2024

الشریعہ — جنوری ۲۰۲۴ء

رسول اکرمﷺ کا طرز حکمرانیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۸)ڈاکٹر محی الدین غازی 
رفتید، ولے نہ از دلِ ما!ڈاکٹر محمد مشتاق احمد 
ڈاکٹر محمد الغزالیؒمحمد آصف محمود ایڈووکیٹ 
ڈاکٹر محمد الغزالیؒمراد علی 
عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
’’حر متِ مسجدِ   اقصیٰ    اور    امتِ  مسلمہ    کی    ذ   مہ   داری‘‘: تین اہم سوالاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مسئلہ فلسطین کے تاریخی مراحلالجزیرہ 
"مسئلہ فلسطین " کی تقریب رونمائیمولانا محمد اسامہ قاسم 
’’مسئلہ فلسطین‘‘ادارہ 

رسول اکرمﷺ کا طرز حکمرانی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حکمرانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مستثنیات، تحفظات، پروٹوکول اور پرسٹیج کا کوئی تصور نہیں، اور عالمِ اسباب میں اس طرز حکومت کے کامیاب اور مثالی ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود ایک عام آدمی جیسی زندگی اختیار کی اور لوگوں کے درمیان گھل مل کر رہے۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں عام آدمی کی مشکلات و مسائل سے براہ راست واقفیت رہی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اپنے حکمرانوں کو اپنے ساتھ مشکلات و مسائل کا شکار دیکھ کر عام آدمی میں مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا  ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اپنے لیے پروٹوکول اور تحفظات کا اہتمام کر سکتے تھے، اور اس کائنات میں یہ اگر کسی کا استحقاق ہو سکتا ہے تو وہ آپؐ کی ذات گرامی ہے، لیکن آپؐ نے اپنے گرد ایسا کوئی دائرہ نہیں کھینچا اور رہن سہن، نشست و برخاست، سفر و حضر، اور بول چال میں کسی قسم کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔ 

ہمارے ہاں پروٹوکول کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ کوئی بڑی شخصیت فون پر کسی سے بات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس شخص کو لائن پر لایا جائے پھر بڑے صاحب گفتگو کی زحمت فرمائیں گے، جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ  عنہ کہتے ہیں کہ ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے میں پہل کر سکیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا، ہم ابھی سلام  کا لفظ کہنے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ حضورؐ سلام میں پہل فرما دیتے۔ اس بظاہر چھوٹی سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ سنتِ نبویؐ میں پروٹوکول کا درجہ کیا ہے۔

اس کے ساتھ ہی سنتِ نبویؐ کا یہ حسین منظر بھی ذہن میں تازه کر لیں کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ایک صحابی کے ننگے بدن پر چھڑی لگ گئی، چھڑی ذرا سخت لگی اور بعض روایات کے مطابق خراش بھی آگئی۔ اس صحابیؓ نے مجلس میں ہی بدلے کا تقاضہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پروٹوکول، پرسٹیج، یا تحفظ کا سوال نہیں اٹھایا، چھڑی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے دی اور کپڑا ہٹا کر ننگی کمر بدلے کے لیے اس کے سامنے کر دی۔ یہی سادگی اور بے تکلفی ہمارے طرز حکومت کا حصہ بنے گی تو سنتِ نبویؐ کی برکات حاصل ہوں گی۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اردگرد مستثنیات اور تحفظات کے جو دائرے کھینچ رکھے ہیں وہ سنت نبویؐ اور ہمارے درمیان ایک ایسی خلیج کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں جنہیں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عبور کرنے کا ہم میں حوصلہ نہیں۔  ہمیں حکومت و سیاست میں سنتِ نبویؐ کی پیروی کیلئے نوآبادیاتی نظام کے تحفظات و امتیازات سے نجات حاصل کرنا ہو گی، حاکم و رعیت کے درمیان اجنبیت و بیگانگی کی دیوار گرانا ہوگی، اور عام لوگوں کے ساتھ ان کی آبادیوں میں گھل مل کر رہنا ہو گا۔

؏     گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!

———————————————————


’’لمحۂ فکریہ!‘‘

برادرِ مکرم مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر، جنہیں میں لڑکپن سے حضرت کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، نے مجلہ الشریعہ کے معاملات سے  علیحدگی اختیار کر کے مجھے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میرا علمی و فکری کام کا کچھ ذوق تو ہے لیکن سمجھ بوجھ اور استعداد اس درجہ کی نہیں جو اس کام کیلئے ضروری ہے۔ میں کمپیوٹر سائنس کا آدمی ہوں اور اس حوالے سے میرا ایک چھوٹا سا  سلسلہ techurdu.org کے عنوان سے چل رہا ہے جس پر میں اپنے شعبے کے حوالے سے وقتاً‌ وقتاً‌  طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں۔

والد محترم اور میرے مخدوم حضرت مولانا زاہد الراشدی اپنی تدریسی مصروفیات اور دینی اجتماعات کے مشاغل کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں دے پاتے، اور اس عمر میں صحت کے مسائل کے ساتھ انہیں زیادہ آرام کی ضرورت بھی ہوتی ہے، چنانچہ اس حوالے سے بھی میری ذمہ داری کچھ بڑھ گئی ہے۔  میرا اندازہ ہے کہ والد محترم کے ساتھ میری صبح شام کی رفاقت اور غلطی کی صورت میں کان کھینچنے کی سہولت کے پیش نظر مجھے یہ عہدہ سونپا گیا ہے، ورنہ الشریعہ اکادمی کے رفقاء اور ذمہ داران میں سے اس کیلئے بہت بہتر انتخاب ہو سکتا تھا۔ بہرحال میں توقعات پر پورا اترنے کی حتی الوسع کوشش کروں گا، ورنہ ناکامی کی صورت میں تبدیلی کا راستہ بہرحال موجود ہے۔

ناصر الدین خان عامر

مدیر منتظم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۸)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(464) إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا

إِذَا فجائیہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے بعد والی بات اس سے پہلے والی بات کے فورًا بعد پیش آئے۔ البتہ اس بات میں تحیر کا پہلو غالب رہتا ہے۔ درج ذیل آیت میں بھی إِذَا کا ترجمہ ’فورًا‘ موزوں نہیں ہوگا۔ یعنی یہ بات تو حیرت انگیز طور پر افسوس ناک ہے کہ لوگ تکلیف سے نجات پاکر جب اللہ کی رحمت سے ہم کنار ہوتے ہیں تو شکر گزار بننے کی بجائے اللہ کی آیتوں میں چال بازیاں شروع کردیتے ہیں۔ لیکن یہ بات اس لفظ میں شامل نہیں ہے کہ وہ یہ کام فوراً کرتے ہیں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً‌ مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُمْ إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا قُلِ اللَّہُ أَسْرَعُ مَکْرًا إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ۔(یونس: 21)

”لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ان سے کہو،اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں“۔ (سید مودودی، إِنَّ رُسُلَنَا کا ترجمہ ہوگا ہمارے فرشتے۔ إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ مقولہ کا حصہ نہیں بلکہ مستقل جملہ ہے۔)

”اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے، بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جب تکلیف پہنچنے کے بعد ہم نے لوگوں کو ذرا رحمت کا مزہ چکھادیا تو فوراً ہماری آیتوں میں مکاری کرنے لگے تو آپ کہہ دیجئے کہ خدا تم سے تیز تر تدبیریں کرنے والا ہے اور ہمارے نمائندے تمہارے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

”اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں (فتح محمد جالندھری، أسرع مکرا کا ترجمہ ہوگا حیلہ کرنے میں تیز تر ہے، نہ کہ جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ تیز رفتار ہونے اور جلدی کرنے میں فرق ہے۔)

بہت سے لوگوں نے أَسْرَعُ مَکْرًا کا ترجمہ ”تم سے تیز تر چال چلنے والا“ کیا ہے، یہاں ’تم سے‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ لفظ کی رو سے ’تیز تر‘ کافی ہے۔

 (465) ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ

لغت میں ذریۃ کا مطلب اولاد بیان کیا گیا ہے۔ ان کا نوجوان ہونا ضروری نہیں ہے۔کسی قوم کے افراد پر ذریت کا اطلاق ہوتا ہے۔  قرآن کے استعمالات کو دیکھیں تو کہیں یہ لفظ بالکل چھوٹے بچوں کے لیے آیا ہے، جیسے: وَلَہُ ذُرِّیَّةً‌ ضُعَفَاءُ۔ (البقرۃ: 266) اور کہیں نسل کے لیے جس میں سب شامل ہوتے ہیں، جیسے: کَمَا أَنْشَأَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ۔ (الانعام: 133)

درج ذیل آیت میں غالباً زمخشری کی تفسیر سے متأثر ہوکر بعض لوگوں نے ذریۃ کا ترجمہ نوجوان کردیا ہے۔ جو تفسیری اضافہ تو ہوسکتا ہے، لیکن لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ کا ترجمہ ہوگا ’اس کی قوم کے کچھ افراد“۔

فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَءِہِمْ أَنْ یَفْتِنَہُمْ۔(یونس: 83)

”(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا“۔ (سید مودودی، اس ترجمے میں عَلَی خَوْفٍ کا ترجمہ ’ڈر سے‘ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا: ’ڈر کے باوجود‘)

”تو موسی کی بات نہ مانی مگر اس کی قوم کے تھوڑے سے نوجوانوں نے، ڈرتے ہوئے فرعون اور اپنے بڑوں سے کہ مبادا وہ ان کو کسی فتنہ میں ڈال دے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے مگر اس کی قوم کی اولاد سے کچھ لوگ فرعون اور اس کے درباریوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں انہیں ہٹنے پر مجبور نہ کردیں“۔ (احمد رضا خان، ’قوم کی اولاد سے کچھ لوگ‘ سے بہتر ہے ’قوم کے کچھ لوگ‘)

”تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا۔ مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے“۔ (فتح محمد جالندھری، ذریۃ کا ترجمہ لڑکے نہیں بلکہ لوگ کرنا چاہیے)

”پھر بھی موسٰی پر ایمان نہ لائے مگر ان کی قوم کی ایک نسل اور وہ بھی فرعون اور اس کی جماعت کے خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ کسی آزمائش میں نہ مبتلا کردے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں ذریۃ کے لیے ’نسل‘ موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ’کچھ لوگ‘ مناسب ترجمہ ہے۔)

”پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے“۔ (محمد جوناگڑھی، ان کے اپنے حکام کہاں تھے؟ قوم کے بڑے لوگ تھے۔)

مذکورہ بالا آیت میں عَلَی خَوْفٍ کا موزوں تر ترجمہ ہوگا ڈر کے باوجود۔ نہ کہ ڈر سے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں:

(علی) فی قولہ: علی خوف من فرعون بمعنی (مع) مثل وآتی المال علی حبہ أی آمنوا مع خوفہم، وہی ظرف مستقر فی موضع الحال من (ذریة)، أی فی حال خوفہم المتمکن منہم وہذا ثناء علیہم بأنہم آمنوا ولم یصدہم عن الإیمان خوفہم من فرعون.

(466) کَانَ النَّاسُ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌

اس جملے کا ترجمہ عام طور سے لوگوں نے صیغہ ماضی سے کیا ہے۔ یعنی لوگ ایک دین پر تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین کفر پر یا دینِ اسلام پر۔ تو کچھ مفسرین نے دینِ اسلام مراد لیا اور اس سے پہلے ایک جملہ محذوف مانا کہ وہ اس دین پر باقی نہ رہے، تو اللہ نے نبی بھیجے۔ بعض مفسرین نے أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ سے دینِ کفر مراد لیا۔ انھیں کوئی جملہ محذوف کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں کان زمانہ ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کان محض اثبات کے لیے آیا ہے، جیسے: وَکانَ اللَّہُ غَفُوراً رَحِیما۔ ’اللہ غفور اور رحیم ہے‘۔ یہ رائے قدیم مفسرین کے یہاں بھی ملتی ہے۔ (دیکھیں تفسیر قرطبی)

اس کی ایک بہت مماثل نظیر یہ جملہ ہے:  کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ (آل عمران: 110) ’تم بہترین امت ہو‘ یہاں بھی کان ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔

اس توجیہ کے مطابق ترجمہ ہوگا:

’لوگ ایک امت ہیں‘

یعنی اللہ نے انھیں ایک فطرت پر تخلیق کیا ہے۔ تمام انسان اس پہلو سے ایک امت ہیں کہ ان کے اندر وہ خصوصیات مشترک ہیں جو انھیں دوسری مخلوقات سے ممیز کرتی ہیں۔ وہ سب ایک نوع ہیں اور سب آدم کی اولاد ہیں، سب اس زمین کی بااختیار مخلوق (خلیفہ) ہیں اور عرصہ امتحان میں ہیں۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے دیکھیں:  

کَانَ النَّاسُ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ فَبَعَثَ اللَّہُ النَّبِیِّینَ۔(البقرۃ: 213)

”ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے“۔(سید مودودی)

”لوگ ایک ہی امت بنائے گئے۔ (انھوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے“۔(امین احسن اصلاحی)

”لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے“۔ (احمد رضا خان)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:

”سب لوگ ایک ہی امت ہیں، تو اللہ نے نبی بھیجے۔“

 وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ فَاخْتَلَفُوا۔(یونس: 19)

”ابتداء ً سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے“۔ (سید مودودی)

”اور لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”اور (سب) لوگ (پہلے) ایک ہی اُمت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا جدا ہوگئے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیداکرلیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:

”سارے انسان ایک ہی امت ہیں، تو انھوں نے اختلاف کیا“۔

درج ذیل دونوں آیتوں کے مخاطب بھی تمام بنی نوع انسان ہوسکتے ہیں، یعنی اللہ انھیں یاد دلاتا ہے کہ وہ سب ایک انسانی گروہ ہیں، اور ان کا رب اللہ ہے۔

إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ۔ (الانبیاء: 92)

”تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو۔)

وَإِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌ وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ۔ (المومنون: 52)

”اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری ناراضگی سے بچو“۔

جہاں تک ان آیتوں کی بات ہے جن میں یہ بات کہی گئی ہے کہ تم کو ایک امت نہیں بنایا گیا، تو اس سے مراد مشترک عقیدے والی امت ہے۔ جیسے:

وَلَوْ شَاءَ اللَّہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّةً‌ وَاحِدَةً‌۔ (النحل: 93)

”اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک امت بنادیتا“۔

دراصل تمام انسان اس مفہوم میں ایک امت ہیں کہ وہ سب انسان ہیں اور ان کے اندر مشترک انسانی خصوصیات ہیں۔ جب کہ وہ اس مفہوم میں ایک امت نہیں بنائے گئے کہ لازمی طور پر ان کا دین اور عقیدہ بھی ایک ہوتا۔

(467) یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ

درج ذیل آیت میں یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ روز قیامت کے بارے میں ہے یا دنیا کی زندگی کے بارے میں؟  یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ کا جملہ  یحشرھم کا حال ہے یا لم یلبثوا کا؟ مترجمین نے دونوں باتیں اختیار کی ہیں۔ معنوی لحاظ سے اسے لم یلبثوا کا حال بناکر دنیا کی زندگی سے متعلق ماننا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہا جائے کہ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے یا یہ کہا جائے کہ وہ پہچاننے کی کوشش کررہے ہوں گے، دونوں صورتوں میں تعارف کی معنویت واضح نہیں ہوتی۔ جب کہ اگر اسے دنیا کی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ قیامت کے دن انھیں لگے گا کہ دنیا میں وہ صرف گھڑی بھر کو رہے، وہ وقت  اتنا مختصر تھا کہ گویا ایک دوسرے کو سمجھنے میں ہی گزر گیا۔ درج ذیل ترجمے دیکھیں:  

وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَأَنْ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً‌ مِنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ۔ (یونس: 45)

”اور جس دن اللہ ان کو اکٹھا کرے گا (اس دن وہ محسوس کریں گے کہ) گویا بس وہ دن کی ایک گھڑی رہے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جس دن انہیں اٹھائے گا گویا دنیا میں نہ رہے تھے مگر اس دن کی ایک گھڑی آپس میں پہچان کریں گے“۔ (احمد رضا خان)

”اور جس دن خدا ان کو جمع کرے گا (تو وہ دنیا کی نسبت ایسا خیال کریں گے کہ) گویا (وہاں) گھڑی بھر دن سے زیادہ رہے ہی نہیں تھے (اور) آپس میں ایک دوسرے کو شناخت بھی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے“۔ (سید مودودی)

آخری دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔

(468) مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ

اس جملے میں مِنْہُ کی ضمیر کا مرجع عذاب ہے۔ ترجمہ ہوگا کہ ’اس کی کس چیز کی مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘

قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتًا أَوْ نَہَارًا مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ۔ (یونس: 50)

”آپ فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو تو عذاب میں کون سی چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی مانگ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر اس کا عذاب تم پر رات کو آئے یا دن کو تو اس میں وہ کون سی چیز ہے کہ مجرموں کو جس کی جلدی ہے“۔ (احمد رضا خان)

”(ان سے) کہو کہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر رات میں آدھمکے یا دن میں، تو کیا چیز ہے جس کے بل پر مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں بھی  مِنْہُ کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا۔)

”اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے (تو تم کیا کر سکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟“ (سید مودودی، یہاں بھی  مِنْہُ  کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا)

”کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو اگر اس کا عذاب تم پر (ناگہاں) آجائے رات کو یا دن کو تو پھر گنہگار کس بات کی جلدی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری، اس میں سقم یہ ہے کہ مستقبل کا ترجمہ کیا گیا ہے، دوسرا سقم یہ ہے کہ مِنْہُ  کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ ’کس بات‘ کہنے کے لیے مِنْہُ  نہیں آئے گا۔)

(469) وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ

درج ذیل جملے کے ترجمے میں مترجمین نے الگ الگ جہتیں اختیار کی ہیں:

وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ شُرَکَاءَ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ۔(یونس: 66)

”اور جو لوگ اللہ کے ماسوا کو پکارتے ہیں یہ شریکوں کی پیروی نہیں کررہے بلکہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو مَا یَتَّبِعُ کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شرکاء کی پیروی کی نفی کیوں کی جارہی ہے؟ ان کی اتباع کوئی جائز امر تو ہے نہیں۔  شرکاء کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ نفس کی پیروی کرنا۔

”اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ ان کا بھی اتباع نہیں کرتے- یہ صرف اپنے خیالات کا اتباع کرتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو سابقہ دونوں افعال کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ یہ توجیہ بھی تکلف سے بھرپور ہے۔ اس میں بھی وہ معنوی اشکال موجود ہے جو سابقہ ترجمہ میں ہے۔

”اور یہ جو خدا کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

اس ترجمے میں معنوی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن لفظی لحاظ سے اشکال یہ ہے کہ اس معنی کی ادائیگی کے لیے ’شیئا‘ مفعول بہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے موقع پر مفعول بہ کو حذف نہیں کیا جاتا ہے۔

”اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ ہی نہیں کیا گیا ہے۔

”اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکا کی عبادت کررہے ہیں کس چیز کی اتباع کر رہے ہیں۔ محض بے سند خیال کی اتباع کر رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور کاہے کے پیچھے جارہے ہیں وہ جو اللہ کے سوا شریک پکار رہے ہیں، وہ تو پیچھے نہیں جاتے مگر گمان کے“۔ (احمد رضا خان)

درج بالا دونوں ترجمے آیت کے الفاظ کے عین مطابق ہیں۔ مزید یہ کہ کسی طرح کے نحوی یا معنوی اشکال سے بھی خالی ہیں۔ وَمَا یَتَّبِعُ میں ما استفہامیہ ہے اور شرکاء مفعول بہ ہے یدعون کا۔

(470) ترجمے میں ترتیب کا لحاظ

أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ۔ الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ۔ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ۔(یونس: 62 - 64)

”سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمے میں جملوں کی ترتیب بدل گئی ہے۔ یہ دو خبریہ جملے ہیں، ہر جملے کی اپنی الگ معنویت ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے۔

”سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں، انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“۔ (احمد رضا خان)

رفتید، ولے نہ از دلِ ما!

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

3 جمادی الثانی 1445ھ (18 دسمبر 2023ء) کو استاذِگرامی پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی، رکن شریعت اپیلیٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان،  کا انتقال ہوا۔ ان کے ساتھ تقریباً 3 دہائیوں کا تعلق تھا جس میں انھوں نے میرے مشفق مربی اور مرشد کا کردار ادا کیا۔ ان کی وفات کی خبر نے بہت دکھی کیا، لیکن ہم کہیں گے وہی جس سے ہمارا رب راضی ہو۔

3 دہائیوں کا قصہ چند صفحات میں نہیں بیان کیا جاسکتا لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ ان کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر تھوڑی سی گفتگو ضرور ہو تاکہ نئی نسل کو معلوم ہو کہ کیسے اساطین تھے جو ہم نے کھو دیے ہیں!

غزالی صاحب کے ساتھ ابتدائی تعارف

غزالی صاحب کے ساتھ پہلا تعارف1995ء میں ہوا جب میں اسلامی یونیورسٹی میں ایل ایل بی آنرز شریعہ و قانون کا طالب علم تھا۔ ان دنوں وہ سوشل سائنسز کا کورس پڑھاتے تھے لیکن جس سیکشن کو وہ پڑھاتے تھے میں اس سیکشن میں نہیں تھا۔ (ہمارے سیکشن کو یہ کورس ایک اور عظیم استاذ پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر صاحب نے پڑھایا۔) دوسرے طلبہ سے غزالی صاحب کے علمی تبحر کے علاوہ ان کی شفقت کی کہانیاں سن کر دل میں ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا لیکن ان کے رعب اور جلال کی وجہ سے ان سے ملاقات میں سلام کے سوا کچھ بات نہیں ہوسکی۔ ان دنوں اسلامی یونیورسٹی میں سیمینارز کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری تھا اور تقریباً ہر ہفتے کسی اہم موضوع پر سیمینار ہوتا تھا جس میں ممتاز اہلِ علم کو سن کر، دیکھ کر، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ غزالی صاحب سے ایسے سیمینارز میں سیکھنے کا موقع ملا اور ایک آدھ دفعہ سوال (اور کسی حد تک اعتراض) کی جسارت بھی کی جسے انھوں نے کمال تحمل سے سنا اور پھر بہت خوبی سے اپنا موقف واضح کیا۔ اب دل میں ان کے رعب کے ساتھ احترام نے بھی جنم لیا۔

انھی دنوں ایک صاحب کے ساتھ حدیث و سنت کی حجیت پر بحث چل رہی تھی۔ میں نے ان کے سامنے ایک دلیل یہ رکھی (جو مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب سے سیکھی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہی دلیل ان سے قبل مولانا ابو الاعلی مودودی نے بھی دی تھی) کہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر ایسے احکامات کو اللہ کا حکم قرار دیا گیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت شدہ ہیں، جیسے قرآن مجید میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کہیں نہیں دیا گیا لیکن جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تو پہلے قبلے کے متعلق قرار دیا گیا کہ وہ قبلہ ہم نے ہی مقرر کیا تھا (وَمَا جَعَلۡنَا ٱلۡقِبۡلَةَ ٱلَّتِي كُنتَ عَلَيۡهَآ إِلَّا لِنَعۡلَمَ مَن يَتَّبِعُ ٱلرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيۡهِۚ)۔ ان صاحب نے اس کے جواب میں (غلام احمد پرویز سے مستعار لی گئی) دلیل پیش کی لیکن اسلوب استہزائیہ تھا (جیسے عام طور پر منکرینِ حدیث کا ہوتا ہے)۔ان دنوں میں مولانا تقی عثمانی صاحب کو خطوط لکھ کر ان سے مختلف امور میں رہنمائی حاصل کرتا تھا۔ ایک خط میں اس طرف توجہ دلائی اور ان سے درخواست کی کہ وہ خود اس پر کچھ لکھیں تو شاید زیادہ مفید ہو۔ انھوں نے جواب میں کہا کہ یہ شخص شہرت کا طالب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔ مجھے (شاید نوجوانی کے جوش کی وجہ سے) یہ جواب مطمئن نہیں کرسکا۔ میں ایک دن ان صاحب کی تحریر، مولانا تقی عثمانی صاحب کے نام اپنا خط اور ان کا جواب لے کر غزالی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے ساتھ دو تین اور اصحاب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان کے سامنے مدعا پیش کیا۔ انھوں نے ان صاحب کی تحریر مانگی اور چند سطریں پڑھ کر اچانک جلال میں آگئے اور کہا کہ ایسے بے ہودہ لوگ بحث کے لائق نہیں ہوتے، مولانا تقی عثمانی صاحب نے بالکل درست تشخیص کی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے طور پر  مجھے اس اعتراض کا جواب بھی دیا (یہ کہانی پھر سہی) لیکن انھوں نے بھی زور دیا کہ ان صاحب کو منہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

اس کے بعد بھی غزالی صاحب سے وقتاً فوقتاً استفادے کا سلسلہ جاری رہا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کی جلالی طبیعت کی وجہ سے ان کے ساتھ تفصیلی بحث نہیں ہوسکی۔ ان کے برادر بزرگ استاذِ گرامی ڈاکٹر محمود احمد غازی (رحمہ اللہ) کے ساتھ تعلق کی نوعیت دوسری تھی۔ وہ بظاہر بہت بارعب اور سنجیدہ تھے، علمی دنیا میں ان کا مرتبہ اپنی جگہ، یونیورسٹی کی انتظامیہ میں بھی وہ اعلی مقام پر تھے (نائب صدرِ جامعہ) اور اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ بھی ان کا تعلق تھا۔ اس بنا پر ان سے بات کرنی بظاہر بہت دشوار ہونی چاہیے تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان سے تفصیلی بحث میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ غازی صاحب کے ساتھ بے تکلفی اور غزالی صاحب کے ساتھ نسبتاً سنجیدہ تعلق پر مبنی  یہ سلسلہ کئی برسوں تک چلتا رہا۔

پیر و مرشد

اس تعلق میں تبدیلی تب آئی جب 2008ء میں استاذِ گرامی ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب (رحمہ اللہ) کے اصرار پر میں نے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں مختلف پروجیکٹس پر کام شروع کیا۔ اب غزالی صاحب کے ساتھ بے تکلفی کے اسباب بھی بن گئے۔ایک دن ادارے کے ایک سیمینار میں شرکت کےلیے پہنچا تو دیکھا کہ غزالی صاحب سٹیج سے دور، دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ سر آپ کو آگے بیٹھنا چاہیے۔ کہنے لگے، حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے! پھر مسکرا کر کہا، کہ یہ جگہ اس لیے بہتر ہے کہ جب دیکھا کہ مقررین محض وقت ضائع کررہے ہیں، تو اٹھ کر نکل گئے!

ایک دن ادارے میں سیمینار میں گفتگو کی باری میری تھی۔ غزالی صاحب مقررہ وقت سے 5 منٹ قبل پہنچ گئے۔ دعا سلام اور حال احوال پوچھنے کے بعد اچانک گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر کہا کہ وقت ہوگیا ہے، بسم اللہ کریں۔ میں نے کہا کہ بزرگوں کو آنے دیں، سر۔ کہنے لگے:

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن، اسدؔ
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا!

پھر کہا، آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ آپ بھی سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود ہوں گے۔ چنانچہ میں نے میزبان اور دیگر مہمانوں کی آمد کا مزید انتظار کیے بغیر اپنا مقالہ پڑھنا شروع کیا۔ کچھ دیر میں لوگ آگئے لیکن (شاید غزالی صاحب کو دیکھ کر ہی) کسی نے اعتراض نہیں کیا، نہ ہی برا مانا۔ یہ ان کی تربیت کا ایک انداز تھا۔ اس دن سے میں نے انھیں اپنا مرشد مان لیا تھا۔

ادارے میں چونکہ میرے مقالات بالعموم فقہ اور اصول کے موضوع پر ہوتے تھے، تو ایک دن غزالی صاحب نے مجھے مخاطب کرکے کہا: مولانا مشتاق احمد نعمانی! آپ یہ مقالات کتابی صورت میں کیوں شائع نہیں کرتے؟ میں نے کہا، کہ ارادہ ہے لیکن دیکھیں کب توفیق ملتی ہے؟ انھوں نے دعا بھی دی اور تحسین بھی کی، پھر کہا کہ آپ نام کے ساتھ نعمانی کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے عرض کی کہ میں خود کو اس نسبت کا حق ادا کرنے کا اہل نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد بھی اکثر وہ مجھے اسی نسبت کے ساتھ پکارتے تھے۔ یہ ان کی محبت اور حوصلہ افزائی کا انداز تھا۔

شریعت اپیلیٹ بنچ، سپریم کورٹ، کی رکنیت

2010ء میں غزالی صاحب سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے رکن بنے اور اس کے بعد ان کے ساتھ مختلف مقدمات کے قانونی اور فقہی پہلوؤں پر بارہا تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ وہ مقاصدِ شریعت اور قواعد فقہیہ کے ذریعے شریعت کے عمومی مزاج کی بہت عمدہ وضاحت کرتے تھے اور اس پہلو سے ان کے طریقِ استدلال اور منہج پر شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا گہرا اثر نظر آتا تھا لیکن اس کے ساتھ ان کے کام کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ نصوص، بالخصوص قرآن کی کی آیات، سے برمحل استدلال کرتے تھے۔ ان کا استحضار قابل رشک اور ان کا استدلال قابلِ تقلید ہوتا۔

شریعت اپیلیٹ بنچ میں دو طرح کے مقدمات آتے ہیں: ایک، حدود مقدمات میں سیشن کی عدالت کے فیصلے کے خلاف پہلی اپیل وفاقی شرعی عدالت کو، اور دوسری اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو ہوتی ہے؛ دوم، جب کسی قانون کو "قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے تصادم" کی بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنچ کیا جائے (جسے "شریعت درخواست" کہا جاتا ہے) تو پھر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں ہوتی ہے۔ پہلی قسم کے مقدمات بھی اہم ہوتے ہیں لیکن غزالی صاحب کی زیادہ دلچسپی شریعت درخواستوں کی اپیلوں میں ہوتی تھی کیونکہ ان کے ذریعے قوانین سے غیر اسلامی امور دور کرنے کا موقع ملتا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس بنچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہوتا تھا اور غزالی صاحب کو مسلسل یہ گلہ رہا کہ ہمارے جو بھی چیف جسٹس بنے، انھوں نے ان اپیلوں کی سماعت سے مسلسل گریز کا رویہ اختیار کیا۔ غزالی صاحب وقتاً فوقتاً انھیں یاد دلاتے بھی رہے۔ چنانچہ ایک بار چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انھیں یہ کام سونپ دیا کہ وہ ان تمام اپیلوں کے متعلق ایک جامع رپورٹ ان کےلیے تیار کریں جس کے بعد وہ ان مقدمات کی سماعت کا سلسلہ شروع کرلیں گے۔ غزالی صاحب نے 1989ء سے 2019ء تک 30 سال کے زیرِ التوا مقدمات کے متعلق ایک جامع رپورٹ تیار کرکے ان کے حوالے کی لیکن کوئی عمل درآمد کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ البتہ 2020ء میں چیف جسٹس گلزار احمد نے شریعت درخواستوں کی اپیلوں کے بجاے حدود مقدمات کی اپیلوں کےلیے چند دن شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے مقدمات رکھے۔ پھر رات گئی، بات گئی۔

ستمبر 2023ء میں جب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا، تو مجھے سیکرٹری کی ذمہ داریاں دیتے ہوئے خصوصاً شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے زیرِ التوا مقدمات پر رپورٹ کا کام سونپا۔ مجھے غزالی صاحب کی رپورٹ کا علم تھا۔ میں نے ان سے رابطہ کیا، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر انھوں نے قاضی صاحب سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا۔ قاضی صاحب نے انھیں بتایا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ کے بعد اب مقدمات کی سماعت کےلیے بنچ بنانے کا اختیار تنہا چیف جسٹس کے پاس نہیں رہا، بلکہ اب چیف جسٹس اور دو سینیئر ججوں پر مشتمل کمیٹی اس کافیصلہ کرتی ہے، البتہ میری کوشش ہوگی کہ جنوری سے ہم اس کی سماعت کا سلسلہ شروع کرلیں۔ غزالی صاحب نے انھیں بتایا کہ انھوں نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ پہلے سے تیار کی ہوئی ہے۔ قاضی صاحب کے کہنے پر غزالی صاحب نے اس رپورٹ کی نقل مجھے دے دی۔ میں نے تمام مقدمات کی فائلیں منگوا کر انھیں پڑھا اور پھر غزالی صاحب کے مشورے اور رہنمائی میں ایک لائحۂ عمل تیار کیا، لیکن معلوم نہیں تھا کہ تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا ہوا ہے اور  18 دسمبر کو غزالی صاحب کا انتقال ہوا۔ شریعت اپیلیٹ بنچ بھی اب ادھورا رہ گیا ہے۔ آگے کا کام مشکل ہوگیا ہے لیکن، ان شاء اللہ، غزالی صاحب کی یہ آخری خواہش پوری کرنے کی ہم پوری کوشش کریں گے۔ یہ صرف غزالی صاحب کی خواہش ہی نہیں، آئینی ذمہ داری بھی ہے اور ایمان کا تقاضا بھی۔

'نرا وکیل ہی نہ رہ جائے!'

شریعت اپیلیٹ بنچ میں زیرِ التوا مقدمات سے یاد آیا کہ سودی قوانین کے خلاف شریعت درخواستوں پر وفاقی شرعی نے 1991ء میں فیصلہ دیا تھا اور انھیں اسلامی احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا تھا، لیکن اس فیصلے کے خلاف حکومت اپیل میں گئی تو شریعت اپیلیٹ بنچ نے 1999ء میں اپنا فیصلہ دیا اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ تاہم جب اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں، تو ان کی سماعت کے بعد 2002ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ نے اپنا 1999ء کا فیصلہ ختم کردیا اور مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت میں از سرِ نو سماعت کےلیے بھیج دیا۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کا یہ دوسرا فیصلہ آئینی اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر بہت کمزور تھا۔ غزالی صاحب کے لائق فائق فرزند احمد حمزہ غزالی نے اپنا ایل ایل ایم کا مقالہ اس فیصلے کے تنقیدی جائزے پر میری نگرانی میں لکھا۔ چونکہ اس دوران میں حمزہ نے وکالت بھی شروع کی تھی جس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ابتدائی مرحلے پر قدم جمانے میں بھی بہت وقت لگتا ہے، اس لیے مقالہ لکھنے میں حمزہ نے کافی وقت لگایا۔ غزالی صاحب اس سلسلے میں بہت فکرمند تھے اور کبھی مجھے گھر پر بلا کر، کبھی فون پر اس سلسلے میں فکرمندی کا اظہار کرتے اور مجھے کہتے کہ اپنے شاگرد سے کام لیں۔ وہ خصوصاً اس بات پر زور دیتے کہ حمزہ کہیں نرا وکیل ہی نہ رہ جائے! حمزہ نے، ما شاء اللہ، بہت ہی عمدہ مقالہ لکھا جو اس موضوع پر برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن غزالی صاحب کی خوشی دیدنی تھی!

غزالی صاحب کی حیثیت میرے لیے تو پیر و مرشد کی تھی۔ جب بھی کسی الجھن کا سامنا کیا، بے چینی محسوس کی، رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی، انھیں پیغام بھیجا، اور وہ ہمیشہ کھلے دل سے استقبال کرتے۔ بلکہ بارہا تو ایسا ہوا کہ ان کی جانب سے ملاقات کےلیے کہا گیا اور میں ادھر ادھر کے مسائل میں گرفتار، نہ جاسکا، تو پھر شرمندگی محسوس ہوتی، پھر حمزہ کا وسیلہ پکڑتا اور ان کے ذریعے غزالی صاحب کی بارگاہ میں ملاقات کےلیے عرضی پیش کرتا، لیکن انھوں نے ایک بار بھی انکار نہیں کیا۔ ان کے ہاں حاضری ہوتی، تو مجھے ان کی صحت اور آرام کا بھی خیال رہتا اور کوشش ہوتی کہ انھیں زیادہ زحمت نہ دوں، لیکن مغرب سے عشاء کا وقت ہوجاتا، وہ اصرار کرکے مجھے نماز پڑھانے کےلیے آگے کرتے، کبھی میری مان کر حمزہ کو آگے کردیتے (حمزہ کی تلاوت، ما شاء اللہ، بہت پیاری ہے)، اور پھر عشاء کے بعد بھی دیر تک محفل جاری رہتی۔ اس دوران میں ان کی مہمان نوازی کا بھی لطف اٹھاتا، ان کی خوبصورت گفتگو کا بھی حظ لیتا اور ان سے بھرپور رہنمائی بھی حاصل کرتا۔ اس محفل کا اثر پھر اگلے کئی دنوں، بلکہ ہفتوں تک جاری رہتا۔

پشتو اور پشتونوں سے محبت

غزالی صاحب کو اپنے برادرِ بزرگ غازی صاحب کی طرح پشتو اور پشتونوں کے ساتھ خصوصی محبت تھی۔ غازی صاحب سے تو ہم نے پشتو کا ایک آدھ ہی جملہ سنا تھا لیکن غزالی صاحب تو بڑی روانی سے اور صاف لہجے میں پشتو بولتے تھے۔ کئی بار انھوں نے کہا کہ اس کا کریڈٹ ان کے مدرسے کے زمانۂ طالب علمی کے دوستوں اور اساتذہ کو جاتا ہے جن میں بہت سے پشتو بولنے والے تھے۔ پشتونوں اور افغانوں سے خصوصاً اور وسط ایشیائی اقوام سے عموماً ان کو دلچسپی تھی اور ان کے احوال سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتے۔ دو دفعہ میں افغانستان گیا اور واپس آیا تو غزالی صاحب کے ساتھ تفصیلی نشستیں وہاں کے حالات کے بارے میں ہوئیں۔ چند مہینے قبل ملاقات میں انھوں نے خود افغانستان کی سیر کی خواہش کا اظہار کیا اور ہمارے دوست ڈاکٹر احمد خالد حاتم (صدر، کاردان یونیورسٹی، کابل) جنھوں نے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور سپریم کورٹ میں غزالی صاحب کے ساتھ کام کیا، کا نمبر لے کر ان سے آنے جانے کے متعلق تفصیلی رہنمائی لی۔ بعد میں کچھ صحت کے مسائل اور کچھ مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ پروگرام نہیں بن سکا، لیکن اس خواہش کا اظہار انھوں نے متعدد بار کیا۔

افغانستان کے ساتھ خصوصی لگاؤ غازی صاحب کو بھی بہت تھا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ میرے والد صاحب کا ایم فل کا مقالہ اقبال اور افغانستان کے موضوع پر ہے، تو انھوں نے میرے والد صاحب سے ملاقات اور یہ مقالہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے تو افغانستان سے بھی محبت ہے اور اقبال سے بھی۔ کچھ یہی حالت غزالی صاحب کی بھی تھی۔ اسی طرح انھیں قائدِ اعظم سے بھی والہانہ محبت تھی اور پاکستانیت تو ان کی رگ رگ میں رچی بسی تھی۔ ان کے موبائل پر کالنگ ٹیون کے طورپر پاکستان کا ترانہ سنا جاتا۔

'رگِ فاروقیت'

غزالی صاحب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے اور مجدد الف ثانی کے الفاظ میں ان کی رگِ فاروقیت جب پھڑک اٹھتی، تو پھر وہ سماں دیکھنے والا ہوتا۔ حق و باطل کے معرکے میں وہ کسی مداہنت کے قائل نہیں تھے اور ڈنکے کی چوٹ پر بلند آہنگ سے کلمۂ حق کہنا ان کی ایسی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے بڑے بڑے ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے اور ان کو دیکھ کر راستہ چھوڑ دیتے۔ ان کے برادرِ بزرگ غازی صاحب بہت متحمل مزاج اور وسیع الظرف تھے اور لوگوں کی بے ہودگی کا سامنا  ایک خندۂ زیرِ لب کے ساتھ کرتے تھے۔ غزالی صاحب ان کے اس تحمل کے بھی شدید ناقد تھے اور بعض اوقات اسے docility سے تعبیر کرتے (ان فاروقی برادران کے مزاجوں کا موازنہ ایک بہت دلچسپ موضوع ہے، آگے اس ضمن میں خود غزالی صاحب کے بعض کلمات پیش کروں گا)، لیکن بعض اوقات ان کی رگِ فاروقیت بھی پھڑک اٹھتی، تو پھر عجیب ہی منظر ہوتا۔ یہ خصوصاً تب ہوتا جب قائدِ اعظم، علامہ اقبال یا پاکستان کے متعلق کوئی ہلکی یا غلط بات کہی جاتی۔ غزالی صاحب میں فاروقیت کی یہ خصوصیت بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔

ایک دن یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کی میٹنگ تھی۔ تمام پروفیسر بیٹھے تھے۔ یونیورسٹی کی علمی پالیسی پر بحث ہونی تھی لیکن صدرِ جامعہ کا طول طویل خطبہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ غزالی صاحب نے ایک چٹ پر یہ عبارت لکھ کہ مجھے دی اور پھر اٹھ کر چلے گئے: "اگر دنیا میں کہیں لایعنی گفتگو کا مقابلہ ہو، تو یہ ۔۔۔ اس مقابلے میں اول انعام کے حق دار قرار پائیں گے۔"

جمعہ کی نماز عموماً فیصل مسجد میں ہی پڑھتے تھے۔ ایک دن مصر کے ایک پروفیسر خطبے دے رہے تھے۔ خطبہ کیا تھا، سورۃ ہود میں انبیاے کرام علیہم السلام کے متعلق وارد آیات کی مادی اور اشتراکی تعبیر پر مبنی ایک طویل تقریر تھی۔ میں پچھلی صفوں میں تھا، لیکن اچانک دیکھا کہ غزالی صاحب جو اگلی صفوں میں تھے، اٹھ کھڑے ہوئے اور خطیب کو ٹوکا کہ یہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ چمچوں کڑچوں کو یہ بہت برا لگا، لیکن فاروقی خون کے سامنے کون دم مار سکتا تھا۔ خطیب نے بوکھلا کر خطبہ فوراًہی ختم کردیا۔ نماز کے بعد میں غزالی صاحب کو ڈھونڈ رہا تھا، لیکن رش کی وجہ سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ میں اپنے دفتر آیا (ان دنوں میں شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہا تھا)، تو کچھ ہی دیر میں غزالی صاحب تشریف لائے۔ ابھی تک جلال کی کیفیت میں تھے۔فرمایا کہ ان احمقوں کو یہ علم نہیں ہے کہ یہ پاکستان ہے، مصر نہیں ہے۔ مزید فرمایا کہ اگلی صفوں میں بڑے بڑے نابغے بیٹھے تھے لیکن کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس بے ہودہ یاوہ گوئی پر اعتراض کرتا، اس لیے مجبوراً مجھے ہی کہنا پڑا۔ میں نے عرض کی یہ کام آپ ہی کرسکتے تھے۔ بہرحال، یہ صرف جذباتی معاملہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے علی وجہ البصیرت باطل جانتے تھے اور اس وجہ سے انھوں نے میرے دفتر میں بیٹھے بیٹھے یونیورسٹی کے بعض اعلی حکام کو اس معاملے پر تفصیلی تنقیدی پیغام بھیجا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صاحب اس کے بعد فیصل مسجد میں خطبہ دینے کےلیے کبھی نہیں آئے۔

خود احتسابی

یہ بات واضح رہے کہ جو معیار غزالی صاحب نے دوسروں کےلیے مقرر کیا تھا، اپنے لیے اس سے کہیں زیادہ کڑا معیار مقرر کیا تھا۔ خود احتسابی کی جو صفت میں نے ان میں دیکھی شاذ ہی کہیں اور نظر آئی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایک پیغام کو یہاں جوں کا توں نقل کروں۔ ایک دن انھوں نے مجھے لکھا کہ مجھے ان کے موقف میں یا کام میں کوئی بات غلط نظر آئے، تو میں مداہنت بالکل نہ کروں۔ میں نے عرض کی کہ ایسی کوئی بات مجھے نظر آئی، تو ادب و احترام کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے میں، ان شاء اللہ، ضرور توجہ دلاؤں گا۔ اس پر انھوں نے لکھا:

"میں جس طرح کی بے تکلفی برتتا ہوں وہی بے تکلفی آپ سے برتنے کی امید رکھتا ہوں اور اللہ تعالی کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ یہ بات آپ سے کہنے میں بالکل سچا اور مخلص ہوں ۔آپ اس کو ہرگز تواضع پر محمول نہ کریں اور میری چھوٹی بڑی ہر غلطی پر متنبہ کیا کریں اور یقین جانئے ناصحانہ تنقید چاہے جارحانہ ہو وہ سن کر میں بہت خوش ہوتا ہوں اور الحمد للہ ہر ہما شما کی تعریف کا اثر میرے نفس امٌارة پر بالکل نہیں ہوتا۔البتہ اگر کوئی صاحب علم اگر کسی بات کی تحسین کرے تو  مزید کام کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے ۔2010 میں شرعی عدالت کے جج بننے کے چھ ماہ کے اندر اندر ہی میرے دنیا میں سب سے بڑے کیا ، بلکہ واحد معلم ومربی، مخلص بھائی اور بے تکلف دوست دنیا سے رخصت ہوگئے اس وقت سے باوجود کوشش کے کوئی ایسا نہیں مل سکا جو میرے دل میں ان کی جگہ لے سکے۔اور محاورے میں نہیں بلکہ حقیقت میں تنہا محسوس کرتا ہوں، حمزہ سلمہ کو اس ڈھب پر لانے کی کوشش کرتا ہوں، وہ کبھی کبھار دائرہ ادب میں رہتے ہوئے مجھ پر ہلکی پھلکی تنقید کر بھی لیتا ہے مگر بہرحال وہ میرا بیٹا اور میں اس کا باپ ہوں وہ تنقید میں کہاں تک جاسکتا ہے؟اس ساری گذارش کا مقصد ، جو کہ دل کی گہرائیوں سے کررہا ہوں ، یہ ہے کہ آپ سے امید رکھتا ہوں کہ میرے حقیقی بھائی جان کی جگہ آپ لیں اور میرا ہاتھ تھام لیں ۔حالیہ بیماریوں کے ہجوم میں اب ذہنی و علمی و فکری تنہائی کا  یہ احساس شدید تر ہوگیا ہے۔آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر میرے اور بھائی جان مرحوم کے درمیان جو بے تکلفی کی سطح تھی وہ ایسی تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے پر ایسی سخت تنقید کرتے تھے کہ کوئی اجنبی دیکھتا تو ہمیں جانی دشمن ہی سمجھتا۔امید ہے آپ میری گذارش پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہوں گے ۔"

اس کے جواب میں میں کیا عرض کرتا؟ میں تو سکتے میں چلا گیا۔ کچھ دیر میں ان کا دوسرا پیغام آیا:

" اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام- جو انبیاء کے بعد افضل البشر ہیں اور ہمارے لئے قابل تقلید- تو محسوس ہوگا کہ وہ آپس میں بہت بے تکلف تھے اور ایک دوسرے پر ایسی کڑی تنقید کرتے تھے کہ کسی اور معاشرت میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایک مثال یاد آئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بزرگترین اصحاب شیخین تھے رضی اللہ عنہما،جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مانعین زکوة کے خلاف لشکر بھیجنے چاہتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں بڑے خدشات اور تحفظات تھے۔کئی دن شیخین کے مابین اس پر بحث مباحثہ ہوتا رہا، ایک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دوران گفتگو یہ فرمایا:"أجبٌار في الجاهلية خوٌار في الاسلام؟ اب آپ بتائیے کہ آج اگر کوئی اپنے قریبی رفیق اور دوست سے ایسے الفاظ کہ دے تو وہ دوستی کتنے دل چل سکتی ہے؟ اس بات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہماری معاشرت اسلام کے معیار سے کتنی پست ہوچکی ہے ۔اور یہ سب عجمیت کے اثرات ہیں، یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال عجمیت کے اثرات کے اتنے بڑے ناقد تھے۔"

آج بھی یہ پیغام پڑھ کر آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ

نفیِ ذات

غزالی صاحب حقیقی معنوں میں صوفی تھے۔ لوگ ان کے رعب اور جلالی مزاج کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ شاید ان میں انانیت ہو لیکن جو انھیں جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک فقیر منش اور سادہ مزاج آدمی تھے جو پروٹوکول اور 'ہٹو بچو' کی صداؤں سے ہمیشہ گریز کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مجلس میں کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں جہاں ان کی انفرادیت اور خصوصی حیثیت کسی پر واضح نہ ہو۔ نفیِ ذات کے بے شمار مناظر ہم نے دیکھے ہیں۔ 2019ء میں جب ہم شریعہ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام پاکستان میں قوانین کی اسلامیت کے موضوع پر ایک تین روزہ کانفرنس کی تیاریاں کررہے تھے، تو قدم قدم پر ان کی جانب سے رہنمائی اور مدد میسر رہی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ خود صرف سامع کی حیثیت سے ہی شریک ہوسکیں گے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے اور منت سماجت کے بعد انھیں قائل کیا کہ وہ ایک سیشن کی صدارت کریں۔ اسی طرح افتتاحی تقریب میں بڑی مشکلوں سے ان کو راضی کیا کہ وہ سٹیج پر رونق افروز ہوں۔ اس تقریب میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کلیدی خطبہ دے رہے تھے اور اس موقع پر غزالی صاحب کے قد کاٹھ کی شخصیت کا سٹیج پر موجود ہونا ضروری تھا۔ خواجہ صاحب خود بھی صوفی منش آدمی ہیں۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں غزالی صاحب کا تذکرہ تو کیا سو کیا، یہ بھی ذکر کیا کہ وہ خود غزالی صاحب کے فرزند حمزہ کے شاگرد ہیں جن سے انھوں نے عربی سیکھنے کی کوشش کی!

آج یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے ساتھ میرا تعلق اسی کانفرنس کی وجہ سے بنا اور اس کا سبب بھی غزالی صاحب ہی بنے تھے۔ قاضی صاحب کے ساتھ میری ایک مختصر ملاقات 2015ء میں جسٹس جواد خواجہ صاحب کے چیمبر میں ہوئی تھی جب میں نے ایک فیصلے میں خواجہ صاحب کی معاونت کی تھی اور پھر اس فیصلے کا اردو ترجمہ بھی کیا، تو خواجہ صاحب اس ترجمے پر نظرِ ثانی کررہے تھے اور اس وقت قاضی صاحب بھی ان کے چیمبر میں موجود تھے، تو ان سے بھی ملاقات ہوگئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کوئی ملاقات اگلے کئی برسوں تک نہیں ہوئی۔ 2019ء میں اس کانفرنس کےلیے تیاری کے سلسلے میں غزالی صاحب نے تجویز کیا کہ اس میں سپریم کورٹ کے کسی جج کو بھی آنا چاہیے اور پھر انھوں نے خود قاضی صاحب کا نام لیا۔ میں نے عرض کی کہ میں ان کی خدمت میں عرضی تو ڈال دیتا ہوں لیکن اس کی منظوری آپ کی کوشش کے بغیر شاید ممکن نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ میں بات کرلوں گا۔ چنانچہ میں نے خط لکھا اور پھر غزالی صاحب نے قاضی صاحب سے بات کی، تو قاضی صاحب نے مجھے فون کیا اور کانفرنس کے بارے میں معلومات لیں۔ پھر کہا کہ آپ کی رسائی ایسے لوگوں تک ہے جنھیں میں انکار نہیں کرسکتا! یوں قاضی صاحب کانفرنس میں پینل ڈسکشن میں حصہ لینے کےلیے آگئے۔ (انگریزی محاورے کے مطابق، باقی تاریخ ہے!) لیکن غزالی صاحب نے مجھے اس بات کا تذکرہ کرنے سے روکا تھا کہ قاضی صاحب کو اسلامی یونیورسٹی لانے کا سبب وہ بنے۔

اصاغر نوازی

مجھ پر غزالی صاحب کی شفقت کے مظاہر بہت ہی نرالے تھے۔ ایک تو انھوں نے کبھی مجھے اپنے در سے بغیر کوئی تحفہ دیے جانے نہیں دیا۔ جب بھی ان کی خدمت میں حاضری دی، اٹھنے سے پہلے انھوں نے مجھے کوئی کتاب، کوئی قلم، کوئی تسبیح ضرور پکڑائی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبِ علم قلم کے بغیر صاحبِ علم نہیں بن سکتا۔ چنانچہ ان کی واسکٹ یا کوٹ کی جیب میں ایک دو قلم ضرور موجود رہتے اور اگر دیکھتے کہ میری واسکٹ یا کوٹ کی جیب میں قلم نہیں ہے، تو تنبیہ بھی کرتے اور اپنی جیب سے ایک قلم نکال کر دے دیتے۔ پھر ان کی تنبیہ سے بچنے کی خاطر میں نے یہ اہتمام شروع کیا کہ کہیں اور میرے پاس قلم ہو یا نہ ہو، لیکن ان کے پاس جاؤں تو ضرور ایک قلم جیب میں موجود ہو۔

آخری دور میں تسبیح کے متعلق بھی ان کا یہی طرزِ عمل رہا۔ مجھے کئی دفعہ انھوں نے تسبیح کا تحفہ دیا۔ ایک دن کہنے لگے کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عرب اسے "مسبّحہ" کہتے ہیں لیکن یہ اصل میں "مذکّرہ " (یاد دلانے والی) ہے کیونکہ یہ ہاتھ میں ہو تو بندہ کچھ نہ کچھ ذکر یا ورد کر ہی لیتا ہے، جیب میں پڑی ہو، تو ہاتھ لگتے ہی یاد آجاتا ہے کہ اللہ کا نام لینا چاہیے۔

فقہاء کے وعدے

غزالی صاحب کی بزرگانہ شفقت تو، الحمد للہ، مسلسل میسر رہی، اس شفقت کے ساتھ وقتاً فوقتاً تنبیہ بھی کرتے اور ایک آدھ دفعہ ہلکی سی ڈانٹ بھی پلائی، لیکن اس پر اللہ کا شکر گزار ہوں کہ وہ مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ زیادہ تر ان کا گلہ یہ رہتا کہ بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں خود بھی بہت تشنگی محسوس کرتا اور اس لیے ہر ملاقات پر وعدہ کرتا کہ اگلی ملاقات جلد ہی ہوگی (ان شاء اللہ کی قید کے ساتھ)۔ کئی بار انھوں نے جوش ملیح آبادی کا یہ جملہ سنایا جو انھوں نے خود غزالی صاحب سے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولویوں کے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (غزالی صاحب کے مزاج کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ جوش ملیح آبادی کی محفل میں مستقل جایا کرتے تھے۔ ان کے کئی دلچسپ واقعات انھوں نے سنائے ہیں لیکن انھیں کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں۔) میں دبے الفاظوں میں انھیں یاد دلاتا کہ وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کی قید لگی ہوئی تھی اور یہ قید تو قسم کے ساتھ بھی لگ جائے تو بندہ حانث نہیں ہوتا۔ وہ کہتے کہ ہاں، فقہاء کو یہ حیلہ آتا ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو تو اسے اللہ کی مشیئت سے مشروط کردیں۔

جب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے مجھ سے اپنے اس خواہش کا تذکرہ کیاکہ وہ چیف جسٹس بنیں تو میں ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں معاونت کےلیے باقاعدہ ذمہ داری قبول کروں، تو جن چار بزرگوں سے میں نے رہنمائی لی، ان میں ایک غزالی صاحب تھے (باقی تین میں ایک میرے والد گرامی تھے، دوسرے استاذ گرامی پروفیسر عمران احسن خان نیازی اور تیسرے استاذ گرامی پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز)۔ اس موقع پر غزالی صاحب نے بہت تفصیلی رہنمائی دی، سپریم کورٹ میں کام کے مواقع اور وہاں ممکنہ مسائل کے متعلق بھرپور آگاہی بھی دی اور اس پہلو پر خصوصی تاکید کی کہ کام کی نوعیت ایسی ہو جو آپ کے علمی مقام کے مناسب ہو۔

غزالی صاحب نے کئی بار اس خواہش کا اظہار کیا کہ استاذِ گرامی پروفیسر نیازی سے تفصیلی نشست ہو۔ نیازی صاحب نے عرصہ ہوا گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ غزالی صاحب نے ایک آدھ دفعہ ان سے فون پر بات کی اور دو تین دفعہ مجھے کہا کہ ان کے گھر چلتے ہیں، بلکہ ایک دفعہ یہ بھی کہا کہ نیازی صاحب کی پسندیدہ نمکین مٹن کڑاہی اور تکہ بنا کر چلتے ہیں، لیکن وہ جو شکیل بدایونی نے کہا تھا کہ مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں، کبھی تم نہیں، والا معاملہ تھا۔ سو یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ وہ نیازی صاحب کی فقاہت کے بھی قائل تھے اور خصوصاً تراث کی فقہی کتب کے تراجم کے متعلق ان کی صلاحیت کے معترف تھے۔ (نیازی صاحب نے بدایۃ المجتہد، کتاب الاموال، موافقات اور ہدایہ کے علاوہ مبسوط اور بدائع الصنائع کے کئی ابواب کے انگریزی تراجم کیے ہیں۔) غزالی صاحب کی خواہش تھی کہ وہ خود بھی فقہ کی کسی مختصر مگر جامع کتاب کا انگریزی ترجمہ کریں۔ مجھ سے انھوں نے کتاب تجویز کرنے کےلیے کہا، تو میں نے انھیں امام محمد کی الجامع الصغیر کا مشورہ دیا اور عرض کیا کہ حضرت عبد الحی لکھنوی کی شرح کے ساتھ جو متن ملتا ہے، اسی کو مد نظر رکھنا بہتر ہوگا۔ ہمارے شاگردِ رشید مولانا محمد رفیق شینواری نے فوراً ہی اس کے دو نسخے  مہیا کیے، ایک ان کےلیے اور ایک میرے لیے۔ (بعد میں شینواری صاحب نے امام سرخسی کی شرح الجامع الصغیر بھی مجھے تحفہ کی۔ شینواری صاحب عام مولویوں سے مختلف ہیں کیونکہ وہ صرف لینے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ دینا بھی جانتے ہیں اور انھوں نے اور بھی کتب کے تحفے دیے ہیں۔ ) بہرحال غزالی صاحب نے اس کا آغاز تو کیا، لیکن کچھ عرصے بعد مجھے کہا کہ بہت کوشش کی، پر طبیعت ادھر نہیں آتی! چنانچہ یہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔

سوشیالوجی آف اسلام

غزالی صاحب فقہی جزئیات کے بجاے شریعت کی کلیات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور اس کا ایک خوبصورت مظہر ان کی کتاب سوشیالوجی آف اسلام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا، غزالی صاحب برسوں سوشل سائنسز پڑھاتے رہے۔ ان علوم کے متعلق ان کا ایک سوچا سمجھا موقف تھا جسے وہ شاگردوں کی کئی نسلوں تک منتقل کرتے رہے۔ ان کی تحریرات، خصوصاً شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب کے انگریزی ترجمے اور اس پر ان کی تحقیق، میں اس کی بہترین توضیح ملتی ہے، لیکن آخری عمر میں انھوں نے خصوصاً سوشیالوجی آف اسلام لکھ کر ایک جامع کتاب لکھی جو محققین کےلیے بھی مفید چیز ہے اور نصابی کتاب کا کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔

یہ کتاب انھوں نے مجھے تحفہ کی، تو میں پکار اٹھا: ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبۡغِ ! پھر انھیں بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اسلامی یونیورسٹی کے اکیڈمک کونسل میں بی ایس سوشیالوجی کے چار سالہ پروگرام کا نصاب منظوری کےلیے پیش کیا گیا۔ یہ نصاب سوشیالوجی کے شعبے کے بورڈ اور سوشل سائنسز کی فیکلٹی کے بورڈ سے منظور کیا جاچکا تھا اور اب حتمی منظوری کےلیے اکیڈمک کونسل میں پیش کیا گیا۔ وہاں سے بھی تقریباً منظور ہو ہی چکا ہوتا، اگر میں نے اس پر اعتراض نہ کیا ہوتا۔ میرا اعتراض یہ تھا کہ اس نصاب میں اور کسی بھی دیگر یونیورسٹی کے نصاب میں فرق کیا ہے؟ یہی نصاب پڑھانا تھا، تو اسلامی یونیورسٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ (شکر ہے کسی نے ابن انشا کے انداز میں یہ نہیں کہا، کہ غلطی ہوگئی، آئندہ نہیں بنائیں گے۔) چار سالہ نصاب میں صرف دو مقامات پر بس ابن خلدون کا نام نظر آیا ہے۔ کیا یہی علوم کی اسلامیت کی معراج ہے؟ میرے اعتراض کے بعد اکیڈمک کونسل نے اس نصاب کی منظوری مؤخر کردی اور پھر ایک خصوصی کمیٹی بنائی جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا۔ (یہ الگ بات ہے کہ اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ کم از کم اس وقت تک تو نہیں ہوئی جب تک میں اسلامی یونیورسٹی میں موجود رہا۔) غزالی صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بہت داد دی۔ غزالی صاحب کی یہ کتاب اس موضوع پر پائے جانے والے خلا کو بہت خوبصورتی اور عمدگی سے پر کرتی ہے۔

غزالی صاحب کے ساتھ دسمبر میں ہی جو آخری بالمشافہ ملاقات ہوئی اس میں بھی اس کتاب کا تذکرہ آیا۔ اس دن غزالی صاحب سپریم کورٹ تشریف لائے تھے۔ میں ایک اہم مقدمے کی سماعت کی وجہ سے کورٹ روم نمبر 1 میں چیف جسٹس کی معاونت کےلیے بیٹھا تھا۔ وقفے میں دفتر آیا، تو پی اے نے بتایا کہ ڈاکٹر غزالی صاحب آئے تھے اور آپ کا پوچھ رہے تھے۔ میں نے ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن بات نہیں ہوسکی۔ میں نے دوبارہ کورٹ میں جاتے ہوئے اپنے پی اے سے کہا کہ غزالی صاحب میرے بہت ہی محترم استاذ ہیں، ان سے رابطے کی کوشش جاری رکھیے اور رابطہ ہو، تو ان کی خدمت میں میری جانب سے معذرت پیش کرکے انھیں بتائیے کہ اس مقدمے کی وجہ سے میرا کورٹ میں بیٹھنا مجبوری ہے اور میں فارغ ہوتے ہی ان سے رابطہ کروں گا۔ میں دوسرے وقفے میں دفتر آیا، تو انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ غزالی صاحب وہیں تشریف فرما تھے اور ایک چٹ پر کچھ لکھ رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو اٹھے اور گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کےلیے پیغام چھوڑ رہا تھا لیکن اچھا ہوا کہ آپ سے ملاقات ہوگئی۔ کچھ دیر بیٹھے رہے اور چند نصیحتوں اور تنبیہات سے نوازنے کے بعد چل پڑے۔ میں انھیں گاڑی تک چھوڑنے آیا، تو راستے میں سوشیالوجی آف اسلام کا تذکرہ آیا اور انھوں نے پوچھا کہ بھائی مراد علی نے اس کتاب کی اشاعت میں دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن وہ بھی شاید آپ کی طرح وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کی قید لگاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں مراد کے کان کھینچوں گا اور وہ فوراً ہی آپ سے رابطہ کرے گا۔ (وہ مراد کی بہت تعریف کرتے تھے اور ایک دفعہ فرمایا کہ صالحیت اور صلاحیت کا اجتماع بہت کم لوگوں میں نظر آیا ہے اور یہ نوجوان بھی ان لوگوں میں ہے۔) انھوں نے کہا کہ اس دن قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اچانک ہی اس طرف دھیان گیا کہ نظریۂ علم کی حیثیت سے تجربیت (Empiricism) کو تو ہمیشہ انبیاے کرام کے معاندین نے پیش کیا ہے، اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: وَكَذَٰلِكَ مَآ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ فِي قَرۡيَةٖ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوهَآ إِنَّا وَجَدۡنَآ ءَابَآءَنَا عَلَىٰٓ أُمَّةٖ وَإِنَّا عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِم مُّقۡتَدُونَ۔  پھر فرمایا کہ مذکورہ کتاب میں تجربیت کی بحث پڑھ کر اس آیت سے میرے استدلال کے متعلق بتائیے گا کہ کیا آپ اس سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ پھر انھوں نے اپنے استدلال کی مختصر وضاحت کی اور کہا کہ تفصیلی بحث کےلیے گھر پر تشریف لائیے گا۔ معلوم نہیں تھا کہ اس کے بعد ان سے ملاقات ان کے جنازے میں ہی ہوگی!

فلسطین کا دکھ

اس ملاقات کے بعد ان سے فون پر تو رابطہ رہا اور تقریباً روزانہ ہی ان کی جانب سے ایسا پیغام ملتا جس میں وہ فلسطین کے متعلق اپنے دلی دکھ کا اظہار کرتے اور پھر اس دوران میں چونکہ اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ بھی آئی، تو انھوں نے اس سلسلے میں تفصیلی پیغامات دیے۔

اکتوبر سے دسمبر تک ڈھائی مہینوں میں غزالی صاحب کے اکثر پیغامات کا تعلق فلسطینیوں کے قتلِ عام ، ان کے جہاد اور امت کی اس ضمن میں ذمہ داریوں کے متعلق تھے۔فلسطین میں مظالم نے انھیں بہت زیادہ دکھی کردیا تھا اور وہ مسلسل اس کے متعلق پریشانی میں مبتلا رہے۔ دوسرا دکھ مقامی تھا اور وہ بھی بہت گہرا تھا۔ یہ دکھ اسلامی یونیورسٹی کی بربادی کا تھا۔

اسلامی یونیورسٹی کی بربادی کا دکھ

وہ یونیورسٹی جس کی بنیادوں میں ان کا خونِ جگر تھا، جس کی خدمت میں انھوں نے زندگی صرف کی تھی، وہ پچھلے چند برسوں میں جس طرح بربادی کا شکار ہوئی، اس کا ان کو بہت صدمہ تھا۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوئی، انھیں یونیورسٹی ہی کی فکر میں سرگرداں پایا۔ اس ضمن میں بارہا انھوں نے چانسلر ڈاکٹر عارف علوی، صدرِ پاکستان، کو پیغامات بھیجے، ان کی توجہ کئی امور کی طرف دلائی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ علوی صاحب سے سخت مایوس ہوئے تھے۔ اسی طرح انھوں نے سعودی عرب میں پرو چانسلر اور دیگر عہدیداروں کو بھی بارہا متوجہ کیا۔ پھر جب انھیں معلوم ہوا کہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد پہلے قائدِ اعظم یونیورسٹی اور پھر اسلامی یونیورسٹی کے مسائل کی طرف توجہ کی ہے اور ان کے بورڈز کی میٹنگ بلانے کےلیے کہا ہے، تو انھیں بہت خوشی ہوئی۔ انھوں نے چیف جسٹس کے نام طویل پیغام میں یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد اور یہاں موجود امکانات  پر بھی تفصیلی رہنمائی دی اور ساتھ ہی یہاں کے مسائل کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے تدارک اور آگے بہتری کےلیے کئی تجاویز بھی دیں۔ مجھ سے بھی وہ مسلسل رابطے میں رہے اور کئی پیغامات جو انھوں نے مختلف اعلی عہدیداران کو بھیجے تھے، مجھے بھی بھیجے۔ ایسے ہی ایک پیغام میں، جو 11 دسمبر کو بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ سے ایک  دن قبل انھوں نے بھیجا، اس میں لکھا:

"نئے قاضی القضات صاحب کی بار بار یاد دہانی اور تقاضوں سے مجبور ہو کر جامعہ کے اعلی ترین فیصلہ ساز فورم کا اجلاس پیر 11 دسمبر 2023 کو ایوان صدر میں بلایا گیا ہے ۔اب دیکھیں کہیں یہ یہ دسمبر بھی ایک اور شرمناک سرینڈر کا پیش خیمہ نہ ثابت ہو جب 16 دسمبر 1971 کی ایک منحوس صبح کو چشم فلک نے  ہماری افواج کا کا ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنا دیکھا اور شرم سے منہ موڑ لیا،لگتا ہے اسی دلخراش اور شرمناک بزدلی کی شکست مان لینے کا خمیازہ ابھی تک پاکستان بھگت رہا ہے، وہ سرینڈر ایک جغرافیائی حصہ سے دستبرداری تھی۔ اگر خدانخواستہ آنے والے کل 11 دسمبر 2023 کو بھی اسی ہزیمت اور شکست خوردہ رویہ کو باقی رکھا گیا تو یہ دشمنان اسلام کی ایک اور بڑی فتح ہوگی وہ دشمنان اسلام و انسانیت جن کی صفیں اب کچھ عرصہ سے  بکھرتی نظر آرہی ہیں (خاص طور پر 7 اکتوبر کے مجاہدانہ اقدام اور تاریخ کی سب سے سنگین نسل کشی کے بعد) اللہ تعالی کی فیصلہ کن تقدیر سے دشمنانِ اسلام اور انسانیت کی سب تدبیریں الٹتی نظر آرہی ہیں اور 63 دن سے دنیا دیکھ رہی ہے اور سن رہی ہے کہ اعداء اللہ اور  اولیاء الشیطان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں ۔۔۔"

یہ پیغام جو انھوں نے خود وھاٹس ایپ پر لکھا تھا، اے فور سائز کے 8 صفحات پر آتا ہے۔ سوچیے کہ اس ایک پیغام کے لکھنے میں انھوں نے کتنا خونِ دل صرف کیا ہوگا! یہ پیغام ایک عظیم الشان دستاویز ہے اور اسے اسلامی یونیورسٹی کے ریکارڈ کا باقاعدہ حصہ بننا چاہیے۔ اس میں انھوں نے نہ صرف یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد کی وضاحت کی ہے، بلکہ اس کی بربادی کے ذمہ داران کا سراغ بھی دیا ہے اور اس کی اصلاح کےلیے لائحۂ عمل بھی تجویز کیا ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں:

"یہ جامعہ اسلامیہ عالمیہ،  علوم اسلامیہ کے ایسے ماہرین کی ایک جماعت تیار کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی جو مشرق و مغرب میں اسلام کا روشن انقلابی اور حیات بخش پیغام عالم انسانیت کو ان کی زبان میں پہنچانے کا عظیم فریضہ ،  جو شہادت حق کا فریضہ ہے اور امت کے اصل مقصد کو قرآن کریم میں بیان کرتا ہے اس مقدس فریضہ کو انجام دے ۔ یہی  اس ملت اسلامیہ کا نصب العین ہے اور اسی عمل کی وجہ سے یہ امت بطور عالمگیر تہذیب و تمدن و ثقافت کے خیر امت قرار دی گئی ہے ۔اس ادارہ کا بنیادی تصور کچھ حضرات کے ذہن میں پہلے سے تھا،جیسے علامہ اقبال رحمہ اللہ ، قائد اعظم رحمہ اللہ اور ایک مرد مؤمن شہید وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم کے سامنے تھا جب انہوں نے تاریخی قراداد مقاصد پارلیمان سے منظور کروائی۔"

آگے اس یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:

"اسی  اعلی مقصد (انسانیت کے سامنے اسلام کے ابدی پیغام کی ٹھوس علمی،فکری اور تہذیبی بنیادوں پر گواہی اور دعوت دینے کا مقصد) کے لیے اس عظیم ادارہ کا قیام 15 ویں صدی ہجری کے آغاز میں کیا گیا، اسی اعلی اور ارفع نصب العین کے لئے یہ بنیادی اصول مقرر کیے گئے: 1۔یہ جامعہ علوم اسلامیہ ساری امت مسلمہ کے لئے کام کرے گی۔ 2۔اس جامعہ اسلامیہ عالمیہ میں تمام اسلامی دنیا سے بہترین اور اپنے میدان میں مانے ہوئے اساتذہ لائے جائیں گے اور اس طرح یہاں اس امت مسلمہ کے جوہر قابل جمع کیے جائیں گے، یہاں کے اساتذہ اور طلبہ میں مقامی عنصر مغلوب اور امت مسلمہ کا حصہ غالب رکھا جائے گا اور کبھی 50 % سے زیادہ اساتذہ اور طلبہ میں مقامی عنصر  نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ 3۔ اس جامعہ علوم اسلامیہ میں علم کو خرید وفروخت کے لئےتقسیم کبھی نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا سے قابل ترین طلبہ کا اعلی معیار پر انتخاب کیا جائے گا،ان کو وظائف دے کر عزت و تکریم کے ساتھ لایا اور رکھا جائے ،یہ ملک اپنے وسائل ان بہترین طلبہ اور اعلی پایہ کے اساتذہ اور محققین کی خدمت کے لئے وقف کردے گا۔ 4۔یہاں ہر طالب علم کو 60 % اسلامی علوم و فنون میں مہارت کے لئے تربیت دی جائے گی اور 40 % فی صد ضروری اور مفید  عصری علوم و فنون کی تعلیم دی جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں روز اول سے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بیک وقت پڑھانے کا اہتمام کیا گیا ۔"

اس کے بعد انھوں نے جامعہ کے چند نامی گرامی اساتذہ کا ذکر کیا، جو مختلف اسلامی ممالک سے یہاں پڑھانے کےلیے آئے:

" واقعہ یہ ہے کہ اس جامعہ کے ابتدائی سالوں میں بڑی حد تک اعلی معیار تعلیم و تحقیق کو قائم رکھا گیا۔اساتذہ میں بہت سے انمول ہیرے جواہر یہاں لائے گئے۔ان میں عالم اسلام کے معروف اور معتبر ترین حضرات شامل تھے،مثال کے طور پر یہاں محمد قطب (مشہور مفسر سید قطب شہید کے بھائی )شعبہ تعلیم وتربیت میں  پڑھاتے رہے،اس شعبہ کا ابتدائی مقصد اسی جامعہ کے آئندہ کام آنے والے اساتذہ اور محققین کی تیاری تھی ،بعد میں اس کے تربیت یافتہ فاضل سکالر دیگر جامعات عالم میں خود اپنی جگہ پالیتے۔محمد قطب کے علاوہ اس وقت موجود عالم اسلام کے معروف اور بے نظیر عالم،مفکر،فقیہ اور فلسفی ڈاکٹر حسن الشافعی صاحب مدظلہ اور موجودہ شیخ الازھر ڈاکٹر محمد الطیب،سوڈان کے مشہور فاضل سکالر پروفیسر طیب زین العابدین، مصر کے اسلامی معاشیات کے معروف ماہر پروفیسر عبد الرحمن یسری،سوڈان کے مشہور و معروف ماہر نفسیات پروفیسر مالک بدری مرحوم ( صدر عالمی اسلامی اتحاد ماہرین نفسیات ) شامل ہیں ۔"

پھر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نامی گرامی طلبہ کا ذکر کیا جو مختلف اسلامی ممالک میں اہم عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ اس کے بعد فساد کی جڑ کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا:

"اس جامعہ علوم اسلامیہ میں جو در حقیقت پاکستان کی واحد SPECIALIZED UNIVERSITY تھی اس میں علوم اسلامیہ کی مرکزی حیثیت کو رفتہ رفتہ ختم کیا گیا ،یہ کام خائن ،خائب وخاسر جابر پرویز کے دور حکومت ( 2008- 1999) میں شروع کیا گیا اور دھیرے دھیرے اور  دبے پاؤں اس جامعہ کو سیکولرائز اور کمرشلائز کردیا گیا، تھوک کے حساب سے نئے نئے شعبے صرف سیکولر میدانوں میں کھلتے چلے گئے، چاہے اس میں مطلوبہ قابلیت کے اساتذہ اور محققین میسر ہوں یا نہ ہوں ۔ اشتہار بازی کے ذریعہ مقامی طلبہ کو رفتہ رفتہ بغیر کسی قابلیت کے امتحان کے دھڑا دھڑ بھرتی کرلیا گیا اور سالانہ فیسوں میں اربوں روپے جمع کیے جانے لگے ۔ گیا ،علوم اسلامیہ کے شعبے سمٹتے چلے گئے، یا لپیٹ کر رکھ دیے گئے ۔"

اس کے بعد ان اساتذہ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اس یونیورسٹی کےلیے زندگیاں وقف کیں لیکن یہاں کے ناقدروں نے انھیں یہاں سے جانے پر مجبور کیا اور پھر وہ جہاں گئے وہاں کے لوگوں نے ان کی قدر شناسی کرتے ہوئے ان کے علم سے فائدہ اٹھایا۔ اس کے بعد بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس کی مناسبت سے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کیسے اس اعلی سطحی بورڈ کو، جو امت کی نمائندگی کرتا تھا، یکسر مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے:

"بورڈ آف ٹرسٹیز جو اس ثمر بار گلشن بہار کا محافظ اور نگراں تھا اور جس میں از روئے دستور و قانون تمام امت مسلمہ کے ممتاز ترین مفکرین اور قائدین فکر و دانش کی موجودگی لازمی قرار دی گئی تھی اب اس سیاہ تاریک طویل رات میں( خاص طور پر سعودی قبضہ غاصبانہ کے بعد از 2012 تا 2023) اس گلشن بہار بے خار کو بلبلوں سے چھین کر کرگسوں کے حوالے کیا جاچکا ہے یعنی اب عالم اسلام کے معروف اور معتبر اہل علم و فضل کو اس اعلی مجلس سے باہر کردیا گیا  اور  یہ اعلی محفل کب کی برباد کردی گئی ہے اب خلیجی تیلیوں اور ان کے طفیلیوں کا یہاں ڈیرہ لگا ہوا ہے ۔ان ہی کی اکثریت اب غالب ہے اور سنا ہے کہ اگر کبھی کوئی بولا تو جارج آرویل کے انیمل فارم کی طرح کچھ "خنازیرو عبدة الطاغوت" اس پر فوراً غرانے لگتے ہیں ۔"

آگے انھوں نے تفصیلی لائحۂ عمل تجویز کیا ہے جس میں ایک نکتہ یہ ذکر کیا:

"صدر جامعہ، تمام نائب صدر،ڈین ،ڈائریکٹر جنرل ، ڈائریکٹر، اور صدر ہائے شعبہ فی الفور  برخواست کردیے جائیں اور فورا ایک اور ذیلی مجلس اہل علم و دانش کی تشکیل دے کر ایک  نئی  بہترین visionary ٹیم کو ذمہ داریاں سونپ دی جائیں اور کوئی کام رکنے نہ پائے ۔"

ایک اور اہم نکتہ انھوں نے یہ ذکر کیا:

"جامعہ علوم اسلامیہ میں ہوش ربا فیسوں کا فورا مکمل خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے بہ عجلت ضروری فنڈ مہیا  کردئے جائیں اور عہد نو کا آغاز کردیا جائے۔اگر کام ہوتا نظر آئے گا تو دنیا میں اہل خیر کی کمی نہیں وہ خود آگے آکر ان شاء اللہ العزیز اس اس ادارہ کو طلبہ سے پیسے اینٹھنے کی ذلت و رسوائی سے بچائے رکھے گا اور جامعہ واقعی عملا امت مسلمہ کے لئے قابل فخر منصوبہ مستقبل سازی کا مقام حاصل کرکے رہے گی۔"

الحمد للہ، 11 دسمبر کو بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ ہوئی تو اس میں عزت مآب چیف جسٹس نے تقریباً انھی نکات پر بات کی جس کے نتیجے میں بورڈ نے اسلامی یونیورسٹی کو فسادیوں کے ٹولے کے قبضے سے چھڑانے کےلیے چند بہت ہی اہم فیصلے کیے اور، ان شاء اللہ، اس کے اثرات جلد ہی سامنے آئیں گے۔ اسی رات میں نے غزالی صاحب کو مختصر پیغام بھیج کر انھیں خوش خبری دی کہ اسلامی یونیورسٹی کو بربادی سے بچانے کےلیے جو اقدامات انھوں نے تجویز کیے تھے، تقریباً ان سب کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ رات گئے انھیں تنگ کرنا مناسب نہیں ہوگا، اس لیے کال کرنے کے بجاے مختصر پیغام دیا اور کہا کہ صبح آپ سے تفصیلی بات کروں گا۔ ان کا فوراً ہی جواب آیا:

“Thank you brother for the update. I will lose my night sleep if the details are not shared NOW. PLEASE DON'T DELAY.”

میں ابھی پیغام پڑھ ہی رہا تھا کہ ان کی کال آئی اور پھر تقریباً آدھا گھنٹہ ان کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ایک ایک بات کی تفصیل پوچھی اور پھر بہت زیادہ اطمینان کا اظہار کیا۔ بار بار الحمد للہ کہتے رہے۔ پھر کہا کہ اب میں سکون سے سو سکوں گا۔

اس کے ایک ہفتے بعد ہی ان کا انتقا ل ہوا!

اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنا دے  اور ان کو اعلی علیین میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرمائے!

ڈاکٹر محمد الغزالیؒ

محمد آصف محمود ایڈووکیٹ

ہمارے استاد، سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کے جج، جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ جو ڈاکٹر محمد الغزالی کو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں میں کس بندہ آزاد کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔ جو نہیں جانتے وہ البتہ کبھی جان ہی نہیں پائیں گے کہ یہ کیسا عالی مرتبت انسان تھا جواس دنیا سے اٹھ گیا۔ڈاکٹر غزالی پر لکھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔یہ ایک کوہ کنی ہے اور ہم جیسوں میں کوئی فرہاد نہیں۔

مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ڈاکٹر غزالی کا شاگرد تھا۔ ایم اے انگریزی کی کلاس میں انہوں نے ہمیں ّ اسلام اور جدید مغربی فکرْ کا مضمون پڑھایا تھا۔ ہم حیران اور بے زار سے تھے کہ انگریزی ادب کی کلاس میں یہ مضمون کہاں سے آ یا۔ پھر ایک دن شام ڈھل چکی تھی تو ڈاکٹر غزالی کلاس لینے آئے۔ ہم جو ان دنوں انگریزی ادب کی Love at first sight پر مضامین باندھا کرتے تھے ، ان سے پہلی ہی کلاس میں ایسے مرعوب ہوئے کہ آج ستائیس بعد دل کو ٹٹولتا ہوں تو اسی مرعوبیت کے حصار میں پاتا ہوں۔

جسٹس غزالی پر لکھنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ مرعوبیت سے قلم بھاری ہو جاتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے سارے رنگ اور کتابوں میں رہ جاے والا عالم دین کا سارا بانکپن وہ ساتھ لیے پھرتے تھے۔

مناصب سے بے نیاز ، عجب سی شان بے نیازی تھی ۔ تصنع نہیں تھا مگر تہذہبی رچاؤ میں ڈوبا رکھ رکھاؤ تھا ۔ تند خو نہ تھے مگر رعب ایسا تھا کہ ان کے سامنے بڑوں بڑوں کی قوت گویائی سلب ہو جاتی تھی، غلطی پر ٹوکتے تھے اور سر محفل ٹوکتے تھے ، سامنے جتنا بڑا صاحب منصب ہوتا تھا اسی شدت سے ٹوکتے تھے ، ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تھے جیسے صحرا کی وسعتیں پر پوری رات کا چاند دھیرے دھیرے اتر جائے۔

میں انہیں دیکھ کر سوچا کرتا تھا اگر زوال کے اس عہد میں ایک عالم کی وجاہت اور شان یہ ہے تو مسلمانوں کے دور عروج میں کیا ہوتی ہو گی۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر غزالی جیسا کوئی نہ تھا۔ ایک فرد نہیں وہ ایک پوری تہذیب تھے۔ مسلمانوں کی فکری اور سماجی وجاہت ان میں مجسم تھی۔ سیدنا مسیح کے الفاظ مستعار لوں ڈاکٹر محمد الغزالی اس زمین کا نمک تھے۔

جنازہ پڑھا جا چکا تو یادوں کی سمت دریچے کھل گئے۔ ایک شام افتخار اور میں نے کلاس بنک کی۔ نیف ڈیک سینیما ان دنوں آباد ہوا کرتا تھااور یہاں رونقیں ہوتی تھیں۔ سات بجے فلم کا شو شروع ہوتا تھا۔ ہم یونیورسٹی سے نکلے ہی تھے کہ ایک کار ہمارے پاس آ کر رک گئی۔ اسے ڈاکٹرصاحب ڈرائیو کر رہے تھے۔ شیشہ نیچے کر کے انہوں نے شفقت بھرے مگر انتہائی بارعب لہجے میں حکم دیا: بیٹھ جائیے۔

ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔

کہاں جا رہے ہیں؟

ایک تو کلاس بنک کی تھی اور پکڑے گئے۔ اوپر سے پکڑے بھی غزالی صاحب کے ہاتھوں گئے۔ ہوش تو پہلے ہی ٹھکانے نہ تھے، اب اچانک سوال ہوا توہم گڑ بڑا گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔ میں نے کہا، سر آب پارہ جا رہے ہیں اور افتخار نے کہا، سر ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب مسکرائے، گھڑی کو دیکھا اور کہنے لگے: اچھا، آپ آب پارہ جا رہے ہیں اور آپ ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں آپ کو نیف ڈیک اتار دیتا ہوں، وقت پہلے ہی کم ہے، آپ کو تاخیر نہ ہو جائے۔

چوری پکڑی جا چکی تھی، پسینے چھوٹ چکے تھے۔ میں نے کہا سر توبہ توبہ، نیف ڈیک کیا کرنا ہے ہم نے۔ ہم تو آب پارہ اور پھر ہاسٹل جا رہے ہیں۔لیکن غزالی صاحب کے سامنے سچ بولنا بھی آسان کام نہ تھا تو ڈھنگ سے جھوٹ کون بول سکتا تھا۔

گاڑی میں مکمل خاموشی رہی۔ اور پھر نیف ڈیک کے سامنے جا کر گاڑی رک گئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ جلدی سے اتر جائیے، وقت کم ہے۔ یہاں سے آب پارہ بھی نزدیک ہے اور ہاسٹل ون بھی۔

بائیس سال بعد ایک روز کالم میں، میں نے یہ واقعہ لکھا تو مجھے ایک کال آئی۔ بھائی آصف، میں محمد الغزالی بول رہا ہوں۔ یہ دو عشروں بعد ڈاکٹر صاحب سے میرا پہلا رابطہ تھا۔

یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ان ڈھائی عشروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا دو تین بار ہی رابطہ ہو سکا۔ آخری رابطہ ان کے انتقال سے چند دن پہلے ہوا۔ جن ان کے انتقال کی خبر سنی تو ان کانمبر ڈائل کرنے لگا ، دیکھا تو وہاں ان کا ایک واٹس ایپ میسج پڑا تھا جو میں ابھی دیکھ ہی نہیں سکاتھا۔ لکھا تھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟۔۔۔۔۔۔ میں عام حالات میں، ہر گز یہ واقعہ نہ لکھتا لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا ڈاکٹر صاحب کے انتقال سے گہرا تعلق ہے اس لیے یہ واقعہ لکھ رہا ہوں۔

واقعہ یوں ہے کہ چند روز پہلے ان کا فون آیا۔ میں اس وقت ٹاک شو کرنے سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ کہنے لگے: میں آپ کے لاء آفس کے نیچے کھڑا ہوں، باہر آئیے۔ میں نے عرض کی کہ سر میں اس وقت سٹوڈیو میں ہوں آپ حکم کریں میں شو کے بعد حاضر ہو جاتا ہوں۔ حکم ملا: شو کیجیے، اس کے بعد مجھے فون کیجیے۔

میں سارا پروگرا م یہی سوچتا رہا کہ اللہ خیر کرے، جسٹس صاحب نے یہ زحمت کیوں کی۔ میں نے شروع میں عرض کی کہ جو غزالی صاحب کو جانتے ہیں وہی جانتے ہیں وہ کس مزاج کے آدمی تھے۔ میری موجودگی میں انہوں نے صدر پاکستان کی دعوت رد کر دی تھی کہ اور کہا تھا کہ مغرب کے بعد وہ گھر سے نہیں نکلتے، ( تب شائد ان کی والد علیل تھیں) صدر صاحب نے ملنا ہے تو یہ ملاقات دن میں رکھا کریں۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے عرض کی سر صدر پاکستان وقت طے کر چکے ہیں، آپ پلیز تشریف لے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: صدر صاحب کے آفس کو ہم سے پوچھ کر وقت طے کرنا چاہیے تھا اور ملاقات کی خواہش ہم نے نہیں کی صدرمحترم نے کی ہے تو انہیں ہماری مصروفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نہیں جا سکتے۔

اب ڈاکٹر غزالی اچانک، عشاء کے بعد، دفتر کے باہر کھڑے تھے تو وجہ کیا تھی۔میں نے پریشان ہوکر پروگرام کے فورا بعد، انہیں فون کیا تو وہ شدید پریشان تھے۔ اذیت میں تھے۔

کہنے لگے: آپ کو معلوم ہے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے؟

عرض کی کچھ کچھ معلوم ہے۔

کہنے لگے میں آپ کو تفصیل بھیج رہا ہوں اسے پڑھیے۔

ان کا واٹس ایپ ملا۔ میں نے پڑھا، یہ حیران کن اور تکلیف دہ حد تک اذیت ناک معلومات تھیں۔میں نے پڑھ کر پھر فون کیا۔ کہنے لگے کیا یہ چیزیں آپ کے علم میں تھیں؟ میں نے عرض کی کہ کچھ کچھ علم میں تھیں کچھ کا علم نہیں تھا۔ کہنے لگے: اگر آپ کے علم میں ہیں تو کیا میں آپ کی خاموشی کاسبب جان سکتا ہوں؟ میں نے کہا سر میں سمجھا نہیں۔ کہنے لگے آپ کے اور ہمارے سامنے ہماری یونیورسٹی، ہمارا ادار ہ جو امت مسلمہ کی فکری امانت ہے وہ تباہ ہو رہا ہے، اور آپ خاموش ہیں ۔ آپ کیون خاموش ہیں؟ آپ اس پر کم از کم ایک کالم تو لکھیں۔

میں نے ان سے وعد ہ کر لیا کہ ضرور لکھوں گا۔ مجھے معلومات کو کالم کی شکل میں مرتب کرتے تین دن لگ گئے اور ان تین دنوں میں ہر صبح ان کا پیغام آتا،بھائی آصف کالم کہاں ہے؟وہ شاید صبح اخبار دیکھتے اورکالم نہ پا کر مجھے واٹس ایپ کرتے۔

ان کا آخری میسج ان کے انتقال کے بعد میں نے پڑھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟

جسٹس صاحب کے جنازے میں بتایا جا رہا تھا کہ ان کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک ہے۔ میں کھڑا سوچتا رہاکہ کیا اس ہارٹ اٹیک کی بھی کوئی وجہ تھی؟ میرے خیال میں اس کی دو وجوہات تھیں۔ وہ فلسطین پر بہت دکھی تھے اور اسلامی یونیورسٹی کے معااملات نے ان کی روح کو گھائل کر دیا تھا۔

ان کے آخری ایام کے واٹس ایپ میسج میرے پاس امانت ہیں، یونیورسٹی بی او ٹی، صدر پاکستان یا جناب چیف جسٹس چاہیں تو یہ ان کی خدمت میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ذاتی پیغام رسانی تھی، اسے عام حالات میں سامنے نہیں لانا چاہیے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں جس معاملے کی اذیت نے جسٹس صاحب کوزندگی کے آخری دنوں میں تکلیف دیے رکھی اس اذیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔

یونیورسٹی کے معاملات سیدھے ہو جائیں تو ڈاکٹر محمد الغزالی کی روح کو شاید اس سے کچھ تسکین ملے۔ و ہ ا س جامعہ کے لیے اپنے آخری دنوں میں شدید دکھی تھے۔

اسلامی یونیورسٹی میں اصلاح احوال جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی کا ان کے شاگردوں اور دوستوں پر قرض ہے۔

(بشکریہ روزنامہ ترکش)

ڈاکٹر محمد الغزالیؒ

مراد علی

ڈاکٹر محمد الغزالی کا پہلا تعارف ڈاکٹر محمود احمد غازی کے برادر خورد کے طور پر ہوا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی اسلام آباد وارد نہیں ہوئے۔ 2015ء میں اسلامی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد دوسرے ماہ، اپریل کے مہینے میں شریعہ اکیڈمی میں جہاد کے موضوع پر دو روزہ ورک شاپ تھا، جس میں پہلے دن کا ایک سیشن غزالی صاحب چیئر کر رہے تھے یہی ان کی پہلی براہ راست زیارت تھی۔

اس وقت آپ ادارہ تحقیقات اسلامی میں پروفیسر اور سہ ماہی عربی مجلے “الدراسات الاسلامیہ” کے مدیر تھے۔ یونی ورسٹی کے اولڈ کیمپس لائبریری مستقل جانا ہوتا تھا، ایک عجیب سی مسحور کن جگہ تھی ایک ادنی سا حساس انسان وہاں انس محسوس کرسکتا تھا۔ یہ اس بات کی شہادت تھی کہ یہاں کئی ایک غیر معمولی علمی ہستیاں رہی ہیں۔ ملاقات کی بہت چاہ تھی لیکن آپ کا جلال حائل ہوجاتا کہ ملے بھی تو کیسے!

