروفۃ عن النساء لقول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ’’ما افلح قوم اسندوا امرھم الی امراۃ ‘‘ ولان فیھا من طلب الرأی و ثبات العزم ما تضعف عن النساء و من الظھور عن مباشرۃ الامورھا ھو علیھن محظور۔ (ص ۲۷ و ۲۸)
’’جہاں تک وزارتِ تنفیذ کا تعلق ہے وہ نسبتًا کمزور ہے اور اس کے شرائط بھی کم ہیں لیکن یہ جائز نہیں کہ کوئی عورت اس کی ذمہ دار بنے، اگرچہ عورت کی خبر مقبول ہے، کیونکہ یہ وزارت ایسی ولایتوں پر مشتمل ہے جن کو شریعت نے عورتوں سے الگ رکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ‘‘ یعنی جو قوم اپنے معاملات کسی عورت کے سپرد کرے وہ فلاح نہ پائے گی۔ علاوہ ازیں اس وزارت کے لیے جو اصابت اور اولوالعزمی درکار ہے وہ صنفِ نازک میں بہت ضعیف درجہ کی ہوتی ہے۔ نیز اس وزارت کے فرائض انجام دینے کے لیے ایسے انداز سے لوگوں کے سامنے ظاہر ہونا پڑتا ہے جو عورتوں کے لیے شرعًا ممنوع ہے۔‘‘
بہرحال عورت کے لیے کسی مملکت کی سربراہی کے عدم جواز کا مسئلہ متفق علیہ اور اجماعی مسئلہ ہے۔ علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی مسائل پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)
’’تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کے لیے جائز نہیں۔‘‘
شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے علامہ ابن حزمؒ کی مذکورہ کتاب پر تنقید لکھی ہے یعنی جن مسائل کو علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی قرار دیا ہے ان میں سے بعض بعض مسائل پر ابن تیمیہؒ نے اختلاف کیا ہے لیکن عورت کی سربراہی کے مسئلہ میں انہوں نے علامہ ابن حزمؒ پر کوئی اعتراض نہیں کیا ہے۔ (نقد مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)

امام ابوحنیفہؒ و ابن جریر طبریؒ کا موقف

کتب احناف مثلاً درمختار، فتح القدیر وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک جن امور میں عورتوں کی شہادت جائز ہے ان امور میں عورت کو قاضی بنانا بھی جائز ہے کیونکہ عورت شہادت کی اہل ہے اور جب شہادت کی اہلیت رکھتی ہے تو اس کو قضا کا عہدہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر کسی جگہ لوگوں نے عورت کو قاضی بنا دیا یا وہ خود اپنی طاقت کے زور سے قاضی بن بیٹھی اور کسی معاملہ میں حدود و شرح کی رعایت کرتے ہوئے فیصلہ کیا تو وہ فیصلہ قابلِ تسلیم ہو گا، البتہ اس کا فیصلہ حدود و قیاس میں معتبر نہ ہو گا۔ مگر اس کے بعد متصلًا یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ عورت کو قاضی بنانا مکروہ ہے یعنی یہ فعل بہرحال گناہ کا ہے۔ درمختار میں ہے:
والمرأۃ تقضی فی غیر حد و قود وان اثم المولی لھا لخبر البخاری لن یفلح قوم ۔۔۔ الخ۔
’’یعنی عورت کو قاضی بنانا فعل حرام کے قریب قریب ہے اور ممنوع ہے۔‘‘
اسی طرح مشہور مفسر حافظ ابن جریر طبری کی طرف یہ بات منسوب کی جاتی ہے کہ وہ عورت کے قاضی بنانے کے جواز کے قائل ہیں اور جب عورت کو قاضی بنایا جا سکتا ہے تو اسے کسی مملکت کی سربراہی بھی سونپی جا سکتی ہے۔ ان کی تصانیف میں تتبع و تلاش کے باوجود ہمیں ان کی یہ رائے نہیں مل سکی، جب تک ان کی کسی کتاب کا اقتباس ہمارے سامنے نہ ہو ان کے موقف کے بارے میں کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ بالفرض ہم تسلیم بھی کر لیں کہ وہ امام ابوحنیفہؒ کی طرح عورت کو قاضی بنانے کے جواز کے قائل ہیں تو اس بات کو مطلقًا عورت کی سربراہی کے جواز کے عنوان سے نقل کرنا بھی درست نہ ہو گا۔ 
عورت کو قصاص، حدود، تعزیرات اور نکاح کے معاملات کے سوا دوسرے امور میں قاضی بنائے جانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں اگر عورت کو ثالث بنایا جائے یا جزوی طور پر کوئی مقدمہ اس کے سپرد کیا جائے اور وہ شریعت کے اصول و ضابطے کے مطابق صحیح فیصلہ کرے تو وہ فیصلہ صحیح اور معتبر ہو گا۔ چنانچہ ہمارے اس خیال کی تائید قاضی ابوبکر ابن العربیؒ کی تحریر سے ہوتی ہے، وہ بخاری شریف کی حدیث ’’لن یفلح قوم۔۔الخ‘‘ نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ امام محمد بن جریر طبریؒ سے منقول ہے کہ ان کے نزدیک عورت کا قاضی ہونا جائز ہے لیکن ان کی طرف اس مسلک کی نسبت صحیح نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مذہب ایسا ہی ہو گا جیسا کہ امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ عورت ان معاملات میں فیصلہ کر سکتی ہے جس میں وہ شہادت دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عورت علی الاطلاق قاضی بن جائے اور یہ کہا جائے کہ فلاں عورت کو قصاص اور نکاح کے معاملات کے علاوہ قاضی بنایا جا رہا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو کسی مسئلہ میں ثالث بنا لیا جائے یا کوئی ایک مقدمہ جزوی طور پر اس کے سپرد کر دیا جائے۔ وانما ذٰلک کسبیل التحکیم او الاستنابۃ فی القضیۃ الواحدہ۔‘‘ (احکام القرآن لابن العربی ص ۱۴۴۵ ج ۳)
بہرحال ان دونوں بزرگوں سے عورت کے لیے مقدمات کا فیصلہ کرنے کا جو جواز منقول ہے وہ باقاعدہ قاضی بنانے سے متعلق نہیں بلکہ جزوی حیثیت سے ثالث کے طور پر کوئی انفرادی قضیہ نمٹانے سے متعلق ہے۔ پس فقہاء کا تھوڑا سا اختلاف عورت کے قاضی بننے نہ بننے کے بارے میں ضرور ہے لیکن حکومت کا سربراہ بننے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ چنانچہ امام الحرمین علامہ جوینیؒ فرماتے ہیں:
’’سربراہی کے لیے مذکر ہونے کی شرط میں کوئی شک نہیں ہے، جن علماء نے ایسے امور میں عورت کے قاضی بننے کو جائز کہا ہے جن میں عورت گواہ بن سکتی ہے، وہ بھی سربراہی کے لیے عورت کی تقرری ناممکن قرار دیتے ہیں کیونکہ قضا کے بارے میں گو یہ ممکن ہے کہ اس کے حدود و اختیارات کو معاملات کے ساتھ خاص کر دیا جائے مگر حکومت کی سربراہی کو شریعت کے نظام کے مطابق کچھ محدود معاملات کے ساتھ خاص کرنا ممکن نہیں۔‘‘

