الشریعہ — جنوری ۲۰۲۴ء
رسول اکرمﷺ کا طرز حکمرانی
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز حکمرانی کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مستثنیات، تحفظات، پروٹوکول اور پرسٹیج کا کوئی تصور نہیں، اور عالمِ اسباب میں اس طرز حکومت کے کامیاب اور مثالی ہونے کی بڑی وجہ یہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین نے تمام تر مواقع میسر ہونے کے باوجود ایک عام آدمی جیسی زندگی اختیار کی اور لوگوں کے درمیان گھل مل کر رہے۔ جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ انہیں عام آدمی کی مشکلات و مسائل سے براہ راست واقفیت رہی۔ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ اپنے حکمرانوں کو اپنے ساتھ مشکلات و مسائل کا شکار دیکھ کر عام آدمی میں مشکلات کو برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر چاہتے تو اپنے لیے پروٹوکول اور تحفظات کا اہتمام کر سکتے تھے، اور اس کائنات میں یہ اگر کسی کا استحقاق ہو سکتا ہے تو وہ آپؐ کی ذات گرامی ہے، لیکن آپؐ نے اپنے گرد ایسا کوئی دائرہ نہیں کھینچا اور رہن سہن، نشست و برخاست، سفر و حضر، اور بول چال میں کسی قسم کا کوئی امتیاز روا نہیں رکھا۔
ہمارے ہاں پروٹوکول کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ کوئی بڑی شخصیت فون پر کسی سے بات کرنا چاہتی ہے تو پہلے اس شخص کو لائن پر لایا جائے پھر بڑے صاحب گفتگو کی زحمت فرمائیں گے، جبکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہماری ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے میں پہل کر سکیں، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا، ہم ابھی سلام کا لفظ کہنے کی تیاری کر رہے ہوتے کہ حضورؐ سلام میں پہل فرما دیتے۔ اس بظاہر چھوٹی سی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ سنتِ نبویؐ میں پروٹوکول کا درجہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سنتِ نبویؐ کا یہ حسین منظر بھی ذہن میں تازه کر لیں کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے ایک صحابی کے ننگے بدن پر چھڑی لگ گئی، چھڑی ذرا سخت لگی اور بعض روایات کے مطابق خراش بھی آگئی۔ اس صحابیؓ نے مجلس میں ہی بدلے کا تقاضہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پروٹوکول، پرسٹیج، یا تحفظ کا سوال نہیں اٹھایا، چھڑی اس صحابیؓ کے ہاتھ میں دے دی اور کپڑا ہٹا کر ننگی کمر بدلے کے لیے اس کے سامنے کر دی۔ یہی سادگی اور بے تکلفی ہمارے طرز حکومت کا حصہ بنے گی تو سنتِ نبویؐ کی برکات حاصل ہوں گی۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اردگرد مستثنیات اور تحفظات کے جو دائرے کھینچ رکھے ہیں وہ سنت نبویؐ اور ہمارے درمیان ایک ایسی خلیج کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں جنہیں زندگی کے کسی بھی شعبہ میں عبور کرنے کا ہم میں حوصلہ نہیں۔ ہمیں حکومت و سیاست میں سنتِ نبویؐ کی پیروی کیلئے نوآبادیاتی نظام کے تحفظات و امتیازات سے نجات حاصل کرنا ہو گی، حاکم و رعیت کے درمیان اجنبیت و بیگانگی کی دیوار گرانا ہوگی، اور عام لوگوں کے ساتھ ان کی آبادیوں میں گھل مل کر رہنا ہو گا۔
؏ گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!
———————————————————
’’لمحۂ فکریہ!‘‘
برادرِ مکرم مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر، جنہیں میں لڑکپن سے حضرت کہہ کر مخاطب کرتا ہوں، نے مجلہ الشریعہ کے معاملات سے علیحدگی اختیار کر کے مجھے مشکل میں ڈال دیا ہے۔ میرا علمی و فکری کام کا کچھ ذوق تو ہے لیکن سمجھ بوجھ اور استعداد اس درجہ کی نہیں جو اس کام کیلئے ضروری ہے۔ میں کمپیوٹر سائنس کا آدمی ہوں اور اس حوالے سے میرا ایک چھوٹا سا سلسلہ techurdu.org کے عنوان سے چل رہا ہے جس پر میں اپنے شعبے کے حوالے سے وقتاً وقتاً طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں۔
والد محترم اور میرے مخدوم حضرت مولانا زاہد الراشدی اپنی تدریسی مصروفیات اور دینی اجتماعات کے مشاغل کی وجہ سے زیادہ وقت نہیں دے پاتے، اور اس عمر میں صحت کے مسائل کے ساتھ انہیں زیادہ آرام کی ضرورت بھی ہوتی ہے، چنانچہ اس حوالے سے بھی میری ذمہ داری کچھ بڑھ گئی ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ والد محترم کے ساتھ میری صبح شام کی رفاقت اور غلطی کی صورت میں کان کھینچنے کی سہولت کے پیش نظر مجھے یہ عہدہ سونپا گیا ہے، ورنہ الشریعہ اکادمی کے رفقاء اور ذمہ داران میں سے اس کیلئے بہت بہتر انتخاب ہو سکتا تھا۔ بہرحال میں توقعات پر پورا اترنے کی حتی الوسع کوشش کروں گا، ورنہ ناکامی کی صورت میں تبدیلی کا راستہ بہرحال موجود ہے۔
ناصر الدین خان عامر
مدیر منتظم
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۸)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(464) إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا
إِذَا فجائیہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ اس کے بعد والی بات اس سے پہلے والی بات کے فورًا بعد پیش آئے۔ البتہ اس بات میں تحیر کا پہلو غالب رہتا ہے۔ درج ذیل آیت میں بھی إِذَا کا ترجمہ ’فورًا‘ موزوں نہیں ہوگا۔ یعنی یہ بات تو حیرت انگیز طور پر افسوس ناک ہے کہ لوگ تکلیف سے نجات پاکر جب اللہ کی رحمت سے ہم کنار ہوتے ہیں تو شکر گزار بننے کی بجائے اللہ کی آیتوں میں چال بازیاں شروع کردیتے ہیں۔ لیکن یہ بات اس لفظ میں شامل نہیں ہے کہ وہ یہ کام فوراً کرتے ہیں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِنْ بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْہُمْ إِذَا لَہُمْ مَکْرٌ فِی آیَاتِنَا قُلِ اللَّہُ أَسْرَعُ مَکْرًا إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ۔(یونس: 21)
”لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ان سے کہو،اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے، اس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں“۔ (سید مودودی، إِنَّ رُسُلَنَا کا ترجمہ ہوگا ہمارے فرشتے۔ إِنَّ رُسُلَنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ مقولہ کا حصہ نہیں بلکہ مستقل جملہ ہے۔)
”اور جب ہم لوگوں کو اس امر کے بعد کہ ان پر کوئی مصیبت پڑ چکی ہو کسی نعمت کا مزہ چکھا دیتے ہیں تو وہ فوراً ہی ہماری آیتوں کے بارے میں چالیں چلنے لگتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ چال چلنے میں تم سے زیادہ تیز ہے، بالیقین ہمارے فرشتے تمہاری سب چالوں کو لکھ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور جب تکلیف پہنچنے کے بعد ہم نے لوگوں کو ذرا رحمت کا مزہ چکھادیا تو فوراً ہماری آیتوں میں مکاری کرنے لگے تو آپ کہہ دیجئے کہ خدا تم سے تیز تر تدبیریں کرنے والا ہے اور ہمارے نمائندے تمہارے مکر کو برابر لکھ رہے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)
”اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد (اپنی) رحمت (سے آسائش) کا مزہ چکھاتے ہیں تو وہ ہماری آیتوں میں حیلے کرنے لگتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا بہت جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ اور جو حیلے تم کرتے ہو ہمارے فرشتے ان کو لکھتے جاتے ہیں (فتح محمد جالندھری، أسرع مکرا کا ترجمہ ہوگا حیلہ کرنے میں تیز تر ہے، نہ کہ جلد حیلہ کرنے والا ہے۔ تیز رفتار ہونے اور جلدی کرنے میں فرق ہے۔)
بہت سے لوگوں نے أَسْرَعُ مَکْرًا کا ترجمہ ”تم سے تیز تر چال چلنے والا“ کیا ہے، یہاں ’تم سے‘ کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ لفظ کی رو سے ’تیز تر‘ کافی ہے۔
(465) ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ
لغت میں ذریۃ کا مطلب اولاد بیان کیا گیا ہے۔ ان کا نوجوان ہونا ضروری نہیں ہے۔کسی قوم کے افراد پر ذریت کا اطلاق ہوتا ہے۔ قرآن کے استعمالات کو دیکھیں تو کہیں یہ لفظ بالکل چھوٹے بچوں کے لیے آیا ہے، جیسے: وَلَہُ ذُرِّیَّةً ضُعَفَاءُ۔ (البقرۃ: 266) اور کہیں نسل کے لیے جس میں سب شامل ہوتے ہیں، جیسے: کَمَا أَنْشَأَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ۔ (الانعام: 133)
درج ذیل آیت میں غالباً زمخشری کی تفسیر سے متأثر ہوکر بعض لوگوں نے ذریۃ کا ترجمہ نوجوان کردیا ہے۔ جو تفسیری اضافہ تو ہوسکتا ہے، لیکن لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ کا ترجمہ ہوگا ’اس کی قوم کے کچھ افراد“۔
فَمَا آمَنَ لِمُوسَی إِلَّا ذُرِّیَّةٌ مِنْ قَوْمِہِ عَلَی خَوْفٍ مِنْ فِرْعَوْنَ وَمَلَءِہِمْ أَنْ یَفْتِنَہُمْ۔(یونس: 83)
”(پھر دیکھو کہ) موسیٰؑ کو اس کی قوم میں سے چند نوجوانوں کے سوا کسی نے نہ مانا، فرعون کے ڈر سے اور خود اپنی قوم کے سر بر آوردہ لوگوں کے ڈر سے (جنہیں خوف تھا کہ) فرعون ان کو عذاب میں مبتلا کرے گا“۔ (سید مودودی، اس ترجمے میں عَلَی خَوْفٍ کا ترجمہ ’ڈر سے‘ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا: ’ڈر کے باوجود‘)
”تو موسی کی بات نہ مانی مگر اس کی قوم کے تھوڑے سے نوجوانوں نے، ڈرتے ہوئے فرعون اور اپنے بڑوں سے کہ مبادا وہ ان کو کسی فتنہ میں ڈال دے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”تو موسیٰ پر ایمان نہ لائے مگر اس کی قوم کی اولاد سے کچھ لوگ فرعون اور اس کے درباریوں سے ڈرتے ہوئے کہ کہیں انہیں ہٹنے پر مجبور نہ کردیں“۔ (احمد رضا خان، ’قوم کی اولاد سے کچھ لوگ‘ سے بہتر ہے ’قوم کے کچھ لوگ‘)
”تو موسیٰ پر کوئی ایمان نہ لایا۔ مگر اس کی قوم میں سے چند لڑکے (اور وہ بھی) فرعون اور اس کے اہل دربار سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں وہ ان کو آفت میں نہ پھنسا دے“۔ (فتح محمد جالندھری، ذریۃ کا ترجمہ لڑکے نہیں بلکہ لوگ کرنا چاہیے)
”پھر بھی موسٰی پر ایمان نہ لائے مگر ان کی قوم کی ایک نسل اور وہ بھی فرعون اور اس کی جماعت کے خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ کسی آزمائش میں نہ مبتلا کردے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں ذریۃ کے لیے ’نسل‘ موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ ’کچھ لوگ‘ مناسب ترجمہ ہے۔)
”پس موسیٰ (علیہ السلام) پر ان کی قوم میں سے صرف قدرے قلیل آدمی ایمان لائے وہ بھی فرعون سے اور اپنے حکام سے ڈرتے ڈرتے کہ کہیں ان کو تکلیف پہنچائے“۔ (محمد جوناگڑھی، ان کے اپنے حکام کہاں تھے؟ قوم کے بڑے لوگ تھے۔)
مذکورہ بالا آیت میں عَلَی خَوْفٍ کا موزوں تر ترجمہ ہوگا ڈر کے باوجود۔ نہ کہ ڈر سے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں:
(علی) فی قولہ: علی خوف من فرعون بمعنی (مع) مثل وآتی المال علی حبہ أی آمنوا مع خوفہم، وہی ظرف مستقر فی موضع الحال من (ذریة)، أی فی حال خوفہم المتمکن منہم وہذا ثناء علیہم بأنہم آمنوا ولم یصدہم عن الإیمان خوفہم من فرعون.
(466) کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً
اس جملے کا ترجمہ عام طور سے لوگوں نے صیغہ ماضی سے کیا ہے۔ یعنی لوگ ایک دین پر تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دین کفر پر یا دینِ اسلام پر۔ تو کچھ مفسرین نے دینِ اسلام مراد لیا اور اس سے پہلے ایک جملہ محذوف مانا کہ وہ اس دین پر باقی نہ رہے، تو اللہ نے نبی بھیجے۔ بعض مفسرین نے أُمَّةً وَاحِدَةً سے دینِ کفر مراد لیا۔ انھیں کوئی جملہ محذوف کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں کان زمانہ ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔ قرآن میں متعدد مقامات پر کان محض اثبات کے لیے آیا ہے، جیسے: وَکانَ اللَّہُ غَفُوراً رَحِیما۔ ’اللہ غفور اور رحیم ہے‘۔ یہ رائے قدیم مفسرین کے یہاں بھی ملتی ہے۔ (دیکھیں تفسیر قرطبی)
اس کی ایک بہت مماثل نظیر یہ جملہ ہے: کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ (آل عمران: 110) ’تم بہترین امت ہو‘ یہاں بھی کان ماضی کے لیے نہیں بلکہ اثبات کے لیے ہے۔
اس توجیہ کے مطابق ترجمہ ہوگا:
’لوگ ایک امت ہیں‘
یعنی اللہ نے انھیں ایک فطرت پر تخلیق کیا ہے۔ تمام انسان اس پہلو سے ایک امت ہیں کہ ان کے اندر وہ خصوصیات مشترک ہیں جو انھیں دوسری مخلوقات سے ممیز کرتی ہیں۔ وہ سب ایک نوع ہیں اور سب آدم کی اولاد ہیں، سب اس زمین کی بااختیار مخلوق (خلیفہ) ہیں اور عرصہ امتحان میں ہیں۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے دیکھیں:
کَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّہُ النَّبِیِّینَ۔(البقرۃ: 213)
”ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے“۔(سید مودودی)
”لوگ ایک ہی امت بنائے گئے۔ (انھوں نے اختلاف پیدا کیا) تو اللہ نے اپنے انبیاء بھیجے“۔(امین احسن اصلاحی)
”لوگ ایک دین پر تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے“۔ (احمد رضا خان)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:
”سب لوگ ایک ہی امت ہیں، تو اللہ نے نبی بھیجے۔“
وَمَا کَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا۔(یونس: 19)
”ابتداء ً سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے“۔ (سید مودودی)
”اور لوگ ایک ہی امت تھے پھر مختلف ہوئے“۔ (احمد رضا خان)
”اور (سب) لوگ (پہلے) ایک ہی اُمت (یعنی ایک ہی ملت پر) تھے۔ پھر جدا جدا ہوگئے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور تمام لوگ ایک ہی امت کے تھے پھر انہوں نے اختلاف پیداکرلیا“۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:
”سارے انسان ایک ہی امت ہیں، تو انھوں نے اختلاف کیا“۔
درج ذیل دونوں آیتوں کے مخاطب بھی تمام بنی نوع انسان ہوسکتے ہیں، یعنی اللہ انھیں یاد دلاتا ہے کہ وہ سب ایک انسانی گروہ ہیں، اور ان کا رب اللہ ہے۔
إِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ۔ (الانبیاء: 92)
”تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری عبادت کرو۔)
وَإِنَّ ہَذِہِ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُونِ۔ (المومنون: 52)
”اور تمہاری یہ امت ایک امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، سو میری ناراضگی سے بچو“۔
جہاں تک ان آیتوں کی بات ہے جن میں یہ بات کہی گئی ہے کہ تم کو ایک امت نہیں بنایا گیا، تو اس سے مراد مشترک عقیدے والی امت ہے۔ جیسے:
وَلَوْ شَاءَ اللَّہُ لَجَعَلَکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً۔ (النحل: 93)
”اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں ایک امت بنادیتا“۔
دراصل تمام انسان اس مفہوم میں ایک امت ہیں کہ وہ سب انسان ہیں اور ان کے اندر مشترک انسانی خصوصیات ہیں۔ جب کہ وہ اس مفہوم میں ایک امت نہیں بنائے گئے کہ لازمی طور پر ان کا دین اور عقیدہ بھی ایک ہوتا۔
(467) یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ
درج ذیل آیت میں یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ روز قیامت کے بارے میں ہے یا دنیا کی زندگی کے بارے میں؟ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ کا جملہ یحشرھم کا حال ہے یا لم یلبثوا کا؟ مترجمین نے دونوں باتیں اختیار کی ہیں۔ معنوی لحاظ سے اسے لم یلبثوا کا حال بناکر دنیا کی زندگی سے متعلق ماننا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہا جائے کہ قیامت کے دن وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے یا یہ کہا جائے کہ وہ پہچاننے کی کوشش کررہے ہوں گے، دونوں صورتوں میں تعارف کی معنویت واضح نہیں ہوتی۔ جب کہ اگر اسے دنیا کی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ بات آسانی سے سمجھ میں آتی ہے کہ قیامت کے دن انھیں لگے گا کہ دنیا میں وہ صرف گھڑی بھر کو رہے، وہ وقت اتنا مختصر تھا کہ گویا ایک دوسرے کو سمجھنے میں ہی گزر گیا۔ درج ذیل ترجمے دیکھیں:
وَیَوْمَ یَحْشُرُہُمْ کَأَنْ لَمْ یَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنَ النَّہَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَہُمْ۔ (یونس: 45)
”اور جس دن اللہ ان کو اکٹھا کرے گا (اس دن وہ محسوس کریں گے کہ) گویا بس وہ دن کی ایک گھڑی رہے۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور جس دن انہیں اٹھائے گا گویا دنیا میں نہ رہے تھے مگر اس دن کی ایک گھڑی آپس میں پہچان کریں گے“۔ (احمد رضا خان)
”اور جس دن خدا ان کو جمع کرے گا (تو وہ دنیا کی نسبت ایسا خیال کریں گے کہ) گویا (وہاں) گھڑی بھر دن سے زیادہ رہے ہی نہیں تھے (اور) آپس میں ایک دوسرے کو شناخت بھی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور ان کو وہ دن یاد دلائیے جس میں اللہ ان کو (اپنے حضور) جمع کرے گا (تو ان کو ایسا محسوس ہوگا) کہ گویا وہ (دنیا میں) سارے دن کی ایک آدھ گھڑی رہے ہوں گے اور آپس میں ایک دوسرے کو پہچاننے کو ٹھہرے ہوں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور جس روز اللہ اِن کو اکٹھا کرے گا تو (یہی دُنیا کی زندگی اِنہیں ایسی محسُوس ہوگی) گویا یہ محض ایک گھڑی بھر آپس میں جان پہچان کرنے کو ٹھیرے تھے“۔ (سید مودودی)
آخری دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔
(468) مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ
اس جملے میں مِنْہُ کی ضمیر کا مرجع عذاب ہے۔ ترجمہ ہوگا کہ ’اس کی کس چیز کی مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘
قُلْ أَرَأَیْتُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُہُ بَیَاتًا أَوْ نَہَارًا مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُونَ۔ (یونس: 50)
”آپ فرما دیجئے کہ یہ تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا عذاب رات کو آپڑے یا دن کو تو عذاب میں کون سی چیز ایسی ہے کہ مجرم لوگ اس کو جلدی مانگ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”تم فرماؤ بھلا بتاؤ تو اگر اس کا عذاب تم پر رات کو آئے یا دن کو تو اس میں وہ کون سی چیز ہے کہ مجرموں کو جس کی جلدی ہے“۔ (احمد رضا خان)
”(ان سے) کہو کہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تم پر رات میں آدھمکے یا دن میں، تو کیا چیز ہے جس کے بل پر مجرمین جلدی مچائے ہوئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں بھی مِنْہُ کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا۔)
”اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر اللہ کا عذاب اچانک رات کو یا دن کو آ جائے (تو تم کیا کر سکتے ہو؟) آخر یہ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے مجرم جلدی مچائیں؟“ (سید مودودی، یہاں بھی مِنْہُ کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا)
”کہہ دو کہ بھلا دیکھو تو اگر اس کا عذاب تم پر (ناگہاں) آجائے رات کو یا دن کو تو پھر گنہگار کس بات کی جلدی کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری، اس میں سقم یہ ہے کہ مستقبل کا ترجمہ کیا گیا ہے، دوسرا سقم یہ ہے کہ مِنْہُ کا ترجمہ نہیں کیا گیا۔ ’کس بات‘ کہنے کے لیے مِنْہُ نہیں آئے گا۔)
(469) وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ
درج ذیل جملے کے ترجمے میں مترجمین نے الگ الگ جہتیں اختیار کی ہیں:
وَمَا یَتَّبِعُ الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ شُرَکَاءَ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ۔(یونس: 66)
”اور جو لوگ اللہ کے ماسوا کو پکارتے ہیں یہ شریکوں کی پیروی نہیں کررہے بلکہ محض گمان کی پیروی کررہے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو مَا یَتَّبِعُ کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ شرکاء کی پیروی کی نفی کیوں کی جارہی ہے؟ ان کی اتباع کوئی جائز امر تو ہے نہیں۔ شرکاء کی پیروی کرنا بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ نفس کی پیروی کرنا۔
”اور جو لوگ خدا کو چھوڑ کر دوسرے شریکوں کو پکارتے ہیں وہ ان کا بھی اتباع نہیں کرتے- یہ صرف اپنے خیالات کا اتباع کرتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)
اس ترجمے میں شُرَکَاءَ کو سابقہ دونوں افعال کا مفعول بہ بنایا گیا ہے۔ یہ توجیہ بھی تکلف سے بھرپور ہے۔ اس میں بھی وہ معنوی اشکال موجود ہے جو سابقہ ترجمہ میں ہے۔
”اور یہ جو خدا کے سوا (اپنے بنائے ہوئے) شریکوں کو پکارتے ہیں۔ وہ (کسی اور چیز کے) پیچھے نہیں چلتے۔ صرف ظن کے پیچھے چلتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
اس ترجمے میں معنوی لحاظ سے کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن لفظی لحاظ سے اشکال یہ ہے کہ اس معنی کی ادائیگی کے لیے ’شیئا‘ مفعول بہ ہونا چاہیے۔ اس طرح کے موقع پر مفعول بہ کو حذف نہیں کیا جاتا ہے۔
”اور جو لوگ اللہ کے سوا کچھ (اپنے خودساختہ) شریکوں کو پکار رہے ہیں وہ نِرے وہم و گمان کے پیرو ہیں“۔ (سید مودودی)
اس ترجمے میں وَمَا یَتَّبِعُ کا ترجمہ ہی نہیں کیا گیا ہے۔
”اور جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسرے شرکا کی عبادت کررہے ہیں کس چیز کی اتباع کر رہے ہیں۔ محض بے سند خیال کی اتباع کر رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور کاہے کے پیچھے جارہے ہیں وہ جو اللہ کے سوا شریک پکار رہے ہیں، وہ تو پیچھے نہیں جاتے مگر گمان کے“۔ (احمد رضا خان)
درج بالا دونوں ترجمے آیت کے الفاظ کے عین مطابق ہیں۔ مزید یہ کہ کسی طرح کے نحوی یا معنوی اشکال سے بھی خالی ہیں۔ وَمَا یَتَّبِعُ میں ما استفہامیہ ہے اور شرکاء مفعول بہ ہے یدعون کا۔
(470) ترجمے میں ترتیب کا لحاظ
أَلَا إِنَّ أَوْلِیَاءَ اللَّہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُونَ۔ الَّذِینَ آمَنُوا وَکَانُوا یَتَّقُونَ۔ لَہُمُ الْبُشْرَی فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَةِ۔(یونس: 62 - 64)
”سُنو! جو اللہ کے دوست ہیں، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے، دُنیا اور آخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے“۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجمے میں جملوں کی ترتیب بدل گئی ہے۔ یہ دو خبریہ جملے ہیں، ہر جملے کی اپنی الگ معنویت ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ترتیب کا خیال رکھا گیا ہے۔
”سن لو بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔ وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگاری کرتے ہیں، انہیں خوشخبری ہے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“۔ (احمد رضا خان)
رفتید، ولے نہ از دلِ ما!
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
3 جمادی الثانی 1445ھ (18 دسمبر 2023ء) کو استاذِگرامی پروفیسر ڈاکٹر محمد الغزالی، رکن شریعت اپیلیٹ بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان، کا انتقال ہوا۔ ان کے ساتھ تقریباً 3 دہائیوں کا تعلق تھا جس میں انھوں نے میرے مشفق مربی اور مرشد کا کردار ادا کیا۔ ان کی وفات کی خبر نے بہت دکھی کیا، لیکن ہم کہیں گے وہی جس سے ہمارا رب راضی ہو۔
3 دہائیوں کا قصہ چند صفحات میں نہیں بیان کیا جاسکتا لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ ان کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں پر تھوڑی سی گفتگو ضرور ہو تاکہ نئی نسل کو معلوم ہو کہ کیسے اساطین تھے جو ہم نے کھو دیے ہیں!
غزالی صاحب کے ساتھ ابتدائی تعارف
غزالی صاحب کے ساتھ پہلا تعارف1995ء میں ہوا جب میں اسلامی یونیورسٹی میں ایل ایل بی آنرز شریعہ و قانون کا طالب علم تھا۔ ان دنوں وہ سوشل سائنسز کا کورس پڑھاتے تھے لیکن جس سیکشن کو وہ پڑھاتے تھے میں اس سیکشن میں نہیں تھا۔ (ہمارے سیکشن کو یہ کورس ایک اور عظیم استاذ پروفیسر ڈاکٹر سفیر اختر صاحب نے پڑھایا۔) دوسرے طلبہ سے غزالی صاحب کے علمی تبحر کے علاوہ ان کی شفقت کی کہانیاں سن کر دل میں ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا لیکن ان کے رعب اور جلال کی وجہ سے ان سے ملاقات میں سلام کے سوا کچھ بات نہیں ہوسکی۔ ان دنوں اسلامی یونیورسٹی میں سیمینارز کا سلسلہ پورے زور و شور سے جاری تھا اور تقریباً ہر ہفتے کسی اہم موضوع پر سیمینار ہوتا تھا جس میں ممتاز اہلِ علم کو سن کر، دیکھ کر، بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا تھا۔ غزالی صاحب سے ایسے سیمینارز میں سیکھنے کا موقع ملا اور ایک آدھ دفعہ سوال (اور کسی حد تک اعتراض) کی جسارت بھی کی جسے انھوں نے کمال تحمل سے سنا اور پھر بہت خوبی سے اپنا موقف واضح کیا۔ اب دل میں ان کے رعب کے ساتھ احترام نے بھی جنم لیا۔
انھی دنوں ایک صاحب کے ساتھ حدیث و سنت کی حجیت پر بحث چل رہی تھی۔ میں نے ان کے سامنے ایک دلیل یہ رکھی (جو مولانا تقی عثمانی صاحب کی کتاب سے سیکھی تھی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہی دلیل ان سے قبل مولانا ابو الاعلی مودودی نے بھی دی تھی) کہ قرآن کریم میں بعض مقامات پر ایسے احکامات کو اللہ کا حکم قرار دیا گیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت شدہ ہیں، جیسے قرآن مجید میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کہیں نہیں دیا گیا لیکن جب کعبہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا تو پہلے قبلے کے متعلق قرار دیا گیا کہ وہ قبلہ ہم نے ہی مقرر کیا تھا (وَمَا جَعَلۡنَا ٱلۡقِبۡلَةَ ٱلَّتِي كُنتَ عَلَيۡهَآ إِلَّا لِنَعۡلَمَ مَن يَتَّبِعُ ٱلرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيۡهِۚ)۔ ان صاحب نے اس کے جواب میں (غلام احمد پرویز سے مستعار لی گئی) دلیل پیش کی لیکن اسلوب استہزائیہ تھا (جیسے عام طور پر منکرینِ حدیث کا ہوتا ہے)۔ان دنوں میں مولانا تقی عثمانی صاحب کو خطوط لکھ کر ان سے مختلف امور میں رہنمائی حاصل کرتا تھا۔ ایک خط میں اس طرف توجہ دلائی اور ان سے درخواست کی کہ وہ خود اس پر کچھ لکھیں تو شاید زیادہ مفید ہو۔ انھوں نے جواب میں کہا کہ یہ شخص شہرت کا طالب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے نظر انداز کرنا ہی بہتر ہے۔ مجھے (شاید نوجوانی کے جوش کی وجہ سے) یہ جواب مطمئن نہیں کرسکا۔ میں ایک دن ان صاحب کی تحریر، مولانا تقی عثمانی صاحب کے نام اپنا خط اور ان کا جواب لے کر غزالی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ان کے ساتھ دو تین اور اصحاب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان کے سامنے مدعا پیش کیا۔ انھوں نے ان صاحب کی تحریر مانگی اور چند سطریں پڑھ کر اچانک جلال میں آگئے اور کہا کہ ایسے بے ہودہ لوگ بحث کے لائق نہیں ہوتے، مولانا تقی عثمانی صاحب نے بالکل درست تشخیص کی ہے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنے طور پر مجھے اس اعتراض کا جواب بھی دیا (یہ کہانی پھر سہی) لیکن انھوں نے بھی زور دیا کہ ان صاحب کو منہ لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد بھی غزالی صاحب سے وقتاً فوقتاً استفادے کا سلسلہ جاری رہا لیکن سچی بات یہ ہے کہ ان کی جلالی طبیعت کی وجہ سے ان کے ساتھ تفصیلی بحث نہیں ہوسکی۔ ان کے برادر بزرگ استاذِ گرامی ڈاکٹر محمود احمد غازی (رحمہ اللہ) کے ساتھ تعلق کی نوعیت دوسری تھی۔ وہ بظاہر بہت بارعب اور سنجیدہ تھے، علمی دنیا میں ان کا مرتبہ اپنی جگہ، یونیورسٹی کی انتظامیہ میں بھی وہ اعلی مقام پر تھے (نائب صدرِ جامعہ) اور اسلامی نظریاتی کونسل اور دیگر ریاستی اداروں کے ساتھ بھی ان کا تعلق تھا۔ اس بنا پر ان سے بات کرنی بظاہر بہت دشوار ہونی چاہیے تھی لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان سے تفصیلی بحث میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ غازی صاحب کے ساتھ بے تکلفی اور غزالی صاحب کے ساتھ نسبتاً سنجیدہ تعلق پر مبنی یہ سلسلہ کئی برسوں تک چلتا رہا۔
پیر و مرشد
اس تعلق میں تبدیلی تب آئی جب 2008ء میں استاذِ گرامی ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب (رحمہ اللہ) کے اصرار پر میں نے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی میں مختلف پروجیکٹس پر کام شروع کیا۔ اب غزالی صاحب کے ساتھ بے تکلفی کے اسباب بھی بن گئے۔ایک دن ادارے کے ایک سیمینار میں شرکت کےلیے پہنچا تو دیکھا کہ غزالی صاحب سٹیج سے دور، دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ سر آپ کو آگے بیٹھنا چاہیے۔ کہنے لگے، حضرتِ داغ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے! پھر مسکرا کر کہا، کہ یہ جگہ اس لیے بہتر ہے کہ جب دیکھا کہ مقررین محض وقت ضائع کررہے ہیں، تو اٹھ کر نکل گئے!
ایک دن ادارے میں سیمینار میں گفتگو کی باری میری تھی۔ غزالی صاحب مقررہ وقت سے 5 منٹ قبل پہنچ گئے۔ دعا سلام اور حال احوال پوچھنے کے بعد اچانک گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر کہا کہ وقت ہوگیا ہے، بسم اللہ کریں۔ میں نے کہا کہ بزرگوں کو آنے دیں، سر۔ کہنے لگے:
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن، اسدؔ
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا!
پھر کہا، آپ سے یہ امید نہیں تھی کہ آپ بھی سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود ہوں گے۔ چنانچہ میں نے میزبان اور دیگر مہمانوں کی آمد کا مزید انتظار کیے بغیر اپنا مقالہ پڑھنا شروع کیا۔ کچھ دیر میں لوگ آگئے لیکن (شاید غزالی صاحب کو دیکھ کر ہی) کسی نے اعتراض نہیں کیا، نہ ہی برا مانا۔ یہ ان کی تربیت کا ایک انداز تھا۔ اس دن سے میں نے انھیں اپنا مرشد مان لیا تھا۔
ادارے میں چونکہ میرے مقالات بالعموم فقہ اور اصول کے موضوع پر ہوتے تھے، تو ایک دن غزالی صاحب نے مجھے مخاطب کرکے کہا: مولانا مشتاق احمد نعمانی! آپ یہ مقالات کتابی صورت میں کیوں شائع نہیں کرتے؟ میں نے کہا، کہ ارادہ ہے لیکن دیکھیں کب توفیق ملتی ہے؟ انھوں نے دعا بھی دی اور تحسین بھی کی، پھر کہا کہ آپ نام کے ساتھ نعمانی کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے عرض کی کہ میں خود کو اس نسبت کا حق ادا کرنے کا اہل نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد بھی اکثر وہ مجھے اسی نسبت کے ساتھ پکارتے تھے۔ یہ ان کی محبت اور حوصلہ افزائی کا انداز تھا۔
شریعت اپیلیٹ بنچ، سپریم کورٹ، کی رکنیت
2010ء میں غزالی صاحب سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کے رکن بنے اور اس کے بعد ان کے ساتھ مختلف مقدمات کے قانونی اور فقہی پہلوؤں پر بارہا تفصیلی گفتگو کا موقع ملا۔ وہ مقاصدِ شریعت اور قواعد فقہیہ کے ذریعے شریعت کے عمومی مزاج کی بہت عمدہ وضاحت کرتے تھے اور اس پہلو سے ان کے طریقِ استدلال اور منہج پر شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کا گہرا اثر نظر آتا تھا لیکن اس کے ساتھ ان کے کام کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ وہ نصوص، بالخصوص قرآن کی کی آیات، سے برمحل استدلال کرتے تھے۔ ان کا استحضار قابل رشک اور ان کا استدلال قابلِ تقلید ہوتا۔
شریعت اپیلیٹ بنچ میں دو طرح کے مقدمات آتے ہیں: ایک، حدود مقدمات میں سیشن کی عدالت کے فیصلے کے خلاف پہلی اپیل وفاقی شرعی عدالت کو، اور دوسری اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کو ہوتی ہے؛ دوم، جب کسی قانون کو "قرآن و سنت میں مذکور اسلامی احکام سے تصادم" کی بنیاد پر وفاقی شرعی عدالت میں چیلنچ کیا جائے (جسے "شریعت درخواست" کہا جاتا ہے) تو پھر وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ میں ہوتی ہے۔ پہلی قسم کے مقدمات بھی اہم ہوتے ہیں لیکن غزالی صاحب کی زیادہ دلچسپی شریعت درخواستوں کی اپیلوں میں ہوتی تھی کیونکہ ان کے ذریعے قوانین سے غیر اسلامی امور دور کرنے کا موقع ملتا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس بنچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہوتا تھا اور غزالی صاحب کو مسلسل یہ گلہ رہا کہ ہمارے جو بھی چیف جسٹس بنے، انھوں نے ان اپیلوں کی سماعت سے مسلسل گریز کا رویہ اختیار کیا۔ غزالی صاحب وقتاً فوقتاً انھیں یاد دلاتے بھی رہے۔ چنانچہ ایک بار چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے انھیں یہ کام سونپ دیا کہ وہ ان تمام اپیلوں کے متعلق ایک جامع رپورٹ ان کےلیے تیار کریں جس کے بعد وہ ان مقدمات کی سماعت کا سلسلہ شروع کرلیں گے۔ غزالی صاحب نے 1989ء سے 2019ء تک 30 سال کے زیرِ التوا مقدمات کے متعلق ایک جامع رپورٹ تیار کرکے ان کے حوالے کی لیکن کوئی عمل درآمد کی صورت پیدا نہیں ہوئی۔ البتہ 2020ء میں چیف جسٹس گلزار احمد نے شریعت درخواستوں کی اپیلوں کے بجاے حدود مقدمات کی اپیلوں کےلیے چند دن شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے مقدمات رکھے۔ پھر رات گئی، بات گئی۔
ستمبر 2023ء میں جب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالا، تو مجھے سیکرٹری کی ذمہ داریاں دیتے ہوئے خصوصاً شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے زیرِ التوا مقدمات پر رپورٹ کا کام سونپا۔ مجھے غزالی صاحب کی رپورٹ کا علم تھا۔ میں نے ان سے رابطہ کیا، تو وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر انھوں نے قاضی صاحب سے اس موضوع پر تبادلۂ خیال کیا۔ قاضی صاحب نے انھیں بتایا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے نفاذ کے بعد اب مقدمات کی سماعت کےلیے بنچ بنانے کا اختیار تنہا چیف جسٹس کے پاس نہیں رہا، بلکہ اب چیف جسٹس اور دو سینیئر ججوں پر مشتمل کمیٹی اس کافیصلہ کرتی ہے، البتہ میری کوشش ہوگی کہ جنوری سے ہم اس کی سماعت کا سلسلہ شروع کرلیں۔ غزالی صاحب نے انھیں بتایا کہ انھوں نے اس سلسلے میں ایک رپورٹ پہلے سے تیار کی ہوئی ہے۔ قاضی صاحب کے کہنے پر غزالی صاحب نے اس رپورٹ کی نقل مجھے دے دی۔ میں نے تمام مقدمات کی فائلیں منگوا کر انھیں پڑھا اور پھر غزالی صاحب کے مشورے اور رہنمائی میں ایک لائحۂ عمل تیار کیا، لیکن معلوم نہیں تھا کہ تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا ہوا ہے اور 18 دسمبر کو غزالی صاحب کا انتقال ہوا۔ شریعت اپیلیٹ بنچ بھی اب ادھورا رہ گیا ہے۔ آگے کا کام مشکل ہوگیا ہے لیکن، ان شاء اللہ، غزالی صاحب کی یہ آخری خواہش پوری کرنے کی ہم پوری کوشش کریں گے۔ یہ صرف غزالی صاحب کی خواہش ہی نہیں، آئینی ذمہ داری بھی ہے اور ایمان کا تقاضا بھی۔
'نرا وکیل ہی نہ رہ جائے!'
شریعت اپیلیٹ بنچ میں زیرِ التوا مقدمات سے یاد آیا کہ سودی قوانین کے خلاف شریعت درخواستوں پر وفاقی شرعی نے 1991ء میں فیصلہ دیا تھا اور انھیں اسلامی احکام سے تصادم کی بنیاد پر کالعدم قرار دیا تھا، لیکن اس فیصلے کے خلاف حکومت اپیل میں گئی تو شریعت اپیلیٹ بنچ نے 1999ء میں اپنا فیصلہ دیا اور وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ تاہم جب اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواستیں دائر کی گئیں، تو ان کی سماعت کے بعد 2002ء میں شریعت اپیلیٹ بنچ نے اپنا 1999ء کا فیصلہ ختم کردیا اور مقدمہ واپس وفاقی شرعی عدالت میں از سرِ نو سماعت کےلیے بھیج دیا۔ شریعت اپیلیٹ بنچ کا یہ دوسرا فیصلہ آئینی اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر بہت کمزور تھا۔ غزالی صاحب کے لائق فائق فرزند احمد حمزہ غزالی نے اپنا ایل ایل ایم کا مقالہ اس فیصلے کے تنقیدی جائزے پر میری نگرانی میں لکھا۔ چونکہ اس دوران میں حمزہ نے وکالت بھی شروع کی تھی جس کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور ابتدائی مرحلے پر قدم جمانے میں بھی بہت وقت لگتا ہے، اس لیے مقالہ لکھنے میں حمزہ نے کافی وقت لگایا۔ غزالی صاحب اس سلسلے میں بہت فکرمند تھے اور کبھی مجھے گھر پر بلا کر، کبھی فون پر اس سلسلے میں فکرمندی کا اظہار کرتے اور مجھے کہتے کہ اپنے شاگرد سے کام لیں۔ وہ خصوصاً اس بات پر زور دیتے کہ حمزہ کہیں نرا وکیل ہی نہ رہ جائے! حمزہ نے، ما شاء اللہ، بہت ہی عمدہ مقالہ لکھا جو اس موضوع پر برہانِ قاطع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دن غزالی صاحب کی خوشی دیدنی تھی!
غزالی صاحب کی حیثیت میرے لیے تو پیر و مرشد کی تھی۔ جب بھی کسی الجھن کا سامنا کیا، بے چینی محسوس کی، رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوئی، انھیں پیغام بھیجا، اور وہ ہمیشہ کھلے دل سے استقبال کرتے۔ بلکہ بارہا تو ایسا ہوا کہ ان کی جانب سے ملاقات کےلیے کہا گیا اور میں ادھر ادھر کے مسائل میں گرفتار، نہ جاسکا، تو پھر شرمندگی محسوس ہوتی، پھر حمزہ کا وسیلہ پکڑتا اور ان کے ذریعے غزالی صاحب کی بارگاہ میں ملاقات کےلیے عرضی پیش کرتا، لیکن انھوں نے ایک بار بھی انکار نہیں کیا۔ ان کے ہاں حاضری ہوتی، تو مجھے ان کی صحت اور آرام کا بھی خیال رہتا اور کوشش ہوتی کہ انھیں زیادہ زحمت نہ دوں، لیکن مغرب سے عشاء کا وقت ہوجاتا، وہ اصرار کرکے مجھے نماز پڑھانے کےلیے آگے کرتے، کبھی میری مان کر حمزہ کو آگے کردیتے (حمزہ کی تلاوت، ما شاء اللہ، بہت پیاری ہے)، اور پھر عشاء کے بعد بھی دیر تک محفل جاری رہتی۔ اس دوران میں ان کی مہمان نوازی کا بھی لطف اٹھاتا، ان کی خوبصورت گفتگو کا بھی حظ لیتا اور ان سے بھرپور رہنمائی بھی حاصل کرتا۔ اس محفل کا اثر پھر اگلے کئی دنوں، بلکہ ہفتوں تک جاری رہتا۔
پشتو اور پشتونوں سے محبت
غزالی صاحب کو اپنے برادرِ بزرگ غازی صاحب کی طرح پشتو اور پشتونوں کے ساتھ خصوصی محبت تھی۔ غازی صاحب سے تو ہم نے پشتو کا ایک آدھ ہی جملہ سنا تھا لیکن غزالی صاحب تو بڑی روانی سے اور صاف لہجے میں پشتو بولتے تھے۔ کئی بار انھوں نے کہا کہ اس کا کریڈٹ ان کے مدرسے کے زمانۂ طالب علمی کے دوستوں اور اساتذہ کو جاتا ہے جن میں بہت سے پشتو بولنے والے تھے۔ پشتونوں اور افغانوں سے خصوصاً اور وسط ایشیائی اقوام سے عموماً ان کو دلچسپی تھی اور ان کے احوال سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتے۔ دو دفعہ میں افغانستان گیا اور واپس آیا تو غزالی صاحب کے ساتھ تفصیلی نشستیں وہاں کے حالات کے بارے میں ہوئیں۔ چند مہینے قبل ملاقات میں انھوں نے خود افغانستان کی سیر کی خواہش کا اظہار کیا اور ہمارے دوست ڈاکٹر احمد خالد حاتم (صدر، کاردان یونیورسٹی، کابل) جنھوں نے ادارۂ تحقیقاتِ اسلامی اور سپریم کورٹ میں غزالی صاحب کے ساتھ کام کیا، کا نمبر لے کر ان سے آنے جانے کے متعلق تفصیلی رہنمائی لی۔ بعد میں کچھ صحت کے مسائل اور کچھ مصروفیات کی وجہ سے باقاعدہ پروگرام نہیں بن سکا، لیکن اس خواہش کا اظہار انھوں نے متعدد بار کیا۔
افغانستان کے ساتھ خصوصی لگاؤ غازی صاحب کو بھی بہت تھا۔جب انھیں معلوم ہوا کہ میرے والد صاحب کا ایم فل کا مقالہ اقبال اور افغانستان کے موضوع پر ہے، تو انھوں نے میرے والد صاحب سے ملاقات اور یہ مقالہ پڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا کہ مجھے تو افغانستان سے بھی محبت ہے اور اقبال سے بھی۔ کچھ یہی حالت غزالی صاحب کی بھی تھی۔ اسی طرح انھیں قائدِ اعظم سے بھی والہانہ محبت تھی اور پاکستانیت تو ان کی رگ رگ میں رچی بسی تھی۔ ان کے موبائل پر کالنگ ٹیون کے طورپر پاکستان کا ترانہ سنا جاتا۔
'رگِ فاروقیت'
غزالی صاحب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے تھے اور مجدد الف ثانی کے الفاظ میں ان کی رگِ فاروقیت جب پھڑک اٹھتی، تو پھر وہ سماں دیکھنے والا ہوتا۔ حق و باطل کے معرکے میں وہ کسی مداہنت کے قائل نہیں تھے اور ڈنکے کی چوٹ پر بلند آہنگ سے کلمۂ حق کہنا ان کی ایسی خصوصیت تھی جس کی وجہ سے بڑے بڑے ان کا سامنا کرنے سے گھبراتے تھے اور ان کو دیکھ کر راستہ چھوڑ دیتے۔ ان کے برادرِ بزرگ غازی صاحب بہت متحمل مزاج اور وسیع الظرف تھے اور لوگوں کی بے ہودگی کا سامنا ایک خندۂ زیرِ لب کے ساتھ کرتے تھے۔ غزالی صاحب ان کے اس تحمل کے بھی شدید ناقد تھے اور بعض اوقات اسے docility سے تعبیر کرتے (ان فاروقی برادران کے مزاجوں کا موازنہ ایک بہت دلچسپ موضوع ہے، آگے اس ضمن میں خود غزالی صاحب کے بعض کلمات پیش کروں گا)، لیکن بعض اوقات ان کی رگِ فاروقیت بھی پھڑک اٹھتی، تو پھر عجیب ہی منظر ہوتا۔ یہ خصوصاً تب ہوتا جب قائدِ اعظم، علامہ اقبال یا پاکستان کے متعلق کوئی ہلکی یا غلط بات کہی جاتی۔ غزالی صاحب میں فاروقیت کی یہ خصوصیت بدرجۂ اتم پائی جاتی تھی۔
ایک دن یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل کی میٹنگ تھی۔ تمام پروفیسر بیٹھے تھے۔ یونیورسٹی کی علمی پالیسی پر بحث ہونی تھی لیکن صدرِ جامعہ کا طول طویل خطبہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ غزالی صاحب نے ایک چٹ پر یہ عبارت لکھ کہ مجھے دی اور پھر اٹھ کر چلے گئے: "اگر دنیا میں کہیں لایعنی گفتگو کا مقابلہ ہو، تو یہ ۔۔۔ اس مقابلے میں اول انعام کے حق دار قرار پائیں گے۔"
جمعہ کی نماز عموماً فیصل مسجد میں ہی پڑھتے تھے۔ ایک دن مصر کے ایک پروفیسر خطبے دے رہے تھے۔ خطبہ کیا تھا، سورۃ ہود میں انبیاے کرام علیہم السلام کے متعلق وارد آیات کی مادی اور اشتراکی تعبیر پر مبنی ایک طویل تقریر تھی۔ میں پچھلی صفوں میں تھا، لیکن اچانک دیکھا کہ غزالی صاحب جو اگلی صفوں میں تھے، اٹھ کھڑے ہوئے اور خطیب کو ٹوکا کہ یہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں یہ قرآن کی معنوی تحریف ہے۔ چمچوں کڑچوں کو یہ بہت برا لگا، لیکن فاروقی خون کے سامنے کون دم مار سکتا تھا۔ خطیب نے بوکھلا کر خطبہ فوراًہی ختم کردیا۔ نماز کے بعد میں غزالی صاحب کو ڈھونڈ رہا تھا، لیکن رش کی وجہ سے ملاقات نہیں ہوسکی۔ میں اپنے دفتر آیا (ان دنوں میں شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہا تھا)، تو کچھ ہی دیر میں غزالی صاحب تشریف لائے۔ ابھی تک جلال کی کیفیت میں تھے۔فرمایا کہ ان احمقوں کو یہ علم نہیں ہے کہ یہ پاکستان ہے، مصر نہیں ہے۔ مزید فرمایا کہ اگلی صفوں میں بڑے بڑے نابغے بیٹھے تھے لیکن کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس بے ہودہ یاوہ گوئی پر اعتراض کرتا، اس لیے مجبوراً مجھے ہی کہنا پڑا۔ میں نے عرض کی یہ کام آپ ہی کرسکتے تھے۔ بہرحال، یہ صرف جذباتی معاملہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے علی وجہ البصیرت باطل جانتے تھے اور اس وجہ سے انھوں نے میرے دفتر میں بیٹھے بیٹھے یونیورسٹی کے بعض اعلی حکام کو اس معاملے پر تفصیلی تنقیدی پیغام بھیجا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ صاحب اس کے بعد فیصل مسجد میں خطبہ دینے کےلیے کبھی نہیں آئے۔
خود احتسابی
یہ بات واضح رہے کہ جو معیار غزالی صاحب نے دوسروں کےلیے مقرر کیا تھا، اپنے لیے اس سے کہیں زیادہ کڑا معیار مقرر کیا تھا۔ خود احتسابی کی جو صفت میں نے ان میں دیکھی شاذ ہی کہیں اور نظر آئی ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایک پیغام کو یہاں جوں کا توں نقل کروں۔ ایک دن انھوں نے مجھے لکھا کہ مجھے ان کے موقف میں یا کام میں کوئی بات غلط نظر آئے، تو میں مداہنت بالکل نہ کروں۔ میں نے عرض کی کہ ایسی کوئی بات مجھے نظر آئی، تو ادب و احترام کے تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے میں، ان شاء اللہ، ضرور توجہ دلاؤں گا۔ اس پر انھوں نے لکھا:
"میں جس طرح کی بے تکلفی برتتا ہوں وہی بے تکلفی آپ سے برتنے کی امید رکھتا ہوں اور اللہ تعالی کو گواہ بنا کر عرض کرتا ہوں کہ یہ بات آپ سے کہنے میں بالکل سچا اور مخلص ہوں ۔آپ اس کو ہرگز تواضع پر محمول نہ کریں اور میری چھوٹی بڑی ہر غلطی پر متنبہ کیا کریں اور یقین جانئے ناصحانہ تنقید چاہے جارحانہ ہو وہ سن کر میں بہت خوش ہوتا ہوں اور الحمد للہ ہر ہما شما کی تعریف کا اثر میرے نفس امٌارة پر بالکل نہیں ہوتا۔البتہ اگر کوئی صاحب علم اگر کسی بات کی تحسین کرے تو مزید کام کرنے کا حوصلہ بڑھتا ہے ۔2010 میں شرعی عدالت کے جج بننے کے چھ ماہ کے اندر اندر ہی میرے دنیا میں سب سے بڑے کیا ، بلکہ واحد معلم ومربی، مخلص بھائی اور بے تکلف دوست دنیا سے رخصت ہوگئے اس وقت سے باوجود کوشش کے کوئی ایسا نہیں مل سکا جو میرے دل میں ان کی جگہ لے سکے۔اور محاورے میں نہیں بلکہ حقیقت میں تنہا محسوس کرتا ہوں، حمزہ سلمہ کو اس ڈھب پر لانے کی کوشش کرتا ہوں، وہ کبھی کبھار دائرہ ادب میں رہتے ہوئے مجھ پر ہلکی پھلکی تنقید کر بھی لیتا ہے مگر بہرحال وہ میرا بیٹا اور میں اس کا باپ ہوں وہ تنقید میں کہاں تک جاسکتا ہے؟اس ساری گذارش کا مقصد ، جو کہ دل کی گہرائیوں سے کررہا ہوں ، یہ ہے کہ آپ سے امید رکھتا ہوں کہ میرے حقیقی بھائی جان کی جگہ آپ لیں اور میرا ہاتھ تھام لیں ۔حالیہ بیماریوں کے ہجوم میں اب ذہنی و علمی و فکری تنہائی کا یہ احساس شدید تر ہوگیا ہے۔آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر میرے اور بھائی جان مرحوم کے درمیان جو بے تکلفی کی سطح تھی وہ ایسی تھی کہ ہم دونوں ایک دوسرے پر ایسی سخت تنقید کرتے تھے کہ کوئی اجنبی دیکھتا تو ہمیں جانی دشمن ہی سمجھتا۔امید ہے آپ میری گذارش پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہوں گے ۔"
اس کے جواب میں میں کیا عرض کرتا؟ میں تو سکتے میں چلا گیا۔ کچھ دیر میں ان کا دوسرا پیغام آیا:
" اگر ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام- جو انبیاء کے بعد افضل البشر ہیں اور ہمارے لئے قابل تقلید- تو محسوس ہوگا کہ وہ آپس میں بہت بے تکلف تھے اور ایک دوسرے پر ایسی کڑی تنقید کرتے تھے کہ کسی اور معاشرت میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ایک مثال یاد آئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بزرگترین اصحاب شیخین تھے رضی اللہ عنہما،جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مانعین زکوة کے خلاف لشکر بھیجنے چاہتے تھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بارے میں بڑے خدشات اور تحفظات تھے۔کئی دن شیخین کے مابین اس پر بحث مباحثہ ہوتا رہا، ایک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دوران گفتگو یہ فرمایا:"أجبٌار في الجاهلية خوٌار في الاسلام؟ اب آپ بتائیے کہ آج اگر کوئی اپنے قریبی رفیق اور دوست سے ایسے الفاظ کہ دے تو وہ دوستی کتنے دل چل سکتی ہے؟ اس بات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہماری معاشرت اسلام کے معیار سے کتنی پست ہوچکی ہے ۔اور یہ سب عجمیت کے اثرات ہیں، یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال عجمیت کے اثرات کے اتنے بڑے ناقد تھے۔"
آج بھی یہ پیغام پڑھ کر آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ
نفیِ ذات
غزالی صاحب حقیقی معنوں میں صوفی تھے۔ لوگ ان کے رعب اور جلالی مزاج کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ شاید ان میں انانیت ہو لیکن جو انھیں جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک فقیر منش اور سادہ مزاج آدمی تھے جو پروٹوکول اور 'ہٹو بچو' کی صداؤں سے ہمیشہ گریز کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ مجلس میں کسی ایسی جگہ بیٹھ جائیں جہاں ان کی انفرادیت اور خصوصی حیثیت کسی پر واضح نہ ہو۔ نفیِ ذات کے بے شمار مناظر ہم نے دیکھے ہیں۔ 2019ء میں جب ہم شریعہ اکیڈمی کے زیرِ اہتمام پاکستان میں قوانین کی اسلامیت کے موضوع پر ایک تین روزہ کانفرنس کی تیاریاں کررہے تھے، تو قدم قدم پر ان کی جانب سے رہنمائی اور مدد میسر رہی، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ خود صرف سامع کی حیثیت سے ہی شریک ہوسکیں گے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے اور منت سماجت کے بعد انھیں قائل کیا کہ وہ ایک سیشن کی صدارت کریں۔ اسی طرح افتتاحی تقریب میں بڑی مشکلوں سے ان کو راضی کیا کہ وہ سٹیج پر رونق افروز ہوں۔ اس تقریب میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ صاحب کلیدی خطبہ دے رہے تھے اور اس موقع پر غزالی صاحب کے قد کاٹھ کی شخصیت کا سٹیج پر موجود ہونا ضروری تھا۔ خواجہ صاحب خود بھی صوفی منش آدمی ہیں۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں غزالی صاحب کا تذکرہ تو کیا سو کیا، یہ بھی ذکر کیا کہ وہ خود غزالی صاحب کے فرزند حمزہ کے شاگرد ہیں جن سے انھوں نے عربی سیکھنے کی کوشش کی!
آج یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے ساتھ میرا تعلق اسی کانفرنس کی وجہ سے بنا اور اس کا سبب بھی غزالی صاحب ہی بنے تھے۔ قاضی صاحب کے ساتھ میری ایک مختصر ملاقات 2015ء میں جسٹس جواد خواجہ صاحب کے چیمبر میں ہوئی تھی جب میں نے ایک فیصلے میں خواجہ صاحب کی معاونت کی تھی اور پھر اس فیصلے کا اردو ترجمہ بھی کیا، تو خواجہ صاحب اس ترجمے پر نظرِ ثانی کررہے تھے اور اس وقت قاضی صاحب بھی ان کے چیمبر میں موجود تھے، تو ان سے بھی ملاقات ہوگئی۔ اس کے بعد ان کے ساتھ کوئی ملاقات اگلے کئی برسوں تک نہیں ہوئی۔ 2019ء میں اس کانفرنس کےلیے تیاری کے سلسلے میں غزالی صاحب نے تجویز کیا کہ اس میں سپریم کورٹ کے کسی جج کو بھی آنا چاہیے اور پھر انھوں نے خود قاضی صاحب کا نام لیا۔ میں نے عرض کی کہ میں ان کی خدمت میں عرضی تو ڈال دیتا ہوں لیکن اس کی منظوری آپ کی کوشش کے بغیر شاید ممکن نہ ہو۔ انھوں نے کہا کہ میں بات کرلوں گا۔ چنانچہ میں نے خط لکھا اور پھر غزالی صاحب نے قاضی صاحب سے بات کی، تو قاضی صاحب نے مجھے فون کیا اور کانفرنس کے بارے میں معلومات لیں۔ پھر کہا کہ آپ کی رسائی ایسے لوگوں تک ہے جنھیں میں انکار نہیں کرسکتا! یوں قاضی صاحب کانفرنس میں پینل ڈسکشن میں حصہ لینے کےلیے آگئے۔ (انگریزی محاورے کے مطابق، باقی تاریخ ہے!) لیکن غزالی صاحب نے مجھے اس بات کا تذکرہ کرنے سے روکا تھا کہ قاضی صاحب کو اسلامی یونیورسٹی لانے کا سبب وہ بنے۔
اصاغر نوازی
مجھ پر غزالی صاحب کی شفقت کے مظاہر بہت ہی نرالے تھے۔ ایک تو انھوں نے کبھی مجھے اپنے در سے بغیر کوئی تحفہ دیے جانے نہیں دیا۔ جب بھی ان کی خدمت میں حاضری دی، اٹھنے سے پہلے انھوں نے مجھے کوئی کتاب، کوئی قلم، کوئی تسبیح ضرور پکڑائی۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبِ علم قلم کے بغیر صاحبِ علم نہیں بن سکتا۔ چنانچہ ان کی واسکٹ یا کوٹ کی جیب میں ایک دو قلم ضرور موجود رہتے اور اگر دیکھتے کہ میری واسکٹ یا کوٹ کی جیب میں قلم نہیں ہے، تو تنبیہ بھی کرتے اور اپنی جیب سے ایک قلم نکال کر دے دیتے۔ پھر ان کی تنبیہ سے بچنے کی خاطر میں نے یہ اہتمام شروع کیا کہ کہیں اور میرے پاس قلم ہو یا نہ ہو، لیکن ان کے پاس جاؤں تو ضرور ایک قلم جیب میں موجود ہو۔
آخری دور میں تسبیح کے متعلق بھی ان کا یہی طرزِ عمل رہا۔ مجھے کئی دفعہ انھوں نے تسبیح کا تحفہ دیا۔ ایک دن کہنے لگے کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عرب اسے "مسبّحہ" کہتے ہیں لیکن یہ اصل میں "مذکّرہ " (یاد دلانے والی) ہے کیونکہ یہ ہاتھ میں ہو تو بندہ کچھ نہ کچھ ذکر یا ورد کر ہی لیتا ہے، جیب میں پڑی ہو، تو ہاتھ لگتے ہی یاد آجاتا ہے کہ اللہ کا نام لینا چاہیے۔
فقہاء کے وعدے
غزالی صاحب کی بزرگانہ شفقت تو، الحمد للہ، مسلسل میسر رہی، اس شفقت کے ساتھ وقتاً فوقتاً تنبیہ بھی کرتے اور ایک آدھ دفعہ ہلکی سی ڈانٹ بھی پلائی، لیکن اس پر اللہ کا شکر گزار ہوں کہ وہ مجھ سے کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ زیادہ تر ان کا گلہ یہ رہتا کہ بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں خود بھی بہت تشنگی محسوس کرتا اور اس لیے ہر ملاقات پر وعدہ کرتا کہ اگلی ملاقات جلد ہی ہوگی (ان شاء اللہ کی قید کے ساتھ)۔ کئی بار انھوں نے جوش ملیح آبادی کا یہ جملہ سنایا جو انھوں نے خود غزالی صاحب سے گلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولویوں کے وعدوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ (غزالی صاحب کے مزاج کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ وہ جوش ملیح آبادی کی محفل میں مستقل جایا کرتے تھے۔ ان کے کئی دلچسپ واقعات انھوں نے سنائے ہیں لیکن انھیں کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں۔) میں دبے الفاظوں میں انھیں یاد دلاتا کہ وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کی قید لگی ہوئی تھی اور یہ قید تو قسم کے ساتھ بھی لگ جائے تو بندہ حانث نہیں ہوتا۔ وہ کہتے کہ ہاں، فقہاء کو یہ حیلہ آتا ہے کہ جو کام نہ کرنا ہو تو اسے اللہ کی مشیئت سے مشروط کردیں۔
جب قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے مجھ سے اپنے اس خواہش کا تذکرہ کیاکہ وہ چیف جسٹس بنیں تو میں ان کے ساتھ سپریم کورٹ میں معاونت کےلیے باقاعدہ ذمہ داری قبول کروں، تو جن چار بزرگوں سے میں نے رہنمائی لی، ان میں ایک غزالی صاحب تھے (باقی تین میں ایک میرے والد گرامی تھے، دوسرے استاذ گرامی پروفیسر عمران احسن خان نیازی اور تیسرے استاذ گرامی پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز)۔ اس موقع پر غزالی صاحب نے بہت تفصیلی رہنمائی دی، سپریم کورٹ میں کام کے مواقع اور وہاں ممکنہ مسائل کے متعلق بھرپور آگاہی بھی دی اور اس پہلو پر خصوصی تاکید کی کہ کام کی نوعیت ایسی ہو جو آپ کے علمی مقام کے مناسب ہو۔
غزالی صاحب نے کئی بار اس خواہش کا اظہار کیا کہ استاذِ گرامی پروفیسر نیازی سے تفصیلی نشست ہو۔ نیازی صاحب نے عرصہ ہوا گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ غزالی صاحب نے ایک آدھ دفعہ ان سے فون پر بات کی اور دو تین دفعہ مجھے کہا کہ ان کے گھر چلتے ہیں، بلکہ ایک دفعہ یہ بھی کہا کہ نیازی صاحب کی پسندیدہ نمکین مٹن کڑاہی اور تکہ بنا کر چلتے ہیں، لیکن وہ جو شکیل بدایونی نے کہا تھا کہ مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں، کبھی تم نہیں، والا معاملہ تھا۔ سو یہ ملاقات نہ ہوسکی۔ وہ نیازی صاحب کی فقاہت کے بھی قائل تھے اور خصوصاً تراث کی فقہی کتب کے تراجم کے متعلق ان کی صلاحیت کے معترف تھے۔ (نیازی صاحب نے بدایۃ المجتہد، کتاب الاموال، موافقات اور ہدایہ کے علاوہ مبسوط اور بدائع الصنائع کے کئی ابواب کے انگریزی تراجم کیے ہیں۔) غزالی صاحب کی خواہش تھی کہ وہ خود بھی فقہ کی کسی مختصر مگر جامع کتاب کا انگریزی ترجمہ کریں۔ مجھ سے انھوں نے کتاب تجویز کرنے کےلیے کہا، تو میں نے انھیں امام محمد کی الجامع الصغیر کا مشورہ دیا اور عرض کیا کہ حضرت عبد الحی لکھنوی کی شرح کے ساتھ جو متن ملتا ہے، اسی کو مد نظر رکھنا بہتر ہوگا۔ ہمارے شاگردِ رشید مولانا محمد رفیق شینواری نے فوراً ہی اس کے دو نسخے مہیا کیے، ایک ان کےلیے اور ایک میرے لیے۔ (بعد میں شینواری صاحب نے امام سرخسی کی شرح الجامع الصغیر بھی مجھے تحفہ کی۔ شینواری صاحب عام مولویوں سے مختلف ہیں کیونکہ وہ صرف لینے پر یقین نہیں رکھتے بلکہ دینا بھی جانتے ہیں اور انھوں نے اور بھی کتب کے تحفے دیے ہیں۔ ) بہرحال غزالی صاحب نے اس کا آغاز تو کیا، لیکن کچھ عرصے بعد مجھے کہا کہ بہت کوشش کی، پر طبیعت ادھر نہیں آتی! چنانچہ یہ کام ادھورا ہی رہ گیا۔
سوشیالوجی آف اسلام
غزالی صاحب فقہی جزئیات کے بجاے شریعت کی کلیات میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور اس کا ایک خوبصورت مظہر ان کی کتاب سوشیالوجی آف اسلام کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا، غزالی صاحب برسوں سوشل سائنسز پڑھاتے رہے۔ ان علوم کے متعلق ان کا ایک سوچا سمجھا موقف تھا جسے وہ شاگردوں کی کئی نسلوں تک منتقل کرتے رہے۔ ان کی تحریرات، خصوصاً شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغہ کے منتخب ابواب کے انگریزی ترجمے اور اس پر ان کی تحقیق، میں اس کی بہترین توضیح ملتی ہے، لیکن آخری عمر میں انھوں نے خصوصاً سوشیالوجی آف اسلام لکھ کر ایک جامع کتاب لکھی جو محققین کےلیے بھی مفید چیز ہے اور نصابی کتاب کا کردار بھی ادا کرسکتی ہے۔
یہ کتاب انھوں نے مجھے تحفہ کی، تو میں پکار اٹھا: ذَٰلِكَ مَا كُنَّا نَبۡغِ ! پھر انھیں بتایا کہ کچھ عرصہ قبل اسلامی یونیورسٹی کے اکیڈمک کونسل میں بی ایس سوشیالوجی کے چار سالہ پروگرام کا نصاب منظوری کےلیے پیش کیا گیا۔ یہ نصاب سوشیالوجی کے شعبے کے بورڈ اور سوشل سائنسز کی فیکلٹی کے بورڈ سے منظور کیا جاچکا تھا اور اب حتمی منظوری کےلیے اکیڈمک کونسل میں پیش کیا گیا۔ وہاں سے بھی تقریباً منظور ہو ہی چکا ہوتا، اگر میں نے اس پر اعتراض نہ کیا ہوتا۔ میرا اعتراض یہ تھا کہ اس نصاب میں اور کسی بھی دیگر یونیورسٹی کے نصاب میں فرق کیا ہے؟ یہی نصاب پڑھانا تھا، تو اسلامی یونیورسٹی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ (شکر ہے کسی نے ابن انشا کے انداز میں یہ نہیں کہا، کہ غلطی ہوگئی، آئندہ نہیں بنائیں گے۔) چار سالہ نصاب میں صرف دو مقامات پر بس ابن خلدون کا نام نظر آیا ہے۔ کیا یہی علوم کی اسلامیت کی معراج ہے؟ میرے اعتراض کے بعد اکیڈمک کونسل نے اس نصاب کی منظوری مؤخر کردی اور پھر ایک خصوصی کمیٹی بنائی جس میں مجھے بھی شامل کیا گیا۔ (یہ الگ بات ہے کہ اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ کم از کم اس وقت تک تو نہیں ہوئی جب تک میں اسلامی یونیورسٹی میں موجود رہا۔) غزالی صاحب یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بہت داد دی۔ غزالی صاحب کی یہ کتاب اس موضوع پر پائے جانے والے خلا کو بہت خوبصورتی اور عمدگی سے پر کرتی ہے۔
غزالی صاحب کے ساتھ دسمبر میں ہی جو آخری بالمشافہ ملاقات ہوئی اس میں بھی اس کتاب کا تذکرہ آیا۔ اس دن غزالی صاحب سپریم کورٹ تشریف لائے تھے۔ میں ایک اہم مقدمے کی سماعت کی وجہ سے کورٹ روم نمبر 1 میں چیف جسٹس کی معاونت کےلیے بیٹھا تھا۔ وقفے میں دفتر آیا، تو پی اے نے بتایا کہ ڈاکٹر غزالی صاحب آئے تھے اور آپ کا پوچھ رہے تھے۔ میں نے ان سے رابطے کی کوشش کی لیکن بات نہیں ہوسکی۔ میں نے دوبارہ کورٹ میں جاتے ہوئے اپنے پی اے سے کہا کہ غزالی صاحب میرے بہت ہی محترم استاذ ہیں، ان سے رابطے کی کوشش جاری رکھیے اور رابطہ ہو، تو ان کی خدمت میں میری جانب سے معذرت پیش کرکے انھیں بتائیے کہ اس مقدمے کی وجہ سے میرا کورٹ میں بیٹھنا مجبوری ہے اور میں فارغ ہوتے ہی ان سے رابطہ کروں گا۔ میں دوسرے وقفے میں دفتر آیا، تو انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ غزالی صاحب وہیں تشریف فرما تھے اور ایک چٹ پر کچھ لکھ رہے تھے۔ مجھے دیکھا تو اٹھے اور گلے سے لگاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کےلیے پیغام چھوڑ رہا تھا لیکن اچھا ہوا کہ آپ سے ملاقات ہوگئی۔ کچھ دیر بیٹھے رہے اور چند نصیحتوں اور تنبیہات سے نوازنے کے بعد چل پڑے۔ میں انھیں گاڑی تک چھوڑنے آیا، تو راستے میں سوشیالوجی آف اسلام کا تذکرہ آیا اور انھوں نے پوچھا کہ بھائی مراد علی نے اس کتاب کی اشاعت میں دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن وہ بھی شاید آپ کی طرح وعدے کے ساتھ ان شاء اللہ کی قید لگاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں مراد کے کان کھینچوں گا اور وہ فوراً ہی آپ سے رابطہ کرے گا۔ (وہ مراد کی بہت تعریف کرتے تھے اور ایک دفعہ فرمایا کہ صالحیت اور صلاحیت کا اجتماع بہت کم لوگوں میں نظر آیا ہے اور یہ نوجوان بھی ان لوگوں میں ہے۔) انھوں نے کہا کہ اس دن قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے اچانک ہی اس طرف دھیان گیا کہ نظریۂ علم کی حیثیت سے تجربیت (Empiricism) کو تو ہمیشہ انبیاے کرام کے معاندین نے پیش کیا ہے، اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی: وَكَذَٰلِكَ مَآ أَرۡسَلۡنَا مِن قَبۡلِكَ فِي قَرۡيَةٖ مِّن نَّذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتۡرَفُوهَآ إِنَّا وَجَدۡنَآ ءَابَآءَنَا عَلَىٰٓ أُمَّةٖ وَإِنَّا عَلَىٰٓ ءَاثَٰرِهِم مُّقۡتَدُونَ۔ پھر فرمایا کہ مذکورہ کتاب میں تجربیت کی بحث پڑھ کر اس آیت سے میرے استدلال کے متعلق بتائیے گا کہ کیا آپ اس سے مطمئن ہیں یا نہیں؟ پھر انھوں نے اپنے استدلال کی مختصر وضاحت کی اور کہا کہ تفصیلی بحث کےلیے گھر پر تشریف لائیے گا۔ معلوم نہیں تھا کہ اس کے بعد ان سے ملاقات ان کے جنازے میں ہی ہوگی!
فلسطین کا دکھ
اس ملاقات کے بعد ان سے فون پر تو رابطہ رہا اور تقریباً روزانہ ہی ان کی جانب سے ایسا پیغام ملتا جس میں وہ فلسطین کے متعلق اپنے دلی دکھ کا اظہار کرتے اور پھر اس دوران میں چونکہ اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ بھی آئی، تو انھوں نے اس سلسلے میں تفصیلی پیغامات دیے۔
اکتوبر سے دسمبر تک ڈھائی مہینوں میں غزالی صاحب کے اکثر پیغامات کا تعلق فلسطینیوں کے قتلِ عام ، ان کے جہاد اور امت کی اس ضمن میں ذمہ داریوں کے متعلق تھے۔فلسطین میں مظالم نے انھیں بہت زیادہ دکھی کردیا تھا اور وہ مسلسل اس کے متعلق پریشانی میں مبتلا رہے۔ دوسرا دکھ مقامی تھا اور وہ بھی بہت گہرا تھا۔ یہ دکھ اسلامی یونیورسٹی کی بربادی کا تھا۔
اسلامی یونیورسٹی کی بربادی کا دکھ
وہ یونیورسٹی جس کی بنیادوں میں ان کا خونِ جگر تھا، جس کی خدمت میں انھوں نے زندگی صرف کی تھی، وہ پچھلے چند برسوں میں جس طرح بربادی کا شکار ہوئی، اس کا ان کو بہت صدمہ تھا۔ جب بھی ان سے ملاقات ہوئی، انھیں یونیورسٹی ہی کی فکر میں سرگرداں پایا۔ اس ضمن میں بارہا انھوں نے چانسلر ڈاکٹر عارف علوی، صدرِ پاکستان، کو پیغامات بھیجے، ان کی توجہ کئی امور کی طرف دلائی، لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ علوی صاحب سے سخت مایوس ہوئے تھے۔ اسی طرح انھوں نے سعودی عرب میں پرو چانسلر اور دیگر عہدیداروں کو بھی بارہا متوجہ کیا۔ پھر جب انھیں معلوم ہوا کہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد پہلے قائدِ اعظم یونیورسٹی اور پھر اسلامی یونیورسٹی کے مسائل کی طرف توجہ کی ہے اور ان کے بورڈز کی میٹنگ بلانے کےلیے کہا ہے، تو انھیں بہت خوشی ہوئی۔ انھوں نے چیف جسٹس کے نام طویل پیغام میں یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد اور یہاں موجود امکانات پر بھی تفصیلی رہنمائی دی اور ساتھ ہی یہاں کے مسائل کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کے تدارک اور آگے بہتری کےلیے کئی تجاویز بھی دیں۔ مجھ سے بھی وہ مسلسل رابطے میں رہے اور کئی پیغامات جو انھوں نے مختلف اعلی عہدیداران کو بھیجے تھے، مجھے بھی بھیجے۔ ایسے ہی ایک پیغام میں، جو 11 دسمبر کو بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ سے ایک دن قبل انھوں نے بھیجا، اس میں لکھا:
"نئے قاضی القضات صاحب کی بار بار یاد دہانی اور تقاضوں سے مجبور ہو کر جامعہ کے اعلی ترین فیصلہ ساز فورم کا اجلاس پیر 11 دسمبر 2023 کو ایوان صدر میں بلایا گیا ہے ۔اب دیکھیں کہیں یہ یہ دسمبر بھی ایک اور شرمناک سرینڈر کا پیش خیمہ نہ ثابت ہو جب 16 دسمبر 1971 کی ایک منحوس صبح کو چشم فلک نے ہماری افواج کا کا ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنا دیکھا اور شرم سے منہ موڑ لیا،لگتا ہے اسی دلخراش اور شرمناک بزدلی کی شکست مان لینے کا خمیازہ ابھی تک پاکستان بھگت رہا ہے، وہ سرینڈر ایک جغرافیائی حصہ سے دستبرداری تھی۔ اگر خدانخواستہ آنے والے کل 11 دسمبر 2023 کو بھی اسی ہزیمت اور شکست خوردہ رویہ کو باقی رکھا گیا تو یہ دشمنان اسلام کی ایک اور بڑی فتح ہوگی وہ دشمنان اسلام و انسانیت جن کی صفیں اب کچھ عرصہ سے بکھرتی نظر آرہی ہیں (خاص طور پر 7 اکتوبر کے مجاہدانہ اقدام اور تاریخ کی سب سے سنگین نسل کشی کے بعد) اللہ تعالی کی فیصلہ کن تقدیر سے دشمنانِ اسلام اور انسانیت کی سب تدبیریں الٹتی نظر آرہی ہیں اور 63 دن سے دنیا دیکھ رہی ہے اور سن رہی ہے کہ اعداء اللہ اور اولیاء الشیطان کی سانسیں اکھڑ رہی ہیں ۔۔۔"
یہ پیغام جو انھوں نے خود وھاٹس ایپ پر لکھا تھا، اے فور سائز کے 8 صفحات پر آتا ہے۔ سوچیے کہ اس ایک پیغام کے لکھنے میں انھوں نے کتنا خونِ دل صرف کیا ہوگا! یہ پیغام ایک عظیم الشان دستاویز ہے اور اسے اسلامی یونیورسٹی کے ریکارڈ کا باقاعدہ حصہ بننا چاہیے۔ اس میں انھوں نے نہ صرف یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد کی وضاحت کی ہے، بلکہ اس کی بربادی کے ذمہ داران کا سراغ بھی دیا ہے اور اس کی اصلاح کےلیے لائحۂ عمل بھی تجویز کیا ہے۔ مثلاً فرماتے ہیں:
"یہ جامعہ اسلامیہ عالمیہ، علوم اسلامیہ کے ایسے ماہرین کی ایک جماعت تیار کرنے کے لئے قائم کی گئی تھی جو مشرق و مغرب میں اسلام کا روشن انقلابی اور حیات بخش پیغام عالم انسانیت کو ان کی زبان میں پہنچانے کا عظیم فریضہ ، جو شہادت حق کا فریضہ ہے اور امت کے اصل مقصد کو قرآن کریم میں بیان کرتا ہے اس مقدس فریضہ کو انجام دے ۔ یہی اس ملت اسلامیہ کا نصب العین ہے اور اسی عمل کی وجہ سے یہ امت بطور عالمگیر تہذیب و تمدن و ثقافت کے خیر امت قرار دی گئی ہے ۔اس ادارہ کا بنیادی تصور کچھ حضرات کے ذہن میں پہلے سے تھا،جیسے علامہ اقبال رحمہ اللہ ، قائد اعظم رحمہ اللہ اور ایک مرد مؤمن شہید وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم کے سامنے تھا جب انہوں نے تاریخی قراداد مقاصد پارلیمان سے منظور کروائی۔"
آگے اس یونیورسٹی کے اغراض و مقاصد کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
"اسی اعلی مقصد (انسانیت کے سامنے اسلام کے ابدی پیغام کی ٹھوس علمی،فکری اور تہذیبی بنیادوں پر گواہی اور دعوت دینے کا مقصد) کے لیے اس عظیم ادارہ کا قیام 15 ویں صدی ہجری کے آغاز میں کیا گیا، اسی اعلی اور ارفع نصب العین کے لئے یہ بنیادی اصول مقرر کیے گئے: 1۔یہ جامعہ علوم اسلامیہ ساری امت مسلمہ کے لئے کام کرے گی۔ 2۔اس جامعہ اسلامیہ عالمیہ میں تمام اسلامی دنیا سے بہترین اور اپنے میدان میں مانے ہوئے اساتذہ لائے جائیں گے اور اس طرح یہاں اس امت مسلمہ کے جوہر قابل جمع کیے جائیں گے، یہاں کے اساتذہ اور طلبہ میں مقامی عنصر مغلوب اور امت مسلمہ کا حصہ غالب رکھا جائے گا اور کبھی 50 % سے زیادہ اساتذہ اور طلبہ میں مقامی عنصر نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ 3۔ اس جامعہ علوم اسلامیہ میں علم کو خرید وفروخت کے لئےتقسیم کبھی نہیں کیا جائے گا بلکہ ساری دنیا سے قابل ترین طلبہ کا اعلی معیار پر انتخاب کیا جائے گا،ان کو وظائف دے کر عزت و تکریم کے ساتھ لایا اور رکھا جائے ،یہ ملک اپنے وسائل ان بہترین طلبہ اور اعلی پایہ کے اساتذہ اور محققین کی خدمت کے لئے وقف کردے گا۔ 4۔یہاں ہر طالب علم کو 60 % اسلامی علوم و فنون میں مہارت کے لئے تربیت دی جائے گی اور 40 % فی صد ضروری اور مفید عصری علوم و فنون کی تعلیم دی جائے گی ۔یہی وجہ ہے کہ یہاں روز اول سے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بیک وقت پڑھانے کا اہتمام کیا گیا ۔"
اس کے بعد انھوں نے جامعہ کے چند نامی گرامی اساتذہ کا ذکر کیا، جو مختلف اسلامی ممالک سے یہاں پڑھانے کےلیے آئے:
" واقعہ یہ ہے کہ اس جامعہ کے ابتدائی سالوں میں بڑی حد تک اعلی معیار تعلیم و تحقیق کو قائم رکھا گیا۔اساتذہ میں بہت سے انمول ہیرے جواہر یہاں لائے گئے۔ان میں عالم اسلام کے معروف اور معتبر ترین حضرات شامل تھے،مثال کے طور پر یہاں محمد قطب (مشہور مفسر سید قطب شہید کے بھائی )شعبہ تعلیم وتربیت میں پڑھاتے رہے،اس شعبہ کا ابتدائی مقصد اسی جامعہ کے آئندہ کام آنے والے اساتذہ اور محققین کی تیاری تھی ،بعد میں اس کے تربیت یافتہ فاضل سکالر دیگر جامعات عالم میں خود اپنی جگہ پالیتے۔محمد قطب کے علاوہ اس وقت موجود عالم اسلام کے معروف اور بے نظیر عالم،مفکر،فقیہ اور فلسفی ڈاکٹر حسن الشافعی صاحب مدظلہ اور موجودہ شیخ الازھر ڈاکٹر محمد الطیب،سوڈان کے مشہور فاضل سکالر پروفیسر طیب زین العابدین، مصر کے اسلامی معاشیات کے معروف ماہر پروفیسر عبد الرحمن یسری،سوڈان کے مشہور و معروف ماہر نفسیات پروفیسر مالک بدری مرحوم ( صدر عالمی اسلامی اتحاد ماہرین نفسیات ) شامل ہیں ۔"
پھر یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نامی گرامی طلبہ کا ذکر کیا جو مختلف اسلامی ممالک میں اہم عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ اس کے بعد فساد کی جڑ کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا:
"اس جامعہ علوم اسلامیہ میں جو در حقیقت پاکستان کی واحد SPECIALIZED UNIVERSITY تھی اس میں علوم اسلامیہ کی مرکزی حیثیت کو رفتہ رفتہ ختم کیا گیا ،یہ کام خائن ،خائب وخاسر جابر پرویز کے دور حکومت ( 2008- 1999) میں شروع کیا گیا اور دھیرے دھیرے اور دبے پاؤں اس جامعہ کو سیکولرائز اور کمرشلائز کردیا گیا، تھوک کے حساب سے نئے نئے شعبے صرف سیکولر میدانوں میں کھلتے چلے گئے، چاہے اس میں مطلوبہ قابلیت کے اساتذہ اور محققین میسر ہوں یا نہ ہوں ۔ اشتہار بازی کے ذریعہ مقامی طلبہ کو رفتہ رفتہ بغیر کسی قابلیت کے امتحان کے دھڑا دھڑ بھرتی کرلیا گیا اور سالانہ فیسوں میں اربوں روپے جمع کیے جانے لگے ۔ گیا ،علوم اسلامیہ کے شعبے سمٹتے چلے گئے، یا لپیٹ کر رکھ دیے گئے ۔"
اس کے بعد ان اساتذہ کا ذکر کیا ہے جنھوں نے اس یونیورسٹی کےلیے زندگیاں وقف کیں لیکن یہاں کے ناقدروں نے انھیں یہاں سے جانے پر مجبور کیا اور پھر وہ جہاں گئے وہاں کے لوگوں نے ان کی قدر شناسی کرتے ہوئے ان کے علم سے فائدہ اٹھایا۔ اس کے بعد بورڈ آف ٹرسٹیز کے اجلاس کی مناسبت سے اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ کیسے اس اعلی سطحی بورڈ کو، جو امت کی نمائندگی کرتا تھا، یکسر مفلوج کرکے رکھ دیا گیا ہے:
"بورڈ آف ٹرسٹیز جو اس ثمر بار گلشن بہار کا محافظ اور نگراں تھا اور جس میں از روئے دستور و قانون تمام امت مسلمہ کے ممتاز ترین مفکرین اور قائدین فکر و دانش کی موجودگی لازمی قرار دی گئی تھی اب اس سیاہ تاریک طویل رات میں( خاص طور پر سعودی قبضہ غاصبانہ کے بعد از 2012 تا 2023) اس گلشن بہار بے خار کو بلبلوں سے چھین کر کرگسوں کے حوالے کیا جاچکا ہے یعنی اب عالم اسلام کے معروف اور معتبر اہل علم و فضل کو اس اعلی مجلس سے باہر کردیا گیا اور یہ اعلی محفل کب کی برباد کردی گئی ہے اب خلیجی تیلیوں اور ان کے طفیلیوں کا یہاں ڈیرہ لگا ہوا ہے ۔ان ہی کی اکثریت اب غالب ہے اور سنا ہے کہ اگر کبھی کوئی بولا تو جارج آرویل کے انیمل فارم کی طرح کچھ "خنازیرو عبدة الطاغوت" اس پر فوراً غرانے لگتے ہیں ۔"
آگے انھوں نے تفصیلی لائحۂ عمل تجویز کیا ہے جس میں ایک نکتہ یہ ذکر کیا:
"صدر جامعہ، تمام نائب صدر،ڈین ،ڈائریکٹر جنرل ، ڈائریکٹر، اور صدر ہائے شعبہ فی الفور برخواست کردیے جائیں اور فورا ایک اور ذیلی مجلس اہل علم و دانش کی تشکیل دے کر ایک نئی بہترین visionary ٹیم کو ذمہ داریاں سونپ دی جائیں اور کوئی کام رکنے نہ پائے ۔"
ایک اور اہم نکتہ انھوں نے یہ ذکر کیا:
"جامعہ علوم اسلامیہ میں ہوش ربا فیسوں کا فورا مکمل خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے بہ عجلت ضروری فنڈ مہیا کردئے جائیں اور عہد نو کا آغاز کردیا جائے۔اگر کام ہوتا نظر آئے گا تو دنیا میں اہل خیر کی کمی نہیں وہ خود آگے آکر ان شاء اللہ العزیز اس اس ادارہ کو طلبہ سے پیسے اینٹھنے کی ذلت و رسوائی سے بچائے رکھے گا اور جامعہ واقعی عملا امت مسلمہ کے لئے قابل فخر منصوبہ مستقبل سازی کا مقام حاصل کرکے رہے گی۔"
الحمد للہ، 11 دسمبر کو بورڈ آف ٹرسٹیز کی میٹنگ ہوئی تو اس میں عزت مآب چیف جسٹس نے تقریباً انھی نکات پر بات کی جس کے نتیجے میں بورڈ نے اسلامی یونیورسٹی کو فسادیوں کے ٹولے کے قبضے سے چھڑانے کےلیے چند بہت ہی اہم فیصلے کیے اور، ان شاء اللہ، اس کے اثرات جلد ہی سامنے آئیں گے۔ اسی رات میں نے غزالی صاحب کو مختصر پیغام بھیج کر انھیں خوش خبری دی کہ اسلامی یونیورسٹی کو بربادی سے بچانے کےلیے جو اقدامات انھوں نے تجویز کیے تھے، تقریباً ان سب کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ میرا خیال تھا کہ رات گئے انھیں تنگ کرنا مناسب نہیں ہوگا، اس لیے کال کرنے کے بجاے مختصر پیغام دیا اور کہا کہ صبح آپ سے تفصیلی بات کروں گا۔ ان کا فوراً ہی جواب آیا:
“Thank you brother for the update. I will lose my night sleep if the details are not shared NOW. PLEASE DON'T DELAY.”
میں ابھی پیغام پڑھ ہی رہا تھا کہ ان کی کال آئی اور پھر تقریباً آدھا گھنٹہ ان کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ انھوں نے ایک ایک بات کی تفصیل پوچھی اور پھر بہت زیادہ اطمینان کا اظہار کیا۔ بار بار الحمد للہ کہتے رہے۔ پھر کہا کہ اب میں سکون سے سو سکوں گا۔
اس کے ایک ہفتے بعد ہی ان کا انتقا ل ہوا!
اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو، ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنا دے اور ان کو اعلی علیین میں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی معیت عطا فرمائے!
ڈاکٹر محمد الغزالیؒ
محمد آصف محمود ایڈووکیٹ
ہمارے استاد، سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ کے جج، جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی بھی اللہ کے حضور پہنچ گئے۔ جو ڈاکٹر محمد الغزالی کو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں میں کس بندہ آزاد کا نوحہ لکھ رہا ہوں۔ جو نہیں جانتے وہ البتہ کبھی جان ہی نہیں پائیں گے کہ یہ کیسا عالی مرتبت انسان تھا جواس دنیا سے اٹھ گیا۔ڈاکٹر غزالی پر لکھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے۔یہ ایک کوہ کنی ہے اور ہم جیسوں میں کوئی فرہاد نہیں۔
مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں ڈاکٹر غزالی کا شاگرد تھا۔ ایم اے انگریزی کی کلاس میں انہوں نے ہمیں ّ اسلام اور جدید مغربی فکرْ کا مضمون پڑھایا تھا۔ ہم حیران اور بے زار سے تھے کہ انگریزی ادب کی کلاس میں یہ مضمون کہاں سے آ یا۔ پھر ایک دن شام ڈھل چکی تھی تو ڈاکٹر غزالی کلاس لینے آئے۔ ہم جو ان دنوں انگریزی ادب کی Love at first sight پر مضامین باندھا کرتے تھے ، ان سے پہلی ہی کلاس میں ایسے مرعوب ہوئے کہ آج ستائیس بعد دل کو ٹٹولتا ہوں تو اسی مرعوبیت کے حصار میں پاتا ہوں۔
جسٹس غزالی پر لکھنا کم از کم میرے بس کی بات نہیں۔ مرعوبیت سے قلم بھاری ہو جاتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے سارے رنگ اور کتابوں میں رہ جاے والا عالم دین کا سارا بانکپن وہ ساتھ لیے پھرتے تھے۔
مناصب سے بے نیاز ، عجب سی شان بے نیازی تھی ۔ تصنع نہیں تھا مگر تہذہبی رچاؤ میں ڈوبا رکھ رکھاؤ تھا ۔ تند خو نہ تھے مگر رعب ایسا تھا کہ ان کے سامنے بڑوں بڑوں کی قوت گویائی سلب ہو جاتی تھی، غلطی پر ٹوکتے تھے اور سر محفل ٹوکتے تھے ، سامنے جتنا بڑا صاحب منصب ہوتا تھا اسی شدت سے ٹوکتے تھے ، ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے تھے جیسے صحرا کی وسعتیں پر پوری رات کا چاند دھیرے دھیرے اتر جائے۔
میں انہیں دیکھ کر سوچا کرتا تھا اگر زوال کے اس عہد میں ایک عالم کی وجاہت اور شان یہ ہے تو مسلمانوں کے دور عروج میں کیا ہوتی ہو گی۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ ڈاکٹر غزالی جیسا کوئی نہ تھا۔ ایک فرد نہیں وہ ایک پوری تہذیب تھے۔ مسلمانوں کی فکری اور سماجی وجاہت ان میں مجسم تھی۔ سیدنا مسیح کے الفاظ مستعار لوں ڈاکٹر محمد الغزالی اس زمین کا نمک تھے۔
جنازہ پڑھا جا چکا تو یادوں کی سمت دریچے کھل گئے۔ ایک شام افتخار اور میں نے کلاس بنک کی۔ نیف ڈیک سینیما ان دنوں آباد ہوا کرتا تھااور یہاں رونقیں ہوتی تھیں۔ سات بجے فلم کا شو شروع ہوتا تھا۔ ہم یونیورسٹی سے نکلے ہی تھے کہ ایک کار ہمارے پاس آ کر رک گئی۔ اسے ڈاکٹرصاحب ڈرائیو کر رہے تھے۔ شیشہ نیچے کر کے انہوں نے شفقت بھرے مگر انتہائی بارعب لہجے میں حکم دیا: بیٹھ جائیے۔
ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔
کہاں جا رہے ہیں؟
ایک تو کلاس بنک کی تھی اور پکڑے گئے۔ اوپر سے پکڑے بھی غزالی صاحب کے ہاتھوں گئے۔ ہوش تو پہلے ہی ٹھکانے نہ تھے، اب اچانک سوال ہوا توہم گڑ بڑا گئے۔ دونوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔ میں نے کہا، سر آب پارہ جا رہے ہیں اور افتخار نے کہا، سر ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مسکرائے، گھڑی کو دیکھا اور کہنے لگے: اچھا، آپ آب پارہ جا رہے ہیں اور آپ ہاسٹل ون جا رہے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں آپ کو نیف ڈیک اتار دیتا ہوں، وقت پہلے ہی کم ہے، آپ کو تاخیر نہ ہو جائے۔
چوری پکڑی جا چکی تھی، پسینے چھوٹ چکے تھے۔ میں نے کہا سر توبہ توبہ، نیف ڈیک کیا کرنا ہے ہم نے۔ ہم تو آب پارہ اور پھر ہاسٹل جا رہے ہیں۔لیکن غزالی صاحب کے سامنے سچ بولنا بھی آسان کام نہ تھا تو ڈھنگ سے جھوٹ کون بول سکتا تھا۔
گاڑی میں مکمل خاموشی رہی۔ اور پھر نیف ڈیک کے سامنے جا کر گاڑی رک گئی۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے۔ جلدی سے اتر جائیے، وقت کم ہے۔ یہاں سے آب پارہ بھی نزدیک ہے اور ہاسٹل ون بھی۔
بائیس سال بعد ایک روز کالم میں، میں نے یہ واقعہ لکھا تو مجھے ایک کال آئی۔ بھائی آصف، میں محمد الغزالی بول رہا ہوں۔ یہ دو عشروں بعد ڈاکٹر صاحب سے میرا پہلا رابطہ تھا۔
یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد ان ڈھائی عشروں میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میرا دو تین بار ہی رابطہ ہو سکا۔ آخری رابطہ ان کے انتقال سے چند دن پہلے ہوا۔ جن ان کے انتقال کی خبر سنی تو ان کانمبر ڈائل کرنے لگا ، دیکھا تو وہاں ان کا ایک واٹس ایپ میسج پڑا تھا جو میں ابھی دیکھ ہی نہیں سکاتھا۔ لکھا تھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟۔۔۔۔۔۔ میں عام حالات میں، ہر گز یہ واقعہ نہ لکھتا لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا ڈاکٹر صاحب کے انتقال سے گہرا تعلق ہے اس لیے یہ واقعہ لکھ رہا ہوں۔
واقعہ یوں ہے کہ چند روز پہلے ان کا فون آیا۔ میں اس وقت ٹاک شو کرنے سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ کہنے لگے: میں آپ کے لاء آفس کے نیچے کھڑا ہوں، باہر آئیے۔ میں نے عرض کی کہ سر میں اس وقت سٹوڈیو میں ہوں آپ حکم کریں میں شو کے بعد حاضر ہو جاتا ہوں۔ حکم ملا: شو کیجیے، اس کے بعد مجھے فون کیجیے۔
میں سارا پروگرا م یہی سوچتا رہا کہ اللہ خیر کرے، جسٹس صاحب نے یہ زحمت کیوں کی۔ میں نے شروع میں عرض کی کہ جو غزالی صاحب کو جانتے ہیں وہی جانتے ہیں وہ کس مزاج کے آدمی تھے۔ میری موجودگی میں انہوں نے صدر پاکستان کی دعوت رد کر دی تھی کہ اور کہا تھا کہ مغرب کے بعد وہ گھر سے نہیں نکلتے، ( تب شائد ان کی والد علیل تھیں) صدر صاحب نے ملنا ہے تو یہ ملاقات دن میں رکھا کریں۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے عرض کی سر صدر پاکستان وقت طے کر چکے ہیں، آپ پلیز تشریف لے جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا: صدر صاحب کے آفس کو ہم سے پوچھ کر وقت طے کرنا چاہیے تھا اور ملاقات کی خواہش ہم نے نہیں کی صدرمحترم نے کی ہے تو انہیں ہماری مصروفیات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نہیں جا سکتے۔
اب ڈاکٹر غزالی اچانک، عشاء کے بعد، دفتر کے باہر کھڑے تھے تو وجہ کیا تھی۔میں نے پریشان ہوکر پروگرام کے فورا بعد، انہیں فون کیا تو وہ شدید پریشان تھے۔ اذیت میں تھے۔
کہنے لگے: آپ کو معلوم ہے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں کیا ہو رہا ہے؟
عرض کی کچھ کچھ معلوم ہے۔
کہنے لگے میں آپ کو تفصیل بھیج رہا ہوں اسے پڑھیے۔
ان کا واٹس ایپ ملا۔ میں نے پڑھا، یہ حیران کن اور تکلیف دہ حد تک اذیت ناک معلومات تھیں۔میں نے پڑھ کر پھر فون کیا۔ کہنے لگے کیا یہ چیزیں آپ کے علم میں تھیں؟ میں نے عرض کی کہ کچھ کچھ علم میں تھیں کچھ کا علم نہیں تھا۔ کہنے لگے: اگر آپ کے علم میں ہیں تو کیا میں آپ کی خاموشی کاسبب جان سکتا ہوں؟ میں نے کہا سر میں سمجھا نہیں۔ کہنے لگے آپ کے اور ہمارے سامنے ہماری یونیورسٹی، ہمارا ادار ہ جو امت مسلمہ کی فکری امانت ہے وہ تباہ ہو رہا ہے، اور آپ خاموش ہیں ۔ آپ کیون خاموش ہیں؟ آپ اس پر کم از کم ایک کالم تو لکھیں۔
میں نے ان سے وعد ہ کر لیا کہ ضرور لکھوں گا۔ مجھے معلومات کو کالم کی شکل میں مرتب کرتے تین دن لگ گئے اور ان تین دنوں میں ہر صبح ان کا پیغام آتا،بھائی آصف کالم کہاں ہے؟وہ شاید صبح اخبار دیکھتے اورکالم نہ پا کر مجھے واٹس ایپ کرتے۔
ان کا آخری میسج ان کے انتقال کے بعد میں نے پڑھا: بھائی آصف کہاں ہے آپ کا کالم؟
جسٹس صاحب کے جنازے میں بتایا جا رہا تھا کہ ان کی موت کی وجہ ہارٹ اٹیک ہے۔ میں کھڑا سوچتا رہاکہ کیا اس ہارٹ اٹیک کی بھی کوئی وجہ تھی؟ میرے خیال میں اس کی دو وجوہات تھیں۔ وہ فلسطین پر بہت دکھی تھے اور اسلامی یونیورسٹی کے معااملات نے ان کی روح کو گھائل کر دیا تھا۔
ان کے آخری ایام کے واٹس ایپ میسج میرے پاس امانت ہیں، یونیورسٹی بی او ٹی، صدر پاکستان یا جناب چیف جسٹس چاہیں تو یہ ان کی خدمت میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ذاتی پیغام رسانی تھی، اسے عام حالات میں سامنے نہیں لانا چاہیے تھا لیکن میں سمجھتا ہوں جس معاملے کی اذیت نے جسٹس صاحب کوزندگی کے آخری دنوں میں تکلیف دیے رکھی اس اذیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
یونیورسٹی کے معاملات سیدھے ہو جائیں تو ڈاکٹر محمد الغزالی کی روح کو شاید اس سے کچھ تسکین ملے۔ و ہ ا س جامعہ کے لیے اپنے آخری دنوں میں شدید دکھی تھے۔
اسلامی یونیورسٹی میں اصلاح احوال جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی کا ان کے شاگردوں اور دوستوں پر قرض ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ترکش)
ڈاکٹر محمد الغزالیؒ
مراد علی
ڈاکٹر محمد الغزالی کا پہلا تعارف ڈاکٹر محمود احمد غازی کے برادر خورد کے طور پر ہوا تھا، یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی اسلام آباد وارد نہیں ہوئے۔ 2015ء میں اسلامی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد دوسرے ماہ، اپریل کے مہینے میں شریعہ اکیڈمی میں جہاد کے موضوع پر دو روزہ ورک شاپ تھا، جس میں پہلے دن کا ایک سیشن غزالی صاحب چیئر کر رہے تھے یہی ان کی پہلی براہ راست زیارت تھی۔
اس وقت آپ ادارہ تحقیقات اسلامی میں پروفیسر اور سہ ماہی عربی مجلے “الدراسات الاسلامیہ” کے مدیر تھے۔ یونی ورسٹی کے اولڈ کیمپس لائبریری مستقل جانا ہوتا تھا، ایک عجیب سی مسحور کن جگہ تھی ایک ادنی سا حساس انسان وہاں انس محسوس کرسکتا تھا۔ یہ اس بات کی شہادت تھی کہ یہاں کئی ایک غیر معمولی علمی ہستیاں رہی ہیں۔ ملاقات کی بہت چاہ تھی لیکن آپ کا جلال حائل ہوجاتا کہ ملے بھی تو کیسے!
غزالی صاحب کے شخصی اوصاف میں آپ کا جلال، بانک پن، تواضع، وقار اور ایک کلاسیکی حمیت نمایاں تھے، جو بھلے وقتوں کے بزرگوں کی یاد تازہ کرتے تھے۔ آپ کی نفاست بھی عمدہ تھی اور ذوق بھی، پہننے میں، بولنے میں اور لکھنے میں۔
2018ء میں دعوۃ اکیڈمی نے ڈاکٹر محمود احمد غازی سے متعلق ایک عالمی کانفرس کا انعقاد کیا تھا، جس کا افتتاحی خطاب غزالی صاحب نے ٹکسالی اردو اور اپنے مسحور کن لہجے میں دیا، ایسا لگ رہا تھا جیسے گذشتہ صدی کے کسی عمدہ ادیب کو سن رہے ہیں۔
آپ کے جلال اور استغنا کے کئی واقعات سنے بھی ہیں اور براہِ راست دیکھنے کا اتفاق بھی ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبد القدیر خان کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب کے بہت قریبی مراسم تھے۔ ہم 2019ء کے آخری مہینوں میں ڈاکٹر قدیر سے ملنے گئے، جب کہا کہ اسلامی یونی ورسٹی سے تعلق ہے تو انھوں نے دونوں بھائیوں سے اپنی رفاقت کا تذکرہ بہت عقیدت سے کیا اور کہا کہ سنا ہے غزالی صاحب کو پروفیسر ایمریٹس بنایا جا رہا ہے۔
چند دنوں بعد فیصل مسجد میں یونی ورسٹی کے صدر ڈاکٹر یوسف درویش خطبۂ جمعہ دے رہے تھے، جس میں وہ عرب شاہوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے، اس دن غزالی صاحب منبر سے کافی دور تھے لیکن کھڑے ہوئے، آپ کے خاص انداز سے لگ رہا تھا کہ صدر صاحب کے ارشادات آپ کی طبیعت پر بے حد گراں گزر رہے ہیں۔ اس دن خطبہ اتنا لمبا ہوگیا کہ بنو امیہ کے گورنروں کے خطبے یاد آئے۔ اس دن کی اذیت سب کو یاد ہوگی، خطبے کی طوالت نے لوگوں کو جمعہ پڑھے بغیر فیصل مسجد کے ہال سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔
درویش صاحب کے اگلے خطبے پر غزالی صاحب اگلی صفوں تک پہنچ چکے تھے، اس دن انھوں نے خطبے کو طول دینے کے ساتھ ساتھ سعودی ولی عہد کی تعریفیں بھی شروع کیں۔ غزالی صاحب اپنے مخصوص انداز میں پھر کھڑے ہوگئے، صدر صاحب منبر سے اترے تو ہنگامہ ہوگیا، کافی وقت بعد جماعت کھڑی ہوئی۔ بعد میں تفصیلی روداد آئی تو پتا چلا کہ صدر صاحب کو غزالی صاحب نے ڈانٹ پلائی اور کہا کہ یہ سعودیہ نہیں کہ منبر پر ملوک کی قصیدیں پڑھی جائیں، دوبارہ منبر پر چڑھ کر اپنے الفاظ واپس لے لیں، درویش صاحب کی آواز بلند ہوئی تو غزالی صاحب نے مزید ڈانٹ پلا کر کہا: “اسکت”، اتنے میں درویش صاحب کے غلمان بھی پہنچ گئے اور غزالی صاحب کو ایک طرف کرنے کی کوشش کی تو ان میں سے ایک کو زوردار دھکا بھی دے مارا۔
یہ کام اس بندے نے سرانجام دیا جنھوں نے یونی ورسٹی میں پروفیسر امریٹس بننا تھا۔
شخصی تواضع کے بارے میں بھی کئی ایک واقعات ہیں، جب غازی صاحب وفاقی وزیر تھے، وزرا اور کئی اعلی مناصب پر فائز لوگوں کا گھر پر آنا جاتا رہتا تھا، غزالی صاحب ان کے ڈائیورز اور گاڈز کے ساتھ زمین پر چھٹائی بچھا کر محفل سجھاتے تھے۔
ایک بار استاد محترم ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے آفس میں جمعے سے قبل ایک یاد گار ملاقات ہوئی تھی۔ مشتاق صاحب کسی میٹنگ کےلیے باہر چلے گئے، ہم کچھ دوست ایک گھنٹے تک آپ کے ساتھ بیٹھے رہے بہت بے تکلفی کے ساتھ گفتگو کرتے رہے، غازی صاحب کے کئی واقعات سنائے۔ سامنے الماری میں ایک کتاب پڑی تھی، کہا کہ ہمارے بھائی جان (غازی صاحب) کی انتظامی صلاحیتوں کو دیکھیے ناں ایسے نالائق آدمی سے بھی کتاب تیار کرائی ہے۔
دو برس قبل آپ کے صاحبزادے برادرم حمزہ غزالی کے ذریعے آپ سے وقت لیا، ملاقات کےلیے گھر گیا، اس ملاقات کا بنیادی غرض ڈاکٹر محمود احمد غازی کے محاضرات سیریز کو مزید بہتر انداز میں چھاپنے کے حوالے سے کچھ تجاویز پیش کرنا تھیں، پہلی فرصت میں ان کی تخریج کا مرحلہ تھا انھوں نے اتفاق کرلیا، میں نے کہا کہ آغاز “محاضرات فقہ” سے کریں گے، جس کی تخریج کےلیے مشتاق صاحب نے حامی بھری ہے۔ باقی کتب کےلیے بھی کچھ دوستوں نے رابطہ کیا ہے۔ اس سے بہت خوش ہوئے۔
ایک بار علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی میں ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی کا خطبہ تھا، غزالی صاحب بھی مدعو تھے، پروگرام کے اختتام پر شرکا میں یادگاری شیلڈز پیش کی جا رہی تھیں، جس پر غزالی صاحب نے کہا کہ اس سے بہتر ہے قلم دیے جائیں۔
گزشتہ دسمبر میں مشتاق صاحب کی معیت میں عشاء کے بعد ملاقات کےلیے جا رہے تھے، مشتاق صاحب نے جیب میں قلم رکھا اور کہا کہ غزالی صاحب پھر پوچھتے ہیں۔ جب پہنچے تو چند لمحوں کے بعد انھوں نے سب سے پہلے قلم پیش کیا، جیب میں جو قلم رکھا تھا وہ مجھے دیا۔
رات دیر تک بیٹھے رہے، آخر میں عربی کے کلاسیکی اشعار اپنے خاص آہنگ کے ساتھ پڑھتے رہے، عربی جیسے آپ کی مادری زبان ہو۔ اپنی دو کتب کا تحفہ عنایت کیا، جس میں ایک کتاب قرآنی میں بلاغت اور معانی سے متعلق تھی، کہا کہ اس کو تنقیدی نظر سے دیکھ کر مجھے تبصرہ بھیجیے اس کے بعد بھی اس تبصرے کا پوچھتے رہے۔
اب ہم کہاں اور یہ موضوع کہاں لیکن اس انداز میں یہ بات پنہاں تھی کہ انھیں علم کا کوئی زعم نہیں ورنہ ہم جیسے طفل مکتب سے کبھی یہ نہ کہتے۔
اسی سے متصل مشتاق صاحب سے کہا کہ امام شیبانی کی “الجامع الصغیر” کا انگریزی ترجمے کا ارادہ کیا ہے، اس بہانے ہمارا بھی کچھ بھلا ہوجائے گا، ہمیں بھی کچھ فقہ سمجھنے کا موقع ملے گا۔
تواضع کی ایسی مثالیں اب کتابوں میں ملتی ہیں۔
ابھی ان کی تازہ کتاب “سوشیالوجی آف اسلام” گزشتہ برس ہندوستان سے ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے شائع کی۔ اس کتاب کو شائع کرنے میں ہماری خاص دلچسپی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ ناشر سے اجازت لینی پڑے گی۔ اسی دوران انھوں نے اپنی ایک اور کتاب دی کہ فی الحال اس کو دیکھیں۔ کچھ ہفتوں کے بعد میسج کیا کہ ظفر الاسلام صاحب نے اجازت دے دی ہے۔ کتاب پر کچھ بنیادی کام کرکے مسودہ ان کو بھیج دیا لیکن کہا کہ آنکھ کا آپریشن کیا ہے اس لیے وہ مسودہ دیکھنے کے قابل نہیں۔ معلوم نہیں اب وہ انھوں نے دیکھا بھی ہوگا یا نہیں۔
مولانا مودودی اور ان کے بڑے بھائی مولانا ابو الخیر مودودی کے ساتھ غازی صاحب اور غزالی صاحب دونوں کے مراسم تھے۔ میں نے مولانا کے ساتھ ملاقات کا پوچھا تو کہا کہ مولانا جب بھی اسلام آباد آتے تھے تو ہم ان کے پاس پہنچ جاتے تھے۔ ایک واقعہ سنایا کہ جس وقت کوثر نیازی صاحب جماعت اسلامی سے الگ ہوئے اس کے چند دن بعد مولانا اسلام آباد تشریف لے آئے تو محفل میں کوثر نیازی صاحب کا ذکر چلا کافی باتیں ہوئیں مولانا خاموشی سے سنتے رہے، جب گفتگو ختم ہوئی تو مولانا نے کسی سے کہا: “ذرا کلی کرا لیجیے، پانی دے دیں۔”
آپ کا جلال بہت نمایاں تھا اور ایک صاحب علم کو موجودہ دور میں ایسا ہونا چاہیے۔ ہم نے بڑوں بڑوں کو آپ کے سامنے لرزتے دیکھا ہے۔
عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۱۹ نومبر ۲۰۲۳ء کو العصر فاؤنڈیشن اور مکتبہ یاران کراچی کے زیر انتظام ’’عصرِ حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر سیمینار سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مکتبہ یاران اور العصر فاؤنڈیشن کراچی کا شکر گزار ہوں کہ علماء کرام اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کرنے والے اہلِ علم کی اس متنوع مجلس اور گلدستہ میں مجھے بھی حاضری کا شرف بخشا، عروس البلاد کراچی کے حضرات سے ملاقات ہوئی اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے، اللہ رب العزت اس کاوش کو قبول فرمائیں، انتظام کرنے والوں کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہم سب کی حاضری کو قبول کرتے ہوئے اسے دارین کی سعادتوں اور خیر کا ذریعہ بنائیں۔
مجھے گفتگو کا عنوان دیا گیا ہے ”عصر حاضر کے چیلنجز اور علماء کرام کی ذمہ داریاں“ ۔پہلی بات یہ ہے کہ عصر حاضر کیا ہے اور انسانی سوسائٹی کی تاریخ میں عصر حاضر کی مجموعی کیفیت کیا ہے؟ انسانی تاریخ اور سماج میں مختلف ادوار آئے ہیں جنہیں آپ بیسیوں مراحل میں ترتیب دے سکتے ہیں، اچھے ادوار بھی آئے ہیں اور اعمال کے اعتبار سے برے ادوار بھی آئے ہیں، اچھے لوگوں کی حکمرانی بھی قائم ہوئی ہے اور بروں کی بھی قائم ہوئی ہے، یہ انسانی فطرت ہے کہ اس کی زندگی میں تنوع اور تغیر ہے ؏ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘۔ تغیر انسانی سوسائٹی کا حصہ ہے جس میں صرف ارتقا نہیں ہوتا بلکہ تنزل بھی ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کہ جب سے اللہ تعالیٰ نے زمانہ کو پیدا کیا تھا اس دن کے بعد سے زمانہ اپنے آپ کو دہراتا رہتا ہے، اپنے آپ کو بدلتا رہتا ہے، اچھے ادوار بھی آتے ہیں اور برے ادوار بھی آتے ہیں۔
آج ہم آزمائش ،امتحان اور تنزل کے دور میں ہیں۔ اگرچہ انسان نے اسباب میں بہت ترقی کی ہےمگر میرا سوال ہوتا ہے کہ خود انسان نے کیا ترقی کی ہے؟ مثال کے طور پر میڈیکل سائنس میں ہم نے بہت ترقی کی، علاج اور تشخیص کے نئے نئے اسباب بنائے ہیں، لیکن اگر ایک جملے میں بات کی جائے تو یہ ہے کہ انسانی علم اور ساری صلاحیتیں مشینوں میں منتقل ہو گئی ہیں۔ آپ اسے ارتقا کہیں یا تنزل ۔ ایک زمانہ تھا کہ معالج نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری اور اس کے سبب کے ساتھ علاج بھی بتا دیتا تھا، بلکہ بعض معالجین چہرہ دیکھ کر بیماری سمجھ جاتے تھے۔ اب ڈگریاں ہمارے پاس ہیں لیکن چہرہ دیکھ کر اور نبض پر ہاتھ رکھ کر بیماری کی تشخیص کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں ہے، اور یہ صلاحیت آلات اور مشینوں میں منتقل ہو گئی ہے۔ انسان بحیثیت انسان کمزور ہوتا جا رہا ہے، اسباب اور مشینیں اس پر غالب آتی جا رہی ہیں، یہی زندگی کے ہر شعبے میں ہے۔ میں اس کی ایک اور چھوٹی سی مثال دوں گا کہ ہم لڑکپن اور جوانی میں پیدل پانچ چھ میل چل لیا کرتے تھے۔ میں بہت دفعہ پہاڑی علاقوں میں کئی کئی پیدل میل چلا ہوں ،لیکن آج اس عمر کا نوجوان دو میل پیدل نہیں چل سکتا۔ جسمانی صلاحیتیں کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور اسباب کی طاقت بڑھتی جا رہی ہے، آپ اس کو ترقی یا تنزل جو بھی تعبیر کر لیں۔
یہی صورتحال تہذیبی، دینی اور علمی اعتبار سے بھی ہے، لیکن میں اس کو یہیں چھوڑتے ہوئے یہ عرض کروں گا کہ ہم بحیثیت مسلمان ، بحیثیت امتِ مسلمہ، اور اس حیثیت سے کہ نسل انسانی کی قیادت اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو عطا فرمائی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنہون عن المنکر‘‘ قرآن کریم کے بقول انسانی معاشرے میں امتِ مسلمہ کی حیثیت قائد کی ہے ۔ اس وقت دنیا میں آٹھ ارب کے لگ بھگ انسان ہیں، ان میں مسلمان پونے دو ارب کے لگ بھگ بتائے جاتے ہیں، جو باقی چھ ارب انسان ہیں وہ کس کے رحم و کرم پر ہیں؟ ان تک قرآن مجید کی دعوت پہنچانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعارف کروانا، اور آخرت کا عقیدہ ان تک منتقل کرنا کس کا فریضہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسانی سماج کی بہتری اور کامیابی کے لیے جو نظام دیا ہے، جو کتابوں میں بھی ہے اور جس کا تجربہ کئی بار ہو چکا ہے، اس نظام کو انسانی سماج میں دوبارہ عملی طور پر متعارف کرانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نظام دیا کہ اس کے ذریعے تم دنیا میں بہتر زندگی گزار سکتے ہو، اور دنیا میں رہ کر عمل کر کے اس کا نمونہ دکھایا۔ اب اس نظام سے دنیا کو زبان کے ذریعے، قلم کاغذ کے ذریعے ، آج کی زبان میں سکرین کے ذریعے، اور عمل کے ساتھ متعارف کرانا ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔
آج دنیا کو موجودہ نظام میں کیا چیلنجز درپیش ہیں، اس پر دو حوالے دوں گا۔ برطانیہ کے شاہ چارلس جنہوں نے طویل عرصہ شہزادہ رہ کر گزارا ہے، اپنے مزاج کے اعتبار سے لیکچرار اور دانشور ہیں، اگر کسی کو ذوق ہو تو چارلس کے لیکچرز ضرور دیکھیں۔ میں ان کے دو حوالے نقل کروں گا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے دوران شہزادہ چارلس نے کہا کہ دنیا کا موجودہ سسٹم ناکام ہو گیا ہے جو کہ بیساکھیوں کے سہارے چل رہا ہے، لہٰذا ہمیں اس کا متبادل تلاش کرنا چاہیے۔ اور کہا کہ میں اس کے لیے اہل دانش کو ایک مشورہ اور تجویز دوں گا کہ وہ متبادل کے طور پر اسلام کو اسٹڈی کریں۔ اور یہ ماضی کے حوالے سے نہیں بلکہ موجودہ سسٹم کی ناکامی کے تصور کے ساتھ اس کے متبادل کے طور پر۔ اور انہوں نے کہا کہ میں اسکالرز سے یہ کہوں گا کہ اسلام کو اسٹڈی کرتے ہوئے تین باتیں ذہن میں رکھیں: پہلی یہ کہ ہمارے بڑوں نے ہمیں جو بتا رکھا ہے کہ اسلام ایسا ہے اور مسلمان ایسے ہیں، یہ بھول جائیں۔ دوسری یہ کہ اس وقت مسلمان جیسے نظر آ رہے ہیں اس کو بھی نظر انداز کر دیں۔ تیسری یہ کہ اسلام کو اوریجنل سورسز یعنی اصل مآخذ سے اسٹڈی کریں ۔ اگر آپ یہ تین باتیں سامنے رکھ کر اسلام کو اسٹڈی کریں گے تو میرا وجدان کہتا ہے کہ مستقبل کے لیے متبادل نظام ہمارے پاس اسلام کے سوا کوئی نہیں ہے۔
نیویارک میں پولیوشن پر ایک کانفرنس تھی۔ ماحولیاتی آلودگی آج کا بڑا مسئلہ ہے۔ شہزادہ چارلس نے کہا کہ میری دیانت دارانہ رائے یہ ہے کہ پولیوشن کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہمیں وہ سماجی اصول اختیار کرنا ہوں گے جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں کہ سماج کیا ہے ، سماج کے اصول، تقاضے اور ضروریات کیا ہیں،اور وہ تقاضے کیسے حل ہوں گے۔
دنیا کے کرنٹ ایشوز میں ماحولیات اور معیشت سرفہرست ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے کیسے چھٹکارا ملے گا اور معیشت کیسے توازن پر آئے گی ۔ شہزادہ چارلس تو بادشاہت کی دنیا کا آدمی ہے، میں مذہبی دنیا کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ اس وقت پاپائے روم پوپ فرانسس ہیں، ان سے پہلے پوپ بینی ڈکٹ تھے، مسیحی دنیا میں مذہبی طور پر سب سے بڑا پیشوا پاپائے روم ہوتے ہیں۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے کی بات ہے، جن دنوں معیشت میں بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیاں بیٹھ گئی تھیں ، بڑا بحران پیدا ہو گیا تھا اور بڑے بڑے جلوس ہو رہے تھے، اس وقت پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے ایک کمیٹی بنائی کہ معاشی بحران اور اَن بیلنسڈ سسٹم کے بارے میں ویٹی کن سٹی کو کیا موقف اختیار کرنا چاہیے۔ اس کمیٹی نے جو رپورٹ پیش کی وہ آن لائن موجود ہے۔ اس کمیٹی کی رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ معیشت ڈی ٹریک ہو گئی ہے، اس کو بیلنس اور ٹریک پر لانے کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ معیشت کے وہ اصول اختیار کیے جائیں جو قرآن مجید نے بیان کیے ہیں۔
میں علماء کرام سے یہ باتیں اس لیے ذکر کر رہا ہوں کہ اپنے ذہن کو وسیع کر کے اپنے ماحول سے اوپر اٹھ کر دنیا کا منظر دیکھیں کہ جتنا فضا میں زیادہ بلند ہو کر دیکھیں گے اتنا کھلا ماحول نظر آئے گا۔ اہل دانش کے مختلف لیولز ہیں، میں سب کی بات نہیں کر رہا ۔ میں نے ایک لیول کی بات کی ہے جو مستقبل کے بارے میں سوچ رہے ہیں اور اس حوالے سے اسلام کو اسٹڈی کر رہے ہیں۔
ایک مشاہدہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ یونیورسٹیوں میں اسٹڈی گروپس بنے ہوتے ہیں اور مغرب کی یونیورسٹیز کے کام کے انداز کا آپ کو پتہ ہے کہ کیسے کام کرتی ہیں۔ آج سے دس سال پہلے امریکہ کی ہنٹنگٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر پاکستان تشریف لائے، میرے پاس بھی آئے اور کہا کہ میں پی ایچ ڈی کر رہا ہوں اور میرا موضوع امام ابو منصور ماتریدیؒ ہیں۔ اہلِ سنت کے ہاں علمِ کلام کے دو بڑے امام ہیں ابوالحسن اشعریؒ اور ابو منصور ماتریدیؒ۔ معتزلہ کے مقابلے میں بنیادی کام ابو الحسن اشعریؒ کا ہے کہ ان کی عقلیات کا روایت کی دنیا میں امام احمد بن حنبلؒ اور درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے مقابلہ کیا۔ امام احمد بن حنبلؒ کا موقف یہ تھا کہ قرآن کی آیت یا حدیث پیش کرو، ورنہ جتنا مارنا ہے مارو، میں نہیں مانوں گا، ان کی استقامت اور قربانی نے اہل سنت کے عقیدے کو استحکام بخشا، جبکہ درایت کی دنیا میں ابو الحسن اشعریؒ نے یہ کام کیا۔ اللہ کی قدرت کہ معتزلہ کے بانی واصل بن عطا حضرت حسن بصریؒ کے شاگرد ہیں اور ابو الحسن اشعریؒ واصل بن عطا کے شاگرد ہیں ’’یخرج الحی من المیت ویخرج المیت من الحی‘‘ ۔ امریکی پروفیسر نے کہا کہ میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں وہ پوچھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے پوچھیں لیکن ایک شرط پر کہ میں بھی سوال کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ علمی میدان میں معتزلہ کا مقابلہ تو ابو الحسن اشعریؒ نے کیا تھا، لیکن حنفی لوگ ابو الحسن اشعریؒ کی بجائے ابو منصور ماتریدیؒ کو اپنا امام کہتے ہیں ، تو ان کا کنٹریبیوشن کیا ہے؟ میں نے کہا کہ واقعی معتزلہ کا مقابلہ ابو الحسن اشعریؒ نے کیا ہے، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے، لیکن جب آدمی مقابلہ کر رہا ہوتا ہے تو محاذ پر مناظر کو بہت سی باتیں گھڑنی پڑتی ہیں اور بعض باتیں اوور (Over) کرنی پڑتی ہیں تاکہ مقابل کا منہ بند ہو جائے۔
اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ قرآن مجید میں ذکر ہے کہ چار تک بیویوں کی اجازت ہے اس سے زیادہ کی نہیں۔ جبکہ مستشرقین کا ہم پر یہ اعتراض چلا آ رہا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے بعد باقی سب سے چار سے زیادہ بیویاں چھڑوا دیں لیکن اپنے پاس نو تھیں ان میں سے ایک کو بھی نہیں چھوڑا۔ یہ اعتراض آج بھی قائم ہے۔ ۱۹۹۰ءکی بات ہے کہ ڈاکٹر حمید اللہؒ جو ہمارے بڑے اہل علم میں سے تھے، انہوں نے کہیں لکھ دیا کہ حضورؐ نے بھی پانچ بیویاں چھوڑ دی تھیں اور چار باقی رکھی تھیں، اس طرح کہ پانچ کو ازواجِ شرف یعنی اعزازی رکھا تھا جبکہ حقیقی بیویاں چار ہی تھیں۔ اس پر اعتراض ہوا کہ یہ نئی بات کیسے کہہ دی۔ ہم نے ڈاکٹر حمید اللہ سے رابطہ کیا کہ یہ آپ نے کیا کہا؟ ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ میں نے مستشرقین کو جواب دینے کے لیے یہ بات بنائی ہے۔ ہم نے کہا ڈاکٹر صاحب! اگر آپ کی اور ہماری بات ہو تو آپ چاہے دس باتیں گھڑیں مگر یہ تو رسول اللہ کی بات ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے رجوع کیا اور کہا کہ میں امت سے بھی اور اللہ سے بھی معافی مانگتا ہوں۔ اس طرح مناظر کو بہت سی باتیں اوور کرنی پڑتی ہیں ۔
میں نے امریکی پروفیسر سے کہا کہ ابو الحسن اشعریؒ کو معتزلہ کے مقابلے میں کچھ باتیں اوور کرنا پڑی تھیں، جنہیں بعد میں ابو منصور ماتریدیؒ نے آ کر بیلنس کیا تھا، اور یہی ان کا کنٹریبیوشن ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے کہا کہ میں بات سمجھ گیا ہوں۔
اس کے بعد میں نے ان سے سوال کیا اور کہا کہ ہم ما تریدی ہیں، ہمارے سینکڑوں مدرسین اصولِ عقائد پڑھاتے ہیں، لیکن ہم پڑھانے والوں میں سے نوے فیصد کو پتہ نہیں کہ ابو منصور ماتریدیؒ کون تھا؟ میں نے پوچھا کہ ہم عقائد پڑھانے والے حنفی مدرسین عام طور پر انہیں نہیں جانتے، تو تمہیں کس نے بتایا ہے کہ دنیا میں ماتریدیؒ بھی ایک آدمی تھا اور تمہیں اس کی قبر پر کون لے گیا ہے؟ تو اس نے پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کہا کہ ہم کچھ یونیورسٹیوں کے اہل دانش پروفیسرز کا گروپ ہے، پندرہ بیس سال سے ہماری ریسرچ جاری ہے، ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایک تو سوسائٹی میں مذہب واپس آرہا ہے، اور دوسری بات یہ طے ہے کہ مذہب وہی واپس آئے گا جو واقعتاً مذہب ہوگا۔ مذہب ہونے کا معیار یہ ہے کہ اس مذہب کے پاس اپنی وحی اور اپنے پیغمبر کی تعلیمات اصل حالت میں موجود ہوں، اور یہ بھی طے ہے کہ ایسا مذہب اسلام ہی ہے۔ یہ دو باتیں ہم ذہن میں طے کر کے اس پر ریسرچ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کی مختلف ادوار کی شخصیات میں سے ہماری ضروریات کون پوری کرتا ہے۔ ہم مغرب کے لوگ ہیں، ہمارا اپنا مزاج اور اپنی نفسیات ہیں۔ اس پر ہم نے پندرہ بیس شخصیات اسٹڈی کی ہیں جن میں غزالیؒ، ابن رشدؒ، ابن سینا اور ابن عبد السلامؒ وغیرہ شامل ہیں۔
میں نے پوچھا کہ آپ کی ضروریات کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم تین باتیں دیکھ رہے ہیں: روایت، درایت اور وجدانیات۔ (۱) روایت یعنی قرآن و حدیث (۲) درایت یعنی تفقہ، استنباط اور تعقل (۳) وجدانیات یعنی قلبی کیفیات، تصوف و سلوک۔ ہم ایسی شخصیت تلاش کر رہے ہیں جس میں یہ تینوں چیزیں موجود ہوں، وہ روایت میں بھی پکا ہو، درایت میں بھی مضبوط ہو، اور وجدانیات اور قلبی کیفیات میں بھی تجربہ رکھتا ہو۔انہوں نے بتایا کہ ہم پندرہ بیس شخصیات پر ریسرچ کر چکے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اب تک کہاں پہنچے ہیں؟ اس نے کہا، ہم سمجھے ہیں کہ یہ تینوں چیزیں بہت سی مسلم شخصیات میں موجود ہیں، اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ روایت، درایت اور وجدانیات کا توازن کس شخصیت میں ہے۔ کیونکہ نسخے کے اجزا میں توازن بھی ضروری ہوتا ہے، اگر بیلنس بدل جائے تو نسخہ بدل جاتا ہے۔ اس پر ہم نے دو شخصیات کو فوکس کیا ہے، ایک پر میں اسٹڈی کر رہا ہوں یعنی ابو منصور ماتریدیؒ، اور دوسری شخصیت شاہ ولی اللہؒ کی ہے جس پر میرا ایک اور ساتھی اسٹڈی کر رہا ہے۔
میں نے ذکر کیا ہے کہ آج کی انسانی دنیا کو درپیش مسائل، یعنی عصر حاضر کے چیلنجز انسانی سماج کے دائرے میں، اس پر کہاں بات ہو رہی ہے اور کس سطح پر بات ہو رہی ہے؟ میں نے علماء کرام کے سامنے موجودہ چیلنجز میں سے ایک چیلنج پر آج کا ماحول عرض کیا ہے، یہ دعوت دینے کے لیے کہ صرف ایک دائرے میں نہ دیکھیں بلکہ غور و فکر کے بہت سے دائرے اور لیولز ہیں۔ یہ میں نے امت مسلمہ کی معروضی صورتحال عرض کی ہے، معیشت اور ماحولیات کے حوالے سے، اور پھر روایت، درایت اور وجدانیات کے توازن کے بارے میں کچھ حوالے دیے ہیں۔ اس کو یہیں سمیٹتے ہوئے اب یہ عرض کروں گا کہ بطور عالم ہماری حیثیت کیا ہے؟
جب پاکستان بنا تھا تو ہمارا بنیادی ویژن یہ تھا کہ ہم ایک ریاست قائم کریں گے جس میں اسلام کی حکمرانی کا نظم قائم کریں گے ، انسانی سماج قائم کرنے کی ترتیب بنائیں گے، اور دنیا کے سامنے اس کو نمونے کے طور پر پیش کریں گے۔ آپ قائد اعظم مرحوم کی تقریریں پڑھیں، ان میں یہ ویژن دیا گیا ہے کہ ہم اسلامی ریاست قائم کر کے قرآن و سنت کی عملداری قائم کریں گے، اسلامی سماج کی تشکیل کی کوشش کریں گے اور اسے دنیا کے سامنے بطور مثال پیش کریں گے۔ ہمارا یہ ویژن ریکارڈ پر موجود ہے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ ہوا کہ یہ سارے کام جو اسٹیبلشمنٹ نے کرنے تھے وہ سب کچھ نظرانداز کر دیا، ہم نے ریاست کا نظامِ تعلیم اور سسٹم وہی رہنے دیا اور اس کے ذمے کام سارا یہ ڈال دیا ۔ حالانکہ نوآبادیاتی دور کی اسٹیبلشمنٹ کی تربیت کا دائرہ اور تھا۔ گویا ہم مونجی والی مشین سے گندم کا کام لے رہے ہیں۔ میں نے وفاقی شرعی عدالت کے ایک جسٹس صاحب مرحوم سے نجی مجلس میں سوال کیا کہ دنیا میں کوئی اور ملک بھی ایسا ہے جس کے دستور میں طے کیا گیا ہو کہ ملک کا قانون یہ ہوگا، لیکن اس کے ایجوکیشن سسٹم میں وہ قانون نہ پڑھایا جاتا ہو؟ دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے؟ انہوں نے جواب گول مول کر دیا۔
ملک کے دستور میں لکھا ہوا ہے کہ ملک کا قانون قرآن اور سنت کے مطابق ہوگا، قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں ہوگا، اور قرآن و سنت کی عملداری لازم ہوگی۔ لیکن ملک کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت نہیں ہے۔ قانون بنانا مقننہ کی ذمہ داری ہے، قانون کے مطابق فیصلے کرنا عدلیہ کی ذمہ داری ہے، اور ان فیصلوں پر عملدرآمد کرانا انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ مقننہ، عدلیہ،انتظامیہ، تینوں کے نظام تعلیم میں قرآن و سنت کا قانون کہیں نہیں پڑھایا جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ جو قانون پڑھانا لازمی نہیں ہے وہ نافذ کیسے ہوگا؟
ہمارے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ ملک میں جو کام بھی نہ ہو رہا ہو وہ علماء کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، اس پر ایک لطیفہ عرض کر دیتا ہوں۔ ہمارے سابق گورنر پنجاب ایک جنرل صاحب تھے، وہ ایک دفعہ جامعہ اشرفیہ لاہور تشریف لائے اور علماء کرام سے خطاب فرمایا ۔ یہ ہمارے افسران کا مزاج ہے کہ جب سامنے علماء بیٹھے ہوں تو لمبی تقریر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کیا کر رہے ہیں؟ ملک میں انجینئر ضرورت کے مطابق نہیں ہیں، ڈاکٹروں کی کمی ہے، سائنس دانوں کی کمی ہے اور ملک ترقی نہیں کر رہا۔ میں نے اس پر کالم میں لکھا کہ جنرل صاحب! بات یہ ہے کہ آپ کے سوال ٹھیک ہیں لیکن جگہ غلط ہے۔ یہ نہر سے اِس پار کے نہیں اُس پار کے سوال ہیں۔ ایک طرف جامعہ اشرفیہ ہے، درمیان میں نہر ہے، اور دوسری طرف پنجاب یونیورسٹی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے یہ کام جن کے ذمے لگائے تھے ان سے جا کر پوچھیں۔ انجینئر نہیں مل رہے تو انجینئرنگ یونیورسٹی سے پوچھیں، اگر وکیل نہیں مل رہے تو لاء کالج میں جا کر پوچھیں، اگر ڈاکٹر نہیں مل رہے تو میڈیکل یونیورسٹی سے پوچھیں۔ ہاں اگر امام نہیں مل رہے تو ہم سے پوچھیں۔
۱۸۵۷ء کے بعد مسجد اور مدرسے کی ضرورت کے افراد تیار کرنے سے یعنی حافظ، امام، خطیب، قاری، مولوی اور مفتی بنانے کی ذمہ داری سے اس وقت کے ایجوکیشن سسٹم نے انکار کر دیا تھا، تو وہ خلا ہم نے پر کیا۔ ہم نے کہا تھا کہ مسجد اور مدرسہ آباد رہیں گے، اس لیے اگر آپ کو امام نہیں ملتے تو ہم سے بات کریں، جبکہ صورتحال یہ ہے کہ مسجدیں کم ہیں اور امام زیادہ ہیں۔ اگر پاکستان میں کہیں تراویح پڑھانے کے لیے حافظ نہیں ملتا، اگر جمعہ پڑھانے کے لیے خطیب نہیں مل رہا ، قرآن مجید یاد کرانے کے لیے قاری نہیں مل رہا، اور فتویٰ دینے کے لیے مفتی نہیں مل رہا، تو ہم سے پوچھیں۔ لیکن اگر آپ کو ڈاکٹر اور انجینئر نہیں مل رہے تو یہ سوال جامعہ اشرفیہ میں کرنے کا نہیں ہے بلکہ پنجاب یونیورسٹی سے کرنے کا ہے۔
جو بات میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قوم کو تو ہر میدان میں افراد کی ضرورت ہے، اگر وہ پورے نہیں کریں گے تو قوم ہم سے مانگے گی۔ آج یہ مسئلہ درپیش ہے کہ معیشت اور تجارت کی دنیا میں اہلِ علم کی ضرورت ہے جبکہ اسلامی ماہرین کی ضرورت پوری کرنا اصلاً ریاستی تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے جو اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ لیکن الحمد للہ ہمیں خوشی ہوتی ہے کہ جو ضرورت کہیں پوری نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب آپ یہ ضرورت پوری کریں، اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم ہماری کارکردگی پر مطمئن ہے، اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ توقع رکھتے ہیں کہ علماء اسے پورا کر لیں گے۔ ملک کے کسی بھی شعبے میں ملک کے دستور کے مطابق دینی تعلیم و تربیت سے بہرہ ور افراد فراہم کرنا اصلاً ریاستی نظام تعلیم کی ذمہ داری ہے، لیکن وہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس مقام پر کھڑے ہو کر سوچیں کہ قوم ہم سے توقع کر رہی ہے تو ہمیں اپنی صف بندی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر ہمارے کام کرنے سے معیشت کو اسلامی ماہرین ملتے ہیں تو ہمیں اسے پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن اپنی اصل ذمہ داری کو چھیڑے بغیر، دینی ضروریات، مسجد اور مدرسے کی ضروریات پوری کرنے کے بعد جو فاضل کمائی ہے اس کی پلاننگ کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے جو ادارے کام کر رہے ہیں، جیسا کہ العصر فاؤنڈیشن، مکتبہ یاران، مختلف بڑے بڑے مدارس اور بہت سے ادارے کر رہے ہیں ، ایسے فورمز دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ہم کسی حد تک کام کر رہے ہیں۔ ہم ضرورت پوری نہیں کر سکتے لیکن کچھ نہ کچھ کرتے رہیں تاکہ رجحان باقی رہے، اور ہم آج کی دنیا کو اپنے ماضی سے وابستہ رکھنے کی کوئی کھڑکی کھلی رکھیں تاکہ مستقبل کو ہمارے بارے میں شکایت نہ ہو کہ جو کچھ تم کر سکتے تھے تم نے وہ نہیں کیا۔
میں نے اس نشست میں متفرق باتیں کیں اور عرض کیا کہ ہمیں آج کی ضروریات کو سمجھنا چاہیے جو کہ ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ جیسا کہ ہمیں تخصص فی الافتاء میں بنیادی اصول پڑھایا جاتا ہے ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ ہمیں اپنے اہل زمانہ کو سمجھنا چاہیے، ان پر نظر رکھنی چاہیے، اور عصر حاضر کی ضروریات سمجھتے ہوئے انہیں پورا کرنے کے لیے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے کرنا چاہیے۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
’’حر متِ مسجدِ اقصیٰ اور امتِ مسلمہ کی ذ مہ داری‘‘: تین اہم سوالات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۶ دسمبر ۲۰۲۳ء بروز بدھ کو مجلسِ اتحادِ امت پاکستان کے زیراہتمام اسلام آباد کنونشن سینٹر میں ’’حرمتِ مسجدِ اقصٰی اور امتِ مسلمہ کی ذمہ داری‘‘ کے عنوان پر قومی سیمینار سے خطاب کا خلاصہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میں اس اجتماع میں ایک کارکن کے طور پر اپنا نام شمار کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، اللہ تعالیٰ ہم سب کی حاضری قبول فرمائیں۔ میں بس دو تین سوالات عرض کرنا چاہوں گا، باقی قائدین جو خطاب فرمائیں گے وہ ہمارا ایجنڈا ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ اور اس پر عمل کیا جائے گا۔
پہلا سوال ہمارے پاکستان کے حکمرانوں سے ہے کہ اسرائیل جب بنا تو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل ناجائز ریاست ہے، ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے۔ جبکہ آج ہم دو ریاستی حل کی بات پاکستان کی طرف سے کر رہے ہیں۔ میرا اسٹیبلشمنٹ سے سوال ہے کہ جناب! یہ موقف میں تبدیلی کب آئی ہے اور کس نے کی ہے؟ کل ہی ’’دو ریاستی حل‘‘ کا بیان آیا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟ میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان کے موقف میں یہ تبدیلی کب آئی ہے، وہ اتھارٹی کون سی ہے جس نے قائد اعظم کے موقف کو مسترد کر کے دو ریاستی حل کی بات پیش کی ہے؟
میرا دوسرا سوال عالمی اسٹیبلشمنٹ سے اور دو ریاستی حل پیش کرنے والوں سے ہے کہ جناب! آپ نے ۱۹۴۷ء میں دو ریاستی منصوبہ بنایا تھا اور اب تک اس کو عملی صورت میں نہیں لا سکے، بلکہ آپ ۷۵ سال سے ڈیڑھ ریاستی فارمولے کو فلسطین پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ ایک طرف اسرائیل مکمل ریاست ہے اور دوسری طرف فلسطین کو نارمل خودمختار ریاست بننے نہیں دیا جا رہا۔ اسرائیل کو آپ سپورٹ کر رہے ہیں، اسباب اور وسائل مہیا کر رہے ہیں، قوت مہیا کر رہے ہیں، اس کے پیچھے کھڑے ہیں، امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت۔ اسرائیل تو ایک مکمل طاقتور ریاست کے طور پر کھڑا ہے، جبکہ فلسطین جس کو ’’ریاست‘‘ کہتے ہوئے آپ کو شرم نہیں آتی اور اسے ایک نارمل خودمختار ریاست آپ خود نہیں بننے دے رہے۔ یہ ڈیڑھ ریاستی فارمولا کہاں سے آیا ہے اور یہ ۷۵ سال سے کیوں مسلط ہے؟ یہ میرا ان سے سوال ہے کہ ایک بات کرو کہ یا ڈیڑھ ریاست کی بات کرو، یا دو ریاستوں کی بات کرو، یہ تضاد اور منافقت ختم کرو۔
جبکہ تیسری بات کہ ایک اسٹیک ہولڈرز تو ریاستی ہیں، اور ایک اسٹیک ہولڈرز عوامی ہیں۔ ہمارے سماج اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمن صاحب، حضرت مولانا ساجد میر صاحب ہیں، اور جناب سراج الحق صاحب ہیں۔ یہ ہمارے قائدین ہیں، ان سے میرا سوال ہے کہ ہمیں صرف کبھی کبھی اکٹھے نہیں ہونا چاہیے بلکہ قومی و ملی مسائل پر اکٹھے رہنا چاہیے، حالات ہم سے اکٹھے ہونے کا نہیں بلکہ اکٹھے رہنے کا تقاضہ کر رہے ہیں اور آنے والے انتخابات کا تو سب سے بڑا تقاضہ یہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں صحیح رخ پہ چلتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
مسئلہ فلسطین کے تاریخی مراحل
الجزیرہ
1917ء — برطانوی اعلانِ بالفور
100 سال سے زیادہ پہلے، 2 نومبر 1917 کو، برطانیہ کے اس وقت کے سیکرٹری خارجہ، آرتھر بالفور نے، برطانوی یہودی کمیونٹی کے ایک اہم شخصیت، لیونل والٹر روتھسچلڈ کو ایک خط لکھا تھا۔ خط مختصر تھا - صرف 67 الفاظ - لیکن اس کے مندرجات نے فلسطین پر ایک زلزلہ کا اثر ڈالا جو آج تک محسوس کیا جاتا ہے۔ اس نے برطانوی حکومت کو ①فلسطین میں یہودیوں کے لیے قومی گھر کے قیام ② اور اس مقصد کے حصول میں سہولت فراہم کرنے کا عہد کیا۔ اس خط کو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایک یورپی طاقت نے صیہونی تحریک کو ایک ایسے ملک کا وعدہ کیا جہاں فلسطینی عرب باشندے 90 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل ہیں۔
ایک برطانوی مینڈیٹ 1923 میں بنایا گیا اور یہ 1948 تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران، برطانویوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کیلئے امیگریشن کی سہولت فراہم کی – بہت سے نئے باشندے یورپ میں نازی ازم سے بھاگ رہے تھے – اور انہیں احتجاج اور ہڑتالوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ فلسطینی اپنے ملک کی بدلتی ہوئی آبادی اور ان کی زمینوں کو یہودی آباد کاروں کے حوالے کرنے کے لیے برطانوی قبضے سے پریشان تھے۔
1930 کی دہائی — فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری
بڑھتی ہوئی کشیدگی بالآخر عرب بغاوت کا باعث بنی، جو 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔ اپریل 1936 میں، نو تشکیل شدہ عرب قومی کمیٹی نے فلسطینیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ برطانوی استعمار اور بڑھتی ہوئی یہودی امیگریشن کے خلاف احتجاج کے لیے عام ہڑتال کریں، ٹیکس کی ادائیگیاں روک دیں اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ چھ ماہ کی ہڑتال کو برطانویوں نے وحشیانہ طور پر دبایا، جنہوں نے بڑے پیمانے پر گرفتاری کی مہم شروع کی اور گھروں کو مسمار کیا، ایک ایسا عمل جسے اسرائیل آج بھی فلسطینیوں کے خلاف نافذ کر رہا ہے۔ بغاوت کا دوسرا مرحلہ 1937 کے آخر میں شروع ہوا اور اس کی قیادت فلسطینی کسان مزاحمتی تحریک نے کی، جس نے برطانوی افواج اور استعمار کو نشانہ بنایا۔ 1939 کے دوسرے نصف تک، برطانیہ نے فلسطین میں 30,000 فوجی جمع کر لیے تھے۔ دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی، کرفیو نافذ کیا گیا، گھروں کو مسمار کر دیا گیا، اور انتظامی حراستیں اور سرسری سماعتوں کے بعد موت کی سزائیں عام ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانویوں نے یہودی آباد کار برادری کے ساتھ تعاون کیا اور مسلح گروپس بنائے اور یہودی جنگجوؤں کی ایک برطانوی زیر قیادت "انسداد بغاوت فورس" کو خصوصی نائٹ اسکواڈز کا نام دیا۔ یشوف (اسرائیلی ریاست سے پہلے کی آبادکار برادری) میں ہتھیاروں کو خفیہ طور پر درآمد کیا گیا اور ہتھیاروں کی فیکٹریاں قائم کی گئیں تاکہ یہودی نیم فوجی دستہ ’’ہاگناہ‘‘ کو وسعت دے، جو بعد میں اسرائیلی فوج کا مرکز بن گئی۔ ان تین سال کی بغاوت میں 5000 فلسطینی مارے گئے، 15000 سے 20000 زخمی ہوئے اور 5600 قید ہوئے۔
1947 — اقوام متحدہ کا تقسیمِ فلسطین کا منصوبہ
1947 تک، یہودی آبادی فلسطین کے 33 فیصد تک پہنچ چکی تھی، لیکن ان کے پاس صرف 6 فیصد زمین تھی۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا کیونکہ اس قرارداد نے فلسطین کا تقریباً 55 فیصد حصہ یہودی ریاست کو دیا تھا، جس میں زیادہ تر زرخیز ساحلی علاقہ بھی شامل تھا۔ حالانکہ اس وقت فلسطینیوں کے پاس تاریخی فلسطین کا 94 فیصد حصہ تھا اور وہ اس کی آبادی کا 67 فیصد تھے۔
1948 — نکبہ ( فلسطین کی نسلی صفائی)
14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی، صہیونی نیم فوجی دستے پہلے ہی سے فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے کے لیے فوجی آپریشن شروع کر رہے تھے تاکہ صہیونی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دی جا سکے۔ اپریل 1948 میں یروشلم کے نواح میں واقع گاؤں دیر یاسین میں 100 سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچے مارے گئے۔ اس نے بقیہ آپریشنوں کے لیے راستہ ہموار کیا، اور 1947 سے 1949 تک، 500 سے زیادہ فلسطینی دیہات، قصبے اور شہر تباہ کیے گئے جس کو فلسطینی عربی میں نکبہ، یا "تباہ" کہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 15000 فلسطینی مارے گئے جن میں درجنوں قتل عام بھی شامل ہیں۔ صہیونی تحریک نے تاریخی فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ بقیہ 22 فیصد کو ان حصوں میں تقسیم کیا گیا جو اب مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ کی پٹی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 750,000 فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ آج ان کی اولادیں پورے فلسطین اور لبنان، شام، اردن اور مصر کے پڑوسی ممالک میں 58 غیر محفوظ کیمپوں میں ساٹھ لاکھ پناہ گزینوں کے طور پر مقیم ہیں۔
15 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنے قیام کا اعلان کیا۔ اگلے دن، پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی اور جنگ جنوری 1949 میں اسرائیل اور مصر، لبنان، اردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کے بعد ختم ہوئی۔ دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
کم از کم 150,000 فلسطینی اسرائیل کی نئی بننے والی ریاست میں رہے اور تقریباً 20 سال تک سخت کنٹرول والے فوجی قبضے میں رہے، اس سے پہلے کہ انہیں بالآخر اسرائیلی شہریت دی گئی۔ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور 1950 میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنی انتظامی حکمرانی شروع کر دی۔ 1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کا قیام عمل میں آیا اور ایک سال بعد الفتح سیاسی جماعت قائم ہوئی۔
1967 — نکسا (چھ روزہ جنگ اور یہودی بستیاں)
5 جون 1967 کو اسرائیل نے عرب فوجوں کے اتحاد کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی تاریخی فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ کچھ فلسطینیوں کے لیے، اس کی وجہ سے دوسری زبردستی نقل مکانی ہوئی، یا نکسا، جس کا عربی میں مطلب ہے "جھٹکا"۔ دسمبر 1967 میں، مارکسسٹ-لیننسٹ پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کا قیام عمل میں آیا۔ اگلی دہائی کے دوران، بائیں بازو کے گروہوں کے حملوں اور طیاروں کے اغوا کے سلسلے نے دنیا کی توجہ فلسطینیوں کی حالت زار کی طرف مبذول کرائی۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ یہودی آباد کاروں کیلئے اسرائیلی شہری ہونے کے تمام حقوق اور مراعات کے ساتھ ایک دو سطح کا نظام بنایا گیا تھا۔ جب کہ فلسطینیوں کو فوجی قبضے کے تحت رہنا پڑتا تھا جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا تھا اور کسی بھی قسم کے سیاسی یا شہری اظہار پر پابندی عائد کرتا تھا۔
1987 تا 1993 — پہلا انتفاضہ
پہلی فلسطینی تحریک دسمبر 1987 میں غزہ کی پٹی میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک اسرائیلی ٹرک فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں سے ٹکرایا جس میں چار فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ نوجوان فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کے ساتھ احتجاج تیزی سے مغربی کنارے تک پھیل گیا۔ اس کے نتیجے میں حماس تحریک کا قیام بھی عمل میں آیا، جو اخوان المسلمون کی ایک شاخ تھی جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت میں مصروف تھی۔ اس وقت کے وزیر دفاع یتزاک رابن کی طرف سے "ہڈیوں کو توڑ دو" کی پالیسی کے ذریعے اسرائیلی فوج کے بھاری ہاتھ سے جوابی کارروائی کی گئی تھی۔ اس میں سرسری سماعت کے بعد سزائے موت، یونیورسٹیوں کی بندش، کارکنوں کی ملک بدری اور گھروں کو تباہ کرنا شامل تھا۔ تحریک بنیادی طور پر نوجوانوں کی طرف سے شروع کی گئی تھی اور اس کی رہنمائی بغاوت کی متحدہ قومی قیادت نے کی تھی، جو کہ اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے اور فلسطین کی آزادی کے قیام کے لیے پرعزم فلسطینی سیاسی دھڑوں کا اتحاد ہے۔
1988 میں عرب لیگ نے PLO کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا۔ جدوجہد کی خصوصیات عوامی تحریکوں، بڑے پیمانے پر مظاہروں، سول نافرمانی، منظم ہڑتالوں اور فرقہ وارانہ تعاون پر مشتمل تھی۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B’Tselem کے مطابق تحریک کے دوران اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں 1070 فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 237 بچے بھی شامل تھے۔ 175,000 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ تحریک نے عالمی برادری کو تنازع کا حل تلاش کرنے پر بھی آمادہ کیا۔
1993 — اوسلو معاہدہ اور فلسطینی اتھارٹی
پہلی تحریک 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط کرنے اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کی تشکیل کے ساتھ ختم ہوئی۔ ایک عبوری حکومت جسے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کی جیبوں میں محدود خود مختاری دی گئی تھی۔ PLO نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کیا اور مؤثر طریقے سے معاہدوں پر دستخط کیے جس کے تحت اسرائیل کو مغربی کنارے کے 60 فیصد اور علاقے کے زیادہ تر زمینی اور آبی وسائل کا کنٹرول مل گیا۔ فلسطین اتھارٹی کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ایک آزاد ریاست چلانے والی پہلی منتخب فلسطینی حکومت کے لیے راستہ بنانا تھا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم میں تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ فلسطین اتھارٹی کے ناقدین اسے اسرائیلی قبضے کے ایک بدعنوان ذیلی ٹھیکیدار کے طور پر دیکھتے ہیں جو اسرائیل کے خلاف اختلاف رائے اور سیاسی سرگرمی کو روکنے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ قریبی تعاون کرتا ہے۔ 1995 میں، اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے گرد ایک الیکٹرانک باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کی، جس سے تقسیم شدہ فلسطینی علاقوں کے درمیان تعامل ختم ہو گیا۔
2000 — دوسرا انتفاضہ
دوسرا انتفاضہ 28 ستمبر 2000 کو اس وقت شروع ہوا جب لیکود کے اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے یروشلم کے پرانے شہر اور اس کے ارد گرد ہزاروں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے ساتھ مسجد اقصیٰ کے احاطے کا ایک اشتعال انگیز دورہ کیا۔ دو روز کے دوران فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں پانچ فلسطینی ہلاک اور 200 زخمی ہو گئے۔ اس واقعے نے بڑے پیمانے پر مسلح بغاوت کو جنم دیا۔ تحریک کے دوران اسرائیل نے فلسطینی معیشت اور انفراسٹرکچر کو بے مثال نقصان پہنچایا۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور علیحدگی کی دیوار کی تعمیر شروع کر دی جس نے بڑے پیمانے پر بستیوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے معاش اور معاشروں کو تباہ کر دیا۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت آبادکاری غیر قانونی ہے، لیکن گزشتہ برسوں کے دوران لاکھوں یہودی آباد کار چوری شدہ فلسطینی زمین پر بنائی گئی کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے کیونکہ صرف آبادکاروں کے لیے سڑکیں اور انفراسٹرکچر مقبوضہ مغربی کنارے کو ٹکڑے ٹکڑے کر رہا ہے، جس سے فلسطینی شہروں اور قصبوں کو بنتوستانوں (جن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں) میں تبدیل کیا جا رہا ہے، جو کہ سیاہ فام جنوبی افریقیوں کے لیے الگ تھلگ انکلیو ہیں جنہیں ملک کی سابق نسل پرستی کی حکومت نے بنایا تھا۔
جس وقت اوسلو معاہدوں پر دستخط ہوئے، صرف 110,000 یہودی آباد کار مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں مقیم تھے۔ آج یہ تعداد 700,000 سے زیادہ ہے جو فلسطینیوں سے چھین لی گئی 100,000 ہیکٹر (390 مربع میل) سے زیادہ اراضی پر رہتے ہیں۔
2005 — غزہ کی آزادی اور ناکہ بندی
پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کا 2004 میں انتقال ہوا، اور ایک سال بعد، دوسری تحریک ختم ہوا، غزہ کی پٹی میں اسرائیلی بستیوں کو ختم کر دیا گیا، اور اسرائیلی فوجی اور 9,000 آباد کار غزہ سے نکل گئے۔ ایک سال بعد، فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالے۔ حماس نے اکثریت حاصل کر لی۔ تاہم، فتح اور حماس کے درمیان خانہ جنگی شروع ہوئی، جو مہینوں تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں سینکڑوں فلسطینی مارے گئے۔ حماس نے فتح کو غزہ کی پٹی سے بے دخل کر دیا، اور فلسطینی اتھارٹی کی مرکزی جماعت الفتح نے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول شروع کر دیا۔ جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر "دہشت گردی" کا الزام لگاتے ہوئے غزہ کی پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔
مصر سے متصل غزہ کی پٹی پر حملے
اسرائیل نے غزہ پر چار طویل فوجی حملے شروع کیے ہیں: 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں۔ ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں، اور دسیوں ہزار گھر، سکول اور دفتری عمارتیں تباہ ہو چکی ہیں۔ تعمیر نوِ تقریباً ناممکن ہے کیونکہ محاصرہ تعمیراتی سامان جیسے سٹیل اور سیمنٹ وغیرہ کو غزہ پہنچنے سے روکتا ہے۔ 2008 کے حملے میں فاسفورس گیس جیسے بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال شامل تھا۔ 2014 میں 50 دنوں کے دوران اسرائیل نے 2,100 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا جن میں 1,462 شہری اور 500 کے قریب بچے شامل تھے۔ آپریشن پروٹیکٹو ایج کے نام سے کیے جانے والے اس حملے کے دوران تقریباً 11,000 فلسطینی زخمی ہوئے، 20,000 گھر تباہ اور 5 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔
"مسئلہ فلسطین " کی تقریب رونمائی
مولانا محمد اسامہ قاسم
مسجد اقصیٰ اور فلسطین کے حوالے سے معروضی صورتحال اور امت مسلمہ کے موقف و جذبات سے نئی نسل کی آگاہی کے لئے مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب کے مقالات بیانات اور تحاریر کے مجموعے کو ہمارے برادر مکرم حافظ خرم شہزاد نے مرتب کیا جسے مولانا عبد القیوم حقانی صاحب نے اپنے ادارے سے شائع کرایا۔اسلامک رائٹرز موومنٹ گوجرانوالہ کے زیر اہتمام 10 دسمبر بروز اتوار خلافت راشدہ اسٹڈی سینٹر میں مسلئہ فلسطین کتاب کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی جس میں خصوصی مہمانوں میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی ، خانوادہ امیر شریعت کے چشم و چراغ مولانا سید عطا اللہ شاہ ثالث ، مولانا ڈاکٹر عبد الماجد حمید المشرقی ، پروفیسر میاں انعام الرحمن ، مولانا امیر حمزہ ، حافظ خرم شہزاد، مولانا فضل الہادی اور مولانا امجد محمود معاویہ، حاجی بابر رضوان باجوہ، پیر سمیع الحق، سید حفیظ الرحمٰن شاہ، پیر احسان اللہ قاسمی، شکور عالم رانجھا، مولانا نصرالدین خان عمر، مولانا شمس الحق دیروی، مولانا محمد خبیب عامر، مولانا عمر شکیل، حافظ عبدالجبار کے علاوہ گوجرانوالہ شہر کے اکثر دینی جماعتوں کے نمائندے اور مدارس کے اساتذہ اور طلبا بھی تقریب میں شریک ہوئے۔
مہمان مقررین نے کتاب کی اشاعت پر مولانا زاہدالراشدی کو مبارکباد پیش کی، مقررین نے جن امور پر گفتگو کی درج ذیل ہیں۔
بیت المقدس اور فلسطین کا مسئلہ حماس مجاہدین کی قربانیوں اور ہزاروں فلسطینیوں کی حالیہ شہادتوں کے باعث ایک بار پھر متنازعہ عالمی مسائل میں سرفہرست ہے، جس پر پوری نسلِ انسانی بالخصوص ملتِ اسلامیہ اور عرب دنیا کی ترجیحی بنیادوں پر سنجیدہ اور فوری توجہ ضروری ہے، اور یہ عدل و انصاف کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قوانین اور مسلّمہ انسانی حقوق کی پاسداری کا بھی تقاضا ہے۔
بیت المقدس اور فلسطین پر صہیونیوں کا ناجائز قبضہ ایک عرصہ سے عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہے اور اقوامِ عالم متعدد بار اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے حقوق اور بیت المقدس پر فلسطینیوں کے استحقاق کی حمایت کر چکی ہے لیکن اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی اور سامراجی قوتوں کی پشت پناہی کے باعث عالمی رائے عامہ کی پرواہ کیے بغیر جارحیت اور اشتعال انگیزی کی راہ پر گامزن ہے۔ عراق کی ایٹمی تنصیبات پر شرمناک حملہ، لبنان میں مسلح مداخلت اور دنیا میں کسی بھی مسلمان ملک کی ایٹمی تنصیبات کو برداشت نہ کرنے کی دھمکیوں کے بعد مسجدِ اقصیٰ میں مظلوم مسلمانوں پر وحشیانہ حملہ یہ سب کچھ اسرائیل کی مسلسل اشتعال انگیز کاروائیوں کا ایک حصہ ہے اور مسلسل ظلم و بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے۔
اس صورتحال میں عالم اسلام کے تمام طبقات بالخصوص مسلم حکومتوں سے ہماری گزارش ہے کہ اس معاملہ میں دینی حمیت اور ملی غیرت کے جذبہ و احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں، جس کے لیے ضروری ہے کہ فوری طور پر اسلامی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس بلا کر فلسطینی عوام کی حمایت و پشت پناہی کے ساتھ ساتھ ان کی امداد کی حکمت عملی طے کی جائے۔
اقوام متحدہ میں مسلم ممالک خصوصاً پاکستان، سعودی عرب، مصر اور ترکیہ عالمی اداروں اور بین الاقوامی رائے عامہ کو اسرائیلی مظالم کے خلاف منظم کرنے کے لیے کردار ادا کریں، اور عالمی ماحول میں بیت المقدس کے تحفظ اور فلسطین کی آزادی کے لیے منظم اور مربوط لائحہ عمل ترتیب دیں۔
دنیا بھر میں مسلم ادارے، جماعتیں اور طبقات فلسطینیوں کی حمایت میں عوامی اجتماعات اور مظاہروں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں اور مسلم رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی مہم جاری رکھیں۔
غزہ میں محصور فلسطینی بھائیوں کی ہر ممکن امداد و تعاون کے لیے مخیر شخصیات اور ادارے آگے بڑھیں اور قابل اعتماد ذرائع سے خوراک، علاج اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی بروقت اور مناسب فراہمی کی جدوجہد کریں۔
اکثر مسلم ممالک اور وہاں کی عوام نے جس طرح اس مسئلہ پر لبیک کہتے ہوئے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ہے وہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ دنیائے اسلام بیت المقدس اور فلسطین کے قضیہ کو پورے عالم اسلام کا مسئلہ سمجھتی ہے اور اس کے حل کے لیے ہر نوع کی قربانی کے لیے تیار ہے۔ ہم عالمِ اسلام کی سطح پر اتحاد، یکجہتی اور یگانگت کے اس پرجوش اظہار پر دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملتِ اسلامیہ کو حقیقی اتحاد و استحکام کی منزل سے ہمکنار فرمائیں تاکہ اقوامِ عالم کی برادری میں ملتِ اسلامیہ اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے، آمین یا الٰہ العالمین۔
’’مسئلہ فلسطین‘‘
ادارہ
تالیف: علامہ زاہد الراشدی
مرتب: مولانا حافظ خرم شہزاد
ضخامت: ۲۲۱ صفحات
ناشر: القاسم اکیڈمی، جامعہ ابوہریرہ، نوشہرہ
ارضِ فلسطین انبیائے کرام علیہم السلام کا وطن ہے، بیت المقدس کی سرزمین ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز و محور ہے۔ اس کی تاریخ کا آغاز سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت سے ہوتا ہے جب انہوں نے اپنے والد آذر کے ساتھ آخری مکالمہ کے بعد اہلیہ محترمہ حضرت سارہؓ اور بھتیجے حضرت لوطؑ کے ساتھ بابل سے فلسطین کی طرف ہجرت فرمائی تھی اور اس سرزمین کو اپنا مسکن بنا لیا۔ اس کے بعد یہ خطہ اہم دینی، سیاسی، تہذیبی واقعات اور تاریخی تبدیلیوں کا مرکز چلا آ رہا ہے۔
اس پر گفتگو کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس کے ماضی کی تاریخ کو سامنے لایا جائے جو سینکڑوں کتابوں میں بکھری ہوئی ہے، اور یہ خطہ اہلِ علم و دانش کی گفتگو اور تحریروں کا محور و مرکز ہے۔ اس وقت یہ سرزمین اسرائیل اور یہود کے زیرتسلط ہے اور اب تک وہاں ہزاروں مظلوم مسلمان جامِ شہادت نوش کر گئے ہیں اور سینکڑوں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر اب تک سینکڑوں مضامین و مقالات مختلف زبانوں میں لکھے جا چکے ہیں اور تاہنوز اس پر خامہ فرسائی کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلہ کی ایک حسین کڑی حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کی کاوش بھی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ’’مسئلہ فلسطین‘‘ میں حضرت علامہ صاحب نے مسئلہ فلسطین کا پس منظر، بیت المقدس اور مسلم حکمران، تاریخِ یہود اور اسرائیل، مسئلہ فلسطین اور مغرب، اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث جیسے اہم موضوعات پر سیر حاصل روشنی ڈالی ہے۔ اس اہم نظریاتی اور فکری مسئلہ کے جملہ متعلقات پر مولانا زاہد الراشدی صاحب کے متنوع مضامین اور بیانات نہ صرف تاریخ کا حصہ ہے بلکہ امتِ مسلمہ میں فکری و نظریاتی بیداری کی لہر اور امید کی کرن بھی ہے۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب کے یہ مضامین و بیانات نوجوانانِ ملت اور مسلم حکمرانوں کی رہنمائی کا ذریعہ ہیں جسے حافظ خرم شہزاد صاحب اور حافظ کامران حیدر صاحب نے استاد مکرم حضرت مولانا عبد القیوم حقانی مدظلہ کی تحریک و ایماء پر کمال مہارت، سلیقے سے خوبصورت انداز میں مرتب کیا۔ یہ کاوش اپنے موضوع پر ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے جس سے خواص اور عام الناس یکساں طور پر مستفید ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیل سے حقیقی آزادی کا وسیلہ ثابت فرمائے۔
(ماہنامہ الحق، اکوڑہ خٹک — دسمبر ۲۰۲۳ء)
الشریعہ — فروری ۲۰۲۴ء
الیکشن میں دینی جماعتوں کی صورتحال اور ہماری ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۳ جنوری ۲۰۲۴ء کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی نائب امیر حضرت مولانا عبد الرزاق کی زیرصدارت علماء کرام کے اجتماع سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے، مختلف جماعتیں میدان میں ہیں اور انتخابی مہم شروع ہو گئی ہے۔اس ماحول میں ملک کی دینی جماعتوں اور دینی حلقوں کو کیا کرنا چاہیے، اس کے بار ےمیں چند گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ دینی حلقوں، دینی جماعتوں اور علماء کرام کا انتخابی سیاست سے کیا تعلق ہے، یہ انتخابی عمل میں کیوں شریک ہوتے ہیں؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ پاکستان پون صدی پہلے اس نعرہ پر وجود میں آیا تھا کہ ہم مسلمان ہندوؤں سے الگ تہذیب رکھتے ہیں، وہ چونکہ برصغیر میں اکثریت میں ہیں اس لیے اگر ہم ان کے ساتھ رہیں گے تو ان کی تہذیب کے اثرات غلبہ پائیں گے، لہٰذا ہمیں اپنا الگ آزاد ملک چاہیے تاکہ ہم اپنے دین، مذہب، شرعی احکام اور تہذیب و ثقافت پر قائم رہ سکیں۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین بالخصوص قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ اور دیگر مرکزی قیادت جن کی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا، ان کا یہ صاف کہنا تھا کہ ہم ہندوؤں کے ساتھ تہذیبی اور مذہبی حوالے سے اکٹھے نہیں رہ سکتے اس لیے ہمیں الگ ملک چاہیے جہاں ہم شرعی قوانین کا نفاذ کریں گے، اسلامی تہذیب اور ثقافت کو باقی رکھیں گے، اور مسلم تہذیب کو ہندو تہذیب میں گڈمڈ نہیں ہونے دیں گے۔
یہ وہی معرکہ ہے جو حضرت مجدد الف ثانیؒ کو درپیش تھا، جب اکبر بادشاہ نے سب کچھ خلط ملط کر دیا تھا، کچھ ہندوؤں کی باتیں، کچھ عیسائیوں کی، کچھ مسلمانوں کی اور کچھ بدھوں کی باتیں اکٹھی کر کے ’’دینِ الٰہی‘‘ تشکیل دیا تھا اور اسے عملاً نافذ بھی کر دیا تھا۔ اس کا مقابلہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں اہلِ حق نے کیا تھا اور عملاً جدوجہد کر کے بتایا تھا کہ ہماری تہذیب و ثقافت اور عقائد الگ ہیں، ان پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کی جدوجہد اسی کا تسلسل تھا۔ تحریکِ پاکستان کے قائدین نے قیامِ پاکستان سے پہلے اور بعد میں دوٹوک بات کی کہ ہم ملک میں شرعی قوانین کے مطابق نظام چاہتے ہیں، لیکن قائد اعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ہمارا رخ مڑ گیا۔ ملک کے دستور میں تو لکھا ہوا ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے اور ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے، اور یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنا سکتی، لیکن عملاً پچھتر سال میں اس رخ پر کوئی کام نہیں ہوا۔
چنانچہ اس رخ اور ٹریک پر قوم کو قائم رکھنا اہلِ دین کی ذمہ داری ہے، پاکستان بننے کے بعد سے دینی جماعتیں اسی بنیاد پر کام کر رہی ہیں کہ ہم نے پاکستان کو اس کے مقصدِ قیام کے مطابق ایک اسلامی ریاست بنانا ہے، اور اس کے لیے علماء کرام کا قومی سیاست میں ایک مؤثر قوت کے طور پر موجود رہنا ضروری ہے۔
دوسری بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمارا پچھتر سال کا تجربہ ہے کہ جب بھی ہم نے دین، شریعت اور تہذیب کی کوئی بات اکٹھے ہو کر کی ہے تو اس سے کوئی انکار نہیں کر سکا۔ لیکن یہی بات جب ہم اپنے طور پر کرتے ہیں تو کوئی نہیں سنتا، بریلوی اپنی جگہ کرتے ہیں، اہلِ حدیث اپنی جگہ، دیوبندی اپنی جگہ، اور جماعت اسلامی اپنی جگہ کرتی ہے۔ تقریباً نصف صدی سے تو میں بھی ان تحریکات کا متحرک حصہ ہوں، الحمد للہ۔ جب اپنی اپنی جگہ بات کرتے ہیں تو کوئی نہیں سنتا لیکن جب اکٹھے ہو کر بات کرتے ہیں تو سنی جاتی ہے۔ یہی صورتحال الیکشن کی بھی ہے کہ جس الیکشن میں بھی ہم نے اجتماعی کردار ادا کیا ہے تو بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی تحریک پورے ملک کا رخ موڑنے والی تحریک تھی جس میں سب شریک تھے۔ پھر ایک دور آیا جب ’’متحدہ مجلس عمل‘‘ نے انتخابات میں خاصی سیٹیں جیت کر ایک فیصلہ کن قوت حاصل کی۔
اس لیے پاکستان کے قیام کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے اور پاکستان کو لادینی ریاست ہونے سے بچانے کے لیے دینی جماعتوں کو اکٹھے ہو کر یہ الیکشن لڑنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ کیوں نہیں ہو سکا، یہ الگ داستان ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ الیکشن لڑنے کے لیے دینی حلقے اکٹھے نہیں ہو سکے۔ اس موقع پر مجھے ۱۹۷۰ء کے انتخابات یاد آ رہے ہیں جس میں گوجرانوالہ کی تین چار سیٹوں کی انتخابی مہم کا میں انچارج تھا۔ صرف ایک تجربہ کے حوالے سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ گوجرانوالہ شہر کی قومی اسمبلی سیٹ پر علمائے دیوبند کی طرف سے مولانا مفتی عبد الواحدؒ، بریلوی علماء میں سے مولانا ابو داؤد صادقؒ، اہلِ حدیث علماء میں سے مولانا محمد عبد اللہ اور جماعت اسلامی کے چودھری محمد اسلم کھڑے تھے۔چار مذہبی جماعتیں جو نفاذِ اسلام کی بات کرتی ہیں، ہر ایک کا اپنا امیدوار کھڑا تھا، سب نے دس دس ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے۔ جبکہ اسی گوجرانوالہ میں ہم نے متحدہ مجلس عمل کے تحت ۲۰۰۲ء میں الیکشن لڑا تو مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ قومی اسمبلی کی سیٹ جیتے جبکہ صوبائی اسمبلی کی سیٹ مولانا مفتی غلام فرید رضوی جیتے جو بریلوی حضرات کے بڑے عالم تھے۔ میں صرف مثال کے طور پر عرض کر رہا ہوں کہ جب الگ الگ لڑے تو کچھ بھی نہیں ملا اور جب اکٹھے ہو کر لڑے تو کامیاب ہوئے۔
اس دفعہ کے الیکشن ۲۰۲۴ء میں ہم اتحاد نہیں کر سکے، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔ بریلویوں کی اپنی تنظیمیں ہیں، دیوبندیوں کی اپنی، اہلِ حدیث کی اپنی، کوئی کسی پارٹی میں ہے اور کوئی کسی پارٹی میں۔ پچھلے تجربات بتاتے ہیں کہ سب تکلف ہی کر رہے ہیں۔ بہرحال جو کچھ ہو چکا سو ہو چکا، صحیح ہوا یا غلط ہوا۔ اب اس موجودہ فضا میں ہم نے کیا کرنا ہے؟ میں سب دینی حلقوں سے خواہ وہ کسی بھی مکتبِ فکر کے ہوں، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث اور جماعت اسلامی، جو بھی اسلام کی بات کرتا ہے اور اسلام کے حوالے سے سیاست کی بات کرتا ہے، میں تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں:
➊ ہر حلقہ میں اہلِ دین کو اجتماعی طور پر مشاورت کے ساتھ اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ ان کی طرف سے ایسا آدمی آگے آئے جو کم از کم مشترکہ دینی معاملات میں دین کی بات کر سکے۔ وہ اس کا حوصلہ بھی رکھتا ہو اور علم بھی۔ صرف حوصلہ کچھ نہیں کرتا اور صرف علم بھی کچھ نہیں کرتا۔ چنانچہ پہلا دائرہ یہ ہے اور موجودہ صورتحال میں ہم یہی کر سکتے ہیں کہ اپنے حلقے میں جو بھی چار پانچ امیدوار ہیں، ان میں دیکھیں کہ ملک اور اسلامی نظام کے لیے حوصلہ و صلاحیت اور علمی اعتبار سے کون سب سے موزوں ہے، اور سب باہمی مشاورت کے ساتھ اس ایک امیدوار کو سپورٹ کریں۔
➋ جس امیدوار کو آپ نے سپورٹ کرنا ہے اس سے تحریری وعدہ لیں۔ حلقہ کے سو دو سو با اثر لوگ اکٹھے ہو کر اپنے امیدوار کو ساتھ بٹھائیں اور اس سے درج ذیل باتوں کا حلف لے لیں کہ ہم اس وعدہ پر آپ کو ووٹ دیں گے:
’’میں منتخب ہو کر پاکستان کے دستور کی وفاداری کروں گا۔ دستوِر پاکستان کی اسلامی دفعات کا تحفظ کروں گا۔ ملک کے دستور کے خلاف کوئی کام نہیں ہونے دوں گا۔ دستور اور قانون میں شریعت کے جو قوانین ہیں ان میں سے کسی کو منسوخ یا غیر مؤثر بنانے کی حمایت نہیں کروں گا۔ شریعتِ اسلامیہ کے خلاف کسی بل کی حمایت نہیں کروں گا۔ شریعت کے نفاذ کی کوشش کروں گا۔ ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت کے قوانین کی پوری طرح پاسداری کروں گا۔ جب بھی شریعت کے لیے کسی قانون کے نفاذ کی بات ہو گی تو میرا ووٹ شریعت کو ہو گا۔ کسی بھی دینی اور قومی مسئلہ میں، قومی خودمختاری یا ملکی آزادی کے معاملہ میں میرا ووٹ ملکی وحدت، قومی خودمختاری اور آزادی کے ساتھ ہو گا۔‘‘
یہ کام تو ہر حلقہ کے لوگوں کو کرنا چاہیے، آپ جس پارٹی کو یا جس امیدوار کو بھی ووٹ دیں، اس سے اس حلف نامہ پر ضرور دستخط لیں۔ اس سے کچھ نہ کچھ فرق ضرور پڑے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
➌ بہت سے حلقوں میں مختلف دینی جماعتوں کے علماء کرام آمنے سامنے انتخابات لڑ رہے ہیں۔ مختلف مسالک کے تو ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں ہی، بعض جگہ پر ایک مسلک کے علماء بھی باہم ایک دوسرے کے مقابلے پر ہیں۔ اگر کہیں ایک حلقے میں علماء کی دو جماعتیں ہوں تو وہاں کم از کم اتمامِ حجت کے لیے کوشش کریں اور ان سے گزارش کریں کہ آپ میں سے ایک اس دفعہ الیکشن لڑ لے، اور دوسرے سے عرض کریں کہ آپ اگلی دفعہ الیکشن لڑنا، لیکن مہربانی کریں کہ آمنا سامنا نہ کریں۔ دینی حلقوں اور دینی امیدواروں کا آپس میں آمنا سامنا ہمیں خاموشی سے ہضم نہیں کر لینا چاہیے بلکہ اسے کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
یہ میری تین گزارشات ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ پاک ہمیں ہدایت دیں اور صحیح رخ پر صحیح کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ پاکستان شریعت کونسل خود انتخابات میں شریک نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو اس کا ٹائٹل استعمال کرنے کی اجازت ہے، البتہ ہم ملک بھر کے عوام اور دینی کارکنوں سے گزارش کر رہے ہیں کہ (۱) امیدواروں میں سے جو شریعت کے زیادہ قریب ہے اسے منتخب کریں (۲) جس امیدوار کو ووٹ دیں اس سے حلف نامہ لیں (۳) جہاں دینی حلقے، جماعتیں اور علماء آپس میں مقابلے پر ہیں وہاں اپنی پوری کوشش کریں کہ ایک امیدوار سامنے آئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۹)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(471) المتقین کا ترجمہ
درج ذیل دونوں آیتوں میں متقین کا ترجمہ صاحب تدبر نے ’نقض عہد سے بچنے والوں‘ کیا ہے۔ یہ ترجمہ موزوں نہیں ہے۔ متقی قرآن کی معروف اصطلاح ہے۔ تقوی اختیار کرنے یعنی اللہ کی ناراضگی سے بچنے والے کو متقی کہتے ہیں۔ عہد کی پاس داری کرنا اور عہد شکنی سے بچنا تقوی کا ایک تقاضا تو ہے لیکن تقوی کااصل مفہوم عہد شکنی نہیں ہے۔ تقوی کا یہ تقاضا تفسیر میں بتایا جاسکتا ہے۔ ترجمہ ملاحظہ ہو:
(۱) فَأَتِمُّوا إِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ۔ (التوبۃ: 4)
”سو ان کے معاہدے ان کی قرار دادہ مدت تک پورے کرو۔ بے شک اللہ نقض عہد سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”تو ایسے لوگوں کے ساتھ تم بھی مدت معاہدہ تک وفا کرو کیونکہ اللہ متقیوں ہی کو پسند کرتا ہے“۔ (سید مودودی)
موخر الذکر ترجمے کے بارے میں تین باتیں قابل توجہ ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ آیت میں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے، اس لیے ’متقیوں ہی‘ کے بجائے صرف ’متقیوں‘ ہونا چاہیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ إِنَّ کا ترجمہ ’کیوں کہ‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ إِنَّ کا ترجمہ ’بے شک‘ کیا جائے گا۔ لفظ کے پہلو سے یہ درست اور معنویت کے اعتبار سے بھی زیادہ موزوں ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ أتم العھد کا مطلب عہد وفا کرنا نہیں، بلکہ معاہدہ پورا کرنا ہے۔ فَأَتِمُّوا إِلَیْہِمْ عَہْدَہُمْ إِلَی مُدَّتِہِمْ کا ترجمہ ہوگا: ’ان کی مدت تک ان کے معاہدے پورے کرو۔‘ مطلب یہ ہے کہ جو معاہدے ہوگئے ہیں انھیں مدت سے پہلے ختم نہ کرو بلکہ جو مدت طے ہوئی ہے، اس مدت تک باقی رکھو۔ عہد وفا کرنے کا مطلب ہے عہد کی خلاف ورزی سے بچنا جب کہ معاہدہ پورا کرنے کا مطلب ہے معاہدہ ختم کرنے سے بچنا۔ دونوں باتوں میں فرق ہے۔ یہاں عہد وفا کرنے کی نہیں معاہدہ پورا کرنے کی بات ہے۔
(۲) فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِینَ۔ (التوبۃ: 7)
”تو جب تک وہ تمہارے لیے قائم رہیں تم بھی ان کے لیے معاہدے پر قائم رہو۔ بے شک اللہ نقض عہد سے بچنے والوں کو دوست رکھتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”تو جب تک وہ تمہارے ساتھ سیدھے رہیں تم بھی ان کے ساتھ سیدھے رہو کیونکہ اللہ متقیوں کو پسند کرتا ہے“۔ (سید مودودی)
یہاں بھی إِنَّ کا ترجمہ ’کیوں کہ‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ إِنَّ کا ترجمہ ’بے شک‘ کیا جائے گا۔
چوں کہ فَمَا اسْتَقَامُوا لَکُمْ فَاسْتَقِیمُوا لَہُمْ معاہدے کے سیاق میں ہے اس لیے اس جملے کا ترجمہ ہوگا: ”جب تک وہ تمہارے ساتھ معاہدے پر قائم رہیں، تم بھی ان کے ساتھ معاہدے پر قائم رہو۔“
(472) فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ
درج ذیل آیت میں ’فِی رَیْبِہِمْ‘ حال ہے نہ کہ ’یَتَرَدَّدُونَ‘ کا ظرف۔ شک میں ڈانوا ڈول ہونے کا کوئی مطلب نہیں بیٹھتا ہے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ شک کی حالت میں ہیں اس لیے کوئی فیصلہ نہیں کرپا رہے ہیں بس پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:
وَارْتَابَتْ قُلُوبُہُمْ فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ۔ (التوبۃ: 45)
”اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں“۔ (احمد رضا خان)
”اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ سو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ اپنے شک میں ہی سرگرداں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور جن کے دل شک میں مبتلا ہیں اور وہ اپنے شک میں ڈانوا ڈول ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
”جن کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں سو وہ شک کی حالت میں پیچ و تاب کھارہے ہیں۔“
اسی جہت میں درج ذیل ترجمہ بھی ہے:
”اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں سو وہ اپنے شکوک میں پڑے ہوئے حیران ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)
(473) فَاِنْ رَجَعَکَ اللَّہُ إِلَی طَائِفَۃٍ مِنْہُمْ
فَإِنْ رَجَعَکَ اللَّہُ إِلَی طَاءِفَۃٍ مِنْہُمْ فَاسْتَأْذَنُوکَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِیَ أَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِیَ عَدُوًّا۔ (التوبۃ: 83)
”اگر اللہ ان کے درمیان تمہیں واپس لے جائے اور آئندہ ان میں سے کوئی گروہ جہاد کے لیے نکلنے کی تم سے اجازت مانگے تو صاف کہہ دینا کہ، اب تم میرے ساتھ ہرگز نہیں چل سکتے اور نہ میری معیت میں کسی دشمن سے لڑ سکتے ہو“۔ (سید مودودی)
اس ترجمہ میں لفظی ترکیب کی رعایت نہیں ہوسکی ہے۔ آیت میں ان کے گروہ کی طرف واپس لانے اور اس گروہ کے اجازت مانگنے کا ذکر ہے، نہ کہ ان کی طرف واپس لانے اور ان کے کسی گروہ کے اجازت مانگنے کا۔
اس پہلو سے درج ذیل ترجمہ درست ہے:
”پھر اے محبوب! اگر اللہ تمہیں ان میں سے کسی گروہ کی طرف واپس لے جائے اور وہ تم سے جہاد کو نکلنے کی اجازت مانگے تو تم فرمانا کہ تم کبھی میرے ساتھ نہ چلو اور ہرگز میرے ساتھ کسی دشمن سے نہ لڑو“۔ (احمد رضا خان)
اوپر کے دونوں ترجموں میں ایک اور بات قابل توجہ ہے وہ یہ کہ لَنْ تَخْرُجُوا اور لَنْ تُقَاتِلُوا کا ترجمہ ’نہیں چل سکتے‘ اور ’نہیں لڑسکتے‘ یا ’نہ چلو‘ اور ’نہ لڑو‘ سے زیادہ موزوں ’کبھی نہیں نکلو گے‘ اور ’کبھی نہیں لڑو گے‘ ہے۔
”پھر اگر خدا تم کو ان میں سے کسی گروہ کی طرف لے جائے“۔ (فتح محمد جالندھری)
رَجَعَکَ کا ترجمہ ’لے جائے‘ کے بجائے ’واپس لائے‘ ہونا چاہیے۔
درج ذیل ترجمہ مذکورہ کمیوں سے خالی ہے:
”سو اگر پھیر لے جاوے تجھ کو اللہ کسی فرقے کی طرف ان میں سے پھر یہ رخصت چاہیں تجھ سے نکلنے کو تو تو کہہ کہ تم ہرگز نہ نکلو گے میرے ساتھ کبھی اور نہ لڑو گے میرے ساتھ کسی دشمن سے“۔ (شاہ عبدالقادر)
(474) یُقْتَلُونَ کا ترجمہ
یُقْتَلُ کا مطلب مرنا نہیں بلکہ قتل کیا جانا اور مارا جانا ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے بعض حضرات اس فرق کا لحاظ نہیں کرسکے۔
یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ۔ (التوبۃ: 111)
”لڑتے ہیں اللہ کی راہ میں پھر مارتے ہیں اور مرتے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اللہ کی راہ میں لڑیں تو ماریں اور مریں“۔ (احمد رضا خان)
”وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”وہ اللہ کی راہ میں لڑتے اور مارتے اور مرتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہوجاتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)
یہ آخری ترجمہ بہت نامناسب ہے۔ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ قتل کرنے کے بعد وہ خود کو قتل ہونے کے لیے پیش کردیتے ہیں۔ آیت کا مطلب تو یہ ہے کہ ایمان والے جنگ کرتے ہیں جس میں دونوں طرح کے انجام کے لیے وہ تیار رہتے ہیں، قتل کرنے میں بھی انھیں باک نہیں ہوتا اور قتل کیے جانے سے بھی وہ نہیں ڈرتے۔ یہاں قتال کا ترجمہ جہاد بھی درست نہیں ہے۔
درج ذیل ترجموں میں لفظ کی رعایت کی گئی ہے:
”یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”وہ لوگ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں جس میں قتل کرتے ہیں اور قتل کیے جاتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی اور اشرف علی تھانوی)
(475) عَنْ یَدٍ کا ترجمہ
درج ذیل آیت کا ترجمہ عام طور سے اس طرح کیا گیا ہے۔
حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُونَ۔ (التوبۃ: 29)
”یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں“۔ (سید مودودی)
”جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہوکر“۔ (احمد رضا خان)
”یہاں تک کہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”یہاں تک کہ وہ ذلیل وخوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں“۔ (محمد جوناگڑھی)
’اپنے ہاتھ سے‘ کا مفہوم ادا کرنے کے لیے ایسے موقع پر حرف باء آتا ہے،یعنی ’بید‘ کی تعبیر لائی جاتی ہے۔ ’عن ید‘ یہاں طاقت کے معنی میں ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ دیکھیں:
”یہاں تک کہ وہ طاقت کے زور پر چھوٹے بن کر جزیہ دیں“۔ طاقت کے زور پر یعنی چار و ناچار وہ جزیہ دینے پر مجبور ہوں۔ جزیہ دینے کا مطلب یہ ہوگا کہ جس گھمنڈ اور تکبر کی بنا پر وہ حق کی مخالفت اور اہل حق سے جنگ کررہے تھے، ٹوٹ چکا ہے۔
(476) فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فِی الْاَخِرَۃِ إِلَّا قَلِیلٌ
فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِیلٌ۔ (التوبۃ: 38)
درج بالا جملے کا ترجمہ حسب ذیل کیا گیا ہے:
”سنو! دنیا کی زندگی تو آخرت کے مقابلے میں کچھ یونہی سی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”دنیا کا اسباب آخرت کے سامنے نہیں مگر تھوڑا“۔ (احمد رضا خان)
”آخرت کے مقابلے میں یہ دنیا کی زندگی تو نہایت ہی حقیر ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا ترجموں میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ تاہم درج ذیل ترجمہ عام ترجموں سے مختلف ہے، اس میں فی کا ترجمہ مقابلے (اصطلاح میں مقایسہ)کے بجائے ظرف کے معنی میں کیا ہے:
”ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخرت میں بہت تھوڑا نکلے گا“۔ (سید مودودی)
اسلوب کلام کو سامنے رکھیں تو یہ ترجمہ کم زور معلوم ہوتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی طرح کے دوسرے قرآنی جملے میں موصوفؒ نے عام مترجمین کے طرز پر ترجمہ کیا ہے:
وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ إِلَّا مَتَاعٌ۔ (الرعد: 26)
”حالانکہ د نیا کی زندگی آخرت کے مقابلے میں ایک متاع قلیل کے سوا کچھ بھی نہیں“۔ (سید مودودی)
(477) عَفَا اللَّہُ عَنْکَ کا ترجمہ
بہت سے لوگوں نے درج ذیل جملے کو دعائیہ مان کر ترجمہ کیا ہے، لیکن اس پر اشکال ہے کہ جب اللہ ہی دعا قبول کرنے والا ہے تو وہ اپنے آپ سے کیسے دعا کرے گا؟ اس لیے صحیح توجیہ یہ ہے کہ اس جملے کو خبریہ مانا جائے کہ اللہ نے معاف کردیا۔ بعض ترجمے ملاحظہ ہوں:
عَفَا اللَّہُ عَنْکَ۔ (التوبۃ: 43)
”اللہ بخشے تجھکو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اے نبیؐ، اللہ تمہیں معاف کرے“۔ (سید مودودی)
”اللہ تجھے معاف فرما دے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”خدا تمہیں معاف کرے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اللہ تمہیں معاف کرے“۔ (احمد رضا خان)
اس کے برعکس بعض لوگوں نے عَفَا اللَّہُ عَنْکَ کو دعائیہ کے بجائے خبریہ جملہ مانا ہے اور اس کے مطابق ترجمہ کیا ہے، یہ ترجمہ درست ہے۔ ملاحظہ کریں:
”اللہ تعالی نے آپ کو معاف (تو) کردیا“۔ (اشرف علی تھانوی)
”اللہ نے تمہیں معاف کر دیا“۔ (احمد علی)
”اللہ نے تمہیں معاف کیا“۔(امین احسن اصلاحی)
”پیغمبر! خدا نے آپ سے درگزر کیا“۔ (ذیشان جوادی)
(478) حَتَّی جَاءَ الْحَقُّ وَظَہَرَ أَمْرُ اللَّہِ وَہُمْ کَارِہُونَ
لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَکَ الْأُمُورَ حَتَّی جَاءَ الْحَقُّ وَظَہَرَ أَمْرُ اللَّہِ وَہُمْ کَارِہُونَ۔ (التوبۃ: 48)
”اس سے پہلے بھی اِن لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آ گیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا“۔ (سید مودودی)
”یہ پہلے بھی فتنہ انگیزی کی کوشش کرچکے ہیں اور انہوں نے واقعات کی صورت تمہارے سامنے بدلی یہاں تک کہ ان کے علی الرغم حق آگیا اور اللہ کا حکم ظاہر ہوا“۔(امین احسن اصلاحی) یہاں وَقَلَّبُوا لَکَ الْأُمُورَ کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس جملے کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ ’تمہارے خلاف طرح طرح کے جتن کیے۔‘
”بیشک انہوں نے پہلے ہی فتنہ چاہا تھا اور اے محبوب! تمہارے لیے تدبیریں الٹی پلٹیں یہاں تک کہ حق آیا اور اللہ کا حکم ظاہر ہوا اور انہیں ناگوار تھا“۔ (احمد رضا خان)
آخری ترجمے میں ’وھم کارھون‘ میں واو کو عطف کا مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسلوب کلام سے ظاہر ہے کہ یہ واو حالیہ ہے۔ پہلے دونوں ترجمے واو حالیہ کی بنیاد پر کیے گئے ہیں۔ البتہ ان دونوں نے وھم کارھون کو پچھلے دونوں جملوں کا حال مانا ہے، یعنی جاء الحق اور ظھر أمر اللہ کا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ وھم کارھون دوسرے جملے یعنی ظھر أمر اللہ کا حال ہے۔ اس طرح ترجمہ ہوگا:
”یہاں تک کہ حق آ گیا اور ان کی مرضی کے خلاف اللہ کا کام ہو کررہا“۔
(479) وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِی الْحَرّ
درج ذیل جملے کا ترجمہ کرتے ہوئے بعض مترجمین نے یہ مان کر کہ انھوں نے یہ بات دوسروں سے کہی تھے، ترجمے میں اپنی طرف سے ایسے الفاظ کا اضافہ کردیا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ پیچھے رہ جانے والوں نے یہ بات اپنے آپ سے کہی تھی یعنی خود کلامی کرتے ہوئے اپنے آپ سے کہا تھا کہ گرمی میں نہ جاؤ۔
وَقَالُوا لَا تَنْفِرُوا فِی الْحَرِّ۔ (التوبۃ: 81)
”اور (اوروں سے بھی) کہنے لگے کہ گرمی میں مت نکلنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”انہوں نے لوگوں سے کہا کہ اس سخت گرمی میں نہ نکلو“۔ (سید مودودی)
درج ذیل ترجمے میں کوئی اضافہ نہیں ہے اور دونوں مفہوم لیے جاسکتے ہیں:
”اور بولے اس گرمی میں نہ نکلو“۔ (احمد رضا خان)
(480) وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ کا عطف کس پر؟
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَیَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ۔ (التوبۃ:99)
درج بالا آیت میں قواعد کی رو سے صَلَوَاتِ الرَّسُولِ کو ’مَا یُنْفِقُ‘ پر بھی معطوف مانا جاسکتا ہے اور ’قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ‘ پر بھی۔ زیادہ تر لوگوں نے اسے’قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ‘ پر معطوف مان کر ترجمہ کیا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انفاق کے دو مقصد ہوتے ایک قرب الٰہی اور دوسرا رسول کی دعا۔ لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے ’مَا یُنْفِقُ‘ پر معطوف مانا جائے۔ اس کی رو سے انفاق اور رسول کی دعائیں دونوں کا مقصد قرب الٰہی کا حصول ہوگا۔
دوسری توجیہ زیادہ بہتر معلوم ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن کا اصل مقصود تو قرب الٰہی ہوتا ہے۔ وہ جو خرچ کرتا ہے اس کا بھی اصل مقصود قرب الٰہی ہے اور اس کے انفاق سے خوش ہوکر اللہ کے رسول جو دعائیں دیں ان کا بھی اصل فائدہ اور مقصود یہی ہے کہ ان دعاؤں کی بدولت اسے قرب الٰہی حاصل ہوجائے۔اس کی تائید اس جملے سے بھی ہوتی ہے جو اس کے فورًا بعد آیا ہے، یعنی أَلَا إِنَّہَا قُرْبَةٌ لَہُمْ (ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے) گویا ہر چیز کا اصل مقصود قرب الٰہی ہے۔
درج ذیل ترجمے صَلَوَاتِ الرَّسُولِ کو ’قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّہِ‘ پر معطوف مان کر کیے گئے:
”اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عند اللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو خدا کی قُربت اور پیغمبر کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کریں اسے اللہ کی نزدیکیوں اور رسول سے دعائیں لینے کا ذریعہ سمجھیں“۔ (احمد رضا خان)
درج ذیل ترجمہ صَلَوَاتِ الرَّسُولِ کو ’مَا یُنْفِقُ‘ پر معطوف مان کر کیا گیا:
”اور ان میں وہ بھی ہیں جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو اور رسول کی دعاؤں کو حصول قرب الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
صفات متشابہات پر متکلمین کا مذہب تفویض و ائمہ سلف
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
صفات متشابہات سے مراد قرآن و سنت میں اللہ تعالی کے بارے میں مذکور وہ بیانات ہیں جن کے ظاہری معنی حدوث (زمانی و مکانی تصورات ) پر دلالت کرتے ہیں جیسے اللہ کا ید (ہاتھ)، اس کا مجییئ و نزول (آنا و جانا)، اس کی اصبع (انگلی)، اس کی ساق (پنڈھلی) وغیرہ۔ انہیں صفات خبریہ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ بعض اہل علم حضرات کا دعوی ہے کہ ائمہ اہل سنت جیسے کہ امام ابوحنیفہ (م 150 ھ ) ، امام مالک (م 179 ھ ) و امام اشعری (م 324 ھ) کی عبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان صفات خبریہ یا متشابہات سے متعلق یہ حضرات اسی مذہب پر تھے جس کی تعلیم بعض متاخرین جیسے کہ علامہ ابن تیمیہ (م 728 ھ) نے دی۔ تاہم ہماری معلومات کی حد تک ان ائمہ سلف کی ایسی کوئی صریح عبارت موجود نہیں جو شیخ ابن تیمیہ کے موقف کے حق میں استدلال کے لئے مفید ہو بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ یہ حضرات ان ائمہ کے بعض اقوال کو بنیاد بنا کر اپنے موقف کے مطابق ان کی جو شرح کرتے ہیں اس تحریر میں متکلمین کے مذہب کی روشنی میں اس کی غلطی واضح کی جائے گی نیز متکلمین کے مذہب کی نوعیت واضح کرتے ہوئے اس پر بعض چبھتے ہوئے اہم اعتراضات کا جواب بھی دیا جائے گا۔
وما توفیقی الا باللہ۔
نفس مسئلہ پر فریقین کی رائے
1۔ سب سے پہلے نفس مسئلہ سے متعلق فریقین کے مواقف کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ صفات خبریہ جیسے کہ ید و نزول کے حقیقی معنی جسم و جزئیت جیسی کیفیات (اعراض) پر دلالت کرتے ہیں، اس معنی کے سوا ان الفاظ چند ثانونی یا مجازی معانی بھی ہیں (جیسے قدرت، عطا وغیرہ)۔ چونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان کے حقیقی معنی قطعی طور پر مراد نہیں لئے جاسکتے اور کسی قرینے کی بنا پر ان لفاظ کے مجازی معنی مراد لینا بارگاہ الہی میں غیر محتاط ہے، لہذا مناسب بات یہ کہنا ہے کہ "ید" کا اللہ کی صفت ہونا ثابت و معلوم ہے تاہم اس کے حقیقی معنی ہمیں معلوم نہیں کیونکہ کیفیت نامعلوم ہے ، اس لئے اللہ ہی اس کے حقیقی معنی سے واقف ہے اور ہم عند اللہ اس معنی کے ثابت و سچ ہونے اقرار کرتے ہیں۔ اس موقف کو “تفویض معنی” کہتے ہیں۔ اس کے برعکس شیخ ابن تیمیہ (اور ان سے قبل حنابلہ وغیرہ) کا کہنا ہے کہ لفظ "ید" کے حقیقی معنی ہمیں معلوم ہیں اور وہ وہی ہیں جو عربی لغت میں مراد ہیں البتہ اس معنی کی کیفیت و حقیقت معلوم نہیں۔ اس موقف کو یہ حضرات “تفویض کیف” کا نام دیتے ہیں، یعنی معنی معلوم مگر کیفیت مجہول۔ علامہ ابن تیمیہ کا کہنا تھا کہ جو ان کے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے "تفویض معنی " کا قول اختیار کرتا ہے وہ دراصل اللہ کی صفات کی تجھیل و تعطیل کا مرتکب ہے۔
دونوں مواقف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ ابن تیمیہ "معنی " اور "کیف " میں دوئی قائم کر کے اول الذکر کا علم ممکن ہونے اور دوسرے کی مجہولیت کے دعوے دار ہیں جبکہ متکلمین اشاعرہ و ماتریدیہ کے نزدیک کیف کی مجہولیت ہی معنی کی مجہولیت ہے جیسا کہ آگے واضح ہوجائے گا۔
متعلقہ عبارات اور ناقدین متکلمین کا استدلال
2۔ امام اشعری کتاب "الابانۃ " میں اللہ کی صفات پر گفتگو کے تحت یہ الفاظ کہتے ہیں:
وأن له وجهًا بلا كيف، وأن له يدين بلا كيف، وأن له عينين بلا كيف
مفہوم: بے شک اللہ کا وجہ (چہرہ) بلا کیف ہے، اللہ کے یدین (دو ہاتھ) بلا کیف ہیں، اللہ کی عینین (دو آنکھیں) بلا کیف ہیں
امام مالک سے جب ایک شخص نے پوچھا کہ استوی سے کیا مراد ہے تو آپ نے فرمایا:
الاستوی معلوم والکیفیة مجهول والایمان به واجب والسوال عنه بدعة
مفہوم : استوی معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس بارے میں سوال کرنا بدعت ہے
اس نوع کے اقوال کی بنیاد پر کہا گیا کہ ائمہ سلف کا موقف وہی تھا جسے "معنی معلوم اور کیفیت مجہول" کہا جاتا ہے۔ اس دعوے کے لئے ان کی جانب سے وجہ استدلال یہ ہے کہ امام مالک نے استوی کو معلوم کہا اور صرف کیفیت کو مجہول کہا، اسی طرح امام اشعری نے ید کا اقرار بلا کیف کیا۔ بعینہہ یہی استدلال امام ابوحنیفہ کی جانب منسوب کتاب “الفقہ الاکبر” کی بعض عبارات سے بھی کیا جاتا ہے۔ ایک مشہور عبارت یہ ہے:
وَله يَد وَوجه وَنَفس كَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن فَمَا ذكره الله تَعَالَى فِي الْقُرْآن من ذكر الْوَجْه وَالْيَد وَالنَّفس فَهُوَ لَهُ صِفَات بِلَا كَيفَ وَلَا يُقَال إِن يَده قدرته اَوْ نعْمَته لِأَن فِيهِ إبِْطَال الصّفة وَهُوَ قَول أهل الْقدر والاعتزال وَلَكِن يَده صفته بِلَا كَيفَ وغضبه وَرضَاهُ صفتان من صِفَات الله تَعَالَى بِلَا كَيفَ
مفہوم: اس کا ید، وجہ اور نفس ہے جیسا کہ اللہ نے قرآن میں ذکر کیا، پس اللہ نے قرآن میں وجہ، ید اور نفس کا جو ذکر کیا وہ اس کی “صفات بلا کیف “ہیں، اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس کا ید اس کی قدرت یا (عطائے) نعمت ہے کیونکہ اس سے اس کی صفت کا انکار لازم آتا ہے اور یہ اہل قدر و اعتزال کا قول ہے۔ بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس کا ید اس کی “صفت بلا کیف” ہے، اسی طرح اس کا غضب و رضا اس کی “صفات بلا کیف” ہیں
"بلا کیف" کا مطلب اور ائمہ کے اقوال کا مفہوم
اب ہم اس استدلال کی غلطی واضح کرتے ہیں۔
3۔ استدلال میں بنیادی غلطی “کیفیت کی نفی” اور “کیفیت کے علم کی نفی” میں فرق نہ کرنا ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ کا موقف اول الذکر جبکہ علامہ ابن تیمیہ کا موخر الذکر ہے (اگر علامہ کا یہ موقف نہیں تو پھر ان کی ساری بحث لفظی نزاع ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے)۔ امام اشعری و امام مالک دونوں کے اقوال میں کیفیت کی نفی کی گئی ہے نہ کہ کیفیت کے علم کی۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے متکلمین کی اصطلاح میں “کیف” کا مطلب سمجھنا ضروری ہے نہ یہ کہ ہم کسی علم و فن کے ماہرین کے معنی سے سہو نظر کرتے ہوئے کیف کو اپنی طرف سے کوئی معنی پہنا کر عبارات پڑھنا شروع کر دیں (یاد رہے کہ امام اشعری منجھے ہوئے متکلم تھے)۔
4۔ کیف کا مطلب کسی موجود کے ہونے کی وہ حالتیں ہیں جو زمانی و مکانی مشاہدے سے متعلق ہیں اور جنہیں اعراض یا modalities کہا جاتا ہے اور وہ نو (9) ہیں۔ سب کا تعارف یہاں مقصود نہیں، ان سے مراد اس قسم کے امور ہیں جیسے کمیت یا مقدار، رنگ، ٹھنڈا و گرم، طول و عرض و لمبائی، مکانی جہت وغیرہ۔ ان اعراض کا مطلب یہ ہے کہ یہ امور انسانی مشاہدے میں آسکنے والی جمیع اشیا کے مابین ممکنہ طور پر مشترک امور میں سے سب سے عمومی امور (upper tips) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ چنانچہ جب کہا جاتا ہے کہ "اللہ کا ید بلا کیف ہے" تو یہ کیفیت کی نفی ہے، یعنی ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ اللہ کی صفت ید ثابت ہے کیونکہ نص میں اس کا ذکر ہے مگر ہم اس بات کی نفی کرتے ہیں کہ وہ کیف (اعراض) کے ساتھ ہے۔ یعنی اللہ کے ید پر نہ کمیت و مقدار کا اطلاق ہے اور نہ رنگ و ٹھنڈک کا، نہ طول و عرض کا اور نہ جسم و جہت کا وغیرہ۔ یہ مطلب ہے "ید بلا کیف" اور "وجہ بلا کیف" کا اور یہی اشاعرہ و ماتریدیہ کا مذہب ہے۔
5۔ کیف (یعنی اعراض) کی نفی کا اس کے سوا کوئی مطلب نہیں کہ ہمیں لفظ ید کا حقیقی مطلب معلوم نہیں اس لئے کہ "ید" کا حقیقی معنی تو ان کیفیات کے ساتھ عبارت ہے کیونکہ اہل عرب نے یہ اسی تناظر میں وضع کیا، اس کے بعد جو بچتا ہے وہ یا مجازی معنی ہیں اور یا معنی سے لاعلمی۔ اسی طرح مثلاً نزول کا حقیقی معنی ایک مکان سے دوسرے مکان میں منتقلی ہے جو جسم کی صفات پر مبنی معنی ہے۔ کیا اہل عرب کے کلام میں لفظ ید یا نزول کے استعمال کی کوئی ایسی نظیر ملتی ہے جو ان کے حقیقی معنی کے ساتھ متصل تمام کیفیات سے ماورا بھی ہو اور مجازی معنی بھی نہ کہلاتا ہو؟ جو اس کے مدعی ہیں انہیں اس کی دلیل عربی کلام کے نظائر سے لانا ہوگی۔ چنانچہ جب ان سب کیفیات یعنی modalities کی نفی کردی گئی تو سمجھ آنے والے معنی کی نفی ہو گئی کیونکہ جو ید اور نزول ان سب سے ماورا ہے اس کا علم حاصل ہونے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ ہی نہیں۔ حس و عقل جس ید کے مفہوم کو سمجھ سکتے ہیں وہ اعراض یا modalities کے ساتھ ہیں۔ پس جب اس لفظ سے سمجھ آنے والے سب سے اوپری امور (upper tips) کی بھی نفی کردی گئی تو اس کے بعد بھلا حقیقی معنی میں سے "معلوم" کیا رہا؟ ایسے میں ہم ایک سچے کی خبر کی بنیاد پر اس ید کے متحقق و ثابت ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں لیکن اس کے معنی معلوم ہونے کی بات ایک خالی دعوی ہے۔ یعنی ترتیب گفتگو یوں ہے:
- ید و نزول کیف کے ساتھ: حقیقی معنی
- ید و نزول بلا کیف: معنی معلوم نہیں کیونکہ اس کے علم کا کوئی ذریعہ موجود نہیں
- ید کا معنی قدرت و عطا وغیرہ: مجازی معنی یا تاویل
6۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ اور امام اشعری فرما رہے ہیں کہ ان امور کا صفات الہیہ ہونا ہم مانتے ہیں اس لئے کہ یہ قرآن سے ثابت ہیں نیز ان کی تاویل نہیں کی جائے گی، لیکن ہم سمجھ نہیں پائے کہ آخر ان کی عبارات میں وہ کونسا لفظ ہے جو “حقیقی معنی معلوم” کا مفہوم پیدا کر رہا ہے؟ عبارت میں صاف طور پر “کیف کی نفی” کی گئی ہے اور کیف کی نفی کس چیز کو کہتے ہیں یہ ہم واضح کر چکے ہیں۔ ہمارے ان محترم دوستوں کی غلطی یہ ہے کہ یہ "ید بلا کیف" کا مطلب "ید بلا علم کیف" فرض کر لیتے ہیں۔ اسی طرح امام مالک کی بات کا بھی یہی مفہوم ہے: "الاستوی معلوم ای ثابت " (استوی معلوم ہے یعنی کہ یہ ثابت ہے)، کسی چیز کا وجود ثابت ہونا بھی ایک علم ہونا ہے (معلوم ہوا کہ ناقدین کا متکلمین پر یہ اعتراض کرنا کہ ان کے موقف سے صفات کی تجھیل لازم آتی ہے درست نہیں کیونکہ وہ صفات کو ثابت مانتے ہیں)۔ ناقدین متکلمین نے "الاستوی معلوم" کے الفاظ میں معلوم کا مطلب خود سے یہ فرض کر لیا ہے کہ مراد "معنی معلوم" ہے جبکہ امام مالک کے الفاظ میں ایسی کوئی بات موجود نہیں۔ امام صاحب کی بات میں یہ اضافہ ان دوستوں نے اپنے موقف کے تحت خود کیا ہے، گویا ان کے مطابق امام صاحب کی عبارت میں لفظ "علم" محذوف ہے۔ الغرض امام مالک کے قول کو اس خاص مفہوم میں پڑھنے کی ایسی کوئی قطعی دلیل موجود نہیں جس کی بنیاد پر متکلمین کے موقف کو سلف کے خلاف ثابت کر دیا جائے بلکہ یہ قول متکلمین کے موقف کے مطابق پڑھا جانا بھی اتنا ہی ممکن ہے بلکہ زیادہ اولی ہے کہ عبارت میں محذوف لفظ کا اضافہ کرنے والے کو دلیل لانا ہوگی۔ الغرض اس نوع کے جتنے اقوال ہیں وہ "تفویض معنی " پر دلالت کرتے ہیں۔
"معنی معلوم کیفیت مجہول" متضاد و بے معنی جملہ
7۔ اس موقف کے برعکس جب ہمارے دوست کہتے ہیں کہ “ید کے معنی معلوم مگر کیفیت مجہول ہے” تو اس کا اس کے سوا کوئی قابل فہم مطلب نہیں کہ “کیف تو ثابت ہے البتہ ہمیں اس کیف کا علم نہیں”، گویا اللہ کے لئے وہ اعراض تو ثابت ہیں جن سے ہم واقف ہیں بس ہم ان کی کیفیت کو نہیں جانتے۔ یہ بذات خود ایک متضاد بات ہے کیونکہ جب کیف معلوم ہے تو کیف مجہول کیسے ہے؟ یہ دعوی دو میں سے کسی ایک بات سے خالی نہیں: یا یہ تجسیم و تشبیہہ ہے اور یا پھر بے معنی بات یعنی words without meaning ہے۔ اس موقف کے قائلین سے سوال ہے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ “ید کا معنی معلوم ہے” تو کیا آپ یہ کہتے ہیں کہ “موڈیلٹی یعنی کیف ثابت ہے”؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یہی تجسیم و تشبیہہ ہے اور اگر آپ کہتے ہیں کہ کیف ثابت نہیں تو پھر وہ معنی معلوم کیا ہیں جس کا دعوی کیا جا رہا ہے؟ اس کے بعد آپ کے اور متکلمین کے موقف میں کیا فرق رہا؟
پس اس فرق کو خوب سمجھ لینا چاہئے کہ امام اشعری کی عبارت میں “ید بلا کیف” کا مطلب “کیف ثابت ہونا نہیں” جیسا کہ ہمارے دوستوں کے موقف کا مفروضہ ہے بلکہ اس کا مطلب "کیف کی نفی" ہے۔
8۔ "معنی معلوم و کیفیت نامعلوم" کے موقف کی غیر ہم آہنگی کو ہم ایک اور طرح سمجھاتے ہیں۔ اس موقف کے حاملین کہتے ہیں کہ "اللہ کا ید ہے مگر ہمارے ید جیسا نہیں، اس کی جہت ہے مگر ہماری جہت جیسی نہیں" وغیرہ۔ اسی قسم کے جملے کرامیہ فرقے والے کہتے تھے کہ "اللہ کا جسم ہے مگر ہمارے جسم جیسا نہیں"۔ یہ جملے یا ایک ہی چیز کی تصدیق و نفی سے عبارت ہیں اور یا تاویل سے۔ "اللہ کا ید ہے مگر ہمارے ید جیسا نہیں" میں ید دو مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ یہاں دو امکان ہیں، یا لفظ ید دونوں مرتبہ ایک معنی میں استعمال ہوا ہے اور یا الگ معنی میں۔
- فرض کریں ید ایک معنی میں استعمال ہوا ہے اور اس کا مطلب ہے "ہاتھ جو جسم کا جزو ہے"، تو جملہ یوں بنا: “اللہ کا ہاتھ جسم کا جزو ہے مگر جسم کے جزو جیسا نہیں"۔۔۔ ظاہر ہے یہ بے معنی جملہ ہے کیونکہ پہلا حصہ جس بات کی تصدیق کر رہا ہے دوسرا اسی کی نفی کر رہا ہے
- اور اگر ید کا مطلب دونوں مرتبہ الگ ہے، یعنی پہلی مرتبہ جسے ید کہا وہ کلی طور پر ید کی ان کیفیات سے مختلف ہے جو اس کے حقیقی معنی ہیں تو جملہ یا بے معنی ہے (کیونکہ تمام کیفیات سے ماورا ید کا کوئی معنی ہمیں معلوم نہیں) اور یا تاویل کی جانب رواں دواں ہے۔
مثال سے وضاحت
9۔ چونکہ علم کلام کی بحثیں سمجھنا اکثر لوگوں کے لئے مشکل ہے لہذا آسانی پیدا کرنے کے لئے ایک مثال سے بات سمجھتے ہیں کہ متکلمین “کیف” کسے کہتے ہیں نیز علامہ ابن تیمیہ کا موقف کیوں کر غیر معقول ہے۔
- گائے، کار اور درخت کا تصور کیجئے۔ ان میں بہت سے امور مختلف ہیں، مثلا یہ کہ گائے کے سینگ ہیں، چار ٹانگیں ہیں، گوشت ہے، رنگ ہے، خاص وزن ہے وغیرہ ؛ اس کے برعکس درخت میں چھال ہے، پتے ہیں، اونچائی ہے وغیرہ لیکن نہ اس میں گوشت ہے اور نہ سینگ اور نہ کھال وغیرہ؛ اس کے برعکس کار کے پہیے ہیں نہ کہ ٹانگیں، اس میں سٹیل ہے نہ کہ گوشت وغیرہ۔ کیا ان میں کچھ مشترک بھی ہے؟ جی ہاں، مثلا رنگ، کمیت، مقدار، طول و عرض، خاص قسم کی وضع (یعنی اعضا کی ایک دوسرے کے ساتھ نسبت سے جنم لینے والی ھیئات)، مکانی مقام میں اور زمانی ساعت میں پایا جانا۔ یہ “امور عامہ” ہیں، اگر آپ ان تین کے سوا دیگر چیزوں کا تصور کریں مثلاً ہاتھ، کرسی، میز وغیرہ تو یہ امور انہیں بھی گھیرے ہوئے ہیں (ضروری نہیں کہ مشاہدے میں آسکنے والی ہر شے میں یہ سب امور موجود ہوں لیکن کچھ ضرور ہوں گے)۔ ان امور کو آپ زمان و مکان سے متعلق مشاہدے میں آنے والی موجودات کی سب سے اوپری سطح یا upper tips سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے سب امور کو گھیر رکھا ہے۔ انہی امور کو متکلمین کسی شے کے ہونے کی کیفیات یا کیف کہتے ہیں۔
- ہاتھ، گائے، کار اور درخت سب اجسام ہیں، کچھ مزید باریکی میں اتر کر سوچیں تو معلوم ہوگا کہ ہر جسم مختلف اجزا سے مل کر بنا ہے اور ہر مجموعے کے چھوٹے سے چھوٹے قابل تصور جزو جو مکان گھیرے اسے جوھر کہتے ہیں۔ یعنی گائے، کار، درخت، ہاتھ سب کی آخری یا اوپری tip مکان و زمان ہیں۔ چنانچہ متکلمین کی اصطلاح میں جسم کا مطلب گوشت پوست یا خاص صورت و وضع (مثلا پانچ انگلیوں) کا وجود نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب کسی موجود پر زمان و مکان اور اس سے متعلق کیفیات کا اطلاق کرنا ہے جیسے کہ پھیلاؤ، جہت، زمان، مقدار، رنگ وغیرہ۔ اسے اصطلاحاً تجسیم کہتے ہیں۔
- جو شے یا موجود اس اوپری سطح سے ماورا ہے اس کے ہونے کی کیفیت کا علم حس و عقل سے ناممکن اور اس لئے ناقابل ہے۔ انسان با معنی طور پر یا کسی موجود پر ان کیفیات کا اطلاق کر سکتا ہے اور یا ان کیفیات سے ماورا کسی موجود کے ہونے کا اثبات کر سکتا ہے، لیکن وہ ماورا موجود کیسا ہے نیز کیا اس پر ان کیفیات سے پرے کسی کیفیت کا اطلاق ہے یہ حس و عقل سے جاننا ناممکن ہے۔
- یہ امور عامہ گائے، درخت، کار و ید (ہاتھ) کی حقیقت میں شامل ہیں۔ انسان ان امور سے ماورا کسی "ید" سے واقف ہے اور نہ ہی مثلا عربی یا اردو زبان میں لفظ "ید" یا "ہاتھ " کا کوئی ایسا استعمال ہے جو ان کیفیات سے ماورا کسی "ید" سے متعلق اس کا حقیقی معنی ہو۔ انسانوں کے وضع کردہ لفظ "ید" کے حقیقی معنی وہی ہیں جو ید کی حقیقت میں شامل ان امور عامہ سے متعلق ہیں۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ عربی زبان میں لفظ ید کا کوئی ایسا "حقیقی معنی" بھی ہے جو ان امور عامہ سے ماورا ید پر لاگو ہے، اسے اپنے دعوے کی دلیل کے لئے کلام عرب سے اس پر استشہاد پیش کرنا ہوگا۔ چنانچہ ایک بامعنی کلام میں یا آپ "ید" کے حقیقی معنی کہہ کر لازماً یہ امور عامہ مراد لیں گے اور یا اس کے مجازی معنی مراد لیں گے، ان دو کے علاوہ عربی لغت میں لفظ ید کا کوئی "حقیقی معنی" نہیں، ایسے معنی فرض کرنا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ایسی گفتگو میں لفظ بول کر آپ قابل فہم بات نہیں کرتے۔ مثلا جب کوئی کہتا ہے کہ خدا کے لئے جہت ثابت ہے مگر وہ جہت ہماری ان جہات سے بالکل مختلف ہے تو اس نے ایسا کوئی قابل فہم جملہ نہیں بولا جس میں لفظ جہت کو اس کے "حقیقی معنی" میں تو استعمال کیا گیا ہو بس کیفیت مجہول ہو۔ اس شخص کا یہ جملہ اسی قدر مبہم ہے جتنا کسی شخص کا یہ کہنا کہ "اس جہت کا معنی ہمیں معلوم نہیں" اس لئے کہ حس و عقل سے متعلق جہت سے ماورا اگر کوئی جہت ہے تو اس کا کوئی تصور و ادراک ہمیں حاصل نہیں۔ اب اس مثال میں آپ اس "ید" کو رکھ لیجئے جو زمان و مکان سے ماورا ہے تو ناقدین متکلمین کی غلطی عین واضح ہو جائے گی۔
- زمان و مکان سے متعلق جو کچھ ہے وہ قطعی طور پر حادث و مخلوق ہے، لہذا یہ ماننا قطعی طور پر لازم ہے کہ ذات باری ان سے ماورا ہے
ان مقدمات سے یہ واضح ہے کہ لفظ "ید" کے حقیقی معنی کا اقرار ذات باری پر ناممکن ہے، تاہم وحی کی بنیاد پر اس صفت کا ہم اقرار کریں گے۔ اسے ہی "ید بلا کیف" کہتے ہیں۔ ہمارے دوست علم کلام کی اصطلاحات و ابحاث سے سہو نظر کرتے ہوئے عبارات کو اپنے موقف کے مطابق معنی بھی پہناتے ہیں اور ساتھ یہ بھی نہیں بتاتے کہ آخر یہ "کیف" کسے کہتے ہیں اور اس کی نفی کے بعد "معلوم حقیقی معنی" کیا ہیں۔ جب لفظ سے سمجھ آسکنے والی قابل فہم سب سے اوپری سطح (upper tip) کی نفی کردی تو اس کے بعد لفظ کا حقیقی معنی کہاں سے آگیا کیونکہ آپ تو اس کی سب سے اوپری ترین حقیقت کی نفی کر چکے؟ آخر وہ کونسے اہل زبان ہیں جنہوں نے ان اوپری ترین سطح سے ماورا حقائق کو بیان کرنے کے لئے بھی الفاظ ایجاد کئے تھے؟ پس "ید اللہ" میں لفظ ید کے حقیقی معنی معلوم فرض کرنے کے لئے اس ید کو زمان و مکان اور اس کی کیفیات کے تحت لانا ہوگا جس کا مطلب خدا کو مخلوق کی صفات سے متصف ماننا ہے، ان کیفیات سے ماورا اس لفظ کا کوئی حقیقی مطلب عربی لغت میں منقول نہیں۔ پھر ان کیفیات کے تحت لا چکنے کے بعد "حقیقی معنی معلوم مگر کیفیت مجہول" ایک متضاد جملے کے سوا کچھ نہیں کیونکہ جو کیفیت معلوم ہے بعینہہ وہ نامعلوم کیسے ہے؟ الغرض اس ید کی کیفیت یا معلوم ہے اور یا مجہول ہے، اگر معلوم (یعنی حقیقی معنی معلوم) ہے تو یہی تجسیم ہے اور اگر نا معلوم ہے تو یہی تفویض مطلق ہے۔ یعنی نفس معاملہ یوں ہے:
- ید بالکیف، ید کے حقیقی معنی
- ید بلا کیف، ید کے حقیقی معنی نا معلوم یا مجہول
ان کے درمیان جو یہ "حقیقی معنی معلوم اور کیفیت مجہول" کا موقف بنایا گیا ہے اس کی کوئی علمی بنیاد نہیں، یہ ایک غیر ہم آھنگ و بے معنی جملہ ہے کیونکہ یہ موقف دراصل ایک ہی بات کی نفی و اثبات کا مجموعہ ہے: "حقیقی معنی معلوم ہے اور حقیقی معنی نا معلوم ہے"، "کیفیت معلوم ہے اور کیفیت نامعلوم ہے"۔
خلاصہ بحث
10۔ مذکورہ ائمہ کی عبارات کو اس طرح پڑھنا قطعاً ضروری نہیں جو ہمارے محترم دوستوں نے فرض کیا ہے اور ان عبارات کی بنیاد پر اپنے موقف کو سلف کا واحد موقف باور کرانے کی کوشش کرنا تحکم ہے (ہاں اگر سلف سے کسی کی مراد ان کے موقف سے ہم آہنگ رائے رکھنے والے چند افراد ہیں تو الگ بات ہے)۔ یہ نتیجہ "کیفیت کی نفی" اور "کیفیت کے علم کی نفی" میں خلط مبحث پیدا کر کے کھڑا کیا گیا ہے۔ "ید بلا کیف” کا مطلب ید کے کیف یعنی اس کے حقیقی معنی کے علم کی نفی ہے، نہ کہ کیف ثابت ہونے کا علم ہونے اور حقیقی معنی کا علم نہ ہونے کی۔ امام ابوحنیفہ اور امام اشعری کی عبارات کیفیت کی نفی کر رہی ہیں اور یہی متکلمین کا موقف ہے۔ یہ حضرات "الاستوی معلوم" کی ترکیب میں لفظ معلوم کے ساتھ اپنی جانب سے "حقیقی معنی" (معلوم ) کا سابقہ لگا کر اسے اپنے موقف کی ترجمانی فرض کرتے ہیں جبکہ امام مالک کے قول میں "حقیقی معنی معلوم" کا ذکر نہیں۔ یہ ائمہ ان امور کی اصل نصوص میں مذکور ہونے کی بنیاد پر انہیں بطور صفات الہیہ ثابت مانتے ہیں اور یہی ان کی عبارت میں "معلوم ہونے" کا مطلب ہے۔ ائمہ کے کلام میں اپنی طرف سے الفاظ و معانی داخل کر کے انہیں اپنے موقف کا ہمنوا ثابت کرنے کا جو طریقہ ہمارے دوست اختیار کرتے ہیں وہ درست نہیں۔ جو شخص اللہ کے یدیا نزول کے حقیقی معنی معلوم ہونے کا مدعی ہے، متکلمین کے نکتہ نگاہ سے یا:
- وہ تجسیم (اور نتیجتاً خدا کے لئے مخلوق کی صفات ماننے) کا قائل ہے
- یا اس کا موقف وہی ہے جو متکلمین کہتے ہیں
- یا وہ ناقابل فہم و بے معنی بات کر رہا ہے مگر اسے اس کا علم نہیں
چونکہ یہ دوست دوسری بات کے انکار پر مصر ہیں اور پہلی بات بھی کھل کر نہیں کہتے، لہذا تیسری بات راجح ہے۔ تاہم اگر کسی کے نزدیک کیف کا مطلب وہ نہیں جو متکلمین مراد لیتے ہیں تو یہ الگ بحث ہوگی، تاہم جب تک وہ "کیف" کا کوئی متبادل مطلب نہیں بتاتے کوئی بامعنی گفتگو ممکن نہیں۔
نمائندہ اعتراضات
ناقدین متکلمین کے موقف پر پر چند عقلی شبہات وارد کرتے ہیں اور ان کے وارد کردہ یہ شبہات کرامیہ فرقے والے بھی کرتے تھے جو علم کلام کی کتب میں مذکور ہیں۔ لیکن چونکہ یہ دوست اکثر و بیشتر متکلمین کا موقف براہ راست ان کی کتاب سے سمجھنے کے بجائے علامہ ابن تیمیہ یا بعض مزید متاخرین کے بیانات و نقد پر انحصار کرتے ہیں لہذا وہی اعتراضات دہراتے ہیں جن کا جواب تقریباً علم کلام کی ہر دوسری کتاب میں دیا گیا ہے۔ یہاں چند اہم اعتراضات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
1) صفات خبریہ سے تجسیم لازم آتی ہے تو صفات معنی سے کیوں نہیں؟
ایک مشہور اعتراض یہ ہے کہ اگر لفظ ید کے حقیقی معنی ماننے سے تجسیم لازم آتی ہے تو متکلمین بھی تو اللہ کے لئے بعض صفات معانی کے حقیقی معانی مانتے ہیں، جیسے کہ علم ، قدرت ، ارادہ ، حیات، کلام وغیرہ۔ کیا معاملہ یوں نہیں کہ قدرت و ارادہ جسم ہی کی خصوصیات ہیں؟ کیا جسم کے بغیر کسی حیات کا تصور انسان کے لئے ممکن ہے؟ کیا منہ کے بغیر کلام کے اجرا کا تصور ممکن ہے؟ کیا “موجود” ہونا بھی جسم کی صفت نہیں؟ الغرض اگر بعض صفات کے حقیقی معانی لینا جائز ہے تو بعض دیگر کی نفی کیوں کر؟ یہ ہر دور میں گروہ مجسمہ کا متکلمین پر انتہائی اعتراض رہا ہے اور ان کا گمان ہے کہ متکلمین کے پاس اس کا کوئی ہم آہنگ جواب موجود نہیں جبکہ یہ اعتراض کمزور اور متکلمین کے صفات معنی کے تصور سے عدم واقفیت کی بنا پر ہے۔ آئیے ہم اسے کھولتے ہیں۔
تبصرہ
امام رازی (م 606 ھ) واضح کرتے ہیں کہ کسی شے پر کیا جانے والا استدلال یا علت سے معلول کی جانب ہوتا ہے، یا مساوی سے مساوی پر اور یا معلول سے علت پر ۔ اللہ کی ذات و صفات پر کیا جانے والا ممکنہ استدلال آخری قسم کا ہے، یعنی ہم معلول کے مشاہدے سے علت کے وجود اور اس کی نوعیت (یا صفت) پر استدلال کرتے ہیں۔ اس استدلال سے سامنے آنے والی صفات کو “صفات معنی” کہتے ہیں۔ استدلال کی منطقی ترتیب کی رو سے ان صفات کی ترتیب یوں ہے: ارادہ، علم، قدرت ، حیات، کلام، سمع و بصر۔ انہیں ایک خاص مقصد کے تحت دو گروپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: (1) ارادہ، علم، قدرت وحیات (2) کلام، سمع و بصر۔ ان سب کے اوپر صفت وجود ہے۔ یہاں پہلے گروپ کو لیجئے۔
زمان و مکان سے متعلق ہمارے مشاہدے میں آنے والی ہر شے تعیینات و تخصیصات کا شکار ہے، یہ تخصیصات لازمی طور پر کسی “ارادے ” کا تقاضا کرتی ہیں ۔ ارادے کا مطلب کیا ہے؟ وہ صفت جو ممکنات پر تخصیصات مرتب کرے یا مساوی امور میں سے کسی ایک جانب کو ترجیح دے، یہ ارادے کا “حقیقی معنی “ہے اور اللہ کی بارگاہ میں ہم یہی مراد لیتے ہیں۔ قدرت کا مطلب وہ صفت ہے جو “عدم سے وجود بخشنے ” سے عبارت ہے، یہ قدرت کا “حقیقی معنی” ہے اور ہم رب تعالی کے لئے اس کا اثبات کرتے ہیں۔ یعنی عالم مشاہدہ میں تعیینات و تخصیصات شدہ موجودات ایسی قدرت و ارادے کا سراغ بتا رہی ہیں جن کا اثر یہ اشیا ہیں۔ اسی طرح صفت “ارادہ” بتا رہی ہے کہ صاحب ارادہ علم سے بھی متصف ہے اس لئے کہ بلا علم ارادے کا کوئی مطلب ہی نہیں۔ حیات کا مطلب وہ صفت ہے جو کسی موجود کے لئے علم و قدرت متحقق کریں، یعنی صفت حیات علم و قدرت کی شرط ہے۔ لہذا ترتیب یوں ہے: ارادے کی شرائط قدرت و علم ہیں اور ان کی شرط حیات ہے۔ یوں ہم معلول یا اثر سے علت یا مؤثر کی ان چار صفات تک پہنچے اور یہ وہ کم سے کم عقلی تصورات ہیں جو عدم سے آنے والی کائنات کی توجیہہ کر سکیں۔ متکلمین کا کہنا ہے کہ کائنات مفعول ہے جو فعل کا تقاضا کرتی ہے اور فعل ان امور (حیات، علم، قدرت و ارادہ) کو فرض کرتا ہے۔ بتائیے ان سب کو ماننے کے لئے جسم کے کس تقاضے کو ماننا لازم ہے؟
یہاں دو باتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے:
- جو لوگ ان صفات کو “ید کے حقیقی معنی” سے خلط ملط کرتے ہیں ان کی غلطی اس فرق کو نہ سمجھنا ہے کہ یہ صفات معنی مشاہدے میں موجود معلول یا اثر سے علت کی لازمی صفات سے متعلق ہیں، یعنی اگر علت میں یہ صفات نہ مانی جائیں تو معلول موجود نہ ہو سکے گا، یہاں صفت کے متعلقات (یا اثر )سے صفت پر استدلال کیا گیا ہے۔ کیا ید سے متعلق بھی کوئی ایسا نتیجہ یا اس کا کوئی ایسا وصف ہمارے مشاہدے میں موجود ہے جسے دیکھ کر عقل لازمی طور پر علت سے متعلق “ید ” کے حقیقی معنی پر استدلال لازم قرار دے جیسے کہ قدرت و ارادے پر استدلال لازم کرتی ہے؟ ایسا اثر ہمارے مشاہدے میں موجود نہیں جو عالم مشاہدہ کے موجودات کی علت کے لئے لازما “ید کے حقیقی معنی” کے اقرار کا تقاضا کرے، ہاں “قدرت کے حقیقی معنی ” کے اثبات کا عقل لازما ر تقاضا کرتی ہے اور یہ بات معلوم ہے کہ معدوم ممکن کو وجود میں لانے کی بنیاد ” ید ” نہیں “قدرت ” ہے۔ وہ جسے ہم “حقیقی ید” کہتے ہیں، وہ قدرت کے اظہار کا بس ایک امکانی طریقہ ہے نہ کہ اس کا واحد لازمی وسیلہ۔
- دوسری بات یہ کہ جس ذات کے ساتھ یہ صفات قائم ہیں، اس کی “ان صفات کی حقیقت یا ماہیت” کا ہمیں کوئی علم نہیں۔ ہم اثر کے پیش نظر اس قدرت سے متعلق صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ عالم کو عدم سے وجود بخش رہی ہے، رہی یہ بات کہ وہ قدرت ہے کیسی (یعنی کیا وہ انرجی نما کچھ ہے وغیرہ) تو اس کا ہمیں علم نہیں۔ یہی معاملہ اس ذات کی حیات سے متعلق ہے کہ ہمیں اس کی نوعیت کا کوئی علم نہیں، ہم بس یہ جانتے ہیں کہ قدرت ہے تو حیات ہے اور حیات کا مطلب نہ سانس لینا ہے اور نہ نمو وغیرہ بلکہ حیات کا مطلب کسی ذات یا شے کے لئے علم و قدرت متحقق ہونا ہے۔ لہذا یہ فرق اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ قدرت کا معنی ہے معدوم کو موجود کرنا اور ذات باری کے لئے “قدرت کے حقیقی معنی” ماننے کا مطلب یہ قطعا نہیں ہم اس کی “قدرت کی حقیقت یا ماہیت” بھی جان گئے ہیں۔ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ اس قدرت کا اثر یہ عالم ہے جو عدم سے موجود ہوا اور عدم سے موجود ہونا بذات خود اس صفت یا معنی کے اقرار کا تقاضا کر رہا جسے قدرت کہتے ہیں۔
جب یہ بات سمجھ آگئی تو اب “موجود ” کو سمجھنا بھی آسان ہوگیا۔ اللہ تعالی کے وجود کی نوعیت و ماہیت یا احساس کیا ہے، یہ ہم نہیں جانتے اور نہ ہی اس کا موجود ہونا ہمارے موجود ہونے جیسا ہے۔ تاہم ہم یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ اگر صفت موجود و ثابت ہے تو لازماً کوئی صاحب صفت بھی موجود و ثابت ہے جس سے وہ صفت متعلق ہے۔ پس ارادہ، قدرت، علم و حیات ثابت ہیں تو ان سے متصف ذات بھی ثابت ہے۔ متکلمین اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ موجود ہونے کے لئے جسم ہونا کوئی عقلی شرط نہیں بلکہ وہ موجود کو تین اقسام میں لاتے ہیں:
- وہ جو متحیز (یا مکانی) ہے، یہ جوہر و جسم ہے
- وہ جو متحیز کا حال ہے،یہ عرض ہے
- وہ جو نہ متحیز ہے اور نہ متحیز کا حال، یہ ذات باری ہے
پس ارادہ قدرت و حیات جیسی “صفات معنی ” کے اقرار سے قطعا جسمیت لازم نہیں آتی، ان صفات نیز کسی کے فاعل ہونے کی بنیاد جسم ہونا نہیں بلکہ موجود ہونا ہے۔ یہاں تفصیل کا موقع نہیں وگرنہ ہم قارئین کو ان امور سے متعلق قدیم متکلمین میں سے قاضی باقلانی (م 403 ھ) کی عبارات کا مطالعہ کرواتے کہ وہ بعینہہ انہی خطوط پر گروہ مجسمہ کے اس اعتراض کا جواب دیتے تھے (ان کے بارے میں بھی یہ غلط فہمی پیدا کی جاتی ہےکہ وہ بھی علامہ ابن تیمیہ کے ہمنوا تھے جبکہ قاضی صاحب کی صریح عبارات اس کے خلاف ہیں)۔
قدرت و ید کے فرق کو ہم ایک آسان طریقے سے بھی سمجھاتے ہیں۔ قدرت کا حقیقی معنی تجریدی اسم (abstract noun ) جبکہ ید کے حقیقی معنی مادی اسم ( concrete noun) سے متعلق ہیں، اسی لئے قدرت صفت معنی کہلاتی ہے ۔ اول الذکر سے تجسیم لازم نہیں آتی جبکہ موخر الذکر سے آتی ہے۔ یہ فرق ان کے لئے جن کے لئے دقیق مباحث سمجھنا مشکل ہے ۔
الغرض صفات معنی کو صفات خبریہ جیسے کہ ید اور وجہ پر قیاس کرنا ناقدین کی دیرینہ غلطی ہے اور غلطی کی بنیادی وجہ متکلمین کی اصطلاحات کا پوری طرح لحاظ نہ رکھنا ہے ۔ صفات معنی کے حقیقی معنی سے تجسیم لازم نہیں آتی جبکہ خبریہ سے آتی ہے اور اسی لئے متکلمین ان میں فرق کرتے ہوئے اول الذکر کے حقیقی معنی کا اقرار اور دوسرے کی تفویض کرتے ہیں۔ صفات معنی معلول یا اثر سے علت یا مؤثر پر استدلال کا نتیجہ ہیں، یعنی ہمارے مشاہدے کے پیش نظر اثر کو سمجھنے کے لئے وہ کونسے کم سے کم تصورات ہیں جو علت میں بایں معنی ہونے لازم ہیں کہ یہ عالم اس علت کا اثر بن کر قابل توجیہہ ٹھہرے۔ رہیں صفات خبریہ تو انہیں اسی لئے خبریہ کہتے ہیں کہ وہ نبی کی خبر پر موقوف ہیں اور عقل سے ان کا ادراک ممکن نہیں۔
2) سمع و بصر میں کیف کی نفی کے بعد معنی کیسے ثابت ہوئے؟
متکلمین کے مطابق سمع و بصر جیسی صفات کے معنی اللہ کے لئے ثابت ہیں جبکہ سمع و بصر کے معنی بھی ید و نزول کی طرح جسمانی اعضاء کے ساتھ ہی مفہوم ہیں - پس اگر سمع و بصر میں لوازمات جسم (یعنی کیف) کی نفی کے بعد کوئی حقیقی معنی مراد لینا ممکن ہے تو ید اور نزول میں کیوں نہیں؟ اگر شیخ ابن تیمیہ کا موقف ید و نزول میں غیر معقول ہے تو متکلمین کا موقف بھی اسی اصول پر سمع و بصر کے معاملے میں کیوں غیر معقول نہیں؟ اور اگر متکلمین کیف کی نفی کے ساتھ حقیقی معنی کی گنجائش سمع و بصر میں نکالتے ہیں تو ید و نزول میں کیوں نہیں نکالتے؟ الغرض متکلمین کو چاہئے کہ سمع و بصر میں بھی تفویض معنی کریں۔ اس سے گویا ثابت ہوا کہ معنی معلوم و کیفیت نامعلوم کا وہ موقف متکلمین کے منہج پر بھی معقول ہے جو شیخ ابن تیمیہ نے بیان فرمایا۔
تبصرہ
یہ استدلال دراصل متکلمین کے موقف میں غیر ہم آہنگی دکھا کر صفات باری سے متعلق شیخ ابن تیمیہ کا موقف درست ثابت کرنے کی کوشش ہے۔ اصلاً یہ استدلال ایک الزامی استدلال ہے نہ کہ اصولی۔ چنانچہ اگر ایک لمحے کے لئے ہم بر سبیل تنزیل یہ مان لیں کہ آپ کی بات درست ہے کہ سمع و بصر کے معاملے میں متکلمین کے موقف میں غیر ہم آہنگی ہے تو اس سے یہ مقدمہ کیسے ثابت ہوا کہ "حقیقی معنی معلوم و کیف مجہول" ایک معقول مذہب ہے؟ اگر مخالف ایک نامعقول موقف پر کھڑا ہو تو اس سے ناقد کے موقف کی نامعقولیت معقولیت میں کیسے بدل جائے گی، یہ بات سمجھ نہیں آئی۔ اگر اس دلیل کے بعد بالفرض متکلمین یہ کہہ دیں کہ ٹھیک ہے سمع و بصر میں بھی تفویض معنی ہوگی تو آپ کے پاس اپنے مقدمے میں کہنے کے لئے کیا رہا؟ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنا مقدمہ ثابت کرنے کے لئے محض دوسرے کی غیر ہم آہنگی کا سہارا لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنے مقدمے کی معقولیت دکھانے کے لئے اثباتی دلیل الگ سے دینا ہوتی ہے جو آپ نے اب تک پیش نہیں کی۔
الزامی جواب کے بعد اصولی جواب کی جانب بڑھتے ہیں۔ متکلمین کا اصول یہ ہے کہ آیات ظاہری حقیقی معنی پر محمول ہیں یہاں تک کہ یہ معنی مراد لینا محال ہو جائے۔ وجوب، امکان اور استحالہ احکام عقلیہ ہیں، چنانچہ کیا چیز محال ہے اور کیا نہیں اس کے لئے عقل کی جانب رجوع کرنا ہوگا:
الف) اگر کسی چیز کا محال ہونا ثابت ہو جائے اور ظاہری معنی اس محال پر دلالت کرتے ہوں (یعنی کیف کی نفی کے بعد قابل فہم حقیقی معنی ختم ہو جائیں) تو ظاہری معنی مراد نہیں ہوں گے بلکہ ان کی تفویض ہوگی۔ ید و نزول میں یہی معاملہ ہے۔
ب) اگر ظاہری حقیقی معنی مراد لینے کی اصول عقلیہ میں گنجائش ممکن ہو (یعنی عقل اسے ممکن کہے) تو حقیقی معنی مراد لئے جائیں گے۔ یہ سمع و بصر کا معاملہ ہے
متکلمین کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ جسم اور اس کے لوازم (یعنی کیف) کی نفی کے بعد اگر کوئی حقیقی معنی مراد لینا ممکن ہوں تو اسے مراد لیا جائے۔ سمع و بصر پر بات سے قبل ہم یہاں رؤیت باری کی مثال دینا چاہیں گے تاکہ بات واضح ہو سکے۔ معتزلہ کا کہنا تھا کہ رؤیت کے لئے دیکھے جانے والے وجود کا جہت میں ہونا لازم ہے اور چونکہ ذات باری جسم نہیں اس لئے وہ جہت میں نہیں اور نتیجتاً اس کی رؤیت محال ہے۔ اس کے برعکس متکلمین اہل سنت کا کہنا ہے کہ رؤیت باری ممکن ہے۔ کیا یہ کوئی تضاد ہے؟ نہیں، ان کا کہنا ہے کہ کسی شے کی رؤیت کی حقیقت ایک خاص طرح کا ادراک یا علم ہے جبکہ آنکھ کا ڈیلا اور روشنی کا کسی جسم سے ٹکرا کر اس پر منعکس ہونا یہ اس خاص ادراک سے متعلق وہ امور عادیہ ہیں جو اللہ تعالی نے اس دنیا میں جاری فرمائے ہیں۔ تاہم جو رؤیت کی حقیقت ہے وہ ان امور کے سوا بھی ممکن ہے، یعنی ایسا بالکل ممکن ہے کہ اللہ چاہے تو آنکھ کے بغیر بھی انسان میں براہ راست وہ ادراک پیدا کر سکتا ہے جسے رؤیت کہتے ہیں اور چاہے تو کسی واسطے کے بغیر براہ راست آنکھ یا مثلاً ہاتھ میں وہ ادراک پیدا کر دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رؤیت بدون جہت بہرحال ممکن ہے اور جب اس کا امکان ثابت ہوگیا تو نص کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے گا۔
یہی معاملہ سمع و بصر کی صفات کا ہے، ان کی حقیقت بھی موجودات سے متعلق ایک خاص طرح کا علم و ادراک ہے۔ مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک شخص نے آپ کو آم کی خبر دی، پھر آپ نے اسے دیکھ لیا، پھر اسے سونگھ لیا، پھر اسے چکھ لیا۔ ان سب سے آم سے متعلق علم کی مختلف سطحات حاصل ہوئیں، انہیں ادراک کہتے ہیں۔ آنکھ اور کان اس عالم میں بصارت و سماعت سے متعلق ادراک کے لئے اللہ کی عادت کے تحت جاری ہونے والے ذرائع یا نشانیاں ہیں، اللہ چاہے تو ان کے بغیر بھی مخلوق میں سماعت و بصارت سے متعلق وہ ادراک پیدا کر سکتا ہے جو عادتاً آنکھ و کان کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ نہ تو آنکھ میں اور نہ ہی کان میں کوئی ایسی تاثیر و قوت ہے جو سماعت و بصارت کا اثر پیدا کرتے ہوں، اللہ چاہے تو زبان سے سنوائے اور ہاتھ سے بلوائے (یہاں یہ دھیان رہے کہ متکلمین کے نظام فکر میں سماعت و بصارت کوئی قوت نہیں ہے جو ایک کے بجائے دوسرے عضو میں رکھ دی جائے بلکہ ان کے ہاں واحد علت ذات باری کا فعل ہے)۔ پس معلوم ہوا کہ سماعت و بصارت کی حقیقت خاص طرح کا علمی ادراک ہے نہ کہ جسم کا کوئی عضو۔ اس تجزئیے سے ہم سمع و بصر کے ایسے حقیقی معنی لینے کے امکان تک پہنچے جو "اصلاً " جسم سے مبرا ہے، یعنی ان کے حقیقی معنی میں اصلاً جسم ہے ہی نہیں، جیسے کہ قدرت و ارادے کے مفہوم میں نہیں۔ اسی لئے متکلمین اللہ کے لئے ان کے حقیقی معنی کو ثابت مانتے ہیں۔ کیا آپ ید و نزول کے کوئی ایسے حقیقی معنی ثابت کر سکتے ہیں جہاں جسم کے سب لوازمات ختم ہو جانے کے بعد بھی کوئی ایسے حقیقی معنی بچ رہیں جو اسی طرح قابل فہم ہوں جیسے سمع و بصر کا معاملہ ہے؟ اگر کوئی ایسے معنی ہیں تو ہمیں سمجھائیں، ہم آپ کی بات ماننے میں دیر نہیں لگائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ید و نزول میں کیف (یعنی کسی جسم سے متعلق اعراض) کی نفی کے بعد ایسے کوئی حقیقی معنی بچتے ہی نہیں، ہاں ید کے بارے میں قدرت وغیرہ کا مفہوم ضرور بچ جاتا ہے لیکن وہ حقیقی معنی نہیں مجازی معنی ہیں۔
بات کو آسان کرنے کے لئے کچھ مزید کھول لیتے ہیں، سماعت کی مثال لیجئے۔ اس دنیا میں سماعت کے ساتھ عادتاً یہ تصورات وابستہ ہیں:
(الف) کانوں کی خاص ہئیت اور رنگ،
(ب) جسم کا عضو ہونا،
(ج) کان کی اندرون خاص طرح کی ساخت ہونا،
(د) خاص طرح کے علمی ادراک کا حصول (جو مثلاً بصارت سے مختلف ہے)
- اب اگر آپ (الف ) تا (ج ) سب کی نفی کر دیں تو کیا کوئی قابل فہم معنی باقی بچے؟ جی ہاں
- کیا (الف ) تا (ج ) اس معنی کے قابل فہم ہونے کے لئے لازمی شرائط کی حیثیت رکھتے ہیں؟ یعنی کیا اس معنی میں کیف (یعنی جسم سے متعلق اعراض) فرض کرنا ضروری ہے؟ نہیں
یہاں اس پہلو کو پھیلانے کا موقع نہیں، صرف اتنا عرض ہے کہ کسی شے کے حقیقی معنی اس کے بارے میں اس تصور سے متعلق ہوتے ہیں کہ اگر اس کی نفی ہو جائے تو وہ شے ناقابل تصور ہو جائے۔ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ کان کا پردہ وغیرہ سماعت کی حقیقت ہے؟ کیا کان کے بغیر واقعی سماعت کا تصور محال ہو جاتا ہے؟ ہرگز بھی نہیں۔ پھر اگر یہ سماعت کا جزو لاینفک ہوتا تو یہ بات ناممکن ہوتی کہ کسی کے کان کا پردہ تو موجود ہو مگر وہ بہرہ ہو لیکن ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ کان کا پردہ سماعت کی حقیقت میں شامل نہیں۔
کیا آپ ایسا ہی تجزیہ مثلاً نزول کے لئے فراہم کر سکتے ہیں؟ مثلا نزول کی مثال میں اس کے ساتھ جڑی "انتقال مکانی" اور نتیجتاً "مکان" کی سب سے اوپری سطح کی نفی کے بعد کونسے قابل فہم معنی باقی بچے جس کے علم کا دعوی کیا جائے؟
اس کے بعد یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ متکلمین سمع و بصر کو ان کے متعلقات یا مآل (یعنی ادراک المسوعات و ادراک المبصرات) کے ذریعے کیوں بیان کرتے ہیں۔ اللہ کی سماعت و بصارت کی حقیقت و ماہیت کیا ہے، یہ ہم قطعاً نہیں جانتے جیسے اس کی قدرت کی ماہیت نہیں جانتے۔ ہاں جس طرح یہ ضرور جانتے ہیں کہ وہ ذات لازما اس معنی سے متصف ہے جسے عدم سے وجود میں لانا (یعنی قدرت) کہتے ہیں اسی طرح یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ایسے معنی سے بھی متصف ہے جسے مسموعات و مبصرات کا ادراک کہتے ہیں اس لئے کہ وہ عالم ہے۔ سمع و بصر درحقیقت اللہ کی صفت علم کی جانب راجح ہیں۔ اس پر یہ اعتراض وارد نہیں کیا جاسکتا کہ اس رائے نے سماعت و بصارت کو علم بنا دیا کیونکہ ہر ایک الگ نوعیت کا علم ہے۔ درج بالا اصول (یعنی صفت کو متعلق صفت سے بیان کرنا) دیگر صفات معنی پر بھی لاگو ہوتا ہے جیسے کہ محبت، غضب و رحم وغیرہ۔
3) کیا کلام نفسی گونگا ہونے کے مترادف ہے؟
درج بالا اصولوں کے بعد صفت کلام پر متکلمین کے مذہب پر وارد کئے جانے والے اعتراضات بھی رفع ہو جاتے ہیں اور ہم یہاں بے جا طور پر بات کو پھیلانا نہیں چاہتے اور چند ضمنی قسم کے اعتراضات پر مختصر تبصرہ کافی ہوگا۔ صفت کلام کی بحث میں بھی ناقدین کا اعتراض اسی نوعیت کا ہوتا ہے کہ "کیا منہ کے بغیر بھی کوئی کلام متصور ہوتا ہے؟" ناقدین کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یا تو اللہ کے لئے حروف والا کلام مانئے، ورنہ اس کے لئے صرف کلام نفسی ماننے سے کام نہیں چلے گا نیز متکلمین کے موقف کی رو سے گویا خدا کا گونگا ہونا لازم آتا ہے کہ کلام تو حروف و آواز ہی سے ہوتا ہے۔ نجانے ناقدین نے یہ غور کیوں نہ کیا کہ گوگل میپس میں راستہ سمجھانے والی آواز کیا کسی کے "منہ" سے نکلتی ہے؟ آج کے دور میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ پروگرامنگ کے ذریعے آواز پیدا کرنا ممکن ہے اور متکلمین نے اس بات کو بالکل درست طور پر پہچان لیاتھا کہ کلام حادث (آواز و حروف) اور کلام نفسی (معانی) میں فرق ہے، اول الذکر صاحب قدرت کی قدرت کا اثر ہے۔
4) کیا حرکت نہ کرنے والا خدا بت ہے؟
اسی نوعیت کا ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جب متکلمین خدا کے لئے حدوث کی نفی کرتے ہیں تو گویا خدا کو ایک بت کی مانند ساکن کہہ رہے ہوتے ہیں جو حرکت ہی نہیں کر سکتا، یعنی اگر اپنی شان کے مطابق نزول کرنے والا خدا حدوث کی زد میں آتا ہے تو کیا بت کی طرح ساکن خدا کو مانا جائے؟ یہ بالکل سطحی اعتراض ہے جس میں ایک نوعی غلطی (کیٹیگری mistake) کی گئی ہے اور وہ یہ کہ سکون کو حرکت کی ضد قرار دے کر پھر حرکت کی نفی کرنے والے کے نزدیک سکون واحد ممکنہ ثابت شدہ موقف فرض کر لینا ہے۔ اس کے برعکس اشاعرہ و ماتریدیہ کا کہنا یہ نہیں ہے کہ خدا اگر حرکت نہیں کرتا تو وہ ساکن ہے بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ جس طرح حرکت زمان و مکان میں مقید جسم کی صفت ہے اور اس لئے خدا کے لئے نہیں مانی جائے گی، اسی طرح سکون بھی زمان و مکان میں مقید جسم ہی کی صفت ہے۔ جسم، زمان اور مکان کے بغیر "حالت سکون اور حرکت" دونوں کو سمجھنا ناممکن ہے۔ چنانچہ اشاعرہ و ماتریدیہ جس طرح خدا کو حرکت سے پاک مانتے ہیں اسی طرح حالت سکون سے بھی پاک مانتے ہیں اور وہ خدا کے عالم سے اتصال و انفصال دونوں کی نفی کرتے ہیں۔ لہذا حرکت کی نفی سے ان پر یہ اعتراض کرنا کہ ان کے نزدیک گویا خدا ایک ساکن تصور و شے ہے، یہ زمان و مکان اور جسمیت کے انہی تصورات کو ان پر لاگو کر کے اعتراض کرنا ہے جن کی وہ اصولاً نفی کرتے ہیں۔
الغرض متکلمین کے موقف میں ایسا کوئی تضاد موجود نہیں جو ناقدین نے اپنی دانست میں پیش کیا۔ متکلمین پر نقد کرنے سے قبل ان کے اصولوں کا ادراک حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے لازم ہے کہ ناقدین کی کتب پر تکیہ کرنا چھوڑ کر براہ راست ائمہ کلام کی کتب کا مطالعہ کیا جائے۔ ناقدین عام طور پر متکلمین کا مقدمہ کمزور طریقے پر بیان کر کے اس کے خلاف دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں لیکن اصل موقف کی جانب رجوع کرنے کے بعد ان کے دلائل کی غلطی واضح ہو جاتی ہے۔
آخری اعتراض
اس تفصیل پر ایک اعتراض یہ وارد کر دیا جاتا ہے کہ آلات سماعت و بصارت کے بغیر حاصل ہونے والے ادراکات ان الفاظ کے حقیقی نہیں بلکہ مجازی معنی ہیں لہذا متکلمین نے یہاں حقیقی معنی مراد نہیں لیا کیونکہ اہل لغت نے جسمانی عوارض والی سماعت و بصارت کو سمع و بصر کے حقیقی معنی کہا ہے، لہذا لغت سے متکلمین کے معنی ثابت کئے جائیں ۔
پہلی بات یہ کہ جسم کے عوارض سے پاک ادراک کو سمع و بصر کے حقیقی معنی کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے۔ اگر یہ عوراض یا اعضاء ان کی حقیقت میں شامل ہوتے تو کان والا بہرہ ناممکن ہوتا اور کان کے بغیر سماعت ناممکن ہوتی۔ دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض کسی کا یہی اصرار ہے کہ یہ ان کے حقیقی معنی نہیں بلکہ ایک طرح کے مجازی معنی ہیں تو متکلمین کے موقف کے لئے یہ بات بھی مضر نہیں کیونکہ اصول یہ ہے کہ جب حقیقت کلیتاً متعذر ہو جائے تو کلی تفویض کی جائے گی اور اگر اس کا کوئی جزو مراد لینا ممکن ہو تو اسے مراد لیا جائے گا اور اسے "حقیقت قاصرۃ" اور "حقیقت مقیدۃ" کہتے ہیں۔ چنانچہ اگر یہ مان لیا جائے کہ لغوی طور پر سمع کے حقیقی معنی ادراک بذریعہ اعضاء ہیں تو اعضاء کے بدون ادراک مراد لینا حقیقت قاصرۃ کہلائے گی۔ اور اگر پھر بھی کسی کا اصرار ہو کہ لغوی طور پر یہ مجازی معنی مراد لینا ہے تو یہ بھی متکلمین کے خلاف نہیں کیونکہ کسی قرینے کی بنا پر مجازی معنی لینا حرام نہیں ہے (ایسی تاویل کی مثالیں خود امام احمد بن حنبل و علامہ ابن قتیبہ جیسے محدثین نیز خود شیخ ابن تیمیہ کے ہاں موجود ہیں، وہ اور بات ہے کہ شیخ اپنی لسانی تھیوری کے تحت اسے مجازی کے بجائے حقیقی معنی ہی قرار دیتے ہیں لیکن اس سے نفس مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ ذیل میں واضح ہوگا)۔ ناقد کا یہ اعتراض نفس مسئلہ کو اصل بحث سے ہٹا کر لغوی بحث میں الجھانے کی کوشش ہے جس سے کچھ حاصل نہیں، اصل چیز احکام و تصور ہے کہ کیا اعراض پر مبنی کیفیات کی نفی کے بعد کوئی ایسے قابل فہم معنی مفہوم ہوتے ہیں جو حدوث سے ماوراء ہوں؟ الغرض اس اعتراض سے بھی ان دوستوں کا مسئلہ حل نہیں ہوتا جو ید اور نزول کے "حقیقی معنی معلوم مگر کیفیت نامعلوم" کا قول اختیار کرتے ہیں۔
یہ اصرار کہ ان الفاظ کے یہ معنی عربی لغات سے دکھائے جائیں ، یہ ایسا ہی اصرار ہے جیسے کوئی یہ تقاضا کرے کہ صلاۃ اور زکوۃ کے شرعی مفاہیم اہل لغت کی کتابوں سے بھی ثابت کرو۔ اگر بالفرض ایسا کوئی حوالہ موجود نہ ہو تب بھی یہ ہمیں مضر نہیں کیونکہ بارگاہ الہی پر گفتگو کرتے ہوئے اہل لغت کی مرتب کردہ ڈکشنریوں میں درج وہ معنی حجت نہیں بن سکتے جو ان الفاظ کے دنیا سے متعلق عام استعمال کے مفاہیم ہیں۔ کیا ناقدین یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب قرآن نازل ہونے سے قبل یا اس کے نزول کے وقت اور بعد اہل عرب جب اللہ کے سمع و بصر و حی وغیرہ کے الفاظ بولتے تھے تو اس سے مراد جسم والا خدا ہوتا ہے؟ حاشا و کلا۔ یہ طریقہ بحث تو خود یہ دوست بھی اختیار نہیں کر سکیں گے کیونکہ اگر لغت میں سمع کا معنی کان سے سننا لکھا ہوا ہے جہاں کان کا مطلب ایک خاص وضع والا جسم کا عضو ہے تو کیا یہ لوگ "حقیقی معنی معلوم" کے تحت اللہ کے لئے ایسے ہی کانوں والی سماعت ثابت کرنے کے قائل ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ لیس کمثلہ شیء کے تحت کان کی نفی کر دیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ حقیقی معنی پر مصر رہتے ہیں، یہی متکلمین کرتے ہیں۔ البتہ فرق یہ ہے کہ متکلمین اس کے بعد ایک ایسے "حقیقی معنی" کو مقرر کرتے ہیں جو ان عوارض کی نفی کے بعد سمع و بصر کی حقیقت اور اقابل فہم ہے جبکہ آپ نزول و ید کے معاملے میں ایسا کچھ ثابت نہیں کر پاتے۔ اگر نزول کی حقیقت سے مکان کے تصور کی نفی کے بعد ایسا کوئی قابل فہم معنی ثابت کیا جا سکے تو متکلمین کو اسے ماننے میں کوئی عار نہ ہوگی۔ لیکن ناقدین نے آج تک اس کے جواب میں نزول و ید کے ایسے کوئی معنی نہیں بتائے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یا یہ موقف غیر معقول و غیر مفہوم ہے اور یا اندرون خانہ بات وہی ہے جو متکلمین کہتے تھے ۔
کیا شیخ کا پیش کردہ حل لغوی طور پر مختلف ہے؟
درج بالا بحث سے واضح ہوگیا کہ متکلمین کے موقف کے مقابلے میں شیخ ابن تیمیہ جو موقف پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ ائمہ سے ثابت نہیں بلکہ غیر معقول ہے و غیر آہنگ ہے۔ اس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ شیخ نے اس مسئلے پر لسانیاتی نکتہ نگاہ سے جو انداز بحث اختیار کیا ہے وہ صرف لفظی نزاع کو جنم دیتا ہے، اگرچہ اس پر کتنی ہی طویل کتاب لکھی گئی ہو۔
اختلاف کی جڑ متکلمین اور شیخ کا نظریہ زبان (لینگویج) ہے۔ متکلمین الفاظ کے معنی کو حقیقت و مجاز کی عمودی تقسیم میں بیان کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک جب تک حقیقی معنی متعذر نہ ہوں یا کوئی قوی قرینہ موجود نہ ہو، الفاظ کے حقیقی معنی ہی مراد لئے جائیں گے، بصورت دیگر مجازی معنی کی طرف جائیں گے۔ اس اعتبار سے متکلمین مثلا لفظ ید کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا حقیقی معنی “جسم کا جزو” ہونا ہے، یعنی اس کے حقیقی معنی میں جزئیت اور جسمیت کا مفہوم شامل ہے۔ البتہ اس کے سوا بھی اس کے کئی معنی ہیں جیسے قدرت، اختیار، عطا کرنا یا ید سے متعلق دیگر فنکشنز وغیرہ۔ حقیقی معنی کے ساتھ یہ مجازی معنی مل کر لفظ کے معنی و مفہوم کو پھیلا دیتے ہیں۔ متکلمین کہتے ہیں کہ چونکہ اللہ کے لئے جزئیت و جسمیت ماننا جائز نہیں لہذا اس لفظ ید کے حقیقی معنی مراد نہیں لئے جا سکتے۔ اب اس لفظ (یا صفات خبریہ) سے متعلق دو ہی امکان ہیں:
الف) یا یہ کہا جائے کہ حقیقی معنی کے لحاظ سے “تفویض معنی ” کا رویہ اختیار کر لیا جائے
ب) یا پھر کیفیت کی مجہولیت کے ساتھ مجازی معنی میں سے کوئی معنی مراد سمجھا جائے۔ حقیقی کے بجائے مجازی معنی اختیار کرنے کو وہ تاویل کہتے ہیں۔ متکلمین کے اس انداز بحث کو منسلک شدہ صورت کے دائیں طرف دکھایا گیا ہے جس کی رو سے لفظ ید کے معنی دو الگ خانوں میں منقسم ہیں: حقیقت و مجاز۔
شیخ ابن تیمیہ کا نظریہ زبان مختلف ہے۔ آپ کے نزدیک الفاظ کے سب معنی حقیقی معنی ہیں اور کون سے معنی کب مراد لینا ہیں اس کا تعین کلام کے سیاق و اشارات وغیرہ سے ہوتا ہے۔ اس تقسیم کی رو سے حقیقی و مجازی معنی میں ترجیحی لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیونکہ یہاں سب معنی افقی (horizontal) طور پر مساوی درجے پر ہیں اور کسی ایک کے ابتداء مراد لئے جانے کی کوئی ڈیفالٹ ترجیحی بنیاد موجود نہیں جیسا کہ متکلمین الفاظ کے معنی کو حقیقت و مجاز کی عمودی (vertical) ترتیب میں رکھتے ہوئے ایک معنی کو بائے ڈیفالٹ ترجیحی معنی کہتے ہیں اور دیگر کو ان کے بعد لاتے ہیں۔ اب شیخ کا طریقہ بحث یہ ہے کہ وہ لفظ ید (یا نزول و استوی وغیرہ) کے سب معانی کو حقیقی کہتے ہیں اور سیاق و ذات باری کا لحاظ کرتے ہوئے لفظ کے پھیلے ہوئے تمام امکانی معنی میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیتے ہیں اور اسے وہ اس لفظ کے حقیقی معنی ہی کہتے ہیں، چاہے وہ معنی جسمیت و جزئیت والے معنی سے الگ ہی ہو۔ گویا متکلمین جس معنی کو مجازی کہتے ہیں، شیخ کے نظریہ زبان میں وہ بھی حقیقی ہوتا ہے اور دراصل شیخ متکلمین کی تقسیم کی رو سے عین مجازی معنی مراد لے کر “حقیقی معنی معلوم اور کیفیت مجہول” کا موقف پیدا کرتے ہیں۔ اس صورت حال کو اس شکل کے بائیں جانب دکھایا گیا ہے۔ شیخ کے حامی علماء ید کے معنی پر بحث کرتے ہوئے یہ مثال دیتے ہیں کہ ید کا مطلب صرف انسانی ہاتھ نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک وسیع تصور ہے جس کی رو سے ہر شے کا ہاتھ اس کی شان کے لائق ہوتا ہے، جیسے دروازے کا ید اس کا ہینڈل ہے۔ پس ید کا معنی ہر وجود کے لئے ثابت ہے، ہاں اللہ کے لئے اس کی شان کے لائق ہے ۔ البتہ اللہ کے لئے اس کے وہ معنی قطعا ًمراد نہیں جس میں جزئیت و جسمیت شامل ہے۔ یوں گویا ان علماء کے نزدیک نہ تجہیل معنوی لازم آئی اور نہ ہی تاویل تاہم یہ صرف غلط فہمی ہے کیونکہ متکلمین اسے ہی مجازی معنی مراد لینا کہتے ہیں۔
چنانچہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس جہت سے بھی شیخ کے پیش کردہ حل میں ایسا کیا ہے جسے حکمی اعتبار سے مختلف بات کہا جائے؟ متکلمین کے لفظ مجازی کو حقیقی کہہ دینے کے سوا اس میں نئی بات کیا ہے؟ چنانچہ یہ کوئی جوہری اختلاف نہیں ہے بلکہ نظریہ زبان میں اختلاف کی بنا پر چیزوں کو تقسیم کرنے کے لئے بنائے گئے ذھنی ڈبوں کا اختلاف ہے۔ شیخ کا پیش کردہ یہ وہ طریقہ بحث ہے جسے ان کے حامیین اپنے موقف پر اٹھنے والے داخلی تضادات کا جواب دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جب ان سے کہا جائے کہ قرآن میں مذکور اللہ کی "معیت" کو آپ علمی معیت کیوں قرار دیتے ہیں کہ یہ بھی مجازی معنی مراد لینا ہے، تو اس کے جواب میں شیخ کے نظرئیے کی رو سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس خاص مقام کے پیرائے میں یہی اس لفظ کے حقیقی معنی ہیں۔ ظاہر ہے یہ صرف لفظی نزاع ہے جس کا نفس مسئلہ یا احکام سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ پھر ایسے ہر کے تاویلی قرار دئیے جانے والے معنی کو اس اصول پر حقیقی معنی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جدید ریاست، حاکمیت اعلیٰ (ساورنٹی) اور شریعت
محمد دین جوہر
افکارِ جدیدیت کے تحت نیچر اور انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو کو بالکل نئے انداز میں سوچا اور پھر عمل میں لایا گیا ہے، اور اس طرح سامنے آنے والی سوچ اور عمل کا ماقبل جدیدیت کی اوضاعِ فکر اور زندگی سے قریب یا دور کا کوئی تعلق یا نسبت نہیں ہے۔ جدیدیت کے ذیل اور ضمن میں آنے والی تبدیلیوں کا بہت بڑا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا اب کسی بھی معنی میں بدیہی نہیں رہی۔ دنیا کی تمام نئی تشکیلات جدیدیت کے نظری وسائل سے تخلیق کی گئی ہیں اور ان تک عقلی رسائی کے بغیر قابلِ فہم نہیں ہیں۔ عین یہی امر مسلم شعور کے لیے حیرت انگیز اور ناقابل فہم ہے، اور ماقبل جدیدیت دنیا کی طرح مسلم شعور جدیدیت کے پیدا کردہ ”مظاہر“ کو بدیہی سمجھ کر ہر طرح کی ججمنٹ دیتا چلا آیا ہے۔ فطرت اور دنیا میں جدیدیت کے پیدا کردہ مظاہر نظری وسائل کے بغیر قطعی ناقابل رسائی اور ناقابل فہم ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جدیدیت کے پیدا کردہ سسٹم کی گرفت سے آزاد نیچر اور دنیا کے مظاہر اب بھی بدیہی ہیں، یعنی بدیہی نیچر اور دنیا اب مکمل طور پر marginalize ہو چکی ہے اور غیر اہم ہے۔ مسلم نظری شعور کی موت جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بدیہی ہونے پر اصرار سے واقع ہوئی ہے اور مسلم شعور جدید دنیا تک کوئی علمی رسائی نہیں رکھتا۔
انسان کو مکمل طور پر redefine کرنے کے لیے جدیدیت کے افکار کا ایک بڑا حصہ وجودی افکار کے زیر عنوان ترتیب پایا ہے، اور دنیا کو بدلنے کے لیے جدیدیت نے تہذیبی افکار کے زیر عنوان نئی تشکیلات مکمل کی ہیں، جبکہ مادی فطرت پر کنٹرول کے لیے سائنسی علم کی تشکیل کی گئی ہے۔ فکر کے یہ تینوں دھارے باہم پیوست ہیں لیکن جانکاری اور تفہیم کی خاطر ان کو الگ الگ زیربحث لانے کی ضرورت ہے۔ جدیدیت کے وجودی افکار سے پیدا ہونے والے سوالات اور مسائل سے مسلم ذہن کسی حد تک شناسائی پیدا کر لیتا ہے اور الوہی ہدایت کی براہ راست رہنمائی میں ان سے بہت حد تک نبردآزما ہونے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے، مثلاً انسان کیا ہے؟ وہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ انسانی زندگی کی معنویت کیا ہے اور کیا وہ موت سے مر جائے گا یا زندگی کسی اور سطحِ وجود پر جاری رہے گی؟ اخلاقیات اور عقیدے کے بارے میں جدید سوالات کا تعلق بھی اسی زمرے سے ہے۔ ہم عصر مسلم شعور جدید معرضِ علمی میں ان سوالات کا سامنا کرنے کے وسائل پیدا نہیں کر سکا، لیکن دینی ہدایت سے جڑا رہنے کی وجہ سے وہ جدیدیت کے پیدا کردہ ان سوالات کو کند کرنے اور اپنے ایمان کو بچانے میں بہت حد تک کامیاب ہو جاتا ہے۔
جدیدیت کے پیدا کردہ سائنسی اور تہذیبی افکار نے نیچر اور دنیا کو مکمل بدل دیا ہے، اور ان سے پیدا ہونے والے عمل نے مسلم شعور اور عمل کو روند ڈالا ہے۔ ان سائنسی اور تہذیبی افکار کا دائرہ نیچر، معیشت، سیاست، کلچر اور تعلیم و علم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ جدید معیشت سائنسی علم اور ٹکنالوجی کے بغیر ناقابل تصور ہے، اور جدید ریاست، طاقت کی ایک ایسی نئی تشکیل ہے جس کو سمجھنے میں مسلم شعور ابھی تک مکمل ناکامی سے دوچار ہے۔ تہذیبِ مغرب اپنے تمام تر پہلوؤں میں اور اپنے ہر انسانی اور تہذیبی مظہر میں دنیا ہی کی ایک نئی تشکیل ہے، جو positive ہے، مادی ہے اور کنکریٹ اور مجرد دونوں جہتوں کو محیط ہے۔ سائنسی علم اور ٹکنالوجی سے پیدا ہونے والا معاشی عمل تہذیب مغرب کی مادی اساس اور اس کی طاقت اور خوشحالی کا سرچشمہ ہے۔ جدید ریاست اس معاشی عمل کے ہم قدم رہتے ہوئے سائنسی علم اور ٹکنالوجی میں پیشرفت کو کنٹرول کرتی ہے۔ آزادی اور حریت کا سیاسی تصور ساورنٹی کے سیاسی تصور میں ڈھل کر جدید ریاست کا قوام وجود بن جاتا ہے۔
یہ سوال بیک آن ہے کہ ایمانیات میں جڑیں رکھنے والا علم کیا اور کیسا ہو گا اور جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا کے بارے میں اس کا موقف کیا ہو گا؟ لیکن کوئی بھی تہذیب جو علم اور عمل سامنے لاتی ہے تاریخ اسے محفوظ رکھتی ہے۔ اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو مسلم ذہن گزشتہ دو سو برس میں جدیدیت اور مغرب کے سامنے علم اور عمل میں کوئی بھی تہذیبی وسائل سامنے نہیں لا سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ تاریخی مؤثرات کے زیرِ اثر فکر اور عمل کی جہت سے جدیدیت مسلم شعور میں اپنی تنصیب مکمل کر چکی ہے اور وہ خودآگاہ جہات سے محروم ہو کر جدیدیت کا آلۂ کار بن چکا ہے۔ اسی باعث مسلم شعور شریعت کو بھی سیکولر قانون پر محمول کرتا ہے اور انہیں وجودی طور پر ایک ہی سمجھتا ہے، اور ترکِ شریعت کی تزویرات میں جان کی بازی لگائے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو سو سال میں سب سے بڑا تشبیہی تحول عقیدے اور شریعت کے بارے میں تصورات میں واقع ہوا ہے، اور ایسے علمی مباحث اب عام ہیں جو عقیدے اور شریعت کو جدید مادی علوم کی سطح پر لے آئے ہیں۔ اس عرصے میں پیدا ہونے والی ”فکر اسلامی“ ایک طرف عقیدے اور جدید علم میں ضروری امتیازات کو باقی نہیں رکھ سکی، تو دوسری طرف شریعت اور سیکولر قانون کو ایک ہی سطح وجود پر دیکھتی آئی ہے۔ جدید ”فکر اسلامی“ عقیدے کو جدید علم اور شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کا منصوبہ رکھتی ہے، اور بہت حد تک اس میں کامیاب ہو چکی ہے۔ مسلم شعور بھیڑیے کو میمنا سمجھ کر طاقت کے جدید معاشی اور سیاسی اوضاع سے تعاملات کا عادی ہو چکا ہے۔
سیکولر قانون اور شریعت
افکارِ جدیدیت نے اس امر کو فکر میں ممکن اور عمل میں واقعہ بنا دیا ہے کہ نیچر اور دنیا کی طرف کوئی روحانی، مابعدالطبیعیاتی، وہمی، اسطوری اور تقدیسی چیز منسوب نہ کی جا سکے، اور نیچر اور دنیا کی disenchantment مکمل ہو جائے۔ اس میں یہ شامل ہے کہ انسانی شعور اور عمل کی ہر اس اساس کو بھی کھرچ دیا جائے جو ایسی کسی حقیقت کی یاد دلا سکے جس کا تعلق غیب سے ہو۔ اس طرح جدیدیت، نیچر اور دنیا کو مطلق تشبیہ اور مادی وجود کا شبستان بنانے میں کامیابی حاصل کر چکی ہے۔
جدیدیت کی پیدا کردہ دنیا میں یہ کوئی خبر نہیں ہے کہ جدید قانون مکمل طور پر positive ہے اور مادی ہے، اور بنیاد اور غایت کی جہت سے اس کا کوئی تعلق کسی بھی قسم کی اخلاقیات یا روحانیات یا کسی قدر سے قابلِ تصور بھی نہیں ہے۔ یہ نری طاقت کی مادی تشکیل پر اگنے والے خار کی طرح ہے۔ جدید قانون کا عدل اور حق سے بھی دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ دوم، یہ کہ جدید قانون آلاتی ہے، اور مکمل مادی وجودیات کی حامل جدید ریاست کے تابع ہے کیونکہ یہ عین اسی جدید ریاست کی سیاسی طاقت اور ساورنٹی کا عملی مظہر ہے، یعنی جدید قانون will of the political/politically sovereign ہے۔ اور یہاں سیاسی طور پر ساورن ہونے سے جدید ریاست مراد ہے جس کے ذریعے سے ”قوم“ کی ساورنٹی کا تحقق ہوتا ہے۔ سیکولر قانون اپنی وجودیات اور حرکیات میں طاقت کی ایسی جدید تشکیلات کے بغیر قابل تصور نہیں ہے جو مکمل طور پر مادی اور تشبیہی ہوں۔ شریعت کے برعکس، سیکولر قانون کوئی autonomy اور تکثیریت نہیں رکھتا۔ سیکولر قانون اپنے ہونے اور کرنے میں جدید ریاست پر منحصر ہے، یعنی سیکولر قانون اپنا وجود اور حرکت دونوں جدید ریاست سے اخذ کرتا ہے، اور جدید ریاست سے باہر، الگ اور ماورا کسی معنویت کا حامل نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر قانون اپنی علمیات (epistemology) اور وجودیات (ontology) میں جدید ریاست سے باہر کوئی آثار رکھتا ہے اور نہ پیدا کر سکتا ہے۔ اور جدید ریاست the political کی تشکیل ہے، اور خود جدید ریاست کی معنویت the political کی معنویت میں حصر رکھتی ہے جیسا کہ کارل شمٹ کا موقف ہے۔ اور the political کا ہر ہر تصور مکمل تشبیہی، مادی اور ثنوی ہے۔ یہاں اس امر کی یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ جدیدیت کا ظاہر کردہ فرد کی autonomy یا خود مختاری کا تصور اجتماع یا سیاست کے حوالے سے ساورنٹی بن جاتا ہے۔ یعنی فرد کی اخلاقی آٹونومی کا تصور ترفع پا کر ساورنٹی کے سیاسی تصور میں ظاہر ہوتا ہے۔ جدید انسان اپنی آٹونومی کو جدید ریاست کی ساورنٹی پر قربان کر کے اپنے شہری ہونے کا تحقق کرتا ہے۔ یعنی فرد کی آزادی کا تصور ”فنا فی الریاست“ میں اپنا منتہائی تحقق حاصل کرتا ہے کیونکہ جدید ’شہری‘ کا خدا یہی جدید ریاست ہے۔
ہمارے ہاں جدید ریاست کے سیاسی طور پر ساورن ہونے کا de jure تو انکار کیا گیا لیکن de facto اس کے ساورن ہونے سے مکمل طور پر آنکھیں موند لی گئیں۔ جدید ریاست کے de jure ساورن ہونے سے انکار کے باوجود یہ عملاً اور فعلاً یعنی de facto ساورن ہی رہتی ہے کیونکہ ساورنٹی جدید ریاست کی وجودیات میں داخل ہے اور یہاں de jure اور de facto کی تشقیق ممکن نہیں۔ ایسے علمی چٹکلے صرف اسی صورت ممکن ہیں جب جدید ریاست علماً اور وجوداً نامعلوم ہو۔ ہمارے ہاں ساورنٹی کے جدید سیاسی تصور کو درست علمی بنیادوں پر زیربحث ہی نہیں لایا جا سکا۔ ہمارے سیاسی علما کا خیال تھا کہ ساورنٹی ٹوپی کی طرح کی کوئی چیز ہے جو جدید ریاست نے پہنی ہوئی ہے اور اسے اتار کر جدید ریاست کو اپنے پسندیدہ رنگ کی کوئی دوسری ٹوپی پہنائی جا سکتی ہے۔ علم اور وجود سے مکمل بےخبری ہو تو ایسی خوش فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجودی مظہر ہے اور ساورنٹی اس کے وجود میں لوہے میں صلابت کی طرح داخل ہے یعنی ساورنٹی جدید ریاست میں اس طرح شامل ہے جس پانی میں تری۔ جیسے کہ میں عرض کرتا چلا آیا ہوں کہ نام نہاد فکر اسلامی ترک شریعت کی تزویرات ہیں اور ہماری سیاسی فکر پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے کر اسے مکمل طور پر سیکولر بنانے کا داعیہ رکھتی ہے۔ فکر اسلامی اصلاً جدیدیت ہی کا مظہر ہے اور اس کا دینی عقیدے اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
جدید قانون کے مکمل طور پر positive ہونے کی وجہ سے اس قانون کا کسی بھی انسانی یا مذہبی قدر سے کوئی تعلق بنیاد ہی سے نہیں ہوتا، اور نہ ارادتاً قائم ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس میں اہم تر بات یہ ہے کہ سیکولر قانون قدر ہے اور نہ ہو سکتا ہے اور نہ کسی قدر کے حصول کا ذریعہ ہے۔ شریعت اقدارِ حق کا مجموعہ ہے اور انسان سے امتثال امر کے علاوہ اس کا کوئی دوسرا مطالبہ نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیکولر قانون یا وہ شریعت جو جدید ریاست میں قانونی جبڑوں کے طور پر نصب کی گئی ہو، عدل اجتماعی کی شرعی قدر کے حصول کا ذریعہ کیونکر بن سکتی ہے؟ اور جدید ریاست اور سیکولر قانون کی عملداری میں مکارم الاخلاق پر مبنی معاشرت کیونکر قائم ہو سکتی ہے کیونکہ یہ کسی بھی قدر کے وجود ہی کو قبول نہیں کرتے؟