غزالی صاحب کے شخصی اوصاف میں آپ کا جلال، بانک پن، تواضع، وقار اور ایک کلاسیکی حمیت نمایاں تھے، جو بھلے وقتوں کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے تھے۔ آپ کی نفاست بھی عمدہ تھی اور ذوق بھی، پہننے میں، بولنے میں اور لکھنے میں۔

2018ء میں دعوۃ اکیڈمی نے ڈاکٹر محمود احمد غازی سے متعلق ایک عالمی کانفرس کا انعقاد کیا تھا، جس کا افتتاحی خطاب غزالی صاحب نے ٹکسالی اردو اور اپنے مسحور کن لہجے میں دیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے گذشتہ صدی کے کسی عمدہ ادیب کو سن رہے ہیں۔

آپ کے جلال اور استغنا کے کئی واقعات سنے بھی ہیں اور براہِ راست دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب کے بہت قریبی مراسم تھے۔ ہم 2019ء کے آخری مہینوں میں ڈاکٹر قدیر سے ملنے گئے، جب کہا کہ اسلامی یونی ورسٹی سے تعلق ہے تو انھوں نے دونوں بھائیوں سے اپنی رفاقت کا تذکرہ بہت عقیدت سے کیا اور کہا کہ سنا ہے غزالی صاحب کو پروفیسر ایمریٹس بنایا جا رہا ہے۔

چند دنوں بعد فیصل مسجد میں یونی ورسٹی کے صدر ڈاکٹر یوسف درویش خطبۂ جمعہ دے رہے تھے، جس میں وہ عرب شاہوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، اس دن غزالی صاحب منبر سے کافی دور تھے لیکن کھڑے ہوئے، آپ کے خاص انداز سے لگ رہا تھا کہ صدر صاحب کے ارشادات آپ کی طبیعت پر بے حد گراں گزر رہے ہیں۔ اس دن خطبہ اتنا لمبا ہوگیا کہ بنو امیہ کے گورنروں کے خطبے یاد آئے۔ اس دن کی اذیت سب کو یاد ہوگی، خطبے کی طوالت نے لوگوں کو جمعہ پڑھے بغیر فیصل مسجد کے ہال سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔

درویش صاحب کے اگلے خطبے پر غزالی صاحب اگلی صفوں تک پہنچ چکے تھے، اس دن انھوں نے خطبے کو طول دینے کے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد کی تعریفیں بھی شروع کیں۔ غزالی صاحب اپنے مخصوص انداز میں پھر کھڑے ہوگئے، صدر صاحب منبر سے اترے تو ہنگامہ ہوگیا، کافی وقت بعد جماعت کھڑی ہوئی۔ بعد میں تفصیلی روداد آئی تو پتا چلا کہ صدر صاحب کو غزالی صاحب نے ڈانٹ پلائی اور کہا کہ یہ سعودیہ نہیں کہ منبر پر ملوک کی قصیدیں پڑھی جائیں، دوبارہ منبر پر چڑھ کر اپنے الفاظ واپس لے لیں، درویش صاحب کی آواز بلند ہوئی تو غزالی صاحب نے مزید ڈانٹ پلا کر کہا: “اسکت”، اتنے میں درویش صاحب کے غلمان بھی پہنچ گئے اور غزالی صاحب کو ایک طرف کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک کو زوردار دھکا بھی دے مارا۔

یہ کام اس بندے نے سرانجام دیا جنھوں نے یونی ورسٹی میں پروفیسر امریٹس بننا تھا۔

شخصی تواضع کے بارے میں بھی کئی ایک واقعات ہیں، جب غازی صاحب وفاقی وزیر تھے، وزرا اور کئی اعلی مناصب پر فائز لوگوں کا گھر پر آنا جاتا رہتا تھا، غزالی صاحب ان کے ڈائیورز اور گاڈز کے ساتھ زمین پر چھٹائی بچھا کر محفل سجھاتے تھے۔

ایک بار استاد محترم ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے آفس میں جمعے سے قبل ایک یاد گار ملاقات ہوئی تھی۔ مشتاق صاحب کسی میٹنگ کےلیے باہر چلے گئے، ہم کچھ دوست ایک گھنٹے تک آپ کے ساتھ بیٹھے رہے بہت بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے، غازی صاحب کے کئی واقعات سنائے۔ سامنے الماری میں ایک کتاب پڑی تھی، کہا کہ ہمارے بھائی جان (غازی صاحب) کی انتظامی صلاحیتوں کو دیکھیے ناں ایسے نالائق آدمی سے بھی کتاب تیار کرائی ہے۔

دو برس قبل آپ کے صاحبزادے برادرم حمزہ غزالی کے ذریعے آپ سے وقت لیا، ملاقات کےلیے گھر گیا، اس ملاقات کا بنیادی غرض ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سیریز کو مزید بہتر انداز میں چھاپنے کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کرنا تھیں، پہلی فرصت میں ان کی تخریج کا مرحلہ تھا انھوں نے اتفاق کرلیا، میں نے کہا کہ آغاز “محاضرات فقہ” سے کریں گے، جس کی تخریج کےلیے مشتاق صاحب نے حامی بھری ہے۔ باقی کتب کےلیے بھی کچھ دوستوں نے رابطہ کیا ہے۔ اس سے بہت خوش ہوئے۔

ایک بار علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کا خطبہ تھا، غزالی صاحب بھی مدعو تھے، پروگرام کے اختتام پر شرکا میں یادگاری شیلڈز پیش کی جا رہی تھیں، جس پر غزالی صاحب نے کہا کہ اس سے بہتر ہے قلم دیے جائیں۔

گزشتہ دسمبر میں مشتاق صاحب کی معیت میں عشاء کے بعد ملاقات کےلیے جا رہے تھے، مشتاق صاحب نے جیب میں قلم رکھا اور کہا کہ غزالی صاحب پھر پوچھتے ہیں۔ جب پہنچے تو چند لمحوں کے بعد انھوں نے سب سے پہلے قلم پیش کیا، جیب میں جو قلم رکھا تھا وہ مجھے دیا۔

رات دیر تک بیٹھے رہے، آخر میں عربی کے کلاسیکی اشعار اپنے خاص آہنگ کے ساتھ پڑھتے رہے، عربی جیسے آپ کی مادری زبان ہو۔ اپنی دو کتب کا تحفہ عنایت کیا، جس میں ایک کتاب قرآنی میں بلاغت اور معانی سے متعلق تھی، کہا کہ اس کو تنقیدی نظر سے دیکھ کر مجھے تبصرہ بھیجیے اس کے بعد بھی اس تبصرے کا پوچھتے رہے۔

اب ہم کہاں اور یہ موضوع کہاں لیکن اس انداز میں یہ بات پنہاں تھی کہ انھیں علم کا کوئی زعم نہیں ورنہ ہم جیسے طفل مکتب سے کبھی یہ نہ کہتے۔

اسی سے متصل مشتاق صاحب سے کہا کہ امام شیبانی کی “الجامع الصغیر” کا انگریزی ترجمے کا ارادہ کیا ہے، اس بہانے ہمارا بھی کچھ بھلا ہوجائے گا، ہمیں بھی کچھ فقہ سمجھنے کا موقع ملے گا۔

تواضع کی ایسی مثالیں اب کتابوں میں ملتی ہیں۔

ابھی ان کی تازہ کتاب “سوشیالوجی آف اسلام” گزشتہ برس ہندوستان سے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے شائع کی۔ اس کتاب کو شائع کرنے میں ہماری خاص دلچسپی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ ناشر سے اجازت لینی پڑے گی۔ اسی دوران انھوں نے اپنی ایک اور کتاب دی کہ فی الحال اس کو دیکھیں۔ کچھ ہفتوں کے بعد میسج کیا کہ ظفر الاسلام صاحب نے اجازت دے دی ہے۔ کتاب پر کچھ بنیادی کام کرکے مسودہ ان کو بھیج دیا لیکن کہا کہ آنکھ کا آپریشن کیا ہے اس لیے وہ مسودہ دیکھنے کے قابل نہیں۔ معلوم نہیں اب وہ انھوں نے دیکھا بھی ہوگا یا نہیں۔

مولانا مودودی اور ان کے بڑے بھائی مولانا ابو الخیر مودودی کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب دونوں کے مراسم تھے۔ میں نے مولانا کے ساتھ ملاقات کا پوچھا تو کہا کہ مولانا جب بھی اسلام آباد آتے تھے تو ہم ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ جس وقت کوثر نیازی صاحب جماعت اسلامی سے الگ ہوئے اس کے چند دن بعد مولانا اسلام آباد تشریف لے آئے تو محفل میں کوثر نیازی صاحب کا ذکر چلا کافی باتیں ہوئیں مولانا خاموشی سے سنتے رہے، جب گفتگو ختم ہوئی تو مولانا نے کسی سے کہا: “ذرا کلی کرا لیجیے، پانی دے دیں۔”

آپ کا جلال بہت نمایاں تھا اور ایک صاحب علم کو موجودہ دور میں ایسا ہونا چاہیے۔ ہم نے بڑوں بڑوں کو آپ کے سامنے لرزتے دیکھا ہے۔

عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۹ نومبر ۲۰۲۳ء کو العصر فاؤنڈیشن اور مکتبہ یاران کراچی کے زیر انتظام ’’عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر سیمینار سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مکتبہ یاران اور العصر فاؤنڈیشن کراچی کا شکر گزار ہوں کہ علماء کرام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے اہلِ علم کی اس متنوع مجلس اور گلدستہ میں مجھے بھی حاضری کا شرف بخشا، عروس البلاد کراچی کے حضرات سے ملاقات ہوئی اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے، اللہ رب العزت اس کاوش کو قبول فرمائیں، انتظام کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہم سب کی حاضری کو قبول کرتے ہوئے اسے دارین کی سعادتوں اور خیر کا ذریعہ بنائیں۔

مجھے گفتگو کا عنوان دیا گیا ہے ”عصر حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں“ ۔پہلی بات یہ ہے کہ عصر حاضر کیا ہے اور انسانی سوسائٹی کی تاریخ میں عصر حاضر کی مجموعی کیفیت کیا ہے؟ انسانی تاریخ اور سماج میں مختلف ادوار آئے ہیں جنہیں آپ بیسیوں مراحل میں ترتیب دے سکتے ہیں، اچھے ادوار بھی آئے ہیں اور اعمال کے اعتبار سے برے ادوار بھی آئے ہیں، اچھے لوگوں کی حکمرانی بھی قائم ہوئی ہے اور بروں کی بھی قائم ہوئی ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کی زندگی میں تنوع اور تغیر ہے ؏ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ تغیر انسانی سوسائٹی کا حصہ ہے جس میں صرف ارتقا نہیں ہوتا بلکہ تنزل بھی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمانہ کو پیدا کیا تھا اس دن کے بعد سے زمانہ اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے، اپنے آپ کو بدلتا رہتا ہے، اچھے ادوار بھی آتے ہیں اور برے ادوار بھی آتے ہیں۔

آج ہم آزمائش ،امتحان اور تنزل کے دور میں ہیں۔ اگرچہ انسان نے اسباب میں بہت ترقی کی ہےمگر میرا سوال ہوتا ہے کہ خود انسان نے کیا ترقی کی ہے؟ مثال کے طور پر میڈیکل سائنس میں ہم نے بہت ترقی کی، علاج اور تشخیص کے نئے نئے اسباب بنائے ہیں، لیکن اگر ایک جملے میں بات کی جائے تو یہ ہے کہ انسانی علم اور ساری صلاحیتیں مشینوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ آپ اسے ارتقا کہیں یا تنزل ۔ ایک زمانہ تھا کہ معالج نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری اور اس کے سبب کے ساتھ علاج بھی بتا دیتا تھا، بلکہ بعض معالجین چہرہ دیکھ کر بیماری سمجھ جاتے تھے۔ اب ڈگریاں ہمارے پاس ہیں لیکن چہرہ دیکھ کر اور نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہے، اور یہ صلاحیت آلات اور مشینوں میں منتقل ہو گئی ہے۔ انسان بحیثیت انسان کمزور ہوتا جا رہا ہے، اسباب اور مشینیں اس پر غالب آتی جا رہی ہیں، یہی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ میں اس کی ایک اور چھوٹی سی مثال دوں گا کہ ہم لڑکپن اور جوانی میں پیدل پانچ چھ میل چل لیا کرتے تھے۔ میں بہت دفعہ پہاڑی علاقوں میں کئی کئی پیدل میل چلا ہوں ،لیکن آج اس عمر کا نوجوان دو میل پیدل نہیں چل سکتا۔ جسمانی صلاحیتیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور اسباب کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے، آپ اس کو ترقی یا تنزل جو بھی تعبیر کر لیں۔

یہی صورتحال تہذیبی، دینی اور علمی اعتبار سے بھی ہے، لیکن میں اس کو یہیں چھوڑتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ہم بحیثیت مسلمان ، بحیثیت امتِ مسلمہ، اور اس حیثیت سے کہ نسل انسانی کی قیادت اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو عطا فرمائی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر‘‘ قرآن کریم کے بقول انسانی معاشرے میں امتِ مسلمہ کی حیثیت قائد کی ہے ۔ اس وقت دنیا میں آٹھ ارب کے لگ بھگ انسان ہیں، ان میں مسلمان پونے دو ارب کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں، جو باقی چھ ارب انسان ہیں وہ کس کے رحم و کرم پر ہیں؟ ان تک قرآن مجید کی دعوت پہنچانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف کروانا، اور آخرت کا عقیدہ ان تک منتقل کرنا کس کا فریضہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانی سماج کی بہتری اور کامیابی کے لیے جو نظام دیا ہے، جو کتابوں میں بھی ہے اور جس کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے، اس نظام کو انسانی سماج میں دوبارہ عملی طور پر متعارف کرانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظام دیا کہ اس کے ذریعے تم دنیا میں بہتر زندگی گزار سکتے ہو، اور دنیا میں رہ کر عمل کر کے اس کا نمونہ دکھایا۔ اب اس نظام سے دنیا کو زبان کے ذریعے، قلم کاغذ کے ذریعے ، آج کی زبان میں سکرین کے ذریعے، اور عمل کے ساتھ متعارف کرانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔

آج دنیا کو موجودہ نظام میں کیا چیلنجز درپیش ہیں، اس پر دو حوالے دوں گا۔ برطانیہ کے شاہ چارلس جنہوں نے طویل عرصہ شہزادہ رہ کر گزارا ہے، اپنے مزاج کے اعتبار سے لیکچرار اور دانشور ہیں، اگر کسی کو ذوق ہو تو چارلس کے لیکچرز ضرور دیکھیں۔ میں ان کے دو حوالے نقل کروں گا۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران شہزادہ چارلس نے کہا کہ دنیا کا موجودہ سسٹم ناکام ہو گیا ہے جو کہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہا ہے، لہٰذا ہمیں اس کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ اور کہا کہ میں اس کے لیے اہل دانش کو ایک مشورہ اور تجویز دوں گا کہ وہ متبادل کے طور پر اسلام کو اسٹڈی کریں۔ اور یہ ماضی کے حوالے سے نہیں بلکہ موجودہ سسٹم کی ناکامی کے تصور کے ساتھ اس کے متبادل کے طور پر۔ اور انہوں نے کہا کہ میں اسکالرز سے یہ کہوں گا کہ اسلام کو اسٹڈی کرتے ہوئے تین باتیں ذہن میں رکھیں: پہلی یہ کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں جو بتا رکھا ہے کہ اسلام ایسا ہے اور مسلمان ایسے ہیں، یہ بھول جائیں۔ دوسری یہ کہ اس وقت مسلمان جیسے نظر آ رہے ہیں اس کو بھی نظر انداز کر دیں۔ تیسری یہ کہ اسلام کو اوریجنل سورسز یعنی اصل مآخذ سے اسٹڈی کریں ۔ اگر آپ یہ تین باتیں سامنے رکھ کر اسلام کو اسٹڈی کریں گے تو میرا وجدان کہتا ہے کہ مستقبل کے لیے متبادل نظام ہمارے پاس اسلام کے سوا کوئی نہیں ہے۔

نیویارک میں پولیوشن پر ایک کانفرنس تھی۔ ماحولیاتی آلودگی آج کا بڑا مسئلہ ہے۔ شہزادہ چارلس نے کہا کہ میری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ پولیوشن کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہمیں وہ سماجی اصول اختیار کرنا ہوں گے جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں کہ سماج کیا ہے ، سماج کے اصول، تقاضے اور ضروریات کیا ہیں،اور وہ تقاضے کیسے حل ہوں گے۔

دنیا کے کرنٹ ایشوز میں ماحولیات اور معیشت سرفہرست ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے کیسے چھٹکارا ملے گا اور معیشت کیسے توازن پر آئے گی ۔ شہزادہ چارلس تو بادشاہت کی دنیا کا آدمی ہے، میں مذہبی دنیا کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ اس وقت پاپائے روم پوپ فرانسس ہیں، ان سے پہلے پوپ بینی ڈکٹ تھے، مسیحی دنیا میں مذہبی طور پر سب سے بڑا پیشوا پاپائے روم ہوتے ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، جن دنوں معیشت میں بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں بیٹھ گئی تھیں ، بڑا بحران پیدا ہو گیا تھا اور بڑے بڑے جلوس ہو رہے تھے، اس وقت پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے ایک کمیٹی بنائی کہ معاشی بحران اور اَن بیلنسڈ سسٹم کے بارے میں ویٹی کن سٹی کو کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی وہ آن لائن موجود ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ معیشت ڈی ٹریک ہو گئی ہے، اس کو بیلنس اور ٹریک پر لانے کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ معیشت کے وہ اصول اختیار کیے جائیں جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں۔

میں علماء کرام سے یہ باتیں اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ اپنے ذہن کو وسیع کر کے اپنے ماحول سے اوپر اٹھ کر دنیا کا منظر دیکھیں کہ جتنا فضا میں زیادہ بلند ہو کر دیکھیں گے اتنا کھلا ماحول نظر آئے گا۔ اہل دانش کے مختلف لیولز ہیں، میں سب کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے ایک لیول کی بات کی ہے جو مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اس حوالے سے اسلام کو اسٹڈی کر رہے ہیں۔

ایک مشاہدہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ یونیورسٹیوں میں اسٹڈی گروپس بنے ہوتے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیز کے کام کے انداز کا آپ کو پتہ ہے کہ کیسے کام کرتی ہیں۔ آج سے دس سال پہلے امریکہ کی ہنٹنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پاکستان تشریف لائے، میرے پاس بھی آئے اور کہا کہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور میرا موضوع امام ابو منصور ماتریدیؒ ہیں۔ اہلِ سنت کے ہاں علمِ کلام کے دو بڑے امام ہیں ابوالحسن اشعریؒ اور ابو منصور ماتریدیؒ۔ معتزلہ کے مقابلے میں بنیادی کام ابو الحسن اشعریؒ کا ہے کہ ان کی عقلیات کا روایت کی دنیا میں امام احمد بن حنبلؒ اور درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے مقابلہ کیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کا موقف یہ تھا کہ قرآن کی آیت یا حدیث پیش کرو، ورنہ جتنا مارنا ہے مارو، میں نہیں مانوں گا، ان کی استقامت اور قربانی نے اہل سنت کے عقیدے کو استحکام بخشا، جبکہ درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے یہ کام کیا۔ اللہ کی قدرت کہ معتزلہ کے بانی واصل بن عطا حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد ہیں اور ابو الحسن اشعریؒ واصل بن عطا کے شاگرد ہیں ’’یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی‘‘ ۔ امریکی پروفیسر نے کہا کہ میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں وہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پوچھیں لیکن ایک شرط پر کہ میں بھی سوال کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ علمی میدان میں معتزلہ کا مقابلہ تو ابو الحسن اشعریؒ نے کیا تھا، لیکن حنفی لوگ ابو الحسن اشعریؒ کی بجائے ابو منصور ماتریدیؒ کو اپنا امام کہتے ہیں ، تو ان کا کنٹریبیوشن کیا ہے؟ میں نے کہا کہ واقعی معتزلہ کا مقابلہ ابو الحسن اشعریؒ نے کیا ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، لیکن جب آدمی مقابلہ کر رہا ہوتا ہے تو محاذ پر مناظر کو بہت سی باتیں گھڑنی پڑتی ہیں اور بعض باتیں اوور (Over) کرنی پڑتی ہیں تاکہ مقابل کا منہ بند ہو جائے۔

اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ چار تک بیویوں کی اجازت ہے اس سے زیادہ کی نہیں۔ جبکہ مستشرقین کا ہم پر یہ اعتراض چلا آ رہا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے بعد باقی سب سے چار سے زیادہ بیویاں چھڑوا دیں لیکن اپنے پاس نو تھیں ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا۔ یہ اعتراض آج بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۰ءکی بات ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہؒ جو ہمارے بڑے اہل علم میں سے تھے، انہوں نے کہیں لکھ دیا کہ حضورؐ نے بھی پانچ بیویاں چھوڑ دی تھیں اور چار باقی رکھی تھیں، اس طرح کہ پانچ کو ازواجِ شرف یعنی اعزازی رکھا تھا جبکہ حقیقی بیویاں چار ہی تھیں۔ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ نئی بات کیسے کہہ دی۔ ہم نے ڈاکٹر حمید اللہ سے رابطہ کیا کہ یہ آپ نے کیا کہا؟ ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ میں نے مستشرقین کو جواب دینے کے لیے یہ بات بنائی ہے۔ ہم نے کہا ڈاکٹر صاحب! اگر آپ کی اور ہماری بات ہو تو آپ چاہے دس باتیں گھڑیں مگر یہ تو رسول اللہ کی بات ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے رجوع کیا اور کہا کہ میں امت سے بھی اور اللہ سے بھی معافی مانگتا ہوں۔ اس طرح مناظر کو بہت سی باتیں اوور کرنی پڑتی ہیں ۔

میں نے امریکی پروفیسر سے کہا کہ ابو الحسن اشعریؒ کو معتزلہ کے مقابلے میں کچھ باتیں اوور کرنا پڑی تھیں، جنہیں بعد میں ابو منصور ماتریدیؒ نے آ کر بیلنس کیا تھا، اور یہی ان کا کنٹریبیوشن ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا کہ میں بات سمجھ گیا ہوں۔

اس کے بعد میں نے ان سے سوال کیا اور کہا کہ ہم ما تریدی ہیں، ہمارے سینکڑوں مدرسین اصولِ عقائد پڑھاتے ہیں، لیکن ہم پڑھانے والوں میں سے نوے فیصد کو پتہ نہیں کہ ابو منصور ماتریدیؒ کون تھا؟ میں نے پوچھا کہ ہم عقائد پڑھانے والے حنفی مدرسین عام طور پر انہیں نہیں جانتے، تو تمہیں کس نے بتایا ہے کہ دنیا میں ماتریدیؒ بھی ایک آدمی تھا اور تمہیں اس کی قبر پر کون لے گیا ہے؟ تو اس نے پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کہا کہ ہم کچھ یونیورسٹیوں کے اہل دانش پروفیسرز کا گروپ ہے، پندرہ بیس سال سے ہماری ریسرچ جاری ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک تو سوسائٹی میں مذہب واپس آرہا ہے، اور دوسری بات یہ طے ہے کہ مذہب وہی واپس آئے گا جو واقعتاً‌ مذہب ہوگا۔ مذہب ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس مذہب کے پاس اپنی وحی اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات اصل حالت میں موجود ہوں، اور یہ بھی طے ہے کہ ایسا مذہب اسلام ہی ہے۔ یہ دو باتیں ہم ذہن میں طے کر کے اس پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی مختلف ادوار کی شخصیات میں سے ہماری ضروریات کون پوری کرتا ہے۔ ہم مغرب کے لوگ ہیں، ہمارا اپنا مزاج اور اپنی نفسیات ہیں۔ اس پر ہم نے پندرہ بیس شخصیات اسٹڈی کی ہیں جن میں غزالیؒ، ابن رشدؒ، ابن سینا اور ابن عبد السلامؒ وغیرہ شامل ہیں۔

میں نے پوچھا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم تین باتیں دیکھ رہے ہیں: روایت، درایت اور وجدانیات۔ (۱) روایت یعنی قرآن و حدیث (۲) درایت یعنی تفقہ، استنباط اور تعقل (۳) وجدانیات یعنی قلبی کیفیات، تصوف و سلوک۔ ہم ایسی شخصیت تلاش کر رہے ہیں جس میں یہ تینوں چیزیں موجود ہوں، وہ روایت میں بھی پکا ہو، درایت میں بھی مضبوط ہو، اور وجدانیات اور قلبی کیفیات میں بھی تجربہ رکھتا ہو۔انہوں نے بتایا کہ ہم پندرہ بیس شخصیات پر ریسرچ کر چکے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اب تک کہاں پہنچے ہیں؟ اس نے کہا، ہم سمجھے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں بہت سی مسلم شخصیات میں موجود ہیں، اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ روایت، درایت اور وجدانیات کا توازن کس شخصیت میں ہے۔ کیونکہ نسخے کے اجزا میں توازن بھی ضروری ہوتا ہے، اگر بیلنس بدل جائے تو نسخہ بدل جاتا ہے۔ اس پر ہم نے دو شخصیات کو فوکس کیا ہے، ایک پر میں اسٹڈی کر رہا ہوں یعنی ابو منصور ماتریدیؒ، اور دوسری شخصیت شاہ ولی اللہؒ کی ہے جس پر میرا ایک اور ساتھی اسٹڈی کر رہا ہے۔

میں نے ذکر کیا ہے کہ آج کی انسانی دنیا کو درپیش مسائل، یعنی عصر حاضر کے چیلنجز انسانی سماج کے دائرے میں، اس پر کہاں بات ہو رہی ہے اور کس سطح پر بات ہو رہی ہے؟ میں نے علماء کرام کے سامنے موجودہ چیلنجز میں سے ایک چیلنج پر آج کا ماحول عرض کیا ہے، یہ دعوت دینے کے لیے کہ صرف ایک دائرے میں نہ دیکھیں بلکہ غور و فکر کے بہت سے دائرے اور لیولز ہیں۔ یہ میں نے امت مسلمہ کی معروضی صورتحال عرض کی ہے، معیشت اور ماحولیات کے حوالے سے، اور پھر روایت، درایت اور وجدانیات کے توازن کے بارے میں کچھ حوالے دیے ہیں۔ اس کو یہیں سمیٹتے ہوئے اب یہ عرض کروں گا کہ بطور عالم ہماری حیثیت کیا ہے؟

جب پاکستان بنا تھا تو ہمارا بنیادی ویژن یہ تھا کہ ہم ایک ریاست قائم کریں گے جس میں اسلام کی حکمرانی کا نظم قائم کریں گے ، انسانی سماج قائم کرنے کی ترتیب بنائیں گے، اور دنیا کے سامنے اس کو نمونے کے طور پر پیش کریں گے۔ آپ قائد اعظم مرحوم کی تقریریں پڑھیں، ان میں یہ ویژن دیا گیا ہے کہ ہم اسلامی ریاست قائم کر کے قرآن و سنت کی عملداری قائم کریں گے، اسلامی سماج کی تشکیل کی کوشش کریں گے اور اسے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کریں گے۔ ہمارا یہ ویژن ریکارڈ پر موجود ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ ہوا کہ یہ سارے کام جو اسٹیبلشمنٹ نے کرنے تھے وہ سب کچھ نظرانداز کر دیا، ہم نے ریاست کا نظامِ تعلیم اور سسٹم وہی رہنے دیا اور اس کے ذمے کام سارا یہ ڈال دیا ۔ حالانکہ نوآبادیاتی دور کی اسٹیبلشمنٹ کی تربیت کا دائرہ اور تھا۔ گویا ہم مونجی والی مشین سے گندم کا کام لے رہے ہیں۔ میں نے وفاقی شرعی عدالت کے ایک جسٹس صاحب مرحوم سے نجی مجلس میں سوال کیا کہ دنیا میں کوئی اور ملک بھی ایسا ہے جس کے دستور میں طے کیا گیا ہو کہ ملک کا قانون یہ ہوگا، لیکن اس کے ایجوکیشن سسٹم میں وہ قانون نہ پڑھایا جاتا ہو؟ دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے؟ انہوں نے جواب گول مول کر دیا۔

ملک کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ ملک کا قانون قرآن اور سنت کے مطابق ہوگا، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا، اور قرآن و سنت کی عملداری لازم ہوگی۔ لیکن ملک کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت نہیں ہے۔ قانون بنانا مقننہ کی ذمہ داری ہے، قانون کے مطابق فیصلے کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ مقننہ، عدلیہ،انتظامیہ، تینوں کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت کا قانون کہیں نہیں پڑھایا جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ جو قانون پڑھانا لازمی نہیں ہے وہ نافذ کیسے ہوگا؟

ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ ملک میں جو کام بھی نہ ہو رہا ہو وہ علماء کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ ہمارے سابق گورنر پنجاب ایک جنرل صاحب تھے، وہ ایک دفعہ جامعہ اشرفیہ لاہور تشریف لائے اور علماء کرام سے خطاب فرمایا ۔ یہ ہمارے افسران کا مزاج ہے کہ جب سامنے علماء بیٹھے ہوں تو لمبی تقریر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کیا کر رہے ہیں؟ ملک میں انجینئر ضرورت کے مطابق نہیں ہیں، ڈاکٹروں کی کمی ہے، سائنس دانوں کی کمی ہے اور ملک ترقی نہیں کر رہا۔ میں نے اس پر کالم میں لکھا کہ جنرل صاحب! بات یہ ہے کہ آپ کے سوال ٹھیک ہیں لیکن جگہ غلط ہے۔ یہ نہر سے اِس پار کے نہیں اُس پار کے سوال ہیں۔ ایک طرف جامعہ اشرفیہ ہے، درمیان میں نہر ہے، اور دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ کام جن کے ذمے لگائے تھے ان سے جا کر پوچھیں۔ انجینئر نہیں مل رہے تو انجینئرنگ یونیورسٹی سے پوچھیں، اگر وکیل نہیں مل رہے تو لاء کالج میں جا کر پوچھیں، اگر ڈاکٹر نہیں مل رہے تو میڈیکل یونیورسٹی سے پوچھیں۔ ہاں اگر امام نہیں مل رہے تو ہم سے پوچھیں۔

۱۸۵۷ء کے بعد مسجد اور مدرسے کی ضرورت کے افراد تیار کرنے سے یعنی حافظ، امام، خطیب، قاری، مولوی اور مفتی بنانے کی ذمہ داری سے اس وقت کے ایجوکیشن سسٹم نے انکار کر دیا تھا، تو وہ خلا ہم نے پر کیا۔ ہم نے کہا تھا کہ مسجد اور مدرسہ آباد رہیں گے، اس لیے اگر آپ کو امام نہیں ملتے تو ہم سے بات کریں، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مسجدیں کم ہیں اور امام زیادہ ہیں۔ اگر پاکستان میں کہیں تراویح پڑھانے کے لیے حافظ نہیں ملتا، اگر جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب نہیں مل رہا ، قرآن مجید یاد کرانے کے لیے قاری نہیں مل رہا، اور فتویٰ دینے کے لیے مفتی نہیں مل رہا، تو ہم سے پوچھیں۔ لیکن اگر آپ کو ڈاکٹر اور انجینئر نہیں مل رہے تو یہ سوال جامعہ اشرفیہ میں کرنے کا نہیں ہے بلکہ پنجاب یونیورسٹی سے کرنے کا ہے۔

جو بات میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قوم کو تو ہر میدان میں افراد کی ضرورت ہے، اگر وہ پورے نہیں کریں گے تو قوم ہم سے مانگے گی۔ آج یہ مسئلہ درپیش ہے کہ معیشت اور تجارت کی دنیا میں اہلِ علم کی ضرورت ہے جبکہ اسلامی ماہرین کی ضرورت پوری کرنا اصلاً ریاستی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے جو اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن الحمد للہ ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ جو ضرورت کہیں پوری نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب آپ یہ ضرورت پوری کریں، اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم ہماری کارکردگی پر مطمئن ہے، اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ علماء اسے پورا کر لیں گے۔ ملک کے کسی بھی شعبے میں ملک کے دستور کے مطابق دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افراد فراہم کرنا اصلاً‌ ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ قوم ہم سے توقع کر رہی ہے تو ہمیں اپنی صف بندی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے کام کرنے سے معیشت کو اسلامی ماہرین ملتے ہیں تو ہمیں اسے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اپنی اصل ذمہ داری کو چھیڑے بغیر، دینی ضروریات، مسجد اور مدرسے کی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو فاضل کمائی ہے اس کی پلاننگ کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے جو ادارے کام کر رہے ہیں، جیسا کہ العصر فاؤنڈیشن، مکتبہ یاران، مختلف بڑے بڑے مدارس اور بہت سے ادارے کر رہے ہیں ، ایسے فورمز دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ہم کسی حد تک کام کر رہے ہیں۔ ہم ضرورت پوری نہیں کر سکتے لیکن کچھ نہ کچھ کرتے رہیں تاکہ رجحان باقی رہے، اور ہم آج کی دنیا کو اپنے ماضی سے وابستہ رکھنے کی کوئی کھڑکی کھلی رکھیں تاکہ مستقبل کو ہمارے بارے میں شکایت نہ ہو کہ جو کچھ تم کر سکتے تھے تم نے وہ نہیں کیا۔

میں نے اس نشست میں متفرق باتیں کیں اور عرض کیا کہ ہمیں آج کی ضروریات کو سمجھنا چاہیے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ ہمیں تخصص فی الافتاء میں بنیادی اصول پڑھایا جاتا ہے ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ ہمیں اپنے اہل زمانہ کو سمجھنا چاہیے، ان پر نظر رکھنی چاہیے، اور عصر حاضر کی ضروریات سمجھتے ہوئے انہیں پورا کرنے کے لیے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

’’حر متِ مسجدِ   اقصیٰ    اور    امتِ  مسلمہ    کی    ذ   مہ   داری‘‘: تین اہم سوالات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۶ دسمبر ۲۰۲۳ء بروز بدھ کو مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیراہتمام اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ’’حرمتِ مسجدِ اقصٰی اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان پر قومی سیمینار سے خطاب کا خلاصہ)


 بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں اس اجتماع میں ایک کارکن کے طور پر اپنا نام شمار کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حاضری قبول فرمائیں۔ میں بس دو تین سوالات عرض کرنا چاہوں گا، باقی قائدین جو خطاب فرمائیں گے وہ ہمارا ایجنڈا ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ اور اس پر عمل کیا جائے گا۔

 پہلا سوال ہمارے پاکستان کے حکمرانوں سے ہے کہ اسرائیل جب بنا تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ جبکہ آج ہم دو ریاستی حل کی بات پاکستان کی طرف سے کر رہے ہیں۔ میرا اسٹیبلشمنٹ سے سوال ہے کہ جناب! یہ موقف میں تبدیلی کب آئی ہے اور کس نے کی ہے؟ کل ہی ’’دو ریاستی حل‘‘ کا بیان آیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے موقف میں یہ تبدیلی کب آئی ہے، وہ اتھارٹی کون سی ہے جس نے قائد اعظم کے موقف کو مسترد کر کے دو ریاستی حل کی بات پیش کی ہے؟

  میرا دوسرا سوال عالمی اسٹیبلشمنٹ سے اور دو ریاستی حل پیش کرنے والوں سے ہے کہ جناب! آپ نے ۱۹۴۷ء میں دو ریاستی منصوبہ بنایا تھا اور اب تک اس کو عملی صورت میں نہیں لا سکے، بلکہ آپ ۷۵ سال سے ڈیڑھ ریاستی فارمولے کو فلسطین پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل مکمل ریاست ہے اور دوسری طرف فلسطین کو نارمل خودمختار ریاست بننے نہیں دیا جا رہا۔ اسرائیل کو آپ سپورٹ کر رہے ہیں، اسباب اور وسائل مہیا کر رہے ہیں، قوت مہیا کر رہے ہیں، اس کے پیچھے کھڑے ہیں، امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت۔ اسرائیل تو ایک مکمل طاقتور ریاست کے طور پر کھڑا ہے، جبکہ فلسطین جس کو ’’ریاست‘‘ کہتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی اور اسے ایک نارمل خودمختار ریاست آپ خود نہیں بننے دے رہے۔ یہ ڈیڑھ ریاستی فارمولا کہاں سے آیا ہے اور یہ ۷۵ سال سے کیوں مسلط ہے؟ یہ میرا ان سے سوال ہے کہ ایک بات کرو کہ یا ڈیڑھ ریاست کی بات کرو، یا دو ریاستوں کی بات کرو، یہ تضاد اور منافقت ختم کرو۔

  جبکہ تیسری بات کہ ایک اسٹیک ہولڈرز تو ریاستی ہیں، اور ایک اسٹیک ہولڈرز عوامی ہیں۔ ہمارے سماج اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب، حضرت مولانا ساجد میر صاحب ہیں، اور جناب سراج الحق صاحب ہیں۔ یہ ہمارے قائدین ہیں، ان سے میرا سوال ہے کہ ہمیں صرف کبھی کبھی اکٹھے نہیں ہونا چاہیے بلکہ قومی و ملی مسائل پر اکٹھے رہنا چاہیے، حالات ہم سے اکٹھے ہونے کا نہیں بلکہ اکٹھے رہنے کا تقاضہ کر رہے ہیں اور آنے والے انتخابات کا تو سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں صحیح رخ پہ چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔


مسئلہ فلسطین کے تاریخی مراحل

الجزیرہ

1917ء — برطانوی اعلانِ بالفور

100 سال سے زیادہ پہلے، 2 نومبر 1917 کو، برطانیہ کے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ، آرتھر بالفور نے، برطانوی یہودی کمیونٹی کے ایک اہم شخصیت، لیونل والٹر روتھسچلڈ کو ایک خط لکھا تھا۔ خط مختصر تھا - صرف 67 الفاظ - لیکن اس کے مندرجات نے فلسطین پر ایک زلزلہ کا اثر ڈالا جو آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ اس نے برطانوی حکومت کو  ①فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی گھر کے قیام ② اور اس مقصد کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کا عہد کیا۔ اس خط کو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایک یورپی طاقت نے صیہونی تحریک کو ایک ایسے ملک کا وعدہ کیا جہاں فلسطینی عرب باشندے 90 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں۔

ایک برطانوی مینڈیٹ 1923 میں بنایا گیا اور یہ 1948 تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران، برطانویوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کیلئے امیگریشن کی سہولت فراہم کی – بہت سے نئے باشندے یورپ میں نازی ازم سے بھاگ رہے تھے – اور انہیں احتجاج اور ہڑتالوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ فلسطینی اپنے ملک کی بدلتی ہوئی آبادی اور ان کی زمینوں کو یہودی آباد کاروں کے حوالے کرنے کے لیے برطانوی قبضے سے پریشان تھے۔

1930 کی دہائی — فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری

بڑھتی ہوئی کشیدگی بالآخر عرب بغاوت کا باعث بنی، جو 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔  اپریل 1936 میں، نو تشکیل شدہ عرب قومی کمیٹی نے فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ برطانوی استعمار اور بڑھتی ہوئی یہودی امیگریشن کے خلاف احتجاج کے لیے عام ہڑتال کریں، ٹیکس کی ادائیگیاں روک دیں اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ چھ ماہ کی ہڑتال کو برطانویوں نے وحشیانہ طور پر دبایا، جنہوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاری کی مہم شروع کی اور  گھروں کو مسمار کیا، ایک ایسا عمل جسے اسرائیل آج بھی فلسطینیوں کے خلاف نافذ کر رہا ہے۔ بغاوت کا دوسرا مرحلہ 1937 کے آخر میں شروع ہوا اور اس کی قیادت فلسطینی کسان مزاحمتی تحریک نے کی، جس نے برطانوی افواج اور استعمار کو نشانہ بنایا۔ 1939 کے دوسرے نصف تک، برطانیہ نے فلسطین میں 30,000 فوجی جمع کر لیے تھے۔ دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی، کرفیو نافذ کیا گیا، گھروں کو مسمار کر دیا گیا، اور انتظامی حراستیں اور سرسری سماعتوں کے بعد موت کی سزائیں عام ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانویوں نے یہودی آباد کار برادری کے ساتھ تعاون کیا اور مسلح گروپس بنائے اور یہودی جنگجوؤں کی ایک برطانوی زیر قیادت "انسداد بغاوت فورس" کو خصوصی نائٹ اسکواڈز کا نام دیا۔ یشوف (اسرائیلی ریاست سے پہلے کی آبادکار برادری) میں ہتھیاروں کو خفیہ طور پر درآمد کیا گیا اور ہتھیاروں کی فیکٹریاں قائم کی گئیں تاکہ یہودی نیم فوجی دستہ ’’ہاگناہ‘‘ کو وسعت دے، جو بعد میں اسرائیلی فوج کا مرکز بن گئی۔ ان تین سال کی بغاوت میں 5000 فلسطینی مارے گئے، 15000 سے 20000 زخمی ہوئے اور 5600 قید ہوئے۔

1947 — اقوام متحدہ کا تقسیمِ فلسطین کا منصوبہ

1947 تک، یہودی آبادی فلسطین کے 33 فیصد تک پہنچ چکی تھی، لیکن ان کے پاس صرف 6 فیصد زمین تھی۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا کیونکہ اس قرارداد نے فلسطین کا تقریباً 55 فیصد حصہ یہودی ریاست کو دیا تھا، جس میں زیادہ تر زرخیز ساحلی علاقہ بھی شامل تھا۔ حالانکہ اس وقت فلسطینیوں کے پاس تاریخی فلسطین کا 94 فیصد حصہ تھا اور وہ اس کی آبادی کا 67 فیصد تھے۔

1948 — نکبہ ( فلسطین کی نسلی صفائی)

14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی، صہیونی نیم فوجی دستے پہلے ہی سے فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر رہے تھے تاکہ صہیونی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دی جا سکے۔ اپریل 1948 میں یروشلم کے نواح میں واقع گاؤں دیر یاسین میں 100 سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچے مارے گئے۔ اس نے بقیہ آپریشنوں کے لیے راستہ ہموار کیا، اور 1947 سے 1949 تک، 500 سے زیادہ فلسطینی دیہات، قصبے اور شہر تباہ کیے گئے جس کو فلسطینی عربی میں نکبہ، یا "تباہ" کہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 15000 فلسطینی مارے گئے جن میں درجنوں قتل عام بھی شامل ہیں۔ صہیونی تحریک نے تاریخی فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ بقیہ 22 فیصد کو ان حصوں میں تقسیم کیا گیا جو اب مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ کی پٹی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 750,000 فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ آج ان کی اولادیں پورے فلسطین اور لبنان، شام، اردن اور مصر کے پڑوسی ممالک میں 58 غیر محفوظ کیمپوں میں ساٹھ لاکھ پناہ گزینوں کے طور پر مقیم ہیں۔

15 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنے قیام کا اعلان کیا۔  اگلے دن، پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی اور جنگ جنوری 1949 میں اسرائیل اور مصر، لبنان، اردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کے بعد ختم ہوئی۔ دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

کم از کم 150,000 فلسطینی اسرائیل کی نئی بننے والی ریاست میں رہے اور تقریباً 20 سال تک سخت کنٹرول والے فوجی قبضے میں رہے، اس سے پہلے کہ انہیں بالآخر اسرائیلی شہریت دی گئی۔ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور 1950 میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنی انتظامی حکمرانی شروع کر دی۔ 1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کا قیام عمل میں آیا اور ایک سال بعد الفتح سیاسی جماعت قائم ہوئی۔

1967 —  نکسا (چھ روزہ جنگ اور یہودی بستیاں)

5 جون 1967 کو اسرائیل نے عرب فوجوں کے اتحاد کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی تاریخی فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ کچھ فلسطینیوں کے لیے، اس کی وجہ سے دوسری زبردستی نقل مکانی ہوئی، یا نکسا، جس کا عربی میں مطلب ہے "جھٹکا"۔ دسمبر 1967 میں، مارکسسٹ-لیننسٹ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کا قیام عمل میں آیا۔ اگلی دہائی کے دوران، بائیں بازو کے گروہوں کے حملوں اور طیاروں کے اغوا کے سلسلے نے دنیا کی توجہ فلسطینیوں کی حالت زار کی طرف مبذول کرائی۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ یہودی آباد کاروں کیلئے اسرائیلی شہری ہونے کے تمام حقوق اور مراعات کے ساتھ ایک دو سطح کا نظام بنایا گیا تھا۔ جب کہ فلسطینیوں کو فوجی قبضے کے تحت رہنا پڑتا تھا جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا تھا اور کسی بھی قسم کے سیاسی یا شہری اظہار پر پابندی عائد کرتا تھا۔

1987 تا 1993 — پہلا انتفاضہ

پہلی فلسطینی تحریک دسمبر 1987 میں غزہ کی پٹی میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک اسرائیلی ٹرک فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں سے ٹکرایا جس میں چار فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ نوجوان فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کے ساتھ احتجاج تیزی سے مغربی کنارے تک پھیل گیا۔ اس کے نتیجے میں حماس تحریک کا قیام بھی عمل میں آیا، جو اخوان المسلمون کی ایک شاخ تھی جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت میں مصروف تھی۔ اس وقت کے وزیر دفاع یتزاک رابن کی طرف سے "ہڈیوں کو توڑ دو" کی پالیسی کے ذریعے اسرائیلی فوج کے بھاری ہاتھ سے جوابی کارروائی کی گئی تھی۔ اس میں سرسری سماعت کے بعد سزائے موت، یونیورسٹیوں کی بندش، کارکنوں کی ملک بدری اور گھروں کو تباہ کرنا شامل تھا۔ تحریک بنیادی طور پر نوجوانوں کی طرف سے شروع کی گئی تھی اور اس کی رہنمائی بغاوت کی متحدہ قومی قیادت نے کی تھی، جو کہ اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے اور فلسطین کی آزادی کے قیام کے لیے پرعزم فلسطینی سیاسی دھڑوں کا اتحاد ہے۔

1988 میں عرب لیگ نے PLO کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا۔ جدوجہد کی خصوصیات عوامی تحریکوں، بڑے پیمانے پر مظاہروں، سول نافرمانی، منظم ہڑتالوں اور فرقہ وارانہ تعاون پر مشتمل تھی۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B’Tselem کے مطابق تحریک کے دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 1070 فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 237 بچے بھی شامل تھے۔ 175,000 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ تحریک نے عالمی برادری کو تنازع کا حل تلاش کرنے پر بھی آمادہ کیا۔

1993 — اوسلو معاہدہ اور فلسطینی اتھارٹی

پہلی تحریک 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کی تشکیل کے ساتھ ختم ہوئی۔ ایک عبوری حکومت جسے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی جیبوں میں محدود خود مختاری دی گئی تھی۔ PLO نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کیا اور مؤثر طریقے سے معاہدوں پر دستخط کیے جس کے تحت اسرائیل کو مغربی کنارے کے 60 فیصد اور علاقے کے زیادہ تر زمینی اور آبی وسائل کا کنٹرول مل گیا۔ فلسطین اتھارٹی کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک آزاد ریاست چلانے والی پہلی منتخب فلسطینی حکومت کے لیے راستہ بنانا تھا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ فلسطین اتھارٹی کے ناقدین اسے اسرائیلی قبضے کے ایک بدعنوان ذیلی ٹھیکیدار کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسرائیل کے خلاف اختلاف رائے اور سیاسی سرگرمی کو روکنے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کرتا ہے۔ 1995 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے گرد ایک الیکٹرانک باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی، جس سے تقسیم شدہ فلسطینی علاقوں کے درمیان تعامل ختم ہو گیا۔

2000 —  دوسرا انتفاضہ

دوسرا انتفاضہ 28 ستمبر 2000 کو اس وقت شروع ہوا جب لیکود کے اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے یروشلم کے پرانے شہر اور اس کے ارد گرد ہزاروں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے احاطے کا ایک اشتعال انگیز دورہ کیا۔ دو روز کے دوران فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں پانچ فلسطینی ہلاک اور 200 زخمی ہو گئے۔ اس واقعے نے بڑے پیمانے پر مسلح بغاوت کو جنم دیا۔ تحریک کے دوران اسرائیل نے فلسطینی معیشت اور انفراسٹرکچر کو بے مثال نقصان پہنچایا۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور علیحدگی کی دیوار کی تعمیر شروع کر دی جس نے بڑے پیمانے پر بستیوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے معاش اور معاشروں کو تباہ کر دیا۔

بین الاقوامی قوانین کے تحت آبادکاری غیر قانونی ہے، لیکن گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں یہودی آباد کار چوری شدہ فلسطینی زمین پر بنائی گئی کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے کیونکہ صرف آبادکاروں کے لیے سڑکیں اور انفراسٹرکچر مقبوضہ مغربی کنارے کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے، جس سے فلسطینی شہروں اور قصبوں کو بنتوستانوں (جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں) میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جو کہ سیاہ فام جنوبی افریقیوں کے لیے الگ تھلگ انکلیو ہیں جنہیں ملک کی سابق نسل پرستی کی حکومت نے بنایا تھا۔

جس وقت اوسلو معاہدوں پر دستخط ہوئے، صرف 110,000 یہودی آباد کار مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں مقیم تھے۔ آج یہ تعداد 700,000 سے زیادہ ہے جو فلسطینیوں سے چھین لی گئی 100,000 ہیکٹر (390 مربع میل) سے زیادہ اراضی پر رہتے ہیں۔

2005  — غزہ کی آزادی اور ناکہ بندی

پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کا 2004 میں انتقال ہوا، اور ایک سال بعد، دوسری تحریک ختم ہوا، غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بستیوں کو ختم کر دیا گیا، اور اسرائیلی فوجی اور 9,000 آباد کار غزہ سے نکل گئے۔ ایک سال بعد، فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ حماس نے اکثریت حاصل کر لی۔ تاہم، فتح اور حماس کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی، جو مہینوں تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے۔ حماس نے فتح کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کر دیا، اور فلسطینی اتھارٹی کی مرکزی جماعت الفتح نے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول شروع کر دیا۔ جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر "دہشت گردی" کا الزام لگاتے ہوئے غزہ کی پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔

مصر سے متصل غزہ کی پٹی پر حملے

اسرائیل نے غزہ پر چار طویل فوجی حملے شروع کیے ہیں: 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں۔ ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں، اور دسیوں ہزار گھر، سکول اور دفتری عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تعمیر نوِ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ محاصرہ تعمیراتی سامان جیسے سٹیل اور سیمنٹ وغیرہ کو غزہ پہنچنے سے روکتا ہے۔ 2008 کے حملے میں فاسفورس گیس جیسے بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال شامل تھا۔ 2014 میں 50 دنوں کے دوران اسرائیل نے 2,100 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا جن میں 1,462 شہری اور 500 کے قریب بچے شامل تھے۔  آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نام سے کیے جانے والے اس حملے کے دوران تقریباً 11,000 فلسطینی زخمی ہوئے، 20,000 گھر تباہ اور 5  لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

https://www.aljazeera.com/news/2023/10/9/whats-the-israel-palestine-conflict-about-a-simple-guide

"مسئلہ فلسطین " کی تقریب رونمائی

مولانا محمد اسامہ قاسم

مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے حوالے سے معروضی صورتحال  اور امت مسلمہ کے موقف و جذبات سے نئی نسل کی آگاہی کے لئے مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب کے مقالات بیانات اور تحاریر کے مجموعے کو ہمارے برادر مکرم حافظ خرم شہزاد نے مرتب کیا جسے مولانا عبد القیوم حقانی صاحب نے اپنے ادارے سے شائع کرایا۔

اسلامک رائٹرز موومنٹ گوجرانوالہ کے زیر اہتمام 10 دسمبر بروز اتوار خلافت راشدہ اسٹڈی سینٹر میں مسلئہ فلسطین کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس میں خصوصی مہمانوں میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی ، خانوادہ امیر شریعت کے چشم و چراغ مولانا سید عطا اللہ شاہ ثالث ، مولانا ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی ، پروفیسر میاں انعام الرحمن ، مولانا امیر حمزہ ، حافظ خرم شہزاد، مولانا فضل الہادی اور مولانا امجد محمود معاویہ، حاجی بابر رضوان باجوہ، پیر سمیع الحق، سید حفیظ الرحمٰن شاہ، پیر احسان اللہ قاسمی، شکور عالم رانجھا، مولانا نصرالدین خان عمر، مولانا شمس الحق دیروی، مولانا محمد خبیب عامر، مولانا عمر شکیل، حافظ عبدالجبار کے علاوہ گوجرانوالہ شہر کے اکثر دینی جماعتوں کے نمائندے اور مدارس کے اساتذہ اور طلبا بھی تقریب میں شریک ہوئے۔

مہمان مقررین نے کتاب کی اشاعت پر مولانا زاہدالراشدی کو مبارکباد پیش کی، مقررین نے جن امور پر گفتگو کی درج ذیل ہیں۔

بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ حماس مجاہدین کی قربانیوں اور ہزاروں فلسطینیوں کی حالیہ شہادتوں کے باعث ایک بار پھر متنازعہ عالمی مسائل میں سرفہرست ہے، جس پر پوری نسلِ انسانی بالخصوص ملتِ اسلامیہ اور عرب دنیا کی ترجیحی بنیادوں پر سنجیدہ اور فوری توجہ ضروری ہے، اور یہ عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور مسلّمہ انسانی حقوق کی پاسداری کا بھی تقاضا ہے۔

بیت المقدس اور فلسطین پر صہیونیوں کا ناجائز قبضہ ایک عرصہ سے عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور اقوامِ عالم متعدد بار اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق اور بیت المقدس پر فلسطینیوں کے استحقاق کی حمایت کر چکی ہے لیکن اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی کے باعث عالمی رائے عامہ کی پرواہ کیے بغیر جارحیت اور اشتعال انگیزی کی راہ پر گامزن ہے۔ عراق کی ایٹمی تنصیبات پر شرمناک حملہ، لبنان میں مسلح مداخلت اور دنیا میں کسی بھی مسلمان ملک کی ایٹمی تنصیبات کو برداشت نہ کرنے کی دھمکیوں کے بعد مسجدِ اقصیٰ میں مظلوم مسلمانوں پر وحشیانہ حملہ یہ سب کچھ اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیز کاروائیوں کا ایک حصہ ہے اور مسلسل ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے۔

اس صورتحال میں عالم اسلام کے تمام طبقات بالخصوص مسلم حکومتوں سے ہماری گزارش ہے کہ اس معاملہ میں دینی حمیت اور ملی غیرت کے جذبہ و احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں، جس کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بلا کر فلسطینی عوام کی حمایت و پشت پناہی کے ساتھ ساتھ ان کی امداد کی حکمت عملی طے کی جائے۔

اقوام متحدہ میں مسلم ممالک خصوصاً‌ پاکستان، سعودی عرب، مصر اور ترکیہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی رائے عامہ کو اسرائیلی مظالم کے خلاف منظم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اور عالمی ماحول میں بیت المقدس کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کے لیے منظم اور مربوط لائحہ عمل ترتیب دیں۔

دنیا بھر میں مسلم ادارے، جماعتیں اور طبقات فلسطینیوں کی حمایت میں عوامی اجتماعات اور مظاہروں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں اور مسلم رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی مہم جاری رکھیں۔

غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن امداد و تعاون کے لیے مخیر شخصیات اور ادارے آگے بڑھیں اور قابل اعتماد ذرائع سے خوراک، علاج اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی بروقت اور مناسب فراہمی کی جدوجہد کریں۔

اکثر مسلم ممالک اور وہاں کی عوام نے جس طرح اس مسئلہ پر لبیک کہتے ہوئے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے وہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ دنیائے اسلام بیت المقدس اور فلسطین کے قضیہ کو پورے عالم اسلام کا مسئلہ سمجھتی ہے اور اس کے حل کے لیے ہر نوع کی قربانی کے لیے تیار ہے۔ ہم عالمِ اسلام کی سطح پر اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کے اس پرجوش اظہار  پر دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کو حقیقی اتحاد و استحکام کی منزل سے ہمکنار فرمائیں تاکہ اقوامِ عالم کی برادری میں ملتِ اسلامیہ اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے، آمین یا الٰہ العالمین۔

’’مسئلہ فلسطین‘‘

ادارہ

تالیف: علامہ زاہد الراشدی

مرتب: مولانا حافظ خرم شہزاد

ضخامت: ۲۲۱ صفحات

ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، نوشہرہ


ارضِ فلسطین انبیائے کرام علیہم السلام کا وطن ہے، بیت المقدس کی سرزمین ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت سے ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے والد آذر کے ساتھ آخری مکالمہ کے بعد اہلیہ محترمہ حضرت سارہؓ اور بھتیجے حضرت لوطؑ کے ساتھ بابل سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تھی اور اس سرزمین کو اپنا  مسکن بنا لیا۔ اس کے بعد یہ خطہ اہم دینی، سیاسی، تہذیبی واقعات اور تاریخی تبدیلیوں کا مرکز چلا آ رہا ہے۔

اس پر گفتگو کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کے ماضی کی تاریخ کو سامنے لایا جائے جو سینکڑوں کتابوں میں بکھری ہوئی ہے، اور یہ خطہ اہلِ علم و دانش کی گفتگو اور تحریروں کا محور و مرکز ہے۔ اس وقت یہ سرزمین اسرائیل اور یہود کے زیرتسلط ہے اور اب تک وہاں ہزاروں مظلوم مسلمان جامِ شہادت نوش کر گئے ہیں اور سینکڑوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر اب تک سینکڑوں مضامین و مقالات مختلف زبانوں میں لکھے جا چکے ہیں اور تاہنوز اس پر خامہ فرسائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلہ کی ایک حسین کڑی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کاوش بھی ہے۔

زیر تبصرہ کتاب ’’مسئلہ فلسطین‘‘ میں حضرت علامہ صاحب نے مسئلہ فلسطین کا پس منظر، بیت المقدس اور مسلم حکمران، تاریخِ یہود اور اسرائیل، مسئلہ فلسطین اور مغرب، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث جیسے اہم موضوعات پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ اس اہم نظریاتی اور فکری مسئلہ کے جملہ متعلقات پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کے متنوع مضامین اور بیانات نہ صرف تاریخ کا حصہ ہے بلکہ امتِ مسلمہ میں فکری و نظریاتی بیداری کی لہر اور امید کی کرن بھی ہے۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب کے یہ مضامین و بیانات نوجوانانِ ملت اور مسلم حکمرانوں کی رہنمائی کا ذریعہ ہیں جسے حافظ خرم شہزاد صاحب اور حافظ کامران حیدر صاحب نے استاد مکرم حضرت مولانا عبد القیوم حقانی مدظلہ کی تحریک و ایماء پر کمال مہارت، سلیقے سے خوبصورت انداز میں مرتب کیا۔ یہ کاوش اپنے موضوع پر ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس سے خواص اور عام الناس یکساں طور پر مستفید ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیل سے حقیقی آزادی کا وسیلہ ثابت فرمائے۔

(ماہنامہ الحق، اکوڑہ خٹک — دسمبر ۲۰۲۳ء)

الشریعہ — فروری ۲۰۲۴ء

الیکشن میں دینی جماعتوں کی صورتحال اور ہماری ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۹)ڈاکٹر محی الدین غازی 
صفات متشابہات پر متکلمین کا مذہب تفویض و ائمہ سلفڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل 
جدید ریاست، حاکمیت اعلیٰ (ساورنٹی) اور شریعتمحمد دین جوہر 
ہندوستان میں اسلامی تکثیریت کا تجربہ تاریخی حوالہ سےڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی 
طوفان الاقصیٰ اور امت کی ذمہ داریاںاسماعیل ہنیہ 
تحریک ریشمی رومال کے خطوطحافظ خرم شہزاد 
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریب سے خطابادارہ 
روس یوکرائن جنگ اور یورپ کی تیاریہلال خان ناصر 
مسئلہ فلسطین، قومی انتخابات، وطن عزیز کا اسلامی تشخصمولانا حافظ امجد محمود معاویہ 
انگلش لینگویج کورس کا انعقاد / الشریعہ لاء سوسائٹی کی افتتاحی تقریبمولانا محمد اسامہ قاسم 
فلسطین : ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک کے اعداد و شمارالجزیرہ 
Pakistan’s National Stability and Integrity: Five Circlesمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 

الیکشن میں دینی جماعتوں کی صورتحال اور ہماری ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۳ جنوری ۲۰۲۴ء کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا عبد الرزاق کی زیرصدارت علماء کرام کے اجتماع سے خطاب۔)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، مختلف جماعتیں میدان میں ہیں  اور انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔اس ماحول میں ملک کی دینی جماعتوں اور دینی حلقوں کو کیا کرنا چاہیے، اس کے بار ےمیں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ ہے کہ دینی حلقوں، دینی جماعتوں اور علماء کرام کا انتخابی سیاست سے کیا تعلق ہے، یہ انتخابی عمل میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ پاکستان پون صدی پہلے اس نعرہ پر وجود میں آیا تھا کہ ہم مسلمان ہندوؤں سے الگ تہذیب رکھتے ہیں، وہ چونکہ برصغیر میں اکثریت میں ہیں اس لیے اگر ہم ان کے ساتھ رہیں گے تو ان کی تہذیب کے اثرات غلبہ پائیں گے، لہٰذا ہمیں اپنا الگ آزاد ملک چاہیے تاکہ ہم اپنے دین، مذہب، شرعی احکام اور تہذیب و ثقافت پر قائم رہ سکیں۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ اور دیگر مرکزی قیادت جن کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا، ان کا یہ صاف کہنا تھا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ تہذیبی اور مذہبی حوالے سے اکٹھے نہیں رہ سکتے اس لیے ہمیں الگ ملک چاہیے جہاں ہم شرعی قوانین کا نفاذ کریں گے، اسلامی تہذیب اور ثقافت کو باقی رکھیں گے، اور مسلم تہذیب کو ہندو تہذیب میں گڈمڈ نہیں ہونے دیں گے۔

یہ وہی معرکہ ہے جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کو درپیش تھا، جب اکبر بادشاہ نے سب کچھ خلط ملط کر دیا تھا، کچھ ہندوؤں کی باتیں، کچھ عیسائیوں کی، کچھ مسلمانوں کی اور کچھ بدھوں کی باتیں اکٹھی کر کے ’’دینِ الٰہی‘‘  تشکیل دیا تھا اور اسے عملاً‌ نافذ بھی کر دیا تھا۔ اس کا مقابلہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں اہلِ حق نے کیا تھا اور عملاً‌ جدوجہد کر کے بتایا تھا کہ ہماری تہذیب و ثقافت اور عقائد الگ ہیں، ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد اسی کا تسلسل تھا۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں دوٹوک بات کی کہ ہم ملک میں شرعی قوانین کے مطابق نظام چاہتے ہیں، لیکن قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارا رخ مڑ گیا۔ ملک کے دستور میں تو لکھا ہوا ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے، اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی، لیکن عملاً‌ پچھتر سال میں اس رخ پر کوئی کام نہیں ہوا۔

چنانچہ اس رخ اور ٹریک پر قوم کو قائم رکھنا اہلِ دین کی ذمہ داری ہے، پاکستان بننے کے بعد سے دینی جماعتیں اسی بنیاد پر کام کر رہی ہیں کہ ہم نے پاکستان کو اس کے مقصدِ قیام کے مطابق ایک اسلامی ریاست بنانا ہے، اور اس کے لیے علماء کرام کا قومی سیاست میں ایک مؤثر قوت کے طور پر موجود رہنا ضروری ہے۔

دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ  ہمارا پچھتر سال کا تجربہ ہے کہ جب بھی ہم نے دین، شریعت اور تہذیب کی کوئی بات اکٹھے ہو کر کی ہے تو اس سے کوئی انکار نہیں کر سکا۔  لیکن یہی بات جب ہم اپنے طور پر کرتے ہیں تو کوئی نہیں سنتا، بریلوی اپنی جگہ کرتے ہیں، اہلِ حدیث اپنی جگہ، دیوبندی اپنی جگہ، اور جماعت اسلامی اپنی جگہ کرتی ہے۔  تقریباً‌ نصف صدی سے تو میں بھی ان تحریکات کا متحرک حصہ ہوں، الحمد للہ۔  جب اپنی اپنی جگہ بات کرتے ہیں تو کوئی نہیں سنتا لیکن جب اکٹھے ہو کر بات کرتے ہیں تو سنی جاتی ہے۔ یہی صورتحال الیکشن کی بھی ہے کہ جس الیکشن میں بھی ہم نے اجتماعی کردار ادا کیا ہے تو بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک پورے ملک کا رخ موڑنے والی تحریک تھی جس میں سب شریک تھے۔ پھر ایک دور آیا جب ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ نے انتخابات میں خاصی سیٹیں جیت کر ایک فیصلہ کن قوت حاصل کی۔

اس لیے پاکستان کے قیام کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے اور پاکستان کو لادینی ریاست ہونے سے بچانے کے لیے دینی جماعتوں کو اکٹھے ہو کر یہ الیکشن لڑنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کیوں نہیں ہو سکا، یہ الگ داستان ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ الیکشن لڑنے کے لیے دینی حلقے اکٹھے نہیں ہو سکے۔ اس موقع پر مجھے ۱۹۷۰ء کے انتخابات یاد آ رہے ہیں جس میں گوجرانوالہ کی تین چار سیٹوں کی انتخابی مہم کا میں انچارج تھا۔ صرف ایک تجربہ کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گوجرانوالہ شہر کی قومی اسمبلی سیٹ پر علمائے دیوبند کی طرف سے مولانا مفتی عبد الواحدؒ، بریلوی علماء میں سے مولانا ابو داؤد صادقؒ، اہلِ حدیث علماء میں سے مولانا محمد عبد اللہ اور جماعت اسلامی کے چودھری محمد اسلم کھڑے تھے۔چار مذہبی جماعتیں جو نفاذِ اسلام کی بات کرتی ہیں، ہر  ایک کا اپنا امیدوار کھڑا تھا، سب نے دس دس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ اسی گوجرانوالہ میں ہم نے متحدہ مجلس عمل کے تحت ۲۰۰۲ء میں الیکشن لڑا تو مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ قومی اسمبلی کی سیٹ جیتے جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ مولانا مفتی غلام فرید رضوی جیتے جو بریلوی حضرات کے بڑے عالم تھے۔ میں صرف مثال کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ جب الگ الگ لڑے تو کچھ بھی نہیں ملا اور جب اکٹھے ہو کر لڑے تو کامیاب ہوئے۔

اس دفعہ کے الیکشن ۲۰۲۴ء میں ہم اتحاد نہیں کر سکے، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ بریلویوں کی اپنی تنظیمیں ہیں، دیوبندیوں کی اپنی، اہلِ حدیث کی اپنی، کوئی کسی پارٹی میں ہے اور کوئی کسی پارٹی میں۔ پچھلے تجربات بتاتے ہیں کہ سب تکلف ہی کر رہے ہیں۔ بہرحال جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، صحیح ہوا یا غلط ہوا۔ اب اس موجودہ فضا میں ہم نے کیا کرنا ہے؟ میں سب دینی حلقوں سے خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر کے ہوں، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور جماعت اسلامی، جو بھی اسلام کی بات کرتا ہے اور  اسلام کے حوالے سے سیاست کی بات کرتا ہے، میں  تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:

   ➊ ہر حلقہ میں اہلِ دین کو اجتماعی طور پر مشاورت کے ساتھ اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کی طرف سے ایسا آدمی آگے آئے جو کم از کم مشترکہ دینی معاملات میں دین کی بات کر سکے۔ وہ اس کا حوصلہ بھی رکھتا ہو اور علم بھی۔ صرف حوصلہ کچھ نہیں کرتا اور صرف علم بھی کچھ نہیں کرتا۔ چنانچہ پہلا دائرہ یہ ہے اور موجودہ صورتحال میں ہم یہی کر سکتے ہیں کہ اپنے حلقے میں جو بھی چار پانچ امیدوار ہیں، ان میں دیکھیں کہ ملک اور اسلامی نظام کے لیے حوصلہ و صلاحیت اور علمی اعتبار سے کون سب سے موزوں ہے، اور سب باہمی مشاورت کے ساتھ اس ایک امیدوار کو سپورٹ کریں۔

    ➋  جس امیدوار کو آپ نے سپورٹ کرنا ہے اس سے تحریری وعدہ لیں۔ حلقہ کے سو دو سو با اثر لوگ اکٹھے ہو کر اپنے امیدوار کو ساتھ بٹھائیں اور اس سے درج ذیل باتوں کا حلف لے لیں کہ ہم اس وعدہ پر آپ کو ووٹ دیں گے:

’’میں منتخب ہو کر پاکستان کے دستور کی وفاداری کروں گا۔ دستوِر پاکستان کی اسلامی دفعات کا تحفظ کروں گا۔ ملک کے دستور کے خلاف کوئی کام نہیں ہونے دوں گا۔ دستور اور قانون میں شریعت کے جو قوانین ہیں ان میں سے کسی کو منسوخ یا غیر مؤثر بنانے کی حمایت نہیں کروں گا۔ شریعتِ اسلامیہ کے خلاف کسی بل کی حمایت نہیں کروں گا۔ شریعت کے نفاذ کی کوشش کروں گا۔ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کے قوانین کی پوری طرح پاسداری کروں گا۔ جب بھی شریعت کے لیے کسی قانون کے نفاذ کی بات ہو گی تو میرا ووٹ شریعت کو ہو گا۔ کسی بھی دینی اور قومی مسئلہ میں، قومی خودمختاری یا ملکی آزادی کے معاملہ میں میرا ووٹ ملکی وحدت، قومی خودمختاری اور آزادی کے ساتھ ہو گا۔‘‘

یہ کام تو ہر حلقہ کے لوگوں کو کرنا چاہیے، آپ جس پارٹی کو یا جس امیدوار کو بھی ووٹ دیں، اس سے اس حلف نامہ پر ضرور دستخط لیں۔ اس سے کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   ➌ بہت سے حلقوں میں مختلف دینی جماعتوں کے علماء کرام آمنے سامنے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ مختلف مسالک کے تو ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں ہی، بعض جگہ پر ایک مسلک کے علماء بھی باہم ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں۔ اگر کہیں ایک حلقے میں علماء کی دو جماعتیں ہوں تو وہاں کم از کم اتمامِ حجت کے لیے کوشش کریں اور ان سے گزارش کریں کہ آپ میں سے ایک اس دفعہ الیکشن لڑ لے، اور دوسرے سے عرض کریں کہ آپ اگلی دفعہ الیکشن لڑنا، لیکن مہربانی کریں کہ آمنا سامنا نہ کریں۔ دینی حلقوں اور دینی امیدواروں کا آپس میں آمنا سامنا ہمیں خاموشی سے ہضم نہیں کر لینا چاہیے بلکہ اسے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

یہ میری تین گزارشات ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ پاک ہمیں ہدایت دیں اور صحیح رخ پر صحیح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ پاکستان شریعت کونسل خود انتخابات میں شریک نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو اس کا ٹائٹل استعمال کرنے کی اجازت ہے، البتہ ہم ملک بھر کے عوام اور دینی کارکنوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ (۱) امیدواروں میں سے جو شریعت کے زیادہ قریب ہے اسے منتخب کریں (۲) جس امیدوار کو ووٹ دیں اس سے حلف نامہ لیں (۳) جہاں دینی حلقے، جماعتیں اور علماء آپس میں مقابلے پر ہیں وہاں اپنی پوری کوشش کریں کہ ایک امیدوار سامنے آئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۹)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(471) المتقین کا ترجمہ

درج ذیل دونوں آیتوں میں متقین کا ترجمہ صاحب تدبر نے ’نقض عہد سے بچنے والوں‘ کیا ہے۔ یہ ترجمہ موزوں نہیں ہے۔ متقی قرآن کی معروف اصطلاح ہے۔ تقوی اختیار کرنے یعنی اللہ کی ناراضگی سے بچنے والے کو متقی کہتے ہیں۔ عہد کی پاس داری کرنا اور عہد شکنی سے بچنا تقوی کا ایک تقاضا تو ہے لیکن تقوی کااصل مفہوم عہد شکنی نہیں ہے۔ تقوی کا یہ تقاضا تفسیر میں بتایا جاسکتا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو:

(۱) فَأَتِمُّوا إِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ۔ (التوبۃ: 4)

”سو ان کے معاہدے ان کی قرار دادہ مدت تک پورے کرو۔ بے شک اللہ نقض عہد سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے“۔ (سید مودودی)

موخر الذکر ترجمے کے بارے میں تین باتیں قابل توجہ ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ آیت میں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے، اس لیے ’متقیوں ہی‘ کے بجائے صرف ’متقیوں‘ ہونا چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ إِنَّ کا ترجمہ ’کیوں کہ‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ إِنَّ کا ترجمہ ’بے شک‘ کیا جائے گا۔ لفظ کے پہلو سے یہ درست اور معنویت کے اعتبار سے بھی زیادہ موزوں ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ أتم العھد کا مطلب عہد وفا کرنا نہیں، بلکہ معاہدہ پورا کرنا ہے۔ فَأَتِمُّوا إِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ کا ترجمہ ہوگا: ’ان کی مدت تک ان کے معاہدے پورے کرو۔‘ مطلب یہ ہے کہ جو معاہدے ہوگئے ہیں انھیں مدت سے پہلے ختم نہ کرو بلکہ جو مدت طے ہوئی ہے، اس مدت تک باقی رکھو۔ عہد وفا کرنے کا مطلب ہے عہد کی خلاف ورزی سے بچنا جب کہ معاہدہ پورا کرنے کا مطلب ہے معاہدہ ختم کرنے سے بچنا۔ دونوں باتوں میں فرق ہے۔ یہاں عہد وفا کرنے کی نہیں معاہدہ پورا کرنے کی بات ہے۔

(۲) فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ۔ (التوبۃ: 7)

”تو جب تک وہ تمہارے لیے قائم رہیں تم بھی ان کے لیے معاہدے پر قائم رہو۔ بے شک اللہ نقض عہد سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے“۔ (سید مودودی)

یہاں بھی إِنَّ کا ترجمہ ’کیوں کہ‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ إِنَّ  کا ترجمہ ’بے شک‘ کیا جائے گا۔

چوں کہ فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَہُمْ معاہدے کے سیاق میں ہے اس لیے اس جملے کا ترجمہ ہوگا: ”جب تک وہ تمہارے ساتھ معاہدے پر قائم رہیں، تم بھی ان کے ساتھ معاہدے پر قائم رہو۔“

(472) فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ

درج ذیل آیت میں ’فِی رَیْبِہِمْ‘ حال ہے نہ کہ ’یَتَرَدَّدُونَ‘ کا ظرف۔ شک میں ڈانوا ڈول ہونے کا کوئی مطلب نہیں بیٹھتا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ شک کی حالت میں ہیں اس لیے کوئی فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں بس پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:

 وَارْتَابَتْ قُلُوبُہُمْ فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ۔ (التوبۃ: 45)

”اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ سو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے شک میں ہی سرگرداں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جن کے دل شک میں مبتلا ہیں اور وہ اپنے شک میں ڈانوا ڈول ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں سو وہ شک کی حالت میں پیچ و تاب کھارہے ہیں۔“

اسی جہت میں درج ذیل ترجمہ بھی ہے:

”اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں سو وہ اپنے شکوک میں پڑے ہوئے حیران ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

(473) فَاِنْ رَجَعَکَ اللَّہُ إِلَی طَائِفَۃٍ مِنْہُمْ

فَإِنْ رَجَعَکَ اللَّہُ إِلَی طَاءِفَۃٍ مِنْہُمْ فَاسْتَأْذَنُوکَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِیَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِیَ عَدُوًّا۔ (التوبۃ: 83)

”اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ، اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑ سکتے ہو“۔ (سید مودودی)

اس ترجمہ میں لفظی ترکیب کی رعایت نہیں ہوسکی ہے۔ آیت میں ان کے گروہ کی طرف واپس لانے اور اس گروہ کے اجازت مانگنے کا ذکر ہے، نہ کہ ان کی طرف واپس لانے اور ان کے کسی گروہ کے اجازت مانگنے کا۔

اس پہلو سے درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”پھر اے محبوب! اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کو نکلنے کی اجازت مانگے تو تم فرمانا کہ تم کبھی میرے ساتھ نہ چلو اور ہرگز میرے ساتھ کسی دشمن سے نہ لڑو“۔ (احمد رضا خان)

اوپر کے دونوں ترجموں میں ایک اور بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ لَنْ تَخْرُجُوا اور لَنْ تُقَاتِلُوا کا ترجمہ ’نہیں چل سکتے‘ اور ’نہیں لڑسکتے‘ یا ’نہ چلو‘ اور ’نہ لڑو‘ سے زیادہ موزوں ’کبھی نہیں نکلو گے‘ اور ’کبھی نہیں لڑو گے‘ ہے۔

”پھر اگر خدا تم کو ان میں سے کسی گروہ کی طرف لے جائے“۔ (فتح محمد جالندھری)

رَجَعَکَ کا ترجمہ ’لے جائے‘ کے بجائے ’واپس لائے‘ ہونا چاہیے۔

درج ذیل ترجمہ مذکورہ کمیوں سے خالی ہے:

”سو اگر پھیر لے جاوے تجھ کو اللہ کسی فرقے کی طرف ان میں سے پھر یہ رخصت چاہیں تجھ سے نکلنے کو تو تو کہہ کہ تم ہرگز نہ نکلو گے میرے ساتھ کبھی اور نہ لڑو گے میرے ساتھ کسی دشمن سے“۔ (شاہ عبدالقادر)

(474) یُقْتَلُونَ کا ترجمہ

یُقْتَلُ کا مطلب مرنا نہیں بلکہ قتل کیا جانا اور مارا جانا ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے بعض حضرات اس فرق کا لحاظ نہیں کرسکے۔

 یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ۔ (التوبۃ: 111)

”لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں اور مریں“۔ (احمد رضا خان)

”وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

یہ آخری ترجمہ بہت نامناسب ہے۔ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ قتل کرنے کے بعد وہ خود کو قتل ہونے کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ ایمان والے جنگ کرتے ہیں جس میں دونوں طرح کے انجام کے لیے وہ تیار رہتے ہیں، قتل کرنے میں بھی انھیں باک نہیں ہوتا اور قتل کیے جانے سے بھی وہ نہیں ڈرتے۔ یہاں قتال کا ترجمہ جہاد بھی درست نہیں ہے۔

درج ذیل ترجموں میں لفظ کی رعایت کی گئی ہے:

”یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی اور اشرف علی تھانوی)

(475) عَنْ یَدٍ کا ترجمہ

درج ذیل آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے۔

حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ۔ (التوبۃ: 29)

”یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں“۔ (سید مودودی)

”جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر“۔ (احمد رضا خان)

”یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یہاں تک کہ وہ ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں“۔ (محمد جوناگڑھی)

’اپنے ہاتھ سے‘ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے ایسے موقع پر حرف باء آتا ہے،یعنی ’بید‘ کی تعبیر لائی جاتی ہے۔ ’عن ید‘ یہاں طاقت کے معنی میں ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ دیکھیں: 

”یہاں تک کہ وہ طاقت کے زور پر چھوٹے بن کر جزیہ دیں“۔ طاقت کے زور پر یعنی چار و ناچار وہ جزیہ دینے پر مجبور ہوں۔ جزیہ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ جس گھمنڈ اور تکبر کی بنا پر وہ حق کی مخالفت اور اہل حق سے جنگ کررہے تھے، ٹوٹ چکا ہے۔

(476) فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِی الْاَخِرَۃِ إِلَّا قَلِیلٌ

فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ۔ (التوبۃ: 38)

درج بالا جملے کا ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے:

 ”سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا“۔ (احمد رضا خان)

”آخرت کے مقابلے میں یہ دنیا کی زندگی تو نہایت ہی حقیر ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا ترجموں میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ تاہم درج ذیل ترجمہ عام ترجموں سے مختلف ہے، اس میں فی کا ترجمہ مقابلے  (اصطلاح میں مقایسہ)کے بجائے ظرف کے معنی میں کیا ہے:

”ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا“۔ (سید مودودی)

اسلوب کلام کو سامنے رکھیں تو یہ ترجمہ کم زور معلوم ہوتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی طرح کے دوسرے قرآنی جملے میں موصوفؒ نے عام مترجمین کے طرز پر ترجمہ کیا ہے:

وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ۔ (الرعد: 26)

”حالانکہ د نیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں“۔ (سید مودودی)

(477) عَفَا اللَّہُ عَنْکَ کا ترجمہ

بہت سے لوگوں نے درج ذیل جملے کو دعائیہ مان کر ترجمہ کیا ہے، لیکن اس پر اشکال ہے کہ جب اللہ ہی دعا قبول کرنے والا ہے تو وہ اپنے آپ سے کیسے دعا کرے گا؟ اس لیے صحیح توجیہ یہ ہے کہ اس جملے کو خبریہ مانا جائے کہ اللہ نے معاف کردیا۔ بعض ترجمے ملاحظہ ہوں:

عَفَا اللَّہُ عَنْکَ۔ (التوبۃ: 43)

”اللہ بخشے تجھکو“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے نبیؐ، اللہ تمہیں معاف کرے“۔ (سید مودودی)

”اللہ تجھے معاف فرما دے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”خدا تمہیں معاف کرے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اللہ تمہیں معاف کرے“۔ (احمد رضا خان)

اس کے برعکس بعض لوگوں نے عَفَا اللَّہُ عَنْکَ کو دعائیہ کے بجائے خبریہ جملہ مانا ہے اور اس کے مطابق ترجمہ کیا ہے، یہ ترجمہ درست ہے۔ ملاحظہ کریں:

”اللہ تعالی نے آپ کو معاف (تو) کردیا“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اللہ نے تمہیں معاف کر دیا“۔ (احمد علی)

”اللہ نے تمہیں معاف کیا“۔(امین احسن اصلاحی)

”پیغمبر! خدا نے آپ سے درگزر کیا“۔ (ذیشان جوادی)

(478) حَتَّی جَاءَ الْحَقُّ وَظَہَرَ أَمْرُ اللَّہِ وَہُمْ کَارِہُونَ

لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَکَ الْأُمُورَ حَتَّی جَاءَ الْحَقُّ وَظَہَرَ أَمْرُ اللَّہِ وَہُمْ کَارِہُونَ۔ (التوبۃ: 48)

”اس سے پہلے بھی اِن لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آ گیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا“۔ (سید مودودی)

”یہ پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کرچکے ہیں اور انہوں نے واقعات کی صورت تمہارے سامنے بدلی یہاں تک کہ ان کے علی الرغم حق آگیا اور اللہ کا حکم ظاہر ہوا“۔(امین احسن اصلاحی) یہاں وَقَلَّبُوا لَکَ الْأُمُورَ کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس جملے کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ’تمہارے خلاف طرح طرح کے جتن کیے۔‘

”بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ چاہا تھا اور اے محبوب! تمہارے لیے تدبیریں الٹی پلٹیں یہاں تک کہ حق آیا اور اللہ کا حکم ظاہر ہوا اور انہیں ناگوار تھا“۔ (احمد رضا خان)

آخری ترجمے میں ’وھم کارھون‘ میں واو کو عطف کا مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسلوب کلام سے ظاہر ہے کہ یہ واو حالیہ ہے۔ پہلے دونوں ترجمے واو حالیہ کی بنیاد پر کیے گئے ہیں۔ البتہ ان دونوں نے وھم کارھون کو پچھلے دونوں جملوں کا حال مانا ہے، یعنی جاء الحق اور ظھر أمر اللہ کا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ وھم کارھون دوسرے جملے یعنی ظھر أمر اللہ کا حال ہے۔ اس طرح ترجمہ ہوگا:

”یہاں تک کہ حق آ گیا اور ان کی مرضی کے خلاف اللہ کا کام ہو کررہا“۔

(479) وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِی الْحَرّ

درج ذیل جملے کا ترجمہ کرتے ہوئے بعض مترجمین نے یہ مان کر کہ انھوں نے یہ بات دوسروں سے کہی تھے، ترجمے میں اپنی طرف سے ایسے الفاظ کا اضافہ کردیا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں نے یہ بات اپنے آپ سے کہی تھی یعنی خود کلامی کرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا کہ گرمی میں نہ جاؤ۔ 

 وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِی الْحَرِّ۔ (التوبۃ: 81)

”اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اس سخت گرمی میں نہ نکلو“۔ (سید مودودی)

 درج ذیل ترجمے میں کوئی اضافہ نہیں ہے اور دونوں مفہوم لیے جاسکتے ہیں:

”اور بولے اس گرمی میں نہ نکلو“۔ (احمد رضا خان)

(480) وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ کا عطف کس پر؟

 وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ۔ (التوبۃ:99)

درج بالا آیت میں قواعد کی رو سے صَلَوَاتِ الرَّسُولِ کو ’مَا یُنْفِقُ‘ پر بھی معطوف مانا جاسکتا ہے اور ’قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ‘ پر بھی۔ زیادہ تر لوگوں نے اسے’قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ‘ پر معطوف مان کر ترجمہ کیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انفاق کے دو مقصد ہوتے ایک قرب الٰہی اور دوسرا رسول کی دعا۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے  ’مَا یُنْفِقُ‘ پر معطوف مانا جائے۔ اس کی رو سے انفاق اور رسول کی دعائیں دونوں کا مقصد قرب الٰہی کا حصول ہوگا۔

دوسری  توجیہ زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن کا اصل مقصود تو قرب الٰہی ہوتا ہے۔ وہ جو خرچ کرتا ہے اس کا بھی اصل مقصود قرب الٰہی ہے اور اس کے انفاق سے خوش ہوکر اللہ کے رسول جو دعائیں دیں ان کا بھی اصل فائدہ اور مقصود یہی ہے کہ ان دعاؤں کی بدولت اسے قرب الٰہی حاصل ہوجائے۔اس کی تائید اس جملے سے بھی ہوتی ہے جو اس کے فورًا بعد آیا ہے، یعنی أَلَا إِنَّہَا قُرْبَةٌ لَہُمْ (ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے) گویا ہر چیز کا اصل مقصود قرب الٰہی ہے۔

درج ذیل ترجمے صَلَوَاتِ الرَّسُولِ کو ’قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ‘ پر معطوف مان کر کیے گئے:

”اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو خدا کی قُربت اور پیغمبر کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھیں“۔ (احمد رضا خان)

درج ذیل ترجمہ صَلَوَاتِ الرَّسُولِ کو ’مَا یُنْفِقُ‘ پر معطوف مان کر کیا گیا:

”اور ان میں وہ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو اور رسول کی دعاؤں کو حصول قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

صفات متشابہات پر متکلمین کا مذہب تفویض و ائمہ سلف

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

صفات متشابہات سے مراد قرآن و سنت میں اللہ تعالی کے بارے میں مذکور وہ بیانات ہیں جن کے ظاہری معنی حدوث (زمانی و مکانی تصورات ) پر دلالت کرتے ہیں جیسے اللہ کا ید (ہاتھ)، اس کا مجییئ و نزول (آنا و جانا)، اس کی اصبع (انگلی)، اس کی ساق (پنڈھلی) وغیرہ۔ انہیں صفات خبریہ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم حضرات کا دعوی ہے کہ ائمہ اہل سنت جیسے کہ امام ابوحنیفہ (م 150 ھ ) ، امام مالک (م 179 ھ ) و امام اشعری (م 324 ھ) کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان صفات خبریہ یا متشابہات سے متعلق یہ حضرات اسی مذہب پر تھے جس کی تعلیم بعض متاخرین جیسے کہ علامہ ابن تیمیہ (م 728 ھ) نے دی۔ تاہم ہماری معلومات کی حد تک ان ائمہ سلف کی ایسی کوئی صریح عبارت موجود نہیں جو شیخ ابن تیمیہ کے موقف کے حق میں استدلال کے لئے مفید ہو بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ حضرات ان ائمہ کے بعض اقوال کو بنیاد بنا کر اپنے موقف کے مطابق ان کی جو شرح کرتے ہیں اس تحریر میں متکلمین کے مذہب کی روشنی میں اس کی غلطی واضح کی جائے گی نیز متکلمین کے مذہب کی نوعیت واضح کرتے ہوئے اس پر بعض چبھتے ہوئے اہم اعتراضات کا جواب بھی دیا جائے گا۔

وما توفیقی الا باللہ۔

نفس مسئلہ پر فریقین کی رائے

1۔ سب سے پہلے نفس مسئلہ سے متعلق فریقین کے مواقف کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ صفات خبریہ جیسے کہ ید و نزول کے حقیقی معنی جسم و جزئیت جیسی کیفیات (اعراض) پر دلالت کرتے ہیں، اس معنی کے سوا ان الفاظ چند ثانونی یا مجازی معانی بھی ہیں (جیسے قدرت، عطا وغیرہ)۔ چونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کے حقیقی معنی قطعی طور پر مراد نہیں لئے جاسکتے اور کسی قرینے کی بنا پر ان لفاظ کے مجازی معنی مراد لینا بارگاہ الہی میں غیر محتاط ہے، لہذا مناسب بات یہ کہنا ہے کہ "ید" کا اللہ کی صفت ہونا ثابت و معلوم ہے تاہم اس کے حقیقی معنی ہمیں معلوم نہیں کیونکہ کیفیت نامعلوم ہے ، اس لئے اللہ ہی اس کے حقیقی معنی سے واقف ہے اور ہم عند اللہ اس معنی کے ثابت و سچ ہونے اقرار کرتے ہیں۔ اس موقف کو “تفویض معنی” کہتے ہیں۔ اس کے برعکس شیخ ابن تیمیہ (اور ان سے قبل حنابلہ وغیرہ) کا کہنا ہے کہ لفظ "ید" کے حقیقی معنی ہمیں معلوم ہیں اور وہ وہی ہیں جو عربی لغت میں مراد ہیں البتہ اس معنی کی کیفیت و حقیقت معلوم نہیں۔ اس موقف کو یہ حضرات “تفویض کیف” کا نام دیتے ہیں، یعنی معنی معلوم مگر کیفیت مجہول۔ علامہ ابن تیمیہ کا کہنا تھا کہ جو ان کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے "تفویض معنی " کا قول اختیار کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی صفات کی تجھیل و تعطیل کا مرتکب ہے۔

دونوں مواقف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ ابن تیمیہ "معنی " اور "کیف " میں دوئی قائم کر کے اول الذکر کا علم ممکن ہونے اور دوسرے کی مجہولیت کے دعوے دار ہیں جبکہ متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ کے نزدیک کیف کی مجہولیت ہی معنی کی مجہولیت ہے جیسا کہ آگے واضح ہوجائے گا۔

متعلقہ عبارات اور ناقدین متکلمین کا استدلال

2۔ امام اشعری کتاب "الابانۃ " میں اللہ کی صفات پر گفتگو کے تحت یہ الفاظ کہتے ہیں:

وأن له وجهًا بلا كيف، وأن له يدين بلا كيف، وأن له عينين بلا كيف

مفہوم: بے شک اللہ کا وجہ (چہرہ) بلا کیف ہے، اللہ کے یدین (دو ہاتھ) بلا کیف ہیں، اللہ کی عینین (دو آنکھیں) بلا کیف ہیں

امام مالک سے جب ایک شخص نے پوچھا کہ استوی سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا:

الاستوی معلوم والکیفیة مجهول والایمان به واجب والسوال عنه بدعة

مفہوم : استوی معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس بارے میں سوال کرنا بدعت ہے

اس نوع کے اقوال کی بنیاد پر کہا گیا کہ ائمہ سلف کا موقف وہی تھا جسے "معنی معلوم اور کیفیت مجہول" کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کے لئے ان کی جانب سے وجہ استدلال یہ ہے کہ امام مالک نے استوی کو معلوم کہا اور صرف کیفیت کو مجہول کہا، اسی طرح امام اشعری نے ید کا اقرار بلا کیف کیا۔ بعینہہ یہی استدلال امام ابوحنیفہ کی جانب منسوب کتاب “الفقہ الاکبر” کی بعض عبارات سے بھی کیا جاتا ہے۔ ایک مشہور عبارت یہ ہے:

وَله يَد وَوجه وَنَفس كَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن فَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن من ذكر الْوَجْه وَالْيَد وَالنَّفس فَهُوَ لَهُ صِفَات بِلَا كَيفَ وَلَا يُقَال إِن يَده قدرته اَوْ نعْمَته لِأَن فِيهِ إبِْطَال الصّفة وَهُوَ قَول أهل الْقدر والاعتزال وَلَكِن يَده صفته بِلَا كَيفَ وغضبه وَرضَاهُ صفتان من صِفَات الله تَعَالَى بِلَا كَيفَ

مفہوم: اس کا ید، وجہ اور نفس ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں ذکر کیا، پس اللہ نے قرآن میں وجہ، ید اور نفس کا جو ذکر کیا وہ اس کی “صفات بلا کیف “ہیں، اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ید اس کی قدرت یا (عطائے) نعمت ہے کیونکہ اس سے اس کی صفت کا انکار لازم آتا ہے اور یہ اہل قدر و اعتزال کا قول ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس کا ید اس کی “صفت بلا کیف” ہے، اسی طرح اس کا غضب و رضا اس کی “صفات بلا کیف” ہیں

"بلا کیف" کا مطلب اور ائمہ کے اقوال کا مفہوم

اب ہم اس استدلال کی غلطی واضح کرتے ہیں۔

3۔ استدلال میں بنیادی غلطی “کیفیت کی نفی” اور “کیفیت کے علم کی نفی” میں فرق نہ کرنا ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کا موقف اول الذکر جبکہ علامہ ابن تیمیہ کا موخر الذکر ہے (اگر علامہ کا یہ موقف نہیں تو پھر ان کی ساری بحث لفظی نزاع ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔ امام اشعری و امام مالک دونوں کے اقوال میں کیفیت کی نفی کی گئی ہے نہ کہ کیفیت کے علم کی۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے متکلمین کی اصطلاح میں “کیف” کا مطلب سمجھنا ضروری ہے نہ یہ کہ ہم کسی علم و فن کے ماہرین کے معنی سے سہو نظر کرتے ہوئے کیف کو اپنی طرف سے کوئی معنی پہنا کر عبارات پڑھنا شروع کر دیں (یاد رہے کہ امام اشعری منجھے ہوئے متکلم تھے)۔

4۔ کیف کا مطلب کسی موجود کے ہونے کی وہ حالتیں ہیں جو زمانی و مکانی مشاہدے سے متعلق ہیں اور جنہیں اعراض یا modalities کہا جاتا ہے اور وہ نو (9) ہیں۔ سب کا تعارف یہاں مقصود نہیں، ان سے مراد اس قسم کے امور ہیں جیسے کمیت یا مقدار، رنگ، ٹھنڈا و گرم، طول و عرض و لمبائی، مکانی جہت وغیرہ۔ ان اعراض کا مطلب یہ ہے کہ یہ امور انسانی مشاہدے میں آسکنے والی جمیع اشیا کے مابین ممکنہ طور پر مشترک امور میں سے سب سے عمومی امور (upper tips) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ "اللہ کا ید بلا کیف ہے" تو یہ کیفیت کی نفی ہے، یعنی ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ اللہ کی صفت ید ثابت ہے کیونکہ نص میں اس کا ذکر ہے مگر ہم اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ وہ کیف (اعراض) کے ساتھ ہے۔ یعنی اللہ کے ید پر نہ کمیت و مقدار کا اطلاق ہے اور نہ رنگ و ٹھنڈک کا، نہ طول و عرض کا اور نہ جسم و جہت کا وغیرہ۔ یہ مطلب ہے "ید بلا کیف" اور "وجہ بلا کیف" کا اور یہی اشاعرہ و ماتریدیہ کا مذہب ہے۔

5۔ کیف (یعنی اعراض) کی نفی کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ ہمیں لفظ ید کا حقیقی مطلب معلوم نہیں اس لئے کہ "ید" کا حقیقی معنی تو ان کیفیات کے ساتھ عبارت ہے کیونکہ اہل عرب نے یہ اسی تناظر میں وضع کیا، اس کے بعد جو بچتا ہے وہ یا مجازی معنی ہیں اور یا معنی سے لاعلمی۔ اسی طرح مثلاً نزول کا حقیقی معنی ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقلی ہے جو جسم کی صفات پر مبنی معنی ہے۔ کیا اہل عرب کے کلام میں لفظ ید یا نزول کے استعمال کی کوئی ایسی نظیر ملتی ہے جو ان کے حقیقی معنی کے ساتھ متصل تمام کیفیات سے ماورا بھی ہو اور مجازی معنی بھی نہ کہلاتا ہو؟ جو اس کے مدعی ہیں انہیں اس کی دلیل عربی کلام کے نظائر سے لانا ہوگی۔ چنانچہ جب ان سب کیفیات یعنی modalities کی نفی کردی گئی تو سمجھ آنے والے معنی کی نفی ہو گئی کیونکہ جو ید اور نزول ان سب سے ماورا ہے اس کا علم حاصل ہونے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ حس و عقل جس ید کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں وہ اعراض یا modalities کے ساتھ ہیں۔ پس جب اس لفظ سے سمجھ آنے والے سب سے اوپری امور (upper tips) کی بھی نفی کردی گئی تو اس کے بعد بھلا حقیقی معنی میں سے "معلوم" کیا رہا؟ ایسے میں ہم ایک سچے کی خبر کی بنیاد پر اس ید کے متحقق و ثابت ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں لیکن اس کے معنی معلوم ہونے کی بات ایک خالی دعوی ہے۔ یعنی ترتیب گفتگو یوں ہے:

6۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ اور امام اشعری فرما رہے ہیں کہ ان امور کا صفات الہیہ ہونا ہم مانتے ہیں اس لئے کہ یہ قرآن سے ثابت ہیں نیز ان کی تاویل نہیں کی جائے گی، لیکن ہم سمجھ نہیں پائے کہ آخر ان کی عبارات میں وہ کونسا لفظ ہے جو “حقیقی معنی معلوم” کا مفہوم پیدا کر رہا ہے؟ عبارت میں صاف طور پر “کیف کی نفی” کی گئی ہے اور کیف کی نفی کس چیز کو کہتے ہیں یہ ہم واضح کر چکے ہیں۔ ہمارے ان محترم دوستوں کی غلطی یہ ہے کہ یہ "ید بلا کیف" کا مطلب "ید بلا علم کیف" فرض کر لیتے ہیں۔ اسی طرح امام مالک کی بات کا بھی یہی مفہوم ہے: "الاستوی معلوم ای ثابت " (استوی معلوم ہے یعنی کہ یہ ثابت ہے)، کسی چیز کا وجود ثابت ہونا بھی ایک علم ہونا ہے (معلوم ہوا کہ ناقدین کا متکلمین پر یہ اعتراض کرنا کہ ان کے موقف سے صفات کی تجھیل لازم آتی ہے درست نہیں کیونکہ وہ صفات کو ثابت مانتے ہیں)۔ ناقدین متکلمین نے "الاستوی معلوم" کے الفاظ میں معلوم کا مطلب خود سے یہ فرض کر لیا ہے کہ مراد "معنی معلوم" ہے جبکہ امام مالک کے الفاظ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں۔ امام صاحب کی بات میں یہ اضافہ ان دوستوں نے اپنے موقف کے تحت خود کیا ہے، گویا ان کے مطابق امام صاحب کی عبارت میں لفظ "علم" محذوف ہے۔ الغرض امام مالک کے قول کو اس خاص مفہوم میں پڑھنے کی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں جس کی بنیاد پر متکلمین کے موقف کو سلف کے خلاف ثابت کر دیا جائے بلکہ یہ قول متکلمین کے موقف کے مطابق پڑھا جانا بھی اتنا ہی ممکن ہے بلکہ زیادہ اولی ہے کہ عبارت میں محذوف لفظ کا اضافہ کرنے والے کو دلیل لانا ہوگی۔ الغرض اس نوع کے جتنے اقوال ہیں وہ "تفویض معنی " پر دلالت کرتے ہیں۔