حضرت تھانویؒ کے فتوٰی کی حیثیت

عورت کی سربراہی کے جواز میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کا ایک فتوٰی پیش کیا جاتا ہے جو امداد الفتاوٰی میں مذکور ہے۔ حضرت نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ جمہوری حکومت میں سربراہ ایک رکن مشورہ کی حیثیت رکھتا ہے، اسے اختیار کلّی سلطانِ وقت کی طرح نہیں ہوتا ہے۔ ہم ذیل میں بعینہٖ وہ فتوٰی بمعہ سوال کے درج کرتے ہیں:
’’سوال نمبر ۱۰۳: بخاری میں حدیث ہے ’’لن یفلح قوم ولو أمرھم امرأۃ‘‘۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا والی و حاکم ہونا موجبِ عدمِ فلاح ہے۔ تو کیا جن ریاستوں پر عورتیں حکمران ہیں وہ بھی اس میں داخل ہیں؟
الجواب: حکومت کی تین قسمیں ہیں۔ 
(۱) ایک قسم وہ جو تام بھی ہو عام بھی ہو۔ تام سے مراد یہ کہ حاکم بانفرادہ خودمختار ہو یعنی اس کی حکومت شخصی ہو اور اس کے حکم میں کسی حاکمِ اعلیٰ کی منظوری کی ضرورت نہ ہو، گو اس کا حاکم ہونا اس پر موقوف ہو۔ اور عام یہ کہ اس کی محکوم کوئی محدود و قلیل جماعت نہ ہو۔
(۲) دوسری قسم وہ جو تام تو ہو مگر عام نہ ہو۔
(۳) تیسری قسم وہ جو عام ہو مگر تام نہ ہو۔ 
مثال اول کی، کسی عورت کی سلطنت یا ریاست بطرز مذکور شخصی ہو۔ مثال ثانی کی، کوئی عورت کسی مختصر جماعت کی منتظم بلاشرکت ہو۔ مثال ثالث کی، کسی عورت کی سلطنت جمہوری ہو کہ اس میں والی صوری درحقیقت والی نہیں بلکہ ایک رکن مشورہ ہے اور والی حقیقی مجموعہ مشیروں کا ہے۔
حدیث کے الفاظ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مراد حدیث میں پہلی قسم ہے۔ چنانچہ سبب و رود اس حدیث کا کہ اہلِ فارس نے دخترِ کسرٰی کو بادشاہ بنایا تھا اور لفظ ’’ولّوا‘‘ میں تولیت کے اطلاق سے متبادر اس کا کمال مفہوم ہونا پھر اس کی اسناد قوم کی طرف ہونا، یہ سب اس کا قرینہ ہے کیونکہ یہ طریقہ تولیت کاملہ کا سلطان ہی بنانے کے ساتھ خاص ہے کہ قوم کے اہلِ حل و عقد باہم متفق ہو کر کسی کو سلطان بنا دیتے ہیں، اور سلطان کا کسی کو حکومت دینا یہ بھی بواسطۂ سلطان کے قوم ہی کی طرف مسند ہو گا۔ بخلاف قسمِ ثانی کے کہ وہاں گو تولیت کامل ہوتی ہے مگر وہ مستناد قوم سے حقیقتًا یا حکمًا نہیں ہوتی۔ اور بخلاف ثالث کے کہ وہاں گو اسناد اس کی قوم کی طرف صحیح ہے مگر تولیت کامل نہیں ہے بلکہ وہ مشورۂ محضہ ہے گو اس مشورہ کو دوسرے منفرد مشوروں پر ترجیح ہو لیکن اس میں ولایت کاملہ کی شان نہیں ہے اور نہ تمام ارکان کے مخالف ہونے کی صورت میں بھی اسی کو سب پر ترجیح ہوتی، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ قرینہ تو خود الفاظ حدیث سے ماخوذ ہے۔ 
اب دوسرے دلائلِ شرعیہ میں جو نظر کی جاتی ہے تو اس تفصیل کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت بلقیس کی سلطنت کا قصہ قرآن مجید میں مذکور ہے، اس میں آیت ہے ’’ما کنت قاطعۃ امرًا حتٰی تشھدون‘‘ جس میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلطنت کا طرزِ عمل، خواہ ضابطہ سے، خواہ بلقیس کی عادت مستمرہ سے، سلطنت جمہوری کا سا تھا، اور بعد ان کے ایمان لے آنے کے کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ ان سے انتزاعِ سلطنت کیا گیا ہو۔ پس ظاہر حکایتِ سلطنت اور عدمِ حکامیتِ انتزاع سے اس سلطنت کا بحالہا باقی رہنا ہے اور تاریخ صراحۃً اس کی مؤید ہے۔ اور قاعدہ اصولیہ ہے کہ ’’اذا قض اللہ ورسولہ علینا امرًا من غیر نکیر علیہ فھو حجۃ لنا‘‘۔ پس قرآن سے ظاہرًا ثابت ہو گیا کہ سلطنتِ جمہوری عورت کی ہو سکتی ہے، جو قسم ثالث ہے حکومت کے اقسام ثلٰثہ مذکور میں سے۔ اور راز اس میں یہ ہے کہ حقیقت اس حکومت کی محض مشورہ ہے اور عورت اہل ہے مشورہ کی۔ 
چنانچہ واقعہ حدیبیہ میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہؓ کے مشورہ پر عمل فرمایا اور انجام اس کا محمود ہوا۔ اور اگر سلطنت شخصی بھی ہو مگر ملکہ التزامًا اپنی انفراد رائے سے کام نہ کرتی ہو وہ بھی اس حدیث میں داخل نہیں کیونکہ علّت عدمِ فلاح کی نقصانِ علم ہے، اور جب مشورہ رجال سے اس کا انجبار ہو گیا تو علّت مرتفع ہو گئی تو معلول یعنی عدمِ فلاح بھی منفی ہو گیا، جیسے نقصانِ شہادتِ نساء انظمامِ شہادتِ رجال سے منجبر ہو جاتا ہے۔ سلطنتِ بلقیس میں یہ شق بھی محتمل ہے جس کی طرف ادھر اس عبارت میں اشارہ بھی کیا گیا ہے کہ خواہ بلقیس کی عادت مستمرہ ۔۔۔الخ۔ 