قانون یا جدید قانون یا ریاستی قانون یا سیکولر قانون اور شریعت کی وجودیات نہ صرف مختلف ہے بلکہ متضاد ہے۔ متداول فکر اسلامی میں ان دونوں کی وجودیات ایک ہے۔ اس کا بنیادی سبب جدیدیت اور اس کی پیدا کردہ فکر و عمل کا تقریباً مکمل فقدان فہم ہے۔ شریعت کسی بھی صورت میں will of the political / politically sovereign نہیں ہے، کیونکہ اپنے ارضی ظہور میں یہ will of God ہے، یعنی امر الہی ہے، ساورن ہے اور خودمختار ہے۔ اگر شریعت ساورن نہیں ہے تو انسان سے اطاعت اور امتثال امر کا مطالبہ ہی بے معنی ہے۔ اگر خدا قادر مطلق ہے جو ہمارے اعتقاد میں یقیناً ہے تو صرف اسی کا امر اور فعل ہی ساورن ہو سکتا ہے۔ کوئی وجودِ شہودی یا مخلوقی یا ابداعی ساورنٹی سے متصف نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کا تصور سیاسی ہے، اعتقادی نہیں ہے، اور کسی سیاسی تصور کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ وارد ہو گی اور یہ شرکیہ تصور عقیدے کی جڑ کاٹ دے گا۔
شریعت کے حوالے سے دو اہم ترین پہلوؤں کو ہم نے ہمیشہ نظرانداز کیے رکھا ہے۔ یہ امر ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام خاتم النبییین ہیں، اور رحمت للعالمین ہیں۔ شریعت کی ساورن نگہداری میں عقیدۂ ختم نبوت پر نقب نہیں لگائی جا سکتی، اور یہ نقب اس وقت لگی جب فقہاء پر مشتمل قضا کا محکمہ ختم ہو گیا تھا اور علما کو فکر اسلامی کا ہوکا لگ گیا تھا جو دراصل ترکِ شریعت کی تزویرات ہیں۔ فکر اسلامی کی فضا میں ختم نبوت کی حفاظت ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ اور وہ کذاب ”مفکرین اسلام“ ہی میں سے تھا جس نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ حضور علیہ الصلٰوۃ و السلام کی رحمۃٌ للعالمینی انسانی تجربے کا عملاً اس وقت حصہ بن سکتی ہے جب شریعت ایک ساورن کے طور پر قائم ہو، اور معاشرے کے اجتماعی عمل کا سرچشمہ بھی ہو اور قیام عدل کی اساس ہو۔
جدید ریاست اور ساورنٹی
ساورنٹی نیشنلزم یا قومیت پرستی سے پیدا ہونے والا ایک سیاسی تصور ہے، مکمل طور پر تشبیہی ہے، اور اپنی تجسیم و تشکیل جدید ریاست کی صورت میں کرتا ہے۔ یہ تصور جدید ریاست کا قوامِ وجود ہے، یعنی ساورنٹی کے بغیر جدید ریاست کا وجود ہی قائم نہیں ہو سکتا۔ جدید ریاست کی ساورنٹی کوئی صوابدیدی چیز نہیں ہے کہ اس سے ہٹائی جا سکے یا داخل کی جا سکے۔ حاکمیت اعلیٰ کے طور پر ساورنٹی کوئی روحانی تصور نہیں ہے، قطعی سیاسی تصور ہے۔ حاکمیت اعلیٰ کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ورنہ تشبیہ لازم آئے گی اور ارتکاب شرک وارد ہو گا۔ وہ تصورات جو موجودات، مخلوقات یا ابداعی موجودات مثلاً مشین، سسٹم وغیرہ میں وجوداً شامل ہیں وہ ہرگز اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیے جا سکتے کیونکہ شرک اور ارتکاب شرک کے یہی معنی ہیں۔ جدید ریاست ایک وجود ہے اور ایک نہایت طاقتور مؤثر کے طور پر نہ صرف تاریخ میں شامل ہے بلکہ ہم عصر تاریخ اور معاشرے کو تہہ و بالا کرنے میں بنیادی کردار جدید ریاست ہی کا رہا ہے۔ اس کی واقعیتِ وجود کا عدمِ قبول حالت انکار کو جنم دیتا ہے۔ یعنی جدید ریاست ایک ساورن وجود کے طور پر طاقتور تاریخی مؤثرات کا سرچشمہ ہے، اور سیکولر معاشروں کے اجتماعی ارادے کی سب سے بڑی ایجنسی ہے۔ جیسے دریا پانی کے بغیر نہیں ہوتا، اسی طرح جدید ریاست ساورنٹی کے بغیر تصوراً یا واقعتاً موجود نہیں ہو سکتی ہے، اور جب موجود ہو گی ساورن ہو گی۔ جس طرح کوے کا کالا ہونا علمی صوابدید پر منحصر نہیں ہوتا اسی طرح ریاست کا سیاسی طور پر ساورن ہونا علم میں صوابدیدی نہیں ہے۔ ہمارے سیاسی علما نے جدید ریاست کے ساورن ہونے کو رد کر دیا، اور ساورنٹی کے مکمل مادی اور سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا، اور اپنے زعم میں مسئلے کا حل نکال لیا۔ لیکن اس سے پانچ مسئلے پیدا ہوئے۔ ایک یہ کہ ساورنٹی کے سیاسی تصور کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے سے مسلم عقیدے کی جڑ کٹ گئی اور ارتکابِ شرک لازم آیا۔ سیاسی تصورات اور انتظامی اختیارات کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا شرک ہے کیونکہ وہ تشبیہی ہیں۔ دوسرے یہ کہ ایمان اور عمل کے بنیادی امتیازات منہدم ہو گئے۔ تیسرے یہ کہ علم اور وجود کی باہمی نسبتوں کو جائز اور ثقہ بنیادوں پر قائم کرنا ممکن نہ رہا۔ اگر ہم علم کا آغاز ہی اس بات سے کریں کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہوتی یعنی کوا کالا نہیں ہوتا تو امکان علم ہی کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور انسانی ذہن حالت انکار میں چلا جاتا ہے اور خارج از ذہن وجود سے علمی تعرض ممکن نہیں رہتا۔ چوتھے یہ کہ تاریخ اور اس کے طاقتور مؤثرات کی درست علمی تفہیم اور بذریعہ شریعت ان کے تدارک کے امکان کا خاتمہ ہو گیا۔ پانچویں یہ کہ شریعت کو مکمل طور پر جدید ریاست کی تحویل میں دینے اور پورے دین کو سیکولر بنا کر اس کے خاتمے کا راستہ ہموار ہو گیا۔
شریعت اور ساورنٹی
جدید سیاسی افکار میں یہ امر ایک مسلمے کے طور پر داخل ہے کہ جدید ریاست ساورنٹی کی حامل ہے، یعنی جدید ریاست ماورائے انسان ایک وجود ہے اور ساورن ہے۔ جدیدیت کے افکار میں عقلِ انسانی خودمختار و خود مکتفی ہے، اور عقل میں یہ صفت اس کے حامل وجود یعنی جدید انسان سے داخل ہوئی ہے۔ آزادی اور حریت کا تنویری تصور ایجنسی کے طور فرد کی آٹونومی میں ظاہر ہوا ہے اور بنیادی طور پر اخلاقی ہے۔ اجتماعی سطح پر انسانی آزادی کا تصور ایجنسی کے طور پر جدید ریاست کی ساورنٹی میں ظاہر ہوا ہے اور جو بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ جدیدیت کی پیدا کردہ مطلق تشبیہ اور شبستان تاریخ میں اس نے ایک وجود کو ساورنٹی سے متصف قرار دیا ہے۔ مطلق تشبیہ میں ساورنٹی کا حامل وجود خدا ہی کا ایک تصور ہے اور عین یہی وہ نکتہ ہے جس کی وجہ سے ہیگل نے جدید ریاست کو زمین پر خدا کی خوش خرامی قرار دیا ہے۔ جدید ریاست خدا کی replacement صرف اسی وقت ہو سکتی ہے جب یہ ساورن بھی ہو، اور اس کی یہ صفت اس کے وجود سے منفک نہ ہو سکتی ہو۔
سوال یہ ہے کہ کیا ”دنیا“ میں کوئی ”چیز“ ساورن ہو سکتی ہے؟ دنیا اور اس میں ہر چیز مخلوق ہے اس لیے اعتقاداً اور عملاً (یعنی سیاسی طور پر) مخلوقات کے ساورن ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غیب سے انقطاعِ مطلق اور مطلق تشبیہ کے حالات میں ہی جدید ریاست کو ساورن قرار دیا گیا ہے۔ ساورن وجود ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ self-referential ہو، اسے کسی منطق یا علم سے جواز کی حاجت نہ ہو، وہ کسی پر منحصر نہ ہو اور دوسرا ہر وجود اس پر منحصر ہو۔ جدید ریاست کے ساورن ہونے میں یہ سارے معنی داخل ہیں۔ یہاں اس امر پر توجہ مرکوز کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست بطور وجود واقعتاً اور عملاً ساورن ہے، یعنی ساورنٹی اب کوئی فکر نہیں رہی بلکہ اجتماعی عمل کی ایک خاص تشکیل میں فعال تاریخی واقعہ بن چکی ہے، اور فرد معاشرے اور تاریخ کے بہاؤ میں ایک طاقتور اور فیصلہ کن عامل کے طور پر شامل ہے۔ ساورنٹی کی حامل جدید ریاست اب ایک طاقتور ترین مؤثر کے طور پر روزمرہ کا واقعہ اور تجربہ ہے۔
اس صورت حال میں ساورنٹی کے بارے میں اپنے عقیدے کے بیان یا اس کے فکری رد سے نہ صرف یہ کہ کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ عقیدے اور فکر کے باقی رہنے کا امکان بھی ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس کے بالمقابل ساورنٹی کا دینی اور قابل عمل حل دینا ہوتا ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ معجزہ اور شریعت دونوں ساورن ہیں، اور بالترتیب نیچر اور دنیا میں امر الہی کا ظہور ہیں۔ لہٰذا امر الہی کی حیثیت سے شریعت تاریخ اور معاشرے میں سیاسی طور پر ساورن ہے، اور صرف وہی ساورن ہو سکتی ہے کیونکہ صرف قادر مطلق کا فعل اور امر ہی ساورن ہو سکتا ہے اور کوئی مخلوق اپنے وجود اور عمل میں ساورن نہیں ہو سکتی۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ہم عصر سیاسی افکار میں جدید ریاست ایک وجود کے طور پر ساورن ہے اور ہمارا ماننا ہے کہ اقدارِ حق ساورن ہیں کیونکہ ہر الوہی قدر autonomous اور ساورن ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ساورن ہونا یہاں ہرگز زیربحث نہیں ہے کیونکہ وہ اعتقادی ہے، سیاسی نہیں ہے۔ یہاں ساورنٹی بطور سیاسی تصور زیربحث ہے۔ قدر کا ساورن ہونا، اور وجود کا ساورن ہونا دو قطعی متضاد اور مختلف باتیں ہیں۔ اگر قدر ساورن ہے تو اس کا مطالبہ ہر وجود کو اپنے تابع لانا ہے، اور وجود کے ساورن ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اقدار کا خالق ہے اور کسی ایسی قدر ہی کو قبول نہیں کر سکتا جو اس پر وارد ہوتی ہو ورنہ اس کا ساورن ہونا بےمعنی ہو گا۔ جدید ریاست ایک ساورن وجود ہونے کی حیثیت ہی سے انسانوں سے کافۃً کا تقاضا کرتی ہے، جبکہ شریعت بطور اقدار حق کافۃً کا مطالبہ رکھتی ہے۔ شریعت اور جدید ریاست کا باہمی تعلق صرف اسی تناظر میں بامعنی طور پر زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
جدید سیاسی مباحث میں ساورنٹی کے تصور کو مرکزیت حاصل ہے، اس لیے اس پر دوٹوک بات کرنا ضروری ہے۔ ساورنٹی کا اسلامی تصور شرعی اور فقہی (juridical) ہے جبکہ افکارِ جدیدیت میں یہ مکمل طور سیاسی (polititcal) ہے۔ ساورنٹی کے اسلامی تصور کا تحقق بھی فقہی (juridical) ہے سیاسی نہیں ہے، اور یہ تحقق صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب فقہا پر مشتمل محکمۂ قضا قائم ہو اور جو جدید ریاست اور سرمائے کی قائم کردہ حرکیات سے مکمل طور پر آزاد ہو اور ان پر حکم ہو۔ ہمارے سیاسی ملاؤں کا یہ موقف چلا آتا ہے کہ شریعت اور پورے دین کو جدید ریاست کی تحویل میں دے دیا جائے اور جدید ریاست کے پیدا کردہ سیاسی جبر اور سرمایہ داری نظام کے معاشی تاراج کو شرعی جواز بھی فراہم کر دیا جائے۔
شریعت کا بنیادی ترین مطالبہ یہ ہے کہ فرد، معاشرہ اور اجتماع اس کی عملداری میں آ جائیں، اور یہ مطالبہ صرف اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ شریعت ساورن ہو، جو کہ یہ ہے۔ شریعت ریاست اور سرمائے کے نظام کو بھی اپنی تحویل میں لانے کا مطالبہ رکھتی ہے جبکہ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو جدید ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد میں مصروف رہی ہیں اور اس طرح شریعت کی ساورن اور خودمختار حیثیت کو ختم کر کے اسے ریاست کا آلہ کار بنانے کا داعیہ اور مطالبہ رکھتی ہیں جو سراسر شریعت کے منافی ہے۔ گزشتہ دو سو سالہ نام نہاد فکرِ اسلامی کا یہ بنیادی موقف ہے۔ یعنی بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا شریعت جدید ریاست کی تحویل میں ہو گی یا جدید ریاست شریعت کی تحویل میں لائی جائے گی؟ جو لوگ شریعت کو سیکولر قانون کی طرح کی کوئی چیز سمجھتے ہیں وہ شریعت کو بھی ریاست کی تحویل میں دینے کی جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ شریعت اس دنیا میں امر الہی کے طور پر ساورن ہے۔ موجودہ مشکل کا واحد حل یہ ہے شریعت کو جدید ریاست کی تحویل سے آزاد کر کے علی منہاج خلافت محکمہ قضا کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ شریعت قانون کی طرح نافذ نہیں ہوتی، بلکہ شریعت ایسے قیام کو مستلزم ہے کہ فرد، معاشرہ اور سرمائے اور طاقت کا سسٹم اس کی عملداری میں آ جائے۔
خلافت، خلیفہ اور ساورنٹی
ملت اسلامیہ کا سب سے بڑا سیاسی تصور اور سیاسی ادارہ خلافت ہے اور اسے پوری مسلم تاریخ میں شرعی تائید حاصل رہی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ خلافت (اور امارت) کوئی سیاسی تصور نہیں ہے بلکہ عین شرعی تصور ہے۔ خلافت اور خلیفہ کی اصطلاحات سے ساورنٹی کا تصور نہ صرف خارج ہے بلکہ خلافت اور ساورنٹی باہم متضاد ہیں۔ نیابت ساورنٹی کی ضد ہے۔ نیابت عبدیت ہی کی ایک جہت ہے جبکہ جدید ریاست اپنے میکانکی وجود کو ساورنٹی سے متصف کر کے خدا کی replacement بن جاتی ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ جدیدیت ماورائے انسان ایک وجود کو قائم کر کے اس کو ساورنٹی سے متصف قرار دیتی ہے، اور یہ وجود حسی اور بدیہی طور پر قابل فہم اور قابل رسائی نہیں ہے۔ اس وجود کی غیرجسمی تشکیلات صرف اور صرف نظری طور پر قابل رسائی اور قابل فہم ہیں جبکہ اس کے جسمی اور مادی مظاہر روزمرہ کا انسانی تجربہ ہیں۔ ہماری دینی روایت میں خلیفہ ساورن نہیں ہے، اور نہ خلافت ساورن ہے بلکہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔
جدید پیداواری عمل اور جدید ریاست
جدیدیت کے دو بنیادی تہذیبی تصورات ہیں: آزادی اور ترقی۔ اور ترقی کی تہذیبی تشکیل میں پیداواری عمل کو مرکزیت حاصل ہے جبکہ آزادی اور حریت کے تصورات سیاسی اداروں، خاص طور پر جدید ریاست کے ذریعے بروئے کار لائے گئے ہیں۔ ہم عصر دنیا میں سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا پیداواری عمل ترقی، خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ جدید دنیا میں خوشحالی اور طاقت کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ فراہم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو سو سال میں فروغ پانے والے علوم سے پیداواری عمل کا موضوع خارج ہے۔ علی گڑھ نے بھی استعماری جدیدیت کے کلچر کو اخذ کیا اور تعلیم میں ریس گری کو فروغ دے کر ایک پوری غلامانہ تہذیب کی تشکیل کی۔ انیسویں صدی کی ساٹھ کی دہائی ہی میں جاپان کا جدیدیت سے ٹاکرا (encounter) ہوا، اور وہ میجی انقلاب کے ذریعے آقائے سرسید کے انتقال تک جاپان دنیا کے طاقتور ملکوں میں شامل ہو چکا تھا۔ ہم ابھی تک یہ بھی نہیں جان پائے کہ سائنسی علم کی بنیاد پر قائم ہونے والا صنعتی پیداواری عمل قوموں کی طاقت و قوت کا واحد مدار ہے۔ ہمارے علوم اس بابت بھی کوئی گفتگو نہیں کرتے کہ پیداواری عمل کے قیام کے لیے کون سے سماجی، ثقافتی اور سیاسی حالات ضروری ہوتے ہیں۔ صنعتی پیداواری عمل سائنسی علم، مشینی عمل اور مہارتوں (انسانی عمل) کی یکتائی سے اس وقت قائم ہوتا ہے جب سیاسی اور تعلیمی کلچر اس کا مؤید ہو۔
مغربی علوم میں پیداواری عمل ایک مستقل موضوع ہے اور ہر پہلو سے اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سائنسی، فنی اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے پیداواری عمل براہِ راست جدید ریاست کی نگہداری میں فروغ پاتا ہے اور قومی سیکورٹی سے براہ راست متعلق ہونے کی وجہ سے اپنے ترقی یافتہ ترین پہلوؤں میں اسے صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن زیادہ تر پہلوؤں میں یہ پوری انسانیت کی مشترکہ میراث ہے، اور ہر معاشرہ اسے اپنی خوشحالی اور طاقت کے لیے بروئے کار لا سکتا ہے۔ پیداواری عمل کی جو بھی تعریفات متعین کی جائیں اور اس کے اثرات و نتائج کا جائزہ جس بھی پہلو سے لیا جائے، ایک بات اپنی جگہ مستقل ہے کہ یہ خوشحالی اور طاقت کا واحد سرچشمہ ہے۔ مذہب، کلچر، اقدار یا نظریے کی آڑ میں اس سے دستبردار ہونا مسلم معاشروں کے لیے ازحد مہلک ثابت ہوا ہے۔ تفہیم مغرب یا تفہیم جدیدیت کے نئے مکاتب فکر بھی صنعتی پیداواری عمل کو مسلم معاشروں کے لیے ازحد مضر خیال کرتے ہیں اور فکری طور پر اس کے خلاف صف آرا ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ پیداواری عمل کے انسانی اور سماجی مطالعات سے اس کے وہ پہلو بھی ثابت ہو چکے ہیں جو ایک مسلمان کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔ ان کو دیکھنا اور ان کا شرعی حل تجویز کرنا ضروری ہے۔
یہ امر حیرت انگیز ہے کہ گزشتہ دو سو سالہ فکرِ اسلامی میں سائنسی پیداواری عمل سرچشمۂ طاقت و خوشحالی کے طور پر خارج ہے۔ جدید ریاست کے حوالے سے بھی بہت خلط مبحث ہے۔ سیاسی اسلام اس کا والہ و شیدا ہے جبکہ فکری تجدد جدید ریاست اور مذہب میں کسی بھی قسم کی نسبتوں کے منکر ہیں۔ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ جدید تاریخ کے طاقتور ترین مؤثر یعنی جدید ریاست کو دین سے اس طرح منقطع کر دیا جائے۔ یہ کہنا کہ جدید ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں اصلاً مذہب ہی کا انکار ہے۔
لیکن اتنا عرض کرنا ضروری ہے کہ جدید ریاست ایک میکانکی اور ٹکنالوجیائی وجود ہے۔ یہ ماورائے انسان ایک entity یا وجود ہے جو ساورنٹی کا حامل ہے کیونکہ اگر یہ وجود نہ ہو تو ساورنٹی سے متصف کیونکر ہو سکتا ہے؟ ہمارے ہاں مذہبی اہل علم نے جدید ریاست کے ساورن ہونے سے انکار کرتے ہوئے اس کا نام نہاد حل یہ کہہ کے نکالا کہ جدید ریاست ساورن نہیں ہے بلکہ ”حاکمیت اعلیٰ“ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس طرح ایک جدید سیاسی تصور اور ایمانی تصور میں ایسا خلط مبحث پیدا کیا گیا جس سے نکلنے کا کوئی راستہ ابھی تک سجھائی نہیں دیتا، اور اس نے ہمارے دینی تصورِ الٰہ کو اساسی سطح پر تبدیل کر دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سیاسی حاکم اعلیٰ ماننا شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کا درست جواب یہ ہے کہ امر الہی کے طور پر شریعت ساورن ہے۔
سیکولر قانون اور شریعت کی جدید ریاست سے نسبتیں قطعی مختلف اور متضاد ہیں جس کو سمجھنے میں ہمارے اہل علم فاش غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ قانون جدید ریاست کا سب سے بڑا اور مؤثر ترین آلہ ہے، اور جو مسلمان شریعت سے ادنیٰ واقفیت بھی رکھتا ہے وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اسے ریاست کا آلہ (instrument) کسی صورت نہیں بنایا جا سکتا۔ ہماری مذہبی جماعتیں شریعت کو سیکولر قانون پر محمول کر کے ”نفاذِ قوانین اسلامی“ کی جدوجہد میں مصروف چلی آتی ہیں، اور وہ شریعت کو سسٹم اور ریاست کی میکانکی اوضاع کا آلہ بنا دینا چاہتی ہیں تاکہ جدید ریاست کے نہادِ جبر کو شرعی جواز بھی دیا جا سکے۔ یہ موقف ترک شریعت اور قطعی انسان دشمن ہے۔
ایک بہت بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہو گیا ہے کہ جدیدیت اور تہذیب مغرب کی نادرست تفہیمات نے مسلمانوں میں بالعموم ایک ایسی منتقمانہ داخلیت (revengful subjectivity) پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے ہر قسم کا تاریخی معروض ان کے مدرکات سے خارج ہو گیا ہے۔ اسی بنا پر وہ جدیدیت کے پیدا کردہ سب سے بڑے دو مظاہر یعنی ریاست اور سرمایہ داری نظام کو قطعی غیر اسلامی قرار دے کر ان کے خلاف نبردآزما ہیں حالانکہ جدید عہد میں یہی دو مظاہر طاقت اور قوت کا سرچشمہ ہیں۔ اسلام مکمل ہدایت ہے تو ہمیں ان کا بھی کوئی شرعی حل سامنے لانا چاہیے، اور یہ حل ان دونوں کی درست علمی تفہیم سے مشروط ہے۔
پیداواری عمل اور شریعت
جدید پیداواری عمل غیرمعمولی طور پر نتیجہ خیز ہے اور اقوام کی خوشحالی اور طاقت کا ذریعہ ہے۔ جدید دنیا نے جو معاشی ترقی کی ہے اور ٹکنالوجی جس طرح روزمرہ زندگی کا جزو اعظم بن گئی ہے اس کے پیچھے جدید صنعتی پیداواری عمل کام کر رہا ہے۔ اس سے دستکش ہونے کا جو مطلب ہے وہ مسلمان معاشروں کی نکبت تامہ کے طور پر ظاہر ہے۔ جدید پیداواری نظام مالیاتی نظام کی اساس ہے۔ سود مالیاتی نظام کا مسئلہ ہے جسے شریعت ختم کرنے کا مطالبہ رکھتی ہے۔ لیکن خود پیداواری نظام میں ایسے مسائل ہیں جو شریعت کی روشنی میں حل ہونے چاہئیں۔ تفصیل کا موقع نہیں، مختصراً عرض ہے کہ:
(۱) پیداواری عمل اپنی شدت کی وجہ سے انسانی رشتوں کی ایک نئی تقویم پیدا کرتا ہے جس سے خاندانی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس میں بنیادی عامل منافع ہے جو کارکن کی قیمت پر حاصل ہوتا ہے۔
(۲) سرمایہ داری نظام کی عدمِ مساوات کی نہاد پیداواری نظام میں ہے، اور یہ عدم مساوات جدید ریاست کی سرمایہ داری نظام سے ہمگامی کے بغیر ممکن نہیں۔
(۳) پیداواری نظام میں انسان ایک فیکٹر کے طور پر شامل ہوتا ہے اور بیگانگیت کا شکار ہو کر dehumanize ہو جاتا ہے۔
پیداواری نظام توقیت کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور اسی پہلو سے شریعت کی مداخلت ضروری ہے کہ صنعتی نظام میں کارکن سے چھ گھنٹے سے زیادہ کام نہ لیا جائے اور اس کی تنخواہ ایک فرد کے بجائے ایک کنبے کی کفالت کے لیے مکتفی ہو۔
جدید ریاست اور شریعت
جدید ریاست کے اجزا کے تحت بننے والے قوانین کے تین بڑے دائرے ہیں: (۱) سسٹم، مشین اور سیاسی ٹکنالوجیوں کے بارے میں قانون سازی؛ (۲) انسان اور اس کے اعمال و افعال کے بارے میں قانون سازی؛ (۳) سسٹم/مشین اور انسانی تعامل کے محل پر قانون سازی۔
سب سے پہلے آخری نکتے کی تفصیل ضروری ہے۔ انسان اور مشین کے تعامل کا اساسی ترین محل صنعتی پیداواری عمل ہے۔ صنعتی پیداواری عمل جدید دنیا میں معاشی خوشحالی اور سیاسی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ اسلامی اعتبار سے صنعتی پیداواری عمل کے حاصلات پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا جا سکتا۔ یاد رہے کہ صنعتی پیداواری عمل کا ایک ناقابل منفک جز انسان نہیں بلکہ انسان بطور resource ہے۔ مکمل طور پر مادی میکانیات پر مشتمل صنعتی پیداواری عمل خود میں متضمن انسان کے احوال اور حالات کو بہت بنیادی سطح پر تبدیل کر دیتا ہے۔ مارکس کا یہ مشاہدہ قطعی درست ہے کہ پیداواری عمل ایسے نئے انسانی رشتوں کی بنا ڈالتا ہے جو اس کے نفسی احوال اور معاشرتی حالات کو بدل دیتے ہیں۔ یعنی صنعتی پیداواری عمل انسانی وجودیات کے ساتھ ساتھ اس کی سماجی حرکیات کو بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ سود ظلم اور اللہ اور اسکے رسول علیہ الصلوۃ و السلام کے خلاف اعلان جنگ ہے، لیکن وہ مالیاتی نظام کا مسئلہ ہے جو پیداواری نظام کی اوپری تہہ ہے۔ صنعتی پیداواری عمل تو انسان سے اس کی انسانیت ہی چھین لیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شریعت اس کا کیا حل تجویز کرتی ہے؟ لیکن حل تو اس وقت تجویز کیا جا سکتا ہے جب مسلم ذہن صنعتی پیداواری عمل اور ذات انسانی پر مرتب ہونے والے اس کے وجودی نتائج سے کم از کم باخبر تو ہو۔
ہندوستان میں اسلامی تکثیریت کا تجربہ تاریخی حوالہ سے
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
اسلام ہند میں دو طریقوں سے پہنچا، فتوحات کے ذریعہ اور تاجروں اور صوفیاء کے واسطہ سے۔ فتوحات میں ہندوؤں سے جنگیں بھی ہوئیں، خون بھی بہا اور ناخوشگوار واقعات بھی پیش آئے جو جنگوں کے ماحول میں بالکل ایک فطری سی بات ہے۔ مگر جب مسلمان یہاں کے باسی ہوگئے تو انہوں نے اس ملک کو ہر طرح سے ثروت مند بنایا۔ تاجروں اور صوفیاء کے ذریعہ اسلام کی شان جمالی کا ظہور ہوا، اور مقامی لوگوں کو اسی نے زیادہ متاثر کیا۔ اس کے بعد سے ہندو مسلم اِس ملک میں صدیوں سے ساتھ ساتھ رہتے آئے ہیں۔ دونوں فرقوں کے درمیان کبھی کبھی ٹکراؤ، تصادم اور تنازعات بھی پیش آئے مگر ان کا تناسب تبادلۂ علمی، احترام مذہب، صلح جوئی، رواداری اور اعلیٰ انسانی سلوک کے واقعات کے مقابلہ میں کم رہا ہے۔ البتہ رواداری کی یہ صورتحال اب خاصی بدلتی جا رہی ہے۔ اب مسلمانوں کو دیش کا غدار، مادر وطن کو تقسیم کرانے کا گنہگار قرار دیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز میں عام ہوتا جا رہا یہ ظاہرہ ملک کے ہر محب وطن شہری کے لیے فکرمندی کی بات ہے۔ غیر مسلم پوش کالیونیوں میں مسلمان کو گھر نہیں ملتا۔ اس کا قتل گؤرکچھکوں (گائے کے محافظین) کے لیے ایک عام سی بات ہوتی جا رہی ہے۔
سوال یہ ہے کہ دونوں فرقوں کے مابین جو تلخیاں، جو نفرت اور جو غم و غصہ اب دیکھا جا رہا ہے کہ اب ایک مخصوص نظریہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اِس ملک سے مسلمان شناخت سے دور و نزدیک سے ذرا بھی تعلق رکھنے والی ہر علامت مثلاً شہروں کے نام، تاریخی عمارتیں، مساجد وغیرہ کو مٹا ڈالنا یا بدل ڈالنا چاہتے ہیں، اس کا سبب کیا ہے؟ دونوں فرقوں کے مابین پائی جانے والی یہ سخت کشیدگی اِس کا تقاضا کرتی ہے کہ اس کے اسباب کو گہرائی میں جا کر سوچا جائے اور باہمی زندگی کے ماضی کے اُن خوشگوار حقائق کو پھر سے لوگوں کے سامنے لایا جائے کہ جب لاہور کے خواجہ دل محمد گیتا کی ویاکھیا (شرح) دل کی گیتا لکھ رہے تھے اور وقت کے بہت بڑے ہندو ودوان (عالم) کے سامنے ان کی یہ شرح پیش کی جاتی ہے تو وہ اس کو پڑھ کر اتنا متا ثرہوتے ہیں کہ نہ صرف ان کے کام کی تعریف کرتے ہیں بلکہ خواجہ دل محمد سے ملنے ان کے گھر بھی جاتے ہیں۔ دوسری جانب بہت سے پنڈتوں اور ہندو ودوانوں نے قرآن پاک کا ترجمہ لکھا، نبی کریم ﷺ کی جیونی (سیرت) لکھی۔ اِس دو طرفہ صلح جوئی، خیر خواہی، گہرے علمی و سماجی رشتوں کی ایک پوری کہانی ہے جو تقسیمِ ہند سے پہلے اس ملک میں لکھی گئی۔ اِس پیپر میں تاریخی حوالوں سے اِسی کہانی کی بازیافت کی کوشش کی جائے گی۔ اِس کا فوکس علمی و ثقافتی تبادلۂ باہمی پر ہو گا۔
ہند کے مسلمان حکمرانوں میں سب سے زیادہ پروپیگنڈا اورنگزیب عالمگیر کے خلاف کیا گیا ہے کہ اس نے مندر تڑوائے، جزیہ لگایا وغیرہ، مگر اپنی سخت گیر پالیسیوں کے باوصف اس نے ہندو قوم کو سائڈلائن نہیں کیا تھا، بلکہ ان کے بارے میں اپنے پیشروؤں کی پالیسی پر ہی کم و بیش عمل جاری رکھا۔ مولانا شبلیؒ نے اپنی کتاب ’’اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر‘‘ میں ان ہندوؤں کے نام لکھے ہیں جو اہم عہدوں پر فائز تھے، خاص کر فوجی عہدے و مناصب۔ یہ تقریبا ۲۵ عہدیدار ہیں جن میں بعض پنج ہزاری تھے بعض دوہزاری، بعض سہ ہزاری اور بعض قلعہ دار، تھانے دار اور بعض گورنر اور جاگیردار۔1
جنوبی ہند میں دولت آصف جاہی میں مہاراجہ سرکشن پرشاد مدار المہمام یعنی ریاست کے وزیراعظم کے جلیل القدر منصب پر فائز رہے اور ان کا نام علم و ادب کی سرپرستی کے لیے بڑا مشہور ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے ہندو امراء میں یہ لوگ شامل ہیں: پنڈت لچھمی نرائن شفیق جو شاعر بھی تھے۔ مہاراجہ بندولال، راجہ گردھاری پرشاد، رائے بالاپرشاد، رائے منالال، راجہ گوبند سنگھ وغیرہ یہ جنوبی ہند کے عمائد اور امراء میں شامل تھے۔ اکبری عہد میں راجہ ٹوڈرمل، راجہ بیربل اور راجہ مان سنگھ بڑے مشہور و معروف غیرمسلم امراء ہیں جو اس کے نورتنوں میں شامل تھے۔ بیربل کے قصے تو زبان زد عام ہیں۔ ٹوڈدرمل وزیر مالیات تھے۔ اور راجہ مان سنگھ تو سپہ سالار فوج تھے جنہوں نے مغلوں کے لیے بہت سے قلعے سر کیے۔ مان سنگھ کی سرپرستی میں برندابن کا گوونددیو مندر ۱۵۵۰ء میں تعمیر کیا گیا۔
اتنا ہی نہیں سب سے زیادہ بدنام کے گئے محمود غزنوی کے لشکر میں تین ہندو سردار بہت مشہور تھے۔ یہ تھے سودندی رائے، تلک اور ہج رائے، انہوں نے غزنویوں کی بہت سی مہموں میں حصہ لیا اور ہمیشہ وفادار سمجھے جاتے۔ تلک رائے تو دربار میں ترجمانی کے فرائض بھی انجام دیا کرتا2۔ اور معروف مؤرخ رومیلا تھاپر کے نزدیک سومناتھ کا واقعہ بھی دوسرے واقعات کی طرح کا ایک عام واقعہ تھا جس کا پروپیگنڈا بہت زیادہ کیا گیا ہے۔ اِس پر انہوں نے ایک پوری کتاب لکھی ہے3۔
جہاں تک ہندو مذہب اور ہندو ثقافت کا تعلق ہے تو مسلمانوں نے فاتح ہونے کے باوجود اس سے بے اعتنائی نہیں برتی۔ چنانچہ مسلم عہد میں اور خاص کر عہدِ مغلیہ میں بہت سی سنسکرت کتابوں کا ترجمہ فارسی میں کیا گیا۔ مثلاً اکبر کے عہد میں اتھروید کا ترجمہ ہوا، ملاعبد القادر بدایونی نے سنگھاسن بتیسی کا ترجمہ خرد افزاء کے نام سے کیا۔ سنسکرت کی کتاب لیلاوتی اور مثنوی نل ومن کے ترجمے ہوئے۔ بھگوت پران کا ترجمہ ہوا۔ داراشکوہ نے اپنشد کا ترجمہ کیا وہ خود سنسکرت کا عالم تھا، بلکہ اس کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی دلچسپیوں کے میدانوں میں بڑا تنوع تھا۔ چنانچہ داراشکوہ قادری صوفی سلسلہ سے وابستہ تھا، بہترین خطاط تھا، اس نے اسلام اور ہندوستانی فکر پر ایک کتاب لکھی تھی مجمع البحرین۔اس کا ہندی میں ترجمہ سمدر سنگم کے نام سے موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک کتاب رگ وید کے ساتویں کھنڈویششٹھ کا ترجمہ بھی ہے، وہ نہ صرف صوفیاء سے بلکہ ہندو پنڈتوں اور جوگیوں سے بھی ملا کرتا تھا جن میں ویشنو گرو بابا لال، چندر بھان برہمن، یاد وداس، بنگالی داس جگن ناتھ پنڈت اور بابا سرسوتی کے نام تاریخ نے محفوظ کیے ہیں4۔ داراشکوہ اور عالمگیر کی کشمکش اصلاً اقتدار کی لڑائی تھی، بعض مسلم مؤرخین نے اس میں نمک مرچ لگا کر خواہ مخواہ اس کو کفر و اسلام کی جنگ بنا دیا ہے۔
عہدِ مغلیہ میں پینٹنگ اور مصوری کے فن نے بھی بڑی ترقی کی ،ان کے درباری مصورین میں کھیم کرن، مہیش،لال مکند، مادھو، پری ہنس رام، جگن رام وغیرہ شامل ہیں۔ موسیقی کے متعدد ہندو ماہرین کی سرپرستی دربارِ مغل کرتا تھا جن میں مان سنگھ گوالیاری، نائک بخشو، تان سین اور رام داس کے نام تاریخ میں ملتے ہیں5۔ بعد میں شیخ نظام الدین اولیاء کے مرید خاص امیر خسرو نے ہندوستانی موسیقی میں بڑا کمال پیدا کیا تھا۔
اسی طرح عہدِ مغلیہ میں ہندو تہواروں اور میلوں ٹھیلوں میں بھی حکمراں، شہزادے اور نواب شریک ہوتے تھے۔ جہانگیر تو خود ہندو تہواروں ہولی دیوالی وغیرہ میں شامل ہوتا تھا، اور اس کے عہد میں ہندوؤں کے میلے ٹھیلے تزک و احتشام سے منائے جاتے۔ شیوراتری کے موقع پر پنڈتوں اور برہمنوں کو دربار میں باریاب کیا جاتا۔ وہ خود راکھی باندھتا اور بندھواتا تھا۔ اس نے اپنی توزک میں اِن چیزوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ہمایوں بھی یہ تہوار مناتا تھا۔ جہانگیر کے زمانہ میں جانک رائے، سورج سنگھ آدربھٹا چاریہ وغیرہ کو انعامات دیے گئے۔ شاہجہاں کے عہد میں بھی یہ چیزیں جاری رہیں۔ اکبری دور میں مصوری کو بڑی ترقی ہوئی۔ بشن داس اور منوہر عہدِ مغلیہ کے مشہور مصوروں میں سے ہیں۔ اس عہد میں مہا بھارت اور راماین کے فارسی ترجموں کے مصور نسخے تیار کیے گئے جو آج بھی انڈیا آفس لائبریری لندن میں موجود ہیں6۔ ہولی دیوالی، دسہرہ، بسنت اور شیوراتری منائی جاتیں7۔ شاہی دربار سے الگ عوامی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام زندگی کی ترجمانی کرنے والے شعراء نے اِس جانب بھی توجہ کی ہے۔
نظیر اکبر آبادی کی ہندو تہواروں پر کہی گئی نظمیں بہت مشہور ہیں۔ وہ دیوالی کے بارے میں کہتے ہیں8: ؎
ہر ایک مکان میں جلا پھر دیا دوالی کا
ہر ایک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے دل میں بھا گیا سماں دوالی کا
کسی کے دل کو مزا خوش لگا دوالی کا
اسی طرح خدائے سخن میر تقی میر بھی پیچھے نہیں رہے، انہوں نے ہولی پر اشعار کہے9: ؎
جشن نو روزِ ہند ہولی ہے
راگ رنگ اور بولی ٹھولی ہے
اورنگ زیب کے زمانہ میں اِن چیزوں میں کمی تو ضرور آئی مگر اس نے بھی ہندوؤں کو sideline نہیں کیا اور بہت سے عہدے اور مناصب ان کو دیے10 جیسا کہ اوپر گزر چکا۔ اُس کی مراٹھوں و سکھوں کے ساتھ جنگیں، گرو تیغ بہادر سے اُس کا سلوک استثنائی واقعات ہیں جن کا موضوعی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سترہویں صدی میں مغلیہ سلطنت سے ٹوٹ کر بنگال، اودھ، میسور اور دکن میں نئی ریاستیں قائم ہوئیں جن میں دکن کی آصف جاہی سلطنت اور مملکت خداداد میسور دونوں بڑے کروفر کی اور قوت والی ریاستیں تھیں۔ میسور میں آغازِ قیام سے اس کے اختتام تک ہندوب ڑے بڑے عہدوں پر قائم رہے۔ سلطان ٹیپو کے بڑے وفادار سالار اور منصب دار ہندو تھے۔ مثلاً پنڈت پورنیا تاریخ میں مشہور ہیں۔ اودھ میں وزراء اور امراء و عماید میں بڑے پیمانہ پر ہندو شامل تھے جن میں سے چند نام یہ ہیں۔ منشی نول رائے، نواب صفدر جنگ کے بخشی راجہ، بینی پرساد، مدارالمہام، نواب شجاع الدولہ، راجہ ٹکیٹ، رائے نواب نصیر الدولہ کے دیوان، امرت لال: پیش کار نواب غازی الدین حیدر، منشی جوالا پرشاد، منشی الممالک، نواب نصیر الدین حیدر، راجہ رتن سنگھ زخمی فارسی کے شاعر، راجہ لکھپت، رائے تحصیل دار، راجہ لکشمی نرائن، معتمد برہان الملک، راجہ پورن چند مسجل(رجسٹرار)، نواب شجاع الدولہ۔ یہ حکمراں اور نواب صرف مسلمانوں میں ہی نہیں بلکہ ہندو عوام میں بھی ویسے ہی مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔
دونوں قوموں کے درمیان چشمک اور ہندوؤں کے جبراً مذہب تبدیل کرانے اور مندروں کو مسمار کرانے کی کہانیاں انگریزی دور میں سامنے آئی ہیں اور ان کو آج دونوں قوموں کے درمیان تنافر پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مسلمان اہلِ علم و دانش بھی اس بات کو سمجھتے تھے کہ مسلمانوں اور برادرانِ وطن کے درمیان مفاہمت کی شدید ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے علماء دیوبند اور ان کی سیاسی جماعت جمعیۃ علماء ہند نے مسلم لیگ کی تقسیمِ وطن کی سیاست سے کھلا اختلاف کیا بلکہ دونوں قوموں میں مفاہمت اور رواداری کے ماضی کے بہت سے ان واقعات کی تائید بھی سرکردہ علماء دیوبند نے کی، جن کی عموماً بڑی مخالفت کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر اکبر بادشاہ کی کارروائیوں کی۔ چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی فی الجملہ اکبر کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”مگر شاہانِ مغلیہ کو ضرور اس طرف (تفاہم بین المذاہب کی طرف) التفات ہوا خصوصاً اکبر نے اس خیال اور اس عقیدہ (یعنی یہ کہ مسلمان ہندوؤں کے دشمن ہیں) کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا۔ اور اگر اس کے جیسے چند بادشاہ اور بھی ہو جاتے یا کم از کم اس کی جاری کردہ پالیسی جاری رہنے دی جاتی تو ضرور برہمنوں کی یہ چال (پروپیگنڈا کہ مسلمان ہندو کے دشمن ہیں) مدفون ہو جاتی اور اسلام کے دلدادہ آج ہندوستان میں اکثریت میں ہوتے۔ اکبر نے نہ صرف اشخاص پر قبضہ کیا تھا بلکہ عام ہندو ذہنیت اور منافرت کی جڑوں کو کھوکھلا کر دیا تھا۔“11(بین القوسین الفاظ راقم نے توضیح کے لیے بڑھائے ہیں)
انگریزی دور کے آخر میں دونوں قوموں کے درمیان مختلف اسباب سے دوریاں بڑھنے لگیں تاہم مسلمانوں کے بارے میں پروپیگنڈا اتنا زیادہ کیا گیا ہے کہ اصل حقائق بالکل دب کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کو صحیح یا غلط مصورِ پاکستان کہا جاتا ہے، مگر اپنی ذاتی زندگی میں اقبال فرقہ واریت سے کوسوں دور تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کی انا کسی مسلمان عورت کو نہیں بلکہ ڈورس احمد نام کی ایک جرمن خاتون کو بنایا تھا۔ انہوں نے رامچندر جی کو امامِ ہند کہا تھا۔ گرونانک دیو کو وحدت کا گیت کار بتایا۔ ہندوستان کی شان میں ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘ لکھا۔ ’اے آب رود گنگا‘ کہہ کر ماضی کے فسانہ کو یاد دلایا۔ حسرت موہانی علی گڑھ کے گریجویٹ، صوفی، شہنشاہ تغزل اور مجاہد آزادی تھے۔ وہ جب بھی حج کو جاتے تو حرم سے واپس آکر کرشن کی نگری متھرادرشن کے لیے ضرور جاتے کہ ان کو یہاں روحانی سکون محسوس ہوتا تھا۔
پھر یہ رواداری و احترام مذہب یک طرفہ نہ تھا دوطرفہ تھا۔ لکھنؤ کے مشہور ناشر منشی نول کشور عربی، فارسی اور اردو کی کتابوں کے ساتھ قرآن بھی چھاپا کرتے اور باوضو ہو کر قرآن کی طباعت کراتے (ان کا ذکر آگے آتاہے)۔ رسول اللہ ﷺ کی سیرت (جیونی) پر بھی ہندو وِدوانوں نے کتابیں لکھیں مثلاً عرب کا چاند سوامی لکشمن پرشاد نے لکھی۔ تو رسول اکرم کی نعت و منقبت کے معاملہ میں ملک کے ہندو شعراء مسلمانوں سے پیچھے نہیں رہے12۔
مغل عہد کے بارے میں بھی پہلے انگریزوں نے منفی پروپیگنڈا کیا اور اب ہندو تو وادی تاریخ دانوں نے اس کی تاریک تصویر عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ حالانکہ مغلیہ عہد کے بانی بابر نے اپنے بیٹے کو جو نصیحت کی تھی اس پر مغل بحیثیت مجموعی قائم رہے۔ بابر کی نصیحت:
’’بیٹے یہ ملک ہندوستان مختلف مذاہب کا ملک ہے ۔خدا کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں یہ ملک دیا۔ ہمیں اپنے دل سے ہر طرح کے بھید بھاؤ کو ختم کر کے سب قوموں کے ساتھ ان کے اپنے رواج کے مطابق انصاف کرنا چاہیے۔ انتظامی چیزوں میں لوگوں کی مدد لینے کے لیے ان کے دل جیتو، گائے کو ذبح نہ کرو، عبادت خانوں اور مندروں کو نقصان نہ پہنچاؤ جو ہماری قلمرو میں ہوں، ایسا نظم بناؤ کہ رعایا بادشاہ سے اور بادشاہ رعایا سے خوش ہو‘‘13۔
تاریخ کی شہادت ہے کہ بابر کی اولاد نے اس وصیت پر عمل کیا۔ دہلی سلطنت اور مغلیہ عہد میں ہندو مسلمانوں دونوں کے بقاء باہم سے ایک ہم آہنگی اور پر امن فضا ملک میں وجود میں آئی جس پر تبصرہ کرتے ہوئے سرجان مارشل نے یہ تبصرہ کیا ہے:
’’انسانیت کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ ہندو و محمڈن (اسلامی) جیسی بڑی اور وسیع تہذیبوں کے ملاپ کا واقعہ ہے۔ جو اپنے آپ میں بہت ہی زیادہ مختلف ہیں اور جن کے مذہب اور کلچر میں بہت زیادہ فرق ہے، اس سے تاریخ پر زبردست مثبت اثرات پڑے ہیں‘‘14۔
مغلوں کے دور میں ہی مرزا مظہر جان جاناں جیسے عالم و صوفی نے یہ رائے ظاہر کی کہ ’’رام اور کرشن بھی خدا کے پیغمبر ہوسکتے ہیں‘‘ 15۔ ’’عہدِ وسطیٰ کے ہندوستان میں دونوں قومیں ہندو و مسلمان بہت سارے تہوار ساتھ ساتھ اور بڑے جوش و خروش سے مناتے تھے‘‘16۔
اودھ میں یہ مشترکہ کلچر اتنا آگے بڑھا کہ مسلمان خواتین زچگی کے زمانے میں مہینوں تک سُوہر (گیت) گاتی تھیں جن میں ایک مشہور سوہر یہ تھا:
’’اللہ میاں ہمرے بھیا کا دِیونندلال‘‘ (اے اللہ میرے بھیا کو کرشن جیسا بیٹا عطا کرنا) 17۔ حالانکہ ٹھیٹ فقہی نقطۂ رکھنے والے علماء کے ہاں یہ رویہ قابل اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر سماجی و عملی زندگی میں بسا اوقات فقہی حدود سے تجاوز کرنا پڑ جاتا ہے، جیسا کہ صوفیاء کا رویہ بتاتا ہے۔ شمالی ہند کے برخلاف جنوبی ساحلوں پر ہندوستان سے اسلام کا رابطہ عرب فتوحات سے ماقبل ہی ہو گیا تھا۔
’’ہمیں اس کے آثار یہاں سے ملتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ کیرالا کی چیرامَن مسجد کو مالک بن دینار نامی صحابئ رسول ﷺ نے آپ کی زندگی ہی میں تعمیر کیا تھا، اس کا نام ایک مقامی راجہ چیرامن کے نام پر رکھاگیا‘‘19۔
قرآن کا ہندی ترجمہ کرنے والوں میں مسلمان اہلِ علم کے ساتھ ہی برادرانِ وطن کے اہلِ علم بھی شامل ہیں۔ مثلاً نند کمار اوستھی، اچاریہ ونوبا بھاوے، پنڈت رگوناتھ پرساد مشر، ستیہ دیوجی، پریم شرن پنڈت، پنڈت رام چندر وغیرہ نے قرآن کا ہندی انواد کیا ہے۔ نند کمار اوستھی جی نے اپنا ترجمہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی ایماء پر کیا تھا20۔
عہدِ وسطیٰ کے بارے میں نوبل لاریٹ امرتیہ سین کہتے ہیں:
’’میرا خیال ہے کہ اس زمانہ کی تاریخ کو ہمیں الگ الگ کر کے یوں نہیں دیکھنا چاہیے کہ اِس زمانہ میں مسلمانوں کی سرگرمیاں یہ تھیں اور ہندوؤں کی اِس قسم کی۔ ہمیں اِس پر زور دینا چاہیے کہ دونوں ایک مشترکہ سماج میں جی رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ آرٹ یا علم و فن کا کوئی بھی میدان لے لیں آپ پائیں گے کہ ہندو مسلم ایکٹوسٹ، آرٹسٹ اور اسکالر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کام کر رہے ہیں اور باہمی تعامل کر رہے ہیں‘‘21۔
انگریزی عہد کے اور آزادی کے بعد کے اردو کے بہت سے ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں سے تو ایک دنیا واقف ہے مگر مغلیہ عہد کے اخیر میں بہادر شاہ ظفر کے زمانہ میں دہلی کے اردو شاعروں کی ایک فہرست بنائی گئی تھی جس میں پانچ سو سے زیادہ شعراء کے نام تھے اور ان میں ۳۴ ہندو شاعر تھے22۔
غالباً بھگوت گیتا میں ہندو درشن اور نظریہ و عمل کا سب سے تابناک اظہار ملتا ہے۔ اور اس سے مسلمان بھی خاصے متاثر ہوئے ہیں اور انہوں نے اس کتاب کے ترجمے و شروحات لکھی ہیں۔ یہاں تک کہ علامہ اقبال گیتا کو اردو میں ترجمہ کرنا چاہتے تھے جیسا کہ انہوں نے حیدر آباد کے مدارالمہام سر مہاراجہ کشن پرشاد کے نام ایک خط میں بیان کیا ہے۔ اِس خط میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ سنسکرت کے الفاظ کے جمال کو اردو میں اسی کیفیت کے ساتھ منتقل کر دینا بڑا مشکل کام ہے۔ انہوں نے اسی خط میں فیضی کے کیے ہوئے گیتا کے فارسی ترجمہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا:
’’ترجمہ کرتے ہوئے انہوں نے گیتا کے مضامین اور اسلوب سے پورا انصاف نہیں کیا وہ گیتا کی روح کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں‘‘23۔
اردو میں گیتا کے مشہور ترجمہ نگار یہ ہیں: (۱) خواجہ دل محمد، دل کی گیتا جو لاہور سے چھپی اور جس سے بہت شہرت پائی۔ (۲) خواجہ حسن نظامی، ان کے ترجمہ کا نام ہے کرشن بیتی۔ (۳) محمد اجمل خان (پرسنل سیکریٹری مولانا آزاد) ان کے ترجمہ کا نام نغمۂ خداوندی ہے اور اس کا پیش لفظ حسرت موہانی نے لکھا تھا۔ (۴) ڈاکٹر حسن الدین احمد نے نثر میں ترجمہ کیا جو ۱۹۷۵ء میں نیشنل بک ٹرسٹ دہلی نے شائع کیا24۔ (۵) معروف مسلم فلسفی خلیفہ ڈاکٹر عبد الحکیم (پاکستان) کے ترجمہ کو ودیا بھون ممبئی نے شائع کیا۔ یہ منظوم ترجمہ ہے اور رفیق زکریا نے اِس کو ماقبل کے تمام تراجم پر فوقیت دی ہے25۔ (۶) ڈاکٹر محمد عزیز، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، ان کا ترجمہ انجمن ترقی اردو ہند سے شائع ہوا۔ (۷) سید متین احمد جن کا تعلق دکن سے تھا انہوں نے ’’کشن گیتا اور ارجن گیتا‘‘ اپنے ترجمہ کا نام رکھا۔ (۸) شمش الحق حقی نے بھگوت گیتا کا شعر میں ترجمہ کیا جو انجمن ترقی اردو (ہند) نے شائع کیا26۔
جہاں تک اردو عربی فارسی کتابوں اور قرآن پاک کی نشر و اشاعت کی بات ہے تو اس میں بھی برادرانِ وطن نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ مثال کے طور پر منشی نول کشور جن کے پریس کی خدمات کے تعلق سے سید سلیمان ندوی اردو کے لیے لکھنو کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سب سے آخر میں لکھنؤ کے اس مطبع کا نام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب اسی (۸۰) برس کے قریب پہنچ گئی ہے (۱۹۳۹ء میں)۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور نول کشور پریس ہے۔ یہ غدر کے بعد ۱۸۵۸ء میں قائم ہوا اور بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرقی علوم و فنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں، ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق کا کوئی مطبع نہیں کر سکتا۔ ہماری زبان کی اکثر ادبی اور علمی کتابیں اسی مطبع سے چھپ کر نکلیں۔ شعراء کے دواوین، مثنویاں، قصائد، قصے، افسانے، داستانیں اور اس کی عام کتابیں سب اسی کی کوششوں کی ممنون ہیں۔‘‘27
اور اس پریس کے معتبر ہونے کا عالم یہ تھا کہ مرزا غالب نے کہا تھا کہ یہ پریس جس شاعر کی دیوان شائع کر دیتا ہے اسے آسمان پر پہنچا دیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ محض کوئی چھاپہ خانہ نہیں تھا بلکہ یہاں ترجمے کا کام بھی ہوتا تھا اور ایسی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر شائع کروائی جاتی تھیں جو معدوم ہونے کے قریب تھیں۔
گرونانک نے بغداد اور مکہ کا سفر کیا۔ ان کے بہت سے مریدین مسلمان تھے۔ گروگرنتھ میں ہزاروں عربی فارسی اور اردو کے الفاظ، محاورے اور تعبیرات شامل ہیں۔ یہاں تک کہ امرت سر کے مشہور گروگردوارہ ہرمندر صاحب کا سنگ بنیاد بھی قادریہ سلسلہ کے معروف صوفی بزرگ میاں میر سے رکھوایا گیا تھا28۔
مشہور مصنف ایم این رائے نے بھی اس پر زور دیا ہے کہ مسلمانوں نے انڈیا کو اپنا لیا تھا اور وہ اِس کے سماج کے ناگزیر عنصر بن گئے تھے۔ دہلی سلطنت (۱۲۰۶ء ۔ ۱۵۲۶ء) اور مغلیہ عہد (۱۵۲۶ء ۔ ۱۸۵۷ء) ہندو مسلمانوں کی مشترکہ حمایت و تائید سے قائم رہیں29۔
ہندو مذہب و تہذیب کے باضابطہ علمی مطالعہ کی جوریت ابوریحان البیرونی نے ڈالی تھی بعد کے زمانوں میں کسی نہ طرح وہ جاری رہی اگرچہ اس روایت میں وہ پختگی نہ رہی۔ اور موجودہ زمانہ میں بھی مسلمانوں میں خال خال ایسے لوگ پائے جاتے ہیں مثلاً مولانا محمد فاروق خاں جنہوں نے اردو میں ہندو دھرم کے موضوعی مطالعہ کی روایت کو آگے بڑھایا ہے، جس میں مزید تیزی و تسلسل لانے کی ضرورت ہے۔
مسلم عہد کو عہدِ سلطنت اور مغلیہ عہد میں بانٹ کر دیکھا جاتا ہے اور اس کو سیکولر روایت کے برخلاف تصور کیا جاتا ہے۔ تاہم مؤرخ مبارک علی ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ پورا عہد بھی سیکولر عہد ہی تھا۔ (سیکولر اِس معنی میں کہ ریاست کسی مذہب میں مداخلت نہیں کرتی تھی) یہ تھیاکریسی نہیں تھی البتہ اس میں بعض حکمرانوں کا استثناء ضرور ہے۔30
حواشی و حوالہ جات
- شبلی نعمانی، اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر، دارالمصنفین اعظم گڑھ
- ڈاکٹر ایشور ٹوپا، پالیٹکس ان پری مغل ٹائمز ص ۵۴۔۶۴ بحوالہ، سید صباح الدین عبدالرحمن، ہندوستان کے عہدِ ماضی میں مسلم حکمرانوں کی مذہبی رواداری۔
- ملاحظہ ہو: رومیلا تھاپر: Somnath,The many Voices of a History Penguin Books
- Dara Shikoh, the Emperor who Never was (1592-1666) by Supria Gandhi
کتاب کے علاوہ اسی عنوان سے ان کا یوٹیوب پر لیکچر بھی موجود ہے جس کو Carwan India نے ہوسٹ کیا تھا۔ - سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۵۰ ۔ ۴۵۶
- سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۸۵۔۴۸۶
- ایضا ص ۴۰۰ تا ۴۰۷
- ایضا، سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹، ص ۴۰۵
- ایضا، سید صباح الدین عبدالرحمن دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹، ص ۴۰۷
- تفصیل کے لیے دیکھیے شبلی نعمانی، اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر، دارالمصنفین اعظم گڑھ ص ۲۴۔ اور سید صباح الدین عبد الرحمنِ عہدِ وسطی میں مسلم حکمرانوں کے تمدنی جلوے ص ۴۸۵۔۴۸۶، دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ ۲۰۰۹
- ملاحظہ ہو: مولانا نجم الدین اصلاحی، مکتوبات شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی جلد اول مرتبہ مطبوعہ در مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۹۵۲۔
- نقوش کے مشہور زمانہ رسول نمبر کی دسویں جلد اس کی شاہد عدل ہے۔ شائع کردہ فریڈ بک ڈپو نئی دہلی ۲۰۱۴۔
- Rafiq Zakaria Indian Muslims What Wnt Wong With them p 9
- Ibid p 9
- Ibid p 10
- پی این چوپڑا Histrory and Culture of Indian People
published by Bhartiya Vidia Bhawan - P 10 - سعید نقوی، وطن میں غیر، ص ۲۵ فاروس نئی دہلی (Being Other in India کا اردو ترجمہ)
- ایضا وطن میں غیر، ص ۲۵۔
- رضوان الحق فلاحی کی کتاب قرآن شریف کے ہندی انوادایک سرویکشن (جائزہ)
Brown Book Publications pvt.Ltd opposit Blind School,Quila Road Aligarh - Rafiq Zakaria Indian Muslims What Went Wong With them p 12
- Ibid p 13
- The Last Mughal Willium Dalremple p 26
- Rafiq Zakaria Indian Muslims What Wnt Wong With them p 32-33
- Ibid p 38
- Ibid p 38
- Ibid p 39
- سید سلیمان ندوی، نقوشِ سلیمانی، دارالمصنفین اعظم گڑھ ص ۸۷، طبع ۱۹۳۹۔
- p.136 Penguin Books 2019 Absolute Khuswant
- MN Roy,The Historical Role of Islam
Oxford University Press 2008
بحوالہ مشیرالحسن p 15 Moderate or Militant Images of Muslims - ملاحظہ ہو مبارک علی کی کتاب علماء اور سیاست، فکشن ہاؤس ۱۸ مزنگ روڈ لاہور ص ۴۹
طوفان الاقصیٰ اور امت کی ذمہ داریاں
اسماعیل ہنیہ
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین کے تحت ۶ تا ۱۱ جنوری ۲۰۲۴ء سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں عالمِ اسلام سے علماء کرام نے شرکت کی۔ اس سیمینار میں ایک سیشن ’’دور الامۃ و طوفان الاقصیٰ‘‘ کے عنوان پر منعقد کیا گیا۔ جس میں اسماعیل ہنیہ نے طوفانِ اقصیٰ کے اسباب اور علماء کی ذمہ داریوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ جس کا ترجمہ ذیل ہے:
’’ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ اہلِ فلسطین کے سینوں میں جذبۂ جہاد اور دشمن سے مزاحمت کی روح پھونکنے میں علماء ربانیین کا اہم کردار ہے۔ ان میں سے کچھ اپنی مراد پا چکے ہیں (شہید ہوچکے ہیں) اور کچھ ابھی ارضِ فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ کی حفاظت کے لیے میدانِ جہاد میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔
میرے بھائیو، بہنو! اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس امت کی خصوصیات میں سے سب سے اہم خاصیت یہ ہے کہ یہ راہ حق میں شہادت پیش کرنے کا داعیہ رکھتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کو یہ مقام حاصل ہے کہ اس کو شہداء کی امت کہا جاتا ہے، اور اس کو یہ مقام اس لیے حاصل ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے دور سے لے کر آج تک یہ امت راہِ حق میں اور دینِ اسلام کی اشاعت کی خاطر اپنی جانوں کی قربانیاں پیش کر رہی ہے۔ اور یہ امر قابلِ تعجب بھی نہیں ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے مختلف علاقوں کو فتح کرتے ہوئے اور جہاد کے علم کو بلند کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور جزیرہ عرب سے باہر مدفون ہوئے، اس لیے اس امت کو یہ بلند مقام حاصل ہے کہ یہ حق کے راستے میں شہادتیں پیش کرنے والی امت ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: فقاتل في سبيل اللہ لا تكلف الا نفسك وحرض المؤمنين عسی اللہ ان يكف باس الذين كفروا واللہ اشد باسا واشد تنكيلا- النساء ۸۴ (پس اے نبی! تم اللہ کی راہ میں لڑو ، تم اپنی ذات کے سوا کسی اور کے لیے ذمہ دار نہیں ہو ۔ البتہ اہل ایمان کو لڑنے کے لیے اکساؤ، بعید نہیں کہ اللہ کافروں کا زور توڑ دے، اللہ کا زور سب سے زیادہ زبردست اور اس کی سزا سب سے زیادہ سخت ہے۔)
میں آپ کے سامنے اس موقع پر کہ جب اہلِ فلسطین، اہلِ غزہ بالخصوص اپنی شجاعت و بہادری کی عظیم داستان رقم کر رہے ہیں درج ذیل نکات پیش کروں گا:
پہلا نکتہ
طوفانِ اقصیٰ کے معرکہ کے حوالے سے سوال کیا جا رہا ہے کہ حماس نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ اور جہاد و مزاحمت کے میدان میں اس اسٹرٹیجی کو کیوں اختیار کیا گیا؟ اس حوالے سے میں طوفانِ اقصیٰ کے فیصلے سے قبل تین اہم مراحل کا تذکرہ کروں گا جس کی بنیاد پر اس معرکہ کا میدان سجا:
- اس معرکہ سے قبل بین الاقوامی سطح پر مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈال دیا گیا اور عالمی و بین الاقوامی فیصلہ ساز اداروں نے اس مسئلہ سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے یہ باور کروایا کہ یہ اسرائیل کا داخلی مسئلہ ہے جسے وہ اپنی صوابدید کے مطابق حل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے قومی و بین الاقوامی سطح پر نہ قرارداد پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اور نہ اس حوالے سے کوئی سیمینار منعقد کیے گئے۔
- اسرائیل کی موجودہ حکومت نسل پرستی اور مذہبی تشدد کا استعارہ بنی ہوئی ہے، جس کی ترجیحات میں قدس اور مسجد اقصیٰ کو صفحۂ ہستی سے مٹانا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے اہلِ فلسطین پر ہر طرف سے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے، غزہ کا ۱۷ سال سے محاصرہ کیا ہوا ہے، اور ہزاروں فلسطینی ان کی قید میں ہیں، اور ان کا سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ کسی بھی طریقے سے اہلِ غزہ اردن یا مصر کی جانب ہجرت کر جائیں۔ وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے مسجد اقصیٰ (جو قبلہ اول ہے، جہاں سے آپ ﷺ نے معراج کے سفر کا آغاز کیا)، فلسطین کے مغربی کنارے پر آباد مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر رہے ہیں۔ یہ اس امر پر واضح دلیل ہے کہ وہ اس مسئلہ کو بالجبر ختم کرنا چاہتے ہیں۔
- طوفانِ اقصیٰ سے قبل بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی ریاست کو قبول کرنے کی مہم کا زور و شور سے آغاز کیا گیا، جس کے لیے صہیونیوں نے مختلف مکر و فریب گڑھے، اور بین الاقوامی سطح بحیثیت ایک ریاست کا مقام حاصل کرنے کی کوشش شروع کی، جس کے نتیجے میں اس کو بحیثیت ریاست قبول کرنے کا آغاز ہوا، جبکہ اس نے اہلِ فلسطین کا حق مارا ہے۔ ان تمام سرگرمیوں کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ فلسطین کے مسئلہ کو زمین بوس کر دیا جائے اور اسرائیل بالجبر اس پر قابض ہو کر اپنی ریاست قائم کر لے۔
اس منظر نامے میں فلسطینی عوام اور مزاحمتی تحریکات، جس میں سرفہرست حماس ہے، نے اللہ رب العزت کے فرمان: ادخلوا علیہم الباب فاذا دخلتموہ فانکم غالبون وعلی اللہ فتوکلوا ان کنتم مومنین۔ المائدہ ۲۳ (ان جبّاروں کے مقابلہ میں دروازے کے اندر گھس جاؤ، جب تم اندر پہنچ جاؤ گے تو تم ہی غالب رہو گے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو) پر عمل کرتے ہوئے اس معرکہ کا آغاز کیا ۔ اور سات اکتوبر کا دن فلسطین کی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ انسانی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔
دوسرا نکتہ
اس وقت اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے جس میں ۷۔ ہزار ٹن سے زائد بارود برسایا جا چکا ہے جو ہیروشیما کی بربادی کے برابر ہے، جبکہ غزہ کا رقبہ ۳۶۵ کلومیٹر ہے۔ اس جارحیت کے ذریعے اسرائیل درج ذیل اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے:
- حماس اور دیگر مزاحمتی تحریکات کا قلع قمع کرنا
- کتائب القسام سے اسرائیلی قیدیوں کو بازیاب کرانا
- غزہ کے مکینوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کرنا
ان تین اہداف کے حصول کے لیے صہیونی ریاست اپنے منصوبے کے مطابق عمل کر رہی ہے، اس منصوبے میں امریکہ، جرمنی، فرانس وغیرہ کا بھرپور تعاون حاصل ہے، گویا کہ یہ عالمی ساہوکار بھی فلسطین کی نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معرکہ کو ۱۰۰ دن ہونے کے قریب ہے لیکن اس جنگ میں صہیونی ریاست نے اپنے دلسوز اور بھیانک منصوبے کی تکمیل کے لیے چار طریقوں سے اہل فلسطین پر وار کیا ہے: سب سے پہلے انہوں نے بھرپور طریقے سے فضائی حملے کیے، دوسرا یہ کہ انہوں زمینی جنگ کا آغاز کیا، تیسرے مرحلے میں وہ حماس کی قیادت اور اس کے اراکین کو قتل کرنے کے درپے ہیں، چوتھا یہ غزہ کی سیاسی صورتحال کے حوالے سے غور و فکر کر رہے ہیں کہ حماس کے بعد اس غزہ کی قیادت و سیادت کون کرے گا؟
میر آپ سے سوال ہے کہ کیا ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد اسرائیل اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے؟ ہرگز نہیں، دشمن اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے، جس کے دلائل ذیل ہیں:
- اسرائیلی حکومت کا سب سے پہلا ہدف یہ ہے کہ غزہ سے حماس کا خاتمہ کر دیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا حماس صرف غزہ کی تحریک ہے؟ ہرگز نہیں۔ حماس سارے عالم کے باضمیر انسانوں کی آواز بن چکی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ومكروا ومكر اللہ واللہ خير الماكرين (آل عمران ۵۴)۔ ارشاد باری تعالی ہے ونريد ان نمن علی الذين استضعفوا فی الارض ونجعلہم ائمة ونجعلہم الوارثين (القصص ۵)۔ اللہ رب العزت نے اس مزاحمت اور استقامت کی بدولت عالمِ اسلام ہی میں نہیں عالمِ غرب میں حماس کے پیغام کو پہنچا دیا ہے اور اب کوئی گھر ایسا نہیں ہے جہاں میڈیا کے توسط سے اہلِ غزہ و فلسطین پر اسرائیلی مظالم کی داستان نہیں پہنچی ہو۔ یہ اللہ رب العالمین کا ہم پر بہت بڑا انعام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن تو ہمارا نام نشان مٹانا چاہتا ہے، لیکن اللہ رب العزت حق و سچ کے نور کا فرمان ہے: یریدون لیطفئوا نور اللہ بافواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (الصف ۸)۔ ان شاء اللہ ان کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ گویا کہ اسرائیل اپنے اس ہدف کے حصول میں ناکام ہو چکا ہے۔
- جہاں تک قیدیوں کی بازیابی کا معاملہ ہے، اس حوالے سے اسرائیلی حکومت جدید ڈرون جاسوس طیاروں کی مدد سے اپنے قیدیوں کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اپنے ایک قیدی کو بھی تلاش نہ کر پائے، انہوں نے صرف وہی قیدی رہا کروائے جن کو کتائب القسام نے ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران رہا کیا۔ اپنے اس ہدف کے حصول میں صہیونی ریاست ناکام ہو چکی ہے۔
- اسرائیل کا تیسرا ہدف کہ اہلِ غزہ مصر یا اردن کی جانب ہجرت کر جائیں، یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ اہلِ غزہ اپنے سرزمین سے بے حد محبت کرتے ہیں، اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس معرکہ میں سیکڑوں کی تعداد میں شہادتیں ہو چکی ہیں، ان کے گھر مسمار کیے جا چکے، والدین، بہن بھائی شہادت کا تاج پہن چکے ہیں، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی بچہ یا نوجوان مسمار شدہ عمارت سے نکلتا ہے تو یہ نعرہ لگاتا ہے کہ میں فلسطین، حماس اور القدس کے لیے جان دینا اپنے لیے شرف سمجھتا ہوں اور یہ میرے لیے شرف و عزت کی بات ہے۔ دنیا نے اس منظر کا بھی مشاہدہ کیا جب غزہ کے ان باشندوں کو اپنے وطن آنے کی اجازت دی گئی جو دیگر ممالک میں آباد ہی، اور اہلِ غزہ کو دیگر ممالک کی طرف جانے کا پروانہ جاری کیا گیا، تو فلسطینی مہاجرین نے اپنے وطن کی طرف نقل مکانی کی، لیکن غزہ سے کسی نے ہجرت نہیں کی۔ اہلِ غزہ سے اپنی سرزمین سے محبت اور اس کے لیے جان تک قربانی کر دینے کا جذبہ اسرائیل کو اپنے اس ہدف میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ گویا کہ دشمن اس ہدف میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔
تیسرا نکتہ
اس وقت غزہ میں دو محاذوں پر جنگ جاری ہے۔ ایک دشمن سے مقابلے کا جبکہ دوسرا اہلِ غزہ کی سکیورٹی کا محاذ ہے:
- الحمد للہ پہلے محاذ پر کتائب القسام، سرایا القدس اور دیگر مزاحمتی تحریکوں نے دشمن کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا ہے، جس کے مناظر پورے عالم نے دیکھے ہیں۔ دشمن کے مقابلے میں مجاہدین کی تعداد اگرچہ کم ہے لیکن جنگی حکمتِ عملی کے مطابق میدانِ جہاد میں اسرائیلی فوجیوں کو نشانے بنائے ہوئے ہیں اور ان کے آلاتِ جنگ کو تباہ و برباد کر رہے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا نے گزشتہ روز اس معرکہ کے ۱۰۰ دن گزرنے کے بعد یہ اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں مجاہدین سے مقابلہ کرنا صعوبت سے خالی نہیں ہے اور کل سب سے مشکل دن تھا۔
- دوسرا محاذ اہلِ غزہ کی حفاظت کا ہے کہ دشمن ایک طویل عرصے سے فضائی حملے کر رہا ہے جس کے نتیجے میں شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے، فلسطین کے مغربی کنارے پر اب تک ۳۵۰ شہادتیں ہو چکی ہیں، گویا غزہ کے ساتھ ساتھ فلسطین کا مغربی کنارہ اور مسجدِ اقصیٰ غیر محفوظ ہیں۔
میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ بحیثیت عالمِ دین انفرادی و اجتماعی سطح پر ان دو محاذوں پر اہلِ غزہ کی معاونت میں اپنا کردار ادا کریں۔ اس لیے کہ مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اہل ِفلسطین ہی کا فریضہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری امت کا فرض ہے، جس میں وہ اپنا کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے اہلِ علم کے فتاوٰی بھی موجود ہیں جن اس امر کی صراحت کی گئی ہے کہ القدس کی آزادی کے لیے اپنی جان اور مال اور ہر قسم کا تعاون کرنا تمام مسلمانوں کا فرض بنتا ہے۔ کتائب القسام کے مجاہدین نے طوفانِ اقصیٰ کا دروازہ کھول دیا ہے، اب اس کو مزید طاقت فراہم کرنا ہم سب کا فرض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن کو مختلف ممالک کی جانب سے اس جنگ کو طول دینے کے لیے معاونت فراہم کی جا رہی ہے، جس کی وجہ سے وہ بھرپور طریقے سے حملہ آور ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم مشترکہ مقصد میں اہلِ غزہ کی پشت پناہی کریں۔ اور یہ بات اپنی جگہ اہم ہے معرکۂ طوفانِ اقصیٰ جیسے فیصلے تاریخ میں شاذ و نادر کیے جاتے ہیں۔ اس لیے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیلی جارحیت کے خاتمے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ دشمن منہ کی کھائے گا۔
چوتھا نکتہ
طوفانِ اقصیٰ کے بعد فلسطین سے متعلق امریکہ اور یورپین ممالک کے عوام کی رائے بھی تبدیل ہو چکی ہے کہ جہاں فلسطین کا جھنڈا بلند کرنا بھی جرم تھا، اور یہ رویہ بعض عرب ممالک میں بھی دیکھا گیا، لیکن اس معرکہ نے سارے عالم کے سامنے حقیقت واضح کر دی ہے۔ اس عالمی تغیر کی پس منظر میں اہلِ غزہ کی ثابت قدمی اور اسرائیلی کی جانب سے سخت جارحیت کے باوجود وہ القدس کی آزادی کے لیے پرعزم ہیں۔ اگر وہ ثابت قدمی کا مظاہرہ نہ کرتے تو آج ان کو کچل دیا جاتا۔ اس لیے اس فتح عظیم پر خوشی کے ساتھ ساتھ ہمیں ثابت قدم رہنا چاہیے۔ اس حوالے سے درج ذیل امور اپنانے کی سعی کرنی ہو گی:
- دوحہ (قطر) کی جانب سے انسان دوستی پر مبنی جس اعلامیہ کا اعلان کیا گیا ہے (اس اقدام پر ہم قطر اور دیگر ممالک مشکور ہیں) اس کے لیے ناگزیر ہے کہ ایک ایسا منصوبہ ترتیب دیا جائے جو قابلِ عمل بھی ہو، محض منصوبے کی حد تک نہ رہے۔ اس منصوبے کے لیے عملاً کام کیا جائے۔
- فلسطین، غزہ اور القدس کی صورتحال اور اس مسئلہ کے حل کے لیے مختلف ممالک سے علماء کا انتخاب کر کے ان کے وفود ترتیب دئیے جائیں جو مسلم و غیرمسلم ممالک کے حکام سے ملاقات کریں، مختلف تحریکات اور انسانی حقوق پر مبنی این جی اوز سے ملاقات کریں، اور ان کے سامنے اس مسئلہ کی حقیقت بیان کریں اور اسرائیلی جارحیت کو رکوانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کریں۔
- اس معرکہ کو کامیاب بنانے کے لیے مسلم معاشرے میں فقہ الجہاد بالمال کا تصور پیدا کرنے میں علماء اپنا کردار ادا کریں۔ مسلم معاشرے کی اس نہج تربیت کی جائے اس جہاد میں اپنے مال کے ذریعے حصہ ڈالیں۔ اس لیے اللہ رب العزت نے جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کا حکم دیا ہے، ارشاد باری تعالی ہے: انفروا خفافا وثقالا وجاہدوا باموالکم وانفسکم فی سبیل اللہ ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (التوبہ ۴۱)
- حقیقت یہ ہے کہ ہم روزانہ کی بنیاد مختلف ممالک سے آنے والے وفود کا استقبال کرتے ہیں، وہ ملاقات کے دوران اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ ان کے نوجوان القدس کی آزادی کے لیے اہلِ غزہ کے ساتھ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کے لیے حاضر ہیں۔
- میری تجویز یہ ہے کہ اس سیمینار کی جانب سے اہلِ غزہ کی بہادری و شجاعت اور ان کی ثابت قدمی کی داد دینے کے لیے ایک خط ان کے نام صادر کیا جائے جس میں ان کے شہداء کی شہادت کی قبولیت کے ساتھ ان کے زخمیوں کی داد رسی کی جائے اور اسرائیلی کی قید ۱۰ ہزار فلسطینیوں کی آزادی کے لیے دعا کی جائے۔
- پورے عالم اسلام سے آئے تمام علماء کرام سے میری درخواست ہے کہ وہ اہلِ غزہ کی ہر قسم کے تعاون کے حوالے سے عامۃ الناس کو آمادہ کریں ۔ تاکہ تمام مسلمان اس کرب میں ان کے ممد و معاون بن سکیں۔‘‘
———————————
مترجم: مولانا ڈاکٹر عبدالوحید شہزاد — نائب مدیر مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد
نائب مدیر مرکز تعلیم وتحقیق، گلشن تعلیم، ایچ ۱۵، اسلام آباد
awaheedshahzad@gmail.com
تحریک ریشمی رومال کے خطوط
حافظ خرم شہزاد
آپ نے ریشمی رومال تحریک کے بارے میں سنا ہو گا مگر ریشمی رومال خطوط کے بارے میں شاید آپ نہ جانتے ہوں ،حاضر ہے کہ ان خطوط میں کیا لکھا گیا تھا ۔ ریشمی خطوط کے مضمون کیا تھے، اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
پہلا خط جو شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا، اس کا مضمون یہ تھا: ”یہ خط حضرت مولانا شیخ الہند کو مدینہ بھیجنا ہے۔ حضرت شیخ الہند کو خط کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی آگاہ کر دیں کہ وہ کابل آنے کی کوشش نہ کریں ۔ حضرت مولانا شیخ الہند مطلع ہو جائیں کہ مولانا منصور انصاری اس بار حج کے لیے نہ جا سکیں گے۔ شیخ عبد الرحیم کسی نہ کسی طرح کابل میں مولانا سندھی سے ملاقات کریں“۔
دوسرا خط شیخ الہندؒ کے نام تھا جس کے سلسلہ میں ہدایت تھی کہ تحریک کے ممتاز کارکنوں کو بھی یہ خط دکھا دیا جائے! اس خط میں رضاکار فوج ”جنود اللہ“ اور اس کے افسروں کی تنخواہوں کا تذکرہ ہے۔ ۱۰۴ افراد کے نام ہیں ۔ جنہیں فوجی تربیت اور ان کے کام کی ذمہ داری کے سلسلہ میں تحریر ہے۔ اس کے علاوہ راجہ مہندر پرتاب سنگھ کی سرگرم ”جرمن مشن کی آمد، عارضی حکومت“ کا قیام روس جاپان اور ترکی وفود کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
تیسرا خط حضرت شیخ الہندؒ کے نام تھا۔ مشہور یہ ہے کہ یہ خطوط مولانا منصور انصاری نے لکھا تھا؛ لیکن عبد الحق، جنہیں یہ خط پہنچانے کے لیے دیا گیا تھا، کا بیان ہے کہ یہ خط مولانا سندھی نے اس کے سامنے لکھا تھا۔ اس خط کے خاص مضامین یہ ہیں کہ ہندوستان میں تحریک کے کون کون سے کارکن سرگرم ہیں۔ اور کون کون سے لوگ سست پڑ گئے ہیں۔ اس میں مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کی گرفتاری کی اطلاع بھی تھی۔ اس میں یہ بھی تحریر ہے کہ میرا حجاز آنا ممکن نہیں ہے۔
”غالب نامہ“ تحریک کے کارکنوں کو دکھا کر قبائلی علاقہ کے سرداروں کو دکھا دیا گیا ہے۔ حاجی ترنگ زئی اس وقت ”مہمند“ علاقہ میں ہیں۔ مہاجرین نے مہمند اور ”سوات“ کے علاقہ میں آگ لگا رکھی ہے۔ جرمن ترک مشن کی آمد اور اس کے ناکام ہونے کے اسباب کا تذکرہ بھی ہے۔ مشن کی ناکامی کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ جرمنی اور ترکی کو چاہیے تھا کہ پہلی جنگِ عظیم میں شامل ہونے سے پہلے ایران اور افغانستان کی ضرورت معلوم کرے اور اس کو پورا کرنے کی صورت نکالے۔ اس کے علاوہ افغانستان کو جنگ میں شریک ہونے کے لیے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے اس کی تفصیل درج ہے۔ ساتھ ہی حضرت شیخ الہندؒ کو یہ مشورہ دیا گیا کہ وہ مدینہ منورہ میں ٹھہر کر ترکی، افغانستان اور ایران میں معاہدہ کرانے کی کوشش کریں۔ اس خط میں حضرت شیخ الہندؒ سے یہ بھی گزارش کی گئی تھی کہ وہ ہندوستان نہ آئیں حکومت نے ان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔“ مولانا سندھیؒ نے یہ خطوط ریشمی رومال پر لکھ کر عبد الحق کو دیے، اور اس کو ہدایت کر دی کہ یہ خط شیخ عبد الرحیم سندھی کو پہنچا دیں۔ عبد الحق ایک نو مسلم تھا، وہ مہاجر طالب علموں کے ساتھ افغانستان گیا تھا۔ مہاجر طالب علموں میں دو طالب علم اللہ نواز اور شاہ نواز قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں رب نواز کے لڑکے تھے، جو ملتان میں انگریزی ایجنٹ تھا، عبد الحق بھی رب نواز کے یہاں رہتا تھا۔ جب یہ خطوط عبد الحق کو پہنچانے کے لیے دیے گئے تو وہ سرحد کے راستے سے پنجاب ہوتا ہوا بہاولپور پہنچا‘ وہاں بہاولپور کے مرشد کے پاس وہ کوٹ رکھ دیا جس کے استر میں وہ ریشمی ٹکڑے سلے ہوئے تھے۔ اس کے بعد وہ بہاولپور سے اپنے آقا رب نواز سے ملاقات کرنے کے لیے ملتان چلا گیا۔ اس نے ان دونوں کی خیریت کے علاوہ تحریک اور اس کی سرگرمی، قبائلی علاقہ اور جیل کے واقعات اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی سرگرمیوں کی تفصیل بھی بتا دی ۔اور دھمکانے پر بہاولپور کے مرشد مولانا محمد کے پاس سے لا کر وہ کوٹ بھی دیا، جس کے استر میں وہ ریشمی خطوط سلے ہوئے تھے، جب رب نواز کو یہ خطوط ہاتھ لگے تو اس نے غداری کی، اور اس نے فوراً ہی کمشنر سے ملاقات کی، اور ریشمی خطوط پیش کیے اور تمام تفصیلات سے اس کو باخبر کر دیا۔ ساتھ ہی عبد الحق کو کمشنر کے پاس لے گیا، اس کے صلہ میں اس کو ”خان بہادر“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ اس طرح وہ رب نواز سے خان بہادر رب نواز بن گیا۔
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا دستور ساز اسمبلی کی افتتاحی تقریب سے خطاب
ادارہ
عزت مآب (لارڈ ماؤنٹ بیٹن)! میں پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کی طرف سے اور اپنی طرف سے شاہِ برطانیہ کا ان کے مہربان پیغام کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آگے بڑی ذمہ داریاں ہیں۔ میں فطری طور پر ان کے جذبات کے جواب میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم ان کی ہمدردی اور حمایت کی یقین دہانی کیلئے شکر گزار ہیں۔ اور مجھے امید ہے کہ آپ برطانوی قوم اور خود برطانوی سربراہ کیلئے ہماری طرف سے خیر سگالی جذبات اور دوستی کا پیغام پہنچائیں گے۔
میں پاکستان کے مستقبل کیلئے آپ کے خیر سگالی اور نیک خواہشات کے اظہار کیلئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ہماری یہ مسلسل کوشش رہے گی کہ پاکستان میں تمام طبقات کی فلاح و بہبود کیلئے کام کریں، اور مجھے امید ہے کہ ہر کوئی عوامی خدمت کی سوچ سے متاثر ہو گا اور تعاون کے جذبے سے سرشار ہو گا، اور ہر کوئی اپنی سیاسی اور شہری خوبیوں میں سبقت لے جائے گا، جس سے ایک عظیم قوم بنانے اور اس کی عظمت کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے۔ میں ایک بار پھر آپ اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کا آپ کی مہربانی اور نیک خواہشات کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بالکل، ہم دوست کے طور پر جدا ہو رہے ہیں اور پوری امید ہے کہ ہم دوست رہیں گے۔
میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم اس جذبے کو سراہتے ہیں جس میں اس وقت سرکاری خدمات میں اور مسلح افواج میں شامل افراد اور دیگر افراد نے پاکستان کی خدمت کیلئے خود کو عارضی طور پر رضاکارانہ حیثیت سے پیش کیا ہے۔ ہم پاکستان کے مددگاروں کی حیثیت سے انہیں خوش رکھیں گے اور ان کے ساتھ ہمارے شہریوں کے برابر سلوک کیا جائے گا۔ شہنشاہِ عظیم اکبر نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ جو رواداری اور خیر سگالی کا مظاہرہ کیا، وہ کوئی حالیہ معاملہ نہیں ہے، یہ تیرہ صدیاں پہلے کی بات ہے جب ہمارے نبی ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو فتح کرنے کے بعد نہ صرف قول سے بلکہ عمل سے ان کے ایمان اور عقائد کے حوالے سے انتہائی تحمل اور عزت و احترام کا برتاؤ کیا تھا۔ مسلمانوں کی پوری تاریخ، جہاں کہیں بھی انہوں نے حکومت کی، ان انسانی اور عظیم اصولوں سے بھری پڑی ہے جن کی پیروی ہونی چاہیے اور ان پر عمل کیا جانا چاہیے۔
آخر میں، میں پاکستان کیلئے آپ کی نیک تمناؤں کیلئے شکریہ ادا کرتا ہوں، اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اپنے پڑوسیوں اور دنیا کی تمام اقوام کے ساتھ دوستانہ جذبے کی خواہش رکھیں گے۔
http://tinyurl.com/jinnah14august1947
روس یوکرائن جنگ اور یورپ کی تیاری
ہلال خان ناصر
۱۰ جنوری ۲۰۲۴ء کو بی بی سی پر ایک عجیب خبر دیکھنے کو ملی۔ خبر میں بتایا گیا کہ سویڈن کے آرمی چیف اور ڈیفنس منسٹر نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ لوگ ذہنی طور پر جنگ کیلئے تیار ہو جائیں۔ ان کے مطابق روس نے جو دھمکی فن لینڈ کو نیٹو میں شمولیت اختیار کرنے کے بعد دے رکھی ہے، کہ یوکرائن کے بعد اگلی باری فن لینڈ کی ہے، وہ دھمکی سویڈن پر بھی لاگو ہوگی، کیونکہ سویڈن نے بھی نیٹو میں شامل ہونے کی درخواست جمع کروا رکھی ہے۔ جغرافیائی طور پور روس اور سویڈن کے درمیان ایک فن لینڈ ہی ہے۔ ان کے اس بیان پر عوام اور بہت سی سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا ہے۔ مختلف ماہرین کے نزدیک عوام کے سامنے جنگ کی بات کرنا اور وہ بھی اس وقت جب ابھی یوکرائن بھی لڑ رہا ہے، ایک بڑی غلطی ہے، جس سے عوام میں خوامخواہ کی بے چینی اور خوف پھیل رہا ہے۔
آسکر جانسن، سویڈن کی ڈیفنس یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ روس سے جنگ ممکن تو ہے، لیکن اتنی جلدی نہیں کہ ابھی سے افراتفری کا ماحول پیدا کر دیا جائے۔ سویڈن کی روس سے جنگ سے پہلے روس کو یوکرائن میں فتح، پھر اگلی جنگ کی تیاری کیلئے وقت، اور امریکہ کا یورپ کی پشت پناہی کرنے سے خاتمہ درکار ہوگا۔ شاید اسی سوچ اور زاویے سے جرمنی بھی موجودہ صورتحال دیکھ رہا ہے کیونکہ جرمنی نے روس سے جنگ کی تیاری کیلئے جو پلان بنایا ہے اس میں جنگ کا خدشہ آج سے ۶ سال بعد کا ہے۔ اس سب صورتحال میں جو چیز میری نظر میں آئی جس کی وجہ سے اس خبر کو عجیب کا ٹائٹل نوازا، وہ اس ساری صورتحال اور جنگِ عظیم اول کے بعد والے دور میں موجود ایک مماثلت ہے۔
جنگ عظیم اول کے بعد ۱۹۱۹ء میں معاہدہ ورسائے میں جرمنی کے تمام ہتھیار تباہ کر دیے گئے تھے اور مزید ہتھیار بنانے اور حاصل کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی، صرف اپنے دفاع کی حد تک جو چیزیں درکار ہوں ان کی اجازت تھی۔ مگر جرمنی نے معاہدے کے چند سال بعد ہی اس کی خلاف ورزی شروع کر دی جس کو سوائے ونسٹن چرچل کے کسی نے اہمیت نہیں دی۔ چرچل ۱۹۳۳ء سے حکومتوں کی توجہ اس مسئلہ پر لانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہٹلر کی کمانڈ میں جرمنی دوبارہ سے تیاری پکڑ رہا ہے اور جلد ہی حملہ آور ہونے والا ہے۔ لیکن کسی نے چرچل کی بات پر توجہ نہ دی۔ نیول چیمبرلین، جو کہ چرچل سے پہلے ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۰ء تک برطانیہ کے وزیر اعظم رہے، کے چرچل کے بارے میں الفاظ ’’جنگ کا شوقین ہٹلر نہیں چرچل ہے‘‘ آج بھی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اس وقت کے حکمرانوں کے خوابوں میں بھی جرمن حملے کا تصور نہیں تھا کہ وہ تو ابھی شکست کھا کر گرا ہے، اٹھنے میں تو بہت وقت لگے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۹۴۰ء میں جرمنی نے حملہ آور ہو کر صرف چھ ہفتوں میں فرانس کے ساتھ ساتھ تین اور ممالک پر قبضہ کر لیا۔
آج بھی اس وقت کی طرح یورپ اپنی امیدیں امریکہ سے جوڑے بیٹھا ہے مگر دوسری جنگِ عظیم کے امریکہ اور آج کے امریکہ میں فرق ہے۔ ایک فرق بتاتا چلوں کے اس وقت امریکہ کی مکمل سپورٹ یورپ کو حاصل تھی جس کی وجہ سے جنگِ عظیم میں ان کو کامیابی ملی۔ لیکن اب کے امریکہ نے چائنہ سے لڑنے کیلئے جنوبی کوریا اور جاپان کو، اور مسلمانوں سے لڑنے کیلئے اسرائیل کو بھی سپورٹ دے رکھی ہے جس میں سب سے زیادہ ترجیح اسرائیل کو حاصل ہے۔ اس کا ثبوت اس وقت غزہ میں ہونے والی جنگ ہے کہ اس کے شروع ہوتے ہی یوکرائن سے امداد کا رخ اور توجہ اسرائیل کی طرف منتقل ہوگیا جس کی وجہ سے پچھلے ۲ مہینوں میں روس نے یوکرائن کو اتنا نقصان پہنچا دیا ہے جتنا سال کے شروع سے اکتوبر تک نہیں پہنچا پایا۔
مسئلہ فلسطین، قومی انتخابات، وطن عزیز کا اسلامی تشخص
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلسِ عاملہ اور مختلف اضلاع کے ذمہ داران کا اہم اجلاس مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں صوبائی امیر مفتی محمد نعمان پسروری کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ جس میں مسئلہ فلسطین، قومی انتخابات، اور وطن عزیز کے نظریاتی اسلامی تشخص، اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ شرکائے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان شریعت کونسل کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے سب سے پہلے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے عالمِ اسلام کی بے حسی پہ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرب اسلامی ممالک سمیت ہم اسرائیلی جارحیت اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں پر صرف اظہار مذمت کر کے زبانی جمع خرچ پہ مصروف ہیں۔ عملی اقدامات عالمِ اسلام کی طرف سے اسرائیل کے خلاف نظر نہیں آرہے۔ ہمیں قومی سطح پہ اپنی طرف سے فلسطین کے ساتھ یکجہتی جاری رکھتے ہوئے امت میں اسرائیلی جارحیت و بربریت کو بے نقاب کرتے رہنا چاہیے۔
اجلاس میں فلسطین کے حوالے سے امیر مرکزیہ مفتی محمد رویس خان ایوبی کی طرف سے ماہِ رجب کے حوالے سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزۂ معراج اور بیت المقدس کی آزادی بارے عنوانات کو فروغ دیتے ہوئے زیادہ سے زیادہ پروگرامات کو ترتیب دینے کی مہم کا خیر مقدم کیا گیا۔
علامہ زاہد الراشدی نے شرکائے اجلاس سے خطاب میں قومی انتخابات میں مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں کے آپس میں بیٹھ کر مشترکہ ضابطۂ اخلاق اور لائحۂ عمل طے کرنے کی ضرورت پہ زور دیا، اور قومی اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں سے پاکستان کے نظریاتی اور اسلامی تشخص کو ہر سطح پر اجاگر رکھنے کے حوالے سے حلف نامے پہ دستخط لینے کی مہم کو فروغ دینے کے لیے تجویز دی کہ علاقہ کے مشترکہ دینی حلقوں کی ہم آہنگی سے امیدواروں سے وطنِ عزیز میں نفاذِ اسلام، اور آئینِ پاکستان کو شریعت کی روشنی میں قائم رکھتے ہوئے مکمل نافذ کرنے کی جدوجہد کی یقین دہانی بطور حلف لینی چاہیے۔ اسی طرح ناموسِ رسالت اور ختم نبوت کے قوانین کے تحفظ اور قومی خود مختاری اور وطنِ عزیز کی آزاد پالیسی کے لیے عملی اقدامات کو ہر سطح پر یقینی بنانے کی حلفاً یقین دہانی لی جائے۔ امیدواروں سے اس بات پر دو ٹوک حلف لیا جائے کہ وہ دستور کی پابندی کرتے ہوئے خلافِ شریعت کسی بل اور پالیسی کی حمایت نہیں کرے گا، بلکہ اس کے مقابلے میں شریعت اور اسلامی دفعات اور دستور اور آئین پاکستان کی حمایت میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑے گا۔
علامہ راشدی صاحب نے مزید کہا کہ ہمیں دینی حلقوں کی سیاست کو عوامی سطح پر متحد ہو کر عملی جامہ پہنانے کے لیے بھی کوشش کرنا ہو گی کہ ہمارا مذہبی ووٹ تقسیم ہو کر ضائع نہ ہو۔ ہم ایک دوسرے کی صلاحیت اور اکثریتی ووٹ کی حقیقت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی ایک مذہبی امیدوار پہ متفق ہونے کی طرف بھی توجہ دیں۔
اجلاس میں تمام نمائندگان نے مولانا زاہد الراشدی کی بیان کردہ ہدایات کو قابلِ عمل قرار دیتے ہوئے اسی اعلامیہ اور بیانیہ کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ شرکائے اجلاس نے حالیہ دنوں میں ایران کی طرف سے پاکستان کے علاقے میں کی جانے والی جارحیت پہ بھرپور مذمت کا اظہار کیا اور اس کے فوری جواب میں پاکستان کی مسلح افواج اور سلامتی کے اداروں کی بروقت جوابی کارروائی کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے وطنِ عزیز پاکستان کی سالمیت کے حوالے سے علماء کرام کی طرف سے مسلح افواج اور تمام اداروں کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کیا، اور ہر قسم کی بیرونی جارحیت کا متحد ہو کر اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔
اجلاس میں مولانا قاری محمد عثمان رمضان، مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، مفتی نعمان احمد، مفتی زین العابدین، مولانا عبید الرحمن معاویہ، پروفیسر منیر احمد، پروفیسر محمد زاہد، ڈاکٹر عبدالواحد قریشی، مولانا طلحہ عثمان، مولانا احسن ماجدی، مولانا نصر الدين خان عمر، مولانا فضل الہادی، مولانا خبیب عامر، مولانا زبیر جمیل، مقصود احمد باجوہ، مولانا خبیب عامر، مولانا شیراز نوید، عبدالقادر عثمان، حافظ شاہد میر، حافظ فضل اللہ راشدی، محمد بن جميل و دیگر نے شرکت کی۔
شرکائے اجلاس نے پاکستان شریعت کونسل میں نامور علماء کرام مفتی محمد جمیل اور مفتی محمود الحسن کی شمولیت کا بھی خیر مقدم کیا، پاکستان شریعت کونسل لاہور کے بزرگ راہنما مولانا ڈاکٹر عبدالواحد قریشی صاحب کی دعا سے اجلاس اختتام پذیر ہوا۔
اَز: مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، صوبائی سیکرٹری اطلاعات پاکستان شریعت کونسل پنجاب
انگلش لینگویج کورس کا انعقاد / الشریعہ لاء سوسائٹی کی افتتاحی تقریب
مولانا محمد اسامہ قاسم
چار ماہ پر مشتمل انگلش لینگویج کورس کا انعقاد
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے تمام درجات کے منتخب طلباء کرام کو چار ماہ پر مشتمل دو لیول کا انگلش لینگویج کورس کرایا گیا۔ ۸ جنوری ۲۰۲۴ء بروز سوموار اس کورس کی اختتامی تقریب ہوئی جس میں خصوصی طور پر استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب تشریف لائے، بچوں کی حوصلہ افزائی کی اور کورس کے معلم سر عمران حیدر کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔ ادارے کی طرف سے سر عمران حیدر کو خصوصی ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔
حضرت استاد جی نے اپنی گفتگو میں دینی تعلیم کے اداروں کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ مدارس دین کے قلعے ہیں اور آج کے معاشرہ میں دینی چہل پہل اور رونق انہی دینی مدارس کے دم قدم سے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والوں کو آج کی مروجہ زبانیں بالخصوص انگریزی زبان اور دیگر ضروری علوم بھی حاصل کرنے چاہئیں، کیونکہ اس کے بغیر وہ دنیا تک خدا کا دین پہنچانے کا فریضہ مؤثر طریقہ سے سرانجام نہیں دے سکیں گے۔
تقریب کے اختتام پر کورس مکمل کرنے والے طلباء اور اساتذہ کرام کو سر عمران حیدر کے ادارے النور اکیڈمی کی جانب سے پرفارمنس شیلڈز اور سرٹیفکیٹس دیئے گئے۔
سر عمران حیدر پاکستان کے واحد انگلش لینگوئیسٹ ہیں جو نیچرل اپروچ میتھڈ (Natural Approach Method) سے انگلش لینگویج سکھاتے ہیں۔ نیچرل اپروچ میتھڈ کوئی بھی زبان سیکھنے کا وہ طریقہ ہے جس سے انسان قدرتی طور پر بولنا سیکھتا ہے۔ اس طریقے سے انگلش سکھانے کے لیے نہ تو کوئی کتاب استعمال کی جاتی ہے نہ گرامر۔ نہ کوئی عمر کی حد ہے نہ ہی کسی قسم کی تعلیم کی ضرورت۔ سر عمران حیدر سے انگلش لینگوئیسٹک کورس کرنے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، اساتذہ، سرکاری ملازمین، کالج اور سکول کے طلبہ و طالبات اور ہر شعبے س ےمنسلک لوگ شامل ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ تعداد دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی ہے۔ افغانستان، کشمیر اور پاکستان کے چاروں صوبں سے طلبہ و طالبات یہ کورس کر چکے ہیں۔ سر عمران حیدر مختلف مدارس اور دیگر تعلیمی اداروں میں بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور طلبہ و طالبات کو نیچرل اپروچ میتھڈ سے انگلش بولنا سکھا رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ۱۵ لیکچرز کے بعد آپ کچھ بھی دیکھ کر، پڑھ کر، سن کر، یا سوچ کر اسے انگلش میں بیان کرنے کے قابل نہ ہوں تو اس کورس کی کوئی فیس نہیں ہو گی۔
آپ بھی اپنے مدارس، سکولز اور کالجز میں طلبہ و طالبات کو نیچرل اپروچ میتھڈ سے کتابوں، گرامر اور رٹے کے بغیر انتہائی مختصر عرصے میں خود انگلش بولنے اور لکھنے کے قابل بنائیں، جس کے بعد ان شاء اللہ انہیں ساری زندگی کبھی انگلش میں کوئی چیز یاد نہیں کرنا پڑے گی بلکہ وہ اسے خود انگلش میں بول اور لکھ سکیں گے۔
’’الشریعہ لاء سوسائٹی‘‘ کی افتتاحی تقریب
5 دسمبر 2023ء بروز منگل الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے کانفرنس ہال میں الشریعہ لاء سوسائٹی کی افتتاحی تقریب مولانا زاہد الراشدی صاحب کی زیر نگرانی منعقد ہوئی جس میں بطور مہمان سابق جج جناب شاہد اقبال ڈھلوں، رانا علی آفتاب ایڈوکیٹ، میاں معظم عبید ایڈووکیٹ، عبد الرؤف گھمن، مفتی واجد حسین، مولانا فضل الہادی، مولانا خالد صفدر، مولانا امجد محمود معاویہ شریک ہوئے اور پورے شہر سے وکلاء برادری، علماء کرام اور دینی احباب کی ایک بڑی تعداد نے تقریب میں شرکت کی۔
ڈاکٹر حافظ محمد رشید کی تعارفی گفتگو
تلاوت و نعت کے بعد ڈاکٹر حافظ محمد رشید نے الشریعہ اکادمی اور الشریعہ لاء سوسائٹی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ابتدا ۱۹۸۹ء میں اس عزم کے ساتھ ہوئی تھی کہ دور حاضر کے مسائل اور چیلنجز کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی تعلیمات و احکام کو جدید اسلوب اور تقاضوں کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جائے، عالم اسلام کے علمی و دینی حلقوں کے درمیان رابطہ و مفاہمت کے فروغ کی راہ ہموار کی جائے، اسلام دشمن لابیوں اور حلقوں کے تعاقب اور نشاندہی کا فرض انجام دیا جائے، اور دینی حلقوں میں فکری بیداری کے ذریعے سے جدید دور کے علمی و فکری چیلنجز کا ادراک و احساس اجاگر کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اکادمی کے زیر اہتمام متعدد مستقل اور جز وقتی آن لائن اور آن سائٹ تعلیمی سلسلے بھی جاری رہتے ہیں جن میں دینی و عصری تعلیم ایک ساتھ دی جاتی ہے الحمد للہ۔
الشریعہ لاء سوسائٹی کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اس سوسائٹی کے اہم محرکات یہ ہے کہ
- عوام میں ملکی و بین الاقوامی نظام و قوانین سے آگاہی دی جائے۔
- سیاسی، معاشی، عدالتی و قانونی نظام کا تعارف کرایا جائے۔
- اسلامائزیشن کے تسلسل میں قوانین کا جائزہ لیا جائے جیسا کہ سود، توہین رسالت، عائلی قوانین، جینڈر ایشوز، چائلڈ لیبر، خلع و طلاق، قانون وراثت، بچہ گود لینا اور اس طرح کے دیگر تمام مسائل کو شرعی نقطۂ نظر سے دیکھنا۔
- اس فورم کا سب سے اہم محرک اور مقصد دیوانی و فیملی مقدمات میں ثالثی کا کردار ادا کرنے والا فورم مہیا کرنا ہے، اس حوالے سے وکلاء برادری کی طرف سے ہمارے اس شعبے کے انچارج ڈاکٹر معظم محمود بھٹی جبکہ مفتیانِ کرام کی طرف سے مولانا مفتی فضل الہادی صاحب اپنی خدمات پیش کریں گے۔
الشریعہ لاء سوسائٹی کا دائرہ کار بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے جہاں تک ممکن ہوا اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے کہ عدالتی و قانونی نظام سے آگاہی کے لئے اہم اقدامات کریں اور اس حوالے سے
- شارٹ کورسز یعنی وکلاء کے لیے شریعہ لاء جبکہ دینی مدارس کے طلبہ اور عوام الناس کے لیے ملکی قانونی و عدالتی نظام کا تعارفی کورسز کرائیں جائیں گے۔
- دوسرے نمبر پر قوانین کا جائزہ لینے کے لیے ریسرچ فورم کا قیام عمل لایا جائے گا۔
- اسی طرح ثالثی فورم کو فعال کرنے کے لیے ’’دارالافتاء والمشورہ‘‘ کا اہتمام کیا جائے گا۔
- ملکی و بین الاقوامی معاہدوں کی اہمیت سے آگاہی کے بعد عام و خاص کے تاثرات لیے جائیں گے۔
- بین الاقوامی معاہدات کے ساتھ بین الاقوامی ایشوز بارے عوامی آگاہی کی کوشش ہوگی جیسا کہ مسئلہ فلسطین وغیرہ۔
جناب میاں معظم عبید ایڈووکیٹ کا خطاب
الشریعہ لاء سوسائٹی کے چیئر پرسن جناب میاں معظم عبید ایڈووکیٹ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ مجھے فخر ہے کہ میرے بیک گراؤنڈ میں دینی مدرسہ ہے، میں نے دونوں ماحول دیکھے ہیں اور بچپن سے اب تک علماء اور وکلاء دونوں حلقوں سے وابستہ ہوں، میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں ایک طویل عرصہ سے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ٹیم کا حصہ ہوں، چند سال قبل استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے حکم فرمایا کہ اپنی ٹیم کے ہمراہ کشمیر کا عدالتی نظام وزٹ کریں اور وہاں کے سماجی مسائل کے حل کا طریقہ کار دیکھ کر آئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے کشمیر کا سفر کیا اور وہاں کے عدالتی نظام کا تعارف اور طریقہ کار معلوم کیا تو یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہاں کے مسائل صرف ایک جج ہی نہیں سنتا بلکہ سیشن جج اور ضلعی قاضی ایک ساتھ بیٹھ کر معاملہ سنتے ہیں، ملکی نظم عدل اور شرعی نقطہ نظر کو مدنظر رکھتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں فیصلہ کیا جاتا ہے، یہ وہاں کا قابل تحسین عمل ہے، اگر ایسا وہاں ہو سکتا ہے تو ہم بھی اس کی عملی ترتیب کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اسی کوشش میں یہ عملی فورم آپ کے سامنے ہے ہم ان شاء اللہ ایسی ترتیب بنا رہے ہیں کہ جہاں وکلاء کو علماء کرام اور مفتیان عظام کی ضرورت ہوگی ہم ان سے رابطہ کریں گے، اور اگر علماء کرام کو کسی معاملے میں وکلاء سے تعاون کی ضرورت ہوگی تو ان شاء اللہ وکلاء برادری بھی حاضر ہوگی۔
حضرت علامہ زاہد الراشدی مدظلہ کا خطاب
اختتامی خطاب کرتے ہوئے مولانا زاہد الراشدی صاحب کا کہنا تھا کہ اسلامی قانون کے ایک طالب علم اور اسلامائزیشن کی جدوجہد کے ایک کارکن کے طور پر اس حوالے سے یہی کہوں گا کہ آج میرے ایک خواب کی تعبیر ہوتی نظر آرہی ہے جس کا اظہار میں بارہا مقامات پر کر چکا ہوں کہ ملکی و بین الاقوامی قوانین اور شرعی نقطہ دونوں کے باہمی اشتراک کے لیے ایک ’’ورکنگ گروپ‘‘ قائم ہونا چاہیے جس میں سیشن کورٹس کی سطح کے جج صاحبان، دینی مدارس میں فقہ و حدیث کا کم از کم بیس سالہ تجربہ رکھنے والے مدرسین، اور اسی سطح کے وکلاء صاحبان کو شامل کیا جائے، جو متعلقہ مسائل اور قوانین کا تفصیلی اور شق وار جائزہ لے کر انہیں مؤثر بنانے کے لیے تجاویز دیں۔ آزاد کشمیر میں چونکہ سیشن جج اور ضلع قاضی مل کر مقدمات کا فیصلہ کرتے ہیں اس لیے ان کا عملی تجربہ زیادہ ہے اور ’’ورکنگ گروپ‘‘ میں ایسے جج صاحبان اور قاضی حضرات کی شمولیت زیادہ مفید ہو سکتی ہے۔ اس لیے عدالتی نظام کو جاننے سمجھنے والے اور دینی مدارس کے علماء کرام کا باہمی مل بیٹھنا اور الشریعہ لاء سوسائٹی کے ٹائٹل سے باقاعدہ عملی ورک کا آغاز کرنا میرے لئے انتہائی مسرت کا سبب ہے، ڈاکٹر معظم محمود بھٹی اور ان کی پوری ٹیم کے لیے دعا گو ہوں کہ باری تعالیٰ ان مقاصد میں کامیابی عطا فرمائے۔
تقریب کا اختتام مولانا ریاض جھنگوی صاحب کی دعا سے ہوا۔
فلسطین : ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک کے اعداد و شمار
الجزیرہ
اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، بشمول ہسپتالوں کے قریب اور محصور علاقہ کے جنوب میں، جہاں زمینی کارروائیاں تیز ہو رہی ہیں۔
غزہ
غزہ میں 26 جنوری کو دوپہر 1 بجے تک ہلاکتوں کے تازہ ترین اعداد و شمار یہ ہیں :
ہلاک: کم از کم 26,083 افراد، بشمول:
زخمی: 64,487 سے زیادہ، بشمول کم از کم:
لاپتہ: 8,000 سے زیادہ
مقبوضہ مغربی کنارے
مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار درج ذیل ہیں۔
ہلاک: کم از کم 370 افراد، بشمول:
زخمی: 4,250 سے زیادہ
اسرائیل
اسرائیل میں، حکام نے ہلاکتوں کی تعداد 1,405 سے کم کرکے 1,139 کردی۔
ہلاک: تقریباً 1,139 افراد
زخمی: کم از کم 8,730
Pakistan’s National Stability and Integrity: Five Circles
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
Following are the excerpts from the speech of Maulana Zahid ur Rashidi at Istahkam-e-Pakistan Seminar held by Markazi Ulema Council of Pakistan
on Jan 19, 2024. The topic of discussion was the integrity and stability of Pakistan from the lens of five relevant circles with a sense of obligations and imperatives under prevailing circumstances.
❶ The first circle comprises ideological character, cultural distinctiveness, and Islamic identity as the basic purpose of the creation of Pakistan. This first circle is not just threatened but is currently under heavy fire. All over the world and within the country there is a lobbying activity to this end. Both international secular lobby and similar elements inside Pakistan are completely organized to snatch away the Islamic ideological identity and cultural basis of Pakistan. I have not seen the secular entity so much organized and cohesive with continuous efforts in the last 50 years as it is today.
❷ The second circle is the territorial integrity of Pakistan that involves three points. First, the geography of Pakistan is still incomplete unless the occupied Kashmir is brought back as the part and parcel in full sense. The geographical boundary determined on the Pakistan movement that proposed the name of Pakistan is still incomplete without Kashmir, and shall stay as such unless Kashmir is gained back. Second, we should never forget that on the front of geographical integrity we have already faced defeat in 1970-71. The nation got divided in two parts and we could not defend our national integrity in whatever shape we originally inherited. We experienced the first jolt then and now we are waiting for the second one. The conditions are being laid out to trigger the second tragedy of the same order against which we seek Allah’s mercy. To this end, we all need awareness on why Pakistan got divided and what factors and characters caused the mishap. The national document of Hamud-ur-Rehman report is on record to explain the mishap. I would appeal to all institutions and stakeholders, social segments, political leadership, and religious leaders to thoroughly study the report as to what blunders of ours caused the division of the nation into two parts. We need introspection if we are not committing the same mistakes over again. As we speak, our geographical integrity is challenged; we experienced a big jolt in the past and preparations for the next one are in the making. So, there is a need to understand the factors that broke apart our geographical integrity in the past. The Hamud-ur-Rehman Commission report could provide us an opportunity to look back on events and factors again to learn from our historical mistakes.
❸ The third circle is the national unity of Pakistan. The first critical element in this circle is the social and ethnic integrity. This demands the unity of all racial, social and ethnic diversities that exist in Pakistan such as Punjabi, Sindhi, Pashtun, Saraiki, Baluchi, etc. The ethnic integrity in Pakistan is especially under target, and the intensity is increasing day by day. The second element is linguistic integrity. Since independence till today, we are still short to enforce Urdu as the national language. Throughout the country, English or regional languages are prevalent in all official transactions. The need and importance of regional languages cannot be ruled out but Urdu is the established constitutional national language of Pakistan. Specifically, Urdu was determined by Quaid-e-Azam as the official state language cohesive enough to unify the entire nation. Despite above, Urdu is yet to be fully enforced in our state offices. The third element is the sectarian integrity, involving shia, sunni (deobandi, barailvi), etc., as of prime importance to bringing sectarian harmony within all religious groups. The fourth element comprises regional integrity of communities that is critical to the larger national integrity and stability. This needs to be highlighted that no particular sect, language, ethnic group, or region could undermine the existence of other groups. As a nation, we need to create cohesion and balance for mutual existence as our primal responsibility.
❹ The fourth circle is our national sovereignty. Pakistan needs to get out of the dictation of the Western powers in order to appoint its political and institutional leaders. The country needs to break apart from the hegemony of IMF, World Bank and other global organizations and nations. We need to get back our political and economic autonomy that we lost to the external entities. Currently, our economic control is not in our hands; we are like a puppet moving along with the deft fingers of the puppeteer.
❺ The fifth circle is the regional status and importance of Pakistan in South Asia. We, the Muslims, have ruled for 1200 years and earn a rightful place in this region. We have the backing of a strong historical ideological and cultural identity as a regional power in South Asia (Pakistan, India, Bangladesh, Burma). The muslims have yet to play their significant role and contribution to this region. Our leadership role during 1857 was taken away, and since then we have been unable to regain the power status. But at least in the shape of Pakistan we reclaimed the title to some degree, and now we are being cornered again at the regional level. Today, the agenda of the international powers is to inflict the hegemony of India in South Asia. This means threatening to rob away the Islamic ideology, Muslim identity, and our historical role and importance in this region. The attack is coming from all sides—West, East, North and South—to put Pakistan and its Islamic foundation under complete domination.
In conclusion, we need to be vigilant in all 5 circles mentioned above. It is the key responsibility of Ulema-e-Kiram in Pakistan, first to do whatever in guarding the ideological identity and national integrity. Next, we need to help and support our state institutions, and not just that we also need to guide them in policy making and managing future implications. In the end, it is a duty upon us all to identify and warn the state and nation against looming issues and threats to avoid another Hamud-ur-Rehman Commission.
I would end with Alhamdulillah as the alertness and awareness are all present among our people and Ulema, although there is a gap of positive networking and organized efforts. May Allah provide us with blessings to bring strength, stability, and sustainability to the Islamic Democratic Pakistan in the map of the world.
——————————————
Prof. Muhammad Imran Hameed works as Assistant Professor at Air University, Islamabad. He teaches the subject areas of Management with an interest in national and global politics and its impact upon business environment.
الشریعہ — مارچ ۲۰۲۴ء
کیا عالمِ اسلام دنیا کی قیادت سنبھالنے کا اہل ہے؟
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حضرت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ تحریک آزادی کے سرگرم رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا، اور پاکستان بننے کے بعد سیاسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی تحریک کو منظم کرنے میں مگن ہو گئے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا منظم اور مختلف ممالک تک وسیع نیٹ ورک انہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ بہت معاملہ فہم اور زیرک رہنما تھے اور پبلک جلسوں میں مشکل سے مشکل مسئلہ کو آسان ترین انداز میں پیش کرنے اور سمجھانے کے فن میں مہارت رکھتے تھے۔ گزشتہ روز ایک دوست کے ہاں پرانے رسالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے ماہنامہ لولاک ملتان کا دو سال پہلے کا ایک پرچہ نظر سے گزرا تو حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کی ایک تقریر سامنے آ گئی جو انہوں نے کسی دور میں پکالاڑاں ضلع رحیم یار خان میں کی تھی اور ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے اسے مرتب کیا گیا تھا۔
تقریر میں انہوں نے سندھ کی معروف خانقاہ امروٹ شریف کا ذکر کیا اور حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ کے ایک دو واقعات بیان کیے ہیں۔ حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ ایک تاجدار بزرگ، مجاہد عالم دین اور ممتاز روحانی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کے سرگرم مجاہد بھی تھے۔ ان کا روحانی تعلق بھرچونڈی شریف کے حضرت حافظ محمد صدیق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھا جو اپنے دور میں مرجع خلائق تھے اور سلسلہ عالیہ قادریہ کی روحانی عظمتوں کے امین تھے۔ مفکر انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ بھی انہی کے فیض یافتہ تھے اور انہی کی صحبت نے اس نومسلم نوجوان کو فکری روحانی اور اخلاقی بلندیوں سے روشناس کرایا تھا۔ جبکہ امروٹ شریف کا فکری اور سیاسی رابطہ شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک سے تھا اور حضرت شیخ الہندؒ نے برطانوی استعمار سے جنوبی ایشیا کی آزادی کے لیے جو تحریک منظم کی تھی امروٹ شریف اس کے اہم مراکز میں سے تھا۔
حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ کا بیان کردہ واقعہ یہ ہے کہ ایک روز کسی عقیدت مند نے حضرت امروٹیؒ سے دریافت کیا کہ حضرت! آپ جو آزادی کی جنگ کے لیے اس قدر تگ و دو کر رہے ہیں اور اپنے رفقاء سمیت اتنی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، اس کی بجائے آپ اللہ تعالیٰ سے یہ التجا کیوں نہیں کرتے کہ یا اللہ! ان ظالم انگریزوں سے دنیا کا اقتدار واپس لے لے۔ حضرت امروٹیؒ نے فرمایا کہ میں نے کئی بار عرض کیا ہے، مگر ادھر سے جواب آتا ہے کہ ’’ان سے تو اقتدار واپس لے لوں مگر دوں کس کو؟‘‘
اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ عالم اسباب میں مسلمان ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ وہ دنیا کا اقتدار سنبھال سکیں۔ اس واقعہ کو اندازاً پون صدی گزر چکی ہے اور اس دوران عالمی قیادت کا تاج انگریزوں کے سر سے منتقل ہو کر امریکیوں کے سر کی زینت بن چکا ہے، مگر عالم اسلام کے حوالے سے یہ سوال اسی طرح قائم ہے اور اس میں کسی بھی حوالے سے کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔
دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ نے اسباب کے حوالے سے چلا رکھا ہے اور اس کا ضابطہ و قانون یہ ہے کہ دنیا میں ساری باتیں اسباب و و سائل ہی کے حوالے سے طے پاتی اور چلتی ہیں۔ کبھی کبھار اللہ تعالی اپنی قدرت کے اظہار کے لیے اسباب سے ہٹ کر کوئی بات ظاہر فرما دیتے ہیں، لیکن اسے قانون اور ضابطے کا درجہ حاصل نہیں ہے کہ اس کی ہر وقت توقع رکھی جائے اور محض اس کی امید پر اجتماعی فیصلوں اور پروگراموں کی بنیاد قائم کر دی جائے۔ اسباب کی کمی بیشی کا خلا تو اللہ تعالیٰ پر کر دیتے ہیں اور محض اس وجہ سے اہلِ حق کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو تو اللہ تعالیٰ دستِ غیب سے سہارا دے دیتے ہیں، لیکن اسباب اور عدمِ اسباب کے خلا کو پر کرنا اللہ تعالیٰ کے ضابطے کے خلاف ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توکل کی یہی تعریف فرمائی ہے کہ اپنے امکان و استطاعت کی حد تک اسباب مہیا اور اختیار کرنے کے بعد نتائج کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ دست گیری فرماتے ہیں۔
ہمارے استاد محترم اس کی مثال اس طرح دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ ان کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے مینار پر ہو گا اور وہاں سے وہ مسجد کے صحن میں کھڑے لوگوں کو آواز دیں گے کہ سیڑھی لائی جائے تاکہ وہ نیچے اتر سکیں۔ چنانچہ سیڑھی لائی جائے گی اور وہ نیچے تشریف لائیں گے۔ اب اللہ تعالیٰ کے جو فرشتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں سے جامع مسجد دمشق کے مینار تک پہنچائیں گے ان کے لیے نیچے صحن میں ان کو اتارنا مشکل نہیں ہو گا، لیکن چونکہ زمین کا نظام اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق اسباب کے دائرہ میں چل رہا ہے، اس لیے زمین تک پہنچنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی سیڑھی کا سبب اختیار کرنا پڑے گا اور غیبی فرشتے انہیں اسباب کے دائرہ تک پہنچا کر واپس چلے جائیں گے۔
اس پس منظر میں آج کے عالمی تناظر میں حضرت مولانا تاج محمد امروٹیؒ کے اس ارشاد کو دیکھا جائے تو یہ سوال بدستور اپنی اصلی کیفیت میں قائم ہے کہ عالمی قیادت امریکہ کے ہاتھوں سے چھین تو لی جائے مگر دی کس کو جائے؟ کیا آج عالم اسلام موجودہ معروضی حالات میں دنیا کی قیادت سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ یہ سوال بہت تلخ ہے اور ہمارے بہت سے دوستوں کو ہضم نہیں ہو گا، لیکن اس سے سوال کی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس روز میں نے حضرت امروٹیؒ کا یہ واقعہ پڑھا اسی روز گوجرانوالہ میں اہلحدیث دوستوں کی ایک تنظیم نے اس موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا کہ عالم اسلام کی موجودہ صورتحال میں علم اور تعلیم کی اہمیت اور کردار کیا ہے؟ میں نے اپنی گفتگو میں یہی واقعہ بیان کر کے سیمینار کے شرکاء سے مذکورہ سوال کیا تو وہ تعجب اور پریشانی سے میرا منہ دیکھنے لگے۔
میں نے عرض کیا کہ حضور! ہمارا حال تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ پون صدی کے دوران ہمیں تیل کی عظیم اور بے پناہ دولت سے مالامال کیا مگر اسے سنبھالنے کی اہمیت و صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے ہم اسے دوسروں بلکہ دشمنوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو گئے۔ جب عالم اسلام میں تیل کے وسیع ذخائر کی موجودگی کا انکشاف ہوا تو ہمارے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں تھی کہ ہم خود کھدائی کر کے تیل نکال سکتے، تیل نکال کر اس کی ریفائنری کا اہتمام کر سکتے اور اسے قابلِ استعمال حالت میں لا کر دنیا میں اس کی مارکیٹنگ کے تقاضے پورے کر سکتے۔ ان تینوں صلاحیتوں کے فقدان کی وجہ سے ہمیں تیل کے چشموں کی کھدائی، ریفائنری اور مارکیٹنگ کا پورا نظام مغربی کمپنیوں کے سپرد کرنا پڑا اور انہی کے ذریعے ہم اپنی تمام تر دولت، معیشت اور سیاست سمیت مغربی استعمار کے آہنی شکنجے میں جکڑے جا چکے ہیں۔ جو قوم اپنے گھر کی دولت کو سنبھالنے، اسے اپنے مصرف میں لانے اور اس پر کنٹرول قائم رکھنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو، وہ اگر دنیا کی قیادت کے خواب دیکھنے لگے تو اسے نرم سے نرم الفاظ میں ’’خوش فہمی‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔
ہمیں اسلام کے روشن مستقبل اور دنیا پر ملتِ اسلامیہ کی دوبارہ قیادت کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کل صبح سورج طلوع ہونے کا یقین ہے، لیکن اس کے ساتھ اس بات کا بھی پختہ یقین ہے کہ یہ موجودہ حالات میں نہیں ہو گا اور موجودہ سیاسی، علمی اور دینی قیادتوں کے ہاتھوں نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عالم اسلام میں ایک نئے علمی و فکری دور کی شمع جلانا ہوگی، نئی نسل کو ایمان و اخلاق کی مستحکم بنیادوں کے ساتھ عالمی قیادت کے لیے تمام تر ضروری صلاحیتوں اور استعداد سے بہرہ ور کرنا ہو گا، اور نسل انسانی کو اس کے بہتر اور محفوظ مستقبل کے لیے اسلام کی فطری تعلیمات اور عادلانہ نظام کی افادیت و ضرورت کا احساس دلانا ہو گا۔ یہ اس جدوجہد کے ناگزیر اسباب ہیں اور اس سفر کا ضروری زادِ راہ ہے۔ ہمارے ارباب علم و دانش اس زادِ راہ کا جس قدر جلد اہتمام کر لیں گے، دنیا پر اسلام کے غلبے اور ملت اسلامیہ کے روشن مستقبل کی منزل قریب تر ہوتی جائے گی۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۰)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(481) فَاَمْکَنَ مِنْہُمْ کا ترجمہ
فعل أمکن کے دو مفعول آتے ہیں، ایک راست مفعول بہ ہوتا ہے اور دوسرے پر من لگتا ہے۔ أمکنت فلانًا من الصید میں نے فلاں کو شکار پر قابو دے دیا۔ درج ذیل آیت میں فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ میں مفعول بہ کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا ترجمہ و تفسیر کرتے ہوئے عام طور سے لوگوں نے مفعول بہ کو محذوف مانا ہے۔ یعنی فَأَمْکَنَکَ مِنْہُمْ۔ اس کے مطابق ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے انھیں تمہارے قابو میں دے دیا۔ عام طور سے اہل لغت نے یہ لکھا ہے کہ یہ فعل مفعول بہ اور جار مجرور (منہ) کے ساتھ آتا ہے۔ مَکَّنْتُہ من الشیءِ، وأمْکَنْتُہ منہ (القاموس المحیط)، یعنی کسی چیز کو کسی کے قابو میں دے دینا۔ درج ذیل ترجمے اسی کے مطابق کیے گئے ہیں:
وَإِنْ یُرِیدُوا خِیَانَتَکَ فَقَدْ خَانُوا اللَّہَ مِنْ قَبْلُ فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ۔ (الانفال: 71)
”لیکن اگر وہ تیرے ساتھ خیانت کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس سے پہلے وہ اللہ کے ساتھ خیانت کرچکے ہیں، چنانچہ اسی کی سزا اللہ نے انہیں دی کہ وہ تیرے قابو میں آ گئے“۔ (سید مودودی، قابو میں آنا سزا نہیں ہوتی ہے، سزا تو اس کے بعد ملتی ہے)
”اور اے محبوب اگر وہ تم سے دغا چاہیں گے تو اس سے پہلے اللہ ہی کی خیانت کرچکے ہیں جس پر اس نے اتنے تمہارے قابو میں دے دیے“۔ (احمد رضا خان، لگتا ہے کہ منھم میں من کو تبعیضیہ مان کر ”اتنے“ کہا ہے۔ یہاں من برائے صلہ ہے، تبعیضیہ نہیں ہے۔)
”اور اگر یہ لوگ تم سے دغا کرنا چاہیں گے تو یہ پہلے ہی خدا سے دغا کرچکے ہیں تو اس نے ان کو (تمہارے) قبضے میں کردیا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اگر وہ تجھ سے خیانت کا خیال کریں گے تو یہ تو اس سے پہلے خود اللہ کی خیانت کر چکے ہیں آخر اس نے انہیں گرفتار کرا دیا“۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں مفعول بہ کو ظاہر نہیں کیا ہے، لیکن ترجمہ فعل متعدی والا ہے۔یہاں خیانت کا خیال نہیں بلکہ ارادے کی بات ہے۔)
”اور اگر یہ تم سے بدعہدی کریں گے تو اس سے پہلے انہوں نے خدا سے بدعہدی کی تو خدا نے تم کو ان پر قابو دے دیا“۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ فعل مفعول بہ کے بغیر صرف جار مجرور (منہ) کے ساتھ بھی آتا ہے۔ اس لیے آیت میں مفعول بہ ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے مطابق ترجمہ ہوگا:
”تو خدا نے ان کو قابو میں کرلیا۔“
یہاں یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیا یہ فعل مفعول بہ کے بغیر بھی آتا ہے۔ یعنی کسی کے قابو میں دینے کے بجائے خود اپنے قابو میں کرنے کے معنی میں۔ اس سلسلے میں لغات خاموش ہیں۔ البتہ جملے میں اگر مفعول بہ ذکر نہ کیا جائے تو ذہن بغیر مفعول بہ والے مفہوم کی طرف جاتا ہے۔ عربی لٹریچر میں اس کا استعمال بھی ملتا ہے۔ چوتھی صدی ہجری کے ابوحیان توحیدی کی درج ذیل عبارت میں اس کا برجستہ استعمال کیا گیا ہے:
وقل من تکبر علی الناس وحقر أہل الفضل إلا عاجلتہ العقوبة، ونہکتہ اللائمة، وأمکن منہ الدہر۔ (البصائر والذخائر: 2/ 221)
ظاہر ہے کہ ابوحیان توحیدی کا قول زبان کے سلسلے میں حوالہ نہیں بن سکتا، لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ اہل علم کے یہاں یہ استعمال موجود ہے۔
اس آیت کے ضمن میں امام طبری نے امام سدّی کی تفسیر ذکر کی ہے اس میں مفعول بہ کے محذوف ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ یَقُولُ: قَدْ کَفَرُوا بِاللَّہِ وَنَقَضُوا عَہْدَہُ، فَأَمْکَنَ مِنْہُمْ بِبَدْرٍ۔ (تفسیر الطبری)
جن لوگوں نے مفعول بہ محذوف مانا ہے اور قابو میں دینے کا مفہوم مراد لیا ہے، انھوں نے اس سے جنگ بدر میں ہونے والے انجام کو مراد لیا ہے۔ لیکن اگر مفہوم اپنے قابو میں کرنا ہے تو پھر اللہ تعالی نے بدعہدوں کی جب جب پکڑ کی سب اس میں آجائے گا۔ ویسے بھی اصل ڈرنے کی چیز تو اللہ کی پکڑ میں آنا ہے۔
(482) إذ کے بعد فعل مضارع کا ترجمہ
إذ کے بعد جب فعل مضارع آتا ہے تو وہ ماضی کے مفہوم میں ہوتا ہے۔ لیکن ’إذ کے بعد فعل ماضی‘ اور ’إذ کے بعد فعل مضارع‘ میں فرق ہوتا ہے۔ ”إذ قال“ کا ترجمہ ہوگا ’جب اس نے کہا‘ اور ”إذ یقول“ کا ترجمہ ہوگا ’جب وہ کہہ رہا تھا‘۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:
(۱) وَإِذْ یَعِدُکُمُ اللَّہُ إِحْدَی الطَّاءِفَتَیْنِ أَنَّہَا لَکُمْ۔ (الانفال: 7)
”یاد کرو جب کہ اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کر رہا تھا کہ وہ تمہارا لقمہ بنے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ آجائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مِل جائے گا“۔ (سید مودودی)
”اور جس وقت دو جماعتوں میں سے ایک کا اللہ تم سے وعدہ کرتا تھا کہ وہ تمہارے ہاتھ لگے گی“۔ (احمد علی)
”اور (اس وقت کو یاد کرو) جب خدا تم سے وعدہ کرتا تھا کہ (ابوسفیان اور ابوجہل کے) دو گروہوں میں سے ایک گروہ تمہارا (مسخر) ہوجائے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تم سے یہ وعدہ کر رہا تھا کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک تمہارا ہوگا“۔ (محمد تقی عثمانی)
درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔
”اور یاد کرو جب اللہ نے تمہیں وعدہ دیا تھا کہ ان دونوں گروہوں میں ایک تمہارے لیے ہے“۔ (احمد رضا خان)
درج بالا ترجمے میں فعل مضارع کے بجائے فعل ماضی کا ترجمہ ہوگیا۔ حالاں کہ یہاں یعدکم ہے، وعدکم نہیں ہے۔
”اور جس وقت وعدہ دیتا ہے اللہ تم کو ان دو جماعت میں سے کہ ایک تم کو ہاتھ لگے گی“۔ (شاہ عبدالقادر)
درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔
(۲) إِذْ تَسْتَغِیثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ أَنِّی مُمِدُّکُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَاءِکَةِ مُرْدِفِینَ۔ (الانفال: 9)
”اور وہ موقع یاد کرو جبکہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں“۔ (سید مودودی، فَاسْتَجَابَ لَکُمْ کا ترجمہ جواب دینا نہیں، بلکہ دعا قبول کرنا ہے۔ اللہ نے تمہاری فریاد قبول کرلی۔)
”جب تم اپنے رب سے فریاد کرتے تھے تو اس نے تمہاری سن لی“ (احمد رضا خان)
”اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری سن لی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد سنی“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔
(۳) إِذْ یُغَشِّیکُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (الانفال: 11)
”اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لیے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور وہ وقت جبکہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہا تھا، اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا“۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔
”جس وقت ڈال دی تم پر اونگھ اپنی طرف سے تسکین کو اور اتارا تم پر آسمان سے پانی“۔ (شاہ عبدالقادر)
”جب اس نے تمہیں اونگھ سے گھیر دیا تو اس کی طرف سے چین (تسکین) تھی اور آسمان سے تم پر پانی اتارا“۔ (احمد رضا خان)
”جب اس نے (تمہاری) تسکین کے لیے اپنی طرف سے تمہیں نیند (کی چادر) اُڑھا دی اور تم پر آسمان سے پانی برسادیا“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہیں۔ فعل مضارع کے بجائے فعل ماضی والا ترجمہ کردیا ہے۔
”یاد کرو جب کہ وہ تم کو چین دینے کے لیے اپنی طرف سے تم پر نیند طاری کردیتا ہے اور تم پر آسمان سے پانی برسا دیتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔
(۴) إِذْ یُوحِی رَبُّکَ إِلَی الْمَلَاءِکَةِ أَنِّی مَعَکُمْ۔ (الانفال: 12)
”اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (سید مودودی)
”جب اے محبوب! تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (احمد رضا خان)
”جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب فرشتوں کو حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی، معکم کا مطلب ساتھی ہوں نہیں ہوگا، ساتھ ہوں ہوگا۔)
درج بالا سبھی ترجمے ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق ہیں۔
”یاد کرو جب تمہارا رب فرشتوں کو وحی کرتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجمہ’اذ کے بعد فعل مضارع‘ کے قاعدے کے مطابق نہیں ہے، اس میں فعل مضارع سے پہلے اذ کا خیال نہیں رکھا گیا اور ماضی کے بجائے حال کا ترجمہ کردیا ہے۔
”جب حکم بھیجا تیرے رب نے فرشتوں کو کہ میں ساتھ ہوں تمہارے“۔ (شاہ عبالقادر)
”اذ کے بعد فعل مضارع“ کا ترجمہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا بہتر ہوگا کہ ایک بار پیش آنے والا واقعہ بار بار پیش آنے والا واقعہ محسوس نہ ہو۔ ”جب کررہا تھا“ اور ”جب کرتا تھا“ پر غور کریں تو موخر الذکر سے یہ گمان ہوتا ہے کہ واقعہ کئی بار پیش آیا۔ اوپر جتنی آیتیں ذکر کی گئی ہیں وہ سب ایک بار پیش آنے والے واقعہ کی خبر دے رہی ہیں، اس لیے ترجمے میں اس کا لحاظ بھی ہونا چاہیے۔
(483) ذَات الشَّوْکَۃِ کا ترجمہ
عربی میں شوکة کانٹے کو کہتے ہیں۔ لیکن جنگ کے سیاق میں شوکة ہتھیار، ہتھیار کی تیزی اور دشمن کی قوت وسطوت کو بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ فیروزابادی کے الفاظ میں:
والشَّوْکَةُ: السِّلاحُ، أو حِدَّتُہُ، ومن القِتالِ: شِدَّةُ بأْسِہِ، والنِّکایَةُ فی العَدُوِّ۔ (القاموس المحیط)
درج ذیل آیت میں غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ کا ترجمہ بعض لوگوں نے کم زور کیا ہے۔ یہ لفظ کا موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے الشَّوْکَةِ کا ترجمہ کانٹا کیا ہے، یہاں جنگ کے سیاق میں کانٹا بالکل موزوں معلوم نہیں ہوتا ہے۔ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ کا مناسب ترجمہ غیر مسلح ہے۔
وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ۔ (الانفال: 7)
”تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے“۔ (سید مودودی)
”اور تم چاہتے تھے کہ جس میں تم کو کانٹا نہ لگے وہ ملے تم کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور تم چاہتے تھے جس میں کانٹا نہ ہو وہ تمہیں ملے“۔(احمد علی)
”اور تمہاری خواہش تھی کہ جس گروہ میں (خطرے کا) کوئی کانٹا نہیں تھا، وہ تمہیں ملے“۔ (محمد تقی عثمانی)
”اور تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں وہ ملے جس میں کانٹے کا کھٹکا نہیں (کوئی نقصان نہ ہو)“۔ (احمد رضا خان)
درج ذیل دونوں ترجموں میں شوکة کا مفہوم مناسب لفظوں میں ادا کیا گیا ہے۔
”اور تم یہ چاہ رہے تھے کہ غیر مسلح گروہ تمہارا لقمہ بنے“۔(امین احسن اصلاحی)
”اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے“۔ (محمد جوناگڑھی)
(484) یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ کا ترجمہ
أدبار دبر کی جمع ہے۔ دبر کا معنی ہوتا ہے کسی چیز کا پچھلا حصہ۔ الدُّبُرُمن کُلِّ شیءٍ: عَقِبُہ ومؤخَّرُہ (القاموس المحیط)، جب یہ لفظ انسان کے لیے استعمال ہوتا ہے تو انسان کی پوری پشت مراد ہوتی ہے۔ بعض لوگوں نے أدبار کا ترجمہ کولہے یا سرین کیا ہے۔ کولہے یا سرین پشت کا ایک حصہ ہیں لیکن أدبار سے مراد آدمی کی پوری پشت ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:
(۱) وَلَوْ تَرَی إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَاءِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ۔ (الانفال: 50)
”کاش کہ تو دیکھتا جب کہ فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ان کے منھ پر اور سرینوں پر مار مارتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”کاش تم اُس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے مقتول کافروں کی رُوحیں قبض کر رہے تھے وہ ان کے چہروں اور ان کے کولھوں پر ضربیں لگاتے جاتے تھے“۔(سید مودودی)
”اور کبھی تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں مار رہے ہیں ان کے منھ پر اور ان کی پیٹھ پر“۔ (احمد رضا خان)
”اور کاش تم اس وقت (کی کیفیت) دیکھو۔ جب فرشتے کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر (کوڑے اور ہتھوڑے وغیرہ) مارتے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور اگر تم دیکھ پاتے جب فرشتے ان کفر کرنے والوں کی روحیں قبض کرتے ہیں مارتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی پیٹھوں پر“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۲) فَکَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْہُمُ الْمَلَاءِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ۔ (محمد: 27)
”پھر اس وقت کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور اِن کے منھ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے؟“۔ (سید مودودی)
”تو کیسا ہوگا جب فرشتے ان کی روح قبض کریں گے ان کے منھ اور ان کی پیٹھیں مارتے ہوئے“۔ (احمد رضا خان)
”تو اُس وقت (ان کا) کیسا (حال) ہوگا جب فرشتے ان کی جان نکالیں گے اور ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر مارتے جائیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”پس ان کی کیسی (درگت) ہوگی جبکہ فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہوئے ان کے چہروں اور ان کی سرینوں پر ماریں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
(485) عَذَاب الْحَرِیقِ کا ترجمہ
حریق اور نار میں فرق ہے۔نار آگ کو کہتے ہیں اور جب آگ کسی چیز کو جلاتی ہے اور تباہ کرتی ہے تو اسے حریق کہتے ہیں۔ چولہے کی آگ کو حریق نہیں کہیں گے لیکن جلتے ہوئے مکان کو حریق کہیں گے۔ آگ کے عذاب یا جہنم کے عذاب سے عذاب الحریق کے مکمل صحیح مفہوم کی ادائیگی نہیں ہوتی ہے، اس کے لیے جلانے والی آگ کا عذاب یا جلنے کا عذاب موزوں ہے۔ ماہر لغت ابوہلال العسکری لکھتے ہیں: والحریق النار الملتہبة شیئا وإہلاکہا لہ۔ (معجم الفروق اللغویۃ)
کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
(۱) ذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (آل عمران: 181)
”چکھو آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)
”چکھو عذاب آگ کا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”عذاب جہنم کا مزا چکھو“۔ (سید مودودی، یہ موزوں ترجمہ نہیں ہے۔ سورۃ البروج میں جہنم اور حریق کو الگ الگ کہا گیا ہے)
”عذاب (آتش) سوزاں کے مزے چکھتے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جلنے والا عذاب چکھو! (محمد جوناگڑھی)
(۲) وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الانفال: 50)
”تم جلنے کا عذاب چکھو“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور چکھو آ گ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)
”عذاب آتش (کا مزہ) چکھو“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اب چکھو مزا جلنے کے عذاب کا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”لو اب جلنے کی سزا بھگتو“۔ (سید مودودی،ذوقوا کا مطلب بھگتنا نہیں بلکہ چکھنا ہے۔)
(۳) وَنُذِیقُہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الحج: 9)
”اور قیامت کے دن ہم اسے عذاب (آتش) سوزاں کا مزہ چکھائیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور قیامت کے روز اُس کو ہم آگ کے عذاب کا مزا چکھائیں گے“۔ (سید مودودی)
”اور قیامت کے دن ہم اسے آگ کا عذاب چکھائیں گے“۔ (احمد رضا خان)
”اور ہم قیامت کے دن ان کو آگ کا عذاب چکھائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور قیامت کے دن بھی ہم اسے جہنم میں جلنے کا عذاب چکھائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
(۴) وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الحج: 22)
”چکھو آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)
”جلنے کا عذاب چکھو!“۔ (محمد جوناگڑھی)
”چکھو اب جلنے کا عذاب“۔ (امین احسن اصلاحی)
”جلنے کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
”چکھو اب جلنے کی سزا کا مزا“۔ (سید مودودی)
(۵) فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ۔ (البروج: 10)
”تو ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور جلنے کا عذاب ہے“۔(محمد جوناگڑھی)
”ان کو دوزخ کا عذاب بھی ہوگا اور جلنے کا عذاب بھی ہوگا“۔(فتح محمد جالندھری)
”یقینا اُن کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے“۔ (سید مودودی)
”ان کے لیے لازماً جہنم کی سزا اور جلنے کا عذاب ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”ان کے لیے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لیے آگ کا عذاب“۔ (احمد رضا خان)
درج بالا تمام ترجموں میں آگ کے عذاب سے زیادہ موزوں جلنے کا عذاب ہے۔
پاکستان میں مذہبی سیاست کو درپیش تحدیات
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
پاکستان میں مذہبی سیاست کو منظم کرنے کے دو ماڈل جمعیت علماء اسلام اور جماعت اسلامی نے اختیار کیے۔ اہداف میں زیادہ فرق نہیں تھا، اور ریاست کی نظریاتی شناخت طے کرنے نیز اس کے بعد آئینی و قانونی سطح پر اسلامائزیشن کی جدوجہد میں دونوں شریک رہے، تاہم انداز سیاست مختلف تھا۔ جماعت اسلامی نے خالصتاً نظریاتی بیانیے پر مذہبی سیاست کو استوار کرنے کی کوشش کی اور نتیجتا سیاسی میدان میں کبھی بھی کوئی قابل لحاظ قوت نہیں بن سکی۔ جمعیت علماء نے تدریجاً اپنے سیاسی بیانیے اور اہداف کو قومی سیاست کے عمومی دائرے سے ہم آہنگ کر لیا اور مختلف سیاسی قوتوں کے ساتھ تعامل کا راستہ اختیار کر کے قومی سیاست میں اپنی ایک جگہ بنا لی جس کے ذریعے سے اسے اپنے مذہبی اہداف کی طرف بھی پیش رفت کرنے میں سہولت رہی۔
مذہبی سیاست کے جتنے اہداف قابل حصول تھے، وہ کم وبیش سب حاصل ہو چکے ہیں۔ ملک کی نظریاتی شناخت طے ہو گئی ہے، آئین میں اسلامی دفعات شامل ہیں، اہم دائروں میں قانون سازی ہو چکی ہے، اہم آئینی وعدالتی فورم وجود میں آ چکے ہیں جو کسی بھی ایشو پر مذہبی موقف کا تحفظ کر سکتے ہیں۔ کوئی ایسا مزید ہدف جو عملاً قابل حصول ہو، منظر پر موجود نہیں۔ نتیجتاً مذہبی سیاست کی سرگرمی میں پیش قدمی کا عنصر مفقود ہے اور وہ مختلف ایشوز کے حوالے سے اپنی کامیابیوں کے تحفظ اور مخالف بیانیوں کی مزاحمت تک محدود ہو چکی ہے۔ یہ مزاحمت چونکہ مذہبی سیاست پر منحصر نہیں اور معاشرے میں اس کے اور بھی پلیٹ فارم موجود ہیں، اس لیے عوامی پرسیپشن میں بھی مذہبی سیاست کے بیانیے میں زیادہ اپیل نہیں رہی۔
اس صورت حال کا اثر قومی سیاست کے رویوں اور حرکیات پر پڑنا بھی ناگزیر ہے۔ چنانچہ جیسے جیسے سیاسی عمل مذہبی ایشوز کی گرفت سے نکل کر خالص سیاسی ایشوز پر یکسو ہوتا جا رہا ہے، مذہبی سیاسی قوتوں کی اہمیت فطری طور پر کم اور ان کا دائرہ اثر سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ جماعت اسلامی تو اپنے انداز سیاست کی وجہ سے پہلے ہی قومی سیاسی عمل سے باہر تھی۔ اب مذہبی سیاست کے لیے پیش قدمی کا کوئی قابل عمل ایجنڈا موجود نہ ہونے کی وجہ سے جمعیت علماء کو بھی اسی قسم کے چیلنج کا سامنا ہے۔
مذہبی سیاست کو درپیش عمومی چیلنج کے ساتھ جمعیت علماء کے اپنے خاص چیلنجز بھی سامنے ہونے چاہییں۔ ان چیلنجز کا تعلق دیوبندی حلقے کی داخلی تقسیم، حریف سیاسی قوتوں اور اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔
قیام پاکستان کے بعد دیوبندی جماعت کو دینی فکر اور سیاست کے میدان میں بنیادی چیلنج جماعت اسلامی کی طرف سے درپیش تھا۔ سیاسی میدان میں جماعت اسلامی نے خود اپنے نظریے اور حکمت عملی کی وجہ سے زیادہ مسائل پیدا نہیں کیے اور مذہبی قوتوں کی قیادت اصلاً جمعیت علماء ہی کے پاس رہی۔ دینی فکر کے میدان میں مولانا کے نتائج فکر پر روایتی مذہبی حلقوں نے بھرپور تنقید کی جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی کو مولانا کی دینی فکر سے ایک فاصلہ پیدا کرنا پڑا۔ یوں دونوں میدانوں میں دیوبندی حلقہ فاتح رہا۔ جماعت اسلامی اب روایتی دینی حلقوں کے طے کردہ حدود میں دینی خدمات اور اس کے باہر سماجی خدمات انجام دے کر ثواب دارین حاصل کرتی ہے۔
داخلی تقسیم کے پہلو سے جمعیت علماء کو تدریجاً اپنی مرکزیت کھونا پڑی ہے۔ مختلف مذہبی ایشوز مثلاً ختم نبوت اور دفاع صحابہ وغیرہ تقسیم ہو کر دوسری جماعتوں کے پاس چلے گئے ہیں اور جمعیت کا کردار ایسے مسائل میں ثانوی ہے۔ دینی مدارس کی تنظیم وفاق کے پلیٹ فارم سے ہوئی جس میں بنیادی کردار جمعیت کا ہی تھا، لیکن رفتہ رفتہ یہاں بھی دوسرے حلقہ ہائے فکر غالب آتے چلے گئے۔ کچھ عرصہ قبل نئے تعلیمی بورڈز کے قیام سے یہ مرکزیت اور بھی کمزور ہوئی ہے۔ اب جمعیت کو ایک اور طاقتور نظریاتی حریف کا سامنا ٹی ٹی پی کی صورت میں ہے جو اپنا نظریاتی اور سیاسی اثر دیوبندی طبقے میں وسیع کرنا چاہتی ہے۔ یہ چیلنج صرف نظریاتی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ سنگین اور خطرناک بھی ہے۔
یہ ساری تقسیم داخلی عوامل سے بھی ہوئی ہے اور یقیناً اس میں اسٹیبلشمنٹ کی بھی منشا اور رضامندی شامل ہے۔ مقتدرہ کو فطری طور پر کسی ایک منظم سیاسی قوت کے ساتھ معاملہ کرنے کے مقابلے میں تقسیم شدہ اور محدود قوت رکھنے والے سیاسی عناصر سے معاملہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔ جمعیت کا عمومی سیاسی رجحان اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے، یعنی اس میں خود اپنی سیاسی بقا کا تحفظ بنیادی محرک ہے۔ اس کے علاوہ جمعیت کی قیادت بجا طور پر سمجھتی ہے کہ مقتدرہ یا عالمی قوتوں کے پیش نظر جس نئے سیاسی منظرنامے کی تشکیل ہے، اس میں جمعیت کی بطور ایک سیاسی قوت کے زیادہ جگہ نہیں ہے۔ یہ سیاسی چیلنجز میں سے ایک اور بڑا چیلنج ہے۔
سیاسی قوتوں میں سے زیادہ بڑا چیلنج بدیہی طور پر پی ٹی آئی نے پیدا کیا ہے اور عین اس صوبے میں کیا ہے جو جمعیت کی سیاسی سپورٹ کی آماجگاہ ہے۔ اس تناظر میں پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون کی حالیہ پیش رفت کی اہمیت بنیادی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے چیلنج کا سامنا کرنے کے حوالے سے ہے۔ ابھی یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ ایک حریف سیاسی قوت کے ساتھ جمعیت کے دیرپا تعلقات کیا نوعیت اختیار کر سکتے ہیں۔
مولانا مفتی محمودؒ
مجیب الرحمٰن شامی
پیشانی کشادہ، مطلعِ انوار، آنکھیں روشن، زندہ وبیدار،
ابھرتے ہوئے مسکراتے رخسار، گندمی رنگ میں سرخی کے آثار،
سر کے بال پٹے دار، ڈاڑھی پھیلی ہوئی باوقار،
سیاہی پر سپیدی ژالہ بار، شانے چوڑے اور مضبوط مردانہ وار،
ناک ستواں، قد میانہ، جسم گھنا، ایک شجرِ سایہ دار، پر ُسکون جیسے دامنِ کوہسار،
لباس سے سادگی آشکار، کندھوں پر مستقل رومال کہ جسدِ خاکی کا حاشیہ بردار،
دمِ گفتگو، دلیل کی گفتار، دمِ جستجو، فرض کی پکار،
آرام سے ہر لحظہ انکار، مطمحِ نظر اسلامی اقدار،
عوامی حقوق کا پاسدار، ان کی حفاظت کے لیے ہر دم چوکس و تیار،
وزیر اعلیٰ، مگر چٹائی سے سروکار، تکلفات سے بیزار،
بوریے پر دربار، عجیب صاحبِ اختیار، غلامِ احمدِؐ مختار،
اس کی نگاہ میں ہیچ دولت کے انبار، اس کی نگاہ میں ایک مفلس و زردار،
تنہا بھی لشکرِ جرّار، کثرتیں اس کے سامنے نگوں سار، استقامت کا کوہسار، نعرۂ حیدرِ کرارؓ،
فرقہ بندی کے خلاف کھلی تلوار، اتحاد کا علمبردار، تحریکِ نظامِ مصطفٰیؐ کا سالار،
قوم کا بے تاج تاجدار، نویدِ قافلۂ بہار، میدانِ سیاست کا شہسوار،
اہلِ دیں کے لیے سرمایۂ افتخار، اہلِ دل کے لیے وجہِ قرار،
دیوبند کے گلے کا ہار، پاکستان پر سو جان سے نثار، افغانستان پر اشک بار، جہاد کی للکار،
اس سے لرزہ بر اندام اشتراکی و سرمایہ دار، ہر جنسِ بازار،
وہ ایک کلمۂ پائیدار، باوقار، با کردار، عابدِ شبِ زندہ دار،
روایاتِ اسلاف کا نگہ دار، رحمتِ پروردگار۔۔
(ماہنامہ قومی ڈائجسٹ لاہور ۔ فروری ۱۹۸۱ء)
قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہامات
قاضی ظفیر احمد عباسی
مورخہ ۱۲ جولائی ۲۰۲۳ء کو اوصاف اخبار میں مفکر اسلام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب کا ایک مضمون عنوان بالا کے تحت نظر سے گزرا جس میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی کی قادیانی گروہ سے متعلق تجویز کو آگے بڑھایا جس میں مفتی رویس صاحب نے قادیانیوں کی حالیہ سرگرمیوں کے بارے میں پائے جانے والے ابہامات کی وجہ سے دستوری تقاضوں اور بعض عدالتی فیصلوں میں ظاہری تضاد قرار دیا، اور ایک بیان میں تجویز دی کہ اس ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے دستوری اور قانونی طور پر قادیانی گروہ کو ایک مستقل امت کے طور پر تسلیم کرنے کے بجائے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ یہ بات موجودہ حالات میں گہرے غور و خوض کے متقاضی ہے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔ متذکرہ بالا تجویز راقم نے مولانا زاہد الراشدی صاحب کے الفاظ میں درج کر دی ہے جس پر انہوں نے تبصرہ کیا ہے اور چند سال پہلے بادشاہی مسجد لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیرِ اہتمام عظیم الشان کانفرنس میں اس نوع کی تجویز خود پیش کرنے کا ذکر کیا ہے۔
مولانا زاہد الراشدی صاحب اس فتنے کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں وہ اس محاذ پر پیش پیش رہے ہیں اور انہوں نے تحفظ ختم نبوت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کی ہیں۔ مولانا کا اس تجویز پر دینی حلقوں کو نوائے محراب سے متوجہ کرنا، میں سمجھتا ہوں کہ یہ نوائے وقت ہے، تمام مکاتبِ فکر کے ذمہ داروں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ جب تک امتِ مسلمہ قادیانی فتنہ کو دیگر تمام غیر مسلموں سے مختلف گروہ سمجھ نہ پائے گی اس وقت تک دستوری و قانونی ابہامات کی دلدل سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔ اس کے لیے وسیع پیمانے پر مہم و ازسرِنو دینی بیداری کی ضرورت ہے۔
ہمیں مغرب اور دیگر طاغوتی قوتوں سے کیا شکوہ، خود دنیائے اسلام میں اکثریت مسلمانوں کی ایسی ہے جو اس فتنے سے آگاہ نہیں ہیں، یا زیادہ سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ قادیانی غیر مسلم ہیں جس طرح دیگر غیر مسلم ہیں ان کے پیچھے پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ یہی وہ دھوکہ ہے جس نے قادیانیوں کی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے، اور یہ گروہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے دیمک کا کام کر رہا ہے۔ قادیانی گروہ کی سرگرمیوں کو دیکھ کر اب یہ بات فیصلہ کن مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے کہ قادیانی گروہ کو ملک و دستور کا باغی قرار دے کر ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جائے جب تک یہ گروہ دستور کے مطابق اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کرتا۔ اور ان کی فنڈنگ پر نظر رکھتے ہوئے ان کے فنڈ منجمد کر دیے جائیں۔ مگر یہ بات قادیانی گروہ کے طاقتور ہونے کے باعث اتنی آسان بھی نہیں جب تک دنیا ان کی حقیقت سے آشنا نہیں ہو جاتی۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب تحفظ ختم نبوت کے محاذ پر کام کرنے والی تنظیمیں اور تمام مکاتبِ فکر ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کی طرح متحد اور متحرک نہیں ہوتے۔ اس کے لیے اکابرین امت کو ایک مرتبہ پھر مل بیٹھنا ہو گا اور حکمتِ عملی طے کرنی ہو گی۔
اس وقت تحفظ ختم نبوت کے لیے ملک کے اندر جو جدوجہد ہو رہی ہے اس کا انداز بدلنے کی ضرورت ہے۔ اب قوم کو اتنی بات بتانے سے قادیانیت پر کوئی ضرب کارگر ثابت نہیں ہو گی کہ قادیانی کافر ہیں، کیونکہ قادیانی اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں اور دنیا کو یہ سمجھانے میں مصروف ہیں کہ وہ بھی امتِ مسلمہ کا حصہ ہیں۔ اور اسی وجہ سے بہت لوگ مرتد ہو رہے ہیں کیونکہ وہ شعارِ اسلام کے باعث قادیانیوں سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ اور پھر جب کوئی مسلمان قادیانی ہو جاتا ہے تو یہ گروہ اسے زن و زر کا لالچ دے کر مکمل طور پر جال میں پھنسا دیتے ہیں۔
اس پر مجاہدِ ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مبنی پر حقائق ہونے کے باعث قابل غور ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر بطور جنرل سیکرٹری یا صدر مجلس کئی کئی مہینے دن رات غور کیا کہ برصغیر میں انگریزوں کی حکومت ہونے کے باوجود لوگوں نے عیسائیت کو قبول نہیں کیا حالانکہ سرکاری سرپرستی میں لوگوں کو عیسائی بنانے کا مشن جاری تھا مگر انگریز کو اس میں ناکامی ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ عیسائیت کو قبول کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا یا ہندو و سکھ مذہب اختیار کرنے پر مسلمان نہیں رہے گا، لیکن اگر وہ مرزائیت اختیار کر لیتا ہے تو وہ مسلمان ہی رہے گا۔ فرمایا یہی وہ دھوکہ ہے جس کی بنا پر لوگ مرتد ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ماضی میں اکابرین نے یہ مطالبہ بڑے واشگاف الفاظ میں پیش کیا کہ مرزائیوں کو مسلمانوں سے ایک علیحدہ گروہ دستوری و قانونی طور پر قرار دیا جائے تاکہ مسلمانوں کو اس سے دھوکہ نہ ہو۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ مرزائیوں پر شعارِ اسلام کے استعمال پر مکمل پابندی لگا دی جائے اور اسے قابل تعزیر جرم قرار دیا جائے۔ بے شمار شہادتوں اور قربانیوں کے نتیجے میں الحمد للہ ملک پاکستان میں ۱۹۷۴ء میں مرزائی غیر مسلم اقلیت قرار پائے اور پھر ۱۹۸۴ء میں ان پر شعارِ اسلام استعمال کرنے پر پابندی بھی ہوئی، مگر عملی طور پر مرزائیوں کی سرگرمیوں پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ جس کی بڑی وجہ خود مسلمانوں کے اس فتنہ سے کماحقہ آگاہی نہیں ہے۔ موجودہ دور میں اس فتنے کا جو نیٹ ورک ہے پوری امتِ مسلمہ اس کی لپیٹ میں ہے۔ اور یہ ایک غیر معمولی عالمی مسئلہ ہے جس کے لیے او آئی سی پلیٹ فارم کو دو ٹوک مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ اگر ملک میں بعض تنظیموں کو مثلاً سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، جماعت الدعوہ، سنی فورس وغیرہ کو کالعدم و غیر قانونی قرار دے کر ان کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے اور ان کے فنڈز منجمند کیے جا سکتے ہیں اور ان کے نقل و حرکت کو کنٹرول کیا جاتا ہے، حالانکہ ان تنظیموں کا معاملہ مرزائیوں کے معاملے سے بالکل مختلف ہے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ قادیانیوں کو کھلی چھٹی اور ان کے ساتھ نرم رویہ کیوں اپنایا جاتا ہے؟ جبکہ یہ گروہ خود مملکتِ پاکستان اور پوری امتِ مسلمہ کے لیے سم قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات ارباب حل و عقد، اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ کے لیے قابل غور ہے اور اس بارے میں کنفیوژن کو دور کرنا ہو گا اور ایک متفقہ موقف اپنانا ہو گا تاکہ کسی بھی ادارے کو ابہامات کی آڑ میں راہِ فرار حاصل نہ ہو سکے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دستوری و قانونی و عدالتی فیصلوں کے منشا کے مطابق قادیانیوں کو آئین کا باغی قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی جائے کیونکہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے جو حقوق ہیں ان کا اطلاق ایسی صورت میں قادیانیوں پر نہیں ہوتا جب تک ہندوؤں سکھوں کی طرح یہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم نہیں کر لیتے۔ لہٰذا وقت کا تقاضہ ہے کہ قادیانیوں کو امتِ مسلمہ سے علیحدہ ایک غیر مسلم گروہ قرار دیا جائے اور حکومت کو ایسی پالیسی اور اقدامات پر مجبور کیا جائے کہ جس کے باعث اس فتنے سے امتِ مسلمہ کی جان چھوٹ جائے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
قاضی ظفیر احمد عباسی
نیلہ بٹ، آزاد جموں و کشمیر
فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی
ریٹائرڈ ضلع قاضی عدلیہ آزاد کشمیر
جسٹس غزالی کی شخصیت کے دو دلفریب رنگ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
غالباً ۲۰۰۹ء کے گرما کی بات ہے، جسٹس محمود احمد غازی نے مجھے بلا بھیجا اور فرمایا: "سید سلمان ندوی پاکستان آئے ہوئے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں کہ کچھ احباب کو گھر عشائیے پر بلاتے ہیں۔ ذرا اچھا وقت گزر جائے گا"۔ پھر مجھے ہدایت کی کہ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری, پروفیسر فتح محمد ملک اور سید سلمان ندوی کو میری طرف سے عشائیے پر مدعو کریں۔ ڈاکٹر یوسف فاروقی، غزالی آپ اور میں تو ہوں گے ہی۔ یوں یہ کل 7 افراد ہو جائیں گے۔ آپ کسی اور کو بلانا چاہیں تو اس کی بھی اجازت ہے۔" میں نے جسٹس امجد علی صاحب کا نام تجویز کیا۔ جسٹس صاحب کے قانونی فہم نے تو مجھے کبھی متاثر نہیں کیا تھا لیکن پلاٹوں کا جال اٹھائے جب انتظامیہ نے عدلیہ کا قلعہ فتح کرنے کا ارادہ کیا تو جسٹس صاحب نے بلا تامل دور سطری خط لکھ دیا: "میرا اپنا مکان موجود ہے۔ مجھے مزید کسی پلاٹ کی حاجت نہیں"۔ تب سے انہوں نے مجھے اپنا بندہ بے دام بنا لیا۔ ڈاکٹر غازی رحمہ اللہ کی خواہش پر یہ تمام شرکا وقت مقررہ پر ان کے گھر واقع جی الیون میں تشریف لائے جہاں ساڑھے تین گھنٹے کی دلفریب نشست ہوئی۔
اس رات علم و دانش کے یہ چوٹی کے نمائندہ رتن حالات حاضرہ، علم و ادب، امت مسلمہ اور پاکستان جیسے موضوعات پر بلا تکان گفتگو کرتے رہے۔ شروع ہی میں مجھے میری قوت مشاہدہ نے ٹہوکا مار کر ڈاکٹر غزالی صاحب کی طرف متوجہ کر دیا۔ پھر میں دیگر کی طرف واجبی سا لیکن اصلا انہی کی طرف متوجہ رہا۔ اس رات ہر شخص نے کسی نہ کسی موضوع پر رائے دی, باہم اختلاف کیا, دیگر کو کسی نئے پہلو سے روشناس کرایا, دلائل کے ذریعے اسے نظر انداز کرنے کا داعیہ پیش کیا۔ لیکن صاحب ! اس رات میں نے غزالی صاحب کو سنا بھی تو کس انداز میں، ملاحظہ کیجیے ! "اچھا" ؟ "جی ہاں" ! "کیا واقعی" ؟ "ارے واہ, بھئی کیا کہنے" ! "آپ کا خیال صائب ہے، میرا کچھ کہنا تو محل نظر ہی ہوگا"۔ "جی آپ درست فرما رہے ہیں۔" حتی کہ کسی نے نظریں ملا کر براہ راست مخاطب ہو کر بھی ان کی رائے لینے کی کوشش کی تو اسے ہلکے سے قہقہے ساتھ یوں جواب ملا: "بھئی واہ! آپ کا استفسار ہے تو لائق توجہ, لیکن میں نے اس موضوع پر کبھی غور نہیں کیا۔ بھائی صاحب (غازی صاحب) سے پوچھ لیتے ہیں۔ وہ جانتے ہوں گے"۔
اپنے علم اور قوت مدرکہ کے اعتبار سے ڈاکٹر غزالی مرحوم ان شرکائے مجلس میں سے متعدد سے کہیں آگے تھے، کہیں بہتر تھے۔ لیکن مجلسی زندگی کا خوب ادراک رکھنے والے جسٹس غزالی مرحوم کے نزدیک اظہار رائے سے کہیں زیادہ اہم یہ ہوا کرتا تھا کہ بڑوں کے سامنے لب کشائی نہ کی جائے۔ مذکورہ مجلس کے تمام شرکا غزالی صاحب سے عمر میں بڑے تھے۔ جسٹس صاحب کی شخصیت کے متعدد پہلوؤں سے احباب واقف ہوں گے۔ استغنا، خودداری، دبنگ انداز گفتگو، صاحبان اختیار سے کوسوں دوری، علم و دانش کی رفعتوں سے معموری، حسن بیان، تلفظ کی باریکیوں پر نظر، لب و لہجے پر قدرت، الفاظ پر گرفت، یہ سب خصائص اپنی جگہ لیکن ان کا یہ پہلو بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ مجلس میں وہ بڑے بھائی کے سامنے خاموشی کو ردائے حکمت و دانش بنا کر اس کے پیچھے جا چھپتے کہ اسی میں عافیت ہے۔
ان کی ہفت رنگ شخصیت کا ایک وہ پہلو ہے جس کا مشاہدہ شاید میں ہی کر سکا ہوں۔ میرا گمان ہے کہ جس رنگ کا میں اب ذکر کرنے جا رہا ہوں، وہ شاید ہی کسی اور کے علم میں ہوگا۔ اور وہ ہے ان کی غیر معمولی اور بے پناہ ذہانت۔ کئی احباب یہ جملہ پڑھ کر مسکرا دیں گے لیکن کتنی غیر معمولی ذہانت؟ یہ میں ہی آپ کو بتا سکتا ہوں۔ ان کا دماغ، یوں سمجھ لیجئے، کمپیوٹرائزڈ دماغ تھا جس کی کوئی اور مثال میرے پاس نہیں ہے۔ یونیورسٹی ہال میں شیخ الازہر کی فی البدیہہ تقریر جاری تھی۔ ڈاکٹر غزالی بغیر نوٹس لیے ترجمہ کیے جا رہے تھے۔ کیا کیا بتاؤں, شیخ الازہر بے تکان بولے جا رہے تھے اور مجال ہے، غزالی صاحب نے ترجمہ کرتے وقت کسی شوشے کامے کو بھی نظر انداز کیا ہو۔ شیخ الازہر نے دو مواقع پر ۱۰ - ۱۲ اکابر کے نام پورے آداب و القاب کے ساتھ لیے لیکن مجال ہے کہ ترجمہ کرتے وقت ڈاکٹر غزالی نے کوئی نام آگے پیچھے کیا ہو یا کسی کا کوئی لقب, کنیت, عہدہ یا کوئی معمولی سا جزو ادا ہونے سے رہ گیا ہو۔ جس ترتیب سے شیخ الازہر نے نام ادا کیے، کسی معمولی فرق کے بغیر غزالی صاحب نے اسی ترتیب سے سب نام جوں کے توں دہرا دیے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ریاضی کے منضبط فارمولے پر کوئی مشین بول رہی ہے ایک حرف کم نہ آدھا بیش۔
کم و بیش ساڑھے ۴ عشروں پر محیط ہمارے تعلقات ہمیشہ بصورت دھوپ چھاؤں رہے، تعلقات جن میں گاہے کبیدگی آ جاتی اور کبھی تعطل کا شکار ہو جاتے۔ شکر رنجی تو ہماری سلام دعا کا ہمیشہ جزو لاینفک رہی۔ پچھلے سال ڈاکٹر شافعی پر میری ایک تحریر انہیں کیا پسند آئی کہ پڑھتے ہی فون کیا اور ۲ گھنٹے ۴۸ منٹ تک انہوں نے میری معلومات میں وہ وہ اضافے کیے کہ اللہ دے اور بندہ لیتا جائے۔ آخر میں پوچھا: "میری یہ گفتگو ریکارڈ کر رہے ہیں نا آپ"؟ میں نے کہیں کہہ دیا: "جناب اجازت کے بغیر میں یہ کام کیسے کر سکتا ہوں"؟ فوراً خفا ہو گئے اور یہ کہہ کر فون جھٹکے سے بند کر دیا: "تو گویا میں ایسے ہی بولتا رہا، آپ اتنی باتیں یاد رکھنے والے کہاں"؟ اور مجھے ٹھنڈی چھاؤں سے نکل کر چلچلاتی دھوپ میں کھڑا ہونا پڑا۔ بس یہی ہمارے تعلقات کی دھوپ چھاؤں ہوا کرتی تھی۔ لیکن چند دن بعد مجھے برستے بادل کا سایہ پھر مل گیا۔ ۶ نومبر ۲۰۲۲ء کو ان کا واٹس ایپ ان کے اپنے مخصوص انداز میں یوں تھا: "۔۔۔۔چلیں یوں کریں جب فرصت ملے آ جائیے۔ کل مجھے اے ایف آئی سی میں اینجیو گرافی کے لیے داخل ہونا ہے۔ زندگی رہی تو پھر ملیں گے۔ کچھ دیر قیام و طعام ہوگا۔ پھر کلام ہوگا۔ ہلکا پھلکا ملام بھی رہے گا۔ اس کے بعد اپنے اپنے گھونسلوں میں منام ہوگا"۔
موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں بغیر اجازت لیے فورا انہیں فون کر گزرا اور ذرا زور دے کر کہا: "میں اے ایف آئی سی میں رات کو آپ کے ساتھ قیام کروں گا"۔ خیال تھا کہ یوں خوب باتیں کرنے کا موقع ملے گا, مان گئے۔ لیکن اگلے دن تحریک انصاف کے مظاہروں کے باعث راستے بند ہو گئے، مجھ سے راستوں کا احوال پوچھتے رہے۔ پھر واٹس ایپ یوں ملا: "اب چونکہ صورت حال ایمرجنسی کی ہے۔ اس لیے کل کا پروگرام منسوخ"۔ لیکن اپنی صحت کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی سوئی وہیں شافعی صاحب پر جوں کی توں اٹکی ہوئی تھی۔ ۱۲ نومبر کو ان کا واٹس ایپ اپنے متعلق یا اپنی خیر خیریت پر نہیں، یوں تھا: "شافعی صاحب پر اگلا مضمون کب آئے گا؟"
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟
’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
حماس کے مکتب کی جانب سے ’’لماذا طوفان الاقصیٰ‘‘ کے نام سے بک لیٹ شایع کی گئی جس میں طوفان اقصی کے اسباب، صہیونی ریاست کی جانب سے کیے گئے اعتراضات کے جوابات، اور حماس کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ اردو قارئین کے لیے اس اہم دستاویز کا ترجمہ کیا گیا ہے:
اے ہماری بہادر فلسطینی قوم کے مجاہدو! عالم عرب و اسلام کے باسیو! دنیا کے باضمیر لوگو! جنہوں نے ہر جگہ حق کی نصرت اور ظالم کے چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے، حریت، عدل اور انسانی شرافت کے علم کو بلند کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ غزہ اور فلسطین کے مغربی کنارے پر اسرائیل کی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے، اس کے مقابلے میں اہلِ غزہ اسرائیل کے ظلم و جور سے آزادی حاصل کرنے کے لیے، اپنے دشمن کے سامنے جرات و بہادری کی مثال قائم کرتے ہوئے، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ ہم نے اس مضمون میں اپنے عوام، امتِ مسلمہ، اور دنیا کے باضمیر لوگوں کو ’’طوفانِ اقصیٰ‘‘ کے اسباب، مسئلہ فلسطین کی حقیقت، صہیونیوں کی جانب سے اٹھائے جانے بے بنیاد اعتراضات کی حقیقت کو واضح کیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ حماس کی حقیقت اور اس معرکہ کے مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔
اول: طوفانِ اقصیٰ کے اسباب
❶ استعمار اور قابض اسرائیل کے ساتھ اہلِ فلسطین کی جنگ ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء سے شروع نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس جنگ کو ۱۰۵ سال بیت چکے ہیں۔ ۳۰ سال برطانوی سامراج نے قبضہ جمائے رکھا، اور ۷۵ سالوں سے اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۱۸ء میں اہلِ فلسطین ۹۸.۵% زمین کے مالک تھے، جبکہ ۹۲% فلسطینی وہاں آباد تھے۔
اس کے بعد ۱۹۴۸ء سے قبل ایک مہم کے تحت برطانوی سامراج نے یہودیوں کو بسانے کے لیے فلسطین کے دروازے کھول دیے، اور صہیونی ریاست قائم کرنے کے لیے ماحول سازگار کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو ظلم و ستم سے دبانا شروع کیا، اور جبراً ۶% فیصد زمین پر قبضہ کر لیا جس پر ۳۱.۷% یہودی آباد ہوئے۔ اس طریقے سے انہوں نے فلسطینی عوام کو حقِ خود ارادیت سے محروم کر دیا۔
اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے صہیونیوں نے ۵۰۰ بستیوں کو تہس نہس کر کے ۷۷% زمین پر قبضہ کر لیا، جس کے نتیجے میں ۵۷% فیصد فلسطینی ہجرت کرنے مجبور ہوئے۔ اس ناجائز طریقے سے ۱۹۴۸ء میں صہیونی ریاست کو قائم کرنے کی راہ ہموار کی گئی۔
۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے فلسطین کی باقی زمین ہتھیانا شروع کر دی، جس کے لیے اس کے فوجیوں نے عرب کے دیگر علاقوں کے علاوہ فلسطین کے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مسجد اقصیٰ پر ظلم و ستم پہاڑ توڑ دیے۔
➋ اہلِ غزہ طویل عرصہ سے کس مپرسی اور سخت ظلم و ستم کے سائے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مختلف پالیسیوں کے ذریعے ان کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب ۱۷ سال سے غزہ کا محاصرہ کر کے دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس دوران ہم پانچ جنگوں سے گزر چکے ہیں، جس میں اسرائیل پہل کرتا رہا ہے۔ دشمن کے ظلم و ستم کا اندازہ اس امر سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ جب اہلِ غزہ نے ۲۰۱۸ء میں ’’مسیرات العودہ‘‘ (ہمیں اپنے علاقوں کی طرف واپس جانے دیا جائے) کے نام سے پرامن احتجاج و مظاہروں کا آغاز کیا تو اسرائیلی درندوں نے ان پرامن مظاہرین پر حملہ کرتے ہوئے ۳۶۰ فلسطینوں کو شہید کیا، جبکہ ۱۹ ہزار سے زائد لوگوں کو زخمی کر دیا، جس میں ۵ ہزار بچے بھی شامل تھے۔
➌ اعداد و شماریاتی ادارے کے مطابق سن ۲۰۰۰ء سے لے کر ستمبر ۲۰۲۳ء (۷ اکتوبر سے قبل) صہیونیوں نے ۱۱۲۹۹ فلسطینی قتل کیے ہیں، جبکہ ۱۵۶۷۶۸ زخمی ہو چکے ہیں جن میں اکثریت شہریوں کی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پورے منظر نامے میں امریکہ اور اس کے اتحادی مظلوم فلسطینوں کی مدد و نصرت (اور اس ظلم کو روکنے کے بجائے) صہیونیوں کی درندگی پر پردہ ڈالتے رہے، اور جب (مجاہدین نے) ۷ اکتوبر کو معرکہ طوفانِ اقصیٰ شروع کیا تو انہوں نے اسرائیلیوں کی ہلاکت پر چیخنا شروع کر دیا اور حماس کے خلاف اور اہلِ غزہ خون کی ندیاں بہانے کے لیے مالی اور جنگی سازوسان سے معاونت سلسلہ تاحال جاری ہے۔
➍ اسرائیل کی جانب سے فلسطین اور مسجدِ اقصیٰ پر کی جانے والی ہولناکیوں اور مقدس مقامات کی پامالیوں کو اقوام متحدہ کی تنظیموں، تحقیقاتی کمیٹیوں، عالمی انسانی حقوق کے اداروں (ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ) نے دستاویزات کی شکل میں مرتب کیا ہے۔ جس میں فلسطینی تنظیموں کے علاوہ اسرائیلی تنظیمیں بھی شامل ہیں، جن کو پورا عالم صلاحیت اور دیانتداری کے عنوان سے پہچانتا ہے۔ ان دستاویزات کو مرتب کرنے کے بعد اہلِ فلسطین پر جاری ظلم و ستم پر کسی نے آواز بلند نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ اسرائیلی نمائندے جعل اردان نے ۲۹ اکتوبر ۲۰۲۱ کو اقوام متحدہ کے اسٹیج پر اقوام متحدہ کی تیار کردہ انسانی حقوق کی رپورٹ کو چاق کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اس چارٹر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کیا گیا اسی کو اگلے سال کے لیے اقوام متحدہ کا نائب صدر مقرر کر دیا گیا۔
➎ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک اہلِ فلسطین پر زندگی تنگ کرتے ہوئے مقدس مقامات کی توہین اور ان کی زمین کو یہودی رنگ دینے کے لیے اسرائیل کے قیام ہی سے اس کے ممد و معاون بنے ہوئے ہیں۔ اہلِ فلسطین کے حق میں اقوام متحدہ کی جانب سے ۷۰۰ سے زائد قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں۔ لیکن اسرائیل کسی ایک قرارداد کو بھی خاطر میں نہیں لایا، امریکہ اور اس کے حلیف ممالک اس کی اس ضد اور ہٹ دھرمی، اہلِ فلسطین پر اس کے ظلم و ستم میں برابر کے شریک ہیں۔
➏ اہلِ غزہ پر ظلم و ستم کرتے ہوئے مغربی کنارے پر کثرت سے یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ ۳۰ سال کے بعد اوسلو معاہدے کی راہ ہموار کرنے والوں کو معلوم ہوا کہ تباہی کا سامنا کر رہے ہیں، اور یہ فلسطین کے لیے تباہی کا سبب بن رہا ہے۔
➐ اسرائیلی حکام اس بات پر مصر ہیں کہ اہلِ فلسطین اپنی ریاست قائم نہیں کر سکتے، یہی وجہ ہے کہ طوفانِ اقصیٰ سے قبل ستمبر ۲۰۲۳ء میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ فلسطین کے تاریخی نقشہ کو اسرائیل کا نقشہ بنا کر پیش کیا، جس میں غزہ اور فلسطین کا مغربی کنارہ بھی شامل تھا۔ اسرائیل کی جانب سے کی جانب والی سنگین بددیانتی، گھمنڈ اور اہلِ فلسطین کی خودارادیت کے سلب کیے جانے پر پورا عالم خاموش رہا۔
اوپر بیان کردہ صورتحال ۷۵ سال سے مسلسل قبضے اور مصائب، آزادی اور گھروں کو واپسی کی تمام امیدوں کے ٹوٹ جانے، اور پرامن تصفیے کے تمام امکانات ملیامیٹ ہو جانے کے بعد ساری دنیا فلسطینی قوم سے مندرجہ ذیل ظلم و ستم کے خلاف کن اقدامات کی امید رکھتی ہے:
✦ فلسطینی اس حالت میں کیا کریں کہ جب مسجد اقصیٰ کی زمانی و مکانی تقسیم کی دھمکی آمیز منصوبے بنائے جا رہے ہوں، اور مسجد اقصیٰ میں قابض اسرائیلی آبادکاروں کی دراندازیاں اور اشتعال انگیزیاں بڑھتی جا رہی ہوں۔
✦ فلسطینی اس حالت میں کیا کریں جب دائیں بازو کے انتہا پسند یہودی مغربی کنارے کو کنٹرول کرنے اور اسے اپنے ساتھ ضم کرنے کا پورا منصوبہ رکھتے ہوں، اور مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات پر کنٹرول کا منصوبہ بنائے ہوئے ہوں، اور مغربی کنارے سے پوری فلسطینی قوم کو بے دخل کرنے اور ہجرت پر مجبور کرنے کا منصوبہ رکھتے ہوں۔
✦ فلسطینی اس حالت میں کیا کریں کہ جب اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں فلسطینی قیدی جو اسرائیلی فاشسٹ وزیر Itamar Ben-Gvir کی براہ راست نگرانی میں اپنے بنیادی حقوق سے محرومی کے ساتھ ساتھ حملوں اور تذلیل کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔
✦ غزہ کی پٹی پر ۱۷ سالوں میں مسلط کردہ غیر منصفانہ فضائی، سمندری اور زمینی ناکہ بندی کے خلاف وہ کیا کریں کہ جب وہ ناکہ بندی انہیں آہستہ آہستہ موت کی طرف لے جا رہی ہو۔
✦ وہ کیا کریں جب مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو ایسی غیر معمولی توسیع دی جا رہی ہو جس کی ماضی میں کوئی مثال نہ ملتی ہو۔ اسی طرح وہاں فلسطینیوں اور ان کی املاک کے خلاف قابض آباد کاروں کی طرف سے تشدد اور جرائم اس قدر بڑھ گئے ہوں کہ ماضی میں ان کی مثال نہ ملتی ہو۔
✦ وہ کیا کریں کہ جب ۷۰ لاکھ فلسطینی ۷۵ سال بعد بھی اپنے گھروں کی واپسی سے مایوس ہوچکے ہوں اور انہیں ٹکڑوں میں بانٹ کر رکھ دیا گیا ہو۔
✦ وہ کیا کریں جب ان سارے جرائم کے سامنے دنیا عاجز ہو چکی ہو، اور بعض بڑی طاقتیں فلسطین کے قیام کے راستے میں رکاوٹ ہوں، اور یہ دنیا کی واحد قوم ہو جو قابض طاقت کے تحت زندگی گزار رہی ہو۔
کیا اس (دردناک) صورتحال پر ۷۵ سال گزرنے کے باوجود ہماری عوام سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہے گا کہ ہم عدل و انصاف کے لیے اقوام متحدہ اور اس کے بے بس اداروں پر بھروسہ کرتے رہیں؟ جبکہ آسمانی شریعتوں، انسانوں کے عرف اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہمیں حق حاصل ہے کہ اپنی خودمختاری، مقدس مقامات کی حفاظت، اور کے دفاع کے لیے مزاحمت کا راستہ اختیار کریں۔ اسی بنیاد پر ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو طوفانِ اقصیٰ کا آغاز کیا گیا، کیوں کہ فطری و ضروری اقدام صرف یہی بچا تھا۔ جس کے ذریعے فلسطینی قضیے کو ختم کرنے کے اسرائیلی منصوبوں اور سرزمین فلسطین پر قبضے اور اسے یہودیانے، مسجد اقصیٰ اور دیگر مقدسات کو کنٹرول کرنے، غزہ کی پٹی سے ظالمانہ حصار کو ختم کرنے، قابض قوت سے چھٹکارا حاصل کرنے کیا جا سکے۔ اور صرف یہی اقدام تھا جس کے ذریعے یہ ممکن ہو سکتا تھا کہ اہلِ فلسطین اپنے وطن کے حقوق کی واپسی، اہلِ فلسطین کا دیگر آزاد اقوام کی طرح آزادی و حریت کے ساتھ رہنے، حقِ خود ارادیت کے حصول اور فلسطینی ریاست، جس کا دارالخلافہ قدس ہو، قائم کر سکیں۔
دوم: ۷ / اکتوبر کے واقعات اور صہیونیت کے الزامات
اکتوبر ۲۰۲۳ء سے متعلق اسرائیل کی جانب سے جھوٹے پروپیگنڈے اور ان کی طوفانِ اقصیٰ سے متعلق غیر مصدقہ معلومات کے حوالے سے حرکۃ المقاومۃ الاسلامیہ (حماس) کی جانب سے ذیل میں چند امور کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ طوفانِ اقصی (۷ اکتوبر) کو صرف اسرائیل کے عسکری مقامات کو نشانہ بنایا، اور اسرائیل کی قید میں موجود ہزاروں فلسطینیوں کے تبادلے کے پیش نظر دشمن کے فوجیوں اور جنگجوؤں کو گرفتار کیا۔ اسی طرح اس حملے کو غزہ کے اردگرد اسرائیلی عسکری مقامات پر مرکوز رکھا، کیونکہ غزہ پر بمباری انہی مراکز سے کی جاتی ہے۔
➊ حماس اسلامی فکر کی حامل تحریک ہے، اس تحریک سے وابستہ افراد کی اسلامی فکر کے مطابق ذہن سازی کی جاتی ہے، جس میں جنگ کے دوران پرامن شہریوں، بالخصوص پرامن بچوں، بزرگوں، عورتوں کو کسی بھی قسم کے نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ اس وقت کتائب القسام کے مجاہدین اسی تعلیم پر عمل پیرا ہیں۔ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز کے وقت اگر کسی شہری کو نقصان پہنچا بھی تو وہ غیر ارادی طور پر پہنچا ہوگا۔ اس لیے کہ اس وقت ہم بھی ظالم دشمن سے دفاع کے ساتھ ساتھ اس کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں، اس لئے کہ وہ دن رات ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو مہلک ۔۔۔
➋ صہیونی مجرم (باروخ جولدشتاین) نے خلیل شہر ’’ہیبرون‘‘ میں ابراہیم مسجد میں نمازیوں کا قتل عام کیا تو اس وقت بھی حماس اور دیگر جماعتوں نے اس امر پر زور دیا کہ لڑائی کی زد میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ لیکن قابض اسرائیل نے اس کا جواب دینا بھی گوارا نہ سمجھا، لیکن حماس شہریوں کو جانی و مالی نقصان سے بچانے کی صدا بلند کرتی رہی، لیکن صہیونی اپنی ضد پر قائم رہتے ہوئے اس جرم سے باز نہ آیا۔ طوفانِ اقصی کے آغاز کے وقت دونوں جانب سے فورسز کے نقل وحرکت، باڑ کی وسیع خلاف ورزیوں اور غزہ کی پٹی کو ہمارے آپریشن کے علاقوں سے الگ کے نتیجے میں شہریوں کو نقصان پہنچا ہوگا۔
➌ جن اسرائیلی شہریوں کو غزہ میں قید کیا گیا ان کے ساتھ حماس کے مجاہدین کا حسنِ سلوک دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ ان کو ہم نے جلد آزاد کرنے کی کوشش کی، جو عملاً ۷ دن کی عارضی جنگ بندی کے دوران ہو سکا۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل نے بین الاقوامی قانون، انسانی معاشرے کے عرف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ انسان دشمنی پر مبنی سلوک کیا۔
➍ ۷ اکتوبر کے دن کتائب القسام کے اسرائیلی شہریوں کے نشانہ بنانے کے حوالے سے قابض اسرائیل کے بیانات صرف جھوٹ و بہتان پر مبنی ہیں، اس لیے اس امر کا دعویٰ اسرائیلی ذارئع نے کیا ہے، کسی آزاد اور مصدقہ ذرائع نے ان کی تصدیق نہیں کی۔ یہ امرِ معروف ہے کہ اکثر اسرائیلی ذرائع کے ادارے اپنی حکومت کے حقائق اور ان کی جعل سازی چھپانے کوشش کرتے ہیں، تاکہ اس کے جرائم کو صحیح ثابت کر کے حماس کا خاتمہ کیا جا سکے۔
اسرائیل کے کذب و بہتان کی حقیقت ذیل میں دی گئی اہم معلومات سے واضح ہو گی:
اس دن لیے گئے ویڈیو کلپس اور خود اسرائیلیوں کی گواہیوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ القسام کے جنگجوؤں نے عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ اسرائیلی فوج سے الجھنے کے باعث غلط فہمی کے نتیجے میں ان میں سے کئی پولیس فورسز کے ہاتھوں مارے گئے۔
یہ بات پورے یقین کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ چالیس شیر خوار بچوں کے قتل کا دعویٰ جھوٹا تھا، اور اس کا اعتراف اسرائیلی ذرائع نے بھی کیا ہے۔ یہ وہ پروپیگنڈہ ہے جو مغربی میڈیا میں بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا ہے۔
یہ الزام کہ مزاحمتی جنگجوؤں نے اسرائیلی خواتین کی عصمت دری کی، جھوٹا ثابت ہوا اور حماس نے اس کی قطعی طور پر نفی کی تھی۔ مثال کے طور پر ایک تحقیق ملاحظہ کی جا سکتی ہے جو ایک ویب سائٹ پر جنوری ۲۰۲۴ء کو شائع کی گئی جس میں نے عصمت دری کے تمام الزامات اور ان کی تردید کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔
اسرائیلی اخبارات روزنامہ بدیعوت احرونوت (اشاعت ۱۵ اکتوبر ۲۰۲۳ء) اور روزنامہ ہارتس (اشاعت۱۸ نومبر ۲۰۲۳ء) کی رپورٹ کے مطابق (طوفان الاقصیٰ کے دن) یہودی اپنی عید عرش کی مناسبت سے مقام رعیم کے قریب محفل لگائے ہوئے تھے، جس سے مجاہدین لاعلم تھے۔ مجاہدین جب وہاں داخل ہوئے تو اسرائیل نے اباشی نامی طیاروں سے ۳۶۴ اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا۔ اسی طرح بدیعوت احرونوت اخبار کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹر سے حملے کرنے کا مقصد یہ تھا کہ مجاہدین کو قتل کر دیا جائے اور (محفل میں شریک یہودی) ان کے قیدی نہ بن سکیں۔
اسرائیلی اخبارات کی رپورٹس سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ اسرائیلی فوج کے حملوں اور جنگی کاروائیوں کے نتیجے میں غزہ کے اطرف میں اسرائیلی قیدیوں کی بڑی تعداد ہلاک ہو چکی ہے۔ اسی طرح ان کی جانب سے کیے جانے والے فضائی حملوں اور تحریکِ حماس سے جھڑپوں کے نتیجے میں مجاہدین کے ساتھ ساتھ اسرائیلی شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں، اور ان کے گھر مسمار کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی کا حماس کے پاس اسرائیلی قیدیوں کو قتل کرنے کے حوالے سے ’’ہانیبال‘‘ پروٹوکول کی روشنی میں اسرائیلی فوج کا واضح موقف ہے کہ حماس کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کو قتل کرنا زیادہ بہتر ہے۔ اسی طرح قابض دشمن اپنی جارحیت کے ذریعے سے شہریوں، مجاہدین اور قیدیوں کو جانی نقصان پہنچانے پر کاربند ہے۔
ان کے مکروفریب، بہتان تراشی کی حقیقت کا اندازاہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ طوفانِ اقصیٰ کے آغاز میں اسرائیلی حکام نے یہ اعلامیہ جاری کیا کہ اسرائیلی مقتولین شہریوں کی تعداد ۱۴۰۰ ہو چکی ہے۔ پھر چند ہفتوں کے بعد اس تعداد میں خفت کرتے ہوئے کہا کہ ۱۲۰۰ اسرائیلی شہریوں کو جانی نقصان پہنچا ہے، جبکہ ۲۰۰ کتائب القسام کی نعشیں تھیں۔ یہاں دو سوالات پیدا ہوتے ہیں: ایک یہ کہ کیا یہ قتل عام اسرائیل کی جانب سے کیے جانے والے فضائی کا نتیجہ نہیں ہے؟ دوم یہ کہ کیا اس خطے میں اسرائیل کے علاوہ کس کے پاس ایسی مہلک ہتھیار ہیں جو انسانوں کو جلا کر بھسم کر سکیں؟ لیکن اسرائیل کے مصدقہ ذرائع نے ان کے اس جھوٹ سے پردہ ہٹاتے ہوئے دنیا کے سامنے ان کے پروپیگنڈے کو واضح کر دیا ہے۔
قابض اسرائیل کے جرائم کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی جانب سے غزہ پر کیے جانے والے فضائی حملوں کے نتیجے میں ۶۰ اسرائیلی قیدی ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ دشمن کو اپنے فوجی اور (حماس) کی قید میں موجود اسرائیلی شہریوں کی کتنی فکر ہے۔ مزید یہ ہے کہ وہ ان کی بھاری قیمت کی ادائیگی سے بچنے کے لیے ان کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
➎ دوسری جانب غزہ کے اطراف میں مسلح آباد کاروں کی بڑی تعداد موجود تھی جو قابض فوج کی جانب سے حماس کے ساتھ جنگی کاروائیوں میں شریک رہے، اس دوران ان میں جو قتل ہوئے ان کو اسرائیل نے شہریوں کی لسٹ میں درج کر دیا۔
➏ یہ امر قابلِ تعجب ہے کہ (ممکن اکثر لوگ اس سے ناواقف ہوں) کہ جس اسرائیلی شہری کی عمر ۱۸ سال سے زیادہ ہے، ریاست کی جانب سے اس کے لیے ضروری ہے کہ فوجی کاروائیوں میں حصہ لے، جس میں مرد کے لیے ۳۲ ماہ اور عورت کے لیے ۲۴ ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے، جس میں وہ جنگی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ اس قانون کی روشنی میں اسرائیلی نظریۂ امن کے اعتبار سے وہ تمام ہی جنگی سپاہی ہیں نہ کہ عام شہری، اور وہ ’’مسلح قوم‘‘ کا تصور ہے۔ یہی تصور اسرائیلی مملکت کے وجود کو ’’مملکت برائے فوج‘‘ بناتا ہے نہ کہ ’’فوج برائے مملکت‘‘۔
➐ صیہونیوں نے اب تک بڑی تعداد میں بچوں، خواتین کو شہید کر کے اہلِ فلسطین کو ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
➑ الجزیرہ کی شایع کردہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے اوسطاً ۱۳۶ بچے یومیہ شہید ہوئے ہیں، جبکہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ کے دوران (جس کو دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے) اوسطاً ایک بچہ قتل ہوا ہے۔
➒ صہیونیوں کے تشدد کا دفاع کرنے والے اس جنگ میں ہونے والے بڑے نقصانات اور واقعات کا غیر جانبدارانہ مطالعہ نہیں کرتے، بلکہ وہ ان کے قتلِ عام کا دفاع کرتے ہیں۔ اس کے برخلاف حماس کے خلاف ہر جھوٹے دعوے کے معاون بنے ہوئے ہیں۔
➓ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں جب منصفانہ اور آزادانہ تحقیق کی جائے گی تو ہمارا بیانیہ سچ ثابت ہوگا، جبکہ قابض اسرائیل کے من گھڑت الزامات کی تردید ہو گی۔ جس طرح غزہ پر جارحیت کے دوران اس کی جانب سے دیئے گئے اعدادوشمار جھوٹ اور فریب پر مبنی تھے، اسی طرح اس کی جانب سے حماس کی قیادت پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ اس نے الشفاء ہسپتال کو ہیڈکوارٹر بنایا ہوا ہے، جہاں عسکری آپریشن کے دفتر کے علاوہ قیدیوں کو رکھنے کا ٹھکانہ ہے (جس کی بنیاد پر اس نے اس پر بمباری کی)۔ اس الزام کے بعد جو کچھ حاصل ہوا وہ اس بات کی بہترین دلیل ہے کہ قابض اسرائیل اپنے دعوے میں جھوٹا تھا۔ لہٰذا ہمیں اس بات پر شرح صدر ہے کہ جب غیرجانبدارانہ اور منصفانہ تحقیق کی جائے گی تو اس سے فلسطینی (حماس) بیانیہ کی تصدیق ہو جائے گی۔
سوم: بین الاقوامی طور پر غیر جانبدرانہ کی تحقیق
➊ فلسطین نے بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شمولیت کرتے ہوئے روم کے قانون پر دستخط کیے۔ اور جب فلسطین نے اپنی زمین پر ہونے والے جرائم کی تحقیق کا مطالبہ کیا تو اسے جرائم کو مسترد نہ کرنے کی صورت اسرائیل کی دھمکیوں اور اس کی جانب سزا کا سامنا کرنا پڑا، بلکہ قابض حکام نے اہلِ فلسطین پر جارحیت کا سلسلہ مزید بڑھا دیا۔
➋ ہم امریکہ، جرمنی، برطانیہ، اور کینیڈا کو اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو وہ فلسطین پر کی جانے والی اسرائیلی جارحیت کے جرائم کی تحقیق میں معاونت کا اعلان کریں ۔ اور اس کی کاروائی کو مؤثر بنانے میں عملاً معاون بنیں۔
➌ مندرجہ بالا کی روشنی میں، اور ہمارے پاس موجود شکوک و شبہات اور عدمِ اعتماد کے باوجود جن وجوہات کی ہم نے وضاحت کی ہے، ہم بین الاقوامی فوجداری عدالت، خاص طور پر پراسیکیوٹر، اس کی تفتیشی ٹیم اور اقوام متحدہ کی متعلقہ تحقیقاتی کمیٹیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر اور فوری طور پر عدالت میں پیش ہوں، مقبوضہ فلسطین، جرائم کی تحقیقات کے لیے۔ اور تمام خلاف ورزیوں، اور دور دراز سے نگرانی اور غزہ کی پٹی کے کھنڈرات پر کھڑے ہونے، یا اسرائیلی پابندیوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے مطمئن نہیں۔
➍ ہمارے عوام نے کچھ عرصہ قبل بین الاقوامی عدالتِ انصاف سے مطالبہ کیا کہ وہ قانونی دائرہ اختیار میں قابض اسرائیل کی جارحیت کے تسلسل کو رکوانے کے حوالے سے بین الاقوامی ذمہ دار اداروں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ فیصلہ صادر کرے، تو قابض اسرائیل کے سہولت کار ممالک نے اس جنگ کو روکنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اسی طرح اس سے قبل جب ہم یورپی ممالک میں مقامی عدالتوں میں، جن کو عالمی عدالتی ادارہ کی حیثیت حاصل ہے، قابض رہنماؤں کے جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ درج کیا تو ہم پر ہر طرف سے دروازے بند کر دیے گئے۔
➎ سات اکتوبر کے واقعہ کو استعمار اور غیر ملکیوں کے قبضہ، عصرِ حاضر میں نسل پرستی پر مبنی نظریہ سے نجات کے لیے آزادی کی تحریک کے تناظر میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔ تمام حقائق (گزشتہ صفحات) سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قابض اسرائیل نے طاقت کے بل بوتے پر اہل فلسطین پر ظلم ڈھایا، جس کے نتیجے میں مظلوم فلسطینی عوام نے بھرپور قوت کے ساتھ قابض کے خلاف مزاحمت شروع کی۔ اور یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ قابض کی جانب سے کیا جانے والا مسلسل ظلم و ستم عالمی استحکام و سلامتی کے لیے خطرے سے خالی نہیں ہے ۔
➏ فلسطینی عوام اور پورے دنیا کے لوگ یہاں تک کہ اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والے ممالک بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اسرائیل کے بیانات کذب، دھوکہ دہی پر مبنی ہیں۔ لیکن اس کی ممد و معاون ممالک اس کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں تاکہ اس سے اتحاد و اتفاق برقرار رہے۔ اسی طرح پورا عالم اس امر سے واقف ہے کہ اس خونریزی کا اصل سبب قابض اسرائیل ہی ہے، جبکہ اہلِ فلسطین اپنی سر زمین پر آزادی سے سے زندگی بسر کرنے کے لیے اور اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے مزاحمت کر رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت اہلِ فلسطین کے اس جائز حق میں یہ ممد و معاون بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
➐ ہم دنیا کے تمام ممالک کے باضمیر لوگوں کو سلام پیش کرتے ہیں، جن کا تعلق مختلف مذاہب، قومیتوں اور رجحانات سے ہے کہ انہوں نے قابض اسرائیل کے جرائم، وحشیانہ قتل کے خلاف اور اہلِ فلسطین کی آزادی اور ان کے حقوق کے لیے دنیا کے تمام دارالحکومتوں میں احتجاج کے لیے نکلے، جس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ مسئلہ فلسطین بالجبر قبضے، نسل پرستی کی پالیسی، اور اجتماعی نسل کشی سے نجات حاصل کرتے ہوئے آزادی، انصاف اور انسانی وقار سے زندگی گزارنے کا مسئلہ ہے۔
چہارم: حماس کی حقیقت
➊ حماس کی تحریک اسلامی فکر اور اعتدال پر مبنی ہے، اور یہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے جو حق، انصاف اور آزادی پر یقین رکھتی ہے جبکہ ظلم اور تشدد کی حرمت کی حامل ہے۔ اسی طرح یہ تحریک مذہبی آزادی، کثیر الثقافتی معاشرے پر یقین رکھتی ہے، اور ہر اس امر کے خلاف جو مذہبی آزادی اور کسی بھی انسان پر ظلم و جبر کر کے اور اس کے بنیادی قومی، دینی اور گروہی حق سے محروم کرے۔
➋ حماس صہیونی منصوبے کے خلاف اس لیے ہے کہ وہ ہماری عوام، زمین اور مقدس مقامات پر قابض ہے، نہ کہ اس بنیاد پر ہم ان کے مخالف ہیں کہ یہودیت ان کا مذہب ہے۔ اس کے برخلاف اسرائیل اپنے دینی دعوے کی بنیاد پر یہودی پس منظر رکھتے ہوئے فلسطینی عوام پر ظلم ڈھاتے ہوئے ان کو ان کے حقوق سے محروم کیے ہوئے ہے۔ نیز مذہبی بنیاد پر ان کی زمین اور مقدس مقامات کو یہودی بنانے کے درپے ہیں۔ اسرائیل دنیا میں واحد ملک ہے جس کی اساس اپنے دین پر ہے، ان کو پورے عالم میں شہریت دی جا سکتی ہے، جبکہ وہ خود اہلِ فلسطین کو ان کی سرزمین سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔
➌ اہل فلسطین ہمیشہ سے ہی شہریوں کے خلاف ظلم و جبر، قتلِ عام و ناانصافی کے خلاف رہے ہیں، چاہے اس کا ارتکاب کرنے والے کوئی بھی ہو، اگرچہ مظلوم کوئی بھی ہو۔ ہمارے دینی عقائد، انسانی اقدار اور اخلاق کی بنیاد پر ہم نے یہودیوں پر ظالم جرمنی کی جانب سے کیے جانے والے جرائم اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر کے پرزور مذمت کی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودیت کے جوہر میں اہل یورپ کی صفات شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں ہمارے عربی اور اسلامی ماحول میں ہمیشہ سے ہی یہودیوں اور ہر وہ شخص جو کسی بھی دین یا قوم کا حامل ہو ان کو پر امن ماحول فراہم کیا گیا ہے۔ جو مذہبی آزادی، کثیر الثقافتی معاشرے کی ایک مثال تھا۔
➍ تحریک حماس بین الاقوامی قانون، چارٹر اور معاہدوں کے مطابق فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے۔ اس کے اہداف و غرض و غایت اور اس کے وسائل قابض اسرائیل سے مزاحمت کرتے ہوئے فلسطینی عوام کو ان کا حق لوٹانے، آزاد اور خود مختار بنانے کے لیے ممد و معاون ہیں۔ اسی طرح اسرائیل کے قبضے کے خاتمے اور ان کو اپنے وطن لوٹانا حماس کا مقصد ہے۔ اس تحریک کے اغراض و مقاصد سے واضح ہے کہ فلسطین کی آزادی کی تحریک ہے، اسی بنیاد پر اس کی تمام سرگرمیوں کا محور و مرکز مقبوضہ فلسطین کی سرزمین کو بنایا ہوا۔ اس کے برخلاف صہیونیوں نے فلسطینی عوام پر مقبوضہ فلسطین کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اہلِ فلسطین پر ظلم و ستم کرتے ہوئے ان بھیانک طریقے سے قتل کے جرم کا ارتکاب کیا۔
➎ ہم اس حقیقت کو بیان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمیں دینی اور بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ حق حاصل ہے کہ مسلح ہو کر تمام وسائل کے ساتھ قابض اسرائیل کا مقابلہ کریں۔ سب سے اہم قرارداد (۳۲۳۶)اد اقوام متحدہ نے ۲۲ نومبر ۱۹۷۴ء صادر کی جس میں یہ فلسطینیوں کو واپس اپنے وطن ہجرت کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ اسی طرح اب تک جتنی بھی ممالک نے استعمار سے آزادی حاصل کی ہے اس کی بنیاد بھی انہی قوانین پر مبنی تھی، آج وہ آزادانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔
➏ اس وقت اہل فلسطین صبر و بہادری کے ساتھ اپنے سرزمین اور جائز حقوق کے لیے فلسطین سرزمین پر قابض کے خلاف میدان میں برسرپیکار ہیں، جن کا ظلم و ستم طویل عرصے سے جاری ہے، اور جس نے وحشیت برپا کرنے میں تمام حدود پامال کر دی ہیں۔ اس نے انسانوں کے ہدف بنانے کے ساتھ زندگی کی تمام سہولیات کو برباد کر دیا ہے۔ اس کی بربریت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے معصوم بچوں، پر امن بزرگوں اور خواتین کے خون کی ندیاں بہا دی ہیں۔ ان کی جارحیت سے مساجد و مدراس، یونیورسٹیز، چرچ، ہاسپٹلز، یہاں تک ایمبولنسز بھی نہ بچ سکیں۔ یہ سب کچھ پورے عالم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ لیکن اسرائیلی کی پشت پناہی کرنے والے طاقتور ممالک نے بین الاقوامی قانون میں ان جرائم کی سزا کے باوجود سکوت اختیار کیا اور اس جرم و اجتماعی نسل کشی کو رکوانے میں کوئی قدم نہیں اٹھایا۔
➐ اسرائیل اپنے حق دفاع کی آڑ میں فلسطینی قوم کو مٹانے کے درپے ہے۔ درحقیقت یہ گمراہ کرنے، جھوٹ بولنے اور حقائق کو مسخ کرنے کا عمل ہے۔ قابض قوت کو اپنے قبضے اور اپنے جرائم کے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے، بلکہ فلسطینی عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قابض کو غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے اور فلسطینی عوام کی جائز امنگوں کے حصول کے لیے مجبور کرنے کے لیے مزاحمت کریں۔ ہمیں یاد ہے کہ بین الاقوامی قانون، بشمول دیوار کے بارے میں بین الاقوامی عدالت انصاف کی مشاورتی رائے (۲۰۰۴)، ’’اسرائیل‘‘ کے حق کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی، جیسا کہ یہ ہے۔ وحشیانہ قابض قوت جسے ’’خود کا دفاع‘‘ کہا جاتا ہے۔ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت جو اپنے قانونی اور اخلاقی جواز اور جوہر کے بغیر بین الاقوامی قانون کے مطابق قبضے میں ہے۔
پنجم: مطلوب کیا ہے؟
قبضے کرنے والا قابض ہی کہلاتا ہیں چاہے وہ اپنے قبضے کو مختلف ناموں اور اوصاف سے متصف کر کے کوئی صورت دینا چاہے لیکن وہ قابض ہی کہلائے گا۔ قوموں کی آزادی سے یہ تجربات سامنے آتے ہیں کہ قابض اور استعمار سے آزادی کے لیے مزاحمت کرنا ہی واحد راستہ ہے، جس کے ذریعے سے استعماری قوت ٹوٹ جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دفاعی کوششوں، مزاحمت اور قربانیوں کے بغیر کوئی بھی قوم آزادی حاصل نہیں کر سکتی۔
تمام ممالک پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک کے ممد و معاون بنیں، نہ کہ اس کو ختم اور کچلنے کی سازش کریں۔ اسی طرح ان کا یہ بھی فرض ہے کہ قابض اسرائیل کے جرائم کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ اہلِ فلسطین آزادی اور خودمختاری کے ساتھ اپنے وطن میں زندگی بسر کر سکیں، جس طرح دیگر اقوام امن سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔
اس بنیاد پر ہم مطالبہ درج ذیل امور کا مطالبہ کرتے ہیں:
➊ اسرائیل غزہ سے اپنی دشمنی جلد ختم کرتے ہوئے اجتماعی نسل کشی کرنے سے باز آجائے جس میں ہمارے بچوں، بزرگوں، عورتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ غزہ کی گزرگاہوں کو کھولا جائے، امدادی سامان کو لوگوں تک پہچانے کی سہولت فراہم کی جائے۔
➋ قابض اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں جو ظلم ڈھایا ہے، اس کے جرائم کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔ اس سے شہریوں کے قتل کے جرم میں مالی جرمانہ وصول کیا جائے، اسی طرح اس کی فضائی، زمینی حملوں کے نتیجے میں عمارتیں، مدارس، جامعات، مساجد۔ اسرائیلی جارحیت کے مقابلے میں مزاحمتی تحریک حماس کی تمام دستیاب ذرائع سے حمایت کرنا، اس لیے کہ وہ اس آسمانی ادیان اور بین الاقوامی قانون کے مطابق ہے۔
➌ ہم پورے عالم کے باضمیر لوگوں بالخصوص عالمی جنوبی ممالک کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ مقبوضہ فلسطین کے دکھ اور تکلیف کو محسوس کریں، اور اسرائیل کی جانب ڈھائے جانے والے ظلم کی تردید کریں۔ اور اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ ایسا کردار ادا کیا جائے جو قابض اسرائیل کے دہرے معیارات کے خلاف ہوں۔ عالمی سطح پر ایک ایسی تحریک کا آغاز کیا جائے جو اہلِ فلسطین کو انصاف، آزادی اور عزت کے ساتھ جینے کا ذریعہ بن سکے۔
➍ طاقتور ممالک صہیونی ریاست کے جرائم پر پردہ ڈالنے سے گریز کریں، جن کی معاونت کے سبب وہ ۷۵ سال سے ظلم و ستم ڈھا رہا ہے۔ اسی طرح ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کیے جانے فیصلوں کو نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش کریں، تاکہ اہلِ فلسطین اپنا کامل حق حاصل کر سکیں۔
➎ بین الاقوامی ممالک اور اسرائیل غزہ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند نہ ہوں۔ اس لیے کہ اہلِ غزہ اپنے مستقبل کو بہتر بنانے کے حوالے سے خود کفیل ہیں۔ لہٰذا اس نوعیت کے منصوبوں کا انکار کیا جائے۔ اسی طرح اسرائیل کو اس امر سے روکنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے کہ وہ اہلِ غزہ کو ہجرت پر مجبور نہ کرے۔
➏ اہلِ فلسطین کو سینا، اردن اور دیگر ممالک کی جانب بالجبر ہجرت کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۴۸ء میں جو اہلِ فلسطین بے گھر کر دئیے گئے تھے ان کو واپس فلسطین میں لانے کے لیے اقوام متحدہ ۱۵۰ سے زائد مرتبہ قرارداد صادر کر چکا ہے، لہٰذا اس کے لیے کوشش کی جائے۔
➐ اہلِ عرب، تمام مسلم ممالک اور دنیا کے باضمیر عوام قابض اسرائیل کے خاتمے کے لیے مظاہروں کے ذریعے دباؤ جاری رکھیں، اسرائیل کی ریاست قبول کرنے کی سازش کو ناکام بنانے کے لیے کوشاں رہیں، اسی طرح ان کے مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک جاری رکھیں۔
مترجم: مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
نائب مدیر مرکز تعلیم و تحقیق اسلام آباد
awaheedshahzad@gmail.com
923027286144
اسرائیل کا آئرن ڈوم میزائل سسٹم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
بی_بی_سی
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے آئرن ڈوم میزائل دفاعی نظام نے غزہ سے حماس کے عسکریت پسند گروپ کی طرف سے داغے گئے راکٹوں سے ملک کی حفاظت میں مدد کی ہے۔
آئرن ڈوم کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
آئرن ڈوم کو آنے والے مختصر فاصلے کے ہتھیاروں سے بچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ یہ تمام موسمی حالات میں کام کرتا ہے۔
یہ راکٹوں کو ٹریک کرنے کے لیے ریڈار کا استعمال کرتا ہے اور ان میں فرق کر سکتا ہے جو ممکنہ طور پر تعمیر شدہ علاقوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور جو نہیں ہیں۔ انٹرسیپٹر میزائل صرف ایسے راکٹوں پر فائر کیے جاتے ہیں جن کی توقع آبادی والے علاقوں پر گرنے کی ہوتی ہے۔
یہ سسٹم پورے اسرائیل میں موجود بیٹریوں پر مشتمل ہے، ہر ایک میں تین سے چار لانچرز ہیں جو 20 انٹرسیپٹر میزائل فائر کر سکتے ہیں۔ سسٹم کے فکسڈ اور موبائل دونوں ورژن ہیں۔
آئرن ڈوم سب سے پہلے کب استعمال ہوا؟
آئرن ڈوم کو 2006ء میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کے بعد تیار کیا گیا تھا، جو جنوبی لبنان میں واقع ایک عسکریت پسند گروپ ہے۔ حزب اللہ نے اسرائیل پر ہزاروں راکٹ داغے جس سے بھاری نقصان ہوا اور درجنوں شہری مارے گئے۔ جواب میں اسرائیل نے کہا کہ وہ ایک نئی میزائل ڈیفنس شیلڈ تیار کرے گا۔
آئرن ڈوم کو اسرائیلی فرموں رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹمز اور اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز نے کچھ امریکی تعاون سے بنایا تھا۔ اسے خاص طور پر غزہ سے فائر کیے جانے والے راکٹ جیسے ابتدائی ہتھیاروں سے لڑنے میں مدد کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
اس نظام کو پہلی بار 2011ء میں جنگ میں استعمال کیا گیا تھا۔ اس نے غزہ کی پٹی سے فائر کیے گئے میزائل کو ناکارہ بنا دیا جو 2007ء سے حماس کے کنٹرول میں ہے۔ 2019ء میں امریکہ نے اعلان کیا کہ وہ کچھ آئرن ڈوم بیٹریاں خریدے گا اور ان کی جانچ کرے گا۔
آئرن ڈوم کتنا موثر ہے؟
اسرائیل کی فوج نے آئرن ڈوم کی کامیابی کی شرح 90 فیصد تک کا دعویٰ کیا ہے۔
حماس کا کہنا ہے کہ اس کے حملے کے پہلے دن اس نے 5000 راکٹ داغے، حالانکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس نے شاید اس تعداد سے نصف داغے ہیں۔ آئرن ڈوم کو زیر کرنے کی کوشش میں تھوڑی ہی دیر میں اتنے راکٹ فائر کیے گئے۔ دیگر (راکٹس) کو حزب اللہ نے لبنان سے داغا۔
اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیل پر 8000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے جا چکے ہیں۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق کچھ راکٹ آئرن ڈوم سے بچ گئے ہیں اور تعمیر شدہ جگہوں پر گرے ہیں جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں۔ 27 اکتوبر کو تل ابیب میں ایک اپارٹمنٹ کی عمارت پر راکٹ گرنے سے چار افراد زخمی ہوئے۔
تاہم، اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل جوناتھن کونریکس نے کہا:
"ہلاک اور زخمی ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی اگر یہ آئرن ڈوم سسٹم نہ ہوتا، جو ہمیشہ کی طرح زندگی بچانے والا رہا ہے۔"
امریکہ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں کام کرنے والی دو آئرن ڈوم بیٹریاں دے کر اسرائیل کے اینٹی راکٹ دفاع کو مزید تقویت دے گا۔ یہ ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس (THAAD) میزائلوں کی بیٹری اور پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹری بھی فراہم کرے گا۔
https://www.bbc.com/news/world-middle-east-20385306
اسرائیل کے تحفظ کیلئے دفاعی میزائلی نظام
نصرت مرزا
(۱۹۹۸ء کی ایک تحریر حالیہ اسرائیل فلسطین جنگ کے تناظر میں ایک بار پھر شائع کی جا رہی ہے۔ ادارہ)
امریکی وزیر دفاع ولیم کوہن نے بحرین کے دورہ کے دوران ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو یہ تجویز دی کہ خلیجی ریاستوں کو، ایران اور دوسری جگہوں میں بلاسٹک میزائل کی جو تیاری ہو رہی ہے، اس سے محفوظ ہونے کے لیے ایک میزائل نظام کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نظام بہت مہنگا ہے اور طویل مدتی ہے۔ انہوں نے یہ تجویز بحرین کے مناط شہر میں دی ہے۔ بحرین کے حکمران ایران سے دفاع کے معاملہ میں کافی حساس ہیں، لیکن انہوں نے Elsewhere کا لفظ استعمال کیا۔ شاید یہ لفظ پاکستان کے لیے ہو، لیکن بحرین کو پاکستان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟ بحرین پاکستان سے میزائل خرید سکتا ہے جو زیادہ مہنگا سودا نہیں ہو گا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ کے وزیردفاع یہ سب کچھ اسرائیل کے تحفظ کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ پیسہ تو نکلوائیں گے عربوں کا، دفاع کریں گے اسرائیل کا، اور ڈرائیں گے بھی عربوں کو۔
میرے خیال میں عربوں کو قطر کانفرنس کی طرح اس دفعہ بھی امریکہ کو جھنڈی دکھا دینا چاہیے کہ وہ کسی نظام کا حصہ نہیں بنیں گے، جب تک اسرائیل سے ان کو رعایتیں نہ مل جائیں۔ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں اور میزائل نظام کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کے بعد اسرائیلی یہ کہتے سنے گئے تھے کہ عربوں کی چال ڈھال بدل گئی ہے۔ میرے خیال میں ایران کو بھی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عربوں سے اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں تاکہ امریکی منصوبہ ناکام بنایا جا سکے۔
امریکن تو اپنے ملک کی فوجی پیداوار کی فیکٹریاں چالو رکھنا چاہتے ہیں، وہ اپنا ریسرچ پروگرام عربوں کے پیسے جاری رکھنا چاہتے ہیں، اور پھر عربوں کے خلاف اسرائیل کی حمایت میں اسے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ امریکی وزیردفاع نے بحرین کے حکمرانوں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ ایران نے حال ہی میں ’’شہاب ۳‘‘ کا تجربہ کیا، جبکہ دوسرے ممالک ایسے میزائل بنا رہے ہیں جو یا تو کیمیائی، بائیولوجیکل، یا ایٹمی ہتھیار لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے اپنے ہزاروں کی تعداد میں فوجی اس علاقے میں موجود ہیں، اس صورتحال میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ یہ ممالک آپس میں میزائل سے بچاؤ کا نظام تیار کریں۔
افغانستان پر امریکی کروز میزائلوں کے حملے کے بعد میں نے اپنے یکم ستمبر ۱۹۹۸ء کو شائع ہونے والے مضمون ’’پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملہ کا خطرہ‘‘ میں یہ تحریر کیا تھا کہ کراچی میں غوری میزائل فٹ کر دیے جائیں اور ان کا رخ امریکی جہازوں کی طرف ہو تاکہ وہ پھر افغانستان پر حملہ کی حرکت نہ کریں۔ اب امریکی وزیر دفاع اس تجویز کے ساتھ وارد ہو گئے ہیں جو خود عربوں کے خلاف ہے۔ میرا خیال ہے کہ قطر کانفرنس کی ناکامی کے بعد امریکیوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ کی کیفیت پیدا کر دی تھی، لیکن پھر یہ جنگ ایٹمی جنگ کی خوفناکی میں تبدیل ہوتی دکھائی دی، تو انہوں نے پاکستان کو ڈرانے اور دھمکانے کے لیے افغانستان پر حملہ آور ہونے کا منصوبہ بنایا، جس کے اپنے مضمرات تھے۔ پھر عربوں سے پیسے نکلوانے کے لیے آ موجود ہوئے۔ میرے خیال میں پاکستان کی وزارت خارجہ کو چاہیے کہ وہ عربوں کو لوٹنے کے منصوبے سے آگاہ کرے۔ اسرائیل کو پاکستان اور ایران کے میزائلوں سے جو خطرہ لاحق ہو گیا ہے، اس لیے عرب کوشش کر کے زیادہ سے زیادہ رعایت حاصل کریں۔
پاکستان کے پاس ایٹمی صلاحیت مسلمان ممالک کے لیے ایک نعمت ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو اسرائیل کے دباؤ سے آزاد محسوس کر سکتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی اس صلاحیت کی وجہ سے کتنا پریشان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے پوری مسلم دنیا کے جھگڑوں کو ابھار دیا ہے۔ ایران اور افغانستان، ترکی اور شام کے درمیان جنگ کے بادل چھاتے نظر آ رہے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔ اسرائیل کی دھمکی کا یہی جواب ہے کہ ایران پر کسی بھی حملہ کی صورت میں پاکستان جوابی حملہ کا حق محفوظ کرے۔ میں انتہائی ذمہ داری کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت نے امریکہ کے دفاعی نظام کو مشرقِ وسطیٰ میں بے اثر کر دیا ہے۔ اسرائیل کی علاقے کے پولیس مین کی حیثیت متاثر ہوئی ہے، اور عرب اسرائیل کی طرف سے اپنے آپ کو زیادہ آزاد محسوس کر رہے ہیں۔ اس لیے اب شام اور ترکی کے درمیان لڑائی کرانے کا سوچا جا رہا ہے تاکہ اسرائیل کے معاملہ میں ان کی بارگیننگ پوزیشن متاثر نہ ہو۔
ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس صورتحال سے فائدہ نہ اٹھایا تو امریکہ حالات کو ہمارے خلاف کرتا چلا جائے گا۔ امریکہ کے وزیر دفاع کا خلیج کے دفاعی نظام کے تصور کا مقصد دراصل پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے اثرات کو زائل کرنا ہے۔ پاکستان کو اس صلاحیت سے اپنی معیشت کی بہتری کے لیے کام لینے کا راستہ روکنا مقصود نظر آتا ہے، تاکہ مسلمان ممالک پاکستان کی طرف نہ دیکھیں، یا اپنے بھائی ملک سے مدد حاصل نہ کر سکیں۔ امریکن کسی صورت بھی یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی سینٹ سے پابندیوں میں نرمی کا بل پاس ہونے کے باوجود امریکی صدر بل کلنٹن نے اس بل کو ویٹو کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو امداد دینے کے لیے اپنے معاملے کو کھٹائی میں ڈال دیا ہے۔ وہ پاکستان میں انتشار کے منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں، اپنے مہروں کو آگے بڑھا رہے ہیں تاکہ پاکستان کی حکومت گھٹنے ٹیک دے۔
میں اپنے اس مضمون میں ایرانی بھائیوں کو تدبر کی دعوت دیتا ہوں کہ وہ امریکی وزیردفاع کے بیان کو دیکھیں کہ وہ کس قدر ایران کا ورد کر رہا ہے اور ایران افغانستان تصادم کی سوچ رہا ہے۔ امریکی انتظار کر رہے ہیں کہ ایران سرحد عبور کرے گا اور پھر وہ ایران پر پل پڑیں۔ سچ پوچھیں تو افغانستان پر کروز میزائلوں سے جو حملہ کیا گیا، اس کی ایک وجہ ایران کو آگے بڑھنے کی ترغیب دینا تھا۔
امریکی سفیر نے عربوں کو شام کے میزائل پروگرام سے بھی ڈرایا ہے، لیکن خلیجی ملکوں کو شام کے میزائلوں سے کیا خطرہ ہے؟ اس کے میزائلوں سے خطرہ تو اسرائیل کو ہو سکتا ہے۔
- جو خطرہ اسرائیل کو ہو گیا ہے وہ عربوں کے لیے خطرہ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ عربوں کی دولت لوٹی جائے۔
- دوسرے پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔
سارا کھیل مسلمانوں کو باندھ کر رکھنے کے لیے کھیلا جا رہا ہے، یہ مسلمانوں کی فراست پر منحصر ہے کہ وہ کس طور امریکہ کے داؤ سے بچ کر نکلتے ہیں۔
(ماہنامہ الشریعہ اکتوبر ۱۹۹۸ء بحوالہ روزنامہ نوائے وقت )
فلسطین اور یہود: خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمیدؒ کا خط
ادارہ
(خلافتِ عثمانیہ کے آخری فرمانروا سلطان عبد الحمید مرحوم کا معزولی کے بعد اپنے روحانی پیشوا الشیخ محمود آفندی ابو الشاماتؒ کے نام تاریخی خط)
یا ہو —— بسم اللہ الرحمٰن الرحیم —— وبہ نستعین
حمد اس خدا کی جو سارے جہانوں کا پالن ہار ہے، اور افضل ترین درود اکمل ترین سلام نازل ہو ہمارے سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو رب العالمین کے رسول ہیں، اور آپ کے تمام آل و اصحاب اور متبعین پر قیامت تک درود و سلام نازل ہو۔
میں اپنا یہ عریضہ سلسلہ شاذلیہ کے شیخ روح و حیات کو فیضان پہونچانے والے شیخِ وقت محمود آفندی ابوالشامات کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور دعواتِ صالحہ کا امیدوار ہو کر ان کے مبارک ہاتھوں کا بوسہ لیتا ہوں۔ آداب و احترام کے بعد عرض کرتا ہوں کہ آپ کا سالِ رواں کے ۲۲ مئی کا تحریر کردہ گرامی نامہ موصول ہوا، میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ جناب والا برابر صحت و سلامتی کے ساتھ ہیں۔ میرے آقا! میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے سلسلہ شاذلیہ کے اورد و وظائف شب و روز پابندی سے پڑھ رہا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ دائمی طور پر آپ کی دلی دعاؤں کا محتاج ہوں۔
اس تمہید کے بعد میں آپ کی خدمت میں اور آپ جیسے دوسرے عقلِ سلیم رکھنے والوں کی خدمت میں ایک اہم مسئلہ پیش کرتا ہوں تاکہ یہ امانت تاریخ کی حفاظت میں آجائے۔
میں خلافتِ عثمانیہ سے صرف اس لیے الگ ہوا ہوں کہ مجھے جمعیت اتحاد و ترقی کی طرف سے بہت تنگ کیا گیا، دھمکیاں دی گئیں اور خلافت ترک کرنے پر بالکل مجبور کر دیا گیا۔ سبب یہ ہوا کہ ان اتحادیوں نے مجھ سے بار بار اصرار کیا کہ ارضِ مقدس فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کی تاسیس پر اتفاق کروں۔ ان کے پیہم اصرار کے باوجود میں یہ بوجھ اٹھانے پر راضی نہ ہوا۔ اخیر میں ان لوگوں نے پندرہ کروڑ برطانوی لیرہ سونا دینے کا وعدہ کیا۔ میں نے قطعی طور پر اس تجویز کو ٹھکرا دیا اور انہیں مندرجہ ذیل دوٹوک جواب دیا کہ
’’اگر تم لوگ پندرہ کروڑ لیرہ سونے کی بجائے دنیا بھر کا سونا دو، تب بھی اس بوجھ کو نہیں اٹھاؤں گا۔ میں نے ملتِ اسلامیہ امتِ محمدیہؐ کی تیس سال سے زائد خدمت کی، اب میں اپنے آباؤ اجداد خلفاء و سلاطین کی تاریخ کو سیاہ نہیں کروں گا، میں یہ بوجھ قطعی طور پر قبول نہیں کر سکتا۔‘‘
میرے قطعی جواب کے بعد ان لوگوں نے مجھے معزول کرنے پر اتفاق کر لیا اور یہ پیغام پہونچایا کہ وہ مجھے شہر بدر کر کے سالونیکا بھیج دیں گے، میں نے یہ تکلیف گوارا کر لی۔ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں کہ میں نے ارضِ مقدس فلسطین میں یہودی حکومت کے قیام کو تسلیم کر کے دولتِ عثمانیہ اور عالمِ اسلام کو اس عیب و عار سے داغدار کرنا قبول نہیں کیا۔ اس لیے میں مکرر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتا ہوں۔
میرا خیال ہے کہ میں نے جو باتیں پیش کر دی ہیں وہ اس موضوع کے بارے میں کافی ہیں۔ اپنے اس اہم خط کو ختم کرتا ہوں۔ میں آپ کے مبارک ہاتھوں کو چومتا ہوں اور امیدوار ہوں کہ آداب قبول فرمائیں اور تمام بھائیوں دوستوں کو سلام کہیں۔ میرے بزرگ استاد ! خط طویل ہو گیا لیکن آپ کو اور آپ کی جماعت کو مطلع کرنے کے لیے میں اس طوالت پر مجبور تھا۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
خادم المسلمین، عبد الحمید بن عبد المجید
۲۲ ستمبر ۱۹۲۹ء
(ماہنامہ الشریعہ اپریل ۱۹۹۶ء بحوالہ ماہنامہ الفرقان لکھنؤ)
امریکی صدر ٹرومین اور سعودی فرمانروا شاہ عبد العزیز کی تاریخی خط وکتابت
ادارہ
(مالیر کوٹلہ بھارت کے دینی جریدہ ماہنامہ ’’دار السلام‘‘ نے نومبر ۲۰۰۱ء کے شمارے میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبد العزیز آل سعود کے نام امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین کے ۱۰ فروری ۱۹۴۸ء کے تحریر کردہ ایک خط اور ملک عبد العزیز آل سعود کی طرف سے اس کے جواب کا اردو ترجمہ شائع کیا ہے۔ اس سے قارئین بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ افغانستان، کشمیر، فلسطین کے حوالے سے امریکہ جو کردار اب ادا کر رہا ہے، وہ کسی حادثہ کا نتیجہ نہیں بلکہ بہت پہلے سے طے شدہ پالیسی اور پروگرام کا ایک تسلسل ہے اور اس امر کا بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ہمارے مسلم حکمران امریکہ کے ان عزائم اور پروگرام کے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ابھی تک زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے اور انہوں نے عالم اسلام کے وسائل اور دولت امریکہ کے قدموں پر ڈھیر کر کے ذاتی، خاندانی اور طبقاتی سطح پر مفادات حاصل کرنے کے سوا عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کے مفاد کے لیے کسی مشترکہ منصوبہ بندی اور پیشرفت کی آج تک ضرورت محسوس نہیں کی۔ ادارہ)
صدر ٹرومین کی جانب سے شاہ عبد العزیز کے نام خط
حضور جلالت ملک عبد العزیز آل سعود، فرماں روائے مملکت سعودی عرب
قابل قدر بادشاہ!
جیسا کہ آپ بخوبی واقف ہیں کہ ہمارے ملک باہمی طور پر ایسی دیرینہ محبت اور مودت کے تعلقات میں مربوط ہیں جس کی بنیاد عدل وانصاف، آزادی، عالمی سطح پر امن وسلامتی کے قیام کی رغبت اور ساری انسانیت کی بھلائی پر قائم ہے، نیز ہماری باہمی اقتصادی مصلحتوں نے ان تعلقات کو اس وقت مزید مضبوط اور گہرا بنا دیا جب آپ نے اپنے ملک سعودی عرب میں دریافت کیے جانے والے تیل کے کنووں سے تیل نکالنے کا معاہدہ ہمارے ملک کی کمپنیوں سے کیا۔ اس طرح ہمیں وہاں تیل نکالنے والے وسیع وعریض پلانٹ قائم کرنے کے مواقع دستیاب ہوئے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اب ہمارے تعلقات اس قدر مضبوط ہو چکے ہیں کہ دونوں میں کسی ایک ملک میں ہونے والے ہر خوشگوار وناخوشگوار واقعہ کی صدائے بازگشت دوسرے ملک میں سنائی دیتی ہے۔ ویسے بھی ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ میں امن وسلامتی کا قیام نہایت اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اس علاقے سے آپ کا ملک دینی، تاریخی اور لسانی بنیادوں پر جڑا ہوا ہے۔ اس علاقے کے تمام ملکوں کو عرب لیگ جیسے ادارے نے باہم مربوط کر رکھا ہے۔ چونکہ عرب لیگ اور ساری عرب قوم کے دلوں میں آپ کے ملک کا ایک اونچا مقام ہے لہذا میں نے یہ مناسب سمجھا کہ عالمی سلامتی اور ایک ستائی ہوئی مظلوم قوم کے نام پر آپ سے مدد طلب کروں تاکہ آپ مقدس سرزمین پر اس کے باشندوں، عرب اور یہود کے درمیان برپا خانہ جنگ کو روکنے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال کر سکیں اور عرب قوم کو اپنے ہم وطن یہودیوں کے ساتھ مصالحت پر آمادہ کر لیں۔ ہٹلر کے دور میں یہودیوں نے جو عذاب جھیلے، کیا وہ ان کے لیے کافی نہیں کہ اب بھی وہ ستائے جاتے ہیں؟ آپ ہرگز نہیں چاہیں گے کہ یہودی اب بھی عذاب وتکلیف میں گرفتار رہیں چہ جائیکہ آپ ان عربوں کا ساتھ دیں جو اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرارداد (جو ارض مقدس کو دونوں قوموں کے درمیان تقسیم کرنے سے متعلق ہے) کو کھلم کھلا چیلنج کر رہے ہیں۔ عربوں کا یہ انداز اقوام متحدہ میں شامل تمام ملکوں کے خلاف جس میں سرفہرست آپ کا ملک آتا ہے، سرکشی اور زیادتی کے مترادف ہے۔
جس بات کا مجھے ڈر ہے، وہ یہ کہ کہیں مختلف ممالک متحدہ طور پر ان بغاوت کرنے والوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے پر درست کرنے کے لیے ان پر فوج کشی نہ کر دیں جس سے آپ کی قوم کی ہزاروں جانوں کے تلف ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یقیناًیہ امر ہمارے لیے بھی اور آپ کے لیے بھی باعث رنج وتکلیف ہوگا۔ میں اس امر کو بھی آپ سے مخفی رکھنا نہیں چاہتا کہ اگر حالات اسی طرح رہے تو یہ چیز ہمارے خوشگوار تعلقات کو متاثر کر سکتی ہے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات بڑے نقصان سے دوچار ہو سکتے ہیں کیونکہ امریکہ قوم مظلوم یہودیوں کے لیے اپنے اندر عطف وکرم کا شدید جذبہ رکھتی ہے۔ ان یہودیوں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جوں کا توں قبول کر لیا ہے جبکہ یہ قرارداد ان کے تمام مطالب کی تکمیل بھی نہیں کر رہی لہذا عرب قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کریں اور یہودی قوم سے اس معاملے میں پیچھے رہ جائیں۔
جلالۃ الملک! تاریخ آپ کا انتظار کر رہی ہے تاکہ آپ کا نام اس انداز میں رقم کیاجائے کہ شاہ عبد العزیز وہ بادشاہ ہے جنہوں نے اپنی حکمت اور اثر ورسوخ کے ذریعے سے اراضی مقدسہ میں امن وسلامتی کو قائم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ لہذا اپنی قوم کے لوگوں کو عالمی بائیکاٹ کی تکالیف سے بچا لیجیے اور مجبور ومظلوم اسرائیلی قوم کو سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کیجیے۔
میری جانب سے سلام، نیک تمنائیں اور پیشگی پرخلوص شکریہ۔
آپ کا مخلص
ہیری ٹرومین
ملک عبد العزیز آل سعود کی جانب سے جواب
شاہی محل، ریاض
۱۰ ربیع الثانی ۱۳۶۷ھ
عزت مآب جناب ہیری ٹرومین، صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ
معزز صدر!
آپ کا۱۰ فروری کو تحریر کردہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ نے میرے متعلق محبت اور الفت کے جو جملے اپنے خط میں تحریر کیے ہیں، ان پر میں آپ کا شکر گزار ہوں مگر اس بات کی صراحت بھی ضروری سمجھتا ہوں (کیونکہ صراحت اور کھری بات کرنا ہمارے آداب میں شامل ہے) کہ جوں جوں میں آپ کے خط کی عبارت سنتا رہا، اسی طرح میری حیرت اور استعجاب میں اضافہ ہوتا رہا کہ آپ نے کس طرح یہودی قوم کے باطل کو حق ثابت کرنے کی کوشش میں مجھ جیسے عربی بادشاہ کے بارے میں یوں بد گمانی کر لی جس کی اسلام اور عرب کے ساتھ وابستگی اور اخلاص کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ نے یہ تصور کر لیا کہ میں اپنی قوم کے حق کے مقابلے میں یہودیوں کے ساتھ ان کے باطل پر تعاون کروں گا۔ ہمارے دلوں میں فلسطین کا ایک مقام ہے۔ اس کی وضاحت میں ایک مثال کے ذریعے سے کروں گا۔
اگر کوئی ملک آپ کی کسی اسٹیٹ پر قبضہ کر لے اور اس کے دروازے دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والوں کے لیے کھول دے تاکہ وہ اس کو اپنا ملک بنا کر اس میں مقیم ہو جائیں اور جب امریکی عوام اس جبری قبضے کو ختم کرنے کی غرض سے اٹھ کھڑے ہوں اور ہم آپ سے دوستی اور سلامتی کے نام پر اس معاملہ میں مدد کے خواہاں ہو جائیں اور کہیں کہ امریکی قوم کے نزدیک آ پ اپنے مقام اور اثر ورسوخ کو استعمال کر کے امریکی قوم کو غیر ملکیوں کے ساتھ مقابلہ سے روکیں تاکہ یہ اجنبی قوم اپنا ملک قائم کر سکے اس طرح تاریخ بھی آپ صدر ٹرومین کو اپنے روشن صفحات میں امریکہ میں اپنی حکمت اور نفوذ کے ذریعے سے امن قائم کرنے والا کہے، اس وقت آپ کے دل میں ہمارے اس مطالبہ کا کیا رد عمل ہوگا؟
جناب صدر! عرب قوم میں میرے جس مقام ومرتبہ کا ذکر آپ نے کیا ہے، مجھے وہ مقام محض عرب اور اسلام سے شدید دلی وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ لہذا آپ مجھ سے ایسی بات کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں جو کسی ذمہ دار عرب کے لیے ناممکن ہے اور پھر فلسطین میں جاری جنگ کوئی داخلی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے بلکہ یہ اس کے اصل حق دار عرب قوم اور ان صہیونی جنگ جوؤں کے درمیان جاری لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے علی الرغم عالمی سلامتی کے قیام کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی منظور کردہ قرارداد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کروانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے، محض ظلم وناانصافی پر مبنی ایسی قرارداد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ملکوں نے نیز ان ملکوں نے بھی رد کر دیا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں لہذا حالیہ نتائج کے ذمہ دار عرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
میں اپنے ان مسلمان بھائیوں کے لیے انتہائی محبت اور شفقت کے جذبات رکھتا ہوں جو فلسطین میں صہیونی حملہ آوروں کے خلاف اپنے وطن کا دفاع کرتے ہوئے نذرانہ شہادت پیش کر رہے ہیں کیونکہ ہم عرب لوگ اس کو ایسا شرف سمجھتے ہیں جو ہمارے لیے قابل فخر ہے۔ ہم کسی بھی قیمت پر ان فلسطینی بھائیوں کی تائید سے دست بردار نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ صہیونی حملہ آوروں کے خوابوں کو چکنا چور نہ کر دیں۔ جہاں تک آپ نے باہمی اقتصادی مصلحتوں کا ذکر کیا ہے جن سے میرا اور آپ کا ملک جڑا ہوا ہے، تو یاد رکھیے کہ یہ اقتصادی مفادات میرے نزدیک پرِ کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے۔ میں ان اقتصادی مفادات کو قربان کر سکتا ہوں مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اس کے بدلے میں فلسطین کی ایک بالشت زمین بھی مجرم یہودیوں کے ہاتھوں فروخت کر دوں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہے کہ میں تیل کے ان کنووں کو بند کر سکتا ہوں۔ تیل کے یہ کنویں اللہ تعالیٰ کی وہ نعمتیں ہیں جو اس نے آج ہم پر جاری فرمائی ہیں لہٰذا ہم ان کو کبھی عذاب الٰہی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔ میں نے اس سے قبل کئی دفعہ ساری دنیا پر یہ بات واضح کر دی ہے کہ میں اپنے تمام بیٹوں سمیت فلسطین کے لیے لڑنے مرنے پر تیار ہوں۔ پھر اس کے باوجود میرے لیے تیل کے یہ کنویں میری اپنی جان اور میری اولاد سے کیسے عزیز تر ہو سکتے ہیں؟
قرآن مجید کہ جس پر ہمارا ایمان ہے، جو ہماری زندگی ہے اور جس پر ہم اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں، اس کتاب نے تورات اور انجیل کی طرح یہود قوم پر لعنت کی ہے۔ یہی قرآن مجید ہم پر اس امر کو فرض قرار دیتا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور مالوں کے ذریعے سے اس مقدس سرزمین کو یہودی دخل اندازی اور تسلط سے روکیں جس میں کوئی اور راستہ نہیں۔ اگر امریکی عیسائیوں اور ان کے دیگر حواریوں کے دینی عقیدہ کا تقاضا یہ ہے کہ وہ یہودیوں کو ان کے ناپاک قدموں کے ذریعے سے مقدس سرزمین کو ناپاک کرنے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں تو ہمارے دل بھی آج اس ایمان سے معمور ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس سرزمین کو یہودیوں سے پاک وصاف کریں۔
جس قسم کے الفت اور محبت اور جانب دارانہ تعلقات آپ کی حکومت نے یہودیوں سے استوار کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں عرب کے ساتھ جس طرح آپ نے اپنی دشمنی کا اظہار کیا ہے، یہی ایک بات کافی ہے کہ ہم آ پ کے ساتھ خیر سگالی کے تعلقات کو منقطع کر دیتے، امریکی کمپنیوں کے ہمارے ساتھ کیے گئے تمام معاہدوں کو منسوخ قرار دے دیتے لیکن ہم نے اس لیے جلد بازی سے کام لینا مناسب نہیں سمجھا کہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ کا ملک فلسطین کے موقف پر نظر ثانی کرے گا اور واضح باطل کی تائید سے کنارہ کش ہو کر واضح حق کا ساتھ دے گا۔ہم اس معاملہ میں آپ پر کوئی دباؤ ڈالنا نہیں چاہتے، نہ اس کے لیے تجارتی تعلقات کو ذریعہ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہم عربی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حق کو بذریعہ حق غالب کیا جائے نہ کہ ان یہودیوں کی طرح جو رشوت دے کر مختلف ملکوں کو اپنی تائید پر ابھارنے کی کوشش میں ہیں۔ مگر اس کے باوجود جب ہمیں اس بات کا یقین ہو جائے کہ حق کو کیوں پامال کیا جا رہا ہے تو ہم اس کے تحفظ کے لیے ہر وہ وسیلہ اختیار کریں گے جو اس میں موثر ثابت ہوگا۔ خصوصاً عرب لیگ قومیت اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لیے جو تجویز بھی منظور کرے گی، ہم اس کی تائید میں ہوں گے۔
یقیناًیہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ جو امریکی ہمارے ملک میں مقیم ہیں، وہ ہمارے مہمان ہیں۔ جب تک وہ ہماری سرزمین میں ہیں، انہیں ہماری جانب سے کوئی شکایت یا تکلیف نہیں ہوگی۔ آپ اس بات کا اطمینان رکھیں۔ سب سے زیادہ اگر ان کو کوئی تکلیف پہنچ سکتی ہے تو یہی کہ ہمارے ملک میں ان کے قیام کی مدت کو مختصر کر کے پوری عزت واکرام کے ساتھ ان کے حقوق کی حفاظت کرتے ہوئے ان کے ملک امریکہ واپس بھجوا دیں۔
اخیر میں صاحب صدر! میں آپ کو یاد دلاتا چلوں کہ جن تجارتی اشیا کی بنیاد پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات قائم ہیں، یہ وہ مال ہے کہ دنیا کی مارکیٹ میں ا س کے فروخت کرنے والے بہت کم ہیں لیکن اس کے خریدنے والے بہت زیادہ۔
صاحب صدر! میری نیک تمنائیں اور آداب قبول فرمائیں۔
مخلص عبد العزیز آل سعود
ملک المملکۃ العربیۃ السعودیۃ
(ماہنامہ ’’الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ جنوری ۲۰۰۲ء بحوالہ ماہنامہ ’’دارالسلام‘‘ مالیر کوٹلہ، بھارت)
یہودیوں کی طوطا چشمی
طلال خان ناصر
(مضمون نگار کی یونیورسٹی اسائنمنٹ کا ایک حصہ)
آج کے زمانے میں یورپ کی مسیحی اقوام اور یہودیوں کے درمیان موجودہ اتحاد کے پس منظر میں یہ بات دلچسپ ہے کہ پچھلے دو ہزار سال میں یہودیوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے میں یورپ کی ہی مسیحی اقوام سب سے آگے تھیں۔ رومی دور میں یروشلم سے یہود کو جلاوطن کرنے سے لے کر صلیبی جنگوں میں یہود کا قتل عام کرنے والے عیسائی تھے۔ پھر مسلم اندلس کے زوال کے وقت ملکہ ازابیلا کی جبراً عیسائی بنانے کی ریاستی مہم کا شکار ہونے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ یہودی بھی شامل تھے۔
’’یہودیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ مسلمان ریاستیں ہوتی تھیں۔ خود یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اچھی دو پناہ گاہیں میسر تھیں:
- اندلس میں مسلمانوں کی حکمرانی تھی، وہ ہماری پناہ گاہ تھی، وہاں ہمیں خرچہ اور تحفظ بھی مل جاتا تھا۔
- اور اس کے بعد خلافت عثمانیہ کے بارے میں غیر جانبدار اور معتدل یہودی مؤرخین اعتراف کرتے ہیں کہ وہ اپنے پورے دور میں یہود کی پناہ گاہ تھی۔ عیسائی ان کو اٹلی، برطانیہ، فرانس میں مارتے اور یہ قسطنطنیہ، ترکی میں آ جاتے۔‘‘ (چند معاصر مذاہب کا تعارفی مطالعہ ۔ ص ۲۸۔ فروری ۲۰۲۴ء)
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ عیسائیوں کے ہاتھوں صدیوں ظلم سہنے اور مسلمانوں کے پاس پناہ گزین ہونے والے یہود نے کیسے طوطا چشمی کا مظاہرہ کر کے اپنے محسن مسلمانوں کے خلاف اپنے پرانے دشمن عیسائیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے خلافت عثمانیہ کے زوال کے دور یعنی بیسیوں صدی کے پہلے بیس سال کی تاریخ دیکھنا ضروری ہے۔ اس دور میں سلطان عبد الحمید ثانیؒ خلافت عثمانیہ حکمران تھے۔ فلسطین کے بارے میں عثمانیوں کا قانون یہ تھا کہ یہودیوں کو اپنے مقدس مقامات کی زیارت اور بیت المقدس میں عبادت کی اجازت تھی لیکن فلسطین میں زمین خریدنے اور آباد ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ خلافت کے آخری چند سالوں میں یہود کی عالمی تنظیموں نے سلطان عبد الحمید سے بارہا فلسطین کے علاقے میں آباد ہونے کی اجازت مانگی۔
’’سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا ہے کہ یہودی کی عالمی تنظیم کے سربراہ ہر تزل نے متعدد بار ان سے خود ملاقات کر کے خواہش ظاہر کی کہ وہ فلسطین میں زمین خرید کر محدود تعداد میں یہودیوں کو آباد کرنا چاہتے ہیں مگر سلطان مرحوم نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ حتیٰ کہ ایک بار ہرتزل نے سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے سامنے چیک بک رکھ کر منہ مانگی رقم دینے کی پیشکش کی جس کے جواب میں سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم نے انتہائی تلخ لہجے میں ہرتزل کو ڈانٹ دیا اور اس سے کہا کہ میری زندگی میں ایسا نہیں ہو سکتا اور اس کے بعد وہ ہرتزل سے ملاقات کے لیے بھی تیار نہیں ہوئے ۔ سلطان عبدالحمید ثانی مرحوم کے خلاف اس کے بعد تحریک چلی اور انہیں خلافت سے معزول کر کے نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ان کے خلاف ترکی میں چلنے والی تحریک اور ان کی معزولی میں یہودیوں کا ہاتھ تھا اور انہیں خلافت سے معزولی کا پروانہ پہنچانے والوں میں ترکی کی پارلیمنٹ کا یہودی ممبر بھی شامل تھا۔ ‘‘ (مولانا زاہد الراشدی۔ روزنامہ اسلام لاہور ۔ ۲۶ جون ۲۰۰۲ء)
جب سلطان عبد الحمید کے ساتھ مذاکرات میں یہود کو دال گلتی نظر نہ آئی تو یہود کی عالمی تنظیم نے برطانیہ کا رخ کیا اور ایک معاہدے کے تحت جنگ عظیم اول میں جرمنی اور عثمانی ترکوں کے خلاف برطانویوں کے ہونے والے مالی نقصان کی تلافی کا وعدہ کیا۔ جنگ میں عثمانیوں کی شکست کے بعد فلسطین کا علاقہ برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا اور یہود کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت ایک برطانوی یہودی کو فلسطین کا گورنر بنا کر پوری دنیا کے یہودیوں کو فلسطین میں لا کر بسانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اس معاہدے پر اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور کے دستخط ہوئے جس بنا پر یہ معاہدہ بالفور ڈکلیریشن کہلاتا ہے۔ ۱۹۱۷ء میں بالفور معاہدے سے لے کر ۱۹۴۸ء میں اسرائیل بننے تک فلسطین ایک برطانوی نوآبادی رہا ہے۔
رفح
ہلال خان ناصر
رفح فلسطینیوں کیلئے چھوڑے گئے چند علاقوں میں سے وہ علاقہ جو فلسطین کے جنوب میں مصر کے ساتھ ۲۵ مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد جہاں کہیں اسرائیل نے حملہ کیا، ادھر کے شہریوں کو جنوب کی طرف ہانک دیا کہ وہاں بمباری سے نجات ملے گی اور اس وقت الجزیرہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۱۴ سے ۱۵ لاکھ کے درمیان فلسطینی اس علاقے میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔ نجات فی الوقت تو ملتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اس علاقے پر حملے کا اعلان کیا جس کی وجہ یہاں پر چھپے چند حماسی مجاہدین کا خاتمہ بیان کی گئی اور حملے سے پہلے فلسطینی عوام کو ایک ”محفوظ مقام“ پر منتقل کرنے کے پلان کا بھی دعویٰ کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے محفوظ مقام چھوڑا کدھر ہے؟ فلسطینیوں کیلئے فلسطین کی اسرائیل کے ساتھ ملتی حدود سے خان یونس تک تباہی، اور رفح سے آگے مصر کی حدود جس نے اپنی ”بارڈر سکیورٹی“ کیلئے ۴۰ کے قریب ٹینک بارڈر پر ’’خوش آمدید‘‘ کہنے کیلئے تیار کر رکھے ہیں۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا کا اس مسئلے پر یہی رویہ نظر آ رہا ہے۔ امریکہ، فرانس اور برطانیہ سمیت بہت سے مغربی ممالک نے قولیہ تو اس اعلان کی ”شدید“ مزاحمت کی ہے، مگر فعلیہ بدستور اسرائیل کو ہتھیار اور حمایت جاری ہے۔ اس وقت بھی امریکہ میں اسرائیل کو ۱۴ بلین ڈالر کی سپورٹ فراہم کرنے کا بل امریکی سینیٹ میں زیر بحث ہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے فلسطین میں قائم کیے گئے رفاہی کیمپ(UNRWA) پر اسرائیلی وزیر اعظم نے بغیر ثبوت کے الزام لگایا کہ طوفان الاقصی ٰمیں ان کیمپ کے چند ملازمین نے حماس کا ساتھ دیا تھا اور الزام کے فوراً بعد یورپ اور امریکہ کی طرف سے اس ادارے کی امداد کھینچ لی گئی۔ اس کے برعکس انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے اسرائیل کی طرف سے ڈھائے جانے والے مظالم کی تصدیق کی مگر اسرائیل کو بدستور اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے متعلقہ ایک ویڈیو نظر سے گزری جس میں ایک آدمی نے ایک اسرائیلی افسر سے سوال کیا کہ عام عوام کی موجودگی میں فلسطین کے ہسپتالوں میں بمباری کیوں کی جا رہی ہے؟ جس پر اسرائیلی افسر نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اس بات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ ان ہسپتالوں میں حماس کے دہشت گرد چھپے ہوئے ہیں۔ سوال کرنے والے نے دوسرا سوال کیا کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ یہی حماس کے دہشت گرد اسرائیل کے کسی شہر میں گھس آئے ہوتے، اور اسرائیل کے کسی ہسپتال میں چھپ جاتے تو کیا تب بھی اسرائیل کا رد عمل یہی بمباری ہوتی؟ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اسرائیلی افسر کا جواب نفی میں آیا۔
ایک طرف پورا مغرب اسرائیل کی پشت پر ، دوسری طرف فلسطینیوں کیلئے ایران کے خالی وعدے اور مصر کے بند بارڈر۔ سعودیہ کا تو اللہ ہی حافظ اور پاکستان اپنے ایٹم بموں کا محافظ۔ اللہ تعالیٰ رفح کی خبروں کو ”سانحہ رفح“ کی خبریں ہونے سے پہلے عالم اسلام کے حکمرانوں کو ہوش میں آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
ایامِ حج و زیارتِ مدینہ کی یاد میں
سید سلمان گیلانی
کس منہ سے کروں شکر ادا تیرا خدایا
اک بندۂ ناچیز کو گھر اپنا دکھایا
واللہ اس اعزاز کے قابل میں کہاں تھا
یہ فضل ہے تیرا کہ مجھے تو نے بلایا
جس گھر کے ترے پاک نبی نے لیے پھیرے
صد شکر کہ تو نے مجھے گرد اس کے پھرایا
لگتا نہ تھا دل اور کسی ذکر میں میرا
لبیک کا نغمہ مجھے اس طرح سے بھایا
مزدلفہ وعرفات ومنیٰ وصفا مروہ
ہر جا تری رحمت نے گلے مجھ کو لگایا
ہوتی رہی بارش تری رحمت کی بھی چھم چھم
مجھ کو بھی بہت میری ندامت نے رلایا
محشر میں بھی رکھ لینا بھرم اپنے کرم سے
جیسے میرے عیبوں کو ہے دنیا میں چھپایا
محشر میں بھی کوثر کا مجھے جام عطا ہو
جیسے یہاں پانی مجھے زم زم کا پلایا
جیسے یہاں سایہ ترے کعبے کا ملا ہے
محشر میں بھی حاصل ہو ترے عرش کا سایا
مت پوچھیے مکے میں جو گزرے مرے ایام
ہر آن نیا کیف نیا لطف اٹھایا
مکے سے مدینے کے سفر کو جو میں نکلا
بے نام سا اک خوف تھا دل پر مرے چھایا
ہمت نہیں پاتا تھا کروں سامنا ان کا
ہر پل تو بغیر ان کی اطاعت کے گنوایا
وہ تو کہو یاد ان کا کرم آ گیا مجھ کو
ہر رنج والم دل سے لگا اس نے مٹایا
رفتار تھی اس شوق کی پھر دیکھنے والی
خود سے بھی قدم دو قدم آگے اسے پایا
ہونٹوں پہ درودوں کے مچلنے لگے نغمے
جب دور سے ہی گنبد خضرا نظر آیا
کچھ عرض زباں سے تو وہاں کرنا ہے مشکل
حال اپنا بس اشکوں کی زبانی ہی سنایا
جتنا بھی کروں ناز مقدر پہ وہ کم ہے
سرکار نے اپنا مجھے مہمان بنایا
سلمان مرے دل میں جو کعبے کے ہیں جلوے
آنکھوں میں مری گنبد خضرا ہے سمایا
’’صہیونیت اور اسرائیل کا تاریخی پس منظر‘‘
مولانا حافظ کامران حیدر
اللہ رب العزت نے جانشینِ امام اہلسنتؒ حضرت مولانا ابو عمار زاہد الراشدی دامت فیوضہم کو جن گوناگوں اوصاف اور ہمہ جہت دینی خدمات سے متصف فرما رکھا ہے وہ اہلِ علم و اہلِ نظر سے مخفی نہیں۔ بحمد اللہ تعالیٰ راقم الحروف کو گزشتہ دس سال سے حضرت استاذ گرامی کے مواعظ و محاضرات ضبط و تحریر کرنے کی سعادت حاصل ہے، اس سے قبل کئی مجموعے چھپ چکے ہیں۔ ’’خلافتِ اسلامیہ اور پاکستان میں نفاذِ شریعت کی جدوجہد‘‘ کے عنوان سے ایک مجموعہ مرتب ہو چکا ہے جو عنقریب منظر عام پر آ جائے گا، ان شاء اللہ۔
حالیہ اسرائیل فلسطین کشیدگی کے تناظر میں ہونے والے بیانات سمیت اس عنوان پر گزشتہ بیانات کو یکجا کرتے ہوئے زیرِ نظر مجموعہ ترتیب دیا گیا ہے، جس میں یہودیت کے آغاز سے لے کر آج تک کی تاریخ، مسلم یہودی تعلقات کی نوعیت، اسرائیلی ریاست اور مسئلہ فلسطین کے پس منظر اور حالیہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے پیش منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
میں حضرت الشیخ مدظلہ کا دل کی گہرائی سے شکر گزار ہوں کہ اعتماد اور حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اس خدمت کے لیے میرا انتخاب فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھیں، انہیں صحت و عافیت کے ساتھ امت اور قوم کی رہنمائی کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں اور ہمیں ان کے افادات سے کما حقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
الشریعہ اکادمی اور مکتبہ ختمِ نبوت کا شکر گزار ہوں کہ اس مجموعہ کی اشاعت کا اہتمام کر کے اس کی افادیت کو عام کیا، اور محترم حافظ شاہد الرحمٰن میر صاحب کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جن کی ترغیب و تحریض سے حالیہ تمام بیانات شاملِ اشاعت کرنے کا حوصلہ بڑھا، بلکہ انہی کے توسط سے اکثر بیانات میسر آئے۔ ان میں سے تکرار کو حذف کرتے ہوئے موضوع میں تسلسل اور روانی پیدا کرنے کی کوشش کے ساتھ کتاب کی تصحیح میں حتی المقدور پوری سعی کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود تقریر سے تحریر میں منتقل کرتے ہوئے غلطی کا امکان موجود ہے، جس کی نسبت مرتب کی طرف کی جائے۔ نیز قارئین سے التماس ہے کہ دورانِ مطالعہ جہاں غلطی محسوس کریں تو مرتب یا ناشر کو ضرور مطلع فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو قبول فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
Election 2002: Our Expectations from Muttahida Majlis-e-Amal
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(Excerpt from an interview published in the December 2002 issue of the monthly "Youth Contact" Gujranwala.)
Question: What are your impressions about the success of Muttahida Majlis-e-Amal in the recent general elections of Pakistan?
Answer: I think Muttahida Majlis-e-Amal was well received by the public for two reasons. One is because of their unity that the history of half a century of Pakistan is a witness that whenever religious circles and religious schools of thought have united and raised the voice of the nation for a common cause, the nation has never disappointed them. The second reason is the apocalypse that the US and its allies have made in Afghanistan over the past year to topple the Islamic government of the Taliban, and impose their own puppet government. And the shameful way in which the people of Afghanistan have been subjected to brutality and terrorism, the people of Pakistan, especially the people of Frontier Province and Balochistan, have expressed their hatred and anger against them in the election, and with it they also gave a practical answer to the negative propaganda of the elements who were saying that religious parties in Pakistan do not get the support of the people. I think America and all its allies should learn a lesson from this and read the inscription and review their policies and practices.
Question: What do you expect from Muttahida Majlis-e-Amal regarding national politics?
Answer: In my opinion, the Muttahidda Majlis-e-Amal should not have participated in the power struggle at the federal level. They should have concentrated all their attention on protecting the constitutional foundations of the 1973 Constitution. At present, the most prominent and strong voice in the country for the protection of the real democracy and the foundations of the 1973 constitution is Muttahida Majlis-e-Amal. It would have been better if this voice had not been mixed with the desire for power and ministries. However, it is still a good thing that the Muttahidda Majlis-e-Amal has announced not to negotiate on the principles. I pray that Allah Ta'ala blesses the Muttahida Majlis-e-Amal with persistence and success on this principled stand. However, my opinion in this regard is that:
✦ It should stay away from the power game at the federal level, and sit in the opposition and express the sentiments of the people.
✦ The government of Muttahida Majlis-e-Amal in Frontier Province should present a model of Islamic governance with the solution of people's problems, which is a beacon for other provinces, and the people of other provinces should also find themselves forced to give Muttahida Majlis-e-Amal a chance in the next election.
✦ Muttahida Majlis-e-Amal got these votes with the blessing of the blood of the oppressed people of Afghanistan. And these votes have been received due to strong opposition to global colonial powers. Therefore, there should not be any flexibility in the stance and practical role of the Muttahidda Majlis-e-Alam in this regard.
✦ The unity of religious schools of thought should be maintained at all costs. Its scope should be expanded with mutual self-sacrifice and trust. And one should always be alert that the most effort by the opponents will be to put cracks in this unity and mutual trust in one way or another.
✦ The government of the Muttahida Majlis-e-Amal in the Frontier Province should establish an academic commission to study the recommendations of the Islamic Ideological Council closely, separate the recommendations related to the provincial powers from them, and suggest methods for their practical implementation.
✦ The ministers of the Muttahida Majlis-e-Alam should set an example of simplicity, contentment, and frugality, detaching themselves from the desires of protocol and prestige, and illustrate by their actions how the ministers of an Islamic government function.