"معنی معلوم کیفیت مجہول" متضاد و بے معنی جملہ

7۔ اس موقف کے برعکس جب ہمارے دوست کہتے ہیں کہ “ید کے معنی معلوم مگر کیفیت مجہول ہے” تو اس کا اس کے سوا کوئی قابل فہم مطلب نہیں کہ “کیف تو ثابت ہے البتہ ہمیں اس کیف کا علم نہیں”، گویا اللہ کے لئے وہ اعراض تو ثابت ہیں جن سے ہم واقف ہیں بس ہم ان کی کیفیت کو نہیں جانتے۔ یہ بذات خود ایک متضاد بات ہے کیونکہ جب کیف معلوم ہے تو کیف مجہول کیسے ہے؟ یہ دعوی دو میں سے کسی ایک بات سے خالی نہیں: یا یہ تجسیم و تشبیہہ ہے اور یا پھر بے معنی بات یعنی words without meaning ہے۔ اس موقف کے قائلین سے سوال ہے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ “ید کا معنی معلوم ہے” تو کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ “موڈیلٹی یعنی کیف ثابت ہے”؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یہی تجسیم و تشبیہہ ہے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ کیف ثابت نہیں تو پھر وہ معنی معلوم کیا ہیں جس کا دعوی کیا جا رہا ہے؟ اس کے بعد آپ کے اور متکلمین کے موقف میں کیا فرق رہا؟

پس اس فرق کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ امام اشعری کی عبارت میں “ید بلا کیف” کا مطلب “کیف ثابت ہونا نہیں” جیسا کہ ہمارے دوستوں کے موقف کا مفروضہ ہے بلکہ اس کا مطلب "کیف کی نفی" ہے۔

8۔ "معنی معلوم و کیفیت نامعلوم" کے موقف کی غیر ہم آہنگی کو ہم ایک اور طرح سمجھاتے ہیں۔ اس موقف کے حاملین کہتے ہیں کہ "اللہ کا ید ہے مگر ہمارے ید جیسا نہیں، اس کی جہت ہے مگر ہماری جہت جیسی نہیں" وغیرہ۔ اسی قسم کے جملے کرامیہ فرقے والے کہتے تھے کہ "اللہ کا جسم ہے مگر ہمارے جسم جیسا نہیں"۔ یہ جملے یا ایک ہی چیز کی تصدیق و نفی سے عبارت ہیں اور یا تاویل سے۔ "اللہ کا ید ہے مگر ہمارے ید جیسا نہیں" میں ید دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ یہاں دو امکان ہیں، یا لفظ ید دونوں مرتبہ ایک معنی میں استعمال ہوا ہے اور یا الگ معنی میں۔

مثال سے وضاحت

9۔ چونکہ علم کلام کی بحثیں سمجھنا اکثر لوگوں کے لئے مشکل ہے لہذا آسانی پیدا کرنے کے لئے ایک مثال سے بات سمجھتے ہیں کہ متکلمین “کیف” کسے کہتے ہیں نیز علامہ ابن تیمیہ کا موقف کیوں کر غیر معقول ہے۔

ان مقدمات سے یہ واضح ہے کہ لفظ "ید" کے حقیقی معنی کا اقرار ذات باری پر ناممکن ہے، تاہم وحی کی بنیاد پر اس صفت کا ہم اقرار کریں گے۔ اسے ہی "ید بلا کیف" کہتے ہیں۔ ہمارے دوست علم کلام کی اصطلاحات و ابحاث سے سہو نظر کرتے ہوئے عبارات کو اپنے موقف کے مطابق معنی بھی پہناتے ہیں اور ساتھ یہ بھی نہیں بتاتے کہ آخر یہ "کیف" کسے کہتے ہیں اور اس کی نفی کے بعد "معلوم حقیقی معنی" کیا ہیں۔ جب لفظ سے سمجھ آسکنے والی قابل فہم سب سے اوپری سطح (upper tip) کی نفی کردی تو اس کے بعد لفظ کا حقیقی معنی کہاں سے آگیا کیونکہ آپ تو اس کی سب سے اوپری ترین حقیقت کی نفی کر چکے؟ آخر وہ کونسے اہل زبان ہیں جنہوں نے ان اوپری ترین سطح سے ماورا حقائق کو بیان کرنے کے لئے بھی الفاظ ایجاد کئے تھے؟ پس "ید اللہ" میں لفظ ید کے حقیقی معنی معلوم فرض کرنے کے لئے اس ید کو زمان و مکان اور اس کی کیفیات کے تحت لانا ہوگا جس کا مطلب خدا کو مخلوق کی صفات سے متصف ماننا ہے، ان کیفیات سے ماورا اس لفظ کا کوئی حقیقی مطلب عربی لغت میں منقول نہیں۔ پھر ان کیفیات کے تحت لا چکنے کے بعد "حقیقی معنی معلوم مگر کیفیت مجہول" ایک متضاد جملے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جو کیفیت معلوم ہے بعینہہ وہ نامعلوم کیسے ہے؟ الغرض اس ید کی کیفیت یا معلوم ہے اور یا مجہول ہے، اگر معلوم (یعنی حقیقی معنی معلوم) ہے تو یہی تجسیم ہے اور اگر نا معلوم ہے تو یہی تفویض مطلق ہے۔ یعنی نفس معاملہ یوں ہے:

ان کے درمیان جو یہ "حقیقی معنی معلوم اور کیفیت مجہول" کا موقف بنایا گیا ہے اس کی کوئی علمی بنیاد نہیں، یہ ایک غیر ہم آھنگ و بے معنی جملہ ہے کیونکہ یہ موقف دراصل ایک ہی بات کی نفی و اثبات کا مجموعہ ہے: "حقیقی معنی معلوم ہے اور حقیقی معنی نا معلوم ہے"، "کیفیت معلوم ہے اور کیفیت نامعلوم ہے"۔

خلاصہ بحث

10۔ مذکورہ ائمہ کی عبارات کو اس طرح پڑھنا قطعاً ضروری نہیں جو ہمارے محترم دوستوں نے فرض کیا ہے اور ان عبارات کی بنیاد پر اپنے موقف کو سلف کا واحد موقف باور کرانے کی کوشش کرنا تحکم ہے (ہاں اگر سلف سے کسی کی مراد ان کے موقف سے ہم آہنگ رائے رکھنے والے چند افراد ہیں تو الگ بات ہے)۔ یہ نتیجہ "کیفیت کی نفی" اور "کیفیت کے علم کی نفی" میں خلط مبحث پیدا کر کے کھڑا کیا گیا ہے۔ "ید بلا کیف” کا مطلب ید کے کیف یعنی اس کے حقیقی معنی کے علم کی نفی ہے، نہ کہ کیف ثابت ہونے کا علم ہونے اور حقیقی معنی کا علم نہ ہونے کی۔ امام ابوحنیفہ اور امام اشعری کی عبارات کیفیت کی نفی کر رہی ہیں اور یہی متکلمین کا موقف ہے۔ یہ حضرات "الاستوی معلوم" کی ترکیب میں لفظ معلوم کے ساتھ اپنی جانب سے "حقیقی معنی" (معلوم ) کا سابقہ لگا کر اسے اپنے موقف کی ترجمانی فرض کرتے ہیں جبکہ امام مالک کے قول میں "حقیقی معنی معلوم" کا ذکر نہیں۔ یہ ائمہ ان امور کی اصل نصوص میں مذکور ہونے کی بنیاد پر انہیں بطور صفات الہیہ ثابت مانتے ہیں اور یہی ان کی عبارت میں "معلوم ہونے" کا مطلب ہے۔ ائمہ کے کلام میں اپنی طرف سے الفاظ و معانی داخل کر کے انہیں اپنے موقف کا ہمنوا ثابت کرنے کا جو طریقہ ہمارے دوست اختیار کرتے ہیں وہ درست نہیں۔ جو شخص اللہ کے یدیا نزول کے حقیقی معنی معلوم ہونے کا مدعی ہے، متکلمین کے نکتہ نگاہ سے یا:

چونکہ یہ دوست دوسری بات کے انکار پر مصر ہیں اور پہلی بات بھی کھل کر نہیں کہتے، لہذا تیسری بات راجح ہے۔ تاہم اگر کسی کے نزدیک کیف کا مطلب وہ نہیں جو متکلمین مراد لیتے ہیں تو یہ الگ بحث ہوگی، تاہم جب تک وہ "کیف" کا کوئی متبادل مطلب نہیں بتاتے کوئی بامعنی گفتگو ممکن نہیں۔

نمائندہ اعتراضات

ناقدین متکلمین کے موقف پر پر چند عقلی شبہات وارد کرتے ہیں اور ان کے وارد کردہ یہ شبہات کرامیہ فرقے والے بھی کرتے تھے جو علم کلام کی کتب میں مذکور ہیں۔ لیکن چونکہ یہ دوست اکثر و بیشتر متکلمین کا موقف براہ راست ان کی کتاب سے سمجھنے کے بجائے علامہ ابن تیمیہ یا بعض مزید متاخرین کے بیانات و نقد پر انحصار کرتے ہیں لہذا وہی اعتراضات دہراتے ہیں جن کا جواب تقریباً علم کلام کی ہر دوسری کتاب میں دیا گیا ہے۔ یہاں چند اہم اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

1)  صفات خبریہ سے تجسیم لازم آتی ہے تو صفات معنی سے کیوں نہیں؟

ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ اگر لفظ ید کے حقیقی معنی ماننے سے تجسیم لازم آتی ہے تو متکلمین بھی تو اللہ کے لئے بعض صفات معانی کے حقیقی معانی مانتے ہیں، جیسے کہ علم ، قدرت ، ارادہ ، حیات، کلام وغیرہ۔ کیا معاملہ یوں نہیں کہ قدرت و ارادہ جسم ہی کی خصوصیات ہیں؟ کیا جسم کے بغیر کسی حیات کا تصور انسان کے لئے ممکن ہے؟ کیا منہ کے بغیر کلام کے اجرا کا تصور ممکن ہے؟ کیا “موجود” ہونا بھی جسم کی صفت نہیں؟ الغرض اگر بعض صفات کے حقیقی معانی لینا جائز ہے تو بعض دیگر کی نفی کیوں کر؟ یہ ہر دور میں گروہ مجسمہ کا متکلمین پر انتہائی اعتراض رہا ہے اور ان کا گمان ہے کہ متکلمین کے پاس اس کا کوئی ہم آہنگ جواب موجود نہیں جبکہ یہ اعتراض کمزور اور متکلمین کے صفات معنی کے تصور سے عدم واقفیت کی بنا پر ہے۔ آئیے ہم اسے کھولتے ہیں۔

تبصرہ

امام رازی (م 606 ھ) واضح کرتے ہیں کہ کسی شے پر کیا جانے والا استدلال یا علت سے معلول کی جانب ہوتا ہے، یا مساوی سے مساوی پر اور یا معلول سے علت پر ۔ اللہ کی ذات و صفات پر کیا جانے والا ممکنہ استدلال آخری قسم کا ہے، یعنی ہم معلول کے مشاہدے سے علت کے وجود اور اس کی نوعیت (یا صفت) پر استدلال کرتے ہیں۔ اس استدلال سے سامنے آنے والی صفات کو “صفات معنی” کہتے ہیں۔ استدلال کی منطقی ترتیب کی رو سے ان صفات کی ترتیب یوں ہے: ارادہ، علم، قدرت ، حیات، کلام، سمع و بصر۔ انہیں ایک خاص مقصد کے تحت دو گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (1) ارادہ، علم، قدرت وحیات (2) کلام، سمع و بصر۔ ان سب کے اوپر صفت وجود ہے۔ یہاں پہلے گروپ کو لیجئے۔

زمان و مکان سے متعلق ہمارے مشاہدے میں آنے والی ہر شے تعیینات و تخصیصات کا شکار ہے، یہ تخصیصات لازمی طور پر کسی “ارادے ” کا تقاضا کرتی ہیں ۔ ارادے کا مطلب کیا ہے؟ وہ صفت جو ممکنات پر تخصیصات مرتب کرے یا مساوی امور میں سے کسی ایک جانب کو ترجیح دے، یہ ارادے کا “حقیقی معنی “ہے اور اللہ کی بارگاہ میں ہم یہی مراد لیتے ہیں۔ قدرت کا مطلب وہ صفت ہے جو “عدم سے وجود بخشنے ” سے عبارت ہے، یہ قدرت کا “حقیقی معنی” ہے اور ہم رب تعالی کے لئے اس کا اثبات کرتے ہیں۔ یعنی عالم مشاہدہ میں تعیینات و تخصیصات شدہ موجودات ایسی قدرت و ارادے کا سراغ بتا رہی ہیں جن کا اثر یہ اشیا ہیں۔ اسی طرح صفت “ارادہ” بتا رہی ہے کہ صاحب ارادہ علم سے بھی متصف ہے اس لئے کہ بلا علم ارادے کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ حیات کا مطلب وہ صفت ہے جو کسی موجود کے لئے علم و قدرت متحقق کریں، یعنی صفت حیات علم و قدرت کی شرط ہے۔ لہذا ترتیب یوں ہے: ارادے کی شرائط قدرت و علم ہیں اور ان کی شرط حیات ہے۔ یوں ہم معلول یا اثر سے علت یا مؤثر کی ان چار صفات تک پہنچے اور یہ وہ کم سے کم عقلی تصورات ہیں جو عدم سے آنے والی کائنات کی توجیہہ کر سکیں۔ متکلمین کا کہنا ہے کہ کائنات مفعول ہے جو فعل کا تقاضا کرتی ہے اور فعل ان امور (حیات، علم، قدرت و ارادہ) کو فرض کرتا ہے۔ بتائیے ان سب کو ماننے کے لئے جسم کے کس تقاضے کو ماننا لازم ہے؟

یہاں دو باتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے:

جب یہ بات سمجھ آگئی تو اب “موجود ” کو سمجھنا بھی آسان ہوگیا۔ اللہ تعالی کے وجود کی نوعیت و ماہیت یا احساس کیا ہے، یہ ہم نہیں جانتے اور نہ ہی اس کا موجود ہونا ہمارے موجود ہونے جیسا ہے۔ تاہم ہم یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ اگر صفت موجود و ثابت ہے تو لازماً کوئی صاحب صفت بھی موجود و ثابت ہے جس سے وہ صفت متعلق ہے۔ پس ارادہ، قدرت، علم و حیات ثابت ہیں تو ان سے متصف ذات بھی ثابت ہے۔ متکلمین اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ موجود ہونے کے لئے جسم ہونا کوئی عقلی شرط نہیں بلکہ وہ موجود کو تین اقسام میں لاتے ہیں:

پس ارادہ قدرت و حیات جیسی “صفات معنی ” کے اقرار سے قطعا جسمیت لازم نہیں آتی، ان صفات نیز کسی کے فاعل ہونے کی بنیاد جسم ہونا نہیں بلکہ موجود ہونا ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں وگرنہ ہم قارئین کو ان امور سے متعلق قدیم متکلمین میں سے قاضی باقلانی (م 403 ھ) کی عبارات کا مطالعہ کرواتے کہ وہ بعینہہ انہی خطوط پر گروہ مجسمہ کے اس اعتراض کا جواب دیتے تھے (ان کے بارے میں بھی یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہےکہ وہ بھی علامہ ابن تیمیہ کے ہمنوا تھے جبکہ قاضی صاحب کی صریح عبارات اس کے خلاف ہیں)۔

قدرت و ید کے فرق کو ہم ایک آسان طریقے سے بھی سمجھاتے ہیں۔ قدرت کا حقیقی معنی تجریدی اسم (abstract noun ) جبکہ ید کے حقیقی معنی مادی اسم ( concrete noun) سے متعلق ہیں، اسی لئے قدرت صفت معنی کہلاتی ہے ۔ اول الذکر سے تجسیم لازم نہیں آتی جبکہ موخر الذکر سے آتی ہے۔ یہ فرق ان کے لئے جن کے لئے دقیق مباحث سمجھنا مشکل ہے ۔

الغرض صفات معنی کو صفات خبریہ جیسے کہ ید اور وجہ پر قیاس کرنا ناقدین کی دیرینہ غلطی ہے اور غلطی کی بنیادی وجہ متکلمین کی اصطلاحات کا پوری طرح لحاظ نہ رکھنا ہے ۔ صفات معنی کے حقیقی معنی سے تجسیم لازم نہیں آتی جبکہ خبریہ سے آتی ہے اور اسی لئے متکلمین ان میں فرق کرتے ہوئے اول الذکر کے حقیقی معنی کا اقرار اور دوسرے کی تفویض کرتے ہیں۔ صفات معنی معلول یا اثر سے علت یا مؤثر پر استدلال کا نتیجہ ہیں، یعنی ہمارے مشاہدے کے پیش نظر اثر کو سمجھنے کے لئے وہ کونسے کم سے کم تصورات ہیں جو علت میں بایں معنی ہونے لازم ہیں کہ یہ عالم اس علت کا اثر بن کر قابل توجیہہ ٹھہرے۔ رہیں صفات خبریہ تو انہیں اسی لئے خبریہ کہتے ہیں کہ وہ نبی کی خبر پر موقوف ہیں اور عقل سے ان کا ادراک ممکن نہیں۔

2)  سمع و بصر میں کیف کی نفی کے بعد معنی کیسے ثابت ہوئے؟

متکلمین کے مطابق سمع و بصر جیسی صفات کے معنی اللہ کے لئے ثابت ہیں جبکہ سمع و بصر کے معنی بھی ید و نزول کی طرح جسمانی اعضاء کے ساتھ ہی مفہوم ہیں - پس اگر سمع و بصر میں لوازمات جسم (یعنی کیف) کی نفی کے بعد کوئی حقیقی معنی مراد لینا ممکن ہے تو ید اور نزول میں کیوں نہیں؟ اگر شیخ ابن تیمیہ کا موقف ید و نزول میں غیر معقول ہے تو متکلمین کا موقف بھی اسی اصول پر سمع و بصر کے معاملے میں کیوں غیر معقول نہیں؟ اور اگر متکلمین کیف کی نفی کے ساتھ حقیقی معنی کی گنجائش سمع و بصر میں نکالتے ہیں تو ید و نزول میں کیوں نہیں نکالتے؟ الغرض متکلمین کو چاہئے کہ سمع و بصر میں بھی تفویض معنی کریں۔ اس سے گویا ثابت ہوا کہ معنی معلوم و کیفیت نامعلوم کا وہ موقف متکلمین کے منہج پر بھی معقول ہے جو شیخ ابن تیمیہ نے بیان فرمایا۔

تبصرہ

یہ استدلال دراصل متکلمین کے موقف میں غیر ہم آہنگی دکھا کر صفات باری سے متعلق شیخ ابن تیمیہ کا موقف درست ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ اصلاً یہ استدلال ایک الزامی استدلال ہے نہ کہ اصولی۔ چنانچہ اگر ایک لمحے کے لئے ہم بر سبیل تنزیل یہ مان لیں کہ آپ کی بات درست ہے کہ سمع و بصر کے معاملے میں متکلمین کے موقف میں غیر ہم آہنگی ہے تو اس سے یہ مقدمہ کیسے ثابت ہوا کہ "حقیقی معنی معلوم و کیف مجہول" ایک معقول مذہب ہے؟ اگر مخالف ایک نامعقول موقف پر کھڑا ہو تو اس سے ناقد کے موقف کی نامعقولیت معقولیت میں کیسے بدل جائے گی، یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ اگر اس دلیل کے بعد بالفرض متکلمین یہ کہہ دیں کہ ٹھیک ہے سمع و بصر میں بھی تفویض معنی ہوگی تو آپ کے پاس اپنے مقدمے میں کہنے کے لئے کیا رہا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے لئے محض دوسرے کی غیر ہم آہنگی کا سہارا لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے مقدمے کی معقولیت دکھانے کے لئے اثباتی دلیل الگ سے دینا ہوتی ہے جو آپ نے اب تک پیش نہیں کی۔

الزامی جواب کے بعد اصولی جواب کی جانب بڑھتے ہیں۔ متکلمین کا اصول یہ ہے کہ آیات ظاہری حقیقی معنی پر محمول ہیں یہاں تک کہ یہ معنی مراد لینا محال ہو جائے۔ وجوب، امکان اور استحالہ احکام عقلیہ ہیں، چنانچہ کیا چیز محال ہے اور کیا نہیں اس کے لئے عقل کی جانب رجوع کرنا ہوگا:

الف)  اگر کسی چیز کا محال ہونا ثابت ہو جائے اور ظاہری معنی اس محال پر دلالت کرتے ہوں (یعنی کیف کی نفی کے بعد قابل فہم حقیقی معنی ختم ہو جائیں) تو ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے بلکہ ان کی تفویض ہوگی۔ ید و نزول میں یہی معاملہ ہے۔

ب)  اگر ظاہری حقیقی معنی مراد لینے کی اصول عقلیہ میں گنجائش ممکن ہو (یعنی عقل اسے ممکن کہے) تو حقیقی معنی مراد لئے جائیں گے۔ یہ سمع و بصر کا معاملہ ہے

متکلمین کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ جسم اور اس کے لوازم (یعنی کیف) کی نفی کے بعد اگر کوئی حقیقی معنی مراد لینا ممکن ہوں تو اسے مراد لیا جائے۔ سمع و بصر پر بات سے قبل ہم یہاں رؤیت باری کی مثال دینا چاہیں گے تاکہ بات واضح ہو سکے۔ معتزلہ کا کہنا تھا کہ رؤیت کے لئے دیکھے جانے والے وجود کا جہت میں ہونا لازم ہے اور چونکہ ذات باری جسم نہیں اس لئے وہ جہت میں نہیں اور نتیجتاً اس کی رؤیت محال ہے۔ اس کے برعکس متکلمین اہل سنت کا کہنا ہے کہ رؤیت باری ممکن ہے۔ کیا یہ کوئی تضاد ہے؟ نہیں، ان کا کہنا ہے کہ کسی شے کی رؤیت کی حقیقت ایک خاص طرح کا ادراک یا علم ہے جبکہ آنکھ کا ڈیلا اور روشنی کا کسی جسم سے ٹکرا کر اس پر منعکس ہونا یہ اس خاص ادراک سے متعلق وہ امور عادیہ ہیں جو اللہ تعالی نے اس دنیا میں جاری فرمائے ہیں۔ تاہم جو رؤیت کی حقیقت ہے وہ ان امور کے سوا بھی ممکن ہے، یعنی ایسا بالکل ممکن ہے کہ اللہ چاہے تو آنکھ کے بغیر بھی انسان میں براہ راست وہ ادراک پیدا کر سکتا ہے جسے رؤیت کہتے ہیں اور چاہے تو کسی واسطے کے بغیر براہ راست آنکھ یا مثلاً ہاتھ میں وہ ادراک پیدا کر دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رؤیت بدون جہت بہرحال ممکن ہے اور جب اس کا امکان ثابت ہوگیا تو نص کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے گا۔

یہی معاملہ سمع و بصر کی صفات کا ہے، ان کی حقیقت بھی موجودات سے متعلق ایک خاص طرح کا علم و ادراک ہے۔ مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک شخص نے آپ کو آم کی خبر دی، پھر آپ نے اسے دیکھ لیا، پھر اسے سونگھ لیا، پھر اسے چکھ لیا۔ ان سب سے آم سے متعلق علم کی مختلف سطحات حاصل ہوئیں، انہیں ادراک کہتے ہیں۔ آنکھ اور کان اس عالم میں بصارت و سماعت سے متعلق ادراک کے لئے اللہ کی عادت کے تحت جاری ہونے والے ذرائع یا نشانیاں ہیں، اللہ چاہے تو ان کے بغیر بھی مخلوق میں سماعت و بصارت سے متعلق وہ ادراک پیدا کر سکتا ہے جو عادتاً آنکھ و کان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ نہ تو آنکھ میں اور نہ ہی کان میں کوئی ایسی تاثیر و قوت ہے جو سماعت و بصارت کا اثر پیدا کرتے ہوں، اللہ چاہے تو زبان سے سنوائے اور ہاتھ سے بلوائے (یہاں یہ دھیان رہے کہ متکلمین کے نظام فکر میں سماعت و بصارت کوئی قوت نہیں ہے جو ایک کے بجائے دوسرے عضو میں رکھ دی جائے بلکہ ان کے ہاں واحد علت ذات باری کا فعل ہے)۔ پس معلوم ہوا کہ سماعت و بصارت کی حقیقت خاص طرح کا علمی ادراک ہے نہ کہ جسم کا کوئی عضو۔ اس تجزئیے سے ہم سمع و بصر کے ایسے حقیقی معنی لینے کے امکان تک پہنچے جو "اصلاً " جسم سے مبرا ہے، یعنی ان کے حقیقی معنی میں اصلاً جسم ہے ہی نہیں، جیسے کہ قدرت و ارادے کے مفہوم میں نہیں۔ اسی لئے متکلمین اللہ کے لئے ان کے حقیقی معنی کو ثابت مانتے ہیں۔ کیا آپ ید و نزول کے کوئی ایسے حقیقی معنی ثابت کر سکتے ہیں جہاں جسم کے سب لوازمات ختم ہو جانے کے بعد بھی کوئی ایسے حقیقی معنی بچ رہیں جو اسی طرح قابل فہم ہوں جیسے سمع و بصر کا معاملہ ہے؟ اگر کوئی ایسے معنی ہیں تو ہمیں سمجھائیں، ہم آپ کی بات ماننے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ید و نزول میں کیف (یعنی کسی جسم سے متعلق اعراض) کی نفی کے بعد ایسے کوئی حقیقی معنی بچتے ہی نہیں، ہاں ید کے بارے میں قدرت وغیرہ کا مفہوم ضرور بچ جاتا ہے لیکن وہ حقیقی معنی نہیں مجازی معنی ہیں۔

بات کو آسان کرنے کے لئے کچھ مزید کھول لیتے ہیں، سماعت کی مثال لیجئے۔ اس دنیا میں سماعت کے ساتھ عادتاً یہ تصورات وابستہ ہیں:

(الف) کانوں کی خاص ہئیت اور رنگ،

(ب) جسم کا عضو ہونا،

(ج) کان کی اندرون خاص طرح کی ساخت ہونا،

(د) خاص طرح کے علمی ادراک کا حصول (جو مثلاً بصارت سے مختلف ہے)

یہاں اس پہلو کو پھیلانے کا موقع نہیں، صرف اتنا عرض ہے کہ کسی شے کے حقیقی معنی اس کے بارے میں اس تصور سے متعلق ہوتے ہیں کہ اگر اس کی نفی ہو جائے تو وہ شے ناقابل تصور ہو جائے۔ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ کان کا پردہ وغیرہ سماعت کی حقیقت ہے؟ کیا کان کے بغیر واقعی سماعت کا تصور محال ہو جاتا ہے؟ ہرگز بھی نہیں۔ پھر اگر یہ سماعت کا جزو لاینفک ہوتا تو یہ بات ناممکن ہوتی کہ کسی کے کان کا پردہ تو موجود ہو مگر وہ بہرہ ہو لیکن ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کان کا پردہ سماعت کی حقیقت میں شامل نہیں۔

کیا آپ ایسا ہی تجزیہ مثلاً نزول کے لئے فراہم کر سکتے ہیں؟ مثلا نزول کی مثال میں اس کے ساتھ جڑی "انتقال مکانی" اور نتیجتاً "مکان" کی سب سے اوپری سطح کی نفی کے بعد کونسے قابل فہم معنی باقی بچے جس کے علم کا دعوی کیا جائے؟

اس کے بعد یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ متکلمین سمع و بصر کو ان کے متعلقات یا مآل (یعنی ادراک المسوعات و ادراک المبصرات) کے ذریعے کیوں بیان کرتے ہیں۔ اللہ کی سماعت و بصارت کی حقیقت و ماہیت کیا ہے، یہ ہم قطعاً نہیں جانتے جیسے اس کی قدرت کی ماہیت نہیں جانتے۔ ہاں جس طرح یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ ذات لازما اس معنی سے متصف ہے جسے عدم سے وجود میں لانا (یعنی قدرت) کہتے ہیں اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ایسے معنی سے بھی متصف ہے جسے مسموعات و مبصرات کا ادراک کہتے ہیں اس لئے کہ وہ عالم ہے۔ سمع و بصر درحقیقت اللہ کی صفت علم کی جانب راجح ہیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد نہیں کیا جاسکتا کہ اس رائے نے سماعت و بصارت کو علم بنا دیا کیونکہ ہر ایک الگ نوعیت کا علم ہے۔ درج بالا اصول (یعنی صفت کو متعلق صفت سے بیان کرنا) دیگر صفات معنی پر بھی لاگو ہوتا ہے جیسے کہ محبت، غضب و رحم وغیرہ۔

3) کیا کلام نفسی گونگا ہونے کے مترادف ہے؟

درج بالا اصولوں کے بعد صفت کلام پر متکلمین کے مذہب پر وارد کئے جانے والے اعتراضات بھی رفع ہو جاتے ہیں اور ہم یہاں بے جا طور پر بات کو پھیلانا نہیں چاہتے اور چند ضمنی قسم کے اعتراضات پر مختصر تبصرہ کافی ہوگا۔ صفت کلام کی بحث میں بھی ناقدین کا اعتراض اسی نوعیت کا ہوتا ہے کہ "کیا منہ کے بغیر بھی کوئی کلام متصور ہوتا ہے؟" ناقدین کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یا تو اللہ کے لئے حروف والا کلام مانئے، ورنہ اس کے لئے صرف کلام نفسی ماننے سے کام نہیں چلے گا نیز متکلمین کے موقف کی رو سے گویا خدا کا گونگا ہونا لازم آتا ہے کہ کلام تو حروف و آواز ہی سے ہوتا ہے۔ نجانے ناقدین نے یہ غور کیوں نہ کیا کہ گوگل میپس میں راستہ سمجھانے والی آواز کیا کسی کے "منہ" سے نکلتی ہے؟ آج کے دور میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ پروگرامنگ کے ذریعے آواز پیدا کرنا ممکن ہے اور متکلمین نے اس بات کو بالکل درست طور پر پہچان لیاتھا کہ کلام حادث (آواز و حروف) اور کلام نفسی (معانی) میں فرق ہے، اول الذکر صاحب قدرت کی قدرت کا اثر ہے۔

4)  کیا حرکت نہ کرنے والا خدا بت ہے؟

اسی نوعیت کا ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب متکلمین خدا کے لئے حدوث کی نفی کرتے ہیں تو گویا خدا کو ایک بت کی مانند ساکن کہہ رہے ہوتے ہیں جو حرکت ہی نہیں کر سکتا، یعنی اگر اپنی شان کے مطابق نزول کرنے والا خدا حدوث کی زد میں آتا ہے تو کیا بت کی طرح ساکن خدا کو مانا جائے؟ یہ بالکل سطحی اعتراض ہے جس میں ایک نوعی غلطی (کیٹیگری mistake) کی گئی ہے اور وہ یہ کہ سکون کو حرکت کی ضد قرار دے کر پھر حرکت کی نفی کرنے والے کے نزدیک سکون واحد ممکنہ ثابت شدہ موقف فرض کر لینا ہے۔ اس کے برعکس اشاعرہ و ماتریدیہ کا کہنا یہ نہیں ہے کہ خدا اگر حرکت نہیں کرتا تو وہ ساکن ہے بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ جس طرح حرکت زمان و مکان میں مقید جسم کی صفت ہے اور اس لئے خدا کے لئے نہیں مانی جائے گی، اسی طرح سکون بھی زمان و مکان میں مقید جسم ہی کی صفت ہے۔ جسم، زمان اور مکان کے بغیر "حالت سکون اور حرکت" دونوں کو سمجھنا ناممکن ہے۔ چنانچہ اشاعرہ و ماتریدیہ جس طرح خدا کو حرکت سے پاک مانتے ہیں اسی طرح حالت سکون سے بھی پاک مانتے ہیں اور وہ خدا کے عالم سے اتصال و انفصال دونوں کی نفی کرتے ہیں۔ لہذا حرکت کی نفی سے ان پر یہ اعتراض کرنا کہ ان کے نزدیک گویا خدا ایک ساکن تصور و شے ہے، یہ زمان و مکان اور جسمیت کے انہی تصورات کو ان پر لاگو کر کے اعتراض کرنا ہے جن کی وہ اصولاً نفی کرتے ہیں۔

الغرض متکلمین کے موقف میں ایسا کوئی تضاد موجود نہیں جو ناقدین نے اپنی دانست میں پیش کیا۔ متکلمین پر نقد کرنے سے قبل ان کے اصولوں کا ادراک حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے لازم ہے کہ ناقدین کی کتب پر تکیہ کرنا چھوڑ کر براہ راست ائمہ کلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ ناقدین عام طور پر متکلمین کا مقدمہ کمزور طریقے پر بیان کر کے اس کے خلاف دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں لیکن اصل موقف کی جانب رجوع کرنے کے بعد ان کے دلائل کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔

آخری اعتراض

اس تفصیل پر ایک اعتراض یہ وارد کر دیا جاتا ہے کہ آلات سماعت و بصارت کے بغیر حاصل ہونے والے ادراکات ان الفاظ کے حقیقی نہیں بلکہ مجازی معنی ہیں لہذا متکلمین نے یہاں حقیقی معنی مراد نہیں لیا کیونکہ اہل لغت نے جسمانی عوارض والی سماعت و بصارت کو سمع و بصر کے حقیقی معنی کہا ہے، لہذا لغت سے متکلمین کے معنی ثابت کئے جائیں ۔

پہلی بات یہ کہ جسم کے عوارض سے پاک ادراک کو سمع و بصر کے حقیقی معنی کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر یہ عوراض یا اعضاء ان کی حقیقت میں شامل ہوتے تو کان والا بہرہ ناممکن ہوتا اور کان کے بغیر سماعت ناممکن ہوتی۔ دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض کسی کا یہی اصرار ہے کہ یہ ان کے حقیقی معنی نہیں بلکہ ایک طرح کے مجازی معنی ہیں تو متکلمین کے موقف کے لئے یہ بات بھی مضر نہیں کیونکہ اصول یہ ہے کہ جب حقیقت کلیتاً متعذر ہو جائے تو کلی تفویض کی جائے گی اور اگر اس کا کوئی جزو مراد لینا ممکن ہو تو اسے مراد لیا جائے گا اور اسے "حقیقت قاصرۃ" اور "حقیقت مقیدۃ" کہتے ہیں۔ چنانچہ اگر یہ مان لیا جائے کہ لغوی طور پر سمع کے حقیقی معنی ادراک بذریعہ اعضاء ہیں تو اعضاء کے بدون ادراک مراد لینا حقیقت قاصرۃ کہلائے گی۔ اور اگر پھر بھی کسی کا اصرار ہو کہ لغوی طور پر یہ مجازی معنی مراد لینا ہے تو یہ بھی متکلمین کے خلاف نہیں کیونکہ کسی قرینے کی بنا پر مجازی معنی لینا حرام نہیں ہے (ایسی تاویل کی مثالیں خود امام احمد بن حنبل و علامہ ابن قتیبہ جیسے محدثین نیز خود شیخ ابن تیمیہ کے ہاں موجود ہیں، وہ اور بات ہے کہ شیخ اپنی لسانی تھیوری کے تحت اسے مجازی کے بجائے حقیقی معنی ہی قرار دیتے ہیں لیکن اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ ذیل میں واضح ہوگا)۔ ناقد کا یہ اعتراض نفس مسئلہ کو اصل بحث سے ہٹا کر لغوی بحث میں الجھانے کی کوشش ہے جس سے کچھ حاصل نہیں، اصل چیز احکام و تصور ہے کہ کیا اعراض پر مبنی کیفیات کی نفی کے بعد کوئی ایسے قابل فہم معنی مفہوم ہوتے ہیں جو حدوث سے ماوراء ہوں؟ الغرض اس اعتراض سے بھی ان دوستوں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا جو ید اور نزول کے "حقیقی معنی معلوم مگر کیفیت نامعلوم" کا قول اختیار کرتے ہیں۔

یہ اصرار کہ ان الفاظ کے یہ معنی عربی لغات سے دکھائے جائیں ، یہ ایسا ہی اصرار ہے جیسے کوئی یہ تقاضا کرے کہ صلاۃ اور زکوۃ کے شرعی مفاہیم اہل لغت کی کتابوں سے بھی ثابت کرو۔ اگر بالفرض ایسا کوئی حوالہ موجود نہ ہو تب بھی یہ ہمیں مضر نہیں کیونکہ بارگاہ الہی پر گفتگو کرتے ہوئے اہل لغت کی مرتب کردہ ڈکشنریوں میں درج وہ معنی حجت نہیں بن سکتے جو ان الفاظ کے دنیا سے متعلق عام استعمال کے مفاہیم ہیں۔ کیا ناقدین یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب قرآن نازل ہونے سے قبل یا اس کے نزول کے وقت اور بعد اہل عرب جب اللہ کے سمع و بصر و حی وغیرہ کے الفاظ بولتے تھے تو اس سے مراد جسم والا خدا ہوتا ہے؟ حاشا و کلا۔ یہ طریقہ بحث تو خود یہ دوست بھی اختیار نہیں کر سکیں گے کیونکہ اگر لغت میں سمع کا معنی کان سے سننا لکھا ہوا ہے جہاں کان کا مطلب ایک خاص وضع والا جسم کا عضو ہے تو کیا یہ لوگ "حقیقی معنی معلوم" کے تحت اللہ کے لئے ایسے ہی کانوں والی سماعت ثابت کرنے کے قائل ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ لیس کمثلہ شیء کے تحت کان کی نفی کر دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ حقیقی معنی پر مصر رہتے ہیں، یہی متکلمین کرتے ہیں۔ البتہ فرق یہ ہے کہ متکلمین اس کے بعد ایک ایسے "حقیقی معنی" کو مقرر کرتے ہیں جو ان عوارض کی نفی کے بعد سمع و بصر کی حقیقت اور اقابل فہم ہے جبکہ آپ نزول و ید کے معاملے میں ایسا کچھ ثابت نہیں کر پاتے۔ اگر نزول کی حقیقت سے مکان کے تصور کی نفی کے بعد ایسا کوئی قابل فہم معنی ثابت کیا جا سکے تو متکلمین کو اسے ماننے میں کوئی عار نہ ہوگی۔ لیکن ناقدین نے آج تک اس کے جواب میں نزول و ید کے ایسے کوئی معنی نہیں بتائے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یا یہ موقف غیر معقول و غیر مفہوم ہے اور یا اندرون خانہ بات وہی ہے جو متکلمین کہتے تھے ۔

کیا شیخ کا پیش کردہ حل لغوی طور پر مختلف ہے؟

درج بالا بحث سے واضح ہوگیا کہ متکلمین کے موقف کے مقابلے میں شیخ ابن تیمیہ جو موقف پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ ائمہ سے ثابت نہیں بلکہ غیر معقول ہے و غیر آہنگ ہے۔ اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ شیخ نے اس مسئلے پر لسانیاتی نکتہ نگاہ سے جو انداز بحث اختیار کیا ہے وہ صرف لفظی نزاع کو جنم دیتا ہے، اگرچہ اس پر کتنی ہی طویل کتاب لکھی گئی ہو۔

اختلاف کی جڑ متکلمین اور شیخ کا نظریہ زبان (لینگویج) ہے۔ متکلمین الفاظ کے معنی کو حقیقت و مجاز کی عمودی تقسیم میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک حقیقی معنی متعذر نہ ہوں یا کوئی قوی قرینہ موجود نہ ہو، الفاظ کے حقیقی معنی ہی مراد لئے جائیں گے، بصورت دیگر مجازی معنی کی طرف جائیں گے۔ اس اعتبار سے متکلمین مثلا لفظ ید کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا حقیقی معنی “جسم کا جزو” ہونا ہے، یعنی اس کے حقیقی معنی میں جزئیت اور جسمیت کا مفہوم شامل ہے۔ البتہ اس کے سوا بھی اس کے کئی معنی ہیں جیسے قدرت، اختیار، عطا کرنا یا ید سے متعلق دیگر فنکشنز وغیرہ۔ حقیقی معنی کے ساتھ یہ مجازی معنی مل کر لفظ کے معنی و مفہوم کو پھیلا دیتے ہیں۔ متکلمین کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کے لئے جزئیت و جسمیت ماننا جائز نہیں لہذا اس لفظ ید کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے جا سکتے۔ اب اس لفظ (یا صفات خبریہ) سے متعلق دو ہی امکان ہیں:

الف)  یا یہ کہا جائے کہ حقیقی معنی کے لحاظ سے “تفویض معنی ” کا رویہ اختیار کر لیا جائے

ب) یا پھر کیفیت کی مجہولیت کے ساتھ مجازی معنی میں سے کوئی معنی مراد سمجھا جائے۔ حقیقی کے بجائے مجازی معنی اختیار کرنے کو وہ تاویل کہتے ہیں۔ متکلمین کے اس انداز بحث کو منسلک شدہ صورت کے دائیں طرف دکھایا گیا ہے جس کی رو سے لفظ ید کے معنی دو الگ خانوں میں منقسم ہیں: حقیقت و مجاز۔

شیخ ابن تیمیہ کا نظریہ زبان مختلف ہے۔ آپ کے نزدیک الفاظ کے سب معنی حقیقی معنی ہیں اور کون سے معنی کب مراد لینا ہیں اس کا تعین کلام کے سیاق و اشارات وغیرہ سے ہوتا ہے۔ اس تقسیم کی رو سے حقیقی و مجازی معنی میں ترجیحی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیونکہ یہاں سب معنی افقی (horizontal) طور پر مساوی درجے پر ہیں اور کسی ایک کے ابتداء مراد لئے جانے کی کوئی ڈیفالٹ ترجیحی بنیاد موجود نہیں جیسا کہ متکلمین الفاظ کے معنی کو حقیقت و مجاز کی عمودی (vertical) ترتیب میں رکھتے ہوئے ایک معنی کو بائے ڈیفالٹ ترجیحی معنی کہتے ہیں اور دیگر کو ان کے بعد لاتے ہیں۔ اب شیخ کا طریقہ بحث یہ ہے کہ وہ لفظ ید (یا نزول و استوی وغیرہ) کے سب معانی کو حقیقی کہتے ہیں اور سیاق و ذات باری کا لحاظ کرتے ہوئے لفظ کے پھیلے ہوئے تمام امکانی معنی میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیتے ہیں اور اسے وہ اس لفظ کے حقیقی معنی ہی کہتے ہیں، چاہے وہ معنی جسمیت و جزئیت والے معنی سے الگ ہی ہو۔ گویا متکلمین جس معنی کو مجازی کہتے ہیں، شیخ کے نظریہ زبان میں وہ بھی حقیقی ہوتا ہے اور دراصل شیخ متکلمین کی تقسیم کی رو سے عین مجازی معنی مراد لے کر “حقیقی معنی معلوم اور کیفیت مجہول” کا موقف پیدا کرتے ہیں۔ اس صورت حال کو اس شکل کے بائیں جانب دکھایا گیا ہے۔ شیخ کے حامی علماء ید کے معنی پر بحث کرتے ہوئے یہ مثال دیتے ہیں کہ ید کا مطلب صرف انسانی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک وسیع تصور ہے جس کی رو سے ہر شے کا ہاتھ اس کی شان کے لائق ہوتا ہے، جیسے دروازے کا ید اس کا ہینڈل ہے۔ پس ید کا معنی ہر وجود کے لئے ثابت ہے، ہاں اللہ کے لئے اس کی شان کے لائق ہے ۔ البتہ اللہ کے لئے اس کے وہ معنی قطعا ًمراد نہیں جس میں جزئیت و جسمیت شامل ہے۔ یوں گویا ان علماء کے نزدیک نہ تجہیل معنوی لازم آئی اور نہ ہی تاویل تاہم یہ صرف غلط فہمی ہے کیونکہ متکلمین اسے ہی مجازی معنی مراد لینا کہتے ہیں۔

چنانچہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس جہت سے بھی شیخ کے پیش کردہ حل میں ایسا کیا ہے جسے حکمی اعتبار سے مختلف بات کہا جائے؟ متکلمین کے لفظ مجازی کو حقیقی کہہ دینے کے سوا اس میں نئی بات کیا ہے؟ چنانچہ یہ کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے بلکہ نظریہ زبان میں اختلاف کی بنا پر چیزوں کو تقسیم کرنے کے لئے بنائے گئے ذھنی ڈبوں کا اختلاف ہے۔ شیخ کا پیش کردہ یہ وہ طریقہ بحث ہے جسے ان کے حامیین اپنے موقف پر اٹھنے والے داخلی تضادات کا جواب دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جب ان سے کہا جائے کہ قرآن میں مذکور اللہ کی "معیت" کو آپ علمی معیت کیوں قرار دیتے ہیں کہ یہ بھی مجازی معنی مراد لینا ہے، تو اس کے جواب میں شیخ کے نظرئیے کی رو سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس خاص مقام کے پیرائے میں یہی اس لفظ کے حقیقی معنی ہیں۔ ظاہر ہے یہ صرف لفظی نزاع ہے جس کا نفس مسئلہ یا احکام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ پھر ایسے ہر کے تاویلی قرار دئیے جانے والے معنی کو اس اصول پر حقیقی معنی قرار دیا جا سکتا ہے۔


جدید ریاست، حاکمیت اعلیٰ (ساورنٹی) اور شریعت

محمد دین جوہر

افکارِ جدیدیت کے تحت نیچر اور انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو بالکل نئے انداز میں سوچا اور پھر عمل میں لایا گیا ہے، اور اس طرح سامنے آنے والی سوچ اور عمل کا ماقبل جدیدیت کی اوضاعِ فکر اور زندگی سے قریب یا دور کا کوئی تعلق یا نسبت نہیں ہے۔ جدیدیت کے ذیل اور ضمن میں آنے والی تبدیلیوں کا بہت بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا اب کسی بھی معنی میں بدیہی نہیں رہی۔ دنیا کی تمام نئی تشکیلات جدیدیت کے نظری وسائل سے تخلیق کی گئی ہیں اور ان تک عقلی رسائی کے بغیر قابلِ فہم نہیں ہیں۔ عین یہی امر مسلم شعور کے لیے حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے، اور ماقبل جدیدیت دنیا کی طرح مسلم شعور جدیدیت کے پیدا کردہ ”مظاہر“ کو بدیہی سمجھ کر ہر طرح کی ججمنٹ دیتا چلا آیا ہے۔ فطرت اور دنیا میں جدیدیت کے پیدا کردہ مظاہر نظری وسائل کے بغیر قطعی ناقابل رسائی اور ناقابل فہم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدیدیت کے پیدا کردہ سسٹم کی گرفت سے آزاد نیچر اور دنیا کے مظاہر اب بھی بدیہی ہیں، یعنی بدیہی نیچر اور دنیا اب مکمل طور پر marginalize ہو چکی ہے اور غیر اہم ہے۔ مسلم نظری شعور کی موت جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بدیہی ہونے پر اصرار سے واقع ہوئی ہے اور مسلم شعور جدید دنیا تک کوئی علمی رسائی نہیں رکھتا۔

انسان کو مکمل طور پر redefine کرنے کے لیے جدیدیت کے افکار کا ایک بڑا حصہ وجودی افکار کے زیر عنوان ترتیب پایا ہے، اور دنیا کو بدلنے کے لیے جدیدیت نے تہذیبی افکار کے زیر عنوان نئی تشکیلات مکمل کی ہیں، جبکہ مادی فطرت پر کنٹرول کے لیے سائنسی علم کی تشکیل کی گئی ہے۔ فکر کے یہ تینوں دھارے باہم پیوست ہیں لیکن جانکاری اور تفہیم کی خاطر ان کو الگ الگ زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔ جدیدیت کے وجودی افکار سے پیدا ہونے والے سوالات اور مسائل سے مسلم ذہن کسی حد تک شناسائی پیدا کر لیتا ہے اور الوہی ہدایت کی براہ راست رہنمائی میں ان سے بہت حد تک نبردآزما ہونے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے، مثلاً انسان کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ انسانی زندگی کی معنویت کیا ہے اور کیا وہ موت سے مر جائے گا یا زندگی کسی اور سطحِ وجود پر جاری رہے گی؟ اخلاقیات اور عقیدے کے بارے میں جدید سوالات کا تعلق بھی اسی زمرے سے ہے۔ ہم عصر مسلم شعور جدید معرضِ علمی میں ان سوالات کا سامنا کرنے کے وسائل پیدا نہیں کر سکا، لیکن دینی ہدایت سے جڑا رہنے کی وجہ سے وہ جدیدیت کے پیدا کردہ ان سوالات کو کند کرنے اور اپنے ایمان کو بچانے میں بہت حد تک کامیاب ہو جاتا ہے۔

جدیدیت کے پیدا کردہ سائنسی اور تہذیبی افکار نے نیچر اور دنیا کو مکمل بدل دیا ہے، اور ان سے پیدا ہونے والے عمل نے مسلم شعور اور عمل کو روند ڈالا ہے۔ ان سائنسی اور تہذیبی افکار کا دائرہ نیچر، معیشت، سیاست، کلچر اور تعلیم و علم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جدید معیشت سائنسی علم اور ٹکنالوجی کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور جدید ریاست، طاقت کی ایک ایسی نئی تشکیل ہے جس کو سمجھنے میں مسلم شعور ابھی تک مکمل ناکامی سے دوچار ہے۔ تہذیبِ مغرب اپنے تمام تر پہلوؤں میں اور اپنے ہر انسانی اور تہذیبی مظہر میں دنیا ہی کی ایک نئی تشکیل ہے، جو positive ہے، مادی ہے اور کنکریٹ اور مجرد دونوں جہتوں کو محیط ہے۔ سائنسی علم اور ٹکنالوجی سے پیدا ہونے والا معاشی عمل تہذیب مغرب کی مادی اساس اور اس کی طاقت اور خوشحالی کا سرچشمہ ہے۔ جدید ریاست اس معاشی عمل کے ہم قدم رہتے ہوئے سائنسی علم اور ٹکنالوجی میں پیشرفت کو کنٹرول کرتی ہے۔ آزادی اور حریت کا سیاسی تصور ساورنٹی کے سیاسی تصور میں ڈھل کر جدید ریاست کا قوام وجود بن جاتا ہے۔

یہ سوال بیک آن ہے کہ ایمانیات میں جڑیں رکھنے والا علم کیا اور کیسا ہو گا اور جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بارے میں اس کا موقف کیا ہو گا؟ لیکن کوئی بھی تہذیب جو علم اور عمل سامنے لاتی ہے تاریخ اسے محفوظ رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مسلم ذہن گزشتہ دو سو برس میں جدیدیت اور مغرب کے سامنے علم اور عمل میں کوئی بھی تہذیبی وسائل سامنے نہیں لا سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ تاریخی مؤثرات کے زیرِ اثر فکر اور عمل کی جہت سے جدیدیت مسلم شعور میں اپنی تنصیب مکمل کر چکی ہے اور وہ خودآگاہ جہات سے محروم ہو کر جدیدیت کا آلۂ کار بن چکا ہے۔ اسی باعث مسلم شعور شریعت کو بھی سیکولر قانون پر محمول کرتا ہے اور انہیں وجودی طور پر ایک ہی سمجھتا ہے، اور ترکِ شریعت کی تزویرات میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں سب سے بڑا تشبیہی تحول عقیدے اور شریعت کے بارے میں تصورات میں واقع ہوا ہے، اور ایسے علمی مباحث اب عام ہیں جو عقیدے اور شریعت کو جدید مادی علوم کی سطح پر لے آئے ہیں۔ اس عرصے میں پیدا ہونے والی ”فکر اسلامی“ ایک طرف عقیدے اور جدید علم میں ضروری امتیازات کو باقی نہیں رکھ سکی، تو دوسری طرف شریعت اور سیکولر قانون کو ایک ہی سطح وجود پر دیکھتی آئی ہے۔ جدید ”فکر اسلامی“ عقیدے کو جدید علم اور شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کا منصوبہ رکھتی ہے، اور بہت حد تک اس میں کامیاب ہو چکی ہے۔ مسلم شعور بھیڑیے کو میمنا سمجھ کر طاقت کے جدید معاشی اور سیاسی اوضاع سے تعاملات کا عادی ہو چکا ہے۔

سیکولر قانون اور شریعت

افکارِ جدیدیت نے اس امر کو فکر میں ممکن اور عمل میں واقعہ بنا دیا ہے کہ نیچر اور دنیا کی طرف کوئی روحانی، مابعدالطبیعیاتی، وہمی، اسطوری اور تقدیسی چیز منسوب نہ کی جا سکے، اور نیچر اور دنیا کی  disenchantment مکمل ہو جائے۔ اس میں یہ شامل ہے کہ انسانی شعور اور عمل کی ہر اس اساس کو بھی کھرچ دیا جائے جو ایسی کسی حقیقت کی یاد دلا سکے جس کا تعلق غیب سے ہو۔ اس طرح جدیدیت، نیچر اور دنیا کو مطلق تشبیہ اور مادی وجود کا شبستان بنانے میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔

جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں یہ کوئی خبر نہیں ہے کہ جدید قانون مکمل طور پر positive ہے اور مادی ہے، اور بنیاد اور غایت کی جہت سے اس کا کوئی تعلق کسی بھی قسم کی اخلاقیات یا روحانیات یا کسی قدر سے قابلِ تصور بھی نہیں ہے۔ یہ نری طاقت کی مادی تشکیل پر اگنے والے خار کی طرح ہے۔ جدید قانون کا عدل اور حق سے بھی دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوم، یہ کہ جدید قانون آلاتی ہے، اور مکمل مادی وجودیات کی حامل جدید ریاست کے تابع ہے کیونکہ یہ عین اسی جدید ریاست کی سیاسی طاقت اور ساورنٹی کا عملی مظہر ہے، یعنی جدید قانون will of the political/politically sovereign ہے۔ اور یہاں سیاسی طور پر ساورن ہونے سے جدید ریاست مراد ہے جس کے ذریعے سے ”قوم“ کی ساورنٹی کا تحقق ہوتا ہے۔ سیکولر قانون اپنی وجودیات اور حرکیات میں طاقت کی ایسی جدید تشکیلات کے بغیر قابل تصور نہیں ہے جو مکمل طور پر مادی اور تشبیہی ہوں۔ شریعت کے برعکس، سیکولر قانون کوئی autonomy اور تکثیریت نہیں رکھتا۔ سیکولر قانون اپنے ہونے اور کرنے میں جدید ریاست پر منحصر ہے، یعنی سیکولر قانون اپنا وجود اور حرکت دونوں جدید ریاست سے اخذ کرتا ہے، اور جدید ریاست سے باہر، الگ اور ماورا کسی معنویت کا حامل نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر قانون اپنی علمیات (epistemology) اور وجودیات (ontology) میں جدید ریاست سے باہر کوئی آثار رکھتا ہے اور نہ پیدا کر سکتا ہے۔ اور جدید ریاست the political کی تشکیل ہے، اور خود جدید ریاست کی معنویت the political کی معنویت میں حصر رکھتی ہے جیسا کہ کارل شمٹ کا موقف ہے۔ اور the political کا ہر ہر تصور مکمل تشبیہی، مادی اور ثنوی ہے۔ یہاں اس امر کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ جدیدیت کا ظاہر کردہ فرد کی autonomy یا خود مختاری کا تصور اجتماع یا سیاست کے حوالے سے ساورنٹی بن جاتا ہے۔ یعنی فرد کی اخلاقی آٹونومی کا تصور ترفع پا کر ساورنٹی کے سیاسی تصور میں ظاہر ہوتا ہے۔ جدید انسان اپنی آٹونومی کو جدید ریاست کی ساورنٹی پر قربان کر کے اپنے شہری ہونے کا تحقق کرتا ہے۔ یعنی فرد کی آزادی کا تصور ”فنا فی الریاست“ میں اپنا منتہائی تحقق حاصل کرتا ہے کیونکہ جدید ’شہری‘ کا خدا یہی جدید ریاست ہے۔

ہمارے ہاں جدید ریاست کے سیاسی طور پر ساورن ہونے کا de jure تو انکار کیا گیا لیکن de facto اس کے ساورن ہونے سے مکمل طور پر آنکھیں موند لی گئیں۔ جدید ریاست کے de jure ساورن ہونے سے انکار کے باوجود یہ عملاً اور فعلاً یعنی de facto ساورن ہی رہتی ہے کیونکہ ساورنٹی جدید ریاست کی وجودیات میں داخل ہے اور یہاں de jure اور de facto کی تشقیق ممکن نہیں۔ ایسے علمی چٹکلے صرف اسی صورت ممکن ہیں جب جدید ریاست علماً اور وجوداً نامعلوم ہو۔   ہمارے ہاں ساورنٹی کے جدید سیاسی تصور کو درست علمی بنیادوں پر زیربحث ہی نہیں لایا جا سکا۔ ہمارے سیاسی علما کا خیال تھا کہ ساورنٹی ٹوپی کی طرح کی کوئی چیز ہے جو جدید ریاست نے پہنی ہوئی ہے اور اسے اتار کر جدید ریاست کو اپنے پسندیدہ رنگ کی کوئی دوسری ٹوپی پہنائی جا سکتی ہے۔ علم اور وجود سے مکمل بےخبری ہو تو ایسی خوش فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجودی مظہر ہے اور ساورنٹی اس کے وجود میں لوہے میں صلابت کی طرح داخل ہے یعنی ساورنٹی جدید ریاست میں اس طرح شامل ہے جس پانی میں تری۔ جیسے کہ میں عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ نام نہاد فکر اسلامی ترک شریعت کی تزویرات ہیں اور ہماری سیاسی فکر پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے کر اسے مکمل طور پر سیکولر بنانے کا داعیہ رکھتی ہے۔ فکر اسلامی اصلاً جدیدیت ہی کا مظہر ہے اور اس کا دینی عقیدے اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

جدید قانون کے مکمل طور پر positive ہونے کی وجہ سے اس قانون کا کسی بھی انسانی یا مذہبی قدر سے کوئی تعلق بنیاد ہی سے نہیں ہوتا، اور نہ ارادتاً قائم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس میں اہم تر بات یہ ہے کہ سیکولر قانون قدر ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ کسی قدر کے حصول کا ذریعہ ہے۔ شریعت اقدارِ حق کا مجموعہ ہے اور انسان سے امتثال امر کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا مطالبہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر قانون یا وہ شریعت جو جدید ریاست میں قانونی جبڑوں کے طور پر نصب کی گئی ہو، عدل اجتماعی کی شرعی قدر کے حصول کا ذریعہ کیونکر بن سکتی ہے؟ اور جدید ریاست اور سیکولر قانون کی عملداری میں مکارم الاخلاق پر مبنی معاشرت کیونکر قائم ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کسی بھی قدر کے وجود ہی کو قبول نہیں کرتے؟

قانون یا جدید قانون یا ریاستی قانون یا سیکولر قانون اور شریعت کی وجودیات نہ صرف مختلف ہے بلکہ متضاد ہے۔ متداول فکر اسلامی میں ان دونوں کی وجودیات ایک ہے۔ اس کا بنیادی سبب جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ فکر و عمل کا تقریباً مکمل فقدان فہم ہے۔ شریعت کسی بھی صورت میں will of the political / politically sovereign نہیں ہے، کیونکہ اپنے ارضی ظہور میں یہ will of God ہے، یعنی امر الہی ہے، ساورن ہے اور خودمختار ہے۔ اگر شریعت ساورن نہیں ہے تو انسان سے اطاعت اور امتثال امر کا مطالبہ ہی بے معنی ہے۔ اگر خدا قادر مطلق ہے جو ہمارے اعتقاد میں یقیناً ہے تو صرف اسی کا امر اور فعل ہی ساورن ہو سکتا ہے۔ کوئی وجودِ شہودی یا مخلوقی یا ابداعی ساورنٹی سے متصف نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کا تصور سیاسی ہے، اعتقادی نہیں ہے، اور کسی سیاسی تصور کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ وارد ہو گی اور یہ شرکیہ تصور عقیدے کی جڑ کاٹ دے گا۔

شریعت کے حوالے سے دو اہم ترین پہلوؤں کو ہم نے ہمیشہ نظرانداز کیے رکھا ہے۔ یہ امر ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام خاتم النبییین ہیں، اور رحمت للعالمین ہیں۔ شریعت کی ساورن نگہداری میں عقیدۂ ختم نبوت پر نقب نہیں لگائی جا سکتی، اور یہ نقب اس وقت لگی جب فقہاء پر مشتمل قضا کا محکمہ ختم ہو گیا تھا اور علما کو فکر اسلامی کا ہوکا لگ گیا تھا جو دراصل ترکِ شریعت کی تزویرات ہیں۔ فکر اسلامی کی فضا میں ختم نبوت کی حفاظت ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ اور وہ کذاب ”مفکرین اسلام“ ہی میں سے تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ حضور علیہ الصلٰوۃ  و السلام کی رحمۃٌ للعالمینی انسانی تجربے کا عملاً اس وقت حصہ بن سکتی ہے جب شریعت ایک ساورن کے طور پر قائم ہو، اور معاشرے کے اجتماعی عمل کا سرچشمہ بھی ہو اور قیام عدل کی اساس ہو۔

جدید ریاست اور ساورنٹی

ساورنٹی نیشنلزم یا قومیت پرستی سے پیدا ہونے والا ایک سیاسی تصور ہے، مکمل طور پر تشبیہی ہے، اور اپنی تجسیم و تشکیل جدید ریاست کی صورت میں کرتا ہے۔  یہ تصور جدید ریاست کا قوامِ وجود ہے، یعنی ساورنٹی کے بغیر جدید ریاست کا وجود ہی قائم نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کوئی صوابدیدی چیز نہیں ہے کہ اس سے ہٹائی جا سکے یا داخل کی جا سکے۔ حاکمیت اعلیٰ کے طور پر ساورنٹی کوئی روحانی تصور نہیں ہے، قطعی سیاسی تصور ہے۔ حاکمیت اعلیٰ کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ لازم آئے گی اور ارتکاب شرک وارد ہو گا۔ وہ تصورات جو موجودات، مخلوقات یا ابداعی موجودات مثلاً مشین، سسٹم وغیرہ میں وجوداً شامل ہیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیے جا سکتے کیونکہ شرک اور ارتکاب شرک کے یہی معنی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجود ہے اور ایک نہایت طاقتور مؤثر کے طور پر نہ صرف تاریخ میں شامل ہے بلکہ ہم عصر تاریخ اور معاشرے کو تہہ و بالا کرنے میں بنیادی کردار جدید ریاست ہی کا رہا ہے۔ اس کی واقعیتِ وجود کا عدمِ قبول حالت انکار کو جنم دیتا ہے۔ یعنی جدید ریاست ایک ساورن وجود کے طور پر طاقتور تاریخی مؤثرات کا سرچشمہ ہے، اور سیکولر معاشروں کے اجتماعی ارادے کی سب سے بڑی ایجنسی ہے۔ جیسے دریا پانی کے بغیر نہیں ہوتا، اسی طرح جدید ریاست ساورنٹی کے بغیر تصوراً یا واقعتاً موجود نہیں ہو سکتی ہے، اور جب موجود ہو گی ساورن ہو گی۔ جس طرح کوے کا کالا ہونا علمی صوابدید پر منحصر نہیں ہوتا اسی طرح ریاست کا سیاسی طور پر ساورن ہونا علم میں صوابدیدی نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی علما نے جدید ریاست کے ساورن ہونے کو رد کر دیا، اور ساورنٹی کے مکمل مادی اور سیاسی تصور کو  اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا، اور اپنے زعم میں مسئلے کا حل نکال لیا۔ لیکن اس سے پانچ مسئلے پیدا ہوئے۔ ایک یہ کہ ساورنٹی کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے مسلم عقیدے کی جڑ کٹ گئی اور ارتکابِ شرک لازم آیا۔ سیاسی تصورات اور انتظامی اختیارات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا شرک ہے کیونکہ وہ تشبیہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ایمان اور عمل کے بنیادی امتیازات منہدم ہو گئے۔ تیسرے یہ کہ علم اور وجود کی باہمی نسبتوں کو جائز اور ثقہ بنیادوں پر قائم کرنا ممکن نہ رہا۔ اگر ہم علم کا آغاز ہی اس بات سے کریں کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہوتی یعنی کوا کالا نہیں ہوتا تو امکان علم ہی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور انسانی ذہن حالت انکار میں چلا جاتا ہے اور خارج از ذہن وجود سے علمی تعرض ممکن نہیں رہتا۔ چوتھے یہ کہ تاریخ اور اس کے طاقتور مؤثرات کی درست علمی تفہیم اور بذریعہ شریعت ان کے تدارک کے امکان کا خاتمہ ہو گیا۔ پانچویں یہ کہ شریعت کو مکمل طور پر جدید ریاست کی تحویل میں دینے اور پورے دین کو سیکولر بنا کر اس کے خاتمے کا راستہ ہموار ہو گیا۔

شریعت اور ساورنٹی

جدید سیاسی افکار میں یہ امر ایک مسلمے کے طور پر داخل ہے کہ جدید ریاست ساورنٹی کی حامل ہے، یعنی جدید ریاست ماورائے انسان ایک وجود ہے اور ساورن ہے۔ جدیدیت کے افکار میں عقلِ انسانی خودمختار و خود مکتفی ہے، اور عقل میں یہ صفت اس کے حامل وجود یعنی جدید انسان سے داخل ہوئی ہے۔ آزادی اور حریت کا تنویری تصور ایجنسی کے طور فرد کی آٹونومی میں ظاہر ہوا ہے اور بنیادی طور پر اخلاقی ہے۔ اجتماعی سطح پر انسانی آزادی کا تصور ایجنسی کے طور پر جدید ریاست کی ساورنٹی میں ظاہر ہوا ہے اور جو بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ جدیدیت کی پیدا کردہ مطلق تشبیہ اور شبستان تاریخ میں اس نے ایک وجود کو ساورنٹی سے متصف قرار دیا ہے۔ مطلق تشبیہ میں ساورنٹی کا حامل وجود خدا ہی کا ایک تصور ہے اور عین یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے ہیگل نے جدید ریاست کو زمین پر خدا کی خوش خرامی قرار دیا ہے۔ جدید ریاست خدا کی replacement صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب یہ ساورن بھی ہو، اور اس کی یہ صفت اس کے وجود سے منفک نہ ہو سکتی ہو۔

سوال یہ ہے کہ کیا ”دنیا“ میں کوئی ”چیز“ ساورن ہو سکتی ہے؟ دنیا اور اس میں ہر چیز مخلوق ہے اس لیے اعتقاداً اور عملاً (یعنی سیاسی طور پر) مخلوقات کے ساورن ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیب سے انقطاعِ مطلق اور مطلق تشبیہ کے حالات میں ہی جدید ریاست کو ساورن قرار دیا گیا ہے۔ ساورن وجود ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ self-referential ہو، اسے کسی منطق یا علم سے جواز کی حاجت نہ ہو، وہ کسی پر منحصر نہ ہو اور دوسرا ہر وجود اس پر منحصر ہو۔ جدید ریاست کے ساورن ہونے میں یہ سارے معنی داخل ہیں۔ یہاں اس امر پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست بطور وجود واقعتاً اور عملاً ساورن ہے، یعنی ساورنٹی اب کوئی فکر نہیں رہی بلکہ اجتماعی عمل کی ایک خاص تشکیل میں فعال تاریخی واقعہ بن چکی ہے، اور فرد معاشرے اور تاریخ کے بہاؤ میں ایک طاقتور اور فیصلہ کن عامل کے طور پر شامل ہے۔ ساورنٹی کی حامل جدید ریاست اب ایک طاقتور ترین مؤثر کے طور پر روزمرہ کا واقعہ اور تجربہ ہے۔

اس صورت حال میں ساورنٹی کے بارے میں اپنے عقیدے کے بیان یا اس کے فکری رد سے نہ صرف یہ کہ کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ عقیدے اور فکر کے باقی رہنے کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس کے بالمقابل ساورنٹی کا دینی اور قابل عمل حل دینا ہوتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ معجزہ اور شریعت دونوں ساورن ہیں، اور بالترتیب نیچر اور دنیا میں امر الہی کا ظہور ہیں۔ لہٰذا امر الہی کی حیثیت سے شریعت تاریخ اور معاشرے میں سیاسی طور پر ساورن ہے، اور صرف وہی ساورن ہو سکتی ہے کیونکہ صرف قادر مطلق کا فعل اور امر ہی ساورن ہو سکتا ہے اور کوئی مخلوق اپنے وجود اور عمل میں ساورن نہیں ہو سکتی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم عصر سیاسی افکار میں جدید ریاست ایک وجود کے طور پر ساورن ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اقدارِ حق ساورن ہیں کیونکہ ہر الوہی قدر autonomous اور ساورن ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ساورن ہونا یہاں ہرگز زیربحث نہیں ہے کیونکہ وہ اعتقادی ہے، سیاسی نہیں ہے۔ یہاں ساورنٹی بطور سیاسی تصور زیربحث ہے۔ قدر کا ساورن ہونا، اور وجود کا ساورن ہونا دو قطعی متضاد اور مختلف باتیں ہیں۔ اگر قدر ساورن ہے تو اس کا مطالبہ ہر وجود کو اپنے تابع لانا ہے، اور  وجود کے ساورن ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اقدار کا خالق ہے اور کسی ایسی قدر ہی کو قبول نہیں کر سکتا جو اس پر وارد ہوتی ہو ورنہ اس کا ساورن ہونا بےمعنی ہو گا۔ جدید ریاست ایک ساورن وجود  ہونے کی حیثیت ہی سے انسانوں سے کافۃً کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ شریعت بطور اقدار حق کافۃً کا مطالبہ رکھتی ہے۔ شریعت اور جدید ریاست کا باہمی تعلق صرف اسی تناظر میں بامعنی طور پر زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔

جدید سیاسی مباحث میں ساورنٹی کے تصور کو مرکزیت حاصل ہے، اس لیے اس پر دوٹوک بات کرنا ضروری ہے۔ ساورنٹی کا اسلامی تصور شرعی اور فقہی (juridical) ہے جبکہ افکارِ جدیدیت میں یہ مکمل طور سیاسی (polititcal) ہے۔ ساورنٹی کے اسلامی تصور کا تحقق بھی فقہی (juridical) ہے سیاسی نہیں ہے، اور یہ تحقق صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب فقہا پر مشتمل محکمۂ قضا قائم ہو اور جو جدید ریاست اور سرمائے کی قائم کردہ حرکیات سے مکمل طور پر آزاد ہو اور ان پر حکم ہو۔ ہمارے سیاسی ملاؤں کا یہ موقف چلا آتا ہے کہ شریعت اور پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے دیا جائے اور جدید ریاست کے پیدا کردہ سیاسی جبر اور سرمایہ داری نظام کے معاشی تاراج کو شرعی جواز بھی فراہم کر دیا جائے۔

شریعت کا بنیادی ترین مطالبہ یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور اجتماع اس کی عملداری میں آ جائیں، اور یہ مطالبہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ شریعت ساورن ہو، جو کہ یہ ہے۔ شریعت ریاست اور سرمائے کے نظام کو بھی اپنی تحویل میں لانے کا مطالبہ رکھتی ہے جبکہ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد میں مصروف رہی ہیں اور اس طرح شریعت کی ساورن اور خودمختار حیثیت کو ختم کر کے اسے ریاست کا آلہ کار بنانے کا داعیہ اور مطالبہ رکھتی ہیں جو سراسر شریعت کے منافی ہے۔ گزشتہ دو سو سالہ نام نہاد فکرِ اسلامی کا یہ بنیادی موقف ہے۔ یعنی بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا شریعت جدید ریاست کی تحویل میں ہو گی یا جدید ریاست شریعت کی تحویل میں لائی جائے گی؟ جو لوگ شریعت کو سیکولر قانون کی طرح کی کوئی چیز سمجھتے ہیں وہ شریعت کو بھی ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ شریعت اس دنیا میں امر الہی کے طور پر ساورن ہے۔ موجودہ مشکل کا واحد حل یہ ہے شریعت کو جدید ریاست کی تحویل سے آزاد کر کے علی منہاج خلافت محکمہ قضا کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ شریعت قانون کی طرح نافذ نہیں ہوتی، بلکہ شریعت ایسے قیام کو مستلزم ہے کہ فرد، معاشرہ اور سرمائے اور طاقت کا سسٹم اس کی عملداری میں آ جائے۔

خلافت، خلیفہ اور ساورنٹی

ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا سیاسی تصور اور سیاسی ادارہ خلافت ہے اور اسے پوری مسلم تاریخ میں شرعی تائید حاصل رہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ خلافت (اور امارت) کوئی سیاسی تصور نہیں ہے بلکہ عین شرعی تصور ہے۔ خلافت اور خلیفہ کی اصطلاحات سے ساورنٹی کا تصور نہ صرف خارج ہے بلکہ خلافت اور ساورنٹی باہم متضاد ہیں۔ نیابت ساورنٹی کی ضد ہے۔ نیابت عبدیت ہی کی ایک جہت ہے جبکہ جدید ریاست اپنے میکانکی وجود کو ساورنٹی سے متصف کر کے خدا کی replacement بن جاتی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ جدیدیت ماورائے انسان ایک وجود کو قائم کر کے اس کو ساورنٹی سے متصف قرار دیتی ہے، اور یہ وجود حسی اور بدیہی طور پر قابل فہم اور قابل رسائی نہیں ہے۔ اس وجود کی غیرجسمی تشکیلات صرف اور صرف نظری طور پر قابل رسائی اور قابل فہم ہیں جبکہ اس کے جسمی اور مادی مظاہر روزمرہ کا انسانی تجربہ ہیں۔ ہماری دینی روایت میں خلیفہ ساورن نہیں ہے، اور نہ خلافت ساورن ہے بلکہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔

جدید پیداواری عمل اور جدید ریاست

جدیدیت کے دو بنیادی تہذیبی تصورات ہیں: آزادی اور ترقی۔ اور ترقی کی تہذیبی تشکیل میں پیداواری عمل کو مرکزیت حاصل ہے جبکہ آزادی اور حریت کے تصورات سیاسی اداروں، خاص طور پر جدید ریاست کے ذریعے بروئے کار لائے گئے ہیں۔ ہم عصر دنیا میں سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا پیداواری عمل ترقی، خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ جدید دنیا میں خوشحالی اور طاقت کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ فراہم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں فروغ پانے والے علوم سے پیداواری عمل کا موضوع خارج ہے۔ علی گڑھ نے بھی استعماری جدیدیت کے کلچر کو اخذ کیا اور تعلیم میں ریس گری کو فروغ دے کر ایک پوری غلامانہ تہذیب کی تشکیل کی۔ انیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی ہی میں جاپان کا جدیدیت سے ٹاکرا (encounter) ہوا، اور وہ میجی انقلاب کے ذریعے آقائے سرسید کے انتقال تک جاپان دنیا کے طاقتور ملکوں میں شامل ہو چکا تھا۔ ہم ابھی تک یہ بھی نہیں جان پائے کہ سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا صنعتی پیداواری عمل قوموں کی طاقت و قوت کا واحد مدار ہے۔ ہمارے علوم اس بابت بھی کوئی گفتگو نہیں کرتے کہ پیداواری عمل کے قیام کے لیے کون سے سماجی، ثقافتی اور سیاسی حالات ضروری ہوتے ہیں۔ صنعتی پیداواری عمل سائنسی علم، مشینی عمل اور مہارتوں (انسانی عمل) کی یکتائی سے اس وقت قائم ہوتا ہے جب سیاسی اور تعلیمی کلچر اس کا مؤید ہو۔

مغربی علوم میں پیداواری عمل ایک مستقل موضوع ہے اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سائنسی، فنی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پیداواری عمل براہِ راست جدید ریاست کی نگہداری میں فروغ پاتا ہے اور قومی سیکورٹی سے براہ راست متعلق ہونے کی وجہ سے اپنے ترقی یافتہ ترین پہلوؤں میں اسے صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر پہلوؤں میں یہ پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، اور ہر معاشرہ اسے اپنی خوشحالی اور طاقت کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔ پیداواری عمل کی جو بھی تعریفات متعین کی جائیں اور اس کے اثرات و نتائج کا جائزہ جس بھی پہلو سے لیا جائے، ایک بات اپنی جگہ مستقل ہے کہ یہ خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ مذہب، کلچر، اقدار یا نظریے کی آڑ میں اس سے دستبردار ہونا مسلم معاشروں کے لیے ازحد مہلک ثابت ہوا ہے۔ تفہیم مغرب یا تفہیم جدیدیت کے نئے مکاتب فکر بھی صنعتی پیداواری عمل کو مسلم معاشروں کے لیے ازحد مضر خیال کرتے ہیں اور فکری طور پر اس کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پیداواری عمل کے انسانی اور سماجی مطالعات سے اس کے وہ پہلو بھی ثابت ہو چکے ہیں جو ایک مسلمان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کو دیکھنا اور ان کا شرعی حل تجویز کرنا ضروری ہے۔

یہ امر حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ دو سو سالہ فکرِ اسلامی میں سائنسی پیداواری عمل سرچشمۂ طاقت و خوشحالی کے طور پر خارج ہے۔ جدید ریاست کے حوالے سے بھی بہت خلط مبحث ہے۔ سیاسی اسلام اس کا والہ و شیدا ہے جبکہ فکری تجدد جدید ریاست اور مذہب میں کسی بھی قسم کی نسبتوں کے منکر ہیں۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جدید تاریخ کے طاقتور ترین مؤثر یعنی جدید ریاست کو دین سے اس طرح منقطع کر دیا جائے۔ یہ کہنا کہ جدید ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اصلاً مذہب ہی کا انکار ہے۔

لیکن اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ  جدید ریاست ایک میکانکی اور ٹکنالوجیائی وجود ہے۔ یہ ماورائے انسان ایک entity یا وجود ہے جو ساورنٹی کا حامل ہے کیونکہ اگر یہ وجود نہ ہو تو ساورنٹی سے متصف کیونکر ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں مذہبی اہل علم نے جدید ریاست کے ساورن ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس کا نام نہاد حل یہ کہہ کے نکالا کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہے بلکہ ”حاکمیت اعلیٰ“ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس طرح ایک جدید سیاسی تصور اور ایمانی تصور میں ایسا خلط مبحث پیدا کیا گیا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ابھی تک سجھائی نہیں دیتا، اور اس نے ہمارے دینی تصورِ الٰہ کو اساسی سطح پر تبدیل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سیاسی حاکم اعلیٰ ماننا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔  اس کا درست جواب یہ ہے کہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔

سیکولر قانون اور شریعت کی جدید ریاست سے نسبتیں قطعی مختلف اور متضاد ہیں جس کو سمجھنے میں ہمارے اہل علم فاش غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قانون جدید ریاست کا سب سے بڑا اور مؤثر ترین آلہ ہے، اور جو مسلمان شریعت سے ادنیٰ واقفیت بھی رکھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے ریاست کا آلہ (instrument) کسی صورت نہیں بنایا جا سکتا۔ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو سیکولر قانون پر محمول کر کے  ”نفاذِ قوانین اسلامی“ کی جدوجہد میں مصروف چلی آتی ہیں، اور وہ شریعت کو سسٹم اور ریاست کی میکانکی اوضاع کا آلہ بنا دینا چاہتی ہیں تاکہ جدید ریاست کے نہادِ جبر کو شرعی جواز بھی دیا جا سکے۔ یہ موقف ترک شریعت اور قطعی انسان دشمن ہے۔

ایک بہت بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ جدیدیت اور تہذیب مغرب کی نادرست تفہیمات نے مسلمانوں میں بالعموم ایک ایسی منتقمانہ داخلیت (revengful subjectivity) پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کا تاریخی معروض ان کے مدرکات سے خارج ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر وہ جدیدیت کے پیدا کردہ سب سے بڑے دو مظاہر یعنی ریاست اور سرمایہ داری نظام کو قطعی غیر اسلامی قرار دے کر ان کے خلاف نبردآزما ہیں حالانکہ جدید عہد میں یہی دو مظاہر طاقت اور قوت کا سرچشمہ ہیں۔ اسلام مکمل ہدایت ہے تو ہمیں ان کا بھی کوئی شرعی حل سامنے لانا چاہیے، اور یہ حل ان دونوں کی درست علمی تفہیم سے مشروط ہے۔

پیداواری عمل اور شریعت

جدید پیداواری عمل غیرمعمولی طور پر نتیجہ خیز ہے اور اقوام کی خوشحالی اور طاقت کا ذریعہ ہے۔ جدید دنیا نے جو معاشی ترقی کی ہے اور ٹکنالوجی جس طرح روزمرہ زندگی کا جزو اعظم بن گئی ہے اس کے پیچھے جدید صنعتی پیداواری عمل کام کر رہا ہے۔ اس سے دستکش ہونے کا جو مطلب ہے وہ مسلمان معاشروں کی نکبت تامہ کے طور پر ظاہر ہے۔ جدید پیداواری نظام مالیاتی نظام کی اساس ہے۔ سود مالیاتی نظام کا مسئلہ ہے جسے شریعت ختم کرنے کا مطالبہ رکھتی ہے۔ لیکن خود پیداواری نظام میں ایسے مسائل ہیں جو شریعت کی روشنی میں حل ہونے چاہئیں۔ تفصیل کا موقع نہیں، مختصراً عرض ہے کہ:

(۱) پیداواری عمل اپنی شدت کی وجہ سے انسانی رشتوں کی ایک نئی تقویم پیدا کرتا ہے جس سے خاندانی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس میں بنیادی عامل منافع ہے جو کارکن کی قیمت پر حاصل ہوتا ہے۔

(۲) سرمایہ داری نظام کی عدمِ مساوات کی نہاد پیداواری نظام میں ہے، اور یہ عدم مساوات جدید ریاست کی سرمایہ داری نظام سے ہمگامی کے بغیر ممکن نہیں۔

(۳) پیداواری نظام میں انسان ایک فیکٹر کے طور پر شامل ہوتا ہے اور بیگانگیت کا شکار ہو کر dehumanize ہو جاتا ہے۔

پیداواری نظام توقیت کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور اسی پہلو سے شریعت کی مداخلت ضروری ہے کہ صنعتی نظام میں کارکن سے چھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے اور اس کی تنخواہ ایک فرد کے بجائے ایک کنبے کی کفالت کے لیے مکتفی ہو۔

جدید ریاست اور شریعت

جدید ریاست کے اجزا کے تحت بننے والے قوانین کے تین بڑے دائرے ہیں:   (۱) سسٹم، مشین اور سیاسی ٹکنالوجیوں کے بارے میں قانون سازی؛  (۲) انسان اور اس کے اعمال و افعال کے بارے میں قانون سازی؛ (۳) سسٹم/مشین اور انسانی تعامل کے محل پر قانون سازی۔

سب سے پہلے آخری نکتے کی تفصیل ضروری ہے۔ انسان اور مشین کے تعامل کا اساسی ترین محل صنعتی پیداواری عمل ہے۔ صنعتی پیداواری عمل جدید دنیا میں معاشی خوشحالی اور سیاسی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اسلامی اعتبار سے صنعتی پیداواری عمل کے حاصلات پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یاد رہے کہ صنعتی پیداواری عمل کا ایک ناقابل منفک جز انسان نہیں بلکہ انسان بطور resource ہے۔ مکمل طور پر مادی میکانیات پر مشتمل صنعتی پیداواری عمل خود میں متضمن انسان کے احوال اور حالات کو بہت بنیادی سطح پر تبدیل کر دیتا ہے۔ مارکس کا یہ مشاہدہ قطعی درست ہے کہ پیداواری عمل ایسے نئے انسانی رشتوں کی بنا ڈالتا ہے جو اس کے نفسی احوال اور معاشرتی حالات کو بدل دیتے ہیں۔ یعنی صنعتی پیداواری عمل انسانی وجودیات کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی حرکیات کو بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ سود ظلم اور اللہ اور اسکے رسول علیہ الصلوۃ و السلام کے خلاف اعلان جنگ ہے، لیکن وہ مالیاتی نظام کا مسئلہ ہے جو پیداواری نظام کی اوپری تہہ ہے۔ صنعتی پیداواری عمل تو انسان سے اس کی انسانیت ہی چھین لیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شریعت اس کا کیا حل تجویز کرتی ہے؟ لیکن حل تو اس وقت تجویز کیا جا سکتا ہے جب مسلم ذہن صنعتی پیداواری عمل اور ذات انسانی پر مرتب ہونے والے اس کے وجودی نتائج سے کم از کم باخبر تو ہو۔

ہندوستان میں اسلامی تکثیریت کا تجربہ تاریخی حوالہ سے

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

اسلام ہند میں دو طریقوں سے پہنچا، فتوحات کے ذریعہ اور تاجروں اور صوفیاء کے واسطہ سے۔ فتوحات میں ہندوؤں سے جنگیں بھی ہوئیں، خون بھی بہا اور ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جو جنگوں کے ماحول میں بالکل ایک فطری سی بات ہے۔ مگر جب مسلمان یہاں کے باسی ہوگئے تو انہوں نے اس ملک کو ہر طرح سے ثروت مند بنایا۔ تاجروں اور صوفیاء کے ذریعہ اسلام کی شان جمالی کا ظہور ہوا، اور مقامی لوگوں کو اسی نے زیادہ متاثر کیا۔ اس کے بعد سے ہندو مسلم اِس ملک میں صدیوں سے ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دونوں فرقوں کے درمیان کبھی کبھی ٹکراؤ، تصادم اور تنازعات بھی پیش آئے مگر ان کا تناسب تبادلۂ علمی، احترام مذہب، صلح جوئی، رواداری اور اعلیٰ انسانی سلوک کے واقعات کے مقابلہ میں کم رہا ہے۔ البتہ رواداری کی یہ صورتحال اب خاصی بدلتی جا رہی ہے۔ اب مسلمانوں کو دیش کا غدار، مادر وطن کو تقسیم کرانے کا گنہگار قرار دیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز میں عام ہوتا جا رہا یہ ظاہرہ ملک کے ہر محب وطن شہری کے لیے فکرمندی کی بات ہے۔ غیر مسلم پوش کالیونیوں میں مسلمان کو گھر نہیں ملتا۔ اس کا قتل گؤرکچھکوں (گائے کے محافظین) کے لیے ایک عام سی بات ہوتی جا رہی ہے۔

سوال یہ ہے کہ دونوں فرقوں کے مابین جو تلخیاں، جو نفرت اور جو غم و غصہ اب دیکھا جا رہا ہے کہ اب ایک مخصوص نظریہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس ملک سے مسلمان شناخت سے دور و نزدیک سے ذرا بھی تعلق رکھنے والی ہر علامت مثلاً شہروں کے نام، تاریخی عمارتیں، مساجد وغیرہ کو مٹا ڈالنا یا بدل ڈالنا چاہتے ہیں، اس کا سبب کیا ہے؟ دونوں فرقوں کے مابین پائی جانے والی یہ سخت کشیدگی اِس کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے اسباب کو گہرائی میں جا کر سوچا جائے اور باہمی زندگی کے ماضی کے اُن خوشگوار حقائق کو پھر سے لوگوں کے سامنے لایا جائے کہ جب لاہور کے خواجہ دل محمد گیتا کی ویاکھیا (شرح) دل کی گیتا لکھ رہے تھے اور وقت کے بہت بڑے ہندو ودوان (عالم) کے سامنے ان کی یہ شرح پیش کی جاتی ہے تو وہ اس کو پڑھ کر اتنا متا ثرہوتے ہیں کہ نہ صرف ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں بلکہ خواجہ دل محمد سے ملنے ان کے گھر بھی جاتے ہیں۔ دوسری جانب بہت سے پنڈتوں اور ہندو ودوانوں نے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا، نبی کریم ﷺ کی جیونی (سیرت) لکھی۔ اِس دو طرفہ صلح جوئی، خیر خواہی، گہرے علمی و سماجی رشتوں کی ایک پوری کہانی ہے جو تقسیمِ ہند سے پہلے اس ملک میں لکھی گئی۔ اِس پیپر میں تاریخی حوالوں سے اِسی کہانی کی بازیافت کی کوشش کی جائے گی۔ اِس کا فوکس علمی و ثقافتی تبادلۂ باہمی پر ہو گا۔

ہند کے مسلمان حکمرانوں میں سب سے زیادہ پروپیگنڈا اورنگزیب عالمگیر کے خلاف کیا گیا ہے کہ اس نے مندر تڑوائے، جزیہ لگایا وغیرہ، مگر اپنی سخت گیر پالیسیوں کے باوصف اس نے ہندو قوم کو سائڈلائن نہیں کیا تھا، بلکہ ان کے بارے میں اپنے پیشروؤں کی پالیسی پر ہی کم و بیش عمل جاری رکھا۔ مولانا شبلیؒ نے اپنی کتاب ’’اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ میں ان ہندوؤں کے نام لکھے ہیں جو اہم عہدوں پر فائز تھے، خاص کر فوجی عہدے و مناصب۔ یہ تقریبا ۲۵ عہدیدار ہیں جن میں بعض پنج ہزاری تھے بعض دوہزاری، بعض سہ ہزاری اور بعض قلعہ دار، تھانے دار اور بعض گورنر اور جاگیردار۔1

جنوبی ہند میں دولت آصف جاہی میں مہاراجہ سرکشن پرشاد مدار المہمام یعنی ریاست کے وزیراعظم کے جلیل القدر منصب پر فائز رہے اور ان کا نام علم و ادب کی سرپرستی کے لیے بڑا مشہور ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے ہندو امراء میں یہ لوگ شامل ہیں: پنڈت لچھمی نرائن شفیق جو شاعر بھی تھے۔ مہاراجہ بندولال، راجہ گردھاری پرشاد، رائے بالاپرشاد، رائے منالال، راجہ گوبند سنگھ وغیرہ یہ جنوبی ہند کے عمائد اور امراء میں شامل تھے۔ اکبری عہد میں راجہ ٹوڈرمل، راجہ بیربل اور راجہ مان سنگھ بڑے مشہور و معروف غیرمسلم امراء ہیں جو اس کے نورتنوں میں شامل تھے۔ بیربل کے قصے تو زبان زد عام ہیں۔ ٹوڈدرمل وزیر مالیات تھے۔ اور راجہ مان سنگھ تو سپہ سالار فوج تھے جنہوں نے مغلوں کے لیے بہت سے قلعے سر کیے۔ مان سنگھ کی سرپرستی میں برندابن کا گوونددیو مندر ۱۵۵۰ء میں تعمیر کیا گیا۔

اتنا ہی نہیں سب سے زیادہ بدنام کے گئے محمود غزنوی کے لشکر میں تین ہندو سردار بہت مشہور تھے۔ یہ تھے سودندی رائے، تلک اور ہج رائے، انہوں نے غزنویوں کی بہت سی مہموں میں حصہ لیا اور ہمیشہ وفادار سمجھے جاتے۔ تلک رائے تو دربار میں ترجمانی کے فرائض بھی انجام دیا کرتا2۔ اور معروف مؤرخ رومیلا تھاپر کے نزدیک سومناتھ کا واقعہ بھی دوسرے واقعات کی طرح کا ایک عام واقعہ تھا جس کا پروپیگنڈا بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ اِس پر انہوں نے ایک پوری کتاب لکھی ہے3۔

جہاں تک ہندو مذہب اور ہندو ثقافت کا تعلق ہے تو مسلمانوں نے فاتح ہونے کے باوجود اس سے بے اعتنائی نہیں برتی۔ چنانچہ مسلم عہد میں اور خاص کر عہدِ مغلیہ میں بہت سی سنسکرت کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کیا گیا۔ مثلاً‌ اکبر کے عہد میں اتھروید کا ترجمہ ہوا، ملاعبد القادر بدایونی نے سنگھاسن بتیسی کا ترجمہ خرد افزاء کے نام سے کیا۔ سنسکرت کی کتاب لیلاوتی اور مثنوی نل ومن کے ترجمے ہوئے۔ بھگوت پران کا ترجمہ ہوا۔ داراشکوہ نے اپنشد کا ترجمہ کیا وہ خود سنسکرت کا عالم تھا، بلکہ اس کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی دلچسپیوں کے میدانوں میں بڑا تنوع تھا۔ چنانچہ داراشکوہ قادری صوفی سلسلہ سے وابستہ تھا، بہترین خطاط تھا، اس نے اسلام اور ہندوستانی فکر پر ایک کتاب لکھی تھی مجمع البحرین۔اس کا ہندی میں ترجمہ سمدر سنگم کے نام سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک کتاب رگ وید کے ساتویں کھنڈویششٹھ کا ترجمہ بھی ہے، وہ نہ صرف صوفیاء سے بلکہ ہندو پنڈتوں اور جوگیوں سے بھی ملا کرتا تھا جن میں ویشنو گرو بابا لال، چندر بھان برہمن، یاد وداس، بنگالی داس جگن ناتھ پنڈت اور بابا سرسوتی کے نام تاریخ نے محفوظ کیے ہیں4۔ داراشکوہ اور عالمگیر کی کشمکش اصلاً اقتدار کی لڑائی تھی، بعض مسلم مؤرخین نے اس میں نمک مرچ لگا کر خواہ مخواہ اس کو کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا ہے۔

عہدِ مغلیہ میں پینٹنگ اور مصوری کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ،ان کے درباری مصورین میں کھیم کرن، مہیش،لال مکند، مادھو، پری ہنس رام، جگن رام وغیرہ شامل ہیں۔ موسیقی کے متعدد ہندو ماہرین کی سرپرستی دربارِ مغل کرتا تھا جن میں مان سنگھ گوالیاری، نائک بخشو، تان سین اور رام داس کے نام تاریخ میں ملتے ہیں5۔ بعد میں شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید خاص امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں بڑا کمال پیدا کیا تھا۔

اسی طرح عہدِ مغلیہ میں ہندو تہواروں اور میلوں ٹھیلوں میں بھی حکمراں، شہزادے اور نواب شریک ہوتے تھے۔ جہانگیر تو خود ہندو تہواروں ہولی دیوالی وغیرہ میں شامل ہوتا تھا، اور اس کے عہد میں ہندوؤں کے میلے ٹھیلے تزک و احتشام سے منائے جاتے۔ شیوراتری کے موقع پر پنڈتوں اور برہمنوں کو دربار میں باریاب کیا جاتا۔ وہ خود راکھی باندھتا اور بندھواتا تھا۔ اس نے اپنی توزک میں اِن چیزوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ہمایوں بھی یہ تہوار مناتا تھا۔ جہانگیر کے زمانہ میں جانک رائے، سورج سنگھ آدربھٹا چاریہ وغیرہ کو انعامات دیے گئے۔ شاہجہاں کے عہد میں بھی یہ چیزیں جاری رہیں۔ اکبری دور میں مصوری کو بڑی ترقی ہوئی۔ بشن داس اور منوہر عہدِ مغلیہ کے مشہور مصوروں میں سے ہیں۔ اس عہد میں مہا بھارت اور راماین کے فارسی ترجموں کے مصور نسخے تیار کیے گئے جو آج بھی انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہیں6۔ ہولی دیوالی، دسہرہ، بسنت اور شیوراتری منائی جاتیں7۔ شاہی دربار سے الگ عوامی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام زندگی کی ترجمانی کرنے والے شعراء نے اِس جانب بھی توجہ کی ہے۔

نظیر اکبر آبادی کی ہندو تہواروں پر کہی گئی نظمیں بہت مشہور ہیں۔ وہ دیوالی کے بارے میں کہتے ہیں8: ؎

ہر ایک مکان میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے دل میں بھا گیا سماں دوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دوالی کا

اسی طرح خدائے سخن میر تقی میر بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے ہولی پر اشعار کہے9: ؎