اور حدیث شیخین میں ہے ’’فالامام الذی علی الناس راعٍ الٰی قولہ علیہ السلام والمرأۃ راعیۃ علی بیت زوجھا و ولدہ وھی مسئولۃ عنھم‘‘ لفظ راعیۃ مثل لفظ راعٍ جو اس سے قبل ہے مستعمل ہے معنی حاکمہ میں، اس حدیث سے قسم ثانی کا عورت کے لیے مشروع ہونا ثابت ہوتا ہے۔ حضرات فقہاء نے امامتِ کبرٰی میں ذکورۃ کی شرط صحت اور قضا میں گو شرط صحت نہیں مگر شرط صون عن الاثم فرمایا ہے اور نظارت و وصیت و شہادت میں کسی درجہ میں اس کو شرط نہیں کہا۔ ہکذا فی الدر المختار باب الامامۃ و کتاب القاضی الی القاضی۔ قضاء کے اس حکم مذکور قسم اول و ثانی کے احکام کی تصریح ہے اور قسم ثالث مقیس ہے قسم ثانی پر ’’لاشتراکھما فی کونھما غیر جامعین لوصف التمام والعموم‘‘ جب دلائل بالا سے ثابت ہو گیا کہ حدیث میں مذکور قسم اول ہے تو معلوم ہو گیا کہ ایسی ریاستیں جو آج کل زیرفرمان عورتوں کے ہیں اس حدیث میں داخل نہیں اس لیے کہ اگر اس کے محکومین کو مختصر قرار دیا جائے تب وہ قسم ثانی ہے۔ اور اگر اس جماعت کو مختصر نہ قرار دیا جائے تب بھی وہ درحقیقت جمہوری ہیں، یا تو ظاہرًا بھی جہاں پارلیمنٹ کا وجود شاہد ہے اور یا صرف باطنًا جہاں پارلیمنٹ تو نہیں ہے لیکن اکثر احکام میں کسی حاکم بالا سے جو صاحبِ سلطنت یا نائب سلطنت سے منظوری لینا پڑتی ہے پس اس طور سے وہ قسم ثالث ہیں۔ اور اب یہ بھی شبہ نہ رہا کہ ظاہر یہ رئیسات مثل قاضی کے ہیں اور قاضی عورت کا حکم حدود و قصاص میں نافذ نہیں ہوتا۔ کما صرح بہ الفقہاء۔
تو ایسے احکام کے نفاذ کی ان ریاسات میں کوئی صورت صحت کی نہ ہو گی۔ وجہ رفع شبہ کی ظاہر ہے کہ وہ ریاست اولًا تو جمہوری ہے اور علی السبیل التنزل یوں کہا جائے گا کہ چونکہ قضاۃ تو ذکور ہیں اس لیے وہ احکام نافذ ہو جائیں گے، جیسا کہ فقہاء نے قضاۃ منصوبین من السلطان غیر المسلم کے جمیع احکام کو صحیح و نافذ فرمایا ہے، بالجملہ تحقیق مذکور ثابت ہو گیا  کہ یہ ریاستیں عدم فلاح کے حکم سے بری ہیں۔ واللہ اعلم۔‘‘
اس فتوے کا ماحصل یہ ہے کہ ایسی شخصی حکومت جس میں اقتدارِ اعلیٰ صرف امیر المسلمین یا بادشاہِ وقت کو ہوتا ہے اور اسے کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ایسی حکومت کی سربراہ عورت کو بنانا عدمِ فلاح کا موجب ہے۔ اور جمہوری حکومت جس میں پارلیمنٹ کے مشوروں کے بعد احکام کا نفاذ ہوتا ہے، سربراہ کی حیثیت اس حکومت میں ایک رکن مشورہ کی ہوتی ہے اس لیے وہ والیٔ حقیقی نہیں ہوتا، والیٔ حقیقی تو پارلیمنٹ کے ممبروں کا مجموعہ ہوتا ہے اور رکن مشورہ بننا عورت کے لیے جائز ہے کیونکہ جمہوری حکومت کی حقیقت محض مشورہ ہے اور عورت مشورہ کی اہل ہے۔ البتہ امامتِ کبرٰی یعنی حکومت کی سربراہی میں مرد ہونا شرط ہے اور قاضی بنانے میں صون عن الاثم یعنی گناہ سے بچنا شرط ہے، مرد ہونا شرط نہیں ہے۔ 
کچھ لوگ حضرت تھانویؒ کے اس فتوٰی کو عورت کی سربراہی کے جواز میں پیش کرتے ہیں اور جمہوری حکومت کے سربراہ کو پارلیمانی مشیروں کا تابع سمجھتے ہیں حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے۔ موجودہ جمہوری نظام حکومت کی سربراہی کو حضرت تھانویؒ کے مذکور فتوے پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ حضرت تھانویؒ کا فتوٰی انگریزی دور میں لکھا گیا ہے اور انگریزی دور کی رئیسات کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ آج کی آزاد جمہوری حکومتوں کی صورتِ حال انگریزی دور سے بہت مختلف فیہ ہے۔ جمہوری نظامِ حکومت میں خواہ پارلیمنٹری نظام ہو یا صدارتی، طاقت کا مرکز وزیراعظم اور صدر مملکت دونوں ہی ہوتے ہیں۔ کہیں صدر کا پلہ بھاری ہوتا ہے اور کہیں وزیراعظم کا۔ اس لیے جمہوری حکومتوں کے یہ دونوں عہدے حضرت تھانویؒ کے فتوے کی رو سے قسم اول (یعنی حکومت تام بھی اور عام بھی) میں داخل ہیں۔ لہٰذا حضرت تھانویؒ کا فتوٰی مجوزین کے لیے مفید مقصد نہیں ہو سکتا۔ غرض تاریخِ اسلام میں کبھی کسی فقیہ یا عالم نے عورت کی حکمرانی کے جواز کا فتوٰی نہیں دیا ہے۔ 