(Translated with Google Translate)
الشریعہ — اپریل ۲۰۲۴ء
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلس عاملہ کا اجلاس
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس (۱۰ مارچ ۲۰۲۴ءکو) مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں صوبائی امیر مولانا مفتی محمد نعمان پسروری کی زیرصدارت منعقد ہوا۔
مہمان خصوصی پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے شرکاء اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال کے تمام تغیرات کے باوجود ہم اپنے مشن پر کھڑے ہیں اور وطنِ عزیز میں نفاذِ شریعت، ختمِ نبوت کے تحفظ، قومی خودمختاری کی بحالی، ملکی سالمیت اور دستورکی بالادستی، قومی اور ملی وحدت کو اپناتے ہوئے غیر اسلامی روایات کی روک تھام کی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔ وطن عزیز کے اسلامی تشخص اور دستور کی اسلامی دفعات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔ قادیانیوں کے متعلق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے حالیہ ریمارکس پہ بھرپور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ریمارکس کی آئین اور قانون کی روشنی میں وضاحت کریں۔ ختم نبوت کے حوالے سے طے شدہ دستوری فیصلہ جات کو چھیڑنے سے اجتناب کیا جائے۔ حالیہ متنازعہ فیصلہ پر احتجاج کے بعد سپریم کورٹ نے جن دینی اداروں، یا جماعتوں سے راہنمائی کے لیے رابطہ کیا ہے انہیں چاہیے اس مسئلہ کی حساسیت کے پیش نظر باہمی رابطہ اور مشاورت کے بعد ایک مضبوط موقف اختیار کیا جائے۔ فلسطین کی موجودہ صورت پہ اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے امیر مرکزیہ مفتی محمد رویس خان ایوبی کے یکجہتئ فلسطین کے حوالے سے حالیہ دنوں میں جاری ہونے والے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ علامہ راشدی نے علماء کرام، خطباء اور تمام طبقات کے نمائندگان سے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ہر سطح پر آزادئ مسجد اقصٰی کی صدا بلند کرنے کی ضرورت پہ زور دیا۔ امتِ مسلمہ کے نمائندہ ملکوں کے سربراہان کی خاموشی قابل تشویش ہے۔
پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ’’یکجہتی فلسطین اور آزادی مسجد اقصٰی‘‘ کے حوالے سے بھرپور طریقے سے منایا جائے گا، اور مضبوط عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے زیرِ اہتمام یکم اور ۲ جون کو مری میں دو روزہ صوبائی ورکر کنونشن منعقد کیا جائے گا۔
اجلاس میں مولانا عبیداللہ عامر، قاری محمد عثمان رمضان، مفتی نعمان احمد، مولانا امجد محمود معاویہ، مولانا عبید الرحمن معاویہ، مولانا عبد الواحد قریشی، مولانا محمد جاوید، مولانا عمیر چنیوٹی، مولانا قاسم عباسی، مولانا عبد الرؤف محسن، مولانا ذوالفقار عباسی، حکیم محمد ارشد، مولانا فضل الہادی، صاحبزادہ نصر الدين خان عمر، مولانا خبیب عامر، مولانا زبیر جمیل، عبد القادر عثمان، مولانا شیراز نوید، حافظ شاہد میر، حافظ عبد الجبار، صہیب عامر، فضل اللہ راشدی اور دیگر نے شرکت کی۔
احکام القرآن،عصری تناظر میں
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
الحمد للہ ۵ مارچ کو الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورہ تفسیر قرآن کریم کی سالانہ کلاس تکمیل پذیر ہوئی۔ یہ سلسلہ گزشتہ ڈیڑھ عشرہ سے جاری ہے اور کرونا کے دور میں کچھ وقفہ کے ساتھ یہ بارہویں کلاس تھی۔ ۱۰ فروری سے اس کا آغاز ہوا اور ملک کے مختلف حصوں سے فضلاء اور طلبہ نے اس میں شرکت کی۔ ہمارے ہاں ترجمہ و تشریح کے ساتھ قرآن کریم سے متعلقہ دیگر ضروری معلومات بھی کورس کا حصہ ہوتی ہیں اور مختلف اساتذہ ان کی تدریس کے فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ اس سال کورس کے مضامین میں (۱) احکام القرآن عصری تناظر میں (۲) قرآنی جغرافیہ اور فلکیات (۳) قرآن پاک کے حوالے سے مستشرقین کی سرگرمیوں کا تعارف (۴) قرآن و سنت کا باہمی تعلق (۵) مروجہ قانونی نظام کا تعارف وغیر ذٰلک، جبکہ اساتذہ میں راقم الحروف کے علاوہ ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا حافظ فضل الہادی، مولانا حافظ محمد یوسف، ڈاکٹر معظم محمود بھٹی ایڈووکیٹ، مولانا محفوظ الرحمٰن، ڈاکٹر حافظ وقار احمد، مولانا ظفر فیاض، اور ڈاکٹر حافظ سمیع اللہ فراز شامل تھے۔
میرے ذمے (۱) سورۃ البقرہ کا ترجمہ و تشریح اور (۲) احکام القرآن عصری تناظر میں کے دو مضمون تھے جو بحمد اللہ تعالیٰ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختصراً شرکاء کے گوش گزار کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ احکام القرآن میں میرا ذوق آج کے عالمی نظام و قوانین میں قرآن کریم اور شریعتِ اسلامیہ کے جو احکام و قوانین قابل اعتراض سمجھے جاتے ہیں، اور ہم سے جن احکام و قوانین میں ردوبدل کا مطالبہ کیا جاتا ہے، ان سے علماء کرام کو متعارف کرانا اور اس سلسلہ میں اپنا موقف واضح کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں اس سال جن قوانین کا تذکرہ کیا گیا وہ بالترتیب مذکور ہیں:
- قصاص کو قرآن کریم نے حکم اور فرض کے درجہ میں بیان فرمایا ہے اور معاشرہ میں قصاص کے قانون کے نفاذ کو امن اور زندگی کے تحفظ کا ذریعہ بتایا ہے۔ جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے مطالبہ کیا ہے کہ کسی بھی جرم میں مجرم کو موت کی سزا نہ دی جائے۔ جس کی بنیاد پر عالمی حلقوں کا ہم سے مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ نہ صرف قصاص بلکہ کسی بھی جرم میں موت کی سزا کو قانونی نظام میں ختم کر دیا جائے۔
- مرد اور عورت کی مساوات کے عنوان سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیہ کے حوالے سے یہ مطالبہ ہے کہ خاندانی نظام میں مرد اور عورت کے لیے طلاق کا یکساں حق تسلیم کیا جائے۔ جس پر ہم نے ۱۹۶۲ء میں نکاح کے فارم میں ’’تفویضِ طلاق‘‘ کا سوال شامل کر کے عالمی اداروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب ثابت نہیں ہوئی، اور مسلسل دباؤ بڑھنے پر اب ہمارے قانونی نظام میں ’’خلع‘‘ کو عورت کے مساوی حقِ طلاق کا درجہ دے کر اس کے مطابق عمل کیا جا رہا ہے۔
- وراثت میں مرد اور عورت کے حصوں میں فرق کو عورت اور مرد میں مساوات کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ جس پر سندھ ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ بھی ریکارڈ میں موجود ہے کہ انسانی حقوق کے مسلّمہ بین الاقوامی اصولوں کے مطابق مردوں اور عورتوں کو وراثت میں برابر حصہ دینا ضروری ہے۔
- زنا کو قرآن کریم نے مطلقاً جرم بلکہ سنگین جرم قرار دے کر اس کی سب سے سخت سزا مقرر فرمائی ہے۔ جبکہ عالمی قوانین کے مطابق صرف جبری زنا جرم ہے اور باہمی رضامندی سے کیا جانے والا زنا جرم نہیں ہے اور اسے قابلِ سزا قرار دینا عالمی قوانین کے مطابق قابل اعتراض ہے۔
- ہم جنس پرستی قرآن کریم اور شریعتِ اسلامیہ کی رو سے سنگین جرائم میں شامل ہے اور اس پر سخت سزا مقرر کی گئی ہے۔ جبکہ انسانی حقوق کے مروجہ نظام میں ہم جنس پرستی جرائم کی بجائے حقوق کے دائرہ میں شامل ہے۔
- قرآن کریم نے مجرم کو سر عام سزا دینے کی تلقین فرمائی ہے۔ مگر آج کے عالمی نظام میں کسی بھی جرم میں دی جانے والی سزا کو جسمانی تشدد اور مجرم کی تذلیل و توہین سے خالی رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے ہماری سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ریکارڈ میں موجود ہے کہ کسی مجرم کو سرعام سزا نہ دی جائے۔
- کوڑے مارنے اور قصاص میں جسمانی اعضا کاٹ دینے کی سزا جسمانی تشدد کے دائرے میں آتی ہے، اس لیے وہ بھی قابل اعتراض ہے اور ہم سے ایسی تمام سزائیں ختم کرنے کا بار بار مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
- حلال و حرام کے حوالے سے قرآنی احکام اور آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر کسی چیز کو حرام قرار دینا مروجہ عالمی نظام کے لیے قابل قبول نہیں ہے، اس لیے معیشت و تجارت اور عمومی استعمال کے کسی دائرہ میں قرآنی احکام پر عمل کو ضروری نہیں سمجھا جاتا، اور عالمی معاشی و تجارتی نظام و ماحول اس کی مکمل حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
- حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مذہبی طور پر قابل احترام شخصیات و مقامات اور شعائر کی توہین اسلام میں سنگین جرم ہے۔ مگر مروجہ عالمی نظام میں اسے آزادئ رائے میں مداخلت قرار دے کر اس حوالے سے رائج قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
- قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر امتِ مسلمہ کا حصہ تسلیم نہ کرنا اور پاکستان میں انہیں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینا آج کے عالمی نظام میں آزادئ مذہب کے منافی قرار دیا جا رہا ہے اور ملک کے دستور و قانون سے اسے ختم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، وغیر ذٰلک۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے قرآنی احکام و قوانین عالمی فلسفہ و نظام کے حوالے سے قابل اعتراض ہیں جن سے دینی مدارس اور یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات کو کم از کم آگاہ کرنا اور اس کی وضاحت کرنا اہلِ علم کی ذمہ داری ہے۔
مرتد کی سزا کی بحث
مرتد کی سزا قتل کو متنازعہ بنانے کے لیے قانونی موشگافیوں کے سہارے نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے۔ یہ بحث قیام پاکستان سے قبل مرزا غلام احمد قادیانی کے لاہوری پیروکاروں کے امیر مولوی محمد علی نے چھیڑی تھی جس پر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اپنے رسالہ ’’الشہاب‘‘ میں تفصیلی نقد کیا تھا اور ثابت کیا تھا کہ مرتد کی سزا شرعاً قتل ہے اور یہ ’’حدِّ شرعی‘‘ ہے۔ اہل علم کے لیے اس رسالہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ ایک صاحب نے اس حوالے سے یہ کہہ کر مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ارتداد پر قتل کی سزا خدائی حکم نہیں ہے بلکہ فقہاء کرام اور قانون دانوں کی صوابدید کے مطابق یہ ’’تعزیری سزا‘‘ ہے جسے تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ
- بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا شروع کی کر دی تھی ان کی سزا ’’فاقتلوا انفسکم‘‘ کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اور اس پر حضرت موسٰی علیہ السلام نے عمل کیا تھا۔
- پھر بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعئ نبوت مسیلمہ کذاب کا خط لانے والے اس کے دوپیروکاروں سے فرمایا تھا کہ تم مجھے رسول ماننے کے بعد مسیلمہ کو بھی رسول مانتے ہو اس لیے ’’لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما‘‘ اگر سفیروں کو قتل کرنے کا معروف ضابطہ نہ ہوتا تو میں تم دونوں کی گردنیں اڑا دیتا۔ جس کا مطلب واضح ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ ماننے کے بعد ایک اور شخص کو بھی خدا کا رسول ماننے لگے تھے جس پر وہ قتل کی سزا کے مستحق ہو گئے تھے، البتہ کسی قوم کا سفیر ہونے کی وجہ سے انہیں قتل نہیں کیا گیا تھا۔ جبکہ ان میں سے ایک شخص ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں امام بیہقیؒ کی بیان کردہ روایت کے مطابق حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں کوفہ میں گرفتار ہوا تھا اور اپنے اسی سابقہ عقیدہ کے دوبارہ اظہار اور اس سے توبہ کرنے سے انکار کی وجہ سے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے حکم پر قتل کر دیا گیا تھا۔
کیا قانون کا غلط استعمال اسے ختم کر دینے کا جواز بنتا ہے؟
مذہب، مذہبی شخصیات و مقامات اور مذہبی اقدار و روایات کی توہین کو جرم تسلیم کرنے کی بجائے آزادئ رائے کی علامت قرار دیا جا رہا ہے اور اقوام متحدہ کے متعلقہ شعبہ کی طرف سے پاکستان سے باقاعدہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ توہینِ مذہب کے قوانین کو ختم کر دیا جائے۔
یہ سوال اپنی جگہ مستقل ہے کہ اگر عام انسان کی توہین جرم ہے اور کسی بھی ملک کے عام شہری کی توہین جرم ہے تو مذہبی شخصیات کی توہین کیوں جرم نہیں؟ مگر اس سے ہٹ کر بعض حضرات کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ چونکہ اس قانون کا غلط استعمال بھی ہو جاتا ہے اس لیے اسے ختم کر دینا چاہیے۔ یہی بات مغرب کی طرف سے خود مذہب کے بارے میں کہی جاتی ہے کہ چونکہ بعض لوگ مذہب کا غلط استعمال کرتے ہیں اس لیے مذہب کے معاشرتی کردار کو ختم کر دینا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ اگر کسی قانون کا غلط استعمال اسے ختم کر دینے کی دلیل یا جواز ہے تو پاکستان میں دیگر بہت سے قوانین کی طرح اقدامِ قتل سے متعلق دفعات 302 اور 307 کا بھی عام طور پر باہمی دشمنیوں میں غلط استعمال ہوتا ہے، تو کیا یہ قانون ختم کر کے قتل کو بھی جرائم کی فہرست سے نکال دینا چاہیے؟
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۱)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(486) وَإِذْ قَالَتْ أمَّةٌ مِنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا
اصحاب سبت کے واقعہ کے سلسلے میں جب درج ذیل تین آیتوں پر غور کریں تو تین سوالات سامنے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہاں بنی اسرائیل کے کتنے گروہوں کا ذکر ہے، دوسرا یہ کہ عذاب کن گروہوں پر آیا اور تیسرا یہ کہ عذاب کتنی بار آیا۔ ان سوالوں کا جواب لوگوں نے ترجمے میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِنْہُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا اللَّہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَی رَبِّکُمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ۔ فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ أَنْجَیْنَا الَّذِینَ یَنْہَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِینَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَئِیسٍ بِمَا کَانُوا یَفْسُقُونَ۔ فَلَمَّا عَتَوْا عَنْ مَا نُہُوا عَنْہُ قُلْنَا لَہُمْ کُونُوا قِرَدَةً خَاسِئِینَ۔ (الاعراف: 164 - 166)
”اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا تھا کہ ”تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے“ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم یہ سب کچھ تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور اس امید پر کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ پھر جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہو جاؤ ذلیل اور خوار“۔ (سید مودودی، اس ترجمے کی رو سے تین گروہ تھے، ایک نافرمانی کرنے والے، دوسرے خاموشی اختیار کرنے والے اور تیسرے برائی سے روکنے والے۔ اول الذکر دو گروہوں پر عذاب آیا اور دو بار عذاب آیا۔)
”اور جب ان میں سے ایک جماعت نے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کو اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت عذاب دینے والا ہے تو انہوں نے کہا اس لیے کہ تمہارے پروردگار کے سامنے معذرت کرسکیں اور عجب نہیں کہ وہ پرہیزگاری اختیار کریں۔ جب انہوں نے ان باتوں کو فراموش کردیا جن کی ان کو نصیحت کی گئی تھی تو جو لوگ برائی سے منع کرتے تھے ان کو ہم نے نجات دی اور جو ظلم کرتے تھے ان کو برے عذاب میں پکڑ لیا کہ نافرمانی کئے جاتے تھے۔ غرض جن اعمال (بد) سے ان کو منع کیا گیا تھا جب وہ ان (پراصرار اور ہمارے حکم سے) گردن کشی کرنے لگے تو ہم نے ان کو حکم دیا کہ ذلیل بندر ہوجاؤ“۔ (فتح محمد جالندھری، اس ترجمے کی رو سے عذاب ایک بار آیا)
اس سلسلے میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پہلی آیت میں أُمَّةٌ مِنْہُمْ کہہ کر ایک ہی گروہ کا ذکر ہوا ہے۔ اس گروہ نے یہ بات اپنے سے مختلف کسی دوسرے گروہ سے کہی تھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے اس بات کا امکان ہے کہ یہ ایک گروہ کی باہم گفتگو ہو۔ اللَّہُ مُہْلِکُہُمْ أَوْ مُعَذِّبُہُمْ عَذَابًا شَدِیدًا کی تعبیر بتارہی ہے کہ یہ بات کہنے والے اللہ کے عذاب کے سلسلے میں گہرا شعور رکھتے تھے، اللہ کے عذاب سے لاپروا قسم کے لوگ نہیں تھے۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اپنی قوم کی نافرمانیوں سے شدید نفرت اور بیزاری بھی رکھتے تھے اور ان کے عمل سے قطعًا راضی نہیں تھے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ اس قوم کی نافرمانیوں کے خلاف تحریک چلانے والوں کی باہمی گفتگو ہے۔ اس تحریک کے کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ اب ماننے والے نہیں ہیں انھیں سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، اب اللہ کا عذاب ان کا مقدر ہوچکا ہے، اس پر ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم لوگوں کو اپنا کام کرتے رہنا چاہیے۔ اسی کے ساتھ ہی وہ سب لوگ یکسو ہوگئے۔
اصلاحی تحریکوں کے طویل سفر کے دوران اس طرح کے سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ کوششوں کو جاری رکھنے کی افادیت پر سوال اٹھایا جاتا ہے۔ تحریکوں کی استقامت اسی میں ہوتی ہے کہ اس کے افراد ان سوالوں کے سلسلے میں اپنے ساتھیوں کو مطمئن کرتے ہوئے اپنا مشن جاری رکھنے کے موقف پر جمے رہیں۔
اگر یہ طے ہوجاتا ہے کہ پہلی آیت میں جس گفتگو کا ذکر ہے وہ مصلح گروہ کی آپس کی گفتگو ہے۔ تو یہ بات بھی طے ہوجاتی ہے اس پورے قصے میں دو ہی گروہ تھے ایک مصلحین کا اور دوسرا فاسقین کا، اسی کے ساتھ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ دوسری آیت میں جس عذاب کا ذکر آیا ہے وہ نافرمانی کرنے والے گروہ پر نازل ہوا، کسی اور پر نہیں۔ کیوں کہ وہاں دو ہی گروہ تھے، ایک نافرمانوں کا اور دوسرا مصلحین کا۔ نافرمانی پر خاموشی اختیار کرنے والوں کا گروہ تھا ہی نہیں۔
عذاب صرف نافرمانوں پر نازل ہوا، اس کے لیے عذاب کے مستحقین کے سلسلے میں ان آیتوں میں مذکور تعبیرات خود واضح دلیل ہیں:
(۱) فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُکِّرُوا بِہِ، (۲) الَّذِینَ ظَلَمُوا، (۳) کَانُوا یَفْسُقُونَ، (۴) عَتَوْا عَنْ مَا نُہُوا عَنْہُ، یہ چاروں تعبیریں انہی لوگوں پر چسپاں ہوتی ہیں جو نافرمانی کا ارتکاب کررہے تھے۔ چاروں تعبیروں میں سے کسی کا اطلاق ان پر نہیں ہوتا جو نافرمانوں کو نصیحت کرنے کی افادیت محسوس نہ کریں۔
جہاں تک تیسرے سوال کا تعلق ہے کہ عذاب ایک بار آیا یا دو قسطوں میں آیا، تو اس سلسلے میں بھی یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کہ عذاب ایک بار آیا، پہلی آیت میں اس کی شدت کو بتایا گیا اور دوسری آیت میں اس کی تفصیلات بیان کردی گئیں۔ یہاں فلمّا کی تکرار لفظی ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ وہ واقعہ دو بار پیش آیا۔ اللہ کا سخت عذاب آجانے کے بعد بھی ان لوگوں کو اپنی روش پر قائم رہنے کا موقع ملے، یہ بعید از قیاس بات ہے۔
ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ترجمہ ہوگا:
”اور انہیں یہ بھی یاد لاؤ کہ جب اُن میں سے ایک گروہ نے (آپس میں کہا) کہ ”تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے“ تو انہوں نے کہا انھیں نصیحت کرتے رہو اپنے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے اور اس امید پر کہ شاید یہ لوگ اس کی نافرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔ آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کرگئے جن سے ان کی یاددہانی کی گئی تھی تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور ان لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا۔ تو جب وہ پوری سرکشی کے ساتھ وہی کام کیے چلے گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا، تو ہم نے کہا کہ بندر ہوجاؤ ذلیل اور خوار“۔
مَعْذِرَةً إِلَی رَبِّکُمْ میں ضمیر مخاطب کم آئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے بارے میں بات نہیں بلکہ مخاطب کے بارے میں بات ہے۔ اس لیے مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ کرتے ہیں:”یہ کام کئے جاؤ اپنے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے“، جب کہ دوسرے لوگ ترجمہ کرتے ہیں: ”ہم یہ کام کررہے ہیں تمہارے رب کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کے لیے“۔ لیکن اس ترجمے سے اس کی توجیہ نہیں ہوپاتی ہے کہ متکلم کی ضمیر کے بجائے مخاطب کی ضمیر کیوں آئی ہے۔
(487) فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ
حرج کا لفظ اپنے اندر ایک طرز کے متعدد معانی کے لیے وسعت رکھتا ہے۔ درج ذیل آیت میں لوگوں نے اس کا ترجمہ کرنے کے لیے مختلف تعبیرات اختیار کی ہیں، جیسے جھجک، رکاوٹ، تنگی، پریشانی، وغیرہ:
کِتَابٌ أُنْزِلَ إِلَیْکَ فَلَا یَکُنْ فِی صَدْرِکَ حَرَجٌ مِنْہُ۔ (الاعراف: 2)
”یہ ایک کتاب ہے جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے، پس اے محمدؐ، تمہارے دل میں اس سے کوئی جھجک نہ ہو“۔ (سید مودودی)
”اے محبوب! ایک کتاب تمہاری طرف اُتاری گئی تو تمہارا جی اس سے نہ رُکے“۔ (احمد رضا خان)
”(اے محمدﷺ) یہ کتاب (جو) تم پر نازل ہوئی ہے۔ اس سے تمہیں تنگ دل نہیں ہونا چاہیے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”یہ کتاب ہے جو تمہاری طرف اتاری گئی ہے تو اس کے باعث تمہارے دل میں کوئی پریشانی نہ ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے یہاں حرج کے لیے ’الجھن‘ کا لفظ تجویز کیا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اس کتاب کو لے کر تم کسی الجھن میں گرفتار نہ رہو۔ دیگر تعبیرات کے مقابلے میں یہ تعبیر موزوں تر معلوم ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہاں صدر کا لفظ آیا ہے۔ اس کا ترجمہ دل نہیں بلکہ سینہ ہونا چاہیے۔ عام طور سے لوگوں نے دل ترجمہ کیا ہے۔
(488) وَلِلَّہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی
وَلِلَّہِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوہُ بِہَا وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی أَسْمَاءِہِ۔ (الاعراف: 180)
”اور اللہ کے لیے تو صرف اچھی ہی صفتیں ہیں تو انہیں سے اس کو پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑو جو اس کی صفات کے باب میں کجروی اختیار کر رہے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
اس جملے میں حصر کا اثر لفظ ’َلِلَّہِ‘ پر ہے۔ یعنی اللہ کے لیے ہی اچھے نام ہیں۔ نام کا ترجمہ صفت کرنا بھی محل نظر ہے۔
”اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے، اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور اُن لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں“۔ (سید مودودی)
’اللہ اچھے ناموں کا مستحق ہے‘ ایک تو حصر کا اظہار نہیں ہوا، دوسرے ’مستحق‘ کا لفظ یہاں موزوں نہیں ہے۔ درست ترجمہ ہوگا: ”اللہ کے لیے ہی اچھے نام ہیں“۔ فِی أَسْمَاءِہِ کا ترجمہ ”نام رکھنے“ میں مناسب نہیں ہے۔ عمومی بات ہے کہ جو ”اللہ کے ناموں میں راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں“۔
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
”اور اچھے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو ان ناموں سے اللہ ہی کو موسوم کیا کرو اور ایسے لوگوں سے تعلق بھی نہ رکھو جو اس کے ناموں میں کج روی کرتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
(489) بدّل شیئا غیر شیء کا اسلوب
یہ اسلوب قرآن مجید میں آیا ہے، اس اسلوب میں غیر کا ترجمہ سوا، علاوہ اور خلاف موزوں نہیں ہے، بلکہ اور یا دیگر مناسب ہے۔ یعنی جو چیز پہلے سے ہے اس کی جگہ دوسری چیز لے آنا۔ غیر کو دیکھ کر جب سوا وغیرہ جیسے الفاظ لائے جاتے ہیں تو ترجمہ غیر ضروری طور پر بوجھل ہوجاتا ہے۔
(۱) کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُہُمْ بَدَّلْنَاہُمْ جُلُودًا غَیْرَہَا۔ (النساء: 56)
”جس وقت پک جاوے گی کھال ان کی، بدل کر دیں گے ان کو اور کھال“۔ (شاہ عبدالقادر)
”جب کبھی ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں انہیں بدل دیں گے“۔ (احمد رضا خان)
”جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
آخری دونوں ترجموں میں ’سوا‘ لانے سے ترجمہ بوجھل ہورہا ہے۔
(۲) یَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَیْرَ الْأَرْضِ۔ (ابراہیم: 48)
”جس دن بدلی جاوے اس زمین سے اور زمین“۔ (شاہ عبدالقادر)
”جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”جس دن بدل دی جائے گی زمین اس زمین کے سوا“۔ (احمد رضا خان)
یہاں بھی آخری دونوں ترجموں میں ’سوا‘ لانے سے ترجمہ بوجھل ہورہا ہے۔
مذکورہ بالا آیتوں کی طرح درج ذیل دونوں آیتوں میں بھی یہی مراد ہے کہ جو بات کہی گئی تھی اس کی جگہ وہ دوسری بات لے آئے۔ شاہ عبدالقادر نے درج ذیل دونوں آیتوں میں ’سوائے‘ کا غیر ضروری استعمال کرلیا، جس سے انھوں نے اوپر کے دونوں مقامات پر احتراز کیا تھا۔
(۳) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ۔ (البقرۃ: 59)
”پر بدل لی بے انصافوں نے اور بات سوائے اس کے جو کہہ دی تھی ان کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
”تو جو ظالم تھے، انہوں نے اس لفظ کو، جس کا ان کو حکم دیا تھا، بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا“۔(فتح محمد جالندھری، قول کا ترجمہ بات ہونا چاہیے، ’لفظ‘ موزوں نہیں ہے۔ ’کہنا شروع کیا‘ بھی زائد از عبارت ہے،یہاں صرف ایک بات کو دوسری بات سے بدلنے کا ذکر ہے۔)
”مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا“۔ (سید مودودی)
”پھر ان ظالموں نے اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی بدل ڈالی“۔ (محمد جوناگڑھی)
درج بالا دونوں ترجموں کے سلسلے میں عرض ہے کہ عبارت کی رو سے جو بات کہی تھی اس کو بدلنا مراد نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کی جگہ ایک دوسری بات کو لے آنا مراد ہے۔
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
”تو جنہوں نے ظلم کیا انہوں نے بدل دیا اس بات کو جو ان سے کہی گئی تھی دوسری بات سے“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۴) فَبَدَّلَ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ قَوْلًا غَیْرَ الَّذِی قِیلَ لَہُمْ۔ (الاعراف: 162)
”سو بدل لیا بے انصافوں نے ان میں سے اور لفظ سوائے اس کے جو کہہ دیا تھا“۔ (شاہ عبدالقادر)
”سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کی ان سے فرمائش کی گئی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی، عبارت کے اسلوب کو پیش نظر نہ رکھنے کی وجہ سے ترجمہ کتنا کم زور ہوگیا۔)
”مگر جو لوگ اُن میں سے ظالم تھے اُنہوں نے اُس بات کو جو اُن سے کہی گئی تھی بدل ڈالا“۔ (سید مودودی، بات کو نہیں بدلا، اس کی جگہ دوسری بات لے آئے۔)
”تو ان میں کے ظالموں نے بات بدل دی اس کے خلاف جس کا انہیں حکم تھا“۔ (احمد رضا خان، غیر کی وجہ سے ’خلاف‘ لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہاں ایک بات کی جگہ دوسری اس سے مختلف بات لانا مراد ہے۔)
”مگر جو ان میں ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کر اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع کیا“۔ (فتح محمد جالندھری، یہاں بھی وہی تسامح ہے)
”تو ان میں سے ان لوگوں نے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے اس کو بدل دیا کہی ہوئی بات سے مختلف بات سے“۔ (امین احسن اصلاحی، ’اس کو بدل دیا‘ نہیں بلکہ کہی ہوئی بات کو بدل دیا مختلف بات سے۔)
اجتہاد کی شرعی حیثیت
شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ انسانی ضروریات اور انسانی ماحول ایک حالت پر قائم رہنے والی چیز نہیں ہے، اور تمدنی ترقیات کے ساتھ ہی ساتھ انسانی ضروریات کا تبدیل ہونا ضروری امر ہے۔ لہٰذا آپؐ نے بہت سی فرعی باتوں سے متعلق خود احکام صادر فرمانے مناسب نہیں سمجھے، اور ان لوگوں کے فہم و فراست پر فیصلہ چھوڑ دیا ہے جو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کی کتاب اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا آخری پیغمبر مانتے اور کتاب و سنت کے اصولی احکام کو واجب التعمیل جانتے ہیں۔
کتاب و سنت کے قوانین کو لازمی اور قابلِ عمل جاننے والوں کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اجتہاد و تفقہ سے کام لیں اور کتاب و سنت کی روشنی میں ضروری اور ہنگامی قانون بنائیں۔ اس کو فقہ اور قیاس کہتے ہیں۔ اور مجتہد مصیب بھی ہو سکتا ہے اور مخطی بھی۔ لیکن اگر صاحبِ اجتہاد نے اپنی پوری طاقت اور وسعت صَرف کی اور مع ہذا اس سے غلطی ہو گئی، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے بلکہ وہ ماجور ہو گا اور اللہ تعالیٰ کی رحمتِ بے پایاں سے ثواب کا مستحق ہو گا۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں:
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا حکم الحاکم فاجتہد و اصاب فلہ اجران، واذا حکم فاجتہد واخطا فلہ اجر واحد۔ (بخاری ج ۲ ص ۱۰۹۲ و مسلم ج ۲ ص ۷۶ و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی فیصلہ کرنے والا فیصلہ کرے اور اجتہاد کرتے ہوئے درست فیصلہ کرے تو اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ اگر اس سے خطا سرزد ہو تو اس کو ایک ہی اجر ملے گا۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی محنت اور مشقت کو ہرگز رائیگاں نہیں کرتا، تو اجتہاد کرتے وقت جو تکلیف اور کاوش مجتہد کو ہوئی ہے اللہ تعالیٰ اس پر اس کو ضرور ایک اجر مرحمت فرمائے گا۔ اور اصابتِ رائے کی صورت میں ایک اجر اجتہاد کا اور ایک اصابتِ رائے کا اس کو حاصل ہو گا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ مجتہد صحیح معنی میں مجتہد ہو۔ ورنہ ’’القضاۃ ثلاثہ‘‘ کی حدیث میں اس کی تصریح ہے کہ جاہل آدمی کا فیصلہ اس کو دوزخ میں لے جائے گا (رواہ ابوداؤد، ابن ماجہ، مشکوٰۃ ج ۲ ص ۳۲۴)۔
اس صحیح روایت سے اجتہاد کا درست ہونا، اور خطا کی صورت میں مجتہد کا معذور بلکہ ماجور ہونا صراحت سے ثابت ہوا۔ صرف بطور تائید و شاہد کے حضرت معاذ بن جبلؓ (المتوفی ۱۸ھ) کی روایت بھی سن لیجئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو اس وقت آپؐ نے حضرت معاذ سے فرمایا کہ
کیف تقضی اذا عرض لک قضاء؟ قال اقضی بکتاب اللہ۔ قال فان لم تجد فی کتاب اللہ؟ قال فبسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ قال فان لم تجد فی سنة رسول اللہ؟ قال اجتہاد برایی ولا آلو۔ قال فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ و قال الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی بہ رسول اللہ۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤد والدارمی و مشکوٰة ج ۲ ص ۳۲۴)
’’تو کس طرح فیصلہ کرے گا جب تیرے سامنے کوئی جھگڑا پیش ہوا؟ حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر کتاب اللہ میں تجھے وہ بات نہ مل سکے؟ عرض کیا تو پھر سنتِ رسول اللہ کے موافق فیصلہ کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ اگر سنتِ رسول اللہ میں بھی نہ ہو؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے قاصد کو اس چیز کی توفیق عطا فرمائی جس پر اللہ تعالیٰ کا رسول راضی ہے۔‘‘
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (المتوفی ۷۷۴ھ) اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: باسناد جید کما ہو مقرر فی موضعہ (تفسیر ج ۱ ص ۳) ۔ اس روایت کی سند عمدہ اور کھری ہے جیسا کہ اپنے موقع پر ثابت ہے۔
اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کے اس جواب پر کہ اجتہد برایی (کہ میں قیاس اور رائے سے کام لوں گا) اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرمایا اور اظہارِ مسرت کیا۔ جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے فروعی قوانین کو منجمد رکھنا پسند نہیں فرمایا بلکہ ضرورت کے پیش نظر ایسے قوانین کو استقرائی رکھنا چاہا ہے۔ تاکہ انسان کے قوائے دماغیہ کی نشوونما اور انسانی ترقیات میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو سکے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ (المتوفی ۱۳ھ) کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کو تلاش کرتے تھے، ورنہ اجتہاد سے کام لیتے تھے۔
ان ابابکرؓ اذا نزلت بہ قضیہ لم یجد لھا فی کتاب اللہ اصلاً ولا فی السنہ اثرا فقال اجتہد برایی فان یکن صوابا فمن اللہ وان یکن خطا فمنی واستغفر اللہ۔ (طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۱۳۶)
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جب کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر ان کو اس کی وضاحت نہ ملتی تو فرماتے: میں اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہوں، اگر درست ہو گیا تو اللہ تعالیٰ کی عنایت ہو گی، ورنہ میری خطا ہو گی اور میں اللہ سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور تابعی قاضی شریحؒ (المتوفی ۸۵ھ) کو خط لکھا۔ اس میں کتاب و سنت اور اجماع کے بعد خاص طور پر اجتہاد کرنے کا ذکر ہے۔ (دیکھیے مسند دارمی ص ۳۴ و مثلہ فی کنز العمال ج ۳ ص ۱۷۴)
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بھی اجماع کے بعد قیاس اور اجتہاد کرنے کا حکم دیا کرتے تھے (مسند دارمی ص ۳۴)۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ معمول تھا کہ جب کتاب و سنت کے بعد حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے کوئی ثبوت نہ مل سکتا تو قال فیہ برایہ (مسند دارمی ص ۳۳ و مستدرک ج ۱ ص ۱۲۷ و قالا صحیح علی شرطہما) اپنی رائے سے کام لیتے تھے۔
الغرض جمہور اہلِ اسلام قیاسِ شرعی کو صحیح اور حجت تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’جمہور از صحابہؓ و تابعین و فقہاء و متکلمین باں رفتہ کہ اصلے از اصولِ شریعت است استدلال میرود بداں بر احکام واردہ بسمع و ظاہریہ انکارش کردہ اند۔‘‘ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۲)
’’جمہور صحابہؓ و تابعینؒ اور فقہاء و متکلمین اس کے قائل ہیں کہ قیاس شریعت کے اصولوں میں سے ایک اصل ہے، اس کے احکام واردہ بسمع میں باقاعدہ استدلال صحیح ہے اور اہلِ ظاہر نے قیاس کا انکار کیا ہے۔‘‘
اہلِ ظاہر کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ انہوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ غیر نبی کو یہ مقام کیسے حاصل ہو گیا کہ وہ دین کی باتوں میں دخل دے۔ اعتراض بظاہر بڑا معقول اور وزنی ہے مگر حقیقت سے بالکل دور ہے۔ اس لیے کہ موجبِ حکم مجتہد اور قائس کا قیاس و اجتہاد نہیں ہے، بلکہ موجب اصل میں وہی شرعی دلیل ہے جو قرآن کریم اور حدیث وغیرہ سے تعبیر کی جاتی ہے۔ مجتہد کا کام صرف اتنا ہے کہ مسکوت عنہ جزئی کی کڑی دلیلِ شرعی سے جوڑ دیتا ہے اور بس۔ چنانچہ مشہور فیلسوفِ اسلام علامہ ابن رشد ابو الولید محمد بن احمد (المتوفی ۵۹۵ھ) لکھتے ہیں:
واما القیاس الشرعی فھو الحاق الحکم الواجب لشی ما بالشرع بالشی الذی اوجب الشرع لہ ذٰلک الحکم او لعلہ جامعہ بینھما۔ (بدایة المجتہد ج ۱ ص ۳)
’’قیاسِ شرعی اس کو کہتے ہیں کہ جو حکم شریعت میں کسی چیز کے لیے ثابت ہو چکا ہو، اس حکم کو اس چیز کے اوپر بھی چسپاں کیا جائے جو مسکوت عنہ ہے۔ یا تو اس لیے کہ یہ اس کے مشابہ ہے، اور یا اس لیے کہ ان دونوں میں علت جامعہ مشترک ہے۔‘‘
نواب صاحبؒ اس کی تعبیر یوں کرتے ہیں:
’’و اما قیاس پس در اصطلاح فقہاء حمل معلوم بر معلوم است در اثبات حکم یا نفی او بامر جامع میان ہر دو از حکم یا صفت و اختارہ جمہور المحققین‘‘۔ (افادۃ الشیوخ ص ۱۲۱)
مولانا حافظ محمد عبد اللہ صاحب روپڑی لکھتے ہیں:
’’جب انسان کو کوئی مسئلہ قرآن و حدیث سے صراحتاً نہیں ملتا تو وہ قرآن و حدیث میں اجتہاد و استنباط کرتا ہے۔ اور وہ اجتہاد و استنباط قرآن و حدیث سے الگ نہیں کہلاتا۔ اسی طرح صحابی کے اس قول کو، جو اجتہاد و استنباط کی قسم سے ہو، اس کو قرآن وحدیث سے الگ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ قرآن و حدیث میں داخل سمجھنا چاہیے۔‘‘ (بلفظہ ضمیمہ رسالہ اہل حدیث ص ۷)
اجتہاد کی اہلیت
یہ بات طے شدہ ہے کہ اجتہاد کے لیے چند نہایت ضروری شرطیں ہیں، جن میں وہ نہ پائی جا سکیں ان کی بات ہرگز حجت نہیں ہو سکتی۔ حتیٰ کہ صوفیاء کرامؒ کی باتیں بھی شرعاً کوئی حیثیت نہیں رکھتیں، الّا یہ کہ وہ شریعت کے موافق ہوں۔ چنانچہ علامہ قاضی ابراہیم الحنفی (المتوفی حدود ۱۰۰۰ھ) لکھتے ہیں:
’’اور جو عابد و زاہد اہلِ اجتہاد نہیں وہ عوام میں داخل ہیں۔ ان کی بات کا کچھ اعتبار نہیں۔ ہاں اگر ان کی بات اصول اور معتبر کتابوں کے مطابق ہو تو پھر اس وقت معتبر ہو گی۔‘‘ (نفائس الاظہار ترجمہ مجالس الابرار ص ۱۲۷)
’’مجالس الابرار‘‘ کی حضرت شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلویؒ نے بڑی تعریف کی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے کیا ہی خوب ارشاد فرمایا ہے کہ
’’عملِ صوفیہ در حل و حرمت سند نیست۔ ہمیں بس است کہ ما ایشاں را معذور درایم و ملامت نہ کنیم و مر ایشاں را بحق سبحانہ و تعالیٰ مفوض داریم۔ اینجا قول امام ابوحنیفہؒ و امام ابو یوسفؒ و امام محمدؒ معتبر است، نہ عمل ابوبکر شبلیؒ و ابو حسن نوریؒ۔‘‘
’’صوفیاء کی بات حل و حرمت میں سند نہیں ہے۔ یہی کافی ہے کہ ہم ان کو ملامت نہ کریں اور ان کا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں۔ اس جگہ حضرت امام ابوحنیفہؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ کا قول معتبر ہو گا، نہ کہ ابوبکر شبلیؒ اور ابو حسن نوری جیسے صوفیاء کرام کا۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول ص ۳۳۵ مکتوب ص ۲۲۶)
یہ بالکل ٹھیک ہے کہ دین کی تکمیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہو چکی تھی۔ مگر تکمیلِ دین کا یہ مطلب ہے کہ قواعد اور کلیاتِ دین پورے طور پر مکمل ہو چکے تھے۔ بعد کو پیش آنے والے واقعات اور حوادث کو ان اصول اور کلیات کے تحت درج کرنا، اور انہی جزئیات کو کلیات پر منطبق کرنے کا نام قیاس و اجتہاد ہے۔ لیکن بسا اوقات جزئیات کا کلیات میں داخل کرنا کسی خاص عارضہ کی وجہ سے بعض لوگوں پر مخفی رہ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروعی مسائل میں فقہاء اسلام کا اختلاف رہا ہے۔ اور ایسے مواقع پر جو چیز اقرب الی الحق ہو، اس کو قبول کر لینا اور اس پر عمل کرنا نجات کے لیے کافی ہے۔ ہاں اگر قرآن وحدیث سے کوئی نص مل جائے، یا اجماع پر اطلاع ہو جائے، تو اس صورت میں قیاس سے رجوع کرنے میں ہرگز تامل نہیں ہونا چاہیے۔
(ماہنامہ الشریعہ جولائی ۱۹۹۵ء)
مقبوضہ بیت المقدس اور بین الاقوامی قانون
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
(۲۰ مئی ۲۰۲۱ء کو یوٹیوب چینل ’’شیبانی فاؤنڈیشن‘‘ پر نشر ہونے والی گفتگو)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ آج اس نشست میں ہم اس پر گفتگو کریں گے کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں فلسطین کے اس تنازع کی حیثیت کیا ہے۔ اس موضوع پر گفتگو کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کو اس معاملے میں بین الاقوامی قانون کی تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ اور اس وجہ سے اس موضوع پر جتنے مباحثے ہو رہے ہیں اور جتنی گفتگو ہو رہی ہے میری ناقص رائے میں اس میں بنیادی ایشیوز کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، اور جو بحث ہے وہ صحیح نہج پر نہیں جا رہی۔ اس لیے میں چاہتا یہ ہوں کہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کچھ بنیادی جو نکات ہیں وہ آپ کے سامنے رکھوں۔
جہاں تک بین الاقوامی قانون کے متعلق مسلمانوں کے نقطۂ نظر کا تعلق ہے، وہ اپنی جگہ ایک مستقل مسئلہ ہے، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون اور جو موجودہ بین الاقوامی نظام ہے یہ مغربی اقوام کی پروڈکٹ ہے، اور انہوں نے ظاہر ہے اپنے مقاصد اور اپنے اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سسٹم بنایا ہوا ہے۔ اور اگر اس کی تاریخ کو دیکھیں تو ۱۶۴۸ء سے جب ویسٹفالیا (Westphalia) کا معاہدہ ہوتا ہے، اور جدید قومی ریاستوں کا آغاز ہوتا ہے تو اگلے دو سو سال تک تو اس قانون کو اور اس نظام کو صرف یورپ تک ہی محدود سمجھا جاتا رہا۔ اور غیر یورپی اور غیر مسیحی اقوام کا تو اس میں کوئی کردار ہی نہیں تسلیم کیا گیا تھا۔ لیکن بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ مختلف وجوہات کی بنا پر بالآخر بیسویں صدی میں غیر یورپی غیر مسیحی اقوام بھی اس نظام میں شامل ہو گئیں۔ لیکن اس نظام میں غیر مسیحی اور غیر یورپی اقوام کی شمولیت کے لیے جو شرائط تھیں، اگر آپ انٹرنیشنل لاء کی کسی بھی بنیادی کتاب جیسے مثال کے طور پر اوپن ہائم کی مشہور کلاسک کتاب ’’انٹرنیشل لاء‘‘ اس میں دیکھیں تو وہ شرائط یہی تھیں کہ آپ نے ہماری شرائط پر اور ہماری اقدار کو مانتے ہوئے اس نظام کا حصہ ہونا ہے۔ اور اگر ہم آپ کو اس میں شامل ہونے دیں گے تب آپ اس میں شامل ہو سکیں گے۔ اس طرح کے امور بالکل واضح ہیں۔ تو ہم ان کی شرائط پر اور ان کے سسٹم اور ان کے رولز آف دی گیم کو مانتے ہوئے یوں کہیں کہ اس میں شامل ہوئے ہیں، اور تب شامل ہوئے ہیں جب انہوں نے ہمیں شامل کرنا چاہا۔
انٹرنیشل لاء کے متعلق ہماری بنیادی ریزرویشنز (تحفظات) اپنی جگہ موجود ہیں۔ لیکن اس وقت ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ انٹرنیشنل لاء جس طرح بنا ہوا ہے، اس کی روشنی میں اور اس کے اصولوں کی روشنی میں اس مسئلے کی حیثیت کیا ہے، اور یہ تنازع اصل میں بنتا کیا ہے۔ ورنہ اگر ہم اسلامی اصولوں کی روشنی میں بات کریں اور قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں تو ہمارے نزدیک تو اسرائیل کا وجود ہی سرے سے ناقابلِ تسلیم ہے اور بہت بڑا ظلم ہے۔ اور اس کے متعلق اسلامی اصولوں کی روشنی میں الگ سے گفتگو ہم کر سکتے ہیں اور کریں گے ان شاء اللہ۔ لیکن اس وقت یہ دکھانا مقصود ہے کہ جو موجودہ بین الاقوامی قانونی نظام ہے، اگر ہم اس کے اصولوں پر اور اس کے اندر رہتے ہوئے بات کریں تو پوزیشن کیا بنتی ہے۔
میں شروع کروں گا اس معاملے کو پہلی جنگِ عظیم سے۔ جب پہلی جنگِ عظیم میں عثمانی خلافت اور دیگر جن کے ساتھ ان کا اتحاد تھا ان کو شکست ہوئی، اور برطانیہ اور فرانس وغیرہ نے جنگ میں کامیابی حاصل کی، تو اس کے بعد مفتوحہ جو علاقے تھے اور جتنے ممالک تھے ان کا کرنا کیا ہے؟ اس معاملے میں ان فاتح اقوام کا آپس میں ایک معاہدہ ہوا، ورسائی (The Treaty of Versailles 1919) کا معاہدہ جس کو کہا جاتا ہے۔ اس میں انہوں نے طے کیا کہ فرانس کے پاس کونسا علاقہ ہو گا، برطانیہ کے پاس کون سا ہو گا وغیرہ۔ اس معاہدہ کی رو سے انہوں نے آپس میں طے کیا تھا کہ فلسطین اور آس پاس کا علاقہ برطانیہ کے کنٹرول میں ہو گا۔ اور جنگ کے دوران میں برطانیہ نے صہیونی تنظیم کو باقاعدہ تحریری طور پر ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ جنگ کے اختتام پر جب فلسطین کا کنٹرول ہمیں ملے گا تو ہم یہاں یہودیوں کا قومی وطن بنائیں گے۔ اس کو بالفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration) کہتے ہیں جو انہوں نے ۱۹۱۷ء میں انہوں نے تحریری طور پر صہیونی تنظیم کے سربراہ کو لکھ کر اپنا وعدہ دیا تھا۔
جب برطانیہ نے ورسائی معاہدے کے تحت یہ کنٹرول بھی حاصل کیا اور پھر ۱۹۱۹ء میں جب نئے عالمی نظام کی تشکیل کیلئے ایک میثاق طے پایا اور ایک معاہدہ طے پایا اور ’’لیگ آف نیشنز‘‘ وجود میں آ گئی، تو اس لیگ آف نیشنز نے، یوں کہیں کہ ان فاتح اقوام کی آپس میں جو انڈرسٹینڈنگ تھی اسی کو قانونی صورت دے کر مینڈیٹ سسٹم ایک بنایا۔ انتداب کا نظام جس کو اردو میں کہا جاتا ہے۔ اور برطانیہ کو یہ فلسطین اور آس پاس کا علاقہ بطور مینڈیٹ دیا گیا، بطور امانت دیا گیا۔ اور آئیڈیا یہ تھا کہ یہاں آپ نے یہاں کے لوگوں کو اپنی حکومت خود چلانے کیلئے اہل بنانا ہے۔ یہ ابھی تہذیب کی سطح سے ذرا نیچے ہیں۔ اور بحیثیت سفید فام آپ کی ذمہ داری ہے ان کو مہذب بنانے کی، تو آپ نے ان لوگوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہے۔ نہ صرف فلسطین اور آس پاس کے علاقے بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی ان کا کنٹرول ہوا، انہوں نے مینڈیٹس بنا کر ان کے تین درجے بنا دیے تھے۔ مینڈیٹ اے، مینڈیٹ بی، مینڈیٹ سی۔ تو فلسطین اور یہ جو علاقے تھے یہ مینڈیٹ اے میں تھے۔ اور معاہدہ میں یہ طے پایا تھا کہ مینڈیٹ اے کے تحت جو اقوام آتی ہیں ان کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ اپنے آقا کا انتخاب کریں کہ انہوں نے فرانس کے تحت زندگی گزارنی ہے یا برطانیہ کے تحت زندگی گزارنی ہے۔ لیکن عملاً اس چوائس کو نافذ نہیں کیا گیا۔ بہرحال برطانیہ نے مینڈیٹ کی ذمہ داری اٹھائی اور پھر یوں کہیں کہ ۱۹۱۷ء، ۱۹۱۸ء سے لے کر ۱۹۴۸ء تک جب برطانیہ کا کنٹرول یہاں رہا، تو دنیا بھر سے یہودیوں کو یہاں اکٹھا کر کے آباد کرانے کی ایک پوری مہم چلائی گئی۔ ورنہ یہاں یہودیوں کی آبادی بہت تھوڑی تھی۔
۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے، جب نئی تنظیم دوسری جنگِ عظیم کے بعد بنی، نیا نظام بنا، تو ۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ کے سامنے معذوری ظاہر کی کہ اب میں مزید مینڈیٹ کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اور یہ میں آپ کے حوالے کر رہا ہوں۔ اس موقع پر اقوام متحدہ نے ایک پارٹیشن پلان، تقسیم کا ایک منصوبہ منظور کیا۔ اس منصوبے پر بھی ہمیں بہت سارے تحفظات ہیں۔ لیکن اگر ہم اس منصوبے کو جوں کا توں لے لیں تحفظات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، تو اس منصوبے کے مطابق اس علاقے کو تقسیم ہونا تھا عربوں میں اور یہودیوں میں۔ اور اس دوران میں جب یہودیوں نے اسرائیل ریاست کے قیام کا اعلان کیا تو اس منصوبے میں جو اُن کو زمین دی گئی تھی اس سے کہیں زیادہ انہوں نے قبضے میں لے لی۔
اب قبضے کے متعلق ایک بنیادی بات یہ یاد دلانی ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز تک فتح کے بعد قبضہ اور اس کے بعد اس علاقے کا اپنے ساتھ الحاق کرنا، یہ بین الاقوامی عرف کا حصہ تھا اور اس کو باقاعدہ ایک قانونی جواز مل جاتا تھا۔ اگر کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے علاقے پر قبضہ کر لیتی، اپنا قبضہ مستحکم کر لیتی، پھر اس حصے کو اپنا حصہ ڈکلیئر کر لیتی، اس کا اپنے ساتھ الحاق کر الیتی، تو اس کے بعد کہا جاتا کہ یہ جگہ اب اس قابض ریاست کا حصہ ہو گئی ہے، اور اب اس پر ان کا کنٹرول ہے اور ان کا ٹائٹل ہے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز سے اس سلسلہ کو روکا گیا، اور ۱۹۲۸ء میں ایک بنیادی معاہدہ ہوا امریکہ اور فرانس کے درمیان ابتدائی طور پر، لیکن بعد میں دیگر ریاستیں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ اس معاہدہ کو ’’پیکٹ آف پیرس‘‘ کہا جاتا ہے یا Kelogg-Briand Pact بھی کہتے ہیں۔ اس میں یہ طے پایا کہ طاقت کے استعمال کے ذریعے، جنگ کے ذریعے تنازعات کو حل نہیں کیا جائے گا، اور اس وجہ سے یہ اصول طے پایا کہ اگر جنگ کے نتیجے میں کوئی ریاست کسی دوسری ریاست کے علاقے کو قبضہ میں لے لے تو وہ قبضہ ناجائز ہو گا، اور جلد یا بدیر قابض طاقت کو وہاں سے نکلنا ہو گا۔
اسی طرح ۱۹۴۵ء میں اقوام متحدہ کا منشور بنا، اقوام متحدہ کی تنظیم وجود میں آئی، تو اس کے منشور میں بھی باقاعدہ طور پر صراحت سے کہا گیا کہ طاقت کا استعمال یا اس کی دھمکی ناجائز ہے۔ اور کسی ملک کی علاقائی سالمیت یا سیاسی خودمختاری کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا، نہ اس کی دھمکی دی جائے گی۔ چنانچہ نہ صرف جنگ اور طاقت کا استعمال بلکہ اس کی دھمکی بھی ناجائز ہو گئی۔ اس وجہ سے قبضے کے ذریعے، فتح کے ذریعے، زبردستی الحاق کر کے کسی علاقے کو اپنے قبضے میں لے لینا، یہ اب بین الاقوامی قانون کی رو سے ناجائز ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ اس بات کا بھی اضافہ کیجئے کہ بین الاقوامی قانونِ جنگ، جس کو بین الاقوامی قانونِ انسانیت بھی کہا جاتا ہے، انٹرنیشنل ہیومینیٹرین لاء، اس کے اصولوں کی رو سے یہ بات مسلّم ہے، یہ طے ہے کہ جب تک قبضہ برقرار ہے تو حالتِ جنگ برقرار ہے۔ بلکہ یہاں تک اس قانون کی رو سے مسلّم ہے، جنیوا کنونشنز میں اس کی صراحت کی گئی ہے کہ اگر کوئی ریاست کسی علاقے کو قبضے میں لے لے تو خواہ اس قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہ ہو، ایک گولی بھی نہ چلے، کوئی قابض طاقت کو روکے بھی نہ، اور نہ قبضے کے بعد اس کے خلاف کوئی مزاحمت ہو، اس کے باوجود یہ قبضہ ناجائز ہو گا اور یہ حالتِ جنگ ہو گی۔ مزید یہ کہ جنیوا کنونشنز اور جو بھی انٹرنیشنل ہیومنیٹیرین لاء کے معاہدات ہیں اور جو اس کے ساتھ متعلقہ بین الاقوامی عرف ہے اور بین الاقوامی قانون کے قواعدِ عامہ ہیں، ان کی رو سے یہ بات بھی مسلّم ہے کہ جو مقبوضہ علاقے ہیں ان کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ وہ مقبوضہ علاقے کے اندر سے بھی مزاحمت کر سکتے ہیں، وہ کسی اور علاقے میں جا کر جیسے جلاوطن حکومت قائم کی جاتی ہے، وہاں سے بھی مزاحمت جاری رکھ سکتے ہیں، دوسری ریاستیں بھی ان کی مدد کر سکتی ہیں، یہ ساری باتیں بین الاقوامی قانون کی رو سے طے شدہ ہیں۔
اب ایک اور بات کو بھی میں یہاں شامل کرنا چاہوں گا وہ حقِ خود ارادیت کا مسئلہ ہے، Right to Self Determination کا۔ اس کے متعلق بہت پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے، اگر ہم پہلی جنگ عظیم کے آس پاس ہی شروع کریں تو وُڈرووِلسن جو امریکی صدر تھا، اس کے جو مشہور فورٹین پوائنٹس (چودہ نکات) تھے ان میں حقِ خود ارادیت کا بھی ذکر تھا کہ لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ کس طرح کی حکومت ان کی ہو گی؟ اور کون ان پر حکومت کرے گا؟ اور جو بھی حکومت کرے گا تو حاکم کو جو اختیار ہو گا وہ محکوم کی مرضی سے حاصل ہو گا۔ اسی طرح چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں بھی اس طرح کی باتیں کی تھیں لیکن جیسے مغربی طاقتوں کا منافقت کا ایک عمومی طریقہ ہوتا ہے تو چرچل کو بھی بعد میں کہنا پڑا کہ نہیں یہ جو میں نے باتیں کہیں تھیں ان کا تعلق تو صرف یورپ کی حد تک تھا کہ یورپ میں جرمنی نے یا دیگر طاقتوں نے جن علاقوں کو قبضے میں لیا تھا تو ان کو آزادی کا حق حاصل ہے۔ لیکن وقت کا پہیہ رکتا نہیں ہے، آگے بڑھتا ہے۔ تو اس لیے جب اقوام متحدہ کی تنظیم بنی تو اس میں بھی حقِ خود ارادیت تمام اقوام کیلئے تسلیم کیا گیا۔ پھر جو انسانی حقوق کا بین الاقوامی اعلان کیا گیا ، یونیورسل ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس ۱۹۴۸ء میں، اس میں بھی ، اور پھر جو سیاسی حقوق سے متعلق بنیادی معاہدہ (The International Covenant on Civil and Political Rights) اقوام متحدہ کی کوششوں سے تشکیل پایا ۱۹۶۶ء میں ، اس میں بھی حقِ خود ارادیت کو بنیادی ترین حق کے طور پر مانا گیا تمام لوگوں کیلئے۔ اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کیجئے کہ ۱۹۶۰ء کی دہائی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بہت ساری قراردادیں حقِ خود ارادیت کے متعلق منظور کی ہیں۔ اور اس وجہ سے ۱۹۶۰ء کی دہائی کو تو یوں کہیں ڈی کولونائزیشن کی دہائی کہتے ہیں۔ کیونکہ افریقہ میں، ساؤتھ امریکہ میں، ایشیا میں بہت ساری ریاستیں آزاد ہو گئیں، مغربی طاقتوں سے انہوں نے آزادی حاصل کی۔
اس تناظر میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے ایک اور جنگ کے ذریعے بہت سارے علاقے قبضے میں لے لیے، شام سے، لبنان سے، مصر سے، اردن سے، تو یہ سارے علاقے مقبوضہ علاقے (Occupied Territories) ہیں۔ اور اقوام متحدہ کا سرکاری موقف اب بھی یہ ہے کہ ۱۹۶۷ء میں اسرائیل نے جو علاقے قبضے میں لیے ہیں وہ مقبوضہ علاقے ہیں، ان میں اسرائیل کو قابض طاقت کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ علاقے اسرائیل کے ملک کا حصہ نہیں ہیں۔ یروشلم یعنی ہمارا القدس انہی علاقوں میں شامل ہے۔ القدس پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے۔ چاہے ۱۹۶۷ء میں یہ قبضہ ہوا ہو، ترپن چون سال ہو گئے ہوں، لیکن یہ قبضہ ہے، یہ ناجائز ہے، یہ جرم ہے، اور جلد یا بدیر اسرائیل کو بہرحال یہاں سے نکلنا ہو گا۔
جب فلسطینی آزادی کی تحریک چل پڑی تو یاد رکھیے کہ حقِ خود ارادیت کے متعلق بین الاقوامی فورمز پر، جنرل اسمبلی میں، یا جہاں کہیں بھی جتنی بھی بحث ہوئی ہے، تو بنیادی طو رپر حقِ خود ارادیت کی بحث میں مرکزی فریق کی حیثیت فلسطین کے لوگوں کو حاصل رہی۔ اور حقِ خود ارادیت کے معاملے میں عام طور پر جو بھی بحث ہوتی تھی ، اس کے حق میں ہوتی تھی، یا اس کے خلاف مغربی طاقتوں کی جانب سے ہوتی تھی، تو بیک گراؤنڈ میں فلسطین کا مسئلہ ہوتا تھا۔ اسی لیے جب اس سے تقریباً دس سال بعد ۱۹۷۷ء میں جنیوا معاہدات کے ساتھ دو مزید معاہدے اضافی شامل کیے گئے جن ہم ایڈیشنل پروٹوکولز کہتے ہیں، ان میں جو پہلا ایڈیشنل پروٹوکول ہے ۱۹۷۷ء کا، اس میں جب یہ قرار پایا کہ حقِ خود ارادیت کے لیے لڑنے والوں کو باقاعدہ Combatant (جنگجو) کی حیثیت حاصل ہے، یعنی بین الاقوامی قانون کی رو سے ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ہتھیار اٹھائیں، وہ جنگ میں شامل ہوں۔ اور جب وہ فریقِ مخالف کی قید میں آئیں گے تو ان کو جنگی قیدی کی حیثیت حاصل ہو گی۔ تو یہ ساری بحث بھی بنیادی طور پر فلسطینی آزادی کی تحریک کے تناظر میں ہو رہی تھی۔ اس میں یہ تسلیم کیا گیا کہ ان کو آزادی کیلئے لڑنے کا حق حاصل ہے۔ اور جب ان کو لڑنے کا حق حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ ان کو دوسری ریاستوں کی جانب سے سپورٹ ملنے کا حق بھی حاصل ہے۔
اس ضمن میں ایک اور اہم ترین دستاویز کی طرف میں اشارہ کرنا چاہوں گا، وہ ۲۰۰۳ء میں اقوام متحدہ کی جو عدالت ہے جس کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کہا جاتا ہے، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس، اس کا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کا پس منظر یہ ہے کہ قابض اسرائیلی طاقت نے مقبوضہ علاقے میں دیوار تعمیر کرنی شروع کی تاکہ وہ خود کو حملوں سے محفوظ کرے۔ جیسے امریکہ آج بھی کہتا ہے کہ اس کو دفاع کا حق حاصل ہے۔ تو یہ دفاع کا حق کیسے حاصل ہے اسے؟ وہ تو قابض طاقت ہے، وہ تو خود جارح ہے، اس نے علاقے کو قبضے میں لیا ہوا ہے، اور اس کا قبضہ ناجائز ہے۔ تو کیا اب وہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کیلئے مقبوضہ علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس میں دیوار تعمیر کر سکتا ہے؟
یہ سوال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی طرف بھیجا کہ آپ اس کے قانونی نتائج ہمیں بتائیں۔ کیا قابض طاقت کی حیثیت سے اسرائیل کو اس دیوار کی تعمیر کا اختیار حاصل ہے؟ اور اگر یہ دیوار کی تعمیر ناجائز ہے تو پھر اسرائیل کیلئے اس کے نتائج کیا ہیں؟ بین الاقوامی اداروں کی کیا ذمہ داری ہے؟ دیگر ریاستوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
اقوام متحدہ کی جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف ہے، اس میں اور سلامتی کونسل وغیرہ میں آپ نے فرق کرنا ہے۔ جو سلامتی کونسل ہے وہ سیاسی ادارہ ہے، وہاں فیصلے قانون اور اصول کی بنیاد پر نہیں ہوتے، سیاسی مفادات کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اور جو بین الاقوامی عدالتِ انصاف ہے تو وہ بین الاقوامی قانون کی روشنی میں کرتی ہے۔ اس لیے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے اس فیصلے کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے تمام احباب سے میری گزارش ہو گی کہ وہ یہ فیصلہ تو ضرور پڑھیں۔ یہ فیصلہ بھی آپ کو بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی ویب سائیٹ سے مل سکتا ہے، اس کی سمری بھی مل سکتی ہے۔ کم از کم وہ سمری تو ضرور پڑھیں۔
اس میں بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے طے کیا ہے کہ اس مقبوضہ علاقے پر اسرائیل نامی قابض ریاست کے قبضے کی کیا حیثیت ہے۔ اس پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ پھر قبضے سے متعلق جو قانون ہے Occupation Law اس کے تحت قابض ریاست یا قابض طاقت کیا کر سکتی ہے اور کیا نہیں کر سکتی؟ مثال کے طور پر وہ مقبوضہ علاقے کے لوگوں سے اپنی وفاداری کا حلف نہیں لے سکتی، ان کو اس پر مجبور نہیں کر سکتی۔ پھر مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کیا حقوق حاصل ہیں؟ پھر بین الاقوامی جو انسانی حقوق کا قانون ہے، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس لاء، اس کے تحت کیا کیا نتائج اس پر مرتب ہوتے ہیں؟ اسی طرح بین الاقوامی قانونِ جنگ کی رو سے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں؟ اسرائیل نے کیا کیا خلاف ورزیاں کی ہیں؟ پھر دیگر ریاستوں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ اور بین الاقوامی اداروں کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ یہ سارا کچھ اس فیصلے میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کی وسیع پیمانے پر اشاعت بہت زیادہ ضروری ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے بین الاقوامی عدالتِ انصاف نے جب اس معاملے کا جائزہ لیا تو وہ کن نتائج تک پہنچی ہے؟
اگر ہم اسلامی شریعت کے اصولوں کی روشنی میں اس معاملے کا جائزہ لیں تو مظالم کی فہرست میں مزید بھی اضافہ ہو جاتا ہے، اور ہماری ذمہ داریوں کی فہرست میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم دوسرے فریق کے ساتھ گفتگو کیلئے بین الاقوامی قانون کو ایک مشترکہ معیار کے طور پر مانیں، اور ان کے ساتھ اس پر بحث کریں کہ آئیں کم از کم اس معیار کو تو مانیں جس کو آپ نے ہم پر مسلط کیا ہوا ہے۔ اس معیار کی رو سے دیکھیں کہ آپ کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ ہماری کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟ اس مسئلے کی نوعیت کیا ہے؟ تو اس کیلئے سب سے اہم دستاویز یہ ۲۰۰۳ء کا بین الاقوامی عدالتِ انصاف کا فیصلہ ہے۔
اس بحث کی روشنی میں خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے اسرائیل کو ان علاقوں میں قابض طاقت کی حیثیت حاصل ہے، وہ یہاں آبادکاری نہیں کر سکتا، یہاں کی آبادی کا تناسب تبدیل نہیں کر سکتا، یہاں ایسی تبدیلیاں نہیں لا سکتا جو دور رَس ہوں، جو ریورس نہ کی جا سکتی ہوں۔ یہاں کے لوگوں پر وہ اس طرح کا اختیار نہیں رکھتا جیسے کوئی جائز حکومت اپنے لوگوں پر رکھتی ہے۔ اور جلد یا بدیر اس کو یہاں سے نکلنا ہو گا۔ اب اس کیلئے عملاً یہ جو مظلوم لوگ ہیں، ان کو ان ظالم لوگوں سے بچانے کیلئے بین الاقوامی قانون کی رو سے ہمارے پاس کیا آپشنز ہیں اور ہم پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، ان پر ہم انشاء اللہ آئندہ نشست میں گفتگو کریں گے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
- The Peace of Westphalia 1648
- Balfour Declaration 1917
- President Woodrow Wilson's 14 Points 1918
- British Palestine 1917-1948
- The Treaty of Versailles 1919
- League of Nations 1920
- The Kellogg-Briand Pact 1928
- United Nations 1945
- The Geneva Convention 1949/1977
- International Covenant on Civil rights 1966
- Six-Day War 1967
- International Court of Justice's Judgment 2003
- Oppenheim's "International Law"
قراردادِ مقاصد پر غصہ؟
مجیب الرحمٰن شامی
پاکستان کے انتہائی ممتاز اور سنجیدہ دانشور وجاہت مسعود یہ خبر لائے ہیں کہ 12 مارچ 1949ء کو دستور ساز اسمبلی میں منظور کی جانے والی قراردادِ مقاصد نے ہماری قومی شناخت کی تشکیل میں کھنڈت ڈالی۔ انہوں نے مزید انکشاف کیا ہے کہ لیاقت علی خان جمہوریت پسند نہیں تھے، ان کی کم نگاہی نے سکندر مرزا اور ایوب خان کو قوم پر کم و بیش آٹھ برس کا نادیدہ اقتدار سونپ دیا۔ مزید فرمایا گیا: لیاقت علی مغفور سمجھتے تھے کہ شبیر عثمانی سے ہاتھ ملا کے متحدہ ہندوستان میں مغل عہد کی تعلقہ دار نشانیوں کے لیے پاکستان میں غلبے کی ضمانت حاصل کر لیں گے۔ مزید ارشاد ہوتا ہے کہ محمد علی جناحؒ رہنما تھے، لیاقت علی نے بیڑہ ڈبو دیا۔ لیاقت علی اور شبیر عثمانی کی عنایت کوئی چالیس برس ہمارے گلے میں حائل رہی، پھر جالندھر کے میاں طفیل محمد (امیر جماعت اسلامی) اور ضیاء الحق کے گٹھ جوڑ سے ہمارے دستور کے نافذ و متن کے درجے کو پہنچی، ہمیں اپنی مہلتِ نفس میں اس صبح کی اُمید نہیں جب دستورِ پاکستان کو اس آلودگی سے پاک کیا جائے گا۔
یہ تحریر پڑھ کر سر چکرا گیا ہے۔ وجاہت مسعود انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ پاکستان میں جمہوری اقدار کی بحالی اور بالادستی کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ تاریخ پر بھی ان کی نظر گہری ہے۔ احتیاط اور آداب کے ساتھ بات کرنا ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ کڑوی باتوں کو بھی میٹھے الفاظ میں لپیٹنے کا فن جانتے ہیں۔ اُن سے اختلاف کرنے والے بھی اُن کو احترام سے دیکھتے اور وہ بھی اختلاف کرنے والوں کا احترام کرتے ہیں۔ دِل آزاری اُن کا شیوہ نہیں۔ وہ ہمارے اُن لکھاریوں میں سے ہیں جن سے بات کرنے کا سلیقہ سیکھا جاتا ہے، پھر کیا ہوا کہ ''قراردادِ مقاصد‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے وہ بے قابو ہو گئے۔ اکابرین کے شخصی احترام کے بھی قائل نہ رہے۔
قراردادِ مقاصد قرآن کا حصہ ہے نہ اس کے الفاظ الہامی ہیں۔ یہ انسانی ذہن کی تخلیق ہے۔ پاکستان بنانے والوں نے اس کے بارے میں سوچا اور اسے الفاظ کا قالب عطا کر دیا۔ پہلی دستور ساز اسمبلی نے اسے منظور کیا اور آج تک پاکستان کی ہر اسمبلی اس پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی آ رہی ہے۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے 1954ء میں جو پہلا دستوری مسودہ منظور کیا، یہ اس کا حصہ تھی۔ دوسری دستور ساز اسمبلی 1956ء میں ملک کو اس کا پہلا دستور دینے میں کامیاب ہوئی تو یہ اس دستاویز میں بھی شامل تھی۔ جنرل ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کر کے دستور منسوخ کر ڈالا۔ 1962ء میں قوم کو ایک نیا دستور دینے کی ’’گستاخی‘‘ کی تو اس میں بھی یہ قرارداد شامل کرنا پڑی۔ 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زیر قیادت ’’نئے پاکستان‘‘ کی دستور ساز اسمبلی نے جو دستور اتفاقِ رائے سے منظور کیا، اس میں بھی قراردادِ مقاصد جوں کی توں رہی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے خواہ وہ سیکولر تھیں یا مذہبی، قدامت پرست تھیں یا ترقی پسند، علاقائی تھیں یا قومی، اس قرارداد کو تسلیم کیا اور اسے دستور کا حصہ بنائے رکھنے کی تائید کی۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران چیف جسٹس حمود الرحمن کے ایک فیصلے کی روشنی میں اسے آئین کا قابلِ عمل حصہ بنایا گیا تو اس پر بھی کسی حلقے نے اعتراض نہیں کیا۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد جنرل پرویز مشرف نے دستور کو معطل کرنے کی جسارت کی لیکن قراردادِ مقاصد دستور کا مؤثر حصہ رہی۔ صدر آصف علی زرداری کے زیر قیادت تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاقِ رائے سے آئین میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کر ڈالیں، لیکن قراردادِ مقاصد کے کسی لفظ یا حرف تو کیا شوشے کو تبدیل کرنے کی کسی کو جرأت ہوئی، نہ کسی نے اس بارے میں کوئی مطالبہ کیا۔
اس تفصیل سے یہ واضح ہے کہ قراردادِ مقاصد کسی ایک یا دو افراد کی اختراع نہیں تھی، یہ شبیر عثمانی یا لیاقت علی خان کی سازش تھی نہ میاں طفیل اور ضیاء الحق جالندھری کو اس کی تخلیق کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ شرف تو پاکستان بنانے والوں کا تھا کہ اُنہوں نے مملکت کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کی رہنمائی کا سامان کر دیا۔ یہ واضح کر دیا کہ پاکستان کس لیے بنایا گیا تھا اور اسے کس طرح چلایا جا سکتا ہے۔
مقامِ حیرت ہے کہ لیاقت علی خان اور مولانا شبیر احمد عثمانی کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے فاضل دوست ان آداب کو بھی فراموش کر بیٹھے جن پر وہ ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں۔ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم سے بڑھ کر تحریکِ پاکستان کے دوسرے بڑے لیڈر تھے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے دوران مسلسل کئی برس تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل رہے، یہ شرف اُن سے چھینا نہیں جا سکتا۔ مولانا شبیر احمد عثمانی کو زمانہ شیخ الاسلام کے نام سے جانتا ہے، اُنہی نے مسلم لیگ کے مطالبۂ پاکستان کی تائید و حمایت کے لیے جمعیت العلمائے اسلام کی بنیاد رکھی۔ اُنہیں قائد اعظمؒ ہی کے حکم کے تحت پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا رکن منتخب کرایا گیا تھا۔ مسلم لیگ کے اعلیٰ ترین قائدین سے لے کر ادنیٰ کارکن تک اُن کا نام احترام سے لیتے اور اس سے روحانی تقویت حاصل کرتے ہیں۔ لیاقت علی خان کو ایوب خان اور سکندر مرزا کی تقرری کا ذمہ دار قرار دے کر ان کا کِیا دھرا ان کے کھاتے میں ڈالنا انتہائی بے تکی بات ہے۔ اگر اس طرح کی منطق پر تاریخ کی عمارت استوار کی جانے لگی تو پھر کسی بھی شخص کی بداعمالی کا ذمہ دار اس کے والد، استاد، افسر یا آجر کو قرار دے کر اسے بآسانی بری الزمہ قرار دیا جا سکے گا۔
جس قراردادِ مقاصد پر ہمارے عزیز دوست چراغ پا ہوئے ہیں، وہ اسے اچھی طرح پڑھ کر تو دیکھیں۔ اس میں بنیادی بات یہی کہی گئی ہے کہ مملکت کا نظام عوام کے منتخب نمائندے چلائیں گے۔ دوسری بات یہ کہ اسلامیانِ پاکستان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اسلام کے اصولوں کے مطابق منظم کیا جائے گا۔ ان میں سے کون سی بات ہے جو گراں گزری ہے؟
یہ درست ہے کہ پاکستان میں اسلام کے نام پر فرقہ واریت پھیلائی گئی، یہ بھی درست ہے کہ فقہی جھگڑوں میں قوم کو اُلجھایا گیا، یہ بھی صحیح ہے کہ اسلام کے اعلیٰ اور ارفع اصولوں کو اجتماعی زندگی میں اپنایا نہیں جا سکا، لیکن یہ سب اس لیے ہوا کہ ملک کا نظام عوام کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں رہا، ان سے یہ حق بار بار چھینا گیا۔ ہمارا المیہ قراردادِ مقاصد کی منظوری نہیں، اس کی نامنظوری ہے۔ ہم نے اسے کتابِ آئین کا حصہ تو بنا ڈالا لیکن عملاً اس کو نامنظور کر دیا۔ عوام کے منتخب نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں سے بے دخل کرنے میں لگے رہے۔
پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھا۔ اگر مذہب محض نجی معاملہ ہوتا، اسے اجتماعی زندگی سے کوئی سروکار نہ رکھنا ہوتا تو متحدہ ہندوستان میں بھی یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔ آل انڈیا کانگرس کا مؤقف یہی تھا۔ قائد اعظمؒ اور ان کے رفقاء نے اس نعرے کے ساتھ ہی تو الگ مملکت حاصل کی تھی کہ انہیں اپنی اجتماعی زندگی کو بھی اسلامی اصولوں پر استوار کرنا تھا۔ اگر ہم اپنے نظمِ اجتماعی کی ترتیب اپنے آدرشوں کے مطابق نہیں کر سکے تو آدرشوں سے دستبرداری اختیار کرنے کو تو شیوۂ مردانگی نہیں کہا جا سکتا۔
(روزنامہ پاکستان لاہور — ۱۷ مارچ ۲۰۲۴ء)
چیف جسٹس آف پاکستان کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر ملی مجلسِ شرعی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کا متفقہ تبصرہ اور تجاویز
ملی مجلس شرعی
ملی مجلس شرعی، جو تمام دینی مکاتب فکر کے علماء کا مشترکہ علمی فورم ہے اور 2007ء سے کام کر رہا ہے، اس کے علماء کرام کا ایک اجلاس 5 مارچ 2024ء کو جامعہ عثمانیہ/ جامع آسٹریلیا لاہور میں مولانا زاہد الراشدی کی زیر صدارت ہوا۔ علماء کرام نے چیف جسٹس صاحب کے قادیانیوں سے متعلق فیصلے پر شق وار غور کیا اور مندرجہ ذیل رائے دی جسے سپریم کورٹ کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا۔
(۱) پیرا گراف 6
اپنے فیصلے کے پیراگراف 6 میں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی آیت (لا اکراہ فی الدین) [البقرہ ۲۵۶:۲] کا حوالہ دیا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں۔ جبکہ زیر بحث موضوع سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں کیونکہ کیس یہ ہے ہی نہیں کہ مسلمان قادیانیوں کو زبردستی مسلمان کر رہے ہیں، نہ قادیانیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ مسلمان انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں، لہٰذا چیف جسٹس صاحب کا یہاں اس آیت کا حوالہ دینا غیر متعلق ہے۔
(۲) پیراگراف 7
یہاں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی دو آیتیں پیش کی ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری دین پہنچا دینے کی تھی نہ کہ لوگوں کو زبردستی مسلمان کرنے کی۔ چیف جسٹس صاحب کا یہ حوالہ بھی زیر بحث کیس سے غیر متعلق ہے اور خلط مبحث کا باعث ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیس زیربحث میں زبردستی مسلمان کرنے کی شکایت نہ تو قادیانیوں نے کی ہے اور نہ مسلمان اس کے مدعی ہیں اور نہ اس پر عامل ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کبھی کسی کو زبردستی مسلمان نہیں کیا۔ پھر پہنچا دینے کا مفہوم بھی چیف جسٹس صاحب غلط لے رہے ہیں۔ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین ذمہ داری دین پہنچا دینے ہی کی تھی، لیکن قرآنی تعلیمات اس پر شاہد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ اس کا گواہ ہے کہ آپؐ نے اسلامی معاشرہ بھی قائم کیا اور اسلامی ریاست بھی اور ریاست کی قوت سے اسلامی احکام پر عمل بھی کرایا۔ لہٰذا ’’پہنچا دینے‘‘ کا جو مفہوم چیف جسٹس صاحب لے رہے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔
چیف جسٹس صاحب نے اس پیراگراف میں یہ بھی کہا ہے کہ دین میں جبر تصورِ آخرت کے بھی منافی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب اسلام دین میں جبر کا قائل ہی نہیں، نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس پر عمل کیا، نہ اس کا حکم دیا، نہ مسلمان اس کے قائل ہیں، نہ قادیانیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ مسلمان انہیں زبردستی مسلمان بنا رہے ہیں، تو چیف جسٹس صاحب کو یہ مقدمہ پیش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ لہٰذا اس آیت کا ذکر بھی یہاں بے محل اور غیر متعلق ہے۔
(۳) پیراگراف 8
اس میں چیف جسٹس صاحب کہتے ہیں کہ قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، اور اس کے لیے انہوں نے قرآن حکیم کی دو آیات نقل کی ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اس کیس میں آیات پر تدبر کرنے کی بجائے مدعی کی خواہش یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ ملزمان کو توہین قرآن اور گستاخی رسول کا مرتکب قرار دے۔
اس کو اردو محاورے میں کہتے ہیں ’’ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘۔ جناب! قرآن حکیم میں تدبر کرنے کا اس بات سے کیا تعلق ہے کہ کسی مرتد (و اولادِ مرتد) اور غیر مسلم کو قرآن کی غلط تشریح کرنے اور اس کی مسلمانوں میں تشہیر کرنے سے روکنے کی کوشش کی جائے۔ جبکہ ریاست قرآن کی اس تشریح کو غلط اور مسلمانوں کے لیے مضر اور اشتعال انگیز قرار دے کر پہلے ہی اس پر پابندی لگا چکی ہے۔
پھر چیف جسٹس صاحب نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن پر غور و تدبر کا مقصود کیا ہے؟ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن پڑھنے اور اس پر غور و تدبر کرنے کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ اس پر عمل کیا جا سکے۔ اور تعلیم ہی اگر غلط ہو تو اس پر عمل بھی غلط ہو گا۔ لہٰذا اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کو قرآن کی غلط تشریح کرنے پر ٹوکا ہے، یا ریاست نے اسے اس سے روکا ہے تو ٹھیک کیا ہے۔ یہ قرآن حکیم پر صحیح تدبر کا صحیح نتیجہ ہے، لیکن چیف جسٹس صاحب اسے خلافِ تدبر قرار دے رہے ہیں۔
پھر اس پیراگراف میں چیف جسٹس صاحب نے قرآن حکیم کی اس آیت کا بھی حوالہ دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ قرآن ہم پر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ اس بات کا زیربحث کیس سے کیا تعلق ہے؟ یا یہ مدعی کے خلاف اور مدعا علیہم کے حق میں کیسے جاتی ہے؟ اس آیت کا تقاضا تو یہ ہے کہ مسلمان اور ان کی ریاست متنِ قرآن کی حفاظت کریں اور قرآن کی اس تشریح کی حفاظت کریں جو مسلمانوں کی 1450 سالہ جمہور اہل علم اور جمہور امت کی روایت ہے۔ اس لحاظ سے اگر کوئی اس آیت کو پیش کر کے اس کی تشریح کرے تو یہ مدعی کے حق میں جاتی ہے نہ کہ مدعا علیہم کے حق میں۔ جو مسلمانوں کی قرآن کی متفقہ علیہ تعبیر کی مخالفت کرتے ہیں اور انہوں نے اس پر ایک نیا مذہب کھڑا کر لیا ہے۔
(۴) چیف جسٹس صاحب کو مشورہ
i۔ مندرجہ بالا تصریحات سے ظاہر ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے اپنے فیصلے میں جتنی قرآنی آیات کا بھی حوالہ دیا ہے وہ اس موضوع سے غیر متعلق ہیں، جس کی وجہ سے خلط مبحث پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم انہیں مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں خود محسوس کرنا چاہیے کہ وہ قرآنی علوم کے ماہر نہیں ہیں، لہٰذا انہیں چاہیے کہ قرآن حکیم سے براہ راست خود استفادہ کرنے کی بجائے ان اہلِ علم سے مشورہ لے لیا کریں جنہوں نے ساری عمر قرآن حکیم کو سمجھنے اور سمجھانے اور سیکھنے سکھانے میں گزاری ہے۔ جیسا کہ خود انہوں نے 26 فروری 2024ء والے فیصلے میں کیا ہے کہ بعض دینی اداروں کو اس سلسلے میں معاونت کے لیے کہا ہے۔ یہ کام انہیں 6 فروری 2024ء کے فیصلہ کرنے سے پہلے کرنا چاہیے تھا۔
ii۔ اہلِ علم سے مشورہ لینے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ مشورہ ان سے لیا جائے جو امت کی 1450 سالہ علمی روایت کے امین ہیں اور ’’جمہور علماء‘‘ اور ’’جمہور امت‘‘ کہلاتے ہیں، نہ کہ شاذ رائے رکھنے والے کسی ایسے متجدد سے جو مغرب کی الحادی فکر و تہذیب سے مرعوب ہو کر قرآن و سنت کی تشریح ایسے کرتا ہو جو مغربی فکر و تہذیب اور اس کے علمبرداروں کے مفادات کے مطابق ہو، جیسے جاوید احمد غامدی صاحب جنہیں سارے پاکستان کے علماء گمراہ قرار دے چکے ہیں اور جن کے ادارے المورد کو چیف جسٹس صاحب نے دینی امور میں مشاورت کے لیے بلایا ہے۔ اگر وہ ان جیسے لوگوں سے مشاورت کریں گے تو پاکستان کی ملت اسلامیہ کبھی ان کے فیصلوں کو قبول نہیں کرے گی، لہٰذا انہیں المورد کو مشاورت کے لیے نہیں بلانا چاہیے تھا۔
(۵) پیراگراف 8
چیف جسٹس صاحب نے یہاں فرمایا ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق غیر مسلموں کو اپنے تعلیمی اداروں میں اپنے مذہب کی تعلیم و تلقین کی اجازت دیتے ہیں۔
i۔ یہاں پہلی بات تو نوٹ کرنے کی یہ ہے کہ آئین یہ اجازت غیر مشروط طور پر نہیں دیتا بلکہ اسے قانون کی مطابقت سے مشروط کرتا ہے۔ اب یہ دیکھیے کہ آئین پاکستان قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیتا ہے اور قانون ان کو اسلامی شعائر اور مصطلحات کے استعمال سے روکتا ہے، جیسے امیر المومنین، صحابہ کرامؓ، اہل بیت ، مسجد، اذان وغیرہ۔
ii۔ دوسرے یہ کہ قادیانی حضرات اپنے مذہب کو ساری دنیا میں، اور پاکستان میں صحیح اسلام اور صحیح مسلمان کے طور پر متعارف کراتے ہیں اور اس کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنا لٹریچر وسیع پیمانے پر طبع اور تقسیم کرتے ہیں اور اس مقصد سے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے مسلمانوں کو (یعنی عامۃ المسلمین) کو وہ کافر اور جہنمی قرار دیتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستانی مسلمان اور علماء کرام اس کو صحیح تسلیم نہیں کر سکتے کہ قادیانیوں کو بنیادی انسانی حقوق کے کور (Cover) کے تحت غیر اسلامی مواد کی طباعت اور تقسیم کی اجازت دی جائے، اپنے اداروں میں بھی اور باہر بھی۔
(۶) دفعہ 298C
چیف جسٹس صاحب کو یہ نکتہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے تھا کہ حکومت پنجاب کے ادارے ’’قرآن بورڈ‘‘ نے اس قرآنی تفسیر ’’تفسیر صغیر‘‘ پر 2016ء سے اسے غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا رکھی ہے۔ کیونکہ اس میں قرآن حکیم کی تشریح قادیانی نقطۂ نظر سے اس طرح کی گئی ہے کہ اس کی طباعت اور تقسیم عام مسلمانوں کے لیے مضر اور اشتعال کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود قادیانی نہ صرف اسے پاکستان میں چھپوا رہے ہیں اور تقسیم کر رہے ہیں بلکہ ساری دنیا میں اسے صحیح اسلامی تفسیر کہہ کر پھیلا رہے ہیں۔ ملزم اس کو تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے گروہ کو اصل مسلمان ثابت کرنے کے لیے اس کتاب کی ترویج و تقسیم میں مصروف تھا جو 298C کے تحت جرم بنتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ملزم نے ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ میں کسی جگہ اس دفعہ کے خارج کیے جانے کا مطالبہ ہی نہیں کیا، لیکن فاضل چیف جسٹس نے اس خود ملزمان کو اس دفعہ سے خارج کر دیا ہے۔
(۷) دفعہ 295B
چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ ملزم کے خلاف 295B کا الزام ثابت نہیں ہوتا اور اسے مقدمے سے خارج کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب 295B میں Defilement کا لفظ موجود ہے جس کے معنی آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق یہ ہیں:
To make something dirty or no longer pure
اور اس کے مترادفات (Synonyms) ہیں: Spoil, Debase, Pollute, Degrade, Dishonour جبکہ یہی بات تو یہاں زیر بحث ہے کہ ملزمان نے قرآن کے متن، ترجمہ اور تفسیر کی ایسی طباعت و اشاعت کی ہے جس میں قرآنی مفاہیم میں تحریف اور زیادتی کی گئی ہے، تو اس پر 295B کا اطلاق کیوں نہیں ہوتا؟ اور چیف جسٹس صاحب نے کیونکر اس پر 295B کے اطلاق سے انکار کیا ہے؟
(۸)
جس مواد پر حکومت پابندی لگا دے، اس کی طباعت و اشاعت دہشت گردی کے ضمن میں آتی ہے (دیکھیے دہشت گردی ایکٹ 1997ء کی دفعہ 8 اور 11W)۔ لیکن فاضل چیف جسٹس صاحب اس پر غور ہی نہیں فرما سکے اور ملزمان کو بری کر دیا۔
(۹)
چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اس مقدمے پر کریمنل امینڈمنٹ ایکٹ 1932ء لاگو ہوتا ہے جس کے تحت اس جرم کی زیادہ سے زیادہ سزا 6 ماہ قید ہے (جبکہ ملزم اس سے زیادہ قید کاٹ چکا ہے لہٰذا اس کی ضمانت قبول کی جانی چاہیے تھی) ۔ جبکہ مذکورہ ایکٹ 64 سال پہلے پریس اینڈ پبلی کیشن ایکٹ 1960ء کے ذریعے ختم کر دیا گیا تھا۔ جس کے ثبوت میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جبکہ اس کیس پر اطلاق درحقیقت ’’پنجاب ہولی قرآن پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ ایکٹ 2011ء دفعہ 7 اور 9 کا ہوتا ہے جس کے تحت اس کی سزا عمر قید اور کم از کم تین سال ہے۔ چیف جسٹس صاحب نے ایسا کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں۔
(۱۰) پیراگراف 9
چیف جسٹس صاحب اس میں فرماتے ہیں کہ ہر شہری کو مذہبی آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ مگر بنیادی حقوق کی دفعہ 4 میں یہ آزادی مشروط ہے قانون کی مطابقت سے۔ پھر آئین کے آرٹیکل 260B کے مطابق قادیانی کوئی مذہب نہیں (ہندوؤں اور عیسائیوں کی طرح) بلکہ چند افراد کا ایک گروپ ہے جو اسلام کے حساس عقائد میں تحریف کرتا ہے۔ یہ بات قومی اسمبلی کی ان ابحاث سے بالکل واضح ہے جو 260B بناتے وقت قومی اسمبلی میں ہوئیں۔
(۱۱) پیراگراف 10
چیف جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ اگر متعلقہ ادارے قرآن، آئین اور قانون کو دیکھ لیتے تو FIR درج ہی نہ ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ آئین کا آرٹیکل 4 کہتا ہے کہ ہر فرد کو آزادی حاصل ہے مگر قانون کے مطابق۔ اور قانون کہتا ہے کہ قادیانی غیر مسلم ہیں اور وہ مسلمانوں کے شعائر اور اصطلاحات استعمال نہیں کر سکتے۔ تحریف شدہ ترجمہ قرآن بھی خلافِ قانون اور قابلِ سزا ہے۔ قرآن بورڈ نے ہولی قرآن ایکٹ 2011ء کے تحت اس پر پابندی لگائی ہے تو عدالت کیسے کہہ سکتی ہے کہ FIR درج ہی نہیں ہونی چاہیے تھی۔
(۱۲) پیراگراف 16
چیف جسٹس صاحب اس امر پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ مذہبی جرائم کی روک تھام ریاست کا کام ہے نہ کہ کسی اکیلے آدمی کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آئین کی رو سے پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جس میں کوئی قانون خلافِ اسلام نہیں بنایا جا سکتا۔ اور اگر بن جائے تو ہر مسلمان کو حق ہے کہ وہ اسے اس بنیاد پر چیلنج کرے کہ یہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ مذہب کے خلاف قوانین کو کوئی فرد چیلنج نہیں کر سکتا۔ یہاں تو ریاست کی حالت یہ ہے کہ مدعی نے 2019ء میں ریاست سے مطالبہ کرنا شروع کیا کہ ملزمان توہین قرآن کے مرتکب ہو رہے ہیں، لیکن پوری کوشش اور بھرپور فالو اَپ کے بعد کہیں ۲۰۲۲ء میں جا کر ملزمان کے خلاف FIR کاٹی گئی۔
(۱۳)
ایک ملزم چیف جسٹس صاحب کے پاس ضمانت کرانے آیا تھا، باقی ملزمان مفرور تھے۔ چیف جسٹس صاحب نے انہیں بغیر مانگے، ان کی درخواست ضمانت کو اپیل میں بدلا اور پھر اسے قبول کرنے کا اعلان کر دیا، یعنی وہ سب جرم سے بری قرار دیے گئے۔ قادیانیوں سے یہ آوٹ آف دی باکس مہربانی کی وجہ چیف جسٹس صاحب ہی بتا سکتے ہیں۔ اور پھر ان کا مشہورِ زمانہ رویہ کہ وکیلوں کو بولنے نہ دو، ڈانٹ ڈپٹ کر کے انہیں توہینِ عدالت کی دھمکی دو، خود بولتے رہو اور خود ہی فیصلہ کر دو۔ چیف جسٹس صاحب کا Tenure بہت تھوڑا ہے لیکن اپنے اس رویے کی وجہ سے وہ مدتوں یاد رکھے جائیں گے، جیسا کہ لوگ آج بھی اس چیف جسٹس کو یاد کرتے ہیں جس کے پاس ایک مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر قوانین میں تبدیل کرنے کی اجازت لینے گیا اور سپریم کورٹ نے اسے آئین تبدیل کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ ما شاء اللہ!۔
(۱۴) آئین و قانون میں تبدیلی کی ضرورت
i۔ ہم سمجھتے ہیں کہ علماء کرام اور عوام نے تحریک چلا کر 1974ء میں پارلیمنٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دلوایا۔ پھر تجربے نے ثابت کیا کہ قادیانیوں نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا اور وہ مسلسل خود کو اصلی مسلمان ظاہر کرتے اور مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس بنا پر علماء کے مطالبے پر جنرل ضیاء الحق کو امتناعِ قادیانیت آرڈیننس 1984ء میں پاس کرنا پڑا ۔ اور 295B میں قادیانیوں کو مسلمانوں کی بعض اصطلاحات اور شعائر کا نام لے کر ذکر کرنا پڑا کہ وہ انہیں استعمال نہیں کر سکتے۔ اس کے باوجود ہمارا تجربہ یہ ہے کہ قادیانی بدستور التباس پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، لہٰذا ایسے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ کچھ چیزوں کے نام لے کر ان کا ذکر کرنے کی ضرورت ہے کہ قادیانیوں کو ان کے استعمال سے روک دیا جائے جن کی فہرست ہم یہاں دے رہے ہیں۔
ii۔ آئین میں تبدیلی کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ چیف جسٹس صاحب اور ان کی طرح کے کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ قادیانیوں کے خلاف جو قانون سازی کی گئی ہے وہ اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے چارٹر اور آئین پاکستان میں مذکور بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس بات سے اگر صرفِ نظر بھی کر لیا جائے کہ آئینِ پاکستان میں دیے گئے بنیادی حقوق مغربی ممالک اور اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق سے لیے گئے ہیں اور ان میں سے کئی قرآن و سنت کے خلاف ہیں، ہم کہتے ہیں کہ اس التباس سے بچنے کی موزوں صورت یہ ہے کہ آئین کے متعلقہ بنیادی حقوق میں جہاں شہری آزادیوں کا ذکر ہے، وہاں اسے قادیانیوں سے متعلق قوانین سے مشروط کر دیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے، اور ہم کہتے ہیں کہ یہ وجہ بہت اہم ہے، اور وہ یہ ہے کہ قادیانیوں کا مسئلہ غیر مسلموں (ہندوؤں اور عیسائیوں) جیسا نہیں ہے بلکہ وہ مرتد (اور اولادِ مرتد) ہیں اور انہوں نے اسلام ترک کیا ہے۔ لہٰذا ان پر ایسی پابندیوں کا اطلاق تقاضائے انصاف ہے جن سے وہ خود کو مسلمان نہ ظاہر کر سکیں اور انہیں مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی اجازت نہ ہو۔
اس لیے ہم چیف جسٹس صاحب سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حکومت کو آئین میں مذکورہ آئینی تبدیلی کے علاوہ 295B میں مندرجہ ذیل امور کو قانون میں شامل کرنے کی تجویز دیں:
۱۔ ’’احمدیوں‘‘ کو ’قادیانی غیر مسلم‘ اور ’لاہوری غیر مسلم‘ کہا جائے اور انہیں ’احمدی‘ نہ کہا جائے، کیونکہ احمدی اور محمدی تو عام مسلمان ہیں۔
۲۔ شناختی کارڈ میں مذہب کا خانہ رکھا جائے اور اس میں انہیں ’قادیانی غیر مسلم‘ اور ’لاہوری غیر مسلم‘ لکھا جائے۔
۳۔ قادیانی اور لاہوری غیر مسلموں کو مسلمانوں جیسے نام رکھنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
۴۔ وہ قرآن کو اپنی مذہبی کتاب نہیں کہہ سکتے اور نہ اس کی طباعت و اشاعت و تدریس کر سکتے ہیں کیونکہ یہ مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب ہے نہ کہ ان کی۔ یہی معاملہ کتبِ حدیث کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔
۵۔ ان کے مرد و خواتین کا لباس اور ان کی وضع قطع (داڑھی ٹوپی وغیرہ) مخصوص ہونی چاہیے اور عام مسلمانوں جیسی نہیں ہونی چاہیے جیسا کہ عہدِ صحابہ میں تھا اور حضرت عمرؓ نے اس کا حکم دیا تھا۔
۶۔ وہ اسلام کے کسی رکن مثلاً صلاۃ، صوم، زکوٰۃ، حج اور جمعہ، عیدین، قربانی کو اپنی عبادت کے طور پر اختیار نہیں کر سکتے۔
۷۔ وہ اسلام کی اصطلاحات، شعائر، اسماء اور کسی بھی ایسے امر/رسم کو اختیار اور استعمال نہیں کر سکتے جس سے وہ یہ التباس پیدا کر سکیں کہ وہ مسلمان ہیں، اور نہ انہیں کسی بھی شکل میں خود کو مسلمان کہلانے کی اجازت ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ وہ عام کفار یعنی ہندوؤں، عیسائیوں کی طرح نہیں ہیں بلکہ وہ مرتد ہیں اور ترکِ اسلام کے مجرم ہیں، لہٰذا ان کا مسلمانوں سے اور ان کے شعائر، مقدسات، عبادات، اصطلاحات، رسوم و رواج سے الگ اور متمیز ہونا ضروری ہے، تاکہ ان کی الگ شناخت ممکن ہو سکے۔
اسمائے گرامی شرکاء مجلس
۱۔ مولانا زاہد الراشدی (شیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم و ڈائریکٹر الشریعہ اکادمی، گوجرانوالہ)
۲۔ مولانا مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان (چیئرمین وفاق المدارس الرضویہ، لاہور)
۳۔ مولانا عبد المالک (صدر وفاق رابطۃ المدارس، لاہور)
۴۔ مولانا عبد الرؤف ملک (سرپرست جامعہ عثمانیہ و آسٹریلیا مسجد، لاہور)
۵۔ مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی (مہتمم جامعہ اہلحدیث، چوک دالگراں، لاہور)
۶۔ مولانا محمد الیاس چنیوٹی (امیر انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ، پاکستان)
۷۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی (مہتمم جامعہ اسلامیہ و مرکز تحقیق اسلامی، کامونکی)
۸۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ (نائب امیر جماعت اسلامی، پاکستان)
۹۔ مولانا سردار محمد خان لغاری (ناظم اعلیٰ متحدہ علماء کونسل، لاہور)
۱۰۔ حافظ ڈاکٹر حسن مدنی (مہتمم جامعہ رحمانیہ و پروفیسر پنجاب یونیورسٹی، لاہور)
۱۱۔ مولانا حافظ محمد عمران طحاوی (نائب ناظم اعلیٰ ملی مجلسِ شرعی، لاہور)
۱۲۔ مولانا عبد اللہ مدنی (ناظم تعلیمات جامعہ فتحیہ و مسئول وفاق المدارس العربیہ لاہور)
۱۳۔ حافظ ڈاکٹر محمد سلیم (مہتمم جامعہ عثمانیہ و آسٹریلیا مسجد، لاہور)
۱۴۔ مولانا ڈاکٹر محمد امین (سابق پروفیسر علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور)
بعد اَز رمضان رب کا انعام بصورت عید الفطر
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی
مسلمان رمضان المبارک میں اللہ پاک کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، اسے منانے میں فرائض و واجبات کی ادائیگی کرتے ہیں۔ جب رب راضی ہوتا ہے تو خوشی کے اظہار کے لیے اپنے بندوں کو ایک دن بھی عنایت کرتا ہے اور وہ دن عید الفطر کا ہوتا ہے۔ عید الفطر یا عید عالمِ اسلام کا ایک مذہبی تہوار ہے جو کہ ماہ رمضان المبارک کے اختتام کی نشاندہی کرتا ہے اور ہر سال بڑی دھوم دھام سے یکم شوال کو منایا جاتا ہے، جبکہ شوال اسلامی کیلنڈر کا دسواں مہینہ ہے۔
عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں۔ جبکہ فطر کے معنی روزہ کھولنے کے ہیں، یعنی روزہ توڑنا یا ختم کرنا۔ عید الفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے، اس روز اللہ تعالی بندوں کو روزہ اور عبادتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں، لہٰذا اس تہوار کو عید الفطر قرار دیا گیا ہے۔ عید الفطر وہ انعام ہے جو امتِ مسلمہ کو رمضان المبارک کی رحمتوں اور برکتوں کے بعد عطا ہوا ؎
یہ خوشی ہے روزہ داروں کے لیے
روزے جو گئے اُن کی رسید آئی ہے
عالمِ اسلام ہر سال دو عیدیں مناتے ہیں؛ عید الفطر اور عید الاضحٰی۔ عید الفطر کا یہ تہوار جو کہ پورے ایک دن پر محیط ہے اسے چھوٹی عید کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں سورت البقرہ میں اللہ تعالی کے فرمان کے مطابق؛ ہر مسلمان پر ماہ رمضان کے تمام روزے رکھنا فرض ہیں جبکہ اسی ماہ میں قرآن مجید کے اتارے جانے کا بھی تذکرہ ہے، لہٰذا اس مبارک مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے۔
عمومی طور پر عید کی رسموں میں مسلمانوں کا آپس میں عید مبارک کہنا، گرم جوشی سے ایک دوسرے سے نہ صرف ملنا بلکہ آپس میں مرد حضرات کا مردوں سے بغل گیر ہونا، رشتہ داروں اور دوستوں کی آؤ بھگت کرنا شامل ہیں۔ علاوہ ازیں بڑے بوڑھے بچے اور جوان نت نئے کپڑے زیب تن کرتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں، ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں، مختلف قسم کے کھانے پکائے جاتے ہیں اور جگہ جگہ میلے ٹھیلے منعقد ہوتے ہیں، جن میں اکثر مقامی زبان اور علاقائی ثقافت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔
خصوصی طور پر مسلمان صبح سویرے سورج نکلنے سے پہلے بیدار ہوتے ہیں اور نماز فجر ادا کرتے ہیں، پھر دن چڑھے ایک مختصر سا ناشتہ یا پھر کھجوریں کھانے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ،جو کہ ایک طرح سے اس دن روزہ کے نہ ہونے کی علامت ہے۔ مسلمانوں کی ایسے مواقع پر اچھے یا نئے لباس زیب تن کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، جبکہ نئے اور عمدہ لباس پہن کر مسلمان اجتماعی طور پر عید کی نماز ادا کرنے کے لیے مساجد، عید گاہوں اور کھلے میدانوں میں جاتے ہیں۔ شاعر (احمد علی برقی اعظمی) نے اس عید الفطر کے منظر کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
دلوں سے سب کے کدورت مٹائے عیدالفطر
نقوشِ بُغض و حسد کو مِٹائے عیدالفطر
دلوں میں شمعِ محبت جَلائے عیدالفطر
جو غمزدہ ہیں اُنہیں آکے شادکام کرے
جو رو رہے ہیں انہیں بھی ہنسائے عیدالفطر
بڑھائے حوصلہ پژمُردہ دل ہیں جو اُن کا
جو گِر رہے ہیں اُنہیں بھی اُٹھائے عیدالفطر
یہ اُستوار کرے رشتہ محبت کو
ہے جو بھی عہدِ وفا وہ نِبھائے عیدالفطر
دیار غیر میں ہیں جو، رہیں خوش و خُرم
وطن کی یاد کو دل سے بُھلائے عیدالفطر
ہوں ہمکنار خوشی سے سبھی امیر و غریب
ہمیں بھی اور اُنہیں، راس آئے عیدالفطر
خزاں کی زد میں نہ گُلزارِ زندگی ہو کبھی
چمن میں اپنے نئے گل کِھلائے عیدالفطر
یہ سدِ باب کرے تیرگی کا اے برقی
کبھی نہ شمعِ اخوت بُجھائے عیدالفطر
یاد رکھیے! نماز عید میں آتے اور جاتے ہوئے آہستہ تکبیریں کہنا اور راستہ تبدیل کرنا سنت ہے۔ عید کے روز غسل کرنا، خوشبو استعمال کرنا، اور اچھا لباس پہننا سنت ہے۔ عید الفطر کے روز روزہ رکھنا حرام ہے۔ عید کی نماز کا وقت سورج کے ایک نیزہ کے برابر بلند ہو نے سے ضحوہ کبریٰ تک ہے۔ ضحوہ کبریٰ کا صبح صادق سے غروب آفتاب تک کے کل وقت کا نصف پورا ہونے پر آغاز ہوتا ہے۔ ہر نماز کے ادا کرنے سے پہلے اذان کا دیا جانا اور اقامت کہنا ضروری ہے، مگر عید کی نماز کو اذان اور اقامت سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ جبکہ اس نماز کی صرف دو رکعات ہوتی ہیں، پہلی رکعت میں ثنا کے بعد اور دوسری رکعت میں قراءتِ سورت کے بعد ہاتھ اٹھا کر تین تین زائد تکبیریں مسنون ہیں۔
عید الفطر کی نماز کے موقع پر خطبہ عید کے علاوہ بنی نوع انسانیت کی بھلائی اور عالمِ اسلام کے لیے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔ جس میں اللہ تعالی سے کوتاہیوں اور گناہوں کی معافی مانگی جاتی ہے۔ اللہ تعالی سے اس کی مدد اور رحمت مانگی جاتی ہے۔ علاوہ ازیں خطبہ عید میں عید الفطر سے متعلق مذہبی ذمہ داریوں کی تلقین کی جاتی ہے جیسے فطرانہ کی ادائیگی وغیرہ۔ اس کے بعد دعا کے اختتام پر ہر فرد اپنے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے افراد کو عید مبارک کہتا ہوا بغل گیر ہو جاتا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد لوگ اپنے رشتہ داروں دوستوں اور جان پہچان کے تمام لوگوں کی طرف ملاقات کی غرض سے جاتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ زیارت القبور کی خاطر قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔
شوال یعنی عید کا چاند نظر آتے ہی رمضان المبارک کا مہینہ اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ جبکہ ہر ایک مسلمان کی زبان سے بے اختیار اللہ کی عظمت کی اور شان کے الفاظ جاری ہو جاتے ہیں، یعنی آہستہ آواز سے تکبیریں کہی جاتی ہے: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر و للہ الحمد۔ تکبیر کہنے کا یہ سلسلہ نماز عید ادا کرنے تک چلتا ہے۔
عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے ہر صاحبِ استطاعت مسلمان مرد و عورت پر صدقہ فطر ادا کرتے ہیں جو کہ ماہِ رمضان سے متعلق ہے۔ جو مسلمان اتنا مالدار ہو کہ اس پر زکوٰۃ واجب ہو، یا اس پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب سے زائد اتنی قیمت کا مال و اسباب ہے جتنی قیمت پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، تو اس پر عید الفطر کے دن کا صدقہ فطر دینا واجب ہے، چاہے وہ سوداگری کا مال ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزر چکا ہو یا نہ گزرا ہو۔ اس صدقہ کو شریعت میں ’’صدقہ فطر‘‘ کہتے ہیں (درمختار)۔ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام، چھوٹے، بڑے سب پر واجب ہے۔ صدقہ فطر میں اگر گیہوں یا گیہوں کا آٹا، ستو دیا جائے تو نصف صاع یعنی پونے دو سیر بلکہ احتیاطاً دو سیر دے دینا چاہیے۔ اور اگر گیہوں اور جو کے علاوہ کوئی اور غلہ دینا چاہے جیسے چنا، چاول تو اتنا دے کہ اس کی قیمت نصف صاع گندم یا ایک صاع جو کے برابر ہو جائے۔ اور اگر غلہ کے بجائے اس کی قیمت دی جائے تو سب سے افضل ہے (درمختار)۔
ہجرت مدینہ سے پہلے یثرب کے لوگ دو عیدیں مناتے تھے، جن میں وہ لہو و لعب میں مشغول ہوتے اور بے راہ روی کے مرتکب ہوتے۔ خالص اسلامی فکر اور دینی مزاج کے مطابق اسلامی تمدن، معاشرت اور اِجتماعی زندگی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں ہوا، چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدنی زندگی کے ابتدائی دور میں عیدین کا مبارک سلسلہ شروع ہو گیا تھا، جس کا تذکرہ سنن ابی داؤد کی حدیث میں ملتا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بطور تہوار منایا کرتے تھے جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا فرمایا: یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ (یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟) انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔ یہ سن کر رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، یوم الاضحیٰ اور یوم الفطر۔ غالباً وہ تہوار جو اہلِ مدینہ اسلام سے پہلے عہدِ جاہلیت میں عید کے طور پر منایا کرتے تھے وہ نوروز اور مہرجان کے ایام تھے، مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تہوار منانے سے منع فرما دیا اور فرمایا اللہ تعالی نے ان کے بدلے میں اپنے خصوصی انعام و اکرام کے طور پر عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے مبارک ایام مسلمانوں کو عطا فرمائے ہیں۔
رسول اللہ صلی علیہ و آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق جب مسلمانوں کی عید یعنی عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتا ہے، اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں: اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعا کیلئے چلاتے ہوئے نکل آئے ہیں۔ مجھے میری عزت و جلال، میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں اِن کی دعاؤں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر فرماتا ہے: بندو! تم گھروں کو لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: پھر وہ بندے (عید کی نماز سے) لوٹتے ہیں حالانکہ ان کے گناہ معاف ہو چکے ہوتے ہیں۔
قرآن مجید میں سورہ المائدہ کی آیت ۱۱۴ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے: ارشاد باری تعالی ہے: عیسٰی ابن مریم نے عرض کیا کہ اے اللہ! ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے (اور اس طرح اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے (بطور) عید (یادگار) قرار پائے، اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا فرمانے والا ہے۔ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں یہ (خوان) تم پر اتار تو دیتا ہوں، مگر اس کے بعد جو کفر کرے تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہانوں میں اور کسی کو نہ دیا ہو۔
کسی قوم کی خوشی اور مسرت کے دن کو قرآن نے عید کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ اور جو دن کسی قوم کے لیے اللہ تعالی کی کسی خصوصی نعمت کے نزول کا دن ہو وہ اس دن کو اپنا یومِ عید کہہ سکتی ہے۔
آج پوری دنیا میں مسلمان بڑی دھوم دھام سے عید الفطر کا تہوار مناتے ہیں، جہاں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اسلامی اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ اقوامِ عالم امت ِمسلمہ کے اس تہوار کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اس خوشی کے موقع پر اپنے ان بھائیوں کو بھی یاد رکھیں جنہیں گلے ملنے والا کوئی نہیں، جن کو نیا لباس میسر نہیں، جن کا چولہا اس مبارک دن بھی جلتا دکھائی نہیں دیتا۔ اصل عید تو اس کی ہوتی ہے جو عید کے اس مبارک دن بے سہارا لوگوں کو سہارا دیتا ہے۔ اسلام میں صدقہ فطر بھی اس بات کی دلیل ہے کہ جو اس خوشی میں شامل نہیں ہو سکتے آج کے دن وہ بھی صدقہ فطر کے مستحق بن کر اس خوشی میں شامل ہو جائیں۔
آئیے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم بھی ان لوگوں کو گلے لگائیں گے جو گلے لگانے کے اصل مستحق ہیں۔ اللہ پاک ہمیں بھی حق داروں کی قدر اور ان کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین بحرمۃ سید الانبیاء والمرسلین۔
فقہ الصحابہ
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
ابن عباس کے مولیٰ، شعبہ بیان کرتے ہیں کہ مسور بن مخرمہؓ عبد اللہ بن عباسؓ سے ملنے کے لیے آئے تو ابن عباس نے ریشم کا لباس پہن رکھا تھا (اور انگیٹھی یا چولہے پر پرندوں کی تصویریں بنی ہوئی تھیں)۔ مسور بن مخرمہ نے لباس پر اعتراض کیا تو ابن عباس نے کہا کہ میں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ریشم پہننے سے منع فرمایا تو آپ کے پیش نظر تکبر اور تجبر سے منع فرمانا تھا (جو اس وقت اس لباس کے ساتھ وابستہ تھا)، لیکن ہم بحمد اللہ ایسے نہیں ہیں (جو تکبر کے اظہار کے لیے اسے پہنتے ہوں)۔ مسور نے پوچھا کہ یہ انگیٹھی پر تصویریں کیسی ہیں؟ ابن عباس نے کہا کہ آپ دیکھتے نہیں کہ ہم نے انھیں کیسے آگ کے ساتھ جلا رکھا ہے؟ جب مسور رخصت ہو گئے تو ابن عباسؒ نے کہا کہ یہ لباس بھی میرے جسم سے اتار دو اور ان تصویروں کے سر بھی کاٹ دو۔ (معجم کبیر، مسند احمد ودیگر کتب حدیث)
مسور بن مخرمہ اور ابن عباس (جو دونوں جلیل القدر صحابی ہیں) کے اس مکالمے سے ایک طرف یہ واضح ہوتا ہے کہ فقہائے صحابہ کیسے احکام کو ان کی علت کی روشنی میں سمجھتے تھے اور دوسری طرف یہ کہ اکابر اہل علم کیسے اپنے لیے زیادہ مبنی بر احتیاط طریقے کو پسند کرتے تھے۔ یہ اس بات کا بھی ایک عمدہ نمونہ ہے کہ اکابر اہل علم موجب اشتباہ اور خلاف اولیٰ چیزوں پر ایک دوسرے کو متنبہ کرتے اور ایک دوسرے کی نصیحت اور تنبیہ کو قبول کیا کرتے تھے۔
ابن عباسؓ نے ریشم پہننے اور تصاویر کے نمایاں ہونے کی ممانعت کو ان کی علت یعنی تجبر وتکبر اور تصویر کی تعظیم سے متعلق قرار دیا اور اس سے یہ اخذ کیا کہ اگر ریشم پہننے کا محرک تکبر نہ ہو اور تصویر نمایاں ہونے کے باوجود اس میں تعظیم کا پہلو دکھائی نہ دیتا ہو تو یہ دونوں امور حدود جواز میں آ جاتے ہیں۔ مسور بن مخرمہ نے بھی بظاہر ان کے استدلال پر کوئی معارضہ نہیں کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ممانعت کا اصل مدار اس کی علت پر ہوتا ہے اور علت کے انفکاک سے ممانعت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود ابن عباسؓ نے مسور بن مخرمہ کے جانے کے بعد یہ محسوس کیا کہ علم دین میں لوگوں کے لیے ایک نمونہ اور مرجع ہونے کی حیثیت سے ان کے لیے یہی بہتر ہے کہ وہ احتیاط کے طریقے پر کاربند رہیں اور ریشم پہننے اور تصویر آویزاں کرنے کی ممانعت کی، ظاہر کے لحاظ سے ہی پابندی کریں تاکہ یہ عام لوگوں کے لیے اشتباہ کا موجب نہ ہو اور سد ذریعہ کا اصول غیر موثر نہ ہو جائے۔
جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی: لفظ بدون متبادل
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
3 اکتوبر 2010ء کو مولانا زاہد الراشدی کے یہاں الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ میں منعقدہ ریفرنس بسلسلہ ناگہانی رحلت جسٹس ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ میں میری تقریر کی تحریری شکل ماہنامہ الشریعہ میں شائع ہوئی تھی۔ سفاک ارضی عصر رواں کی بندشوں میں کسے ہوئے کسی اتفاق ہی کا نتیجہ ہے کہ 18 دسمبر 2023ء کو انہی کے بھائی جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی رحمہ اللہ کی ناگہانی رحلت پر اب کی بار مجھے دو جگہ منعقدہ ریفرنس میں تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلا ریفرنس کورنگ ٹاؤن اسلام آباد میں مرحوم پروفیسر افتخار بھٹہ کے گھر اتوار 31 دسمبر صبح 10 بجے تھا۔ بستی کے سینکڑوں مرد و زن شریک ہوئے۔ ڈاکٹر محمد الغزالی کے صاحبزادے اور میں نے مرحوم کی خوبصورت یادوں کی خوشبو سے محفل کو معطر کرنے کی کوشش کی۔ دوسرا ریفرنس پروفیسر ڈاکٹر ضیاء الحق ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی نے ادارے میں منعقد کیا جہاں سے مرحوم محترم اور میں بطور پروفیسر ریٹائر ہوئے تھے۔ اس موقع پر جسٹس غزالی مرحوم کے اہل خانہ، ان کے متعدد رفقا کی اور میری معروضات شامل رہیں۔ دونوں تقاریب میں میری گفتگو کی ذرا بہتر شکل اس خیال کے ساتھ بطور شہادت پیش خدمت ہے کہ مرحوم کی زندگی کا ہر گوشہ محفوظ ہو کر بعد میں آنے والوں کے کام آ سکے:
محترم سامعین! عشروں قبل غالباً اردو ڈائجسٹ میں ایک سائنس فکشن پڑھا تھا۔ ایک شخص کو کوئی ایسا مرض لگ گیا جس کا علاج محققین کے اندازے میں 100 سال بعد ممکن تھا۔ مریض صاحبِ حیثیت تھا، لہٰذا معالجوں نے تجویز کیا کہ ہم تمہیں بے ہوش کر کے تمہارا جسم منجمد کر دیتے ہیں۔ علاج دریافت ہونے پر ہوش میں لا کر تمہیں ٹھیک کر دیا جائے گا۔ مریض مان گیا۔ طویل قانونی و طبی مراحل کے بعد اسے لٹا کر بے ہوش کیا جانے لگا تو وہ اچانک بھاگ کھڑا ہوا۔ دوڑ بھاگ کر پکڑے جانے پر پوچھا گیا کہ بھائی مسئلہ کیا ہے، تو اس نے چیخ و پکار مچا دی:
’’اے لوگو! مجھ بے عقل کو ابھی اسی وقت مرنے دو. میں یہ کیوں نہ سوچ سکا کہ آج مجھ 50 سالہ مریض کے پاس درجنوں تیماردار کھڑے ہیں۔ 100 سال بعد 150 سالہ شخص کو پہچاننے والا کوئی ایک بھی نہیں ہوگا، تو میں جی کر کروں گا کیا؟ یہ سمجھا سکو تو کر دو بے ہوش, ورنہ مجھے مرنے دو۔۔۔۔۔۔ مجھے مرنے دو۔۔۔۔ مجھے مرنے دو۔‘‘
معزز سامعین! 18 دسمبر کی کو رات 11 بج کر 21 منٹ پر، وہ ہمارے سامنے بیٹھے، جناب ڈاکٹر وقار مسعود نے گھٹی گھٹی آواز میں مجھے فون کیا۔ وہ جسٹس غزالی رحمہ اللہ کی رحلت کی تصدیق کرنا چاہ رہے تھے۔ آزردہ خاطر تصدیق تو میں نے کرنا ہی تھی لیکن ذہن میں جو فی البدیہہ جواب آیا تھا وہ اس وقت دینا ممکن نہیں تھا۔ وہ جواب میں انہیں آج سنائے دیتا ہوں۔ میں نے جس عہد میں زندگی گزاری، میں جن ستاروں کی ضوفشانی کے سہارے صحرائے زیست میں راستہ تلاش کیا کرتا تھا، علم و ادب کے جن قطب مناروں اور انسان دوست فرشتوں سے میں استفادہ کرتا رہا، جناب وہ تو ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ اب اس شوریدہ سر بستی میں زندہ رہ کر میں نے کیا کرنا ہے۔ جسٹس ڈاکٹر محمود غازی، ڈاکٹر خالد علوی، ڈاکٹر انوار صدیقی، ڈاکٹر ممتاز، جسٹس ڈاکٹر فدا محمد خان اور ہائے ہائے! برادر بزرگ ڈاکٹر محمد میاں صدیقی بھی جب خاک نشین ہو گئے تو میں زندہ ہوں تو کیوں:
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں
وہ تو اللہ کریم نے وسعتِ افلاک سے کوئی نور بھری لہر بھیج دی جس نے جھنجوڑا اور ڈانٹ کر تسلی دی:
"نادان! ابھی قحط الرجال کہاں؟ پروفیسر عطا اللہ چوہدری, ڈاکٹر انیس احمد, ڈاکٹر یوسف فاروقی, بیرسٹر فرخ کریم قریشی, ڈاکٹر طاہر منصوری اور پروفیسر حامد شریف کیا تمہاری دل جوئی کو کافی نہیں ہیں؟‘‘
نہ ہوئے لسانیات کے بے تاج بادشاہ، وہی اپنے آج کے ممدوح جسٹس غزالی مرحوم۔ فرمایا کرتے تھے:
"لفظ کے مفہوم کا تو ابلاغ ہو سکتا ہے، اس کا متبادل نہیں ہوتا۔ متبادل کی اپنی شناخت، اپنا استعمال اور اپنا نسبی شجرہ ہوتا ہے"۔
آج زندہ ہوتے تو میں یہ ٹکڑا لگا دیتا کہ انسان کا بھی کوئی متبادل نہیں ہوتا، اور ان سے پوچھتا کہ آپ کا متبادل لاؤں تو کیسے اور کہاں سے کہ جب لفظ اور انسان کا متبادل ہوتا ہی نہیں۔ یہ بھی فرمایا کرتے تھے:
"رشتوں میں صرف باپ، اور دیگر میں صرف استاد ہی وہ دو شخص ہیں جو بیٹے اور شاگرد کو زندگی کی دوڑ میں اپنے سے ایک قدم آگے دیکھنا چاہتے ہیں"۔
میں علم و تقویٰ میں تو خیر ان سے کیونکر آگے نکل پاتا۔ معلوم نہیں ان کی آنکھوں میں کوئی ریڈار لگا تھا، یا کوئی مخفی قوت انہیں پہلے خبر دے دیا کرتی تھی۔ 42 سالہ مسلسل اور براہ راست تعلق میں ان سے ہزاروں مرتبہ آمنا سامنا ہوا لیکن خواہش اور بھرپور کوشش کے باوجود میں انہیں سلام میں پہل کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکا۔ بسا اوقات کہ جب انہیں خدشہ ہوتا کہ پہل کرنے میں شاید وہ کامیاب نہ ہو پائیں تو دور ہی سے باآواز بلند تجوید کے ساتھ السلام علیکم کانوں میں اچھال دیتے تھے۔
آپ نے جسٹس غزالی مرحوم کی حق گوئی و بے باکی کا بہت کچھ سن رکھا ہوگا۔ بعض افراد شاید اس کے چشم دید گواہ بھی ہوں۔ تاریخ سے البتہ گزارش ہے کہ اپنے صفحات میں ایک شہادت میری بھی مرقوم کر لے۔ آنجناب اسلامی یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹر حسن عبداللطیف شافعی کے غیر معمولی مداح تھے۔ کوئی سوا سال قبل میں نے ڈاکٹر شافعی کے احوال پر ایک اخباری مضمون لکھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے پڑھا تو اصرار کر کے مزید مضمون لکھوائے اور مرتے دم تک مصر رہے کہ مزید لکھوں اور لکھوں بھی تو ڈاکٹر شافعی کے علمی مرتبے پر۔ یہ ذرا ناممکنات میں سے تھا۔ انہی دنوں انہوں نے دو گھنٹے 48 منٹ فون کر کے مجھے علاوہ ازیں بے پناہ معلومات دیں۔ ان میں سے ایک بات ڈاکٹر شافعی کے بارے میں تھی۔ لیکن ان کی بے باکی سمجھانے کے لیے پہلے مجھے چند دیگر واقعات کا سہارا لینا ہوگا۔
ڈاکٹر شافعی اسلامی یونیورسٹی کے چار سال صدر رہے۔ صدر جامعہ یونیورسٹی کا بورڈ آف ٹرسٹیز 4 سال ہی کے لیے مقرر کرتا ہے۔ 4 سال پورے ہوئے تو بورڈ کا اجلاس نہ ہو سکا۔ یوں ڈاکٹر شافعی قائم مقام صدر جامع قرار پائے۔ 6 سال بعد بورڈ کا اجلاس ہوا۔ اب چاہیے تو یہ تھا کہ روایت کے مطابق ڈاکٹر شافعی کے پچھلے دو سال کی توثیق کر کے انہیں مزید 2 سال کے لیے صدر جامعہ مقرر کر دیا جاتا۔ لیکن ہوا یہ کہ صدر جنرل پرویز مشرف نے اجلاس میں ڈاکٹر شافعی کے پچھلے 2 سالوں کی توثیق تو کرا دی لیکن اگلے 2 سال کے لیے ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کو صدر جامعہ بنا دیا۔ اب آئیے واپس ڈاکٹر غزالی مرحوم کی طرف آتے ہیں۔ اسی مذکورہ طویل ترین فون پر اس بابت انہوں نے اپنے سگے بھائی کے بارے میں جو رائے دی وہ انہی کے الفاظ اور انداز بیان میں کچھ یوں تھی۔
"صاحب میں نے تو اس موقع پر بھائی صاحب (ڈاکٹر غازی مرحوم) سے کہہ دیا تھا کہ شافعی صاحب کے ہوتے ہوئے آپ کو یہ عہدہ ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے تھا. شافعی صاحب کے چھ سالہ عہد صدارت میں بھلا بتائیے، صاحب کیا عملاً وہی صدر جامعہ نہیں تھے جبکہ ذمہ داری کلیتاً شافعی صاحب کی تھی۔ بھائی صاحب مرحوم بقیہ دو سال بھی یوں ہی گزر جانے دیتے۔ شافعی صاحب جس رنجیدگی کے ساتھ مصر واپس گئے تھے، وہ کس سے پوشیدہ ہے؟ بھائی صاحب کو شافعی صاحب کے ہوتے ہوئے یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا"۔
مرحوم کو جواب دینا میرے حسبِ حال نہیں تھا۔ لیکن میرے خیال میں صورت یوں رہی کہ منصب کے اعتبار سے ڈاکٹر غازی بورڈ کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکتے تھے اور شاید ہوئے بھی نہیں۔ بطور ممبر نیشنل سیکیورٹی کونسل یا وفاقی وزیر کے بطور وہ کئی سال جنرل پرویز مشرف کے ساتھ کام رہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ کسی دیگر حیثیت میں وہ بورڈ کے اس اجلاس میں شریک ہوئے یا نہیں، دونوں صورتوں میں اپنی تقرری میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جب فیصلہ ہو گیا تو ان کے منصب قبول نہ کرنے پر یونیورسٹی کا کوئی صدر نہ ہوتا کیونکہ بورڈ کا دوبارہ اجلاس فی الفور بلانا ناممکن تھا، لہٰذا مجھ خاکسار کی رائے میں ڈاکٹر غازی صاحب کا عمل "مباحات زیست" میں سے ایک مباح ہی تھا۔ دوسری طرف ڈاکٹر غزالی رحمہ اللہ کی حق گوئی اور بے باکی کا اندازہ آپ نے کر لیا ہوگا۔ وہ غازی صاحب مرحوم کی وفات کے 13 سال بعد بھی ان کے بارے میں وہی کچھ کہتے رہے جو ان کے دل و دماغ سے پھوٹ رہا تھا۔ ان کا اپنا ذخیرہ الفاظ لگی لپٹی سے خالی تھا۔
دعا ہے کہ اللہ کریم ان کو اپنے قریب کہیں انہی جیسے صالحین، مستغنی اور ماہرین لسانیات کے جلو میں جگہ دے، آمین۔
فحاشی و عریانی: معاشرے کی تباہی کا سبب
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
اللہ رب العزت نے انسان کو خیر کے کاموں پر عمل کرنے اور اس کی اشاعت کرنے کی تلقین کی ہے، اسی طرح کچھ امور ایسے ہیں جن سے اللہ رب العزت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، ان میں سے فحاشی و عریانی ہے۔ ذیل میں اس سے فحش کاموں سے اجتناب سے متعلق قرآن حکیم کی آیات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پیش کیے جا رہے ہیں:
شیطان فحش کاموں کی تعلیم دیتا ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ وَمَنْ يَتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ يَأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (النور ۲۱)۔
ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم پیروی نہ کرنا شیطان کے نقش قدم کی، اور جو کوئی پیروی کرے گا شیطان کے نقش قدم کی تو یقینا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا کہ بیشک وہ تو بے حیائی اور برائی ہی سکھاتا ہے۔
کھلے عام، چھپ کر گناہ کرنا حرام ہے
ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ..... وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ( الانعام ۱۵۱)۔
ترجمہ: آپ کہیے کہ آؤ تم کو وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جن کو تمہارے رب نے تم پر حرام فرما دیا ہے ۔۔ اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں خواہ پوشیدہ اور جس کا خون کرنا اللہ تعالیٰ نے حرام کر دیا اس کو قتل مت کرو ہاں مگر حق کے ساتھ ، ان کا تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم سمجھو۔
ارشاد باری تعالی ہے:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ....(الأعراف۳۳)
ترجمہ: آپ فرما دیجیے کہ البتہ میرے رب نے صرف حرام کیا ہے ان تمام فحش باتوں کو جو اعلانیہ ہیں ، اور جو پوشیدہ ہیں اور ہر گناہ کی بات کو ناحق کسی پر ظلم کرنے کو۔
امام رازیؒ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس آیت کے الفاظ مَا ظَهَرَ مِنْها وَما بَطَنَ میں ایک نقطہ پوشیدہ ہے کہ: انسان جب ظاہری معصیت کے کاموں سے اجتناب کرتا ہے لیکن سری گناہوں سے اجتناب نہیں کرتا، تو یہ امر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا یہ اجتناب لوگوں کے ڈر کی وجہ سے ہے نہ کہ اللہ کی بندگی و اطاعت کی وجہ سے، تو یہ تصور سراسر باطل ہے اور جو اس نیت سے ظاہراً گناہ نہیں کرتا لیکن چھپ کر تمام معصیت کے کام کرتا ہے تو اس امر کا اندیشہ کہ وہ کفر میں مبتلا نہ ہو جائے۔ اور جو شخص ظاہری و باطنی گناہوں سے اجتناب کرتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتا ہے اور اس کی اطاعت و بندگی میں اپنے آپ کو معصیت کے کاموں سے بچاتا ہے۔ ( رازی،محمد بن عمر(606)،التفسیر الکبیر،دار إحياء التراث العربي - بيروت1420 هـ ج۱۳،ص۱۷۸)
ڈاکٹر وھبۃ الزحیلیؒ فرماتے ہیں: ایک قول یہ ہے کہ الظاہر سے مراد وہ معصیت کے کام ہیں جو انسان اپنے ظاہری اعضاء سے کرتا ہے اور باطن سے مراد وہ معصیت کے کام ہیں جن کا تعلق دل سے ہو جیسے تکبر، حسد۔ ( زحیلی،وھبہ بن مصطفی ،التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنھج،ج۸،ص۹۷)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے سختی کے ساتھ ظاہری اور باطنی گناہوں کے قریب جانے سے بھی منع فرمایا ہے۔
فحشاء سے مراد
اس کا اطلاق تمام بیہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے۔ ہر وہ برائی جو اپنی ذات میں قبیح ہو وہ فحش ہے۔ مثلاً: بخل، زنا، برہنگی، عریانی، عملِ قومِ لوط، جنسی زیادتی، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، گالیاں بکنا، بدکلامی کرنا وغیرہ۔
اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور برائیوں کو پھیلانا فحش کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈہ، بہتان تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے، ڈرامے اور فلم، عریاں تصاویر آویزاں کرنا، عورتوں کا بن سنور کر منظر عام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا اور اسٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا وغیرہ۔
حیا اور فحاشی کے نتائج
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا كَانَ الْفُحْشُ فِي شَيْءٍ إِلَّا شَانَهُ، وَلَا كَانَ الْحَيَاءُ فِي شَيْءٍ إِلَّا زَانَهُ» (ترمذی،محمد بن عیسیٰ،سنن ترمذی،ح۱۹۷۴)۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس چیز میں بھی بے حیائی آتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے اور جس چیز میں حیاء آتی ہے اسے زینت بخشتی ہے“۔
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «الْحَيَاءُ وَالْعِيُّ شُعْبَتَانِ مِنَ الإِيمَانِ، وَالْبَذَاءُ وَالْبَيَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ» ( سنن ترمذ،ح۲۲۲۷)۔
حضرت ابوامامہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حیاء اور کم گوئی ایمان کی دو شاخیں ہیں، جب کہ فحش کلامی اور کثرت کلام نفاق کی دو شاخیں ہیں۔‘‘
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَأَبِي سَمُرَةُ جَالِسٌ أَمَامِي، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْفُحْشَ، وَالتَّفَحُّشَ لَيْسَا مِنَ الْإِسْلَامِ، وَإِنَّ أَحْسَنَ النَّاسِ إِسْلَامًا، أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا" (مسند احمد بن حنبل ،۲۰۸۳۱)۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک بدگوئی اور بدزبانی، اسلام سے نہیں ہے اور اسلام کے لحاظ سے سب سے اچھے لوگ وہ ہیں، جن کا اخلاق سب سے اچھا ہے۔‘‘
فحاشی کے فروغ کے وسائل
فحش کاموں میں مبتلا ہونے کے دو اہم وسیلیں ہیں: (۱) زبان کے ذریعے فحاشی کا فروغ ، (۲) آنکھ کے ذریعے فحش کام۔
(۱) زبان کے ذریعے فحاشی کا فروغ
انسانی جسم کے اعضاء میں ایک عضو زبان ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنا مافی الضمیر کا اظہار کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس نعمت کو خیر اور بھلائی کی اشاعت میں استعمال کرنے کی تعلیم دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان کا استعمال اگر درست کیا جائے تو معاشرے میں امن قائم رہتا ہے، خاندان مستحکم ہوتے ہیں، آپس کے تعلقات برقرار رہتے ہیں اور ہر طرف خیر کا پہلو غالب نظر آتا ہے۔ لیکن اگر اس کا استعمال درست نہ کیا جائے تو بدتمیزی کا غلبہ ہوتا ہے، معاشرتی اقدار پامال ہو جاتے ہیں، رشتوں کی اہمیت فنا ہو جاتی ہے، آپس میں عدم اعتمادی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ معاشرے کو پرامن اور تہذیب یافتہ رہنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی تعلیم دی ہے کہ فحش گوئی سے اجتناب کیا جائے، ذیل میں چند احادیث ذکر کی جا رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کو غلط استعمال کرنے سے انفرادی و اجتماعی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ يَهُودِيٌّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَعَلَيْكَ» ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ فَسَكَتُّ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ، فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ، فَقَالَ: «عَلَيْكَ» ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ فَعَلِمْتُ كَرَاهِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ الثَّالِثُ، فَقَالَ: السَّأمُ عَلَيْكَ، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قُلْتُ: وَعَلَيْكَ السَّأمُ وَغَضَبُ اللَّهِ وَلَعْنَتُهُ إِخْوَانَ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، أَتُحَيُّونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا لَمْ يُحَيِّهِ اللَّهُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ قَالُوا قَوْلًا فَرَدَدْنَا عَلَيْهِمْ، إِنَّ الْيَهُودَ قَوْمٌ حُسَّدٌ، وَهُمْ لَا يَحْسُدُونَا عَلَى شَيْءٍ كَمَا يَحْسُدُونَا عَلَى السَّلَامِ، وَعَلَى آمِينَ» (ابن خزیمہ،محمد بن اسحاق،(م:۳۱۱)،صحیح ابن خزیمہ،ح۱۵۸۵)۔
عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: السام علیک یا محمد (اے محمد آپ پر ہلاکت ہو) ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وعلیک (اور تجھ پر بھی)۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بولنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار نظر آئے۔ میں خاموش رہی۔ پھر دوسرا یہودی داخل ہوا اس نے بھی یہی کہا: السام علیک، میں نے بولنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر پھر ناپسندیدگی کے آثار نظر آئے۔ پھر تیسرا یہودی داخل ہوا اور کہا: السام علیک، مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے کہہ دیا: وعليك السام وغضب اللہ ولعنته، اخوان القردة والخنازیر (تم پر بھی ہلاکت ہو اور اللہ کا غضب اور اس کی لعنت بندروں اور خنزیر کے بھائیو) تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا سلام کہہ رہے ہو جو اللہ تعالیٰ نے انہیں نہیں کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالیٰ فحش کو پسند نہیں کرتا نہ ہی تکلف سے فحش کہنے کو پسند کرتا ہے، انہوں نے ایسی بات کہی تو ہم نے بھی انہیں جواب دے دیا۔ یقیناً یہودی حاسد قوم ہے، کسی چیز پر یہ ہم سے اتنا حسد نہیں کرتے جتنا حسد یہ ہم سے”سلام“ اور ”آمین“ پر کرتے ہیں
عن عبد الله بن عمرو بن العاصي قال: سمعت رسول الله - صلي الله عليه وسلم - يقول: "الَظلم ظلمات يومَ القيامة، وإياكم والفحْشِ، فإن الله لا يحب الفحْش ولا التفَحُّش،.. (احمد بن حنبل،مسند احمد بن حنبل،ح۶۴۸۷)۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ظلم کرنے سے بچو! اس لیے کہ ظلم قیامت والے دن (کئی) ظلمتوں کا باعث بنے گا، بدگوئی سے بچو، بیشک اللہ تعالیٰ بدزبانی اور فحش گوئی کو پسند نہیں کرتا۔
بدگوئی، فحش کلام کی کثرت قیامت کی علامت میں ہے
عبد الله بن عمرو عن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: إن الله تعالى لا يحب الفاحش و لا المتفحش ثم قال: و الذي نفس محمد بيده لا تقوم الساعة حتى يظهر الفحش و التفحش و سوء الجوار و قطيعة الأرحام و حتى يخون الأمين و يؤتمن الخائن (محمد بن عبداللہ حاکم نیساپوری،مستدرک علی الصحیحن علی الصحیحن،ح۸۵۶۶)۔
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مرفوعا مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بدگوئی اور فحش گوئی كو نا پسند كرتا ہے۔ اس ذات كی قسم جس كے ہاتھ میں میری جان ہے قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تك امین کو خائن نہ سمجھا جائے اور خائن کو امین نہ سمجھا جانے لگے، اور فحش گوئی، بدگوئی، قطع رحمی اور برے پڑوسیوں كی اكثریت نہ ہو جائے۔
درج بالا احادیث سے یہ امر معلوم ہوا کہ زبان کے توسط سے فحش پھیلانا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی قباحت اس سے بھی ثابت ہے کہ اللہ رب العزت بھی اس کو پسند نہیں کرتا۔حقیقت یہ ہے کہ انسانی فطرت بھی ہر اس کام سے دور رہنا پسند کرتی ہے کہ جو اس کی طبیعت کے موافق نہ ہو، لیکن شیطان اپنی ذمہ داری بخوبی انجام دیتے ہوئے انسان کو فحش گوئی اور بدکلامی پر آمادہ کرنے کے لیے مستقل کوشش کرتا رہتا ہے ۔اب یہ بندہ مؤمن کا امتحان ہے کہ وہ اپنے آپ کو شیطانی امر کا پابند بناتا ہے یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا۔
آج ہمارے معاشرے میں بہت تیزی کے ساتھ فحش گوئی اور بدکلامی ،الزام تراشی کی بیماری پھیلتی جا رہی ہے، ایک شخص کسی دوسرے پر اعتراض کرتا ہے تو دوسرا شخص ذاتیات پر اتر آتا ہے اور بے جا الزام تراشی کی جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشرتی ماحول آلودہ ہو جاتا ہے اور یہ کام اگر ٹی وی ٹاک شوز کے ذریعے کیا جائے تو معاشرے پر اس کے ہولناک اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ آج اس امر کا لحاظ نہیں رکھا جاتا کہ بدکلامی کے نتیجے میں معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری اولاد اور ہمارا معاشرہ پر امن رہے اور تہذیب یافتہ بنے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کریں بالخصوص خاندانی زندگی میں اور میڈیا پر ہونے والے مارننگ شوز وغیرہ پر۔ اس کے نتیجے میں اللہ رب العزت اپنی رحمتیں نازل فرمائیں گے۔
(۲) آنکھ کے ذریعے فحش کام
جس دور میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں انسانوں کے درمیان روابط کے وسائل غیر محدود ہیں، جہاں ان کے ذریعے سے انسان کو فائدہ حاصل ہو رہا ہے اسی طرح یہ وسائل اپنے اندر نقصانات بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بندہ مؤمن اللہ کے ہاں اپنے ہر عمل کا جوابدہ ہے حتیٰ کہ اپنے جسم کے اعضاء کا بھی کہ اس نے ان اعضاء سے خیر کا کام کیا یا برائی کا، اس کا بھی جواب دینا ہو گا۔ آنکھ کے جسم کا ایک عضو ہے جس کی حفاظت کرنا بندہ مومن کی ذمہ داری ہے اس لیے کہ قیامت کے روز اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِه عِلْمٌ إنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل ۳۶) ۔
جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔
آج کے دور میں ان اعضاء کی حفاظت کی ذمہ داری مزید بڑھ چکی ہے کہ انٹرنیٹ پر فحش ویڈیوز کی بھر مار ہے ،جب کوئی ویب سائٹ پر جاتے ہیں تو ایک طرف عریاں تصاویر، ویڈیوز کے لنک دستیاب ہوتے ہیں، اسی طرح ٹک ٹاک، سنیک ویڈیوز جن کے ذریعے بے ہودگی کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اپنی اپنے اہلِ خانہ کی اور اپنے اردگرد رہنے والوں کو بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں۔ اسی طرح اس زمرے میں مختلف محافل بھی شامل ہیں جن میں ناچ گانے ہوتے ہیں، اسی طرح غیر محرم خاتون کو دیکھنا اور اس کے برعکس بھی کہ کوئی لڑکی غیر محرم لڑکے کو کو دیکھے۔ گویا جتنے بھی برائی کے کام دیکھنے کے ذریعے سے ہو سکتے ہیں وہ سب حرام ہیں۔ اس لیے بحیثیت مومن و مومنہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو برائی کے دلدل سے بچائیں تاکہ اللہ رب العزت بھی ہم مہربان ہو۔
فحاشی عریانی کے معاشرتی زندگی پر اثرات
فحاشی کے ذریعے سے معاشرتی زندگی پر درج ذیل اثرات مرتب ہوتے ہیں :
- اللہ کی نافرمانی عام ہو جاتی ہے
- برائی کا راستہ آسان ہو جاتا ہے
- دل سیاہ ہو جاتا ہے
- رزق سے برکت ختم ہو جاتی ہے
- مختلف قسم کی وبائیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
- بداعتمادی کی فضا قائم ہو جاتی ہے
- مختلف صورت میں اللہ کی طرف عذاب آتے ہیں۔
برائی سے نجات کے وسائل و ذرائع
- اللہ سے توبہ و استغفار کرنا اور گناہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرنا۔ یہ بات ذہن رکھیے کہ انسان کتنے ہی گناہ کر لے اگر وہ موت سے قبل توبہ تائب ہوتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتے ہیں۔
- اللہ کے بتائے ہوئے نظام زندگی سے اپنی زندگی کو مرتب کرنا۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنا۔
- پنج وقتہ نماز کی پابندی کرنا۔
- قرآن حکیم کی تلاوت کرنا۔
- برائی کے تمام راستوں کو اپنے اوپر حرام کر لینا۔
- اللہ سے خیر کے راستوں پر استقامت کی دعا کرنا۔
- خیر کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا۔
اللہ رب العزت ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دین اسلام کے موافق اپنی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
حیدر: پاکستان کا مقامی طور پر تیار کردہ نیا مرکزی جنگی ٹینک
آرمی ریکگنیشن
IDEX 2023 کے دوران، پاکستان کی دفاعی صنعت نے حیدر نامی مقامی ساختہ مین بیٹل ٹینک کی نئی نسل کی نقاب کشائی کی۔ IDEX 2023 ایک بین الاقوامی دفاعی نمائش ہے جو ابوظہبی، متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوئی۔ نیا ٹینک پہلی بار نومبر 2022ء میں پاکستان میں دفاعی نمائش ’’آئیڈیاز‘‘ کے دوران پیش کیا گیا۔
کئی سالوں سے پاکستان مقامی ساختہ مرکزی جنگی ٹینک تیار کرتا آ رہا ہے ، جن میں ’’الضرار‘‘ جو چینی ساختہ Type59 پر مبنی ہے، اور ’’الخالد‘‘ جو چینی ساختہ MBT2000 کے ڈیزائن اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ہے۔ جبکہ حیدر ٹینک چینی VT4 پر مبنی ہے۔ IDEX 2023 کے دوران پاکستان کے پویلین پر حیدر کا سکیل ماڈل آویزاں کیا گیا۔ ایک پاکستانی صنعت کار کے مطابق نئے حیدر ایم بی ٹی کو چینی VT4 کے ڈیزائن کو استعمال کرتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ VT4 جسے MBT-3000 بھی کہا جاتا ہے، ایک تیسری نسل کا مرکزی جنگی ٹینک ہے جسے چینی کمپنی NORINCO نے تیار کیا ہے۔ یہ Type۔99G ٹینک کا ایکسپورٹ ایڈیشن ہے جو اس وقت چینی پیپلز لبریشن آرمی کے استعمال میں ہے۔
حیدر کا ڈیزائن روایتی ہے۔ ڈرائیور اس کے ہَل (مین باڈی) کے سامنے بیچ میں بیٹھتا ہے، ٹریٹ (گھومنے والا حصہ) درمیان میں ہے، اور انجن عقب میں ہے۔ ٹینک میں ڈرائیور، کمانڈر اور گنر سمیت تین افراد کا عملہ ہے۔ حیدر ٹینک کا مرکزی اسلحہ ایک 125 ملی میٹر اسموتھبور بندوق پر مشتمل ہے جو گولہ بارود کی ایک وسیع رینج کو فائر کرنے کے قابل ہے، اور APFSDS (آرمر پیئرسنگ فِن اسٹیبلائزڈ ڈِسکارڈنگ سبوٹ)، HE (ہائی ایکسپلوسِو) ، HEAT (ہائی ایکسپلوسِو اینٹی ٹینک) کے ساتھ ساتھ اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل بھی شامل ہیں۔ ٹینک کے پاس 38 راؤنڈز ہوتے ہیں۔ دوسرے اسلحے میں ایک 7.62 ملی میٹر کواکسیئل مشین گن کے علاوہ کمانڈر ہیچ کے عقب میں نصب ایک ریموٹ سے چلنے والے ہتھیار کا نظام ہے جو ایک 12.7 ملی میٹر ہیوی مشین گن سے لیس ہے۔ حیدر ٹینک کے گھومنے والے حصے پر نصب اسلحہ اور اس کی مین باڈی مل کر فوری ردعمل کیلئے متوازن اور کشادہ ثابت ہوتے ہیں۔ یہ سب سیرامکس، دھاتوں اور پولیمر جیسے مواد کی تہوں سے مل کر بنے ہوئے ہیں جو (مخالف سمت سے) فائر کیے گئے میزائلوں کو گھسنے سے روکنے کیلئے مل کر کام کرتے ہیں۔ ردعمل والا اسلحہ آنے والے میزائلوں میں خلل ڈالنے اور ان کو ہٹانے کے لیے دھماکہ خیز چارجز کا استعمال کرتا ہے۔ جب کہ سپیسڈ آرمر دو تہوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کے درمیان خلا ہوتا ہے جو آنے والے میزائلوں کی توانائی کو جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔ ٹینک کی مین باڈی ERA (ایکسپلوسِو ری ایکٹِو آرمر) کی صلاحیت کے ساتھ لیس ہے۔
حیدر ٹینک کا سسپنشن سسٹم دونوں طرف چھ چھ پہیوں پر مشتمل ہے، جس میں پہلے اور آخری پہیے جھٹکا جذب کرنے والے ہائیڈرولک سسٹم پر نصب ہیں۔ ٹینک میں ٹورشن بار قسم کا سسپنشن سسٹم ہے، جس میں ہر پہیہ اپنے ٹورشن بار (دونوں اطراف کے پہیوں کو جوڑنے والی سلاخ) پر لگا ہوا ہے۔ سادہ پہیے سامنے ہیں جبکہ ٹینک کو چلانے والے پہیے عقب میں ہیں۔ یہ ٹینک فور اسٹروک ٹربو چارجڈ ڈیزل انجن سے چلتا ہے جو الیکٹرانیکلی کنٹرول ہوتا ہے۔ یہ انجن ہائیڈرو مکینیکل آٹومیٹک ٹرانسمیشن کے ساتھ 1,200 ہارس پاور دیتا ہے۔ ٹینک 70 کلومیٹر فی گھنٹہ کی زیادہ سے زیادہ رفتار سے چل سکتا ہے اور (اپنے فیول کے ساتھ) 500 کلومیٹر کے زیادہ سے زیادہ فاصلے تک پہنچ سکتا ہے۔
حیدر ٹینک ایک جدید فائر کنٹرول سسٹم سے لیس ہے جس میں سینسرز اور ٹارگٹ کرنے والے آلات کی ایک رینج شامل ہے تاکہ میدانِ جنگ میں ٹینک کی درستگی اور مہلکیت کو بڑھایا جا سکے۔ یہ نظام ٹینک کے عملے کو میدانِ جنگ کی ایک واضح تصویر فراہم کرنے، اور اہداف کو تیزی اور مؤثر طریقے سے شناخت اور ختم کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ٹینک کی مرکزی بندوق تھرمل امیجنگ ویژن سے لیس ہے جو کم روشنی والی حالتوں میں بھی لمبی دوری پر ہیٹ سِگ نیچرز کی مدد سے اہداف کی نقل و حرکت دیکھنے کی سہولت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک لیزر رینج فائنڈر سے بھی لیس ہے، جو بندوق باز کو کسی ہدف کے فاصلے کو درست طریقے سے ماپنے کے قابل بناتا ہے۔ تھرمل امیجنگ ویو کے علاوہ ٹینک ایک پینورامک سسٹم سے بھی لیس ہے جو کمانڈر کو میدانِ جنگ کا 360 ڈگری منظر پیش کرتا ہے۔
فائر کنٹرول سسٹم میں ایک بیلسٹک کمپیوٹر بھی شامل ہے جو ہدف کے فاصلے، زاویہ اور دیگر عوامل کی بنیاد پر مرکزی بندوق کے لیے فائرنگ کے حل کا حساب لگاتا ہے۔ اس سے یہ بات یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے کہ ٹینک کے فائر اپنے مطلوبہ ہدف کو درست طریقے سے اور زیادہ سے زیادہ اثر کے ساتھ نشانہ بنا سکیں۔ مجموعی طور پر حیدر کا فائر کنٹرول سسٹم ٹینک کے عملے کو حالات سے متعلق آگاہی اور ہدف کو نشانہ بنانے کی اعلیٰ صلاحیت فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو اسے جدید میدان جنگ میں ایک مؤثر اور مہلک جنگی گاڑی بناتا ہے۔
جامعہ گجرات کے زیر اہتمام’’تعمیرِ شخصیت میں مطالعۂ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ لیکچر سیریز
ادارہ
جامعہ گجرات کی قائد اعظم لائبریری کے زیر اہتمام رمضان المبارک کے بابرکت ماہ میں طلبہ کی کردار سازی کے لیے ایک لیکچر سیریز ’’تعمیر شخصیت میں مطالعہ سیرت النبیؐ کی اہمیت‘‘ کا انعقاد ’’حافظ حیات کیمپس‘‘ میں کامیابی سے تکمیل پذیر ہوگیا۔ اس سیریز میں دوسرا لیکچر پاکستان کی ممتاز علمی و دینی شخصیت مولانا زاہد الراشدی کے فکر انگیز خطاب سے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ ڈین فیکلٹی برائے آرٹس پروفیسر ڈاکٹر زاہد یوسف نے صدارت کے فرائض سرانجام دئیے۔ جبکہ مہمانان اعزاز میں چیف لائبریرین ڈاکٹر ذکی الزماں عاصم، صدور و چیئرپرسن شعبہ جات، یونیورسٹی انتظامیہ کے سینئر اراکین اور اساتذہ و طلبہ شامل تھے۔
مولانا زاہد الرشدی نے کہا کہ سیرتِ محمدیؐ سے استفادہ کرتے ہوئے ایک بہترین قوم کی کردار سازی ممکن ہے۔ سیرت محمدیؐ ایک بحرناپیدا کنار ہے۔ رسول اکرمؐ کی تبلیغ کا مخاطب تمام تر انسانیت ہے۔ حضور اکرمؐ کی آفاقی تعلیمات کا دائرہ وسیع تر ہے۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں نسلِ انسانی کے لیے تمام اصولِ انسانیت بلیغ انداز میں بیان کر دئیے گئے۔ یہ خطبہ ایک اہم ترین معاہدہ ہے جو حقوق انسانی کی حفاظت و نفاذ کا عندیہ دیتا ہے۔ ریاست کی تشکیل کے سلسلہ میں میثاقِ مدینہ بے مثال دستاویز ہے۔ دنیا بھر میں دیر پا امن و استحکام کے قیام کے لیے بین الاقوامی مذہبی ہم آہنگی لازم ہے۔ صحابہ کرامؓ کی شخصیت و کردار سازی میں حضور اکرمؐ نے اہم ترین کردار ادا کرتے ہوئے ایک ملتِ بیضا کے قیام کی بنیادیں استوار کیں۔ صحابہ کرامؓ کی جید شخصیات کے مختلف روشن پہلو ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر زاہد یوسف نے کہا کہ مسلمانوں کے لئے حضور اکرمؐ کی ذاتِ بابرکات بنائے عشق و محبت ہے۔ طلبہ سیرت محمدیؐ سے استفادہ کرتے ہوئے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر وسیع تفکر و مطالعہ کے ذریعے بہترین انسان بن سکتے ہیں۔
ڈاکٹر ذکی الزماں عاصم نے کہا کہ سیرت نبی کریم ؐ کردار سازی کے حوالے سے بے مثال ہے۔ دورہ حاضر میں طلبہ کی تربیت اور سیرت و کردار سازی جامعات کا اہم فریضہ ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر زاہد یوسف نے مولانا زاہد الراشدی کو جامعہ گجرات کی یادگاری شیلڈ پیش کی۔ یاسر حسین جامی نے خوبصورت و بلیغ الفاظ کے چناؤ اور زورِ بیاں کے ذریعے نقابت کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے تقریب کو چار چاند لگائے۔ طلبہ فکر انگیز سوالات کے ذریعے حضور اکرمؐ کی دینی و روحانی تعلیمات کی روشنی میں فیوض و برکات سے مستفید ہوئے۔ علاوہ ازیں قائد اعظم لائبریری میں سیرت النبیؐ پر مختلف ملکی و غیر ملکی مصنفین کی تصنیف کردہ سینکڑوں کتب بھی نمائش کے لیے پیش کی گئیں ہیں۔ لیکچر سیریز کا مقصد طلبہ میں سیرت محمدیؐ کے روشن پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہوئے کردار و عمل کی تطہیر اور اصلاح و تعمیر شخصیت کے شعور کو پروان چڑھانا تھا۔
پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کانفرنس
ادارہ
۵ مارچ ۲۰۲۴ء کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اور برگد کے اشتراک سے ’’مساوات، جامع اور پائیدار مستقبل‘‘ کے عنوان پر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پنجاب کی مختلف جامعات کے 30 وائس چانسلرز نے شرکت کی جن میں ڈاکٹر افضل، ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر فلیحہ کاظمی، ڈاکٹر ظل ہما نازلی، ڈاکٹر خلیق الرحمن، ڈاکٹر کلثوم پراچہ، ڈاکٹر رؤف اعظم، ڈاکٹر محمد علی شاہ، ڈاکٹر عزیرہ رفیق، ڈاکٹر زرین فاطمہ رضوی، ڈاکٹر اشفاق محمود، ڈاکٹر انیلہ کمال، ڈاکٹر محمود سلیم، ڈاکٹر بلال خاں، ڈاکٹر اسلام خاں، ڈاکٹر بلال خاں، ڈاکٹر ندیم بھٹی، ڈاکٹر عامر گیلانی، ڈاکٹر نجمہ نجم، ڈاکٹر عامر گیلانی، ڈاکٹر عدنان نور اور ڈاکٹر اسلام اللہ خاں و دیگر شامل ہیں۔ جبکہ ڈاکٹر نظام الدین، ڈاکٹر طلعت نصیر پاشا، ڈاکٹر شعیب اختر، ڈاکٹر کنول امین، ڈاکٹر احمد عثمان، ڈاکٹر راشد کمال الرحمٰن، مولانا زاہد الراشدی، رنجیت سنگھ، پنڈت کاشی رام، سائمن رابن، ڈاکٹر تنویر قاسم، ڈاکٹر آصف منیر، صبیحہ شاہین اور اسامہ نے مکالماتی سیشن میں بطور ماہر اور میزبان شرکت کی۔
کانفرنس کے تین مکالماتی سیشن ہوئے جس میں وائس چانسلرز، ٹیکنوکریٹس، بیوروکریٹس، علماء، اقلیتی راہنما اور سائنس، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین شریک تھے۔ اختتامی سیشن میں بین المذاہب ہم آہنگی مکالمے کا اہتمام کیا گیا جس میں مولانا زاہد الراشدی، سردار رنجیت سنگھ، کاشی رام، مسٹر رابن اور ڈاکٹر تنویر قاسم نے حصہ لیا۔ برگد کی چیئرپرسن ڈاکٹر غزالہ عرفان نے کانفرنس کے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔
مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والی وائس چانسلرز کانفرنس میں کہا گیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے لحاظ سے پاکستان کمزور خطہ ہے جس سے ماحولیاتی نظام، غذائی تحفظ اور توانائی کو خطرات لاحق ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے جدید زرعی ٹیکنالوجی اور مؤثر فیصلہ سازی ناگزیر ہے۔ کانفرنس نے اقلیتوں کے لئے ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں 2 فیصد اور ملازمتوں کے 5 فیصد کوٹے پر عملدرآمد یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسیحی برادری سمیت تمام اقلیتیں ملک اور صوبے کی تعمیر و ترقی میں مثبت اور فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کا آئین اور اسلام کی تعلیمات اقلیتوں کے انسانی حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق اور وقار کے احترام اور تحفظ کے لیے نفرت اور تشدد کو فروغ دینے والے انتہا پسندانہ نظریات کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے پنجاب ایچ ای سی تمام جامعات میں بین المذاہب ہم آہنگی کی مہم چلا رہا ہے جس کے تحت سیمینارز منعقد ہو رہے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کریں گے۔ جامعات اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے قائم کمیشن کی ہدایات پر عملدرآمد کریں۔ اقلیتی برادریوں کے لئے ملازمتوں کے مختص کوٹے پر سو فیصد عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ ہماری حکومتوں نے اقلیتی برادری کے حقوق کے تحفظ کے لئے ہمیشہ پائیدار اقدامات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پانی، قابلِ تجدید توانائی کی صلاحیت اور دیگر وسائل سے مالامال ہے، تاہم اسے فیصلوں پر عملدرآمد اور مطابقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس تقریباً 150 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے جو سپرے اور ڈرپ اریگیشن جیسی جدید زرعی تکنیک کو اپنانے اور آبپاشی کے روایتی طریقوں کو تبدیل کرنے کی صورت میں اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے، تاہم قومی آبی پالیسی اور دیگر متعلقہ قوانین کے عملی نفاذ کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ایچ ای سی اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت کر رہا ہے، انہیں اعلی تعلیم کے لیے سکالرشپس کی فراہمی اور بصیرت فراہم کر رہا ہے۔ پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات میں امن اور رواداری کے فروغ کے لیے تعلیمی بیانیہ تیار کر لیا جس کی سفارشات حکومت پنجاب کو پیش کی جائیں گی۔
ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ امن کے فروغ کیلئے مذہبی ہم آہنگی ناگزیر ہے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔ رواداری پر مبنی تعلیمی بیانیہ معاشرے کے مختلف طبقات کو اختلافات کم کرنے اور پرامن طور پر ایک ساتھ رہنے کے قابل بنائے گا۔ جامعات معاشرے میں امن، رواداری، بقائے باہمی کے فروغ اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے میڈیا، سول سوسائٹی، انجمنوں، سرکاری حکام اور عام لوگوں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ جامعات میں مکالمے اور تحقیق کے کلچر کو فروغ دیا جائے گا۔ اگر عام افراد باشعور ہوں گے تو نفرت پر مبنی بیانیہ نہیں پھیل سکے گا اور شدت پسندی کم ہو گی۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لئے سول سوسائٹی سے اشتراک کریں گے۔ احترام انسانیت اور رواداری تعلیم یافتہ معاشرے کی پہچان ہے، امن اور رواداری کے بغیر اعلیٰ تعلیم کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔ قوموں کی ترقی کے لیے ہم آہنگی اور مساوات ناگزیر ہے۔
ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک کے پاس تھنک ٹینک ہیں جو درپیش چیلنجز کی روشنی میں سفارشات تیار کرتے ہیں اور اپنے ممالک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں۔ ہم ماہرین پر مشتمل ایک ’’مارل تھنک ٹینک‘‘ قائم کریں گے جو متوازن معاشرے کے قیام کے لیے سفارشات تیار کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک متوازن شخصیت کی تعمیر کے لیے جامعات میں مکالمے، افہام و تفہیم کا کلچر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا کو غربت، دہشت گردی اور موسمیاتی تبدیلیوں اور مختلف تنازعات کا سامنا ہے۔ زینو فوبیا، اسلامو فوبیا، نسل پرستی اور تفرقہ بازیاں ایسے انتہا پسند رویے معاشروں کو توڑتے ہیں۔ ہمیں انسانوں اور معاشروں کو جوڑنا ہے، ایک دوسرے کے قریب لانا ہے، ترقی کے لیے تہذیب اور رواداری پیدا کرنی ہے، ہم نے انسانی وسائل کو بڑھانے کے مواقع پیدا کرنے ہیں، عدمِ برداشت کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں، ترقی خانہ جنگی کی فضا میں نہیں ہو سکتی۔ سیاسی، سماجی، مذہبی راہنماؤں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو اچھے اخلاق سکھائیں۔
’’خطابت کے چند رہنما اصول‘‘
حضرت مولانا عبد القیوم حقانی
قوتِ گویائی بنی آدم کا امتیازی خاصہ ہے، بنی آدم میں ہر فرد چاہتا ہے کہ اس کی بات سنی جائے اور اس کی بات پر غور کیا جائے۔ بات میں یہ تاثیر کیسے پیدا کی جائے کہ وہ محض سماعت سے ٹکرانے کے بعد فضا میں تحلیل نہ ہو، بلکہ دلوں میں اتر کر گداز پیدا کرے۔ جذبات کو ابھارے، حوصلوں کو بڑھائے، عزائم کو مضبوط کرے، سوئی ہوئی قوم کو جگائے، غفلت کی دھوپ سینکنے والوں کو اشہب عمل پر سوار کر دے، کامیابی کا یقین دلائے اور خالق کے احکام سلجھے ہوئے انداز میں مخلوق کو پہنچائے۔ اس کے لیے ماہرینِ فن نے ہر عصر اور ہر زبان میں مختلف اسالیب میں کچھ اصول وضع کیے ہیں۔
عہدِ موجود میں اردو زبان کے دائرے میں جن حضرات کو باشعور طبقہ میں سنا جاتا ہے اور جن کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے ان میں ایک نمایاں نام مفکر اسلام حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب کا ہے۔ آپ مستشرقین کے پھیلائے ہوئے شبہات کا مدلل جواب بھی دیتے ہیں، انسانی حقوق کے خوشنما لیبل کی آڑ میں خاندانی اور معاشرتی اقدار پر ہونے والے مہلک صہیونی وار کے عواقب و نتائج سے بھی امت کو آگاہ کرتے ہیں، قادیانی مغالطوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں، عصرِ حاضر میں احکامِ شریعت کے نفاذ اور اس کی عملی شکل کے خدوخال بھی واضح کرتے ہیں، سودی معیشت کے خاتمے اور اسلامی اقتصادی نظام کی ترویج کے لیے بھی مختلف پلیٹ فارم پر گفتگو کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ چاہتے ہیں کہ یہ تگ و دو ان کی ذات تک محدود نہ رہے بلکہ ہر فاضل اور عالم ان کی طرح سماج کے مختلف طبقوں میں نفوذ کریں، اور ان کی ذہنی سطح کے مطابق جدید محاورے اور زمانۂ حال کے اسلوب سے ہم آہنگ کلام کرے۔ اس کے لیے آپ وقتاً فوقتاً نوجوان فضلاء کرام کے سامنے کچھ اساسی اصول اور جوہری نکات رکھتے ہیں جن کو ملحوظ رکھ کر ایک فاضل انتہائی مؤثر طریقے سے معاشرے میں دینِ اسلام کو ایک زندہ جاوید ضابطۂ حیات کی شکل میں پیش کر سکتا ہے۔ آپ کے یہ ارشادات مختلف رسائل و جرائد کے صفحات میں منتشر اور بکھرے ہوئے تھے، حافظ خرم شہزاد صاحب نے انتہائی محنت، لگن اور محبت سے ان کو ترتیب کی لڑی میں پرو کر کتابی شکل میں امت کے سامنے پیش کیا، اور آخر میں ’’ختامہ مسک‘‘ کے مصداق حضرت مولانا محمد شاہ نواز فاروقی مدظلہ مہتمم دارالعلوم فاروقیہ گوجرانوالہ کے فنِ خطابت کے حوالے سے بیان فرمودہ اہم نکات بھی شامل کر دیے ہیں۔
حافظ خرم شہزاد صاحب کو رب العزت نے اپنے اساتذہ کے علوم و معارف اور افکارِ امت تک پہنچانے کا خاص ذوق نصیب فرمایا ہے۔ اصحابِ علم کو ایسے تلامذہ ملنا یقیناً قدرت کا ایک خصوصی انعام ہوتا ہے، جس طرح امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر صاحبؒ کے علوم و معارف کی تشریح، توضیح اور تسہیل کا کام مسبب الاسباب نے حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب سے لیا، اسی طرح خود علامہ زاہد الراشدی صاحب کے ارشادات، خطبات اور مقالات کو ترتیب کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اللہ پاک نے حافظ خرم شہزاد صاحب کو موفق کیا ہے، اللہ تعالیٰ ان کی سعی قبول فرما کر ان کو مزید توفیق سے نوازیں۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب کی صلابتِ فکر اور حافظ خرم شہزاد صاحب کی حسنِ ترتیب کا یہ حسین مرقع (۴۸) صفحات پر مشتمل ہے، کاغذ اعلیٰ، سرورق عمدہ اور طباعت صاف ہے۔
الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام ’’دورہ تفسیر و محاضراتِ علومِ قرآنی‘‘
مولانا محمد اسامہ قاسم
افتتاحی تقریب
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام ستائیس ایام پر مشتمل دورہ تفسیر و محاضرات علوم قرآنی کی اختتامی نشست ۱۰ / فروری ۲۰۲۴ء بروز ہفتہ صبح دس بجے الشریعہ اکادمی میں ہوئی۔ افتتاحی نشست سے استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے جو گفتگو کی وہ پیش خدمت ہے:
شعبان المعظم اور رمضان المبارک دینی مدارس میں درجہ کتب کے طلبہ کے لیے تعطیلات کے ہوتے ہیں اور شوال المکرم کے وسط میں عام طور پر نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دوران حفاظ اور قراء کا زیادہ وقت قرآن کریم کی منزل یاد کرنے اور رمضان المبارک کے دوران تراویح میں سننے سنانے میں گزرتا ہے۔ جبکہ عام طلبہ کو تعلیمی مصروفیات میں مشغول رکھنے اور ان کے وقت کو مفید بنانے کے لیے مختلف کورسز کے اہتمام کی روایت کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے۔ زیادہ تر قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر کے دورے ہوتے ہیں جو شعبان کے آغاز سے شروع ہو کر رمضان المبارک کے وسط تک جاری رہتے ہیں۔ ان میں اساتذہ کرام اپنے اپنے ذوق کے مطابق طلبہ کو قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر مختصر دورانیہ میں پڑھاتے ہیں۔ اس طرح عربی بول چال اور تحریر و تقریر کے کورسز کا اہتمام بھی ہونے لگا ہے۔ یہ سب کورسز ہماری اجتماعی ضرورت کا درجہ رکھتے ہیں اور ان سے تعلیمی ذوق بڑھنے کے ساتھ ساتھ چھٹیوں کے اوقات کا صحیح مصرف بھی مل جاتا ہے اور تعلیمی ترقی بھی ہوتی رہتی ہے۔ ہمارا دورہ تفسیر ان شاء اللہ رمضان المبارک سے پہلے مکمل ہو جائے گا۔
ہمیں قرآن پاک کی تفسیر کی مختلف اقسام ملتی ہیں، بعض تفاسیر فقہی ہیں اور بعض کلامی، بعض نحوی ہیں اور بعض معقولات پر مبنی ہیں۔ لیکن ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم قرآن پاک کو آج کی ضروریات کے دائرے میں پڑھائیں، قرآن پاک کا سماجی مطالعہ ہمارا اہم مقصد ہے۔ آج کی ضروریات کیا ہیں اور قرآن پاک ہماری اس حوالے سے کیا راہنمائی کرتا ہے اور آج کے سماج کو قرآن پاک کی کتنی ضرورت ہے؟ مثال کے طور معاشی عدم توازن سے دو چار ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عیسائی دنیا کے بڑے پوپ پاپائے روم ہیں۔ آج سے بیس سال پہلے معاشی حل چل مچی، ویٹی کن سٹی ادارے نے اس مسئلےکے اسباب تلاش کرنے کے حوالے سے کمیٹی بنائی، معاشی عدمِ توازن سے نکالنے کے لیے انہوں جو موقف اختیار کیا وہ یہی تھا کہ قرآنی اصول پر چل کر انسانی معیشت کو توازن اور بیلنس کے ٹریک پر لایا جائے۔ ہمارا مقصد آج کی انسانی سوسائٹی ہے، نسلِ انسانی کی ضروریات کو سمجھنے کی ضرورت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی صفا پہاڑ پر ’’یا ایھا الناس‘‘ سے اپنی دعوت کا آغاز کیا۔ ہم بھی ان شاء اللہ اس کورس میں سماج کی ضروریات کے بارے میں بتائیں گے کہ قرآن و حدیث سے کس قدر سماج کی ضروریات پوری ہو سکتی ہیں۔
اختتامی تقریب
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام پچیس ایام پر مشتمل ’’دورہ تفسیر و محاضرات علومِ قرآنی‘‘ کی اختتامی نشست ۵ مارچ ۲۰۲۴ء بروز منگل صبح اٹھ بجے الشریعہ اکادمی میں ہوئی، جس میں استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب نے خصوصی گفتگو کی:
الشریعہ اکادمی میں دورہ تفسیر و محاضرات علوم کو پندرہ سال ہوئے، دراصل یہ کورس حضرت امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے ذوق تفسیر کا تسلسل ہے۔ امام اہلسنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے ۱۹۴۳ء میں گکھڑ کی جامع مسجد بوہڑ والی میں صبح نماز کے بعد روزانہ درسِ قرآن کریم کا آغاز کیا اور جب تک صحت نے اجازت دی، کم و بیش پچپن برس تک اس سلسلہ کو پوری پابندی کے ساتھ جاری رکھا۔ انہیں حدیث میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے اور ترجمہ و تفسیر میں امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی سے شرف تلمذ و اجازت حاصل تھی، اور انہی کے اسلوب و طرز پر انہوں نے زندگی بھر اپنے تلامذہ اور خوشہ چینوں کو قرآن و حدیث کے علوم و تعلیمات سے بہرہ ور کرنے کی مسلسل محنت کی ہے۔
حضرت امام اہلسنت علیہ الرحمہ کے درسِ قرآن کریم کے چار الگ الگ حلقے رہے ہیں۔ ایک درس بالکل عوامی سطح کا تھا جو صبح نماز فجر کے بعد مسجد میں ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ہوتا تھا۔ دوسرا حلقہ گورنمنٹ نارمل سکول گکھڑ میں جدید تعلیم یافتہ حضرات کے لیے تھا جو سالہا سال جاری رہا۔ تیسرا حلقہ مدرسہ نصرت العلوم گوجرانوالہ میں متوسط اور منتہی درجہ کے طلبہ کے لیے ہوتا تھا اور دو سال میں مکمل ہوتا تھا۔ اور چوتھا مدرسہ نصرۃ العلوم میں ۱۹۷۶ء کے بعد شعبان اور رمضان کی تعطیلات کے دوران دورۂ تفسیر کی طرز پر تھا جو پچیس برس تک پابندی سے ہوتا رہا اور اس کا دورانیہ تقریباً ڈیڑھ ماہ ہوتا تھا۔ ان چاروں حلقہ ہائے دروس کا اپنا اپنا رنگ تھا اور ہر درس میں مخاطبین کی ذہنی سطح اور فہم کے لحاظ سے قرآنی علوم و معارف کے موتی ان کے دامن قلب و ذہن میں منتقل ہوتے چلے جاتے تھے۔ ان چاروں حلقہ ہائے درس میں جن علماء کرام، طلبہ، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں اور عام مسلمانوں نے حضرت شیخ الحدیث مدظلہ سے براہ راست استفادہ کیا ہے، ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق چالیس ہزار سے زائد بنتی ہے۔
الشریعہ اکادمی میں ہونے والے دورہ تفسیر و محاضرات علوم قرآنی میں بھی حضرت امام اہلسنت کے تلامذہ ہی اسباق پڑھاتے ہیں، چند پارے استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی صاحب جبکہ بقیہ حصہ مولانا فضل الہادی، مولانا محمد یوسف مولانا ظفر فیاض، مولانا ڈاکٹر وقار اور مولانا محفوظ الرحمن صاحب نے پڑھائے۔ ترجمہ و تفسیر کے علاوہ اس کورس میں چند اہم عنوانات پر محاضرات علوم قرآنی بھی پیش کیے جاتے ہیں، ملک بھر سے اپنے فن اور عنوان کے ماہر حضرات تشریف لاتے ہیں اور طلباء کرام سے تفصیلی نشست کرتے ہیں۔
اس سال حضرت استاد جی مولانا زاہد الراشدی صاحب اور دیگر اساتذہ کرام نے جن موضوعات پر محاضرات پیش کیے درج ذیل ہیں: احکام قرآن اور مروجہ بین الاقوامی معاہدات، عصر حاضر میں علماء کرام کی ذمہ داریاں، انسانی حقوق کے اسلامی احکام اور مغربی فلسفہ حقوق کا تقابلی جائزہ، مشکلات القرآن، قرآن کریم کے مشکل مقامات کو حل کرنے کی عملی مشق، مختلف مناہج تفسیر کا تعارف، تاریخ تفسیر، ممتاز عربی تفاسیر کا تعارف، جغرافیہ قرآنی و قصص القرآن، اصول ترجمہ ، اصول تفسیر، اختلاف قرات کا تفسیر قرآن کریم پر اثر، علوم القرآن اور کتب علوم القرآن کا تعارف، ممتاز اردو تفاسیر کا تعارف، قرآن و مستشرقین، علم المیراث، علم القوافی اور علم العروض کا مختصر تعارف، عالم اسلام کی دینی تحریکات کا تعارف، اصول تحقیق اور تحریر کی اقسام، خطابت کی اہمیت اور اس کا تعارف، اس کے علاوہ شرکاء کورس کو ترجمہ و تفسیر کی تیاری کے حوالے سے عملی مشقیں بھی کرائیں گئیں۔
تقریب سے مولانا زاہد الراشدی، مولانا فضل الہادی، مولانا محمد یوسف اور مولانا محفوظ الرحمٰن نے گفتگو کی، مولانا ریاض جھنگوی صاحب کی دعا سے تقریب کا اختتام ہوا۔
Quaid-e-Azam`s Vision of Pakistan
Rule of Law, Human Rights and Democracy
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah was the great political leader of the Muslims of South Asia, whose efforts created an Islamic state in the name of Pakistan at a time when the world was at the peak of ending the relationship between religion and the state. Even the Ottoman Empire, which represented the Islamic Caliphate, had lost its existence. And Turkey, the center of the Ottoman Caliphate, following Europe, broke the relationship of Islam with the state and collective affairs of the society and took the form of a secular country.
In such a conditions, it seems strange that a Western-educated and Western-style leader would campaign for the establishment of a new country in the name of Islam and then establish such a state. It is generally believed that it was the charisma of the intellectual guidance of Mufakkir-e-Pakistan Allama Muhammad Iqbal who set Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah on this path, and offered the Muslims of South Asia the idea of a separate state for themselves by providing the basis for a new political campaign. There is no doubt and it is a matter of fact that the intellectual leader of Pakistan is actually Allama Iqbal, while the general impression about Quaid-e-Azam is that he successfully expressed these sentiments of Muslims politically and played the role of a good lawyer.
But did Quaid-e-Azam have only that much connection with Islam and did he not have any thoughts and feelings of his own regarding Islam? When we consider Quaid-e-Azam's various statements, speeches and his expressions on many important occasions, this is negated. And it is estimated that he himself had clear feelings and position about Islam. And in the struggle for the establishment of an Islamic state and the implementation of the Islamic system in it, he was not only a lawyer, but he himself had the same position in this regard. And he was fully aware of the ideas of other nations about Islam in the global environment of his time, especially the ideological and cultural conflict between the West and Islam. We would like to quote some of his statements in this regard:
According to a booklet published by Maktaba Mahmood Lahore, "Nazria-e-Pakistan Aur Islam", while addressing the meeting of the All India Muslim Students Federation in 1943, Quaid-e-Azam said, "I am asked what the style of government of Pakistan will be? Who am I to determine the style of government of Pakistan? This work belongs to the people of Pakistan, and in my opinion, the style of government of the Muslims was decided by the Holy Quran thirteen hundred years ago.
According to the same booklet, in a letter written to Mahatma Gandhi during August 1944, Quaid-e-Azam wrote that "The Quran is a complete code of life. It provides for all matters, religious or social, civil or criminal, military or penal, economic or commercial. It regulates every act, speech and movement from the ceremonies of religion to those of daily life, from the salvation of the soul to the health of the body; from the rights of all to those of each individual, from punishment here to that in the life to come.
On 15 July 1948, Quaid-e-Azam said in his address on the occasion of the inauguration of the State Bank of Pakistan: “I shall watch with keenness the work of your Research Organization in evolving banking practices compatible with Islamic ideals of social and economic life. The economic system of the West has created almost insoluble problems for humanity and to many of us it appears that only a miracle can save it from disaster that is now facing the world. It has failed to do justice between man and man and to eradicate friction from the international field. On the contrary, it was largely responsible for the two world wars in the last half century. The Western world, in spite of its advantages of mechanization and industrial efficiency is today in a worse mess than ever before in history. The adoption of Western economic theory and practice will not help us in achieving our goal of creating a happy and contented people. We must work our destiny in our own way and present to the world an economic system based on true Islamic concept of equality of manhood and social justice. We will thereby be fulfilling our mission as Muslims and giving to humanity the message of happiness and prosperity of mankind.”
According to Mr. Muhammad Ali Chiragh's book "Quaid-e-Azam Ke Meh Wa Saal”, while addressing the Karachi Bar Association meeting on January 25, 1948, Quaid-e-Azam said that "Islamic rules and regulations are applicable even today, as they were thirteen hundred years ago. Islam is not just a collection of customs, traditions and spiritual ideas, it is also a code of life for every Muslim. In Islam there is no difference between man and man. Equality, freedom and brotherhood are the basic principles of Islam. We will make the Constitution of Pakistan and tell the world that it is a supreme constitutional model.”
From the speeches, statements and messages of the Quaid-e-Azam, many such passages can be cited which show that he was not just representing his "clients" as a lawyer, but his own feelings and thoughts were also involved in this successful advocacy. It is also known that his concept of Islam was not limited and general, but he was fully aware of the constitutional and social character of Islam, as well as the perversion of western ideology and philosophy and the negative effects of the western economic system on the world.
Recently, a young man asked Justice (R) Dr. Javed Iqbal on the occasion of a seminar of the Islamic Ideological Council in Islamabad that what was the concept of Islam of Quaid-e-Azam? I was also present in this meeting. He replied that Quaid-e-Azam believed that (1) rule of law (2) human rights and (3) democracy were not in conflict with Islam and this was his concept of Islam. In my opinion, by saying this, Dr. Javed Iqbal has correctly interpreted the concept of Islam of Quaid-e-Azam, because this is reflected in his statements, speeches, letters and messages, and this approach of Quaid-e-Azam about Islam is not contrary to the events.
The rule of law means that the final authority is the law rather than the individual, and all institutions and individuals of the country are subject to the law rather than the individual. We believe that after the Holy Prophet, peace and blessings be upon him, Islam introduced the concept of the rule of reason and law instead of individual and personality, and made even the Khulafa-e-Rashideen (may Allah be pleased with them) bound by the law and ended the rule of the individual.
The concept of human rights in detail was also first presented by Islam, and it gave the world a balanced system of rights under the title of Huqooq-Allah (Allah’s rights) and Huqooq-al-Ibaad (Human rights) which includes all essential political, social, economic and civil rights.
In the same way, by basing the opinion of the people on the selection of the first Caliph after the Holy Prophet, Islam has told the world that according to it, the ideal system is the one in which the government is formed by the will of the people. And Islam has a one thousand year lead over the West in presenting and implementing this concept.
Therefore, if according to Dr. Javed Iqbal, these are the three foundations of Quaid-e-Azam's concept of Islam, then there is nothing new in it, but it is actually the interpretation of ancient Islamic traditions and teachings.
In this regard, an incident recorded in the memoirs of the late General Muhammad Akbar Khan, "Meri Akhri Manzil" is also of interest. General Akbar Khan writes about a military ceremony in the presence of Quaid-e-Azam after the establishment of Pakistan:
“At the time of the march-past, the instrument of "Long live O the King of Britain" started playing. Quaid-e-Azam protested against the playing of these tunes and ordered me not to welcome me by playing these tunes at any future official function or military parade as it hurts my sentiments. I fought to establish an independent state for the Muslims, and having achieved this state, we pray that the crown of Great Britain will remain upon us forever.”
After the establishment of Pakistan, Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah's sentiments were hurt by hearing the lyrics of "Long live O the King of Britain" and there was a regular protest and alternative order from him. Since his demise, we as a nation have been continuously dancing to the tune of the “greatness” and “long-live” of not only the King of Great Britain but also the King of America. Can no part of Quaid-e-Azam's feelings find a little way to enter the confines of our hearts?
(Google Translate was used for this translation.)
(ترجمہ: ’’قائد کا تصورِ پاکستان: قانون کی حکمرانی، انسانی حقوق اور جمہوریت‘‘ ۔ روزنامہ پاکستان لاہور ، ۱۹ جولائی ۲۰۰۶ء)
الشریعہ — مئی ۲۰۲۴ء
یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ، جہاد کا ایک اہم شعبہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
۲۷ اپریل ۲۰۲۴ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ کے زیر اہتمام اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کے مسئلہ پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیاجا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ گوجرانوالہ کا شکر گزار ہوں کہ ایک اہم موضوع پر اس سیمینار کا اہتمام کیا جس میں جمعیۃ کے سیکرٹری جنرل مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے عمرہ اور بحرین کے حالیہ سفر کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں اور وہاں کے دوستوں کے جذبات سے ہمیں آگاہ کیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
غزہ اور فلسطین کے حالیہ معرکہ کے بارے میں ایک بار پھر یاددہانی کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا کہ اس کی معروضی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں تین فریق آمنے سامنے ہیں جن کے درمیان محاذ آرائی کا بازار گرم ہے:
- اسرائیل ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے لیے سرگرم عمل ہے،
- ایران دولتِ فاطمیہ کی بحالی کا راستہ ہموار کرنے کی کوشش میں ہے،
- جبکہ عرب ممالک کسی واضح ایجنڈے کے بغیر اپنی حکومتیں، ریاستیں اور بادشاہتیں بچانے کی کوشش میں مصروف ہیں،
- اور ایک ممکنہ فریق ترکیہ ہے جو خلافتِ عثمانیہ کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے اور اس کے لیے مناسب مواقع کی تلاش میں ہے۔
باقی پورا عالمِ اسلام خاموش تماشائی ہے اور مسلم حکومتیں اس سلسلہ میں کوئی عملی کردار ادا کرتی دکھائی نہیں دے رہیں۔
اس معرکہ میں بیت المقدس کی حرمت، فلسطین کی آزادی، اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی امداد کے لیے دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح پاکستان کے مسلمان بھی اپنی حمیت اور جذبات کا مسلسل اظہار کر رہے ہیں، مگر اس سے زیادہ کوئی کردار ادا کرنے کے لیے انہیں اپنی حکومتوں کی طرف سے کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ فلسطینیوں کی حمایت میں رائے عامہ کی بیداری، پبلک اجتماعات کا اہتمام، سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے حق میں آواز بلند کرنے کے علاوہ تجارتی بائیکاٹ کے محاذ پر بھی مختلف حلقوں کی سرگرمیاں جاری ہیں، مگر انہیں منظم اور وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس میں عوام کے مختلف طبقات کے ساتھ ریاستی اداروں اور حکومتی حلقوں کا شریک ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔
جہاں تک تجارتی بائیکاٹ کا تعلق ہے، یہ بھی جنگ کا حصہ ہوتا ہے اور اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کا مکہ والوں نے شعب ابی طالب میں جو محاصرہ کیا تھا اور تین سال تک معاشرتی اور معاشی بائیکاٹ کا ماحول قائم رکھا تھا، وہ معاشی جنگ ہی کا اظہار تھا۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بدر کے غزوہ کا آغاز قریش کے تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے کی مہم سے کیا تھا، جس کے بارے میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تم قافلہ کو روکنے کی طرف جا رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا رخ بدر کی طرف موڑ کر معرکہ بپا کروا دیا۔ صلح حدیبیہ میں کفار مکہ کی طرف سے یہ یکطرفہ اور غلط شرط مسلمانوں کے لیے انتہائی اضطراب کا باعث بنی تھی کہ باہم صلح کے دور میں قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمان اسے واپس کرنے کے پابند ہوں گے، جبکہ مسلمانوں میں سے کوئی شخص انہیں چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلا گیا تو اس کی واپسی ضروری نہیں ہو گی۔ اس شرط پر مسلمانوں کے اضطراب بالخصوص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بے چینی کے باوجود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاہدہ کی خاطر منظور کر لیا تھا۔ مگر بعد میں مکہ والوں کو خود یہ شرط واپس لینا پڑی تھی جس کی وجہ یہ بنی کہ حضرت ابوبصیرؓ مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدہ کے مطابق انہیں قریش کے دو نمائندوں کے ساتھ واپس بھیج دیا، مگر واپس مکہ مکرمہ جانے کی بجائے انہوں نے راستہ میں قریش کے ایک نمائندہ کو قتل کر کے محفوظ جگہ ٹھکانہ بنا لیا جس میں رفتہ رفتہ وہ لوگ جمع ہوتے گئے جو مسلمان ہو گئے تھے مگر معاہدہ کی رو سے مدینہ منورہ والے انہیں پناہ نہیں دے سکتے تھے۔ ان لوگوں نے مضبوط جتھہ اور مرکز بنا کر قریش کے تجارتی قافلوں کو روکنا شروع کر دیا تھا جس کے کچھ عرصہ جاری رہنے پر مکہ والوں نے اپنی تجارت کو خطرہ محسوس کیا تو خود وفد بھیج کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اڈے کو ختم کرنے کی گزارش کی اور اس کے لیے انہوں نے مذکورہ شرط واپس لے لی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشی ناکہ بندی اور تجارتی بائیکاٹ بھی جنگی حکمتِ عملی کا حصہ ہوتا ہے اور جہاد کا ایک شعبہ ہے۔ پھر قرآن کریم نے جہاد کے مسائل کے ذکر میں ’’ولا ینالون من عدو نیلاً‘‘ فرما کر یہ اعلان کیا کہ حالتِ جنگ میں دشمن کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا جہاد کا حصہ اور عملِ صالح ہے۔ اس لیے اگر ہم آج غزہ کے مجاہدین کی اور کوئی مدد نہیں کر سکتے تو اسرائیلی اور یہودی مصنوعات کا منظم بائیکاٹ کر کے عملاً اس جہاد میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور ہمیں یہ کام منظم اور مربوط طریقہ سے وسیع ماحول میں کرنا چاہیے اور ہمارے آج کے اس سیمینار کا قوم کے نام یہی پیغام ہے کہ یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کو منظم کرنا اس جہاد میں ہماری عملی شرکت کا قابلِ عمل ذریعہ ہے اور ہمیں ہر طرح سے اس میں شریک ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۱۲)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(490) وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ
وَوَاعَدْنَا مُوسَی ثَلَاثِینَ لَیْلَۃً وَأَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیقَاتُ رَبِّہِ أَرْبَعِینَ لَیْلَۃً۔ (الاعراف: 142)
”ہم نے موسیٰؑ کو تیس شب و روز کے لیے (کوہ سینا پر) طلب کیا اور بعد میں دس دن کا اور اضافہ کردیا، اِس طرح اُس کے رب کی مقرر کردہ مدت پورے چالیس دن ہو گئی“۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجمے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں۔ ایک تو یہ کہ لیلۃ کا ترجمہ ایک بار ’شب و روز‘ اور اس کے بعد دو بار ’دن‘ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ لیلۃ سے یہاں مراد اگرچہ دن اور رات ملا کر پورا وقت ہے لیکن یہاں اصل رات ہے اور دن اس میں ضمنی طور پر شامل ہے۔ قرآن نے دوسرے مقام پر بھی اس کے لیے لیلۃ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ اس میں رات کی خصوصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ دن کا لفظ اس خصوصیت پر پردہ ڈال دیتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اَتْمَمْنَاہَا بِعَشْرٍ کا مطلب صرف اضافہ کرنا نہیں بلکہ مکمل کرنا ہے۔ درج ذیل ترجمے میں ان دونوں خامیوں کو دور کردیا گیا ہے۔
”اور وعدہ ٹھیرایا ہم نے موسی سے تیس رات کا اور پورا کیا ان کو اور دس سے، تب پوری ہوئی مدت تیرے رب کی چالیس رات“۔ (شاہ عبدالقادر)
(491) کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَةَ
درج ذیل دونوں جملوں میں ربط قائم کرنے کے لیے بعض لوگوں نے ایک جملے کو بیچ میں محذوف مانا ہے۔ حالاں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کیا ہے اسی کا تقاضا ہے کہ وہ انسانوں کو قیامت کے دن جمع کرے۔ لَیَجْمَعَنَّکُمْ میں جو تاکید ہے وہ کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ سے پورے طور پر ہم آہنگ ہے، گویا وہ اس کی رحمت کا ظہور ہے۔
کَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَیَجْمَعَنَّکُمْ اِلَی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔ (الانعام: 12)
”اس نے مخلوق پر رحمت کرنا اپنے اوپر لازم کر لی ہے (اس لیے جلدی سزا نہیں دیتا) وہ قیامت تک جس میں کوئی شک نہیں ہے تم سب کو اکٹھا کرتا رہے گا (پھر یکجا کرکے لائے گا)“۔ (محمد حسین نجفی)
”اس نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے (اسی لیے وہ نافرمانیوں اور سرکشیوں پر تمہیں جلدی سے نہیں پکڑ لیتا)، قیامت کے روز وہ تم سب کو ضرور جمع کرے گا“۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں قوسین میں مذکور جملہ غیر ضروری ہے اور عبارت کے مفہوم کو کم زور کرتا ہے۔ درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:
”اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کر رکھی ہے وہ تم کو جمع کر کے ضرور لے جائے گا قیامت کے دن کی طرف“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اس نے اپنی ذات (پاک) پر رحمت کو لازم کر لیا ہے وہ تم سب کو قیامت کے دن جس میں کچھ بھی شک نہیں ضرور جمع کرے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)
(492) وَلَا یُطْعَمُ کا ترجمہ
درج ذیل جملے میں اطعام یعنی کھلانے اور نہیں کھلائے جانے کی بات ہے۔ یہاں یہ بات نہیں بتائی جارہی ہے کہ اللہ کھاتا نہیں ہے، بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اللہ کھلاتا ہے اور اللہ کو کھلایا نہیں جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اللہ سب کی ضرورت پوری کرتا ہے اور اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ اللہ تعالی تو ہر چیز سے بے نیاز ہے، تاہم یہاں کھانے سے بے نیازی کا بیان نہیں بلکہ کھلانے والوں سے بے نیازی کا بیان ہے۔ وَلَا یُطْعَمُ کے الفاظ کا مفہوم یہی ہے۔
وَہُوَ یُطْعِمُ وَلَا یُطْعَمُ۔ (الانعام: 14)
”اور جو روزی دیتا ہے روزی لیتا نہیں ہے“۔ (سید مودودی)
”اور وہ کھلاتا ہے اور کھانے سے پاک ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور وہ کھلاتا ہے کھاتا نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجمے وَلَا یُطْعَمُ کا صحیح مفہوم ادا نہیں کرتے ہیں۔
”اور جو کہ کھانے کو دیتا ہے اور اس کو کوئی کھانے کو نہیں دیتا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور وہ سب کو کھلاتا ہے اور اس کو کوئی نہیں کھلاتا“۔ (شاہ عبدالقادر)
درج بالا دونوں ترجمے بھی باریکی کے ساتھ لفظ کا مفہوم ادا نہیں کرتے۔ اسے کوئی کھانے کو نہیں دیتا اور اسے کھلایا نہیں جاتا میں باریک فرق ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی لفظ کی پوری رعایت کے ساتھ درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”اور وہ کھلاتا ہے اور اس کو کھلایا نہیں جاتا“۔
(493) ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ کا ترجمہ
درج ذیل عبارت میں فتنۃ کا ترجمہ کرنے میں لوگوں کو دشواری ہوئی ہے، اسی لیے لوگوں نے فتنہ کے مختلف ترجمے کیے ہیں، جیسے: عذر، فریب، شرک، بناوٹ وغیرہ۔ اس دشواری کی وجہ شاید یہ ہے کہ قیامت کے دن فتنہ کی تو کوئی گنجائش ہوگی نہیں، پھر اس وقت فتنہ کیسے ہوگا۔
ثُمَّ لَمْ تَکُنْ فِتْنَتُہُمْ اِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللَّہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِینَ۔ (الانعام: 23)
”تو وہ اِس کے سوا کوئی فتنہ نہ اٹھا سکیں گے کہ (یہ جھوٹا بیان دیں کہ) اے ہمارے آقا! تیری قسم ہم ہرگز مشرک نہ تھے“۔ (سید مودودی)
یہ ترجمہ درست نہیں ہے کیوں کہ اس دن تو وہ کوئی فتنہ نہیں اٹھاسکیں گے۔
”تو ان سے کچھ عذر نہ بن پڑے گا (اور) بجز اس کے (کچھ چارہ نہ ہوگا) کہ کہیں خدا کی قسم جو ہمارا پروردگار ہے ہم شریک نہیں بناتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”پھر ان کے شرک کا انجام اس کے سوا اور کچھ بھی نہ ہوگا کہ وہ یوں کہیں گے کہ قسم اللہ کی اپنے پروردگار کی ہم مشرک نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”پھر ان کی کچھ بناوٹ نہ رہی مگر یہ کہ بولے ہمیں اپنے رب اللہ کی قسم کہ ہم مشرک نہ تھے“۔ (احمد رضا خان)
”پھر ان کے فریب کا پردہ چاک ہوجائے گا مگر یہ کہ وہ کہیں گے کہ اللہ اپنے رب کی قسم! ہم مشرک نہیں تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”پھر نہ رہے گی ان کی شرارت مگر یہی کہ کہیں گے قسم ہے اللہ کی اپنے رب کی ہم شریک نہ کرتے تھے“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”ان کی فتنہ سازی کا حال یہ ہوا کہ انھوں نے کہا اے اللہ، ہمارے رب کی قسم ہم مشرک نہ تھے“۔ گویا دنیا کی فتنہ سازی آخرت کی اس بے بسی پر جاکر ختم ہوئی۔
(494) فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْأَرْضِ
درج ذیل عبارت میں اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ، امر کا جملہ نہیں ہے، بلکہ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ کا مفعول بہ ہے۔ ترجمہ اس کی رعایت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ بعض لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے گویا کہ زمین میں سرنگ یا آسمان میں سیڑھی ڈھونڈنے کو کہا جارہا ہے:
وَاِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَاءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِآیَۃٍ۔ (الانعام: 35)
”اور اگر ان کا منھ پھیرنا تم پر شاق گزرا ہے تو اگر تم سے ہوسکے تو زمین میں کوئی سرنگ تلاش کرلو یا آسمان میں زینہ پھر ان کے لیے نشانی لے آؤ“۔ (احمد رضا خان)
”اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی (تلاش کرو) پھر ان کے پاس کوئی معجزہ لاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)
”تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈو یا آسمان میں سیڑھی لگاؤ اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو“۔ (سید مودودی، ’اگر تم میں کچھ زور ہے‘ کی جگہ ’اگر تمہارے بس میں ہو‘ مناسب ہے۔)
درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:
”اور اگر ان کا اعراض تم پر گراں گزر رہا ہے تو اگر تم زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی زینہ ڈھونڈ سکو کہ ان کے پاس کوئی نشانی لا دو تو کر دیکھو“۔(امین احسن اصلاحی)
”اور اگر آپ کو ان کا اعراض گراں گزرتا ہے تواگر آپ کو یہ قدرت ہے کہ زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈھ لو پھر کوئی معجزہ لے آؤ تو کرو“۔ (اشرف علی تھانوی)
(495) قُلْ أَرَأَیْتَکُمْ إِنْ أَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ
درج ذیل دونوں آیتوں کا تعلق مستقبل سے ہے، بعض لوگوں نے دونوں آیتوں کا ترجمہ حال کا کیا ہے اور بعض نے دوسری آیت کا ترجمہ حال کا کیا ہے۔
قُلْ اَرَاَیْتَکُمْ اِنْ اَتَاکُمْ عَذَابُ اللَّہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ اللَّہِ تَدْعُونَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔ بَلْ اِیَّاہُ تَدْعُونَ فَیَکْشِفُ مَا تَدْعُونَ اِلَیْہِ اِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِکُونَ۔ (الانعام: 40، 41)
”ان سے کہو، ذرا غور کر کے بتاؤ، اگر کبھی تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا اس وقت تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو؟ بولو اگر تم سچے ہو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو، پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتا ہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو“۔ (سید مودودی)
حال کا ترجمہ کرنے کی وجہ سے عَذَابُ اور السَّاعَۃُ کا الگ ہٹ کر ترجمہ کرنا پڑا۔ جب کہ (یونس: 50) اور (الانعام: 47) میں اسی طرح کے جملوں کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے اور عذاب کا ترجمہ عذاب کیا ہے۔
”کہہ دو، بتاؤ، اگر تم پر اللہ کا عذاب آجائے یا قیامت آدھمکے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو؟ بلکہ اسی کو پکاروگے تو وہ دور کردیتا ہے اس مصیبت کو جس کے لیے تم اس کو پکارتے ہو اگر چاہتا ہے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان کو بھول جاتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”کہو (کافرو) بھلا دیکھو تو اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو تو کیا تم (ایسی حالت میں) خدا کے سوا کسی اور کو پکارو گے؟ اگر سچے ہو (تو بتاؤ)۔ بلکہ (مصیبت کے وقت تم) اسی کو پکارتے ہو تو جس دکھ کے لیے اسے پکارتے ہو۔ وہ اگر چاہتا ہے تو اس کو دور کردیتا ہے اور جن کو تم شریک بناتے ہو (اس وقت) انہیں بھول جاتے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں مستقبل کا ترجمہ کرتے کرتے کچھ جملوں کا حال کا ترجمہ کردیا ہے۔
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
”آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی عذاب آپڑے یا تم پر قیامت ہی آپہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔ اگر تم سچے ہو۔ بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لیے تم پکارو گے اگر وہ چاہے تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے“۔ (محمد جوناگڑھی)
(496) اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ
اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ کا موزوں ترجمہ ایک دوسرے سے فائدہ اٹھانا ہے نہ کہ ایک دوسرے کو استعمال کرنا۔
وَقَالَ اَوْلِیَاؤُہُمْ مِنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ۔ (الانعام: 128)
”تو جو انسانوں میں ان کے دوستدار ہوں گے وہ کہیں گے کہ پروردگار ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”جو انسان ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے تھے وہ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم میں ایک نے دوسرے سے فائدہ حاصل کیا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”انسانوں میں سے جو اُن کے رفیق تھے وہ عرض کریں گے، پروردگار! ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے کو خوب استعمال کیا ہے“۔ (سید مودودی)
(497) وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا
درج ذیل آیت میں نُوَلِّی کا لفظ آیا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے دوست بنانا، نہ کہ مسلط کرنا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بات مستقبل میں قیامت میں پیش نہیں آئے گی، کیوں کہ وہاں تو سارے ظالم ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے۔ یہ زمانہ حال کا بیان ہے کہ اللہ ظالموں کو دنیا میں ایک دوسرے کا دوست بناتا ہے۔ گذشتہ آیت میں ایسے اولیاء کا ذکر بھی آیا ہے۔
وَکَذَلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ۔ (الانعام: 129)
”اور یونہی ہم ظالموں میں ایک کو دوسرے پر مسلط کرتے ہیں بدلہ ان کے کیے کا“۔ (احمد رضا خان)
”اسی طرح ہم مسلط کردیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے پر بسبب ان کی کرتوتوں کے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اسی طرح ہم ظالموں کو ان کے اعمال کے سبب جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے پر مسلط کر دیتے ہیں“۔(فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مسلط کرنا درست نہیں ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں نُوَلِّی کا ترجمہ مستقبل سے کرنا مناسب نہیں ہے:
”دیکھو، اس طرح ہم (آخرت میں) ظالموں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنائیں گے اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ (دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر) کرتے تھے“۔ (سید مودودی)
”اور اسی طرح ہم بعض کفار کو بعض کے قریب رکھیں گے ان کے اعمال کے سبب“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور اسی طرح ہم ساتھ ملادیں گے گنہ گاروں کو ایک دوسرے سے بدلا ان کی کمائی کا“۔ (شاہ عبدالقادر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
”اسی طرح ہم دوست بنادیتے ہیں ظالموں کو ایک دوسرے کا، اُس کمائی کی وجہ سے جو وہ کرتے رہے ہیں“۔
(498) فَرْشًا کا ترجمہ
درج ذیل جملے میں حَمُولَۃً اور فَرْشًا دو الفاظ آئے ہیں۔ حَمُولَۃ سے مراد اونچے قد کے مویشی ہیں جیسے اونٹ گائے، اور فَرْش سے مراد چھوٹے قد کے مویشی ہیں جیسے بھیڑ بکری۔
وَمِنَ الْاَنْعَامِ حَمُولَۃً وَفَرْشًا۔ (الانعام: 142)
”اور مواشی میں اونچے قد کے اور چھوٹے قد کے (پیدا کیے)“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور چارپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (یعنی بڑے بڑے) بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے (یعنی چھوٹے چھوٹے) بھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
البتہ درج ذیل ترجمے میں فرش کا ترجمہ جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں کیا ہے:
”پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں“۔ (سید مودودی)
اس ترجمے کی توجیہ یہ کی گئی ہے کہ بھیڑ بکریوں کو زمین پر لٹاکر ذبح کیا جاتا ہے اور ان کی کھال کا بستر بنتا ہے۔ لیکن یہ توجیہ درست نہیں ہے کیوں گائے بیل بھی زمین پر لٹاکر ذبح کیے جاتے ہیں اور ان کی کھال بھی استعمال میں آتی ہے۔
(499) مِنْ إِمْلَاقٍ کا ترجمہ
قرآن میں ایک جگہ وَلَا تَقْتُلُوا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ (الاسراء: 31) آیا ہے، جس کا ترجمہ ہوگا: ”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔“ جب کہ درج ذیل مقام پر خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ کی جگہ مِنْ اِمْلَاقٍ آیا ہے۔ یہاں ”افلاس کا ڈر اور اندیشہ“ ترجمہ نہیں ہوگا بلکہ ”افلاس کا سبب“ ترجمہ ہوگا۔ دونوں میں لطیف فرق یہ ہے کہ افلاس کے ڈر کا مطلب یہ ہے کہ ابھی افلاس کی حالت نہیں ہے مگر کثرت اولاد سے افلاس کا اندیشہ ہے، جب کہ افلاس کے سبب کا مطلب یہ ہے کہ افلاس طاری ہوچکا ہے۔ اس طرح دونوں جگہوں پر الگ الگ کیفیتوں کے بارے میں رہنمائی کردی گئی۔
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَکُمْ مِنْ اِمْلَاقٍ۔ (الانعام: 151)
”اور مت مار ڈالو اولاد اپنی کو ڈر افلاس سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو“۔ (سید مودودی)
”اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں:
”اور مار نہ ڈالو اپنی اولاد مفلسی سے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث“۔ (احمد رضا خان)
”اور اپنی اولاد کو افلاس کے سبب قتل مت کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)
صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۱)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
سہیل طاہر مجددی
اللہ تقدس و تعالیٰ کی حمد و ثناء ہے جس نے ہم سب کو خاتم النبیین والمرسلین ﷺ کے ذریعے نور ہدایت عطا کیا اور حضرت محمد ﷺ پر کروڑوں درود جنہوں نے ہمیں خُدا سے اقرب ترین راہ وصل سمجھایا اور خود اس پر عمل فرما کر ہماری عقول کو وہم کے فتنوں سے بچایا!
ہم نے یہ مختصر رسالہ صوفیہ کرام کے بعض ایسے مقامات اور کلام کی وضاحت کے لئے لکھا ہے جسے سمجھے بغیر لوگ ان کے متعلق بدگمانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اللہ سبحانہ ہماری محنت کو قبول فرمائے آمین ثُم آمین ۔ اس مقالے کی خصوصیت یہ ہے کہ اردو زبان میں ان حقائق کو اس ترتیب کے ساتھ موضوع نہیں بنایا گیا، اگرچہ بمبئی سے شائع ہونے والے شمارے "انوار القدس" میں مراتب وجود کے تین مراتب پر بحث ملتی ہے، تاہم یہ شمارہ فسادات تقسیم ھند 1947 کی نذر ہوگیا۔ اس شمارے کا کچھ مواد محمد ذوقی صاحب کی کتاب "سردلبراں" کے ضمیمہ میں نشر کیا گیا ہے مگر وہ بیان گنجلگ ہونے کی بنا پر حصول مقصد کے لئے نارسا ہے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر محمد خان صاحب کی کتاب "اعیان ثابتہ "بھی اہم ہے، تاہم مختصر ہونے کے علاوہ اس کے بیان میں بعض غلطیاں بھی ملتی ہیں۔ اس رسالہ کی تیاری میں ہم نے حسین بن علی رضی اللہ عنہ کی "مراۃ العارفین"، ابوسعید مبارک کی "تحفہ مراسلہ"، شیخ اکبر کی "فصوص الحکم "اور "الفتوحات المکیہ"، عبدالرحمٰن جامی کی "لوائح "، مجدد الف ثانی کی "معارف لدنیہ "اور "مکتوبات شریف"، داراشکوہ کی "حق نما"، اور عبدالرحمٰن لکھنوی کی "تنزلاتِ ستہ "وغیرہ سے مدد لی ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ قاری کو وہ بنیادی کلید ہاتھ آجائے گی جس سے وہ فکری طور پر صوفیہ کرام کے معاملات کو سمجھ سکے اور بدگمانیاں زائل ہو جائیں ، اگرچہ ان کے قدم پر ذوق نصیب ہو یا نہ ہو مگر اس کی برکت سے کچھ نا کچھ اس ذوق و شوق میں برکت کے آثار ضرور پیدا ہو جائیں گے جو کہ محمود و مطلوب ہیں۔
قدیم ذات کا مخلوق کے ساتھ ربط کیا و کیسے قائم ہے؟ تمام مذاہب کی مباحث الہیات نیز فلسفے کی مباحث وجودیات میں یہ چوٹی کا سوال رہا ہے جس کے متعدد جوابات دئیے گئے۔ بعض گروہ ثنویت (duality) کے قائل ہوئے (کہ مثلاً خدا کے علاوہ مادہ بھی قدیم ہے یا ایک کے بعد دوسری مخلوق کا سلسلہ ازل سے اس طرح جاری ہے کہ ایک مخلوق دوسری مخلوق ہی سے وجود پزیر ہوتی ہے) جبکہ بعض نے کہا کہ عالم حادث ہے جو عدم سے وجود پزیر ہوا (یعنی یہ نہ تھا اور پھر ہوا)۔ محقق صوفیائے کرام نے بھی اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کے ساتھ اس بحث میں اپنا حصہ ڈالا، ان کے موقف کو "توحید وجودی" یا "وحدت الوجود" جیسے نام دئیے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں صوفیہ کے اس موقف پر روشنی ڈالی جائے گی تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کی عبارات کو کس نظام فکر پر پیش کر کے پڑھا جانا چاہئے۔ صوفیہ کا موقف سمجھنے کے لئے مراتب وجود سمجھنا ضروری ہے جس سے متعدد غلط فہمیاں خود بخود کافور ہو جاتی ہیں جیسے یہ کہ صوفیہ ذات باری کے عالم کے ساتھ اتحاد یا اس میں حلول کے قائل ہیں یا تنزلات کے نتیجے میں خدا ہی کائنات بن گیا ہے وغیرہ۔ اس مقالے کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں "مراتب وجود" جبکہ دوسرے میں اس پر متفرع ہونے والے توحید وجودی کے بعض مسائل پر گفتگو کی جائے گی۔
1۔ مراتب وجود
ابتدائی تعارف
وجودی و شہودی فکر میں مراتب وجود چھ 1 (اور بعض کے مطابق پانچ 2)ہیں: 3 (1) مرتبہ لاتعین یا ذات، (2) وحدت یا وجود مطلق، (3) وحدانیت، (4) عالم امر و روح، (5) عالم مثال اور (6) عالم ناسوت (یہ زمان و مکان سے متعلق مخلوقات کا عالم ہے)۔ ہر مرتبہ وجود اپنے ماقبل سے "لاعین ولا غیر" (he-not he) کی نسبت رکھتا ہے، یعنی خود اپنے تشخص (identification) میں ایسے احکام (particularities) سے عبارت ہے جو اسے ماقبل مرتبے سے ممیز و الگ (distinguish) کرتا ہے جبکہ بعض احکام یا جہات میں یہ ماقبل کے ساتھ متصل بھی ہوتا ہے تاکہ نچلے مراتب میں عالم قائم رہے۔ ہر اوپری مرتبے کے لحاظ سے نچلا مرتبہ اعتباری یا حکمی (relative) ہے: یعنی پہلے کے لحاظ سے دوسرا اور دوسرے کے لحاظ سے تیسرا درجہ اعتباری ہے کہ ہر درجے میں احکام آہستہ آہستہ مشخص و متعین (identified یعنی زیادہ عام سے کم عام) ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اشیاء کی تشخیص اور غیریت (otherness / distinction) ان احکام سے عبارت ہے جو ان پر نچلے درجے میں متحقق ہیں۔ اس کے برعکس (یعنی نیچے سے اوپر کی جانب) ترتیب میں دیکھا جائے تو مشخص اشیاء کے احکام کی نفی کرنے سے وہ اپنے سے اوپری یعنی وسیع تر مرتبہ وجود کے حقائق میں جمع ہوتی چلی جائیں گی یہاں تک کہ مرتبہ احدیت اور لاتعین آجائے جو کسی بھی حکم کو قبول نہیں کرتا اور جہاں انسانی عقل و فہم کا کوئی گزر نہیں۔ اسی طرح نیچے کی جہت میں عالم ناسوت کے بعد عدم آجاتا ہے۔
شیخ ابن عربی (م1240ء) نے ان تنزلات سے متعلق امور کو مختلف مقامات و عبارات میں بیان کیا ہے، اگرچہ انہیں اس تفصیل کے ساتھ کسی ایک مقام پر نہ لکھا ہو۔ جس طرح کوئی کلامی یا فقہی مذہب کسی ایک شخص کے خیالات کا نام نہیں ہوتا اسی طرح صوفی افکار ہیں، لہذا کسی ایک ہی شخصیت کے ہاں سب امور کا تذکرہ پایا جانا ضروری نہیں۔ جس طرح اصول فقہ کی تعلیم کے لئے طلبا کو وہ جامع اصولی نظام پڑھایا جاتا ہے جو کئی اہل علم کی صدیوں کی محنت کے بعد تیار ہوا، اسی طرح صوفی فکر کی تعلیم بھی ایک جامع نظام فکر کے ذریعے کرائی جاتی ہے اور یہاں ہم اسے ہی پیش نظر رکھیں گے۔ مجدد الف ثانی (م1624ء) "مکتوبات" میں فرماتے ہیں کہ شیخ اکبر نے کمالِ معرفت سے اس مُشکل مسئلہ (یعنی توحیدِ وُجُودی) کو واضح اور تشریح والا بنایا نیز اسے ابواب اور فصلوں میں تقسیم کیا اور صرف و نحو کی طرح اسے مدون کیا4۔ یہاں ہم اختصار کے ساتھ درجات وجود کا ذکر کرتے ہیں تاکہ صوفی فکر قابل فہم ہو سکے۔ ہر مرتبے کے لئے صوفیہ قرآن و سنت سے استدلال کرتے ہیں، اس تعارفی تحریر میں بعض دلائل ذکر کئے جائیں گے۔
مرتبہ اول: مقام لاتعین
مرتبہ لاتعین (unconditioned or unqualified) سے مراد ذات باری ہے جو وجود مطلق سے بھی ماوراء ہے ("وجود مطلق" دوسرا مرتبہ ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے)۔ لاتعین وہ مرتبہ و مقام ہے جہاں اندیشہ، قیاس، وہم اور گمان کا گزر نہیں اور عقل و الفاظ یہاں ناپید ہیں۔ وجودیہ کے لٹریچر سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ لاتعین ذات اور وجود مطلق گویا ہم معنی ہیں اور لاتعین ان کے نزدیک مطلق یا نرا وجود ہے جبکہ شہودیہ کے نزدیک لاتعین ذات اور وجود مطلق الگ مراتب ہیں، یعنی ذات باری وجود مطلق سے ماوری ہے۔ تاہم یہ تاثر اصطلاحات کے خلط مبحث سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ بعض وجودیہ دو مراتب کے لئے ایک ہی لفظ استعمال کر دیا کرتے تھے، اصلاً دونوں کے موقف میں فرق نہیں۔
مرتبہ لاتعین کے مفہوم کی ادائیگی کے لئے یہ الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں، ہر لفظ خاص جہت سے اس مفہوم کو ادا کرنے والا ہے:
۱۔ ذاتِ بَحت، ۲۔ ذَاتِ ساذَج، ۳۔ ذَاتِ بِلاِ اعتِبار، ٤۔ غَیب ہُوَیَّة، ٥۔ غَیب الغُیُوب، ٦۔ الغَیب المَسْکُوت عَنْهٗ، ۷۔ مُنقَطِع اَلوِجدانی، ۸۔ مُنقَطِع اَلإِشَارات، ۹۔ مَرتَبَةُ ہُوَیَّة، ۱۰۔ اَزَلُ لااَزال، ۱۱۔ مَجہُول اَلنَعت، ۱۲۔ عَینِ کافُور5
مرتبہ دوئم: تجلی اول یا دائرہ وحدت (یا عالم ھاھوت6)
تجلی کا مفہوم
ذات باری نے اپنا ظہور بذریعہ تجلی فرمایا ہے۔ اس ضمن میں پہلی تجلی کو "تعین اول" یا "وحدت" کہتے ہیں جس نے لاتعین ذات کو باقی تمام تجلیات سے الگ کر دیا ہے اور بطور برزخ تمام تجلیات اور لاتعین کے مابین حائل ہو گئی ہے۔ تجلی سے لغوی مراد جلوہ دکھانا ہے جس کا ایک طریقہ ظاہر ہونا اور دوسرا پردہ ھٹا دینا ہے۔ مگر صوفی فکر کے اندر تعینات میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ الله نے خود اپنی ذات سے ایک وجود کو جلوہ بخشا جو صفات الٰہیہ کے وجود و قیام کی وجہ بن گیا ہے۔ تجلی کی اصطلاح قرآن میں مذکور ان الفاظ سے ماخوذ ہے جو اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی اس خواہش کے جواب میں ارشاد فرمائے کہ اے اللہ مجھے اپنا آپ دکھا۔ ارشاد ہوا:
فَلَمَّا تَجَلَّیٰ رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ 7 (پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی)
تجلی کو صوفیہ "تنزل" بھی کہتے ہیں۔ یہاں یہ اپنے لغوی مفہوم میں نہیں ہے کیونکہ تنزل میں کسی شے کا اوپر سے نیچے آنے کا مفہوم ہے جبکہ صوفیہ کے نزدیک بھی ذات باری "الانَ كَمَا كَانَ" ہے، یعنی الله متغیر نہیں ہوا، نیز وہ جہات سے پاک ہے۔ یہاں یہ مجازی معنی میں ہے، یعنی چونکہ بااعتبار لاتعین یہ تجلی ہے اس لیے اس کو تنزل قرار دیا گیا ہے۔ یہ پہلی تجلی اور تجلی اعظم ہے یعنی وہ تجلی جس نے تمام تجلیات کو ذات باری سے بلاواسطہ تعلق سے روک دیا ہے یا جو حجاب بن گئی ہے۔
اس مرتبہ تعین کو سمجھانے کے لیے صوفیہ نے اس کو ایک دائرہ بنام "وحدت" سے بیان کیا ہے۔ ذیل کی صورت میں اس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اس دائرے کی دو قوسیں ہیں جن کے درمیان ایک برزخ ہے جو دونوں قوسوں کو جدا کرتی ہے جیسا کہ اس شکل سے ظاہر کیا گیا ہے۔ دو قوسوں پر محیط اس دائرے کا نام "وحدت" ہے۔ اوپری اور نچلی قوسوں کا نام علیٰ الترتیب "احدیت" اور "واحدیت" ہے اور جو دو مراتب کو ظاہر کررہی ہیں، دونوں کے مابین جو خط ہے وہ "برزخِ کُبریٰ" کہلاتا ہے۔ مقام "لاتعین" کو دائرے سے باہر دکھایا گیا ہے جو یہ ظاہر کررہا ہے کہ ذات باری اس پہلی تعیین سے ماوراء ہے۔ دو قوسوں اور برزخ کی تفصیل یوں ہے:
الف) مرتبہ احدیت
احدیت تعین اول ہے، یعنی پہلی تجلی۔ یہ پہلی تعیین "ہونے" (یعنی وجود) کی ایک ایسی قابلیت محضہ ہے جو سب قابلیتوں پر مشتمل ہے، بشمول وہ جمیع صفات و اعتبارات جو وجود اور عدم دونوں سے متعلق ہیں۔ فرض کریں کہ آپ ہر قید، حکم اور نسبت کو ختم کردیں تو آخر میں ایک ایسا وجود باقی رہ جائے گا جو نسبتوں و قیود سے پاک ہوگا، اسے وجود مطلق، ناقابل عدم اور واجب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس جس وجود پر عدم جائز ہو اسے ممکن کہتے ہیں۔ باالفاظ دیگر جمیع تعیینات، صفات و اعتبارات کو نظر انداز کرنے کے بعد جو قابلیت محضہ باقی بچے وہ مرتبہ احدیت ہے، اسے اولیت بھی کہتے ہیں اور باطن بھی۔ اس بالائی قوس کی حقیقت اندیشہ یا وہم و گمان یا قیاس یا کسی بھی ادراکی ذریعہ سے ناقابل گرفت ہے، البتہ یہ تجلی اعظم یعنی "وجود" ہے انسانی فکر یا سوچ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس کا قیام کب، کہاں اور کیسے سے بالکل آزاد ہے، اسی لئے صوفیہ لاتعین کے تعین اول کے تعلق کو تجلی اعظم کے مفہوم کے سوا کسی اور طرح سوچنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ مثالیں یہاں ہیچ ہیں۔ اوپری قوس کے برعکس زیریں قوس کا رخ مخلوق کی طرف ہونے کی وجہ سے شئون ہم انسانوں پر ظاہر ہوگئے ہیں، جیسا کہ آگے ذکر ہوگا۔ اس مقام پر صفات اور شئون کی تمیز بھی ختم ہے (نوٹ: تمیز قائم نہ ہونے کا مطلب معدوم ہونا نہیں)۔ اس مرتبے کو ذات باری کا تنزیہی پہلو بھی کہتے ہیں، سورہ اخلاص میں لفظ "احد" تنزیہی تقاضوں کے بیان کے لئے ہی استعمال ہوا ہے جہاں ذات باری کی شان ضمیر غائب "ھو" سے بیان ہوئی، یعنی وہ ذات کو تعین و ادراک سے ماوراء ہے وہ "احد" ہے، اس سے متعلق ہر ادراک اس کی شان "واحدیت" پر مبنی ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے ۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
يا رسولَ اللہ أين كان رَبُّنا عزَّ وجلَّ قَبلَ أنْ يَخلُقَ خَلقَہٗ؟ قال: كان في عَماءٍ ما تَحتَۂ ھَواءٌ، وما فَوقَہٗ ھَواءٌ ثم خلَقَ عَرشَہ علی الماءِ8
مفہوم: ایک صحابی نے پوچھا اے اللہ کے رسول مخلوق کو پیدا کرنے سے قبل ہمارا رب کہاں تھا تو آپ نے فرمایا "عماء" میں جس کے نہ نیچے ہوا تھی اور نہ اوپر، پھر اس نے پانی پر اپنا عرش پیدا کیا
"عماء" کا ایک معنی بادل ہے، حدیث کے لفظ "عماء" سے شیخ مرتبہ احدیت مراد لیتے ہیں۔ بادل اپنے سے اوپر اور نیچے ہوا میں معلق ہوتا ہے، شیخ کہتے ہیں کہ "عماء" میں موجود اس تشبیہہ کی ذات باری سے تنزیہہ بیان کرنے کے لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس سے اوپر اور نیچے البتہ ہوا نہ تھی۔ اسی طرح ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ "اللہ تھا جبکہ کچھ اور نہ تھا" (كَانَ اللَّہُ وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُہُ9)۔
یاد رہے کہ وجود کا معنی "ہونا" ہے اور یہ معنی اسی ذات کے لئے درست ہوسکتے ہیں جو "از خود" ہو (کہ یہ از خود ہونا وجود کے مفہوم میں شامل ہے) اور از خود ہونا صرف ذات واجب کی شان ہے۔ اس کے برعکس جس کا ہونا کسی کے رہین منت ہو وہ "موجود" تو ہو سکتا ہے لیکن "وجود" نہیں، اس لئے کہ وہ ہوتا نہیں بلکہ "ہونا کیا جاتا "ہے۔ اسی لئے صوفیہ کہتے ہیں کہ وجود تنہا ذات باری کو سزا وار ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ وجود نہیں (ماسوا اللہ کے ہونے کی حقیقت کو بیان کرنے کے لئے مختلف پیرائے استعمال کئے جاتے ہیں، مثلاً وجود کا خیال، وجود کا شہود، وجود کی پرچھائی، وجود کا عکس وغیرہ، تحریر کے مناسب مقام پر اس پر بات ہوگی)۔
(جاری)
حواشی
- لائحہ پنجم، از لوایحِ جامیؒ
- تنزلاتِ ستہ از عبدالرحمٰن لکھنویِ، نیز رسالہ حق نما از داراشکوہ
- مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی نورالخلائق، مکتوب اول، "تنزلاتِ ستّہ" از عبدالرحمٰن لکھنویؒ، نیز "حق نما " از داراشکوہ
- مکتوبات امام ربانیؒ (مختلف مقامات سے کشید کیا گیا)
- مکتوب ۸۹، جلد سؤم، معرفۃالحقائق
- فرھنگ اصطلاحات تصوف173، نیز سر دلبراں 399
- القرآن: الاعراف 143
- سنن جامع ترمذی: رقم الحدیث 3109 نیز ابن ماجہ: : رقم الحدیث 182
- صحیح بخاری : رقم الحدیث 3019 نیز 6982
تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۱)
اسلام میں محبت کی اساسیات غزالیؒ کے حوالے سے
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی
مترجم : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
تعارف
یہ مضمون محبت کے متنوع تصورات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ محبت کی مخصوص اسلامی صورتوں کو بحث میں شامل کرتا ہے، خاص طور پر ان صورتوں کو جنہیں قرون وسطیٰ کے مسلم مفکر و ماہر الہیات امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی 1111ء) نے پیش کیا تھا۔ مقصد محبت کے اسلامی تصور کو ”اگاپے“ (agape) کے غالب مسیحیت مرکزی تصورات اور محبت کی کفارہ پر مبنی شکلوں سے ممیز کرنا ہے جو فی زمانہ بین المذاہب مکالمے کو تشکیل دے رہے ہیں۔ اس مضمون کا استدلال ہے کہ ہمیں محبت کے مختلف تصورات کو تلاش کرنے اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پوپ بینیڈکٹ نے اپنے 2006ء کے ریجنزبرگ لیکچر سے مسلم دنیا کو بدنام کیا۔ ان میں سے بہت سی غلط فہمیوں کا ماخذ عیسائی علم کلام کے کچھ خاص طبقوں میں پائے جانے والے تصوراتِ محبت اور اسلام میں محبت کے اصول کو یکساں سمجھ بیٹھنا ہے۔ تاریخی طور پر، اسلام کا علم کلام رحمت کے اردگرد مرکوز ہے، جب کہ محبت انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ اللہ کے ساتھ تجرباتی تعلقات کے ایک لاہوتی نظام کی زایدہ ہوتی ہے۔ مضمون میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح غزالی کی محبت کے مظاہر محبت کے بارے میں ہمارے شعور میں اضافہ کرتے ہیں۔ معرفت الٰہی، ادراک اور اطاعت کو پیش نظر رکھتے ہوئے غزالی مسلم الٰہیاتی نظام اور دائرہ کے اندر محبت کا ایک پیچیدہ تجرباتی تصور پیش کرتے ہیں۔ یہ تجویز کرنا کہ عیسائیت اور اسلام میں محبت مشترک ہے، جیسا کہ بعض نے کیا ہے، دونوں ہی ثروت مند روایتوں کے ساتھ انصاف نہیں کرتا، بلکہ ہر روایت میں محبت کے تصورات بہت مختلف ہیں۔
’’وہ اور بیو بولتے نہیں۔ اس نے اب تک اس سے سیکھ لیا تھا کہ اپنی تمام تر توجہ اس جانور پر مرکوز رکھے جس کو وہ مار رہے ہیں۔ اسے وہ چیز دے جس میں اسے اب اس کے مناسب نام سے پکارنے میں دشواری نہیں ہوتی: محبت۔‘‘ (جے، ایم، کوئٹزی، ڈسگریس)
’’محبت فرض تھی اور فرض محبت۔‘‘ (وکرم چندر، سیکرڈ گیمز)
اکتوبر2007ء میں عالم اسلام کے 138 ماہرینِ دینیات، بڑی شخصیات اور زعما نے ایک محضر پر دستخط کیے جس کا عنوان تھا: A Common Word Between Us and You (ہمارے اور آپ کے مابین ایک کلمۂ سواء) (1) اس یادداشت میں اس بات پر زور دیا گیا کہ مسلمان اور مسیحی دونوں ”محبت کی مشترک قدر“ پر اتفاق رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر وہ امن و سلامتی کے داعی ہیں۔ محبت کی اس قدر مشترک کے دو جزء ہیں: ایک خدا سے محبت اور دوسری پڑوسی سے محبت۔ اس کے بعد سے اب تک اس یادداشت پر مزید 256 لوگ دستخط کر چکے اور اس بیان کو منظور کر چکے ہیں۔
یہ مصالحانہ اقدام مسلمانوں کی جانب سے دراصل اس سخت بدمزگی کا جواب تھا جو مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین سولہویں پوپ بینیڈکٹ کے اس خطاب کے بعد پیدا ہوئی جو انہوں نے 12 ستمبر 2006ء کو دیا تھا جس میں انہوں نے اسلام پر ایک جارحانہ تبصرہ کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ”غیر عاقلانہ کام کرنا خدا کے نیچرکے خلاف ہے“(2) انہوں نے دعوا کرتے ہوئے کہ مسیحیت نے اب تعقلی رویہ اختیار کر لیا ہے اس کا تقابل اسلام سے کیا اور اس کے لیے بطور حوالہ بازنطینی بادشاہ مینویل ثانی کا ایک فقرہ نقل کیا کہ: ”مجھے بتاؤ محمدﷺ کیا چیز نئی لے کر آئے؟ ظالمانہ اور غیر انسانی حکم کہ مذہب کو بزور شمشیر پھیلایا جائے کے علاوہ اسلام میں آپ کو کچھ نیا نہ ملے گا“(3) پوپ کے اس رمارک سے مسلمانوں کے جذبات شدید طور پر مجروح ہوئے تھے۔ تو متذکرہ بالا مسلم بیان (The Common Word) پوپ کے اسی بیان کا جواب ہے۔ اِس بیان میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں (Love) محبت کو اسلام اور مسیحیت کی ایک قدر مشترک کے طور پر لیا گیا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ ”محبت“ اسلام اور مسیحیت دونوں میں یقیناً ہے مگر دونوں میں علمیاتی طور پر وہ بالکل مختلف انداز میں فنکشن کرتی ہے۔ اگلی سطور میں اسی کی وضاحت کی گئی ہے۔
مجھے دونوں مذاہب میں ایک غلط یکسانیت پیدا کرنے پر اعتراض یوں ہے کہ دونوں کے مابین ظاہری مشابہتوں پر نہ جا کر دونوں کی انفرادیت پر نظر رہنی چاہیے۔ اس جائزہ میں اسلام کی سیاسی دینیات یا دوسرے لفظوں میں اسلام میں محبت کی سیاسیات پر ہی ارتکاز رہے گا۔ دونوں مذاہب میں ”محبت“ کے تصور کا تقابل یہاں میں نہیں کروں گا۔(4)
چونکہ اسلام میں محبت کے مباحث کو پہچاننے اور سمجھنے کا مطلب ہے اسلام میں محبت کے نظام کے ان ظاہری آیپریٹس (ذہنی تصوراتی خاکے) کو سامنے لانا(5) جو کہ ایسا تصور ہے جسے مشیل فوکو نے وضع کیا اور بعد میں جارجیو اگامبین نے اس کو وسیع کیا۔ یہ آ پیریٹس ”مکمل طور پر ایک متضاد چیزوں کی تشکیل کا ڈسکورس ہے'' جس میں فوکو کے خیال میں فن تعمیر کی شکلیں، ضابطے، قوانین، سائنسی، اخلاقی اور فلسفیانہ تجاویز شامل ہوں گی۔(6)
(وضاحت: آپریٹس سے مراد ایسا ذہنی تصوراتی خاکہ ہے جو چند الفاظ و اصطلاحات سے مل کر اپنے زمانی و مکانی اور روایتی سیاق میں ایک خاص معنی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اسلامی روایت میں ”محبت کی آپریٹس“ سے وہ معنی مراد ہوں گے جن کا ارتقاء اسلامی کلامی و اخلاقی ادب کے دائرہ میں ہوا۔ لیکن عیسائی روایت کے سیاق میں یہی لفظ (Love) ایک مختلف معنی دے گا۔ یعنی سیاق بدل جائے تو ایک ہی لفظ اور ایک ہی اصطلاح دو بالکل مختلف معنی دے گی)
میں یہاں پیشگی طور پر دینیاتی رشتوں پر روشنی ڈالوں گا۔ اسلام کے مختلف اظہارات (سنی، شیعہ، اباضی، زیدی، اسماعیلی) میں اللہ تعالیٰ کو عموماً رحمان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن رحمانیت اور محبت میں فرق ہے۔ کئی مصنفین مثلاً ایس ایچ نصر اور غازی بن محمد بن طلال رحمت و رحمانیت کو محبت سے جا ملاتے ہیں۔(7) تو بے پناہ رحمت محبت سے الگ کیسے ہے؟ رحمت اپنے آپ میں ایک مستقل صفت ہے جو اس عالم میں جاری و ساری ہے۔ اسلامی دینیات میں اِس عالم کا ظہور خدا کی صفت رحمت کا ہی ظہور ہے۔ اور اسلام کے سیاسی نظریہ میں یہ رحمت بندھی ہوئی ہے، اطاعت کے عہد سے محبت کے عہد سے نہیں۔ یہ واضح ہے کہ جدید احساسات میں اطاعت دقیانوسی ہو کر رہ گئی ہے۔ اور محبت کا مسیحی ڈسکورس ہی غالب ہے، یہاں تک کہ سیکولر ڈومین میں بھی۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ محبت کے اسلامی تصورات کی روایت دب کر رہ گئی ہے۔ اس مشترکہ بیان میں جدید دور کی بین المذاہب مذاکرات کی سیاست کے چلتے روایت کی عطا کردہ مسلمہ موضوعیت کے مسلمہ اور ممتاز پہلووں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جس میں کاسموپولیٹن ازم اور محبت پر مبنی بین المذاہب ہم آہنگی پر ابھارا جاتا ہے۔ مسلم علمی تاریخ میں جن تصورات کو بہت احتیاط و نزاکت سے برتا گیا ہے ان کو خلط ملط محض اس لیے کیا جا رہا ہے کہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ مسیحت کی طرح اسلام میں بھی ”محبت“ ایک بنیادی قدر ہے۔ مگر اسلامی روایت کی یہ کانٹ چھانٹ بہت خطرناک ہے۔(8)
ایک دوسرے لیول پر Love کی ایک خاص ترکیب مغرب کے سیاسی نظریات میں سرایت کر گئی ہے۔ جو غالباً یوروپ کے مسیحی کلچر اور تہذیب سے ماخوذ ہیں۔ اگمبین ان کو Apparatus یا ذہنی تصوراتی خاکے کا نام دیتا ہے۔ جن کے ذریعہ انسانوں پر زیادہ سے زیادہ تسلط جما لیا جاتا ہے۔(9) تو محبت کے بارے میں کوئی گفتگو جب دو روایتوں میں خلط ملط کر کے ہو جیسے کہ اسلامی و مسیحی روایتیں، تو اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ ایک روایت کو دوسری کا تابع بننا پڑے گا، اور جو زیادہ مضبوط و توانا ہو گی دوسری کو اس کے مطابق ڈھال دیا جائے گا۔ جو بڑے اور مضبوط وسائل والی ہو گی اس کا تسلط ہو جائے گا۔ بدقسمتی سے کامن ورڈ لکھنے والوں نے بے شعوری میں اسلامی روایت کو مسیحی روایت کے تابع بنا ڈالا ہے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض ہے کہ محبت کے غالب تصور کو ”اگاپے“ سے تعبیر کیا جائے جو مسیحیت میں خدا سے بے لوث محبت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اس طرح کی بے لوث و بے فائدہ محبت انسانوں میں نہیں ہوتی ہے۔ یہ خدا کی رحمت سے ہی مل پاتی ہے۔ ”اگاپے“ کو اسلام کے تصور محبت سے خلط ملط نہیں کیا جا سکتا(10)۔ ”اگاپے“ ایک قسم کا مخصوص مسیحی تصورِ محبت ہے جس کی جڑیں حقیقی گناہ میں پائی جاتی ہیں اور جس کے لیے کفارہ کا تصور ہونا لازمی ہے جو اسلام میں ہے ہی نہیں۔(11) مقصد یہ ہے کہ دیانت، استناد اور تکثیریت کے علمیاتی اور جدلی فائدے ظاہر کیے جائیں اگر اس میں غفلت برتی گئی تو ایک نالج ٹریڈیشن ڈی گریڈ ہو جائے گی۔ اور اس سے انسانی تکثیریت کا نقصان ہو گا۔(12)
محبت، اختلاف اور منطقیت
اسلامی تعلیمات میں محبت کے مقام اور اس کے منطقی وصف کی "کامن ورڈ“ کے بیان سے مغایرت، اسلام کی کلاسیکل تعلیمات سے ہر واقف کار پر آشکارا ہے کہ جہاں قرآن (3:64) اہل کتاب یعنی یہود و نصاری اور مسلمانوں کو ایک کلمۂ جامعہ کی طرف بلاتا ہے وہاں اشتراک کی یہ دعوت ہر سہ فریق کے درمیان ایک مشترکہ قدر توحید اور کفر و شرک کی مخالفت پر مرکوز ہے۔ اور جگہوں پر جہاں بھی قرآن یا مختلف مسلم فرقوں کا علم کلام محبت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے وہ ایک مختلف فریم ورک میں رہتے ہوئے ہی اس پر کلام کرتا ہے۔ جو مذکورہ بالا کامن ورڈ سے مختلف ہے۔ مثال کے طور پر کامن ورڈ کا بیان اُس قدر مشترک کا حوالہ دیتا ہے جو خدا کی توحید، رسولوں کے اقرار اور خدا کی حاکمیت پر مبنی ہے۔ یہاں تک تو کامن ورڈ اور اسلام کی روایتی دینیات میں اتفاق و ہم آہنگی ہے۔ مگر آگے کامن ورڈ کے شارحین جو بات کر رہے ہیں وہ کچھ اور ہی کہانی کہتی ہے۔ اسلام میں ایمان مجمل کا ہر فقرہ، کامن ورڈ کے مطابق، ”خدا کی محبت و اخلاص“ کی ایک حالت کا بیان ہے۔ ان کی یہ وضاحت بظاہر بے ضرر سی ہے۔ مگر جب اُس کے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ وضاحت کائنات میں جاری و ساری محبت کے ایک پہلو کی طرف زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے۔ جو کہ ایمان و عبادت دونوں کو محبت کا ہی ایک عمل سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ چیز اسلام کی بنیادی دینیات سے جوہری طور پر مختلف ہے۔
روایتی سطح پر اسلام ایک ایمانی روایت ہے۔ دین کا پہلا مطالبہ خدا کی اطاعت اور اس کے آگے سراَفگندگی ہے۔ دین اُن اعمال کو کہا جاتا ہے جو نجات کے حصول کے لیے ضروری ہیں کیونکہ دنیا دارالعمل اور دارالتکلیف ہے۔(13) اسلام کو ایک دین مان کر بندہ ایک ماورائی خدا کی فرماں برداری کا عہد کرتا ہے۔ اطاعت اور سراَفگندگی محبت کے مماثل نہیں، جیسا کہ میں آگے چل کر وضاحت کروں گا۔ کم ازکم عہد متوسط کے ماہرین دینیات تو یہی بتاتے ہیں کہ محبت خدا کی فرماں برداری کا ثمرہ ہونا چاہیے۔ جب اطاعت پائی گئی تو خدا سے محبت کا رشتہ بھی قائم ہو گیا۔ خدا اور بندہ کے مابین حمد و ثنا کا تعلق خالق اور مخلوق کے رشتہ سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے اطاعت و فرماں برداری اور خود سپردگی ضرور ہونی چاہیے۔
اس کے برعکس مسیحیت میں محبت کی ایک خاص حساسیت پائی جاتی ہے جو مسیحی دینیات کے لیے بہت بنیادی ہے۔ ایچ جی ویلز ایک ناول نگار اور مؤرخ ہے متکلم نہیں۔ اُس نے عیسیٰ مسیح کو متفکرانہ انداز میں اِن لفظوں میں بیان کیا ہے: ”انہوں نے ایک نیا سادہ اور زبردست عقیدہ دیا یعنی ایک عالمگیر محبت کرنے والے باپ خدا کا اور اس کی آسمانی بادشاہت کے آنے کا۔“(14) خدا کا محبت کرنے والا باپ ہونا خدا کے تثلیثی تصور کا ایک جزء اور خدا کے مسلم تصور سے بہت دور ہے۔ اسلام خدا کے تثلیثی تصورات کی مخالفت کرتا ہے۔
آگسٹینین مسیحیت میں محبت کا مقام اور کردار ایک پیچیدہ و مختلف لاہوتی نظام اور امیجری کا حصہ ہے(15) جس کی اصلی بنیاد کفارہ میں پیوست ہے۔ اور جس میں قربانی کی ضرورت انسان کی نجات کے لیے ضروری ہے۔ مسیح علیہ السلام کی صلیب والی قربانی محبت کی علامت ہے۔ یوں ”اپنے پڑوسی سے پیار کرو“ والا اور صلیب کے ذریعہ تلافی کرنے والا پیار مسیحیت کے تثلیثی دینیاتی نظام کا حصہ ہے۔ مسیحیت کا یہ رول غالب یوروپی مسیحی پس منظر اس کے سیاسی تثلیثی و دینیاتی مفروضوں اور ضرورتوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ لیکن اسلام جیسی کسی روایت کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہے۔ مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کو اس میں غالب اخلاقی اور فلسفیانہ نظریات کے سہارے بے شعوری طور پر ملایا جا رہا ہے تاکہ وہ بہتر انداز میں ”مسیحی محبت“ کی وجودیات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کر سکیں۔
خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ: اسلام کا اختلاف کیا ہے؟
کامن ورڈ کے مصنفین نے جس چیز سے صرف نظر کر لیا ہے یا اُسے بائی پاس کر گئے ہیں وہ ہے اسلام میں خدا کی ذات اور اس کی رحمت کا مطالعہ۔ اسلام میں اس سے زیادہ اساسی اور جوہری اور کوئی چیز نہیں جتنی یہ ہے کہ خدا تمام مخلوقات کے لیے رحیم ہے۔ اسلام کا یہ وہ بنیادی اور مرکزی نقطہ ہے جس پر اہل کلام اور فقہاء متصوفین (جو روحانی، فلسفیانہ اور فقہی دقائق کے ترجمان ہیں) سب وسیع طور پر متفق ہیں۔
اسلامی دینیات میں خدا کی دو صفات بطور خاص مستقل اور اہم ہیں۔ یہ ہیں: رحمان اور رحیم کی۔ رحمان جس نے رحمت اپنے اوپر واجب کر لی یا جس کی رحمت کے کوئی حدود نہیں۔ رحیم جس کی رحمت ہر چیز کو محیط ہو(16)۔ یہ بحث بھی موجود ہے کہ خدا کی صفات کا کوئی بھی بیان کیا ان کے معنی کی وسعتوں کا احاطہ کر سکتا ہے کیونکہ ہر صفت کے لیے استعمال کیا گیا لفظ مختلف معانی اور خصوصیتوں کو بتاتا ہے حالانکہ خدا کے ۹۹ نام (اسماء حسنی) ہیں۔ پھر بھی انسانی علم خدائی صفات کے کلی ادراک سے قاصر ہے (17) جیسا کہ فرمایا: ”اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور سارے سمندر روشنائی پھر بھی تیرے رب کے کلمات (صفات) ختم نہیں ہوں گے۔ قرآن (18:109)(18)۔ خدا کی یہ دو صفات خدا کے لیے مخصوص ہیں انہیں مخلوق کی طرف نسبت نہیں دی جا سکتی جیسے بعض اور صفات کا معاملہ ہے مثلاً قادر ہونا یا تخلیق کی صفات کو محدودیت کے ساتھ انسانوں کے لیے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے۔
علاوہ بریں دو اسماء صفات استثنائی ہیں اور دوسرے الفاظ ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔ ان میں ایک ہے: اللہ جو عربی زبان میں اِس کائنات کے خالق و مالک کے لیے مختص ہے۔ دوسرا رحمان ہے یعنی انتہائی درجہ کا مہربان جس کی رحمت کی کوئی حد و نہایت نہیں ہے۔ اِسے اللہ کا مترادف بھی مانا جا سکتا ہے۔(19) (جیسا کہ خود قرآن نے کہا ہے: ”کہو تم اُسے اللہ کہو یا رحمان کہہ کر پکارو، کیونکہ اسی کے ہیں سارے اسماء حسنیٰ (قرآن:۱۱۱) رحمانیت میں کوئی بھی مخلوق اُس کی شریک نہیں ہو سکتی۔ میں آگے وضاحت کروں گا کہ یہ لامحدود اور واجب رحمت ہی اصل میں تمام وجود کا سرچشمہ ہے۔ اسلام کے معروف فقیہ، متکلم و مفکر امام ابو حامد الغزالیؒ (متوفی ۱۱۱۱ء) اللہ کی صفات کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ رحمان اللہ کا مترادف ہے(20)۔ انہوں نے رحمان کی تشریح میں رحمت کی دو قسمیں کی ہیں: رحمت تامہ، اس میں اللہ تعالیٰ صالحین کی ضرورتوں کی دست گیری کرتے ہیں اور رحمت عامہ جو ساری مخلوقات (قطع نظر صالح و غیر صالح کے) کو عام ہے۔جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔(21) غزالی اِس میں مزید اضافہ کرتے ہیں:
”یوں تو الرحمان رحم سے مشتق ہے لیکن اُس کی یہ رحمت بندوں کی پہنچ سے باہر ہے، یہ رحمت اخروی سعادت سے متعلق ہے۔ تو الرحمان اولاً تو وہ ہے جس نے تمام بندوں کو پیدا کر کے ان پر رحمت کی، دوسرے وہ جس نے ایمان کی راہ دکھائی، تیسرے آخری سعادت بخشی، چوتھے آخر میں خدا کا جلوہ دیکھنے کی عزت انہیں بخشی“۔(22)ِ
عبد الکریم الجیلی (متوفی 1408) ایک اہم صوفی مصنف ہیں۔ ان کی رائے میں رحمت وجود کے ہر ذرہ سے مترشح ہوتی ہے۔ اور جتنی بھی مخلوقات ہیں سب میں جاری و ساری ہے۔(23) دوسرے لفظوں میں تخلیق اور رحمت الٰہی لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام میں علم الاسماء والصفات یہ بتاتا ہے کہ رحمت ہی تمام تخلیق کی مقتضی ہوئی۔
امام محیی الدین ابن عربیؒ (متوفی 1240) تصوف کے نہایت دقیق النظر شارح ہیں وہ لکھتے ہیں:
”رحمت میں مبالغہ ہوتا ہے تو رحمت واجبہ اور رحمت امتنانیہ دو قسموں کی ہوتی ہے جیسا کہ قرآن فرماتاہے: ورحمتی وسعت کل شیئی (قرآن،7:156) کائنات کا وجود اسی رحمت امتننانیہ کا مظاہرہ ہے۔ جو لوگ عذاب کا شکار ہوں گے یہی رحمت ان کے ابدی مستقر میں سامان ِراحت بنے گی۔ فرائض کے بجا لانے سے رحمتِ واجبہ کا حصول ہوتا ہے جس کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام سے کہا: خدا کی رحمت کی وجہ سے ہی تم اِن کے لیے نرم و مہربان ہو (3:159) اور فرمایا: ہم نے آپ کو تمام دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے (قرآن:22:107) یہ سب رحمتِ امتنانیہ کی مثالیں ہیں۔ ساری کائنات اسی سے قائم ہے اور پھر یہ رحمت وسیع ہو گئی۔…………جو جانتے ہیں کہ دنیا کے وجود کا سبب کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے یہ چاہا کہ وہ جانا جائے تو اُس نے خلق کو پیدا کیا اور اپنے آپ کو اُن سے پہچنوایا انہوں نے اُسے پہچان لیا۔ اِس لیے ہر چیز اس کی حمد کرتی ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ رحمت کا تعلق سب سے پہلے کس چیز سے ہوا“(24)
یہاں نوٹ کرنے کی چیز یہ ہے کہ یہاں محبت کو نہیں بلکہ رحمت کو وہ صفتِ حاکمہ بتایا گیا ہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے دنیا میں ظہور فرمایا۔
(جاری)
حواشی و تعلیقات
(1) http://www.acommonword.com
(2) Pope Benedict XVI, "Faith, Reason and the University: Memories and Reflections", 706. https://familyofsites. bishopsconference.org.uk/wp-content/uploads/sites/8/2019/07/BXVI-2006-Regensburg-address.pdf
(3) Ibid.
(4) See Heydarpoor, "Love in Christianity and Islam: A Contribution to Religious Ethics".
(5) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge: Selected Interviews and Other Writings", 194; Giorgio Agamben, "What Is an Apparatus?".
(6) Foucault and Gordon, "Power/Knowledge", 194.
(7) طلال،کتا ب کے مقدمہ میں ممتاز اسکالر ایس ایچ نصر دعوا کرتے ہیں کہ خدا نے اپنے آپ سے محبت کی: احببت۔ جبکہ روایت میں اصل بات یوں ہے: احببت ان اعبد (میں نے چاہا کہ میری عبادت کی جائے) (احببت ان اعرف کے الفاظ بھی بعض روایات میں آئے ہیں (مترجم)۔ اس کے علاوہ جہاں بھی رحمت کی اصطلاح آئی ہے مقدمہ نگار اس کو محبت سے خلط ملط کر دیتے ہیں۔حالانکہ تصوف کے سب سے بڑے محقق شارحین مثلاً ابن عربی بتاتے ہیں کہ خدا کی رحمت عامہ (رحمانیہ) ہی ہر وجود کا سبب ہے۔ نصر استدلال کرتے ہیں کہ رحمت و مہربانی میں محبت بھی شامل ہے۔ لیکن خدا کی صفات کو اس طرح ایک دوسرے سے بدلا جا سکتا ہو تو پھر اتنی ساری صفات کا ہونا بے معنی ہو جائے گا۔ ابن عربی کی تحریروں میں رحمت پر بحث کے لیے ملاحظہ کریں:
Shaikh, SaÊdiyya, Sufi Narratives of Intimacy, 75-81
(8) کامن ورڈ کی زبان اور غازی بن محمد بن طلال کی کتاب میں بہت مشابہت ہے جس میں تجزیہ کی بڑی کمی ہے وہ بس مختلف ذرائع سے لیے گئے حوالوں کا ایک مجموعہ بن کر رہ گئی ہے۔
(9) Agamben, "What Is an Apparatus?", 13.
(10) Nygren, "Agape and Eros", pt. 1. A study of the Christian idea of love.--pt. 2. The history of the Christian idea of love.
(11) Gandolfo, "The Power and Vulnerability of Love a Theological Anthropology", 178, 82. Gandolfo establishes how the theological anthropology of redemption is a product of original sin that creates vulnerability. Original sin as a doctrine is absent in Islam.
(12) Quijano, Coloniality of Power, Eurocentrism, and Latin America, 533-580; Mignolo, Decoloniality and Phenomenology, 360-387; "Foreword: On Pluriversality and Multipolarity".
(13)
(14) Wells, The Outline of History: Being a Plain History of Life and Mankind, 529.
(15) Kant, Critique of Pure Reason, 584.
(16) Hamza, Rizvi, and Mayer, An Anthology of Qur'anic Commentaries, 299-302.
(17) Asad, The Message of the Quran, 27.
(18) See these various translations from which I have benefited. Ibid; Khalidi, The Qur'an.
(19) al-Azmeh, The Emergence of Islam in Late Antiquity: Allah and His People, 67, 89. Al-Azmeh observes the universalizing perspectives of monotheism and notes that Rhmnn was the proper name of the montheistic deity of Christians as well as of henotheistic and monolatric deities.
(20) al-Ghazali, المقصدالاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنیٰ 63; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God المقصد الاسنی فی شرح معانی اسماء اللہ الحسنی Translated with Notes, 53.
(21) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 62; Burrell, Daher, and Ghazali, The Ninety-Nine Beautiful Names of God, 54.
(22) al-Ghazali, al-Maqs. ad al-Asna, 63.
(23) 1:88.عبدالکریم الجیلی، الانسان الکامل فی معرفۃ الاوائل والاواخر۔
(24) ابن العربی، الفتوحات المکیہ، 7:294-295 ، باب 558- معرفۃ معانی اسماء اللہ الحسنی۔
مصنف ڈاکٹرابراہیم موسیٰ کیوغ اسکول آف گلوبل افیئرز اینڈ ہسٹری ڈپارٹمنٹ یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم میں مرزا فیملی پروفیسر آف اسلامک تھاٹ اینڈمسلم سوسائٹیز ہیں۔
مترجم ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ادارہ تہذیب الاخلاق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں رسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ mohammad.ghitreef@gmail.com
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر : ایک مطالعہ
مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
اقبال نے جدید فلسفہ و سائنس پر جس علم الکلام کی بنیاد رکھی، اپنی دقت و پیچیدگی کی وجہ سے صرف خواص اہل علم کا ایک طبقہ ہی اس سے مستفید ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ مزید دو اسباب کی بنا پر فکرِ اقبال کی توضیح زیادہ بڑے پیمانے پر ممکن نہیں ہو سکی: ایک تو اقبال کی شاعری کے سحر حلال نے عوام و خواص کو اس طرح مسحور کیا کہ ان کی توجہ ’’خطبات‘‘ کی طرف ملتفت نہ ہو سکی۔ دوسرے، ’’خطبات‘‘ میں اقبال کی ایسی تجدد پسندانہ آرا سامنے آئیں ،جو راسخ العقیدہ اسلامی فکر سے براہ راست طور پر متصادم تھیں اور تنقید کرنے والوں میں سر فہرست خود مولانا سید سلیمان ندوی تھے، جنہیں اقبال معاصر ہندوستانی علماء میں سب سے زیادہ اہمیت دیتے تھے اور جن سے اقبال کے علمی استفادے کا تعلق تادم آخر برقرار رہا۔ اقبال کے فکر و فلسفے کی بنیاد پر کلامی پروجیکٹ کو آگے بڑھانے والوں میں سب سے اہم نام ڈاکٹر محمد رفیع الدین (۱۹۰۴ء۔۱۹۶۹ء) کا ہے۔
تعارف
ڈاکٹر محمد رفیع الدین ۱۹۰۴ء میں ریاست جموں کشمیر (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ یہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد بالترتیب فارسی اور عربی میں بی اے اور ایم اے کیا اور فلسفے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے ۔وہاں مختلف اہم عہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۶۹ء میں ان کا انتقال ہوا۔ فلسفہ اور اسلام کے موضوع پر انہوں نے متعدد اہم کتابیں تصنیف کیں۔ مولانا عبد الماجد دریابادی کی نظر میں علامہ اقبال کے بعد برصغیر ہند میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین ہی مسلمان فلسفی کہلانے کے مستحق ہیں(۱)۔ وہ فکر اقبال کے شیدائی اور حکمت اقبال کے خوشہ چیں تھے۔ بلکہ ان کے اپنے دعوی کے مطابق، ان کی فکر اسی سے ماخوذ اور اسی کی تشریح و توضیح پر مبنی ہے۔ انہوں نے بطور خاص اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر ایک نیا فلسفیانہ نظریہ تشکیل دینے کی کوشش کی۔ اقبالیات پر ان کی کتاب "حکمت اقبال" اور اسلامی فکر و فلسفے کے حوالے سے ان کی کتابیں :Ideology of the Future اور " قرآن اور علم جدید" خصوصی شہرت کی حامل ہیں۔ ان دونوں میں انہوں نے خاص طور پر اقبال کے فلسفہ ٔخودی کو بنیاد بنا کر فکر اسلامی کا نیا ڈھانچہ تیار کرنے یا بالفاظ دیگر اقبال کے تعمیر کردہ ڈھانچے پر نئی منزلیں اٹھانے کی کوشش کی اور اس نے اہل علم کی توجہ اپنی طرف مبذول کی۔ اگرچہ ان کی فکری کاوش پر جس طرح گفتگو ہونی چاہیے تھی، وہ نہ ہو سکی۔
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی کلامی فکر پر ایک نظر
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کا احساس ہے کہ مغرب کا مادی نظریہ ٔ حیات و کائنات دنیا کے تمام مذہبی نظامہائے فکر کے لیے ایک عظیم چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس نے مسیحیت سمیت دنیا کے مختلف مذاہب کی ما بعد الطبیعاتی فکر کے قالب کو بدل ڈالا ۔ اب وہ ایک عرصے سے اسلام پر یلغار کیے ہوئے ہے جس کی وجہ سے موجودہ اسلامی نسلوں میں ذہنی ارتداد کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ موجودہ دنیا میں کفر نئے فلسفے کے لباس میں جلوہ گر ہو کر سامنے آیا ہے(۲)۔ اسلام کے تہذیبی انحطاط کی وجہ بھی مغرب کے یہی غلط فلسفیانہ تصورات ہیں ،جن سے مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں ہی طبقہ یکساں طور پر متاثر ہے۔ جب کہ غلط طور پر اس کا اہم سبب بے عملی کو بتایا جاتا ہے ۔حالانکہ بے عملی اصلاً اسلامی معتقدات پر یقین و اعتماد کے انحطاط کا نتیجہ ہے۔ اسلامی نظریہ ٔحیات و کائنات میں فکری و عملی سطح پر مسلمانوں کے لیے کشش و جاذبیت اس لیے باقی نہیں رہی کہ موجودہ دور میں اس کی غلط تعبیر و تشریح کی گئی ۔دوسری طرف مغرب کے فلسفیانہ تصورات میں بھی یک گونہ حق و صداقت کا پہلو موجود ہے، جو ہمارے دامن فکر کو اپنی طرف کھینچتا رہا اور ہم اسلامی فکر میں اس کی گنجائش محسوس نہ کرتے ہوئے اس کے تئیں ایک حد تک بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا رہے(۳)۔ مغربی فکر کی تنقید اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ علم بالوحی اور علم بالحواس کے صحیح اور متوازن کردار کی تعیین کے ساتھ ر ایک مستحکم فکری نظام تشکیل دینے کی کوشش نہ کی جائے۔
اس بنیادی احساس کے تحت ڈاکٹر رفیع الدین کا طریق فکر و عمل یہ ہے کہ جدید فلسفہ و سائنس کے احساس پر اٹھائی گئی مغرب کے مادی افکار کی عمارت کو اسی کے فکری تیشوں سے توڑنے کی کوشش کی جائے۔ تاہم دوسری طرف اس کے ان پہلوؤں سے مطابقت و ہم آہنگی کی راہیں بھی تلاش کی جائیں جن کی بنیاد پر اسلامی فکر کو ایک نئے قالب میں پیش کیا جا سکے ۔اسلامی فکر کا نیا قالب ان کی نظر میں دراصل وہی ہے جس کی تشکیل عصر حاضر میں اقبال کی فکر سے ہوئی۔ درحقیقت فکر اقبال کی خوبی بھی یہی تھی اور خامی بھی یہی کہ اس کے تشکیلی مادے میں مغرب کی مادی بنام سائنسی فکر کے وہ عناصر بھی شامل کیے گئے تھے جو اسلامی فکر کی ظاہری و باطنی ساخت اور روح کے مغائر تھے۔
محمد رفیع الدین مذہب کو ایک فلسفیانہ حقیقت کی شکل میں پیش کرنے کے اس لیے خواہاں نظر آتے ہیں کہ ان کی نظر میں وہ گہرے طور پر فلسفیانہ حقائق سے مربوط ہے ۔ایک معنی میں فارابی کی فکری کی پیروی کرتے ہوئے وہ سمجھتے ہیں کہ نبوت بجائے خود ایک فلسفہ ہے(۴)۔ گویا اسلام کی فکری قدروں کی تعیین و پیمائش کا ایک میزان فلسفہ بھی ہے جسے وہ "حکمت" سے تعبیر کرتے اور اس کا ماخذ قرآن کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ فلسفہ معروف معنوں میں وہ فلسفہ نہیں ہے جو یونانی اور مغربی کارگاہوں میں ڈھل کر اپنے الفاظ و تصورات کا ایک پیکر محسوس رکھتا ہے ۔ فلسفہ وہ عقلی کاوش ہے جو غلط مفروضات کی بنیاد پر غلط نتائج پیدا کرتا ہے لیکن اگر اس عقلی کاوش کے مفروضات و اساسات درست ہوں تو ان سے صحیح نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وحی اپنے اندر عقلی تسکین کا مکمل سامان نہیں رکھتی۔ اس لیے عقل چاہتی ہے کہ:
’’جن سوالات کے جواب خدا کی وحی پہلے ہی دے چکی ہے یہ ان سوالات کا کوئی ایسا جواب بھی ڈھونڈ نکالے جو اس کے اپنے لیے بھی مکمل طور پر تسکین بخش ہو‘‘(۵)۔
عقل کی اس غیر معمولی اہمیت کے اعتراف کے باوجود وہ اس کی نارسائی کے معترف ہیں اور یہ تصور رکھتے ہیں کہ حقیقت اعلی کا مکمل ادراک کسی بھی طور پر عقل کے لیے ممکن نہیں ہے۔ وہ اس کے صرف جزوی ادراک پر ہی قدرت رکھتی ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل وجدان کے ذریعے ہوتی ہے ۔فلسفہ اور سائنس دونوں ہی اپنی فعلیت میں وجدان سے کام لیتے ہیں ۔گویا حقیقت تک رسائی کا عقل کے بعد دوسرا اہم انسانی ذریعہ وجدان ہے۔ تاہم عقل کی طرح وجدان کو بھی مغالطے لاحق ہوتے ہیں اور ان مغالطوں کی بنیاد پر جس تصور حیات کی تشکیل ہوتی ہے وہ انسان کو گمراہی کے دلدل میں پھنسا دیتا ہے(۶)۔ وہ اپنی فلسفیانہ فکر میں وجدان کو وہی اہمیت دیتے نظر آتے ہیں جو فکر اقبال میں غالب و محسوس نظر آتی ہے۔
سائنس اور مذہب کے درمیان تصادم و کشمکش کی بحث میں وہ اہل دانش کے اس طبقے کے ساتھ ہیں جو اس بات پر زور دیتا ہے کہ سائنس کا علم بھی اقداریت سے خالی (valueless) نہیں ہے۔ سائنسی تحقیق پہلے سے طے شدہ کسی مفروضے اور اعتقادی اصول پر قائم ہوتی ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ وہ اپنی تحقیق میں خالی الذہن اور معروضی ہوتا ہے۔ ہر سائنس داں اپنی سائنسی تحقیق کے پس پشت کچھ مفروضات (assumptions) رکھتا ہے، جو خود حقیقت کائنات کے کسی عقیدے سے ماخوذ ہوتے ہیں اور اس کی تحقیق کے نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں(۷)۔ اقبال نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن رفیع الدین اپنی مختلف تحریروں میں ایک اہم اصول اور کلیے کے طور پر اس کا اعادہ کرتے ہیں جس سے اس حقیقت پر روشنی پڑتی ہے کہ سائنس بجائے خود اپنا ایک عقیدہ رکھتی ہے اور اس معنی میں وہ خود ایک مذہب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ سید حسین نصر اور ضیاء الدین سردار جیسے معاصر مسلم مفکرین نے اب اس پہلو کو زیادہ واشگاف کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم پرویز ہود بھائی اور نضال قسوم جیسے دانشوروں کی ایک تعداد اس نقطہ ٔ نظر کی شدید ناقد ہے۔
رفیع الدین کی نگاہ میں اسلام کے تئیں علمائے اسلام کی طرف سے سب سے اہم ذمہ داری مغربی فلسفہ ٔ حیات و کائنات کے مقابلے میں ایک ایسے فلسفہ ٔ حیات و کائنات کو دنیائے علم میں متعارف کرانا ہے جس سے ایک طرف مغرب کے مادی فلسفوں کی اصولی تردید ہوتی ہو جب کہ دوسری طرف وہ اسلام کی فلسفیانہ روح کا صحیح ترجمان اور اس کے ابدی وغیر متبدل حقائق کا جامع ہو ۔اس فلسفے کے خد و خال پر انہوں نے اپنی مختلف کتب اور تحریروں میں تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے، جس کو وہ "نصب العین" کے فلسفے کا نام دیتے ہیں(۸)۔ زیادہ تفصیل کے ساتھ انہوں نے اپنی کتاب ’’منشور اسلام ‘‘میں اس موضوع پر روشنی ڈالی ہے(۹)۔ سوال یہ ہے کہ انسان کی وہ فطری قوت محرکہ کیا ہے جو اس کو کارگاہ حیات میں متحرک رکھتی ہے اور جس سے تمام تر اعمال و افعال کے چشمے پھوٹتے ہیں؟۔ مارکس، فرائڈ، ایڈلر، میکڈوگل جیسے مادیت پرست فلسفیوں کی نگاہ میں وہ بالترتیب انسان کی معاشی ضرورت، جنسی خواہش اور جبلی امنگ ہے۔ اصل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے غلط مطالعہ و تجزیے سے ان نظریات کو تشکیل دیا گیا ہے ۔انسان کی بنیادی قوت متحرکہ اصلاً اس کا نصب العین اور اس سے محبت ہے۔ نصب العین سے محبت ہی انسانی فطرت کا تقاضا اور انسان کے تمام اعمال کا سرچشمہ بھی وہی ہے(۱۰)۔ جہاں تک اس نصب العین کے وجود و تشکیل کی بات ہے تو وہ دراصل خودی کی پیداوار ہے جسے وہ خود شعوری کا بھی نام دیتے ہیں۔ قدرت کے تمام تر مظاہر کا باعث یہی خودی یا خود شعوری ہے :
’’نصب العین کی محبت مادہ اور جبلت سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ خودی کے ایک مرکزی اور دائمی وصف کے طور پر خود بخود موجود ہے ۔ انسان کی خودی خدا کی محبت کے شدید جذبے کی وجہ سے جو ایک پرزور عمل کی صورت میں نمودار ہوتا ہے ،تخلیق و ارتقا کے ایک مسلسل دور سے گزر رہی ہے ‘‘(۱۱)۔
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’اگر انسان اپنے نصب العین یا آدرش کے اظہار سے صحیح طور پر واقف نہ ہو ،جس کی وجہ تعلیم نبوت و وحی سے دوری ہوتی ہے تو اس کا اظہار وہ غلط طریقے سے کرتا ہے۔ اپنا ایک غلط آئیڈیل منتخب کر کے اسی سے خدا کی صفات منسوب کرتا اور اس کو اپنا معبود تصور کر لیتا ہے‘‘ (۱۲)۔
اس طرح ڈاکٹر محمد رفیع الدین کی فکر کے مطابق، اخلاق کا بنیادی پیمانہ انسان کا اپنا نصب العین ہے۔ نصب العین سے ہی کسی قوم کے اخلاقی افکار و محرکات تشکیل پاتے ہیں۔مغربی اخلاقیات کی اسی تناظر میں قدر پیمائی کرنی چاہیے۔ اقبال کے نظریہ ٔ خودی سے ماخوذ اس فلسفیانہ نظریے میں نصب العین کے تصور کا اضافہ انہوں نے اپنی طرف سے کیا ہے۔ اقبال نے اس کی طرف اشارہ ضرور کیا ہے تا ہم اس کو کوئی واضح اور مرکزی حیثیت نہیں دی ہے جو رفیع الدین کے فلسفے میں نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر محمد رفیع الدین کے فلسفے کا دوسرا اہم عنصر نظریہ ٔ ارتقا ہے، جس کو انہوں نے مختلف نئے پہلوؤں سے پیش کرنے اور اپنے نتائج فکر مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ جدید مسلم دانش وروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو ڈارون کے نظریہ ٔ ارتقا کو درست تصور کرتا ہے اور اس خیال کا حامی ہے کہ : "نوع انسانی نوع حیوانات کی اولاد ہے جو اپنے جسم، دماغ اور نظام عصبی کی ساخت میں انسان سے کم تر درجے کی تھی"(۱۳)۔ وہ اسے قرآنی نظریہ ٔ ارتقا کا نام دیتے ہیں: "حقیقت ارتقا دنیا کے علمی مسلمات میں سے ہے اور قرآن اس کی مخالفت نہیں کرتا ،بلکہ تائید کرتا ہے‘‘(۱۴)۔ البتہ وہ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے سبب ارتقا کے نظریے کو غلط اور گمراہ کن قرار دیتے ہیں ،جس کے مطابق مادے کے اندر ارتقا کا سلسلہ بغیر کسی شعوری محرک اور عقلی تنظیم کے ابتدا سے جاری ہے ،جسے ڈارون کشمکش حیات، قدرتی انتخاب اور بقائے اصلح (survival of fittest) کا نام دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر نظریہ ٔ ارتقا کا پہلا حصہ درست ہے تو ضروری نہیں کہ دوسرا حصہ بھی درست ہو لیکن غلطی یہ ہوئی ہے کہ ان دونوں حصوں کو باہم مخلوط کر دیا گیا ہے۔ کائنات کا وجود و بقا سنت تدریج سے عبارت ہے اور انسان بھی اس سے مستثنی وجود نہیں ہے۔ مزید برآں انسان کے نوعی و جسمانی ارتقا کی طرح اس کا نفسیاتی ارتقا بھی ہوا ہے اور اس ارتقا کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ مرحلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ انسان کی خود شعوری معراج کمال کو نہ پہنچ جائے۔ اسی کے ساتھ کائنات کی بھی تکمیل ہو جائے گی جو گویا بجائے خود نمو و ارتقا کے مرحلے میں ہے (۱۵)۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم ’’کن‘‘ (ہوجا) سے یہ مطلب اخذ کرنا غلط ہے کہ کائنات اس حکم کے تحت فورا وجود میں آگئی۔ اس آیت کا مطلب فقط اتنا ہے کہ کائنات خدا کے حکم سے وجود میں آئی ہے۔ اس میں کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ اس حکم کو تدریج پر محمول کیا جائے اور اس تصور تدریج میں یہ امر شامل ہے کہ کائنات کی تشکیل وجود کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آفرینش کائنات،تخلیق وہبوط آدم،زمین وآسمان اور پہاڑوں پر خدا کی طرف سے امانت پیش کیے جانے( الاحزاب:۷۲) جیسے اس سلسلے کے تمام واقعات کو انہوں نے مجاز و تمثیل پر محمول کیا ہے(۱۶)۔
وہ اپنے اس فلسفۂ ارتقا کے تناظر میں اسلام کے ما بعد الطبیعاتی تصورات کی تشریح و وضاحت کرتے ہیں۔ چناں چہ نبوت کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ انسان کے اندر خود شعوری کی محبت کمزور پڑ جاتی ہے جس کے بعد صحیح نصب العین کے ساتھ اس کے عملی تقاضوں کی تکمیل ممکن نہیں رہتی۔ ایسے میں اس مشکل مرحلے سے انسان کو نکالنے اور خود شعوری کی تربیت کے لیے نبی کا ظہور ہوتا ہے جس کی خود شعوری خدا کی خصوصی عنایت سے یکایک نقطہ ٔ کمال تک پہنچ جاتی ہے اور کائنات کی خود شعوری اس کی خود شعوری پر اس طرح حاوی ہو جاتی ہے کہ اس کے بیان یا کلام کے نفسیاتی اور جسمانی میکانیہ کو اپنے تصرف میں لے لیتی ہے۔ چونکہ کائنات کے ہر عمل پر ایک فرشتہ مقرر ہے۔ ایک فرشتہ اس قانون پر بھی مقرر ہے اور اسے ہی جبرئیل سے موسوم کیا جاتا ہے(۱۷)۔
کائنات اپنی تکمیل کی تگ و دو میں مختلف مراحل سے گزرتی رہی ہے۔ پہلی تکمیل زندہ خلیہ کے وجود میں آنے اور دوسری تکمیل مکمل جسم انسانی کے وجود میں آنے سے ہوئی۔ جب کہ تیسرے مرحلے میں ارتقا کا عمل کامل نبی کے ظہور پر ختم ہوا اور اب چوتھی تکمیل جس کے لیے ارتقا کی قوتیں کام کر رہی ہیں، نوع بشر کا روحانی کمال ہوگا اور اس کی بنیاد تیسری تکمیل یعنی نبوت کاملہ ہوگی(۱۸)۔
اقبال کی طرح ان کی فکر کا محرک یہ خیال ہے کہ پوری اسلامی فکر کی تنظیم نو (reconstruction) کی ضرورت ہے تاہم یہ اہم بات ہے کہ بعض ان نقاط فکر پر جن کے حوالے سے اقبال کی فلسفیانہ فکر کو تنقیدات و اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا ہے ، انہوں نے نام لیے بغیر اقبال سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے نقطہ ٔ نظر کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔ چناں چہ ’’خطبات‘‘ کی ایک عبارت سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جیسے اقبال کو خود خدا کی ذات میں تغیر کا پہلو نظر آتا ہو۔ رفیع الدین پرزور طور پر اقبال کا نام لیے بغیر اس کا رد و ابطال کرتے ہیں(۱۹)۔ اسی طرح وہ اقبال کے اس نقطہ ٔ نظر کی تردید کرتے نظر آتے ہیں کہ انسان خدا کے ساتھ معاون فاعل بن جاتا ہے۔ اس حوالے سے اقبال پر شدید ترین تنقیدیں کی جاتی رہی ہیں(۲۰)۔
چند تنقیدی ملاحظات
رفیع الدین کی کلامی و فلسفیانہ فکر و منہج پر درج بالا گفتگو کا خلاصہ تین اہم نکات پر مشتمل ہے:
۱۔ سائنسی فکر میں قطعیت کا دعوی غلط ہے۔
۲۔ مغرب کے تمام مادی فلسفوں کا ابطال ضروری ہے۔
۳۔ ان فلسفوں کے ابطال و تردید کے بعد ان سے صالح عناصر کا استخراج کرتے ہوئے ان سے اسلام کی فلسفیانہ فکر کی تشکیل و ترتیب کی جانی چاہیے، جس کے امتیازی خدوخال میں اسلامی نظریہ ٔ ارتقا اور نصب العین کا تصور شامل ہے۔
رفیع الدین کی فلسفیانہ فکر کا سب سے جاذب نظر پہلو مغربی فکر کے ساتھ اسلامی فکر کی پیوند کاری یا بالفاظ دیگر، اسلام اور مغرب کی جدید فلسفہ و سائنس سے مرکب مادی فکر کے درمیان تطبیق و ہم آہنگی سے عبارت ہے ۔ مغرب کی مادی و ملحدانہ فکر سے صالح عناصر کی تجرید کی کوشش اصولی طور پر اعتراض سے بالاتر ہے تا ہم اس کی سب سے بڑی مشکل وہی ہے جس پر سید حسین نصر جیسے دانش ور زور دیتے ہیں کہ مغربی جدیدیت پر مبنی فکر ایک مکمل پیکج کی حیثیت رکھتی ہے اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ مربوط ہے۔ اس لیے یہ عمل ناممکن نہیں تو مشکل ترین اور بغایت پر خطر ہے ۔اس سے مذہبی فکر کی داخلی شناخت کے متاثر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے ۔ اس نوع کا عمل ایک لحاظ سے ’اسلامک سوشلزم‘ اور ’اسلامک مارکسزم ‘جیسے رجحانات اور کوششوں کے مشابہ بن جاتا ہے جو دوسری عالمی جنگ کے بعد عالم اسلام کے بعض حصوں میں ابھر کر سامنے آئیں(۲۱)۔ ڈاکٹر رفیع الدین کا نقطہ ٔ نظر یہ ہے کہ اگر فرائڈ کے نظریہ ٔ لاشعور جنس میں معمولی سی ترمیم کر دی جائے تو پھر یہ نظریہ ہمہ تن قرآن کے نظریہ ٔ فطرت کی تفسیر بن جائے گا(۲۲)۔ بایں طور کہ فرائڈ جس جذبے کو جنسی محبت قرار دیتا ہے اسے خدا کے ساتھ محبت میں تبدیل کر دیا جائے۔ یہی عمل انہوں نے ڈاروینی نظریہ ٔ ارتقا کے حوالے سے بھی کیا ہے جس کا ذکر اوپر آیا۔ حقیقت ارتقا اور سبب ارتقا میں فرق کرتے ہوئے اسلامی فکر کے ساتھ اس کی مطابقت کی کوشش کی ہے۔ مزید برآں فکر اسلامی کی تجدید کی بحث میں اسے ایک اصولی اور اساسی حیثیت دیتے ہوئے اپنے افکار مرتب کیے ہیں۔ لیکن اس اہمیت کے باوجود نظریہ ٔ ارتقا پر مذہبی غیر مذہبی حلقوں کی طرف سے کیے جانے والے سوالات و تنقیدات کا کوئی علمی جواب دینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ حالاں کہ اس موضوع کا تقاضا تھا کہ اس نظریے کے مؤیدین و معارضین کے نقطہ ہائے نظر اور ان کے دلائل کا محاکمہ کرتے ہوئے اپنے منتخب کردہ موقف کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے اگر مقدمہ ہی طے شدہ نہ ہو بحث کے مشمولات قابل اعتنا نہیں ٹھہرتے۔
تاویل نصوص کے حوالے سے ان کے رجحان پر بھی نو معتزلیت کی چھاپ نظر آتی ہے۔ لگتا ہے جیسے ان کی فکر بھی اس حوالے سے سرسید کی تاویلی فکر کے اثرات سے خالی نہ ہو۔ مزید برآں، جس طرح اپنے فلسفیانہ افکار کی تائید و توثیق میں وہ قرآن سے استشہاد کرتے ہیں، اس سے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بھی سادہ لوح اصحاب علم کی طرح یہ تصور رکھتے ہوں کہ قرآن تمام علوم کا ماخذ ہے(۲۳)۔ مطلب یہ کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اسلامی عقلیات اور فلسفے کی تشکیل میں یہ ضروری تصور کیا جائے کہ قرآن سے لامحالہ اس کی تائید ہوتی ہو۔ اس سے قرآن کی ما بعد الطبیعی حیثیت مستحکم ہونے کے بجائے بظاہر کمزور ہوتی ہے کہ قرآن کے مشمولات و ہدایات میں وہ چیزیں بھی فرض کی جائیں جو اس کے مقاصد میں شامل نہیں ہیں۔ فکر مغرب کے رد میں خاص طور پر ۱۹ویں صدی کے اواخر سے اسلامی فکری حلقات و شخصیات کی طرف سے جو مختلف النوع رد عمل آنا شروع ہوئے، اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ مغرب کی آئیڈیالوجی کا اسلامی آئیڈیالوجی سے تقابل کرنے کی کوشش کی جائے۔ حالاں کہ درست موقف وہی ہے جس کا اظہار حسین نصر نے کیا ہے کہ روایت پسندی پر مبنی (traditionalist) اسلام کی روح، اسلام کو ایک آئیڈیالوجی کی شکل میں قبول کرنے سے ابا کرتی ہے۔ جب روایت پسندی پر مبنی یا راسخ العقیدہ اسلام جدید دنیا کے آگے گھٹنے ٹیک دے تو پھر مذہب کو آئیڈیالوجی کی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے (۲۴)۔
رفیع الدین کے منہج فکر کا ایک انفرادی پہلو اس کے لب و لہجے کی ادعائیت ہے جو بسا اوقات ان کے فلسفیانہ تفکر کو شاعرانہ تعلی میں تبدیل کر دیتی ہے۔ Ideologies of Future میں لکھتے ہیں کہ ان کی فکر سیاسیات، اخلاقیات، معاشیات، تاریخ، قانون، تعلیم اور انفرادی و اجتماعی نفسیات کے فلسفے کی تنظیم نو کرتی ہے اور اس حوالے سے ایسے پہلوؤں کو زیر بحث لاتی ہے جن کی دوسرے فلسفیوں کو ہوا تک نہیں لگی(۲۵)۔ وہ اپنی فکر کو اہل علم کے رو برو برائے بحث و تنقید پیش نہیں کرتے بلکہ وہ اسے اس "داعیانہ ایقان" کے ساتھ پیش کرتے ہیں جیسے دوسروں کے پاس اس "اتمام حجت" کے بعد اسے اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ ٔ کار نہ بچا ہو ۔اس ’’فکری نرگسیت‘‘ سے ان کے مرشد اقبال کا ذہن خالی تھا جو سمجھتے تھے کہ ان کی فکر میں کوئی قطعیت نہیں ہے اور نہ ہی ایسی فکر کے لیے اس امکان کو قبول کیا جا سکتا ہے۔
بہرحال رفیع الدین کی فکر کو جدید علم کلام کے مباحث میں ایک نئے اور فکر ساز رجحان کی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ رجحان جدیدیت اور روایت دونوں کا امتزاجی پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ نہ وہ نہ تو جدیدیت پسندوں کی طرح اسلام کی بنیادی اور مابعد الطبیعاتی فکر کی نئی تشکیل یا تاویل کی ضرورت محسوس کرتے ہیں اور نہ روایت کو عام روایت پسندوں کی مانند اس طرح جامد تصور کرتے ہیں کہ اس میں نئے افکار و نظریات کی قلمیں نہ لگائی جاسکیں۔
حواشی و مراجع
(۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، قرآن اور علم جدید، لاہور: ڈاکٹر رفیع الدین فاؤنڈیشن،۲۰۱۶ص،۴
(۲) قرآن اور علم جدید، ص،۳۴
(۳) ایضا، ص،۱۳۔۱۴
(۴) ایضا،۷۵
(۵) ڈاکٹر محمد رفیع الدین: اسلامی تحقیق کا مفہوم ،مدعا اور طریقہ کار۔ لاہور: دارالاشاعت الاسلامیہ۔ ۱۹۶۹. ص، ۱۴
(۶) قرآن اور علم جدید، ص،۶۶
(۷) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، اسلام اور سائنس ص،۳۔ اقبال اکادمی ،کراچی: پاکستان، ۱۹۶۵
(۸) قرآن اور علم جدید، ۲۰۔۲۲
(۹) ڈاکٹر محمد رفیع الدین ،منشور اسلام، (ترجمہ اردو ڈاکٹر ابصار احمد) لاہور: مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن، ۱۹۹۴، دیکھیے، صفحات، ۱۸۔۶۱
(۱۰) قرآن اور علم جدید،۲۰
(۱۱) ڈاکٹر محمد رفیع الدین، حقیقت کائنات اور انسان ،مقالہ در مجلہ اقبال ریویو،لاہور: اقبال اکادمی، جنوری،۱۹۶۱ص، ۸۶۔۸۸
(۱۲) قرآن اور علم جدید،ص،۲۴۴
(۱۳) ایضا، ص، ۱۴۲
(۱۴) ایضا،ص، ۱۱۰
(۱۵) ایضا،ص، ۲۵۸
(۱۶) ایضا،ص،۱۸۴
(۱۷) ایضا ،ص، ۲۹۹
(۱۸) ایضا، ص، ۳۰۲۔۳۰۳
(۱۹) قرآن اور علم جدید،۳۰۴
(۲۰) ایضا،۳۱۴
(۲۱) Seyyed Hossein Nasr, Traditional Islam in the Modern World, New York: Harper One, 2010,p.35
(۲۲) قرآن اور علم جدید ۳۳۲
(۲۳) علامہ انور شاہ کشمیری نے اس نقطہ ٔ نظر پر شدید تنقید کی ہے کہ قرآن میں سب کچھ پایا جاتا ہے۔ دیکھیے، مولانا انظر شاہ مسعودی کشمیری، تصویر انور، دیوبند: معہد الانور،۱۴۲۵ھ ص،۲۷۵۔۲۷۶
(۲۴) Traditional Islam in the Modern World, Prologue, p.12
(۲۵) Dr Muhammad Rafiuddin, Ideologies of Future, Lahore: Dr Muhammad Rafiuddin Foundation, 2008, p. xii
مولانا در محمد پنہور ؒ: تعارفِ حیات و خدمات
مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی
سندھ مردم خیز بھی ہے تو زر خیز بھی۔ سر زمین سندھ میں ہر دور میں بڑے بڑے علماء پیدا ہوتے رہے ہیں۔ انہی علماء میں مولانا در محمد پنہور رحہ کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ بیک وقت مدرس، مفتی، مصنف حق گو اور فی البدیہ شاعر بھی تھے۔
نام و نسب
مولانا در محمد پنہور بن حاجی امام بخش پنہور 1903ء سڈر عالیوال تحصیل میہڑ ضلع دادو میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت
آپ نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے گوٹھ کے مکتب سے حاصل کی ۔ مزید تعلیم کے حصول کے لئے اس وقت کے جید عالم دین حضرت مولانا الاہی بخش ایری کے ہاں گوٹھ بانہوں لاکھیر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ جہاں پر ابتدائی کتب اردو، فارسی اور صرف وغیرہ پڑھنے کے بعد باقی مکمل علم وقت کے درویش صفت، عالم ربانی حضرت مولانا عبد الکریم ڈیرو کے پڑھ کر مکمل عالم دین بن گئے۔ مولانا عبد الکریم ڈیرو اس وقت گوٹھ گاہی مہیسر مہیڑ کے قریب مہیسروں کے قائم کردہ دینی درسگاہ تعلیمی خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ مولانا در محمد پنہور رحہ نے 1351 ہجری میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنے گاؤں گوٹھ سڈر عالیوال تحصیل میہڑ مدرسہ عربیہ فیض الکریم کے نام سے دینی درسگاہ کا آغاز کیا۔ دس سال تک اسی گاؤں میں قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے، حضرت مولانا عبد الکریم ڈیرو رحہ نے گاہی مہیسر کے مدرسہ کو الوداع کہ کر سید علی اکبر شاہ کے قائم کردہ عظیم الشان دینی درسگاہ دار القرآن میہڑ میں میں آئے تو مولانا در محمد پنہور رحہ بھی اپنے استاد کے حکم پر مدرسہ عربیہ فیض سڈر عالیوال چھوڑ کر 18 ذوالقعد 1361 ہجری گوٹھ گاہی مہیسر میں تعلیمی اور تدریسی خدمات سر انجام دینے لگے۔
1947ء سیلاب کی وجہ سے مولانا در محمد پنہور رحہ اپنے عزیز و اقارب کے ہمراہ سڈر عالیوال سے ہجرت فرما کر گوٹھ گرکن تحصیل میہڑ میں مستقل طور پر سکونت اختیار کی۔ مولانا در محمد پنہور رحہ گوٹھ گاہی مہیسر میں تقریباً گیارہ سال مسلسل پڑھانے کے بعد 16 ذوالقعد 1374 ہجری میں مدرسہ دار القرآن میہڑ میں مدرس مقرر ہوئے، جب استاذ القراء حضرت قاری محمد مدنی دیروی رحہ نے میہڑ میں مدرسہ عربیہ دار القرآن کے نام سے ایک دینی درسگاہ قائم کی۔ مولانا در محمد پنہور رحہ بھی وہیں پر ابتدائی اور بنیادی استاد مقرر ہوئے۔
1380 ہجری میہڑ کو چھوڑ کر گوٹھ گرکن میں اپنے استاد صاحب کے نام سے مدرسہ فیض الکریم قائم کیا۔
1380 ہجری میں حاجی رسول بخش ڈیرو کی کوشش سے ان کے قائم کردہ دینی ادارے مدرسہ عربیہ محمدیہ فرید آباد میں بطور استاد مقرر ہوئے۔ چار سال مسلسل فرید آباد پڑھانے کے بعد ایک سال مدرسہ عربیہ دار القرآن میہڑ میں تعلیمی خدمات سر انجام دینے لگے۔ 1395 ہجری میں سفر روانہ ہوئے، حج کی سعادت حاصل کرنے کے وطن واپس ہوئے۔ لیکن طبع ناساز ہوئی مختصر علالت کے بعد 4 شوال المکرم 1396 ہجری مطابق 1974ء کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ اور کاچھو کے مشہور قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔ ان کی وفات حسرت آیات پر سندھ کے مشہور ادیب اور شاعر حضرت مولانا عبد القیوم المعروف جوہر بروہی صاحب نے فارسی میں تاریخی مرثیہ لکھا ہے
وقت عالم دین در محمد ناگہان
ایں چنیں بر خاست غوغا شہر گرکن شد یتیم
چوں تاریخ کردم گفت ہاتف ایں چنیں
در محمد بود اوہم عالم فیض الکریم
(1396 ہجری)
حضرت مولانا در محمد پنہور رحہ اپنے دور کے مایہ ناز مدرس، مقرر اور اہل علاقہ کے نامور مفتی تھے۔ حضرت کی فتاویٰ کا مجموعہ ان کی اولاد کے ہاں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ حضرت کی صرف کی بیاض قلمی صورت میں بنام امداد الصرف اور نحو میں ہدایۃ المنظور بھی ہے اس کے علاوہ حضرت کی تمام اولاد اہل علم ہے۔
باقیات الصالحات
(1) مولانا محمد علی پنہور رحہ۔ اپنے والد گرامی سے علم حاصل کرنے کے بعد مختلف دینی مدارس میں تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ جیسا کہ مدرسہ عربیہ دار القرآن میہڑ، جامعہ مدینة العلوم بھینڈو شریف، اور عثمان شاہ کی ہڑی اور میر پور خاص میں پڑھانے کے بعد ٹنڈو جام میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ سکونت اختیار کی۔ وہیں پر ایک دینی درسگاہ قائم کیا۔ جو کہ آج بھی جاری ہے۔ ان کے فرزند مولانا حسین احمد پنہور چلا رہے ہیں۔ مولانا محمد علی مختصر علالت کے بعد ٹنڈو جام میں وفات کی۔
(2) مولانا محمد منظور پنہور۔
(3) مولانا حافظ محمد مسعود پنہور میہڑ میں مدرسہ فیض القرآن و الحدیث کے مہتمم ہیں۔
(4) مولانا محمد منیر پنہور جامعہ محمدیہ فیض القرآن والحدیث میرو خان کے مہتمم ہیں۔
(5) مولانا محمد مختیار پنہور
(6) حافظ محمد شفیق پنہور
(7) محمد سعد پنہور
حضرت مولانا در محمد پنہور رحہ کے تلامذہ بھی بے شمار ہیں ۔ جو کہ مختلف علاقوں میں دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
مولانا عبد اللہ ورنا نال بلوچستان، مولانا الاہی بخش بلوچستانی حال نصیر آباد، حافظ محمد صادق شیخ رحہ نصیر آبادی، مولانا محمد ابراہیم چھٹو رحہ کرخ بلوچستان، مولانا حافظ ابوبکر رند حال کوٹری ضلع جامشورو، مولانا عبد الرحیم ساسولی پارکو بلوچستان، مولانا سیف اللہ چانڈیو، مولانا محمد رفیق قلندرانی خضدار، مولانا خدا بخش خاکی بلوچستان، مولانا محمد نال والے شامل ہیں۔
(مولانا جوہر بروہی کے سندھی مضمون سے اقتباس ماہنامہ الفاروق سندھی کراچی ربیع الثانی 1428 ہجری مطابق مئی 2007ء صفحہ 24)
_________________
مولانا ابو محمد سلیم اللہ چوہان سندھی
ڈائریکٹر مولانا عبیداللہ سندھی اکیڈمی
راجو گوٹھ تحصیل لکھی غلام شاہ ضلع شکارپور سندھ
أدھم شرقاوی کی تصنیف ’’رسائل من القرآن‘‘ سے منتخب رسائل
ادھم شرقاوی
مترجم : مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
’’رسائل من القرآن‘‘ ادہم الشر قاوی کی تصنیف ہے جو کہ فلسطینی مصنف ہیں، لبنان کے شہر صور میں پیدا ہوئے، جامعہ لبنانیہ سے عربی ادب میں ایم فل کی سند حاصل کی ہے، مزید یہ کہ وہ اب تک 25 کتب تصنیف کر چکے ہیں۔ کتائب القسام کے مجاہدین نے 27 رمضان المبارک کو کمین الابرار یا کمین الزنہ میں دشمن کو ہدف نے بنانے کا منصوبہ بنانے کی ویڈیو نشر کی جس میں دکھایا گیا کہ جائے نماز پر مجاہدین موجود ہیں اور اس پر دشمن کو نشانہ بنانے کا نقشہ بنا رہے ہیں، ہاتھ میں مسواک اور قلم اور ساتھ ایک کتاب موجود ہے جس کا نام رسائل من القرآن ہے۔
اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں قرآن حکیم کی ایک آیت ذکر کرنے کے بعد قاری کتاب کو عمدہ اسلوب کے ساتھ اس امر کی تعلیم دی گئی ہے کہ ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں گم ہونے کے بجائے، نعمتوں میں قلت کا شکوہ کیے بغیر، اپنے وسائل کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی کی اس گاڑی کو صراطِ مستقیم پر گامزن رکھیں۔ اس میں اتنی جاذبیت ہے کہ اس کو پڑھنے والا شخص اپنے مصائب و مشاکل پر صبر کرنے کا عزم کر لیتا ہے، اپنے مقصدِ زندگی کی طرف یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہو جاتا ہے۔
صاحبِ کتاب سے جب سوال کیا گیا کہ کتائب القسام کے مجاہدین نے اس کتاب کی تشہیر کیوں کیا؟ انہوں نے جواب دیا، مجاہدینِ غزہ صاحبِ فراست ہیں، ان کا ہر عمل عالمِ اسلام و باضمیر لوگوں کے لیے نصیحت کا سبب بن رہا ہے، انہوں نے اہلِ غزہ کو یہ پیغام دیا کہ جنگ کی طوالت کے باوجود ہم نے قرآن ہی سے اپنا رشتہ جوڑے رکھنا ہے، اور پورے عالم کو یہ پیغام دیا کہ ہمارا ہر عمل قرآن ہی کے سائے میں کیا جا رہا ہے۔
اس کتاب کی افادیت کے پیش نظر راقم الحروف نے ترجمہ کرنے کا ارادہ کیا ہے، تاکہ اردو دان طبقہ بھی اس عظیم الشان کتاب سے مستفید ہو سکے، جو اپنے اندر امید کی بہاریں لیے ہوئی ہے۔ ذیل میں کتاب کے آغاز سے چند صفحات جبکہ کچھ درمیان سے صفحات کا انتخاب کر کے ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔
(۱) اولئک الذین ھدی اللہ فبھداھم اقتدہ
یہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے انہی کے راستے پر چلو۔
اے اللہ! جس طرح نماز پڑھنے کا حق ہے، میں اس کی ادائیگی سے قاصر ہوں، حضرت داؤدؑ کی طرح روزوں کی پابندی کرنے سے عاجز ہوں، میں صبرِ ایوبؑ کے معیار پر پورا نہیں اتر سکتا،
اور نہ ہی حضرت یونسؑ کی طرح تسبیح و تعریف کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی حضرت یحیٰی کی طرح اپنے دین کو تھامنے کا حق ادا کر سکتا ہوں، اور نہ ہی غصِ بصر کے اس معیار تک پہنچ سکتا ہوں جس طرح حضرت یوسفؑ نے اس کا حق ادا کیا ہے، اور نہ ہی اتنا بڑا دل رکھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرح اپنے دشمنوں سے کہوں کہ تم آزاد ہوچکے ہو، لیکن ان کی طرح میں بھی تیری محبت کا (اظہار / دعویٰ) کرتا ہوں۔
(۲) ورسلا قد قصصنٰھم علیک
اگر عامۃ الناس تیری قدر قیمت سے نا آشنا ہیں تو تجھے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اس لیے اللہ تیری قدر و منزلت سے خوب آگاہ ہے۔
حضرت نوحؑ کے میزان میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم ان کو جانتے ہیں، اور نہ ہی ان کے بارے میں ہماری عدمِ آگاہی سے ان کی شان میں کوئی کمی واقع ہوگی۔
ہارون رشید کی فوج میں 20 ہزار مجاہدین نے اپنے نام اس لیے درج نہیں کروائے اور نہ ہی معاوضہ وصول کرتے تھے تاکہ ان کا عمل خالصۃ اللہ ہی کے لیے ہو۔
سائب بن اقوع نے حضرت عمرؓ کو تھاوند میں مسلمانوں کی شہادت کی اطلاع دی، لوگوں کے سامنے ان کی قیادت اور معروف شخصیات کے اسما گرامی پیش کرنے کے بعد کہا گیا کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں کوئی نہیں جانتا۔ (یہ جملہ سن کر) حضرت عمرؓ رونے لگے اور کہا، ان کی پیش کی گئی خدمات پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں ان کو نہیں پہچانتا، لیکن اللہ رب العالمین ان سے خوب واقف ہے۔
(۳) ان الحسنات یذھبن السیئات
جب تم سے گناہ سرزد ہو تو اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہیے کہ میں معرکہ میں تو شکست کھا لی ہے، لیکن جنگ کا سلسلہ تو اب بھی جاری ہے۔ لہٰذا مایوسی کے قریب آئے بغیر وضو کا عمل کیجیے، اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھیں، اس کے بعد اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے سے مغفرت طلب کیجیے۔ اپنی آنکھوں کی پاکیزگی کے لیے دیکھ کر قرآن حکیم کی تلاوت کیجیے، اطاعت گزار بندوں کی مانند اپنے رب کی طرف رجوع کیجیے، اس لیے کہ اللہ رب العالمین نے انسان کو اپنے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ غفور ہے تاکہ انسان اس کا دامن تھامے رکھے۔
(۴) بل الانسان علیٰ نفسہ بصیرۃ
اگر ان اوصاف پر تیری مدح سرائی کی جائے جو تجھ میں موجود نہ ہوں تو اس کا ہرگز آپ کو فائدہ نہیں ہوگا۔ اور اگر تیری ان کمزوریوں پر مذمت کی جائے جو تجھ میں نہیں ہے تو ناقدین کی تنقید تجھے کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گی۔ اور جب انسان خیر کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس کو ناپسند کیا جاتا ہے، حتیٰ کہ انبیاء کرام کو بھی اس سے استثنا حاصل نہیں رہا۔ اور جب کوئی انسان فسق و فجور کی طرف بلاتا ہے تو معاشرے میں ایسے لوگوں کے بھی چاہنے والے موجود ہوتے ہیں، جس طرح فرعون و نمرود کو چاہنے والے تھے۔
مطرف بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے امام مالکؒ نے پوچھا کہ لوگ میرے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟ میں نے کہا، آپ کے دوست آپ کے حق میں ہے، اور آپ کو ناپسند کرنے والے آپ کے حوالے سے اپنا غصہ نکالنے میں لگے رہتے ہیں۔ امام مالکؒ نے فرمایا، اچھا ہے لوگوں میں یہ روش ابھی بھی برقرار ہے، ہم اس امر سے پناہ چاہتے ہیں تمام لوگوں کی زبان ہمارے حق میں یا مخالفت میں یکجا ہو جائے۔
(۵) واٰتاکم من کل ما سألتموہ
وہ اللہ رب العالمین ہی کی ذات ہے جو انسانوں کو خوف سے نجات دیتی ہے، جو لاچار اور کمزور ہیں ان کو ہمت عطا فرماتا ہے، جو اس سے مدد کے طالب ہیں وہ ان کی نصرت کرتا ہے۔ جو غموں کو مداوا کرتا ہے، وہ اس شخص کو راہِ مستقیم دکھاتا ہے جو اس کا طالب ہو۔ اس لیے رات کے آخری پہر میں ۔۔ اس وقت دعاؤں کو رد نہیں کیا جاتا۔ اس بات پر یقین رکھو کہ وہ خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ یہ انعامات حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ تمہارا طعام حلال ہو، اسی امر کی طرف حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حلال رزق کی بدولت اللہ دعائیں قبول فرماتا ہے۔
(۶) عسیٰ ربنا ان یبدلنا خیرا منھا
اس آیت کے توسط سے اپنی ان حسرتوں کی آگ کو بوجھاؤ جو ابھی حاصل نہیں ہو سکیں یا ان کا امکان نہیں ہے۔ اسی طرح زندگی میں جو مختلف مصائب و مشاکل آئی ہیں، یا آپ کے قریبی دوست نے آدھے راستے میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تو یہ آیت ان دکھوں کا مداوا بنتی ہے۔ اس لیے اللہ اپنی حکمت سے ہی بندے کو دیتا ہے اور لے بھی لیتا ہے۔ جو کچھ تیرے پاس ہے وہ اس کی رحمت ہے، اگر اس کی حکمت کا علم ہو جائے تو اس کا شکر بجا لاؤ، بصورتِ دیگر صبر کا دامن تھامے رکھو۔ کیونکہ اللہ کے فیصلوں میں خیر ہی ہوتی ہے اگرچہ عارضی طور پر اس سے آپ کو تکلیف ہو۔
(۷) وقاسمھما انی لکما لمن الناصحین
حضرت آدمؑ وحوا کو اس امر کا علم نہ تھا کہ کوئی شخص جھوٹی قسم کے ذریعے ان کو جنت میں ہمیشگی پر آمادہ کر دے گا، لیکن ابلیس نے یہ کام کر دکھایا۔ اس کا طریقۂ واردات یہ ہے کہ وہ برائیوں کو پرکشش بنانے کے لیے ان کے نام تبدیل کرتا رہتا ہے۔ جس طرح اس نے حضرت آدم و حوا کو ممنوعہ درخت کے پاس جانے کو جنت میں مستقل اقامت کی نوید سنائی۔
ہوشیار رہو! آج بھی شیطان اور اس کے ساتھیوں کا یہی طریقۂ واردات ہے۔ جس طرح کہا جاتا ہے کہ شراب نوشی روح کی غذا ہے، برہنگی ایک فیشن ہے، زنا میں کشادگی ہے، اس لیے بیدار رہیے کہ کہیں شیطان تمہیں پرکشش ناموں سے راہِ راست سے نہ پھسلا دے۔
(۸) وسارعوا الی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضھا السماوات والارض اعدت للمتقین
مغفرت اور جنت کے حصول کے لیے آپس میں مقابلہ کرو اس لیے کہ موت کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ انسان یہ کہتا رہتا ہے کہ میں کل توبہ کر لوں گا، کل سے پڑھنے کی ترتیب بنا لوں گا، لیکن جیسے ہی کل آتی ہے تو انسان اپنے گزشتہ کیے گئے ارادوں کو عمل میں ڈھالنے سے قاصر رہتا ہے۔ لمبی امیدوں کی بدولت ہم یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ موت آنے میں ابھی کافی وقت ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے، اس لیے کہ موت کی آمد میں کوئی شئی حائل نہیں ہو سکتی۔ اس لیے خیر کے کاموں میں مسابقت کرو۔
حضرت صنابحیؒ فرماتے ہیں کہ ہم یمن سے رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو خبر دی گئی کہ آپ ﷺ پانچ دن قبل رحلت فرما چکے ہیں۔ پانچ دن کی تاخیر نے رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے محروم کر دیا۔ لہٰذا بھلائی کے امور میں مسابقت کو اپنے وطیرہ بنا لو، ایسا نہ ہو کہ سستی و غفلت تمہیں جنت سے محروم کر دے۔
(۹) ولا یجرمنکم شنان قوم علیٰ الا تعدلوا
بغیر مشروط محبت و بغض ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ حضرت یوسفؑ کو ان دونوں صورتوں سے سابقہ پیش آیا۔ ان کے بھائیوں نے حسد کی بنا پر ان کو کنویں میں پھینک دیا، اور ملکہ مصر کی ان سے انتہا درجے کی محبت سیدنا یوسفؑ کے جیل جانے کا سبب بنی۔
کبھی کبھی ہم اپنے دلوں میں پیدا ہونے خیالات پر عمل کرنے کے حوالے سے بے باک ہو جاتے ہیں۔ لیکن بحیثیت مسلم کسی کی پسند و ناپسند میں اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ تمہاری کسی سے بے جا محبت محبوب کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب نہ بن پائے۔ اور نہ کسی سے انتہا درجے کی نفرت اس فرد کی اچھائیوں کو برائیوں میں تبدیل کرنے کا سبب بنے۔ عادل رہتے ہوئے ہر شئی کو اس کے مقام پر رکھیے۔
عبد اللہ بن محمد الوراقؒ فرماتے ہیں کہ ہم امام محمدؒ کے پاس گئے، انہوں نے ہم سے پوچھا، تم کہاں سے آرہے ہو؟ ہم نے جواب دیا، ابی کریبؒ کی مجلس سے۔ امام محمدؒ نے کہا، ان سے روایات لے کر تحریراً محفوظ کر لو اس لیے کہ وہ نیک بندے ہیں۔ ہم نے تعجب سے کہا کہ وہ تو آپ کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے۔ امام محمدؒ نے فرمایا، وہ اللہ کے نیک بندے ہیں، میرے بارے میں انہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے۔
(۱۰) ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملھم قلت لا اجد ما احملکم علیہ تولوا واعینھم تفیض من الدمع حزنا الا یجدوا ما ینفقون
غزوہ تبوک کے موقع پر ابولیلیؓ اور عبد اللہ بن مغفلؓ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور سواری کا مطالبہ کیا تاکہ اس پر جہاد میں شامل ہوا جا سکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا، سواری تو دستیاب نہیں ہے۔ یہ جواب سن کر اس حال میں واپس پلٹ رہے تھے کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے نم تھیں۔ یہ صحابہ کرامؓ کی ایمانی کیفیت تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے عدمِ شرکت پر غم کی حالت میں آنسو سے تر آنکھوں کو رسول اللہ ﷺ کی مجلس سے پلٹ رہے تھے، ذرا سوچو! معصیت کے کاموں سے رکنے میں کیسے فولادی قوت کے حامل ہوں گے۔
(۱۱) ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللہ لکم واللہ غفور رحیم
اللہ رب العالمین بہت سی ان صفات کو اپنے بندے کی شخصیت میں دیکھنا چاہتا ہے جو اسے بھی محبوب ہیں۔ ان میں ایک عفو درگزر بھی ہے۔ اس کو وہ بندے زیادہ محبوب ہیں جو اس کو عفو و درگزر کے حامل ہوں۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے یومیہ مالی صدقہ دینے کی ترغیب دی، یہ سن کر ایک صحابی حضرت علبہؓ بن زید جو مالی صدقہ دینے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے (لیکن رسول اللہ ﷺ کی ہدایت پر عمل کرنے کا جذبہ دیکھیے) وہ آپ ﷺ کی مجلس میں کھڑے ہوئے اور کہا کہ آج سے میں اپنی عزت کو بطور صدقہ پیش کرتا ہوں۔ یعنی جو شخص بھی مجھ پر ظلم کرے گا میں اس کو معاف کر دوں گا۔
دوسرے روز رسول اللہ ﷺ نے حضرت علبہؓ بن زید کے بارے میں معلوم کیا۔ آپؓ نے کہا، اے اللہ کے رسول ﷺ میں یہاں ہوں۔ آپ ﷺ نے ان کو بشارت سناتے ہوئے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے تمہارا صدقہ قبول فرما لیا ہے۔
(۱۲) قال یا بنی انی اریٰ فی المنام انی اذبحک
انسانی تاریخ میں سب سے مشکل اور پرکٹھن امتحان حضرت ابراہیمؑ کا تھا کہ سن عمر کو پہنچ چکے تھے لیکن ان کی اولاد نہ تھی۔ جب اللہ رب نے عمر کے اس حصے میں اولاد سے سرفراز فرمایا تو اللہ رب العالمین کی جانب سے حکم آیا کہ اس کو ذبح کر دیا جائے۔ حضرت ابراہیمؑ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ انبیاء کے خواب وحی کی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے انہوں نے تاخیر کیے بغیر اس حکم کو نافذ کرنے لگے، اگرچہ وہ خواہش کے برخلاف تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے اللہ کو اپنی ذات پر مقدم رکھا۔ اللہ جو ارحم الراحمین ہے، اس عمل سے یہ نہ چاہتا تھا کہ اس کے دوست کا نام ان لوگوں میں شمار کیا جائے جو اپنی اولاد کو ذبح کر دیتے ہیں۔ لیکن اس حکم کی حکمت یہ تھی جب حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے بعد حضرت ابراہیمؑ کا دل ان کی طرف مائل ہونے لگا تو اللہ نے ان کو آزمائش کے طور پر ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بہت سے دل ایسے ہوتے ہیں جن کے حوالے سے اللہ یہ پسند نہیں فرماتا کہ وہ کسی اور کے لیے دھڑکیں۔ اس لیے اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کو بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا۔
(۱۳) وقدمنا الیٰ ما عملوا من عمل فجعلناہ ھباء منثورا
اور جو کچھ بھی ان کا کیا دھرا ہے اسے لے کر ہم غبار کی طرح اڑا دیں گے۔
حضرت سعید بن جبیرؓ فرماتے ہیں کہ قیامت کے روز بندے کو نامۂ اعمال دیا جائے گا، تو اس میں صلاۃ اور صیام اور اعمالِ صالحہ کے اجر سے خالی پائے گا۔ یہ دیکھ کر وہ فریاد کرے گا اے اللہ! یہ تو میرا اعمال نامہ نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں میرے کیے گئے اعمالِ حسنہ کا اجر موجود نہیں ہے، شاید کسی اور کا اعمال نامہ مجھے دیا گیا ہے۔ اس سے کہا جائے گا (یہ تو تیرا ہی اعمال نامہ ہے) اس لیے کہ تیرے رب سے نہ کوئی شئی مخفی رہتی ہے اور نہ وہ بھول سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرا نامہ اعمال حسنات سے اس لیے خالی ہے کہ تو نے اپنی حیات میں نیکیوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کی پس پشت برائیاں کیں اور ان کے عیوب کو ظاہر کرتا رہا۔
اس لیے ہر شخص کو چوکنا رہنے چاہیے کہیں تمہاری عبادات دوسروں کے لیے نعمت یعنی ان کے نامہ اعمال میں حسنات کے اضافہ کا ذریعہ تو نہیں بن رہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری نیکیاں اس شخص کے نامہ اعمال کی زینت بن جائیں جن کی امیدوں کی تکمیل میں تم نے روڑے اٹکائے ہوں، یا جن کا مالک ہڑب کیا ہو، یا جن کی عزت نفس مجروح کی ہو، یا مختلف واسطوں سے کسی عہدے پر قبضہ کر کے حق دار کا حق مارا ہو۔
(۱۴) وتوبوا الی اللہ جمیعا ایھا المومنون لعلکم تفلحون
علامہ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ بندے کے لیے سب سے بہترین ایام وہ ہیں جن میں وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ جب بندہ توبہ کرتا ہے تو پکارنے والا پکارتا ہے کہ فلاں شخص نے اپنے رب سے صلح کر لی ہے۔ دنیا میں اگر کوئی قریبی دوست ناراض ہو جاتا ہے تو اس کو راضی اور منانے کے لیے مختلف اسلوب اختیار کیے جاتے ہیں تاکہ دوستی بحال ہو جائے اور ناراضگی کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ اللہ رب العالمین اس بات سے زیادہ مستحق ہے کہ اس کو راضی کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنائے جائیں۔ اگر آپ سے کوئی ایسا عمل سرزد ہو چکا ہو جس سے تیرے دل میں اللہ کی محبت متاثر ہوئی ہو تو اس کو راضی کرنے کے لیے (شریعت کی ہدایت کے مطابق) متنوع طریقے استعمال کرو، جس طرح دنیا میں اپنے دوست کو راضی کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہو، اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے صدقہ، استغفار کے ساتھ نمازوں کے پابندی اور قرآن مجید کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لو۔
(۱۵) قرت عین لی ولک
یہ الفاظ آسیا بنت مزاحم کے ہیں جو انہوں نے اپنے شوہر فرعون سے اس وقت کہے تھے جب انہوں نے صندوق میں حضرت موسٰیؑ کو پایا۔ فرعون نے اس وقت یہ کہا تھا کہ یہ تیری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرعون کے اس قول پر ارشاد فرمایا کہ اگر فرعون موسٰیؑ کو اپنی بیوی کی طرح آنکھوں کی ٹھنڈک بنا لیتا تو اللہ اس کی برکت سے اس کو ہدایت سے سرفراز کر دیتا۔ لیکن اللہ نے اس کی عدمِ رغبت کے سبب اس کو ہدایت سے نہیں نوازا۔
لہٰذا جو شخص کسی بھی ذمہ داری کو قبول کرتے وقت دل میں یہ خیال کرے کہ اس کو اختیار کرنے میں خسارہ ہو گا تو اللہ کا قانون یہ ہے کہ انسان کو اس کی نیت کے مطابق عطا کیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی عورت سے نکاح کرتے وقت یہ نیت رکھتا ہو کہ اس نکاح سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا تو اس کے نصیب میں وہی کچھ لکھا جائے گا جو اس نے سوچا ہوگا۔ اس لیے اپنے گمان اور گویائی کو اچھے انداز میں استعمال کرو اس لیے کہ بسا اوقات انسان کو اس کے قول کے مطابق نوازا جاتا ہے۔
مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ قُدس کے ساتھ مسلمانوں کا ایمانی و جذباتی تعلق
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی
مسجد اقصیٰ اور سرزمینِ بیت المقدس سے مسلمانوں کا بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ ہے۔ یہ رشتہ کئی اہم پہلوؤں مثلاً عقائد، عبادات، تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر مشتمل ہے۔ بیت المقدس کی یہ بابرکت اور مقدس سرزمین مسلمانوں کے لئے شروع سے ہی عقیدتوں کا مرکز رہی ہے، جو اسلام کے آغاز سے ہی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو سب سے اہم ترین عبادت نماز کیلئے قبلہ بنانے، نماز پڑھنے اور دیگر فضیلتوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن مجید، احادیثِ نبویہ، سیرت اور تاریخ کے مطالعے سے مسلمانوں اور بیت المقدس کے یہ تمام رشتے کھل کر سامنے آتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ دینی رشتے کے چند پہلو ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے عقیدہ کی رو سے زمین کا یہ بُقعہ ان بے شمار انبیاءؑ کا قبلہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے رہے۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ خانہ کعبہ سے پہلے آپ اسی طرف اپنا روئے مبارک کر کے اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت کرتے تھے۔ نماز کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک رخ کر کے نماز پڑھی۔ یعنی ایک سال اور پانچ ماہ تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا، جیسا کہ سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔ (صحیح مسلم 525، و صحیح البخاری 4492)
لیکن جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:
ترجمہ: ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور (اے مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔ (سورۃ البقرۃ 144)
تو اس آیت کے نازل ہونے کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، لہٰذا بیت المقدس مسلمانوں کا اولین قبلہ شمار ہوتا ہے۔
مسجد اقصیٰ میں 250 نمازوں کا ثواب
نماز دین کا اہم ستون ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا بیت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں افضل ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔ (صحیح الترغیب 1179)
چونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے، لہٰذا مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر ہوا۔
ثواب کی نیت سے سفر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عبادت کی نیت اور ارادے سے مسجد اقصیٰ کی زیارت کی ترغیب دی ہے، اور درج ذیل فرمان کے ذریعے مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام اور مسجد نبوی سے جوڑ دیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: یعنی مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کی طرف ثواب اور برکت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ (رواہ البخاری 1189 و مسلم 1397)
نماز پڑھنے کی بہترین جگہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کو نماز پڑھنے کی بہترین جگہ قرار دیا ہے۔ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: اور مسجد اقصیٰ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے، حشر نشر کی سرزمین ہے، اور عنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ، جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے ساری دنیا کی چیزوں سے بہتر اور محبوب ہو گی۔ (صحیح الترغیب 1179)
مسجد اقصیٰ کی زیارت
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصی کو دیکھنے کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے، اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کیلئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا پوری دنیا سے زیادہ افضل ہو گا۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 2902)
نماز پڑھنے کی منت ماننا
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی نذر یا منت ماننے کو جائز اور درست قرار دیا ہے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے عرض کیا:
ترجمہ: اے اللہ کے رسول! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کے ہاتھوں مکہ مکرمہ کو فتح کروا دیا تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں نماز پڑھ لو۔ اس نے پھر سوال کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے پھر سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی۔ (صحیح ابی داؤد 3305)
مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب
بیت المقدس شہر کے رہنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر کا ثواب ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہے گا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی، الا یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے، یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ لوگ کہاں کے ہوں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔ (السلسلۃ الصحیحۃ 4/599)
گناہوں کی معافی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز کو گناہوں کی معافی کا سبب قرار دیا ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ
ترجمہ: جب سلیمان بن داؤد علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالی سے تین دعائیں کیں: (1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست) ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے۔ (3) یا اللہ! جو آدمی اس مسجد اقصیٰ میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فر مالی ہیں (کہ ان کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کر لی گئی ہو گی۔ (صحیح ابن ماجہ 1164 و صحیح الترغیب 1178)
برکت کی دعا
بیت المقدس اس لحاظ سے بھی بابرکت اور مبارک خطہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارضِ شام کا نام لے کر برکت کی خصوصی دعا کی ہے۔ بیت المقدس ارضِ شام کا ہی علاقہ ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کیلئے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما۔ (صحیح البخاری 7094)
مذکورہ بالا تمام احادیث کا تعلق مختلف دینی عبادات اور اس کے ثواب سے ہے، اور ان ساری عبادتوں کا تعلق بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے عبادت اور بندگی کا ایک مضبوط تعلق اور رشتہ ہے جو قیامت تک کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتا۔ جب تک کائنات میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، عبادت کا یہ رشتہ بھی قائم و دائم رہے گا۔
بیت المقدس سے تاریخی رشتہ
بیت المقدس ہزاروں سال قدیم شہر ہے، بہت سے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے جیسے یبوسی، معموری، آرامی، کنعانی۔ قدیم زمانے میں اس شہر کو یبوس بھی کہا جاتا تھا جو کنعان کے قدیم قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام ہے۔ قوم یبوس عرب کی سب سے قدیم قوم ہے جو فلسطین میں سات ہزار پانچ سو سال قبل مسیح سے پہلے آباد ہوئی۔ چنانچہ بیت المقدس میں موجود پتھر کی تختیاں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں یبوسی اور کنعانی عربوں سے زیادہ قدیم کوئی قوم نہیں پائی گئی ہے۔ مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت المقدس کی بنیاد رکھنے والے اور اسے آباد کرنے والے یبوسی تھے، اور بیت المقدس کا پہلا نام یبوس تھا۔ارضِ فلسطین کو ارضِ کنعان بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے بھی رہ چکے ہیں۔ بیت المقدس کے دیگر ناموں میں ایک نام اورو سالم بھی ہے، جو ایک کنعانی نام ہے جس کا مطلب امن کا شہر ہے۔ کچھ عرصے کے بعد اسے یورسالیم کہا جانے لگا جو اب یروشلم ہوگیا ہے، اور یہودی اسے یروشلم ہی کہتے ہیں۔ جس وقت افریقی اور رومن نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے اس وقت اس شہر کا نام ایلیا تھا۔ سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آیا تو اس کا نام تبدیل کر کے بیت المقدس رکھ دیا گیا، جس کے معنی ہیں پاک گھر، مبارک و مقدس سر زمین۔ (معجم البلدان 5/166)
معاہدہ عمریہ
جب سنہ 15 ہجری یا 638 عیسوی میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے۔ کیونکہ عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس نے یہ شرط رکھی تھی کہ بیت المقدس کی چابیاں لینے کیلئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس تشریف لائیں۔ چنانچہ کنیس القیامہ میں عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس اور عمائدین روم نے بیت المقدس آمد پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں۔ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کے باشندوں سے ایک معاہدہ کیا، جو عہدِ عمریہ کے نام سے تاریخِ اسلام میں مشہور ہے۔ (فتوح البلدان، للبلاذری ص 144)
فتح بیت المقدس اور معاہدہ عمریہ طے پانے تک بیت المقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی تعلقات موجود نہیں تھے۔ معاہدہ عمری تاریخ میں سب سے صاف واضح اور مشہور دستاویز ہے۔ (تاریخ طبری ج 3 ص 6.8/6.9)
یہ معاہدہ بیت المقدس میں جابیہ کے مقام پر طے پایا۔ اس تاریخی معاہدے پر سیدنا خالد بن الولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے دستخط کیے۔ (فتوح البلدان ص 144)
مسلمانوں کی طویل حکومت
عربوں اور مسلمانوں نے اس شہر پر فتح عمری سے لے کر 1967 عیسوی تک حکومت کی، پھر وہ وقت آیا کہ جب بیت المقدس 88 سال کے عرصے تک یہودیوں کے قبضے میں رہا۔ پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے سنہ 583 ہجری بمطابق 1187م میں یہود کے جبر و تسلط سے آزاد کر دیا۔ عربوں اور مسلمانوں کے دورِ حکومت میں اسلام کی برکت سے بیت المقدس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی، امن و امان کی بحالی اور استحکام، اور شہریوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ ممکن ہوا۔
امتِ مسلمہ کا فریضہ ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امتِ مسلمہ اس مقدس مسجد کی قدر کرتی، اس بابرکت مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی، اور ہر قسم کے کفر اور کفریہ تسلط سے پاک رکھتی۔ لیکن آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں، انہیں وہاں ہر قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے، یہودی ظالم انہیں بلڈوزروں سے روند رہے ہیں، بچوں کو قتل کر رہے ہیں، گھروں کو مسمار کر رہے ہیں، مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کی جا رہی ہے، یہ سب حالات تمام مسلمان رہنماؤں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہو کر متفق و متحد ہو جائیں، اور ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں اور جہاد کا پختہ عزم اور اعلان کریں تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑ جواب دیا جائے ؎
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں، جیسا اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، امتِ مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے، تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر ’’تمہاری داستان تک نہ ہو گی داستانوں میں‘‘ والا قصہ بن جائے گا۔ یا اللہ! مسجد اقصیٰ کو ظالموں، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک فرما، فلسطینی مسلمانوں کے ضعف اور کمزوری کو ختم فرما، انہیں قوت عطا فرما، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما، آمین یا رب العالمین۔
مٹتا ہوا فلسطین
الجزیرہ
فلسطین میں یہودی ریاست کا قیام ایک سوچا سمجھا، منصوبہ بند اور پرتشدد عمل تھا۔ فلسطینیوں کو وسیع و عریض اراضی سے بے دخل کر دیا گیا۔ 1948ء میں بننے والے اسرائیل سے 80 فیصد سے زیادہ فلسطینیوں کو راتوں رات پناہ گزین بنا دیا گیا۔ یہ عمل 1948ء میں مکمل ہوتا نظر آتا ہے، لیکن یہ 20ویں صدی کے آغاز میں شروع ہو چکا تھا ، اور یہ آج بھی جاری ہے۔
1917ء تا 1939ء
’’برطانوی مینڈیٹ‘‘ کا بنیادی مقصد تاریخی فلسطین کو ایسے سیاسی، انتظامی اور اقتصادی حالات کے تحت رکھنا تھا جو فلسطین میں یہودیوں کے قومی گھر کے قیام کو یقینی بنائے۔ فلسطین میں برطانوی مینڈیٹ سے پہلے یہودی کل آبادی کا 3 فیصد تھے۔
1939ء تا 1945ء
برطانوی مینڈیٹ نے 1920ء اور 1930ء کی دہائیوں میں یورپ سے فلسطین میں یہودیوں کی امیگریشن میں سہولت فراہم کی۔ 1947ء تک یہودیوں کی آبادی دس گنا بڑھ کر فلسطین کا 33 فیصد ہو گئی۔
1946ء
1946ء میں صہیونی یہودیوں کا تاریخی فلسطین کے 6 فیصد علاقے سے بھی کم پر کنٹرول تھا۔
1947ء
اقوام متحدہ نے ایک منصوبہ تجویز کیا جس کے تحت تاریخی فلسطین کا 55 فیصد علاقہ یہودی ریاست اور 45 فیصد علاقہ غیر متصل عرب ریاست کے لیے مختص کیا گیا۔ یروشلم کو خصوصی بین الاقوامی حیثیت دی گئی۔ فلسطینیوں نے اس تجویز کو مسترد کر دیا کیونکہ اس منصوبے نے ان کے زیر قبضہ زیادہ تر زمین چھین لی تھی۔ اس وقت ان کے پاس تاریخی فلسطین کا 94 فیصد علاقہ تھا اور ان کی آبادی 67 فیصد تھی۔
1947ء تا 1949ء
14 مئی 1948ء کو، جس دن برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہوئی، صہیونی تحریک نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ صہیونی فوجیوں نے کم از کم 750,000 فلسطینیوں کو بے دخل کیا، 530 سے زائد دیہات کو تباہ کیا اور تاریخی فلسطین کے 78 فیصد علاقے پر قبضہ کر لیا۔ باقی 22 فیصد کو دو حصوں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1949ء میں اقوام متحدہ نے اسرائیل کو رکن ریاست کے طور پر قبول کیا۔ جبکہ کوئی فلسطینی ریاست کبھی وجود میں نہیں آئی۔
1967ء تا 1993ء
جون 1967ء (کی عرب اسرائیل جنگ) میں، اسرائیل نے مغربی کنارے میں توسیع کی، بشمول مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غزہ کی پٹی، اور تمام تاریخی فلسطین پر قبضہ کر لیا۔ اس نے اسرائیلی قبضے کو جدید تاریخ کا طویل ترین قبضہ بنا دیا ہے۔
1993ء
PLO کے رہنما یاسر عرفات نے اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کے ساتھ "اوسلو معاہدہ" پر دستخط کیے۔ مستقبل کے مذاکرات میں اس بات کا تعین کیا جانا تھا کہ تاریخی فلسطین کے 22 فیصد کے اندر فلسطینی کن علاقوں کو کنٹرول کریں گے، جن پر اسرائیل نے 1967ء میں قبضہ کیا تھا۔
1994ء تا 2014ء
فلسطینیوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے شہری حصوں میں خود مختاری کے کچھ اختیارات دیئے گئے تھے۔ تاہم اسرائیل کا ان پر سکیورٹی کنٹرول ہے اور وہ کسی بھی وقت حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
2014ء
آج بھی فلسطینیوں کی قومی امنگیں دم توڑ رہی ہیں۔ پورے تاریخی فلسطین میں، فلسطینیوں کو اسرائیلی حکمرانی کی طرف سے قبضے اور نوآبادیات، محاصرے اور جنگ، امتیازی سلوک اور دوسرے درجے کے سلوک کا سامنا ہے۔ مزید برآں، لاکھوں فلسطینی مہاجرین اپنے گھروں کو واپسی کے حق کے انتظار میں کیمپوں میں پڑے ہیں۔
فلسطینیوں کی نسل کُشی
اسرائیل کی ریاست بنانے کے لیے صہیونی افواج نے بڑے فلسطینی شہروں پر حملے کیے اور تقریباً 530 دیہات کو تباہ کر دیا۔ 1948 ءمیں تقریباً 13,000 فلسطینی مارے گئے، 750,000 سے زیادہ اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے اور پناہ گزین بن گئے – یہ صہیونی تحریک کی طرف سے فلسطین کی نسل کشی کا عروج تھا۔ آج مہاجرین اور ان کی اولاد کی تعداد سات ملین (ستر لاکھ) سے زیادہ ہے۔ بہت سے لوگ پڑوسی عرب ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں اور اپنے وطن واپس جانے کے منتظر ہیں۔
قیصاریہ
پالماچ، ایک صہیونی فوجی یونٹ جس کے کمانڈروں میں یتزاک رابن شامل تھا، نے فروری 1948ء میں اس گاؤں کے فلسطینی باشندوں کو بے دخل کر دیا۔
جفہ
(اسرائیلی) ریاست سے پہلے کی صہیونی نیم فوجی تنظیم Haganah نے جفہ کے باشندوں کو نکال دیا، 4000 سے کم فلسطینی باقی رہ گئے جو اجمی ضلع میں یہودی بستی بنا دیے گئے۔ آج اسرائیل میں تل ابیب میونسپلٹی کے اندر جفہ شامل ہے۔
ایکر
اسرائیلی افواج نے مئی 1948ء میں ایکر پر قبضہ کر لیا۔ اس دور سے اب بھی قلعہ بندی کے آثار موجود ہیں جن میں ایک دیوار اور ایک مینار بھی شامل ہے۔
یروشلم (بیت المقدس)
تاریخی فلسطین کا دارالحکومت اور مقدس ترین شہر۔ شہر کے 80 فیصد سے زیادہ حصے پر صہیونیوں نے 1948ء میں قبضہ کر لیا تھا۔ اور بقیہ 20 فیصد پر، جسے اب مشرقی یروشلم کہا جاتا ہے، 1967ء میں قبضہ کر لیا گیا تھا۔
علیحدگی کی دیوار
اسرائیل کی طرف سے تیار کی گئی کنکریٹ اور خاردار تاروں سے بنی دیوار جس کا راستہ بنیادی طور پر مقبوضہ مغربی کنارے کے اندر واقع ہے۔ تعمیر کا آغاز 2002ء میں ہوا، اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینی اراضی کو ضبط کر لیا گیا اور فلسطینی آبادیوں کو یہودی بستی بنا دیا گیا۔
تل ابیب
جفہ کے قریب تاریخی فلسطین کے بحیرہ روم کے ساحل پر صہیونی تحریک کا 1909ء میں قائم کیا گیا شہر۔ یہ یروشلم کے بعد اسرائیل کا دوسرا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے۔ تل ابیب میٹروپولیٹن ایریا اسرائیل کی 42 فیصد آبادی پر مشتمل ہے، جس میں تل ابیب اور اسرائیل کے وسطی اضلاع شامل ہیں۔ آج تل ابیب ایک اقتصادی مرکز ہے اور اسرائیل کے مالیاتی دارالحکومت کے طور پر کام کرتا ہے۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کا پانچواں سب سے زیادہ وزٹ کیا جانے والا شہر ہے۔
ہائی وے 6
ہائی وے 6 شمالی اسرائیل سے جنوبی اسرائیل تک جاتی ہے۔ یہ اسرائیل کے انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں میں سے ایک ہے۔ یہ اسرائیلی آباد کاروں کو مقبوضہ مغربی کنارے میں قائم کی گئی غیر قانونی بستیوں اور اسرائیل کے درمیان سفر کرنے میں مدد دیتا ہے۔
وادئ اردن
زمین کا سب سے نچلا حصہ، اس میں بحیرہ مردار بھی شامل ہے جو سطح سمندر سے 790 میٹر نیچے ہے۔ وادئ اردن تاریخی فلسطین اور اردن کے درمیان سرحدی علاقہ ہے۔ سیاسی طور پر، جب تک وادئ اردن میں اسرائیلی فوج موجود ہے، مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی امکان نہیں۔
شجاعیہ
غزہ شہر کے سب سے بڑے محلوں میں سے ایک، جس میں تقریباً 100,000 فلسطینی باشندے ہیں۔ اس علاقے کو 2008ء-2009ء میں اکثر اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 2014ء میں اسرائیل کے "آپریشن پروٹیکٹِو ایج" کے دوران، اسرائیلی فورسز نے پڑوس پر ایک بڑے فوجی حملے کا آغاز کیا، جس میں کم از کم 100 فلسطینی مارے گئے اور رہائشیوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا۔ عربی میں "شجاع" کا مطلب "حوصلہ" ہے۔
الشاطی مہاجر کیمپ
غزہ کی پٹی دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد مقامات میں سے ایک ہے۔ یہ 1.8 ملین (اٹھارہ لاکھ) فلسطینیوں کا گھر ہے، جن میں سے زیادہ تر ان پناہ گزینوں کی اولاد ہیں جو 1948ء میں فلسطین کے دوسرے شہروں اور دیہاتوں سے نکالے گئے تھے۔ غزہ کے آٹھ پناہ گزین کیمپوں میں سے ایک الشاطی پناہ گزین کیمپ ہے۔
غزہ پورٹ
غزہ کی پٹی کی چھوٹی بندرگاہ غزہ شہر کے ضلع رِمل کے قریب واقع ہے۔ یہ بحیرہ روم کی واحد بندرگاہ ہے جہاں 1967ء سے اسرائیل کے قبضے اور ناکہ بندی کی وجہ سے دنیا بھر سے کسی بھی جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت نہیں ہے۔
رِمل
غزہ شہر کے سب سے خوشحال محلوں میں سے ایک، اس کی مرکزی سڑک ساحلی پٹی کو پرانے شہر سے جوڑتی ہے۔
ایران کا اسرائیل پر ڈرون حملہ
ہلال خان ناصر
مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کی دشمنی کوئی پوشیدہ بات نہیں، سالہا سالوں سے ان دو ملکوں کی دھمکیوں اور بالواسطہ جھڑپوں کا تبادلہ چلا آرہا ہے، مگر ۱۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو اسرائیل پر ہونے والے ایرانی ڈرون حملوں نے ساری صورتحال کو ایک نئی راہ پر ڈال دیا۔ اسرائیل پر کسی ملک کا براہ راست حملہ کرنا، امریکہ سے لڑائی مول لینے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ ۱۹۹۰ء کی دہائی میں عراق کے صدر صدام حسین نے جب اسرائیل کو نقشہ ارض سے مٹا دینے کے عزائم ظاہر کیے تو امریکہ اور نیٹو نے مل کر عراقی قوت کو اس طرح گرایا کہ اب تک عراق اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ اس سب کو مد نظر رکھتے ہوئے جب اس خبر کو دیکھا جائے تو حیرت کے ساتھ ساتھ بہت سے سوالات بھی ذہن میں آتے ہیں۔
کچھ لوگوں نے اس حملے سے اسرائیل کو ہونے والے نقصان کے بارے میں سوال اٹھایا جو کہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ ۳۰۰ میزائیل اور ڈرونز میں سے صرف ۱ فیصد اپنے ہدف پر لگے جس سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا اور معمولی مالی نقصان پہنچا۔ اس سوال کا جواب خود ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ایک میٹنگ میں دیا کہ کتنے میزائیل مارے گئے اور کتنے اسرائیل کو لگے، یہ اہمیت کے حامل نہیں، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ایرانی فوج کی قوت بین الاقوامی میدان میں ابھر کر واضح ہوئی۔
بعض طبقات نے اس کو غزہ کے مجاہدین کے ساتھ یکجہتی کا اعلان سمجھا۔ درحقیقت یہ حملہ یکم اپریل ۲۰۲۴ء کو شام میں موجود ایرانی سفارتخانے پر اسرائیلی حملے کی جوابی کاروائی تھی جس میں ایرانی فوج کے اعلیٰ افسران مارے گئے۔
ایک سوال یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ عرب ممالک بھی اس خطے کے اقتدار کے امیدوار ہیں۔ اس واقعے میں انہوں نے کیا کردار ادا کیا؟ اس کا جواب افسوسناک ثابت ہوا کیونکہ عرب ممالک بالخصوص سعودیہ عرب اور دبئی نے اسرائیل کو حملے کی قبل از وقت اطلاعات مہیا کیں اور اردن نے باقاعدہ جہازوں کے ذریعے ایرانی میزائیل اسرائیل پہنچنے سے پہلے تباہ کیے۔ لیکن اس حملے سے ۲ چیزیں واضح ہوتی نظر آئیں:
- عالمی میڈیا کی طرف سے بنائی گئی ایک ناقابل تسخیر اسرائیل کی تصویر دھندلی ہو گئی۔ ایران کے حملے کا اعلان سنتے ہی اسرائیل نے غزہ سے اپنی فوج واپس بلا لی۔ قبل از وقت اطلاعات اور آئرن ڈوم فضائی دفاع سسٹم ہونے کے باوجود لگنے والے میزائیل اس بات کا ثبوت اور اسرائیل کے دفاعی ریکارڈ پر سوالیہ نشان ہے۔
- نہ تو ایران اور نہ ہی اسرائیل ایک باقاعدہ جنگ کے خواہاں ہیں۔ سی این این کی خبر کے مطابق ایرانی حملے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم کو میزائل روکنے کی مبارکباد کے ساتھ ساتھ جوابی کاروائی کرنے سے منع کیا۔ امریکی افسران کے مطابق کسی جوابی کاروائی میں امریکہ اسرائیل کا ساتھ نہیں دے گا۔ اسی موقف کا حامل ایران بھی نظر آرہا ہے کیونکہ ۱۸ اپریل کو ایران کے شہر اصفہان پر ہونے والے اسرائیلی ڈرون حملے کو بہت حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق اس حملے کو معمولی ظاہر کرنے کیلیے ایران نے اس حملے سے ہونے والے نقصان کو چھپانے کی بھی کوشش کی۔
دینی جماعتوں اور خطباء کرام سے متحدہ علماء کونسل اپیل
متحدہ علماء کونسل پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترمی ________ مزاج گرامی؟
گزارش ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام کے مشترکہ فورم متحدہ علماء کونسل پاکستان نے ملک کی موجودہ دینی و ملی صورتحال کو بہت سے حوالوں سے تشویش و اضطراب کا باعث قرار دیتے ہوئے ملک بھر کی تمام مکاتب فکر کی دینی جماعتوں اور خطباء کرام سے اپیل کی ہے کہ
- 26 اپریل جمعۃ المبارک 2024ء کو یوم مطالبات اور یوم استغفار کے طور پر منایا جائے۔ اور جمعۃ المبارک کے خطبات میں اہم دینی و ملی مطالبات پیش کرتے ہوئے نماز جمعہ کے بعد اجتماعی توبہ و استغفار کا اہتمام کیا جائے،
- بالخصوص مسئلہ فلسطین مسلمانوں اور مجاہدین کی حمایت اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے، امتِ مسلمہ کے اتحاد، مسلم حکمرانوں کے مؤثر کردار، معاشی بائیکاٹ کو منظم کرنے، اور فلسطینی بھائیوں کی زیادہ سے زیادہ امداد پر زور دیا جائے،
- سپریم کورٹ میں زیر بحث قادیانی کیس کے جلد از جلد فیصلے اور گزشتہ فیصلے سے پیدا ہونے والے ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔
- اسلام آباد کی مساجد و مدارس کے کنٹرول کے حالیہ اقدامات کو مسجد و مدرسہ کی آزادی کے منافی قرار دیتے ہوئے حکومت سے یہ اقدامات واپس لینے اور دینی جماعتوں سے مشترکہ موقف اور تحریک کا مطالبہ کیا جائے۔
- ٹرانس جینڈر کے قوانین کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے اس کی شریعت کے مطابق اصلاح پر زور دیا جائے اور اصلاح تک عمل درآمد روکنے کا مطالبہ کیا جائے۔
- ملکی معیشت کی سنگینی اور ابتر صورتحال کا ہمارے نزدیک ایک ہی حل ہے کہ قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر آئی ایم ایف کی شرائط کو مسترد کرنے کا اعلان اور ان معاہدات پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا جائے اور قومی خود مختاری کی بحالی کا اہتمام کیا جائے۔
- سودی قوانین کے خاتمے کے لیے دستور اور شریعت کے مطابق فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں اور عدالت عظمی میں دائر اپیلوں کو واپس لے کر دستور اور شریعت کے ساتھ وفاداری کا مظاہرہ کیا جائے۔
یہ سارے معاملات شریعت اسلامیہ سے انحراف کے باعث اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا مظہر ہیں، جس کا قومی سطح پر احساس و ادراک کرتے ہوئے اجتماعی توبہ اور استغفار کی مہم چلائی جائے، تاکہ ہم اللہ تعالی کی ناراضگی کے ماحول سے نجات حاصل کر کے ملک و قوم کی حقیقی ترقی اور استحکام کی طرف گامزن ہو سکیں آپ سے گزارش ہے کہ اپنے حلقہ اثر اور متعلقین تک ان گزارشات کو پہنچانے کا اہتمام فرمائیں اور کوشش کریں کہ 26 اپریل بروز جمعہ المبارک کو یوم مطالبات اور یوم استغفار کا قومی ماحول بنایا جا سکے۔
امید ہے کہ آپ اس گزارش پر خصوصی توجہ فرمائیں گے۔
والسلام ، ابو عمار زاہد الراشدی (صدر)
سردار محمد خان لغاری (سیکرٹری جنرل)
متحدہ علماء کونسل پاکستان
۲۳ اپریل ۲۰۲۴ء
"الحاج سید امین گیلانیؒ: شخصیت وخدمات"
مولانا حافظ خرم شہزاد
شاعر ختم نبوت الحاج سید امین گیلانی صاحب کو ہم سے رخصت ہوئے بیس برس بیت چکے ہیں، ان کی دینی و ملی خدمات اظہر من الشمس ہیں۔ ان کی خدمات کے مختلف پہلوؤں پر اصحابِ علم و دانش کی نگارشات و تاثرات پر مشتمل ایک مجموعہ شائع ہو رہا ہے، ان شاء اللہ۔
مجموعے پر سید امین گیلانی صاحب کے صاحبزادہ الحاج سید سلمان گیلانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’میرے والد مرحوم نے اپنی سوانح حیات لکھی اور 1990ء تک کے حالات و واقعات قلمبند کر دیئے۔ ان دنوں ان کے ایک نوجوان دوست ان کے سفر و حضر کے رفیق ہوتے۔ انہوں نے وہ مسودہ اس پر مشاہیر کی آراء اور تبصرے تقاریظ لکھوانے کے لئے والد صاحبؒ کی اجازت سے اپنے پاس رکھ لیا۔ اور پھر ان سے کہیں گم ہو گیا اور دوبارہ شرمندگی کے مارے وہ ہم سب سے کٹ گئے۔اس بات کا والد صاحب کو تا زیست افسوس رہا۔ میرے دل میں آیا کہ اکثر واقعات تو مجھے یاد ہیں کیوں نہ میں انہیں احاطہ تحریر میں لاؤں۔ مگر میری اپنی مصروفیات اور سستی مری اس کوشش کی راہ میں رکاوٹ بنی۔ مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی مدظلہ نے کئی مرتبہ توجہ دلوائی مگر میں اس پر اپنے آپ کو آمادہ نہ کر سکا۔ آخر میں نے کووِڈ (کرونا) کے زمانے میں اپنی سرگزشت "میری باتیں ہیں یاد رکھنے کی" لکھنا شروع کی تو اس میں والد صاحب مرحوم کے ہی کئی واقعات تحریر کئے۔
اسی اثنا میں میری شناسائی جناب خرم شہزاد صاحب سے ہوئی۔ ان کے اس ہنر سے مجھے آگاہی نہ تھی کہ وہ بہت عمدہ لکھاری ہیں اور والد صاحب کے بہت بڑے فین ہیں۔ میری کتاب چھپ گئی تو انہوں نے اس کا مطالعہ کیا، پھر بڑی محبت سے مجھ سے فرمایا شاہ جی مجھے کچھ واقعات تو آپ کی سرگزشت سے مل گئے ہیں مگر میرا جی چاہتا ہے ان پر الگ ایک مستقل کتاب لکھوں۔ میں بہت خوش ہوا کہ آخر ایک بندہ تو یہ فرض کفایہ ادا کرنے کے لئے میدان میں نکلا۔ مجھ سے جو مسودہ مہیا ہو سکا میں نے انہیں بھیجا اور وہ اپنی کوشش سے جن جن ذرائع تک پہنچ کر ان کے متعلق واقعات کا حصول کر سکے وہ کئے اور یہ کتاب منصۂ شہود پر لانے میں کامیاب ہوئے۔
میں نے ایک سرسری نظر ڈالی اور اوکے کر دیا۔ میری کتاب شائع کرنے والے علامہ عبد الستار عاصم کوئی معمولی درجہ کے انسان نہیں۔ ’’قلم فاونڈیشن‘‘ کے بانی اور سی ای او ہیں، ہزاروں کتب شائع کر چکے ہیں اور وہ سب لوگ نابغہ روزگار ہستیاں ہیں۔ میرے والد مرحوم کے برسوں کے تربیت یافتہ اور رفیق ہیں ہم سب بہن بھائیوں کے پیارے اور فیملی فرینڈ ہیں۔ میری دونوں نثری کتابیں اپنے ہی ادارے سے شائع کی ہیں یہ کیسے ممکن تھا کہ اپنے محسن اپنے مربی کی زندگی کے حالات و واقعات پر مبنی کتاب کو چھاپنے کی حامی نہ بھرتے۔ سو عزیزم خرم شہزاد نے ان سے اس بابت بات کی اور انہوں نے آج مجھ سے فون پر اس نیک کام کرنے کا وعدہ کیا اور جلد سے جلد تکمیل کی یقین دہانی کروائی۔
میں ان دونوں دوستوں کا نہایت ممنون و متشکر ہوں کہ جو میرا کام تھا وہ انہوں نے اپنے ذمہ لے لیا اور بطور احسن نبھایا۔ میری دعا ہے اللہ کریم ان کے علم، مال، جان، دولت، آل، اولاد سب میں برکت دے۔ دونوں جہانوں میں عفو و عافیت والا معاملہ کرے۔‘‘
اسی طرح مفکر اسلام مولانا زاہد الراشدی صاحب پیش لفظ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ
"شاعرِ اسلام الحاج سید امین گیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ ہمارے ان مِلی شعراء میں نمایاں مقام رکھتے ہیں جنہوں نے تحریکِ آزادی، تحریکِ ختمِ نبوت اور دیگر دینی و مِلی تحریکات میں مسلسل اور نمایاں کردار ادا کیا اور وہ ہماری دینی و مِلی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ مجھے اُن سے نیاز مندی حاصل رہی ہے اور مختلف تحریکات میں ان کی رفاقت کا اعزاز نصیب ہوا ہے۔ ان کی حیات، جدوجہد اور کلام کے حوالے سے نئی نسل کو آگاہ کرنے کے لیے مختلف پہلوؤں پر کام کی ضرورت ہے جو کہ راہ نمائی اور جدوجہد کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے نئی نسل کا حق ہے۔ اللہ پاک بھلا کریں ان کے فرزند و جانشین الحاج سید سلمان گیلانی صاحب کا کہ وہ اس سلسلہ میں کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اور زیرِ نظر مجموعہ بھی ان کی اسی کاوش کا اہم حصہ ہے۔
مجھے یہ جان کر قلبی مسرت ہوئی کہ عزیزِ محترم حافظ خرم شہزاد کو اس مجموعہ کے مرتب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جو میرے لیے بھی افتخار کا باعث ہے۔اللہ تعالیٰ عزیزم حافظ خرم شہزاد کی اس محنت کو قبولیت سے نوازیں اور نئی نسل کی صحیح سمت راہ نمائی کا ذریعہ بنائیں، آمین یارب العالمین"۔
مجموعے کی معلومات اور حصول کے لیے درج نمبر 03338214981 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ کی جنگ میں ایران کا کردار
مولانا زاہد الراشدی صاحب کا تبصرہ
مولانا حافظ امجد محمود معاویہ
پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی نے گزشتہ روز ایک مجلس میں اسرائیل پر ایرانی حملہ سے پیداشدہ صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جنگ کا ایک حصہ ہے جسے زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کی اس وقت جنگ کے تین بڑے فریق ہیں:
① ایک فریق اسرائیل ہے جو ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے لیے مسلسل جنگ لڑ رہا ہے اور پیش قدمی کرتا جا رہا ہے۔ ② دوسرا فریق ایران ہے جو ’’دولتِ فاطمیہ‘‘ کے لیے برسرِ پیکار ہے۔ اور عراق، شام، یمن، لبنان میں اس کی موجودگی اور کردار اس کے سنجیدہ ہونے کی واضح علامت ہے۔ ③ جبکہ تیسرا فریق عرب ممالک اور اقوام ہیں جن کے پاس کوئی وژن نہیں ہے، اپنی بادشاہتوں اور حکومتوں کا تحفظ ہی ان کا واحد ایجنڈا دکھائی دے رہا ہے جس کے لیے وہ امریکہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اسرائیل سے بھی توقعات وابستہ کرنے لگے ہیں۔ اس صورتحال میں امریکہ کی عملی اور مؤثر حمایت اور امداد صرف اسرائیل کو حاصل ہے، جبکہ عربوں کو وہ زبانی تسلی دینے کے لیے بھی تیار دکھائی نہیں دیتا۔ ④ اس کشمکش کا ایک ممکنہ فریق ترکیہ بھی ہو سکتا ہے جو خلافتِ ِعثمانیہ کے دور کو یاد کرتے ہوئے ماضی کی طرف واپسی کی سوچ رکھتا ہے، لیکن وہ ابھی پس منظر میں ہے اور اس کشمکش سے فائدہ اٹھانے کے لیے امکانات اور مواقع کی تلاش میں ہے۔
اس وسیع تر جنگ سے اس عالمی جنگ کا ماحول قریب آ رہا ہے جسے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملاحمِ کبریٰ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس لیے ایران کو صرف تماشائی کردار سمجھنا اس جنگ کے پس منظر، تہہ منظر اور پیش منظر تینوں سے آنکھیں بند کرنے کے مترادف ہو گا۔ اصل ضرورت مسلم حکمرانوں کا مل بیٹھ کر موجودہ تناظر کو پوری طرح سمجھتے ہوئے کوئی مشترکہ اور اجتماعی حکمتِ عملی طے کرنے کی ہے۔ جبکہ اہلِ فکر و دانش کی ذمہ داری ہے کہ وہ گروہی، علاقائی اور قومی تعصبات کے چشموں سے آزاد ہو کر کھلی فضا میں زمینی حقائق کا جائزہ لیں اور امتِ مسلمہ کی صحیح سمت راہنمائی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘
علامہ زاہد الراشدی صاحب کا جواب
مولانا جمیل فاروقی
علامہ زاہد الراشدی صاحب سے راقم نے پوچھا کہ استاد جی! آپ ‘‘رابطہ‘‘ کی جانب سے اسلام آباد مختلف مسالک کے علماء کی تقریب میں مدعو تھے پھر بھی شریک نہیں ہوئے، خیریت تو ہے؟
استاد جی صبح صبح تر و تازہ اور فل گپ شپ کے موڈ میں ہوتے ہیں، پوچھا کیا عنوان تھا؟
راقم نے بتایا ’’مسالک کے درمیان پلوں کی تعمیر‘‘۔
استاد جی نے غمزدہ لہجے میں فرمایا کہ قبلۂ اول کے دامن میں ہمارے بچوں کی کھوپڑیوں کے مینار اور ہڈیوں کے پل تعمیر کیے جا رہے ہوں اور ہم غیر ضروری عناوین پر یہاں بانسری بجانے بیٹھ جائیں، اور ہماری تقریبات نشستند، گفتند، خوردند اور برخاستند تک محدود ہوں، صحیح بات یہ ہے کہ یہ ہماری قومی حمیت کا جنازہ ہے۔ تم بتاؤ اس وقت اس عنوان کی ضرورت تھی یا مجھے اس عنوان کے تحت ہونے والی تقریب میں جانا چاہیے؟
میری خاموشی کو بھانپ کر استاد جی نے فرمایا: تم میرے مزاج سے واقف ہو کہ میں اتحادِ امت کا داعی ہوں بلکہ میں تو علاقائی سطح پر مسلکی ہم آہنگی سے شروع کر کے عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی پر ہر فورم پر بات کرتا ہوں اور اس کی ضرورت کو سمجھتا ہوں، مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ اب اس وقت امت پر کیا افتاد آن پڑی ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس وقت ہماری حالت یہ ہو گئی ہے کہ
؏ ’’یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقتِ قیام آیا‘‘
استاد جی کا عالمی فورم ’’رابطہ عالمِ اسلامی‘‘ سے دردمندانہ مطالبہ یہ ہے کہ اسے قضیہ فلسطین اور غزہ کے حوالے سے کھل کر اپنا موقف امت کے سامنے رکھنا چاہیئے اور ہر فورم پر ۱۹۹۰ء کی دہائی کی طرح مؤثر آواز اٹھانی چاہیئے اور عالمی سطح پر صرف اور صرف القدس اور فلسطین کو موضوع بحث بنانا چاہیئے۔ استاد جی نے رابطہ کی دعوت کے جواب میں جو حرفِ انکار لکھا ہے وہ بھی مظلوم طبقات کے دل کی آواز ہے۔ استاد جی کا جوابی خط ملاحظہ کیجئے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
گرامی قدر عزت مآب جناب سعد بن مسعود الحارثی صاحب زیدت مکارمکم
رئیس مکتب الرابطۃ العالم الاسلامی اسلام آباد پاکستان
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
۱۴ اپریل ۲۰۲۴ء کو اسلام آباد میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی اور رابطہ کے حوالہ سے رابطہ عالمِ اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ یا دفرمائی کا تہہِ دل سے شکریہ!