جشن نو روزِ ہند ہولی ہے 
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے 

اورنگ زیب کے زمانہ میں اِن چیزوں میں کمی تو ضرور آئی مگر اس نے بھی ہندوؤں کو sideline نہیں کیا اور بہت سے عہدے اور مناصب ان کو دیے10 جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ اُس کی مراٹھوں و سکھوں کے ساتھ جنگیں، گرو تیغ بہادر سے اُس کا سلوک استثنائی واقعات ہیں جن کا موضوعی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔

سترہویں صدی میں مغلیہ سلطنت سے ٹوٹ کر بنگال، اودھ، میسور اور دکن میں نئی ریاستیں قائم ہوئیں جن میں دکن کی آصف جاہی سلطنت اور مملکت خداداد میسور دونوں بڑے کروفر کی اور قوت والی ریاستیں تھیں۔ میسور میں آغازِ قیام سے اس کے اختتام تک ہندوب ڑے بڑے عہدوں پر قائم رہے۔ سلطان ٹیپو کے بڑے وفادار سالار اور منصب دار ہندو تھے۔ مثلاً پنڈت پورنیا تاریخ میں مشہور ہیں۔ اودھ میں وزراء اور امراء و عماید میں بڑے پیمانہ پر ہندو شامل تھے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منشی نول رائے، نواب صفدر جنگ کے بخشی راجہ، بینی پرساد، مدارالمہام، نواب شجاع الدولہ، راجہ ٹکیٹ، رائے نواب نصیر الدولہ کے دیوان، امرت لال: پیش کار نواب غازی الدین حیدر، منشی جوالا پرشاد، منشی الممالک، نواب نصیر الدین حیدر، راجہ رتن سنگھ زخمی فارسی کے شاعر، راجہ لکھپت، رائے تحصیل دار، راجہ لکشمی نرائن، معتمد برہان الملک، راجہ پورن چند مسجل(رجسٹرار)، نواب شجاع الدولہ۔ یہ حکمراں اور نواب صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ ہندو عوام میں بھی ویسے ہی مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔

دونوں قوموں کے درمیان چشمک اور ہندوؤں کے جبراً مذہب تبدیل کرانے اور مندروں کو مسمار کرانے کی کہانیاں انگریزی دور میں سامنے آئی ہیں اور ان کو آج دونوں قوموں کے درمیان تنافر پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسلمان اہلِ علم و دانش بھی اس بات کو سمجھتے تھے کہ مسلمانوں اور برادرانِ وطن کے درمیان مفاہمت کی شدید ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے علماء دیوبند اور ان کی سیاسی جماعت جمعیۃ علماء ہند نے مسلم لیگ کی تقسیمِ وطن کی سیاست سے کھلا اختلاف کیا بلکہ دونوں قوموں میں مفاہمت اور رواداری کے ماضی کے بہت سے ان واقعات کی تائید بھی سرکردہ علماء دیوبند نے کی، جن کی عموماً بڑی مخالفت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اکبر بادشاہ کی کارروائیوں کی۔ چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی فی الجملہ اکبر کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مگر شاہانِ مغلیہ کو ضرور اس طرف (تفاہم بین المذاہب کی طرف) التفات ہوا خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدہ (یعنی یہ کہ مسلمان ہندوؤں کے دشمن ہیں) کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا۔ اور اگر اس کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم از کم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے دی جاتی تو ضرور برہمنوں کی یہ چال (پروپیگنڈا کہ مسلمان ہندو کے دشمن ہیں) مدفون ہو جاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔“11(بین القوسین الفاظ راقم نے توضیح کے لیے بڑھائے ہیں)

انگریزی دور کے آخر میں دونوں قوموں کے درمیان مختلف اسباب سے دوریاں بڑھنے لگیں تاہم مسلمانوں کے بارے میں پروپیگنڈا اتنا زیادہ کیا گیا ہے کہ اصل حقائق بالکل دب کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کو صحیح یا غلط مصورِ پاکستان کہا جاتا ہے، مگر اپنی ذاتی زندگی میں اقبال فرقہ واریت سے کوسوں دور تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی انا کسی مسلمان عورت کو نہیں بلکہ ڈورس احمد نام کی ایک جرمن خاتون کو بنایا تھا۔ انہوں نے رامچندر جی کو امامِ ہند کہا تھا۔ گرونانک دیو کو وحدت کا گیت کار بتایا۔ ہندوستان کی شان میں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ لکھا۔ ’اے آب رود گنگا‘ کہہ کر ماضی کے فسانہ کو یاد دلایا۔ حسرت موہانی علی گڑھ کے گریجویٹ، صوفی، شہنشاہ تغزل اور مجاہد آزادی تھے۔ وہ جب بھی حج کو جاتے تو حرم سے واپس آکر کرشن کی نگری متھرادرشن کے لیے ضرور جاتے کہ ان کو یہاں روحانی سکون محسوس ہوتا تھا۔

پھر یہ رواداری و احترام مذہب یک طرفہ نہ تھا دوطرفہ تھا۔ لکھنؤ کے مشہور ناشر منشی نول کشور عربی، فارسی اور اردو کی کتابوں کے ساتھ قرآن بھی چھاپا کرتے اور باوضو ہو کر قرآن کی طباعت کراتے (ان کا ذکر آگے آتاہے)۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت (جیونی) پر بھی ہندو وِدوانوں نے کتابیں لکھیں مثلاً عرب کا چاند سوامی لکشمن پرشاد نے لکھی۔ تو رسول اکرم کی نعت و منقبت کے معاملہ میں ملک کے ہندو شعراء مسلمانوں سے پیچھے نہیں رہے12۔

مغل عہد کے بارے میں بھی پہلے انگریزوں نے منفی پروپیگنڈا کیا اور اب ہندو تو وادی تاریخ دانوں نے اس کی تاریک تصویر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ مغلیہ عہد کے بانی بابر نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی اس پر مغل بحیثیت مجموعی قائم رہے۔ بابر کی نصیحت:

’’بیٹے یہ ملک ہندوستان مختلف مذاہب کا ملک ہے ۔خدا کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں یہ ملک دیا۔ ہمیں اپنے دل سے ہر طرح کے بھید بھاؤ کو ختم کر کے سب قوموں کے ساتھ ان کے اپنے رواج کے مطابق انصاف کرنا چاہیے۔ انتظامی چیزوں میں لوگوں کی مدد لینے کے لیے ان کے دل جیتو، گائے کو ذبح نہ کرو، عبادت خانوں اور مندروں کو نقصان نہ پہنچاؤ جو ہماری قلمرو میں ہوں، ایسا نظم بناؤ کہ رعایا بادشاہ سے اور بادشاہ رعایا سے خوش ہو‘‘13۔

تاریخ کی شہادت ہے کہ بابر کی اولاد نے اس وصیت پر عمل کیا۔ دہلی سلطنت اور مغلیہ عہد میں ہندو مسلمانوں دونوں کے بقاء باہم سے ایک ہم آہنگی اور پر امن فضا ملک میں وجود میں آئی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے سرجان مارشل نے یہ تبصرہ کیا ہے:

’’انسانیت کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ہندو و محمڈن (اسلامی) جیسی بڑی اور وسیع تہذیبوں کے ملاپ کا واقعہ ہے۔ جو اپنے آپ میں بہت ہی زیادہ مختلف ہیں اور جن کے مذہب اور کلچر میں بہت زیادہ فرق ہے، اس سے تاریخ پر زبردست مثبت اثرات پڑے ہیں‘‘14۔

مغلوں کے دور میں ہی مرزا مظہر جان جاناں جیسے عالم و صوفی نے یہ رائے ظاہر کی کہ ’’رام اور کرشن بھی خدا کے پیغمبر ہوسکتے ہیں‘‘ 15۔ ’’عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان میں دونوں قومیں ہندو و مسلمان بہت سارے تہوار ساتھ ساتھ اور بڑے جوش و خروش سے مناتے تھے‘‘16۔

اودھ میں یہ مشترکہ کلچر اتنا آگے بڑھا کہ مسلمان خواتین زچگی کے زمانے میں مہینوں تک سُوہر (گیت) گاتی تھیں جن میں ایک مشہور سوہر یہ تھا:

’’اللہ میاں ہمرے بھیا کا دِیونندلال‘‘ (اے اللہ میرے بھیا کو کرشن جیسا بیٹا عطا کرنا) 17۔ حالانکہ ٹھیٹ فقہی نقطۂ رکھنے والے علماء کے ہاں یہ رویہ قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر سماجی و عملی زندگی میں بسا اوقات فقہی حدود سے تجاوز کرنا پڑ جاتا ہے، جیسا کہ صوفیاء کا رویہ بتاتا ہے۔ شمالی ہند کے برخلاف جنوبی ساحلوں پر ہندوستان سے اسلام کا رابطہ عرب فتوحات سے ماقبل ہی ہو گیا تھا۔

’’ہمیں اس کے آثار یہاں سے ملتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ کیرالا کی چیرامَن مسجد کو مالک بن دینار نامی صحابئ رسول ﷺ نے آپ کی زندگی ہی میں تعمیر کیا تھا، اس کا نام ایک مقامی راجہ چیرامن کے نام پر رکھاگیا‘‘19۔

قرآن کا ہندی ترجمہ کرنے والوں میں مسلمان اہلِ علم کے ساتھ ہی برادرانِ وطن کے اہلِ علم بھی شامل ہیں۔ مثلاً نند کمار اوستھی، اچاریہ ونوبا بھاوے، پنڈت رگوناتھ پرساد مشر، ستیہ دیوجی، پریم شرن پنڈت، پنڈت رام چندر وغیرہ نے قرآن کا ہندی انواد کیا ہے۔ نند کمار اوستھی جی نے اپنا ترجمہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی ایماء پر کیا تھا20۔

عہدِ وسطیٰ کے بارے میں نوبل لاریٹ امرتیہ سین کہتے ہیں:

’’میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ کو ہمیں الگ الگ کر کے یوں نہیں دیکھنا چاہیے کہ اِس زمانہ میں مسلمانوں کی سرگرمیاں یہ تھیں اور ہندوؤں کی اِس قسم کی۔ ہمیں اِس پر زور دینا چاہیے کہ دونوں ایک مشترکہ سماج میں جی رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ آرٹ یا علم و فن کا کوئی بھی میدان لے لیں آپ پائیں گے کہ ہندو مسلم ایکٹوسٹ، آرٹسٹ اور اسکالر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں اور باہمی تعامل کر رہے ہیں‘‘21۔

انگریزی عہد کے اور آزادی کے بعد کے اردو کے بہت سے ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں سے تو ایک دنیا واقف ہے مگر مغلیہ عہد کے اخیر میں بہادر شاہ ظفر کے زمانہ میں دہلی کے اردو شاعروں کی ایک فہرست بنائی گئی تھی جس میں پانچ سو سے زیادہ شعراء کے نام تھے اور ان میں ۳۴ ہندو شاعر تھے22۔

غالباً بھگوت گیتا میں ہندو درشن اور نظریہ و عمل کا سب سے تابناک اظہار ملتا ہے۔ اور اس سے مسلمان بھی خاصے متاثر ہوئے ہیں اور انہوں نے اس کتاب کے ترجمے و شروحات لکھی ہیں۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال گیتا کو اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے جیسا کہ انہوں نے حیدر آباد کے مدارالمہام سر مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط میں بیان کیا ہے۔ اِس خط میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ سنسکرت کے الفاظ کے جمال کو اردو میں اسی کیفیت کے ساتھ منتقل کر دینا بڑا مشکل کام ہے۔ انہوں نے اسی خط میں فیضی کے کیے ہوئے گیتا کے فارسی ترجمہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا:

’’ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے گیتا کے مضامین اور اسلوب سے پورا انصاف نہیں کیا وہ گیتا کی روح کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں‘‘23۔

اردو میں گیتا کے مشہور ترجمہ نگار یہ ہیں: (۱) خواجہ دل محمد، دل کی گیتا جو لاہور سے چھپی اور جس سے بہت شہرت پائی۔ (۲) خواجہ حسن نظامی، ان کے ترجمہ کا نام ہے کرشن بیتی۔ (۳) محمد اجمل خان (پرسنل سیکریٹری مولانا آزاد) ان کے ترجمہ کا نام نغمۂ خداوندی ہے اور اس کا پیش لفظ حسرت موہانی نے لکھا تھا۔ (۴) ڈاکٹر حسن الدین احمد نے نثر میں ترجمہ کیا جو ۱۹۷۵ء میں نیشنل بک ٹرسٹ دہلی نے شائع کیا24۔ (۵) معروف مسلم فلسفی خلیفہ ڈاکٹر عبد الحکیم (پاکستان) کے ترجمہ کو ودیا بھون ممبئی نے شائع کیا۔ یہ منظوم ترجمہ ہے اور رفیق زکریا نے اِس کو ماقبل کے تمام تراجم پر فوقیت دی ہے25۔ (۶) ڈاکٹر محمد عزیز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ان کا ترجمہ انجمن ترقی اردو ہند سے شائع ہوا۔ (۷) سید متین احمد جن کا تعلق دکن سے تھا انہوں نے ’’کشن گیتا اور ارجن گیتا‘‘ اپنے ترجمہ کا نام رکھا۔ (۸) شمش الحق حقی نے بھگوت گیتا کا شعر میں ترجمہ کیا جو انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا26۔

جہاں تک اردو عربی فارسی کتابوں اور قرآن پاک کی نشر و اشاعت کی بات ہے تو اس میں بھی برادرانِ وطن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ مثال کے طور پر منشی نول کشور جن کے پریس کی خدمات کے تعلق سے سید سلیمان ندوی اردو کے لیے لکھنو کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’سب سے آخر میں لکھنؤ کے اس مطبع کا نام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب اسی (۸۰) برس کے قریب پہنچ گئی ہے (۱۹۳۹ء میں)۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور نول کشور پریس ہے۔ یہ غدر کے بعد ۱۸۵۸ء میں قائم ہوا اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی علوم و فنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں، ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق کا کوئی مطبع نہیں کر سکتا۔ ہماری زبان کی اکثر ادبی اور علمی کتابیں اسی مطبع سے چھپ کر نکلیں۔ شعراء کے دواوین، مثنویاں، قصائد، قصے، افسانے، داستانیں اور اس کی عام کتابیں سب اسی کی کوششوں کی ممنون ہیں۔‘‘27

اور اس پریس کے معتبر ہونے کا عالم یہ تھا کہ مرزا غالب نے کہا تھا کہ یہ پریس جس شاعر کی دیوان شائع کر دیتا ہے اسے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ محض کوئی چھاپہ خانہ نہیں تھا بلکہ یہاں ترجمے کا کام بھی ہوتا تھا اور ایسی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شائع کروائی جاتی تھیں جو معدوم ہونے کے قریب تھیں۔

گرونانک نے بغداد اور مکہ کا سفر کیا۔ ان کے بہت سے مریدین مسلمان تھے۔ گروگرنتھ میں ہزاروں عربی فارسی اور اردو کے الفاظ، محاورے اور تعبیرات شامل ہیں۔ یہاں تک کہ امرت سر کے مشہور گروگردوارہ ہرمندر صاحب کا سنگ بنیاد بھی قادریہ سلسلہ کے معروف صوفی بزرگ میاں میر سے رکھوایا گیا تھا28۔

مشہور مصنف ایم این رائے نے بھی اس پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے انڈیا کو اپنا لیا تھا اور وہ اِس کے سماج کے ناگزیر عنصر بن گئے تھے۔ دہلی سلطنت (۱۲۰۶ء ۔ ۱۵۲۶ء) اور مغلیہ عہد (۱۵۲۶ء ۔ ۱۸۵۷ء) ہندو مسلمانوں کی مشترکہ حمایت و تائید سے قائم رہیں29۔

ہندو مذہب و تہذیب کے باضابطہ علمی مطالعہ کی جوریت ابوریحان البیرونی نے ڈالی تھی بعد کے زمانوں میں کسی نہ طرح وہ جاری رہی اگرچہ اس روایت میں وہ پختگی نہ رہی۔ اور موجودہ زمانہ میں بھی مسلمانوں میں خال خال ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مثلاً مولانا محمد فاروق خاں جنہوں نے اردو میں ہندو دھرم کے موضوعی مطالعہ کی روایت کو آگے بڑھایا ہے، جس میں مزید تیزی و تسلسل لانے کی ضرورت ہے۔

مسلم عہد کو عہدِ سلطنت اور مغلیہ عہد میں بانٹ کر دیکھا جاتا ہے اور اس کو سیکولر روایت کے برخلاف تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم مؤرخ مبارک علی ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ پورا عہد بھی سیکولر عہد ہی تھا۔ (سیکولر اِس معنی میں کہ ریاست کسی مذہب میں مداخلت نہیں کرتی تھی) یہ تھیاکریسی نہیں تھی البتہ اس میں بعض حکمرانوں کا استثناء ضرور ہے۔30



حواشی و حوالہ جات

  1. شبلی نعمانی، اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر، دارالمصنفین اعظم گڑھ
  2. ڈاکٹر ایشور ٹوپا، پالیٹکس ان پری مغل ٹائمز ص ۵۴۔۶۴ بحوالہ، سید صباح الدین عبدالرحمن، ہندوستان کے عہدِ ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری۔
  3. ملاحظہ ہو: رومیلا تھاپر: Somnath,The many Voices of a History Penguin Books
  4. Dara Shikoh, the Emperor who Never was (1592-1666) by Supria Gandhi
    کتاب کے علاوہ اسی عنوان سے ان کا یوٹیوب پر لیکچر بھی موجود ہے جس کو Carwan India نے ہوسٹ کیا تھا۔
  5. سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۵۰ ۔ ۴۵۶
  6. سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۸۵۔۴۸۶
  7. ایضا ص ۴۰۰ تا ۴۰۷
  8. ایضا، سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹، ص ۴۰۵
  9. ایضا، سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹، ص ۴۰۷
  10. تفصیل کے لیے دیکھیے شبلی نعمانی، اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر، دارالمصنفین اعظم گڑھ ص ۲۴۔ اور سید صباح الدین عبد الرحمنِ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۸۵۔۴۸۶، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹
  11. ملاحظہ ہو: مولانا نجم الدین اصلاحی، مکتوبات شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی جلد اول مرتبہ مطبوعہ در مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۹۵۲۔
  12. نقوش کے مشہور زمانہ رسول نمبر کی دسویں جلد اس کی شاہد عدل ہے۔ شائع کردہ فریڈ بک ڈپو نئی دہلی ۲۰۱۴۔
  13. Rafiq Zakaria Indian Muslims What Wnt Wong With them p 9
  14. Ibid p 9
  15. Ibid p 10
  16. پی این چوپڑا  Histrory and Culture of Indian People
    published by Bhartiya Vidia Bhawan - P 10
  17. سعید نقوی، وطن میں غیر، ص ۲۵ فاروس نئی دہلی (Being Other in India کا اردو ترجمہ)
  18. ایضا وطن میں غیر، ص ۲۵۔
  19. رضوان الحق فلاحی کی کتاب قرآن شریف کے ہندی انوادایک سرویکشن (جائزہ)
    Brown Book Publications pvt.Ltd opposit Blind School,Quila Road Aligarh
  20. Rafiq Zakaria Indian Muslims What Went Wong With them p 12
  21. Ibid p 13
  22. The Last Mughal Willium Dalremple p 26
  23. Rafiq Zakaria Indian Muslims What Wnt Wong With them p 32-33
  24. Ibid p 38
  25. Ibid p 38
  26. Ibid p 39
  27. سید سلیمان ندوی، نقوشِ سلیمانی، دارالمصنفین اعظم گڑھ ص ۸۷، طبع ۱۹۳۹۔
  28. p.136 Penguin Books 2019 Absolute Khuswant
  29. MN Roy,The Historical Role of Islam
    Oxford University Press 2008
    بحوالہ مشیرالحسن p 15 Moderate or Militant Images of Muslims
  30. ملاحظہ ہو مبارک علی کی کتاب علماء اور سیاست، فکشن ہاؤس ۱۸ مزنگ روڈ لاہور ص ۴۹


طوفان الاقصیٰ اور امت کی ذمہ داریاں

اسماعیل ہنیہ

مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے تحت ۶ تا ۱۱ جنوری ۲۰۲۴ء سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں عالمِ اسلام سے علماء کرام نے شرکت کی۔ اس سیمینار میں ایک سیشن ’’دور الامۃ و طوفان الاقصیٰ‘‘ کے عنوان پر منعقد کیا گیا۔ جس میں اسماعیل ہنیہ نے طوفانِ اقصیٰ  کے اسباب اور علماء کی ذمہ داریوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ جس کا ترجمہ ذیل ہے:



’’ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اہلِ فلسطین کے سینوں میں جذبۂ جہاد اور دشمن سے مزاحمت کی روح پھونکنے میں علماء ربانیین کا اہم کردار ہے۔ ان میں سے کچھ اپنی مراد پا چکے ہیں (شہید ہوچکے ہیں) اور کچھ ابھی ارضِ فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے میدانِ جہاد میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔

میرے بھائیو، بہنو! اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس امت کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ راہ حق میں شہادت پیش کرنے کا داعیہ رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کو یہ مقام حاصل ہے کہ اس کو شہداء کی امت کہا جاتا ہے، اور اس کو یہ مقام اس لیے حاصل ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دور سے لے کر آج تک یہ امت راہِ حق میں اور دینِ اسلام کی اشاعت کی خاطر اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہی ہے۔ اور یہ امر قابلِ تعجب بھی نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے مختلف علاقوں کو فتح کرتے ہوئے اور جہاد کے علم کو بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جزیرہ عرب سے باہر مدفون ہوئے، اس لیے اس امت کو یہ بلند مقام حاصل ہے کہ یہ حق کے راستے میں شہادتیں پیش کرنے والی امت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: فقاتل في سبيل اللہ لا تكلف الا نفسك وحرض المؤمنين عسی اللہ ان يكف باس الذين كفروا واللہ اشد باسا واشد تنكيلا- النساء ۸۴ (پس اے نبی! تم اللہ کی راہ میں لڑو ، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو ۔ البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لیے اکساؤ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔)

میں آپ کے سامنے اس موقع پر کہ جب اہلِ فلسطین، اہلِ غزہ بالخصوص اپنی شجاعت و بہادری کی عظیم داستان رقم کر رہے ہیں درج ذیل نکات پیش کروں گا:

پہلا نکتہ

طوفانِ اقصیٰ کے معرکہ کے حوالے سے سوال کیا جا رہا ہے کہ حماس نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اور جہاد و مزاحمت کے میدان میں اس اسٹرٹیجی کو کیوں اختیار کیا گیا؟ اس حوالے سے میں طوفانِ اقصیٰ کے فیصلے سے قبل تین اہم مراحل کا تذکرہ کروں گا جس کی بنیاد پر اس معرکہ کا میدان سجا:

  1. اس معرکہ سے قبل بین الاقوامی سطح پر مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال دیا گیا اور عالمی و بین الاقوامی فیصلہ ساز اداروں نے اس مسئلہ سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے یہ باور کروایا کہ یہ اسرائیل کا داخلی مسئلہ ہے جسے وہ اپنی صوابدید کے مطابق حل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے قومی و بین الاقوامی سطح پر نہ قرارداد پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ اس حوالے سے کوئی سیمینار منعقد کیے گئے۔
  2. اسرائیل کی موجودہ حکومت نسل پرستی اور مذہبی تشدد کا استعارہ بنی ہوئی ہے، جس کی ترجیحات میں قدس اور مسجد اقصیٰ کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے اہلِ فلسطین پر ہر طرف سے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے، غزہ کا ۱۷ سال سے محاصرہ کیا ہوا ہے، اور ہزاروں فلسطینی ان کی قید میں ہیں، اور ان کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے اہلِ غزہ اردن یا مصر کی جانب ہجرت کر جائیں۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے مسجد اقصیٰ (جو قبلہ اول ہے، جہاں سے آپ ﷺ نے معراج کے سفر کا آغاز کیا)، فلسطین کے مغربی کنارے پر آباد مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں۔ یہ اس امر پر واضح دلیل ہے کہ وہ اس مسئلہ کو بالجبر ختم کرنا چاہتے ہیں۔
  3. طوفانِ اقصیٰ سے قبل بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی ریاست کو قبول کرنے کی مہم کا زور و شور سے آغاز کیا گیا، جس کے لیے صہیونیوں نے مختلف مکر و فریب گڑھے، اور بین الاقوامی سطح بحیثیت ایک ریاست کا مقام حاصل کرنے کی کوشش شروع کی، جس کے نتیجے میں اس کو بحیثیت ریاست قبول کرنے کا آغاز ہوا، جبکہ اس نے اہلِ فلسطین کا حق مارا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ فلسطین کے مسئلہ کو زمین بوس کر دیا جائے اور اسرائیل بالجبر اس پر قابض ہو کر اپنی ریاست قائم کر لے۔

اس منظر نامے میں فلسطینی عوام اور مزاحمتی تحریکات، جس میں سرفہرست حماس ہے، نے اللہ رب العزت کے فرمان: ادخلوا علیہم الباب فاذا دخلتموہ فانکم غالبون وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین۔ المائدہ ۲۳ (ان جبّاروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گھس جاؤ، جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو) پر عمل کرتے ہوئے اس معرکہ کا آغاز کیا ۔ اور سات اکتوبر کا دن فلسطین کی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔

دوسرا نکتہ

اس وقت اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے جس میں ۷۔ ہزار ٹن سے زائد بارود برسایا جا چکا ہے جو ہیروشیما کی بربادی کے برابر ہے، جبکہ غزہ کا رقبہ ۳۶۵ کلومیٹر ہے۔ اس جارحیت کے ذریعے اسرائیل درج ذیل اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے:

  • حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکات کا قلع قمع کرنا
  • کتائب القسام سے اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرانا
  • غزہ کے مکینوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنا

ان تین اہداف کے حصول کے لیے صہیونی ریاست اپنے منصوبے کے مطابق عمل کر رہی ہے، اس منصوبے میں امریکہ، جرمنی، فرانس وغیرہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے، گویا کہ یہ عالمی ساہوکار بھی فلسطین کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس معرکہ کو ۱۰۰ دن ہونے کے قریب ہے لیکن اس جنگ میں صہیونی ریاست نے اپنے دلسوز اور بھیانک منصوبے کی تکمیل کے لیے چار طریقوں سے اہل فلسطین پر وار کیا ہے: سب سے پہلے انہوں نے بھرپور طریقے سے فضائی حملے کیے، دوسرا یہ کہ انہوں زمینی جنگ کا آغاز کیا، تیسرے مرحلے میں وہ حماس کی قیادت اور اس کے اراکین کو قتل کرنے کے درپے ہیں، چوتھا یہ غزہ کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے غور و فکر کر رہے ہیں کہ حماس کے بعد اس غزہ کی قیادت و سیادت کون کرے گا؟

میر آپ سے سوال ہے کہ کیا ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟ ہرگز نہیں، دشمن اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، جس کے دلائل ذیل ہیں:

  • اسرائیلی حکومت کا سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ غزہ سے حماس کا خاتمہ کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حماس صرف غزہ کی تحریک ہے؟ ہرگز نہیں۔ حماس سارے عالم کے باضمیر انسانوں کی آواز بن چکی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ومكروا ومكر اللہ واللہ خير الماكرين (آل عمران ۵۴)۔ ارشاد باری تعالی ہے ونريد ان نمن علی الذين استضعفوا فی الارض ونجعلہم ائمة ونجعلہم الوارثين (القصص ۵)۔ اللہ رب العزت نے اس مزاحمت اور استقامت کی بدولت عالمِ اسلام ہی میں نہیں عالمِ غرب میں حماس کے پیغام کو پہنچا دیا ہے اور اب کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں میڈیا کے توسط سے اہلِ غزہ و فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی داستان نہیں پہنچی ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کا ہم پر بہت بڑا انعام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن تو ہمارا نام نشان مٹانا چاہتا ہے، لیکن اللہ رب العزت حق و سچ کے نور کا فرمان ہے: یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (الصف ۸)۔ ان شاء اللہ ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ گویا کہ اسرائیل اپنے اس ہدف کے حصول میں ناکام ہو چکا ہے۔
  • جہاں تک قیدیوں کی بازیابی کا معاملہ ہے، اس حوالے سے اسرائیلی حکومت جدید ڈرون جاسوس طیاروں کی مدد سے اپنے قیدیوں کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنے ایک قیدی کو بھی تلاش نہ کر پائے، انہوں نے صرف وہی قیدی رہا کروائے جن کو کتائب القسام نے ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کیا۔ اپنے اس ہدف کے حصول میں صہیونی ریاست ناکام ہو چکی ہے۔
  • اسرائیل کا تیسرا ہدف کہ اہلِ غزہ مصر یا اردن کی جانب ہجرت کر جائیں، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اہلِ غزہ اپنے سرزمین سے بے حد محبت کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس معرکہ میں سیکڑوں کی تعداد میں شہادتیں ہو چکی ہیں، ان کے گھر مسمار کیے جا چکے، والدین، بہن بھائی شہادت کا تاج پہن چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی بچہ یا نوجوان مسمار شدہ عمارت سے نکلتا ہے تو یہ نعرہ لگاتا ہے کہ میں فلسطین، حماس اور القدس کے لیے جان دینا اپنے لیے شرف سمجھتا ہوں اور یہ میرے لیے شرف و عزت کی بات ہے۔ دنیا نے اس منظر کا بھی مشاہدہ کیا جب غزہ کے ان باشندوں کو اپنے وطن آنے کی اجازت دی گئی جو دیگر ممالک میں آباد ہی، اور اہلِ غزہ کو دیگر ممالک کی طرف جانے کا پروانہ جاری کیا گیا، تو فلسطینی مہاجرین نے اپنے وطن کی طرف نقل مکانی کی، لیکن غزہ سے کسی نے ہجرت نہیں کی۔ اہلِ غزہ سے اپنی سرزمین سے محبت اور اس کے لیے جان تک قربانی کر دینے کا جذبہ اسرائیل کو اپنے اس ہدف میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ گویا کہ دشمن اس ہدف میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔

تیسرا نکتہ

اس وقت غزہ میں دو محاذوں پر جنگ جاری ہے۔ ایک دشمن سے مقابلے کا جبکہ دوسرا اہلِ غزہ کی سکیورٹی کا محاذ ہے:

  1. الحمد للہ پہلے محاذ پر کتائب القسام، سرایا القدس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے، جس کے مناظر پورے عالم نے دیکھے ہیں۔ دشمن کے مقابلے میں مجاہدین کی تعداد اگرچہ کم ہے لیکن جنگی حکمتِ عملی کے مطابق میدانِ جہاد میں اسرائیلی فوجیوں کو نشانے بنائے ہوئے ہیں اور ان کے آلاتِ جنگ کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا نے گزشتہ روز اس معرکہ کے ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد یہ اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں مجاہدین سے مقابلہ کرنا صعوبت سے خالی نہیں ہے اور کل سب سے مشکل دن تھا۔
  2. دوسرا محاذ اہلِ غزہ کی حفاظت کا ہے کہ دشمن ایک طویل عرصے سے فضائی حملے کر رہا ہے جس کے نتیجے میں شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے، فلسطین کے مغربی کنارے پر اب تک ۳۵۰ شہادتیں ہو چکی ہیں، گویا غزہ کے ساتھ ساتھ فلسطین کا مغربی کنارہ اور مسجدِ اقصیٰ غیر محفوظ ہیں۔

میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ بحیثیت عالمِ دین انفرادی و اجتماعی سطح پر ان دو محاذوں پر اہلِ غزہ کی معاونت میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس لیے کہ مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اہل ِفلسطین ہی کا فریضہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری امت کا فرض ہے، جس میں وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے اہلِ علم کے فتاوٰی بھی موجود ہیں جن اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ القدس کی آزادی کے لیے اپنی جان اور مال اور ہر قسم کا تعاون کرنا تمام مسلمانوں کا فرض بنتا ہے۔ کتائب القسام کے مجاہدین نے طوفانِ اقصیٰ کا دروازہ کھول دیا ہے، اب اس کو مزید طاقت فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن کو مختلف ممالک کی جانب سے اس جنگ کو طول دینے کے لیے معاونت فراہم کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ بھرپور طریقے سے حملہ آور ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم مشترکہ مقصد میں اہلِ غزہ کی پشت پناہی کریں۔ اور یہ بات اپنی جگہ اہم ہے معرکۂ طوفانِ اقصیٰ جیسے فیصلے تاریخ میں شاذ و نادر کیے جاتے ہیں۔ اس لیے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کے خاتمے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ دشمن منہ کی کھائے گا۔

چوتھا نکتہ

طوفانِ اقصیٰ کے بعد فلسطین سے متعلق امریکہ اور یورپین ممالک کے عوام کی رائے بھی تبدیل ہو چکی ہے کہ جہاں فلسطین کا جھنڈا بلند کرنا بھی جرم تھا، اور یہ رویہ بعض عرب ممالک میں بھی دیکھا گیا، لیکن اس معرکہ نے سارے عالم کے سامنے حقیقت واضح کر دی ہے۔ اس عالمی تغیر کی پس منظر میں اہلِ غزہ کی ثابت قدمی اور اسرائیلی کی جانب سے سخت جارحیت کے باوجود وہ القدس کی آزادی کے لیے پرعزم ہیں۔ اگر وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے تو آج ان کو کچل دیا جاتا۔ اس لیے اس فتح عظیم پر خوشی کے ساتھ ساتھ ہمیں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ اس حوالے سے درج ذیل امور اپنانے کی سعی کرنی ہو گی:

  • دوحہ (قطر) کی جانب سے انسان دوستی پر مبنی جس اعلامیہ کا اعلان کیا گیا ہے (اس اقدام پر ہم قطر اور دیگر ممالک مشکور ہیں) اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک ایسا منصوبہ ترتیب دیا جائے جو قابلِ عمل بھی ہو، محض منصوبے کی حد تک نہ رہے۔ اس منصوبے کے لیے عملاً کام کیا جائے۔
  • فلسطین، غزہ اور القدس کی صورتحال اور اس مسئلہ کے حل کے لیے مختلف ممالک سے علماء کا انتخاب کر کے ان کے وفود ترتیب دئیے جائیں جو مسلم و غیرمسلم ممالک کے حکام سے ملاقات کریں، مختلف تحریکات اور انسانی حقوق پر مبنی این جی اوز سے ملاقات کریں، اور ان کے سامنے اس مسئلہ کی حقیقت بیان کریں اور اسرائیلی جارحیت کو رکوانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔
  • اس معرکہ کو کامیاب بنانے کے لیے مسلم معاشرے میں فقہ الجہاد بالمال کا تصور پیدا کرنے میں علماء اپنا کردار ادا کریں۔ مسلم معاشرے کی اس نہج تربیت کی جائے اس جہاد میں اپنے مال کے ذریعے حصہ ڈالیں۔ اس لیے اللہ رب العزت نے جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: انفروا خفافا وثقالا وجاہدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (التوبہ ۴۱)
  • حقیقت یہ ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد مختلف ممالک سے آنے والے وفود کا استقبال کرتے ہیں، وہ ملاقات کے دوران اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے نوجوان القدس کی آزادی کے لیے اہلِ غزہ کے ساتھ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے حاضر ہیں۔
  • میری تجویز یہ ہے کہ اس سیمینار کی جانب سے اہلِ غزہ کی بہادری و شجاعت اور ان کی ثابت قدمی کی داد دینے کے لیے ایک خط ان کے نام صادر کیا جائے جس میں ان کے شہداء کی شہادت کی قبولیت کے ساتھ ان کے زخمیوں کی داد رسی کی جائے اور اسرائیلی کی قید ۱۰ ہزار فلسطینیوں کی آزادی کے لیے دعا کی جائے۔
  • پورے عالم اسلام سے آئے تمام علماء کرام سے میری درخواست ہے کہ وہ اہلِ غزہ کی ہر قسم کے تعاون کے حوالے سے عامۃ الناس کو آمادہ کریں ۔ تاکہ تمام مسلمان اس کرب میں ان کے ممد و معاون بن سکیں۔‘‘


———————————

مترجم: مولانا ڈاکٹر عبدالوحید شہزاد  —  نائب مدیر مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد

نائب مدیر مرکز تعلیم وتحقیق، گلشن تعلیم، ایچ ۱۵، اسلام آباد

awaheedshahzad@gmail.com

تحریک ریشمی رومال کے خطوط

حافظ خرم شہزاد

آپ نے ریشمی رومال تحریک کے بارے میں سنا ہو گا مگر ریشمی رومال خطوط کے بارے میں شاید آپ نہ جانتے ہوں ،حاضر ہے کہ ان خطوط میں کیا لکھا گیا تھا ۔ ریشمی خطوط کے مضمون کیا تھے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:

پہلا خط جو شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا، اس کا مضمون یہ تھا: ”یہ خط حضرت مولانا شیخ الہند کو مدینہ بھیجنا ہے۔ حضرت شیخ الہند کو خط کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی آگاہ کر دیں کہ وہ کابل آنے کی کوشش نہ کریں ۔ حضرت مولانا شیخ الہند مطلع ہو جائیں کہ مولانا منصور انصاری اس بار حج کے لیے نہ جا سکیں گے۔ شیخ عبد الرحیم کسی نہ کسی طرح کابل میں مولانا سندھی سے ملاقات کریں“۔

دوسرا خط شیخ الہندؒ کے نام تھا جس کے سلسلہ میں ہدایت تھی کہ تحریک کے ممتاز کارکنوں کو بھی یہ خط دکھا دیا جائے! اس خط میں رضاکار فوج ”جنود اللہ“ اور اس کے افسروں کی تنخواہوں کا تذکرہ ہے۔ ۱۰۴ افراد کے نام ہیں ۔ جنہیں فوجی تربیت اور ان کے کام کی ذمہ داری کے سلسلہ میں تحریر ہے۔ اس کے علاوہ راجہ مہندر پرتاب سنگھ کی سرگرم ”جرمن مشن کی آمد، عارضی حکومت“ کا قیام روس جاپان اور ترکی وفود کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔

تیسرا خط حضرت شیخ الہندؒ کے نام تھا۔ مشہور یہ ہے کہ یہ خطوط مولانا منصور انصاری نے لکھا تھا؛ لیکن عبد الحق، جنہیں یہ خط پہنچانے کے لیے دیا گیا تھا، کا بیان ہے کہ یہ خط مولانا سندھی نے اس کے سامنے لکھا تھا۔ اس خط کے خاص مضامین یہ ہیں کہ ہندوستان میں تحریک کے کون کون سے کارکن سرگرم ہیں۔ اور کون کون سے لوگ سست پڑ گئے ہیں۔ اس میں مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی گرفتاری کی اطلاع بھی تھی۔ اس میں یہ بھی تحریر ہے کہ میرا حجاز آنا ممکن نہیں ہے۔

”غالب نامہ“ تحریک کے کارکنوں کو دکھا کر قبائلی علاقہ کے سرداروں کو دکھا دیا گیا ہے۔ حاجی ترنگ زئی اس وقت ”مہمند“ علاقہ میں ہیں۔ مہاجرین نے مہمند اور ”سوات“ کے علاقہ میں آگ لگا رکھی ہے۔ جرمن ترک مشن کی آمد اور اس کے ناکام ہونے کے اسباب کا تذکرہ بھی ہے۔ مشن کی ناکامی کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ جرمنی اور ترکی کو چاہیے تھا کہ پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہونے سے پہلے ایران اور افغانستان کی ضرورت معلوم کرے اور اس کو پورا کرنے کی صورت نکالے۔ اس کے علاوہ افغانستان کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے اس کی تفصیل درج ہے۔ ساتھ ہی حضرت شیخ الہندؒ  کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ مدینہ منورہ میں ٹھہر کر ترکی، افغانستان اور ایران میں معاہدہ کرانے کی کوشش کریں۔ اس خط میں حضرت شیخ الہندؒ سے یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ وہ ہندوستان نہ آئیں حکومت نے ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“ مولانا سندھیؒ نے یہ خطوط ریشمی رومال پر لکھ کر عبد الحق کو دیے، اور اس کو ہدایت کر دی کہ یہ خط شیخ عبد الرحیم سندھی کو پہنچا دیں۔ عبد الحق ایک نو مسلم تھا، وہ مہاجر طالب علموں کے ساتھ افغانستان گیا تھا۔ مہاجر طالب علموں میں دو طالب علم اللہ نواز اور شاہ نواز قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں رب نواز کے لڑکے تھے، جو ملتان میں انگریزی ایجنٹ تھا، عبد الحق بھی رب نواز کے یہاں رہتا تھا۔ جب یہ خطوط عبد الحق کو پہنچانے کے لیے دیے گئے تو وہ سرحد کے راستے سے پنجاب ہوتا ہوا بہاولپور پہنچا‘ وہاں بہاولپور کے مرشد کے پاس وہ کوٹ رکھ دیا جس کے استر میں وہ ریشمی ٹکڑے سلے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ بہاولپور سے اپنے آقا رب نواز سے ملاقات کرنے کے لیے ملتان چلا گیا۔ اس نے ان دونوں کی خیریت کے علاوہ تحریک اور اس کی سرگرمی، قبائلی علاقہ اور جیل کے واقعات اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی سرگرمیوں کی تفصیل بھی بتا دی ۔اور دھمکانے پر بہاولپور کے مرشد مولانا محمد کے پاس سے لا کر وہ کوٹ بھی دیا، جس کے استر میں وہ ریشمی خطوط سلے ہوئے تھے، جب رب نواز کو یہ خطوط ہاتھ لگے تو اس نے غداری کی، اور اس نے فوراً ہی کمشنر سے ملاقات کی، اور ریشمی خطوط پیش کیے اور تمام تفصیلات سے اس کو باخبر کر دیا۔ ساتھ ہی عبد الحق کو کمشنر کے پاس لے گیا، اس کے صلہ میں اس کو ”خان بہادر“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس طرح وہ رب نواز سے خان بہادر رب نواز بن گیا۔


قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریب سے خطاب

ادارہ

 عزت مآب (لارڈ ماؤنٹ بیٹن)!    میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی طرف سے اور اپنی طرف سے شاہِ برطانیہ کا ان کے مہربان پیغام کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آگے بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ میں فطری طور پر ان کے جذبات کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ان کی ہمدردی اور حمایت کی یقین دہانی کیلئے شکر گزار ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ آپ برطانوی قوم اور خود برطانوی سربراہ کیلئے ہماری طرف سے خیر سگالی جذبات اور دوستی کا پیغام پہنچائیں گے۔

میں پاکستان کے مستقبل کیلئے آپ کے خیر سگالی اور نیک خواہشات کے اظہار کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہماری یہ مسلسل کوشش رہے گی کہ پاکستان میں تمام طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں، اور مجھے امید ہے کہ ہر کوئی عوامی خدمت کی سوچ سے متاثر ہو گا اور تعاون کے جذبے سے سرشار ہو گا، اور ہر کوئی اپنی سیاسی اور شہری خوبیوں میں سبقت لے جائے گا، جس سے ایک عظیم قوم بنانے اور اس کی عظمت کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ میں ایک بار پھر آپ اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا آپ کی مہربانی اور نیک خواہشات کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بالکل، ہم دوست کے طور پر جدا ہو رہے ہیں اور پوری امید ہے کہ ہم دوست رہیں گے۔

میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم اس جذبے کو سراہتے ہیں جس میں اس وقت  سرکاری  خدمات میں   اور  مسلح  افواج  میں  شامل  افراد  اور  دیگر  افراد  نے  پاکستان کی خدمت کیلئے خود کو عارضی طور پر رضاکارانہ حیثیت سے پیش کیا ہے۔ ہم پاکستان کے مددگاروں  کی حیثیت سے انہیں خوش رکھیں گے اور ان کے ساتھ ہمارے شہریوں کے برابر سلوک کیا جائے گا۔  شہنشاہِ عظیم اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ جو رواداری اور خیر سگالی کا مظاہرہ کیا، وہ کوئی حالیہ معاملہ نہیں ہے، یہ تیرہ صدیاں پہلے کی بات ہے جب ہمارے نبی ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو فتح کرنے کے بعد نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے ان کے ایمان اور عقائد کے حوالے سے انتہائی تحمل  اور عزت  و احترام کا برتاؤ کیا تھا۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ، جہاں کہیں بھی انہوں نے حکومت کی، ان انسانی اور عظیم اصولوں سے بھری پڑی ہے جن کی پیروی ہونی چاہیے اور ان پر عمل کیا جانا چاہیے۔

آخر میں، میں پاکستان کیلئے  آپ کی نیک تمناؤں کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں، اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اپنے پڑوسیوں اور دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستانہ جذبے کی خواہش رکھیں گے۔

http://tinyurl.com/jinnah14august1947

‫‪‬‬

روس یوکرائن جنگ اور یورپ کی تیاری

ہلال خان ناصر

۱۰ جنوری ۲۰۲۴ء کو بی بی سی پر ایک عجیب خبر دیکھنے کو ملی۔ خبر میں بتایا گیا کہ سویڈن کے آرمی چیف اور ڈیفنس منسٹر نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ لوگ ذہنی طور پر جنگ کیلئے تیار ہو جائیں۔ ان کے مطابق روس نے جو دھمکی فن لینڈ کو نیٹو میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد دے رکھی ہے، کہ یوکرائن کے بعد اگلی باری فن لینڈ کی ہے، وہ دھمکی سویڈن پر بھی لاگو ہوگی، کیونکہ سویڈن نے بھی نیٹو میں شامل ہونے کی درخواست جمع کروا رکھی ہے۔ جغرافیائی طور پور روس اور سویڈن کے درمیان ایک فن لینڈ ہی ہے۔ ان کے اس بیان پر عوام اور بہت سی سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا ہے۔ مختلف ماہرین کے نزدیک عوام کے سامنے جنگ کی بات کرنا اور وہ بھی اس وقت جب ابھی یوکرائن بھی لڑ رہا ہے، ایک بڑی غلطی ہے، جس سے عوام میں خوامخواہ کی بے چینی اور خوف پھیل رہا ہے۔

آسکر جانسن، سویڈن کی ڈیفنس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ روس سے جنگ ممکن تو ہے، لیکن اتنی جلدی نہیں کہ ابھی سے افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا جائے۔ سویڈن کی روس سے جنگ سے پہلے روس کو یوکرائن میں فتح، پھر اگلی جنگ کی تیاری کیلئے وقت، اور امریکہ کا یورپ کی پشت پناہی کرنے سے خاتمہ درکار ہوگا۔ شاید اسی سوچ اور زاویے سے جرمنی بھی موجودہ صورتحال دیکھ رہا ہے کیونکہ جرمنی نے روس سے جنگ کی تیاری کیلئے جو پلان بنایا ہے اس میں جنگ کا خدشہ آج سے ۶ سال بعد کا ہے۔ اس سب صورتحال میں جو چیز میری نظر میں آئی جس کی وجہ سے اس خبر کو عجیب کا ٹائٹل نوازا، وہ اس ساری صورتحال اور جنگِ عظیم اول کے بعد والے دور میں موجود ایک مماثلت ہے۔

جنگ عظیم اول کے بعد ۱۹۱۹ء میں معاہدہ ورسائے میں جرمنی کے تمام ہتھیار تباہ کر دیے گئے تھے اور مزید ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی، صرف اپنے دفاع کی حد تک جو چیزیں درکار ہوں ان کی اجازت تھی۔ مگر جرمنی نے معاہدے کے چند سال بعد ہی اس کی خلاف ورزی شروع کر دی جس کو سوائے ونسٹن چرچل کے کسی نے اہمیت نہیں دی۔ چرچل ۱۹۳۳ء سے حکومتوں کی توجہ اس مسئلہ پر لانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہٹلر کی کمانڈ میں جرمنی دوبارہ سے تیاری پکڑ رہا ہے اور جلد ہی حملہ آور ہونے والا ہے۔ لیکن کسی نے چرچل کی بات پر توجہ نہ دی۔ نیول چیمبرلین، جو کہ چرچل سے پہلے ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۰ء تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہے، کے چرچل کے بارے میں الفاظ ’’جنگ کا شوقین ہٹلر نہیں چرچل ہے‘‘ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس وقت کے حکمرانوں کے خوابوں میں بھی جرمن حملے کا تصور نہیں تھا کہ وہ تو ابھی شکست کھا کر گرا ہے، اٹھنے میں تو بہت وقت لگے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۴۰ء میں جرمنی نے حملہ آور ہو کر صرف چھ ہفتوں میں فرانس کے ساتھ ساتھ تین اور ممالک پر قبضہ کر لیا۔

آج بھی اس وقت کی طرح یورپ اپنی امیدیں امریکہ سے جوڑے بیٹھا ہے مگر دوسری جنگِ عظیم کے امریکہ اور آج کے امریکہ میں فرق ہے۔ ایک فرق بتاتا چلوں کے اس وقت امریکہ کی مکمل سپورٹ یورپ کو حاصل تھی جس کی وجہ سے جنگِ عظیم میں ان کو کامیابی ملی۔ لیکن اب کے امریکہ نے چائنہ سے لڑنے کیلئے جنوبی کوریا اور جاپان کو، اور مسلمانوں سے لڑنے کیلئے اسرائیل کو بھی سپورٹ دے رکھی ہے جس میں سب سے زیادہ ترجیح اسرائیل کو حاصل ہے۔ اس کا ثبوت اس وقت غزہ میں ہونے والی جنگ ہے کہ اس کے شروع ہوتے ہی یوکرائن سے امداد کا رخ اور توجہ اسرائیل کی طرف منتقل ہوگیا جس کی وجہ سے پچھلے ۲ مہینوں میں روس نے یوکرائن کو اتنا نقصان پہنچا دیا ہے جتنا سال کے شروع سے اکتوبر تک نہیں پہنچا پایا۔

مسئلہ فلسطین، قومی انتخابات، وطن عزیز کا اسلامی تشخص

مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلسِ عاملہ اور مختلف اضلاع کے ذمہ داران کا اہم اجلاس مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں صوبائی امیر مفتی محمد نعمان پسروری کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں مسئلہ فلسطین، قومی انتخابات، اور وطن عزیز کے نظریاتی اسلامی تشخص، اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ شرکائے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے سب سے پہلے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عالمِ اسلام کی بے حسی پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرب اسلامی ممالک سمیت ہم اسرائیلی جارحیت اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر صرف اظہار مذمت کر کے زبانی جمع خرچ پہ مصروف ہیں۔ عملی اقدامات عالمِ اسلام کی طرف سے اسرائیل کے خلاف نظر نہیں آرہے۔ ہمیں قومی سطح پہ اپنی طرف سے فلسطین کے ساتھ یکجہتی جاری رکھتے ہوئے امت میں اسرائیلی جارحیت و بربریت کو بے نقاب کرتے رہنا چاہیے۔

اجلاس میں فلسطین کے حوالے سے امیر مرکزیہ مفتی محمد رویس خان ایوبی کی طرف سے ماہِ رجب کے حوالے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزۂ معراج اور بیت المقدس کی آزادی بارے عنوانات کو فروغ دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پروگرامات کو ترتیب دینے کی مہم کا خیر مقدم کیا گیا۔

علامہ زاہد الراشدی نے شرکائے اجلاس سے خطاب میں قومی انتخابات میں مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں کے آپس میں بیٹھ کر مشترکہ ضابطۂ اخلاق اور لائحۂ عمل طے کرنے کی ضرورت پہ زور دیا، اور قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں سے پاکستان کے نظریاتی اور اسلامی تشخص کو ہر سطح پر اجاگر رکھنے کے حوالے سے حلف نامے پہ دستخط لینے کی مہم کو فروغ دینے کے لیے تجویز دی کہ علاقہ کے مشترکہ دینی حلقوں کی ہم آہنگی سے امیدواروں سے وطنِ عزیز میں نفاذِ اسلام، اور آئینِ پاکستان کو شریعت کی روشنی میں قائم رکھتے ہوئے مکمل نافذ کرنے کی جدوجہد کی یقین دہانی بطور حلف لینی چاہیے۔ اسی طرح ناموسِ رسالت اور ختم نبوت کے قوانین کے تحفظ اور قومی خود مختاری اور وطنِ عزیز کی آزاد پالیسی کے لیے عملی اقدامات کو ہر سطح پر یقینی بنانے کی حلفاً یقین دہانی لی جائے۔ امیدواروں سے اس بات پر دو ٹوک حلف لیا جائے کہ وہ دستور کی پابندی کرتے ہوئے خلافِ شریعت کسی بل اور پالیسی کی حمایت نہیں کرے گا، بلکہ اس کے مقابلے میں شریعت اور اسلامی دفعات اور دستور اور آئین پاکستان کی حمایت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا۔

علامہ راشدی صاحب نے مزید کہا کہ ہمیں دینی حلقوں کی سیاست کو عوامی سطح پر متحد ہو کر عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی کوشش کرنا ہو گی کہ ہمارا مذہبی ووٹ تقسیم ہو کر ضائع نہ ہو۔ ہم ایک دوسرے کی صلاحیت اور اکثریتی ووٹ کی حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی ایک مذہبی امیدوار پہ متفق ہونے کی طرف بھی توجہ دیں۔

اجلاس میں تمام نمائندگان نے مولانا زاہد الراشدی کی بیان کردہ ہدایات کو قابلِ عمل قرار دیتے ہوئے اسی اعلامیہ اور بیانیہ کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ شرکائے اجلاس نے حالیہ دنوں میں ایران کی طرف سے پاکستان کے علاقے میں کی جانے والی جارحیت پہ بھرپور مذمت کا اظہار کیا اور اس کے فوری جواب میں پاکستان کی مسلح افواج اور سلامتی کے اداروں کی بروقت جوابی کارروائی کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے وطنِ عزیز پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے علماء کرام کی طرف سے مسلح افواج اور تمام اداروں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا، اور ہر قسم کی بیرونی جارحیت کا متحد ہو کر اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

اجلاس میں مولانا قاری محمد عثمان رمضان، مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، مفتی نعمان احمد، مفتی زین العابدین، مولانا عبید الرحمن معاویہ، پروفیسر منیر احمد، پروفیسر محمد زاہد، ڈاکٹر عبدالواحد قریشی، مولانا طلحہ عثمان، مولانا احسن ماجدی، مولانا نصر الدين خان عمر، مولانا فضل الہادی، مولانا خبیب عامر، مولانا زبیر جمیل، مقصود احمد باجوہ، مولانا خبیب عامر، مولانا شیراز نوید، عبدالقادر عثمان، حافظ شاہد میر، حافظ فضل اللہ راشدی، محمد بن جميل و دیگر نے شرکت کی۔

شرکائے اجلاس نے پاکستان شریعت کونسل میں نامور علماء کرام مفتی محمد جمیل اور مفتی محمود الحسن کی شمولیت کا بھی خیر مقدم کیا، پاکستان شریعت کونسل لاہور کے بزرگ راہنما مولانا ڈاکٹر عبدالواحد قریشی صاحب کی دعا سے اجلاس اختتام پذیر ہوا۔

اَز: مولانا حافظ امجد محمود معاویہ،  صوبائی سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل پنجاب

انگلش لینگویج کورس کا انعقاد / الشریعہ لاء سوسائٹی کی افتتاحی تقریب

مولانا محمد اسامہ قاسم

چار ماہ پر مشتمل انگلش لینگویج کورس کا انعقاد

 الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے تمام درجات کے منتخب طلباء کرام کو چار ماہ پر مشتمل دو لیول کا انگلش لینگویج کورس کرایا گیا۔ ۸ جنوری ۲۰۲۴ء بروز سوموار اس کورس کی اختتامی تقریب ہوئی جس میں خصوصی طور پر استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب تشریف لائے، بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور کورس کے معلم سر عمران حیدر کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ ادارے کی طرف سے سر عمران حیدر کو خصوصی ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔

حضرت استاد جی نے اپنی گفتگو میں دینی تعلیم کے اداروں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مدارس دین کے قلعے ہیں اور آج کے معاشرہ میں دینی چہل پہل اور رونق انہی دینی مدارس کے دم قدم سے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو آج کی مروجہ زبانیں بالخصوص انگریزی زبان اور دیگر ضروری علوم بھی حاصل کرنے چاہئیں، کیونکہ اس کے بغیر وہ دنیا تک خدا کا دین پہنچانے کا فریضہ مؤثر طریقہ سے سرانجام نہیں دے سکیں گے۔

تقریب کے اختتام پر کورس مکمل کرنے والے طلباء اور اساتذہ کرام کو سر عمران حیدر کے ادارے النور اکیڈمی کی جانب سے پرفارمنس شیلڈز اور سرٹیفکیٹس دیئے گئے۔

سر عمران حیدر پاکستان کے واحد انگلش لینگوئیسٹ ہیں جو نیچرل اپروچ میتھڈ (Natural Approach Method)  سے انگلش لینگویج سکھاتے ہیں۔ نیچرل اپروچ میتھڈ کوئی بھی زبان سیکھنے کا وہ طریقہ ہے جس سے انسان قدرتی طور پر بولنا سیکھتا ہے۔ اس طریقے سے انگلش سکھانے کے لیے نہ تو کوئی کتاب استعمال کی جاتی ہے نہ گرامر۔ نہ کوئی عمر کی حد ہے نہ ہی کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت۔ سر عمران حیدر سے انگلش لینگوئیسٹک کورس کرنے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، اساتذہ، سرکاری ملازمین، کالج اور سکول کے طلبہ و طالبات اور ہر شعبے س ےمنسلک لوگ شامل ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ تعداد دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی ہے۔ افغانستان، کشمیر اور پاکستان کے چاروں صوبں سے طلبہ و طالبات یہ کورس کر چکے ہیں۔ سر عمران حیدر مختلف مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور طلبہ و طالبات کو نیچرل اپروچ میتھڈ سے انگلش بولنا سکھا رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ۱۵ لیکچرز کے بعد آپ کچھ بھی دیکھ کر، پڑھ کر، سن کر، یا سوچ کر اسے انگلش میں بیان کرنے کے قابل نہ ہوں تو اس کورس کی کوئی فیس نہیں ہو گی۔

آپ بھی اپنے مدارس، سکولز اور کالجز میں طلبہ و طالبات کو نیچرل اپروچ میتھڈ سے کتابوں، گرامر اور رٹے کے بغیر انتہائی مختصر عرصے میں خود انگلش بولنے اور لکھنے کے قابل بنائیں، جس کے بعد ان شاء اللہ انہیں ساری زندگی کبھی انگلش میں کوئی چیز یاد نہیں کرنا پڑے گی بلکہ وہ اسے خود انگلش میں بول اور لکھ سکیں گے۔

’’الشریعہ لاء سوسائٹی‘‘ کی افتتاحی تقریب

5 دسمبر 2023ء بروز منگل الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے کانفرنس ہال میں الشریعہ لاء سوسائٹی کی افتتاحی تقریب مولانا زاہد الراشدی صاحب کی زیر نگرانی منعقد ہوئی جس میں بطور مہمان سابق جج جناب شاہد اقبال ڈھلوں، رانا علی آفتاب ایڈوکیٹ، میاں معظم عبید ایڈووکیٹ، عبد الرؤف گھمن، مفتی واجد حسین، مولانا فضل الہادی، مولانا خالد صفدر، مولانا امجد محمود معاویہ شریک ہوئے اور پورے شہر سے وکلاء برادری، علماء کرام اور دینی احباب کی ایک بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی۔

ڈاکٹر حافظ محمد رشید کی تعارفی گفتگو

تلاوت و نعت کے بعد ڈاکٹر حافظ محمد رشید نے الشریعہ اکادمی اور الشریعہ لاء سوسائٹی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ابتدا ۱۹۸۹ء میں اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات و احکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے، عالم اسلام کے علمی و دینی حلقوں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشاندہی کا فرض انجام دیا جائے، اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی و فکری چیلنجز کا ادراک و احساس اجاگر کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اکادمی کے زیر اہتمام متعدد مستقل اور جز وقتی آن لائن اور آن سائٹ تعلیمی سلسلے بھی جاری رہتے ہیں جن میں دینی و عصری تعلیم ایک ساتھ دی جاتی ہے الحمد للہ۔

الشریعہ لاء سوسائٹی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس سوسائٹی کے اہم محرکات یہ ہے کہ

الشریعہ لاء سوسائٹی کا دائرہ کار بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جہاں تک ممکن ہوا اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے کہ عدالتی و قانونی نظام سے آگاہی کے لئے اہم اقدامات کریں اور اس حوالے سے

جناب میاں معظم عبید ایڈووکیٹ کا خطاب

الشریعہ لاء سوسائٹی کے چیئر پرسن جناب میاں معظم عبید ایڈووکیٹ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میرے بیک گراؤنڈ میں دینی مدرسہ ہے، میں نے دونوں ماحول دیکھے ہیں اور بچپن سے اب تک علماء اور وکلاء دونوں حلقوں سے وابستہ ہوں، میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں ایک طویل عرصہ سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ٹیم کا حصہ ہوں، چند سال قبل استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے حکم فرمایا کہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کشمیر کا عدالتی نظام وزٹ کریں اور وہاں کے سماجی مسائل کے حل کا طریقہ کار دیکھ کر آئیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کشمیر کا سفر کیا اور وہاں کے عدالتی نظام کا تعارف اور طریقہ کار معلوم کیا تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہاں کے مسائل صرف ایک جج ہی نہیں سنتا بلکہ سیشن جج اور ضلعی قاضی ایک ساتھ بیٹھ کر معاملہ سنتے ہیں، ملکی نظم عدل اور شرعی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے، یہ وہاں کا قابل تحسین عمل ہے، اگر ایسا وہاں ہو سکتا ہے تو ہم بھی اس کی عملی ترتیب کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اسی کوشش میں یہ عملی فورم آپ کے سامنے ہے ہم ان شاء اللہ ایسی ترتیب بنا رہے ہیں کہ جہاں وکلاء کو علماء کرام اور مفتیان عظام کی ضرورت ہوگی ہم ان سے رابطہ کریں گے، اور اگر علماء کرام کو کسی معاملے میں وکلاء سے تعاون کی ضرورت ہوگی تو ان شاء اللہ وکلاء برادری بھی حاضر ہوگی۔

حضرت علامہ زاہد الراشدی مدظلہ کا خطاب

اختتامی خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی صاحب کا کہنا تھا کہ اسلامی قانون کے ایک طالب علم اور اسلامائزیشن کی جدوجہد کے ایک کارکن کے طور پر اس حوالے سے یہی کہوں گا کہ آج میرے ایک خواب کی تعبیر ہوتی نظر آرہی ہے جس کا اظہار میں بارہا مقامات پر کر چکا ہوں کہ ملکی و بین الاقوامی قوانین اور شرعی نقطہ دونوں کے باہمی اشتراک کے لیے ایک ’’ورکنگ گروپ‘‘ قائم ہونا چاہیے جس میں سیشن کورٹس کی سطح کے جج صاحبان، دینی مدارس میں فقہ و حدیث کا کم از کم بیس سالہ تجربہ رکھنے والے مدرسین، اور اسی سطح کے وکلاء صاحبان کو شامل کیا جائے، جو متعلقہ مسائل اور قوانین کا تفصیلی اور شق وار جائزہ لے کر انہیں مؤثر بنانے کے لیے تجاویز دیں۔ آزاد کشمیر میں چونکہ سیشن جج اور ضلع قاضی مل کر مقدمات کا فیصلہ کرتے ہیں اس لیے ان کا عملی تجربہ زیادہ ہے اور ’’ورکنگ گروپ‘‘ میں ایسے جج صاحبان اور قاضی حضرات کی شمولیت زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔ اس لیے عدالتی نظام کو جاننے سمجھنے والے اور دینی مدارس کے علماء کرام کا باہمی مل بیٹھنا اور الشریعہ لاء سوسائٹی کے ٹائٹل سے باقاعدہ عملی ورک کا آغاز کرنا میرے لئے انتہائی مسرت کا سبب ہے، ڈاکٹر معظم محمود بھٹی اور ان کی پوری ٹیم کے لیے دعا گو ہوں کہ باری تعالیٰ ان مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔

تقریب کا اختتام مولانا ریاض جھنگوی صاحب کی دعا سے ہوا۔


فلسطین : ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک کے اعداد و شمار

الجزیرہ

 اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، بشمول ہسپتالوں کے قریب اور محصور علاقہ  کے جنوب میں، جہاں زمینی کارروائیاں تیز ہو رہی ہیں۔

غزہ

غزہ میں 26 جنوری کو دوپہر 1 بجے تک ہلاکتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار یہ ہیں :

ہلاک: کم از کم 26,083 افراد، بشمول:

زخمی: 64,487 سے زیادہ، بشمول کم از کم:

لاپتہ: 8,000 سے زیادہ

مقبوضہ مغربی کنارے

مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار درج ذیل ہیں۔

ہلاک: کم از کم 370 افراد، بشمول:

زخمی: 4,250 سے زیادہ

اسرائیل

اسرائیل میں، حکام نے ہلاکتوں کی تعداد 1,405 سے کم کرکے 1,139 کردی۔

ہلاک: تقریباً 1,139 افراد

زخمی: کم از کم 8,730

Pakistan’s National Stability and Integrity: Five Circles

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

Following are the excerpts from the speech of Maulana Zahid ur Rashidi at Istahkam-e-Pakistan Seminar held by Markazi Ulema Council of Pakistan
on Jan 19, 2024. The topic of discussion was the integrity and stability of Pakistan from the lens of five relevant circles with a sense of obligations and imperatives under prevailing circumstances.
❶ The first circle comprises ideological character, cultural distinctiveness, and Islamic identity as the basic purpose of the creation of Pakistan. This first circle is not just threatened but is currently under heavy fire. All over the world and within the country there is a lobbying activity to this end. Both international secular lobby and similar elements inside Pakistan are completely organized to snatch away the Islamic ideological identity and cultural basis of Pakistan. I have not seen the secular entity so much organized and cohesive with continuous efforts in the last 50 years as it is today.
❷ The second circle is the territorial integrity of Pakistan that involves three points. First, the geography of Pakistan is still incomplete unless the occupied Kashmir is brought back as the part and parcel in full sense. The geographical boundary determined on the Pakistan movement that proposed the name of Pakistan is still incomplete without Kashmir, and shall stay as such unless Kashmir is gained back. Second, we should never forget that on the front of geographical integrity we have already faced defeat in 1970-71. The nation got divided in two parts and we could not defend our national integrity in whatever shape we originally inherited. We experienced the first jolt then and now we are waiting for the second one. The conditions are being laid out to trigger the second tragedy of the same order against which we seek Allah’s mercy. To this end, we all need awareness on why Pakistan got divided and what factors and characters caused the mishap. The national document of Hamud-ur-Rehman report is on record to explain the mishap. I would appeal to all institutions and stakeholders, social segments, political leadership, and religious leaders to thoroughly study the report as to what blunders of ours caused the division of the nation into two parts. We need introspection if we are not committing the same mistakes over again. As we speak, our geographical integrity is challenged; we experienced a big jolt in the past and preparations for the next one are in the making. So, there is a need to understand the factors that broke apart our geographical integrity in the past. The Hamud-ur-Rehman Commission report could provide us an opportunity to look back on events and factors again to learn from our historical mistakes.
❸ The third circle is the national unity of Pakistan. The first critical element in this circle is the social and ethnic integrity. This demands the unity of all racial, social and ethnic diversities that exist in Pakistan such as Punjabi, Sindhi, Pashtun, Saraiki, Baluchi, etc. The ethnic integrity in Pakistan is especially under target, and the intensity is increasing day by day. The second element is linguistic integrity. Since independence till today, we are still short to enforce Urdu as the national language. Throughout the country, English or regional languages are prevalent in all official transactions. The need and importance of regional languages cannot be ruled out but Urdu is the established constitutional national language of Pakistan. Specifically, Urdu was determined by Quaid-e-Azam as the official state language cohesive enough to unify the entire nation. Despite above, Urdu is yet to be fully enforced in our state offices. The third element is the sectarian integrity, involving shia, sunni (deobandi, barailvi), etc., as of prime importance to bringing sectarian harmony within all religious groups. The fourth element comprises regional integrity of communities that is critical to the larger national integrity and stability. This needs to be highlighted that no particular sect, language, ethnic group, or region could undermine the existence of other groups. As a nation, we need to create cohesion and balance for mutual existence as our primal responsibility.
❹ The fourth circle is our national sovereignty. Pakistan needs to get out of the dictation of the Western powers in order to appoint its political and institutional leaders. The country needs to break apart from the hegemony of IMF, World Bank and other global organizations and nations. We need to get back our political and economic autonomy that we lost to the external entities. Currently, our economic control is not in our hands; we are like a puppet moving along with the deft fingers of the puppeteer.
❺ The fifth circle is the regional status and importance of Pakistan in South Asia. We, the Muslims, have ruled for 1200 years and earn a rightful place in this region. We have the backing of a strong historical ideological and cultural identity as a regional power in South Asia (Pakistan, India, Bangladesh, Burma). The muslims have yet to play their significant role and contribution to this region. Our leadership role during 1857 was taken away, and since then we have been unable to regain the power status. But at least in the shape of Pakistan we reclaimed the title to some degree, and now we are being cornered again at the regional level. Today, the agenda of the international powers is to inflict the hegemony of India in South Asia. This means threatening to rob away the Islamic ideology, Muslim identity, and our historical role and importance in this region. The attack is coming from all sides—West, East, North and South—to put Pakistan and its Islamic foundation under complete domination.
In conclusion, we need to be vigilant in all 5 circles mentioned above. It is the key responsibility of Ulema-e-Kiram in Pakistan, first to do whatever in guarding the ideological identity and national integrity. Next, we need to help and support our state institutions, and not just that we also need to guide them in policy making and managing future implications. In the end, it is a duty upon us all to identify and warn the state and nation against looming issues and threats to avoid another Hamud-ur-Rehman Commission.
I would end with Alhamdulillah as the alertness and awareness are all present among our people and Ulema, although there is a gap of positive networking and organized efforts. May Allah provide us with blessings to bring strength, stability, and sustainability to the Islamic Democratic Pakistan in the map of the world.

——————————————
Prof. Muhammad Imran Hameed works as Assistant Professor at Air University, Islamabad. He teaches the subject areas of Management with an interest in national and global politics and its impact upon business environment.

الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء

کیا عالمِ اسلام دنیا کی قیادت سنبھالنے کا اہل ہے؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)ڈاکٹر محی الدین غازی 
پاکستان میں مذہبی سیاست کو درپیش تحدیاتڈاکٹر محمد عمار خان ناصر 
مولانا مفتی محمودؒمجیب الرحمٰن شامی 
قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہاماتقاضی ظفیر احمد عباسی 
جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگڈاکٹر شہزاد اقبال شام 
’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد 
اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟بی_بی_سی 
اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظامنصرت مرزا 
فلسطین اور یہود: خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمیدؒ کا خطادارہ 
امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابتادارہ 
یہودیوں کی طوطا چشمیطلال خان ناصر 
رفحہلال خان ناصر 
ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میںسید سلمان گیلانی 
’’صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر‘‘مولانا حافظ کامران حیدر 
Election 2002: Our Expectations from Muttahida Majlis-e-Amalمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 

کیا عالمِ اسلام دنیا کی قیادت سنبھالنے کا اہل ہے؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ تحریک آزادی کے سرگرم رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا، اور پاکستان بننے کے بعد سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک کو منظم کرنے میں مگن ہو گئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا منظم اور مختلف ممالک تک وسیع نیٹ ورک انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ بہت معاملہ فہم اور زیرک رہنما تھے اور پبلک جلسوں میں مشکل سے مشکل مسئلہ کو آسان ترین انداز میں پیش کرنے اور سمجھانے کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ گزشتہ روز ایک دوست کے ہاں پرانے رسالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے ماہنامہ لولاک ملتان کا دو سال پہلے کا ایک پرچہ نظر سے گزرا تو حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی ایک تقریر سامنے آ گئی جو انہوں نے کسی دور میں پکالاڑاں ضلع رحیم یار خان میں کی تھی اور ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے اسے مرتب کیا گیا تھا۔

تقریر میں انہوں نے سندھ کی معروف خانقاہ امروٹ شریف کا ذکر کیا اور حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ کے ایک دو واقعات بیان کیے ہیں۔ حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ ایک تاجدار بزرگ، مجاہد عالم دین اور ممتاز روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کے سرگرم مجاہد بھی تھے۔ ان کا روحانی تعلق بھرچونڈی شریف کے حضرت حافظ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھا جو اپنے دور میں مرجع خلائق تھے اور سلسلہ عالیہ قادریہ کی روحانی عظمتوں کے امین تھے۔ مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی انہی کے فیض یافتہ تھے اور انہی کی صحبت نے اس نومسلم نوجوان کو فکری روحانی اور اخلاقی بلندیوں سے روشناس کرایا تھا۔ جبکہ امروٹ شریف کا فکری اور سیاسی رابطہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک سے تھا اور حضرت شیخ الہندؒ نے برطانوی استعمار سے جنوبی ایشیا کی آزادی کے لیے جو تحریک منظم کی تھی امروٹ شریف اس کے اہم مراکز میں سے تھا۔

حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کا بیان کردہ واقعہ یہ ہے کہ ایک روز کسی عقیدت مند نے حضرت امروٹیؒ سے دریافت کیا کہ حضرت! آپ جو آزادی کی جنگ کے لیے اس قدر تگ و دو کر رہے ہیں اور اپنے رفقاء سمیت اتنی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، اس کی بجائے آپ اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کیوں نہیں کرتے کہ یا اللہ! ان ظالم انگریزوں سے دنیا کا اقتدار واپس لے لے۔ حضرت امروٹیؒ نے فرمایا کہ میں نے کئی بار عرض کیا ہے، مگر ادھر سے جواب آتا ہے کہ ’’ان سے تو اقتدار واپس لے لوں مگر دوں کس کو؟‘‘

اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ عالم اسباب میں مسلمان ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ دنیا کا اقتدار سنبھال سکیں۔ اس واقعہ کو اندازاً پون صدی گزر چکی ہے اور اس دوران عالمی قیادت کا تاج انگریزوں کے سر سے منتقل ہو کر امریکیوں کے سر کی زینت بن چکا ہے، مگر عالم اسلام کے حوالے سے یہ سوال اسی طرح قائم ہے اور اس میں کسی بھی حوالے سے کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔

دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ نے اسباب کے حوالے سے چلا رکھا ہے اور اس کا ضابطہ و قانون یہ ہے کہ دنیا میں ساری باتیں اسباب و و سائل ہی کے حوالے سے طے پاتی اور چلتی ہیں۔ کبھی کبھار اللہ تعالی اپنی قدرت کے اظہار کے لیے اسباب سے ہٹ کر کوئی بات ظاہر فرما دیتے ہیں، لیکن اسے قانون اور ضابطے کا درجہ حاصل نہیں ہے کہ اس کی ہر وقت توقع رکھی جائے اور محض اس کی امید پر اجتماعی فیصلوں اور پروگراموں کی بنیاد قائم کر دی جائے۔ اسباب کی کمی بیشی کا خلا تو اللہ تعالیٰ پر کر دیتے ہیں اور محض اس وجہ سے اہلِ حق کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو تو اللہ تعالیٰ دستِ غیب سے سہارا دے دیتے ہیں، لیکن اسباب اور عدمِ اسباب کے خلا کو پر کرنا اللہ تعالیٰ کے ضابطے کے خلاف ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل کی یہی تعریف فرمائی ہے کہ اپنے امکان و استطاعت کی حد تک اسباب مہیا اور اختیار کرنے کے بعد نتائج کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ دست گیری فرماتے ہیں۔

ہمارے استاد محترم اس کی مثال اس طرح دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ ان کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر ہو گا اور وہاں سے وہ مسجد کے صحن میں کھڑے لوگوں کو آواز دیں گے کہ سیڑھی لائی جائے تاکہ وہ نیچے اتر سکیں۔ چنانچہ سیڑھی لائی جائے گی اور وہ نیچے تشریف لائیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ کے جو فرشتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں سے جامع مسجد دمشق کے مینار تک پہنچائیں گے ان کے لیے نیچے صحن میں ان کو اتارنا مشکل نہیں ہو گا، لیکن چونکہ زمین کا نظام اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اسباب کے دائرہ میں چل رہا ہے، اس لیے زمین تک پہنچنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سیڑھی کا سبب اختیار کرنا پڑے گا اور غیبی فرشتے انہیں اسباب کے دائرہ تک پہنچا کر واپس چلے جائیں گے۔

اس پس منظر میں آج کے عالمی تناظر میں حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ کے اس ارشاد کو دیکھا جائے تو یہ سوال بدستور اپنی اصلی کیفیت میں قائم ہے کہ عالمی قیادت امریکہ کے ہاتھوں سے چھین تو لی جائے مگر دی کس کو جائے؟ کیا آج عالم اسلام موجودہ معروضی حالات میں دنیا کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ سوال بہت تلخ ہے اور ہمارے بہت سے دوستوں کو ہضم نہیں ہو گا، لیکن اس سے سوال کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس روز میں نے حضرت امروٹیؒ کا یہ واقعہ پڑھا اسی روز گوجرانوالہ میں اہلحدیث دوستوں کی ایک تنظیم نے اس موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا کہ عالم اسلام کی موجودہ صورتحال میں علم اور تعلیم کی اہمیت اور کردار کیا ہے؟ میں نے اپنی گفتگو میں یہی واقعہ بیان کر کے سیمینار کے شرکاء سے مذکورہ سوال کیا تو وہ تعجب اور پریشانی سے میرا منہ دیکھنے لگے۔

میں نے عرض کیا کہ حضور! ہمارا حال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ پون صدی کے دوران ہمیں تیل کی عظیم اور بے پناہ دولت سے مالامال کیا مگر اسے سنبھالنے کی اہمیت و صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے ہم اسے دوسروں بلکہ دشمنوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جب عالم اسلام میں تیل کے وسیع ذخائر کی موجودگی کا انکشاف ہوا تو ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ ہم خود کھدائی کر کے تیل نکال سکتے، تیل نکال کر اس کی ریفائنری کا اہتمام کر سکتے اور اسے قابلِ استعمال حالت میں لا کر دنیا میں اس کی مارکیٹنگ کے تقاضے پورے کر سکتے۔ ان تینوں صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ہمیں تیل کے چشموں کی کھدائی، ریفائنری اور مارکیٹنگ کا پورا نظام مغربی کمپنیوں کے سپرد کرنا پڑا اور انہی کے ذریعے ہم اپنی تمام تر دولت، معیشت اور سیاست سمیت مغربی استعمار کے آہنی شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں۔ جو قوم اپنے گھر کی دولت کو سنبھالنے، اسے اپنے مصرف میں لانے اور اس پر کنٹرول قائم رکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو، وہ اگر دنیا کی قیادت کے خواب دیکھنے لگے تو اسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’خوش فہمی‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔

ہمیں اسلام کے روشن مستقبل اور دنیا پر ملتِ اسلامیہ کی دوبارہ قیادت کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کل صبح سورج طلوع ہونے کا یقین ہے، لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی پختہ یقین ہے کہ یہ موجودہ حالات میں نہیں ہو گا اور موجودہ سیاسی، علمی اور دینی قیادتوں کے ہاتھوں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عالم اسلام میں ایک نئے علمی و فکری دور کی شمع جلانا ہوگی، نئی نسل کو ایمان و اخلاق کی مستحکم بنیادوں کے ساتھ عالمی قیادت کے لیے تمام تر ضروری صلاحیتوں اور استعداد سے بہرہ ور کرنا ہو گا، اور نسل انسانی کو اس کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے اسلام کی فطری تعلیمات اور عادلانہ نظام کی افادیت و ضرورت کا احساس دلانا ہو گا۔ یہ اس جدوجہد کے ناگزیر اسباب ہیں اور اس سفر کا ضروری زادِ راہ ہے۔ ہمارے ارباب علم و دانش اس زادِ راہ کا جس قدر جلد اہتمام کر لیں گے، دنیا پر اسلام کے غلبے اور ملت اسلامیہ کے روشن مستقبل کی منزل قریب تر ہوتی جائے گی۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(481) فَاَمْکَنَ مِنْہُمْ کا ترجمہ

فعل أمکن کے دو مفعول آتے ہیں، ایک راست مفعول بہ ہوتا ہے اور دوسرے پر من لگتا ہے۔ أمکنت فلانًا من الصید میں نے فلاں کو شکار پر قابو دے دیا۔ درج ذیل آیت میں فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ میں مفعول بہ کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا ترجمہ و تفسیر کرتے ہوئے عام طور سے لوگوں نے مفعول بہ کو محذوف مانا ہے۔ یعنی فَأَمْکَنَکَ مِنْہُمْ۔ اس کے مطابق ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے انھیں تمہارے قابو میں دے دیا۔ عام طور سے اہل لغت نے یہ لکھا ہے کہ یہ فعل مفعول بہ اور جار مجرور (منہ) کے ساتھ آتا ہے۔ مَکَّنْتُہ من الشیءِ، وأمْکَنْتُہ منہ (القاموس المحیط)، یعنی کسی چیز کو کسی کے قابو میں دے دینا۔ درج ذیل ترجمے اسی کے مطابق کیے گئے ہیں:

وَإِنْ یُرِیدُوا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللَّہَ مِنْ قَبْلُ فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ۔ (الانفال: 71)

”لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کرچکے ہیں، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آ گئے“۔ (سید مودودی، قابو میں آنا سزا نہیں ہوتی ہے، سزا تو اس کے بعد ملتی ہے)

”اور اے محبوب اگر وہ تم سے دغا چاہیں گے تو اس سے پہلے اللہ ہی کی خیانت کرچکے ہیں جس پر اس نے اتنے تمہارے قابو میں دے دیے“۔ (احمد رضا خان، لگتا ہے کہ منھم میں من کو تبعیضیہ مان کر ”اتنے“ کہا ہے۔ یہاں من برائے صلہ ہے، تبعیضیہ نہیں ہے۔)

”اور اگر یہ لوگ تم سے دغا کرنا چاہیں گے تو یہ پہلے ہی خدا سے دغا کرچکے ہیں تو اس نے ان کو (تمہارے) قبضے میں کردیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر وہ تجھ سے خیانت کا خیال کریں گے تو یہ تو اس سے پہلے خود اللہ کی خیانت کر چکے ہیں آخر اس نے انہیں گرفتار کرا دیا“۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں مفعول بہ کو ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن ترجمہ فعل متعدی والا ہے۔یہاں خیانت کا خیال نہیں بلکہ ارادے کی بات ہے۔)

”اور اگر یہ تم سے بدعہدی کریں گے تو اس سے پہلے انہوں نے خدا سے بدعہدی کی تو خدا نے تم کو ان پر قابو دے دیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ فعل مفعول بہ کے بغیر صرف جار مجرور (منہ) کے ساتھ بھی آتا ہے۔ اس لیے آیت میں مفعول بہ ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے مطابق ترجمہ ہوگا:

”تو خدا نے ان کو قابو میں کرلیا۔“

یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیا یہ فعل مفعول بہ کے بغیر بھی آتا ہے۔ یعنی کسی کے قابو میں دینے کے بجائے خود اپنے قابو میں کرنے کے معنی میں۔ اس سلسلے میں لغات خاموش ہیں۔ البتہ جملے میں اگر مفعول بہ ذکر نہ کیا جائے تو ذہن بغیر مفعول بہ والے مفہوم کی طرف جاتا ہے۔ عربی لٹریچر میں اس کا استعمال بھی ملتا ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے ابوحیان توحیدی کی درج ذیل عبارت میں اس کا برجستہ استعمال کیا گیا ہے:

وقل من تکبر علی الناس وحقر أہل الفضل إلا عاجلتہ العقوبة، ونہکتہ اللائمة، وأمکن منہ الدہر۔  (البصائر والذخائر: 2/ 221)

ظاہر ہے کہ ابوحیان توحیدی کا قول زبان کے سلسلے میں حوالہ نہیں بن سکتا، لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم کے یہاں یہ استعمال موجود ہے۔

اس آیت کے ضمن میں امام طبری نے  امام سدّی کی تفسیر ذکر کی ہے اس میں مفعول بہ کے محذوف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ یَقُولُ: قَدْ کَفَرُوا بِاللَّہِ وَنَقَضُوا عَہْدَہُ، فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ بِبَدْرٍ۔ (تفسیر الطبری)

جن لوگوں نے مفعول بہ محذوف مانا ہے اور قابو میں دینے کا مفہوم مراد لیا ہے، انھوں نے اس سے جنگ بدر میں ہونے والے انجام کو مراد لیا ہے۔ لیکن اگر مفہوم اپنے قابو میں کرنا ہے تو پھر اللہ تعالی نے بدعہدوں کی جب جب پکڑ کی سب اس میں آجائے گا۔ ویسے بھی اصل ڈرنے کی چیز تو اللہ کی پکڑ میں آنا ہے۔

(482) إذ کے بعد فعل مضارع کا ترجمہ

إذ کے بعد جب فعل مضارع آتا ہے تو وہ ماضی کے مفہوم میں ہوتا ہے۔ لیکن ’إذ کے بعد فعل ماضی‘ اور ’إذ کے بعد فعل مضارع‘ میں فرق ہوتا ہے۔ ”إذ قال“ کا ترجمہ ہوگا ’جب اس نے کہا‘ اور ”إذ یقول“ کا ترجمہ ہوگا ’جب وہ کہہ رہا تھا‘۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:

(۱) وَإِذْ یَعِدُکُمُ اللَّہُ إِحْدَی الطَّاءِفَتَیْنِ أَنَّہَا لَکُمْ۔ (الانفال: 7)

”یاد کرو جب کہ اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کر رہا تھا کہ وہ تمہارا لقمہ بنے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا“۔ (سید مودودی)

”اور جس وقت دو جماعتوں میں سے ایک کا اللہ تم سے وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ لگے گی“۔ (احمد علی)

”اور (اس وقت کو یاد کرو) جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ (ابوسفیان اور ابوجہل کے) دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا (مسخر) ہوجائے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تم سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا“۔ (محمد تقی عثمانی)

درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

”اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں وعدہ دیا تھا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک تمہارے لیے ہے“۔ (احمد رضا خان)

درج بالا ترجمے میں فعل مضارع کے بجائے فعل ماضی کا ترجمہ ہوگیا۔ حالاں کہ یہاں یعدکم ہے، وعدکم نہیں ہے۔

”اور جس وقت وعدہ دیتا ہے اللہ تم کو ان دو جماعت میں سے کہ ایک تم کو ہاتھ لگے گی“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔

(۲) إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَاءِکَةِ مُرْدِفِینَ۔ (الانفال: 9)

”اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں“۔ (سید مودودی، فَاسْتَجَابَ لَکُمْ کا ترجمہ جواب دینا نہیں، بلکہ دعا قبول کرنا ہے۔ اللہ نے تمہاری فریاد قبول کرلی۔)

”جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی“ (احمد رضا خان)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

(۳) إِذْ یُغَشِّیکُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً‌ مِنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (الانفال: 11)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

”جس وقت ڈال دی تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کو اور اتارا تم پر آسمان سے پانی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین (تسکین) تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا“۔ (احمد رضا خان)

”جب اس نے (تمہاری) تسکین کے لیے اپنی طرف سے تمہیں نیند (کی چادر) اُڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسادیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج بالا ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہیں۔ فعل مضارع کے بجائے فعل ماضی والا ترجمہ کردیا ہے۔

”یاد کرو جب کہ وہ تم کو چین دینے کے لیے اپنی طرف سے تم پر نیند طاری کردیتا ہے اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔

(۴) إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلَاءِکَةِ أَنِّی مَعَکُمْ۔ (الانفال: 12)

”اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (سید مودودی)

”جب اے محبوب! تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی، معکم کا مطلب ساتھی ہوں نہیں ہوگا، ساتھ ہوں ہوگا۔)

درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔

”یاد کرو جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔

”جب حکم بھیجا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں ساتھ ہوں تمہارے“۔ (شاہ عبالقادر)

اذ کے بعد فعل مضارع“ کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بہتر ہوگا کہ ایک بار پیش آنے والا واقعہ بار بار پیش آنے والا واقعہ محسوس نہ ہو۔ ”جب کررہا تھا“ اور ”جب کرتا تھا“ پر غور کریں تو موخر الذکر سے یہ گمان ہوتا ہے کہ واقعہ کئی بار پیش آیا۔ اوپر جتنی آیتیں ذکر کی گئی ہیں وہ سب ایک بار پیش آنے والے واقعہ کی خبر دے رہی ہیں، اس لیے ترجمے میں اس کا لحاظ بھی ہونا چاہیے۔

(483) ذَات الشَّوْکَۃِ کا ترجمہ

عربی میں شوکة  کانٹے کو کہتے ہیں۔ لیکن جنگ کے سیاق میں شوکة  ہتھیار، ہتھیار کی تیزی اور دشمن کی قوت وسطوت کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ فیروزابادی کے الفاظ میں:

والشَّوْکَةُ: السِّلاحُ، أو حِدَّتُہُ، ومن القِتالِ: شِدَّةُ بأْسِہِ، والنِّکایَةُ فی العَدُوِّ۔ (القاموس المحیط)

درج ذیل آیت میں غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ کا ترجمہ بعض لوگوں نے کم زور کیا ہے۔ یہ لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے  الشَّوْکَةِ  کا ترجمہ کانٹا کیا ہے، یہاں جنگ کے سیاق میں کانٹا بالکل موزوں معلوم نہیں ہوتا ہے۔ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ کا مناسب ترجمہ غیر مسلح ہے۔

وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ۔  (الانفال: 7)

”تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے“۔ (سید مودودی)

”اور تم چاہتے تھے کہ جس میں تم کو کانٹا نہ لگے وہ ملے تم کو“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور تم چاہتے تھے جس میں کانٹا نہ ہو وہ تمہیں ملے“۔(احمد علی)

”اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمہیں ملے“۔ (محمد تقی عثمانی)

”اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہیں (کوئی نقصان نہ ہو)“۔ (احمد رضا خان)

درج ذیل دونوں ترجموں میں شوکة  کا مفہوم مناسب لفظوں میں ادا کیا گیا ہے۔

”اور تم یہ چاہ رہے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارا لقمہ بنے“۔(امین احسن اصلاحی)

”اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(484) یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ کا ترجمہ

أدبار دبر کی جمع ہے۔ دبر کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کا پچھلا حصہ۔ الدُّبُرُمن کُلِّ شیءٍ: عَقِبُہ ومؤخَّرُہ (القاموس المحیط)، جب یہ لفظ انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے تو انسان کی پوری پشت مراد ہوتی ہے۔ بعض لوگوں نے أدبار کا ترجمہ کولہے یا سرین کیا ہے۔ کولہے یا سرین پشت کا ایک حصہ ہیں لیکن أدبار سے مراد آدمی کی پوری پشت ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

(۱) وَلَوْ تَرَی إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَاءِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ۔ (الانفال: 50)

”کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منھ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے وہ ان کے چہروں اور ان کے کولھوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے“۔(سید مودودی)

”اور کبھی تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں مار رہے ہیں ان کے منھ پر اور ان کی پیٹھ پر“۔ (احمد رضا خان)

”اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو۔ جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر تم دیکھ پاتے جب فرشتے ان کفر کرنے والوں کی روحیں قبض کرتے ہیں مارتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲) فَکَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلَاءِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ۔ (محمد: 27)

”پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور اِن کے منھ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے؟“۔ (سید مودودی)

”تو کیسا ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے ان کے منھ اور ان کی پیٹھیں مارتے ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”تو اُس وقت (ان کا) کیسا (حال) ہوگا جب فرشتے ان کی جان نکالیں گے اور ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر مارتے جائیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس ان کی کیسی (درگت) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی سرینوں پر ماریں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(485) عَذَاب الْحَرِیقِ کا ترجمہ

حریق اور نار میں فرق ہے۔نار  آگ کو کہتے ہیں اور جب آگ کسی چیز کو جلاتی ہے اور تباہ کرتی ہے تو اسے حریق کہتے ہیں۔ چولہے کی آگ کو حریق نہیں کہیں گے لیکن جلتے ہوئے مکان کو حریق کہیں گے۔ آگ کے عذاب یا جہنم کے عذاب سے  عذاب الحریق کے مکمل صحیح مفہوم کی ادائیگی نہیں ہوتی ہے، اس کے لیے جلانے والی آگ کا عذاب یا جلنے کا عذاب موزوں ہے۔ ماہر لغت ابوہلال العسکری لکھتے ہیں: والحریق النار الملتہبة شیئا وإہلاکہا لہ۔ (معجم الفروق اللغویۃ)

کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:

 (۱) ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (آل عمران: 181)

”چکھو آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

”چکھو عذاب آگ کا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”عذاب جہنم کا مزا چکھو“۔ (سید مودودی، یہ موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ سورۃ البروج میں جہنم اور حریق کو الگ الگ کہا گیا ہے)

”عذاب (آتش) سوزاں کے مزے چکھتے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جلنے والا عذاب چکھو! (محمد جوناگڑھی)

(۲) وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الانفال: 50)

”تم جلنے کا عذاب چکھو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور چکھو آ گ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

”عذاب آتش (کا مزہ) چکھو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اب چکھو مزا جلنے کے عذاب کا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”لو اب جلنے کی سزا بھگتو“۔ (سید مودودی،ذوقوا  کا مطلب بھگتنا نہیں بلکہ چکھنا ہے۔)

(۳) وَنُذِیقُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الحج: 9)

”اور قیامت کے دن ہم اسے عذاب (آتش) سوزاں کا مزہ چکھائیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے“۔ (سید مودودی)

”اور قیامت کے دن ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہم قیامت کے دن ان کو آگ کا عذاب چکھائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جہنم میں جلنے کا عذاب چکھائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۴) وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الحج: 22)

”چکھو آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

”جلنے کا عذاب چکھو!“۔ (محمد جوناگڑھی)

”چکھو اب جلنے کا عذاب“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جلنے کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”چکھو اب جلنے کی سزا کا مزا“۔ (سید مودودی)

(۵) فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ۔ (البروج: 10)

”تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے“۔(محمد جوناگڑھی)

”ان کو دوزخ کا عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا“۔(فتح محمد جالندھری)

”یقینا اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے“۔ (سید مودودی)

”ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا اور جلنے کا عذاب ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)

درج بالا تمام ترجموں میں آگ کے عذاب سے زیادہ موزوں جلنے کا عذاب ہے۔

پاکستان میں مذہبی سیاست کو درپیش تحدیات

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

پاکستان میں مذہبی سیاست کو منظم کرنے کے دو ماڈل جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نے اختیار کیے۔ اہداف میں زیادہ فرق نہیں تھا، اور ریاست کی نظریاتی شناخت طے کرنے نیز اس کے بعد آئینی و قانونی سطح پر اسلامائزیشن کی جدوجہد میں دونوں شریک رہے، تاہم انداز سیاست مختلف تھا۔ جماعت اسلامی نے خالصتاً نظریاتی بیانیے پر مذہبی سیاست کو استوار کرنے کی کوشش کی اور نتیجتا سیاسی میدان میں کبھی بھی کوئی قابل لحاظ قوت نہیں بن سکی۔ جمعیت علماء نے تدریجاً اپنے سیاسی بیانیے اور اہداف کو قومی سیاست کے عمومی دائرے سے ہم آہنگ کر لیا اور مختلف سیاسی قوتوں کے ساتھ تعامل کا راستہ اختیار کر کے قومی سیاست میں اپنی ایک جگہ بنا لی جس کے ذریعے سے اسے اپنے مذہبی اہداف کی طرف بھی پیش رفت کرنے میں سہولت رہی۔