عورت کی سربراہی پر استدلال بلقیس کے واقعہ سے

کچھ لوگ عورت کی سربراہی پر جواز کے لیے ملکۂ سبا یعنی بلقیس کی حکمرانی کا واقعہ پیش کرتے ہیں یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط لکھنے پر جب وہ مطیع اور فرمانبردار ہو کر آگئی اور اسلام قبول کر لیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ قرآن پاک کے الفاظ پر نظر ڈالنے سے معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کی حکومت تسلیم نہیں کی بلکہ اس کے نام جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں:
انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان لا تعلوا علیّ واتونی مسلمین۔ (نمل)
’’یعنی تم میرے مقابلہ میں سر نہ اٹھاؤ اور میرے پاس میری مطیع اور فرمانبردار بن کر آجاؤ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی حکومت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنا ماتحت بن کر آنے کا حکم دیا، نیز اس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول نہیں فرمایا، اس کا تختہ بھی اٹھوا کر منگوا لیا، اس کی ہیئت بھی بدل ڈالی اور بلقیس جب حضرت سلیمانؑ کے محل میں آئی تو اس نے کہا:
’’پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے آگے جھک گئی۔‘‘ (نمل ۴۴)
قرآن پاک کے بیان سے دور تک بھی بلقیس کی سربراہی اور اس کی حکومت برقرار رکھنے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، بلکہ قرآن کے پڑھنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اسلام کے بعد اس کی حکومت کو جائز نہیں رکھا نہ اسے تسلیم فرمایا بلکہ اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ 
بعض اسرائیلی روایات میں منقول ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس سے نکاح کر کے اسے یمن بھیج دیا تھا اور بعض روایات میں ہے کہ نکاح کرنے کے بعد شام بھیج دیا تھا، بعض میں ہے کہ نکاح کے بعد بلقیس کو اپنے پاس رکھا، بعض میں ہے کہ بلقیس کا نکاح ہمدان کے بادشاہ سے کر دیا۔ غرض اس سلسلہ میں تاریخی روایات بہت متضاد ملتی ہیں۔ علامہ قرطبیؒ نے ان تمام اسرائیلی روایات کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے، نہ اس بارے میں کہ حضرت سلیمان نے بلقیس سے نکاح کیا، نہ اس بارے میں کہ کسی اور سے نکاح کرایا۔ (تفسیر قرطبی ج ۱۳ ص ۲۱۰ و ۲۰۱۱)
بہرحال بلقیس کی سربراہی اور حکومت کا پتہ جن روایات سے معلوم ہوتا ہے وہ تمام کی تمام غیر صحیح اور غیر مستند ہیں اور آپس میں متضاد ہیں۔ اس طرح کی روایات سے عورت کی سربراہی پر استدلال کسی طرح درست نہ ہو گا۔ حضرت تھانویؒ نے تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے:
’’ہماری شریعت میں عورت کو بادشاہ بنانے کی ممانعت ہے پس بلقیس کے قصہ سے کوئی شبہ نہ کرے۔ اول تو یہ فعل مشرکین کا تھا، دوسرے اگر شریعت سلمانیہ نے اس کی تقریر بھی کی ہو تو شرع محمدی میں اس کے خلاف ہوتے ہوئے وہ حجت نہیں۔‘‘ (بیان القرآن ج ۸ ص ۸۵ سورہ نمل)

جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ کی شرکت سے استدلال

بعض حضرات نے عورت کی سربراہی پر جنگِ جمل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس جنگ میں قیادت کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حضرت عائشہؓ نے کبھی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ ان کے ساتھیوں نے آپ کو جنگ میں قائد و سربراہ بنایا، نہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عائشہؓ کا مقصد نہ کوئی سیاست و حکومت تھی نہ ہی وہ جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلی تھیں بلکہ روایات سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محض حضرت عثمانؓ کے قصاص کے جائز مطالبے کی تقویت اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کے مقصد سے گئی تھیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
’’جب حضرت عائشہؓ بصرہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ایک جگہ قیام کیا، رات میں وہاں کتے بھونکنے لگے۔ حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے بتایا ’’حؤاب‘‘ نامی چشمہ ہے۔ حوأب کا نام سنتے ہی حضرت عائشہؓ چونک اٹھیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟‘‘ (مسند احمد ص ۵۲ ج ۱)
حضرت عائشہؓ نے حوأب کا نام سن کر آگے جانے سے انکار کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے اصرار کیا کہ مجھے مدینہ واپس لوٹا دو لیکن بعض حضرات نے آپ کو چلنے کے لیے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بصرہ پہنچیں اور جو مقدّر تھا وہ پیش آیا۔ (البدایہ والنہایہ ص ۱۳۱ ج ۷)
باوجودیکہ حضرت عائشہؓ کا سفر مسلمانوں کے درمیان مصالحت کے خالص دینی مقصد کے لیے تھا مگر صحابۂ کرام اور دوسری امہات المؤمنین کو حضرت عائشہؓ کا خواتین کے اسلامی دائرے سے نکلنا پسند نہ آیا۔ چنانچہ حضرت ام سلمہؓ نے جب حضرت عائشہؓ کو خط لکھا اور اس میں انہیں گھر سے نکلنے پر تنبیہ فرمائی اور گھر رہنے کی نصیحت فرمائی، اسی طرح کا نصیحت آمیز خط حضرت زید بن صوحانؓ نے بھی لکھا۔ چنانچہ اس سفر کرنے پر حضرت عائشہؓ کو بعد میں بڑی ندامت و شرمندگی رہی۔ 
حافظ ابن عبد البرؒ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت عائشہؓ نے حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے فرمایا آپ نے مجھے اس میں جانے سے کیوں نہیں روکا؟ اگر آپ مجھے روک دیتے تو میں گھر سے باہر نہیں نکلتی۔ بہرحال وہ نادم ہوئیں اور اپنے اس نکلنے پر توبہ بھی کی۔ بعد میں ان کا یہ حال ہو گیا تھا کہ قرآن پاک کی تلاوت کے وقت جب آیت ’’وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘ پر پہنچتیں تو اس قدر روتیں کہ ان کی اوڑھنی آنسوؤں سے تر ہو جاتی۔ ان حالات میں حضرت عائشہؓ کی سربراہی کے اوپر استدلال کرنا کیونکر صحیح ہو سکتا ہے، اس کا تو تصور بھی ان کے حاشیۂ خیال میں نہیں آیا تھا۔ 
بہرحال کسی اسلامی ملک کی سربراہی کے لیے عورت کا تقرر کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، تمام ائمہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے اور یہ اجماعی مسئلہ بن چکا ہے۔ کامل العقل اور اہلیت تامہ رکھنے والے مرد کے موجود ہوتے ہوئے عورت کو ملک کی وزارت یا صدر کے لیے منتخب کرنا اسلام اور مسلمانوں کے لیے نہ صرف ننگ و عار کا باعث ہے بلکہ تاریخ اسلام میں ایک بدنما داغ ہے اور مملکت کے یقینی ناکام ہونے کی علامت ہے۔ حدیث شریف میں ہے ’’اخروھن من حیث اخرھن اللہ‘‘ یعنی عورتوں کو پیچھے کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رتبہ کو مردوں کے مقابلے میں (سلطنت ولایت وغیرہ میں) پیچھے رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کی اتباع کرنے کی توفیق بخشے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین۔ 