میرے مخدوم! ہم انتظار میں تھے کہ فلسطین کی موجودہ سنگین صورتحال اور مسجدِ اقصیٰ کو درپیش خطرات کے موضوع پر امتِ مسلمہ کے جذبات و احساسات کی ترجمانی اور فلسطینی مظلومین کی حمایت کے لیے رابطہ عالمِ اسلامی کا مؤقر فورم کوئی کردار ادا کرے گا۔ مگر اس سلسلہ میں مسلم حکمرانوں، او آئی سی اور رابطہ عالمِ اسلامی کے ماحول میں مکمل سناٹے کی کیفیت نے امت کو مایوس کیا ہے اور ’’یتحیر فیہا البسیب‘‘ کا منظر دکھائی دے رہا ہے۔ اس تناظر میں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کے عنوان پر سرگرمیاں میرے نزدیک بے وقت او ربے مقصد ہیں۔ مجھے اس موضوع کی اہمیت و ضرورت سے قطعی انکار نہیں ہے مگر یہ وقت اس کا نہیں بلکہ مسجدِ اقصیٰ اور فلسطینی مظلومین کے حق میں مؤثر آواز بلند کرنے اور امتِ مسلمہ کو عالمی استعماری قوتوں کے حصار سے نکالنے کی جدوجہد کا ہے۔ اس لیے میں بصدِ احترام ۱۴ اپریل کی مذکورہ کانفرنس میں شرکت سے معذرت خواہ ہوں۔
شکریہ، والسلام، ابوعمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
۱۳ اپریل ۲۰۲۴ء‘‘
إلى معالي رئيس مكتب رابطۃ العالم الإسلامي في إسلام آباد
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بسم الله الرحمن الرحيم
إلى معالي رئيس مكتب رابطة العالم الإسلامي في إسلام آباد، الفضيل الأخ سعد بن مسعود المؤقر، السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
بعد التحية، قد تلقيت دعوة للمشاركة في المؤتمر الذي سيُعقد تحت إشراف رابطة العالم الإسلامي في إسلام آباد في 14 أبريل عام 2024م. يهدف هذا المؤتمر إلى تعزيز التواصل بين الأديان والثقافات. أشكركم من أعماق قلبي على هذه الدعوة.
أيها السيد المحترم، كان من المتوقع أن تتخذ رابطة العالم الإسلامي موقفًا قويًا تجاه المسجد الأقصى وتجاه المسلمين المظلومين في قطاع غزة. هذه المنطقة تشهد ظروفًا خطيرة تهدد بالإبادة الجماعية، حيث يتعرض الأطفال والنساء والشيوخ للعدوان والقتل، وتُدمر المساكن وتُقصف المساجد والمدارس والجامعات والمستشفيات.
كنا نأمل أن تلعب رابطة العالم الإسلامي دورًا فاعلًا في نصرة المسجد الأقصى والمظلومين في فلسطين، وكذلك نتوقع من جميع الدول العربية والإسلامية أن تتحرك للدفاع عن هذه القضية.
ومع ذلك، للأسف، لم تتحرك منظمة التعاون الإسلامي ورابطة العالم الإسلامي بالشكل المطلوب لمواجهة هذه الأزمة. وفي ظل هذه الظروف، يبدو أن تنظيم مؤتمر بعنوان "الوئام بين الأديان" ليس مناسبًا في هذا الوقت. على الرغم من أهمية هذا الموضوع، إلا أن تنظيم المؤتمر تحت هذا العنوان في هذا التوقيت والمكان غير مناسب. لذا، أعتذر بكل احترام عن حضور المؤتمر المذكور في 14 أبريل. شكرًا لكم.
والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
ابوعمار زاھد الراشدی
خطیب الجامع کوجرانوالہ الباکستان
The Role of Iran in the Middle East War
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
جعفر بھٹی
The Secretary General of Pakistan Shariah Council, Maulana Zahid ur Rashidi gave a statement on the situation created by the attack of Iran on Israel that it is a part of the war, which needs to be understood in the light of facts. He said that there are three major parties or stakeholders in the Middle East war:
- The first one is Israel, which is striving for a "Greater Israel" and is advancing continuously.
- The second one is Iran, which is striving for a "Fatimid Empire". Its presence and role in Iraq, Syria, Lebanon, and Yemen are evident in its seriousness.
- The third party or stakeholder is Arab countries and nations that don’t have any vision. It appears their sole agenda is to protect their kingdom and government.
For this while, depending on America, expectations have also started to be made from Israel. In the current situation, only Israel is getting the USA’s effective support and aid. The USA is even unwilling to give verbal consolation to Arabs.
- One potential party in this conflict is Turkey’, which is planning to return to its past by reminding the era of the Ottoman Empire. But Turkey’ is still in the background and is looking for opportunities to take advantage of the conflict.
By this wider war, the atmosphere of the world war is approaching near to which Prophet Muhammad Peace be upon him has said to be “Malaham-e-Kubra”. So, considering Iran to be only a spectator is equivalent to closing your eyes from the background, foreground, and bottom of this scenario. The need of the hour is to determine a common and collective strategy by Muslim rulers after fully understanding the current scenario. People of wisdom must check the ground realities after setting themselves free from group, regional, and national biases and play their role in guiding the Muslim Ummah in the right direction.
Regarding Muslim World League`s Conference Invitation
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مترجم : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
Subject: Regret Regarding Conference Invitation
Dear Dr. Saad bin Masood Al-Harithi,
(Head of the Office of the World Islamic League, Islamabad, Pakistan)
Assalam-u-Alaikum wa Rahmatullah wa Barakatuh.
I hope this letter finds you well. I extend my warm regards to you.
I am writing to express my gratitude for the invitation to the conference organized by the World Islamic League, which is scheduled to take place in Islamabad on April 14, 2024. The conference aims to focus on interfaith harmony and dialogue.
While I appreciate the significance of interfaith harmony, I find it necessary to address a pressing matter. As members of the Muslim Ummah, we have been eagerly anticipating a platform where we can effectively discuss the current situation in Palestine and the critical issue of Al-Aqsa Mosque. Unfortunately, the prevailing silence from Muslim regimes, the Organization of Islamic Cooperation (OIC), and the World Islamic League has left our community disheartened and bewildered.
Given this context, I believe that the timing of interfaith harmony activities may not align with the urgent need to advocate for Al-Aqsa Mosque and the oppressed Palestinians. The global colonial powers continue to impose a siege on the Muslim Ummah, and it is crucial that we raise our voices effectively in their support.
With utmost respect, I regret to inform you that I will not be able to participate in the conference on April 14. I hope that our collective efforts will eventually lead to positive change and justice for the oppressed.
Thank you for your understanding.
Sincerely,
Abu Ammar Zahid-ur-Rashdi
Khateeb Central Jamia Mosque, Gujranwala.
13th April, 2024
جاگتے رہنا! دینی مدارس، ان کے وفاق، علماء کرام اور دینی جماعتیں
ڈاکٹر محمد امین
حکومتِ پاکستان نے مغرب کے دباؤ پر فیٹف (FATF) کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اوقاف کے حوالے سے جو ظالمانہ قوانین بنائے تھے، اب ان پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے اور وزارت ِداخلہ نے اپنے نوٹیفیکیشن مؤرخہ ۸ مارچ ۲۰۲۴ء سے اسلام آباد کی مساجد کمیٹیوں ( چھوٹے مدارس اکثر مساجد ہی میں قائم ہوتے ہیں) کو توڑ کر انہیں حکومتی کنٹرول میں دےدیا ہے۔
جیسا کہ پہلے ٹرانس جینڈر ایکٹ او ردوسرے قوانین کے بارے میں ہو چکا کہ پہلے اس کا نفاذ اسلام آباد کے وفاقی علاقے پر کیا جاتا ہے اور اس کے بعد سارے صوبوں میں بتدریج اس کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا واضح خدشہ ہے کہ اگلے چند مہینوں میں مساجد اور مدارس کو حکومتی کنٹرول میں لانے کے یہ رولز سارے صوبوں میں نافذ کر دیے جائیں گے۔
دینی مدارس، ان کے وفاقوں، علماء کرام اور دینی جماعتوں سے ہماری درخواست ہے کہ وہ جاگتے رہیں اور ان قوانین کے نفاذ کے خلاف جدوجہد کرنے اور تحریک چلانے کا سوچیں، ورنہ جلد یا بدیر مساجد و مدارس حکومتی کنٹرول میں چلے جائیں گے اور ان کی آزادی ختم ہو جائے گی۔
الشریعہ — جون ۲۰۲۴ء
تعارفِ ادیان و مذاہب: چند ضروری تقاضے
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۲۰۱۷ء کے دوران الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک نشست سے گفتگو)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارے ہاں ”تقابلِ ادیان“ کے عنوان سے مختلف مدارس اور مراکز میں کورسز ہوتے ہیں جن میں ادیان و مذاہب کے درمیان چند اعتقادی اختلافات پر مباحثہ و مناظرہ کی تربیت دی جاتی ہے، جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے انتہائی ضروری ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔ مگر میری طالب علمانہ رائے میں یہ اس وسیع تر موضوع کے لحاظ سے انتہائی محدود اور جزوی سا دائرہ ہے جبکہ اس عنوان پر اس سے کہیں زیادہ وسیع تناظر میں گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔
تقابلِ ادیان سے پہلے تعارفِ ادیان
اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تقابل سے پہلے تعارف ضروری امر ہے کہ جس گروہ سے آپ اختلاف کر رہے ہیں اس کا کم از کم اجمالی تعارف تو آپ کے سامنے ہو کہ:
- اس کا آغاز کب ہوا تھا اور اس کی مختصر تاریخ کیا ہے؟
- آپ کے ساتھ اس گروہ کے اختلافات کا بنیادی دائرہ کیا ہے؟
- بڑے بڑے مختلف فیہ مسائل کون سے ہیں؟
- اس گروہ کے ساتھ آپ کے سماجی اور معاشرتی تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
- اور اعتقادی اختلافات سے ہٹ کر آپ دونوں کے درمیان سیاسی، معاشرتی اور سماجی تنازعات کیا ہیں؟
اس مجموعی تناظر سے آگاہی کے بغیر چند اختلافی مسائل پر مباحثہ کرنا مناظرے کے ماحول میں تو یقیناً فائدہ مند ہوتا ہے، لیکن آج کے عالمگیر ماحول میں اس گروہ کے صحیح معاشرتی مقام کی پہچان اور اس کے ساتھ معاملات و تنازعات کے تعیّن میں اس سے کوئی راہنمائی نہیں ملتی۔ مثلاً مسیحیت کے بارے میں دیکھ لیجئے کہ اس مذہب کے ساتھ اعتقادی مباحث میں (۱) توحید یا تثلیث (۲) کفارہ (۳) ابنیت مسیح (۴) حضرت عیسٰی علیہ السلام کا زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا وغیرہ مسائل یقیناً اہمیت رکھتے ہیں لیکن عملی معاملات میں اس سے کہیں زیادہ اہم امور یہ ہیں کہ:
- جناب نبی اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کے دور میں مسیحی مسلم تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟
- رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں کا تناظر کیا تھا؟
- صلیبی جنگوں کا مقصد اور نتیجہ کیا تھا؟
- خلافتِ عثمانیہ اور صلیبیوں کی کشمکش کا ماحول کیا تھا؟
- بہت سے مسلمان ممالک پر چند مسیحی ممالک نے نوآبادیاتی قبضہ کیسے کر لیا تھا؟
- مسلمانوں کے علوم و معارف کو تشکیک کا نشانہ بنانے کے لیے استشراق کی علمی و فکری تحریک کے اہداف و نتائج کیا تھے؟
- اور اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسیحیت کے باہمی تعلقات و تنازعات کی صورتحال کیا ہے؟ وغیر ذٰلک۔
اعتقادی مباحث تو مسیحی دنیا نے ایک عرصہ سے ترک کر رکھے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت سے دیگر ذرائع اور اسباب اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہمارے تعلیمی موضوعات سے ہی خارج ہیں۔ یہی صورتحال یہودیت، ہندومت، سکھ مت اور بدھ مت کے بارے میں بھی ہے۔ یہ وہ مذاہب ہیں جو آج کی موجود دنیا میں ہمارے معاصر ہیں اور ان کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو ہر وقت مسائل درپیش رہتے ہیں۔
اسلام سے منسوب مذاہب
اسی طرح مسلمانوں کے داخلی مذاہب کا معاملہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان کہلانے والی تقریباً دو ارب کے لگ بھگ آبادی کو جس گروہ بندی کا سامنا ہے، اور جن حصوں بخروں میں وہ اس وقت نہ صرف تقسیم بلکہ باہم برسرِ پیکار ہے اس کے پورے تناظر میں ہم اگر کہیں بات کرتے بھی ہیں تو وہ چند اعتقادی مباحث تک محدود ہوتی ہے۔ مجھے اس کی اہمیت و ضرورت سے کسی درجہ میں بھی انکار نہیں ہے لیکن یہ صرف ایک جزوی سا پہلو ہے جو ناکافی ہے۔ یہاں میں مثال کے لیے قادیانیت کا حوالہ دوں گا کہ ان کے ساتھ ہمارے اعتقادی مباحث میں (۱) ختمِ نبوت یا اجرائے نبوت (۲) رفع و نزول عیسیٰ علیہ السلام (۳) صدق و کذبِ مرزا جیسے مسائل یقیناً بنیادی اور مرکزی نوعیت کے ہیں جن کا علماء و طلبہ کو پڑھانا ضروری ہے، لیکن:
- قادیانی گروہ کا تعارف و پس منظر،
- اس کے دو بڑے گروہوں میں فرق،
- تحریکِ آزادی میں اس گروہ کا کردار،
- پاکستان کے قیام اور تقسیمِ پنجاب میں اس کا کردار،
- بین الاقوامی اداروں میں اس کی اسلام اور پاکستان کے خلاف مسلسل سرگرمیاں،
- اور عالمی سطح پر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ اس کا اشتراکِ عمل وغیرہ
بھی کم اہمیت کے امور نہیں ہیں جن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ حالانکہ اس حوالے سے نہ صرف قادیانیت بلکہ ختمِ نبوت کا انکار کرنے والے دیگر معاصر گروہوں مثلاً بہائیت، ذکری مذہب اور نیشن آف اسلام وغیرہ سے بھی اسی درجہ کی آگاہی ضروری ہے۔
اختلاف کے مسلّمہ آداب
تیسرے نمبر پر میں توجہ دلانا چاہوں گا کہ اختلافات پر بحث و مباحثہ میں اختلافات کی درجہ بندی اور اختلاف کے مسلّمہ آداب کا ہمارے ہاں عام طور پر لحاظ نہیں رکھا جاتا:
- بعض اختلافات کفر و اسلام کے ہیں مثلاً مسیحیت، یہودیت، ہندو مت، سکھ مت، قادیانیت، بہائیت، نیشن آف اسلام وغیرہ۔
- بعض اختلافات حق و باطل کے ہیں مثلاً خوارج، روافض، معتزلہ وغیرہ کے ساتھ، جن کا دائرہ پہلے دائرے سے یقیناً مختلف ہے۔
- بعض اختلافات خطا و صواب کے ہیں جیسا کہ احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ اور ظواہر کے فقہی اختلافات، ان کا درجہ محض صواب و خطا کا ہے اور حق و باطل کے معرکہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
- اس سے نیچے اختلافات کا ایک بہت بڑا دائرہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کا ہے جسے صواب و خطا میں تقسیم کرنا بھی درست نہیں ہوتا۔
لیکن ہمارے مناظرانہ مباحث میں یہ سب دائرے اس طرح خلط ملط ہو گئے ہیں کہ بسا اوقات اولیٰ غیراولیٰ کے مسائل میں ہم حق و باطل کے لہجے میں بات کر رہے ہوتے ہیں، اور خطا و صواب کا معرکہ تو کبھی کبھی کفر و اسلام کی باقاعدہ جنگ بن جاتا ہے۔ عمومی ماحول میں ان معاملات میں بے احتیاطی اور لاپروائی کے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ میرے جیسے کمزور لوگوں کو ایمان خطرے میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایک بڑے خطیب صاحب جو وفات پا چکے ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائیں، آمین۔ وہ ایک بار کسی عوامی جلسہ میں مادۂ تولید کے پاک یا ناپاک ہونے کے اختلافی مسئلے پر مخالف فریق کے وہ لتے لے رہے تھے کہ ان کے قریب بیٹھے مجھے شرم آرہی تھی۔ انہوں نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں لتاڑنے کی خوب مہارت دکھائی۔ جلسہ سے فارغ ہونے پر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو میں نے پوچھ لیا کہ حضرت! منی کے پاک ہونے کا یہ موقف، جسے آپ نے موضوعِ بحث بنایا ہوا تھا، متقدمین میں سے بھی کسی کا ہے؟ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام سفیان ثوریؒ کا موقف ہے۔ اس پر وہ چونکے۔ میں نے گزارش کی کہ کسی فقہی مسئلہ پر طعن و تشنیع کا توپ خانہ گاڑتے وقت یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اس کا رخ کدھر ہے؟
ایسے مسائل میں خاص طور پر اساتذہ سے ہماری گزارش ہوتی ہے کہ اختلافات سکھاتے وقت ادب الاختلاف بھی پڑھایا کریں تاکہ ہمارے نوجوان علماء کو معلوم ہو کہ کس سے کس درجہ میں اختلاف کرنا ہے اور کس لہجے میں کرنا ہے۔ ”ادب الاختلاف“ پر متقدمین اور متاخرین علماء نے بہت کچھ لکھا ہے جسے باقاعدہ پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ اس سلسلہ میں دو سال قبل کراچی کے ایک فاضل دوست ڈاکٹر سید عزیز الرحمٰن نے ماہنامہ ”تعمیرِ افکار“ کا پونے چھ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ضخیم نمبر شائع کیا ہے جو مسلکی اور فقہی اختلافات کی حدود و قیود اور آداب کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ میرے خیال میں اعتقادی اور فقہی علوم پڑھانے والے اور ان مباحث کی تربیت دینے والے تمام مدرسین اور اساتذہ کو لازماً یہ رسالہ پڑھنا چاہیے جسے زوار اکیڈمی پبلیکیشنز، اے ۸۱/۴ ناظم آباد ۴ کراچی سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
زمانے کے ماحول سے واقفیت
اس وقت انسانی سوسائٹی میں ہمیں کن مذاہب، کن مسالک اور کن افکار سے واسطہ ہے؟ سوسائٹی تو گلوبل ہوتی جا رہی ہے اور مشرق، مغرب، شمال، جنوب میں کوئی فرق نہیں رہا، نہ معلومات کے حوالے سے اور نہ رابطوں کے حوالے سے۔ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس زمانے کی نشاندہی کی تھی ”یتقارب الزمان“ یہ آپؐ کی پیشین گوئیوں میں ہے جو آپؐ نے قیامت کی نشانیوں میں بیان فرمائی تھی کہ زمانے ایک دوسرے کے قریب آجائیں گے، جس کا آسان ترجمہ ہم کیا کرتے ہیں کہ فاصلے سمٹ جائیں گے۔ آج کے دور میں زمینی فاصلے بھی اور زمانی فاصلے بھی سمٹ گئے ہیں اور مزید سمٹتے جا رہے ہیں۔ پہلے اونٹوں کا سفر ہوتا تھا، اب جہازوں کا ہوتا ہے۔ پہلے پیغام، خط و کتابت کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا، اب واٹس اپ کے ذریعے ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنے اردگرد ماحول اور دنیا سے واقف ہونا چاہیے۔
قرآن کریم نے بھی یہی کیا تھا جب جناب نبی کریمؐ تشریف لائے اور مکہ مکرمہ میں آپؐ کی ایک جماعت بنی تو قرآن کریم کا اسلوب یہی رہا ہے کہ جزیرۃ العرب کے دائرے میں جن مذاہب سے عملی واسطہ تھا ان مذاہب کا تفصیل سے تعارف کروایا ہے۔ زیادہ تر مشرکینِ عرب تھے جو خود کو اسماعیلی یا قریشی کہتے تھے، ان کے اسلوب و عقائد، ان کی سماجی و تہذیبی روایات، ان کا خاندانی نظام، ان کا پورا سسٹم قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ مدینہ منورہ جا کر یہودیوں سے واسطہ پیش آیا تو یہودیوں کا بھی قرآن کریم نے پورا تعارف کروایا ہے۔ ان کا پس منظر، ان کی تاریخ، ان کے عقائد اور ان کی گمراہیاں کھول کر بیان فرمائیں۔ تیسرے مسلمانوں کا واسطہ جزیرۃ العرب میں نجران کے عیسائیوں سے تھا۔ نجران میں عیسائی بہت بڑی تعداد میں تھے اور بنو تغلب بھی عیسائی تھے۔ تو قرآن کریم نے عیسائیوں کا تعارف بھی کروایا ہے۔ تینوں حوالوں سے کہ ان کے عقائد کیا ہیں، ان کا تاریخی پس منظر کیا ہے، ان کی روایات و معمولات کیا ہیں، تہذیبی ماحول کیا ہے، اور چوتھے نمبر پر ان کی گمراہیاں تفصیل سے بیان فرمائی ہیں۔
قرآن کریم کا اسلوب یہ بتا رہا ہے کہ اردگرد کے ماحول سے واقف ہونا چاہیے، خود عمل کرنے کے حوالے سے بھی اور تحریکات کے حوالے سے بھی۔ جزیرۃ العرب میں اس وقت سب سے کم واسطہ صابئین سے تھا لیکن قرآن کریم نے ان کا ذکر بھی کیا ہے، اگرچہ ان کی تفصیلات بیان نہیں کیں۔ اس تناظر میں ہر دور میں ضروری ہے کہ ہم اپنے ماحول سے واقف ہوں کہ جن مذاہب سے ہمیں واسطہ ہے، ہمارا ان کا فرق کیا ہے؟ تنازعات کہاں ہیں؟ اتفاقات و اختلافات کہاں کہاں ہیں؟
ہمارے ہاں عام طور پر ایک مغالطہ ہے کہ ہم جب تقابلِ مذاہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے ہاں چند مناظرانہ مسائل ہی تقابلِ مذاہب سمجھے جاتے ہیں۔ عیسائیوں سے بات ہوگی تو مناظرے کے دوچار مسائل موضوع بن جائیں گے اور اسی پر سارا وقت صَرف ہو جائے گا۔ وہ ایک حصہ ہے لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔ یا مثلاً ہم قادیانیوں کی بات کریں گے تو چند مناظرانہ مسائل پر مباحثہ سمٹ کر رہ جاتا ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ ہم ان کے پس منظر سے واقف ہوں، تاریخ سے واقف ہوں، اور ان کا تعارف حاصل ہو۔
اس لیے میری ترتیب یہ ہوتی ہے کہ پہلے تعارفِ ادیان اور پھر تقابلِ ادیان، مناظرے کے طور پر نہیں بلکہ بریفنگ کے طور پر کہ ہمارا اور ان کا فرق کیا ہے۔ پہلے تعارف کہ یہ کون لوگ ہیں ان کی ابتدا کب ہوئی؟ یہ کہاں کہاں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں؟ ہمارا اُن سے فرق کیا ہے؟ اور یہ بات بھی عرض کرتا ہوں کہ ان کے ساتھ اس وقت عالمی سوسائٹی میں ہمارے معاملات کی نوعیت کیا ہے، کہاں جھگڑا ہے، کہاں نہیں ہے، کہاں ہم اکٹھے ہیں، کہاں الگ الگ ہیں، ہمارے عملی مسائل اس وقت کیا ہیں؟ یہ تین باتیں (۱) ان کا تعارف (۲) ان کا مسلمانوں سے بنیادی معاملات کا فرق (۳) اور تنازعات کی موجودہ صورتحال (۴) مناظرہ چوتھے نمبر پر ہوتا ہے۔ میرا ذوق مناظرے کا نہیں ہے لیکن میں مناظرے مجادلے کی نفی نہیں کرتا، مناظرہ مجادلہ کیا جاتا ہے، کیا جانا چاہیے۔
مذاہب کی درجہ بندی
اس کے بعد مذاہب کی درجہ بندی بھی ضروری ہے۔ ہم جب تقابلِ مذاہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارے نزدیک یہودی مسلم جھگڑا اور حنفی غیر مقلد جھگڑا ایک ہی لیول کا سمجھا جاتا ہے۔ ہمارا لہجہ دونوں جگہ ایک ہی ہوتا ہے، گفتگو کا انداز بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔ درجہ بندی کے بغیر کسی مذہب سے بات کرنا بنیادی طور پر صحیح بات نہیں ہے۔ درجہ بندی کیا ہے؟ ایک درجہ بندی تو حضرت شاہ ولی اللہؒ نے کی ہے۔ شاہ صاحبؒ نے ”حجۃ اللہ البالغۃ“ میں درجہ بندی اس اسلوب سے بیان کی کہ
- ایک دائرہ ہے مذاہب و ادیان عیسائی اور یہودی وغیرہ۔
- شاہ صاحبؒ اہلِ اسلام میں درجہ بندی کرتے ہوئے اہلِ قبلہ کا دائرہ بناتے ہیں۔ اہلِ قبلہ میں قرآن کریم، جناب نبی کریمؐ، اور قبلہ کی بات کرنے والے سب کو شامل کرتے ہیں۔ ان میں اہلِ سنت تو ہیں ہی۔ مگر خوارج، معتزلہ، روافض اور کرامیہ جیسے اعتقادی فرقوں کو بھی اہلِ قبلہ میں شمار کرتے ہیں۔
- تیسرے نمبر پر اہلِ سنت کے داخلی مذاہب، فقہاء کا دائرہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی وغیرہ۔
لیکن شاہ صاحبؒ کے زمانے میں بعض باتیں نہیں تھیں جو کہ اب ہو گئی ہیں، اس لیے میری ترتیب میں یہ ہوتا ہے کہ:
- سب سے پہلے ادیان و مذاہب جو مستقل ہیں، مثلاً اس وقت آٹھ ارب کے لگ بھگ آبادی میں ہم مسلمانوں کو مجموعی طور پر جن مذاہب سے واسطہ ہے ان میں یہودی، عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ اور مجوسی وغیرہ مستقل مذاہب ہیں۔
- اس کے بعد ہمیں واسطہ ہے منحرفین سے۔ یہ مستقل دائرہ بن گیا ہے منحرف مذاہب کا جیسے قادیانی، بہائی، نیشن آف اسلام، ذکری، رشادی وغیرہ، جو نام اور ٹائٹل اسلام کا استعمال کرتے ہیں مگر نبوت و وحی کے نام پر نیا مذہب بنا لیا ہے۔ شاہ صاحبؒ کے زمانے میں یہ دائرہ نہیں تھا، یہ دونوں کفر و اسلام کے دائرے ہیں۔
- تیسرے نمبر پر جنہیں شاہ صاحبؒ اہلِ قبلہ کہتے ہیں جو نئی نبوت کی بات نہیں کرتے اور اسلام کی چند بنیادی باتوں کو تسلیم کرتے ہیں، یہ حق و باطل کا دائرہ ہے۔ ان میں اہلِ سنت اہلِ حق ہیں جبکہ خوارج، معتزلہ، روافض اہلِ باطل ہیں۔
- چوتھا دائرہ اہلِ سنت کے داخلی اختلافات کا ہے۔ اس دائرے میں تین ذیلی دائرے ہیں: ایک اعتقادی، دوسرا فقہی، تیسرا روحانی۔ ان تینوں کو الگ الگ سمجھنا ضروری ہے:
- اعتقادی تو یہ ہے کہ تمام اہلِ سنت کے عقائد ایک ہی ہیں البتہ تعبیرات میں فرق ہے۔ اس میں تین مستقل مکاتب ہیں: اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواہر۔ آج کے دور میں ظواہر کی جگہ سلفی یا اہلِ حدیث ہیں۔ ان میں کچھ متشددین ہیں اور کچھ معتدل، جو کہ ہر جگہ ہوتے ہیں۔
- دوسرا دائرہ فقہی احکام و مسائل کا ہے۔ احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ، ظواہر۔ پانچ مکاتبِ فکر ہیں۔ ان میں بھی ایک خطا و صواب کا دائرہ ہے اور ایک اولیٰ و غیر اولیٰ کا دائرہ ہے۔
- فقہاء کے آپس کے مسائل کی نوعیت خطا و صواب کی ہے۔ ہماری الجھن یہ ہے کہ ہم کسی وقت اولیٰ و غیر اولیٰ کے مسئلہ پر یا خطا و صواب کے مسئلہ پر بات کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہتھیار ہمارے پاس کفر و اسلام کے ہوتے ہیں۔ فقہاء (احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ، ظواہر) کا آپس کا دائرہ خطا و صواب کا دائرہ ہے، حق و باطل کا دائرہ نہیں ہے۔ ہم مجتہد کے بارے میں اصولی بات یہ کرتے ہیں ”المجتھد یخطئ و یصیب“۔ مثال کے طور پر ہم امام ابوحنیفہؒ کے مقلد ہیں ان کے فتوے کو دلیل پوچھے بغیر مانتے ہیں، لیکن یہ کہہ کر مانتے ہیں ”صواب یحتمل الخطاء“ اور اس کو حق و باطل کا عنوان نہیں دیں گے۔ حضرت امام شافعیؒ کے کسی فتویٰ کو ہم قبول نہیں کرتے تو یہ کہہ کر کہ ”خطاء یحتمل الصواب“ اور اس کو باطل نہیں کہیں گے۔
- اس سے اگلا دائرہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے۔ ہمارے بیسیوں فقہی اختلافات اولیٰ و غیر اولیٰ پر جا کر منتج ہو جاتے ہیں۔ فقہی احکام میں بالخصوص ہم بعض اوقات بہت تشدد کر جاتے ہیں، ہمیں اپنے رویے پر غور کرنا ہو گا۔ میں حنفی ہوں اور الحمد للہ شعوری حنفی ہوں، متصلب حنفی ہوں، احناف کے دائرے کو سمجھتا بھی ہوں، پابندی بھی کرتا ہوں، عمل بھی کرتا ہوں، تلقین بھی کرتا ہوں۔ لیکن یہ عرض بھی کیا کرتا ہوں کہ حنفیت کے مجادلے میں صحیح ترجمان اور آئیڈیل امام طحاویؒ ہیں۔ حنفی اور غیر فقہی اختلاف کے اسلوب کو سمجھنے کے لیے میرے ذوق کے مطابق امام طحاویؒ سے بڑا کوئی آئیڈیل نہیں ہے۔ فقہی مجادلے میں امام طحاویؒ کی ”شرح معانی الآثار“ کی چند خصوصیات کا میں ذکر کیا کرتا ہوں، آپ نے اس کتاب کا کوئی حصہ پڑھا ہو گا، اس کے چند صفحات پر دوبارہ غور کریں۔ طحاوی کی تمہید کی تین چار سطروں میں انہوں نے ذکر کیا کہ فقہی مجادلے کی بنیاد انہوں نے کس پر رکھی ہے۔ امام طحاویؒ کہتے ہیں: احادیث مختلف ہیں، ایک ایک مسئلہ پر تین تین چار چار مختلف احادیث ملتی ہیں جس سے (۱) ملحدین غلط فائدہ اٹھاتے ہیں (۲) اور کمزور ایمان کے مسلمان شک کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ دو وجہیں بیان کی ہیں۔ امام طحاویؒ کہتے ہیں میں نے الحاد کو دور کرنے کے لیے اور مسلمانوں کے تذبذب کو رفع کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی ہے۔
گویا فقہی مجادلہ کا بنیادی مقصد امام طحاویؒ کے ہاں اختلافات کو پھیلانا نہیں بلکہ سمیٹنا ہے، شکوک کو بڑھانا نہیں ہے بلکہ کم کرنا ہے۔ امام طحاویؒ نے یہ اسلوب اختیار کیا کہ ایک مسئلہ پر مثلاً تین موقف ہیں تو تینوں کے دلائل الگ الگ بیان کریں گے۔ پہلے مخالفین کے دلائل بیان کریں گے، پوری دیانت داری سے بیان کریں گے، پھر اپنے نقطۂ نظر سے اس میں کمزوری واضح کریں گے۔ پھر دوسرا موقف بیان کریں گے، ان کے دلائل بیان کریں گے، پھر اپنا موقف بیان کریں گے۔ پھر دلائل کا تقابل کریں گے۔ دلائل کے تقابل کی علمی بحث کے بعد اس کی درجہ بندی کریں گے کہ یہ ہمارے نزدیک جواز اور عدمِ جواز کا مسئلہ ہے، یا مکروہ اور غیر مکروہ کا مسئلہ ہے، یا اولیٰ اور غیرا ولیٰ کا مسئلہ ہے۔ اور جہاں اپنے دلائل میں کمزوری محسوس کریں گے وہاں اعتراف کریں گے کہ یہاں ہمارے دلائل کمزور ہیں۔
- اور تیسرا دائرہ روحانی ہے۔ صوفیاء کرام کا تزکیہ و اصلاح کا خانقاہی نظام بھی مسلم معاشرے کا حصہ چلا آ رہا ہے۔ ہمارے ہاں نقشبندی، قادری، چشتی اور سہروردی سلسلے روحانی تربیت کے حوالے سے مختلف مکاتبِ فکر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
چنانچہ اہلِ سنت کے داخلی دائروں میں اعتقادی تعبیرات کا مسئلہ ہو، یا فقہی احکام کا مسئلہ ہو، یا روحانی سلسلے کا آپس کا کوئی مسئلہ ہو، اس پر حق و باطل کی بات نہیں کریں گے بلکہ خطا و صواب کی بات کریں گے۔
اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۳)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(500) القلائد کا ترجمہ
قلائد قلادۃ کی جمع ہے۔ اس کا مطلب وہ پٹّا ہے جو کسی کے گلے میں ڈالا جاتا ہے۔ لسان العرب میں ہے: والقِلادَۃ: مَا جُعِل فِی العُنُق یَکُونُ للإنسان والفرسِ والکلبِ والبَدَنَۃِ الَّتِی تُہْدَی ونحوِہا.
راغب اصفہانی لکھتے ہیں: والْقِلَادَۃُ: المفتولۃ التی تجعل فی العنق من خیط وفضّۃ وغیرہما۔ (المفردات فی غریب القرآن)
درج ذیل دو آیتوں میں دو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ایک الْہَدْی ہے، جس کا مطلب قربانی کا جانور ہے۔ دوسرا لفظ الْقَلَائِد ہے، جس کا معنی گلے کے پٹے ہے۔ مترجمین نے الھدی کا ترجمہ تو قربانی کے جانور کیا، لیکن القلائد کا ترجمہ پٹے کے بجائے پٹے پڑے ہوئے جانور کیا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ پٹوں کی حرمت کا مفہوم ان کے ذہن نے قبول نہیں کیا تو انھوں نے پٹے پڑے ہوئے جانور مراد لے لیا۔ لیکن اس توجیہ کو کم زور کرنے والی بات یہ ہے کہ ایسی صورت میں الھدی اور القلائد کا مصداق ایک ہی ہوجائے گا۔ دونوں سے مراد قربانی کے جانور جن کے گلے میں پٹے پڑے ہوئے ہوں۔ کیوں کہ اس بات کی ہمیں صراحت ملتی ہے کہ قربانی کے جانور جسے ہدی کہتے ہیں اس کے گلے میں بھی یہ پٹے ڈالے جاتے تھے۔
بہتر یہ ہے کہ القلائد کا ترجمہ پٹے ہی کیا جائے۔ پٹے کی اہمیت یہ ہے کہ وہی اصل نشانی ہے،اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانور قربانی کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ اس لیے دل میں اس کا بھی احترام ہونا چاہیے۔
(۱) یَاأیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تُحِلُّوا شَعَائِرَ اللَّہِ وَلَا الشَّہْرَ الْحَرَامَ وَلَا الْہَدْیَ وَلَا الْقَلَائِدَ۔ (المائدۃ: 2)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خد ا پرستی کی نشانیوں کو بے حرمت نہ کرو نہ حرام مہینوں میں سے کسی کو حلال کر لو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو، نہ اُن جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذر خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہوئے ہوں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور نہ حرم کو بھیجی ہوئی قربانیاں اور نہ جن کے گلے میں علامتیں آویزاں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان جانوروں کی (جو خدا کی نذر کر دیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’نہ حرم میں قربان ہونے والے اور پٹے پہنائے گئے جانوروں کی جو کعبہ کو جا رہے ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ ان کے گلے پر بندھے ہوئے پٹوں کی‘‘۔
(۲) جَعَلَ اللَّہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِلنَّاسِ وَالشَّہْرَ الْحَرَامَ وَالْہَدْیَ وَالْقَلَائِدَ۔ (المائدۃ: 97)
’’اللہ نے مکان محترم، کعبہ کو لوگوں کے لیے (اجتماعی زندگی کے) قیام کا ذریعہ بنایا اور ماہ حرام اور قربانی کے جانوروں اور قلادوں کو بھی (اِس کام میں معاون بنا دیا)‘‘۔ (سید مودودی)
’’حرم کی قربانی اور گلے میں علامت آویزاں جانوروں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’قربانی کو اور ان جانوروں کو جن کے گلے میں پٹے بندھے ہوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’قربانی کے جانوروں اور گلے میں پٹے پڑے جانوروں کو شعیرہ ٹھہرایا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں شعیرہ کہنے کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔ جس طرح اللہ نے بیت حرام کو قیاما للناس بنایا ہے اسی طرح باقی چیزوں کو بھی قیاما للناس یعنی قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:
’’قربانی کے جانوروں اور گلے میں پڑے ہوئے پٹوں کو‘‘۔
(501) وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ کا ترجمہ
شَنَآنُ شنأ سے ہے، اس کے اندر بغض و نفرت کا مفہوم ہے۔ راغب اصفہانی کے مطابق: شَنِئْتُہُ: تقذّرتہ بغضا لہ، اس لفظ کا صحیح ترجمہ غصہ نہیں بلکہ دشمنی اور نفرت ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ کا ترجمہ مشتعل نہ کردے، اس لفظ کی صحیح عکاسی نہیں کرتا ہے۔ اس کا صحیح مفہوم ہے ’’تم سے ایسا نہ کرائے‘‘ زمخشری لکھتے ہیں: جرم یجری مجری کسب فی تعدیہ إلی مفعول واحد واثنین. تقول: جرم ذنبا، نحو کسبہ. وجرمتہ ذنبا، نحو کسبتہ إیاہ۔ (تفسیر الکشاف)
(۱) وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أنْ تَعْتَدُوا ۔(المائدۃ: 2)
’’اور دیکھو، ایک گروہ نے جو تمہارے لیے مسجد حرام کا راستہ بند کر دیا ہے تواس پر تمہارا غصہ تمہیں اتنا مشتعل نہ کر دے کہ تم بھی ان کے مقابلہ میں ناروا زیادتیاں کرنے لگو‘‘۔ (سید مودودی)
درج ذیل دونوں ترجمے اس پہلو سے مناسب ہیں:
’’اور تمہیں کسی قوم کی عداوت کہ انہوں نے تم کو مسجد حرام سے روکا تھا، زیادتی کرنے پر نہ ابھارے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تم کو عزت والی مسجد سے روکا تھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم ان پر زیادتی کرنے لگو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، ’ان پر‘ کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے، مطلق زیادتی سے منع کیا گیا ہے۔)
’’اور خبردار کسی قوم کی عداوت فقط اس بات پر کہ اس نے تمہیں مسجد الحرام سے روک دیا ہے تمہیں ظلم پر آمادہ نہ کردے‘‘۔ (ذیشان جوادی، یہاں فقط کا لفظ نامناسب ہے۔ یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ ان کا مسجد حرام سے روکنا چھوٹا جرم تھا، اس لیے فقط اس وجہ سے ایسا نہ کرو۔ بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ جرم تو بہت بڑا ہے پھر بھی وہ زیادتی کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتا)
(۲) وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی ألَّا تَعْدِلُوا۔ (المائدۃ: 8)
’’کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ‘‘۔ (سید مودودی، یہاں شَنَآنُ کا ترجمہ دشمنی تو درست ہے، البتہ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ کا ترجمہ مشتعل نہ کردے مناسب نہیں ہے۔)
’’ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۳) وَیَاقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شِقَاقِی أنْ یُصِیبَکُمْ مِثْلُ مَا أصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أوْ قَوْمَ ہُودٍ أوْ قَوْمَ صَالِحٍ۔ (ہود: 89)
’’اور اے برادران قوم، میرے خلاف تمہاری ہٹ دھرمی کہیں یہ نوبت نہ پہنچا دے کہ آخر کار تم پر بھی وہی عذاب آ کر رہے جو نوحؑ یا ہودؑ یا صالحؑ کی قوم پر آیا تھا‘‘۔ (سید مودودی، یہاں لَا یَجْرِمَنَّکُمْ کا ترجمہ مناسب ہے۔)
(502) النَّطِیحَۃُ کا ترجمہ
نطح کا مطلب ہے سینگ سے مارنا۔ نَطیحۃُ کہتے ہیں اس جانور کو جو سینگ مارنے سے مر جائے۔ فیروزابادی لکھتے ہیں:
نَطَحَہ، کمنعہ وضَرَبَہ: أصابَہ بقَرْنِہ. وانْتَطَحَتِ الکِباشُ: تَناطَحتْ. والنَّطیحۃُ: التی ماتَتْ منہ۔ (القاموس المحیط)
قرآن میں النَّطِیحَۃُ کا لفظ آیا ہے۔ اس کا صحیح ترجمہ ہے: وہ جانور جس کی سینگ لگنے سے موت ہوجائے۔ سینگ کے علاوہ کسی ٹکر سے اگر کسی جانور کی موت ہوجاتی ہے تو اس کا بھی وہی حکم ہوگا مگر قیاس کے تحت نہ کہ لفظ کے حقیقی معنی کی رو سے۔ درج ذیل میں پہلے دونوں ترجمے لفظ کے مطابق نہیں ہیں:
وَالنَّطِیحَۃُ۔ (المائدۃ: 3)
’’یا ٹکر کھا کر مرا ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور جو سینگ لگ کر مرجائے ‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
نطیحۃ کا مخصوص لفظ شاید اس لیے استعمال کیا گیا کہ جانوروں کی موت کا ایک بڑا سبب یہ ہوتا ہے۔
(503) تَعَاوَنُوا کا ترجمہ
عربی کے تعاون اور اردو کے تعاون میں فرق ہے۔ عربی میں تعاون کا مطلب ہوتا ہے آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ اگر کوئی گروہ دوسرے گروہ کی کام میں مدد کرتا ہے تو اس کے لیے تعاون کا لفظ نہیں أعان کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ درج ذیل آیت کے ترجمے میں سب سے تعاون کرو اور کسی سے تعاون نہ کرو اس لفظ کا درست ترجمہ نہیں ہے۔
وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ۔ (المائدۃ: 2)
’’جو کام نیکی اور خدا ترسی کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو اور جو گناہ اور زیادتی کے کام ہیں ان میں کسی سے تعاون نہ کرو‘‘۔ (سید مودودی)
سب سے تعاون کرو، مدد واعانت کے یک طرفہ عمل کو بتاتا ہے۔ جب کہ یہاں لفظ تعاون آیا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس فعل کی انجام دہی میں سب شریک ہیں۔
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور آپس میں مدد کرو نیک کام پر اور پرہیز گاری پر اور مدد نہ کرو گناہ پر اور زیادتی پر‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(504) یَبْحَثُ فِی الْأَرْضِ کا ترجمہ
بحث کا مطلب ہوتا ہے تلاش کرنا۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: البحث الکشف والطلب، یقال بحثت عن الأمر وبحثت کذا، قال اللہ تعالی: فبعث اللہ غرابا یبحث فی الأرض۔ (المفردات)
درج ذیل آیت میں کوّے کے لیے یبحث فی الأرض کے الفاظ استعمال ہوئے۔ اس کا ترجمہ بہت سے لوگوں نے ’کھودنا‘ کیا ہے۔ لیکن لفظ کی بھرپور رعایت ’کریدنا‘ سے ہوتی ہے۔ آیت کے الفاظ سے ایسا لگتا ہے کہ کوّا اس طرح سے زمین کرید رہا تھا گویا وہ زمین میں چھپائی ہوئی کوئی چیز تلاش کررہا ہو۔ اس سے اس قاتل بھائی کا ذہن اس طرف گیا کہ زمین چھپانے کے لیے مناسب جگہ ہے۔ گویا کوّے سے کھودنے کی تعلیم نہیں بلکہ چھپانے کی تعلیم ملی۔
فَبَعَثَ اللَّہُ غُرَابًا یَبْحَثُ فِی الْأرْضِ لِیُرِیَہُ کَیْفَ یُوَارِی سَوْءَ ۃَ أَخِیہِ۔ (المائدۃ: 31)
’’پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھود رہا تھا کہ اسے دکھلائے کہ بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے گا‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’پھر اللہ تعالیٰ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپا دے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودتا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کیونکر اپنے بھائی کی لاش چھپائے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اب خدا نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیونکر چھپائے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پھر بھیجا اللہ نے ایک کوا کریدتا زمین کو کہ اس کو دکھاوے کس طرح چھپانا ہے عیب اپنے بھائی کا‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(505) سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کا ترجمہ
سمع کا مطلب سننا ہے اور اطاع کا مطلب ماننا ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ دونوں الفاظ ایک ساتھ آئے ہیں، اس لیے نہیں کہ سمع اور اطاعت دونوں ہم معنی لفظ ہیں، بلکہ اس لیے کہ دونوں ساتھ مل کر ایک خاص مفہوم ادا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ سننے کے بعد فورًا اطاعت کی، ذرا دیر نہیں کی۔ اردو میں سمع و طاعت کا مرکب اس طرح عام ہوا کہ گویا دونوں کا معنی ایک ہے۔ صاحب تدبر قرآن سے بھی یہ تسامح ہوگیا۔ انھوں نے سمعنا کا ترجمہ کیا ہم نے مانا، قرآن مجید میں سمع کے متعدد استعمالات میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی ہے۔ لغت بھی اس کی تائید نہیں کرتی ہے۔ خود صاحب تدبر نے دو جگہ ماننا اور دو جگہ سننا ترجمہ کیا ہے۔
(۱) وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأطَعْنَا۔ (البقرۃ: 285)
’’اور کہتے ہیں کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۲) إذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَأطَعْنَا۔ (المائدۃ: 7)
’’جب کہ تم نے اقرار کیا کہ ہم نے مانا اور اطاعت کی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
مذکورہ بالا دونوں مقامات پر درست ترجمہ ہے ’’ہم نے سنا اور اطاعت کی‘‘۔
(۳) أنْ یَقُولُوا سَمِعْنَا وَأطَعْنَا۔ (النور: 51)
’’تو کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور مانا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۴) وَاسْمَعُوا وَأطِیعُوا۔ (التغابن: 16)
’’اور سنو اور مانو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(506) فَأَصْبَحَ مِنَ النَّادِمِینَ
جب ہم اردو میں وہ نادم ہوا، شرمندہ ہوا اور پشیمان ہوا کہتے ہیں، تو ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ وہ تائب ہوگیا۔ قرآن مجید میں أصْبَحَ مِنَ النَّادِمِینَ جیسی تعبیرات جہاں آئی ہیں وہاں مراد یہ ہے کہ پچھتانا اب اس کا مقدر ہوگیا۔ بعض لوگوں نے ترجمے میں اس مفہوم کو نمایاں کرنے کا اہتمام کیا ہے، بعض ترجمے پیش ہیں:
(۱) فَأصْبَحَ مِنَ النَّادِمِینَ۔ (المائدۃ: 31)
’’اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا‘‘۔ (سید مودودی)
’’ پھر تو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہوگیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’ پھر وہ پشیمان ہوا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’تو پچھتاتا رہ گیا‘‘۔ (احمدرضا خاں)
آخری ترجمے میں جملے کے مفہوم کو خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔
(۲) فَعَقَرُوہَا فَأصْبَحُوا نَادِمِینَ۔ (الشعراء: 157)
’’مگر انہوں نے اس کی کوچیں کاٹ دیں اور آخرکار پچھتاتے رہ گئے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اس پر انہوں نے اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے‘‘۔ (احمد رضا خان)
یہ دونوں ترجمے مفہوم کو خوبی سے بیان کرتے ہیں۔
(507) یُسَارِعُونَ فِیہِمْ کا ترجمہ
سارع فیہ کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھنا۔ قرآن میں اس کی کئی واضح مثالیں ہیں۔ جیسے: یُسَارِعُونَ فِی الْکُفْرِ (آل عمران: 176)، یُسَارِعُونَ فِی الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدۃ: 62)، یُسَارِعُونَ فِی الْخَیْرَاتِ (الانبیاء: 90)۔ درج ذیل آیت میں یسارعون فیھم آیا ہے، اس سے ذہن اس طرف جاتا ہے کہ یہاں فی برائے ظرف ہوگا۔ لیکن یہاں بھی یہ صلہ مفعول ہی ہے۔
فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَض یُسَارِعُونَ فِیہِمْ۔ (المائدۃ: 52)
’’تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُنہی میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دوڑ دوڑ کے ملے جاتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’آپ دیکھیں گے کہ جن کے دلوں میں بیماری ہے وہ دوڑ دوڑ کر ان میں گھس رہے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں فی کو ظرفیہ مانا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’تم دیکھتے ہو کہ جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے وہ اُن کی طرف لپک رہے ہیں‘‘۔
(508) اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ کا ترجمہ
اتَّبَعَ کا مطلب پیروی کرنا ہوتا ہے، طلب کرنا نہیں۔ لغت کے علاوہ قرآن کے تمام استعمالات سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔ درج ذیل آیت میں چوں کہ اتَّبَعَ کا مفعول بہ رضوان ہے، شاید اس لیے بعض لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ یہاں اتَّبَعَ طلب کے معنی میں ہے۔ کیوں کہ رضائے الٰہی کی پیروی کیسے کی جائے گی، اس کی تو طلب کی جائے گی۔
یَہْدِی بِہِ اللَّہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہُ سُبُلَ السَّلَامِ۔ (المائدۃ: 16)
’’اس کے ذریعے سے اللہ ان لوگوں کو جو اس کی خوشنودی کے طالب ہیں سلامتی کی راہیں دکھا رہا ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’کہ اس کے ذریعے سے اللہ تعالی ایسے شخصوں کو جو رضائے حق کے طالب ہوں سلامتی کی راہیں بتلاتے ہیں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
تاہم اگر اس پہلو سے دیکھا جائے کہ رضائے الٰہی کی پیروی یہ ہے کہ وہ کام کیے جائیں جن سے رضائے الٰہی کا حصول ہوتا ہو تو اتَّبَعَ کا لغت کے مطابق ترجمہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں رہ جاتا ہے۔ درج ذیل ترجمہ مناسب ہے۔ اس میں لفظ کے لغوی معنی کی رعایت کی گئی ہے:
’’جس سے خدا اپنی رضا پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
(509) یَمْلِکُ مِنَ اللَّہِ شَیْئًا کا ترجمہ
ملک لہ شیئا کا مطلب ہوتا ہے کسی کے سلسلے میں کوئی اختیار رکھنا۔ جیسے آیا ہے:
قُلْ إنِّی لَا أمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا۔ (الجن: 21)
’’کہہ دو میں نہ تمہارے لیے کسی ضرر پر کوئی اختیار رکھتا نہ کسی نفع پر‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
جب اس میں من بھی آجائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کسی کے مقابلے میں کوئی اختیار رکھنا۔
قرآن کی کئی آیتوں میں یہ اسلوب آیا ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں ’من‘ ’سے‘ کے معنی میں لیا ہے کہ اللہ کی طرف سے اختیار ملنا۔ جن آیتوں میں یہ اسلوب آیا ہے ان کے سیاق وسباق پر غور کریں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ سے اختیار پانے کی بات نہیں بلکہ اللہ کے مقابلے میں اختیار رکھنے اور اللہ کے اختیار میں دخل دینے کی بات ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مَنْ یَمْلِکُ مِنَ اللہِ شَیْئًا کا مطلب اللہ پر اختیار رکھنا نہیں ہے بلکہ اللہ کے مقابل اختیار رکھنا اور اپنی چلانا ہے۔
مختلف مقامات پر یہ دونوں غلطیاں مختلف ترجموں میں نظر آتی ہیں۔
(۱) قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ مِنَ اللہِ شَیْئًا إنْ أرَادَ أنْ یُہْلِکَ الْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَأمَّہُ وَمَنْ فِی الْأرْضِ جَمِیعًا۔ (المائدۃ: 17)
’’پوچھو، کون اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح ابن مریم کو، اس کی ماں کو اور جو زمین میں ہیں ان سب کو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، ’کون اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہے‘ کی جگہ ’کسے اللہ کے فیصلے کو بدلنے کا اختیار ہے‘ ہونا چاہیے۔)
’’ ان سے کہو کہ اگر خدا مسیح ابن مریم کو اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کس کی مجال ہے کہ اُس کو اِس ارادے سے باز رکھ سکے؟‘‘۔ (سید مودودی، اللہ کو اس کے ارادے سے باز رکھنے کی بات نہیں ہے، درست ترجمہ ہے: کس کی اس کے آگے کچھ چل سکتی ہے؟)
’’پھر اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو‘‘۔ (احمد رضا خان، ’اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے‘ درست نہیں ہے۔ ’اللہ کے مقابلے میں کیا کرسکتا ہے‘ درست ترجمہ ہے۔)
’’آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اگر اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم اور اس کی والدہ اور روئے زمین کے سب لوگوں کو ہلاک کر دینا چاہے تو کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی اختیار رکھتا ہو؟‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، ’اللہ پر اختیار رکھتا ہو‘ غلط ترجمہ ہے۔ درست ترجمہ ہے ’اللہ کے مقابلے میں اختیار رکھتا ہو‘)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’کہہ دو کہ اگر خدا عیسیٰ بن مریم کو اور ان کی والدہ کو اور جتنے لوگ زمین میں ہیں سب کو ہلاک کرنا چاہے تو اس کے آگے کس کی پیش چل سکتی ہے؟‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۲) وَمَنْ یُرِدِ اللہُ فِتْنَتَہُ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہُ مِنَ اللہِ شَیْئًا۔ (المائدۃ: 41)
’’جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو تو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔ (سید مودودی، یہاں فتنہ میں ڈالنے کی بات ہے تو گرفت سے بچانے کی بات کہاں سے آگئی؟)
’’اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لیے خدائی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یہ ترجمہ الفاظ سے الگ ہٹ کر کیا گیا ہے۔)
’’ اور اگر کسی کو خدا گمراہ کرنا چاہے تو اس کے لیے تم کچھ بھی خدا سے (ہدایت کا) اختیار نہیں رکھتے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، ’خدا سے اختیار‘ ترجمہ کرنا درست نہیں ہے)
’’اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہرگز تو اللہ سے اس کا کچھ بنا نہ سکے گا‘‘۔ (احمد رضا خان، یہاں ’اللہ سے‘ درست نہیں ہے، اللہ کے مقابلے میں ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور جس کو اللہ فتنہ میں ڈالنا چاہے تو تم اللہ کے مقابل اس کے معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۳) فَلَا تَمْلِکُونَ لِی مِنَ اللہِ شَیْئًا۔ (الاحقاف: 8)
’’تو تم میرے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں ’اللہ کی طرف سے‘ درست نہیں ہے۔ ’اللہ کے مقابلے‘ میں ہونا چاہیے۔)
’’تو تم اللہ کے سامنے میرا کچھ اختیار نہیں رکھتے‘‘۔ (احمد رضا خان، ’میرا اختیار نہیں رکھتے‘ کے بجائے ’میرے حق میں کچھ نہیں کرسکتے‘ ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:
’’تو تم میرا بھلا نہیں کرسکتے اللہ کے سامنے کچھ‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
(۴) قُلْ فَمَنْ یَمْلِکُ لَکُمْ مِنَ اللہِ شَیْئًا إنْ أرَادَ بِکُمْ ضَرًّا أوْ أرَادَ بِکُمْ نَفْعًا۔ (الفتح: 11)
’’ان سے کہ، کون ہے جو تمہارے لیے اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہو اگر وہ تم کو کوئی نقصان یا نفع پہنچانا چاہے؟‘‘۔(امین احسن اصلاحی، ’اللہ سے کچھ اختیار رکھتا ہو‘ کے بجائے ’اللہ کے مقابلے میں کچھ اختیار رکھتا ہو‘ ہونا چاہیے۔)
’’آپ جواب دے دیجئے کہ تمہارے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں ’اللہ کی طرف سے‘ کے بجائے ’اللہ کے مقابلے میں‘ ہونا چاہیے۔)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’تو کون تمہارے معاملہ میں اللہ کے فیصلے کو روک دینے کا کچھ بھی اختیار رکھتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
(۵) وَمَا أمْلِکُ لَکَ مِنَ اللہِ مِنْ شَیْئٍ۔ (الممتحنہ: 4)
’’اگرچہ میں آپ کے لیے اللہ کی طرف سے کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں رکھتا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں ’اللہ کی طرف سے‘ کے بجائے ’اللہ کے مقابلے میں‘ ہونا چاہیے۔)
’’اور اللہ سے آپ کے لیے کچھ حاصل کرلینا میرے بس میں نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودی، یہ ترجمہ الفاظ سے ہم آہنگ نہیں ہے)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور خدا کے سامنے آپ کے بارے میں کسی چیز کا کچھ اختیار نہیں رکھتا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(۶) لَا یَمْلِکُونَ مِنْہُ خِطَابًا۔ (النبأ: 37)
’’جس کی طرف سے یہ کوئی بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، ’جس کی طرف سے‘ کے بجائے ’جس کے سامنے‘ ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمے درست ہیں:
’’جس کے سامنے کسی کو بولنے کا یارا نہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اس سے بات کرنے کا اختیار نہ رکھیں گے‘‘۔ (احمد رضا خان)
(510) فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ کا ترجمہ
متعدد مترجمین نے درج ذیل جملے میں فَافْرُقْ کا ترجمہ جدائی ڈال دے کیا ہے۔
فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِینَ ۔(المائدۃ: 25)
’’پس تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان علیحدگی کردے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’ پس تو ہم میں اور ان نافرمانوں میں جدائی کردے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پس تو ہمیں اِن نافرمان لوگوں سے الگ کر دے‘‘۔ (سید مودودی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں فرق جدائی اور علیحدگی کرنے کے مفہوم میں نہیں بلکہ فرق اور امتیاز کرنے کے معنی میں ہے۔ وہ ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
’’پس تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان الگ الگ معاملہ کر‘‘۔
درج ذیل ترجمہ بھی اسی مفہوم کی ادائیگی کرتا ہے:
’’سو فرق کر ہمارے اور بے حکم قوم میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
خطبہ حجۃ الوداع کی روایات
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
نوٹ: روایات کا انتخاب اور تخریج درج ذیل دو سی ڈیز کی مدد سے کی گئی ہے:
۱۔ موسوعۃ الحدیث الشریف (الکتب التسعۃ) ، شرکۃ البرامج الاسلامیۃ الدولیۃ، الاصدار الثانی
۲۔ المکتبۃ الالفیۃ للسنۃ النبویۃ ، مرکز التراث لابحاث الحاسب الآلی، الاصدار 1.5
یوم عرفہ (۹ ذی الحجہ) سے متعلق روایات
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: غدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من منی حین صلی الصبح صبیحۃ یوم عرفۃ حتی اتی عرفۃ فنزل بنمرۃ وہی منزل الامام الذی ینزل بہ بعرفۃ حتی اذا کان عند صلاۃ الظہر راح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہجرا فجمع بین الظہر والعصر ثم خطب الناس ۔ (ابو داؤد، رقم ۱۶۳۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یوم عرفہ (۹ ذو الحجہ) کو صبح کی نماز ادا کر لی تو آپ منیٰ سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ میدان عرفات میں پہنچ گئے۔ آپ نے نمرہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا جو عرفہ میں امام کے قیام کرنے کی جگہ ہے۔ جب ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے ذرا جلدی روانہ ہوئے، ظہر اور عصر کی نماز اکٹھی ادا کی اور پھر لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا۔‘‘
نبیط بن شریط رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب علی جمل احمر بعرفۃ قبل الصلاۃ۔ (نسائی، ۲۹۵۷)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ عرفہ میں نماز سے قبل ایک سرخ اونٹ پر سوار خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
خالد بن العذاء بن ہوذۃ رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب الناس یوم عرفۃ علی بعیر قائم فی الرکابین۔ (ابو داؤد، ۱۶۳۸)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ یوم عرفہ کو ایک اونٹ پر اس کی دونوں رکابوں میں پاؤں جما کر کھڑے تھے اور خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
عبادۃ بن عبد اللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ: قال کان ربیعۃ بن امیۃ بن خلف الجمحی ہو الذی یصرخ یوم عرفۃ تحت لبۃ ناقۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصرخ وکان صیتا ۔ (المعجم الکبیر، ۴۶۰۳)
’’یوم عرفہ کو ربیعہ بن امیہ بن خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کے سینے کے نیچے کھڑے (آپ کے کلمات کو) بلند آواز سے دہرا رہے تھے۔ ان کی آواز بہت بلند تھی اور آپ نے ان سے کہا تھا کہ اونچی آواز سے (یہ کلمات) کہو (جو میں کہہ رہا ہوں)‘‘۔
یقول لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قل یا ایہا الناس ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول ....۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۶/۱۰)
’’آپ ربیعہ سے کہتے کہ کہو: اے لوگو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ...‘‘۔
[ ابن عباس (المعجم الکبیر، ۱۱۳۹۹۔ صحیح ابن خزیمہ، ۲۹۲۷) ]
محمد بن قیس بن مخرمۃ: خطب یوم عرفۃ فقال ہذا یوم الحج الاکبر۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۰۴)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روزہ خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ یہ حج اکبر کا دن ہے۔‘‘
[مرۃ الطیب عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، ۱۵۳۲۲)]
عبد العزیز بن عبد اللہ بن خالد بن اسید: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ: الیوم الذی یعرف الناس فیہ۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۶۰۹۔ سنن الدارقطنی، ۲/۲۲۳)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن فرمایا کہ آج وہ دن ہے جس میں لوگ عرفات میں ٹھہریں گے۔‘‘
زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو بعرفۃ یقرا ہذہ الآیۃ شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو والملئکۃ واولو العلم قائما بالقسط لا الہ الا ہو العزیز الحکیم وانا علی ذلک من الشاہدین۔ (مسند احمد، ۱۳۴۷)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفہ میں یہ آیت پڑھتے ہوئے سنا: شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو والملئکۃ واولو العلم قائما بالقسط لا الہ الا ہو العزیز الحکیم (اللہ بھی گواہی دیتا ہے اور فرشتے اور اہل علم بھی کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ انصاف پر قائم ہے۔ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ غالب اور حکمت والا ہے) رسول اللہ نے فرمایا کہ میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں۔‘‘
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطب بعرفات فلما قال لبیک اللہم لبیک قال انما الخیر خیر الآخرۃ ۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۸۸۱۶)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں خطبہ دیا۔ جب آپ ’لبیک اللہم لبیک‘ کہہ چکے تو فرمایا کہ اصل بھلائی تو آخرت ہی کی بھلائی ہے۔‘‘
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس خذوا مناسککم فانی لا ادری لعلی غیر حاج بعد عامی ہذا۔ (طبرانی، المعجم الاوسط، ۱۹۲۹)
’’اے لوگو! حج کے مناسک سیکھ لو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد مجھے حج کرنے کا موقع ملے گا یا نہیں۔‘‘
مسور بن مخرمۃ رضی اللہ عنہ: [خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ فحمد اللہ واثنی علیہ ثم قال اما بعد] ان اہل الجاہلیۃ کانوا یدفعون من عرفۃ حین تکون الشمس کانہا عمائم الرجال فی وجوہہم قبل ان تغرب ومن المزدلفۃ بعد ان تطلع الشمس حین تکون کانہا عمائم الرجال فی وجوہہم وانا لا ندفع من عرفۃ حتی تغرب الشمس وندفع من المزدلفۃ قبل ان تطلع الشمس ہدینا مخالف لہدی اہل الاوثان والشرک ۔ (مسند الشافعی، ۱/۳۶۹۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۰۴)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں میدان عرفات میں خطبہ دیا اور اللہ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد فرمایا کہ اہل جاہلیت عرفہ سے سورج کے غروب ہونے سے قبل اس وقت روانہ ہو جاتے تھے جب سورج اس طرح نمایاں ہوتا جیسے مردوں (کے سروں پر ان) کی پگڑیاں ہوتی ہیں، اور مزدلفہ سے سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اس وقت روانہ ہو جاتے تھے جب سورج طلوع ہو کر اس طرح نمایاں ہوچکا ہوتا جیسے مردوں (کے سروں پر ان) کی پگڑیاں ہوتی ہیں، لیکن ہم عرفہ سے اس وقت تک روانہ نہیں ہوں گے جب تک سورج غروب نہ ہو جائے، اور مزدلفہ سے سورج کے طلوع ہونے سے قبل روانہ ہو جائیں گے۔ ہمارا طریقہ بت پرستوں اور اہل شرک کے طریقے کے خلاف ہے۔‘‘
عبادۃ بن الصامت رضی اللہ عنہ: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ ایہا الناس ان اللہ تطول علیکم فی ہذا الیوم فیغفر لکم الا التبعات فی ما بینکم ووہب مسیئکم لمحسنکم واعطی محسنکم ما سال اندفعوا بسم اللہ۔ (مصنف عبد الرزاق، ۸۸۳۱)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن فرمایا کہ اے لوگو! آج کے دن اللہ تعالیٰ نے تم پر خاص عنایت فرمائی ہے اور تمھارے گناہ بخش دیے ہیں، سوائے ان حق تلفیوں کے جو تم نے آپس میں ایک دوسرے کی کی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ تم میں سے خطا کاروں کو تم میں سے نیکو کاروں کے حوالے کر دیا ہے اور نیکو کاروں نے جو مانگا ہے، وہ انھیں عطا کر دیا ہے۔ اللہ کا نام لے کر روانہ ہو جاؤ۔‘‘
ام الحصین رضی اللہ عنہا: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفات یخطب یقول غفر اللہ للمحلقین ثلاث مرار قالوا والمقصرین فقال والمقصرین فی الرابعۃ۔ (مسند احمد، ۲۶۰۰۳)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ فرما رہے تھے کہ اللہ سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرمائے۔ آپ نے یہ دعا تین مرتبہ مانگی۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہ، بال کٹوانے والوں کے لیے بھی دعا کیجیے۔ آپ نے چوتھی مرتبہ کہا کہ یا اللہ، بال کٹوانے والوں کی بھی مغفرت فرما۔‘‘
ابن عباس رضی اللہ عنہ: سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب بعرفات من لم یجد النعلین فلیلبس الخفین ومن لم یجد ازارا فلیلبس سراویل للمحرم۔ (بخاری، ۱۷۱۰)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ حالت احرام میں جسے چپل نہ میسر ہوں، وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہ بند نہ ہو، وہ سلی ہوئی شلوار پہن سکتا ہے۔‘‘
ام الفضل رضی اللہ عنہا: انہم شکوا فی صوم النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ فارسلت الیہ بلبن فشرب وہو یخطب الناس بعرفۃ علی بعیرہ۔ (مسند احمد، ۲۵۶۴۷۔ مسند اسحاق بن راہویہ (۴۔۵) ۱/۲۶۷)
’’لوگوں کو عرفہ کے دن شک ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں یا نہیں، تو ام الفضل نے آپ کے لیے دودھ بھیجا جسے آپ نے نوش فرمایا جبکہ آپ اپنے اونٹ پر سوار میدان عرفات میں لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے۔‘‘
نبیشۃ بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: نادی رجل وہو بمنی فقال یا رسول اللہ انا کنا نعتر عتیرۃ فی الجاہلیۃ فی رجب فما تامرنا یا رسول اللہ قال اذبحوا فی ای شہر ما کان وبروا اللہ عزوجل واطعموا قال انا کنا نفرع فرعا فما تامرنا قال فی کل سائمۃ فرع تغذوہ ماشیتک حتی اذا استحمل ذبحتہ وتصدقت بلحمہ۔ (نسائی، السنن الصغریٰ، ۴۱۵۶)
’’ایک شخص نے منیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور کہا یا رسول اللہ! ہم جاہلیت کے زمانے میں رجب کے مہینے میں ایک جانور قربان کیا کرتے تھے، پس اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جس مہینے میں چاہو، قربانی کرو اور اللہ کے ساتھ وفاداری کا اظہار کر و اور (قربانی کا گوشت) لوگوں کو کھلاؤ۔ اس نے کہا کہ ہم اونٹنی کے پہلے بچے کو بھی ذبح کیا کرتے تھے، تو اب آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: (صرف اونٹنی میں نہیں، بلکہ) ہر چرنے والے جانور کے پہلے بچے کو (اللہ کے نام پر) ذبح کرنا درست ہے، (لیکن اسے پیدا ہوتے ہی ذبح نہ کرو، بلکہ) تمھارے مواشی اس کو دودھ پلائیں، یہاں تک کہ جب وہ سواری کے قابل ہو جائے تو تم اسے ذبح کرو اور اس کا گوشت صدقہ کر دو۔‘‘
زید بن اسلم عن رجل عن ابیہ او عمہ: شہدت النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعرفۃ وسئل عن العقیقۃ فقال لا احب العقوق ومن ولد لہ ولد واحب ان ینسک عنہ فلینسک وسئل عن العتیرۃ فقال حق وسئل عن الفرع فقال حق ولیس ہو ان تذبحہ غراۃ من الغراء ولکن تمکنہ من مالک حتی اذا کان بن لبون او بن مخاض زخربا یعنی ذبحتہ وذلک خیر من ان تکفا اناء ک وتولہ ناقتک وتذبحہ یختلط لحمہ بشعرہ۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۹۱۲۵)
’’میں میدان عرفات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا۔ آپ سے عقیقہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ میں ’عقوق‘ کو پسند نہیں کرتا۔ جس کے ہاں بچے کی ولادت ہو اور وہ اس کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ آپ سے عتیرہ (رجب میں کی جانے والی قربانی) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ درست ہے۔ آپ سے فرع (یعنی اونٹنی کے پہلے بچے کو ذبح کرنے) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ یہ بھی درست ہے، لیکن اس کا طریقہ یہ نہیں کہ تم اسے (پیدا ہوتے ہی) ذبح کر دو جبکہ اس کی ماں کا دل اس کے ساتھ بندھا ہوا ہے، بلکہ تم اسے اپنے مال میں سے کھلاؤ پلاؤ یہاں تک کہ جب وہ ایک سال یا دو سال کا ہو جائے اور خوب پل جائے تو پھر اسے ذبح کرو۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے برتن کو انڈیل دو، اپنی اونٹنی کو (بچے کی جدائی کے غم میں) باؤلا کر دو اور بچے کو اس طرح ذبح کرو کہ اس کا گوشت اور اس کے بال آپس میں چپکے ہوئے ہوں۔‘‘
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہا: انہ لقی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع وہو علی ناقتہ العضباء [وہو بمنی او بعرفات ویجئ الاعراب فاذا راوا وجہہ قالوا ہذا وجہ مبارک] [وکان الحارث رجلا جسیما فنزل الیہ الحارث فدنا منہ حتی حاذی وجہہ برکبۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاہوی نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یمسح وجہ الحارث فما زال نضرۃ علی وجہ الحارث حتی ہلک] فاتیتہ من احد شقیہ فقلت یا رسول اللہ بابی انت وامی استغفر لی فقال غفر اللہ لکم ثم اتیتہ من الشق الآخر ارجو ان یخصنی دونہم فقلت یا رسول اللہ استغفر لی فقال بیدہ غفر اللہ لکم [فذہب یبزق فقال بیدہ فاخذ بہا بزاقہ فمسح بہ نعلہ کرہ ان یصیب احدا ممن حولہ] فقال رجل من الناس یا رسول اللہ العتائر والفرائع قال من شاء عتر ومن شاء لم یعتر ومن شاء فرع ومن شاء لم یفرع، فی الغنم اضحیتہا وقبض اصابعہ الا واحدۃ [وفی روایۃ: وقال باصبع کفہ الیمنی فقبضہا کانہ یعقد عشرۃ ثم عطف الابہام علی مفصل الاصبع الوسطی ومد اصبعہ السبابۃ وعطف طرفہا یسرا یسرا]۔ (نسائی، ۴۱۵۴۔ مسند احمد، ۱۵۴۰۵۔ طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱، ۳۳۵۲۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۵۷)
’’حجۃ الوداع کے موقع پر حارث بن عمرو کی ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی اور آپ اپنی اونٹنی عضباء پر سوار تھے۔ آپ منیٰ یا عرفات میں تھے اور بدو لوگ آتے اور جب آپ کا چہرہ دیکھتے تو کہتے کہ یہ تو بہت مبارک چہرہ ہے۔ حارث بھاری جسم کے آدمی تھے، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے، یہاں تک کہ ان کا چہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے کے برابر آ گیا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جھک کر حارث کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور اس کی برکت سے وفات تک حارث کے چہرے پر تروتازگی قائم رہی۔ حارث کہتے ہیں کہ میں ایک طرف سے آپ کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔آپ نے فرمایا: اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ پھر میں اس امید پر دوسری طرف سے آیا کہ آپ خاص طور پر میرے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میرے لیے مغفرت کی دعا کیجیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تم سب کی مغفرت کرے۔ آپ نے تھوک پھینکنا چاہی تو اس خدشے سے کہ اردگرد موجود لوگوں میں سے کسی پر جا پڑے گی، آپ نے اپنے ہاتھ میں تھوک پھینک کر اسے اپنے جوتوں کے ساتھ صاف کر دیا۔ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! عتیرہ اور فرع کا کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا جو چاہے، عتیرہ کی قربانی کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ اور جو چاہے، اونٹنی کے پہلے بچے کو قربان کرے اور جو چاہے نہ کرے۔ بکریوں میں بس ایک (عید الاضحیٰ) کی قربانی ہی لازم ہے۔ آپ نے ایک انگلی کے علاوہ ہاتھ کی باقی انگلیاں بند کر لیں۔ [ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے دائیں ہاتھ کی ایک انگلی کو یوں بند کر لیا جیسے دس کا عدد بنا رہے ہوں۔ پھر انگوٹھے کو درمیانی انگلی کے جوڑ پر رکھ دیا اور شہادت کی انگلی کو کھڑا کر کے اس کے کنارے کو تھوڑا سا ٹیڑھا کر لیا۔]‘‘
حبیب بن مخنف رضی اللہ عنہ: انتہیت الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم عرفۃ قال وہو یقول ہل تعرفونہا قال فما ادری ما رجعوا علیہ قال فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی کل بیت ان یذبحوا شاۃ فی کل رجب وکل اضحی شاۃ (مسند احمد، ۱۹۸۰۴۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۵۹)
’’میں عرفہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچا تو آپ فرما رہے تھے کیا تم اس کو جانتے ہو؟ مجھے نہیں معلوم کہ لوگوں نے کیا جواب دیا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر اہل خانہ پر لازم ہے کہ وہ رجب کے مہینے میں ایک بکری ذبح کریں، اور ہر قربانی ایک بکری کی ہونی چاہیے۔‘‘
مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس علی کل اہل بیت فی کل عام اضحیۃ وعتیرۃ ہل تدرون ما العتیرۃ ہی التی تسمونہا الرجبیۃ۔ (ترمذی، ۱۴۳۸)
’’اے لوگو! ہر اہل خانہ پر ہر سال ایک قربانی اور ایک عتیرہ لازم ہے۔ (راوی کہتا ہے کہ) کیا تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے؟ یہ وہی ہے جس کو تم رجب کی قربانی کہتے ہو۔‘‘
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم سئل عنہا یوم عرفۃ فقال ہی حق یعنی العتیرۃ۔ (المعجم الاوسط، ۶۲۳۰)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن عتیرہ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ حق ہے۔‘‘
حرملۃ بن عمرو رضی اللہ عنہ: حججت حجۃ الوداع مردفی عمی سنان بن سنۃ قال فلما وقفنا بعرفات رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضعا احدی اصبعیہ علی الاخری فقلت لعمی ماذا یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال یقول ارموا الجمرۃ بمثل حصی الخذف۔ (مسند احمد، ۱۸۲۴۳)
’’میں حجۃ الوداع میں شریک تھا اور میرے چچا سنان بن سنۃ نے مجھے (سواری پر) اپنے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ جب میں عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی ایک انگلی دوسری انگلی پر رکھی ہوئی ہے۔ میں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ انھوں نے کہا کہ آپ فرما رہے ہیں کہ جمرات پر اتنے چھوٹے کنکروں سے رمی کرو جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکیں۔‘‘
عبد الرحمن بن معاذ التیمی رضی اللہ عنہ: نحن بمنی قال ففتحت اسماعنا حتی ان کنا لنسمع ما یقول ونحن فی منازلنا قال فطفق یعلمہم مناسکہم حتی بلغ الجمار فقال بحصی الخذف ووضع اصبعیہ السبابتین احداہما علی الاخری۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۵)
’’ہم منیٰ میں تھے کہ ہماری شنوائی تیز ہو گئی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ جو فرما رہے تھے، ہم اپنے اپنے ٹھکانوں میں بیٹھے اس کو سن رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوںکو حج کے مناسک کی تعلیم دینے لگے، یہاں تک کہ جب آپ جمرات تک پہنچے تو فرمایا کہ اتنے چھوٹے کنکروں سے رمی کرو جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکیں۔ آپ نے (چھوٹے کنکر کا حجم بتانے کے لیے) اپنی دوانگلیوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھا۔‘‘
حبشی بن جنادۃ السلولی رضی اللہ عنہ: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع بعرفۃ واتاہ اعرابی فاخذ بطرف رداء ہ فسالہ ایاہ فاعطاہ فعند ذلک حرمت المسالۃ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المسالۃ لا تحل لغنی ولا لذی مرۃ سوی الا لذی فقر مدقع او غرم مفظع ومن سال الناس لیشتری مالہ کان خموشا فی وجہہ یوم القیامۃ ورضفا یاکلہ من جہنم فمن شاء فلیقل ومن شاء فلیکثر۔ (الآحاد والمثانی، ۱۵۱۲)
’’میں نے حجۃ الوداع کے موقع پر عرفہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا، ایک اعرابی آیا اور اس نے آپ کی چادر کا کنارہ پکڑا اور آپ سے سوال کیا۔ آپ نے اس کو کچھ دے دیا۔ اس موقع پر سوال کرنا ممنوع قرار دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سوال کرنا نہ کسی مال دار کے لیے حلال ہے اور نہ کسی تنومند اور صحت مند شخص کے لیے۔ ہاں شدید غربت زدہ یا قرض کے بھاری بوجھ تلے دبا ہوا شخص سوال کر سکتا ہے۔ اور جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرے گا، اس کا مانگنا قیامت کے دن اس کے چہرے پر زخموں کی صورت میں نمایاں ہوگا اور اسے جہنم کے گرم اور تپتے ہوئے پتھر کھانے پڑیں گے۔ پس جو چاہے کم سوال کرے اور جو چاہے زیادہ۔‘‘
یوم النحر (۱۰ ذی الحجہ) سے متعلق روایات
رافع بن عمرو المزنی رضی اللہ عنہ: ونبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب الناس علی بغلۃ شہباء وعلی یعبر عنہ یوم النحر حتی ارتفع الضحی بمنی۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۴۔ الآحاد والمثانی، ۱۰۹۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۴۰۰)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر (۱۰ ذو الحجہ) کو منیٰ میں ایک سفید خچر پر سوار لوگوں کو خطاب کر رہے تھے اور علی رضی اللہ عنہ آپ کی بات کو لوگوں تک پہنچا رہے تھے، یہاں تک کہ دن خوب چڑھ گیا۔ ‘‘
عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: کنت آخذا بزمام ناقۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی اوسط ایام التشریق اذود عنہ الناس۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’ایام التشریق کے وسط میں (یعنی ۱۰ ذو الحجہ کو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی نکیل تھام رکھتی تھی اور میں لوگوں کو آپ سے پرے ہٹا رہا تھا۔‘‘
ابو کاہل عبد اللہ بن مالک رضی اللہ عنہ: رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخطب علی ناقۃ آخذ بخطامہا عبد حبشی۔ (نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۶)
’’میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹنی پر سوار لوگوں کو خطبہ دے رہے ہیں اور اونٹنی کی نکیل ایک حبشی غلام نے پکڑ رکھی ہے۔‘‘
سلمۃ بن نبیط الاشجعی رضی اللہ عنہ: ان اباہ قد ادرک النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکان ردفا خلف ابیہ فی حجۃ الوداع قال فقلت یا ابت ارنی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال قم فخذ بواسطۃ الرحل قال فقمت فاخذت بواسطۃ الرحل فقال انظر الی صاحب الجمل الاحمر الذی یؤمی بیدہ فی یدہ القضیب۔ (مسند احمد، ۱۷۹۷۶)
’’نبیط اشجعی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا موقع ملا۔ وہ حجۃ الوداع میں اپنے والد کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ اے ابا جان، مجھے دکھائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کون سے ہیں؟ والد نے کہا کہ اٹھ کر پالا ن کے اگلے حصے کو پکڑ لو۔ پس میں اٹھا اور میں نے پالان کے اگلے حصے کو پکڑ لیا۔ پھر انھوں نے کہا کہ اس شخص کو دیکھو جو سرخ اونٹ پر سوار ہے اور اس کے ہاتھ میں چھڑ ی پکڑی ہوئی ہے اور وہ ہاتھ کے اشارے سے (گفتگو کر) رہا ہے۔‘‘
ام الحصین رضی اللہ عنہا: رمی جمرۃ العقبۃ ثم انصرف فوقف الناس وقد جعل ثوبہ من تحت ابطہ الایمن علی عاتقہ الایسر قال فرایت تحت غضروفہ الایمن کہیئۃ جمع [فانا انظر الی عضلۃ عضدہ ترتج]۔ (صحیح ابن حبان، ۴۵۶۴۔ ترمذی، ۱۶۲۸)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پررمی کی، پھر واپس آئے اور لوگوں کوروک لیا۔ آپ نے اپنی چادر اپنی دائیں بغل کے نیچے سے نکال کر اپنے بائیں کندھے پر ڈال رکھی تھی۔ پس میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں (کندھے کی) نرم ہڈی کے نیچے مٹھی کی طرح (گوشت کا) ایک ابھار ہے، اور میں دیکھ رہی تھی کہ آپ کے بازو کے عضلات (حرکت کی وجہ سے) پھڑک رہے ہیں۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: وہو علی ناقتہ الجدعاء قد ادخل رجلیہ فی الغرز ووضع احدی یدیہ علی مقدم الرحل والاخری علی موخرہ یتطاول بذلک۔ (المعجم الکبیر، ۷۶۷۶۔ مسند احمد، ۲۱۱۴۰)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی، جدعا پر سوار تھے، آپ نے دونوں پاؤں رکاب میں جما رکھے تھے اور آپ کا ایک ہاتھ پالان کے اگلے حصے پر جبکہ دوسرا اس کے پچھلے حصے پر رکھا ہوا تھا۔ اس طرح آپ (اونچے ہو کر) لوگوں کو نمایاں دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لما کان فی حجۃ الوداع قام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو یومئذ مردف الفضل بن عباس علی جمل آدم۔ (مسند احمد، ۲۱۲۵۹۔ المعجم الکبیر، ۷۸۹۸)
’’حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) ایک گندمی رنگ کے اونٹ پر کھڑے ہوئے اور آپ کے پیچھے فضل بن عباس بیٹھے ہوئے تھے۔‘‘
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ فی حجۃ الوداع استنصت الناس۔ (بخاری، ۱۱۸، ۴۰۵۳)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جریر بن عبد اللہ سے کہا کہ لوگوں کو چپ کراؤ۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: قال یا ایہا الناس انصتوا فانکم لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا۔ (المعجم الکبیر، ۷۶۷۶)
’’آپ نے فرمایا کہ لوگو، خاموش ہو جاؤ، کیونکہ ہو سکتا ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: کان اول ما تفوہ بہ ان قال ان اللہ عزوجل یوصیکم بامہاتکم ثم حمد اللہ عزوجل ثم قال ما شاء اللہ ان یقول۔ (المعجم الکبیر، ۷۶۴۷)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلی بات جو فرمائی، وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی ماؤں کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہیں۔ پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کی اور اس کے بعد جو ارشاد فرمانا چاہا، فرمایا۔‘‘
سلمۃ بن قیس الاشجعی رضی اللہ عنہ: الا انما ہن اربع ان لا تشرکوا باللہ شیئا ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق ولا تزنوا ولا تسرقوا۔ (مسند احمد، ۱۸۲۲۰)
’’آگاہ رہو! ان چار باتوں سے بچنا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، خدا کی حرام کردہ کسی جان کو ناحق قتل نہ کرنا، زنا نہ کرنا اور چوری نہ کرنا۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: ایہا الناس لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم فاعبدوا ربکم وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بہا انفسکم واطیعوا ولاۃ امرکم تدخلوا جنۃ ربکم۔ (مسند الشامیین، ۵۴۳۔ الآحاد والمثانی، ۲۷۷۹)
’’اے لوگو! میرے بعد کوئی نبی نہیں اور تمھارے بعد کوئی امت نہیں۔ پس اپنے رب کی عبادت کرو، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
[ابو قتیلۃ (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۱۷۳۔ ابوبکر الشیبانی، الآحاد والمثانی، ۲۷۷۹)]
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا الا لعلکم لا ترونی بعد عامکم ہذا فقام رجل طویل کانہ من رجال شنوء ۃ فقال یا نبی اللہ فما الذی نفعل فقال اعبدوا ربکم [وفی روایۃ: اتقوا اللہ ربکم] وصلوا خمسکم وصوموا شہرکم وحجوا بیتکم وادوا زکاۃ اموالکم طیبۃ بہا انفسکم [واطیعوا ذا امرکم] تدخلوا جنۃ ربکم عز وجل۔ (مسند احمد، ۲۱۲۳۰۔ ترمذی، ۵۵۹)
’’سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ سنو! ممکن ہے اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو۔ ایک لمبے قد کا شخص، جو قبیلہ شنوء ۃ کا فرد لگتا تھا، کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے اللہ کے نبی، پس ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا: اپنے رب کی عبادت کرو (ایک روایت میں ہے کہ اپنے رب سے ڈرتے رہو)، پانچ وقت کی نماز ادا کرو، رمضان کے مہینے کے روزے رکھو، بیت اللہ کا حج کرو، پوری خوش دلی سے اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو اور اپنے حکمرانوں کی اطاعت کرو۔ ایسا کرو گے تو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس ان ربکم واحد وان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی اسود ولا اسود علی احمد الا بالتقوی ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم۔ (بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹۔ ابو نعیم، حلیۃ الاولیاء ۳/۱۰۰۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱)
’’اے لوگو! بے شک تمھارا رب بھی ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک۔ آگاہ رہو! کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر اور کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ تم میں سے اللہ کے نزدیک زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ ‘‘
عداء بن عمرو بن عامر رضی اللہ عنہ: ان اللہ عزوجل یقول یا ایہا الناس انا خلقناکم من ذکر وانثی وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم فلیس لعربی علی عجمی فضل ولا لعجمی علی عربی فضل ولا لاسود علی ابیض ولا لابیض علی اسود فضل الا بالتقوی۔ (المعجم الکبیر، ۱۸/۱۲، رقم ۱۶)
’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے لوگو! ہم نے تمھیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں قوموں او رقبیلوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ یہ باہم تمھاری پہچان کا ذریعہ ہو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت کا مستحق وہ ہے جو زیادہ حدود کا پابند ہے۔ اس لیے کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی سیاہ فام کو کسی سفید فام پر اور کسی سفید فام کو کسی سیاہ فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: الا کل شئ من امر الجاہلیۃ تحت قدمی موضوع۔ (مسلم، ۲۱۳۷)
’’آگاہ رہو! جاہلیت کا ہر کام میں اپنے ان دونوں قدموں کے نیچے دفن کر رہا ہوں۔‘‘
عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: الا وان کل دم ومال وماثرۃ کانت فی الجاہلیۃ تحت قدمی ہذہ الی یوم القیامۃ۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’آگاہ رہو! جاہلیت کے دور کا ہر خون، (سود کی قسم کا) ہر مال اور فخر ومباہات کی ہر بات قیامت تک کے لیے میرے ان دو قدموں کے نیچے دفن کر دی گئی ہے۔‘‘
عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا وان کل دم کان فی الجاہلیۃ موضوع واول دم وضع من دماء الجاہلیۃ دم الحارث بن عبد المطلب کان مسترضعا فی بنی لیث فقتلتہ ہذیل۔ (ترمذی، ۳۰۱۲)
’’آگاہ رہو! جاہلیت کے زمانے کا ہر خون معاف کیا جاتا ہے، اور زمانہ جاہلیت کے خونوں میں سے پہلا خون جس کو معاف کیا جاتا ہے، وہ حارث بن عبد المطلب کا خون ہے۔ (راوی بتاتے ہیں کہ) حارث کو دودھ پلانے کے لیے بنو لیث کے ہاں بھیجا گیا تھا جہاں اسے بنو ہذیل نے قتل کر دیا۔‘‘
[جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶)]
عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا وان کل ربا فی الجاہلیۃ موضوع لکم رؤوس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون غیر ربا العباس بن عبد المطلب فانہ موضوع کلہ ۔ (ترمذی، ۳۰۱۲)
’’آگاہ رہو! زمانہ جاہلیت کا ہر سود کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ تم صرف اپنے اصل مال کے حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ہاں عباس بن عبد المطلب کا لوگوں کے ذمے جو سودی قرض ہے، وہ سارے کا سارا معاف کیا جاتا ہے۔‘‘
[جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶)]
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: ایہا الناس ان النسئ زیادۃ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیواطئوا عدۃ ما حرم اللہ فیحلوا ما حرم اللہ ویحرموا ما احل اللہ ان الزمان قد استدار فہو الیوم کہیئتہ یوم خلق اللہ السموات والارض وان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السماوات والارض منہا اربعۃ حرم رجب مضر بین جمادی وشعبان وذو القعدۃ وذو الحجۃ والمحرم وان النسئ زیادہ فی الکفر یضل بہ الذین کفروا یحلونہ عاما ویحرمونہ عاما لیوطئوا عدۃ ما حرم اللہ ۔ (مسند عبد بن حمید، ۸۵۸)
’’اے لوگو! حرام مہینوں کو آگے پیچھے کرنا کفر میں مزید آگے بڑھنا ہے جس کے ذریعے سے اہل کفر (لوگوں کو) گمراہ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی کو پورا رکھنے کے لیے ایک سال کسی مہینے کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایک سال حرام، اور اس طرح اللہ کے حرام کردہ مہینے کو حلال اور اللہ کے حلال کردہ مہینے کو حرام کر دیتے ہیں۔ زمانہ آج پھر اسی ترتیب کے مطابق ہو چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جو اس دن سے اس کی کتاب میں درج ہے جب اس نے زمین وآسمان کو پیداکیا۔ ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ ایک رجب کا مہینہ جو جمادیٰ اخریٰ اور شعبان کے درمیان آتا ہے، اور ذو القعدہ، ذو الحجۃ اور محرم۔ حرام مہینوں کی ترتیب کو آگے پیچھے کرنا کفر میں مزید آگے بڑھنا ہے جس کے ذریعے سے اہل کفر (لوگوں کو) گمراہ کرتے ہیں۔ وہ اللہ کے حرام کردہ مہینوں کی گنتی کو پورا رکھنے کے لیے ایک سال کسی مہینے کو حلال قرار دیتے ہیں اور ایک سال حرام۔‘‘
عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: الا وان الزمان قد استدار کہیئتہ یوم خلق اللہ السموات والارض ثم قرا ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیہن انفسکم ۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) [ابوبکرہ (بخاری ۴۰۵۴) ابو ہریرہ (تفسیر الطبری، ۱۰/۱۲۵۔ بزار، مجمع الزوائد ۳/۲۶۸) ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۹]
’’آگاہ رہو! زمانہ آج پھر اسی ترتیب پر واپس آ چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السموات والارض منہا اربعۃ حرم ذلک الدین القیم فلا تظلموا فیہن انفسکم‘۔ (اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جو اس دن سے اس کی کتاب میں درج ہے جب اس نے زمین وآسمان کو پیداکیا۔ ان میں سے چار مہینے حرام ہیں۔ یہی صحیح اور راست دین ہے، اس لیے ان مہینوں میں (حدود سے تجاوز کر کے) اپنی جانوں پر ظلم نہ ڈھاؤ۔‘‘
ایہا الناس ان الزمان قد استدار کہیئتہ یوم خلق السماوات والارض فلا شہر ینسی ولا عدۃ تحصی الا وان الحج فی ذی الحجۃ الی یوم القیامۃ (مسند الربیع بن حبیب البصری، ۴۲۲)
’’اے لوگو! زمانہ آج پھر اسی ترتیب پر واپس آ چکا ہے جو اللہ نے زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت مقرر کی تھی۔ اب نہ کوئی مہینہ بھلایا جائے گا اور نہ مہینوں کی گنتی رکھنا پڑے گی۔ آگاہ رہو! اب قیامت تک حج ذو الحجہ کے مہینے میں ہی ادا کیا جائے گا۔‘‘
ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: ای شہر ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس ذو الحجۃ؟ قلنا بلی، قال فای بلد ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس البلدۃ؟ قلنا بلی، قال فای یوم ہذا؟ قلنا اللہ ورسولہ اعلم، فسکت حتی ظننا انہ سیسمیہ بغیر اسمہ، قال الیس یوم النحر؟ قلنا بلی، قال فان دماء کم واموالکم قال محمد واحسبہ قال واعراضکم [وابشارکم] علیکم حرام کحرمۃ یومکم ہذا فی بلدکم ہذا فی شہرکم ہذا۔ (بخاری، ۴۰۵۴، ۶۵۵۱)
’’(لوگو) یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس مہینے کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا: کیا یہ ذو الحجہ نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا شہر ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا یہ بلد حرام نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ یہ کون سا دن ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ خاموش رہے، یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ آپ اس کا نام کچھ اور رکھ دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ کیا یہ یوم النحر نہیں ہے؟ ہم نے کہا، جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ تمھاری جانیں، تمھارے مال، تمھاری آبروئیں اور تمھارے چمڑے تم پر (آپس میں) اسی طرح حرام ہیں جیسے اس شہر اور اس مہینے میں تمھارے اس دن کی حرمت ہے۔‘‘
[عبد اللہ بن عمر (بخاری، ۶۲۸۷) عبد اللہ ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) ابو سعید (ابن ماجہ، ۳۹۲۱۔ مسند احمد، ۲۲۳۹۱۔ بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹) جابر بن عبد اللہ (مسلم، ۲۱۳۷۔ مسند احمد، ۱۴۴۶۱) نبیط بن شریط (مسند احمد، ۱۷۹۷۳۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۹۸) حذیم السعدی (مسند احمد، ۱۸۱۹۸۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۰۲) عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، ۳۰۴۸) عداء بن خالد الکلابی (مسند احمد، ۱۹۴۴۷) عمرو بن الاحوص (ترمذی، ۲۰۸۵، ۳۰۱۲) مرۃ عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم (مسند احمد، ۲۲۳۹۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۹) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) جبیر بن مطعم (دارمی، ۲۲۹) ابو مالک اشعری (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷) عمار بن یاسر (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) حارث بن عمرو (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱) وابصۃ بن معبد الجہنی (طبرانی، المعجم الاوسط، ۴۱۵۶) عبد اللہ بن الزبیر (طبرانی فی الاوسط والکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰) عبادۃ بن عبد اللہ بن الزبیر (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰) حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲) ابو امامۃ صدی بن عجلان الباہلی (طبرانی، المعجم الکبیر، ۷۶۳۲۔ مسند الشامیین، ۱۲۴۲) براء بن عازب وزید بن ارقم (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۷۱) کعب بن عاصم الاشعری (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۲) عبد الاعلیٰ بن عبد اللہ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳) سراء بنت نبہان (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۴۶۳۔ طبرانی، المعجم الاوسط، ۲۴۳۰) جمرۃ بنت قحافۃ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳) ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴) سفیان بن وہب الخولانی(مسند احمد، ۱۶۸۷۷) ]
فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ: فدماؤکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام مثل ہذا الیوم وہذہ البلدۃ الی یوم تلقونہ وحتی دفعۃ دفعہا مسلم مسلما یرید بہ سوء ا حراما۔ (مسند البزار، ۳۷۵۲)
’’تمھارے خون اور مال اور آبروئیں تم پر اس دن اور اس شہر کے مانند حرام ہیں، اس دن تک جب تم اپنے رب کے سامنے پیش ہوگے، حتیٰ کہ اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان کو ناجائز طور پر اذیت پہنچانے کے لیے دھکا بھی دیتا ہے تو وہ بھی حرام ہے۔‘‘
ابو مالک کعب بن عاصم الاشعری رضی اللہ عنہ: المومن حرام علی المومن کحرمۃ ہذا الیوم لحمہ علیہ حرام ان یاکلہ بالغیب ویغتابہ وعرضہ علیہ حرام ان یخرقہ ووجہہ علیہ حرام ان یلطمہ ودمہ علیہ حرام ان یسفکہ ومالہ علیہ حرام ان یظلمہ واذاہ علیہ حرام وہو علیہ حرام ان یدفعہ دفعا۔ (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷)
’’مسلمان کی حرمت مسلمان کے لیے اسی طرح ہے جیسے آج کے دن کی۔ ایک مسلمان کے لیے دوسری مسلمان کی غیبت کرتے ہوئے اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔ اس کی عزت کو پامال کرنا حرام ہے۔ اس کے چہرے پر تھپڑ مارنا حرام ہے۔ اس کا خون بہانا حرام ہے۔ ظلم کرتے ہوئے اس کا مال لے لینا حرام ہے۔ اس کو اذیت دینا حرام ہے اور اس کو دھکا تک دینا حرام ہے۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: فاتقوا اللہ فی النساء فانکم اخذتموہن بامان اللہ واستحللتم فروجہن بکلمۃ اللہ ولکم علیہن ان لا یوطئن فرشکم احدا تکرہونہ فان فعلن ذلک فاضربوہن ضربا غیر مبرح ولہن علیکم رزقہن وکسوتہن بالمعروف۔ (مسلم، ۲۱۳۷)
’’پس عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ تم نے انھیں اللہ کی امان کے تحت اپنے نکاح میں لیا ہے اور خدا کی اجازت کے تحت ان کی شرم گاہوں سے فائدہ اٹھانا تمھارے لیے حلال ہے۔ تمھارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ کسی کو تمھارے بستر پامال نہ کرنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو تم انھیں اتنا مار سکتے ہو کہ چوٹ کا نشان نہ پڑے۔ اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم معروف کے مطابق ان کا رزق اور پوشاک انھیں مہیا کرو۔‘‘
[عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) ]
عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا واستوصوا بالنساء خیرا فانما ہن عوان عندکم لیس تملکون منہن شیئا غیر ذلک الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ فان فعلن فاہجروہن فی المضاجع واضربوہن ضربا غیر مبرح فان اطعنکم فلا تبغوا علیہن سبیلا الا ان لکم علی نساء کم حقا ولنساء کم علیکم حقا فاما حقکم علی نساء کم فلا یوطئن فرشکم من تکرہون ولا یاذن فی بیوتکم لمن تکرہون الا وان حقہن علیکم ان تحسنوا الیہن فی کسوتہن وطعامہن۔ (ترمذی، ۳۰۱۲)
’’سنو، عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو۔ وہ تمھارے پاس امانت ہیں اور تم اس کے علاوہ ان پر کسی قسم کا حق نہیں رکھتے، سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کی مرتکب ہوں۔ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں ان کے بستروں میں الگ کر دو اور انھیں اتنا مار سکتے ہو کہ چوٹ کا نشان نہ پڑے۔ پھر اگر وہ تمھاری اطاعت کریں تو ان پر (زیادتی کی) راہ نہ ڈھونڈو۔ آگاہ رہو! تمھارے بھی تمھاری عورتوں پر حقوق ہیں اور تمھاری عورتوں کے بھی تم پر حقوق ہیں۔ تمھارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ کسی شخص کو تمھارے بستر پامال نہ کرنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو اور نہ تمھارے پسندیدہ افراد کو تمھارے گھروں میں آنے کی اجازت دیں۔ اور سنو، ان کا حق تم پر یہ ہے کہ تم دستور کے مطابق ان کا رزق اور پوشاک انھیں مہیا کرنے میں بہترین طریقہ اختیار کرو۔‘‘
[عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶) ]
یزید بن جاریۃ رضی اللہ عنہ: ارقاء کم ارقاء کم ارقاء کم اطعموہم مما تاکلون واکسوہم مما تلبسون فان جاء وا بذنب لا تریدون ان تغفروہ فبیعوا عباد اللہ ولا تعذبوہم۔ (مسند احمد، ۱۵۸۱۳۔ مصنف عبد الرزاق، ۱۷۹۳۵)
’’اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ اپنے غلام لونڈیوں کا خیال رکھو۔ جو تم خود کھاتے ہو، انھیں بھی کھلاؤ۔ جو تم خود پہنتے ہو، انھیں بھی پہناؤ۔ اگر ان سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جائے جسے تم معاف نہیں کرنا چاہتے تو اللہ کے ان بندوں کو بیچ دو لیکن انھیں عذاب نہ دو۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: اوصیکم بالجار فاکثر حتی قلت انہ سیورثہ ۔ (طبرانی، مسند الشامیین، ۸۲۳)
’’میں تمھیں پڑوسی کا خیال رکھنے کی تاکید کرتا ہوں۔ (ابو امامہ کہتے ہیں کہ) آپ نے یہ بات اتنی مرتبہ کہی کہ مجھے خیال ہوا کہ آپ پڑوسی کو وراثت میں بھی حق دار قرار دیں گے۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لا تنفق امراۃ شیئا من بیت زوجہا الا باذن زوجہا قیل یا رسول اللہ ولا الطعام قال ذاک افضل اموالنا۔ (ترمذی، ۶۰۶، ۲۰۴۶)
’’کوئی عورت اپنے شوہر کے گھر سے کوئی چیز اس کی اجازت کے بغیر خرچ نہ کرے۔ کہا گیا کہ یا رسول اللہ، کھانا بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ وہ تو ہمارا سب سے بہترین مال ہے (اس لیے اس کو خرچ کرنے کی بھی اجازت نہیں)۔‘‘
[انس بن مالک (المقدسی، الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷)]
فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ: الا اخبرکم بالمومن من امنہ الناس علی اموالہم وانفسہم والمسلم من سلم الناس من لسانہ ویدہ والمجاہد من جاہد نفسہ فی طاعۃ اللہ والمہاجر من ہجر الخطایا والذنوب ۔ (مسند احمد، ۲۲۸۳۳۔ صحیح ابن حبان، ۴۸۶۲)
’’کیا میں تمھیں نہ بتاؤں کہ مومن کون ہے؟ وہ جس سے لوگ اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو محفوظ سمجھیں۔ اور مسلم وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ (کے شر) سے لوگ بچے رہیں۔ اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس کے ساتھ جہاد کرے۔ اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور غلطیوں کو ترک کر دے۔‘‘
[ابو مالک الاشعری (طبرانی، مسند الشامیین، ۱۶۶۷) ]
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ: وامر بالصدقۃ فقال تصدقوا فانی لا ادری لعلکم لا ترونی بعد یومی ہذا۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱)
’’آپ نے صدقہ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ صدقہ کرو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ تم آج کے بعد مجھے دیکھ سکو گے یا نہیں۔‘‘
سلیم بن اسود عن رجل من بنی یربوع: ید المعطی العلیا امک واباک واختک واخاک ثم ادناک فادناک۔ (مسند احمد، ۱۶۰۱۸)
’’دینے والے کا ہاتھ اوپر ہوتا ہے۔ پہلے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں پر خرچ کرو، پھر درجہ بدرجہ اپنے قریبی رشتہ داروں پر۔‘‘
[اسامۃ بن شریک(المعجم الکبیر، ۴۸۴۔ حجۃ الوداع، ۱۹۱، ۱/۲۱۵۔ معجم الشیوخ، ۳۱)]
جمرۃ بنت قحافۃ رضی اللہ عنہا: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول فی حجۃ الوداع تصدقن ولو من حلیکن فانکن اکثر اہل النار فاتت زینب فقالت یا رسول اللہ ان زوجی محتاج فہل یجوز لی ان اعود علیہ قال نعم لک اجران۔ (المعجم الکبیر، ۲۴/۲۱۰، رقم ۵۳۸)
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں فرماتے سنا کہ اے خواتین، صدقہ کرو، چاہے اپنے زیورات ہی اتار کر دے دو، کیونکہ اہل جہنم میں تمھاری تعداد سب سے زیادہ ہے۔ پس (عبد اللہ بن مسعود کی اہلیہ) زینب آئیں اور کہا کہ یا رسول اللہ، میرا شوہر ضرورت مند ہے، تو کیا میرے لیے اس کو صدقہ دینا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں۔ تمھیں دوہرا اجر ملے گا۔‘‘
[کتب حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد اور زینب رضی اللہ عنہا کے استفسار کا محل ورود حجۃ الوداع کے بجائے مدینہ منورہ بیان ہوا ہے، جبکہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس ہدایت کی تصریح ہمیں صرف مذکورہ روایت میں ملی ہے۔]
عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا لا یجنی جان الا علی نفسہ الا لا یجنی والد علی ولدہ ولا ولد علی والدہ۔ (ترمذی، ۳۰۱۲)
’’خبردار! کوئی بھی زیادتی کرنے والا اس کا خمیازہ خود ہی بھگتے گا۔ سنو، نہ باپ کی زیادتی کا بدلہ اس کے بیٹے سے لیا جائے اور نہ بیٹے کی زیادتی کا بدلہ اس کے باپ سے۔‘‘
حذیفۃ بن الیمان رضی اللہ عنہ: لا یؤخذ الرجل بجریرۃ اخیہ ولا بجریرۃ ابیہ۔ (المعجم الاوسط، ۴۱۶۶)
’’کسی شخص کو اس کے بھائی یا باپ کے جرم میں نہ پکڑا جائے۔‘‘
[عبد اللہ بن مسعود (رواہ البزار، مجمع الزوائد ۶/۲۸۳) اسود بن ثعلبۃ الیربوعی (الاستیعاب، ۱/۹۰) ]
سلیم بن اسود عن رجل من بنی یربوع: قال رجل یا رسول اللہ ہولاء بنو ثعلبۃ الذین اصابوا فلانا قال فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الا لا تجنی نفس علی اخری۔ (مسند احمد، ۱۶۰۱۸)
’’ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ! یہ بنو ثعلبہ ہیں جنھوں نے فلاں شخص کو قتل کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! کسی شخص کی زیادتی کا بدلہ دوسرے شخص سے نہ لیا جائے۔‘‘
[اسامۃ بن شریک (طبرانی، المعجم الکبیر، ۴۸۴۔ الصیداوی، معجم الشیوخ، ۳۱۔ ابن حزم، حجۃ الوداع، ۱/۲۱۵]
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ: ان کل مسلم اخ المسلم المسلمون اخوۃ ولا یحل لامرئ من مال اخیہ الا ما اعطاہ عن طیب نفس ولا تظلموا۔ (مستدرک حاکم، ۳۱۸)
’’ہر مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے۔ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے، مگر وہی جو وہ اپنے دل کی خوشی سے دے دے۔ اور ظلم نہ کرو۔‘‘
عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: اسمعوا منی تعیشوا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، الا لا تظلموا، انہ لا یحل مال امرئ الا بطیب نفس منہ۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’میری بات سنو، زندگی پا جاؤ گے۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ سنو، ظلم نہ کرو۔ کسی شخص کا مال اس کے دل کی خوشی کے بغیر لینا حلال نہیں۔‘‘
[عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۶) عمرو بن الاحوص (ترمذی، ۳۰۱۲]
عمرو بن یثربی الضمری: ولا یحل لاحد من مال اخیہ الا ما طابت بہ نفسہ فلما سمعہ قال ذلک قال یا رسول اللہ ارایت لو لقیت غنم ابن عمی فاخذت منہا شاۃ فاجتززتہا فعلی فی ذلک شئ؟ قال ان لقیتہا نعجۃ تحمل شفرۃ وزنادا بخبت الجمیش فلا تمسہا۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۵)
’’کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی کے مال میں سے کچھ لے، مگر وہی جس پر وہ دل سے راضی ہو۔ ایک شخص نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کی بکریوں کا ریوڑ دکھائی دے اور میں ان میں سے ایک بکری لے کر اس کو ذبح کر لوں تو کیا مجھے اس کا گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا، اگر تمھیں کوئی بکری وادی حمیش میں اس حال میں ملے کہ چھری اور (آگ جلانے کے لیے) پتھر بھی اس نے ساتھ اٹھا رکھے ہوں، تب بھی تم اس کو ہاتھ مت لگانا۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: العاریۃ موداۃ والمنحۃ مردودۃ والدین مقضی والزعیم غارم۔ (ترمذی، ۲۰۴۶)
’’عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کی جائے۔ دودھ پینے کے لیے جو جانور کسی نے دیا ہو، اسے لوٹایا جائے۔ لیا ہوا قرض ادا کیا جائے اور جس شخص (قرض کی واپسی کا) ضامن بنا ہو، وہ (مقروض کی طرف سے ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں) ذمہ دار ہوگا۔‘‘
[انس بن مالک (المقدسی، الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷)]
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس من کانت عندہ ودیعۃ فلیردہا الی من ائتمنہ علیہا۔ (مسند الرویانی، ۱۴۱۶۔ بیہقی، السنن الکبریٰ، ۱۱۳۰۶)
’’اے لوگو! جس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو، وہ اسے اس کو واپس کر دے جس نے اس کے پاس اسے امانت رکھا ہے۔‘‘
محمد بن مہران عن ابیہ: یا معشر التجار انی ارمی بہا بین اکتافکم لا تلقوا الرکبان لا یبع حاضر لباد۔ (ابن حجر، الاصابہ، ۸۶۳۸، ۶/۳۸۵)
’’اے تاجروں کے گروہ! میں یہ بات تمھیں علی الاعلان کہتا ہوں کہ (بازار کے نرخ سے کم قیمت پر مال خریدنے کے لیے) تم تجارتی قافلوں (کے شہر میں آنے سے پہلے ہی ان) سے مال نہ خرید لو۔ کوئی شہری کسی دیہاتی کا دلال نہ بنے۔‘‘
[کتب حدیث کی عام روایات میں یہ ارشاد حجۃ الوداع کے حوالے کے بغیر نقل کیا گیا ہے، جبکہ حجۃ الوداع کی تصریح ہمیں صرف اس روایت میں ملی ہے۔]
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: ان اللہ قد اعطی لکل ذی حق حقہ فلا وصیۃ لوارث۔ (ترمذی، ۲۰۴۶)
’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے، اس لیے اب کسی وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جا سکتی۔‘‘
[انس بن مالک (الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷) عمرو بن خارجۃ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۱) (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۳)]
عمرو بن خارجۃ رضی اللہ عنہ: الولد للفراش وللعاہر الحجر ومن ادعی الی غیر ابیہ او تولی غیر موالیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفا ولا عدلا۔ (ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۱۔ ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، ۲/۱۸۳)
’’بچے کا نسب اسی سے ثابت ہوگا جس کے نکاح میں عورت ہوگی، جبکہ بدکاری کرنے والے کا بچے پر کوئی حق نہیں، اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے۔ جو شخص اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اور جو غلام اپنی نسبت اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی اور کی طرف کرے گا، اس پر اللہ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کوئی معاوضہ یا تاوان قبول نہیں کریں گے۔‘‘
[ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ (ترمذی، ۲۰۴۶) انس بن مالک (الاحادیث المختارۃ، ۲۱۴۷)]
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: لا تالوا علی اللہ فانہ من تالی علی اللہ اکذبہ اللہ۔ (المعجم الکبیر، ۷۸۹۸)
’’قسم کھا کر اللہ پر کوئی بات لازم نہ کرو، کیونکہ جو ایسا کرے گا، اللہ اس کو جھوٹا کر دکھائے گا۔‘‘
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ: لا یزال ہذا الدین ظاہرا علی من ناواہ لا یضرہ مخالف ولا مفارق حتی یمضی من امتی اثنا عشر امیر ا ....کلہم من قریش ۔ (مسند احمد، ۱۹۸۸۷)
’’یہ دین ان لوگوں کے مقابلے میں غالب رہے گا جو اس کی مخالف میں اٹھیں گے۔ نہ اس کو کوئی مخالف نقصان پہنچا سکے گا اور اس سے جدا ہونے والا، یہاں تک کہ میری امت میں بارہ امیر حکومت کر چکیں جو سب کے سب قریش میں سے ہوں گے۔‘‘
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: ذکر المسیح الدجال فاطنب فی ذکرہ وقال ما بعث اللہ من نبی الا انذر امتہ انذرہ نوح والنبیون من بعدہ وانہ یخرج فیکم فما خفی علیکم من شانہ فلیس یخفی علیکم ان ربکم لیس علی ما یخفی علیکم ثلاثا ان ربکم لیس باعور وانہ اعور عین الیمنی کانہ عینہ عنبۃ طافیۃ۔ (بخاری، ۴۰۵۱۔ مسند احمد، ۵۹۰۹)
’’آ پ نے مسیح دجال کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا اور فرمایا کہ اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا ہے، اس نے اپنی امت کو دجال سے خبردار کیا ہے۔ نوح علیہ السلام نے بھی اور ان کے بعد آنے والے سب نبیوں نے اس سے آگاہ کیا۔ اور دجال کا خروج تمھارے اندر ہوگا۔ پس اس کی اور باتوں اگر تم پر مخفی رہیں تو یہ بات تم پر چھپی ہوئی نہیں ہے کہ تمھارے رب کی صفات تم پر پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ کہی۔ تمھارا رب کانا نہیں ہے، جبکہ دجال دائیں آنکھ سے کانا ہوگا، یوں جیسے اس کی آنکھ انگور کا کوئی پھٹا ہوا دانہ ہو۔‘‘
ام الحصین رضی اللہ عنہ: ان امر علیکم عبد مجدع حسبتہا قالت اسود یقودکم بکتاب اللہ تعالیٰ فاسمعوا لہ واطیعوا۔ (مسلم، ۲۲۸۷)
’’اگر کسی کٹے ہوئے کان والے سیاہ فام غلام کو بھی تم پر امیر مقرر کیا جائے جو کتاب اللہ کے مطابق تمہاری قیادت کرے تو اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔‘‘
ابو الزوائد رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس خذو العطاء ما کان عطاء فاذا تجاحفت قریش علی الملک وکان عن دین احدکم فدعوہ ۔ (ابو داؤد، ۲۵۶۹، ۲۵۷۰)
’’اے لوگو! جب تک (حکمرانوں کی طرف سے ملنے والا) عطیہ، عطیہ رہے، تب تک لیتے رہو۔ پھر جب قریش بادشاہت پر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں اور عطیہ تمھارے دین وایمان کی قیمت پر ملے تو اسے لینا چھوڑ دو۔‘‘
ابو الزوائد رضی اللہ عنہ: خذوا العطاء ما کان عطاء فاذا تجاحفت قریش الملک فی ما بینہا وکان العطاء رشوۃ علی دینکم فلا تاخذوہ۔ (ابوبکر الشیبانی، الآحاد والمثانی، ۲۶۴۶)
’’جب تک عطیہ، عطیہ رہے، تب تک لیتے رہو۔ پھر جب قریش بادشاہت پر آپس میں جنگ وجدال کرنے لگیں اور عطیہ دین وایمان کے معاملے میں رشوت کے طور پر ملے تو مت لو۔‘‘
سفیان بن وہب الخولانی: روحۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیہا وغدوۃ فی سبیل اللہ خیر من الدنیا وما علیہا۔ (مسند احمد، ۱۶۸۷۷)
’’اللہ کے راستے میں ایک شام گزارنا دنیا اور جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے، سب سے بہتر ہے، اور اللہ کے راستے میں ایک صبح گزارنا دنیا اور جو کچھ اس میں پایا جاتا ہے، سب سے بہتر ہے۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: من اسلم من اہل الکتابین فلہ اجرہ مرتین ولہ مثل الذی لنا وعلیہ مثل الذی علینا ومن اسلم من المشرکین فلہ اجرہ ولہ مثل الذی لنا وعلیہ مثل الذی علینا۔ (طبری، جامع البیان، ۲۷/۲۴۴)
’’اہل کتاب، یہود ونصاریٰ میں سے جو اسلام لائے گا، اس کو دوہرا اجر ملے گا۔ اس کے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اور وہی ذمہ داریاں ہوں گی جو ہماری ہیں۔ اور مشرکین میں سے جو اسلام قبول کرے گا، اس کو بھی اس کا اجر ملے گا اور اس کے حقوق اور فرائض بھی وہی ہوں گے جو ہمارے ہیں۔‘‘
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس خذوا من العلم قبل ان یقبض العلم وقبل ان یرقع العلم وقد کان انزل اللہ عزوجل یا ایہا الذین آمنوا لا تسالوا عن اشیاء ان تبدلکم تسؤکم وان تسالوا عنہا حین ینزل القرآن تبد لکم عفا اللہ عنہا واللہ غفور حلیم قال فکنا قد کرہنا کثیرا من مسالتہ واتقینا ذاک حین انزل اللہ علی نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فاتینا اعرابیا فرشوناہ برداء قال فاعتم بہ حتی رایت حاشیۃ البرد خارجۃ من حاجبہ الایمن قال ثم قلنا لہ سل النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال فقال لہ یا نبی اللہ کیف یرفع العلم منا وبین اظہرنا المصاحف وقد تعلمنا ما فیہا وعلمنا نساء نا وذرارینا وخدمنا قال فرفع النبی صلی اللہ علیہ وسلم راسہ وقد علت وجہہ حمرۃ من الغضب قال فقال ای ثکلتک امک ہذہ الیہود والنصاری بین اظہرہم المصاحف لم یصبحوا یتعلقوا بحرف مما جاء تہم بہ انبیاؤہم الا وان من ذہاب العلم ان یذہب حملتہ ثلاث مرار ۔ (مسند احمد، ۲۱۲۵۹)
’’اے لوگو! علم حاصل کر لو اس سے قبل کہ علم کو قبض کر لیا جائے اور اٹھا لیا جائے۔ (ابو امامہ کہتے ہیں کہ) اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل کر رکھا تھا کہ اے ایمان والو، ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو اگر تمھارے لیے ظاہر کر دی گئیں تو تمھیں نقصان دیں گی اور اگر تم ان کے بارے میں پوچھو گے تو جب تک قرآن نازل ہو رہا ہے، وہ تمھیں بتائی جاتی رہیں گی۔ اللہ نے خود ہی ان کو بیان نہیں کیا اور اللہ معاف کرنے والا بردبار ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت اتاری تو اس کے بعد ہم آپ سے بہت سی باتیں پوچھنے سے گریز کرنے لگے۔ (جب آپ نے یہ فرمایا کہ علم حاصل کر لو اس سے قبل کہ علم کو قبض کر لیا جائے تو) ہم ایک بدو کے پاس گئے اور اسے ایک چادر کی رشوت دی۔ اس نے اس چادر کا عمامہ سر پر باندھ لیا ، یہاں تک کہ مجھے چادر کا کنارہ اس کی دائیں ابرو کی طرف سے نکلا ہوا دکھائی دیا۔ پھر ہم نے اس سے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی، ہمارے اندر سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ قرآن مجید کے مصحف ہمارے مابین ہوں گے اور ہم نے ان کو سیکھ رکھا ہوگا اور اپنی عورتوں اور بچوں اور اپنے خادموں کو بھی اس کی تعلیم دے رکھی ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور آپ کے چہرے پر غصے کی وجہ سے سرخی نمایاں تھی۔ آپ نے فرمایا، تمھاری ماں تم سے محروم ہو جائے، یہود ونصاریٰ کو دیکھو، ان کے مصاحف ان کے پاس موجود ہیں لیکن ان کے انبیا جو تعلیمات لائے تھے، وہ ان میں سے کسی بات پر بھی قائم نہیں رہے۔ سنو، علم کے چلے جانے کی صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ علم کے حامل رخصت ہو جائیں۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔‘‘
حارث بن عمرو رضی اللہ عنہ: ووقت یلملم لاہل الیمن ان یہلوا منہا وذات عرق لاہل العراق او قال لاہل المشرق۔ (طبرانی، المعجم الکبیر، ۳۳۵۱)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف سے آنے والوں کے لیے یلملم کو اور عراق کی طرف سے آنے والوں کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا کہ وہ وہاں سے احرام باندھ لیں۔‘‘
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ: ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بینا ہو یخطب یوم النحر فقام الیہ رجل فقال کنت احسب یا رسول اللہ ان کذا وکذا قبل کذا وکذا ثم قام آخر فقال کنت احسب یا رسول اللہ ان کذا وکذا قبل کذا وکذا لہولاء الثلاث فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم افعل ولا حرج۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ، ۹۳۹۳)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم النحر کو خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص آپ کے پا س آیا اور کہا کہ یارسول اللہ، میں سمجھا کہ حج کا فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے کرنا ہے۔ پھر ایک اور شخص اٹھا اور اس نے بھی کہا کہ یا رسول اللہ، میں سمجھا کہ حج کا فلاں عمل فلاں عمل سے پہلے کرنا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
اسامۃ بن شریک: سالہ رجل نسی ان یرمی الجمار فقال ارم ولا حرج ثم اتاہ آخر فقال یا رسول اللہ نسیت الطواف فقال طف ولا حرج ثم اتاہ آخر حلق قبل ان یذبح فقال اذبح ولا حرج [ان اللہ عز وجل وضع الحرج الا من اقترض امرا مسلما ظلما او قال بظلم فذلک حرج وہلک] ۔ (صحیح ابن خزیمہ، ۲۲۹۵۔ المعجم الکبیر، ۴۸۲، ۴۸۴۔ حجۃ الوداع، ۱۹۱، ۱/۲۱۵)
’’ایک شخص نے جو جمرات پر رمی کرنا بھول گیا تھا، آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ، میں طواف کرنا بھول گیا۔ آپ نے فرمایا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ پھر ایک اور شخص آیا جس نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوا لیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس معاملے میں حرج اور گناہ نہیں رکھا، ہاں جو شخص کسی مسلمان پر زیادتی کرتے ہوئے اس کی عزت کو پامال کرے گا، حقیقت میں وہی حرج میں پڑے گا اور برباد ہوگا۔‘‘
[عبد اللہ ابن عباس (ابو داؤد، ۱۷۲۲) ]
قرۃ بن دعموص رضی اللہ عنہ: قال الفینا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع فقلنا یا رسول اللہ ما تعہد الینا قال اعہد الیکم ان تقیموا الصلاۃ وتؤتو ا الزکاۃ وتحجوا البیت الحرام وتصوموا رمضان فان فیہ لیلۃ خیر من الف شہر وتحرموا دم المسلم ومالہ والمعاہد الا بحقہ وتعتصموا باللہ والطاعۃ ۔ (بیہقی، شعب الایمان، ۵۳۳۳۔ ابن حجر، الاصابہ، ۵/۴۳۵)
’’حجۃ الوداع کے موقع پر ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ، آپ ہمیں کس چیز کی تاکید فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، میں تمھیں اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ تم نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو، بیت الحرام کا حج کرو، رمضان کے روزے رکھو کیونکہ اس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اور تم مسلمان اور معاہدہ کافر کی جان اور اس کے مال کو حرام سمجھو، الا یہ کہ کسی حق کے تحت اس سے تعرض کیا جائے، اور تم اللہ کی فرماں برداری اور اس کی اطاعت پر قائم رہو۔‘‘
عمیر بن قتادۃ: ان رجلا سالہ فقال یا رسول اللہ ما الکبائر فقال ہو تسع: الشرک باللہ وقتل نفس مومن بغیر حق وفرار یوم الزحف واکل مال الیتیم واکل الربا وقذف المحصنۃ وعقوق الوالدین المسلمین واستحلال البیت الحرام قبلتکم احیاء وامواتا۔ (مستدرک حاکم، ۱۹۷)
’’ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ، کبیرہ گناہ کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا کبیرہ گناہ نو ہیں: اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، کسی مومن کو ناحق قتل کرنا، میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا، یتیم کا مال کھانا، سود کھانا، کسی پاک دامن خاتون پر الزام لگانا، مسلمان والدین کی نافرمانی کرنا، اور بیت الحرام کی، جو تمھارا قبلہ ہے، زندگی یا موت کی حالت میں بے حرمتی کرنا۔‘‘
اسامۃ بن شریک: قالوا یا رسول اللہ انتداوی من کذا وکذا مرتین قال نعم تداووا فان اللہ عز وجل لم ینزل داء الا انزل لہ شفاء غیر داء واحد الہرم۔ (المعجم الکبیر، ۴۸۲، ۴۸۴)
’’لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا ہم فلاں فلاں چیز کو دوا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟ دو مرتبہ یہ سوال کیا۔ آپ نے فرمایا، ہاں، دوا استعمال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری نازل کی ہے، اس کی شفا بھی اتاری ہے، سوائے ایک بیماری یعنی بڑھاپے کے۔‘‘
اسامۃ بن شریک: قالوا یا رسول اللہ ما خیر ما اعطی الناس قال خلق حسن۔ (المعجم الکبیر، ۴۸۲)
’’لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ، لوگوں کو ملنے والی چیزوں میں سے بہترین چیز کون سی ہے؟ آپ نے فرمایا: اچھا اخلاق۔‘‘
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ: لاقتلن العمالقۃ فی کتیبۃ فقال لہ جبریل علیہ السلام او علی قال او علی بن ابی طالب۔ (مستدرک حاکم، ۴۶۳۶۔ طبرانی، المعجم الکبیر، ۱۱۰۸۸)
’’میں ایک لشکر لے کر عمالقہ (یعنی خوارج) کو قتل کر دوں گا۔ جبریل علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ یا پھر علی۔ آپ نے فرمایا: یا پھر علی بن ابی طالب۔‘‘
[امام ذہبی فرماتے ہیں کہ اس روایت کا راوی سلمہ بن کہیل بے حد ضعیف ہے اور امام حاکم کا مذکورہ روایت کو مستدرک میں قوی قرار دینا درست نہیں۔ (میزان الاعتدال، ۷/۱۸۵)]
عم ابی حرۃ الرقاشی رضی اللہ عنہ: الا ان الشیطان قد ایس ان یعبدہ المصلون ولکنہ فی التحریش بینہم۔ (مسند احمد، ۱۹۷۷۴)
’’سنو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ عبادت گزار اس کی عبادت کریں، لیکن وہ اہل ایمان کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکانے کی پوری کوشش کرے گا۔‘‘
عمرو بن الاحوص رضی اللہ عنہ: الا وان الشیطان قد ایس من ان یعبد فی بلادکم ہذہ ابدا ولکن ستکون لہ طاعۃ فی ما تحتقرون من اعمالکم فسیرضی بہ ۔ (ترمذی، ۲۰۸۵)
’’آگاہ رہو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں اس کی دوبارہ کبھی عبادت کی جائے۔ ہاں ان اعمال میں ضرور اس کی اطاعت کی جائے گی جنھیں تم حقیر خیال کرتے ہو، اور وہ اسی پر خوش رہے گا۔‘‘
[عبد اللہ ابن عباس (مستدرک حاکم، ۳۱۸) عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶) ]
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: ایہا الناس ان الشیطان قد یئس ان یعبد فی بلدکم ہذا آخر الزمان وقد رضی منکم بمحقرات الاعمال فاحذروہ فی دینکم محقرات الاعمال۔ (مسند عبد بن حمید، ۸۵۸)
’’اے لوگو! شیطان اس سے تو مایوس ہو چکا ہے کہ تمھارے اس علاقے میں قیامت تک کبھی اس کی دوبارہ عبادت کی جائے۔ ہاں وہ تمھارے ایسے اعمال پر خوش ہوتا رہے گا جنھیں تم حقیر خیال کرتے ہو، اس لیے اپنے دین کے معاملے میں ان اعمال سے خبردار رہو جنھیں حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے۔‘‘
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ (مستدرک حاکم، ۳۱۸)
’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
[ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۰]
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا کتاب اللہ وعترتی اہل بیتی۔ (ترمذی، ۳۷۱۸)
’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور میرے اہل بیت۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ۔ (مسلم، ۲۱۳۷)
’میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کو تھامے رکھنے کی صورت میں تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے، یعنی اللہ کی کتاب۔‘‘
[عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶) ]
ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: وستلقون ربکم فیسالکم عن اعمالکم الا فلا ترجعوا بعدی ضلالا یضرب بعضکم رقاب بعض۔ (بخاری ۴۰۵۴)
’’اور جلد ہی تمھاری اپنے رب سے ملاقات ہوگی اور وہ تم سے تمھارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ آگاہ رہو! میرے بعد دوبارہ گمراہی کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارتے رہو۔‘‘
[جریر بن عبد اللہ (بخاری، ۱۱۸) ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) ابن عمر (بخاری، ۳۰۵۱) عداء بن خالد الکلابی (مسند احمد، ۱۹۴۴۷) عبد الاعلیٰ بن عبد اللہ (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۳) حذیفۃ بن الیمان (المعجم الاوسط، ۴۱۶۶) عبد اللہ بن مسعود (بزار ورجالہ رجال الصحیح، مجمع الزوائد ۶/۲۸۳) حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲) ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴)]
ابو امامۃ باہلی رضی اللہ عنہ: الا ان کل نبی قد مضت دعوتہ الا دعوتی فانی قد ادخرتہا عند ربی الی یوم القیامۃ ۔ (طبرانی المعجم الکبیر، ۷۶۳۲۔ مسند الشامیین، ۱۲۴۲)
’’سنو! ہر نبی نے اپنی مخصوص دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی ہے، جبکہ میں نے اپنی خاص دعا مانگنے کا حق قیامت کے دن تک کے لیے اپنے رب کے پاس محفوظ رکھا ہوا ہے۔‘‘
جریر بن الارقط رضی اللہ عنہ: رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی حجۃ الوداع فسمعتہ یقول اعطیت الشفاعۃ۔ (ابن حجر، الاصابۃ، ۱۱۳۶۔ وقال: رواہ بن مندۃ من طریق یعلی بن الاشدق وہو متروک عنہ)
’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع میں یہ فرماتے سنا کہ مجھے (اپنی امت کے لیے) شفاعت کا حق دیا گیا ہے۔‘‘
[حجۃ الوداع کے موقع کی تصریح کے بغیر یہ روایت ’اعطیت الشفاعۃ وہی نائلۃ من لا یشرک باللہ شیئا‘ کے الفاظ سے ابو جعفر سے مصنف ابن ابی شیبہ (رقم ۳۱۷۴۲) میں اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ابن ابی عاصم کی ’السنۃ‘ (رقم ۸۰۳) میں مروی ہے۔]
مرۃ عن رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الا وانی فرطکم علی الحوض انظرکم وانی مکاثر بکم الامم فلا تسودوا وجہی الا وقد رایتمونی وسمعتم منی وستسالون عنی فمن کذب علی فلیتبوا مقعدہ من النار الا وانی مستنقذ رجالا او اناثا ومستنقذ منی آخرون فاقول یا رب اصحابی فیقال انک لا تدری ما احدثوا بعدک۔ (مسند احمد، ۲۲۳۹۹۔ نسائی، السنن الکبریٰ، ۴۰۹۹)
’’آگاہ رہو! میں تم سب سے پہلے حوض پر پہنچ کر تمھارا منتظر ہوں گا۔ اور میں تمھارے ذریعے سے دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت ظاہر کروں گا، اس لیے مجھے رسوا نہ کرنا۔ سنو، تم نے مجھے دیکھا بھی ہے اور میری باتیں بھی سنی ہیں۔ اور تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا، اس نے اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لیا۔ سنو، (قیامت کے دن) کچھ لوگوں کو میں (اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے) بچا لوں گا لیکن کچھ لوگوں کو مجھ سے چھین لیا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ یا اللہ، یہ میرے ساتھی ہیں تو کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کے بعد انھوں نے کیسی کیسی بد اعمالیاں انجام دیں۔‘‘
[عبد اللہ بن مسعود (ابن ماجہ، ۳۰۴۸) ابو امامہ باہلی (مسند الشامیین، ۱۲۴۲۔ المعجم الکبیر، ۷۶۳۲) ]
عداء بن خالد بن عمرو رضی اللہ عنہ: یا معشر قریش لا تجیئونی بالدنیا تحملونہا علی اعناقکم ویجئ الناس بالآخرۃ فانی لا اغنی عنکم من اللہ شیئا۔ (المعجم الکبیر، ۱۸/۱۲، رقم ۱۶)
’’اے گروہ قریش! ایسا نہ ہو کہ (قیامت کے دن) تم اپنی گردنوں پر دنیا کو اٹھائے ہوئے آؤ اور دوسرے لوگ آخرت کا سامان لے کر آئیں، کیونکہ میں اللہ کی پکڑ کے مقابلے میں تمھارے کچھ کام نہ آؤں گا۔‘‘
عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ: الا لیبلغ شاہدکم غائبکم لا نبی بعدی ولا امۃ بعدکم ۔ (مسند الرویانی، ۱۴۱۶، ۲/۴۱۲۔ مسند عبد بن حمید، ۸۵۸، ۱/۲۷۰)
’’تم میں سے جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ نہ میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ تمھارے بعد کوئی امت۔‘‘
ابوبکرۃ نفیع بن الحارث رضی اللہ عنہ: الا لیبلغ الشاہد الغائب فلعل بعض من یبلغہ ان یکون اوعی لہ من بعض من سمعہ۔ (بخاری، ۴۰۵۴)
’’سنو، جو موجود ہیں، وہ یہ باتیں ان تک پہنچا دیں جو موجود نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ جن کو یہ باتیں پہنچیں، ان میں سے کچھ ان کی بہ نسبت ان کو زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والوں ہوں جنھوں نے براہ راست مجھ سے سنی ہیں۔‘‘
[عبد اللہ ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) ابو سعید (مسند احمد، ۲۲۳۹۱۔ بیہقی، شعب الایمان، ۵۱۳۷، ج ۴، ص ۲۸۹) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) حارث بن عمرو (طبرانی فی الکبیر والاوسط، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) وابصۃ بن معبد الجہنی (طبرانی فی الاوسط وابو یعلی، مجمع الزوائد ۳/۲۶۹) حجیر (طبرانی فی الکبیر، مجمع الزوائد ۳/۲۷۰) حجیر (مسند الحارث (زوائد الہیثمی)، ۲۷۔ الآحاد والمثانی، ۱۶۸۲) سراء بنت نبہان (المعجم الاوسط، ۲۴۳۰) ]
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ: ایہا الناس انی واللہ لا ادری لعلی لا القاکم بعد یومی ہذا بمکانی ہذا فرحم اللہ من سمع مقالتی الیوم فوعاہا فرب حامل فقہ ولا فقہ لہ ورب حامل فقہ الی من ہو افقہ منہ ۔ (دارمی، ۲۲۹۔ مسند ابی یعلیٰ، ۷۴۱۳۔ مستدرک حاکم، ۲۹۴)
’’اے لوگو! بخدا مجھے معلوم نہیں کہ آج کے بعد میں ا س جگہ تم سے مل سکوں گا یا نہیں۔ پس اللہ اس شخص پر رحمت کرے جس نے آج کے دن میری باتیں سنیں اور انھیں یاد کیا، کیونکہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جنھیں سمجھ داری کی باتیں یاد ہوتی ہیں لیکن انھیں ان کی سمجھ حاصل نہیں ہوتی۔ اور بہت سے لوگ سمجھ داری کی باتوں کو یاد کر کے ایسے لوگوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ان سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔‘‘
[عبد اللہ ابن عمر (مسند الشامیین، ۵۰۸۔ الکفایۃ فی علم الروایۃ، ۱/۱۹۰) ابو سعید الخدری (رواہ البزار، مجمع الزوائد۱/۱۳۷۔ الترغیب والترہیب ۱/۲۳) انس بن مالک (المعجم الاوسط، ۹۴۴۴) ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۸]
ابو موسیٰ مالک بن عبادۃ الغافقی رضی اللہ عنہ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قام خطیبا فی حجۃ الوداع فقال علیکم بالقرآن وسترجعون الی اقوام یشتہون الحدیث عنی فمن عقل عنی شیئا فلیحدث بہ ومن قال علی ما لم اقل فلیتبوا مقعدہ جہنم۔ (الآحاد والمثانی، ۲۶۲۶۔ مسند احمد، ۱۸۱۸۲۔ المحدث الفاصل، ۱/۱۷۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ تم قرآن کو لازم پکڑے رکھنا، اور تم لوٹ کر ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو میری باتیں سننے کے خواہش مند ہوں گے، پس جس نے میری کوئی بات اچھی طرح سمجھ کر یاد کی ہو، وہ اس کو بیان کر دے، اور جس نے میری طرف ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: وانتم تسالون عنی فما انتم قائلون؟ قالوا نشہد انک قد بلعت وادیت ونصحت فقال باصعبہ السبابۃ یرفعہا الی السماء وینکتہا الی الناس اللہم اشہد اللہم اشہد ثلاث مرات۔ (مسلم، ۲۱۳۷)
’’تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، پس تم کیا کہو گے؟ لوگوں نے کہا، ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے پیغام پہنچا دیا اور پوری خیر خواہی کے ساتھ ذمہ داری ادا کر دی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور اس کے ساتھ لوگوں کی طرف اشارہ کر کے کہا: اے اللہ، گواہ رہنا۔ اے اللہ گواہ رہنا۔ اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘
[ابوبکرۃ (بخاری ۴۰۵۴) ابو سعید (ابن ماجہ، ۳۹۲۱۔ مسند احمد، ۱۱۳۳۸) ابن عمر (بخاری، ۳۰۵۱) ابن عباس (بخاری، ۱۶۲۳) جابر بن عبد اللہ (مسند احمد، ۱۴۴۶۱) نبیط بن شریط(مسند احمد، ۱۷۹۷۳۔ الآحاد والمثانی، ۱۲۹۸) عداء بن خالد الکلابی(مسند احمد، ۱۹۴۴۷) عمرو بن الاحوص (ابن ماجہ، ۳۰۴۶) سفیان بن وہب الخولانی(مسند احمد، ۱۶۸۷۷) عم ابی حرۃ الرقاشی (مسند احمد، ۱۹۷۷۴) حارث بن عمرو (المعجم الکبیر، ۳۳۵۰) وابصۃ بن معبد الجہنی (المعجم الاوسط، ۴۱۵۶) ابو الزوائد (ابو داؤد، ۲۵۷۰) ابو غادیۃ (ابن سعد ۲/۱۸۴)]
آپ فنِ تفسیر اور اصولِ تفسیر کیسے پڑھیں اور پڑھائیں!
مولانا محمد صدیق ابراہیم مظفری
بارہویں صدی ہجری کے اوساط میں دہلی کی فقید المثال شخصیت ملا نظام الدین بن ملا قطب الدین سہالوی متوفی ۱۶۱اھ رحمہ اللہ کی وساطت سے پاک و ہند میں علومِ اسلامیہ کی تعلیم و ترویج کا ایک نیا دور شروع ہوا کہ ملا صاحب نے مختلف علوم و فنون میں درجہ بدرجہ تعمیر و ترقی کے لئے ایک مستقل نصاب تعلیم ترتیب دیا، جس میں صرف، نحو، لغت اور استعدادی فنون کی تعلیم شروع کے درجات میں رکھی گئی، اور علومِ عالیہ یعنی عقیده، تفسیر، حدیث اور فقہ کی اعلیٰ تعلیم نصاب کے آخری مراحل میں طے پائی۔ ملا نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ کا مرتب کردہ یہی نصابِ تعلیم بعد میں "درسِ نظامی" کے عنوان سے معروف ہوا اور پورے بر صغیر میں چھا گیا۔
نتائج کے اعتبار سے یہ نصابِ تعلیم بہت ہی حوصلہ افتر اثابت ہوا کہ اس کی وجہ سے تمام اہم اسلامی علوم و فنون ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہو گئے۔ اس سے بہت سے شائقین کو مختلف علوم و فنون میں بسہولت تعمیر و ترقی کے یکجا مواقع میسر آئے اور بر صغیر پاک و ہند کے علمی حلقوں میں فکری وحدت و سلامتی کے حوالے سے من جانب اللہ یہ ایک نعمتِ عظمیٰ ثابت ہوئی، بعد کے ادوار میں اگرچہ جزوی طور پر اس میں ترمیم و تبدیلی ہوتی رہی اور متعدد اہم کتب کو شاملِ نصاب کیا گیا، مگر اس کا عنوان اور اصل ڈھانچہ وہی باقی ہے، جو شروع میں تھا۔
درسِ نظامی میں داخلِ نصاب کتب سے متعلق ذیل کی یہ تحریر اس جذبے سے لکھی جارہی ہے کہ طلبہ کرام کے وقت کو کس طرح زیادہ سے زیادہ قیمتی بنایا جائے اور نصابی کتب سے بھر پور استفادے کی راہیں کس طرح ہموار کی جائیں ؟
ہم نے اپنی اس تحریر میں بطورِ خاص موجودہ دور میں ’’درسِ نظامی‘‘ کے تحت پڑھائی جانے والی کتب کو فنون کی ترتیب پر ذکر کیا ہے کہ سب سے پہلے ہم تفسیر واصولِ تفسیر کی داخلِ نصاب کتب کو ذکر کریں گے، اور اس کے بعد بالترتیب حدیث ،اصولِ حدیث اور دیگر فنون کی کتب کو ذکر کریں گے۔ اس دوران ہم نے پورے اہتمام کے ساتھ تمام کتب کے صحیح نام باحوالہ درج کرنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ بحیثیتِ فن کسی بھی کتاب کے مطالعہ سے پہلے اُس کا درست اور مکمل نام معلوم ہوناضروری ہے کہ اس سے ایک تو مؤلف کے وضع کردہ اصل نام کا پتہ چل جاتا ہے اور دوسرا یہ چیز اس کتاب کے تعارف اور منہجِ مؤلف کو سمجھنے میں بہت زیادہ معاون ثابت ہوتی ہے۔
کتاب کے درست نام کے بعد اس کے منہج اور مواد پر مختصر انداز سے تبصرہ کیا گیا ہے، درسی حوالے سے اُس کے بہترین نسخے کی تعیین کی گئی ہے ، ہر کتاب کی چند اہم شروحات کے نام درج کیے گئے ہیں، اور گراں قدر درسی فوائد اور تجاویز کو مختصر الفاظ میں قلم بند کیا گیا ہے، جن میں سے بعض تجاویز ورمیان میں اور بعض فن کی جملہ کتب کے آخر میں ہیں۔ باقی درسِ نظامی کے فنون میں سے ہر فن کا مفصل تعارف اور اس فن کی داخلِ نصاب کتب میں سے ہر کتاب کے منجِ مؤلف اور شروح و حواشی و غیرہ کا تفصیلی بیان ہماری کتاب ’’قرۃ العيون في تعريف كتب المنہج النظامي والفنون‘‘ میں آئے گا ۔ ان شاء اللہ۔
علومِ قرآن / اصولِ تفسیر
اس فن کے تحت دو کتابیں ’’درسِ نظامی‘‘ میں داخل نصاب ہیں:
(۱) الفوز الکبیر
اس کتاب کے پہلے چار ابواب وفاق المدارس العربیہ کے تحت درجہ سادسہ میں داخلِ نصاب ہیں اور اس کا پورا نام ’’الفوز الكبير في أصول التفسیر‘‘ ہے۔ یہ پاک وہند کے معروف علمی وروحانی پیشوا امام الہند شیخ احمد بن عبد الرحیم المعروف شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (متوفی ۱۷۶ اھ ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے ، جو کہ اپنے حَجم کے اعتبار سے اگرچہ مختصر ہے، مگر فنِ اصولِ تفسیر میں نہایت جامع کتاب ہے ۔ اس کے کل پانچ ابواب ہیں، جن میں سے پانچواں باب (جو کہ قرآنِ کریم کے غریب المعنی الفاظ کی تشریح اور اسباب نزول کے بیان میں ہے اور مصنف نے اسے ’’ فتح الخیر ‘‘ کے نام سے موسوم کیا ہے ، یہ باب) عربی میں ہے اور باقی مکمل کتاب فارسی زبان میں ہے، جس کا دار العلوم دیو بند کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری (متوفی ۱۴۴۱ھ ) رحمہ اللہ اور دیگر کئی علماء کرام نے عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے اور اس وقت درس نظامی میں تقریباً ہر جگہ یہی عربی
ترجمہ پڑھایا جاتا ہے۔
کسی بھی کتاب سے صحیح طور پر استفادے کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم کے پاس اس کا ایسا نسخہ ہونا چاہیے کہ جو محقق بھی ہو اور سہل الاستفادہ بھی ہو ۔ نیز یہ نسخہ طالب علم کا اپنا ذاتی ہونا چاہیے تا کہ وہ دورانِ درس مختلف مباحث کو نشان زد کر کے اُن کی تنقیح و تحقیق کر سکے اور پھر زندگی بھر ان تنقیحات کی روشنی میں فن کے اندر اپنے علمی سفر کو مزید آگے بآسانی جاری رکھ سکے۔ اس حوالے سے ’’الفوز الکبیر‘‘ کے موجودہ نسخوں میں سے ’’مکتبۃ البشری کراچی‘‘ سے طبع ہونے والا نسخہ سب سے بہترین ہے، جو کہ حضرت مولانا سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ کی تعریب اور تعلیق پر مشتمل ہے اور اس کے عربی تراجم میں سے یہی بہترین اور مقبولِ خاص و عام ترجمہ ہے۔ البتہ ! دیگر ناشرین کی طرح مکتبۃ البشری نے بھی ’’الفوز الکبیر‘‘ کے صرف پہلے چار ابواب کو شامل اشاعت کیا ہے اور پانچویں باب کو شاید الگ عنوان اور الگ زبان پر مشتمل ہونے کی وجہ سے باقی چار ابواب کے ساتھ شائع نہیں کیا گیا۔
اس کے دیگر عربی تراجم میں سے شیخ محمد منیر ابن عبدہ دمشقی (متوفی ۱۳۶۷ھ ) رحمہ اللہ کا ترجمہ بطورِ خاص قابلِ ذکر ہے اور اس کے اُردو مترجمین میں مولانا سعید احمد انصاری، مولانا محمد رفیق چودھری اور مولانا محمد اختر مصباحی شامل ہیں۔
اس کتاب کی عربی شروحات میں سے حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری رحمہ اللہ کی شرح ’’العون الكبير‘‘ اور مولانا محمد الیاس گجراتی حفظہ اللہ کی شرح ’’روح القدیر‘‘ بہت بہترین ہیں۔ اور اس کی اُردو شروحات میں سے حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی (متوفی ۱۴۲۹ھ ) رحمہ اللہ کی ’’عون الخبیر ‘‘ اور حضرت پالنپوری رحمہ اللہ کی ’’الخیر الکثیر ‘‘ قابلِ ذکر ہے۔
(۲) التبیان
یہ وفاق المدارس کے تحت درجہ سابعہ میں مکمل کتاب داخلِ نصاب ہے اور اس کا پورا نام ’’التبيان في علوم القرآن‘‘ ہے۔ یہ عالمِ عرب کی مشہور اور معاصر علمی شخصیت شیخ محمد علی صابونی (متوفی ۱۴۴۲ھ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے علوم القرآن (اصولِ تفسیر) کی ابتدائی معلومات سے لے کر آخر تک کے مباحث کو بہت عمدگی کے ساتھ جمع فرمایا ہے، اور اسے انہوں نے گیارہ فصلوں پر مرتب کیا ہے۔ اس کتاب میں کافی مفید مواد جمع ہے، البتہ ! اس کی زبان ہماری عمومی کتب سے ہٹ کر قدرے مشکل اور لغتِ جرائد کی طرف مائل ہے۔
اس کے موجودہ نسخوں میں سے ’’مکتبۃ البشری ‘‘ سے طبع ہونے والا نسخہ تقریباً سب سے بہترین ہے ، جو کہ خود مؤلف رحمہ اللہ کے مختصر حواشی کے ساتھ مطبوع ہے ، چونکہ اس کتاب کو داخلِ نصاب ہوئے کوئی بہت زیادہ عرصہ نہیں گزرا، اس وجہ سے اس پر ابھی تک کوئی خاطر خواہ علمی کام بھی نہیں ہو سکا، اس کی موجودہ شروحات میں سے مولانا محمد آصف ندیم جھنگ شہری کی اُردو شرح ’’نسیم البیان‘‘ سب سے اچھی ہے۔
فائدہ
کسی بھی کتاب کو بحیثیتِ فن سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اس فن کی دیگر کتب کو پڑھے، اس سے مطالعے میں وسعت پیدا ہوتی ہے، فہم میں پختگی آتی ہے، اور یہ پتہ چلتا ہے کہ فلاں بحث کے بارے میں مؤلف کے علاوہ دیگر اہلِ فن کی رائے کیا ہے۔ کسی کتاب کی محض شروحات پر اکتفا کرنے سے آدمی محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور اس محدود فکری کی وجہ سے بسا اوقات موروثی علمی تسامحات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
اساتذۂ کرام اور ادارے کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ہر فن کے طلبہ کو وسیع پیمانے پر اس فن کے اہم مصادر و مراجع مہیا کریں، اصولِ تفسیر کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ ان دو کتب کے ساتھ علامہ بدر الدین زرکشی (متوفی ۷۹۴ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’البرھان في علوم القرآن‘‘، علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’ الإتقان في علوم القرآن‘‘ اور شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ کی کتاب ’’علوم القرآن ‘‘ اور ’’مقدمہ معارف القرآن ‘‘ کو کم از کم ضرور مطالعہ میں رکھے، اس سے ان شاء اللہ علمی طور پر بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔
باذوق طالب علم کے پاس درسِ نظامی کے فنون میں سے ہر فن کے لیے ایک مخصوص ڈائری ہونی چاہیے کہ جس میں وہ اس فن کے اہم مباحث کی تنقیحات درج کرتار ہے اور دورانِ تعلیم سامنے آنے والی اس فن کی کتب کی فہرست بناتا ہے۔ اس طرح کرنے سے طالب علم کے پاس ہر فن سے متعلق بہترین مواد جمع ہو جائے گا اور اس کے لیے ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ اصولِ تفسیر کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنی اس کاپی میں فن کی دیگر کتب کے نام درج کرنے کے ساتھ ساتھ ’’الاتقان‘‘ کی فہرست کا نصابی کتب کے مباحث سے موازنہ ضرور تحریر کرے اور اس کی وجہ سے سامنے آنے والے فروق اور جدید اہم مباحث کو نوٹ میں لائے۔
ترجمہ و تفسیر قرآن
اس عنوان کے تحت دو اہم تفاسیر اور ایک بار مکمل قرآن کریم کا ترجمہ و تفسیر ’’درسِ نظامی‘‘ میں داخلِ نصاب ہے:
(۱) ترجمہ و تفسیر قرآن کریم
مکمل قرآن کریم کا اُردو ترجمہ اور اس کی مختصر تفسیر درجۂ ثانیہ، ثالثہ، رابعہ اور خامسہ میں متفرق طور پر وفاق المدارس کے تحت داخلِ نصاب ہے، اور عام طور پر ان درجات کے طلبہ اور اساتذۂ کرام اُردو تراجم و تفاسیر کی مدد سے ترجمہ و تفسیر پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، جس کی وجہ سے تفسیرِ قرآن کی مبارک صف سے وابستہ طلبہ مفرداتِ قرآن کو الگ سے حل کر کے اُن کے معانی کی تہہ تک پہنچنے کے بجائے محض اُردو تراجم و تفاسیر میں درج مفاہیم پر اپنے علم و تحقیق کا مدار رکھتے ہیں، حالانکہ علمی اعتبار سے یہ عوام الناس کا درجہ ہے۔ چنانچہ اس کی وجہ سے اتنی بات تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے ، مگر یہ مطلب ان الفاظ سے کس طرح مفہوم ہو رہا ہے اور ان میں سے کون سا لفظ کس معنی کی خبر دے رہا ہے ؟ اس کی طرف طلبہ کرام کی کوئی زیادہ پیش رفت نہیں ہو پاتی۔
یہی وجہ ہے کہ باطل پرست لوگ جب رُخ بدل بدل کر قرآنِ کریم کے حوالے سے مختلف قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نصوصِ قرآنیہ میں تحریف کر کے معاشرے میں انحراف والحاد کی راہیں ہموار کرتے ہیں، تو اس وقت عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ ہمارے فاضل کی سوچ اسی جگہ جا کر ٹھہر جاتی ہے، جہاں پر عوام الناس کی رہنمائی کی خاطر لکھی جانے والی اُردو تفاسیر اور تراجمِ قرآن نے اُسے چھوڑا ہوتا ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اسلاف کے علوم سے گہری وابستگی کے نتیجے میں وہ اس حوالے سے اپنے طور پر کچھ نہیں کر پاتا۔ اگر یہی صورت حال چلتی رہی تو عنقریب ہمارے درمیان سے قرآنِ کریم کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے والے لوگ ختم ہو جائیں گے !
فہمِ قرآن کا ملکہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ علومِ عربیت میں مہارت حاصل کی جائے اور اسلاف کی کتب کی گہری مراجعت رکھی جائے۔ قرآنی آیات کے معانی و مطالب تک پہنچنے میں ہمارا عزیز طالب علم محض دوسروں کا مقلد بن کر نہ رہ جائے، بلکہ اس سلسلے میں خود محنت کرے، جس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ پہلے ہر لفظ کی صرفی، پھر لغومی اور پھر نحوی تحقیق کرے ،اس کے بعد علمِ بلاغت اور بدیع کی مدد سے اُس کے رموز کو حل کرے، اور آخر میں اسلاف کی کتب میں مراجعت کر کے اس کی مراد متعین کرے۔
قرآن پاک کے مفردات اور مشکل الفاظ کے حل میں متقدمین سے لے کر دورِ حاضر تک کے علماءِ تفسیر نے مستقل طور پر کئی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چنانچہ علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ ) رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الإتقان في علوم القرآن‘‘ کی چھتیسویں فصل کے شروع میں اس حوالے سے فرمایا ہے: ’’أفردہ بالتصنيف خلائق لا يُحصون‘‘۔ اور معاصر عرب محقق ڈاکٹر فوزی یوسف حفظہ اللہ نے اپنی کتاب ’’معاجم معاني ألفاظ القرآن الكریم‘‘ میں خاص اس موضوع پر لکھی جانے والی ایک سو آٹھ کتب کے نام مع مختصر تعارف ذکر کیے ہیں۔
لغات قرآن کے حل کے لیے طالب علم کو چاہیے کہ وہ کم از کم علامہ حسین بن محمد دامغانی (متوفی ۴۷۸ھ) رحمہ اللہ کی كتاب ’’الوجوہ والنظائر في القرآن الكريم‘‘ ، امام راغب اصفہانی (متوفی ۵۰۲ھ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’المفردات في غريب القرآن ‘‘ ، سابق مدرسِ حرمِ مکی شیخ ابو بکر الجزائری (متوفی ۱۴۳۹ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير‘‘، اور اُردو زبان میں مولانا عبد الرحمن کیلانی (متوفی ۱۴۱۶ھ ) رحمہ اللہ کی منفرد تصنیف ’’مترادفات القرآن‘‘ کو ضرور دیکھے۔ بلکہ ان میں سے الوجوه والنظاہر ، ایسر التفاسیر اور مترادفات القرآن تو ہر طالب علم کی ذاتی ہونی چاہیے، اور اگر ممکن ہو ، تو اس کے ساتھ ساتھ دورۂ حدیث میں داخلِ نصاب کتبِ ستہ ( صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن نسائی، سنن ابی داود، جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ ) وغیرہ کی ’’کتاب التفسیر‘‘ کی بھی مراجعت رکھی جائے، اس سے حدیث کی برکت حاصل ہو گی، خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ اور صحابہ کرامؓ کے تفسیری فرامین کا علم ہو گا، اور یہی تفسیر کے میدان میں اصل چیز ہے۔ باقی نحومی اور بلاغی رموز کے حل کے لیے کم از کم شیخ محی الدین درویش ( متوفی ۱۴۰۳ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’إعراب القرآن و بیانہ‘‘ ضرور دیکھ لی جائے۔
نیز عربی تفاسیر میں سے کم از کم شہاب الدین آلوسی (متوفی ۱۲۷۰ھ ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’روح المعاني في تفسير القرآن العظيم والسبع المثانی‘‘ کی، اور اُردو کتب میں سے حضرت مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ’’ترجمۂ قرآن‘‘ ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (متوفی ۱۳۶۲ھ ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’بیان القرآن ‘‘، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی (متوفی ۱۳۹۶ھ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ اور حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری (متوفی ۱۴۲۲ھ ) رحمہ اللہ کی تفسیر ’’انوار البیان ‘‘ کی ضرور مراجعت رکھی جائے۔
اس سلسلے میں تعمیر و ترقی کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ بطورِ خاص درجہ ثانیہ ، ثالثہ ، رابعہ اور خامسہ کا طالب علم ترجمۂ قرآن کے درس میں بیاض و الا قرآن اپنے سامنے رکھے، اُستاذ کی تقریر کی روشنی میں مفردات کی لغوی، صرفی اور نحوی تحقیق وغیرہ تحریری طور پر اس میں درج کرے، اور اُن کے بتلائے ہوئے تفسیری فوائد نوٹ کرے، پھر درس سے فارغ ہونے کے بعد کم از کم درجِ بالا کتب کی روشنی میں اُس درس کی دوبارہ مراجعت کرے، اور اس دوران سامنے آنے والے نئے علمی فوائد کو اپنے پاس نوٹ کرلے، اس طرح کرنے سے قرآنی نصوص کے معانی و مطالب طبیعت میں راسخ ہو جائیں گے اور فہمِ قرآن کا عظیم ملکہ نصیب ہو گا۔
اساتذۂ کرام کو چاہیے کہ وہ درجہ ثانیہ سے ہی اس حوالے سے طالب علم کی ذہن سازی کریں، اسے بہتر سے بہتر منہج اپنانے کی سوچ دیں، اور اس کے وقت کو قیمتی بنانے میں اپنے اپنے حصے کا مؤثر کردار ادا کریں، جس کی ایک بہترین عملی صورت یہ ہے کہ اساتذۂ کرام عم پارہ پڑھاتے ہوئے نوٹس بورڈ پر مفردات حل کروائیں اور طلبہ کرام کو حل شدہ مفردات اپنی کا پہیوں میں درج کرنے کا مکلف بنائیں، اس سے ان شاء اللہ طلبہ کرام میں تحقیق اور جستجو کی عادت پڑ جائے گی۔
باقی یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ قرآنی لغات کو حل کرنے کے لیے عام عربی لغات ناکافی ہیں، کیونکہ قرآنِ پاک کا ایک خاص اسلوب اور بدیع اندازِ بیان ہے ، جو کہ عام طور پر انسانی فہم و فراست سے بالا تر ہوتا ہے، اور دوسرا عام لغات کے ذریعہ قرآنِ پاک کی کسی تعبیر کا از خود مطلب متعین کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ قرآنِ پاک میں ایک ایک مادہ مختلف مقامات پر پانچ پانچ ، دس دس اور بارہ بارہ معافی کے لیے استعمال ہوا ہے ، اس لیے ماہرین علماءِ تفسیر کی کتب ہی بتا سکتی ہیں کہ کون سی جگہ اور کس سیاق میں یہ لفظ کس معنی کے لیے آیا ہے۔
مثال کے طور پر ’’ت، ب، ع‘‘، یہ مادہ قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ سات معانی کے لیے آیا ہے: ( صحبت، اقتداء، اختیار، عمل، نماز، استقامت اور طاعت)، اسی طرح ماده ’’خ، ف، ف‘‘ قرآن مجید میں پانچ معانی (معمولی چیز ، جوانی، آسانی، نقصان اور تخفیف) کے لیے استعمال ہوا ہے ، اسی طرح ماده ’’ر، ء، ي‘‘ مختلف مقامات پر پانچ معانی میں، مادہ ’’ر، ج ، ع‘‘ آٹھ معانی میں، اور مادہ ’’ ر، ح، م‘‘ چودہ معانی میں استعمال ہوا ہے۔ [ دیکھیے: الوجوہ والنظائر للدامغاني + المفردات للأصفھاني]
(۲) تفسیر الجلالین
قرآن کریم کی یہ مکمل تفسیر وفاق المدارس کے تحت درجۂ سادسہ میں داخلِ نصاب ہے اور یہ عربی زبان میں نہایت مختصر اور عمدہ تفسیر ہے ۔ اس کا انداز عام تفاسیر سے مختلف ہے ، اس میں قرآنی آیات کے بیچوں بیچ مشکل الفاظ کی تشریح، مجملات کی توضیح اور مہمات کی تعیین کی گئی ہے۔ مختلف آیات کے شانِ نزول ذکر کیے گئے ہیں اور فصاحت و بالاغت کے قواعد کی روشنی میں محذوفات کی تعین کی گئی ہے، مختلف تفسیری اقوال میں سے راجح قول کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے، اور مختصر الفاظ میں ضروری اعراب اور مشہور قراءات کو بیان کیا گیا ہے۔
اس تفسیر کو دو مفسرین نے لکھا ہے اور دونوں کا لقب جلال الدین ہے، جس کی وجہ سے یہ " تفسیر الجلالین " کے نام سے مشہور ہو گئی ہے۔ باقی ان دونوں مصنفین نے اپنی تفسیر کا اصل نام کیا رکھا ہے، اس بارے میں کوئی تفصیل ہمیں نہیں مل سکی۔ مختصر نام کے طور پر اسے جلالین کے بجائے ’’تفسیر الجلالین‘‘ کہنا چاہیے ۔
اس میں سورۂ کہف سے لے کر سورۂ ناس تک، اور سورۂ فاتحہ کی تفسیر علامہ جلال الدین محمد بن احمد محلی (متوفی ۸۶۴ھ ) رحمہ اللہ کی تحریر کردہ ہے کہ شروع میں انہوں نے نصف آخر کی تفسیر لکھی، اور اس سے فارغ ہو کر نصف اول میں سے صرف سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھ پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا۔ پھر اُن کے انتقال کے چھ سال بعد علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ ) رحمہ اللہ نے تقریباً بائیس سال کی عمر میں چالیس دنوں کے اندر سورۂ بقرہ سے لے کر سورۂ بنی اسرائیل تک اس کا تکملہ لکھا۔
اس کے عرب و عجم میں مختلف محقق نسخے مطبوع ہیں۔ ہمارے ہاں موجودہ نسخوں میں سے "مکتبۃ البشری" سے طبع ہونے والا نسخہ سب سے بہترین ہے، اس کی عربی اور اُردوزبان میں متعدد شروحات لکھی گئی ہیں۔ عربی شروحات میں سے ملا علی قاری ( متوفی ۱۰۱۴ھ) رحمہ اللہ کی ’’الجمالین‘‘، شیخ عطیہ بن عطیہ الأجهوری (متوفی ۱۱۹۰ھ ) رحمہ اللہ کی ’’الكوكب النبرین في حل ألفاظ [ تفسير] الجلالین‘‘ اور شیخ احمد بن محمد صاوی (متوفی ۱۲۴۱ھ ) رحمہ اللہ كى ’’بلغۃ السالك لأقرب المسالك‘‘ بہترین ہیں، جو کہ ’’حاشیۃ الصاوي علی تفسیر الجلالین‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے، اور اُردو میں دار العلوم دیوبند کے استاذ حضرت مولانا محمد جمال بلند شہری حفظہ اللہ کی شرح ’’جمالین‘‘مناسب ہے۔)
تفسیر جلالین کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اس کے لیے دیگر عربی تفاسیر کی مراجعت کے ساتھ ساتھ کم از کم تفسیر جلالین ہی کے طرز پر لکھی جانے والی حضرت مولانا علامہ عبد العزیز پر ہاڑوی (متوفی ۱۲۳۹ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’السلسبيل في تفسير التنزیل‘‘ اور سابق مدرس مسجد نبوی شیخ ابو بکر الجزائری (متوفی ۱۴۳۹ھ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’أيسر التفاسير لكلام العلي الكبير‘‘ کو ضرور دیکھے۔ اور اُردو تراجم و مختصر تفاسیر میں سے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (متوفی ۱۳۶۲ھ) رحمہ اللہ کے ترجمۂ قرآن و خلاصہ تفسیر، اور حضرت مولانا فتح محمد جالندھری رحمہ اللہ کے ترجمۂ قرآن کی ضرور مراجعت کرے کہ ان دونوں حضرات کی بطور خاص بین القوسین کی عبارات اغراضِ جلالین کے حل میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
(۳) تفسیر بیضاوی
ویسے تو یہ مکمل قرآن پاک کی تفسیر ہے، مگر وفاق المدارس کے تحت درجۂ سابعہ میں اس کے جز اول کا صرف پہلا ربع در ساً پڑھایا جاتا ہے۔ اس تفسیر کا پورا نام ’’أنوار التنزيل وأسرار التأويل‘‘ ہے۔ [خطبۃ المؤلف]
یہ قاضی ناصر الدین عبد اللہ بن عمر بیضاوی ( متوفی ۶۸۵ھ ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے قرآنِ کریم کے ہر ہر حرف، بلکہ ہر ہر نقطے کے معنی و مفہوم کو عربی کے قواعد اور شرعی اصولوں کی روشنی میں اُجاگر کیا ہے، اور فنِ تفسیر میں یہ منتہی درجے کے طلبہ کی کتاب ہے۔ مختصر نام کے طور پر اسے بیضاوی کے بجائے ’’تفسیر بیضاوی‘‘ کہنا چاہیے، کیونکہ بیضاوی مؤلف کی نسبت ہے، کتاب کا نام نہیں۔ ورنہ تو یہ ایسے ہو گا کہ جیسے تاویل کر کے ملتان کے رہنے والے کسی مصنف کی کتاب کو ’’ملتانی‘‘ کہا جانے لگے !
اس کے عرب و عجم میں مختلف محقق نسخے مطبوع ہیں، درسی حوالے سے ہمارے ہاں موجودہ نسخوں میں سے "مکتبۃ البشری" سے طبع ہونے والا نسخہ سب سے بہترین ہے ، جو کہ سندھ کے مشہور عالم مولانا عبد الکریم کورائی (متوفی ۱۳۶۳ھ ) رحمہ اللہ کے حواشی کے ساتھ مطبوع ہے۔ اس کے عربی اور اُردو میں متعدد شروح و حواشی لکھے گئے ہیں، اس کی عربی شروحات میں سے علامہ جلال الدین سیوطی (متوفی ۹۱۱ھ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’نواھد الأبكار و شوارد الأفکار‘‘ اور شہاب الدین خفاجی (متوفی ۱۰۶۹ھ) رحمہ اللہ كا حاشیہ ’’عنايۃ القاضي وكفايۃ الراضي‘‘ بہت عمدہ ہے، جو کہ ’’حاشيۃ الشھاب علی تفسير البيضاوي‘‘ کے عنوان سے مشہور ہے۔ اسی طرح تفسیر بیضاوی پر شیخ عبد الرحمٰن بن محمد شیخی زاده (متوفی ۱۰۷۸ھ ) رحمہ اللہ اور شیخ عبد الحکیم سیالکوٹی (متوفی ۱۰۶۷ھ ) رحمہ اللہ کا حاشیہ بھی شان دار ہے اور اول حلِ کتاب میں بہت زیادہ معاون ہے۔
اس کی اُردو شروحات میں سے دار العلوم دیوبند کے معقولات کے مشہور استاذ حضرت مولانا فخر الحسن گنگوہی (متوفی ۱۳۱۵ھ ) رحمہ اللہ کی شرح ’’التقرير الحاوي‘‘، جامع المعقول و المنقول حضرت مولانا منظور احمد نعمانی (متوفی ۱۴۲۳ھ ) رحمہ اللہ كى ’’الھديۃ النعمانيۃ‘‘، اور اُن کے عظیم شاگرد حضرت مولانا منظور الحق (متوفی ۱۴۰۴ھ ) رحمہ اللہ کی شرح ’’النظر الحاوي‘‘ قابل ذکر ہیں ۔ ان میں سے اول الذکر علمیت سے خوب آراستہ ہے، مگر اس کی تعبیرات قدرے مغلق اور عبارات مکر رہیں۔
تفسیر بیضاوی کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ اسے منطق کی کتاب سمجھ کر نہ پڑھے ، بلکہ اس کے اغراض و مقاصد کا بغور جائزہ لے، اپنے مصادر میں وسعت پیدا کرے ، دیگر تفاسیر کی مدد سے فنِ تفسیر کے رموز کو جاننے کی کوشش کرے، اور تفسیر بیضاوی کے لیے لغات القرآن سے متعلق کتب کے ساتھ ساتھ کم از کم فخر الدین رازی (متوفی ۶۰۶ھ ) رحمہ اللہ کی ’’التفسير الكبير‘‘ اور شہاب الدین آلوسی (متوفی ۱۲۷۰ھ ) رحمہ اللہ کی ’’روح المعانی‘‘ کی ضرور مراجعت رکھے۔
فائدہ (۱)
تفسیر قرآن کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ تفسیر پڑھنے سے پہلے اُصولِ تفسیر میں اچھی مناسبت پیدا کر لے اور پھر تفسیر پڑھنے کے دوران اصولِ تفسیر کی کتب کی ضرور مراجعت رکھے ۔ وفاق المدارس العربیہ کے حضرات کو چاہیے کہ وہ ترجمہ و تفسیر کے ابتدائی درجات سے ہی اصولِ تفسیر کے موضوع پر ہلکے پھلکے رسائل بطورِ نصاب شامل فرمادیں، تاکہ باذوق طلبۂ کرام تفسیر کے میدان میں بتدریج ترقی کی منازل طے کر سکیں۔
فائدہ (۲)
تفسیر قرآن کے طالب علم کو چاہیے کہ وہ مستند کتبِ تفسیر کو مطالعہ میں رکھے ، بطورِ خاص تفسیری روایات کے حوالے سے مکمل احتیاط سے کام لے، اور حتی الوسع کوشش کرے کہ جید علماء کرام سے مشاورت کیے بغیر کوئی کتاب نہ پڑھے، کیونکہ بعض کتبِ تفسیر ایسی ہیں کہ ان میں رطب و یابس ہر طرح کی روایات جمع کر دی گئی ہیں ، جیسے ’’تفسیر مظہری‘‘ ہے کہ اپنے طور پر یہ ایک سمندر ہے، اس میں آیاتِ قرآنیہ کی بہت تفصیل کے ساتھ تفسیر کی گئی ہے، اور بعض قصص و واقعات کی اس میں بہت شان دار تاویل ملتی ہے، مگر اس میں کثرت کے ساتھ ہر طرح کی تفسیر کی روایات بیان کی گئی ہیں، جن کو بغیر تحقیق کے آنکھیں بند کر کے ہر گز نہیں لیا جا سکتا، اور ان کی تنقیح و تحقیق اور جانچ پڑتال ہر طالب کے بس کی بات نہیں ہے، اسی نوعیت کی بعض دیگر عربی تفاسیر بھی ہیں کہ جو اُردو میں مترجم نہیں، جیسے ’’تفسیر ابی سعود‘‘ وغیرہ۔
روایات کی تنقیح کے حوالے سے اُردو تفاسیر میں حضرت مولانا عاشق الٰہی بلند شہری (متوفی ۱۴۲۲ھ ) رحمہ اللہ کی کتاب ’’انوار البیان‘‘ مناسب تفسیر ہے کہ اس میں تفسیر بالقرآن کے ساتھ ساتھ تفسیر بالحدیث کا بھی کافی زیادہ اہتمام کیا گیا ہے، اور تفسیری روایات نقل کرنے میں وسعت بھر تنقیح کی کوشش کی گئی ہے، جیسا کہ عربی تفاسیر میں سے ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ اس حوالے سے بہت عمدہ ہے۔
صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۲)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
سہیل طاہر مجددی
ب) مرتبہ واحدیت اور اعتبارات شئون
مرتبہ "واحدیت" (یعنی زیریں قوس) میں وجود و عدم کے بعض تعینات شامل ہو جاتے ہیں، یعنی یہاں ذات واحد کی صفت وجود بعض اعتبارات سے جمع یا کثرت کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عدم کا مطلب وجودی قضئے کی نفی ہے، وجود مطلق کے مدمقابل عدم محض آتا ہے (یعنی "وجود ہے" کے حکم کی نفی "وجود نہیں ہے" بنتی ہے)۔ پھر جوں جوں وجود مطلق کے ساتھ تخصیص کرنے والے احکام لاگو ہوتے جاتے ہیں، "وجود مطلق" متعین و مقید بن جاتا ہے۔ مثلاً "گھر ہے" ایک مطلق حکم ہے، جبکہ "نیلا گھر ہے" یا "چھوٹا گھر ہے" وغیرہ مقید احکام ہیں۔ اسی طرح "گھر نہیں ہے" کے مقابلے میں "نیلا گھر نہیں ہے" مقید نفی یا عدم ہے۔ اسی طرز پر وجود مطلق اگر "نرا ہونا ہے" تو مثلاً "قدرت کا ہونا" وجود مقید ہے (یعنی وجود قدرت کی قید کے ساتھ پایا جا رہا ہے)، وجود محض کی نفی اگر عدم محض ہے تو "قدرت نہیں ہے" عدم خاصہ ہے (عدم کا تصور یہاں علمی ہے نہ کہ وجودی)۔ تمام تخصیصی تفصیلات یا احکام اگرچہ کسی مقید چیز کے وجود کے تابع ہوتے ہیں، تاہم مرتبہ اطلاق میں وہ ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً "گھر نہیں ہے" میں "نیلا گھر نہیں ہے" شامل ہے، اسی طرح "نیلا گھر ہے" کا حکم "گھر ہے" میں شامل ہے (کہ "گھر ہوگا" تبھی وہ نیلا ہوگا، اگر گھر ہی نہیں تو نیلے کا سوال نہیں)۔
مرتبہ احدیت و واحدیت میں اطلاق و تقیید کا اسی طور پر فرق ہے، موخر الذکر میں بعض کثرتی اعتبارات پائے جاتے ہیں۔ واحدیت کے یہ کثرتی اعتبارات چار ہیں جنہیں "شناخت شئون" بھی کہتے ہیں (شئون لفظ شان سے ہے)۔ اگلے تنزلات میں ان شئون کے تحت صفات ہیں اور اس کے تحت اسماء اور اس سے افعال کا صدور ہے۔ واحدیت کے چار اعتبارات یہ ہیں: وجود، نور، علم و شہود10۔
- وجود: کُل اسمائے غیر مشروطی کی قابلیتِ محض کو کہتے ہیں
- نور: کُل اسماء مشروطی کی قابلیتِ محض ہے
- شہود: قابلیتِ شرائط اسماء ہے
- علم: ان تینوں پر محیط ہے
اسمائے مشروطی اور غیر مشروطی سے مراد اپنے معنی کے لحاظ سے متعددی و غیر متعددی مفہوم رکھنے والے اسماء ہیں۔ جہاں توجہ سیدھی الله کی جانب ہو وہ غیر مشروطی اسماء ہیں، ان کے ظہور کی جہت ذات باری خود ہی ہے۔ مثلاً الحی کا معنی غیر متعددی ہیں نیز اس کے مفہوم کے لئے ذات باری کے سوا کسی غیر کا تصور ہونا ضروری نہیں، اس لئے یہ غیر مشروطی اسم ہے جبکہ المحی (حیات دینے والا) مشروطی اسم ہے کیونکہ المحی میں خیال ذات کے علاوہ کسی غیر کی طرف بھی جاتا ہے جبکہ الحی میں توجہ غیر کی جانب نہیں جاتی۔ جو المحی ہے وہ الحی سے حیات لے کر کسی کو عطا کرتا ہے۔ پس ایسا اسم جو کسی تعین یا تقیید کا تقاضا کرتا ہو وہ مشروطی ہے اور جو اسماء ایسے نہیں ہیں وہ غیر مشروطی ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسمائے مشروطیہ کسی پر اثر کرنے یا فعل کی صلاحیت سے عبارت ہیں۔ "قابلیتِ شرائط اسماء" کا مطلب ان دو قسم کی اسماء کی قابلیتوں کا فرق ذات کو معلوم ہونا ہے۔ وجود اور نور میں تفریق شہود نے قائم کی ہے۔ شہود کی تعریف یوں بھی ہے کہ یہ خود اپنی ذات کا خود پر حاضر ہونا ہے، جیسے ہم خود پر خود حاضر ہیں غائب نہیں البتہ نیند میں غائب ہوجاتے ہیں۔ علم کی چادر نے ان تینوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ ذات کا اپنے بارے میں علم ہے۔ تفہیم کی خاطر ان میں یوں بھی فرق کیا جا سکتا ہے:
- از خود پایا جانا وجود ہے
- غیر کے پائے جانے کو ممکن کر سکنا نور ہے
- ان دونوں کا حضور شہود ہے
- ان سب کا احاطہ علم ہے
یاد رہے کہ تعین اولی میں اسماء متحقق و ظاہر نہیں ہیں بلکہ صرف ان کی قابلیتیں باقی رہ جاتی ہیں جو مشروطی اور غیر مشروطی میں منقسم ہیں اور مرتبۂ شُیُون میں یہ اعتباری ہیں۔ شرائطِ اسماء کی قابلیت "اعتباری" ہے جس سے اسماء اعتباری طور پر مشروط اور غیر مشروط قابلیت ہونے والے میں تقسیم ہیں۔ اس سب پر شان العلم اعتباری طور پر حاوی ہے نیز ان اعتبارات اور قابلیتوں کی شناخت کا ماخذ بنی ہوئی ہے۔ اصلاً یہ تفریق مفہوم کی ادائیگی کو ہے ورنہ ان میں باہم داخلی سطح پر ایسی کوئی تفریق نہیں ہے جو حقیقی ہو۔ اسی لیے یہ اعتبارات کہلاتے ہیں۔ یعنی ہمارے (جہت تحت کے) لحاظ سے یہ شہود نور و علم سے جدا مگر بالائی قوس میں کوئی تفریق موجود نہیں ہے (ہم دیکھیں گے کہ اس پہلی تجلی کے زیریں قوس میں اعتبارِ وجود نے تجلی ثانی میں جو تفصیلِ وحدت ہے اسے قیام دیا ہوا ہے جن پر اسماء متفرع ہیں اور ان پر افعال۔ یعنی صفات دوسری تجلی میں اعتبار وجود پر قائم ہیں اور شئون پہلی تجلی میں شان العلم سے ظاہر و قائم ہیں)۔
چونکہ ہر اعتبار یا مرتبہ اپنے سے ماقبل کا لاعین ولا غیر (ھو ولا ھو) ہوتا ہے، یہی معاملہ مرتبہ واحدیت کا احدیت سے ہے۔ یعنی اس لحاظ سے اعتبارات شئون وجود مطلق کے عین ہیں کہ وجود کی بنا پر یہ قائم و موجود ہیں لیکن اس لحاظ سے اس کا غیر ہیں کہ شئون وجود مقید ہیں نہ کہ وجود مطلق۔
ج) برزخ کبری یا حقیقت محمدیہﷺ
اوپر والی قوس کا رخ "لاتعین" کی طرف ہے اور زیریں قوس کا "تعین" کی طرف، دونوں کے اِن احکام کو الگ الگ کرنے کا کام برزخِ کُبریٰ کا ہے جو ذات اور اس کی تجلیات میں فرق کرنے والی تجلی ہے۔ یہاں اتنا سمجھنا کافی ہوگا کہ یہ نچلے مراتب کو اوپری مرتبے سے الگ کرنے والی "فصل" (differentiating factor) ہے۔ اس برزخ کبری کو حقیقتِ محمدیہﷺ کہتے ہیں۔ برزخ دراصل دو مختلف چیزوں میں واصل اور فاصل شے کو کہتے ہیں، جیسے آخرت اور اس دنیا کی زندگی کے مابین موت برزخ ہے، یا پھر ایک شیشے کا گلاس جو پانی سے لبالب بھرا ہوا ہے وہ اس پانی اور بیرونی ماحول میں تفریق کا ذریعہ بن گیا ہے۔ برزخ کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ دونوں اطراف کے ساتھ متصل ہوتی ہے، اسی لئے یہ انہیں منفصل یعنی الگ کرنے کا کام دیتی ہے۔ کوئی شے دو اشیاء میں حد فاصل (dividing line) تبھی بنتی ہے جب وہ انہیں ملانے والی ہو، اس کا ایک رخ ایک شے کی طرف اور دوسرا رخ دوسری شے کی طرف ہو، یوں یہ برزخ ایک پہلو سے دونوں کی جامع بھی ہوتی ہے مگر ایک لحاظ سے دونوں سے الگ (یہی وجہ ہے کہ جب دو تصورات کو لاگو کیا جائے تو ان کے مابین باؤنڈری پر ایسی اطلاقی صورتیں جنم لیتی ہیں جو برزخی نوعیت کی ہوتی ہیں، یعنی ان کا جھکاؤ من وجہ ہر دو طرف ہوتا ہے)۔ برزخ کا یہ دوگانہ پہلو شیخ ابن عربی کی فکر کا ایک اہم ستون ہے اور اسے سمجھے بغیر ان کی فکر میں "ھو ولا ھو" کا معاملہ سمجھنا ممکن نہیں رہتا۔ شیخ کی فکر میں دو مراتب وجود کے مابین خلا یا گیپ نہیں ہوتا، ہر درجہ اپنے سے ماقبل اور مابعد کا عین اور غیر دونوں ہوتا ہے (یعنی من وجہ "ھو" اور من وجہ "لاھو")۔ ارسطوی منطق میں کسی شے کا تصور قائم کرنے کا طریقہ ایسی حد فاصل تلاش کرنا تھا جو ایک شے کو جامع و مانع طور پر دوسری سے الگ کر دے۔ شیخ کو حد فاصل کے اس تصور پر اعتراض ہے، آپ کے مطابق یہ حد فاصل دراصل کثرت کو وحدت میں بدلنے والی برزخ ہوتی ہے11۔ باالفاظ دیگر ہر برزخ حد فاصل ہونے کے ساتھ ساتھ حد جامع بھی ہوتی ہے۔ اس بنا پر شیخ کا تصور دوئی ارسطوی منطق کے برخلاف کچھ الگ نوعیت کا حامل ہے۔ فی الوقت شیخ کے تصور برزخ کی اتنی تفصیل کافی ہے اگرچہ اس میں کچھ مزید عمیق پہلو بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ شیخ تنزیہہ و تشبیہہ کے مسئلے کو بھی اسی برزخی تصور کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تنزیہہ بھی ہے اور تشبیہہ بھی جیسا کہ قرآن میں آیا:
لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْء وَھُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ12 (اور اس کی مانند کوئی شے نہیں، اور وہی سننے و دیکھنے والا ہے)
یعنی لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْءٌ میں تنزیہہ کا بیان ہے تو وَھُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ میں تشبیہہ کا۔ یہاں بھی خوب دھیان رہے کہ یہ جو برزخ کبری ہے، اسے بھی وجود مطلق سے "ھو ولا ھو" کی نسبت ہے کہ یہ مرتبہ احدیت و واحدیت کی جامع ہے اور مرتبہ واحدیت بہرحال اعتبارات سے عبارت ہے۔ یہاں سے حقیقت محمدیہﷺ اور ذات باری کے تعلق سے متعلق وہ بدگمانیاں صاف ہو جاتی ہیں جن کا شکار صوفی فکر کے انجان ناقدین ہو جاتے ہیں اور وہ اس معاملے کو شرک بنا ڈالتے ہیں۔ چونکہ بزرخ کبری یعنی حقیقت محمدیہﷺ کو دیگر تمام احکام و تعیینات و مراتب کے مقابلے میں تجلی اول سے سب سے زیادہ قرب حاصل ہے، اسی کے لئے کہا گیا: "بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر"۔ قرآنی آیت "فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أوْ أَدْنَیٰ"13 اس قرب کا بیان ہے (نوٹ: قوسین کا تصور آیت کے الفاظ قوسین سے ماخوذ ہے)۔ مخلوقات پر اپنی اولیت کو آپﷺ نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا کہ میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم علیہ السلام روح و جسم کے مابین تھے14 ، یعنی نہ صرف یہ کہ آپﷺ موجود تھے بلکہ نبی بھی تھے جبکہ دیگر انبیاء دنیاوی زندگی کے وقت ہی نبی ہوئے15۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالی نے سب سے پہلے آپﷺ کے نور کو مقدر فرمایا16۔
ہم آگے دیکھیں گے کہ ہر تعین کی الگ برزخ ہے، لہذا جب برزخ کا ذکر تعین اول میں ہو تو مراد برزخِ کُبریٰ ہوتی ہے جو یہاں اس دائرے کو دو قوسوں میں بانٹ رہی ہے۔ اس برزخ کے نام یہ ہیں: ۱۔ برزخ کُبریٰ، ۲۔ برزخِ اکبر، ۳۔ برزخِ اعظم، ۴۔ برزخِ جامعہ، ۵۔ برزخِ اَوَّل، ۶۔ حقیقتِ مُحمَّدؐیہ، ۷۔ عُلُو
مرتبہ سوئم: تجلی دوئم یا دائرہ وحدانیت (یا عالم لاھوت 17)
دوسری تجلی پہلی تجلی کی تفصیل ہے، یعنی وحدت (تجلی اول) اگر اجمال ہے تو تجلی ثانی یعنی وحدانیت اس کی تفصیل، اور تفصیل کا مطلب وجود مطلق پر تعیین یا تخصیصی احکام کا اضافہ ہونا ہے۔ تعین ثانی کے لئے مختلف مصنفین کے ہاں یہ نام بھی استعمال ہوتے ہیں:
۱۔ تجلیٔ ثانی، ۲۔ حقیقتِ انسانی، ۳۔ منتهی العالمین، ۴۔ حضرت اسماء والصفات، ۵۔ احدیت الکثرت، ۶۔ وُجُودِ اضافی، ۷۔لاہوت، ۸۔ حضرت الوہیت، ۹۔ فلک الحیوٰۃ، ۱۰۔ منشاءالسوےٰ، ۱۱۔ عالم جبروت، ۱۲۔ معدن الکثرت، ۱۳۔ نفس رحمانی، ۱۴۔ قابلیت ظُہُور، ۱۵۔ منشاءکثرت، ۱۶۔ معدن الکثرت، ۱۷۔ حضرت جمع الوجود، ۱۸۔ منتہیٰ العابدین، ۱۹۔ عَما، ۲۰۔ حقیقت انسانی
اس دائرے کی بھی دو قوسیں ہیں اور ایک برزخ جیسا کہ شکل نمبر 2 میں دکھایا گیا ہے۔ اوپری قوس کو "ظاہر الوجود" اور نچلی کو "ظاہر العلم" کہتے ہیں۔ دائرہ دوئم چونکہ پہلے دائرے کے مقابلے میں مقید ہے اس لئے یہ اس کے اندر ہے (آگے ان شاء اللہ ایک جامع شکل پیش کی جائے گی)۔ اس دو قوسوں اور بزرخ کی تفصیل یہ ہے۔
الف) ظاہر الوجود یا بحر الوجود
یہ اس دائرے کی اوپری قوس ہے۔ پہلے تعین میں اس بات کا ذکر ہوا کہ تجلی باری کی بدولت انسانی فکر کا جو بلند ترین شعور ہے وہ وجود ہے اگرچہ اس وجود کی حقیقت و ماہیت سے ہم واقف نہیں ہو سکتے، ماسوا اس سے کہ "وہ ہے"۔ جو وجود مطلق مرتبہ احدیت میں پنہاں تھا، اس قوس میں یہاں بطور "نفس الرحمٰن" (breadth of the merciful) ظاہر ہوگیا ہے اور جو صفات و اسماء اور ان کے تحت مخلوق کے قیام کا سبب بن گیا ہے (دیگر مراتب کی طرح "نفس الرحمن" کی اصطلاح بھی نص سے ماخوذ ہے)18۔ اس مرتبے میں کثرت مائل بوحدت ہے یعنی مرتبہ بالا کے اجمال کی تفصیل ہے۔ یہ مرتبہ اپنے اوپری مرتبے کے لحاظ سے اعتباری اور نیچے والوں کے لحاظ سے حقیقی ہے۔ علمی اعتبار سے یہاں کثرت حقیقی ہے اور وحدت اعتباری ہے اور یہ تمام اسماء الٰہیہ کو گھیرے ہوئے اور ان کی حقیقت ہے۔ نفس الرحمن کے اسی پہلو کی بنا پر شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ کائنات الله کے کلمات سے عبارت ہے اور از روئے قرآن ان کلمات الله کی تعداد کا شمار ناممکن ہے۔
ب) ظاہر العلم یا بحر العلم
دوسری قوس کو "ظاہر العلم" کہتے ہیں، مرتبہ واحدیت میں شئون کا علمی اعتبار یہاں اسماء و صفات کے عدمات خاصہ کی صورت نمایاں ہوگیا ہے (عدمات خاصہ کی تشریح آگے آرہی ہے)۔ اس میں کثرت اعتباری (یعنی ظاہر) ہے اور وحدت حقیقی (یعنی باطن)۔ یہ تمام اسمائے کونیہ یعنی مخلوقات کے اعیان ثابتہ کو گھیرے ہوئے ہے، اعیان ثابتہ اسمائے مشروطیہ کے برعکس انفعالی استعدادات ہیں جس کی تفصیل ذیل میں آرہی ہے۔ چونکہ اس مرتبے پر اعیان ثابتہ وجود خارجی نہیں رکھتیں بلکہ ان کا تحقق مرتبہ علم میں ہے، اس لئے اس قوس کو ظاہر یا بحر العلم کہتے ہیں۔ اس دائرے کی برزخ کی وضاحت سے قبل شان، صفت اور اسم کا مفہوم پیش نظر ہونا مفید ہوگا جو مراتب وجود کی بحث میں تجرید (abstraction) کی مختلف سطحوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
مبدا، شان، صفت اور اسم کا فرق
جب شان العلم کہتے ہیں تو "ذی العلم" ذات مراد ہے، اور جب علیم کہتے ہیں تو مراد اگرچہ وہی ذات ہے مگر علم کی نوعیت مخلوق کی معلومات سے عبارت ہے۔ یعنی علم جو کہ صفت ہے، اس کی جہت مخلوق یا معلوم کی جانب ہے جبکہ شان کی نسبت ذات کی جانب۔ "ذی القوۃ" اور "قدیر" ہونے میں یہی فرق ہے، اول الذکر شان جبکہ موخر الذکر صفت ہے۔ شئون میں ملکیت کا مفہوم بھی ہے، یعنی جو ذی القوۃ ہے وہ قوت والا اور قوت کا مالک ہے نیز اس میں خود اپنے اوپر شہود و حضور ہونے کا مفہوم ہے، پس شان صفت سے قبل ذات باری کا ادراک و حضور خود اس پر اور اس کے لئے ہونا ہے اور یہ ذات و صفات کے مابین برزخ کی حیثیت رکھتی ہے۔ اللہ کی شئون ذاتیہ کا ظہور کسی پر نہیں ہوتا اور وہ غیب الغیب میں ہیں۔ صفت شان پر متفرع ہوتی ہے۔ "اعتبارات شئون" چار ہیں (یعنی اعتبارات اربعہ) جن کی تفصیل پیچھے گزر چکی، ان "اعتبارات شئون" کو مبدا شئون بھی کہا جاتا ہے۔ رہے شئونات یا شانیں، تو وہ لامتناہی ہیں جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا: كُلَّ يَوْمٍ ھُوَ فِي شَأنٍ 19 (وہ ہر آن نئی شان میں ہوتا ہے)۔ شیخ ابن عربی کہتے ہیں کہ اللہ کی شانوں کی کثرت کا عالم یہ ہے کہ وہ ذات کسی ایک شان کے اظہار دو مرتبہ نہیں کرتی بلکہ ہر آن وہ ایک الگ شان کے ساتھ جلوہ گرہ ہوتا ہے، یعنی نہ تو کسی دو مظاہر میں ایک شان کا ظاہر ہوتا اور نہ ہی کسی ایک مظہر میں دو مرتبہ ایک ہی شان کا20۔ صفات ذاتیہ سات یا آٹھ ہیں (حسب اختلاف اشاعرہ و ماتریدیہ)، انہیں "امہات صفات" کہا جاتا ہے۔ جمیع صفات فعلیہ کا رجوع ان امہات صفات کی جانب ہے۔ سب صفات کا قیام وجود کے ساتھ ہے مگر یہ وجود پر زائد بھی ہیں اور الگ الگ مفہوم بھی۔ اسی لئے متکلمین کی طرح صوفیہ کے ہاں بھی انہیں لاعین ولا غیر (ھو ولا ھو) کہا جاتا ہے۔ اللہ کا ظہور مخلوق کے لئے بواسطہ یا بحوالہ صفات ہے اور ان صفات کے سوا اس کا کوئی ادراک ممکن نہیں۔ "شان" چونکہ "صفت" کے مقابلے میں ایک درجہ مزید تجرید یا تعین کا کم تر درجہ ہے، لہذا اسے صفت سے اوپری مرتبے پر رکھا گیا ہے۔
اسم کا لغوی معنی "نام" ہے جس کی جمع اسماء ہے۔ جس لفظ یا عبارت سے الله سبحانہ کی طرف اشارہ کیا جائے وہ اسم ہے، چاہے وہ اشارہ باعتبار اس کی ذات ہو یا باعتبار کسی صفت۔ صفت موصوف کا حال بیان کرتی ہے، یہ ایک معنی ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہے اور اسماء ان صفات یا معنی کی جانب اشارے کے نام ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ اسماء صفات کا ظہور اور افعال کے بطون ہیں، لہٰذا صفت کسی اسم کا باطن یا حقیقت ہوتی ہے۔ ان کے عکوس (opposites and negations) صفات کی نشانیاں اور اسماء کے آثار ہیں۔ صفات کی اصلیت الوہیت اور اسماء کی اصل ربوبیت ہے۔ کل صفات کا اشتقاق اسم "اللہ" سے ہے اور کل اسماء کا اشتقاق "رب" سے ہے۔ انہیں ذات باری کے جمالی اور جلالی حجابات کہتے ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک جو شخص ان حجابات سے آگے نظر بڑھاتا ہے وہ حد سے تجاوز کرتا ہے کیونکہ اسماء و صفات الہیہ سے ماوراء حقائق کی نوعیت تک رسائی کا کوئی انسانی ذریعہ موجود نہیں۔
ج) برزخ صغری یا حقیقت آدمیہ
اس دائرے کی برزخ "حقیقت آدم" کہلاتی ہے۔ یہ بھی نہ عین ذات ہے اور نہ غیر، البتہ یہاں اسماء کی تمیز قائم ہے جیسا کہ قوسین کی تفصیل سے واضح ہوا۔ اس کو "حضرت الوہیت" بھی کہتے ہیں اس لئے کہ ذات باری کے "اله" ہونے کا تعلق مخلوق کی جہت سے ہے اور مخلوقات کا پہلا تعین اس دوسری تجلی میں بصورت اعیان ہے (لفظ "حضرت" یہاں "حضور" سے ہے، یعنی presence)۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ ذات باری کا بلند ترین مرتبہ "اله" ہونا نہیں بلکہ "احد" ہونا ہے، الوہیت کی نسبت مخلوق کے اعتبار سے متحقق ہوتی ہے جبکہ ذات باری "ہونے" کے لئے مخلوق کے اعتبار کی محتاج نہیں۔ پس "اله" اور "احد" میں صوفیہ کی توجہ "احد" پر بھی رہی اور اسی بنا پر "لا الہ الا اللہ" کی آخری منزل وہ "لا موجود الا اللہ" کہتے ہیں (پہلے دائرے کی اوپری قوس یعنی مرتبہ "احدیت" یاد کیجئے)۔ قرآن میں ہر جگہ "الہ واحد" کی ترکیب آئی ہے نہ کہ "الہ احد"، یعنی احدیت اور واحدیت دو الگ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور صوفیہ دونوں مراتب میں فرق کرتے ہیں نہ کہ مترادف۔ سورہ اخلاص میں "احد" کی بات ہوئی ہے۔
اس دائرے کا مرکزی اسم الله ہے جو حقیقت انسانیہ یا آدمیہ کا مرکز ہے۔ سب اسماء کا رجوع اسی اسم کی طرف ہے اور یہی ان سب کا سرچشمہ فیض ہے۔ یہاں اسم سے اسما کو فیض ملنے کی بات ہو رہی ہے یعنی وہ فیض جو اسم الله سے باقی تمام اسماء کو ہو رہا ہے، نہ کہ اس فیض کی جو اسم سے اس کے مربوب (یعنی عین ثابت) کو حاصل ہوتی ہے، جیسے رب اور مربوب کی نسبت جہاں خلق کو فیض منتقل ہوتا ہے (انہیں "فیض اقدس" و "فیض مقدس" کہتے ہیں جس کی وضاحت آگے آرہی ہے)۔ اسی لئے الله اسما کا مرکز اور ذاتی اسم یعنی فیاض ہے، اکثر کے نزدیک اسم اعظم الله ہے۔ اس تجلی کا نام حضرت الوہیت اسم الله کی وجہ سے ہے۔ اس تعین کو چونکہ نچلے درجات میں موجودات سے خارج میں تحقق کی نسبت ہے اس لئے اسے "وجود اضافیہ" بھی کہتے ہیں۔
برزخ سے اوپر اسمائے الٰہیہ ہیں، نیچے اسمائے کونیہ ہیں اور دائرے کا مرکز حقیقت آدمیہ یا اسم الله ہے کہ تمام اسماء کا باطنی یا ظاہری رجوع اسی کی جانب ہے، اس لئے اسے برزخ کہا گیا ہے۔ صفات اور اسماء اوپری قوس میں ایک دوسرے پر متفرع ہیں اور اسی قوس میں صفات میں سے سات امہات صفات (حیوٰۃ، علم، قدرۃ، ارادۃ، سماعۃ، بصارۃ اور کلام) کا ظہور ہوا۔ حقائقِ الٰہیہ بھی اسی دائرے یا تعین کا نام ہے جو اسمائے الہیہ و اسمائے کونیہ سے عبارت ہیں۔ آدم علیہ السلام چونکہ از روئے آیت عَلَّمَ آدَمَ الْاَسمَاءَ كُلَّھََا21 (اللہ نے آدم کو سب اسماء سکھائے) ذات باری کے تمام اسماء و صفات کے جامع ہیں، اس بنا پر اس دائرے کی برزخ حقیقت آدم کہلاتی ہے جو تمام حقائق الہیہ کی جامع مظہر ہے۔ حدیث خلق اللہ آدم علی صورتہ22 (اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا) کا یہی مفہوم ہے۔ اس جامعیت ہی کے سبب آدم علیہ السلام خلیفہ بننے کے مستحق قرار پائے۔
اعیان ثابتہ کا مفہوم
اعیان ثابتہ حقائق الٰہیہ سے عبارت ہیں جو اسماءِ الٰہیہ پر مشتمل ہیں اور جو اعیانِ ممکنات یا اسمائے کونیہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اسمائے الٰہیہ سے مُراد ایسی فعلی استعدادات (active potentials) یا وہ خاص معنی ہیں جو حق تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوں۔ اسمائے کونیہ وہ ہیں جن کے معنی مخلوق کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور یہ انفعالیت یا اثر قبول کرنے (passivity) کی استعداد کو ظاہر کرتے ہیں۔ اسمائے کونیہ کی پرورش اسمائے الٰہی کے تحت ہوتی ہے، اس لیے اسمائے الٰہیہ ارباب ہیں اور اسمائے کونیہ مربوب۔ مثلاً "خالق" اسم الہی ہے جس کا مربوب "مخلوق" ہے۔ "البدیع" اسم الہی ہے، اسمائے کونی میں اس کا مربوب "عقل کل" ہے۔ اسم الٰہی "مُحیط" ہے جس کا مربوب "عرش" ہے۔ الغرض صفات و اسمائے الہیہ کے عکوس (opposites or negations) صفات کی نشانیاں اور اسماء کے آثار ہیں۔ مزید وضاحت یوں کی جا سکتی ہے کہ اسمائے کونیہ یا ممکنات اسماء الہیہ کی تاثیرات کے مدمقابل وہ انفعالی تراکیب (combinations) ہیں جو علم الہی میں ازل سے مقدر اور ثابت ہیں۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ عالم امکان میں اسمائے الہیہ کی تجلیات سے جو کچھ ظاہر ہونا (یا موجود ہونا) تھا یہ ان سے متعلق علم الہی میں ثابت شدہ صورتیں ہیں۔ مثلاً زید الله کے فلاں فلاں اسماء کی تجلی کا مظہر ہوگا وغیرہ، یوں ہر مخلوق کا عین یا استعداد یا صورت علم الہی میں ثابت ہے۔ اسی لئے اعیان ثابتہ کو اعیان ممکنہ کے حقائق کی علمی صورتیں کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس مرتبے (یعنی تعیین ثانی) پر اسمائے کونیہ مخلوق ہو کر خارج میں موجود نہیں ہیں بلکہ صفت علم میں ثابت ہیں، یعنی اس مرتبے پر یہ اسمائے کونیہ مخلوق ہو کر خارج میں موجود نہیں ہیں بلکہ علم میں بطور صفات الہیہ کے عکوس ثابت ہیں، اگرچہ اپنا رخ یہ مخلوق کی جانب رکھتے ہیں۔ جو شے وجود حاصل نہیں کر سکتی، یعنی ممتنع ہو، وہ اسمائے کونیہ سے محروم ہوتی ہے کہ اگر وہ اسم کونی ہوتا تو یا ظاہر ہو چکتا یا ہو رہا ہوتا اور یا ہو جانے والا ہوتا۔ چونکہ اعیان ثابتہ تعیین کے مراتب میں سے ہیں، لہذا اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ ذات باری کا صرف عین نہیں ہیں جیسا کہ ناقدین شیخ ابن عربی کو شبہ لگا اور انہوں نے شیخ پر خالق و مخلوق کے ایک ہونے یعنی اتحاد کا حکم لگا دیا۔ البتہ یہ اعیان ثابتہ بایں معنی حقائق کی طرح ہیں کہ اگر اسمائے الہیہ بطور تاثیری استعدادات ثابت حقائق ہیں تو ان کے برعکس انفعالی استعدادات بھی ثابت شدہ حقائق ہیں۔ یعنی اگر خدا کا قادر ہونا حقیقت ہے تو اس کے برعکس عاجزی بھی ایک ثابت حقیقت ہے (کیونکہ "قدرت کی نفی" بھی ثابت ہے اور وہی عاجزی کہلاتی ہے)، اگر اس کا بصیر ہونا حقیقت ہے تو بصارت نہ ہونا یعنی اندھا پن بھی حقیقت ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان اعیان کے خارجی وجود کی نوعیت پر ان شاء الله آگے بات ہوگی۔ یہاں یہ نوٹ کیجئے کہ شیخ کے مطابق از روئے قرآن وجود خارجی یا تخلیق کا معاملہ انہی اعیان ثابتہ سے متعلق ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا:
وَإن مِّن شَيْءٍ إلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ23 (اور ایسی کوئی شے نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے معین مقدار میں نازل کرتے ہیں)
اور "کن" کا حکم بھی انہی سے خطاب ہے:
إنَّمَا أمْرُہُ إذَا أرَادَ شَيْئًا أن يَقُولَ لَہُ كُن فَيَكُونُ24 (اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے ہوجا تو وہ جاتی ہے)
پس اس دائرے میں بالائی قوس کو دیکھیں تو مائل بہ وحدت ہے یعنی ان اسماء کی اصل یا حقیقت صفات الٰہیہ کی طرف لوٹ رہی ہے اور ان صفات کا رجوع نفس الرحمن کی جانب اور نفس الرحمن کا رجوع پہلی تجلی کی اوپری قوس میں وجود مطلق کی جانب، جبکہ زیریں قوس کو دیکھیں تو یہ پہلی تجلی کی زیریں قوس میں اعتبارات شئون کی کثرت کی جانب مائل ہے، اس زیریں قوس میں اعیان ممکنہ مزید کثرت کے ساتھ ہیں اور پھر یہ اگلے مرتبے میں افعال کی طرف نزول کر رہی ہے۔ اسی لئے اس دوسرے مرتبہ تعین کو وحدت در کثرت اور کثرت در وحدت، یعنی موصوف کا ایک اور صفات و اسماء کا لامتناہی ہونا، کہتے ہیں۔ وحدت اور کثرت کے اعتباری ہونے کی بنا پر اس دائرے کی بزرخ کو "حضرت الجمع" بھی کہتے ہیں۔ نیچے کی جہت سے دیکھیں تو اس مرتبہ تعین تک اسماء نے وجود کو محجوب کر رکھا ہے (دوسری قوس کو بحر العلم اسی لئے بھی کہتے ہیں، یہاں ہمارے لحاظ سے وجودی حقیقت محجوب اور علمی حقیقت نمایاں ہے)۔ اسی وجہ سے ابتدائی دو تنزلات کو علمی کہا جاتا ہے اور یہاں تک جو بھی ترتیب ہے (یعنی شئون پر صفات کا، صفات پر اسماء کا اور اسماء پر اعیان کا متفرع ہونا) اسے "حرکت علمی" کہتے ہیں نہ کہ زمانی و مکانی۔ مخلوق ذات باری کا جو بھی ادراک کر سکتی ہے وہ اسی مرتبے سے متعلق ہے۔ ایک حدیث قدسی میں آتا ہے :
كُنْتُ كَنْزًا مخفياً فَأحْبَبْتُ أنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ خَلْقًا25 (اللہ تعالی فرماتا ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ پہچاناجاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا)
یہاں پہلا حصہ (كُنْتُ كَنْزًا مخفياً) مرتبہ احدیت کا بیان ہے اور دوسرا مرتبہ واحدیت کا۔
مرتبہ چہارم : تجلی سوئم یا دائرہ روحانیت (یا عالم جبروت )
ابتدائی دو دائروں کے بعد نچلے تین مراتب کا تعلق امور کونیہ سے ہے، قرآن میں اسے "کن" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ان دائروں میں ایسے اسماء کی تجلیات ہیں جو اسماء کے غیر کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی لئے یہاں اسم خالق اور اس کے تحت صفات فعلیہ کا اثر ظاہر ہے جیسے اسم المصور، اسم الرزاق وغیرہ۔ ہم دیکھیں گے کہ اسی لئے خالق و مخلوق کے مابین یہاں غیریت گہری و حقیقی ہے۔ از روئے آیت وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ26 (میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے) چونکہ ذات باری کی رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے، تو "صفت رحمت" یہاں باطن ہے۔ اس بنا پر تیسرے مرتبے کی اوپری قوس کو "الرحمۃ" کہتے ہیں جیسا کہ شکل 3 میں دکھایا گیا ہے۔ اس تیسرے تعین کو "عالم ارواح" و "عالم جبروت" وغیرہ کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں ارواح کا ظہور ہے، یہاں سب کچھ نور سے متعلق ہے، نور بمعنی منور کرنے یا ظاہر کرنے والا۔
اوپری قوس ظہور ملأ اعلیٰ ہے جہاں انبیاء و صلحاء کی ارواح ہیں۔ لوح، کتاب، قلم و کرسی سب اوپری قوس میں ہیں اور یہیں عرش سے بالا وقوعِ استَوی ہے۔ متکلمین کی اصطلاح میں جنہیں صفات خبریہ یا متشابہات کہتے ہیں جیسے کہ ید (ہاتھ)، ساق (پنڈلی) وغیرہ، وہ بھی اوپری قوس میں ہیں اور اس موقف کی رو سے یہ صفات دراصل خلق و افعال سے متعلق ہیں۔ یعنی ایسی صفات چونکہ نصوص میں کسی شے سے متعلق ہو کر بیان ہوئی ہیں اس لئے انہیں صفات فعلیہ کے تحت رکھا جاتا ہے۔ مثلاً از روئے حدیث "ساق" کی تجلی سے اہل ایمان کو ذات باری کی زیارت ہوگی27، "قدم" کی تجلی سے جہنم بھرے گی28، "اصابع" (انگلیاں) ایسی تجلی ہے جو مخلوق کے قلوب پلٹ دے29، اسی طرح از روئے قرآن "یدان" (دو ہاتھ) سے آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی 30 جس سے مراد اللہ کی صفات جمال و جلال ہیں کہ آدم سب صفات کے مظہر تام ہوئے وغیرہ (صوفیہ ذات باری کی تمام صفات و اسماء کو صفات جمال و جلال میں تقسیم کرتے ہیں)۔ اس دائرے میں دو قسم کے ملائکہ ہیں، ایک وہ جو مشاہدہ وحدانیت میں غرق رہتے ہیں، انہیں قرآن کی اصطلاح میں "عالین" کہا جاتا ہے اور یہ اوپری قوس میں ہیں31۔ زیریں قوس میں کارکنان قضا و قدر سے متعلق ملائکہ ہیں اور عام ارواح انسانیہ بھی یہاں ہیں۔ ذریت آدم سے "عہد الست" 32 نیز زمین و آسمان اور پہاڑوں پر امانت کا پیش کیا جانا 33 بھی اسی عالم سے متعلق امور ہیں۔
دائرے کا مرکز یا برزخ اسم "الخالق" ہے اور یہ اوپری مرتبے یا تعین میں اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ کو ظہور میں لاتا یا ایجاد کرتا ہے۔ بالائی قوس کا باطن یعنی اسم "الرحمٰن" بتا رہا ہے کہ تخلیق کا فعل اللہ کے لیے اضطراری نہیں بلکہ یہ اس کی رحمت سے ہے۔ یاد رہے کہ خلق کی تجلی نرا صدور نہیں ہے بلکہ ارادی ہے۔ قرآن میں جو ذکر ہوا کہ ہم نے ہر شے کو گن رکھا ہے، وہ اس عالم اور اس سے مابعد تجلیات کا معاملہ ہے کہ یہاں سے افعال کے اثرات شروع ہوگئے ہیں۔ اس کی برزخ کو "عرش" بھی کہتے ہیں جو عالم ارواح سے شروع ہونے والے ایجاد کے تمام سلسلوں کا احاطہ کرنے والا ہے، "استوی علی العرش" بھی اسی سے متعلق ہے اور اسی طرح حاملین عرش فرشتے بھی۔
اس دائرے کی زیریں قوس کو قہر و غضب کہتے ہیں کہ جزا و سزا کا نظام یہاں جاری ہے۔ اس لیے یہاں وہ فرشتے متحقق ہیں جو عالم سفلی سے متعلق یا امور جہنم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مخلوق کا وجود رحمت سے ہے، قہر و غضب سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ صفات رحمت و محبت کی بنا پر ہیں۔ ذات باری کا کسی سے دشمنی یا اس پر غضب فرمانا اصلاً اپنے محبوب بندوں سے محبت و رحمت کا اظہار ہے۔ یعنی چونکہ ذات باری نے محمؐد ﷺ کو پسند فرمایا تو ان کے دشمن ابتر کے حکم میں آئے اور ابولہب دشمن قرار پایا، حضرت موسی علیہ السلام کی بنا پر ہی فرعون کے ذکر کو بقا ملی وغیرہ۔ پس جو ظاہراً قہر و غضب ہے، باطناً وہ رحمت و محبت ہے۔
فیضِ اقدس اور فیضِ مُقدس کا مفہوم
شیخ ابن عربی کے مطابق فیض اقدس وہ تجلی ذاتی ہے جو اعیان ثابتہ کی صورت اشیاء کے وجود و استعدادِ کا باعث ہوئی۔ فیض مقدس ان تجلیاتِ کو کہتے ہیں جو اعیان کے ظہورِ خارجی، ان کے تمام لوازم اور توابع کی موجب ہیں۔ گویا فیض اقدس اسم الہی سے عین ثابت کا تعلق ہے جبکہ فیض مقدس عین ثابت سے وجود خارجی کا۔ موخر الذکر فیض اول الذکر پر مرتب ہوتا ہے۔ چونکہ اعیان ثابتہ کی حقیقت اسمائے الہیہ ہیں، اس لئے اعیان ثابتہ کے اثبات کے لحاظ سے ذات باری "اول و باطن" ہے۔ اگلی بحث سے واضح ہوگا کہ ان معدوم اعیان کا بطور وجود ظاہر ہونا چونکہ وجود ذات باری کی تجلی سے ہے، اس پہلو سے ذات باری ہی "آخر و ظاہر" ہے۔ فیض اقدس و مقدس کو الگ کرنے کی بنیاد نصوص میں لفظ "خلق" کا استعمال ہے۔ خلق کا مطلب مقدر یا متعین کرنا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوا:
ألَا لَہُ الْخَلْقُ وَالْأمْرُ34 (آگاہ ہوجاؤ کہ خلق اور حکم سب اسی کا کام ہے)
شیخ کہتے ہیں کہ یہاں خلق "تقدیر" کے معنی میں ہے نہ کہ ایجاد کہ ایجاد کا تعلق امر سے ہے جیسا کہ کہا گیا:
إنَّمَا أمْرُہُ إذَا أرَادَ شَيْئًا أن يَقُولَ لَہُ كُن فَيَكُونُ35 (اور اس کا امر یہ ہے کہ جب وہ کسی شے کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے کہتا ہے ہو جا تو وہ جاتی ہے36)
مرتبہ پنجم: چوتھا تعین یا عالم مثال
یہ وہ عالم ہے جسے اہل عقل یا فلاسفہ مقولات یا "کیٹیگریز" کہتے ہیں۔ مقولات کی تعداد میں مسلم فلاسفہ و متکلمین کے مابین اختلاف ہے۔ یہاں ہم فلاسفہ کے موقف کی رو سے بات کریں گے جن کے مطابق مقولات کی تعداد دس ہے جو اس دائرے کی نچلی قوس میں رکھے جاتے ہیں جبکہ اوپری قوس میں "نفس" بطور ایک الگ کیٹیگری ہے جو ان مقولات کے قیام کا باعث ہے۔ عالم مثال میں عقل عالم ناسوت کی اشیاء کو مجرد صورتوں میں دیکھتی ہے، اسی طرح اعمال کی صورتیں اور خواب سے متعلق امور بھی اسی عالم سے متعلق ہیں، ھادی و مضل کی تجلیات بھی یہاں متحقق ہیں اور امور کرامت بھی۔ شاہ ولی اللہ نے متعدد نصوص کے ذریعے اس عالم کے نظائر پیش فرمائے ہیں۔ اس عالم کو "خیال منفصل" بھی کہتے ہیں اور اس بنا پر اسے "عالم الخیال" بھی کہہ دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ اسے عالم الخیال کہنے کا مطلب "وھمی" کہنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی خیال سے متعلق یہ امور بطور حقائق فی نفس الامر موجود ہیں اور اسی لئے یہ انسانی خیال کی آماجگاہ بنتے ہیں (خیال منفصل کے برعکس ایک خیال وہ ہے جو کسی شے کے مشاھدے سے جنم لیتا ہے، مثلا سیب کو دیکھ کر ذہن میں ایک صورت بننا، اسے خیال متصل کہتے ہیں)۔ اس کی برزخ کو "نفس" کہتے ہیں۔ اوپری درجات سے ہر شے عالم مثال سے گزر کر آتی ہے۔
مرتبہ ششم: پانچواں تعین یا عالم شہادت (یاناسوت)
اس عالم میں جوہر و عرض (طبعیات و کیمیا و توانائی وغیرہ) کے تعینات لاگو ہیں، یعنی مقولات متعین تشخصات کے ساتھ یہاں ظاہر ہیں اور اسی بنا پر یہ عالم حد درجہ کثیف ہے۔ نفس انسانی کی تربیت کے لئے یہاں احکام شرع متحقق ہیں اور اوپری درجے کے حقائق الہیہ کے ادراک کو انبیاء و رسل کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے۔ اس کی اوپری قوس کا رخ "علم" کی جانب اور نچلی کا "جہل" کی طرف ہے اور اس کا مرکز "انسان" ہے اور اسے "ذھن" بھی کہتے ہیں۔ اس عالم میں نیکوکاروں کو بدکاروں سے الگ کر دیا گیا ہے۔ انسان کا جسم اگرچہ "جہل" سے تیار ہوا تاہم اس میں چمکنے والی روح عالم امر یا روح سے ہے۔ نیچے والی قوس جہل اس لئے کہ انسان حقائق سے دور ہو جاتا ہے اور ایسے حقائق بھی سوچ لیتا ہے جو ممکن نہیں۔ جہل جب فعل میں تبدیل ہو تو یہ ظلوم ہے (انسان کی حقیقت میں "ظلوم و جھول" ہونا بھی ہے)۔
شکل نمبر 4 میں ساری گفتگو کا خلاصہ دیا گیا ہے، اس دائرے کو اگر گلوب (globe) کی صورت گول تصور کیا جائے تو شاید زیادہ بہتر منظر کشی ہو سکے۔ یہاں دائرے کی برزخ اور اوپری و نیچی قوس کا نام دیا گیا نیز یہ بتایا گیا ہے کہ ہر دائرے میں کس درجے کا وجود متحقق ہوا۔ نیچے سے اوپر کی جانب سفر کے نتیجے میں ہم متعین وجود سے مطلق وجود کی جانب بڑھتے ہیں، ہر اوپری مرتبہ وجود نچلے مرتبے سے بایں معنی زیادہ حقیقی ہے کہ وہ اس پر مشتمل ہے۔
علامہ اقبال کے بعض اشعار
اگرچہ علامہ اقبال کے اشعار پر گفتگو سے ہم اپنے موضوع سے دور ہو جائیں گے، تاہم درج بالا فریم ورک میں آپ کے بعض اشعار کی معنویت پوری طرح نکھر کر سامنے آتی ہے۔
- اوپر اس بات کا ذکر ہوا کہ وجود کے تعیناتی احکام میں وجود مطلق کے ساتھ سب سے زیادہ قرب حقیقت محمدیہﷺ کو حاصل ہے جو تجلی اول کی برزخ کبری ہے،
- یہ بھی واضح ہوا کہ وجود کا ہر اوپری مرتبہ بایں معنی نچلے مراتب پر حاوی اور ان کا جامع ہے کہ ہر ذیلی تخصیص اپنے سے اوپری تخصیص میں شامل ہے،
- نیز یہ ابھی واضح ہوا کہ لوح، قلم، کتاب وغیرہ تیسرے تعین یعنی عالم ارواح سے متعلق امور ہیں اور یہ عالم رنگ و بو جس میں ہم سانس لے رہے ہیں یہ پانچویں درجے کی بات ہے۔
اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ آپﷺ کے فلک نے سب افلاک کو گھیر رکھا ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام اللہ کا سب سے جامع کلمہ ہیں جیسا کہ از روئے حدیث آپﷺ نے اپنی ایک خصوصیت یہ بیان فرمائی کہ "اعطیت جوامع الکلم" 37 (مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں)۔ حدیث کے ان الفاظ کو آپﷺ کی فصاحت و بلاغت یا شریعت کی جامعیت وغیرہ کے محدود معنی میں لیا جاتا ہے، تاہم شیخ اسے عالم کے ذات باری کے کلمات ہونے اور ان قرآنی آیات کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں:
قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہِ مَدَدًا38 (آپ کہہ دیجئے کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لئے روشنائی ہوجائے تو وہ سمندر میرے رب کے کلمات ختم ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا اگرچہ ہم اس کے مثل اور سمندر مدد کے لئے لے آئیں)
لَوْ أنَّمَا فِي الْأرْضِ مِن شَجَرَۃٍ أقْلَام وَالْبَحْرُ يَمُدُّہُ مِن بَعْدِہِ سَبْعَۃُ أَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّہِ39 (اور زمین میں جتنے درخت ہیں وہ سب قلم ہوں اور سمندر روشنائی ہو اور اس کے بعد سات سمندر اسے بڑھاتے چلے جائیں تو اللہ کے کلمات تب بھی ختم نہ ہوں گے)
آپ کی شریعت کی جامعیت دراصل آپﷺ کی جامعیت کا مظہر تھی کہ آپﷺ کو ایسی کتاب دی جائے جو سب کلمات کی جامع ہو، اس لئے آپﷺ کو قرآن جیسی تمام کتب کی جامع کتاب عطا کی گئی جو ام الکتاب ہے ("ام" ماں کو کہتے ہیں کہ وہ جمع کرنے والی ہوتی ہے)۔ آپﷺ کو اولین و آخرین کا علم عطا ہوا، شیخ کے نزدیک اس علم کی وجہ آپ کی یہ جامعیت اور اللہ سے آپ کا قرب ہی ہے، اولین کے علم سے مراد آدم علیہ السلام کو عطا کیا جانے والا اسماء کا علم تھا40۔ اسی طرح روز قیامت آپﷺ کو تمام مخلوق کا سردار بنایا جانا، مقام محمود عطا کیا جانا، لوا کے تلے حمد و ثنا فرمانا، آپﷺ کی شریعت کا جامع ہونا، آپ کو خاتم الانبیاء قرار دیا جانا، آپ کا یہ فرمانا کہ اگر آج موسی علیہ السلام حیات ہوتے تو وہ بھی میری شریعت کے تابع ہوتے41۔ الغرض یہ سب امور ذات باری کے ہاں آپ کے ایسے خصوصی و جامع مرتبے کی بنا پر ہیں۔ یعنی ان سب امور کا تقاضا صوفیا نے وجودی مراتب میں یہ مقرر کیا ہے کہ آپﷺ ان مراتب میں سب سے اوپر ہیں اور اسی بنا پر آپ ان خصائص کے مستحق ہوئے۔ باالفاظ دیگر یہ آپ ﷺ کے فلک کی وسعت کے نتائج ہیں۔ اب علامہ اقبال کا یہ نعتیہ شعر ملاحظہ کیجئے:
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب
نیز علامہ اقبال کہتے ہیں:
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فُرقاں، وہی یٰسیں، وہی طٰہٰ
2۔ توحید وجودی سے متعلق مسائل
اعیان ثابتہ کے وجود خارجی کی نوعیت
اب ہم تیسرے مرتبے اور مابعد اعیان ثابتہ کے خارجی وجود کا جو سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، وجود حقیقی کے ساتھ اس نسبت پر گفتگو کرتے ہیں جسے نہ سمجھنے کے سبب متعدد غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ سب سے پہلے عدم کا مفہوم سمجھنا چاہئے کیونکہ صوفیہ عدم سے تخلیق کے قائل ہیں تاہم عدم سے ان کی مراد نفی محض (absolute nothing) نہیں۔
عدم کا مفہوم
عدم کسی شے کی نفی کو کہتے ہیں (یعنی وہ نہیں پائی جا رہی)، لہذا عدم کا حکم کسی شے کے پائے جانے کے ساتھ ہے۔ دوسرے لفظوں میں عدم کسی وجود کی وجہ سے ہوتا ہے، کسی شے کے وجود کی نفی اس کی "ہویت" (ہونے) کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے۔ مثلاً قدرت کا عدم عاجزی ہے، علم کا عدم جہل ہے، بصارت کا عدم اندھا پن وغیرہ۔ انہیں "عدمات خاصہ" کہا جاتا ہے۔ ہر تعیین (یعنی خاص قید کے ساتھ شے کے ہونے) کی نفی سے خاص قسم کا عدم ثابت ہوگا۔ زید کا معذور ہونا ایک عدم ہے تو زید کا نابینا ہونا ایک اور قسم کا۔ ہر عدم ایک "عدم متمیز" (differentiated nothing) کے طور پر مفہوم ہے کہ وہ ایک خاص حکم کا منشا ہے۔ الغرض ہر اسم الہی کا عکس ایک عدم خاص ہے۔ اس کے برعکس "عدم عامہ" کا مطلب ایسا عدم ہے جو کسی بھی حکم (اثبات و نفی) کو قبول نہ کرے، یہ عدم محض (یا امکان محض) ہے جو "وجود محض" (یا واجب) کے مقابلے پر ہے۔ چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ عدم (یعنی "پایا نہ جانا") بھی اللہ کی طرف سے ہے کہ اللہ قادر ہے تو اس بنا پر اس کا عدم عاجزی ہے، وہ موجود ہے تو اس اعتبار سے عدم محض ہے۔
اوپر وضاحت گزری کہ اسمائے کونیہ یا اعیان ثابتہ کی حقیقت عدمات خاصہ یا اسمائے الہیہ کے عکوس ہونا ہے۔ ان کا یہ اعتباری عدم صفات و اسماء کی وجہ سے مفہوم ہے کہ چونکہ ذات باری قادر ہے تو قدرت کی نفی کے تصور سے اس کا الٹ مفہوم ہے (یعنی عاجز ہونا)، چونکہ وہ المحی ہے لہذا اس خاص فعلیت کی نفی سے ایسا عکس ثابت ہے جو اس فعل کا اثر قبول کرنے میں مفہوم ہے (یعنی میت ہونا)۔ الغرض اعیان ممکنہ کی اپنی حقیقت عدم کے سوا کچھ نہیں، اور یہ بطور انفعالی استعدادات ثابت ہیں۔ ان انفعالی استعداد میں سب سے بنیادی استعداد وجود قبول کر کے اس کا مظہر بن سکنا ہے۔ اسمائے الہیہ ازلی حقائق یا قابلیتیں ہیں جو اپنی حقیقتوں (یا اعیان ثابتہ) کا تقاضا کرتے ہیں۔ مثلاً الوہیت (یا معبودیت) عبد کا تقاضا کرتی ہے، اسم خالق کا تقاضا ہے کہ مخلوق ہو نیز اللہ کے انگنت اسماء میں سے بعض وہ ہیں (مثلاً الرازق وغیرہ) جو اپنے جلوے کے لیے مخلوق کا تقاضا کرتے ہیں۔ اسماء الہیہ سے ثابت ہونے والے یہ اعیان ان اسماء کے محتاج ہیں۔
عدم سے خلق کا مفہوم
درج بالا وضاحت سے یہ واضح ہوا کہ عدم کی حقیقت یہ ہے کہ ذات باری نے موجودگی یا عدم کے احکام کو بنایا ہے۔ جس کا حصہ وہ اس کے عین ثابتہ سے کاٹ دے وہ معدوم کہلائے گی اور جس کا حصہ ظاہر کر دے وہ موجود ہو جائے گی۔ لہٰذا جس وجودی نسبت یا حکم کو اللہ نے عدم فرمایا ہے اور اس کے وجود کی غیر موجودگی (یا عکس) پر اس کو لاگو کر دیا ہے، صوفیہ نے اس کو اشیا کے وجود کا مواد یا مسالہ ماننے یا نہ ماننے پر بحث کی ہے۔ لہذا مخلوق کے مسالے یا مواد سے متعلق اب سوال یوں ہے کہ یہ مخلوقات اسماء الہیہ (جو کہ مراتب وجود میں وجودی حقائق ہیں) کی وجہ سے ہیں یا ان کے عدمات کی وجہ سے؟ اس پر صوفیہ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ:
الف) یہ اسماء کی تجلی ہے،
ب) یہ ان کا عدم (یعنی عکوس) ہے،
ج) یہ ان دونوں کا مرکب ہے، یعنی ایک جہت سے دیکھو تو تجلی اور دوسری سے عدم ہے۔
اشیاء کو اعتباری وجود کہنے والوں نے ان کو اسماء کی تجلیات کہا جو بس اپنے عدمات خاصہ پر چمک اٹھی ہیں۔ مطلب یہ کہ قدرت نے عجز (یعنی قدرت کے عکس) کو وجود اعتباری دے کر اسے چمکا دیا ہے تو اب عاجز بھی ہیں اور قادر بھی۔ جنہوں نے مخلوق کو حقیقی وجود مراد لیا انہوں نے دوسری بات کہی کہ معاملہ تو یوں ہی ہے مگر ہماری موجودگی کی اصل عاجزی یا میت ہونا ہے، ہم صرف اس لیے قادر یا زندہ ہیں کہ الحی اور قادر مطلق کی نیست پر تجلی ہوئی ہے۔ ان دو آراء والوں کے مابین معاملہ بڑھ گیا تو شاہ ولی اللہ (م 1762ء ) نے تیسری بات کہہ کر اسے ختم کر دیا کہ یہ نزاع لفظی ہے42۔
مثال سے وضاحت
پس صوفی فکر کی رو سے اگر اس سوال پر غور کیا جائے کہ اعیان ثابتہ کے وجود خارجی کی حقیقت کیا ہے، یا باالفاظ دیگر ان کے وجود کو وجود حقیقی سے کیسی نسبت ہے؟ تو شیخ ابن عربی و صوفیہ کی ایک پسندیدہ مثال کی رو سے اس کا جواب یہ ہے کہ یا اس کی صورت یہ ہے کہ تجلی اسماء گویا آئینے کی طرح ہے جس کے روبرو ہونے کے سبب اس میں اعیان ثابتہ کے احکام و تعیینات ظاہر ہوگئے ہیں اور یا پھر اعیان ثابتہ آئینے کی طرح ہیں جن میں اسماء و صفات الہیہ کی تجلیات ظاہر ہوئی ہیں43، دوسرے لفظوں میں یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان اعیان ثابتہ میں ان کی حسب استعداد وجود متعین ہوا ہے اور اگرچہ یہ وجود متعین وجود حقیقی نہیں (کہ وجود حقیقی وجود مطلق ہے)، تاہم اس متعین وجود کا منبع وجود حقیقی ہی ہے کہ اس کے سوا کوئی وجود نہیں۔ ہر دو صورت میں اعیان ثابتہ از خود ظاہر نہیں ہوتے (کہ ان کی حقیقت عدم ہے) بلکہ جو ظاہر ہوتا ہے اول اعتبار میں وہ بصورت اسماء و صفات وجود ہے جس کی تجلی کی بنا پر اعتبار ثانی میں اعیان ثابتہ کے احکام ظاہر ہو جاتے ہیں۔ فیض اقدس جس طرح اعیان ثابتہ کے ظہور فی العلم کا مبداء ہے، اسماء کی تجلی ان احکام کے وجود خارجی کا مبداء ہیں۔ پس اعیان اپنی حقیقت میں معدومات یعنی فاقد الذات ہیں، جب ان پر اسمائے الہی کی تجلی پڑتی ہے تو یہ عدمات بقدر اسم کی تجلی چمک اٹھتے ہیں۔ یعنی "جو نہیں تھا" قادر اسے بھی اعتباراً موجود کر دیتا ہے (شہودیہ کی اصطلاح میں موجود تو نہیں کرتا البتہ انہیں موجود ہونے کا شہود یا حضور عطا کردیتا ہے)، تو اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ عالم اعیان ثابتہ کا صرف خارجی عکس ہے جو وجود کے آئینے میں جھلکا ہے۔ اسی بنا پر شیخ کہتے ہیں کہ اعیان ثابتہ نے وجود کی بو تک نہیں سونگھی اور وہ اب بھی حالت عدم ہی میں ہیں۔ قرآن میں آیا:
كُلُّ شَيْءٍ ھالِك إلَّا وَجْھَہُ44 (ہر شے ہلاک ہے اور ہونے والی ہے، سوائے اس کی ذات کے)
امام غزالی (م 1111ء ) نور وجود سے اشیاء کے منور ہونے کے معاملے کی مثال یوں دیتے ہیں کہ تصور کیجئے کہ اس دنیا میں روشنی کا سورج کے سوا کوئی ذریعہ نہ ہو اور سورج طلوع نہ ہو ۔ ایسے میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہوگا اور کچھ ظاہر نہ ہوگا۔ اس اندھیرے کو آپ عدم تصور کیجئے۔ پھر جب سورج طلوع ہوگا تو جہاں جہاں تک اس کی کرنیں پہنچیں گی وہاں تک مختلف رنگوں کی اشیا ظاہر ہو جائیں گی ۔ سورج کی یہ کرنیں نہ اس کا عین ہیں اور نہ غیر، جن اشیاء پر پڑ کر وہ انہیں رنگ برنگی دکھا رہی ہیں نہ وہ ان کرنوں کے عین ہیں اور نہ غیر۔ تو کوئی کہنے والا اگر کہے کہ میں سورج کی روشنی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا تو ایک جہت سے وہ بھی درست ہے ، جو کہتا ہے کہ سورج کی روشنی نے جو ظاہر کیا وہ نہ سورج ہے اور نہ اس کی کرن تو وہ بھی درست ہے۔ ایک مثال آپ یہ دیتے ہیں کہ جیسے ایک شخص گھر کے سوراخ سے چاند کی روشنی کو کسی ایسے آئینے پر پڑتا ہوا دیکھے جو دیوار میں نصب ہے، جس کی روشنی پھر اس آئینے کے مد مقابل دوسری دیوار پر پڑے اور پھر وہ روشنی زمین پر پڑے جس سے زمین منور ہو جائے۔ تو زمین کا نور دیوار کے نور کے، دیوار کا نور آئینے کے نور کے اور آئینے کا نور چاند کے نور کے تابع ہے اور پھر چاند آفتاب سے نور حاصل کرتا ہے، ان میں سے ہر نور دوسرے کے مقابلے میں کامل تر ہے اور اپنے اپنے درجے پر ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے45۔ اس مثال میں حقیقی نور آفتاب ہی کا ہے اور آئینے اور اس کے ماتحت نور کو آفتاب کے نور کے مقابلے میں بس مجازی طور پر نور ہونے کی نسبت ہے۔ اسی لئے آپ کہتے ہیں کہ عارفین نے مجاز کی پستی سے حقیقت کی بلندی کی جانب سفر کر کے اس حقیقت کو جان لیا کہ اللہ کے سوا کوئی موجود نہیں اور اس کے سوا ہر شے نہ صرف یہ کہ ہلاک ہونے والی ہے بلکہ وہ ازل تا ابد ہلاک ہے46۔ آئینے میں ظاہر ہونے والا عکس نہ اصل ہوتا ہے اور نہ اصل سے الگ، یعنی "من وجہ ھو " و "من وجہ لا ھو"47۔ پھر مزید غور کرو کہ شے جب آئینے کے روبرو ہو تو صرف اپنا عکس دیکھتی ہے، رہا آئینہ تو وہ دکھائی نہیں دیتا۔ اسی طرح اعیان ثابتہ وجود مطلق کے آئینے میں اپنا آپ (یعنی وجود متعین) تو دیکھتے ہیں مگر وجود مطلق کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ شیخ کہتے ہیں کہ دیکھنے والا جب بغور دیکھنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اپنا عکس اپنی بصارت اور آئینے کے مابین حائل دکھائی دیتا ہے، یہی معاملہ یہاں ہے اور اس سے آگے بڑھنے کی جستجو کرنا ایک محال شے کی طلب کرنا ہے کیونکہ وجود متعین کی نفی کر کے وجود مطلق کی جستجو کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ بندہ اپنی حقیقت یا صفت ذاتی کو فنا کر کے عدم کے گھاٹ جا اترے۔ اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ بندے کی جانب سے اعیان کے عکس سے آگے ادراک کی کوشش عدم محض کی جستجو ہے48۔
وحدت میں کثرت کی مثال یوں ہے جیسے کسی شے کے ارد گرد مختلف رنگوں و سائز کے آئینے رکھ دئیے جائیں تو وہی شے اب مختلف رنگوں و مقداروں میں دکھائی دینے لگے گی جبکہ دکھائی دی جانے والی چیز اصلاً ایک ہے نیز وہ ان رنگوں و مقداروں سے متصف بھی نہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ وہی شے ان سب صورتوں کے قیام کا ذریعہ بن کر ان کا قیوم ہے۔ پس اعیان ثابتہ کو جب اپنی ذات میں دیکھا جائے تو یہ عدم ہیں اور اس لئے وجود کا غیر (یا نفی) ہیں، اور جب اس جہت سے دیکھا جائے کہ ان پر اسماء کی تجلی ہوئی ہے جس کی بنا پر یہ اپنی انفعالیت کے ساتھ اعتباراً موجود ہیں تو یہ اسماء کا عین ہیں (یعنی اس کے مفہوم میں شامل ہیں اور اس بنا پر اسماء الہیہ ان اسمائے کونیہ کے باطن و حقائق ہیں)۔ جس طرح ہر انفعالیت کی حقیقت فعل کا اثر ہونا ہے اور اس اثر کے سوا نہ یہ قابل تصور ہوتی ہیں اور نہ موجود، اسی معنی میں اعیان ثابتہ کی حقیقت اسمائے الہیہ ہیں۔ وجود کی تجلی سے اعیان کو عکس یا سائے کی طرح موجود کرنا ذات باری ہی کا کام ہے، قرآن میں ارشاد ہوا:
ألَمْ تَرَ إلَیٰ رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَّ وَلَوْ شَاءَ لَجَعَلَہُ سَاكِنًا ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْہِ دَلِيلًا49 (کیا تم نے اپنے رب کی جانب نگاہ نہ ڈالی کہ وہ کس طرح سائے کو پھیلاتا ہے، اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن کر دیتا، پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا ہے )
یعنی اعیان کا وجود خارجی سائے کی مانند ہے اور رب تعالی چاہتا تو انہیں مستقلاً مرتبہ علمی کے پردہ خفا ہی میں روکے رکھ سکتا تھا، پھر اس معاملے کو سمجھانے کے لئے اس نے سورج کی روشنی کو دلیل بنا دیا۔ شیخ کہتے ہیں کہ واجب الوجود نور ہے تو ممکن الوجود سائے کی مانند جبکہ ممتنع الوجود نری ظلمت ہے۔ شیخ ایک مثال سے معاملے کو یوں سمجھاتے ہیں کہ جب ممکن الوجود (یعنی اعیان) کو موجود کیا گیا تو انہوں نے اپنے بائیں جانب خود سے پھوٹنے والے سائے کو پا کر پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ دائیں جانب وجود سے آواز آئی کہ یہ تمہاری حقیقت (یعنی عدم) ہے، اگر تم بھی روشنی یعنی وجود ہوتے تو تمہارے عدم کی یہ پرچھائی نہ ہوتی، میں وہ روشنی ہوں جو اس سائے کو ختم کرنے والی ہے۔ یہ جو نور وجود تمہیں میسر ہے یہ اس بنا پر ہے کہ تمہارا چہرہ میری جانب ہے اور اس سبب ہی تمہیں یہ ادراک ہوتا ہے کہ تم "میں" یعنی وجود مطلق نہیں ہو سکتے کہ میں نور بلا سایہ ہوں اور تم بوجہ اپنے امکان ملاوٹ زدہ نور ہو۔ اگر تم اپنے سائے سے بھاگنے کی کوشش کرو گے تو یہ عین اپنی حقیقت یعنی ممکن ہونے سے فرار کی بات ہوگی اور اگر تم نے اپنی حقیقت یعنی ممکن الوجود ہونے سے فرار کی کوشش کی تو تم مجھ سے جاہل و غافل ہو جاؤ گے اور مجھے کبھی نہ پہچان سکو گے کیونکہ تیرے پاس اپنے ممکن الوجود ہونے کے سوا یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں کہ میں تمہارا الہ، رب اور پیدا کرنے والا ہوں۔ پھر اگر تم سائے کے مشاہدے میں ہمہ وقت مشغول ہو کر روشنی سے کلی طور پر منہ موڑ بیٹھے تو تمہیں یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ یہ دراصل تمہارے امکان کا سایہ ہے کیونکہ روشنی ہی سے سایہ مفہوم ہو سکتا ہے۔ اس حال میں تمہیں یہ محسوس ہوگا گویا یہ محال کا سایہ ہے، واجب اور محال ہر لحاظ سے متضاد ہیں، اگر تم محال ہوتے اور اس حال میں تمہیں حکم دیتا کہ "ھوجا" تو تم اسے سن کر اس پر لبیک نہ کہتے کیونکہ محال ہونے کا حال تمہیں میری پکار سننے سے بہرا کر دیتا۔ پس اپنی نگاہ کو میری جانب اس طرح نہ ٹکا کہ تجھ سے تیرے سائے کا شعور و ادراک ختم ہو جائے کیونکہ اس حال میں تو یہ کہے گا "تو میں ہے" اور ایسا دعوی جہالت میں پڑ جانا ہے کیونکہ ممکن واجب نہیں ہو سکتا، اور نہ ہی اپنے سائے میں اس طرح گم ہو جا کہ تجھے مجھ سے بے شعور کر دے کہ پھر تو بہرہ ہو جائے گا اور یہ جان نہ سکے گا کہ تجھے کیوں پیدا کیا۔ پس تو 'نفی و اثبات' یا 'ھو ولا ھو' کا مجموعہ بن کر کبھی ایک شعور کا حامل ہو اور کبھی دوسرے کا۔ الله نے تجھے دو آنکھیں اسی لئے عطا کیں کہ ایک سے تو اس کی جانب دیکھے اور ایک سے سائے کی جانب50۔
حواشی
9. صحیح بخاری : رقم الحدیث 3019 نیز 6982
10. اعیانِ ثابتہ 15 از ڈاکٹر محمد خان چشتی
11. الفتوحات المکیۃ: 3 / 518
12. القرآن: الشوری 11
13. القرآن: النجم 9
14. مسند الإمام أحمد: 16623 نیز ترمذی: 3609۔ ایک اور روایت میں "پانی و مٹی کے مابین" کے الفاظ آئے ہیں، تاہم علمائے ظاہر کے ہاں یہ الفاظ ثابت نہیں مگر اہل کشف کےہاں مضمون کے لحاظ سے درست ہیں، واللہ اعلم۔
15. الفتوحات المکیۃ: 3 / 141
16. روایت کے الفاظ یہ ہے: یَاجَابِرُ اِنَّ اللہَ قَدْ خَلَقَ قَبْلَ الْاَشْیَاءِ نُوْرَ نَبِیّکَ مِنَ نُوْرِہ (اےجابرؓ! بےشک اللہ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبیؐ کا نور اپنے نور سے پیدا فرمایا) ، کشف الخفاء، جلد ۱، تحت الحدیث ۸۲٦، ص ۲۳۷۔ علمائے ظاہر کے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں مگر اہل کشف اس مضمون کی متعدد احادیث سے تمسک کرتے ہیں نیز یہ دیگر نصوص میں مذکور احکام کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ مثلا ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: اعطیت جوامع الکلم(مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں)، شیخ اس حدیث کو "کائنات اللہ کے کلمات ہیں" کے ساتھ ملا کر پڑھتے ہیں۔
17. فرھنگ اصطلاحات تصوف 148 نیز سر دلبراں 354
18. قَالَ رَجُل: يَا رَسُولَ اللہِ، بُوھِيَ بِالْخَيْلِ وَألْقِيَ السِّلاحُ، وَزَعَمُوا أنْ لَا قِتَالَ. فَقَالَ رَسُولُ اللہِ صلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: «كَذَبُوا، الآنَ حَانَ الْقِتَالُ، لَا تَزَالُ مِنْ أمَّتِي أمَّۃ قَائِمَۃ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرۃ» وَقَالَ وَھُوَ مُوَلِّي ظَھْرِہِ إلَى الْيَمَنِ: «إنِّي أَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمَنِ مِنْ ھَاھُنَا، وَلَقَدْ أوحِيَ إلَيَّ أنِّي كَفُوف غَيْرُ مُلَبَّثٍ، وَلْيَتْبَعُنِّي أفْنَادًا، وَالْخَيْلُ مَعْقُود فِي نَوَاصِيھَا الْخَيْرُ إلَی يَوْمِ الْقِيَامَۃِ، وَأھْلُھَا مُعَانُونَ عَلَيْھَا (مسند سلمة بن نفيل السكوني، التاریخ الکبیر للبخاری: 4 / 70)، نیز یہ الفاظ بھی منقول ہیں: قال: قال النبي، صَلَّى اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ: ألا إن الإيمان يمان والحكمۃ يمانيۃ وأجد نفس ربكم من قبل اليمن
19. القرآن: الرحمن 29
20. الفتوحات المکیۃ: 1 / 292، نیز 2 / 384 ، نیز 2 / 639 ، نیز 3 /199
21. القرآن: البقرۃ 31
22. صحیح بخاری : 6227 ، صحیح مسلم: 7163
23. القرآن:الحجر 21
24. القرآن: یس 82
25. اس روایت کی سند علمائے ظاہر کے نزدیک ثابت نہیں تاہم اہل کشف کے نزدیک یہ حدیث ثابت ہے، نیز اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ روایت درست ہے جیسا کہ آگے اعیان ثابتہ کے تحت آئے گا کہ یہ اعیان ازل سے علم الہی میں مخفی خزانے کی صورت ثابت تھے جنہیں "کن" کے تحت ظاہر کیا جاتا ہے، ارشاد ہوا: وَإن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ إلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (اور ایسی کوئی شے نہیں مگر ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے معین مقدار میں نازل کرتے ہیں)۔ ملا علی قاری (1013ھ ) نے بھی اس کے مضمون کو درست قرار دیا ہے (دیکھئے، كشف الخفاء ومزيل الإلباس عما اشتهر من الأحاديث على ألسنة الناس، لإسماعيل بن محمد العجلوني الجراحي (1162 ھ ): 2 / 132 )
26. القرآن: الاعراف 156
27. القرآن: القلم 42
28. بخاری: 4850
29. مشکوۃ المصابیح: 89
30. القرآن: ص 75
31. بعض محقق صوفہ ملائکہ کو دو درجات میں رکھتے ہیں، عالین ایک الگ مرتبے کے ملائکہ ہیں، جن فرشتوں کو آدم علیہ السلام کو سجدے کا حکم دیا گیا وہ عالین نہیں بلکہ الگ قسم والے تھے۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جب ابلیس نے سجدہ نہ کیا تو اللہ نے اس سے کہا کہ تو نے سجدہ کیوں نہ کیا، کیا تو خود کو عالین میں سے سمجھتا ہے؟ (القرآن: ص 75 )۔ دیکھئے "تنزلات ستہ"
32. القرآن: الاعراف 172
33. القرآن: الاحزاب 72
34. القرآن: اعراف 54
35. القرآن: یس 82
36. الفتوحات المکیۃ: 4 / 210
37. صحیح مسلم: 523۔ ایک روایت میں آیا: أوتِيتُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ. وَبَيْنَمَا أَنَا نَائِمٌ أتِيتُ بِمَفَاتِيحِ خَزَائِنِ الْأرْضِ فَوُضِعَتْ فِي يَدِي (مجھے جامع کلمات سے نوازا گیا اور میں نیند کے عالم میں تھا کہ زمین کے خزانوں کی کنجیاں میرے پاس لائی گئیں اور انہیں میرے ہاتھوں میں دے دیا گیا)، صحیح مسلم: 523۔ اس مفہوم کی دیگر روایات بھی ہیں، مثلاً بخاری کے یہ الفاظ: اعطیت مفاتیح الکلم (مجھے سب کلمات کی کنجیاں عطا کی گئیں ہیں)، صحیح بخاری : 6597۔
38. القرآن:الکہف 109
39. القرآن: لقمان 27
40. الفتوحات المکیۃ: 2 / 171
41. الفتوحات المکیۃ: 2 / 171 ،نیز 2/ 88 ، نیز 2 / 134 ، نیز 3 / 141
42. فیصلہ وحدت الوجود و الشہود
43. فصوص الحکم 48
44. القرآن: القصص 88
45. مشکاۃ الانوار: 53
46. مشکاۃ الانوار: 55
47. الفتوحات المکیۃ: 1 / 204
48. فصوص الحکم: 61
49. القرآن: الفرقان 45
50. الفتوحات المکیۃ: 2 / 303
تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۲)
اسلام میں محبت کی اساسیات غزالیؒ کے حوالے سے
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی
مترجم : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
خدا کے بارے میں غزالی کے خیالات
اگر ہم ابن عربیؒ کی پیروی کریں جو غزالیؒ کے کئی صدیوں بعد ہوئے ہیں تو ہم دیکھیں گے کہ ان کے استدلال میں محبت رحمت کا نتیجہ ہے لیکن اس سے مشابہ نہیں۔ رحمت عالمگیر اور بنیادی منبع ہے۔ غزالی کے ہاں الوہی محبت اور الوہی صفات کے بارے میں بہت کچھ تفصیل ہے۔ چنانچہ انہوں نے خدا کے افعال اور اس کی صفات میں فرق کیا۔ صفات کے سلسلہ میں ان کے ذہن میں وہ بنیادی صفات ہیں جو اضافی ہیں۔ یہ ہیں:
زندگی، علم، قوت، قوت ارادی، سماعت، بصارت اور گویائی جیسی صفات۔ خدا کے اعمال تخلیقی اعمال تھے: انہوں نے واقعات اور چیزوں کو وقوع پذیر کیا۔ یہ واقعات اس کی مخصوص نسبتی صفات کا نتیجہ تھے، جیسا کہ خالق، عطا کرنے والا، ہدایت دینے والا وغیرہ۔ اگرچہ ان معاملات پر مسلم جدلیاتی ماہرینِ الہٰیات کے درمیان ہونے والی بحثیں خشک مذہبی بحثیں ہیں، لیکن غزالی جیسے متکلم اپنے نقطہ نظر میں زیادہ صوفیانہ تھے۔
خدا کے فرمانبردار ہونے کے تجربے میں بھی متعدد درجات ہیں جن کے ذریعہ خدا کا کشف اولیاء کو ہوتا ہے۔ غزالی کے خیال میں، خدا بغیر عمل کرنے والے انسان کا حصہ بنے اس کے اندر ہے۔ سالکین کا ہدف یہ رہا ہے کہ وہ دوسری تمام چیزوں یعنی غیرِ خدا کے لیے فنا ہو جائیں یہاں تک کہ صرف خدا ان کے شعور میں زندہ رہ جائے۔ خدا ولی یا ولیہ کے شعور میں زندہ رہتا ہے، ولی اپنے وجدان میں خدا کے وجود کا تجربہ کرتا ہے۔یہاں تک کہ سالک اس کے علاوہ کسی شیئی کے وجود کا احساس نہیں کرتا۔ خدا محبت، غور و فکر اور عبادت کی شیئی ہے۔ سالک کے لیے فنا کا متبال ایک وجدانی شعور ہے جس میں اس کو خدا کے سِوا کسی چیز کے وجود کا احساس ہی نہیں ہوتا25۔علمی اور فلسفیانہ سطح پر غزالی نے یہ بھی کہا کہ خدا بے مثال ہے اس کو جانا نہیں جا سکتا۔ تاہم، جیسا کہ اسکالر فضل شہادی نے اشارہ کیا:
"خدا کے غزالی والے تصور کو یا مسلم تصور کو محض کسی مذہبی ضرورت کے نقطہ نظر سے تشریح کرنے کی کوئی بھی کوشش اس طاقت ور بصیرت کو کھو دیتی ہے جو اسلام کی خصوصیت ہے۔ شہادی یوں خدا کے منفرد ہونے کے تصور جو اسلامی روایت کا نمایاں حصہ ہے، کے غیاب پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ شہادی بتاتے ہیں کہ خدا کو پیش کرنے کے اسلامی تصورات، خدا کو اپنی خاطر دیکھنے کا اور اس کے بارے میں سوچنے کا ایک طریقہ ہیں یوں کہ گویا کوئی اور چیز موجود ہی نہیں ہے۔ اگر مذہب بنیادی طور پر انسان اور اللہ کے درمیان تعلق کا نام ہے، تو اسلام میں یہ نقطہ نظر مذہب کے دائرہ کار کو وسیع کرتا ہے کہ وہ اللہ کے لیے اس فکر کو یوں شامل کریں گویا انسان تصویر میں نہیں تھا۔ لیکن مذہبی آفاق فکر کی سب سے گہری وسعت خود خدا کے بارے میں مذہب کا یہ تصور ہے کہ اس کے سِوا گویا کوئی اور چیز موجود ہی نہیں ہے خاص کر انسانی منظر یا جسمانی دنیا کے سلسلے میں۔ خدا نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ وہ انسان کا خیال رکھتا ہے۔ لیکن اس کے باوصف خدا تخلیق سے اوپر ہے، ربوبیت سے بالا اور ہر رشتہ سے جدا ہے۔ اس خدا کی بنائی ہوئی انسانی کائنات اس کے لیے کچھ نہیں۔ کتنی لامحدود کھلی، کتنی بے کراں وسیع، کتنی بے جان پراسرار دنیا ہے جہاں خدا تعالی ٰکسی بھی کنبے سے پرے، کسی بھی رشتے سے بالاتر ("مقدسین" سے بالادست مقدس) اور شاندار و عظیم ہے27۔
شہادی کے خدا کی ضرورت، تخلیق اور دنیا سے بالاتر ہونے کے نکتہ کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ مسلم مذہبی عقائد کا ایک مضبوط بیانیہ مسلم الٰہیات کو مستحکم کرنے کے لیے سیاسی دباؤ کا مقابلہ کرے گا۔ یہودیت، عیسائیت، اور اسلام کے درمیان مذہبی تعامل میں، اکثر فاتح کے مفاد میں خصوصیت اور فرق کو نظر انداز کرنے کا سطحی رجحان آجاتا ہے، لیکن اکثر تینوں روایات کے درمیان ابراہیمی مشترکات کے لیے بہت کم احترام ہوتا ہے۔
مسلم الٰہیات کا کوئی بھی قاری اس حقیقت سے ناواقف نہیں رہ سکتا کہ اسلام درحقیقت خدا کے ماوراء ہونے پر زور دیتا ہے۔ غزالی کی تصنیفات میں بھی دیا گیا ہے۔ غزالی کے نزدیک کوئی بھی لفظ کسی بھی پہلو کے تحت خدا کی فطرت کو مناسب طور پر بیان نہیں کر سکتا، جس میں انسانوں اور دنیا سے خدا کا تعلق بھی شامل ہے28۔ پھر بھی جب غزالی انسانوں کے لیے خدا کی تصویر بناتے ہیں تو وہ مثبت صفات اور پیشین گوئی کی قابل رسائی زبان استعمال کرتے ہیں۔ غزالی کہتے ہیں کہ اللہ کوئی معلوماتی وضاحتی فنکشن نہیں رکھتا۔ بلکہ اللہ انسانوں کے مقابلے میں ایک عملی ہدایت کا فنکشن رکھتا ہے29۔ دوسرے الفاظ میں، خدا کی صفات کی مثبت تعبیر خدا کی انسانی زبان کی تصویر ہے۔ خدا کی ذات کا مابعد الطبیعاتی تصور یہ ہے خدا متحیز نہیں نہ ہی خدا کائنات کا حصہ ہے اور نہ ہی کائنات سے باہر، نہ اس سے جڑا ہوا ہے اور نہ ہی اس سے منقطع ہے30۔ پھر بھی، خدا کی ہستی مومنوں کے دلوں میں بسی ہوئی ہے، کیونکہ ان کے دل اس کی یاد سے آباد ہیں۔ خْدا کی یاد ہی ان کا حاصلِ زندگی ہے31۔
؎ میرا ہی دل ہے وہ جہاں تو سما سکے
انسان خدا سے کیسے ملتا ہے؟ مسلم عمل میں اللہ سے سب سے قریبی تعلق خدائی اخلاق اختیار کرنے سے حاصل ہو سکتا ہے۔ انسانوں کو وحی کے ذریعے بتائے گئے منابع کے ذریعے خدا کی خصوصیات کو اپنانا چاہیے۔ جس کا حکم ’’تخلقوا باخلاق اللہ‘‘ سے دیا گیا ہے۔ جس میں دین کے عمل اور نبی محمدﷺ کی مثالی تعلیمات کی پیروی شامل ہے۔ ان طریقوں میں لازمی رسومات کے ساتھ ساتھ غور و فکر کے عمل جیسے یاد کرنا، عبادت کرنا اور خدا سے محبت کا اظہار کرنا شامل ہیں۔ لہٰذا عقیدتی اعمال جو خدا کی سراسر انفرادیت اور خدا کو نہ جان سکنے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ خدا کی ذات کی تشریح کرنے والے نہیں ہو سکتے بلکہ انہیں عملی ہونا چاہیے.
کارکردگی کی سطح پر خدا کی ہستی زمین پر خدا کے "مسکن" یعنی عبادت گزاروں کے دلوں تک پہنچتی ہے۔ لہٰذا، مسلم الہیات میں یہ کہنا بالکل قابل قبول ہے کہ انسانوں پر خدا کا انکشاف اس زبان میں ہو جسے وہ سمجھتے ہیں۔ لیکن کسی نہ کسی سطح پر یہ ایک معمہ بنی ہوئی ہے۔
غزالی کو جس مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا، جسے شہادی نے اسے اتنی فصاحت کے ساتھ بیان کیا، وہ یہ ہے کہ ان کی الہیات مندرجہ ذیل سوال کی طرف لے جاتی ہے: آدمی خدا کے بارے میں کیسے یوں کہے کہ مثلاً وہ عادل اور رحم کرنے والا ہے؟ کیونکہ اسی لمحے جب کوئی ایسا کہتا ہے تو فوراً یہ کہہ کر اس کی نفی کرنی پڑتی ہے کہ خدا درحقیقت اتنا ہی نہیں ہے۔ مطلب، خدا اس سے کہیں زیادہ انصاف کرنے والا یا رحم کرنے والا ہے جتنا کہ انسان کبھی بھی محسوس کر سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں، کم از کم غزالی کے لاہوتی فریم ورک میں، انسان ایک ایسی انسانی زبان کے ذریعے خدا کی عبادت کر رہا ہے جو کہ خدا کے بارے میں وضاحتی طور پر قابل اطلاق یا ناکافی ہے۔ انسانوں سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی عبادت کریں، گویا وہ خدا کو دیکھ رہے ہیں، اس علم کے ساتھ کہ یہ ادراک حقیقت سے کم ہے۔ یوں انسان علمیاتی طور پر اللہ کو سمجھ تو سکتا ہے لیکن اس کی ذات انسان کے ادراک سے پرے ہے۔ یعنی ایسا ڈھانچہ اس خیال سے بھی مطابقت رکھتا ہے کہ خدا اپنی ذات اور فطرت میں بالکل منفرد ہے اور اس کی حقیقت کو جانا نہیں جا سکتا ہے۔
اگر ہم اس نکتے کو قبول کرتے ہیں تو یہ وحی کے بارے میں اصل سوال پیدا کرتا ہے: کیا یہ بھی ناقص معیار کا شکار ہے؟ اس کا جواب ہے، ہاں۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ وحی خدا کی مرضی کو ظاہر کرتی ہے، خدا کی فطرت کو نہیں۔ وحی کا مقصد انسانوں کی زندگیوں کو اس زبان میں رہنمائی کرنا ہے جسے وہ سمجھ سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، عقیدہ مستند وحی کے ذریعے محفوظ ہوتا ہے۔ یہ اسلام اور شاید دوسری توحید پرست روایات کے درمیان اہم فرق ہے جہاں وحی الوہی کلام کے ایک خاص ذوق کے ذریعہ رہنمائی فراہم کرتی ہے نہ کہ خود اللہ کی ذات کی وضاحت32۔
رہنمائی کا سوال اصولوں اور معیارات کے سوال کو سامنے لاتا ہے۔ درحقیقت، مسلم الٰہیاتی نظریہ اس بات پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے کہ ہم خدا کی مرضی کو کس طرح جان سکتے ہیں، اور یہ کہ خدا کی مرضی کس طرح مستند ذریعہ سے جانی جا سکتی ہے۔ اس طرح وجودیاتی سوال علمی سوال سے بہت قریب سے جڑ جاتا ہے۔
محبت پر غزالی کے خیالات
جب غزالی محبت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہیں تو اپنی شہ کار کتاب احیاء علوم الدین کی فصل ”کتاب الحب و الشوق و الانس والرضا (عشق، آرزو، قربت اور قناعت) میں وہ انسان کے مختلف مسائل کا سامنا کرتے ہیں جیسے کہ اللہ کے ساتھ ملاقات وغیرہ۔ فی الحال میں اس بحث کے لیے چند منتخب موضوعات پر کلام کروں گا۔
محبت، قربت اور قناعت کی تمہید میں غزالی خوبصورت اور وضاحتی انداز میں لکھتے ہیں:33
”خدا اپنے اولیاء کے دلوں کو بلند کرتا ہے، ان کے باطن کو دنیاوی خلفشار سے پاک کرتا ہے اور صرف اولیاء کے دلوں میں اپنی موجودگی (حضرۃ) کو مرکوز رکھتا ہے"۔34 غزالی پھر اس الہٰی عظمت کی جھلکیوں پر روشنی ڈالتے ہیں جو ولی کو عشق الٰہی کی آگ میں جلا سکتی ہیں۔ یا پھر سالک کی عقل و مشاہدہ پر ایک خاص قسم کی دھول پڑ جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی وجاہت کا ادرک نہیں کر پاتا۔ ایسی حالت سے دوچار ہونے پر عابد یا سالک کو صبر کی تلقین کی جائے گی۔ غزالی کے بقول: ”سالکین کے دل خدا کا سامنا کرنے میں، انکار اور قبولیت کے درمیان معلق رہے اور حصول و تردد کے درمیان معلق رہے۔ کبھی وہ خدا کی معرفت کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زن ہوئے اور کبھی اس کی محبت کی آگ میں جھلس گئے“35۔
اور دل کے عجائبات کی کتاب (عجائب القلوب) میں اپنی تحریر کا ایک حصہ غزالی نے توحید پرستانہ عقیدت، معرفت کے کشف، ذات الٰہی سے پرجوش محبت، تحیر پیچیدگی، اور تضاد جیسے موضوعات پر صرف کیا ہے۔
محبت ان تمام موضوعات کو اپناتی ہے۔ اس کے مشاہدہ کے ذریعہ خدا کی معرفت کا حصول محبت کے آداب (Economy of Love) میں سے ہے۔ خدا کی یہ معرفت درحقیقت اس دنیا میں انسانوں کی "خوبصورتی، کمال اور جلال" کی بنیاد ہے۔ انسان کا اخلاقی اور سیاسی وجود الوہیت کا تجربہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے اللہ کی معرفت قوی ہوتی جاتی ہے محبت کے آداب میں بھی شائستگی آتی جاتی ہے۔ انسان اس کی ایک قابل تفہیم تعریف تک پہنچ جاتا ہے لیکن کبھی بھی پوری طرح سے ذہنی گرفت میں نہیں لا سکتا۔ بہرحال وہ اس سے پورے طور پر متاثر ضرور ہوتا ہے- بڑی صراحت کے ساتھ تاہم، غزالی نے واضح کیا ہے کہ:
"بغیر معرفت اور ادراک کے محبت کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ انسان محبت نہیں کرتا سوائے اس کے جسے وہ جانتا ہو“ 36۔
نامعلوم خدا کے بارے میں اپنے تصور سے بالکل مطابقت رکھتے ہوئے، غزالی محبت کو بے خودی اور اضطراب کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ الٰہی قربت کا گہرا علم محبت کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر بھی، محبت کے مخمصے اور الجھنوں کا حل نہیں ہوتا بلکہ تخلیقی تناؤ میں برقرار رہتا ہے۔ یہاں محبت کی آگ ہے اور مصائب کے شعلے ہیں۔ دلیل کے ساتھ ساتھ یقین کے بیابان میں ہچکچاہٹ؛ عقل کا تحیر میں ڈوب جانا اور محبت کے شعلے میں جلنا۔ پردہ اور نقاب کشائی. مختصر یہ کہ محبت کا محال ہونا ہی اس کے امکان کو وجود دیتا ہے۔ یہاں تک کہ جب یہ نور روشن ہوتا ہے تو اپنے اطراف کو تابناک کرتا ہے اور دوسری طرف اس نور کی چوکاچوند چیزوں کو ناقابل مشاہدہ بھی بنا دیتی ہے۔
غزالی نے واضح طور پر کہا ہے کہ خدا اور اس کے رسول سے محبت ایک فرض ہے37۔ لیکن پھر وہ پوچھتے ہیں: تم کسی چیز کو فرض کیسے کر سکتے ہو جب وہ چیز یعنی محبت موجود ہی نہ ہو؟ وہ پوچھتے ہیں کہ اگر محبت کو اطاعت کی زائدہ مان لیا جائے تو پھر اس کو اطاعت کے ہم معنی کیسے مانا جا سکتا ہے؟ غزالی کے پرجوش بیانات اور قرآنی اور حدیث کی تعلیمات کے حوالوں میں بہ ظاہر یوں لگ سکتا ہے کہ محبت ہر چیز پر مقدم ہے کیونکہ وحی مومنوں کی صفت یہ بتاتی ہے کہ کہ یہ وہ لوگ ہیں جن سے خدا محبت کرتا ہے اور بدلے میں وہ خدا سے محبت کرتے ہیں" (قرآن 5:54) غزالی قرآن کا حوالہ دیتے ہیں:
”اور جو لوگ ایمان لائے وہ خدا کی محبت میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔" (قرآن2:165) ایک حدیث نبوی میں ہے: ”تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہ ہو جب تک کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے ہر چیز سے زیادہ محبت نہ کرو۔"38
اس کے بعد انہوں نے متعدد مراجع سے متعدد روایات بیان کیں جن میں حضرت محمد ﷺکے ارشادات شامل ہیں۔ اولیائے کرام اور صوفیاء کے بیانات ہیں۔ یہ سب محبت کی عظمت کو تقویت دیتے ہیں۔ لہٰذا، غزالی جن دو چیزوں کو اٹھاتے اور جن کا تقابل کرتے ہیں وہ ہیں خدا سے محبت کی دعوت اور اس کی اطاعت کا فرض۔ ان دونوں تصورات کے درمیان ظاہری طور پر تناؤ ہے۔ لہٰذا، سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ غزالی محبت کو کس طرح متصور کرتے ہیں:
’’محبت مسرت آگیں چیز کی طرف کسی کے میلان کا نام ہے۔ جب یہ رجحان شدت اختیار کرتا ہے تو اسے عشق کہا جاتا ہے۔‘‘39
وہ چیزیں جو انسان کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہوں وہ محبوب ہوتی ہیں اور جو اس سے مطابقت نہیں رکھتیں وہ ناپسند ہوتی ہیں۔ نفرت کسی چیز سے لاتعلقی بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن محبت کا تصور اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس سے پہلے معرفت اور ادراک کی ایک شکل نہ ہو، وہ یہ مثل نقل کرتے ہیں:
”انسان محبت نہیں کر سکتا سوائے اس کے جسے وہ جانتا ہو“40۔
مختصر یہ کہ غزالی کی محبت کے مظاہر (Phinominology of love) تجرباتی ہیں۔ لیکن یہ تجربہ بھی معرفت و ادراک پر منحصر ہے۔ اس سے میرا مطلب ہے کہ یہ کچھ چیزوں پر منحصر ہے۔ دوسرے لفظوں میں، ہمارے شعور اور تجربات کا دارومدار ادراک، حسی ادراک کی شکلوں، سوچ کے انداز یا جستجو پر ہے۔ محبت کی اساس کے بارے میں یہ کہنا شاید کوئی بعید از قیاس نہ ہو کہ اگر آگسٹین محبت کو ایک قسم کی خواہش سمجھتا تھا تو غزالی کے لیے محبت معرفت، ادراک اور حقیقت کی تلاش کی ایک شکل تھی۔ معرفت اور ادراک کے اس مظہر کی ساخت بیرونی محرکات کو حاصل کرنے والے پانچ حواس سے الگ تو نہیں ہے تاہم محبت کا اصل سرچشمہ اندرونی ہے۔ اس باطنی حس کو عقل، نور، قلب یا بصیرت کہتے ہیں۔ اس کے بعد غزالی انسانی تجربات سے اخذ کردہ محبت کے کئی مظاہر کو واضح کرتے ہیں:
وہ لکھتے ہیں:
”یہ کوئی راز نہیں ہے کہ انسان اپنے آپ سے محبت کرتا ہے۔ ظاہر ہے کوئی شخص اپنے فائدے کے لیے بھی کسی دوسرے سے محبت کر سکتا ہے۔ لیکن کیا کوئی شخص اپنے علاوہ کسی دوسرے سے اسی دوسرے شخص کی خاطر بھی محبت کر سکتا ہے جبکہ اس کا اپنا کوئی فائدہ نہ ہو؟ کمزور ذہنوں کے لیے یہ ایک مشکل سوال ہے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ بات ناقابل تصور ہے کہ وہ اپنے علاوہ دوسروں کی خاطر کسی اور سے محبت کرے جب تک کہ عاشق کو اس سے محض ادراک کے علاوہ کوئی فائدہ حاصل نہ ہو۔ لیکن حقیقت میں یہ نہ صرف قابل فہم ہے، بلکہ حقیقت میں ایسا ہوتا ہے۔ اس کے بعد غزالی انسانی تجربات سے اخذ کر کے محبت کے مظاہر کی وضاحت کرتے ہیں۔‘‘41
غزالی رقم فرماتے ہیں کہ بعض اوقات کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے بے لوث محبت کرتا ہے صرف اسی شخص کی خاطر، بغیر اپنے کسی فائدہ کے۔ وہ پوچھتے ہیں: "کیا یہ قابل فہم ہے کہ ایک انسان دوسرے سے محبت کرے اُسی کے لیے نہ کہ اپنے نفس کی خاطر؟"۔ پھر وہ جواب دیتے ہیں:
”درحقیقت تمام جانداروں میں سب سے پہلا محبوب خود انسان کی ذات ہے۔ اور اس خود پسندی کا مقصد اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے کہ آدمی کے کردار میں اپنے وجود و بقا کا رجحان پیوست ہے اور فنا ہو جانے اور برباد ہونے سے انسان کو نفرت ہوتی ہے۔ اس لیے انسان اپنی بقا (وجود) کو دائمی رکھنا پسند کرتے ہیں اور موت اور تباہی سے نفرت کرتے ہیں۔ الا یہ کہ زندگی میں کچھ اذیتیں پیش آجائیں“42
غزالی بتاتے ہیں، جسے میں محبت کا مجرد مظاہرہ کہوں گا، کہ ہم کس طرح دنیا میں محبت کا تجربہ کرتے ہیں اور اس کی شکلوں اور حقیقت پر غور کرتے ہیں جو انسانوں کے درمیان محبت کے اپنے مشاہدات پر مبنی ہے۔ بالکل یہی معاملہ انسان اور خدا کے مابین محبت کے رشتے کی بنیاد بن جاتا ہے۔
سب سے پہلے غزالی بتاتے ہیں کہ انسان اپنے آپ سے کیسے پیار کرتا ہے کہ کسی کے وجود کو برقرار رکھنا محبت کی تقریباً ابتدائی تحریک پر مبنی ہے جس کا انسان تجربہ کرتا ہے۔ کچھ لوگ اسے خود پسندی یا اپنے آپ سے محبت کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ غزالی محبت کو حقیقت کے ایک اظہار، انکشاف کی شکلوں اور محبت اور محبت کرنے والے کے مابین رشتوں اور مختلف انسانوں کے درمیان رشتوں کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اس طرح، کسی کے جسم اور اعضاء سے محبت، اولاد، خاندان، اور دوست احباب سب محبت کے دائرے کا حصہ ہیں کیونکہ یہ کسی کے وجود کو برقرار رکھتے اور بڑھاتے ہیں اور اسے مکمل کرتے ہیں۔
محبت کی دوسری شکل وہ ہے جب کسی محبت کرنے والے میں احساس ِمحبت پروان چڑھتا ہے۔ یعنی محبت کی اس دوسری قسم میں کوئی شخص دوسرے آدمی پر کوئی احسان کرے یا اس کے ساتھ حسن سلوک کرے تو جس پر احسان کیا جاتا ہے اس کے اندر اپنے محسن کے لیے تشکر و امتنان کے یہی جذبات محبت میں بدل جاتے ہیں۔ یہ ایک جذباتی ردعمل بھی ہو سکتا ہے جسے ہم محبت کہہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ دونوں یعنی وصول کنندہ (عاشق) اور احسان کرنے والا (محبوب) قیمتی چیز کا تبادلہ کرتے ہیں۔ یہ تقریباً ایک تحفہ وصول کرنے جیسا ہو سکتا ہے۔ اس کو ہم ایک آلہ کار یا فائدہ مند محبت کی مفید شکل کے طور پر بھی بیان کر سکتے ہیں کہ انسان اس سے محبت کرتا ہے جو اسے فائدہ دے اس پر احسان کرے۔ اگرچہ احسان کرنے والا اجنبی ہی کیوں نہ ہو۔ احسان ایک اہم زمرہ ہے کیونکہ یہ ایک انسان کا عمل ہے جو دوسرے انسان کے سلسلے میں انجام دیا جاتا ہے۔ توجہ، نیت اور عمل جو وصول کنندہ تک پہنچتا ہے وہ محسن کو محبوب شخص یا محبت کا سامان بنا دیتا ہے43۔
تیسری صورت یہ ہے کہ کسی سے اس کی بھلائی یا نیکی کی وجہ سے محبت کرنا۔ محبت کی یہ شکل خالصتاً نیکی کے لیے وقف ہے۔ یہ نیکی کی اندرونی فطرت سے محبت ہے۔ انسانوں میں اچھی خوبیاں اور خصلتیں انسان کو پسند ہیں، لیکن غزالی دو خوبیوں پر خصوصی توجہ دیتے ہیں جو اس دائرہ کو تشکیل دیتی ہیں: علم اور قدرت/صلاحیت۔ اس میں ہمارا تعلق ایسے رہنماؤں اور پڑھے لکھے لوگوں سے ہوتا ہے جن کو ہماری حمایت اور تعریف حاصل ہوتی ہے چاہے ہم ان سے کبھی نہ ملے ہوں اور نہ ہی ہم ایسے لوگوں کے ہم عصر رہے ہوں۔ پھر بھی ہم ایسے لوگوں کے لیے پیار اور محبت کے گہرے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
محبت کی چوتھی شکل وہ ہے جب خوبصورتی اور اچھائی کو خود خوبصورتی اور اچھائی کی خاطر چاہا جائے۔ ہم خوبصورتی اور اچھائی کا مشاہدہ کرتے ہیں، اور پھر وہ ہمارے حواس کو بیرونی طور پر متاثر کرتی ہیں۔ اندرونی طور پر یا اثر انگیز طور پر، خوبصورتی اور اچھائی کا تجربہ دل میں جذباتی ادراک کے طور پر ہوتا ہے جس کو ایسے نتیجہ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو محبت کے مترادف ہے۔ اسے یوں بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اچھائی اور خوبصورتی محبت کا ذریعہ ہیں۔ محبت کے اعلی ترین اظہار کے طور پر جمالیات ذہن میں آتی ہے۔ غزالی لکھتے ہیں:
"اس کی ایک واضح مثال انبیاء علیہم السلام اور اہل علم سے محبت ہے، نیز بلند خصلتوں اور خوشنما کرداروں سے محبت حالانکہ یہ ممکن ہے کہ ان کے چہرے اچھے نہ ہوں جسم میں کوئی خرابی ہو پھر بھی ان سے محبت ہو تو یہ قابل فہم ہے۔ باطن کی خوبصورتی سے یہی مراد ہے“44۔
عشق کی پانچویں شکل وہ ہے جسے غزالی نے عاشق اور معشوق کے درمیان ”پوشیدہ وابستگی“ کہا ہے۔ محبت روحانی وابستگی کے اظہار کے طور پر دو روحوں کے درمیان شدت اختیار کرتی ہے۔ یہاں محبت ایک ماورائی رشتے کے ذریعے موجود ہے جہاں روحیں باہم جڑی ہوتی ہیں۔
غزالی نے محبت کی شکلوں میں سب سے زیادہ جس شکل سے بحث کی ہے وہ، وہ محبت ہے جو اپنے آپ میں خود ایک مقصود ہو۔
غزالی لکھتے ہیں:
”کسی چیز سے محبت اس کی اپنی حقیقت (جوہر) کی بنا پر ضروری ہے، نہ کہ اس حقیقت سے ماوراء کسی فائدے کی وجہ سے۔ حقیقت کا تجربہ کرنا اپنے آپ میں مقصود ہے۔ یہ گہری اور مستند محبت ہے جو بڑھنے کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ یہ حسن اور جمال سے محبت کی طرح شاندار ہے۔ خوبصورتی کی ہر چیز اس انسان کو محبوب ہے جو خوبصورتی کی حقیقت (essance) کے لیے خوبصورتی کو سمجھتا ہے۔ خوبصورتی کا ادراک لذت کی حقیقت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ اور لذت کو خود اس کی حقیقت کے لیے پسند کیا جاتا ہے اس کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے نہیں45۔"
عشق کے غزالی والے مظاہر میں یہاں دو اہم باتوں کا ذکر ضروری ہے۔ سب سے پہلے، محبت کا آلہ وجود اور عمل کے درمیان ایک رکاوٹ یا وقفہ پیدا نہیں کرتا ہے۔ مسلم الٰہیات میں خدا کی ذات وجود اور عمل کے درمیان منقطع نہیں ہے، جیسا کہ عیسائیت میں خدا کے سہ رخی تصور کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ہوا، جہاں خدا اپنے وجود اور مادہ کے حوالے سے تو ایک ہی مانا جاتا ہے لیکن "اس کو ایک Oikonomia کے اندر آپریٹ کرنا ہے تو وہ مختلف ہو جاتا ہے یعنی جس طریقے سے وہ اپنے گھر، زندگی اور اپنی تخلیق کردہ دنیا کو چلاتا ہے۔ وہ اس لحاظ سے سہ رخی ہو جاتا ہے۔ (اقانیم ثلاثہ)46۔
دوسرا غزالی کی محبت پر بحث کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ محبت کو اخلاقی عمل اور کارکردگی سے جوڑتے ہیں۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اطاعت کے طریقوں میں تمام نیک اعمال (محاسن الدین) اور اعلیٰ صفات (مکارم الاخلاق) غزالی کے لفظوں میں محبت کے نتائج (ثمرۃ الحب) میں داخل ہیں47۔
اس کے پیش نظر یہ بیان یہ تاثر دے سکتا ہے کہ غزالی محبت کو عبادت کا مرکز اور بنیادی سورس قرار دے رہے ہیں۔ اور اس عام بیانیہ سے کامن ورڈ کے مصنفین کے دعووں کی سطحی تصدیق محسوس ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس نتیجے پر کوئی صرف اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب وہ دین کے لیے اپنے عہدِ اطاعت کو نظر انداز کر دے۔ غزالی کے خاکے میں رحمت کا اہم مقام ہے جو اطاعت کے ایسے رشتے کی آبیاری کرتا ہے کہ جو پھر خدا اور فرمانبردار مخلوق کے درمیان محبت پیدا کرتا ہے۔ یاد کریں کہ غزالی نے پہلے تو حیرانی سے پوچھا تھا کہ اطاعت محبت کی زائدہ کیسے ہو سکتی ہے؟ پھر انہوں نے جواب دیا تھا کہ کس طرح اطاعت کے عمل سے جسم اور روح میں محبت پیدا ہوتی ہے۔ درحقیقت یہ کہنا مناسب ہو سکتا ہے کہ محبت اور اطاعت دونوں ہم آہنگ ہیں۔ محبت اور فرمانبرداری کے تعلق پر اس سوال کا جواب خود غزالی متعدد طریقوں سے دیتے ہیں۔
غزالی کے نزدیک کچھ علماء یہ مانتے ہیں کہ محبت ایک ہی جیسی ہستیوں اور انواع کے درمیان ممکن ہے۔ لہٰذا ان کے نزدیک خدا اور انسانوں کے درمیان (دونوں میں) مطلق فرق کی وجہ سے کوئی محبت نہیں ہو سکتی ہے48۔ تاہم یہ واضح ہے کہ غزالی اس استدلال کو قبول نہیں کرتے کیونکہ مسلم روایت میں خدا اور بندے کے درمیان محبت کے رشتہ کی دعوت اور تاکید کے کافی ثبوت موجود ہیں۔
یہاں غزالی کا سب سے زیادہ قائل کر دینے والا جواب محبت کے لیے علمیاتی سہاروں کو تخلیق کرنا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ محبت کا تصور معرفت اور ادراک سے پہلے نہیں کیا جا سکتا۔ خدا اور بندے کے رشتے میں محبت خود بخود قائم نہیں ہوتی۔ اس سے پہلے کچھ اور ہوتا ہے۔ محبت سے پہلے معرفت اور ادراک کا ایک خاص مظہر ہوتا ہے۔ یہ وہی معرفت اور ادراک ہے جو سب سے پہلے اطاعت کو واجب کرتا ہے۔ اس مظہر یا معرفت کے نظام کو سمجھے بغیر محبت قابل فہم یا قابل تجربہ نہیں ہے۔ غزالی وضاحت کرتے ہیں کہ صرف انسانوں یا حساس مخلوقات کو ہی یہ ادراک حاصل ہوتا ہے49۔ غزالی کے ہاں محبت کا معرفت اور ادراک کے مظاہر سے گہرا تعلق ہے جو کہ اخلاقی فلسفہ پر اور اصول الفقہ پر ان کی سب تحریروں میں جلوہ گر ہے۔ اور اسی طرح ان کی تصنیف احیاء علوم الدین میں بھی 50۔ ان کے مطابق انسان ان چیزوں کو ترجیح دیتا اور پسند کرتا ہے جو اس کی فطرت کے مطابق ہوتی ہیں اور ان چیزوں سے نفرت کرتا ہے جو اس کے لیے ناخوشی اور تکلیف کا باعث بنتی ہیں۔
"ہر وہ ادراک جس میں لذت اور سکون ہو، دیکھنے والے کو محبوب ہے۔ اور ہر وہ ادراک جس میں درد ہوا سے اچھا نہیں لگتا“ غزالی نے لکھا51۔ یعنی آدمی ان تصورات سے لاتعلق ہوتا ہے جو نہ تو خوشی کا سبب بنتے ہیں اور نہ ہی درد کا۔
کونسا عامل کسی کو علم اور ادراک کو سنجیدگی سے لینے پر مجبور کرتا ہے؟ خدا سے محبت اور اس کے نبی سے محبت پر مقدم کیا چیز ہے؟ ان تمام پر جو چیز مقدم ہے وہ سمع و اطاعت یعنی دین کی دعوت کو سننے اور سنجیدگی سے لینے کی صلاحیت ہے۔ محبت اس کلامی نظام اور دائرہ کے اندر پروان چڑھتی ہے۔
تو اب امید ہے کہ یہ بات واضح ہو جائے گی جب میں یہ کہوں کہ غزالی کا دعویٰ ہے کہ محبت اخلاقی عمل کا بیج اور ذیلی شاخ ہے۔ محبت کی جڑ بنیاد معرفت و ادراک کے اوپر رکھی گئی ہے یا یوں کہیں کہ اس کی تہ میں معرفت و ادراک اور اطاعت موجود ہے۔ اس طرح، محبت روایت کے ذریعہ فراہم کردہ علم، ادراک اور اطاعت کی ایک مخصوص شکل کی پیداوار ہے۔ لیکن اطاعت اور اخلاقی عمل خود بخود محبت کے مماثل نہیں ہیں۔ اگر مثال کے طور پر آپ محبت کا اقرار کرتے ہیں لیکن آپ کے اندر فرمانبرداری اور اخلاقی عمل غائب ہیں تو یہ محبت کا اقرار جھوٹا اور منافقانہ دعویٰ ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ اطاعت کے عمل میں روایت کی پابندی کی جائے۔ غزالی کی نظر میں جو کچھ بھی اطاعت کے بیج سے نہیں اُگا وہ سفلی خواہش اور اخلاقی پستی کی پیداوار ہے۔ محبت شریعت سے رہائی کا بہانہ نہیں بنتی بلکہ اس کے برعکس ہے۔ دوسرے لفظوں میں محبت کو اخلاقی وجود میں تحمل یا اطاعت پیدا کرنی چاہیے۔ خدا کی فرمانبرداری، جسے بائیبل کی اصطلاح میں ناموس (nomos) کہا جاتا ہے، محبت کا ایک عمل ہے۔
غزالی کے یہاں محبت کے مظاہر خدا اور انسانوں کے درمیان تعلق کی وضاحت ہیں۔ ان مظاہر میں شامل یہ خیال ہے کہ خود شناسی کا تعلق معرفت نفس یا معرفت ِذات کی اس معروف تعلیم سے ہے کہ ”جو اپنے آپ کو جانتا ہے، وہ اپنے رب کو بھی جانتا ہے۔“ من عرف نفسہ فقدعرف ربہ 52۔ انسان خدا پر منحصر ہیں۔ خود شناسی کا فقدان خدا اور دنیا کے خالق سے جہالت کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا، محبت کو سمجھنے کے لیے نہ صرف خود علم ضروری ہے، بلکہ علم ہمیشہ انسانی صلاحیت اور طاقت سے جڑا ہوتا ہے۔
غزالی نے واضح طور پر کہا ہے: عشق الٰہی معرفتِ الٰہی کا ثمر ہے، محبت بکھر جاتی ہے جب خدا کی معرفت ختم ہو جائے۔ معرفت کے کمزور ہونے کے ساتھ ہی اس کی محبت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ خدا کے علم اور محبت کو خدا کے علم کی مضبوطی سے تقویت ملتی ہے53۔ اگر یہ کچھ بتاتا ہے تو یہ بتاتا ہے کہ محبت معرفت اور ادراک پر کتنی منحصر ہے۔ تو اس سے محبت کے اسلام اور عیسائیت کے مشترک ہونے کے سطحی دعوے کا بطلان ثابت ہوتا ہے، جب کہ حقیقت میں یہ دونوں ہی مذہبی روایات کو مجروح کرتا ہے۔ اسلامی کلامیات اور عمل میں محبت کا مقام متعدد عیسائی فرقوں کی کلامیات میں اس کے مقام سے بہت مختلف ہے۔
غزالی محبت اور خوبصورتی کے درمیان اور ساتھ ہی ساتھ خواہش اور جمالیات کے درمیان گہرا رشتہ کھینچتے ہیں۔ خوبصورتی سے محبت اپنے آپ میں خاص ہے۔ اس حد تک کہ ان کا اصرار ہے کہ یہ محبت "فطرت میں پیوست ہے“54۔ جسمانی آنکھ سے نظر آنے والی خوبصورتی اس کی بیرونی شکل ہے جبکہ "دل کی آنکھ" سے جو نظر آئے وہ اس کی اندرونی شکل ہے. مؤخر الذکر اعلیٰ اور انتہائی قابل قدر ہے۔
تجرباتی سطح پر وہ حسن و جمال جو دل کی بصیرت دیکھتی ہے اُس کا پتہ ہماری اُس محبت سے چلتا ہے جو ہمیں پیغمبروں سے، علماء و صلحاء سے اور اعلیٰ اخلاق کے حاملین سے ہوتی ہے۔ جب ہم کسی نثر پارے، کسی نظم، کسی تصویر یا کسی عمارت کے حسن کی تعریف کرتے ہیں تو غزالی بتاتے ہیں، کہ ہماری مدح و ثنا اس حقیقت کی وجہ سے ہوتی ہے کہ آرٹ کے یہ نمونے ہمارے سامنے اپنے حسن کی داخلی خصوصیات آشکارا کر دیتے ہیں۔ اور آرٹ کے ان نمونوں کا حسن دیکھنے والے کے سامنے اس لیے ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ سب ”علم و صلاحیت کی جستجو“ سے بہت قریب سے جڑے ہوتے ہیں۔ جس کا ان نمونوں کے خالق اور مصنف کو وافر حصہ ملا ہوتا ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی معلوم حسن و جمال میں رفیع و کامل ہو گا تو اس کا علم بھی کامل اور خوب رو ہو گا۔ اسی طرح کوئی قوت اپنے رتبہ میں شاندار اور عظیم ہو گی تو اس قوت کا مظاہرہ جس سے ہو گا وہ بھی مکرم اور باوقار ہو گا55۔
جب لوگ کسی سے پیار کرتے ہیں اور پورے خلوصِ دل سے تعریف کرتے ہیں تو دراصل وہ ممدوح کی اچھی صفات کی تعریف کرتے ہیں۔ امام غزالی ایک طرف تو حسن و جمال اور محبت کی شناخت کے لیے علم اور قدرت کو ضروری گردانتے ہیں دوسری طرف برے کاموں اور فساد انگیز چیزوں سے اجتناب کو بھی ضروری خیال کرتے ہیں۔ یہ دونوں زاویے ایک دوسرے کا جزء ہیں الگ نہیں۔ الہام کا ایک مرجع خدا تعالیٰ، اس کے پیغمبر، اس کی نازل کردہ کتابیں اس کے احکامات اور اس کے فرشتے ہیں۔ دوسرا منبع لوگوں کا اپنے آپ کو اور دوسروں کو خدا کی رہنمائی کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اپنے نفس اور دوسروں کو شرع کا پابند بنانا بُرے اعمال سے اپنے آپ کو روکنا اور نظم و ضبط و ڈسپلن کا مظاہرہ کرنا ہے 56۔ جو لوگ یہ عالی صفات حاصل کر لیتے ہیں وہ پیغمبروں سے محبت رکھتے، علماء کا احترام کرتے اور عدل کرنے والے اور سخی لوگوں کی مدح کرتے ہیں۔ خاص کر ان حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں کی جو ان معیاروں پر پورے اترتے ہیں۔ تاہم علم، قوت اور اعلیٰ مدارج کا حصول انسان میں محدود ہوتا ہے اور خدا کی ذات اِن صفات سے اکمل انداز میں متصف ہوتی ہے، انسان کا اس میں خدا تعالیٰ کا کوئی مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ صفات اس کے اندر کامل تر، عمیق تر اور بے نظیر معیار پر ہوتی ہیں57۔
_________________
حواشی و تعلیقات
(25) Shehadi, Ghazali's Unique and Unknowable God, 33.