مذہبی سیاست کے جتنے اہداف قابل حصول تھے، وہ کم وبیش سب حاصل ہو چکے ہیں۔ ملک کی نظریاتی شناخت طے ہو گئی ہے، آئین میں اسلامی دفعات شامل ہیں، اہم دائروں میں قانون سازی ہو چکی ہے، اہم آئینی وعدالتی فورم وجود میں آ چکے ہیں جو کسی بھی ایشو پر مذہبی موقف کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا مزید ہدف جو عملاً قابل حصول ہو، منظر پر موجود نہیں۔ نتیجتاً‌ مذہبی سیاست کی سرگرمی میں پیش قدمی کا عنصر مفقود ہے اور وہ مختلف ایشوز کے حوالے سے اپنی کامیابیوں کے تحفظ اور مخالف بیانیوں کی مزاحمت تک محدود ہو چکی ہے۔ یہ مزاحمت چونکہ مذہبی سیاست پر منحصر نہیں اور معاشرے میں اس کے اور بھی پلیٹ فارم موجود ہیں، اس لیے عوامی پرسیپشن میں بھی مذہبی سیاست کے بیانیے میں زیادہ اپیل نہیں رہی۔

اس صورت حال کا اثر قومی سیاست کے رویوں اور حرکیات پر پڑنا بھی ناگزیر ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے سیاسی عمل مذہبی ایشوز کی گرفت سے نکل کر خالص سیاسی ایشوز پر یکسو ہوتا جا رہا ہے، مذہبی سیاسی قوتوں کی اہمیت فطری طور پر کم اور ان کا دائرہ اثر سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی تو اپنے انداز سیاست کی وجہ سے پہلے ہی قومی سیاسی عمل سے باہر تھی۔ اب مذہبی سیاست کے لیے پیش قدمی کا کوئی قابل عمل ایجنڈا موجود نہ ہونے کی وجہ سے جمعیت علماء کو بھی اسی قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔

مذہبی سیاست کو درپیش عمومی چیلنج کے ساتھ جمعیت علماء کے اپنے خاص چیلنجز بھی سامنے ہونے چاہییں۔ ان چیلنجز کا تعلق دیوبندی حلقے کی داخلی تقسیم، حریف سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔

قیام پاکستان کے بعد دیوبندی جماعت کو دینی فکر اور سیاست کے میدان میں بنیادی چیلنج جماعت اسلامی کی طرف سے درپیش تھا۔ سیاسی میدان میں جماعت اسلامی نے خود اپنے نظریے اور حکمت عملی کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا نہیں کیے اور مذہبی قوتوں کی قیادت اصلاً‌ جمعیت علماء ہی کے پاس رہی۔ دینی فکر کے میدان میں مولانا کے نتائج فکر پر روایتی مذہبی حلقوں نے بھرپور تنقید کی جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو مولانا کی دینی فکر سے ایک فاصلہ پیدا کرنا پڑا۔ یوں دونوں میدانوں میں دیوبندی حلقہ فاتح رہا۔ جماعت اسلامی اب روایتی دینی حلقوں کے طے کردہ حدود میں دینی خدمات اور اس کے باہر سماجی خدمات انجام دے کر ثواب دارین حاصل کرتی ہے۔

داخلی تقسیم کے پہلو سے جمعیت علماء کو تدریجاً‌ اپنی مرکزیت کھونا پڑی ہے۔ مختلف مذہبی ایشوز مثلاً‌ ختم نبوت اور دفاع صحابہ وغیرہ تقسیم ہو کر دوسری جماعتوں کے پاس چلے گئے ہیں اور جمعیت کا کردار ایسے مسائل میں ثانوی ہے۔ دینی مدارس کی تنظیم وفاق کے پلیٹ فارم سے ہوئی جس میں بنیادی کردار جمعیت کا ہی تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہاں بھی دوسرے حلقہ ہائے فکر غالب آتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ قبل نئے تعلیمی بورڈز کے قیام سے یہ مرکزیت اور بھی کمزور ہوئی ہے۔ اب جمعیت کو ایک اور طاقتور نظریاتی حریف کا سامنا ٹی ٹی پی کی صورت میں ہے جو اپنا نظریاتی اور سیاسی اثر دیوبندی طبقے میں وسیع کرنا چاہتی ہے۔ یہ چیلنج صرف نظریاتی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین اور خطرناک بھی ہے۔

یہ ساری تقسیم داخلی عوامل سے بھی ہوئی ہے اور یقیناً‌ اس میں اسٹیبلشمنٹ کی بھی منشا اور رضامندی شامل ہے۔ مقتدرہ کو فطری طور پر کسی ایک منظم سیاسی قوت کے ساتھ معاملہ کرنے کے مقابلے میں تقسیم شدہ اور محدود قوت رکھنے والے سیاسی عناصر سے معاملہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ جمعیت کا عمومی سیاسی رجحان اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے، یعنی اس میں خود اپنی سیاسی بقا کا تحفظ بنیادی محرک ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت کی قیادت بجا طور پر سمجھتی ہے کہ مقتدرہ یا عالمی قوتوں کے پیش نظر جس نئے سیاسی منظرنامے کی تشکیل ہے، اس میں جمعیت کی بطور ایک سیاسی قوت کے زیادہ جگہ نہیں ہے۔ یہ سیاسی چیلنجز میں سے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔

سیاسی قوتوں میں سے زیادہ بڑا چیلنج بدیہی طور پر پی ٹی آئی نے پیدا کیا ہے اور عین اس صوبے میں کیا ہے جو جمعیت کی سیاسی سپورٹ کی آماجگاہ ہے۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون کی حالیہ پیش رفت کی اہمیت بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے چیلنج کا سامنا کرنے کے حوالے سے ہے۔ ابھی یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ ایک حریف سیاسی قوت کے ساتھ جمعیت کے دیرپا تعلقات کیا نوعیت اختیار کر سکتے ہیں۔

مولانا مفتی محمودؒ

مجیب الرحمٰن شامی

پیشانی کشادہ، مطلعِ انوار، آنکھیں روشن، زندہ وبیدار،

ابھرتے ہوئے مسکراتے رخسار، گندمی رنگ میں سرخی کے آثار،

سر کے بال پٹے دار، ڈاڑھی پھیلی ہوئی باوقار،

سیاہی پر سپیدی ژالہ بار، شانے چوڑے اور مضبوط مردانہ وار،

ناک ستواں، قد میانہ، جسم گھنا، ایک شجرِ سایہ دار، پر ُسکون جیسے دامنِ کوہسار،

لباس سے سادگی آشکار، کندھوں پر مستقل رومال کہ جسدِ خاکی کا حاشیہ بردار،

دمِ گفتگو، دلیل کی گفتار، دمِ جستجو، فرض کی پکار،

آرام سے ہر لحظہ انکار، مطمحِ نظر اسلامی اقدار،

عوامی حقوق کا پاسدار، ان کی حفاظت کے لیے ہر دم چوکس و تیار،

وزیر اعلیٰ، مگر چٹائی سے سروکار، تکلفات سے بیزار،

بوریے پر دربار، عجیب صاحبِ اختیار، غلامِ احمدِؐ مختار،

اس کی نگاہ میں ہیچ دولت کے انبار، اس کی نگاہ میں ایک مفلس و زردار،

تنہا بھی لشکرِ جرّار، کثرتیں اس کے سامنے نگوں سار، استقامت کا کوہسار، نعرۂ حیدرِ کرارؓ،

فرقہ بندی کے خلاف کھلی تلوار، اتحاد کا علمبردار، تحریکِ نظامِ مصطفٰیؐ کا سالار،

قوم کا بے تاج تاجدار، نویدِ قافلۂ بہار، میدانِ سیاست کا شہسوار،

اہلِ دیں کے لیے سرمایۂ افتخار، اہلِ دل کے لیے وجہِ قرار،

دیوبند کے گلے کا ہار، پاکستان پر سو جان سے نثار، افغانستان پر اشک بار، جہاد کی للکار،

اس سے لرزہ بر اندام اشتراکی و سرمایہ دار، ہر جنسِ بازار،

وہ ایک کلمۂ پائیدار، باوقار، با کردار، عابدِ شبِ زندہ دار،

روایاتِ اسلاف کا نگہ دار، رحمتِ پروردگار۔۔

(ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور ۔ فروری ۱۹۸۱ء)


قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہامات

قاضی ظفیر احمد عباسی

مورخہ ۱۲ جولائی ۲۰۲۳ء کو اوصاف اخبار میں مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون عنوان بالا کے تحت نظر سے گزرا جس میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی کی قادیانی گروہ سے متعلق تجویز کو آگے بڑھایا جس میں مفتی رویس صاحب نے قادیانیوں کی حالیہ سرگرمیوں کے بارے میں پائے جانے والے ابہامات کی وجہ سے دستوری تقاضوں اور بعض عدالتی فیصلوں میں ظاہری تضاد قرار دیا، اور ایک بیان میں تجویز دی کہ اس ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے دستوری اور قانونی طور پر قادیانی گروہ کو ایک مستقل امت کے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ یہ بات موجودہ حالات میں گہرے غور و خوض کے متقاضی ہے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ متذکرہ بالا تجویز راقم نے مولانا زاہد الراشدی صاحب کے الفاظ میں درج کر دی ہے جس پر انہوں نے تبصرہ کیا ہے اور چند سال پہلے بادشاہی مسجد لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیرِ اہتمام عظیم الشان کانفرنس میں اس نوع کی تجویز خود پیش کرنے کا ذکر کیا ہے۔

مولانا زاہد الراشدی صاحب اس فتنے کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں وہ اس محاذ پر پیش پیش رہے ہیں اور انہوں نے تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کی ہیں۔ مولانا کا اس تجویز پر دینی حلقوں کو نوائے محراب سے متوجہ کرنا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوائے وقت ہے، تمام مکاتبِ فکر کے ذمہ داروں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ جب تک امتِ مسلمہ قادیانی فتنہ کو دیگر تمام غیر مسلموں سے مختلف گروہ سمجھ نہ پائے گی اس وقت تک دستوری و قانونی ابہامات کی دلدل سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ اس کے لیے وسیع پیمانے پر مہم و ازسرِنو دینی بیداری کی ضرورت ہے۔

ہمیں مغرب اور دیگر طاغوتی قوتوں سے کیا شکوہ، خود دنیائے اسلام میں اکثریت مسلمانوں کی ایسی ہے جو اس فتنے سے آگاہ نہیں ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ قادیانی غیر مسلم ہیں جس طرح دیگر غیر مسلم ہیں ان کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی وہ دھوکہ ہے جس نے قادیانیوں کی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، اور یہ گروہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے دیمک کا کام کر رہا ہے۔ قادیانی گروہ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر اب یہ بات فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے کہ قادیانی گروہ کو ملک و دستور کا باغی قرار دے کر ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے جب تک یہ گروہ دستور کے مطابق اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتا۔ اور ان کی فنڈنگ پر نظر رکھتے ہوئے ان کے فنڈ منجمد کر دیے جائیں۔ مگر یہ بات قادیانی گروہ کے طاقتور ہونے کے باعث اتنی آسان بھی نہیں جب تک دنیا ان کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو جاتی۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی تنظیمیں اور تمام مکاتبِ فکر ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کی طرح متحد اور متحرک نہیں ہوتے۔ اس کے لیے اکابرین امت کو ایک مرتبہ پھر مل بیٹھنا ہو گا اور حکمتِ عملی طے کرنی ہو گی۔

اس وقت تحفظ ختم نبوت کے لیے ملک کے اندر جو جدوجہد ہو رہی ہے اس کا انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب قوم کو اتنی بات بتانے سے قادیانیت پر کوئی ضرب کارگر ثابت نہیں ہو گی کہ قادیانی کافر ہیں، کیونکہ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں اور دنیا کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ وہ بھی امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں۔ اور اسی وجہ سے بہت لوگ مرتد ہو رہے ہیں کیونکہ وہ شعارِ اسلام کے باعث قادیانیوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور پھر جب کوئی مسلمان قادیانی ہو جاتا ہے تو یہ گروہ اسے زن و زر کا لالچ دے کر مکمل طور پر جال میں پھنسا دیتے ہیں۔

اس پر مجاہدِ ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مبنی پر حقائق ہونے کے باعث قابل غور ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر بطور جنرل سیکرٹری یا صدر مجلس کئی کئی مہینے دن رات غور کیا کہ برصغیر میں انگریزوں کی حکومت ہونے کے باوجود لوگوں نے عیسائیت کو قبول نہیں کیا حالانکہ سرکاری سرپرستی میں لوگوں کو عیسائی بنانے کا مشن جاری تھا مگر انگریز کو اس میں ناکامی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ عیسائیت کو قبول کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا یا ہندو و سکھ مذہب اختیار کرنے پر مسلمان نہیں رہے گا، لیکن اگر وہ مرزائیت اختیار کر لیتا ہے تو وہ مسلمان ہی رہے گا۔ فرمایا یہی وہ دھوکہ ہے جس کی بنا پر لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ماضی میں اکابرین نے یہ مطالبہ بڑے واشگاف الفاظ میں پیش کیا کہ مرزائیوں کو مسلمانوں سے ایک علیحدہ گروہ دستوری و قانونی طور پر قرار دیا جائے تاکہ مسلمانوں کو اس سے دھوکہ نہ ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ مرزائیوں پر شعارِ اسلام کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ بے شمار شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجے میں الحمد للہ ملک پاکستان میں ۱۹۷۴ء میں مرزائی غیر مسلم اقلیت قرار پائے اور پھر ۱۹۸۴ء میں ان پر شعارِ اسلام استعمال کرنے پر پابندی بھی ہوئی، مگر عملی طور پر مرزائیوں کی سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ جس کی بڑی وجہ خود مسلمانوں کے اس فتنہ سے کماحقہ آگاہی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں اس فتنے کا جو نیٹ ورک ہے پوری امتِ مسلمہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ اور یہ ایک غیر معمولی عالمی مسئلہ ہے جس کے لیے او آئی سی پلیٹ فارم کو دو ٹوک مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ درست ہے کہ اگر ملک میں بعض تنظیموں کو مثلاً‌ سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، جماعت الدعوہ، سنی فورس وغیرہ کو کالعدم و غیر قانونی قرار دے کر ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور ان کے فنڈز منجمند کیے جا سکتے ہیں اور ان کے نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جاتا ہے، حالانکہ ان تنظیموں کا معاملہ مرزائیوں کے معاملے سے بالکل مختلف ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ قادیانیوں کو کھلی چھٹی اور ان کے ساتھ نرم رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟ جبکہ یہ گروہ خود مملکتِ پاکستان اور پوری امتِ مسلمہ کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات ارباب حل و عقد، اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ کے لیے قابل غور ہے اور اس بارے میں کنفیوژن کو دور کرنا ہو گا اور ایک متفقہ موقف اپنانا ہو گا تاکہ کسی بھی ادارے کو ابہامات کی آڑ میں راہِ فرار حاصل نہ ہو سکے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دستوری و قانونی و عدالتی فیصلوں کے منشا کے مطابق قادیانیوں کو آئین کا باغی قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے جو حقوق ہیں ان کا اطلاق ایسی صورت میں قادیانیوں پر نہیں ہوتا جب تک ہندوؤں سکھوں کی طرح یہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کر لیتے۔ لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ قادیانیوں کو امتِ مسلمہ سے علیحدہ ایک غیر مسلم گروہ قرار دیا جائے اور حکومت کو ایسی پالیسی اور اقدامات پر مجبور کیا جائے کہ جس کے باعث اس فتنے سے امتِ مسلمہ کی جان چھوٹ جائے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

قاضی ظفیر احمد عباسی

نیلہ بٹ، آزاد جموں و کشمیر

فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی

ریٹائرڈ ضلع قاضی عدلیہ آزاد کشمیر

جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگ

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

غالباً ۲۰۰۹ء کے گرما کی بات ہے، جسٹس محمود احمد غازی نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: "سید سلمان ندوی پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ کچھ احباب کو گھر عشائیے پر بلاتے ہیں۔ ذرا اچھا وقت گزر جائے گا"۔ پھر مجھے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری, پروفیسر فتح محمد ملک اور سید سلمان ندوی کو میری طرف سے عشائیے پر مدعو کریں۔ ڈاکٹر یوسف فاروقی، غزالی آپ اور میں تو ہوں گے ہی۔ یوں یہ کل 7 افراد ہو جائیں گے۔ آپ کسی اور کو بلانا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔" میں نے جسٹس امجد علی صاحب کا نام تجویز کیا۔ جسٹس صاحب کے قانونی فہم نے تو مجھے کبھی متاثر نہیں کیا تھا لیکن پلاٹوں کا جال اٹھائے جب انتظامیہ نے عدلیہ کا قلعہ فتح کرنے کا ارادہ کیا تو جسٹس صاحب نے بلا تامل دور سطری خط لکھ دیا: "میرا اپنا مکان موجود ہے۔ مجھے مزید کسی پلاٹ کی حاجت نہیں"۔ تب سے انہوں نے مجھے اپنا بندہ بے دام بنا لیا۔ ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ کی خواہش پر یہ تمام شرکا وقت مقررہ پر ان کے گھر واقع جی الیون میں تشریف لائے جہاں ساڑھے تین گھنٹے کی دلفریب نشست ہوئی۔

اس رات علم و دانش کے یہ چوٹی کے نمائندہ رتن حالات حاضرہ، علم و ادب، امت مسلمہ اور پاکستان جیسے موضوعات پر بلا تکان گفتگو کرتے رہے۔ شروع ہی میں مجھے میری قوت مشاہدہ نے ٹہوکا مار کر ڈاکٹر غزالی صاحب کی طرف متوجہ کر دیا۔ پھر میں دیگر کی طرف واجبی سا لیکن اصلا انہی کی طرف متوجہ رہا۔ اس رات ہر شخص نے کسی نہ کسی موضوع پر رائے دی, باہم اختلاف کیا, دیگر کو کسی نئے پہلو سے روشناس کرایا, دلائل کے ذریعے اسے نظر انداز کرنے کا داعیہ پیش کیا۔ لیکن صاحب ! اس رات میں نے غزالی صاحب کو سنا بھی تو کس انداز میں، ملاحظہ کیجیے ! "اچھا" ؟ "جی ہاں" ! "کیا واقعی" ؟ "ارے واہ, بھئی کیا کہنے" ! "آپ کا خیال صائب ہے، میرا کچھ کہنا تو محل نظر ہی ہوگا"۔ "جی آپ درست فرما رہے ہیں۔" حتی کہ کسی نے نظریں ملا کر براہ راست مخاطب ہو کر بھی ان کی رائے لینے کی کوشش کی تو اسے ہلکے سے قہقہے ساتھ یوں جواب ملا: "بھئی واہ! آپ کا استفسار ہے تو لائق توجہ, لیکن میں نے اس موضوع پر کبھی غور نہیں کیا۔ بھائی صاحب (غازی صاحب) سے پوچھ لیتے ہیں۔ وہ جانتے ہوں گے"۔

اپنے علم اور قوت مدرکہ کے اعتبار سے ڈاکٹر غزالی مرحوم ان شرکائے مجلس میں سے متعدد سے کہیں آگے تھے، کہیں بہتر تھے۔ لیکن مجلسی زندگی کا خوب ادراک رکھنے والے جسٹس غزالی مرحوم کے نزدیک اظہار رائے سے کہیں زیادہ اہم یہ ہوا کرتا تھا کہ بڑوں کے سامنے لب کشائی نہ کی جائے۔ مذکورہ مجلس کے تمام شرکا غزالی صاحب سے عمر میں بڑے تھے۔ جسٹس صاحب کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں سے احباب واقف ہوں گے۔ استغنا، خودداری، دبنگ انداز گفتگو، صاحبان اختیار سے کوسوں دوری، علم و دانش کی رفعتوں سے معموری، حسن بیان، تلفظ کی باریکیوں پر نظر، لب و لہجے پر قدرت، الفاظ پر گرفت، یہ سب خصائص اپنی جگہ لیکن ان کا یہ پہلو بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ مجلس میں وہ بڑے بھائی کے سامنے خاموشی کو ردائے حکمت و دانش بنا کر اس کے پیچھے جا چھپتے کہ اسی میں عافیت ہے۔

ان کی ہفت رنگ شخصیت کا ایک وہ پہلو ہے جس کا مشاہدہ شاید میں ہی کر سکا ہوں۔ میرا گمان ہے کہ جس رنگ کا میں اب ذکر کرنے جا رہا ہوں، وہ شاید ہی کسی اور کے علم میں ہوگا۔ اور وہ ہے ان کی غیر معمولی اور بے پناہ ذہانت۔ کئی احباب یہ جملہ پڑھ کر مسکرا دیں گے لیکن کتنی غیر معمولی ذہانت؟ یہ میں ہی آپ کو بتا سکتا ہوں۔ ان کا دماغ، یوں سمجھ لیجئے، کمپیوٹرائزڈ دماغ تھا جس کی کوئی اور مثال میرے پاس نہیں ہے۔ یونیورسٹی ہال میں شیخ الازہر کی فی البدیہہ تقریر جاری تھی۔ ڈاکٹر غزالی بغیر نوٹس لیے ترجمہ کیے جا رہے تھے۔ کیا کیا بتاؤں, شیخ الازہر بے تکان بولے جا رہے تھے اور مجال ہے، غزالی صاحب نے ترجمہ کرتے وقت کسی شوشے کامے کو بھی نظر انداز کیا ہو۔ شیخ الازہر نے دو مواقع پر ۱۰ - ۱۲ اکابر کے نام پورے آداب و القاب کے ساتھ لیے لیکن مجال ہے کہ ترجمہ کرتے وقت ڈاکٹر غزالی نے کوئی نام آگے پیچھے کیا ہو یا کسی کا کوئی لقب, کنیت, عہدہ یا کوئی معمولی سا جزو ادا ہونے سے رہ گیا ہو۔ جس ترتیب سے شیخ الازہر نے نام ادا کیے، کسی معمولی فرق کے بغیر غزالی صاحب نے اسی ترتیب سے سب نام جوں کے توں دہرا دیے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ریاضی کے منضبط فارمولے پر کوئی مشین بول رہی ہے ایک حرف کم نہ آدھا بیش۔

کم و بیش ساڑھے ۴ عشروں پر محیط ہمارے تعلقات ہمیشہ بصورت دھوپ چھاؤں رہے، تعلقات جن میں گاہے کبیدگی آ جاتی اور کبھی تعطل کا شکار ہو جاتے۔ شکر رنجی تو ہماری سلام دعا کا ہمیشہ جزو لاینفک رہی۔ پچھلے سال ڈاکٹر شافعی پر میری ایک تحریر انہیں کیا پسند آئی کہ پڑھتے ہی فون کیا اور ۲ گھنٹے ۴۸ منٹ تک انہوں نے میری معلومات میں وہ وہ اضافے کیے کہ اللہ دے اور بندہ لیتا جائے۔ آخر میں پوچھا: "میری یہ گفتگو ریکارڈ کر رہے ہیں نا آپ"؟ میں نے کہیں کہہ دیا: "جناب اجازت کے بغیر میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں"؟ فوراً خفا ہو گئے اور یہ کہہ کر فون جھٹکے سے بند کر دیا: "تو گویا میں ایسے ہی بولتا رہا، آپ اتنی باتیں یاد رکھنے والے کہاں"؟ اور مجھے ٹھنڈی چھاؤں سے نکل کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا ہونا پڑا۔ بس یہی ہمارے تعلقات کی دھوپ چھاؤں ہوا کرتی تھی۔ لیکن چند دن بعد مجھے برستے بادل کا سایہ پھر مل گیا۔ ۶ نومبر ۲۰۲۲ء کو ان کا واٹس ایپ ان کے اپنے مخصوص انداز میں یوں تھا: "۔۔۔۔چلیں یوں کریں جب فرصت ملے آ جائیے۔ کل مجھے اے ایف آئی سی میں اینجیو گرافی کے لیے داخل ہونا ہے۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ کچھ دیر قیام و طعام ہوگا۔ پھر کلام ہوگا۔ ہلکا پھلکا ملام بھی رہے گا۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھونسلوں میں منام ہوگا"۔

موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں بغیر اجازت لیے فورا انہیں فون کر گزرا اور ذرا زور دے کر کہا: "میں اے ایف آئی سی میں رات کو آپ کے ساتھ قیام کروں گا"۔ خیال تھا کہ یوں خوب باتیں کرنے کا موقع ملے گا, مان گئے۔ لیکن اگلے دن تحریک انصاف کے مظاہروں کے باعث راستے بند ہو گئے، مجھ سے راستوں کا احوال پوچھتے رہے۔ پھر واٹس ایپ یوں ملا: "اب چونکہ صورت حال ایمرجنسی کی ہے۔ اس لیے کل کا پروگرام منسوخ"۔ لیکن اپنی صحت کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی سوئی وہیں شافعی صاحب پر جوں کی توں اٹکی ہوئی تھی۔ ۱۲ نومبر کو ان کا واٹس ایپ اپنے متعلق یا اپنی خیر خیریت پر نہیں، یوں تھا: "شافعی صاحب پر اگلا مضمون کب آئے گا؟"

زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟

’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘

مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

حماس کے مکتب کی جانب سے ’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے بک لیٹ شایع کی گئی جس میں طوفان اقصی کے اسباب، صہیونی ریاست کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کے جوابات، اور حماس کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اردو قارئین کے لیے اس اہم دستاویز کا ترجمہ کیا گیا ہے:

اے ہماری بہادر فلسطینی قوم کے مجاہدو! عالم عرب و اسلام کے باسیو! دنیا کے باضمیر لوگو! جنہوں نے ہر جگہ حق کی نصرت اور ظالم کے چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے، حریت، عدل اور انسانی شرافت کے علم کو بلند کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ غزہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پر اسرائیل کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، اس کے مقابلے میں اہلِ غزہ اسرائیل کے ظلم و جور سے آزادی حاصل کرنے کے لیے، اپنے دشمن کے سامنے جرات و بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ ہم نے اس مضمون میں اپنے عوام، امتِ مسلمہ، اور دنیا کے باضمیر لوگوں کو ’’طوفانِ اقصیٰ‘‘ کے اسباب، مسئلہ فلسطین کی حقیقت، صہیونیوں کی جانب سے اٹھائے جانے بے بنیاد اعتراضات کی حقیقت کو واضح کیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ حماس کی حقیقت اور اس معرکہ کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔

اول:  طوفانِ  اقصیٰ کے اسباب

❶ استعمار اور قابض اسرائیل کے ساتھ اہلِ فلسطین کی جنگ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے شروع نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس جنگ کو ۱۰۵ سال بیت چکے ہیں۔ ۳۰ سال برطانوی سامراج نے قبضہ جمائے رکھا، اور ۷۵ سالوں سے اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۱۸ء میں اہلِ فلسطین ۹۸.۵% زمین کے مالک تھے، جبکہ ۹۲% فلسطینی وہاں آباد تھے۔

اس کے بعد ۱۹۴۸ء سے قبل ایک مہم کے تحت برطانوی سامراج نے یہودیوں کو بسانے کے لیے فلسطین کے دروازے کھول دیے، اور صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے ماحول سازگار کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو ظلم و ستم سے دبانا شروع کیا، اور جبراً ۶% فیصد زمین پر قبضہ کر لیا جس پر ۳۱.۷% یہودی آباد ہوئے۔ اس طریقے سے انہوں نے فلسطینی عوام کو حقِ خود ارادیت سے محروم کر دیا۔

اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے صہیونیوں نے ۵۰۰ بستیوں کو تہس نہس کر کے ۷۷% زمین پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں ۵۷% فیصد فلسطینی ہجرت کرنے مجبور ہوئے۔ اس ناجائز طریقے سے ۱۹۴۸ء میں صہیونی ریاست کو قائم کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔

۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے فلسطین کی باقی زمین ہتھیانا شروع کر دی، جس کے لیے اس کے فوجیوں نے عرب کے دیگر علاقوں کے علاوہ فلسطین کے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مسجد اقصیٰ پر ظلم و ستم پہاڑ توڑ دیے۔

➋  اہلِ غزہ طویل عرصہ سے کس مپرسی اور سخت ظلم و ستم کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مختلف پالیسیوں کے ذریعے ان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ۱۷ سال سے غزہ کا محاصرہ کر کے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس دوران ہم پانچ جنگوں سے گزر چکے ہیں، جس میں اسرائیل پہل کرتا رہا ہے۔ دشمن کے ظلم و ستم کا اندازہ اس امر سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ جب اہلِ غزہ نے ۲۰۱۸ء میں ’’مسیرات العودہ‘‘ (ہمیں اپنے علاقوں کی طرف واپس جانے دیا جائے) کے نام سے پرامن احتجاج و مظاہروں کا آغاز کیا تو اسرائیلی درندوں نے ان پرامن مظاہرین پر حملہ کرتے ہوئے ۳۶۰ فلسطینوں کو شہید کیا، جبکہ ۱۹ ہزار سے زائد لوگوں کو زخمی کر دیا، جس میں ۵ ہزار بچے بھی شامل تھے۔

➌ اعداد و شماریاتی ادارے کے مطابق سن ۲۰۰۰ء سے لے کر ستمبر ۲۰۲۳ء (۷ اکتوبر سے قبل) صہیونیوں نے  ۱۱۲۹۹ فلسطینی قتل کیے ہیں، جبکہ ۱۵۶۷۶۸ زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں امریکہ اور اس کے اتحادی مظلوم فلسطینوں کی مدد و نصرت (اور اس ظلم کو روکنے کے بجائے) صہیونیوں کی درندگی پر پردہ ڈالتے رہے، اور جب (مجاہدین نے) ۷ اکتوبر کو معرکہ طوفانِ اقصیٰ شروع کیا تو انہوں نے اسرائیلیوں کی ہلاکت پر چیخنا شروع کر دیا اور حماس کے خلاف اور اہلِ غزہ خون کی ندیاں بہانے کے لیے مالی اور جنگی سازوسان سے معاونت سلسلہ تاحال جاری ہے۔

➍ اسرائیل کی جانب سے فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ پر کی جانے والی ہولناکیوں اور مقدس مقامات کی پامالیوں کو اقوام متحدہ کی تنظیموں، تحقیقاتی کمیٹیوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں (ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ) نے دستاویزات کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ جس میں فلسطینی تنظیموں کے علاوہ اسرائیلی تنظیمیں بھی شامل ہیں، جن کو پورا عالم صلاحیت اور دیانتداری کے عنوان سے پہچانتا ہے۔ ان دستاویزات کو مرتب کرنے کے بعد اہلِ فلسطین پر جاری ظلم و ستم پر کسی نے آواز بلند نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ اسرائیلی نمائندے جعل اردان نے ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱ کو اقوام متحدہ کے اسٹیج پر اقوام متحدہ کی تیار کردہ انسانی حقوق کی رپورٹ کو چاق کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اس چارٹر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کیا گیا اسی کو اگلے سال کے لیے اقوام متحدہ کا نائب صدر مقرر کر دیا گیا۔

➎ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اہلِ فلسطین پر زندگی تنگ کرتے ہوئے مقدس مقامات کی توہین اور ان کی زمین کو یہودی رنگ دینے کے لیے اسرائیل کے قیام ہی سے اس کے ممد و معاون بنے ہوئے ہیں۔ اہلِ فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ کی جانب سے ۷۰۰ سے زائد قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں۔ لیکن اسرائیل کسی ایک قرارداد کو بھی خاطر میں نہیں لایا، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اس کی اس ضد اور ہٹ دھرمی، اہلِ فلسطین پر اس کے ظلم و ستم میں برابر کے شریک ہیں۔

➏ اہلِ غزہ پر ظلم و ستم کرتے ہوئے مغربی کنارے پر کثرت سے یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ۳۰ سال کے بعد اوسلو معاہدے کی راہ ہموار کرنے والوں کو معلوم ہوا کہ تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، اور یہ فلسطین کے لیے تباہی کا سبب بن رہا ہے۔

➐ اسرائیلی حکام اس بات پر مصر ہیں کہ اہلِ فلسطین اپنی ریاست قائم نہیں کر سکتے، یہی وجہ ہے کہ طوفانِ اقصیٰ سے قبل ستمبر ۲۰۲۳ء میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ فلسطین کے تاریخی نقشہ کو اسرائیل کا نقشہ بنا کر پیش کیا، جس میں غزہ اور فلسطین کا مغربی کنارہ بھی شامل تھا۔ اسرائیل کی جانب سے کی جانب والی سنگین بددیانتی، گھمنڈ اور اہلِ فلسطین کی خودارادیت کے سلب کیے جانے پر پورا عالم خاموش رہا۔

اوپر بیان کردہ صورتحال ۷۵ سال سے مسلسل قبضے اور مصائب، آزادی اور گھروں کو واپسی کی تمام امیدوں کے ٹوٹ جانے، اور پرامن تصفیے کے تمام امکانات ملیامیٹ ہو جانے کے بعد ساری دنیا فلسطینی قوم سے مندرجہ ذیل ظلم و ستم کے خلاف کن اقدامات کی امید رکھتی ہے:

✦  فلسطینی اس حالت میں کیا کریں کہ جب مسجد اقصیٰ کی زمانی و مکانی تقسیم کی دھمکی آمیز منصوبے بنائے جا رہے ہوں، اور مسجد اقصیٰ میں قابض اسرائیلی آبادکاروں کی دراندازیاں اور اشتعال انگیزیاں بڑھتی جا رہی ہوں۔

✦ فلسطینی اس حالت میں کیا کریں جب دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی مغربی کنارے کو کنٹرول کرنے اور اسے اپنے ساتھ ضم کرنے کا پورا منصوبہ رکھتے ہوں، اور مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات پر کنٹرول کا منصوبہ بنائے ہوئے ہوں، اور مغربی کنارے سے پوری فلسطینی قوم کو بے دخل کرنے اور ہجرت پر مجبور کرنے کا منصوبہ رکھتے ہوں۔

✦  فلسطینی اس حالت میں کیا کریں کہ جب اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی قیدی جو اسرائیلی فاشسٹ وزیر Itamar Ben-Gvir کی براہ راست نگرانی میں اپنے بنیادی حقوق سے محرومی کے ساتھ ساتھ حملوں اور تذلیل کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔

✦  غزہ کی پٹی پر ۱۷ سالوں میں مسلط کردہ غیر منصفانہ فضائی، سمندری اور زمینی ناکہ بندی کے خلاف وہ کیا کریں کہ جب وہ ناکہ بندی انہیں آہستہ آہستہ موت کی طرف لے جا رہی ہو۔

✦  وہ کیا کریں جب مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو ایسی غیر معمولی توسیع دی جا رہی ہو جس کی ماضی میں کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ اسی طرح وہاں فلسطینیوں اور ان کی املاک کے خلاف قابض آباد کاروں کی طرف سے تشدد اور جرائم اس قدر بڑھ گئے ہوں کہ ماضی میں ان کی مثال نہ ملتی ہو۔

✦  وہ کیا کریں کہ جب ۷۰ لاکھ فلسطینی ۷۵ سال بعد بھی اپنے گھروں کی واپسی سے مایوس ہوچکے ہوں اور انہیں ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا گیا ہو۔

✦  وہ کیا کریں جب ان سارے جرائم کے سامنے دنیا عاجز ہو چکی ہو، اور بعض بڑی طاقتیں فلسطین کے قیام کے راستے میں رکاوٹ ہوں، اور یہ دنیا کی واحد قوم ہو جو قابض طاقت کے تحت زندگی گزار رہی ہو۔

کیا اس (دردناک) صورتحال پر ۷۵ سال گزرنے کے باوجود ہماری عوام سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہے گا کہ ہم عدل و انصاف کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے بے بس اداروں پر بھروسہ کرتے رہیں؟ جبکہ آسمانی شریعتوں،  انسانوں کے عرف اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہمیں حق حاصل ہے کہ اپنی خودمختاری، مقدس مقامات کی حفاظت، اور کے دفاع کے لیے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔ اسی بنیاد پر ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو طوفانِ اقصیٰ کا آغاز کیا گیا، کیوں کہ فطری و ضروری اقدام صرف یہی بچا تھا۔ جس کے ذریعے فلسطینی قضیے کو ختم کرنے کے اسرائیلی منصوبوں اور سرزمین فلسطین پر قبضے اور اسے یہودیانے، مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات کو کنٹرول کرنے، غزہ کی پٹی سے ظالمانہ حصار کو ختم کرنے، قابض قوت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیا جا سکے۔  اور صرف یہی اقدام تھا جس کے ذریعے یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ اہلِ فلسطین اپنے وطن کے حقوق کی واپسی، اہلِ فلسطین کا دیگر آزاد اقوام کی طرح آزادی و حریت کے ساتھ رہنے، حقِ خود ارادیت کے حصول اور فلسطینی ریاست، جس کا دارالخلافہ قدس ہو، قائم کر سکیں۔

دوم: ۷ / اکتوبر کے واقعات اور صہیونیت کے الزامات

اکتوبر ۲۰۲۳ء سے متعلق اسرائیل کی جانب سے جھوٹے پروپیگنڈے اور ان کی طوفانِ اقصیٰ سے متعلق غیر مصدقہ معلومات کے حوالے سے حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (حماس) کی جانب سے ذیل میں چند امور کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ طوفانِ  اقصی (۷ اکتوبر) کو صرف اسرائیل کے عسکری مقامات کو نشانہ بنایا، اور اسرائیل کی قید میں موجود ہزاروں فلسطینیوں کے تبادلے کے پیش نظر دشمن کے فوجیوں اور جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔ اسی طرح اس حملے کو غزہ کے اردگرد اسرائیلی عسکری مقامات پر مرکوز رکھا، کیونکہ غزہ پر بمباری انہی مراکز سے کی جاتی ہے۔

➊ حماس اسلامی فکر کی حامل تحریک ہے، اس تحریک سے وابستہ افراد کی اسلامی فکر کے مطابق ذہن سازی کی جاتی ہے، جس میں جنگ کے دوران پرامن شہریوں، بالخصوص پرامن بچوں، بزرگوں، عورتوں کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ اس وقت کتائب القسام کے مجاہدین اسی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز کے وقت اگر کسی شہری کو نقصان پہنچا بھی تو وہ غیر ارادی طور پر پہنچا ہوگا۔ اس لیے کہ اس وقت ہم بھی ظالم دشمن سے دفاع کے ساتھ ساتھ اس کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں، اس لئے کہ وہ دن رات ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو مہلک ۔۔۔

➋ صہیونی مجرم (باروخ جولدشتاین) نے خلیل شہر ’’ہیبرون‘‘ میں ابراہیم مسجد میں نمازیوں کا قتل عام کیا تو اس وقت بھی حماس اور دیگر جماعتوں نے اس امر پر زور دیا کہ لڑائی کی زد میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ لیکن قابض اسرائیل نے اس کا جواب دینا بھی گوارا نہ سمجھا، لیکن حماس شہریوں کو جانی و مالی نقصان سے بچانے کی صدا بلند کرتی رہی، لیکن صہیونی اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے اس جرم سے باز نہ آیا۔ طوفانِ اقصی کے آغاز کے وقت دونوں جانب سے فورسز کے نقل وحرکت، باڑ کی وسیع خلاف ورزیوں اور غزہ کی پٹی کو ہمارے آپریشن کے علاقوں سے الگ کے نتیجے میں شہریوں کو نقصان پہنچا ہوگا۔

➌ جن اسرائیلی شہریوں کو غزہ میں قید کیا گیا ان کے ساتھ حماس کے مجاہدین کا حسنِ سلوک دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ ان کو ہم نے جلد آزاد کرنے کی کوشش کی، جو عملاً ۷ دن کی عارضی جنگ بندی کے دوران ہو سکا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے بین الاقوامی قانون، انسانی معاشرے کے عرف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسان دشمنی پر مبنی سلوک کیا۔

➍ ۷ اکتوبر کے دن کتائب القسام کے اسرائیلی شہریوں کے نشانہ بنانے کے حوالے سے قابض اسرائیل کے بیانات صرف جھوٹ و بہتان پر مبنی ہیں، اس لیے اس امر کا دعویٰ اسرائیلی ذارئع نے کیا ہے، کسی آزاد اور مصدقہ ذرائع نے ان کی تصدیق نہیں کی۔ یہ امرِ معروف ہے کہ اکثر اسرائیلی ذرائع کے ادارے اپنی حکومت کے حقائق اور ان کی جعل سازی چھپانے کوشش کرتے ہیں، تاکہ اس کے جرائم کو صحیح ثابت کر کے حماس کا خاتمہ کیا جا سکے۔

اسرائیل کے کذب و بہتان کی حقیقت ذیل میں دی گئی اہم معلومات سے واضح ہو گی:

اس دن لیے گئے ویڈیو کلپس اور خود اسرائیلیوں کی گواہیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ القسام کے جنگجوؤں نے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اسرائیلی فوج سے الجھنے کے باعث غلط فہمی کے نتیجے میں ان میں سے کئی پولیس فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔

یہ بات پورے یقین کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ چالیس شیر خوار بچوں کے قتل کا دعویٰ جھوٹا تھا، اور اس کا اعتراف اسرائیلی ذرائع نے بھی کیا ہے۔ یہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو مغربی میڈیا میں بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے۔

یہ الزام کہ مزاحمتی جنگجوؤں نے اسرائیلی خواتین کی عصمت دری کی، جھوٹا ثابت ہوا اور حماس نے اس کی قطعی طور پر نفی کی تھی۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو ایک ویب سائٹ پر جنوری ۲۰۲۴ء کو شائع کی گئی جس میں نے عصمت دری کے تمام الزامات اور ان کی تردید کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔

اسرائیلی اخبارات روزنامہ بدیعوت احرونوت (اشاعت ۱۵ اکتوبر ۲۰۲۳ء) اور روزنامہ ہارتس (اشاعت۱۸ نومبر ۲۰۲۳ء) کی رپورٹ کے مطابق (طوفان الاقصیٰ کے دن) یہودی اپنی عید عرش کی مناسبت سے مقام رعیم کے قریب محفل لگائے ہوئے تھے، جس سے مجاہدین لاعلم تھے۔ مجاہدین جب وہاں داخل ہوئے تو اسرائیل نے اباشی نامی طیاروں سے ۳۶۴ اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا۔ اسی طرح بدیعوت احرونوت اخبار کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹر سے حملے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجاہدین کو قتل کر دیا جائے اور (محفل میں شریک یہودی) ان کے قیدی نہ بن سکیں۔

اسرائیلی اخبارات کی رپورٹس سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملوں اور جنگی کاروائیوں کے نتیجے میں غزہ کے اطرف میں اسرائیلی قیدیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ اسی طرح ان کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں اور تحریکِ حماس سے جھڑپوں کے نتیجے میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں، اور ان کے گھر مسمار کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی کا حماس کے پاس اسرائیلی قیدیوں کو قتل کرنے کے حوالے سے ’’ہانیبال‘‘ پروٹوکول کی روشنی میں اسرائیلی فوج کا واضح موقف ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کو قتل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اسی طرح قابض دشمن اپنی جارحیت کے ذریعے سے شہریوں، مجاہدین اور قیدیوں کو جانی نقصان پہنچانے پر کاربند ہے۔

ان کے مکروفریب، بہتان تراشی کی حقیقت کا اندازاہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز میں اسرائیلی حکام نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ اسرائیلی مقتولین شہریوں کی تعداد ۱۴۰۰ ہو چکی ہے۔ پھر چند ہفتوں کے بعد اس تعداد میں خفت کرتے ہوئے کہا کہ ۱۲۰۰ اسرائیلی شہریوں کو جانی نقصان پہنچا ہے، جبکہ ۲۰۰ کتائب القسام کی نعشیں تھیں۔ یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ کیا یہ قتل عام اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی کا نتیجہ نہیں ہے؟ دوم یہ کہ کیا اس خطے میں اسرائیل کے علاوہ کس کے پاس ایسی مہلک ہتھیار ہیں جو انسانوں کو جلا کر بھسم کر سکیں؟ لیکن اسرائیل کے مصدقہ ذرائع نے ان کے اس جھوٹ سے پردہ ہٹاتے ہوئے دنیا کے سامنے ان کے پروپیگنڈے کو واضح کر دیا ہے۔

قابض اسرائیل کے جرائم کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی جانب سے غزہ پر کیے جانے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں ۶۰ اسرائیلی قیدی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن کو اپنے فوجی اور (حماس) کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کی کتنی فکر ہے۔ مزید یہ ہے کہ وہ ان کی بھاری قیمت کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔

➎ دوسری جانب غزہ کے اطراف میں مسلح آباد کاروں کی بڑی تعداد موجود تھی جو قابض فوج کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگی کاروائیوں میں شریک رہے، اس دوران ان میں جو قتل ہوئے ان کو اسرائیل نے شہریوں کی لسٹ میں درج کر دیا۔

➏ یہ امر قابلِ تعجب ہے کہ (ممکن اکثر لوگ اس سے ناواقف ہوں) کہ جس اسرائیلی شہری کی عمر ۱۸ سال سے زیادہ ہے، ریاست کی جانب سے اس کے لیے ضروری ہے کہ فوجی کاروائیوں میں حصہ لے، جس میں مرد کے لیے ۳۲ ماہ اور عورت کے لیے ۲۴ ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے، جس میں وہ جنگی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس قانون کی روشنی میں اسرائیلی نظریۂ امن کے اعتبار سے وہ تمام ہی جنگی سپاہی ہیں نہ کہ عام شہری، اور وہ ’’مسلح قوم‘‘ کا تصور ہے۔ یہی تصور اسرائیلی مملکت کے وجود کو ’’مملکت برائے فوج‘‘ بناتا ہے نہ کہ ’’فوج برائے مملکت‘‘۔

➐ صیہونیوں نے اب تک بڑی تعداد میں بچوں، خواتین کو شہید کر کے اہلِ فلسطین کو ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔

➑ الجزیرہ کی شایع کردہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے اوسطاً ۱۳۶ بچے یومیہ شہید ہوئے ہیں، جبکہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ کے دوران (جس کو دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے) اوسطاً ایک بچہ قتل ہوا ہے۔

➒ صہیونیوں کے تشدد کا دفاع کرنے والے اس جنگ میں ہونے والے بڑے نقصانات اور واقعات کا غیر جانبدارانہ مطالعہ نہیں کرتے، بلکہ وہ ان کے قتلِ عام کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف حماس کے خلاف ہر جھوٹے دعوے کے معاون بنے ہوئے ہیں۔

➓ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں جب منصفانہ اور آزادانہ تحقیق کی جائے گی تو ہمارا بیانیہ سچ ثابت ہوگا، جبکہ قابض اسرائیل کے من گھڑت الزامات کی تردید ہو گی۔ جس طرح غزہ پر جارحیت کے دوران اس کی جانب سے دیئے گئے اعدادوشمار جھوٹ اور فریب پر مبنی تھے، اسی طرح اس کی جانب سے حماس کی قیادت پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے الشفاء ہسپتال کو ہیڈکوارٹر بنایا ہوا ہے، جہاں عسکری آپریشن کے دفتر کے علاوہ قیدیوں کو رکھنے کا ٹھکانہ ہے (جس کی بنیاد پر اس نے اس پر بمباری کی)۔  اس الزام کے بعد جو کچھ حاصل ہوا وہ اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ قابض اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس بات پر شرح صدر ہے کہ جب غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیق کی جائے گی تو اس سے فلسطینی (حماس) بیانیہ کی تصدیق ہو جائے گی۔

سوم: بین الاقوامی طور پر غیر جانبدرانہ کی تحقیق

➊ فلسطین نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شمولیت کرتے ہوئے روم کے قانون پر دستخط کیے۔ اور جب فلسطین نے اپنی زمین پر ہونے والے جرائم کی تحقیق کا مطالبہ کیا تو اسے جرائم کو مسترد نہ کرنے کی صورت اسرائیل کی دھمکیوں اور اس کی جانب سزا کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ قابض حکام نے اہلِ فلسطین پر جارحیت کا سلسلہ مزید بڑھا دیا۔

➋ ہم امریکہ، جرمنی، برطانیہ، اور کینیڈا کو اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو وہ فلسطین پر کی جانے والی اسرائیلی جارحیت کے جرائم کی تحقیق میں معاونت کا اعلان کریں ۔ اور اس کی کاروائی کو مؤثر بنانے میں عملاً معاون بنیں۔

➌ مندرجہ بالا کی روشنی میں، اور ہمارے پاس موجود شکوک و شبہات اور عدمِ اعتماد کے باوجود جن وجوہات کی ہم نے وضاحت کی ہے، ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت، خاص طور پر پراسیکیوٹر، اس کی تفتیشی ٹیم اور اقوام متحدہ کی متعلقہ تحقیقاتی کمیٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اور فوری طور پر عدالت میں پیش ہوں، مقبوضہ فلسطین، جرائم کی تحقیقات کے لیے۔ اور تمام خلاف ورزیوں، اور دور دراز سے نگرانی اور غزہ کی پٹی کے کھنڈرات پر کھڑے ہونے، یا اسرائیلی پابندیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے مطمئن نہیں۔

➍ ہمارے عوام نے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے مطالبہ کیا کہ وہ قانونی دائرہ اختیار میں قابض اسرائیل کی جارحیت کے تسلسل کو رکوانے کے حوالے سے بین الاقوامی ذمہ دار اداروں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ فیصلہ صادر کرے، تو قابض اسرائیل کے سہولت کار ممالک نے اس جنگ کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اسی طرح اس سے قبل جب ہم یورپی ممالک میں مقامی عدالتوں میں، جن کو عالمی عدالتی ادارہ کی حیثیت حاصل ہے، قابض رہنماؤں کے جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ درج کیا تو ہم پر ہر طرف سے دروازے بند کر دیے گئے۔

➎ سات اکتوبر کے واقعہ کو استعمار اور غیر ملکیوں کے قبضہ، عصرِ حاضر میں نسل پرستی پر مبنی نظریہ سے نجات کے لیے آزادی کی تحریک کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ تمام حقائق (گزشتہ صفحات) سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قابض اسرائیل نے طاقت کے بل بوتے پر اہل فلسطین پر ظلم ڈھایا، جس کے نتیجے میں مظلوم فلسطینی عوام نے بھرپور قوت کے ساتھ قابض کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ اور یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ قابض کی جانب سے کیا جانے والا مسلسل ظلم و ستم عالمی استحکام و سلامتی کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے ۔

➏ فلسطینی عوام اور پورے دنیا کے لوگ یہاں تک کہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ممالک بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسرائیل کے بیانات کذب، دھوکہ دہی پر مبنی ہیں۔ لیکن اس کی ممد و معاون ممالک اس کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں تاکہ اس سے اتحاد و اتفاق برقرار رہے۔ اسی طرح پورا عالم اس امر سے واقف ہے کہ اس خونریزی کا اصل سبب قابض اسرائیل ہی ہے، جبکہ اہلِ فلسطین اپنی سر زمین پر آزادی سے سے زندگی بسر کرنے کے لیے اور اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت اہلِ فلسطین کے اس جائز حق میں یہ ممد و معاون بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

➐ ہم دنیا کے تمام ممالک کے باضمیر لوگوں کو سلام پیش کرتے ہیں، جن کا تعلق مختلف مذاہب، قومیتوں اور رجحانات سے ہے کہ انہوں نے قابض اسرائیل کے جرائم، وحشیانہ قتل کے خلاف اور اہلِ فلسطین کی آزادی اور ان کے حقوق کے لیے دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں احتجاج کے لیے نکلے، جس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ مسئلہ فلسطین بالجبر قبضے، نسل پرستی کی پالیسی، اور اجتماعی نسل کشی سے نجات حاصل کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور انسانی وقار سے زندگی گزارنے کا مسئلہ ہے۔

چہارم: حماس کی حقیقت

➊ حماس کی تحریک اسلامی فکر اور اعتدال پر مبنی ہے، اور یہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے جو حق، انصاف اور آزادی پر یقین رکھتی ہے جبکہ ظلم اور تشدد کی حرمت کی حامل ہے۔ اسی طرح یہ تحریک مذہبی آزادی، کثیر الثقافتی معاشرے پر یقین رکھتی ہے، اور ہر اس امر کے خلاف جو مذہبی آزادی اور کسی بھی انسان پر ظلم و جبر کر کے اور اس کے بنیادی قومی، دینی اور گروہی حق سے محروم کرے۔

➋ حماس صہیونی منصوبے کے خلاف اس لیے ہے کہ وہ ہماری عوام، زمین اور مقدس مقامات پر قابض ہے، نہ کہ اس بنیاد پر ہم ان کے مخالف ہیں کہ یہودیت ان کا مذہب ہے۔ اس کے برخلاف اسرائیل اپنے دینی دعوے کی بنیاد پر یہودی پس منظر رکھتے ہوئے فلسطینی عوام پر ظلم ڈھاتے ہوئے ان کو ان کے حقوق سے محروم کیے ہوئے ہے۔ نیز مذہبی بنیاد پر ان کی زمین اور مقدس مقامات کو یہودی بنانے کے درپے ہیں۔ اسرائیل دنیا میں واحد ملک ہے جس کی اساس اپنے دین پر ہے، ان کو پورے عالم میں شہریت دی جا سکتی ہے، جبکہ وہ خود اہلِ فلسطین کو ان کی سرزمین سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔

➌ اہل فلسطین ہمیشہ سے ہی شہریوں کے خلاف ظلم و جبر، قتلِ عام و ناانصافی کے خلاف رہے ہیں، چاہے اس کا ارتکاب کرنے والے کوئی بھی ہو، اگرچہ مظلوم کوئی بھی ہو۔ ہمارے دینی عقائد، انسانی اقدار اور اخلاق کی بنیاد پر ہم نے یہودیوں پر ظالم جرمنی کی جانب سے کیے جانے والے جرائم اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے پرزور مذمت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیت کے جوہر میں اہل یورپ کی صفات شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں ہمارے عربی اور اسلامی ماحول میں ہمیشہ سے ہی یہودیوں اور ہر وہ شخص جو کسی بھی دین یا قوم کا حامل ہو ان کو پر امن ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ جو مذہبی آزادی، کثیر الثقافتی معاشرے کی ایک مثال تھا۔

➍ تحریک حماس بین الاقوامی قانون، چارٹر اور معاہدوں کے مطابق فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے۔ اس کے اہداف و غرض و غایت اور اس کے وسائل قابض اسرائیل سے مزاحمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو ان کا حق لوٹانے، آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے ممد و معاون ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے قبضے کے خاتمے اور ان کو اپنے وطن لوٹانا حماس کا مقصد ہے۔ اس تحریک کے اغراض و مقاصد سے واضح ہے کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے، اسی بنیاد پر اس کی تمام سرگرمیوں کا محور و مرکز مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کو بنایا ہوا۔ اس کے برخلاف صہیونیوں نے فلسطینی عوام پر مقبوضہ فلسطین کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کرتے ہوئے ان بھیانک طریقے سے قتل کے جرم کا ارتکاب کیا۔

➎ ہم اس حقیقت کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں دینی اور بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ حق حاصل ہے کہ مسلح ہو کر تمام وسائل کے ساتھ قابض اسرائیل کا مقابلہ کریں۔ سب سے اہم قرارداد (۳۲۳۶)اد اقوام متحدہ نے ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء صادر کی جس میں یہ فلسطینیوں کو واپس اپنے وطن ہجرت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح اب تک جتنی بھی ممالک نے استعمار سے آزادی حاصل کی ہے اس کی بنیاد بھی انہی قوانین پر مبنی تھی، آج وہ آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

➏ اس وقت اہل فلسطین صبر و بہادری کے ساتھ اپنے سرزمین اور جائز حقوق کے لیے فلسطین سرزمین پر قابض کے خلاف میدان میں برسرپیکار ہیں، جن کا ظلم و ستم طویل عرصے سے جاری ہے، اور جس نے وحشیت برپا کرنے میں تمام حدود پامال کر دی ہیں۔ اس نے انسانوں کے ہدف بنانے کے ساتھ زندگی کی تمام سہولیات کو برباد کر دیا ہے۔ اس کی بربریت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے معصوم بچوں، پر امن بزرگوں اور خواتین کے خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ان کی جارحیت سے مساجد و مدراس، یونیورسٹیز، چرچ، ہاسپٹلز، یہاں تک ایمبولنسز بھی نہ بچ سکیں۔ یہ سب کچھ پورے عالم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ لیکن اسرائیلی کی پشت پناہی کرنے والے طاقتور ممالک نے بین الاقوامی قانون میں ان جرائم کی سزا کے باوجود سکوت اختیار کیا اور اس جرم و اجتماعی نسل کشی کو رکوانے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

➐ اسرائیل اپنے حق دفاع کی آڑ میں فلسطینی قوم کو مٹانے کے درپے ہے۔ درحقیقت یہ گمراہ کرنے، جھوٹ بولنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا عمل ہے۔ قابض قوت کو اپنے قبضے اور اپنے جرائم کے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ فلسطینی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قابض کو غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے اور فلسطینی عوام کی جائز امنگوں کے حصول کے لیے مجبور کرنے کے لیے مزاحمت کریں۔ ہمیں یاد ہے کہ بین الاقوامی قانون، بشمول دیوار کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے (۲۰۰۴)، ’’اسرائیل‘‘ کے حق کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی، جیسا کہ یہ ہے۔ وحشیانہ قابض قوت جسے ’’خود کا دفاع‘‘ کہا جاتا ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت جو اپنے قانونی اور اخلاقی جواز اور جوہر کے بغیر بین الاقوامی قانون کے مطابق قبضے میں ہے۔

پنجم: مطلوب کیا ہے؟

قبضے کرنے والا قابض ہی کہلاتا ہیں چاہے وہ اپنے قبضے کو مختلف ناموں اور اوصاف سے متصف کر کے کوئی صورت دینا چاہے لیکن وہ قابض ہی کہلائے گا۔ قوموں کی آزادی سے یہ تجربات سامنے آتے ہیں کہ قابض اور استعمار سے آزادی کے لیے مزاحمت کرنا ہی واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے سے استعماری قوت ٹوٹ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دفاعی کوششوں، مزاحمت اور قربانیوں کے بغیر کوئی بھی قوم آزادی حاصل نہیں کر سکتی۔

تمام ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک کے ممد و معاون بنیں، نہ کہ اس کو ختم اور کچلنے کی سازش کریں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی فرض ہے کہ قابض اسرائیل کے جرائم کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اہلِ فلسطین آزادی اور خودمختاری کے ساتھ اپنے وطن میں زندگی بسر کر سکیں، جس طرح دیگر اقوام امن سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔

اس بنیاد پر ہم مطالبہ درج ذیل امور کا مطالبہ کرتے ہیں:

➊ اسرائیل غزہ سے اپنی دشمنی جلد ختم کرتے ہوئے اجتماعی نسل کشی کرنے سے باز آجائے جس میں ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ کی گزرگاہوں کو کھولا جائے، امدادی سامان کو لوگوں تک پہچانے کی سہولت فراہم کی جائے۔

➋ قابض اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں جو ظلم ڈھایا ہے، اس کے جرائم کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ اس سے شہریوں کے قتل کے جرم میں مالی جرمانہ وصول کیا جائے، اسی طرح اس کی فضائی، زمینی حملوں کے نتیجے میں عمارتیں، مدارس، جامعات، مساجد۔ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمتی تحریک حماس کی تمام دستیاب ذرائع سے حمایت کرنا، اس لیے کہ وہ اس آسمانی ادیان اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے۔

➌ ہم پورے عالم کے باضمیر لوگوں بالخصوص عالمی جنوبی ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کریں، اور اسرائیل کی جانب ڈھائے جانے والے ظلم کی تردید کریں۔ اور اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ایسا کردار ادا کیا جائے جو قابض اسرائیل کے دہرے معیارات کے خلاف ہوں۔ عالمی سطح پر ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو اہلِ فلسطین کو انصاف، آزادی اور عزت کے ساتھ جینے کا ذریعہ بن سکے۔

➍ طاقتور ممالک صہیونی ریاست کے جرائم پر پردہ ڈالنے سے گریز کریں، جن کی معاونت کے سبب وہ  ۷۵ سال سے ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ اسی طرح ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کیے جانے فیصلوں کو نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں، تاکہ اہلِ فلسطین اپنا کامل حق حاصل کر سکیں۔

➎ بین الاقوامی ممالک اور اسرائیل غزہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ اس لیے کہ اہلِ غزہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے حوالے سے خود کفیل ہیں۔ لہٰذا اس نوعیت کے منصوبوں کا انکار کیا جائے۔ اسی طرح اسرائیل کو اس امر سے روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے کہ وہ اہلِ غزہ کو ہجرت پر مجبور نہ کرے۔

➏ اہلِ فلسطین کو سینا، اردن اور دیگر ممالک کی جانب بالجبر ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۸ء میں جو اہلِ فلسطین بے گھر کر دئیے گئے تھے ان کو واپس فلسطین میں لانے کے لیے اقوام متحدہ ۱۵۰ سے زائد مرتبہ قرارداد صادر کر چکا ہے، لہٰذا اس کے لیے کوشش کی جائے۔

➐ اہلِ عرب، تمام مسلم ممالک اور دنیا کے باضمیر عوام قابض اسرائیل کے خاتمے کے لیے مظاہروں کے ذریعے دباؤ جاری رکھیں، اسرائیل کی ریاست قبول کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں رہیں، اسی طرح ان کے مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک جاری رکھیں۔


مترجم:  مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

نائب مدیر مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد

awaheedshahzad@gmail.com

923027286144


اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

بی_بی_سی

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام نے غزہ سے حماس کے عسکریت پسند گروپ کی طرف سے داغے گئے راکٹوں سے ملک کی حفاظت میں مدد کی ہے۔

آئرن ڈوم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟

آئرن ڈوم کو آنے والے مختصر فاصلے کے ہتھیاروں سے بچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ تمام موسمی حالات میں کام کرتا ہے۔

یہ راکٹوں کو ٹریک کرنے کے لیے ریڈار کا استعمال کرتا ہے اور ان میں فرق کر سکتا ہے جو ممکنہ طور پر تعمیر شدہ علاقوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور جو نہیں ہیں۔ انٹرسیپٹر  میزائل   صرف ایسے راکٹوں پر فائر کیے جاتے ہیں جن کی توقع آبادی والے علاقوں پر گرنے کی ہوتی ہے۔

یہ سسٹم پورے اسرائیل میں موجود بیٹریوں پر مشتمل ہے، ہر ایک میں تین سے چار لانچرز ہیں جو 20 انٹرسیپٹر میزائل فائر کر سکتے ہیں۔ سسٹم کے فکسڈ اور موبائل دونوں ورژن ہیں۔

آئرن ڈوم سب سے پہلے کب استعمال ہوا؟

آئرن ڈوم کو 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کے بعد تیار کیا گیا تھا، جو جنوبی لبنان میں واقع ایک عسکریت پسند گروپ ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے جس سے بھاری نقصان ہوا اور درجنوں شہری مارے گئے۔ جواب میں اسرائیل نے کہا کہ وہ ایک نئی میزائل ڈیفنس شیلڈ تیار کرے گا۔

آئرن ڈوم کو اسرائیلی فرموں رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز نے کچھ امریکی تعاون سے بنایا تھا۔ اسے خاص طور پر غزہ سے فائر کیے جانے والے راکٹ جیسے ابتدائی ہتھیاروں سے لڑنے میں مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔

اس نظام کو پہلی بار 2011ء میں جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس نے غزہ کی پٹی سے فائر کیے گئے میزائل کو ناکارہ بنا دیا جو 2007ء سے حماس کے کنٹرول میں ہے۔ 2019ء میں امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ کچھ آئرن ڈوم بیٹریاں خریدے گا اور ان کی جانچ کرے گا۔

آئرن ڈوم کتنا موثر ہے؟

اسرائیل کی فوج نے آئرن ڈوم کی کامیابی کی شرح 90 فیصد تک کا دعویٰ کیا ہے۔

حماس کا کہنا ہے کہ اس کے حملے کے پہلے دن اس نے 5000 راکٹ داغے، حالانکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے شاید اس تعداد سے نصف داغے ہیں۔ آئرن ڈوم کو زیر کرنے کی کوشش میں تھوڑی ہی دیر میں اتنے راکٹ فائر کیے گئے۔ دیگر (راکٹس) کو حزب اللہ نے لبنان سے داغا۔

اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل پر 8000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق کچھ راکٹ آئرن ڈوم سے بچ گئے ہیں اور تعمیر شدہ جگہوں پر گرے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ 27 اکتوبر کو تل ابیب میں ایک اپارٹمنٹ کی عمارت پر راکٹ گرنے سے چار افراد زخمی ہوئے۔

تاہم، اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کونریکس نے کہا:

"ہلاک اور زخمی ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی اگر یہ آئرن ڈوم سسٹم نہ ہوتا، جو ہمیشہ کی طرح زندگی بچانے والا رہا ہے۔"

امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں کام کرنے والی دو آئرن ڈوم بیٹریاں دے کر اسرائیل کے اینٹی راکٹ دفاع کو مزید تقویت دے گا۔ یہ ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس (THAAD) میزائلوں کی بیٹری اور پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹری بھی فراہم کرے گا۔

https://www.bbc.com/news/world-middle-east-20385306


اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظام

نصرت مرزا

(۱۹۹۸ء کی ایک تحریر حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ کے تناظر میں ایک بار پھر شائع کی جا رہی ہے۔ ادارہ)


امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے بحرین کے دورہ کے دوران ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو یہ تجویز دی کہ خلیجی ریاستوں کو،   ایران اور دوسری جگہوں میں بلاسٹک میزائل کی جو تیاری ہو رہی ہے، اس سے محفوظ ہونے کے لیے ایک میزائل نظام کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظام بہت مہنگا ہے اور طویل مدتی ہے۔ انہوں نے یہ تجویز بحرین کے مناط شہر میں دی ہے۔ بحرین کے حکمران ایران سے دفاع کے معاملہ میں کافی حساس ہیں، لیکن انہوں نے Elsewhere کا لفظ استعمال کیا۔ شاید یہ لفظ پاکستان کے لیے ہو، لیکن بحرین کو پاکستان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ بحرین پاکستان سے میزائل خرید سکتا ہے جو زیادہ مہنگا سودا نہیں ہو گا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے وزیردفاع یہ سب کچھ اسرائیل کے تحفظ کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ پیسہ تو نکلوائیں گے عربوں کا، دفاع کریں گے اسرائیل کا، اور ڈرائیں گے بھی عربوں کو۔

میرے خیال میں عربوں کو قطر کانفرنس کی طرح اس دفعہ بھی امریکہ کو جھنڈی دکھا دینا چاہیے کہ وہ کسی نظام کا حصہ نہیں بنیں گے، جب تک اسرائیل سے ان کو رعایتیں نہ مل جائیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں اور میزائل نظام کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کے بعد اسرائیلی یہ کہتے سنے گئے تھے کہ عربوں کی چال ڈھال بدل گئی ہے۔ میرے خیال میں ایران کو بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں تاکہ امریکی منصوبہ ناکام بنایا جا سکے۔

امریکن تو اپنے ملک کی فوجی پیداوار کی فیکٹریاں چالو رکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنا ریسرچ پروگرام عربوں کے پیسے جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور پھر عربوں کے خلاف اسرائیل کی حمایت میں اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیردفاع نے بحرین کے حکمرانوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ ایران نے حال ہی میں ’’شہاب ۳‘‘ کا تجربہ کیا، جبکہ دوسرے ممالک ایسے میزائل بنا رہے ہیں جو یا تو کیمیائی، بائیولوجیکل، یا ایٹمی ہتھیار لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے اپنے ہزاروں کی تعداد میں فوجی اس علاقے میں موجود ہیں، اس صورتحال میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ ممالک آپس میں میزائل سے بچاؤ کا نظام تیار کریں۔

افغانستان پر امریکی کروز میزائلوں کے حملے کے بعد میں نے اپنے یکم ستمبر ۱۹۹۸ء کو شائع ہونے والے مضمون ’’پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملہ کا خطرہ‘‘ میں یہ تحریر کیا تھا کہ کراچی میں غوری میزائل فٹ کر دیے جائیں اور ان کا رخ امریکی جہازوں کی طرف ہو تاکہ وہ پھر افغانستان پر حملہ کی حرکت نہ کریں۔ اب امریکی وزیر دفاع اس تجویز کے ساتھ وارد ہو گئے ہیں جو خود عربوں کے خلاف ہے۔ میرا خیال ہے کہ قطر کانفرنس کی ناکامی کے بعد امریکیوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا کر دی تھی، لیکن پھر یہ جنگ ایٹمی جنگ کی خوفناکی میں تبدیل ہوتی دکھائی دی، تو انہوں نے پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا، جس کے اپنے مضمرات تھے۔ پھر عربوں سے پیسے نکلوانے کے لیے آ موجود ہوئے۔ میرے خیال میں پاکستان کی وزارت خارجہ کو چاہیے کہ وہ عربوں کو لوٹنے کے منصوبے سے آگاہ کرے۔ اسرائیل کو پاکستان اور ایران کے میزائلوں سے جو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، اس لیے عرب کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ رعایت حاصل کریں۔

پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت مسلمان ممالک کے لیے ایک نعمت ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اسرائیل کے دباؤ سے آزاد محسوس کر سکتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی اس صلاحیت کی وجہ سے کتنا پریشان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پوری مسلم دنیا کے جھگڑوں کو ابھار دیا ہے۔ ایران اور افغانستان، ترکی اور شام کے درمیان جنگ کے بادل چھاتے نظر آ رہے ہیں۔

ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ اسرائیل کی دھمکی کا یہی جواب ہے کہ ایران پر کسی بھی حملہ کی صورت میں پاکستان جوابی حملہ کا حق محفوظ کرے۔ میں انتہائی ذمہ داری کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے امریکہ کے دفاعی نظام کو مشرقِ وسطیٰ میں بے اثر کر دیا ہے۔ اسرائیل کی علاقے کے پولیس مین کی حیثیت متاثر ہوئی ہے، اور عرب اسرائیل کی طرف سے اپنے آپ کو زیادہ آزاد محسوس کر رہے ہیں۔ اس لیے اب شام اور ترکی کے درمیان لڑائی کرانے کا سوچا جا رہا ہے تاکہ اسرائیل کے معاملہ میں ان کی بارگیننگ پوزیشن متاثر نہ ہو۔

ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس صورتحال سے فائدہ نہ اٹھایا تو امریکہ حالات کو ہمارے خلاف کرتا چلا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر دفاع کا خلیج کے دفاعی نظام کے تصور کا مقصد دراصل پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے اثرات کو زائل کرنا ہے۔ پاکستان کو اس صلاحیت سے اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کام لینے کا راستہ روکنا مقصود نظر آتا ہے، تاکہ مسلمان ممالک پاکستان کی طرف نہ دیکھیں، یا اپنے بھائی ملک سے مدد حاصل نہ کر سکیں۔ امریکن کسی صورت بھی یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سینٹ سے پابندیوں میں نرمی کا بل پاس ہونے کے باوجود امریکی صدر بل کلنٹن نے اس بل کو ویٹو کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو امداد دینے کے لیے اپنے معاملے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ وہ پاکستان میں انتشار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں، اپنے مہروں کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ پاکستان کی حکومت گھٹنے ٹیک دے۔

میں اپنے اس مضمون میں ایرانی بھائیوں کو تدبر کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ امریکی وزیردفاع کے بیان کو دیکھیں کہ وہ کس قدر ایران کا ورد کر رہا ہے اور ایران افغانستان تصادم کی سوچ رہا ہے۔ امریکی انتظار کر رہے ہیں کہ ایران سرحد عبور کرے گا اور پھر وہ ایران پر پل پڑیں۔ سچ پوچھیں تو افغانستان پر کروز میزائلوں سے جو حملہ کیا گیا، اس کی ایک وجہ ایران کو آگے بڑھنے کی ترغیب دینا تھا۔

امریکی سفیر نے عربوں کو شام کے میزائل پروگرام سے بھی ڈرایا ہے، لیکن خلیجی ملکوں کو شام کے میزائلوں سے کیا خطرہ ہے؟ اس کے میزائلوں سے خطرہ تو اسرائیل کو ہو سکتا ہے۔

  1. جو خطرہ اسرائیل کو ہو گیا ہے وہ عربوں کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عربوں کی دولت لوٹی جائے۔
  2. دوسرے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔

 سارا کھیل مسلمانوں کو باندھ کر رکھنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے، یہ مسلمانوں کی فراست پر منحصر ہے کہ وہ کس طور امریکہ کے داؤ سے بچ کر نکلتے ہیں۔


(ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۱۹۹۸ء بحوالہ روزنامہ نوائے وقت )

فلسطین اور یہود: خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمیدؒ کا خط

ادارہ

(خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کا معزولی کے بعد اپنے روحانی پیشوا الشیخ محمود آفندی ابو الشاماتؒ کے نام تاریخی خط)



یا ہو —— بسم اللہ الرحمٰن الرحیم —— وبہ نستعین

حمد اس خدا کی جو سارے جہانوں کا پالن ہار ہے، اور افضل ترین درود اکمل ترین سلام نازل ہو ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو رب العالمین کے رسول ہیں، اور آپ کے تمام آل و اصحاب اور متبعین پر قیامت تک درود و سلام نازل ہو۔

میں اپنا یہ عریضہ سلسلہ شاذلیہ کے شیخ روح و حیات کو فیضان پہونچانے والے شیخِ وقت محمود آفندی ابوالشامات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور دعواتِ صالحہ کا امیدوار ہو کر ان کے مبارک ہاتھوں کا بوسہ لیتا ہوں۔  آداب و احترام کے بعد عرض کرتا ہوں کہ آپ کا سالِ رواں کے ۲۲ مئی کا تحریر کردہ گرامی نامہ موصول ہوا، میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ جناب والا برابر صحت و سلامتی کے ساتھ ہیں۔ میرے آقا! میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سلسلہ شاذلیہ کے اورد و وظائف شب و روز پابندی سے پڑھ رہا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ دائمی طور پر آپ کی دلی دعاؤں کا محتاج ہوں۔

اس تمہید کے بعد میں آپ کی خدمت میں اور آپ جیسے دوسرے عقلِ سلیم رکھنے والوں کی خدمت میں ایک اہم مسئلہ پیش کرتا ہوں تاکہ یہ امانت تاریخ کی حفاظت میں آجائے۔

میں خلافتِ عثمانیہ سے صرف اس لیے الگ ہوا ہوں کہ مجھے جمعیت اتحاد و ترقی کی طرف سے بہت تنگ کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور خلافت ترک کرنے پر بالکل مجبور کر دیا گیا۔ سبب یہ ہوا کہ ان اتحادیوں نے مجھ سے بار بار اصرار کیا کہ ارضِ مقدس فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کی تاسیس پر اتفاق کروں۔ ان کے پیہم اصرار کے باوجود میں یہ بوجھ اٹھانے پر راضی نہ ہوا۔ اخیر میں ان لوگوں نے پندرہ کروڑ برطانوی لیرہ سونا دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے قطعی طور پر اس تجویز کو ٹھکرا دیا اور انہیں مندرجہ ذیل دوٹوک جواب دیا کہ

’’اگر تم لوگ پندرہ کروڑ لیرہ سونے کی بجائے دنیا بھر کا سونا دو، تب بھی اس بوجھ کو نہیں اٹھاؤں گا۔ میں نے ملتِ اسلامیہ امتِ محمدیہؐ کی تیس سال سے زائد خدمت کی، اب میں اپنے آباؤ اجداد خلفاء و سلاطین کی تاریخ کو سیاہ نہیں کروں گا، میں یہ بوجھ قطعی طور پر قبول نہیں کر سکتا۔‘‘

میرے قطعی جواب کے بعد ان لوگوں نے مجھے معزول کرنے پر اتفاق کر لیا اور یہ پیغام پہونچایا کہ وہ مجھے شہر بدر کر کے سالونیکا بھیج دیں گے، میں نے یہ تکلیف گوارا کر لی۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں کہ میں نے ارضِ مقدس فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کو تسلیم کر کے دولتِ عثمانیہ اور عالمِ اسلام کو اس عیب و عار سے داغدار کرنا قبول نہیں کیا۔ اس لیے میں مکرر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتا ہوں۔

میرا خیال ہے کہ میں نے جو باتیں پیش کر دی ہیں وہ اس موضوع کے بارے میں کافی ہیں۔ اپنے اس اہم خط کو ختم کرتا ہوں۔ میں آپ کے مبارک ہاتھوں کو چومتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ آداب قبول فرمائیں اور تمام بھائیوں دوستوں کو سلام کہیں۔ میرے بزرگ استاد ! خط طویل ہو گیا لیکن آپ کو اور آپ کی جماعت کو مطلع کرنے کے لیے میں اس طوالت پر مجبور تھا۔

                    والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

                    خادم المسلمین، عبد الحمید بن عبد المجید

                    ۲۲ ستمبر ۱۹۲۹ء


(ماہنامہ الشریعہ اپریل ۱۹۹۶ء بحوالہ ماہنامہ الفرقان لکھنؤ)


امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت

ادارہ

(مالیر کوٹلہ بھارت کے دینی جریدہ ماہنامہ ’’دار السلام‘‘ نے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز آل سعود کے نام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کے ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء کے تحریر کردہ ایک خط اور ملک عبد العزیز آل سعود کی طرف سے اس کے جواب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان، کشمیر، فلسطین کے حوالے سے امریکہ جو کردار اب ادا کر رہا ہے، وہ کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت پہلے سے طے شدہ پالیسی اور پروگرام کا ایک تسلسل ہے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمران امریکہ کے ان عزائم اور پروگرام کے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ابھی تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے اور انہوں نے عالم اسلام کے وسائل اور دولت امریکہ کے قدموں پر ڈھیر کر کے ذاتی، خاندانی اور طبقاتی سطح پر مفادات حاصل کرنے کے سوا عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے کسی مشترکہ منصوبہ بندی اور پیشرفت کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔ ادارہ)



صدر ٹرومین کی جانب سے شاہ عبد العزیز کے نام خط

حضور جلالت ملک عبد العزیز آل سعود، فرماں روائے مملکت سعودی عرب

قابل قدر بادشاہ!

جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک باہمی طور پر ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں جس کی بنیاد عدل وانصاف، آزادی، عالمی سطح پر امن وسلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے، نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنا دیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنووں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے ملک کی کمپنیوں سے کیا۔ اس طرح ہمیں وہاں تیل نکالنے والے وسیع وعریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقع دستیاب ہوئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دونوں میں کسی ایک ملک میں ہونے والے ہر خوشگوار وناخوشگوار واقعہ کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ میں امن وسلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے تمام ملکوں کو عرب لیگ جیسے ادارے نے باہم مربوط کر رکھا ہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں میں آپ کے ملک کا ایک اونچا مقام ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں، عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگ کو روکنے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر لیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے، کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جاتے ہیں؟ آپ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب وتکلیف میں گرفتار رہیں چہ جائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد (جو ارض مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے سے متعلق ہے) کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوام متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے، سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے۔

جس بات کا مجھے ڈر ہے، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کر دیں جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یقیناًیہ امر ہمارے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی باعث رنج وتکلیف ہوگا۔ میں اس امر کو بھی آپ سے مخفی رکھنا نہیں چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکہ قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر عطف وکرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے۔ ان یہودیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوں کا توں قبول کر لیا ہے جبکہ یہ قرارداد ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کر رہی لہذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کریں اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائیں۔

جلالۃ الملک! تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیاجائے کہ شاہ عبد العزیز وہ بادشاہ ہے جنہوں نے اپنی حکمت اور اثر ورسوخ کے ذریعے سے اراضی مقدسہ میں امن وسلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لہذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچا لیجیے اور مجبور ومظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیجیے۔

میری جانب سے سلام، نیک تمنائیں اور پیشگی پرخلوص شکریہ۔

آپ کا مخلص

ہیری ٹرومین

ملک عبد العزیز آل سعود کی جانب سے جواب

شاہی محل، ریاض

۱۰ ربیع الثانی ۱۳۶۷ھ

عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ

معزز صدر!

آپ کا۱۰ فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں، ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں مگر اس بات کی صراحت بھی ضروری سمجھتا ہوں (کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے) کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں مجھ جیسے عربی بادشاہ کے بارے میں یوں بد گمانی کر لی جس کی اسلام اور عرب کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ نے یہ تصور کر لیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال کے ذریعے سے کروں گا۔

اگر کوئی ملک آپ کی کسی اسٹیٹ پر قبضہ کر لے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بنا کر اس میں مقیم ہو جائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملہ میں مدد کے خواہاں ہو جائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آ پ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کو استعمال کر کے امریکی قوم کو غیر ملکیوں کے ساتھ مقابلہ سے روکیں تاکہ یہ اجنبی قوم اپنا ملک قائم کر سکے اس طرح تاریخ بھی آپ صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے سے امن قائم کرنے والا کہے، اس وقت آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبہ کا کیا رد عمل ہوگا؟

جناب صدر! عرب قوم میں میرے جس مقام ومرتبہ کا ذکر آپ نے کیا ہے، مجھے وہ مقام محض عرب اور اسلام سے شدید دلی وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ لہذا آپ مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں جو کسی ذمہ دار عرب کے لیے ناممکن ہے اور پھر فلسطین میں جاری جنگ کوئی داخلی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ یہ اس کے اصل حق دار عرب قوم اور ان صہیونی جنگ جوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے، محض ظلم وناانصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ملکوں نے نیز ان ملکوں نے بھی رد کر دیا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں لہذا حالیہ نتائج کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صہیونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صہیونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کر دیں۔ جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہوا ہے، تو یاد رکھیے کہ یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے میں فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنووں کو بند کر سکتا ہوں۔ تیل کے یہ کنویں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہٰذا ہم ان کو کبھی عذاب الٰہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔ پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنویں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں؟

قرآن مجید کہ جس پر ہمارا ایمان ہے، جو ہماری زندگی ہے اور جس پر ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں، اس کتاب نے تورات اور انجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین کو یہودی دخل اندازی اور تسلط سے روکیں جس میں کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے سے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تو ہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک وصاف کریں۔

جس قسم کے الفت اور محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں عرب کے ساتھ جس طرح آپ نے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آ پ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات کو منقطع کر دیتے، امریکی کمپنیوں کے ہمارے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے لیکن ہم نے اس لیے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے موقف پر نظر ثانی کرے گا اور واضح باطل کی تائید سے کنارہ کش ہو کر واضح حق کا ساتھ دے گا۔ہم اس معاملہ میں آپ پر کوئی دباؤ ڈالنا نہیں چاہتے، نہ اس کے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم عربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جائے نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ حق کو کیوں پامال کیا جا رہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیار کریں گے جو اس میں موثر ثابت ہوگا۔ خصوصاً عرب لیگ قومیت اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو تجویز بھی منظور کرے گی، ہم اس کی تائید میں ہوں گے۔

یقیناًیہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں، وہ ہمارے مہمان ہیں۔ جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمینان رکھیں۔ سب سے زیادہ اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے تو یہی کہ ہمارے ملک میں ان کے قیام کی مدت کو مختصر کر کے پوری عزت واکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ملک امریکہ واپس بھجوا دیں۔

اخیر میں صاحب صدر! میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیا کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں ا س کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ۔

صاحب صدر! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں۔

مخلص عبد العزیز آل سعود

ملک المملکۃ العربیۃ السعودیۃ


(ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ جنوری ۲۰۰۲ء بحوالہ ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ مالیر کوٹلہ، بھارت)

یہودیوں کی طوطا چشمی

طلال خان ناصر

(مضمون نگار کی یونیورسٹی اسائنمنٹ کا ایک حصہ)



آج کے زمانے میں یورپ کی مسیحی اقوام اور یہودیوں کے درمیان موجودہ اتحاد کے پس منظر میں یہ بات دلچسپ ہے کہ پچھلے دو ہزار سال میں یہودیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں یورپ کی ہی مسیحی اقوام سب سے آگے تھیں۔ رومی دور میں یروشلم سے یہود کو جلاوطن کرنے سے لے کر صلیبی جنگوں میں یہود کا قتل عام کرنے والے عیسائی تھے۔ پھر مسلم اندلس کے زوال کے وقت ملکہ ازابیلا کی جبراً‌ عیسائی بنانے کی ریاستی مہم کا شکار ہونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی بھی شامل تھے۔

’’یہودیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ مسلمان ریاستیں ہوتی تھیں۔ خود یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اچھی دو پناہ گاہیں میسر تھیں:

  1. اندلس میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی، وہ ہماری پناہ گاہ تھی، وہاں ہمیں خرچہ اور تحفظ بھی مل جاتا تھا۔
  2. اور اس کے بعد خلافت عثمانیہ کے بارے میں غیر جانبدار اور معتدل یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے پورے دور میں یہود کی پناہ گاہ تھی۔ عیسائی ان کو اٹلی، برطانیہ، فرانس میں مارتے اور یہ قسطنطنیہ، ترکی میں آ جاتے۔‘‘  (چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ۔ ص ۲۸۔ فروری ۲۰۲۴ء)

یہاں سوال اٹھتا ہے کہ عیسائیوں کے ہاتھوں صدیوں ظلم سہنے اور مسلمانوں کے پاس پناہ گزین ہونے والے یہود نے کیسے طوطا چشمی کا مظاہرہ کر کے اپنے محسن مسلمانوں کے خلاف اپنے پرانے دشمن عیسائیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے خلافت عثمانیہ کے زوال کے دور یعنی بیسیوں صدی کے پہلے بیس سال کی تاریخ دیکھنا ضروری ہے۔ اس دور میں سلطان عبد الحمید ثانیؒ خلافت عثمانیہ حکمران تھے۔ فلسطین کے بارے میں عثمانیوں کا قانون یہ تھا کہ یہودیوں کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت اور بیت المقدس میں عبادت کی اجازت تھی لیکن فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ خلافت کے آخری چند سالوں میں یہود کی عالمی تنظیموں نے سلطان عبد الحمید سے بارہا فلسطین کے علاقے میں آباد ہونے کی اجازت مانگی۔

’’سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ یہودی کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہر تزل نے متعدد بار ان سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین خرید کر محدود تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں مگر سلطان مرحوم نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک بار ہرتزل نے سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے سامنے چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش کی جس کے جواب میں سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا اور اس کے بعد وہ ہرتزل سے ملاقات کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے ۔ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے خلاف اس کے بعد تحریک چلی اور انہیں خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ان کے خلاف ترکی میں چلنے والی تحریک اور ان کی معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا اور انہیں خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا۔ ‘‘ (مولانا زاہد الراشدی۔ روزنامہ اسلام لاہور ۔ ۲۶ جون ۲۰۰۲ء)

جب سلطان عبد الحمید کے ساتھ مذاکرات میں یہود کو دال گلتی نظر نہ آئی تو یہود کی عالمی تنظیم نے برطانیہ کا رخ کیا اور ایک معاہدے کے تحت جنگ عظیم اول میں جرمنی اور عثمانی ترکوں کے خلاف برطانویوں کے ہونے والے مالی نقصان کی تلافی کا وعدہ کیا۔ جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے بعد فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا اور یہود کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ایک برطانوی یہودی کو فلسطین کا گورنر بنا کر پوری دنیا کے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس معاہدے پر اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے دستخط ہوئے جس بنا پر یہ معاہدہ بالفور ڈکلیریشن کہلاتا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں بالفور معاہدے سے لے کر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل بننے تک فلسطین ایک برطانوی نوآبادی رہا ہے۔

رفح

ہلال خان ناصر

رفح فلسطینیوں کیلئے چھوڑے گئے چند علاقوں میں سے وہ علاقہ جو فلسطین کے جنوب میں مصر کے ساتھ ۲۵ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد جہاں کہیں اسرائیل نے حملہ کیا، ادھر کے شہریوں کو جنوب کی طرف ہانک دیا کہ وہاں بمباری سے نجات ملے گی اور اس وقت الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۴ سے ۱۵ لاکھ کے درمیان فلسطینی اس علاقے میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ نجات فی الوقت تو ملتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس علاقے پر حملے کا اعلان کیا جس کی وجہ یہاں پر چھپے چند حماسی مجاہدین کا خاتمہ بیان کی گئی اور حملے سے پہلے فلسطینی عوام کو ایک ”محفوظ مقام“ پر منتقل کرنے کے پلان کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے محفوظ مقام چھوڑا کدھر ہے؟ فلسطینیوں کیلئے فلسطین کی اسرائیل کے ساتھ ملتی حدود سے خان یونس تک تباہی، اور رفح سے آگے مصر کی حدود جس نے اپنی ”بارڈر سکیورٹی“ کیلئے ۴۰ کے قریب ٹینک بارڈر پر ’’خوش آمدید‘‘ کہنے کیلئے تیار کر رکھے ہیں۔

افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کا اس مسئلے پر یہی رویہ نظر آ رہا ہے۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ سمیت بہت سے مغربی ممالک نے قولیہ تو اس اعلان کی ”شدید“ مزاحمت کی ہے، مگر فعلیہ بدستور اسرائیل کو ہتھیار اور حمایت جاری ہے۔ اس وقت بھی امریکہ میں اسرائیل کو ۱۴ بلین ڈالر کی سپورٹ فراہم کرنے کا بل امریکی سینیٹ میں زیر بحث ہے۔

اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین میں قائم کیے گئے رفاہی کیمپ(UNRWA) پر اسرائیلی وزیر اعظم نے بغیر ثبوت کے الزام لگایا کہ طوفان الاقصی ٰمیں ان کیمپ کے چند ملازمین نے حماس کا ساتھ دیا تھا اور الزام کے فوراً بعد یورپ اور امریکہ کی طرف سے اس ادارے کی امداد کھینچ لی گئی۔ اس کے برعکس انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تصدیق کی مگر اسرائیل کو بدستور اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک آدمی نے ایک اسرائیلی افسر سے سوال کیا کہ عام عوام کی موجودگی میں فلسطین کے ہسپتالوں میں بمباری کیوں کی جا رہی ہے؟ جس پر اسرائیلی افسر نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ ان ہسپتالوں میں حماس کے دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ سوال کرنے والے نے دوسرا سوال کیا کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہی حماس کے دہشت گرد اسرائیل کے کسی شہر میں گھس آئے ہوتے، اور اسرائیل کے کسی ہسپتال میں چھپ جاتے تو کیا تب بھی اسرائیل کا رد عمل یہی بمباری ہوتی؟ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اسرائیلی افسر کا جواب نفی میں آیا۔

ایک طرف پورا مغرب اسرائیل کی پشت پر ، دوسری طرف فلسطینیوں کیلئے ایران کے خالی وعدے اور مصر کے بند بارڈر۔ سعودیہ کا تو اللہ ہی حافظ اور پاکستان اپنے ایٹم بموں کا محافظ۔ اللہ تعالیٰ رفح کی خبروں کو ”سانحہ رفح“ کی خبریں ہونے سے پہلے عالم اسلام کے حکمرانوں کو ہوش میں آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میں

سید سلمان گیلانی

کس منہ سے کروں شکر ادا تیرا خدایا
اک بندۂ ناچیز کو گھر اپنا دکھایا
واللہ اس اعزاز کے قابل میں کہاں تھا
یہ فضل ہے تیرا کہ مجھے تو نے بلایا
جس گھر کے ترے پاک نبی نے لیے پھیرے
صد شکر کہ تو نے مجھے گرد اس کے پھرایا
لگتا نہ تھا دل اور کسی ذکر میں میرا
لبیک کا نغمہ مجھے اس طرح سے بھایا
مزدلفہ وعرفات ومنیٰ وصفا مروہ
ہر جا تری رحمت نے گلے مجھ کو لگایا
ہوتی رہی بارش تری رحمت کی بھی چھم چھم
مجھ کو بھی بہت میری ندامت نے رلایا
محشر میں بھی رکھ لینا بھرم اپنے کرم سے
جیسے میرے عیبوں کو ہے دنیا میں چھپایا
محشر میں بھی کوثر کا مجھے جام عطا ہو
جیسے یہاں پانی مجھے زم زم کا پلایا
جیسے یہاں سایہ ترے کعبے کا ملا ہے
محشر میں بھی حاصل ہو ترے عرش کا سایا
مت پوچھیے مکے میں جو گزرے مرے ایام
ہر آن نیا کیف نیا لطف اٹھایا
مکے سے مدینے کے سفر کو جو میں نکلا
بے نام سا اک خوف تھا دل پر مرے چھایا
ہمت نہیں پاتا تھا کروں سامنا ان کا
ہر پل تو بغیر ان کی اطاعت کے گنوایا
وہ تو کہو یاد ان کا کرم آ گیا مجھ کو
ہر رنج والم دل سے لگا اس نے مٹایا
رفتار تھی اس شوق کی پھر دیکھنے والی
خود سے بھی قدم دو قدم آگے اسے پایا
ہونٹوں پہ درودوں کے مچلنے لگے نغمے
جب دور سے ہی گنبد خضرا نظر آیا
کچھ عرض زباں سے تو وہاں کرنا ہے مشکل
حال اپنا بس اشکوں کی زبانی ہی سنایا
جتنا بھی کروں ناز مقدر پہ وہ کم ہے
سرکار نے اپنا مجھے مہمان بنایا
سلمان مرے دل میں جو کعبے کے ہیں جلوے
آنکھوں میں مری گنبد خضرا ہے سمایا

’’صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر‘‘

مولانا حافظ کامران حیدر

اللہ رب العزت نے جانشینِ امام اہلسنتؒ حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی دامت فیوضہم کو جن گوناگوں اوصاف اور ہمہ جہت دینی خدمات سے متصف فرما رکھا ہے وہ اہلِ علم و اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ راقم الحروف کو گزشتہ دس سال سے حضرت استاذ گرامی کے مواعظ و محاضرات ضبط و تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہے، اس سے قبل کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ’’خلافتِ اسلامیہ اور پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ مرتب ہو چکا ہے جو عنقریب منظر عام پر آ جائے گا، ان شاء اللہ۔

حالیہ اسرائیل فلسطین کشیدگی کے تناظر میں ہونے والے بیانات سمیت اس عنوان پر گزشتہ بیانات کو یکجا کرتے ہوئے زیرِ نظر مجموعہ ترتیب دیا گیا ہے، جس میں یہودیت کے آغاز سے لے کر آج تک کی تاریخ، مسلم یہودی تعلقات کی نوعیت، اسرائیلی ریاست اور مسئلہ فلسطین کے پس منظر اور حالیہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے پیش منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

میں حضرت الشیخ مدظلہ کا دل کی گہرائی سے شکر گزار ہوں کہ اعتماد اور حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اس خدمت کے لیے میرا انتخاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھیں، انہیں صحت و عافیت کے ساتھ امت اور قوم کی رہنمائی کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں اور ہمیں ان کے افادات سے کما حقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

الشریعہ اکادمی اور مکتبہ ختمِ نبوت کا شکر گزار ہوں کہ اس مجموعہ کی اشاعت کا اہتمام کر کے اس کی افادیت کو عام کیا، اور محترم حافظ شاہد الرحمٰن میر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جن کی ترغیب و تحریض سے حالیہ تمام بیانات شاملِ اشاعت کرنے کا حوصلہ بڑھا، بلکہ انہی کے توسط سے اکثر بیانات میسر آئے۔ ان میں سے تکرار کو حذف کرتے ہوئے موضوع میں تسلسل اور روانی پیدا کرنے کی کوشش کے ساتھ کتاب کی تصحیح میں حتی المقدور پوری سعی کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود تقریر سے تحریر میں منتقل کرتے ہوئے غلطی کا امکان موجود ہے، جس کی نسبت مرتب کی طرف کی جائے۔ نیز قارئین سے التماس ہے کہ دورانِ مطالعہ جہاں غلطی محسوس کریں تو مرتب یا ناشر کو ضرور مطلع فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

Election 2002: Our Expectations from Muttahida Majlis-e-Amal

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی



(Excerpt from an interview published in the December 2002 issue of the monthly "Youth Contact" Gujranwala.)