توہینِ صحابہؓ کے مرتکب کو تین سال قید با مشقت کی سزا

اسسٹنٹ کمشنر اسلام آباد جناب ملک محمد حفیظ کا ایک اہم فیصلہ

ادارہ

بعدالت جناب ملک محمد حفیظ صاحب! 
اسسٹنٹ کمشنر/مجسٹریٹ درجہ اوّل اسلام آباد۔ 
سٹیٹ بنام عبد القیوم علوی۔ 
مقدمہ علت ۱۳ مؤرخہ ۱۴/۲/۸۵ بجرم A۔295 و A۔298 ت پ تھانہ آبپارہ۔ 
حکم: عبد القیوم علوی ولد غلام حسین قوم اعوان سکنہ پنڈ نگرال تھانہ گولڑہ شریف اسلام آباد کو پولیس تھانہ آبپارہ نے بجرم  ۲۹۵۔اے ۲۹۸ ۔اے ت پ چالان کر کے بغرضِ سماعت پیشِ عدالت کیا۔ مختصر حالات مقدمہ اس طرح ہیں کہ مورخہ ۱۴/۲/۸۵ کو مدعی مقدمہ مولانا محمد عبد اللہ صدر جمعیۃ اہلسنت والجماعت پاکستان خطیب مرکزی مسجد سیکٹر جی سکس اسلام آباد نے تحریری درخواست تھانہ آبپارہ گزاری کہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) مصنفہ عبد القیوم علوی (ملزم) میں بعض صحابہ کرامؓ اور بزرگ ہستیوں بشمول حضرت امیر معاویہؓ کے متعلق مصنف نے قابلِ اعتراض الفاظ استعمال کیے اور ان کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ کافر، کتے، خنزیر کے برابر اور منافق، دشمنِ اسلام، ملعون اور دین کے معاملہ میں خصوصاً ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے جس سے مدعی اور سنی اکثریت کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ 
دورانِ تفتیش کتاب مذکورہ بالا قبضۂ پولیس میں لی گئی، گواہان کے بیانات قلمبند ہوئے، ملزم کو گرفتار کیا جا کر، بعد تکمیل تفتیش چالان عدالت کیا گیا۔ مورخہ ۱۵/۴/۸۵ کو نقول بیانات گواہان استغاثہ تقسیم ہو کر مورخہ ۳۰/۴/۸۵ کو ملزم پر فرد جرم یر دفعات A۔295 و A۔298 عائد ہوئی، ملزم کے انکار پر شہادت استغاثہ طلب ہو کر قلمبند ہوئی۔ 
گواہان استغاثہ نمبر ۱، نمبر ۲ فرد مقبوضگی Ex P1 ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) ہیں جنہوں نے بابت مقبوضگی کتاب بیان کیا۔ گواہ استغاثہ نمبر ۳ مدعی مقدمہ جنہوں نے اپنی رپورٹ ابتدائی Ex PB کی تائید کی اور بتایا کہ وہ ان کی قلمی و دستخطی ہے نیز اس نے بتایا کہ اس نے دوران تفتیش کتاب Ex P2 پیش کی اور وہ پولیس نے بذریعہ خود Ex PC قبضہ پولیس میں لی جس پر گواہ نے اپنے دستخط شناخت کی۔ گواہ نے اپنی شہادت کے دوران بتایا کہ کتاب کے مختلف حصوں میں مصنف نے صحابہ کرامؓ کے بارہ میں توہین آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں اور ان کو ناصبی کہا ہے جبکہ مصنف نے ناصبیوں کے لیے کتے، خنزیر، ملعون اور کافر، منافق جیسے برے القاب سے تعبیر کیا جس سے مدعی کی اور تمام اہل سنت ساتھیوں (گواہان) کی مذہبی دلآزاری ہوئی اور ان کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے۔ گواہ نے اس بارہ میں کتاب کے صفحہ ۱۶ مقام A تا A اور صفحہ ۲۱ مقام B تا B اور صفحہ ۱۵ مقام C تا C کا خاص طور پر ذکر کیا۔ مزید بتایا کہ اس نے ایک مفصل رپورٹ (Ex P3 - P6) ایسے ہی حوالہ جات پر مبنی تیار کر کے پولیس کو دی جو کہ ان کی اور گواہ عبد الغفور کی دستخطی ہے۔ گواہ نے بتایا کہ وہ اور اس کے ساتھی جن کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے حضرت معاویہؓ کو صحابی اور کاتب وحی سمجھتے ہیں۔ جرح میں گواہ نے بتایا کہ اس کی دلآزاری مسلمان ہونے کی حیثیت سے اور اہلسنت والجماعت ہونے کی حیثیت سے اور علماء دیوبند کے ساتھ تعلق کی حیثیت سے ہوئی ہے۔ 
گواہ استغاثہ ۴ کرامت خان ASI محرر FIR ہے۔ گواہ نے بتایا کہ اس نے رسمی رپورٹ ابتدائی Ex PB/I حسب آمدہ تحریر مدعی Ex PB درست طور پر قلمبند کی۔ 
گواہان استغاثہ نمبر ۵، ۶، ۷ نے بھی متفقہ طور پر بتایا کہ بحیثیت مسلمان اور اہلسنت والجماعت ان کے مذہبی جذبات ملزم کی مصنفہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) پڑھ کر مجروح ہوئے ہیں۔ چونکہ مصنف نے اپنی کتاب میں صحابہ کرامؓ کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کیے اور انہیں ناصبی گردانا جس کی تعبیر مصنف نے کتے اور خنزیر وغیرہ کے الفاظ استعمال کر کے کی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دوران شہادت گواہ استغاثہ ۶ مولانا عبد الغفور ملزم سے ذیل سوالات عدالت نے پوچھے جو کہ معہ جوابات ملزم درج ہیں:
سوال عدالت: کیا آپ نے حضرت معاویہؓ اور عمرو بن عاصؓ کو کافر، منافق، ظالم وغیرہ کہا ہے؟
جواب: میں نے بالکل یہ کہا ہے اور کتاب میں لکھا ہے۔
سوال عدالت: کیا آپ کی نظر میں ان صحابہ کو برا بھلا کہنے سے جذبات مجروح نہیں ہوتے؟
جواب: اس سے جذبات مجروح نہیں ہوتے کیونکہ اہل سنت کے نزدیک یہ ظالم اور بری شخصیتیں ہیں۔
گواہ استغاثہ ۸ ریاض احمد SI تفتیشی افسر مقدمہ ہذا ہے، گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس نے دورانِ تفتیش حسب پیش کردہ گواہان کتاب EX P1, P2 ’’تاریخ نواصب‘‘ بذریعہ فردات Ex PC, EX PA قبضہ پولیس میں لی۔ نقشہ موقعہ Ex PE مرتب کیا اور کتاب کے قابل اعتراض اقتباسات Ex P3-P14/1-14 پیش کردہ گواہان حاصل کر کے شامل مثل کیے۔ گواہ نے مزید بتایا کہ ملزم نے صحابہ کرامؓ کی توہین کی ہے اور اہلسنت والجماعت کے جذبات کو مجروح کیا ہے جس کی وجہ سے ملزم کو گنہگار پا کر چالان عدالت کیا۔ اس گواہ پر باوجود موقعہ دینے کے ملزم نے جرح نہ کی اور اس مرحلہ پر شہادت استغاثہ کی تکمیل ہوئی۔ 
شہادت استغاثہ کی قلمبندی کے بعد مؤرخہ ۱۹/۲/۸۷ کو ملزم کا بیان زیر دفعہ 342 ص ت قلمبند کیا گیا۔ گواہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ کتاب P1, P2 ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) کا وہ مصنف ہے۔ اس نے موقف اختیار کیا کہ اس نے کسی صحابیٔ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین نہ کی ہے اور نہ ہی کسی سنی کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ وہ اپنے دیگر بیان میں تفصیلات بابت کتب مصنفین اہل والجماعت جس نے اصحابِ رسولؐ کو کافر و منافق وغیرہ لکھا ہو بتائے گا اور یہ بھی بتائے گا کہ اس کے خلاف مقدمہ کیوں بنایا گیا ہے۔ تاہم ملزم نے بعد ازاں مؤرخہ ۴/۳/۸۷ کو بیان کیا کہ وہ دفعہ 340 ض ف بیان نہ دینا چاہتا ہے۔ اس مرحلہ پر بحث فریقین سماعت کی گئی اور مثل کا بغور مطالعہ کیا گیا۔ 
دورانِ بحث ہماری توجہ اس امر کی طرف مبذول کرائی گئی کہ دفعہ 196 ض ف کے تحت دفعہ 295/8 ت پ کی سماعت سے پہلے مرکزی یا صوبائی حکومت یا ان کی طرف سے مجاز اتھارٹی کی نالش ضروری تھی جو کہ حاصل نہ کی گئی ہے۔ اس قانونی نقطہ سے ہم اتفاق کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ واقعی سماعت مقدمہ کرنے سے پہلے اس بارہ میں کارروائی کرنا لازمی تھی جو کہ نہ کی گئی ہے۔ ہم اس مرحلہ پر جب کہ مقدمہ ہذا سال ۱۹۸۵ء سے زیرسماعت ہے اس بارہ میں تحرک کو تقاضائے انصاف کے خلاف اور نامناسب سمجھتے ہیں۔ 
صفحہ مثل برآمدہ شہادت اور بیان ملزم سے عیاں ہے کہ کتاب ’’تاریخ نواصب‘‘ (حصہ اول) ملزم ہی کی تصنیف ہے اور ملزم نے اس امر کو خود تسلیم کیا۔ نیز ملزم نے دوران کارروائی عدالت واضح الفاظ میں تسلیم کیا ہے کہ اس نے اپنی کتاب مذکورہ بالا میں حضرت معاویہؓ اور عمرو بن عاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ کو کافر، منافق، ملعون، بدکردار، فاسق، فاجر اور ظالم وغیرہ کہا ہے، تاہم یہ موقف اختیار کیا کہ اس کے اور اہلسنت والجماعت کے نزدیک وہ صحابی نہیں ہیں۔ 
شہادت استغاثہ اور تاریخِ اسلام پر لکھی گئی مستند کتب کے حوالے سے اس امر کے متعلق کوئی شک و شبہ نہ ہے کہ حضرت معاویہؓ صحابیٔ رسول اور کاتب وحی تھے۔ اس طرح عمرو بن عاصؓ اور مغیرہ بن شعبہؓ بھی اصحاب رسولؐ تھے۔ ملزم کے مذکورہ شخصیتوں کو اصحابؓ رسولؐ نہ ماننے سے قطعًا تاریخی واقعات و حالات تبدیل نہ ہو سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مذہب اسلام کے لاکھوں پیروکار ان شخصیتوں کو صحابیٔ رسولؐ سمجھتے ہیں اور اس بات کا علم ملزم کو بھی ہے اور ملزم نے جان بوجھ کر ان شخصیتوں کے بارے میں عمدًا نازیبا الفاظ استعمال کر کے اہلسنت والجماعت و دیگر مسلمانوں مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے۔ 
بحالات بالا ہم سمجھتے ہیں کہ استغاثہ اپنے مقدمہ کو بدون شک و شبہ ثابت کرنے میں کامیاب رہا ہے نیز یہ کہ نازیبا الفاظ جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا شخصیتوں کے لیے استعمال کرنے کو بھی ملزم ازخود تسلیم کرتا ہے، لہٰذا ہم ملزم کو زیردفعہ A۔298 ت پ تین سال قید بامشقت کی سزا دیتے ہیں، تاہم اس سزا کا اطلاق حسب منشا زیر دفعہ B۔382 ض ف ہو گا، حکم سنایا گیا۔ مثل بعد ترتیب و تکمیل داخل دفتر ہووے۔
دستخط اسسٹنٹ کمشنر / مجسٹریٹ درجہ اول اسلام آباد 
۱۵/۱۱/۸۹