(26) Ibid. (Franz Rosenzweig in The Star of Redemption (Notre Dame: Notre Dame Press, 1985), 238-239 and adherents of immanentism in dominant modes of Jewish thought, often critique Muslim theology for the aloofness of the Muslim God. Rosenzweig, for example, found it unthinkable that God did not have a "need" for humans in Islam).
فرانزروزینزویگ اوریہودی فکرمیں خداکی حلولیت کے دوسرے قائلین اکثرمسلم علم کلام پر یوں تنقیدکرتے ہیں کہ اس میں خدااتنابے نیازہے کہ اس کوانسانوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
(27) Ibid
(28) ابراہیم موسیٰ، غزالی اور تخیل کی شعریات دیکھیں۔
Moosa, Ghazali and the Poetics of Imagination.
(29) شہادی، غزالی کا منفرد اور نامعلوم خدا، 62۔
(30) الغزالی، میزان العمل، 164۔
(31) ابو حامد الغزالی، "کتاب شرح عجائب القلب"، 3:14 خاص طور پر۔ fn 4۔
(32) Moosa, Allegory of the Rule (Hukm): Law as Simulacrum in Islam?.
(33) الغزالی، "کتاب المحبۃوالشوق و الانس و الرضا"ص 1. 34 الغزالی ارمسبی، محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 1. 35۔
(34) Al-Ghazali and Ormsby, Love, Longing, Intimacy and Contentment,1
(35) Ibid
(36) الغزالی،کتاب المحبۃ 259:4
(37) Ibid 4,:257
(38) Ibid-38 4:258.
(39) Ibid-39، 4:259.
(40) Ibid
(41) الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت 12-13۔ میں نے ارمسبی کا ترجمہ بھی کچھ ترمیم کے ساتھ استعمال کیا ہے۔
(42) الغزالی،کتاب المحبۃوالشوق و الانس و الرضا4:260؛ الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 13۔
(43) Lingis- 11;subjectification, اگمبین، ایک اپریٹس کیا ہے؟
(44) الغزالی، کتاب المحبۃوالشوق 4:265؛ الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 30۔Al-Ghazali and Ormsby Love, Longing) Intimacy and Contentment)
(45) الغزالی، کتاب المحبۃوالشوق 4:261؛ الغزالی اور ارمسبی محبت، آرزو، قربت اور قناعت، 16۔
(46) Agamben, What Is an Apparatus?, 9-10.
(47) الغزالی،کتاب المحبۃ 4:295; Al-Ghazali and Ormsby Love, Longing, Intimacy and
(48) Contentment, 130. ۔ایضاص:4:257
(49) ایضاص:4:259
(50) ایضا ص167-178.
(51) ایضا ص 4:259
(52) ایضا ص 4:263.
(53) ایضا
(54) ایضا ص 4:265.
(55) ایضا
(56) ایضا ص 4:266.
(57) ایضا ص 4:265
غیر مسلم راہبروں کی اہانت کیوں منع ہے؟
مولانا زاہد الراشدی کا جواب
حافظ نصر الدین خان عمر
سوال: جب ہم مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی بلکہ مسلمان بھی نہیں سمجھتے تو اس کا بطور نبی احترام ہم پر کیوں ضروری ہے؟
جواب: یہی بات دنیا کے وہ سب لوگ کہہ سکتے ہیں جو آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی نہیں مانتے کہ جب ہمارے نزدیک وہ اللہ تعالیٰ کے نبی نہیں ہیں تو نبی کی حیثیت سے ان کا ادب و احترام ہم پر کیوں ضروری قرار دیا جا رہا ہے؟ ایسے مواقع پر بات بین الاقوامی مسلمات کے حوالے سے ہوتی ہے اور انہیں تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہمارا عالمی اداروں سے مسلسل مطالبہ ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین کو بین الاقوامی سطح پر جرم قرار دیا جائے۔ اگر عالمی ادارے ہمارا یہ مطالبہ تسلیم کر لیتے ہیں تو قانون پوری دنیا کے مجموعی ماحول کو دیکھ کر بنے گا اور انبیاء کرام علیہم السلام کی فہرست ہم سے نہیں مانگی جائے گی بلکہ جس شخص کو بھی دنیا کی آبادی کا کوئی حصہ نبی مانتا ہے وہ اس فہرست میں شامل ہو گا اور اس کی توہین اس قانون کے تحت جرم سمجھی جائے گی۔
مثال کے طور پر سکھ مذہب میں بابا گورونانک کو خدا کے فرستادہ نبی کی حیثیت حاصل ہے جبکہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے ساتھ ایمان و عقیدت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی مذہبی کتاب گروگرنتھ میں قرآن کریم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حوالہ موجود ہے، البتہ وہ خود کو مسلمان کہلانے کی بجائے نئے مذہب کا پیروکار کہتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا ان کے ساتھ کوئی گروہی تنازعہ نہیں ہے۔ قادیانیوں کے ساتھ اصل جھگڑا یہ ہے کہ وہ سکھوں اور بہائیوں کی طرح اپنی الگ حیثیت تسلیم کرنے کی بجائے مسلمانوں میں شمار ہونے پر بے جا اصرار کیے جا رہے ہیں جو انصاف کے ہر اصول کے خلاف ہے۔ ان کے ساتھ ہمارا یہ جھگڑا اس وقت تک قائم رہے گا جب تک وہ دستور پاکستان کے فیصلے کو تسلیم نہیں کر لیتے۔ البتہ زبان اور اسلوب میں تہذیب و شائستگی کو برقرار رکھنا ہماری ذمہ داری ہے جس کا ہمیں لحاظ رکھنا چاہیے۔
’’امام اعظم ابوحنیفہؒ اور عمل بالحدیث‘‘
مولانا حافظ خرم شہزاد
استاد گرامی حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب مدظلہ کے فرزندِ گرامی مولانا ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی ذہانت اور کئی خوبیوں سے نوازا ہے۔ علمی، فکری حلقوں میں ان کا ایک بڑا نام ہے۔ ان کی علمی و تحقیقی تصانیف بھی اہل علم و دانش سے خراجِ تحسین وصول کر چکی ہیں۔ ان کی باقاعدہ پہلی تصنیف ’’امام اعظم ابوحنیفہؒ اور عمل بالحدیث‘‘ تھی جو ۱۹۹۶ء میں مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ سے شائع ہوئی جبکہ ڈاکٹر عمار صاحب اس وقت اسی ادارے میں مدرس بھی تھے۔ کتاب کا موضوع اور سبب تالیف استاد گرامی مدظلہ نے اپنے پیش لفظ میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
’’اجتہاد اسلام کا ایک بنیادی اصول ہے جس کا مقصد قرآن کریم کی صورت میں وحئ الٰہی کے مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک پیش آنے والے نئے حالات و مسائل کا وحئ الٰہی کے ساتھ ربط قائم رکھنا اور قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل و مشکلات کا حل تلاش کرنا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اجتہاد کی اہمیت بیان فرمائی ہے بلکہ دیانت و اہمیت کے ساتھ اجتہاد کرنے والے مجتہد کو خطا کی صورت میں بھی اجر و ثواب کا مستحق ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ دورِ نبویؐ کے بعد ضروریات و مسائل کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے کے ساتھ ساتھ اجتہاد کا دامن بھی اس کے ساتھ ہی پھیلتا چلا گیا۔ اور بیسیوں اربابِ علم و دانش نے اس جولان گاہ میں رہوارِ فکر دوڑائے، جن میں امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعی، امام احمد بن حنبلؒ اور ظواہر کے اجتہادی اصولوں اور طریق کار کو اہل سنت والجماعت میں درجہ بدرجہ قبولیت حاصل ہوئی اور ان کی بنیاد پر مستقل فقہی مکاتبِ فکر وجود میں آ گئے۔
ان میں سے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے فقہی اصولوں اور اجتہادی مکتبِ فکر کو امتِ مسلمہ میں سب سے زیادہ پذیرائی ملی۔ چنانچہ آج بھی امت کی سب سے بڑی تعداد فقہ حنفی کی پیروکار ہے۔ اس کی وجہ عام طور پر یہ بیان کی جاتی ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد امام ابویوسفؒ کے عباسی خلافت میں قاضی القضاۃ کے منصب پر فائز ہونے سے فقہ حنفی کو اقتدار کا سایہ حاصل ہو گیا اور اس کے ذریعے اسے دنیا کے طول و عرض میں تعارف و ترویج کا موقع ملا۔ یہ بات درست ہے کہ فقہ حنفی طویل عرصہ تک برسراقتدار رہی ہے حتیٰ کہ مسلم ممالک میں استعماری قوتوں کے تسلط سے قبل دنیا کی دو بڑی مسلم سلطنتوں خلافتِ عثمانیہ اور مغل بادشاہت میں فقہ حنفی بطور قانون نافذ تھی، لیکن ہمارے نزدیک اسے قبولیت کی وجہ قرار دینے کی بجائے اس کا نتیجہ تسلیم کرنا زیادہ قرینِ انصاف ہو گا، کیونکہ اہلِ علم و دانش کے ہاں فقہ حنفی کی قبولیت اور پذیرائی کی اصل وجہ دو امور ہیں:
(۱) فقہ حنفی رائے اور عقل کے صحیح استعمال اور روایت و درایت کے توازن پر مبنی ہے۔
(۲) امام ابوحنیفہؒ نے مسائل کے استنباط و استخراج میں اہلِ علم و فن کی باہمی مشاورت اور اجتماعی بحث و مباحثہ کا طریق کار اختیار کیا۔
یہی دو اصول ہیں جنہوں نے امام ابوحنیفہؒ کو اپنے معاصرین میں سب سے نمایاں حیثیت دی اور امامِ اعظمؒ کے لقب سے سرفراز کیا ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ ایک مجتہد تھے، اور مجتہد کے اجتہادات میں صواب اور خطا دونوں کا احتمال ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اسی بنیاد پر امام صاحبؒ سے بہت سے مسائل میں ان کے معاصرین حتیٰ کہ ان کے تلامذہ نے بھی اختلاف کیا ہے اور یہ اختلاف اجتہاد کا ایک مسلّمہ اصول اور اہلِ علم کا جائز حق ہے۔
مختلف مسائل میں امام صاحبؒ سے اختلاف کرنے والوں میں تیسری صدی کے نامور محدث الحافظ ابوبکر ابن ابی شیبہؒ بھی ہیں جو محدثین میں ممتاز حیثیت کے حامل اور امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ابوداؤدؒ، اور امام ابن ماجہؒ جیسے جلیل القدر محدثین کے استاذ ہیں۔ ان کی روایت کردہ احادیث کا عظیم الشان ذخیرہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ کے نام سے معروف ہے جس سے اہلِ علم ہر دور میں استفادہ کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ انہوں نے اس کتاب کے ایک مستقل باب میں ایک سو پچیس (۱۲۵) ایسے مسائل کا ذکر کیا ہے جن میں ان کے بقول امام ابوحنیفہؒ نے احادیثِ رسولؐ کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ کے اس باب میں مذکور اعتراضات کے جواب میں ممتاز اہلِ علم نے مختلف ادوار میں قلم اٹھایا ہے اور اس امر کی دلائل کے ساتھ وضاحت کی ہے کہ ان مسائل میں امام ابوحنیفہؒ نے احادیثِ رسولؐ کی مخالفت نہیں کی بلکہ ان کے موقف کی بنیاد بھی بعض دوسری احادیثِ رسولؐ پر ہے جنہیں وہ اپنے اصولِ اجتہاد کے مطابق ترجیح دے رہے ہیں، اور یہ بات قرینِ قیاس ہے کہ اعتراض کرنے والوں کی رسائی ان احادیث تک نہ ہو سکی ہو۔ لیکن اس امر کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اردو میں عام فہم انداز میں ان مسائل پر حضرت امام ابوحنیفہؒ کے موقف اور دلائل کی وضاحت کر دی جائے تاکہ امام صاحبؒ پر حدیثِ رسولؐ کی مخالفت کے بے جا الزام کی صفائی کے ساتھ ساتھ عام پڑھے لکھے حضرات بھی امام صاحبؒ کے اسلوبِ اجتہاد سے آگاہ ہو سکیں۔
چنانچہ اسی ضرورت کے پیش نظر عزیزم حافظ محمد عمار خان ناصر سلّمہ مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور الحافظ ابوبکر ابن ابی شیبہؒ کے ذکر کردہ ایک سو پچیس (۱۲۵) مسائل کا ترتیب وار ذکر کر کے ان کے بارے میں امام ابوحنیفہؒ کے موقف اور دلائل کو عام فہم انداز میں واضح کر دیا ہے۔ جس سے امام ابوحنیفہؒ کے طرزِ اجتہاد اور روایت و درایت کے حوالہ سے فقہ حنفی کی خصوصیات کا بھی ایک حد اندازہ ہو جاتا ہے۔
یہ عزیزم عمار سلّمہ کی پہلی علمی کاوش ہے، اس لیے اہلِ علم سے گزارش ضروری سمجھتا ہوں کہ اسے اسی حیثیت سے دیکھا جائے اور اپنے ایک نووارد عزیز کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ جہاں کوئی کوتاہی یا غلطی محسوس ہو، اسے بزرگانہ شفقت کے ساتھ ضرور آگاہ فرمایا جائے تاکہ اگلا ایڈیشن زیادہ بہتر صورت میں پیش کیا جا سکے، نیز خصوصی دعا بھی فرمائیں۔ اللہ رب العزت عزیز موصوف کو اپنے عظیم اسلاف بالخصوص اپنے دادا محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم کے علوم و روایات کا صحیح امین و وارث بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
ابوعمار زاہدالراشدی
۲۲ اپریل ۱۹۹۶ء‘‘
دو سال قبل (۲۰۲۱ء میں) انڈیا کے ایک ادارے القاضی پبلشرز دہلی نے اس کتاب کو نئی کمپوزنگ کے ساتھ شائع کیا ہے جو انڈیا میں پہلا اور مجموعی طور پر دوسرا ایڈیشن ہے۔ امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور فقہ حنفی کے موضوع پر یہ ایک مثالی تحقیقی اور معلوماتی کتاب ہے جس کا ہر عالم دین کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر عمار صاحب اس پر نظرِثانی کے بعد پاکستان میں دوبارہ اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اللہ کرے یہ کتاب جلد شائع ہو اور طالبانِ علم و تحقیق کی پیاس بجھائے۔ آمین
Should Israel be Recognized?
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
The reasons for opposing recognition of Israel and diplomatic relations with it are varied:
❶ For example, the main reason is that the settlement of Jews in Palestine did not take place with the consent of the population that has been there for centuries, that is, the Palestinians. Rather, the British occupied this region in 1917 and settled the Jews in Palestine on the basis of military force.
And now the United States and its allies are using full military force to force the Palestinians to accept this forced settlement of Jews. The Palestinians do not agree to this because it is a way of tyranny and oppression that no civilized nation in the world can accept.
I think that as we have a principled stand on Kashmir, the Indian army should leave from there, and the Kashmiris should be given the opportunity to decide their future under the UN order without any pressure. Similarly, our principled position regarding Palestine and the entire Middle East should be that the United States withdraw its troops from the region, and free not only Palestine but also other countries of the Gulf from military pressure and give the people a free opportunity to decide their own future.
This is certainly the requirement of justice, and if the superior forces do not come to this in the drunkenness of power, it does not mean that we give up our position and accept injustice and tyranny as principles and laws.
❷ Then there is a practical obstacle to recognizing Israel, which without removing it would be absolutely unjust. That is, what are the borders of Israel? This has not been decided yet. Many Arab countries and the majority of the Palestinian people do not accept the partition of Palestine at all. Israel does not recognize the UN resolutions that define the borders between Israel and Palestine:
- Israel's UN-defined borders are different.
- At present, the borders of the territory occupied by Israel are different.
- Intruding all over Palestine without regard to any rule or law makes the map of its borders look completely different.
- And then, according to the ambitions of the Israeli rulers, the map of "greater Israel" that exists on record is different from all of the above.
- Along with this, Israeli Prime Minister Sharon has repeatedly announced that he will recognize the proposed state of Palestine only on the condition that its borders will not be determined and it will not have a separate army. What does this mean except that Israel is declaring its right to rule over all of Palestine and is not prepared to give the Palestinians even a small nominal state with demarcated borders?
❸ Also, before recognizing Israel, you have to reconsider your position on Jerusalem, and there are only two ways to do this: either persuade Israel to withdraw from Jerusalem, or take a U-turn yourself and decide to withdraw from Bait al-Maqdis.
All three obstacles I have mentioned are practical and obvious. If we come up with a dignified and workable solution to them, surely we should recognize Israel as a Jewish state in the same way we have been recognizing many Christian countries. In my opinion, the discussion in this regard should be on practical issues and should be on objective facts. This issue should not be further complicated by entanglement in ideological and religious debates.
(Monthly Al-Sharia, September 2003)
الشریعہ — جولائی ۲۰۲۴ء
محترم مجیب الرحمٰن شامی کی خدمت میں!
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مجیب الرحمٰن شامی صاحب ہمارے محترم اور بزرگ دوست اور ملک کے ممتاز دانشور ہیں جنہوں نے دینی و قومی تحریکات میں ہمیشہ اجتماعی ضمیر کی نمائندگی کی ہے اور اپنے دائرہ کار میں صفِ اول کے راہنما کا کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے ایک نشری گفتگو میں قادیانیوں کے شہری حقوق اور ان کے بقول قادیانیوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا تذکرہ کیا ہے اور ملک کی دینی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا کوئی حل نکالیں۔
جہاں تک مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن اور مولانا مفتی منیب الرحمٰن سمیت ملک کی دینی قیادت سے ان کا یہ تقاضہ ہے کہ وہ قادیانیوں کے شہری حقوق کے بارے میں دن بدن بڑھتی چلی جانے والی کنفیوژن کا باہمی مشاورت کے ساتھ کوئی متوازن حل نکالیں، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ بلکہ ہماری درخواست یہ ہو گی کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکاتِ ختمِ نبوت کی طرح تمام مکاتبِ فکر کی قیادتیں ایک بار پھر ’’کل جماعتی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت‘‘ کا فورم بحال کر کے اس نئی صورتحال پر اجتماعی راہنمائی اور قیادت فراہم کریں۔ جس میں حسبِ سابق قانون دان حلقوں، تاجر برادری، سیاسی راہنماؤں اور دیگر اہلِ دانش کی بھرپور نمائندگی موجود ہو تاکہ ان کا موقف اور فیصلہ پہلے کی طرح اب بھی قومی حیثیت کا حامل سمجھا جائے۔
مگر شامی صاحب محترم نے خود قادیانیوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں کا تذکرہ تو فرمایا ہے جبکہ اس میں تلخ لہجہ کی آمیزش کے ساتھ قادیانیوں کی طرف سے مسلسل سامنے آنے والی زیادتیوں کو یکسر نظرانداز کر دیا ہے، اس پر ان سے ہمارا شکوہ بنتا ہے۔ شامی صاحب محترم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہم نے دوسری غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کے مسلمہ شہری حقوق کی ہمیشہ حمایت کی ہے، بلکہ قادیانیوں کو ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم اقلیت کے طور پر قبول کرنے کا اصولی فیصلہ بھی مسلّمہ شہری حقوق کے دائرہ میں کیا گیا تھا۔ ورنہ ماضی میں اسلامی ریاست میں ختمِ نبوت کے منکرین کو غیر مسلم اقلیت کے دائرہ میں بطور شہری تسلیم کرنے کی کوئی روایت کم از کم ہمارے مطالعہ اور علم کے مطابق موجود نہیں ہے۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملک کے تمام دینی مکاتب فکر کی قیادتوں کی طرف سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا متفقہ مطالبہ ایک نئی روایت تھی جو مسلمہ دینی قیادتوں نے اجتہادی فیصلہ کے طور پر قائم کی تھی، اور اب تک وہ اس پر متفق اور قائم چلے آ رہے ہیں۔ ا سکے پیچھے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کا برطانوی حکومت سے یہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کا شمار مسلمانوں سے الگ امت کے طور پر کیا جائے اور انہیں کسی بھی حوالہ سے مسلمانوں کا حصہ نہ سمجھا جائے۔ علامہ محمد اقبالؒ کا یہ مطالبہ آج کے عالمی ماحول اور اس میں اقوام و طبقات کے مسلّمہ شہری حقوق کے دائرہ میں ہی تھا جسے دینی قیادت نے قبول کر کے قادیانیوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ شمار کرنے کا مطالبہ کیا، اور اس مطالبہ کو ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے متفقہ فیصلہ کی رو سے تسلیم کر کے دستور و قانون کا حصہ بنا لیا۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ملک میں بسنے والی دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی وہ تمام شہری حقوق حاصل ہوں گے جو آج کے عالمی عرف و قانون میں کسی بھی ملک کی کسی بھی اقلیت کے لیے تسلیم شدہ ہیں۔
مگر شامی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قادیانیوں نے دستور و قانون کے اس فیصلہ بلکہ اس کے ساتھ ملک کی اعلیٰ عدالتوں کے تمام متعلقہ فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ اور ان کے اس انکار اور ہٹ دھرمی کے باعث ۱۹۸۴ء کا وہ امتناعِ قادیانیت کا قانون لانا پڑا جس میں ان پر متعینہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ یہ پابندیاں دستور و قانون کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے کی قادیانی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھیں جو اس ہٹ دھرمی کے بدستور قائم رہنے کی وجہ سے مسلسل چلی آ رہی ہیں۔ ورنہ اگر قادیانی دستوری فیصلہ کو تسلیم کر لیتے تو ان کے لیے پابندیوں کی کسی الگ فہرست کی ضرورت نہیں تھی، بلکہ جو قوانین اور حدود دیگر اقلیتوں کے لیے موجود ہیں وہی ان کے لیے بھی کافی تھے۔
محترم شامی صاحب یہ بھی جانتے ہیں کہ قادیانیوں نے پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدالتوں کے ان فیصلوں اور قوم کے تمام طبقات اور مکاتبِ فکر کے متفقہ موقف کو نہ صرف مسترد کر رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف وہ عالمی سطح پر منفی پراپیگنڈا اور ہر سطح پر لابنگ میں بھی مسلسل سرگرمِ عمل ہیں، جو بجائے خود ملک و قوم کے خلاف سنگین جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ شامی صاحب سے گزارش ہے کہ ان کا موقف یقیناً قابل توجہ ہے اور اس پر دینی مکاتب فکر کی قیادتوں کے متفقہ غور و خوض کی ضرورت ہم بھی محسوس کر رہے ہیں مگر اس کے لیے کسی ’’ہجوم‘‘ یا ’’بے لگام مذہبی قیادت‘‘ کے خلاف غصہ نکالتے چلے جانے کی بجائے اس کے حقیقی اسباب کو بھی سامنے رکھنے کی ضرورت ہے، اور کوئی بھی یکطرفہ بات ملک کی رائے عامہ کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔
ہم بارہا اعلانیہ کہہ چکے ہیں بلکہ میں نے خود چند سال قبل چناب نگر میں منعقدہ احرار کانفرنس میں کھلے بندوں یہ عرض کیا تھا کہ قادیانی ملک کے دستور و قانون کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں اور اس کے مطابق اپنی شہری حیثیت تسلیم کریں تو ہم ان کے ان تمام شہری حقوق کی حمایت کریں گے جو آج کے دور میں مسلّمہ ہیں، اس کے بغیر ان کا کوئی واویلا پاکستانی قوم سے موقف تسلیم کرانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔
اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۴)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(511) لَا یَتَنَاہَوْنَ کا ترجمہ
لغت کے لحاظ سے ’تناھی عن‘ کے دو معنی ہوسکتے ہیں، ایک کسی کام سے باز آنا اور دوسرا کسی کام سے ایک دوسرے کو منع کرنا۔ درج ذیل آیت میں دونوں طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ لیکن موخر الذکر معنی زیادہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس لفظ کا زیادہ استعمال ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ تناھی اور انتھی دو الفاظ ہیں، جن میں سے تناھی زیادہ تر ایک دوسرے کو منع کرنے کے لیے اور انتھی باز آنے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں باز آنے کے لیے انتھی کثرت کے ساتھ آیا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں تناھی کا مطلب اگر باز آنا لیتے ہیں تو کسی خاص مفہوم کا اضافہ نہیں ہوتا ہے لیکن اگر ایک دوسرے کو منع کرنا مراد لیتے ہیں تو ان کی مزید ایک بڑی برائی کا علم ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ برائیوں کے ارتکاب کے علاوہ ان کے اندر سے نھی عن المنکر کی صفت بھی معدوم ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے برائیوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا تھا۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
کَانُوا لَا یَتَنَاہَوْنَ عَنْ مُنْکَرٍ فَعَلُوہُ۔ (المائدۃ: 79)
’’جو برا کام انھوں نے کررکھا تھا اس سے باز نہ آتے تھے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’انہوں نے جو برائی بھی کی ہے اس سے باز نہیں آتے تھے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’جس برائی کو اختیار کرلیتے اس سے باز نہ آتے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے بہتر ہیں:
’’آپس میں منع نہ کرتے برے کام سے جو کررہے تھے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اُنہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا‘‘۔ (سید مودودی)
’’(اور) برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(512) مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ترجمہ کیا گیا ہے: ’’جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَإذْ قَالَ اللّہُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ أأنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاُمِّیَ إلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللّہِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی أنْ أقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ۔ (المائدۃ: 116)
’’اور وہ وقت بھی قابل ذکر ہے جب کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے ان لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ میں تو تجھ کو منزہ سمجھتا ہوں، مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کے کہنے کا مجھ کو کوئی حق نہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور (اس وقت کو بھی یاد رکھو) جب خدا فرمائے گا کہ اے عیسیٰ بن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’غرض جب (یہ احسانات یاد دلا کر) اللہ فرمائے گا کہ ’’اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ خدا کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی خدا بنالو؟‘‘ تو وہ جواب میں عرض کرے گا کہ سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا‘‘۔ (سید مودودی)
مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ’’جس کا مجھے کچھ حق نہیں‘‘ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ’’جو میرے لیے درست نہیں ہے‘‘۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’مجھ کو کسی طرح زیبا نہ تھا کہ میں ایسی بات کہتا جو میرے لیے ہرگز درست نہیں ہے‘‘۔
مطلب یہ ہے کہ وہ بات میں کیسے کہہ سکتا ہوں جو میرے لیے کسی بھی طرح درست ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ ایک بندے کے لیے یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ وہ خود کو معبود کہے۔ گویا یہ تو بعد کی بات ہے کہ یہ کہنے کا حق تھا یا نہیں، اس سے پہلے تو یہ بات کسی طرح درست ہی نہیں تھی کہ اسے کہنے کا سوال پیدا ہوتا۔
(513) تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا
درج ذیل آیت میں لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا بیان ہے لَنَا کا، نہ کہ لَنَا پر معطوف ہے۔ اگر معطوف ہوتا تو لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا سے پہلے واو ہوتا۔
قَالَ عِیسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللَّہُمَّ رَبَّنَا أنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً مِنَ السَّمَاءِ تَکُونُ لَنَا عِیدًا لِأوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآیَۃً مِنْکَ۔(المائدۃ: 114)
’’عیسیٰ بن مریم(ع) نے (دعا کرتے ہوئے) کہا اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے قدرتی نشانی بن جائے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اس پر عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: خدایا! ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان نازل کر جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں پچھلوں کے لیے خوشی کا موقع قرار پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو‘‘۔ (سید مودودی)
درج بالا دونوں ترجموں میں غلطی سے عطف کا ترجمہ کردیا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ (اور کی بجائے یعنی) درست ہے:
’’(تب) عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما کہ ہمارے لیے (وہ دن) عید قرار پائے یعنی ہمارے اگلوں اور پچھلوں (سب) کے لیے اور وہ تیری طرف سے نشانی ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(514) لَا أُعَذِّبُہُ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں لَا اُعَذِّبُہُ آیا ہے، جو حال یا مستقبل کے لیے ہے۔ اگر لَمْ اُعَذِّبْہُ ہوتا تو ماضی کا مفہوم ہوتا۔ بعض مترجمین نے غلطی سے یہاں ماضی کا ترجمہ کردیا، ملاحظہ ہو:
قَالَ اللّہُ إنِّی مُنَزِّلُہَا عَلَیْکُمْ فَمَنْ یَکْفُرْ بَعْدُ مِنْکُمْ فَإنِّی اُعَذِّبُہُ عَذَابًا لَا اُعَذِّبُہُ أحَدًا مِنَ الْعَالَمِینَ۔ (المائدۃ: 115)
’’اللہ نے جواب دیا میں اُس کو تم پر نازل کرنے والا ہوں، مگر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا اسے میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہوگی‘‘۔ (سید مودودی)
’’ جو دنیا میں کسی کو نہ دی ہو گی‘‘۔ (احمد علی)
’’کہ عالمین میں کسی پر نہیں کیا ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
’’جیسی دنیا جہان میں کسی کو بھی نہیں دی ہوگی‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے کہ لَا اُعَذِّبُہُ کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے:
’’خدا نے فرمایا میں تم پر ضرور خوان نازل فرماؤں گا لیکن جو اس کے بعد تم میں سے کفر کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا کہ اہل عالم میں کسی کو ایسا عذاب نہ دوں گا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)
(515) وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ
کفّ عن فلان سوءًا کا مطلب ہوتا ہے: فلاں شخص سے برائی کو دور کردیا، دفع کردیا۔ فیروزابادی لکھتے ہیں: وکفَفْتُہ عنہ: دَفَعْتُہ وصَرَفْتُہ (القاموس المحیط)
درج ذیل آیت میں اللہ تعالی حضرت عیسی سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے: وَإذْ کَفَفْتُ بَنِی إسْرَائِیلَ عَنْکَ۔ الفاظ کی رو سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل کو یعنی ان کے شر کو حضرت عیسی سے دور رکھا، یا بنی اسرائیل کو حضرت عیسی پر قابو پانے سے دور رکھا۔
وَإذْ کَفَفْتُ بَنِی إسْرَائِیلَ عَنْکَ إذْ جِئْتَہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْہُمْ إنْ ہَذَا إلَّا سِحْر مُبِین۔ (المائدۃ: 110)
’’اور یاد کرو جب کہ بنی اسرائیل کے شر کو میں نے تم سے دور رکھا جب کہ تم ان کے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ان کے کافروں نے کہا کہ یہ تو بس صریح جادو ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے میں الفاظ کی رعایت نہیں ہوسکی:
’’پھر جب تو بنی اسرائیل کے پاس صریح نشانیاں لے کر پہنچا اور جو لوگ ان میں سے منکر حق تھے انہوں نے کہا کہ یہ نشانیاں جادو گری کے سوا اور کچھ نہیں ہیں تو میں نے ہی تجھے اُن سے بچایا‘‘۔ (سید مودودی)
ایک تو یہ کہ کفّ کا مطلب بچانا نہیں بلکہ دفع کرنا اور دور رکھنا ہے۔
دوسرے یہ کہ إنْ ہَذَا إلَّا سِحْر مُبِین میں ہَذَا کا ترجمہ ’یہ نشانیاں‘ نہیں ہوگا بلکہ ’جو کچھ پیش کررہا ہے‘ وہ ہوگا۔ کیوں کہ ہَذَا ہے ہَذہ نہیں ہے۔
(516) أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں غَیْرِکُمْ کا ترجمہ غیر مسلم کرنا مناسب نہیں ہے۔ جب آدمی اپنے مقام پر ہوتا ہے تو اپنے جان پہچان کے لوگوں کو گواہ بناتا ہے، لیکن جب وہ سفر میں ہوتا ہے تو اجنبی لوگوں کو گواہ بنانے پر مجبور ہوتا ہے، وہ مسلم بھی ہوسکتے ہیں اور غیر مسلم بھی۔
یَاأیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا شَہَادَۃُ بَیْنِکُمْ إذَا حَضَرَ أحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّۃِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ أوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إنْ أنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْأرْضِ فَأصَابَتْکُمْ مُصِیبَۃُ الْمَوْتِ۔ (المائدۃ: 106)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم (مسلمانوں) میں سے دو عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کرلو)‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
’’اے ایمان والو! تمہارے آپس میں دو شخص کا گواہ ہونا مناسب ہے جبکہ تم میں سے کسی کو موت آنے لگے اور وصیت کرنے کا وقت ہو وہ دو شخص ایسے ہوں کہ دیندار ہوں خواہ تم میں سے ہوں یا غیر لوگوں میں سے دو شخص ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(517) الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْأَوْلَیَانِ کا ترجمہ
درج ذیل آیت میں الْأوْلَیَانِ کا مفہوم اور اعراب سمجھنے میں لوگوں کو کافی دشواری پیش آئی اور انھوں نے تکلف سے بھرپور تاویلات اختیار کیں۔
زمخشری لکھتے ہیں: والْأوْلَیانِ الأحقان بالشہادۃ لقرابتہما ومعرفتہما۔ وارتفاعہما علی: ہما الأولیان کأنہ قیل ومن ہما؟ فقیل: الأولیان۔ وقیل: ہما بدل من الضمیر فی یقومان، أو من آخران۔ ویجوز أن یرتفعا باستحق، أی من الذین استحق علیہم انتداب الأولیین منہم للشہادۃ لاطلاعہم علی حقیقۃ الحال۔ (الکشاف)
کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
فَإنْ عُثِرَ عَلَی أنَّہُمَا اسْتَحَقَّا إثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَہُمَا مِنَ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْہِمُ الْأوْلَیَانِ۔ (المائدۃ: 107)
’’لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص جو ان کی بہ نسبت شہادت دینے کے لیے اہل تر ہوں ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی ہوئی ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’پھر اگر پتہ چلے کہ وہ کسی گناہ کے سزاوار ہوئے تو ان کی جگہ دو اور کھڑے ہوں ان میں سے کہ اس گناہ یعنی جھوٹی گواہی نے ان کا حق لے کر ان کو نقصان پہنچایا جو میت سے زیادہ قریب ہوں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ حاصل کیا ہے تو جن لوگوں کا انہوں نے حق مارنا چاہا تھا ان میں سے ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہوں جو (میت سے) قرابت قریبہ رکھتے ہوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر اگر اس کی اطلاع ہو کہ وہ دونوں وصی گواہ کسی گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان لوگوں میں سے جن کے مقابلہ میں گناہ کا ارتکاب ہوا تھا اور دو شخص جو سب میں قریب تر ہیں جہاں وہ دونوں کھڑے ہوئے تھے یہ دونوں کھڑے ہوں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’پھر اگر خبر ہوجاوے کہ وہ دونوں حق دباگئے گناہ سے تو دو اور کھڑے ہوں ان کی جگہ جن کا حق دبا ہے ان میں سے جو بہت نزدیک ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
یہاں لوگوں نے الْأوْلَیَانِ کو آخَرَانِ کا بدل بنایا، یعنی دوسرے وہ دو کھڑے ہوں جو زیادہ قریب ہوں یا زیادہ اہل تر ہوں۔ حالاں کہ الْأوْلَیَانِ واضح طور سے اسْتَحَقَّ کا فاعل ہے۔ اگر اسے فاعل نہ بناکر کچھ اور بنائیں گے تو یہ سوال باقی رہے گا کہ اسْتَحَقَّ کا فاعل کون ہے اور اسْتَحَقَّ مثنی کے بجائے واحد کے صیغے میں کیوں ہے۔
دراصل اس آیت میں الْأوْلَیَانِ کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ وہ دو افراد جو گواہ بننے کے لیے زیادہ اہل ہیں، مفسرین و مترجمین کا ذہن عام طور سے ادھر ہی گیا ہے۔ الْأوْلَیَانِ کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دو افراد جو گواہی دینے کے لیے زیادہ اہل تر قرار دیے گئے۔ یعنی جنھوں نے دوسروں کی حق تلفی کرکے آگے بڑھ کر گواہی دی۔ اگر یہ دوسرا مطلب اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے اور اعراب کی پیچیدگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک ان کا مرتکب گناہ ہونا سامنے نہیں آیا تھا وہی گواہی دینے کے لیے اہل تر اور زیادہ حق دار تھے۔
الْأوْلَیَانِ کے موخر الذکر مطلب کے مطابق ترجمہ ملاحظہ ہو:
’’پس اگر پتہ چلے کہ یہ دونوں کسی حق تلفی کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کی جگہ دوسرے دو ان میں سے کھڑے ہوں جن کی مقدم گواہوں نے حق تلفی کی ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’لیکن اگر پتہ چل جائے کہ ان دونوں نے اپنے آپ کو گناہ میں مبتلا کیا ہے تو پھر ان کی جگہ دو اور شخص ان لوگوں میں سے کھڑے ہوں جن کی حق تلفی انھوں نے کی ہے جو شہادت کے زیادہ حق دار تھے‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(518) انتقم کا ترجمہ
اردو میں انتقام کا لفظ بدلہ لینے کے معنی میں مشہور ہوگیا، اس کا اثر اردو میں ترجمہ کرنے والوں پر بھی محسوس ہوتا ہے۔ عربی زبان میں انتقم کا اصل مطلب ہوتا ہے سزا دینا۔ جب زیادتی کرنے والے کو اس کی زیادتی کی سزا دی جاتی ہے اور سزا دینے والا وہی ہوتا ہے جس کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی تو خاص اس صورت میں بدلہ لینے کا مفہوم شامل ہوجاتا ہے۔ ایک پہلو سے وہ سزا دینا ہوتا ہے اور دوسرے پہلو سے بدلہ لینا بھی ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں جہاں بھی یہ لفظ اللہ کے لیے آیا ہے وہاں سزا دینا ہی درست ترجمہ ہے۔ اللہ کے لیے بدلہ لینے کی تعبیر نہ مناسب ہے اور نہ ہی حقیقت لفظ اور حقیقت حال کے مطابق ہے۔ اللہ کو کوئی گزند نہیں پہنچاسکتا کہ اللہ اس کا بدلہ لے۔ قرآن میں جہاں جہاں انتقم کے مختلف صیغے استعمال ہوئے ہیں وہاں مجرموں کو سزا دینے کا سیاق ہے۔
القاموس المحیط میں ہے: وانْتَقَمَ: عاقَبَہ۔
لسان العرب میں ہے: وانْتَقَمَ اللہُ مِنْہُ أیْ عاقَبَہ۔
اس تفصیل کے بموجب بہتر یہ ہے کہ انتقم کا ترجمہ سزا دینا کیا جائے۔ مختلف آیتوں کے کچھ ترجمے ملاحظہ کریں:
(۱) إنَّا مِنَ الْمُجْرِمِینَ مُنْتَقِمُونَ۔ (السجدۃ: 22)
’’بیشک ہم مجرموں سے بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ہم گنہگاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’(یقین مانو) کہ ہم بھی گناہ گاروں سے انتقام لینے والے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درست ترجمہ ہوگا:
’’بیشک ہم مجرموں کو سزا دینے والے ہیں‘‘۔
(۲) فَإمَّا نَذْہَبَنَّ بِکَ فَإنَّا مِنْہُمْ مُنْتَقِمُونَ۔ (الزخرف: 41)
’’تو اگر ہم تمہیں لے جائیں تو ان سے ہم ضرور بدلہ لیں گے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اگر ہم تم کو (وفات دے کر) اٹھا لیں تو ان لوگوں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اب تو ہمیں اِن کو سزا دینی ہے خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں‘‘۔ (سید مودودی)
(۳) یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَی إنَّا مُنْتَقِمُونَ۔ (الدخان: 16)
’’جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے تو بیشک انتقام لے کر چھوڑیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جس دن ہم سب سے بڑی پکڑ پکڑیں گے بیشک ہم بدلہ لینے والے ہیں‘‘۔(احمد رضا خان)
’’جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم پورا بدلہ لے کر رہیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درست ترجمہ ہے:
’’جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم سزا دے کر رہیں گے‘‘۔
(۴) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الاعراف: 136)
’’تب ہم نے اُن سے انتقام لیا‘‘۔(سید مودودی)
’’تو ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے ان کو کیفر کردار کو پہنچادیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(۵) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الحجر: 79)
’’تو ہم نے ان سے بھی بدلہ لیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جن سے (آخر) ہم نے انتقام لے ہی لیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تو ہم نے ان سے بھی انتقام لیا‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے انھیں سزا دی‘‘۔
(۶) فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِینَ أجْرَمُوا۔ (الروم: 47)
’’پھر ہم نے مجرموں سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ پھر ہم نے گناہ گاروں سے انتقام لیا‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
درست ترجمہ ہے:
’’تو ہم نے مجرموں کو سزا دی‘‘۔
(۷) فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الزخرف: 25)
’’تو ہم نے ان سے انتقام لیا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’تو ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’آخر کار ہم نے اُن کی خبر لے ڈالی‘‘۔ (سید مودودی)
(۸) فَلَمَّا آسَفُونَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ۔ (الزخرف: 55)
’’پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’پھر جب انہوں نے وہ کیا جس پر ہمارا غضب ان پر آیا ہم نے ان سے بدلہ لیا‘‘۔ (احمد رضا خان)
درست ترجمہ ہے:
’’ہم نے انھیں سزا دی‘‘۔
(۹) وَمَنْ عَادَ فَیَنْتَقِمُ اللّہُ مِنْہُ وَاللّہُ عَزِیز ذُو انْتِقَامٍ۔ (المائدۃ: 95)
’’لیکن اب اگر کسی نے اس حرکت کا اعادہ کیا تو اس سے اللہ بدلہ لے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور جو پھر (ایسا کام) کرے گا تو خدا اس سے انتقام لے گا اور خدا غالب اور انتقام لینے والا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درست ترجمہ ہے:
’’اور جس نے دوبارہ یہ حرکت کی تو اللہ اسے سزا دے گا، اللہ سب پر غالب ہے اور سزا دینے والا ہے‘‘۔
قرآن کی سائنسی تفسیر
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری
مترجم : ڈاکٹر سید متین احمد شاہ
Baljon نے 1961ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب: 1880- 1960 Modern Muslim Koran Interpretation میں ایک حصہ قرآن کی سائنسی تفاسیر کے لیے خاص کیا ہے1۔تفسیر -خاص طور پر جدید دور میں – کے بارے میں بیسویں صدی کی ستر کی دھائی میں تین اور مصنفین- ذہبی، شرقاوی اور جانسن - کی سامنے آنے والے مرکزی تصانیف ، جو قرآن کی جدید تفسیر کے ساتھ خاص یا ان سے تعلق رکھتی ہیں، میں انھوں نے اس طرزِ تفسیر کے تجزیے اور وضاحت کے لیے ایک معتد بہ حصہ خاص کیا ہے2۔ یہ گفت گو انھی مطالعات کا تسلسل ہے۔ اس میں اس رجحان پر بات ہوگی اور کسی حد تک انھی موضوعات کا احاطہ ہوگا، جو دیگر اہلِ علم نے زیرِ بحث لائے ہیں؛ تاہم اس رجحان کا یہ مطالعہ گذشتہ صدی کے آخری چوتھائی حصے پر عمومی طور پر روشنی ڈالے گا۔ مصنف کی عربی، انگریزی اور اردو زبانوں سے شناسائی کے باعث یہ مطالعہ انھی زبانوں میں لکھی گئی تصانیف تک محدود ہوگا اور عرب ، جنوبی ایشیا اور انگریزی دنیا کا جائزہ لے گا۔
(1)
اٹھارویں صدی مسلمانوں اور اہلِ یورپ کے مابین کشمکش کے باب میں حدِ فاصل ہے۔ 1798ء میں مصر پر فرانسیسی قبضہ ان ممالک کے درمیان طاقت کے بدلتے توازن کا نقطۂ عروج تھا۔ اس صدی کے دوران میں مسلمانوں کو اہلِ یورپ کے ساتھ تعامل کا ایک بڑا موقع ہاتھ آیا۔ یہ تعامل زیادہ تران کی اپنی سرزمینوں پر پیش آیا جہاں ان کا سامنا یورپی فوجیوں، سائنس دانوں، اطبا، انجینئروں، تاجروں اور اہلِ انتظام سے ہوا، تاہم یورپ کے بعض حصوں میں بھی ان کے ساتھ تعامل ہوا جہاں ان کے طرزِ زندگی، اداروں اور رویوں کے بارے میں ان کی سوچ کی تشکیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف اگر مغربی تہذیب کے کئی ایسے پہلو تھے جنھوں نے مسلمانوں کا غصہ بھڑکایا تو دوسری طرف اس کے متعدد پہلو ایسے بھی تھے جن کی انھوں نے اپنے معاشروں میں پائے جانے والے امور سے زیادہ مدح و ستائش کی۔ یورپی جدیدیت کے پہلوؤں میں سے جس پہلو کو عام طور پر زیادہ پسند کیا گیا- اور جسے مسلمانوں نے اہلِ یورپ کی ترقی اور قوت کا سب سے بڑا عنصر بھی سمجھا – وہ ان کی غیرمعمولی ترقی تھی جو انھوں نے علم ، خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی ، کے میدان میں کی3۔
مرورِ وقت کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد جدید یورپی علم، خصوصاً طبعی علوم اور ٹیکنالوجی، کی ضرورت کے ادراک کے لیے اٹھی4۔ یہ ضرورت فکری اور عملی ضرورتوں کے تحت محسوس کی گئی۔ فکری اعتبارات سے قطعِ نظر، عملی پہلو سے علمِ جدید کا حصول مسلمانوں کے لیے واحد راستہ نظر آیا جو بڑھتی ہوئی عسکری کم زوری، معاشی بدحالی اور پس ماندگی کا مداوا ہو سکتا تھا۔ انیسویں صدی کے دوران میں مسلمانوں میں جدید یورپی علم کے نفع بخش پہلوؤں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کا احساس بڑھتا گیا۔ کئی مسلم حکم رانوں نیز مفکرین کو شدت سے اس ضرورت کا احساس ہوا۔محمود ثانی( م 1839ء) ، محمد علی پاشا(م 1849ء)، خیرالدین تیونسی (م 1889ء)، رِفاعہ الطَہطاوی (م 1871ء)، جمال الدین افغانی(م 1897ء)، محمد عَبْدُہُ (م 1905ء) اور سرسید احمدخان (م 1898ء) نے ان علوم کے حصول کی صدا بلند کی۔ جن کے پاس سیاسی قوت تھی اور عملی سطح پر انھوں نے احوال کو بہتر بنانا چاہا – جن میں سے بعض یورپ کے خیالات اور اداروں سے متاثر تھے – انھوں نے تبدیلی کا کام شروع کر دیا۔
ہماری راے میں، قرآن کی سائنسی تفسیر کے مظہر کا آغاز ،مسلمانوں کو طبعی علوم کے حصول کے لیے مہمیز دینے کے علم کے طور پر شروع ہوا۔ یہ استدلال پیش کیا گیا کہ مسلمانوں سے ایسا کرنے کا مطالبہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہے، اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور یہ بہت قابلِ ستائش کام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس موضوع کے ساتھ نئے موضوعات اور دلائل جمع کیے گئے، جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔ ان میں سے اہم ترین بات یہ تھی کہ قرآن (اور حدیث) میں ایسی متعدد سائنسی صداقتیں موجود ہیں، جن کا انکشاف نزولِ قرآن سے بہت بعد میں ، موجودہ دور ہی میں ہو سکا ہے۔ جن قرآنی آیات میں اس طرح کی سائنسی صداقتوں کا وجود سمجھا گیا، انھیں بڑی قوت کے ساتھ قرآنی کی اعجازی حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس استدلال میں یہ بات شامل تھی کہ قرآنِ کریم تخلیقِ کائنات کے بارے میں بنیادی حقائق، بلکہ سائنسی حقائق اور قوانین کے ایک بڑے ذخیرے، جیسے بگ بینگ تھیوری (Big Bang) پر مشتمل ہے۔ یہ باتیں اس حقیقت کے اثبات کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قرآن، محدود انسانی علم کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے غیرمحدود علم پر مشتمل ہے۔ ان امور کی روشنی میں اب کئی مسلمان اہلِ علم کی طرف سے یہ بات کثرت سے کہی جا رہی ہے کہ قرآن نہ صرف علمِ خداوندی، حیات بعدالموت اور ان اصولوں پر مشتمل قابلِ اعتماد مصدر ہے جن پر انسانی طرزِ عمل کو استوار ہونا چاہیے، بلکہ وہ سائنسی علم کا بھی ایک قابلِ اعتماد مرجع ہے5۔
گذشتہ چودہ صدیوں میں تفسیرِ قرآن کے پیچھے یہ عنصر کارفرما رہا ہے کہ اس میں انسان کے لیے ہدایت کا سامان ہے تاکہ وہ موجودہ دنیا اور آخرت میں ایک اچھی زندگی گزار سکے۔ اس کا سب سے پہلا مطالبہ ایمان کا ہے جو اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے کہ اس ایمان کے اجزا کی تفصیلی وضاحت کرے۔دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کا عمل تقویٰ پر مبنی ہو۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، آیت ’’إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات‘‘ کی توضیح پورے قرآن میں کی گئی ہے، اس لیے یہ کہنا شاید غلط نہیں ہو گا کہ جس مرکزی بات کی طرف قرآن توجہ دلاتا ہے، وہ صراطِ مستقیم کی توضیح ہے جو ایمان اور عملِ صالح کا جامع ہے6۔
مسلمان ہمیشہ یہ بات سمجھتے رہے ہیں کہ قرآن انسان کی اس بنیادی ضرورت کے ضروری علم پر مشتمل ہے، تاہم انھوں نے بمشکل ہی اس کو تمام میدانوں کے لیے تفصیلی علم کا مصدر سمجھا ہے۔ جو لوگ اس نظریے کی طرف میلان رکھتے ہیں یا انھیں اس کا قائل سمجھا گیا ہے کہ قرآن میں ہر چیز بشمول سائنس کا علم ہے، معدودے چند رہے ہیں اور انھیں متعین کرنا ممکن ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے کہ ان کا رویہ جمہور مسلمان اہلِ علم سے منحرف رہا ہے۔محمد حسین الذہبی، جنھوں نے قرآن کی سائنسی تفسیر کی بنیادیں ابتدائی عہد کی مسلم فکری روایت میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اس حوالے سے صرف یہ نام پیش کر سکے ہیں: غزالیؒ، جلال الدین سیوطیؒ اور ابوالفضل المُرسی7۔اس طرح کے اہلِ علم کے جو اقوال ملتے ہیں -جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ قرآن مخصوص سائنسی معلومات کا مصدر ہے- مبہم سے ہیں اور ان کا اسلوب یقینی نہیں ہے8۔
(2)
سائنسی تفسیر کا رجحان انیسویں صدی کے نصفِ آخر کے کچھ مسلمان اہلِ علم کی تحریروں میں نمایاں یا کسی حد تک ممتاز ہوا ہے۔ان میں سے ایک مصری طبیب محمد بن احمد الاسکندرانی ہیں جنھوں نے 1880ء میں قاہرہ سے ایک کتاب ’’كشف الأسرار عن النورانيۃ القرآنيۃ فيما يتعلق بالأجرام السماويۃ والأرضيۃ‘‘ اور ایک دوسری کتاب 1883ء میں استنبول سے شائع کی۔اس کتاب کا عنوان’’تبيان الأسرار الربانيۃ في النبات والمعادن والخواص الحيوانيۃ‘‘ تھا۔ان دونوں کتابوں میں مصنف نے طبعی علوم سے متعلق بعض سوالات کی تشریح ان قرآنی آیات کی روشنی میں کی ہے جو مصنف کو سوالات کے جواب کے سلسلے میں مفید مطلب معلوم ہوئیں۔ مصر میں اس رجحان کی ترجمانی احمد مختار الغازلی (مصنف’’رياض المختار‘‘) ، طبیب عبداللہ فکری باشا، محمد توفیق صدقی (م1920ء، مصنفِ کتاب’’الدين في نظر العقل الصحيح‘‘، قاہرہ 1323ھ) اور عبدالعزیز اسماعیل، (مصنفِ کتاب’’الإسلام والطب الحديث‘‘، قاہرہ 1938ء) نے کی۔
تاہم یہ رجحان طنطاوی جوہری کی تحریروں، خصوصاً ان کی تفسیر’’الجواھر في تفسير القرآن الكريم‘‘ (1940ء)، میں اوجِ کمال پر پہنچا9۔ یہ 26 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ہے۔ جوہری نے بڑے زوروشور سے کہا کہ قرآن کی 750 آیات ایسی ہیں جو واضح طور پر طبعی کائنات سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر متعدد دیگر آیات بھی ہیں ، جو، ان کے نزدیک، اگرچہ طبعی کائنات سے اس سطح کا براہ راست تعلق نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف جوہری کہتے ہیں کہ قانونی امور سے متعلق آیات 150 سے زیادہ نہیں ہیں10۔ وہ مسلمان اہلِ علم پر سخت انداز میں تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کے اساسی اہمیت کے موضوع، طبعی علوم، سے لاعلمی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے بجائے فقہ پر زیادہ توجہ مبذول کی ہے، جوان کے نزدیک، کم اہمیت کی چیز ہے۔ جوہری یہاں ایک بار پھر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ترجیحات کی ترتیب تبدیل کریں اور سب سے زیادہ اہمیت طبعی علوم کو دیں۔ حسبِ ذیل اقتباس اس موضوع پر جوہری کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے:
اے امتِ اسلام!... میراث کی چند ایک آیات ہیں، جن میں ریاضی کا صرف ایک حصہ شامل ہے، لیکن ان 750 آیات کا کیا کیجیے جن میں کائنات کی تمام نیرنگیاں سما گئی ہیں؟ یہ سائنس کا دور ہے، یہ [اپنی مکمل شکل میں ] نورِاسلام کے ظہور کا زمانہ ہے، یہ عہدِ ترقی ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہمیں کونی علوم سے متعلق آیات پر اسی نہج پر توجہ کیوں نہیں دینی چاہیے جس پر چل کر ہمارے اسلاف نے آیاتِ میراث پر توجہ دی؟ میں، الحمد للہ، یہ بات کہتا ہوں کہ آپ کو اس تفسیر میں سائنسوں کا لُبِ لُباب ملے گا۔ ان علوم کا مطالعہ، میراث کے مطالعے سے زیادہ برتر ہے، کیوں کہ اول الذکر کی حیثیت ’فرضِ کفایہ‘ کی ہے، جب کہ ثانی الذکر کا مقصود علم میں ترقی ہے جو عمیق ایمان کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کی حیثیت ہراس شخص پر ’فرضِ عین‘ کی ہے جو ان کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہو11۔
اوپر کی بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں، جنوبی ایشیا کے علما کے مقابلے میں، مصری علما ’سائنسی تفسیر‘ کے حوالے سے زیادہ معروف تھے، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرسید احمد خان سائنس اور سائنسی افکار سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور ان کی دینی آرا پر ان کے عہد کے سائنسی خیالات کا رنگ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سرسید کے ہم مذہبوں کی نظر میں وہ اس معاملے میں اس حد تک جا چکے تھے کہ انھیں ’نیچری‘ کا تحقیر آمیز خطاب ملا۔ سرسید نے قرآنی آیات کے ایک بڑے حصے کی تفسیر طبعی علوم کے دائرے میں رہ کر کی، یہاں تک کہ انھوں نے معجزات پر مبنی آیات کی تشریح بھی اسی انداز سے کی۔ سرسید کا کہنا تھا کہ سائنسی حقائق تک رسائی کے لیے سماوی صحیفوں کی طرف دیکھنے کے بجائے ابتدائی طور پر سائنسی طریقِ کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ سرسید نے مذہب اور سائنس کے مابہ النزاع امور کے ساتھ ایک طویل عرصہ زورآزمائی کی اور ایسے اصولوں کے استخراج کی کوشش کی جو دونوں کے درمیان مطابقت کا کام دے سکیں۔ اس کشمکش کے حل کے لیے انھوں نے فطرت کو ’Work of God‘ (فعلِ خداوندی) اور قرآن کو (جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں) ’Word of God‘ (قولِ خداوندی)کہا۔ ان کا یہ پختہ نظریہ تھا کہ ’ورڈ آف گاڈ ‘اور ’ورک آف گاڈ ‘میں کبھی تعارض نہیں ہو سکتا۔ جن صورتوں میں کہیں تعارض ہے تو اس کے حل کے لیے سرسید نے مختلف اصول وضع کیے۔ تاہم جب ہم ان کی تفسیر یا تحریروں کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کا رجحان ’ورک آف گاڈ‘ کی طرف ، ’ورڈ آف گاڈ‘ کی بنسبت زیادہ ہے12۔
مُرُورِ وقت کے ساتھ سائنس اور مذہب (یا صحیح لفظ میں اسلام) کے درمیان خطوطِ امتیاز موجودہ صدی میں کئی مسلم مفکرین کے ذہنوں میں دھندلے ہوتے چلے گئے، تاہم اس رجحان کا ارتقا اسلام اور سائنس کے تعلق اور طبعی علوم کے مسائل کی تفہیم سے تعلق رکھنے والی آیات کی تفسیر کے صحیح منہج کےحوالے سے ایک نہیں بلکہ کئی نقطہ ہاے نظر اور رجحانات کے ظہور کا باعث بنا ہے۔
ایک موضوع جس سے سابقہ، معاصر اسلامی مباحث میں کثرت سے پیش آ رہا ہے، یہ ہے کہ قرآن سائنس کے حصول کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے متعدد آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں اللہ کی نشانیوں کے طور پر قدرتی مظاہر کا ذکر کیا جاتا ہے یا جن میں انسان کو ان مظاہر پر تدبر اور مشاہدے کی ترغیب دی جاتی ہے13۔ دوسرے لفظوں میں یہ آیات اس غرض کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قدرتی مظاہر کے صحیح مشاہدے سے انسان کا سائنسی علم ترقی کرتا ہے جو کہ مطلوب ہدف ہے۔ اس طرح سائنس کا حصول نہ صرف کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم (کائنات میں جاری قوانین کا علم ) حاصل کرنے اور اسے مسخر کرنے کی انسان کی مخفی تمنا کا جواب ہے، بلکہ یہ ایک دینی عمل اور فریضہ بھی ہے۔
اس تصور کی سب سے طاقت ور تعبیر ہمیں جنوبی ایشیا کے معروف فلسفی شاعر محمد اقبال (م1938ء) کے ہاں ملتی ہے۔ اس فکر کی تعبیر یوں تو ان کے مختلف اشعار میں بیان کی گئی ہے، لیکن سب سے زیادہ مؤثر اور مربوط انداز میں ، جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے، اسے The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں بیان کیا گیا ہے۔ اقبال نے قرآن کی کئی آیات نقل کی ہیں جو یا تو فطرت کے مظاہر میں (خدا کی) ’نشانیوں‘ کو بیان کرتی ہیں، یا اہلِ ایمان کو ان پر غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے تقریباً وہی آیات نقل کی ہیں جنھیں موجودہ صدی کے دیگر مسلم اہلِ علم نے نقل کیا ہے14، لیکن اقبال نے ان آیات کو نسبتاً بڑی معنویت کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک تو اس پہلو سے کہ ان آیات نے مسلم فکر کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے اور نتیجتاً تاریخِ انسانیت پر ان کا اثر بہت گہرا ہے۔
اقبال کا خیال ہے کہ اس کائناتی تدبر میں قرآن کا براہِ راست ہدف ، انسان میں اس چیز کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی علامت یہ فطرت ہے15۔ اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ آیات جو کائنات پر تدبر کی دعوت دیتی ہیں، وہ اسلامی ثقافت کی حقیقی روح کی ترجمان ہیں، کیوں کہ معرفت کے مقاصد کے لیے ان کا ارتکاز متناہی اور محسوس امور پر ہوتا ہے16۔ یہ علامت فکر اور اسلامی تہذیب کی امتیازی علامت ہے جو اسے یونانی فکر سے ممتاز کرتی ہے جس کے ساتھ اپنی تاریخ کے آغاز میں اسے تعامل کا سابقہ پیش آیا تھا۔ یونانی فکر زیادہ تر حقیقت کے بجائے نظریے سے اعتنا کرتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ہم اقبال کی طرف رجوع کرتے ہیں:
قرآن حقیقتِ اعلیٰ کی نشانیاں فطرت کے تمام مظاہر میں دیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غور و فکر کرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے، کیوں کہ وہ انسان جو ان آیات کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا، وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ زندگی کے ٹھوس حقائق کے مشاہدے کی اس دعوت اور نتیجتاً آہستہ آہستہ پیدا ہونے والے اس احساس سے قرآن کی تعلیمات کے مطابق کائنات اپنی اصل میں حرکی اور متناہی ہے اور فروغ پذیری کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلم مفکرین اور اس یونانی فکر کے درمیان کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی جس کا انھوں نے اپنی فکری تاریخ کی ابتدا میں بڑے انہماک سے مطالعہ کیا تھا17۔
اوپر ذکر کردہ وجوہات کی بنا کر یہ بات باعثِ تعجب نہ ہو گی کہ اقبال کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسلام کا ظہور ، استقرائی عقل کا ظہور تھا18۔ اقبال مسلمان اہلِ علم اور سائنس دانوں کے کردار سے واقف تھے جو انھوں نے علم کی مختلف شاخوں، جیسے ریاضی، فلکیات، طبیعیات اور کیمیا میں ادا کیا۔ یہ حصہ اگرچہ علم کے متعین میدانوں سے تعلق رکھتا ہے، تاہم جس چیز نے اقبال کو حقیقی معنیٰ میں خوشی سے سرشار کیا، وہ عقلِ انسانی کے ارتقا میں اسلام کا تاریخی رول تھا۔ تاریخ میں اسلام کا مرکزی کردار یہ تھا کہ اس کی تعلیمات کے زیرِ اثر سائنسی روح اور سائنسی منہاج کا وہ راستہ ہم وار ہوا جو آج کی جدید سائنس کی برومندیوں کا مصدر ہے19۔
اقبال نے جس بات پر زور دیا ہے، وہ اسلام اور سائنس کے سوال کی معاصر بحث کا ایک جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔ اس موضوع پر لکھنے والے متعدد عظیم مسلم مصنفین پورے طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ فطری مظاہر سے تعلق رکھنے والی یا ان پر غور و فکر پر ابھارنے والی آیات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سائنسی ابحاث میں دل چسپی لیں اور یہ چیز اسلام کے ضروری مطالبات میں سے ہے۔جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اقبال اس بات سے آگاہ تھے کہ قرآن کی طرف سے عائد کردہ اس تدبرِ فطرت کا بنیادی ہدف ، انسان میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی یہ فطرت ایک علامت ہے20۔ اس موضوع پر جو لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے، اس کے وسیع مطالعے اور اس باب میں پیش کیے گئے اساسی امور پر توجہ مبذول کرنے سے انسان جو تاثر لیتا ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کا مذکورہ بالا ملاحظہ (جس کی بنت کاری اتنے مربوط اور دقیق اسلوب میں کی گئی ہے کہ معدودے چند عقول ہی اسے گرفت میں لے سکتی ہیں۔ )اپنے قارئین اور سامعین پر قابلِ ذکر اثر نہیں مرتب کر سکا۔ ذاتی طور پر اقبال کا روحانیتِ اسلام اور اس کی تعلیمات پر یقین اس قدر راسخ اور ان کی ذات کا جزوِ لازم تھا کہ ان کے نزدیک مشاہدۂ کائنات کے تصور سے خالق کی تذکیر ایک ناگزیر امر ہے۔ اقبال کے بعد کی نسلوں کے ہاں بظاہر لگتا ہے کہ مظہرِ فطرت ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ ’سائنسیت‘ اور انسان کی خدمت کے لیے قوانینِ فطرت کی دریافت کا نام ہے۔
(3)
حالیہ عشروں میں مسلمان اہلِ علم نے اس گفت گو کے ضمن میں ایک موضوع متعارف کروایا ہے، جو اگرچہ اس سے پہلے بھی اسلامی روایت کا جز رہا ہے، تاہم وہ کسی حدتک نیا ہے۔ ہم یہ بات دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اقبال نے پوری قوت سے تجربی طریقِ کار کو متعارف کروانے میں اسلامی کلچر کے رول پر زور دیا ہے جو ان کے نزدیک سائنسی حقائق تک رسائی کا وسیلہ ہے، تاہم ایسا نہیں لگتا کہ اقبال تجربے اور مشاہدے پر اعتماد کیے بغیر محض قرآن کے گہرے مطالعے کی اساس پر یہ باور کرتے ہیں کہ علم کی حدود اور آفاق کی توسیع کی جا سکتی ہے اور یہ کہ صرف سماوی کتاب سائنسی تحقیق کا بدل ہو سکتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسلام اور سائنس کی حالیہ بحث میں ایسے کوئی حتمی تصورات نہیں ملتے جو تجربی طریقِ کار کے مؤثر ہونے کی نفی کرتے ہوں، تاہم اس تصور پر زور دیا جاتا ہے کہ قرآن سائنسی حقائق کا خزینہ ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ انسان اکثر اس بات پر متحیر ہوتا ہے کہ دو مصادر -قرآن اور سائنس دانوں کے استعمال کردہ تجربی طریقِ کار- کے درمیان اصل تعلق کیا ہے؟ تاہم یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔
بظاہر لگتا ہے کہ قرآن کے تمام علوم کا مخزن ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے جو بات محرک ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن پر لوگوں کے ایمان کو راسخ کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں اس کا مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ دیگر اسبابِ اعجاز -لغوی وغیرہ- کے علاوہ قرآن اعجاز کے ایک بہت مؤثر پہلو، سائنسی اعجاز کا بھی حامل ہے21۔
ایک معروف معاصر ماہرِ ارضیات زغلول نجار ہیں جو علومِ ارض کے ساتھ اسلام سے متعلق بھی وسیع علم رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن تکرار کے ساتھ پہاڑوں کے زمین کی میخیں ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ یہ پہاڑ زمین کی اوپر کی سطح کو نہ صرف ہلنے سے روکے ہوئے ہیں، بلکہ وہ زمین کے ٹھہراؤ کے لیے میخوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ نجار کہتے ہیں کہ یہ حقیقت قرآن کے نزول کے تیرہ صدیوں کے بعد انیسویں صدی کے نصف میں جا کر معلوم ہو سکی ہے22۔ پہاڑوں کے بارے میں آخری دور میں علوم جن حقائق تک پہنچے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نجار کہتے ہیں: ’’یہ ان بے شمار شہادتوں کی چند مثالیں ہیں جو قرآن کے الوہی مزاج اور رسالتِ محمدیہ کے صدق کا اثبات کرتی ہیں کہ کسی بھی انسان کو انیسویں صدی کے نصف سے پہلے ان حقائق کا پتا نہیں تھا اور 1960ء سے پہلے یہ بات اس شکل میں سامنے نہیں آئی تھی۔ ‘‘23
موریس بوکائی کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس گذشتہ دو عشروں سے مسلمانوں میں نہایت مقبول رہی ہے۔ اس کتاب کا مرکزی تصور یہ ہے کہ سائنسی طریقِ کار سے قطعی طور پر ثابت شدہ مواد اور وحی کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے۔ بوکائی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآنی متن اور جدید سائنسی حقائق کے درمیان مطابقت کا مطالعہ کیا ہے24 اور اس مطالعے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ قرآن میں کوئی ایک بھی بیان ایسا نہیں ہے کہ جدید سائنسی نقطۂ نظر سے اس کی تردید ممکن ہو25۔ انھوں نے اسی طریقِ مطالعہ کو بائبل پر بھی منطبق کیا لیکن نتائج بالکل مختلف تھے۔ یہاں تک کہ اس کی پہلی کتاب، کتابِ پیدائش میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو جدید سائنسی حقائق سے مکمل طور پر بعید ہیں۔)26 (یہ بات اہم ہے کہ بوکائی نے کتاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے:
حضرت محمد ﷺ کے زمانے کی معلومات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابلِ تصور معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کے بہت سے وہ بیانات جو سائنس سے متعلق ہیں، کسی بشر کا کام ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات مکمل طور پر صحیح ہے کہ قرآن کو وحی ِ آسمانی کا اظہار سمجھا جائے، لیکن ساتھ ہی اس استناد کے سبب جو اس سے فراہم ہوتی ہے، نیز ان سائنسی بیانات کی وجہ سے جن کا آج بھی مطالعہ کرنا بنی نوعِ انسان کے لیے ایک چیلنج ہے، اس کو ایک انتہائی خصوصی مقام حاصل ہے27۔
مصر کے عبدالرزاق نوفل نے اسلام اور سائنس کے تعلق پر متعدد معروف کتابیں تحریر کی ہیں۔ اپنی کتاب القرآن والعلم الحديث کے بالکل ابتدائی باب إعجاز القرآن میں مصنف قرآن کو ایک ’معجزۂ سرمدی‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ذکر کرتے ہیں کہ ماضی میں مسلمانوں نے قرآن کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا جیسے اس کی بلاغت، ادبی اسلوب، نغماتی وصف، پیش گوئیاں (جن کی تائید رونما ہونے والے واقعات نے کی۔) اور اس کے تشریعی احکام28۔ نوفل آگے چلتے ہوئے کہتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں قرآن کا سائنسی اعجاز ، ناقابلِ انکار حقیقت بن گئی ہے۔ ’’جدید دور میں علوم کی فکری پیش رفت نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ قرآن ، سائنس کی کتاب ہے جس نے تمام علوم و حکمت کی بنیادیں پیش کر دی ہیں۔جب بھی علم کی کوئی نئی شاخ سامنے آتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے یا تو پہلے ہی اس طرف متوجہ کیا ہوتا ہے یا کم از کم اس کی طرف اشارہ دیا ہوتا ہے۔‘‘29 نوفل آگے چل کر قرآن کے سائنسی معجزات کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے قرآن کی ایک یا زائد آیات ذکر کرتے ہیں اور پھر ہمارے دور کے مسلمہ سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں جو قرآن سے مطابق معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے:’’أنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا ‘‘(الأنبياء: 21: 30۔) (آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں پھاڑ دیا۔) جب Laplace نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا، تو نوفل کہتے ہیں: ’’یہ بات سائنس کی فتح مندی سمجھی گئی، اگرچہ قرآن نے یہ بات صدیوں پہلے کہ دی تھی۔‘‘(کذا) 30 نوفل کہتے ہیں کہ ’’اگر ہمیں غیر عرب دنیا کو بھی مخاطب کرنا ہے کہ قرآن ایک سائنسی معجزہ ہے، [ایسی کتاب] جو جدید سائنس کی مبادیات ، حتی کے اس کی نئی ترقیوں پر بھی مشتمل ہے، تو پھر کیا قرآن کا یہ معجزاتی پہلو اہلِ مغرب کو اس کی اعجازی نوعیت کے بارے میں قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا؟ ‘‘31
ایک دوسرا علمی کام جو مسلمانوں میں غیر معمولی دل چسپی کا موجب بنا ہے، کیتھ ایل مور(Keith L.Moore) کی علم الجنین (Embryology) پر معروف کتابThe Developing Human ہے۔ ہم یہاں اس کے تیسرے ایڈیشن کا حوالہ دے رہے ہیں جو عبدالمجید زِندانی کی طرف سے’’ قرآن و حدیث کے تعلق سے مطالعہ: اسلامی اضافہ جات کے ساتھ‘‘ شائع ہوا تھا۔ زندانی یمن کے معروف عالم ہیں جو اعجازِ قرآن و سنت کی کمیٹی (جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔) کے روحِ رواں رہے ہیں۔
مُور کی کتاب پر اپنے دیباچے میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ اس کتاب کا متن پہلے والا ہی ہے ’’البتہ انسانی جنینیات کے حوالے سے قرآن وسنت کے بیانات کے متعدد حوالہ جات کا اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اول تو مجھے علم الجنین کے وجود سے پہلے ساتویں صدی عیسوی میں محفوظ کیے گئے ان بیانات کی درستی پر حیرت ہوئی۔ اگرچہ مجھے دسویں صدی میں شان دار مسلم تاریخ کے سائنس دانوں اور طب کے میدان میں ان کی کچھ کارکردگی سے شناسائی تھی، لیکن مجھے قرآن وسنت میں موجود حقائق کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسلامی اور دیگر طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم الجنین کے بارے میں ان قرآنی بیانات کے مفاہیم کو معاصر سائنسی علم کی اساس پر سمجھیں۔ (یہ بات بڑی تاکید سے کہی گئی ہے۔) ‘‘32
اس مقالے کی مقصد کے پیشِ نظر ہمارے لیے بنیادی دل چسپی کی چیز کیتھ مور کا نقطۂ نظر نہیں ہے، بلکہ ہماری اصل دل چسپی ان ’’اضافہ جات‘‘ ، طریقِ مطالعہ اور ان ’’اضافہ جات ‘‘کے بین السطور مقاصد سے ہے۔ یہ بات قابلِ ملاحظہ ہے کہ ’’اضافہ جات‘‘ ، علم الجنین سے متعلق قرآن وسنت کے مواد کے بہت جامع اور محتاط مطالعے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جہاں تک اس کام کے مقصد کا تعلق ہے، اس کے لیے عبدالمجید زندانی کے قلم سے ’’اسلامی اضافہ جات کے تعارف‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ:
قرآن و حدیث کئی مقامات پر اللہ کی تخلیق پر عمیق غور و فکر اور مشاہدے کے لیے انسان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بیان کردہ متعدد میدانوں میں، جدید طریقوں کے استعمال کے ذریعے ، جدید تحقیقات نے حیرت انگیز ملتے جلتے نتائج پیش کیے ہیں۔ جوہری اعتبار سے چودہ سو سال قبل پیش کردہ قرآن و سنت کے واضح بیانات اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر ثابت شدہ عصرِ حاضر کے حقائق کے درمیان اتفاق ہے۔ ایک طرف قرآن و حدیث کی نصوص اور دوسری طرف ثابت شدہ سائنسی حقائق کے اس دل چسپ اتفاق کی طرف مسلمانوں اور غیر مسلموں کی توجہ مبذول کی گئی تھی۔۔۔ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والی قرآنی نصوص اور آپ کی احادیث میں ، جنین (Embryo) کے ارتقا کے مراحل کے بارے میں موجود معلومات کو پا کر علم الجنین کے ماہرین کو حیرت ہو گی۔ یہ نصوص ان حقائق سے نقاب کشائی کرتے ہیں جن سے متعلق ساتویں صدی عیسوی میں قرآن کے نزول کے بعد مدتوں تک انسان کو غلط فہمی لاحق رہی ہے۔ یہ بات کہنے کی حاجت نہیں کہ سائنس کی قرآنی نصوص کے ساتھ مکمل ہم آہنگی واضح ہو جائے گی ، کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا علم سچا ہے۔‘‘33
(4)
ہم نے اہلِ علم کے بیان کردہ جو متاثر کن شواہد ذکر کیے ہیں ( اور کئی اور بھی جو جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر درج نہیں کیے جا سکے۔) ان کے باوجود بعض بہت سنجیدہ سوالات ہیں جو قرآن اور سائنس کے تعلق کے بارے میں ہیں، جو ہنوز نہایت عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ تعرض کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
جو اہلِ علم قرآن کے سائنسی معجزات کے تصور کی بات کرتے ہیں، ان کے موقف کی ایک کم زوری، ان کی طرف سے قرآن اور سائنس میں مطابقت دکھانے کی غیر سنجیدہ جلد بازی ہے۔ وہ اس جذبے سے اس حد تک بے قابو ہو جاتے ہیں کہ علمی احتیاط اور فکری بلوغ کا خون ہو جاتا ہے۔ وہ نتائج نکالنے میں جلدی کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ کسی حقیقت کو جاننے سے زیادہ ان پر کسی نظریے کے اثبات کی دھن سوار ہے۔ معاصر اسلامی ڈسکورس عجلت پسندی اور فکری پختگی کی کمی کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے اپنا اختصاص اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں بگ بینگ جیسے سائنسی نظریات کا معاینہ کر سکوں کہ آیا وہ قطعی طور ثابت شدہ ہیں یا محض مفروضات ہیں؛ لیکن مسلمان اہلِ علم کا ایک پورا گروہ ہے جو اپنے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر قرآن کی طرف دوڑتا ہے تاکہ اس کی ایک یا دو آیات کے بیان سے اس کی عظمت کو ثابت کرے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ قرآن نے برسوں پہلے یہی حقیقت بیان کی تھی جو سائنس دان اب کہ رہے ہیں۔ (ہمارے نزدیک اگر قرآن میں بگ بینگ تھیوری کی تائید میں کوئی آیت نہ بھی ہوتی، تب بھی وہ اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے مقدس ہی ہوتا۔) تاہم آئیے ہم مذکورہ جذبے کے حوالے سے قرآن سے کچھ مثالوں کو سامنے رکھتے ہیں جنھیں بظاہر قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے جدید نظریات کے اثبات کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
ہم ایک کتاب پر نظر ڈالتے ہیں جو حالیہ سالوں میں مسلمان اہلِ علم کے درمیان گردش کرتی رہی ہے جسے نور باقی نے تصنیف کیا۔ اس میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ بگ بینگ تھیوری کی تائید سورۂ فلق 113: 2 آیت سے ہوتی ہے۔ فعل، فلق کا معنی ہے پھاڑنا، شگاف ڈالنا۔۔ٹکڑے کرنا، توڑنا34۔ سورۂ فلق کی اس آیت میں، سورت کے سیاق کے پیش نظر، علما نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے "کہ دیجیے میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں۔" آیت میں چوں کہ 'فلق' کا معنیٰ موجود تھا، اس سے ہلوک نور بکی نے غلط طور پر یہ مفہوم مراد لیا کہ یہاں بڑے دھماکے (بگ بینگ، جو کائنات کے وجود میں آنے کا سبب بنا) کے رب کی پناہ مانگی گئی ہے۔ اس لیے مصنف نے سورۂ فلق کی پہلی دو آیات کا ترجمہ کیا:"میں (مابعد نظریۂ انفجارِ عظیم جس نے کائنات کو وجود دیا) سے ہر اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو پیدا کی گئی ہے۔ اسی مصنف نے آیت {وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاھَا بِأيْدٍ وَإنَّا لَمُوسِعُونَ} [الذاريات: 47] کا ترجمہ یوں کیا ہے: "ہم کائنات کو وسعت دے رہے ہیں۔"35 ہم فتح اللہ خان کی کتاب God, Universe and the Man: The Holy Qur'an and the Hereafter دیکھتے ہیں36۔ یہ مصنف مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ وہ اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس توانائی کے ذریعے ایٹم بنا ہے، اس کی طرف واضح اشارہ آئن سٹائن کی مساوات E=mc2 سے کیا گیا ہے۔ لہذا تمام کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ آیت کے دوسرے حصے میں مصنف کے نزدیک کائنات کے پھیلاؤ کے معروف نظریے کا بیان ہے۔ آیت کے دونوں حصوں کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات، جو کہ توانائی سے پیدا ہوئی ہے، پھیل رہی ہے37۔ اس ساری اپروچ میں ایک بڑا مسئلہ، جس کی طرف اوپر ہم مختصر اشارہ کر آئے ہیں، یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قرآن کی ترجیحات کو بدل دیتی ہے۔ قرآنی آیات اس اپروچ کے مطابق ہمیں کائناتی حقائق کا علم دیتی ہیں گویا قرآن انھی حقائق کا بنیادی مصدر ہوا۔ یہ بات واضح ہے کہ کائنات کے بارے میں ان حقائق کو انسان خود اپنی کاوشوں سے دریافت کر سکتا ہے ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ سائنسی مظاہر جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ قرآن نے ان کی طرف اشارہ کیا ہے، دنیا کے سامنے قرآنی اعجاز کے طور پر پیش کیے جانے سے پہلے اکثر حالات میں انسانوں -عموماً غیر مسلموں- نے دریافت کیے ہیں۔
ان سب باتوں کو ایک طرف رکھیے، ایک نکتہ ہنوز تشنہ رہتا ہے کہ قرآن کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟ وہ کون سی اساسی چیزیں ہیں، جنھیں قرآن انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے؟ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ ؒ کا ایک فرمان مشعل راہ ہے؛ وہ فرماتے ہیں:
قرآن کے بنیادی مقاصد پانچ ہیں۔ پہلی چیز احکام ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا چیزیں اوامر ہیں اور کیا نواہی۔ یہ احکام عبادات سے لے کر معاملات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ موضوع فقہاء کا ہے۔ دوسرا موضوع گم راہ فرقوں -یہود، نصاریٰ، مشرکین اور منافقین- کا ہے۔ یہ موضوع متکلمین کی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے۔ تیسرا موضوع وہ قصص ہیں جو مخلوق کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہیں (تذکیر بآلاء اللہ)، اللہ کے کمال کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ نے زمین آسمان پیدا کیے اور ساری مخلوق کو کسبِ رزق کے طریقے سکھائے ۔ تیسرا موضوع تذکیر بایام اللہ کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کس طرح اللہ نے گذشتہ امتوں کے ساتھ معاملہ کیا؛ بعض کو انعامات سے سرفراز کیا اور بعض کو سزا دی۔ پانچواں موضوع تذکیر بالموت و مابعد الموت کا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ جن آیات کو قرآن کی سائنسی آیات کہا جاتا ہے، وہ شاہ ولی اللہ ؒ کی تقسیم کے مطابق تذکیر بآلاء اللہ کے زمرے میں آتی ہیں۔
تاہم اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ زمین، آسمان، سیارے، بارش، سمند ر اور پہاڑ وغیرہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ قرآن ان کے بارے میں انسانیت کو باخبر کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ کائناتی مظاہر کے بارے میں نشانیوں والی آیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی توجہ ان بنیادی حقائق کی طرف منعطف کی جائے تاکہ وہ کائناتی مظاہر کے مقابلے میں زیادہ بڑے اور اہم درجے کے مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان آیات کو ان کے سیاق سے ہٹا کر دیکھنا ان کے مجوزہ مقاصد سے آزاد کرنا ہے۔ انھیں قرآن کے اصل خطاب سے جدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کے حقیقی مفاہیم اور اہمیت سے دور کر دیا جائے۔ اس طرح کی باتیں کہ قرآن ہر قسم کے علم کی کتاب ہے38، ہوش مند ، پختہ اور ذمے دار اہلِ علم کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح قرآن کے بارے میں اس طرح کے چلتے ہوئے بیانات کہ اس میں ہر قسم کا علم ہے، ان کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تراث میں کوئی تائیدی دلیل موجود نہیں ہے۔ ایک طرف دیکھا جائے تو اس قسم کے پر جوش بیانات میں کارفرما رویوں کا انجام غالبا اس بات پر ہوتا ہے کہ قرآن کو ہمیشہ بدلتی رہنے والی سائنس کے تابع کیا جائے اور اسلامی علما کو غلامانہ وفاداری کے کردار پر مجبور کیا جائے جو سائنس دانوں کے اشاروں پر چلیں اور کتابِ عزیز کو جدید نظریات کے تابع بنائیں۔ دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس قسم کے مبالغہ آمیز دعوے کہ قرآن تمام اساسی علوم کا مصدر ہے ، علمیاتی پراگندگی اور فکری آوارگی کا باعث ہیں اور یہ چیز کتاب اللہ اور سائنس دونوں کے لیے مضر ہے۔
حواشی
(1) مرحوم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا ایک مقالہ” “Scientific Exegesis of the Qur'an کے نام سے اڈنبرگ یونی ورسٹی کے مطالعاتِ قرآنی پر معروف مجلے Journal of Qur‘anic Studiesکے شمارہ Vol:3, No:1 (2001) میں شائع ہوا۔ قرآنِ کریم کی تفسیر کے جدید رجحانات میں سائنسی تفسیر کا رجحان خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے پیشِ نظر اس مقالے کو اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ (مترجم)
See J.M.S.Baljon, Modern Muslim Koran Interpretation 1880-1960 (Leiden: Brill, 1961),pp.88-98.
(2) محمد حسین الذہبی، التفسير والمفسرون، طبع سوم (قاہرہ: مکتبہ وہبہ، 1985ء) ، دیکھیے خصوصا ، ج 2،ص 454- 468؛ عفت محمد الشرقاوی، اتجاھات التفسير في مصر في العصر الحديث(قاہرہ: مکتبۃ الکِیلنی، 1972ء)، ص 367- 377؛
Jansen, J.J.G. The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, Leiden: Brill, -1974, pp. 35-54.
فہد عبد الرحمن الرومی، منھج المدرسۃ العقليۃ الحديثۃ، طبع سوم، (بيروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1407ھـ)، ص 269- 283۔
(3) دیکھیے:
lbert Hourani, Arabic Thought in the Liberal Age, 1798-1939 (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1970); Bernard Lewis, The Emergence of Modern Turkey, II edition (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1968), and Gulfishan Khan, Indian Muslim Perceptions of the West During the Eighteenth Century (Karachi: Oxford University Press, 1998).
(4)
Cf. J.J.G. Jansen, The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, p. 41
خصوصا یہ الفاظ :”یقینا (مسلمانوں میں) جدید سائنسی تفسیر اور مغرب کے عرب اور مسلم دنیا پر اثر کے درمیان ایک تعلق ہے۔انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں مسلم اقلیم کے زیادہ سے زیادہ حصے یورپی تسلط کے نیچے آ گئے۔ مصرخود بھی 1882ء میں برطانوی فوج کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔۔۔یورپ کا یہ تسلط ، بہترین یورپی ٹکنالوجی کے باعث ممکن ہوا تھا۔بہت سے مخلص مسلمانوں کے لیے کسی تفسیر میں یہ بات پڑھنا وجہ تسلی ہے کہ جن سائنسوں اور اصولوں نے یورپ کو مسلمانوں پر غلبہ دیا ، ان کی بنیاد اصل میں ان اصولوں اور سائنسوں پر قائم ہے جو قرآن میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ “
(5) قابل ذکر بات یہ ہے کہ ارضیات کے ایک نام ور مسلمان پروفیسر زغلول النجار کی کتاب ہے۔
Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än ( Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.)
(6) مذکورہ کتاب شاید قرآن کے بنیادی مقاصد کو بیان کرنے کی ایک غیر ماہرانہ کوشش ہے۔ اس پر ایک واضح، بلیغ اور صحیح وضع کردہ بیان کے لیے دیکھیے: شاہ ولی اللہ دھلوی، الفوز الكبير في أصول التفسير، ترجمہ:رشید احمد انصاری، اس کے ساتھ مولانا تقی عثمانی، تفسیر کے چند ضروری اصول (لاہور: ادارہ اسلامیات، 1982ء)، ص 4، 5۔نیز دیکھیے:بدر الدین الزرکشی، البرھان في علوم القرآن(قاہرہ: الحلبی، 1957ء)، ج 1، ص 16- 21۔
(7) دیکھیے ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 454- 464۔یہ بحث کہ قرآن ، بشمول سائنسی علم، ہر قسم کے علم کو شامل ہے، اس کی تائید قرآن کی دو آیات( الأنعام 6: 38، اور النحل 16: 89)سے کی جاتی ہے۔اگر ہم ان آیات پر قرآن کی تفاسیر کی طرف مراجعت کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس اختلاف کی بمشکل ہی کوئی بنیاد ہے۔
(8) نفسِ مرجع۔
(9) (قاہرہ: الحلَبی، 1340ھ- 1351ھ)۔
(10) یہ بات کہ قرآن کی کائنات سے متعلق آیات، قانون سے متعلق آیات سے زیادہ ہیں، زیرِ بحث گفت گو کے تحت آنے والی ایک مکرر گفت گو بن چکی ہے۔750 کا عدد بھی ان قلم کاروں کی بڑی تعداد نے نقل کیا ہے جو ان کے طرزِ فکر کے حامی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری نے مسلم اہلِ دانش کے ایک طبقے پر کتنا اثر ڈالا ہے۔
(11) دیکھیے: ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 483- 484۔
(12) دیکھیے: سرسید احمد خان، تفسیر القرآن(لاہور: دوست ایسوسی ایٹس، 1994ء)، مختلف مقامات سے۔نیز دیکھیے: سی ڈبلیو ٹرول۔Sayyid Ahmad Khan: A Reinterpretation of Muslim Theology (کراچی: آکسفرڈ، نیویارک، دھلی: آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، 1979ء)، خصوصاً، باب 5۔
(13) جوآیات اس حوالے سے نقل کی جاتی ہیں،ان کا بغور مطالعہ یہ دکھاتا ہے کہ ان آیات کا اصل مقصد بجائے خود فطری مظاہر پر غور و فکر کی ترغیب دینا نہیں ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ 'مومن' ان کائناتی چھوٹے حقائق کے مشاہدے سے بلند ہو کر اعلیٰ، بڑے حقائق کی معرفت حاصل کرے - ایسے حقائق جو خدا کے علم، حکمت، قدرت، شفقت اور رحمت کو ظاہر کرتے ہیں، ایسے حقائق جو مکمل طور پر یہ واضح کرتے ہیں کہ موجودہ زندگی کے بعد قیامت اور آخرت آئے گی۔
(14) مثال کے طور پر دیکھیے: البقرۃ 2: 164؛ الفرقان25: 45- 46؛الغاشيۃ 88: 17- 20؛الروم30: 22؛ الرعد 13: 14؛الانشقاق 84: 16- 19؛ العنكبوت 29: 20؛ النحل 16: 12؛ فصلت 41: 20؛ النور 24: 44؛ يونس 10: 66؛ الفرقان 25: 62؛ لقمان 31: 27 وغیرہ۔
(15) محمد اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam (لاہور: ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، 1982ء)، ص 13۔
(16) نفسِ مرجع، ص 131۔
(17) نفسِ مرجع، ص 126۔
(18) نفسِ مرجع، ص 125۔
(19) نفسِ مرجع ، خصوصی طور پر دیکھیے: ص 129- 131۔
(20) نفسِ مرجع، ص 13۔
(21) یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1980ء میں مکہ میں مسلم ورلڈ لیگ نے ایک کمیٹی بعنوان Committee on the Scientific Miracles of the Qur'an and Sunnah بنائی۔
(22) دیکھیے:النجار
Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än (Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.), pp. 47-50.
(23) نفسِ مرجع، ص 50۔
(24) موریس بوکائی، The Bible, the Qur'än and Science (لاہور: پروگریسو بکس، س ن)، صvii۔
(25) نفسِ مرجع، ص viii۔
(26) نفسِ مرجع، ص viii۔
(27) نفسِ مرجع، ص 251- 252۔
(28) عبدالرزاق نوفل، القرآن والعلم الحديث (قاہرہ: دار المعارف، 1959ء)، ص 11ff۔
(29) نفسِ مرجع، ص 29۔
(30) نفسِ مرجع، ص 29۔
(31) نفسِ مرجع، ص 29۔
(32) کِیتھ مُور، The Developing Human: Clinically Oriented Embryology یہ کتاب عبدالمجید الزندانی کے قلم سے اسلامی اضافات کے ساتھ شائع ہوئی۔ طبعِ ثالث(جدہ:دار القبلہ، 1983ء)، ص viii c۔ خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔یہ بات قابلِ فہم ہے کہ مُور کو ایسے کہنا چاہیے تھا۔ تاہم،کلمۂ ناشر کا ایک جز آسانی سے قابل فہم نہیں جو دارالقبلہ براے اسلامی ادب جدہ کی طرف سے لکھا گیا ہے:”مجھے یہاں ایک نکتے کی وضاحت کرنے دیجیے۔ یہ قرآن ، باوجود اس بات کے کہ وہ سائنی امور کو بیان کرتا اور ان کی تصدیق کرتا ہے، سائنس کی کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوع کی ہدایت کی بہترین کتاب ہے۔ (سورۃ البقرۃ 2: آیت 2) خالقِ فطرت کے 'جہان' (کذا: درست 'لفظ'ہے۔) ہونے اوراس کے اپنے دعوے کے مطابق:”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔(سورہ 2، آیت 2)اسے ان امورکی تصدیق کرنی چاہیے جنھیں سائنس مشاہدے، تحقیق اور تجربے /۔ سے ثابت کرتی ہے۔“(ص۔viii b.)(خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔) مذکورہ بالا بیان کی دلالتوں پر غور کرتے ہوئے انسان کچھ تردد کا شکار ہو جاتا ہے۔میں اگر سمجھنے میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ بات ، قرآن کے اس مقامِ بلند سے لگا نہیں کھاتی جو اسلام کی رو سےاسے حاصل ہے۔
(33) نفسِ مصدر، ص 12 اے۔
(34) ہلوک نور باقی ، Verses From The Holy Quran And The Facts Of Science، ترجمہ: Metin Beynam (کراچی: انڈس پبلشنگ کارپوریشن، 1992ء)۔
(35) نفسِ مصدر، ص 308-314۔نیز دیکھیے: ص 223- 232۔اگر میں ذاتی لحاظ سے عرض کروں تو مجھے بنيناھا بأيد کی روایتی تفہیم زیادہ آسان محسوس ہوتی ہے جس کے مطابق یہ آیت اللہ کی قوتِ تخلیق پر زور دے رہی ہے ،کہ اس نے آسمان جیسی مشکل چیز کو پیدا کرڈالا۔اس بات کی تائیدکلمۂ أيد کے استعمال سے ہوتی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تنہا خدا نے آسمان کو بلا کسی کی مدد کے پیدا کیا، کیوں کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے۔
(36) (لاہور: Wajidalis، 1982ء)۔
(37) نفسِ مصدر، ص 48۔بعید از قیاس ہونے کے علاوہ یہ تفسیر روایتی تفسیر کے روحانی لحاظ سے مالامال پہلوسے محروم معلوم ہوتی ہے جو بہت قوت سے انسان کو خداے برتر کی یاددلاتا ہے۔
(38) - ابراہیم بی سید در ایم اے کے لودھی، ادارت:Islamization of Attitudes and Practices in Science and Technology (Herndon, VA:The International Institute of Islamic Thought and the Association of Muslim Social Scientists, ، 1989ء)، ص 119۔
صوفیہ، مراتبِ وجود اور مسئلہ وحدت الوجود (۳)
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
سہیل طاہر مجددی
توحید وجودی اور معیت باری تعالیٰ
اس لحاظ سے ذات باری کو ہر شے سے ایک ایسی وجودی معیت حاصل ہے جو اس معیت سے مختلف ہے جو جوہر کو جوہر، جوہر کو عرض اور عرض کو عرض سے حاصل ہے اور نہ ہی یہاں حال و محل کے اتحاد جیسی کوئی شرط ہے۔ کائنات کی تخلیق کا مطلب نہ یہ ہے کہ ذات باری نے اپنے سوا پہلے سے موجود کسی شے (مثلاً ھیولی) کو کسی خاص ڈھب پر ڈھال دیا ہے اور نہ یہ ہے کہ اس نے وجود کو اس طرح کسی شے کی ذاتی صفت بنا دیا ہے کہ خلق کے بعد دو مستقل وجود ہوگئے ہیں، نہ یہ کہ اپنی ذات اور صفات ہی کو کائنات بنا دیا ہے اور نہ یہ کہ وہ اعیان کے ساتھ متحد ہوگیا ہے بلکہ یہ مؤثر اور اثر کے مابین ایسا احاطہ قیومی ہے جو اعیان (یعنی اثر) کے احکام کا پوری طرح احاطہ کئے ہوئے ہے۔ امام غزالی آیت اللَّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ51(اللہ آسمانوں و زمین کا نور ہے) کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ذات باری ہر شے کے ساتھ اس طرح ہے جیسے اشیاء کے ساتھ نور ہے کہ وہ ہر شے کو ظاہر کرنے والا ہے اور صاحب عقل جانتے ہیں کہ ظاہر کرنے والا اس شے سے کلی طور پر جدا نہیں ہوتا جو ظاہر کی جاتی ہے52۔ شیخ ابن عربی واشگاف انداز سے اس معاملے کو واضح فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ "عین وجود اشیاء" ہونے اور "عین اشیاء" ہونے میں فرق ہے۔ اشیاء اپنی تعیینات و احکام کے لحاظ سے وجود مطلق کا غیر ہیں، صرف اس اعتبار سے عین ہیں کہ ان کا موجود ہونا خود اپنی طرف سے نہیں بلکہ بذریعہ تجلی جو ان میں ظاہر ہوا اپنی اصل میں وہ وجود مطلق ہی کی جانب سے ہے کیونکہ وجود وجود ہی سے مستعار ہو سکتا ہے نہ کہ عدم سے۔ پس "بااعتبار ظہور" وجود ایک ہے مگر با اعتبار مظاھر وجود (locus of manifestation) تعیینات متعدد ہیں53۔ اعیان ثابتہ کی حقیقت ہونا ذات باری کا اول و باطن ہونا ہے، تو بطور وجود ان مظاہر کے ظہور کا منبع ہونا آخر و ظاہر ہونا ہے۔ قرآن میں آیا:
ھُوَ الْأوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ 54 (وہی ہے اول، اور وہی ہے آخر، اور وہی ہے ظاہر، اور وہی ہے ہاطن)
شیخ کہتے ہیں کہ وجود کا بذریعہ اعیان یہ ظہور ایسا نہیں کہ جو ظاہر ہوگیا وہ اب غیب نہ رہا بلکہ ذات باری کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی جس صفت و اسم کو ظاہر کرتے ہیں بیک وقت وہ غیب میں چھپی ہوئی بھی رہتی ہے۔ اعیان ثابتہ منصفہ ظہور میں آنے کے باوجود درجہ ثبوت میں جوں کے توں باقی رہتے ہیں، اس کی صفت کا ظہور اس کی غیوبت کو کم کرنے والا نہیں۔ ایک حدیث قدسی کا مفہوم ہے کہ اگر اول و آخر اور جن و انس وغیرہ سب مل کر اللہ سے کچھ مانگیں اور اللہ انہیں وہ سب عطا کر دے تو اس کے خزانوں میں اتنی کمی بھی نہیں آتی جتنی سمندر میں سوئی ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں آتی ہے55۔ پس وہ ظاہر و باطن ایک ساتھ ہے۔
یاد رہے کہ اعیان وجود سے مستفیذ نہیں ہوتے بلکہ مظہر وجود ہونے سے مستفیذ ہوتے ہیں56۔ شیخ "مظہر" کو وجود کے ظہور کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ جو عالم کو ذات باری کی نشانی یا علامت کہا جاتا ہے، شیخ اسے اس کے ظاہری معنی میں مراد لیتے ہیں (یعنی عالم "مظہر وجود" ہونے کے معنی میں نشانی ہے)۔ جس شے کو ذات باری اپنے ظہور کا ذریعہ یا نشانی بنائے وہی موجود ہو پاتی ہے، یعنی کوئی شے اس کی نشانی بنے بغیر موجود ہو ہی نہیں سکتی اور ظہور کے اسی پہلو کو شیخ "تشبیہہ " کہتے ہیں، پس تنزیہہ و تشبیہہ بھی ایک ساتھ ہیں۔ اسی لئے شیخ کہتے ہیں کہ اس عالم میں اٹھنے والی ایسی کوئی نگاہ نہیں کہ وہ اٹھے مگر اس کا مشاہدہ نہ کرے57 ۔ آفاق و انفس میں ذات باری کی نشانیاں ہونے کو آپ اسی مفہوم میں دیکھتے ہیں:
سَنُرِيھِمْ آيَاتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنفُسِھِمْ حَتَّیٰ يَتَبَيَّنَ لَھُمْ أنَّہُ الْحَقُّ58 (ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں عالم اور خود ان کے نفس میں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے)
صوفی فکر کے بعض اقوال کا معنی
صوفی فکر میں "انا الحق" نیز "شاھد و مشہود، شاکر و مشکور اور حامد و محمود ایک ہیں" جیسی جو عبارات ملتی ہیں، وہ عینیت و معیت ("ھو") کے اسی پہلو سے ہیں، تاہم ان عبارات کا مطلب غیریت ("لاھو") کے اس پہلو کا انکار کرنا نہیں جو صوفی فکر کے مطابق تعیینات کی صورت مخلوق کے لئے ثابت اور حقیقی نیز حکم باری ہونے کی بنا پر نافذ ہیں۔ مرتبہ فنا میں محض عینیت کی جانب نگاہ کر کے بات کہنا سکر ہے جبکہ اس کے ساتھ غیریت کی جانب توجہ برقرار رکھنا صحو ہے، بعض صوفیہ حالت سکر میں "انا الحق" جیسی بات کہتے ہیں59۔ عینیت کے اس تناظر میں قرآن مجید میں حضرت موسی علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوا کہ جب رب تعالی نے انہیں ندا فرمائی تو ایک درخت سے آپ کو یہ آواز سنائی دی کہ میں ہی رب ہوں:
فَلَمَّا أتَاھَا نُودِيَ مِن شَاطِئِ الْوَادِ الْأيْمَنِ فِي الْبُقْعَۃِ الْمُبَارَكَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ أن يَا مُوسَیٰ إنِّي أنَا اللّہُ رَبُّ الْعَالَمِينَ60 (جب موسی علیہ السلام وہاں پہنچے تو وادی (طور) کے دائیں کنارے پر بابرکت مقام پر واقع ایک درخت سے آواز دی گئی کہ اے موسی بے شک میں ہی اللہ ہوں جو تمام جہانوں کا رب ہوں)
ایک حدیث میں آتا ہے:
اللھم لك الحمد انت نور السموات والارض ولك الحمد انت قيوم السموات والارض، ولك الحمد انت رب السموات والارض ومن فيھن. انت الحق، وقولك الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، والجنۃ حق، والنار حق، والساعۃ حق61
مفہوم: "اے میرے اللہ! حمد و ثنا تیرے ہی لئے ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور حمد و ثنا تیرے ہی واسطے ہے، تو ہی زمین و آسمان کا قیوم ہے اور حمد و ثنا تیرے ہی لئے ہے، تو ہی زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب کا رب ہے، تو حق ہے اور تیرا کلام حق ہے اور تیرا وعدہ حق ہے اور تیری ملاقات حق ہے اور جنت حق ہے اور جہنم حق ہے اور قیامت حق ہے"
غور کیجئے کہ ذات باری کے ساتھ متعدد امور کو "حق" ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْھُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآئً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ62
مفہوم: "اے اللہ میں تیرے عذاب کی تیرے عفو سے پناہ چاہتا ہوں، اور تیرے غضب کی تیری رضا سے پناہ چاہتا ہوں، اور میں تجھ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں کماحقہ تیری تعریف بیان نہیں کر سکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی"
امام غزالی63 کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے اولاً اللہ کے افعال پر نظر فرمائی تو اس کے فعل سے اس کے فعل کی پناہ چاہی، پھر اس درجے سے ترقی فرما کر افعال کے مصدر یعنی صفت کا ذکر فرما کر ایک صفت سے دوسرے کی پناہ چاہی، پھر صفات سے ترقی فرما کر ذات کی جانب بڑھے اور اس سے اسی کی پناہ چاہی۔ غور کیجئے کہ رب سے رب ہی کی پناہ طلب کی جارہی ہے۔ پھر اس مقام پر اپنی ذات کے حوالے کو توحید میں نقص سمجھتے ہوئے آپﷺ مزید آگے بڑھے اور فرمایا کہ میں تیری تعریف کرنے سے عاجز ہوں تو ویسا ہی ہے جیسا تو نے خود اپنی تعریف کی۔ اس جملے کا پہلا حصہ فنائے نفس کی جانب اشارہ ہے اور دوسرا اس جانب کہ ثنا گو اور جس کی ثنا کی گئی ایک ہی ذات ہے، اس کے سوا جو کچھ ہے وہ فنا کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ پھر جب بندے کے سب افعال اسی کی جانب سے ہیں تو بندے کا اس کا شکر کرنا ایسا ہی ہے جیسے وہ خود ہی شاکر ہے۔ اگر ایک شخص اپنی بنائی ہوئی تصویر کی تعریف کرے تو وہ دراصل اپنی تعریف کرتا ہے64۔ تم ایک ربوٹ بناؤ اور اس میں گویائی کی صلاحیت پیدا کرو جس سے وہ تمہاری تعریف کرے تو تم نے خود اپنی ہی تعریف تو کی!
صوفیہ کے ہاں بعض عبارات میں "کائنات کو حق " کہہ دیا جاتا ہے، اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر عالم کے تمام اعتبارات و تخصیصات سے قطع نظر کر لیا جائے تو معاملہ ذات باری کی جانب لوٹ جائے گا، قرآن میں ارشاد ہوا: إلَيْہِ يُرْجَعُ الْأمْرُ كُلُّہُ65 (اور اسی کی جانب سب امور کا لوٹایا جانا ہے)۔ اسی طرح صوفی فکر میں جو اس قسم کے اقوال ملتے ہیں کہ "مقام فنا میں ایک مقام ایسا ہے جہاں نہ عابد ہے اور نہ معبود"، تو اسے بھی مراتب وجود کے درج بالا نظام میں سمجھا جا سکتا ہے۔ ان مراتب وجود کے مطابق "حضرت الوھیت" (یعنی جہاں عابد و معبود متحقق ہیں) دوسرے تعین سے متعلق ہے جس سے پرے مقام وحدت ہے جہاں نہ عابد ہے اور نہ معبود، صرف وجود مطلق و ذات باری ہے۔ اس عبارت میں "فنا" سے مراد بندے کے شعور کا زائل ہو جانا ہے، جب شعور عبد زائل ہو جائے تو اس سے پرے مقام پر عابد و معبود متحقق نہیں رہتے کہ بندہ تو وہاں علمی طور پر فنا کے گھاٹ اتر چکا، یہی اس عبارت کا مفہوم ہے۔ ایسی ہر عبارت اس نظام فکر میں کسی خاص وجہ پر مبنی ہوتی ہے۔ اسی لئے امام غزالی کہتے ہیں کہ اگر کوئی کہے میں "خدا کے سوا کسی کو نہیں پہچانتا" تو اس کا قول بھی درست ہے اور اگر کہے کہ "میں خدا کو نہیں پہچانتا" تو یہ بھی درست ہے کہ ان دونوں باتوں میں وجہ کلام مختلف ہے66۔ اسی وجودی معیت کے پیش نظر صوفیا کے بعض اقوال "مشاہداتی وحدت" کی جانب اشارہ کرتے ہیں جیسے یہ کہ اس کائنات میں اٹھنے والی ایسی کوئی نگاہ نہیں جو اٹھے مگر وہ رب کا مشاہدہ نہ کرے، نیز بعض عارفین کا حال یہ ہے کہ انہوں نے پہلے شے کو دیکھا پھر ذات باری کو دیکھا (یہ وہ ہیں جو معلول سے علت کا استدلال کر کے ذات باری کو ثابت کرتے ہیں)، جبکہ بعض وہ ہیں جنہوں نے ہر شے کے ساتھ ذات باری کو دیکھا اور پھر وہ بھی ہیں جنہوں نے ہر شے سے پہلے خدا کو دیکھا پھر شے کو دیکھا۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ یہ آخری درجہ صدیقین کا مشاہدہ ہے جبکہ پہلا علمائے راسخین کا67، ان مراتب کا ذکر قرآن میں یوں ہوا:
سَنُرِيھِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِھِمْ حَتَّیٰ يَتَبَيَّنَ لَھُمْ أنَّہُ الْحَقُّ أوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أنَّہُ عَلَیٰ كُلِّ شَيْءٍ شَھِيدٌ68 (ہم عنقریب انہیں اپنی نشانیاں عالم اور خود ان کے نفس میں بھی دکھائیں گے یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہو جائے گا کہ وہی حق ہے، کیا آپ کے رب کی یہی بات کافی نہیں کہ وہ ہر شے پر گواہ ہے؟)
یعنی "یہ عالم خدا پر شاہد ہے" سے "خدا عالم پر شاہدہے" کا سفر ہے۔
الغرض شیخ اور صوفیہ پر اتحاد کا الزام لگانے والوں سے معاملے کو سمجھنے میں سخت چوک ہوئی، یہ الزام تب درست ہو سکتا تھا جب وہ یہ کہتے کہ خالق و مخلوق کے وجود کا ظرف یا محل بھی ایک ہے۔ وجود کی ایک صورت واجب الوجود جبکہ دوسری ممکن الوجود ہے اور یہ دونوں اعتبار جدا ہیں۔ نیز جب پہلے قدم پر اعیان کو "انفعالی استعداد" کہہ کر انہیں "فعلی استعداد" (یعنی اسمائے الہیہ) کا غیر کہہ دیا گیا تو اس کے بعد اعیان میں ظاہر ہونے والے وجود کا منبع وجود مطلق قرار دینے سے اتحاد کیسے ثابت ہوگیا جبکہ غیریت اس سے پہلے ہی متحقق ہو چکی؟ رہا حلول کا الزام تو وہ اتحاد کے الزام سے بھی زیادہ بے معنی ہے کیونکہ حلول کا مطلب ایک شے کا دوسری میں اس طرح گم ہوجانا ہے کہ وہ اپنی جداگانہ شناخت کھو بیٹھے جبکہ صوفیہ اس مسئلے میں ایسی بات کے قائل نہیں، رب رب ہی رہتا ہے اور عبد عبد، شیخ کہتے ہیں کہ بندہ رب کی کسی صفت ذاتی سے متصف نہیں ہوتا69۔ قرآنی آیت مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيَانِ بَيْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا يَبْغِيَانِ70 (اس نے دو سمندر رواں کئے جو باہم مل جاتے ہیں، (البتہ) ان کے مابین ایک آڑ حائل ہے ، وہ دونوں اپنی حد سے تجاوز نہیں کر سکتے) پر شیخ کہتے ہیں کہ دو سمندروں سے مراد وجود واجب اور وجود ممکن ہیں اور ان کے مابین ایسی برزخ حائل ہے جو دونوں کو جدا رکھتی ہے71۔ شیخ کہتے ہیں کہ جو لوگ صرف "ھو" پر نظر کرتے ہیں وہ بھینگے ہیں اور جو "ھو" کے ساتھ "لاھو" کو بھی دیکھتے ہیں وہ اہل معرفت ہیں72۔ پھر جب رب اور بندے کے مابین سمیع و بصیر نیز رؤوف و رحیم کی نسبت مشترک ہونے کے باوجود شرک لازم نہیں آتا تو وجود کی نسبت مشترک ہونے سے کیوں کر لازم آیا؟ اسی طرح بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا کہ وجود کا تحقق چونکہ خارج میں پائے جانے والے افراد و تعیینات کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو توحید وجودی کا مطلب یہ ہوا کہ ذات باری کے وجود کو خارجی وجود کے ہم معنی قرار دیا جارہا ہے جبکہ یہ صرف غلط فہمی ہے کیونکہ صوفیہ تعینات سے عبارت وجود خارجی کے اعتبار سے توحید وجودی کا قول اختیار نہیں کرتے۔
وجودی معیت اور نصوص
وجود کی وحدت کا درج بالا تصور شیخ کے نزدیک ذات باری کے اسم "محیط" کا مفہوم ہے73۔ درج ذیل آیات کا یہی مضمون ہے:
أنَّہُ عَلَیٰ كُلِّ شَيْءٍ شَھِيد74 (بے شک وہ ہر چیز پر گواہ ہے)
إنَّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيط75 (بے شک وہ ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے)
اسی طرح ذات باری کے اسم "جامع" کو بھی شیخ اسی معنی میں دیکھتے ہیں76۔ جنگ بدر میں آپﷺ کی جانب سے پھینکے گئے سنگ ریزوں پر قرآن کا یہ تبصرہ "ھو ولا ھو" کی اسی حقیقت کا بیان ہے:
وَمَا رَمَيْتَ إذْ رَمَيْتَ وَلٰكِنَّ اللّہَ رَمَیٰ77 (آپ نے وہ سنگ ریزے نہیں پھینکے جبکہ آپ نے پھینکے بلکہ وہ تو اللہ نے پھینکے)
اس آیت میں نفی و اثبات کے جمع کے اسلوب پر توجہ رہے: وَمَا رَمَيْتَ سے بندے کے پھینکنے کی نفی کی گئی، إذْ رَمَيْتَ سے اس کا اثبات کیا گیا اور پھر وَلٰكِنَّ اللَّہَ رَمَیٰ سے نفی کی گئی78۔ اسی بنا پر شیخ ابن عربی درج ذیل آیات میں بیان کردہ ذات باری کی مخلوق کے ساتھ معیت و قرب جیسے امور کو علمی معیت کے بجائے وجودی معیت پر محمول کرتے ہیں:
وَھُوَ مَعَكُمْ أيْنَ مَا كُنتُمْ79 (اور وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے تم جہاں کہیں بھی ہو)
مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَیٰ ثَلَاثَۃٍ إلَّا ھُوَ رَابِعُھُمْ وَلَا خَمْسَۃٍ إلَّا ھُوَ سَادِسُھُمْ وَلَا أدْنَیٰ مِن ذٰلِكَ وَلَا أكْثَرَ إلَّا ھُوَ مَعَھُمْ أيْنَ مَا كَانُوا80 (کہیں بھی تین کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے، اور نہ ہی پانچ کی سرگوشی ہوتی ہے مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ ان سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے)
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إلَيْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ81 (اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس کے قریب ہیں)
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَٰكِن لَّا تُبْصِرُونَ82 (اور ہم (مرنے والے) سے تمہارے مقابلے میں زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم دیکھتے نہیں)
اس آیت میں "لَّا تُبْصِرُونَ" (مگر تم دیکھتے نہیں) پر توجہ رہے۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو اس باب میں صوفیہ دراصل وہی بات کہتے ہیں جو متکلمین کہتے ہیں کیونکہ متکلمین "علم" کو صفت کہتے ہیں جبکہ صوفیہ صفت کو ایک مرتبہ وجود یا تجلی کہتے ہیں۔ صوفیہ کے نزدیک زیر بحث آیت میں اللہ کو بواسطہ اس تجلی ہی مخلوق کے ساتھ وجودی معیت ہے۔ مزید ارشاد ہوا:
فَأيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللّہِ83 (پس تم جدھر بھی رخ کرو، وہ وہاں جلوہ گر ہے)
وَھُوَ اللّہُ فِي السَّمَاوَاتِ وَفِي الْأرْضِ84 (آسمانوں اور زمین میں وہی اللہ ہے)
اللّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ85 (بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے)
يَدُ اللّہِ فَوْقَ أيْدِيھِمْ86 (ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے)
حدیث میں ارشاد ہوا:
لَوْاَنَّکُمْ دَلَّیْتُمْ بِحَبْلٍ اِلَی الْاَرْضِ السُّفْلیٰ لَھَبَطَ عَلَی اللّهِ ثُمَّ قَرَأ: {ھُوَ الأوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم}87 (اگر تم ایک رسی زمین کی گہرائی میں ڈالو تو وہ اللہ ہی پر گرے گی، پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: وہی ہے اول، اور وہی ہے آخر، اور وہی ہے ظاہر اور وہی ہے باطن)
الغرض اس مضمون کی متعدد نصوص ہیں جو شیخ کے نظام فکر میں اپنے ظاہر پر مفہوم ہو جاتی ہیں۔
وجودیہ و شہودیہ کے اختلاف کی حقیقت
یہاں سے صوفیہ کی یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ مخلوق (ممکنات) کا کوئی حقیقی وجود نہیں، وجود صرف واجب کو حاصل ہے جو از خود قائم ہوتا ہے۔ کائنات کے وجود کو خدا کے وجود سے اتنی نسبت بھی نہیں جتنی کہ مثلاً ہاتھ میں پکڑے پین کی حرکت کو حاصل ہے جو ہاتھ کی حرکت سے بالواسطہ حرکت کرتا ہے کہ پین کی حقیقت ہاتھ کے مقابلے میں عدم نہیں۔ جب وجود اور اسماء کی طرف نظر کرو گے تو ان کے عکوس (یعنی مخلوق) معدوم ہی نظر آئیں گے، جب عدم کے ظہور کے پس پردہ کار فرما تجلی کی جانب نظر کرو گے تو ظاہر شدہ مخلوق کے باطن میں اسماء ہی کا عکس جھلکتا دکھائی دے گا۔ شہودیہ اور وجودیہ میں اس سے زیادہ فرق نہیں کہ دونوں ایک سکے کے دو رخوں میں سے ایک جانب پر زیادہ زور دیتے دکھائی دیتے ہیں: وجودیہ کہتے ہیں عکوس اسماء میں جو چمکا ہے اس کا منبع و حقیقت اسماء کی تجلی ہے، شہودیہ کا زور اس پر ہے کہ جو چمکا ہے اس کی حقیقت معدوم ہونا ہے اور دونوں کا اس پر اتفاق ہے کہ جو چمکا ہے وہ وجود میں شامل نہیں۔ وجودیہ اور شہودیہ میں فرق کو مزید تکنیکی انداز میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ وجودیہ دائرہ اول کے مرتبہ واحدیت کے شئون "وجود" پر زور دیتے ہیں جبکہ شہودیہ مرتبہ "شہود" پر۔
اہم وضاحت
اس ضمن میں آخری بات یہ یاد رہے کہ عالم ذات باری کی حقیقت و ماہیت ظاہر نہیں کرتا بلکہ صرف اس کا یہ مرتبہ ظاہر کرتا ہے کہ "وہ ہے"، یہ ہمیں صرف اس کی صفات و اسماء کا علم دیتا ہے جبکہ ذات باری ہمیشہ پردہ خفا میں رہتی ہے88۔ اگرچہ صوفیہ بات سمجھانے کے لئے آئینے اور روشنی کی مثالیں پیش کرتے ہیں، تاہم شیخ سمیت وہ اس بات کے مدعی نہیں کہ ہم وجود مطلق کی حقیقت نیز اعیان ثابتہ کے خارجی وجود کے ساتھ اس کی نسبت احاطہ کی حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں۔ اعیان میں وجود حقیقی، ازلی و مطلق نہیں جھلکتا کہ وہ وراء الوراء ہے بلکہ بذریعہ تجلی جو جھلکتا ہے وہ وجود کے مقابلے میں بس سائے و عکس کی مانند ہے یا اس سے بھی کم تر ہے نیز وہ بھی اس وجود کا عکس جو صفات و اسماء کے مرتبے پر متحقق ہوا ۔ جب خود "ہمارے وجود" کی ماہیت ہی ہم پر واضح نہیں تو اس سے پرے معاملے میں سوائے حیرت اور کچھ میسر نہیں۔ ذات باری کو عالم سے ایسی وجودی معیت حاصل ہے جس کی حقیقت ہم پر واضح نہیں۔ امام غزالی اس کی مثال یوں دیتے ہیں کہ جیسے ایک صاحب مال اپنے کنگلے غلام کو کپڑے و گھوڑا وغیرہ دے کر اس کا نام مالک رکھ دے تو اس نام رکھنے سے وہ حقیقتاً تو کجا مجازاً بھی غنی نہیں بنے گا کیونکہ عاریتاً مال حاصل کرنے والا یہ غلام اب بھی اسی طرح فقیر ہوگا جیسے پہلے تھا اور غنی صرف مال دینے والا ہی کہلائے گا کہ اسی کی جانب رجوع اور ابتدا ہے89۔ پس اسی طرح آئینہ وجود میں اعیان کے عکس جھلکنے پر انہیں موجود ہونے کا شہود عطا کر دینے سے وہ اعیان "وجود" سے متصف نہیں ہوجاتے بلکہ وجود کے مقابلے میں کالعدم ہی رہتے ہیں۔ صوفیہ "وجود واحد" کے مسئلے میں اسی طرح حیرت میں ہیں جیسے اشاعرہ مسئلہ جبر و قدر میں "فاعل واحد" کے مسئلے میں حیرت میں ہیں، یعنی دلیل قطعی سے اتنا تو ثابت ہے کہ فاعل حقیقی ایک ہی ہوسکتا ہے، رہی بندے کی فاعلیت تو اس کی حقیقت معلوم نہیں۔ اسی طرح صوفیہ بندے کے وجود کو کبھی غیر حقیقی کہتے ہیں تو کبھی سایہ۔ اسی لئے امام غزالی کہتے ہیں کہ توحید کے ادراک کا تیسرا درجہ "لا فاعل الا اللہ" ہے تو چوتھا درجہ "لا موجود الا اللہ"90، نیز کہتے ہیں کہ جس طرح سورج تمام عالم میں پھیلنے والے نور کا سرچشمہ ہے، اسی طرح وہ معنی جسے ادا کرنے سے عبارت قاصر ہے اور جسے قدرت ازلیہ کے نام سے موسوم کیا گیا وہ اس وجود کا سرچشمہ ہے جو تمام موجودات پر فائز ہوا، لہذا اس معنی میں خدا کے سوا کوئی شے موجود نہیں91۔ روشنی کی یہ مثال قرآنی آیت اللّہُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضِ (بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے) میں بیان کردہ مثال سے ماخوذ ہے۔ شیخ ابن عربی اس معاملے کو بیان کرنے کے لئے حدیث کے الفاظ "نفس الرحمان" اور "عماء" نیز قرآنی الفاظ "كَلِمَاتُ اللّہِ" استعمال کرتے ہیں، یعنی یہ عالم اللہ کے کلمات ہیں92۔
خلاصہ بحث
درج بالا بحث سے واضح ہوا کہ:
- "وجود" یا "پایا جانا" ایسی بلند تر صفت ہے جو تمام موجودات کے مابین کسی نہ کسی طور پر برزخی کیفیت کے ساتھ مشترک ہے۔ "دو مستقل وجود اور موجود" کا مفروضہ نہیں مانا جا سکتا کہ یہ ثنویت و کھلا ہوا شرک ہے۔ اولاً موجود ایک ہی ذات کو ماننا ہوگا، اس کے بعد جب مخلوق کے موجود ہونے کی بات ہوگی تو تین باتیں ماننا ہوں گی:
الف) اس کا وجود مستقل نہیں عطائی ہوگا
ب) اس وجود کا ماخذ و منبع مستقل وجود مطلق ہی ہو سکتا ہے
ج) اس ماخذ کے ساتھ اسے گوں نا گوں "ھو" کی نسبت ہوگی، یعنی وجود مطلق، مستقل یا واجب اور وجود متعین، محتاج یا ممکن کے مابین وجود کی نسبت مشترک ہوگی
اس کے بعد صوفیہ کا کہنا ہے کہ مستقل وجود کے مقابلے پر محتاج وجود کو سائے، خیال و عکس وغیرہ سے زیادہ نسبت نہیں۔ اس اعتبار سے یہ قول کہ "موجود صرف ذات باری ہے (لا موجود الا اللہ)" دو معانی کا حامل ہے:
1) اس کے سوا دیگر موجودات کالعدم ہیں
2) محتاج وجود مستقل وجود سے قائم ہونے کی بنا پر اس کے ساتھ "ھو" کی نسبت رکھتا ہے کہ عکس کا قیام بدون وجود ممکن نہیں - صوفیہ جنہیں تجلیات، تنزلات یا مراتب وجود کہتے ہیں، ان میں ایسی کوئی تعلیم نہیں جسے اتحاد یا حلول کی صورت شرک قرار دیا جا سکے، ایسے فتوے ان کے موقف کو نہ سمجھنے کی بنا پر جاری کئے جاتے ہیں اور اس غلط فہمی کی وجہ صوفیہ کی عبارات کو ان کے مخصوص نظرئیے سے ہٹا کر پڑھنا اور پھر ان کے شرکیہ لوازمات پیدا کر لینا ہے وہ بھی ایسے جن کے وہ صراحتاً منکر ہیں
- شیخ کے ہاں لاتعین، وجود مطلق اور وجود متعین کے درجات بیک وقت اتصال و انفصال، تنزیہہ و تشبیہہ نیز ظہور و خفا جیسے امور کسی درجے میں قابل فہم بنا دیتے ہیں اور نتیجتاً متعدد نصوص کے ظاہری معنی درجہ خفا کے ساتھ متعین ہوتے ہیں
- اس نظام فکر کے بعض اجزاء عقلی استدلال پر مبنی ہیں، بعض نصوص پر اور بعض کا تعین الہام و کشف پر مبنی ہے۔ صوفیہ کا کہنا ہے کہ کشف و الہام سے انہی امور کی جزوی تفصیل معلوم ہونا ممکن ہے جن کے نشان راہ نبی کی وحی نے مقرر کر دئیے ہوں
جو لوگ شیخ ابن عربی اور صوفیہ کی فکر کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ساری فکر گویا افلاطون (م 347 ق م) سے مستعار لی ہے، ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ افلاطون اور نیو افلاطونی فکر سے ہمیں وجود کے یہ پانچ مراتب تلاش کر کے دکھائیں۔ افلاطون کے ہاں بس ایک ایسے عالم مثال کا ذکر ملتا ہے جہاں اس عالم ناسوت کی اشیاء بایں معنی ایک مثالی صورت میں موجود ہیں کہ عالم ناسوت میں اس مثالی شے کی کاپیاں ظاہر ہوجاتی ہیں۔ مثلاً خارج میں جو "انسان" پائے جاتے ہیں وہ لمبے و چھوٹے قد، موٹے و پتلے، گورے و کالے، بھوری و کالی آنکھ وغیرہ والے ہوتے ہیں۔ رہا ذہن میں متصور ہونے والا وہ "مجرد انسان" جو ان تمام تشخصات سے پاک ہو، تو وہ خارجی مشاھدے میں نہیں آتا کہ خارج میں ہر انسان ایسے تشخصات کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ یہاں سے سوال پیدا ہوا کہ آخر ان تشخصات سے پاک اس "مجرد انسان" کے تصور کا ماخذ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے کے لئے افلاطون کہتے ہیں کہ ذہن میں موجود مادی تشخصات وغیرہ سے پاک تصور انسان کا منبع عالم مثال میں موجود "مثالی انسان" ہے جس کی کاپیاں مختلف انسانوں میں یہاں ظاہر ہو جاتی ہیں۔ افلاطون کے اس عالم مثال کو شیخ ابن عربی کی فکر میں "اعیان ثابتہ" کے مشابہہ کہا جاتا ہے جبکہ یہ موازنہ بھی غلط ہے کیونکہ شیخ کے ہاں کسی شے کی کاپی ظاہر ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں۔ عالم ناسوت میں ظاہر ہونے والی ہر شے یکتا طور پر مرتبہ اعیان میں ثابت ہے اور وہ اپنی یکتا استعداد کے ساتھ اللہ تعالی کی یکتا مخلوق -کے طور پر موجود ہوتی ہے اور ہر ہر شے میں انفرادیت و یکتائیت کا یہ احساس بھی اس بنا پر ہے کہ اس پر ذات باری کی صفت "ھویت" کی تجلی ہے۔ پھر افلاطون یہ نہیں بتاتے کہ آخر عالم مثال کی ان مثالی صورتوں کا منبع کیا ہے جبکہ شیخ اعیان ثابتہ کو ذات باری کے اسماء و صفات کے ساتھ جوڑ کر اس خلا کو پر کرتے ہیں۔ شیخ کی فکر سے قبل فلسفے کے معلوم نظریات میں یہ بات کسی کے ہاں نہیں ملتی کہ عالم ذات باری کی صفات و اسماء کی تجلی ہے، مباحث وجودیات و کاسمولوجی میں یہ ان کا خصوصی کنٹریبیوشن ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ ذات باری کے اسمائے حسنی کی جو تفصیل قرآن و سنت میں مذکور ہے، پچھلی امتوں کی دستیاب کتب میں وہ مفقود ہے۔
بعینہہ ناقدین کا یہ تبصرہ بھی بے معنی ہے کہ توحید وجودی کی فلاں صورت مثلاً شنکر اچاریہ (م820ء) کے ہاں بھی موجود تھی۔ یہ ایسا ہی اعتراض ہے جیسے عیسائی و ھندو وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں بہت سی تفصیلات بائبل یا ویداؤوں سے ماخوذ ہیں۔ چنانچہ دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ھندو تعلیمات نے بھی توحید وجودی کی یہی تفصیل پیش کی تھی یا وہ "ہمہ اوست" (سب کچھ خدا ہے) کا نظریہ تھا؟ سنسکرت ماخذات کے مطابق اس ضمن میں ایک مشہور نظریہ یہ تھا کہ "پرماتما سو گیا ہے اور یہ عالم جس میں ہم جی رہے ہیں یہ اس کا خواب ہے"۔ کیا صوفیہ نے اسے قبول کیا؟ بھلا وہ اسے کیسے قبول کر سکتے تھے جبکہ قرآن نے ذات باری کی شان "لَا تَأخُذُہُ سِنَۃ وَلَا نَوْم"93 (نہ اسے انوگھ آتی ہے اور نہ نیند) بتائی ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ صوفیہ نے اگر مثال لی تو نور، سائے اور آئینے کی، اول الذکر دو قرآن سے لی گئی ہیں اور تیسری حدیث سے (کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا)۔ چنانچہ اگر یہ ثابت بھی ہوجائے کہ صوفی فکر کے بعض اجزاء ھندو تعلیمات میں موجود تھے تب بھی دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ کیا صوفیہ نے اس کی تفصیل کو نصوص کے تقاضوں کے پیش نظر توحید کے اسلامی تصور سے ہم آہنگ رکھا یا نہیں؟ کیا خود عدم سے تخلیق کا نظریہ بھی پچھلی امتوں میں موجود نہیں رہا؟ تو کیا اسے بھی اس بنا پر رد کر دیا جائے کہ یہ نظریہ تو ماقبل اسلام ایک عیسائی پادری جان فلاپنس (م570ء) نے بیان کیا تھا؟
الغرض کسی بھی مفکر کی فکر میں اپنے سے ماقبل مفکرین کی فکر سے جزوی مماثلتیں موجود ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ اصل کنٹریبیوشن وہ مجموعی تصویر ہوتی ہے جو ایک شخص پہلے سے میسر اجزاء کے ساتھ چند نئے اجزاء ملا کر پیش کرتا ہے۔ مجموعی تصویر دیکھ لینے کے بعد پہلے سے موجود بعض اجزاء کے ساتھ جزوی مماثلتیں تلاش کر لینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پوری تصویر ہی کسی سے مستعار ہے۔
آخری بات یہ کہ "مائیتھالوجی" کے لفظ سے اگرچہ لوگ چڑنے لگے ہیں، تاہم ہر مذہب کی ایک مائیتھالوجی ہوتی ہے (مائیتھالوجی کو ڈی گریڈ کرنے کے پس پشت فکر انسانی کے ارتقاء سے متعلق بعض جدید فلاسفہ کے اس قسم کے خیالات بھی ہیں کہ پہلےدور کا انسان مائیتھالوجی پر یقین کرتا تھا، پھر فلسفہ آگیا اور پھر سائنس کے بعد اس کی ضرورت ختم ہوگئی وغیرہ)۔ مائیتھالوجی سے ہماری مراد عالم ناسوت یا عالم مشاھدہ سے ماوراء حقائق ہیں جن کے علم کا بنیادی ماخذ انبیاء کی وحی ہوتی ہے۔ دیگر مذاہب کی طرح اسلام کی بھی اس معاملے میں کوئی تخصیص یا استثناء نہیں کہ درج بالا معنی میں یہ بھی مائیتھالوجی کا حامل ہے۔ بھلا اہل اسلام اس معنی میں مائیتھالوجی سے کس طرح شرمسار ہو سکتے ہیں جبکہ قرآن و سنت ایسے امور کے بیانات سے بھرے ہوئے ہیں؟ مثلاً قصہ آدم و حوا علیہما السلام اور ابلیس، ذریت آدم سے عہد الست لیا جانا، زمین و آسمان و پہاڑوں پر امانت کا پیش کیا جانا وغیرہ جیسے امور کا انکار بھلا کیسے ممکن ہے؟ اسلامی مائیتھالوجی کی تدوین صوفی فکر نے کی ہے اور ذات باری کے اسماء حسنی اس اسلامی مائیتھالوجی کی بنیاد ہے۔ شیخ ابن عربی کو اس لئے بھی "شیخ اکبر" کہا جاتا ہے کہ وہ اس علم کے اسی طرح مدون ہیں جیسے امام شافعی (م820ء) اصول فقہ کے۔
حواشی
51. القرآن: النور 35
52. مشکاۃ الانوار: 63 – 64
53. الفتوحات المکیۃ: 2 / 21 ، نیز 2/ 160 ، نیز 3 / 484
54. القرآن: الحدید 3
55. صحیح مسلم: 2577
56. الفتوحات المکیۃ: 2 / 484
57. الفتوحات المکیۃ: 3 / 449
58. القرآن: فصلت 53
59. مشکاۃ الانوار 57
60. القرآن:القصص 30
61. سنن نسائی: 1620
62. شعب الایمان لبیہقی،: 3837
63. احیاء العلوم: 4 / 87
64. احیاء العلوم: 4 / 86
65. القرآن:ھود 123
66. شرح معانی اسماء الحسنی 49
67. مشکاۃ الانوار 63
68. القرآن:فصلت 53
69. الفتوحات المکیۃ: 1 / 366 – 367 نیز 3/ 224 نیز 3 / 378
70. القرآن:الرحمن 19-20
71. الفتوحات المکیۃ: 3 / 347
72. الفتوحات المکیۃ: 2 / 438 ، نیز 2 / 303
73. الفتوحات المکیۃ: 4/ 193
74. القرآن:فصلت 53
75. القرآن:فصلت 54
76. الفتوحات المکیۃ: 2/ 516
77. القرآن:الانفال 17
78. الفتوحات المکیۃ: 2 / 216
79. القرآن:الحدید 4
80. القرآن:المجادلۃ 7
81. القرآن:ق 16
82. القرآن:الواقعۃ 85
83. القرآن:ق 16
84. القرآن:البقرۃ 115
85. القرآن:الانعام 3
86. القرآن:نور 35
87. ترمذی: 3298
88. الفتوحات المکیۃ: 3 / 405
89. مشکاۃ الانوار 54
90. احیاء العلوم: 4 / 245 – 246
91. شرح اسماء الحسنی 58
92. الفتوحات المکیۃ: 2 / 390 ، نیز 3 / 148۔ عالم کو کلمۃ اللہ کہنے کا استدلال کلمۃ "کن" نیز قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کو "کلمۃ اللہ" کہے جانے سے ہے (آل عمران 45، النساء 171)
93. القرآن:البقرۃ 255
تصوراتِ محبت کو سامراجی اثرات سے پاک کرنا (۳)
اسلام میں محبت کی اساسیات غزالیؒ کے حوالے سے
ڈاکٹر ابراہیم موسٰی
مترجم : ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
خلاصہ
محبت کے مروجہ تصورات انسانی تاریخ کے ایک انتہائی پیچیدہ تجربے کی محض ایک تکرار ہیں۔ یہاں تک کہ محبت کے سیکولرائزڈ ورژن بھی محبت کے خاص باقی رہ گئے لاہوتی اثرات رکھتے ہیں58۔ تاہم مختلف مذہبی روایات میں محبت کی کہانی بہت مختلف ہے جیسا کہ اسلام کے معاملے میں ہے، جس کا یہاں اظہار میں نے ممتاز مسلم مفکر غزالیؒ کی مدد سے کیا۔ اگر محبت کے مسلم تصورات کو اس روایت کی تاریخی اساس کے لحاظ سے پیش کیا جائے تو وہ بھی محبت کے متنوع تصور کا ایک حصہ ہو سکتے ہیں اور محبت کی بالادستی والی تفہیم کو کم کر سکتے ہیں۔
سیاسی الٰہیات اور سیاست کے مباحثوں میں مسلم الٰہیاتی تصورات اور اس کے رحمت و محبت کے تصورات کی عدم موجودگی نے عام طور پر مکالمے اور باہمی افہام و تفہیم میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ اسلام میں محبت جیسے تصور کے مظاہر کا اس کی اساس سے آگاہی کے بغیر ترجمہ صرف غلط تعبیر اور الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔
اسلام کا اخلاقی نظریہ ادراک، معرفت اور اطاعت کے مظاہر پر مبنی ہے۔ حکم "اپنے پڑوسی سے پیار کرو!" عیسائی الہیات کی ایک مرکزی تعلیم ہے اور اس کے عقیدۂ کفارہ سے جڑی ہے۔ مسیحی محبت، اور "اپنے پڑوسی سے پیار کرو" والا بیانیہ کفارہ کے عقیدہ سے مربوط ایک عمل ہے اور یہ عیسائیت کے لیے لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں اپنے پڑوسی سے محبت کرنے کا کوئی حکم نہیں ہے۔ جی ہاں، آپ کو اپنے پڑوسی کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آنا اور عزت اور مہربانی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
پڑوسیوں کے ساتھ بدسلوکی خدا کی ناراضگی کا باعث بنتی ہے۔ آپ سوئیں اور آپ کا پڑوسی بھوکا ہو یہ اسلام میں ناقابل برداشت ہے۔
اسلامی الٰہیات میں فوکس "خدا کی عبادت" یا "خدا کی خدمت" پر ہے۔ خدا کی خدمت کا مطلب خدا کی مخلوق کی خدمت کرنا ہے۔ ایسی تعلیمات ہیں جن میں خدا انسان سے مخاطب ہے، اور ایک بیان میں مخاطب حضرت موسیٰ ہیں جن سے خدا کہتا ہے: ''میں بیمار تھا اور تم نے میری عیادت نہیں کی؟'' موسیٰ نے جواب دیا 'اے رب، کیسے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے؟'' خدا نے جواب دیا: ''میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تم نے اس کی عیادت نہیں کی۔ اگر تم اس کے پاس جاتے تو تم مجھے اس کے ساتھ پاتے 59۔
اس سے پہلے بائبل میں بھی میں اسی طرح کا بیان موجود ہے (میتھیو 25:31-46) جسے حضرت محمدﷺ کی احادیث کی صورت میں مسلم روایت میں بھی جگہ ملی۔ مثلاً اس روایت کے دیگر مسلم متون میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بھوکے تھے اور تکلیف میں تھے جنہیں ان کے ساتھی انسانوں نے کھانا نہیں کھلایا یا تسلی نہیں دی۔ جب بندہ اس بات سے پریشان ہوتا ہے کہ وہ خدا کی عیادت کیسے کر سکتا، اسے کھانا کیسے کھلا سکتا اور تسلی کیسے دے سکتا ہے، تو اسے بتایا جاتا ہے کہ بیماروں، مسکینوں اور بھوکوں کی خدمت کرنا خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف ہے۔ اس میں شامل تشبیہ یہ تو بتاتی ہے کہ احسان کے یہ اعمال خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف ہیں، لیکن ان کو کبھی بھی جسمانی طور پر خود خدا کو کھانا کھلانے کے مترادف نہیں سمجھا گیا۔ یاد رکھیں کہ شروع سے ہی مسلم الٰہیات خالق اور مخلوق کے درمیان واضح فرق رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
ایک جیسی روایات اور روایات میں مماثلت سطحی طور پر یہ تاثر دے سکتی ہے کہ مسلم اور عیسائی روایات میں ایک ہی جیسے نظریات ہیں جب کہ وہ واقعی مختلف ہیں۔ ہر ایک کا ایک پیچیدہ الٰہیاتی نظام ہوتا ہے۔اسی طرح اس کے دینیاتی دائرہ میں محبت کا مقام نازک اور نتیجہ خیز نتائج کے ساتھ باہم مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا ہے۔”کامن ورڈ“ کے مصنفین اسلام اور عیسائیت کے درمیان غیر مفید اور غلط مذہبی مفاہمت کے چکر میں دونوں کے عقیدہ اور نتائج میں نمایاں فرق کو نظر انداز کر ڈالتے ہیں۔
غزالیؒ کی تعلیمات سے جو نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا کو نہ جان سکنے کا اثبات دوسرے لفظوں میں انسان کے مطلق اور کلی علمیاتی دعوے کی نفی ہے۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ کچھ لوگ خدا کو خالص سریان یا مطلق ماورائی بنانے کے لئے بہت پرجوش ہوں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ جس خدا سے محبت کی جانی چاہیے اُسے جاننے کی خواہش اور جس خدا کی معرفت حاصل کی جا سکتی ہے اس سے محبت کی خواہش کسی اور ہی چیز کی تلاش ہو؟ کیا یہ اپنی مرضی کا سراسر استعمال نہیں ہو سکتا جو اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرنا ہے کہ ہماری خدا کو ایک فریم دینے کی کوشش ہمارے جدلیاتی افق سے نہ بچ پائے۔ کیا خدا کو جاننے کی یہ خواہش اپنے آپ میں طاقت کی خواہش نہیں ہوگی؟ اسلامی روایت و اسلامی نظریہ اللہ کے اسرار کے تصور کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے جو انسانوں کی مکمل گرفت سے باہر ہے۔
تاہم، جب کوئی مسیحی دنیا کے رہنماؤں کے نام کھلے خط میں "ہمارے اور آپ کے درمیان ایک مشترکہ بیان" پڑھتا ہے، تو اس کو کسی اسلامی خصوصیت کا احساس نہیں ہوتا60۔ اس بیان پر دستخط کرنے والوں میں سے کئی جو یورپ اور شمالی امریکہ میں مقیم مسلمان دانشور ہیں، پوپ کو یاد دلاتے ہیں کہ قرآن کے خدا نے اپنے لیے رحمت تجویز کی تھی (قرآن 6:12؛ 6:54 دیکھیں)۔ وہ اسے ایک اور ارشاد خداوندی یاد دلاتے ہیں۔ یعنی یہ قرآنی آیت کہ: ”میری رحمت ہر چیز پر محیط ہے“ (الاعراف 7:156)۔
تاہم ان حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ”رحمت“ کی توضیح محبت، مہربانی اور شفقت سے بھی کی جا سکتی ہے۔ اسی لفظ رحمت سے کلمہ ”بسم اللہ الرحمن الرحیم“ (خدائے رحمن و رحیم کے نام سے) جس کو مسلمان عموماً روز ہی استعمال کرتے ہیں، نکلا ہے۔ کامن ورڈ کے مصنفین سے میرا اختلاف یہ ہے کہ میرے نزدیک مسلم علم کلام میں خدا کی رحمت خدا کی قدرت کا ایک عمل ہے۔ جبکہ دوسری جانب محبت ایک ایسا عمل ہے جس میں محبت کرنے والا اور محبوب دونوں ایک دوسرے سے بندھے ہوتے ہیں جیسا کہ امام غزالی نے واضح کیا ہے61۔
اسلام میں محبت کا مقام اعمال کے اس دائرہ میں واقع ہے جہاں عمل اور وجود دونوں میں تفریق نہیں ہوتی۔جہاں وجودیات اور اعمال میں فرق نہیں کرتے۔ فکری سرگرمی میں خلوص اور سوشل اور اخلاقی کاموں میں محبت پوری طرح راسخ اور جمی ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں محبت کی سیاسیات (یعنی تصورات محبت) کو صیقل کرنے کی غرض سے اسلامی وسائل کا جائزہ لینا چھوٹی چیزوں (مائکریونٹس) پر مرتکز رہتا ہے، جو اجتماعی زندگی کو تشکیل دیتی ہیں۔ یعنی فرد، خاندان اور کمیونیٹی کو۔ یہ جائزہ بھی خطرہ سے خالی نہیں۔ اس لیے کہ خاندان کا تصور کم ازکم روایتی خاندان کا جس قسم کے اختیارات کو تشکیل دیتا ہے ان میں بھی خاصے اختلافات موجود ہیں۔ سماج ان افراد کا مجموعہ ہے جو مشترکہ مفادات کی بنیاد پر جمع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ قوم یا کمیونیٹی وابستگی کے ایک شدید احساس پر مبنی ہوتی ہے۔ محبت کی سیاسیات سماجی زندگی کے مرکز میں جس چیز کو دوبارہ لاتی ہے وہ معیاریت کے مسائل کی ضرورت پر غور و فکر کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فرائض و واجبات کو اختیار کرنا۔ جس کو کہ آج کے ”حقوق“ کلچر کی فضا کا مخالف سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ لبرٹی کو دوسری تمام اقدار پر غلبہ دیتی ہے۔ محبت کی سیاسیات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان چیزوں پر بھی غور کریں کہ جن کے باعث ہم اپنی اجتماعیت کو انسانی سماج کے بطور تصور کر پاتے ہیں۔لیکن اس میں ہمیں تنوع و تکثیریت پر بھی زور دینا ہو گا۔
حواشی و تعلیقات
58. ایگلٹن:The Event of Literatureایگلٹن لزومیت کے ساتھ متصادم ہے۔جوایک ایساتصورہے جسے فلسفی وجودی اصطلاحات میں ”کسی چیز کے وجودکی نوعیت کے بارے میں ایک سوال“کے طورپر پیش کرتے ہیں۔محبت وہ ہے جوایگلٹن کے ذہن میں ایک وجودی زمرہ کے طورپر آتی ہے۔ پھروہ ایک جوہرکی طرح محبت سے رجوع کرنے کی تجویز پیش کرتاہے۔مثلامحبت کواخلاقی طورپر ایپروچ کرنا۔ایک انسان کا جوہر کیاہے؟وہی ہے جس سے انسانی محبت کا ظہورہوتاہے۔(17-18 )دوسروں سے محبت کے لیے سب سے پہلے ان کے بارے میں ایک خاص انداز کا احساس کرناہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایک خاص اندازمیں برتاؤکرنابھی ہے۔(۱۶)یہاں ایگلٹن محبت کوہونے (Being)کی وجودیات سے عمل کی اخلاقیات کی طرف دھکیل رہاہے۔لیکن اس کی اگلی لائن ہی ایک مختلف وجودی موڈکی طرف پھسل جاتی ہے۔”یہی وجہ ہے کہ خیرات کی مثال غیروں کی محبت ہے دوستوں کی نہیں۔اجنبیوں سے محبت کرنے کی کوشش میں ہم محبت کوپیٹ کے گڑھے میں گرم چمک (مطلب کسی کا پیٹ بھرنا)سمجھ بیٹھنے کا امکان کم ہی رکھتے ہیں“(۲۶۔۱۶)غزالی کی سوچ یہ ہے کہ محبت کوپیٹ کے گڑھے میں گرم چمک (ان کی ضرورتیں پوری کرنا)یقینا سمجھاجاسکتاہے۔ایسی محبت جس میں دوست اورغیرسب شامل ہوسکتے ہیں۔جوچیز مسرت آگیں ہوتی ہے اس سے محبت کی جاتی ہے۔کسی سے محبت کرنا،غزالی کہیں گے،اس کے بارے میں ایک خاص انداز کا احساس کرنااوراس کے ساتھ ایک خاص طرح کا برتاؤکرنادونوں ہوسکتاہے۔ایگلٹن واضح طورپرمحبت کے ساتھ ایک وجودیات کوجوڑرہاہے نہ اس کی مظہریت کو۔اسی لیے وہ جذبات اورعمل میں علیحدگی قائم کرتاہے۔
59. الغزالی:کتاب المحبۃوالعشق والانس والرضا،احیاء علوم الدین ص 268
60. http://www.acommonword.com
61. Aijaz Ahmad, In Theory: Classes, Nations, Literatures, (London:Verso, 1992), 190
62. جیساکہ اعجاز احمدنے کہا:جوچیز راسخ العقیدہ اسلام کے لیے مسئلہ ہے وہ یسوع کی نہیں بلکہ عیسائیت کی حیثیت ہے۔اورجس طرح سے یسوع مسیحی عقیدہ میں ظاہرہوتے ہیں۔کیونکہ راسخ العقیدہ عیسائیت اسلام کوایک بدعت مانتی ہے توراسخ العقیدہ اسلام نے بھی تاریخی طورپر عیسائیت کے کچھ بنیادی عقیدوں کومکمل طوپر توہین آمیز اورکفریہ سمجھاہے جیسے کہ تثلیث کا نظریہ اور مسیح علیہ السلام کوخداکابیٹاتصورکرنا۔
نوٹ:
To cite (this article: Ebrahim Moosa (15 Jan 2024): Decolonizing the Politics of Love: A GhazÄlian Genealogy of Love in Islam, Political Theology, DOI: 10.1080/1462317X.2024.2304442 To link to this article:
https://doi.org/10.1080/1462317X.2024.2304442)
کتابیات : References
Agamben, Giorgio. What Is an Apparatus?: And Other Essays. Stanford, CA: Stanford University Press, 2009.
Al-Azmeh, Aziz. The Emergence of Islam in Late Antiquity: Allah and His People. New York: Cambridge University Press, 2014.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ammad b. Muh. ahmad, al-Mustasfa min eIlm al-Usulالمستصفی من علم الاصول. 2 vols. Madina: Sharika al-Madina al-Munawwara li al-T. iba a wa al-Nashr, 1413/1993.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad.کتاب المحبۃ والشوق والرِِضا,احیاء علوم الدین 5 vols. 4, 257-314. Beirut: Dar al-Kutub al-eIlmaya, 1421/ 2001.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad کتاب شرح عجائب القلب،احیاء علوم الدین5 vols, 3, 3-44. Beirut: Dsr al-Kutub al-elmiya, 1421/2001.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad المقصدالاسنی فی شرح معانی الاسماء اللہ الحسنی Beirut: Dar Ibn H. azm, 1424/2003.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad: Love, Longing, Intimacy and Contentment کتاب المحبۃ والشوق والرِِضا؛ احیاء علوم الدین. Ä Book XXXVI of the Revival of the Religious Sciences Translated by Eric L. Ormsby. Cambridge: The Islamic Texts Society, 2011.
Al-Ghazali, Abu Hamid Muh. ahmad b. Muh. ahmad and Mah. Mahmood Biju. Mizanu al-Amal. Damascus: Dar al-Taqwa, 1428/2008. (میزان العمل)
Asad, Muhammad. The Message of the Quran. Bristol: The Book Foundation, 2003.
Burrell, David B., Nazih Daher. Al-Ghazali The Ninety-Nine Beautiful Names of God المقصدالاسنی فی شرح معانی الاسماء اللہ الحسنی Translated with Notes. Cambridge: Islamic Texts Society, 1992.
Cleary, Thomas. The Qur'an: A New Translation. Starlatch Press, 2004.
Eagleton, Terry. The Event of Literature. New Haven: Yale University Press, 2012.
Foucault, Michel, and Colin Gordon. Power/Knowledge: Selected Interviews and Other Writings, 1972-1977. 1st American ed. New York, N.Y.: Pantheon Books, 1980.
Gandolfo, Elizabeth O'Donnell. The Power and Vulnerability of Love a Theological Anthropology. Minneapolis, MN: Fortress Press, 2015.
Hamza Feras, Sajjad Rizvi, and Farhana Mayer, eds. An Anthology of Qur'anic Commentaries. Volume 1 on the Nature of the Divine. This paperback edition published 2010 ed, 5. Oxford: Oxford University Press in Association with the Institute of Ismaili Studies, 2010.
Heydarpoor, Mahnaz. Love in Christianity and Islam: A Contribution to Religious Ethics. London: New City, 2005.
Ibn erabi Abu Bakr Muhyuddin, and Ah. mad Shams al-ddin (ed). al-Futuhat al-Makkiya. 1st ed. 9 vols. Beirut: Dar al-Kutub al-eIlmiya 1420/1999.
Jili, 'Abd al-Karim.. al-Insan al-Kamil fí Maerifat al-Awaeil wa al-Awakhir.1st ed. 2 vols. Cairo: Maktabat al-Thaqafaya, 2004.
Kant, Immanuel. Critique of Pure Reason. Translated by Paul Guyer. Cambridge: Cambridge University Press, 1998.
Khalidi, Tarif. The Qur'an. Deluxe ed.. New York: Penguin Books, 2008.
Lingis, Alphonso. "Subjectification." Continental Philosophy Review 40, no. 2 (2007): 113-123. doi:10.1007/s11007-007-9054-5.
Mignolo, Walter D. Foreword: On Pluriversality and Multipolarity." In Constructing the Pluriverse, edited by Reiter Bernd, ix-xvi. New York: Duke University Press, 2018.
Mignolo, Walter D. "Decoloniality and Phenomenology: The Geopolitics of Knowing and Epistemic/Ontological Colonial Differences." The Journal of Speculative Philosophy 32, no. 3 (2018): 360-387. doi:10.5325/jspecphil.32.3.0360.
Moosa, Ebrahim. "Allegory of the Rule (H. ukm): Law as Simulacrum in Islam" History of Religions 38, no. 1 (1998): 1-24. doi:10.1086/463517.
Moosa, Ebrahim. Ghazãli and the Poetics of Imagination. Chapel Hill, NC: University of North Carolina Press, 2005.
Nygren, Anders. Agape and Eros. Christian Idea of Love. Philadelphia, Westminster Press [1953], 1953. pt. 1. A study of the Christian idea of love.-pt. 2. The history of the Christian idea of love.
Quijano, Anibal. "Coloniality of Power, Eurocentrism, and Latin America." Nepantla 1, no. 3 (2000): 533-580.
Shaikh, Sadiyya. Sufi Narratives of Intimacy: Ibn erabi, Gender and Sexuality. Chapel Hill: University of North Carolina Press, 2012.
انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
اللہ رب العزت کا یہ احسان ہے کہ اس نے اسلام کی دولت سے سرفراز کیا ہے اور آپ ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا ہے ۔اسلامی شریعت نے زندگی کے تمام معاملات میں ہماری راہنمائی کی ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس ہم اسلامی شریعت کی تعلیمات کو سیکھ کر اپنی عملی زندگی میں اس کو نافذ کریں۔ آج کی گفتگو کا موضوع :’’انسانی نفس کے حقوق اسلامی شریعت کی روشنی میں ‘‘ ہے ۔
انسانی جان کی اہمیت قرآنی آیات کی روشنی میں
اللہ رب العزت نے انسانی کی اہمیت قرآن حکیم میں بیان فرمائی ہے ذیل میں تین آیات مبارکہ پیش کی جا رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔
۱۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا1
’’یقیناً ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں کی روزیاں، دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی۔‘‘
۲۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ2
’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔‘‘
۳۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُنَا بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ إِنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ بَعْدَ ذَلِكَ فِي الْأَرْضِ لَمُسْرِفُونَ3
’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کسی ایک کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا ، اور ان کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھر اس کے بعد بھی ان میں اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔‘‘
نفس انسانی کے حقوق سے متعلق احادیث
۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لاَ يَخُونُهُ وَلاَ يَكْذِبُهُ وَلاَ يَخْذُلُهُ، كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ، عِرْضُهُ وَمَالُهُ وَدَمُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا، بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْتَقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ.4
’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، اس کے ساتھ خیانت نہ کرے، اس سے جھوٹ نہ بولے، اور اس کو بے یار و مددگار نہ چھوڑے، ہر مسلمان کی عزت، دولت اور خون دوسرے مسلمان کے لیے حرام ہے، تقویٰ یہاں ( دل میں ) ہے، ایک شخص کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر و کمتر سمجھے۔‘‘
۲۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ"5
’’حضرت عبداللہ ( بن مسعود ) رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کسی مسلمان کا ، جو گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ، خون حلال نہیں ، مگر تین میں سے کسی ایک صورت میں ( حلال ہے ) : شادی شدہ زنا کرنے والا ، جان کے بدلے میں جان ( قصاص کی صورت میں ) اور اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہو جانے والا۔‘‘
درج بالا احادیث میں انسان کا مقام بیان کیا گیا ہے اس لیے انسان کے لیے ضروری ہے کہ اپنا مقام کا لحاظ رکھتے ہوئے اسلامی شریعت کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی بسر کرے ۔ ذیل میں انسان کے اپنی ذات پر کیا حقوق ہیں ترتیب کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں۔
پہلا حق :اللہ کے علاوہ کسی کی بندگی نہ کرنا
انسان پر اپنی ذات سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی اطاعت نہ کریں ،اس لیے اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے وہی اس امر کا مستحق ہے کہ اس کی بندگی بجالائی جائے ۔اسی امر کی طرف قرآن حکیم میں کئی مقامات پر اشارہ کیا گیا ہے ۔
۱۔ ارشاد باری تعالی ہے :
يَاأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ◌ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ6
’’اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے۔ جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کر کے تمہیں روزی دی، خبردار باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو ۔‘‘
۲۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ7
’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو ۔ پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی (١) پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا ؟‘‘
قرآن حکیم کا اولین مقصد یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی کے علاوہ کسی اور کی بندگی نہ کرے ،اسی کے احکامات کو زندگی کے تمام معاملات میں عمل کرنے کی سعی کرے ۔اسی امر کی تعلیم آپ ﷺ نے دی ہے ذیل میں حضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور حدیث پیش کی جا رہی ہے جس میں اللہ کا بندوں پر اور بندوں کا اللہ حق بیان کیا گیا ہے ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا مُؤْخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ»، قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «فَإِنَّ حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ، وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا»، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ» قُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللهِ، وَسَعْدَيْكَ، قَالَ: «هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟» قَالَ: قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ»8
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی ، کہا : میں ( سواری کے ایک جانور پر ) رسول اللہ ﷺ کے پیچھے سوار تھا ، میرے اور آپ کے درمیان کجاوے کے پچھلے حصے کی لکڑی ( جتنی جگہ ) کے سوا کچھ نہ تھا ، چنانچہ ( اس موقع پر ) آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول ! ز ہے نصیب ۔ ( اس کے بعد ) آپ پھر گھڑی بھر چلتے رہے ، اس کے بعد فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں نے عرض کی : میں حاضر ہوں ، اللہ کے رسول ! زہے نصیب۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ عز و جل کا کیا حق ہے ؟ ‘‘ کہا : میں نے عرض کی : اللہ اور اس کا رسول زیادہ آگاہ ہیں ۔ ارشاد فرمایا :’’ بندوں پر اللہ عزوجل کا حق یہ ہے کہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ ‘‘ پھر کچھ دیر چلنے کے بعد فرمایا :’’ اے معاذ بن جبل ! ‘‘ میں عرض کی : میں حاضر ہوں اللہ کے رسول ! زہے نصیب ۔ آپ نے فرمایا :’’ کیا آپ جانتے ہو کہ جب بندے اللہ کا حق ادا کریں تو پھر اللہ پر ان کا حق کیا ہے ؟ ‘‘ میں نے عرض کی ، اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں ۔ آپ نے فرمایا :’’ یہ کہ وہ انہیں عذاب نہ دے ۔ ‘‘
دوسرا حق : اپنے آپ کو آگ سے بچانے کی کوشش کرنا
انسان کے اوپر دوسرا حق یہ ہے کہ اپنی ذات کو ان تمام امور سے اپنی حفاظت کرے جو آگ کی طرف لے جانے والے ہیں، اسی امر کی طرف قرآن حکیم میں کئی مقامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ موت سے قبل اپنی ابدی زندگی کی تیاری کی فکر کی جائے۔ ذیل میں اس سے متعلق آیات قرآن پیش کی جا رہی ہیں۔
۱۔: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ9
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ (١) جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں ۔‘‘
۲۔يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ10
’’اے ایمان والو جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی نہ شفاعت (١) اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘
۳۔وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ11
’’اور پیروی کرو اس بہترین چیز کی جو تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمہیں اطلاع بھی نہ ہو۔‘‘
۴۔اسْتَجِيبُوا لِرَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمٌ لَا مَرَدَّ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَا لَكُمْ مِنْ مَلْجَإٍ يَوْمَئِذٍ وَمَا لَكُمْ مِنْ نَكِيرٍ 12
’’اپنے رب کا حکم مان لو اس سے پہلے کہ اللہ کی جانب سے وہ دن آجائے جس کا ہٹ جانا ناممکن ہے ، تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی (٢)۔‘‘
درج بالا آیات میں اس امر کی طرف دعوت دی جا رہی ہے کہ اہل ایمان اپنی آخرت کی فکر کو اولین ترجیح میں رکھیں اور اسی کے مطابق اپنے تمام امور بجا لانے کی کوشش کریں۔
آپ ﷺ نے اپنے متبعین کی اس انداز میں تربیت فرمائی ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنے رب کی بندگی اور اپنے رسول کی اطاعت میں زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں ۔
۱۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ سَبْعًا هَلْ تُنْظَرُونَ إِلَّا إِلَى فَقْرٍ مُنْسٍ، أَوْ غِنًى مُطْغٍ، أَوْ مَرَضٍ مُفْسِدٍ، أَوْ هَرَمٍ مُفَنِّدٍ، أَوْ مَوْتٍ مُجْهِزٍ، أَوِ الدَّجَّالِ فَشَرُّ غَائِبٍ يُنْتَظَرُ، أَوِ السَّاعَةِ فَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ13
’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات چیزوں سے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کرو، تمہیں ایسے فقر کا انتظار ہے جو سب کچھ بھلا ڈالنے والا ہے؟ یا ایسی مالداری کا جو طغیانی پیدا کرنے والی ہے؟ یا ایسی بیماری کا جو مفسد ہے ( یعنی اطاعت الٰہی میں خلل ڈالنے والی ) ہے؟ یا ایسے بڑھاپے کا جو عقل کو کھو دینے والا ہے؟ یا ایسی موت کا جو جلدی ہی آنے والی ہے؟ یا اس دجال کا انتظار ہے جس کا انتظار سب سے برے غائب کا انتظار ہے؟ یا اس قیامت کا جو قیامت نہایت سخت اور کڑوی ہے۔‘‘
حضرت میمونؓ فرماتے ہیں:
اعْمَلُوا فِي الصِّحَّةِ قَبْلَ الْمَرَضِ، وَفِي الْحَيَاةِ قَبْلَ الْمَوْتِ، وَفِي الشَّبَابِ قَبْلَ الْكِبَرِ، وَفِي الْفَرَاغِ قَبْلَ الشُّغْل14
’’مرض میں مبتلا ہونے سے پہلے حالت صحت میں ،موت سے قبل زندگی میں ،نوجوانی میں بڑھاپے سے پہلے، مصروفیت آنے سے قبل فارغ وقت میں نیک اعمال کرو۔‘‘
عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ: كُنَّا نَتَوَاعَظُ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ بِأَرْبَعٍ، كُنَّا نَقُولُ: «اعْمَلْ فِي شَبَابِكَ لِكِبَرِكَ، وَاعْمَلْ فِي فَرَاغِكَ لشُغْلِكَ، وَاعْمَلْ فِي صِحَّتِكَ لِسَقَمِكَ، وَاعْمَلْ فِي حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ»15
’’حضرت غنیم بن قیسؓ فرماتے ہیں کہ اسلام کے ابتدائی میں ایام میں ایک دوسرے کو چار چیزوں کی نصیحت کرتے تھے ،ہم کہتے تھے :نوجوانی میں بڑھاپے کے لیے عمل کرو، مشغولیت سے قبل فارغ وقت میں نیک اعمال کرو، حالت صحت میں نیک اعمال کرو، موت سے قبل زندگی میں نیک عمل کرو۔‘‘
تیسرا حق :طاقت سے زیادہ اپنے آپ پر بوجھ نہ ڈالنا
تیسرا حق یہ ہے کہ اپنی طاقت اور بساط کے مطابق اپنے امور بجا لانے کی کوشش کی جائے حتی کہ عبادات میں بھی میانہ روی اختیار کی جائے تاکہ زندگی کے دیگر امور متاثر نہ ہوں ۔ذیل میں ایک صحابی کا عمل ذکر کیا جارہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام کے ذریعے ہماری یہ تربیت کی ہے کہ ہم اپنے امور میں اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔
عَنْ عَوْنِ بْنِ أَبِي جُحَيْفَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ سَلْمَانَ، وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، فَزَارَ سَلْمَانُ أَبَا الدَّرْدَاءِ، فَرَأَى أُمَّ الدَّرْدَاءِ مُتَبَذِّلَةً، فَقَالَ لَهَا: مَا شَأْنُكِ؟ قَالَتْ: أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ لَيْسَ لَهُ حَاجَةٌ فِي الدُّنْيَا، فَجَاءَ أَبُو الدَّرْدَاءِ فَصَنَعَ لَهُ طَعَامًا، فَقَالَ: كُلْ؟ قَالَ: فَإِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: مَا أَنَا بِآكِلٍ حَتَّى تَأْكُلَ، قَالَ: فَأَكَلَ، فَلَمَّا كَانَ اللَّيْلُ ذَهَبَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يَقُومُ، قَالَ: نَمْ، فَنَامَ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقُومُ فَقَالَ: نَمْ، فَلَمَّا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قَالَ: سَلْمَانُ قُمِ الآنَ، فَصَلَّيَا فَقَالَ لَهُ سَلْمَانُ: إِنَّ لِرَبِّكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَلِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَأَعْطِ كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَدَقَ سَلْمَانُ16
’’حضرت عون بن ابو جحیفہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہ میں ( ہجرت کے بعد ) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرداء رضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام الدرداء رضی اللہ عنہا کو بہت پراگندہ حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام الدرداء رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہیں جن کو دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور ان کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں تو روزے سے ہوں، اس پر سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہو گے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہو گئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداء رضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔‘‘
چوتھا حق:جسم کے اعضاء (آنکھ، کان، ذہن کی حفاظت، ہاتھ، پاؤں، پیٹ، ذہن) کی حفاظت
ایمان لانے کے ایک بندہ مختلف ذمہ داریوں سے ہمکنار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کو اپنے تمام اعمال کی کڑی نگرانی کرنی ہوتی ہے ۔اللہ رب العزت نے انسان کو مختلف نعمتوں سے نوازا ہے بالخصوص جسم کے تمام اعضاء کہ جن سے انسان اپنے امور بجا لاتا ہے ۔اسلامی شریعت نے یہ تعلیم دی ہے کہ ان اعضاء کی حفاظت کی جائے اس لیے کہ قیامت کے دن تمام اعضاء کو گویائی دی جائے گی جس کے نتیجے میں وہ ان تمام امور کو واضح کریں گے جو ان سے صادر کیے گئے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا17
’’جس بات کی تمہیں خبر ہی نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔‘‘
قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر ان الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ18
’’جبکہ ان کے مقابلے میں ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے۔‘‘
درج بالا آیات سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعضاء قیامت کے روز اس کے حق میں یا اس خلاف گواہی دیں گے، اس لیے اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے اعضاء سے کوئی ایسا کام نہ کرے جن سے اللہ نے منع فرمایا ہے تاکہ قیامت کے روز شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ لہذا جسم کے اعضاء کا حق قرآن حکیم میں واضح کردیا گیا ہےکہ ان کو درست راہ میں استعمال کیا جائے ۔
اسی طرح آپ ﷺ نے ذہن اور پیٹ میں جانے والی اشیاء کی نگہداشت کی تعلیم دی ہے، جس کی وضاحت درج ذیل حدیث میں کی گئی ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَحْيُوا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ» ، قَالَ: إِنَّا نَسْتَحِي وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، قَالَ: «لَيْسَ ذَاكَ وَلَكِنْ مَنِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ فَلْيَحْفَظِ الرَّأْسَ وَمَا وَعَى، وَلْيَحْفَظِ الْبَطْنَ وَمَا حَوَى، وَلْيَذْكُرِ الْمَوْتَ وَالْبَلَاءَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدِ اسْتَحْيَا مِنَ اللَّهِ حَقَّ الْحَيَاءِ»19
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے شرم و حیاء کرو جیسا کہ اس سے شرم و حیاء کرنے کا حق ہے“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اللہ سے شرم و حیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”حیاء کا یہ حق نہیں جو تم نے سمجھا ہے، اللہ سے شرم و حیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو ، اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو ، اور موت اور ہڈیوں کے گل سڑ جانے کو یاد کیا کرو، اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زیب و زینت کو ترک کر دے پس جس نے یہ سب پورا کیا تو حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حیاء کی جیسا کہ اس سے حیاء کرنے کا حق ہو۔‘‘
حقوق کی حفاظت پر فوائد و ثمرات
۱۔اللہ کے احکامات پر عمل
۲۔یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے
۳۔خیر کے کاموں میں رغبت بڑھ جاتی ہے۔
۴۔اللہ کا محبوب بندہ بن جاتا ہے
۵۔جسمانی صحت درست رہتی ہے
۶۔آخرت میں کامیابی ملے گی
محترم سامعین!
دین اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں انسان سے متعلق تمام امور کی راہنمائی دی گئی ہے ،اس لیے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے اس کے احکامات کو احسن انداز میں سیکھ کر اس کے مطابق عمل کریں۔ اللہ رب العالمین ہمیں دین اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین
حواشی
1. الإسراء:70:17
2. التين:4:95
3. المائدة:32:5
4. سنن ترمذی ، بَابُ مَا جَاءَ فِي شَفَقَۃِ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ،ح1927
5. صحیح مسلم ،بَابُ مَا يُبَاحُ بِہِ دَمُ الْمُسْلِمِ،ح۱۶۷۸
6. البقرۃ :۲۱:۲
7. النحل :36:16
8. صحیح مسلم ،بَابُ مَنْ لَقِي اللہَ بِالْإيمَانِ وَھُو غَيْرُ شَاكٍّ فِيہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ وَحُرِّمَ عَلَی النَّارِ،ح48
9. التحریم :6:66
10. البقرۃ:254:2
11. الزمر:55:39
12. الشوری47:42
13. سنن ترمذی،ح2306،حکم ضعیف (البانی)
14. الزهد والرقائق لابن المبارك،عبداللہ بن مبارک، بَابُ التَّحْضِيضِ عَلَی طَاعَۃِ اللّہِ عَزَّ وَجَلَّ،ح5
15. مسند احمد بن حنبل،ح1451
16. صحیح بخاری، بَابُ صُنْعِ الطَّعَامِ وَالتَّكَلُّفِ لِلضَّيْفِ،ح1948
17. الاسراء:36
18. النور:24:24
19. مسند احمد بن حنبل ،3671
تحفظ ماحولیات میں اسلام کا کردار و رہنمائی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی
خالقِ کائنات نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی ایک مضبوط نظام عطا فرما کر پوری کائنات کو محفوظ و مامون بنا دیا جس پر قرآن مجید کی کئی آیات ِ مبارکہ شاہد ہیں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
’’اور بے شک ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کروں اور ذروں کی شکل میں) چراغوں سے مزین فرما دیا ہے اور ہم نے ان(ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (یعنی سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اثرات ختم کرنے) کا ذریعہ (بھی) بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘ (الملک5)
مزید سورۃ الرحمن میں ارشادِ خداوندی ہے:
’’سورج اور چاند (اسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔‘‘(الرحمٰن5)
یعنی یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں جو منزلیں اور بروج ان کیلئے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ روگردانی ، اپنے اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں کیا مجال کہ دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر کریں ۔کیا ہی انوکھا ، عجیب تر اور حیرت کن نظم و ضبط نظام شمسی میں رکھا ہے۔
تفسیر الجامع لاحکام القرآن میں امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد بن ابی بر بن فرح الانصاری الخزرجی شمس الدین قطبی سورۃ الرحمن کی اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’حضرت ابن عباس (رضی اللہ عنہ) حضرت قتادہ (رضی اللہ عنہ) اور ابو مالک (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا کہ وہ (سورج اور چاند) حساب سے (اپنی اپنی) منازل میں چلتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے علیحدہ ہوتے ہیں (یعنی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے)۔‘‘
اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے، ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع و غروب ہوتا ہے، اسی سے ماہ و سال کا حساب بنتا ہے۔ اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے ۔
الغرض پوری کائنات میں جس جانب بھی نظر دوڑا لیں ہر ذرے اور ہر کرے میں مکمل نظم و ضبط پایا جاتا ہے ہر قدرتی نظام میں ایک توازن پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہر چیز میں ایک نکھار اور تر و تازگی ہے۔
انسان نے جب بھی اس توازن کو عدم توازن میں لانے کی کوشش کی اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے ۔تو واضح یہ ہوا کہ تخلیقِ کائنات میں کوئی کمی، کوئی کجی، کوئی نقص بلکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک و مبرا ہے ۔یہ جو آج پوری دنیا مختلف قسم کی آلودگیوں میں گھری ہوئی نظر آتی ہے یہ انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے جس کا مختصر جائزہ یہ ہے -
جب دنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور ان کے وسیع پیمانے پہ استعمال کے دور میں قدم رکھا ، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گوناگوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی۔ اِس بے احتساب اور بھاگم بھاگ کی ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔
اس وقت انسانی جان کی بقا کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے ان میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔ جو موسم کی ناہمواری، درجہ حرارت کی کمی و زیادتی، خشک سالی، طوفان، سیلاب، قدرتی آفات اور دیگر انسانی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کثرتِ امراض جنم لیتے ہیں۔ اب تو فطری ماحول کی ناہمواری نے بھی انسانی وجود کی بقا کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روئے زمین پر تمام جانداروں اور بالخصوص انسانی جان کے تحفظ کا انحصار جن باتوں پر کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک آلودگی سے پاک ماحول ہے۔ ہم سب کے لیے ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی اس سے پوری طرح اور بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کا تدارک سیرت النبی کی روشنی میں
واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ہم نے ہوا، پانی، مٹی، دھواں، درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی تک محدود کر دیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی کا(ISSUE) فقط انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ کار وسیع ہے اس کا اطلاق اخلاقی آلودگی، اقتصادی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی، ظاہری و باطنی آلودگی، ذہنی، فکری اور معاشرتی آلودگی پر بھی ہوتا ہے۔ ماحول ہی کی وجہ سے انسان جسمانی اور روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے اگر معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھو بیٹھے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جہاں پر شرفاء اور غرباء کے لیے ایام زندگی گزارنا مشکل ہو جاتے ہیں اور اگر معاشرہ اپنی طبعی اور احساسی اقدار کھو بیٹھے تو ہر گلی و کوچہ غلاظت اور گندگی کا ڈھیر بن جائے۔
پورا شہر ہر جگہ کھڑے بدبودار پانی کی وجہ سے فلڈ ایریا کی صورت اختیار کر لے تو پھر ایسی جگہ پر طبعی اور طبی لحاظ سے انسانی زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کی تعلیم دی ہے تاکہ انسان ذہنی، فکری اور جسمانی لحاظ سے محفوظ اور پرسکون زندگی گزار سکے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی سیرت طیبہ ان ہمہ قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا احاطہ کرتی ہے۔
طوالت کے خوف کی وجہ سے سیرت طیبہ ؐ میں سے یہاں پر فقط چند چیزوں کو ذکر کیا جاتا ہے:
پانی کو ضائع کرنے کی ممانعت
پانی اللہ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اس کو محفوظ کیا جائے اور ہر ممکن اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو پانی کے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے جس قدر تاکید فرمائی ہے آدمی پڑھ کر حیران ہو جاتا ہے
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو ۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہارۃ و سننہا)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’ایک مرتبہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کر رہے تھے )پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اسے دیکھ کر) فرمایا اے سعد!یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔ ‘‘(ایضا)
پانی کو نجاست سے بچانے کا حکم
جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح آپ نے پانی کو نجاست وغیرہ سے بھی بچانے کا حکم فرمایا ہے چاہے پانی ٹھہرا ہوا ہو یا جاری ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے ۔‘‘(ایضا)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ (المعجم الاوسط، رقم الحدیث: 1749)
پانی کے تحفظ کی احتیاطی تدابیر
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ممکن پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جائے چند مقامات ایسے ہیں جہاں سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے مثلا: غسل کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کیلئے صابن کے استعمال کے وقت ٹوٹی کو کھلا نہ رکھا جائے، برتن، کپڑے یا گھر کی صفائی کے لئے کسی بالٹی میں پانی ڈال کر استعمال کرنا چاہیے کیونکہ پائپ سے پانی زیادہ ضائع ہو جاتا ہے- اسی طرح مسواک اور وضو کرنے کے لئے بھی پانی لوٹا یا کسی برتن میں ڈال کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ حد درجے تک پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے اور گھر کے استعمال شدہ پانی کو گلیوں میں فضول نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ ایک تو کھڑے پانی سے گلی ، محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے اور دوسرا اس سے جراثیم و بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اس لئے اسے فصلوں، کھیتوں یا کسی طریقے سے کار آمد بنانا چاہیے۔ اسی طرح ملکی سطح پر بھی بارشوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے بڑے بڑے ڈیم اور بند قائم کیے جائیں اور اسے کار آمد بنایا جائے۔ پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنی چاہیے-
پانی کے ایک ایک گھونٹ پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
’’اللہ اس بندے پر خوش ہوتا ہے جو کھانا کھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے یا جو بھی چیز پیئے اس پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرے۔‘‘ (صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعا والتوبۃ)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے کہ:
’’یا اللہ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہو جانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الرقاق)
زمینی اور فضائی آلودگی کا تدارک
زمینی اور فضائی آلودگی سے نجات پانے کا ایک ذریعہ شجر کاری بھی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر کاری کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ترغیب بھی دلائی اور درخت لگانے پر اجر ملنے کا مژدہ بھی سنایا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کاشت کرے پس اس میں سے پرندے ، انسان یا جانور کھالیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے۔‘‘ (صحیح البخاری ، کتاب المزارع)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس درخت میں سے جتنا کھا لیا جائے تو اس (درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس میں سے چوری ہو وہ بھی اس کا صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے درندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے پرندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے (غرض یہ کہ) جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہو جائے گا ۔‘‘(صحیح مسلم ، کتاب المساقاۃ)
صحابہ کرام ؓکا شجرکاری کرنا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’میں ایک دن درخت لگا رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو ہریرہ! کیا کر رہے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ !درخت لگا رہا ہوں ۔‘‘(سنن ابن ماجہ، کتاب الادب)
حضرت قاسم مولی بنی یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
’’ان کے پاس سے ایک شخص گزرا ۔اس وقت وہ دمشق میں پودا لگا رہے تھے۔ اس شخص نے ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ بھی یہ (دنیاوی) کام کررہے ہیں حالانکہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے (ملامت کرنے میں) جلدی نہ کر۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالی کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لئے صدقہ ہو جاتا ہے۔‘‘ (مسند احمد ، رقم الحدیث : 28270)
بلاضرورت درختوں کو کاٹنے کی ممانعت
حضرت عبد اللہ بن حبش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا -حضرت امام ابو داؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ: یہ حدیث مختصر ہے( پوری حدیث اس طرح ہے )کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آ کر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آ کر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اللہ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔‘‘ (سنن ابو دائود، باب فِی قطعِ السدر)
بازار یا راہ گزر پہ گندگی پھیلانے کی ممانعت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں راستوں تک کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنی شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کر دینا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الایمان)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ایک آدمی نے قطعا کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا) اللہ تعالی نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا۔‘‘ (سنن ابو داؤد، کتاب الادب)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لعنت کے تین کاموں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں اور سائے میں قضائے حاجت کرنے سے۔‘‘ (سنن ابو داؤد ، کتاب الطہارۃ)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لعنت والے تین مقامات سے بچو۔ کسی نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ لعنت والے مقامات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: جس سائے کو استعمال کیا جاتا ہو، اس میں یا راستے میں یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا۔‘‘ (مسند حمد ، رقم الحدیث : 2767)
قارئین کرام! پاکیزگی اور صفائی کے اعتبار سے اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے۔اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ہر سلیم الطبع انسان صفائی ستھرائی و خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور گندگی، ناپاکی اور غلاظت سے ناپسندیدگی و نفرت کا اظہار کرتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اس لئے ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک کیلئے سیرت طیبہ ؐکی طرف رجوع کرنا چاہیے ،اور ماحول کو پاک صاف رکھ کر اپنا اور اپنے آنے والی نسلوں کا خیال رکھیں۔
یوم نکبہ اور فلسطینیوں کے لیے اس کی اہمیت
اسلامک ریلیف
آج یومِ نکبہ ہے، جسے اس سال غزہ میں فلسطینیوں پر مسلسل بمباری، نقل مکانی اور ناکہ بندی کے باعث یادگاری کے سالانہ دن کے طور پر نمایاں کیا جا رہا ہے۔ یہاں ہم اس دن کی ابتدا اور اہمیت کو دیکھیں گے:
یومِ نکبہ کیا ہے؟
یوم نکبہ ہر سال 15 مئی کو منایا جاتا ہے۔ یہ فلسطینی وطن کی تباہی اور 1948ء میں فلسطینی آبادی کی اکثریت کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔
نکبہ کا مطلب عربی میں 'تباہ' کا ہے۔ اور یہ وہ لفظ ہے جو فلسطینیوں اور دیگر لوگوں نے اس تاریخی لمحے کے لیے استعمال کیا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے یہ اصطلاح اس کے بعد فلسطینیوں پر جاری ظلم و ستم اور علاقے پر قبضہ کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔
1998ء میں، یومِ نکبہ کا باضابطہ افتتاح فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے کیا، حالانکہ اس تاریخ کو 1949ء سے یادگاری اور مزاحمت کے احتجاج کے ساتھ نشان زد کیا گیا تھا۔
مئی 1948 میں کیا ہوا؟
مئی 1948ء میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا آغاز ہوا جس میں 700,000 (سات لاکھ) سے زیادہ فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔
1948ء کی فلسطین جنگ کے دوران، جو جنوری 1949ء تک جاری رہی، اسرائیلی افواج نے 530 سے زائد فلسطینی دیہاتوں کو تباہ کیا اور کئی قتلِ عام کیے، جس میں تقریباً 15,000 (پندرہ ہزار) افراد ہلاک ہوئے۔
فلسطین کے 78 فیصد تاریخی علاقے پر قبضہ کر لیا گیا اور اسے اسرائیل قائم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بقیہ زمین ان علاقوں میں تقسیم کی گئی تھی جو آج مقبوضہ مغربی کنارہ اور غزہ کی پٹی ہیں۔
جنگ میں اسرائیلی فتح کے بعد یہودی آباد کاروں کو متروکہ مکانات دے دیے گئے۔ 1948ء میں جلاوطن ہونے والے بہت سے فلسطینیوں کی اولادیں آج تک فلسطین کے اندر اور پوری دنیا میں بے گھر ہیں۔ اس وقت تقریباً 60 لاکھ فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟
1920ء سے مئی 1948ء تک برطانیہ نے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کے ایک معاہدے کے تحت ’’لازمی فلسطین‘‘ نامی علاقے پر حکومت کی، جو کہ ’’یونائیٹڈ نیشنز‘‘ (اقوام متحدہ) کا پیش خیمہ ہے۔
دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے خاتمے کے بعد برطانیہ نے مینڈیٹ کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا، اور نو تشکیل شدہ اقوامِ متحدہ نے ایک یہودی ریاست کے قیام کی اجازت دینے کے لیے فلسطین کی دوبارہ حد بندی شروع کی۔
تقسیم کے مختلف منصوبوں میں سے کسی کو بھی فلسطینیوں یا عرب لیگ کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ تاہم جب مینڈیٹ ختم ہواتو اسرائیل کی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا جس سے 1948ء کی فلسطین جنگ شروع ہوئی جسے ’’1948ء کی عرب اسرائیل جنگ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
نکبہ کے بعد کیا ہوا؟
نکبہ کے بعد کے 76 سالوں میں اسرائیلی ریاست نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرنے، خاندانوں کو بے گھر کرنے اور اس عمل میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اس کی بڑی مثالوں میں 1967ء کی چھ روزہ جنگ تھی، جس میں اسرائیلی افواج نے غزہ اور مغربی کنارے سمیت تمام تاریخی فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے 300,000 (تین لاکھ) لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔
اس کے بعد کی دہائیوں میں خطے میں کشیدگی بہت زیادہ رہی ہے، پہلے کی نسبت کشیدگی کے زیادہ واقعات کے ساتھ۔ تاہم اس میں اضافہ کی موجودہ صورتحال واقعی بے مثال ہے۔ 35,000 (پینتیس ہزار) سے زیادہ لوگ ہلاک کیے جا چکے ہیں اور بہت سے بے گھر ہوئے ہیں جن میں وہ لوگ بھی ہیں جو نکبہ کے بعد غزہ منتقل ہوئے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے کے دوران صرف رفح سے 450,000 (ساڑھے چار لاکھ) افراد بے گھر ہوئے۔
نکبہ سے پہلے فلسطین کیسا تھا؟
نکبہ سے فوراً پہلے فلسطین انگریزوں کے زیر انتظام تھا۔ ’’لازمی فلسطین‘‘ کا قیام شدید نوعیت کی یورپی نوآبادیاتی توسیع کے دور میں، اور عرب بغاوت (1916ء-2018ء) میں سلطنتِ عثمانیہ کی افواج کی بے دخلی کے بعد ہوا۔
(برطانوی) مینڈیٹ کی مدت کے دوران فلسطین ایک مربوط سیاسی اکائی بن گیا جس کا دارالحکومت یروشلم تھا۔ اس دور میں بیوروکریسی، انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں ترقی دیکھنے میں آئی۔ اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی ہجرت کو فروغ دینے اور فلسطینیوں کو خود مختاری سے محروم کرکے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی گئی۔
مینڈیٹ کی مدت سے پہلے فلسطین 400 سال تک سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ رہا تھا۔
نکبہ کے طویل مدتی نتائج کیا ہیں؟
نکبہ کا نتیجہ دنیا کے سب سے طویل عرصے سے جاری غیر حل شدہ پناہ گزینی بحران کی صورت میں نکلا۔ جس میں غزہ اور مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ اردن، لبنان اور شام جیسے پڑوسی ممالک میں تقریباً 6 ملین (ساٹھ لاکھ) فلسطینی پناہ گزین چلا آ رہے ہیں۔ کچھ جگہوں پر ، مشرق وسطیٰ میں فلسطینی پناہ گزینوں نے اپنے میزبان ممالک میں جنگوں اور مزید جلاوطنی کا سامنا کیا ہے۔
خطہ کا بڑا قبضہ جس کا آغاز نکبہ سے ہوا، فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ بہت سے قیمتی وسائل اس سرزمین میں موجود ہیں جن پر اب اسرائیل نے دعویٰ کیا ہوا ہے، جو فلسطینیوں کو ان تک رسائی اور ممکنہ طور پر اپنی معیشت کو بڑھانے سے روکتے ہیں۔
اسرائیلی قبضہ، جسے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ یہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا، ان کے وقار کو مجروح کرتا ہے اور غربت کا سبب بنا ہوا ہے۔ یہ نقل و حرکت اور تجارت کے ساتھ ساتھ پانی، سروسز، کھیتی باڑی، بازاروں، خاندانوں اور مذہبی مقامات تک رسائی کو محدود کرتا ہے۔ یہ غزہ، مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو ایک دوسرے سے لاتعلق رکھتا ہے۔
غزہ 2007ء سے اسرائیلی ناکہ بندی کی زد میں ہے جس کی وجہ سے علاقہ کے اندر اور باہر سامان اور لوگوں کی نقل و حرکت محدود ہے۔ اس کے انسانی مدد کے حوالے سے ہونے والی سرگرمیوں پر بہت زیادہ مضمرات ہیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں ضروری اشیاء کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل ان کا "دوہرا استعمال" قرار دیتا ہے، یعنی اسے شہری اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایندھن، پانی کے فلٹرز، سولر پمپس اور سرجیکل آلات جیسی چیزوں کو اس بنیاد پر داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ اسلامک ریلیف کے عملے نے ایندھن کے بغیر کھانا پکانے کی دشواری کی خبر دی ہے، خاندان کے افراد دھوئیں کے باعث سانس کے مسائل کا شکار ہیں کیونکہ ان کے پاس کھلی آگ پر کھانا پکانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایندھن کے بغیر ہسپتال زندگی بچانے کے آپریشن نہیں کر سکتے، کوڑا کرکٹ جمع نہیں کیا جا سکتا، اور پانی نہیں پہنچایا جا سکتا۔ ایندھن کی کمی کے اثرات کو اس سے زیادہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔
یومِ نکبہ کیسے منایا جاتا ہے؟
بہت سے لوگوں کے لیے یومِ نکبہ فلسطینیوں پر ہونے والے تاریخی ظلم و ستم کی طرف توجہ مبذول کرنے اور اس بات کو اجاگر کرنے کا ایک موقع ہے کہ یہ اب بھی پوری طرح جاری ہے، خاص طور پر اس طرح کے سالوں میں، جب یومِ نکبہ بحران میں اضافے کے دوران آتا ہے۔
یہ دن مصائب کی داستان سے ہٹ کر فلسطین کی بھرپور ثقافت اور تاریخ کو منانے کا بھی وقت ہے، جو بہت سے لوگوں کے لیے اس علاقے اور اس کے لوگوں کی شناخت واضح کرتا ہے۔ فلسطینی نہ صرف لچکدار ہیں، بلکہ وہ باصلاحیت مصنفین اور رقاص، ہنرمند کڑھائی کرنے والے اور فراخ میزبان ہیں۔
گزشتہ سال، تاریخ میں پہلی بار، اقوامِ متحدہ نے یومِ نکبہ منایا۔ عالمی ادارے نے "فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والی تاریخی ناانصافی کی یاد دہانی" کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے جاری بحران کو اجاگر کرنے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب میں تقاریر، موسیقی، تصاویر اور ذاتی شہادتیں شامل تھیں۔
30 سے زائد ممالک نے یومِ نکبہ منانے کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا، جو کہ اسرائیل کی اپنی حمایت کے ساتھ فلسطینیوں کے مصائب کے اعتراف کو متوازن کرنے میں بہت سی ریاستوں کی نااہلی کی عکاسی کرتا ہے۔ اسرائیل اکثر یومِ نکبہ کی سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کی مخالفت کرتا ہے اور انہیں خطے میں امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتا ہے۔
اسلامک ریلیف یومِ نکبہ کی بات کیوں کر رہا ہے؟
اسلامک ریلیف 1997ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں کام کر رہی ہے، ہنگامی ردعمل کی کوششوں اور ترقیاتی پروگرامنگ کے ذریعے ضرورت مند فلسطینیوں کی مدد کر رہی ہے۔
ہمارا بہت سے عملہ اور مقامی شراکت دار اکتوبر 2023ء سے بے گھر ہو گئے ہیں اور انہیں انہی چیلنجوں کا سامنا ہے جن کی ہم حمایت کرتے ہیں۔ غزہ میں ہمارا دفتر ان تقریباً 900,000 (نو لاکھ) عمارتوں میں شامل ہے جنہیں جاری بمباری کے سلسلہ سے تباہی یا نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بے پناہ چیلنجوں کے باوجود، ہم جب بھی اور جہاں بھی ہو سکے، خوراک اور پانی کی تقسیم، یتیموں کی کفالت اور دیگر امداد کے ذریعے غزہ میں کمزور لوگوں کی مدد کرتے رہتے ہیں۔ اشد ضرورت کے وقت یہ امداد ہزاروں خاندانوں کے لیے لائف لائن ہے۔
تاہم جاری تشدد کے براہ راست نتیجے کے طور پر ہمارے کام اور بہت سی عالمی اور مقامی انسانی تنظیموں کے کام کو روکا جا رہا ہے۔ جنگ بندی اور غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے کے بغیر ہم ان لوگوں کو جو مدد فراہم کر سکتے ہیں، جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے، وہ محدود اور ناکافی ہے۔
اسلامک ریلیف یومِ نکبہ کے اس موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے تاکہ عطیہ دہندگان، فیصلہ سازوں اور عام لوگوں کو فلسطینی عوام کی دیرینہ جدوجہد اور مصائب کی یاد دلائے۔ ان کے مصائب کو تاریخ کی کتابوں میں شامل نہیں کیا گیا ہے، یہ ایک گہرا اور تباہ کن انسانی بحران ہے جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے۔ موجودہ کشیدگی کے 200 دنوں سے زیادہ عرصے سے خاندان الگ ہوئے ہیں، بھوکے کا شکار ہوئے ہیں اور ہلاک کیے گئے ہیں۔ یہ غزہ میں ہر ایک کے لیے موجودہ دور کی حقیقت ہے، لیکن آیا ان کا مستقبل بھی اسی طرح برقرار رہتا ہے یا نہیں، اس کا انحصار آج عالمی رہنماؤں اور بین الاقوامی اداروں کے فیصلوں پر ہے۔
https://islamic-relief.org/news/explainer-nakba-day-and-its-significance-to-palestinians
15 May 2024
رُموزِ اوقاف
ابو رجب عطاری مدنی
منیر صاحب اردو کے سینیئر ٹیچر تھے، انہوں نے کلاس 6 میں پڑھاتے ہوئے جب یہ کہا کہ اچھی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی علامتوں کا خیال رکھا جائے تو دانش نے فوراً سوال کیا : سر! اگر ان علامتوں کو تفصیل سے بیان کردیں تو مہربانی ہوگی۔ منیر صاحب نے مارکر سنبھالا اور وائٹ بورڈ کی مدد سے طلبہ کو سمجھانا شروع کیا:
عزیز طلبہ! جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو کہیں ٹھہرتے ہیں اور کہیں نہیں ٹھہرتے، اسی طرح مختلف کیفیات مثلاً نرمی، سختی، خوشی، غم، تعجب (حیرانگی)، اِسْتِفْہام(سوال) خوف اور غصہ وغیرہ کا اظہار بولنے کی رفتار اور لہجے کے اُتار چڑھاؤ سے کرتے ہیں، تحریر میں یہی کام مختلف علامتوں سے لیا جاتا ہے جنہیں رُموز ِ اوقاف (Punctuation) کہتے ہیں۔ ان علامتوں کے ذریعے پڑھنے والے کو تحریر کا مطلب سمجھنےمیں آسانی ہوتی ہے۔ چند علامتیں یہ ہیں:
۱۔ سکتہ ،
۲۔ وقفہ ؛
۳۔ رابطہ :
۴۔ خَتْمہ ۔
۵۔ سوالیہ ؟
۶۔ ندائیہ، فجائیہ !
۷۔ قوسین ()
۸۔ واوین ’’‘‘
(۱) سکتہ (Comma) (،)
اس علامت کا انگریزی نام ’’کاما ‘‘ زیادہ مشہور ہے۔ سکتہ کی علامت (،) کسی مقام پر ہلکا سا توقف کرنے کے لئے لکھی جاتی ہے۔ مثلاً:
۱۔ جب دو یا زیادہ ایک ہی قسم کے کلمے ایک ساتھ آئیں توایسی صورت میں عام طور پر پہلے ایک یا دو لفظوں کے بیچ میں کاما آتا ہے اور آخری لفظ سے پہلے ’’اور‘‘ یا ’’یا “ آتا ہے جیسے : یہ کتاب مفید، نصیحت آموز اور آسان ہے۔ اسلم بہت سمجھدار، ذہین اور بااخلاق ہے۔
۲۔ ندائیہ لفظوں کے بعد، جیسے: اے بوڑھو، جوانو، بچو!
۳۔ ایک ہی قسم کے دویا زیادہ چھوٹے جملوں کے درمیان، جوکسی بڑے جملے کے اجزاء ہوں، جیسے: ’’وہ گھر پہنچا، نہاکر کپڑے بدلے، چائے پی اور مدرسے چلا گیا۔‘‘
(۲) وقفہ (Semicolon) (؛)
اس کا استعمال جملوں کے بڑے بڑے اجزا کے درمیان ہوتا ہے، جہاں سکتہ (،) کی نسبت زیادہ ٹھہراؤکی گنجائش ہو، جیسے : مستقل مزاجی سے تھوڑا کام بھی بہتر ہے اس کا م سے جو مستقل مزاجی سے نہ ہو؛ اس لئے کسی بھی فن میں کمال پیدا کرنے کے لئے استقامت ضروری ہے۔
(۳) رابطہ (Colon) (:)
کسی کا قول نقل کیا جائے، کسی اقتباس کو لکھا جائے، نظم یا نثر کی تشریح کی جائے؛ ایسے موقعوں پر اس علامت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مثالوں سے پہلے، شعر یا مصرعے کا حوالہ دینے سے پہلے، اس علامت کو لایا جاتا ہے، مثلاً:
۱۔ فقہ کے چار ماخذ یہ ہیں: قراٰن، حدیث، اجماع اور قیاس
۲۔ فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: مَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہٗ اللہُ یعنی جو مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ پاک اس کے عیب چھپائے گا۔ ( ابن ماجہ، 3 / 218، حدیث: 2544)
۳۔ مقولہ ہے: اَلْکِنَایَۃُ اَبْلَغ ُ مِنَ الصَّرِیْحِ کنایہ (یعنی اشارے میں کہی گئی بات) صریح (یعنی واضح بات)سے بھی بڑھ کر بلیغ (یعنی کامل ہوتی) ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح، 4 / 786)
(۴) ختمہ (Full Stop) (۔)
یہ علامت جملے کے خاتمے پر لگائی جاتی ہے، جیسے: میں وہاں گیا تھا۔ انگریزی کے مُخَفَّفَات کے بعد بھی یہ علامت لگا دیتے ہیں، جیسے: پی۔آئی۔اے۔
(۵) سوالیہ (Question Mark) (؟)
سوالیہ جملے کے آخر میں یہ علامت آتی ہے، جیسے: کیا بات ہے؟ تم کہاں سے آرہے ہو؟ اُس نے کیا کہا؟اب کس کی باری ہے؟
(۶) ندائیہ، فجائیہ (Exclamation Mark) (!)
یہ علا مت مُنادیٰ (یعنی جسے پکارا جائے اس ) کے ساتھ لائی جاتی ہے۔ جیسے: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آخرت کی فکر کیجئے۔ اس صورت میں اس کو “ ندائیہ“ کہیں گے۔ جب یہ علامت اُن الفاظ یا جملوں کے بعد آتی ہے جن سے کوئی جذبہ ظاہر کرنا ہوتا ہے، جیسے: غصہ، حقارت، نفرت، خوف، غم، خوشی، تعجب؛ تو اس کو “ فجائیہ“ کہا جاتا ہے، جیسے: افسوس! تم سے یہ امیدنہیں تھی۔ جذبے کی شدت کی مناسبت سے، ایک سے زیادہ علامتیں بھی لگا دیتے ہیں، جیسے: بس صاحب! بس!! کبھی تنبیہ کے موقع پر بھی استعمال کرتے ہیں، جیسے: “ خبردار! دیکھ کر! “
(۷) قوسین (Brackets) ()
عام طور پر جملۂ مُعْترِضہ (یعنی اصل کلام کے درمیان ضِمناً آنے والے جملے) کو قوسین میں لکھا جاتا ہے، جیسے: محمد جمیل عطاری (جو جامعۃ المدینہ میں پڑھاتے تھے ان) کا انتقال ہو گیا ہے۔
(۸) واوین (Inverted Commas) ’’‘‘
جب کسی کا قول، اسی کے الفاظ میں نقل کیا جاتاہے تو اس کے شروع اور آخر میں یہ علامت لاتے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ حصہ، باقی عبارت سے الگ ہے اور کسی دوسرے سے تعلق رکھتا ہے جیسے میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت، مولٰینا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 21، صفحہ 579 پر فرماتے ہیں:
’’(جو) اپنی جھوٹی تعریف کو دوست رکھے (یعنی پسند کرے) کہ لوگ ان فضائل سے اس کی ثناء (یعنی تعریف) کریں جو اس میں نہیں جب تو صریح حرامِ قطعی ہے۔‘‘
اسی طرح کسی مشہور شعر کے کسی ٹکڑے کو، کسی خاص ترکیب کو، یا نثر کے کسی خاص ٹکڑے کو جب اپنی عبارت میں شامل کرتے ہیں تو اس کو ممتاز کرنے کے لئے ’’ واوین‘‘ میں مقید کرتے ہیں، جیسے: ’’اللہ کرے دل میں اتر جائے مری بات‘‘۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی لفظ یا مجموعۂ الفاظ کو ایک خاص معنی میں، یا ایک خاص طرح استعمال کیا گیا ہے اور پڑھنے والوں کی توجہ کو اس خاص معنویت یا خاص انداز ِ استعمال کی طرف مبذول کروانا مقصود ہے؛ اس صورت میں بھی ان الفاظ یا اس لفظ کو ’’واوین‘‘ میں لاتے ہیں، جیسے: جو خود ’’پستیوں‘‘ کی طرف محو ِ سفر ہو دوسروں کو ’’بلندی‘‘ کا راستہ کیونکر دکھائے گا؟ کبھی بعض اصطلاحوں کو بھی ’’واوین‘‘ میں لکھا جاتا ہے، جیسے: غیبت ’’حرام‘‘ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
عزیز طلبہ! تالیف و تصنیف کرنے اور تحریروں کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے مذکورہ رموزِ اوقاف اور ان کا استعمال خوب ذہن نشین کرلیجئے، ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔
https://www.dawateislami.net/magazine/ur/kitaab-zindagi/ramooz-e-auqaf
سینیٹر مشتاق احمد کے ’’غزہ بچاؤ دھرنا‘‘ میں مولانا زاہد الراشدی کی شرکت
سید علی محی الدین
شیخ الحدیث مولانا زاہد الراشدی صاحب کی دیگر احباب کے ہمراہ گجرانوالہ سے (۱۲ جون ۲۰۲۴ء کو) ادارہ میں تشریف آوری ہوئی اور ہم ذوق احباب کے ساتھ شاندار مجلس سجی اور متعدد موضوعات پر تبادلہ خیالات ہوا۔ بعد ازاں مدیر ادارہ کی جانب سے مہمانوں کو ظہرانہ دیا گیا۔
نماز عصر کے بعد مرکزی جامع مسجد رحمانیہ میں مولانا راشدی صاحب نے موقع کی مناسبت سے قربانی کے موضوع پر مختصر خطاب فرمایا اور پھر قافلے کی معیت میں پہلے مولانا عبد الراؤف محمدی صاحب کی عیادت کی، اور ان کے برادر کبیر مولانا عبد القدوس محمدی صاحب سے ان کی صحت کے تفصیلی حالات معلوم کیئے۔
اور پھر نماز مغرب غزہ چوک (ڈی چوک) میں ادا کی۔ جہاں (سابق) سنیٹر مشتاق احمد اور ان کی اہلیہ محترمہ کی قیادت میں سول سوسائٹی نے پورے پاکستان کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے پچھلے تقریبا ایک ماہ سے اہل فلسطین سے اظہار یک جہتی کے لیئے دھرنا دے رکھا ہے۔ نماز مغرب کے بعد سنیٹر مشتاق احمد سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے نہایت پرتپاک انداز میں مولانا راشدی صاحب اور ان کے ہمراہ آنے والے قافلے کو خوش آمدید کہا اور خوشی کا اظہار کیا۔
سنیٹر مشتاق احمد صاحب نے مختصر لیکن جامع بریفنگ بھی دی جو فلسطین کے تازہ ترین حالات، وہاں بچوں، عورتوں سمیت مظلوم انسانوں کے قتل عام اور اس پر عالمی طاقتوں کی مجرمانہ خاموشی بالخصوص مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی کا نوحہ پڑھا۔
بعد ازاں مولانا زاہد الراشدی صاحب نے، جو اپنی پیرانہ سالی کے باوجود سخت گرمی کے موسم میں گجرانوالہ سے صرف اپنے مظلوم بھائیوں سے اظہار یک جہتی کے لیئے تشریف لائے تھے انہیں خطاب کی دعوت دی گئی، تو حضرت نے نہایت طاقتور انداز میں سنیٹر مشتاق احمد کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے اربابِ اختیار کو صرف جنگ بندی کے لیئے اپنا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اپنے مظلوم بھائیوں کی حمایت میں خود اس جنگ کا حصہ بننا چاہیے۔ اور مزید کہا کہ اہل فلسطین کے ساتھ تعلق اور وابستگی میں ہم بانیانِ پاکستان کے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں اور آئندہ بھی کھڑے رہیں گے، جبکہ حکمران اپنی مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے بانیانِ پاکستان کے موقف سے انحراف کر چکے ہیں۔
بعد ازاں سنیٹر مشتاق احمد نے دھرنا کیمپ کے مختلف گوشوں کا بھی دورہ کروایا جہاں اس دھرنے کے دو شہداء، فلسطین میں شہید ہونے والے معصوم بچوں کے نام اور تصاویر وغیرہ تھیں، جنہیں دیکھ کر قیامت خیز مظالم کی وجہ سے آنکھیں تر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
اللھم انصر الاسلام و المسلمین۔ آمین بجاہ النبی الکریم۔
قائدِ جمعیۃ مولانا فضل الرحمٰن کی صحبت میں چند ساعتیں!!
مولانا حافظ خرم شہزاد
گذشتہ رات (۱۲ جون ۲۰۲۴ء) استادِمکرم مولانا زاہدالراشدی صاحب کے ہمراہ قائدِ جمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت ہوئی۔ پرتپاک مصافحے اور حال احوال کے بعد مجلس میں موجود مولانا عطاء الرحمٰن صاحب نے کہا کہ پچھلے دنوں مولانا زاہدالراشدی صاحب نے بھی جمعیۃ کا رکنیت فارم پُر کیا ہے۔ اس پر قائد جمعیت گویا ہوئے کہ " یہ رکنیت تو ہر بار کرتے ہیں مگر اپنے آپ کو غیر فعال کارکن کہتے ہیں، حالانکہ جتنے یہ فعال ہیں شائد ہی کوئی اور ہو۔"
قائد جمعیۃ نے حضرت مولانا عبدالکریم قریشی رحمہ اللہ کا واقعہ بھی سنایا کہ ایک مرتبہ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ "فضل الرحمٰن! جمعیت کے کسی کارکن کی رکنیت مت ختم کرنا، میرے نزدیک کسی کو جمعیت سے نکالنا اسلام سے نکالنے کے مترادف ہے۔"
اسی دوران میں نے اپنی حالیہ کتاب "سفرنامہ دارالعلوم دیوبند" پیش کی تو قائد جمعیت نے 1980ء میں منعقدہ دارالعلوم دیوبند کے صدسالہ اجتماع کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں بھی والدِ محترم حضرت مفتی محمود صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں پہلی بار دیوبند گیا تھا۔ اور پھر حضرت مفتی صاحب کے خطاب کا تذکرہ کیا کہ انہوں نے اپنے خطاب میں پاکستان میں بھی اسی طرز کے اجتماع کے انعقاد کی خواہش کا اظہار فرمایا تھا مگر 1980ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں 2001ء میں توفیق سے نوازا اور ہم نے پشاور میں ڈیڑھ سوسالہ خدمات دارالعلوم دیوبند کے عنوان سے ایک مثالی عالمی اجتماع منعقد کیا جس میں کم و بیش پندرہ سے بیس لاکھ افراد شریک تھے۔
جامعہ نصرۃالعلوم گوجرانوالہ کے فاضل حافظ دانیال عمر نے مولانا راشدی کے گزشتہ نصف صدی کے دوران کے پانچ ہزار کے لگ بھگ اخباری کالموں کا اسکین کردہ مجموعہ ایک یوایس بی کی صورت میں قائد جمعیت کی خدمت میں ہدیہ پیش کیا تو انہوں نے اس پر بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
اسی دوران قائد جمعیت کے سیکرٹری نے بتایا کہ آدھےگھنٹے تک وزیراعظم شہباز شریف ملاقات کے لیے آرہے ہیں، تو قائد محترم نے فرمایا کہ جلدی سے دستر خوان لگوائیں تاکہ مہمانوں کے ساتھ پہلے کھانا کھا لیا جائے۔ کھانے کے بعد استاد گرامی مولانا زاہدالراشدی صاحب نے واپسی کے لیے قائد جمعیت سے اجازت طلب کی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ بھی وزیراعظم کے ساتھ ملاقات میں شامل ہوں گے۔ قائد جمعیت نے میاں صاحب سے حضرت مولانا زاہدالراشدی صاحب کا تعارف کرانا چاہا تو انہوں نے کہاکہ میرا ان سے پرانا تعارف ہے پھر انہوں نے استاد محترم سے پوچھا کہ اب آپ ملتے نہیں ہیں تو انہوں نے مسکرا کر دوسری کوئی بات شروع کردی۔
چونکہ استادجی نے واپسی گوجرانوالہ کے لیے سفر کرنا تھا لہٰذا وزیراعظم اور قائد جمعیت کی ملاقات کے دوران ہی استادجی اجازت لےکر اٹھ کھڑے ہوئے۔ گاڑی تک صاحبزادہ مولانا اسعد محمود صاحب چھوڑنے آئے۔ کم و بیش گھنٹہ ڈیڑھ قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے ہاں گزار کر رات دس بجے گوجرانوالہ کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ ملاقات میں جامعہ نصرۃالعلوم گوجرانوالہ کے فاضل مولانا دانیال عمر اور حافظ شاہد میر صاحب بھی موجود تھے۔
سوال و جواب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بزرگوں کے تفردات
سوال: بزرگوں کے تفردات کا ذکر ہوتا ہے تو اس بارے میں ہمارا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے؟ (حافظ دانیال عمر، گوجرانوالہ ۔ ۸ جون ۲۰۲۴ء)
جواب: تفرد یعنی کسی علمی مسئلہ پر انفرادی رائے ہر صاحبِ علم اور صاحبِ مطالعہ و تحقیق کا حق ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے۔ اکابر اہلِ علم کے تفردات کو صرف شمار ہی کیا جائے تو اس سے ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ مگر اپنی انفرادی رائے کو حتمی قرار دینا اور جمہور اہلِ علم کے علی الرغم اس پر اصرار کر کے دوسروں کو غلط قرار دینا درست طریقہ نہیں ہے۔ میں بھی ایک طالب علم کے طور پر بہت سے مسائل پر اپنی انفرادی رائے رکھتا ہوں، اس کا اظہار کرتا ہوں اور ضرورت پڑنے پر بحث و مباحثہ بھی کرتا ہوں۔ مگر اسے صرف ایک رائے سمجھتا ہوں، کبھی کسی پر اصرار نہیں کیا اور نہ ہی اسے حق کا معیار قرار دیا ہے۔ بلکہ کسی مسئلہ پر عمل کرنے کی بات ہوتی ہے تو عمل جمہور کی رائے پر کرتا ہوں یا کسی معتمد علمی مرکز مثلاً جامعہ دارالعلوم کراچی سے رجوع کرتا ہوں اور وہاں سے جو موقف آتا ہے میری رائے اس سے مختلف ہو تب بھی عمل اسی پر کرتا ہوں، اور بحمد اللہ تعالیٰ اسے ہی صواب اور باعثِ ثواب سمجھتا ہوں۔
’’مدرز مِلک بینک‘‘ اور رشتوں کا شرعی دائرہ
سوال: کراچی میں ماؤں کے دودھ کا بینک قائم ہوا ہے جس کے افتتاح کی خبر اور فوٹو شائع ہوئی ہے۔ اسلامی حوالے سے یہ کیسا اقدام ہے؟ (۱۵ جون ۲۰۲۴ء)
جواب: قرآن کریم نے ’’وامہاتکم اللٰتی ارضعنکم واخواتکم من الرضاعۃ‘‘ (النساء ۲۳) کے تحت دودھ پلانے والی ماں اور ماں کے دودھ میں شریک بہن کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا ہے۔ جبکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر میاں بیوی کو ایک خاتون کا دودھ پینے کی وجہ سے بھائی بہن قرار دے کر نکاح ختم کر دیا تھا۔
یہ سلسلہ کہ دودھ بینک میں عورتیں اپنا دودھ جمع کرائیں گی اور وہ نومولود بچوں کو پلایا جائے گا، رشتوں کے شرعی نظام کو سبوتاژ کرنے کی کاروائی ہے، اس طرح یہ پتہ نہیں چلے گا کہ دودھ پینے کے باعث کون کس کا بیٹا ہے اور کون کس کی بہن ہے۔ دینی حلقوں اور علمی مراکز کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے اور بالخصوص وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کو اس کے سدباب کے لیے مؤثر قدم اٹھانا چاہیے۔
قادیانیوں کے بارے میں ایک جج صاحب کا متنازعہ فیصلہ
استفسار: ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب کا ایک فیصلہ دینی حلقوں میں زیر بحث ہے جس میں جج صاحب نے قادیانیوں کو مسلمانوں کے ایک فرقہ کے طور پر لکھ دیا ہے۔ اس بارے میں آپ کا نقطۂ نظر معلوم کرنا تھا۔ (حافظ خرم شہزاد ۔ ۲۰ جون ۲۰۲۴ء)
جواب: اگر فیصلہ میں یہی لکھا گیا ہے تو اس کی تین وجوہ ہو سکتی ہیں:
- ایک یہ کہ خدانخواستہ حج صاحب کا اپنا خیال یہی ہو جس کا انہوں نے فیصلہ میں اظہار کر دیا ہے۔
- دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ سرے سے اس مسئلہ کی اہمیت، حساسیت اور نزاکتوں سے بے خبر ہیں۔ اور اس کا امکان غالب ہے اس لیے کہ وکیل اور جج بننے کے لیے جو تعلیمی نصاب پڑھنا ضروری ہے اس میں اسلامی شریعت ، دستور پاکستان کے اسلامی تقاضوں اور دفعات اور پاکستانی عوام اور دینی حلقوں کے موقف و جذبات سے واقفیت کا کوئی باضابطہ نظم موجود نہیں ہے جس کے باعث اکثر حج صاحبان ان معاملات سے بے خبر اور لاتعلق رہتے ہیں۔
- جبکہ تیسری وجہ یہ بھی موجود ہے کہ ان عالمی اداروں، لابیوں اور این جی اوز کے کارندے ہماری عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر قومی اداروں میں ہر سطح پر مختلف مناصب پر موجود اور متحرک ہیں جو کوئی بھی موقع ملنے پر اس قسم کی حرکت کر گزرتے ہیں۔ اتھارٹیز کا کام تو زیادہ تر دستخط کرنا ہی رہ گیا ہے۔
اس صورتحال میں ختم نبوت پر کام کرنے والوں کو اگر باہمی طعن و تشنیع کا بازار گرم رکھنے سے فرصت ملے تو ان سارے پہلوؤں پر سنجیدہ توجہ اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جبکہ عالمی اداروں میں اس قسم کے مسائل پر ہونے والے بحث و مباحثہ اور لابنگ کے ماحول تک رسائی اور اس میں کوئی کردار ادا کرنا تو سرے سے ہمارے ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں ہے۔
قادیانیوں کا مسلمان ہونے کا دعویٰ
سوال: ایک شخصیت کے یہ ریمارکس سامنے آئے ہیں کہ جب قادیانی خود کو مسلمان کہتے ہیں تو کسی اور کو انہیں غیر مسلم کہنے کا کیاحق ہے؟
جواب: قرآن کریم نے ان لوگوں کے بارے میں صاف طور پر ’’وماھم بمومنین‘‘ فرمایا ہے جو یہ کہتے تھے کہ
- ہم اللہ پر ایمان لائے،
- آخرت پر ایمان لائے،
- اور ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔
قرآن کریم نے صرف ان کے مسلمان ہونے کی نفی نہیں کی بلکہ ان کا جنازہ پڑھنے سے روک دیا، ان کی بنائی ہوئی مسجد گرا دی اور غزوہ تبوک کے بعد ان کی کسی جہاد میں شرکت کو بھی ممنوع قرار دے دیا۔ اس لئے صرف خود کو مسلمان کہنا کافی نہیں ہے ایسے لوگ اگر مسلمان ہونے کے مسلمہ تقاضے پورے نہیں کرتے تو موقع محل کے مطابق انہیں اسلام کے نام پر کسی اسلامی عمل سے روک دینا بھی احکام قرآنی کا تقاضہ بنتا ہے۔
مسلمان مشتعل کیوں ہوتے ہیں؟
سوال: سوشل میڈیا پر اسلام مخالف ایک بات کہتے ہیں کہ مسلمان اتنے مشتعل کیوں ہوتے ہیں کوئی اعتراض کرے تو آرام سے کیوں جواب نہیں دیتے؟
جواب: میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جواب دلیل اور منطق کا ہوتا ہے گالی کا نہیں اور کوئی شخص بھی گالیوں کے جواب میں دلائل پیش نہیں کیا کرتا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب کے جن دانشوروں نے اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دلیل سے بات کی ہے ان کا جواب دلیل سے دیا گیا ہے، کتاب کے جواب میں کتاب لکھی گئی اور مقالے کے جواب میں مقالہ پیش کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں بات استہزا، تحقیر اور توہین کی ہو وہاں دلیل کا کوئی کام باقی نہیں رہ جاتا۔ میں اس سلسلہ میں جنوبی ایشیا کی صورتحال کا حوالہ دیا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں ہندو مصنفین میں سے پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ میں اسلام، قرآن کریم اور جناب نبی کریمؐ پر سینکڑوں اعتراضات کیے جو اس کتاب میں اب بھی موجود ہیں۔ لیکن بات مباحثے کے انداز میں کی اور دلیل کا اسلوب اختیار کیا تو اس کے خلاف مسلمانوں نے کبھی جلوس نہیں نکالا اور اس کو مارنے کے درپے نہیں ہوئے بلکہ دلیل کا جواب دلیل سے دیا۔ اس سلسلہ میں تفصیل حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے رسائل اور حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری کی باقاعدہ جواب تصنیف ’’حق پرکاش‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ اسی معاشرے میں ایک ہندو مصنف راج پال نے دلیل کے بجائے گستاخی کا لہجہ اختیار کیا اور ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب لکھ کر مسلمانوں کے ایمان اور غیرت کو للکارا تو اس کے جواب میں دلیل کا کوئی کردار باقی نہیں رہا تھا۔ اس کے جواب میں غازی علم الدین شہید نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اس شاتم رسول کو ٹھکانے لگا دیا۔ مسلمانوں نے اپنے اس موقف کی ہمیشہ دوٹوک وضاحت کی ہے کہ استدلال، منطق اور تحقیق کا میدان اور ہے جبکہ طنز، استہزا، توہین اور تحقیر کا دائرہ اس سے مختلف ہے جسے کسی صورت میں بھی آزادیٔ رائے کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، مگر مغرب ان دونوں میں فرق نہیں کر رہا۔
’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین‘‘
ڈاکٹر محمد اکرم ندوی
مترجم : فضل الرحمٰن محمود
(ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب نے حدیث میں اپنے شیوخ واساتذہ کے حالات اور ان کی اسانید پر ایک کتاب ’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین ‘‘ کے نام سے لکھی ہے۔ ایک عربی مضمون میں آپ نے اپنی اس کتاب کا تعارف کرایا ہے، جس کا اردو ترجمہ ذیل میں پیش کیا جاتاہے۔ مترجم)
حال ہی میں میری کتاب ’’الجامع المعین فی طبقات الشیوخ المتقنین والمجیزین المسندین ، سات جلدوں میں دارالکتب العلمیہ ، بیروت سے سنہ ۲۰۲۳ء میں شایع ہوئی ہے، جس میں ایک ہزار یا اس سے زائد شیوخ کے حالات درج ہیں۔ مجھ سے میرے ایک بھائی نے اس کتاب کا تعارف پیش کرنے کی درخواست کی ، جس سے اس کتاب میں بیان کیے گئے مضامین کا خلاصہ سامنے آجاے اور موضوعات سے آگاہی ہوجاے۔ان کی بات کا جواب حاضر ہے:
اس کتاب میں میرے شیوخ، ان کی اسانید، ان کی اپنے اساتذہ سے پڑھی اور سنی گئی کتابوں اور اجاز ت ناموں کا ذکر ہے۔ خاص طور برصغیر کے ان شیوخ کا ذکر ہے ، جو عربی مصادر میں نہیں ملتے ، تاکہ ہمارے دور کی اسنادی تاریخ محفوظ ہوجاے اور درس وتدریس اور اجازت حدیث دینے میں معروف محدثین وروات کے حالات کے لیے علمی دستاویز مہیا ہوسکے۔
کتاب کے آغاز میں چار تمہیدیں ہیں:
تمہید اول: برصغیر میں شروع سے لے کر شاہ ولی اللہ تک حدیث نبوی کی تاریخ
تمہید دوم: شاہ ولی اللہ کے بعد سےلے کر نذیر حسین دہلوی اور ان کے معاصرین تک کے حالات ۔ان میں ہندی وغیر ہندی مسندین شامل ہیں ،جن پر اکثر ہمارے شیوخ کی اسانید کا مدار ہے۔
تمہید سوم: دارالعلوم ، ندوۃ العلما ء کا اسناد و اجازت حدیث سے تعلق
تمہید چہارم: اجازت حدیث اور اس کی اقسام
اس کے بعد اصل کتاب شروع ہوتی ہے۔ اس حصے میں میرے ان شیوخ کے حالات درج ہیں ، جن سے میں نے حدیث سنی ، ان کے درو س میں حاضر ہوا ،اور وہ تمام شیوخ جن سے میں نے اجازت حدیث حاصل کی، یا ان کے ساتھ تھوڑا یا لمبا عرصہ گزارنے کا شرف حاصل ہوا،یا ان کی دی گئی اجاز ت حدیث میں مجھے بھی شامل ہونے کا موقع ملا، ان سب کو بہ قدر طاقت میں نےاسانید، اجازت ناموں ، رسائل اور خطوط کے حوالوں کے ساتھ ذکر کرکے سات طبقات میں تقسیم کیاہے:
طبقۂ اول: میرے وہ شیوخ جنھیں ابو االنصر الخطیب (م: ۴ ربیع الاول، ۱۳۲۴ھ) سے ’’اجازت خاصہ‘‘ یا ’’اجازت عامہ‘‘حاصل ہوئی۔
طبقۂ دوم: میر ےوہ شیوخ جنھیں شیخ ِمسند احمد بن حسن عطاس (م: ۶ رجب، ۱۳۳۴ھ) سے اجازت حاصل ہے۔
طبقۂ سوم: وہ شیوخ جنھوں نے محدث محمد بن جعفر کتانی (م: ۱۰ رمضان، ۱۳۴۵ھ) کا زمانہ پایا ہے۔
طبقۂ چہارم: وہ شیوخ جنھیں محدث کبیر علامہ بدر الدین حسنی (م: ۲۷ ربیع الاول، ۱۳۵۴ھ) سے اجازت حدیث حاصل ہوئی۔
طبقۂ پنجم: جنھیں علامہ مسند محمد عبدالباقی ایوبی انصاری (وفات مدینہ منورہ ،بہ روز اتوار، ۲۵ ربیع الثانی ، سنہ ۱۳۶۴ھ)سے اجازت حاصل ہوئی۔
طبقۂ شسشم: جنھیں حافظ عبد الحيالکتانی (م: ۱۲ رجب،۱۳۸۲ھ) سے شرف اجازت نامہ ملا۔
طبقۂ ہفتم: یہ میرے ہم عصر ہیں ۔ ان میں کچھ حضرات مجھ سے عمر میں کم اور بعض میرے شاگر د ہیں۔
اپنے شیوخ کے حالات کے لیے میں نے اپنی تالیفات: ’’من علمنی‘‘ اور ’’تاریخ ندوۃ العلماء‘‘وغیرہ سے استفادہ کیاہے۔ اس کتاب میں ان شیوخ کے حالات بھی مذکور ہیں ، جن سے میں نے بلاواسطہ اجازت حدیث حاصل کی ہے۔ ان میں سے کچھ کاذکر میرے سفرناموں میں مل جاے گا۔ میں نے ان کے بھیجے ہوے اجازت ناموں اور خطوط کو جمع کرکے اپنی اس ’’معجم ‘‘ میں موقع کی مناسبت سے درج کردیاہے۔
اس کتاب میں ان شیوخ کے حالات بھی موجود ہیں، جن سے ’’استدعاءات‘‘ کے ذریعے مجھے اجازت حدیث ملی۔بعض ’’استدعاءات‘‘ میرے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوے ہیں، کئی استدعاءات شیخ محمد بن عبد اللہ آل رشید کے لکھے ہوے ہیں ، ان کے علاوہ شیخ احمد عاشور کی ’’استدعاءجامع‘‘ شیخ محمد زیاد تکلہ، شیخ عمر نشوقانی، خالد سباعی، محمد بن ابو بکر باذیب، محمد ححود تمسمانی کی ’’الاستدعاءالمشرق‘‘شیخ ترکی فضلی کی ’’الاستدعاءالمکی‘‘ شیخ عمر حبیب اللہ کی ’’اجازات ہندیہ‘‘شیخ محمد سعید منقارہ، شیخ حمزہ الکتانی، شیخ ظہور احمد حسینی ودیگر کے استدعاءات کا ذکر ہے ۔ میں تمام اجازت دہندگان کا استیعاب نہیں کرسکا۔ شاید آئندہ اشاعتوں میں انھیں شامل کرسکوں اور نہ ہی طوالت کے خوف سے تمام ’’استدعاءات‘‘ کا ذکر کیا ہے، امید ہے کسی اور وقت میں اس کا ازالہ ہوسکے۔ان میں سے اکثر ’’استدعاءات‘‘بعض أثبات اور اجازت ناموں میں موجود ہیں۔
ساتویں جلد کے آخری حصے میں ان اہم مصادر کا بیان ہے ، جن سے میں نے اس’’ معجم‘‘ میں استفادہ کیاہے۔
شیوخ کے حالات ذکر کرنے میں ’’کتب تراجم‘‘ کے اسلوب کو سامنے رکھا ہے۔ شیخ کا نام، نسب، پیدایش، پرورش وتربیت، علمی حاصلات ومشغولیات ، ان کےاساتذہ ، میرے لیے ان کی اجازت حدیث اورمیراان سے استفادے کا ذکر ہے۔ اسی طرح ان کے فضائل ، کارناموں اور انھیں اپنے اساتذہ سےجو اجازت نامے ملے ہیں یا انھوں نے اپنے شاگردوں کو جو اجازت نامے دیے ، ان کے نمونے شامل کیے ہیں۔
اپنے شیوخ کے حالات لکھتے ہوے میری کوشش رہی کہ قارئین کے لیے مفید جزوی تفصیلات بھی شامل کتاب رہیں۔ اس حوالے سے میرا بھروسا اس وعدہ فراموش حافظے پر رہا ، جو وقت آنے پر دغا دے جاتا ہے۔ عمر رسیدگی انسانی ذہن پر بڑا اثر ڈالتی ہے:
أترجو أن تكون وأنت شيخ
كما قد كنت أيام الشباب
لقد كذبتك نفسك، ليس ثوب
خليق كالجديد من الثياب
(کیا تم بڑھاپے میں جوان نظر آنا چاہتے ہو، تمھارے نفس نے تمھیں دھوکا دیا ہے۔ پرانا کپڑا نئے کپڑے کی طرح نہیں ہوسکتا۔)
شیوخ کے حالات نقل کرتے ہوے بہ قدر ضرورت دینی ، فقہی وحدیثی فوائد بھی ذکر کیے ہیں اور بعض حضرات کی احادیث بھی حصول برکت کی خاطر بہ سند ذکر کردی ہیں۔
میری کوشش رہی کہ میں بغیر کسی ضرورت شرعی کے کسی کی برائی بیان نہ کروں ۔ اس طرح کی مثالیں اس کتاب میں بہت ہی کم ہیں۔ اس ضمن میں آپ ﷺ کا فرمان:’’ کامل مسلمان وہی ہے، جس کی زبان اور ہاتھ کے شرسے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘، میرے پیش نظر رہا۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعا گوہوں کہ وہ اس کتاب کومقبول ونفع بخش بناے ، میری لغزشوں سے در گذر کرے، میرے گناہ معاف کرے، میرے باطن کو پاک کردے اور میرے دل کو صاف فرمادے۔ آمین
A New Round of the Qadiani Issue
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
Hon'ble Chief Justice has reserved judgment on the case about Qadianis in the Supreme Court. A respected judge of the Lahore High Court has reviewed a case and deleted his remarks due to public protest after writing the Qadianis as a sect of Muslims in a decision of the case. And now the country's well-known journalist and intellectual Mr. Mujibur Rahman Shami has raised the question of the alleged civil rights of the Qadianis in a broadcast and has asked Maulana Mufti Muhammad Taqi Usmani, Maulana Fazlur Rahman, and Maulana Mufti Muneebur Rahman to take a mutual stance in this regard.
The continuation of these events indicates that the Qadiani issue is once again being brought to discussion at the national level and a new round has begun. On which the parties working on the mission of protecting the Islamic belief of “finality of prophethood” will have to pay serious attention and offer a common position (for which) a plan of action will have to be re-determined.
The continuation of the Qadiani issue until now is that due to the acceptance of Mirza Ghulam Ahmad Qadiani as the Prophet of God and his teachings as the revelation of God, the Qadianis were unanimously declared non-Muslims by all the religious leaders of the Muslim Ummah. While the elected Parliament of Pakistan, through a unanimous decision of 1974, instead of recognizing the Qadianis as a part of the Muslim Ummah, declared them as a non-Muslim minority like other non-Muslim populations of the country, which Qadianis have not been accepting, and their position is that they are Muslims, while all those who do not recognize Mirza Ghulam Ahmad Qadiani as a Muslim are non-Muslims. After being constitutionally declared a non-Muslim minority, when the Qadianis flatly refused to recognize this decision and continued to present themselves as Muslims and continued their activities in the name of Islam, the “Imtina-e-Qadiyaniyyat Act” (the Anti-Islamic Activities of the Quadiani Group) was introduced to bind them to the constitutional provisions, but they did not recognize it either.
The current situation is that all the religious schools of thought and the public are demanding the government of Pakistan take steps to make the Qadianis bound by the constitutional decision and the law prohibiting Qadianiism (presenting as Islam). While the Qadianis have become a front against these decisions in human rights organizations at the global level, they have heated the propaganda and have been lobbying against Pakistan, the country's religious circles, and constitutional and legal decisions. As a result, international organizations and circles are constantly urging Pakistan to review the decisions of the constitution and laws that set the status of Qadianis as a non-Muslim minority, and that they should be given the status that they demand in the name of Islam presenting themselves as Muslims.
In this background, this new debate on the national level on the Qadiani issue needs to be addressed with deep seriousness and it is the responsibility of the religious circles to address the confusion that has been created in the understanding of the Qadiani issue over time, and organize joint deliberations to deal with the new pressure situation that is emerging from the international community. With new preparations, work towards saving the gains of the country’s religious struggles for the position of the Muslim Ummah on this most important religious and national issue.
In our view, three things are particularly noteworthy in this regard:
One is that we still have no arrangement to reach the international organizations and players that have been used as the front of the campaign against the Muslim Ummah and Pakistan in this issue. We have not yet been able to make any arrangements to present our position there and bring out the Qadiani deception, which was a very necessary task. We are suffering the consequences of not paying serious attention to it in the form of the present situation.
The second reason is that there is no common forum for discussion on this issue at the national level as it was during the movements of Khatam-e-Nabuwat in 1953, 1974, and 1984.
The third reason is that in the previous movements, along with the religious circles, there was an atmosphere of leadership and high-level representation of the business community, lawyers, teachers, students, journalists, and other classes, which is not visible now.
It will be sufficient to refer to an incident related to the situation of not having access to the international community. When the Qadiani issue was discussed in the Supreme Court of South Africa, the government of Pakistan and the religious leaders of the country played a practical role in it, which brought us success there. While this is continuously being discussed in the United Nations, European Union, Human Rights Commission, and other international organizations, we do not have any representation and activities in these places, the consequences of which are gradually coming to light.
In this context, we request all the religious leaders of the country to realize the pace and direction of the wind promptly and organize the re-alignment of the Movement of “Khatm-e-Nabuwat” (finalty of prophethood), so that we can save the results and achievements of the struggle done so far from being sabotaged, and also play an effective role to make the current struggle fruitful.
(An AI-assisted translation of an article published in the July 2024 issue of the monthly Nusratul-Uloom, Gujranwala)
The Pseudo-Believers of the State of Madina
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
According to a narration in Bukhari Sharif, Hazrat Saad bin Ubada (RA) stated that before the arrival of the Prophet (PBUH) in Medina, the tribes of this region had decided to establish a government. Abdullah bin Ubai was chosen as its head, but before his coronation, the Messenger of Allah arrived (may Allah honor him and grant him peace) causing the establishment of this government to fall into disrepair. Hazrat Saad Bin Ubada RA has described this area as "Ahl Hazihil Bahirah" (inhabitants of this sea belt) which is the sea belt from Medina to the port of Yanbu.
On the other hand, the Holy Prophet (PBUH) had been struggling to make his station/center in this area for at least two years. The Bait-e-Uqba Aula (pledge 1) and the Bait-e-Uqba Sania (pledge 2) with the representatives of Aus and Khazraj, the two tribes of Ansar-e-Madinah, were done in this very same context. According to this the Prophet (PBUH) formally appointed twelve Naqibs (representatives) who paved the way for the Misaq-e-Madina (Treaty of Medina) by meeting and communicating with the relevant tribes and leaders in the area. As a result, as soon as he arrived in Madinah, the Messenger of Allah (PBUH) gained the status of the head and his state and government were established. And then this government and state were transferred to Hazrat Abu Bakr (RA) after the departure of the Prophet (PBUH) and it took the title of "Khilafah-e-Rashida".
This ten-year reign of the Messenger of Allah (PBUH) is referred to as the "Riyasat-e-Madina (State of Madinah) in which the Ansar-e-Madinah (local/host Muslims) as well as the tribes of the Jews and other people were also a part. In this period, the inhabitants of the "State of Madinah" included Muslims and non-Muslims, as well as people (non-muslims) who took Shahadah (oath/creed to become a Muslim) and used to participate in worship and affairs with the Holy Prophet (PBUH). They claimed that (1) we believe in Allah Ta'ala (2) we believe in the Hereafter and (3) we bear witness that Prophet Muhammad (PBUH) is the Messenger of Allah. But the Holy Qur'an refused to recognize them as Muslims by saying, "Wa Ma Hum Bimu'mineen" (they are not Muslims) and "Ina Hum Lakaziboon" (they are liars). Therefore, in Islamic history, they are referred to as Munafiqeen (hypocrites).
They remained a part of the population of Madinah for ten consecutive years and many of their incidents are mentioned in the Qur'an and Hadith, some of which are being mentioned here so that the conduct of the Prophet (PBUH) could be understood regarding these non-Muslims who took Shahadah (outh/creed):
★ Abdullah bin Ubai also took Shahadah, but he was the leader of this group and for the rest of his life, after losing the rulership of this sea belt, he kept taking revenge from the Prophet (PBUH) and the people of faith.
★ In the Battle of Uhud, a thousand army under the leadership of the Messenger of Allah (PBUH) reached the foothills of Uhud to fight the Quraysh army, of which Abdullah bin Ubai led three hundred astray back. After the war ended, there was a consultation about these three hundred people who left the field, what should be done with them? And there were two opinions on whether to conduct an operation against them or not. So, by saying in the Holy Qur'an, the Muslims were stopped from such an action, "فما لکم فی المنافقین فئتین" Why have you divided into two groups regarding the hypocrites? So no action was taken against them.
★ This group created a storm of indecency in Madinah Munawarah for about a month by falsely slandering Um-al-Mu'mineen Hazrat Aisha RA, the details of which are mentioned in the Qur'an and hadiths. This entire campaign according to "والذی تولیٰ کبرہ" (as for their mastermind) was led by Abdullah bin Ubai. After this conspiracy and nefarious campaign, there is no need to explain the details of what actions and against whom they were taken by the Prophet (PBUH), is obvious to everyone.
★ In Surah al-Manafiqun, Allah Almighty mentions the planning of Abdullah bin Ubai and his companions that the Ansar (local Muslims) will be stopped from spending on the emigrants in Madinah and the emigrants will be expelled from Madinah. Hazrat Zayd bin Arqam RA reported this secret planning to the Holy Prophet (PBUH), then these hypocrites denied the report with oaths, on which Allah Almighty confirmed Hazrat Zayd Bin Arqam RA's report in Surah Al-Manafiqoon, and declared these hypocrites liars. Hazrat Zayd bin Arqam has also mentioned this in the Riwayt (report) of Bukhari Sharif.
★ The activities and actions of these hypocrites regarding their stay back and preventing others from participating in the battle of Tabuk, are mentioned in detail in the Surah At-Tawbah.
★ The action of the hypocrites to establish their very own station in the name of the mosque in Madinah has also been described in the Holy Quran, after which some decisions were announced about these hypocrites:
(1) The Prophet Muhammad (PBUH) was prohibited from leading their funerals.
(2) Saying prayers on their graves was also prohibited.
(3) The building was built in the name of the mosque was demolished and it was declared a front of Muslim enemies for infidelity, damage, and division among Muslims.
(4) Participation of these people in any future Jihad (war alongside Muslims) was prohibited.
(5) By saying "فسیری اللہ عملکم ورسولہ والمومنون" (your deeds will be observed by Allah, His Messenger, and the believers) their permanent collective monitoring was announced (in the Quran).
The purpose of these mentions is that during the ten-year reign of the Prophet (PBUH), these bearing-witness non-Muslims also lived along with other non-Muslims among the citizens. Actions were taken against them according to the situations arised, and actions have also been avoided under expediency and wisdom on occasions. In this regard, researchers should be attentive to planning for today's conditions and requirements. Our primitive opinion is that whether or not to act against such people depends on the requirements of the situation and the collective interest and needs of the Ummah, which should be determined by the authorities and the religious and academic leaders together.
(An AI-assisted translation of a column published in the Daily Ausaf, Islamabad on 29th June 2024)
الشریعہ — اگست ۲۰۲۴ء
صحابہ کرامؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں ائمہ اہلِ سنتؒ کے ارشادات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔ صحابہ کرام و اہلِ بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی تنازعات و مشاجرات کے حوالہ سے راقم الحروف کا ایک مضمون ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور کے مئی ۱۹۶۸ء کے دو شماروں میں شائع ہوا تھا جسے تھوڑے بہت ردوبدل کے ساتھ دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ابوعمار زاہد الراشدی ۔ ۸ جولائی ۲۰۲۴ء)
مشاجراتِ صحابہؓ کا موضوع اس قدر نازک اور پیچیدہ ہے کہ اسے زیر بحث لاتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ ایک طرف صحابہ کرامؓ کا وہ مقدس گروہ ہے جس کی عدالت و دیانت، صداقت و امانت، اور شجاعت و استقامت بحث و تمحیص سے بالاتر ہے، اور بارگاہِ رسالتؐ سے اس قدوسی گروہ کا تعلق کچھ اس نوعیت کا ہے کہ مجموعی حیثیت سے پورے گروہ یا اس میں کسی خاص طبقہ کی، یا انفرادی طور پر کسی ایک فرد کی عدالت و دیانت اور صداقت و شجاعت کو زیر بحث اور محلِ نظر قرار دینے سے براہ راست بارگاہِ رسالت کی صفتِ تزکیہ و تطہیر اس کی زد میں (خاکم بدہن) آ جاتی ہے۔ اور دوسری طرف تاریخِ اسلام کے نام سے ہمارے سامنے اس گروہ کے باہمی مناقشات و مشاجرات کے بارہ میں روایات و قصص کا جو مواد پیش کیا گیا ہے اس کی روشنی میں اس جماعت پر صداقت و دیانت اور عدالت و دیانت جیسے الفاظ کا اطلاق ایک خوبصورت فریب سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔
یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہل السنۃ والجماعت نے مشاجراتِ صحابہؓ کی بحث میں ایک مبنی بر صداقت اور معقول موقف متعین کر کے اس سے زیادہ اس بحث میں غور و خوض کی ممانعت کر دی ہے، اور اس موقف کی حدود سے تجاوز کرنے کو ’’ضلال‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ آج جب گلشنِ تاریخ سے گلچینی کے بلند بانگ دعویداروں کے دامن ابن سبا کی ملعون ذریت کے بوئے ہوئے کانٹوں کی بدتمیزی کا شکار ہو کر تار تار ہوتے نظر آتے ہیں اور بڑے بڑے شہسواران رہوارِ قلم کی شیخی اس سنگلاخ وادی میں کرکری ہوتی دکھائی دیتی ہے تو صحیح معنوں میں ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کی طرف سے مسلک اہل السنۃ والجماعۃ کی حدود سے تجاوز کی ممانعت کا پس منظر اور اس کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اہل السنۃ والجماعۃ کا مسلک اس قدر معقول اور معتدل ہے کہ اس کے بعد کسی مزید غور و خوض اور بحث و تمحیص کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ اور جن لوگوں کو معتزلہ کے ہشامیہ فرقہ اور خوارج و روافض کی باہمی نظریاتی جنگ کا علم ہے کہ ایک طرف ہشامیہ فرقہ مشاجراتِ صحابہؓ یعنی سیدنا عثمانؓ کے خلاف بغاوت، جنگِ جمل اور محاربہ صفین کے وقوع ہی سے انکار کر کے تمام تر تاریخی روایات کو دیا برد کرنے کے درپے تھا (بحوالہ شرح مواقف سید شریفؒ ص ۷۴۵ والنبراس علی شرح العقائد للفرہاروی ص ۵۰۴) اور دوسری طرف روافض و خوارج کے بیشتر گروہ صحابہ کرامؓ کے بغض و عناد کی وجہ سے ہر قسم کی رطب و یابس روایات کو سینے سے لگائے بیٹھے تھے۔ وہی لوگ اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک اعتدال کی حقیقی قدر و قیمت کو جان سکتے ہیں۔
آج چونکہ مشاجرات صحابہؓ کا موضوع ایک بار پھر زیر بحث لایا جا رہا ہے اور تاریخ کی رطب و یابس روایات کا سہارا لے کر نئی پود کے اذہان و قلوب کو مسموم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اس لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس موضوع پر ائمہ کرام اور محققین اہل السنۃ والجماعۃ کے ارشادات کو قوم کے سامنے لایا جائے تاکہ پاکستان کے سواد اعظم اہل السنۃ والجماعۃ کے ’’توارثی عقائد و نظریات‘‘ کی جڑوں پر کلہاڑے چلانے والوں کی مذموم کوششیں بے نقاب ہو سکیں۔
مشاجرات کے باب میں بنیادی طور پر تین امور بحث طلب ہیں اور تینوں امور پر ائمہ نے تفصیلی روشنی ڈالی ہے:
۱۔ پہلے نمبر پر یہ کہ مشاجراتِ صحابہؓ میں مابہ النزاع کونسا سوال تھا؟
۲۔ دوسرے نمبر پر یہ کہ فریقین کی اصولی حیثیت کیا تھی؟
۳۔ اور تیسرے نمبر پر یہ کہ مشاجرات کے بارے میں تاریخ کی پیش کردہ روایات کی کیا حیثیت ہے؟
اب ہم شق وار تینوں امور پر ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے ارشادات پیش کریں گے۔
(۱) مشاجراتِ صحابہؓ میں مابہ النزاع کیا امر تھا؟
(۱) عقائد اہل السنۃ والجماعۃ کے نامور امام علامہ کمال بن ہمامؒ اور ان کی مایہ ناز تصنیف ’’المسایرہ‘‘ کے شارح علامہ کمال بن شریف فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مابین جو محاربہ واقع ہوا، وہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے کے سوال پر تھا، اور اس کی بنیاد اجتہاد پر تھی، یہ حضرت معاویہؓ کی طرف سے خلافت کی جنگ نہ تھی۔ کیونکہ حضرت علیؓ کی رائے یہ تھی کہ قاتلینِ عثمانؓ اس وقت بہت زیادہ ہیں اور لشکرِ اسلامی میں خلط ملط ہو چکے ہیں، اس لیے اگر ان پر فوری طور پر ہاتھ ڈالا گیا اور انہیں ورثائے عثمانؓ کے سپرد کیا گیا تو امارت و خلافت کا سوال نئے سرے سے اضطراب میں پڑ جائے گا۔ اس واسطے حضرت علیؓ اس سپردگی میں اس وقت تک مہلت اور تاخیر چاہتے تھے جب تک انہیں نظم و نسق پر پورا کنٹرول حاصل نہیں ہو جاتا۔‘‘ (المسایرہ ص ۱۵۹)
(۲) امام عبد الوہاب شعرانیؒ ارشاد فرماتے ہیں:
’’حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین جو محاربہ رونما ہوا وہ خلافت کی جنگ نہ تھی جیسا کہ بعض لوگوں کو خواہ مخواہ اس کا وہم ہوا ہے۔ بلکہ یہ جنگ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کی برادری کے سپرد کرنے کے سوال پر واقع ہوئی تھی۔ کیونکہ حضرت علیؓ اس سپردگی میں تاخیر چاہتے تھے اور ان کی رائے یہ تھی کہ اگر فی الفور ان پر ہاتھ ڈالا گیا تو امارت کا مسئلہ اضطراب میں پڑ جائے گا۔ اور اس چیز نے اس رائے کو اور زیادہ وزنی کر دیا تھا کہ جنگِ جمل کے موقع پر حضرت علیؓ نے قاتلینِ عثمانؓ کو لشکر سے نکل جانے کا حکم دیا تھا جس پر یہ لوگ آپ کے قتل کے درپے ہو گئے تھے۔ اور حضرت معاویہؓ کی رائے یہ تھی کہ قاتلوں کو ورثاء عثمانؓ کے سپرد کرنے میں کسی قسم کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے تاکہ ورثاء جلد از جلد حضرت عثمانؓ کا قصاص لے سکیں۔ پس حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ دونوں اپنے اپنے اجتہاد پر تھے اور ان کی باہمی جنگ سے یہی مراد ہے۔‘‘ (الیواقیت والجواہر ص ۷۷ ج ۲)
(۳) حجۃ الاسلام امام غزالیؒ المتوفی ۵۰۵ھ کا ارشاد ہے:
’’اور اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ یہ ہے کہ سب صحابہؓ کو پاک سمجھا جائے اور ان کی اسی طرح تعریف و ثناء کی جائے جس طرح اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ اور حضرت معاویہؓ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے درمیان جو جنگ ہوئی وہ خلافت کی جنگ نہ تھی بلکہ ان بزرگوں کی اجتہادی آراء میں اختلاف پر مبنی تھی۔ کیونکہ حضرت علیؓ کا اجتہاد اور ان کی رائے یہ تھی کہ قاتلینِ عثمانؓ کو اگر فی الفور ورثاء عثمانؓ کے سپرد کیا گیا تو امارت کا معاملہ مضطرب ہو جائے گا۔ کیونکہ قاتلین کا گروہ تعداد میں زیادہ ہونے کے علاوہ لشکر میں خلط ملط ہو چکا تھا۔ اس لیے حضرت علیؓ اس سپردگی میں تاخیر کو بہتر سمجھتے تھے۔ لیکن حضرت معاویہؓ کی رائے یہ تھی کہ اگر ان لوگوں کو کچھ بھی مہلت دی گئی تو اتنے بڑے گناہ کے ہوتے ہوئے ان سے قصاص لینے میں تاخیر کرنے سے خلفاء کے خون کی قدر و قیمت گھٹ جائے گی اور روز روز اس قسم کے لوگ خونریزی پر تلے رہیں گے۔‘‘ (احیاء العلوم ص ۹۹ ج۱)
(۴) امام ابن حجر المکیؒ المتوفی ۹۷۴ھ فرماتے ہیں کہ
’’اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد میں سے یہ بات بھی ہے کہ حضرت معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے مابین جو جنگ ہوئی وہ خلافت کا جھگڑا نہیں تھا۔ اس لیے کہ حضرت علیؓ کی خلافت پر اجماع متحقق ہو چکا تھا۔ پس اس کے سوال پر فتنہ بپا نہیں ہوا، بلکہ اس لیے ہوا تھا کہ حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں نے حضرت علیؓ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ قاتلینِ عثمانؓ کو ہمارے سپرد کر دیا جائے۔ کیونکہ حضرت معاویہؓ حضرت عثمانؓ کے چچازاد بھائی تھے، لیکن حضرت علیؓ یہ خیال کر کے قاتلوں کو ان کے سپرد کرنے سے رک گئے کہ ابھی خلافت کا فیصلہ تازہ تازہ ہوا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ باغی کوئی اور شورش بپا کر کے امارت کے مسئلہ کو نئے سرے سے اضطراب میں ڈال دیں۔ اور اس وقت خلافتِ اسلامی اتحاد کا نشان تھی اور ابھی تک پوری طرح مستحکم بھی نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے حضرت علیؓ نے اس سپردگی کو اس وقت تک مؤخر کرنا مناسب سمجھا جب تک ان کے قدم پوری طرح جم نہیں جاتے اور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر متحد نہیں ہو جاتے، تاکہ اس کے بعد وہ ایک ایک قاتل کو پکڑ کر ورثاء عثمانؓ کے سپرد کر سکیں۔‘‘ (الصواعق المحرقۃ ص ۲۱۶)
یہ چند حوالے معتمد ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کی عبارت سے پیش کیے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل تین امور روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتے ہیں:
۱۔ مشاجرات کی بنیاد خلافت کا مسئلہ نہیں تھا اور نہ حضرت معاویہؓ اس وقت خلافت کے دعویدار تھے۔
۲۔ مشاجرات کی بنیاد قاتلینِ عثمانؓ کو حضرت عثمانؓ کے وارثین کے سپرد کرنے کا سوال بھی نہیں تھا، بلکہ خلیفۂ وقت حضرت علیؓ قاتلینِ عثمانؓ کو حضرت معاویہؓ کے مطالبہ کے مطابق ورثاء کے سپرد کرنے کو تیار تھے اور انہیں نفسِ سپردگی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا۔
۳۔ اصل تنازعہ اس سپردگی میں تعجیل اور تاخیر کے سوال پر تھا۔ حضرت معاویہؓ تاخیر کو ناروا سمجھتے ہوئے تعجیل کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اور حضرت علیؓ تعجیل کو خلافِ مصلحت خیال کر کے تاخیر کو اصوب (زیادہ صحیح) قرار دیتے تھے۔
جب ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے ارشادات کی روشنی میں قاتلینِ عثمانؓ کو ورثاء عثمانؓ کے سپرد کرنے کا مسئلہ صحابہ کرامؓ کے درمیان ایک متفق علیہ امر تھا اور حضرت علیؓ خلیفۂ وقت کو بھی سپردگی پر اعتراض نہیں تھا، بلکہ تنازعہ صرف اور صرف تعجیل اور تاخیر کے سوال پر تھا، تو بعض حضرات کی طرف سے حضرت معاویہؓ کے اس مطالبہ کو غیر آئینی جاہلیت کے قبائلی نظام سے اشبہ اور غیر اسلامی مطالبہ قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اس دعویٰ کو کہ حضرت معاویہؓ کو یہ مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ قاتلینِ عثمانؓ کو حضرت عثمانؓ کے ورثاء کے سپرد کر دیا جائے، اگر ان کے ہاں کوئی وقعت حاصل ہو تو ہو، بہرحال ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ ان کے اس دعویٰ کو ماننے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔ کیونکہ جو مطالبہ تمام صحابہؓ کا متفق علیہ ہے، اور خلافتِ راشدہ کے منصب جلیلہ پر فائز سیدنا علیؓ بھی نفسِ مطالبہ کو مانتے ہیں، تو اس مطالبہ کو غیر آئینی اور جاہلیت کے قبائلی نظام سے اشبہ قرار دینے کی بات قابلِ قبول نہیں ہے۔
الغرض مشاجراتِ صحابہؓ میں ما بہ النزاع نہ تو خلافت کا مسئلہ تھا، جیسا کہ امام شعرانیؒ کے بقول بعض لوگوں کو خواہ مخواہ اس کا وہم ہوا ہے، اور نہ حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے کا سوال تھا، کیونکہ یہ مطالبہ متفقہ علیہ تھا اور ائمہ عقائد کی تمام کتابوں میں مابہ النزاع ’’تسلیم قتلۃ عثمانؓ الی الورثاء‘‘ کو نہیں بلکہ ’’تاخیر تسلیم‘‘ اور ’’استعجال تسلیم‘‘ کو قرار دیا گیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ’’نفسِ تسلیم‘‘ میں اختلاف نہیں تھا بلکہ تعجیل اور تاخیر میں اور سپردگی کے وقت میں اختلاف تھا۔
قصاص کا مسئلہ قرآن پاک کا منصوص مسئلہ ہے، بھلا حضرت علی رضی اللہ عنہ (یا) اور کوئی صحابیؓ اس سے انکار کر سکتا تھا؟ اختلافِ رائے صرف یہ تھا کہ فی الحال ان قاتلوں کو حضرت عثمانؓ کے وارثوں کے سپرد کر دیا جائے یا مصلحتاً کچھ عرصہ بعد جبکہ امرِ خلافت مضبوط ہو جائے۔
(۲) فریقین کی اصولی حیثیت
جب اتنی بات واضح ہو گئی کہ مابہ النزاع صرف قاتلینِ عثمانؓ کی ورثاء کو سپردگی میں تعجیل و تاخیر کا سوال تھا، تو اب ہم نے ائمہ کرام کے ارشادات کی روشنی میں یہ دیکھنا ہے (کہ) ان دونوں فریقوں کی اصولی حیثیت کیا تھی؟
(۱) امام اہل السنۃ والجماعۃ حضرت الامام ابو الحسن الاشعریؒ فرماتے ہیں کہ :
’’جو کچھ واقعات حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان واقع ہوئے ہیں ان کی بنیاد اجتہاد اور تاویل پر تھی، سب کے سب اہلِ اجتہاد تھے۔ اور ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور شہادت کی خوشخبری دی تھی جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ اجتہاد میں حق پر تھے۔
اور اسی طرح جو واقعات حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ بھی اجتہاد اور تاویل پر مبنی ہیں اور سارے صحابہ کرامؓ مامون ہیں جن کے دین پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرامؓ کی تعریف و ثنا کی ہے اور ہم کو ان کی توقیر و تعظیم کرنے کا، ان سے محبت رکھنے کا، اور ان کے بارے میں ہر اس بات سے براءت ظاہر کرنے کا حکم دیا ہے جس سے ان میں سے کسی ایک کی تنقیص ہوتی ہو۔‘‘ (کتاب الابانۃ للاشعریؒ ص ۸۸)
(۲) امام عبد الوہاب شعرانیؒ فرماتے ہیں کہ :
’’صحابہ کرامؓ سب کے سب باتفاق اہل السنۃ والجماعۃ عادل ہیں۔ جنگِ جمل و صفین واقعہ سے قبل بھی وہ عادل تھے اور بعد میں بھی عادل ہی رہے۔ یہ اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے آپس کے جھگڑے اجتہاد کے سبب سے تھے۔ کیونکہ مختلف فیہ امور اجتہادی مسائل تھے اور دونوں فریقوں نے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔ اب ’’کل مجتہد مصیب‘‘ (ہر مجتہد حق پر ہوتا ہے) کا قاعدہ مدنظر رکھ کر سب کو حق پر قرار دیا جائے۔ یا ’’المصیب واحد والمخطئ معذور بل ماجور‘‘ (درست فیصلہ ایک کا ہوتا ہے اور دوسرا معذور بلکہ ماجور ہوتا ہے) کے قاعدہ کے پیش نظر ایک فریق کو حق پر اور دوسرے کو خطا پر سمجھا جائے۔ اس سے عدالتِ صحابہؓ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔‘‘ (الیواقیت والجواہر ص ۷۶ ج ۲)
(۳) حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کا ارشاد ہے کہ:
’’شیخ ابو شکور سالمیؒ نے اپنی کتاب ’’تمہید‘‘ میں تصریح کی ہے کہ حضرت معاویہؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے ان کے وہ رفقاء جو جنگ میں ان کے ساتھ تھے، اگرچہ خطا پر تھے، لیکن ان کی یہ خطا اجتہادی تھی۔ اور ابن حجرؒ نے الصواعق المحرقۃ میں لکھا ہے کہ حضرت علیؓ سے حضرت معاویہؓ کا نزاع اجتہاد پر مبنی تھا۔ اور اس کو انہوں نے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد میں شمار کیا ہے۔‘‘ (مکتوبات دفتر اول مکتوب ص ۲۵۱)
ایک اور مقام پر حضرت مجدد صاحبؒ فرماتے ہیں کہ:
’’جمہور اہل السنۃ والجماعۃ کا دلائل کی روشنی میں یہ عقیدہ ہے کہ مشاجراتِ صحابہؓ میں حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور ان کے مخالفین نے خطا کا راستہ اپنایا تھا۔ لیکن چونکہ یہ خطا اجتہادی ہے اس لیے ملامت اور اعتراض سے مبرا اور بالاتر ہے اور اہلسنۃ والجماعۃ محاربینِ علیؓ کے حق میں صرف خطاء کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں، کیونکہ اس میں تاویل کی گنجائش ہے، اس کے بغیر ان پر کسی لفظ کا اطلاق روا نہیں رکھتے۔‘‘ (مکتوبات حصہ شسشم دفتر دوم ص ۷۹)
(۴) امام شرف الدین نوویؒ شارح مسلم شریف المتوفی ۶۷۶ھ فرماتے ہیں کہ
’’اور جو محاربات صحابہ کرامؓ کے دور میں رونما ہوئے ان میں ہر گروہ کے لیے ایسے شبہات موجود تھے جن کی بنا پر وہ گروہ اپنے آپ کو حق پر کہتا تھا اور سارے کے سارے عادل اور محاربات کے سلسلہ میں اپنے اپنے طرز عمل کے مؤدل تھے۔ اور ان محاربات میں سے کوئی چیز بھی ان صحابہ کرامؓ کی عدالت پر اثر انداز نہیں ہوتی، کیونکہ وہ سارے مجتہد تھے جنہوں نے اجتہادی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا تھا۔‘‘ (شرح مسلم ص ۲۷۳ ج ۳)
ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے حسبِ ذیل امور واضح ہوتے ہیں کہ
۱۔ اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کے مطابق حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے میں تاخیر یا تعجیل کا مسئلہ ایک اجتہادی معاملہ تھا۔
۲۔ اس اجتہادی مسئلہ میں حضرت علیؓ نے اپنے اجتہاد کے مطابق ’’تاخیر تسلیم‘‘ کو اصوب سمجھا اور حضرت معاویہؓ نے اپنے اجتہاد کی روشنی میں ’’تعجیل تسلیم‘‘ کو مناسب خیال فرمایا۔
۳۔ دونوں بزرگوں کے پاس اپنے اپنے اجتہاد کو صحیح سمجھنے کے لیے شبہات کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور موجود تھی، جس کی بنا پر ہر گروہ اپنے آپ کو حق پر کہتا تھا۔
۴۔ اس اجتہادی اختلاف میں حضرت علیؓ کا اجتہاد اپنے نتیجہ کے لحاظ سے صواب اور حضرت معاویہؓ کا اجتہاد خطاء تھا۔
۵۔ اس اجتہادی اختلاف اور حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کی خطاء اجتہادی کے سلسلہ میں لفظ خطاء سے زیادہ اور کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ان کو اس خطاء پر ملامت کی جا سکتی ہے اور نہ ان پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔
الغرض اہل السنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کی رو سے جنگِ جمل کی ابتدا سے واقعہ تحکیم تک جو کچھ واقعات رونما ہوئے ان کی بنیاد اجتہاد پر تھی۔ اور اجتہادی مسئلہ میں اگر دو مجتہد مختلف رائے قائم کریں تو اپنے اپنے اجتہاد کی رو سے تو وہ دونوں حق پر ہوتے ہیں، لیکن نفس الامر میں ایک حق پر ہوتا ہے اور دوسرا خطاء پر، لیکن یہ خطاء بھی قابلِ ملامت نہیں ہوتی بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ اجر عطا فرماتے ہیں۔
اس لیے صحابہ کرامؓ میں سے اجتہادی مسائل میں خطاء کر جانے والوں پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں، جیسے بعد کے چاروں امامانِ فقہ حضرت ابوحنیفہؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام مالکؒ میں بیسیوں مسائل میں اختلاف ہے، مگر چونکہ یہ اہلِ اجتہاد تھے اس لیے چاروں مذاہب کو اصولاً حق پر سمجھا جاتا ہے۔ ایک کو حسنِ ظن کی وجہ سے حق پر سمجھا جا کر اس کی پیروی کی جاتی ہے، دوسرے کو اس کے اجتہادی خطاء پر ملامت نہیں کیا جاتا بلکہ مستحقِ اجر قرار دیا جاتا ہے۔
(۳) تاریخی روایات کی صحیح حیثیت
واقعاتی صورتحال یہ ہے کہ مشاجرات میں مابہ النزاع امور اجتہادی مسائل تھے، جن میں مجتہدین کا آپس میں اختلاف ہو گیا، اور اس اختلاف سے باغیوں کے گروہ نے سازشوں اور حیلوں کے ذریعہ پوری طرح فائدہ اٹھا کر صحابہ کرامؓ کے دو مقدس گروہوں کو آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرا دیا۔ یہ وہی سبائی گروہ تھا جس نے حضرت عثمانؓ کو شہید کرایا اور پھر حضرت علیؓ کے لشکر میں گھل مل گئے، اپنی سازشوں سے اسلام کو کمزور کرنے اور باہم لڑانے کے سوا ان کا کوئی مقصد نہ تھا۔
البتہ ایک سوال یہ ہے کہ اس مسلک اور عقیدہ پر پختگی سے قائم رہنے کی صورت میں ان بے شمار تاریخی روایات کا کیا بنے گا جو اس عقیدہ کے بالکل الٹ ایک بالکل دوسرا ہی نقشہ پیش کرتی ہیں؟ اس کے جواب میں اب ہم ائمہ کرامؒ کی عبارات پیش کرتے ہیں تاکہ تاریخی روایات کی صحیح حیثیت واضح ہو سکے۔
(۱) حجۃ الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’پس ہمیں صحابہ کرامؓ کے حق میں نیک گمان رکھنا چاہیے اور ان کے بارے میں برا گمان نہیں کرنا چاہیے۔ اور جو واقعات اس قسم کے تاریخوں میں نقل کیے گئے ہیں جن سے اس حسنِ ظن پر زد پڑتی ہے تو اس کا بیشتر حصہ تعصب اور عناد کی وجہ سے ان مخالفوں نے خودبخود گھڑا ہے، جس کی کوئی اصل نہیں۔ اور اگر کوئی واقعہ نقل کے لحاظ سے ثابت ہو جائے تو بھی اس کی تاویل کی جائے گی، اور ایسی کوئی خبر نہیں جس میں خطاء اور سہو کا احتمال نہ ہو۔ اور صحابہ کرامؓ کے افعال کو نیک عمل اور قصدِ خیر پر محمول کرنا چاہیے اگرچہ کسی ایک آدھ معاملہ میں وہ صواب پر نہ ہوں۔ اور حضرت عائشہؓ اور حضرت معاویہؓ سے حضرت علیؓ کی جو جنگ مشہور ہے، اس میں حضرت عائشہؓ کے بارے میں تو یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ کے بپا کیے ہوئے فتنہ کو بجھانا چاہتی تھیں لیکن معاملہ ان کے ضبط اور کنٹرول سے نکل گیا، اور حضرت معاویہؓ کے بارے میں یہ اعتقاد رکھنا چاہیے کہ وہ تاویل اور اجتہاد کی بنا پر حضرت علیؓ سے اختلاف رکھتے تھے۔ اور اس کے سوا جو حکایتیں بیان کی جاتی ہیں ان میں صحیح اور باطل آپس میں خلط ملط ہو چکے ہیں۔ اور وہ روایات آپس میں بھی مختلف ہیں جن کا اکثر و بیشتر حصہ روافض، خوارج اور ان کے اربابِ فضول کی اختراع ہے جو ہر وقت من گھڑت اور جھوٹے قصے پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ پس مناسب بات یہ ہے کہ جب تک کوئی روایت اصولِ روایت و درایت کی روشنی میں صحیح ثابت نہ ہو جائے اس کی صحت کا صاف انکار کر دیا جائے۔ اور جو روایت اصول کی کسوٹی پر صحیح ثابت ہو جائے لیکن وہ بظاہر حسنِ ظن کے خلاف ہو تو اس کی تاویل و توجیہ کی جائے۔ اور اے مخاطب! اگر تو کسی روایت کی تاویل و توجیہ کرنے سے عاجز رہے اور تجھ کو کوئی راستہ تاویل و توجیہ کا نظر نہ آئے تو یہ کہہ دے کہ ہو سکتا ہے اس کی کوئی تاویل ہو جو میری سمجھ میں نہیں آ سکی۔‘‘ (الاقتصاد فی الاعتقاد للغزالیؒ ص ۱۰۱۰)
آپ نے دیکھا کہ امام غزالیؒ کا تقویٰ اور احتیاط کہ اپنی سمجھ کا قصور مان لو مگر صحابہ کرامؓ پر بدگمانی نہ ہو، کیونکہ انہوں نے جو کچھ کیا اللہ کے لیے کیا اور حق سمجھ کر کیا۔
(۲) امام ابن حجر المکیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ
’’کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مشاجراتِ صحابہؓ کے سلسلہ میں روایات پیش کر کے صحابہ کرامؓ میں سے کسی بزرگ پر تنقید و اعتراض کا دروازہ کھول دے اور عوام کو صحابہ کرامؓ سے بدظن کرنے کا باعث بنے۔ اور اس قسم کی حرکتیں وہ بدعتی اور جاہل قسم کے لوگ ہی کیا کرتے ہیں جو ہر وہ بات نقل کر ڈالتے ہیں جو تاریخ کے کسی حصہ سے ان کو دستیاب ہو جائے اور روایت کی سند وغیرہ پرکھے بغیر ہی اسے پیش کر دیتے ہیں۔‘‘ (تطہیر الجنان للمکیؒ ص ۳۱)
ایک دوسرے مقام پر امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ:
’’واجب اور ضروری امور میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص ’’مشاجراتِ صحابہؓ‘‘ کے بارے میں کوئی روایت سنے تو اسے قبول کرنے سے رک جائے اور محض کسی مؤرخ کی کتاب میں اس روایت کے موجود ہونے یا کسی شخص سے وہ روایت سن لینے ہی کی بنا پر اس روایت میں بیان کردہ قصہ کو صحابہ کرامؓ میں سے کسی کی طرف منسوب نہ کر دے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ وہ اس روایت کی چھان بین کرے، اس کی اسناد پرکھے، اور جب تک وہ روایت پوری طرح صحیح ثابت نہ ہو جائے اسے تسلیم نہ کرے۔ اور جب وہ روایت صحیح ثابت ہو جائے تو اس میں تاویل کرے اور اس کی توجیہ بیان کرنے کی پوری کوشش کرے۔‘‘ (الصواعق المحرقۃ ص ۲۱۶)
(۳) حضرت ملا علی القاریؒ المتوفی ۱۰۱۴ھ فرماتے ہیں کہ
’’علامہ ابن دقیق العیدؒ نے اپنے عقائد میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے، جو روایات مشاجراتِ صحابہؓ کے بارے میں نقل کی گئی ہیں ان میں باطل اور جھوٹی روایات بھی ہیں، ان کی طرف التفات نہیں جائے گا۔ اور جو روایت صحیح ثابت ہو جائے اس کی ہم کوئی مناسب تاویل کریں گے۔‘‘ (شرح فقہ اکبر ص ۸۷)
ان ارشادات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ
۱۔ مؤرخین کی کتابوں میں جو روایات بیان کی گئی ہیں ان میں غلط اور صحیح دونوں قسم کی روایات موجود ہیں۔
۲۔ غلط روایات رافضیوں، خارجیوں اور دوسرے گمراہ لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ کے تاریخ میں گھسیڑی ہیں۔
۳۔ غلط اور صحیح روایات میں تمیز کرنے کے لیے روایت کی سند کو پرکھ کر اصول و ضوابط کی روشنی میں اس کے راویوں پر باقاعدہ جرح و تنقید کی جائے گی۔
۴۔ جو شخص تاریخی روایت کو محض کسی کتاب میں موجود ہونے کی بنا پر قبول کر لیتا ہے اور اس کی سند کو پرکھنے اور راویوں پر جرح و تنقید کو ضروری خیال نہیں کرتا وہ جاہل اور بدعتی ہے۔
بحمد اللہ تعالیٰ ہم نے مشاجراتِ صحابہؓ کے سلسلہ میں تینوں بنیادی امور (۱) مابہ النزاع (۲) فریقین کی اصولی حیثیت اور (۳) تاریخی روایات کی اصل حقیقت پر ائمہ اہل السنۃ والجماعۃ کے واضح اور روشن ارشادات پیش کر دیے ہیں جن سے واضح ہو جاتا ہے، اور دو بزرگوں کے ارشادات پر اس مضمون کا اختتام کرتے ہیں:
(۱) امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ:
’’واعظوں اور ان جیسے دوسرے لوگوں پر حضرت حسینؓ کی شہادت اور مشاجراتِ صحابہؓ کے بارے میں ایسی روایات کا بیان کرنا حرام ہے جن سے صحابہؓ پر اعتراض و تنقید کا دروازہ کھلتا ہو اور عوام میں ان کے بارے میں برے خیالات پیدا ہونے کا احتمال ہو۔‘‘ (بحوالہ الصواعق المحرقۃ ص ۲۲۳)
(۲) علامہ ابن عابدین شامیؒ المتوفی ۱۲۵۸ھ فرماتے ہیں کہ:
’’ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم صحابہ کرامؓ کا احترام اور ان کی تعظیم کریں، ان پر اعتراض و تنقید کو حرام سمجھیں اور ان کے باہمی مشاجرات کے بارے میں سکوت اختیار کریں، کیونکہ یہ سارے مشاجرات اجتہاد کی بنیاد پر تھے۔ یہ اہلِ حق اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب ہے، جس شخص نے اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کیا وہ یا تو ضال اور مبتدع ہے، اور یا زیادہ غلو کرنے کی وجہ سے کافر ہے۔‘‘ (رسائل ابن عابدین ص ۳۵۷)
اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۵)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(519) وَالَّذِینَ عَقَدَتْ أَیْمَانُکُمْ کا مطلب
درج ذیل آیت میں تین باتیں غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ کا الوالدان پر عطف ہے یا وہاں سے نیا جملہ شروع ہوتا ہے جس کا وہ مبتدا ہے؟ دوسری بات یہ کہ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد کون لوگ ہیں جن کا شریعت میں حصہ ہے، جسے دینے کا اس آیت میں حکم ہے؟ تیسری بات یہ کہ فَآتُوہُمْ نَصِیبَہُمْ میں کن لوگوں کو ان کا حصہ دینے کی بات ہے؟ ھم ضمیر کا مرجع صرف وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ ہے یا آیت میں مذکور تینوں کے موالی یعنی وارثین ہیں؟
عام طور سے لوگوں نے وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ کو نئے جملے کا مبتدا مانا ہے اور ان سے مراد وہ لوگ لیے ہیں جن سے بھائی چارے کا معاہدہ ہو۔ پھر یہ بحث بھی ہے کہ یہ حکم منسوخ ہے یا باقی ہے۔ غرض وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ سے معاہداتی رشتہ اخوت مراد لینے سے کئی پیچیدہ سوالات سامنے آتے ہیں۔ بعض ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُونَ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ فَآتُوہُمْ نَصِیبَہُمْ (النساء: 33)
’’ماں باپ یا قرابت دار جو چھوڑ مریں اس کے وارث ہم نے ہر شخص کے مقرر کر دیے ہیں اور جن سے تم نے اپنے ہاتھوں معاہدہ کیا ہے انہیں ان کا حصہ دو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور ہم نے والدین اور قرابت مندوں کے چھوڑے ہوئے میں ہر ایک کے لیے وارث ٹھہرا دیے ہیں اور جن سے تم نے کوئی پیمان باندھ رکھا ہو تو ان کو ان کا حصہ دو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار چھوڑیں اب رہے وہ لوگ جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوں تو ان کا حصہ انہیں دو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور ہم نے سب کے لیے مال کے مستحق بنادیے ہیں جو کچھ چھوڑ جائیں ماں باپ اور قرابت والے اور وہ جن سے تمہارا حلف بندھ چکا انہیں ان کا حصہ دو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ مریں تو (حق داروں میں تقسیم کردو کہ) ہم نے ہر ایک کے حق دار مقرر کردیے ہیں اور جن لوگوں سے تم عہد کرچکے ہو ان کو بھی ان کا حصہ دو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور ہم نے ہر شخص کے لیے وارث مقرر کر دیے ہیں، جو کچھ ماں، باپ اور قریب ترین رشتہ دار اور جن سے تم نے عہدوپیمان کر رکھا ہے، چھوڑ جائیں انہیں (وارثوں کو) ان کا حصہ دو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے یہاں قابل ذکر ہے۔ ان کے مطابق وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ سے مراد عقد نکاح سے وجود میں آنے والے شوہر بیوی کے رشتے ہیں۔ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ کا عطف الوالدان پر ہے۔ آیت میں تینوں (الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُونَ وَالَّذِینَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ) کے وارثین کو ان کا حصہ دینے کا حکم ہے۔ دراصل رشتے تین طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک والدین جن سے انسان کا جنم ہوتا ہے۔ دوسرے خونی رشتے جنھیں اقربین کہا گیا ہے، جیسے اولاد اور بھائی بہن۔ ان دو کے علاوہ بس ایک رشتہ اور ہے جو عقد اور معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے اور وہ شوہر اور بیوی کا رشتہ ہے۔ قرآن میں مذکور وراثت کا نظام اصل میں انھی تینوں طرح کے وارثوں پر مشتمل ہے۔ اس آیت میں انھی تین طرح کے وارثوں کو ان کا حصہ جو اسی سورۃ النساء میں مذکور ہے، ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس توجیہ کی روشنی میں ترجمہ اس طرح ہوگا:
’’اور ہم نے ہر اُس ترکے کے حق دار مقرر کر دیے ہیں جو والدین اور رشتہ دار اور وہ (شوہر یا بیوی) چھوڑیں جن سے تمہارے عہد و پیمان ہوئے ہیں، تو ان کا حصہ انھیں دو‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(520) مَا طَابَ لَکُمْ کا ترجمہ
طاب کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کا اپنے آپ میں مناسب اور سازگار ہونا۔ فیروزابادی لکھتے ہیں: طابَ: لَذَّ وَزَکَا (القاموس المحیط)۔ پسند آنے کے لیے عربی میں أعجب کا لفظ آتا ہے۔ جیسے قرآن میں ہے: وَلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ (الاحزاب: 52) (اگرچہ ان کا حسن تمھیں پسند آجائے) درج ذیل آیت میں پسند آنے کے بجائے سازگار ہونا بہتر ترجمہ ہے۔
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامَی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ۔ (النساء: 3)
’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ کرسکو گے تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے جائز ہوں ان سے دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر ڈر ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک پر بس کرو یا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی، طاب کا مطلب جائز ہونا نہیں ہے۔)
’’اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں‘‘۔ (سید مودودی، اس ترجمے میں ایک غلطی یہ ہے: ’’یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں‘‘ یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اپنی لونڈیوں سے نکاح نہیں کیا جاتا، ان سے ملکیت کا رشتہ ہوتا ہے نہ کہ زوجیت کا رشتہ۔ زوجیت میں لانے کے لیے انھیں آزاد کرنا ہوگا۔ جب وہ آزاد ہوجائیں گی تو وہ عام عورتوں کے حکم میں ہوں گی، پھر الگ سے ان کے ذکر کی معنویت ختم ہوجائے گی۔ ’’بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو‘‘ کے بجائے ’’انصاف نہ کرپانے کا اندیشہ ہو‘‘ بہتر ترجمہ ہوگا۔)
’’اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، یتامی کا ترجمہ یتیم لڑکیوں کرنا درست نہیں ہے۔ یتامی میں تو لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں۔ پھر جملے میں نکاح کرنے کا ذکر بھی نہیں ہے۔ یہ باتیں تفسیر میں بیان کی جاسکتی ہیں لیکن ترجمہ تو لفظ کے مطابق ہونا چاہیے۔)
’’اور اگر ڈرو کہ انصاف نہ کرو گے یتیم لڑکیوں کے حق میں تو نکاح کرو جو تم کو خوش آویں عورتیں دو دو تین تین چار چار پھر اگر ڈرو کہ برابر نہ رکھو گے تو ایک ہے یا جو اپنے ہاتھ کا مال ہے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر، طاب کا ترجمہ مناسب ہے البتہ یتامی کا ترجمہ یتیم لڑکیاں مناسب نہیں ہے۔)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ تم سے یتیموں کے معاملے میں انصاف نہ ہوسکے گا تو عورتوں میں سے جو تمہارے لیے سازگار ہوں دو دو، تین تین، چار چار تک نکاح کرلو اور اگر ڈر ہو کہ ان کے درمیان عدل نہ کرسکو گے تو ایک پر بس کرو یا پھر کوئی لونڈی جو تمہاری ملک میں ہو‘‘۔
(521) مَا آتَیْتُمُوہُنَّ سے مراد
درج ذیل آیت کے ٹکڑے میں مَا آتَیْتُمُوہُنَّ سے مراد وہ سب کچھ ہے جو شوہر نے بیوی کو دیا ہو۔ مہر بھی اس میں شامل ہے۔ اس لیے اس کا ترجمہ متعین طور پر مہر کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس سے لفظ کی وسعت متأثر ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں عضل کا مطلب روکنا نہیں بلکہ تنگ کرنا ہے۔ عضل کے لغوی استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں ضیق اور تنگی کا مفہوم ہے۔ ابن منظور لکھتے ہیں: وعَضَّلَ عَلَیْہِ فِی اَمرہ تَعْضِیلًا: ضَیَّق مِنْ ذَلِکَ وحالَ بَیْنَہُ وَبَیْنَ مَا یُرِیدُ ظُلْمًا۔ وعَضَّلَ بِہِمُ المکانُ: ضَاق۔ وعَضَّلَتِ الاَرضُ باَہلہا اِذا ضَاقَتْ بِہِمْ لِکَثْرَتِہِمْ۔ (لسان العرب)
زیر نظر آیت میں تنگ کرنے کا ترجمہ کرنے سے بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے۔ روکنا بھی اس کا ایک معنی ہے مگر وہ یہاں موزوں معلوم نہیں ہوتا۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَلَا تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ۔ (النساء: 19)
’’اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’انہیں اس لیے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے، اس میں سے کچھ لے لو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’ اور نہ یہ جائز ہے۔ کہ ان پر سختی کرو اور روکے رکھو تاکہ جو کچھ تم نے (جہیز وغیرہ) انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ لے اڑو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اور نہ یہ بات جائز ہے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس کا کچھ حصہ واپس لینے کے لیے ان کو تنگ کرو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
(522) حَلَائِلُ کا ترجمہ
لفظ حلیلۃ کا اطلاق بیوی پر بھی ہوتا ہے، لیکن اس کے معنی میں وسعت ہے۔ بیوی کے ساتھ لونڈی بھی اس میں شامل ہے۔ ترجمہ میں اس وسعت کا اظہار کرنا زیادہ مناسب ہے، ترجمے دیکھیں:
وَحَلَائِلُ اَبْنَائِکُمُ الَّذِینَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ۔ (النساء: 23)
’’اور تمہارے اُن بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور تمہارے نسلی بیٹوں کی بیبییں ‘‘۔(احمد رضا خان)
’’اور تمہارے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور عورتیں تمہارے بیٹوں کی جو تمہاری پشت سے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور تمہارے صلبی بیٹوں کی عورتیں بھی‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور ان عورتوں سے جن سے تمہارے ان بیٹوں کا جو تمہارے صلب سے ہیں ازدواجی تعلق قائم ہوچکا ہے‘‘۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(523) وَأَنْ تَجْمَعُوا کا ترجمہ
درج ذیل آیت کے ٹکڑے کے بعض ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَاَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ۔ (النساء: 23)
’’اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور یہ بھی حرام قرار دیا گیا کہ دو بہنوں کو ایک نکاح میں اکھٹا کرو‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اور دو بہنوں کو (ایک نکاح میں) اکٹھا کرنا حرام ہے‘‘۔ (احمد علی)
مذکورہ بالا ترجموں میں لفظ ’ایک نکاح‘ درست نہیں ہے۔’ ایک نکاح‘ کہنے سے یہ بات نکل سکتی ہے کہ دو نکاح کے ذریعے دو بہنوں کو جمع کرسکتے ہیں۔ صرف ’نکاح ‘ کہیں ، تب بھی یہ کم زوری پیدا ہوتی ہے کہ دو سگی بہنوں کو ملک یمین کی صورت میں جمع کرنا اس ممانعت میں شامل نہیں ہوگا، جب کہ وہ بھی شامل ہے۔
درج ذیل ترجمے درست ہیں:
’’اور دو بہنیں اکٹھی کرنا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور یہ کہ تم دو بہنوں کو بیک وقت جمع کرو‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمے میں ’نہ‘ غلطی سے درج ہوگیا ہے۔ ممنوع باتیں ذکر ہورہی ہیں، تو ساتھ رکھنا منع ہے نہ کہ ساتھ نہ رکھنا۔
’’اور یہ کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نہ رکھو‘‘۔(اشرف علی تھانوی)
(524) نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ کا ترجمہ
درج ذیل آیت کے ٹکڑے میں سیئات کا لفظ آیا ہے۔ سیئات کا مطلب برائیاں ہیں وہ چھوٹی ہوں یا بڑی ہوں۔ سیئات صرف چھوٹی برائیوں کے لیے نہیں آتا ہے۔ قرآن میں متعدد بار یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ عمومی معنی میں آیا ہے۔ یہاں بھی سیئات کا ترجمہ برائیاں کرنا چاہیے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
اِنْ تَجْتَنِبُوا کَبَائِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ۔ (النساء: 31)
’’اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے اجتناب رکھو گے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچتے رہوگے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’تم جن باتوں سے روکے جا رہے ہو اگر ان کے بڑے گناہوں سے تم بچتے رہے تو ہم تم سے تمہاری چھوٹی برائیاں جھاڑ دیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’تم جن باتوں سے روکے جا رہے ہو اگر ان کے بڑے گناہوں سے تم بچتے رہے‘‘ یہ غیر فصیح عبارت ہے۔ بڑے گناہوں سے روکے جانے اور انھی سے بچنے کی بات ہے۔ یہاں اضافت صفت کا مفہوم دے رہی ہے۔
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اگر بچتے رہو کبیرہ گناہوں سے جن کی تمہیں ممانعت ہے تو تمہارے اور گناہ ہم بخش دیں گے‘‘۔ (احمد رضا خان)
(525) وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی کا ترجمہ
درج ذیل قرآنی عبارت میں دو طرح کے پڑوسیوں کا ذکر ہے:
وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی وَالْجَارِ الْجُنُبِ۔ (النساء: 36)
’’اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے‘‘۔ (سید مودودی)
اس ترجمے میں وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبَی کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ اس میں رشتے دار کو موصوف بنادیا ہے اور پڑوسی کو صفت۔ حالاں کہ عبارت کی رو سے پڑوسی موصوف ہے۔ درج ذیل تینوں ترجمے درست ہیں:
’’اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور قرابت دار ہمسایہ سے اور اجنبی ہمسایہ سے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’قرابت دار پڑوسی، بیگانہ پڑوسی‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمہ بھی نادرست ہے۔ پاس اور دور کے پڑوسی کی بات نہیں ہے، بلکہ رشتے دار پڑوسی اور غیر رشتے دار پڑوسی کی بات ہے۔ ذی القربی کا مطلب رشتے دار پڑوسی چاہے وہ غیر رشتے دار پڑوسی سے کچھ زیادہ فاصلے پر کیوں نہ ہو۔
’’اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے‘‘۔ (احمد رضا خان)
(526) ہَؤُلَائِ أَہْدَی مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلًا کا ترجمہ
اسم تفضیل کبھی یہ بتانے کے لیے آتا ہے کہ مذکورہ صفت دونوں افراد میں ہے مگر ایک فرد میں زیادہ ہے اور کبھی یہ بتانے کے لیے بھی آتا ہے کہ ایک میں ہے اور دوسرے میں نہیں ہے۔ درج ذیل آیت میں اسم تفضیل ’اَہْدَی‘ اسی دوسرے مفہوم میں ہے۔ اہل کتاب یہ نہیں کہتے تھے کہ مومنین ہدایت پر ہیں اور کفار ان سے زیادہ ہدایت پر ہیں۔ وہ تو یہ کہتے تھے کہ کفار ہدایت پر ہیں اور یہ لوگ جو خود کو مومن کہتے ہیں گم راہ ہیں۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَیَقُولُونَ لِلَّذِینَ کَفَرُوا ہَؤُلَائِ اَہْدَی مِنَ الَّذِینَ آمَنُوا سَبِیلًا۔ (النساء: 51)
’’ اور کافروں کے حق میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں سے زیادہ راہ راست پر ہیں‘‘۔(محمد جوناگڑھی)
’’اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں سے تو یہی زیادہ صحیح راستے پر ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں سے زیادہ ہدایت پر تو یہ ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمہ مفہوم کی صحیح ادائیگی کرتا ہے:
’’اور کفار کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ مومنوں کی نسبت سیدھے رستے پر ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’اور کافروں کے متعلق کہتے ہیں کہ ایمان والوں کے مقابلے میں یہ ہدایت پر ہیں‘‘۔
متنِ قرآن کی حفاظت و استناد
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
قرآن کے متن کی حفاظت اور استناد سے متعلق گزشتہ دنوں جو بحث چھیڑی گئی، اس میں کسی دوست کی پوسٹ میں اختلافات قراءت کے حوالے سے یاسر قاضی صاحب کا یہ تبصرہ پڑھا کہ عمومی طور پر اہل علم کی طرف سے اس مسئلے کی جو تفہیم بیان کی جاتی ہے، اس میں کچھ خلا ہیں اور وہ آج کے تعلیم یافتہ اور تاریخی معلومات رکھنے والے ذہن کو مطمئن نہیں کرتی، اس لیے اس سوال کو بہتر انداز میں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے خیال میں یہ بنیادی طور پر درست تجزیہ ہے، البتہ اس تجزیے کا معروض اصلاً مروج دینی تعبیرات یا مواقف کو قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا۔ جہاں تک اعلیٰ سطحی علمی روایت کا تعلق ہے تو اس کی صورت حال ہماری رائے میں مختلف ہے۔ بڑے تناظر میں دیکھا جائے تو اس سوال کا تعلق دراصل دینی روایت کے اس عمومی انتظام سے بنتا ہے کہ بہت سی چیزوں کی ایک تفہیم عام مسلمانوں کی ذہنی سطح اور استعداد کے لحاظ سے کر دی جائے جو ان کی دینی ضروریات کے لیے کافی ہو، جبکہ علمی سطح پر اس مسئلے کی جو پیچیدگیاں ہیں، ان پر گفتگو اہل علم تک محدود رہے اور عام مسلمانوں کو تفصیلات میں زیادہ نہ الجھایا جائے۔
یہ طریقہ قرآن مجید کے متن کی قراءت کے علاوہ دیگر معاملات مثلاً دینی اعتقادات کی تشریح، قرآن اور حدیث کے براہ راست مطالعہ، صحابہ کے دور کے سیاسی اختلافات اور فقہی مسائل میں اجتہاد وغیرہ کے حوالے سے بھی اختیار کیا گیا اور خاص تاریخی حالات میں عملاً کارگر بھی رہا ہے۔ تاہم جدید دور کی بنیادی تبدیلیوں، خصوصاً معلوماتی انقلاب اور عام آدمی کے لیے خود غور وفکر اور فیصلہ کرنے جیسے رجحانات کے زیر اثر یہ بندوبست زیادہ موثر نہیں رہا۔ ان تبدیلیوں کے پیش نظر مذکورہ تمام دائروں میں اہل مذہب کے مواقف اور انداز فکر میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے اور عام آدمی کے لیے معلومات یا قابل غور سوالات کی تحدید کا زاویہ نظر سکڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
تجربہ یہی ہے کہ جدید عہد کے پیدا کردہ سوالات کا سامنا کرنے کے لیے جہاں بھی اپالوجیٹک طرز فکر اختیار کیا گیا ہے، چاہے وہ دینی مصادر کے دائرے میں ہو یا اسلامی تاریخ یا مذہبی وفقہی احکام کے دائرے میں، اس کا الٹا ہی اثر مرتب ہوا ہے، کیونکہ ہر طرح کی معلومات تک رسائی کی وجہ سے جب تاریخی معلومات مختلف شکل میں تنقیدی ذہن رکھنے والے فرد یا طبقے کے سامنے آتی ہیں تو اس سے ’’مستند’’ مذہبی بیانیوں اور مواقف کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ علمی اخلاقیات اور دعوت کی حکمت عملی، دونوں لحاظ سے بہتر یہی ہے کہ گمراہی اور انتشار کے ڈر سے عام آدمی کے علم اور معلومات کے ’’حدود’’ طے کرنے اور فتوے بازی کے ہتھیار سے مخصوص مواقف کی ’’اجارہ داری’’ برقرار رکھنے کی سعی لاحاصل چھوڑ کر دینی روایت کے اعلی سطحی مباحث کو، جنھیں علمی اشرافیہ کے لیے خاص مانا جاتا ہے، عام تعلیم یافتہ ذہن کے لیے صحیح تناظر میں قابل فہم بنانے کی کوشش کی جائے۔ دور انتشار میں انتشار کو مصنوعی طریقوں سے روکا تو نہیں جا سکتا، لیکن بہتر حکمت عملی سے اس کے مفاسد کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم
پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمود سے ایک اہم انٹرویو
مجیب الرحمٰن شامی
مولانا مفتی محمود راولپنڈی میں ہوں تو ان کا قیام جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ میں رہتا ہے۔ بالائی منزل کے ایک حجرے میں۔ ۲۲ اگست کو ان سے ٹیلیفون پر بات ہوئی اور ملاقات کے لیے ساڑھے نو بجے رات کا وقت مقرر ہوا۔ جامعہ اسلامیہ پہنچا تو مفتی صاحب عشاء کی نماز ادا کر رہے تھے۔ میں برادران عزیز مختار حسن اور سعود ساحر کے ہمراہ انتظار کی لذت میں ڈوبنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ جناب صبح صادق کھوسو تشریف لے آئے۔ ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ کھوسو صاحب کا ذہن توانا، لہجہ والہانہ اور تیور مجاہدانہ تھے۔ وہ ۱۹۵۶ء سے جمعیۃ العلمائے اسلام میں شامل ہیں اور کل انہیں وزیر کی حیثیت سے حلف اٹھانا تھا۔ چند لمحوں بعد مفتی صاحب انٹرویو کے لیے تیار تھے۔ حجرے میں پہنچے تو وہ ایک چٹائی پر عقیدت مندوں کے ہجوم میں گھرے بیٹھے تھے۔ سینیٹر محمد زمان اچکزئی بھی تشریف فرما تھے۔ یہی چٹائی جناب مفتی صاحب کا ’’ڈرائنگ روم‘‘ تھی۔ چھوٹے سے کمرے کے ایک کونے میں چارپائی پڑی تھی، یہ ان کا ’’بیڈ روم‘‘ تھا۔
مفتی صاحب پر ذیابیطس کا حملہ شدید ہے لیکن وہ اسے زیر کرتے آ رہے ہیں۔ دائیں پاؤں کے انگوٹھے پر زخم ہوا، انگوٹھے کا ناخن کٹا، ابھی تک ٹانگ پر بھی سوجن ہے، لیکن مفتی صاحب کی سرگرمی کو ان کا زخم روک نہیں سکا۔ وہ قوم کے زخموں کا مرہم ڈھونے میں ہمہ تن مشغول ہیں اور اپنا زخم یاد ہی نہیں رکھتے۔ ۷ مارچ ۷۷ء کے انتخابات کی مہم کے دوران بھی ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ زیادہ آرام اور کم کام۔ ان کی صحت کے بارے میں شدید خدشے بھی ظاہر کیے گئے تھے، لیکن مفتی صاحب کام کے آدمی ہیں، آرام سے کیا کام؟ وہ ملک بھر میں اس طرح گھومے پھرے جیسے بالکل صحت مند ہوں، جیسے بیماری ان کے قریب تک نہ ہو اور واقعی بیماری کو انہوں نے قریب نہیں آنے دیا۔ کسی سے شکست نہ ماننے والا بیماری سے شکست کیسے مان سکتا ہے؟ ان کی توانا قوتِ ارادی شکست سے واقف ہی نہیں، وہ تو بس شکست دینا ہی جانتی ہے۔
مفتی صاحب کھدر پہنتے، دو ٹوک بولتے، سادہ کھاتے، انکساری برتتے، پہلو دار تجزیے کرتے، کارکنوں سے گھل مل جاتے، ہر لحظہ ہنستے مسکراتے اور سیاست کے منہ زور گھوڑے پر بڑی مہارت سے سواری فرماتے ہیں۔ واقعات کی کوئی تفصیل ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو پاتی۔ ان کے لہجے میں متانت، بات میں صداقت اور تجزیے میں ذہانت کھل کھل جاتی ہے۔
باقاعدہ سوال جواب سے پہلے کچھ گپ شپ بھی رہی۔ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ کا سلسلہ بھی چلا۔ میرے کان مفتی صاحب کی باتوں پر تھے اور آنکھوں کے سامنے اس شخص کے گزشتہ روز و شب ابھر رہے تھے۔ یہ وہ شخص ہے جس کے فکر و نظر، سوچ کے انداز سے اختلاف ہو سکتا ہے، لیکن اس سے اختلاف نہیں کہ اس نے سرحد کی وزارتِ اعلیٰ اس شان سے سنبھالی کہ اسلامی اقدار کو سربلند کیا۔ وہاں اردو سرکاری زبان قرار پائی، شراب مکمل طور پر بند ہوئی، احترامِ رمضان کا قانون نافذ ہوا، اور سرکاری افسروں پر پابندی لگی کہ وہ دفتر کے اوقات میں لباس شلوار قمیض ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ وزیر اعلیٰ، وزارتِ کے دوران بھی چٹائی پر بیٹھتا رہا۔ موٹا جھوٹا پہنتا رہا، اور جب استعفیٰ دیا تو اس کے اہل و عیال اس ٹھاٹھ سے وزیر اعلیٰ ہاؤس سے رخصت ہوئے کہ ایک کار کی ڈگی میں گھر بھر کا سامان سما گیا۔ منہ بگاڑ بگاڑ کر انگریزی بولنے والے مسٹروں کے مقابلے میں سرحد کے اس ’’ملّا‘‘ (جسے سرحد کے عوام ’’نر مُلّا‘‘ کہہ کر زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں) نے کیسی مثال قائم کر دکھائی تھی، اور کیسی حکومت چلا دکھائی تھی۔ یہی شخص بلوچستان میں مینگل وزارت کی برطرفی پر وزارت سے مستعفی ہو گیا اور کرسی کو خدا ماننے والوں کے عہد میں، کرسی کا بت پاش پاش کر دیا۔ اسی شخص نے قومی اتحاد کی لازوال تحریک کی رہنمائی کی اور اسلامی نظام کا مطالبہ اسی کے زیر قیادت اس طرح بلند ہوا کہ گوشہ گوشہ گونج اٹھا۔ یہی ۵۹ سالہ کھلتے ہوئے رنگ کا بھاری بھر کم شخص آج بھی اتحاد کی آواز دے رہا ہے، اتحاد کا پرچم بلند کیے ہے۔ میں اسی شخص کی آنکھ سے حالات اور واقعات کی رفتار دیکھنے آیا تھا۔ گفتگو شروع ہوئی اور طویل ہوتی گئی۔ بارہ بجے کے بعد اٹھے۔ اس کے بعد ٹیلیفون پر بھی میں نے رابطہ قائم رکھا۔ لاہور آئے تو لاہور میڈیسن کمپنی کے ’فرماں روا‘ جناب غلام دستگیر کے مکان پر پھر ایک نشست ہوئی، اور یوں یہ انٹرویو مکمل ہوا۔
س: مفتی صاحب! پاکستان قومی اتحاد نے مارشل لا کے تحت حکومت بنانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ آپ کے ’’دوست‘‘ الزام لگاتے ہیں کہ یہ کرسی سے محبت کا نتیجہ ہے، آپ نے عوام کے مفاد سے غداری کی ہے اور اب قومی اتحاد، قومی اتحاد نہیں درباری پارٹی بن گیا ہے؟ کیا اس الزام میں کوئی صداقت موجود ہے؟
ج: میں نے یہ بات ہمیشہ کہی ہے کہ جمہوریت کا دعویٰ رکھنے والی کوئی جماعت مارشل لا کے تحت کسی حکومت میں شامل نہیں ہو سکتی اور آج بھی یہی کہتا ہوں۔ یہ طے شدہ مسئلہ ہے اور ایک ایسا اصول جس کی صحت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ البتہ بعض اوقات ایسی ایمرجنسی ہو جاتی ہے کہ معاملات کو خالصتاً کتابی نظریات کے حوالے سے نہیں، عملی حقائق کی روشنی میں دیکھنا پڑتا ہے۔ اسے ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھیے۔
کسی کے گھر میں اجازت کے بغیر داخل ہونا قانون، اخلاق اور معاشرتی اقدار کے یکسر خلاف ہے۔ لیکن اگر کسی مکان میں آگ لگ جائے تو آپ پانی کی بالٹی ہاتھ میں لے کر باہر کھڑے صاحبِ خانہ سے اجازت مانگتے رہیں گے، یا آگے بڑھ کر آگ بجھانے کے لیے سرگرم ہوں گے؟ اگر آپ آگ میں گھرے ہوئے اہل خانہ کو اجازت کے لیے پکارتے رہیں، تو آپ کی آواز بھی ان تک نہ پہنچے گی اور وہ جل کر بھسم بھی ہو جائیں گے۔ کیا کوئی صحیح العقل ایسے عالم میں پانی لے کر بغیر اجازت مکان میں داخل ہونے والے پر طعن توڑ سکتا ہے، اسے بد اخلاق قرار دے سکتا ہے، اسے اصول شکنی کا مرتکب قرار دے سکتا ہے؟ اس شخص کی تو تعریف ہو گی، اسے شاباش ملے گی اور اس کی کاوش قابلِ صد مبارک ٹھہرے گی کہ اس نے آگ بجھائی اور آگ میں گھرے ہوؤں کی جان بچا لی۔
پاکستان کو بھی آج ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، مسائل کی آگ بھڑک رہی ہے، مارشل لا اور عوام کے درمیان کوئی رابطہ استوار نہیں ہو سکا، بیوروکریسی کے وہ کل پرزے جو بھٹو کے عہد میں قانون اور اخلاق کی دھجیاں بکھیرتے رہے، جوں کے توں ہیں اور حالات کو اور بھی آگ دکھا رہے ہیں ۔ ایسے عالم میں اہلِ سیاست پر لازم ہو گیا کہ وہ آگے بڑھ کر مارشل لا کا ہاتھ بٹائیں اور انتظامی ذمہ داریوں میں اس طرح شریک ہوں کہ عوام کے مسائل کم ہوں، حادثات کی رفتار تھمے، اسلامی اقدار کو فروغ ہو اور منتخب حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے۔
پاکستان قومی اتحاد نے حکومت کی ذمہ داری سنبھال کر بڑی قربانی دی ہے، حالات کو سنوارنے کا چیلنج قبول کیا ہے، اسلامی نظام کے قیام کا راستہ کھولا ہے اور انتخابات کو درپیش خطرات کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اتحاد بھی ذمہ داری سے فرار کی راہ اختیار کر کے تند و تیز بیانات دینے اور اپوزیشن کے منصب پر خود کو فائز کرنے کا کام بآسانی کر سکتا تھا، لیکن ہم نے یہ راستہ اختیار نہیں کیا۔ ہمارا ماضی گواہ ہے کہ جب اپوزیشن میں بیٹھنا، بھٹو آمریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا، جان جوکھوں میں ڈالنا تھا؛ تب ہم نے اپوزیشن کا فرض ادا کیا۔ ہم کرسیوں کے بھوکے ہوتے تو مسٹر بھٹو کی پیشکشوں سے فائدہ اٹھا کر یہ شوق پورا کر لیتے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ خود میں نے سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے اس وقت استعفیٰ دے دیا تھا جب بلوچستان میں مینگل حکومت کو غیر قانونی طور پر برطرف کر دیا گیا۔ اگر اقتدار پیارا ہوتا تو میں کبھی استعفیٰ نہ دیتا، اور اگر میں استعفیٰ نہ دیتا تو کوئی مجھے کوئے اقتدار سے باہر نہ نکال سکتا۔ لیکن میں نے اپنے بلوچ بھائیوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی، ان پر ظلم اور زیادتی کو اپنے اوپر ظلم اور زیادتی سمجھا اور وزارتِ اعلیٰ کو اپنے گھر سے نکال باہر کیا۔
ہم تو مشکلات اور مصائب کے راستے پر چلنے کے عادی ہیں، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا، میں اور میرے رفقاء نے اس وقت اپوزیشن کا پرچم بلند رکھا جب اس سے مشکل کام کوئی نہ تھا۔ اور اب اس وقت ہم نے اتحاد کے نمائندوں کو اقتدار میں شریک کیا ہے جب حکومت کرنے سے مشکل کام کوئی اور نہیں ہے۔ آج اپوزیشن کرنے سے آسان کام اور کیا ہے کہ تقریریں اخبارات میں چھپ رہی ہیں، آمد و رفت کی آسانیاں ہیں، اندرونِ ملک تو کیا بیرونِ ملک بھی دورے کرنے کی آزادی ہے، اور جھوٹ بولنے، پھیلانے اور شائع کرنے سے روکنے والا بھی کوئی نہیں۔ یہ طعنہ دینا کہ ہم درباری پارٹی ہیں، اس سے بڑا جھوٹ کوئی نہیں ہو سکتا، ہم نے تو اقتدار کو اسلام اور جمہوریت کے رنگ میں رنگنے کا عہد کیا ہے اور اسی کے لیے آگے بڑھے ہیں۔ اگر اس مقصد میں کامیابی نظر نہ آئی تو ہمارے نمائندے وزارتوں پر لات مار کر واپس آ جائیں گے۔
یاد رکھیے، با مقصد اور با اختیار حکومت میں شامل ہونا عوام سے غداری نہیں، بلکہ اتحاد کو انتشار میں بدلنا عوام سے غداری ہے۔ لیکن ہم گالی کی سیاست کو فروغ دینے کے قائل نہیں، ہمارے دشمن جانتے ہیں اور ’’دوست‘‘ بھی کہ ہم سنجیدگی اور متانت سے اختلافِ رائے کے اظہار کے عادی ہیں اور اختلاف کو برداشت بھی کرتے ہیں۔ ہم تنقید کا خیرمقدم کریں گے، ہم شکر گزار ہوں گے اگر کوئی ہماری غلطی ہم پر واضح کر دے، ہمیں ٹوکے۔ لیکن ہم کسی کے حریفِ دُشنام نہیں ہیں۔ ہماری مجبوری ہے کہ ہم گالی نہیں دے سکتے، گالی دینا ہماری سیاست میں حرام ہے۔
س: جناب، کیا تاریخ سے ایسی کوئی مثال مل سکے گی کہ جب جمہوری قوتوں نے کسی غیر نمائندہ حکومت کے قیام پر اتفاق کیا ہو اور اس میں شرکت اختیار کی ہو؟
ج: بالکل، دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اس برصغیر پاک و ہند ہی میں ایسا ہو چکا ہے۔ آزادی سے پہلے جب انگریز نے دیکھ لیا کہ اب وہ حکمران نہیں رہ سکتا، تو انتقالِ اقتدار کی تفصیلات طے کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لیے ’’غیر نمائندہ حکومت‘‘ کی تشکیل ہوئی۔ اس میں کانگریس بھی شامل تھی اور مسلم لیگ بھی۔ قائد اعظمؒ کے پیرو بھی اس حکومت کا حصہ بنے اور گاندھی کے نمائندے بھی۔ اس حکومت کا سربراہ انگریز وائسرائے تھا۔ آزادی کے لیے جان لڑانے والے اگر عملی حکمت کی وجہ سے انگریز وائسرائے کے زیر نگرانی کابینہ میں شامل ہو سکتے ہیں، تو آج جمہوریت کے سپاہی، چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی تشکیل کردہ وزارت میں کیوں شریک نہیں ہو سکتے؟ جبکہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تو کسی سامراج کے نمائندے نہیں، بلکہ ہماری قومی فوج کے سربراہ ہیں۔ آخر پاکستانی فوج سے بامقصد تعاون کرنا اور اس لیے تعاون کرنا کہ انتخابی اور جمہوری عمل کا آغاز ہو، جمہوریت کی نفی کیسے ہو گیا؟
س: جناب، حکومت میں شرکت کے سوال پر قومی اتحاد میں اختلافات پیدا ہوئے اور آپ کی ایک اہم حلیف جماعت این ڈی پی نے تُند و تیز ردعمل ظاہر کر کے اتحاد سے علیحدگی کی راہ اختیار کر لی۔ کیا یہ مناسب نہ ہوتا کہ آپ اتحاد کی یکجہتی کو مقدم رکھتے اور حکومت میں شریک ہو کر ایک اہم حلیف کو حریف بنانے کے بجائے حکومت سے تعاون کی کوئی متفقہ راہ ڈھونڈنے کو اولیت دیتے۔
ج: یہ سوال ایک بڑے مغالطے کی پیدا وار ہے۔ آپ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ این ڈی پی نے حکومت میں شرکت کے سوال پر اتحاد سے علیحدگی اختیار کی ہے۔ حالانکہ یہ واقعات کے خلاف ایک مفروضہ ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ۲۵ مئی کو قومی اتحاد کی جنرل کونسل کی منظوری سے میں نے بحیثیت صدر قومی اتحاد، جنرل ضیاء الحق کو ایک خط لکھا تھا جس میں مارشل لا حکام کی طرف سے حکومت میں شرکت کی دعوت قبول کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ مجوّزہ حکومت با اختیار اور با مقصد ہونی چاہیئے، اس میں باکردار سیاسی عناصر شامل ہوں؛ گویا شرکت کے اصول پر تو اتفاق تھا، لیکن تفصیلات کے بارے میں گفتگو مطلوب تھی۔ اس خط میں این ڈی پی ہمارے ساتھ تھی۔ جنرل کونسل کے اجلاس میں این ڈی پی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی اور اتفاقِ رائے سے طے کیا گیا تھا کہ اتحاد بامقصد، با اختیار اور سیاسی عناصر پر مشتمل کابینہ میں شرکت پر رضامند ہے۔ اس خط کی بنیاد پر مذاکرات ہوئے۔ یہ مذاکرات ٹوٹ کر جڑتے، اور جُڑ جُڑ کر ٹوٹتے رہے، لیکن کسی نے اس خط سے انحراف نہ کیا۔
۲۵ جون کی نشری تقریر میں جنرل ضیاء الحق نے مذاکرات کی ناکامی کا یکطرفہ اعلان کرتے ہوئے سیاسی حکومت بنانے کا ارادہ ترک کر دیا اور ۵ جولائی کو نئی کابینہ بنا ڈالی جس میں اتحاد کی ایک جماعت بھی شریک کر لی گئی۔ یہ بڑی افسوس ناک صورتِ حال تھی کہ اتحاد کی ایک جماعت حکومت میں شامل ہو گئی جبکہ باقی جماعتیں شمولیت کا یہ انداز قبول نہ کر سکیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ جنرل صاحب نے سیاسی حکومت بنانے کا ارادہ ترک کر دیا، اس طرح انہوں نے حالات کی ذمہ داری اپنے ہی کاندھوں پر اٹھا لی تھی اور ہمارے لیے اس سے بڑھ کر خوشی کی بات کیا ہو سکتی تھی کہ ہم آزمائش میں مبتلا ہونے سے محفوظ رہ گئے۔
لیکن کابینہ کی تشکیل کے بعد جنرل صاحب نے پھر پیشکش کو تازہ کر دیا۔ میں کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھا کہ وہ ملنے آئے اور ایک بار پھر حکومت میں شمولیت کی دعوت بھی ساتھ لائے۔ میں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا، تفصیل سے گفتگو ہوئی، تلخ اور تند شکایتیں زیر بحث آئیں۔ بالآخر میں نے اتحاد کی مرکزی کونسل کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا تاکہ تازہ ترین صورتِ حال پر غور کر کے لائحۂ عمل تیار کیا جائے۔ اس اجلاس نے مجھے جنرل ضیاء الحق سے مذاکرات کرنے کا اختیار دے دیا۔ میں جس نکتے پر زور دینا چاہتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اس اجلاس میں این ڈی پی کے نمائندے بھی تھے اور مجھے گفتگو کا اختیار دینے میں وہ بھی فریق تھے، انہوں نے بھی مجھ پر اس سلسلے میں اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
اب بتائیے، جب اتحاد کی مرکزی کونسل کے دیے گئے اختیارات کے تحت میں نے مذاکرات کیے اور ۲۵ مئی کے خط کی بنا پر کیے تو پھر این ڈی پی کے لیے کیا جواز رہا کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کو بنیاد بنا کر اتحاد سے الگ ہو جائے۔ ہم کسی کے دل کی کیفیت اور اس کی نیت کا ایکسرے تو کر نہیں سکتے۔ این ڈی پی کا موقف یہ تھا کہ وزارت سازی کا مرحلہ آگیا تو ایسی صورت میں ہم اپنی جماعت کے ارکان وزارتوں کے لیے نامزد نہیں کریں گے، لیکن اتحاد میں رہتے ہوئے حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے اور دوسری جماعتوں کے نمائندوں کو اتحاد کا نمائندہ سمجھ کر تعاون کریں گے۔ مذاکرات کامیابی کی طرف مڑتے ہی این ڈی پی نے جو موقف اختیار کیا، وہ توقعات اور واقعات کے یکسر خلاف تھا۔
این ڈی پی کو اپنا موقف اس طرح تبدیل کرنا تھا، تو ہماری اور ان کی پرانی رفاقت کا تقاضا تھا کہ وہ ہمیں اعتماد میں لیتے اور جو نئی صورتِ حال (ان کے مطابق) پیدا ہو گئی تھی، اس پر ہم سے تبادلۂ خیال کرتے، لیکن انہوں نے تو یہ کیا کہ اپنے کنونشن میں دھواں دار تقریریں کر کے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور ہمیں دُشنام طرازی کا نشانہ بھی بنایا۔ اس پورے پس منظر کو سامنے رکھیے تو آپ کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔
س: آپ کے خیال میں این ڈی پی کے اِس فیصلے کا محرّک کیا تھا؟
ج: یہ فیصلہ کیوں کیا گیا، اس بارے میں میں ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتا، حالات خودبخود واضح ہوتے جائیں گے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ یہ فیصلہ پشتونوں اور بلوچوں کی روایات کے خلاف ہے۔ کوئی پشتون یا بلوچ اس طرح اپنا عہد نہیں توڑ سکتا۔ اسی لیے میں نے این ڈی پی سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے، لیکن انہوں نے اس کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ مجھے امید ہے کہ این ڈی پی کو سرحد اور بلوچستان میں تند و تیز رائے عامہ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
س: آپ نے جناب ولی خاں کی وطن واپسی کے بعد ان سے رابطہ قائم نہیں کیا، کیا آپ کے نزدیک وہ بھی اس فیصلے میں شریک ہیں؟
ج: ولی خاں کی وہ تقریریں ابھی تک فضا میں گونج رہی ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اور پاکستان قومی اتحاد لازم و ملزوم ہیں۔ اس سے پہلے جمعیت سے نیپ کا معاہدہ ہوا، تو ولی خاں ہی نے بار بار کہا تھا کہ ہم پٹھان ہیں، جب ساتھ نبھانے کا عہد کرتے ہیں تو پھر اسے توڑتے نہیں، ہم جب کسی کا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اسے چھوڑتے نہیں؛ حتیٰ کہ مر جائیں تو بھی ہمارا ہاتھ دوست کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ لیکن اب وہ زندہ ہیں لیکن ان کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے الگ ہے۔ ولی خاں کی بیگم صاحبہ این ڈی پی کے کنونشن میں شریک ہونے لندن سے تشریف لائی تھیں۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنے رفیقِ زندگی اور رفیقِ سیاست سے مشورہ کر کے نہ آئی ہوں، اس لیے ولی خاں کو این ڈی پی کے فیصلے سے الگ تھلگ نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے وطن واپس آنے کے بعد اس فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس طرح گویا قومی اتحاد سے بھی ان کا رشتہ ٹوٹا اور جمعیت سے سات برس پرانا معاہدہ بھی ختم ہوا۔
ہم نے کوئی عہد نہیں توڑا، ہم نے کوئی وعدہ خلافی نہیں کی، ہم تو پشتونوں اور بلوچوں کی ایفائے عہد کی روایات کے پاسبان ہیں۔ اس لیے ہم کسی سے رابطہ قائم کیا کریں؟ رابطہ تو ان کو کرنا چاہیے تھا جو اس صورتِ حال کے ذمہ دار ہیں، جنہوں نے پشتون اور بلوچ ہوتے ہوئے اپنا عہد کچے دھاگے کی طرح توڑ ڈالا ہے؛ تاہم یہ نوٹ کر لیجیے کہ ہمارے لیے کوئی معاملہ بھی انا کا نہیں ہے، اولین اہمیت قومی مفاد کی ہے۔ میں حالات کا بغور جائزہ لے رہا ہوں، میرا ارادہ ہے کہ کم از کم ایک بار تو ولی خاں سے بات کروں، اور تفصیل کے ساتھ کروں اور ان سے کہوں این ڈی پی کے فیصلے پر نظرثانی کرائیں، ’’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مرے بات‘‘۔
س: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ این ڈی پی سے تعلق استوار ہونے پر آپ کو اب بھی کوئی اعتراض نہیں؟
ج: جی ہاں، کوئی اعتراض نہیں، ہمارے دروازے کھلے ہیں، اگر این ڈی پی اپنی غلطی کا احساس کر لے، اعتراف کر لے، تو تعلق استوار ہو سکتا ہے۔ ہم سیاست میں محاذ آرائی کے قائل نہیں ہیں۔ آپ این ڈی پی کی بات کرتے ہیں، میں تو ان سب جماعتوں کو، جو اتحاد سے الگ ہوئی ہیں، دعوت دیتا ہوں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں۔ ہمارے دل میں سب کے لیے جگہ ہے۔ انہوں نے اور ہم نے مشترکہ منشور کے تحت گزشتہ انتخاب میں حصہ لیا تھا، اب اس منشور سے منحرف ہونا کسی کے لیے بھی انتہائی بداخلاقی کی بات ہو گی۔ جب منشور مشترک ہے تو پھر اختلاف کیسا؟ جب مقاصد ایک ہیں تو پھر دوری کیوں؟ ہم نے کسی کو اتحاد سے نہیں نکالا، ہم کسی کو آنے سے نہیں روکیں گے۔ آئیے، مل کر اپنے وطن کے مسائل حل کریں اور مصائب کے بھنور سے کشتی نکال کر آگے بڑھیں۔
یہ وقت ذاتی اور گروہی اختلافات کو نمایاں کرنے اور انہیں اچھالنے کا نہیں، ایک ہو جانے کا ہے، متحد ہو جانے کا ہے۔ کیا مشرقی پاکستان کے سانحے سے ہماری آنکھیں نہیں کھلیں؟ وہاں کس طرح خون بہا، کس طرح عزتیں داغدار ہوئیں اور کس طرح غیر ملکی مداخلت نے ہمارا پیارا پاکستان توڑ دیا۔ میں وارننگ دیتا ہوں، اور اعلان بھی کرتا ہوں کہ پاکستان کے اس حصے کو محفوظ رکھنا ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔ سازشیں ہو رہی ہیں، اردگرد کے حالات تشویشناک ہیں، لیکن ہمارا عزم پختہ ہے، ہم پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ اگر کوئی جارحیت کا مرتکب ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ پاکستان کی سالمیت کی لڑائی دشمن کی سرزمین پر لڑی جائے گی۔ ہماری نظریں دشمن پر لگی ہوئی ہیں، ہم اس کی نقل و حرکت دیکھ رہے ہیں، لیکن ہمارے حوصلے بلند ہیں۔ میں بھی پٹھان ہوں، مجھ سے بڑھ کر پشتونوں کے حقوق کی بات اور کون کر سکتا ہے؟ ایک مسلمان، ایک پاکستانی اور ایک پشتون ہونے کی حیثیت سے میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے پشتون اور بلوچ، پاکستان کی لڑائی میں سب سے پیش پیش ہیں۔ خدانخواستہ کوئی مشکل مرحلہ آیا تو ان کا خون پاکستان کے لیے سب سے پہلے بہے گا، اس لیے ہمارے روٹھے ہوئے ساتھیو! آؤ کہ ہم اپنا سب کچھ اس پاک سرزمین کی حفاظت کے لیے لگا دیں، اور یہاں ایک مثالی اسلامی معاشرے کی مضبوط بنیاد رکھ دیں۔
س: محترم، بات کسی اور سمت بڑھ گئی، میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ آخر وہ اچانک تبدیلی کیا ہوئی، کون سا واقعہ پیش آ گیا جس سے جناب جنرل ضیاء الحق سے مذاکرات ٹوٹنے کے باوجود جڑے اور پھر کامیاب ہو گئے؟
ج: کوئی خفیہ بات تو میں نہیں جانتا، اور شاید کوئی خفیہ بات موجود بھی نہ ہو۔ تاہم یہ سوال آپ جنرل ضیاء الحق سے کریں تو بہتر ہو گا۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ ہمارے مطالبات تسلیم ہوئے، کابینہ کو با اختیار اور بامقصد بنانے پر اتفاق ہوا، الیکشن کے لیے ۷۹ء کا سال مقرر ہوا، سیاسی عناصر کی اکثریت کو تسلیم کر لیا گیا، تو ہم حکومت میں شامل ہو گئے۔
س: کابینہ میں کوئی جرنیل شامل نہیں کیا گیا، اس کا سبب قومی اتحاد کا کوئی رویہ تو نہیں؟
ج: ۲۲ جون کو قومی اتحاد کے رہنماؤں نے جنرل ضیاء الحق کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ کابینہ میں کوئی جرنیل شامل نہ کیا جائے، اور یہ کہ صوبوں سے مارشل لا اٹھا لیا جائے۔ یہ کوئی پیشگی شرائط نہیں تھیں، نہ وزارت سازی میں اتحاد کی شرکت ان سے مشروط تھی، یہ صرف تجاویز تھیں اور ہم سمجھتے تھے کہ ان پر عمل کرنا ملک کے بہترین مفاد میں ہے۔ صوبوں سے مارشل لا اٹھا لیا جاتا تو جمہوری عمل کا آغاز زیادہ واضح اور ٹھوس ہو جاتا، لیکن میں اس پر زیادہ گفتگو نہیں کروں گے کہ اس بارے میں دو رائیں ہو سکتی ہیں۔
جہاں تک کسی جرنیل کو وزیر نہ بنانے کا سوال ہے، تو یہ سراسر قومی سوچ کی وجہ سے تھا۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ فوج سیاست میں ملوث رہے اور تنقید کا نشانہ بنے۔ ہم اس باوقار اور قابلِ احترام قومی ادارے کی حیثیت، قومی ادارے کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن احتیاط پر زور دے رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کابینہ سیاسی اور شہری عناصر پر مشتمل ہو گی تو حریفوں کا سامنا بھی وہی کریں گے اور حالات کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہو گی۔ سیاستدان ایک انتہائی مشکل صورتحال کا بوجھ اٹھانے کے لیے اس طرح تیار تھے کہ جو بھی نتیجہ نکلے، اس کی زد انہی پر پڑے، فوج کے قومی ادارے کو ہدف نہ بنایا جا سکے۔
جنرل ضیاء الحق نے ان تجاویز پر غور کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر یکطرفہ طور پر کابینہ بنا لی۔ بعد میں مذاکرات دوبارہ شروع ہوئے تو ہم نے اس تجویز پر اصرار نہ کیا اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے علاوہ تین جرنیلوں کی کابینہ میں شمولیت کو قبول کر لیا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تجویز اور اس کی پشت پر کارفرما دلیل کا وزن ہمارے ان جرنیلوں نے خود ہی محسوس کر لیا اور رضاکارانہ طور پر وزارتوں سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس فیصلے پر میں ان حضرات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں، یقیناً ان کا فیصلہ ملک کے عظیم تر مفاد میں ہے۔
س: خود نامزد کردہ اپوزیشن لیڈر جناب ایئر مارشل اصغر خاں نے بھی اس بات پر اظہارِ مسرت کیا ہے کہ سیاستدانوں کی حکومت بننے سے فوج کا ادارہ زیر بحث نہیں آئے گا۔ کیا آپ اس کی داد نہیں دیں گے؟
ج: جناب ایئر مارشل کا یہ اظہارِ خیال کیا اس بات کا ثبوت نہیں کہ قومی اتحاد نے حکومت میں شرکت کر کے بڑی قربانی دی ہے۔ اور یہ کرسیوں سے محبت کا نہیں، اپنے وطن سے محبت کا نتیجہ ہے۔ اگر اتحاد بھی بعض دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح حکومت میں شرکت سے انکار کر کے اپوزیشن میں جا بیٹھتا، تو کیا یہ فوج کی اپوزیشن نہ ہوتی، اور اس طرح اس قومی ادارے کو نقصان نہ پہنچتا؟ ہم نے فوج کے بجائے خود منظر پر آ کر سیاست کو ایک مثبت سمت دی ہے، اپنی سیاست کو داؤں پر لگا دیا ہے۔ ہم اقتدار کے بھوکے ہوتے تو بھٹو سے معاملہ کر لیتے، اس کی پیشکشیں قبول کر لیتے۔ لیکن ہم نے وزارتوں کو کبھی اہمیت نہیں دی، سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے میرا استعفیٰ ان لوگوں کو یاد کیوں نہیں رہتا؟
س: مفتی صاحب! کہتے ہیں کہ قومی اتحاد نے حکومت میں شامل ہو کر مستقبل کے واقعات کو بھی متاثر کیا ہے اور حال کو بھی؟
ج: اتحاد نے یقیناً حال اور مستقبل کے واقعات کی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ غور تو کیجیے:
- فوج جیسا قومی ادارہ سیاست میں فریق بننے سے محفوظ ہو گیا۔
- انتخاب کا انعقاد یقینی ہوا کہ اب کوئی عنصر انتخاب کی منزل اوجھل کرنے کی سازش نہ کر سکے گا۔
- محدود سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ملی اور غیر محدود سرگرمیوں کی بحالی کا واضح امکان پیدا ہوا۔
- عوام سے حکومت کا رابطہ بحال ہوا اور یوں بد اعتمادی کی فضا یکسر ختم ہونے کا سامان فراہم ہوا۔
- نوکر شاہی کے منفی رویوں کی روک تھام کا راستہ نکلا۔
- سیاستدانوں کا احتساب چیونٹی کی رفتار سے نہیں بلکہ تیز سے تر ہونے کی روشن جھلک نظر آئی۔
- سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلامی اقدار کے فروغ کے امکانات روشن تر ہوئے۔ جو اسلام دشمن عناصر حیلوں بہانوں سے کوئی عملی اقدام نہیں ہونے دیتے تھے، ان کی حوصلہ شکنی ہوئی، اور اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو مزید غور و فکر کے بعد نافذ کرنے کا سامان ہوا۔
س: لیکن جناب، اگر نئی کابینہ حالات کو سنوار نہ سکی تو پھر؟
ج: اس کے خطرات بھی سامنے ہیں، صورتحال بدتر بھی ہو سکتی ہے اور دھماکہ خیز بھی۔ لیکن خطروں کی سنگینی حوصلوں کو شکست تو نہیں دے سکتی، اس سے تو حوصلوں کی پختگی کا سامان ہوتا ہے۔
س: نئی کابینہ سے آپ کی توقعات کیا ہیں؟
ج: میری توقعات تو یہی ہیں کہ نئی کابینہ عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔
- گرانی کے معاملے کو پہلی ترجیح دی جائے اور اشیا کی قیمتیں کم کرنے کے لیے ہر ممکن ذریعہ استعمال کیا جائے۔
- اسلامی نظام کی طرف اس طرح پیش قدمی ہو کہ اس کی برکتیں پہلے برستی نظر آئیں۔
- بیوروکریسی کا شدید احتساب کیا جائے۔ جن لوگوں نے بھٹو کے اشاروں پر ذاتی ملازموں کا کردار کیا، دستور اور قانون کی دھجیاں اڑائیں، انہیں کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ بیوروکریسی کے خلاف جلد کاروائی نہ کی گئی تو یہ موجودہ کابینہ کے خلاف کاروائی کر گزرے گی۔ وہ قرطاس ابیض چھاپے جا چکے ہیں لیکن لا قانونیت کے ذمہ دار افسروں کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا، یہ تماشا اب برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
- سادگی اختیار کی جائے، وزیر اپنا نمونہ پیش کریں، اپنے گھروں کی تزئین و آرائش پر ہزاروں روپے خرچ نہ کریں۔ ڈرائنگ روم میں قیمتی صوفوں کے بجائے چٹائی کیوں نہیں بچھائی جا سکتی؟ اور بیڈ روم میں نفیس پلنگوں کے بجائے عام چارپائی کیوں نہیں کام دے سکتی؟
- میں تو یہاں تک کہوں گا کہ شہری علاقوں میں بڑے مکانوں کی تعمیر پر پابندی لگائی جائے۔ حکومت نے ایک ہزار گز سے بڑے مکانات بنانے کی اجازت نہ دینے کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ حد بھی بے حد ہے۔ تین سو گز سے زیادہ مکان کسی صورت نہ بننے دیا جائے۔
- تعلیم اور ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز ہو۔ اس مقصد کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جائے، اس کے لیے ٹیکس وغیرہ کی چھوٹ بھی دی جا سکتی ہے۔
- ہمارے اکثر ملکی قوانین ایسے ہیں جو رشوت کا دروازہ کھولتے اور لوگوں کے مصائب میں اضافہ کرتے ہیں، ان کا جائزہ لے کر ہر ہر قانون میں چور دروازے بند کر دیے جائیں۔
- رشوت، بدعنوانی اور ملاوٹ پر کڑی سزائیں دی جائیں اور ان کا قلع قمع کر دیا جائے۔
- ہر سطح پر اردو نافذ کی جائے، جیسے کہ میری وزارت کے دوران سرحد میں اردو کو سرکاری زبان بنا دیا گیا۔
- شلوار اور قمیص کی حوصلہ افزائی ہو، سرکاری ملازم دفتر میں قومی لباس پہن کر آئیں، اس طرح غیر ملکی لباس جو نفسیاتی رعب داب عطا کرتا ہے، اس سے نجات مل سکے گی۔
- ایسے ضوابط بنائے جائیں کہ جھوٹ چھاپا یا لکھا نہ جا سکے۔ جھوٹ ایک زہر ہے جو معاشرے کی اچھائیوں کو ڈس لیتا ہے۔ بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام بھی ہو۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلموں کی فوری اصلاح ضروری ہے۔ عورتوں کو اشتہار کی جنس بنا کر ان کا جو ’’استحصال‘‘ کیا جا رہا ہے اسے بند کیا جائے۔ صنفِ نازک کی اس سے بڑی توہین اور کیا ہو سکتی ہے؟ یہ توہین کوئی باحمیت معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا۔
س: میں نے سنا ہے قومی اتحاد اپنے وزراء سے علیحدہ حلف کا پروگرام بھی بنا رہا ہے، کیا یہ درست ہے؟
ج: جی ہاں، یہ درست ہے، ہم اپنے وزراء سے علیحدہ حلف بھی لیں گے۔ جمعیت العلمائے اسلام کے وزیر تو حلف برداری کی یہ رسم ادا بھی کر چکے ہیں۔ میں آپ کو حلف نامے کا متن سناتا ہوں۔ (اس کے بعد مفتی صاحب نے اپنا بریف کیس منگوا کر اس میں سے حلف نامہ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔)
’’میں، اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ وزارت میں شامل ہو کر مندرجہ ذیل مقاصد کے لیے کام کروں گا:
۱۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے اپنی آخری کوشش تک بروئے کار لاؤں گا۔
۲۔ خلافِ قانون و اخلاق کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جس سے میری ذات، جماعت یا معاشرہ بدنام ہو۔
۳۔ ذاتی مفادات کے حصول سے ہمیشہ الگ تھلگ رہوں گا۔ متعارف اور معمول کے مطابق جائز کاموں کے علاوہ سرکاری ذرائع سے اور کسی قسم کا استفادہ نہیں کروں گا۔
۴۔ صرف خدمتِ ملک و قوم کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کروں گا۔ جائز کام سب کا سرانجام دینے کی کوشش کروں گا، مگر ناجائز کام کسی کا نہیں کروں گا۔
۵۔ قومی اتحاد یا میری جماعت جس وقت استعفیٰ پیش کرنے کا حکم دے گی، وزارت سے استعفیٰ دے دوں گا۔‘‘
س: اعلان ہے آئندہ انتخاب جداگانہ بنیادوں پر ہو گا، کیا آپ اس سے متفق ہیں؟
ج: میں جداگانہ یا مخلوط انتخاب کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ، میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اقلیتوں کے نمائندے منتخب کرنے کا موجودہ طریق کار انتہائی ناقص ہے۔ اسمبلیوں کے ارکان اقلیتوں کے نمائندے چنتے ہیں اور یہ حضرات نام کے تو اقلیتی ہوتے ہیں لیکن اقلیتوں کے نمائندے نہیں ہوتے، بلکہ اسمبلی کی اکثریت کے خوشامدی اور درباری ہوتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ تھا کہ اقلیتوں کو اپنے نمائندے آپ چننے کا اختیار دیا جائے، وہ مطالبہ تسلیم کیا گیا ہے، تو یہ انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ قومی اتحاد نے جس منشور کی بنیاد پر مارچ ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں حصہ لیا تھا، اس میں واضح طور پر درج تھا کہ اقلیتیں اپنے نمائندے آپ چنیں گی، کوئی ایسی جماعت جو اتحاد میں شامل تھی، اس عہد سے روگردانی کرتی ہے، تو یہ بدترین عہد شکنی ہے۔
س: جناب، آپ نے بلوچستان میں حکومت کی برطرفی کے بعد سرحد کی وزارتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دیا، بلوچستان کے بعض مقید رہنماؤں کی رہائی کے لیے مہم چلائی، حیدر آباد ٹربیونل آپ کے مطالبے پر ٹوٹا، اسیر رہا ہوئے، کیا رہائی کے بعد کالعدم نیپ کے بلوچ لیڈروں نے آپ سے اپنے سیاسی مستقبل یا ملک کے سیاسی حالات پر بھی تبادلۂ خیال کیا؟
ج: ملاقات تو ہوئی ہے لیکن اس طرح کی بات نہیں ہوئی جو آپ کہہ رہے ہیں۔
س: اگر کوئی اسے ان لیڈر حضرات کی ناشکرگزاری قرار دے تو نامناسب تو نہیں ہو گا؟
ج: نہیں ایسی کوئی بات نہیں، ہم نے اپنا فرض ادا کیا، کسی پر احسان نہیں کیا۔ ہم اصولی سیاست کے قائل ہیں، اور ہم نے جو کچھ بھی کیا اپنے اصولوں کے حوالے سے کیا، حقِ رفاقت ادا کرنے کے لیے کیا۔ دوسرے لوگ جو کچھ کرتے ہیں، اپنی سوچ اور اپنے اصولوں کے حوالے سے کرتے ہیں، اس لیے ہمیں کسی سے گلہ نہیں، ہمیں تو خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے دوستوں کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اس کی بدولت ان کو مصائب سے نجات ملی۔
س: جناب، یہ جو بلوچستان کے سیاسی مسئلے کو آج حل کرنے کی بات کی جاتی ہے، وہ کیا ہے، کیا اب بھی بلوچستان کا ایسا مسئلہ موجود ہے؟
ج: بلوچستان کا سیاسی مسئلہ نام کی کوئی شے آج اپنا وجود نہیں رکھتی، ایسا کہنا حقائق کے مطابق نہیں ہو گا۔ بلوچستان کو جن مصائب میں بھٹو نے دھکیلا تھا، وہ مصائب ختم ہو چکے۔ اب تو لے دے کر یہی ایک مسئلہ ہے کہ بھٹو کی کارروائیوں کے متاثرین کی آبادکاری کیسے ہو۔ اور یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جس پر محاذ آرائی کے پہلو نکلیں۔ حکومت کو بیوروکریسی کی سازشوں سے ہوشیار رہتے ہوئے اس مسئلے کو فراخدلی سے حل کر دینا چاہیئے۔
س: آج کل صوبائی خودمختاری کا سوال پھر زیر بحث لانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیا آپ کے خیال میں اس مسئلے پر ازسرِنو گفتگو ہونی چاہیے؟
ج: صوبائی خودمختاری کا مسئلہ طے شدہ ہے۔ ۷۳ء کے دستور پر ساری جماعتوں نے دستخط کیے تھے۔ اس دستور میں کئی خامیاں ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت تھی، لیکن صوبائی خودمختاری کے معاملے پر کسی نے اختلاف کا اظہار نہیں کیا۔ تمام جماعتوں کے نزدیک صوبائی خودمختاری کی حدود متفقہ تھیں۔ بھٹو کے عہد میں جو خرابی پیدا ہوئی، وہ یہ تھی کہ دستور پر عمل ہی نہیں کیا گیا۔ صوبوں کو دستور نے جو حقوق دیے تھے، وہ بھی بھٹو نے سلب کر لیے۔ اس لیے اصل مسئلہ یہ نہیں کہ صوبائی خودمختاری کی حدود بڑھا دی جائیں، بلکہ یہ ہے کہ صوبوں کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کا موقع ملے۔
س: صوبوں میں وزارتوں کی تشکیل کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اس سے کسی صوبے میں تلخی پیدا ہونے کا امکان تو نہیں؟
ج: صوبوں میں حکومتیں فوراً قائم ہو جانی چاہئیں۔ اگر دیر ہوئی تو نتائج ناخوشگوار ہوں گے اور مرکزی حکومت کی کارکردگی بھی متاثر ہو گی۔ عوام کا براہ راست اور فوری رابطہ صوبائی حکومت ہی سے ہوتا ہے اور صوبائی حکومت ہی مسائل اور مصائب کے فوری خاتمے میں معاون ہو سکتی ہے۔ بیوروکریسی کی روک تھام بھی اسی سے ممکن ہے۔ اس لیے جلد از جلد صوبوں میں حکومتیں قائم کر دی جائیں۔ جہاں تک کسی صوبے میں تلخی پیدا ہونے کا سوال ہے، میرے نزدیک اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ قومی اتحاد ایک ملک گیر تنظیم ہے اور ہم ہر صوبے میں اور ہر سطح پر ایسے نمائندے منتخب کر سکتے ہیں جو مخلص اور دیانتدار ہوں اور عوام کے اعتماد سے بھی بہرہ ور ہوں۔
س: جناب، یہ جو پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق کی بات کی جاتی ہے، تو اس کا پس منظر کیا ہے، آخر پشتونوں اور بلوچوں کے حقیقی مسائل کیا ہیں؟
ج: پشتونوں اور بلوچوں کے جو بھی مسائل ہیں، وہ پوری قوم کے مسائل ہیں، اور انہیں قومی نقطۂ نظر ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ اصل مسئلہ تو پسماندگی اور غربت ہے۔ اگرچہ پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی غربت بہت ہے، لیکن اگر موازنہ کریں تو پسماندگی سرحد اور بلوچستان میں کہیں زیادہ ہے، صنعتی ترقی بھی وہاں کچھ نہیں ہوئی۔ اس لیے ضرورت ہے کہ ان دو صوبوں کو آئندہ ترقیاتی پروگرام میں ترجیح دی جائے۔ سرحد کے معاملے میں دیکھیے کہ
- تربیلا بند کی تعمیر میں ہمارے اَسی گاؤں غرق ہوئے لیکن ہمیں تربیلا سے ایک بوند پانی بھی نہیں دیا گیا۔
- دریائے سندھ پانچ سو میل تک فرنٹیر سے گزرتا ہے اور یہ مسلّمہ اصول ہے کہ دریا جہاں سے پہلے گزرے وہاں کے رہنے والوں کا اس پر پہلا حق ہے، لیکن ہمارے حصے میں اس دریا سے کیا آتا ہے، کوئی جواب تو دے؟
- چشمہ رائٹ بنک کینال کی طرف آئیے، میں نے وزارت کے دوران اس منصوبے پر بڑی توجہ دی تھی، لیکن یہ نہر کہاں ہے؟ اس کا جواب اربابِ اختیار کے ذمے ہے۔
- ڈیرہ اسماعیل خاں کا ضلع بہت وسیع و عریض ہے، یہاں ۱۷ لاکھ ایکڑ زمین غیر آباد پڑی ہے، اگر صرف ڈیرہ ہی سیراب ہو جائے تو صوبہ سرحد خوراک میں خودکفیل ہو سکتا ہے، لیکن پانی ہی نہیں ہے۔
یہ اور اس طرح کے کئی حقیقی مسائل موجود ہیں، انہیں قومی سطح پر اولیت دی جائے تو پھر چھوٹے صوبوں کی شکایات دور ہو سکتی ہیں۔
س: میں آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے بیماری کے عالم میں بھی شفقت فرمائی اور یہ طویل انٹرویو ممکن ہو سکا۔ اب آخری سوال عرض کر رہا ہوں اور وہ ہے قومی اتحاد کے بارے میں۔ جناب، اس کا مستقبل؟
ج: قومی اتحاد، پارٹیوں یا گروہوں کا نہیں، قوم کا اتحاد ہے۔ کسی پارٹی یا گروہ نے اسے چھوڑ دیا ہے تو اس نے خسارے کا سودا کیا ہے۔ میں مانتا ہوں بعض لوگوں میں مایوسی پیدا ہوئی، بہت سے ذہن اور دل بجھے، لیکن اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں، ہم نے تو اتحاد کا جذبہ برقرار رکھنے کی کوشش کی، اور آج بھی اس سے وابستہ ہیں، اور ان شاء اللہ وابستہ رہیں گے۔ قوم آج بھی ہمارے ساتھ ہے، قوم کی توقعات ہم سے وابستہ ہیں، اتحاد آج بھی سب سے سے مؤثر سیاسی قوت ہے، اور اس کا مظاہرہ انتخاب کے دوران ہو جائے گا، یومِ انتخاب آنے تو دیں!