Question: What are your impressions about the success of Muttahida Majlis-e-Amal in the recent general elections of Pakistan?
Answer: I think Muttahida Majlis-e-Amal was well received by the public for two reasons. One is because of their unity that the history of half a century of Pakistan is a witness that whenever religious circles and religious schools of thought have united and raised the voice of the nation for a common cause, the nation has never disappointed them. The second reason is the apocalypse that the US and its allies have made in Afghanistan over the past year to topple the Islamic government of the Taliban, and impose their own puppet government. And the shameful way in which the people of Afghanistan have been subjected to brutality and terrorism, the people of Pakistan, especially the people of Frontier Province and Balochistan, have expressed their hatred and anger against them in the election, and with it they also gave a practical answer to the negative propaganda of the elements who were saying that religious parties in Pakistan do not get the support of the people. I think America and all its allies should learn a lesson from this and read the inscription and review their policies and practices.
Question: What do you expect from Muttahida Majlis-e-Amal regarding national politics?
Answer: In my opinion, the Muttahidda Majlis-e-Amal should not have participated in the power struggle at the federal level. They should have concentrated all their attention on protecting the constitutional foundations of the 1973 Constitution. At present, the most prominent and strong voice in the country for the protection of the real democracy and the foundations of the 1973 constitution is Muttahida Majlis-e-Amal. It would have been better if this voice had not been mixed with the desire for power and ministries. However, it is still a good thing that the Muttahidda Majlis-e-Amal has announced not to negotiate on the principles. I pray that Allah Ta'ala blesses the Muttahida Majlis-e-Amal with persistence and success on this principled stand. However, my opinion in this regard is that:
✦ It should stay away from the power game at the federal level, and sit in the opposition and express the sentiments of the people.
✦ The government of Muttahida Majlis-e-Amal in Frontier Province should present a model of Islamic governance with the solution of people's problems, which is a beacon for other provinces, and the people of other provinces should also find themselves forced to give Muttahida Majlis-e-Amal a chance in the next election.
✦ Muttahida Majlis-e-Amal got these votes with the blessing of the blood of the oppressed people of Afghanistan. And these votes have been received due to strong opposition to global colonial powers. Therefore, there should not be any flexibility in the stance and practical role of the Muttahidda Majlis-e-Alam in this regard.
✦ The unity of religious schools of thought should be maintained at all costs. Its scope should be expanded with mutual self-sacrifice and trust. And one should always be alert that the most effort by the opponents will be to put cracks in this unity and mutual trust in one way or another.
✦ The government of the Muttahida Majlis-e-Amal in the Frontier Province should establish an academic commission to study the recommendations of the Islamic Ideological Council closely, separate the recommendations related to the provincial powers from them, and suggest methods for their practical implementation.
✦ The ministers of the Muttahida Majlis-e-Alam should set an example of simplicity, contentment, and frugality, detaching themselves from the desires of protocol and prestige, and illustrate by their actions how the ministers of an Islamic government function.

(Translated with Google Translate)


الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلس عاملہ کا اجلاسمولانا حافظ امجد محمود معاویہ 
احکام القرآن،عصری تناظر میںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)ڈاکٹر محی الدین غازی 
اجتہاد کی شرعی حیثیتشیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ 
مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانونڈاکٹر محمد مشتاق احمد 
قراردادِ مقاصد پر غصہ؟مجیب الرحمٰن شامی 
چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویزملی مجلس شرعی 
بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطرمولانا محمد طارق نعمان گڑنگی 
فقہ الصحابہڈاکٹر محمد عمار خان ناصر 
جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادلڈاکٹر شہزاد اقبال شام 
فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سببمولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد 
حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینکآرمی ریکگنیشن 
جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریزادارہ 
پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنسادارہ 
’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘حضرت مولانا عبد القیوم حقانی 
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘مولانا محمد اسامہ قاسم 
Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistanمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلس عاملہ کا اجلاس

مولانا حافظ امجد محمود معاویہ

پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس (۱۰ مارچ ۲۰۲۴ءکو) مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں صوبائی امیر مولانا مفتی محمد نعمان پسروری کی زیرصدارت منعقد ہوا۔
مہمان خصوصی پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے شرکاء اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال کے تمام تغیرات کے باوجود ہم اپنے مشن پر کھڑے ہیں اور وطنِ عزیز میں نفاذِ شریعت، ختمِ نبوت کے تحفظ، قومی خودمختاری کی بحالی، ملکی سالمیت اور دستورکی بالادستی، قومی اور ملی وحدت کو اپناتے ہوئے غیر اسلامی روایات کی روک تھام کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ وطن عزیز کے اسلامی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ قادیانیوں کے متعلق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے حالیہ ریمارکس پہ بھرپور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ریمارکس کی آئین اور قانون کی روشنی میں وضاحت کریں۔ ختم نبوت کے حوالے سے طے شدہ دستوری فیصلہ جات کو چھیڑنے سے اجتناب کیا جائے۔ حالیہ متنازعہ فیصلہ پر احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے جن دینی اداروں، یا جماعتوں سے راہنمائی کے لیے رابطہ کیا ہے انہیں چاہیے اس مسئلہ کی حساسیت کے پیش نظر باہمی رابطہ اور مشاورت کے بعد ایک مضبوط موقف اختیار کیا جائے۔ فلسطین کی موجودہ صورت پہ اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے امیر مرکزیہ مفتی محمد رویس خان ایوبی کے یکجہتئ فلسطین کے حوالے سے حالیہ دنوں میں جاری ہونے والے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ علامہ راشدی نے علماء کرام، خطباء اور تمام طبقات کے نمائندگان سے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ہر سطح پر آزادئ مسجد اقصٰی کی صدا بلند کرنے کی ضرورت پہ زور دیا۔ امتِ مسلمہ کے نمائندہ ملکوں کے سربراہان کی خاموشی قابل تشویش ہے۔
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ’’یکجہتی فلسطین اور آزادی مسجد اقصٰی‘‘ کے حوالے سے بھرپور طریقے سے منایا جائے گا، اور مضبوط عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے زیرِ اہتمام یکم اور ۲ جون کو مری میں دو روزہ صوبائی ورکر کنونشن منعقد کیا جائے گا۔
اجلاس میں مولانا عبیداللہ عامر، قاری محمد عثمان رمضان، مفتی نعمان احمد، مولانا امجد محمود معاویہ، مولانا عبید الرحمن معاویہ، مولانا عبد الواحد قریشی، مولانا محمد جاوید، مولانا عمیر چنیوٹی، مولانا قاسم عباسی، مولانا عبد الرؤف محسن، مولانا ذوالفقار عباسی، حکیم محمد ارشد، مولانا فضل الہادی، صاحبزادہ نصر الدين خان عمر، مولانا خبیب عامر، مولانا زبیر جمیل، عبد القادر عثمان، مولانا شیراز نوید، حافظ شاہد میر، حافظ عبد الجبار، صہیب عامر، فضل اللہ راشدی اور دیگر نے شرکت کی۔

احکام القرآن،عصری تناظر میں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

الحمد للہ ۵ مارچ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورہ تفسیر قرآن کریم کی سالانہ کلاس تکمیل پذیر ہوئی۔ یہ سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے جاری ہے اور کرونا کے دور میں کچھ وقفہ کے ساتھ یہ بارہویں کلاس تھی۔ ۱۰ فروری سے اس کا آغاز ہوا اور ملک کے مختلف حصوں سے فضلاء اور طلبہ نے اس میں شرکت کی۔ ہمارے ہاں ترجمہ و تشریح کے ساتھ قرآن کریم سے متعلقہ دیگر ضروری معلومات بھی کورس کا حصہ ہوتی ہیں اور مختلف اساتذہ ان کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔   اس سال کورس کے مضامین میں (۱) احکام القرآن عصری تناظر میں  (۲) قرآنی جغرافیہ اور فلکیات  (۳) قرآن پاک کے حوالے سے مستشرقین کی سرگرمیوں کا تعارف  (۴) قرآن و سنت کا باہمی تعلق  (۵) مروجہ قانونی نظام کا تعارف وغیر ذٰلک،  جبکہ اساتذہ میں راقم الحروف کے علاوہ ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا حافظ فضل الہادی، مولانا حافظ محمد یوسف، ڈاکٹر معظم محمود بھٹی ایڈووکیٹ، مولانا محفوظ الرحمٰن، ڈاکٹر حافظ وقار احمد، مولانا ظفر فیاض، اور ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز شامل تھے۔

میرے ذمے (۱) سورۃ البقرہ کا ترجمہ و تشریح اور  (۲) احکام القرآن عصری تناظر میں کے دو مضمون تھے جو بحمد اللہ تعالیٰ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختصراً‌ شرکاء کے گوش گزار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ احکام القرآن میں میرا ذوق آج کے عالمی نظام و قوانین میں قرآن کریم اور شریعتِ اسلامیہ کے جو احکام و قوانین قابل اعتراض سمجھے جاتے ہیں، اور ہم سے جن احکام و قوانین میں ردوبدل کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ان سے علماء کرام کو متعارف کرانا اور اس سلسلہ میں اپنا موقف واضح کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس سال جن قوانین کا تذکرہ کیا گیا وہ بالترتیب مذکور ہیں:

  1. قصاص کو قرآن کریم نے حکم اور فرض کے درجہ میں بیان فرمایا ہے اور معاشرہ میں قصاص کے قانون کے نفاذ کو امن اور زندگی کے تحفظ کا ذریعہ بتایا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی جرم میں مجرم کو موت کی سزا نہ دی جائے۔ جس کی بنیاد پر عالمی حلقوں کا ہم سے مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ نہ صرف قصاص بلکہ کسی بھی جرم میں موت کی سزا کو قانونی نظام میں ختم کر دیا جائے۔
  2. مرد اور عورت کی مساوات کے عنوان سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کے حوالے سے یہ مطالبہ ہے کہ خاندانی نظام میں مرد اور عورت کے لیے طلاق کا یکساں حق تسلیم کیا جائے۔ جس پر ہم نے ۱۹۶۲ء میں نکاح کے فارم میں ’’تفویضِ طلاق‘‘ کا سوال شامل کر کے عالمی اداروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب ثابت نہیں ہوئی، اور مسلسل دباؤ بڑھنے پر اب ہمارے قانونی نظام میں ’’خلع‘‘ کو عورت کے مساوی حقِ طلاق کا درجہ دے کر اس کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔ 
  3. وراثت میں مرد اور عورت کے حصوں میں فرق کو عورت اور مرد میں مساوات کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ جس پر سندھ ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی ریکارڈ میں موجود ہے کہ انسانی حقوق کے مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مردوں اور عورتوں کو وراثت میں برابر حصہ دینا ضروری ہے۔
  4. زنا کو قرآن کریم نے مطلقاً‌ جرم بلکہ سنگین جرم قرار دے کر اس کی سب سے سخت سزا مقرر فرمائی ہے۔ جبکہ عالمی قوانین کے مطابق صرف جبری زنا جرم ہے اور باہمی رضامندی سے کیا جانے والا زنا جرم نہیں ہے اور اسے قابلِ سزا قرار دینا عالمی قوانین کے مطابق قابل اعتراض ہے۔
  5. ہم جنس پرستی قرآن کریم اور شریعتِ اسلامیہ کی رو سے سنگین جرائم میں شامل ہے اور اس پر سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کے مروجہ نظام میں ہم جنس پرستی جرائم کی بجائے حقوق کے دائرہ میں شامل ہے۔ 
  6. قرآن کریم نے مجرم کو سر عام سزا دینے کی تلقین فرمائی ہے۔ مگر آج کے عالمی نظام میں کسی بھی جرم میں دی جانے والی سزا کو جسمانی تشدد اور مجرم کی تذلیل و توہین سے خالی رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے ہماری سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ریکارڈ میں موجود ہے کہ کسی مجرم کو سرعام سزا نہ دی جائے۔
  7. کوڑے مارنے اور قصاص میں جسمانی اعضا کاٹ دینے کی سزا جسمانی تشدد کے دائرے میں آتی ہے، اس لیے وہ بھی قابل اعتراض ہے اور ہم سے ایسی تمام سزائیں ختم کرنے کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ 
  8. حلال و حرام کے حوالے سے قرآنی احکام اور آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر کسی چیز کو حرام قرار دینا مروجہ عالمی نظام کے لیے قابل قبول نہیں ہے، اس لیے معیشت و تجارت اور عمومی استعمال کے کسی دائرہ میں قرآنی احکام پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، اور عالمی معاشی و تجارتی نظام و ماحول اس کی مکمل حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
  9. حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مذہبی طور پر قابل احترام شخصیات و مقامات اور شعائر کی توہین اسلام میں سنگین جرم ہے۔ مگر مروجہ عالمی نظام میں اسے آزادئ رائے میں مداخلت قرار دے کر اس حوالے سے رائج قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ 
  10. قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر امتِ مسلمہ کا حصہ تسلیم نہ کرنا اور پاکستان میں انہیں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینا آج کے عالمی نظام میں آزادئ مذہب کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اور ملک کے دستور و قانون سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وغیر ذٰلک۔

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قرآنی احکام و قوانین عالمی فلسفہ و نظام کے حوالے سے قابل اعتراض ہیں جن سے دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو کم از کم آگاہ کرنا اور اس کی وضاحت کرنا اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔ 




مرتد کی سزا کی بحث

 مرتد کی سزا قتل کو متنازعہ بنانے کے لیے قانونی موشگافیوں کے سہارے نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ یہ بحث قیام پاکستان سے قبل مرزا غلام احمد قادیانی کے لاہوری پیروکاروں کے امیر مولوی محمد علی نے چھیڑی تھی جس پر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اپنے رسالہ ’’الشہاب‘‘ میں تفصیلی نقد کیا تھا اور ثابت کیا تھا کہ مرتد کی سزا شرعاً قتل ہے اور یہ ’’حدِّ شرعی‘‘ ہے۔ اہل علم کے لیے اس رسالہ کا مطالعہ ضروری ہے۔  ایک صاحب نے اس حوالے سے یہ کہہ کر مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ارتداد پر قتل کی سزا خدائی حکم نہیں ہے بلکہ فقہاء کرام اور قانون دانوں کی صوابدید کے مطابق یہ ’’تعزیری سزا‘‘ ہے جسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ
  1. بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کی کر دی تھی ان کی سزا ’’فاقتلوا انفسکم‘‘ کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اور اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے عمل کیا تھا۔
  2. پھر بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعئ نبوت مسیلمہ کذاب کا خط لانے والے اس کے دوپیروکاروں سے فرمایا تھا کہ تم مجھے رسول ماننے کے بعد مسیلمہ کو بھی رسول مانتے ہو اس لیے ’’لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما‘‘ اگر سفیروں کو قتل کرنے کا معروف ضابطہ نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ماننے کے بعد ایک اور شخص کو بھی خدا کا رسول ماننے لگے تھے جس پر وہ قتل کی سزا کے مستحق ہو گئے تھے، البتہ کسی قوم کا سفیر ہونے کی وجہ سے انہیں قتل نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ ان میں سے ایک شخص ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں امام بیہقیؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں کوفہ میں گرفتار ہوا تھا اور اپنے اسی سابقہ عقیدہ کے دوبارہ اظہار اور اس سے توبہ کرنے سے انکار کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا۔

کیا قانون کا غلط استعمال اسے ختم کر دینے کا جواز بنتا ہے؟

مذہب، مذہبی شخصیات و مقامات اور مذہبی اقدار و روایات کی توہین کو جرم تسلیم کرنے کی بجائے آزادئ رائے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کے متعلقہ شعبہ کی طرف سے پاکستان سے باقاعدہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کو ختم کر دیا جائے۔
یہ سوال اپنی جگہ مستقل ہے کہ اگر عام انسان کی توہین جرم ہے اور کسی بھی ملک کے عام شہری کی توہین جرم ہے تو مذہبی شخصیات کی توہین کیوں جرم نہیں؟ مگر اس سے ہٹ کر بعض حضرات کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ اس قانون کا غلط استعمال بھی ہو جاتا ہے اس لیے اسے ختم کر دینا چاہیے۔ یہی بات مغرب کی طرف سے خود مذہب کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ چونکہ بعض لوگ مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں اس لیے مذہب کے معاشرتی کردار کو ختم کر دینا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی قانون کا غلط استعمال اسے ختم کر دینے کی دلیل یا جواز ہے تو پاکستان میں دیگر بہت سے قوانین کی طرح اقدامِ قتل سے متعلق دفعات 302 اور 307 کا بھی عام طور پر باہمی دشمنیوں میں غلط استعمال ہوتا ہے، تو کیا یہ قانون ختم کر کے قتل کو بھی جرائم کی فہرست سے نکال دینا چاہیے؟ 

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(486) وَإِذْ قَالَتْ أمَّةٌ مِنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا

اصحاب سبت کے واقعہ کے سلسلے میں جب درج ذیل تین آیتوں پر غور کریں تو تین سوالات سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں بنی اسرائیل کے کتنے گروہوں کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ عذاب کن گروہوں پر آیا اور تیسرا یہ کہ عذاب کتنی بار آیا۔ ان سوالوں کا جواب لوگوں نے ترجمے میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً‌ إِلَی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ۔ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ أَنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ۔ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُہُوا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُونُوا قِرَدَةً‌ خَاسِئِینَ۔ (الاعراف: 164 - 166)

”اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ”تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے“ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار“۔ (سید مودودی، اس ترجمے کی رو سے تین گروہ تھے،  ایک نافرمانی کرنے والے، دوسرے خاموشی اختیار کرنے والے اور تیسرے برائی سے روکنے والے۔  اول الذکر دو گروہوں  پر عذاب آیا اور دو بار عذاب آیا۔)

”اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کرسکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔ جب انہوں نے ان باتوں کو فراموش کردیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی اور جو ظلم کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا کہ نافرمانی کئے جاتے تھے۔ غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار اور ہمارے حکم سے) گردن کشی کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ“۔ (فتح محمد جالندھری، اس ترجمے کی رو سے عذاب ایک بار آیا)

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلی آیت میں أُمَّةٌ مِنْہُمْ کہہ کر ایک ہی گروہ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گروہ نے یہ بات اپنے سے مختلف کسی دوسرے گروہ سے کہی تھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ یہ ایک گروہ کی باہم گفتگو ہو۔ اللَّہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا کی تعبیر بتارہی ہے کہ یہ بات کہنے والے اللہ کے عذاب کے سلسلے میں گہرا شعور رکھتے تھے، اللہ کے عذاب سے لاپروا قسم کے لوگ نہیں تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی قوم کی نافرمانیوں سے شدید نفرت اور بیزاری بھی رکھتے تھے اور ان کے عمل سے قطعًا راضی نہیں تھے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ اس قوم کی نافرمانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کی باہمی گفتگو ہے۔ اس تحریک کے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ اب ماننے والے نہیں ہیں انھیں سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، اب اللہ کا عذاب ان کا مقدر ہوچکا ہے، اس پر ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ہی وہ سب لوگ یکسو ہوگئے۔

اصلاحی تحریکوں کے طویل سفر کے دوران اس طرح کے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ کوششوں کو جاری رکھنے کی افادیت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ تحریکوں کی استقامت اسی میں ہوتی ہے کہ اس کے افراد ان سوالوں کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کو مطمئن کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھنے کے موقف پر جمے رہیں۔    

اگر یہ طے ہوجاتا ہے کہ پہلی آیت میں جس گفتگو کا ذکر ہے وہ مصلح گروہ کی آپس کی گفتگو ہے۔ تو یہ بات بھی طے ہوجاتی ہے اس پورے قصے میں دو ہی گروہ تھے ایک مصلحین کا اور دوسرا فاسقین کا، اسی کے ساتھ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ دوسری آیت میں جس عذاب کا ذکر آیا ہے وہ نافرمانی کرنے والے گروہ پر نازل ہوا، کسی اور پر نہیں۔ کیوں کہ وہاں دو ہی گروہ تھے، ایک نافرمانوں کا اور دوسرا مصلحین کا۔ نافرمانی پر خاموشی اختیار کرنے والوں کا گروہ تھا ہی نہیں۔

عذاب صرف نافرمانوں پر نازل ہوا، اس کے لیے عذاب کے مستحقین کے سلسلے میں ان آیتوں میں مذکور تعبیرات خود واضح دلیل ہیں: 

(۱) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ، (۲) الَّذِینَ ظَلَمُوا، (۳) کَانُوا یَفْسُقُونَ، (۴) عَتَوْا عَنْ مَا نُہُوا عَنْہُ، یہ چاروں تعبیریں انہی لوگوں پر چسپاں ہوتی ہیں جو نافرمانی کا ارتکاب کررہے تھے۔ چاروں تعبیروں میں سے کسی کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا جو نافرمانوں کو نصیحت کرنے کی افادیت محسوس نہ کریں۔

جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ عذاب ایک بار آیا یا دو قسطوں میں آیا، تو اس سلسلے میں بھی یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عذاب ایک بار آیا، پہلی آیت میں اس کی شدت کو بتایا گیا اور دوسری آیت میں اس کی تفصیلات بیان کردی گئیں۔ یہاں فلمّا کی تکرار لفظی ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ وہ واقعہ دو بار پیش آیا۔ اللہ کا سخت عذاب آجانے کے بعد بھی ان لوگوں کو اپنی روش پر قائم رہنے کا موقع ملے، یہ بعید از قیاس بات ہے۔  

 ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ ہوگا:

”اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے (آپس میں کہا) کہ ”تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے“ تو انہوں نے کہا انھیں نصیحت کرتے رہو اپنے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے اور اس امید پر کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کرگئے جن سے ان کی یاددہانی کی گئی تھی تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور ان لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ تو جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہوجاؤ ذلیل اور خوار“۔

مَعْذِرَةً‌ إِلَی رَبِّکُمْ  میں ضمیر مخاطب کم آئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بارے میں بات نہیں بلکہ مخاطب کے بارے میں بات ہے۔ اس لیے مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا   ترجمہ کرتے ہیں:”یہ کام کئے جاؤ اپنے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے“،  جب کہ دوسرے لوگ ترجمہ کرتے ہیں: ”ہم یہ کام کررہے ہیں تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے“۔ لیکن اس ترجمے سے اس کی توجیہ نہیں ہوپاتی ہے کہ متکلم کی ضمیر کے بجائے مخاطب کی ضمیر کیوں آئی ہے۔

(487) فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ

حرج کا لفظ اپنے اندر ایک طرز کے متعدد معانی کے لیے وسعت رکھتا ہے۔ درج ذیل آیت میں لوگوں نے اس کا ترجمہ کرنے کے لیے مختلف تعبیرات اختیار کی ہیں، جیسے جھجک، رکاوٹ، تنگی، پریشانی، وغیرہ:

کِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ۔ (الاعراف: 2)

”یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو“۔ (سید مودودی)

”اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے“۔ (احمد رضا خان)

”(اے محمدﷺ) یہ کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے تمہیں تنگ دل نہیں ہونا چاہیے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے تو اس کے باعث تمہارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے یہاں حرج کے لیے ’الجھن‘ کا لفظ تجویز کیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس کتاب کو لے کر تم کسی الجھن میں گرفتار نہ رہو۔ دیگر تعبیرات کے مقابلے میں یہ تعبیر موزوں تر معلوم ہوتی ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ یہاں صدر کا لفظ آیا ہے۔ اس کا ترجمہ دل نہیں بلکہ سینہ ہونا چاہیے۔ عام طور سے لوگوں نے دل ترجمہ کیا ہے۔  

(488) وَلِلَّہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی

وَلِلَّہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَاءِہِ۔ (الاعراف: 180)

”اور اللہ کے لیے تو صرف اچھی ہی صفتیں ہیں تو انہیں سے اس کو پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑو جو اس کی صفات کے باب میں کجروی اختیار کر رہے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس جملے میں حصر کا اثر لفظ ’َلِلَّہِ‘ پر ہے۔ یعنی اللہ کے لیے ہی اچھے نام ہیں۔ نام کا ترجمہ صفت کرنا بھی محل نظر ہے۔   

”اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں“۔ (سید مودودی)

’اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے‘ ایک تو حصر کا اظہار نہیں ہوا، دوسرے ’مستحق‘ کا لفظ یہاں موزوں نہیں ہے۔ درست ترجمہ ہوگا: ”اللہ کے لیے ہی اچھے نام ہیں“۔ فِی أَسْمَاءِہِ کا ترجمہ ”نام رکھنے“ میں مناسب نہیں ہے۔ عمومی بات ہے کہ جو ”اللہ کے ناموں میں راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں“۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:    

”اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(489) بدّل شیئا غیر شیء کا اسلوب

یہ اسلوب قرآن مجید میں آیا ہے، اس اسلوب میں غیر کا ترجمہ سوا، علاوہ اور خلاف موزوں نہیں ہے، بلکہ اور یا دیگر مناسب ہے۔ یعنی جو چیز پہلے سے ہے اس کی جگہ دوسری چیز لے آنا۔ غیر کو دیکھ کر جب سوا وغیرہ جیسے الفاظ لائے جاتے ہیں تو ترجمہ غیر ضروری طور پر بوجھل ہوجاتا ہے۔ 

(۱) کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُودًا غَیْرَہَا۔ (النساء: 56)

”جس وقت پک جاوے گی کھال ان کی، بدل کر دیں گے ان کو اور کھال“۔ (شاہ عبدالقادر)

”جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انہیں بدل دیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری دونوں ترجموں میں ’سوا‘ لانے سے ترجمہ بوجھل ہورہا ہے۔ 

(۲) یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ۔ (ابراہیم: 48)

”جس دن بدلی جاوے اس زمین سے اور زمین“۔ (شاہ عبدالقادر)

”جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا“۔ (احمد رضا خان)

یہاں بھی آخری دونوں ترجموں میں ’سوا‘ لانے سے ترجمہ بوجھل ہورہا ہے۔

مذکورہ بالا آیتوں کی  طرح درج ذیل دونوں آیتوں میں بھی یہی مراد ہے کہ جو بات کہی گئی تھی اس کی جگہ وہ دوسری بات لے آئے۔ شاہ عبدالقادر نے درج ذیل دونوں آیتوں میں ’سوائے‘ کا غیر ضروری استعمال کرلیا، جس سے انھوں نے اوپر کے دونوں مقامات پر احتراز کیا تھا۔  

(۳) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ۔ (البقرۃ: 59)

”پر بدل لی بے انصافوں نے اور بات سوائے اس کے جو کہہ دی تھی ان کو“۔ (شاہ عبدالقادر)  

”تو جو ظالم تھے، انہوں نے اس لفظ کو، جس کا ان کو حکم دیا تھا، بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا“۔(فتح محمد جالندھری، قول کا ترجمہ بات ہونا چاہیے، ’لفظ‘ موزوں نہیں ہے۔ ’کہنا شروع کیا‘ بھی زائد از عبارت ہے،یہاں صرف ایک بات کو دوسری بات سے بدلنے کا ذکر ہے۔)

”مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا“۔ (سید مودودی)

”پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا دونوں ترجموں کے سلسلے میں عرض ہے کہ عبارت کی رو سے جو بات کہی تھی اس کو بدلنا مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کی جگہ ایک دوسری بات کو لے آنا مراد ہے۔

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”تو جنہوں نے ظلم کیا انہوں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی دوسری بات سے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۴) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ۔ (الاعراف: 162)

”سو بدل لیا بے انصافوں نے ان میں سے اور لفظ سوائے اس کے جو کہہ دیا تھا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی، عبارت کے اسلوب کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے ترجمہ کتنا کم زور ہوگیا۔)

”مگر جو لوگ اُن میں سے ظالم تھے اُنہوں نے اُس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی بدل ڈالا“۔ (سید مودودی، بات کو نہیں بدلا، اس کی جگہ دوسری بات لے آئے۔)

”تو ان میں کے ظالموں نے بات بدل دی اس کے خلاف جس کا انہیں حکم تھا“۔ (احمد رضا خان، غیر کی وجہ سے ’خلاف‘ لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ایک بات کی جگہ دوسری اس سے مختلف بات لانا مراد ہے۔)

”مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا“۔ (فتح محمد جالندھری، یہاں بھی وہی تسامح ہے)

”تو ان میں سے ان لوگوں نے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اس کو بدل دیا کہی ہوئی بات سے مختلف بات سے“۔ (امین احسن اصلاحی، ’اس کو بدل دیا‘ نہیں بلکہ کہی ہوئی بات کو بدل دیا مختلف بات سے۔)


اجتہاد کی شرعی حیثیت

شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ انسانی ضروریات اور انسانی ماحول ایک حالت پر قائم رہنے والی چیز نہیں ہے، اور تمدنی ترقیات کے ساتھ ہی ساتھ انسانی ضروریات کا تبدیل ہونا ضروری امر ہے۔ لہٰذا آپؐ نے بہت سی فرعی باتوں سے متعلق خود احکام صادر فرمانے مناسب نہیں سمجھے، اور ان لوگوں کے فہم و فراست پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری پیغمبر مانتے اور کتاب و سنت کے اصولی احکام کو واجب التعمیل جانتے ہیں۔
کتاب و سنت کے قوانین کو لازمی اور قابلِ عمل جاننے والوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اجتہاد و تفقہ سے کام لیں اور کتاب و سنت کی روشنی میں ضروری اور ہنگامی قانون بنائیں۔ اس کو فقہ اور قیاس کہتے ہیں۔ اور مجتہد مصیب بھی ہو سکتا ہے اور مخطی بھی۔ لیکن اگر صاحبِ اجتہاد نے اپنی پوری طاقت اور وسعت صَرف کی اور مع ہذا اس سے غلطی ہو گئی، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ وہ ماجور ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتِ بے پایاں سے ثواب کا مستحق ہو گا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا حکم الحاکم فاجتہد و اصاب فلہ اجران، واذا حکم فاجتہد واخطا فلہ اجر واحد۔ (بخاری ج ۲ ص ۱۰۹۲ و مسلم ج ۲ ص ۷۶ و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرے اور اجتہاد کرتے ہوئے درست فیصلہ کرے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ اگر اس سے خطا سرزد ہو تو اس کو ایک ہی اجر ملے گا۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت اور مشقت کو ہرگز رائیگاں نہیں کرتا، تو اجتہاد کرتے وقت جو تکلیف اور کاوش مجتہد کو ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس پر اس کو ضرور ایک اجر مرحمت فرمائے گا۔ اور اصابتِ رائے کی صورت میں ایک اجر اجتہاد کا اور ایک اصابتِ رائے کا اس کو حاصل ہو گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مجتہد صحیح معنی میں مجتہد ہو۔ ورنہ ’’القضاۃ ثلاثہ‘‘ کی حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ جاہل آدمی کا فیصلہ اس کو دوزخ میں لے جائے گا (رواہ ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ج ۲ ص ۳۲۴)۔
اس صحیح روایت سے اجتہاد کا درست ہونا، اور خطا کی صورت میں مجتہد کا معذور بلکہ ماجور ہونا صراحت سے ثابت ہوا۔ صرف بطور تائید و شاہد کے حضرت معاذ بن جبلؓ (المتوفی ۱۸ھ) کی روایت بھی سن لیجئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو اس وقت آپؐ نے حضرت معاذ سے فرمایا کہ
کیف تقضی اذا عرض لک قضاء؟ قال اقضی بکتاب اللہ۔ قال فان لم تجد فی کتاب اللہ؟ قال فبسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ قال فان لم تجد فی سنة رسول اللہ؟ قال اجتہاد برایی ولا آلو۔ قال فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ و قال الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی بہ رسول اللہ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد والدارمی و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’تو کس طرح فیصلہ کرے گا جب تیرے سامنے کوئی جھگڑا پیش ہوا؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ میں تجھے وہ بات نہ مل سکے؟ عرض کیا تو پھر سنتِ رسول اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر سنتِ رسول اللہ میں بھی نہ ہو؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ کا رسول راضی ہے۔‘‘
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی ۷۷۴ھ) اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: باسناد جید کما ہو مقرر فی موضعہ (تفسیر ج ۱ ص ۳) ۔ اس روایت کی سند عمدہ اور کھری ہے جیسا کہ اپنے موقع پر ثابت ہے۔
اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کے اس جواب پر کہ اجتہد برایی (کہ میں قیاس اور رائے سے کام لوں گا) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا اور اظہارِ مسرت کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے فروعی قوانین کو منجمد رکھنا پسند نہیں فرمایا بلکہ ضرورت کے پیش نظر ایسے قوانین کو استقرائی رکھنا چاہا ہے۔ تاکہ انسان کے قوائے دماغیہ کی نشوونما اور انسانی ترقیات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔ 
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (المتوفی ۱۳ھ) کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کو تلاش کرتے تھے، ورنہ اجتہاد سے کام لیتے تھے۔
ان ابابکرؓ اذا نزلت بہ قضیہ لم یجد لھا فی کتاب اللہ اصلاً ولا فی السنہ اثرا فقال اجتہد برایی فان یکن صوابا فمن اللہ وان یکن خطا فمنی واستغفر اللہ۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۳۶)
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر ان کو اس کی وضاحت نہ ملتی تو فرماتے: میں اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں، اگر درست ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہو گی، ورنہ میری خطا ہو گی اور میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور تابعی قاضی شریحؒ (المتوفی ۸۵ھ) کو خط لکھا۔ اس میں کتاب و سنت اور اجماع کے بعد خاص طور پر اجتہاد کرنے کا ذکر ہے۔ (دیکھیے مسند دارمی ص ۳۴ و مثلہ فی کنز العمال ج ۳ ص ۱۷۴)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی اجماع کے بعد قیاس اور اجتہاد کرنے کا حکم دیا کرتے تھے (مسند دارمی ص ۳۴)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ معمول تھا کہ جب کتاب و سنت کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کوئی ثبوت نہ مل سکتا تو قال فیہ برایہ (مسند دارمی ص ۳۳ و مستدرک ج ۱ ص ۱۲۷ و قالا صحیح علی شرطہما) اپنی رائے سے کام لیتے تھے۔
الغرض جمہور اہلِ اسلام قیاسِ شرعی کو صحیح اور حجت تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’جمہور از صحابہؓ و تابعین و فقہاء و متکلمین باں رفتہ کہ اصلے از اصولِ شریعت است استدلال میرود بداں بر احکام واردہ بسمع و ظاہریہ انکارش کردہ اند۔‘‘ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۲)
’’جمہور صحابہؓ و تابعینؒ اور فقہاء و متکلمین اس کے قائل ہیں کہ قیاس شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اس کے احکام واردہ بسمع میں باقاعدہ استدلال صحیح ہے اور اہلِ ظاہر نے قیاس کا انکار کیا ہے۔‘‘
اہلِ ظاہر کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ انہوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ غیر نبی کو یہ مقام کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دین کی باتوں میں دخل دے۔ اعتراض بظاہر بڑا معقول اور وزنی ہے مگر حقیقت سے بالکل دور ہے۔ اس لیے کہ موجبِ حکم مجتہد اور قائس کا قیاس و اجتہاد نہیں ہے، بلکہ موجب اصل میں وہی شرعی دلیل ہے جو قرآن کریم اور حدیث وغیرہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ مجتہد کا کام صرف اتنا ہے کہ مسکوت عنہ جزئی کی کڑی دلیلِ شرعی سے جوڑ دیتا ہے اور بس۔ چنانچہ مشہور فیلسوفِ اسلام علامہ ابن رشد ابو الولید محمد بن احمد (المتوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں:
واما القیاس الشرعی فھو الحاق الحکم الواجب لشی ما بالشرع بالشی الذی اوجب الشرع لہ ذٰلک الحکم او لعلہ جامعہ بینھما۔ (بدایة المجتہد ج ۱ ص ۳)
’’قیاسِ شرعی اس کو کہتے ہیں کہ جو حکم شریعت میں کسی چیز کے لیے ثابت ہو چکا ہو، اس حکم کو اس چیز کے اوپر بھی چسپاں کیا جائے جو مسکوت عنہ ہے۔ یا تو اس لیے کہ یہ اس کے مشابہ ہے، اور یا اس لیے کہ ان دونوں میں علت جامعہ مشترک ہے۔‘‘
نواب صاحبؒ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں:
’’و اما قیاس پس در اصطلاح فقہاء حمل معلوم بر معلوم است در اثبات حکم یا نفی او بامر جامع میان ہر دو از حکم یا صفت و اختارہ جمہور المحققین‘‘۔ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۱)
مولانا حافظ محمد عبد اللہ صاحب روپڑی لکھتے ہیں:
’’جب انسان کو کوئی مسئلہ قرآن و حدیث سے صراحتاً نہیں ملتا تو وہ قرآن و حدیث میں اجتہاد و استنباط کرتا ہے۔ اور وہ اجتہاد و استنباط قرآن و حدیث سے الگ نہیں کہلاتا۔ اسی طرح صحابی کے اس قول کو، جو اجتہاد و استنباط کی قسم سے ہو، اس کو قرآن وحدیث سے الگ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ قرآن و حدیث میں داخل سمجھنا چاہیے۔‘‘ (بلفظہ ضمیمہ رسالہ اہل حدیث ص ۷)

اجتہاد کی اہلیت

یہ بات طے شدہ ہے کہ اجتہاد کے لیے چند نہایت ضروری شرطیں ہیں، جن میں وہ نہ پائی جا سکیں ان کی بات ہرگز حجت نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ صوفیاء کرامؒ کی باتیں بھی شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، الّا یہ کہ وہ شریعت کے موافق ہوں۔ چنانچہ علامہ قاضی ابراہیم الحنفی (المتوفی حدود ۱۰۰۰ھ) لکھتے ہیں:
’’اور جو عابد و زاہد اہلِ اجتہاد نہیں وہ عوام میں داخل ہیں۔ ان کی بات کا کچھ اعتبار نہیں۔ ہاں اگر ان کی بات اصول اور معتبر کتابوں کے مطابق ہو تو پھر اس وقت معتبر ہو گی۔‘‘ (نفائس الاظہار ترجمہ مجالس الابرار ص ۱۲۷)
’’مجالس الابرار‘‘ کی حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ نے بڑی تعریف کی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کیا ہی خوب ارشاد فرمایا ہے کہ
’’عملِ صوفیہ در حل و حرمت سند نیست۔ ہمیں بس است کہ ما ایشاں را معذور درایم و ملامت نہ کنیم و مر ایشاں را بحق سبحانہ و تعالیٰ مفوض داریم۔ اینجا قول امام ابوحنیفہؒ و امام ابو یوسفؒ و امام محمدؒ معتبر است، نہ عمل ابوبکر شبلیؒ و ابو حسن نوریؒ۔‘‘
’’صوفیاء کی بات حل و حرمت میں سند نہیں ہے۔ یہی کافی ہے کہ ہم ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں۔ اس جگہ حضرت امام ابوحنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا قول معتبر ہو گا، نہ کہ ابوبکر شبلیؒ اور ابو حسن نوری جیسے صوفیاء کرام کا۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول ص ۳۳۵ مکتوب ص ۲۲۶)
یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دین کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہو چکی تھی۔ مگر تکمیلِ دین کا یہ مطلب ہے کہ قواعد اور کلیاتِ دین پورے طور پر مکمل ہو چکے تھے۔ بعد کو پیش آنے والے واقعات اور حوادث کو ان اصول اور کلیات کے تحت درج کرنا، اور انہی جزئیات کو کلیات پر منطبق کرنے کا نام قیاس و اجتہاد ہے۔ لیکن بسا اوقات جزئیات کا کلیات میں داخل کرنا کسی خاص عارضہ کی وجہ سے بعض لوگوں پر مخفی رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروعی مسائل میں فقہاء اسلام کا اختلاف رہا ہے۔ اور ایسے مواقع پر جو چیز اقرب الی الحق ہو، اس کو قبول کر لینا اور اس پر عمل کرنا نجات کے لیے کافی ہے۔ ہاں اگر قرآن وحدیث سے کوئی نص مل جائے، یا اجماع پر اطلاع ہو جائے، تو اس صورت میں قیاس سے رجوع کرنے میں ہرگز تامل نہیں ہونا چاہیے۔
(ماہنامہ الشریعہ جولائی ۱۹۹۵ء)

مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

(۲۰ مئی ۲۰۲۱ء کو یوٹیوب چینل ’’شیبانی فاؤنڈیشن‘‘ پر نشر ہونے والی گفتگو)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ آج اس نشست میں ہم اس پر گفتگو کریں گے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں فلسطین کے اس تنازع کی حیثیت کیا ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو اس معاملے میں بین الاقوامی قانون کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ اور اس وجہ سے اس موضوع پر جتنے مباحثے ہو رہے ہیں اور جتنی گفتگو ہو رہی ہے میری ناقص رائے میں اس میں بنیادی ایشیوز کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور جو بحث ہے وہ صحیح نہج پر نہیں جا رہی۔ اس لیے میں چاہتا یہ ہوں کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کچھ بنیادی جو نکات ہیں وہ آپ کے سامنے رکھوں۔ 
جہاں تک بین الاقوامی قانون کے متعلق مسلمانوں کے نقطۂ نظر کا تعلق ہے، وہ اپنی جگہ ایک مستقل مسئلہ ہے، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون اور جو موجودہ بین الاقوامی نظام ہے یہ مغربی اقوام کی پروڈکٹ ہے، اور انہوں نے ظاہر ہے اپنے مقاصد اور اپنے اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سسٹم بنایا ہوا ہے۔ اور اگر اس کی تاریخ کو دیکھیں تو ۱۶۴۸ء سے جب ویسٹفالیا (Westphalia) کا معاہدہ ہوتا ہے، اور جدید قومی ریاستوں کا آغاز ہوتا ہے تو اگلے دو سو سال تک تو اس قانون کو اور اس نظام کو صرف یورپ تک ہی محدود سمجھا جاتا رہا۔ اور غیر یورپی اور غیر مسیحی اقوام کا تو اس میں کوئی کردار ہی نہیں تسلیم کیا گیا تھا۔ لیکن بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر بالآخر بیسویں صدی میں غیر یورپی غیر مسیحی اقوام بھی اس نظام میں شامل ہو گئیں۔ لیکن اس نظام میں غیر مسیحی اور غیر یورپی اقوام کی شمولیت کے لیے جو شرائط تھیں، اگر آپ انٹرنیشنل لاء کی کسی بھی بنیادی کتاب جیسے مثال کے طور پر اوپن ہائم کی مشہور کلاسک کتاب ’’انٹرنیشل لاء‘‘ اس میں دیکھیں تو وہ شرائط یہی تھیں کہ آپ نے ہماری شرائط پر اور ہماری اقدار کو مانتے ہوئے اس نظام کا حصہ ہونا ہے۔ اور اگر ہم آپ کو اس میں شامل ہونے دیں گے تب آپ اس میں شامل ہو سکیں گے۔ اس طرح کے امور بالکل واضح ہیں۔ تو ہم ان کی شرائط پر اور ان کے سسٹم اور ان کے رولز آف دی گیم کو مانتے ہوئے یوں کہیں کہ  اس میں شامل ہوئے ہیں، اور تب شامل ہوئے ہیں جب انہوں نے ہمیں شامل کرنا چاہا۔ 
انٹرنیشل لاء کے متعلق ہماری بنیادی ریزرویشنز (تحفظات) اپنی جگہ موجود ہیں۔ لیکن اس وقت ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ انٹرنیشنل لاء جس طرح بنا ہوا ہے، اس کی روشنی میں اور اس کے اصولوں کی روشنی میں اس مسئلے کی حیثیت کیا ہے، اور یہ تنازع اصل میں بنتا کیا ہے۔  ورنہ اگر ہم اسلامی اصولوں کی روشنی میں بات کریں اور قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں تو ہمارے نزدیک تو اسرائیل کا وجود ہی سرے سے ناقابلِ تسلیم ہے اور بہت بڑا ظلم ہے۔ اور اس کے متعلق اسلامی اصولوں کی روشنی میں الگ سے گفتگو ہم کر سکتے ہیں اور کریں گے ان شاء اللہ۔ لیکن اس وقت یہ دکھانا مقصود ہے کہ جو موجودہ بین الاقوامی قانونی نظام ہے، اگر ہم اس کے اصولوں پر اور اس کے اندر رہتے ہوئے بات کریں تو پوزیشن کیا بنتی ہے۔ 
میں شروع کروں گا اس معاملے کو پہلی جنگِ عظیم سے۔ جب پہلی جنگِ عظیم میں عثمانی خلافت اور دیگر جن کے ساتھ ان کا اتحاد تھا ان کو شکست ہوئی، اور برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے جنگ میں کامیابی حاصل کی، تو اس کے بعد مفتوحہ جو علاقے تھے اور جتنے ممالک تھے ان کا کرنا کیا ہے؟ اس معاملے میں ان فاتح اقوام کا آپس میں ایک معاہدہ ہوا، ورسائی (The Treaty of Versailles 1919) کا معاہدہ جس کو کہا جاتا ہے۔ اس میں انہوں نے طے کیا کہ فرانس کے پاس کونسا علاقہ ہو گا، برطانیہ کے پاس کون سا ہو گا وغیرہ۔ اس معاہدہ کی رو سے انہوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ فلسطین اور آس پاس کا علاقہ برطانیہ کے کنٹرول میں ہو گا۔ اور جنگ کے دوران میں برطانیہ نے صہیونی تنظیم کو باقاعدہ تحریری طور پر ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر جب فلسطین کا کنٹرول ہمیں ملے گا تو ہم یہاں یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے۔ اس کو بالفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration) کہتے ہیں جو انہوں نے ۱۹۱۷ء میں انہوں نے تحریری طور پر صہیونی تنظیم کے سربراہ کو لکھ کر اپنا وعدہ دیا تھا۔ 
جب برطانیہ نے ورسائی معاہدے کے تحت یہ کنٹرول بھی حاصل کیا اور پھر ۱۹۱۹ء میں جب نئے عالمی نظام کی تشکیل کیلئے ایک میثاق طے پایا اور ایک معاہدہ طے پایا اور ’’لیگ آف نیشنز‘‘ وجود میں آ گئی، تو اس لیگ آف نیشنز نے، یوں کہیں کہ ان فاتح اقوام کی آپس میں جو انڈرسٹینڈنگ تھی اسی کو قانونی صورت دے کر مینڈیٹ سسٹم ایک بنایا۔ انتداب کا نظام جس کو اردو میں کہا جاتا ہے۔ اور برطانیہ کو یہ فلسطین اور آس پاس کا علاقہ بطور مینڈیٹ دیا گیا، بطور امانت دیا گیا۔ اور آئیڈیا یہ تھا کہ یہاں آپ نے یہاں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے کیلئے اہل بنانا ہے۔ یہ ابھی تہذیب کی سطح سے ذرا نیچے ہیں۔ اور بحیثیت سفید فام آپ کی ذمہ داری ہے ان کو مہذب بنانے کی، تو آپ نے ان لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ نہ صرف فلسطین اور آس پاس کے علاقے بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی ان کا کنٹرول ہوا، انہوں نے مینڈیٹس بنا کر ان کے تین درجے بنا دیے تھے۔ مینڈیٹ اے، مینڈیٹ بی، مینڈیٹ سی۔ تو فلسطین اور یہ جو علاقے تھے یہ مینڈیٹ اے میں تھے۔ اور معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ مینڈیٹ اے کے تحت جو اقوام آتی ہیں ان کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے آقا کا انتخاب کریں کہ انہوں نے فرانس کے تحت زندگی گزارنی ہے یا برطانیہ کے تحت زندگی گزارنی ہے۔ لیکن عملاً اس چوائس کو نافذ نہیں کیا گیا۔ بہرحال برطانیہ نے مینڈیٹ کی ذمہ داری اٹھائی اور پھر یوں کہیں کہ ۱۹۱۷ء، ۱۹۱۸ء سے لے کر ۱۹۴۸ء تک جب برطانیہ کا کنٹرول یہاں رہا، تو دنیا بھر سے یہودیوں کو یہاں اکٹھا کر کے آباد کرانے کی ایک پوری مہم چلائی گئی۔ ورنہ یہاں یہودیوں کی آبادی بہت تھوڑی تھی۔
۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے، جب نئی تنظیم دوسری جنگِ عظیم کے بعد بنی، نیا نظام بنا، تو ۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے معذوری ظاہر کی کہ اب میں مزید مینڈیٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور یہ میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔ اس موقع پر اقوام متحدہ نے ایک پارٹیشن پلان، تقسیم کا ایک منصوبہ منظور کیا۔ اس منصوبے پر بھی ہمیں بہت سارے تحفظات ہیں۔ لیکن اگر ہم اس منصوبے کو جوں کا توں لے لیں تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، تو اس منصوبے کے مطابق اس علاقے کو تقسیم ہونا تھا عربوں میں اور یہودیوں میں۔ اور اس دوران میں جب یہودیوں نے اسرائیل ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو اس منصوبے میں جو اُن کو زمین دی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ انہوں نے قبضے میں لے لی۔
اب قبضے کے متعلق ایک بنیادی بات یہ یاد دلانی ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز تک فتح کے بعد قبضہ اور اس کے بعد اس علاقے کا اپنے ساتھ الحاق کرنا، یہ بین الاقوامی عرف کا حصہ تھا اور اس کو باقاعدہ ایک قانونی جواز مل جاتا تھا۔ اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے علاقے پر قبضہ کر لیتی، اپنا قبضہ مستحکم کر لیتی، پھر اس حصے کو اپنا حصہ ڈکلیئر کر لیتی، اس کا اپنے ساتھ الحاق کر الیتی، تو اس کے بعد کہا جاتا کہ یہ جگہ اب اس قابض ریاست کا حصہ ہو گئی ہے، اور اب اس پر ان کا کنٹرول ہے اور ان کا ٹائٹل ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے اس سلسلہ کو روکا گیا، اور ۱۹۲۸ء میں ایک بنیادی معاہدہ ہوا امریکہ اور فرانس کے درمیان ابتدائی طور پر، لیکن بعد میں دیگر ریاستیں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ اس معاہدہ کو ’’پیکٹ آف پیرس‘‘  کہا جاتا ہے یا Kelogg-Briand Pact بھی کہتے ہیں۔ اس میں یہ طے پایا کہ طاقت کے استعمال کے ذریعے، جنگ کے ذریعے تنازعات کو حل نہیں کیا جائے گا، اور اس وجہ سے یہ اصول طے پایا کہ اگر جنگ کے نتیجے میں کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے علاقے کو قبضہ میں لے لے تو وہ قبضہ ناجائز ہو گا، اور جلد یا بدیر قابض طاقت کو وہاں سے نکلنا ہو گا۔ 
اسی طرح ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کا منشور بنا، اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں آئی، تو اس کے منشور میں بھی باقاعدہ طور پر صراحت سے کہا گیا کہ طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی ناجائز ہے۔ اور کسی ملک کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا، نہ اس کی دھمکی دی جائے گی۔ چنانچہ نہ صرف جنگ اور طاقت کا استعمال بلکہ اس کی دھمکی بھی ناجائز ہو گئی۔ اس وجہ سے قبضے کے ذریعے، فتح کے ذریعے، زبردستی الحاق کر کے کسی علاقے کو اپنے قبضے میں لے لینا، یہ اب بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز ہے۔ 
نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا بھی اضافہ کیجئے کہ بین الاقوامی قانونِ جنگ، جس کو بین الاقوامی قانونِ انسانیت بھی کہا جاتا ہے، انٹرنیشنل ہیومینیٹرین لاء، اس کے اصولوں کی رو سے یہ بات مسلّم ہے، یہ طے ہے کہ جب تک قبضہ برقرار ہے تو حالتِ جنگ برقرار ہے۔ بلکہ یہاں تک اس قانون کی رو سے مسلّم ہے، جنیوا کنونشنز میں اس کی صراحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی ریاست کسی علاقے کو قبضے میں لے لے تو خواہ اس قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو، ایک گولی بھی نہ چلے، کوئی قابض طاقت کو روکے بھی نہ، اور نہ قبضے کے بعد اس کے خلاف کوئی مزاحمت ہو، اس کے باوجود یہ قبضہ ناجائز ہو گا اور یہ حالتِ جنگ ہو گی۔ مزید یہ کہ جنیوا کنونشنز اور جو بھی انٹرنیشنل ہیومنیٹیرین لاء کے معاہدات ہیں اور جو اس کے ساتھ متعلقہ بین الاقوامی عرف ہے اور بین الاقوامی قانون کے قواعدِ عامہ ہیں، ان کی رو سے یہ بات بھی مسلّم ہے کہ جو مقبوضہ علاقے ہیں ان کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ وہ مقبوضہ علاقے کے اندر سے بھی مزاحمت کر سکتے ہیں، وہ کسی اور علاقے میں جا کر جیسے جلاوطن حکومت قائم کی جاتی ہے، وہاں سے بھی مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں، دوسری ریاستیں بھی ان کی مدد کر سکتی ہیں، یہ ساری باتیں بین الاقوامی قانون کی رو سے طے شدہ ہیں۔ 
اب ایک اور بات کو بھی میں یہاں شامل کرنا چاہوں گا وہ حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، Right to Self Determination کا۔ اس کے متعلق بہت پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہم پہلی جنگ عظیم کے آس پاس ہی شروع کریں تو وُڈرووِلسن جو امریکی صدر تھا، اس کے جو مشہور فورٹین پوائنٹس (چودہ نکات) تھے ان میں حقِ خود ارادیت کا بھی ذکر تھا کہ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ کس طرح کی حکومت ان کی ہو گی؟ اور کون ان پر حکومت کرے گا؟ اور جو بھی حکومت کرے گا تو حاکم کو جو اختیار ہو گا وہ محکوم کی مرضی سے حاصل ہو گا۔ اسی طرح چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں بھی اس طرح کی باتیں کی تھیں لیکن جیسے مغربی طاقتوں کا منافقت کا ایک عمومی طریقہ ہوتا ہے تو چرچل کو بھی بعد میں کہنا پڑا کہ نہیں یہ جو میں نے باتیں کہیں تھیں ان کا تعلق تو صرف یورپ کی حد تک تھا کہ یورپ میں جرمنی نے یا دیگر طاقتوں نے جن علاقوں کو قبضے میں لیا تھا تو ان کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ لیکن وقت کا پہیہ رکتا نہیں ہے، آگے بڑھتا ہے۔ تو اس لیے جب اقوام متحدہ کی تنظیم بنی تو اس میں بھی حقِ خود ارادیت تمام اقوام کیلئے تسلیم کیا گیا۔ پھر جو انسانی حقوق کا بین الاقوامی اعلان کیا گیا ، یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس ۱۹۴۸ء میں، اس میں بھی ، اور پھر جو سیاسی حقوق سے متعلق بنیادی معاہدہ (The International Covenant on Civil and Political Rights) اقوام متحدہ کی کوششوں سے تشکیل پایا ۱۹۶۶ء میں ، اس میں بھی حقِ خود ارادیت کو بنیادی ترین حق کے طور پر مانا گیا تمام لوگوں کیلئے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کیجئے کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بہت ساری قراردادیں حقِ خود ارادیت کے متعلق منظور کی ہیں۔ اور اس وجہ سے ۱۹۶۰ء کی دہائی کو تو یوں کہیں ڈی کولونائزیشن کی دہائی کہتے ہیں۔ کیونکہ افریقہ میں، ساؤتھ امریکہ میں، ایشیا میں بہت ساری ریاستیں آزاد ہو گئیں، مغربی طاقتوں سے انہوں نے آزادی حاصل کی۔ 
اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے ایک اور جنگ کے ذریعے بہت سارے علاقے قبضے میں لے لیے، شام سے، لبنان سے، مصر سے، اردن سے، تو یہ سارے علاقے مقبوضہ علاقے (Occupied Territories) ہیں۔ اور اقوام متحدہ کا سرکاری موقف اب بھی یہ ہے کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے جو علاقے قبضے میں لیے ہیں وہ مقبوضہ علاقے ہیں، ان میں اسرائیل کو قابض طاقت کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ علاقے اسرائیل کے ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ یروشلم یعنی ہمارا القدس انہی علاقوں میں شامل ہے۔ القدس پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ چاہے ۱۹۶۷ء میں یہ قبضہ ہوا ہو، ترپن چون سال ہو گئے ہوں، لیکن یہ قبضہ ہے، یہ ناجائز ہے، یہ جرم ہے، اور جلد یا بدیر اسرائیل کو بہرحال یہاں سے نکلنا ہو گا۔ 
جب فلسطینی آزادی کی تحریک چل پڑی تو یاد رکھیے کہ حقِ خود ارادیت کے متعلق بین الاقوامی فورمز پر، جنرل اسمبلی میں، یا جہاں کہیں بھی جتنی بھی بحث ہوئی ہے، تو بنیادی طو رپر حقِ خود ارادیت کی بحث میں مرکزی فریق کی حیثیت فلسطین کے لوگوں کو حاصل رہی۔ اور حقِ خود ارادیت کے معاملے میں عام طور پر جو بھی بحث ہوتی تھی ، اس کے حق میں ہوتی تھی، یا اس کے خلاف مغربی طاقتوں کی جانب سے ہوتی تھی، تو بیک گراؤنڈ میں فلسطین کا مسئلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے جب اس سے تقریباً  دس سال بعد ۱۹۷۷ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو مزید معاہدے اضافی شامل کیے گئے جن ہم ایڈیشنل پروٹوکولز کہتے ہیں، ان میں جو پہلا ایڈیشنل پروٹوکول ہے ۱۹۷۷ء کا، اس میں جب یہ قرار پایا کہ حقِ خود ارادیت کے لیے لڑنے والوں کو باقاعدہ Combatant (جنگجو) کی حیثیت حاصل ہے، یعنی بین الاقوامی قانون کی رو سے ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، وہ جنگ میں شامل ہوں۔ اور جب وہ فریقِ مخالف کی قید میں آئیں گے تو ان کو جنگی قیدی کی حیثیت حاصل ہو گی۔ تو یہ ساری بحث بھی بنیادی طور پر فلسطینی آزادی کی تحریک کے تناظر میں ہو رہی تھی۔ اس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ان کو آزادی کیلئے لڑنے کا حق حاصل ہے۔ اور جب ان کو لڑنے کا حق حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ ان کو دوسری ریاستوں کی جانب سے سپورٹ ملنے کا حق بھی حاصل ہے۔ 
اس ضمن میں ایک اور اہم ترین دستاویز کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا، وہ ۲۰۰۳ء میں اقوام متحدہ کی جو عدالت ہے جس کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کہا جاتا ہے، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، اس کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ قابض اسرائیلی طاقت نے مقبوضہ علاقے میں دیوار تعمیر کرنی شروع کی تاکہ وہ خود کو حملوں سے محفوظ کرے۔ جیسے امریکہ آج بھی کہتا ہے کہ اس کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ تو یہ دفاع کا حق کیسے حاصل ہے اسے؟ وہ تو قابض طاقت ہے، وہ تو خود جارح ہے، اس نے علاقے کو قبضے میں لیا ہوا ہے، اور اس کا قبضہ ناجائز ہے۔ تو کیا اب وہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے مقبوضہ علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس میں دیوار تعمیر کر سکتا ہے؟ 
یہ سوال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی طرف بھیجا کہ آپ اس کے قانونی نتائج ہمیں بتائیں۔ کیا قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کو اس دیوار کی تعمیر کا اختیار حاصل ہے؟ اور اگر یہ دیوار کی تعمیر ناجائز ہے تو پھر اسرائیل کیلئے اس کے نتائج کیا ہیں؟ بین الاقوامی اداروں کی کیا ذمہ داری ہے؟ دیگر ریاستوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
اقوام متحدہ کی جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف ہے، اس میں اور سلامتی کونسل وغیرہ میں آپ نے فرق کرنا ہے۔ جو سلامتی کونسل ہے وہ سیاسی ادارہ ہے، وہاں فیصلے قانون اور اصول کی بنیاد پر نہیں ہوتے، سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اور جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف ہے تو وہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ اس لیے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اس فیصلے کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے تمام احباب سے میری  گزارش ہو گی کہ وہ یہ فیصلہ تو ضرور پڑھیں۔ یہ فیصلہ بھی آپ کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی ویب سائیٹ سے مل سکتا ہے، اس کی سمری بھی مل سکتی ہے۔ کم از کم وہ سمری تو ضرور پڑھیں۔ 
اس میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے طے کیا ہے کہ اس مقبوضہ علاقے پر اسرائیل نامی قابض ریاست کے قبضے کی کیا حیثیت ہے۔ اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ پھر قبضے سے متعلق جو قانون ہے Occupation Law اس کے تحت قابض ریاست یا قابض طاقت کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی؟ مثال کے طور پر وہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں سے اپنی وفاداری کا حلف نہیں لے سکتی، ان کو اس پر مجبور نہیں کر سکتی۔ پھر مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کیا حقوق حاصل ہیں؟ پھر بین الاقوامی جو انسانی حقوق کا قانون ہے، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لاء، اس کے تحت کیا کیا نتائج اس پر مرتب ہوتے ہیں؟ اسی طرح بین الاقوامی قانونِ جنگ کی رو سے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں؟ اسرائیل نے کیا کیا خلاف ورزیاں کی ہیں؟ پھر دیگر ریاستوں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ اور بین الاقوامی اداروں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ یہ سارا کچھ اس فیصلے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی وسیع پیمانے پر اشاعت بہت زیادہ ضروری ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے جب اس معاملے کا جائزہ لیا تو وہ کن نتائج تک پہنچی ہے؟ 
اگر ہم اسلامی شریعت کے اصولوں کی روشنی میں اس معاملے کا جائزہ لیں تو مظالم کی فہرست میں مزید بھی اضافہ ہو جاتا ہے، اور ہماری ذمہ داریوں کی فہرست میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دوسرے فریق کے ساتھ گفتگو کیلئے بین الاقوامی قانون کو ایک مشترکہ معیار کے طور پر مانیں، اور ان کے ساتھ اس پر بحث کریں کہ آئیں کم از کم اس معیار کو تو مانیں جس کو آپ نے ہم پر مسلط کیا  ہوا ہے۔ اس معیار کی رو سے دیکھیں کہ آپ کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ ہماری کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ اس مسئلے کی نوعیت کیا ہے؟ تو اس کیلئے سب سے اہم دستاویز یہ ۲۰۰۳ء کا بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہ ہے۔ 
اس بحث کی روشنی میں خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے اسرائیل کو ان علاقوں میں قابض طاقت کی حیثیت حاصل ہے، وہ یہاں آبادکاری نہیں کر سکتا، یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل نہیں کر سکتا، یہاں ایسی تبدیلیاں نہیں لا سکتا جو دور رَس ہوں، جو ریورس نہ کی جا سکتی ہوں۔ یہاں کے لوگوں پر وہ اس طرح کا اختیار نہیں رکھتا جیسے کوئی جائز حکومت اپنے لوگوں پر رکھتی ہے۔ اور جلد یا بدیر اس کو یہاں سے نکلنا ہو گا۔ اب اس کیلئے عملاً یہ جو مظلوم لوگ ہیں، ان کو ان ظالم لوگوں سے بچانے کیلئے بین الاقوامی قانون کی رو سے ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں اور ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان پر ہم انشاء اللہ آئندہ نشست میں گفتگو کریں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔


  1. The Peace of Westphalia 1648
  2. Balfour Declaration 1917
  3. President Woodrow Wilson's 14 Points 1918
  4. British Palestine 1917-1948
  5. The Treaty of Versailles 1919
  6. League of Nations 1920
  7. The Kellogg-Briand Pact 1928
  8. United Nations 1945
  9. The Geneva Convention 1949/1977
  10. International Covenant on Civil rights 1966
  11. Six-Day War 1967
  12. International Court of Justice's Judgment 2003
  13. Oppenheim's "International Law"

قراردادِ مقاصد پر غصہ؟

مجیب الرحمٰن شامی

 پاکستان کے انتہائی ممتاز اور سنجیدہ دانشور وجاہت مسعود یہ خبر لائے ہیں کہ 12 مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں منظور کی جانے والی قراردادِ مقاصد نے ہماری قومی شناخت کی تشکیل میں کھنڈت ڈالی۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا ہے کہ لیاقت علی خان جمہوریت پسند نہیں تھے، ان کی کم نگاہی نے سکندر مرزا اور ایوب خان کو قوم پر کم و بیش آٹھ برس کا نادیدہ اقتدار سونپ دیا۔ مزید فرمایا گیا: لیاقت علی مغفور سمجھتے تھے کہ شبیر عثمانی سے ہاتھ ملا کے متحدہ ہندوستان میں مغل عہد کی تعلقہ دار نشانیوں کے لیے پاکستان میں غلبے کی ضمانت حاصل کر لیں گے۔ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ محمد علی جناحؒ رہنما تھے، لیاقت علی نے بیڑہ ڈبو دیا۔ لیاقت علی اور شبیر عثمانی کی عنایت کوئی چالیس برس ہمارے گلے میں حائل رہی، پھر جالندھر کے میاں طفیل محمد (امیر جماعت اسلامی) اور ضیاء الحق کے گٹھ جوڑ سے ہمارے دستور کے نافذ و متن کے درجے کو پہنچی، ہمیں اپنی مہلتِ نفس میں اس صبح کی اُمید نہیں جب دستورِ پاکستان کو اس آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔
یہ تحریر پڑھ کر سر چکرا گیا ہے۔ وجاہت مسعود انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ پاکستان میں جمہوری اقدار کی بحالی اور بالادستی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ تاریخ پر بھی ان کی نظر گہری ہے۔ احتیاط اور آداب کے ساتھ بات کرنا ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ کڑوی باتوں کو بھی میٹھے الفاظ میں لپیٹنے کا فن جانتے ہیں۔ اُن سے اختلاف کرنے والے بھی اُن کو احترام سے دیکھتے اور وہ بھی اختلاف کرنے والوں کا احترام کرتے ہیں۔ دِل آزاری اُن کا شیوہ نہیں۔ وہ ہمارے اُن لکھاریوں میں سے ہیں جن سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھا جاتا ہے، پھر کیا ہوا کہ ''قراردادِ مقاصد‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے وہ بے قابو ہو گئے۔ اکابرین کے شخصی احترام کے بھی قائل نہ رہے۔
قراردادِ مقاصد قرآن کا حصہ ہے نہ اس کے الفاظ الہامی ہیں۔ یہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ پاکستان بنانے والوں نے اس کے بارے میں سوچا اور اسے الفاظ کا قالب عطا کر دیا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسے منظور کیا اور آج تک پاکستان کی ہر اسمبلی اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی آ رہی ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 1954ء میں جو پہلا دستوری مسودہ منظور کیا، یہ اس کا حصہ تھی۔ دوسری دستور ساز اسمبلی 1956ء میں ملک کو اس کا پہلا دستور دینے میں کامیاب ہوئی تو یہ اس دستاویز میں بھی شامل تھی۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کر کے دستور منسوخ کر ڈالا۔ 1962ء میں قوم کو ایک نیا دستور دینے کی ’’گستاخی‘‘ کی تو اس میں بھی یہ قرارداد شامل کرنا پڑی۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زیر قیادت ’’نئے پاکستان‘‘  کی دستور ساز اسمبلی نے جو دستور اتفاقِ رائے سے منظور کیا، اس میں بھی قراردادِ مقاصد جوں کی توں رہی۔  تمام سیاسی جماعتوں نے خواہ وہ سیکولر تھیں یا مذہبی، قدامت پرست تھیں یا ترقی پسند، علاقائی تھیں یا قومی، اس قرارداد کو تسلیم کیا اور اسے دستور کا حصہ بنائے رکھنے کی تائید کی۔  جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران چیف جسٹس حمود الرحمن کے ایک فیصلے کی روشنی میں اسے آئین کا قابلِ عمل حصہ بنایا گیا تو اس پر بھی کسی حلقے نے اعتراض نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل پرویز مشرف نے دستور کو معطل کرنے کی جسارت کی لیکن قراردادِ مقاصد دستور کا مؤثر حصہ رہی۔ صدر آصف علی زرداری کے زیر قیادت تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاقِ رائے سے آئین میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کر ڈالیں، لیکن قراردادِ مقاصد کے کسی لفظ یا حرف تو کیا شوشے کو تبدیل کرنے کی کسی کو جرأت ہوئی، نہ کسی نے اس بارے میں کوئی مطالبہ کیا۔
اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ قراردادِ مقاصد کسی ایک یا دو افراد کی اختراع نہیں تھی، یہ شبیر عثمانی یا لیاقت علی خان کی سازش تھی نہ میاں طفیل اور ضیاء الحق جالندھری کو اس کی تخلیق کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ شرف تو پاکستان بنانے والوں کا تھا کہ اُنہوں نے مملکت کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا سامان کر دیا۔ یہ واضح کر دیا کہ پاکستان کس لیے بنایا گیا تھا اور اسے کس طرح چلایا جا سکتا ہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے فاضل دوست ان آداب کو بھی فراموش کر بیٹھے جن پر وہ ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے بڑھ کر تحریکِ پاکستان کے دوسرے بڑے لیڈر تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلسل کئی برس تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے، یہ شرف اُن سے چھینا نہیں جا سکتا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کو زمانہ شیخ الاسلام کے نام سے جانتا ہے، اُنہی نے مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی تائید و حمایت کے لیے جمعیت العلمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ اُنہیں قائد اعظمؒ ہی کے حکم کے تحت پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرایا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے اعلیٰ ترین قائدین سے لے کر ادنیٰ کارکن تک اُن کا نام احترام سے لیتے اور اس سے روحانی تقویت حاصل کرتے ہیں۔ لیاقت علی خان کو ایوب خان اور سکندر مرزا کی تقرری کا ذمہ دار قرار دے کر ان کا کِیا دھرا ان کے کھاتے میں ڈالنا انتہائی بے تکی بات ہے۔  اگر اس طرح کی منطق پر تاریخ کی عمارت استوار کی جانے لگی تو پھر کسی بھی شخص کی بداعمالی کا ذمہ دار اس کے والد، استاد، افسر یا آجر کو قرار دے کر اسے بآسانی بری الزمہ قرار دیا جا سکے گا۔
جس قراردادِ مقاصد پر ہمارے عزیز دوست چراغ پا ہوئے ہیں، وہ اسے اچھی طرح پڑھ کر تو دیکھیں۔ اس میں بنیادی بات یہی کہی گئی ہے کہ مملکت کا نظام عوام کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔ دوسری بات یہ کہ اسلامیانِ پاکستان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق منظم کیا جائے گا۔ ان میں سے کون سی بات ہے جو گراں گزری ہے؟ 
یہ درست ہے کہ پاکستان میں اسلام کے نام پر فرقہ واریت پھیلائی گئی، یہ بھی درست ہے کہ فقہی جھگڑوں میں قوم کو اُلجھایا گیا، یہ بھی صحیح ہے کہ اسلام کے اعلیٰ اور ارفع اصولوں کو اجتماعی زندگی میں اپنایا نہیں جا سکا، لیکن یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کا نظام عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں رہا، ان سے یہ حق بار بار چھینا گیا۔ ہمارا المیہ قراردادِ مقاصد کی منظوری نہیں، اس کی نامنظوری ہے۔ ہم نے اسے کتابِ آئین کا حصہ تو بنا ڈالا لیکن عملاً اس کو نامنظور کر دیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کرنے میں لگے رہے۔
پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھا۔ اگر مذہب محض نجی معاملہ ہوتا، اسے اجتماعی زندگی سے کوئی سروکار نہ رکھنا ہوتا تو متحدہ ہندوستان میں بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔ آل انڈیا کانگرس کا مؤقف یہی تھا۔ قائد اعظمؒ اور ان کے رفقاء نے اس نعرے کے ساتھ ہی تو الگ مملکت حاصل کی تھی کہ انہیں اپنی اجتماعی زندگی کو بھی اسلامی اصولوں پر استوار کرنا تھا۔ اگر ہم اپنے نظمِ اجتماعی کی ترتیب اپنے آدرشوں کے مطابق نہیں کر سکے تو آدرشوں سے دستبرداری اختیار کرنے کو تو شیوۂ مردانگی نہیں کہا جا سکتا۔
(روزنامہ پاکستان لاہور — ۱۷ مارچ ۲۰۲۴ء)

چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز

ملی مجلس شرعی

ملی مجلس شرعی، جو تمام دینی مکاتب فکر کے علماء کا مشترکہ علمی فورم ہے اور 2007ء سے کام کر رہا ہے، اس کے علماء کرام کا ایک اجلاس 5 مارچ 2024ء کو جامعہ عثمانیہ/ جامع آسٹریلیا لاہور میں مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت ہوا۔ علماء کرام نے چیف جسٹس صاحب کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر شق وار غور کیا اور مندرجہ ذیل رائے دی جسے سپریم کورٹ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔

(۱) پیرا گراف 6

اپنے فیصلے کے پیراگراف 6 میں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی آیت (لا اکراہ فی الدین) [البقرہ ۲۵۶:۲] کا حوالہ دیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ جبکہ زیر بحث موضوع سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ کیس یہ ہے ہی نہیں کہ مسلمان قادیانیوں کو زبردستی مسلمان کر رہے ہیں، نہ قادیانیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ مسلمان انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں، لہٰذا چیف جسٹس صاحب کا یہاں اس آیت کا حوالہ دینا غیر متعلق ہے۔

(۲) پیراگراف 7

یہاں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی دو آیتیں پیش کی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری دین پہنچا دینے کی تھی نہ کہ لوگوں کو زبردستی مسلمان کرنے کی۔ چیف جسٹس صاحب کا یہ حوالہ بھی زیر بحث کیس سے غیر متعلق ہے اور خلط مبحث کا باعث ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیس زیربحث میں زبردستی مسلمان کرنے کی شکایت نہ تو قادیانیوں نے کی ہے اور نہ مسلمان اس کے مدعی ہیں اور نہ اس پر عامل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کیا۔ پھر پہنچا دینے کا مفہوم بھی چیف جسٹس صاحب غلط لے رہے ہیں۔ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ذمہ داری دین پہنچا دینے ہی کی تھی، لیکن قرآنی تعلیمات اس پر شاہد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اس کا گواہ ہے کہ آپؐ نے اسلامی معاشرہ بھی قائم کیا اور اسلامی ریاست بھی اور ریاست کی قوت سے اسلامی احکام پر عمل بھی کرایا۔ لہٰذا ’’پہنچا دینے‘‘ کا جو مفہوم چیف جسٹس صاحب لے رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔
چیف جسٹس صاحب نے اس پیراگراف میں یہ بھی کہا ہے کہ دین میں جبر تصورِ آخرت کے بھی منافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلام دین میں جبر کا قائل ہی نہیں، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس پر عمل کیا، نہ اس کا حکم دیا، نہ مسلمان اس کے قائل ہیں، نہ قادیانیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ مسلمان انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں، تو چیف جسٹس صاحب کو یہ مقدمہ پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لہٰذا اس آیت کا ذکر بھی یہاں بے محل اور غیر متعلق ہے۔

(۳) پیراگراف 8

اس میں چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں کہ قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، اور اس کے لیے انہوں نے قرآن حکیم کی دو آیات نقل کی ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اس کیس میں آیات پر تدبر کرنے کی بجائے مدعی کی خواہش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ ملزمان کو توہین قرآن اور گستاخی رسول کا مرتکب قرار دے۔
اس کو اردو محاورے میں کہتے ہیں ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘۔ جناب! قرآن حکیم میں تدبر کرنے کا اس بات سے کیا تعلق ہے کہ کسی مرتد (و اولادِ مرتد) اور غیر مسلم کو قرآن کی غلط تشریح کرنے اور اس کی مسلمانوں میں تشہیر کرنے سے روکنے کی کوشش کی جائے۔ جبکہ ریاست قرآن کی اس تشریح کو غلط اور مسلمانوں کے لیے مضر اور اشتعال انگیز قرار دے کر پہلے ہی اس پر پابندی لگا چکی ہے۔
پھر چیف جسٹس صاحب نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن پر غور و تدبر کا مقصود کیا ہے؟ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے اور اس پر غور و تدبر کرنے کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ اس پر عمل کیا جا سکے۔ اور تعلیم ہی اگر غلط ہو تو اس پر عمل بھی غلط ہو گا۔ لہٰذا اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کو قرآن کی غلط تشریح کرنے پر ٹوکا ہے، یا ریاست نے اسے اس سے روکا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔ یہ قرآن حکیم پر صحیح تدبر کا صحیح نتیجہ ہے، لیکن چیف جسٹس صاحب اسے خلافِ تدبر قرار دے رہے ہیں۔
پھر اس پیراگراف میں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی اس آیت کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ قرآن ہم پر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کا زیربحث کیس سے کیا تعلق ہے؟ یا یہ مدعی کے خلاف اور مدعا علیہم کے حق میں کیسے جاتی ہے؟ اس آیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ مسلمان اور ان کی ریاست متنِ قرآن کی حفاظت کریں اور قرآن کی اس تشریح کی حفاظت کریں جو مسلمانوں کی 1450 سالہ جمہور اہل علم اور جمہور امت کی روایت ہے۔ اس لحاظ سے اگر کوئی اس آیت کو پیش کر کے اس کی تشریح کرے تو یہ مدعی کے حق میں جاتی ہے نہ کہ مدعا علیہم کے حق میں۔ جو مسلمانوں کی قرآن کی متفقہ علیہ تعبیر کی مخالفت کرتے ہیں اور انہوں نے اس پر ایک نیا مذہب کھڑا کر لیا ہے۔

(۴) چیف جسٹس صاحب کو مشورہ

i۔ مندرجہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں جتنی قرآنی آیات کا بھی حوالہ دیا ہے وہ اس موضوع سے غیر متعلق ہیں، جس کی وجہ سے خلط مبحث پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں خود محسوس کرنا چاہیے کہ وہ قرآنی علوم کے ماہر نہیں ہیں، لہٰذا انہیں چاہیے کہ قرآن حکیم سے براہ راست خود استفادہ کرنے کی بجائے ان اہلِ علم سے مشورہ لے لیا کریں جنہوں نے ساری عمر قرآن حکیم کو سمجھنے اور سمجھانے اور سیکھنے سکھانے میں گزاری ہے۔ جیسا کہ خود انہوں نے 26 فروری 2024ء والے فیصلے میں کیا ہے کہ بعض دینی اداروں کو اس سلسلے میں معاونت کے لیے کہا ہے۔ یہ کام انہیں 6 فروری 2024ء کے فیصلہ کرنے سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔
ii۔ اہلِ علم سے مشورہ لینے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ مشورہ ان سے لیا جائے جو امت کی 1450 سالہ علمی روایت کے امین ہیں اور ’’جمہور علماء‘‘ اور ’’جمہور امت‘‘ کہلاتے ہیں، نہ کہ شاذ رائے رکھنے والے کسی ایسے متجدد سے جو مغرب کی الحادی فکر و تہذیب سے مرعوب ہو کر قرآن و سنت کی تشریح ایسے کرتا ہو جو مغربی فکر و تہذیب اور اس کے علمبرداروں کے مفادات کے مطابق ہو، جیسے جاوید احمد غامدی صاحب جنہیں سارے پاکستان کے علماء گمراہ قرار دے چکے ہیں اور جن کے ادارے المورد کو چیف جسٹس صاحب نے دینی امور میں مشاورت کے لیے بلایا ہے۔ اگر وہ ان جیسے لوگوں سے مشاورت کریں گے تو پاکستان کی ملت اسلامیہ کبھی ان کے فیصلوں کو قبول نہیں کرے گی، لہٰذا انہیں المورد کو مشاورت کے لیے نہیں بلانا چاہیے تھا۔

(۵) پیراگراف 8

چیف جسٹس صاحب نے یہاں فرمایا ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق غیر مسلموں کو اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے مذہب کی تعلیم و تلقین کی اجازت دیتے ہیں۔
i۔ یہاں پہلی بات تو نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ آئین یہ اجازت غیر مشروط طور پر نہیں دیتا بلکہ اسے قانون کی مطابقت سے مشروط کرتا ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ آئین پاکستان قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے اور قانون ان کو اسلامی شعائر اور مصطلحات کے استعمال سے روکتا ہے، جیسے امیر المومنین، صحابہ کرامؓ، اہل بیت ، مسجد، اذان وغیرہ۔
ii۔ دوسرے یہ کہ قادیانی حضرات اپنے مذہب کو ساری دنیا میں، اور پاکستان میں صحیح اسلام اور صحیح مسلمان کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنا لٹریچر وسیع پیمانے پر طبع اور تقسیم کرتے ہیں اور اس مقصد سے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کو (یعنی عامۃ المسلمین) کو وہ کافر اور جہنمی قرار دیتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی مسلمان اور علماء کرام اس کو صحیح تسلیم نہیں کر سکتے کہ قادیانیوں کو بنیادی انسانی حقوق کے کور (Cover) کے تحت غیر اسلامی مواد کی طباعت اور تقسیم کی اجازت دی جائے، اپنے اداروں میں بھی اور باہر بھی۔

(۶) دفعہ 298C

چیف جسٹس صاحب کو یہ نکتہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا کہ حکومت پنجاب کے ادارے ’’قرآن بورڈ‘‘ نے اس قرآنی تفسیر ’’تفسیر صغیر‘‘ پر 2016ء سے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن حکیم کی تشریح قادیانی نقطۂ نظر سے اس طرح کی گئی ہے کہ اس کی طباعت اور تقسیم عام مسلمانوں کے لیے مضر اور اشتعال کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی نہ صرف اسے پاکستان میں چھپوا رہے ہیں اور تقسیم کر رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں اسے صحیح اسلامی تفسیر کہہ کر پھیلا رہے ہیں۔ ملزم اس کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کو اصل مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس کتاب کی ترویج و تقسیم میں مصروف تھا جو 298C کے تحت جرم بنتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ملزم نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں کسی جگہ اس دفعہ کے خارج کیے جانے کا مطالبہ ہی نہیں کیا، لیکن فاضل چیف جسٹس نے اس خود ملزمان کو اس دفعہ سے خارج کر دیا ہے۔

(۷) دفعہ 295B

چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ ملزم کے خلاف 295B کا الزام ثابت نہیں ہوتا اور اسے مقدمے سے خارج کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب 295B میں Defilement کا لفظ موجود ہے جس کے معنی آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق یہ ہیں:
To make something dirty or no longer pure
اور اس کے مترادفات (Synonyms) ہیں: Spoil, Debase, Pollute, Degrade, Dishonour جبکہ یہی بات تو یہاں زیر بحث ہے کہ ملزمان نے قرآن کے متن، ترجمہ اور تفسیر کی ایسی طباعت و اشاعت کی ہے جس میں قرآنی مفاہیم میں تحریف اور زیادتی کی گئی ہے، تو اس پر 295B کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟ اور چیف جسٹس صاحب نے کیونکر اس پر 295B کے اطلاق سے انکار کیا ہے؟

(۸)

جس مواد پر حکومت پابندی لگا دے، اس کی طباعت و اشاعت دہشت گردی کے ضمن میں آتی ہے (دیکھیے دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 8 اور 11W)۔ لیکن فاضل چیف جسٹس صاحب اس پر غور ہی نہیں فرما سکے اور ملزمان کو بری کر دیا۔

(۹)

چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اس مقدمے پر کریمنل امینڈمنٹ ایکٹ 1932ء لاگو ہوتا ہے جس کے تحت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 6 ماہ قید ہے (جبکہ ملزم اس سے زیادہ قید کاٹ چکا ہے لہٰذا اس کی ضمانت قبول کی جانی چاہیے تھی) ۔ جبکہ مذکورہ ایکٹ 64 سال پہلے پریس اینڈ پبلی کیشن ایکٹ 1960ء کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔ جس کے ثبوت میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ اس کیس پر اطلاق درحقیقت ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011ء دفعہ 7 اور 9 کا ہوتا ہے جس کے تحت اس کی سزا عمر قید اور کم از کم تین سال ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔

(۱۰) پیراگراف 9

چیف جسٹس صاحب اس میں فرماتے ہیں کہ ہر شہری کو مذہبی آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مگر بنیادی حقوق کی دفعہ 4 میں یہ آزادی مشروط ہے قانون کی مطابقت سے۔ پھر آئین کے آرٹیکل 260B کے مطابق قادیانی کوئی مذہب نہیں (ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح) بلکہ چند افراد کا ایک گروپ ہے جو اسلام کے حساس عقائد میں تحریف کرتا ہے۔ یہ بات قومی اسمبلی کی ان ابحاث سے بالکل واضح ہے جو 260B بناتے وقت قومی اسمبلی میں ہوئیں۔

(۱۱) پیراگراف 10

چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اگر متعلقہ ادارے قرآن، آئین اور قانون کو دیکھ لیتے تو FIR درج ہی نہ ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ ہر فرد کو آزادی حاصل ہے مگر قانون کے مطابق۔ اور قانون کہتا ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور وہ مسلمانوں کے شعائر اور اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ تحریف شدہ ترجمہ قرآن بھی خلافِ قانون اور قابلِ سزا ہے۔ قرآن بورڈ نے ہولی قرآن ایکٹ 2011ء کے تحت اس پر پابندی لگائی ہے تو عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ FIR درج ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔

(۱۲) پیراگراف 16

چیف جسٹس صاحب اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ مذہبی جرائم کی روک تھام ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی اکیلے آدمی کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کی رو سے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس میں کوئی قانون خلافِ اسلام نہیں بنایا جا سکتا۔ اور اگر بن جائے تو ہر مسلمان کو حق ہے کہ وہ اسے اس بنیاد پر چیلنج کرے کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ مذہب کے خلاف قوانین کو کوئی فرد چیلنج نہیں کر سکتا۔ یہاں تو ریاست کی حالت یہ ہے کہ مدعی نے 2019ء میں ریاست سے مطالبہ کرنا شروع کیا کہ ملزمان توہین قرآن کے مرتکب ہو رہے ہیں، لیکن پوری کوشش اور بھرپور فالو اَپ کے بعد کہیں ۲۰۲۲ء میں جا کر ملزمان کے خلاف FIR کاٹی گئی۔

(۱۳) 

ایک ملزم چیف جسٹس صاحب کے پاس ضمانت کرانے آیا تھا، باقی ملزمان مفرور تھے۔ چیف جسٹس صاحب نے انہیں بغیر مانگے، ان کی درخواست ضمانت کو اپیل میں بدلا اور پھر اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا، یعنی وہ سب جرم سے بری قرار دیے گئے۔ قادیانیوں سے یہ آوٹ آف دی باکس مہربانی کی وجہ چیف جسٹس صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ اور پھر ان کا مشہورِ زمانہ رویہ کہ وکیلوں کو بولنے نہ دو، ڈانٹ ڈپٹ کر کے انہیں توہینِ عدالت کی دھمکی دو، خود بولتے رہو اور خود ہی فیصلہ کر دو۔ چیف جسٹس صاحب کا Tenure بہت تھوڑا ہے لیکن اپنے اس رویے کی وجہ سے وہ مدتوں یاد رکھے جائیں گے، جیسا کہ لوگ آج بھی اس چیف جسٹس کو یاد کرتے ہیں جس کے پاس ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قوانین میں تبدیل کرنے کی اجازت لینے گیا اور سپریم کورٹ نے اسے آئین تبدیل کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ ما شاء اللہ!۔

(۱۴) آئین و قانون میں تبدیلی کی ضرورت

i۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علماء کرام اور عوام نے تحریک چلا کر 1974ء میں پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا۔ پھر تجربے نے ثابت کیا کہ قادیانیوں نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور وہ مسلسل خود کو اصلی مسلمان ظاہر کرتے اور مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر علماء کے مطالبے پر جنرل ضیاء الحق کو امتناعِ قادیانیت آرڈیننس 1984ء میں پاس کرنا پڑا ۔ اور 295B میں قادیانیوں کو مسلمانوں کی بعض اصطلاحات اور شعائر کا نام لے کر ذکر کرنا پڑا کہ وہ انہیں استعمال نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود ہمارا تجربہ یہ ہے کہ قادیانی بدستور التباس پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، لہٰذا ایسے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ کچھ چیزوں کے نام لے کر ان کا ذکر کرنے کی ضرورت ہے کہ قادیانیوں کو ان کے استعمال سے روک دیا جائے جن کی فہرست ہم یہاں دے رہے ہیں۔
ii۔ آئین میں تبدیلی کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور ان کی طرح کے کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیانیوں کے خلاف جو قانون سازی کی گئی ہے وہ اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر اور آئین پاکستان میں مذکور بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس بات سے اگر صرفِ نظر بھی کر لیا جائے کہ آئینِ پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق سے لیے گئے ہیں اور ان میں سے کئی قرآن و سنت کے خلاف ہیں، ہم کہتے ہیں کہ اس التباس سے بچنے کی موزوں صورت یہ ہے کہ آئین کے متعلقہ بنیادی حقوق میں جہاں شہری آزادیوں کا ذکر ہے، وہاں اسے قادیانیوں سے متعلق قوانین سے مشروط کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے، اور ہم کہتے ہیں کہ یہ وجہ بہت اہم ہے، اور وہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا مسئلہ غیر مسلموں (ہندوؤں اور عیسائیوں) جیسا نہیں ہے بلکہ وہ مرتد (اور اولادِ مرتد) ہیں اور انہوں نے اسلام ترک کیا ہے۔ لہٰذا ان پر ایسی پابندیوں کا اطلاق تقاضائے انصاف ہے جن سے وہ خود کو مسلمان نہ ظاہر کر سکیں اور انہیں مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی اجازت نہ ہو۔
اس لیے ہم چیف جسٹس صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حکومت کو آئین میں مذکورہ آئینی تبدیلی کے علاوہ 295B میں مندرجہ ذیل امور کو قانون میں شامل کرنے کی تجویز دیں:
۱۔ ’’احمدیوں‘‘ کو ’قادیانی غیر مسلم‘ اور ’لاہوری غیر مسلم‘ کہا جائے اور انہیں ’احمدی‘ نہ کہا جائے، کیونکہ احمدی اور محمدی تو عام مسلمان ہیں۔
۲۔ شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ رکھا جائے اور اس میں انہیں ’قادیانی غیر مسلم‘ اور ’لاہوری غیر مسلم‘ لکھا جائے۔
۳۔ قادیانی اور لاہوری غیر مسلموں کو مسلمانوں جیسے نام رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
۴۔ وہ قرآن کو اپنی مذہبی کتاب نہیں کہہ سکتے اور نہ اس کی طباعت و اشاعت و تدریس کر سکتے ہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب ہے نہ کہ ان کی۔ یہی معاملہ کتبِ حدیث کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔
۵۔ ان کے مرد و خواتین کا لباس اور ان کی وضع قطع (داڑھی ٹوپی وغیرہ) مخصوص ہونی چاہیے اور عام مسلمانوں جیسی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ عہدِ صحابہ میں تھا اور حضرت عمرؓ نے اس کا حکم دیا تھا۔
۶۔ وہ اسلام کے کسی رکن مثلاً‌ صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج اور جمعہ، عیدین، قربانی کو اپنی عبادت کے طور پر اختیار نہیں کر سکتے۔
۷۔ وہ اسلام کی اصطلاحات، شعائر، اسماء اور کسی بھی ایسے امر/رسم کو اختیار اور استعمال نہیں کر سکتے جس سے وہ یہ التباس پیدا کر سکیں کہ وہ مسلمان ہیں، اور نہ انہیں کسی بھی شکل میں خود کو مسلمان کہلانے کی اجازت ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ وہ عام کفار یعنی ہندوؤں، عیسائیوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ وہ مرتد ہیں اور ترکِ اسلام کے مجرم ہیں، لہٰذا ان کا مسلمانوں سے اور ان کے شعائر، مقدسات، عبادات، اصطلاحات، رسوم و رواج سے الگ اور متمیز ہونا ضروری ہے، تاکہ ان کی الگ شناخت ممکن ہو سکے۔

اسمائے گرامی شرکاء مجلس

۱۔ مولانا زاہد الراشدی (شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم و ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
۲۔ مولانا مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان (چیئرمین وفاق المدارس الرضویہ، لاہور)
۳۔ مولانا عبد المالک (صدر وفاق رابطۃ المدارس، لاہور)
۴۔ مولانا عبد الرؤف ملک (سرپرست جامعہ عثمانیہ و آسٹریلیا مسجد، لاہور)
۵۔ مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی (مہتمم جامعہ اہلحدیث، چوک دالگراں، لاہور)
۶۔ مولانا محمد الیاس چنیوٹی (امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، پاکستان)
۷۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی (مہتمم جامعہ اسلامیہ و مرکز تحقیق اسلامی، کامونکی)
۸۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (نائب امیر جماعت اسلامی، پاکستان)
۹۔ مولانا سردار محمد خان لغاری (ناظم اعلیٰ متحدہ علماء کونسل، لاہور)
۱۰۔ حافظ ڈاکٹر حسن مدنی (مہتمم جامعہ رحمانیہ و پروفیسر پنجاب یونیورسٹی، لاہور)
۱۱۔ مولانا حافظ محمد عمران طحاوی (نائب ناظم اعلیٰ ملی مجلسِ شرعی، لاہور)
۱۲۔ مولانا عبد اللہ مدنی (ناظم تعلیمات جامعہ فتحیہ و مسئول وفاق المدارس العربیہ لاہور)
۱۳۔ حافظ ڈاکٹر محمد سلیم (مہتمم جامعہ عثمانیہ و آسٹریلیا مسجد، لاہور)
۱۴۔ مولانا ڈاکٹر محمد امین (سابق پروفیسر علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)

بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی


مسلمان رمضان المبارک میں اللہ پاک کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، اسے منانے میں فرائض و واجبات کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جب رب راضی ہوتا ہے تو خوشی کے اظہار کے لیے اپنے بندوں کو ایک دن بھی عنایت کرتا ہے اور وہ دن عید الفطر کا ہوتا ہے۔ عید الفطر یا عید عالمِ اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو کہ ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی دھوم دھام سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے، جبکہ شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔
عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں۔ جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں، یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالی بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہٰذا اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔ عید الفطر وہ انعام ہے جو امتِ مسلمہ کو رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کے بعد عطا ہوا ؎
یہ خوشی ہے روزہ داروں کے لیے
روزے جو گئے اُن کی رسید آئی ہے
عالمِ اسلام ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں؛ عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ عید الفطر کا یہ تہوار جو کہ پورے ایک دن پر محیط ہے اسے چھوٹی عید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورت البقرہ میں اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق؛ ہر مسلمان پر ماہ رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جبکہ اسی ماہ میں قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی تذکرہ ہے، لہٰذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں عید مبارک کہنا، گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا، رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں، جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں، پھر دن چڑھے ایک مختصر سا ناشتہ یا پھر کھجوریں کھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ،جو کہ ایک طرح سے اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد، عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ شاعر (احمد علی برقی اعظمی) نے اس عید الفطر کے منظر کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
دلوں سے سب کے کدورت مٹائے عیدالفطر
نقوشِ بُغض و حسد کو مِٹائے عیدالفطر
دلوں میں شمعِ محبت جَلائے عیدالفطر
جو غمزدہ ہیں اُنہیں آکے شادکام کرے
جو رو رہے ہیں انہیں بھی ہنسائے عیدالفطر
بڑھائے حوصلہ پژمُردہ دل ہیں جو اُن کا
جو گِر رہے ہیں اُنہیں بھی اُٹھائے عیدالفطر
یہ اُستوار کرے رشتہ محبت کو
ہے جو بھی عہدِ وفا وہ نِبھائے عیدالفطر
دیار غیر میں ہیں جو، رہیں خوش و خُرم
وطن کی یاد کو دل سے بُھلائے عیدالفطر
ہوں ہمکنار خوشی سے سبھی امیر و غریب
ہمیں بھی اور اُنہیں، راس آئے عیدالفطر
خزاں کی زد میں نہ گُلزارِ زندگی ہو کبھی
چمن میں اپنے نئے گل کِھلائے عیدالفطر
یہ سدِ باب کرے تیرگی کا اے برقی
کبھی نہ شمعِ اخوت بُجھائے عیدالفطر
یاد رکھیے! نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ عید الفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے۔ عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہو نے سے ضحوہ کبریٰ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے، مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں، پہلی رکعت میں ثنا کے بعد اور دوسری رکعت میں قراءتِ سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔
عید الفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالمِ اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ جس میں اللہ تعالی سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالی سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے فطرانہ کی ادائیگی وغیرہ۔ اس کے بعد دعا کے اختتام پر ہر فرد اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے افراد کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہو جاتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ زیارت القبور کی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔ 
شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ جبکہ ہر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار اللہ کی عظمت کی اور شان کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں، یعنی آہستہ آواز سے تکبیریں کہی جاتی ہے: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد۔ تکبیر کہنے کا یہ سلسلہ نماز عید ادا کرنے تک چلتا ہے۔ 
عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقہ فطر ادا کرتے ہیں جو کہ ماہِ رمضان سے متعلق ہے۔ جو مسلمان اتنا مالدار ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال و اسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تو اس پر عید الفطر کے دن کا صدقہ فطر دینا واجب ہے، چاہے وہ سوداگری کا مال ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو شریعت میں ’’صدقہ فطر‘‘ کہتے ہیں (درمختار)۔ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام، چھوٹے، بڑے سب پر واجب ہے۔ صدقہ فطر میں اگر گیہوں یا گیہوں کا آٹا، ستو دیا جائے تو نصف صاع یعنی پونے دو سیر بلکہ احتیاطاً دو سیر دے دینا چاہیے۔ اور اگر گیہوں اور جو کے علاوہ کوئی اور غلہ دینا چاہے جیسے چنا، چاول تو اتنا دے کہ اس کی قیمت نصف صاع گندم یا ایک صاع جو کے برابر ہو جائے۔ اور اگر غلہ کے بجائے اس کی قیمت دی جائے تو سب سے افضل ہے (درمختار)۔
ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے۔ خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن، معاشرت اور اِجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی حدیث میں ملتا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بطور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ (یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، یوم الاضحیٰ اور یوم الفطر۔ غالباً‌ وہ تہوار جو اہلِ مدینہ اسلام سے پہلے عہدِ جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔
رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعا کیلئے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں۔ مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں سورہ المائدہ کی آیت ۱۱۴ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے: ارشاد باری تعالی ہے: عیسٰی ابن مریم نے عرض کیا کہ اے اللہ! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے (اور اس طرح اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے (بطور) عید (یادگار) قرار پائے، اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ (خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں، مگر اس کے بعد جو کفر کرے تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کو نہ دیا ہو۔
کسی قوم کی خوشی اور مسرت کے دن کو قرآن نے عید کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ اور جو دن کسی قوم کے لیے اللہ تعالی کی کسی خصوصی نعمت کے نزول کا دن ہو وہ اس دن کو اپنا یومِ عید کہہ سکتی ہے۔
آج پوری دنیا میں مسلمان بڑی دھوم دھام سے عید الفطر کا تہوار مناتے ہیں، جہاں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اقوامِ عالم امت ِمسلمہ کے اس تہوار کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے ان بھائیوں کو بھی یاد رکھیں جنہیں گلے ملنے والا کوئی نہیں، جن کو نیا لباس میسر نہیں، جن کا چولہا اس مبارک دن بھی جلتا دکھائی نہیں دیتا۔ اصل عید تو اس کی ہوتی ہے جو عید کے اس مبارک دن بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتا ہے۔ اسلام میں صدقہ فطر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جو اس خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے آج کے دن وہ بھی صدقہ فطر کے مستحق بن کر اس خوشی میں شامل ہو جائیں۔ 
آئیے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم بھی ان لوگوں کو گلے لگائیں گے جو گلے لگانے کے اصل مستحق ہیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی حق داروں کی قدر اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین بحرمۃ سید الانبیاء والمرسلین۔

فقہ الصحابہ

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

ابن عباس کے مولیٰ، شعبہ بیان کرتے ہیں کہ مسور بن مخرمہؓ عبد اللہ بن عباسؓ سے ملنے کے لیے آئے تو ابن عباس نے ریشم کا لباس پہن رکھا تھا (اور انگیٹھی یا چولہے پر پرندوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں)۔ مسور بن مخرمہ نے لباس پر اعتراض کیا تو ابن عباس نے کہا کہ میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ریشم پہننے سے منع فرمایا تو آپ کے پیش نظر تکبر اور تجبر سے منع فرمانا تھا (جو اس وقت اس لباس کے ساتھ وابستہ تھا)، لیکن ہم بحمد اللہ ایسے نہیں ہیں (جو تکبر کے اظہار کے لیے اسے پہنتے ہوں)۔ مسور نے پوچھا کہ یہ انگیٹھی پر تصویریں کیسی ہیں؟ ابن عباس نے کہا کہ آپ دیکھتے نہیں کہ ہم نے انھیں کیسے آگ کے ساتھ جلا رکھا ہے؟ جب مسور رخصت ہو گئے تو ابن عباسؒ نے کہا کہ یہ لباس بھی میرے جسم سے اتار دو اور ان تصویروں کے سر بھی کاٹ دو۔ (معجم کبیر، مسند احمد ودیگر کتب حدیث)
مسور بن مخرمہ اور ابن عباس (جو دونوں جلیل القدر صحابی ہیں) کے اس مکالمے سے ایک طرف یہ واضح ہوتا ہے کہ فقہائے صحابہ کیسے احکام کو ان کی علت کی روشنی میں سمجھتے تھے اور دوسری طرف یہ کہ اکابر اہل علم کیسے اپنے لیے زیادہ مبنی بر احتیاط طریقے کو پسند کرتے تھے۔ یہ اس بات کا بھی ایک عمدہ نمونہ ہے کہ اکابر اہل علم موجب اشتباہ اور خلاف اولیٰ چیزوں پر ایک دوسرے کو متنبہ کرتے اور ایک دوسرے کی نصیحت اور تنبیہ کو قبول کیا کرتے تھے۔
ابن عباسؓ نے ریشم پہننے اور تصاویر کے نمایاں ہونے کی ممانعت کو ان کی علت یعنی تجبر وتکبر اور تصویر کی تعظیم سے متعلق قرار دیا اور اس سے یہ اخذ کیا کہ اگر ریشم پہننے کا محرک تکبر نہ ہو اور تصویر نمایاں ہونے کے باوجود اس میں تعظیم کا پہلو دکھائی نہ دیتا ہو تو یہ دونوں امور حدود جواز میں آ جاتے ہیں۔ مسور بن مخرمہ نے بھی بظاہر ان کے استدلال پر کوئی معارضہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ممانعت کا اصل مدار اس کی علت پر ہوتا ہے اور علت کے انفکاک سے ممانعت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود ابن عباسؓ نے مسور بن مخرمہ کے جانے کے بعد یہ محسوس کیا کہ علم دین میں لوگوں کے لیے ایک نمونہ اور مرجع ہونے کی حیثیت سے ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ احتیاط کے طریقے پر کاربند رہیں اور ریشم پہننے اور تصویر آویزاں کرنے کی ممانعت کی، ظاہر کے لحاظ سے ہی پابندی کریں تاکہ یہ عام لوگوں کے لیے اشتباہ کا موجب نہ ہو اور سد ذریعہ کا اصول غیر موثر نہ ہو جائے۔

جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

3 اکتوبر 2010ء کو مولانا زاہد الراشدی کے یہاں الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں منعقدہ ریفرنس بسلسلہ ناگہانی رحلت جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ میں میری تقریر کی تحریری شکل ماہنامہ الشریعہ میں شائع ہوئی تھی۔ سفاک ارضی عصر رواں کی بندشوں میں کسے ہوئے کسی اتفاق ہی کا نتیجہ ہے کہ 18 دسمبر 2023ء کو انہی کے بھائی جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی رحمہ اللہ کی ناگہانی رحلت پر اب کی بار مجھے دو جگہ منعقدہ ریفرنس میں تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلا ریفرنس کورنگ ٹاؤن اسلام آباد میں مرحوم پروفیسر افتخار بھٹہ کے گھر اتوار 31 دسمبر صبح 10 بجے تھا۔ بستی کے سینکڑوں مرد و زن شریک ہوئے۔ ڈاکٹر محمد الغزالی کے صاحبزادے اور میں نے مرحوم کی خوبصورت یادوں کی خوشبو سے محفل کو معطر کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا ریفرنس پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی نے ادارے میں منعقد کیا جہاں سے مرحوم محترم اور میں بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے تھے۔ اس موقع پر جسٹس غزالی مرحوم کے اہل خانہ، ان کے متعدد رفقا کی اور میری معروضات شامل رہیں۔ دونوں تقاریب میں میری گفتگو کی ذرا بہتر شکل اس خیال کے ساتھ بطور شہادت پیش خدمت ہے کہ مرحوم کی زندگی کا ہر گوشہ محفوظ ہو کر بعد میں آنے والوں کے کام آ سکے:
محترم سامعین! عشروں قبل غالباً‌ اردو ڈائجسٹ میں ایک سائنس فکشن پڑھا تھا۔ ایک شخص کو کوئی ایسا مرض لگ گیا جس کا علاج محققین کے اندازے میں 100 سال بعد ممکن تھا۔ مریض صاحبِ حیثیت تھا، لہٰذا معالجوں نے تجویز کیا کہ ہم تمہیں بے ہوش کر کے تمہارا جسم منجمد کر دیتے ہیں۔ علاج دریافت ہونے پر ہوش میں لا کر تمہیں ٹھیک کر دیا جائے گا۔ مریض مان گیا۔ طویل قانونی و طبی مراحل کے بعد اسے لٹا کر بے ہوش کیا جانے لگا تو وہ اچانک بھاگ کھڑا ہوا۔ دوڑ بھاگ کر پکڑے جانے پر پوچھا گیا کہ بھائی مسئلہ کیا ہے، تو اس نے چیخ و پکار مچا دی: 
’’اے لوگو! مجھ بے عقل کو ابھی اسی وقت مرنے دو. میں یہ کیوں نہ سوچ سکا کہ آج مجھ 50 سالہ مریض کے پاس درجنوں تیماردار کھڑے ہیں۔ 100 سال بعد 150 سالہ شخص کو پہچاننے والا کوئی ایک بھی نہیں ہوگا، تو میں جی کر کروں گا کیا؟ یہ سمجھا سکو تو کر دو بے ہوش, ورنہ مجھے مرنے دو۔۔۔۔۔۔ مجھے مرنے دو۔۔۔۔ مجھے مرنے دو۔‘‘
معزز سامعین! 18 دسمبر کی کو رات 11 بج کر 21 منٹ پر، وہ ہمارے سامنے بیٹھے، جناب ڈاکٹر وقار مسعود نے گھٹی گھٹی آواز میں مجھے فون کیا۔ وہ جسٹس غزالی رحمہ اللہ کی رحلت کی تصدیق کرنا چاہ رہے تھے۔ آزردہ خاطر تصدیق تو میں نے کرنا ہی تھی لیکن ذہن میں جو فی البدیہہ جواب آیا تھا وہ اس وقت دینا ممکن نہیں تھا۔ وہ جواب میں انہیں آج سنائے دیتا ہوں۔ میں نے جس عہد میں زندگی گزاری، میں جن ستاروں کی ضوفشانی کے سہارے صحرائے زیست میں راستہ تلاش کیا کرتا تھا، علم و ادب کے جن قطب مناروں اور انسان دوست فرشتوں سے میں استفادہ کرتا رہا، جناب وہ تو ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ اب اس شوریدہ سر بستی میں زندہ رہ کر میں نے کیا کرنا ہے۔ جسٹس ڈاکٹر محمود غازی، ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر انوار صدیقی، ڈاکٹر ممتاز، جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اور ہائے ہائے! برادر بزرگ ڈاکٹر محمد میاں صدیقی بھی جب خاک نشین ہو گئے تو میں زندہ ہوں تو کیوں:
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
وہ تو اللہ کریم نے وسعتِ افلاک سے کوئی نور بھری لہر بھیج دی جس نے جھنجوڑا اور ڈانٹ کر تسلی دی: 
"نادان! ابھی قحط الرجال کہاں؟ پروفیسر عطا اللہ چوہدری, ڈاکٹر انیس احمد, ڈاکٹر یوسف فاروقی, بیرسٹر فرخ کریم قریشی, ڈاکٹر طاہر منصوری اور پروفیسر حامد شریف کیا تمہاری دل جوئی کو کافی نہیں ہیں؟‘‘
نہ ہوئے لسانیات کے بے تاج بادشاہ، وہی اپنے آج کے ممدوح جسٹس غزالی مرحوم۔ فرمایا کرتے تھے: 
"لفظ کے مفہوم کا تو ابلاغ ہو سکتا ہے، اس کا متبادل نہیں ہوتا۔ متبادل کی اپنی شناخت، اپنا استعمال اور اپنا نسبی شجرہ ہوتا ہے"۔
 آج زندہ ہوتے تو میں یہ ٹکڑا لگا دیتا کہ انسان کا بھی کوئی متبادل نہیں ہوتا، اور ان سے پوچھتا کہ آپ کا متبادل لاؤں تو کیسے اور کہاں سے کہ جب لفظ اور انسان کا متبادل ہوتا ہی نہیں۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
 "رشتوں میں صرف باپ، اور دیگر میں صرف استاد ہی وہ دو شخص ہیں جو بیٹے اور شاگرد کو زندگی کی دوڑ میں اپنے سے ایک قدم آگے دیکھنا چاہتے ہیں"۔
 میں علم و تقویٰ میں تو خیر ان سے کیونکر آگے نکل پاتا۔ معلوم نہیں ان کی آنکھوں میں کوئی ریڈار لگا تھا، یا کوئی مخفی قوت انہیں پہلے خبر دے دیا کرتی تھی۔ 42 سالہ مسلسل اور براہ راست تعلق میں ان سے ہزاروں مرتبہ آمنا سامنا ہوا لیکن خواہش اور بھرپور کوشش کے باوجود میں انہیں سلام میں پہل کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکا۔ بسا اوقات کہ جب انہیں خدشہ ہوتا کہ پہل کرنے میں شاید وہ کامیاب نہ ہو پائیں تو دور ہی سے باآواز بلند تجوید کے ساتھ السلام علیکم کانوں میں اچھال دیتے تھے۔
آپ نے جسٹس غزالی مرحوم کی حق گوئی و بے باکی کا بہت کچھ سن رکھا ہوگا۔ بعض افراد شاید اس کے چشم دید گواہ بھی ہوں۔ تاریخ سے البتہ گزارش ہے کہ اپنے صفحات میں ایک شہادت میری بھی مرقوم کر لے۔ آنجناب اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر حسن عبداللطیف شافعی کے غیر معمولی مداح تھے۔ کوئی سوا سال قبل میں نے ڈاکٹر شافعی کے احوال پر ایک اخباری مضمون لکھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے پڑھا تو اصرار کر کے مزید مضمون لکھوائے اور مرتے دم تک مصر رہے کہ مزید لکھوں اور لکھوں بھی تو ڈاکٹر شافعی کے علمی مرتبے پر۔ یہ ذرا ناممکنات میں سے تھا۔ انہی دنوں انہوں نے دو گھنٹے 48 منٹ فون کر کے مجھے علاوہ ازیں بے پناہ معلومات دیں۔ ان میں سے ایک بات ڈاکٹر شافعی کے بارے میں تھی۔ لیکن ان کی بے باکی سمجھانے کے لیے پہلے مجھے چند دیگر واقعات کا سہارا لینا ہوگا۔
ڈاکٹر شافعی اسلامی یونیورسٹی کے چار سال صدر رہے۔ صدر جامعہ یونیورسٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز 4 سال ہی کے لیے مقرر کرتا ہے۔ 4 سال پورے ہوئے تو بورڈ کا اجلاس نہ ہو سکا۔ یوں ڈاکٹر شافعی قائم مقام صدر جامع قرار پائے۔ 6 سال بعد بورڈ کا اجلاس ہوا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ روایت کے مطابق ڈاکٹر شافعی کے پچھلے دو سال کی توثیق کر کے انہیں مزید 2 سال کے لیے صدر جامعہ مقرر کر دیا جاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے اجلاس میں ڈاکٹر شافعی کے پچھلے 2 سالوں کی توثیق تو کرا دی لیکن اگلے 2 سال کے لیے ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کو صدر جامعہ بنا دیا۔ اب آئیے واپس ڈاکٹر غزالی مرحوم کی طرف آتے ہیں۔ اسی مذکورہ طویل ترین فون پر اس بابت انہوں نے اپنے سگے بھائی کے بارے میں جو رائے دی وہ انہی کے الفاظ اور انداز بیان میں کچھ یوں تھی۔
"صاحب میں نے تو اس موقع پر بھائی صاحب (ڈاکٹر غازی مرحوم) سے کہہ دیا تھا کہ شافعی صاحب کے ہوتے ہوئے آپ کو یہ عہدہ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے تھا. شافعی صاحب کے چھ سالہ عہد صدارت میں بھلا بتائیے، صاحب کیا عملاً‌ وہی صدر جامعہ نہیں تھے جبکہ ذمہ داری کلیتاً شافعی صاحب کی تھی۔ بھائی صاحب مرحوم بقیہ دو سال بھی یوں ہی گزر جانے دیتے۔ شافعی صاحب جس رنجیدگی کے ساتھ مصر واپس گئے تھے، وہ کس سے پوشیدہ ہے؟ بھائی صاحب کو شافعی صاحب کے ہوتے ہوئے یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا"۔
مرحوم کو جواب دینا میرے حسبِ حال نہیں تھا۔ لیکن میرے خیال میں صورت یوں رہی کہ منصب کے اعتبار سے ڈاکٹر غازی بورڈ کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور شاید ہوئے بھی نہیں۔ بطور ممبر نیشنل سیکیورٹی کونسل یا وفاقی وزیر کے بطور وہ کئی سال جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کام رہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ کسی دیگر حیثیت میں وہ بورڈ کے اس اجلاس میں شریک ہوئے یا نہیں،  دونوں صورتوں میں اپنی تقرری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جب فیصلہ ہو گیا تو ان کے منصب قبول نہ کرنے پر یونیورسٹی کا کوئی صدر نہ ہوتا کیونکہ بورڈ کا دوبارہ اجلاس فی الفور بلانا ناممکن تھا، لہٰذا مجھ خاکسار کی رائے میں ڈاکٹر غازی صاحب کا عمل "مباحات زیست" میں سے ایک مباح ہی تھا۔ دوسری طرف ڈاکٹر غزالی رحمہ اللہ کی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ آپ نے کر لیا ہوگا۔ وہ غازی صاحب مرحوم کی وفات کے 13 سال بعد بھی ان کے بارے میں وہی کچھ کہتے رہے جو ان کے دل و دماغ سے پھوٹ رہا تھا۔ ان کا اپنا ذخیرہ الفاظ لگی لپٹی سے خالی تھا۔
دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو اپنے قریب کہیں انہی جیسے صالحین، مستغنی اور ماہرین لسانیات کے جلو میں جگہ دے، آمین۔

فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب

مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

اللہ رب العزت نے انسان کو خیر کے کاموں پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کرنے کی تلقین کی ہے، اسی طرح کچھ امور ایسے ہیں جن سے اللہ رب العزت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، ان میں سے فحاشی و عریانی ہے۔ ذیل میں اس سے فحش کاموں سے اجتناب سے متعلق قرآن حکیم کی آیات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پیش کیے جا رہے ہیں:

شیطان فحش کاموں کی تعلیم دیتا ہے

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (النور ۲۱)۔ 
ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم پیروی نہ کرنا شیطان کے نقش قدم کی، اور جو کوئی پیروی کرے گا شیطان کے نقش قدم کی تو یقینا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا کہ بیشک وہ تو بے حیائی اور برائی ہی سکھاتا ہے۔

کھلے عام، چھپ کر گناہ کرنا حرام ہے

ارشاد باری تعالی ہے: 
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ..... وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ( الانعام ۱۵۱)۔ 
ترجمہ: آپ کہیے کہ آؤ تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے ۔۔ اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ ،  ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔
ارشاد باری تعالی ہے: 
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ....(الأعراف۳۳)  
ترجمہ: آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں ، اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو۔ 
امام رازیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس آیت کے الفاظ مَا ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ میں ایک نقطہ پوشیدہ ہے کہ: انسان جب ظاہری معصیت کے کاموں سے اجتناب کرتا ہے لیکن سری گناہوں سے اجتناب نہیں کرتا، تو یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا یہ اجتناب لوگوں کے ڈر کی وجہ سے ہے نہ کہ اللہ کی بندگی و اطاعت کی وجہ سے، تو یہ تصور سراسر باطل ہے اور جو اس نیت سے ظاہراً گناہ نہیں کرتا لیکن چھپ کر تمام معصیت کے کام کرتا ہے تو اس امر کا اندیشہ کہ وہ کفر میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اور جو شخص ظاہری و باطنی گناہوں سے اجتناب کرتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کی اطاعت و بندگی میں اپنے آپ کو معصیت کے کاموں سے بچاتا ہے۔ (  رازی،محمد بن عمر(606)،التفسیر الکبیر،دار إحياء التراث العربي - بيروت1420 هـ ج۱۳،ص۱۷۸)
ڈاکٹر وھبۃ الزحیلیؒ فرماتے ہیں: ایک قول یہ ہے کہ الظاہر سے مراد وہ معصیت کے کام ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرتا ہے اور باطن سے مراد وہ معصیت کے کام ہیں جن کا تعلق دل سے ہو جیسے تکبر، حسد۔ (  زحیلی،وھبہ بن مصطفی ،التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنھج،ج۸،ص۹۷)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے سختی کے ساتھ ظاہری اور باطنی گناہوں کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔

فحشاء سے مراد

اس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں قبیح ہو وہ فحش ہے۔ مثلاً: بخل، زنا، برہنگی، عریانی، عملِ قومِ لوط، جنسی زیادتی، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، گالیاں بکنا، بدکلامی کرنا وغیرہ۔
اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا فحش کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈہ، بہتان تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے، ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر آویزاں کرنا، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا وغیرہ۔

حیا اور فحاشی کے نتائج

عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ، وَلَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ» (ترمذی،محمد بن عیسیٰ،سنن ترمذی،ح۱۹۷۴)۔  
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز میں بھی بے حیائی آتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے“۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الإِيمَانِ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ» (  سنن ترمذ،ح۲۲۲۷)۔ 
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں۔‘‘
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَأَبِي سَمُرَةُ جَالِسٌ أَمَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْفُحْشَ، وَالتَّفَحُّشَ لَيْسَا مِنَ الْإِسْلَامِ، وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إِسْلَامًا، أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا" (مسند احمد بن حنبل ،۲۰۸۳۱)۔  
سیدنا جابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ’’بیشک بدگوئی اور بدزبانی، اسلام سے نہیں ہے اور اسلام کے لحاظ سے سب سے اچھے لوگ وہ ہیں، جن کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔‘‘

فحاشی کے فروغ کے وسائل

فحش کاموں میں مبتلا ہونے کے دو اہم وسیلیں ہیں:  (۱) زبان کے ذریعے فحاشی کا فروغ ، (۲) آنکھ کے ذریعے فحش کام۔

(۱) زبان کے ذریعے فحاشی کا فروغ 

انسانی جسم کے اعضاء میں ایک عضو زبان ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنا مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس نعمت کو خیر اور بھلائی کی اشاعت میں استعمال کرنے کی تعلیم دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان کا استعمال اگر درست کیا جائے تو معاشرے میں امن قائم رہتا ہے، خاندان مستحکم ہوتے ہیں، آپس کے تعلقات برقرار رہتے ہیں اور ہر طرف خیر کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔ لیکن اگر اس کا استعمال درست نہ کیا جائے تو بدتمیزی کا غلبہ ہوتا ہے، معاشرتی اقدار پامال ہو جاتے ہیں، رشتوں کی اہمیت فنا ہو جاتی ہے، آپس میں عدم اعتمادی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ معاشرے کو پرامن اور تہذیب یافتہ رہنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی تعلیم دی ہے کہ فحش گوئی سے اجتناب کیا جائے، ذیل میں چند احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کو غلط استعمال کرنے سے انفرادی و اجتماعی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ يَهُودِيٌّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ فَسَكَتُّ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ، فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ، فَقَالَ: «عَلَيْكَ» ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ الثَّالِثُ، فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ: وَعَلَيْكَ السَّأمُ وَغَضَبُ اللَّهِ وَلَعْنَتُهُ إِخْوَانَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، أَتُحَيُّونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا لَمْ يُحَيِّهِ اللَّهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ قَالُوا قَوْلًا فَرَدَدْنَا عَلَيْهِمْ، إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ حُسَّدٌ، وَهُمْ لَا يَحْسُدُونَا عَلَى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى السَّلَامِ، وَعَلَى آمِينَ» (ابن خزیمہ،محمد بن اسحاق،(م:۳۱۱)،صحیح ابن خزیمہ،ح۱۵۸۵)۔  
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: السام علیک یا محمد (اے محمد آپ پر ہلاکت ہو) ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیک (اور تجھ پر بھی)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بولنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نظر آئے۔ میں خاموش رہی۔ پھر دوسرا یہودی داخل ہوا اس نے بھی یہی کہا: السام علیک، میں نے بولنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پھر ناپسندیدگی کے آثار نظر آئے۔ پھر تیسرا یہودی داخل ہوا اور کہا: السام علیک، مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہہ دیا: وعليك السام وغضب اللہ ولعنته، اخوان القردة والخنازیر (تم پر بھی ہلاکت ہو اور اللہ کا غضب اور اس کی لعنت بندروں اور خنزیر کے بھائیو) تم رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌کو ایسا سلام کہہ رہے ہو جو اللہ تعالیٰ نے انہیں نہیں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ فحش کو پسند نہیں کرتا نہ ہی تکلف سے فحش کہنے کو پسند کرتا ہے، انہوں نے ایسی بات کہی تو ہم نے بھی انہیں جواب دے دیا۔ یقیناً یہودی حاسد قوم ہے، کسی چیز پر یہ ہم سے اتنا حسد نہیں کرتے جتنا حسد یہ ہم سے”سلام“ اور ”آمین“ پر کرتے ہیں
عن عبد الله بن عمرو بن العاصي قال: سمعت رسول الله - صلي الله عليه وسلم - يقول: "الَظلم ظلمات يومَ القيامة، وإياكم والفحْشِ، فإن الله لا يحب الفحْش ولا التفَحُّش،.. (احمد بن حنبل،مسند احمد بن حنبل،ح۶۴۸۷)۔  
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ظلم کرنے سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن (کئی) ظلمتوں کا باعث بنے گا، بدگوئی سے بچو، بیشک اللہ تعالیٰ بدزبانی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا۔

بدگوئی، فحش کلام کی کثرت قیامت کی علامت میں ہے

عبد الله بن عمرو عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: إن الله تعالى لا يحب الفاحش و لا المتفحش ثم قال: و الذي نفس محمد بيده لا تقوم الساعة حتى يظهر الفحش و التفحش و سوء الجوار و قطيعة الأرحام و حتى يخون الأمين و يؤتمن الخائن (محمد بن عبداللہ حاکم نیساپوری،مستدرک علی الصحیحن علی الصحیحن،ح۸۵۶۶)۔ 
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ رسول اللہ ‌صلی اللہ علیہ وسلم ‌نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بدگوئی اور فحش گوئی كو نا پسند كرتا ہے۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تك امین کو خائن نہ سمجھا جائے اور خائن کو امین نہ سمجھا جانے لگے، اور فحش گوئی، بدگوئی، قطع رحمی اور برے پڑوسیوں كی اكثریت نہ ہو جائے۔
درج بالا احادیث سے یہ امر معلوم ہوا کہ زبان کے توسط سے فحش پھیلانا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی قباحت اس سے بھی ثابت ہے کہ اللہ رب العزت بھی اس کو پسند نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی فطرت بھی ہر اس کام سے دور رہنا پسند کرتی ہے کہ جو اس کی طبیعت کے موافق نہ ہو، لیکن شیطان اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دیتے ہوئے انسان کو فحش گوئی اور بدکلامی پر آمادہ کرنے کے لیے مستقل کوشش کرتا رہتا ہے ۔اب یہ بندہ مؤمن کا امتحان ہے کہ وہ اپنے آپ کو شیطانی امر کا پابند بناتا ہے یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ 
آج ہمارے معاشرے میں بہت تیزی کے ساتھ فحش گوئی اور بدکلامی ،الزام تراشی کی بیماری پھیلتی جا رہی ہے، ایک شخص کسی دوسرے پر اعتراض کرتا ہے تو دوسرا شخص ذاتیات پر اتر آتا ہے اور بے جا الزام تراشی کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرتی ماحول آلودہ ہو جاتا ہے اور یہ کام اگر ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے کیا جائے تو معاشرے پر اس کے ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ آج اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ بدکلامی کے نتیجے میں معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری اولاد اور ہمارا معاشرہ پر امن رہے اور تہذیب یافتہ بنے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں بالخصوص خاندانی زندگی میں اور میڈیا پر ہونے والے مارننگ شوز وغیرہ پر۔ اس کے نتیجے میں اللہ رب العزت اپنی رحمتیں نازل فرمائیں گے۔

(۲) آنکھ کے ذریعے فحش کام

جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں انسانوں کے درمیان روابط کے وسائل غیر محدود ہیں، جہاں ان کے ذریعے سے انسان کو فائدہ حاصل ہو رہا ہے اسی طرح یہ وسائل اپنے اندر نقصانات بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بندہ مؤمن اللہ کے ہاں اپنے ہر عمل کا جوابدہ ہے حتیٰ کہ اپنے جسم کے اعضاء کا بھی کہ اس نے ان اعضاء سے خیر کا کام کیا یا برائی کا، اس کا بھی جواب دینا ہو گا۔ آنکھ کے جسم کا ایک عضو ہے جس کی حفاظت کرنا بندہ مومن کی ذمہ داری ہے اس لیے کہ قیامت کے روز اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِه عِلْمٌ إنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل ۳۶) ۔
جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔
آج کے دور میں ان اعضاء کی حفاظت کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے کہ انٹرنیٹ پر فحش ویڈیوز کی بھر مار ہے ،جب کوئی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو ایک طرف عریاں تصاویر، ویڈیوز کے لنک دستیاب ہوتے ہیں، اسی طرح ٹک ٹاک، سنیک ویڈیوز جن کے ذریعے بے ہودگی کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اپنی اپنے اہلِ خانہ کی اور اپنے اردگرد رہنے والوں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔ اسی طرح اس زمرے میں مختلف محافل بھی شامل ہیں جن میں ناچ گانے ہوتے ہیں، اسی طرح غیر محرم خاتون کو دیکھنا اور اس کے برعکس بھی کہ کوئی لڑکی غیر محرم لڑکے کو کو دیکھے۔ گویا جتنے بھی برائی کے کام دیکھنے کے ذریعے سے ہو سکتے ہیں وہ سب حرام ہیں۔ اس لیے بحیثیت مومن و مومنہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو برائی کے دلدل سے بچائیں تاکہ اللہ رب العزت بھی ہم مہربان ہو۔

فحاشی عریانی کے معاشرتی زندگی پر اثرات

فحاشی کے ذریعے سے معاشرتی زندگی پر درج ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں :

برائی سے نجات کے وسائل و ذرائع

  1. اللہ سے توبہ و استغفار کرنا اور گناہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ یہ بات ذہن رکھیے کہ انسان کتنے ہی گناہ کر لے اگر وہ موت سے قبل توبہ تائب ہوتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔
  2. اللہ کے بتائے ہوئے نظام زندگی سے اپنی زندگی کو مرتب کرنا۔
  3. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنا۔
  4. پنج وقتہ نماز کی پابندی کرنا۔
  5. قرآن حکیم کی تلاوت کرنا۔
  6. برائی کے تمام راستوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا۔
  7. اللہ سے خیر کے راستوں پر استقامت کی دعا کرنا۔
  8. خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دین اسلام کے موافق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینک

آرمی ریکگنیشن

IDEX 2023 کے دوران، پاکستان کی دفاعی صنعت نے حیدر نامی مقامی ساختہ مین بیٹل ٹینک کی نئی نسل کی نقاب کشائی کی۔ IDEX 2023 ایک بین الاقوامی دفاعی نمائش ہے جو ابوظہبی، متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوئی۔ نیا ٹینک پہلی بار نومبر 2022ء  میں پاکستان میں دفاعی نمائش ’’آئیڈیاز‘‘ کے دوران پیش کیا گیا۔ 
کئی سالوں سے پاکستان مقامی ساختہ مرکزی جنگی ٹینک تیار کرتا آ رہا ہے ، جن میں ’’الضرار‘‘ جو چینی ساختہ Type59 پر مبنی ہے، اور ’’الخالد‘‘ جو  چینی ساختہ MBT2000 کے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔  جبکہ حیدر ٹینک چینی VT4 پر مبنی ہے۔ IDEX 2023 کے دوران پاکستان کے پویلین پر حیدر کا سکیل ماڈل آویزاں کیا گیا۔ ایک پاکستانی صنعت کار کے مطابق نئے حیدر ایم بی ٹی کو چینی VT4 کے ڈیزائن کو استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ VT4 جسے MBT-3000 بھی کہا جاتا ہے، ایک تیسری نسل کا مرکزی جنگی ٹینک ہے جسے چینی کمپنی NORINCO نے تیار کیا ہے۔ یہ Type۔99G ٹینک کا ایکسپورٹ ایڈیشن ہے جو اس وقت چینی پیپلز لبریشن آرمی کے استعمال میں ہے۔  
حیدر کا ڈیزائن روایتی ہے۔ ڈرائیور اس کے ہَل (مین باڈی) کے سامنے بیچ میں بیٹھتا ہے، ٹریٹ (گھومنے والا حصہ) درمیان میں ہے، اور انجن عقب میں ہے۔ ٹینک میں ڈرائیور، کمانڈر اور گنر سمیت تین افراد کا عملہ ہے۔ حیدر ٹینک کا مرکزی اسلحہ ایک 125 ملی میٹر اسموتھبور بندوق پر مشتمل ہے جو گولہ بارود کی ایک وسیع رینج کو فائر کرنے کے قابل ہے،  اور APFSDS (آرمر پیئرسنگ فِن اسٹیبلائزڈ ڈِسکارڈنگ سبوٹ)،  HE (ہائی ایکسپلوسِو) ،  HEAT  (ہائی ایکسپلوسِو اینٹی ٹینک) کے ساتھ ساتھ اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل بھی شامل ہیں۔ ٹینک کے پاس 38 راؤنڈز ہوتے ہیں۔  دوسرے اسلحے میں ایک 7.62 ملی میٹر کواکسیئل مشین گن کے علاوہ کمانڈر ہیچ کے عقب میں نصب ایک ریموٹ سے چلنے والے ہتھیار کا نظام ہے جو ایک 12.7 ملی میٹر ہیوی مشین گن سے لیس ہے۔ حیدر ٹینک کے گھومنے والے حصے پر نصب اسلحہ اور اس کی مین باڈی مل کر فوری ردعمل کیلئے  متوازن اور کشادہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ سب  سیرامکس، دھاتوں اور پولیمر جیسے مواد کی تہوں سے مل کر بنے ہوئے ہیں جو (مخالف سمت سے) فائر کیے گئے میزائلوں کو گھسنے سے روکنے کیلئے مل کر کام کرتے ہیں۔ ردعمل والا اسلحہ آنے والے میزائلوں میں خلل ڈالنے اور ان کو ہٹانے کے لیے دھماکہ خیز چارجز کا استعمال کرتا ہے۔ جب کہ سپیسڈ آرمر دو تہوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کے درمیان خلا ہوتا ہے جو آنے والے میزائلوں کی توانائی کو جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ٹینک کی مین باڈی ERA (ایکسپلوسِو ری ایکٹِو آرمر)  کی صلاحیت کے ساتھ لیس ہے۔
 حیدر ٹینک کا سسپنشن سسٹم دونوں طرف چھ چھ پہیوں پر مشتمل ہے، جس میں پہلے اور آخری پہیے جھٹکا جذب کرنے والے ہائیڈرولک  سسٹم پر نصب ہیں۔  ٹینک میں ٹورشن بار قسم کا سسپنشن سسٹم ہے، جس میں ہر پہیہ اپنے ٹورشن بار (دونوں اطراف کے پہیوں کو جوڑنے والی سلاخ) پر لگا ہوا ہے۔  سادہ پہیے سامنے ہیں جبکہ ٹینک کو چلانے والے پہیے عقب میں ہیں۔  یہ ٹینک فور اسٹروک ٹربو چارجڈ ڈیزل انجن سے چلتا ہے جو الیکٹرانیکلی کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ انجن ہائیڈرو مکینیکل آٹومیٹک ٹرانسمیشن کے ساتھ 1,200 ہارس پاور دیتا ہے۔ ٹینک 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی زیادہ سے زیادہ رفتار سے چل سکتا ہے اور (اپنے فیول کے ساتھ) 500 کلومیٹر کے زیادہ سے زیادہ فاصلے تک پہنچ سکتا ہے۔
حیدر ٹینک ایک جدید فائر کنٹرول سسٹم سے لیس ہے جس میں سینسرز اور ٹارگٹ کرنے والے آلات کی ایک رینج شامل ہے تاکہ میدانِ جنگ میں ٹینک کی درستگی اور مہلکیت کو بڑھایا جا سکے۔ یہ نظام ٹینک کے عملے کو میدانِ جنگ کی ایک واضح تصویر فراہم کرنے، اور اہداف کو تیزی اور مؤثر طریقے سے شناخت اور ختم کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ٹینک کی مرکزی بندوق تھرمل امیجنگ ویژن سے لیس ہے جو کم روشنی والی حالتوں میں بھی لمبی دوری پر ہیٹ سِگ نیچرز کی مدد سے اہداف کی نقل و حرکت دیکھنے کی سہولت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک لیزر رینج فائنڈر سے بھی لیس ہے، جو بندوق باز کو کسی ہدف کے فاصلے کو درست طریقے سے ماپنے کے قابل بناتا ہے۔ تھرمل امیجنگ ویو کے علاوہ ٹینک ایک پینورامک سسٹم سے بھی لیس ہے جو کمانڈر کو میدانِ جنگ کا 360 ڈگری منظر پیش کرتا ہے۔
فائر کنٹرول سسٹم میں ایک بیلسٹک کمپیوٹر بھی شامل ہے جو ہدف کے فاصلے، زاویہ اور دیگر عوامل کی بنیاد پر مرکزی بندوق کے لیے فائرنگ کے حل کا حساب لگاتا ہے۔ اس سے یہ بات یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ ٹینک کے فائر اپنے مطلوبہ ہدف کو درست طریقے سے اور زیادہ سے زیادہ اثر کے ساتھ نشانہ بنا سکیں۔ مجموعی طور پر حیدر کا فائر کنٹرول سسٹم ٹینک کے عملے کو حالات سے متعلق آگاہی اور ہدف کو نشانہ بنانے کی اعلیٰ صلاحیت فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو اسے جدید میدان جنگ میں ایک مؤثر اور مہلک جنگی گاڑی بناتا ہے۔

جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریز

ادارہ

جامعہ گجرات کی قائد اعظم لائبریری کے زیر اہتمام رمضان المبارک کے بابرکت ماہ میں طلبہ کی کردار سازی کے لیے ایک لیکچر سیریز ’’تعمیر شخصیت میں مطالعہ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ کا انعقاد ’’حافظ حیات کیمپس‘‘ میں کامیابی سے تکمیل پذیر ہوگیا۔ اس سیریز میں دوسرا لیکچر پاکستان کی ممتاز علمی و دینی شخصیت مولانا زاہد الراشدی کے فکر انگیز خطاب سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ڈین فیکلٹی برائے آرٹس پروفیسر ڈاکٹر زاہد یوسف نے صدارت کے فرائض سرانجام دئیے۔ جبکہ مہمانان اعزاز میں چیف لائبریرین ڈاکٹر ذکی الزماں عاصم، صدور و چیئرپرسن شعبہ جات، یونیورسٹی انتظامیہ کے سینئر اراکین اور اساتذہ و طلبہ شامل تھے۔ 
مولانا زاہد الرشدی نے کہا کہ سیرتِ محمدیؐ سے استفادہ کرتے ہوئے ایک بہترین قوم کی کردار سازی ممکن ہے۔ سیرت محمدیؐ ایک بحرناپیدا کنار ہے۔ رسول اکرمؐ کی تبلیغ کا مخاطب تمام تر انسانیت ہے۔ حضور اکرمؐ کی آفاقی تعلیمات کا دائرہ وسیع تر ہے۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں نسلِ انسانی کے لیے تمام اصولِ انسانیت بلیغ انداز میں بیان کر دئیے گئے۔ یہ خطبہ ایک اہم ترین معاہدہ ہے جو حقوق انسانی کی حفاظت و نفاذ کا عندیہ دیتا ہے۔ ریاست کی تشکیل کے سلسلہ میں میثاقِ مدینہ بے مثال دستاویز ہے۔ دنیا بھر میں دیر پا امن و استحکام کے قیام کے لیے بین الاقوامی مذہبی ہم آہنگی لازم ہے۔ صحابہ کرامؓ کی شخصیت و کردار سازی میں حضور اکرمؐ نے اہم ترین کردار ادا کرتے ہوئے ایک ملتِ بیضا کے قیام کی بنیادیں استوار کیں۔ صحابہ کرامؓ کی جید شخصیات کے مختلف روشن پہلو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ 
پروفیسر ڈاکٹر زاہد یوسف نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے حضور اکرمؐ کی ذاتِ بابرکات بنائے عشق و محبت ہے۔ طلبہ سیرت محمدیؐ سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر وسیع تفکر و مطالعہ کے ذریعے بہترین انسان بن سکتے ہیں۔ 
ڈاکٹر ذکی الزماں عاصم نے کہا کہ سیرت نبی کریم ؐ کردار سازی کے حوالے سے بے مثال ہے۔ دورہ حاضر میں طلبہ کی تربیت اور سیرت و کردار سازی جامعات کا اہم فریضہ ہے۔ 
پروفیسر ڈاکٹر زاہد یوسف نے مولانا زاہد الراشدی کو جامعہ گجرات کی یادگاری شیلڈ پیش کی۔ یاسر حسین جامی نے خوبصورت و بلیغ الفاظ کے چناؤ اور زورِ بیاں کے ذریعے نقابت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے تقریب کو چار چاند لگائے۔ طلبہ فکر انگیز سوالات کے ذریعے حضور اکرمؐ کی دینی و روحانی تعلیمات کی روشنی میں فیوض و برکات سے مستفید ہوئے۔ علاوہ ازیں قائد اعظم لائبریری میں سیرت النبیؐ پر مختلف ملکی و غیر ملکی مصنفین کی تصنیف کردہ سینکڑوں کتب بھی نمائش کے لیے پیش کی گئیں ہیں۔ لیکچر سیریز کا مقصد طلبہ میں سیرت محمدیؐ کے روشن پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے کردار و عمل کی تطہیر اور اصلاح و تعمیر شخصیت کے شعور کو پروان چڑھانا تھا۔

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنس

ادارہ

۵ مارچ ۲۰۲۴ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کے عنوان پر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پنجاب کی مختلف جامعات کے 30 وائس چانسلرز نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر افضل، ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر فلیحہ کاظمی، ڈاکٹر ظل ہما نازلی، ڈاکٹر خلیق الرحمن، ڈاکٹر کلثوم پراچہ، ڈاکٹر رؤف اعظم، ڈاکٹر محمد علی شاہ، ڈاکٹر عزیرہ رفیق، ڈاکٹر زرین فاطمہ رضوی، ڈاکٹر اشفاق محمود، ڈاکٹر انیلہ کمال، ڈاکٹر محمود سلیم، ڈاکٹر بلال خاں، ڈاکٹر اسلام خاں، ڈاکٹر بلال خاں، ڈاکٹر ندیم بھٹی، ڈاکٹر عامر گیلانی، ڈاکٹر نجمہ نجم، ڈاکٹر عامر گیلانی، ڈاکٹر عدنان نور اور ڈاکٹر اسلام اللہ خاں و دیگر شامل ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، ڈاکٹر شعیب اختر، ڈاکٹر کنول امین، ڈاکٹر احمد عثمان، ڈاکٹر راشد کمال الرحمٰن، مولانا زاہد الراشدی، رنجیت سنگھ، پنڈت کاشی رام، سائمن رابن، ڈاکٹر تنویر قاسم، ڈاکٹر آصف منیر، صبیحہ شاہین اور اسامہ نے مکالماتی سیشن میں بطور ماہر اور میزبان شرکت کی۔ 

کانفرنس کے تین مکالماتی سیشن ہوئے جس میں وائس چانسلرز، ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، علماء، اقلیتی راہنما اور سائنس، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین شریک تھے۔ اختتامی سیشن میں بین المذاہب ہم آہنگی مکالمے کا اہتمام کیا گیا جس میں مولانا زاہد الراشدی، سردار رنجیت سنگھ، کاشی رام، مسٹر رابن اور ڈاکٹر تنویر قاسم نے حصہ لیا۔ برگد کی چیئرپرسن ڈاکٹر غزالہ عرفان نے کانفرنس کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی وائس چانسلرز کانفرنس میں کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے لحاظ سے پاکستان کمزور خطہ ہے جس سے ماحولیاتی نظام، غذائی تحفظ اور توانائی کو خطرات لاحق ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی اور مؤثر فیصلہ سازی ناگزیر ہے۔ کانفرنس نے اقلیتوں کے لئے ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں 2 فیصد اور ملازمتوں کے 5 فیصد کوٹے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ 
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری سمیت تمام اقلیتیں ملک اور صوبے کی تعمیر و ترقی میں مثبت اور فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کا آئین اور اسلام کی تعلیمات اقلیتوں کے انسانی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور وقار کے احترام اور تحفظ کے لیے نفرت اور تشدد کو فروغ دینے والے انتہا پسندانہ نظریات کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے پنجاب ایچ ای سی تمام جامعات میں بین المذاہب ہم آہنگی کی مہم چلا رہا ہے جس کے تحت سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کریں گے۔ جامعات اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کمیشن کی ہدایات پر عملدرآمد کریں۔ اقلیتی برادریوں کے لئے ملازمتوں کے مختص کوٹے پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ ہماری حکومتوں نے اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہمیشہ پائیدار اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پانی، قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیت اور دیگر وسائل سے مالامال ہے، تاہم اسے فیصلوں پر عملدرآمد اور مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس تقریباً 150 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے جو سپرے اور ڈرپ اریگیشن جیسی جدید زرعی تکنیک کو اپنانے اور آبپاشی کے روایتی طریقوں کو تبدیل کرنے کی صورت میں اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، تاہم قومی آبی پالیسی اور دیگر متعلقہ قوانین کے عملی نفاذ کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایچ ای سی اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت کر رہا ہے، انہیں اعلی تعلیم کے لیے سکالرشپس کی فراہمی اور بصیرت فراہم کر رہا ہے۔ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات میں امن اور رواداری کے فروغ کے لیے تعلیمی بیانیہ تیار کر لیا جس کی سفارشات حکومت پنجاب کو پیش کی جائیں گی۔
ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ امن کے فروغ کیلئے مذہبی ہم آہنگی ناگزیر ہے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ رواداری پر مبنی تعلیمی بیانیہ معاشرے کے مختلف طبقات کو اختلافات کم کرنے اور پرامن طور پر ایک ساتھ رہنے کے قابل بنائے گا۔ جامعات معاشرے میں امن، رواداری، بقائے باہمی کے فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے میڈیا، سول سوسائٹی، انجمنوں، سرکاری حکام اور عام لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ جامعات میں مکالمے اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا جائے گا۔ اگر عام افراد باشعور ہوں گے تو نفرت پر مبنی بیانیہ نہیں پھیل سکے گا اور شدت پسندی کم ہو گی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے سول سوسائٹی سے اشتراک کریں گے۔ احترام انسانیت اور رواداری تعلیم یافتہ معاشرے کی پہچان ہے، امن اور رواداری کے بغیر اعلیٰ تعلیم کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ قوموں کی ترقی کے لیے ہم آہنگی اور مساوات ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس تھنک ٹینک ہیں جو درپیش چیلنجز کی روشنی میں سفارشات تیار کرتے ہیں اور اپنے ممالک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں۔ ہم ماہرین پر مشتمل ایک ’’مارل تھنک ٹینک‘‘ قائم کریں گے جو متوازن معاشرے کے قیام کے لیے سفارشات تیار کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک متوازن شخصیت کی تعمیر کے لیے جامعات میں مکالمے، افہام و تفہیم کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا کو غربت، دہشت گردی اور موسمیاتی تبدیلیوں اور مختلف تنازعات کا سامنا ہے۔ زینو فوبیا، اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور تفرقہ بازیاں ایسے انتہا پسند رویے معاشروں کو توڑتے ہیں۔ ہمیں انسانوں اور معاشروں کو جوڑنا ہے، ایک دوسرے کے قریب لانا ہے، ترقی کے لیے تہذیب اور رواداری پیدا کرنی ہے، ہم نے انسانی وسائل کو بڑھانے کے مواقع پیدا کرنے ہیں، عدمِ برداشت کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں، ترقی خانہ جنگی کی فضا میں نہیں ہو سکتی۔ سیاسی، سماجی، مذہبی راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو اچھے اخلاق سکھائیں۔

’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘

حضرت مولانا عبد القیوم حقانی

قوتِ گویائی بنی آدم کا امتیازی خاصہ ہے، بنی آدم میں ہر فرد چاہتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے اور اس کی بات پر غور کیا جائے۔ بات میں یہ تاثیر کیسے پیدا کی جائے کہ وہ محض سماعت سے ٹکرانے کے بعد فضا میں تحلیل نہ ہو، بلکہ دلوں میں اتر کر گداز پیدا کرے۔ جذبات کو ابھارے، حوصلوں کو بڑھائے، عزائم کو مضبوط کرے، سوئی ہوئی قوم کو جگائے، غفلت کی دھوپ سینکنے والوں کو اشہب عمل پر سوار کر دے، کامیابی کا یقین دلائے اور خالق کے احکام سلجھے ہوئے انداز میں مخلوق کو پہنچائے۔ اس کے لیے ماہرینِ فن نے ہر عصر اور ہر زبان میں مختلف اسالیب میں کچھ اصول وضع کیے ہیں۔
عہدِ موجود میں اردو زبان کے دائرے میں جن حضرات کو باشعور طبقہ میں سنا جاتا ہے اور جن کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے ان میں ایک نمایاں نام مفکر اسلام حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب کا ہے۔ آپ مستشرقین کے پھیلائے ہوئے شبہات کا مدلل جواب بھی دیتے ہیں، انسانی حقوق کے خوشنما لیبل کی آڑ میں خاندانی اور معاشرتی اقدار پر ہونے والے مہلک صہیونی وار کے عواقب و نتائج سے بھی امت کو آگاہ کرتے ہیں، قادیانی مغالطوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں، عصرِ حاضر میں احکامِ شریعت کے نفاذ اور اس کی عملی شکل کے خدوخال بھی واضح کرتے ہیں، سودی معیشت کے خاتمے اور اسلامی اقتصادی نظام کی ترویج کے لیے بھی مختلف پلیٹ فارم پر گفتگو کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چاہتے ہیں کہ یہ تگ و دو ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ ہر فاضل اور عالم ان کی طرح سماج کے مختلف طبقوں میں نفوذ کریں، اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق جدید محاورے اور زمانۂ حال کے اسلوب سے ہم آہنگ کلام کرے۔ اس کے لیے آپ وقتاً‌ فوقتاً‌ نوجوان فضلاء کرام کے سامنے کچھ اساسی اصول اور جوہری نکات رکھتے ہیں جن کو ملحوظ رکھ کر ایک فاضل انتہائی مؤثر طریقے سے معاشرے میں دینِ اسلام کو ایک زندہ جاوید ضابطۂ حیات کی شکل میں پیش کر سکتا ہے۔ آپ کے یہ ارشادات مختلف رسائل و جرائد کے صفحات میں منتشر اور بکھرے ہوئے تھے، حافظ خرم شہزاد صاحب نے انتہائی محنت، لگن اور محبت سے ان کو ترتیب کی لڑی میں پرو کر کتابی شکل میں امت کے سامنے پیش کیا، اور آخر میں ’’ختامہ مسک‘‘ کے مصداق حضرت مولانا محمد شاہ نواز فاروقی مدظلہ مہتمم دارالعلوم فاروقیہ گوجرانوالہ کے فنِ خطابت کے حوالے سے بیان فرمودہ اہم نکات بھی شامل کر دیے ہیں۔
حافظ خرم شہزاد صاحب کو رب العزت نے اپنے اساتذہ کے علوم و معارف اور افکارِ امت تک پہنچانے کا خاص ذوق نصیب فرمایا ہے۔ اصحابِ علم کو ایسے تلامذہ ملنا یقیناً‌ قدرت کا ایک خصوصی انعام ہوتا ہے، جس طرح امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحبؒ کے علوم و معارف کی تشریح، توضیح اور تسہیل کا کام مسبب الاسباب نے حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب سے لیا، اسی طرح خود علامہ زاہد الراشدی صاحب کے ارشادات، خطبات اور مقالات کو ترتیب کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اللہ پاک نے حافظ خرم شہزاد صاحب کو موفق کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی سعی قبول فرما کر ان کو مزید توفیق سے نوازیں۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب کی صلابتِ فکر اور حافظ خرم شہزاد صاحب کی حسنِ ترتیب کا یہ حسین مرقع (۴۸) صفحات پر مشتمل ہے، کاغذ اعلیٰ، سرورق عمدہ اور طباعت صاف ہے۔

الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘

مولانا محمد اسامہ قاسم

افتتاحی تقریب

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ستائیس ایام پر مشتمل دورہ تفسیر و محاضرات علوم قرآنی کی اختتامی نشست ۱۰ / فروری ۲۰۲۴ء بروز ہفتہ صبح دس بجے الشریعہ اکادمی میں ہوئی۔ افتتاحی نشست سے استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جو گفتگو کی وہ پیش خدمت ہے: 
شعبان المعظم اور رمضان المبارک دینی مدارس میں درجہ کتب کے طلبہ کے لیے تعطیلات کے ہوتے ہیں اور شوال المکرم کے وسط میں عام طور پر نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دوران حفاظ اور قراء کا زیادہ وقت قرآن کریم کی منزل یاد کرنے اور رمضان المبارک کے دوران تراویح میں سننے سنانے میں گزرتا ہے۔ جبکہ عام طلبہ کو تعلیمی مصروفیات میں مشغول رکھنے اور ان کے وقت کو مفید بنانے کے لیے مختلف کورسز کے اہتمام کی روایت کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے۔ زیادہ تر قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دورے ہوتے ہیں جو شعبان کے آغاز سے شروع ہو کر رمضان المبارک کے وسط تک جاری رہتے ہیں۔ ان میں اساتذہ کرام اپنے اپنے ذوق کے مطابق طلبہ کو قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر مختصر دورانیہ میں پڑھاتے ہیں۔ اس طرح عربی بول چال اور تحریر و تقریر کے کورسز کا اہتمام بھی ہونے لگا ہے۔ یہ سب کورسز ہماری اجتماعی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں اور ان سے تعلیمی ذوق بڑھنے کے ساتھ ساتھ چھٹیوں کے اوقات کا صحیح مصرف بھی مل جاتا ہے اور تعلیمی ترقی بھی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارا دورہ تفسیر ان شاء اللہ رمضان المبارک سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔ 
ہمیں قرآن پاک کی تفسیر کی مختلف اقسام ملتی ہیں، بعض تفاسیر فقہی ہیں اور بعض کلامی، بعض نحوی ہیں اور بعض معقولات پر مبنی ہیں۔ لیکن ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم قرآن پاک کو آج کی ضروریات کے دائرے میں پڑھائیں، قرآن پاک کا سماجی مطالعہ ہمارا اہم مقصد ہے۔ آج کی ضروریات کیا ہیں اور قرآن پاک ہماری اس حوالے سے کیا راہنمائی کرتا ہے اور آج کے سماج کو قرآن پاک کی کتنی ضرورت ہے؟ مثال کے طور معاشی عدم توازن سے دو چار ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عیسائی دنیا کے بڑے پوپ پاپائے روم ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے معاشی حل چل مچی، ویٹی کن سٹی ادارے نے اس مسئلےکے اسباب تلاش کرنے کے حوالے سے کمیٹی بنائی، معاشی عدمِ توازن سے نکالنے کے لیے انہوں جو موقف اختیار کیا وہ یہی تھا کہ قرآنی اصول پر چل کر انسانی معیشت کو توازن اور بیلنس کے ٹریک پر لایا جائے۔ ہمارا مقصد آج کی انسانی سوسائٹی ہے، نسلِ انسانی کی ضروریات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صفا پہاڑ پر ’’یا ایھا الناس‘‘ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ ہم بھی ان شاء اللہ اس کورس میں سماج کی ضروریات کے بارے میں بتائیں گے کہ قرآن و حدیث سے کس قدر سماج کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔

اختتامی تقریب 

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام پچیس ایام پر مشتمل ’’دورہ تفسیر و محاضرات علومِ قرآنی‘‘ کی اختتامی نشست ۵ مارچ ۲۰۲۴ء بروز منگل صبح اٹھ بجے الشریعہ اکادمی میں ہوئی، جس میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے خصوصی گفتگو کی:
الشریعہ اکادمی میں دورہ تفسیر و محاضرات علوم کو پندرہ سال ہوئے، دراصل یہ کورس حضرت امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے ذوق تفسیر کا تسلسل ہے۔ امام اہلسنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے ۱۹۴۳ء میں گکھڑ کی جامع مسجد بوہڑ والی میں صبح نماز کے بعد روزانہ درسِ قرآن کریم کا آغاز کیا اور جب تک صحت نے اجازت دی، کم و بیش پچپن برس تک اس سلسلہ کو پوری پابندی کے ساتھ جاری رکھا۔ انہیں حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے اور ترجمہ و تفسیر میں امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی سے شرف تلمذ و اجازت حاصل تھی، اور انہی کے اسلوب و طرز پر انہوں نے زندگی بھر اپنے تلامذہ اور خوشہ چینوں کو قرآن و حدیث کے علوم و تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کی مسلسل محنت کی ہے۔ 
حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ کے درسِ قرآن کریم کے چار الگ الگ حلقے رہے ہیں۔ ایک درس بالکل عوامی سطح کا تھا جو صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ہوتا تھا۔ دوسرا حلقہ گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے تھا جو سالہا سال جاری رہا۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں متوسط اور منتہی درجہ کے طلبہ کے لیے ہوتا تھا اور دو سال میں مکمل ہوتا تھا۔ اور چوتھا مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۱۹۷۶ء کے بعد شعبان اور رمضان کی تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر کی طرز پر تھا جو پچیس برس تک پابندی سے ہوتا رہا اور اس کا دورانیہ تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوتا تھا۔ ان چاروں حلقہ ہائے دروس کا اپنا اپنا رنگ تھا اور ہر درس میں مخاطبین کی ذہنی سطح اور فہم کے لحاظ سے قرآنی علوم و معارف کے موتی ان کے دامن قلب و ذہن میں منتقل ہوتے چلے جاتے تھے۔ ان چاروں حلقہ ہائے درس میں جن علماء کرام، طلبہ، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں اور عام مسلمانوں نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ سے براہ راست استفادہ کیا ہے، ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زائد بنتی ہے۔
الشریعہ اکادمی میں ہونے والے دورہ تفسیر و محاضرات علوم قرآنی میں بھی حضرت امام اہلسنت کے تلامذہ ہی اسباق پڑھاتے ہیں، چند پارے استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب جبکہ بقیہ حصہ مولانا فضل الہادی، مولانا محمد یوسف مولانا ظفر فیاض، مولانا ڈاکٹر وقار اور مولانا محفوظ الرحمن صاحب نے پڑھائے۔ ترجمہ و تفسیر کے علاوہ اس کورس میں چند اہم عنوانات پر محاضرات علوم قرآنی بھی پیش کیے جاتے ہیں، ملک بھر سے اپنے فن اور عنوان کے ماہر حضرات تشریف لاتے ہیں اور طلباء کرام سے تفصیلی نشست کرتے ہیں۔ 
اس سال حضرت استاد جی مولانا زاہد الراشدی صاحب اور دیگر اساتذہ کرام نے جن موضوعات پر محاضرات پیش کیے درج ذیل ہیں: احکام قرآن اور مروجہ بین الاقوامی معاہدات، عصر حاضر میں علماء کرام کی ذمہ داریاں، انسانی حقوق کے اسلامی احکام اور مغربی فلسفہ حقوق کا تقابلی جائزہ، مشکلات القرآن، قرآن کریم کے مشکل مقامات کو حل کرنے کی عملی مشق، مختلف مناہج تفسیر کا تعارف، تاریخ تفسیر، ممتاز عربی تفاسیر کا تعارف، جغرافیہ قرآنی و قصص القرآن، اصول ترجمہ ، اصول تفسیر، اختلاف قرات کا تفسیر قرآن کریم پر اثر، علوم القرآن اور کتب علوم القرآن کا تعارف، ممتاز اردو تفاسیر کا تعارف، قرآن و مستشرقین، علم المیراث، علم القوافی اور علم العروض کا مختصر تعارف، عالم اسلام کی دینی تحریکات کا تعارف، اصول تحقیق اور تحریر کی اقسام، خطابت کی اہمیت اور اس کا تعارف، اس کے علاوہ شرکاء کورس کو ترجمہ و تفسیر کی تیاری کے حوالے سے عملی مشقیں بھی کرائیں گئیں۔ 
تقریب سے مولانا زاہد الراشدی، مولانا فضل الہادی، مولانا محمد یوسف اور مولانا محفوظ الرحمٰن نے گفتگو کی، مولانا ریاض جھنگوی صاحب کی دعا سے تقریب کا اختتام ہوا۔

Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistan

Rule of Law, Human Rights and Democracy

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah was the great political leader of the Muslims of South Asia, whose efforts created an Islamic state in the name of Pakistan at a time when the world was at the peak of ending the relationship between religion and the state. Even the Ottoman Empire, which represented the Islamic Caliphate, had lost its existence. And Turkey, the center of the Ottoman Caliphate, following Europe, broke the relationship of Islam with the state and collective affairs of the society and took the form of a secular country.
In such a conditions, it seems strange that a Western-educated and Western-style leader would campaign for the establishment of a new country in the name of Islam and then establish such a state. It is generally believed that it was the charisma of the intellectual guidance of Mufakkir-e-Pakistan Allama Muhammad Iqbal who set Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah on this path, and offered the Muslims of South Asia the idea of a separate state for themselves by providing the basis for a new political campaign. There is no doubt and it is a matter of fact that the intellectual leader of Pakistan is actually Allama Iqbal, while the general impression about Quaid-e-Azam is that he successfully expressed these sentiments of Muslims politically and played the role of a good lawyer.
But did Quaid-e-Azam have only that much connection with Islam and did he not have any thoughts and feelings of his own regarding Islam? When we consider Quaid-e-Azam's various statements, speeches and his expressions on many important occasions, this is negated. And it is estimated that he himself had clear feelings and position about Islam. And in the struggle for the establishment of an Islamic state and the implementation of the Islamic system in it, he was not only a lawyer, but he himself had the same position in this regard. And he was fully aware of the ideas of other nations about Islam in the global environment of his time, especially the ideological and cultural conflict between the West and Islam. We would like to quote some of his statements in this regard:
According to a booklet published by Maktaba Mahmood Lahore, "Nazria-e-Pakistan Aur Islam", while addressing the meeting of the All India Muslim Students Federation in 1943, Quaid-e-Azam said, "I am asked what the style of government of Pakistan will be? Who am I to determine the style of government of Pakistan? This work belongs to the people of Pakistan, and in my opinion, the style of government of the Muslims was decided by the Holy Quran thirteen hundred years ago.
According to the same booklet, in a letter written to Mahatma Gandhi during August 1944, Quaid-e-Azam wrote that "The Quran is a complete code of life. It provides for all matters, religious or social, civil or criminal, military or penal, economic or commercial. It regulates every act, speech and movement from the ceremonies of religion to those of daily life, from the salvation of the soul to the health of the body; from the rights of all to those of each individual, from punishment here to that in the life to come.
On 15 July 1948, Quaid-e-Azam said in his address on the occasion of the inauguration of the State Bank of Pakistan: “I shall watch with keenness the work of your Research Organization in evolving banking practices compatible with Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world. It has failed to do justice between man and man and to eradicate friction from the international field. On the contrary, it was largely responsible for the two world wars in the last half century. The Western world, in spite of its advantages of mechanization and industrial efficiency is today in a worse mess than ever before in history. The adoption of Western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contented people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of happiness and prosperity of mankind.”
According to Mr. Muhammad Ali Chiragh's book "Quaid-e-Azam Ke Meh Wa Saal”, while addressing the Karachi Bar Association meeting on January 25, 1948, Quaid-e-Azam said that "Islamic rules and regulations are applicable even today, as they were thirteen hundred years ago. Islam is not just a collection of customs, traditions and spiritual ideas, it is also a code of life for every Muslim. In Islam there is no difference between man and man. Equality, freedom and brotherhood are the basic principles of Islam. We will make the Constitution of Pakistan and tell the world that it is a supreme constitutional model.”
From the speeches, statements and messages of the Quaid-e-Azam, many such passages can be cited which show that he was not just representing his "clients" as a lawyer, but his own feelings and thoughts were also involved in this successful advocacy. It is also known that his concept of Islam was not limited and general, but he was fully aware of the constitutional and social character of Islam, as well as the perversion of western ideology and philosophy and the negative effects of the western economic system on the world.
Recently, a young man asked Justice (R) Dr. Javed Iqbal on the occasion of a seminar of the Islamic Ideological Council in Islamabad that what was the concept of Islam of Quaid-e-Azam? I was also present in this meeting. He replied that Quaid-e-Azam believed that (1) rule of law (2) human rights and (3) democracy were not in conflict with Islam and this was his concept of Islam. In my opinion, by saying this, Dr. Javed Iqbal has correctly interpreted the concept of Islam of Quaid-e-Azam, because this is reflected in his statements, speeches, letters and messages, and this approach of Quaid-e-Azam about Islam is not contrary to the events.
The rule of law means that the final authority is the law rather than the individual, and all institutions and individuals of the country are subject to the law rather than the individual. We believe that after the Holy Prophet, peace and blessings be upon him, Islam introduced the concept of the rule of reason and law instead of individual and personality, and made even the Khulafa-e-Rashideen (may Allah be pleased with them) bound by the law and ended the rule of the individual.
The concept of human rights in detail was also first presented by Islam, and it gave the world a balanced system of rights under the title of Huqooq-Allah (Allah’s rights) and Huqooq-al-Ibaad (Human rights) which includes all essential political, social, economic and civil rights.
In the same way, by basing the opinion of the people on the selection of the first Caliph after the Holy Prophet, Islam has told the world that according to it, the ideal system is the one in which the government is formed by the will of the people. And Islam has a one thousand year lead over the West in presenting and implementing this concept.
Therefore, if according to Dr. Javed Iqbal, these are the three foundations of Quaid-e-Azam's concept of Islam, then there is nothing new in it, but it is actually the interpretation of ancient Islamic traditions and teachings.
In this regard, an incident recorded in the memoirs of the late General Muhammad Akbar Khan, "Meri Akhri Manzil" is also of interest. General Akbar Khan writes about a military ceremony in the presence of Quaid-e-Azam after the establishment of Pakistan:
“At the time of the march-past, the instrument of "Long live O the King of Britain" started playing. Quaid-e-Azam protested against the playing of these tunes and ordered me not to welcome me by playing these tunes at any future official function or military parade as it hurts my sentiments. I fought to establish an independent state for the Muslims, and having achieved this state, we pray that the crown of Great Britain will remain upon us forever.”
After the establishment of Pakistan, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah's sentiments were hurt by hearing the lyrics of "Long live O the King of Britain" and there was a regular protest and alternative order from him. Since his demise, we as a nation have been continuously dancing to the tune of the “greatness” and “long-live” of not only the King of Great Britain but also the King of America. Can no part of Quaid-e-Azam's feelings find a little way to enter the confines of our hearts?
(Google Translate was used for this translation.)
(ترجمہ: ’’قائد کا تصورِ پاکستان: قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور جمہوریت‘‘ ۔ روزنامہ پاکستان لاہور ، ۱۹ جولائی ۲۰۰۶ء)

الشریعہ — مئی ۲۰۲۴ء

یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۲)ڈاکٹر محی الدین غازی 
صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۱)ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل 
تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۱)ڈاکٹر ابراہیم موسٰی 
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہمولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری 
مولانا در محمد پنہور ؒ: تعارفِ حیات و خدماتمولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی 
أدھم شرقاوی کی تصنیف ’’رسائل من القرآن‘‘ سے منتخب رسائلادھم شرقاوی 
مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ قُدس کے ساتھ مسلمانوں کا ایمانی و جذباتی تعلقمولانا محمد طارق نعمان گڑنگی 
مٹتا ہوا فلسطینالجزیرہ 
ایران کا اسرائیل پر ڈرون حملہہلال خان ناصر 
دینی جماعتوں اور خطباء کرام سے متحدہ علماء کونسل اپیلمتحدہ علماء کونسل پاکستان 
"الحاج سید امین گیلانیؒ: شخصیت وخدمات"مولانا حافظ خرم شہزاد 
مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں ایران کا کردارمولانا حافظ امجد محمود معاویہ 
’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘مولانا جمیل فاروقی 
إلى معالي رئيس مكتب رابطۃ العالم الإسلامي في إسلام آبادمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
The Role of Iran in the Middle East Warمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
Regarding Muslim World League`s Conference Invitationمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
جاگتے رہنا! دینی مدارس، ان کے وفاق، علماء کرام اور دینی جماعتیںڈاکٹر محمد امین 

یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۲۷ اپریل ۲۰۲۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ کے زیر اہتمام اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مسئلہ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیاجا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ ایک اہم موضوع پر اس سیمینار کا اہتمام کیا جس میں جمعیۃ کے سیکرٹری جنرل مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے عمرہ اور بحرین کے حالیہ سفر کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں اور وہاں کے دوستوں کے جذبات سے ہمیں آگاہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
غزہ اور فلسطین کے حالیہ معرکہ کے بارے میں ایک بار پھر یاددہانی کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کی معروضی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں تین فریق آمنے سامنے ہیں جن کے درمیان محاذ آرائی کا بازار گرم ہے:
  • اسرائیل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے لیے سرگرم عمل ہے،
  • ایران دولتِ فاطمیہ کی بحالی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے،
  • جبکہ عرب ممالک کسی واضح ایجنڈے کے بغیر اپنی حکومتیں، ریاستیں اور بادشاہتیں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں،
  • اور ایک ممکنہ فریق ترکیہ ہے جو خلافتِ عثمانیہ کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے اور اس کے لیے مناسب مواقع کی تلاش میں ہے۔ 
باقی پورا عالمِ اسلام خاموش تماشائی ہے اور مسلم حکومتیں اس سلسلہ میں کوئی عملی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔
اس معرکہ میں بیت المقدس کی حرمت، فلسطین کی آزادی، اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی اپنی حمیت اور جذبات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں، مگر اس سے زیادہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے انہیں اپنی حکومتوں کی طرف سے کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں رائے عامہ کی بیداری، پبلک اجتماعات کا اہتمام، سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے علاوہ تجارتی بائیکاٹ کے محاذ پر بھی مختلف حلقوں کی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر انہیں منظم اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس میں عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ ریاستی اداروں اور حکومتی حلقوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔ 
جہاں تک تجارتی بائیکاٹ کا تعلق ہے، یہ بھی جنگ کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کا مکہ والوں نے شعب ابی طالب میں جو محاصرہ کیا تھا اور تین سال تک معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا ماحول قائم رکھا تھا، وہ معاشی جنگ ہی کا اظہار تھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدر کے غزوہ کا آغاز قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے کی مہم سے کیا تھا، جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے  کہ تم قافلہ کو روکنے کی طرف جا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا رخ بدر کی طرف موڑ کر معرکہ بپا کروا دیا۔ صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کی طرف سے یہ یکطرفہ اور غلط شرط مسلمانوں کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بنی تھی کہ باہم صلح کے دور میں قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص انہیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا گیا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہو گی۔ اس شرط پر مسلمانوں کے اضطراب بالخصوص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بے چینی کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاہدہ کی خاطر منظور کر لیا تھا۔ مگر بعد میں مکہ والوں کو خود یہ شرط واپس لینا پڑی تھی جس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کے مطابق انہیں قریش کے دو نمائندوں کے ساتھ واپس بھیج دیا، مگر واپس مکہ مکرمہ جانے کی بجائے انہوں نے راستہ میں قریش کے ایک نمائندہ کو قتل کر کے محفوظ جگہ ٹھکانہ بنا لیا جس میں رفتہ رفتہ وہ لوگ جمع ہوتے گئے جو مسلمان ہو گئے تھے مگر معاہدہ کی رو سے مدینہ منورہ والے انہیں پناہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان لوگوں نے مضبوط جتھہ اور مرکز بنا کر قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا شروع کر دیا تھا جس کے کچھ عرصہ جاری رہنے پر مکہ والوں نے اپنی تجارت کو خطرہ محسوس کیا تو خود وفد بھیج کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اڈے کو ختم کرنے کی گزارش کی اور اس کے لیے انہوں نے مذکورہ شرط واپس لے لی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی ناکہ بندی اور تجارتی بائیکاٹ بھی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے اور جہاد کا ایک شعبہ ہے۔ پھر قرآن کریم نے جہاد کے مسائل کے ذکر میں ’’ولا ینالون من عدو نیلاً‌‘‘ فرما کر یہ اعلان کیا کہ حالتِ جنگ میں دشمن کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا جہاد کا حصہ اور عملِ صالح ہے۔ اس لیے اگر ہم آج غزہ کے مجاہدین کی اور کوئی مدد نہیں کر سکتے تو اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا منظم بائیکاٹ کر کے عملاً‌ اس جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور ہمیں یہ کام منظم اور مربوط طریقہ سے وسیع ماحول میں کرنا چاہیے اور ہمارے آج کے اس سیمینار کا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کو منظم کرنا اس جہاد میں ہماری عملی شرکت کا قابلِ عمل ذریعہ ہے اور ہمیں ہر طرح سے اس میں شریک ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۲)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(490)  وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ

وَوَاعَدْنَا مُوسَی ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً۔ (الاعراف: 142)
”ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کردیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی“۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجمے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ لیلۃ کا ترجمہ ایک بار ’شب و روز‘ اور اس کے بعد دو بار ’دن‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ لیلۃ سے یہاں مراد اگرچہ دن اور رات ملا کر پورا وقت ہے لیکن یہاں اصل رات ہے اور دن اس میں ضمنی طور پر شامل ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر بھی اس کے لیے لیلۃ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ اس میں رات کی خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ دن کا لفظ اس خصوصیت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ کا مطلب صرف اضافہ کرنا نہیں بلکہ مکمل کرنا ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ان دونوں خامیوں کو دور کردیا گیا ہے۔
”اور وعدہ ٹھیرایا ہم نے موسی سے تیس رات کا اور پورا کیا ان کو اور دس سے، تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات“۔ (شاہ عبدالقادر)

(491) کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ

درج ذیل دونوں جملوں میں ربط قائم کرنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک جملے کو بیچ میں محذوف مانا ہے۔ حالاں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیا ہے اسی کا تقاضا ہے کہ وہ انسانوں کو قیامت کے دن جمع کرے۔ لَیَجْمَعَنَّکُمْ میں جو تاکید ہے وہ کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے، گویا وہ اس کی رحمت کا ظہور ہے۔ 
کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (الانعام: 12)
”اس نے مخلوق پر رحمت کرنا اپنے اوپر لازم کر لی ہے (اس لیے جلدی سزا نہیں دیتا) وہ قیامت تک جس میں کوئی شک نہیں ہے تم سب کو اکٹھا کرتا رہے گا (پھر یکجا کرکے لائے گا)“۔ (محمد حسین نجفی)
”اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا“۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں قوسین میں مذکور جملہ غیر ضروری ہے اور عبارت کے مفہوم کو کم زور کرتا ہے۔ درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:
”اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اس نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کر لیا ہے وہ تم سب کو قیامت کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ضرور جمع کرے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(492) وَلَا یُطْعَمُ کا ترجمہ

درج ذیل جملے میں اطعام یعنی کھلانے اور نہیں کھلائے جانے کی بات ہے۔ یہاں یہ بات نہیں بتائی جارہی ہے کہ اللہ کھاتا نہیں ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ کھلاتا ہے اور اللہ کو کھلایا نہیں جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ سب کی ضرورت پوری کرتا ہے اور اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالی تو ہر چیز سے بے نیاز ہے، تاہم یہاں کھانے سے بے نیازی کا بیان نہیں بلکہ کھلانے والوں سے بے نیازی کا بیان ہے۔ وَلَا یُطْعَمُ کے الفاظ کا مفہوم یہی ہے۔
وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ۔ (الانعام: 14)
”اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے“۔ (سید مودودی)
”اور وہ کھلاتا ہے اور کھانے سے پاک ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور وہ کھلاتا ہے کھاتا نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجمے وَلَا یُطْعَمُ کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتے ہیں۔
”اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا“۔ (شاہ عبدالقادر)
درج بالا دونوں ترجمے بھی باریکی کے ساتھ لفظ کا مفہوم ادا نہیں کرتے۔ اسے کوئی کھانے کو نہیں دیتا اور اسے کھلایا نہیں جاتا میں باریک فرق ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی لفظ کی پوری رعایت کے ساتھ درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”اور وہ کھلاتا ہے اور اس کو کھلایا نہیں جاتا“۔

(493) ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ کا ترجمہ

درج ذیل عبارت میں فتنۃ کا ترجمہ کرنے میں لوگوں کو دشواری ہوئی ہے، اسی لیے لوگوں نے فتنہ کے مختلف ترجمے کیے ہیں، جیسے: عذر، فریب، شرک، بناوٹ وغیرہ۔ اس دشواری کی وجہ شاید یہ ہے کہ قیامت کے دن فتنہ کی تو کوئی گنجائش ہوگی نہیں، پھر اس وقت فتنہ کیسے ہوگا۔ 
ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ۔ (الانعام: 23)
”تو وہ اِس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ (یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے“۔ (سید مودودی)
یہ ترجمہ درست نہیں ہے کیوں کہ اس دن تو وہ کوئی فتنہ نہیں اٹھاسکیں گے۔
”تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس کے (کچھ چارہ نہ ہوگا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”پھر ان کی کچھ بناوٹ نہ رہی مگر یہ کہ بولے ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے“۔ (احمد رضا خان)
”پھر ان کے فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا مگر یہ کہ وہ کہیں گے کہ اللہ اپنے رب کی قسم! ہم مشرک نہیں تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”پھر نہ رہے گی ان کی شرارت مگر یہی کہ کہیں گے قسم ہے اللہ کی اپنے رب کی ہم شریک نہ کرتے تھے“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں: 
”ان کی فتنہ سازی کا حال یہ ہوا کہ انھوں نے کہا اے اللہ، ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے“۔ گویا دنیا کی فتنہ سازی آخرت کی اس بے بسی پر جاکر ختم ہوئی۔

(494)  فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ

درج ذیل عبارت میں اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ، امر کا جملہ نہیں ہے، بلکہ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ کا مفعول بہ ہے۔ ترجمہ اس کی رعایت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے گویا کہ زمین میں سرنگ یا آسمان میں سیڑھی ڈھونڈنے کو کہا جارہا ہے:
وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِآیَۃٍ۔ (الانعام: 35)
”اور اگر ان کا منھ پھیرنا تم پر شاق گزرا ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ تلاش کرلو یا آسمان میں زینہ پھر ان کے لیے نشانی لے آؤ“۔ (احمد رضا خان)
”اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)
”تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو“۔ (سید مودودی، ’اگر تم میں کچھ زور ہے‘ کی جگہ ’اگر تمہارے بس میں ہو‘  مناسب ہے۔)
درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:
”اور اگر ان کا اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے تو اگر تم زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی زینہ ڈھونڈ سکو کہ ان کے پاس کوئی نشانی لا دو تو کر دیکھو“۔(امین احسن اصلاحی)
”اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تواگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈھ لو پھر کوئی معجزہ لے آؤ تو کرو“۔ (اشرف علی تھانوی)

(495) قُلْ أَرَأَیْتَکُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ

درج ذیل دونوں آیتوں کا تعلق مستقبل سے ہے، بعض لوگوں نے دونوں آیتوں کا ترجمہ حال کا کیا ہے اور بعض نے دوسری آیت کا ترجمہ حال کا کیا ہے۔
قُلْ اَرَاَیْتَکُمْ اِنْ اَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللَّہِ تَدْعُونَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ اِلَیْہِ اِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ۔ (الانعام: 40، 41)
”ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو“۔ (سید مودودی)
حال کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے عَذَابُ اور السَّاعَۃُ کا الگ ہٹ کر ترجمہ کرنا پڑا۔ جب کہ (یونس: 50) اور (الانعام: 47) میں اسی طرح کے جملوں کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے اور عذاب کا ترجمہ عذاب کیا ہے۔
”کہہ دو، بتاؤ، اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آدھمکے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو؟ بلکہ اسی کو پکاروگے تو وہ دور کردیتا ہے اس مصیبت کو جس کے لیے تم اس کو پکارتے ہو اگر چاہتا ہے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان کو بھول جاتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)۔ بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لیے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں مستقبل کا ترجمہ کرتے کرتے کچھ جملوں کا حال کا ترجمہ کردیا ہے۔
 درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
”آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لیے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(496)  اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ

اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ کا موزوں ترجمہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا ہے نہ کہ ایک دوسرے کو استعمال کرنا۔
وَقَالَ اَوْلِیَاؤُہُمْ مِنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ۔ (الانعام: 128)
”تو جو انسانوں میں ان کے دوستدار ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے، پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے“۔ (سید مودودی)

(497)  وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا

درج ذیل آیت میں نُوَلِّی کا لفظ آیا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے دوست بنانا، نہ کہ مسلط کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات مستقبل میں قیامت میں پیش نہیں آئے گی، کیوں کہ وہاں تو سارے ظالم ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ یہ زمانہ حال کا بیان ہے کہ اللہ ظالموں کو دنیا میں ایک دوسرے کا دوست بناتا ہے۔ گذشتہ آیت میں ایسے اولیاء کا ذکر بھی آیا ہے۔ 
وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ۔ (الانعام: 129)
”اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا“۔ (احمد رضا خان)
”اسی طرح ہم مسلط کردیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے پر بسبب ان کی کرتوتوں کے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں“۔(فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مسلط کرنا درست نہیں ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مستقبل سے کرنا مناسب نہیں ہے:
”دیکھو، اس طرح ہم (آخرت میں) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر) کرتے تھے“۔ (سید مودودی)
”اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور اسی طرح ہم ساتھ ملادیں گے گنہ گاروں کو ایک دوسرے سے بدلا ان کی کمائی کا“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
”اسی طرح ہم دوست بنادیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے کا، اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے رہے ہیں“۔

(498)  فَرْشًا کا ترجمہ

درج ذیل جملے میں حَمُولَۃً اور فَرْشًا دو الفاظ آئے ہیں۔ حَمُولَۃ سے مراد اونچے قد کے مویشی ہیں جیسے اونٹ گائے، اور فَرْش سے مراد چھوٹے قد کے مویشی ہیں جیسے بھیڑ بکری۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُولَۃً وَفَرْشًا۔  (الانعام: 142)
”اور مواشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور چارپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے (یعنی چھوٹے چھوٹے) بھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
البتہ درج ذیل ترجمے میں فرش کا ترجمہ جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں کیا ہے:
”پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں“۔ (سید مودودی)
اس ترجمے کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ بھیڑ بکریوں کو زمین پر لٹاکر ذبح کیا جاتا ہے اور ان کی کھال کا بستر بنتا ہے۔ لیکن یہ توجیہ درست نہیں ہے کیوں گائے بیل بھی زمین پر لٹاکر ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کی کھال بھی استعمال میں آتی ہے۔ 

(499)  مِنْ إِمْلَاقٍ کا ترجمہ

قرآن میں ایک جگہ وَلَا تَقْتُلُوا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ (الاسراء: 31) آیا ہے، جس کا ترجمہ ہوگا: ”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔“ جب کہ درج ذیل مقام پر خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ کی جگہ مِنْ اِمْلَاقٍ آیا ہے۔ یہاں ”افلاس کا ڈر اور اندیشہ“ ترجمہ نہیں ہوگا بلکہ ”افلاس کا سبب“ ترجمہ ہوگا۔ دونوں میں لطیف فرق یہ ہے کہ افلاس کے ڈر کا مطلب یہ ہے کہ ابھی افلاس کی حالت نہیں ہے مگر کثرت اولاد سے افلاس کا اندیشہ ہے، جب کہ افلاس کے سبب کا مطلب یہ ہے کہ افلاس طاری ہوچکا ہے۔ اس طرح دونوں جگہوں پر الگ الگ کیفیتوں کے بارے میں رہنمائی کردی گئی۔
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ مِنْ اِمْلَاقٍ۔ (الانعام: 151)
”اور مت مار ڈالو اولاد اپنی کو ڈر افلاس سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو“۔ (سید مودودی)
”اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں:
”اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد مفلسی سے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث“۔ (احمد رضا خان)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)

صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۱)

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

سہیل طاہر مجددی

اللہ تقدس و تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے جس نے ہم سب کو خاتم النبیین والمرسلین ﷺ کے ذریعے نور ہدایت عطا کیا اور حضرت محمد ﷺ پر کروڑوں درود جنہوں نے ہمیں خُدا سے اقرب ترین راہ وصل سمجھایا اور خود اس پر عمل فرما کر ہماری عقول کو وہم کے فتنوں سے بچایا!
ہم نے یہ مختصر رسالہ صوفیہ کرام کے بعض ایسے مقامات اور کلام کی وضاحت کے لئے لکھا ہے جسے سمجھے بغیر لوگ ان کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ ہماری محنت کو قبول فرمائے آمین ثُم آمین ۔ اس مقالے کی خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان میں ان حقائق کو اس ترتیب کے ساتھ موضوع نہیں بنایا گیا، اگرچہ بمبئی سے شائع ہونے والے شمارے "انوار القدس" میں مراتب وجود کے تین مراتب پر بحث ملتی ہے، تاہم یہ شمارہ فسادات تقسیم ھند 1947 کی نذر ہوگیا۔ اس شمارے کا کچھ مواد محمد ذوقی صاحب کی کتاب "سردلبراں" کے ضمیمہ میں نشر کیا گیا ہے مگر وہ بیان گنجلگ ہونے کی بنا پر حصول مقصد کے لئے نارسا ہے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد خان صاحب کی کتاب "اعیان ثابتہ "بھی اہم ہے، تاہم مختصر ہونے کے علاوہ اس کے بیان میں بعض غلطیاں بھی ملتی ہیں۔ اس رسالہ کی تیاری میں ہم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی "مراۃ العارفین"، ابوسعید مبارک کی "تحفہ مراسلہ"، شیخ اکبر کی "فصوص الحکم "اور "الفتوحات المکیہ"، عبدالرحمٰن جامی کی "لوائح "، مجدد الف ثانی کی "معارف لدنیہ "اور "مکتوبات شریف"، داراشکوہ کی "حق نما"، اور عبدالرحمٰن لکھنوی کی "تنزلاتِ ستہ "وغیرہ سے مدد لی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ قاری کو وہ بنیادی کلید ہاتھ آجائے گی جس سے وہ فکری طور پر صوفیہ کرام کے معاملات کو سمجھ سکے اور بدگمانیاں زائل ہو جائیں ، اگرچہ ان کے قدم پر ذوق نصیب ہو یا نہ ہو مگر اس کی برکت سے کچھ نا کچھ اس ذوق و شوق میں برکت کے آثار ضرور پیدا ہو جائیں گے جو کہ محمود و مطلوب ہیں۔
قدیم ذات کا مخلوق کے ساتھ ربط کیا و کیسے قائم ہے؟ تمام مذاہب کی مباحث الہیات نیز فلسفے کی مباحث وجودیات میں یہ چوٹی کا سوال رہا ہے جس کے متعدد جوابات دئیے گئے۔ بعض گروہ ثنویت (duality) کے قائل ہوئے (کہ مثلاً خدا کے علاوہ مادہ بھی قدیم ہے یا ایک کے بعد دوسری مخلوق کا سلسلہ ازل سے اس طرح جاری ہے کہ ایک مخلوق دوسری مخلوق ہی سے وجود پزیر ہوتی ہے) جبکہ بعض نے کہا کہ عالم حادث ہے جو عدم سے وجود پزیر ہوا (یعنی یہ نہ تھا اور پھر ہوا)۔ محقق صوفیائے کرام نے بھی اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کے ساتھ اس بحث میں اپنا حصہ ڈالا، ان کے موقف کو "توحید وجودی" یا "وحدت الوجود" جیسے نام دئیے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں صوفیہ کے اس موقف پر روشنی ڈالی جائے گی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی عبارات کو کس نظام فکر پر پیش کر کے پڑھا جانا چاہئے۔ صوفیہ کا موقف سمجھنے کے لئے مراتب وجود سمجھنا ضروری ہے جس سے متعدد غلط فہمیاں خود بخود کافور ہو جاتی ہیں جیسے یہ کہ صوفیہ ذات باری کے عالم کے ساتھ اتحاد یا اس میں حلول کے قائل ہیں یا تنزلات کے نتیجے میں خدا ہی کائنات بن گیا ہے وغیرہ۔ اس مقالے کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں "مراتب وجود" جبکہ دوسرے میں اس پر متفرع ہونے والے توحید وجودی کے بعض مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔

1۔ مراتب وجود

ابتدائی تعارف

وجودی و شہودی فکر میں مراتب وجود چھ 1  (اور بعض کے مطابق پانچ 2)ہیں: 3 (1) مرتبہ لاتعین یا ذات، (2) وحدت یا وجود مطلق، (3) وحدانیت، (4) عالم امر و روح، (5) عالم مثال اور (6) عالم ناسوت (یہ زمان و مکان سے متعلق مخلوقات کا عالم ہے)۔ ہر مرتبہ وجود اپنے ماقبل سے "لاعین ولا غیر" (he-not he) کی نسبت رکھتا ہے، یعنی خود اپنے تشخص (identification) میں ایسے احکام (particularities) سے عبارت ہے جو اسے ماقبل مرتبے سے ممیز و الگ (distinguish) کرتا ہے جبکہ بعض احکام یا جہات میں یہ ماقبل کے ساتھ متصل بھی ہوتا ہے تاکہ نچلے مراتب میں عالم قائم رہے۔ ہر اوپری مرتبے کے لحاظ سے نچلا مرتبہ اعتباری یا حکمی (relative) ہے: یعنی پہلے کے لحاظ سے دوسرا اور دوسرے کے لحاظ سے تیسرا درجہ اعتباری ہے کہ ہر درجے میں احکام آہستہ آہستہ مشخص و متعین (identified یعنی زیادہ عام سے کم عام) ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اشیاء کی تشخیص اور غیریت (otherness / distinction) ان احکام سے عبارت ہے جو ان پر نچلے درجے میں متحقق ہیں۔ اس کے برعکس (یعنی نیچے سے اوپر کی جانب) ترتیب میں دیکھا جائے تو مشخص اشیاء کے احکام کی نفی کرنے سے وہ اپنے سے اوپری یعنی وسیع تر مرتبہ وجود کے حقائق میں جمع ہوتی چلی جائیں گی یہاں تک کہ مرتبہ احدیت اور لاتعین آجائے جو کسی بھی حکم کو قبول نہیں کرتا اور جہاں انسانی عقل و فہم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح نیچے کی جہت میں عالم ناسوت کے بعد عدم آجاتا ہے۔
شیخ ابن عربی (م1240ء) نے ان تنزلات سے متعلق امور کو مختلف مقامات و عبارات میں بیان کیا ہے، اگرچہ انہیں اس تفصیل کے ساتھ کسی ایک مقام پر نہ لکھا ہو۔ جس طرح کوئی کلامی یا فقہی مذہب کسی ایک شخص کے خیالات کا نام نہیں ہوتا اسی طرح صوفی افکار ہیں، لہذا کسی ایک ہی شخصیت کے ہاں سب امور کا تذکرہ پایا جانا ضروری نہیں۔ جس طرح اصول فقہ کی تعلیم کے لئے طلبا کو وہ جامع اصولی نظام پڑھایا جاتا ہے جو کئی اہل علم کی صدیوں کی محنت کے بعد تیار ہوا، اسی طرح صوفی فکر کی تعلیم بھی ایک جامع نظام فکر کے ذریعے کرائی جاتی ہے اور یہاں ہم اسے ہی پیش نظر رکھیں گے۔ مجدد الف ثانی (م1624ء) "مکتوبات" میں فرماتے ہیں کہ شیخ اکبر نے کمالِ معرفت سے اس مُشکل مسئلہ (یعنی توحیدِ وُجُودی) کو واضح اور تشریح والا بنایا نیز اسے ابواب اور فصلوں میں تقسیم کیا اور صرف و نحو کی طرح اسے مدون کیا4۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ درجات وجود کا ذکر کرتے ہیں تاکہ صوفی فکر قابل فہم ہو سکے۔ ہر مرتبے کے لئے صوفیہ قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہیں، اس تعارفی تحریر میں بعض دلائل ذکر کئے جائیں گے۔

مرتبہ اول: مقام لاتعین

مرتبہ لاتعین (unconditioned or unqualified) سے مراد ذات باری ہے جو وجود مطلق سے بھی ماوراء ہے ("وجود مطلق" دوسرا مرتبہ ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے)۔ لاتعین وہ مرتبہ و مقام ہے جہاں اندیشہ، قیاس، وہم اور گمان کا گزر نہیں اور عقل و الفاظ یہاں ناپید ہیں۔ وجودیہ کے لٹریچر سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ لاتعین ذات اور وجود مطلق گویا ہم معنی ہیں اور لاتعین ان کے نزدیک مطلق یا نرا وجود ہے جبکہ شہودیہ کے نزدیک لاتعین ذات اور وجود مطلق الگ مراتب ہیں، یعنی ذات باری وجود مطلق سے ماوری ہے۔ تاہم یہ تاثر اصطلاحات کے خلط مبحث سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ بعض وجودیہ دو مراتب کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کر دیا کرتے تھے، اصلاً دونوں کے موقف میں فرق نہیں۔
مرتبہ لاتعین کے مفہوم کی ادائیگی کے لئے یہ الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں، ہر لفظ خاص جہت سے اس مفہوم کو ادا کرنے والا ہے:
۱۔ ذاتِ بَحت، ۲۔ ذَاتِ ساذَج، ۳۔ ذَاتِ بِلاِ اعتِبار، ٤۔ غَیب ہُوَیَّة، ٥۔ غَیب الغُیُوب، ٦۔ الغَیب المَسْکُوت عَنْهٗ، ۷۔ مُنقَطِع اَلوِجدانی، ۸۔ مُنقَطِع اَلإِشَارات، ۹۔ مَرتَبَةُ ہُوَیَّة، ۱۰۔ اَزَلُ لااَزال، ۱۱۔ مَجہُول اَلنَعت، ۱۲۔ عَینِ کافُور5

مرتبہ دوئم: تجلی اول یا دائرہ وحدت (یا عالم ھاھوت6)