منقبتِ صحابہؓ

سرور میواتی


عشقِ یارانِ نبیؑ خوشنودیٔ ربِ جلیل
حُبِ اصحابِؓ نبیؑ خوش قسمتی کی ہے دلیل
جو کوئی ان کی بزرگی کا نہیں ہے معترف
دونوں عالم میں یقیناً‌ ہو گیا خوار و ذلیل
عزت و تکریمِ یارانِ محمدؑ مصطفٰی
ہے یقینِ محکم و ایمانِ اکمل کی دلیل
اُن صحابہؓ سے تنفّر ہے صریحاً‌ گمرہی
جن کے ہوں قرآن میں مذکور اوصافِ جمیل
چار یارانِؓ محمدؑ مصطفٰی کی پیروی
حفظِ ایمان و یقیں کی ہے دوائے بے عدیل
بُغضِ یارانِ نبیؑ سے حق تعالیٰ کی پناہ
مرتکب ان حرکتوں کے ہیں نہایت ہی ذلیل
ہے تبرّا ان شقی بدبخت لوگوں کا طریق
علم و دانش کا ہے جن کے پاس سرمایہ قلیل
بے تکی جن کی شریعت من گھڑت جن کا فقہ
ساتھ لغویات کا ہے دفترِ طول و طویل
اہلِ سنت والجماعت کے طریقے میں ہے خیر
دین و دنیا میں یہی ہے کامیابی کی سبیل
آخرت کی فکر کر سرورؔ غلط لوگوں سے بچ
وقت تھوڑا رہ گیا بجنے کو ہے کوسِ رحیل


تعارف و تبصرہ

ادارہ

’’مُعلّمِ عربی‘‘ (حصہ اول و دوم)