(مطبوعہ: ہفت روزہ ترجمان اسلام لاہور ، ۱۵ ستمبر ۱۹۷۸ء ۔ بشکریہ: ماہنامہ قومی ڈائجسٹ)
مسئلہ قادیانیت: جدوجہد کے تیسرے مرحلے کی ضرورت!
محمد عرفان ندیم
آج سے تقریبا پچاس سال قبل 1974ء میں پاکستانی مقننہ نے تمام مذہبی مسالک اور ریاست کے باہمی اتفاق سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے کر مسلمانان ہند کا دیرینہ مطالبہ پورا کر دیا تھا۔ نصف صدی پہلے کے حالات کے تناظر میں یہ اہم پیشرفت اور بڑی کامیابی تھی اور اس سے یہ سمجھ لیا گیا تھا کہ قادیانیوں کا مسئلہ جو پچھلی ایک صدی سے مسلمانان ہند کے لیے باعث پریشانی بنا ہوا تھا حل ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے کچھ ہی سالوں بعد مذہبی طبقات اور خود ریاست کو احساس ہو گیا تھا کہ قادیانیوں کو صرف غیر مسلم اقلیت قرار دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ اس کے کئی پہلو تاحال ادھورے اور حل طلب ہیں۔ معاملے کی اس تشنگی نے قادیانیوں کے حوالے سے مزید ریاستی بندوبست کے مطالبات پیدا کیے۔
قادیانیوں کے حوالے سے مذہبی طبقات کی اب تک ہونے والی جدوجہد کو تین مراحل میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔پہلا مرحلہ 1974ء میں انہیں ریاستی سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دینا تھا۔ دوسری مرحلہ 1984ء سے 1993ء تک کا ہے۔ اس مرحلے کا پس منظر اور تحرک یہ تھا کہ ریاستی سطح پر غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے کے باوجود قادیانی دھوکہ دہی سے اپنے مذہب کی ترویج و تبلیغ سے باز نہیں آئے ۔یہ خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنانے کی کوششوں میں مسلسل مصروف عمل رہے۔اس صورت حال کے پیش نظر مذہبی طبقات نے ایک بار پھر تحریک چلائی اور قادیانیوں کی اس طرح کی سرگرمیوں کو روکنے اور ان پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں 1984ء میں امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا جس میں قادیانیوں کو پابند کیا گیا کہ آئندہ وہ خود کو مسلمان ڈکلیئر نہیں کر سکتے اور نہ ہی اسلامی شعائر کا استعمال کر سکتے ہیں۔
اس آرڈیننس کے اجراء کے بعد دو اہم کیسز سامنے آئے جن کی روشنی میں قادیانیوں کے حوالے سے آئندہ کی ریاستی حکمت عملی اور ان کی سماجی حیثیت کے تعین میں اہم پیشرفت ہوئی۔ ان میں پہلا کیس یہ تھا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہونے کے بعد قادیانی اس کے خلاف وفاقی شرعی عدالت میں چلے گئے اور مؤقف اختیار کیا کہ یہ قانون اسلامی تعلیمات کے منافی ہے کیوں کہ مذہب اسلام تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے طویل غور و خوض کے بعد فیصلہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس اسلامی احکام اور آئین میں درج بنیادی حقوق کے منافی نہیں ہے۔
دوسرا کیس نوے کی دہائی میں سامنے آیا جو مجیب الرحمان کیس کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ 23 مارچ 1989ء کو قادیانیوں نے چناب نگر میں صد سالہ جشن منانے کا اعلان کیا۔ ایک صدی قبل 23مارچ 1889ء کو مرزا غلام قادیانی نے لدھیانہ (بھارت) میں اس مذہب کی بنیاد رکھی تھی۔ اس جشن کو منانے کے لیے چناب نگر میں خصوصی اور پرشکوہ انتظامات کیے گئے۔ چناب نگر اور گردونواح کی پہاڑیوں اور عمارتوں پر چراغاں کے لیے ڈیکوریشن پارٹیوں سے معاہدے کیے گئے۔ سو گھوڑے، سو ہاتھی اور سو ملکوں کے جھنڈے لہرانے کا انتظام کیا گیا۔ مقامی مسلمانوں نے اس جشن کے خلاف احتجاج کیا اور اس پر پابندی کا مطالبہ کر دیا۔ ڈپٹی کمشنر جھنگ نے حالات کو دیکھتے ہوئے اس جشن پر پابندی لگا دی۔
قادیانیوں نے اس پابندی کے خلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس خلیل الرحمن نے 17 ستمبر 1991ء کو قادیانیوں کی رٹ خارج کر دی۔ قادیانیوں نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ چیف جسٹس محمد افضل نے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جو جسٹس شفیع الرحمن ،جسٹس عبدالقدیر چوہدری، جسٹس محمد افضل لون، جسٹس ولی محمد اور جسٹس سلیم اختر پر مشتمل تھا۔ جسٹس شفیع الرحمان اس بنچ کے سربراہ مقرر ہوئے۔ 3 فروری 1993ء کو مقدمہ کی سماعت مکمل ہوئی اور 3 جولائی 1993ء کو سپریم کورٹ نے ایک چار کی اکثریت سے فیصلہ سنایا دیا۔ اس فیصلے کے اہم مندرجات یہ تھے:
امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہے۔
یہ قانون قادیانیوں کو ایسے القابات و خطابات استعمال کرنے سے روکتا ہے جو مسلمانوں کے لیے خاص ہیں اور ان پر قادیانیوں کا کسی قسم کاک وئی حق نہیں ہے۔ البتہ ان پر نئے القابات و اصطلاحات وضع کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
قادیانیوں پر لازم ہے کہ وہ آئین و قانون کا احترام کریں اور اسلام سمیت کسی دوسرے مذہب کی مقدس ہستیوں کے لیے مخصوص خطابات، القابات و اصطلاحات کے استعمال سے گریز کریں۔
قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ آخر ہندوؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر مذاہب نے بھی اپنی مقدس شخصیات کے لیے القاب و خطاب وضع کر رکھے ہیں اور وہ اپنے تہوار امن و امان کا کوئی مسئلہ یا الجھن پیدا کیے بغیر پرامن طور پر مناتے ہیں۔
انتظامیہ جو امن و امان قائم رکھنے اور شہریوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی ذمہ دار ہے مذکورہ بالا اقدار میں سے کسی کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں مداخلت کر سکتی اور مناسب پابندیاں لگا سکتی ہے۔
عدالت نے واضح کیا کہ دستور کی دفعہ 20 کے تحت ’’مذہبی آزادی ‘‘کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کا تحفظ صرف ان مذہبی افعال کو حاصل ہے جو مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں جبکہ اس مقدمے میں اپیل کنندگان یہ دکھانے میں ناکام رہے ہیں کہ صد سالہ تقریبات ان کے مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں اور یہ افعال صرف عوامی سطح پر اور عوام کی نظروں کے سامنے سڑکوں اور گلیوں میں یا عوامی مقامات پر سرانجام دیے جانے تھے۔
1984ء اور 1993ء کے ان کیسز کے فیصلوں کی بنیاد دو اصولوں پر تھی۔ ایک ،کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ کسی کو دھوکا دے اس لیے قادیانیوں کو بھی یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ خود کو مسلمان ڈکلیئر کر کے دوسروں کو دھوکا دیں۔ دو، قادیانیوں کی ایسی سرگرمیوں سے امن و امان کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے حکومت امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے حقوق پر مناسب قیود عائد کر سکتی ہے۔ قصہ مختصر !دوسرے مرحلے کی یہ جد وجہد 1993ء میں مجیب الرحمان کیس کے فیصلے کی صورت میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ ان دو مرحلوں کی جدوجہد میں مسلمانوں کو دو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں، ایک قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ڈکلیئر کر دیا گیا۔ دو، انہیں دھوکہ دہی کی روش اپنانے اور مسلمانوں کے شعائر استعمال کرکے خود کو مسلمان ظاہر کرنے اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ سے روک دیا گیا۔
تیسرے مرحلے کی جدوجہد 1993ء کے بعد شروع ہوتی ہے جو تاحال جاری ہے۔ اس مرحلے کا دائرہ کار کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں ہے یہ اہم سوال ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ دھوکہ دہی کی روش قادیانیوں کی سرشت میں داخل ہے۔ جب انہیں سرے عام اسلامی شعائر کے استعمال اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ سے روک دیا گیا تو انہوں نے اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور گھروں کے اندر اسلامی شعائر کا استعمال اور اس کے نتیجے میں اپنی تبلیغ اور سرگرمیوں کو جاری رکھا۔ اس تبلیغ اور ان کی چار دیواری کے اندر کی سرگرمیوں کے نتیجے میں سینکڑوں سادہ لوح مسلمان ان کے دام تزویر میں آ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
ان سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے وقتا فوقتا مذہبی طبقات ان کے مکر و فریب اور دھوکہ دہی کی روش کو عدالتی اور سماجی سطح پر واضح کرتے رہے۔ لیکن عدالتی سطح پر جب بھی یہ کیس ڈسکس ہوا تو مذہبی طبقات اور خود عدالت کو ایک تضاد کا سامنا کرنا پڑا۔ مذہبی طبقات کا مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ قادیانی اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور گھروں کے اندر بھی اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے۔ جو چیز باہر جرم ہے وہ اندر بھی جرم ہے۔ مزید یہ کہ قادیانی چاردیواری کی آڑ لے کر اب تک سینکڑوں مسلمانوں کو اپنے دام تزویر میں پھنسا کر ان کی آخرت برباد کر چکے ہیں۔ جبکہ عدالت کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ آئینی و قانونی طور پر دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح قادیانیوں کو بھی اپنی عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں اور چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی رسومات اور دیگر سرگرمیوں کی اجازت حاصل ہے کہ یہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کا مطالبہ ہے۔
اس ضمن میں عدالت اپنے پیش رو شریعہ کورٹ 1984ء اور سپریم کورٹ 1993ء کے فیصلوں کو بنیاد بناتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ دونوں فیصلوں میں بھی تضاد موجود تھا۔ وہ تضاد یہ ہے کہ عدالتیں یہ تو تسلیم کرتی ہیں کہ مرزائی کھلے عام اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے، مسلمانوں کو دھوکہ نہیں دے سکتے لیکن ساتھ ہی انہیں یہ اجازت دی جاتی ہے کہ وہ اپنی عبادت گاہ، تعلیم گاہ اور چار دیواری کے اندر اپنی مذہبی رسومات کے نام پر اسلامی شعائر بھی استعمال کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو دھوکہ دے کر منحرف بھی کر سکتے ہیں۔ یعنی دونوں فیصلوں میں اس بنیادی مستدل کو تو مانا گیا کہ مرزائی دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے لیکن اس مستدل سے متفرع ہونے والے حکم کو مقید کر دیا گیا کہ قادیانی عبادت گاہ اور چار دیواری کے اندر دھوکہ بھی دے سکتے ہیں، سادہ لوح مسلمانوں کو منحرف بھی کر سکتے ہیں اور اسلامی شعائر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اس متضاد اصول کو بنیاد بنا کر عدالتیں نئے تضادات پیدا کرتی ہیں اور یہ وہ مسئلہ ہے جو سالوں سے حل نہیں ہو رہا۔ اصولی طور پر اس تضاد کو ختم ہونا چاہئے تھا اور عبادت گاہ کے اندر بھی قادیانیوں کو اسلامی شعائر اپنانے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے تھی کہ مگر عملا ایسا نہیں ہوا اور اس تضاد کا فائدہ قادیانیوں نے اٹھایا اور مسلسل اٹھایا ہے۔
مذہبی طبقات اپنے مؤقف کے حق میں عقلی و نقلی دونوں طرح کا استدلال پیش کرتے ہیں۔ نقلی استدلال یہ ہے کہ قرآن میں مسجد ضرار کا ذکر موجود ہے، مسجد ضرار منافقین کی پرائیویٹ جگہ اور پراپرٹی تھی۔ اس کی علیحدہ چاردیواری تھی اور وہ اپنے کفر و نفاق کو اسلام کے نام پر وہاں استعمال کرتے تھے۔ مگر قرآن مجید نے مسجد ضرار کو گرانے کا حکم دیا۔ اسی طرح مسیلمہ کذاب کا گروہ اپنے علاقے میں پرائیویٹ طور پر اذان، نماز، ذبیحہ، کلمہ اور قرآن کا نام استعمال کرتا تھا۔ مگر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان کی سازشوں کا قلع قمع کیا۔ اس کے علاوہ اور بھی روایت میں ایسے بہت سے استدلال مل جاتے ہیں۔
عقلی استدلال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جیسا فعل ہونے کے باوجود ایک چیز باہر جرم ہے لیکن اندر جرم نہیں ہے۔ مثلاً چرس اور ہیرون بیچنا جرم ہے تو کیا کسی کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ گھر کے اندر یہ جرم کر لے۔ شراب نوشی اور Adultery باہر جرم ہے کیا کسی کو یہ اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ گھر کے اندر ان جرائم کا ارتکاب کر لے۔ ان دونوں معقول استدلالات کے ساتھ مذہبی طبقات کی پوزیشن بالکل واضح ہے۔
مذہبی طبقات کے اس استدلال پر عدالت اور خود مذہبی طبقات میں سے کچھ لوگ آئین کا حوالہ دیتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل بیس کی شق اے کہتی ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہوگا۔ شق بی کہتے ہے کہ ہر مذہبی گروہ اور اس کے ہر فرقے کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے، برقرار رکھنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہو گا۔ آرٹیکل بائیس کی شق کہتی ہے کہ کسی مذہبی فرقے یا گروہ کو کسی تعلیمی ادارے میں جو کلی طور پر اس فرقے یا گروہ کے زیر اہتمام چلایا جاتا ہو اس فرقے یا گروہ کے طلباء کو مذہبی تعلیم دینے کی ممانعت نہ ہوگی۔ آئین کی ان شقوں کا حوالہ دے کر عدالت اپنا دامن صاف کر لیتی ہے۔
مذہبی طبقات کا مطالبہ ہے کہ شعائر اسلام کا استعمال اگر باہر جرم ہے تو اندر بھی جرم ہے۔ عدالت کہتی ہے اگر ان افعال کی قادیانیوں کی عبادت گاہ کے اندر بھی اجازت نہ دی جائے تو اس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ مذہبی طبقات کا استدلال ہے کہ اسلام کے نام رجسٹرڈ حقوق کو، اگر کسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے استعمال پر پابندی سے اگر کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ ہمارا مسئلہ نہیں ہے ۔مذہبی طبقات اور عدالت کے فہم کے مابین یہ وہ خلا ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کا نکتہ نظر سمجھنے نہیں دے رہا اور قادیانی اس خلا کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مذہبی طبقات اپنے استدلال کو لے کر پر اعتماد ہیں اور عدالت آئین کا حوالہ دے کر خاموش ہو جاتی ہے۔
فہم کے اس اختلاف کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے یہ عدالت اور مذہبی طبقات کے سامنے اہم سوال ہے اور جب تک فہم کا یہ اختلاف ختم نہیں ہوتا قادیانی مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ فہم کے اس اختلاف کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ہم بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
کچھ باتیں طے شدہ ہیں اور اس پر قادیانیوں کا ماضی اور عدالتی فیصلے گواہ ہیں۔ مثلا:
- عدالتوں نے اپنے فیصلوں میں تسلیم کیا ہے کہ قادیانی دھوکہ دہی کی روش سے باز نہیں آتے۔
- یہ شعائر اسلام کے استعمال سے بھی باز نہیں آتے۔
- یہ شعائر اسلام کی آڑ میں خود کو مسلمان ثابت کرنے اور تبلیغ سے باز نہیں آتے۔
- اپنے مذہب کی تبلیغ ان کے عقائد کا حصہ ہے۔
- تبلیغ کے لیے یہ تحریف عقائد، توہین رسالت اور تحریف قرآن کے مرتکب ہوتے ہیں۔
- یہ اب تک ہزاروں مسلمانوں کو قادیانی بنا چکے ہیں۔
- ان سب اعمال کی صورت میں مسلمان اکثریت کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔
ان طے شدہ امور کے علاوہ کچھ سوالات بھی اہم ہیں۔ مثلا :
- اگر انہیں چاردیواری کے شعائر اسلام کے استعمال اور اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے تو یہ تبلیغ کس کو کر رہے ہیں؟ یقینا عام مسلمانوں کو کی جاتی ہے تو یہ جرم کیوں نہیں ہے؟
- اگر انہیں چار دیواری کے اندر تبلیغ کی اجازت ہے تو دیگر مذاہب مثلا عیسائی اور سکھوں کو اس چیز کی اجازت کیوں نہیں ہے؟
- اگر مسلمانوں کے مختلف مسالک کے نفرت انگیز لٹریچر پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو قادیانیوں کا سارا لٹریچر مسلمانوں کے نزدیک نفرت انگیز اور توہین آمیز ہے تو اس پر کیوں پابندی نہیں لگائی جاتی؟
- اگر مسلمانوں کے مختلف مسالک کے لٹریچر کے خلاف 23000 ایف آئی آر درج ہو سکتی ہیں تو قادیانیوں کے تحریف شدہ اور نفرت انگیز لٹریچر پر کیوں نہیں؟
- کیا مختلف مسالک کے نفرت انگیز لٹریچر کو چار دیواری کے اندر جائز قرار دیا جا سکتا ہے ؟
- کیا آئین پاکستان کی خلاف ورزی کو چاردیواری کے اندر جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟
مذکورہ طے شدہ امور اور سوالات کے علاوہ ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ وہ یہ کہ اگر 1974ء کے بعد کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے اور یہ تحقیق کی جائے کہ اب تک قادیانی دھوکہ دہی اور تبلیغ کے ذریعے کتنے سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنا چکے ہیں تو یہ حقائق چشم کشا اور ہوش ربا ہیں۔ قادیانیوں کی اپنی رپورٹس کے مطابق پچھلے چند سالوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں نے قادیانیت کو بطور مذہب قبول کیا ہے اور ان میں اکثریت سادہ لوح مسلمانوں کی ہے۔ یہ ہزاروں مسلمان قادیانیوں کی ’’چار دیواری‘‘ کے اندر کی آزادی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ کیا بطور سربراہ ریاست، بطور سربراہ عدالت اور بطور عام مسلمان میں چاردیواری کے اندر کا جواز پیش کر سکتا ہوں۔ کیا کل قیامت کے دن بطور سربراہ ریاست اور بطور سربراہ عدالت مجھ سے سوال نہیں ہو گا ؟جو نبی ایک ایک امتی کے لیے فکر مند رہا آج اس کے ہزاروں امتی چار دیواری کی بھینٹ چڑھ کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور ہم، ہماری عدالتیں اور ہماری ریاست چاردیواری کا استدلال پیش کر کے خاموش ہے۔
پھر آئین میں چار دیواری کے اندر بنیادی حقوق کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے وہ مطلق نہیں بلکہ آئین ، قانون، اخلاقیات اور امن عامہ کے تابع ہے۔ اسی طرح کسی مذہب و مسلک کے تعلیمی اداروں کے اندر اسی مذہب و مسلک کی تعلیم کے حق کی جو ضمانت فراہم کی گئی ہے وہ خالص مذہبی اداروں کے اندر ہے۔ جبکہ قادیانیوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ انہوں نے مختلف عصری تعلیمی ادارے قائم کیے ہوئے ہیں جہاں قادیانیوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے بچے بھی زیر تعلیم ہوتے ہیں اور قادیانی دیگر مذاہب کے بچوں کو تبلیغ سے باز نہیں آتے ۔
حالیہ دنوں میں مبارک ثانی کیس اس کی بہترین مثال ہے۔ مبارک ثانی نصرت جہاں کالج فار ویمن میں قادیانیوں کی تفسیر صغیر کو، قرآن کی تفسیر کہہ کر تقسیم کر رہا تھا جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی اور 295 سی کی تحت صریح جرم تھا لیکن عدالت نے اسے جرم اس لیے تسلیم نہیں کیا کہ آئین کے آرٹیکل 22 کی شق کے تحت ہر مذہب و مسلک کو اپنے مذہبی تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان میں تعلیم دینے کا حق ہے۔ (یہاں پھر اسی تضاد کا سہارا لیا گیا جس کا حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے کہ شعائر اسلام کا استعمال اگر باہر جرم ہے تو اندر جرم کیوں نہیں ہے، لیکن یہاں ہمارا موضوع بحث آرٹیکل بائیس کی شق ہے) حالانکہ مبارک ثانی نے جس جرم کا ارتکاب کیا وہ مذہبی تعلیمی ادارے میں نہیں بلکہ عصری تعلیمی ادارے میں ہوا اور اس تعلیمی ادارے پر آئین کے آرٹیکل 22 کی شق کا اطلاق نہیں ہوتا۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں مسلمانان پاکستان کا یہ مطالبہ جائز اور صائب ہے کہ اگر کوئی گروہ ان کے نام پر رجسٹرڈ حقوق کو، اپنی چاردیواری کے اندر یا باہر دھوکہ دہی کے لیے استعمال کرتا ہے اور ان کے ہم مذہبوں کی دنیا و آخرت تباہ کرتا ہے اور اس پر مسلمان عدالت جاتے ہیں تو انہیں انصاف ملنا چاہیے۔ یہ ان کا بنیادی حق ہے۔ اس میں جذباتیت ہے نہ ہی کسی کے بنیادی حقوق کے متاثر ہونے کا معاملہ ہے۔ نہ ہی کوئی مذہبی و سیکولر قانون مسلمانوں کے اس بنیادی حق کی مخالفت کرتا ہے۔ بلکہ اگر مسلمان اس دھوکہ دہی اور اپنی شناخت کے غلط انتساب پر سوال نہیں اٹھاتے تو یہ ان کے عقل و شعور اور ان کے ایمان پر سوالیہ نشان ہے۔
اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ کسی چاردیواری کے اندر بھی ان کے نام رجسٹرڈ حقوق اور ان کی شناخت کو غلط طور استعمال نہ کیا جائے تو ان کے اس مطالبے سے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے ذمہ دار وہ نہیں ہیں۔ یہ مسئلہ جس فریق کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اس کا حل ڈھونڈنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ کوئی گروہ میرے رجسٹرڈ حقوق اور میری میراث کو دھوکہ دہی سے اپنی طرف منسوب کرے اور میں اس کے خلاف آواز بلند کروں تو الٹا مجھے ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیا جائے۔ اس سے تو میرے بنیادی حقوق متاثر ہو رہے ہیں۔ مجھ سے میری شناخت چھینی جا رہی ہے۔ بلکہ مجھ سے چھین کر کسی اور کو دی جا رہی ہے اور الٹا مجھے مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ جس شناخت کی حفاظت و اشاعت کے لیے میرے پرکھوں نے ہر عہد میں قربانیاں دی آج اس کے حقوق عدالتی چھتری تلے مجھ سے چھین کر کسی اور کے نام کیے جا رہے ہیں۔ مجھ سے میرے بنیادی حقوق اور میری بنیادی شناخت چھین کر میرے ہی خلاف پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ میں کسی اور کے بنیادی حقوق چھین رہا ہوں۔
اگر کل قادیانیوں میں سے کوئی گروہ اٹھ کر مرزا کے بعد نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور قادیانیت کی نئی تشریح کرتا ہے اور کہتا ہے جو اس نئی تشریح کو قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے تو کیا قادیانی اس نئے گروہ کو یہ سب کرنے کی اجازت دیں گے؟ اگر قادیانی اس گروہ کے خلاف عدالت جائیں اور عدالت فریق مخالف کے بنیادی حقوق کا حوالہ دے کر انہیں خاموش کروا دے تو کیا قادیانی اس فیصلے کو تسلیم کریں گے؟ کیا یہ پریکٹس دنیا کے دیگر مذاہب پر بھی اپلائی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً عیسائیوں یا یہودیوں میں کوئی گروہ اٹھ کر نبوت کا دعویٰ کرے اور عیسائیت یا یہودیت کی نئی تشریح کرے اور یہ دعویٰ کرے کہ اصل عیسائیت اور یہودیت یہ ہے اور جو اس نئی عیسائیت یا یہودیت کو تسلیم نہیں کرتا وہ کافر ہے، تو کیا یہودیت اور عیسائیت اس دجل کو تسلیم کر لیں گے۔ یقیناً دنیا کا کوئی بھی مذہب اس دجل کا روادار نہیں ہو سکتا تو پھر مجھ سے یہ مطالبہ کیوں ہے کہ میں اس دجل کو قبول کر لوں اور اپنے رجسٹرڈ حقوق اور اپنی میراث پر کسی اور کا حق تسلیم کر لوں۔
اپنے ان بنیادی اور رجسٹرڈ حقوق اور اپنی میراث کی حفاظت کے لیے میرے عدالت جانے سے اگر کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ جس فریق کا پیدا کردہ ہے یہ اسی کا مسئلہ ہے اور اس کا حل تلاش کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں اگر مجھے کوئی جذباتی کہتا ہے تو وہ خود غلط فہم پر کھڑا ہے۔مجھے کوئی آئین کا حوالہ دیتا ہے تو وہ آئین کی غلط تشریح کر رہا ہے۔ مجھے کسی کے بنیادی حقوق کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے تو وہ غیر شعوری طور پر میرے بنیادی حقوق سلب کر کے کسی اور کو دینے کی بات کر رہا ہے۔
اس مسئلے کا صرف ایک اور واحد حل یہ ہے کہ میرے نام رجسٹرڈ اور میرے بنیادی حقوق متاثر نہ کیے جائیں۔ میری میراث میرے نام منسوب کی جائے اور کسی اور کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ دھوکہ دی سے اسے اپنی طرف منسوب کرے۔ اگر کسی نے میرے حقوق اور میری میراث پر ڈاکہ ڈالا ہے تو میں اگر اس کے خلاف عدالت جاؤں تو مجھے انصاف دیا جائے۔ دھوکہ دہی کے مجرم کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ اپنے لیے نئے حقوق اور نئی میراث وضع کرے۔ اپنے پہچان اور شناخت کے لیے نئے نام سامنے لے کر آئے اور اپنے مذہب کا نیا نام اور نئی اصطلاحات وضع کرے۔
قادیانیت کے حوالے سے تیسرے مرحلے میں کرنے کا یہ کام ہے اور جس دن یہ مرحلہ سر ہو گیا قادیانیت کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو جائے گا۔ اس مرحلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ عدالت کے سامنے مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے یہ ثابت کیا جائے کہ کس طرح قادیانی چار دیواری کا سہارا لے کر دھوکہ دہی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ کس طرح یہ گروہ چاردیواری اور عبادت گاہ کی آڑ کا سہارا لے کر ہزاروں لاکھوں لوگوں کا ایمان لوٹ چکا ہے۔ عدالت کو یہ باور کرایا جائے کہ جرم اگر چار دیواری سے باہر جرم ہے تو وہ اندر بھی جرم ہے۔ اگر میرے نام رجسٹرڈ حقوق سے کسی کے بنیادی حقوق کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ اس کی طرف سے پیدا کردہ ہے اور اس کا حل ڈھونڈنا بھی اسی کی ذمہ داری ہے۔ جس دن ہم عدالت کو ان سب حقائق پر قائل کرنے کے قابل ہو گئے اور عدالت نے بھی آنکھیں بند نہ کی ہوئی ہوں تو اس دن یہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے بحر ہند میں دفن ہو جائے گا۔
ختم نبوت اور قادیانیت پر کام کرنے والی جماعتوں ، افراد اور اداروں کو اپنی جدوجہد اور حکمت عملی کو اس رخ پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے آباء نے اپنے عہد کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق جدوجہد کے پہلے دو مراحل کو کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا اب ہماری ذمہ داری ہے کہ اس مسئلے کو اون کریں اور صحیح رخ پر جدوجہد کو آگے بڑھائیں۔ اس کے لیے گرینڈ ڈائیلاگ کرنے اور مختلف مذہبی و سیاسی جماعتوں، افراد اور اداروں کو مل بیٹھ کر حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ عوام الناس کی ذہن سازی ، مقننہ اور عدلیہ کو مذہبی و عقلی استدلال کے ذریعے مسئلے کی تفہیم، مذہبی و سماجی دانش، سوشل میڈیا سمیت مین اسٹریم میڈیا ،با اثر حلقوں تک رسائی اور ریاستی مشینری کو اس جدوجہد میں شامل کرنے سے اس مسئلے کے حل کے امکانات بہت زیادہ حد تک بڑھ جائیں گے۔
تصوف ایک متوازی دین — محترم زاہد مغل صاحب کے جواب میں
ڈاکٹر عرفان شہزاد
قرآن مجید میں نبی اور رسول کی اصطلاح مخاطبہ الہی سے سرفراز اس شخص کے لیے استعمال ہوئی ہے جو ایک خاص منصبِ ہدایت پر فائز ہوتا اور خدا کی مرضیات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ اس کی اطاعت اس کے مخاطبین پر فرض ہوتی ہے۔ اسی کا تقاضا سے اس کا انکار کفر قرار پاتا ہے۔
نبی اور رسول میں ان کی دعوت کے نتائج کے لحاظ سے ایک فرق البتہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ رسول کی دعوت کے ساتھ زمین ہی پر خدا کی عدالت کا ظہور بھی ہوتا ہے اور اتمام حجت کے بعد قوم کا فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ دعوت حق کے منکرین اور معاندین سزا یاب ہوتے ہیں اور مومنین نجات پاتے ہیں۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِيَ بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ (یونس، ۱۰: ۴۷)
(اُس کا قانون یہی ہے کہ) ہر قوم کے لیے ایک رسول ہے۔ پھر جب اُن کا رسول آجاتا ہے تو اُن کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور اُن پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔
نبی اور رسول کے درمیان اس فرق کی بنیاد قرآن مجید کی نصوص ہیں۔ تاہم، نبی اور رسول کی حقیقت میں کوئی فرق نہیں اور اس لحاظ سے دونوں مترادف ہیں۔
قرآن مجید میں نبیوں کی کوئی اقسام بیان نہیں ہوئیں۔ نبوت عامہ اور نبوت خاصہ، نبوت تشریعی اور نبوت غیر تشریعی کی کوئی تقسیم مذکور نہیں اور نہ ان تقسیمات کے استنباط کے لیے کوئی مضبوط بنیاد ہی دستیاب ہے۔ رسول کی طرح نبی کے لفظ کو لغوی مفہوم میں استعمال کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں، مگر اس سے آگے بڑھ کر اسے ایک مختلف مفہوم کی نئی اصطلاح بنانا التباس پیدا کرتا اور ایک مفہوم کو دوسرے میں ملانے کی راہ کھولتا ہے۔ اور یہ ہوا بھی۔ نبوت عامہ میں نبوت خاصہ کے خصائص شامل کر دیے گئے۔ یہی نہیں، بلکہ نبوت عامہ کے حامل اولیائے انبیا نبوت خاصہ کے حامل انبیا سے برتر قرار پائے۔ یہ ہونا ہی تھا کیوں کہ انبیا کے ہوتے ہوئے دوسری قسم کے انبیا کے وجود تبھی جواز پا سکتا تھا جب کوئی وجہ امتیاز بتائی جا سکے۔ چناں چہ بتایا گیا کہ حضرت موسی علیہ السلام جیسا پیغمبر بھی خضر کے در پر پہنچ کر فیضانِ علم باریاب ہوتا ہے۔ یہ اولیائے انبیا کائنات کے ستون ہیں۔ نظم کائنات چلانے میں یہ خدا کے ساتھ شامل ہیں۔ خدا کا کوئی تکوینی فیصلہ ان کے علم میں لائے بغیر نہیں ہوتا۔ بلکہ انھیں کے ذریعے سے نافذ ہوتا ہے۔ چناں چہ یہ وہ مقام ہے کہ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے گروہِ انبیا تمھیں تو بس نبی کا لقب ہی ملا اور ہمیں وہ کچھ ملا جو تمھیں نہیں ملا۔ یہ سب وہ نظریات ہیں جو دوسرے ادیان میں دیوتاؤں اور اوتاروں کے تصور کے ذریعے سے پیش کیے گئے۔ یہاں یہ قطب ، ابدال اور غوث وغیرہ کے ناموں سے متعارف کروائے گئے ہیں۔
فنون سے متعلق اصطلاحات انسان بناتے ہیں۔ وہاں یہ اعتراض پیدا نہیں ہوتا یا نہیں ہونا چاہیے کہ مختلف ماہرین فن نے ایک ہی اصطلاح کو دو مختلف مفاہیم میں استعمال کر لیا۔ التباس وہاں بھی پیدا ہوتا ہے مگر علم کی روایت میں اسے گوارا کیا گیا ہے، التباس کے سبب وضاحت بہرحال وہاں بھی کرنی پڑتی ہے۔ مگر دینی اصطلاحات کی نزاکت کے پیش نظر اصطلاحات کا اشتراک گوارا نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا کسی بھی دوسری عبادت یا کسی خاص دعا کو 'الصلواۃ' یعنی نماز نہیں کہا جا سکتا، خواہ لفظ کے لغوی مفہوم، یعنی، دعا میں اس کی گنجایش موجود ہو۔ اسی طرح نبی اور رسول کے اصطلاحی مفہوم کے متوازی ایک نئی اصطلاح بنا کر کوئی نیا یا مختلف مفہوم پیدا نہیں کیا جا سکتا، خواہ لغوی معنی میں اس کی گنجایش موجود ہو۔
محترم زاہد مغل صاحب نے صوفیا کی نبوت عامہ کی اصطلاح سازی کے لیے جو جواز پیدا کیے ہیں ان کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے لفظ 'نبا' یعنی خبر اور 'نبی' یعنی حاملِ خبر کے لغوی مفہوم میں گنجایش پا کر ہر چیز جس کی طرف خدا کا امر یا تکوینی الہام ہو، اسے نبی قرار دے دیا ہے۔ تکوینی نوعیت کے الہامات جو مثلا شہد کی مکھی کو ہوتے ہیں، غیر متعین قسم کے عمومی الہامات جو گاہ گاہ انسانوں کو ہو جاتے ہیں، سچے خواب جو مسلم اور غیر مسلم، مومن اور مشرک سبھی کو آ جاتے ہیں اور دور نبوت میں نبی کی کسی ضرورت کے تحت فرشتوں کا کسی غیر نبی کو مخاطب کر لینا، جیسا کہ مریم علیھا السلام سے فرشتے کا کلام، جیسے استثنائی واقعات کے مجموعے کونبوت عامہ کا مفہوم پہنا دیا۔ اس کے بعد انھوں نے مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کی رو سے ان پر آنے والی وحی کو نبوت کے اجرا کے ثبوت کے طور پر پیش کر کے اسے بھی نبوت عامہ میں شامل کر دیا اور اس کے ساتھ ہی نبوت خاصہ کے خصائص بھی نبوت عامہ میں منتقل کر دیے۔ گھپلا یہاں ہی کیا گیا ہے۔ مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کو تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی ان کی اصطلاحی تقسیم کے مطابق وہ نبوت خاصہ کے حامل ہیں۔ ان کی نبوت کو نبوت عامہ میں کیسے شامل کر دیا گیا؟ یہی وہ درز ہے جس کے ذریعے سے نبوت عامہ سے نبوت خاصہ میں نقب لگائی گئی ہے۔
نبوت عامہ کا سارا قصر درج بالا اس تخیل پر استوار ہے۔ یہی نکتہ اعتراض ہے کہ اللہ تعالی نے ایسا نہیں کیا۔ نہ شہد کی مکھی نبی ہے نہ مریم علیھا السلام کو نبییہ کہا گیا ۔ مریم علیھا السلام سے نبی کی پیدایش سے متعلق ایک وقتی ضرورت کی وجہ سے مخاطبت کی گئی تھی۔ یہ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد پھر مخاطبت نہیں کی گئی۔ استثنائی واقعات سے کوئی عمومی کلیہ نہیں بنایا جا سکتا۔ غیر متعین الہامات کو نبوت قرار دے دیا جائے تو ہر فکر و فن کے بعض ماہرین نبی قرار پائیں گے جن کے اپنے میدان تحقیق میں بعض انکشافات الہامی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ سائنس دانوں میں اس کی بہت سے مثالیں موجود ہیں۔ اس سب کے باوجود اولیائے انبیا کے لیے مخاطبہ الہی کی خصوصیت شامل کرنے کےلیے جواز پھر نبوت خاصہ ہی لیا گیا ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔
نبوت عامہ کی اصطلاح سازی کے بعد اب یہ بھی ضروری تھا کہ نبوت عامہ اور نبوت خاصہ میں کوئی فرق اور امتیاز بھی دکھایا جائے۔ اس کے لیے دو معیارات پیش کیے گئے۔ ایک یہ کہ یہ فرق تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کا ہے۔ نبوت عامہ کا حامل غیر تشریعی نبی ہوتا ہے۔ وہ لوگوں پر کوئی شرعی ذمہ داری عائد نہیں کرتا۔ دوسرا معیار پہلے معیار سے پیدا ہوتا ہے کہ نبوت عامہ کا حامل خود کو نبی نہ ماننے والوں کی تکفیر نہیں کرتا، اس لیے ان میں سے جو تکفیر کرے، وہ غلط ہے۔ یہاں پہنچ کر مرزا غلام احمد قادیانی کی الہامی نبوت کا انکار ممکن ہو پاتا ہے۔ لیکن یہیں سے مرزا قادیانی کا استدلال پیدا ہو جاتا ہے کہ نبی کا انکار اگر کفر ہے تو نبی تشریعی ہو یا یا غیر تشریعی اس کا انکار کفر ہی ہو گا۔ بنی اسرائیل میں تشریعی نبی صرف موسی علیہ السلام تھے، مگر منصب رہنمائی پر فائز غیر تشریعی انبیا کا انکار بھی کفر ہی تھا۔ یوں صوفیا اور زاہد مغل صاحب کے استدلال کی ساری پیش کاری در حقیقت قادیانیت کو استدلال مہیا کرتی ہے اور ختم نبوت کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
جہاں تک تشریعی اور غیر تشریعی نبوت کی تقسیم کا مسئلہ ہے تو یہ بھی قرآن مجید نے نہیں بتائی۔ قرآن مجید کے مطابق ہر نبی خدا کی ہدایت اور اس کی شریعت کا تابع اور پابند تھا، خواہ یہ شریعت اس کے ذریعے سے دی گئی یا اس سے پہلے کے نبی کے ذریعے سے۔ اس لحاظ سے محمد رسول اللہ ﷺ بھی تابع نبی تھے۔ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ حضرت ابراہیم کی ملت اور گزشتہ انبیا کی ہدایت کی پیروی کریں اور جو شریعت انھیں ملی وہ اس کے بھی پابند تھے۔
قرآن مجید میں ختم نبوت کے ذکر پر غور کیجیے تو معلوم ہو گا کہ یہاں دراصل بغیر شریعت کے نبی نہ آنے کی نفی بدرجہ اتم مراد ہے۔ وہ یوں کہ شریعت کی تکمیل کا اعلان تو خود قرآن نے کر دیا تھا۔ اس سے واضح تھا کہ نئی شریعت نہیں آ سکتی تھی۔ اب کوئی امکان ہو سکتا تھا تو یہی کہ نبی انذار، اخلاقی ہدایات اور رہنمائی کے لیے آتے، جیسے کہ بنی اسرائیل میں نزول تورات کے بعد آتے رہے۔ لیکن نبیوں کے سلسلے پر مہر لگنے کے اعلان سے انبیا کی آمد کے اس امکان کا خاتمہ ہوگیا۔
کسی غیر نبی کو خدا سے مخاطبت کا شرف حاصل نہیں۔ نہ غیب کی طرف کوئی کھڑکی کھلتی ہے جس کے ذریعے سے جب چاہیں جھانک کر عالم بالا کے احوال معلوم کر لیے جائیں۔ بلکہ نبی کا معاملہ بھی یہ ہوتا ہے کہ کسی مسئلے کے بارے میں وحی نہ آتی تو رسول اللہ ﷺ بے تابی سے منتظر رہتے مگر ایسا نہ ہوتا کہ آپؐ کی روحِ مبارک خود صعود کر کے عالم بالا سے خبر لے آئے۔ صحابہ کرام کو دینی اور دنیاوی امور میں بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے حل کے لیے وہ اجتہاد اور مشاورت سے کام لیتے تھے۔ اس عمل میں ایک دوسرے سے اختلاف اور مباحثہ کرتے ، مگر الہام اور کشف کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہ کرتے تھے۔ ایسا کوئی طریقہ ہوتا تووہ اسے اختیار کرتے۔ صحابہ کے ہاں اس قسم کے خیالات اور دعاوی کا کوئی شائبہ نہیں پایا جاتا ۔ مسلمانوں میں تصوف اہل عجم کے متصوفانہ حلقوں اور فلسفے کی اشراقی روایت سے در آیا اور انھیں کے اوہامات کو الہامات کے نام سے مسلمانوں میں رائج کر دیا گیا۔
صوفیا کی اس آزادانہ باطنی سیر کے نتائج دیکھیے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کے الہامات اور مکاشفات کا منبع خدا نہیں ہو سکتا۔ یہ دین اسلام کے متوازی تعلیمات کا ایک مجموعہ ہے۔ تصوف میں اصل چیز مشاہدہءِ حق ہے، جو باطنی حواس کے ذریعے سے حاصل کیا جاتا ہے جب کہ دین میں یہ ایمان بالغیب، یعنی بن دیکھے ایمان ہے، جس کے لیے علم و استدلال کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔ دین میں خدا سے تعلق بیم و رجا کا ہے۔ تصوف میں یہ عاشق و معشوق کا ہے۔ اسلام کا منتہائے مقصود بندگی اور عاجزی ہے۔ تصوف میں یہ خدا کی ذات میں شامل ہو کر خود خدا ہو جانے کا فخر ہے۔ ہندو مت یا سناتن دھرم میں اسے آتما کا پرماتما میں مل جانا کہتے ہیں۔ قرآن میں بیان ہونے والی توحید ان کے مطابق عوامی قسم کی ہے۔ صوفیا کو خدا کا عرفان جب حاصل ہوتا تو انھیں معلوم ہوتا کہ خدا کے سوا کوئی دوسرا وجود موجود ہی نہیں ہے۔ خالق اور مخلوق ایک ہیں۔ ساجد اور مسجود کی دوئی محض وہم ہے۔ توحید کی حقیقت ان کے نزدیک یہی ہے۔ یہ درحقیقت وحدت الوجود یا ہمہ اوست کا فلسفہ ہے جو قدیم مصر، یونان کے فلاسفہ اور ہندو مت یا سناتن دھرم کے پرچارکوں نے پیش کیا تھا۔ عقیدہءِ تثلیث اسی نظریے پر مبنی ہے، جس میں بتایا جاتا ہے کہ خدا نے تین اشخاص میں ظہور کیا۔ اس کی رو سے مسیح علیہ السلام خدا ہی کا جسدی ظہور تھے۔ اللہ تعالی نے اس فلسفے کو تسلیم نہیں کیا اور اسے کفر اور شرک قرار دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ (مائدہ، ۵ : ۷۲)
اُن لوگوں نے بھی یقینا کفر کیا ہے جنھوں نے کہا کہ خدا تو یہی مسیح ابن مریم ہے۔
ساری کائنات کو خدا کا ظہور مان لینا وہی کفر اور شرک ہے۔ صوفیا کا یہ مشاہدہء حق اگر کسی حقیقت کا انکشاف ہوتا تو اس میں تضاد اور تخالف نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مگر صوفیا ایک دوسرے کے نتائجِ کشف کو تسلیم نہیں کرتے۔
تصوف میں انسانِ کامل (روح محمدی) صوفیا میں حلول کر جاتا ہے۔ وحدت الوجود کے نتیجے میں صوفیا پہلے خود خدا ہوئے تھے، اب روح محمدی کے حلول کے بعد نبی بھی ہوگئے ۔ خود کو کمالات نبوت اور نبوت عامہ کا حامل سمجھنے کا منبع یہی خیال ہے۔ اس پر استدلال بعد میں وضع کیا گیا ہے۔ حلول کا یہ عقیدہ بھی خارجی فلسفوں سے در آیا ہے۔ مسیح علیہ السلام میں روحِ خدا کے حلول کا نظریہ اسی کا ایک مظہر ہے ،جسے خدا نے تسلیم نہیں کیا اور اسے بھی کفر قرار دیا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہوتا ہے:
لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ (مائدہ، ۵: ۷۳)
اِسی طرح اُن لوگوں نے بھی یقینا کفرکیا ہے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔
خدا تک رسائی پا کر صوفیا خدا سے حصول ہدایت کے لیے نہ نبی کے محتاج رہتے ہیں نہ فرشتوں کے۔ یہ براہ راست خدا سے ہدایت لیتے ہیں۔ شریعت کی ظاہری پابندی اس لیے کرتے ہیں کہ خدا ہی کی طرف سے انھیں اس کا پابند کیا جاتا ہے، ورنہ خود نبی کے کہنے سے ان پر کوئی پابندی عائد نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق شریعت کی پابندیاں اصلاً عوام کے لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوفیا کے ہاں ترکِ شریعت یا اس میں تساہل کا رجحان نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ خود کو شریعت کا تابع نہیں سمجھتے، مگر نظم اجتماعی میں خلل یا خوفِ فسادِ خلق سے اس پر عمل پیرا رہتے ہیں۔
خدا کی معرفت حاصل کرنے کے لیے جو شریعت انھوں نے ایجاد کی ہے اس کا بھی کوئی شائبہ اسلام میں نہیں ہے۔ چِلّے، ریاضیتں اور ذکر و اشغال کی کثرت میں خود کو گم کر دینا، اور اس سب کے لیے ترکِ علائق ، یہ رہبانیت ہے جس کی دین مذمت کر چکا ہے۔ دنیا کی خواہشیں اس دینِ صوفیا کے مطابق روح کی آلودگی کا سبب بنتی ہیں۔ اسی کا اثر ہے سادگی کو ایک قابل ترجیح قدر کے طور پر اپنانے کی تلقین عام ہوئی۔ اس کے برعکس قرآن مجید بتاتا ہے کہ دنیا کی زینتیں خدا نے اپنے مومن بندوں کے لیے پیدا کی ہیں۔ تو کون ہے جو ان کو حرام قرار دے؟
ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (اعراف، ۷ : ۳۲)
اِن سے پوچھو، (اے پیغمبر)، اللہ کی اُس زینت کو کس نے حرام کر دیا جو اُس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی تھی اور کھانے کی پاکیزہ چیزوں کو کس نے ممنوع ٹھیرایا ہے؟ اِن سے کہو، وہ دنیا کی زندگی میں بھی ایمان والوں کے لیے ہیں، (لیکن خدانے منکروں کو بھی اُن میں شریک کر دیا ہے) اور قیامت کے دن تو خاص اُنھی کے لیے ہوں گی، (منکروں کا اُن میں کوئی حصہ نہ ہو گا)۔ ہم اُن لوگوں کے لیے جو جاننا چاہیں، اپنی آیتوں کی اِسی طرح تفصیل کرتے ہیں۔
ابلیس کی طرف داری اور وکالت کی جسارت بھی تصوف کی راہ سے مسلمانوں کے لٹریچر میں آئی۔ قرآن مجید میں ابلیس کا موقف خود اس کی زبانی نقل ہوا ہے کہ اس کی سرتابی کی وجہ اس کا احساس برتری تھا۔ اس سے جب باز پرس کی گئی تو اس نے کسی ندامت کا اظہار کرنے کی بجائے آگے بڑھ کر اعلان کیا وہ خود تو گم راہ ہوا ہی ہے، اب وہ خدا کے بندوں کو بھی آخری دم تک گم راہ کرتا رہے گا۔
اس کے برعکس صوفیا کے ہاں ابلیس ایک سچا موحّد تھا جو خدا کے سوا کسی دوسرے کے آگے سجدہ کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے لوح محفوظ پر لکھا دیکھا تھا کہ کوئی ایک ایسا ہو گا جو خدا کی نافرمانی کرے گا۔ آدم علیہ السلام کو سجدے کا حکم ہوا تو اس نے دیکھا کہ سبھی سربسجود ہیں تو اس نے مشیئت الہی کو غلط ہونے سے بچانے کے لیے خود کو پیش کر دیا اور سجدہ نہ کیا۔ صوفیا کے اس مکاشفے کو مبارک شاہ صاحب نے اپنی نظم 'الّا ابلیس' میں یوں منظوم کیا ہے:
جس نے مٹّی کے بُت کو نہ سجدہ کیا
روزِ اوّل سے جو مُنکرِ شِرک تھا
جُز تِرے جس کی نظروں میں کوئی نہ موجُود تھا
تیرا مردُود تھا ؟
جس کے پیشِ نظر تیری تقدیس تھی
کس قدر وُسعت ظرفِ ابلیس تھی
سینۂ آدمی کا ہر اک وسوسہ
جس سے منسُوب ہے
تیرا معتُوب ہے ؟
ہے تو ہو گا ، مگر مُنصفِ دو جہاں !
اُس کے دِل کی خَلِش کس کے سَر جائے گی
جس نے ہر حال میں تیری لوحِ ازل کا بھرم رکھ لیا
جس نے تیرے لیے بے طلب راستوں پر قدم رکھ لیا
اب قرآن مجید ابلیس کے بارے میں جو کہتا رہے، صوفی کا یقین اس الہام اور مکاشفے پر ہے، اس لیے کہ دین تصوف میں اصل سند قرآن یا نبی نہیں بلکہ صوفی کا الہام ہے۔ یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ ابلیس کی براءت کے بارے میں یہ الہام اور مکاشفہ انھیں کس کی طرف سے انھیں پیش آیا ہے۔ جنوں اور انسانوں میں اس ربط کے بارے میں قرآن مجید میں مطلع کیا گیا ہے:
وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُم مِّنَ الْإِنسِ ۖ وَقَالَ أَوْلِيَاؤُهُم مِّنَ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَّلْتَ لَنَا ۚ قَالَ النَّارُ مَثْوَاكُمْ خَالِدِينَ فِيهَا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۗ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (انعام، ۶ : ۱۲۸)
اُس دن کو یاد رکھو، جب وہ اِن سب (مجرموں) کو اکٹھا کرے گا، (پھر فرمائے گا): ا ے جنوں کے گروہ، تم نے تو انسانوں میں سے بہتوں کو اپنا لیا اور انسانوں میں سے اُن کے ساتھی (فوراً) کہیں گے: پروردگار، ہم میں سے ہر ایک نے دوسرے سے خوب حظ اٹھایا اور (آج) اپنی اُس مدت کو پہنچ گئے ہیں جو تو نے ہمارے لیے مقرر کر دی تھی۔ اللہ فرمائے گا: اب آگ تمھارا ٹھکانا ہے، تم اُس میں ہمیشہ رہو گے، مگر جو اللہ چاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمھارا پروردگار حکیم و علیم ہے۔
اہل تصوف سے مکالمہ کے لیے کوئی مشترک علمی اور عقلی بنیاد دستیاب نہیں۔ قرآن کے الفاظ کی ظاہری اور باطنی معانی میں تقسیم کے نظریے سے انھوں نے قرآن سے اپنے لیے باطنی معانی اخذ کرنے کا جواز بنا لیا ہے جو لسانی قواعد کو ملحوظ نہیں رکھتا۔ ان سے یہ بات نہیں کی جا سکتی کہ دینی اختلافات میں فیصلہ قرآن سے ہوگا۔ الفاظ اور جملوں کے متبادر معانی ان کے نزدیک محض ظاہری معانی ہوتے ہیں، جب کہ ان کے فیصلے ان کے الہام یا کسی دوسرے صوفی کے الہام پر اعتماد پر مبنی ہوتے ہیں اور اس کی تائید قرآن کے باطنی معانی سے ہوتی ہے جو صرف ان پر کھلتے ہیں۔
اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ کیوں تصوف ایک متوازی دین ہے۔ اس کی سند دین محمدی نہیں ہے، باطنیت ہے۔ مسلمانوں میں باطنیت کی یہ تحریک اہل تشیع کے بعض گروہوں میں پیدا ہوئی تھی۔ انھیں کی طرف سے یہ خیال بھی تصوف میں رائج ہوا کہ علم تصوف کا منبع حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان سے اِس علم کا صدور عالم روحانیت میں کہیں ہوا۔ اس لیے اس واقعہ کی کوئی سند بھی طلب نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ اسے تلاش کرنا ممکن ہے۔
تصوف بادشاہت کے متوازی ایک روحانی بادشاہت کا خیالی جہان بھی ہے ۔ مسلمانوں میں بادشاہ کے لیے رائج لقب، خلیفہ انھوں نے اسی وجہ سے اختیار کیا ایک مخصوص علاقے میں ان کی روحانی بادشاہت یا خلافت قائم ہوتی ہے۔ ۔ پھر خلفا کی طرح ہی خلعت خلافت دے کر یہ اپنے نائبین مختلف علاقوں میں تعینات کرتے ہیں جو ان کے خلیفہ کہلاتے، ان کی روحانی سلطنت کو پھیلاتے اور مضبوط کرتے ہیں۔ ان نائبین سے یہ خفا ہو جائیں تو خلعت خلافت چھین کر انھیں معزول بھی کر دیتے ہیں۔ اپنی روحانی سلطنت کا تاثر انھوں نے اس طرح مضبوط کیا ہے کہ حکمران اور سیاسی زعما بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اپنی سلطنت کی سند یا حکومت کے حصول اور بقا کے لیے ان کے آشیرباد یا دعاؤں کے لیے ان کے در پر حاضری دیتے رہے۔
عام لوگوں کے نزدیک تصوف اصلاحِ باطن یا اصلاحِ اخلاق کا ایک ادارہ اور ذریعہ ہے، لیکن اپنی اصل میں یہ درحقیقت کچھ اور شے ہے۔ یہاں مرشد کی ذات، اس کا حکم اور اس کی تعبیرات دین کا ماخذ ہیں۔ اس کا حکم خلاف دین بھی معلوم ہو تو بجا لایا جائے گا۔
اصلاح تصوف کی تمام تحریکیں ظاہری طور پر شریعت کی پابندی کی تلقین تک محدود ہی رہ سکتی ہیں، نظریاتی سطح پر کوئی تبدیلی اس میں ممکن نہیں، ورنہ تصوف کی عمارت ڈھے جائے گی۔
عہدِ اسلامی کی اولین خاتون آرتھوپیڈک سرجن
مولانا محمد جمیل اختر ندوی
تاریخ ِاسلام کے خزاں دیدہ اوراق جس طرح باکمال مردوں سے بھرے ہوئے ہیں، اسی طرح باکمال خواتین سے بھی مملو ہیں اور یہ تاریخی خواتین ابتدائے آفرینش سے اپنا سکہ جمائی ہوئی ہیں، انھیں جیسوں کے متعلق تو قرآن نے کہا ہے: ولیس الذکر کالأنثی ’’مرد عورتوں کے مثل نہیں ہیں‘‘، پھر یہ خواتین کسی ایک فیلڈ میں ہی باکمال نہیں ہیں؛ بل کہ مختلف میادین میں انھوں نے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ بسا اوقات ان کے سامنے مرد بھی بونے نظر آتے ہیں، یہ خواتین صرف تاریخ اسلامی کے روشن صفحات کی زینت ہی نہیں بنی ہوئی ہیں؛ بل کہ آج بھی وہ مختلف میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں۔
انھیں باکمال خواتین میں ایک نام ’’حضرت رفیدہ‘‘ رضی اللہ کا ہے، جنھیں اولین خاتون آرتھوپیڈک اور ’’أول ممرضۃ فی الإسلام‘‘ ہونے کا اعزاز حاصل ہے، اس سلسلہ میں فلورنس نائی ٹنگیل (Florence Nightingale) کا نام بھی لیا جاتا ہے کہ وہ تاریخ کی پہلی نرس اور ممرضہ ہے؛ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے؛ کیوں کہ اس کی پیدائش ۱۸۲۰ء میں ہوئی ہے، جب کہ حضرت رفیدہؓ کی پیدائش ۶۲۰ء کی دہائی میں ہوئی ہے اور یہ بات جگ ظاہر ہے کہ انھوں نے جس طرح مریضوں کی دیکھ بھال کی، جس طرح میدان جنگ سے مریضوں کو اٹھا اٹھا کر اپنے خیمہ میں لاتیں اور ان کے زخموں کا علاج کرتیں، وہ کسی بھی طرح سے کسی جدید نرس؛ بل کہ آرتھوپیڈک سرجن سے کم نہیں ہے، اسی لئے خود ویکی پیڈیا میں اس کی صراحت موجود ہے کہ حضرت رفیدہؓ فلورنس سے ۱۲۰۰ سال قبل نرسنگ کی دنیا کی ماہر مانی گئیں ہیں۔
لیکن یہ عجیب بات ہے کہ تاریخ نویسوں نے ان پر کچھ لکھا ہی نہیں ہے، بس معمول کی چند سطریں ہی مل پاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ باوجود کوشش کے، ان کی زندگی کے کئی گوشے صیغۂ راز میں ہی رہ گئے ہیں، جو کچھ اہل سیر اور مؤرخین نے ان کے تعلق سے لکھا ہے، ان تمام کو مرتب انداز میں قارئین کے نذر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
پیدائش اور نام و نسب
آپ کے نام کے سلسلہ میں اہل سیر کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک آپ کا نام رُفیدہ بنت سعد بن عتبہ (إمتاع الأسماع:۹؍۲۵۴) ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کا نام کُعیبہ بنت سعد (یا سعید) ہے (ابن سعد اور حافظ ابن عبد البر نے اسی نام سے ان کا تذکرہ کیا ہے، دیکھئے: الطبقات الکبری:۱۰؍۲۷۶، نمبرشمار:۵۰۷۲، الاستیعاب، ص:۹۳۵، نمبرشمار: ۳۴۴۳)، آپ کا تعلق قبیلہ اسلم سے ہے، اس قبیلہ کی نسبت ان کے جد امجد اسلم بن اقصیٰ کی جانب ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لوگ الیاس بن مضر سے تعلق رکھتے ہیں اور خزاعہ میں ضم ہوگئے تھے؛ تاہم اکثر اہل انساب کی رائے یہ ہے کہ یہ خزاعہ کے بھائی تھے اور بنو مزیقیاء سے تعلق رکھتے تھے، آج بھی یہ لوگ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے اطراف میں اپنے دیار میں آباد ہیں، بالخصوص وادی حجر میں۔
ڈاکٹر شوکت شطی کے مطابق رفیدہ اور کعیبہ دو الگ خواتین ہیں، رفیدہ طبیبہ تھیں اور سرجری میں مہارت رکھتی تھیں، جب کہ کعیبہ طبیبہ تھیں؛ لیکن سرجری میں مہارت نہیں رکھتی تھیں، انھیں نرسنگ میں مہارت تھی؛ البتہ دونوں ہی قبیلۂ اسلم سے تعلق رکھتی تھیں (دیکھئے: تاریخ العلوم الطبیۃ لاحمد شوکت الشطی، ص:۱۷۵-۱۷۶)۔
حضرت رفیدہؓ کی پیدائش راجح قول کے مطابق مدینہ منورہ (یثرب) میں (620ء کی دہائی میں) ہوئی، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ مقیم تھیں اور ان کی نشوونما بھی یہیں ہوئی۔
والد
ان کے والد کے نام کے تعلق سے بھی دو قول ہیں: بعض مؤرخین نے ’’سعد‘‘ (دیکھئے: الطبقات الکبری: ۱۰؍۲۷۶)، جب کہ بعض نے ’’سعید‘‘ رقم کیا ہے (دیکھئے: الاستیعاب، ص۹۳۵)، یہ صحابی ہیں یا نہیں؟ اس تعلق سے کوئی حتمی بات مرقوم نہیں ملی؛ البتہ اہل سیر نے ’’سعد اسلمی عرجی‘‘ کا تذکرہ کیا ہے کہ ہجرت کے موقع پر مقام عرج میں نبی کریم ﷺ سے ان کی ملاقات ہوئی اور یہاں سے یہی آپ ﷺ کے رہبر و رہنما بن گئے، یہ دراصل اسلمیین کے ’’مولی‘‘ تھے، شرف صحابیت ان کو حاصل ہے (الاستیعاب، ص: ۲۷۶)؛ لیکن صراحت کے ساتھ کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ یہی حضرت رفیدہ کے والد ہیں؛ البتہ حکیم راجی عباس تکریتی کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رفیدہ کے والد بھی صحابی تھے، وہ لکھتے ہیں: کان أبوہا أنصاریاً من بنی أسلم، اسمہ سعد۔ (الإسناد الطبی فی الجیوش العربیۃ الإسلامیۃ، ص:۸۳) ’’ان کے والد بنو اسلم کے تھے اور انصاری تھے، نام سعد تھا‘‘، ظاہر ہے کہ انصاری ہونے کا خطاب مدینہ کے ان باسیوں کو ملا ہے، جو مسلمان تھے اور مہاجرین کے مددگار بھی۔
لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ وہ اپنی قوم کے ایک اچھے، ماہر اور تجربہ کار طبیب تھے، صالح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:
واکتسبت فی التمریض عن أبیہا سعد الأسلمی الذی کان کاہن قومہ بیثرب، وعرافہم وطبیبہم، وکان یجید فن التمریض والتطبیب۔ (الحقوق العامة للمرأة، ص:۱۳۷، نیز دیکھئے: عمل المرأة فی المملکة العربیة السعودیة، ص: ۹۷) ۔
’’انھوں (حضرت رفیدہؓ) نے اپنے والد سعد اسلمی سے علاج و معالجہ کی تعلیم حاصل کی، جو یثرب میں اپنی قوم کے کاہن، نجومی اور طبیب تھے، وہ نرسنگ اور طب کے فن میں ماہر تھے۔‘‘
اسلام
مدینہ میں حضرت مصعبؓ کی کوششوں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کیا، ان میں ایک حضرت رفیدہؓ بھی ہیں، پھر جب نبی کریم ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انھوں نے براہ راست آپ ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کیا، یہ اہل مدینہ میں اولین اسلام قبول کرنے والوں میں ہیں؛ بل کہ ان خواتین میں ہیں، جنھوں نے آپ ﷺ کا والہانہ استقبال کیا تھا، صلاح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:
عند مشارف یثرب، ومع جموع الأنصار تقدمت بنت سعد الأسلمیة تنشد فرحة بقدوم الرسولﷺ وتبایعہ، وتؤکد عزمہا علی الجہاد فی سبیل اللہ بعد أن أسلمت علی ید مصعب بن عمیر۔ (الحقوق العامة للمرأة، ص: ۱۳۶)
’’یثرب کے مضافات میں، انصار کے ہجوم کے ساتھ، مصعب بن عمیرؓ کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد، بنت سعد اسلمیہ رسول اللہ ﷺ کی آمد پر خوشی کے گیت گاتے، رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں پر بیعت کرتے اور جہاد فی سبیل اللہ کا عزمِ مصمم کرتے ہوئے آگے بڑھی۔‘‘
حکیم راجی عباس تکریتی لکھتے ہیں:
وکانت سباقة إلی الإسلام، وہی من بین نساء الأنصار اللائی استقبلن النبی محمدﷺ عند ہجرتہ من مکة إلی المدینة بالمزامیر والزغارید۔ (الإسناد الطبی فی الجیوش العربیة الإسلامیة، ص:۸۳)
’’وہ اولین مسلمانوں میں تھیں اور انصار کی ان خواتین میں تھیں، جنھوں نے مکہ سے مدینہ کی ہجرت کے وقت نبی کریم ﷺ کا استقبال نغمہ و راگ کے ساتھ کیا تھا۔‘‘
شادی
اہل تاریخ و سیر نے حضرت رفیدہ رضی اللہ عنہا کے حالات اس طرح تفصیل کے ساتھ نہیں لکھے ہیں، جس قدر تفصیل ہونی چاہئے، اسی لئے ان کے اکثر حالات صیغۂ راز میں ہیں، بس اندازہ سے ہی بات کی جاتی ہے، ان کی شادی کے تعلق سے بھی ایسا ہی کچھ معاملہ ہے، حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا ہے؛ البتہ اندازہ لگا کر حافظ ابن حجرؒ کا کہنا ہے کہ ان کی شادی بنو غفار کے کسی فرد سے ہوئی تھی، وہ لکھتے ہیں:
قولہ: (خیمة من بنی غفار) تقدم أن ابن إسحاق ذکر أن الخیمة کانت لرفیدة الأسلمیة، فیحتمل أن تکون کان لہا زوج من بنی غفار۔ (فتح الباری:۷؍۴۷۹، حدیث نمبر: ۴۱۲۲)
’’(خیمۃ من بنی غفار کا قول)، یہ بات گزر چکی ہے کہ ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ یہ خیمہ رفیدہ اسلمیہ کا تھا، جس سے یہ احتمال ہوتا ہے کہ ان کا شوہر بنو غفار کا تھا۔‘‘
جہاد میں شرکت
حضرت رفیدہؓ کے اندر جذبۂ جہاد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، انھوں نے بیعت بھی اسی پر کیا تھا اور خوب نبھایا بھی، اسلام کے اولین غزوہ سے ان کی شرکت رہی، جس وقت غزوۂ بدر کے لئے بگل بج رہا تھا، یہ اس سوچ میں تھیں کہ کس طرح آج مجاہدین کی صفوں میں شمار ہونے کا موقع ملے؟ بس موقع ملتے ہی وہ اس میں شریک ہوگئیں، صلاح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:
ووراء جیش المسلمین، خرجت ثلة من النساء یحملن الماء للمحاربین تتقدمہن کعیبة، ثم دارت رحی المعرکة، وحمی وطیسہا، وجُرح فیہا بعض المسلمین، فأسرعت کعیبة تنتقل بین صفوف المسلمین تسعف المصاب منہم، وتشعرہ بالعنایة والعطف۔
’’مسلمان لشکر کے پیچھے، عورتوں کی ایک جماعت مجاہدین کے لئے پانی لے کر نکلیں، جن کی پیشوائی کعیبہ کر رہی تھیں، پھر معرکۂ کارزار گرم ہوا اور بعض مسلمان زخمی ہوگئے، بس کعیبہ پھرتی کے ساتھ ان زخمیوں کو مسلمانوں کے لشکر سے منتقل کرنے لگیں اور ان کی دیکھ ریکھ پر توجہ مرکوز کر دی۔‘‘
غزوہ احد میں بھی انھوں نے شرکت کی تھی اور بہتر طریقہ پر اپنا کام انجام دیا تھا، پھر جب سن پانچ ہجری میں غزوۂ خندق پیش آیا تو ان کی شرکت اس غزوہ میں نمایاں طور پر رہی، زخمیوں کا علاج اور ان کی مرہم پٹی میں نہ صرف یہ پیش پیش رہیں؛ بل کہ خندق کے قریب ہی اپنا طبی کیمپ بھی لگا دیا؛ چنانچہ جب حضرت سعد بن معاذؓ زخمی ہوگئے تو انھوں نے میدانِ کارزار میں ہی ان کا علاج کیا، صلاح عبد الغنی محمد لکھتے ہیں:
لقد أصیب سعد بن معاذ سید الأوس-من الأنصار-وأسرعت کعیبۃ إلیہ، وکشفت عن جراحہ حیث أصابہ سہم بأعلی الصدر، والدماء تنزف منہ، فأخذت تعالج جراحہ وترعاہ لتوقف نزیف الدمائ، وترکت سہم المستقر فی مکانہ لیحول دون انبثاق المزید من الدم۔ (الحقوق العامة للمرأة، ص: ۱۳۷)
’’انصار کے قبیلۂ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ زخمی ہوگئے تو کعیبہ ان کی طرف تیزی سے گئیں اور ان کے اس زخم کا معاینہ کیا، جو سینے کے اوپری حصہ میں تیر لگنے کی وجہ سے تھا اور جہاں سے خون بہے جا رہا تھا، انھوں نے خون بند کرنے کے لئے ان کا علاج کیا اور تیر کو اس کی جگہ پر رہنے دیا؛ تاکہ مزید خون نہ بہے۔‘‘
غزوۂ خندق کے معاً بعد جب غزوۂ خیبر کا اعلان ہوا تو بنو غفار کی عورتیں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کناں ہوئیں: یارسول اللہ! قد أردنا أن نخرج معک إلی وجہک ہذا -وہو یسیر إلی خیبر- فنتداوی الجرحی ونعین المسلمین بما استطعنا۔ ’’اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کے ساتھ خیبر جانے کا ارادہ کیا ہے؛ تاکہ ہم زخمیوں کا علاج کر سکیں اور مسلمان مجاہدین کی بقدر استطاعت مدد کر سکیں‘‘، آپ ﷺ نے ’’علی برکۃ اللہ‘‘ کہہ کر ان کو اجازت دیدی (مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۷۱۸۰)، ان عورتوں میں حضرت رفیدہؓ بھی تھیں، وہ نہ صرف اس میں شریک ہوئیں؛ بل کہ اچھے طریقہ سے اپنے حصہ کا کام بھی انجام دیا، جس کی وجہ سے اللہ کے رسولﷺ نے ان کو مردوں کے برابر حصہ دیا، حافظ ابن عبدالبرؒ رقم طراز ہیں:
شہدت خیبر مع رسول اللہ ﷺ، فأسہم لہا سہم رجل۔ (الاستیعاب، ص: ۹۳۵، نمبرشمار: ۳۴۴۳، طبقات ابن سعد: ۱۰؍۲۷۶، نمبرشمار: ۵۰۷۲)
’’وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیبر میں شریک تھیں؛ چنانچہ رسول اللہﷺ نے ایک مرد کا حصہ ان کو بھی عطا کیا۔‘‘
طبابت
حضرت رفیدہؓ کا شمار ان خواتین میں نمایاں طور پر ہوتا ہے، جنھوں نے عہد نبوی میں طب کے میدان میں عملی طور پر خدمت انجام دی ہے، عمر رضا کحالہ لکھتے ہیں:
مجاہدة کانت تداوی الجرحی وتحتسب بنفسہا علی خدمة من کانت بہ ضیعة من المسلمین۔ (أعلام النساء فی عالمی والعرب والاسلام: ۱؍۴۵۱)
’’وہ ایک مجاہدہ تھیں، زخمیوں کا علاج کرتیں، انھوں نے اپنے آپ کو ان مسلمانوں کی خدمت کے لئے وقف کر رکھا تھا، جن کے حالات دگرگوں تھے۔‘‘
یہ عمل جراحی (Orthopedic Surgery) میں ماہر تھیں، ان کی اسی مہارت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے خیمہ لگوایا تھا، شوکت شطی لکھتے ہیں:
رفیدة: طبیبة متمیزة بالجراحة، ولذلک اختارہا الرسول لتقوم بالعمل فی خیمة متنقلة۔ (تاریخ العلوم الطبیة، ص:۱۷۵)
’’رفیدہ: جراحت میں ممتاز طبیبہ تھیں، اسی سے وجہ سے رسول اللہﷺ نے ان کو ایک موبائل ٹینٹ میں خدمت کے لئے منتخب کیا۔‘‘
انتصاف عبد العزیز عبدالرحمن اقرع لکھتے ہیں:
اشتہرت ہذہ الصحابیة الجلیلة فی الجراحة وتجبیر العظام۔ (فقہ الطبیب المسلم وأخلاقہ فی المسائل الطبیة المستجدة، ص:۲۲)
’’یہ عظیم صحابیہ سرجری اور آرتھوپیڈکس کے لئے مشہور تھیں۔‘‘
حضرت رفیدہؓ کی طبی مہارت پر نبی کریم ﷺ کو اعتماد بھی تھا، اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ حضرت سعد بن معاذؓ کو غزوۂ خندق میں تیر لگا اور زخم کے علاج کی ضرورت پیش آئی تو آپﷺ نے اُن کو انہی کے خیمہ میں منتقل کر دیا تھا، ابن اثیر جزری لکھتے ہیں:
أخبرنا عبیداللہ بن أحمد بإسنادہ عن یونس عن ابن اسحاق قال: وکان رسول اللہ ﷺ حین أصاب سعداً السہم بالخندق، قال لقومہ: اجعلوہ فی خیمة رفیدة؛ حتی أعودہ من قریب۔ (أسد الغابة فی معرفة الصحابة: ۷؍۱۱۱، نمبرشمار: ۶۹۲۵، الإصابة فی تمییز الصحابة: ۱۳؍۳۸۳، نمبرشمار: ۱۱۳۱۲)
’’عبید اللہ بن احمد نے اپنی سند بواسطہ یونس عن ابن اسحاق ہمیں بتایا کہ جس وقت سعدؓ کو خندق کے موقع سے تیرل گا، اس وقت رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: انھیں رفیدہ کے خیمہ میں منتقل کرو؛ تاکہ میں قریب سے عیادت کر سکوں۔‘‘
حضرت رفیدہؓ نے یہ علم طب اپنے والد سعد اسلمی سے حاصل کی تھی؛ کیوں کہ وہ اپنی قوم کے طبیب تھے، عربک پورٹل ’’الالوکۃ‘‘ میں ایک مضمون بہ عنوان: ’’الأطباء فی الجزیرۃ العربیۃ فی فجر الإسلام‘‘ ہے، اس میں ان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے:
سعد الأسلمی: کان کاہن قومہ بیثرب وعرافہم وطبیبہم، وکان ماہراً خبیراً بالتمریض التطبیقی، وہو والدة رفیدة الأسلمیة۔
(https://www.alukah.net)
’’سعد اسلمی: یثرب میں اپنی قوم کے کاہن، نجومی اور طبیب تھے، وہ تطبیقی نرسنگ (ٖPractical Nursing) کے ماہر اور واقف کار تھے، یہ رفیدہ اسلمیہ کے والد تھے۔‘‘
ڈاکٹر حنان ولید محمد سامراتی اور زینۃ ابراہیم خلیل اپنے مشترکہ مضمون ’’المرأۃ و تاریخ تطور مہنۃ الطب من العصر الجاہلی و حتی العصر الحدیث‘‘ میں لکھتے ہیں:
رفیدة نشأت فی عائلة لہا صلة قویة بالطب، وأن والدہا ’’سعد الأسلمی‘‘ کان طبیباً ومعلمہا الخاص حیث اکتسبت رفیدة منہ خبرتہا الطبیة، ولذلک کرست نفسہا للتمریض ورعایة المرضی، وأصبحت طبیبة متخصصة، وعلی الرغم من استحواذ الرجال وحدہم بعض المسؤولیات کالجراحة وبتر الأعضائ، مارست رفیدة الأسلمیة مہاراتہا فی خیمتہما التی کانت تقام فی العدید من الغزوات؛ حتی فی المسجد النبوی نفسہ حیث أمر النبی محمدﷺ بنقل الجرحی إلی خیتمہا، والتی توصف بأول مستشفی میدانی فی الإسلام۔ (مجلة التطویر العلمی للدراسات والبحوث، المجلد الثالث، العدد:۱۱، ۲۰۲۲ئ، ص:۲۸۳)
’’رفیدہ علم طب سے مضبوط تعلق رکھنے والے خاندان پروان چڑھی، ان کے والد سعد اسلمی ایک طبیب اور ان کے معلم خاص تھے، رفیدہ نے انہی سے طبی تجربات حاصل کئے اور اپنے آپ کو نرسنگ اور مریضوں کی دیکھ بھال کے لئے وقف کر دیا اور اس طرح وہ ایک ماہر ڈاکٹر کے روپ میں ابھری، اگرچہ کہ تنہا مردوں نے سرجری اور اعضاء کے کاٹنے جیسی ذمہ داریوں سنبھال رکھا تھا؛ لیکن رفیدہ اسلمیہ نے اپنے اس خیمہ میں اپنی مہارتوں کی مشق کی، جو مختلف غزوات میں لگائے جاتے تھے؛ حتی کہ خود مسجد نبوی میں خیمہ موجود تھا، جہاں نبی کریم ﷺ زخمیوں کو منتقل کرنے کا حکم دیتے تھے اور جسے اسلام کا پہلا فیلڈ اسپتال ہونے کا شرف حاصل ہے۔‘‘
حضرت رفیدہؓ کے لئے تیار کردہ یہ طبی خیمہ اسلام کا پہلا ’’بیمارستان‘‘ یا ایسا ’’فوجی اسپتال‘‘ (موبائل کیئر یونٹس) تھا، جسے ایک جگہ سے دوسری جگہ وقت ضرورت منتقل کیا جا سکتا تھا، جس کا آغاز نبی کریم ﷺ نے کیا (تاریخ البیمارستان فی الإسلام ، ص:۹، أعلام الحضارۃ العربیۃ الإسلامیۃ فی العلوم الأساسیۃ لزہیر حمدان:۱؍۳۳) اور اس بیمارستان کے پہلے ممرضہ اور طبیبہ حضرت رفیدہ انصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
وفات
یہ عجیب بات ہے کہ جن کو تاریخ میں اولین خاتون آرتھوپیڈک ہونے کا اعزاز حاصل ہے، ان کی زندگی کے اکثر گوشوں سے تاریخ کے صفحات خالی ہیں، انھیں گوشوں میں سے ایک ان کی وفات بھی ہے، اہل و سیر و تاریخ نے اس سلسلہ میں کچھ نہیں لکھا ہے؛ اس لئے ان کی تاریخ وفات کے بارے میں نہ کچھ لکھا جا سکتا ہے اور نا ہی کچھ کہا جا سکتا ہے، بس یہ ہے کہ ایک اللہ کی مخلص بندی، جس نے ایمان و اخلاص اور احتساب نیت کے ساتھ اپنے فن کے ذریعہ سے خدمت انجام دیتی رہی، جسے نبی کریمﷺ کا پورا اعتماد حاصل تھا، رحم اللہ علی ہذہ الصحابیۃ الجلیلۃ المخلصۃ التی تعد أول ممرضۃ فی الإسلام۔
مولانا ولی الحق صدیقی افغانی کی رحلت
شاہ اجمل فاروق ندوی
۵؍ذوالحجہ ۱۴۴۵ھ / ۱۲؍جون ۲۰۲۴م کو افغانستان سے یہ افسوس ناک خبر آئی کہ یادگارِ اسلاف اور سرزمینِ افغانستان پر باعثِ برکات مولانا ولی الحق صدیقی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی ولادت افغانستان کے صوبے ننگرہار کے علاقے سرخرود میں ۱۳۴۷ھ / ۱۹۲۷م میں ہوئی تھی۔ اس طرح انھوں نے تقریباً سو سال عمر پائی۔ ان کا خاندان اہل علم و فضل کا خاندان تھا۔ ان کے والد گرامی مفتی عبدالحق صدیقی اور چچا مولانا عبدالخالق صدیقی دونوں مستند عالم تھے۔ اسی طرح ان کے دادا قاضی صاحب گل صدیقی بڑے عالم اور پر دادا جناب احمد گل صدیقی بھی معتبر شخصیت کے مالک تھے۔
مولانا ولی الحق صدیقی اُس دور کی یادگار تھے، جس دور میں افغانستان اور موجودہ پاکستان و بنگلہ دیش کے طلبہ خاصی تعداد میں ہندستان آتے تھے۔ اپنے اپنے مسلک و مشرب کے لحاظ سے ملک کے مختلف حصوں میں قائم مدارس اور شخصیات سے استفادہ کرتے تھے۔ ایسے طلبہ کی اچھی تعداد دیوبند بھی پہنچتی تھی۔ اُسی زمانے میں دارالعلوم دیوبند میں ہمارے مخدوم و محترم مولانا تبارک اللہ صدیقی ململی بھی زیر تعلیم تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ہمارے وقت میں دارالعلوم دیوبند میں کم و بیش ستّر بہتّر افغانی طلبہ پڑھتے تھے۔‘‘ ہمارے ممدوح مولانا ولی الحق صدیقی بھی انھی طلبہ میں شامل تھے۔ انھوں نے دیوبند میں تقریباً دس سال قیام کیا۔ وہ ۱۳۶۰ھ / ۱۹۴۰م میں دیوبند پہنچے اور ۱۳۷۰ھ / ۱۹۵۰م میں وہاں سے اپنے وطن واپس لوٹے۔
افغانستان میں اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں دارالعلوم دیوبند کا تعارف شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی شخصیت اور اثرات کی وجہ سے ہوا تھا۔ اس لیے شیخ الہند کی حیات میں دیوبند آنے والے طلبہ کا مرکز و محور شیخ الہند ہی کی ذات گرامی ہوتی تھی۔ ۱۹۲۰م میں اُن کے وصال کے بعد جو طلبہ دیوبند پہنچے وہ شیخ الہند کے رنگ میں سب سے زیادہ رنگی ہوئی شخصیت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کو اپنی عقیدت کا سب سے بڑا مرکز بناتے تھے۔ اُس زمانے میں بالعموم صحیح بخاری اور جامع ترمذی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، صحیح مسلم علامہ محمد ابراہیم بلیاوی اور سنن ابو داؤد شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی پڑھایا کرتے تھے۔ یہ تینوں بزرگ شیخ الہند کے شاگرد تھے۔ اس لیے افغانی طلبہ اپنے ان تینوں اساتذہ سے سب سے زیادہ قرب رکھتے تھے۔ بعد میں شیخ الہند کے ایک اور شاگرد مولانا سید فخرالدین احمد مرادآبادی بھی شیخ الحدیث بن کر دارالعلوم دیوبند پہنچے تھے، لیکن اُن کے دور میں ملک کی تقسیم کو اچھا خاصا وقت گزر چکا تھا اور افغانی طلبہ کی آمد کا سلسلہ موقوف ہوچکا تھا۔ اس لیے اُن کے ذریعے ۱۹۷۲م تک شیخ الہند کی نسبت تو عام ہوتی رہی لیکن افغانوں اور سرحدی قبائل تک یہ فیض نہیں پہنچ سکا۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ مولانا ولی الحق صدیقی نے دارالعلوم دیوبند کے زریں عہد میں دس سال گزارے۔ خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی اور صاحب زادہ شیخ الاسلام مولانا محمد اسعد مدنی اُن کے ہم سبق رہے۔ یہ بات تقریباً وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اُس صف کا کوئی فرد اب اس دنیا میں موجود نہیں ہے۔ امارت اسلامی افغانستان کو بھی مولانا کی اس عالی نسبت کی قدر تھی۔ اسی لیے کچھ عرصے پہلے وہاں کے ایک مرکزی وزیر نے ایک وفد کے ساتھ اُن کی خدمت میں حاضری دی تھی۔
مولانا ولی الحق صدیقی نے دارالعلوم دیوبند میں صحیح بخاری مولانا حسین احمد مدنی سے، صحیح مسلم علامہ محمد ابراہیم بلیاوی سے، سنن ابو داؤد مولانا اعزاز علی امروہوی سے، جامع ترمذی مولانا حسین احمد مدنی سے، سنن نسائی مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے، سنن ابن ماجہ مولانا قاری محمد طیب قاسمی سے پڑھی تھی۔ عالم عرب کے علمائے حدیث کے درمیان مولانا ولی الحق صدیقی کی اہمیت ایک تو اس لیے تھی کہ مولانا حسین احمد مدنی کے اتنے قدیم تلامذہ اب نہیں پائے جاتے۔ اسی لیے شامی عالم و محقق ڈاکٹر زیاد التکلۃ نے دو سال قبل شعبان کے مہینے میں مولانا کے سامنے صحیح بخاری مکمل پڑھنے کا اہتمام کیا تھا۔ اس مبارک سلسلے کی اختتامی مجلس ۲۷؍شعبان المعظم ۱۴۴۳ھ / ۳۱؍مارچ ۲۰۲۲م منعقد ہوئی۔ پوری دنیا سے سیکڑوں علمائے حدیث اور ہم جیسے طلبہ نے ان آن لائن مجالس میں شرکت کی۔ روزانہ تقریباً تین گھنٹے قرأت ہوتی تھی۔ مولانا بہت سکون کے ساتھ پوری مجلس سماعت فرماتے تھے۔ آخر میں پرسوز انداز میں دعا بھی کراتے تھے۔ اُن کی مبارک زبان سے نکلنے والے دعائیہ کلمات آج بھی کانوں میں رس گھولتے ہیں۔
علمائے حدیث کے درمیان مولانا ولی الحق صدیقی کی اہمیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انھوں نے موطأ امام محمد شیخ التفسیر محمد مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے پڑھی تھی۔ مولانا کاندھلوی نے مفتی اعظم مولانا عزیز الرحمان عثمانی سے اور انھوں نے دارالعلوم کے استاذِ اول ملا محمود دیوبندی سے۔ ملا محمود کو شاہ عبدالغنی مجددی سے اجازت حاصل تھی۔ مولانا محمد ادریس کاندھلوی دارالعلوم دیوبند میں شیخ التفسیر کی مسند پر فائز تھے۔ تفسیر بیضاوی اور تفسیر ابن کثیر کا درس دیا کرتے تھے۔ حسب ضرورت احادیث کی مختلف کتابیں بھی اُن کے زیر درس رہیں۔ غالباً موطأ امام محمد صرف ایک ہی سال پڑھائی تھی۔ مولانا ولی الحق صدیقی بھی اس جماعت میں تھے، جس نے مولانا کاندھلوی سے یہ کتاب پڑھی تھی۔ اس لیے عرب علماء و طلبہ مولانا صدیقی کے ساتھ موطأ امام محمد کی آن لائن مجالس بھی منعقد کرتے تھے۔ ایک دورے میں مجھے بھی شرکت کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ یہ مجالس ۱۶؍شوال المکرم۱۴۴۲ھ / ۲۹؍مئی ۲۰۲۱م سے ۲۲؍شوال / ۴؍جون تک جاری رہی تھیں۔ مصری عالم شیخ احمد حسن محمد القاضی نے مولانا ولی الحق صدیقی کا ثبت بھی ترتیب دیا ہے۔ اس کا نام الرضی الکافی فی بعض أسانید مولانا ولی الحق الصدیقی ہے۔ اس میں بہت سی چیزیں نظر ثانی کی بھی محتاج ہیں۔
مجھے ایک مرتبہ مولانا ولی الحق صدیقی سے آن لائن ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اُن کے لباس، بول چال اور اردگرد کے ماحول سے بہت سلیقہ مندی جھلکتی تھی۔ اپنے اساتذہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اُن کی آواز بھرا جاتی تھی۔ شاید یہ اُن کی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ اُن کے اہل خانہ اُن کا بھی غایت درجہ ادب کرتے ہوئے محسوس ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی اُن سے مستفید ہونے کا موقع دیتے تھے۔ ہمارے ملک میں حال ہی میں وفات پانے والے کچھ عالی نسبت علماء ایسے بھی تھے، جن کے گھر والوں نے صحت و حفاظت کے نام پر انھیں تقریباً محصور کر کے رکھ دیا تھا۔ حد تو یہ کہ کسی سے فون پر گفتگو کی بھی اجازت نہیں تھی، لیکن مولانا ولی الحق صدیقی اس لحاظ سے خوش نصیب تھے کہ اُن کے اہل خانہ اُن کی صرف خاندانی حیثیت سے واقف نہیں تھے، بلکہ اُن کی ملّی، دینی، علمی اور تاریخی اہمیت سے بھی واقف تھے۔ اس لیے انھوں نے مرضِ وفات میں مبتلا ہونے سے پہلے تک بہت منظم انداز میں ان سے استفادے کا دروازہ کھلا رکھا۔ علماء و طلبہ اُن سے ملاقات کے لیے حاضر ہوتے تو انھیں بآسانی ملنے دیا جاتا۔ دنیا بھر سے اہل علم آن لائن استفادے کی کوشش کرتے تو ایک وقت متعین کر دیا جاتا۔ پھر متعینہ وقت پر مولانا کو پوری یکسوئی فراہم کر کے گھر کے کسی بچے کو بھی اُن کے ساتھ بٹھا دیا جاتا تھا، تاکہ کوئی تکنیکی دشواری پیش آئے تو وہ درست کر سکے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان کے سامنے صحیح بخاری جیسی بڑی کتابیں بھی بہت مرتب انداز میں شروع سے آخر تک ختم کر لی گئیں۔ اہل خانہ کی اس راست فہمی کے نتیجے میں مولانا سے استفادہ کرنے والے علماء، طلبہ اور عام افراد کی تعداد بلا مبالغہ کئی ہزار ہوگی۔ اب یہ فیض عام ہوتا جائے گا اور اس کا ثواب مولانا کے ساتھ ساتھ اُن کے اہل خانہ کے حصے میں بھی لکھا جاتا رہے گا۔
مولانا ولی الحق صدیقی کی رحلت سے افغانستان میں دینی علوم کی ایک روایت اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ وہ برصغیر کی تاریخ کے ایک خوب صورت دور کی یادگار تھے۔ اُن کے ہم سبق خطیب الاسلام مولانا محمد سالم قاسمی کی رحلت پر جو احساس ہم ہندستانی طلبہ کو ہوا تھا، شاید وہی احساس آج افغانی طلبہ کو ہو رہا ہوگا۔ اس احساس کو شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:
وفات پا چکے سب رہ رَوانِ جادۂ عشق
ملال یہ ہے کہ دہلیزِ عاشقاں بھی گئی
کتائب القسام کے ترجمان ابوعبیدہ کا تاریخی خطاب
ابو عبیدہ
مولانا ڈاکٹر عبد الوحید شہزاد
7 جولائی 2024ء کو کتائب القسام کے ترجمان ابوعبیدہ نے جامع خطاب کیا، جس میں تفصیل کے ساتھ مجاہدین، غزہ کے عوام کی کامیابیوں کی نوید سناتے ہوئے دشمن کے کبر و نخوت کے ٹوٹنے کی نوید سنائی، اسی طرح اس خطاب میں امر کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ کب تک دشمن سے میدان قتال میں برسر پیکار رہیں گے۔ اردو قارئین کو غزہ کی اس وقت کی صورتحال سے آگاہی کے لیے ان کے خطاب کے اہم نکات کا ترجمہ ذیل ہے۔
پچھلے 9 ماہ سے ہمارے عوام صہیونی و امریکی ظالم دشمن کے ہاتھوں اجتماعی نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ظلم و بربریت اس لیے روا رکھی گئی ہے کہ یہ اپنی مقدسات کی حفاظت کی شمع اپنے سینوں میں فروزاں کیے ہوئے ہیں اور اپنی مقدس دھرتی کی حفاظت ان کا بنیادی حق ہے۔ مزاحمتی تحریک اپنا دینی فریضہ سمجھتی ہے کہ وہ غاصبوں کے ہاتھوں سے انہیں حقوق واپس دلائے، اور انہیں ظالمانہ تشدد سے نجات دلائے۔
- 9 ماہ بعد ہم پورے عالم کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں یہ معرکہ ان کے لیے بہت بڑی تباہی کا سبب بن چکا ہے۔ یہ اس دشمن کے خلاف جدوجہد ہے جو دشمنی کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانےکے درپے ہے۔
- صہیونی حکومت کی دشمنی تمام حدود کو پامال کرتے ہوئے فلسطینی عوام کے وجود کا علی الاعلان انکار کر رہی ہے، اس ظلم کی پاداش میں ہمارے عوام غزہ میں اور قدس شریف میں ان کی عصبیت، انسانی نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں، جس کا پورا عالم مشاہدہ کر رہا ہے۔
- ہمارے عوام اس معرکہ کی سنگینی اور فلسطین کی آزادی کی تحریک میں اس کی اہمیت کا بھرپور ادراک رکھتے ہیں، جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ 9 ماہ کا ظلم و جبر بھی ان کے حوصلوں کو پست نہ کر سکا۔ وہ مزاحمتی تحریک کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، اور وہ مجاہدین کا حفاظتی حصار بنے ہوئے ہیں۔
- ہماری مزاحمتی تحریک کو 9 ماہ گزرنے کے باوجود دل شکستہ اور ضعف و کمزوری نے چھوا تک نہیں ہے، ان کے حوصلے بلند ہیں اور ان کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی۔ ہم اتنے طویل عرصہ سے کسی خارجی اسلحہ و دیگر جنگی آلات کی مدد کے بغیر دشمن سے برسرپیکار ہیں۔ جبکہ ہمارے عوام ثابت قدمی کے ساتھ زندگی کی بنیادی سہولیات کی محرومی کے سبب ظالمانہ، وحشیانہ درندگی اور نسل کشی کا سامنا کر رہے ہیں۔
- غزہ نے آزادی کی تاریخ میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے، اور یہ کہ جبر و استبداد کے خلاف برسرپیکار تمام قوموں کے لیے غزہ ایک مثالی تربیت گاہ / مدرسہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایک غیرت مند اور باوقار قوم کیا ہوتی یہ غزہ نے دنیا کو سکھایا ہے۔
- اے اہل غزہ، ملت اسلامیہ، دنیا کے باضمیر لوگو! ہمارے نہتے اور غیور عوام پچھلے نو ماہ سے انتہائی جرأت و بہادری سے اس دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں، جو ہر طرح کے جدید اسلحے سے لیس ہے، وہ سمندر، خشکی اور فضا سے اہل غزہ پر مسلسل آہن و بارود کی بارش کر رہا ہے، جسے امریکا، بریطانیا جیسی طاغوتی قوتوں کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔
- آزمائش و ابتلاء کی طویل ساعتوں اور دشمن کی سفاکیت و بربریت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کے باوجود ہمارے مجاہدین ایک ایسے دشمن سے معرکہ آراء ہیں جو ہر طرح کی انسانی اخلاقیات سے عاری ہے، جو اس جنگ میں ہر طرح کے مکر و فریب کا سہارا لیے ہوئے ہے۔
- غزہ کے شہریوں کو بظاہر محفوظ جگہوں کی طرف ہجرت پر آمادہ کرتا ہے، اور پھر ان کے قافلوں پر آہن و بارود کی بارش کر دیتا ہے۔ اس وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں ہسپتال، بین الاقوامی تنظیموں کے دفاتر، مدارس، کیمپ، تاریخی مقامات، مساجد ، کنائس، مقبرے، لائبریریاں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ اور ان کی سفاکیت و مکروفریب پوری دنیا کے سامنے آشکارا ہو چکی ہے۔ یہ سب جان لیں جارح استعمار کا کوئی مستقبل نہیں ہے، اور یہ سب تاریخ کے کوڑے دان کا مستقبل ہوں گے۔
- غزہ میں اسرائیلی جارحیت کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے۔ دنیا نے انسانی حقوق کی تنظیموں کا دوغلاپن، اور ان کے دوہرے اخلاقی معیار بھی دیکھ لیا ہے۔
- ہمارے مجاہدین جنگی آلات و وسائل میں جدت کے ساتھ ساتھ ایمانی روح سے حامل ہو کر جدوجہد کر رہے ہیں، ان کے اس عمل نے صحابہ کرامؓ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھوں سے ایسی کرامتوں کا ظہور فرما رہے ہیں جس کے وصف کو بیان کرنے سے لسان عاجز ہے۔ اللہ رب العالمین نے سچ فرمایا: اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دکھا دیں گے، یقیناً اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔
- اللہ کے فضل و کرم سے ہمارے 24 دستے 9 ماہ سے بیت حانون کے کنارے سے لے کر رفح کے جنوب تک دشمن سے قتال کر رہے ہیں، اس جہاد میں ہمیں دیگر مزاحمتی تحریکوں کا تعاون بھی حاصل ہے، جو ہمیں افرادی قوت و اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔
- ہمارے دستوں کا دشمن سے بارہا مقابلہ ہو چکا ہے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ لیکن ہمارے مجاہدین پہلے کے مقابلے میں زیادہ مؤثر حکمت عملی کے ساتھ پیش قدمی کر رہے ہیں، ہماری قیادت نے اس مقدس جہاد میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں۔ لیکن جہاد کا علم بلند و بالا ہے، اللہ کے حکم اور اس کی مدد سے کوئی بھی طاقت اس کو سرنگوں نہیں کر سکے گی۔
- دشمن یہ جان لے کہ غزہ میں اس کے لیے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے، وہ ہاری ہوئی جنگ لڑ رہے ہیں، کرایے کے فوجیوں اور بزدلوں کی طرح چھپنے والے کوئی جنگ جیت نہیں سکتے۔
- دو ماہ سے رفح میں اور دو ہفتوں سے شجاعیہ میں ہمارے مجاہدین پامردی کے ساتھ دشمن کی ناک میں دم کیے ہوئے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ غزہ کے شمال، وسط اور جنوب میں دشمن کی راتوں کی نیند اڑا دی ہے، اور ہمارے مزاحمت کاروں اور اس کے نوجوانوں نے ہر محاذ پر دشمن کو ذلت و رسوائی سے دوچار کیا ہوا ہے۔
- اس معرکہ کے دوران اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور اس کے جنگی امور کے وزیر کی دھوکہ دہی اور چالبازی بھی سامنے آچکی ہے، جو اپنے عوام کو یہ امید دلا رہے تھے کہ رفح پر حملہ مزاحمت کاروں کے خلاف فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ تاہم اسرائیل شہریوں پر بمباری اور ان کے قتل عام کے علاوہ کوئی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔
- مزاحمتی تحریک کے زیر سایہ مجاہدین کی جانب سے رفح سے دشمن کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان کے آلات جنگ تباہ و برباد کیے جا چکے ہیں، گھات لگا کر ان کی عسکری قوت کو کمزور سے کمزور تر کیا جا رہا ہے، اور جہاں بھی اسرائیل نے نیا محاذ کھولا اسے وہاں بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
- اللہ کے حکم سے مجاہدین کی جانب سے یہ کاروائیاں قابض دشمن کی فوج کے لیے اس کی موت کا پروانہ ثابت ہوں گی، وہ غزہ سے ذلیل و رسوا ہو کر نکلیں گے۔
- دشمن سے مبارزت میں نتیجے میں ہمارے مجاہدین کے لیے اللہ کے فضل سے قتال کے میدان میں ثابت قدمی اور پختہ عزائم کا سبب بن چکی ہے۔ اور انتقام کی آگ جس کو دشمن نے اپنے جرائم و وحشیت سے بڑھکایا ہے، ان کو زمین بوس کرنے اور ان کے منصوبوں کو ہواؤں میں اڑانے کا سبب بن چکی ہے۔
- اس مزاحمتی تحریک کے زیر سایہ ایک ایسی نسل وجود میں آچکی ہے جو جذبہ جہاد اور قوت ایمانی سے لیس ہے۔ اور یہ دشمن کے خلاف ایک ایسی حکمت عملی ہے جس کا ادراک اس کو بعد میں ہوگا۔
- ہم اس امر کا اعلان کرنا چاہتے ہیں اللہ کے فضل و کرم سے کتائب القسام کے پاس افرادی قوت کی کمی نہیں ہے، اللہ کی مدد سے ہزاروں مجاہدین میدان قتال میں اتارے جا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ ہزاروں اس عظیم معرکہ میں شرکت کے لیے قیادت کے حکم امر کے منتظر ہیں۔
- اس عرصہ میں اپنی جنگِ حکمت عملی کو بڑھانے کا بھی موقع ملا ہے۔ یہ ایک جامع پروگرام ہے، جس میں بارودی سرنگیں بچھانا، میزائل تیار کرنا، دشمن کے چھوڑے ہوئے اسلحہ اور میزائلوں کو قابل استعمال بنانا شامل ہے۔
- ہم ہر محاذ پر دشمن سے ٹکرانے کے لیے تیار ہیں، ہماری قوت کا اندازہ شاید ہمارے دشمن کو نہیں ہے۔
- اسرائیلی عوام بالخصوص صہیونی قیدیوں کے خاندانوں کو ہم یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ نیتن یاہو جس کامیابی کا ڈھول پیٹ رہا وہ محض دنیا کو دھوکہ دہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ صرف ذاتی کامیابی اور حکومت پر طویل عرصہ تک براجمان رہنے کے لیے تمہاری اولاد کو قربان کر رہا ہے۔
- تمہارے وہ لوگ جو ہمارے قبضہ میں ہیں ان کو آزاد کرانے کے لیے نیتن یاہو اور اس کے وزراء کا مقصد تمہارے ساتھ چالبازیاں کرنا ہے۔ نیتن یاہو حقائق سے فرار اختیار کر رہا ہے، جس کا پچھتاوا اس کو پوری زندگی ہوگا۔
- سات اکتوبر سے اب تک خفیہ خبر رساں اداروں نے اسرائیلی کی عسکری قوت کو پہنچنے والے زبردست نقصان کی جو رپورٹ پیش کی ہے جو سب کے علم میں ہے، گو کہ یہ اعلان کردہ نقصان اس حقیقی نقصان کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے، جس کا انکشاف ہم جلد ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے کریں گے۔
- مقبوضہ مغربی کنارے، بالخصوص جنین، نابلس اور قدس شریف میں جو مزاحمت کی تحریک پھوٹی ہے وہ غزہ کے عزائم کے لازوال جدوجہد کا نتیجہ ہے، یہ جدوجہد غاصب صہیونی ریاست کی ان کاوشوں کے خلاف ہے جو فلسطینیوں کے وجود کو ختم کر کے ان کی سرزمین کو یہودی ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔
اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۱)
محمود الحسن عالمیؔ
"ناطوری کارتا"یہودیوں کا وہ مذہبی مکتب فکر ہے کہ جو قیام اسرائیل 1948ء سے لے کر آج تک نہ صرف یہ کہ ریاست و حکومت اسرائیل کا سخت مخالف ہے۔بلکہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے تقریباً عین وہی موقف رکھتا ہے کہ جو اِس وقت پوری اُمت مسلمہ کا ہے۔یعنی اہل فلسطین مسلمانوں کا نہ صرف یروشلم،مسجد اقصٰی و گنبد صخرہ پر حق ہے بلکہ تمام فلسطینی مسلمان اُس ساری سرزمین فلسطین پر بھی عین حق ملکیت رکھتے ہیں کہ جو تقسیم فلسطین1948ء سے پہلے اپنی وسیع سرحدی حدبندیوں کے ساتھ قائم ودائم تھی۔
ناطوری یہود کا مسئلہ فلسطین کے حوالے یہ موقف اپنے فکری پس منظر میں یہ دو بنیادی عقائد رکھتا ہے۔اول یہ کہ اِس ناطوری فرقے کے مذہبی عقیدے کے مطابق یہودی مذہبی کتب کی مستند آیات و اقوال سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہودی مسیحا کے آنے سے پہلے تک کسی بھی سطح پر یہودیوں کا ایک قومی یا اجتماعی نظم قائم کرتے ہوئے یہودی ریاست بنانا سخت حرام ہے کیونکہ خدا نے قرب قیامت میں مسیحا کی آمد سے پہلے تک یہودیوں کے مقدر میں بطورِ سزا در بدر کی خاک نشینی لکھ دی ہوئی ہے۔لہذا اِسی سارے مقدمے کی بنیاد پر صہیونیت نواز مملکتِ یہود ”اسرائیل“ کا قیام اصل میں خداوند یکتا کے خلاف اعلانِ جنگ، نافرمانی اور صریح بغاوت ہے۔
دوم یہ کہ یہ یہودی فرقہ"ناطوری کارتا" اسرائیلی حکومت و اقتدار کی حامل قومی تحریک"صہیونیت" کا بھی سخت نظریاتی مخالف اؤر عملی دشمن ہے حتیٰ کہ یہودی مذہبی کتب کی تعلیمات کی روشنی میں صہیونیت کو سرے ہی سے مذہبِ یہودیت سے خارج و مُرتد سمجھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ اپنی اِسی ایجنڈے کی تحریک تلے صہیونی اسرائیل کی طرف سے کیے جانے مظالم اور پورے صہیونی مکتب کی نہ صرف سخت ترین مذمت کرتا ہے بلکہ مختلف ذرائع جیسے اسرائیل مخالف اسلامی ممالک خصوصاً خطہء ایران و عرب کے مسلم رہنماؤں سے ملاقاتوں، پریس کانفرنسز ، لیکچرز ، انٹرویوز ، کتب و مضامین ، مغربی ممالک میں پُرزور احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کے ذریعے پُرزور عملی مزاحمت بھی کرتا ہے۔مُسلم ممالک کے رہنماؤں سے ملاقاتوں اور عالمی کانفرسزز میں شراکت کے حوالے سے خصوصاً " بین الاقوامی کانفرس برائے تجزیہ ہولوکاسٹ عالمی نقطہء نظر 2006ء "سے لے کر سابقہ سال 2023ء میں فلسطینی اسلامی جہاد (پی-آئی-جے) کے ممتاز عہدیداروں اور فلسطینی عسکریت پسندوں کے اہل خانہ سے ملاقاتیں قابلِ ذکر ہے کہ ان تمام تر ملاقاتوں اور کانفرنسز میں شراکت کے ردعمل کے طور پر ہر بار صہیونی اسرائیلی حکومت نے ناطوری یہود کے خلاف سخت ترین کاروائیاں عمل میں لائی ہیں۔بہرحال مغربی ممالک میں احتجاجی مظاہروں کے حوالے سے اسرائیلی ایامِ مظالم سے لے کر اسرائیل کے یوم آزادی تک اسرائیل و صہیونیت مخالف سخت نعرے ، تقریریں اور خصوصاً اسرائیلی و صہیونی نمائندہ پرچموں کو جلانا خاص طور پر قابل ذکر ہے۔جبکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے یوٹیوب ، فیس بُک ، انسٹا گرام اور ٹویٹر وغیرہ پر "ناطوری کارتا" نامی پلیٹ فارمز اور خصوصاً گوگل آفشل ویب سائٹس: https://www.nkusa.org قابلِ توجہ ہے۔
قارئین محترم ! شاید اب آپ اِس یہودی فرقے کے یہ حالات و واقعات ملاحظہ فرما کر سخت متجسس و حیران ہوگئے ہونگے۔لہذا آپ کی اِسی متجسس حیرت کے پیشِ نظر آئیے یہودیوں کے اِس "ناطوری فرقے" کے نظریاتی اور تاریخی وجود کو ٹٹولتے ہیں۔
یہود کے اِس فرقے"ناطوری کارتا"کی بطورِ ایک باقاعدہ عالمی تحریک کے بنیاد یہودی ربی(علامہ)"عمرام بلاؤ"اور ربی(علامہ )"ہارون کٹزینی-لبوگن" نے 1938ء میں رکھی۔تب سے لے کر آج تک یہ اپنے اسرائیل و صہیونیت مخالف ایجنڈے اور سرگرمیوں کے حوالے سے پوری دنیا میں مصروفِ عمل رہتی ہے۔اِس تنظیم کے موجودہ ترجمان”یسرائیل ڈاوِد وائس" ہیں۔ناطوری یہود کے ارکان پوری دنیا بالخصوص اسرائیل ، امریکہ و برطانیہ اور دیگر کئی اہم یورپی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔اِن کی درست تعداد کے بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مختلف ممالک میں منتشر ہونے کے باعث کھبی اِن کی باقاعدہ کوئی مردم شُماری ہی نہیں ہو پائی البتہ ناطوری کارتا اپنی آبادی کے حوالے سے اپنے ارکان کی تعداد اچھی خاصی بتاتے ہیں اور یہ پُر زور موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیلی کٹ پتلی مغربی ذرائع ابلاغ"میڈیا" جان بوجھ کر اِن کے نقطہء نظر کو دبانے کے لیے اِن کی زیادہ تعداد کو کم کر دیکھاتے ہیں۔
"ناطوری کارتا یہود" نے درج ذیل بالا اپنی آفشل ویب سائٹ پر سوالات جوابات پر مبنی انٹرویوز کو انگریزی مضامین کی شکل میں شائع کیا ہوا ہے۔اِن انٹرویوز میں چند بنیادی اور اہم سوالات و جوابات کا اُردو ترجمہ ذرا دِلوں کو تھام کر غور سے ملاحظہ فرمائیے:
(1) آپ کون لوگ ہیں ؟
ہم وہ بنیاد پسند یہودی ہیں کہ جو اصل یہودی قدیم عقائد اور تورات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
(2)آپ کا مقصد کیا ہے؟
ہمارا مقصد دنیا کو اُس حقیقت سے آگاہ کرنا ہے کہ جو ہر کوئی نہیں جانتا،یعنی یہ حقیقت کہ اصل یہودیت صہیونیت کے تصور اور صہیونی ریاست دونوں سے ہرگز متفق نہیں ہے۔بلکہ یہودیت اور صہیونیت دونوں ایک دوسرے سے ایسے ہی متضاد ہیں جیسے دن اور رات۔
(3) کیا یہ سچ ہے کہ سر زمین مقدس( یعنی فلسطین ) کے حوالے سے ناطوری کارتا نامی عالمی تنظیم فلسطینیوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتی ہے؟
بالکل، کہ ہمارا جواب واضح طور پر "ہاں" ہے۔البتہ اِس جواب کے سلسلے میں حفظ ما تقدم کچھ پیشگی وضاحت درکار ہے۔ ہم بنیادی طور پر ایک صہیونیت مخالف بنیاد پسندانہ تنظیم ہے۔لہذا ہمارا صہیونیت کے ساتھ تنازعہ بھی کئی سطحوں پر ہے:
1۔ سب سے پہلے یہ کہ صہیونیت اصل یہودی مذہب و روحانیت سے یہودی وطن پرستی اور مادیت پرستی کی طرف ایک ہجرت کا نام ہے۔
2۔صہیونیت نے فلسطینی عوام کے ساتھ انتہائی بُرا سلوک برتتے ہوئے سنگین اخلاقی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
3۔ خداوند یکتا نے ہمیں یہودی مسیحا کے آنے تک جلا وطنی کا حکم دیتے ہوئے یہ پہلے ہی فرما دیا تھا کہ اب دوبارہ کوئی یہودی ریاست بنانا ہم پر عین حرام ہے۔
4۔"نظریہء صہیونیت الٰہی آزمائش و سزا سے بغاوت کرتے ہوئے سرزمینِ فلسطین پر یہودی ریاست کا قیام عمل میں لاتا ہے۔تو آپ اِسی بات سے یہ اندازہ لگائیے کہ اِس خدائی نافرمانی و بغاوت کے مرتکب اِس صہیونی گروہ کی روحانی حالت کیا ہوگئی کہ اُنھوں نے یہودیوں کی جلاوطنی کے الہامی حکم کو محض چند دنیاوی مفادات کی خاطر کُچل ڈالا۔
5۔ " صہیونیت" نے اصل یہودی روایتی عقائد کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ایڑی سے لے کر چوٹی تک کا زور لگایا ہے۔
(4)آپ کس چیز کی وکالت کرتے ہیں؟
ہم بغیر کسی سمجھوتے و مصالحت پسندی کے"اسرائیل" کی ریاست کا پُرامن خاتمہ چاہتے ہیں کہ جب ایک بار ریاست اسرائیل کا خاتمہ ہوجائے تو پھر یہ بات مکمل طور پر ہم فلسطینی رہنماوں اور عوام پر چھوڑتے ہیں کہ وہ وہاں کتنے یہودیوں کو رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔
(5) کیا آپ اِپنی اس تجویز سے ڈرتے نہیں کہ آپ کی اِس تجویز سے سرزمین مقدس پر رہنے والے یہودیوں پر کیا نتیجہ اثر انداز ہوگا؟
واقعی ہی ہم ڈرتے ہیں لیکن اِس موجودہ مایوسانہ صورت حال میں(اپنی ہی آستینوں کے سانپ)اِن صہیونی یہودیوں سے کہ جنھوں نے سابقہ تقریباً 7 دہائیوں میں لاتعداد جنگوں اور نہ ختم ہونے والی دہشت گردی کے ذریعے دونوں اطراف میں بے گناہ شہریوں کو مارنے کے باوجود"مسلہء فلسطین" کا کوئی حل نہیں سُلجھایا کہ دائیں اور بائیں دونوں ہاتھ کے اسرائیلی(یعنی موجودہ سیاسی حکومت اسرائیل و سیاسی حرب اختلاف اسرائیل) دونوں اِس صورتحال کو سُلجھانے میں انتہائی بُرے طریقے سے ناکام رہے ہیں۔لہذا ہم اِن کی اِسی ناکامی کے پیشِ نظر یہ متبادل حل پیش کر رہے ہیں کہ جو بے شک (اسرائیلی عام یہودیوں کے لیے عارضی طور پر ) ایک الم ناک تجربہ ہوسکتا ہے۔
(6)لیکن کیا یہودی ایک وطن کے مستحق نہیں ہے ؟
ہرگز نہیں، کہ تقریباً ایک ہزار نو سو سال تک یہ عقیدہ یہودی مذہب کا ایمان کامل تھا کہ ہمیں کسی بھی قسم کی عسکری قوت کے ذریعے کسی بھی خطہء زمین پر دعویٰ ملکیت ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔مطلب یہودی اِس عقیدے پر یقین رکھتے تھے کہ دنیا کے آخری دِنوں (یعنی قرب قیامت میں) جب خالق کائنات تمام بنی نوع انسانی کی نجات کا ارادہ فرمائے گا تو تب تمام بنی نوع انسانی اِس کی عبادت میں شریک ہوجائے گئی۔لہذا اِس عبادت کے اہتمام میں ہمیں کسی بھی قسم کے لوگوں کو بے دخل کرنے یا محکوم بنانے کی ضرورت ہرگز نہیں ہے۔پس یہی وہ وقت ہوگا کہ جب سرزمین مقدس"فلسطین "میں عالمی بھائی چارے کا ایک روحانی مرکز قائم ہوگا۔ اُس وقت سے پہلے یہودیوں کو اپنی جلا وطنی کے عرصے میں خاص اعمال سونپے گئے ہیں۔
(7)اور وہ حاض اعمال کیا ہیں ؟
یہی کہ یہودی اپنے پورے ایمان و خلوص کے ساتھ اپنی جلاوطنی کا اقرار کرئے اور اپنے قول و فعل سے ، خاموشی و انکساری کی روش اپنائے۔اخلاقی اور روحانی مقام و مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش کرئے اور عام طور پر تورات کی تلاوت کرتے ہوئے خداوند یکتا کے حضور بندگی بجا لاتے نمازیں پڑھے اور دیگر نیک اعمال بجا لائے۔
(8)آپ نے اِس مقصد کے لیے کیا کیا کوششیں کی ہیں؟
خداوند قادر مطلق کی مدد و نصرت سے ہم نے فلسطینی دعووں کی حمایت اور اُن کے دکھ درد میں اظہار ہمدردی کے لیے اکثر کئی بیانات شائع کیے ہیں۔ہم ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کے طور پر شریک ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں خصوصی طور پر یہودی اور اسلامی دنیا میں عوامی رابطے برقرار رکھنے کی کوششیں کی گئی ہے۔تاکہ خداوند قادر مطلق کی مدد سے عملی طور پر یہودیوں کی مقدس روایات اور صہیونیت مخالف تورات کو فراموش نہ کیا جاسکے۔پس خداوند یکتا کی مدد سے ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں تورات کی صحیح تعلیمات پر مبنی راستے کا دُوبارہ احیاء ہو جائے گا۔
(9)امن و امان کے قیام کے لیے (فلسطین و اسرائیل کے مابین)اوسلو معاہدے،سڑکوں کے نقشے اور انیپولس معاہدے کو آپ کس زاویہء نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟
مصیبت زدہ فلسطینیوں کے لیے کسی بھی قسم کی کوئی مدد اُس اخلاقی ضمیر کی چھوٹی سی فتح کا ثبوت ہے کہ جس(اخلاقی ضمیر) کا حامل ہر یہودی کو ہونا چاہیے۔تاہم قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام تر منصوبے نیک نیتی پر قیاس کرنے کے باوجود آخرکار عمل کرنے کے وقت برباد ہو جاتے ہیں۔
یہودیوں کو سرزمینِ مقدس پر سیاسی حاکمیت کے حوالے سے زور آزمائی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔تمام انسانوں کے ساتھ امن و امان قائم رکھنے اور کسی بھی انسان پر ظلم کرنے سے منع کیا گیا تھا۔لہذا اِن احکام کی روشنی میں تمام یہودیوں پر اب یہ لازم ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی مکمل بحالی کرتے ہوئے سارے فلسطین کو آزاد کر دئے۔کہ یہی آزادی صہیونی تحریک کی بد نامی اور عملی ناکامی کا مقدر بنے گئی۔
(10)اسلامی دنیا کے لئے یہودی نقطہ نظر کیا ہونا چاہیے؟
یہودیوں کو تمام انسانوں کے ساتھ اخلاق اور ایمانداری کے ساتھ نمٹنے کے لیے کہا گیا ہے۔اگرچہ صہیونیت نے بہت سے یہودیوں کو فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت پر مبنی کاروائیوں میں گمراہ کیا ہے۔لہذا اِس بات کا اہتمام تمام یہودیوں کو بہترین طور پر کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اِس قومی صورتحال کی اصلاح کے پیشِ نظر تمام اسلامی اقوام اور(بالخصوص) فلسطینی عوام سے امن ، مفاہمت اور مذاکرات کے لیے ذریعے رابطے قائم کرئے۔کہ یہ بات یہودیوں کے سامنے یہ ایک عظیم روحانی آزمائش کا درجہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ کتنے اچھے اخلاقی تعلقات قائم کر کے دیکھاتے ہیں۔
(11)حقیقت پسندی کے تناظر میں بات کرتے ہوئے یہ بتائیے کہ کیا آپ کے اِس سارے پروگرام میں عمل درآمد کا بھی کوئی امکان ہے؟
اول تو یہ کہ بےشک خالق کائنات ہی اِس دنیا کو چلاتا ہے، پس یہ اُسی کی حمایت و نصرت کے ساتھ سب کچھ ممکن ہے کہ حق و انصاف بالآخر غالب آجائے۔
دوم یہ کہ دنیا بھر کے یہودیوں میں اسرائیلی ریاست اور صہیونیت دونوں کے لیے بالعموم بیزاری اور تھکن کے شدید احساسات و جذبات پائے جاتے ہے کہ بہت سے یہودی سمجھتے ہیں کہ(روحانی و اخلاقی سطح پر) صہیونیت کی پیروی کے اصول اُنھیں بارہا ایک کے بعد دوسری موت جیسی کڑی اذیت میں مبتلا کر رہے ہیں۔لہذا وہ کسی دوسرے (برحق) راستے کے لئے در در بھٹک رہے ہیں۔( پس یہ وہی برحق راستہ ہے) کہ جو ہمارا راستہ ہے۔ہمارا راستہ خالصتاً یہودیت کی قدیم روایت سے ملحق بہت سے یہودیوں میں تیزی سے ایک معقول دلیل کے طور پر اُبھر کر سامنے آرہا ہے۔ پس وہ دن بھی نوٹ فرما لیجیے کہ شاید یہ دن اب بہت دُور مستقبل نہیں کہ خالق کائنات کی مدد سے ہم یہ دعا اور اُمید رکھتے ہیں کہ جب نہ ہی کسی یہودی کا خون بہایا جائے گا اور نہ ہی کسی عرب کا۔یقین جانیے! کہ ہم اُس دن کے سچ ہونے کے انتظار میں تڑپ رہے ہیں۔کہ جب بہت سے یہودیوں کو یہ احساس ہوگا کہ یہودیوں کے لیے امن و امان کا واحد اصل راستہ جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے تفویض کردہ(اخلاقی و روحانی)اعمال کی طرف لوٹنے ہی سے خاص ہے اور اخلاقیات،سلامتی و ایمانداری کی بحالی کے لیے خالق کائنات کی شرک سے بالکل پاک عبادت اور عقیدت سے ہی مشروط ہے۔
بالآخر ہم یہی چاہتے ہیں اور اُس دن کے لئے دعاگو بھی ہیں کہ جب سارے عالم کے لیے کی گئی ہماری دعائیں رنگ لاتے ہوئے ہمیں وحدت کا وہ منظر دیکھائی گئی کہ جب تمام اقوام عالم پورے خلوصِ دل کے ساتھ ایک ہوگئی۔" جیسا کہ زبور مقدس میں فرمایا گیا ہے "تمام قومیں اور حکومتیں مل کر حق تعالیٰ کی عبادت کے لیے جمع ہوںگی۔"(102:23)۔خدا ہم سب کو یہ دن جلد دیکھائے۔آمین۔
(12)صہیون کیا ہے اور صہیونیت کیا ہے؟
صہیون ایک نام ہے جو تورات میں یروشلم کے لیے استعمال ہوا ہے۔جبکہ صہیونیت وہ نام ہے جسے 1890ء کی دہائی میں قائم ہونے والی غیر مذہبی یہودیوں کی ایک تحریک نے اپنایا۔اِس تحریک کا مقصد یہودیت کے معنی کو بدلنا اور یہودی تاریخ کے دھارے میں انقلاب لانا تھا۔ عرض یہودیت کے مفہوم کو روحانیت، مذہب اور تقدس سے مادیت پسندی اور قوم پرستی میں تبدیل کرنا اور خداوند مطلق کو مکمل طور اپنی ترجیحات سے ہٹانا تھا۔ انہوں نے یہودیوں کی جلا وطنی کے مسئلے کے لیے بدعت پر مبنی ایک عسکری اور سیاسی نوعیت پر مبنی حل پیش کیا اور پھر فلسطین کی غیر یہودی مسلم آبادیوں کے حقوق کی پرواہ کیے بغیر ایک بڑے پیمانے پر یہودی آبادیوں کو فلسطین میں لا کر آباد کر دیا۔فلسطینی مسلم آبادیوں کی بیح کنی کرنے کے لیے فوجی حکمت عملی سے کام لیا گیا۔
حتیٰ کہ یہ جھوٹا دعویٰ تک کر ڈالا کہ صرف اُن کی تحریک یعنی صہیونیت پر قائم رہنا ہی یہودی ہونے کا معیار ہے آگر کوئی اس تحریک سے بغاوت کرئے گا تو وہ یہودی قوم اور یہودیت دونوں سے بغاوت کرنے کا مرتکب ہوگا یعنی اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا کوئی شخص خداوند یکتا اور اس کی تورات پر ایمان رکھتا ہے کہ نہیں ؟ فرق بس اِس سے پڑتا ہے کہ وہ صہیونیت سے وفادار ہے کہ نہیں؟
1948ء میں صہیونیوں نے اپنا مقصد حاصل کرتے ہوئے فلسطین میں ایک ریاست کی بنیاد رکھی اور تقریباً 750,000 فلسطینیوں کو یوں اکھاڑ پھینکا گیا کہ ان کی زمینیں تک ضبط کرلی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت صہیونیوں کے ہاتھوں 12000 کے قریب عرب ہلاک ہوئے، اور کئی فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا۔ظلم و بربریت کی آخری حدوں کا اندازہ آپ اِس بات سے لگائے کہ اُس وقت کے ایک فوجی کمانڈر” موشے دیان“ نے عرب فلسطینیوں کو اُن کے گاؤں سے نکالنے کے لیے اُن کے گھروں کو بلڈوز کرنے، اور پانی کے کنوؤں کو ٹائفس اور پیچش جراثیموں(مہلک امراض) کے ساتھ ناقابل استعمال بنانے کا حکم دئے دیا۔
نئے تارکین وطن(یہودیوں ) کو اپنے نئے صہیونی نظام کے ساتھ جذب کرنے کے لیے طرح طرح کے جال بچھاتے ہوئے برین واشنگ کی گئی۔ یہاں تک کہ مذہبی برادری میں بھی صہیونیت نے قدم جماتے ہوئے کچھ یہودیوں کو اِس بات پر قائل کیا کہ یہودیوں کی جلاوطنی کو فوجی طاقت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ برین واشنگ کی تکنیک سے یہودیوں کو یہاں تک باور کرواتے ہوئے خوف زدہ کیا گیا کہ عرب نازیوں کی طرح یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور عرب تمام یہودیوں کو سمندروں میں غرق کردئے گے،یعنی بنیادی طور پر دوسرے ہولوکاسٹ کا جعلی فوبیا پھیلایا گیا۔
خداوند یکتا کا شکر ہے کہ یہودیوں کا ایک اہم طبقہ صہیونیت کا شکار نہیں ہوا اور وہ تورات کے قوانین کو برقرار رکھتے ہوئے صہیونیت اور ریاست "اسرائیل" کی مکمل مخالفت میں کھڑے ہیں۔
آج تک فلسطین پر صہیونیوں کا قبضہ جاری ہے۔ ان کی جنگجوانہ پالیسیوں نے پوری دنیا میں یہودیوں اور غیر ملکی تعلقات پر دباو ڈالا ہے۔ صہیونیت آج عالمی سطح پر سامیت دشمنی(یہود دشمنی) کو بڑھانے کا سب سے بڑا محرک ہے۔
(جاری)
گزشتہ دہائی کے دوران عالمی فوجداری عدالت کے ساتھ اسرائیل کی جھڑپیں
الجزیرہ
غزہ کی حالیہ جنگ کے تناظر میں اسرائیل اور عالمی فوجداری عدالت (ICC) کے درمیان 2015 سے لے کر آج تک کے تنازعہ کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
مارچ 2021 میں ICC کے پراسیکیوٹر فاتو بنسودا نے فلسطین میں اسرائیل کے مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات شروع کرنے کا اعلان کیا۔
اس کے جواب میں اسرائیل کے اس وقت کے جاسوسی (ادارہ) کے سربراہ یوسی کوہن نے عدالت کے خلاف اس خفیہ جنگ کو تیز کر دیا جو اسرائیل 2015 میں فلسطین کی ICC میں شمولیت کے بعد سے چھیڑ رہا ہے۔
بنسودا کو "ذاتی طور پر خطرہ" محسوس ہوا جب کوہن نے نگرانی اور دھمکی کا استعمال کرتے ہوئے اسے فلسطین کیس کی تحقیقات سے باز رکھنے کی کوشش کی۔
اسرائیل نے ICC کے ’’روم سٹیٹیوٹ‘‘ پر دستخط نہیں کر رکھے، اور نہ ہی اس کے اتحادی امریکہ نے کیے ہیں، لیکن ICC کی طرف سے گرفتاری کا وارنٹ اس کے رہنماؤں کے لیے زندگی مشکل بنا سکتا ہے۔
نگرانی کی کارروائیوں سے لے کر عوامی مذمت تک، ICC پر اسرائیل کے ’’اقدامات‘‘ کا خلاصہ یہ ہے:
7 جنوری 2015
یہ اعلان کیا گیا کہ فلسطین ICC کا ایک ریاستی فریق بننے کے لیے تیار ہے، جس سے علاقے پر ICC کا دائرہ اختیار قائم ہو گا۔ اسے یکم اپریل 2015 کو حتمی شکل دی گئی۔
16 جنوری 2015
ICC کے پراسیکیوٹر فاتو بنسودا نے "فلسطین کی صورتحال" کا ابتدائی جائزہ شروع کیا۔
17 جنوری، 2015
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بنسودا کے فیصلے کو "مضحکہ خیز" قرار دیا۔
فروری 2015
ہیگ میں بنسودا کی رہائش گاہ پر دو نامعلوم افراد آئے اور اسے نقد رقم اور ایک اسرائیلی فون دیا، یہ کہتے ہوئے کہ یہ ایک نامعلوم جرمن خاتون کا تحفہ ہے۔ 28 مئی 2024 کو شائع ہونے والی گارڈین کی تحقیقات کے مطابق ICC نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ممکنہ طور پر اسرائیل کا بنسودا کو یہ بتانے کا طریقہ تھا کہ "انہیں پتہ ہے کہ وہ کہاں رہتی ہے"۔
2019-2017
ممتاز اسرائیلی وکیل اور سفارتکار ٹال بیکر کی قیادت میں ایک اسرائیلی وفد نے ICC کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کیں، جس میں 2015 میں شروع ہونے والی تحقیقات کے سلسلے میں فلسطین پر بنسودا کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا۔
20 دسمبر 2019
بنسودا نے اعلان کیا کہ فلسطین کی صورتحال کے ابتدائی جائزہ میں یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے ایک "مناسب بنیاد" ملی کہ اسرائیل اور فلسطینی مسلح گروپوں نے مقبوضہ علاقے میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے، اور یہ مقدمہ تحقیقات کے آغاز کے لیے روم کے آئین کے تحت تمام معیارات پر پورا اترتا ہے۔
2021-2019
اس وقت موساد کے ڈائریکٹر کوہن نے بنسودا کو تحقیقات کے خلاف قائل کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ بنسودا نے رسمی طور پر ICC کے اندر گنے چنے لوگوں کے سامنے انکشاف کیا کہ انہیں "ذاتی طور پر دھمکی" دی گئی تھی۔
2021-2019
موساد کی سرگرمیوں سے واقف پانچ ذرائع نے ’’گارڈین‘‘ کو بتایا کہ جاسوسی ایجنسی بنسودا اور اس کے عملے اور فلسطینیوں کے درمیان فون کالز کو باقاعدگی سے سنتی ہے۔ اسرائیلی کارندوں نے ICC کے ساتھ رابطے میں رہنے والے فلسطینی گروپوں کی ای میلز کو بھی ہیک کیا۔ موساد نے بنسودا کے شوہر، جو کہ گیمبیائی مراکشی تاجر ہیں، کے ریکارڈنگ ٹرانسکرپٹس کی خفیہ نقلیں بھی حاصل کیں۔
مارچ 2020
مبینہ طور پر اسرائیلی حکومت کے ایک وفد نے واشنگٹن ڈی سی میں سینئر امریکی حکام کے ساتھ ICC کے خلاف "مشترکہ اسرائیلی امریکی جدوجہد" کے بارے میں بات چیت کی۔
جون 2020
سینئر امریکی حکام نے کہا کہ وہ ICC حکام پر پابندیاں عائد کریں گے، اور کہا کہ ان کے پاس "پراسیکیوٹر کے دفتر کی اعلیٰ ترین سطح پر مالی بدعنوانی اور خردبرد" کے حوالے سے چھپائی گئی معلومات ہیں۔
فروری 2021
بنسودا نے ICC پراسیکیوٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور کریم خان نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔
3 مارچ 2021
بنسودا نے تصدیق کی کہ ICC نے "فلسطین کی صورتحال" کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
2 اپریل 2021
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مدت کے دوران بینسوڈا پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔ تاہم امریکہ نے واضح کیا کہ وہ فلسطین سے متعلق ’’ICC کے اقدامات سے سختی سے غیر متفق " ہونے کی پالیسی جاری رکھیں گے۔
8 اپریل 2021
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے فلسطین کے اندر ICC کے اختیار کو تسلیم نہیں کرتا۔
30 اپریل 2024
نیتن یاہو نے وارنٹ کی درخواستیں دائر ہونے سے پہلے "آزاد دنیا کے رہنماؤں" سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی حکام کے خلاف ICC کے ممکنہ وارنٹ گرفتاری کی مخالفت کریں۔
20 مئی 2024
2021 میں شروع ہونے والی تحقیقات کی تکمیل بنسودا کے جانشین (کریم) خان کے ہاتھوں ہوا، جس میں نیتن یاہو اور اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ کے ساتھ حماس کے تین رہنماؤں یحییٰ سنوار، محمد دیاب ابراہیم المصری اور اسماعیل ہنیہ کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ کی درخواست کی گئی۔ اپنے بیان میں خان نے کہا: "میں اصرار کرتا ہوں کہ اس عدالت کے عہدیداروں کو روکنے، ڈرانے یا غلط طریقے سے زیر اثر لانے کی تمام کوششیں فوری طور پر بند ہونی چاہئیں۔"
21 مئی 2024
نیتن یاہو نے گرفتاری کے وارنٹ کو غزہ پر اسرائیل کی جنگ میں مداخلت کی "شرمناک کوشش" قرار دیا۔
29 مئی 2024
نیتن یاہو نے کہا کہ وہ بائیڈن کے ICC کے خلاف پابندیوں کی حمایت کرنے سے انکار پر حیران اور مایوس ہیں۔ انہوں نے یہ بات سیریس ایکس ایم کے ’’ دی مورگن آرتاگیس شو‘‘ کے لیے ایک انٹرویو میں کہی، جو یکم جون کو نشر ہونے والا ہے۔ انٹرویو کی ریکارڈنگ ’’پولیٹیکو‘‘ نے حاصل کی تھی۔
https://www.aljazeera.com/news/2024/5/30/israels-clashes-with-the-icc-over-the-past-decade-a-timeline-of-events
اہلِ عرب کی غزہ سے لا پرواہی اور اس کی وجوہات
ہلال خان ناصر
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ء کو واقع ہونے والے طوفان الاقصیٰ سے لے کر اب تک غزہ میں تقریباً ۳۸ ہزار اموات واقع ہو چکی ہیں جن میں سے ۱۵ ہزار سے زائد اموات بچوں کی ہے، زخمی ہونے والے افراد کی تعداد ۸۸ ہزار کے لگ بھگ، جبکہ غزہ میں فی الوقت موجود عوام کی تعداد ۱۳ سے ۱۵ لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے۔ دن بدن اسرائیلی فوج کی بے رحمی بڑھتی چلی جا رہی ہے مگر اہلِ عرب کی طرف سے اہلِ غزہ کے حق میں کسی مؤثر ردعمل کا اظہار نہ تو فوجی اور نہ ہی معاشی طور پر نظر آرہا ہے۔ مزاحمت کی عدم موجودگی کے پیچھے حقیقت سمجھنے کیلیے یہ ضروری ہے کہ موجودہ عرب حکومتوں کے قیام اور ان کی تاریخ پر ایک نظر ڈالی جائے۔
جنگِ عظیم اول کے دوران خلافت عثمانیہ کا جرمن افواج کا ساتھ دینا برطانوی سلطنت کیلیے نقصان دہ ثابت ہوا۔ اس رکاوٹ کو ختم کرنے کیلیے انگریز حکومت نے وقت کے شریفِ مکہ حسین بن علی کے ساتھ ایک عرب سلطنت کا وعدہ کر کے ان کو خلافتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا۔ ۱۹۱۶ء میں یہ بغاوت برطانوی افواج کی مدد سے شروع ہوئی اور ۱۹۱۸ء تک شام، عراق، اردن، فلسطین اور حجاز کا علاقہ خلافتِ عثمانیہ سے چھین لیا گیا۔ مگر جنگ ختم ہونے کے بعد برطانیہ نے شریفِ مکہ کے ساتھ وعدہ خلافی کرتے ہوئے فلسطین اور عراق کے علاقے پر خود قبضہ کر لیا اور شام اور اردن کا علاقہ فرانس کے حوالے کر دیا۔ شریفِ مکہ کو صرف حجاز کی حکمرانی دی گئی جو کچھ ہی عرصہ کے بعد ۱۹۲۵ء میں عبد العزیز السعود نے چھین کر موجودہ سعودی عرب قائم کر لیا۔ فلسطین میں برطانیہ نے یہودی آباد کرنے شروع کر دیے جبکہ عراق، شام اور اردن میں اپنی من پسند کے حکمران بٹھا کر ان کو بادشاہت دے دی۔ چند سال تو امن رہا مگر اپنا دائرہ اقتدار بڑھانے کیلیے جب جنگِ عظیم دوم کے بعد ان ممالک کی آپس میں جنگیں بڑھنے لگیں تو ہر ملک نے دوسرے کے خلاف امریکہ سے مدد حاصل کرنے کیلیے تیل کے بدلے فوجی اور معاشی معاہدے شروع کر دیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ امریکی افواج اور کمپنیوں نے اپنا اثر و رسوخ اتنا بڑھا لیا کہ آج عرب ممالک کا دفاعی نظام امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر منحصر ہے۔ جن ممالک نے امریکی فوج کو اپنے ہاں جگہ دی ان کو امریکہ نے تحفظ فراہم کیا۔ اس وقت امریکہ کے ۳۰ سے زائد فوجی اڈے عمان، قطر، بحرین، کویت، عراق ، متحدہ عرب امارات، اردن اور سعودی عرب میں موجود ہیں۔ عراق جیسے جن ممالک نے خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش کی ان کی معیشت اور فوج کو تباہ کر دیا اور باقی ممالک کیلیے عبرت کا نشان بنا دیا۔
ان سب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دو بڑی وجوہات سامنے آتی ہیں:
۱) عرب ممالک اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ کا حصول ہے۔ اسرائیلی حکومت کا ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کا خواب جس میں اردن، شام، عراق اور سعودی عرب کا کافی حصہ شامل ہے، اب بھی ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا وقتا فوقتا ان کے وزراء اور افسران اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اس ایجنڈے کے تحت یہ ممالک بھی اسرائیلی عزائم کے شر سے محفوظ نہیں۔
۲) عرب ممالک کے بادشاہ اپنی بادشاہت کو برقرار رکھنے کیلیے اور عراق ثانی بننے سے بچنے کیلیے خاموشی اختیار کیے بیٹھے ہیں۔ جو افواج آج ان کی حفاظت پر مامور ہیں، کل کو امریکہ کے کہنے پر ان کی بادشاہت کو با آسانی بربادی میں بدل سکتی ہیں۔
اہل عرب کی خاموشی پر جہاں ان کو بے حس کہا جا سکتا ہے وہاں ان کا بے بس ہونا بھی نظر آتا ہے۔ جو ملک اپنے دفاع اور معاش کے فیصلے خود کرنے کے قابل نہیں وہ کسی اور کیلیے کیسے آواز اٹھا سکتا ہے؟ معاشی اور فوجی طاقت کے ذریعے ملک کو بے بس کرنے کا یہی حربہ اور بھی مسلمان ملکوں میں استعمال ہوتا نظر آرہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کی حفاظت فرمائے، آمین۔
خلیفۂ ثانی سیدنا فاروق اعظم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سید سلمان گیلانی
ہے روم کا میدان بھی میدان عمرؓ کا
ایران کی بھی فتح ہے فیضان عمرؓ کا
اب کعبے کے اندر ہی ادا ہوں گی نمازیں
روکے تو کوئی اب یہ ہے اعلان عمرؓ کا
ہیں نام عمرؓ سن کے لرزتے وہ ابھی تک
کفار پہ ہے دبدبہ ہر آن عمرؓ کا
اکرام دل و جان سے ایماں کی قسم ہے
کرتا ہے اک صاحبِ ایمان عمرؓ کا
تب سے نہ ہوا خشک ابھی تک یہ سنا ہے
ہے جب سے مِلا نیل کو فرمان عمرؓ کا
یہ دیکھ علیؓ نے کسے داماد بنایا
اے دشمنِ دیں نام تو پہچان عمرؓ کا
مداح ہے اصحابؓ کا ہر ذاکرِ حق گو
ہر شاعرِ برحق ہے حدی خوان عمرؓ کا
روضے میں رہوں یاروں کے ہمراہ میں تاحشر
اللہ نے پورا کیا ارمان عمرؓ کا
قرآن میں جو لفظ اشداء ہے آیا
دراصل اشارہ ہے یہ سلمان عمرؓ کا
(بشکریہ: ادارہ ارشاد المبلغین پاکستان)
’’شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ: شخصیت و افکار‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نحمدہ تبارک و تعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ العزیز کو متحدہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں ایک سنگم اور سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے جنہوں نے:
- تحریکِ آزادی کا رخ عسکری جدوجہد سے سیاسی جدوجہد کی طرف موڑا،
- حکومتِ الٰہیہ کے عنوان سے تحریکِ آزادی کا نظریاتی اور تہذیبی ہدف متعین کیا،
- قوم کے تمام طبقات کو تحریکِ آزادی میں شریک کرنے کی روایت ڈالی،
- مسلمانوں کے ماحول میں قدیم اور جدید تعلیم سے ہر دو طبقات کو مشترکہ جدوجہد کے راستے پر گامزن کیا،
- اور آزادی کی جنگ کو جنوبی ایشیاء کے دائرے تک محدود رکھنے کی بجائے عالم اسلام بلکہ ہم خیال عالمی قوتوں کو بھی اس میں شریک کار بنایا۔
آج بھی ملتِ اسلامیہ کی وحدت، مسلم ممالک کی آزادی و خودمختاری، شریعتِ اسلامیہ کی بالادستی اور استعماری قوتوں کے مکروہ عزائم کا راستہ روکنے کی جدوجہد میں حضرت شیخ الہندؒ کے یہ نقوشِ پا ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
میں نے خود کو ہمیشہ ولی اللہی فکر و فلسفہ اور شیخ الہندؒ کی عملی جدوجہد کا ایک کارکن سمجھا ہے اور اپنی فکری و عملی استطاعت کے دائرے میں اس کے لیے تگ و تاز میری سرگرمیوں کا محور رہی ہے۔ اس حوالے سے وقتاً فوقتاً لکھتا بھی رہا ہوں اور میرے بہت سے مضامین اخبارات و جرائد میں اشاعت پذیر ہوتے آ رہے ہیں۔ عزیزم حافظ خرم شہزاد سلّمہ ہمارے باذوق اور باہمت ساتھی اور سرگرم شاگرد ہیں، انہوں نے حضرت شیخ الہندؒ کے بارے میں میرے مضامین کو کتابی صورت میں جمع کرنے کی گراں قدر خدمت سرانجام دی ہے جس پر میں ان کا شکرگذار ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت انہیں جزائے خیر سے نوازیں اور ان کی اس کاوش کو زیادہ سے زیادہ نفع بخش بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
ابوعمار زاہد الراشدی
خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ
۱۳ مئی ۲۰۲۲ء
’’علم کے تقاضے اور علماء کی ذمہ داریاں‘‘
مولانا زبیر اشرف عثمانی
علم کی اہمیت اور اس کی فضیلت بالکل واضح اور دوٹوک ہے، انسان کو انسان بنانے والی چیز وہ علم ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو قرآن پاک کی تعلیم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روشناس کروایا، اللہ رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن پاک نازل فرمایا اور اس کی تعلیم کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قرآن پاک کی تعلیم اور اس کے معنی اور مطالب سکھائے۔ جب تک حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسلام قبول نہیں کیا تھا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت نبی کے مبعوث نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک عرب کا پورا معاشرہ ان کی تہذیب و تمدن، سخت ترین خلفشار، گمراہی، بدامنی، اور بے شمار خرابیوں میں مبتلا تھا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، اور انہوں نے دین اور شریعت کی تعلیم دی جس سے متاثر ہو کر ایک ایک کر کے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے، اور اسلام کے زیور سے آراستہ ہو کر انسانیت اور تہذیب و تمدن کے ایسے علمبردار بنے کہ ان کو دیکھ کر، ان سے مل کر لوگ نہ صرف یہ کہ متاثر ہوئے بلکہ دین اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے، یہ حضرات اپنے اخلاق، کردار، اور بہترین انسانی نمونے کی بنیاد پر دین کی اور شریعت کی ایک مکمل ہمہ جہت دعوت تھے، ان کے اندر یہ اوصاف نبی کریم صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم کی صحبت، اور قرآن پاک کی تعلیم کی بدولت تھے، اسی لیے علم وہ زیور ہے، جو انسان کو ایک گوہر نایاب بنا دیتا ہے، اور اس میں اہل علم کی معیت، اور صحبت چار چاند لگا دیتے ہیں، جس کی بنیاد پر انسان گمراہی، بد عملی اور دیگر خرابیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
زیر نظر کتاب جو کہ مفکر اسلام حضرت علامہ زاہد الراشدی صاحب مدظلہم کے محاضرات کا مجموعہ ہے، جس کا نام ”علم کے تقاضے اور علماء کی ذمہ داریاں“ ہے، یہ اس موضوع پر ایک بہترین کتاب ہے، جو کہ درحقیقت اس موضوع پر بہترین مواد پر مشتمل ہے، یہ کتاب ایک ایسے وقت میں تمام انسانوں کے لیے مشعل راہ ہے، جب کہ انسانیت ظلم، زیادتی، قتل و غارت گری، اور بے شمار اخلاقی اور اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہے، اگر ہم اقوام عالم پر نظر ڈالیں، تو اس میں عدل و انصاف کی کمی، خاندانی نظام کی تباہی، ماحول اور معاشرے کا گروہی اور تعصبات پر منقسم ہونا سب کے سامنے ہے، ان تمام وجوہات کی بنیاد درحقیقت علم دین سے دوری ہے، اس لئے علم کا حصول نہایت ضروری ہے، اور علم کو اہل علم سے ہی سیکھنے کی ضرورت ہے، اس کتاب میں یہی واضح کیا گیا ہے کہ علم کیا ہے، کس طرح حاصل ہو گا، اسلام پر مستشرقین کی طرف سے ہونے والے اعتراضات کے جوابات کیا ہیں، خاندانی اور فیملی سسٹم کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے، اور انسان کی تعمیر ایک بہترین انداز میں کیسے کی جا سکتی ہے، اور اس سلسلے میں علمائے کرام کی کیا ذمہ داریاں ہیں، علماء کس طرح عوام الناس کی رہنمائی کر سکتے ہیں، کس طرح سیاسی قیادت، اور حکومتی اداروں کی دینی اور فکری رہنمائی کی جا سکتی ہے، اس لئے اس کتاب کا بہت اہتمام کے ساتھ مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ ہم اس سے بہترین رہنمائی حاصل کر سکیں۔
محمد زبیر اشرف عثمانی
نائب صدر جامعہ دارالعلوم کراچی
۲۱؍۱۱؍۱۴۴۵ھ
۳۰؍۵؍۲۰۲۴ء
سپریم کورٹ مبارک ثانی کیس کا ایک بار پھر جائزہ لے
متحدہ علماء کونسل پاکستان
متحدہ علماء کونسل پاکستان کے زیر اہتمام دینی جماعتوں اور علمائے کرام کا مشترکہ اجلاس گزشتہ روز جامع مسجد آسٹریلیا میکلوڈ روڈ لاہور میں منعقد ہوا جس میں مبارک ثانی کیس کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے 24 جولائی 2024ء کے فیصلہ کا قرآن و سنت اور آئین و قانون کی روشنی میں تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں متحدہ علماء کونسل کے صدر مولانا زاہد الراشدی، سیکرٹری جنرل مولانا سردار محمد خان لغاری، ڈاکٹر فرید پراچہ، مولانا عبدالغفار روپڑی، ڈاکٹر حافظ محمد سلیم، پروفیسر غضنفر عزیز، طاہر سلطان کھوکھر ایڈووکیٹ، غلام مصطفیٰ چودھری ایڈووکیٹ، مولانا عبد الرؤف فاروقی، ڈاکٹر محمد امین و دیگر علمائے کرام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ متحدہ علماء کونسل پاکستان اس امر پر افسوس کا اظہار کرتی ہے کہ عوام، دینی جماعتوں اور علمائے کرام کی طرف سے مبارک ثانی کیس کے 6 فروری 2024ء کے فیصلہ کے بارے میں جن تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا، 24 جولائی 2024ء کے فیصلہ میں ان کو دور نہیں کیا گیا۔ حالیہ فیصلہ میں سپریم کورٹ نے قادیانیوں کے حوالہ سے اگرچہ آئینی و قانونی پوزیشن کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ایک سے زیادہ دفع ان کے حوالے سے اپنے موقف کا بھی اظہار کیا ہے، نیز وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے 1993ء کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا گیا ہے، لیکن اس کے باوجود مبارک ثانی کیس کے فیصلہ کے تینوں حصوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔
جیسا کہ سپریم کورٹ نے تحریفِ قرآن کے ایشو میں، جو کہ اس مقدمہ کی بنیاد ہے، خود ساختہ تکنیکی بنیادوں پر مبارک ثانی کو ریلیف دیتے ہوئے اسے برقرار رکھا ہے اور ازخود یقین کر لیا ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بے حرمتی نہیں ہوئی۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ کے پیرا گراف 42 میں قادیانیوں کو سر عام تبلیغ کی مشروط اجازت دی ہے اور چار دیواری کے اندر ان کے گھروں، عبادت گاہوں اور نجی اداروں کو معقول قید کے ساتھ گھر کی خلوت کا حق دیا گیا ہے۔ حالانکہ امتناعِ قادیانیت قانون میں قادیانیوں پر مکمل مذہبی پابندی ہے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس چیف جسٹس آف پاکستان سے ایک مرتبہ پھر اپیل کرتا ہے کہ وہ قادیانیوں کے سلسلے میں امت مسلمہ کے متفقہ موقف، آئین پاکستان کے واضح آئینی آرٹیکلز، امتناع قادیانیت آرڈیننس 1984ء، اشاعتِ قرآن سے متعلق قوانین، اور خود سپریم کورٹ کے سامنے تمام دینی جماعتوں، مدارس اور ملک کے معروف علمائے کرام کے دیے گئے تحریری بیان کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر نظر ثانی کریں تاکہ امت مسلمہ میں موجود اضطراب کا مداوا ہو سکے۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف سڑکوں، چوراہوں سمیت ہر سطح پر پر امن احتجاج کیا جائے گا۔
The Environment of the Judicial System and Our Social Attitudes
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
According to a news article published in the Daily Express Gujranwala on August 18, 2016, Supreme Court Justice Asif Saeed Khosa made the following remarks:
“Punjab is the only region in the world where lies are told even on one’s deathbed. While hearing an application for the cancellation of bail for a robbery suspect, the honorable judge remarked that it was not his own observation, but rather a statement made by an English judge of the Lahore High Court in 1925. The English judge had written in his decision: ‘Do not believe the last statements of the people of Punjab; they lie even while dying.’ The judge noted that enmity is maintained even in final statements, often implicating entire families. He further explained that initially, a robbery is committed, and subsequently, the plaintiff, in collusion with the police, commits another robbery. The accused are first identified with the plaintiff’s help, and later, the ‘property’ is recovered through a raid. The plaintiff is then asked to certify that the recovered property belongs to him.”
The remarks of the honorable Supreme Court judge reflect our general social environment and psyche. This issue is not confined to Punjab; similar situations exist in many other parts of the country. One of the major reasons for this is the judicial system, which focuses not on resolving cases but on delaying them through various tactics and lengthy procedures. As a result, the pursuit and delivery of justice often become secondary objectives, overshadowed by the tendency to secure personal interests. Instead of controlling crime, this approach encourages it, leading to a continuous increase in criminal activities. These interests are not limited to the plaintiff and the defendant; the police, the legal system, and the courts also become complicit in this conflict of interests, creating a web of lies and deceit that permeates our judicial environment. This is encapsulated in the popular proverb: ‘He who lies in the panchayat, and the one who speaks the truth in the court, can never succeed in his case.’
I have expressed this proverb in very mild terms; the actual words are so unpleasant that it may not be appropriate to describe them here. In this regard, I would like to mention some experiences and observations, which are as follows:
- A very religious gentleman, in order to file a report of a quarrel, demanded that his leg be broken outright so that he could file a strong case against the opposing party.
- There was a theft in my house where some family gold jewelry was stolen. I consulted a well-known lawyer, now deceased, to file a case. He wrote a lengthy story for the FIR and handed it to me. Upon reading it, I exclaimed, ‘My brother! There should be at least fifty percent truth in it.’ He replied that there was no point in filing an FIR then, so I calmly left.
- “The former district president of JUI, Allama Muhammad Ahmad Ludhianvi, narrated this incident to me: Some jewelry was stolen from his house. When he spoke to the district police authorities, the concerned police officer later came to him with some jewelry and said, ‘This is your jewelry which has been recovered.’ The late Allama replied, ‘Brother, this is not our jewelry.’ The officer insisted on showing it to the family members, claiming it was the stolen property, but the late Allama refused to accept it, saying, ‘I recognize my family’s jewelry, and this is not ours.’
Hundreds of such stories are scattered around us, lamenting the state of our social psyche and judicial environment. Instead of being seen as faults and sins, these actions are now considered demands of justice, echoing even in the chambers of the Supreme Court.
But the question remains: What is the real reason for this situation, and how can we find a way out of this quagmire? If this question is posed to any citizen of the country, the answer will likely be that people’s distance from Islamic education, training, and religious ethics is the biggest reason. Such a situation cannot exist in a society where education and training are conducted in the light of the teachings of the Holy Quran and the traditions and Sunnah of the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him). However, the next question will be met with complete silence: Are our state institutions, education system, media, and centers of public mental training ready to accept this responsibility? Another major reason for this situation is the complexities of the current judicial system, the lengthy time frames, and the ambiguity of cases, which cannot be resolved without a simple and natural Sharia judicial system. However, it must be acknowledged that none of the three main pillars of the judicial system—the bench, the bar, and the police—would be ready for this and would not find themselves prepared to organize such a solution.
We agree with the remarks of Honorable Justice Asif Saeed Khosa and consider them a reflection of the overall environment and psyche of society. However, we also request the Honorable Justice to recognize that his role is not only to point out defects but also to present solutions and create an environment for practical progress towards these solutions, which may also be part of his constitutional duties. The solution to our social problems lies in returning to the teachings of the Holy Quran and the Sunnah of the Prophet. However, this will not be achieved through statements and sermons alone. All state institutions, including the government, judiciary, parliament, lawyers, police, educational institutions, and the media, must play a practical role in this. If this cannot be done, then lamenting such defects on various forums will achieve nothing.
(Published: The Monthly Nusrat-Al-Uloom, Gujranwala – September 2016)
الشریعہ — ستمبر ۲۰۲۴ء
مبارک ثانی کیس: عدالتِ عظمیٰ کے روبرو
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
(مبارک ثانی کیس کے سلسلہ میں چیف جسٹس جناب فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالتِ عظمیٰ کے پینل کے روبرو مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی استنبول (ترکی) سے بذریعہ ویڈیو لنک ہونے والی یہ گفتگو یوٹیوب چینل ’’انور غازی پاڈکاسٹ‘‘ پر موجود ایک ویڈیو سے حاصل کی گئی ہے۔)
تقی عثمانی: ……… موقع دیا، آواز آ رہی ہے؟
فائز عیسیٰ: جی ذرا سا اگر آپ آواز بلند کر سکیں یا مائیک کے پاس آ جائیں، آ تو رہی ہے مگر تھوڑی سی اگر، سب لوگوں کو سنائی نہیں دے گی شاید۔
تقی عثمانی: میں دو باتوں کی معذرت چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ میں ملک سے باہر ہوں، ایک بین الاقوامی میٹنگ ہے جس سے میں اٹھ کر آیا ہوں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ میرے گلے کی تکلیف کی وجہ سے میری آواز ذرا بدلی ہوئی ہے، تو پتہ نہیں آپ حضرات کو سننے میں کوئی دشواری نہ ہو، میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ بلند آواز سے آپ سے بات کروں۔ ذرا آپ مجھے بتا دیں کہ آواز سننے میں آ رہی ہے یا نہیں؟
فائز عیسیٰ: اب بالکل اچھی طرح سے آپ کی آواز آ رہی ہے۔
تقی عثمانی: جی بہت اچھا۔ دیکھیے اس فیصلے کے بارے میں جو چھ فروری کا فیصلہ تھا، اور جو نظر ثانی کی اس کا فیصلہ……
فائز عیسیٰ: آپ کے سامنے ہے؟
تقی عثمانی: جی اس وقت میں چونکہ باہر ہوں، سارے کاغذات میرے پاس نہیں ہیں لیکن فیصلے دونوں میں نے پڑھے ہیں اور اس کے اوپر اچھی طرح غور کیا ہے، اور دونوں فیصلوں کے بارے میں ہم نے مفصل تحریر بھیجی ہے۔ ایک تو چھ فروری کے فیصلے سے متعلق تھی، وہ آپ حضرات کو پہلے ہی پہنچ چکی تھی، آپ نے اس کا نظرثانی کے فیصلے میں بھی حوالہ دیا ہے۔ اور دوسری تحریر جو نظرثانی کے فیصلے میں جو آپ حضرات نے فیصلہ دیا، اس کے اوپر ایک مفصل تبصرہ وہ میں نے اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب وغیرہ نے لکھ کر دیا تھا، وہ شائع تو ہوا ہے لیکن آپ کے پاس نہیں پہنچا تھا۔ جن صاحب نے آج ویڈیو لنک پر خطاب کرنے کے بارے میں مجھ سے ذکر کیا ، تو میں نے ان کو بھیج دیا تھا کہ وہ عدالت میں پیش کر دیں کہ نظرثانی کے فیصلے کے متعلق جو کچھ ہمیں اشکالات ہیں یا جو ہمارے لحاظ سے اس میں جو غلطیاں ہوئی ہیں اس کی تفصیل اس تبصرے کے اندر موجود ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ آپ تک پہنچی ہے یا نہیں۔
فائز عیسیٰ: وہ منگوا لیں گے، میرے سامنے تو نہیں ہے، مگر آپ سے اگر سن لیں کیونکہ کبھی کبھی پڑھنے میں، پھر غلطی ہو جائے گی، بہتر ہے کہ ہم چاہ رہے تھے کہ ڈائریکٹ ہی آپ سے سنیں، آپ سب سے، کیونکہ پہلے بھی تو ہم نے منگوائے تھے، ہو سکتا ہماری سمجھ میں غلطی ہو، آپ جب کوئی بات کریں گے تو ہو سکتا اس سے ہمیں مزید وضاحت مل جائے۔ تو اگر آپ کو یاد ہیں چیدہ چیدہ باتیں اس میں سے یا تمام باتیں تو ہم ان کو نوٹ کرتے جائیں گے۔
تقی عثمانی: ٹھیک ہے۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے یہ گزارش کی تھی کہ جب نظرثانی کے لیے اس کیس کو منظور کر لیا گیا اور اس منظور کرنے کے بعد آپ نے بہت سے لوگوں کو نوٹس دیے اور ان سے کہا کہ وہ اپنی آراء لکھ کر بھیجیں یا خود پیش ہوں۔ تو اس میں متعدد اطراف سے آپ کے پاس جوابات آئے۔ ان میں ہمارا وہ جواب بھی تھا جس پر شاید پانچ یا سات حضرات کے دستخط تھے۔ اس میں جو جو نکات اٹھائے گئے تھے، نظرثانی کے وقت میں ضروری تھا کہ ان سارے نکات کو ایک ایک کر کے ذکر کر کے اس کے اندر کوئی غلطی تھی یا اعتراض وہ درست نہیں تھا تو اس کے اوپر بحث کی جاتی۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ سارے نکات آپ حضرات تک پہنچے، آپ نے اس کا بہت ہی سرسری ذکر کیا، اور سرسری ذکر کر کے ان باتوں کا جو دلائل اس میں دیے گئے تھے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ جب کسی شخص کو آپ طلب کریں اور وہ اپنی رائے پیش کرے جو مقدمے کے اہم مسائل پر مشتمل ہو تو فیصلے میں ضروری ہوتا ہے کہ ان تمام نکات کو اور ان تمام دلائل کو مفصل زیر بحث لایا جائے، اور مفصل زیر بحث لایا جا کر اس کو بتایا جائے کہ اس میں جو تبصرہ کیا جا رہا ہے وہ اس کے ساتھ صحیح ہے یا غلط ہے۔
اب مثال کے طور پر سارے لوگوں نے سوائے ایک کے یہ آپ سے عرض کیا تھا کہ چھ فروری کے فیصلے میں آپ نے جو آیاتِ کریمہ درج کی تھیں، یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ فیصلوں میں قرآن و سنت کے حوالے دیتے ہیں، یہ ہمارے لیے ایک اچھی بات ہے، لیکن جب قرآن کریم کی آیات کو آؤٹ آف کانٹیکسٹ دیا جاتا ہے تو وہ اللہ بچائے تحریف تک بات پہنچ جاتی ہے۔ تو اس مقدمے کے تناظر میں جو مبارک ثانی کے کیس میں ہماری بالکل سمجھ سے باہر ہے۔ اور کوئی بھی آدمی جب اس کو پڑھے گا ان آیات کو اور اس کے بعد آپ کا یہ ریمارک پڑھے گا کہ اگر یہ آیات ذہن میں ہوتیں اور آئین کی دفعات موجود ہوتیں تو یہ مقدمہ درج ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یعنی ایک طرح سے آپ ان آیات کو بنیاد بنا رہے ہیں اس بات کی……
فائز عیسٰی: نہیں نہیں، تقی عثمانی صاحب! میں معذرت چاہتا ہوں آپ برا نہ مانیں (تقی عثمانی: نہیں نہیں برا نہیں مانتا) میں نے بیچ میں آپ کو روکا، اگر ذرا سی وضاحت یوں کر دوں، یقیناً ہمیں بہت سارے وہ ملے کاغذات جن لوگوں کو ہم نے نوٹسیں دیں۔ اگر جتنے نکات ان میں تھے ان سب کو اگر ہم اٹینڈ نہیں کر پائے تو اس میں میری کوتاہی ہے۔ مگر پھر تو وہ فیصلہ نہیں ہوتا وہ تو ایک کتاب بن جاتی۔ اب ایک یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جی بہت لمبے ہو جاتے ہیں فیصلے۔ پتہ نہیں میں صحیح کرتا ہوں یا غلط کرتا ہوں مگر میں کوشش کرتا ہوں کہ فیصلے اتنے لمبے نہ ہوں کہ کوئی پڑھے ہی نہیں۔ تو ہم جو سمجھ پائے، یقیناً غلط سمجھے ہوں گے ناں، اسی لیے تو یہ درخواست دی گئی ہے سرکار کی طرف سے ۔
تو اب ہم اگر مزید آگے کی طرف بڑھیں تو بہتر ہو گا اگر آپ بنیاد بنائیں یہ جو فیصلہ ہے ۲۹ مئی والا ، ۲۰۲۴ء کا، کیونکہ اب تو پرانی بات (چھ فروری والی) تو ختم ہو گئی، وہ اس میں ضم ہو گئی ہے۔ تو اس میں جو آپ سمجھتے ہیں کہ نقائص ہیں، غلطیاں ہیں یا آپ کے اعتراضات ہیں، جو آپ بہتر سمجھنا چاہیں تو آپ براہ کرم تجاویز دیجیے ، ہماری راہنمائی فرمائیے، اور اگر ہمیں سمجھ نہیں آئی تو ہم آپ سے سوال پوچھ لیں گے اور پھر کوشش کریں گے کہ بہتری کی طرف چلیں۔ تو آگے کو دیکھنا چاہیے اس لیے آپ کی بات بھی بالکل صحیح ہے۔
میں پتہ نہیں صحیح کرتا ہوں یا غلط کرتا ہوں ابھی سے نہیں بلکہ چیف جسٹس بلوچستان کے وقت سے بھی میں، جہاں تک میری کم علمی ہے، تو میں قرآن شریف و حدیث مبارکہ و فقہاء کا حوالہ دیتا ہوں فیصلوں میں کیونکہ ہم آخر کار اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں (تقی عثمانی: بے شک، بہت اچھی بات ہے) ۔ اگر دوسرے ملک اپنے ملکوں کے حوالے دیتے ہیں تو ہماری جو تاریخ اتنی زبردست تاریخ ہے تو ہم اپنے حوالے بالکل نہیں دیتے ہیں۔ ہم اپنے فیصلوں میں امریکہ، برطانیہ ، وہاں بھی کرنا چاہیے مگر بہت ساری باتیں …… اس میں یقیناً غلطی بھی ہو گی، وہ شخص سب سے بہتر ہے جو کہ کوئی کام نہ کرے تو اس سے غلطی بھی نہیں ہو گی (تقی عثمانی: صحیح بات ہے) میٹرک کا ایگزیم نہ دو تو میٹرک میں فیل ہونے کا چانس ہی نہیں ہے۔ تو یہ میں کبھی اپنے آپ کو نہیں سمجھتا ہوں کہ میں غلطی سے بالاتر ہوں (تقی عثمانی: ما شاء اللہ) اسی لیے آپ کو زحمت دی اور ہم بہت مشکور ہیں کہ آپ کانفرنس اٹینڈ کر رہے ہیں، اور اس کو چھوڑ کر کے آئے ہماری رہنمائی کی ہے۔
تو براہ کرم ۲۹ مئی کے فیصلے میں اگر آپ ہمیں صرف بتا دیں کہ یہ جگہ غلط ہے، یہ پیراگراف غلط ہے تو ہم اگر سمجھتے ہیں کہ آپ کی بات میں آپ کے دلائل میں ہم ایگری کریں تو ما شاء اللہ آپ تو ہمارے ساتھ رہ چکے ہیں، ہم تو آپ کی بڑی قدر کرتے ہیں آپ تو شریعت کورٹ کے ممبر بھی تھے، اور میں بتا رہا تھا کہ ابھی واپس شریعت کورٹ فعال ہو چکی ہے۔
تو اگر ہم وہاں سے آغاز شروع کریں ۲۹ مئی سے …… آپ ساتھ ساتھ اپنی تجاویز بھی دیتے جائیں تو ہم ان کو نوٹ کرتے جائیں گے۔ آپ برا نہ مانیں وہ میں معذرت چاہتا ہوں کہ جو آپ کے سارے نکات جو پہلے کے تھے وہ ہم نے ضم نہیں کیے اپنے فیصلے میں، تو اس کا میں قصوروار ٹھہرا۔ مگر جیسے میں نے بات کی کہ وہ کتاب بن جاتی، کیونکہ نہ صرف آپ کے تھے بلکہ بہت سارے اور بھی تھے۔
تقی عثمانی: نہیں نہیں میں دیکھیے آپ کی مشکلات کو سمجھتا ہوں، میں خود جج رہا ہوں، اور جج کے اوپر کتنا بوجھ ہوتا ہے فیصلوں کو لکھنے کا، یہ میں جانتا ہوں۔ اور اسی لیے خود میں بھی حتی الامکان کوشش یہ کرتا تھا کہ بہت زیادہ تفصیلی فیصلے نہ ہوں تاکہ لوگوں کی سمجھ میں آ سکیں۔ لیکن بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں بہت لمبے لمبے فیصلے بھی لکھنے پڑ جاتے ہیں، جب معاملہ کوئی بہت حساس نوعیت کا ہو تو بہت لمبے فیصلے بھی لکھنے پڑ جاتے ہیں۔
اب آپ نے جب نظرثانی کا فیصلہ لکھا، اس میں جو پہلا حصہ ہے نا، وہ تو بڑا قابلِ استقبال ہے کہ آپ نے ختمِ نبوت کے دلائل دیے، لیکن اس کی ضرورت نہیں تھی، ضرورت اس لیے نہیں تھی کہ یہ معاملہ مسلّمہ ہے، تمام مسلمانوں کے درمیان، آئین کی رو سے بھی، قوانین کی رو سے بھی، اس کے اوپر مزید رائے کی ضرورت نہیں تھی، جتنا وقت آپ نے اس پر لگایا اگر آپ ان نکات پر لگاتے تو شاید یہ شکایات پیدا نہ ہوتیں۔ لیکن بہرحال جو ہو گیا سو ہو گیا۔ جو اصل ہمارے لیے تشویش کی بات ہے جس کے لیے میں چھ فروری کے فیصلے کا بھی حوالہ دے رہا ہوں ۔
فائز عیسٰی: نہیں، اس کو چھوڑ دیجیے، ۲۹ مئی سے آپ بات کیجیے، اب وہ ختم ہو گیا نا، چھ فروری گیا، اب اس کی کوئی ریلیونس رہی نہیں۔ اب کوئی درخواست آئی ۲۹ مئی کو تو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، قانونی حیثیت نہیں ہے۔
تقی عثمانی: صحیح ہے۔ تو اب اگر اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے تو اس طرف جانے کی ہمیں ضرورت بھی نہیں، بس مجھے اس کا خطرہ ہے کہ وہ اپنی جگہ intact رہے وہ فیصلہ۔
فائز عیسیٰ: جی میں وہ وضاحت کر دوں کہ جب ریویو ہو جائے تو پھر وہ ختم ہو جاتا ہے۔
تقی عثمانی: اب ہم اس کو بھول جاتے ہیں، ٹھیک ہے؟
عدالت سے نئی آواز: جی مفتی صاحب! جب ۶ فروری کے فیصلے پر نظرثانی کا فیصلہ آ گیا ۲۹ مئی کو، تو ۶ فروری کے فیصلے کا وجود ختم ہو گیا، اور ہم نے نگرانی کو تسلیم کر لیا اور ۶ فروری کا فیصلہ ختم کر دیا۔ آپ تو ماشاء اللہ جج رہے ہیں، اس بات کو سمجھیں گے، اب فیلڈ میں ۲۹ مئی ۲۰۲۴ء کا حکم ہے، اب اس پر کوئی ابہام پیدا ہو رہا ہے جسے آپ سمجھتے ہیں، میں نے آپ کی ایک ویڈیو دیکھی …… تو اب اس میں تھوڑی سی آپ ہمیں رہنمائی کر دیں کہ نظرثانی شدہ فیصلے میں جو جو آپ سمجھتے ہیں، سقم ہے، یا جس سے کوئی پیچیدگی پیدا ہو رہی ہے یا اس کا کوئی احتمال ہے، اس کی وضاحت فرما دیں تاکہ ہم اس کو دیکھ سکیں۔
تقی عثمانی: دیکھیے، اس میں جو سب سے زیادہ سنگین بات ہے اس فیصلے کے اندر وہ پیرا گراف نمبر ۷ اور پیراگراف نمبر ۴۲ ہے۔
۷ میں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ وہ احمدی اپنے ایک نجی ادارے میں تعلیم دے رہے تھے۔ جس سے آپ نے یہ گویا assume (فرض) کر لیا کہ قادیانی لوگ جو ہیں وہ اپنے نجی ادارے بنا سکتے ہیں اور اس میں تعلیم و تبلیغ کر سکتے ہیں۔
اسی طرح نمبر ۴۲ میں آپ نے باقاعدہ تبلیغ کا لفظ استعمال کر کے فرمایا کہ یہ اگر اپنے مذہب کی تبلیغ کریں تو یہ ان کی، ایک عجیب اصطلاح استعمال فرمائی آپ نے، تو ان کے گھر کی تنہائی میں شامل ہو گی۔ گھر کی تنہائی سے آپ نے غالباً ترجمہ کیا ہے ان کی پرائیویسی کا شاید، تو اس میں تبلیغ کی آپ نے غیر مشروط اجازت دے دی ہے۔ غیر مشروط کے ساتھ آپ نے ایک لفظ اور بڑھایا ہے کہ قانون کے مطابق۔
اس میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ جو پی پی سی کا ۲۹۸سی ہے، اس میں دو لفظ الگ الگ بیان کیے ہیں، ہم نے اپنی تحریر میں وہ بات واضح کی ہے۔ یعنی جس چیز سے قادیانی حضرات کو منع کیا گیا ہے وہ دو حصوں میں منقسم ہے ۲۹۸سی میں:
(۱) ایک حصہ ہے preaches or propagates ایک تو یہ ہے،
(۲) اور پھر آگے ہے or invites others to their faith
تو ظاہر ہے کہ قانون میں کوئی لفظ redundant (فاضل) نہیں ہوتا۔ تو اگر ہم preaches کو اور propagation کو دوسروں کے متعلق قرار دیں گے تو invites others to their faith کا جملہ redundant ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا کوئی اور مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں بھی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے نہ تبلیغ کر سکتے ہیں نہ پریچنگ کر سکتے ہیں۔ ۲۹۸سی اگر آپ براہ کرم نکالیں، میرے پاس اس وقت مواد پورا موجود نہیں ہے۔
فائز عیسیٰ: جی میرے سامنے ہے، میں پڑھ دوں آپ کے لیے یا اس کی ضرورت نہیں؟
تقی عثمانی: جی ضرور پڑھ دیں، تھوڑا اچھا ہو گا۔
فائز عیسیٰ: جی میں پڑھ دیتا ہوں، انگریزی میں ہے تو انگریزی میں پڑھوں گا۔
تقی عثمانی: ظاہر ہے، انگریزی میں پڑھیں آپ۔
فائز عیسیٰ:
Any person of the Qadiani group or the Lahori group (who call themselves “Ahmadis” or by any other name) who directly or indirectly poses himself as a Muslim or calls, or refers to his faith as Islam, or preaches or propagates his faith, or invites others to accept his faith, by words, either spoken or written or by visible representation or in any manner whatsoever outrages the religious feelings of Muslims shall be punished with imprisonment for either description for a term which may extend to three years and shall also be liable to a fine.
فائز عیسیٰ: میں آپ کا پوائنٹ سمجھ رہا ہوں، جی میں بالکل سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔ مطلب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ دو پیراگرافس اس میں ابہام ظاہر کر رہے ہیں کہ کہیں یہ ۲۹۸سی کے برعکس ہیں، یہ آپ کا پوائنٹ ہے؟
تقی عثمانی: جی بالکل یہ میرا پوائنٹ ہے کہ جو قابل اعتراض پیراگرافس ہیں، in clear clash with law یعنی ۲۹۸سی کے بالکل مخالف ہے جو آپ نے پیراگراف ۴۲ لکھا ہے۔
فائز عیسیٰ: آپ کہہ رہے ہیں کہ ان دو پیراگرافس کو ختم کر دیں یا ……
تقی عثمانی: دیکھیے، اگر بات کو مختصر کیا جائے تو میری گزارش یہ ہے کہ پیرا گراف نمبر ۷ یہ پورا حذف کیا جائے، اور پیراگراف نمبر ۴۲ اس کو مکمل حذف کیا جائے اور اس کے جو متعلقات ہیں یعنی کئی جگہ اس چیز کا حوالہ آیا ہے وہ اگرچہ ضمناً آیا ہے، لیکن اگر آپ اس کو حذف کر دیں تو امید ہے کہ وہ خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ لیکن جو سب سے اہم چیز جو میں چاہتا ہوں، آپ کی خدمت میں اس کی تجویز پیش کرتا ہوں، وہ یہ ہے۔
فائز عیسیٰ: آپ مجھے شرمندہ نہ کریں، ہم آپ کی بڑی قدر کرتے ہیں۔
تقی عثمانی: بہت شکریہ، بہت شکریہ۔
فائز عیسیٰ: آپ میرے بڑے بزرگ ہیں، آپ بالکل بغیر جھجھک کے ہمیں بتائیے، انسان غلطی کا پتلا ہے اور میں تو (تقی عثمانی: ما شاء اللہ یہ آپ کا) یہ آپ نے بڑی اچھی بات کی کہ یہ دو پیرا گرافس ہیں اور اس کے متعلقات جو آپ کہہ رہیں کہ آٹومیٹیکلی ختم ہو جائیں گے۔
تقی عثمانی: اب میں تھوڑا سا آگے بڑھتا ہوں …… آپ نے دیکھا کہ یہ مسئلہ کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ تو آپ کو ہوا ہو گا، اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ ہمارے ایمان کا بہت بڑا اہم عقیدہ ہے۔ اور اس کے اوپر آپ نے دیکھا کہ کتنا بڑا فیصلہ آئینِ پاکستان نے کیا، کس طرح ترمیم دستور کے اندر کی گئی۔ تو اس میں ہم جب کسی مسئلے میں الجھ گئے ہیں کہیں تو ہمیں محض technicalities کی بنیاد پر بات کو بے دلی سے نہیں کرنا چاہیے بلکہ جب نظرثانی کریں یا کسی غلطی کی کریکشن کریں تو کھلے دل کے ساتھ کریں۔ اور اس کے لیے میں کہتا ہوں کہ ان دو پیراگرافس کو حذف کرنے کے بعد ان کے متعلقات خودبخود حذف ہو جائیں گے۔
(اور) میں یہ چاہتا ہوں کہ (پیراگراف) ۴۹ جیم جو آخری آرڈر کے کلمات ہیں، جو ایک طرح سے آپ نے پورے فیصلے کا آرڈر نکالا ہے، وہ ذرا براہ کرم اپنے سامنے رکھیے۔
فائز عیسیٰ: جی رکھ لیا۔ جی فرمائیے۔
تقی عثمانی: میں نے اس کی جگہ ایک عبارت تجویز کی ہے وہ یہ ہے کہ:
’’جہاں تک اس مسئلے کا تعلق ہے کہ پیشِ نظر مقدمے کے ملزم پر مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ ۲۹۵بی، ۲۹۵سی، ۲۹۸بی، ۲۹۸سی کا اطلاق ہوتا یا نہیں، ضمانت کے اس مقدمے میں جبکہ ملزم کا ٹرائیل ابھی باقی ہے، ہم یہ مناسب نہیں سمجھتے کہ اس پر کوئی فیصلہ دیں، کیونکہ ٹرائیل کورٹ میں ابھی مقدمہ چل رہا ہے۔ ٹرائیل کورٹ کو چاہیے کہ ہمارے فیصلے مؤرخہ چھ فروری سے متاثر ہوئے بغیر مقدمے کی کاروائی جاری رکھے اور تمام حالاتِ مقدمہ کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا فیصلہ کرے کہ ملزم پر مذکورہ دفعات کے تحت جرم بنتا ہے یا نہیں؟ خالص میرٹ پر اس کا فیصلہ کرے۔ اور اس طرح نظرثانی کی تمام درخواستیں جزوی طور پر منظور کی جاتی ہیں۔‘‘
فائز عیسیٰ: آپ یہ عبارت بھیج دیں گے ہمیں؟
تقی عثمانی: جو صاحب میرے رابطے میں ہیں، میں ان کو بھیج دیتا ہوں۔
فائز عیسیٰ: ٹھیک ہے، مزید کوئی بات؟
تقی عثمانی: جی میں یہ چاہتا ہوں، میری گزارش یہ ہے کہ اس معاملے کو، زیادہ لٹک گیا ہے یہ، اور اس کی وجہ سے اضطراب انتشار بھی پیدا ہوا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے کہ آپ نے متعلقہ حضرات کو بلایا، ان کو سنا، اور اس کے بعد آپ نے کوئی فیصلہ کیا۔ اب یہ آخری بار ہو رہا ہے، اس آخری بار میں براہ کرم جتنے اشکالات پیدا ہوئے، اشکال کیا پیدا ہوا میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔
وہ یہ ہے کہ قادیانیوں کو تبلیغ کی اجازت دی گئی ہے جو ۲۹۸سی کے بالکل خلاف ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ نے جو اپنے فیصلے میں قومی اسمبلی کے اندر جو تقریریں ہوئی تھیں اس وقت اور اس میں یہ کہا گیا تھا۔ میں اس پہلو کو ذرا تھوڑی وضاحت سے عرض کرنا چاہتا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو۔
فائز عیسیٰ: جی اجازت ہی اجازت ہے۔
تقی عثمانی: اچھا، تو وہ یہ ہے کہ اس اسمبلی میں جو تقریریں ہوئی تھیں اس میں یہ ضرور کہا گیا تھا کہ ہم ان کو ایک غیر مسلم اقلیت قرار دے کر غیر مسلم اقلیت کے ان کو حقوق دیں گے۔ یہ بات جو تھی نا، یہ اسلام کی تاریخ کے تمام کیسز کے بالکل برعکس تھی۔ یعنی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے لے کر۔
فائز عیسیٰ: یہاں میں ذرا آپ کو، برا نہ مانیے، کیونکہ پارلیمان میں کیا ہوا؟ وہ تو ریکارڈ کا حصہ ہے نا، میں پارلیمان کو تو کوئی حکم نہیں دے سکتا ہوں کہ آپ یہ کریں یا وہ کریں، یا پارلیمان نے جو کہا وہ غلط ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے۔
تقی عثمانی: نہیں نہیں، بالکل ٹھیک ہے، میں اور بات کرنا چاہ رہا ہوں، ذرا پوری کر لوں، آپ اس کے بعد ذرا ……
فائز عیسیٰ: پھر میں غلط سمجھا، معاف کیجیے گا۔
تقی عثمانی: یعنی پوری اسلامی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی نبوت کا جھوٹا مدعی پیدا ہوا ہو، اور اس کے متبعین کی جماعت ہوئی ہو، اور اس کو دارالاسلام میں ذمی یا غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ ان کے خلاف باقاعدہ جنگ ہوئی، آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہوں گے، آپ نے تاریخ پڑھی ہے۔ مسیلمہ کذاب کے ساتھ کیا ہوا، طلیحہ بن خویلد کے ساتھ کیا ہوا، بعد میں کتنے جھوٹے مدعی اہلِ نبوت پیدا ہوئے، ان کے ساتھ کیا ہوا۔
فائز عیسیٰ: تقی عثمانی صاحب، آپ کی میں بہت عزت کرتا ہوں، اگر ذرا فیصلے پہ رہیں …… اس میں یہ نہیں کہ میں آپ سے ڈِس ایگری کر رہا ہوں مگر فیصلے میں تو ہم نے ایسی کوئی …… آپ نے جو باتیں کیں جو نشاندہی کی وہ میں نوٹ کر لیں، اب میں زیادہ اس ڈیبیٹ کو بڑھانا نہیں چاہتا ہوں کیونکہ اب پارلیمان میں جو کچھ ہوا ……
تقی عثمانی: نہیں نہیں، ہم پوری عزت کرتے ہیں پارلیمنٹ کی بھی عدالت کی بھی، میری بات پوری ہو جائے تو شاید آپ کا اشکال دور ہو جائے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ تاریخِ اسلام میں کہیں بھی کسی بھی مدعی نبوت یا اس کے پیروکاروں کو ذمی کی اصطلاح کے طور پر یعنی غیر مسلم اقلیت کے طور پر مانا نہیں گیا۔ لیکن پاکستان واحد ملک ہے کہ اس میں یہ کہا گیا کہ چونکہ پاکستان جنگ کے ذریعے نہیں حاصل کیا گیا بلکہ جمہوری طریقے پر اور انتخابات کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے، لہٰذا ہم غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کے پابند ہیں، اپنے اس معاہدے کے تحت جس کے تحت ہمارا پاکستان بنا تھا۔
لہٰذا آپ دیکھیں گے کہ شروع سے، جب سے قادیانیوں کے خلاف کوئی تحریک مسلمانوں کی شروع ہوئی ہے، چاہے وہ علماء کی طرف سے ہو یا کسی اور طرف سے ہو، اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ شریعت کا اصل حکم ان پر نافذ کیا جائے، یہ زندیق ہیں۔ بلکہ یہ کہا گیا کہ ہم ان کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔ یہ گویا ایک طرح سے رعایت دی گئی قادیانیوں کو کہ اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کر لیں تو ہم ان کو غیر مسلم اقلیت کے تمام حقوق دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہی باتیں پارلیمنٹ میں کہی گئی تھیں اور یہی باتیں بعد میں بھی دہرائی گئی ہیں۔ ہمیں اس پر تنقید نہیں کرنی ہے، ہمیں ان کو ماننا ہے کہ ہم غیر مسلم اقلیت ان کو ماننے کو تیار ہیں۔ لیکن اس صورت میں جب کہ وہ خود اپنے آپ کو مانیں۔ اگر وہ خود غیر مسلم اقلیت ہو کر، اعتراف کر کے اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت کے طور پر رجسٹر کرائیں، اور اس میں کوئی ایسی علامت نہ رکھیں جس سے لوگوں کو یہ دھوکہ ہو کہ یہ مسلمانوں کی کوئی قسم ہے، تو آج بھی ہمارے پاس پارلیمنٹ کے اندر ان کے لیے اقلیتوں کی سیٹوں میں ایک سیٹ ان کی موجود ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہے، آپ زیادہ بہتر جانتے ہوں گے۔ ان میں ایک ہے نا سیٹ احمدیوں کے لیے؟
فائز عیسیٰ: جی ہوتی تو تھی، میں ابھی چیک کر کے بتاتا ہوں آپ کو۔
تقی عثمانی: تو ایک سیٹ ان کی موجود ہے۔ اسی طریقے سے اقلیتوں کا ایک بورڈ ہوتا ہے، اس کے اندر بھی ان کی سیٹ موجود ہے۔ اب وہ حضرات اپنا جو حق آئینی ہے کہ ایک سیٹ ان کی اسمبلی میں ہے، ایک سیٹ ان کی بورڈ میں ہے، لیکن اس کو حاصل کرنے کے لیے ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ جو ترمیم آئین کے اندر ہوئی ہے وہ درست ہوئی ہے اور ہم اس کو مانتے ہیں، ہم اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت قرار…
فائز عیسیٰ: میں ذرا اٹارنی جنرل صاحب سے معاونت اس پوائنٹ پر کر لوں۔
اٹارنی جنرل: سترہویں ترمیم سے پہلے تو مخصوص کی گئی تھیں اقلیتوں کے لیے ان کے مذہب (فائز عیسٰی: یہ قادیانیوں کی بات کر رہے ہیں) جی ۲۰۰۲ء تک (اسمبلی میں سیٹ) تھی، آخری اسمبلی ۱۹۹۷ء کی، اس میں تھی۔ احمدیوں کے لیے ایک سیٹ ہوتی تھی۔ اب ۲۰۰۲ء کے بعد سے وہ بس غیر مسلموں کے لیے ہے، اس میں یہ نہیں ہے کہ کس اقلیت کی کتنی ہو گی، اب دس سیٹیں ہیں وہ کسی کی بھی ہو سکتی ہیں، اب وہ والی تفریق نہیں ہے۔
فائز عیسیٰ: مفتی صاحب آپ نے سنا؟ انہوں نے کہا پہلے وہ specific سیٹ تھی مگر ۲۰۰۲ء کے بعد specificity ختم ہو گئی، اب باقی غیر مسلموں میں وہ ضم ہو گئے ہیں ……
تقی عثمانی: ٹھیک ہے، مگر بہرحال اگر وہ اپنے آپ کو غیر مسلم کے طور پر رجسٹر کرا لیں اب بھی تو جو سیٹیں مخصوص کی گئیں ہیں غیر مسلم اقلیتوں کے لیے، اگر وہ غیر مسلم اقلیت ہونا تسلیم کر لیتے ہیں، اپنے آپ کو رجسٹر کرا لیتے ہیں، تو پھر ان کی سیٹ ہو سکتی ہے وہاں پر، اب بھی ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔
فائز عیسیٰ: جی اس پر تو کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں۔
تقی عثمانی: ٹھیک ہے نا۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا باوجود ساری سہولیات … میں نے عرض کیا تھا کہ اصل مطلب وہ تھا جو مسیلمہ کذاب کے ساتھ ہوا تھا، لیکن پاکستان چونکہ ایک معاہدے کے تحت بنا ہے، اس معاہدے کے تحت بننے کی وجہ سے علماء نے بھی یہ نہیں سوال اٹھایا کہ ان کے خلاف جنگ کرو ان کو مارو، بلکہ انہوں نے یہی کہا کہ ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دو، اور غیر مسلم اقلیت قرار دے کر ان کو جو حقوق حاصل ہیں وہ دیے جائیں۔ اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کریں، غیر مسلم اقلیت کے طور پر اپنے آپ کو رجسٹر کرائیں۔ البتہ رجسٹر اس طرح کرائیں کہ اس میں مسلمان کا یا اسلام کے شعائر کا یا مسلمانوں کے کسی لفظ سے لوگوں کو دھوکہ نہ دیں۔ بلکہ کوئی اپنا الگ نام رکھیں، الگ ان کی اصطلاحات ہوں ، اور یہ تسلیم کریں کہ ہم غیر مسلم اقلیت ہیں۔
بلکہ ایک موقع پر جناب چیف جسٹس میں نے ایک تجویز پیش کی تھی جب ایک مسئلہ آیا تھا کہ اقلیتی بورڈ شاید کوئی ادارہ ہے ہمارے ہاں، کسی وقت اس میں یہ خیال آیا تھا کہ کسی احمدی کو بھی اس میں شریک کیا جائے، قادیانیوں … تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ مخالفت اس لیے کہ تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو غیر مسلم تسلیم کیا ہی نہیں لہٰذا وہ اس سیٹ کے کیسے حقدار ہو سکتے ہیں؟
میں نے اس موقع پر ایک تجویز دی تھی اپنے دوستوں سے مشورہ کیے بغیر لیکن میرے خیال میں وہ بڑی منصفانہ تجویز تھی، وہ یہ کہ حکومت یا آپ اس وقت چیف جسٹس کے طور پر، جو اُن کے سربراہ ہیں اس وقت تیسرے خلیفہ ہیں یا چوتھے، ان کو آپ پیشکش کریں کہ ہمارے پاس اقلیتی سیٹیں موجود ہیں، اگر آپ اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں تو براہ کرم اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت رجسٹر کرائیں اور آپ اقلیتوں کے حقوق کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اگر وہ اپنے آپ کو صرف یہاں پاکستان میں نہیں بلکہ پورے عالمی بنیاد پر اپنے آپ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے پر راضی ہو جاتے ہیں تو وہ جتنے سارے حقوق غیر مسلموں کے آئین نے دیے ہیں یا بحیثیت اقلیت ان کو حاصل ہوتے ہیں وہ سارے حاصل ہوں گے، ہمیں اس میں کوئی اشکال نہیں ہو گا۔
لیکن اگر وہ یہ کہیں نہیں صاحب آپ نے تو فیصلہ ہی غلط کیا، آپ کا آئین غلط ہے، آپ نے ہمیں غیر مسلم قرار دیا تو ہم پر ظلم کیا، تو پھر اس صورت میں جب وہ اس کو نہیں مانیں گے تو آئین کی دی ہوئی وہ سہولتیں جو غیر مسلم اقلیتوں کے لیے ہیں وہ اس سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اور یہ بات ظہیر الدین بنام ریاست والے فیصلے میں بھی کہی گئی ہے۔ لہٰذا…
فائز عیسیٰ: میں سمجھ گیا آپ کی بات، میں ایک بات آپ کو ذرا بتا دوں ، آپ کو یقیناً پتا ہو گی … آئین کی شق ۲۶۰ کی ذیلی شق ۳، وہ میں پڑھ دیتا ہوں۔
260(3) In the constitution and all enactments and other legal instruments unless there is anything repugnant in the subject or context
(a) "Muslim" means a person who believes in the unity and oneness of Almighty Allah, in the absolute and unqualified finality of the Prophethood of Muhammad (peace be upon him), the last of the prophets, and does not believe in, or recognize as a prophet or religious reformer, any person who claimed or claims to be a prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after Muhammad (peace be upon him); and
(b) "non-Muslim" means a person who is not a Muslim and includes a person belonging to the Christian, Hindu, Sikh, Buddhist or Parsi community, a person of the Quadiani Group or the Lahori Group who call themselves 'Ahmadis' or by any other name or a Bahai, and a person belonging to any of the Scheduled Castes.
تو آئین نے تو اس کی بالکل وضاحت کر دی ہے، ہماری رائے کیا ہے، ہم سب پابند ہیں اس کے، ہم تو حلف اٹھاتے ہیں، پابند کر دیا سب کو بلکہ پوری ریاست کو، جتنے شہری رہتے ہیں سب کو پابند کیا ہوا ہے، تو اس میں کوئی ابہام کی بات نہیں ہے، کہ ہے؟ میں نے دو شقیں پڑھیں۔
تقی عثمانی: اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ آئین میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ لیکن اس کی ایپلی کیشن اس معنیٰ میں کہ کونسی غیر مسلم اقلیت کو وہ حقوق حاصل ہوں گے؟
فائز عیسیٰ: جی یہ بات سمجھ گیا، مزید کوئی بات ہے تقی صاحب؟ کیونکہ مجھے پتہ ہے آپ کو سیمینار اٹینڈ کرنا ہے۔ آپ نے ہماری راہنمائی کی، بہت بہت شکریہ۔
تقی عثمانی: بس یہ جو آخری بات میں نے آپ سے کہی، آپ نے کہا تھا میں لکھ کر بھیج دوں کہ ایک تو ۴۲ کو حذف کرنا چاہتا ہوں اور ایک پیراگراف ۱۷ کو۔
فائز عیسیٰ: پیراگراف ۷۔
تقی عثمانی: ذرا معافی چاہتا ہوں میری گنتی ذرا کمزور ہے۔ پیراگراف ۷ اور پیراگراف ۴۲، اس کو تو میں نے عرض کیا کہ مکمل حذف کیا جائے، اور متعلقات۔
فائز عیسیٰ: (ظرافت کے ساتھ) ما شاء اللہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کی عمر کیا ہے، یا نہیں پوچھ سکتا؟
تقی عثمانی: (مسکراتے ہوئے) جی ضرور پوچھیں۔ یہ اکتوبر آنے والا ہے اس میں شمسی حساب سے میں ۸۲ سال کا ہو جاؤں گا۔
فائز عیسیٰ: چلیں میری بھی سالگرہ اکتوبر میں ہوتی ہے، ما شاء اللہ، اللہ تعالیٰ آپ کو مزید عمر دے اور تندرست رکھے، ہماری رہنمائی کرتے رہیے گا۔
تقی عثمانی: جی ہم تو حاضر ہیں جناب، ہم تو سترہ سال یہاں رہے ہیں آپ کے سپریم کورٹ میں۔
فائز عیسیٰ: …… اب عدالتی دروازہ تو کھلا رہتا ہے کسی کو کوئی بھی بات ہے، اب دیکھیں درخواست دی ہم نے فورًا لگا دی، کوئی چھپائی نہیں کوئی دبائی نہیں، فورًا لگا دی ( تقی عثمانی: ما شاء اللہ، بہت اچھا) پہلے بھی آئی تھی درخواست، اب یہ ضرور آپ کہہ سکتے ہیں کہ فیصلے میں تجویز آپ کا حق ہے، نہ صرف حق ہے بلکہ میرے خیال میں تو آپ رہنمائی کرتے … دیکھ لیں گے اس میں غلطی ہے، نہیں ہے۔ بہت بہت آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہماری رہنمائی فرمائی، اگر کوئی اور بات نہیں ہے تو پھر میں دوسرے ……
تقی عثمانی: بات کوئی اور نہیں ہے gist (مُخ) صرف جو ہے میری اس وقت کی گزارش کا وہ پیرا گراف ۷ اور پیراگراف ۴۲ اور آخری ۴۹ جیم۔
فائز عیسیٰ: جی وہ ٹیکسٹ آپ بھیجیے گا پھر ……
تقی عثمانی: میں آپ کو بھیجتا ہوں۔ دیکھیے میں صرف یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اب اگر آپ کوئی فیصلہ دیں نا، تو وہ فیصلہ براہ کرم پورے دل سے دیں، اور اس میں کوئی ایسی چیز نہ رہنے دیجیے کہ جس کی وجہ سے یہ سمجھا جائے کہ یہ بے دلی سے بات کی گئی ہے۔
فائز عیسیٰ: دل اور دماغ، یا دل؟
تقی عثمانی: (ظرافت کے ساتھ) نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ ما شاء اللہ آپ نے خود ظاہر کیا کہ آپ کو اپنی کسی غلطی سے اعتراف کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، یہ اتنی اچھی صفت ہے کہ…
فائز عیسیٰ: نہیں، میں تو پھر گنہگار ٹھہرا کہ اگر میں یہ کہوں کہ ……
تقی عثمانی: تو جب خود آپ کا یہ ذہن ہے اور حدیث بھی موجود ہے اس کے اوپر، حضرت فاروق اعظمؓ کے فیصلے موجود ہیں اس بات کے اوپر کہ بھئی اگر کسی …
فائز عیسیٰ: اسی لیے پرانے زمانے میں لوگ قاضی بنتے نہیں تھے کہ یہ تلوار کی دھار کے اوپر بیٹھنے کے برابر ہے۔ پھر آپ کو پتہ ہے کہ منصور نے کیا کیا قاضی بننے کے لیے، وہ نہیں بننا چاہ رہے تھے، وہ تو خیر آپ ہم سے بہتر جانتے ہیں وہ سارے واقعے ……
تقی عثمانی: یہ صحیح ہے بالکل، جناب فاضل چیف جسٹس صاحب آپ سینئر ہیں، میں تو بہت جونیئر تھا آپ کے ……
فائز عیسیٰ: نہیں آپ ہمارے بزرگ ہیں، میں آپ سے بہت کم عمر ہوں، علم میں بھی اور عمر میں بھی۔
تقی عثمانی: میں آپ سے صرف یہ گزارش کر رہا ہوں کہ آپ ما شاء اللہ اتنے کھلے دل کے آدمی ہیں کہ ہر غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہیں، اور یہی بڑے آدمی کی علامت ہوتی ہے کہ بڑی سے بڑی غلطی پر وہ ……
فائز عیسیٰ: بڑا نہیں ہوں مگر میں غلطی کا پتلا ہوں یہ اعتراف کرنے میں کوئی …
تقی عثمانی: لہٰذا میری گزارش جو ہے کہ (پیراگراف) ۴۹ والی ……
فائز عیسیٰ: وہ ذرا آپ نے لمبی بات کی مگر جب ہمیں ٹیکسٹ بھیجیں گے ……
تقی عثمانی: میں ابھی بھیجتا ہوں، اس پر آپ ضرور غور فرمائیے گا تو اس سے سارا اضطراب ختم ہو جائے گا۔
فائز عیسیٰ: ٹھیک ہے، ان شاء اللہ، جی آپ کی بات پر غور کریں گے ہم۔
تقی عثمانی، جی ضرور، میں ان کو جو مجھ سے رابطے میں تھے، ظفر اقبال صاحب، میں ان کو بھیج رہا ہوں۔
فائز عیسیٰ: بہت بہت شکریہ، ان کو فارورڈ کر دیں، وہ ہمیں پرنٹ آؤٹ دے دیں گے۔
تقی عثمانی: میں فورًا بھیج رہا ہوں۔ مگر براہ کرم اس کو دیکھیے گا ضرور ، اس پر غور ضرور کیجیے گا۔
فائز عیسیٰ: جی جی ضرور دیکھیں گے، ان شاء اللہ۔ آپ کو زحمت دی ہے اسی لیے، اس لیے تو نہیں بلایا کہ بغیر غور کیے …… ایک دفعہ پھر میں اپنی طرف سے اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے وقت نکالا اور یقیناً آپ کو کچھ دشواری ہوئی ہو گی آنے میں ادھر اور ہم سے ایڈریس کرنے میں۔
تقی عثمانی: یہاں میں انٹرنیشنل کانفرنس ہے جس کو میں چیئر کر رہا ہوں، ان سے میں…… ( فائز عیسیٰ: کون سے ……؟) یہ ہماری ایک کانفرنس ہے ’’شریعہ کونسلنگ فار دی اسلامک فائنانشل انسٹیٹیوشنز‘‘۔ تو وہ اسٹینڈرڈز تیار کر رہی ہے اسلامک فائنانس کے، تو اسٹینڈرڈز تیار کرنے میں بیس ملکوں کے علماء اس میں شریک ہیں، اور یہ تیس سال سے کر رہی ہے، اس کے اوپر یہ سمجھیے کہ تقریباً دو ہزار صفحات کے اسٹینڈرڈز سارے اسلامک بینکس کے لیے کہ وہ کس طرح کام کریں گے وہ تیار کیے گئے ہیں اور تیار کیے جا رہے ہیں، بہت ہی دیدہ ریزی کا کام ہے تو وہ ……
فائز عیسیٰ: کون سے شہر میں ہیں آپ؟
تقی عثمانی: میں اس وقت استنبول میں ہوں، ترکی میں۔
فائز عیسیٰ: استنبول میں، اچھا ٹھیک ہے، ایک بار پھر آپ کا شکریہ۔
تقی عثمانی: نہیں جناب، شکریہ آپ کا کہ آپ نے اس قابل سمجھا کہ اس موضوع کے اوپر ……
فائز عیسیٰ: آپ شرمندہ نہ کریں ہمیں۔
تقی عثمانی: جزاک اللہ، بہت بہت شکریہ۔
فائز عیسیٰ: چلیں بہت بہت شکریہ، تھینک یو۔
مبارک ثانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ کا اطمینان بخش فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محترم جناب قاضی فائز عیسیٰ نے ۲۴ اگست کو دوبارہ سماعت کے بعد سابقہ فیصلہ کے متنازعہ حصے حذف کر دیے ہیں جس پر ملک بھر میں اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے اور دینی قیادتوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے جو ہمارے خیال میں انتہائی خوش آئند ہے اور قومی و ملّی معاملات کو بہتر طریقہ سے حل کرنے کے جذبہ کا اظہار ہے۔ اس موقع پر سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کی طرف سے مجھے بھی حاضری کے لیے کہا گیا تھا جس پر میں نے خود حاضری کی بجائے چیف جسٹس محترم کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد مشتاق احمد صاحب کے نام ایک مکتوب میں اپنے موقف اور جذبات و احساسات کا اظہار کر دیا اور اس کا انہوں نے جواب بھی مرحمت فرمایا ہے جس پر میں ان کا شکرگزار ہوں۔ یہ خط و کتابت اگرچہ ذاتی نوعیت کی ہے مگر متعلقہ قومی و دینی مسائل کے حوالہ سے ہے اس لیے ’’الشریعہ‘‘ کے ذریعہ اسے تاریخ کے ریکارڈ میں شامل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، چنانچہ انہیں قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ (ابوعمار زاہد الراشدی)
باسمہ تعالیٰ
۱۹ اگست ۲۰۲۴ء
محترمی ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مزاج گرامی؟
مجھے آج عدالتِ عظمیٰ کے رجسٹرار آفس سے ’’مبارک ثانی کیس‘‘ پر بائیس اگست کو ہونے والی بحث کے موقع پر سپریم کورٹ میں حاضری کا نوٹس موصول ہوا ہے، یاد آوری کا تہہ دل سے شکریہ!
اس موقع پر حاضری بعض ذاتی وجوہ کی بنا پر میرے لیے مشکل ہو گی۔ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا فضل الرحمٰن، مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا پروفیسر ساجد میر اور محترم حافظ نعیم الرحمٰن کی موجودگی میں اس کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا کہ ان قائدین کا موقف ہی میرا موقف ہو گا۔ البتہ آپ کے ساتھ ذاتی طور پر ون ٹو ون بے تکلفانہ گفتگو کے طور پر کچھ باتیں کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔
(۱) قادیانیوں نے ۱۹۷۴ء کے بعد سے اپنے بارے میں دستورِ پاکستان کا فیصلہ تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف دنیا بھر میں لابنگ اور ذہن سازی کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے مگر کوئی ریاستی ادارہ اس کا نوٹس نہیں لے رہا اور دستورِ پاکستان اپنی عملداری کے لیے ریاستی اداروں کی مسلسل راہ تک رہا ہے۔
(۲) ۱۹۸۴ء کے بعد سے قادیانیت کے حوالہ سے تمام تر بحث و مباحثہ بین الاقوامی فورموں اور اداروں میں منتقل ہو چکا ہے جو دن بدن وسعت پذیر ہے مگر ریاست کے بارے میں بین الاقوامی ماحول میں ہونے والے اس بحث و مباحثہ میں کوئی ریاستی ادارہ سنجیدگی کے ساتھ ریاست اور دستور کی نمائندگی اور دفاع کی ذمہ داری قبول نہیں کر رہا بلکہ ریاستی اداروں سے ہٹ کر قومی و دینی حلقوں کی طرف سے بھی اس کا کوئی باقاعدہ نظم اور اہتمام دکھائی نہیں دے رہا جس کی وجہ سے یکطرفہ بریفنگ اور لابنگ کے نتیجہ میں بین الاقوامی فورموں میں ہونے والے یکطرفہ فیصلوں کو بین الاقوامی فیصلے قرار دے کر ان کی پابندی کو ضرور قرار دیا جا رہا ہے اور ان کی پابندی کے لیے یہ سارے پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔
(۳) صرف قادیانیت کا مسئلہ نہیں بلکہ دستورِ پاکستان کے تحت ملک میں نافذ ہونے والے شرعی قوانین کم و بیش سب کے سب اسی صورتحال سے دوچار ہیں جبکہ بین الاقوامی ماحول میں ریاست اور دستور کی نمائندگی اور دفاع کا کوئی نظم موجود نہ ہونے کے باعث (۱) ناموسِ رسالتؐ (۲) حدود و قصاص (۳) خاندانی قوانین اور دیگر دینی معاملات بھی اسی طرح یکطرفہ فیصلوں کے دباؤ کا شکار ہیں۔
(۴) ’’مبارک ثانی کیس‘‘ کا تسلسل دیکھ کر مجھے ’’جسٹس منیر انکوائری کمیشن‘‘ کا ماحول یاد آ رہا ہے کہ کس طرح معاملات و مسائل کو بلاوجہ پھیلا کر امت کے اجتماعی موقف کو کنفیوژن سے دوچار کر دیا گیا تھا اور پوری تحریک خلفشار کا شکار ہو گئی تھی، مجھے خدانخواستہ اب بھی اس کا خطرہ محسوس ہر رہا ہے۔
(۵) میرے خیال میں اس کیس کے مباحث کو مزید پھیلانے اور ’’ہائیڈ پارک کارنر‘‘ کا ماحول بنانے کی بجائے دستوری، دینی اور قومی تقاضوں کے دائرے میں جلد از جلد سمیٹنا ہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اور جن پہلوؤں کی میں نے اس عریضہ کے آغاز میں نشاندہی کی ہے، ان کی طرف خصوصی توجہ درکار ہے۔
دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت عدالتِ عظمیٰ کو اس مرحلہ میں باوقار سرخروئی سے بہرہ ور فرمائیں اور ہم سب کو ملک کے نظریاتی، دستوری اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے بہتر خدمت سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین۔
شکریہ! والسلام
ابو عمار زاہد الراشدی
گوجرانوالہ
محترم المقام حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے مزاجِ گرامی بخیر ہوں گے۔
آپ کے نوازش نامہ میں مذکور پہلے دو نکات پر میں سواے اس کے کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا کہ آپ کی تشویش بجا ہے لیکن اس معاملے میں عدالت کچھ نہیں کر سکتی، اور کم از کم موجودہ مقدمے کے تناظر میں تو بالکل بھی نہیں کر سکتی۔ موجودہ مقدمے کا دائرہ پہلے ہی بہت زیادہ پھیل چکا ہے، جس کی نشاندہی آپ نے بھی کی ہے، اور پھر یہ مقدمہ تو درحقیقت ختم ہو چکا ہے، نظرثانی کا مرحلہ بھی گزر چکا ہے، اس وقت تو صرف عبارت کی تصحیح ہی کی جا سکتی ہے اور اس سے زیادہ کچھ کرنا عدالت کے لیے آئین و قانون کی رو سے ممکن ہی نہیں ہے۔
آخری تین نکات پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے چونکہ موقع عنایت کیا ہے، اور چونکہ میں نے آپ کو ہمیشہ ایک شفیق مرشد کے طور پر دیکھا ہے، اس لیے میں دل کی باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں (کوئی تو ہے جس کے سامنے دل کی باتیں رکھی جا سکتی ہیں)۔
تیسرے نکتے پر عرض ہے کہ یہ ناچیز خود بھی، موجودہ ملازمت سے قبل بھی اور ملازمت کے دوران میں بھی، مسلسل مختلف مواقع پر بار بار توجہ دلاتا رہا ہوں، اور الحمد للہ قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے چیف جسٹس بننے کے بعد قصاص و دیت اور حدود کے جرائم کے علاوہ بھی بہت سارے مقدمات میں قرآن و سنت سے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں استدلال کا رجحان نظر آنے لگا ہے، یہاں تک کہ بظاہر جن قوانین کو سیکولر سمجھا جاتا ہے، ان کے تحت دائر مقدمات میں بھی قرآن و سنت کی روشنی میں قوانین کی تعبیر کی بات ہونے لگی ہے۔
سب سے اہم مقدمہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ۲۰۲۳ء کے متعلق تھا جس میں چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا کہ تمام قوانین کی ایسی تعبیر لازم ہے جو قرآن و سنت کے احکام سے ہم آہنگ ہو۔ اس فیصلے کو فُل کورٹ کی تائید حاصل ہے۔ یہی بات بعد میں جسٹس سید منصور علی شاہ نے الیکشن ایکٹ ۲۰۱۷ء کے تحت ایک مقدمے کے فیصلے میں بھی لکھی۔
نیز شریعت اپیلیٹ بینچ جو سالہا سال سے غیر فعال تھا، اس میں نئے عالم حج کا تقرر کر کے ان مقدمات کی سماعت شروع کی جو ۳۵ سال سے زیر التوا تھے اور کوئی انھیں سماعت کے لیے مقرر کر ہی نہیں رہا تھا۔
ان امور کی نہ صرف یہ کہ تحسین مذہبی طبقے اور علمائے کرام نے نہیں کی، بلکہ توجہ دلانے کے باوجود ان کی جانب سے مکمل خاموشی ہی رہی۔ اس لیے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں دستور اور قانون کی اسلامیت کے معاملے میں کمزوری کی ذمہ داری کیا صرف عدالتوں پر عائد ہوتی ہے ، یا ہمارے علمائے کرام بھی اس میں کسی حد تک قصور وار ہیں؟ عدالتیں اگر بیرونی دباؤ کا شکار نظر آرہی ہیں، تو اس تاثر کی صحت یا عدم صحت سے قطع نظر کیا یہ علمائے کرام کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ عدالتوں کے اسلامی فیصلوں کی تائید کر کے اس نصرت فراہم کریں؟ ہمارا دینی طبقہ مسلسل بد گمانی میں کیوں مبتلا ہے اور اچھے کاموں کی تحسین کے بجاے ان میں بھی سازش کا جال کیوں تلاش کرنے پر تلا ہوتا ہے؟
اب چند معروضات چوتھے اور پانچویں نکات پر۔
مبارک ثانی کیس میں ’’تسلسل‘‘ تو خود مذہبی طبقے کے اصرار پر ہے اور اس وجہ سے اسے جسٹس منیر انکوائری کمیشن سے تشبیہ دینا، میری ناقص راے میں، درست نہیں ہے۔ جسٹس منیر تو مذہبی طبقے کو گھیر نا چاہتے تھے اور یہ دکھانا چاہتے تھے کہ یہ تو مسلمان کی تعریف پر ہی متفق نہیں ہیں۔ اس کے برعکس قاضی صاحب نے پوری صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ مسلمان کی جو تعریف آئین میں دی گئی ہے، یہ قرآن و سنت کے مطابق ہے، ختم نبوت پر کامل اور غیر مشروط ایمان کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوتا، اور یہ کہ غامدی صاحب کی راے کہ ہم کسی کو کافر یا غیر مسلم نہیں کہہ سکتے، آئین سے متصادم ہے۔ پھر یہ ہنگامہ، اے خدا، کیا ہے؟!
تاہم إمارة الصبیان کا نظارہ ہم نے بچشمِ سر دیکھا جب سوشل میڈیا پر اور منبر و محراب پر ایک طوفان کھڑا کیا گیا۔ عدالت نے پہلے ایک پریس ریلیز جاری کی۔ اس پریس ریلیز کا ہی ٹھنڈے دل سے جائزہ لیا جاتا، تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا؛ لیکن صبیان معاملہ ختم کرنے پر کہاں آمادہ تھے ؟ انھوں نے معاملہ آگے بڑھایا، تو عدالت نے نظر ثانی کا موقع دیا اور پھر نظر ثانی کے دائرے سے آگے جا کر ۸ دینی مدارس اور اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی نوٹس کیا، لیکن صبیان نے سوئی دسویں ادارے المورد پر ٹکا کر رکھ دی، حالانکہ جب اس کا نام لیا گیا، تو موقع پر موجود جسٹس (ر) شوکت صدیقی سمیت کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ پھر نظر ثانی کے موقع پر سب کو تفصیل سے سنا گیا، ان کی تحریرات دیکھی گئیں اور وہ سب کچھ ہوا جو نظر ثانی میں نہیں ہوتا۔ یہ سب کچھ بھی صبیان کو مطمئن نہیں کر سکا۔ ایک دفعہ پھر عدالت نے پریس ریلیز جاری کی، لیکن صبیان اس سے کہاں مطمئن ہوتے۔ اب عدالت نے عبارت کی تصحیح کا موقع عنایت کیا، تو صبیان سپریم کورٹ پر ہی چڑھ دوڑے، اور ہمارے بزرگ ابھی تک اس معاملے میں آگے بڑھ کر اپنا کر دار ادا کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
میری سوچی سمجھی راے ہے کہ اگر ہمارے بزرگ علمائے کرام خود اس معاملے کو ابتدا سے دیکھتے اور إمارۃ الصبیان کی زد میں نہ آتے، تو سرے سے نظر ثانی کی ہی ضرورت نہیں تھی۔ پچھلے چند سالوں سے بعض صبیان نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے کہ قادیانیوں جو افعال اپنے گھروں میں سر انجام دیتے ہیں، ان پر بھی توہین قرآن اور توہین رسالت کے مقدمات قائم کیے جائیں۔ ایسا پہلے نہیں تھا۔ دوسری آئینی ترمیم کے وقت اسمبلی اور خصوصی کمیٹی کی پوری کارروائی میں کہیں ایسا نہیں ہے۔ وہاں تو اس کے بر عکس یہ ہے کہ غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد انھیں دیگر اقلیتوں کی طرح مذہبی آزادی کا حق حاصل ہو گا (کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود کو غیر مسلم مانیں، اور جب تک وہ ایسا نہ مانیں، تب تک انھیں یہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے؟ اس پر اپنی معروضات آگے پیش کروں گا۔)
امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ۱۹۸۴ء کے ذریعے مجموعۂ تعزیرات میں اضافہ کی گئی دفعات ۲۹۸-بی اور ۲۹۸-سی کا اطلاق بھی ہمیشہ عوامی سطح پر کیے جانے والے افعال پر کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی تصریح وفاقی شرعی عدالت نے مجیب الرحمان کیس میں بھی کی ہے بلکہ اس کیس میں تو وفاقی شرعی عدالت نے یہاں تک کیا ہے کہ قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے لیے وہی احکام ذکر کیے ہیں جو دار الاسلام میں ذمیوں کی عبادت گاہوں کے لیے ہیں۔ نیز اس فیصلے میں کہا گیا کہ غیر مسلم کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق حاصل ہے لیکن وہ خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتا۔
۱۹۹۳ء کے ظہیر الدین کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ میں ایک رکن نے تو سرے سے مجموعۂ تعزیرات کی ان دفعات کو ہی مذہبی آزادی کے آئینی حق سے متصادم قرار دیا؛ تین ججوں نے کہا کہ یہ متصادم نہیں ہیں؛ ایک حج نے آدھی بات ایک فریق کی مانی اور آدھی دوسرے فریق کی۔ اہم بات یہ ہے کہ اکثریتی (تین جوں کے فیصلے میں بھی ساری بحث اس پر ہے کہ کون سے امور ” قادیانی مذہب‘‘ کے لازمی اجزا میں شامل ہیں اور کون سے نہیں، کیونکہ جو کام کسی مذہب کے لازمی اجزا میں شامل ہوں، ان کی اجازت (معقول قیود کے اندر ) دی جا سکتی ہے۔ نیز اس فیصلے میں قرار دیا گیا کہ قادیانیوں کو ’’دیگر اقلیتوں کی طرح‘‘ اپنے مذہب پر عمل کا حق حاصل ہے اور کوئی قانون یا انتظامی حکم ان سے یہ حق نہیں چھین سکتا۔
ان دونوں مقدمات میں مسئلہ یہ اٹھایا گیا تھا کہ قادیانی دوسروں کے سامنے خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتے۔ ان میں یہ سوال سرے سے تھا ہی نہیں کہ قادیانیوں کے افعال بذاتِ خود توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت ہیں۔
۲۰۲۲ء کے طاہر نقاش کیس میں پہلی دفعہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بات اٹھائی گئی کہ قادیانیوں کے اپنی عبادت گاہ کے اندر قرآن کا مصحف رکھنا توہینِ قرآن ہے اور کلمہ طیبہ لکھنا تو ہینِ رسالت ہے۔ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہے جب تک کوئی توہین پر مبنی فعل انجام نہ دیا جائے۔
ہمارے علمائے کرام کو ان تین فیصلوں پر اعتراض نہیں ہے، لیکن موجودہ فیصلے پر اعتراض ہے، حالانکہ موجودہ فیصلے میں:
- قادیانیوں کے عقائد کو ”مذہب ‘‘ نہیں کہا گیا؛
- قادیانیوں کی عبادت گاہوں کے لیے ذمیوں کی عبادت گاہوں کے احکام ذکر نہیں کیے گئے؟
- صراحت کی گئی کہ قادیانی خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتے، نہ ہی مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال کر سکتے ہیں؛
- صراحت کی گئی کہ عوامی سطح پر مذہبی آزادی کا حق قانون، اخلاق اور امنِ عامہ کے تابع ہے؛
- صراحت کی گئی کہ نجی سطح پر کیے جانے والے افعال پر بھی قانون کے تحت معقول قیود عائد کی جا سکتی ہیں۔
یہ آخری بات تو خصوصاً اہم ہے کیونکہ یہ بات تو مجیب الرحمان، ظہیر الدین اور طاہر نقاش کے فیصلوں سے زیادہ سخت ہو گئی ہے، لیکن پھر بھی تنقید اسی بات پر کی جا رہی ہے۔
ابھی پچھلے دنوں مولانا اعجاز مصطفیٰ صاحب نے لکھا تھا:
’’یہ بات تو ٹھیک ہے کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق ہے، لیکن ان آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر سے یہ کیسے ثابت ہوا کہ وہ اپنے مذہب کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر کر سکیں گے؟‘‘
شاید فاضل صاحبِ علم کی نظر اس پہلو کی طرف نہیں گئی کہ اگر ”اپنے گھروں، عبادت گاہوں اور اپنے نجی مخصوص اداروں کے اندر‘‘ بھی وہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے مذہب کا اظہار یا ایک دوسرے کو اس کی تبلیغ نہیں کر سکیں گے، تو پھر ’’اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق‘‘ یکسر بے معنی ہو جاتا ہے۔ پھر ہمارے اکابر نے دوسری آئینی ترمیم کے وقت یہ کیوں کہا تھا کہ قادیانیوں کو بطور غیر مسلم اقلیت شہری حقوق میسر ہوں گے؟
اب رہا وہ سوال کہ کیا یہ حقوق اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ پہلے یہ خود کو غیر مسلم مان لیں، تو اس ناچیز کی رائے میں اسمبلی اور خصوصی کمیٹی کی کارروائی، آئینی ترمیم، امتناع قادیانیت آرڈی نینس اور وفاقی شرعی عدالت و سپریم کورٹ کے فیصلوں، کہیں سے بھی اس شرط کا وجود معلوم نہیں ہوتا۔ خود ہمارے علمائے کرام آئین کی دفعہ ۱۸۹ کو نہیں مان رہے جس کا کہنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننا سب پر لازم ہے؛ خود میری ناقص راے میں دفعہ ۴۵ میں حمل المطلق علی المقید ضروری ہے کیونکہ صدر ہر سزا کو معاف نہیں کر سکتا؛ یہی کچھ دفعہ ۲۴۸ کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ صدر، وزیر اعظم و غیر کو قانون سے استثنا مطلقاً حاصل نہیں ہے؛ اور بھی کئی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں؛ لیکن اس سب کچھ کے باوجود میرے اور آپ کے شہری حقوق ہمیں میسر ہیں۔
اگر ہمارے علمائے کرام کے نزدیک قادیانی ریاست کے باغی ہیں، تو تاویل کے علاوہ منعہ بھی ثابت کرنا ہو گا، اور اس کے بعد بھی انھیں باغی قرار دینا حکومت کے دائرۂ کار میں آئے گا، نہ کہ عدالت کے اختیار میں۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ عدالت تو آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابند ہے۔ اس لیے قانون میں کوئی سقم ہے، تو اس سقم کا دور کرنا پارلیمان کا کام ہے، نہ کہ عدالت کا۔ پارلیمان قرار داد پاس کرنے کے بجاے قانون میں ترمیم کیوں منظور نہیں کر لیتی؟
یہ چند باتیں بے ساختہ اور بے سوچے سمجھے لکھی گئیں۔ اگر کہیں میں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہو، تو آپ کی شفقت، رافت اور اصاغر نوازی سے امید یہی ہے کہ آپ نہ صرف نظر انداز کریں گے، بلکہ میرے حق میں دعا بھی کریں گے۔
اس وقت عدالت کے سامنے معاملہ ”عبارت کی تصحیح‘‘ کی حد تک ہے۔ اگر فقرہ ۴۲ کی تصحیح کی جائے، تو شاید معاملہ خوش اسلوبی سے حل ہو جائے۔ اس لیے میری مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ ضرور تشریف لائیں اور معاملہ اپنے ہاتھ میں لیں۔ عدالت کی رہنمائی اور اس ابتلا سے ملک و قوم کو نکالنے کا کام آپ جیسے بزرگ اصحابِ علم و تقوی ہی کر سکتے ہیں۔
والسلام عليكم ورحمۃ اللہ وبركاتہ
نیاز مند
محمد مشتاق احمد
۱۴ صفر ۱۴۴۶ھ
(۲۰ اگست ۲۰۲۴ء)
مبارک ثانی کیس کا فیصلہ : دیوبندی قیادت کے لیے قابل توجہ پہلو
ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
گزشتہ فروری میں سپریم کورٹ نے مبارک ثانی کیس کے حوالے سے اپنا فیصلہ جاری کیا تو مذہبی طبقے کے لیے یہ ایک بم پھٹنے جیسی صورت حال تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مذہبی طبقے نے آج تک احمدیوں کے بارے میں کی گئی قانون سازی سے متعلق ریاستی اور عدالتی زاویہ نظر کو ٹھیک طور پر سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی اور عدلیہ کی مسلسل تصریحات کے باوجود اپنی من مانی قانونی تشریحات میں مصروف رہا۔ زیر بحث مقدمے میں نجی حدود میں مذہبی آزادیوں کے اصول کا اطلاق بظاہر ایک نئے معاملے (یعنی احمدی کمیونٹی کے پیروکاروں کے لیے مذہبی لٹریچر کی اشاعت اور فراہمی) پر کیا گیا، لیکن یہ اصول عدالتی وقانونی سطح پر پہلے دن سے طے کر دیا گیا تھا۔ بہرحال مذہبی طبقے کے لیے عموماً اور دینی قیادت کے لیے خصوصاً اس صورت حال کی نوعیت ناگہانی آفت کی تھی اور دینی وسیاسی قیادت کا جو ابتدائی اور فوری ردعمل سامنے آیا، وہ جارحانہ اور مقدمے کی تفصیلات سے بے خبری پر مبنی تھا۔
اس تناظر میں مذہبی طبقوں کے پاس اس کے سوا کوئی فوری آپشن نہیں تھا کہ وہ احتجاج اور مذمت اور سازشوں کی دہائی دینے کا راستہ اختیار کر کے اپنی ساکھ کو بچانے کی کوشش کریں۔ چنانچہ مارچ میں مقدمے پر نظر ثانی کی درخواست دائر ہونے کے بعد نچلی سطح کی قیادت، خصوصاً عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما مولانا اللہ وسایا صاحب نے چیف جسٹس اور ان کے سیکرٹری ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کے خلاف ایک منفی پراپیگنڈا مہم شروع کر دی اور فتوے بازی کا معروف اور آزمودہ اسلوب اختیار کرتے ہوئے عدالت پر دباو ڈالنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ تاہم یہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی اور جولائی کے آخر میں نظر ثانی شدہ فیصلہ زیادہ تفصیل اور وضاحت کے ساتھ مذہبی موقف کے خلاف آ گیا۔
اس مرحلے پر مختلف دیوبندی تنظیموں نے شخصی الزام تراشی اور فتوے بازی کا پہلے سے بڑھ کر سنگین اسلوب اختیار کیا اور بعض دیوبندی تنظیموں کے ذمہ داران کی طرف سے یہ سرٹیفکیٹ تک جاری کر دیا گیا کہ چیف جسٹس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے محروم قرار پا چکے ہیں، جیسے یہ حضرات آپ کی طرف سے شفاعت کے امیدواروں کی اسکروٹنی پر مامور ہوں۔ نعوذ باللہ۔ تاہم صورت حال اس پہلو سے زیادہ سنگین ہو گئی کہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے تحریک لبیک پاکستان اور اس کے ہم نوا عناصر بھی شامل ہو گئے اور چیف جسٹس کے قتل وارتداد کے فتوے جاری کر کے سارے معاملے کو اس رخ پر آگے بڑھانے کی کوشش کی جس پر سلمان تاثیر اور آسیہ کیس کو بڑھایا گیا تھا۔
اس ساری صورت حال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کے سامنے تین بڑے چیلنج تھے جن سے اسے بیک وقت نبرد آزما ہونا تھا:
۱۔ عدالت کے سامنے مذہبی موقف کی ترجمانی،
۲۔ ذیلی تنظیمی جتھوں کی طرف سے گولہ باری کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ افہام وتفہیم کا راستہ نکالنا، اور
۳۔ اس پورے معاملے کو تحریک لبیک جیسے عناصر کے ہاتھوں ہائی جیک ہونے سے بچانا۔
چنانچہ دیوبندی قیادت نے قومی سطح پر مذہبی نقطہ نظر کی ترجمانی کو تدریجاً اپنے ہاتھ میں لیا، ایک نسبتاً متوازن موقف پیش کرنے کا اہتمام کیا اور الزام تراشی اور بدزبانی کے اسلوب پر غیر ذمہ دار عناصر کو مناسب انداز میں سرزنش کی۔ اس ضمن میں والد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی طرف سے ۲۹ جون کو روزنامہ اسلام میں ’’ریاست مدینہ کے کلمہ گو غیر مسلم شہری“ کے عنوان سے ایک اہم تحریر شائع ہوئی جس میں سیرت نبوی سے استشہاد کرتے ہوئے مصلحت اور حکمت کے مختلف پہلو واضح کیے گئے اور یہ پیغام دیا گیا کہ ملک کی دینی قیادت اور ریاستی اداروں کو مصلحت کے ان پہلووں کا لحاظ رکھتے ہوئے باہمی مشاورت سے اس بحران کا حل ڈھونڈنا چاہیے۔ اسی بحث کے دوران میں والد گرامی کی طرف سے ’’ایک تلخ تجربہ اور مشاہدہ“ کے عنوان سے درج ذیل تحریر بھی سوشل میڈیا پر شائع ہوئی:
’’۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دور کی بات ہے جب میں گوجرانوالہ شہر کی کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا سیکرٹری جنرل تھا۔ کسی قصبہ میں تحریک ختم نبوت کے جلسہ کی اجازت لینے کے لیے ایک ذمہ دار دینی راہنما مجھے ساتھ لے کر اے سی گوجرانوالہ کے پاس گئے اور درخواست پیش کی۔ انھوں نے کچھ دیر تامل کا اظہار کیا تو درخواست دہندہ نے جھٹ سے کہہ دیا کہ آپ مرزائی تو نہیں ہیں؟ اے سی صاحب نے کہا، مولوی صاحب! مجھے یہ گالی نہ دو، میں اجازت دے دیتا ہوں۔ دفتر سے باہر نکلے تو میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کیا ہے؟ بولے کہ اس کے بغیر اجازت نہیں ملنا تھی۔ اس وقت تو میں نے اس کو ذاتی اور انفرادی مزاج سمجھ کر نظر انداز کر دیا، مگر نصف صدی کے مسلسل تجربہ اور مشاہدہ سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بعض حلقوں میں اس کی شاید باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ’’فن “ اب ایک تن آور درخت کی صورت میں پوری قوم کے لیے مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کے حال پر رحم فرمائیں۔ آمین ثم آمین“
سپریم کورٹ کے فیصلے پر مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء نے مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب اور مفتی منیب الرحمٰن صاحب کی قیادت میں اپنا تفصیلی موقف پیش کیا جو قانونی نکات اور مذہبی استدلالات، دونوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس کے آخر میں بھی جذباتی اور غیر ذمہ دار عناصر کو یہ نصیحت کی گئی کہ :
’’ہم بصد ادب علمائے کرام اور خطبائے عظام سے گزارش کرتے ہیں: ختم نبوت اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے، اس پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا عدالتی فیصلے پر گفتگو کرتے ہوئے ہمیں متانت، وقار اور اسلامی اخلاقیات کا پاس رکھنا چاہیے۔ تہذیب سے گری ہوئی گفتگو اور گالی گلوچ سے حاملین دین کے بارے میں منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور یہ ہمارے عظیم ترین مقصد کے لیے نقصان دہ ہے۔“
ان اقدامات سے افہام وتفہیم کے ماحول میں ریاستی اداروں کے ساتھ نتیجہ خیز مکالمے کا امکان پیدا ہوا اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۲۲ اگست کو سپریم کورٹ میں فیصلے میں تصحیح کے حوالے سے وفاق کی درخواست کی سماعت کے موقع پر نمایاں ترین کردار مولانا فضل الرحمٰن اور مفتی تقی عثمانی صاحب کا رہا۔ کسی قسم کی بدتمیزی یا تلخ کلامی سے کام لیے بغیر خوش اسلوبی سے دیوبندی قیادت نے عدالت کو اپنے نقطہ نظر کے حق میں قائل کر لیا اور عدالت نے اپنے مختصر حکم نامے میں سابقہ فیصلوں کے متنازعہ پیراگراف حذف کرنے کا اعلان کر دیا۔
فیصلے کے بعدبہت سے قانون دان حضرات نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کئی تحفظات ظاہر کیے ہیں جو تکنیکی طور پر درست ہوں گے، لیکن اس کا ایک پہلو بلکہ بنیادی پہلو سیاسی بھی ہے۔ سیاسی زاویے سے دیکھا جائے ریاستی اداروں اور دیوبندی قیادت نے سمجھ داری اور سیاسی پختگی کے ساتھ صورت حال کو ایک بڑے خلفشار میں بدلنے سے بظاہر روک دیا ہے۔ یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ دیوبندی قیادت کو جو تینوں چیلنجز درپیش تھے، وہ حالیہ قضیے کی حد تک ان سب سے بیک وقت نبردآزما ہونے میں کامیاب رہی ہے۔
جہاں تک فیصلے کے قانونی مضمرات کا تعلق ہے تو مختصر حکم نامے میں چونکہ ان پیراگرافس کی تعیین نہیں کی گئی جو سابقہ فیصلوں سے حذف کیے گئے ہیں، اس لیے سردست اس پر کوئی رائے زنی بھی نہیں کی جا سکتی۔ بعض چینلز پر جو متعین پیراگرافس ذکر کیے گئے ہیں، ان کا حکم نامے میں تصریحاً کوئی ذکر نہیں اور اس کو فی الحال ایک قیاس ہی کہا جا سکتا ہے جو ممکن ہے، درست ہو۔ لیکن حقیقی صورت حال تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر ہی واضح ہوگی اور تبھی یہ دیکھا جا سکے گا کہ حذف شدہ پیراگرافس کے کے بعد قانون کی مجموعی تعبیر کیا بنتی ہے اور کیا وہ اعلیٰ عدلیہ کی اب تک کی تعبیر سے مختلف ہے یا اس کے ساتھ ہم آہنگ ہے۔ البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر عدالت میں موجود ذمہ دار علماء کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کیا گیا ہے تو مذہبی حلقوں کے اس بڑے اعتراض کا ازالہ یقیناً کر دیا جائے گا کہ کچھ پیراگرافس سے قادیانیوں کو اپنے گھروں کے اندر مسلمانوں کو تبلیغ کی اجازت دینے کا تاثر ملتا ہے جو ظاہر ہے، قانون کے خلاف ہے۔
البتہ اس مرحلے پر اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت کی توجہ بعض ضروری أمور کی طرف مبذول کروانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
میں نے کچھ عرصہ پہلے اپنی ایک تحریر میں دیوبندی قیادت کی ایک خوبی اور صلاحیت کا ذکر ان الفاظ میں کیا تھا:
’’کسی بھی طبقے کے لیے، معاشرے میں قائدانہ نوعیت کا کوئی کردار ادا کرنے کے لیے جن فکری وعملی اور مزاجی خصوصیات کا پایا جانا ضروری ہوتا ہے، ان میں دوسرے طبقوں کے ساتھ ، اختلاف کے باوجود، کسی نہ کسی سطح پر تعلق کو قائم رکھنے اور باہمی تعامل کے لیے ممکنہ مشترک بنیادوں کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی خصوصیت غالباً سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ دیوبندی مزاج میں یہ خصوصیت، جیسا کہ بیان کی گئی مثالوں سے واضح ہوتا ہے، بدرجہ اتم موجود ہے اور دیوبندی روایت کو مذہبی فکر وعمل کے میدان میں حاصل امتیاز کے ایک بنیادی سبب کا درجہ رکھتی ہے۔“ (ماہنامہ الشریعہ، جنوری ۲۰۱۹ء)
اس ضمن میں ۷۴ء کے آئینی فیصلے کے تناظر میں مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے ایک مختصر خط کا حوالہ دینا یہاں برمحل ہوگا جو انھوں نے مولانا سمیع الحق مرحومؒ کے استفسار کے جواب میں لکھا تھا اور ماہنامہ ’’الحق “ کی خصوصی اشاعت میں شائع ہوا۔ مولانا نے اس میں قادیانی مسئلے کے حوالے سے دینی طبقوں کو تین بنیادی مشورے دیے تھے:
۱۔ آئینی فیصلے کی صورت میں جو قدم اٹھایا گیا ہے، وہ کافی ہے جس کا مطلب یہ تھا کہ اس معاملے میں ریاست پر غیر ضروری بوجھ ڈالتے چلے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
۲۔ ریاست کے کار پرداز طبقات کو دینی واعتقادی بنیاد پر طعن وتشنیع اور فتوے بازی کا نشانہ بنانے سے اجتناب کیا جائے۔
۳۔ اس مسئلے کو ’’وجاہت “ کا مسئلہ بنانے کا راستہ اختیار نہ کیا جائے جس سے ان کی مراد یہ تھی کہ اسے مذہبی سیاست کا موضوع بنا کر اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔
خط کا متن حسب ذیل ہے:
’’برادرم مولانا سمیع الحق صاحب
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ موصول ہوا۔ مرزائیت کا اللہ تعالیٰ نے خاتمہ کر دیا ہے۔ اب ان کا معاملہ دوسرے کافروں کی طرح ہے۔ یہ سکھ، پارسی، عیسائی اور ہندو کی طرح ہو چکے ہیں۔ نکاح وغیرہ کے مسائل حل ہو گئے۔ ہمارےٹکٹ پر یہ ممبر نہیں بن سکیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔ باقی مسائل کے بارہ میں ہم کو امید رکھنی چاہیے کہ حل ہو جائیں گے۔ میں اس بات کے سخت خلاف ہوں کہ بعض خود غرض اور اقتدار پسند افراد کہتے پھرتے تھے کہ حکومت مرزائی ہو گئی ہے، مرزائی نواز ہے، یہ ٹال رہی ہے۔ میرے بھائی! یہ کافی ہے۔ باقی میں سمجھتا ہوں، مرزائیت کا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ کم از کم اس مسئلے کو ہم اپنی وجاہت کا مسئلہ نہیں بنا سکتے۔ جیسے دینی ضرورت پیش آئے گی، کریں گے۔ اللہ تعالیٰ توفیق بخشے۔ فقط (۱۸ ۔ اکتوبر ۱۹۷۴ء) “
یہ تینوں نصیحتیں بہت برمحل اور اہم تھیں، لیکن افسوس ہے کہ تینوں پر ہی دینی طبقات نے کوئی توجہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ صورت حال اس وجہ سے بھی بگڑتی چلی گئی ہے کہ اعلیٰ سطحی دینی قیادت کی توجہ مرکوز نہ رہنے سے ذیلی سطح کے تنظیمی اسٹرکچر اپنی حکمت عملی کے اہداف اور سرگرمیوں کا رخ متعین کرنے میں ایک طرح سے خود مختار ہوتے چلے گئے ہیں ۔
اس مقدمے کے مختلف مراحل پر میں تسلسل سے اس پہلو کی طرف ذمہ دار دینی قیادت کو متوجہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ چنانچہ ۲۵ اپریل کو سوشل میڈیا پر اپنی تحریر میں عرض کیا کہ:
’’ختم نبوت اور توہین مذہب کے ایشوز بنیادی طور پر اکابر اور ذمہ دار اہل علم کی نگرانی اور گرفت سے نکل کر تنظیمی سطح کے مہم جوؤں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلسل یہ ہو رہا ہے کہ اپنے طور پر کوئی نہ کوئی جتھہ کوئی قانونی یا عدالتی "کارنامہ" انجام دے کر داد سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے اور ذمہ دار فورمز یا شخصیات کو مجبوراً ان کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے۔
پچھلے سال قادیانیوں کو اپنے گھروں میں قرآن کے نسخے رکھنے سے روکنے کی کوشش کو عدالت عظمی نے غلط قرار دیا، وہ بھی ایسا ہی کیس تھا۔ ابھی جس کیس میں تفسیر صغیر کی تقسیم کو جرم قرار دلوانے کی کوشش کی گئی، اس کی نوعیت بھی یہی ہے۔ میں ذمہ داری سے بتا سکتا ہوں کہ جو جو اکابر اور بزرگان عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے نظر آئے، ان میں سے کوئی بھی اس مقدمے اور اس کی تفصیلات سے پہلے واقف نہیں تھا۔ … ذمہ دار قیادت سے گزارش ہے کہ وہ معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیں اور ایسے اقدامات پر مشاورت کا کوئی فورم بنا لیں تاکہ ہر چار چھ مہینے کے بعد پورے مذہبی طبقے کو کچھ افراد کی حماقتوں پر شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ “
سپریم کورٹ کی طرف سے نظر ثانی شدہ فیصلہ آنے سے پہلے، یکم جون کو سوشل میڈیا پر ایک تحریر میں، میں نے عرض کیا تھا کہ :
’’عدالتیں کئی دفعہ سیاسی صورت حال کو بھی مدنظر رکھتی ہیں۔ اس لیے کسی نہ کسی انداز کی فیس سیونگ ہمارے خیال میں مذہبی طبقوں کو دینی چاہیے تاکہ ہارجیت کی لڑائی میں مشغول ہو جانے کے بجائے انھیں ذرا توقف کر کے پوری صورت حال پر غور کرنے کا موقع مل سکے۔ مذہبی طبقوں میں صورت حال کا درست ادراک رکھنے والا عنصر بھی بڑے پیمانے پر موجود ہے، لیکن جذباتیت اور تصادم کی فضا میں اس کے لیے کوئی کردار ادا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ میرے خیال میں اعلیٰ سطحی دیوبندی قیادت اس بحران میں کچھ افاقہ ہونے پر نچلی سطح کی ’’نیم خود مختار“ تنظیموں کے لیے آئندہ کی حکمت عملی کا رخ طے کرنے اور کچھ قدغنین وغیرہ عائد کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر قیادت کو اس کی نزاکت یا سنگینی کا کچھ ادراک ہو تو امید ہے کہ اس نازک صورت حال سے، آگے بڑھنے کے کچھ مثبت راستے نکل آئیں گے۔ ان شاء اللہ“
ہمارے خیال میں مبارک ثانی کیس کے حالیہ تجربے کی روشنی میں اعلیٰ سطحی دینی قیادت کو اب سنجیدگی کے ساتھ اس پہلو کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
اس کے ساتھ مذہبی طبقات کے رویے اور طرز گفتگو میں اس امر واقعہ کا ادراک بھی جھلکنا چاہیے کہ ختم نبوت کے عقیدے پر تو تمام مسلمان متفق ہیں، لیکن منکرین ختم نبوت کے ساتھ سیاسی اور قانونی لحاظ سے کیا معاملہ کرنا ہے، اس میں ایک واضح اختلاف موجود ہے۔ مذہبی علماء یا تنظیمیں اس معاملے کی یک طرفہ طور پر اجارہ دار بن کر ریاست اور معاشرے پر اپنا موقف مسلط نہیں کر سکتیں۔ اس میں ریاست بھی فریق ہے، مذہبی علماء بھی ’’ایک “ فریق ہیں، معاشرے کے دیگر طبقات بھی فریق ہیں اور ملک کے شہری اور ایک اقلیتی گروہ ہونے کی حیثیت سے خود احمدی کمیونٹی بھی ایک فریق ہے۔ نزاع کے متوازن اور قابل عمل تصفیے میں ان سب فریقوں کے نقطہ نظر کو اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔
اس ضمن میں ہماری قومی تاریخ اور سیاست کا یہ سبق ہر وقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ خصوصاً ۸۰ء کی دہائی سے مختلف اقسام کی سیاسی یا مذہبی ریڈیکلائزیشن کو فروغ دینا اور اس عمل کو اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے استعمال کرنا ہماری مقتدرہ کا ایک آزمودہ طریقہ ہے۔ مذہبی دائرے میں سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی، سب کے سب طبقے کسی نہ کسی حوالے سے اس عمل سے گزر چکے ہیں اور ابھی امکانات محدود نہیں ہوئے۔ اس سارے عمل کی قیمت معاشرے کو دینی پڑتی ہے اور بعض صورتوں میں خود مقتدرہ بھی اس کی زد میں آتی ہے، لیکن وہ بھی مقصد کے لحاظ سے سازگار ہوتی ہے، یعنی جب تک کسی قوت کو استعمال کیا جا سکے، استعمال کیا جائے اور جب وہ حد سے کچھ متجاوز ہونے لگے تو ریاست کے تحفظ کے لیے مقتدرہ ہی نجات دہندہ کے طور پر موجود ہو۔
اس کی جو قیمت بطور ایک تہذیبی قوت کے، مذہب کو ادا کرنی پڑے گی بلکہ یہ ادائیگی شروع ہو چکی ہے، وہ معاشرے کی سطح پر مذہب سے لاتعلقی یا الحاد اور ریاست کی سطح پر سیکولرائزیشن ہے۔ مذہب ایک غضب ناک قوت کی شکل میں متحرک ہو تو فہیم اور تعمیری سوچ رکھنے والے عناصر کے لیے اس میں کشش نہیں رہتی۔ جب ایک کے بعد دوسرا مذہبی طبقہ ریڈیکلائز ہو کر کسی نہ کسی عنوان سے اپنی من مانی ریاست اور معاشرے سے منوانے کو ریت بنا لے گا تو ریاست کی برداشت کا پیمانہ بھی آخر بھر جائے گا اور نتیجتاً سیکولرائزیشن کا بیانیہ قوت پکڑے گا۔
مبارک ثانی کیس ہے کیا اور اب تک اس میں کیا ہوا؟
انڈپینڈنٹ اردو
سیشن کورٹ، ہائی کورٹ، سپریم کورٹ میں سماعتوں، سزاؤں، ضمانتوں، فیصلوں، نظرِ ثانی اور پھر قائمہ کمیٹی اور قومی اسمبلی میں بحث، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے احتجاج، علمائے کرام کی جانب سے بیانات اور سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر دھواں دھار بحث تک پہنچنے والا یہ مقدمہ پاکستان کی حالیہ تاریخ کے سب سے اہم اور مشہور مقدمات میں سے ایک ہے۔
اس سارے معاملے کی ابتدا آج سے پانچ سال قبل ہوئی۔ سات مارچ 2019 کو صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں احمدیہ کمیونٹی کے چند اراکین نے مبینہ طور پر تحریف شدہ قرآن کی تفسیر بچوں میں تقسیم کی، جسے ’تفسیرِ صغیر‘ کہا جاتا ہے۔
اس واقعے کے تقریباً تین سال بعد چھ دسمبر 2022 کو چنیوٹ کے علاقے چناب نگر میں اس کے خلاف قانون کی تین شقوں کے تحت مقدمہ درج ہوا۔
ان میں سے ایک شق پنجاب قرآن (پرنٹنگ اینڈ ریکارڈنگ) ایکٹ 2010 ہے۔
اس قانون کے مطابق اگر قرآن مجید کے کسی نسخے میں ’کسی غیر مسلم کی جانب سے کسی آیت کا ترجمہ، تفسیر یا تبصرہ مسلمانوں کے عقیدے کے برعکس کیا گیا ہو‘ تو اسے تین سال تک کی قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ دفعہ 295 بی اور 298 سی بھی لگائی گئیں۔ 295 بی کے مطابق قرآن کو توہین آمیز طریقے سے برتنا یا اسے غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا جرم ہے۔ اس کی سزا عمر قید ہے۔
298 سی کا تعلق احمدیہ مذہب سے ہے اور اس کے تحت احمدی اپنے عقائد کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔ اس کی سزا تین برس قید ہے۔
اس کے بعد سات جنوری 2023 کو پولیس نے مبارک احمد ثانی نامی ایک شخص کو گرفتار کر لیا اور الزام لگایا گیا کہ وہ یہ تفسیر تقسیم کر رہے تھے۔ البتہ ابتدائی ایف آئی آر میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔
مبارک ثانی کی گرفتاری کے خلاف اپیل کی گئی، جو پہلے ایڈیشنل سیشن جج اور پھر لاہور ہائی کورٹ نے مسترد کر دی۔ جب یہ اپیل سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تو سپریم کورٹ نے چھ فروری 2024 کو مبارک احمد ثانی کی ضمانت منظور کر لی۔
اس فیصلے کو مذہبی طبقے نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور خاص طور پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم سوشل میڈیا پر چلائی گئی۔
پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست کی جو سپریم کورٹ نے منظور کر لی۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ 2019 میں ہونے والے واقعے پر ان دفعات کا اطلاق نہیں ہو سکتا جو 2021 میں بطور جرم قانون میں شامل ہوئیں۔
عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر کے مطابق ملزم اس نے 2019 میں تفسیر تقسیم کی جو پنجاب کے اشاعتِ قرآن قانون کے تحت جرم ہے، لیکن یہ قانون 2021 میں لاگو ہوا، اس کا اطلاق 2019 کے واقعات پر نہیں ہو سکتا کیوں کہ 2019 میں ایسا کرنا جرم نہیں تھا۔
یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی زیرِ بحث آیا اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف تک بھی پہنچا۔
کمیٹی کے اجلاس میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اس مقدمے کے قانونی پہلوؤں اور علمائے کرام کی رائے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے درخواست دائر کی جائے۔
اس کے بعد 17 اگست 2024 کو وفاقی حکومت نے بھی اس معاملے پر اضافی نظرِ ثانی کی درخواست دے دی۔
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 22 اگست 2024 کو نظرِ ثانی پر سماعت کرنے کے بعد مبارک ثانی کی ضمانت کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے علما کی تجاویز پر فیصلے کے پیراگراف سات اور 42 حذف کرنے کا حکم دیا۔
پیراگراف سات میں لکھا گیا تھا کہ’ایف آئی آر میں ملزم پر مجموعہ تعزیرات 295 بی کا تو ذکر کیا گیا لیکن کسی قانونی شق کا صرف ذکر کرنا ملزم کے اس دفعہ کے تحت جُرم کے لیے ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے کافی نہیں ہوتا۔
پیراگراف 42 میں لکھا تھا کہ آئینی و قانونی دفعات اور عدالتی نظائر کی اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ احمدیوں کے دونوں گروہوں کو غیر مسلم قرار دینے کے بعد انہیں آئین اور قانون کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار اور اس کی تبلیغ کا حق اس شرط کے ساتھ حاصل ہے کہ وہ عوامی سطح پر مسلمانوں کی دینی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے، نہ ہی عوامی سطح پر خود کو مسلمانوں کے طور پر پیش کریں گے۔
اس فیصلے کے اگلے روز یعنی جمعے کو کیی مذہبی جماعتوں نے یوم تشکر منانے کا اعلان کیا۔ علما نے جمعے کے خطبے میں بھی اس مقدمے کا ذکر کیا اور بقول ایک امام مسجد جسٹس فائز عیسی نے غلطی مان کر بڑا پن دکھایا ہے۔
(انڈپینڈنٹ اردو ۔ 22 اگست 2024ء)
https://www.independenturdu.com/node/175437
مبارک ثانی کیس کیا تھا اور نظر ثانی کیوں ضروری تھی؟
بنوریہ میڈیا
(بنوریہ میڈیا کے فکری مذاکرہ کی ایک نشست کا کچھ حصہ)
ڈاکٹر جہان یعقوب:
۱۹۷۴ء کو جو ایک فیصلہ دیا گیا جس کے تحت قادیانی، لاہوری، مرزائی، وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی شکل میں نبوت کے اجراء کو مانتے ہیں، ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا گیا۔ پھر ۱۹۸۴ء تک ان کو موقع دیا گیا، چوہتر سے لے کر چوراسی تک ان کو موقع دیا گیا کہ پاکستان کہ قانون کے مطابق یہ اپنی حیثیت کو تسلیم کر لیں، اپنے آپ کو اقلیتوں میں شمار کریں۔ لیکن انہوں نے جب اس قانون کو تسلیم نہیں کیا اور کھلے عام اس کے ساتھ بغاوت کا رویہ رکھا تو اسے کے بعد آرڈیننس کی شکل میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس آیا ۱۹۸۴ء میں، جس کے ذریعے ان کو پابند کیا گیا کہ وہ اسلامی شعائر کو استعمال نہ کریں۔ یہ ایک بہت اہم فیصلہ تھا جو ہمارے کانسٹیٹیوشن کا حصہ بنا۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ۲۰۱۹ء میں ایک تحریف شدہ ترجمہ ’’تفسیرِ صغیر‘‘ کے نام سے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہراتؓ کی کھلے عام توہین موجود ہے، اس ترجمے کو ایک کالج میں تقسیم کیا جاتا ہے، ایک تعلیمی ادارے میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور اس پر ایف آئی آر کٹوانے کے لیے قانون کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے، لیکن ۲۰۱۹ء سے لے کر ۲۰۲۴ء تک اس پر جو بھی کاروائی ہوتی ہے وہ محض ایک ۔۔ جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہوتی، کئی سال کے بعد تو جا کر ایف آئی آر کا اندراج ہوتا ہے۔ پھر اس آدمی کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، ہائی کورٹ سے، سیشن کورٹ سے ضمانت اس کی مسترد ہو جاتی ہے۔ پھر اچانک سپریم کورٹ سے اس آدمی کو نہ صرف ضمانت ملتی ہے بلکہ ساتھ میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس تفسیر کو بھی یہ لوگ اپنے حلقوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ تو تحریفِ قرآن کی گویا کہ سپریم کورٹ سے جو ہماری عدالتِ عظمیٰ ہے وہاں سے اجازت دی جا رہی ہے۔
مفتی سید فصیح اللہ شاہ:
یہ تفسیر صرف ان کے حلقے میں تقسیم نہیں ہوئی بلکہ سنی نوجوانوں تک بھی گئی، میرے علم میں خود ذاتی طور پر ہے کہ یہاں کراچی کے بعض مدارس کے طلباء کے پاس بھی پائی گئی کہ بھئی مفت میں تقسیم ہو رہی ہے۔ اور دھوکہ یہ دیا گیا کہ بھئی یہ ’’تفسیر کبیر‘‘ کا خلاصہ ہے، تو تفسیرِ کبیر بھی انہی کی ہے ایک۔ اب امام رازیؒ کی جو تفسیر کبیر ہے، اب طلباء تو نہیں سمجھتے، وہ سمجھتے ہیں کہ شاید امام رازیؒ کی تفسیرِ کبیر کا یہ خلاصہ مل گیا، اچھی تفسیر ہے۔
https://www.facebook.com/100079527124592/videos/791326632909244
اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۶)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(527) مُخْتَالًا فَخُورًا کا ترجمہ
قرآن مجید میں تین جگہ مختال کا لفظ آیا ہے اور تینوں جگہ اس کے ساتھ فخور آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں کے درمیان اگر فرق سامنے رہے تودرست ترجمہ کرنے میں مدد ملے گی۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی اور بعض دیگر اہل علم کا خیال ہے کہ اختیال کا مطلب ہے اترانا یعنی جسمانی حرکت سے اپنے تکبر کو ظاہر کرنا اور فخر کا مطلب ہے فخر جتانا اور شیخی بگھارنا یعنی زبان سے اپنے تکبر کا اظہار کرنا۔ اختیال فعل ہے اور فخر قول ہے۔ فخر اور اختیال کے استعمالات سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ احادیث میں خیلاء کا لفظ آیا ہے، جنگ کے وقت اور صدقے کے وقت اسے پسندیدہ بتایا گیا اور ظلم و زیادتی کے وقت اسے ناپسندیدہ بتایا گیا۔
وإن مِن الخُیلاء ما یُبغضُ اللہُ، ومنہا ما یحبُّ اللہُ فأما الخُیلاءُ التی یحبُّ اللہُ فاختیالُ الرجلِ نفسَہ عند اللقاءُ، واختیالُہ عند الصدقۃِ، وأما التی یُبغِضُ اللہُ فاختیالُہ فی البغیِ۔ (سنن أبی داود)
اسی طرح لباس گھسیٹ کر چلنے کے سیاق میں خیلاء کا لفظ آیا۔
إِنَّ الَّذِی یَجُرُّ ثَوْبَہُ مِنَ الْخُیَلَاءِ، لَا یَنْظُرُ اللَّہُ إِلَیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (سنن ابن ماجہ)
اترانے والی چال کو مشیۃ الاختیال کہتے ہیں۔گویا اختیال اور خیلاء کے الفاظ وہاں آئے ہیں جہاں اترانے اور جسمانی حرکتوں سے تکبر کا اظہار کرنے کا موقع ہے۔
دوسری طرف فخر کا استعمال وہاں ہوا ہے جہاں آدمی زبان سے اظہار کرتا ہے جیسے حسب و نسب کے معاملے میں فخر۔
أَرْبَعٌ فِی أُمَّتِی مِنْ أَمْرِ الْجَاہِلِیَّۃِ، لَا یَتْرُکُونَہُنَّ: الْفَخْرُ فِی الْأَحْسَابِ...الحدیث۔ (صحیح مسلم)
إِنَّ اللَّہَ أَذْہَبَ عَنْکُمْ عُبِّیَّۃَ الجَاہِلِیَّۃِ وَفَخْرَہَا بِالآبَاءِ۔ (سنن الترمذی)
ان استعمالات کی روشنی میں مختال کا ترجمہ اترانے والا اور فخور کا ترجمہ بڑائی جتانے والا اور شیخی بگھارنے والا ہوگا۔ عام طور سے لوگوں نے فرق کا لحاظ کیے بغیر الگ الگ جگہوں پر الگ الگ طرح سے ترجمہ کیا ہے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:
(۱) إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ (لقمان: 18)
بے شک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اتراتا بڑائیاں کرتا (شاہ عبدالقادر)
’’بیشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اِتراتا فخر کرتا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’خدا کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (سید مودودی)
’’کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔
(۲) وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ۔ الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۔ (الحدید: 23، 24)
’’اور خدا کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور اترانے والے شیخی خوروں کو اللہ پسند نہیں فرماتا جو (خود بھی) بخل کریں اور دوسروں کو (بھی) بخل کی تعلیم دیں‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
’’اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے ہیں اور فخر جتاتے ہیں جو خود بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل پر اکساتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔
(۳) إِنَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا. الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ۔ (النساء: 36، 37)
’’اللہ کو خوش نہیں آتا جو کوئی ہو اتراتا اور بڑا ئی کرتا وہ جو بخل کرتے ہیں اور سکھاتے ہیں لوگوں کو بخل‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’بیشک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا بڑائی مارنے والا جو آپ بخل کریں اور اوروں سے بخل کے لیے کہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’یقینا اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں اور شیخی خوروں کو پسند نہیں فرماتا، جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے اور ایسے لوگ بھی اللہ کو پسند نہیں ہیں جو کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی ہدایت کرتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)
پہلے دونوں ترجمے موزوں تر ہیں۔
آخر الذکر ترجمے میں ایک بات اور قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ دیگر مترجمین کے برخلاف اس میں الَّذِینَ یَبْخَلُونَ وَیَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ سے پہلے ’’اور‘‘ لگاکر وہاں سے نیا جملہ بنایا گیا ہے اور پھر وَأَعْتَدْنَا لِلْکَافِرِینَ عَذَابًا مُہِینًا کو خبر بنایا گیا ہے، جب کہ وہ جملہ جسے خبر بنایا گیا ہے خود واؤ سے شروع ہورہا ہے۔ زمخشری نے خبر کو محذوف مانتے ہوئے اس توجیہ کو ممکن بتایا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس میں حذف ماننے کا غیر ضروری تکلف ہے۔ ’’الذین‘‘ کو ’’مَن‘‘ کا بیان مان لینے میں کسی تکلف کی ضرورت نہیں رہتی ہے۔ سورہ حدید کی اسی طرح کی عبارت والی آیتوں میں بیان والی توجیہ قوی تر ہوجاتی ہے۔ اس لیے وہاں صاحب تفہیم نے بیان والا ترجمہ کیا ہے، وہی ترجمہ یہاں بھی ہونا چاہیے۔ سورہ حدید والی آیتیں سورہ نساء والی آیتوں کی توجیہ کرنے میں مدد کرتی ہیں۔
(528) ثُمَّ جَائُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ
درج ذیل آیت میں إِذَا آیا ہے۔ یہ فعل ماضی پر داخل ہوتا ہے، لیکن اسے مستقبل کا معنی دیتا ہے۔ جیسے: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ۔ (النصر: 1)، درج ذیل آیت میں یہ پہلو نظر انداز ہوگیا اور لوگوں نے حال کا ترجمہ کردیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں نحوی ترکیب کے لحاظ سے یَحْلِفُونَ حال ہے جَاءُوکَ سے۔ لیکن ترجمہ حال کا نہیں ہوگا بلکہ ترجمہ اس طرح ہوگا کہ وہ آکر قسمیں کھاتے ہیں۔بعض صورتوں میں حال فعل کے ساتھ نہیں بلکہ اس کے فورًا بعد واقع ہوتا ہے، اس کی قرآن میں بہت سی مثالیں ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہے:
فَکَیْفَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُصِیبَۃٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَیْدِیہِمْ ثُمَّ جَائُوکَ یَحْلِفُونَ بِاللَّہِ۔ (النساء: 62)
’’تو کیسی (ندامت کی) بات ہے کہ جب ان کے اعمال (کی شامت سے) ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو تمہارے پاس بھاگے آتے ہیں اور قسمیں کھاتے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’پھر کیا بات ہے کہ جب ان پر ان کے کرتوت کے باعث کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو پھر یہ آپ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت کے بغیر حال کا ترجمہ کیا گیا ہے البتہ یحلفون کا ترجمہ مناسب اسلوب میں ہے۔
’’پھر اس وقت کیا ہوتا ہے جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑتی ہے؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)
’’کیسی ہوگی جب ان پر کوئی افتاد پڑے بدلہ اس کا جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا پھر اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں، اللہ کی قسم کھاتے‘‘۔(احمد رضا خان)
درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت بھی نہیں ہے اور یحلفون کا ترجمہ بھی موزوں نہیں ہے۔ یہاں قسمیں کھاتے ہوئے آنے کا کیا مطلب ہے؟!