تجلی کا مفہوم

ذات باری نے اپنا ظہور بذریعہ تجلی فرمایا ہے۔ اس ضمن میں پہلی تجلی کو "تعین اول" یا "وحدت" کہتے ہیں جس نے لاتعین ذات کو باقی تمام تجلیات سے الگ کر دیا ہے اور بطور برزخ تمام تجلیات اور لاتعین کے مابین حائل ہو گئی ہے۔ تجلی سے لغوی مراد جلوہ دکھانا ہے جس کا ایک طریقہ ظاہر ہونا اور دوسرا پردہ ھٹا دینا ہے۔ مگر صوفی فکر کے اندر تعینات میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ الله نے خود اپنی ذات سے ایک وجود کو جلوہ بخشا جو صفات الٰہیہ کے وجود و قیام کی وجہ بن گیا ہے۔ تجلی کی اصطلاح قرآن میں مذکور ان الفاظ سے ماخوذ ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی اس خواہش کے جواب میں ارشاد فرمائے کہ اے اللہ مجھے اپنا آپ دکھا۔ ارشاد ہوا:
فَلَمَّا تَجَلَّیٰ رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ 7 (پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی)
تجلی کو صوفیہ "تنزل" بھی کہتے ہیں۔ یہاں یہ اپنے لغوی مفہوم میں نہیں ہے کیونکہ تنزل میں کسی شے کا اوپر سے نیچے آنے کا مفہوم ہے جبکہ صوفیہ کے نزدیک بھی ذات باری "الانَ كَمَا كَانَ" ہے، یعنی الله متغیر نہیں ہوا، نیز وہ جہات سے پاک ہے۔ یہاں یہ مجازی معنی میں ہے، یعنی چونکہ بااعتبار لاتعین یہ تجلی ہے اس لیے اس کو تنزل قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلی تجلی اور تجلی اعظم ہے یعنی وہ تجلی جس نے تمام تجلیات کو ذات باری سے بلاواسطہ تعلق سے روک دیا ہے یا جو حجاب بن گئی ہے۔
اس مرتبہ تعین کو سمجھانے کے لیے صوفیہ نے اس کو ایک دائرہ بنام "وحدت" سے بیان کیا ہے۔ ذیل کی صورت میں اس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس دائرے کی دو قوسیں ہیں جن کے درمیان ایک برزخ ہے جو دونوں قوسوں کو جدا کرتی ہے جیسا کہ اس شکل سے ظاہر کیا گیا ہے۔ دو قوسوں پر محیط اس دائرے کا نام "وحدت" ہے۔ اوپری اور نچلی قوسوں کا نام علیٰ الترتیب "احدیت" اور "واحدیت" ہے اور جو دو مراتب کو ظاہر کررہی ہیں، دونوں کے مابین جو خط ہے وہ "برزخِ کُبریٰ" کہلاتا ہے۔ مقام "لاتعین" کو دائرے سے باہر دکھایا گیا ہے جو یہ ظاہر کررہا ہے کہ ذات باری اس پہلی تعیین سے ماوراء ہے۔ دو قوسوں اور برزخ کی تفصیل یوں ہے:
شکل ۱: دائرہ وحدت
الف) مرتبہ احدیت
احدیت تعین اول ہے، یعنی پہلی تجلی۔ یہ پہلی تعیین "ہونے" (یعنی وجود) کی ایک ایسی قابلیت محضہ ہے جو سب قابلیتوں پر مشتمل ہے، بشمول وہ جمیع صفات و اعتبارات جو وجود اور عدم دونوں سے متعلق ہیں۔ فرض کریں کہ آپ ہر قید، حکم اور نسبت کو ختم کردیں تو آخر میں ایک ایسا وجود باقی رہ جائے گا جو نسبتوں و قیود سے پاک ہوگا، اسے وجود مطلق، ناقابل عدم اور واجب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس جس وجود پر عدم جائز ہو اسے ممکن کہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر جمیع تعیینات، صفات و اعتبارات کو نظر انداز کرنے کے بعد جو قابلیت محضہ باقی بچے وہ مرتبہ احدیت ہے، اسے اولیت بھی کہتے ہیں اور باطن بھی۔ اس بالائی قوس کی حقیقت اندیشہ یا وہم و گمان یا قیاس یا کسی بھی ادراکی ذریعہ سے ناقابل گرفت ہے، البتہ یہ تجلی اعظم یعنی "وجود" ہے انسانی فکر یا سوچ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس کا قیام کب، کہاں اور کیسے سے بالکل آزاد ہے، اسی لئے صوفیہ لاتعین کے تعین اول کے تعلق کو تجلی اعظم کے مفہوم کے سوا کسی اور طرح سوچنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ مثالیں یہاں ہیچ ہیں۔ اوپری قوس کے برعکس زیریں قوس کا رخ مخلوق کی طرف ہونے کی وجہ سے شئون ہم انسانوں پر ظاہر ہوگئے ہیں، جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔ اس مقام پر صفات اور شئون کی تمیز بھی ختم ہے (نوٹ: تمیز قائم نہ ہونے کا مطلب معدوم ہونا نہیں)۔ اس مرتبے کو ذات باری کا تنزیہی پہلو بھی کہتے ہیں، سورہ اخلاص میں لفظ "احد" تنزیہی تقاضوں کے بیان کے لئے ہی استعمال ہوا ہے جہاں ذات باری کی شان ضمیر غائب "ھو" سے بیان ہوئی، یعنی وہ ذات کو تعین و ادراک سے ماوراء ہے وہ "احد" ہے، اس سے متعلق ہر ادراک اس کی شان "واحدیت" پر مبنی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
يا رسولَ اللہ أين كان رَبُّنا عزَّ وجلَّ قَبلَ أنْ يَخلُقَ خَلقَہٗ؟ قال: كان في عَماءٍ ما تَحتَۂ ھَواءٌ، وما فَوقَہٗ ھَواءٌ ثم خلَقَ عَرشَہ علی الماءِ8
مفہوم: ایک صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہمارا رب کہاں تھا تو آپ نے فرمایا "عماء" میں جس کے نہ نیچے ہوا تھی اور نہ اوپر، پھر اس نے پانی پر اپنا عرش پیدا کیا
"عماء" کا ایک معنی بادل ہے، حدیث کے لفظ "عماء" سے شیخ مرتبہ احدیت مراد لیتے ہیں۔ بادل اپنے سے اوپر اور نیچے ہوا میں معلق ہوتا ہے، شیخ کہتے ہیں کہ "عماء" میں موجود اس تشبیہہ کی ذات باری سے تنزیہہ بیان کرنے کے لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے اوپر اور نیچے البتہ ہوا نہ تھی۔ اسی طرح ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ تھا جبکہ کچھ اور نہ تھا" (كَانَ اللَّہُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُہُ9
یاد رہے کہ وجود کا معنی "ہونا" ہے اور یہ معنی اسی ذات کے لئے درست ہوسکتے ہیں جو "از خود" ہو (کہ یہ از خود ہونا وجود کے مفہوم میں شامل ہے) اور از خود ہونا صرف ذات واجب کی شان ہے۔ اس کے برعکس جس کا ہونا کسی کے رہین منت ہو وہ "موجود" تو ہو سکتا ہے لیکن "وجود" نہیں، اس لئے کہ وہ ہوتا نہیں بلکہ "ہونا کیا جاتا "ہے۔ اسی لئے صوفیہ کہتے ہیں کہ وجود تنہا ذات باری کو سزا وار ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ وجود نہیں (ماسوا اللہ کے ہونے کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے مختلف پیرائے استعمال کئے جاتے ہیں، مثلاً وجود کا خیال، وجود کا شہود، وجود کی پرچھائی، وجود کا عکس وغیرہ، تحریر کے مناسب مقام پر اس پر بات ہوگی)۔
(جاری)

حواشی

  1. لائحہ پنجم، از لوایحِ جامیؒ
  2. تنزلاتِ ستہ از عبدالرحمٰن لکھنویِ، نیز رسالہ حق نما از داراشکوہ
  3. مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی نورالخلائق، مکتوب اول، "تنزلاتِ ستّہ" از عبدالرحمٰن لکھنویؒ، نیز "حق نما " از داراشکوہ
  4. مکتوبات امام ربانیؒ  (مختلف مقامات سے کشید کیا گیا)
  5. مکتوب ۸۹، جلد سؤم، معرفۃالحقائق
  6. فرھنگ اصطلاحات تصوف173، نیز سر دلبراں 399 
  7. القرآن: الاعراف 143
  8. سنن جامع ترمذی: رقم الحدیث 3109 نیز ابن ماجہ: : رقم الحدیث 182  
  9. صحیح بخاری  : رقم الحدیث 3019 نیز 6982 

تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۱)

اسلام میں محبت کی اساسیات غزالیؒ کے حوالے سے

ڈاکٹر ابراہیم موسٰی

مترجم : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

تعارف

یہ مضمون محبت کے متنوع تصورات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ محبت کی مخصوص اسلامی صورتوں کو بحث میں شامل کرتا ہے، خاص طور پر ان صورتوں کو جنہیں قرون وسطیٰ کے مسلم مفکر و ماہر الہیات امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی 1111ء) نے پیش کیا تھا۔ مقصد محبت کے اسلامی تصور کو ”اگاپے“ (agape) کے غالب مسیحیت مرکزی تصورات اور محبت کی کفارہ پر مبنی شکلوں سے ممیز کرنا ہے جو فی زمانہ بین المذاہب مکالمے کو تشکیل دے رہے ہیں۔ اس مضمون کا استدلال ہے کہ ہمیں محبت کے مختلف تصورات کو تلاش کرنے اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پوپ بینیڈکٹ نے اپنے 2006ء کے ریجنزبرگ لیکچر سے مسلم دنیا کو بدنام کیا۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا ماخذ عیسائی علم کلام کے کچھ خاص طبقوں میں پائے جانے والے تصوراتِ محبت اور اسلام میں محبت کے اصول کو یکساں سمجھ بیٹھنا ہے۔ تاریخی طور پر، اسلام کا علم کلام رحمت کے اردگرد مرکوز ہے، جب کہ محبت انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ تجرباتی تعلقات کے ایک لاہوتی نظام کی زایدہ ہوتی ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح غزالی کی محبت کے مظاہر محبت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ کرتے ہیں۔ معرفت الٰہی، ادراک اور اطاعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے غزالی مسلم الٰہیاتی نظام اور دائرہ کے اندر محبت کا ایک پیچیدہ تجرباتی تصور پیش کرتے ہیں۔ یہ تجویز کرنا کہ عیسائیت اور اسلام میں محبت مشترک ہے، جیسا کہ بعض نے کیا ہے، دونوں ہی ثروت مند روایتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا، بلکہ ہر روایت میں محبت کے تصورات بہت مختلف ہیں۔
’’وہ اور بیو بولتے نہیں۔ اس نے اب تک اس سے سیکھ لیا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ اس جانور پر مرکوز رکھے جس کو وہ مار رہے ہیں۔ اسے وہ چیز دے جس میں اسے اب اس کے مناسب نام سے پکارنے میں دشواری نہیں ہوتی: محبت۔‘‘ (جے، ایم، کوئٹزی، ڈسگریس)
’’محبت فرض تھی اور فرض محبت۔‘‘ (وکرم چندر، سیکرڈ گیمز)
اکتوبر2007ء میں عالم اسلام کے 138 ماہرینِ دینیات، بڑی شخصیات اور زعما نے ایک محضر پر دستخط کیے جس کا عنوان تھا: A Common Word Between Us and You (ہمارے اور آپ کے مابین ایک کلمۂ سواء) (1) اس یادداشت میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مسلمان اور مسیحی دونوں ”محبت کی مشترک قدر“ پر اتفاق رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ امن و سلامتی کے داعی ہیں۔ محبت کی اس قدر مشترک کے دو جزء ہیں: ایک خدا سے محبت اور دوسری پڑوسی سے محبت۔ اس کے بعد سے اب تک اس یادداشت پر مزید 256 لوگ دستخط کر چکے اور اس بیان کو منظور کر چکے ہیں۔
یہ مصالحانہ اقدام مسلمانوں کی جانب سے دراصل اس سخت بدمزگی کا جواب تھا جو مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین سولہویں پوپ بینیڈکٹ کے اس خطاب کے بعد پیدا ہوئی جو انہوں نے 12 ستمبر 2006ء کو دیا تھا جس میں انہوں نے اسلام پر ایک جارحانہ تبصرہ کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”غیر عاقلانہ کام کرنا خدا کے نیچرکے خلاف ہے“(2) انہوں نے دعوا کرتے ہوئے کہ مسیحیت نے اب تعقلی رویہ اختیار کر لیا ہے اس کا تقابل اسلام سے کیا اور اس کے لیے بطور حوالہ بازنطینی بادشاہ مینویل ثانی کا ایک فقرہ نقل کیا کہ: ”مجھے بتاؤ محمدﷺ کیا چیز نئی لے کر آئے؟ ظالمانہ اور غیر انسانی حکم کہ مذہب کو بزور شمشیر پھیلایا جائے کے علاوہ اسلام میں آپ کو کچھ نیا نہ ملے گا“(3) پوپ کے اس رمارک سے مسلمانوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے تھے۔ تو متذکرہ بالا مسلم بیان (The Common Word) پوپ کے اسی بیان کا جواب ہے۔ اِس بیان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں (Love) محبت کو اسلام اور مسیحیت کی ایک قدر مشترک کے طور پر لیا گیا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ”محبت“ اسلام اور مسیحیت دونوں میں یقیناً‌ ہے مگر دونوں میں علمیاتی طور پر وہ بالکل مختلف انداز میں فنکشن کرتی ہے۔ اگلی سطور میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔
مجھے دونوں مذاہب میں ایک غلط یکسانیت پیدا کرنے پر اعتراض یوں ہے کہ دونوں کے مابین ظاہری مشابہتوں پر نہ جا کر دونوں کی انفرادیت پر نظر رہنی چاہیے۔ اس جائزہ میں اسلام کی سیاسی دینیات یا دوسرے لفظوں میں اسلام میں محبت کی سیاسیات پر ہی ارتکاز رہے گا۔ دونوں مذاہب میں ”محبت“ کے تصور کا تقابل یہاں میں نہیں کروں گا۔(4)
چونکہ اسلام میں محبت کے مباحث کو پہچاننے اور سمجھنے کا مطلب ہے اسلام میں محبت کے نظام کے ان ظاہری آیپریٹس (ذہنی تصوراتی خاکے) کو سامنے لانا(5) جو کہ ایسا تصور ہے جسے مشیل فوکو نے وضع کیا اور بعد میں جارجیو اگامبین نے اس کو وسیع کیا۔ یہ آ پیریٹس ”مکمل طور پر ایک متضاد چیزوں کی تشکیل کا ڈسکورس ہے'' جس میں فوکو کے خیال میں فن تعمیر کی شکلیں، ضابطے، قوانین، سائنسی، اخلاقی اور فلسفیانہ تجاویز شامل ہوں گی۔(6)
(وضاحت: آپریٹس سے مراد ایسا ذہنی تصوراتی خاکہ ہے جو چند الفاظ و اصطلاحات سے مل کر اپنے زمانی و مکانی اور روایتی سیاق میں ایک خاص معنی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اسلامی روایت میں ”محبت کی آپریٹس“ سے وہ معنی مراد ہوں گے جن کا ارتقاء اسلامی کلامی و اخلاقی ادب کے دائرہ میں ہوا۔ لیکن عیسائی روایت کے سیاق میں یہی لفظ (Love) ایک مختلف معنی دے گا۔ یعنی سیاق بدل جائے تو ایک ہی لفظ اور ایک ہی اصطلاح دو بالکل مختلف معنی دے گی)
میں یہاں پیشگی طور پر دینیاتی رشتوں پر روشنی ڈالوں گا۔ اسلام کے مختلف اظہارات (سنی، شیعہ، اباضی، زیدی، اسماعیلی) میں اللہ تعالیٰ کو عموماً‌ رحمان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن رحمانیت اور محبت میں فرق ہے۔ کئی مصنفین مثلاً ایس ایچ نصر اور غازی بن محمد بن طلال رحمت و رحمانیت کو محبت سے جا ملاتے ہیں۔(7) تو بے پناہ رحمت محبت سے الگ کیسے ہے؟ رحمت اپنے آپ میں ایک مستقل صفت ہے جو اس عالم میں جاری و ساری ہے۔ اسلامی دینیات میں اِس عالم کا ظہور خدا کی صفت رحمت کا ہی ظہور ہے۔ اور اسلام کے سیاسی نظریہ میں یہ رحمت بندھی ہوئی ہے، اطاعت کے عہد سے محبت کے عہد سے نہیں۔ یہ واضح ہے کہ جدید احساسات میں اطاعت دقیانوسی ہو کر رہ گئی ہے۔ اور محبت کا مسیحی ڈسکورس ہی غالب ہے، یہاں تک کہ سیکولر ڈومین میں بھی۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محبت کے اسلامی تصورات کی روایت دب کر رہ گئی ہے۔ اس مشترکہ بیان میں جدید دور کی بین المذاہب مذاکرات کی سیاست کے چلتے روایت کی عطا کردہ مسلمہ موضوعیت کے مسلمہ اور ممتاز پہلووں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس میں کاسموپولیٹن ازم اور محبت پر مبنی بین المذاہب ہم آہنگی پر ابھارا جاتا ہے۔ مسلم علمی تاریخ میں جن تصورات کو بہت احتیاط و نزاکت سے برتا گیا ہے ان کو خلط ملط محض اس لیے کیا جا رہا ہے کہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ مسیحت کی طرح اسلام میں بھی ”محبت“ ایک بنیادی قدر ہے۔ مگر اسلامی روایت کی یہ کانٹ چھانٹ بہت خطرناک ہے۔(8)
ایک دوسرے لیول پر Love کی ایک خاص ترکیب مغرب کے سیاسی نظریات میں سرایت کر گئی ہے۔ جو غالباً یوروپ کے مسیحی کلچر اور تہذیب سے ماخوذ ہیں۔ اگمبین ان کو Apparatus یا ذہنی تصوراتی خاکے کا نام دیتا ہے۔ جن کے ذریعہ انسانوں پر زیادہ سے زیادہ تسلط جما لیا جاتا ہے۔(9) تو محبت کے بارے میں کوئی گفتگو جب دو روایتوں میں خلط ملط کر کے ہو جیسے کہ اسلامی و مسیحی روایتیں، تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ ایک روایت کو دوسری کا تابع بننا پڑے گا، اور جو زیادہ مضبوط و توانا ہو گی دوسری کو اس کے مطابق ڈھال دیا جائے گا۔ جو بڑے اور مضبوط وسائل والی ہو گی اس کا تسلط ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے کامن ورڈ لکھنے والوں نے بے شعوری میں اسلامی روایت کو مسیحی روایت کے تابع بنا ڈالا ہے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض ہے کہ محبت کے غالب تصور کو ”اگاپے“ سے تعبیر کیا جائے جو مسیحیت میں خدا سے بے لوث محبت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس طرح کی بے لوث و بے فائدہ محبت انسانوں میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ خدا کی رحمت سے ہی مل پاتی ہے۔ ”اگاپے“ کو اسلام کے تصور محبت سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا(10)۔ ”اگاپے“ ایک قسم کا مخصوص مسیحی تصورِ محبت ہے جس کی جڑیں حقیقی گناہ میں پائی جاتی ہیں اور جس کے لیے کفارہ کا تصور ہونا لازمی ہے جو اسلام میں ہے ہی نہیں۔(11) مقصد یہ ہے کہ دیانت، استناد اور تکثیریت کے علمیاتی اور جدلی فائدے ظاہر کیے جائیں اگر اس میں غفلت برتی گئی تو ایک نالج ٹریڈیشن ڈی گریڈ ہو جائے گی۔ اور اس سے انسانی تکثیریت کا نقصان ہو گا۔(12)

محبت، اختلاف اور منطقیت

اسلامی تعلیمات میں محبت کے مقام اور اس کے منطقی وصف کی "کامن ورڈ“ کے بیان سے مغایرت، اسلام کی کلاسیکل تعلیمات سے ہر واقف کار پر آشکارا ہے کہ جہاں قرآن (3:64) اہل کتاب یعنی یہود و نصاری اور مسلمانوں کو ایک کلمۂ جامعہ کی طرف بلاتا ہے وہاں اشتراک کی یہ دعوت ہر سہ فریق کے درمیان ایک مشترکہ قدر توحید اور کفر و شرک کی مخالفت پر مرکوز ہے۔ اور جگہوں پر جہاں بھی قرآن یا مختلف مسلم فرقوں کا علم کلام محبت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ ایک مختلف فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی اس پر کلام کرتا ہے۔ جو مذکورہ بالا کامن ورڈ سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر کامن ورڈ کا بیان اُس قدر مشترک کا حوالہ دیتا ہے جو خدا کی توحید، رسولوں کے اقرار اور خدا کی حاکمیت پر مبنی ہے۔ یہاں تک تو کامن ورڈ اور اسلام کی روایتی دینیات میں اتفاق و ہم آہنگی ہے۔ مگر آگے کامن ورڈ کے شارحین جو بات کر رہے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی کہتی ہے۔ اسلام میں ایمان مجمل کا ہر فقرہ، کامن ورڈ کے مطابق، ”خدا کی محبت و اخلاص“ کی ایک حالت کا بیان ہے۔ ان کی یہ وضاحت بظاہر بے ضرر سی ہے۔ مگر جب اُس کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وضاحت کائنات میں جاری و ساری محبت کے ایک پہلو کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے۔ جو کہ ایمان و عبادت دونوں کو محبت کا ہی ایک عمل سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ چیز اسلام کی بنیادی دینیات سے جوہری طور پر مختلف ہے۔
روایتی سطح پر اسلام ایک ایمانی روایت ہے۔ دین کا پہلا مطالبہ خدا کی اطاعت اور اس کے آگے سراَفگندگی ہے۔ دین اُن اعمال کو کہا جاتا ہے جو نجات کے حصول کے لیے ضروری ہیں کیونکہ دنیا دارالعمل اور دارالتکلیف ہے۔(13) اسلام کو ایک دین مان کر بندہ ایک ماورائی خدا کی فرماں برداری کا عہد کرتا ہے۔ اطاعت اور سراَفگندگی محبت کے مماثل نہیں، جیسا کہ میں آگے چل کر وضاحت کروں گا۔ کم ازکم عہد متوسط کے ماہرین دینیات تو یہی بتاتے ہیں کہ محبت خدا کی فرماں برداری کا ثمرہ ہونا چاہیے۔ جب اطاعت پائی گئی تو خدا سے محبت کا رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ خدا اور بندہ کے مابین حمد و ثنا کا تعلق خالق اور مخلوق کے رشتہ سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے اطاعت و فرماں برداری اور خود سپردگی ضرور ہونی چاہیے۔
اس کے برعکس مسیحیت میں محبت کی ایک خاص حساسیت پائی جاتی ہے جو مسیحی دینیات کے لیے بہت بنیادی ہے۔ ایچ جی ویلز ایک ناول نگار اور مؤرخ ہے متکلم نہیں۔ اُس نے عیسیٰ مسیح کو متفکرانہ انداز میں اِن لفظوں میں بیان کیا ہے: ”انہوں نے ایک نیا سادہ اور زبردست عقیدہ دیا یعنی ایک عالمگیر محبت کرنے والے باپ خدا کا اور اس کی آسمانی بادشاہت کے آنے کا۔“(14) خدا کا محبت کرنے والا باپ ہونا خدا کے تثلیثی تصور کا ایک جزء اور خدا کے مسلم تصور سے بہت دور ہے۔ اسلام خدا کے تثلیثی تصورات کی مخالفت کرتا ہے۔
آگسٹینین مسیحیت میں محبت کا مقام اور کردار ایک پیچیدہ و مختلف لاہوتی نظام اور امیجری کا حصہ ہے(15) جس کی اصلی بنیاد کفارہ میں پیوست ہے۔ اور جس میں قربانی کی ضرورت انسان کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ مسیح علیہ السلام کی صلیب والی قربانی محبت کی علامت ہے۔ یوں ”اپنے پڑوسی سے پیار کرو“ والا اور صلیب کے ذریعہ تلافی کرنے والا پیار مسیحیت کے تثلیثی دینیاتی نظام کا حصہ ہے۔ مسیحیت کا یہ رول غالب یوروپی مسیحی پس منظر اس کے سیاسی تثلیثی و دینیاتی مفروضوں اور ضرورتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ لیکن اسلام جیسی کسی روایت کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کو اس میں غالب اخلاقی اور فلسفیانہ نظریات کے سہارے بے شعوری طور پر ملایا جا رہا ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں ”مسیحی محبت“ کی وجودیات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر سکیں۔
خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ: اسلام کا اختلاف کیا ہے؟
کامن ورڈ کے مصنفین نے جس چیز سے صرف نظر کر لیا ہے یا اُسے بائی پاس کر گئے ہیں وہ ہے اسلام میں خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ۔ اسلام میں اس سے زیادہ اساسی اور جوہری اور کوئی چیز نہیں جتنی یہ ہے کہ خدا تمام مخلوقات کے لیے رحیم ہے۔ اسلام کا یہ وہ بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے جس پر اہل کلام اور فقہاء متصوفین (جو روحانی، فلسفیانہ اور فقہی دقائق کے ترجمان ہیں) سب وسیع طور پر متفق ہیں۔
اسلامی دینیات میں خدا کی دو صفات بطور خاص مستقل اور اہم ہیں۔ یہ ہیں: رحمان اور رحیم کی۔ رحمان جس نے رحمت اپنے اوپر واجب کر لی یا جس کی رحمت کے کوئی حدود نہیں۔ رحیم جس کی رحمت ہر چیز کو محیط ہو(16)۔ یہ بحث بھی موجود ہے کہ خدا کی صفات کا کوئی بھی بیان کیا ان کے معنی کی وسعتوں کا احاطہ کر سکتا ہے کیونکہ ہر صفت کے لیے استعمال کیا گیا لفظ مختلف معانی اور خصوصیتوں کو بتاتا ہے حالانکہ خدا کے ۹۹ نام (اسماء حسنی) ہیں۔ پھر بھی انسانی علم خدائی صفات کے کلی ادراک سے قاصر ہے (17) جیسا کہ فرمایا: ”اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی پھر بھی تیرے رب کے کلمات (صفات) ختم نہیں ہوں گے۔ قرآن (18:109)(18)۔ خدا کی یہ دو صفات خدا کے لیے مخصوص ہیں انہیں مخلوق کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جیسے بعض اور صفات کا معاملہ ہے مثلاً‌ قادر ہونا یا تخلیق کی صفات کو محدودیت کے ساتھ انسانوں کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔
علاوہ بریں دو اسماء صفات استثنائی ہیں اور دوسرے الفاظ ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان میں ایک ہے: اللہ جو عربی زبان میں اِس کائنات کے خالق و مالک کے لیے مختص ہے۔ دوسرا رحمان ہے یعنی انتہائی درجہ کا مہربان جس کی رحمت کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔ اِسے اللہ کا مترادف بھی مانا جا سکتا ہے۔(19) (جیسا کہ خود قرآن نے کہا ہے: ”کہو تم اُسے اللہ کہو یا رحمان کہہ کر پکارو، کیونکہ اسی کے ہیں سارے اسماء حسنیٰ (قرآن:۱۱۱) رحمانیت میں کوئی بھی مخلوق اُس کی شریک نہیں ہو سکتی۔ میں آگے وضاحت کروں گا کہ یہ لامحدود اور واجب رحمت ہی اصل میں تمام وجود کا سرچشمہ ہے۔ اسلام کے معروف فقیہ، متکلم و مفکر امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی ۱۱۱۱ء) اللہ کی صفات کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ رحمان اللہ کا مترادف ہے(20)۔ انہوں نے رحمان کی تشریح میں رحمت کی دو قسمیں کی ہیں: رحمت تامہ، اس میں اللہ تعالیٰ صالحین کی ضرورتوں کی دست گیری کرتے ہیں اور رحمت عامہ جو ساری مخلوقات (قطع نظر صالح و غیر صالح کے) کو عام ہے۔جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔(21) غزالی اِس میں مزید اضافہ کرتے ہیں:
”یوں تو الرحمان رحم سے مشتق ہے لیکن اُس کی یہ رحمت بندوں کی پہنچ سے باہر ہے، یہ رحمت اخروی سعادت سے متعلق ہے۔ تو الرحمان اولاً‌ تو وہ ہے جس نے تمام بندوں کو پیدا کر کے ان پر رحمت کی، دوسرے وہ جس نے ایمان کی راہ دکھائی، تیسرے آخری سعادت بخشی، چوتھے آخر میں خدا کا جلوہ دیکھنے کی عزت انہیں بخشی“۔(22)ِ
عبد الکریم الجیلی (متوفی 1408) ایک اہم صوفی مصنف ہیں۔ ان کی رائے میں رحمت وجود کے ہر ذرہ سے مترشح ہوتی ہے۔ اور جتنی بھی مخلوقات ہیں سب میں جاری و ساری ہے۔(23) دوسرے لفظوں میں تخلیق اور رحمت الٰہی لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام میں علم الاسماء والصفات یہ بتاتا ہے کہ رحمت ہی تمام تخلیق کی مقتضی ہوئی۔
امام محیی الدین ابن عربیؒ (متوفی 1240) تصوف کے نہایت دقیق النظر شارح ہیں وہ لکھتے ہیں:
”رحمت میں مبالغہ ہوتا ہے تو رحمت واجبہ اور رحمت امتنانیہ دو قسموں کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن فرماتاہے: ورحمتی وسعت کل شیئی (قرآن،7:156) کائنات کا وجود اسی رحمت امتننانیہ کا مظاہرہ ہے۔ جو لوگ عذاب کا شکار ہوں گے یہی رحمت ان کے ابدی مستقر میں سامان ِراحت بنے گی۔ فرائض کے بجا لانے سے رحمتِ واجبہ کا حصول ہوتا ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام سے کہا: خدا کی رحمت کی وجہ سے ہی تم اِن کے لیے نرم و مہربان ہو (3:159) اور فرمایا: ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے (قرآن:22:107) یہ سب رحمتِ امتنانیہ کی مثالیں ہیں۔ ساری کائنات اسی سے قائم ہے اور پھر یہ رحمت وسیع ہو گئی۔…………جو جانتے ہیں کہ دنیا کے وجود کا سبب کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے یہ چاہا کہ وہ جانا جائے تو اُس نے خلق کو پیدا کیا اور اپنے آپ کو اُن سے پہچنوایا انہوں نے اُسے پہچان لیا۔ اِس لیے ہر چیز اس کی حمد کرتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رحمت کا تعلق سب سے پہلے کس چیز سے ہوا“(24)
یہاں نوٹ کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہاں محبت کو نہیں بلکہ رحمت کو وہ صفتِ حاکمہ بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے دنیا میں ظہور فرمایا۔
(جاری)


حواشی و تعلیقات

(1) http://www.acommonword.com
(2) Pope Benedict XVI, "Faith, Reason and the University: Memories and Reflections", 706. https://familyofsites. bishopsconference.org.uk/wp-content/uploads/sites/8/2019/07/BXVI-2006-Regensburg-address.pdf
(3) Ibid.
(4) See Heydarpoor, "Love in Christianity and Islam: A Contribution to Religious Ethics".
(5) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge: Selected Interviews and Other Writings", 194; Giorgio Agamben, "What Is an Apparatus?".
(6) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge", 194.
(7) طلال،کتا ب کے مقدمہ میں ممتاز اسکالر ایس ایچ نصر دعوا کرتے ہیں کہ خدا نے اپنے آپ سے محبت کی: احببت۔ جبکہ روایت میں اصل بات یوں ہے: احببت ان اعبد (میں نے چاہا کہ میری عبادت کی جائے) (احببت ان اعرف کے الفاظ بھی بعض روایات میں آئے ہیں (مترجم)۔ اس کے علاوہ جہاں بھی رحمت کی اصطلاح آئی ہے مقدمہ نگار اس کو محبت سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔حالانکہ تصوف کے سب سے بڑے محقق شارحین مثلاً‌ ابن عربی بتاتے ہیں کہ خدا کی رحمت عامہ (رحمانیہ) ہی ہر وجود کا سبب ہے۔ نصر استدلال کرتے ہیں کہ رحمت و مہربانی میں محبت بھی شامل ہے۔ لیکن خدا کی صفات کو اس طرح ایک دوسرے سے بدلا جا سکتا ہو تو پھر اتنی ساری صفات کا ہونا بے معنی ہو جائے گا۔ ابن عربی کی تحریروں میں رحمت پر بحث کے لیے ملاحظہ کریں:  
Shaikh, SaÊdiyya, Sufi Narratives of Intimacy, 75-81
(8) کامن ورڈ کی زبان اور غازی بن محمد بن طلال کی کتاب میں بہت مشابہت ہے جس میں تجزیہ کی بڑی کمی ہے وہ بس مختلف ذرائع سے لیے گئے حوالوں کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔
(9) Agamben, "What Is an Apparatus?", 13.
(10) Nygren, "Agape and Eros", pt. 1. A study of the Christian idea of love.--pt. 2. The history of the Christian idea of love.
(11) Gandolfo, "The Power and Vulnerability of Love a Theological Anthropology", 178, 82. Gandolfo establishes how the theological anthropology of redemption is a product of original sin that creates vulnerability. Original sin as a doctrine is absent in Islam.
(12) Quijano, Coloniality of Power, Eurocentrism, and Latin America, 533-580; Mignolo, Decoloniality and Phenomenology, 360-387; "Foreword: On Pluriversality and Multipolarity".
(13) 
(14) Wells, The Outline of History: Being a Plain History of Life and Mankind, 529.
(15) Kant, Critique of Pure Reason, 584.
(16) Hamza, Rizvi, and Mayer, An Anthology of Qur'anic Commentaries, 299-302.
(17) Asad, The Message of the Quran, 27.
(18) See these various translations from which I have benefited. Ibid; Khalidi, The Qur'an.
(19) al-Azmeh, The Emergence of Islam in Late Antiquity: Allah and His People, 67, 89. Al-Azmeh observes the universalizing perspectives of monotheism and notes that Rhmnn was the proper name of the montheistic deity of Christians as well as of henotheistic and monolatric deities.
(20) al-Ghazali, المقصدالاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنیٰ 63; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنی Translated with Notes, 53.
(21) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 62; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God, 54.
(22) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 63.
(23) 1:88.عبدالکریم الجیلی، الانسان الکامل فی معرفۃ الاوائل والاواخر۔
(24) ابن العربی، الفتوحات المکیہ،  7:294-295 ،  باب 558- معرفۃ معانی اسماء اللہ الحسنی۔



مصنف ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کیوغ اسکول آف گلوبل افیئرز اینڈ ہسٹری ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں مرزا فیملی پروفیسر آف اسلامک تھاٹ اینڈمسلم سوسائٹیز ہیں۔
مترجم ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ادارہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ mohammad.ghitreef@gmail.com

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہ

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

اقبال نے جدید فلسفہ و سائنس پر جس علم الکلام کی بنیاد رکھی، اپنی دقت و پیچیدگی کی وجہ سے صرف خواص اہل علم کا ایک طبقہ ہی اس سے مستفید ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مزید دو اسباب کی بنا پر فکرِ اقبال کی توضیح زیادہ بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہو سکی: ایک تو اقبال کی شاعری کے سحر حلال نے عوام و خواص کو اس طرح مسحور کیا کہ ان کی توجہ ’’خطبات‘‘ کی طرف ملتفت نہ ہو سکی۔ دوسرے، ’’خطبات‘‘ میں اقبال کی ایسی تجدد پسندانہ آرا سامنے آئیں ،جو راسخ العقیدہ اسلامی فکر سے براہ راست طور پر متصادم تھیں اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست خود مولانا سید سلیمان ندوی تھے، جنہیں اقبال معاصر ہندوستانی علماء میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور جن سے اقبال کے علمی استفادے کا تعلق تادم آخر برقرار رہا۔ اقبال کے فکر و فلسفے کی بنیاد پر کلامی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے والوں میں سب سے اہم نام ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱۹۰۴ء۔۱۹۶۹ء) کا ہے۔

تعارف

ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بالترتیب فارسی اور عربی میں بی اے اور ایم اے کیا اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے ۔وہاں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۶۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ فلسفہ اور اسلام کے موضوع پر انہوں نے متعدد اہم کتابیں تصنیف کیں۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کی نظر میں علامہ اقبال کے بعد برصغیر ہند میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین ہی مسلمان فلسفی کہلانے کے مستحق ہیں(۱)۔ وہ فکر اقبال کے شیدائی اور حکمت اقبال کے خوشہ چیں تھے۔ بلکہ ان کے اپنے دعوی کے مطابق، ان کی فکر اسی سے ماخوذ اور اسی کی تشریح و توضیح پر مبنی ہے۔ انہوں نے بطور خاص اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر ایک نیا فلسفیانہ نظریہ تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اقبالیات پر ان کی کتاب "حکمت اقبال" اور اسلامی فکر و فلسفے کے حوالے سے ان کی کتابیں :Ideology of the Future اور " قرآن اور علم جدید" خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ ان دونوں میں انہوں نے خاص طور پر اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر فکر اسلامی کا نیا ڈھانچہ تیار کرنے یا بالفاظ دیگر اقبال کے تعمیر کردہ ڈھانچے پر نئی منزلیں اٹھانے کی کوشش کی اور اس نے اہل علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ اگرچہ ان کی فکری کاوش پر جس طرح گفتگو ہونی چاہیے تھی، وہ نہ ہو سکی۔

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر پر ایک نظر

ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا احساس ہے کہ مغرب کا مادی نظریہ ٔ حیات و کائنات دنیا کے تمام مذہبی نظامہائے فکر کے لیے ایک عظیم چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس نے مسیحیت سمیت دنیا کے مختلف مذاہب کی ما بعد الطبیعاتی فکر کے قالب کو بدل ڈالا ۔ اب وہ ایک عرصے سے اسلام پر یلغار کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے موجودہ اسلامی نسلوں میں ذہنی ارتداد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ موجودہ دنیا میں کفر نئے فلسفے کے لباس میں جلوہ گر ہو کر سامنے آیا ہے(۲)۔ اسلام کے تہذیبی انحطاط کی وجہ بھی مغرب کے یہی غلط فلسفیانہ تصورات ہیں ،جن سے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں ہی طبقہ یکساں طور پر متاثر ہے۔ جب کہ غلط طور پر اس کا اہم سبب بے عملی کو بتایا جاتا ہے ۔حالانکہ بے عملی اصلاً‌ اسلامی معتقدات پر یقین و اعتماد کے انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اسلامی نظریہ ٔحیات و کائنات میں فکری و عملی سطح پر مسلمانوں کے لیے کشش و جاذبیت اس لیے باقی نہیں رہی کہ موجودہ دور میں اس کی غلط تعبیر و تشریح کی گئی ۔دوسری طرف مغرب کے فلسفیانہ تصورات میں بھی یک گونہ حق و صداقت کا پہلو موجود ہے، جو ہمارے دامن فکر کو اپنی طرف کھینچتا رہا اور ہم اسلامی فکر میں اس کی گنجائش محسوس نہ کرتے ہوئے اس کے تئیں ایک حد تک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا رہے(۳)۔ مغربی فکر کی تنقید اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ علم بالوحی اور علم بالحواس کے صحیح اور متوازن کردار کی تعیین کے ساتھ ر ایک مستحکم فکری نظام تشکیل دینے کی کوشش نہ کی جائے۔
اس بنیادی احساس کے تحت ڈاکٹر رفیع الدین کا طریق فکر و عمل یہ ہے کہ جدید فلسفہ و سائنس کے احساس پر اٹھائی گئی مغرب کے مادی افکار کی عمارت کو اسی کے فکری تیشوں سے توڑنے کی کوشش کی جائے۔ تاہم دوسری طرف اس کے ان پہلوؤں سے مطابقت و ہم آہنگی کی راہیں بھی تلاش کی جائیں جن کی بنیاد پر اسلامی فکر کو ایک نئے قالب میں پیش کیا جا سکے ۔اسلامی فکر کا نیا قالب ان کی نظر میں دراصل وہی ہے جس کی تشکیل عصر حاضر میں اقبال کی فکر سے ہوئی۔ درحقیقت فکر اقبال کی خوبی بھی یہی تھی اور خامی بھی یہی کہ اس کے تشکیلی مادے میں مغرب کی مادی بنام سائنسی فکر کے وہ عناصر بھی شامل کیے گئے تھے جو اسلامی فکر کی ظاہری و باطنی ساخت اور روح کے مغائر تھے۔
محمد رفیع الدین مذہب کو ایک فلسفیانہ حقیقت کی شکل میں پیش کرنے کے اس لیے خواہاں نظر آتے ہیں کہ ان کی نظر میں وہ گہرے طور پر فلسفیانہ حقائق سے مربوط ہے ۔ایک معنی میں فارابی کی فکری کی پیروی کرتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ نبوت بجائے خود ایک فلسفہ ہے(۴)۔ گویا اسلام کی فکری قدروں کی تعیین و پیمائش کا ایک میزان فلسفہ بھی ہے جسے وہ "حکمت" سے تعبیر کرتے اور اس کا ماخذ قرآن کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ فلسفہ معروف معنوں میں وہ فلسفہ نہیں ہے جو یونانی اور مغربی کارگاہوں میں ڈھل کر اپنے الفاظ و تصورات کا ایک پیکر محسوس رکھتا ہے ۔ فلسفہ وہ عقلی کاوش ہے جو غلط مفروضات کی بنیاد پر غلط نتائج پیدا کرتا ہے لیکن اگر اس عقلی کاوش کے مفروضات و اساسات درست ہوں تو ان سے صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وحی اپنے اندر عقلی تسکین کا مکمل سامان نہیں رکھتی۔ اس لیے عقل چاہتی ہے کہ:
’’جن سوالات کے جواب خدا کی وحی پہلے ہی دے چکی ہے یہ ان سوالات کا کوئی ایسا جواب بھی ڈھونڈ نکالے جو اس کے اپنے لیے بھی مکمل طور پر تسکین بخش ہو‘‘(۵)۔
عقل کی اس غیر معمولی اہمیت کے اعتراف کے باوجود وہ اس کی نارسائی کے معترف ہیں اور یہ تصور رکھتے ہیں کہ حقیقت اعلی کا مکمل ادراک کسی بھی طور پر عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اس کے صرف جزوی ادراک پر ہی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل وجدان کے ذریعے ہوتی ہے ۔فلسفہ اور سائنس دونوں ہی اپنی فعلیت میں وجدان سے کام لیتے ہیں ۔گویا حقیقت تک رسائی کا عقل کے بعد دوسرا اہم انسانی ذریعہ وجدان ہے۔ تاہم عقل کی طرح وجدان کو بھی مغالطے لاحق ہوتے ہیں اور ان مغالطوں کی بنیاد پر جس تصور حیات کی تشکیل ہوتی ہے وہ انسان کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا دیتا ہے(۶)۔ وہ اپنی فلسفیانہ فکر میں وجدان کو وہی اہمیت دیتے نظر آتے ہیں جو فکر اقبال میں غالب و محسوس نظر آتی ہے۔
سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم و کشمکش کی بحث میں وہ اہل دانش کے اس طبقے کے ساتھ ہیں جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ سائنس کا علم بھی اقداریت سے خالی (valueless) نہیں ہے۔ سائنسی تحقیق پہلے سے طے شدہ کسی مفروضے اور اعتقادی اصول پر قائم ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں خالی الذہن اور معروضی ہوتا ہے۔ ہر سائنس داں اپنی سائنسی تحقیق کے پس پشت کچھ مفروضات (assumptions) رکھتا ہے، جو خود حقیقت کائنات کے کسی عقیدے سے ماخوذ ہوتے ہیں اور اس کی تحقیق کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں(۷)۔ اقبال نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن رفیع الدین اپنی مختلف تحریروں میں ایک اہم اصول اور کلیے کے طور پر اس کا اعادہ کرتے ہیں جس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ سائنس بجائے خود اپنا ایک عقیدہ رکھتی ہے اور اس معنی میں وہ خود ایک مذہب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ سید حسین نصر اور ضیاء الدین سردار جیسے معاصر مسلم مفکرین نے اب اس پہلو کو زیادہ واشگاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم پرویز ہود بھائی اور نضال قسوم جیسے دانشوروں کی ایک تعداد اس نقطہ ٔ نظر کی شدید ناقد ہے۔
رفیع الدین کی نگاہ میں اسلام کے تئیں علمائے اسلام کی طرف سے سب سے اہم ذمہ داری مغربی فلسفہ ٔ حیات و کائنات کے مقابلے میں ایک ایسے فلسفہ ٔ حیات و کائنات کو دنیائے علم میں متعارف کرانا ہے جس سے ایک طرف مغرب کے مادی فلسفوں کی اصولی تردید ہوتی ہو جب کہ دوسری طرف وہ اسلام کی فلسفیانہ روح کا صحیح ترجمان اور اس کے ابدی وغیر متبدل حقائق کا جامع ہو ۔اس فلسفے کے خد و خال پر انہوں نے اپنی مختلف کتب اور تحریروں میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، جس کو وہ "نصب العین" کے فلسفے کا نام دیتے ہیں(۸)۔ زیادہ تفصیل کے ساتھ انہوں نے اپنی کتاب ’’منشور اسلام ‘‘میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے(۹)۔ سوال یہ ہے کہ انسان کی وہ فطری قوت محرکہ کیا ہے جو اس کو کارگاہ حیات میں متحرک رکھتی ہے اور جس سے تمام تر اعمال و افعال کے چشمے پھوٹتے ہیں؟۔ مارکس، فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل جیسے مادیت پرست فلسفیوں کی نگاہ میں وہ بالترتیب انسان کی معاشی ضرورت، جنسی خواہش اور جبلی امنگ ہے۔ اصل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے غلط مطالعہ و تجزیے سے ان نظریات کو تشکیل دیا گیا ہے ۔انسان کی بنیادی قوت متحرکہ اصلاً‌ اس کا نصب العین اور اس سے محبت ہے۔ نصب العین سے محبت ہی انسانی فطرت کا تقاضا اور انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ بھی وہی ہے(۱۰)۔ جہاں تک اس نصب العین کے وجود و تشکیل کی بات ہے تو وہ دراصل خودی کی پیداوار ہے جسے وہ خود شعوری کا بھی نام دیتے ہیں۔ قدرت کے تمام تر مظاہر کا باعث یہی خودی یا خود شعوری ہے :
’’نصب العین کی محبت مادہ اور جبلت سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خودی کے ایک مرکزی اور دائمی وصف کے طور پر خود بخود موجود ہے ۔ انسان کی خودی خدا کی محبت کے شدید جذبے کی وجہ سے جو ایک پرزور عمل کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ،تخلیق و ارتقا کے ایک مسلسل دور سے گزر رہی ہے ‘‘(۱۱)۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’اگر انسان اپنے نصب العین یا آدرش کے اظہار سے صحیح طور پر واقف نہ ہو ،جس کی وجہ تعلیم نبوت و وحی سے دوری ہوتی ہے تو اس کا اظہار وہ غلط طریقے سے کرتا ہے۔ اپنا ایک غلط آئیڈیل منتخب کر کے اسی سے خدا کی صفات منسوب کرتا اور اس کو اپنا معبود تصور کر لیتا ہے‘‘ (۱۲)۔
اس طرح ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی فکر کے مطابق، اخلاق کا بنیادی پیمانہ انسان کا اپنا نصب العین ہے۔ نصب العین سے ہی کسی قوم کے اخلاقی افکار و محرکات تشکیل پاتے ہیں۔مغربی اخلاقیات کی اسی تناظر میں قدر پیمائی کرنی چاہیے۔ اقبال کے نظریہ ٔ خودی سے ماخوذ اس فلسفیانہ نظریے میں نصب العین کے تصور کا اضافہ انہوں نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ اقبال نے اس کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے تا ہم اس کو کوئی واضح اور مرکزی حیثیت نہیں دی ہے جو رفیع الدین کے فلسفے میں نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے فلسفے کا دوسرا اہم عنصر نظریہ ٔ ارتقا ہے، جس کو انہوں نے مختلف نئے پہلوؤں سے پیش کرنے اور اپنے نتائج فکر مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جدید مسلم دانش وروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ڈارون کے نظریہ ٔ ارتقا کو درست تصور کرتا ہے اور اس خیال کا حامی ہے کہ : "نوع انسانی نوع حیوانات کی اولاد ہے جو اپنے جسم، دماغ اور نظام عصبی کی ساخت میں انسان سے کم تر درجے کی تھی"(۱۳)۔ وہ اسے قرآنی نظریہ ٔ ارتقا کا نام دیتے ہیں: "حقیقت ارتقا دنیا کے علمی مسلمات میں سے ہے اور قرآن اس کی مخالفت نہیں کرتا ،بلکہ تائید کرتا ہے‘‘(۱۴)۔ البتہ وہ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے سبب ارتقا کے نظریے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہیں ،جس کے مطابق مادے کے اندر ارتقا کا سلسلہ بغیر کسی شعوری محرک اور عقلی تنظیم کے ابتدا سے جاری ہے ،جسے ڈارون کشمکش حیات، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح (survival of fittest) کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نظریہ ٔ ارتقا کا پہلا حصہ درست ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرا حصہ بھی درست ہو لیکن غلطی یہ ہوئی ہے کہ ان دونوں حصوں کو باہم مخلوط کر دیا گیا ہے۔ کائنات کا وجود و بقا سنت تدریج سے عبارت ہے اور انسان بھی اس سے مستثنی وجود نہیں ہے۔ مزید برآں انسان کے نوعی و جسمانی ارتقا کی طرح اس کا نفسیاتی ارتقا بھی ہوا ہے اور اس ارتقا کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مرحلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ انسان کی خود شعوری معراج کمال کو نہ پہنچ جائے۔ اسی کے ساتھ کائنات کی بھی تکمیل ہو جائے گی جو گویا بجائے خود نمو و ارتقا کے مرحلے میں ہے (۱۵)۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم ’’کن‘‘ (ہوجا) سے یہ مطلب اخذ کرنا غلط ہے کہ کائنات اس حکم کے تحت فورا وجود میں آگئی۔ اس آیت کا مطلب فقط اتنا ہے کہ کائنات خدا کے حکم سے وجود میں آئی ہے۔ اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ اس حکم کو تدریج پر محمول کیا جائے اور اس تصور تدریج میں یہ امر شامل ہے کہ کائنات کی تشکیل وجود کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آفرینش کائنات،تخلیق وہبوط آدم،زمین وآسمان اور پہاڑوں پر خدا کی طرف سے امانت پیش کیے جانے( الاحزاب:۷۲) جیسے اس سلسلے کے تمام واقعات کو انہوں نے مجاز و تمثیل پر محمول کیا ہے(۱۶)۔
وہ اپنے اس فلسفۂ ارتقا کے تناظر میں اسلام کے ما بعد الطبیعاتی تصورات کی تشریح و وضاحت کرتے ہیں۔ چناں چہ نبوت کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ انسان کے اندر خود شعوری کی محبت کمزور پڑ جاتی ہے جس کے بعد صحیح نصب العین کے ساتھ اس کے عملی تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں رہتی۔ ایسے میں اس مشکل مرحلے سے انسان کو نکالنے اور خود شعوری کی تربیت کے لیے نبی کا ظہور ہوتا ہے جس کی خود شعوری خدا کی خصوصی عنایت سے یکایک نقطہ ٔ کمال تک پہنچ جاتی ہے اور کائنات کی خود شعوری اس کی خود شعوری پر اس طرح حاوی ہو جاتی ہے کہ اس کے بیان یا کلام کے نفسیاتی اور جسمانی میکانیہ کو اپنے تصرف میں لے لیتی ہے۔ چونکہ کائنات کے ہر عمل پر ایک فرشتہ مقرر ہے۔ ایک فرشتہ اس قانون پر بھی مقرر ہے اور اسے ہی جبرئیل سے موسوم کیا جاتا ہے(۱۷)۔
کائنات اپنی تکمیل کی تگ و دو میں مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ پہلی تکمیل زندہ خلیہ کے وجود میں آنے اور دوسری تکمیل مکمل جسم انسانی کے وجود میں آنے سے ہوئی۔ جب کہ تیسرے مرحلے میں ارتقا کا عمل کامل نبی کے ظہور پر ختم ہوا اور اب چوتھی تکمیل جس کے لیے ارتقا کی قوتیں کام کر رہی ہیں، نوع بشر کا روحانی کمال ہوگا اور اس کی بنیاد تیسری تکمیل یعنی نبوت کاملہ ہوگی(۱۸)۔
اقبال کی طرح ان کی فکر کا محرک یہ خیال ہے کہ پوری اسلامی فکر کی تنظیم نو (reconstruction) کی ضرورت ہے تاہم یہ اہم بات ہے کہ بعض ان نقاط فکر پر جن کے حوالے سے اقبال کی فلسفیانہ فکر کو تنقیدات و اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا ہے ، انہوں نے نام لیے بغیر اقبال سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے نقطہ ٔ نظر کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔ چناں چہ ’’خطبات‘‘ کی ایک عبارت سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جیسے اقبال کو خود خدا کی ذات میں تغیر کا پہلو نظر آتا ہو۔ رفیع الدین پرزور طور پر اقبال کا نام لیے بغیر اس کا رد و ابطال کرتے ہیں(۱۹)۔ اسی طرح وہ اقبال کے اس نقطہ ٔ نظر کی تردید کرتے نظر آتے ہیں کہ انسان خدا کے ساتھ معاون فاعل بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اقبال پر شدید ترین تنقیدیں کی جاتی رہی ہیں(۲۰)۔

چند تنقیدی ملاحظات

رفیع الدین کی کلامی و فلسفیانہ فکر و منہج پر درج بالا گفتگو کا خلاصہ تین اہم نکات پر مشتمل ہے: 
۱۔ سائنسی فکر میں قطعیت کا دعوی غلط ہے۔
۲۔ مغرب کے تمام مادی فلسفوں کا ابطال ضروری ہے۔
۳۔ ان فلسفوں کے ابطال و تردید کے بعد ان سے صالح عناصر کا استخراج کرتے ہوئے ان سے اسلام کی فلسفیانہ فکر کی تشکیل و ترتیب کی جانی چاہیے، جس کے امتیازی خدوخال میں اسلامی نظریہ ٔ ارتقا اور نصب العین کا تصور شامل ہے۔
رفیع الدین کی فلسفیانہ فکر کا سب سے جاذب نظر پہلو مغربی فکر کے ساتھ اسلامی فکر کی پیوند کاری یا بالفاظ دیگر، اسلام اور مغرب کی جدید فلسفہ و سائنس سے مرکب مادی فکر کے درمیان تطبیق و ہم آہنگی سے عبارت ہے ۔ مغرب کی مادی و ملحدانہ فکر سے صالح عناصر کی تجرید کی کوشش اصولی طور پر اعتراض سے بالاتر ہے تا ہم اس کی سب سے بڑی مشکل وہی ہے جس پر سید حسین نصر جیسے دانش ور زور دیتے ہیں کہ مغربی جدیدیت پر مبنی فکر ایک مکمل پیکج کی حیثیت رکھتی ہے اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے۔ اس لیے یہ عمل ناممکن نہیں تو مشکل ترین اور بغایت پر خطر ہے ۔اس سے مذہبی فکر کی داخلی شناخت کے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔ اس نوع کا عمل ایک لحاظ سے ’اسلامک سوشلزم‘ اور ’اسلامک مارکسزم ‘جیسے رجحانات اور کوششوں کے مشابہ بن جاتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد عالم اسلام کے بعض حصوں میں ابھر کر سامنے آئیں(۲۱)۔ ڈاکٹر رفیع الدین کا نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ اگر فرائڈ کے نظریہ ٔ لاشعور جنس میں معمولی سی ترمیم کر دی جائے تو پھر یہ نظریہ ہمہ تن قرآن کے نظریہ ٔ فطرت کی تفسیر بن جائے گا(۲۲)۔ بایں طور کہ فرائڈ جس جذبے کو جنسی محبت قرار دیتا ہے اسے خدا کے ساتھ محبت میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہی عمل انہوں نے ڈاروینی نظریہ ٔ ارتقا کے حوالے سے بھی کیا ہے جس کا ذکر اوپر آیا۔ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے اسلامی فکر کے ساتھ اس کی مطابقت کی کوشش کی ہے۔ مزید برآں فکر اسلامی کی تجدید کی بحث میں اسے ایک اصولی اور اساسی حیثیت دیتے ہوئے اپنے افکار مرتب کیے ہیں۔ لیکن اس اہمیت کے باوجود نظریہ ٔ ارتقا پر مذہبی غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے سوالات و تنقیدات کا کوئی علمی جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ حالاں کہ اس موضوع کا تقاضا تھا کہ اس نظریے کے مؤیدین و معارضین کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنے منتخب کردہ موقف کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے اگر مقدمہ ہی طے شدہ نہ ہو بحث کے مشمولات قابل اعتنا نہیں ٹھہرتے۔
تاویل نصوص کے حوالے سے ان کے رجحان پر بھی نو معتزلیت کی چھاپ نظر آتی ہے۔ لگتا ہے جیسے ان کی فکر بھی اس حوالے سے سرسید کی تاویلی فکر کے اثرات سے خالی نہ ہو۔ مزید برآں، جس طرح اپنے فلسفیانہ افکار کی تائید و توثیق میں وہ قرآن سے استشہاد کرتے ہیں، اس سے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی سادہ لوح اصحاب علم کی طرح یہ تصور رکھتے ہوں کہ قرآن تمام علوم کا ماخذ ہے(۲۳)۔ مطلب یہ کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلامی عقلیات اور فلسفے کی تشکیل میں یہ ضروری تصور کیا جائے کہ قرآن سے لامحالہ اس کی تائید ہوتی ہو۔ اس سے قرآن کی ما بعد الطبیعی حیثیت مستحکم ہونے کے بجائے بظاہر کمزور ہوتی ہے کہ قرآن کے مشمولات و ہدایات میں وہ چیزیں بھی فرض کی جائیں جو اس کے مقاصد میں شامل نہیں ہیں۔ فکر مغرب کے رد میں خاص طور پر ۱۹ویں صدی کے اواخر سے اسلامی فکری حلقات و شخصیات کی طرف سے جو مختلف النوع رد عمل آنا شروع ہوئے، اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ مغرب کی آئیڈیالوجی کا اسلامی آئیڈیالوجی سے تقابل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالاں کہ درست موقف وہی ہے جس کا اظہار حسین نصر نے کیا ہے کہ روایت پسندی پر مبنی (traditionalist) اسلام کی روح، اسلام کو ایک آئیڈیالوجی کی شکل میں قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔ جب روایت پسندی پر مبنی یا راسخ العقیدہ اسلام جدید دنیا کے آگے گھٹنے ٹیک دے تو پھر مذہب کو آئیڈیالوجی کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے (۲۴)۔
رفیع الدین کے منہج فکر کا ایک انفرادی پہلو اس کے لب و لہجے کی ادعائیت ہے جو بسا اوقات ان کے فلسفیانہ تفکر کو شاعرانہ تعلی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ Ideologies of Future میں لکھتے ہیں کہ ان کی فکر سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، تاریخ، قانون، تعلیم اور انفرادی و اجتماعی نفسیات کے فلسفے کی تنظیم نو کرتی ہے اور اس حوالے سے ایسے پہلوؤں کو زیر بحث لاتی ہے جن کی دوسرے فلسفیوں کو ہوا تک نہیں لگی(۲۵)۔ وہ اپنی فکر کو اہل علم کے رو برو برائے بحث و تنقید پیش نہیں کرتے بلکہ وہ اسے اس "داعیانہ ایقان" کے ساتھ پیش کرتے ہیں جیسے دوسروں کے پاس اس "اتمام حجت" کے بعد اسے اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ٔ کار نہ بچا ہو ۔اس ’’فکری نرگسیت‘‘ سے ان کے مرشد اقبال کا ذہن خالی تھا جو سمجھتے تھے کہ ان کی فکر میں کوئی قطعیت نہیں ہے اور نہ ہی ایسی فکر کے لیے اس امکان کو قبول کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال رفیع الدین کی فکر کو جدید علم کلام کے مباحث میں ایک نئے اور فکر ساز رجحان کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ رجحان جدیدیت اور روایت دونوں کا امتزاجی پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نہ وہ نہ تو جدیدیت پسندوں کی طرح اسلام کی بنیادی اور مابعد الطبیعاتی فکر کی نئی تشکیل یا تاویل کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ روایت کو عام روایت پسندوں کی مانند اس طرح جامد تصور کرتے ہیں کہ اس میں نئے افکار و نظریات کی قلمیں نہ لگائی جاسکیں۔

حواشی و مراجع

(۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، لاہور: ڈاکٹر رفیع الدین فاؤنڈیشن،۲۰۱۶ص،۴
(۲) قرآن اور علم جدید، ص،۳۴
(۳) ایضا، ص،۱۳۔۱۴
(۴) ایضا،۷۵
(۵) ڈاکٹر محمد رفیع الدین: اسلامی تحقیق کا مفہوم ،مدعا اور طریقہ کار۔ لاہور: دارالاشاعت الاسلامیہ۔ ۱۹۶۹. ص، ۱۴
(۶) قرآن اور علم جدید، ص،۶۶
(۷) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، اسلام اور سائنس ص،۳۔ اقبال اکادمی ،کراچی: پاکستان، ۱۹۶۵
(۸) قرآن اور علم جدید، ۲۰۔۲۲
(۹) ڈاکٹر محمد رفیع الدین ،منشور اسلام، (ترجمہ اردو ڈاکٹر ابصار احمد) لاہور: مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، ۱۹۹۴، دیکھیے، صفحات، ۱۸۔۶۱
(۱۰) قرآن اور علم جدید،۲۰
(۱۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان ،مقالہ در مجلہ اقبال ریویو،لاہور: اقبال اکادمی، جنوری،۱۹۶۱ص، ۸۶۔۸۸
(۱۲) قرآن اور علم جدید،ص،۲۴۴
(۱۳) ایضا، ص، ۱۴۲
(۱۴) ایضا،ص، ۱۱۰
(۱۵) ایضا،ص، ۲۵۸
(۱۶) ایضا،ص،۱۸۴
(۱۷) ایضا ،ص، ۲۹۹
(۱۸) ایضا، ص، ۳۰۲۔۳۰۳
(۱۹) قرآن اور علم جدید،۳۰۴
(۲۰) ایضا،۳۱۴
(۲۱) Seyyed Hossein Nasr, Traditional Islam in the Modern World, New York: Harper One, 2010,p.35
(۲۲) قرآن اور علم جدید ۳۳۲
(۲۳) علامہ انور شاہ کشمیری نے اس نقطہ ٔ نظر پر شدید تنقید کی ہے کہ قرآن میں سب کچھ پایا جاتا ہے۔ دیکھیے، مولانا انظر شاہ مسعودی کشمیری، تصویر انور، دیوبند: معہد الانور،۱۴۲۵ھ ص،۲۷۵۔۲۷۶
(۲۴) Traditional Islam in the Modern World, Prologue, p.12
(۲۵) Dr Muhammad Rafiuddin, Ideologies of Future, Lahore: Dr Muhammad Rafiuddin Foundation, 2008, p. xii

مولانا در محمد پنہور ؒ: تعارفِ حیات و خدمات

مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی


سندھ مردم خیز بھی ہے تو زر خیز بھی۔ سر زمین سندھ میں ہر دور میں بڑے بڑے علماء پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انہی علماء میں مولانا در محمد پنہور رحہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ بیک وقت مدرس، مفتی، مصنف حق گو اور فی البدیہ شاعر بھی تھے۔

نام و نسب

 مولانا در محمد پنہور بن حاجی امام بخش پنہور 1903ء سڈر عالیوال تحصیل میہڑ ضلع دادو میں پیدا ہوئے۔

تعلیم و تربیت

 آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے گوٹھ کے مکتب سے حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے حصول کے لئے اس وقت کے جید عالم دین حضرت مولانا الاہی بخش ایری کے ہاں گوٹھ بانہوں لاکھیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جہاں پر ابتدائی کتب اردو، فارسی اور صرف وغیرہ پڑھنے کے بعد باقی مکمل علم وقت کے درویش صفت، عالم ربانی حضرت مولانا عبد الکریم ڈیرو کے پڑھ کر مکمل عالم دین بن گئے۔ مولانا عبد الکریم ڈیرو اس وقت گوٹھ گاہی مہیسر مہیڑ کے قریب مہیسروں کے قائم کردہ دینی درسگاہ تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ مولانا در محمد پنہور رحہ نے 1351 ہجری میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں گوٹھ سڈر عالیوال تحصیل میہڑ مدرسہ عربیہ فیض الکریم کے نام سے دینی درسگاہ کا آغاز کیا۔ دس سال تک اسی گاؤں میں قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے، حضرت مولانا عبد الکریم ڈیرو رحہ نے گاہی مہیسر کے مدرسہ کو الوداع کہ کر سید علی اکبر شاہ کے قائم کردہ عظیم الشان دینی درسگاہ دار القرآن میہڑ میں میں آئے تو مولانا در محمد پنہور رحہ بھی اپنے استاد کے حکم پر مدرسہ عربیہ فیض سڈر عالیوال چھوڑ کر 18 ذوالقعد 1361 ہجری گوٹھ گاہی مہیسر میں تعلیمی اور تدریسی خدمات سر انجام دینے لگے۔
1947ء سیلاب کی وجہ سے مولانا در محمد پنہور رحہ اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ سڈر عالیوال سے ہجرت فرما کر گوٹھ گرکن تحصیل میہڑ میں مستقل طور پر سکونت اختیار کی۔ مولانا در محمد پنہور رحہ گوٹھ گاہی مہیسر میں تقریباً گیارہ سال مسلسل پڑھانے کے بعد 16 ذوالقعد 1374 ہجری میں مدرسہ دار القرآن میہڑ میں مدرس مقرر ہوئے، جب استاذ القراء حضرت قاری محمد مدنی دیروی رحہ نے میہڑ میں مدرسہ عربیہ دار القرآن کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔ مولانا در محمد پنہور رحہ بھی وہیں پر ابتدائی اور بنیادی استاد مقرر ہوئے۔
1380 ہجری میہڑ کو چھوڑ کر گوٹھ گرکن میں اپنے استاد صاحب کے نام سے مدرسہ فیض الکریم قائم کیا۔
1380 ہجری میں حاجی رسول بخش ڈیرو کی کوشش سے ان کے قائم کردہ دینی ادارے مدرسہ عربیہ محمدیہ فرید آباد میں بطور استاد مقرر ہوئے۔ چار سال مسلسل فرید آباد پڑھانے کے بعد ایک سال مدرسہ عربیہ دار القرآن میہڑ میں تعلیمی خدمات سر انجام دینے لگے۔ 1395 ہجری میں سفر روانہ ہوئے، حج کی سعادت حاصل کرنے کے وطن واپس ہوئے۔ لیکن طبع ناساز ہوئی مختصر علالت کے بعد 4 شوال المکرم 1396 ہجری مطابق 1974ء کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ اور کاچھو کے مشہور قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کی وفات حسرت آیات پر سندھ کے مشہور ادیب اور شاعر حضرت مولانا عبد القیوم المعروف جوہر بروہی صاحب نے فارسی میں تاریخی مرثیہ لکھا ہے
وقت عالم دین در محمد ناگہان
ایں چنیں بر خاست غوغا شہر گرکن شد یتیم
چوں تاریخ کردم گفت ہاتف ایں چنیں
در محمد بود اوہم عالم فیض الکریم
(1396 ہجری)
حضرت مولانا در محمد پنہور رحہ اپنے دور کے مایہ ناز مدرس، مقرر اور اہل علاقہ کے نامور مفتی تھے۔ حضرت کی فتاویٰ کا مجموعہ ان کی اولاد کے ہاں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت کی صرف کی بیاض قلمی صورت میں بنام امداد الصرف اور نحو میں ہدایۃ المنظور بھی ہے اس کے علاوہ حضرت کی تمام اولاد اہل علم ہے۔

باقیات الصالحات

(1) مولانا محمد علی پنہور رحہ۔ اپنے والد گرامی سے علم حاصل کرنے کے بعد مختلف دینی مدارس میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ جیسا کہ مدرسہ عربیہ دار القرآن میہڑ، جامعہ مدینة العلوم بھینڈو شریف، اور عثمان شاہ کی ہڑی اور میر پور خاص میں پڑھانے کے بعد ٹنڈو جام میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سکونت اختیار کی۔ وہیں پر ایک دینی درسگاہ قائم کیا۔ جو کہ آج بھی جاری ہے۔ ان کے فرزند مولانا حسین احمد پنہور چلا رہے ہیں۔ مولانا محمد علی مختصر علالت کے بعد ٹنڈو جام میں وفات کی۔
(2) مولانا محمد منظور پنہور۔
(3) مولانا حافظ محمد مسعود پنہور میہڑ میں مدرسہ فیض القرآن و الحدیث کے مہتمم ہیں۔
(4) مولانا محمد منیر پنہور جامعہ محمدیہ فیض القرآن والحدیث میرو خان کے مہتمم ہیں۔
(5) مولانا محمد مختیار پنہور
(6) حافظ محمد شفیق پنہور
(7) محمد سعد پنہور
حضرت مولانا در محمد پنہور رحہ کے تلامذہ بھی بے شمار ہیں ۔ جو کہ مختلف علاقوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
مولانا عبد اللہ ورنا نال بلوچستان، مولانا الاہی بخش بلوچستانی حال نصیر آباد، حافظ محمد صادق شیخ رحہ نصیر آبادی، مولانا محمد ابراہیم چھٹو رحہ کرخ بلوچستان، مولانا حافظ ابوبکر رند حال کوٹری ضلع جامشورو، مولانا عبد الرحیم ساسولی پارکو بلوچستان، مولانا سیف اللہ چانڈیو، مولانا محمد رفیق قلندرانی خضدار، مولانا خدا بخش خاکی بلوچستان، مولانا محمد نال والے شامل ہیں۔
(مولانا جوہر بروہی کے سندھی مضمون سے اقتباس ماہنامہ الفاروق سندھی کراچی ربیع الثانی 1428 ہجری مطابق مئی 2007ء صفحہ 24)

_________________
مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی
ڈائریکٹر مولانا عبیداللہ سندھی اکیڈمی 
راجو گوٹھ تحصیل لکھی غلام شاہ ضلع شکارپور سندھ

أدھم شرقاوی کی تصنیف ’’رسائل من القرآن‘‘ سے منتخب رسائل

ادھم شرقاوی

مترجم : مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد

’’رسائل من القرآن‘‘ ادہم الشر قاوی کی تصنیف ہے جو کہ فلسطینی مصنف ہیں، لبنان کے شہر صور میں پیدا ہوئے، جامعہ لبنانیہ سے عربی ادب میں ایم فل کی سند حاصل کی ہے، مزید یہ کہ وہ اب تک 25 کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ کتائب القسام کے مجاہدین نے 27 رمضان المبارک کو کمین الابرار یا کمین الزنہ میں دشمن کو ہدف نے بنانے کا منصوبہ بنانے کی ویڈیو نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ جائے نماز پر مجاہدین موجود ہیں اور اس پر دشمن کو نشانہ بنانے کا نقشہ بنا رہے ہیں، ہاتھ میں مسواک اور قلم اور ساتھ ایک کتاب موجود ہے جس کا نام رسائل من القرآن ہے۔
اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن حکیم کی ایک آیت ذکر کرنے کے بعد قاری کتاب کو عمدہ اسلوب کے ساتھ اس امر کی تعلیم دی گئی ہے کہ ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہونے کے بجائے، نعمتوں میں قلت کا شکوہ کیے بغیر، اپنے وسائل کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی کی اس گاڑی کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھیں۔ اس میں اتنی جاذبیت ہے کہ اس کو پڑھنے والا شخص اپنے مصائب و مشاکل پر صبر کرنے کا عزم کر لیتا ہے، اپنے مقصدِ زندگی کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو جاتا ہے۔
صاحبِ کتاب سے جب سوال کیا گیا کہ کتائب القسام کے مجاہدین نے اس کتاب کی تشہیر کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا، مجاہدینِ غزہ صاحبِ فراست ہیں، ان کا ہر عمل عالمِ اسلام و باضمیر لوگوں کے لیے نصیحت کا سبب بن رہا ہے، انہوں نے اہلِ غزہ کو یہ پیغام دیا کہ جنگ کی طوالت کے باوجود ہم نے قرآن ہی سے اپنا رشتہ جوڑے رکھنا ہے، اور پورے عالم کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا ہر عمل قرآن ہی کے سائے میں کیا جا رہا ہے۔
اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر راقم الحروف نے ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا ہے، تاکہ اردو دان طبقہ بھی اس عظیم الشان کتاب سے مستفید ہو سکے، جو اپنے اندر امید کی بہاریں لیے ہوئی ہے۔ ذیل میں کتاب کے آغاز سے چند صفحات جبکہ کچھ درمیان سے صفحات کا انتخاب کر کے ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
(۱) اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ
یہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے انہی کے راستے پر چلو۔
اے اللہ! جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہے، میں اس کی ادائیگی سے قاصر ہوں، حضرت داؤدؑ کی طرح روزوں کی پابندی کرنے سے عاجز ہوں، میں صبرِ ایوبؑ کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا،
اور نہ ہی حضرت یونسؑ کی طرح تسبیح و تعریف کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی حضرت یحیٰی کی طرح اپنے دین کو تھامنے کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی غصِ بصر کے اس معیار تک پہنچ سکتا ہوں جس طرح حضرت یوسفؑ نے اس کا حق ادا کیا ہے، اور نہ ہی اتنا بڑا دل رکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرح اپنے دشمنوں سے کہوں کہ تم آزاد ہوچکے ہو، لیکن ان کی طرح میں بھی تیری محبت کا (اظہار / دعویٰ) کرتا ہوں۔
(۲) ورسلا قد قصصنٰھم علیک
اگر عامۃ الناس تیری قدر قیمت سے نا آشنا ہیں تو تجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اس لیے اللہ تیری قدر و منزلت سے خوب آگاہ ہے۔ 
حضرت نوحؑ کے میزان میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم ان کو جانتے ہیں، اور نہ ہی ان کے بارے میں ہماری عدمِ آگاہی سے ان کی شان میں کوئی کمی واقع ہوگی۔ 
ہارون رشید کی فوج میں 20 ہزار مجاہدین نے اپنے نام اس لیے درج نہیں کروائے اور نہ ہی معاوضہ وصول کرتے تھے تاکہ ان کا عمل خالصۃ اللہ ہی کے لیے ہو۔ 
سائب بن اقوع نے حضرت عمرؓ کو تھاوند میں مسلمانوں کی شہادت کی اطلاع دی، لوگوں کے سامنے ان کی قیادت اور معروف شخصیات کے اسما گرامی پیش کرنے کے بعد کہا گیا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں کوئی نہیں جانتا۔ (یہ جملہ سن کر) حضرت عمرؓ رونے لگے اور کہا، ان کی پیش کی گئی خدمات پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ان کو نہیں پہچانتا، لیکن اللہ رب العالمین ان سے خوب واقف ہے۔
(۳) ان الحسنات یذھبن السیئات
جب تم سے گناہ سرزد ہو تو اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہیے کہ میں معرکہ میں تو شکست کھا لی ہے، لیکن جنگ کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔ لہٰذا مایوسی کے قریب آئے بغیر وضو کا عمل کیجیے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھیں، اس کے بعد اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے سے مغفرت طلب کیجیے۔ اپنی آنکھوں کی پاکیزگی کے لیے دیکھ کر قرآن حکیم کی تلاوت کیجیے، اطاعت گزار بندوں کی مانند اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اپنے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ غفور ہے تاکہ انسان اس کا دامن تھامے رکھے۔
(۴) بل الانسان علیٰ نفسہ بصیرۃ
اگر ان اوصاف پر تیری مدح سرائی کی جائے جو تجھ میں موجود نہ ہوں تو اس کا ہرگز آپ کو فائدہ نہیں ہوگا۔ اور اگر تیری ان کمزوریوں پر مذمت کی جائے جو تجھ میں نہیں ہے تو ناقدین کی تنقید تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ اور جب انسان خیر کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کو ناپسند کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ انبیاء کرام کو بھی اس سے استثنا حاصل نہیں رہا۔ اور جب کوئی انسان فسق و فجور کی طرف بلاتا ہے تو معاشرے میں ایسے لوگوں کے بھی چاہنے والے موجود ہوتے ہیں، جس طرح فرعون و نمرود کو چاہنے والے تھے۔
مطرف بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام مالکؒ نے پوچھا کہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں نے کہا، آپ کے دوست آپ کے حق میں ہے، اور آپ کو ناپسند کرنے والے آپ کے حوالے سے اپنا غصہ نکالنے میں لگے رہتے ہیں۔ امام مالکؒ نے فرمایا، اچھا ہے لوگوں میں یہ روش ابھی بھی برقرار ہے، ہم اس امر سے پناہ چاہتے ہیں تمام لوگوں کی زبان ہمارے حق میں یا مخالفت میں یکجا ہو جائے۔
(۵) واٰتاکم من کل ما سألتموہ
وہ اللہ رب العالمین ہی کی ذات ہے جو انسانوں کو خوف سے نجات دیتی ہے، جو لاچار اور کمزور ہیں ان کو ہمت عطا فرماتا ہے، جو اس سے مدد کے طالب ہیں وہ ان کی نصرت کرتا ہے۔ جو غموں کو مداوا کرتا ہے، وہ اس شخص کو راہِ مستقیم دکھاتا ہے جو اس کا طالب ہو۔ اس لیے رات کے آخری پہر میں ۔۔ اس وقت دعاؤں کو رد نہیں کیا جاتا۔ اس بات پر یقین رکھو کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ یہ انعامات حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ تمہارا طعام حلال ہو، اسی امر کی طرف حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حلال رزق کی بدولت اللہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔
(۶) عسیٰ ربنا ان یبدلنا خیرا منھا
اس آیت کے توسط سے اپنی ان حسرتوں کی آگ کو بوجھاؤ جو ابھی حاصل نہیں ہو سکیں یا ان کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح زندگی میں جو مختلف مصائب و مشاکل آئی ہیں، یا آپ کے قریبی دوست نے آدھے راستے میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ آیت ان دکھوں کا مداوا بنتی ہے۔ اس لیے اللہ اپنی حکمت سے ہی بندے کو دیتا ہے اور لے بھی لیتا ہے۔ جو کچھ تیرے پاس ہے وہ اس کی رحمت ہے، اگر اس کی حکمت کا علم ہو جائے تو اس کا شکر بجا لاؤ، بصورتِ دیگر صبر کا دامن تھامے رکھو۔ کیونکہ اللہ کے فیصلوں میں خیر ہی ہوتی ہے اگرچہ عارضی طور پر اس سے آپ کو تکلیف ہو۔
(۷) وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین
حضرت آدمؑ وحوا کو اس امر کا علم نہ تھا کہ کوئی شخص جھوٹی قسم کے ذریعے ان کو جنت میں ہمیشگی پر آمادہ کر دے گا، لیکن ابلیس نے یہ کام کر دکھایا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ وہ برائیوں کو پرکشش بنانے کے لیے ان کے نام تبدیل کرتا رہتا ہے۔ جس طرح اس نے حضرت آدم و حوا کو ممنوعہ درخت کے پاس جانے کو جنت میں مستقل اقامت کی نوید سنائی۔
ہوشیار رہو! آج بھی شیطان اور اس کے ساتھیوں کا یہی طریقۂ واردات ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ شراب نوشی روح کی غذا ہے، برہنگی ایک فیشن ہے، زنا میں کشادگی ہے، اس لیے بیدار رہیے کہ کہیں شیطان تمہیں پرکشش ناموں سے راہِ راست سے نہ پھسلا دے۔
(۸) وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السماوات والارض اعدت للمتقین
مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے آپس میں مقابلہ کرو اس لیے کہ موت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ انسان یہ کہتا رہتا ہے کہ میں کل توبہ کر لوں گا، کل سے پڑھنے کی ترتیب بنا لوں گا، لیکن جیسے ہی کل آتی ہے تو انسان اپنے گزشتہ کیے گئے ارادوں کو عمل میں ڈھالنے سے قاصر رہتا ہے۔ لمبی امیدوں کی بدولت ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موت آنے میں ابھی کافی وقت ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، اس لیے کہ موت کی آمد میں کوئی شئی حائل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے خیر کے کاموں میں مسابقت کرو۔
حضرت صنابحیؒ فرماتے ہیں کہ ہم یمن سے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو خبر دی گئی کہ آپ ﷺ پانچ دن قبل رحلت فرما چکے ہیں۔ پانچ دن کی تاخیر نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے محروم کر دیا۔ لہٰذا بھلائی کے امور میں مسابقت کو اپنے وطیرہ بنا لو، ایسا نہ ہو کہ سستی و غفلت تمہیں جنت سے محروم کر دے۔
(۹) ولا یجرمنکم شنان قوم علیٰ الا تعدلوا
بغیر مشروط محبت و بغض ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کو ان دونوں صورتوں سے سابقہ پیش آیا۔ ان کے بھائیوں نے حسد کی بنا پر ان کو کنویں میں پھینک دیا، اور ملکہ مصر کی ان سے انتہا درجے کی محبت سیدنا یوسفؑ کے جیل جانے کا سبب بنی۔ 
کبھی کبھی ہم اپنے دلوں میں پیدا ہونے خیالات پر عمل کرنے کے حوالے سے بے باک ہو جاتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مسلم کسی کی پسند و ناپسند میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ تمہاری کسی سے بے جا محبت محبوب کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب نہ بن پائے۔ اور نہ کسی سے انتہا درجے کی نفرت اس فرد کی اچھائیوں کو برائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب بنے۔ عادل رہتے ہوئے ہر شئی کو اس کے مقام پر رکھیے۔
عبد اللہ بن محمد الوراقؒ فرماتے ہیں کہ ہم امام محمدؒ کے پاس گئے، انہوں نے ہم سے پوچھا، تم کہاں سے آرہے ہو؟ ہم نے جواب دیا، ابی کریبؒ کی مجلس سے۔ امام محمدؒ نے کہا، ان سے روایات لے کر تحریراً محفوظ کر لو اس لیے کہ وہ نیک بندے ہیں۔ ہم نے تعجب سے کہا کہ وہ تو آپ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ امام محمدؒ نے فرمایا، وہ اللہ کے نیک بندے ہیں، میرے بارے میں انہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
(۱۰) ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملھم قلت لا اجد ما احملکم علیہ تولوا واعینھم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون
غزوہ تبوک کے موقع پر ابولیلیؓ اور عبد اللہ بن مغفلؓ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور سواری کا مطالبہ کیا تاکہ اس پر جہاد میں شامل ہوا جا سکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، سواری تو دستیاب نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر اس حال میں واپس پلٹ رہے تھے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں۔ یہ صحابہ کرامؓ کی ایمانی کیفیت تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے عدمِ شرکت پر غم کی حالت میں آنسو سے تر آنکھوں کو رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے پلٹ رہے تھے، ذرا سوچو! معصیت کے کاموں سے رکنے میں کیسے فولادی قوت کے حامل ہوں گے۔
(۱۱) ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم
اللہ رب العالمین بہت سی ان صفات کو اپنے بندے کی شخصیت میں دیکھنا چاہتا ہے جو اسے بھی محبوب ہیں۔ ان میں ایک عفو درگزر بھی ہے۔ اس کو وہ بندے زیادہ محبوب ہیں جو اس کو عفو و درگزر کے حامل ہوں۔ 
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے یومیہ مالی صدقہ دینے کی ترغیب دی، یہ سن کر ایک صحابی حضرت علبہؓ بن زید جو مالی صدقہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے (لیکن رسول اللہ ﷺ کی ہدایت پر عمل کرنے کا جذبہ دیکھیے) وہ آپ ﷺ کی مجلس میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ آج سے میں اپنی عزت کو بطور صدقہ پیش کرتا ہوں۔ یعنی جو شخص بھی مجھ پر ظلم کرے گا میں اس کو معاف کر دوں گا۔ 
دوسرے روز رسول اللہ ﷺ نے حضرت علبہؓ بن زید کے بارے میں معلوم کیا۔ آپؓ نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ میں یہاں ہوں۔ آپ ﷺ نے ان کو بشارت سناتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔
(۱۲) قال یا بنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک
انسانی تاریخ میں سب سے مشکل اور پرکٹھن امتحان حضرت ابراہیمؑ کا تھا کہ سن عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن ان کی اولاد نہ تھی۔ جب اللہ رب نے عمر کے اس حصے میں اولاد سے سرفراز فرمایا تو اللہ رب العالمین کی جانب سے حکم آیا کہ اس کو ذبح کر دیا جائے۔ حضرت ابراہیمؑ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ انبیاء کے خواب وحی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے تاخیر کیے بغیر اس حکم کو نافذ کرنے لگے، اگرچہ وہ خواہش کے برخلاف تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اللہ کو اپنی ذات پر مقدم رکھا۔ اللہ جو ارحم الراحمین ہے، اس عمل سے یہ نہ چاہتا تھا کہ اس کے دوست کا نام ان لوگوں میں شمار کیا جائے جو اپنی اولاد کو ذبح کر دیتے ہیں۔ لیکن اس حکم کی حکمت یہ تھی جب حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے بعد حضرت ابراہیمؑ کا دل ان کی طرف مائل ہونے لگا تو اللہ نے ان کو آزمائش کے طور پر ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بہت سے دل ایسے ہوتے ہیں جن کے حوالے سے اللہ یہ پسند نہیں فرماتا کہ وہ کسی اور کے لیے دھڑکیں۔ اس لیے اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔
(۱۳) وقدمنا الیٰ ما عملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثورا
اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے۔ 
حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز بندے کو نامۂ اعمال دیا جائے گا، تو اس میں صلاۃ اور صیام اور اعمالِ صالحہ کے اجر سے خالی پائے گا۔ یہ دیکھ کر وہ فریاد کرے گا اے اللہ! یہ تو میرا اعمال نامہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں میرے کیے گئے اعمالِ حسنہ کا اجر موجود نہیں ہے، شاید کسی اور کا اعمال نامہ مجھے دیا گیا ہے۔ اس سے کہا جائے گا (یہ تو تیرا ہی اعمال نامہ ہے) اس لیے کہ تیرے رب سے نہ کوئی شئی مخفی رہتی ہے اور نہ وہ بھول سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا نامہ اعمال حسنات سے اس لیے خالی ہے کہ تو نے اپنی حیات میں نیکیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پس پشت برائیاں کیں اور ان کے عیوب کو ظاہر کرتا رہا۔
اس لیے ہر شخص کو چوکنا رہنے چاہیے کہیں تمہاری عبادات دوسروں کے لیے نعمت یعنی ان کے نامہ اعمال میں حسنات کے اضافہ کا ذریعہ تو نہیں بن رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نیکیاں اس شخص کے نامہ اعمال کی زینت بن جائیں جن کی امیدوں کی تکمیل میں تم نے روڑے اٹکائے ہوں، یا جن کا مالک ہڑب کیا ہو، یا جن کی عزت نفس مجروح کی ہو، یا مختلف واسطوں سے کسی عہدے پر قبضہ کر کے حق دار کا حق مارا ہو۔
(۱۴) وتوبوا الی اللہ جمیعا ایھا المومنون لعلکم تفلحون
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ بندے کے لیے سب سے بہترین ایام وہ ہیں جن میں وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔  جب بندہ توبہ کرتا ہے تو پکارنے والا پکارتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے رب سے صلح کر لی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی قریبی دوست ناراض ہو جاتا ہے تو اس کو راضی اور منانے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے جاتے ہیں تاکہ دوستی بحال ہو جائے اور ناراضگی کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ اللہ رب العالمین اس بات سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کو راضی کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جائیں۔  اگر آپ سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو چکا ہو جس سے تیرے دل میں اللہ کی محبت متاثر ہوئی ہو تو اس کو راضی کرنے کے لیے (شریعت کی ہدایت کے مطابق) متنوع طریقے استعمال کرو، جس طرح دنیا میں اپنے دوست کو راضی کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہو، اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے صدقہ، استغفار کے ساتھ نمازوں کے پابندی اور قرآن مجید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔
(۱۵) قرت عین لی ولک
یہ الفاظ آسیا بنت مزاحم کے ہیں جو انہوں نے اپنے شوہر فرعون سے اس وقت کہے تھے جب انہوں نے صندوق میں حضرت موسٰیؑ کو پایا۔ فرعون نے اس وقت یہ کہا تھا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرعون کے اس قول پر ارشاد فرمایا کہ اگر فرعون موسٰیؑ کو اپنی بیوی کی طرح آنکھوں کی ٹھنڈک بنا لیتا تو اللہ اس کی برکت سے اس کو ہدایت سے سرفراز کر دیتا۔ لیکن اللہ نے اس کی عدمِ رغبت کے سبب اس کو ہدایت سے نہیں نوازا۔
لہٰذا جو شخص کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرتے وقت دل میں یہ خیال کرے کہ اس کو اختیار کرنے میں خسارہ ہو گا تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ انسان کو اس کی نیت کے مطابق عطا کیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی عورت سے نکاح کرتے وقت یہ نیت رکھتا ہو کہ اس نکاح سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا تو اس کے نصیب میں وہی کچھ لکھا جائے گا جو اس نے سوچا ہوگا۔ اس لیے اپنے گمان اور گویائی کو اچھے انداز میں استعمال کرو اس لیے کہ بسا اوقات انسان کو اس کے قول کے مطابق نوازا جاتا ہے۔

مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ قُدس کے ساتھ مسلمانوں کا ایمانی و جذباتی تعلق

مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی

مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ بیت المقدس سے مسلمانوں کا بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ یہ رشتہ کئی اہم پہلوؤں مثلاً‌ عقائد، عبادات، تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر مشتمل ہے۔ بیت المقدس کی یہ بابرکت اور مقدس سرزمین مسلمانوں کے لئے شروع سے ہی عقیدتوں کا مرکز رہی ہے، جو اسلام کے آغاز سے ہی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو سب سے اہم ترین عبادت نماز کیلئے قبلہ بنانے، نماز پڑھنے اور دیگر فضیلتوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، سیرت اور تاریخ کے مطالعے سے مسلمانوں اور بیت المقدس کے یہ تمام رشتے کھل کر سامنے آتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ دینی رشتے کے چند پہلو ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے عقیدہ کی رو سے زمین کا یہ بُقعہ ان بے شمار انبیاءؑ کا قبلہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ خانہ کعبہ سے پہلے آپ اسی طرف اپنا روئے مبارک کر کے اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کرتے تھے۔ نماز کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک رخ کر کے نماز پڑھی۔ یعنی ایک سال اور پانچ ماہ تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا، جیسا کہ سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ (صحیح مسلم 525، و صحیح البخاری 4492)
لیکن جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔ (سورۃ البقرۃ 144)
تو اس آیت کے نازل ہونے کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، لہٰذا بیت المقدس مسلمانوں کا اولین قبلہ شمار ہوتا ہے۔

مسجد اقصیٰ میں 250 نمازوں کا ثواب

نماز دین کا اہم ستون ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں افضل ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (صحیح الترغیب 1179)
چونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر ہوا۔

ثواب کی نیت سے سفر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عبادت کی نیت اور ارادے سے مسجد اقصیٰ کی زیارت کی ترغیب دی ہے، اور درج ذیل فرمان کے ذریعے مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی سے جوڑ دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: یعنی مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کی طرف ثواب اور برکت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ (رواہ البخاری 1189 و مسلم 1397)

نماز پڑھنے کی بہترین جگہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کو نماز پڑھنے کی بہترین جگہ قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور مسجد اقصیٰ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے، حشر نشر کی سرزمین ہے، اور عنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ، جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے ساری دنیا کی چیزوں سے بہتر اور محبوب ہو گی۔ (صحیح الترغیب 1179)

مسجد اقصیٰ کی زیارت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کو دیکھنے کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کیلئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا پوری دنیا سے زیادہ افضل ہو گا۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 2902)

نماز پڑھنے کی منت ماننا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر یا منت ماننے کو جائز اور درست قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے عرض کیا:
ترجمہ: اے اللہ کے رسول! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کے ہاتھوں مکہ مکرمہ کو فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں نماز پڑھ لو۔ اس نے پھر سوال کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے پھر سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی۔ (صحیح ابی داؤد 3305)

مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب

بیت المقدس شہر کے رہنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر کا ثواب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی، الا یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ لوگ کہاں کے ہوں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 4/599)

گناہوں کی معافی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز کو گناہوں کی معافی کا سبب قرار دیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں کیں: (1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے۔ (3) یا اللہ! جو آدمی اس مسجد اقصیٰ میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فر مالی ہیں (کہ ان کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کر لی گئی ہو گی۔ (صحیح ابن ماجہ 1164 و صحیح الترغیب 1178)

برکت کی دعا

بیت المقدس اس لحاظ سے بھی بابرکت اور مبارک خطہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارضِ شام کا نام لے کر برکت کی خصوصی دعا کی ہے۔ بیت المقدس ارضِ شام کا ہی علاقہ ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کیلئے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما۔ (صحیح البخاری 7094)
مذکورہ بالا تمام احادیث کا تعلق مختلف دینی عبادات اور اس کے ثواب سے ہے، اور ان ساری عبادتوں کا تعلق بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے عبادت اور بندگی کا ایک مضبوط تعلق اور رشتہ ہے جو قیامت تک کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کائنات میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، عبادت کا یہ رشتہ بھی قائم و دائم رہے گا۔

بیت المقدس سے تاریخی رشتہ

بیت المقدس ہزاروں سال قدیم شہر ہے، بہت سے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے جیسے یبوسی، معموری، آرامی، کنعانی۔ قدیم زمانے میں اس شہر کو یبوس بھی کہا جاتا تھا جو کنعان کے قدیم قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام ہے۔ قوم یبوس عرب کی سب سے قدیم قوم ہے جو فلسطین میں سات ہزار پانچ سو سال قبل مسیح سے پہلے آباد ہوئی۔ چنانچہ بیت المقدس میں موجود پتھر کی تختیاں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں یبوسی اور کنعانی عربوں سے زیادہ قدیم کوئی قوم نہیں پائی گئی ہے۔ مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت المقدس کی بنیاد رکھنے والے اور اسے آباد کرنے والے یبوسی تھے، اور بیت المقدس کا پہلا نام یبوس تھا۔ارضِ فلسطین کو ارضِ کنعان بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے بھی رہ چکے ہیں۔ بیت المقدس کے دیگر ناموں میں ایک نام اورو سالم بھی ہے، جو ایک کنعانی نام ہے جس کا مطلب امن کا شہر ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اسے یورسالیم کہا جانے لگا جو اب یروشلم ہوگیا ہے، اور یہودی اسے یروشلم ہی کہتے ہیں۔ جس وقت افریقی اور رومن نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے اس وقت اس شہر کا نام ایلیا تھا۔ سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آیا تو اس کا نام تبدیل کر کے بیت المقدس رکھ دیا گیا، جس کے معنی ہیں پاک گھر، مبارک و مقدس سر زمین۔ (معجم البلدان 5/166)

معاہدہ عمریہ

جب سنہ 15 ہجری یا 638 عیسوی میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے۔ کیونکہ عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس نے یہ شرط رکھی تھی کہ بیت المقدس کی چابیاں لینے کیلئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس تشریف لائیں۔ چنانچہ کنیس القیامہ میں عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس اور عمائدین روم نے بیت المقدس آمد پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں۔ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کے باشندوں سے ایک معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ کے نام سے تاریخِ اسلام میں مشہور ہے۔ (فتوح البلدان، للبلاذری ص 144)
فتح بیت المقدس اور معاہدہ عمریہ طے پانے تک بیت المقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی تعلقات موجود نہیں تھے۔ معاہدہ عمری تاریخ میں سب سے صاف واضح اور مشہور دستاویز ہے۔ (تاریخ طبری ج 3 ص 6.8/6.9)
یہ معاہدہ بیت المقدس میں جابیہ کے مقام پر طے پایا۔ اس تاریخی معاہدے پر سیدنا خالد بن الولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے دستخط کیے۔ (فتوح البلدان ص 144)

مسلمانوں کی طویل حکومت

عربوں اور مسلمانوں نے اس شہر پر فتح عمری سے لے کر 1967 عیسوی تک حکومت کی، پھر وہ وقت آیا کہ جب بیت المقدس 88 سال کے عرصے تک یہودیوں کے قبضے میں رہا۔ پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے سنہ 583 ہجری بمطابق 1187م میں یہود کے جبر و تسلط سے آزاد کر دیا۔ عربوں اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اسلام کی برکت سے بیت المقدس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی، امن و امان کی بحالی اور استحکام، اور شہریوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ ممکن ہوا۔
امتِ مسلمہ کا فریضہ ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امتِ مسلمہ اس مقدس مسجد کی قدر کرتی، اس بابرکت مسج