مؤلف: مولانا سعید احمد عنایت اللہ
صفحات: حصہ اول (۱۸۰) حصہ دوم (۳۰۰)
کتابت و طباعت عمدہ
ناشر: قرطبہ ٹریڈرز، سیالکوٹ
عربی مسلمانوں کی دینی و علمی زبان ہونے کی وجہ سے ہر دور میں خصوصیت کی حامل رہی ہے اور دنیا بھر میں عربی کی تعلیم و ترویج کے لیے مسلم علماء اور ادارے کوشاں رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں عربی کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ اس خطہ میں مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور ہر دور کے ضروریات اور تقاضوں کے متعلق اہلِ علم نے س مقصد کے لیے کتب و رسائل تحریر کیے ہیں جن کو جمع کیا جائے تو ایک اچھا خاصا ذخیرہ بن جاتا ہے۔
ہمارے ہاں دینی مدارس میں رائج ’’درسِ نظامی‘‘ کے نصاب میں عربی زبان کی مہارت سے طالب علم کو بہرہ ور کرنے کے لیے صرف و نحو، ادب اور معانی و بلاغت کی جو کتابیں ایک خاص ترتیب کے ساتھ شامل کی گئی ہیں، قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم کے ذخیرہ سے بھرپور استفادہ کے لیے ان کی افادیت و ضرورت آج بھی مسلّم ہے; تاہم دورِ حاضر میں تعلیم کے طریق کار اور اسلوب پر سامنے آنے والے نئے رجحانات ان کتابوں کے حوالہ سے نصابِ تعلیم میں تکرار و طوالت کے خدشہ سے دوچار ہیں اور ایسی کتابوں کی ضرورت پر مسلسل زور دیا جا رہا ہے جس میں اختصار اور آسانی کے ساتھ تمام متعلقہ مسائل طلبہ کے ذہن نشین کرانے کی صورت اختیار کی گئی ہو۔
اگرچہ دینی علوم میں مہارت تامہ حاصل کرنے والے طلبہ اور علماء کے لیے یہ صورت ہمارے نزدیک محلِ نظر ہے; تاہم جو طبقہ جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث سے براہِ راست استفادہ کی صلاحیت و استعداد فی الجملہ حاصل کرنے کا خواہش مند ہے اس کے لیے صرف و نحو کے نصاب میں اختصار و سہولت کی ضرورت و اہمیت سے انکار کی گنجائش نہیں ہے، اور اس مقصد کے لیے اردو میں لکھی جانے والی کتابوں میں مولانا سعید احمد عنایت اللہ کی یہ کتاب بلاشبہ ایک قابل قدر اضافہ ہے۔
مولانا سعید احمد عنایت اللہ ہمارے محترم دوست ہیں، سیالکوٹ کے رہنے والے ہیں، مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ میں مدرس ہیں اور دینی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں۔ انہوں نے صرف و نحو کے قواعد کو آسان زبان اور سہل انداز میں مناسب ترتیب کے ساتھ جمع کر کے مشق و تمرین کے ذریعے انہیں طلبہ کے ذہنوں میں اتارنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اللہ پاک انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا الٰہ العالمین۔
قیمت کتاب پر درج نہیں ہے، اسے قرطبہ ٹریڈرز سیالکوٹ نے شائع کیا ہے اور مکتبہ عزیزیہ اردو بازار لاہور سے بھی طلب کی جا سکتی ہے۔

’’سیرت مجمع کمالات‘‘

از پروفیسر محمد عبد الجبار شیخ
صفحات: ۳۸۰
کتابت و طباعت عمدہ
ناشر: ادارہ تعلیماتِ سیرت، علامہ اقبال کالونی، سیالکوٹ کینٹ
سیالکوٹ کے جناب پروفیسر محمد عبد الجبار شیخ کو اللہ رب العزت نے علمی و دینی ذوق کے ساتھ ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے ساتھ خصوصی لگاؤ سے نوازا ہے۔ انہوں نے مختلف عالمی اور قومی سیرت کانفرنسوں میں سیرتِ طیبہ علی صاحبہا التحیۃ والسلام کے متعدد پہلوؤں پر مقالات کی صورت میں اپنے جذبات و احساسات کو خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اور زیرِ نظر کتاب ان کے اسی نوعیت کے گیارہ مقالات کا مجموعہ ہے۔جناب عبد الجبار شیخ نے روایتی انداز سے ہٹ کر اجتماعی زندگی میں پیش آمدہ مسائل پر سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بحث کی ہے اور عام فہم انداز میں ان مسائل کے اسلامی حل سے آج کی انسانی اجتماعیت کو روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔

قرآنی نظام اپنے لیے ماحول خود بناتا ہے

شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی

الحمد للہ کہ پاکستان کی اسلامی مملکت قائم ہو چکی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کی مجلس دستور ساز میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ بھی منظور ہو چکی ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے ماحول میں اسلامی نظامِ حیات جاری کیا جائے گا۔ پاکستان کے قیام کا حقیقی مقصد یہی تھا کہ ہمیں ایک ایسا خطۂ ارضی مل جائے جہاں مسلم قوم کو قدرت حاصل ہو کہ وہ تمام و کمال اسلامی آئین و قوانین جاری کرے اور اللہ تعالیٰ و رسول اللہؑ کے دین کو غالب اور سربُلند کرے۔
بعض مغرب زدہ لوگ جو اپنی اسلامی بصیرت کھو چکے ہیں اور خفاش کی طرح ظلمت سے نکل کر روشنی میں آنے کا ارادہ نہیں رکھتے بلکہ اوروں کا بھی راستہ روکنا چاہتے ہیں ان کا یہ کہنا ہے کہ چودہ سو سال کا (معاذ اللہ) فرسودہ نظام اس نئی روشنی کی دنیا میں کہاں چل سکتا ہے؟ لیکن جونہی دنیا طرح طرح کی روشنیوں کے باوجود کروڑوں برس کے فرسودہ شمس و قمر سے ہنوز بے نیاز نہیں ہو سکی تو چودہ سو برس کے قرآنی نظام سے اس کا آنکھیں چرانا کہاں تک حق بجانب ہو سکتا ہے؟
قراردادِ مقاصد سے پہلے بعض لوگوں نے، جو مسلمانوں کی قیادت کا دم بھرتے ہیں، یہ بھی کہا کہ قرآنی نظام چلانے کے لیے ابھی ماحول تیار نہیں، لیکن قرآن جس وقت دنیا میں آیا اگر ماحول کی تیاری اور فضا کی سازگاری کا انتظار کرتا تو شاید قیامت تک بھی یہ ختم نہ ہوتا۔ قرآن تو اپنے لیے ماحول خود بناتا ہے اور قرآنی نظام کے نافذ ہونے سے بڑی حد تک فضا بدلنے لگتی ہے۔ آپ سعودی عرب کی حکومت ہی کو دیکھ لیجیئے، صرف دو تین چوروں کا ہاتھ کٹنے سے حجاز جیسے ملک میں چوری کا بیج باقی نہ رہا۔ اور متنورین کو یہ سن کر تعجب ہو گا اور شاید افسوس بھی کہ حجاز میں ٹنڈوں اور لنجوں کا کوئی بڑا شہر تو کجا چھوٹا سا گاؤں بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ آسمانی قانون کے اجراء کی یہی برکت ہے کہ اس میں جرم کی سزا جرم کو روکتی ہے، مجرم کو جیل میں بھیج کر پکا اور ڈگری یافتہ مجرم نہیں بنایا جاتا۔
(خطباتِ عثمانی ص ۲۸۲)