’’پھر وہ کیسا جب ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں کے کیے سے، پیچھے آویں تیرے پاس قسمیں کھاتے اللہ کی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اس وقت کیا ہوگا جب ان کے اعمال کی پاداش میں ان کو کوئی مصیبت پہنچے گی، پھر یہ تمہارے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجموں میں إِذَا کی رعایت تو ہے البتہ یحلفون کا ترجمہ موزوں نہیں ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
’’پھر اس وقت کیا ہوگا جب اِن کے اپنے ہاتھوں کی لائی ہوئی مصیبت ان پر آ پڑے گی؟ اُس وقت یہ تمہارے پاس آکر قسمیں کھائیں گے‘‘۔
(529) قُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا
اس عبارت سے دو مفہوم نکل سکتے ہیں، ایک یہ کہ فِی أَنْفُسِہِمْ کا تعلق قُلْ لَہُمْ سے مانا جائے، ترجمہ ہوگا ان سے ان کے سلسلے میں بلیغ بات کہو۔ دوسرا یہ کہ فِی أَنْفُسِہِمْ کا تعلق قَوْلًا بَلِیغًا سے مانا جائے، تب ترجمہ ہوگا ان سے ان کے دل میں اتر جانے والی بات کہو۔ موخر الذکر مفہوم زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ ان کے اپنے بارے میں بات کہنا مراد لیں تو بات محدود ہوجاتی ہے اور اس کی مراد متعین کرنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَقُلْ لَہُمْ فِی أَنْفُسِہِمْ قَوْلًا بَلِیغًا۔ (النساء: 63)
’’اور ان سے کہہ ان کے حق میں بات کام کی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور ان سے خاص ان کی ذات کے متعلق کوئی مضمون کہہ دیجیے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور ان سے خود ان کے باب میں دل میں دھنسنے والی بات کہو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’ اور ان کے معاملہ میں ان سے رسا بات کہو‘‘۔ (احمد رضا خان)
درج ذیل ترجمے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں ، کہ ان سے جو بات بھی کہو وہ ان کے دل میں اتر جانے والی ہو۔
’’اور ان سے ایسی باتیں کہو جو ان کے دلوں میں اثر کر جائیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے‘‘۔ (سید مودودی)
(530) خُذُوا حِذْرَکُمْ
درج ذیل عبارت میں بعض لوگوں نے خُذُوا حِذْرَکُمْ کا ترجمہ اسلحہ لے لو، ہتھیار لے لو کیا ہے۔ حذر کا مطلب اسلحہ نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی سے بچنے کے لیے ہوشیار اور بیدار رہنا ہوتا ہے۔ اسلحہ رکھنا اس کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔ زمخشری نے اس تعبیر کی اچھی وضاحت کی ہے:
یقال: أخذ حذرہ، إذا تیقظ واحترز من المخوف، کأنہ جعل الحذر آلتہ التی یقی بہا نفسہ ویعصم بہا روحہ۔ والمعنی: احذروا واحترزوا من العدوّ۔ (الکشاف)
یعنی اپنی ہوشیاری ہی کو اپنے بچاؤ کا سامان بنالینا۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا خُذُوا حِذْرَکُمْ۔ (النساء: 71)
’’مومنو! (جہاد کے لیے) ہتھیار لے لیا کرو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اے ایمان والو، اپنے اسلحہ سنبھالو‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اے مسلمانو! اپنے بچاؤ کا سامان لے لو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درج بالا ترجمے لفظ کی وسعت کو محدود کردیتے ہیں۔ یہاں دشمنوں سے بچاؤ کرنے کی ساری صورتیں مراد ہیں۔
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، مقابلہ کے لیے ہر وقت تیار رہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’اے ایمان والو! ہوشیاری سے کام لو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اپنے بچاؤ کا سامان کرو‘‘۔ (امانت اللہ اصلاحی)
خُذُوا حِذْرَکُمْ کا مفہوم درج ذیل آیت سے بخوبی متعین ہوجاتا ہے۔ یہاں ہتھیار رکھ دینے اور خُذُوا حِذْرَکُمْ کہہ کر بچاؤ کا سامان کرنے کی ہدایت کی گئی ہے:
وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ إِنْ کَانَ بِکُمْ أَذًی مِنْ مَطَرٍ أَوْ کُنْتُمْ مَرْضَی أَنْ تَضَعُوا أَسْلِحَتَکُمْ وَخُذُوا حِذْرَکُمْ۔ (النساء: 102)
’’اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو مگر ہوشیار ضرور رہنا‘‘۔(فتح محمد جالندھری)، اس آیت میں خُذُوا حِذْرَکُم سے ہتھیار اٹھانا مراد نہیں ہے۔
(531) لَیُبَطِّئَنَّ کا ترجمہ
درج ذیل عبارت میں لَیُبَطِّئَنَّ فعل لازم ہے، باب تفعیل کی وجہ سے اس میں مبالغے کا مفہوم شامل ہے، یہاں اس کے معنی زیادہ سستی اختیار کرنے اور دیر لگانے کے ہیں۔ یہاں اس لفظ کا مطلب دوسروں کو روکنے یا دوسروں کی تاخیر کا سبب بننا نہیں ہے، کیوں کہ اس کے لیے باء کا صلہ آتا۔ جیسے حدیث میں ہے، مَنْ بَطَّأَ بِہِ عملُہ لَمْ یَنْفَعْہ نَسَبُہ۔ لسان العرب میں ہے: وبَطَّأَ فُلَانٌ بِفُلَانٍ: إِذا ثَبَّطَہ عَنْ أَمرٍ عَزَمَ عَلَیْہِ۔
دوسری بات یہ ہے کہ سیاق کلام اپنی خود کی تاخیر سے متعلق ہے، دوسروں کی ہمت شکنی اور دوسروں کے لیے تاخیر کا باعث بننے سے متعلق نہیں ہے۔ ترجمے ملاحظہ کریں:
وَإِنَّ مِنْکُمْ لَمَنْ لَیُبَطِّئَنَّ۔ (النساء: 72)
’’تم میں ایسے لوگ بھی گھس گئے ہیں جو لوگوں کو روکیں گے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ خود تو جی چراتا ہی ہے دوسروں کی بھی ہمتیں پست کرتا ہے اور ان کو جہاد سے روکنے کے لیے ایسی باتی کرتا ہے کہ وہ بھی اسی کی طرح بیٹھ رہیں۔ (تفہیم القرآن)
درج بالا ترجمے درست نہیں ہیں، جب کہ نیچے دیے ہوئے ترجمے مناسب ہیں:
’’ہاں، تم میں کوئی کوئی آدمی ایسا بھی ہے جو لڑائی سے جی چراتا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور تم میں کوئی ایسا بھی ہے کہ (عمداً) دیر لگاتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
(532) بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ
درج ذیل عبارت میں ایک سوال یہ ہے کہ تَقُولُ کا فاعل کون ہے۔ بعض لوگوں نے رسول کو مانا ہے۔ لیکن اس صورت میں سوال یہ ہے کہ رسول کی کون سی بات مراد ہے، رسول کی کوئی بات تو پیچھے مذکور نہیں ہے۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ تَقُولُ کا فاعل خود طائفۃ ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ طائفۃ کی بات پیچھے مذکور ہے وَیَقُولُونَ طَاعَۃٌ۔ اس لحاظ سے دوسری صورت اختیار کرنا زیادہ مناسب ہے۔
ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں تبییت سے صرف مشورے کرنا اور سرگوشیاں کرنا مراد نہیں ہے، بلکہ سازشیں کرنا مراد ہے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
وَیَقُولُونَ طَاعَۃٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِنْدِکَ بَیَّتَ طَائِفَۃٌ مِنْہُمْ غَیْرَ الَّذِی تَقُولُ وَاللَّہُ یَکْتُبُ مَا یُبَیِّتُونَ۔ (النساء: 81)
’’اور کہتے ہیں کہ قبول کیا پھر جب باہر گئے تیرے پاس سے مشورت کرتے ہیں بعضے بعضے ان میں رات کو سوائے تیری بات کے اور لکھتا ہے اللہ جو ٹھہراتے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور یہ لوگ منھ سے تو کہتے ہیں کہ (آپ کی) فرمانبرداری (دل سے منظور ہے) لیکن جب تمہارے پاس سے چلے جاتے ہیں تو ان میں سے بعض لوگ رات کو تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتے ہیں اور جو مشورے یہ کرتے ہیں خدا ان کو لکھ لیتا ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’وہ منھ پر کہتے ہیں کہ ہم مطیع فرمان ہیں مگر جب تمہارے پاس سے نکلتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ راتوں کو جمع ہو کر تمہاری باتوں کے خلاف مشورے کرتا ہے اللہ ان کی یہ ساری سرگوشیاں لکھ رہا ہے‘‘۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجموں میں تَقُولُ کا فاعل رسول کو مانا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں طائفۃ کو اور یہی بہتر ہے۔
’’اور کہتے ہیں ہم نے حکم مانا پھر جب تمہارے پاس سے نکل کر جاتے ہیں تو ان میں ایک گروہ جو کہہ گیا تھا اس کے خلاف رات کو منصوبے گانٹھتا ہے اور اللہ لکھ رکھتا ہے ان کے رات کے منصوبے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان میں کی ایک جماعت، جو بات آپ نے یا اس نے کہی ہے اس کے خلاف راتوں کو مشورے کرتی ہے، ان کی راتوں کی بات چیت اللہ لکھ رہا ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، ’’آپ نے یا اس نے‘‘، یہ دونوں تو نہیں ہوسکتا، صحیح ’’اس نے‘‘ ہے۔)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’یہ کہتے تو ہیں کہ اطاعت ہے، پھر جب آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر نکلتے ہیں تو ان کا ایک گروہ جو کچھ تمہارے پاس کہہ رہا تھا اس سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے، (یعنی تم سے اطاعت کا دم بھرتا اور بعد میں اس سے مختلف رویہ اختیار کرتا ہے)، اللہ ان کی یہ ساری سازشیں لکھ رہا ہے‘‘۔
(533) وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً
مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَکُنْ لَہُ نَصِیبٌ مِنْہَا وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَکُنْ لَہُ کِفْلٌ مِنْہَا۔ (النساء: 85)
’’جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا‘‘۔ (سید مودودی)
درج بالا ترجمہ درست ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے میں کم زوری ہے۔
’’جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے‘‘۔(امین احسن اصلاحی)
یَشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً سے اچھی بات کی مخالفت میں کہنا نہیں بلکہ بری بات کے حق میں کہنا مراد ہے۔
جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے۔
(534) تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ
قرآن مجید میں یہ اسلوب متعدد بار استعمال ہوا ہے، جیسے: مَغْفِرَۃٌ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 157)، فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِنَ اللَّہ۔ (آل عمران: 159)، یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِنَ اللَّہِ۔ (آل عمران: 171)، وغیرہ۔
اسی طرح یہاں تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ آیا ہے۔ اللہ کی طرف سے توبہ کا مطلب اللہ کی بندوں پر مہربانی ہوتا ہے۔
بندہ جب اللہ سے توبہ کرے تو اس کے لیے توبۃ إلی اللہ آتا ہے۔ ترجمہ کرتے ہوئے لوگوں کا ذہن اس طرف نہیں گیا اور انھوں نے مشکل ترجمے کیے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:
تَوْبَۃً مِنَ اللَّہِ۔ (النساء: 92)
’’بخشوانے کو اللہ سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لیے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’یہ اللہ کے یہاں اس کی توبہ ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’یہ اِس گناہ پر اللہ سے توبہ کرنے کا طریقہ ہے‘‘۔ (سید مودودی)
مذکورہ بالا ترجمے توبۃ من اللہ کے نہیں بلکہ توبۃ الی اللہ کے ہیں۔
’’یہ (کفارہ) خدا کی طرف سے (قبول) توبہ (کے لیے) ہے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
درج بالا ترجمے میں توبہ کا ترجمہ توبہ کرکے پھر قوسین کے ذریعے اشکال کو دور کرنے کی پرتکلف کوشش کی گئی۔
’’یہ اللہ کی طرف سے ٹھہرائی ہوئی توبہ ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجمہ بھی کم زور ہے، کیوں کہ اوپر کفارے کا ذکر ہے، توبہ کا نہیں ہے۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:
’’یہ اللہ کی طرف سے مہربانی ہے۔‘‘ یعنی اللہ کی مہربانی ہے کہ اس نے اس مشکل صورت حال سے نکلنے کا یہ طریقہ بتایا۔
(535) تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا
درج ذیل آیت میں تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا حال واقع ہوا ہے وَلَا تَقُولُوا سے۔ گویا یہاں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ دنیا کے طلب گار ہیں، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیا کی طلب کے سبب سے ایسا نہ کرو۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللَّہِ مَغَانِمُ کَثِیرَۃٌ۔ (النساء: 94)
’’اور مت کہو جو شخص تمہاری طرف سلام علیک کرے کہ تو مسلمان نہیں چاہتے ہو مال دنیا کی زندگ کا تو اللہ کے یہاں بہت غنیمتیں ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور جو تمہیں سلام کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں تم جیتی دنیا کا اسباب چاہتے ہو تو اللہ کے پاس بہتری غنیمتیں ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور جو تمہاری طرف سلام سے تقدیم کرے اُسے فوراً نہ کہہ دو کہ تو مومن نہیں ہے اگر تم دنیوی فائدہ چاہتے ہو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بہت سے اموال غنیمت ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور جو تم سے سلام علیک کرے تو اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں۔ تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو تو اللہ تعالیٰ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
درج بالا ترجموں میں کم زوری ہے۔ کیوں کہ تبتغون سے پہلے حرف استفہام نہیں ہے۔ اور اس سے یہ بھی نکلتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر دنیا طلبی تھی۔
درج ذیل ترجمے مناسب ہیں، ان میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ دنیوی طلب تمھارے اندر ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ دنیوی طلب کی وجہ سے ایسا نہ کرنا۔
’’اور جو تمہیں سلام کرے اس کو دنیوی زندگی کے سامان کی خاطر یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں ہے۔ اللہ کے پاس بہت سامانِ غنیمت ہے‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں اور اس سے تمہاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو سو خدا کے نزدیک بہت سے غنیمتیں ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۱)
عبد اللہ صغیر آسیؔ
اگر رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا مطالعہ ایک داعیِ اسلام کی حیثیت سے کیا جائے تو یہ بات بڑی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ آپ ﷺ نے دعوت کے فریضے کو ادا کرتے ہوئے ان اصولوں سے کبھی بھی انحراف نہیں کیا اور اسی طرح آپ ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام ؓو صحابیاتؓ کے دعوتی کردار میں بھی انہی اصولوں کا غلبہ نظر آتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ دعوت کی کامیابی میں مرکزی کردار ایک داعی کا ہے۔ داعی جس قدر تربیت یافتہ اور انسانی نفسیات کا عالم ہو گا، اس قدر اس کی دعوت مؤثر ہو گی، رسول اللہ ﷺ کی دعوت کے مؤثر ہونے کی ایک اہم وجہ آپ ﷺ کا ذاتی کر دار تھا اور دوسری وجہ آپﷺ کا اسلوبِ دعوت تھا۔ آپﷺ نے ہمیشہ مخاطبین کی ذہنی استعداد، قلبی میلانات و رجحانات اور ان کے خاندانی و علاقائی پس منظر کو سامنے رکھ کر دعوت کا کام کیا۔
پیغمبر اسلامﷺ کی صحابیاتؓ بھی دعوت و تبلیغ میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی ہدایت اور طرز عمل کو پیش نظر رکھتی تھیں، انہوں نے دعوت و تبلیغ کے اس منصب کو احسن انداز سے نبھایا اور جس طرح انسانی نفسیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت دی، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ عصر حاضر میں چونکہ دعوت دین کا کام اپنے زور و شور پر ہے، جس طرح مرد حضرات دعوت و تبلیغ کا کام کر رہے ہیں، اسی طرح خواتین بھی اس میدان میں پیش پیش ہیں لیکن موجودہ دور میں دعوت و تبلیغ کا طریقہ کار جس پر صحابیاتؓ کار بند تھیں، اس کا کافی حد تک فقدان نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ صحابیاتؓ کا وہ اسلوب جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سیکھا تھا کہ مخاطب کی ذہنی سطح اور نفسیاتی پہلو کو سامنے رکھ کر اس سے گفتگو کی جائے، بہت سی عصر حاضر کی داعیہ اس سے ناآشنا ہیں۔ موجودہ دور میں دعوت ِدین کے وہی آداب و اصول کارگر ثابت ہوں گے رسول اللہﷺ، صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ نے اختیار کیے۔
صحابیاتؓ کے اسی اسلوبِ دعوت کی عصر حاضر میں کیسے تطبیق کی جائے اور انسانی نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے دعوت دینے کا کیا لائحہ عمل بنایا جائے کہ دعوت مخاطب کے دل میں اثر انداز ہو جائے، اس سلسلے میں چند اسالیب ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں جن کو اپنا کر ہماری خواتین ان تمام تر خوبیوں کو جان سکتی ہیں جو ایک بہترین داعیہ میں ہونا بہت ضروری ہیں اور جن کے بغیر وہ اپنے دعوت کے اہداف کو پوری طرح حاصل نہیں کر سکتیں، صحابیاتؓ کی زندگی انہی خوبیوں سے بھری پڑی تھی، یہی وجہ تھی کہ اسلام کی تبلیغ میں وہ بھی مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہیں۔ ان اسالیب میں سے چند ایک کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ اُصولِ تدریج کا لحاظ رکھنا
عصر حاضر کی داعیات کا فرض ہے کہ دعوتِ دین میں اصولِ تدریج کا پہلو سامنے رکھیں۔ تدریج کا مطلب یہ ہے کہ داعی ایک ہی بار میں شریعت کے تمام احکامات کو بیان نہ کر دے کہ سامع کے لئے ان کو سننا اور سمجھنا ناممکن ہو جائے بلکہ آہستہ آہستہ اس کے سامنے سارے احکام پیش کرے۔ اگر اس نظام کو حکیمانہ ترتیب سے پیش نہ کیا جائے تو مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے بلکہ الٹا اس کا شدید نقصان ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کی طرف اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا حضرت یوسف بن ماہک بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت عائشہؓ کے پاس موجود تھا تو ایک عراقی نے آکر سوال کیا کہ: اي الكفن خير؟ قالت: ويحك، وما يضرك؟ قال: يا ام المؤمنين، اريني مصحفك، قالت: لم؟ قال: لعلي اولف القرآن عليه فإنه يقرا غير مؤلف، قالت: وما يضرك ايه قرات قبل، إنما نزل اول ما نزل منه سورة من المفصل، فيها ذكر الجنة والنار، حتى إذا ثاب الناس إلى الإسلام نزل الحلال والحرام، ولو نزل اول شيء لا تشربوا الخمر، لقالوا: لا ندع الخمر ابدا ولو نزل لا تزنوا، لقالوا: لا ندع الزنا ابدا، لقد نزل بمكة على محمد صلى الله عليه وسلم، وإني لجارية العب بل الساعة موعدهم والساعة ادهى وامر سورة القمر آية 46، وما نزلت سورة البقرة والنساء إلا وانا عنده، قال: فاخرجت له المصحف فاملت عليه آي السورة۔1 (کفن کیسا ہونا چاہئے؟ ام المؤمنین نے کہا: افسوس اس سے مطلب! کسی طرح کا بھی کفن ہو تجھے کیا نقصان ہو گا۔ پھر اس شخص نے کہا ام المؤمنین مجھے اپنے مصحف دکھا دیجئے۔ انہوں نے کہا کیوں؟ (کیا ضرورت ہے) اس نے کہا تاکہ میں بھی قرآن مجید اس ترتیب کے مطابق پڑھوں کیونکہ لوگ بغیر ترتیب کے پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا پھر اس میں کیا قباحت ہے جونسی سورت تو چاہے پہلے پڑھ لے (جونسی سورت چاہے بعد میں پڑھ لے اگر اترنے کی ترتیب دیکھتا ہے) تو پہلے مفصل کی ایک سورت، اتری (اقرا باسم ربك) جس میں جنت و دوزخ کا ذکر ہے۔ جب لوگوں کا دل اسلام کی طرف راغب ہو گیا (اعتقاد پختہ ہو گئے) اس کے بعد حلال و حرام کے احکام اترے، اگر کہیں شروع شروع ہی میں یہ اترتا کہ شراب نہ پینا تو لوگ کہتے ہم تو کبھی شراب پینا نہیں چھوڑیں گے۔ اگر شروع ہی میں یہ اترتا کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے ہم تو زنا نہیں چھوڑیں گے اس کے بجائے مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت جب میں بچی تھی اور کھیلا کرتی تھی یہ آیت نازل ہوئی (بل الساعة موعدهم والساعة أدهى وأمر) لیکن سورۃ البقرہ اور سورۃ نساء اس وقت نازل ہوئیں، جب میں ( مدینہ میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے اس عراقی کے لیے اپنا مصحف نکالا اور ہر سورت کی آیات کی تفصیل لکھوائی۔)
گو حضرت عائشہؓ کا اس انداز سے سمجھانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس طرح اسلامی تعلیمات تدریجاً نازل ہوئی ہیں اسی طرح ایک داعی کو بھی تدریجاً اسلام کی دعوت پیش کرنی چاہیے تاکہ مخاطب تھوڑی تھوڑی چیزوں کو اچھے طریقے سے سمجھ لے اور ان پر عمل شروع کر دے۔ دعوت کے تدریجی اسلوب کی اہمیت و افادیت کا ذکر کرتے ہوئے مفتی محمد شفیعؒ لکھتے ہیں کہ: دعوت و تبلیغ میں تدریج کے اصول کا لحاظ رکھا جائے تو صحیح اور درست نتائج پیدا ہوں گے، اگر اسے نظر انداز کیا جائے تو نتائج بھی حوصلہ افزا نہیں ہوں گے1۔ شریعت اسلام نے تمام احکام کے اندر انسانی طبائع اور جذبات کی بڑی حد تک رعایت فرمائی ہے تاکہ انسان کو ان پر عمل کرتے ہوئے کسی قسم کی کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہو۔ لہذا عصر حاضر کی داعیات کے لیے ضروری ہے کہ اصول تدریج کے پہلو کو نظر انداز نہ کریں بلکہ اس کو ہر جگہ اور ہر لمحہ اسے موقع کے مطابق نافذ کریں۔
۲۔ ترغیب و ترہیب کے ذریعے دعوت دینا
عصر حاضر کی داعیات کے لیے لازم ہے کہ وہ دعوت میں وعدے اور وعیدوں والے مضامین کو اچھے اور سہل انداز میں بیان کریں جیسا کہ صحابیاتؓ لوگوں کو دین حق کی طرف آنے کی نا صرف ترغیب دیتیں بلکہ دین حق کی طرف نہ آنے کے برے نتائج سے بھی آگاہ کرتی تھیں۔ یہ امر اس لئے ضروری ہے کہ ترغیب و ترہیب سے مخاطب کے دل میں احکام کے قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، پھر عمل کرنے کی توفیق ہو جائے گی، کیونکہ شروع شروع میں طبیعت کے خلاف کام کرنے سے طبعیت مکدر ہوتی ہے اور طبیعت پر اس کا کرنا گراں گزرتا ہے لہٰذا اگر کوئی اس امر پر آمادہ کرنے والا اور ابھار نے والا ہو تو طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے۔ ورنہ طبیعت کے خلاف کوئی بھی کام بغیر لالچ یا بغیر خوف کے نہیں ہوتا، پھر عادت ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں کہ: ترغیب و ترہیب ایک حیثیت سے احکام ہی میں سے ہیں۔ مثلاً جنت اور دوزخ کا مضمون عقیدہ کے درجہ میں تو احکام میں ہی داخل ہے اور عقائد میں سے ہے اور دوسری حیثیت سے ترغیب و ترہیب ہے۔ یعنی جہاں احکام سنانا اور جنت و دوزخ کا مقصد بتانا مقصود نہ ہو، وہاں ترغیب و ترہیب ہے2۔ یعنی بیک وقت ایک داعیہ کو اپنے مخاطبین کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے جبار و قہار ہونے کی صفات سے متنبہ کروانا چاہیے اور خوف اور امید کے درمیان کی ایک فضا میں دعوت کا فریضہ سرانجام دینا چاہیے۔
۳۔ مخاطب کی آسانی اور سہولت کو مد نظر رکھنا
عصر حاضر میں ایک داعیہ کے لیے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ وہ مخاطب کی سہولت اور آسانی کو پیش نظر رکھے، دین کو مشکل نہ بنائے، یہی دعوتی عمل اس کی قبولیت کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے عام مسلمانوں کے لیے ہمیشہ آسانی اور سہولت کے پہلو کو پیش نظر رکھا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ نبی کریمﷺ کے اس طرز عمل کے متعلق ارشاد فرماتی ہیں: مَا خُيِّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَأْثَمْ فَإِذَا كَانَ الْإِثْمُ كَانَ أَبْعَدَهُمَا مِنْهُ وَاللَّهِ مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ فِي شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ قَطُّ حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ فَيَنْتَقِمُ لِلَّهِ4۔ (نبی ﷺ کو جب بھی دو چیزوں میں سے ایک کے اختیار کرنے کا حکم دیا جاتا تو آپﷺ ان میں سے آسان کو اختیار کرتے، بشرطیکہ اس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہوتا۔ اگر اس میں گناہ ہوتا تو آپﷺ اس سے بہت دور رہتے، اللہ کی قسم! آپ ﷺ نے کبھی اپنے ذاتی معاملے میں کسی سے بدلہ نہ لیا، البتہ (جب) اللہ کی حرمتوں کو پامال کیا جاتا تو آپﷺ اللہ کے لیے ضرور انتقام لیتے تھے۔) کیونکہ انسان فطرتاً سہولت پسند ہے اس لئے عصر حاضر کی داعیہ کا فرض ہے کہ وہ دین کو مشکلات کا مجموعہ نہ بنائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو، دین کو لوگوں کے لیے آسان بنا کر پیش کرے۔ دینی معاملات میں تشدد پسندی اور سختی سے حتی الوسع پرہیز کرے اور اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو جو حل سب سے آسان ہو، اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
۴۔ مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھنا
دعوت و تبلیغ کے میدان میں حکمت کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ داعی مخاطب کی ذہنی استعداد کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی دعوت پیش کرے۔ عصر حاضر میں اس امر کی بہت ضرورت ہے کہ ایک داعی یا داعیہ مخاطب کی ذہنی استعداد کے مطابق دعوت دے، اگر داعی عام مخاطب کی ذہنی استعداد کو نظر انداز کرتے ہوئے منطقی استدلال اور فلسفیانہ انداز میں گفتگو شروع کر دے یا کسی صاحب علم اور دانشور شخص کو دعوت دیتے وقت گفتگو کا غیر علمی اور غیر عقلی اسلوب اختیار کرے تو اس صورت میں دعوت یقیناً غیر مؤثر ہو جاتی ہے، اس لئے داعی اور داعیہ کا فرض ہے کہ وہ مخاطب کی ذہنی استعداد اور کیفیات کا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کا فریضہ بالکل اسی نہج پر اسی طرح ادا کرے جیسے صحابیاتؓ نے کیا۔ پیغمبر ِ اسلام ﷺ نے غارِ حرا کا واقع بیان کرتے ہوئے حضرت خدیجہؓ فرمایا: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الكَلَّ، وَتَكْسِبُ المَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الحَقِّ5۔ ( مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم، اللہ تعالیٰ آپﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔) حضرت خدیجہؓ کی اس حوصلہ افزائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپﷺ میں دعوت ِ دین کا کام کرنے کا جذبہ بڑھ گیا، ان کی حوصلہ افزائی سے یہ بھی پہلو نکلتا ہے کہ داعی در حقیقت ایک بے مثال استاد اور مربی کی طرح ہوتا ہے جو سامع کا نفسیاتی جائزہ لیتے ہوئے اس کے ذہنی پس منظر، اس کی استعداد اور اس کے مزاج کو سامنے رکھ کر بات کرتا ہے۔ وہ ایک بدوی اور شہری، پڑھے لکھے اور ان پڑھ اور عقل و تجربہ کے مختلف مدارج رکھنے والے انسانوں سے مختلف طریقوں اور اسالیب سے گفتگو کرتا ہے۔
۵۔ اعجاز و اختصار
ایک بہترین داعی یا داعیہ کے لیے عصر حاضر میں اس امر کا لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ دعوت کی فضول تکرار اور بے فائدہ و طویل بیان کہیں لوگوں کو دعوت کے مضامین ہی سے متنفر نہ کر دے۔ نبیﷺ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے صحابیاتؓ بھی اپنی دعوت کو مختصرا ًمخاطب کے سامنے رکھتی تھیں۔ مثلاً حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا اپنی اولاد کو مختصراً نصیحت کرنا، آپؓ نے مفلسی میں زندگی بسر لی لیکن جب اللہ نے ان کی مالی حالت بہتر کر دی تو پھر کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے لگیں، بیماری کے بعد شفاء یاب ہو کر انہوں نے بہت سے غلام بھی آزاد کئے اور اپنی اولاد کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: انفقوا وتصدقوا ولا تنتظروا الفضل6۔ (خرچ کرو، صدقہ و خیرات دو اور فراوانی کا انتظار نہ کرو۔)۔ لہذا عصر حاضر کے داعی اور داعیہ کے لیے لازم ہے کہ اس کا کلام معقول اور دل کو لگنے والے دلائل ہوں۔ بلاشبہ فصاحت و بلاغت ایک ایسا وصف ہے کہ جو دعوت کو مؤثر بنا سکتا ہے، انسان کی زبان، اندازِ تخاطب اور طرزِ گفتگو کا اثر اس کے مخاطب پر بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا، اس لئے ایک داعی کو چاہیے کہ اپنا لہجہ میٹھا اور الفاظ نرم رکھے۔ اسی عنوان پر کلام کرتے ہوئے قاری طیب صاحب فرماتے ہیں کہ: ’’مبلغ اپنے کلام کو فصاحت و بلاغت سے آراستہ کرے، خواہ وہ حکمت سے کام لے یا موعظت اور مجادلہ کے میدان میں آئے، بہرحال بے تکلفانہ انداز سے فصاحت لسانی اس کا شعار ہو نا چاہیے، تاکہ مخاطب صحیح عنوان سے صحیح مقاصد ہی اخذ کر سکے۔ اگر کلام میں پیچیدگی اور بے ترتیبی ہو گی تو مخاطب صحیح اثر قبول نہ کر سکیں گے7۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے خطبے بھی نہایت مختصر ہوا کرتے تھے۔ بات جتنی مدلل اور مختصر ہوگی، سامع کو اسی قدر وہ متاثر کرے گی، عموماً لوگ لمبی گفتگو سے اکتا جاتے ہیں اور دعوت چاہے کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہو، اس کے قابل قدر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
۶۔ مخاطب کی تعریف یا حوصلہ افزائی کرنا
ایک داعی یا داعیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعوت میں سامعین کی تعریف یا حوصلہ افزائی کا بھی خصوصی طور پر خیال رکھے البتہ اس سلسلے میں مبالغہ آرائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مناسب حد تک تعریف یا حوصلہ افزائی سامع کو فطری طور پر پسند آجاتی ہے اور وہ گفتگو میں غیر ارادی طور پر دلچسپی لیتا ہے، صحابیاتؓ کی سیرت سے بھی یہ اسلوبِ دعوت نظر آتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب لوگ دور دراز سے صحابیاتؓ کی خدمت میں طلب علم، مسائل دینیہ کی سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے لیے آتے تو وہ نہایت کشادہ دلی اور خندہ پیشانی سے ان کا خیر مقدم کرتی تھیں۔ جیسا کہ ایک بار حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو ایک آپؓ سے مسئلہ پوچھنے میں حیا اور شرم مانع ہوئی تو آپؓ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا: لا تستحي أن تسألني أما كنت سائلا عنه أمك التي ولدتك فانما أنا أمك8۔ (تو اس بات کو پوچھنے میں شرم نہ کر جو تو اپنی سگی ماں سے پوچھ سکتا ہے جس نے تجھے جنا ہے، میں بھی تو تیری ماں ہوں۔) اگر حضرت عائشہؓ کی طرح آج کی داعیہ بھی مخاطب کی حوصلہ افزائی کرے گی تو مخاطب میں یہ ہمت پیدا ہو جائے گی کہ وہ دین کی بات کو سن بھی سکے اور پھر اس پر عمل بھی کر سکے۔
پاکستانی خواتین کی کردار سازی
عصرِ حاضر میں پاکستان کی خواتین اور بالخصوص داعیات کے لئے دعوت کے میدان میں بھی صحابیاتؓ کی زندگی عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ بنیادی طور پر ہم اگر آج کے ماڈرن اور جدید ترقی یافتہ دور کی بات کریں تو وقت کے تقاضے بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معیار زندگی بھی بدل گئے ہیں، اب لوگ سوشل میڈیا کی زندگی میں رہتے ہیں لہذا داعیات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس علمی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے جدید دور کے تقاضوں سے اچھی طرح باخبر ہوں اور ان تمام وسائل اور ذرائع کو اچھی طرح جان لیں جو اس دعوت کے میدان میں ان کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
(جاری)
پاک بھارت جنگ ۱۹۶۵ء
علامہ سید یوسف بنوریؒ
الحمد للہ کہ ۶ ستمبر ۱۹۶۵ء مطابق ۹ جمادی الاولیٰ ۱۳۸۵ء کے مبارک دن مملکتِ خداداد پاکستان میں ایک جدید اور مقدس باب کا افتتاح ہوگیا، یہ تاریخ پاکستان کی قومی زندگی کی کتاب میں ایک نئے باب کا آغاز ہے، اور پاکستان کی عزت و مجد کے عنوانات میں ایک شاندار عنوان کا اضافہ ہے۔ مہاجر قوم کے بعد مجاہد قوم! اور ہجرت کے بعد جہاد! سبحان اللّٰہ، نور علیٰ نور۔ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قابلِ قدر اور لائقِ صد تشکُّر نعمت ہے۔
چند اہم حقیقتیں اور قابلِ عبرت بصیرتیں بھی اس مبارک افتتاح میں منظر عام پر آگئیں:
۱۔ ہندوستانی حکومت کی بدنیتی، مکاری، عیاری اور نفاق۔
۲۔ ان سے حسنِ معاشرت اور بہتر ہمسائیگی کے تعلقات کی توقعات سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔
خود غلط بود آنچہ ما پنداشتیم
۳۔ پاکستانی عساکر و افواجِ قاہرہ کے مجاہدانہ ولولے اور عزائم، سرفروشانہ جذبات اور احساسات، دین و وطن پر مر مٹنے کی پوری اہلیت و صلاحیت اور میدانِ کارزار میں استقلال و استقامت اور ذوق و شوقِ شہادت۔
۴۔ پاکستانی افواجِ منصورہ کی فنی مہارت، قابلیت، بحری، بری اور فضائی افواجِ قاہرہ کے فوق العادۃ حیرت انگیز کار نامے جن سے سلف صالحین کے محیر العقول کارناموں کی یاد تازہ ہو گئی اور اقوامِ عالم کے سامنے پہلی مرتبہ پاکستانی فوجوں کے جوہر اس طرح کھلے کہ دشمنانِ اسلام پر بھی سکتہ طاری ہوگیا اور آخر اُن کو بھی پاکستانی افواج کی برتری اور قابلیت، نیز سرفروشانہ و جاں نثارانہ خصوصیت کا اعتراف کرنا پڑا: والفضل ماشھدت بہ الأعداء ’’بزرگی وہ ہے جس کی دشمن بھی شہادت دیں۔‘‘
۵۔ دشمن قیدیوں کے ساتھ ہتھیار ڈالنے کے بعد انتہائی ہمدردانہ، شریفانہ اور حوصلہ مندانہ، انسانیت نواز سلوک۔
۶۔ پاکستانی افواج اپنے ملکی دفاع کی پوری قابلیت اور صلاحیت رکھتی ہیں اور وہ حملہ آور دشمن کی چند در چند فوجی طاقت اور سامانِ جنگ کی فراوانی کے باوجود ہر محاذ پر منہ توڑ جو اب دے سکتی ہیں۔
۷۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں أیدہ اللّٰہ بنصرہٖ کے حسنِ تدبر، مجاہدانہ عزیمت، اہلیت، قیادت اور شجاعت و جواں ہمتی کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی تدبر کے جوہر بھی اس طرح منظر عام پر آگئے کہ دنیائے اسلام کو اس کا یقین ہوگیا کہ موصوف دنیائے اسلام کی قیادت کی صلاحیت کے مالک ہیں۔
۸۔ پاکستانی قوم بھی اس قدر باشعور اور سمجھدار ہے کہ ملکی دفاع کے نازک ترین مرحلہ پر اپنے تمام باہمی اختلافات اور ذاتی منافع کو یکسر پسِ پشت ڈال کر اپنے حکمرانوں کی ہر آواز پر لبیک کہنے، تعاون کر نے اور تن، من، دھن سب کچھ قربان کر نے کے لیے تیار ہو گئی اور زندگی کے ہر شعبہ میں اتحاد اور تنظیم کا مکمل مظاہرہ کیا اور اس قدر حوصلہ مند ہے کہ دشمن کی تباہ کن بمباریوں سے شکستہ خاطر اور ہراساں ہونے کے بجائے اس کے جوش و خروش اور ذوق و شوقِ شہادت میں چند در چند اضافہ ہوتا ہے، و الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔
قابلِ عبرت نتائج و حقائق
ان بصیرت افروز حقائق اور عبرت انگیز واقعات سے جو عظیم نتائج نکلے ہیں وہ بھی قوموں کی زندگی کی تاریخ میں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں:
۱۔ جہاد فی سبیل اللہ اور اعلاء کلمۃ اللہ کا فریضہ انجام دینے کے لیے پاکستانی قوم میں ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔
۲۔ دشمنانِ اسلام کے دلوں پر پاکستانیوں کا رعب چھا گیا تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ ’’تم اللہ کے دشمنوں پر اور اپنے دشمنوں پر اس سے ہیبت اور رعب طاری کر دو‘‘ کی تفسیر سامنے آگئی۔
۳۔ مسلمان اگر اللہ تعالیٰ پر مکمل اعتماد و توکل سے بہرہ ور ہوں تو ان کی امداد و نصرت کے لیے ابھی اللہ تعالیٰ کی غیبی امداد نو بنو انداز میں ضرور آتی ہے۔
۴۔ امریکہ ہو یا روس، برطانیہ ہو یا فرانس یہ سب کفر کی طاغوتی طاقتیں ہیں، ان سے کسی بھی خیر کی توقع رکھنا خالص حماقت ہے اور اُخروی سے پہلے دُنیوی خسران کا موجب ہے۔
۵۔ پاکستان کو صرف اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسہ رکھنا چاہیے اور زندگی کے ہر شعبہ میں جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی پوری پوری جدوجہد کرنی چاہیے، اور ارشادِ خداوندی: وَأَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ (الانفال ۶۰) ’’اور جو بھی طاقت و قوت تم ان کے مقابلہ کے لیے مہیا کر سکتے ہو اس کی تیاری کرو۔‘‘ پر مکمل طور سے عمل کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں کسی بھی قسم کی تقصیر یا تغافل ہرگز روا نہ رکھنا چاہیے۔
بہرحال ہندوستانی حکومت نے تمام بین الاقوامی اُصول پسِ پشت ڈال کر بغیر کسی سابقہ اعلانِ جنگ کے رہزنوں کی طرح پوری فوجی طاقت و قوت اور تیاری کے ساتھ پاکستان پر چو طرفی حملہ کر دیا اور اپنی بربریت اور بہیمانہ سلوک میں بھی اصلاً کوتاہی نہیں کی، لیکن احکم الحاکمین کے قانونِ قدرت نے کمزوروں کا ساتھ دیا اور آیتِ کریمہ کی:
وَنُرِیْدُ أَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْأَرْضِ وَنَجْعَلَھُمْ أَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَھُمُ الْوَارِثِیْنَ۔ (القصص ۵)
’’اور ہم چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو روئے زمین پر کمزور سمجھ لیا گیا ہے ان پر احسان فرمائیں اور انہی کو مقتدیٰ (بین الا قوامی قائد) بنا دیں اور انہی کو ان کے ملک و سلطنت کا وارث بنا دیں۔‘‘
تفسیر و تشریح ایک بار پھر دنیا کے سامنے آگئی کہ مٹھی بھر، ناتواں اور (ہر لحاظ سے) کمزور افراد کو اللہ تعالیٰ نے وہ قوت و طاقت بخشی کہ دشمن کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور آج دشمن کے ۱۶ سو سے زیادہ مربع میل رقبہ پر پاکستانی فوجیں قابض ہیں اور پاکستانی پرچم لہرا رہا ہے۔ صدرِ مملکت سے لے کر چپڑاسی تک اور تاجر و صنعت کار سے لے کر معمولی مزدور اور آجر تک خواص و عوام ساری قوم میں حیرت انگیز اور بے مثل اتحاد و تعاون کی روح پورے طور پر کار فرما ہے اور پوری قوم دشمن کے سامنے بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ (آہنی دیوار) بن کر کھڑی ہو گئی ہے۔
نعمتِ خداوندی اور اس کا شکریہ
۱۔ اللہ تعالیٰ کی اس لائقِ فخر نعمتِ عظمیٰ کا شکر یہی ہے کہ ہم صلاح و تقویٰ کی اسی پاکیزہ زندگی کو مستقل طور پر اختیار کر لیں جو اس وقت ہنگامۂ رزم و حرب نے پوری قوم کے اندر پیدا کر دی ہے، اور خوف و خشیتِ خداوندی اور ذکرِ الٰہی کو اپنا شعار بنا لیں۔ اور منکرات و فواحش کو جو اس اسلامی ملک میں غیر ملکی تہذیب و تمدن کے تسلُّط اور ان یورپین خدا ناشناس قوموں کی قابلِ شرم نقالی کی بنا پر رائج ہوچکے ہیں، یک قلم ترک کر دیں۔ اور مغرب کی گندی، مہنگی اور بزدل بنا دینے والی معاشرت کے بجائے سیدھی سادی اور سستی اسلامی معاشرت کو مستقل طور پر اپنا لیں۔ اجتماعی زندگی میں فوق العادت طبقاتی تفاوت کو جہاں تک ممکن ہو ختم کر دیں۔ شجاعت و بہادری کے احساسات کو بیدار کر نے والے خصائل، ایثار و مروت، جفا کشی و سخت کوشی، جواں مردی و حوصلہ مندی کو اختیار کر لیں۔ راحت پسندی و تن پروری، بے روح نام و نمود اور نمائش پسندی کو خیر باد کہہ دیں۔ خصوصاً غریبوں اور کمزوروں پر ترحم و شفقت کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ بیدار کریں، ہر نوجوان فوجی بنے اور مجاہدانہ احساسات سے سرشار ہو۔ الغرض ایک ایسے صالح معاشرہ کی تشکیل کی جائے جو باللیل رھبان وبالنھار فرسان (رات میں تہجد گزار اور دن میں شہسوار) کی تفسیر ہو۔
کسی قوم کی موت
حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم میں دو مرض پیدا ہوجائیں: (۱) ایک دنیا کی محبت (۲) دوسرے موت کا ڈر، تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قوم مر چکی۔ اور جب کسی قوم کو ان دونوں بیماریوں سے نجات نصیب ہو جاتی ہے تو وہ قوم حیاتِ ابدی سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ صحیح بخاری شریف میں ایک حدیث آئی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم پر دنیا کی قومیں اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس زمانہ میں ہم مسلمانوں کی تعداد اتنی تھوڑی ہو گی؟ فرمایا: نہیں! تم اتنے زیادہ ہو گے کہ اس سے پہلے کبھی تمہاری اتنی تعداد نہ ہوئی ہوگی، مگر تمہاری مثال ایسی ہو گی جیسے سیلاب پر خس و خاشاک، دشمنوں کے دل سے تمہاری ہیبت نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں وہن پیدا ہو جائے گا۔ پوچھا کہ: وہن کیا چیز ہے؟ ارشاد فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے خوف۔ (سنن ابی داؤد، کتاب الملاحم، باب فی تداعی الامم علی الاسلام، ج:۲، ص:۵۹۰، ط:حقانیہ)
اس حدیث سے واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کا عددی اکثریت پر کبھی بھی مدار نہیں رہا ہے، نہ ہی عددی اکثریت میں اسلام کی قوت مضمر ہے، بلکہ مسلمانوں کی طاقت و قوت کا راز یہ ہے کہ اُن کے قلوب دنیا کی محبت سے پاک اور موت کے خوف سے اُن کے دل آزاد ہوں۔
آپ نے دیکھا کہ اس موجودہ معرکۂ حق و باطل میں مسلمانوں کا جو جوہر سب سے زیادہ نمایاں رہا ہے وہ مسلمان نوجوانوں کے دلوں میں دنیوی زندگی کی بے وقعتی اور شہادت کی موت کو لبیک کہنے کا ذوق و شوق ہے۔ دنیا نے ایک بار پھر اسلامی روح اور اسلامی قوت و طاقت کا منظر دیکھ لیا اور مسلمان افواج کی بے نظیر شجاعت اور شوقِ شہادت نے تاریخ میں ایک نئے اور شاندار باب کا اضافہ کر دیا۔ یہ واقعہ دورِ حاضر کی تاریخ کا سنہرا باب ہے جس کو عصرِ حاضر کا مؤرخ زریں حروف میں لکھے گا۔ کاش! اگر ہماری قوم کی غالب اکثریت میں یہ ہی روح کار فرما ہو جائے تو دنیا اور اس کی قیادت کا نقشہ ہی بدل جائے، پر نہ دنیا پر امریکہ کی بالادستی نظر آئے نہ روس کی۔
مسلمانوں کی بنیادی قوت
یہ حقیقت بالکل ظاہر و عیاں ہے کہ موجودہ اسباب و وسائل کی مادی دنیا میں ہم مسلمان ان کفر کی طاغوتی طاقتوں اور اسلام دشمن قوموں کے مقابلہ پر خواہ روس ہو یا امریکہ، جرمنی ہو یا برطانیہ، بہت پسماندہ ہیں۔ مادی وسائل اور حیرت انگیز سائنسی ترقیات میں ہم ان سے بہت پیچھے ہیں۔ ایسی صورت میں ہمارے لیے عقلاً بھی ان کے مقابلہ کا یہی مختصر اور محکم راستہ ہے کہ ہم اس رب العالمین سے اپنا رشتہ مضبوط جوڑ لیں اور عبدیت کا تعلق اُستوار کر لیں جو اِن تمام مادی وسائل کا خالقِ حقیقی ہے اور اس کی قدرتِ کاملہ اور قوتِ قاہرہ کے سامنے ان کی کچھ بھی حقیقت نہیں ہے۔ بھلا اس خالق کائنات کی قدرتِ کاملہ کے سامنے ان ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے جن کا وہ خود پیدا کرنے والا اور حقیقی موجد ہے!
اس کا یہ مقصد ہرگز نہ سمجھا جائے کہ ہم مادی اسباب و وسائل سے بے نیازی اختیار کر نے اور غفلت برتنے کا درس دے رہے ہیں۔ یہ تو خود خداوندی حکم ہے کہ جتنی بھی طاقت و قوت تمہاری استطاعت میں ہو، دشمنانِ اسلام کے مقابلہ کے لیے اس کو فراہم کرنے میں مطلق کوتاہی نہ کرو۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اعتماد کا اصل سرچشمہ وہ ذات قدسی صفات ہونی چاہیے، جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام محیر العقول وسائل ہیں اور وہی اُن کا حقیقی مالک و متصرف ہے۔ آپ نے دیکھا چینی قوم جو اَب سے بیس سال پہلے تک دنیا کی پست ترین افیمی قوم سمجھی جاتی تھی آج وہ قوم اپنی ہمت و جرأت اور تنظیم و اتحاد، جفاکشی و سخت کوشی اور سرفروشی کی بدولت نہ صرف صنعت و حرفت میں بلکہ فنی و حربی قوت اور فوجی طاقت میں امریکہ اور روس کے لیے بھی وبالِ جان بنی ہوئی ہے اور وہ دنیا جو کچھ سرخ خطرہ سے لرزہ براندام ہوا کرتی تھی، اب زرد خطرہ سے پریشان اور حواس باختہ ہے، حتیٰ کہ اس نے اب امریکہ و روس کے ایوانِ سیاست و تدبیر کو بھی متزلزل کر دیا ہے۔ اگر ستر کروڑ چینی، امریکہ و روس کو مرعوب کر سکتے ہیں تو کیا دنیا کے ستر کروڑ مسلمان اگر آج تنظیم و اتحاد، ہمت و عزیمت، ایثار و محنت اور سرفروشی کی نعمت سے سرفراز ہو جائیں تو وہ ان طاغوتی طاقتوں کو مغلوب و مقہور نہیں کر سکتے؟
آج اگر دنیا کی مسلمان قومیں اور حکومتیں اغیار کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ و مامون ہو جاتیں اور جو قدرتی ذخائر ان بلادِ اسلامیہ میں قدرت نے پیدا کیے ہیں ان سے ان ’’عیار سفید فام‘‘ قوموں کے بجائے خود وہ مستفید ہونے لگیں تو دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور اور باعزت قوم مسلمان بن جائیں۔
الغرض وقت کا تقاضا ہے کہ مادی ترقیات میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ اغیار سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں، مگر اس سے پہلے اللہ جل شانہٗ سے اپنا رشتہ جوڑیں اور تعلُّق استوار کریں تو آخرت کی نعمتوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی نعمتوں سے بھی مسلمان ہی سرفراز ہوں گے۔ فَاعْتَبِرُ وْا یَا أُولِیْ الْأَبْصَارِ۔
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہؒ کی شہادت
مولانا مفتی محمد تقی عثمانی
(جامعہ دارالعلوم کراچی کے یو ٹیوب چینل پر نشر ہونے والی تین آڈیوز کی گفتگو)
اسماعیل ہنیہؒ کا خون رائیگاں نہیں جائے گا
اسماعیل ہنیہؒ، ہمارا محبوب قائد، ہمارا محبوب مجاہد اور جانباز، اس نے اپنی جان دے کر اپنا خون دے کر آزادئ فلسطین کی تحریک کی شمع کو جلا دیا، اور جلا دیا، زیادہ جلا دیا، اس کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔ قرآن کریم نے فرمایا ’’من المؤمنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ‘‘ (الاحزاب) مومنین میں ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا ہوتا ہے اس کو سچا کر دکھاتے ہیں۔ ’’فمنھم من قضیٰ نحبہ ومنھم من ینتظر‘‘ (الاحزاب) ان میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنی خواہش پوری کر لی یعنی اللہ کے راستے میں جان دینے کی شہادت کی خواہش پوری کر لی، اور بعض وہ ہیں جو اس انتظار میں ہیں کہ کب ہمیں اللہ کے راستے میں شہید ہونے کا موقع ملتا ہے۔
تو اسماعیل ہنیہؒ نے الحمد للہ جو عہد کیا تھا اللہ تعالیٰ سے۔ اور وہ اثر یہ تھا کہ جو ان کا نعرہ ہے ’’نصر او استشہاد‘‘ یا فتح ہو گی یا ہم شہید ہوں گے۔ تو انہوں نے اپنے اس عہد کو اللہ تعالیٰ کے بحضور پورا کر دکھایا۔ اس کے خاندان کے ستر افراد اس جہاد میں شہید ہو چکے ہیں۔ اس کے بیٹے اس کے پوتے اسی جہاد میں شہید ہوئے۔ اور جب ان بیٹوں پوتوں کی شہادت کے وقت میں نے ٹیلیفون پر اسماعیل ہنیہؒ کو تعزیت کی تو انہوں نے بالکل ایسے جیسے مبسوط اور نشاط والی آواز کے ساتھ یہ کہا کہ حضرت یہ تو میرے غزہ کے سارے شہداء ہی ایسے ہیں، میرے بیٹوں کی کوئی خصوصیت نہیں، وہ بھی غزہ کے شہداء کے ساتھ شامل ہو گئے، اور میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں شہید ہو کر سرخرو ہو گئے۔ اس پر کسی غم کا اظہار نہیں، کسی تکلیف کا اظہار نہیں، اللہ تعالیٰ کا شکر اور جہاد میں استقامت کا عزم ان کی باتوں سے واضح تھا۔
جب میں نے پرسوں اس واقعے پر وہاں کے جو ان کے دوسرے سربراہ ہیں خالد مشعل، ان سے ٹیلیفون پر بات کی تو ان کو بھی ایسا پایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی تصویر، اور اس بات پر اعتماد کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کو اپنے پاس بلایا اور ان کو مقام عطا فرمایا شہادت کا، اور اس مقامِ شہادت کی وجہ سے ان شاء اللہ فلسطین کے جہاد کی تحریک دبے گی نہیں، اور زیادہ بڑھے گی اور ان شاء اللہ ایسا ہی ہو گا۔
اسماعیل ہنیہؒ کے قائدانہ اوصاف
اسماعیل ہنیہؒ جن کی کنیت ابوالعبد ہے، وہ حافظِ قرآن تھے، اور غزہ کے علاقے میں انہوں نے قرآن کریم کی ترویج اور نشر و اشاعت کے لیے ایسا نظام بنایا تھا کہ وہاں بچہ بچہ حافظ ہو رہا تھا۔ میری بذاتِ خود ان سے ملاقات ہوئی، میں ان سے ملنے کے لیے دوحہ گیا، ان کی شخصیت میں مجھے ایک صحیح مسلمان قائد کے اوصاف نظر آئے۔ ایک طرف وہ متدیِّن انسان تھے، حافظِ قرآن تھے، قرآن کریم کی تلاوت جس بہترین اور اعلیٰ تجوید کے ساتھ وہ کرتے تھے اور اس کے ساتھ امامت بھی کرتے تھے، وہ غیر معمولی تھی۔ ان کے والد ایک مسجد میں مؤذن تھے۔ اور وہ بتلاتے ہیں کہ میرے بچپن سے میرے والد مجھے نمازِ فجر سے پہلے بیدار کر کے اپنے ساتھ لے کر جایا کرتے تھے فجر کی اذان کے لیے، اور انہوں نے میری دینی تربیت اس انداز سے کی کہ الحمد للہ اسلام میری رگ و پے میں سما گیا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان سے بڑی خدمات لیں اور بالآخر حماس کی یہ جدوجہد، یہ جہاد جو دس مہینے سے فلسطین میں جاری ہے، اس کی قیادت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں سے کرائی ہے۔ اور ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کسی شخص کی ذات میں جوش اور ہوش دونوں کا حسین امتزاج ہو۔ بعض اوقات لوگوں پر جوش غالب آجاتا ہے، وہ صرف جذباتی ہو جاتے ہیں، اور فکر و تدبر اور عقل سے کام کم لیتے ہیں۔ اور بعض اوقات ایسے لوگ ہوتے ہیں جو فکری اور نظریاتی بحثوں میں الجھے رہتے ہیں، اور جب عمل کا وقت آتا ہے تو ان کا جوش و خروش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔ میں نے اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ کی ذات میں جوش اور تدبر دونوں کا ایسا حسین امتزاج دیکھا جو بہت کم لوگوں میں نظر آتا ہے۔
اسماعیل ہنیہؒ کی ایران میں شہادت سے پیدا ہونے والے سوالات
ان کو ایران میں شہید کیا گیا۔ ایران بظاہر وہ واحد ملک ہے جو حماس کی سرکاری سطح پر حمایت بھی کر رہا ہے اور اس کو تھوڑی بہت امداد بھی دے رہا ہے۔ اور کوئی ملک سرکاری سطح پر حماس کا حامی نہیں، نہ کوئی مؤثر امداد جہاد کے سلسلہ میں فراہم کر رہا ہے۔ ایران واحد ملک تھا جس نے بہرحال زبانی طور پر اور تھوڑی بہت عملی طور پر مالی امداد حماس کو فراہم کی۔ لیکن یہ عجیب معمہ ہے کہ وہ عرصہ دراز سے دوحہ میں مقیم ہیں اور مختلف ملکوں میں جاتے آتے رہتے ہیں۔ وہ ترکی گئے، وہ روس گئے، وہ مصر گئے، اور مستقل طور پر دوحہ میں مقیم ہیں، لیکن ایران ہی میں ان کو دردناک قتل کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ کیا کوئی اتفاق ہے؟
اس میں ایک پہلو ایسا معمہ ہے جس کی کوئی توجیہ ابھی تک سمجھ میں نہیں آ رہی، وہ یہ کہ جب کبھی اس قسم کا عالمی سطح پر کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس کی پوری تفصیلات میڈیا کے ذریعے ساری دنیا میں پھیل جاتی ہیں، دیکھایا جاتا ہے کہ کہاں وہ شہید ہوئے؟ دیکھایا جاتا ہے کہ جس جگہ وہ شہید ہوئے وہاں پر کیا تباہی مچی ہے؟ کہا جا رہا ہے کہ گائیڈڈ میزائل کے ذریعے ان کو شہید کیا گیا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جس عمارت کے اندر وہ مقیم تھے، اس گائیڈڈ میزائیل نے اگر کوئی عمارت کو نقصان پہنچایا، اگر گائیڈڈ میزائیل آ کر عمارت پر گرا تو ظاہر ہے کہ وہ میزائیل صرف آدمی کو ہلاک نہیں کرے گا، وہ عمارت کو بھی نقصان پہنچائے گا، وہ اس کے اندر اور کوئی عملہ ہو گا تو اس کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ لیکن یہ عجیب و غریب معمہ ہے کہ وہ گائیڈڈ میزائیل جاتا ہے اور جا کر صرف اسماعیل ہنیہؒ کو اور اس کے محافظ کو شہید کرتا ہے۔ اور نہ اس عمارت کی کوئی تصویر آ رہی ہے کہ اس حملے کے بعد اس عمارت کا کیا بنا؟ نہ یہ تصویر آ رہی ہے کہ اس گائیڈڈ میزائیل کے ذریعے اور کیا نقصان پہنچا؟ خبر صرف یہ ہے کہ اسماعیل ہنیہؒ اور ان کے محافظ شہید کر دیے گئے۔ آخر کیوں ایسا؟
نیویارک ٹائمز کی خبر یہ ہے کہ جس جگہ اسماعیل ہنیہ رحمہ اللہ مقیم تھے اس جگہ دو ماہ پہلے سے لا کر بم رکھا ہوا تھا۔ یہ اطلاع بھی آ رہی ہے۔ وہ کیسے رکھا گیا تھا؟ اگر وہ بات صحیح ہے جو نیویارک ٹائمز نے خبر دی ہے تو وہ بم اگر دو مہینے پہلے سے رکھا ہوا تھا تو میزبانوں نے ان کو وہاں ٹھہرانے سے پہلے، ان تفتیشی اداروں کو کیوں حرکت میں نہیں لائے کہ جو ایسی جگہوں کی حفاظت کے لیے بموں کے ڈسپوزل والی ایجنسیاں ہوتی ہیں۔
اور یہ متضاد باتیں آ رہی ہیں کہ بم پہلے سے رکھا ہوا تھا یا گائیڈڈ میزائیل کے ذریعے ان کو ہلاک کیا گیا۔ ان متضاد باتوں کو واضح کرنا ایرانی حکومت کا فرض تھا کہ وہ ان تفصیلات کو سامنے لائے کہ حقیقت کیا ہے۔ اور صرف وہی کیوں ۔۔۔ شہید ہوئے؟ اور کیا ان کو تنہا چھوڑا ہوا تھا کہ صرف وہ اور ان کے محافظ ہی موجود تھے؟ اور جو کسی سرکاری مہمان کو رکھنے کے لیے جو حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں، کیا اس کو تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے؟ وہ کہاں تھے اور وہ حفاظتی انتظامات، ان کو کیوں نقصان نہیں پہنچا؟
یہ سوالات ہیں جو ہر انسان کے دل میں اور دماغ میں اٹھ رہے ہیں۔ اور اس سے شبہات کو تقویت مل رہی ہے، اور ان شبہات کا ازالہ ایران کی حکومت کے ذمے ہے۔ اس کا واحد راستہ یہ تھا کہ وہ ساری صورتحال کی تفصیل دنیا کے سامنے رکھ دیتا، اس جگہ کی تصویریں دیتا جہاں پر یہ واقعہ رونما ہوا۔ اس کے ماحول کی تصویریں دیتا، اس عمارت کا کیا حال بنا جس عمارت پر حملہ ہوا یا بم پھٹا جو بھی صورت تھی، لیکن ایرانی خبر رساں ادارے بالکل خاموش ہیں۔ اس سے یہ شبہ کوئی محض وہم نہیں رہتا بلکہ شبہے کو بڑی تقویت ملتی ہے کہ ایرانی حکومت نے اس معاملے میں یا تو غفلت کا ثبوت دیا، یا دوسرے بعض لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ضروری طور پر خود ایرانی حکومت اس میں ملوث تھی۔ جو بھی شبہات ہوں ایرانی حکومت کا فرض ہے اس کو تفصیل کے ساتھ وہ سارے واقعات دنیا کے سامنے لائے اور دنیا کے سامنے اس کی تصویریں پیش کرے کہ کس طرح اتنا بڑا واقعہ ہو گیا جس پر ساری دنیا ہل گئی ہے لیکن اس کی تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں۔
اسرائیل و صہیون مخالف ناطوری یہود (۲)
محمود الحسن عالمیؔ
(13)اگر واقعی ہی ایسا ہے جیسا کہ آپ کہتے ہیں تو صہیونیت کے خلاف یہودیوں کی ایک نہایت بڑی تحریک چلنی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے بجائے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے یہودی لوگ اور بالخصوص یہودی ربی (علمائے یہود) صہیونیت کی حمایت کرتے ہیں۔
درحقیقت دوسری جنگ عظیم(1939ء) سے قبل صہیونیت کے خلاف مذہبی یہودیوں نے ایک عظیم جنگ برپا کی ہوئی تھی۔کہ تقریباً تمام ربی (علمائے یہود) اور ان کے پیروکار صہیونیت کی مخالفت میں نہایت سرگرم تھے لیکن بدقسمتی سے اِن میں سے اکثر یہودی جنگ عظیم دوم(کے سانحہءہولوکاسٹ )میں مارے گئے۔نتیجے کے طور پر زندہ بچ جانے والے یہودی اب تنہا ، یتیم اور بے سہارا ہو کر صہیونیت کے چمکتے دمکتے سراب میں اُلجھنے لگے۔نیز یہ کہ برسوں کی طویل جنگ نے صہیونیت کے بعض مخالفین کوبھی اِس خوف میں مبتلا کر دیا تھا کہ یہودیوں کی جان بچانے کے لیے اب فلسطینیوں اور دیگر لوگوں کے خلاف جنگ و جدل کی حمایت کرنا ضروری ہے۔
(14)اچھا !تو جنگ عظیم دوم کے سانحہء ہولوکاسٹ سے پہلے مذہبی یہودیوں کا صیہونیت پر ردعمل کیا تھا؟
شروعات ہی سے تقریباً تمام بنیاد پسند یہودی ربیوں(علمائے یہود) اور اُن کے پیروکاروں نے صہیونی تحریک کی شدید مذمت کی ہے اور یہ مذمت قابل فہم بھی تھی کیونکہ یہ تحریک ہر اُس چیز کو اکھاڑ پھینکنے آئی تھی کہ جس کی جڑیں یہودیت سے وابستہ ہے۔صہیونیوں نے اپنی تحریک کو سرزمین مقدس پر یہودیوں کی بہتر زندگی کے لیے کوشاں ایک بے ضرر تحریک کے طور پیش کیا۔ لیکن ہمارے ربیوں(یہودی علماء) نے اِس (فریبِ نظر سے بچتے ہوئے) صہیونیت کو ایک ایسی جھوٹی مسیحی تحریک اور تورات مخالف تحریک کے طور پر فوراً پہچان لیا کہ جو عالمی سطح پر یہودیوں اور یہودیوں کے بین الاقوامی تعلقات کو خطرے میں ڈالے گی۔
ایک ایسی بنیاد پسند یہودی برادری صدیوں سے فلسطین میں موجود تھی کہ جس کے ربی(علماء ) خاص طور پر صہیونیت کی شدید مذمت کرتے تھے۔ اِس برادری کے یہودیوں نے فلسطینی عربوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے، حفظ ما تقدم یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ صہیونیت (بالآخر) اِس دوستی کو ختم کر دی گی۔ وہ مقدس سرزمین کی اس بے حرمتی پر بھی خوفزدہ تھے کہ جو غیر مذہبی صہیونیوں کی بڑی تعداد میں آباد کاری کے نتیجے میں رونما ہوئی تھی۔
اِس ساری صورتحال کے پیش نظر مختلف ممالک کے ربیوں(یہودی علماء) نے اِس تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باہمی ملاقاتیں کیں کہ اب کیا کرنے کی ضرورت ہے۔؟( نتیجے کے طور پر ) صہیونیت کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے روس ، پولینڈ اور جرمنی میں”اگوداتھ اسرائیل“ نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ آسٹریا اور ہنگری کے بنیاد پسند ربیوں(علماء) نے اپنے پیروکاروں کو صہیونی تحریک میں شامل ہونے سے منع کیا۔فلسطین میں یروشلم کی ”عیدہ چاریڈیس“ صہیونی قومی کونسل کے متبادل کے طور پر قائم کی گئی اور صہیونی کابینہ کی مخالفت کے پیش نظر ایک آزاد کابینہ کی بنیاد رکھی گئی۔
تاہم دوسری جنگ عظیم(ہولوکاسٹ) میں یورپی یہودیوں کی تباہی کے بعد صہیونیوں نے مذہبی یہودیوں کو اپنی تحریک میں پھنسانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔جو بنیاد پسند علمائے یہود اور فرقے بچ گئے تھے اُن کا صفایا کر دیا گیا اور زندہ بچ جانے والوں کو رہنمائی سے یوں محروم کر دیا گیا کہ وہ خود کو بے دفاع اور کمزور محسوس کرنے لگ گئے۔اِس طریقہ واردات سے"یہودی لوگوں کے دفاع" کے وعدوں نے زندہ بچ جانے والوں سے ایک صہیونی ریاست کے قیام کی اپیل کرنا شروع کر دی۔
مزید برآں یہ کہ صہیونیوں نے یہودی عوام الناس کے اندر اپنی مخالفت کو کچلنے کے لیے وحشیانہ طریقے استعمال کیے۔ 1924ء میں انہوں نے ڈاکٹر ”یاکوف یسروئیل ڈیہان“ کو قتل کر دیا، جو کہ یروشلم کی (صہیون مخالف تنظیم) ”عیدہ چاریڈیس“ کے اسپیکر اور سفارت کار تھے۔ حتی کہ انہوں نے یہودیوں کے پرامن مظاہروں کو بھی روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا، اور ایک مظاہرے کے دوران انھوں نے سرعام ربی(علامہ) ”پنچاس سیگیلوف“ کو قتل کر دیا۔ 1948ء میں، انہوں نے یروشلم میں کئی دہائیوں سے آباد ربیوں(علمائے یہود) پر گولیاں چلائیں جو اردنی فوجیوں کے ساتھ صلح کرنے کے لیے نکلے تھے۔ ربی امر بلاؤ (1900-1974)، یروشلم میں ایک ممتاز صہیونی مخالف رہنما تھے جنھیں اپنی جدوجہد کے دوران کئی بار جانی حملوں کا سامنا ہوا اور آخرکار انھیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
لیکن اِن سب مظالم کو سہنے کو باوجود آج بھی دنیا بھر میں بہت سے ایسے یہودی مذہبی فرقے، تنظیمیں اور تورات کے مدارس باقی ہیں جن میں اصل یہودی عقیدے کی تعلیم دی جاتی ہے اور صہیونیت کی مذمت کی جاتی ہے۔ صہیونیت مخالف یہودیوں نے امریکہ، فلسطین اور دیگر ممالک میں صہیونی حکومت اور اس کے فیصلوں کے خلاف بے شمار مظاہرے کیے ہیں۔ ان کے بہادر رہنما صہیونیوں کی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور مظلوموں کی آواز کو آج تک خاموش نہیں ہونے دئے رہے۔
صہیونی اسرئیلی ریاست اور دیگر جگہوں پر یہودیوں کے ایسے بڑے گروہ وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ جو صہیونی یوم آزادی نہیں مناتے، صہیونی پرچم نہیں لہراتے اور صہیونی فوج میں خدمات نہیں دیتے۔
(15)آپ کے علم میں ہے کہ (یہودیوں کا قتل عام) ہولوکاسٹ ہوا تھا اِس لیے کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ یہودیوں کو اپنی حفاظت کے لیے کسی قسم کی قوت کی ضرورت ہے ؟
تو کیا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ صہیونی اُن جرمن نازیوں سے مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ جن کو شکست دینے کے لیے(پانچ بڑی عالمی قوتوں یعنی) امریکہ و برطانیہ ، فرانس و روس اور چین کو چھ سال لگ گئے تھے ؟
دوم یہ کہ( اصل سوال یہ ہے) کہ کیا صہیونی واقعی ہی ہولوکاسٹ کے دورانیے میں یہودیوں کی حفاظت کرنا چاہتے تھے کہ نہیں ؟جب کہ وہ یہودیوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کی سکت بھی رکھتے تھے۔مثال کے طور پر وہ اتحادیوں پر کچھ اِس طرح کا دباو ڈال سکتے تھے کہ اتحادی افواج یہودی قتل گاہوں پر بمباری کریں۔لیکن اِنھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا بلکہ یہودیوں کو نازیوں کے ظلم سے بچانے کے لیے مالی مدد فراہم کرنے سے بھی مکمل طور پر انکار کر دیاحتیٰ کہ کچھ معمولات میں تو صہیونیوں کے نازیوں کے ساتھ تعاون کے بھی واضح ثبوت بھی ملتے ہیں۔(یہ ثبوت دستاویزات،پمفلٹس اور کتب کی شکل میں ناطوری یہود کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
https://nkusa.org
ثوم یہ کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صہیونی حماس، حزب اللہ اور دیگر اِس جیسی کمزور تنظیموں سے بھی اپنا دفاع نہیں کر پا رہے ہیں تو پھر وہ جرمنی جیسے طاقتور ملک کے خلاف یہودیوں کی حفاظت کیسے کر سکتے تھے ؟
چوتھی بات یہ کہ اگر دنیا میں کہیں یہود دشمنی پھیلتی ہے تو صہیونی اِس جگہ یہودیوں کی مدد کو نہیں پہنچتے۔ بلکہ، وہ اِس صورت حال سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں اور (اپنی مظلومیت کا رونا روتے) خوب پروپیگنڈہ کرتے ہیں تاکہ غیر اسرائیلی یہودیوں کو اسرائیلی ریاست میں پناہ ملنے کی ترغیب مل سکے۔
پانچویں بات یہ کہ سیاسی صہیونیت کے بانی(تھیوڈور ہرزل) نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ”نئی یہودی ریاست کی اقامت کا طریقہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں یہود دشمنی کی آگ کے الاؤ کو روشن کیا جائے اور اسے یہودیوں کے پاؤں تلے رکھ دیا جائے، تاکہ وہ اُس سرزمین کی طرف بھاگنا چاہیے جو صہیونیوں کو ملے گی۔“
یہ بالکل وہی حربہ ہے، جس کے ذریعے ہولوکاسٹ عمل میں لایا گیا ہے۔ لیکن آج وہ ہولوکاسٹ کو اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
آخری بات یہ کہ تاریخ نے ہمیں دکھایا ہے کہ یہودی صہیونیوں کے تحفظ کے بغیر بھی رہ سکتے ہیں۔ صہیونیوں کے حصول اقتدار سے پہلے یہودی دنیا میں عام طور پر امن سے رہ رہے ہیں۔ جبکہ آج اِن کی ریاست دنیا کی اُن شاذ و نادر جگہوں میں شمار کی جاتی ہے جہاں مسلسل تشدد ہو رہا ہے اور اپنی ریاست کے علاوہ بھی صہیونی باقی دنیا میں بھرپور شر پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعے پر چیخ چیخ کر یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہودیوں کو تحفظ کے لیے اُن کی نام نہاد پناہ میں آ جانا چاہیے۔
(16)کیا آپ اِس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ دنیا میں یہود دشمنی ہے، مثال کے طور پر ایران میں؟
ایران میں یہود دشمنی ہے یہ بھی خالصتاً صہیونی پروپیگنڈاہے۔ کیونکہ ایران میں یہودیوں کو خاص مراعات حاصل ہیں، حتی کہ مذہب کے معاملے میں بھی۔ مثال کے طور پر، یہودیوں کو کدوش(مذہبی عبادت) کے لیے شراب بنانے کی اجازت ہے، حالانکہ شراب مسلمانوں میں مطلقاً حرام ہے۔ پس اگر کہی بھی یہود دشمنی ہوتی ہے تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ صہیونی اِس دشمنی کو اپنی ظالمانہ کارروائیوں سے اُبھارتے ہیں۔
(17) اگر یہودی تنظیم اور خود کا دفاع غلط ہے، تو اگر دنیا میں کہیں واقعی ہی یہودیوں پر کوئی آفت آ جاتی ہے تو آپ کیا کریں گے؟
آپ نے عمدہ سوال کیا۔جواب گہرا ہے پس اِسے آہستہ آہستہ جذب کریں کہ شاید آپ سمجھ جائیں۔
(1) ایک یہودی کے لیے ایمان اور تورات سب سے اولین ترجیح پر آتے ہیں پھر اِس کی زندگی دوسری ترجیح پر آتی ہے۔پس ہم اپنے پورے جی جان سے اپنے عقائد کے وفادار ہے اور ہم محض اپنی جانیں بچانے کے عوض اپنے عقائد کا سودا ہرگز نہیں کرئے گئے۔بس مشکل وقت میں صرف اُسی قدر دفاع کرئے گئے کہ جس قدر دفاع کرنے کی اجازت ہمیں تورات دیتی ہے یعنی اپنے دفاع کے لیے اطاعت و فرمانبرداری کا طریقہ اختیار کرنے کی۔
(2) ہمارا کامل یقین ہے کہ خداوند یکتا خیر و شر کا مالک ہے۔انسان اُس کے مخص اِک پیروکار کی حیثیت رکھتا ہے۔پس ہم اپنے آپ کو اُس کے احکامات سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرسکتے ہیں۔
(3) ہم سمجھتے ہیں کہ خداوند یکتا اسرائیل(یعنی آل یعقوب) کا محافظ ہے۔ تاریخ نے کئی عظیم حکمران طاقتوں کا عروج و زوال دیکھا ہے لیکن یہودی اب بھی موجود ہیں اور رہیں گے۔ تنظیم اور خود دفاعی"سیلف ڈیفنس"کا عمل ہماری مدد نہیں کرئے گے، جیسا کہ اُس نے اُن عظیم حکمران طاقتوں کی مدد نہیں کی۔ صرف خداوند یکتا ہی ہماری حفاظت اور مدد کر سکتا ہے۔
(4) خداوند یکتا جو سزائیں ہم پر لاتا ہے وہ ہمارے گناہوں کا کفارہ بنتے ہوئے ہمارے فائدے کے لیے ہی ہوتی ہے اور ہمیں توبہ و استغفار کے لیے بیدار کرتی ہے۔توبہ، دعا اور صدقہ جیسے اعمال خداوند یکتا کی طرف سے جاری کردہ سزاؤں کی شدت کم کرنے یا کسی حکم کو منسوخ کرنے کے حوالے سے متاثر کن حیثیت رکھتے ہیں۔
(5) کتاب مقدس تورات کی تعلیمات کی روشنی میں خود ساختہ تنظیم یا صہیونیت سنگین ترین گناہوں میں سے ایک ہے اور اس کی سخت ترین سزا ہے۔ جلاوطنی سے سرکشی اختیار کرنا یہودیوں کے لیے باعث نجات ہرگز نہیں ہے کہ یہ ماسوائے بدقسمتی کچھ نہیں ہے۔
(6) یہود مخالفت اصل میں مسئلہ نہیں ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خداوند کی پکڑ میں لاٹھی ہے۔پس ہمیں لاٹھی سے نہیں بلکہ لاٹھی پکڑنے والے سے مخاطب ہونا چاہیے یعنی خداوند یکتا سے، کہ ہمیں دعا کے ذریعے اُسی سے مخاطب ہوتے ہوئے توبہ واستغفار طلب کرنی چاہیے۔
ناطوری یہود درج ذیل بالا اپنے موقف کی حمایت و تائید میں تورات و تلمود اور دیگر کئی اہم یہودی مذہبی کتب سے دلائل کا ایک ضخیم دفتر رکھتے ہیں جو کہ ناطوری یہود کی آفیشل ویب سائٹ پر آپ تفصیلی طور پر ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔یہاں صرف اُن چند اہم ترین آیات و اقوال کو پیش کیا جارہاہے کہ جو اختصار کے تقاضے کے ساتھ ساتھ جامعیت کا بھی حق ادا کرتی ہے۔
"کتاب تلمود" میں صہیونیت کے خلاف دلائل میں سب سے اہم تین قسموں پر مبنی وہ تلمودی تصور ہے کہ بامطابق "تلمود ،کسوبوس 111اے" میں خداوند قادر مطلق نے یہودی قوم پر اِن تین وعدوں/ قسموں کی پاسداری و پابندی قیامت تک کے لیے اب عائد کر دی ہے:
1۔یہودی ارضِ مقدسہ(فلسطین ) کی جانب اب کھبی بھی کسی بھی قسم کے اجتماعی نظم و قوت کے زیرِ اہتمام واپسی نہیں کرئے گئے۔
2یہودی دیگر اقوام کے خلاف ہرگز بغاوت نہیں کریں گئے کہ جو انھیں پناہ دئے گئی۔
3۔دیگر اقوام یہود کو زیر جبر و استحصال نہیں کرئے گئی۔
صہیونیت نے خدا سے کیے گئے اِن وعدوں / قسموں کی کس طرح سختی سے خلاف ورزی کرتے ہوئے، بغاوت کا پرچم تھامے ، خدا کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔یہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہے اور ماضی کی تاریخ اور موجودہ حال کی روداد اِس کی عینی شاہد ہے۔
صہیونیت کے خلاف بنیادی طور پر اہم ترین دلائل کتابِ مقدس " تورات" میں درج احکاماتِ عشرہ (دس بنیادی خدائی احکامات) سے متعلق ہیں۔کہ اِن میں سے خصوصاً دو خدائی احکام صہیونی اسرائیل کی قتل و غارتگری اور خطہء فلسطین پر قبضے اور وسائل چوری کی انتہائی مذمت کرتے ہیں۔یہ دو بنیادی احکام تورات میں دو مختلف جگہوں پر لیکن ایک ہی معنی و مفہوم کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ تورات کی کتاب خروج(20:13) میں ساتویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستناء(5:17) میں چھٹے بنیادی حکم کے طور پر خداوند تعالیٰ بالخصوص یہودی قوم کو اور بالعموم اقوام عالم کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
"تم خون نہ بہانا۔۔۔!"
پھر کتاب خروج (20:15) میں ناویں بنیادی حکم کے طور پر اور باب اِستناء(5:19) میں آٹھویں بنیادی حکم کے طور پر ارشاد فرماتا ہے:
تم چوری نہ کرنا۔۔۔!
یہودیوں کی جلاوطنی سے متعلقہ آیات:
”تم اُس اچھی زمین سے ہٹا دیے جاؤ گے جس کے تم وارث ہونے کے لیے آئے ہو، اور خداوند تمہیں زمین کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام قوموں میں منتشر کر دے گا۔“
تورات، استثناء:28:63
”اور اگر تم میری نہیں سنو گئے اور میرے احکامات کی پیروی نہ بجا لاوں گئے تو میں تمہیں تمام اقوام میں منتشر کر دوں گا۔”
تورات ، احبار :26:33
یہودیوں کی جلاوطنی آمد مسیح کے ساتھ ختم ہوگئی اِس موضوع سے متعلقہ آیات:
اور مسیح کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک شاخ پھوٹے گی۔1 اور خداوند کی روح، حکمت اور فہم کی روح، مصلحت اور قدرت کی روح، معرفت اور خداوند کے خوف کی روح اُس میں قیام کرئے گی۔۔۔۔۔۔اور اس دن مسیحا کی حکومت قائم ہوگی جو لوگوں کے لیے ایک نشانی ہوگی۔ قومیں اس کی تلاش کریں گی اور اس کا قیام جلالی ہوگا۔10۔۔۔اور اسی دن خداوند دوسری بار اپنے ہاتھ کو بڑھائے گا کہ اپنی قوم کے بقیہ ( لوگوں)کو واپس لائے۔۔۔11 اور وہ قوموں کے لیے ایک نشانی کھڑا کرے گا اور آل یعقوب کے جلاوطنوں کو واپس جمع کرے گا اور یہودا(یہودی قوم) کے متفرق لوگوں کو زمین کی چاروں سمتوں سے اکٹھا کرے گا۔12
کتاب یسعیاہ:11(1-2)
چند اعلی اخلاقی تعلیمات سے متعلقہ آیات:
جو آپ اپنے ساتھ نہیں کرنا چاہتے وہ دوسروں کے ساتھ بھی نہ کریں۔ یہ پوری تورات ہے۔ باقی تفسیر ہے۔ جاؤ اور مطالعہ کرو۔
تلمود، شببوس 31 اے
خدا کی طرح بنیں کہ جس طرح وہ مہربان اور رحم کرنے والا ہے، اُسی طرح آپ کو بھی مہربان اور رحم دل ہونا چاہیے۔
تلمود، شبوس 133 -بی
جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری دنیا بچائی۔"
کتابِ تلمود_مشناہ_سناہدرین:4:5
"اے انسان!وہ تجھ سے کیا چاہتا ہے، سوائے اِس کہ تو انصاف کرے، رحم دلی سے پیش آئے، اور اپنے رب کے حضور عاجزی سے رہے۔"
کتابِ تنک_نبییم_میکاہ: 6:8
قارئین محترم!"ناطوری یہود" کا صہیونیت کے حوالے سے موقف ممکنہ دیانت داری سے پیش کرنے کی طالب علمانہ سعی کے بعد میں یہ وضاحت قابلِ ذکر سمجھتا ہوں کہ اگرچہ ناطوری یہود لاکھ بار "صہیونیت"کو اپنے دائرہ مذہبِ(یعنی یہودیت) سے خارج کر لے لیکن یہ حقائق تو اپنے طور پر عین موجود ہی رہے گئے کہ اولاً یہ مانا سہی کہ صہیونی یہود/ صہیونیت دائرہ یہودیت سے خارج ہے لیکن پھر بھی ہم اُن کو یہودی نسل سے چاہ کر بھی خارج نہیں کرسکتے۔عرض یہودی النسل ہونے کی بناء پر بلاآخر اُن کی شناخت و تشخیص تو یہودیت سے ہی وابستہ رہے گئی۔دوم یہ کہ یہ حقیقت تو سبھی ناطوری یہود بھی مانتے ہیں کہ اگرچہ صہیونیت اپنی اصل میں ایک سیکولر تنظیم / تحریک تھی لیکن اب بدقسمتی سے اپنی لاعلمی/ مصالحت پسندی کی وجہ سے بہت سے مذہبی یہود بھی اِس کے ساتھ وابستہ ہوچکے ہیں۔لہذا اِس بنیاد پر بھی ہم یہودی تشخص سے صرفِ نظر نہیں برت سکتے۔
عرض قارئین محترم! اِن سارے عقائد و نظریات کے تعارف کا حاصل یہ کہ جیسا کہ معروف محاورہ ہے کہ اصل تعریف وہ کہ جو مخالف کرئے۔یعنی اگرچہ کہ مذہبی بنیادوں پر تو ناطوری یہود بھی اسلام کی اصل کو اپنا مخالف ہی سمجھتے ہیں لیکن اِس مذہبی اختلاف و مخالفت کے باوجود یہ ناطوری یہود دیگر تمام غیر یہودی مذاہب میں سے سب سے زیادہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنا تاریخی و قلبی اعتبار سے خیر خواہ پاتے ہیں۔ وہ اِس طرح کہ یہ نمک حلال ناطوری یہود اِس بات کو عین جانتے اور مانتے ہیں کہ جب جب غیر یہودی اقوام نے اِن پر ظلم کے شکنجے کستے ہوئے اُنھیں اپنی ہی زمینوں ، جاگیروں اور سلطنتوں سے بے دخل کیا تو غیر یہودی مذہبِ اسلام کے ماننے والے مسلمان ہی وہ واحد ترس اور عظیم الخلاق قوم تھے کہ جنھوں نے اپنی زمینوں ، اپنی سلطنتوں میں نہ صرف یہودیوں کو داخلے کی اجازت دی بلکہ مذہبی آزادی اور آزادی اظہار رائے و عمل کے ساتھ ساتھ مکمل امن و امان کی پناہ بھی بخشی۔ بغیر کسی تفریق و امتیاز کے اپنی علم گاہوں، دکانوں اور کاروباروں میں بھی شراکت داری کے برابر موقع فراہم کیے کہ یہ سلسلہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی فتح کردہ ریاست فلسطین (637ء)میں داخلے کی مکمل مذہبی آزادی سے لے کر ، اسلامی اندلس(711ء تا 1492ء) کی سائنسی تجربہ گاہوں و علمی یونیورسٹیوں میں شراکت سے ہوتا ہوا، سلطنت عثمانیہ(1517ء تا 1924ء) کی کاروباری دکانوں تک ہمیشہ تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔عرض یہی اُن تمام تاریخی حقائق کا مختصراً خاکہ ہے کہ جن کی تسلیمات کی بنیاد پر آج ناطوری یہود خود کو فکری ،قلبی اور تاریخی اعتبار سے اسلام اور مسلمانوں دونوں کے قریب تر پاتے ہیں اور مسلمانوں کے مختلف ادوار حکومت کو اپنے سنہری ادوار میں شمار کرنے کے حق میں ہے۔لہذا میں بطورِ ملت اسلامیہ کے ایک رکن کے اِس بات کو ناطوری یہود کی نمک حلالی ، خدا خوفی اور انسان دوستی کی نیک نیتی پر ہی قیاس کرتا ہوں کہ جب آج خصوصاً فلسطین اور عموماً پوری دنیا میں مسلمان ناحق مارے جارہے ہیں تو یہ ِان کے ساتھ عین اُسی طرح کھڑے ہیں کے کہ جیسے قیامِ اسرائیل سے پہلے جب کئی صدیوں تک لاکھوں یہودی ناحق مارے جارہے تھے تو اُس وقت صرف مسلمان ہی اِن کے ساتھ کھڑے تھے۔
میرے اِس سارےمضمون کے پس منظر میں حاصل یہ تین افکار ہے کہ اول یہ کہ فلسطین کی تولیت و حاکمیت کے حوالے سے مسلم قوم کے موقف کی تائید یہودی قوم و مذہب کی ہی بنیادی کتب سے ہوسکے تاکہ حق مزید نکھر کر اِتنا واضح ہوجائے کہ چاہے کوئی یہودی "ناطوری کارتا گروہ"سے اختلاف کرئے یا اتفاق عرض دونوں صورتوں میں صہیونی اسرائیل کی حقیقت مزید واضح ہوسکے اور شاید اسی طرح کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اندرون اسرائیل اور بیرون اسرائیل دونوں طرفہ یہودی عوام الناس و علماء کی ایک اچھی خاصی تعداد صہیونی اسرائیلی مظالم کے شدید مخالف ہے۔بلکہ میں تو یہاں تک عرض کرنا پسند کروں گا کہ ہر رقیق القلب اور عقل سلیم کا حامل یہودی صہیونی اسرائیلی مظالم سے اعلان برات کرنا پسند کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اِس وقت ناطوری کارتا سمیت 16 یہودی فعال تنطیمیں صہیونیت مخالف شمار کی جاتی ہیں۔
سوم حاصل فکر یہ کہ اِس وقت پوری انسانیت کو بلا لخاظ تفریق مذہب و وطنیت اسرائیلی مظالم کے مخالف ڈٹ جانا چاہیے کہ قطری نیوز چینل الجزیرہ کے مطابق 7 اکتوبر 2023ء تا دم تحریر 25 جولائی 2024ءتک یعنی تقریباً 10 ماہ سے زائد کی اسرائیلی دہشت گردی کے زیر جبر غزہ اور مغربی کنارے میں کل تقریباً 40 ہزار مظلوم فلسطینیوں کی شہادتیں واقع ہوچکی ہے اور کل تقریباً 95 ہزار سے زائد فلسطینی شدید زخمی ہوچکے ہیں۔جن میں سے نصف سے زائد شہدا کی تعداد فلسطینی معصوم بچوں اور عورتوں کی رپورٹ ہوئی ہیں نیز تقریباً 75 فیصد فلسطینی انفرا سٹرکچر ( رہائش گاہیں ،گھر ،تعلیمی ادارے ، عبادت گاہیں ، ہسپتال ، پانی کے پائپ اور سڑکیں وغیرہ) مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہیں۔جبکہ یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ یہ اعداد و شمار صرف سابقہ تقریباً 10 ماہ کی اسرائیلی دہشت گردی کا ثبوت ہے۔سابقہ 76سالوں سے صہیونی اسرائیل نے کون کون سی قیامت فلسطینیوں پر ڈھائی ہے اور کس کس طرح ڈھائی ہے اور کتنی لاشوں کے ناحق انبار لگا دیے ہیں اِس کا صحیح اندازہ لگانا شاید مشکل ہی نہیں بلکہ بڑے جگر گردے کا کام ہے۔بہرحال شاید اسی اندھی بربریت اور قتل و غارتگری کو دیکھ کر یورپ سمیت پوری دنیا کے ممالک میں فلسطین کے حق میں اور صہیونی اسرائیل مخالف مظاہرے رپورٹ ہو رہے ہیں جن کی آوازیں سوشل میڈیا کی برکت تلے اِن ممالک کی حکومتیں چاہ کر بھی مکمل طور پر دبا نہیں پا رہی۔
آخری حاصل فکر یہ کہ موجودہ تنازعہء فلسطین و اسرائیل ،اکتوبر 2023ءسے لے کر قبل مسیح کی تاریخ تک سر زمینِ مقدس کی تولیت و حاکمیت کے حوالے سے جتنے بھی چھوٹے بڑے تنازعات اور جنگیں ہوئیں ہیں یا آئندہ ہوگئیں۔میرے طالب علمانہ فہم کے مطابق ازل سے لے کر اَبد تک اُن میں دو بڑے دھڑے"بلاکس " بنتے رہے ہیں پہلے اِن دھڑوں کی بنیاد پر سیاسی مقاصد و مفادات سے زیادہ مذہبی زاویہ نگاہ کی فضاء غالب تھی۔کہ اِس کی مثال حصولِ فلسطین کے حوالے سے جنگ طالوت و جالوت(تقریباً 1 ہزار قبل مسیح) سے لے کر مسلم و صلیبی جنگوں(1095ء تا 1291ء) تک کی ہے۔ لیکن جنگ عظیم اول 1914ء تا 1918ء کے بعد سے لے کر تا دم تحریر 2024ء تک جو حصولِ فلسطین کے حوالے سے دنیامیں بڑے دھڑے قائم ہیں اِن میں ماضی کی تاریخ کے عین برعکس ہمیں فکری پس منظر میں مذہبی تشخص و تعصب سے زیادہ سیاسی و معاشی مفادات کارِ فرما نظر آتے ہیں۔کہ اعلان بالفور 1917ء تا تنازعہ اکتوبر 2023ء تک سبھی معاہدات و تنازعات کی گہرائی میں اصل بنیاد ہمیں مذہبی تشخص و تعصب سے زیادہ سیاسی و معاشی مفاد کی صورت میں نظر آتی ہے کہ اعلان بالفور1917ء سلطنت برطانیہ کا جنگ عظیم اول کے وقت ، اپنے اتحادی یہودیوں سے کیا جانے والے ایک سیاسی معاہدے کا نتیجہ تھا اور حالیہ صہیونی اسرائیل کے سابقہ 76 سالہ مظالم بھی ایک سیاسی منصوبے "دی گریٹر اسرائیل"کی خواہش کا نتیجہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج عرب و یورپ معاشی مفادات میں سانجھے داری ہونے کے باعث اسرائیلی مظالم پر اسلام کی نام نہاد ٹھیکے دار سعودی بادشاہت سمیت اکیس کے اکیس عرب مُسلم ممالک کی حکومتیں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے ہوئے ہیں اور کچھ اِسی طرح کا حال اسلام کے نام نہاد قعلے داروں یعنی پاکستان،ترکی و ملائیشیاء کا ہے کہ جن کے پاس ماسوائے چند مزاحمتی بیانات کے علاوہ عملی طور پر اِس انسانیت سوز نسل کُشی کے خلاف کرنے کوکچھ نہیں ہے۔
وجہ اولاً عین یہی ہے کہ تمام مُسلم ممالک کے سیاسی و معاشی مفادات اسرائیلی پشت پناہ ریاستوں کے ساتھ جُرے ہوئے ہیں اور دوم یہ کہ مسلم قوم (مجموعی اعتبار سے اور عملی طور پر ) اپنے قومی علم و اخلاق ، سیاسی وحدت اور اپنے فکری نظام میں یکسوئی کے اعتبار سے یورپی قوتوں کے سامنے زوال پذیر ہوچکی ہے۔لہذا جہاں تمام 57 کے 57 مسلم ممالک کو فوری حکمت عملی کے تحت اپنی ایک سیاسی وحدت قائم کرتے ہوئے مل کر فلسطینی قاتل قوتوں کے مخالف عملی تدابیر اختیار کرنے کی سخت ضرورت ہے وہی دُور اندیش حکمت عملی کے تحت اپنی قومی علمیت و اجتماعی اخلاقیات ، سیاسی وحدت و اتحاد اور اپنے فکری نظام میں یکسوئی کے زوال کو دُور کرنے کی ایک پر امن راہ سلجھانی چاہیے تاکہ ہم عالمی اشرافیہ کی فکری و معاشی غلامی سے نکل کر حقیقی معنوں میں مکمل آزادی و خود مختاری حاصل کرتے ہوئے مظلوم انسانیت کی مسیحائی کا دم بھر سکے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور دنیا کی مسلمان آبادی
میٹا اے آئی
گوگل ٹرانسلیٹ
معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کونسے ہیں؟
زیادہ معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز درج ذیل ہیں:
فیس بک:
ایک سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم جس میں 2.9 بلین (تقریباً تین ارب) ماہانہ فعال صارفین ہیں۔
انسٹاگرام:
بصری مواد پر مبنی سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم کے 1.2 بلین سے زیادہ فعال صارفین ہیں۔
ٹویٹر:
440 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک مائیکرو بلاگنگ پلیٹ فارم۔
یوٹیوب:
2.3 بلین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم۔
ٹک ٹاک:
655 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک مختصر شکل کا ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم۔
سنیپ چیٹ:
557 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک میسجنگ ایپ۔
ریڈڈٹ:
430 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک سماجی خبروں اور مباحثے کی ویب سائٹ۔
پن ٹرسٹ:
322 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک بصری دریافت اور منصوبہ بندی کی ویب سائٹ۔
لنکڈ اِن:
310 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک پیشہ ور نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم۔
واٹس ایپ:
2 بلین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک میسجنگ ایپ (میٹا کی ملکیت بھی)۔
وی چیٹ:
1.2 بلین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپ (بنیادی طور پر چین میں استعمال ہوتی ہے)۔
ٹیلیگرام:
500 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ ایک میسجنگ ایپ۔
ڈسکارڈ:
150 ملین سے زیادہ فعال صارفین والی کمیونٹیز کے لیے ایک مواصلاتی پلیٹ فارم۔
میڈیم:
ایک بلاگنگ اور پبلشنگ پلیٹ فارم جس میں 100 ملین سے زیادہ فعال صارفین ہیں۔
ٹویچ:
50 ملین سے زیادہ فعال صارفین کے ساتھ گیمرز اور تخلیق کاروں کے لیے لائیو سٹریمنگ پلیٹ فارم۔
نوٹ: یہ نمبرز ہو سکتا ہے کہ تازہ ترین اعداد و شمار کی عکاسی نہ کریں، کیونکہ یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں!
سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذرائع آمدن
سوشل میڈیا پلیٹ فارم مختلف طریقوں سے پیسہ کماتے ہیں، بشمول:
ایڈورٹائزنگ:
کاروباری اداروں اور تنظیموں کو اشتہار کی جگہ فروخت کرتے ہیں، صارفین کو ان کی آبادی، دلچسپیوں اور طرز عمل کی بنیاد پر ہدف بنائے گئے اشتہارات دکھاتے ہیں۔
ڈیٹا منیٹائزیشن:
صارف کے ڈیٹا کو جمع اور تجزیہ کرتے ہیں، بصیرتیں فروخت کرتے ہیں اور تیسرے فریق کو اشتہارات کے ہدف کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔
سپانسر شدہ مواد:
برانڈز اسپانسر شدہ پوسٹس اور کہانیوں کے ذریعے مصنوعات یا خدمات کو فروغ دینے کے لیے اثر و رسوخ اور پلیٹ فارمز کے ساتھ شراکت کرتے ہیں۔
ملحق مارکیٹنگ :
مصنوعات یا خدمات کو فروغ دے کر اور صارف کے مواد میں ملحقہ لنکس کو شامل کر کے کمیشن حاصل کرتے ہیں۔
مصنوعات اور خدمات کی فروخت :
کچھ پلیٹ فارمز اپنی مصنوعات یا خدمات پیش کرتے ہیں، جیسے کہ Facebook کی مارکیٹ پلیس یا Instagram کا خریداری کا فیچر۔
پریمیم سروسز:
صارفین کے لیے اضافی فیچرز یا سبسکرپشنز پیش کرتے ہیں، جیسے ٹویٹر بلیو یا یوٹیوب پریمیم۔
شراکت داری اور تعاون :
دیگر کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کرتے ہیں تاکہ مربوط خدمات، جیسے ادائیگی کی پروسیسنگ یا میوزک اسٹریمنگ پیش کریں۔
صارف کا تیار کردہ مواد :
صارف کے تخلیق کردہ مواد سے اپنے مقاصد کے لیے فائدہ اٹھاتے ہیں، جیسے کہ ٹوئٹر مومنٹس یا انسٹاگرام ریلز۔
لائسنسنگ اور رائلٹی :
اپنی ٹیکنالوجی، ٹریڈ مارک، یا دانشورانہ املاک کا دوسری کمپنیوں کو لائسنس دیتے ہیں۔
وینچر کیپیٹل اور سرمایہ کاری :
کچھ پلیٹ فارمز سرمایہ کاروں سے فنڈ حاصل کرتے ہیں، جو ایکویٹی یا ملکیت کے ذریعے آمدنی کا باعث بن سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ مختلف پلیٹ فارمز مختلف آمدنی کے سلسلے کو ترجیح دیتے ہیں، اور کچھ منیٹائزیشن کی نئی حکمتِ عملیوں کے ساتھ تجربہ کر سکتے ہیں۔
تشہیر، فیس بک کا خاص ذریعہ آمدن (۹۷ فیصد)
فیس بک کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ اشتہارات ہیں۔ فیس بک اپنی آمدنی کا زیادہ تر حصہ اشتہارات کے ذریعے بناتا ہے،خصوصاً:
ڈسپلے اشتہارات:
یہ گرافیکل اشتہارات ہیں جو فیس بک نیوز فیڈ کے دائیں جانب اور فیس بک آڈینس نیٹ ورک میں ظاہر ہوتے ہیں۔
ویڈیو اشتہارات:
یہ ویڈیو اشتہارات ہیں جو صارفین کی نیوز فیڈز اور کہانیوں میں ظاہر ہوتے ہیں۔
کاروسیل اشتہارات :
یہ ایسے اشتہارات ہیں جن میں متعدد تصاویر یا کارڈز ہوتے ہیں جن کے ذریعے صارف اسکرول کر سکتے ہیں۔
کولیکشن اشتہارات :
یہ ایسے اشتہارات ہیں جو صارفین کو اشتہار سے براہ راست مصنوعات خریدنے کی سہولت دیتے ہیں۔
اسٹوری اشتہارات :
یہ فل سکرین اشتہارات ہیں جو صارفین کی تحریروں کے درمیان ظاہر ہوتے ہیں۔
انسٹینٹ ایکسپیرینس اشتہارات :
یہ تیزی سے لوڈ ہونے والے پوری اسکرین والے اشتہارات ہیں جو صارف کو بغیر کسی رکاوٹ کےنظر آتے ہیں۔
فیس بک مارکیٹ پلیس اشتہارات:
یہ وہ اشتہارات ہیں جو فیس بک کے مارکیٹ پلیس سیکشن میں ظاہر ہوتے ہیں۔
فیس بک کا ایڈورٹائزنگ پلیٹ فارم مخصوص علاقوں، دلچسپیوں، طرزاستعمال اور مزید خصوصیات کی بنیاد پر مخصوص سامعین کو ہدف بنانے کے لیے الگورتھم کا استعمال کرتا ہے۔ مشتہرین فیس بک کے ایڈورٹائزنگ اکاؤنٹ کے ذریعے بجٹ سیٹ کر سکتے ہیں، اشتہار کی جگہ پر بولی لگا سکتے ہیں اور نتائج کو ٹریک کر سکتے ہیں۔2022 میں، فیس بک کی اشتہارات کی آمدنی کمپنی کی کل آمدنی کا تقریباً 97.5% تھی، جس میں فی صارف اوسط آمدنی (ARPU) $32.43 تھی۔
دنیا کی مسلمان آبادی
دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں چند دلچسپ حقائق یہ ہیں:
سب سے بڑی اقلیت:
مسلمان دنیا کا سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہیں، جو کہ عالمی آبادی کا تقریباً 24.9 فیصد (1.9 بلین لوگ) ہیں۔
متنوع آبادی:
مسلمان متنوع پس منظر سے آتے ہیں، 60% ایشیا میں، 20% مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں، اور 4% یورپ میں رہتے ہیں۔
سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی:
مسلمانوں کی آبادی 2.9% سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے جو کہ عالمی اوسط 1.2% سے زیادہ ہے۔
نوجوان آبادی:
مسلمانوں کی اوسط عمر 31 سال کی عالمی اوسط عمر کے مقابلے میں 24 سال ہے۔
شہری آبادی:
50% مسلمان شہری علاقوں میں رہتے ہیں، جکارتہ، کراچی اور لاگوس جیسے شہروں میں سب سے زیادہ تعداد کے ساتھ۔
لسانی تنوع:
مسلمان بہت سی زبانیں بولتے ہیں، جس میں عربی سب سے زیادہ بولی جاتی ہے، اس کے بعد اردو، بنگالی اور انڈونیشیائی زبانیں آتی ہیں۔
تعلیم:
40% مسلمانوں کے پاس ثانوی یا اس سے زیادہ تعلیم ہے، جس میں تمام خطوں میں نمایاں تغیرات ہیں۔
اقتصادی شراکت:
مسلمان عالمی تجارت، تجارت اور اختراع میں نمایاں حصہ ڈالتے ہیں، بہت سے مسلم اکثریتی ممالک تیزی سے اقتصادی ترقی کا تجربہ کر رہے ہیں۔
ثقافتی ورثہ:
اسلامی تہذیب نے پوری تاریخ میں سائنس، فن، ادب اور فن تعمیر میں اہم شراکت کی ہے۔
تنوع میں اتحاد:
تشریح اور عمل میں اختلاف کے باوجود، "امت" کا اسلامی تصور دنیا بھر کے مسلمانوں کے اتحاد اور یکجہتی پر زور دیتا ہے۔
یہ حقائق دنیا بھر میں مسلم آبادی کے تنوع، ترقی اور شراکت کو نمایاں کرتے ہیں۔ بھرپور مسلم کمیونٹیز کی پیچیدگیوں کو پہچاننے اور سراہنے کی ضرورت ہے۔
دنیا کے کتنے مسلمان سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں؟
مختلف اندازوں اور رپورٹوں کے مطابق مسلمانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کے کچھ اعدادوشمار یہ ہیں:
تقریباً ڈِیڑھ ارب مسلمان آن لائن:
عالمی مسلم آبادی کا تقریباً 71% انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے، یعنی تقریباً 1.4 بلین مسلمان آن لائن ہیں (پیو ریسرچ سینٹر، 2020)۔
سوشل میڈیا کی رسائی:
ایک اندازے کے مطابق 54% مسلمان سوشل میڈیا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں، جو کہ عالمی اوسط 57% (ہوٹ سوٹ ڈیجیٹل، 2022) سے تھوڑا کم ہے۔
مقبول پلیٹ فارمز:
فیس بک (44%)، انسٹاگرام (25%)، ٹویٹر (15%)، اور یوٹیوب (14%) مسلمانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ہیں (NPRP ریسرچ، 2020)۔
علاقائی تغیرات:
سوشل میڈیا کا استعمال مختلف علاقوں میں مختلف ہوتا ہے:
- مشرق وسطی اور شمالی افریقہ: 62% (عرب بیرومیٹر، 2020)
- جنوبی ایشیا: 45% (پیو ریسرچ سینٹر، 2020)
- جنوب مشرقی ایشیا: 54% (ہوٹ سوٹ ڈیجیٹل 2022)
- سب صحارا افریقہ: 38% (افروبارومیٹر، 2020)
زبان کی ترجیحات:
بہت سے مسلمان سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اپنی مادری زبانوں میں ترجیح دیتے ہیں، جیسے کہ عربی، اردو، انڈونیشیائی اور ترکی۔
آن لائن رویے:
مسلمان سوشل میڈیا کو مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں، بشمول دوستوں اور خاندان کے ساتھ جڑے رہنا، خبروں کا استعمال، تعلیم اور تفریح۔
یاد رہے کہ یہ اعداد تخمینہ ہیں اور ذریعہ اور طریقہ کار کے لحاظ سے مختلف ہو سکتے ہیں۔ تاہم، یہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے سوشل میڈیا کے استعمال کا تخمینہ بتاتے ہیں۔
ماہ صفر اور توہم پرستی
مولانا محمد طارق نعمان گڑنگی
ماہ صفر اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
’’بیشک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے‘‘ (القرآن)۔
قرآن و حدیث میں اس ماہ کی فضیلت سے متعلق کوئی حدیث مبارکہ وارد ہوئی ہے نہ ہی کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس سے اس ماہ میں بے برکتی، نحوست، حلال و حرام یا کوئی رسم یا روایت ثابت ہو۔ صفر عربی زبان کا لفظ ہے جو کہ تین حروف (ص،ف،ر) کا مرکب ہے۔ اس کے معنی ہیں خالی ہونا، پیلا ہونا۔ چنانچہ ان معانی کی رعایت رکھتے ہوئے اس سے بہت سی چیزیں موسوم ہیں چند ایک کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
(۱) ایک بیماری کو صفر کہا جاتا ہے، جس میں انسان کے پیٹ میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور چہرہ زرد پڑ جاتا ہے۔
(۲) ایک مہینے کا نام بھی صفر ہے اور یہ نام کئی وجوہ کی بنا پر رکھا گیا:
(ا) اس مہینے میں لوگ گھروں سے اناج اکٹھا کرنے کے لیے نکلتے تھے، جس کی وجہ سے ان کے گھر خالی ہو جاتے۔
(ب) بعض اہلِ لغت کا خیال ہے اس ماہ اہلِ مکہ انسانی ضروریات پوری کرنے کے لیے مکہ سے باہر جاتے تھے، جس سے شہر مکہ خالی رہ ہو جاتا تھا۔
(ج) اہلِ مکہ زمانہ اسلام سے قبل چار مہینوں کا احترام کرتے تھے، ان میں کسی قسم کی لوٹ کھسوٹ قتل و غارت سے پرہیز کرتے تھے، ان میں سے ایک مہینہ محرم الحرام کا ہے، اس ماہ کے اختتام پذیر ہوتے ہی وہ قبائل سے جنگ کے لیے گھروں سے نکل کھڑے ہوتے تھے۔ اس مناسبت سے اس ماہ کو صفر کہا گیا۔
ان لوگوں کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ صفر کا مہینہ منحوس اور رحمتوں اور برکتوں سے خالی ہوتا ہے۔ اس ماہ میں آسمان سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ یہ سب جاہلانہ و من گھڑت روایات ہیں۔ نحوست اور بدشگونی کو کسی ماہ یا کسی چیز کے ساتھ جوڑنا غیر شرعی اور بلا کسی دلیل کے ہے۔ آج بھی ہمارے معاشرے میں اس قسم کی خرافات پائی جاتی ہیں۔ بعض لوگ اس ماہ میں کوئی پر مسرت تقاریب، یا کسی کام کا افتتاح وغیرہ خصوصاً شادی بیاہ سے مکمل پرہیز کرتے ہیں اور یہ سوچ کر کہ اس ماہ کی نحوست اس کام میں بھی آجائے گی جس کی وجہ سے اس کام میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماہ کی نحوست سے بچنے کے لئے طرح طرح کے کھانے بنا کر بانٹے جاتے ہیں خصوصاً اس ماہ میں ابلے ہوئے کالے چنے، حلوہ پوری اور چوری وغیرہ تقسیم کرتے ہیں تاکہ اس ماہ کی نحوست سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ تمام باتیں من گھڑت بے بنیاد اور غلط ہیں قرآن و حدیث، صحابہ کرامؓ و سلف صالحین، ائمہ مجتہدین کسی سے بھی یہ رسومات و نظریات ثابت نہیں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب باطل عقائد کی تردید فرمائی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مرض کا لگ جانا، الو اور صفر اور نحوست یہ سب باتیں بے حقیقت ہیں اور جزامی شخص سے ایسے بچو اور پرہیز کرو جس طرح شیر سے کرتے ہیں۔ (بخاری شریف)
زندگی میں نحوست کب آتی ہے؟ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کی مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا۔ جیسے خوشیاں من جانب اللہ ہوتی ہیں ایسے ہی دکھ و تکالیف بھی من جانب اللہ ہوتی ہیں، کسی ماہ و سال یا شب و روز سے نحوست نہیں آتی سب اللہ کی مشیت و حکم کے تابع ہیں۔
ما اصاب من مصیبۃ الا باذن اللہ (التغابن)
’’کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی۔‘‘
انسان کی زندگی میں نحوست اس وقت ڈیرے جما لیتی ہے جب وہ رب العالمین کی احکام کو بھلا کر اپنی من مانی کرنے لگتا ہے۔ اپنی صبح و شام گناہوں و نافرمانیوں کی چادر اوڑھے گزارتا ہے۔ کفر و شرک کرتا ہے، حلال و حرام میں تمیز نہیں کرتا، جھوٹی گواہی دیتا ہے، نا انصافی کرتے ہے، بددیانتی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے، بے حیائی و فحاشی جیسے گناہوں میں ملوث ہوتا ہے نبی کی سنتوں کو چھوڑ کر بدعات کا راستہ اپناتا ہے۔ قرآن اس بات کو صاف لفظوں میں بیان کرتا ہے: "جو کوئی اچھا کام کرے گا اس کا فائدہ اسی کو پہنچے گا اور جو کوئی خرابی کرے گا اس کا وبال اسی پر ہو گا‘‘ (سورہ فصلت ۴۶) ایسی ہی سورہ یس کی آیت طائرکم معکم "تمھاری پریشانیاں تمھارے اعمال کی بدولت ہیں"۔
دین میں بدعات و اختراعات سے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد (بخاری، مسلم)
"جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی، جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے"۔
یاد رکھیے کہ نحوست تو اس وقت آئے گی جب ہم دین میں پیدا کردہ رسومات و روایات پر عمل کریں گے۔ ایک دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام شریعت سننے کے بعد اس جملے کا تکرار کر رہا ہے کہ لا ازید علی ھذا ولا انقص کہ ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تعلیمات کو نہ بڑھاؤں گا اور نہ گھٹاؤں گا‘‘۔ یہاں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ ایک دیہاتی جو کہ عموماً موٹی عقل والے ہوتے ہیں، اسے یہ بات سمجھ آگئی کہ نبی کی بتائے ہوئے طریقوں میں کمی زیادتی درست نہیں مگر ہم جیسوں کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آتی؟ حیرت تو اس بات پر ہے کہ ہم دین میں پیدا کردہ غلط عقائد و نظریات اور نئی عبادات کو بلا سوچے سمجھے فوراً قبول کرتے ہیں لیکن جو باتیں ہمیں علماء کرام منبرِ رسول پر بیٹھ کر قرآن و سنت کی روشنی میں سناتے اور بتاتے ہیں ان احکامات سے طرح طرح کے حیلے بہانے بنا کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں، زندگی میں برکتیں ایسے آئیں گی؟
اسلام ایک کامل و مکمل دینِ مبین اور ضابطۂ حیات ہے لہٰذا عبادات وہی معتبر اور قابلِ تحسین ہوں گی جو اللہ اور اس کے رسول کی قائم کردہ حدود کے اندر ہوں۔ زندگی میں برکتیں اور سکون و اطمینان لانے کا صرف ایک ہی نسخہ ہے: اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں پر اپنی زندگیوں کو ڈھالیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میرے بعد تم میں سے جو بھی زندہ رہا وہ آپس میں بہت اختلاف دیکھے گا لہٰذا تم پر لازم ہے کہ میرے اور میرے خلفاء راشدین جو کہ ہدایت یافتہ ہیں ان کے طریقے کو مشعل راہ بناؤ اور انہیں داڑھوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔ دین میں نئی عبادات سے بچتے رہنا، اس لئے کہ نئی عبادت بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے" (الجامع الترمذی)
رب ذوالجلال سے دعا ہے کہ ہمیں ایسے برے عقائد و بدعات سے محفوظ فرمائے، قرآن و حدیث پر عمل کرنے والا بنائے اور سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نُکتہ یا نُقطہ؟
ڈاکٹر رؤف پاریکھ
عربی میں ایک لفظ ہے نُکتہ۔ یہ لفظ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کا مطلب ہے: باریک بات، رمز کی بات، گہری بات، عقل کی بات۔ لطیفے یا چٹکلے کو بھی اردو میں نُکتہ کہتے ہیں۔ اسی سے نکتہ رَس کی ترکیب ہے یعنی گہری یا باریک بات تک پہنچنے والا، ذہین۔ باریک بات کو سمجھنے والے کو نکتہ سنج یا نکتہ شناس کہتے ہیں۔ نکتہ سنج کی ترکیب کو سخن شناس یا خوش گفتار کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ نکتہ داں یعنی باریک بات یا عقل کی بات کو سمجھنے والا۔
نکتہ چیں اور نکتہ چینی میں بھی یہی نکتہ ہے اور نکتہ چیں کا مطلب ہے جو عیب ڈھونڈے۔ نکتہ چینی یعنی خامیاں چُننے کا عمل۔ لیکن یہ چینی اردو کی چینی یعنی شکر نہیں ہے بلکہ یہ فارسی کا چیں (چُننے ولا) اور چینی (چُننے کا عمل) ہے۔ نکتہ چینی اسی لیے سب کو بری لگتی ہے کہ اس میں اردو کی چینی نہیں ہوتی۔ غالب نے کہا:
نکتہ چیں ہے غمِ دل اس کو سنائے نہ بنے
عربی میں ایک اور لفظ ہے نُقطہ۔ یہ اردو میں بھی مستعمل ہے اور اس کا مطلب ہے وہ باریک نشان جو کاغذ پر قلم رکھنے سے بنتا ہے، جسے ہندی میں بِندی اور انگریزی میں ڈاٹ (dot) کہا جاتا ہے۔ دائرے کے مرکز کو بھی نقطہ کہتے ہیں۔ جو دائرہ پرکار بناتا ہے اس کے وسط کے نشان کو نقطۂ پرکار کہتے ہیں، اقبال کا مصرع ہے:
نقطۂ پرکارِ حق مردِ خدا کا یقیں
حروف پر جو باریک نشانات لگائے جاتے ہیں ان کا نام بھی نقطہ ہے، مثلاً حرف شین (ش) کے اوپر تین نقطے ہیں لیکن سین (س) پر کوئی نقطہ نہیں۔ جس حرف یا لفظ میں نقطہ ہو اسے منقوط یا منقوطہ کہتے ہیں۔ بغیر نقطے والے حرف یا لفظ کو غیر منقوط یا غیر منقوطہ کہتے ہیں۔ بعضوں نے اپنا زورِ کلام دکھانے کے لیے غیر منقوطہ شاعری بھی کی یعنی ایسی شاعری جس میں نقطے والا کوئی حرف نہیں آتا۔ انشاء اللہ خاں انشا نے صنعتِ غیر منقوطہ میں خاصا کلام کہا ہے، مثلاً ایک شعر دیکھیے:
سلسلہ گر کلام کا وا ہو
سامع دردِ دل کو سودا ہو
اس شعر کے کسی لفظ میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔ یہ غیر منقوط ہے۔ جس پر نشانہ لگایا جائے اسے بھی نقطہ کہا جاتا ہے اور اسی سے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ کی ترکیب بنی جس کا مطلب ہے نظر کا مرکز یا نشانہ اور مراد ہے دیکھنے کا زاویہ اور سوچنے کا انداز، اندازِ نظر، اندازِ فکر، خیال، رائے۔ لیکن بعض اوقات نکتہ اور نقطہ کو گڈمڈ کر دیا جاتا ہے اور بعض لوگ نقطۂ نظر اور نقطۂ نگاہ کو نکتۂ نظر یا نکتۂ نگاہ لکھتے ہیں جو غلط ہے۔ صحیح ترکیب ہے نقطۂ نظر یا نقطۂ نگاہ۔ نقطۂ عروج اور نقطۂ جوش وغیرہ میں بھی یہی نقطہ ہے اور ایسے مواقع پر نکتہ لکھنا درست نہیں۔
عربی میں نُکتہ کی جمع نِکات (نون کے نیچے زیر) ہے اور اسے نُکات (نون پر پیش) پڑھنا بالکل غلط ہے۔ میر تقی میر کی کتاب کا نام نِکات الشعرا ہے، شیخ مجیب الرحمٰن کے چھے (۶) نِکات تھے، فلاں حکومت کا پنج نِکاتی منصوبہ تھا، ان سب جملوں میں نِکات یعنی نون کے نیچے زیر پڑھنا چاہیے، یہاں نون پر زبر یا پیش پڑھنا صحیح نہیں۔
اصل میں عربی میں الفاظ کی جمع صرفی وزن پر بنائی جاتی ہے اور عربی الفاظ کی جمع کے اوزان میں سے ایک وزن ’’فِعال‘‘ (فے کے نیچے زیر) ہے۔ لہٰذا اس وزن پر جتنی بھی جمعیں بنیں گی سب کے پہلے حرف کے نیچے زیر ہو گا، مثلاً: جَبَل (یعنی پہاڑ) کی جمع جِبال، رَجُل (یعنی مرد) کی جمع رِجال، بَلَد (یعنی شہر) کی جمع بِلاد، خصلت کی جمع خِصال، روضہ (یعنی باغ) کی جمع رِیاض، کریم کی جمع کِرام، جیسے اساتذۂ کِرام یا صحابۂ کِرام۔ اسی طرح نُکتہ کی جمع نِکات۔
نُقطہ کی ایک جمع عربی میں نِقاط ہے (یہ بھی ’’فِعال‘‘ کے وزن پر ہے) اور دوسری نُقَط، یعنی نون پر پیش اور قاف پر زبر کے ساتھ۔ گویا نِقاط اور نُقَط کا لفظی مطلب ہو گا بہت سے نقطے۔ بے نُقَط کے معنی ہیں بغیر نقطوں کے۔ اردو میں محاورہ ہے بے نُقَط سنانا، یعنی فحش گالیاں دینا، مغلظّات بکنا۔ اس بے نقط کی وجہ تسمیہ غالباً یہ ہے کہ بعض لوگ جب گالی لکھتے تھے تو اس پر احتیاطاً نقطے نہیں لگاتے تھے۔
حاصلِ کلام یہ کہ نقطہ کی جمع نِقاط اور نُقَط ہے اور نکتہ کی جمع نِکات۔ نیز یہ کہ صحیح ترکیب نقطۂ نظر ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جنگ ۱۳ مئی ۲۰۲۰ء)
توہینِ مذہب کے مسائل کے حل کے لیے جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو کر ایک متحدہ لائحہ عمل کی ضرورت ہے
انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز
توہینِ مذہب کے مسائل کو ان کی پیچیدہ نوعیت کے پیش نظر علیحدگی میں مؤثر طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ منقسم ردعمل نے نہ صرف اندرونی بحث و مباحثے کو کمزور کیا ہے بلکہ پاکستان کو عالمی سطح پر بھی مسائل سے دوچار کر دیا ہے۔ لہٰذا، ایک متحدہ اور حکمتِ عملی پر مبنی طریقہ کار ضروری ہے جو جذباتی ردعمل سے بالاتر ہو۔ اس کے لیے پائیدار قانونی اور علمی کوششوں کو ترجیح دینے، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے اور اور عالمی سطح پر ایک فعال، سفارتی موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔ صرف ایک مربوط اور عقل پر مبنی حکمت عملی کے ذریعے ہی پاکستان اپنے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے اور اپنے مذہبی اصولوں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت کو برقرار رکھ سکتا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انسٹیٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز (آئی پی ایس) اسلام آباد میں منعقدہ ’مبارک ثانی کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کا فیصلہ اور مستقبل کا لائحہ عمل‘ کے موضوع پر ہونے والے ایک مشاورتی اجلاس کے دوران کیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین علامہ محمد راغب حسین کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس سے چیئرمین آئی پی ایس خالد رحمٰن ، ممتاز عالمِ دین علامہ زاہد الراشدی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے پروفیسر قانون ڈاکٹر عطاء اللہ محمود وٹو، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ عمران شفیق ، ایڈووکیٹ ہائی کورٹ سجاد حمید، اور شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اسلام آباد سے رفیق شنواری نے بھی خطاب کیا۔
عمران شفیق نے کیس کے فیصلے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ نے نظرثانی فیصلے میں کچھ غلطیوں کو درست کیا ہے، لیکن کئی مسائل ابھی تک حل طلب ہیں، جس کی وجہ سے تنازعہ جاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ نجی جگہوں پر مذہب کی تبلیغ کے حق سے متعلق ابہام بحث کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 298سی میں سرکاری اور نجی شعبوں کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح 1973 کے آئین کے آرٹیکل 20 اور 22، جو مذہبی آزادی کی بات کرتے ہیں، نے ایسی کوئی تفریق برقرار نہیں رکھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ آرٹیکل آزادی فراہم کرتے ہیں لیکن حدود کے ساتھ۔ سپریم کورٹ کے منتظر تفصیلی فیصلے میں غلطیوں کو دور کرنے کے لیے انہوں نے اپیل کے فیصلے کے پیراگراف 5 سے 10 اور 14، اور نظرثانی کے فیصلے کے پیراگراف 7 اور 42 کو حذف کرنے کی رائے دی۔ مذکورہ پیراگرافوں کو حذف کرنے نتیجے میں، نظرثانی کے فیصلے کے پیراگراف 13، 15، 20، 21 اور 40 کو بھی حذف کرنے کی ضرورت ہوگی۔
سجاد حمید نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے مجیب الرحمان، ظہیر الدین اور طاہر نقاش سمیت متعدد ایسے متعلقہ مقدمات نمٹائے ہیں جہاں قادیانی برادری کے اقدامات کو آئینی فریم ورک بالخصوص آرٹیکل 20 اور 22 کے تحت چیلنج کیا گیا ہے۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ ماضی کے ان مقدمات میں عدالتیں عقیدے کی نجی اور عوامی تبلیغ کے درمیان فرق کو واضح رکھتی ہیں۔
علامہ راغب حسین نے اس بات پر زور دیا کہ قادیانی مسئلہ کے حل کے لیے موجودہ نقطہ نظر بہت بکھرا ہوا ہے، جس میں علمائے کرام، وکلاء دانشور ایک اجتماعی نقطۂ نظر پیش کرنے کی بجائے الگ الگ کام کر رہے ہیں۔ نتیجتاً یہ مقدمہ حد سے زیادہ سیاست زدہ اور مذہبی ہو گیا ہے۔ اس چیلنج کو مؤثر طریقے سے حل کرنے کے لیے جذباتی رد عمل کی بجائے زیادہ علمی اور پائیدار طریقوں کی طرف تبدیلی ضروری ہے۔
رفیق شنواری نے نشاندہی کی کہ جب کہ سرکردہ اسلامی اسکالرز توہین رسالت کے معاملے پر متفق ہیں، پاکستانی قانون متعدد پہلوؤں پر غیر واضح ہے، جس میں گواہوں کی مطلوبہ تعداد اور قرآن اور دیگر پیغمبروں کے خلاف توہین کی سزا شامل ہیں۔ انہوں نے توہین رسالت پر جامع اور مستقل قانونی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جس میں اس خلاء کو دور کرنے کے لیے متعلقہ اداروں کے درمیان تعاون شامل ہے۔
ڈاکٹر عطااللہ وٹو نے توہینِ مذہب کے سخت قوانین کے لیے تاریخی اور مذہبی حمایت کو اجاگر کرتے ہوئے سینٹ آگسٹین اور تھامس ایکویناس جیسی شخصیات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آرٹیکل 20 مذہب کی پیروی، اس کے اظہار اور تبلیغ کے حق کی ضمانت دیتا ہے، لیکن خاص طور پر 1919 میں برطانوی حکومت کی جانب سے غیر مسلم قرار دی گئی جماعتوں اور 1935 کے بہاولپور کیس کے حوالے سے ابہام اور قانونی پیچیدگیاں برقرار ہیں۔ وٹو نے یہ بھی نشاندہی کی کہ کس طرح پریشر گروپ ان ابہامات کا فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھاتے ہیں، جس سے توہینِ مذہب کے قوانین کے نفاذ میں مزید پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔
علامہ زاہد الراشدی اور دیگر مقررین نے اس مسئلے کے بین الاقوامی پہلو پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ 1974 میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے باوجود اس کمیونٹی کو بین الاقوامی طور پر ہمدردی اور مظلومیت کا درجہ حاصل ہے۔ اس لیے اس کے لیے عالمی سطح پر بھی ایک مضبوط بیانیہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ متحدہ اور اچھی طرح سے تیار شدہ موقف پیش کرنے میں ناکامی نے قادیانیوں کو بین الاقوامی فورمز پر قانونی نظیروں سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے۔
خالد رحمٰن نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ یہ مسئلہ مختلف جہتوں میں پھیلا ہوا ہے اور اسے علیحدگی میں حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے زور دیا کہ اس کے لیے دوسرے مسلم ممالک کے نقطہ نظر کو سمجھنا اور مقامی اور عالمی سیاق و سباق کے درمیان کم ہوتے ہوئے فرق کو پہچاننا ضروری ہے۔ رحمٰن نے ایسے جارحانہ طریقوں کے خلاف خبردار کیا جن کی پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور ان کی تعلیمات کو پھیلانے کے وسیع تر مقصد میں غلط تشریح کی جا سکتی ہے۔ اس کے بجائے، انہوں نے قانون کی حکمرانی پر مبنی ایسی فعال حکمت عملی کی وکالت کی جس میں مقامی طور پر لوگوں کو تعلیم دینا، قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، اور بین الاقوامی سطح پر اسلامی موقف کو سفارتی طور پر پیش کرنا شامل ہے۔ شرکاء کے سوالوں کے جواب میں انہوں نے یقین دلایا کہ آئی پی ایس اس طرح کے مشاورتی فورمز کا انعقاد جاری رکھے گا۔
The Two Viable Paths for the Qadiani Community
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
Today, I would like to discuss a critical aspect of the Qadiani issue related to the preservation of the finality of prophethood, that when we and the Qadianis unequivocally acknowledge that their religion is distinct from ours and that we do not share the same faith, then why do the Qadianis insist on using the name, terms, symbols, and titles associated with the Muslim religion? Despite following a different and novel religion, why are they unwilling to adopt their own distinctive name, signs, terms, and rituals?
This is currently our primary point of contention with the Qadianis. They have leveraged this issue to confront Muslims in international institutions and the world media. Unfortunately, many international organizations and forums are supporting and backing them without sufficient justification.
In this context, I would like to present evidence to you, gentlemen, demonstrating that while we categorize the Qadianis as followers of a new religion separate from Islam, the Qadianis themselves have formally announced this at various stages. I would like to highlight five such occasions:
- Mirza Ghulam Ahmad Qadiani, in addition to his claim of prophethood, declared that those who did not believe in him, regardless of their location, were not Muslims. This was a clear indication that he did not consider Muslims worldwide as part of his religion if they did not accept his claims. Mirza Qadiani used harsh language towards those who did not believe in him, which I will not mention here. Given that Mirza Qadiani did not consider those who did not believe in him to be part of his religion, the Qadianis should abandon their insistence on being associated with the Muslim religion, as there is no justification for it.
- After the death of Mirza Qadiani's successor, Hakeem Nooruddin Bhairavi, the Qadiani religion split into two factions.
Maulvi Muhammad Ali, the head of the Lahori group, along with many of his colleagues, declared that they considered Mirza Ghulam Ahmad Qadiani as their leader but did not accept him as a prophet. Mirza Bashiruddin Mahmood, the son of Mirza Qadiani and head of the Qadiani Jamaat at that time, declared them followers of a different religion and excluded them from the "Circle of Islam."
This was a direct declaration that they considered only those who believed in Mirza Qadiani as their co-religionists, excluding all other groups and individuals worldwide.
According to our perspective, both the Qadiani and Lahori groups have the same status and are unrelated to Islam. However, the Qadianis declared Mirza's followers as having a different religion because they did not consider Mirza Qadiani as a prophet. This clearly implies that they considered their religion as the most separate and distinct religion. It is therefore surprising that they are not willing to adopt different name, rituals, and symbols for this distinct religion. - Before the Red Cliff Commission, established for the partition of Punjab during the creation of Pakistan, the Qadianis presented their case separately for the population of Qadian and Gurdaspur district, instead of identifying as Muslims. This led to Gurdaspur being annexed to India instead of Pakistan, resulting in the Kashmir issue. This was formal documentary evidence from the Qadianis that they were followers of a new religion separate from Islam.
- After the establishment of Pakistan, the prominent Qadiani leader Chaudhry Zafarullah Khan served as the foreign minister in the cabinet of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah, the founder of Pakistan. However, after the death of Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah when the funeral prayer led by Maulana Shabir Ahmad Usmani, Zafarullah Khan, despite being present, did not attend the funeral. According to national press records, he responded to inquiries by stating that he should be considered either an infidel minister of a Muslim government or a Muslim minister of an infidel government. This was also a clear indication that the religion of the Qadianis differed from that of the Muslims.
- During the 1974 debate in the elected parliament of Pakistan regarding the Qadiani issue, which ultimately led to the constitutional declaration of the Qadianis as a non-Muslim minority, the heads of both groups of the Qadiani Ummah, the Qadianis and the Lahoris, Mirza Nasir Ahmad and Maulvi Sadar Deen, were given the opportunity to present their positions before the National Assembly. They participated in the debate for several days. At that time, Mirza Nasir Ahmad made a clear announcement on the floor of the Parliament that he did not consider those who did not believe in Mirza Ghulam Ahmad Qadiani to be part of his religion and that they were all excluded from the "circle of Islam" according to him.
Regarding the separation of the Muslim and Qadiani religions, these five testimonies from the Qadiani camp themselves acknowledge their distinct religion from Islam. Additionally, the fact that the Qadiani religion has no connection to Islam and that they are followers of a new religion separate from Muslims has been repeatedly expressed collectively by Muslims. I will highlight ten significant testimonies here:
- Immediately after Mirza Ghulam Ahmad Qadiani's claim of prophethood, renowned scholars from all schools of thought within Islam unanimously declared that Mirza Qadiani and his followers were outside the circle of Islam. Among them, Hazrat Allama Syed Muhammad Anwar Shah Kashmir, Hazrat Pir Meher Ali Shah Golravi, and Hazrat Maulana Sanaullah Amritsari are particularly noteworthy.
- Allama Muhammad Iqbal, the thinker of Pakistan, declared the Qadianis as separate from Muslims and urged the British government not to include them among Muslims.
- During the British era, the court of Bahawalpur State, after a thorough examination, declared that the Qadianis had no connection to Islam or Muslims. In that case, prominent figures like Hazrat Maulana Syed Muhammad Anwar Shah and Hazrat Maulana Ghulam Muhammad Ghotvi represented the Muslims.
- In 1953, prominent scholars from all schools of thought unanimously declared the Qadianis as followers of a different religion from Muslims and demanded that the Pakistani government declare them a non-Muslim minority. This issue sparked a widespread public movement across the country.
- In 1974, after carefully considering the arguments of both Muslims and Qadianis, the elected Parliament of Pakistan made a constitutional decision to recognize the Qadianis as a non-Muslim minority.
- During the era of the late President Zia-ul-Haq, a law was enacted to prevent Qadianis from using the name of Islam and the religious terms and symbols associated with Muslims. This law was subsequently ratified by the parliament elected in 1985, solidifying it as a national decision.
- During the tenure of Mr. Yusuf Raza Gilani, when the entire constitution was revised, the elected parliament of that time reaffirmed the decision to declare the Qadianis as a non-Muslim minority.
- Just a few months ago, this debate resurfaced in the assembly in relation to electoral amendments. The elected parliament then unanimously announced for the fourth time that the Qadianis were separate from Muslims.
- At the international level, The Muslim World League, during an international conference held in Makkah in 1974, announced that the Qadiani religion had no connection to Islam. This was a unanimous decision by the entire Islamic world.
- From the state court of Bahawalpur to the Supreme Court of Pakistan, this issue has been discussed multiple times in judicial forums. Both the Federal Sharia Court and the Supreme Court have issued clear decisions declaring the Qadianis as followers of a different religion from Islam and Muslims.
Respected readers! I have presented five decisions made by the Qadianis and ten decisions made by Muslims, drawn from historical records, which clearly establish that the religion of the Qadianis is distinct from that of Muslims and that they have no connection to Islam. Despite this overwhelming evidence, the Qadianis and their supporters stubbornly persist in their efforts to associate the Qadianis with Muslims.
I want to address the institutions and circles that are unnecessarily supporting the Qadianis, that they should acknowledge the ground realities and avoid wasting their time and ours by unjustly backing the Qadianis. The only options available to the Qadianis are to either repent from their erroneous beliefs and return to Islam. If this is not their destiny, they should abandon their stubbornness to be associated with Muslims by adopting a separate name and determining distinct terms and symbols for themselves. There is no other viable path for them.
(Published in The Daily Ausaf, Islamabad on the 2nd and 3rd of April, 2018)
الشریعہ — اکتوبر ۲۰۲۴ء
قراردادِ مقاصد کا پس منظر اور پیش منظر
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں ایک نشست سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہم اکثر ’’قراردادِمقاصد‘‘ کا لفظ سنتے رہتے ہیں اور اخبارات وغیرہ میں اس کے حق میں بھی اور اس کے خلاف بھی پڑھتے رہتے ہیں ۔ یہ قراردادِمقاصد کیا چیز ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں نے مطالبہ کیا کہ ہمارا ملک ہندوؤں سے الگ کیا جائے، ہم اکٹھے نہیں رہنا چاہتے۔الگ ملک بنانے کی غرض یہ بیان کی گئی ہیں کہ ہم چونکہ مسلمان ہیں، ہمارا اپنا دین و مذہب ہے، اپنی تہذیب و ثقافت ہے اور ہم بحیثیت مسلمان زندگی گزارنا چاہتے ہیں، یہاں ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہوں گے تو ہم اپنے مذہب پر آزادی سے عمل نہیں کر سکیں گے، اس لیے جہاں ہماری اکثریت ہے وہاں ہم اپنا الگ ملک بنائیں گے۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے تحریکِ پاکستان کی قیادت کی تھی اور بارہا اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستان اس لیے بنا رہے ہیں تاکہ اسلام کی بالا دستی، قرآن و سنت کی حکمرانی، شریعت کے قانون اور مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے مطابق اپنا نظام بنا سکیں۔ بالآخر کافی جدوجہد کے بعد پاکستان کے نام سے الگ ملک بن گیا۔
جب دستور بنانے کے لیے پہلی دستور ساز اسمبلی بنی تو اس میں یہ مسئلہ کھڑا ہوا کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے یا سیکولر ریاست ہے؟ اسلامی ریاست اس کو کہتے ہیں جہاں قرآن و سنت کی حکمرانی ہو اور اللہ و رسول کے احکام نافذ ہوں۔ زمین اللہ کی ہے اور خلقت بھی اللہ کی ہےتو نظام بھی اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا چلے گا۔ جبکہ سیکولر کا معنی یہ ہے کہ جہاں مذہب کا کوئی دخل نہ ہو، لوگ اپنی مرضی سے ملک کا نظام اور قانون جو چاہیں بنا لیں۔ دستور ساز اسمبلی میں یہ جھگڑا کھڑا ہوا کہ ملک کا نظام سیکولر ہونا چاہیے یا اسلامی ہونا چاہیے؟ آزاد نظام ہونا چاہیے یا مذہبِ اسلام کے تابع ہونا چاہیے ؟ بہت سے حلقوں کی کوشش تھی کہ پاکستان سیکولر ریاست بنے جس میں مذہب کا کوئی حوالہ نہ ہو، ٹھیک ہے مسلمان رہیں لیکن ملک کے نظام کے ساتھ مذہب کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن علماء کرام اور دینی جماعتوں نے محنت کی اور کہا کہ ہم نے پاکستان بنایا ہی اس لیے تھا کہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا اپنا مذہب ہے، تہذیب و ثقافت ہے، اسی کی حفاظت کے لیے تو الگ ملک بنایا تھا۔ چنانچہ دستور ساز اسمبلی کے اندر اور باہر بھی یہ بحث چلتی رہی۔
حسنِ اتفاق سے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ، جو ہمارے بزرگ عالم اور پاکستان کی تحریک کے بڑے قائد تھے، وہ دستور ساز اسمبلی کے ممبر تھے، مشرقی پاکستان سے منتخب ہو کر آئے تھے اورہر حلقے میں ان کا احترام پایا جاتا تھا۔ انہوں نے اسمبلی کے اندر جبکہ مختلف دینی جماعتوں نے اسمبلی سے باہر، جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے علاوہ اہل حدیث اور بریلوی علماء بھی تھے، سب نے محنت کی کہ ہم مذہب سے دستبردار نہیں ہوں گے اور ملک کا نظام اسلام کی بنیاد پر ہوگا۔ یہ کشمکش چلتی رہی، اللہ رب العزت نے علماء کو کامیابی دی اور دستور ساز اسمبلی نے ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کی جس میں بنیاد یہ طے ہو گئی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گا، سیکولر ریاست نہیں ہو گا ۔ اور یہ بنیاد اس طرح طے ہوئی کہ سیکولر اور جمہوری ریاستوں میں اصولاً حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی ہوتی ہے، جمہوریت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’عوام کی حکومت عوام پر عوام کے لیے‘‘ ۔ لیکن قراردادِمقاصد منظور کر کے پہلی بات یہ طے کی گئی کہ پاکستان میں دستوری طور پر حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی نہیں ، اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ تھا کہ حکومت کون کرے گا؟ جو بندے حکومت کریں گے وہ کدھر سے آئیں گے؟ حکومت اصل میں تو اللہ ہی کی ہے لیکن ملک کے صدر وزیراعظم کیسے بنیں گے؟ دنیا میں دو ہی طریقے ہوتے تھے (۱) جسے لوگ منتخب کر لیں (۲) یا جو طاقت کے زور سے قبضہ کر لے۔ اس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بنیاد بنایا گیا کہ وہ طاقت کے طور پر خلیفہ نہیں بنے تھے، فوج کے ذریعہ قبضہ نہیں کیا تھا ، بلکہ لوگوں کی مشاورت سے خلیفہ منتخب ہوئے تھے۔ خلیفہ مہاجر ہونا چاہیے یا انصاری ہونا چاہیے، اس ساری بحث کے بعد امت کا اتفاق حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ہوا تھا۔ پاکستان میں بھی یہی طریقہ اپنایا گیا کہ طاقت کے زور سے قبضہ ٹھیک نہیں ہے، حکومت عام لوگوں کا حق ہے وہ جسے چاہیں منتخب کریں۔
وزیر اعظم خان لیاقت علی خان مرحوم نے قرارداد پیش کی اور بڑی زبردست تقریر کی، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ نے بھی تقریر کی، حمایت اور مخالفت میں تقریریں ہوئیں، لیکن اسمبلی نے اکثریت کے ساتھ قرارداد پاس کی کہ پاکستان اسلامی ریاست ہو گی اور حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہوگی جبکہ حکومت کا حق اس کو ہوگا جسے لوگ چنیں گے اور وہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہو گی۔ اسے قراردادِمقاصد کہتے ہیں جس کا متن یہ ہے:
’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
چونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کُل کائنات کا بلا شرکتِ غیر حاکمِ مطلق ہے، اور اس نے جمہور کی وساطت سے مملکتِ پاکستان کو اختیارِ حکمرانی اپنی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کے لیے نیابتاً عطا فرمایا ہے، اور چونکہ یہ اختیارِ حکمرانی ایک مقدس امانت ہے، لہٰذا جمہورِ پاکستان کی نمائندہ یہ مجلس دستور ساز فیصلہ کرتی ہے کہ آزاد و خودمختار مملکتِ پاکستان کے لیے دستور مرتب کیا جائے:
جس کی رو سے مملکت کے جملہ حقوق و اختیاراتِ حکمرانی جمہور کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے سے استعمال کرے۔ جس میں اصولِ جمہوریت و حریت و مساوات و رواداری اور عدلِ عمرانی کو، جس طرح اسلام نے ان کی تشریح کی ہے، پورے طور پر ملحوظ رکھا جائے۔
جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر اپنی زندگی کو اسلامی تعلیمات و متقضیات کے مطابق، جو قرآن مجید اور سنتِ رسولؐ میں متعیّن ہیں، ترتیب دے سکیں۔
جس کی رو سے وہ علاقے جو فی الحال پاکستان میں داخل ہیں یا شامل ہو گئے ہیں، اور ایسے دیگر علاقے جو آئندہ پاکستان میں داخل یا شامل ہو جائیں، ایک وفاقیہ بنائیں، جس کے ارکان مقررہ حدودِ اربعہ و متعینہ اختیارات کے ماتحت خودمختار ہوں۔
جس کی رو سے بنیادی حقوق کی ضمانت دی جائے۔ اور ان حقوق و اخلاقِ عامہ کے ماتحت مساواتِ حیثیت و مواقع؛ قانون کی نظر سے برابری؛ عمرانی، اقتصادی اور سیاسی عدل؛ خیال، اظہار، عقیدہ، دین، عبادت اور ارتباط کی آزادی شامل ہو۔
جس کی رو سے اقلیتوں اور پسماندہ اور پست طبقوں کے جائز حقوق کے تحفظ کا وافی انتظام کیا جائے۔
جس کی رو سے نظامِ عدل کی آزادی کامل طور پر محفوظ ہو۔
جس کی رو سے وفاقیہ کے علاقوں کی صیانت، اس کی آزادی اور اس کے جملہ حقوق کا، جن میں اس کے بر و بحر اور فضائیہ پر سیادت کے حقوق شامل ہیں، تحفظ کیا جائے۔
تاکہ اہلِ پاکستان فلاح و خوشحالی کی زندگی بسر کر سکیں، اقوامِ عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں، اور امنِ عالم کے قیام اور بنی نوع انسان کی ترقی و بہبودی میں کماحقہٗ اضافہ کر سکیں۔‘‘
اس کے بعد یہ ہوا کہ قراردادِ مقاصد ملک کے ہر دستور میں بطور دیباچہ کے شامل رہی مگر یہ دستور کا حصہ نہیں تھی۔ جس طرح ہم کسی بھی جلسے میں برکت کے لیے ابتدا میں تلاوت کر لیتے ہیں، آگے عمل کریں یا نہ کریں ہماری مرضی ہے، اسی طرح برکت کے لیے اسے رکھا ہوا تھا ۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے جب مارشل لاء لگایا اور سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں دستوری ترامیم کا اختیار دیا گیا تو انہوں نے اپنے اختیار سے کچھ فائدے اٹھائے۔ ایک کام یہ کیا کہ قراردادِمقاصد کو تمہید سے نکال کر دستور کے اندر شامل کر دیا کہ یہ محض تبرک نہیں ہے بلکہ دستور کا واجب العمل حصہ ہو گی۔ اس سے ایک دروازہ ہم لوگوں کے لیے کھل گیا ہے کہ قراردادِمقاصد اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی بات کرتی ہےاور حکومت کو قرآن وسنت کا پابند کرتی ہے تو ملک کا جو قانون بھی قرآن و سنت کے منافی ہے ہم اسے دستور کی بنیاد پر چیلنج کر سکتے ہیں کہ اسے ختم کیا جائے۔ قرارداد مقاصد کے دستور کا باقاعدہ حصہ بننے سے ہمارا یہ حق بن گیا کہ خلافِ قرآن و سنت قوانین کو ہم سپریم کورٹ میں لے جائیں اور سپریم کورٹ انہیں ختم کرنے کی پابند ہوگی۔
چنانچہ ایک کیس میں پیش رفت ہوئی۔ صدر پاکستان کو قانوناً یہ اختیار ہے کہ کسی قاتل کو پھانسی کا حکم ہو جائے اور سپریم کورٹ سے اپیلیں مسترد ہو جائیں تو صدر اس کی سزا معاف کر سکتا ہے۔ جبکہ شرعی قانون یہ ہے کہ مقتول کے وارث اگر معاف نہ کریں اور قصاص لینا چاہیں تو کسی اور کو معافی کا اختیار نہیں ہے۔ اس بنیاد پر لاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس آیا۔ مقتول کے وارثوں نے صدر کے اختیار کو چیلنج کر دیا کہ ہمارے مقتول کے قاتل کو سزائے موت ہو گئی ہے اور سپریم کورٹ نے بھی اپیل مسترد کر دی ہے تو صدر کہیں معاف نہ کر دے۔یہ کہہ کر لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا کہ صدر کا یہ اختیار روکا جائے کیونکہ یہ قرآن و سنت کے منافی ہے اور قراردادِمقاصد ضمانت دیتی ہے کہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلہ دے دیا کہ چونکہ قراردادِمقاصد دستور کی بنیاد ہے اور اس میں قرآن و سنت کی پابندی کی ضمانت دی گئی ہے، اور قاتل کی پھانسی کو معاف کرنا مقتول کے وارثوں کے سوا کسی کا حق نہیں ہے، لہٰذا صدر کا یہ اختیار شریعت کے منافی ہے اس لیے اسے ختم کیا جاتا ہے۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہو گیا کہ یہ فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب نسیم حسن شاہ صاحب تھے۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ قراردادِمقاصد دستور کا حصہ تو ہے لیکن اگر یہ دستور کی کسی اور دفعہ سے ٹکراتی ہے تو کیا اسے بالادستی حاصل ہے؟ مثلاً صدر کا معافی کا اختیار بھی دستور میں ہے اور قراردادِ مقاصد بھی دستور میں ہے۔ چنانچہ یہ نکتہ زیر بحث آیا کہ دونوں کے ٹکراؤ کی صورت میں اگر قراردادِمقاصد کو بالادستی حاصل ہے پھر تو دوسری متصادم دفعہ ختم ہو جائے گی ، اور اگر دونوں برابر ہیں تو پھر اس سے فیصلہ نہیں ہو گااور کوئی تیسری طاقت فیصلہ کرے گی۔
اگر سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کر لیتی تو آج تقریباً اسی فیصد معاملات صاف ہوتے، لیکن سپریم کورٹ کے فل بینچ نے فیصلہ دیا کہ قراردادِمقاصد دستور کا حصہ ہے اور اس کی پابندی ضروری ہے لیکن اگر یہ دستور کی کسی اور دفعہ سے یہ ٹکرائے گی تو اس کو کوئی بالادستی حاصل نہیں ہے، لہٰذا پھر فیصلہ سپریم کورٹ کرے گی یا پارلیمنٹ کرے گی۔ اس سے ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ ہو گیا۔ اس پر تفصیل سے پڑھنا ہو تو ۱۹۹۴ء میں سپریم کورٹ کے وکیل سردار شیر عالم ایڈووکیٹ مرحوم نے اس پر تبصرہ لکھا تھا اور ہمارے ساتھی چودھری محمد یوسف ایڈووکیٹ صاحب نے اس کا ’’قرادادِ مقاصد بنام سپریم کورٹ آف پاکستان‘‘ کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا جو اکادمی کی طرف سے شائع ہو چکا ہے۔
قراردادِمقاصد دستور کا حصہ ہے اور اگرچہ یہ بالادست نہیں ہے پھر بھی عالمی قوتوں کو اور دنیا کی طاقتوں کو یہ مسلسل چبھ رہی ہےکیونکہ یہ قرآن و سنت کی بات کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کی بات کرتی ہے۔ عالمی سیکولر قوتیں اور ملک کے سیکولر حلقے سب سے زیادہ جس چیز کی مخالفت کر رہے ہیں وہ قراردادِمقاصد ہے، اس لیے کہ یہ پاکستان کے دستور کو اسلامی حیثیت دیتی ہے اور قرآن و سنت کے قوانین کی بات کرتی ہے۔
یہ قراداد مقاصد کا مختصر پس منظر اور موجودہ صورتحال ہے۔ اس وقت کشمکش یہ ہے کہ ملک کے تمام دینی حلقے اس بات پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ دستور کی اسلامی حیثیت برقرار رہے گی، جبکہ ملک اور بیرون ملک تمام سیکولر حلقے اس بات پر تلے ہوئے ہیں کہ کسی طریقے سے قراداد مقاصد کو سرنگوں کیا جائے تاکہ دستور کی اسلامی حیثیت اور پاکستان کی اسلامی شناخت ختم ہو اور ہم پھر زیرو پوائنٹ پر چلے جائیں کہ یہاں سیکولر نظام ہونا چاہیے یا اسلامی نظام ہونا چاہیے؟ یہ میں نے قراداد مقاصد کے حوالے سے مختصر گزارشات پیش کی ہیں، امید ہے اصولی بات سمجھ آ گئی ہو گی۔
دستور میں حکومتی ترامیم: ملی مجلسِ شرعی کا موقف
ڈاکٹر محمد امین
پریس ریلیز
ملّی مجلسِ شرعی پاکستان جو مختلف دینی مسالک کے علماء کرام کا ایک علمی پلیٹ فارم ہے، اس کے صدر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم کی ہے جو اگلے چند دن میں حکومت کی مجوزہ دستوری ترامیم کا جائزہ لے گی اور اس امر پر بھی غور کرے گی کہ اسلامی نقطۂ نظر سے کون سی دستوری ترامیم دینی قوتوں کو پیش نظر رکھنی چاہئیں:
۱۔ مولانا سردار محمد خان لغاری
۲۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
۳۔ مولانا غضنفر عزیز
۴۔ حافظ ڈاکٹر حسن مدنی
۵۔ ڈاکٹر محمد امین (سیکرٹری)
۲۰ ستمبر ۲۰۲۴ء
روداد اجلاس
روداد اجلاس کمیٹی برائے دستوری ترامیم منعقدہ ۲۲ ستمبر ۲۰۲۴ء بمقام ۱۷۸ نیلم بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور۔
اجلاس میں مندرجہ ذیل احباب نے شرکت کی:
ا۔ حافظ ڈاکٹر حسن مدنی
۲۔ ڈاکٹر فرید احمد پراچہ
۳۔ مولانا غضنفر عزیز
۴۔ حافظ محمد عمران طحاوی
۵۔ ڈاکٹر محمد امین (سیکرٹری)
مولانا سردار محمد خان لغاری بوجوہ تشریف نہ لا سکے جبکہ عبد الرحمٰن ایڈوکیٹ صاحب اسلام آباد سے آن لائن شرکت کی۔
موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ جو خود دھاندلی کی پیداوار ہے اور اس کی آئینی حیثیت مشکوک ہے، وہ مجوزہ ۲۶ویں آئینی ترمیم کے ذریعے کئی ایسی دستوری ترامیم کرنی چاہ رہی ہے جس کے بارے میں شرکاء کی متفقہ رائے یہ تھی کہ حکومت یہ ترامیم اپنی سیاسی اور وقتی ضرورت کے تحت کر رہی ہے۔ اس کے پیش نظر عدالتی اصلاحات نہیں بلکہ عدلیہ میں اپنے ہم خیال افراد کو توسیع دینا اور اختلاف کرنے والے ججوں سے نمٹنا ہے۔ سپریم کورٹ کو غیر مؤثر بنانے کے لیے اس کے اوپر ایک آئینی عدالت بنانے کا منصوبہ ہے جس کے ججز کی تقرری حکومت (یعنی وزیراعظم اور صدر) کرے گی۔ ہائی کورٹ کے ججوں کا ان کی مرضی کے بغیر تبادلہ کیا جا سکے گا، ججوں کی تقرری کے لیے جوڈیشل کمیشن کی بجائے پارلیمانی کمیٹی کو با اختیار بنایا جائے گا وغیرہ۔ دیگر ترامیم میں آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع، آرمی ایکٹ کو آئین کا حصہ بنانا، سویلینز کا ملٹری ٹرائل وغیرہ سے فوج کو وسیع تر آئینی کردار مل جائے گا۔ نیز پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ کو گنا جانا، چیف الیکشن کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قرارداد سے توسیع وغیرہ ایسے امور ہیں جو حکومت کی وقتی سیاست کی ضرورت ہیں۔ لہٰذا دینی قوتوں کو چاہیے کہ وہ ان آئینی ترامیم کی مخالفت کریں اور ان کی منظوری کو روکنے کی کوشش کریں۔
شرکاء نے اس پر بھی زور دیا کہ جب آئین میں ہر نوع کی ترامیم ہو رہی ہیں تو دینی قوتوں کو بھی چاہیے کہ وہ آئین کے اسلامی کردار کو مؤثر بنانے کے لیے ترامیم پیش کریں۔
شرکاء نے کہا کہ ان کی رائے میں دینی قوتوں کو مندرجہ ذیل آئینی ترامیم پیش کرنی چاہیے:
ا۔ دستور کی دفعہ 2A میں یہ اضافہ کیا جائے کہ دستور کی تشریح و تطبیق قرارداد مقاصد کے متن کی روشنی میں کی جائے گی اور دستور اور اسلامی تعلیمات میں کسی ممکنہ تعارض کی صورت میں اسلامی تعلیمات پر ترجیحاً عمل کیا جائے گا۔ (جیسا کہ نفاذ شریعت ایکٹ 1991ء کی دفعہ 4 میں ہے)۔
۲۔ دفعہ 8 کے شروع میں یہ اضافہ کر دیا جائے کہ بنیادی حقوق کا تعین قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق ہوگا۔
۳۔ دفعہ 203D2D کو تبدیل کر دیا جائے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے سپریم کورٹ اپیلیٹ بینچ میں اپیل کے باوجود نافذ العمل ہوں گے، الا یہ کہ سپریم کورٹ اپیلیٹ بنچ کسی معاملے میں stay کا حکم دے۔ نیز وفاقی شرعی عدالت میں علماء ججز کی تعداد کو بڑھایا جائے اور اس عدالت کے ججز کے حقوق و اختیارات وہی ہونے چاہئیں جو دوسری ہائی کورٹس کے ہیں۔
۴۔ سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ کو ریگولر سماعت کرنی چاہیے اور جو کیس اس کے پاس آئے، تین ماہ کے اندر اس کا فیصلہ ہونا چاہیے۔ اس بیچ میں جو اہم امور عرصے سے زیر التوا ہیں مثلاً سود کا معاملہ، ٹرانس جینڈر ایکٹ، وقف املاک ایکٹ، دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ڈگریوں کی منظوری کا معاملہ وغیرہ، انہیں ترجیحاً جلد سن کر ان پر فیصلہ کیا جائے۔
۵۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے کردار کو مؤثر بنانے کے لیے دستور میں ترمیم کی جائے۔ کونسل کی رپورٹس کو قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں لازماً زیر بحث لایا جائے، اور اگر دو سال کے اندر اس کے مطابق قانون سازی نہ ہو تو سپیکر اور وزیر قانون کو قابل مواخذہ ٹھہرایا جائے اور سزا دی جائے۔ نیز ریاست کے مختلف ادارے جو ذیلی قوانین بناتے رہے ہیں، ان کے لیے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ نفاذ سے پہلے اس کی منظوری اسلامی نظریاتی کونسل سے لیں تاکہ ان میں کوئی پہلو خلافِ اسلام اور خلافِ عدل نہ ہو۔
۶۔ صدر مملکت کو سزائے موت معاف کرنے کا حکم (دفعہ 245) غیر شرعی ہے، اس دفعہ کو حذف کر دیا جائے۔
۷۔ دستور کی دفعہ 37 میں سماجی برائیوں کے خاتمے کا ذکر ہے لیکن ان کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کا تعین کون اور کیسے کرے گا۔ لہٰذا یہاں ’’بمطابق قرآن و سنت‘‘ کے الفاظ کا اضافہ کر دیا جائے۔
پریس ریلیز
ملّی مجلسِ شرعی جو سارے دینی مکاتبِ فکر کا علمی پلیٹ فارم ہے، اس کے صدر مولانا زاہد الراشدی صاحب نے حکومتی دستوری ترامیم پر غور کرنے اور دستور میں اسلامی ترامیم تجویز کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس میں ڈاکٹر محمد امین، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، مولانا غضنفر عزیز اور حافظ محمد عمران طحاوی شامل تھے۔
۲۲ ستمبر ۲۰۲۴ء کو کمیٹی کا اجلاس ہوا جس نے حکومتی ترامیم کے بارے میں یہ رائے دی کہ حکومت کے پیش نظر اس کی سیاسی اور وقتی ضرورتیں ہیں اور عدلیہ کے ان ججوں کی حمایت و توسیع ہے جو اس کے حامی ہیں اور ان سے نمٹنا مقصود ہے جو حکومتی رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان تجاویز سے وفاق کو اور سیاسی و عدالتی نظام کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے لہٰذا دینی قوتوں کو ان ترامیم کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔
کمیٹی نے تجویز کیا کہ دینی قوتوں کو اس موقع پر دستور کے اسلامی پہلو کو مؤثر بنانے کے لیے مزید ترامیم پیش کرنی چاہیے مثلاً یہ کہ قراردادِ مقاصد کو دیگر قوانین پر بالادستی حاصل ہو۔ دستور اور اسلامی تعلیمات میں تعارض کی صورت میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کیا جائے اور اپیل کو ان کے خلاف stay نہ سمجھا جائے۔ اس کے ججوں کی تعداد بڑھائی جائے اور ان کے حقوق و اختیارات وہی ہوں جو دوسرے ہائی کورٹ ججز کے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے طریق کار وضع کیا جائے، اور عمل نہ کرنے کی صورت میں سپیکر اور وزیر قانون قابلِ مواخذہ اور قابل سزا ہوں۔ سپریم کورٹ شریعت اپیلیٹ بنچ کو ریگولر سماعت کرنی چاہیے اور تین ماہ کے اندر فیصلے کرنے چاہئیں۔ سزائے موت کی معافی کا صدارتی اختیار (دفعہ245) ختم کیا جائے۔ بنیادی حقوق (دفعہ8) پر عمل اور سماجی برائیوں کے خاتمے کی (دفعہ37) پر عمل درآمد کو قرآن و سنت کی مطابقت سے مشروط کیا جائے۔
کمیٹی نے تجویز کیا کہ یہ تجاویز مولانا فضل الرحمٰن صاحب اور دوسری دینی جماعتوں کو بھجوائی جائیں اور ان سے درخواست کی جائے کہ وہ حکومت سے گفتگو میں انہیں پیش نظر رکھیں۔
ڈاکٹر محمد امین
سیکرٹری دستوری ترامیم کمیٹی
۲۳ ستمبر ۲۰۲۴ء
اردو تراجمِ قرآن پر ایک نظر (۱۱۷)
مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں
ڈاکٹر محی الدین غازی
(536) جدال کا معنی
عربی میں جدل اور جدال بحث و مباحثے کے لیے آتا ہے۔ خواہ یہ بحث و مباحثہ دلیل کی بنیاد پر ہو یا دلیل کے بغیر ہو۔ بحث و مباحثہ آگے بڑھ کرجھگڑے کی صورت اختیار کرلے یہ الگ بات ہے لیکن اس لفظ کا اصل معنی جھگڑا نہیں ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف صیغوں میں متعدد بار آیا ہے۔ کہیں مثبت معنی میں ہے اور کہیں منفی معنی میں۔ جدال کا مثبت مفہوم یہ ہے کہ دلیل کے ساتھ بات پیش کی جائے، منفی مفہوم یہ ہے کہ دلیل کے بغیر کٹھ حجتی کی جائے۔ عربی میں لفظ خصومۃ اور لفظ جدال ہم معنی ہیں۔ قرآن میں بھی یہ دونوں ایک ہی مفہوم میں آئے ہیں۔
لسان العرب میں ہے:
والجَدَل: اللَّدَدُ فِی الخُصومۃ والقدرۃُ عَلَیْہَا، وَقَدْ جَادَلَہُ مُجَادَلَۃً وجِدَالًا۔۔۔ الجَدَل: مُقَابَلَۃُ الْحُجَّۃِ بِالْحُجَّۃِ؛ وَالْمُجَادَلَۃُ: الْمُنَاظَرَۃُ وَالْمُخَاصَمَۃُ۔
القاموس المحیط میں ہے:
والجَدَلُ۔۔۔: اللَّدَدُ فی الخصومَۃِ، والقُدْرَۃُ علیہا۔
الصحاح میں ہے:
وجادَلَہُ، أی خاصمہ، مُجادَلۃً وجِدالاً: والاسم الجَدَلُ، وہو شدّۃ الخصومۃ.
اسی طرح خصومۃ کے بارے میں القاموس المحیط میں ہے:
الخُصومَۃُ: الجَدَلُ.
لسان العرب میں ہے:
خصم: الخُصومَۃُ: الجَدَلُ. خاصَمَہ خِصاماً ومُخاصَمَۃً فَخَصَمَہُ یَخْصِمہُ خَصْماً: غَلَبَہُ بِالْحُجَّۃِ.
درج ذیل آیتوں میں جدال کے ترجموں پر غور کرنے کی ضرورت ہے:
(۱) وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِینَ یَخْتَانُونَ أَنْفُسَہُمْ۔ (النساء: 107)
’’اور ان کی طرف سے نہ جھگڑو جو اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے ہیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور ان کی طرف سے جھگڑا نہ کرو جو خود اپنی ہی خیانت کرتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور مت جھگڑو ان کی طرف سے جو اپنے دل میں دغا رکھتے ہیں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور ان لوگوں کی وکالت نہ کرو جو اپنے آپ سے خیانت کررہے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
’’اور لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
مذکورہ بالا آیت میں جدال بحث کرنے اور وکالت کرنے کے مفہوم میں ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ جھگڑا تو کر نہیں رہے تھے کہ اس سے روکا جاتا۔
(۲) ہَاأَنْتُمْ ہَؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْہُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا فَمَنْ یُجَادِلُ اللَّہَ عَنْہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَمْ مَنْ یَکُونُ عَلَیْہِمْ وَکِیلًا ۔(النساء: 109)
’’سنتے ہو تم لوگ جھگڑے ان کی طرف سے دنیا کی زندگی میں، پھر کون جھگڑے گا ان کے بدلے اللہ سے قیامت کے دن‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’سنتے ہو یہ جو تم ہو دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے جھگڑے تو ان کی طرف سے کون جھگڑے گا اللہ سے قیامت کے دن یا کون ان کا وکیل ہوگا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’بھلا تم لوگ دنیا کی زندگی میں تو ان کی طرف سے بحث کر لیتے ہو قیامت کو ان کی طرف سے خدا کے ساتھ کون جھگڑے گا اور کون ان کا وکیل بنے گا؟‘‘۔ (فتح محمد جالندھری، پہلے مقام کا ترجمہ صحیح اور دوسرے کا صحیح نہیں ہے)
’’(اے مسلمانو!) یہ تم ہو جو دنیاوی زندگی میں ان کی طرف سے جھگڑتے ہو (ان کی طرفداری کرتے ہو)۔ تو قیامت کے دن ان کی طرف سے خدا سے کون بحث کرے گا؟ یا کون ان کا وکیل (نمائندہ) ہوگا؟‘‘۔ (محمد حسین نجفی، پہلے مقام کا ترجمہ صحیح نہیں اور دوسرے کا صحیح ہے)
نہ تو دنیا میں مسلمانوں نے ان کے سلسلے میں جھگڑا کیا تھا اور نہ ہی قیامت کے دن جھگڑا کرنے کا کوئی موقع ہوگا۔ یہاں بھی بحث کرنا ہی مناسب ترجمہ ہے۔
(۳) یَوْمَ تَأْتِی کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِہَا (النحل: 111)
’’جس دن ہر جان اپنی ہی طرف جھگڑتی آئے گی‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’جس دن ہر متنفس اپنی طرف سے جھگڑا کرنے آئے گا‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جس دن ہر شخص اپنی ذات کے لیے لڑتا جھگڑتا آئے گا‘‘۔ (محمد جونا گڑھی)
’’جس دن آوے گا ہر جی جواب سوال کرتا اپنی طرف سے‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’جس روز ہر شخص اپنی ہی طرفداری میں گفتگو کرے گا‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
قیامت کے دن جھگڑا کرنے کا کسی یارا ہوگا؟ ہاں اپنی وکالت کرنے اور اپنے حق میں گفتگو کرنے کے لیے ہر کوئی بے چین ہوگا۔
(۴) قَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّتِی تُجَادِلُکَ فِی زَوْجِہَا وَتَشْتَکِی إِلَی اللَّہِ وَاللَّہُ یَسْمَعُ تَحَاوُرَکُمَا۔ (المجادلۃ: 1)
’’سن لی اللہ نے بات اس عورت کی جو جھگڑتی ہے تجھ سے اپنے خاوند کے حق میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’بے شک اللہ نے سنی اس کی بات جو تم سے اپنے شوہر کے معاملہ میں بحث کرتی ہے اور اللہ سے شکایت کرتی ہے، اور اللہ تم دونوں کی گفتگو سن رہا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان))
’’بے شک اللہ تعالی نے اس عورت کی بات سن لی جو آپ سے اپنے شوہر کے معاملہ میں جھگڑتی تھی ‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اللہ نے سن لی اُس عورت کی بات جو اپنے شوہر کے معاملہ میں تم سے تکرار کر رہی ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’یقینا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
آیت میں جس خاتون کی طرف اشارہ ہے، وہ اللہ کے رسول سے بحث کررہی تھی، اسے جھگڑا کہنا مناسب نہیں ہے۔
(۵) أَتُجَادِلُونَنِی فِی أَسْمَاءٍ سَمَّیْتُمُوہَا أَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا نَزَّلَ اللَّہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ۔ (الاعراف: 71)
’’کیا تم مجھ سے اُن ناموں پر جھگڑتے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں، جن کے لیے اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ہے‘‘۔ (سید مودودی)
’’کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ نے ان کی کوئی سند نہ اتاری‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’کیا تم مجھ سے بحثا بحثی ان ناموں کے بارے میں لگائے ہوئے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ (دادوں) نے ٹھیرا رکھے ہیں اللہ نے تو ان پر کوئی دلیل اتاری نہیں‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)
یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔
(۶) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ۔ (الحج: 3)
’’اور بعضا شخص ہے کہ جھگڑتا ہے اللہ کی بات میں بن خبر‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے باب میں بغیر علم (و دلیل) کے جھگڑا کیا کرتے ہیں‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)
’’بعض لوگ ایسے ہیں جو عِلم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں‘‘۔(سید مودودی)
یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔
(۷) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُنِیرٍ۔ (الحج: 8)
’’اور بعضا شخص ہے جو جھگڑتا ہے اللہ کی بات میں بن خبر اور بن سوجھ اور بن کتاب چمکتی‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’بعض لوگ اللہ کے بارے میں بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور انسانوں میں کوئی کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کے باب میں حجت کرتا رہتا ہے بغیر علم کے اور بدون دلیل کے بدون کسی روشن کتاب کے‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)
یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔
(۸) وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَلَا ہُدًی وَلَا کِتَابٍ مُنِیرٍ ۔ (لقمان: 20)
’’ اور بعضے آدمی اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں یوں کہ نہ علم نہ عقل نہ کوئی روشن کتاب‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کے باب میں بغیر واقفیت بغیر دلیل اور بغیر کسی روشن کتاب کے بحث کیا کرتے ہیں‘‘۔ (عبدالماجد دریابادی)
یہاں بھی بحث و مباحثے کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔
(۹) فَلَمَّا ذَہَبَ عَنْ إِبْرَاہِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْہُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ۔ (ہود: 74)
’’پھر جب ابراہیم کا خوف زائل ہوا اور اسے خوشخبری ملی ہم سے قوم لوط کے بارے میں جھگڑنے لگا‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’پھر جب گیا ابراہیم سے ڈر اور آئی اس کو خوش خبری جھگڑنے لگا ہم سے قوم لوط کے حق میں‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’جب ابراہیم سے خوف جاتا رہا اور ان کو خوشخبری بھی مل گئی تو قوم لوط کے بارے میں لگے ہم سے بحث کرنے‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’جب ابراہیم کا ڈر خوف جاتا رہا اور اسے بشارت بھی پہنچ چکی تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں کہنے سننے لگے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
ظاہر بات یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام بحث کررہے تھے نہ کہ جھگڑا کررہے تھے۔
(۱۰) وَإِنَّ الشَّیَاطِینَ لَیُوحُونَ إِلَی أَوْلِیَائِہِمْ لِیُجَادِلُوکُمْ۔ (الانعام: 121)
’’ اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور یقیناً شیطان اپنے دوستوں کو تعلیم دے رہے ہیں تاکہ یہ تم سے (بے کار) جدال کریں‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
آخری ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔ شیاطین انسانوں کے دل میں کٹھ حجتی کی باتیں ڈالتے ہیں، جن کے سہارے وہ کٹھ حجتی کرتے ہیں۔
(۱۱) وَقَالُوا أَآلِہَتُنَا خَیْرٌ أَمْ ہُوَ مَا ضَرَبُوہُ لَکَ إِلَّا جَدَلًا۔ (الزخرف: 58)
’’اور کہتے ہیں کیا ہمارے معبود بہتر ہیں یا وہ انہوں نے تم سے یہ نہ کہی مگر ناحق جھگڑے کو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور انہوں نے کہا کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ تجھ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور لگے کہنے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟ یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے لائے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)
’’اور کہتے ہیں کہ ہمارے معبود اچھے ہوئے یا وہ؟ یہ بات وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے اٹھاتے ہیں‘‘۔ (امین احسن اصلاحی)
یہ کج بحثی کا محل ہے نہ کہ جھگڑے کا۔
(۱۲) قَالُوا یَانُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا فَأَکْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِینَ ۔ (ہود: 32)
’’آخر کار ان لوگوں نے کہا کہ ،اے نوحؑ، تم نے ہم سے جھگڑا کیا اور بہت کر لیا اب تو بس وہ عذاب لے آؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے ہو اگر سچے ہو‘‘۔ (سید مودودی)
’’بولے اے نوح تم ہم سے جھگڑے اور بہت ہی جھگڑے تو لے آؤ جس کا ہمیں وعدے دے رہے ہو اگر تم سچے ہو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’(قوم کے لوگوں نے) کہا اے نوح! تو نے ہم سے بحث کر لی اور خوب بحث کر لی۔ اب تو جس چیز سے ہمیں دھمکا رہا ہے وہی ہمارے پاس لے آ، اگر تو سچوں میں ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
آخری ترجمہ مناسب معلوم ہوتا ہے، انھوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کو کج بحثی سے تعبیر کیا۔ جھگڑے کا یہ محل نہیں ہے۔
(۱۳) وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ۔ (النحل: 125)
’’اور جھگڑا کر ان سے ساتھ اس چیز کے کہ وہ بہت بہتر ہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’ اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور الزام دے ان کو جس طرح بہتر ہو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجیے‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
یہاں تو تقریباً سبھی کی رائے ہے کہ جدال بحث کے معنی میں ہے، لیکن حیرت ہوئی یہ دیکھ کر کہ شاہ رفیع الدین نے یہاں بھی جھگڑا ترجمہ کردیا۔
(۱۴) وَلَا تُجَادِلُوا أَہْلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ۔(العنکبوت: 46)
’’اور مت جھگڑو اہل کتاب سے مگر اس طرح سے کہ وہ بہت اچھی ہے‘‘۔ (شاہ رفیع الدین)
’’اور جھگڑا نہ کرو اہل کتاب سے مگر اس طرح پر جو بہتر ہو‘‘۔ (شاہ عبدالقادر)
’’اور اے مسلمانو! کتابیوں سے نہ جھگڑو مگر بہتر طریقہ پر‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’اور اہلِ کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)
’’اور اہل کتاب کے ساتھ بحث ومباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
’’اور تم اہل کتاب سے بجز مہذب طریقہ کے مباحثہ مت کرو‘‘۔ (اشرف علی تھانوی)
’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے‘‘ (سید مودودی)
یہاں بھی جھگڑے کا محل بالکل نہیں ہے۔ بحث و مباحثے کے سلسلے میں ہدایت دی جارہی ہے، لیکن حیرت ہوتی ہے کہ اچھے خاصے لوگوں نے یہاں’ جھگڑا‘ ترجمہ کردیا۔
جدال کا ترجمہ جب لفظ اور محل دونوں کی رعایت کرتے ہوئے بحث و مباحثہ کرتے ہیں تو بحث و مباحثہ کے سلسلے میں قرآنی ہدایات کو سمجھنے کی راہ کھلتی ہے۔ جب ہم’ جھگڑا‘ ترجمہ کرتے ہیں تو کئی جگہ ترجمہ بالکل بے محل اور غیر موزوں معلوم ہوتا ہے۔
(537) وَلَا تَہِنُوا فِی ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ
وَلَا تَہِنُوا فِی ابْتِغَاءِ الْقَوْمِ إِنْ تَکُونُوا تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمُونَ۔ (النساء: 104)
’’اِس گروہ کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ اگر تم تکلیف اٹھا رہے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھا رہے ہیں‘‘۔ (سید مودودی، ’تکلیف اٹھا رہے ہو‘، نہیں بلکہ ’تکلیف اٹھاتے ہو‘)
’’اور کافروں کی تلاش میں سستی نہ کرو اگر تمہیں دکھ پہنچتا ہے تو انہیں بھی دکھ پہنچتا ہے‘‘۔ (احمد رضا خان)
’’ان لوگوں کا پیچھا کرنے سے ہارے دل ہو کر بیٹھ نہ رہو! اگر تمہیں بے آرامی ہوتی ہے تو انہیں بھی تمہاری طرح بے آرامی ہوتی ہے‘‘۔ (محمد جوناگڑھی، بے آرامی نہیں بلکہ تکلیف)
’’اس (مخالف) جماعت کی تلاش اور تعاقب میں سستی نہ دکھاؤ۔ اگر اس میں تمہیں تکلیف پہنچتی ہے۔ تو انہیں بھی اسی طرح تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (محمد حسین نجفی)
’’اور خبردار دشمنوں کا پیچھا کرنے میں سستی سے کام نہ لینا کہ اگر تمہیں کوئی بھی رنج پہنچتا ہے تو تمہاری طرح کفار کو بھی تکلیف پہنچتی ہے‘‘۔ (ذیشان جوادی)
درج بالا آیتوں میں القوم سے مراد کوئی متعین گروہ نہیں ہے، نہ عام گروہ کفار ہے، بلکہ عام دشمن مراد ہیں۔
ترجمہ اس طرح کیا جائے گا:
’’دشمنوں کے تعاقب میں کمزوری نہ دکھاؤ اگر تم تکلیف اٹھاتے ہو تو تمہاری طرح وہ بھی تکلیف اٹھاتے ہیں‘‘۔
(538) لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ
(۱) إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ ۔(النساء: 48)
’’اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا‘‘۔ (سید مودودی، یہاں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس لیے ترجمہ ہوگا اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا)
’’بے شک اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کفر کیا جائے‘‘۔ (احمد رضا خان، یہاں کفر کے الفاظ نہیں بلکہ شرک کے الفاظ ہیں۔ شرک کا ترجمہ کفر کرنا درست نہیں ہے)
’’اللہ اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے‘‘۔ (ذیشان جوادی، ’معاف کرسکتا‘ نہیں بلکہ ’معاف نہیں کرتا ہے‘ ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’یقینا اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)
(۲) إِنَّ اللَّہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُشْرَکَ بِہِ ۔(النساء: 116)
’’اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودی، یہاں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے۔ اس لیے ترجمہ ہوگا اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا)
’’خدا اس بات کو معاف نہیں کرسکتا کہ اس کا شریک قرار دیا جائے‘‘۔(ذیشان جوادی، ’معاف نہیں کرسکتا‘ کے بجائے ’معاف نہیں کرتا‘ ہونا چاہیے)
درج ذیل ترجمہ درست ہے:
’’اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھہرایا جائے ‘‘۔ (احمد رضا خان)
(جاری)
انسانیت کے بنیادی اخلاق اربعہ (۱)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ یہ چار انسانیت کے وہ بنیادی اخلاق ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی بِعثت سے مقصود یہ ہے کہ ان اخلاق کی تکمیل و اشاعت کرائی جائے۔ یہ چار اخلاق طہارت، اِخبات (خضوع)، سَماحت (فیاضی) اور عدالت ہیں۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ اس فقیر کو آگاہ کیا گیا ہے کہ تہذیبِ نفس (نفسِ انسانی کو شائستہ اور اس قابل بنانا کہ وہ خطیرۃ القدس اور بارگاہِ الٰہی میں پہنچنے کے قابل بن سکے) کے سلسلہ میں شریعت میں جو چیز مطلوب ہے وہ ان چار اخلاق (خصلتوں) کا قائم کرنا ہے اور ان کے ساتھ متصف ہونا ہے اور ان کی اضداد کی نفی کرنا ہے (طہارت کی ضد نجاست ہے، اخبات کی ضد تکبر ہے، سماحت کی ضد بخل اور خَساسَت ہے، اور عدالت کی ضد ظلم اور تعدی ہے)۔ حق تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کو انہی چار خصلتوں کی تکمیل اور اشاعت کے لیے دنیا میں بھیجا ہے اور تمام شرائع (یعنی آسمانی شریعتوں کے جملہ قوانین و احکام) دراصل انہیں چار خصلتوں کی طرف ارشاد و رہنمائی کرتے ہیں اور ان کے حاصل کرنے کی تحریص و ترغیب دیتے ہیں اور ان کے مواقع اور مظان ہی کی تفصیلات ہیں اور شرائع کی تمام تر ترغیبات ان ہی کے اخلاق کی طرف مصروف ہیں اور ان کی اضداد سے تربیت کی طرف راجع ہیں۔ اور بر (نیکی) انہیں خصلتوں کے اَشباح ہیں (وہ اشکال اور طریقے جن سے یہ خصلتیں حاصل ہوتی ہیں) اور ان کے کواسب ہیں یعنی ان اخلاق کو کمانے اور حاصل کرنے کے ذرائع اور اسباب ہیں، اور اثم (بدی) ان کے اضداد و کواسب کے مواقع اور اسباب سے عبارت ہے۔ انسانیت کے وہ اخلاق جن کی موجودگی معاد میں مفید ہے اور ان کا فقدان ضرر رساں ہے، وہ یہی چار بنیادی اخلاق ہیں۔ او ریہ اخلاق کسی نبی کی شریعت میں منسوخ نہیں ہوئے اور ہمارے پیغمبر حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں بھی یہ اخلاق محکم ہیں۔ جو شخص اس حقیقت کو ذوق اور وجدان کے طریق پر جان لے، او رمعلوم کر لے کہ ہر دور اور ہر طبقہ میں شرائع کس طرح ان اخلاق تک پہنچاتے ہیں تو وہ شخص یقیناً فقیہ فی الدین اور راسخ العلم ہو گا۔ اور جو شخص شرائع کے اَشباح سے ان خصلتوں تک پہنچے گا اور ان اخلاق سے رنگین ہو گا اور اس کے نفس نے اپنے اصل جوہر میں ان خصلتوں کو قبول کر لیا تو وہ محسنین میں شمار ہو گا۔ در حقیقت ان چار خصلتوں کی معرفت امور عظام یعنی بڑے امور میں سے ایک بڑا امر ہے جو اس بندہ ضعیف پر وارد ہوئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ہم پر او ردوسرے لوگوں پر بھی لیکن اکثر لوگ شکر نہیں ادا کرتے۔
(۱) طہارت
ان اخلاق میں سے ایک طہارت ہے۔ طہارت کا معنی تو نظافت و پاکیزگی ہوتا ہے لیکن طہارت کی حقیقت اور اس کی طرف میلان نفوسِ سلیمہ میں سے ہر ایک نفس میں ودیعت رکھا ہوا ہے۔ پس اگر نفس اپنی فطری سلامتی کی حالت پر ہو اور کوئی عارض اس کو مُشوَّش نہ کرے تو لامحالہ وہ طہارت پر ہو گا۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری مراد طہارت سے صرف وضو اور غسل نہیں بلکہ روحِ وضو اور روحِ غسل ہے اور نورِ وضو اور نورِ غسل ہے۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہر پاکیزہ نفس جس کا مزاج صحیح اور سلیم ہو اور اس کا مادۂ نوعی احکام قبول کرنے سے انکا رنہ کرتا ہو (جیسا کہ مُنحرِج اور ناقص مادۂ نوعی احکام قبول کرنے سے انکار کرتا ہے) اور سفلی حالت سے فارغ ہو اور طبعی طور پر مشوش کرنے والی باتوں سے خالی ہو۔ جیسا کہ شَبق یا غلبۂ شہوت کی حالت یا غضب اور بھوک وغیرہ کی حالت سے خالی ہو، تو ایسا نفس جب نجاسات سے آلودہ ہوتا ہے اور میل کچیل سے پُر ہوتا ہے اور غیر طبعی بالوں کی افزائش اس کے جسم پر ہوتی ہے اور بول و براز کا شدید تقاضا ہوتا ہے اور معدہ میں ریاح کا غلبہ اور گرانی ہوتی ہے، یا وہ شخص جماع اور اس کے وداع سے قریب العمد ہوتا ہے، تو ایسا شخص اگر اپنے وجدان کی طرف رجوع کرے گا تو لامحالہ اپنے اندر انقباض، تنگی اور غم پائے گا، پھر وہ جب دونوں خبیث چیزوں (بول و براز سے فارغ اور ہلکا ہو گا اور غسل کرے گا اور زائد بالوں کو اپنے جسم سے دور کر دے گا اور نیا لباس زیب تن کرے گا اور خوشبو کا استعمال کرے گا او رپھر اپنے وجدان کی طرف رجوع کرے گا تو لامحالہ ایک خاص قسم کا اِنشراح اور طبیعت کی کشادگی، سرور اور اِنبساط پائے گا۔
پہلی حالت حدث کی ظلمت اور تاریکی کی حالت ہے اور دوسری حالت نورِ طہارت کی حالت ہے۔ جب حدث کی ظلمت نفس کا احاطہ کرتی ہے تو شیاطین کے وسوسے اور خوفناک خواب ظاہر ہوتے ہیں اور دل پر سیاہی ہجوم کرے گی۔ اور جب نورِ طہارت نفس کا احاطہ کرتا ہے تو ملائکہ کے الہامات اور رویائے صادقہ یعنی اچھے خواب ظاہر ہوں گے، اور خواب و بیداری دونوں کی حالت میں اس کے دل پر نور کا ہجوم ہو گا۔ کبھی ایسا ہوتا ہےکہ یہ شخص خواب میں آفتاب کو اپنے دل یا دھن میں جلوہ گر دیکھتا ہے اور اس پر خوش ہوتا ہے، اور کبھی ستارے اس کی پیشانی اور تمام اعضاء کے ساتھ چھپاں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، اور کوئی یہ دیکھتا ہے کہ اس پر نور کی بارش برس رہی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اس قسم کے خواب دیکھتا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ یہ سب طہارت کے اشباح (اشکال) و آثار ہیں اور ان کی حقیقت وہ ہیئت وجدانیہ ہے جس کو بجز اُنس اور نور کے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ حالت انسان کی حالتوں میں ملاء اعلیٰ کی تجریدی حالت سے مشابت رکھتی ہے۔ یعنی جس طرح ملاء اعلیٰ بہیمی آلودگیوں سے دور ہوتے ہیں اسی طرح یہ شخص بھی اس حالت میں بہیمی آلودگی سے دور اور صاف ہوتا ہے۔ اور جس طرح ملاء اعلیٰ میں سرور اور اِبتہاج ہوتا ہے اس طرح اس حالت میں اس شخص کو بھی انس، سرور اور ابتہاج میں ان کے ساتھ مشابہت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور جب بھی کوئی ملاء اعلیٰ کے ساتھ مشابہت پیدا کر لیتا ہے تو وہ وہاں بے اندازہ سرور و ابتہاج اور انس محسوس کرتا ہے۔ اور جب یہ شخص اس حالت کو اپنے نفس میں پختہ اور راسخ کر لیتا ہے اور وہ اس کا ملکہ بن جاتی ہے تو اس شخص کے اور املاء اعلیٰ کے درمیان ایک خاص قسم کی مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس کے درمیان اور بہشت کی خوشیوں اور راحت کے درمیان دروازہ کھل جاتا ہے۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص مسلسل احداث او رخباثات کے ساتھ آلودہ ہوتا ہے اور درمیان میں طہارت کی صورت نہیں اختیار کرتا تو اس کا علاج انتہائی مبالغہ کے ساتھ بدن اور کپڑوں کو پاک صاف کرنے سے ہو گا۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ انوارِ طہارت کی نسبت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے جو کسی شخص میں پیدا ہوتی ہے۔ اس نسبت کی حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی شخص غسل اور وضو کرتا ہے اور خوشبو استعمال کرتا ہے او ربدن سے گندگی دور کرتا ہے اور اسی طرح لباس کو بھی پاک و صاف رکھتا ہے تو اس میں ایک قسم کا سرور و انشراح پیدا ہوتا ہے اور خاص قسم کا انس اپنے اندر محسوس کرتا ہے، اور یہ انس و سرور قُوائے طبعیہ کے قبیل سے نہیں ہوتا بلکہ یہ قوتِ ملکیہ کی میراث اور اس کا پَرتو ہے۔ اور جب یہ بات بار بار حاصل ہوتی رہے تو نفس کا ملکہ بن جاتی ہے او رایک ہیئتِ راسخہ اس کی وجہ سے نفس میں پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک عارف آدمی اس ہیئت کو پہچانتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ اور جب حدث لاحق ہوتا ہے یا جنابت طاری ہو جاتی ہے یا اس کا بدن اور لباس نجس ہو جاتے ہیں اور وہ اس کی وجہ سے اپنے نفس میں انتہائی وحشت اور انقباض پاتا ہے اور اس کے دل میں بے چینی اور پراگندگی پیدا ہو جاتی ہے اور خبیث اور ردی باتیں اور وسواس اس کے دل سے اٹھنے لگتے ہیں، جب یہ شخص طہارت کی اشکال و امثال سے تمسک کرتا ہے تو اس کے اندر وہ مطلوب حالت دوبارہ پیدا ہو جاتی ہے اور یہ شخص اپنے اندر آرام و سکون پاتا ہے۔ جب عارف ان دونوں حالتوں کو پہچان لیتا ہے اور ایک حالت سے اسے ایذا تکلیف پہنچتی ہے اور دوسری حالت سے وہ لطف اندوز ہوتا ہے، اور یہ حالت طہارت کی کثرت اور وضو اور غسل پر مُواظبت کرنے سے حاصل ہوتی ہے، پھر اس شخص کے اندر ملائکہ کی حقیقت کی طرف ایک کشادہ شاہراہ کھل جاتی ہے اور ان ملائکہ کا اُنس و سرور اس کو حاصل ہوتا ہے اور اس مقام پر یہ شخص ایک ایسے بحرِ بیکراں کا مشاہدہ کرتا ہے جو ثلج (برف)، برد (اولے) اور راحت سے بھرپور ہوتا ہے۔ اور دنیا میں یہ شخص ملائکہ کی طرح مُلہِم ہوتا ہے یعنی اس پر ملائکہ کی طرح پاکیزہ الہامات ہوتے ہیں۔ اور جس طرح اس پر الہام ہوتا ہے اسی طرح اس کے حق میں ملائکہ پر بھی الہام ہوتا ہے تاکہ وہ ملائکہ اس کی رِفاحیت میں کوشش کریں، کبھی الہام کی شکل میں اور کبھی حالت کی تبدیلی کی شکل میں اور آخرت میں یہ شخص منجملہ ملائکہ میں شمار ہو گا۔
طہارت کی اس نسبت کے حاصل ہونے کی علامت یہ ہے کہ بہت سے مَلکی واقعات اس سے ظاہر ہوتے ہیں، جیسا کہ انوار کا دیکھنا اور آفتاب و ماہتاب کا اس کے منہ سے ظاہر ہونا اور دریں حالات یہ شخص اپنے آپ کو ایک بلِور اور شفاف جوہر کی شکل میں دیکھتا ہے (کیونکہ روشن اور شفاف چیز میں نور و تجلی کو نمایاں طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے)۔ اسی طرح لذیذ قسم کے طعام کا کھانا، دودھ اور شہد اور گھی جیسی پاکیزہ چیزوں کا تناول کرنا اور حریر کا لباس زیب تن کرنا اور عمدہ اور پاکیزہ باغات کی سیر کرنا اور ان میں اترنا بشرطیکہ وہ ایسی رونق و اطمینان اور تازگی اپنے دل میں محسوس کرے جیسا بیداری کی حالت میں ایک بھوکا آدمی طعام سے آرام پاتا ہے۔ اور یہ طہارت دوسری نسبتوں پر بھی تنبیہ کرتی ہے اور ان کے لیے بھی اِنبعاث پیدا کرتی ہے۔ طہارت کی نسبت رکھنے والا شخص جب ملائکہ سے نسبت پیدا کرتا ہے اور اپنےلوحِ نفس کو پاکیزہ بنا لیتا ہے تو بسا اوقات اس کے روحِ نفس پر اور اس کے دل پر بھی عشقِ الٰہی اور اس کی بے چینی اور قَلَق مُنقَّش ہوتا ہے اور عشق کے آثار یہاں سے پھوٹتے ہیں اور اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے فیض اور مَوہبَت خیال کرنا چاہیے۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص طہارت کی نسبت سے نابلد ہو تو اس کی یہ تدبیر اختیار کرنی چاہیے کہ خلوت گزین ہو کر غسل کرے اور نیا لباس پہنے اور دو رکعت نماز ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے اسم پاک نور کا زیادہ وِرد کرے تازہ بتازہ غسل اور تازہ بتازہ وضو کرتا رہے اور پوری ہمت او رتوجہ کے ساتھ فکر کرے کہ اس کے دل میں پہلے کی نسبت کوئی فرق پیدا ہوا ہے یا نہیں؟ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد اس کیفیت کو پا لے گا۔ یہ بات خوب جان لینی چاہیے کہ طہارت کی حقیقت صرف وضو اور غسل میں منحصر نہیں بلکہ بہت سی چیزیں وضو اور غسل کے حکم میں داخل ہیں جن سے طہارت حاصل ہوتی ہے یا قوی ہوتی ہے۔ چنانچہ صدقہ دینے سے اور فرشتوں او ربزرگوں کو خوبی سے یاد کرنے سے اور ایسے کام کرنے سے جو عوام کے لیے مفید ہوں اور عام لوگ ان کی وجہ سے اس شخص کے حق میں دعا کریں او رخوش ہوں، اور نیز اپنی وضع قطع ڈاڑھی مونچھ اور تمام بالوں کو اس ہیئت پر بنائے جو ملت میں مستحسن اور مُعتاد ہوں او ربالوں کی حفاظت او راُن کو پراگندگی سے بچانا او رمتبرک مقامات او رمعظم مساجد اور سلف کے مُشاہَد میں اعتکاف کرنا، اور اگر اہلِ دنیا کی رسوم کا ہجوم ہو تو اس کا علاج ہجرت اوطان اختیار کرنے سے ہو گا۔ او رپاک صاف اور سفید لباس پہننا اور خوشبو استعمال کرنا، طہارت کی حالت میں سونا اور خواب کے وقت ذکر کرنا اور پریشان خواطر او رپراگندہ خیالات سے اپنے دل کی حفاظت کرنا اور موذی مواد کو بدن سے خارج کرنا (استفراغ) اور ظلمانی اخلاط کو بدن سے باہر نکالنا اور نفس کا نسیم (پاکیزہ) اور خوشبو سے راحت پانا، اور ایسی چیزوں کا کھانا جن سے کَیلوس صالح پیدا ہو تاکہ خوف اور بے چینی اس میں نہ رہے۔ یہ سب اشیاء طہارت کی کیفیت کو پیدا کرتی ہیں یا اس کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں۔
اس کے برخلاف ہیئاتِ منکرہ شیطانیہ یعنی شیطانی بد وَضعی اور فحش کلمات کا زبان سے نکالنا او رسلف صالحین پر طعن اور نکتہ چینی کرنا اور بے حیائی کا اظہار کرنا اور جانوروں کی جُفتی وغیرہ دیکھنی اور حسین عورتوں اور اَمارِد (نوخیز بچے) کے ساتھ ہم نشینی اختیار کرنا اور اپنی فکر ان کے محاسن اور بناؤ سگار میں مصروف کرنا اور لمبے وقت تک اپنے دل میں مباشرت کے خیالات کو جمع کرنا اور اس سے زیادہ مباشرت میں مشغول و مصروف رہنا جتنا کوئی شخص قضائے حاجت کے لیے مصروف کار ہوتا ہے او رکتوں اور بندوں کے ساتھ رفاقت رکھنی اور امراض جلدیہ میں مبتلا ہونا : حبیسی، پتی، چنبل، داد، جرب، کھجلی وغیرہ اور دَموی امراض میں مبتلا ہونا۔ یہ سب باتیں اس صفت کو بتلاتی ہیں جو طہارت کے بالمقابل اور اس کی ضد ہے۔ اس اجماع اور مباشرت میں جو دفعِ اذیت کے لیے ہو اور اس میں جو تحصیلِ لذت کے لیے ہو، فرق ہے۔ پہلی قسم طہارت کے باب سے ہے اور دوسری قسم نجاست کے باب سے ہے۔
ان میں سے بعض چیزوں کے بارہ میں شریعت نے صراحت سے طہارت اور نجاست کا نام دیا ہے اور بعض کی طرف اشارہ اور ایما کیا ہے۔ یہ سب باتیں وجدانی طریق پر معلوم ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نظیف ہے، نظافت کو پسند فرماتا ہے۔ حدیث میں ’’الطہور شطر الایمان‘‘ آیا ہے یعنی طہارت ایمان کا جز ہے۔ اسی بنا پر امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ
’’اربابِ بصیرت نے یہ بات سمجھی ہے کہ شارع علیہ السلام کی مراد صرف یہ نہیں کہ طہارت میں صرف ظاہر کو پانی سے صاف اور نظیف بنا لیاجائے بلکہ طہارت کے چار مراتب ہیں: پہلا مرتبہ یہ ہے کہ ظاہر کو احداث اور اخباث سے پاک کیا جائے۔ دوسرا مرتبہ جوارح و اعضاء کو آثام و جرائم سےپاک کیا جائے۔ تیسرا مرتبہ قلب کو اخلاقِ مذمومہ اور رزائلِ ناپسندیدہ سے پاک کرنا۔ اور چوتھا مرتبہ سر کو عماسوای اللہ سے پاک کرنا اور یہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام اور صدیقین کی طہارت ہے۔‘‘
امام ولی اللہ فرماتے ہیں روحِ طہارت دراصل نورِ باطن، انس و انشراح کی حالت ہے اور افکار کو مٹانا ہے اور تشویشات بے چینی، فکری پراگندگی، فجر، تنگدلی اور جزع فزع کو روکنا اور کم کرنا ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ حدث کے اسباب یہ ہیں: قلب کا سفلی حالات سے پُر ہونا جیسا کہ عورتوں سے قضاء شہوت اور مباشرت کی حالت اور قلب میں حق کی مخالفت مضمر رکھنا اور ملاء اعلیٰ کی لعنت کا احاطہ کرنا، بول و براز کو روکے رکھنا اور بول و براز اور ریح کے ساتھ قریب العہد ہونا یہ معدہ کے فضول مواد ہیں ۔ اور بدن کا میل کچیل سے بھر جانا، گند دہنی رینٹھ وغیرہ کا جمع ہونا۔ زیر ناف اور بغل کے بالوں کا اگنا اور ان کی افزائش اور بدن کا نجاست اور گندگی سے آلودہ ہونا اور حواس کا ایسی حالت سے پُر ہونا جو سفلی حالت کو یاد دلاتی ہو۔ جیسا کہ مختلف قسم کی غلاظتیں اور گندگی، شرمگاہ کی طرف نظر کرنا، حیوانات کی جفتی دیکھنا، جماع او رمباشرت میں زیادہ عمیق اور گہری نظر رکھنا اور ملائکہ اور صالحین پر طعن کرنا اور لوگوں کو ایذا پہنچانے کی سعی کرنا، یہ سب نجاست کے اسباب ہیں۔ اور طہارت کے اسباب ان کا ازالہ کرنا اور ان کی اضداد کو حاصل کرنا ہے اور ایسی چیزوں کا استعمال کرنا جو عادتاً نظافت خیال کی جاتی ہیں جیسا کہ غسل و وضو کرنا، اچھے صاف ستھرے کپڑے پہننا، خوشبو استعمال کرنا، یہ سب چیزیں طہارت کی صفت پر تنبیہ کرنے والی ہیں۔
اور جب طہارت انسان کی طبیعت بن کر راسخ ہو جاتی ہے تو اس کے اندر ملائکہ کے الہامات قبول کرنے کی استعداد پیدا کرتی ہے اور مناماتِ صالحہ یعنی اچھے خواب اور انوار کا ظہور ہوتا ہے اور طیّبات یعنی پاکیزہ اور مبارک چیزوں کا تمثل ہوتا ہے۔ اور جب انسان میں نجاست کی حالت راسخ ہو جاتی ہے تو شیاطین کے وساوس قبول کرنے کی استعداد پیدا کرتی ہے اور ایسا انسان حس مشترک کے خاصہ سے شیاطین کو بعض اوقات دیکھتا ہے اور وحشت ناک خواب آتےہیں اور نفس کے اس پہلو پر جو نفسِ ناطقہ سے ملتا ہے ظلمت کا ظہور ہوتا ہے اور ملعون اور ذلیل جانور متمثل ہوتے ہیں اور خواب میں نظر آتے ہیں۔
طہارت کا مفہوم شرائع الٰہیہ میں اس قدر وسیع ہے جس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ اس میں طہارت صوری جیسا کہ بول و براز، مادہ منویہ، مذی، خون، ودی، قی، پیپ و اقذار و نجاسات سے طہارت بھی ضروری ہے۔ اسی طرح باطن کی تطہیر، کفر، شرک، نفاق، الحاد، ارتداد، شک اور تمام عقائدِ باطلہ، نیاتِ فاسدہ اور اخلاقِ ذمیمہ، کھوٹ، کینہ، دغا بازی، حسد، تکبر وغیرہ سے طہارت ضروری ہے۔ نیز غصب، سرقہ، خیانت و حرام سے مردوں کو ریشمی لباس، سونے چاندی کے زیور اور مسرفانہ مبذرانہ افعال اور وضع قطع سے احتراز ضروری ہے۔ بدن کو حدث و جنابت سے وضو، غسل و تیمّم کے ذریعہ اور مختلف قسم کے فضلات، غیر طبعی بال، ناخن او رمیل کچیل پاک کرنا، او رمال تطہیر زکوٰۃ و صدقات نکالنے اور سود کی آمیزش اور دیگر حرام چیزوں سے، قمار بازی، ناپاک چیزوں کی تجارت سے طہارت ضروری ہے۔
الغرض کہ طہارت کا وسیع نظام ہے جس میں اخلاق و عقائد کی تطہیر سے لے کر ظاہری طہارت کے تمام مواقع بدن، مکان، دیگر ماحول، گلی محلہ، شہر، میونسپلٹی، اسمبلی، ٹریڈ یونین وغیرہ اور قانون کا پاک ہونا اور صاف ہونا، افکار کی پاکیزگی، اصول و اعمال و نفسیات سب کی تطہیر پر مشتمل ہے۔ انسان اپنی فطرت کے مطابق بعض چیزوں کو اپنے بدن اور جسم کے لیے باعث نجاست و گندگی خیال کرتا ہے اور اپنی پوری قوت و وسعت کے ساتھ ان سے بچتا رہتا ہے۔ مثلاً بول و براز وغیرہ جب انسان کے نزدیک نجس ہیں تو ممکن نہیں کہ پھر انسان ان سے ایک لحظہ بھی آلودہ ہونے کے لیے تیار ہو۔ جب یہ صفت انسان کو حاصل ہو جائے تو اس کی تکمیل اس کے لیے آسان ہو گی۔ جب انسان کے نفس میں کوئی کلام فکر و عادت یا جذبہ پیدا ہو اور اس کے قلب میں وہ ایسا مؤثر ہو جیساکہ بول وبراز کی تاثیر اس کے جسم پر ہوتی ہے جب وہ اس پر پڑ جائے تو انسان اس کو نجس خیال کرنے کے ساتھ پختہ ارادہ کرے گا اس کے ازالہ کا اور یہ خصلت اس کے اندر پختہ ہو گی۔
طہارت انسانیت کے اہم ترین بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اس اصول پر کاربند رہنا ملاء اعلیٰ کے ساتھ مشابہت پیدا کرنا ہے، اور اس طہارت کے ذریعہ انسان خطیرۃ القدس میں داخل ہونے کا اہل اور اس کا ممبر بن سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پہنچنے کے قابل بن سکتا ہے۔ عبادت اس کے بغیر مقبول نہیں جیسا کہ ’’ان اللہ لا یقبل صلوٰۃ بغیر طہور و لا صدقہ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ طہارت کے بغیر نماز قبول نہیں فرماتے اور خیانت وغیرہ کے مال سے صدقہ و خیرات قبول نہیں فرماتے۔ نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’واللہ یحب المطہرین‘‘ کہ اللہ تعالیٰ طہارت اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ اور جہاں تمیم کی حکمت اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے اس میں بھی یہی ارشاد ہوتا ہے ’’یرید اللہ لیطہرکم‘‘ اللہ تعالیٰ چاہتا ہےکہ تمہیں پاک و صاف کر دے۔
قرآن و سنت میں طہارت کے متعلق مفصل احکام موجود ہیں اور امام ولی اللہؒ نے حکیمانہ طریق پر اس کا فلسفہ سمجھا دیا ہے۔ چنانچہ اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ طہارت جس کا اثر نمایاں اور ظاہری طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے او ریہ ایسا وصف ہے کہ جس کے ساتھ جمہور انسان یعنی عوام کو خطاب کیا جا سکتا ہے اور اس طہارت کا آلہ متمدن دنیا میں بکثرت پایا جاتا ہے یعنی پانی۔ طہارت کا معاملہ ضبط و قانون میں آ سکتا ہے اور جو انسانی نفوس میں زیادہ وقیع طریق پر مؤثر ہوتا ہے اور مسلّماتِ مشہورہ کی طرح اور طبعی مذہب کی طرح ہوتا ہے۔ یہ طہارت استقراء و تتبع سے دو قسموں میں منحصر ہے طہارتِ صغریٰ اور طہارتِ کبریٰ ۔ (طہارتِ کبریٰ) عام بدن کو پانی کے ساتھ دھونا اور خوب مل کر صاف کرنے سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ پانی نجاسات کو زائل کرنے والا خود پاک اور دوسری چیزوں کو پاک کرنے کا آلہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وانزلنا من السماء ماء طہورًا‘‘۔ طبائع اس کو تسلیم کرتے ہیں اور یہ آلہ صالحہ ہے کہ نفس کو طہارت کی صفت پر تنبیہ کرے او رخبر کر دے اور یہ تنبیہ اس طرح حاصل ہو گی کہ انسانوں کے نفسوس میں جو ایک بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ طہارت بلیغہ کر دے اور یہ صرف پانی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔
اور طہارت صغریٰ میں صرف اطراف ہاتھ پاؤں منہ کے دھونے پر اکتفا کیا جاتا ہے کیونکہ عادتاً یہی مواقع متمدن ممالک میں منکشف ہوئے ہیں اور لباس سے باہر ہوتے ہیں اور ان کا لباس سے باہر ہونا سب لوگوں کے لیے ایک طبعی بات ہے اور ان کے دھونے میں کوئی حرج بھی نہیں ہوتا برخلاف تمام اعضاء کے دھونے کے لیے خاص اہتمام اور تستر وغیرہ کی ضرورت لاحق ہوتی ہے۔ نیز شہروں میں عادت ہے کہ ان اعضاء کو بالعموم لوگ ہر دن میں پاک و صاف رکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور بڑے لوگوں کے پاس جائے وقت مثلاً حکّام، بادشاہ، امرا، عاظم رجال کے پاس جانے کی صورت میں ان کو پاکیزہ اور نظیف رکھا جاتا ہے اور نیز پاکیزہ اور اچھے اعمال انجام دینے کے وقت بھی ان کو پاک و صاف کیا جاتا ہے۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ ان اعضاء کے طرف ہی میل کچیل گرد و غبار دھواں وغیرہ جلدی سرایت کرتا ہے اور ملاقات کے وقت یہی اعضاء لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں اس لیے ان کا پاک صاف ہونا ضروری ہے۔
یہ بات سمجھ میں آتی ہے نیز تجربہ شاہد ہے کہ اطراف اور منہ پر پانی کے چھینٹے مارنے سے نفس نیند اور غشی وغیرہ کی حالت میں بیدار ہوتا ہے اور متنبہ ہو جاتا ہے اور اس سے نفس میں قوی درجہ کی تنبیہ حاصل ہوتی ہے۔ انسان خود بھی اس کا تجربہ کر سکتا ہے اور اطباء حضرات بھی غشی وغیرہ کو دور کرنے کے لیے اس تدبیر کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ او رطہارت صرف تنظیف ہی نہیں بلکہ یہ ارتفاقِ ثانی (انسان کی اجتماعی اور شہری ضرورتوں) کے ابواب میں بھی داخل ہے جس پر انسان کا کمال موقوف ہے اور انسانوں کی طبیعت اور جبلت میں داخل ہے اور اس میں ملائکہ سے قرب ہے اور شیاطین سے بُعد ہے۔ نیز یہ طہارت انسان کو عذابِ قبر سے بچانے کا ذریعہ بھی ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ پیشاب سے بچو کیونکہ عام طور پر عذابِ قبر اس سے واقع ہوتا ہے۔ نیز اس طہارت کو بڑا دخل ہے اس بات میں کہ انسان کا نفس اس کی وجہ سے احسان کا رنگ قبول کرتا ہے ’’واللہ یحب المطہرین‘‘ کی آیت سے ظاہر ہوتی ہے۔
اور جب یہ طہارت کی صفت نفس میں پختہ اور راسخ ہو جاتی ہے تو پھر نفس میں ملائکہ کے نور کا (ملکیت کا) ایک شعبہ ٹھہر جاتا ہے اور ٹک جاتا ہے اور بہیمیت کی ظلمت کا ایک شعبہ مقہور و مغلوب ہوتا ہے، اور یہی مطلب ہے کتابتِ حسنات او تکفیرِ سیئات کا۔ یعنی جو حدث میں آیا ہے کہ طہارت کر کرنے سے حسنات لکھی جاتی ہیں اور خطاؤں کو معاف کیا جاتا ہے اور مٹایا جاتا ہے۔
اور اگر اس طہارت کو رسمِ فاشی بنا دیا جائے کہ عام و خاص لوگ اس کی پابندی کرنے لگ جائیں تو یہ مہلک رسومات سے بچانے کا ذریعہ بھی بن جائے گی۔ اور جب طہارت والا انسان اس کی ہیئات کی حفاظت کرے گا جیسا کہ بڑے لوگوں کے پاس جاتے وقت کرتے ہیں اور نیت اور اذکار بھی اس کے ساتھ مل جائیں تو سوءِ معرفت کا علاج بھی اس سے ہو گا۔ اور جب انسان خوب اپنی عقل سے اس کو جان لے کہ یہ انسان کے حق میں کمال ہے اور اپنے جوارح کو ان آداب کا پابند بنائے لیکن عقل تقاضے کے بغیر کسی حسی داعیہ کے تو اس سے طبیعت کے عقل کے تابع ہونے کی مشق ہو گی اور حجاب طبع کابھی علاج اس سے ہو سکے گا۔
(جاری)
مسئلہ جبر و قدر: متکلمین کا طریقہ بحث
ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
متکلمین الہیات کے باب میں تین سطح پر گفتگو کرتے ہیں: ذات باری کا ثبوت اور اس کے احکام، صفات باری تعالی اور اس کے احکام، افعال باری تعالی جو اس بات سے عبارت ہیں کہ خدا اور کائنات کا تعلق کس نوعیت کا ہے اس لئے کہ کائنات خدا کا فعل ہے ۔ مسئلہ جبر و قدر اللہ کے افعال سے متعلق بحث ہے، یعنی یہ بحث کہ خدا کے فعل اور بندے کے فعل میں کیا نسبت ہے۔ افعال باری کی یہ بحث دراصل مسائل حسن و قبح کی ایک فرع ہے۔ چونکہ افعال باری کی بحث ذات و صفات پر متفرع ہے، لہذا جو اصول و نتائج پہلی دو سطحوں میں طے ہو چکیں افعال باری کی بحث میں ان کا لحاظ رکھنا لازم ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جس اصول کو پہلے قبول کیا گیا ہو، مسئلہ جبر و قدر کی بحث میں اسے ترک کر دیا جائے کہ یہ ایک غیر علمی طریقہ گفتگو ہے۔ اس مسئلے سے متعلق وہ ماقبل امور جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، ان میں سے اہم ترین اصول یہ ہیں:
1) ہر حادث کے لئے محدث ہونا لازم ہے
2) عالم حادث ہے، یعنی یہاں اشیاء یک بعد دیگرے عدم سے وجود پذیر ہو رہی ہیں اور یہ سلسلہ لامتناہی نہیں۔
3) اللہ کی قدرت و ارادہ ہر شے پر جاری ہے، اس عالم میں اس کے ارادے کے بنا کچھ بھی ظاہر نہیں ہوتا (اسے "عموم قدرت" کا اصول بھی کہتے ہیں)
4) کیا ان اشیاء کے مابین علت و معلول "بمعنی تاثیر" کی نسبت جاری ہے؟ جمہور اشاعرہ و ماتریدیہ جبکہ معتزلہ کی ایک جماعت کے نزدیک ان کے مابین ایسی نسبت نہیں بلکہ خدا تمام اشیاء کا براہ راست خالق ہے اور وہ ہر لمحے پوری کائنات کو وجود دیتا ہے۔ ہمارے مشاہدے میں آنے والی علتی نسبتیں علامات ہیں۔ معتزلہ کی ایک جماعت کے نزدیک ان کے مابین تاثیری نسبت قائم ہے، گویا وہ ثانوی علتوں کے بھی قائل ہیں اور ان کے مطابق اللہ تعالی ہر چیز کا براہ راست خالق نہیں۔
ان امور پر متکلمین افعال باری سے قبل بحث نبٹاتے ہیں۔ ان کے بعد مسئلہ جبر و قدر سے متعلق متعلقہ پہلووں کو نوٹ کرنا ضروری ہے:
1) انسان کی طرح اس کے افعال بھی حادث ہیں
2) فعل چند امور سے عبارت ہے:
الف) قدرت: اس کا مطلب دو امکانات کے مابین بطریق تساوی (indifference or equality) اس طور پر نسبت ہونا ہے کہ قادر چاہے تو کچھ کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
ب) ارادہ: اس کا مطلب دو مساوی امکانات میں سے کسی ایک جانب ترجیح قائم کرنا ہے، گویا ارادہ قدرت کے مقابلے میں خاص معنی ہے کہ وہ کسی ایک جانب بطریق ترجیح (preference) نسبت ہونا ہے۔
ج) فعل بطور مصدر اور حاصل بالمصدر: جب زید کھانا کھاتا ہے تو اس کے بازو، ہاتھ و منہ وغیرہ حرکت کرتے ہیں جو ایسے امور ہیں جن کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ "کھانا کھانے" کا ایک معنی منہ و ہاتھ وغیرہ کی حرکت ہوتی ہے اور اس کا دوسرا معنی از خود "کھانا کھانے" کا تجریدی (abstract) تصور ہے۔ موخر الذکر کو "فعل بمعنی مصدر" کہتے ہیں اور اول الذکر کو "حاصل بالمصدر" (انگریزی زبان میں فعل بمعنی مصدر کو gerund کہتے ہیں جیسے to eat)۔ ہاتھ و منہ کی حرکت کو حاصل بالمصدر اس لئے کہتے ہیں کیونکہ یہ "کھانا کھانے" کے تجریدی تصور کے مظاہر ہیں اور اس کے تجریدی معنی سے حاصل ہوتے نیز اس پر دال ہیں۔ اگر کوئی مثلاً بھاگ رہا ہو تو اسے "کھانا کھانا" نہیں کہتے بلکہ "بھاگنا" (To run) کہتے ہیں جو ایک اور مصدری معنی یا تصور ہے۔
د) فعل بمعنی قلبی ارادہ: ہاتھ کی حرکت کا ہونا کبھی ارادہ و نیت سے ہوتا ہے اور کبھی اضطراری طور پر، مثلا جیسے رعشہ ذدہ انسان کے ہاتھ کا ہلنا۔ قلب میں کسی شے کا ارادہ مصمم قائم ہونا، یہ بھی فعل کی ایک جہت ہے جسے قلب کا فعل کہا جا سکتا ہے۔
ھ) داعیہ: یہ وہ جذبہ و خواہش (motivation or inclination) وغیرہ ہے جس کی بنا پر انسانی سطح پر دو امور میں سے کسی ایک جانب کا ارادہ قائم ہوتا ہے ، یعنی ان میں ترجیح قائم ہوتی ہے۔
و) افعال متولدۃ: کسی فعل کے ساتھ بعض امور سامنے آتے ہیں۔ مثلاً ہاتھ کی حرکت سے پتھر کو پھینکے پر پتھر کا لڑھکنا یا ہاتھ کی چوٹ لگانے سے جسم میں تکلیف ہونا وغیرہ۔ انہیں افعال متولدۃ (generated actions) کہتے ہیں۔
چنانچہ مسئلہ جبر و قدر میں سوال یہ ہے کہ (الف ) تا (و) میں خدا اور بندے کی قدرت و ارادے میں کیا نسبت ہے؟ انسانی افعال (theory of human action) سے متعلق کسی بھی نظرئیے کو ان سب امور کا لحاظ رکھتے ہوئے جواب دینا ہے۔ اس کے بالعموم تین جواب ہیں، ذیل میں ان کا تعارف کرایا جاتا ہے۔
معتزلہ و شیعہ امامیہ کا نظریہ
معتزلہ کی جماعت کا کہنا ہے کہ بندہ جس قدرت سے افعال سرانجام دیتا ہے وہ قدرت خدا کی طرف سے معین فعل کے حدوث سے قبل ہوتی ہے۔ یہاں قبلیت (priority) بااعتبار زمان نہیں بلکہ تقدم بااعتبار علیت یا تاثیر (causality) کی بات ہے، یعنی جو شے کسی پر مؤثر ہوتی ہے وہ اس سے ماقبل ہوتی ہے چاہے زمانی حوالہ ہو یا نہ ہو ۔ ان کے نظرئیے کی تفہیم کے لیے ہم اسے "بیٹری ماڈل" سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ جب ایک بیٹری میں ایک خاص مقدار کا کرنٹ بھر دیا گیا ہو تو آپ اسے ساتھ لئے گھوم سکتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر مثلاً کوئی بلب روشن کر سکتے ہیں اور چاہیں تو پنکھا۔ یہی معاملہ انسانی قدرت کا ہے جو اسے ایک صلاحیت کی طرح عطا کر دی گئی ہے اور بندہ اس کے ذریعے امور میں ترجیح قائم کرتا رہتا ہے۔ بندے کے ارادہ کرنے سے اس کی قدرت کے تحت جو افعال بمعنی حاصل بالمصدر سامنے آتے ہیں، مثلا ہاتھ پیر کی حرکت، وہ بھی بندے کی وجہ سے ہوتے ہیں اور خدا ان کا براہ راست خالق نہیں بلکہ بالواسطہ خالق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ معتزلہ بندے کو کلی طور پر مستقل مانتے تھے بلکہ خدا جب چاہے بندے سے افعال خلق کرنے کی قدرت سلب کر سکتا ہے۔ افعال متولدۃ میں معتزلہ کا اختلاف ہوا، ان کی ایک جماعت کی رائے میں ان کی نسبت بھی براہ راست بندے کی جانب ہوگی اور خدا کی جانب بالواسطہ جبکہ ایک جماعت کے مطابق اس کی نسبت براہ راست خدا کی جانب ہوگی، یعنی ان کے مطابق یہ افعال متولدۃ بندے کے فعل کی تاثیر کی وجہ سے ظاہر نہیں ہوتے بلکہ خدا انہیں ہمارے افعال کے ساتھ عادتاً اسی ترتیب سے پیدا کرتا ہے (یہ اختلاف مادی اشیاء میں ثانوی علل ماننے یا نہ ماننے پر متفرع ہے)۔ معتزلہ کا کہنا ہے کہ اگر بندے کی قدرت قبل از فعل نہ ہو اور اسے اپنے افعال کا خالق نہ کہا جائے (یعنی حدوث افعال کی نسبت براہ راست بندے کی جانب نہ کی جائے) تو شرعی تکلیف اور انسانی ذمہ داری کا تصور پورا نہیں ہوتا۔ اس کی ایک اور اہم وجہ کا تعلق معتزلہ کے تصور حسن و قبح کے ساتھ بھی ہے جس کے تحت وہ خدا کی بارگاہ میں "مسئلہ شر" (problem of evil) کو حل کرنا چاہتے تھے لیکن اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ جو قدرت اپنے اثر کی ایجاد و خلق پر مؤثر ہوتی ہے اس کا اثر سے مقدم ہونا لازم ہے اور چونکہ معتزلہ بندے کے لئے ایجاد افعال کے قائل تھے اس لئے ان کا کہنا تھا کہ قدرت قبل از فعل لازم ہے تاکہ وہ فعل کی ایجاد و عدم دونوں پر مؤثر ہو۔ چنانچہ اصطلاحی زبان میں ان کے نظرئیے کا خلاصہ یہ ہے:
الف) بندے کی قدرت قبل از فعل ہے
ب) ارادہ کرنا اور قلبی فعل بندے کی جانب سے ہے
ج) فعل بمعنی حاصل بالمصدر کی نسبت بندے کی جانب ہے
د) افعال متولدۃ کی نسبت پر ان کا اختلاف ہے
معتزلہ کی بحث میں ایک پیچیدگی داعیے کی بحث سے پیدا ہوتی ہے جو انسانی ارادے کی توجیہہ سے متعلق ہے۔ انسان دو امور میں سے کسی ایک جانب ترجیح جس وجہ سے قائم کرپاتا ہے اسے داعیہ یا غرض کہتے ہیں۔ تمام داعیات بالاخر جلب منفعت (pursuit of benefit or pleasure) و دفع مضرت (avoidance of pain) سے عبارت ہیں۔ یعنی انسان آخر کار اس شے کا ارادہ کرتا ہے جس میں لذت و سرور ہو یا زیادہ ہو اور یا جس میں اذیت و ضرر نہ ہو یا کم ہو۔ جونہی انسان کے پاس یہ علم آجائے کہ فلاں فعل ضرر رساں ہے تو وہ اس سے دور رہنے کا فیصلہ کرتا ہے اور جب یہ علم و یقین آجائے کہ فلاں چیز میں اس کا فائدہ ہے تو وہ اس کی جانب لپکتا ہے۔ ظاہر ہے یہ داعیہ بندے کا ارادی طور پر پیدا کردہ نہیں ہوتا، اگر ایسا کہا جائے تو اس سے دور (یعنی دلیل کا سرکلر ہونا) لازم آئے گا کیونکہ اس کا مطلب یہ کہنا ہے کہ ارادے کی علت داعیہ ہے اور داعیے کی علت ارادہ ہے! پس اس داعیے کا خالق بندہ نہیں ہوسکتا بلکہ اس کی علت اس سے خارج ہوگی اور چونکہ تسلسل علل محال ہے لہذا ماننا ہوگا کہ اس حادث داعیے کی علت یا محدث ذات باری کا ارادہ ہے۔ لہذا سوال پیدا ہوا کہ کیا داعیے کے آجانے کے بعد ارادہ یعنی ترجیح قائم ہو جانا لازم ہے یا نہیں نیز اگر داعیے کی علت انسانی ارادے سے خارج ہے تو جبر سے کیسے بچا جائے؟ چنانچہ معتزلہ میں سے بعض نے کہا کہ داعیے کے آنے کے بعد بھی ارادہ قائم ہونا لازم نہیں بلکہ انسان کے پاس ترجیح قائم کرنے کا پھر بھی اختیار رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس جواب کے بعد داعیے اور ارادے کا باہمی تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور حادث ارادے کی توجیہہ نہیں ہوپاتی، اس سے چند دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں جن پر آگے بات کی جائے گی۔ بعض نے مان لیا کہ داعیے کے بعد ارادے کا قائم ہونا لازم ہے، البتہ اس کے بعد معاملہ جبر کی جانب جانکلتا ہے جس سے معتزلہ بچنا چاہتے تھے۔
امامیہ شیعہ حضرات کا موقف اس مسئلے میں وہی ہے جو معتزلہ کا موقف ہے۔ اس مسئلے پر ان کے ائمہ یہی موقف لکھتے ہیں کہ بندے کی قدرت محدثہ قبل از فعل ہوتی ہے نیز بندہ اپنی اس قدرت سے امور کے مابین ترجیح قائم کرتا ہے نیز وہ اپنے افعال (بمعنی حاصل بالمصدر) کا خالق بھی ہے لیکن یہ سب خدا کی قدرت کے ماتحت ہی ہوتا ہے، اسی طرح وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ خدا ازل سے بندے کے افعال کو جاننے والا ہے جس سے جبر لازم نہیں آتا۔ اس مذہب کو وہ ائمہ اہل بیت سے منسوب "امر بین الامرین" کہتے ہیں۔ اس مسئلے میں ان کی کتب میں درج دلائل بھی وہی ہیں جو معتزلہ کے دلائل تھے کہ مثلاً اگر خدا کو بندے کے افعال کا خالق کہا جائے تو بندے کے برے افعال خلق کرنے کی بنا پر خدا کا شریر ہونا لازم آئے گا۔
ماتریدیہ کا نظریہ
معتزلہ کے نظرئیے سے یہ لازم آتا ہے کہ عدم سے وجود دینا یا خلق کرنا صرف خدا کا فعل نہیں بلکہ بندے بھی اپنے افعال کے خالق ہوتے ہیں۔ اس بنا پر معتزلہ کا ماڈل خلق مستمر کی مکمل تصویر کشی نہیں کرتا کیونکہ یہاں انسانی قدرت بیٹری کی صلاحیت کی طرح بندے میں گویا انسٹال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس ماتریدیہ کے نظرئیے میں انسان جس قدرت سے فعل سر انجام دیتا ہے (جسے "قدرت محدثہ" کہتے ہیں) وہ قدرت لمحہ بہ لمحہ ہر لمحے (spontaneously or instantaneously) بندے میں از سر نو فعل کے ساتھ خلق کی جاتی ہے۔ جیسا کہ آگے واضح ہوگا کہ یہ قدرت دراصل دو طرح کی ہوتی ہے، ایک وہ جو حدوث فعل سے قبل (اور کم از کم ایک فعل پر مؤثر) ہوتی ہے اور دوسری وہ جو فعل کے ساتھ ہوتی ہے جس سے فعل کسب ہوتاہے۔ اصطلاحی زبان میں اس دوسری قدرت کو "قدرت مع الفعل" کہتے ہیں۔ ماتریدیہ کے نزدیک بندے کی قدرت کی دو خصوصیات ہیں:
1) یہ ایک معین فعل سے متعلق ہوتی ہے جسے کسی دوسرے فعل میں صرف نہیں کیا جا سکتا، یعنی جو قدرت کھانا کھانے کے لئے عطا کی جاتی ہے وہ مثلاً پانی پینے یا دوڑنے میں صرف نہیں ہو سکتی اس لئے کہ کسی خاص لمحے میں ادا کئے جا سکنے والے معین فعل کے لئے اس کے ساتھ ہی ایک معین قدرت حادث ہوتی ہے،
2) یہ قدرت کسی معین فعل کی دو اضداد (opposite nodes) سے متعلق ہوتی ہے، یعنی "کرو یا نہ کرو"۔ مثلاً کسی خاص لمحے میں عطا کردہ قدرت "کھانا کھانے یا نہ کھانے" دونوں سے متعلق ہوتی ہے۔ بندہ اس قدرت سے کسی ایک جانب ترجیح قائم کرتا یا اس کا ارادہ کرتا ہے (مثلا "میں کھانا کھاؤں")۔
چونکہ ذات باری نے بندوں کو آزمائش میں ڈالا ہے، لہذا بندے کا ارادہ کرتے ہی اللہ بھی اس کے ارادے کی موافقت کرتا ہے اور نتیجتاً بندے کے ارادہ کرنے کے بعد جو افعال صادر ہوتے ہیں (جنہیں حاصل بالمصدر کہا گیا جیسے ہاتھ و منہ کی حرکت)، وہ افعال خدا اس کے ارادے (یعنی ترجیح قائم کرنے) کے ساتھ خلق کر دیتا ہے جس سے بندے کا ارادہ پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے۔ یوں ماتریدیہ کے ہاں افعال عباد (بمعنی حاصل بالمصدر) کے ایجاد کی براہ راست نسبت خدا کی جانب رہتی ہے۔ تاہم ان افعال کے ساتھ ہی خدا بندے میں ایک ایسی قدرت پیدا کرتا ہے جن سے وہ افعال کا کسب کرنے والا (acquirer) کہلاتا ہے* جس کا مفہوم یہ ہے کہ کیونکہ اس نے قدرت سے اس شے کا ارادہ کیا تھا (یعنی اسے ترجیح دی تھی)، اس لئے خدا نے متعلقہ افعال پیدا کئے جنہیں بندے نے پا لیا۔ یوں اس بندے پر ان افعال کی ذمہ داری عائد ہو گئی اور یہی اس کے مختار ہونے کا مفہوم ہے کہ وہ اپنے ارادے کی بنا پر ان افعال کے وجود کا سبب بنا ہے۔ بندہ خدا کی جانب سے ان افعال کی ایجاد کا محل (locus) ہے مگر یہ افعال اس کے ارادے سے اس محل میں پیدا کئے جاتے ہیں، اس بنا پر بندہ ان افعال کو حاصل کرنے والا یعنی ان کا کاسب (acquiring agent) کہلاتا ہے جبکہ خدا ان افعال کا موجد (creating agent)۔ جس قدرت محدثہ سے بندہ یہ افعال کسب کرتا ہے چونکہ وہ فعل کی ایجاد نہیں بلکہ ایجاد شدہ افعال کے حصول یا کسب سے متعلق ہوتی ہے، اس لئے یہ قدرت ان افعال کے ساتھ (concurrent) ہوتی ہے نہ کہ ان سے قبل یا ان کا باعث (cause)۔ ماتریدیہ کے نزدیک افعال متولدۃ بھی خدا کی جانب سے براہ راست خلق کئے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق بندے کی ذمہ داری ثابت ہونے کے لئے بندے کی جانب سے کسی فعل کا ارادہ کر لینے کی بات متحقق ہونا کافی ہے، اس کے لئے اسے افعال کا خالق ماننا بھی لازم نہیں کیونکہ اس کے ارادے کے بعد خدا کی جانب سے اس کے ارادے کے موافق افعال پیدا کرنے کی ذمہ داری بندے پر عائد ہو جاتی ہے۔ یوں معتزلہ کے ماڈل کے مقابلے میں ماتریدیہ کے ہاں بندے کے استقلال کا دائرہ سکڑ کر ایسی قلبی حرکت (یعنی ارادہ کرنے) تک محدود ہو جاتا ہے جس کے لئے ماقبل میسر قدرت بھی خدا کی جانب سے ہر لمحہ عطا ہوتی ہے نیز اس کی مابعد اثر پذیری بھی خدا کی موافقت کی محتاج رہتی ہے۔ ان امور کی بنا پر ماتریدیہ اس مسئلے میں یہ اصول قائم کرتے ہیں:
الف) قدرت مع الفعل ہوتی ہے
ب) بندے کے افعال (یعنی حاصل بالمصدر) کا خالق خدا ہے
ج) افعال متوالدۃ کا خالق خدا ہے
د) داعیات کا خالق خدا ہے
ھ) بندے کے ارادے کی نسبت بندے کی جانب ہے
و) بندہ افعال کسب کرنے والا ہے
ماتریدیہ کے نظرئیے میں اصل مشکل سوال اس قلبی حرکت کی نوعیت سے متعلق ہے۔ کیا یہ قلبی حرکت بذات خود ایک فعل ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اس کی بنا پر بندے کی ذمہ داری کا کیا مطلب ہوا؟ اور اگر یہ فعل ہے، تو ماننا ہوگا کہ کم از کم ایک فعل ایسا ہے، یعنی ارادہ محدثہ، جس کا خالق بندہ ہے۔ باالفاظ دیگر حادث بندے کے حادث ارادے کی علت گویا بندہ خود ہوتا ہے نہ کہ ذات باری کا ارادہ، اس لئے کہ ذات باری کا ارادہ یہاں بندے کے ارادے کی موافقت کرنے کا کردار ادا کرتا ہے نہ کہ اسے متعین کرنے کا۔ "کھانا کھانے یا نہ کھانے" میں ترجیح کا قیام بہرحال بندے کی جانب سے ہے۔
اس مشکل کا ایک حل علامہ صدر الشریعۃ محبوبی (م747ھ) نے یہ کہہ کر کرنے کی کوشش کی کہ فعل بمعنی مصدر کی نسبت بندے کی جانب ہوتی ہے جبکہ فعل بمعنی حاصل بالمصدر کی نسبت رب کی جانب۔ یعنی کھانا کھانے کے فعل میں ہاتھ پیر منہ وغیرہ کی حرکت کی نسبت تو رب کی جانب ہے کہ وہ ان کا خالق ہے لیکن کھانا کھانے کے مصدری معنی کی نسبت بندے کی جانب ہوتی ہے۔ علامہ صدر الشریعۃ بندے کو افعال کا خالق قرار دینے سے بچنے کے لئے کہتے ہیں کہ اعیان میں یا خارجی وجود حاصل بالمصدر کا ہوتا ہے، رہا فعل بمعنی مصدر تو اس کا کوئی خارجی وجود نہیں۔ یوں اس سے ثابت ہوا کہ جو شے خارج میں حادث ہو کر موجود ہوتی ہے (یعنی حاصل بالمصدر) اس کا خالق خدا ہی رہا، اور جس شے کی نسبت بندے کی جانب ہوئی (یعنی معنی مصدری) اس کا کوئی خارجی وجود نہیں لہذا بندے کی جانب کسی حادث کو خلق کرنے کی نسبت ثابت نہ ہوئی۔ تاہم یہ حل تکلف سے خالی نہیں کیونکہ حاصل بالمصدر کا حصول مصدری معنی ہی سے متحقق ہوتا ہے نیز حاصل بالمصدر کے بدون مصدری معنی کا تحقق بامعنی بات نہیں۔ اگر حاصل بالمصدر رب کی جانب سے ہے تو مصدر معنی کی نسبت بندے کی جانب ہونے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی جب ہاتھ بازو منہ وغیرہ کی حرکت کی نسبت خدا کی جانب ہے تو کھانا کھانے کی نسبت بندے کی جانب ہونے کا کیا مطلب بنا؟ ایسی بات یہ کہنے کے مترادف ہے کہ مصدر حاصل بالمصدر کے بغیر بھی متحقق ہو جاتا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ علامہ صدر الشریعۃ کے نظرئیے کی رو سے ماننا ہوگا کہ جس چیز کی نسبت بندے کی جانب ہے (یعنی فعل کا مصدری معنی)، وہ نہ موجود ہے اور نہ معدوم بلکہ اس کی حیثیت ان دونوں کے مابین ایک واسطے (لاموجود و لا معدوم) کی ہے۔ اگر اسے معدوم کہا جائے تو معدوم کی بنا پر بندے کی تکلیف متحقق ہونے کا کوئی مطلب نہیں جبکہ اس کے موجود ہونے کی صدر الشریعۃ خود ہی نفی کرتے ہیں۔ اگر علامہ صدر الشریعۃ قلبی حرکت ہی کو فعل بمعنی مصدر قرار دیتے ہیں تو اس کے بعد سوال باقی رہا کہ کیا یہ قلبی حرکت فعل ہے یا نہیں؟
اس سوال کا دوسرا حل یہ مان لینا ہے کہ بندہ کم از کم ایک فعل کا خالق ہے، یعنی ارادہ کرنے کا قلبی فعل۔ ماتریدیہ میں یہ نتیجہ علامہ ابن الہمام (م861ھ) نے قبول کیا ہے اور اس لئے وہ خلق افعال عباد کے اصول میں اس ایک فعل کی تخصیص کرتے ہیں۔ اس تخصیص کے بعد ماتریدیہ کا نظریہ خلق افعال عباد کے معاملے میں معتزلہ کے نظرئیے سے کچھ قریب آجاتا ہے کیونکہ یہ اصول بہرحال مان لیا گیا کہ بندہ بھی کسی درجے میں خالق و محدث ہے، باالفاظ دیگر کوئی ایک ایسی قدرت محدثہ ہے جو قبل از فعل ہے۔ اگر بیٹری والی مثال کو یہاں منطبق کیا جائے تو معاملہ گویا یوں ہے کہ ایک بڑے چارج والی بیٹری کے بجائے بندے کے پاس چھوٹی سی بیٹری میسر ہے جس سے ایک فعل وہ از خود سر انجام دے سکتا ہے، ہاں ہر نئے فعل کے لئے اس بیٹری کا پھر سے چارج ہونا (یا نئی بیٹری آنا) لازم ہے۔ علامہ ابن الہمام اس تجزئیے میں اس تخصیص کی بات کرتے ہوئے ساتھ کہتے ہیں کہ اس قدرت محدثہ سے نیکی کا عزم یا ترجیح عام طور پر اللہ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں ہوتی جبکہ شر کی ترجیح خود بندے کی اپنی جانب سے ہوتی ہے۔ بندے کو نیکی کی توفیق دینا اللہ پر واجب نہیں اور نہ ہی خذلان سے بچانا اس پر واجب ہے، اس لئے اس قدرت محدثہ کو استعمال کر کے شر کا ارادہ کرنا بندے کو ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ تاہم علامہ ابن الہمام کے اس تجزئیے سے بہرحال یہ لازم آتا ہے کہ کم از کم ایک قدرت قبل از فعل ہوتی ہے جس سے بندہ شر کی ترجیح خود قائم کرتا ہے اور وہ اس کے قائل ہیں۔ یعنی ایک قدرت وہ ہے جس سے بندہ ترجیح قائم کرتا ہے جو قبل از فعل ہے، جبکہ دوسری قدرت وہ ہے جس سے بندہ اس ترجیح کے موافق اللہ کے ایجاد کردہ افعال کا کسب کرتا ہے اور یہ قدرت فعل کے ساتھ ہے۔ پہلی قدرت مؤثر (active) ٹھہرتی ہے اور دوسری انفعالی (passive) ۔اس قبل از فعل قدرت کو ماتریدیہ اصطلاحی زبان میں "سلامتی آلات و اسباب" سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کی عادت ہے کہ وہ متعلقہ قدرت خاص اعضاء ہی میں پیدا کرتے ہیں، مثلاً دیکھنے کی قدرت آنکھ میں چکھنے کی زبان میں۔ اگرچہ ہم اس قدرت کا مشاہدہ نہیں کر سکتے جس سے بندہ ترجیح قائم کرتا ہے، تاہم عالم مشاہدہ میں ان اعضا کی سلامتی کو اس قدرت کا مظنۃ یا علامت (indicator) مانتے ہوئے کہا جائے گا کہ جس شخص کے یہ اعضاء سلامت ہوتے ہیں جن سے خاص افعال صادر ہورہے ہیں، اسے خدا نے وہ قدرت عطا کر دی تھی جس سے بندے نے ترجیح قائم کی اور نتیجتاً ان اعضاء سے متعلقہ افعال صادر ہوئے جن کا کسب کر کے وہ ذمہ دار ہے۔ اس بنا پر ماتریدیہ کہتے ہیں کہ سلامتی اسباب و اعضاء تکلیف کی شرط ہے۔ یاد رہے کہ ماتریدیہ عام طور پر اس نتیجے کو قبول نہیں کرتے کہ خلق افعال عباد کے اصول سے بندے کے اس ایک فعل کو فعل کہہ کر اس کی تخصیص ہو گی۔ تاہم بندے کی جانب خلق افعال عباد کی نفی کرتے ہوئے وہ بندے کی ذمہ داری ثابت کرنے کے لئے ارادہ محدثہ کی نسبت بہرحال بندے ہی کی جانب کرتے ہیں جو اپنی اثر پذیری (actualization) میں رب کی موافقت کا محتاج ہوتا ہے۔ علامہ ابن الہمام کی بات کی ایک توجیہہ یہ کی جا سکتی ہے کہ قلبی فعل کو "لاموجود و لا معدوم" کی قبیل میں رکھا جائے۔
اشاعرہ کا نظریہ
دلیل حدوث پر مبنی نظریہ خلق مستمر انسانی اعمال کی ڈومین میں اپنے تمام مضمرات کے ساتھ اشاعرہ کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ماتریدیہ کی طرح اشاعرہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جس قدرت سے بندہ فعل کسب کرتا ہے وہ ہر لمحے بندے میں از سر نو خلق کی جاتی ہے، بندے کے افعال بھی ذات باری کی مخلوق ہیں اور اسی طرح افعال متولدۃ۔ ان اعتبارات سے اشاعرہ کا نظریہ ماتریدیہ جیسا ہے اور یہ دونوں گروہ معتزلہ کے مقابلے میں بندے کے ارادے و فعل کی اثر پذیری (efficacy) کو ہر لمحے ذات باری کے اختیار کا پابند رکھتے ہیں۔ البتہ اشاعرہ کا نظریہ ایک اہم جہت سے ماتریدیہ سے مختلف ہے۔
اشاعرہ کا کہنا ہے کہ ہر لمحے عطا ہونے والی قدرت محدثہ نہ صرف یہ کہ ایک معین فعل ہی کے لئے ہوتی ہے (نہ کہ متبادل افعال کے لئے بھی، یعنی کھانا کھانے کی قدرت کھانے ہی کے لئے استعمال ہو سکتی ہے نہ کہ پانی پینے کے لئے) بلکہ وہ یک جہتی (single nodded) بھی ہوتی ہے۔ مثلاً کھانا کھانے کی قدرت دو اضداد (categorical opposites) کی جانب اوپن اینڈڈ نہیں ہوتی بلکہ صرف کھانے کے لئے ہوتی ہے۔ اس پر امام اشعری (م324ھ) کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے:
- قدرت محدثہ فی الفور (instantaneously) فعل کے ساتھ خلق ہوتی ہے
- یہاں دو امکان ہیں: یہ قدرت دو اطراف کے ساتھ یا تساوی کی نسبت رکھے گی اور یا کسی ایک جانب ترجیح کی
- اگر یہ دونوں کے ساتھ عدم ترجیح یا تساوی کی ایسی نسبت رکھے ہو کہ کسی بھی ایک جانب کو بطریق بدل کیا جا سکے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ قدرت بدون مقدور (without object of power) موجود ہے۔ ایسا اس لئے کہ جو قدرت مقدور کے دو جوانب بطریق تساوی متوجہ ہو گی وہ ان دونوں مقدورات میں سے ہر ایک کے وجود سے مقدم ہوگی اور نتیجتاً قدرت و مقدور میں گیپ ہوگا (یعنی جب قدرت ہوگی تو مقدور نہ ہوگا)۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب مقدور ہوگا تب قدرت نہ ہوگی اس لئے کہ حادث قدرت ہر لمحے زائل ہو جاتی ہے اور یوں وہ قدرت متعلقہ اثر کو توجیہہ نہیں بن سکتی۔ اس کا حل یا یہ ماننا ہے کہ دو امور کے مابین ترجیح بلا مرجح قائم ہو گئی جس کا باطل ہونا واضح ہے اور یا پھر یہ کہا جائے کہ قدرت کے ساتھ ایک اور شے مل کر ترجیح قائم کرنے کا باعث ہے لیکن پھر یہی سوال اس اضافی شے پر قائم ہوگا (کہ اس اضافی شے کی علت کیا ہے وغیرہ) اور یوں یہ سلسلہ لامتناہی چلے گا۔
- اگر یہ قدرت کسی ایک جانب بطریق ترجیح قائم ہو تو یہ تب ممکن ہے جب قدرت و مقدور ایک ساتھ ہوں۔ اس صورت میں تین امکان ہیں: (الف) یہ قدرت دونوں اضدد کے ساتھ ایک ساتھ پائی جارہی ہے جبکہ یہ محال ہے، (ب) یا ایک جانب دوسری کے بعد ظاہر ہو مگر یہ بھی محال ہے کیونکہ قدرت محدثہ پہلی جانب سے متعلق ہونے کے بعد زائل ہوجاتی ہے، (ج) یا یہ کہا جائے کہ یہ قدرت کسی ایک ہی جانب کے لئے عطا کی جاتی ہے، امام اشعری اسی کو اختیار کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر قدرت محدثہ نہ دو متبادل افعال کی ادائیگی کے لئے ہوتی ہے اور نہ ہی دو اضداد کے لئے، بلکہ یہ صرف یک جہتی ہوتی ہے۔ پس امام اشعری کے ہاں قدرت حادثہ کی کسی فعل کے حدوث یا اس کا سبب بننے میں تاثیر نہیں بلکہ وہ صرف اس کے ساتھ ہوتی ہے اور فعل کے حدوث سے قبل اس قدرت کا فعل سے تعلق نہیں۔
یہ بات اوپر گزری کہ ماتریدیہ کے ہاں بندہ خالق افعال نہیں بلکہ ان کا "کاسب" کہلاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بندے نے جس فعل کا ارادہ کیا وہ اس ارادے کے موافق افعال (اور ان پر مرتب ہونے والے ثواب و گناہ) کا کسب کرتا ہے۔ لیکن اشعری نکتہ نگاہ سے کسب کا مطلب بندے کا خدا کی جانب سے قدرت اور افعال پیدا کئے جانے کا بس محل (locus) بن جانا ہے، اس لئے کہ ان کے ہاں نہ حادث قدرت دو جانب معلق ہوتی ہے اور نہ بندہ دو میں سے ایک جانب ترجیح قائم کرتا ہے۔ یوں بندہ ذات باری کے افعال کے لئے ایک محل قرار پاتا ہے۔ اگر بیٹری والی مثال کو یہاں لاگو کیا جائے تو بات یوں ہے کہ انسان کے پاس نہ معتزلہ کے نظرئیے والی زیادہ چارج کی بڑی و مستقل نما بیٹری ہے اور نہ ہی ماتریدیہ کے نظرئیے میں پیوست مسلسل چارج ہوتے رہنے والی چھوٹی بیٹری جس کے کرنٹ کو بندہ امور میں ترجیح قائم کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے بلکہ یہاں معاملہ گویا یوں ہے کہ بندہ ایک ایسی تار کی مانند ہے جس سے مسلسل کرنٹ کے نئے (یا حادث) یونٹس گزر رہے ہیں (یعنی وہ کرنٹ کی ایسی گزرگاہ ہے جس میں کسی بھی لمحے کرنٹ اس طرح محفوظ نہیں ہوتا کہ وہ اسے متبادل طریقے سے استعمال کر سکے)۔ بندے میں ایک خاص لمحے میں حادث ہونے والی قدرت کا خالق بھی خدا ہے، اور وہی خدا عادتاً اس کے ساتھ بندے میں اس قدرت حادثہ کے احساس کے موافق افعال (بمعنی حاصل بالمصدر) اور متعلقہ افعال متولدۃ پیدا کرتا ہے۔ یوں یہ معاملہ پوری طرح خدا کے ارادہ و اختیار کی گرفت میں آجاتا ہے۔ اشاعرہ کے نزدیک بندے کا قدرت حادثہ اور حدوث افعال کا محل بن جانا اس کی ذمہ داری ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ اس سے بندے میں یہ احساس قائم ہو جاتا ہے کہ "یہ فعل میں کر رہا ہوں"۔ گویا ماتریدیہ کے برخلاف اشاعرہ کے نزدیک انسان کی ذمہ داری کی بنیاد اس تصور و احساس سے بھی کم ہے جس کی طرف ماتریدیہ معتزلہ کے جواب میں گئے۔
اشاعرہ کے نظرئیے پر اصل مشکل سوال یہ قائم ہوتا ہے کہ یہاں انسانی اختیار اور کسب کس جہت سے بامعنی (یعنی اس کی تکلیف کا باعث) ہوا جبکہ بندہ ترجیح قائم کرنے والا بھی نہیں؟ اس سوال کو ائمہ اشاعرہ نے مختلف انداز سے حل کرنے کی کوشش کی۔ مثلاً اس معاملے میں امام جوینی (م478ھ) کا نظریہ یہ ہے کہ بندے کی قدرت کسی معنی میں افعال عباد پر مؤثر ہے، البتہ اشاعرہ ان کی بات قبول نہیں کرتے۔ قاضی باقلانی (م403ھ) کہتے ہیں کہ فعل کی تخلیق و ایجاد پر تو بندہ قادر نہیں ہوتا تاہم فعل کے ساتھ طاعت و معصیت کے اوصاف کی نسبت بندے کی جانب ہوتی ہے۔ یعنی مثلاً ہاتھ کی حرکت کبھی طاعت کہلاتی ہے اور کبھی نافرمانی حالانکہ یہ دونوں معاملے حرکت ہونے میں یکساں ہیں۔ تو ان میں جو مشترک ہے، یعنی حرکت ہونا، اس کی موجد ذات باری ہے لیکن اس فعل سے متعلق طاعت و معصیت کے یہ اوصاف بندے کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔ گویا کسی خاص فعل کا حرکت ہونا خدا کی جانب سے ہے جبکہ اس کا مثلاً بدکاری ہونا یہ بندے کی طرف سے ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ بندے کی جانب اس وصف کی نسبت کا معنی کیا ہے؟ یعنی کیا اس کی بنیاد یہ ہے کہ بندے نے اس کا ارادہ کیا تھا یا یہ ہے کہ بندہ بس اس کا محل بنا ہے؟ بہرحال اشاعرہ نے اس توجیہہ کو بھی نہیں لیا۔ استاد ابو اسحاق اسفرائینی (م418ھ) نے کہا کہ بندے کے افعال دو قدرتوں کے مجموعے کا نتیجہ ہیں، ایک قدرت ذات باری کی اور دوسری بندے کی حادث قدرت (اسے "مجموع القدرتین" کا نظریہ کہتے ہیں)۔ یعنی بندے کی قدرت از خود غیر مؤثر نہیں لیکن خدا کی قدرت کی اعانت کے ساتھ وہ مؤثر ہو جاتی ہے۔ اس نظرئیے کے مطابق بندے کے افعال کی نسبت ان دونوں قدرتوں کی جانب کیا جانا درست ہے، البتہ یہ بھی محل نظر تعبیر ہے (ان کے دلائل امام رازی (م606ھ) و علامہ آمدی (م631ھ) کی کتب میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں، یہاں تفصیل کا موقع نہیں)۔ امام غزالی (م505ھ) بھی کسی حد تک اس رائے کی جانب رجحان رکھتے دکھائی دیتے ہیں، تاہم ایک طرف وہ بندے کی قدرت کو "نہ ہونے جیسا" کہتے ہوئے دوسری طرف تجزئیے میں داعیے کی بالادستی کا عنصر بھی شامل کرتے ہیں، یعنی دو جانب بطریق تساوی معلق حادث قدرت کا کسی ایک جانب رجحان داعیے کا رہین منت ہوتا ہے جو خدا کی مخلوق یا فعل ہوتا ہے اور جس کے پیدا ہونے کے ساتھ ایک جانب رجحان قائم ہو جاتا ہے۔ داعیے کے عمل دخل کی بنا پر امام غزالی کہتے ہیں کہ انسانی اختیار دراصل ایک خاص قسم کے ارادے کا نام ہے جہاں داعیے کی وجہ سے علم آجانے کے بعد امور میں ترجیح قائم ہو جاتی ہے۔ باالفاظ دیگر انسانی اختیار علم و قدرت کے خاص تعلق کا نام ہے اور اس معنی میں انسان "اختیار پر مجبور" ہے، یہاں جبر یہ ہے کہ انسان کے ارادے سے خارج ایک فاعل نے اسے حدوث افعال کے لئے محل بنایا ہے اور اس کا اختیار یا کسب یہ ہے کہ وہ ان افعال کا محل ہے جس کا اسے شعور ہے۔ امام رازی کے ہاں یہی بات مزید صراحت سے ملتی ہے کہ قدرت حادثہ کے کسی ایک جانب رجحان کی علت داعیہ ہے اور داعیے کی علت ارادہ باری تعالی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام اشعری کے ہاں جو معاملہ ابتدا ہی سے "یک جہتی قدرت" کی صورت عطا کا تھا کہ ان کے نظرئیے میں داعئے کا عمل دخل نہیں، امام غزالی و رازی کی توجیہہ میں قدرت ابتداءً دو اضداد سے متعلق ہوتی ہے لیکن پھر داعیہ آکر اسے ایک طرف یعنی ارادے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ اس توجیہہ کے بعد انسانی اختیار کی حقیقت ایک بلیک بکس (black box) نما شے بن کے رہ جاتی ہے۔ اس مسئلے پر اشاعرہ کے اصول کا خلاصہ یوں ہیں:
الف) قدرت مع الفعل ہوتی ہے
ب) بندے کے افعال کا خالق خدا ہے
ج) افعال متوالدۃ کا خالق خدا ہے
د) داعیات کا خالق خدا ہے
ھ) ترجیح متعین کرنے والا خدا ہے
و) بندہ افعال کسب کرنے والا ہے
اشاعرہ پر جبریت پسندی کا الزام
اشاعرہ کے ٹھیٹ معتزلی و ماتریدی مخالفین انہیں جبریہ جیسا عقیدہ رکھنے کا الزام دیتے ہیں کہ اس کے بعد انسانی فعل گویا کسی پتھر کے لڑھکنے یا اضطراری فعل سے مختلف نہ رہا۔ اس الزام کا جواب متاخرین اشاعرہ چند طرح دیتے ہیں جس کا خلاصہ یوں ہے:
1) یہ دکھانا کہ مخالفین دلیل حدوث کا لحاظ نہ کر کے داخلی غیر ہم آہنگی کا شکار ہیں اس لئے کہ مخالفین کے نظرئیے کی رو سے ذات باری کے اثبات کی یہ دلیل ٹوٹ جاتی ہے۔ اشاعرہ کے مطابق معتزلہ کی جانب سے "خلق افعال عباد" کو بندے کی جانب منسوب کرنا ہو یا ماتریدیہ کی جانب سے "ارادہ محدثہ" کو بندے کا فعل کہنا، ہر ایک صورت میں دلیل حدوث کا یہ پہلا مقدمہ جاتا رہتا ہے کہ ہر حادث کے لئے محدث ہے کیونکہ ان کے نظرئیے سے یہ ماننا لازم آتا ہے کہ بعض حوادث کی کوئی علت نہیں۔ ایسا اس لئے کہ بندے کا ارادہ از خود حادث ہے۔ تو یہاں معاملہ یوں ہے کہ جو بندے کی جو حادث قدرت فعل و ترک فعل دونوں جانب مساوی ہو وہ کسی ایک جانب رجحان کے لئے یا کسی علت کی محتاج ہوگی اور یا نہیں ہوگی۔ اگر محتاج نہ ہو تو مطلب یہ ہوا کہ بعض حوادث بدون محدث ہو رہے ہیں۔ اور اگر علت کی محتاج ہو تو وہ علت یا بندہ ہوگا یا اس کا غیر۔ اگر وہ علت بندے کا کوئی فعل ہو تو وہ حادث ہوگا اور یوں پہلی صورت لوٹ آئی کہ اس کی بھی علت ہوگی۔ اشاعرہ کے مطابق دلیل حدوث اور اس پر مبنی عموم قدرت کے اصول کے تقاضوں کی دو ٹوک تصدیق کرنا بندے کی ذمہ داری ثابت کرنے کے لئے اختیار کردہ ایسے پیرایوں کی تصدیق سے زیادہ اہم دینی مقدمہ ہے۔ اسی طرح خلق مستمر کے نظرئیے میں اشاعرہ یہ بھی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ حادث قدرت کا مقدور سے قبل ہونا محال ہے جس کے دلائل کتب کلام میں ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں۔
2) یہ دکھانا کہ مخالفین کے نظرئیے سے بھی جبر کا انکار نہیں ہو پاتا۔ مثلاً قدیم علم باری (کہ ذات باری ازل سے سب جانتی ہے) کی جہت سے بھی بندے پر جبر لازم آتا ہے۔ اس کا جواب عام طور پر یہ دیا جاتا ہے کہ علم ہونے سے جبر لازم نہیں آتا کیونکہ علم معلوم کے تابع ہوتا ہے، تاہم بندے کا اختیار ثابت کرنے والوں کا یہ جواب محل نظر ہے۔ نیز حادث ارادے کی علت دراصل داعیہ ہوتا ہے اور داعیے کے پیدا ہوتے ہی ارادہ قائم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ قدرت حادثہ کسی ایک جانب یا تو کسی اصول یا داعیے کی وجہ سے راجح ہوگی اور یا بدون داعیہ۔ اگر قدرت و داعیہ مل جانے کے بعد ترجیح قائم ہونا لازم ہو تو اس سے جبر لازم آیا اس لئے کہ ترجیح کے قیام کا اصول خود ارادے سے ماقبل و خارج ہے، اور اگر قدرت و داعیے کے ملاپ کے باوجود بھی ایک جانب ترجیح قائم نہ ہو بلکہ کبھی اس کے بعد فعل ہو اور کبھی نہ ہو تو مطلب یہ ہوا کہ یہ ترجیح بدون کسی اصول و داعیہ یونہی اتفاقی یا حادثاتی طور پر الل ٹپ (randomly) کسی جانب ہو جاتی ہے اور اس سے بھی جبر لازم آیا کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بندے کے پاس ترجیحات کے قیام کا اختیاری کنٹرول نہیں۔ الغرض ہر دو صورت میں جبر لازم آیا۔
3) بندے کو افعال کا خالق ماننے کی بنا پر اشاعرہ اپنے مخالفین کو قدریہ جیسا عقیدہ رکھنے کا الزام دیتے ہیں۔ اگر قائلین اختیار کا یہ کہنا ہے کہ بندے کی قائم کردہ حادث ترجیح کی علت بایں معنی بندہ خود ہے کہ بندے میں ایسی صلاحیت ہے کہ وہ خود ترجیح قائم کر لیتا ہے تو یہ بندے کو قیام ترجیح کے معاملے میں مستقل مانتے ہوئے محدث کہنا ہے جو عموم قدرت کے اس اصول کے خلاف ہے کہ ذات باری کے سوا کوئی محدث نہیں۔ لہذا انسانی قدرت کی ایسی تعبیر کرنا درست نہیں جو اس قطعی اصول کے خلاف ہو۔ بندے کا حقیقی یا جنیون اختیار ماننے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ خدا بندے کے حادث ارادے کا علم نہیں رکھتا یہاں تک کہ بندہ وہ ارادہ کرے (یعنی بندہ دو امور کے مابین ترجیح قائم کرے)، اس لئے کہ وہ ارادہ خدا کی مخلوق نہیں ہوتا بلکہ بندے کی مخلوق ہوتا ہے، اور بندہ کسی لمحے کیا ارادہ کرے گا یہ بندہ ایک خاص حادث لمحے پر طے کرتا ہے اور اس خاص لمحے پر خدا کا ارادہ بندے پر مؤثر نہیں ہوتا، لہذا بندہ اس خاص لمحے پر کیا کرے گا اسے جاننے کی بنیاد موجود نہیں (اس پر اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ خدا بندے کے ارادے کی تعیین کے اصول و داعیات کو جانتا ہے اس لئے وہ بندے کے ارادے کو ازل سے جانتا ہے تو اس سے اختیار کی نفی ہو گئی کہ ارادے کی تعیین ارادے سے خارج ہو گئی)۔ ابتدائی صدیوں میں قدریہ گروہ والوں میں سے بعض کا یہی کہنا تھا کہ خدا کا علم بندے کے ارادے پر موقوف ہوتا ہے۔ بندے کے حقیقی اختیار کو مانتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنا آسان نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ کے مطابق بندے کے حقیقی اختیار کو ثابت کرنے والے نظریات خدا کے اختیار کو گویا بیک فوٹ پر کھڑا کرنے یا پھر اسے بندے کے ارادے کے تابع کرنے پر صاد ہیں۔
4) یہ دکھانا کہ یک جہتی قدرت سے صادر ہونے والے افعال کو نہ تو جمادات جیسی عدم قدرت پر محمول کرنا درست ہے (مثلاً ایسے انسانی فعل کو کسی پتھر کے لڑھکنے پر محمول نہیں کیا جا سکتا) اور نہ ہی ایسے اضطرار پر جہاں فاعل چاہے یا نہ چاہے اس سے فعل صادر ہوتا ہے، اس لئے کہ یہاں یک جہتی ہی سہی لیکن وجودی معنی میں بندے کی قدرت پائی جاتی ہے۔ اگر ایک انسان کو کسی ایسے تنگ کمرے میں بند کر دیا جائے جہاں اس کے پاس مثلا سیدھا کھڑے ہونے کے سوا کوئی آپشن نہ ہو تو قدرت اس حال میں بھی بہرحال موجود ہے کیونکہ بندہ پتھر نہیں بن گیا اور نہ ہی یہ رعشہ ذدہ انسان کے ہاتھ کی حرکت کی طرح اضطراری فعل ہے بلکہ اس کا یہ احساس قائم ہے کہ وہ یہ کر رہا ہے۔ اشاعرہ کے نزدیک قدرت کا اس کم از کم حد تک اثبات و مفہوم بھی انسانی ذمہ داری کے لئے کافی ہے۔ اس ضمن میں وہ ان نظائر کو بھی پیش کرتے ہیں جہاں مثلاً سوتے ہوئے شخص سے صادر ہونے والے بعض افعال پر بھی شرعی احکام جاری ہوتے ہیں جس سے مقصود یہ کہنا ہے کہ جس قدرت کی مخالفین بات کرتے ہیں تکلیف کے لئے اس کا مدار ہونا ضروری نہیں۔ اگر اس پر تکلیف مالا یطاق کا الزام عائد کیا جائے تو یہ اشاعرہ کے خلاف موثر نہیں ہوسکتا کیونکہ اشاعرہ کے نزدیک شارع کا بندوں کو تکلیف مالا یطاق دینا بھی عقلاً جائز ہے نیز انسانی سطح پر جاری اخلاقی قضایا کو بنیاد بنا کر افعال باری پر کوئی اعتراض کرنا درست نہیں (عقل اسے جائز کہتی ہے کہ خدا سب انسانوں کو ہر قسم کے فعل کے باوجود جہنم میں ڈال دے اور اسے بھی جائز کہتی ہے کہ سب کو جنت دے)۔ جدید دور کے بعض مصفین نے یہ تاثر قائم کرانے کی کوشش کی ہے کہ امام غزالی و امام رازی جیسے اشاعرہ جبریہ نما اس عقیدے کے اس لئے قائل ہوئے کیونکہ وہ تکلیف مالا یطاق کو جائز سمجھتے تھے۔ ظاہر ہے یہ اشاعرہ کے مقدمے کی غلط تکییف ہے کیونکہ ان کی اصل بنیاد دلیل حدوث اور "عموم قدرت و علم" کے اصول اور اس کے لوازمات ہیں، یہ پہلو ایک اضافی دفاعی دلیل ہے۔
5) مخالفین کے دلائل کا جواب دینا جو چند طرح کے ہیں:
الف) اشاعرہ کے مخالفین کی مضبوط ترین دلیل اس بدیہی انسانی احساس کو بنیاد بنانا ہے جس کی وجہ سے انسان اپنے افعال کو اس معنی میں ارادی ہونا محسوس کرتا ہے جو معتزلہ و ماتریدیہ کی رائے ہے، مخالفین کے مطابق اشاعرہ جس انسانی ارادے کی بات کرتے ہیں وہ ایک وہم ہے ۔ مثلاً لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر آویزاں کسی خاص بٹن کا میرے ارادے کے مطابق انگلی کی جنبش سے پریس ہونے یا میری جانب سے اس پریس ہونے کا ارادہ کئے جانے کا احساس بدیہی ہے۔ اس دلیل پر امام رازی کا تبصرہ یہ ہے کہ ہم ان دو امور (یعنی انسان کے اس احساس اور کسی خاص بٹن کے پریس ہونے) کے وجودی اقتران (co-existence) کو مانتے ہیں لیکن اس اقتران سے ان کے مابین علیتی نسبت (causation) ثابت نہیں ہوتی بلکہ عقل کی رو سے یہ امکان موجود ہے کہ یہ دونوں ہی امور کسی خارجی علت کے اثر ہوں جو انہیں ایک ساتھ ظاہر کرتی ہے۔ یعنی میں اپنے اندر قدرت تخلیق کئے جانے کی وجہ سے خاص طرح کی شے کی جانب اس رجحان کا احساس پاتا ہوں کہ "وہ ہو" اور ساتھ ہی اس شے کو پاتا ہوں۔ پس ہمارا احساس صرف اس چیز سے متعلق ہے کہ افعال ہمارے ارادے کے مطابق اور ان کے ساتھ ہو رہے ہیں لیکن یہ "اس کی وجہ سے" بھی ہو رہے ہیں یا "ان کے مابین ترجیح ہم قائم کر رہے ہیں" یہ احساس ایک اضافی دعوی ہے جس کی دلیل نہیں۔ ذات باری کے ہر چیز کے خالق ہونے کی قطعی دلیل اس اضافی احساس کو بدیہی حقیقت کہنے کی دلیل سے زیادہ مضبوط دلیل ہے۔
ب) مخالفین کی دوسری اہم دلیل یہ کہنا ہے کہ کسی فاعل کے اختیار کا معنی کچھ "کرنے یا نہ کرنے" کے مابین ترجیح قائم کرنے سے عبارت ہے۔ اگر یہ ترجیح کسی خارجی علت سے متعین ہو رہی ہے تو یہ اختیار نہ ہوا۔ امام رازی اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ تمہاری اس بات کا مطلب اگر یہ ہے کہ حادث فاعل (یعنی انسان) کی جانب سے دو میں سے کسی ایک جانب قائم ہونے والی حادث ترجیح بلا علت و بلا مرجح ہے تو یہ بات ناقابل قبول ہے اس لئے کہ حادث کے لئے محدث ہونا لازم ہے۔ اور اگر تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ یہ ترجیح متعدد داعیات کا نتیجہ ہے تو ہم اس بات کو مانتے ہیں لیکن اس سے مخالف کی دلیل ٹوٹ گئی کیونکہ اس نے مان لیا کہ ارادے کی علت ارادے سے خارج ہے۔
مسئلہ جبر و قدر میں اشاعرہ کی آخری بات یہ ہے کہ یہ مسئلہ ایک خدائی راز ہے جس کی حقیقت اس دنیا میں جان سکنا انسان کے بس میں نہیں کیونکہ یہاں امور (یعنی قدرت حادثہ کا پیدا ہونا، داعیے کا جنم لینا، اس کا ترجیح میں تبدیل ہونا، پھر اس کا انسانی افعال سے متعلق ہونا) یہ سب اس سرعت و پیچیدگی کے ساتھ صادر ہوتے ہیں کہ معاملے میں بندے کا کردار غموضگی کا شکار رہتا ہے۔ البتہ چونکہ دلیل حدوث اور خدا کی قدرت کے عموم کا اصول قطعی ہے لہذا اس کا اقرار کیا جائے گا، اور چونکہ شارع نے یہ بتا دیا ہے کہ بندے مکلف ہیں لہذا ہم شریعت پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ رہا بندے کی ذمہ داری کی بنیاد بننے والا یہ احساس کہ "یہ میں کر رہا ہوں"، امام غزالی کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہونے والی انسانی فاعلیت کی حقیقت کے راز سے پردہ کشائی شاید موت کے بعد ہو۔ امام رازی کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں اٹھنے والے مشکل سوالات کی حتمی گلو خلاصی اس بات کو قبول کرنا ہے کہ ذات باری فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيدُ ہے، وہ جو چاہے کرے نیز لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ۔
اختتامی نکات
آخر میں چند نکات کے ساتھ تحریر کا خاتمہ کیا جاتا ہے:
1) مسئلہ جبر و قدر میں جو مشکل درپیش ہے اس کی بنیاد یہ حقیقت ہے کہ دو مستقل ارادوں کا تحقق محال ہے، ایک ہی اثر دو مستقل ارادوں یا علل کے تحت نہیں ہو سکتا۔ اگر ترجیح قائم کرنے والی دونوں علتیں مستقل (independent) ہوں تو مطلب یہ ہوا کہ دونوں ہی مستقل نہیں کیونکہ مستقل علت وہ ہوتی ہے جو الگ و آزادانہ حیثیت میں اثر پیدا کر سکے۔ دو علتیں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کا مجموعہ مل کر ایک مستقل علت بنتا ہے، یوں یہ دونوں مستقل نہ ہوئیں۔ اگر دونوں میں سے ایک الگ حیثیت میں اثر پیدا کر سکتی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ دوسری علت غیر ضروری (redundant) ہے۔ اگر ایک علت دوسری کے ساتھ مل کر اثر پیدا کرتی ہے تو مطلب یہ ہوا کہ پہلی چیز علت نہیں بلکہ علت یہ دوسری چیز ہے جس کے آنے سے اثر پیدا ہوا۔ الغرض دو مستقل علتوں کا تصور محال ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ارادہ دراصل علت کو کہتے ہیں، یعنی وہ عنصر جو ترجیح قائم کرتا ہے۔ پس ترجیح قائم کرنے والے دو مستقل اصولوں کا وجود محال ہے۔ اگر کہا جائے کہ خدا و بندے کے ارادے کا مجموعہ مل کر اثر یا نتیجہ پیدا کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ خدا کا ارادہ مستقل نہیں، اگر یہ کہا جائے کہ دونوں میں سے ایک ارادہ الگ حیثیت میں اثر پیدا کر سکتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ ایک علت اضافی و غیر ضروری ہے، اگر کہا جائے کہ خدا و بندے میں سے ہر ایک کا ارادہ بطریق بدل یہ اثر پیدا کر سکتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ بندے کا ارادہ خدا کے ارادے کی طرح مستقل اور اس کا متبادل ہے، اور اگر کہا جائے کہ بندے کا ارادہ خدا کے ارادے کے ساتھ مل کر اثر پیدا کرتا ہے تو مطلب یہ ہوا کہ بندے کا ارادہ ترجیح قائم کرنے والا نہیں بلکہ اثر خدا کے ارادے سے ہوتا ہے۔ الغرض اس کائنات میں جاری ہونے والے حوادث کے لئے ایک ہی علت یا ارادہ مؤثر ہو سکتا ہے، یہ "توحید" کے لازمی تقاضوں میں سے ایک ہے (یعنی مؤثر و محدث ایک ہی ہو سکتا ہے)۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی بنا پر مسئلہ جبر و قدر کا ایسا کوئی حل ممکن نہیں جو خدا اور بندے دونوں کے ارادوں کو مؤثر ثابت کر سکے، ان دونوں میں سے کسی ایک کے ارادے کو پیچھے دھکیلے بغیر چارہ نہیں۔ اس مشکل کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ جب بندے کے ارادے (یعنی اس کی جانب سے امور میں ترجیح کے قیام) کو ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو دلیل حدوث جاتی رہتی ہے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ کہنا ہے کہ کچھ حوادث کی کوئی علت نہیں اور یا پھر بندے کو مستقل ماننا لازم آتا ہے جس سے بھی دلیل حدوث باطل ہوجاتی ہے۔ اگر دلیل حدوث کو اس کے تمام لوازمات کے ساتھ مانا جائے (یعنی یہ بات کہ ہر چیز خدا کے ارادے سے ہوتی ہے) تو بندے کی جانب سے ترجیح قائم کرنے کا مفہوم دھندلا جاتا ہے۔ اسی لئے اس مسئلے کو خدائی راز کہا گیا۔
2) اس مشکل کی بنا پر اہل سنت کا کہنا ہے کہ شرعی لحاظ سے اصل مطلوب چیز شریعت کے بیان کردہ اس عقیدے کا اقرار ہے جس پر اہل سنت کا جبریہ و قدریہ کے برخلاف اجماع ہوا۔ جبریہ کا کہنا تھا کہ انسان اپنے افعال میں مجبور محض ہے اور اس بنا پر انہوں نے انسانی تکلیف کے تصور اور شریعت کو معطل قرار دیا کہ جبر ثابت ہونے کے بعد شرعی امور کی تکلیف لایعنی بات ہے۔ قدریہ نے جواباً کہا کہ بندہ مختار ہے اور جب اس پر یہ سوال قائم ہوا کہ اس کے بعد خدا کے عالم و قادر ہونے کا کیا مطلب ہوا کیونکہ بندہ جب تک ارادہ نہ کر لے خدا کو اس کا علم نہیں ہو سکتا، تو انہوں نے اس بات کو قبول کر لیا کہ خدا کا علم انسان کے ارادے پر موقوف ہے نیز خدا چاہ کر بھی بندے کے ارادے کو بدل نہیں سکتا اور نہ ہی وہ بندے کے افعال کا خالق ہے۔ اس کے برعکس اہل سنت کا نصوص کی روشنی میں اجماع ہوا کہ اللہ عالم بھی ہے اور قادر مطلق بھی، وہی پوری کائنات سمیت بندوں کے افعال کا خالق ہے اور بندوں پر اس کے احکام کی تکلیف بھی ثابت ہے۔ اشاعرہ و ماتریدیہ دونوں ان کا اقرار کرتے ہیں۔ رہ گئیں ان کے تجزیاتی طریقے سے لازم آنے والی مشکلات، تو محض ان لوازمات کی بنا پر کسی فریق کی تضلیل نہیں کی جائے گی۔ مثلاً اشاعرہ پر جبریہ جیسا عقیدہ رکھنے کا الزام عائد کرنے کے باوجود ماتریدیہ انہیں اہل سنت سے خارج نہیں سمجھتے اس لئے کہ ان کے نظرئیے میں جس بات کا لزوم نظر آتا ہے (یعنی بندے کی تکلیف اور شریعت کی تعطیل)، اشاعرہ اس کے قائل نہیں بلکہ وہ اسے اپنے نظرئیے کا لازمہ نہیں مانتے اور اس کا صراحتاً انکار کرتے ہوئے بندے کو مکلف کہتے ہیں۔ اسی طرح اشعری نکتہ نگاہ سے ماتریدیہ کا نظریہ خلق افعال عباد کی نسبت بندے کی جانب کرنے کو لازم ہے، لیکن ماتریدیہ اس لزوم کو قبول نہیں کرتے بلکہ وہ سب افعال کا خالق خدا کو کہتے ہیں۔ اس کے برعکس معتزلہ کا معاملہ یہ ہوا کہ وہ بندے کے لئے خلق افعال عباد کے صراحتاً قائل ہوئے اور نتیجتاً وہ اہل سنت کے اجماع سے نکل گئے۔ پس اشاعرہ و ماتریدیہ کو جبریہ یا قدریہ کہنا درست نہیں اس لئے کہ جبریہ و قدریہ خاص نتائج کو قبول کرنے والی آراء کا نام ہے۔ اسی طرح معتزلہ کو بھی پوری طرح قدریہ کہنا درست نہیں۔ ہمارا یہ تاثر بھی ہے کہ اشاعرہ و ماتریدیہ کے مابین اختلاف وجودی یا حقیقت کے لحاظ سے نزاع لفظی ہو جہاں ہر گروہ الفاظ کے چناؤ کی بنا پر ایک دوسرے پر غیر ہم آہنگی کا الزام عائد کر رہا ہو۔ تاہم اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
3) متکلمین مسئلہ جبر و قدر پر دلیل حدوث کے مجموعی فریم کے اندر رہتے ہوئے بحث کرتے ہیں کیونکہ وہ دیگر امور کا جواب بھی اس مجموعی و ہم آہنگ دلیل سے اخذ کرتے ہیں (یہ نہیں کہ ایک مسئلے کو ایک طرح حل کر لو اور دوسرے کو کوئی اور بات بنا کر، یہ غور کئے بغیر کہ دونوں کے پس پشت اصول میں کیا تعلق ہے)۔ اگر آج ان کی آراء کا کوئی ناقد صرف مسئلہ جبر و قدر پر الگ تھلگ ایک رائے بنا کر ان پر نقد کر لے یا مثلا کوئی نئی بات کہہ لے تو اہل کلام اس میں دلچسپی نہیں لیں گے یہاں تک کہ یہ دکھایا جائے کہ یہ نتیجہ دلیل حدوث میں کیسے فٹ آتا ہے۔ متکلمین الہیاتی مسائل پر الل ٹپ انداز سے گفتگو نہیں کرتے۔ پس ان کے ناقدین کو ان پر نقد کرنے سے پہلے ان کا نظام استدلال سیکھنا چاہئے کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مثلاً ناقدین دلیل حدوث کے تناظر میں اشاعرہ کی پوری بات سمجھے بغیر ہی ان پر نقد کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید ایسی باتوں سے وہ میدان مار لیں گے۔ اشعری اس بحث کو مسئلہ جبر و قدر سے شروع نہیں کرے گا بلکہ وہ پہلے آپ سے دلیل حدوث کے پس منظر مقدمات کے بارے میں پوچھے گا کہ ان کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ اس کے بعد وہ آپ سے کہے گا کہ اب ان امور کا خیال کرتے ہوئے ہم آہنگی کے ساتھ اس مسئلے پر بات کرو۔
4) اشاعرہ کے نظرئیے کا مطلب وہی ہے جسے امام غزالی اور صوفیا "لا فاعل الا اللہ" کہتے ہیں، یعنی یہ کہ بندہ اللہ کے افعال کا محل یا ان کی گزرگاہ ہے، وہ بھی ذات باری ہی کی مقرر کردہ گزرگاہ (امام صاحب درجات توحید میں "لا فاعل الا اللہ" کی حقیقت کے ادراک کو توحید کا تیسرا درجہ کہتے ہیں)۔ اہل نظر جانتے ہیں کہ "لا فاعل الا اللہ" سے "لا وجود الا اللہ" چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ مسئلہ جبر و قدر میں خدا کے ارادے کے سامنے بندے کے ارادے پر اشاعرہ جس طرح حیرت کا شکار ہیں، صوفیا مسئلہ وجود میں بندے کے وجود پر اسی طرح حیرت کا شکار ہیں!
5) شیخ ابن عربی (م638ھ) کے اعیان ثابتہ کے نظرئیے سے مسئلہ جبر و قدر پر اس پہلو سے اضافی توجیہی روشنی پڑتی ہے کہ اعیان انفعالی استعدادات (passive potentials) ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ فاعل واحد اگرچہ ذات باری ہی ہے مگر اس دنیا میں ہر شخص کو وہی ملتا ہے جس کے وہ قابل و لائق ہے اور یہ بندے کے لئے اطمینان کا ایک پہلو ہے۔ لیکن جب یہ سوال پوچھا جائے کہ "میرا عین ثابتہ ویسا کیوں ہے جیسا کہ وہ ہے" تو اس کا جواب صرف یہ ہے کہ اعیان حقائق کی طرح ہیں جن پر کیوں کا سوال درست نہیں۔ یوں شیخ ابن عربی اشاعرہ کی بات کو اس طرح مزید مؤکد کر دیتے ہیں کہ جو خوش بخت ہے وہ ازل سے خوش بخت ہے اور جو بدبخت ہے وہ ازل سے بدبخت ہے، یہ فیصلے ہوچکے جنہیں لکھ کر قلم اٹھ چکے اور صحیفے سوکھ چکے! متکلمین اسے قضا و قدر کہتے ہیں۔ ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
اعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیء لم ینفعوک إلا بشیء قد کتبہ اللہ لک، ولو اجتمعوا علی ان یضروک بشیء لم یضروک إلا بشیء قد کتبہ اللہ علیک، رفعت الاقلام وجفت الصحف
مفہوم: (عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ میں ایک روز رسول اللہﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا: اے لڑکے، میں تمہیں چند حقائق بتاتا ہوں:) یہ بات جان لو کہ اگر سب لوگ جمع ہو کر تجھے کچھ نفع پہنچانا چاہیں تو وہ تجھے اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ سب تجھے کچھ نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے، (یہ سب امور لکھ کر) قلم اٹھائے جا چکے اور صحیفے خشک ہوچکے۔
* کسب کالغوی مطلب کسی شے کو پانا یا طلب کرنا ہے جبکہ متکلمین کی اصطلاح میں اس کا مطلب انسان کا یہ احساس ہے کہ اس سے فعل صادر ہو رہا ہے۔
’’اقوالِ محمودؒ‘‘ سے ’’نکہتِ گُل‘‘
مولانا فضل الرحمٰن
بسم اللہ الرحمٰن الرحيم۔ الحمد للہ وكفیٰ والصلوٰۃ والسلام علیٰ عبادہ الذين اصطفیٰ اما بعد۔
میرے والد محترم شیخ الحدیث و التفسیر، مفتی اعظم، قائدِ ملتِ اسلامیہ حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ اپنے عہد کے جامع الصفات والکمالات انسان تھے، وہ محاسن و کمالات کی جملہ خوبیوں سے مزین تھے۔ قدرت نے انہیں صورتاً حسن وجاہت سے نوازا تھا تو سیرتاً ان کو اخلاقِ حمیدہ سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ عظیم انسان پیدا ہوتے رہے اور پیدا ہوتے رہیں گے لیکن بعض شخصیات بارگاہِ ایزد تعالیٰ سے اپنے ساتھ ایسی خصوصیات و کمالات لے کر پیدا ہوتی ہیں جن کی تمام حیات مستعار انسانیت کی خدمت اور ان کی فلاح میں گزرتی ہے، وہ اپنے دلوں میں مخلوقِ خدا کا درد اور ملک و ملّت کی خدمت کا مخلصانہ جذبہ لے کر دنیا میں آتی ہیں اور اپنی سیرت و کردار کے ایسے نقوش ثبت کر جاتی ہیں جو رہروانِ منزل کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ قرآن و حدیث کے بہترین عالم، بے مثال مدرس، ملّی مفکر، عظیم سیاسی رہنما اور صحیح معنوں میں عالم باعمل تھے۔ قدرت نے ان کو فہم و فراست اور علم و فضل کے ساتھ قوتِ استدلال سے بھی خوب مالا مال فرمایا تھا۔ وہ دلائل کے دھنی تھے۔ وہ ہر بات کو مدلل انداز سے مثالوں کے ذریعے واضح فرماتے تھے۔ وہ اپنی ذات میں ایک تاریخ، ایک تحریک، ایک ادارہ اور ایک جماعت تھے، وہ جہدِ مسلسل پر یقین رکھتے تھے اور ان کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ وہ عمل کے انسان تھے۔ وہ اپنے نصب العین کے لئے زندگی بھر لڑتے رہے، ان کا نصب العین اور زندگی کا مقصد متحد تھا۔ ان کے سامنے ہر دنیوی منصب، ذاتی مفاد اور مصلحت نے دم توڑ دیا تھا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے موقف کو سچا سمجھا اور اس پر ڈٹ جانے کو ترجیح دی اور اسی کے پیش نظر ایک صوبہ کی حکمرانی کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا۔ حکمرانوں نے آپ کو بڑے لالچ دیے مگر آپ نے اپنے کردار پر آنچ نہ آنے دی۔
برصغیر پاک و ہند کے عظیم خطیب، جدوجہدِ آزادی کے رہنما حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت مولانا مفتی محمودؒ کے مجلس سے تشریف لے جانے کے بعد حاضرینِ مجلس سے سوالیہ انداز میں فرمایا تھا: ’’جانتے ہو یہ کون ہے؟‘‘ پھر یہی سوال دہرایا اور پھر ازخود فرمایا ’’تم نہیں جانتے کہ وہ کون ہے، یہ عہدِ گزشتہ کے قافلہ کے ایک فرد تھے جو اِس دور میں آگئے ہیں۔‘‘ پھر فرمایا: ’’ایک سومنات فتح کرنے والا محمود (غزنوی) تھا اور ایک یہ محمود ہے، اس سے بھی اللہ تعالیٰ کسی سومنات کو فتح کرنے کا کام لے گا۔‘‘
ایک عہد نے دیکھا اور تاریخ اس کی گواہ ہے کہ شاہ جی کی وہ پیشین گوئی حرف بحرف اس وقت سچی ثابت ہوئی جب منکرین ختم نبوت قادیانیوں کے خلاف ایک صدی سے جاری جدوجہد اس عظیم الشان انسان کے ہاتھوں تکمیل تک پہنچی۔ آپ کی کوششوں، رابطوں اور دلائل کے ذریعہ پاکستان کی قومی اسمبلی نے فتنۂ قادیانیت کو ہمیشہ کے لئے بحیرہ عرب میں غرق کر دیا تھا اور قادیانیت کو ساری دُنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہنے دیا۔ یہ سعادتِ عظمیٰ قدرت نے آپ کو عطا فرمائی تھی اور آپ اس عمل کو حشر میں اللہ کے ہاں سرخروئی کا باعث قرار دیتے تھے۔ ایسے دیگر کئی مواقع پر جب بھی ملک و قوم نے ان کو پکارا انہوں نے ہمیشہ لبیک کہتے ہوئے اپنی خدمات وقف کر دیں اور ہر بار ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی قیادت نے ان ہی کے سر پر متفقہ طور پر قیادت کا تاج رکھا۔ انہوں نے نوجوان نسل کو اسلامی فکر سے آشنا کیا، علماء کو وقار دیا، مدارس کو تحفظ فراہم کیا، جبکہ دینداروں کو دین کی صحیح سمجھ عطا کی ہے۔
والد محترم حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ نے ستر کی دہائی میں پاکستان میں سرمایا دارانہ نظام اور سوشلزم دونوں کی نفی کی اور انسان کے بنائے ہوئے ان دونوں معاشی نظاموں کو خلافِ اسلام ثابت کر کے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیئے ہوئے معاشی نظام کا مکمل خاکہ قوم کے سامنے پیش فرمایا۔ انہوں نے مزدوروں، کسانوں اور دیگر محنت کش طبقات کو یہ تسلی دی کہ تمہارے تمام معاشی مسائل و مشکلات کا حل اسلام کے معاشی نظام میں ہے۔ سرمایہ داروں کے ایجنٹوں نے معاشی لحاظ سے پسماندہ طبقات کو اسلام اور علماء کرام سے متنفر کرنے کی شعوری کوششیں کی تھیں۔ حضرت مفتی صاحب نے ان محنت کاروں کو ایک معاہدہ کی صورت میں قریب کیا، انہیں گلے لگایا اور اسلام کے معاشی نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں ان کو شریک کیا اور اس طرح ایک حکمتِ عملی کے تحت ان کو سوشلزم کی جھولی میں گرنے سے بچایا۔
سامراج دشمنی ان کو اپنے اسلاف سے وراثت میں ملی تھی۔ بزرگوں کی اس وراثت کو انہوں نے آگے بڑھایا اور نوجوان نسل میں سامراج دشمنی کی ایسی روح پھونکی کہ سامراج کو اپنا کھیل کھیلنے کی منصوبہ بندی میں ناکام ہونا پڑا۔
بارگاہِ ایزد تعالیٰ سے جو دل و دماغ میں لے کر آئے تھے اس کی کئی جہات تھیں۔ وہ ایک بلند پایہ عالمِ دین، بہترین مقرر اور شیخ الحدیث والتفسیر تھے۔ علمِ فقہ میں انہوں نے اعلیٰ مقام حاصل کیا تھا اور وہ اس کے مزاج شناس بن گئے تھے۔ وہ شریعت و طریقت کے جامع اور ایک عظیم سیاسی رہنما تھے۔ اپنے عہد کے تمام علماء، زعماء اور سیاسی قائدین کی محفلوں میں نہ صرف انہیں ادب واحترام حاصل تھا بلکہ وہ محفل کی جان ہوتے تھے، سب کی نگاہیں ان ہی کی طرف اُٹھتی تھیں، انہوں نے قیادت و سیادت اس انداز کی کہ اس کی نظیر ہی نہیں ہے۔ پاکستان کی مذہبی اور سیاسی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری اور نامکمل رہے گی۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے، وہ پاکستان میں واحد دینی اور سیاسی رہنما تھے جو سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
متعدد مرتبہ بین الاقوامی سطح پر عالمِ اسلام کے علماء نے آپ کی علمیت، فراست اور بصیرت کا اعتراف کیا ہے۔ جدید شرعی مسائل پر آپ نے ہمیشہ اسلام کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کیا ہے۔ جامعہ الازہر مصر کے زیر اہتمام مختلف اجلاسوں میں خصوصی طور پر آپ کو اظہارِ خیال کی دعوت دی جاتی تھی جہاں دنیا بھر کے علماء شریک ہوتے تھے۔ ان سے جہاں تعارف کے مواقع ملتے تھے ایک دوسرے کے خیالات سے افادہ و استفادہ بھی کرتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب اس وقت کے اہم دینی و سیاسی مسائل کو اس پلیٹ فارم پر زیر غور لانے کے لئے متحرک رہتے تھے۔ آپ نے کئی دفعہ فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو وہاں زیربحث لانے کی کوششیں کی ہیں۔
آپ علمی و سیاسی لحاظ سے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ، حضرت سید احمد شہیدؒ، حضرت سید اسماعیل شہیدؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ رحمہم اللہ سے متاثر تھے۔ ان کی فکری پرداخت میں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا کفایت اللہؒ، حضرت مولانا ابو الکلام آزادؒ اور حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ رحمہم اللہ کا وافر حصہ ہے، اور وہ بھی بجا طور پر اس پر فخر کیا کرتے تھے اور وہ حضرت شیخ الہندؒ کے مقدس مکتبِ فکر کے علمبردار تھے۔ انہوں نے دین و سیاست میں انہی کی قیادت کو قبول کیا تھا۔ اور یہی وہ فکر تھی جس نے تشکیلِ پاکستان کے بعد ان کو بے چین رکھا تھا۔ اسی فکر کو لے کر انہوں نے ملک کے کونے کونے کا دورہ کیا اور خلوت گاہوں، خانقاہوں اور درس گاہوں سے علماء و مشائخ کو میدانِ سیاست میں آنے پر آمادہ اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے نظم سے ایک منظم جدوجہد میں شریک کیا۔ انہوں نے علماء اور دین دار طبقے کے وقار کو اپنے روشن کردار سے دوچند کیا۔
حضرت مفتی صاحبؒ نے سرکار کی دستبرد سے بچانے کے لئے مساجد، مدارس اور دینی مراکز کے تحفظ کے لئے بھرپور جدوجہد کی۔ آپ نے جس جذبہ، تڑپ ، انہماک، بصیرت، فہم و فراست اور اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کی اس کا اعتراف دینی حلقوں میں برملا کیا جاتا ہے۔ دینی لحاظ سے متعلقہ طبقات میں ان سے انس و محبت اور عقیدت کا اندازہ اس وقت ہوا جب ان کا جنازہ اُٹھا، اس شان و شوکت سے روانہ ہوا جو اللہ کے مقبول بندوں کا خاصہ ہے کہ یہ اعزاز بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ہوتا۔ کراچی، ملتان، ڈیرہ اسماعیل خان شہر اور عبدالخیل میں ہر مقام پر لاکھوں افراد نے ان کے جنازہ میں شرکت کی تھی، ایک جنازہ ملتان ایئرپورٹ پر بھی پڑھایا گیا تھا۔
والد محترم حضرت مولانا مفتی محمود نور اللہ مرقدہ نے اپنی سیرت و کردار اور دینی، مذہبی اور سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جن کو مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ آپ کے بیانات و تقاریر اور انٹرویوز فکری و نظری اعتبار سے نوجوان نسل کے لئے نشانِ منزل ہیں، اس سے پڑھنے والوں کے لئے فکر کی کشادہ راہیں روشن ہوتی ہیں۔ ان کی فکر میں گہرائی بھی ہے اور ادبی چاشنی بھی پائی جاتی ہے، ان کے ہر قول میں ایک پیغام ہے کیونکہ وہ ایک طویل تجربہ کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ ان کے اقوال سے ایک فکر، ایک نظریہ پروان چڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ جن میں ان کے اعتقادات و خیالات کا تموج ہے اور جہاں پڑھنے والے کو روحانی لذت ملتی ہے وہاں ان میں غور و فکر کا تعمق اور عمل کی دعوت ہے۔ ان کے اقوال ان کے نظریات کا احاطہ کرتے ہیں۔ ان کے اقوال کو ان کے بیانات و تقاریر اور ان کے رسائل، اخبارات میں بکھرے ہوئے انٹرویوز سے جمع کیا گیا ہے۔
حضرت مفتی صاحب کی حیات میں ۱۹۷۴ء میں جناب اختر کاشمیری نے پاکٹ سائز میں شائع کرایا تھا جو مقبول خاص و عام ہو کر ہاتھوں ہاتھ نکل گئی۔ ۱۹۷۴ء کے بعد ۷ سال آپ حیات رہے اور یہ سات سال آپ کی جدوجہد کے بہت ہی تاریخی کارناموں سے بھر پور ہیں۔ ضرورت تو بہت پہلے سے تھی کہ ان میں اضافہ کیا جاتا مگر بعض وجوہات کی بنا پر ایسا نہ ہو سکا۔
بالآخر اس بیڑے کو جناب محمد فاروق قریشی نے اُٹھایا جنہوں نے مفتی محمود اکیڈیمی کے زیراہتمام حضرت مولانا مفتی محمودؒ کی حیات و خدمات سے متعلق متعدد کتب کو شائع کیا ہے۔ اکیڈیمی کے تحت مختلف سیمینارز کا اہتمام اور اس کی کارروائی کی تدوین و اشاعت کر کے حضرت مفتی صاحبؒ کے کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ان کے زیراہتمام مفتی محمود اکیڈیمی نوجوان نسل کی فکری آبیاری کے لئے فعال کردار ادا کر رہی ہے ۔ ’’اقوالِ محمود‘‘ میں قابل قدر اضافہ اور عنوانات سے مرصع خوبصورت اشاعت سے انہوں نے قومی ضرورت کو پورا کیا ہے۔ دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مساعی قبول فرمائے اور حضرت مفتی صاحبؒ کے اقوال ’’اقوالِ محمود‘‘ کو شرفِ قبولیت اور قبولیتِ عامہ عطا فرمائے۔ آمین
(’’نکہتِ گل‘‘ از ’’اقوالِ محمودؒ‘‘ ص ۱۱ تا ۱۶۔ اشاعت ستمبر ۲۰۱۵ء)
علما کیا خاموش ہو جائیں؟
خورشید احمد ندیم
مذہب پر بات کرتے ہوئے اب خوف آنے لگا ہے۔ کیا معلوم کب کوئی کسی جملے کو اپنے معنی پہنا کر توہین کا مرتکب قرار دے دے۔ یہ خوف اب اُن گھروں کو لوٹ رہا ہے جہاں سے یہ چلا تھا۔
ایک مفتی صاحب برسوں سے سوشل میڈیا پر اپنے فہم کے مطابق دین بیان کر رہے ہیں۔ دین کے مسلمات پر ان کا ایمان ہے اور اس میں کسی کو کوئی شک نہیں۔ ضروریاتِ دین میں سے وہ کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتے کہ ان کے اسلام پر سوال اٹھایا جائے۔ ایک عصبیت بھی ان کی پشت پر کھڑی ہے۔ اس کے باوصف وہ آج توہینِ مذہب کے مرتکب قرار دیے جا رہے ہیں۔ اگر وہ اس الزام سے محفوظ نہیں تو کون ہے، اس الزام سے جس کی حفاظت کی ضمانت دی جا سکتی ہے؟
پاکستان میں الزام کا مطلب الزام نہیں ہوتا، الزام خود ایک ثبوت ہے۔ گلی بازار میں جو عدالتیں لگتی ہیں، وہ اسی 'ثبوت، کی بنیاد پر فیصلہ سناتیں اور اسی 'عدالت، کے 'منصف، اپنا یہ فیصلہ اپنے ہاتھوں سے نافذ کر دیتے ہیں۔ چونکہ الزام ہی ثبوت ہے اس لیے برأت کا تو کوئی امکان نہیں۔ اس سے بچنے کی ایک ہی صورت باقی ہے۔ وہ یہ کہ مذہب پر بات کرنے ہی سے گریز کیا جائے۔
مفتی صاحب نے اپنے کہے پر معافی مانگ لی ہے لیکن اُس عدالت کی طرف سے ان کی معافی کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے جس عدالت کا ابھی ذکر ہوا۔ سوشل میڈیا پر بہت سے جانے پہچانے چہرے انہیں قابلِ گردن زدنی قرار دے رہے ہیں۔ مفتی صاحب اب کسی عوامی جگہ پر جانے کے قابل نہیں رہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ ہجوم میں سے کوئی کیا کر گزرے۔ اب اس صورتحال کا سامنا کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ ان کو بھی جو اس وقت مفتی صاحب کے تعاقب میں ہیں۔ اس میں مسلکی تعصب صاف جھلک رہا ہے۔ تو کیا ان علما اور مفتی صاحبان کو یہ مشورہ دیا جائے کہ جان کی امان چاہتے ہیں تو مذہب پر بات کرنے سے گریز کریں؟
کسی مفتی، کسی عالم یا کسی سکالر کو یہ مشورہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے میں کوئی نہ رہے جو لوگوں کو دین بتائے۔ دین ایک نجی معاملہ بن جائے۔ کوئی کسی عالم سے سوال پوچھے اور وہ جواب دینے سے گریز کرے کہ کیا معلوم کوئی اس سے کیا مفہوم کشید کرے۔ ہر طرف ہیجان اور جنون کا غلبہ ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ سب ہی اس جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں۔ جو ہدف ہیں وہ بھی اس رویے کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں۔ انہیں اپنے ہم مسلک کو بچانا ہے اور بس۔ وہ یہ نہیں جان سکے کہ مسئلہ مسلک کے دفاع کا نہیں، اس رویے اور تفہیمِ دین کا ہے جو آج خوف کی علامت بن چکے۔
اہلِ مذہب کا ایک دوسرے کو گستاخ اور توہین کا مرتکب قرار دینے کا چلن نیا نہیں ہے۔ پہلے کی بات مگر اور تھی۔ ایک تو یہ الزام کسی مضمون یا کتاب کی صورت میں سامنے آتے تھے۔ یہ تحریر ایک مخصوص طبقے تک محدود رہتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ لوگ کسی جلسے میں بیان کر دیتے تھے۔ فتویٰ لگا دیا جاتا تھا اور بات اس سے آگے نہیں بڑھتی تھی۔ اب معاملہ یہ نہیں رہا۔ سوشل میڈیا پر بات اس طرح پھیلتی ہے جس طرح جنگل میں آگ۔ معاشرتی ہیجان کے باعث لوگ ردِ عمل کے لیے اب کسی فتوے کا بھی انتظار نہیں کرتے۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت، ریاست کی بنیادی ذمہ داری بلکہ اس کے وجود کا حقیقی جواز ہے۔ میں تکرار کے ساتھ یہ لکھ رہا ہوں کہ جب ریاست عوام کے جان و مال کی حفاظت نہ کر سکے تو اس کا وجود بے معنی ہو جاتا ہے۔ میں سمجھ نہیں سکا کہ ریاست اس سارے معاملے سے اتنی لاتعلق کیوں ہے؟ مذہب کے نام پر لگائی گئی عوامی عدالتوں کے خاتمے کے لیے کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا جا رہا؟ پارلیمان میں کوئی بحث کیوں نہیں ہو رہی؟ کوئی قانون کیوں نہیں بن رہا۔ عدالت از خود کوئی نوٹس کیوں نہیں لے رہی؟
مذہب اور سیاست دو بڑی قوتیں ہیں۔ دونوں میں ہیجان کا غلبہ ہے۔ دونوں سماج کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان ہی دو عنوانات نے سماج کو بنایا بھی ہے اور بگاڑا بھی ہے۔ ان کو اگر درست رخ نہ دیا جائے تو سماج جنگل بن جاتا ہے۔ یہ کوئی کتابی بات نہیں۔ انسان کی ساری تاریخ اس کی گواہ ہے۔ یورپ میں اس وقت امن آیا جب اہلِ مذہب کو ریاست وسماج کے امور سے لا تعلق کر دیا گیا۔ مسلم تاریخ میں تہذیبی اور سیاسی ارتقا اس وقت ہوا جب مذہب و سیاست کو فطری انداز میں آگے بڑھنے کا موقع ملا۔ یہ ہماری ترقی کا سنہری دور تھا۔ اُمویوں کے دور میں ایسا نہیں تھا۔ مذہب کے نام پر ایک ہیجان تھا جس نے مسلمانوں کو خانہ جنگی کے عذاب میں مبتلا کیے رکھا۔
دورِ حاضر میں اگر کوئی مسلم معاشرہ اس کا درست ادراک کر سکا ہے تو انڈونیشیا ہے۔ کسی حد تک ملائیشیا اور پھر ترکیہ۔ تیونس میں راشد غنوشی نے اس بات کو سمجھا مگر تاخیر کے ساتھ۔ اس کے اثرات سامنے آنے میں کچھ وقت لگے گا۔ انڈونیشیا میں مذہب اخلاقی اور سماجی بہتری میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ وہاں مذہب خیر کی ایک قوت ہے۔ اس کے علاوہ ہر جگہ مذہب ایک ہیجان کا نام ہے۔ کہیں سیاست کا حصہ بن کر، کہیں کسی اور عنوان سے۔
پاکستان ان معاشروں میں سرِ فہرست ہے۔ مجھے اس پر حیرت ہے کہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود ریاست اس معاملے میں مکمل خاموش ہے۔ اس کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے کہ وہ مذہب کے سوئے استعمال کو روکنے کے بارے میں سنجیدہ ہے جس نے لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سنجیدگی تو دور کی بات، اس کا ادراک کہیں موجود نہیں۔ یہ حیرت کے ساتھ خطرے کی بات ہے۔ اب تو حکومتی اداروں کے اندر بھی یہ خوف سرایت کرتا جا رہا ہے۔ پولیس کے لوگ بھی جنونی ہو رہے ہیں اور عوام ان پر پھول پھینک رہے ہیں۔ چند سال پہلے جب اسی طرح پھول برسائے جا رہے تھے تو اس وقت بھی متنبہ کیا گیا تھا کہ یہ ہیرو سازی سماج کو ایک عذاب میں مبتلا کر دے گی۔ کل کا یہ اندیشہ آج کی حقیقت ہے۔
اس سوال پر غور کرنا ہو گا کہ 'پیغامِ پاکستان، کیوں اپنے نتائج نہیں دکھا سکا؟ پانچ ستارہ ہوٹلوں میں منعقد کی جانے والی مجالس کیوں سماجی تبدیلی لانے میں ناکام رہیں؟ ان سوالات کی مخاطَب ریاست ہے۔ چونکہ لوگوں کی جانوں کو خطرہ ہے، اس لیے یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطرے کا تدارک کرے۔ ان سوالات کے جواب علما کے پاس ہیں نہ کسی اور کے پاس۔ یہ جواب صرف ریاست ہی دے سکتی ہے۔
جب تک ریاست ان سوالوں کے جواب تلاش نہیں کرتی، میرا علما اور مفتی صاحبان کو مشورہ ہو گا کہ وہ دینی معاملات پر خاموشی اختیار کر لیں۔ وہ چپ کا روزہ رکھ لیں۔ کوئی پوچھے تو 'لا اَدری، (میں نہیں جانتا) کہہ کر اپنی جان بچائیں۔ جو مفتی صاحب اس وقت زیرِ عتاب ہیں، ان کی پشت پر ایک مسلکی عصبیت موجود ہے۔ اس کے باوجود ان کی جان خطرات میں گھر گئی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک دوسری مسلکی عصبیت اب ان کے درپے ہے۔ صرف عصبیت ہی نہیں بلکہ گروہی مفادات بھی، جو مسالک کے اندر تک سرایت کر چکے ہیں۔
یہ ایک خوفناک منظر ہے۔ میرے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ ریاست اس کی سنگینی کا ادراک نہیں کر پا رہی۔ اس کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا صرف ریاست کے درپے ہے، درآں حالیکہ وہ سماج کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ مذہب ایک سماجی قوت ہے اور اس کا سوئے استعمال آگ کا دریا بنتا جا رہا ہے۔
مدارس دینیہ میں تدریسِ فقہ: چند غور طلب پہلو
ڈاکٹر عبد الحئی ابڑو
اسلامی علوم میں فقہِ اسلامی کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے کیونکہ فقہ تمام اسلامی علوم کی جامع ہے۔ تفسیر، حدیث، تصوف، بلاغت اور لغت و ادب سمیت تمام علوم میں ایک خاص حد تک درک پیدا کیے بغیر فقہ کی جزئیات اور باریکیوں سے واقفیت حاصل کرنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں خالصتاً مادی نقطۂ نظر سے بھی ایسا جامع، انسانی ضرورت سے ہم آہنگ، فطرتِ انسانی کا آئینہ دار، اور اپنے وقت کے ہی نہیں بلکہ مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات کے حل کی صلاحیت سے مالامال نہیں جیسا کہ یہ نظامِ قانون ہے۔ موجودہ دور میں ایجادات کی کثرت، ذرائع مواصلات، برق رفتاری، سیاسی و اقتصادی نظام میں دور رس تبدیلی، اور عالمگیریت کی وجہ سے نت نئے فقہی قضایا اور مسائل پیدا ہو رہے ہیں جن کے حل کے لیے ایسے علماء کی ضرورت ہے جو ایک طرف فقہی ذخیرے پر گہری نظر رکھتے ہوں اور دوسری طرف اپنے زمانے کی تبدیلیوں سے بھی آگاہ ہوں۔ ایسے افراد کی تیاری کے لیے ضروری ہے کہ فقہ و اصول فقہ کی تدریس کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جائے۔
فقہ و اصولِ فقہ میں جو کتابیں ہمارے مدارس کے نصاب میں داخل ہیں، یقیناً بڑی اہم اور سلف کی بہترین کاوشوں کا نتیجہ ہیں؛ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان کتابوں کے درس کے بعد طلبہ میں یہ استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے احوال پر اس کو منطبق کر سکیں۔ کیا استحسان کی بحث پڑھنے والا طالب علم اس قابل ہو جاتا ہے کہ موجودہ دور کے ان مسائل کا ادراک کر سکے جو استحسان پر مبنی ہیں؟ بیوع کے مباحث پڑھنے والا طالب علم ڈیبٹ کارڈ، اے ٹی ایم، آن لائن ٹرانزیکشن جیسے پیش آمدہ مسائل کا حکم جان سکتا ہے؟ صرف و نحو کے اصولوں کو عبارت پر منطبق کرنے کی صلاحیت رکھنے والا طالب علمِ فقہ کے مسائل میں ظاہریہ کا سا طرزِ عمل اختیار کرتے ہوئے قدیم فقہی جزئیات، جن میں سے بیشتر استقرا اور مصنف کے ذاتی یا معاشرتی مشاہدے و تجربے پر مبنی ہیں، کو حرفِ آخر سمجھتا ہے اور تمام فقہی اصولوں کو بھول جاتا ہے۔ اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فقہ کے نصاب میں کمی و خامی کہاں ہے جس کی وجہ سے اس میدان میں طلبہ کی صلاحیت کار زنگ آلود ہی رہ جاتی ہے۔
موجودہ نصاب پر کئی دہائیاں قبل مولانا یوسف بنوریؒ کا یہ تبصرہ آج بھی بہت وقیع محسوس ہوتا ہے۔ مولانا لکھتے ہیں:
’’مدارسِ دینیہ عربیہ میں اس وقت جو نصابِ تعلیم رائج ہے، حدیث و فقہ کی چند کتابوں کو مستثنیٰ کرنے کے بعد زیادہ تر ساتویں صدی ہجری اور اس کے بعد کے قرون کی یادگار ہے جہاں سے صحیح معنے میں انحطاط کا دور شروع ہو چکا تھا۔ قدمائے امت کی وہ تالیفات جن میں علم کی روح موجود تھی، عبارت سلیس و شگفتہ، مسائل و قواعد واضح، جن میں نہ عبارت تعقیدات تھیں نہ دور از کار ابحاث۔ جن کے پڑھنے سے صحیح معنے میں دل و دماغ متاثر ہو سکتے تھے۔ نہ وقت ضائع ہوتا تھا، نہ دماغ پر بوجھ کا خطرہ ہوتا تھا، ان کی جگہ ایسی کتابیں تصنیف ہوئیں جن میں سب سے زیادہ کمال اختصار نویسی کو سمجھا گیا، زیادہ زور لفظی بحثوں پر دیا گیا، لفظی موشگافیاں شروع ہوئیں، یوں اگر کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ کاغذ تو کم خرچ کیا گیا، لیکن وقت و دماغ کو اس کے حل پر زیادہ صَرف گیا گیا، بڑا کمال یہی سمجھا گیا کہ عبارت ایسی دقیق و غامض ہو جس کے لیے شرح و حاشیہ کی ضرورت ہو۔ کئی کئی توجہات کے بغیر حل نہ ہو، آخر یہ علمی عیاشی نہیں تو اور کیا ہے۔ میرے ناقص خیال میں یہ علم کا سب سے بڑا فتنہ تھا جس سے علوم اور اسلامی معارف کو بڑا نقصان پہنچا۔ بطور مثال اسلامی علوم میں اصولِ فقہ کو لیجیے جو علومِ دین اور علومِ اجتہاد میں ایک لطیف ترین اور اہم ترین فن ہے، جو قرآن و سنت سے نئے نئے استنباطات کے لیے سب سے اہم راستہ تھا جس کی باقاعدہ تدوین کا فخر دولتِ عباسیہ کے سب سے پہلے قاضی القضاۃ امام ابو یوسفؒ کو حاصل ہے، اور امت میں اس کے بعد سب سے پہلی کتاب امام محمد بن ادریس الشافعیؒ کی کتاب الرسالہ ہے جو عرصہ ہوا کہ مصر میں کتاب الام کے ساتھ چھپ چکی تھی اور اب کچھ عرصہ ہوا بہت آب و تاب سے دوبارہ قاہرہ سے شائع ہوئی ہے۔ اسی فن میں امام ابوبکر رازی جصاص (متوفی ۳۷۰ھ) نے کتاب الفصول فی الاصول لکھی جس کا ایک عمدہ نسخہ دارالکتب المصریہ قاہرہ میں موجود ہے اور جس کی نقل راقم الحروف کے توسط سے مجلس علمی ڈابھیل، حال کراچی کے لیے ہندوستان و پاکستان آئی۔ امام فخر الاسلام بزدوی نے کتاب الاصول لکھی جس کی عمدہ ترین شرح عبدالعزیز بخاری کی ہے جو ترکی کے سابق دارالخلافہ سے دو دفعہ شائع ہوئی اور جس کی محیر العقول عظیم ترین شرح امیر کاتب عمید الدین اتقانی کی الشامل دس جلدوں میں دارالکتب المصریہ قاہرہ میں موجود ہے اور اس کا ایک نسخہ استنبول کے کتب خانہ فیض اللہ آفندی میں ہے لیکن افسوس کہ دونوں جگہ ابتدائی دو ڈھائی جزو کا نقص ہے۔ اس کی نقل بھی راقم الحروف کے توسط سے مجلس علمی میں آچکی ہے۔ امام شمس الائمہ سرخسی نے کتاب الاصول لکھی جس کے نسخے ترکی و مصر میں موجود ہیں۔ یہ اور اس کے علاوہ اس فن میں متقدمین کی عمدہ و نافع کتابیں ہیں۔ امام حجۃ الاسلام غزالی کی الاصول اس فن کی عمدہ کتاب ہے اور اس کے علاوہ اس فن میں امام ابو زید و بوسی کی کتاب "تقویم الادلۃ" بے نظیر ہے۔
اب خیال فرمائیے کہ ایسی نادرۂ روزگار کتابوں کی جگہ امام ابن ہمام کی تحریر الاصول اور ابن حاجب کی مختصر الاصول اور بیضاوی کی منہاج الاصول یا ابوالبرکات نسفی کی منار الاصول یا صدر الشریعۃ کی تنقیح الاصول نے لی۔ اگر تحریر الاصول کی شرح التحبیر والتقریر ابن امیر الحجاج کی نہ ہو یا التیسیر ابن امیر بخاری کی نہ ہو اور قاضی بیضاوی کی منہاج کی شرح الاسنوی کی نہ ہو تو یہ چیستانیں امت کے کیا کام آسکتی ہیں؟ یہ مانا کہ ان میں کچھ دقیق و لطیف ان کے مختارات یا خصوصی ابحاث بھی ہیں، لیکن دوسری طرف مہمات جس تعبیر میں ادا ہوئی ہیں وہ کوئی علمی روح پیدا کرنے کے لیے مفید نہیں ہوسکتیں۔"1
آگے چل کر مزید لکھتے ہیں:
"اس ماحول میں اگر ہم اب بھی ان غیر اہم وسائل پر جمے رہیں گے تو علوم اسلامیہ سے توجہات ہٹ جائیں گی اور ہمارا یہ طرز عمل ہمارے اکابر و اسلاف کی اس تراث فاخر اور اس علمی ثروت و سرمائے کو فنا کے گھاٹ اتار دے گا۔ یہ درحقیقت علم کی خیر خواہی نہیں بلکہ نادان دوست کا سا طرز عمل ہوگا، کیا فقہ اسلامی میں کنز الدقائق، وقایہ، نقایہ اور شرح وقایہ کے بہترین بدل اسلاف کی کتابوں میں موجود نہیں؟ کیا جامع صغیر، جامع کبیر وغیرہ براہ راست مدون فقہ امام محمد بن الحسن الشیبانی کی کتابیں ہر حیثیت سے جامع نہیں؟ ان میں جو علم اور برکت ہوگی وہ ان متاخرین کی کتابوں میں کہاں سے ملے گی۔ میرے ناقص خیال میں کتب فقہ میں نورالایضاح، قدوری اور ہدایہ کے علاوہ بقیہ سب قابل تبدیلی ہیں۔"
یہ صرف مولانا بنوری کا ہی درد دل نہیں بلکہ ان سے بھی نصف صدی قبل مولانا اشرف علی تھانوی بھی یہ ہی رونا رو چکے ہیں۔ مولانا زاہد الراشدی مولانا تھانوی کے الفاظ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"یہ میری بہت پرانی رائے ہے اور اب تو رائے دینے سے بھی طبیعت افسردہ ہو گئی اس لیے کہ کوئی عمل نہیں کرتا۔ وہ رائے یہ ہے کہ تعزیراتِ ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ کے درس میں داخل ہونے چاہییں۔ یہ بہت پرانی رائے ہے مگر کوئی مانتا اور سنتا ہی نہیں۔"2
مدارس کا موجودہ نصاب فقہ
گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مدارس اور و فقہائے مدارس کے نظام میں فقہ کا جو نصاب مقرر ہے، وہ پیش کیا جائے۔
اس وقت ملک میں مدارس کے پانچ بڑے بورڈ یا وفاق و تنظیمات پائی جاتی ہیں جن کے ماتحت ملک کے طول و عرض میں ہزاروں مدارس چل رہے ہیں۔ ان وفاقوں میں تدریس فقہ کا نصاب کچھ یوں ہے:
وفاق المدارس العربیہ پاکستان (ملتان) کے زیر انتظام مدارس میں رائج فقہ کا نصاب درج ذیل ہے:3
ثانویہ عامہ سال اول: ۔
ثانویہ عامہ سال دوم: مختصر القدوری
ثانویہ خاصہ سال اول: کنزالدقائق (علاوہ کتاب الفرائض)
ثانویہ خاصہ سال دوم : شرح وقایہ اخیرین
عالیہ سال اول: ہدایہ (جلد اول)
عالیہ سال دوم: ہدایہ (جلد دوم)
عالمیہ سال اول: ہدایہ (سوم، چہارم)
عالمیہ سال دوم: ۔
تنظیم المدارس کے مدارس میں ترتیب کے معمولی فرق کے ساتھ یہی نصاب مروج ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:4
ثانویہ عامہ سال اول: قانون شریعت (جلد اول)
ثانویہ عامہ سال دوم: نورالایضاح
ثانویہ خاصہ سال اول: مختصر القدوری
ثانویہ خاصہ سال دوم : ہدایہ (ربع اول)
عالیہ سال اول: ہدایہ (ربع ثانی) ماسوا نکاح الرقیق و اہل الشرک، کتاب العتاق، کتاب السیر، کتاب الاباق
عالیہ سال دوم: ہدایہ (ربع ثالث) منتخب ابواب: کتاب البیوع، ادب القاضی، المضاربہ، الھبۃ، الاجارات، الغصب
عالمیہ سال اول: ہدایہ (ربع آخر) منتخب ابواب: کتاب الشفعۃ، کتاب الذبائح والاضحیۃ، کتاب الکراھیۃ، کتاب الاشربۃ، کتاب الرھن، کتاب الجنایات، کتاب الوصایا
عالمیہ سال دوم: ۔
اکثر حنفی مدارس میں درجہ تخصص فی الفقہ میں درج ذیل کتب رائج ہیں:
رسم المفتی ردالمحتار شرح الدرالمختار
سلفی مدارس کا نصاب فقہ
مالا بد منہ قدوری شرح وقایہ
الہدایہ (اولین) کنزالدقائق الروضۃ الندیۃ
بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد فقہ السنۃ
کتاب وار جائزہ
فقہ کی کتابوں میں: مالا بدمنہ، نور الایضاح، قدوری، کنز الدقائق، شرح وقایۃ اور ہدایہ اول کے ابواب عموماً عبادات سے متعلق ہیں، کچھ مدارس میں قدوری کے بھی شروع کے عبادات والے ابواب ہی پڑھائے جاتے ہیں، مجموعی طور پر عبادات کے بیشتر ابواب کے علاوہ مناکحات اور معمولی سا حصہ معاملات کا پڑھایا جاتا ہے، سال کے اختتام پر فقہی نصاب کی جانچ کی جائے تو بہت حقائق کھل کر سامنے آجائیں گے۔
اس میں نئے ناتجربہ کار اساتذہ عربی کے ابتدائی درجات میں بھی فقہی دقیق بحثیں اور اختلافات کی بھرمار سے درس کو بوجھل اور کم عمر طلبۂ عزیز کے کچے دماغوں کو وحشت زدہ کر دیتے ہیں، نفسِ مسئلہ کی وضاحت کرنے کی بجائے شروحات میں پڑھا ہوا ہی بیان کر دیا جاتا ہے۔
نورالایضاح
یہ ابوالبرکات حسن بن عمار الشرنبلالی کی تصنیف ہے۔ اس میں ارکان اربعہ یعنی عبادات سے بحث کی گئی۔ اکثر مدارس میں درجہ اعدادیہ یا اولیٰ میں پڑھائی جاتی ہے۔ کتاب کی ابتدا طہارت کے مسائل سے کی گئی ہے۔ طرز نگارش سادہ اور اسلوب سہل ہے۔ یہ کتاب مبتدی طلبہ کے لیے بہت مفید ہوتی اگر اس میں مصنف سے سنن و آداب اور مسائل کے نقل کرنے میں جابجا غلطی نہ ہوتی۔مبتدی طلبہ کے ذہن کچے اور شعور کی دہلیز کو ابھی چھو ہی رہے ہوتے ہیں اس لیے ایسی کوئی بھی کتاب بطور نصاب پڑھانا مفید نہیں ہو سکتا جس کی استنادی حیثیت قابل اطمینان نہ ہو۔ چھوٹے درجوں میں پڑھانے والے اساتذہ بھی عام طور پر نوخیز ہوتے ہیں (یہ موضوع الگ سے توجہ کا متقاضی ہے) اور یہ تحقیق کیے بغیر کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے، سب کچھ پڑھا دیتے ہیں جو کہ عبادات کے باب میں خاصی خطرناک چیز ہے۔
مختصر القدوری
یہ ابوالحسن احمد بن محمد قدوری بغدادی (۳۶۳ھ ۔ ۴۲۸ھ) کی غیر معمولی شہرت کی حامل کتاب ہے جو فقہ حنفی کے متفق علیہ متن کی حیثیت رکھتی ہے اور متأخرین حنفیہ نے جن چار متون فقہ کو سب سے زیادہ مستند قرار دیا ہے ان میں سے ایک ہے۔ اس میں ۶۱ کتب اور ۶۲ ابواب ہیں اور بیسیوں کتابوں سے تقریباً بارہ ہزار ضروری مسائل کا انتخاب ہے۔ فقہ حنفی کی کتب میں اس کتاب کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ بعض شارحین نے اس کا خاص امتیاز یہ لکھا ہے کہ اس کتاب کا ہر مسئلہ کسی آیت، حدیث، قول صحابی یا فتویٰ تابعی پر مبنی ہے، بہت کم مسئلے ہوں گے جو قیاس کر کے لکھے گئے ہوں اور وہ بھی اصول کے تحت مستخرج ہیں۔ صاحب ہدایہ نے شرح کے لیے جو متن (بدایۃ المبتدی) تیار کیا اس کے لیے اسی کتاب کو منتخب کیا اور اسی کو بنیاد بنا کر اس کی عظیم الشان شرح لکھی جس کو پوری دنیا میں مقبولیت حاصل ہے۔
کنز الدقائق
یہ ابوالبرکات حافظ الدین محمود نسفی (متوفیٰ ۷۱۰ھ) کی مشہور تالیف ہے اور فقہ حنفی کی اہم اور معتبر متون میں شامل ہے، اس متن میں مصنف نے اپنی کتاب الوافی کی تلخیص کی ہے، کتاب میں اختصار و ایجاز اغلاق کی حد تک ہے۔ نسفیؒ نے اپنی اس مختصر میں دو باتوں کا خاص اہتمام کیا ہے: اول یہ کہ اس میں بالالتزام دینی مسائل ذکر کیے ہیں جو ظاہر الروایت ہیں۔ دوم یہ کہ اس میں زیادہ تر ائمہ ثلاثہ کے وہی اقوال لیے ہیں جو مفتیٰ بہ ہیں لیکن کچھ مسائل غیر ظاہر الروایت اور غیر مفتی بہ بھی ہیں۔ اہل علم نے اس کتاب کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ ابن نجیم کی البحر الرائق، زیلعی کی تبیین الحقائق اور عمر بن نجیم کی النہر الفائق اس کی اعلیٰ درجہ کی شرحیں ہیں۔ اس کتاب کا بنیادی مسئلہ اس کا اسلوب بیان ہے جس میں انتہائی اختصار و ایجاز سے کام لیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر یہ احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے کتاب کو مختصر سے مختصر کرنے کی پوری کوشش کی کی ہے اور اگر ان کا بس چلتا تو پوری کتاب کو چند سطور میں سمو دیتے۔ بعض مسائل کو انہوں نے چند لفظوں میں سمونے کی کوشش کی ہے مثلاً کتاب الطہارۃ میں کنویں کے مسائل بیان کرتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں: "ومسألۃ البئر جحط"۔ جس مسئلے کو انہوں نے آدھی سے بھی کم سطر میں ذکر کیا ہے، فقہ کے طلبہ جانتے ہیں کہ یہ پوری دو تین صفحات کی بحث ہے اور جحط کے تین الفاظ سے تین فقہی مذاہب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت تک سمجھ نہیں آسکتا جب تک تمام فقہی مذاہب کی تفصیلات معلوم نہ کر لی جائیں۔
سوال یہ ہے کہ ایسے اغلاق کی کیا ضرورت ہے؟ عبادات کے ابواب میں طلبہ و اساتذہ ان باریک نقاط کے حل میں سال کا بیشتر حصہ گزار دیتے ہیں اور جب بیوع وغیرہ جیسے اہم موضوعات کی باری آتی ہے تو سال ختم ہو رہا ہوتا ہے اور پھر طلبہ میں مقبول محاورے "آخری سہ ماہی میں استاد کو سمجھ آتی ہے اور نہ ہی طلبہ کو" پر عمل ہوتا ہے اور یہ ابواب طلبہ کے سر کے اوپر سے گزر جاتے ہیں۔
شرح وقایہ
تاج الشریعۃ محمود بن صدر الشریعۃ الاکبر احمد بن جمال الدین عبداللہ محبوبی نے فقہ کا متن "وقایۃ الروایۃ فی مسائل الہدایہ" اپنے پوتے صدر الشریعۃ الاصغر عبید اللہ بن مسعود کے حفظ کرنے کے لیے لکھا اور اس میں ہدایہ کے مسائل کا خلاصہ تیار کیا۔ یہ کتاب بھی متونِ اربعہ میں سے ایک ہے۔ بعد میں پوتے یعنی صدر الشریعہ الاصغر نے ہی اس کتاب کی شرح لکھی جو شرح وقایہ کے نام سے مشہور ہے اور خود ہی وقایہ کا اختصار کیا جو نقایہ اور عمدہ کہلاتا ہے۔ اس کتاب کی استنادی حیثیت ہدایہ، قدوری اور کنز کے درجے کی نہیں اور اسلوب بیان دور از کار تفاصیل اور طوالت کا شکار ہے جس کی وجہ سے کتاب کو ختم کرنا اور سمجھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔
الہدایۃ
یہ ابوالحسن علی بن بکر مرغینانی (۵۱۱ھ ۔ ۵۹۶ھ) کی شہرہ آفاق تالیف ہے، موصوف نے قدوری اور جامع صغیر کو سامنے رکھ کر جامع صغیر کی ترتیب پر بدایۃ المبتدی تصنیف کی، پھر اس کی مبسوط شرح اسی جلدوں میں کفایت المنتہی کے نام سے مرتب کی، پھر خود ہی اس کا اختصار کیا، جس کو ہدایہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب مدارس نظامیہ میں پڑھائی جانے والی فقہ کی حیرت انگیز کتاب ہے، اس میں صاحبِ ہدایہ نے پوری کوشش کی ہے کہ مسائل کو قرآن و حدیث کی روشنی میں حل کیا جائے، چنانچہ مسئلہ کو ذکر کرنے کے بعد عقل و نقل کے ذریعے حنفیت کی ترجیح ثابت کرتے ہیں۔ اسی لیے قوی دلیل کو اخیر میں ذکر کرتے ہیں تاکہ رد پر مذکور تمام امور کا جواب بھی ہو جائے۔ صاحبِ ہدایہ کی بالغ نظری، تصنیف کے میدان میں ان کی حاکمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ مولانا بنوریؒ نے علامہ زیلعی کی نصب الرایہ کے مختصر سے پیش نامہ میں علامہ کشمیریؒ کا قول براہ راست نقل کیا ہے کہ ابن ہمام کی فتح القدیر جیسی کتاب لکھنے کے لیے اگر مجھ سے کہا جائے تو میں کام کر سکتا ہو، لیکن اگر ہدایہ جیسی کتاب لکھنے کا مطالبہ کیا جائے تو ’’ہرگز نہیں‘‘ کے سوا میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔
یہ بلاشبہ پورے فقہی ذخیرہ میں اپنے تقابلی منہج اور استدلال کی قوت کے باعث ایک منفرد حیثیت کی حامل کتاب ہے۔ اگرچہ یہ کتاب صدیوں سے نصاب درس کا حصہ رہتی آئی ہے لیکن طول کلامی کے باعث اب اس کے منتخب ابواب ہی پڑھانے کی سفارش کی جا سکتی ہے، بلکہ مختلف مذاہب فقہ کے تقابلی مطالعہ کے لیے اپنے سہل اسلوب کے باعث بدایۃ المجتہد لابن رشد القرطبی (۵۲۰ھ ۔ ۵۹۵ھ) اس کی زیادہ مستحق ہے کہ اسے ہدایہ پر ترجیح دی جائے۔
الدر المختار
یہ محمد بن علی بن محمد بن علی الحصکفی (۱۰۲۵ھ ۔ ۱۰۸۸ھ) کی لائق افتخار تالیف ہے، جس میں انہوں نے تنویر الابصار کے مغلقات کو اختصار کے ساتھ حل کیا ہے۔ یہ کتاب معتبر و مستند بھی ہے اور جامع و مختصر بھی ۔ بعض مواقع پر اختصار و ایجاز اغلاق کی حد کو پہنچ گیا ہے۔ علامہ محمد امین ابن عابدین (۱۱۹۸ھ ۔ ۱۲۵۲ھ) نے اس کی عظیم الشان شرح لکھی ہے جو حاشیہا بن عابدین، فتاویٰ شامی اور ردالمحتار کے نام سے مشہور ہے۔ یہ کتاب برصغیر میں کافی عرصے سے افتاء کا مدار بھی ہے۔ مدارس سے فقہ میں تخصص کرنے والے طلبہ عام طور پر فتویٰ دیتے ہوئے کسی اور کتاب کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ حال ہی میں دمشق سے اس کا ایک محقق نسخہ چھپا ہے جس میں کئی نسخوں کو سامنے رکھا گیا ہے، معلوم ہوا کہ ہمارے ہاں مروج نسخوں میں کئی مقامات پر اغلاط تھیں جن کو درست کر دیا گیا ہے۔
رسم المفتی
ابن عابدین شامی کا مشہور رسالہ ہے اور ہمارے مدارس میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں اپنے موضوع پر اول و آخر کتاب ہے۔ فقہ حنفی کے مطابق فتاوی نویسی کے آداب و اصول اور حدود و شرائط پر یہ کتاب سند کا درجہ رکھتی ہے جس میں علامہ شامی نے حتی الوسع وافر معلومات اور علمائے سابقین کی آرا کو جمع کر دیا ہے۔
تجاویز
تقابلی مطالعہ (فقہ مقارن)
اس وقت موجودہ نصاب فقہ میں جس مواد کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے وہ فقہ کا تقابلی مطالعہ ( فقہ مقارن)، قواعد فقہیہ مقاصد شریعت و استحسان وغیرہ کی باقاعدہ تدریس کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ و علماء بعد بہت سارے امور کو حرام قطعی قرار دے دیتے ہیں حالانکہ وہ دوسرے فقہی مذہب میں عین جائز کام ہوتا ہے۔ نیز فروعی مسائل میں شدت پر مبنی موقف اختیار کرنے کی بھی ایک وجہ ہے۔ قدما کی کتب میں سے درج ذیل کتابوں کو فقہ مقارن میں شمار کیا جا سکتا ہے:
۔ فقہ حنفی میں بدائع الصنائع للکاسانی، ہدایہ للمرغینانی، تبیین الحقائق للزیلعی
۔ فقہ مالکی میں بدایۃ المجتہد لابن رشد
۔ فقہ شافعی میں المجموع شرح المہذب للنووی
۔ فقہ حنبلی میں المغنی لابن قدامہ
۔ فقہ ظاہری میں المحلیٰ لابن حزم اندلسی
۔ فقہ زیدی میں البحر الزخار
قواعد فقہیہ و مقاصد شریعت
فقہ اور افتاء میں جزئیات کے ساتھ ساتھ قواعد شرعیہ اور مقاصد شریعت کی کتابیں بھی رکھی جانی چاہییں، ہر عالم تو مفتی نہیں ہوگا؛ لیکن وہ کچھ قواعد شرعیہ اور مقاصد شریعت سے واقف ہوگا تو اس کی روشنی میں اسلامی قوانین اور احکام شرعیہ پر ہونے والے اعتراضات کا تشفی بخش جواب دے سکتا ہے۔
قواعد کے لیے شیخ احمد زرقا کی شرح القواعد الفقہیہ، جمال الدین عطیہ کی اسلامی شریعت کا عمومی نظریہ اور شیخ مصطفیٰ زرقا کی المدخل الفقہی العام اور مقاصد شریعتِ کے لیے حامد العالم کی المقاصد العامۃ، ریسونی کی نظریۃ المقاصد عند الامام الشاطبی و الامام ابن عاشور، اور محمد طاہر ابن عاشور کی مقاصد الشریعہ وغیرہ کتابیں مفید ہیں۔
افتاء میں اسلام اور جدید معیشت، اسلامی معاشیات (مولانا سید مناظر احسن گیلانیؒ)، اسلام کا اقتصادی نظام (مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی) اور بینکنگ کے نظام وغیرہ کی بنیادی معلوماتی کتابیں پڑھانی چاہییں، مروجہ ملکی قانون سے بھی افتا کے طلبہ کو واقف کرایا جائے، اس کے کچھ ابواب پڑھائے جائیں۔
اسی طرح مدارس کے نصاب میں اصول فقہ کی قدیم کتابوں کے ساتھ ساتھ شیخ ابو زہرہ مصریؒ کی اصول الفقہ یا مصطفیٰ الزرقا کی المدخل الفقہی العام کے منتخبات اور اگر دو سالہ نصاب ہو تو اصولِ قانون میں عبد الرزاق سنہوری کی مصادر الحق کے منتخبات (جو یورپی اور اسلامی اصول قانون کا موازنہ کرتے ہوئے دونوں اصول سے طلبہ کو واقف کراتی ہے) کو بھی داخل نصاب کیا جائے۔ معاشیات کے لیے مولانا تقی عثمانی کی اسلام اور جدید معیشت و تجارت، اور علی گڑھ سے معاشیات، سیاست اور اصولِ قانون وغیرہ موضوعات پر لکھی ہوئی اردو کی کتابیں بھی بہت مفید ہوں گی۔ افتاء کے طلبہ و اساتذہ اس کو مطالعہ میں رکھیں تو بہت فائدہ ہوگا اور جدید مسائل کی تفہیم میں بہت معاون ثابت ہوں گی۔
عِلَل وحِکَم کی تعلیم
ایک اور چیز جس کی طرف توجہ دینے کی اس وقت ضرورت ہے وہ احکام کی علتوں اور حکمتوں اور ان کے اسرار سے آگہی پیدا کرنا۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی بہت ہے کہ موجودہ دور میں جو مسائل پیش آرہے ہیں اور جو مستقبل میں درپیش ہوں گے، ان کا حل اور قابلِ عمل شرعی متبادل پیش کرنا اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب احکام کی علتوں اور حکمتوں پر نظر ہو۔ یہ معلوم ہو کہ جہاں علت و حکمت کا رشتہ ٹوٹ جائے وہاں حکم کیسے معلوم کرنا ہے۔ گو کہ قدیم و معاصر فقہی لٹریچر میں اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف نہیں کی گئیں لیکن موجودہ دور اس اہم پہلو سے اغماض کی اجازت نہیں دیتا۔ دینی اداروں کے نمائندہ وفاقوں کو اس پر غور کرنا چاہیے۔ شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ، امام غزالی کی احیاء علوم الدین، حافظ ابن قیم کی اعلام الموقعین اور عزبن عبد السلام کی قواعد الاحکام کو سامنے رکھ کر نصاب کے لیے ایک دو جلدوں میں کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔
فقہ القرآن والسنۃ / آیات الأحکام اور احادیث الأحکام
گو کہ سات سال تفسیر قرآن بطور سبق مدارس میں پڑھائی جاتی ہے لیکن اس کا دائرہ کار زیادہ تر ترجمے، اسرائیلی روایات اور جلالین و بیضاوی وغیرہ کی عبارتوں کے حل تک ہی محدود رہتا ہے۔ فقہ القرآن پر عام طور پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی، جبکہ قرآن جو کہ فقہ کا اصل منبع ہے اس پر فقہی حوالے سے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں احکام القرآن جصاص، احکام القرآن قرطبی، امداد الاحکام مولانا ظفر احمد عثمانی کے منتخب ابواب کا مطالعہ کرایا جانا چاہیے تاکہ مسائل کی اصل نوعیت کا ادراک کرنے کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کا ذوق پیدا ہو۔
قواعدِ فقہیہ
تدریسِ فقہ کا ایک پہلو قواعدِ فقہیہ کی تدریس ہے۔ مدارس میں یہ بھی طاقِ نسیاں کی زینت ہے۔ تخصص فی الفقہ کرنے والے طلبہ بھی عام طور پر قواعدِ فقہیہ سے ناواقف ہوتے حالانکہ قواعدِ فقہیہ ہی تمام فقہی تفریعات کی بنیاد ہیں۔ قواعدِ فقہیہ کو نظر انداز کرنے کی ہی وجہ ہے کہ ہمارے مفتیان کرام فقہ کے معاملے میں ظاہریہ والا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ قدیم فقہاء نے اپنے زمانے کے تجربے، عرف اور شخصی مشاہدے و قیاس کی بنیاد پر جو تفریعات ذکر کر دی ہیں موجودہ دور میں بھی عرف اور زمانے کا خیال کیے بغیر ان کو اختیار کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ کسی بھی مجتہد فیہ مسئلے کا حکم قدیم تراث سے معلوم کرتے وقت اس حکم سے متعلقہ قاعدہ فقہیہ کو بھی پیش نظر رکھا جائے تاکہ لوگوں سے تنگی و مشقت اور حرج دور رہو۔ اس سلسلہ میں موجودہ دور کے نامور عرب علماء کے چند وقیع کام سامنے آئے ہیں، ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
فقہ صحابہ
کم از کم ۱۲ کبار فقہائے صحابہ (۱۔۴) خلفائے راشدینؓ، (۵) ابن مسعودؓ (۶) عائشہؓ، (۷) ابوموسیٰ الاشعریؓ، (۸) زید بن ثابتؓ، (۹) جابر بن عبداللہؓ، (۱۰) ابوہریرہؓ، (۱۱) ابن عمرؓ، (۱۲) ابن عباسؓ کی فقہ کا مطالعہ کرایا جائے یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ موجودہ دور میں احوالِ شخصیہ (عائلی قوانین) اور معیشت و تجارت کے کچھ احکام ایسے بھی ہیں جن کی نظیر متداول فقہی ذخیرے میں نہیں ملتی، لیکن عام طور پر فقہائے صحابہ میں سے کسی کا قول یا انفرادی رائے ان مسائل میں معتدل نقطۂ نظر اختیار کرنے میں معاون ثابت ہو جاتی ہے۔
خاتمہ
تدریسِ فقہ کے ان چند ایک پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نصاب کی ازسرنو تدوین کی جائے تو امید کی جا سکتی ہے کہ مدارس کے فضلاء سے اکثر علم اور دیگر حضرات شکوے و شکایات ہیں ان کا ازالہ ہو سکے گا۔
دینی مدارس میں فقہ و اصول فقہ کی تدریس: اصلاحات کی ضرورت
دینی مدارس کا نظام بہت سی خوبیوں کا حامل ہے تاہم اسے مزید مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کرنا ہمارے پیش نظر نہیں، ہم صرف مختصر طور پر فقہ و اصول فقہ کی تدریس کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کی جاتی ہیں۔
دینی مدارس کا فقہ و اصول فقہ کا موجودہ نصاب جن علمائے کرام نے ابتداءً تجویز کیا تھا غالباً ان کے پیش نظر یہ تھا کہ طلبہ اپنے فقہی ذخیرے سے واقف ہو جائیں، اور چونکہ برصغیر میں مسلمانوں کی کثیر تعداد حنفی تھی، لہٰذا انہوں نے حنفی متون میں سے قدوری اور ہدایہ اور ان کے اصول استنباط کو سمجھنے کے لیے اصول میں نورالانوار اور مسلم الثبوت جیسی کتب شامل کرنے پر اکتفا کیا۔ ان کے پیش نظر یہ تھا کہ علماء کرام مساجد میں عام مسلمانوں کو دینی مسائل بتا سکیں، فتاویٰ جاری کر سکیں اور مدارس میں فقہ کی تدریس کے اہل ہوجائیں۔ جب کہ آج حالات بدل چکے ہیں اور مقاصد تدریس کے حوالے سے ہم مندرجہ ذیل تجاویز اہل مدارس کے غور و فکر کے لیے ان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
- فقہ میں تقابلی مطالعہ کو رواج دیا جائے اور حنفی فقہ کے ساتھ دوسرے مذاہب کا مطالعہ بھی کرایا جائے۔ اس سے طلبہ کے علم میں وسعت آئے گی، توسع پیدا ہوگا اور مسلک پرستی کا اثر کم ہوگا۔ اس کے لیے پرانی کتابوں میں سے بدایۃ المجتہد اور نئی کتابوں میں سے وہبۃ الزحیلی کی الفقہ الاسلامی وادلتہ کا مطالعہ کرایا جا سکتا ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دو سے مذاہب کے فقہ کے اساتذہ سے کچھ محاضرات دلوا دیے جائیں۔
- پاکستان کے آئین اور قوانین خصوصاً اسلامی قوانین کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔
- مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مسلم ممالک پر انطباق کی وجہ سے اقوام متحدہ کے قوانین (مثلاً بنیادی انسانی حقوق کا ڈکلیریشن) کا مطالعہ بھی کرایا جانا چاہیے۔
- فقہ القرآن والسنۃ کو بھی جزو نصاب ہونا چاہیے اور طلبہ کو اس کی پریکٹس بھی کروائی جانی چاہیے تاکہ انہیں قرآن و سنت سے استنباط کا سلیقہ آجائے۔
- متون رٹنے کی بجائے طلبہ کو ان کے فہم کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس کے لیے کوئی حرج نہیں اگر ابتدائی درجوں میں فقہ اور اصول فقہ کی کتابیں اردو میں پڑھیں اور آخری سالوں میں جب ان کی عربی بہتر ہو جائے تو پھر عربی مراجع سے بھی استفادہ کر لیں۔
- تقابلی مطالعے اور پاکستانی و بین الاقوامی قوانین کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ کو عربی کے ساتھ انگریزی زبان میں بھی اتنی مہارت ہو کہ وہ انگریزی عبارتوں کو بسہولت پڑھ اور سمجھ سکیں۔
- عصری علوم کا ضرورت کی حد تک مطالعہ بھی ناگزیر ہے کیونکہ ڈی این اے، بینکنگ، انتقالِ اعضا اور دوسرے بہت سے جدید امور میں علمائے اسلام سے سوالات کیے جاتے ہیں۔
- جن دینی مدارس میں تخصص فی الفقہ کا انتظام ہوتا ہے وہاں بالعموم فتویٰ جاری کرنے کی صلاحیت اور ٹریننگ پر زیادہ زور دیا جاتا ہے حالانکہ انہیں مذکورہ بالا تجاویز کے مطابق تقابلی مطالعے اور جدید فقہی مسائل کے حل پیش کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ اس کے لیے تخصص کی سطح پر طرقِ تحقیق کا ایک پرچہ لازماً ہونا چاہیے تاکہ تخصص کے طلبہ جدید جامعات کے فقہ میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مساوی سمجھے جا سکیں۔
- اسی طرح اصولِ فقہ کی تدریس کے وقت احناف کے منہجِ استنباط کے ساتھ دوسرے مذاہب کے مناہج استنباط کا تقابلی مطالعہ بھی ضروری ہے۔ دوسرے مذاہب کے وجوہِ استدلال سامنے آنے کے بعد ان کے باطل و گمراہ ہونے کا رجحان یقیناً کمزور پڑے گا اور ذہن میں یہ راسخ ہوگا کہ یہ ایک اجتہادی اور نصوص کی تعبیر و تشریح کا معاملہ ہے۔ ہمارے پاس ہمارے موقف کی دلیل ہے۔ ہم صرف ایک موقف کو بوجوہ ترجیح دے رہے ہیں۔
- ایک فقیہ اور ایک عام عالم میں اور ان کے طریق تربیت میں فرق ہونا چاہیے۔ فقیہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ طلبہ میں فقہ و استنباط کا ملکہ اور صلاحیت پیدا کی جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت کے عمومی مطالعے کا خصوصی ذوق بیدار کیا جائے اور ماضی کے فقہاء اور ان کے کام پر نظر رکھنے کے بعد ان کے سامنے فرضی اور تقدیری امور رکھ کر (جدید جامعات میں case study کی طرز پر) ان سے استنباط کی باقاعدہ مشق کرائی جائے تاکہ ان میں مجتہدانہ شان پیدا ہو جائے۔ آئیڈیل تربیت کا یہ معیار سامنے رکھا جائے تو پھر ہی کچھ ایسے طلبہ سامنے آئیں گے جو آج کے معاشرے اور ریاست کو جدید مسائل اور قانونی شعبے میں رہنمائی مہیا کر سکیں۔
امید ہے دینی مدارس ہماری ان تجاویز پر ہمدردانہ غور فرمائیں گے تاکہ دینی مدارس میں فقہ و اصول فقہ کی تدریس کا معیار بہتر سے بہتر ہو سکے۔
حواشی
(1) میری علمی ومطالعاتی زندگی ، مولانا عبد القیوم حقانی ، ص 94-96
(2) دینی مدارس نقد و نظر کے آئینے میں ، مولانا زاہد الراشدی بحوالہ الافاضات الیومیہ ، جلد دشسشم، ص 435
(3) http://www.wifaqulmadaris.org/nisab.php
(4) http://tanzeemulmadaris.com/Syllabus.aspx?Path_Id=5
اہلِ کتاب خواتین سے نکاح: جواز و عدم جواز کی بحث
مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
اسلام میں مشرکین سے واضح امتیاز برتتے ہوئے اہلِ کتاب کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا گیا ہے اور ان کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔ جمہور کا اس پر اتفاق ہے۔ اگرچہ بعض صحابہ و تابعین کو اس سے اختلاف بھی رہا ہے۔اسلامی تاریخ میں جمہور کے قول پر ہی عمل رہا ہے۔ البتہ موجودہ دور میں کئی اعتبارات سے اس مسئلے پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں اور اس حوالے سے مختلف رجحانات ابھر کر سامنے آئے ہیں: ایک رجحان جمہور صحابہ و تابعین کے موقف کے مطابق بالکلیہ جواز کے حق میں رہا ہے۔ جب کہ دوسرا رجحان اس کے مکمل طور پر حرام ہونے کا قائل ہے۔
دورِ جدید میں عالمِ اسلام کی بعض اہم شخصیات مثلاً محمد یوسف موسیٰ، علامہ ابن بادیس وغیرہ مطلق تحریم کی قائل رہی ہیں۔ یوسف موسیٰ کی اس موضوع پر کتاب کا نام ہے: جریمۃ الزواج بغیر المسلمات: فقہا وسیاسۃ۔ تیسرا رجحان ان دونوں کے مابین ہے یعنی یہ کہ کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ مع الکراہت اس کی اجازت ہے۔کم و بیش یہی تینوں رجحانات اپنی تائید میں دلائل کے اختلاف کے ساتھ ماضی میں بھی رہے ہیں۔
کتابیہ کے ساتھ نکاح کے جواز کے دلائل
اہلِ کتاب خواتین کے ساتھ نکاح کے جواز کی دلیل سورہ مائدہ کی پانچویں آیت ہے:
الیوم احل لکم الطیبت و طعام الذین اوتوا الکتب حل لکم و طعامکم حل لہم و المحصنت من المؤمنت و المحصنت من الذین اوتوا الکتب من قبلکم۔
’’آج تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔ اہلِ کتاب کا کھانا تمہارے لیے حلال ہے اور تمہارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمہارے لیے حلال ہیں خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی‘‘۔ (المائدۃ:۵)
اس پر عمل کرتے ہوئے متعدد صحابہ کرام نے بھی اہل کتاب خواتین سے شادیاں کیں۔ خود خلیفہ ثالث حضرت عثمان غنی نے نائلہ بنت الفرافصہ الکلبیہ سے شادی کی جو بعد میں مسلمان ہو گئیں۔ اسی طرح طلحہ بن عبید اللہ اور حذیفہ بن الیمان وغیرہ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ انہوں نے کتابی خواتین سے شادیاں کیں۔(۱) چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں ہے:
وقد تزوج جماعۃ من الصحابۃ من نساء النصاری ولم یروا بذلک باسا اخذا بہذہ الآیۃ الکریمۃ (ای آیۃ المائدۃ:۵)
’’اسی سورہ مائدہ کی پانچویں آیت سے استدلال کرتے ہوئے صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے نصاریٰ کی عورتوں سے شادی کی اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا‘‘۔(۲)
البتہ بعض فقہاء سے مختلف شرطیں اور قیود مروی ہیں۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک بنی تغلب (مسیحی عرب قبیلہ) کی خواتین سے نکاح جائز نہیں ہے۔ امام شافعی اس کے جواز کو صرف اسرائیلی خواتین کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ آیت ہے جس میں بنی اسرائیل کو اہلِ کتاب قرار دیا گیا ہے:
ولقد آتینا بنی اسرائیل الکتاب والحکم والنبوۃ۔
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کو کتاب، حکومت اور نبوت سے نوازا۔ (الجاثیۃ،۱۶)
صحابہ میں سے عبد اللہ ابن عباس کا موقف ہے کہ صرف ذمی و معاہد خواتین سے نکاح جائز ہے۔(۳) تاہم جمہور اس تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک ذمی و غیر ذمی اور معاہد و محارب دونوں طرح کی خواتین اہل کتاب سے نکاح جائز ہے۔ البتہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے جواز کے ساتھ اس میں کراہت پائی جاتی ہے۔
عدمِ جواز کے قائلین اور ان کے دلائل
عدمِ جواز کے قائلین میں صحابہ کرام میں حضرت عبد اللہ بن عمر کا نام آتا ہے۔ ان کے بارے میں روایت ہے کہ جب ان سے یہودی و نصرانی خواتین کے ساتھ نکاح کی بابت سوال کیا جاتا تھا تو وہ جواب دیتے تھے کہ:
ان اللہ حرم المشرکات علی المسلمین ولا اعلم من الشرک شیئا اعظم من ان تقول ربھا عیسی بن مریم وہو عبد من عبید اللہ۔
’’اللہ تعالی نے مومنین پر مشرک خواتین کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ اس سے بڑھ کر اور شرک کیا ہوگا کہ وہ (یعنی مسیحی خواتین) اس کی قائل ہوں کہ ان کا رب حضرت مسیح ہیں۔ حالانکہ وہ خدا کے بندے تھے‘‘۔(۴)
حضرت عبد اللہ بن عمر کا استدلال سورہ بقرہ کی اس آیت سے ہے جس میں اللہ تعالی نے مشرکین کی عورتوں سے نکاح سے منع کیا ہے:
ولا تنکحوا المشرکات حتی یؤمن و لامۃ مؤمنۃ خیر من مشرکۃ و لو اعجبتکم۔
’’اور مشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہو جائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو۔‘‘ (البقرۃ،۲۲۱)
موجودہ دور میں اس رجحان کے نمائندگان کی دلیل یہ ہے کہ اب اہلِ کتاب خاص طور پر مسیحی اپنے صحیح دین پر عامل نہیں رہے۔سیکولر مادیت کا رجحان اس پر اس قدر غالب آچکا ہے کہ مذہب کے بنیادی حقائق اور اساسی تصورات پر ان کا یقین باقی نہیں رہا۔ اس طرح اصل مسیحیت گم ہو چکی ہے۔ بنا بریں ان کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بعض اصحابِ علم کی رائے یہ رہی ہے کہ اس سے مراد وہ اہلِ کتاب ہیں جو غیر محرف مذہبی کتابوں کے پیروکار ہیں لیکن یہ نہایت کمزور بات ہے۔ علامہ رشید رضا تفسیر المنار میں لکھتے ہیں:
قد احل اکل طعام اہل الکتاب و نکاح نسائہم علی الحال التی کانو اعلیہا فی زمن التنزیل وکان ہذا من آخر ما نزل من القرآن۔ وقد وصفہم بانہم حرفوا کتبہم ونسوا حظا مما ذکروا بہ فی ہذہ السورۃ نفسہا کما وصفہم فیما نزل قبلہا ولم یتغیر یوم استنبط الفقہاء تلک المسألۃ شئ من ذلک۔
’’اہلِ کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کو اس حال کے باوجود جائز قرار دیا گیا جس حال پر نزولِ قرآن کے زمانے میں وہ تھے۔ قرآن کی یہ آیت جس میں اہلِ کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کو حلال قرار دیا گیا ہے، نزولِ قرآن کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔ قرآن کے مطابق اہلِ کتاب اپنی کتابوں میں تحریفات کے مرتکب ہوئے اور احکاماتِ خداوندی کے بڑے حصے کو انہوں نے بھلا دیا تھا، اسی کا ذکر اسی سورت میں موجود ہے۔ اہلِ کتاب کے اوصاف کا ایسا ہی بیان سورہ مائدہ سے قبل نازل ہونے والی آیاتِ قرآنی میں موجود ہے۔ اور اس بیان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی (یعنی اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہوا تھا) جب فقہاء نے اہلِ کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کے حلال ہونے کا مسئلہ مستنبط کیا۔‘‘(۵)
ممکنہ درست موقف کیا ہے؟
ابن قدامہ المغنی میں لکھتے ہیں:
لیس بین اہل العلم اختلاف فی حل حرائر نساء اہل الکتاب و من روی عنہ ذلک عمر و عثمان و طلحہ و حذیفہ و سلمان و جابر و غیرہم۔
’’اہلِ علم کے درمیان اہلِ کتاب آزاد خواتین کے ساتھ نکاح کے حلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت عمر، عثمان، طلحہ، حذیفہ، سلمان اور جابر رضی اللہ عنہم سے اس کے حلال ہونے کا موقف مروی ہے‘‘۔(۶)
رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ ابن عباس کا موقف ہے کہ یہ آیت جس میں مشرک خواتین سے نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ سورہ مائدہ کی مذکورہ آیت سے منسوخ ہے۔ جہاں تک حضرت عبد اللہ ابن عمر کے موقف کا سوال ہے، بعض علماء نے اسے تحریم کے بجائے کراہت پر محمول کیا ہے۔ ابن تیمیہ اور بعض دوسرے علماء کی یہی رائے ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس شدت کے ساتھ یہ قول ان سے مروی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی حرمت کے ہی قائل تھے اور اس آیت (البقرہ:۲۲۱) کو جس میں مشرکین کے ساتھ نکاح سے منع کیا گیا ہے، دوسری آیت (المائدۃ،۵) کا ناسخ تصور کرتے تھے، جس میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ ابن تیمیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر کا قول کراہت پر محمول ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وقد روی انہ کرہ نکاح النصرانیۃ وہ الیوم مذہب طائفۃ من اہل البدع وقد احتجوا بالآیۃ فی سورۃ البقرۃ۔
’’روایت کے مطابق حضرت عمر نصرانی عورت سے نکاح کو پسند نہیں کرتے تھے۔ آج اہل بدعت کے ایک گروہ کا مذہب یہی ہے۔ انہوں نے سورہ بقرہ کی آیت سے استدلال کیا ہے‘‘۔(۷)
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہلِ علم کا ایک طبقہ مطلقاً اس کے عدمِ جواز کا بھی قائل رہا ہے لیکن مستند اہلِ علم اسے بدعت سے تعبیر کرتے تھے۔ چناں چہ فقہ جعفری کا نقطہ نظر وہی ہے جو حضرت عبداللہ ابن عمر کا ہے۔
میرے خیال میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس حوالے سے علمائے امت کے درمیان دو موقف رہے ہیں۔ دو مواقف کی تعبیر اس وقت درست ہوگی جبکہ دوسرے موقف کے حاملین میں قابل ذکر علماء کی ایک تعداد شامل ہو حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں تک حضرت عبد اللہ بن عمر کے موقف کا معاملہ ہے تو اسے ان کے تفرد پر محمول کرنا چاہیے جس کی مثالیں صحابہ کرام کے یہاں بکثرت پائی جاتی ہیں، جیسے ابو طلحہ اولہ کھانے کو ناقض صوم تصور نہیں کرتے تھے اور حضرت حذیفہ طلوع آفتاب تک سحری کھانے کی گنجائش کے قائل تھے۔
جواز و عدم جواز سے ہٹ کر ایک رجحان ابتدا سے جواز کے ساتھ کراہت کا رہا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے حضرت حذیفہ سے فرمایا کہ وہ اپنی کتابی بیوی کو طلاق دے دیں۔ حضرت علی سے بھی کراہت منقول ہے۔ اسی طرح تابعین میں عطا بن رباح اور تبع تابعین و فقہائے مجتہدین میں حضرت امام مالک سے شدت کراہت کا قول مروی ہے۔ جبکہ ابن تیمیہ نے اکثر علماء سے کراہت نقل کی ہے۔
معاصر کتابی خواتین کے ساتھ نکاح کا حکم
اس موضوع پر گفتگو کی دوسری شق اور اس کا مرکزی پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں کتابی خواتین کے ساتھ نکاح کے جواز و عدمِ جواز کے حوالے سے ممکنہ درست موقف کیا ہو سکتا ہے؟ اس سوال کے پیدا ہونے کی مختلف وجوہات ہیں جن میں سے اہم یہ ہیں:
- یورپ میں اصلاح اور نشاۃِ ثانیہ کی تحریک کے بعد مسیحیت کے مذہبی تصورات میں اساسی نوعیت کا تغیر پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً خدا کے حوالے سے ڈے ازم (Deism) کا تصور جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کا فعال تعلق اس کائنات کے ساتھ باقی نہیں رہا۔ اس نے دنیا کی تخلیق تو ضرور کی ہے لیکن اب نظام کائنات سے وہ دست کش ہو چکا ہے۔ اسی طرح غیر مشخص یا امپرسنل گاڈ (Impersonal God) کا تصور جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کی ذات اس کائنات سے الگ نہیں ہے بلکہ اس کا حصہ ہے۔ وہ کوئی مشخص ذات نہیں کہ ہر شخص اس سے اپنا تعلق قائم کرے اور اس سے دعائیں مانگے۔ یہ تو تب ہے جب کہ کم از کم خدا کے وجود کو تسلیم کیا جائے۔ ورنہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے اکثر مفکرین ملحد و مادیت پرست رہے ہیں جیسے نطشے، مارکس، فرائڈ ،فیورباخ وغیرہ۔ اب اس وقت سیکولرزم نے الحاد کی ہی نہیں بلکہ بقول کنیڈین فلاسفر چارلس ٹیلر الحاد کے دھماکہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔ اس پہلو کا سب سے بہترین مطالعہ ٹیلر نے اپنی کتاب A Secular Age میں کیا ہے۔
- دوسری اہم وجہ یورپ کا سماج ہے۔ وحی کے بجائے مجرد اور تکنیکی عقل اور روحانیت سے مکمل پہلو تہی کے ساتھ محض سیکولر مادیت کی بنیاد پر یورپ میں جس اخلاقیات کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں حیا و عفت کے تصورات بہت حد تک اباحیت میں گم ہو چکے ہیں۔
- تیسری وجہ یہ ہے کہ اسلام میں کتابیہ سے شادی کا جواز اس سماجی سیاق سے تعلق رکھتا ہے جب اسلام کو ایک تہذیبی قوت حاصل تھی۔ وہ اپنا سیاسی و ثقافتی غلبہ رکھتا تھا۔ اس لیے کتابی خواتین کے حوالے سے یہ امید غالب تھی کہ وہ اسلامی ماحول میں اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر یا تو اسلام قبول کر لیں گی یا کم از کم شوہر اور بچوں پر زیادہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔ لیکن اب صورتحال بالکل تبدیل ہو چکی ہے ۔سیاسی و تہذیبی مغلوبیت کے شکار مسلمانوں کی اکثریت دوسروں کو اپنے اسلامی رنگ میں رنگنے کی بجائے اس کے غیر اسلامی رنگ میں رنگ جانے کی صلاحیت زیادہ رکھتی ہے۔ مغرب کی آزاد سوسائٹی میں بچوں کی اسلامی تربیت تو ویسے ہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ ماں غیر مسلم ہو اس کا یہ امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ اس تربیت کی کمی باپ سے پوری ہو جائے گی۔
ایسی صورت میں درست موقف یہ نظر آتا ہے کہ اہلِ کتاب خواتین سے نکاح جائز تو ہے لیکن وہ جن شرطوں کے ساتھ مشروط ہے ان کا وجود معدوم نہیں تو بہت حد تک مشکوک ضرور ہے۔ اہلِ کتاب اور محصنات کے تصور میں شرط کے طور پر بظاہر یہ بات شامل ہے کہ کتابی خواتین سماوی دین کے بنیادی تصورات پر قائم ہوں اور یہ ہے کہ وہ عفیفہ اور پاک باز ہوں جو آج مغربی معاشرے میں بہت کم ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نص کے جواز کو محدود سے محدود تر رکھنے کی کوشش کی جائے۔
مولانا امین احسن اصلاحی کا موقف اس حوالے سے بہت حد تک اعتدال پر مبنی ہے۔ وہ متعلقہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"اگر ماحول اسلامی تہذیب و معاشرت کا ہو اور آدمی کسی حد تک چال چلن کی کتابیہ سے نکاح کر لے تو اس میں مضائقہ نہیں لیکن کافرانہ ماحول میں جہاں کفر اور اہلِ کفر کا غلبہ ہو اس قسم کا نکاح چاہے اس آیت کے الفاظ کے خلاف نہ ہو لیکن اس کے فحوی، اس کی روح اور اس کے موقع و محل کے خلاف ضرور ہے۔ اسلام کے بہت سے قوانین دارالاسلام کی شرط کے ساتھ مشروط ہیں۔ اسی طرح بعض رخصتیں اور اجازتیں بھی خاص ماحول اور خاص حالات کے ساتھ مشروط ہیں‘‘۔(۸)
حواشی و حوالہ جات
۱۔ احکام القران، جصاص، ج، ۲، دیوبند: زکریا بک ڈپو، سن ندارد، ص، ۴۰۸۔۴۰۹
۲۔ ابن کثیر، ج، ۲، الریاض، دار عالم الکتب، ۱۹۹۷، ص،۲۸
۳۔ ابوبکر جصاص، احکام القرآن، ج، ۲ص،۴۱۱
۴۔ ایضا، ص،۴۰۹
۵۔ رشید رضا، تفسیر المنارج،۶، ، بیروت:دارالفکر، سن ندارد، ص،۱۷۹
۶۔ ابن قدامۃ، المغنی ج،۹،ص،۵۴۵، مکتبہ شاملہ
۷۔ ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی، ج،۱۴، ص،۹۱ مکتبہ شاملہ
۸۔ مولانا امین احسن اصلاحی، تدبر قرآن جلد ۲، دہلی: تاج کمپنی،۲۰۰۹، ص،۴۶۶
جارج برنارڈشا کی پیشِین گوئی
حامد میر
جارج برنارڈ شا کو شیکسپیئر کے بعد انگریزی کا دوسرا بڑا ڈرامہ نگار اور ادیب کہا جاتا ہے۔ جارج برنارڈ شا کو 1925ء میں ادب کا نوبل انعام ملا۔ وہ جنگ کا مخالف تھا اور برطانوی حکومت کی پالیسیوں کا ناقد بھی تھا۔ جارج برنارڈشا نے اپنی زندگی میں ایک ایسی پیشِین گوئی کی جس پر مسلمان بہت فخر کر سکتے ہیں لیکن فخر کے ساتھ ساتھ یہ پیشِین گوئی سب سے زیادہ غور و فکر کا تقاضا بھی مسلمانوں سے کرتی ہے۔
جارج برنارڈشا نے نبی کریم حضرت محمد ﷺ کے بارے میں کہا تھا کہ میں نے ان کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور میرے خیال میں وہ اینٹی کرائسٹ (مسیحیت کے مخالف) نہیں تھے بلکہ محمدؐ انسانیت کے نجات دہندہ تھے۔ جارج برنارڈشا نے یہ پیشِین گوئی کی کہ آئندہ سو برسوں میں اگر کوئی مذہب برطانیہ بلکہ پورے یورپ پر حکومت کر سکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہو سکتا ہے۔
برنارڈشا ابتدا میں اسلام کا ناقد تھا۔ 1935ء میں کینیا کے شہر ممباسا میں اس کی ملاقات ہندوستان کے معروف عالم دین مولانا عبد العلیم صدیقی سے ہوئی۔ اس ملاقات میں صلیبی جنگوں پر گفتگو کے دوران برنارڈشا نے کہا کہ کیا درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا؟ مولانا عبد العلیم صدیقی نے بتایا کہ قرآن مجید میں واضح حکم ہے کہ دین میں جبر نہیں۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات وہی ہیں جو حضرت ابراہیمؑ سے حضرت عیسٰیٰؑ تک سبھی انبیاء کو بتائی اور سکھلائی گئیں، لیکن جب ان تعلیمات کو کچھ پیروکاروں نے اپنے ذاتی مفاد کیلئے مسخ کرنا شروع کر دیا تو پھر آخری نبی ﷺ کے ذریعے قرآن پاک کی سورہ شوریٰ میں کہا گیا کہ
’’اللّٰہ نے تمہارے لئے دین کا وہی راستہ مقرر کیا ہے جسے اختیار کرنے کا حکم ہم نے نوحؑ کو دیا تھا اور جس کی اے نبیؐ ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی اور جس کا ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو حکم تھا۔’’
قرآن مجید کے یہ حوالے سن کر جارج برنارڈ شا نے مولانا عبد العلیم صدیقی کا شکریہ ادا کیا اور پھر لندن واپس آ کر برنارڈشا نے قرآن کے ساتھ ساتھ نبی کریم ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا۔ اس نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر حضرت محمد ﷺ کو محسنِ انسانیت اور اسلام کو یورپ کا مستقبل قرار دیا، لیکن مسلمانوں کے متعلق اس کی رائے اتنی اچھی نہ تھی۔ وہ مولانا عبد العلیم صدیقی جیسے علماء کی تعظیم کرتا تھا لیکن اکثر مسلمانوں کے کردار کو اسلامی تعلیمات کے برعکس پاتا تھا۔ اسلامی تعلیمات اور اکثر مسلمانوں کے کردار میں پائے جانیوالے تضاد کے باوجود جارج برنارڈشا نے اسلام کو یورپ کا مستقبل کیوں قرار دیا؟ جارج برنارڈ شا نے جب نبی کریم ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا تو اسے ریاستِ مدینہ کا تصور اس فلاحی مملکت کے تصور کے بہت قریب نظر آیا جو ہر امن پسند ادیب اور دانشور کا خواب ہوتا ہے۔
میں دوسروں کی کیا بات کروں؟ جب اپنے آپ پر نظر ڈالتا ہوں تو خود کو بڑا خوش قسمت پاتا ہوں کہ ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا لیکن جب اپنے کردار و عمل کا جائزہ لیتا ہوں تو کمزوریاں ہی کمزوریاں نظر آتی ہیں۔ میرے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا بہترین جہاد ہے۔ یہ حدیث مجھ جیسے مسلمانوں کو اچھی تو بہت لگتی ہے لیکن ہم میں سے کتنے ہیں جو جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت رکھتے ہیں؟ جابر سلطان تو دور کی بات ہم اپنے باس کے سامنے سچ نہیں بولتے بلکہ چھوٹے چھوٹے مفاد کیلئے جھوٹ بولتے رہتے ہیں جبکہ قرآن میں جھوٹ کو سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ تو جیسے عوام ویسے حکمران۔ عوام ایک دوسرے سے جھوٹ بولتے ہیں اور حکمران عوام سے جھوٹ بولتے ہیں۔ ہماری عدالتوں کے جج اپنے فیصلوں میں قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہیں لیکن کردار یہ ہے کہ اکثر ججوں کی عدالت میں مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی فیصلے کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے۔
جس اسلام کا مطالعہ جارج برنارڈ شا نے کیا اس کی بنیاد امن، انصاف اور جمہوریت ہے۔ لیکن جس اسلام کو ہم ایک دوسرے پر نافذ کرنے کی کوشش میں ہیں اس میں ہمیں اپنے اردگرد چھوٹے چھوٹے ڈکٹیٹروں کی بہتات نظر آتی ہے۔ میں ایسے طاقتور لوگوں کو اپنے لئے اللّٰہ کا عذاب سمجھتا ہوں جو ہر تقریر میں قرآنی آیات کے حوالے دیتے ہیں لیکن ان کا کردار ان آیات کے مفہوم سے بہت دور نظر آتا ہے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ کی مثال لے لیں۔ اسے مجلسِ شوریٰ کہا جاتا ہے کیونکہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے تمام معاملات صلاح مشورے سے طے کرنے کا حکم دیا۔ اس پارلیمنٹ کی پیشانی پر کلمہ طیبہ تحریر ہے۔ اس پارلیمنٹ میں جو کچھ ہوتا ہے کیا وہ اسلام کے عین مطابق ہے؟ سب جانتے ہیں کہ اس پارلیمنٹ میں ملک و قوم کے مفاد میں کون سا قانون بنتا ہے اور کسی فرد یا گروہ کے مفاد کیلئے کیسے قانون بنایا جاتا ہے؟ سب کو پتہ ہے کہ قانون سازی کیلئے یا اہم عہدوں کے انتخاب کیلئے اس پارلیمنٹ کے ارکان کے ووٹ کیسے خریدے جاتے ہیں؟ اور جو اپنا ووٹ نہ بیچے اسے اغوا کر کے کون کون کیسے کیسے تشدد کا نشانہ بناتا ہے؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ اپنے ذاتی اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے اراکینِ پارلیمنٹ کے ووٹوں کی خرید و فروخت کرنیوالے حکمران ہر سال ۱۲ ربیع الاول کو سیرت کانفرنسوں سے خطاب کرتے ہیں اور ہم جیسے گناہ گاروں سے یہ توقع کرتے ہیں ہم انہیں اسلام کا سپاہی قرار دے کر ان کی منافقانہ سیاست کی حمایت کریں۔ ہم سب بھول جاتے ہیں کہ ہم نے اللّٰہ تعالیٰ کو جان بھی دینی ہے اور پھر ہمارا حساب کتاب بھی ہونا ہے۔ کیا ہمارے کردار کو دیکھ کر کوئی غیر مسلم اسلام قبول کرے گا؟ بالکل نہیں!
یورپ میں اسلام اس لئے پھیل رہا ہے کہ وہاں علم و فکر پر پہرے نہیں بٹھائے جاتے۔ آزادئ اظہار پر ویسی قدغنیں نہیں لگائی جاتیں جیسی پاکستان، بنگلہ دیش، ترکی، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک میں لگائی جاتی ہیں، جہاں جمہوریت کے نام پر آمریت قائم کرنے کا کام پارلیمنٹ سے لیا جاتا ہے۔ یورپ میں اسلام اس لئے پھیل رہا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا تھا کہ
’’خبردار! نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو عربی پر۔ اور نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ کالے کو گورے پر فضیلت حاصل ہے، فضیلت کی بنیاد صرف تقویٰ ہے۔‘‘
یورپ میں اسلام اس لئے پھیل رہا ہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات میں علم سے محبت کی گئی، مساوات کا درس دیا گیا اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، یہاں تک کہ جانوروں اور نباتات کو بھی تحفظ دیا گیا۔ آج یورپ میں مسلمانوں کو جو حقوق حاصل ہیں کیا ہم نے وہ حقوق غیر مسلموں کو دیئے ہیں؟ ریاستِ مدینہ میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کیلئے انصاف برابر تھا۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ اسلام تو تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے لیکن ہم جیسے پیدائشی مسلمان پیچھے رہ گئے ہیں۔ فلسطین میں جو ظلم ہوا اس پر بھی یورپ میں زیادہ بڑے جلوس نکالے گئے جبکہ پیدائشی مسلمانوں کے ابن الوقت حکمران گول مول تقریروں سے کام چلاتے رہے۔ ۱۲ ربیع الاول خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ کا یومِ ولادت ہے، اس دن تقاریر بھی کریں، بڑی بڑی مجالس کا انعقاد بھی کریں لیکن پیارے نبی ﷺ کی پیروی میں حقوق العباد کا بھی خیال کریں۔ وہ حقوق العباد جن کے تحفظ نے جارج برنارڈ شا کو ہمارے نبی ﷺ کا گرویدہ بنایا۔
سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی، اردو کے پہلے ادیب و مصنّف
دلائل و شواہد کے تناظر میں
طفیل احمد مصباحی
اردو زبان و ادب کے فروغ و استحکام اور اس کی ترویج و اشاعت میں صوفیائے کرام کی خدمات تاریخی مسلمّات سے ہیں۔ بابائے اردو مولوی عبد الحق کی بلند پایہ تحقیقی کتاب "اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام" اس کی واضح مثال ہے، جس میں صوفیائے کرام کی ادبی و لسانی کارگذاریوں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان نفوسِ قدسیہ نے دین و مذہب کی تبلیغ و توسیع کے علاوہ کس طرح گیسوئے ادب کی مشاطگی کی ہے اور اس کی نشو و نما میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ضروری ہے کہ مبلغ عوامی زبان سے پوری طرح واقف ہو۔ اردو زبان سے صوفیائے کرام کی دلچسپی کی ایک بڑی وجہ دعوت و تبلیغ بھی رہی ہے۔ عوام و خواص کے دلوں پر حکومت کرنے والے صوفیائے کرام اور مشائخِ ملت عوامی زبان اس لیے سیکھتے کہ دعوت و تبلیغ کا فریضہ بہتر اور مؤثر طریقے پر انجام پا سکے۔ مولوی عبد الحق کے بقول:
’’علما و امرا بلکہ حکومتوں اور بادشاہوں سے بھی وہ کام نہیں ہو سکتا جو فقیر اور درویش کر گزرتے ہیں۔ بادشاہ کا دربار خاص ہوتا ہے اور فقیر کا دربار عام ہے جہاں بڑے چھوٹے، امیر غریب، عالم جاہل کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ بادشاہ جان و مال کا مالک ہوتا ہے، لیکن فقیر کا قبضہ دلوں پر ہوتا ہے۔ اس لیے اُن کا اثر محدود ہوتا ہے اور اِن کا (صوفیوں اور درویشوں) بے پایاں۔ اور یہی سبب ہے کہ درویش کو وہ قوت و اقتدار حاصل ہو جاتا تھا کہ بڑے بڑے جبّار اور با جبروت بادشاہوں کو بھی اس کے سامنے سر جھکانا پڑتا تھا۔ مسلمان درویش ہندوستان میں پُرخطر اور دشوار گزار رستوں، سر بفلک پہاڑوں اور لق و دق بیابانوں کو طے کر کے ایسے مقامات پر پہنچے جہاں کوئی اسلام اور مسلمان کے نام سے بھی واقف نہ تھا اور جہاں ہر چیز اجنبی اور ہر بات ان کی طبعیت کے مخالف تھی۔ جہاں کی آب و ہوا، رسم و رواج، صورت و شکل، آداب و اطوار، لباس، بات چیت غرض ہر چیز ایسی تھی کہ ان کو اہلِ ملک سے اور اہلِ ملک کو ان سے وحشت ہو۔ لیکن حال یہ ہے کہ انہیں وصال کیے صدہا سال گزر چکے ہیں، لیکن اب بھی ہزاروں لاکھوں بندگانِ خدا صبح و شام ان کے آستانوں پر پیشانیاں رگڑتے ہیں اور جن جن مقامات پر ان کے قدم پڑے تھے وہ اب تک "شریف" اور "مقدس" کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ کیا بات تھی؟ بات یہ تھی کہ ان کے پاس دلوں کے کھینچنے کا وہ سامان تھا جو نہ امرا و سلاطین کے پاس ہے اور نہ علما و حکما کے پاس۔ لیکن دلوں کو ہاتھ میں لانے کے لیے سب سے پہلے ہم زبانی لازم ہے۔ ہم زبانی کے بعد ہم خیالی پیدا ہوتی ہے۔ درویش کا تکیہ سب کے لیے کھلا تھا۔ بلا امتیاز ہر قوم و ملت کے لوگ ان کے پاس آتے اور ان کی زیارت اور صحبت کو موجبِ برکت سمجھتے۔ عام و خاص کی کوئی تفریق نہ تھی۔ خواص سے زیادہ عوام ان کی طرف جھکتے تھے۔ اس لیے تلقین (دعوت و تبلیغ) کے لیے انہوں نے جہاں اور ڈھنگ اختیار کیے، ان میں سب سے مقدم یہ تھا کہ اس خطے کی زبان سیکھیں تاکہ اپنا پیغام عوام تک پہنچا سکیں۔ چنانچہ جتنے اولیاء اللہ سر زمینِ ہند میں آئے یا یہاں پیدا ہوئے، وہ باوجود عالم و فاضل ہونے کے عوام سے انہیں کی بولی میں بات چیت کرتے اور تعلیم و تلقین فرماتے تھے۔ یہ بڑا گُر تھا اور صوفیا اسے خوب سمجھتے تھے۔‘‘ (اردو کی ابتدائی نشو و نما میں صوفیائے کرام کا کام، ص : 3، 4، ناشر: انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی)
ہندوستان میں چشتی صوفیائے و مشائخ نے جہاں دین و مذہب کی گراں قدر خدمات انجام دیں، وہیں علوم و ادبیات کے فروغ و استحکام میں بھی نمایاں طور پر حصہ لیا۔ کتب و رسائل اور ملفوظات و مکتوبات کی صورت میں صوفیائے چشت اہلِ بہشت کے علمی و ادبی کارناموں کی سینکڑوں مثالیں تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔ محبوبِ الہٰی حضرت نظام الدین اولیاء اور آپ کے خلفا اور خلفا کے خلفا نے دین و دانش اور ادب و ثقافت کی اہم خدمتیں انجام دیں۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیگم ریحانہ فاروقی (مدیرۂ اعلیٰ آستانہ، دہلی) لکھتی ہیں:
’’اگر ہم یہ کہیں کہ دلی میں اردو ادب کی خدمت کے آغاز اور اس کی ترویج و ترقی کے بانی و معمارِ اول حضرت محبوب الہٰی خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ حضرت کی خانقاہ دینی و روحانی تعلیم کا تو مرکز تھی ہی، لیکن یہاں ظاہری تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ محبوب الہٰی یہ چاہتے تھے کہ ایک ایسی ہلکی پھلکی زبان وجود میں آئے جو عوام کے درمیان باہمی خلوص و رابطہ کا آسان ذریعہ بن سکے اور صوفیا و مشائخین اور علمائے دین اس کے ذریعہ بہ آسانی مؤثر طور پر تبلیغِ دین کر سکیں، درسِ طریقت و ریاضت دے سکیں اور اس زبان کے ذریعہ بندگانِ خدا کی حقیقی معنوں میں اثر آفریں رہنمائی و رہبری کر سکیں۔ یہ صحیح ہے کہ حضرت نے خود اردو میں کوئی تحریری کام انجام نہیں دیا، جس کا سبب یہی ہو سکتا ہے کہ حضرت موصوف نے عبادت و ریاضت اور مخلوق خدا کی بے لوث خدمت کو اولیت اور ترجیح دی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان مصروفیات کے حلقہ میں رہ کر کوئی تحریری کام کرنے کا وقت نکالنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنے عزیز ترین سعادت مند و فرماں بردار مرید و شاگرد رشید حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس مقصد کے آغاز و حصول کے لیے احساس دیا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت امیر خسرو اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے کامیاب معمار اول ثابت ہوں گے۔‘‘ (دہلی کے مشائخ کی ادبی خدمات، ص : 24، ناشر: اردو اکادمی، دہلی)
حضرت نظام الدین اولیاء کے خلفا کے خلفا میں ایک نمایاں ترین ہستی کا نام حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ ہے، جنہوں نے دعوت و تبلیغ، مذہب و روحانیت اور علم و ادب کی وسیع پیمانے پر خدمت انجام دی۔ آپ جامعِ شریعت و طریقت تھے۔ لطائفِ اشرفی اور مکتوباتِ اشرفی کے مطالعہ سے علومِ ظاہری و باطنی میں آپ کے رسوخ و مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مختلف دینی و علمی موضوعات پر دو درجن سے زائد کتب و رسائل آپ کے تبحرِ علمی پر دلالت کرتے ہیں۔ آپ کو بہت ساری علمی و روحانی فضیلتیں حاصل ہیں۔ آپ کے علمی و ادبی فضائل میں سے ایک نمایاں ترین فضیلت یہ بھی ہے کہ آپ اردو کے پہلے مصنف ہیں۔ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ کے اردو رسالۂ اخلاق و تصوف کی دریافت میر نذر علی دردؔ کاکوروی کا ایک عظیم کارنامہ ہے اور اس کے لیے وہ پوری دنیائے ادب کی طرف سے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر فرقان علی مخمورؔ کاکوروی نے نذر علی دردؔ کاکوروی کی اس عظیم تحقیقی دریافت کو سراہا ہے اور دوسرے ادبا و محققین کی صرف اس لیے سرزنش کی ہے کہ اس تحقیقی دریافت کا سہرا دردؔ کاکوروی کے بجائے پروفیسر حامد حسن قادری کے سر کیوں باندھا جاتا ہے۔ اردو کی پہلی تصنیف اور اردو کے پہلے مصنف کے بارے میں طرح طرح کی خیال آرائیاں اور قیاس آرائیاں کی گئی ہیں۔ کسی نے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کو تو کسی نے کو حضرت امیر خسرو کو اردو کا پہلا مصنف قرار دیا ہے، لیکن میر نذر علی دردؔ کاکوروی کی تحقیق و دریافت کے مطابق حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی اردو کے پہلے ادیب و مصنف قرار پاتے ہیں۔ دردؔ کاکوروی جب یہ نئی تحقیق لے کر اپنی دھماکے دار انٹری کے ساتھ میدانِ ادب میں وارد ہوئے تو اردو نثر کی تاریخ کے سابقہ بلند بانگ دعوے اور بہت سارے مزعومات و مسلّمات کی دیواریں منہدم ہو گئیں اور رفتہ رفتہ اربابِ ادب و تحقیق اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی واقعی اردو کے پہلے ادیب و مصنف ہیں اور اخلاق و تصوف سے متعلق ان کا تحریر کردہ بلند پایہ رسالہ اردو نثر کی پہلی کتاب ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں عصری دانش گاہوں سے تعلق رکھنے والے فضلا اور ماہرینِ زبان و ادب کے وقیع افکار و آرا جمع کیے گئے ہیں، تاکہ علمی و ادبی حلقوں میں اس فکر و خیال کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جا سکے۔
(۱) سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی قدس سرہ سے متعلق دردؔ کاکوروی کی تحقیقی دریافت اور دردؔ صاحب کی تحقیقی عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر فرقان علی مخمورؔ کاکوروی لکھتے ہیں:
’’دنیا کی ہر زبان کے نگار خانے میں ہم کو تین طرح کے لوگ نظر آتے ہیں۔ ایک وہ جو صرف شاعری کرتے ہیں۔ دوسرے جنہوں نے نثر نگاری کو اپنا شعار بنایا اور تیسرے وہ جو شاعری کرنے کے ساتھ ساتھ نثر نگاری میں بھی بہترین صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، جنہوں نے شاعری بھی کی اور نثر کے میدان میں بھی اپنے اشہبِ قلم کو جولاں کیا۔ یہاں یہ بھی عرض کر دینا بعید از موضوع نہ ہوگا کہ ایسے لوگوں کی تعداد خال خال ہے جن کو نظم اور نثر دونوں میں کامل دستگاہ حاصل ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دردؔ کی ایوانِ ادبِ اردو میں اہمیت و افادیت اور نمایاں ہو جاتی ہے۔ دردؔ کاکوروی نے اپنے عہدِ شباب میں شاعری کے ساتھ نثر نگاری کی طرف بھی خاص توجہ کی اور مختلف تاریخی، ادبی اور مذہبی موضوعات پر قلم اٹھایا۔ ان کی نثر میں سادگی اور سلاست کے ساتھ علمی سنجیدگی ہے۔ اسی لیے ان کے ادبی اور تاریخی مضامین میں ان کی فکر پوری طرح ظاہر ہوئی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس وقت دردؔ نے زبان پر جس قدرت کا ثبوت دیا ہے، وہ انشا پردازی نہیں ہے، بلکہ فکر و خیال کی ترسیل کا کامیاب نمونہ ہے۔ نثر میں دردؔ کئی حیثیتوں سے نمودار ہوتے ہیں۔ وہ بیک وقت مصنف بھی ہیں اور مؤلف بھی، محقق بھی ہیں اور ناقد بھی، مرتب بھی ہیں اور مؤرخ بھی۔ انہوں نے اپنی نثر میں مختلف النوع مضامین یادگار چھوڑے ہیں۔‘‘
دردؔ کاکوروی جس پایہ کے شاعر ہیں، اسی پایہ کے نثر نگار بھی ہیں۔ اردو نثر میں ان کے دو مضامین ایسے ہیں جنہوں نے بحیثیتِ نثر نگار ان کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ ایک مضمون تو وہ ہے جس میں انہوں نے مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کے "رسالۂ معرفت" کو اردو نثر کی پہلی کتاب قرار دیا ہے۔ اگرچہ یہ بات ابھی تک پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچ سکی ہے، پھر بھی اس کتاب کے وجود سے یکسر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دردؔ کاکوروی نے خود ۲۰۷ صفحات پر مشتمل مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی اس قلمی کتاب کو دیکھا تھا اور اس کے چند جملے بھی بطورِ نمونہ پیش کیے تھے۔ ان کا یہ مضمون (ماہنامہ) نگار، دسمبر ۱۹۲۵ ء میں شائع ہوا تھا اور پروفیسر حامد حسن قادری نے اپنی کتاب " داستانِ تاریخ اردو " میں اس رسالہ کو اردو کی پہلی کتاب تسلیم کرتے ہوئے لکھا:
’’میر نذر علی دردؔ کاکوردی رسالہ نگار بابت دسمبر ۱۹۲۵ ء میں لکھتے ہیں کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اپنے سلسلہ کے ایک بزرگ مولانا وجیہ الدین کے ارشادات کو اردو زبان میں ( جس کو اس زمانہ میں زبان ہندی کہا کرتے تھے )، خود جمع کیا ہے۔ میں نے اپنے بزرگ کے پاس خود اس کتاب کو دیکھا ہے۔ یہ قلمی کتاب ۲۰۷ / صفحہ کی ہے۔ اس کے ص : ۱۱۸ کی عبارت کا ایک ٹکڑا یہ ہے: "اے طالب ! آسمان و زمین سب خدا میں ہے۔ ہوا سب خدا میں ہے۔ جو تحقیق جان اگر تجھ میں سمجھ کا کچھ ذرہ ہے تو صفات کے باہر بھیتر سب ذات ہی ذات"۔‘‘
دردؔ کاکوروی کی یہ تحقیق حامد حسن کے حوالے سے اتنی مشہور ہوئی کہ ادبی حلقوں میں انہیں کے نام سے منسوب ہو گئی۔ حالاں کہ قادری صاحب نے اس سلسلہ میں دردؔ کاکوروی کی تحقیق کا ہی حوالہ دیا تھا۔ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے ڈاکٹر نسیم قریشی نے بھی یہی غلطی کی ہے کہ حامد حسن قادری کی کتاب دیکھے بغیر ہی انہوں نے اپنی کتاب " اردو ادب کی تاریخ " کے ص: ۱۱۹ پر لکھ دیا کہ پروفیسر حامد حسن قادری کی تلاش و تحقیق نے ایک اردو رسالہ کا پتہ لگایا ہے جو "دہ مجلس" سے سوا چار سو برس پہلے ۱۳۰۰ء میں تصنیف ہوا۔ اس کے مصنف خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی ہیں۔ اب علمی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جانے لگی ہے کہ یہ دریافت دردؔ کاکوروی کی مرہون منت تھی۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری ایڈیٹر ماہنامہ نگار، کراچی (پاکستان) نے لکھا ہے کہ:
’’شعبۂ تحقیق میں بھی اہل کاکوری کے بعض اضافے بہت اہم ہیں۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی نے "نگار" دسمبر ۱۹۲۵ء کے شمارے میں حضرت امیر خسرو کے ایک معاصر اشرف جہانگیر سمنانی کے "رسالۂ معرفت" کا سراغ دے کر اہلِ نظر کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ اردو نثر کی پہلی تصنیف یہی رسالہ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو اردو میں نظم و نثر کے آغاز کا زمانہ ایک ہی قرار پاتا ہے اور اُردو نثر کی تاریخ بھی کوئی سات سو سال پرانی ہو جاتی ہے۔‘‘ (میر نذر علی دردؔ کاکوروی : حیات اور کارنامے، ص : 285، 286، ناشر : مخمور کاکوروی، تقسیم کار: مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی)
(۲) ڈاکٹر حامد حسن قادری، دردؔ کاکوروی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’خواجہ سید اشرف جہاں گیر سمنانی نے (جن کا مزارِ مبارک کچھوچھہ شریف علاقۂ اودھ میں ہے) اُردو میں ایک رسالہ "اخلاق و تصوف" پر ۱۳۰۸ء / ۷۰۸ھ میں تصنیف کیا۔ نثرِ اردو میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں۔ سید اشرف جہاں گیر سمنانی صاحب ۱۲۸۹ء / ۶۸۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ سال کی عمر پا کر بہ حسابِ قمری ۱۴۰۵ء / ۸۰۸ھ میں وفات پائی۔ "خالقِ باری" کا سالِ تصنیف معلوم نہیں۔ لیکن چوں کہ امیر خسرو، سید اشرف صاحب سے عمر میں ۳۵ سال بڑے ہیں، اس لیے "خالقِ باری" کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ممکن ہے سید اشرف صاحب کی کتاب پہلے لکھی گئی ہو اور اردو زبان میں تصنیفِ اولین یہی ہو۔ بہرحال اولیت انہیں دونوں (حضرت امیر خسرو و حضرت مخدوم اشرف جہاں گیر سمنانی علیہما الرحمہ) میں دائر ہے۔ اب تک اربابِ تحقیق متفق الرائے تھے کہ شمالی ہند میں اٹھارہویں صدی عیسوی (بارہویں صدی ہجری) سے پہلے تصنیف و تالیفِ نثر کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چار سو برس پہلے اُردو کی تصانیف کا آغاز ہوا۔ اب سید شرف جہاں گیر کے " رسالہ تصوف " کی دریافت سے وہ نظریہ باطل ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ دکن میں اردو زبان کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی ہند میں امیر خسرو اور سید اشرف جہاں گیر نے نظم و نثر دونوں کی بنیاد ڈال دی تھی۔‘‘ (تاریخ و تنقید، ص: ۹، ناشر : لکشمی نرائن اگروال پبلشر، آگرہ)
ڈاکٹر حامد حسن قادری اپنی دوسری مدلل تحقیقی کتاب "داستان تاریخِ اردو" میں لکھتے ہیں:
’’خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی (جن کا مزار کچھوچھہ شریف علاقۂ اودھ میں ہے) نے اُردو میں ایک رسالہ اخلاق و تصوف پر ۱۳۰۸ء / ۷۰۸ھ میں تصنیف کیا۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی "رسالہ نگار لکھنؤ" بابت دسمبر ۱۹۲۵ء میں لکھتے ہیں کہ "سید اشرف جہانگیر نے اپنے سلسلے کے ایک بزرگ مولانا وجیہہ الدین کے ارشادات کو اردو زبان میں (جس کو اس زمانے میں ہندی زبان کہا کرتے تھے) خود جمع کیا ہے۔ میں نے اپنے ایک بزرگ کے پاس خود اس کتاب کو دیکھا ہے۔ یہ قلمی کتاب ۲۰۷ صفحہ کی ہے۔ اس کے صفحہ: ۱۱۸ کی ایک عبارت کا ٹکڑا یہ ہے: اے طالب! آسمان و زمین سب خدا میں ہے۔ ہوا سب میں خدا ہے۔ جو تحقیق جان اگر تجھ میں کچھ سمجھ کا ذرہ ہے تو صفات کے باہر بھیتر سب ذات ہی ذات۔ نثرِ اُردو میں اس سے پہلے کوئی کتاب ثابت نہیں ہے۔ سید اشرف صاحب جہانگیر ۱۲۸۹ء / ۶۸۸ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۲۰ سال کی عمر کو پہنچ کر ۱۴۰۵ء / ۸۰۸ھ میں وفات پائی۔ "خالقِ باری" کا سال تصنیف معلوم نہیں لیکن چوں کہ امیر خسروؔ، سید اشرف سے عمر میں ۳۵ سال بڑے ہیں۔ اس لیے خالق باری کو مقدم رکھا گیا ہے۔ ممکن ہے سید اشرف صاحب کی کتاب پہلے لکھی گئی ہو اور اُردو زبان میں تصنیفِ اولین یہی ہو۔ بہرحال اولیت انہیں دونوں میں دائر ہے۔ بعض محقیقین کی نظر میں " خالقِ باری " کا انتساب حضرت امیر خسرو سے مشتبہ ہے۔ اس نظریہ کی بنا پر اگر خالق باری کسی بعد کے مصنف کا کارنامہ ہے تو پھر سید اشرف جہانگیر کا رسالہ تصوف ہی اُردو کی پہلی کتاب ہے۔ اب تک اربابِ تحقیق متفق الرائے تھے کہ شمالی ہند میں اٹھارویں صدی عیسوی (بارہویں صدی ہجری) سے پہلے تصنیف و تالیفِ نثر کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چار سو برس پہلے اُردو کی تصانیف کا آغاز ہوا۔ اب سید اشرف جہانگیر کے رسالۂ تصوف کی دریافت سے وہ نظریہ باطل ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ دکن میں اُردو زبان کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی ہند میں امیر خسرو اور سید اشرف جہانگیر نے نظم و نثر دونوں کی بنیاد ڈال دی تھی۔‘‘ (داستان تاریخِ اردو، ص : ۵۳، ۵۴، ناشر : ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی)
(۳) پروفیسر اختر اورینوی (صدر شعبۂ اردو پٹنہ یونیورسٹی، بہار) اپنے تحقیقی مضمون "بولیوں کا سنگم" میں لکھتے ہیں:
’’دہلی اور بہار اسکول میں مماثلت ضرور ہے۔ لیکن ہر دو نے ایک دوسرے پر اثر ڈالتے ہوئے انفرادی طور پر ترقی کی ہے اور دونوں اسکول از خود پیدا ہوئے۔ میر حسن کے استاد میر ضیاؔ دہلی سے عظیم آباد چلے آئے۔ اشکؔی اور جمالؔی نے خواجہ میر دردؔ سے اصلاحیں لیں، مگر اس کو کیا کیجیے کہ خود میر تقی میرؔ، جعفرؔ عظیم آبادی کے شاگرد تھے۔ راسخؔ عظیم آبادی اور جوششؔ عظیم آبادی کی شاعری میرؔ و سوزؔ کی شاعری کا جواب ہے۔ غالبؔ نے بیدلؔ عظیم آبادی کے کلام کو سامنے رکھ کر مشقِ سخن کی۔ موجودہ تحقیقات کی بنا پر تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ امیر خسروؔ اور حضرت خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے بعد دہلی اور صوبۂ متحدہ میں اُردو کو اُس وقت تک فروغ نہ ہوا، جب تک ولؔی دکنی نے دہلی کے تخیل کو آ کر نہ چھیڑا۔‘‘ (تحقیق و تنقید، ص: ۳۰، ناشر: کتابستان، الہٰ آباد)
(۴) اردو کے مایۂ ناز ادیب و محقق پروفیسر مظفر اقبال (سابق صدر شعبۂ اردو بھاگل پور یونیورسٹی، بھاگل پور، بہار) کے بقول:
’’مولوی عبد الحق صاحب کی کوششوں سے جب جنوبی ہند کا بیش قیمت سرمایۂ ادب اہلِ فکر و نظر کے سامنے پیش ہوا تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ شمالی ہند سے بہت پیش تر جنوبی ہند میں اُردو نثر میں ترجمہ و تالیف کا کام شروع ہو چکا تھا۔ محققین نے دکن میں اردو نثر کا پہلا مصنف شیخ عین الدین گنج العلم متوفیٰ: ۱۳۹۳ء / ۷۹۵ھ کو قرار دیا ہے لیکن ان کے رسائل کا پتہ نہیں چلتا۔ اس لیے خواجہ بندہ نواز گیسو دراز متوفیٰ: ۱۴۲۲ء / ۸۲۵ھ ھم نہ کی تصنیف "معراج العاشقین" کو دکن میں اردو نثر کا قدیم ترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کا سنِ کتابت ۱۴۴۲ء بتایا جاتا ہے اور سنِ تصنیف ۸۰۱ھ مطابق ۱۳۹۸ء سے قبل۔ معراج العاشقین کی دریافت کے بعد عرصۂ دراز تک اسے اُردو نثر کی اولین تصنیف کا درجہ حاصل رہا اور اردو نثر نویسی کے سلسلے میں جنوبی ہند کی اولیت کو تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن سید اشرف جہانگیر سمنانی کی نثری تصنیف کی دریافت کے بعد اولیت کا سہرا پھر شمالی ہند کے سر پر باندھ دیا گیا اور اب تک کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ معراج العاشقین کی تصنیف سے ۱۷ سال پیش تر شمالی ہند کے جلیل القدر صوفی سید اشرف جہانگیر سمنانی (متولد: ۶۸۸ھ مطابق ۱۲۸۹ء - وفات: ۸۰۸ھ مطابق ۱۴۰۵ء) نے اردو نثر میں جو رسالہ تصنیف کیا تھا، وہی اُردو نثر کی سب سے پہلی کتاب ہے۔ اس کا سنِ تصنیف ۷۰۸ھ مطابق ۱۳۰۸ء ہے اور موضوع اخلاق و تصوف ہے۔‘‘ (بہار میں اردو نثر کا ارتقا، ص: ۱۴، ۱۵، ناشر: کتاب خانہ ترپولیا، پٹنہ، بہار)
(۵) مشہور محقق پروفیسر وقار احمد رضوی لکھتے ہیں:
’’اردو نثر کی تاریخ آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ اردو نثر کا قدیم نمونہ سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالہ ہے جو ۷۰۸ھ مطابق ۱۳۰۸ء کا ہے۔ پھر شیخ عین الدین گنج العلم متوفیٰ: ۷۹۵ھ کی تصانیف کا حوالہ ملتا ہے۔ اس کے بعد معراج العاشقین از خواجہ بندہ نواز گیسو دراز گلبرگوی کا ذکر آتا ہے۔‘‘ (ممبئی عظمیٰ کی تاریخ، ص: ۶۶، ناشر: ادارہ معارفِ اسلامی، ممبئی، بحوالہ تاریخِ نقد، ناشر: نیشنل بک فاؤنڈیشن، کراچی، پاکستان ۲۰۰۴، ص : ۲۸۵)
(۶) ڈاکٹر عابدہ بیگم (شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی) لکھتی ہیں:
’’تمام محققین نے "کربل کتھا" کو شمالی ہند کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے۔ جدید تحقیقات کے مطابق اس سے پہلے نثری تصانیف کا آغاز ہو چکا تھا۔ ان کے ادبی یا معیاری ہونے کا دعویٰ تو نہیں کیا جا سکتا، لیکن ان کو نثری تصانیف کی صف سے خارج بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ابتدائی تحریروں کا ذکر کرتے ہوئے مؤرخین نے سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالہ کا ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ نے ممدو خاں کے رسالے کو نقشِ اول بتایا ہے۔ انھیں یہ رسالہ بیجا پور میں دستیاب ہوا۔ اس رسالے کے ساتھ دو اور منظوم رسالے پند نامہ اور چکی نامہ بھی منسلک تھے، سنِ تصنیف درج نہیں۔ ڈاکٹر رفیعہ سلطانہ اس کی زبان اور اندازِ بیان کو دیکھتے ہوئے اسے سید اشرف جہانگیر سمنانی سے قبل کی تصنیف قرار دیتی ہیں ........ حامد حسن قادری نے سید اشرف جہانگیر سمنانی کے اردو رسالے کا ذکر کیا ہے۔ قادری صاحب نذرؔ کاکوری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سید مخدوم اشرف کا یہ رسالہ اخلاق و تصوف پر مبنی ہے۔ اس رسالہ میں مصنف نے اپنے بزرگ کے ارشادات کو جمع کر کے رسالے کی شکل دے دی ہے۔‘‘ (اردو نثر کا ارتقا، ص: ۱۳، ۱۴، ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی)
(۷) مشہور ناقد و محقق اور ادیب و صحافی ڈاکٹر فرمان فتح پوری (ایڈیٹر "نگار") نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی کا رسالۂ تصوف و معرفت اردو کی پہلی تصنیف ہے اور اردو نظم و نثر کے آغاز کا زمانہ تقریباً ایک ہی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’شعبۂ تحقیق میں بھی اہل کاکوری کے بعض اضافے بہت اہم ہیں۔ میر نذر علی دردؔ کاکوروی نے "نگار" دسمبر ۱۹۲۵ء کے شمارے میں حضرت امیر خسرو کے ایک معاصر اشرف جہانگیر سمنانی کے "رسالۂ معرفت" کا سراغ دے کر اہلِ نظر کی توجہ اس طرف مبذول کرائی ہے کہ اردو نثر کی پہلی تصنیف یہی رسالہ ہے اور اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو اردو میں نظم و نثر کے آغاز کا زمانہ ایک ہی قرار پاتا ہے اور اُردو نثر کی تاریخ بھی کوئی سات سو سال پرانی ہو جاتی ہے۔‘‘ (پیش لفظ سخنورانِ کاکوری، ص: 13، ناشر: میخانۂ ادب، ناظم آباد، کراچی)
(۸) ڈاکٹر نسیم قریشی (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اپنی بلند پایہ تصنیف "اردو ادب کی تاریخ" میں سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالۂ اردو (جو اخلاق و تصوف پر مشتمل ہے) کی لسانی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور دردؔ کاکوروی و حامد حسن کی تائید کرتے ہوئے آپ کے کے مذکورہ بالا رسالے کو اردو کی پہلی تصنیف قرار دیا ہے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’شمالی ہند میں اردو شعر گوئی کا عام رواج محمد شاہ رنگیلے کے عہد سے ہوا۔ جب ولؔی دکنی کے دوبارہ دورۂ دہلی نے دار السلطنت میں ادبی چہل پہل کی نئی فضا پیدا کر دی، شمالی ہند کے با کمالوں نے اس ذوق و شوق، طبیعت داری اور فن کے رچاؤ کے ساتھ اُردو شاعری کو وسیلۂ اظہارِ خیال بنایا کہ بہت جلد اس کا بلند فنی معیار قائم ہو گیا، لیکن شمالی ہند میں ادب اور زندگی پر فارسی کا تسلط اس قدر شدید اور قوی تھا کہ اردو نے بڑی صبر آزما منزلیں طے کر کے اور ایک حد تک اپنا جوہر کھو کر با قاعدہ ادبی حیثیت اختیار کی۔ ۱۸۰۰ء تک شمالی ہند میں اردو نثر نے کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ اب تک عام خیال یہ تھا کہ شمالی ہندی اردو نثر کی پہلی کتاب فضلی کی "دہ مجلس" ہے جس کا سنِ تصنیف ۱۷۳۲ء ہے۔ پروفیسر حامد حسن قادری کی تلاش و تحقیق نے ایک اور رسالہ کا پتہ لگایا ہے جو "دہ مجلس" سے سوا چار سو برس پہلے ۱۳۰۸ء میں تصنیف ہوا۔ اس کے مصنف خواجہ سید جہانگیر اشرف سمنانی ہیں۔ رسالہ اخلاق و تصوف سے متعلق ہے۔ اس کی تمام تر اہمیت لسانی ہے۔‘‘ (اردو ادب کی تاریخ، ص: 129، ناشر: ادارۂ فروغِ اردو، لکھنؤ)
(۹) ڈاکٹر عبد الرؤف (سابق صدر شعبۂ اردو کلکتہ یونیورسٹی) لکھتے ہیں:
’’اردو کا ایک رسالۂ تصوف اور چند فقرے حضرت اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ سے منسوب ہیں ......... خواجہ سید اشرف جہانگیر سمنانی نے اردو میں ایک رسالہ اخلاق و تصوف پر ۱۳۰۸ء / ۷۰۸ھ میں تصنیف کیا۔‘‘ (مغربی بنگال میں اردو کا لسانیاتی ارتقا، ص: 99، ناشر : مغربی بنگال اردو اکیڈمی، کلکتہ)
(۱۰) ماضی قریب کے مشہور محقق و مؤرّخ پروفیسر سید حسن عسکری، پٹنہ نے بھی سید اشرف جہانگیر سمنانی کی طرف ایک اردو رسالہ منسوب کیے جانے کی بات کہی ہے اور بتایا ہے کہ جب تک اس پر تنقیدی نظر نہ ڈالی جائے، اس کی قدامت و اصلیت کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’حضرت اشرف جہانگیر سمنانی سے ایک رسالہ اردو منسوب ہے، لیکن جب تک اس پر نظرِ غائر نہ ڈالی جائے اس کی قدامت و اصلیت کے متعلق صرف دو تین اشعار سے کچھ فیصلہ کرنا مناسب نہ ہو گا۔ لیکن ہندی کی واقفیت اور استعمال کی شہادت تو خود لطائفِ اشرفی میں موجود ہے۔‘‘ (عہدِ وسطیٰ کی ہندی ادبیات میں مسلمانوں کا حصہ، ص: 52، 53، ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
ان دلائل و شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کا شمار اردو ادب کے سابقین اولین مصنفین میں ہوتا ہے اور آپ کا مذکورہ رسالہ اردو کی پہلی تصنیف ہے۔ حضرت مخدوم پاک کثیر التصانیف بزرگ تھے۔ بعض سوانح نگاروں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ سلسلۂ چشتیہ میں آپ نے تصنیف و تالیف کی طرف جس قدر توجہ دی ہے اور جتنی کتابیں لکھی ہیں، شاید ہی کوئی دوسرے چشتی بزرگ آپ کے مثل ہوئے ہوں۔ آپ کی زندگی کا چوتھائی حصہ (تقریباً تیس سال) سفر میں گذرا۔ سفر میں کتابوں کا ذخیرہ ساتھ رکھتے اور دورانِ سفر وعظ و ارشاد اور تعلیم و تلقین کا سلسلہ جاری رہتا۔ دورانِ سفر لوگوں کی فرمائش پر کتابیں لکھ کر ان کے حوالے کر دیتے اور آگے بڑھ جاتے۔ اگر آپ کی کتابوں کی نقلیں محفوظ رکھی جاتیں تو آج دنیا آپ کی تصنیفی کثرت کا اعجاز ملاحظہ کرتی۔ مجدّدِ سلسلہ اشرفیہ، شیخ المشائخ حضرت مولانا شیخ محمد علی حسین اشرفی کچھوچھوی (معروف بہ اعلیٰ حضرت اشرفی میاں) آپ کی تصانیفِ عالیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’حضرت مولانا ابو الفضائل نظام الدین یمنی خلیفۂ مخدوم اشرف و جامعِ ملفوظات لطائفِ اشرفی فرماتے ہیں کہ حضرت محبوب یزدانی کا علم عجیب خدا داد علم تھا۔ روئے زمین میں جہاں تشریف لے جاتے وہیں کی زبان میں وعظ فرماتے اور اسی زبان میں کتاب تصنیف کر کے وہاں کے لوگوں کے لیے چھوڑ آتے۔ بہت سی کتابیں آپ نے عربی، فارسی، سوری، زنگی اور ترکی مختلف ملک کی زبانوں میں تصنیف فرمائیں، جن کی فہرست اگر لکھی جائے تو ایک طومار ہو جائے گی۔ علمائے جلیل القدر کا قول ہے کہ جس قدر تصانیف حضرت محبوب یزدانی نے فرمائیں بہت کم علماء اس قدر تصانیفِ کثیرہ کے مصنف ہوں گے۔ کتاب کنز الاسرار، ذکر اسمائے الہٰی اور تسخیرِ کواکب حضرت نے تالیف فرمائی جس کی تعلیم مجھ کو حضور سے حاصل ہوئی تھی۔ یہ عجیب کتاب آپ کی تالیفات سے فنِّ تکسیر میں تھی۔ تصانیفِ کثیرہ آپ کی اس قدر ہیں کہ جس کی فہرست لکھنا محال ہے۔ اکثر کتابیں آپ کی تالیفات سے بنام قدوۃ الخوانین حضرت سیف خاں (خلیفۂ مخدوم اشرف) جو داماد فیروز شاہ بادشاہ دہلی کے تھے، تصنیف ہوئیں اور اس فقیر نظام یمنی نے دو جلدیں حضرت کے ملفوظات سے کتاب "لطائف اشرفی" اور کتاب "سرّ الاسرار" اور رقعات حضرت کے جمع کر کے اس کو "مرقوماتِ اشرفی" کے نام سے موسوم کیا اور کتاب "سکندر نامہ" حضرت نظامی گنجوی کی بھی شرح لکھی۔ ان کتب کے علاوہ مقاماتِ مختلفہ میں حضور محبوب یزدانی نے جو کتابیں تحریر فرمائیں، ان میں سے خاص خاص کتابوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔
امام عبد اللہ یافعی کے ارشاد اور شیخ الشیوخ حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی قدس سرہ کی روحانی بشارت سے کتاب "عوارف المعارف" کی آپ نے شرح لکھی۔ جب روم تشریف لے گئے تو حضرت مولانا شیخ محیی الدین ابن عربی قدس سرہ کی کتاب "فصوص الحکم" کی شرح لکھی اور اس کو صاحب المعارف شیخ نجم الدین ابن شیخ صدر الدین فغانی کے سامنے پیش کیا اور عرض کیا کہ میں نے اس شرح کو حضرت شیخِ اکبر کے حکم پر لکھا ہے۔
حضرت محبوب یزدانی جب عرب تشریف لے گئے تو اہلِ عرب نے حضرت کے رسائلِ تصوف کی طرف بڑی توجہ دی کیا اور وہاں آپ نے کتاب "قواعد العقائد" عربی زبان میں تصنیف فرمائی۔ حضرت نے اہلِ عرب میں تقسیم کے واسطے خاص کر یہ کتاب لکھی، جیسا کہ مولانا اعظم مولانا علی نے لمعات کو عربی کیا۔ آپ نے اس کی شرح بھی عربی زبان میں لکھی اور بہت کچھ اسرارِ معارفِ الہٰی اس میں درج فرمائے۔ جب حضرت محبوب یزدانی اطرافِ عراق و خراسان و ماوراء النہر میں تشریف لے گئے تو وہاں کے سادات نے کتاب "بحر الانساب" پیش کی۔ حضرت محبوب یزدانی نے کتاب مذکور سے منتخب کتاب "اشرف الانساب" تصنیف کی اور کتاب "بحر الاذکار" بھی وہاں تصنیف فرمائی اور رسالہ "اشرف الفوائد" اور "فوائد الاشرف" صوبۂ گجرات میں تصنیف فرمایا اور کتاب "بشارۃ الذاکرین" اور رسالہ "تنبیہ الاخوان" اور رسالہ "بشارۃ الاخوان" بپاسِ خاطر حضرت سیف خان تصنیف فرمائے اور روم کے سفر میں رسالہ "مصطلحاتِ تصوف" تحریر فرمایا اور رسالہ "مناقب خلفائے راشدین و فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ" لکھا جس پر علمائے محمد آباد گوہنہ نے کثیر مناقبِ حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے سبب اعتراض کیا تھا اور چند رسائل تصوف میں بمقام روم اور لکھے جن کے نام یاد نہیں۔ رسالہ "حجۃ الذاکرین" بنگال میں تصنیف فرمایا۔ اس رسالہ میں پانچوں وقت بعد ادائے فریضہ تین بار بآوازِ بلند کلمۂ طیبہ کا ثبوت احادیت اور تفاسیر سے فرمایا ہے۔ اس رسالہ کو "نصیحت نامہ" کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ کتاب "فتاوائے اشرفیہ" بزبان عربی محض بپاسِ خاطر حضرت نور العین تحریر فرمایا۔ اس کتاب میں مسائلِ فقہ بڑی بڑی کتابوں سے انتخاب کر کے تصنیف فرمایا۔ یہ فتاویٰ جامعِ مسائل ضروریہ مذہبِ حنفیہ میں اس خوبی کے ساتھ لکھا کہ کوئی ایسا مسئلہ نہ تھا کہ جس کی سفر و حضر میں دیکھنے کی ضرورت نہ ہو۔
علم تفسیر میں کتاب "تفسیرِ ربح سامانی" اور کتاب "تفسیرِ نور بخشیہ" تصنیف فرمائی اور کتاب "ارشاد الاخوان" اوراد و اشغالِ مشائخِ چشت اہلِ بہشت میں تصنیف فرمائی اور ایک رسالہ بحثِ "وحدۃ الوجود" میں لکھا، یہ ایک نایاب رسالہ ہے جس میں "سرِّ ہمہ او ست" کو بہ دلائل احادیث و تفسیر تحریر فرمایا اور رسالہ "تجویزیہ" در جواز بر لعنِ یزید جون پور میں علما کے مباحثہ کے بعد تحریر فرمایا اور موافقِ عقیدۂ صاحب شرحِ عقائد نسفی یزید پر لعنت فسقی کہنا جائزہ ثابت کیا اور کتاب "بحر الحقائق" میں معرفت و حقیقت کے اسرار و رموز بیان فرمائے۔ علم نحو میں "نحوِ اشرفیہ" تصنیف فرمایا جس میں تمام مسائل نحوی بالتفصیل درج فرمائے۔ نیز کتاب "کنز الدقائق" تصوف میں تصنیف فرمائی اور رسالہ "بشارۃ المریدین" حسبِ درخواست سلطان ابراہیم شرقی جون پور میں تصنیف کیا اور "رسالہ غوثیہ" ذکرِ مردان اہل خدمات ابدال و اوتاد و غوث و قطب وغیرہ میں تصنیف کیا۔ "رسالہ قبریہ" اپنی قبر شریف میں لکھا جس میں حالاتِ نزولِ ملائکہ، اظہار اپنے عقائدِ حقہ اور بشارتِ عالمِ غیب تحریر فرمایا اور علم اصول میں "فصولِ اشرفی" لکھی۔ ایک جلد "مکتوباتِ اشرفی" آپ کے صاحبِ سجادہ حضرت نور العین نے جمع کی۔ "مرقوماتِ اشرفی" حضرت مولانا نظام الدین یمنی حضرت کے خلیفہ نے جمع کیا۔ ایک جلد "رقعاتِ اشرفی" جس کو حضرت مولانا شیخ محمد دُرّ یتیم نے جمع کیا تھا۔ اس میں مختصر رقعاتِ حضرت محبوب یزدانی درج کیے گئے ہیں اور "دیوانِ اشرفؔ" ایک مبسوط کتاب منظوم ہے، جس کو اہلِ زمانہ مثلِ دیوانِ حافظؔ شیرازی مانتے ہیں۔‘‘ (تحائفِ اشرفی، حصہ اول، ص: 115 تا 118، ناشر: ادارہ فیضانِ اشرف دار العلوم محمدیہ، ممبئی)
اس اقتباس سے حضرت مخدوم اشرف کی کثرتِ تصانیف کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ بات دو ٹوک کہی جا سکتی ہے کہ سید اشرف جہانگیر سمنانی اردو کے پہلے مصنف تھے اور اخلاق و تصوف کے موضوع پر آپ کا یہ رسالہ اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے۔ دردؔ کاکوروی سمیت اردو کے ایک درجن کے قریب محققین و مؤلفین کے اقوال و آرا ہمارے دعویٰ کی تائید و توثیق کے لیے کافی ہیں۔
صحابیاتؓ کے اسلوبِ دعوت و تربیت کی روشنی میں پاکستانی خواتین کی کردار سازی (۲)
عبد اللہ صغیر آسیؔ
دعوت کے مختلف وسائل و ذرائع
عمومی طور پر دعوت و تبلیغ کے تین وسائل و ذرائع بیان کئے جاتے ہیں۔
(داعی یا داعیہ کی مثالی سیرت و کردار کے ذریعے تبلیغ) اسی بات کو ذرا مختلف انداز میں ڈاکٹر عبد الکریم زیدان یوں بیان کرتے ہیں کہ: تبليغ الدعوة إلى الله تكون بالقول و بالعمل وبسيرة الداعي التي تجعله قدوة حسنه لغيرہ فتجذهم إلى الإسلام9۔ (یعنی دعوت الی اللہ زبان کے ذریعے سے ہو، عمل کے ذریعے سے ہو اور داعی مخلصین کی اعلیٰ سیرت و کردار کے ذریعے ہو۔)
(۱) زبانی تبلیغ
زبانی تبلیغ کا مطلب یہ ہے کہ زبان کے ذریعے لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا، ان کو وعظ و نصیحت کرنا، ان کی اصلاح کرنا، ان پر مناسب موقع پر نکیر کرنا وغیرہ، یہ زبانی تبلیغ ہے۔ دعوت و تبلیغ میں قولی اور زبانی دعوت کو بہت اہمیت حاصل ہے، اور تمام انبیاء کرامؑ نے اپنی اپنی امتوں کو احکام الہی زبانی طور پر پہنچائے۔ اس ضمن میں مولانا اشرف علی تھانویؒ نے کچھ اس طرح فرمایا کہ: کہنے کا بھی طریقہ ہوتا ہے، کہنا کبھی صراحتہً ہوتا ہے اور کسی تدبیر سے موقع محل کا خیال کرنا چاہیے، یاد رکھو نصیحت میں سختی ہرگز نہ کرو، لطافت اور نرمی سے کہو اور اگر ممکن ہو تو زبان سے کہہ کر اپنی بات سناؤ اور بعض اوقات کچھ نہ کہنے کا بھی اثر ہوتا ہے، جہاں جو طریقہ مناسب ہو، اسی کو اختیار کرنا چاہیے10۔ البتہ ایک داعی یا داعیہ کے لئے ز بانی تبلیغ میں چند امور کو مدِنظر رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ بجائے فائدے کے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ وہ امور درج ذیل ہیں:
۱۔ زبان کی حفاظت کرنا
عام طور ہر دیکھا جاتا ہے کہ زبان کی بے احتیاطی کی وجہ سے اختلاف و نزاع پیدا ہوتا ہے، اگر کوئی داعی یا داعیہ معمولی سی توجہ بھی اس طرف دے تو کبھی بھی اختلاف کی نوبت نہ آئے۔ جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: إِذَا أَصْبَحَ ابْنُ آدَمَ فَإِنَّ الْأَعْضَاءَ كُلَّهَا تُكَفِّرُ اللِّسَانَ فَتَقُولُ اتَّقِ اللَّهَ فِينَا فَإِنَّمَا نَحْنُ بِكَ فَإِنْ اسْتَقَمْتَ اسْتَقَمْنَا وَإِنْ اعْوَجَجْتَ اعْوَجَجْنَا11۔ (انسان جب صبح کرتا ہے تو اس کے سارے اعضاء زبان کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں: تو ہمارے سلسلے میں اللہ سے ڈر اس لیے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں، اگر تو سیدھی رہی تو ہم سب سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم سب بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔ )اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ ایک داعی یا داعیہ کے لئے زبان کی حفاظت کا اہتمام کرنا کس قدر ضروری ہے۔
۲۔ بلا تحقیق گفتگو نہ کرنا
عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ ایک داعی یا داعیہ کسی کے بارے میں سنی سنائی بات پر عمل درآمد کر لیتے ہیں، اس سے بد گمان ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ دوسروں سے بھی اس کو بیان کرتے ہیں جس کی وجہ سے باہم نزاع و لڑائی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ بلا تحقیق گفتگو کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اسی طرح ایک داعی کے لئے ضروری ہے کہ اس کا کلام بہتان تراشی اور لعن طعن پر مشتمل نہ ہو بلکہ اس کی زبان آسان فہم اور قرآن و سنت سے مزین ہو، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ12۔ (اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، (٣) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو، اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔ )اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی ایسے شخص کو جھوٹا قرار دیا گیا ہے کہ جو سبی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بیان کر دے، اس طرح آپﷺ نے فرمایا: كفى بالمرء كذبا، ان يحدث بكل ما سمع13۔ (آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے یہ کافی ہے کہ جو سنے اس کو بیان کرے۔) لہذا یہاں سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ بلا تحقیق گفتگو کرنا قرآن و حدیث کی روشنی میں بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے لہذا ایک داعی یا داعیہ کو دوران تبلیغ اس سے بچنا چاہیے، تاکہ اس کی بات مؤثر ہو سکے۔ ویسے بھی عام مشاہدہ ہے کہ جب کسی شخص کے بارے میں یہ بات عام ہو جائے کہ اس کی بات کی سند مضبوط نہیں ہوتی یا یہ کہ یہ شخص جھوٹ بھی بولتا ہے تو اس کے بعد معاشرے میں اس شخص کی اپنی شخصیت متنازعہ ہو جاتی ہے۔
۳۔ داعی کا کلام’’کلامِ ایجاز‘‘ ہو
داعی یا داعیہ کو چاہیے کہ وہ مختصر مگر گامع انداز میں اپنی بات سامعین تک پہنچائے۔ ایجاز سے مراد یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں معنی کو واضح کر دیا جائے یعنی مخاطبین کے سامنے بہت لمبی چوڑی گفتگو کرنے کی بجائے مختصر الفاظ کا چناؤ کیا جائے تاکہ مخاطب داعی یا داعیہ کی بات سن کر فوراً سمجھ جائے اور کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔ جیسا کہ حضرت اسماءؓ نے اپنے بیٹوں کو مختصر انداز میں دعوت پیش کی تھی۔ کیونکہ جب الفاظ نپے تلے ہوں اور پراثر ہوں تو بات سیدھی مخاطب کے دل میں اتر جاتی ہے۔
زبانی تبلیغ کی مختلف اقسام
اب ہم زبانی تبلیغ کی مختلف اقسام بیان کرتے ہیں۔
۱۔ خطبہ
۲۔ لیکچر
۳۔ درس
۴۔ بحث و مباحثہ یا ٹیبل ٹاک (مناظرہ)
۵۔ علمی سیمینارز یا کانفرنسز
۶۔ آن لائن ویڈیو بیانات
۱۔ خطبہ کے ذریعہ دعوت
داعی کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کا خطبہ یا تقریر زیادہ لمبی نہ ہو جس سے سامعین اکتا جائیں، دوسرا یہ کہ موسم کا بھی لحاظ رکھا جائے، کبھی سخت سردی یا سخت گرمی میں بھی کوئی چیز سننا مشکل ہوتا ہے۔ اس ضمن میں امین احسن اصلاحیؒ کا قول پہلے گزر چکا کہ: ’’کلام مبین کا مطلب ہے کہ وہ اپنے وقت کی اس بولی میں گفتگو کرتے ہیں جو زیادہ خوبی اور صفائی کے ساتھ حروف مدعا کو قوم کے ہر حلقہ تک پہنچا سکے، اس میں نہ اجمال و ابہام ہوتا ہے، نہ غیر ضروری طوالت۔14‘‘
۲۔ لیکچرز کے ذریعہ دعوت
زبانی تبلیغ کا ایک ذریعہ لیکچر ہے، اس میں کوئی متعین موضوع ترتیب سے جمع کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک علمی بیان ہوتا ہے جو جوش و جذبات سے بالکل عاری ہوتی ہے۔ لیکچر ایک متعین موضوع پر مشتمل ہوتا ہے جس میں اس موضوع کے تمام دلائل بیان کیے جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر احمد عمر لکھتے ہیں:’’ لیکچر دیتے وقت ضرورت اس امر کی ہوتی ہے کہ وہ درس ہو، اس میں زائد از ضرورت اور جذباتی گفتگو نہ ہو کیونکہ جذباتی طرزِ گفتگو تقریر میں ہوتا ہے۔ لیکچر کی ایک ضرورت یہ ہے کہ موضوع کے مقدمات اور اس کے نتائج میں سامعین کو شریک رکھا جائے تاکہ جن نتائج پر لیکچر منتج ہوا، سامعین بھی ان نتائج تک پہنچ سکیں15۔‘‘
۳۔ درس و تدریس کے ذریعے دعوت
درس بھی زبانی تبلیغ کا ایک بہترین ذریعہ ہے، اس لئے کہ درس کے اندر جتنے مخاطبین ہوتے ہیں، داعی حضرات یا داعیات ان کی ضرورتوں اور دلچسپیوں سے واقف ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ ان سامعین کو اپنے معلم یا داعی سے ایک خاص انسیت بھی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ابو الفتح البیانوی لکھتے ہیں: ’’اکثر درس کی یہ صورت ہوتی ہے کہ قرآن کی آیت یا حدیث یا فقہی مسائل کی تشریح کر دی جائے اور حاضرین کی تعداد مختصر و محدود ہے تو داعی کو یہ موقع میسر آجاتا ہے کہ وہ حاضرین کو اچھی طرح نصیحت کر سکے۔ داعی درس کو طویل نہ کرے کیونکہ زیادہ طوالت سے سامعین اکتا جاتے ہیں16۔‘‘ اسی طرح بعض اوقات تربیتی نشستوں کا بھی ایک محلے کی مسجد کی سطح پر یا علاقے کی جامع مسجد کی سطح پر انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں مختلف اسکالرز تشریف لاتے ہیں اور دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں، لہذا داعیات کو بھی اس میدان کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ عمومی طور پر خواتین کی تربیتی نشستوں کا اہتمام مردوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے، لہذا داعیات کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں آگے بڑھ کر اپنی خدمات انجام دیں۔
۴۔ بحث و مباحثہ یا ٹیبل ٹاک
کبھی کبھی ایک خاص عنوان کے تحت تیاری کر کے اہل علم حضرات آمنے سامنے گفتگو کرتے ہیں اور اس کو بحث و مباحثہ یا ٹیبل ٹاک کا نام دیا جاتا ہے، لیکن ایک داعی یا داعیہ کو اس سلسلے میں یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ یہ مباحثہ یا مناظرہ صرف اس نیت سے کیا جائے کہ حق بات کو واضح کیا جائے نہ کہ دل میں فریقِ مخالف کو ہرانے کا یا نیچہ دکھانے کا جذبہ ہو۔ اس ضمن میں ڈاکٹر محی الدین رقم طراز ہیں کہ: ’’بحث و مناظره دو یا زیادہ افراد کے درمیان ہوتا ہے اور اس میں ہر فریق اپنی رائے اور نقطہ نظر کی وضاحت کرتا ہے اور جب داعی مخاطب کو اللہ کی جانب بلاتا ہے اور وہ حق کو قبول نہیں کرتا اور داعی سے بحث و مناظرہ پر تیار ہو جاتا ہے، اس صورتحال میں داعی کو سکون و اطمینان اور مخاطب پر شفقت و نرمی ترک نہیں کرنی چاہئے۔ اگر مخاطب اپنے باطل پر مصر ہے تو پھر داعی کے لئے مناسب ہے کہ وہ اس سے مزید بحث نہ کرے17۔‘‘
۵۔ علمی سیمینارز یا کانفرنسز
آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے، تمام شعبہ ہائے زندگی میں جدت آگئی ہے۔ عوام الناس بھی اب بہت حد تک سمجھدار ہو گئی ہے اور بہت سے ایسے نام نہاد اسکالرز سے جو دینِ حق کی صحیح ترجمانی نہیں کرتے، ان سے متنفر ہو کر ان کو سننا چھوڑ چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب عوام کے لئے علمائے حق کی جانب سے علمی سیمینارز یا کانفرنسز کا اہتمام بہت نچلی سطح تک ہو رہا ہے۔ لوگ اب خصوصی دلچسپی کے ساتھ ان سیمینارز میں شرکت کرتے ہیں لہذا عصر حاضر کی داعیات کو چاہیے کہ وہ بالخصوص خواتین کی اصلاح و تربیت کی نیت سے ایسی کانفرنسز کا اہتمام کریں جن میں بالخصوص خواتین کو مدعو کیا جائے، کیونکہ ایک عورت کی اصلاح سے پورا خاندان اصلاح پا جاتا ہے۔ آج کل تو آنلائن سیمینارز اور کانفرنسز بھی ہو رہے ہیں جن میں تمام سامعین اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے ان میں شامل ہو جاتے ہیں لہذا بہت زیادہ اخراجات سے بھی داعیات اپنے آپ کو بچاتے ہوئے اس طرح سے تبلیغ ِ دین کا فریضہ سرانجام دے سکتی ہیں۔
۶۔ آن لائن ویڈیو بیانات
اسی طرح تبلیغ دین کے ذرائع میں دور حاضر میں ایک جدید اور پراثر ذریعہ آنلائن ویڈیو بیانات کا ہے جس میں داعی یا داعیہ براہ راست یا ویڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے انٹرنیٹ پر اپنے بیانات پھیلا دیتے ہیں اور عوام الناس جب چاہیں، انٹرنیٹ کا استعمال کر کے ان بیانات کو سن سکتے ہیں۔ لہذا داعیات کو بھی چاہیے کہ وہ شرعی پردے کا خیال رکھتے ہوئے اس میدان میں بھی اپنی خدمات سرانجام دیں۔ اگر انٹرنیٹ پر ان کے بیانات میسر ہوں گے تو ہماری وہ خواتین، جو گھریلو مصروفیات کی وجہ سے گھروں سے نہیں نکل سکتیں، وہ بھی ان بیانات سے مستفید ہو سکیں گی۔
(۲) تبلیغ بذریعہ تحریر
قلم و تحریر اور صحافت کے ذریعے تبلیغ، دعوت الی اللہ کی ایک تحریری قسم ہے۔ اس کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً خطوط، رسائل، کتابیں وغیرہ۔ آج کل دنیا میں کتابوں کی کمی نہیں ہے، ہر گھر میں بلکہ ایک چھوٹے سے مکتب میں بھی کتابوں کا ایک اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ کتاب اور چھپائی کی حیرت انگیز ایجاد نے کتابت کی صنعت کو مزید ترقی دی، آج کی دنیا ایک ترقی یافتہ دنیا ہے، روزانہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں کتابیں چھپتی ہیں، موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے دو چیزیں داعیان ِحق کے لئے نہایت اہم ہیں:
۱۔ موجود و سائل و ذرائع کو بہتر ڈھنگ سے استعمال کریں، جن کے ذریعہ ہم مخاطبین کی شخصیت کی تعمیر کر سکیں اور نئی نسل کی بہتر تربیت کر سکیں۔
۲۔ کتابوں کے اس بازار میں جو ظاہری خامیاں ہیں، ان کی اصلاح کریں۔
تحریری دعوت کی چند صورتیں درج ذیل ہیں:
• خطوط اور رسائل
• تصنیف و تالیف
• صحافت
۱۔ دعوت بذریعہ خطوط اور رسائل
خطوط و رسائل دعوت و تبلیغ کا نہایت ہی مؤثر طریقہ ہے۔ رسالہ کبھی تو کسی متعین موضوع پر ایک کتابچہ ہوتا ہے اور کبھی ایک شخص دوسرے کو خطاب کر کے کچھ لکھتا ہے، جس کو خط سے تعبیر کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺنے بھی از خود دعوت الی اللہ کے سلسلے میں خطوط و رسائل سے مدد لی ہے، آپﷺ نے دنیا کے مختلف بااثر لوگوں، بادشاہوں اور حکمرانوں کو دعوتی خطوط لکھے اور تبلیغِ حق کا فریضہ انجام دیا۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ خطوط و رسائل کے ذریعے دعوت کا کام سر انجام دے سکتے ہیں۔ خود صحابیاتؓ کی سیرت سے بھی یہ اسلوب ہمیں ملتا ہے۔ اس ضمن میں اماں عائشہ صدیقہؓ کا وہ خط مشہور ہے جو انہوں نے سیدنا امیر معاویہؓ کو نصیحت طلب کرنے پر لکھا تھا۔ اسی طرح آج کل بعض مدارس یا یونیورسٹیز ماہانہ سطح پر مختلف دعوتی عنوانات کے تحت رسائل کا اجراء بھی کرتے ہیں، لہذا داعیات کو چاہیے کہ وہ بھی اس میدان میں خلوصِ نیت کے ساتھ ایسے رسائل کا اجراء کریں جو بالخصوص خواتین کے معاملات سے متعلق ہوں۔
۲۔ تصنیف و تالیف
اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی موضوعات پر مشتمل تحریکی و دعوتی کتب کا جو خلاء ہے، اس کا پُر ہو نا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ میدان وسیع اور کھلا ہوا ہے، ضرورت صرف صبر اور احتیاط کی ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ہم دین میں گہری بصیرت حاصل کریں۔ کسی موضوع پر لکھتے ہوئے اس بات کی کوشش کی جائے کہ ہم اس میں ایسا مواد اکھٹا کریں جو اس سے پہلے کسی اور نے نہ کیا ہو اور اسی طرح اپنی تحریر یا کتاب کو منظر عام پر لانے سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے علماء و محققین کے نقطہ ہائے جان لیں تاکہ اس کتاب کو اہلِ علم حضرات کی جانب سے تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ ایسا مواد اکٹھا کیا جائے جو دعوتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں معاون ثابت ہو۔
اس ضمن میں سید قطب شہیدؒ تحریر کرتے ہیں:
قلم و تحریر کے ذریعے دعوت کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً داعی جن کو دعوت حق دینا چاہتا ہے انہیں خطوط لکھے، کتا ہیں اور مضامین تحریر کرے، دعوتی مقالات تحریر کرتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان تحریروں کی زبان سہل ہو اور لوگ ان کو بخوبی سمجھ سکیں18۔
لہذا عصر حاضر کے داعی یا داعیہ کو چاہیے کہ وہ میدانِ دعوت میں ان باتوں کا خصوصی خیال رکھے۔
۳۔ صحافت
فن صحافت کی اہمیت میں عالمی پیمانے پر دن بدن اضافہ ہو رہا ہے، خصوصاً وہ ممالک جنہیں فکر و عمل کی پوری آزادی ہے، وہ اس میدان میں سب سے آگے ہیں، اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک کامیاب صحافی پوری قوم کی نمائندگی کرتا ہے۔ لہذا دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا البتہ اس سلسلے میں چند اصول ایک داعی یا داعیہ کو ہمیشہ یاد رکھنے چاہییں۔
صحافت کے اصول
اب ہم اسلامی نقطہ نظر سے صحافت کے چند اصول ذکر کرتے ہیں جن کو اپنا کر ایک داعی یا داعیہ صحافت کے میدان میں بھی دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔
۱۔ داعی کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے
ظلم قیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے، لہذا اس گناہ سے خود بھی بچنا اور امت کو بھی اس سے بچانا ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے۔
۲۔ فحاشی و عریانی کا سدِ باب کرنا چاہیے
ایک داعی کو معاشرے میں فحاشی و عریانی پھیلانے والوں کا بھی سدِباب کرنا چاہیے کیونکہ اس کے سدباب کا حکم درحقیقت اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ: اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَاۗئِ ذِي الْقُرْبٰى وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ19۔ (بیشک اللہ انصاف کا، احسان کا، اور رشتہ داروں کو (ان کے حقوق) دینے کا حکم دیتا ہے، اور بے حیائی، بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ )اسی طرح ایک داعی یا داعیہ کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بے حیائی کا قلع قمع اس لئے بھی کیا جائے کہ دراصل بے حیائی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے۔
۳۔ صحافت کے ذریعے کسی کی دل آزاری نہ کی جائے
اس میدان میں کام کرنے والوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان کی کسی تحریر یا تقریر سے کسی مخاطب کو یہ محسوس نہیں ہونا چاہیے کہ اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے یا کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ایک داعی یا داعیہ کو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاۗءٌ مِّنْ نِّسَاۗءٍ عَسٰٓى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۭ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ20۔ (اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں۔) اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحافت کے میدان میں کام کرنے والے اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ کسی کی بلا وجہ دل آزاری نہ ہو بلکہ یہ کوشش ہونی چاہیے کہ صحافت کے ذریعے تعمیر سیرت اور دعوت الی اللہ کا کام ہو۔ ایک داعی صحافی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اچھائی کی دعوت دیں اور برائی سے روکیں، لیکن کسی کی برائی تلاش کرنے کا کام ان کے لیے مفید نہیں ہے اور نہ وہ کسی کے نجی معاملات میں تجسس کرے۔
۴۔ بلا تحقیق کوئی خبر یا بات شائع نہ کی جائے
صحافت کے اصولوں میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ کوئی خبر بغیر تحقیق کے شائع نہ کریں، اگر وہ خبر واقعی سچی ہے تو اسے شائع کیا جائے اور اس میں کوئی ایسا پہلو ضرور رکھیں جس سے دعوت کا پہلو نکلتا ہو۔ مثلاً عبرت یا رغبت و غیرہ۔ کیونکہ بغیر تحقیق کے بات کرنا حکمِ الہی کی بھی خلاف ورزی ہے۔
(۳) عمل کے ذریعے دعوت
دعوت و تبلیغ کا تیسرا ذریعہ عمل ہے کہ داعی اپنے کردار اور عمل کو اتنا اعلیٰ اور اچھا بنائے کہ لوگ اس کے طرز زندگی کو دیکھ کر متاثر ہو جائیں اور دعوت الہی کو خودبخود قبول کرتے چلے جائیں۔ صحابیاتؓ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ وہ عوام کے درمیان اپنے اخلاق و عادات اور مضبوط کردار کی وجہ سے ضرب المثل ہوتی تھیں، اس لیے عصر حاضر کی داعیہ کی سب سے پہلی ذمہ داری اپنی ذات کی اصلاح ہے اور پھر اپنی شخصیت کو عوام کے سامنے نمونے کے طور پر پیش کر کے دعوت دینا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی جب دعوت کا آغاز کیا تو سب سے پہلے مشرکین ِ مکہ کے سامنے اپنا کردار پیش کیا اور کردار ایسا تھا کہ شدید دشمن بھی آپﷺ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ خود اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کی مبارک ذات کو امت کے لئے آئیڈیل اور قابلِ تقلید قرار دیا ہے۔ ویسے بھی ایک فطری بات ہے کہ جب سامع یہ دیکھتا ہے کہ نصیحت کرنے والا بذاتِ خود اس بات پر عمل نہیں کر رہا تو ایسی صورت میں اس کے اپنے دل میں بھی وہ نصیحت زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اسی بات کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ بات نہ کریں کہ جس پر وہ خود عمل نہیں کرتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ21۔ (اے ایمان والو ! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ بات بڑی قابل نفرت ہے کہ تم ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔ )لہذا ایک داعی یا داعیہ کو اپنا کردار سب سے پہلے عوام الناس کے سامنے بطور مثال پیش کرنا چاہیے، اس کے بعد ان کو دعوت الی اللہ کی طرف راغب کرنا چاہیے، اس بات سے اس داعی کے کلام میں تاثیر بھی زیادہ ہوگی اور سامعین پر بھی گہرا اثر پڑے گا۔
جدید ذرائع ابلاغ اور دعوت و تبلیغ
بیسویں صدی درحقیقت سائنس اور ٹیکنالوجی کی صدی ہے۔ اس صدی کے اوائل سے سائنس کی انقلابی ایجادات نے تہلکہ مچا رکھا ہے اور نت نئی ایجادات ہو رہی ہیں۔ ان ایجادات نے زندگی کے تمام شعبہ جات کو متاثر کیا ہے۔ روز مرہ زندگی میں کام کرنے والی اشیاء زندگی کا لازمی بن گئی ہیں۔ انٹرنیٹ، ریڈیو، ٹی۔ وی، وی۔ سی۔ آر، ٹیپ ریکارڈر، موبائل فون اور الیکٹرانکس نے تمام ٹیکنالوجی کی دنیا میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر کے انٹرنیٹ کی بدولت ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے، 4۔جی (4G) اور اب اس کے بعد 5۔جی (5G) نے دنیا کے تمام فاصلے مٹا دیئے ہیں۔ سمندر پار رہنے والے لوگ بھی اب ایک دوسرے کے پل پل کے حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ لہذا ایسی صورت میں ایک داعی یا داعیہ کو انٹرنیٹ سمیت جدید ذرائع ابلاغ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس حوالے ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کہتے ہیں:’’ آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، دنیا میں نت نئے ایجادات روز معمول بن گیا ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کے تمام شعبوں میں غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کل تک بادشاہوں اور حکمرانوں کو باخبر رکھنے کے لئے ہر کاروں اور وقائع نگاروں کا اہتمام کیا جاتا تھا اور حالات و واقعات سے صرف اہل اقتدار ہی مستفید ہوتے تھے لیکن آج کے دور نے ابلاغ کے تمام ذرائع کو ہر امیر غریب کے گھر تک پہنچا دیا ہے22۔‘‘
مختلف ذرائع ابلاغ
۱۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ریڈیو کا استعمال
دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں ریڈیو سے ہم فائدہ اٹھا سکتے ہیں، اس کام کے لیے الگ ریڈیو سٹیشن قائم کر سکتے ہیں اور اس کے قیام کے دوران اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ مفید اور عام فہم پروگرام سامعین کو سنائے جائیں اور ہر ماہ اور ہر موسم کے خاص حالات کے متعلق احکام و مسائل کو بیان کیا جائے۔ ریڈیو کے بارے میں مفتی محمد شفیع عثمانیؒ لکھتے ہیں: ’’ریڈیو کا استعمال اگرچہ عام حکومتوں اور عوام کی بد مذاقی سے مخرب اخلاق اور غیر مشروع چیزوں میں زیادہ تر کیا جا رہا ہے، لیکن خبروں اور دوسری مفید اور جائز معلومات کا درجہ بھی اس میں خاص اہمیت رکھتا ہے23۔‘‘ موجودہ دور میں ریڈیو اسٹیشن کی یہی حیثیت ہے جو ایک نشر و اعلام کا آلہ ہے، جس کا استعمال برائی کے لئے بھی کیا جا سکتا ہے اور بھلائی کے لئے بھی۔ اس کے ذریعے دینی پروگرام پیش کئے جائیں۔
۲۔ دعوت و تبلیغ کے لیے ٹی-وی کا استعمال
اس ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر ایک داعی یا داعیہ دعوت الی اللہ کا کام بہترین انداز میں کر سکتے ہیں اور بلاشبہ اس کا استعمال آج بہت سے مذہبی اسکالرز دعوت کے لئے کر بھی رہے ہیں۔ اس معاملے میں ٹی-وی کو چند خصوصیات حاصل ہیں جن کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
- اندرونِ ملک اسلامی خبروں اور حالات حاضرہ سے باخبر رہنا
- بیرونِ ملک اسلامی خبروں اور عالمی حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا
- امت مسلمہ سے متعلق اہم خبروں، حالات و حادثات کی ویڈیوز کو براہ راست دیکھنا
- دنیا بھر کے ممتاز اور جید علماء اور اسکالرز کے بیانات سے براہ راست مستفید ہونا
ان خصوصیات کی وجہ سے یہ بات مانی جا چکی ہے کہ ٹی-وی نے آج کی دنیا پر اپنا تسلط قائم کر لیا ہے۔ ٹی-وی پر چلنے والی خبریں کچھ اس انداز میں پیش کی جاتی ہیں کہ سامعین کو ان کی سچائی میں ذرہ برابر بھی شک نہیں رہتا لیکن دوسری طرف اس کے نقصانات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ ٹی-وی کے تعلیمی و تربیتی اور معلوماتی پروگرام بے حیائی اور فحاشی کی گندگیوں (اشتہارات) سے خالی نہیں ہیں۔ اسی (ٹی-وی) کے ذریعے ہی ملٹی نیشنل کمپنیز تجارت کی بلندیوں پر پہنچی ہیں۔ ٹی-وی کے جواز کے سلسلے میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ ہم ٹی-وی رکھیں گے لیکن اس پر تفریحی پروگرام، فلم، سیریل، ناچ گانا نہیں دیکھیں گے، لیکن ایسی صورت میں ان حضرات کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان میں نسبتاً کم لیکن تمام خرابیاں موجود ہیں۔ عرب کے اکثر علماء ٹیلی ویژن کی تصویر کو تصویر کے حکم میں نہیں مانتے، اس لیے وہ ٹیلی ویژن پر ہر اس پروگرام کو جائز سمجھتے ہیں، جس میں کوئی قباحت اور غیر شرعی افعال نہ ہوں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس ذریعہ سے تبلیغِ دین اور درس و تدریس کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ بالفعل اس میں حصہ بھی لیتے ہیں، ان علماء کرام میں علامہ یوسف قرضاوی، شیخ صالح فوزان، شیخ ابراہیم الشریم جیسے نام قابل ذکر ہیں۔
۳۔ دعوت و تبلیغ کے میدان میں انٹرنیٹ کی اہمیت
جس طرح اخبار، کتب، رسالے، ٹی-وی وغیرہ ابلاغ کے ذرائع ہیں ایسے ہی انٹرنیٹ دور حاضر کا سب سے جدید اور تیز ترین ذریعہ ابلاغ ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہماری صدی انٹرنیٹ کی صدی ہے۔ انٹرنیٹ اپنے خیالات کو پھیلانے اور مختلف مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ایک آلہ ہے، اس پر باطل اقوام کی اجارہ داری ہونے کی وجہ سے اس کو بسا اوقات اسلام کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے لیکن صرف اسی بات پر اسے شجر ممنوعہ قرار دینا درست نہیں ہے، بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اس کے ذریعے متلاشیان حق کو صحیح غذا پہنچانے کا بندوبست کریں۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ کے لئے اس کا استعمال نہ صرف درست ہے بلکہ یہ دعوت و تبلیغ کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔ انٹرنیٹ پر دعوت کا کام مختلف طریقوں سے ہو سکتا ہے۔
فیس بک:
فیس بک پر اپنے نام سے پیج بنا کر اس پر اپنے ویڈیو بیانات اور مختلف موضوعات پر اپنی تحریرات اور کالمز سے عوام الناس کو مستفید کرنا۔ جیسا کہ آج کل بہت سے اسکالرز (داعی اور داعیات) اس طرح سے دعوت الی اللہ کا کام کر رہے ہیں۔ فیس بک کا استعمال عصر حاضر میں تقریباً ہر طبقہ ہائے زندگی کے افراد کرتے ہیں، امیر و غریب سبھی اس وقت اسمارٹ فونز کی مدد سے فیس بک کا استعمال کرتے ہیں، اس لئے ایک داعی یا داعیہ اگر اس پلیٹ فورم پر کام کریں گے تو ان کی دعوت ہر خاص و عام تک پہنچے گی۔
ٹویٹر:
ٹویٹر بھی اس وقت دعوت کے لئے ایک موزوں ذریعہ ہے۔ دنیا بھر کے لاکھوں لوگ ٹویٹر پر ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے اور بالخصوص عرب کے نامور علماء اور اسکالرز ٹویٹر کے ذریعے دعوت الی اللہ کا فریضہ بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ لہذا پاکستان میں موجود داعی حضرات اور داعیات ِاسلام کو بھی اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنی چاہیے۔
واٹس ایپ:
عصر حاضر میں واٹس ایپ بھی فیس بک کی طرح ایک ایسی سہولت ہے، جو امیر و غریب تمام ہی استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایک داعیہ واٹس ایپ گروپ بنا کر اس میں مختلف خواتین کو شامل کر لے تو تمام خواتین بیک وقت اس داعیہ کے اصلاحی بیانات اور دیگر دعوتی مواد سے مستفید ہو سکتی ہیں۔ اس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ وقت کا تعین اس میں ضروری نہیں ہے بلکہ کسی بھی وقت میں داعیہ اپنے اوقات میں سے وقت نکال کر اس میں معلوماتی مواد مہیا کر سکتی ہے، اس وقت بیشمار واٹس ایپ گروپس ایسے ہیں جو آن لائن درس و تدریس، حفظِ قرآن اور ناظرہ اور آن لائن دارالافتاء جیسی دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ داعیات کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے کہ یہ سب سہولیات خواتین کے لئے بھی مہیا کی جا سکیں، تاکہ مردوں کے ساتھ ساتھ گھریلو خواتین بھی ان سے مستفید ہو سکیں۔
یوٹیوب:
یوٹیوب پر اپنا دینی چینل بنا کر اس میں اپنے ویڈیو بیانات اور اصلاحی دروس کو ڈال دیا جاتا ہے اور لوگ انٹرنیٹ کی مدد سے ان تک دسترس حاصل کر لیتے ہیں۔ اس پلیٹ فورم پر بھی بے شمار علماء اور اسکالرز دعوت و تبلیغ کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ لہذا داعیات کو بھی اپنی توجہ اس طرف مرکوز کرنی چاہیے۔ عمومی طور پر وہ گھریلو خواتین جو اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے گھر سے باہر جا کر کسی باقاعدہ مکتب کے ذریعے درس و تدریس نہیں کر سکتیں، وہ یوٹیوب کے ذریعے گھر بیٹھ کر اسلامی معلومات حاصل سکتی ہیں۔ ویسے بھی دیکھا گیا ہے کہ خواتین کسی بھی معاملے میں رہنمائی لینے کے لئے سب سے پہلے یوٹیوب کا دروازہ ہی کھٹکھٹاتی ہیں، جیسا کہ مختلف انواع و اقسام کے کھانے بنانے کی ترتیب وغیرہ عام طور پر عورتیں یوٹیوب سے سیکھتی ہیں، لہذا اگر یوٹیوب پر ان کے لئے دعوتی و اصلاحی مواد مہیا کر دیا جائے تو یقیناً وہ اس سے بھی مستفید ہوں گی۔ ایک داعیہ کو چاہیے کہ وہ اس حوالے سے غور و فکر کرے۔
دعوت کے اہداف جو ایک داعیہ کے پیشِ نظر رہنے چاہئیں
داعیات کو دعوت الی اللہ کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے مختلف اہداف کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ بنیادی طور پر امتِ مسلمہ کو دین کی تبلیغ کرنے کے علاوہ دیگر بہت سے ایسے اہداف ہیں، جو ایک داعیہ کے پیشِ نظر ہونے چاہئیں۔
۱۔ امت مسلمہ میں اتحاد و اتفاق کو پیدا کرنا
اگر ایک طائرانہ نگاہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے موجودہ احوال پر ڈالی جائے تو ہمیں پتہ چلے گا کہ فلسطین سے لیکر برما اور کشمیر تک دنیا کے ہر خطہ میں مسلم قوم تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور پھر اس پر ظلم یہ کہ کسی بھی عالمی نظام انصاف کے پلیٹ فورم سے مسلمانوں کے حق میں کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔ امت مسلمہ کی جان، مال، عزت و آبرو کو بالکل بھی تحفظ نہیں ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ایسی صورتحال سے مسلم امہ بذاتِ خود بہت حد تک ناواقف ہے۔ مسلمان خود مسلمانوں کے حالات سے ناآشنا ہیں جس کی ایک بڑی وجہ مسلمانوں کی آپس کی رنجشیں اور بے حسی ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے امت مسلمہ کی باہمی محبت اور اتحاد کی مثال دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ: الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ، يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا24۔ (ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے ایک عمارت کے مانند ہے، جس کی ایک (اینٹ) دوسری (اینٹ) کو مضبوط کرتی ہے۔) لیکن آج امت مسلمہ اس قدر بے حس ہو چکی ہے۔ ایک داعی یا داعیہ کو دورانِ تبلیغ اس بات کی طرف بھی توجہ ملحوظ خاطر رکھنی ہے کہ وہ امت مسلمہ میں یہ جذبہ دوبارہ سے ابھار سکے۔ ان میں یہ احساس دوبارہ سے پیدا کر سکے کہ ہم مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور ہمیں باہمی اتحاد اور محبت کی فضا کو دوبارہ سے قائم کرنا ہے۔ ایک داعیہ کا فرض ہے کہ وہ امت مسلمہ بالخصوص خواتین اسلام کو صحابیاتؓ کی مبارک زندگیوں سے متعارف کروائے تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام واپس لے سکیں۔ امت کو یہ بات باور کروانا ایک داعیہ کا فرض ہے کہ ہم جب تک اپنے اسلاف بالخصوص صحابہ کرامؓ اور صحابیاتؓ کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے، ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بنی رہے گی۔
۲۔ امت کو ’’وہن‘‘ کی بیماری سے نجات دلانا
ایک داعی یا داعیہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امت مسلمہ میں یقین محکم، عمل صالح، خوفِ الہٰی اور فکر آخرت کا شعور اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی باقاعدہ دعوت دینے کی ضرورت ہے کہ امت اپنے دل و دماغ سے’’ وہن‘‘ کی بیماری کو یعنی دنیا کی محبت اور موت کی ناپسندیدگی یا کراہت کو ختم کر دے، کیونکہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے، موت کی ناپسندیدگی بزدلی اور غیروں کی غلامی کا سبب بنتی ہے۔ جب ہم اس بیماری سے نجات پا جائیں گے تو اس کے نتیجے میں بہت سی مشکلات پر قابو پانا آسان ہو جائے گا۔
۳۔ امت مسلمہ میں حصولِ علم کا جذبہ پیدا کرنا
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم ایک ایسی امت ہیں کہ جن کے نبی ﷺ کو استاد اور معلم بنا کر مبعوث کیا گیا لیکن اس کے باوجود آج ہماری امت تعمیر و ترقی تو ایک طرف، بنیادی دینی تعلیم سے بھی نابلد ہے۔ لوگوں کو بنیادی پاکی و ناپاکی، حلال و حرام، نماز و روزے کے احکام تک بھی معلوم نہیں ہیں۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس عنوان پر پوری توجہ کے ساتھ کام کرے۔ حصول ِعلم کا جذبہ لوگوں میں بیدار کرے تاکہ لوگ بالخصوص خواتین بنیادی ضروریاتِ دین کو جان لیں، جیسا کہ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ25۔ (علم طلب کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔) لہذا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے کہ وہ حصولِ علم کے لئے اپنے آپ کو تیار کرے۔ یہی جذبہ ان لوگوں میں بیدار کرنا دراصل ایک داعیہ کی ذمہ داری ہے۔
۴۔ امت سے سستی و کاہلی اور عیش پسندی کا خاتمہ کرنا
اللہ تعالیٰ کا دستور ہے کہ جو قوم خود سست اور کاہل ہو جاتی ہے اور عیش پسندی میں مبتلا ہو جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس قوم کے حالات کبھی بھی ٹھیک نہیں کرتے، بلکہ انسان کو سب سے پہلے خود ہمت کرنی پڑتی ہے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کچھ یوں بیان کیا ہے: لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ يَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۭ وَاِذَآ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْۗءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗ ۚ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ26۔ (ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگران (فرشتے) مقرر ہیں جو اللہ کے حکم سے باری باری اس کی حفاظت کرتے ہیں، یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کا ٹالنا ممکن نہیں، اور ایسے لوگوں کا خود اس کے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہوسکتا۔) امت مسلمہ کے مسائل میں سے ایک اور بڑا مسئلہ ہماری اجتماعی اور انفرادی سستی، کاہلی اور عیش پرستی بھی ہے، لہذا ایک داعی یا داعیہ کو اپنے دعوت کے اہداف میں یہ بھی شامل کرنا ہے کہ وہ امت مسلمہ کو دوبارہ سے فکری و جسمانی طور پر بیدار کریں کیونکہ حد سے زیادہ جسمانی عیش و آرام بھی درحقیقت سستی و کاہلی کا سبب بن جاتے ہیں۔ آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ بوڑھے تو بوڑھے، جوان بھی سستی و کاہلی کی بدولت جسمانی قوت و طاقت بہت حد تک کھو چکے ہیں اور لغویات نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا، لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ جوانوں میں دوبارہ سے جوش و جذبہ اور ایک تحریک پیدا کی جائے اور انہیں یہ سمجھایا جائے کہ بہترین اور طاقتور جسم ہی ایک طاقتور دماغ کو پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ رسولﷺ نے فرمایا: الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيفِ وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ احْرِصْ عَلَى مَا يَنْفَعُكَ وَلَا تَعْجِزْ فَإِنْ غَلَبَكَ أَمْرٌ فَقُلْ قَدَرُ اللَّهِ وَمَا شَاءَ فَعَلَ وَإِيَّاكَ وَاللَّوْ فَإِنَّ اللَّوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّيْطَانِ27۔ (کمزور مومن کی نسبت طاقتور مومن بہتر ہے اور اللہ کو زیادہ پیارا ہے۔ اور سب میں خیر موجود ہے۔ جو چیز تجھے نفع دے سکتی ہے ا سکی (کوشش اور) حرص کر اور عاجز نہ بن۔ اگر تجھ پر (تیری مرضی کے خلاف) کوئی چیز غالب آجائے تو کہہ: یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔ اس نے جو چاہا کیا۔ (لفظ لَوْ) ’’اگر‘‘ سے بچ کیونکہ ’’اگر‘‘ سے شیطان کا کام شروع ہو جاتا ہے۔) فطری بات ہے کہ ایک طاقتور مومن اپنی ذہنی اور جسمانی قوتوں کو نیک کاموں کی انجام دہی، نیکیوں کے فروغ اور برائیوں کی راہ روکنے میں خرچ کرتا ہے جب کہ کمزور آدمی بہت سے ایسے کام نہیں کر سکتا جو طاقت ور آدمی انجام دے سکتا ہے۔ اس لحاظ سے طاقت ور مومن کمزور سے بہتر ہے۔ لہذا یہ ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے کہ وہ اس انفرادی اور اجتماعی کمزوری کا احساس کریں اور اس کی اصلاح کے لئے کوشش کریں۔
۵۔ امت مسلمہ سے احساس کمتری کو ختم کرنا
آج المیہ یہ ہے کہ امت کا ایک بڑا طبقہ غیروں کی ٹیکنالوجی اور قوت اور طاقت دیکھ کر ان سے خائف ہو چکی ہے اور ذہنی طور پر اپنے آپ کو انہوں نے غیروں کا غلام تسلیم کر لیا ہے، ہر بات میں غیروں کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں اور صورتحال ایسی ہے کہ امت نے انہی کو اپنے لئے آئیڈیل تسلیم کر لیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ کیفیت صرف عوام الناس ہی کی نہیں بلکہ بڑے بڑے حکمران بھی اپنی تقریروں میں یہی فلسفہ پیش کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے تو امت مسلمہ کو ’’بہترین امت‘‘ قرار دیا تھا۔ لہذا ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے کہ وہ امت مسلمہ میں پائی جانے والی اس محرومی کو دور کریں اور انہیں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان باور کروائیں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہترین امت قرار دیا ہے، لہذا تمہیں غیروں کے طریقوں پر چلنے کی بجائے دین اسلام ہی کو اپنا آئیڈیل بنانا ہے اور اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر دنیا و آخرت کی کامیابیاں سمیٹنی ہیں۔ چنانچہ اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ ۭ وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ ۭمِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَ28۔ (مسلمانو! تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے، تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے حق میں کہیں بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ تو مومن ہیں، مگر ان کی اکثریت نافرمان ہے۔) ایک داعی یا داعیہ کا فرض ہے کہ وہ امت کو باور کروائے کہ غیروں سے مرعوب ہو کر ان کی پیروی کرنے کی بجائے دین اسلام کی پیروی کرنے ہی میں ایک مسلمان کی بقا ہے۔ لہذا امت کے اندر خود اعتمادی اور دین اسلام کے ساتھ ایسی لگن پیدا کرنا کہ وہ اسلام ہی کو اپنا آئیڈیل تسلیم کریں اور اپنے جملہ معاملات میں اسی سے رہنمائی طلب کریں، یہ سب ایک داعی کی ذمہ داری ہے۔
۶۔ جدید ٹیکنالوجی پر سے غیروں کے غلبے کو ختم کرنے کی سعی کرنا
ایک داعی کا فرض ہے کہ وہ امت کو یہ نظریہ اچھی طرح سے سمجھائے کہ اسلام صرف مسجد اور مدرسے کی حد تک محدود نہیں بلکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی کرنے والا دین ہے۔ آج لادین طبقہ یہی وسوسہ مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ آخر اسلام نے کونسی ٹیکنالوجی متعارف کروائی ہے؟ آج کی جدید دنیا میں اسلام نے لوگوں کی بقا کے لئے کیا خدمات سرانجام دی ہیں؟ یہ طبقہ لوگوں کو کفار کی طرف اس انداز میں متوجہ کرتا ہے کہ سادہ لوگ مسلمان کفار سے ذہنی و فکری طور پر مرعوب ہو جاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہی وہ دین اور مذہب ہے جس نے ٹیکنالوجی کی ترویج پر دراصل زور دیا ہے۔ ہم اگر اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بڑے بڑے سائنسدان، علمِ کیمیاء کے ماہرین، ریاضی دان، حکماء اور علماء کے نام ملتے ہیں۔ مثلاً امام محمد بن زکریا الرازی، ابونصر فارابی، جابر بن حیان، حکیم یحییٰ منصور، عباس بن سعید الجوہری، خالدبن عبدالملک المروزی، محمد بن موسیٰ خوارزمی، ابن خلدون، ابن جوزی، ابن تیمیہ، امام جلال الدین السیوطی، احمد بن موسیٰ شاکر، ابوعباس احمد بن کثیر فرغانی، ابو جعفر محمد بن موسیٰ شاکر، حجاج بن یوسف کے کارناموں سے دنیا واقف ہے۔ دنیا نے جتنی بھی ترقی کی، اس کی بنیاد ڈالنے والے یہی مسلمان رہنما تھے، البتہ المیہ یہ ہے کہ آج کے مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ یہی وہ بنیادی غلطی ہے جس کی وجہ سے آج کا مسلمان بجائے اس کے کہ وہ جدید تعلیم حاصل کر کے غیروں کے مقابلے میں اپنی خدمات دنیا کو پیش کرے، وہ اپنے ماضی کو بھلا کر غیروں سے امید لگائے بیٹھا ہے اور انہیں کو اپنا پیشوا تسلیم کر چکا ہے۔ اس کے دل میں یہ جذبہ دوبارہ سے بیدار کرنا کہ اس کو دنیا کی امامت کے لئے بھیجا گیا ہے، یہ ایک داعی اور داعیہ کا فرض ہے۔
خلاصہ بحث
اگر ہم ماڈرن اور جدید ترقی یافتہ دور کی بات کریں تو وقت کے تقاضے بدلنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے معیار زندگی بھی بدل گئے ہیں، اب لوگ سوشل میڈیا کی زندگی میں رہتے ہیں لہذا داعیات کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس علمی میدان میں قدم رکھنے سے پہلے جدید دور کے تقاضوں سے اچھی طرح باخبر ہوں اور ان تمام وسائل اور ذرائع کو اچھی طرح جان لیں جو اس دعوت کے میدان میں ان کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرامؓ اماں عائشہ صدیقہؓ کے پاس علمی مسائل پوچھنے کے لئے آتے تھے۔ اسی طرح دیگر صحابیاتؓ نے بھی دعوتی میدان میں شاندار خدمات انجام دیں۔ عصرِ حاضر میں پاکستان کی خواتین اور بالخصوص داعیات کے لئے دعوت کے میدان میں صحابیاتؓ کی زندگی عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔ دعوت کے مختلف وسائل اور ذرائع استعمال کر کے داعیات اپنی دعوت کو مؤثر بنا سکتی ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ چند مزید اہداف کا تعین کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ایک داعیہ دعوت کے میدان میں کما حقہ نتائج حاصل کر سکے۔
تجاویز و سفارشات
۱۔ ضروری ہے کہ صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت و کردار اور ان کی زندگیوں کے دعوتی پہلوؤں جیسے عنوانات پر بھی مقالہ جات لکھے جائیں اور ان کی شخصیت و کردار کو بھی عوام الناس سے متعارف کروایا جائے تاکہ آج کے مسلمان اپنے اسلاف کو جان سکیں اور ہدایت اور رہنمائی کے لئے غیروں کے دروازے پر بھیک نہ مانگنی پڑے۔
۲۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ عصر حاضر کے اسلامی معاشرے میں اور بالخصوص پاکستانی معاشرے میں خواتین کی دینی تربیت کا باقاعدہ کوئی دینی نظام موجود نہیں ہے بالخصوص ایسے وقت میں جب کہ خواتین شادی شدہ ہوں اور گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ دینِ حق کو سیکھنا چاہتی ہوں۔ ایسے معاشرے میں ضروری ہے کہ خواتین کو یہ بات باور کروائی جائے کہ وہ کم از کم صحابیاتؓ کی زندگیوں کا مطالعہ کریں، ان کی سیرت و کردار کو اپنانے کی کوشش کریں اور پھر توقع کی جا سکتی ہے کہ یہی خواتین آگے چل کر داعیات بھی بن سکتی ہیں اور دیگر خواتین کو بھی دعوت دین کی طرف راغب کر سکتی ہیں۔
References
- Muḥammad b. Ismā,īl al-Bukhārī, al-jāmi‘al-Ṣaḥīḥ , (Alr-Riaz: Dār as-Salām, 1998), Hadīth:4993
- Muftī Muhammad Shafīe,Maārf Al- Qur’ān,(Karachi:Adarah Al- Qur’ān wal Uloom Al-Islamia,2008),V:5,P:92
- Ashraf Ali Thānvī,Dewat wa Tablīgh,(India,Lakhnao:Adarah Afadat Ashrafia,2010),P:329
- Muḥammad b. Ismā,īl al-Bukhārī, al-jāmi‘al-Ṣaḥīḥ , Hadīth:6786
- Muḥammad b. Ismā,īl al-Bukhārī, al-jāmi‘al-Ṣaḥīḥ , Hadīth:03
- Al-Asfhānī,Abu Naeem Ahmad Bin Abdullah,Huliya Al-auliyā wa Tabqāt Al-Asfiyā,(Misar :Dār Al-Fikar,1996),V:1,P:333
- Qārī Muhammad Tayyab,Deenī Dewat ky Qur’ānī Asool,(UP India: Maārf Al- Qur’ān Diyoband,2011),P:66
- Muslim, bin Ḥajjāj al-Qusheirī, al-jāmi‘al-Ṣaḥīḥ, (Alr-Riaz: Dār as-Salām, 2000)Hadith:785
- Abdul Karīm Zaidaān,Asool Al-Dah’wah,(Bairut:Al-ketab Al-Arabia,2013),V:1,P:452
- Ashraf Ali Thānvī,Dewat wa Tablīgh, P:183
- Tirmazī,Muhammad Bin Eīsā,Sunan,( Alr-Riaz:Maktabah Al-Maārif,2007),Hadith No:2407
- Al-Qur’ān 49:6
- Muslim, bin Ḥajjāj al-Qusheirī, al-jāmi‘al-Ṣaḥīḥ, (Alr-Riaz: Dār as-Salām, 2000)Hadith:8956
- Ameen Ahsan Islahī,Dewat –e-Deen Aur is ky Tariqy,(Dehlī,India:Maktabah Islamī,1987),P:76
- Ahmad Umar,Al-Dah’wah Al- Islamia,(Maktabah Ghareeb Al-Fujaālah),P:200
- Abu Al-Fatah Al-Bianī,Madkhal Ela Ilam Al-Dah’wah,(Bairut:Mausuat Al-Rasalah,1995),P:510
- Muhyu Al-Deen,Al-Dah’wah Al-Islamia wa Al- Aalam Al-Daolī,(Qaāhirah:Dar Al-Fikir,2008),P:180
- Syed Qutab,Dewat Ka Manhaj Kia Ho,(Lāhore: Maktabah Rahmania,2014),P:283
- Al-Qur’ān 16:90
- Al-Qur’ān 49:11
- Al-Qur’ān 61:2-3
- Liaqat Ali Niazī,Islam Ka Qanoon-e- Sahafat,( Lāhore:Book Taak,2018),P:130
- Muftī Muhammad Shafīe,Aālāt-e-jadeed ky Shareī Ahkam,(Karachi:Adarah Al- Maārif,2018), P:17
- Muslim, bin Ḥajjāj al-Qusheirī, al-jāmi‘al-Ṣaḥīḥ,Hadith:6585
- Ibn-e-Majah Muhammad Bin Yazeed,Al-Sunan, (Alr-Riaz: Dār as-Salām, 1999)Hadith:224
- Al-Qur’ān 13:11
- Ibn-e-Majah Muhammad Bin Yazeed,Al-Sunan, Hadith:4168
- Al-Qur’ān 3:110
عہد نبوی میں رقیہ اور جلدی امراض کی ماہر خاتون
(الشفاء بنت عبداللہ العدویہ القرشیۃ)
مولانا جمیل اختر جلیلی ندوی
تمہید
عہدِ نبوی کی خواتین میں کئی ایسی خواتین ہیں، جن کی خصوصیات کی بنیاد پر آج بھی انہیں یاد کیا جاتا ہے، شجاعت و بہادری، فراست و سمجھ داری، ذہانت و ذکاوت، تعلیم و تعلم، اخلاق و کرادر؛ حتی کہ علاج و معالجہ میں بھی بعض خواتین نے وہ نمایاں کارکردگی دکھائی کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف و مدح کی، انہیں خواتین میں سے ایک ’’شفاء بنت عبداللہ عدویہ قرشیہ‘‘ ہیں، حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
کانت من عقلاء النساء، وفضلائہن، وکان رسول اللہ ﷺ یأتیہا، ویقیل عندہا فی بیتہا، وکانت قد اتخذت لہ فراشاً وإزاراً ینام فیہ۔1
’’وہ عاقل و فاضل خواتین میں سے تھیں، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آتے اور ان کے گھر میں قیلولہ فرماتے، انھوں نے آپﷺ کے لئے ایک بستر اور ایک ازار رکھا ہوا تھا، جس میں آپ آرام فرماتے تھے‘‘۔ان کا شمار قریش کے ان معدودے خواتین میں ہوتا تھا، جو لکھنا پڑھنا جانتی تھیں، جس کی وجہ سے یہ شہرت بھی رکھتی تھیں۔ احمد خلیل جمعہ لکھتے ہیں:
وکانت الشفاء رضی اللہ عنہا إحدی النساء والقرشیات ممن یعرفن الکتابۃ والقراءۃ- وکن قلیلات- ولہٰذا السبب فقد تربعت فی عالم الشہرۃ بین قومہا، وقادہا ہذا إلی معرفتہا لبعض الأسرار فی علم الطب والرقیۃ وما یتعلق بہما من المعارف عصر ذاک۔2
’’شفاء رضی اللہ عنہا ان عورتوں اور قریشیات میں سے تھیں، جنھیں لکھنا پڑھنا آتا تھا- اور یہ بہت کم تھیں- جس کی وجہ سے اپنی قوم میں انھیں شہرت حاصل تھی اور اسی سبب سے انھوں نے اپنے زمانہ کے علوم: رقیہ اور طب کے اسرار و رموز سے بھی واقفیت حاصل کی تھی‘‘۔
رقیہ اور جلدی امراض کی یہ اسپیشلسٹ اور ماہر سمجھی جاتی تھیں، جس کا نتیجہ تھا کہ خود رسول اللہ ﷺ نے ان سے درخواست کی کہ:
ألا تعلمین ہذہ رقیۃ النملۃ کما علمتیہا الکتابۃ؟3
’’کیا تم یہ نملہ (ایک قسم کی جلدی امراض یا اکزیما) کا رقیہ حفصہ کو اسی طرح نہیں سکھاؤ گی، جس طرح کتابت کی تعلیم انھیں دی ہے؟‘‘
تعلیم و تدریس اور علاج و معالجہ کی خدمات کی وجہ سے ہی رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں انھیں ایک گھر دے رکھا تھا، جہاں صحابہ کرام، بالخصوص عورتیں رضوان اللہ علیہم اجمعین حاضر ہو کر تعلیم حاصل کرتی تھیں۔ علی بن نایف الشحود لکھتے ہیں:
وکان لہا دور بارز فی مجال التعلیم ومعالجۃ القروح والامراض؛ لذا خصص لہا رسول اللہ ﷺ داراً بالمدینۃ تقدیراً لدورہا الاجتماعی، وکانت تعیش فیہا ہی وابنہا سلیمان، وأصبحت تلک الدار مرکزاً علمیاً للنساء، تعلمت فیہا الکثیرات من نساء المؤمنین تعالیم الدین، بالاضافۃ إلی القراءۃ والکتابۃ والطب، وکان من بین المتعلمات السیدۃ حفصۃ زوج الرسول ﷺ۔4
’’تعلیم اور امراض و زخموں کے علاج کے سلسلہ میں ان کی خدمت نمایاں تھی، ان کے اسی سوشل کردار کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ان کے لئے ایک گھر خاص کر رکھا تھا، جس میں یہ اور ان کے بیٹے سلیمان رہائش پذیر تھے، ان کا یہ گھر عورتوں کے لئے علمی مرکز کی حیثیت رکھتا تھا، یہیں بہت ساری خواتین نے ان سے طب، کتابت، قراءت اور دین کی تعلیم حاصل کی، ان تعلیم حاصل کرنے والیوں میں رسول اللہﷺ کی بیوی سیدہ حفصہ بھی تھیں‘‘۔
پیدائش اور نام و نسب
آپؓ کے نام کے سلسلہ میں دو قول ہیں: ایک قول یہ ہے کہ آپ کا نام ’’الشفاء‘‘ ہے اور یہی مشہور ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نام ’’لیلیٰ‘‘ ہے اور الشفاء لقب ہے، کنیت ’’ام سلیمان‘‘ ہے۔ سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے:
الشفاء (لیلیٰ) بنت عبد اللہ بن عبد شمس بن خلف ابن شداد بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب القرشیۃ العدویۃ۔
دادا پرداد کے ناموں میں بھی کچھ کچھ اختلاف ہے؛ چنانچہ ’’خلف‘‘ کی جگہ ’’خالد‘‘، ’’شداد ‘‘کی جگہ ’’صداد‘‘ اور ’’ضرار‘‘ بھی کہا گیا ہے، ان کی تاریخ پیدائش تو مذکور نہیں؛ البتہ اتنی بات ضرور لکھی گئی ہے کہ زمانہ ٔجاہلیت میں ہی پیدا ہوئی ہیں، ان کی والدہ کا نام: فاطمہ بنت أبی وہب بن عمرو بن عائذ بن عمران المخزومیۃ ہے۔5
ازواج و اولاد
ان کی شادی سب سے پہلے ابوحثمہ بن حذیفہ بن غانم بن عامر بن عبداللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب سے ہوئی، جس سے ایک لڑکا ’’سلیمان‘‘ پیدا ہوا، اسی مناسبت سے آپ کو ’’ام سلیمان‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابوحثمہ نے فتح مکہ کے موقع سے اسلام قبول کیا تھا۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
قال ابن السکن: لہ صحبۃ، وہو من مسلمۃ الفتح۔6
’’ابن السکن کہتے ہیں: انھیں (نبی کریم ﷺ کی) صحبت حاصل تھی اور یہ فتح مکہ کے موقع سے اسلام لانے والوں میں سے ہیں‘‘۔
حضرت شفاءؓ کے بطن سے تولد ہونے والے ابوحثمہ کے بیٹے سلیمان کی پیدائش عہدِ نبوی میں ہوئی تھی، عہدِ عمر میں وہ جوان تھے، حضرت عمرؓ نے انھیں عورتوں کی امامت پر مامور کر رکھا تھا۔ ابن سعد لکھتے ہیں:
وُلد سلیمان بن أبی حثمۃ علی عہد النبی علیہ السلام، وکان رجلاً علی عہد عمر بن الخطاب، وأمرہ عمر أن یؤم النساء، وقد سمع من عمر۔7
ابن اثیر کے بقول انھیں شرف صحابیت حاصل نہیں ہو سکی، وہ لکھتے ہیں:
سلیمان بن أبی حثمۃ الانصاری، ذکر فی الصحابۃ، ولایصح۔8
’’سلیمان بن ابوحثمہ انصاری کو صحابہ میں ذکر کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔‘‘
حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
ہاجر صغیراً مع أمہ الشفاء، وکان من فضلاء المسلمین، وصالحیہم، واستعملہ عمر علی السوق، وجمع علیہ و علی أبی بن کعب الناس لیصلیا بہم فی شہر رمضان، وہو معدود فی کبار التابعین۔9
’’انھوں نے اپنی ماں کے ساتھ بچپن میں ہی ہجرت کی، ان کا شمار نیک اور صالح مسلمانوں میں ہوتا تھا، حضرت عمرؓ نے ان کو بازار کا ذمہ دار مقرر کیا تھا، نیز ان کی اور ابی بن کعبؓ کی امامت پر لوگوں کو متفق کر دیا تھا؛ تاکہ وہ دونوں رمضان نماز پڑھائیں، وہ کبار تابعین میں شمار کئے جاتے ہیں‘‘۔
حضرت شفاء کی دوسری شادی ان کے پہلے شوہر کے بھائی مرزوق بن حذیفہ بن غانم بن عامر بن عبد اللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب سے ہوئی تھی، ان سے بھی ایک لڑکا تھا۔ ابن سعد لکھتے ہیں:
وولدت أیضاً لمرزوق بن حذیفۃ بن غانم ابن عامر بن عبداللہ بن عبید بن عویج بن عدی بن کعب أبا حکیم بن مرزوق، ووکان شریفاً۔10
’’مرزوق بن حذیفہ کا بھی ایک لڑکا ’’ابو حکیم‘‘ ان سے تولد ہوا، جو ایک شریف شخص تھا‘‘۔
ان کی اولاد میں ایک لڑکی کا بھی ذکر ملتا ہے؛ چنانچہ خود انہی سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں:
جئت یوماً حتی دخلت علی النبیﷺ، فسألتہ وشکوت إلیہ، فجعل یعتذر إلی وجعلت ألومہ، قالت: ثم حانت الصلاۃ الاولیٰ فدخلت بیت ابنتی، وہی عند شرحبیل بن حسنۃ، فوجدت زوجہا فی البیت، فجعلت ألومہ، وقلت: حضرت الصلاۃ وأنت ہاہنا؟ فقال: یاعمۃ! لاتلومینی، کان لی ثوبان استعار أحدہما النبیﷺ، فقلت: بأمی وأمی! أنا ألومہ وہذاشأنہ، فقال شرحبیل: إنما کان أحدہما درعاً فرقعناہ۔11
’’ایک دن میں نبی کریم ﷺ کے پاس آئی، ان سے شکایت بھی کی اور مانگا بھی، وہ مجھ سے معذرت کرنے لگے اور میں انھیں الٹا سیدھا کہنے لگی، وہ کہتی ہیں: پھر نماز کا وقت ہوگیا تو میں اپنی بیٹی کے گھر چلی گئی، جو شرحبیل بن حسنہ کے نکاح میں تھی، میں نے اس کے شوہر کو گھر میں پایا تو اسے ملامت کرنے لگی، میں نے کہا: نماز کا وقت ہوگیا ہے اور تم یہیں ہو؟ اس نے کہا: خالہ! ملامت نہ کریں، اصل میں میرے پاس دو کپڑے تھے، ایک کو رسول اللہ ﷺ نے عاریتاً لیا ہے، میں نے کہا: میرے ماں باپ قربان! ان کی حالت تو یہ ہے اور میں انھیں برا بھلا کہہ رہی تھی، شرحبیل نے کہا: ان میں سے ایک ’’درع‘‘ (کنیز کا چھوٹا کرتا) تھا تو ہم نے پیوند لگا دیا‘‘۔
تاہم مؤرخین اور اہل سیر نے یہ صراحت نہیں کی ہے کہ یہ کس شوہر کی بیٹی تھیں؟ البتہ اس روایت سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ یہ صحابیہ تھیں؛ کیوں کہ ان کے شوہر ’’شرحبیل بن حسنۃ‘‘ نہ صرف صحابی تھے؛ بل کہ’’ صاحب ہجرتین‘‘ بھی تھے12 اور جس وقت کا واقعہ ذکر کیا جا رہا ہے، اس وقت یہ شادی شدہ تھیں۔
اسلام و ہجرت
یہ مکہ کی ان خواتین میں سے ہیں، جو ہجرت سے پہلے ہی حلقہ بگوش اسلام ہو گئی تھیں اور جنھوں نے ابتدائی دور میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی، حافظ ابن عبد البر لکھتے ہیں:
أسلمت الشفاء قبل الہجرۃ، فہی من المہاجرات الأول۔13
’’شفاء نے ہجرت سے قبل اسلام قبول کیا تھا، بس وہ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے ہیں۔‘‘
ابن سعد لکھتے ہیں:
أسلمت الشفاء قبل الہجرۃ قدیماً، وبایعت النبی ﷺ۔14
’’شفاء نے ہجرت سے پہلے ابتدائی دور میں اسلام قبول کیا اور نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی‘‘۔
اس تعلق سے محمود طعمہ حلبی لکھتے ہیں:
دخلت الشفاء فی دین الاسلام عن وعی وفہم، وکان إسلامہا قبل ہجرۃ النبیﷺ إلی المدینۃ، وکانت بین النساء اللواتی بایعن النبیﷺ وشملہن قول اللہ تعالیٰ {یا أیہا النبی اذا جاءک المؤمنات یبایعنک علی أن لا یشرکن باللہ شیئا ولا یسرقن ولا یزنین ولا یقتلن أولادہن ولا یأتین ببہتان یفترینہ بین أیدیہن وأرجلہن ولا یعصینک فی معروف فبایعہن واستغفر لہن اللہ إن اللہ غفور رحیم} [الممتحنۃ:۱۲]، وکانت مبایعۃ رسول اللہ ﷺ للنساء دون مصافحۃ؛ لانہ لایصافح النساء، فاذا مدت امرأۃ یدہا لتصافحہ امتنع عن المصافحۃ، وأخبرہا بذلک۔15
’’شفاء پورے شعور و عقل کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئیں، ہجرتِ مدینہ سے قبل انھوں نے اسلام قبول کیا تھا، وہ ان خواتین میں سے تھیں، جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اللہ تعالیٰ کے قول {اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی، نہ چوری کریں گی، نہ بدکاری کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی، نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے اللہ سے بخشش مانگو، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے} میں شمولیت اختیار کی تھی، رسول اللہ ﷺ نے عورتوں سے بغیر مصافحہ کے بیعت لی تھی کہ آپﷺ عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے، جب کوئی خاتون مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتی تو آپ رک جاتے اور اسے بتاتے (کہ عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے)‘‘۔
غزوات میں شرکت
عہدِ نبوی میں خواتین آپﷺ کی اجازت سے میدانِ جہاد میں جایا کرتی تھیں، جہاں ان کے ذمہ مجاہدین کو پانی پلانا، زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا اور مریضوں کی دیکھ بھال کرنا جیسے امور ہوا کرتے تھے، صلاح عبد الغنی لکھتے ہیں:
ثبت أن النساء کن یخرجن باذن رسول اللہ ﷺ مع الجیش لخدمۃ الرجال، وتمریض الجرحی، والقیام بأعمال الاسعاف، فیقول الإمام الشیخ محمدعبدہ: إن تمریض المرضی ومداواۃ الجرحی کانت تقوم بہ النساء فی عصر النبی ﷺ، وعصر الخلفاء رضی اللہ عنہم، بخروج النساء مع الغزاۃ فی سبیل اللہ، وقد ترجم لہ البخاری بقولہ: باب غزوۃ النساء وقتالہن، وجاء فیہ عن الربیع بنت معوض قالت: کنا نغزو مع رسول اللہ ﷺ: نسقی القوم، ونخدمہم، ونرد القتلیٰ والجرحیٰ إلی المدینۃ…وماکان رسول اللہ ﷺ یقوم بغزوۃ إلا ومعہ نساء۔16
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ عورتیں نبی کریم ﷺکی اجازت سے مردوں کی خدمت، زخمیوں کی تیمارداری اور ریلیف کے امور انجام دینے کے لئے لشکر کے ساتھ جاتی تھیں؛ چنانچہ شیخ محمد عبدہ لکھتے ہیں: عہدِ نبوی اور عہدِ خلفاء میں مریضوں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کا علاج عورتیں کیا کرتی تھیں، جس کے لئے وہ اللہ کے راستے میں غازیوں کے ساتھ نکلتی تھیں، اس سلسلہ میں امام بخاری نے ایک باب: باب غزوۃ النساء وقتالہن کے نام سے قائم کیا ہے، اس میں حضرت ربیع بنت معوذ کی روایت نقل کی گئی ہے، وہ فرماتی ہیں: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ قوم کی خدمت کرنے، ان کو پانی پلانے اور مقتولین و زخمیوں کو مدینہ منتقل کرنے کی غرض سے جہاد میں جایا کرتی تھیں…رسول اللہ ﷺ کے ہر غزوہ میں خواتین شریک رہیں‘‘۔
حضرت شفاء رضی اللہ عنہا بھی خواتین کی اسی جماعت سے تعلق رکھتی تھیں، جن کے بارے میں آتا ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ میدان جہاد میں جایا کرتی تھیں،محمد سمیر نجیب لبدی لکھتے ہیں:
کانت تخرج مع رسول اللہ ﷺ فی غزواتہ، فتداوی الجرحی، وکان یأتیہا الصحابۃ فی بیتہا للتطبیب، وقد اشتہرت برقیۃ النملۃ۔17
’’وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں اور زخمیوں کا علاج کرتی تھیں، صحابہ علم طب کے حصول کے لئے ان کے گھر آیا کرتے تھے، وہ رقیہ نملہ میں شہرت رکھتی تھیں‘‘۔
حضرت شفاء اور علم طب
حضرت شفاءؓ کا شمار عہدِ نبوی کی ان خواتین میں ہوتا ہے، جنھیں علم طب میں مہارت تھی، راجی عباس تکریتی لکھتے ہیں:
ومن النساء اللواتی زاولن مہنۃ الطب (الشفاء بنت عبداللہ) ورفیدۃ التی اشتہرت بالجراحۃ، وکانت تداوی الجرحی من المسلمین۔18
’’علم طب کو بطور پیشہ اختیار کرنے والی خواتین میں شفاء بنت عبداللہ اور رفیدہ ہیں جو جراحی میں مشہور تھیں اور یہ مسلمان زخمیوں کا علاج کرتی تھیں‘‘۔
ان کی شہرت جلدی امراض کے ماہر کے طور پر تھی۔ ڈاکٹر حنان ولید محمد سامرائی اور زینت ابراہیم خلیل لکھتے ہیں:
کانت طبیبۃ مشہورۃ بمداواۃ الأمراض الجلدیۃ فی العصر النبوی۔19
’’عصرِ نبوی میں جلدی امراض کے علاج کی یہ مشہور طبیبہ تھیں‘‘۔ڈاکٹر عبد اللہ عبدالرزاق نے انھیں جلدی ناسور کا اسپیشلسٹ قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
الشفاء بنت عبد اللہ القرشیۃ: الاخصائیۃ فی علاج القرحات الجلدیۃ(النملۃ)۔20
’’جلدی ناسور (نملہ) کے علاج کی اسپیشلسٹ شفاء بنت عبداللہ قریشی‘‘۔
علامہ ابن قیم نے لکھا ہے کہ یہ زمانہ جاہلیت میں رقیہ و منتر کے ذریعہ نملہ21 کا علاج کرتی تھیں، پھر جب اسلام لائیں تو انھوں نے اس سلسلہ میں باقاعدہ نبی کریم ﷺ سے اس کی اجازت لی، ابن قیم لکھتے ہیں:
وروی الخلال: أن الشفاء بنت عبداللہ کانت ترقی فی الجاہلیۃ من النملۃ، فلما ہاجرت إلی النبی ﷺ، وکانت قدبایعتہ بمکۃ، قالت: یارسول اللہ! إنی کنت أرقی فی الجاہلیۃ من النملۃ، وإنی أرید أن أعرضہا علیک، فعرضت علیہ، فقالت: بسم اللہ ضلت حتی تعود من أفواہہا، ولاتضر أحداً، اللہم اکشف البأس رب الناس، قال: ترقی بہا علی عود سبع مرات، وتقصد مکانا نظیفاً، وتدلکہ علی حجر بخل خمر حاذق، وتطلبہ علی النملۃ۔22
’’خلال نے روایت کیا ہے کہ: شفاء بنت عبداللہ زمانۂ جاہلیت میں نملہ بیماری کا علاج رقیہ سے کرتی تھیں، یہ مکہ میں ہی حضورﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر چکی تھیں؛ اس لئے جب ہجرت کر کے نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں تو ان سے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! میں جاہلیت میں نملہ کا علاج رقیہ سے کرتی تھی تو میں چاہتی ہوں وہ آپ کے روبرو پیش کروں، پھر میں نے پیش کیا، جو اس طرح تھا: بسم اللہ ضلت حتی تعود من أفواہہا، ولاتضر أحداً، اللہم اکشف البأس رب الناس، راوی کہتے ہیں کہ وہ ان کلمات کو لکڑی پرسات مرتبہ دم کرتی تھیں، پھر ایک صاف ستھری جگہ جا کر شراب کے سرکہ میں تر پتھر پر اس کو رگڑتی تھیں اور نملہ پر قابو پا لیتی تھیں‘‘۔
احمد خلیل جمعہ نے انھیں ماہر نفسیات (Psyciatry) بھی قرار دیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
وستکون رحلتنا مع واحدۃ من الصحابیات ممن برعن فی مجال الطب- وخصوصاً الطب النفسی، وہذہ الصحابیۃ اشتہرت بالاسترقائالشفاء بنت عبد اللہ بن عبد الشمس القرشیۃ العدویۃ۔23
’’ہمارا یہ علمی سفر طب کے میدان، خصوصیت کے ساتھ نفسیات میں مہارت رکھنے والی ایک صحابیہ کے (حالات کے) ساتھ طے ہوگا، جو شفاء بنت عبداللہ بن عبد شمس قریشی عدوی سے مشہور ہیں‘‘۔
وفات
یہ جلیل القدر صحابیہ میدان علم و طب میں خدمت انجام دیتے ہوئے حضور ﷺ کی وفات کے نو سال بعد بالآخر ۲۰ھ میں اِس جہانِ فانی کو خیرباد کہہ کر اُس جہانِ ابدی کی طرف کوچ کر گئیں، جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ احمد خلیل جمعہ لکھتے ہیں:
وظلت الشفاء رضی اللہ عنہا تتابع حیاۃ العلم والعمل، والزہد والعبادۃ إلی أن لقیت ربہا فی خلافۃ سیدنا عمر -رضی اللہ عنہ- نحوسنۃ (۲۰ھ) رضی اللہ عنہا۔24
’’شفاء علم و عمل اور زہد و تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے حضرت عمرؓ کی خلافت۲۰ھ میں اپنے رب حقیقی کے پاس چلی گئیں، رضی اللہ عنہا‘‘۔
رضی اللہ عنہا و رحم علی ہذہ الصحابیۃ الجلیلۃ التی یقیل وینام عندہا النبی ﷺ۔
حوالہ جات
- القرطبی، النمری، ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۹۱۵، نمبرشمار: ۳۳۶۵، صححہ وخرج احادیثہ: عادل مرشد، ناشر: دارالاعلام، اردن، عمان، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۲ء
- جمعۃ، احمد خلیل، نساء من عصر النبوۃ، ص: ۱۵۹، ناشر: دارابن کثیر، دمشق، بیروت، الطبعۃ الثانۃ ۲۰۰۰ء
- السجستانی، سلیمان بن الأشعث، أبوداود، سنن أبی داود، باب ماجاء فی الرقی، حدیث نمبر: ۳۸۸۷،اعتناء بہ: أبوعبیدہ مشہور بن حسن آل سلمان، ناشر: مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع، الریاض ۱۴۲۴ھ، الجوزیۃ، ابن القیم، محمد بن أبی بکر، أبوعبداللہ، زاد المعاد: ۴؍۱۸۴،تحقیق، تخریج، تعلیق: شعیب الأرنؤوط وعدبالقادر الأرنؤوط، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ السادسۃ والعشرون ۱۹۹۲ء
- الشحود، علی بن نایف،مشاہیرالنساء المسلمات، ص: ۱۸۸-۱۸۹، Doc
- دیکھئے: العسقلانی، ابن حجر، احمدبن علی الحافظ، الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۳؍۵۱۷، نمبرشمار: ۱۱۵۱۱، تحقیق: دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مرکز ہجرللبحوش والدراسات العربیۃ الإسلامیۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۸ئ، السعید، مسعود، عبداللہ عبدالرزاق، الدکتور،الطب ورائداتہ المسلمات، ص:۸۰، ناشر: مکتبۃ المنار، الزرقائ، الاردن، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۵ء
- العسقلانی، ابن حجر، احمدبن علی الحافظ،الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۲؍ ۱۴۷، نمبرشمار: ۹۷۷۶، تحقیق: دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مرکز ہجرللبحوش والدراسات العربیۃ الإسلامیۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۸ئ، الجزری، ابن الأثیر، علی بن محمد أبوالحسن،اسدالغابۃفی معرفۃ الصحابۃ: ۶؍۶۶، نمبرشمار: ۵۸۰۱، تحقیق وتعلیق: الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل احمد عبدالموجود، نادر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان
- الزہری، محمدبن سعد،الطبقات الکبری: ۷؍ ۳۰، نمبرشمار: ۱۴۳۶، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- الجزری، ابن أثیر، أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ: ۲؍۵۴۷، نمبرشمار: ۲۲۲۹، تحقیق وتعلیق: الشیخ علی محمد معوض والشیخ عادل احمد عبدالموجود، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان
- القرطبی، النمری، ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر،الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۲۹۴- ۲۹۵، نمبرشمار: ۹۵۵، صححہ وخرج احادیثہ: عادل مرشد، ناشر: دارالاعلام، اردن، عمان، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۲ء
- الزہری، محمدبن سعد، الطبقات الکبری: ۱۰؍۲۵۴، نمبر شمار: ۵۰۴۳، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- النیسابوری، الحاکم، محمد بن عبداللہ، ابوعبداللہ، المستدرک علی الصحیحین: ۴؍ ۶۴، نمبرشمار: ۶۸۹۲، دراسہ وتحقیق: مصطفی عبدالقادر عطا، ناشر: دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۲ء
- حبشہ کی دوسری ہجرت میں یہ شریک تھے، دیکھئے:الزہری، محمدبن سعد، الطبقات الکبری: ۲؍۱۱۹، نمبرشمار: ۴۰۶، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- القرطبی، النمری، ابوعمریوسف بن عبداللہ بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، ص: ۹۱۵، نمبرشمار: ۳۳۶۵، صححہ وخرج احادیثہ: عادل مرشد، ناشر: دارالاعلام، اردن، عمان، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۲ئ، العسقلانی، ابن حجر، احمدبن علی الحافظ،الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ: ۱۳؍۵۱۷، نمبرشمار: ۱۱۵۱۱، تحقیق: دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی، مرکز ہجرللبحوش والدراسات العربیۃ الإسلامیۃ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۸ء
- الزہری، محمدبن سعد،الطبقات الکبری: ۱۰؍ ۲۵۴، نمبرشمار: ۵۰۴۳، تحقیق: دکتورعلی محمدعمر،ناشرمکتبۃ الخانجی، قاہرہ، الطبعۃ الاولیٰ ۲۰۰۱ء
- حلبی، محمد طعمۃ، المائۃ الأوائل من صحابیات رسول اللہ، ص: ۳۹۶، ناشر: دارالمعرفۃ بیروت، لبنان، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۶ء
- صلاح، عبدالغنی، محمد، الحقوق العامۃ للمرأۃ، ص: ۱۳۲-۱۳۳، ناشر: مکتبۃ الدارالعربیۃ للکتاب، مدینۃ نصر، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۹۸ء
- اللبدی، محمد سمیرنجیب، الدکتور، معانی الأسمائ، ص: ۱۰۵، ناشر: دارالفلاح للنشر والتوزیع ، الأردن، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۹۸ء
- التکریتی، راجی عباس، الحکیم، الاسناد الطبی فی الجیوش العربیۃ الإسلامیۃ، ص: ۵۳، ناشر: وزارۃ الثقافۃ والاعلام، الجمہوریۃ العراقیۃ(مکتبۃ المہتدین الإسلامیۃ) ۱۹۸۴ء
- مجلۃ التطویر العلمی للدراسات والبحوث، المجلد الثالث، العدد: ۱۱(۲۰۲۲)، السامرائی، حنان ولید محمد، وزینۃ إبراہیم خلیل، المرأۃ وتاریخ تطور مہنۃ الطب من العصر الجاہلی وحتی العصر الحدیث، ص: ۵۰-۲۸۳، جامعۃ سامرائ، العراق
- السعید، عبداللہ عبدالرزاق مسعود، الدکتور،الطب ورائداتہ المسلمات، ص:۸۰، ناشر: مکتبۃ المنار، الأردن، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۵ء
- نملہ بیماری کے تعلق سے ابن قیم لکھتے ہیں: النملۃ: قروح تخرج فی الجنین، وہوداء معروف، وسمی نملۃ؛ لأن صاحبہ یحس فی مکانہ کأن نملۃ تدب علیہ وتعضہ۔ (زاد المعاد: ۴؍۱۸۴)، شوکت شطی اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: مرض جلدی من نوع الاکزیماEczema۔(تاریخ العلوم الطبیۃ، ص: ۱۷۴-۱۷۵)
- الجوزیۃ، ابن القیم، محمد بن أبی بکر، أبوعبداللہ،زاد المعاد: ۴؍۱۸۴-۱۸۵،تحقیق، تخریج، تعلیق: شعیب الأرنؤوط وعبدالقادر الأرنؤوط، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ السادسۃ والعشرون ۱۹۹۲ء ، الشطی، دکتور احمدشوکت، تاریخ العلوم الطبیۃ لطلاب السنۃ التحضیریۃ فی الکلیات الطبیۃ ، ص:۱۷۴-۱۷۵، ناشر: وزارۃ التعلیم العالی الجمہوریۃ العربیۃ السوریۃ ۲۰۱۵-۲۰۱۶ء
- جمعۃ، أحمد خلیل،نساء من عصر النبوۃ، ص: ۱۵۸-۱۵۹، ناشر: دارابن کثیر، دمشق، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۰ء
- جمعۃ، أحمد خلیل، نساء من عصر النبوۃ، ص: ۱۶۳، ناشر: دارابن کثیر، دمشق، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۰ئ، کحالۃ، عمر رضا، الدکتور، أعلام النساء فی عالمی العرب والإسلام: ۲؍۳۰۱، ناشر: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، الطبعۃ الخامسۃ ۱۹۸۴ء
افغانستان میں طالبان حکومت کے تین سال
عبد الباسط خان
15 اگست کو امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تین سال مکمل ہوگئے ہیں۔ ان تین سالوں میں افغان باشندوں کی زندگیوں کے کچھ پہلوؤں میں بہتری آئی تو کچھ معاملات میں بگاڑ پیدا ہوا۔ کچھ معاملات میں طالبان نے نظریاتی طور پر سختی برتی تو کچھ جگہوں پر عملیت پسندی کا مظاہرہ کیا۔ اس تحریر میں گذشتہ تین سالوں میں طالبان کی حکمرانی میں معیشت، سکیورٹی، علاقائی اور بین الاقوامی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ تعلقات اور سفارتی مصروفیات کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔
طالبان کی تحریک شورش سے حکومت کی باگ ڈور سنبھال رہے ہیں، جہاں غیر مرکزیت، نسلی اختلافات، اشخاص کے تنازعات اور پالیسی میں اختلاف ایک فطری عمل ہے۔
طالبان حکومت میں ازبک اور تاجک دھڑے پشتون گروہوں کی غالبیت اور امتیازی سلوک کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ اسی طرح پشتون دھڑوں میں قندھاری اور حقانی دھڑوں کے درمیان طاقت کے توازن پر اختلافات ہیں۔ قندھاری دھڑوں کا خیال ہے کہ قطر میں ملا برادر کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں 2020 میں دوحہ معاہدے نے افغانستان سے امریکی انخلا کو آسان بنا کر فتح کی راہ ہموار کی تھی۔ اس کے برعکس حقانی دعویٰ کرتے ہیں کہ میدان جنگ کے دباؤ نے امریکہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔
تاہم، ان اختلافات کے باوجود طالبان کی طاقت کا مرکز قندھار ہے اور سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ تحریک کے ایک متحد شخصیت اور غیر متنازع رہنما ہیں۔
پچھلے تین سالوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے مسئلے پر طالبان رہنما منقسم نظر آتے ہیں۔عملیت پسند لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت جبکہ سخت گیر موقف رکھنے والے اس کی مخالفت کرتے ہیں، جس نے 14 لاکھ نوجوان افغان لڑکیوں کو تعلیم کے حق سے محروم کردیا ہے۔پرائمری سطح پر لڑکیوں کے سکول میں داخلے میں اضافے کے باوجود انہیں چھٹی جماعت سے آگے سکول جانے کی اجازت نہیں۔
طالبان رہنماؤں اور عالمی سفیروں کے درمیان حالیہ دوحہ کانفرنس کے دوران افغان خواتین کی وکالت، لڑکیوں کی تعلیم کی بات کرنے والے اور سول سوسائٹیز کے رہنماوں کو باہر رکھا گیا تھا، جس سے لڑکیوں کی تعلیم کو بحال کرنے کی کوششوں کو بڑا ایک دھچکا لگا۔
افغانستان میں طالبان حکومت کو اپنی طاقت کو مضبوط کرنے کے علاوہ سکیورٹی کے محاذ پر کسی قسم کے خاص چیلنج کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اگرچہ گلوبل ٹیررازم انڈیکس 2024 کے مطابق افغانستان دنیا میں دہشت گردی کے سبب سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں شامل ہے، تاہم تشدد کے واقعات میں خاطرخواہ کمی آئی ہے۔
طالبان اپنی فوج کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اپنی آپریشنل صلاحیتیں بڑا رہے ہیں، جس میں وزارت داخلہ کے تحت دو لاکھ پولیس اہلکار اور وزارت دفاع کے تحت ساڑھے تین لاکھ فوجیوں کو بھرتی کرنے کا منصوبہ زیر غور ہے۔
تاہم، طالبان کو مالی مشکلات کا سامنے ہے حالانکہ حکومت اپنے بجٹ کا 40 فیصد دفاع پر خرچ کرتی ہے۔
اگرچہ طالبان کو اس وقت کوئی بڑا سکیورٹی چیلنج درپیش نہیں، لیکن داعش خراسان جیسے خطرات موجود ہیں، جس نے نظریاتی اور پرتشدد حملوں کے ذریعے طالبان کی نظریاتی و قانونی حیثیت اور حکمرانی کی صلاحیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔ داعش خراسان نے افغان سرزمین کو بیرونی دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کے دوحہ معاہدے کے تحت انسداد دہشت گردی کے وعدوں کو پورا کرنے کے حوالے سے طالبان کے دعوؤں کو نقصان پہنچایا ہے۔ روس، یورپ، ترکی، ایران، وسطی ایشیا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کئی کڑیاں افغانستان میں داعش خراسان سے ملتی ہیں۔ داعش خراسان نے طالبان کے کریک ڈاؤن کے مقابلے میں تخلیقی صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ افغان نیشنل آرمی کے سابق چیف آف سٹاف یاسین ضیا کا افغانستان فریڈم فرنٹ اور احمد مسعود کا نیشنل ریزسٹنس فرنٹ بھی طالبان مخالف جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ تائم انہیں خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی۔
اسی طرح القاعدہ کے ساتھ طالبان کے دیرانیہ تعلقات قائم ہیں اور کابل میں ایمن الظواہری کی موت کے بعد القاعدہ نے طالبان کے لیے سفارتی اور سکیورٹی چیلنجز پیدا نہ کرنے کے لیے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ لیکن یہ گروپ طالبان کو سٹریٹجک رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی مختلف رپورٹس کے مطابق، القاعدہ اپنی آپریشنل صلاحیت کو بہتر بنا رہی ہے اور علاقائی عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ تعلقات کی تعمیرنو کر رہی ہے۔
اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کا طالبان کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور وہ پاکستان میں بلاامتیاز حملے جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان معیشت ناکامی کے دہانے پر کھڑی ہے اور اس خطرے میں کوئی کمی نہیں آئی۔
برین ڈرین، منجمد اثاثہ جات، بینکنگ پابندیوں نے افغان معیشت کو بحال کرنے کی طالبان حکومت کی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
2021 اور 2022 میں افغانستان نے اپنی مجموعہ گھریلو پیداوار کا تقریباً 26 فیصد کھو دیا جس کی وجہ سے معیشت سکڑ گئی اور لاکھوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔
گذشتہ تین سالوں میں طالبان کا زیادہ تر انحصار بیرونی امداد پر ہے۔ امریکہ نے افغان مرکزی بینک کے سات ارب ڈالر کے ذخائر کو غیر منجمد نہیں کیا۔ ان میں سے 3.5 ارب ڈالر ستمبر 2022 میں سوئٹزرلینڈ میں قائم ٹرسٹ میں منتقل کیے گئے ہیں تاکہ افغانستان کو معاشی استحکام میں مدد ملے، لیکن اس کی ادائیگی نہیں کی گئی۔
اس کے باوجود طالبان حکومت ٹیکس جمع کرنے میں کامیاب ثابت ہوئی اور گذشتہ حکومت کے مقابلے میں زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا۔ ورلڈ بینک کے سروے کے مطابق اگست 2021 سے پہلے 62 فیصد کاروباری ادارے 82 فیصد کسٹم حکام کو رشوت دے کر ٹیکس سسٹم سے بچنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اب ان شعبوں میں رشوت کا تناسب محدود ہو کر آٹھ فیصد رہ گیا ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان کی سالانہ برآمدات دگنی ہوکر دو ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ افراط زر اب سنگل ہندسوں پر آ گیا ہے۔
چین نے میس عینک تانبے کی کان میں سرگرمیاں شروع کر دی ہیں، جہاں تانبے کے دنیا کے دوسرے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ بیجنگ نے افغانستان میں تیل کی پیداوار میں 49 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے، جس سے ملک کی یومیہ تیل کی پیداوار میں 1,100 میٹرک ٹن اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں 95 فیصد کمی ہوئی ہے، جو دنیا میں کہیں بھی انسداد منشیات کی سب سے کامیاب مہم ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد طالبان نے ہر قسم کی منشیات کی خلاف مہم شروع کی۔ منشیات کے عادی افراد اور فروخت کرنے والوں کو گرفتار کیا اور افیون اور بھنگ کے فصلوں کو تباہ کیا۔
اگرچہ سفارتی محاذ پر کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم تو نہیں کیا، لیکن روس اور چین نے کابل کے ساتھ اپنی سفارتی نزدیکی کو بڑھایا ہے۔ چین اور افغانستان نے ایک دوسرے کے ممالک میں اپنے اپنے سفیر مقرر کیے ہیں جبکہ انڈیا نے بھی گذشتہ افغان حکومت کے افغان سفارت کاروں کو دہلی میں سفارت خانہ خالی کرنے پر مجبور کیا ہے۔دونوں ممالک کی سفیر تعینات نہ کرنے کے باوجود یہ فیصلہ اس سمت میں ایک چھوٹا اقدام ہے۔
دوسرے ممالک کو اپنی حکومت کو تسلیم کرنے پر قائل کرنے میں ناکامی کے باوجود طالبان سفارتی محاذ پر کافی متحرک رہے ہیں۔ واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے مطابق طالبان کے نمائندوں نے گذشتہ تین سالوں میں 92 ممالک کے ساتھ 1,864 مرتبہ ملاقاتیں کیں، جن میں سب سے زیادہ مصروفیات چین، ترکی، ایران، قطر اور پاکستان کے ساتھ ہوئیں۔
پاکستان اور تاجکستان کو چھوڑ کر طالبان کے چین، روس، ازبکستان، قطر کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔ اسی کے ساتھ طالبان حکومت انڈیا، متحدہ عرب امارات، ترکی اور دیگر ریاستوں کے ساتھ ورکنگ ریلیشن شپ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
امریکہ نے بھی طالبان کو محدود اور خفیہ طور پر داعش خراسان جیسے خطرناک گروہوں سے نمٹنے کے لیے علیحدگی کی پالیسی کو ترک کر کے کچھ معاملات پر تعاون جاری رکھا ہے۔
طالبان کی طاقت کے استحکام کے باوجود افغانستان ایک فعال آئین کے بغیر ایک نازک حالت میں ہے۔
طالبان کی گذشتہ تین سالوں کی کامیابیاں اتنی بڑی نہیں کہ ان سے انہیں سفارتی شناخت حاصل ہو سکے، جبکہ ناکامیاں اتنی سنگین نہیں کہ طالبان کی حکومت کے خاتمے کا سبب بنیں۔
سائنس یا الحاد؟
ہلال خان ناصر
دور حاضر میں وہ مذاہب جن میں خدا کے وجود کا اقرار کیا جاتا ہے، ان سب کیلیے ایک بڑا چیلنج جدید سائنس کو مانا جاتا ہے۔ یہ چیلنج بذات خود سائنس نہیں بلکہ سائنسی تعلیم کی وجہ سے منکر خدا ہونا ہے جسے الحاد یا Atheism کہا جاتا ہے۔ سائنسی علم کی اگر تعریف لکھی جائے تو ایسا علم جس میں تجربے اور مشاہدے کے بعد عقل کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کیا جائے، اس کو سائنس کہتے ہیں۔ اگر عقل کی بنیاد پر مبنی علم الحاد کی طرف لے جاتا ہے تو کیا مذہب ایک غیر عقلی اور گھڑی ہوئی چیز ہے؟ یہ سوال مذہب اور سائنس کے مابین جھگڑے کی بنیاد ہے جو آج بھی جاری ہے۔ اس کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے اس سوال کے دو اہم پہلو سمجھنا ضروری ہیں۔
۱۔ مذہب غیر ضروری ہے
’’کیا صحیح اس لیے صحیح ہے کیونکہ خدا نے اس کو صحیح کہا ہے، یا خدا نے اس کو صحیح کہا ہے کیونکہ وہ صحیح ہے؟‘‘ مشہور یونانی فلسفہ نگار افلاطون نے اپنے استاد سقراط کا یہ جملہ ایک جگہ نقل کیا جو اس نظریے کی بنیاد بنی۔ اس نظریے کو پروان چڑھانے میں از خود مذہب (عیسائیت) کا بہت کردار ہے۔ سوال اٹھایا گیا کہ خدائی قانون کی بجائے اگر صرف عقل کی بنیاد پر صحیح اور غلط کے درمیان افتراق کیا جائے، تو کیا تب بھی انسانی معاشرہ برقرار رہے گا یا نہیں؟ یہ سوال اٹھانے کی وجہ کیتھولک چرچ اور ان کے مذہب کے نام پر مظالم تھے۔ کسی بھی شخص نے اگر پوپ یا کتاب مقدس کے خلاف ثبوت تو دور کی بات، صرف بات ہی کر دی تو اس کو زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ اٹلی کے سائنسدان جیورڈانو برونو نے سولہویں صدی میں دریافت کیا کہ کائنات لا محدود ہے اور ہمارے نظام شمسی کے علاوہ بھی بہت سے نظام شمسی کائنات میں موجود ہیں۔ چرچ نے اس کو سات سال کی قید کے بعد زندہ جلا دیا۔ ایک دور میں چرچ کا دعوی تھا کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور سورج سمیت پوری کائنات زمین کے گرد گھومتی ہے۔ مشہور سائنسدان گلیلیو نے تجربے کے بعد دعوی کیا کہ دراصل زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ اس اختلاف پر چرچ شاید گلیلیو کو بھی جلا دیتا، مگر وہ وقت کے مشہور ترین سائنسدانوں میں سے تھا تو اس کو نظر بند کر دیا گیا اور اسی حالت میں اس کی وفات ہوئی۔ اسی نظریہ نے بڑھ کر اٹھارہویں صدی میں ایک اور شکل اختیار کر لی۔ ’’جو مجھے درست لگتا ہے وہ درست ہے، اور جو غلط لگتا ہے وہ غلط ہے‘‘ یعنی جس بات کو عقل صحیح مانتی ہے وہ صحیح ہے ، اس میں خدا یا کسی اور کا کوئی دخل نہیں۔ فلسفہ نگار جان جاکس روسو کے اس نظریے نے لبرل ازم کی بنیاد رکھی جس میں مذہب کے مقابلے میں عقل کو سامنے لایا گیا۔ اسی صدی میں انقلاب فرانس میں مذہب کی اجارہ داری ختم ہوئی اور لبرل ازم کی حکمرانی شروع ہو گئی۔
۲۔ علم کا معتبر ذریعہ صرف عقل ہے
لبرل ازم نے جب فروغ پانا شروع کیا تو چونکہ یہ نظام عقل پر مبنی تھا، اس لیے ہر وہ علم جس کی بنیاد عقل نہیں ہے، اس کونا قابل اعتبار سمجھا جانے لگا۔ یہ بات طے ہو گئی کہ جس چیز کو تجربے اور مشاہدے سے ثابت نہیں کیا جا سکتا، وہ ہے ہی نہیں۔ چونکہ روح کو تجربے سے ثابت نہیں کر سکتے، اس کا انکار کر دیا گیا۔ پھر روح کے ذریعے سے حاصل ہونے والا علم ( وحی) کا انکار کیا گیا۔ چونکہ صحیح اور غلط میں افتراق اب عقل کا کام تھا، اس لیے خدائی قانون بھی ختم کر دیے گئے۔ جب خدائی قانون بھی ختم ہوگئے، خدائی علم بھی ختم ہوگیا، خدائی تخلیق بھی ختم ہوگئی، تو نظام میں خدا کا تصور کیسے باقی رہتا؟
ان دو پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جدید سائنس از خود الحاد کا راستہ نہیں بلکہ اس کو لبرل لوگوں نے ہائیجیک کر کے مذہب سے چھٹکارا پانے کیلیے استعمال کیا ہے۔ جدید سائنس کی بنیاد ہی ایسی باتوں پر رکھی گئی جن میں خدا کا تصور ہی نہ ہو۔ مثلاً کائنات کی شروعات کو بگ بینگ کا نام دیا جس کے مطابق ساری کائنات پہلے ایک جگہ اکٹھی تھی۔ پھر کسی وجہ سے یہ پھٹ کر پھیلنے لگی اور مسلسل پھیلتی چلی گئی اور اس میں زندگی اپنے آپ ہی پیدا ہو گئی۔ سائنس نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی مادہ اور توانائی تخلیق نہیں کی جا سکتی، بلکہ وہ صرف شکل بدلتی ہیں۔ لکڑی جلانے سے لکڑی ختم نہیں ہوتی بلکہ راکھ اور گرمائش میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ مگر جدید سائنس اس سوال کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ اگر کسی چیز کی تخلیق نہیں کی جا سکتی، تو بگ بینگ کے وقت جو کائنات کا مادہ موجود تھا، وہ کہاں سے آیا؟ سائنس یہ تو بتا دے گی کہ آگ جلانے سے گرمائش پیدا ہوتی ہے، مگر یہ نہیں بتا سکتی کہ گرمائش ہی کیوں پیدا ہوگی؟ کس نے یہ اصول طے کیا ہے کہ آگ جلنے سے گرمائش ہی ہو گی؟ کیونکہ اگر اس بات کا جواب تلاش کیا جائے تو سوائے اس جواب کے کہ کائنات اور کائنات کے اصولوں کو بنانے والی کوئی ذات موجود ہے، کوئی اور جواب نہ مل پائے گا۔
ختمِ نبوت کانفرنس مینار پاکستان پر مبارکباد
مولانا فضل الرحمٰن کا جواب
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سات ستمبر کو مینار پاکستان لاہور کی گراؤنڈ میں ختم نبوت گولڈن جوبلی کا عظیم الشان اور تاریخ ساز اجتماع ہماری دینی جدوجہد کی تاریخ کا ایک عظیم باب ہے جس نے دنیا پر ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے وطن کی نظریاتی شناخت، دستور کی اسلامی اساس، اور امت مسلمہ کے اجتماعی عقائد، روایات اور تہذیب و ثقافت پر ہمیشہ کی طرح آج بھی پوری استقامت اور دل جمعی کے ساتھ قائم ہیں اور اس سلسلہ میں تمام تر ابہامات اور خدشات کو پوری قوت کے ساتھ مسترد کر رہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔
پاکستان شریعت کو نسل کے امیر حضرت مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی دامت برکاتہم اور ان کی قیادت میں پاکستان شریعت کونسل اس موقع پر تحریک ختم نبوت میں اس شاندار پیشرفت پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا فضل الرحمان دامت برکاتہم، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے امیر حضرت خواجہ ناصر الدین خاکوانی دامت برکاتہم، اور دیگر تمام قائدین، رفقاء کرام اور شرکاء کانفرنس کو مبارک باد پیش کرتی ہے، اور کانفرنس کے فیصلوں اور اعلانات کے ساتھ مکمل یکجہتی اور ہم آہنگی کا اظہار کرتی ہے۔
راقم الحروف باضابطہ دعوت کے باوجود گھٹنوں کے شدید درد کے باعث کانفرنس میں حاضر نہیں ہو سکا، جبکہ پاکستان شریعت کونسل کے تمام راہنماء اور کارکن ختم نبوت گولڈن جوبلی کانفرنس کی تیاریوں اور کامیابی کی جدوجہد میں ہر سطح پر لمحہ بہ لمحہ شریک چلے آرہے ہے ہیں اور آئندہ بھی شریک رہیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس کے علاوہ ملک بھر میں کسی جگہ بھی یوم ختم نبوت کے حوالے سے کسی بھی جماعت، حلقہ اور طبقہ کی طرف سے جو اجتماعات منعقد ہوئے ہیں، ان سب کے منتظمین اور شرکاء کو پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے ہدیہ تبریک و تشکر پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ہمارے ان جذبات و احساسات اور حمیت دینی کو ہمیشہ قائم رکھیں اور ملک و قوم کے بہتر مستقبل کا ذریعہ بنا دیں، آمین یا رب العالمين۔
ابو عمار زاہد الراشدی
سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کو نسل
۸ ستمبر ۲۰۲۴ء
مفکر اسلام مولانا زاہدالراشدی صاحب کے خط کے جواب میں قائد جمعیت مولانا فضل الرحمٰن کا جوابی میسج:
’’آپ کا بہت شکریہ اور یوم الفتح کی عدیم المثال کانفرنس کی کامیابی پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ رب العزت قبولیت سے سرفراز فرمائے، آمین۔‘‘
جاری کردہ:
مولانا مفتی محمد نعمان پسروری (امیر)،
مولانا محمد عثمان رمضان (سیکرٹری جنرل)
پاکستان شریعت کونسل پنجاب
A Glimpse of Human Rights in Islam
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
Verse 36 of Surah al-Nisa outlines both the rights of Allah and the rights of His servants. Given the contemporary emphasis on human rights and the perceived limitations of Islam's approach in certain circles, this verse offers a valuable perspective.
The verse initially directs believers to worship Allah alone, prohibiting all forms of Shirk. This is the most fundamental right of Allah and the cornerstone of fulfilling His due. A person's life, the greatest gift, enables him/her to benefit from other blessings. As this life is bestowed by Allah, gratitude, obedience to His commandments, and refraining from associating partners with Him become paramount responsibilities.
Then the verse emphasizes on the importance of treating parents with kindness. This theme is echoed throughout the Quran, often paired with discussions of monotheism and servitude. Commentators explain that while Allah is the ultimate creator, parents serve as immediate cause of a person's life. Therefore, after fulfilling one's obligations to Allah, honoring and obeying parents becomes a priority.
It's essential to note that acknowledging Allah's oneness and serving Him encompasses all aspects of Islamic law, including the rights of Allah, His Messenger, and others. True worship involves not only performing specific rituals but also adhering to the Quran and Sunnah in all aspects of life.
The verse then identifies the individuals whom Allah has designated as deserving of human kindness:
- Close relatives
- Orphan children
- Indigent and poor people
- Neighbors who are also relatives
- Neighbors who are not relatives
- Companions and fellow travelers
- Passengers and guests
- Slaves and subordinates
The verse concludes by emphasizing that neglect of the rights of Allah and His servants is considered arrogance and boasting in His sight. Just as neglecting Allah's service is a sign of arrogance, disregarding the rights of His creations is equivalent to boastfulness and contempt for humanity.
The Prophet's example sheds light on the significance of observing social rights. In a gathering, with a young child on his right and an elderly companion on his left, the Prophet was offered a drink. After finishing, he wanted to give the remaining drink to the elderly companion. However, recognizing the child's right, he asked for permission. The child responded by asserting his right to the Prophet's blessing.
The narrator, Sahl bin Saeed RA, recounts that upon hearing the child's response, the Prophet placed the cup in the child's hand with a gesture that conveyed displeasure. This incident underscores the Prophet's emphasis on the importance of mutual rights. Despite his desire to give the cup to the elderly companion, he recognized the child's right and respected it. By doing this, the Messenger of Allah (PBUH) taught us the level of significance with regard to mutual rights.
Our greatest challenge today is our own ignorance of the Quran's teachings and our failure to share them with the world. If we were to do so, the Quran's comprehensive and balanced approach to rights would be unparalleled in any global system.
نومبر
’’احکام شریعت میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نحمدہ تبارک وتعالیٰ ونصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم وعلیٰ آلہ واصحابہ واتباعہ اجمعین۔ اما بعد۔
اسلام ادیانِ سماویہ میں آخری دین ہے جس نے قیامت تک نسلِ انسانی کی راہنمائی کرنی ہے اور اس کے احکام و قوانین رہتی دنیا تک انسانی معاشرہ کے لیے فطری قوانین و نظام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی و نبوت کا دروازہ بند ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس دوران نئی آسمانی تعلیمات کا کوئی امکان نہیں رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرہ میں فکری و ذہنی ارتقاء، تہذیبی تغیرات اور نت نئے انکشافات و تجربات کے باعث معاشرت و اجتماعیت کا کسی ایک مقام و کیفیت پر ٹھہراؤ بھی ممکن نہیں ہے۔ اور ہر تغیر و ارتقاء کے ساتھ قوانین و ضوابط کی تبدیلی اور نئے ضوابط و احکام کی ضرورت مسلسل قائم ہے جو قیامت تک اسی طرح موجود رہے گی۔ جبکہ حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ پہلے سے موجود احکام کی تطبیق اور نئے قوانین کی تشکیل معاشرتی ارتقاء کے فطری اور لازمی تقاضے کی حیثیت رکھتی ہے۔
اسلام میں احکام و قوانین کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے جو انسانی معاشرت کے لیے اساس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے دائرے سے ہٹ کر کسی صالح معاشرے کی تشکیل اسلامی نقطۂ نظر سے ممکن ہی نہیں ہے، اور قرآن و سنت کے صریح نصوص و احکام میں کسی تبدیلی کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ وحی و نبوت کے انقطاع کے بعد سے قیامت تک کے دور میں ضرورت کے مطابق احکام و قوانین کی تعبیر و تشریح، تطبیق اور نئے قوانین و ضوابط کی ترتیب و تدوین کے لیے اسلام نے ’’اجتہاد‘‘ کا اصول پیش کیا ہے جس کے ذریعہ انسانی علم و عقل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ قرآن و سنت کے اصول و نصوص کے دائرے میں ان سے راہنمائی لیتے ہوئے یہ فریضہ سر انجام دے۔ چنانچہ انسانی علم و عقل نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تسلسل کے ساتھ ہر دور میں یہ خدمت سر انجام دی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح قیامت تک جاری رہے گا۔
اسلامی شریعت کا یہ امتیاز و اختصاص ہے کہ اس میں جمود و تعطل نہیں ہے بلکہ وہ علمی و فکری حرکت کی ہمیشہ نمائندہ رہی ہے۔ اور مسلم مجتہدین و فقہاء کی اس حوالہ سے بے پناہ خدمات و مساعی نہ صرف اسلامی تاریخ بلکہ نسل انسانی کی علمی و فکری تاریخ میں بھی بجا طور پر قابل فخر سمجھی جاتی ہیں۔ سماج اور قانون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں ’’ڈیڈ لاک‘‘ نہیں ہوتا، سماج کو کسی جگہ ٹھہراؤ نہیں ہوتا اور قانون سماج کی اس حرکت پذیری کے کسی مرحلہ میں اس کی راہنمائی سے معذرت نہیں کرتا بلکہ ہر مسئلہ کا حل بتاتا ہے اور ہر ضرورت کی تکمیل کے لیے ہمیشہ مستعد رہتا ہے۔ اس سماجی اصول کا صحیح ترین مصداق اسلامی شریعت اور اس کا اصول اجتہاد ہے جو قرآن و سنت کے بنیادی اصولوں اور نصوص صریحہ کا دائرہ پوری طرح قائم رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ پیش آمدہ مسائل اور ضروریات میں بھی آنکھیں بند کر لینے کی بجائے استدلال و استنباط اور تعبیر و تشریح کے تنوع اور ندرت کے ذریعہ انسانی معاشرت کے سفر کے جاری رہنے میں مددگار ہوتا ہے۔
اسلامی شریعت پر جمود کا بے جا الزام اسلام کے اصول اجتہاد اور اس کی مسلسل کارفرمائی سے بے خبری کی علامت ہے جو تاریخی تسلسل کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق کے بھی منافی ہے۔ برصغیر کے نامور مفکر و دانشور حضرت مولانا محمد تقی امینیؒ نے اسلام کے اسی دائرۂ اجتہاد کے تعارف کے لیے ایک معرکۃ الآراء کتاب ’’احکام شریعت میں حالات و زمانہ کی رعایت‘‘ کے عنوان سے تصنیف فرمائی تھی جس میں ایک طرف انہوں نے شریعتِ اسلامیہ پر علمی و فکری جمود کی بے جا تہمت دھرنے والوں کی بے خبری کی خبر لی ہے، دوسری طرف اسلامی شریعت کے احکام و قوانین کو جمود کے دائروں میں جکڑ دینے کی بے جا کوششوں کو بھی اسلام کے مزاج اور دینی تقاضوں کے منافی قرار دیا ہے، اور اس کے ساتھ ساتھ مجتہدین و فقہاء کی علمی کاوشوں کو ایک حسین گلدستہ کی صورت میں پیش کیا ہے۔
اس عظیم القدر علمی کاوش سے ہزاروں علماء اور دانشوروں نے استفادہ کیا ہے اور راہنمائی حاصل کی ہے۔ جبکہ مذکورہ بالا دونوں حوالوں سے یہ کتاب آج کی علمی دنیا میں ایک کلاسیکل اور اساسی حوالہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ اس کتاب کی ازسرِنو اشاعت کی کوئی صورت نکالی جائے اور اس کے حوالوں کی تخریج کے ساتھ ساتھ ضروری مقامات پر توضیح و تشریح کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے۔ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی ہے کہ ہمارے فاضل دوست نے اس ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے یہ خدمت سرانجام دی ہے اور ہمارے قدیم ترین دینی ادارے جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور نے اس کی طباعت و اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ یہ کتاب علمی، فقہی اور فکری ماحول میں کام کرنے والے اصحابِ فکر و دانش کے لیے بلاشبہ ایک گراں قدر تحفہ ہے اور اس کی دوبارہ اشاعت پر جامعہ فتحیہ لاہور ہم سب کے شکریہ کا مستحق ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے راہنمائی کا ذریعہ بنائیں اور مصنف علیہ الرحمۃ کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
انسانیت کے اخلاقِ اربعہ (۲)
شیخ التفسیر مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ
(۲) اخبات
(خضوع و خشوع) دوسری صفت یا اخلاق۔ ان اہم بنیادی اخلاق میں سے اخبات یا خضوع ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز و نیاز مندی کا اظہار اور چشمِ دل کو اس کی طرف متوجہ رکھنا، اس کو اخبات کہتے ہیں۔ اخبات کا لفظ اور اسی طرح خضوع و خشوع قرآن پاک میں وارد ہوئے ہیں مثلاً اخبات جیسا کہ سورۃ ہود میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ان الذین اٰمنوا وعملوا الصالحات واخبتوا الیٰ ربہم اولئک اصحاب الجنۃ ہم فیہا خالدون (آیت ۲۳)
’’بے شک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور اپنے پروردگار کے سامنے عاجزی کی ، یہی لوگ جنت والے ہیں اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ نفوسِ سلیمہ جب ہر قسم کی تشویشاتِ طبعیہ اور خارجیہ سے فارغ ہوں اور ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی صفاتِ جلال اور اس کی کبریائی ان کو یاد دلائی جائے اور کسی نہ کسی طرح ان کا رخ ادھر متوجہ ہو تو لا محالہ انہیں ایک ایسی حالت لاحق ہو گی جو حیرت اور دہشت کی جنس سے ہو سکتی ہے اور ایک خاص رنگ انہیں احاطہ کرے گا، اور جب یہ اس حالت سے نیچے اتر کر سفلی حالت کی طرف آتے ہیں تو یہی حیرت و دہشت خشوع و خضوع اور اخبات بن جاتا ہے اور ایسی حالت ان پر طاری ہوتی ہے جیسے غلاموں کی حالت اپنے آقاؤں کے سامنے یا کسانوں کی حالت بادشاہوں کے سامنے یا جیسا کہ محتاج سائل کی حالت سخی کریم کے سامنے ہوتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ نفس کی یہ حالت ملاء اعلیٰ کے ساتھ مشابہ ہوتی ہے جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی شان جلال و کبریائی کے سامنے حیران و ششدر رہتے ہیں تو نفس کی یہ صفت خشوع خضوع او رمناجات میں ان ملاء اعلیٰ کے مشابہ ہوتی ہے۔ جب نفس اس کیفیت کے ساتھ رنگین ہو جاتا ہے اور یہ خصلت اس کے اصل کے جوہر میں داخل ہو جاتی ہے تو اس نفس اور ملاء اعلیٰ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے او رملاء اعلیٰ کی جانب سے اس نفس پر معارف جلیلہ مترشح ہوتے ہیں۔ ان معارف کی اشباہ و اشکال تجلیاتِ الٰہیہ ہوتی ہیں۔ شریعت نے اس صفت کو حاصل کرنے کے لیے خضوع و خشوع او رمناجات تلاوتِ قرآن کریم، ذکر، دعائیں او رتعویزات وغیرہ مقرر کیے ہیں۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ اخبات کے اسباب یہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کو تعظیم کے اعلیٰ حالات کا پابند بنائے جس قدر بھی اس سے ممکن ہو۔ مثلاً سرنگوں ہو کر کھڑا ہونا، سجدہ ریز ہونا اور ایسے الفاظ زبان سے بولنا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے مناجات اور عاجزی پر دال ہوں اور اپنی تمام مناجات اس کے سامنے رکھنی، یہ تمام امور وہ ہیں جو نفس کو اخبات و موضوع کی صفت پر قوی درجہ کی تنبیہ کرتے ہیں۔
نیز امام ولی اللہؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اخبات کی حقیقت یہ ہے کہ جب انسان سلیم الفطرۃ ہو اور تشویشات سے فارغ ہو تو جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی صفات و آیات کا تذکرہ کیا جائے اور گہرے طریق پر اس کو یاد کرے تو اس کا نفس ناطقہ متنبہ ہو گا اور اس کے حواس اور جسم میں انکساری و عاجزی پیدا ہو گی اور وہ حیران اور ماندہ یعنی تھکا ہوا ہو گا اور خطیرۃ القدس کی جانب اس کا میلان ہو گا اور ایک ایسی حالت اس پر طاری ہو گی جیسا کہ رعیت کے لوگوں کی اپنے بادشاہ کے سامنے ہوا کرتی ہے کہ وہ اپنی لاچارگی، عاجزی اور نیازمندی اور ان بادشاہوں کا استبداد اور لینے دینے اور منع کرنے میں ان کا اختیار اور اپنی کمزوری ملاحظہ کرتا ہے۔ اور یہ حالت نسمہ کی حالتوں میں سے زیادہ اقرب حالت ہے ملاء اعلیٰ کے مشابہت میں، جس طرح ملاء اعلیٰ اپنے پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے جلال میں حیران و سرگرداں ہوتے ہیں اور جس طرح اس کی تقدیس میں مستغرق ہوتے ہیں اور اسی لیے وہ ہمہ تن تیار ہوتے ہیں کہ ان کا نفس اپنے کمال علمی کی طرف خروج اختیار کرے اور معرفتِ الٰہیہ ان کےلوح و ذہن پر متنقش ہو اور وہ کسی نہ کسی طرح اس دربار میں سمجھتے ہیں اگرچہ الفاظ اس کو بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
روحِ نماز، حضور مع اللہ اور جبروت کی طرف جھانکنا اور اللہ تعالیٰ کے جلال کو تعظیم و محبت اور اطمینان کے ساتھ یاد کرنا اور ان دعاؤں کے ساتھ جن کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسنون قرار دیا ہے۔
اور تلاوتِ قرآن کی روح یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف شوق، تعظیم اور محبت کے ساتھ متوجہ ہو اور قرآن کے مواعظ میں تدبر کرے اور اس کے احکام کے اِنقیاد میں پوری طرح شعور رکھتا ہو اور اِمتثال کے لیے آمادہ ہو اور اس کے امثال و قصص سے عبرت حاصل کرے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اور آیات کا ذکر جب اس کے سامنے آئے تو اس کی عظمت کا دل و زبان سے اظہار کرے اور جنت و رحمت کی آیات کے سامنے آنے سے اس کے فضل کا طلبگار ہو۔
اور روحِ ذکر یہ ہے کہ حضور اور استغراق سے جبروت کی طرف توجہ کرے اور اس سلسلہ میں تہلیل و تکبیر کہنے کی اس قدر مشق بہم پہنچائے کہ حجاب اٹھ جائے اور اس کو مکمل استغراق حاصل ہو جائے۔
اور روحِ دعا یہ ہے کہ ہر قسم کی طاقت اور برائی سے بچنے کی توفیق من جانب اللہ دیکھے اور خود ایسا ہو جائے جیسا میّت غسّال کے ہاتھ میں یا تصویر و عکس ہلانے والے اور حرکت دینے والے کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مناجات کی لذت بھی پائے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جو اصول بیان فرمایا ہےکہ تہجد کے بعد نہایت ہی عاجزی سے اور گڑگڑا کر اور ہاتھ اٹھا کر دعا کرے اور پھر یہ شرط ہے کہ قلب بھی فارغ ہو، لہو و لعب میں مشغول اور غافل نہ ہو اور اس شخص کو بول و براز کا شدید تقاضا بھی نہ ہو اور غصے اور بھوک کی حالت میں بھی نہ ہو۔
جب انسان اس مناجات اور حاضری کی حالت کو پہچان لیتا ہے، پھر اگر اس حالت کو گم پاتا ہے تو اس کے اسباب کی کھوج لگاتا ہے، دریافت کرتا ہے۔ اب اگر طبیعت کی قوت اور شدت اس کا سبب ہو تو اس کا روزہ سے علاج کرنا چاہیے۔ اور اگر مادۂ شہوت کا غلبہ ہو تو اپنی ملکیت میں اس مادہ کا استغراق کرے۔ انہماک بھی مطلوب نہ ہو صرف علاج کے طور پر اس طریق کو استعمال کرے اور نیز کھانے پینے سے بھی فارغ ہو۔ اگر اس کا سبب ارتفاقات اور لوگوں کی رفاقت و صحبت ہو تو اس کا علاج کرے، ارتفاقات کے ساتھ عبادات کو بھی شریک کرے۔ اور اگر اس کا سبب فکر کے ظروف کا مشوش خیالات اور ردی افکار و وساوس سے پُر ہونا ہے تو پھر لوگوں سے الگ ہو جائے اور اپنے گھر یا مسجد کو لازم پکڑے اور اپنی زبان کو بجز اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دوسری باتوں سے روک دے اور اپنے قلب کو بجز اس فکر کے جو اس کی ضرورت کا ہو روک دے اور اپنے نفس کی نگرانی کرتا رہے۔ جب نیند سے بیدار ہو تو سب سے پہلے اللہ کا ذکر کرے اور جب سونے کے خیال سے الگ ہو تو پھر بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے اذکار و اوراد کا حکم دیا کہ جن سے دوامِ اخبات او رتضرُّع حاصل ہوتا ہے۔
اور اسی طرح جو شخص صفتِ خضوع و اخبات سے آشنا نہ ہو بلکہ اس کی ضد کے ساتھ متصف ہو تو جب ایسا شخص اس مادی عالم سے گزر جائے گا تو اس عالم میں تہہ بہ تہہ اوپر نیچے ظلمتیں اس پر ہجوم کریں گی۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جہاں جبروت کے انکشاف کا مُقتضی ہے اور یہ صفت جس کے ساتھ یہ شخص متصف ہے یہ خشوع کے منافی ہے او ر جبروت کے عدمِ انکشاف کو چاہتی ہے۔ نتیجہ یہ ہو گا اس کی وجہ سے اس شخص میں نفرت اور تنگی اس کے دل پر ہجوم کرے گی۔
انسان جب اپنے بڑے بزرگوں میں سے کسی کی تعظیم کرتا ہے مثلاً باپ دادا یا مرشد، استاد یا نیک دل امراء و ملوک وغیرہ تو اپنے دل ان کے پاس حاضر ہوتے وقت عاجزی پاتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے وہ محبت کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ کوئی بات کہیں حکم دیں تو میں اس کی تعمیل کروں اور اپنے دل میں ایک عجیب لذت ۔ ۔۔۔ کسی انسان کو اس کا باپ کوئی کام دیتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے تو یقیناً ا س کی اطاعت کرے گا اور اس کو اپنے رب کی اطاعت کا وسیلہ خیال کرے گا۔ جب یہ خصلتِ خضوع اس میں پختہ ہو کر ملکہ بن جائے تو اس کو یوں کہیں گے کہ اس کو اخبات کی خصلت حاصل ہوگئی ہے۔
اخبات کی مشق کرنے والا انسان ہمیشہ تعظیمی آداب کی پابندی اور حفاظت ہر حال میں لازم خیال کرے گا۔ مثلاً بول و براز کے وقت سر جھکا کر اور حیا سے بیٹھے گا اور ذکر کے وقت اپنے اطراف کو جمع کرے گا اور اس طرح ہر حال میں آداب کی پابندی کرتا رہے گا۔
(۳) سماحت
تیسرا خُلق ان اخلاقِ اربعہ میں سے سماحت (فیاضی) ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ ہے کہ نفس خسیس بہیمی دواعی کے سامنے مغلوب نہ ہو۔ لذت کی طلب میں، انتقام کی خواہش پورا کرنے میں، یا بخل یا حرص اور اس جیسی دیگر رذیل خصلتوں میں نفس حقیر اور خسیس جذبات کے تابع نہ ہو۔ سماحت کی خصلت کا ہر شعبہ اس داعیہ کے اعتبار سے الگ الگ نام سے یاد کیا جاتا ہے، مثلاً:
عفت
اگر نفس داعیہ شہوتِ فرج اور بطن کو قبول نہ کرے تو وہ عفت (پاکدامنی نزاہت) کہلاتا ہے۔
اجتہاد
اگر نفس رباہیت یعنی خوشحالی و آرام پسندی اور ترکِ عمل کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ اجتہاد کہلاتا ہے۔
صبر
اگر تنگ دلی، جزع اور بے صبری کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ صبر کہلاتا ہے۔
عفو
اگر انتقام کی خواہش کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو وہ عفو (درگزر) کہلاتا ہے۔
قناعت
اگر حرص کے داعیہ کو قبول نہ کرے تو یہ قناعت کہلاتا ہے۔
تقویٰ
اگر شریعت کی مخالفت کے داعیہ کو قبول نہ کرے جو شریعت نے حدود و مقادیر کی حفاظت کے سلسلہ میں مقرر و معیّن کیے ہیں تو اس کو تقویٰ کہتے ہیں۔ خود امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں و تقویٰ عبارت از محافظت بر حدود شرع است (الطاف القدس)۔ (اور اسی طرح حضرت ابو حسین فارسیؒ فرماتے ہیں: ظاہر تقویٰ محافظت حدود کا نام ہے اور باطن تقویٰ نیت اور اخلاص)۔ امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ ان سب خصلتوں کی اصل ایک ہی چیز ہے اور وہ رائے کلی (عقلی تقاضے) کا دواعی خسیسہ بہیمیہ پر غالب ہونا ۔ اسی خصلت یعنی سماحت کے اشکال و شعب سے نفس میں ایک معنی داخل ہوتا ہے اور اس کو نفس اپنا ملکہ بنا لیتا ہے یعنی خسیس اور کمینہ دواعی کو قبول نہ کرنے کا ملکہ اس نفس کو حاصل ہو جاتا ہے۔ اور جس وقت یہ خصلت کسی نفس میں راسخ اور پختہ ہو جاتی ہے تو جب یہ آدم مرتا ہے تو تمام خسیس ہیئتیں جو اس عالم میں اس کے نفس پر ہجوم کرتی تھیں وہ یکسر نیست و نابود ہو جاتی ہیں اور وہ نفس اس طرح ہو جاتا ہے جس طرح خالص سونا کٹھالی سے نکلتا ہے اس طرح وہ زرِ خالص بن کر نکلتا ہے۔ اور یہ ایسی خصلت ہے کہ جس کی وجہ سے انسان قبر کے عذاب سے دور اور بچا رہتا ہے۔ اور صوفیائے کرام اس خصلت کو زُہد (دنیا میں بے رغبتی) اور حریت اور ترکِ دنیا یا قطع تعلقات دنیا اور فناء خسائس بشریہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ منصور حلاجؒ کے اس شعر میں ہے:
’’اطعت مطامعی فاستعبدتنی
ولو انی قنعت لکنت حرا‘‘
(یعنی میں نے اپنی طمع او رلالچ کی پیروی کی تو ان چیزوں نے مجھے غلام بنا لیا۔ اگر میں قناعت اختیار کرتا تو آزاد ہوتا۔)
اور اس خصلت کو حاصل کرنے کا عمدہ ذریعہ یہ ہے کہ ایسے مواقع و مظان سے گریز کرے جو اس خصلت کے اضداد ہیں اور اپنے قلب میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کو ترجیح دے اور عالمِ تجرد کی طرف نفس کا میلان ہو اسی قبیل سے ہے۔
حضرت زید بن حارثہؓ کا قول ہے ’’میرے نزدیک دنیا کا سونا اور پتھر یکساں ہیں۔‘‘
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں (حجۃ البالغہ میں) کہ سماحت حقیقت میں اس ہیئت کا نام ہے جو انسان میں کمال مطلوب کی ضد کو پختہ ہونے سے روکتی ہے خواہ علم کمال مطلوب ہو یا عمل کے اعتبار سے۔ سماحت اور اس کی ضد کے بہت سے القاب ہیں، جس قسم میں ہو گی اس کے اعتبار سے اس کا نام ہو گا، مثلاً :
بخل کے اعتبار سے ہو تو اس کا نام سماحت و سخاوت ہو گا اور اس کی ضد شح (بخل) کہلائے گی۔
اگر یہ داعیہ شہوتِ فرج اور بطن سے ہو، سماحت میں عفت اور اس کی ضد شہرہ (حرص ندیدہ پن) کہلائے گی۔
اگر خوشحالی اور آرام طلبی کے داعیہ اور مشقت کے کاموں سے دور رہنے کے اعتبار سے ہو تو سماحت میں صبر اور اس کی ضد صلع (شدید جزع اور بے صبری) کہتے ہیں۔
اگر شرع میں معاصی ممنوعہ کے داعیہ سے ہو تو اس کو تقویٰ کہتے ہیں اور اس کی ضد کو فجور کہتے ہیں۔
اور جب سماحت انسان میں پختہ ہو جاتی ہے تو اس کا نفس شہواتِ دنیا سے خالی ہو جاتا ہے اور لذاتِ عالیہ مجردہ (عالم بالا اور خطیرۃ القدس کی روحانی لذات) کے لیے مستعد ہوتا ہے۔
امام ولی اللہؒ بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’سماحت کی اصل حقیقت یہ ہے کہ نفس قوتِ بہیمیہ کے دواعی کے تابع نہ ہو اور قوت بہیمیہ کے نقوش اس میں متمثل نہ ہوں اور بہیمیت کے اوساخ (میل کچیل) یا آلودگیاں اور اس کا اثر اس پر لاحق نہ ہو کیونکہ جب انسان اپنے امورِ معاش میں تصرف کرتا ہے اور عورتوں سے ملنے کا اشتیاق رکھتا ہے اور لذات کے تحصیل کا خوگر اور عادی ہو جاتا ہے اور کسی خاص طعام کی چاہت کرتا ہے اور پھر ان اشیاء کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان سے اپنی ضروریات پوری کرتا ہے تو خاص کیفیت اور ہیئت اس میں پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح اگر انسان کسی پر ناراضگی اور غصہ کا اظہار کرتا ہے یا کسی چیز کے دینے پر بخل کرتا ہے تو ضرور اس حالت میں وہ ایک وقت تک مستغرق ہو گا، اس کے علاوہ کسی چیز کی طرف سر اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا، لیکن پھر جب یہ حالت اس سے زائل ہو گی تو اگر آدمی سماحت کی صفت سے موصوف ہوا تو ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرے گا، ایسا ہو گا کہ گویا کوئی چیز واقع ہی نہیں ہوئی۔ اور اگر سماحت والا نہ ہوا تو یہ کیفیت اس کے ساتھ چسپاں ہو جائے گی جس طرح انگوٹھی کا نقش موم میں چسپاں ہو جاتا ہے۔ جب اس آدمی کے مادی جسم سے روح مفارقت اختیار کرے گی یعنی طبعی موت سے جب یہ مر گیا اور ظلماتی جہاں کے تعلقات جو تہہ بہ تہہ اس پر چڑھے ہوئے تھے ان سے جب ہلکا ہو گیا اور اس نے اس چیز کی طرف رجوع کیا جو اس کے نفس کے پاس تھی تو دنیا میں جو چیزیں ملکیت کے منافی اور مخالف تھیں وہ اس میں موجود نہ ہوں گی تو اس کو اُنس حاصل ہو گا اور اچھی اور عمدہ عیش میں ہو گا۔ اور بخیل نفوس کے اندر اس بخل کے نقوش متمثل ہوں گے جیسا کہ تم مشاہدہ کرتے ہو۔ بعض آدمیوں کا جب کوئی نفیس مال چوری ہو جاتا ہے تو اگر وہ سخی اور سماحت والا ہو گا تو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کر ےگا۔ اور اگر وہ رکیک النفس یعنی بخیل کنجوس ہو گا تو اس کی حالت ایسی ہو گی اور وہ واویلا اور جزع فزع کرتا رہے گا۔‘‘
اسی طرح امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ سماحت کے اسباب یہ ہیں کہ اپنے نفس کو سخاوت کا خوگر بنایا جائے اور خرچ کرنے پر ہر وقت آمادہ اور تیار بنایا جائے اور جس نے اس پر ظلم و زیادتی کی ہو اس کو معاف کر دے اور مشکلات کے وقت اپنے نفس کو صبر پر کاربند کرنے کا عادی بنائے۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ نفس کی سماحت اصولِ اخلاق میں اہم ترین خُلق ہے کیونکہ نفس دواعی خسیسہ بہیمیہ کا مطیع نہ ہو یہ اہم بات ہے۔ انتقام کا جذبہ اس میں موجود ہوتا ہے اور وہ انتقام لینا چاہتا ہے اور غضب و غصہ کا اظہار بھی چاہتا ہے۔ بخل اور حرص علی المال اور حرص علی الجاہ بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ اور اگر ان دواعی خسیسہ کے مطابق وہ اعمال انجام دے گا تو ان کا رنگ اس کے نفس کے جوہر میں چسپاں ہو گا اور اس میں متمثل ہو گا۔ اگر سماحت والا انسان ہوا تو ان خسیس ہیئتوں کو ترک کرنا اس کے لیے سہل ہو گا۔ وہ ان سے چھوٹ کر اللہ کی رحمت کی طرف پہنچ جائے گا اور انوار و تجلیات میں مستغرق ہو جائے گا جیسا کہ نفسوس کی جبلت اس کا تقاضہ کرتی ہے۔ اور اگر فیاض اور سماحت والا نہ ہوا تو ان خسیس اعمال کے الوان و رنگ اور دنیا کی چکناہٹ اور آلودگی اس کے نفس میں مل جائے گی اور اس پر سہل نہیں ہو گا کہ وہ ان ہیئات کو ترک کر سکے۔
جب اس کا نفس اس خاکی جسم سے الگ ہو گا تو اس کےگناہ ہر طرف سے اس کا احاطہ کریں گے اور اس کے درمیان اور ان انوار و تجلیات کے درمیان جن کو نفس کی جبلت چاہتی ہے نہایت غلیظ یعنی دبیز حجات ڈال دیے جائیں گے اور ان کی وجہ سے وہ اذیت او ردکھ پاتا رہے گا۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ نورِ ایمان ان دواعی خسیسہ میں سے ہر ایک کی مدافعت کرتا ہے۔ نفسِ بہیمی اور قلبِ سبعی جب یہ خسیس داعیات رکھتے ہیں تو نورِ ایمان ان کی مدافعت کرتا ہے ،اور ہر ایک کا جدا جدا نام ہوتا ہے۔ جو ملکہ جزع فزع کے داعیہ کی مدافعت کرتا ہے اس کو صبر علی المصیبت کہتے ہیں، اس کا مستقر قلب ہے۔ آرام طلبی اور فارغ البالی کے داعیہ کی مدافعت کا ملکہ اجتہاد اور صبر علی الطاعہ کہلاتا ہے۔ حدودِ شرعیہ کی مخالفت اور ان کے ساتھ تہاون اور سستی اختیار کرنے کے داعیہ کی مدافعت تقویٰ کرتا ہے۔ اور جس سے غصہ کے داعیہ کی مدافعت ہوتی ہے اس کو حلم اور بردباری کہتے ہیں، اس کا مستقر بھی قلب ہے۔ حرص کے داعیہ کی مدافعت قناعت کہلاتی ہے۔ عجلت اور جلد بازی کے داعیہ کی مدافعت تانی (پختگی، آہستگی، تثبت) کہلاتا ہے۔ شہوت فرج کے داعیہ کی مدافعت عفت (پاکدامنی) کہلاتی ہے۔ منہ پھٹ ہونے اور بیہودہ گوئی کے داعیہ کی مدافعت صمت، خاموشی اور رعی کہلاتی ہے۔ دوسروں پر نمایاں ہونے اور غالب آنے کے داعیہ کی مدافعت خمول (گمنامی) کہلاتی ہے۔ محبت اور نفرت دونوں میں تلون مزاجی کے داعیہ کی مدافعت استقامت کہلاتی ہے۔
الطاف القدس میں امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ انسان میں رذیل صفات کی وجہ سے جو درندوں جیسے افعال اور شہوانی اعمال جب نفسِ ناطقہ کے ساتھ دامن گیر ہوتے ہیں تو اسی سماحت کی خصلت کی وجہ ہی انسان ان صفاتِ رذیلہ کے رنگ کو اپنے آپ سے جھٹک دیتا ہے اور صفائی اور پاکیزگی کی خوبی اور صفت اس کو حاصل ہوتی ہے۔
اور اسی طرح جو شخص سماحت کی ضد کے ساتھ متصف ہو گا اور دنیاوی اور مادی تعلقات جو حبِ مال، حبِ جاہ اور حبِ اولاد وغیرہ سے متعلق ہیں، اور اس کے علاوہ ہیئاتِ خسیسہ مثلاً بھوک، پیاس وغیرہ اس کے دل پر ہجوم کرتی ہیں اور اس پر چسپاں ہو جاتی ہیں، جس طرح انگوٹھی کو زور سے موم وغیرہ پر مارا جائے تو اس کی صورت اور نقوش اس موم میں مُنطبع ہو جاتے ہیں۔ لیکن سماحت والا انسان ایسا ہوتا ہے جیسا کہ پانی کی حالت ہوتی ہے کہ جب انگلی وغیرہ کو اس سے اٹھا لیا جائے تو وہ نقش و صورت زائل ہو جاتی ہے۔ امام ولی اللہؒ کا اپنا ایک شعر ہے ؎
بوسعت مشرباں رنگ تعلق درنمے گیرد
اگر نقشے زنی بر روئے دریا بے اثر باشد
(وسیع المشرب لوگوں کے ساتھ یعنی سماحت والے لوگوں کے ساتھ تعلقات کا رنگ چسپاں نہیں ہوتا، جس طرح دریا کے پانی پر اگر نقش بناؤ تو بے اثر ہو گا، نقش ٹھہرتا نہیں۔)
انسان بالطبع بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ مثلاً خاص قسم کا کھانا، خاص لباس، عمدہ اور خوبصورت مکان۔ اور یہ بھی پسند کرتا ہے کہ لوگوں کے اجتماع میں وہ عزیز اور محترم ہو۔ اور ساتھ یہ بھی کہ عند اللہ مقرب بھی ہو۔ یہ سب انسان کی ضروریات ہیں۔ جب انسان اپنی ضروریات کو اچھی طرح پوری کرتا ہے تو وہ اس کے لطف کو فراموش نہیں کر سکتا، بلکہ یہ لذت اس کے لیے دوسرے کاموں اور حاجتوں کو پورا کرنے سے مانع ہوتی ہے۔
جب انسان اس کے برخلاف ایسے ہوتے ہیں مثلاً لذیذ کھانا کھاتے ہیں اور اس کی لذت بھی پوری طرح محسوس کرتے ہیں، لیکن جب وہ اس سے فارغ ہو جاتے ہیں تو اس کو فراموش کرتے ہیں اور اس کے بارے میں پھر سوچتے بھی نہیں، اور یہ لذت ان کے لیے کسی دوسرے کام سے مانع نہیں ہوتی، ایسا انسان یقیناً اپنے اخلاق کی تکمیل کرنے کا اہل ہوتا ہے۔ یہ سماحت کا اخلاق بھی ایسا ہے کہ اس خلق والے کی طبیعت پانی کی طرح ہوتی ہے۔ پانی میں انگلی ڈبوئی جائے تو بہت سی جگہ پانی سے خالی نظر آتی ہے، لیکن جب انگلی اٹھا لی جائے تو پھر پانی پہلی حالت پر لوٹ آتا ہے۔
اور در حقیقت سماحت اور عدالت میں من وجہ تنافر و تناقص بھی پایا جاتا ہے، کیونکہ قلب کا میلان تجرد کی طرف، اور اس کا رحمت و مودت کے لیے مطیع ہونا، یہ دونوں باتیں اکثر لوگوں کے حق میں باہم مخالف ہیں۔ اسی لیے بہت سے اہل اللہ کو تم دیکھو گے کہ وہ تبتل اور انقطاع عن الناس کو اختیار کرتے ہیں اور اہل و اولاد سے دور ہو جاتے ہیں۔ اور عام لوگوں کو تم دیکھو گے کہ اہل و اولاد سے میل جول ان پر اس قدر غالب و حاوی ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذکر کو بھی فراموش کر دیتے ہیں۔ لیکن انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام دونوں مصلحتوں کی رعایت کا حکم دیتے ہیں، اور یہ کہ مصلحتوں کو جہاں تک ممکن ہو جمع کیا جائے۔ اس لیے سماحت کے نوامیس آپس میں ملے جلے ہوں گے۔ معاملہ حسنِ خلق سے تعلق رکھتا ہے اور یہ مجموعہ ہے سماحت اور عدالت کا کیونکہ یہ مشتمل ہے جود پر، اور جو ظلم و زیادتی کرتا ہے اس کو معاف کرنے پر، اور تواضع پر، اور حسد و حقد اور غضب کو ترک کرنے پر۔ اور یہ سب سماحت کے باب میں داخل ہیں۔ اور لوگوں کے ساتھ مودت، صلہ رحمی، حسنِ صحبت اور محتاجوں کے ساتھ ہمدردی و مواسات، یہ عدالت کے باب سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور آفاتِ لسان سب مخل بالاخبات و سماحت اور عدالت ہیں، کیونکہ اکثار فی الکلام یعنی زیادہ بولنا اللہ تعالیٰ کے ذکر کو فراموش کراتا ہے، اور غیبت و بدگوئی آپس کے تعلقات کو بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں، اور قلب بھی زبان کے کلام سے رنگین ہوتا ہے، غصہ کے کلمہ سے قلب بھی غضبناک ہوتا ہے، اور غیبت، جدال اور مراء (جھگڑا) وغیرہ لوگوں کے درمیان فتنے برپا کرتے ہیں۔ اور ہر قسم کا کلام کرنا اور ہر وادی میں گھس جانے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایسا آدمی توجہ الی اللہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں حلاوت نہیں پاتا۔ اگر سب و شتم کرتا ہو یا عورتوں کے محاسن کا ذکر کرتا ہو تو اس کے نفس پر شہوانی اور سبعی (درندوں جیسے خیالات کا) نقش چھا جائے گا۔ اور اگر ایسا کلام کرے گا مثلاً کسی بادشاہ کو ملک الملوک کہے تو اس سے اللہ کے جلال کو فراموش کر دے گا، اور اللہ تعالیٰ کے پاس جو کچھ ہے اس سے غفلت پیدا ہو گی۔ اور اگر ایسی چیز زبان پر لائے گا جو مصالحۂ ملت کے خلاف ہو مثلاً ملت نے جس چیز کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے اس کی ترغیب دینے لگ جائے مثلاً شراب کی مدح کرے یا عنب (انگور) کو کرم کہنے لگے، یا اللہ کی کتاب کو عجمی بنائے جیسا مغرب کو عشاء اور عشاء کا عتمہ کہے، یا قبیح اور شنیع کلام کرے جیسا کہ شیطانی شنیع افعال کا ذکر، یا فحش باتیں اور جماع کا ذکر، یا اعضاء مستورہ کا ذکر، یا شگون وغیرہ کے الفاظ، یہ سب ملت کی مصلحت کے خلاف ہیں۔
ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ انسان جب کوئی اخلاق حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے مطابق افعال و ہیئات پر اپنے آپ کو کاربند بناتا ہے اگرچہ وہ معمولی بات ہو۔ مثلاً شجاعت کا خلق حاصل کرنے والا گارے میں گھسنے اور سورج کی دھوپ اور رات کے اندھیرے میں چلنے سے گریز نہیں کرے گا۔
سماحت کے مواقع
شریعت میں سماحت کے مظان و مواقع ہیں اور جن کو سماحت نہیں بتایا ان میں امتیاز کرنا بھی ضروری ہے۔
زُہد
انسان کا نفس طعام کی طرف حرص رکھتا ہے اور اسی طرح لباس اور عورتوں کا اشتیاق بھی رکھتا ہے، جب تک ان کو حاصل نہ کرے اس کو قرار نہیں آتا۔ اور اس سے اس کے نفس کے جوہر میں ایک فاسد رنگ پیدا ہو جاتا ہے،جب انسان اس رنگ کو اپنے نفس سے پھینک دے تو اس کو ’’زہد‘‘ کہتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
’’حلال کو حرام بنانے سے یا مال کو ضائع کرنے سے زہد حاصل نہیں ہوتا، بلکہ زہد یہ ہے کہ تمہارے پاس جو چیز ہے اس پر تمہیں زیادہ اعتماد و بھروسہ نہ ہو، اس چیز کے مقابلے میں جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ اور مصیبت کے وقت اس کے ثواب میں زیادہ راغب ہو، بہ نسبت اس کے کہ اس مصیبت کو تم سے اٹھا دیا جائے۔‘‘
اور اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
’’ابن آدم کے لیے ان خصلتوں (بنیادی حقوق) کے علاوہ حق نہیں ہے، اور وہ خصلتیں یہ ہیں: ایک مکان جس میں انسان سکونت اختیار کر سکے، دوسرا کپڑا جس سے ستر پوشی کر سکے، تیسری جیسی کیسی بھی ہو روٹی میسر ہو، چوتھی پانی۔ (یہ بنیادی حق ہیں جو ہر انسان کو ملنے چاہئیں، ان چار حقوق کے علاوہ دو حق صحت اور تعلیم بھی ہیں جن کا ذکر قرآن و سنت میں موجود ہے۔)‘‘
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ
’’ابن آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پشت کو سیدھا رکھ سکیں۔‘‘
اور یہ بھی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ
’’دو آدمیوں کا کھانا تین کے لیے اور تین کا چار کے لیے کفایت کرتا ہے۔‘‘
یعنی دو آدمیوں کا کھانا اگر کفایت کے طریق پر تقسیم کر دیا جائے۔ یہ مواسات کی ترغیب اور حرص کی ناپسندیدگی کا اظہار ہے۔
قناعت
مال کی حرص بسا اوقات نفس پر غالب ہوتی ہے اور اس کے جوہر میں داخل ہو جاتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ سے اس حرص کو دور کرتا ہے اور اس پر اس کا ترک آسان ہو جاتا ہے تو یہ قناعت ہے۔ قناعت کا مفہوم نہیں کہ جو چیز بغیر طمع کے اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اس کو بھی چھوڑ دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
’’ غنیٰ (دولت مندی اور غنی ہونا) سامان کی زیادتی سے نہیں ہوتی بلکہ غنی نفس کا غنی ہے کہ انسان کا نفس اور دل مستغنی ہو۔‘‘
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حکیمؓ سے فرمایا کہ
’’اے حکیمؓ! یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ جو شخص اس کا نفس کی سخاوت (فیاضی) سے لے گا اس کو برکت دی جائے گی۔ اور جو حرص سے لے گا اس کو برکت نہیں دی جائے گی، اور وہ ایسا ہو گا جو کھاتا ہے (جوع البقر یا جوع الکلب کی وجہ سے) اور اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔ اور دینے والا ہاتھ لینے والے سے بہتر ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تمہارے پاس یہ مال بغیر طمع اور لالچ کے آجائے تو اس کو لے لو اور اپنے نفس کو اس کی طمع میں مت لگاؤ۔‘‘
جود
سخاوت و بخشش۔ مال کی محبت انسان کے لیے ایک فطری امر بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’وانہ لحب الخیر لشدید‘‘ کہ انسان مال کی محبت میں بڑا پکا ہے۔ انسان مال کو اپنے پاس رکھنے اور اس کو روکنے کی محبت رکھتا ہے۔ اور یہ محبت بسا اوقات اس کے قلب پر غالب آتی ہے اور اس کا احاطہ کر لیتی ہے۔ ہر طرف سے جب انسان اس مال کے صَرف و خرچ کرنے پر قادر ہو اور اس کی پروا نہ رکھے تو یہ ’’جود‘‘ ہے۔ جود یہ نہیں کہ مال کو بلاوجہ اور بے محل ضائع کر دے۔ مال بذاتہ کوئی مبغوض چیز نہیں، یہ تو ایک نعمت کبیرہ ہے۔
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بخل اور کنجوسی سے بچو۔ اس بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو خونریزی پر آمادہ کیا اور انہوں نے حرام چیزوں کو حلال خیال کیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قابلِ رشک دو آدمیوں کا حال ہے۔ ایک علم والا جس کو پڑھاتا اور پھیلاتا ہے، اور دوسرا مال جس کو خرچ کرتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا گیا کہ حضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام! کیا خیر بھی شر کو لاتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خیر تو شر کو نہیں لاتا لیکن جو چیز موسم ربیع میں پیدا ہوتی ہے (گھاس، سبزہ، چارہ وغیرہ) اور جانور اس کو حرص سے کھاتے ہیں تو وہ مہلک ہوتا ہے۔ یعنی جس کو تم خالص خیر خیال کرتے ہو اس میں دوسرا پہلو بھی پوشیدہ ہوتا ہے۔
اور حضور علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ
’’جس کے پاس زائد سواری موجود ہو، وہ اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری موجود نہیں، اور جس کے پاس اپنی ضرورت سے زائد توشہ موجود ہو، وہ اس کو دے دے جس کے پاس توشہ نہیں۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کی مختلف قسموں کا ذکر فرمایا ، یہاں تک کہ ہم نے یہ خیال کیا کہ ہم میں سے زائد چیز میں کسی کا حق ہی نہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب اس لیے دی ہے کہ لوگ جہاد میں مصروف تھے اور مسلمانوں کی جماعت کو اس کی ضرورت تھی۔ اس میں ایک طرف سماحت ہے اور دوسری طرف نظامِ ملت کو قائم کرنا اور مسلمانوں کی جانوں کو بچانا مقصود ہے۔ سماحت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اپنی ضروریات کو مؤخر کر دیا جائے۔ چنانچہ عربی زبان کا ایک شاعر مقنع کندی کہتا ہے؎
لیس العطاء من الفضول سماحة
حتی تجود و مالدیک قلیل
’’ایسا عطیہ سماحت نہیں کہ انسان زائد مال میں سے دے۔ سماحت تب ہو گی کہ تم سخاوت کرو یہاں تک کہ تمہارے پاس قلیل بھی نہ رہے۔‘‘
قصرِ امل
(آرزو کو مختصر کرنا)۔ انسان پر زندگی کی محبت غالب ہوتی ہے اور وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور دراز زندگی کا خواہشمند ہوتا ہے جس کو پا نہیں سکتا۔ اگر ایسی حالت میں ہی انسان مر جائے تو اس کو عذاب ہو گا کہ اس کا میلان و اشتیاق اس چیز کی طرف تھا جس کو پا نہیں سکا۔ یہ مزید باعثِ کلفت ہو گا۔ ورنہ عمر تو بنفسہ کوئی مبغوض چیز نہیں بلکہ نعمتِ عظیم ہے۔ آرزو کو مختصر کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے یہ فرمایا ہے کہ
’’دنیا میں اس طرح رہو جیسا مسافر ہوتا ہے، یا راستے پر گزرنے والا۔‘‘
اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’لذتوں کو ختم کر دینے والی چیز کو یاد کیا کرو یعنی موت کو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اپنے ہمعصروں کی موت سے عبرت پکڑو۔ اور فرمایا کہ کوئی شخص بھی اپنی موت کی تمنا نہ کرے اور نہ موت کے لیے دعا کرے، کیونکہ جب انسان مر جاتا ہے تو تمام اعمال انسان کے منقطع ہو جاتے ہیں۔‘‘
تواضع
انکساری یہ ہے کہ انسان کا نفس تکبر او رخودپسندی کے داعیہ کا اتباع نہ کرے اور لوگوں کو حقیر نہ جانے کیونکہ لوگوں پر زیادتی و ظلم اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھنا یہ انسان کے نفس کو بگاڑنے والی بات ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے دل میں ذرہ بھر بھی تکبر ہو تو وہ بہشت میں نہ جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، انسان پسند کرتا ہے کہ اس کا لباس اچھا ہو، جوتا اچھا ہو، تو کیا یہ تکبر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، یہ تکبر نہیں۔ تکبر لوگوں کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر جاننے سے ہوتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں اہلِ نار یعنی دوزخی نہ بتلاؤں۔ ہر اکڑنے والا، اکھڑ مزاج، مغرور آدمی اہل النار ہو گا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ ایک شخص تم سے پہلی امتوں میں سے تھا جو زمین پر اکڑ کر چلتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین میں دھنسا دیا۔ بس وہ قیامت تک زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔‘‘
حلم
بردباری، حوصلہ، آہستگی اور نرمی۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ انسان داعیہ غضب کے تابع نہ ہو۔ حتیٰ کہ وہ غوروفکر سے کام لے اور مصلحت کو دیکھے۔ غضب کے تمام مواقع مدفوع نہیں۔
اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
’’جو شخص رفق (نرمی) سے محروم ہوا وہ ہر قسم کی خیر سے محروم ہو گا۔ ایک شخص نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کچھ نصیحت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ مت کرو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بار بار فرمائی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں بتلاؤں کہ آگ پر کون لوگ حرام ہیں۔ ہر حلیم الطبع نرم اخلاق انسان آگ پر حرام ہے۔ اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے، پہلوان تو درحقیقت وہ ہے جو غصے کے وقت نفس پر قابو رکھتا ہو۔
صبر
نفس آرام طلبی، جزع فزع، شہوت، اترانے، راز کو ظاہر کرنے، اور موت کو ختم کرنے کے داعیہ کے تابع نہ ہو۔ یہ صبر ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب اجر ملے گا۔
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو صبر سے زیادہ افضل عطیہ اور اس سے زیادہ وسیع کوئی چیز نہیں ملی۔
(۴) عدالت
(عدل)۔ انسانیت کے بنیادی اخلاق میں سے ایک خلق اور خصلت ہے۔ قرآن و سنت میں اس کی اہمیت و ضرورت، ترغیب اور اس کی تحصیل کے ذرائع اور اس کے فضائل و مناقب بکثرت مذکور ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ان اللہ یامر بالعدل (نحل)
’’بے شک اللہ تعالیٰ عدل کرنے کاحکم دیتا ہے۔‘‘
وامرت لاعدل بینکم (شوریٰ)
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا، آپؐ لوگوں سے کہہ دیں کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
واذا حکمتم بین الناس ان تحکموا بالعدل (نساء)
’’کہ جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فاصلحوا بینھما بالعدل واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین (حجرات)
’’دو مخالف گروہوں کے درمیان اگر صلح کرانے کی نوبت آئے تو ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ صلح کراؤ، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قروبِ قیامت میں عدل کے قائم کرنے کے لیے ہو گا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قریب ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تمہارے درمیان حاکم بن کر فیصلہ کرنے والے اور عدل و انصاف قائم کرنے والے بن کر اتریں گے۔ اور ظہورِ امام مہدی کی غرض بھی حضور علیہ السلام نے یہی بیان فرمائی ہے جیسا کہ احادیث میں مذکور ہے کہ وہ ظاہر ہو کر زمین کو عدل وا نصاف سے پُر کریں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے پُر ہو گی۔
امام ابوبکر جصاصؒ نے احکام القرآن میں ’’ان اللہ یامر بالعدل والاحسان‘‘ آیت کے تحت لکھا ہے کہ عدل، جو انصاف کا نام ہے، یہ عقل کی نگاہ میں بھی واجب ہے۔ احکامِ شرع کے وارد ہونے سے قبل بھی شریعت نے آکر اس کی تائید کا حکم دیا ہے۔ اور احسان اس مقام میں تفصیل یعنی زیادتی اور زائد چیزوں کا دینا ہے اور یہ مستحب ہے، لیکن پہلا حکم یعنی عدل کرنا فرض ہے۔ ’’ایتآء ذی القربیٰ‘‘ میں صلہ رحمی کی تعلیم ہے اور ’’یامر بالعدل‘‘ میں عدل مشتمل ہے۔ قول اور فعل دونوں پر ’’واذا قلتم فاعدلوا‘‘ میں عدل فی القوم کا حکم دیا گیا۔
امام ولی اللہؒ نے بھی حجۃ البالغہ میں لکھا ہے:
ان من اعظم المقاصد التی قصدت بعثہ الانبیاء علیہم السلام دفع المظالم من بین الناس۔
’’انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے بڑے مقاصد میں سے یہ بھی ہے کہ لوگوں پر سے ظلم کو دور کیا جائے اور انہیں عدل و انصاف دلایا جائے۔‘‘
خود امام ولی اللہؒ نے حجۃ البالغہ میں دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ معاملات اور لین دین کے بارہ میں احکام اور اسی طرح نکاح وغیرہ کے متعلق احکامِ شریعت میں اس لیے مشروع قرار دیے ہیں تاکہ لوگوں میں عدل قائم کیا جائے۔
حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ایمان کے چار ستون ہیں: یقین، صبر، عدل اور جہاد۔ درحقیقت ارض و سما نظام بھی عدل و انصاف پر قائم ہیں، اور حکومتیں بھی دنیا میں عدل کی وجہ سے قائم رہتی ہیں۔ جب ظلم و جور شروع ہوتا ہے تو یکسر تباہی، اِدبار اور زوال آتا ہے۔
امام ولی اللہؒ نے جس طرح اس خصلت عدالت پر کلام کیا ہے اور اس کی تشریح و تفصیل جس طرح بیان کی ہے یہ ان کا خاص حصہ ہے اور ان کی حکمت کا خاص باب ہے۔ چنانچہ حکیم الامت امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ عدالت ان چار اہم اخلاق میں ایک ایسی خصلت ہے کہ جس پر عادلانہ نظام کا قیام اور کل سیاست (اجتماعی عمومی سیاست کا بہتر طریق پر قیام) موقوف ہے۔
اس خصلت کے بہت سے شعبے ہیں، مثلاً:
ادب
اگر آدمی مسلسل اپنی حرکات و سکنات پر نگاہ رکھے، اور ہر موقع اور محل کے اعتبار سے اچھی وضع اختیار کرے، اور ہر حادثہ میں اس چیز کے اختیار کرنے کی طرف راہ پائے جو بہتر ہے، اور ہمیشہ اس کے اختیار کرنے کی طرف اس کے دل کا میلان اور جذب ہوتا رہے تو اس کو ادب کہتے ہیں۔
کفایت
اگر انسان اپنی کارسازی، جمع و خرچ، خرید و فروخت اور تمام معاملات میں اچھی تدبیر قائم کر لے تو اس کو کفایت کہتے ہیں۔
حریت
جس کی وجہ سے تدبیر منزل اچھے طریقے پر قائم کرے، اس کو حریت کہتے ہیں۔
سیاست مدینہ
اور جس کی وجہ سے ملک اور لشکر وغیرہ کی تدبیر اچھی طرح کر سکے اس کو سیاستِ مدینہ کہتے ہیں (یعنی ملک اور شہر کی بہتر سیاست)۔
حسن معاشرت
جس کی وجہ سے اپنے بھائی بندوں کے ساتھ اچھی وضع سے زندگی بسر کر سکے، اور ہر ایک کا حق ادا کرے، اور ہر ایک کے ساتھ حسبِ حال الفت و بشاشت کے ساتھ پیش آئے، اس کو حسنِ معاشرت کہتے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ ان سب خصائل کی اصل ایک ہے اور وہ یہ کہ نفسِ ناطقہ اس طرح واقعہ ہو کہ اچھا نظام اختیار کرے اور اس نظام کی صدور کی طرف آگے بڑھے۔ جس شخص میں یہ خصلت (عدالت) پوری طرح متحقق ہو گی اس کے درمیان اور حق تعالیٰ کی جود اور فیضان کے وسائط (ملاء اعلیٰ کے فرشتے اور مقربین) جن کی فطرت میں عادلانہ نظام قائم کرنا رکھا ہوا ہے، اور جن کی قوی درجہ کی ہمت و توجہ عادلانہ نظام کے استحسان کی طرف ہوتی ہے، ان کے درمیان اور اس شخص کے درمیان بلیغ مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ اور اس جماعت (ملاء اعلیٰ) کے دل سے اس شخص کی طرف نورانی دقائق (نہایت ہی لطیف قسم کی شعاعیں) جیسا کہ سورج کی شعاعیں ہوتی ہیں، میلان کرتی ہیں۔ اور اس شخص کے حق میں یہ دقائق بہت سی نعمت اور خاصیت کا پیش خیمہ بنتی ہیں۔ اور اس نعمت و خاصیت اور انس کا تمثل استعداد کے مناسب مختلف صورتوں میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ کوئی شخص تو اچھے ساتھیوں اور بھائیوں کی حسنِ معاشرت کی صورت میں دیکھتا ہے، اور کوئی عمدہ خوشگوار طعام کی شکل میں، یا عمدہ لباس، روشن اور خوبصورت مکان کی شکل میں، یا اچھی مرغوب بیوی کی شکل میں دیکھتا ہے۔ علیٰ ہذا القیاس اس کی اشکال و صورتیں طرح طرح کی ہوں گی۔
لیکن جو شخص عادلانہ نظام کے قیام کا مخالف ہوتا ہے اور شریعت کے حکم کا انکار کرتا ہے اور ایسے اعمال و افعال کرتا رہتا ہے جس سے جمہور امام یعنی عوام الناس تکلیف و ایذا پاتے ہیں، تو اس کے درمیان اور ان وسائطِ جودِ الٰہی کے درمیان نفرت اور وحشت ظاہر ہوتی ہے، اور دقائق ظلمانیہ (تاریک شعاعیں) ان کی طرف سے اس شخص کی طرف میلان کرتی ہیں، اور اس شخص پر ہر طرف سے تنگی و ضیق ہجوم کرتی ہے۔ اس صفت عدالت کے اکتساب کے لیے شریعت نے عیادتِ مریض (بیمار پرسی)، سلام کرنا، حدود اور آداب کی رعایت لازم قرار دی ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ صفت عدالت (عدل) اجتماعیات میں نہایت ضروری ہے۔ سب لوگ اس کو جانتے ہیں کیونکہ انسان بالطبع اجتماعیت پسند واقع ہوا ہے، اور انسان اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ کوئی اجتماع بھی بغیر عدل کے قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ عدالت انسانیت کے مساوی اور اس کے ساتھ لازم ہے۔ ہر شخص، خاندان، گھرانہ، قبیلہ اور امت جب تک عدل کے ایک معتد بہ اور اچھے خاصے حصہ سے نہ اختیار کرے اور اس سے اچھی طرح دلچسپی نہ لے وہ انسانیت کے اعتبار سے کسی قابل نہیں۔
امام ولی اللہؒ کی حکمت میں عدالت کی صفت کا مرتبہ تینوں سابقہ مذکورہ اخلاق کے اوپر مرتب ہوتا ہے۔ اگر انسان طہارت اور سماحت کی صفت سے موصوف ہو لیکن اس میں عدالت کی صفت موجود نہ ہو تو ان سابقہ خصلتوں کا کچھ بھی وزن اور اعتبار نہ ہو گا، اور ایسے شخص کا دین میں ذرہ بھر بھی کوئی اعتماد اور حصہ نہ ہو گا۔ اگرچہ یہ بات ۔۔ ہے یا محال ہے کیونکہ جو شخص بھی طہارت، اخبات اور سماحت سے متصف ہو گا لامحالہ وہ صفتِ عدالت سے بھی متصف ہو گا۔
امام ولی اللہؒ مامورات میں ان چاروں اخلاق کو اور منہیات میں ان کی اضداد کو تمام دین کا مرجع قرار دیتے ہیں۔ ان خصلتوں کے ساتھ اگر تعظیم شعائر اللہ کی صفت کو بھی ملا لیا جائے تو امام ولی اللہؒ اس کو دین کا خلاصہ بتاتے ہیں جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔
حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ عدالت (عدل) ایک ایسا ملکہ ہے انسان کے نفس میں جس کی وجہ سے ایسے افعال آسانی سے سرزد ہوتے ہیں جن پر اجتماعی نظام، نظامِ ملک اور نظامِ مدینہ قائم ہوتا ہے۔ اور اس صفت کی وجہ سے نفس اس طرح ہوتا ہے کہ ان افعال کے سرانجام دینے پر گویا فطرتاً مجبور ہو۔ اور اس میں راز یہ ہے کہ ملائکہ اور نفوسِ مجردہ، جو مادی اور جسمانی تعلقات سے مجرد ہوتے ہیں، جہان کو پیدا کرنے کا یا نظام کی اصلاح وغیرہ کا، تو ان نفوسِ مجردہ کی مرضیات اس ارادۂ الٰہی کے مطابق ہو جاتی ہیں، یہ مجرد طبیعت کا خاصہ ہے۔
جب یہ نفوس جسم سے جدا ہوتے ہیں تو صفتِ عدالت کا کوئی حصہ اگر ان میں موجود ہو تو وہ نفوس پوری طرح خوش ہوتے ہیں اور اس لذت کی طرف راہ پاتے ہیں (یعنی لذت) جو غسیس لذت سے بالکل الگ اور جدا نوعیت کی ہوتی ہے۔ اور اگر نفوس جسم سے ایسی حالت میں جدا ہوں جب کہ ان میں اس صفتِ عدالت کی ضد موجود ہو تو ان نفوس کا حال بہت تنگ ہو گا اور یہ وحشت ناک ہوں گے اور نہایت درجہ کا درد اور دکھ اپنے اندر پائیں گے۔
جب سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں دین کی اقامت کے لیے، اور لوگوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی میں لانے کے لیے، اور اس لیے کہ لوگ عدل قائم کریں، انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام مبعوث فرمائے ہیں، پس جو شخص اس نور کی اشاعت کے لیے کوشش کرتا ہے اور لوگوں میں اس کے لیے راہ ہموار کرتا ہے تو ایسا شخص مرحوم ہوتا ہے، اس پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ اور جو شخص اس کو رد کرنے کے لیے کوشش کرتا ہے اور اس کو بے قدر کرنے اور مٹانے کی کوشش کرتا ہے تو ایسا شخص ملعون ہوتا ہے اور مردود ہوتا ہے۔
اور جب عدالت کی صفت انسان میں راسخ ہو جاتی ہے تو اس شخص کے درمیان اور حاملینِ عرش اور بارگاہِ الٰہی کے مقربین، جو ملائکہ ہیں اور جود و برکات کے نزول کے وسائط ہیں، کے درمیان ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جو ان مقربین کے الوان (رنگ) کے نزول کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اور نفس اس قابل ہو جاتا ہے کہ اس پر ملائکہ کا الہام نازل ہو سکے اور اس الہام کے مطابق اٹھ کر کام کر نے کے قابل بن جاتا ہے۔ امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں: اس صفتِ عدالت کے اسباب سنتِ راشدہ کی حفاظت کو قرار دیا گیا، اس کی پوری تفصیل کے ساتھ۔ عدالت ایک ایسا ملکہ ہے جس سے نظامِ عادل، مصلح، تدبیرِ منزل اور سیاستِ مدینہ وغیرہ سہولت سے صادر ہوتے ہیں۔ اور اس کی اصل نفسانی جبلت ہے جس سے افکار کلیہ اور ایسی سیاست جو اللہ کے نزدیک اور ملائکہ کے نزدیک مناسب ہوتی ہے، صادر ہوتی ہے۔ کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے جہان میں لوگوں کے نظام کے انتظام کا ارادہ فرمایا، اور یہ ارادہ فرمایا کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور ایک دوسرے سے الفت رکھیں اور جسدِ واحد کی طرح ہو جائیں، جب ایک عضو دکھ درد میں مبتلا ہو تو تمام جسم میں بخار، بے چینی، بیداری، بے خوابی تمام اعضاء جسم میں پیدا ہو جائے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ارادہ فرمایا کہ انسان کی نسل (نوع انسانی) زیادہ ہو، پھلے پھولے، اور یہ کہ فاجر آدمی کو ڈانٹ ڈپٹ پلائی جائے اور عادل آدمی کی تعظیم و تکریم کی جائے، اور رسومِ فاسد کو مٹایا جائے اور خیر کی تشہیر کی جائے اور قوانینِ حقہ کو ان میں پھیلایا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے بارہ میں یہ اجمالی فیصلہ فرمایا ہے اور یہ باتیں اس کی شرح اور تفصیل ہیں۔ ملائکہ مقربین اس بات کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاتے ہیں اور پھر وہ دعا کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، اور لعنت بھیجتے ہیں ان پر جو لوگوں میں فساد و بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
’’اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور اچھے اعمال کیے کہ وہ ان کو زمین میں خلافت بخشے گا، جیسا کہ اس نے پہلے لوگوں کو خلافت بخشی تھی، اور اللہ تعالیٰ ان کے لیے دین کو مضبوط کر دے گا جس دین کو اس نے ان کے لیے پسند فرمایا ہے، اور ان کے لیے خوف کے بعد امن پیدا کر دے گا، وہ میری ہی عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے، جس نے ان کے بعد ناشکرگزاری کی تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں اور پختہ عہد کو توڑتے نہیں، اور جو اس چیز کو ملاتے اور جوڑتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے ملانے اور جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے برخلاف جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد و پیمان کو مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں، اور جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیا گیا ہے اس کو توڑتے ہیں، یہ ان کی ضد ہیں۔‘‘
پس جو شخص اعمالِ مصلحہ کا انجام دیکھنے والا ہو گا اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو گی اور فرشتوں کی دعائیں اس کے شاملِ حال ہوں گی۔ جہاں سے اس کو وہم و گمان بھی نہ ہو گا اور وہاں سے اس پر دقیق دقائق (خاص قسم کی نورانی شعائیں) نازل ہوں گی، جیسا کہ سورج یا چاند کی لطیف شعائیں ہوتی ہیں، اس کا احاطہ کریں گی، تو ان کی وجہ سے ملائکہ اور لوگوں کے قلوب میں الہام نازل ہوتا ہے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں اور ایسے لوگوں کی ارض و سماء میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب ایسا شخص عالمِ تجرد کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ان دقائق (نورانی شعاعوں) کو، جو اس عالم میں اس کے ساتھ مدخیل ہوتی ہیں، محسوس کرتا ہے اور ان سے لطف اندوز ہوتا ہے، اور اس کی وجہ سے وسعت و کشادگی اور مقبولیت پاتا ہے، اور اس کے درمیان اور ملائکہ کے درمیان ایک دروازہ کھل جاتا ہے۔
اس کے برخلاف جو شخص اعمالِ مفسدہ انجام دیتا ہے تو اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب اور ملائکہ کی لعنت برستی ہے۔ اور یہاں پر ایسے تاریک دقائق (ظلماتی شعاعیں) اس غضب سے اٹھ کر اس شخص کا احاطہ کرتی ہیں، یہ سبب بنتی ہیں ملائکہ اور انسان کے قلوب میں الہام کا کہ اس شخص کے ساتھ وہ برا سلوک کریں، اور اس کے لیے زمین و آسمان میں نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ اور جب یہ عالمِ تجرد کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ان دقائق کو محسوس کرتا ہے کہ ان کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں، اس کا نفس اس کی وجہ سے تکلیف اور دکھ پاتا ہے، تنگی اور نفرت اس کا ہر طرف سے احاطہ کرتی ہے، اس پر زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ ہو جاتی ہے۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ عدالت (عدل) کا اعتبار جب انسان کے مختلف اوضاع اطوار کے ساتھ کیا جاتا ہے، مثلاً قیام، قعود، نیند، بیداری، چلنا پھرنا، کلام، لباس، فیشن اور زینت وغیرہ، تو اس کو ادب کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار اموال کے جمع و خرچ کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو کفایت (شعاری) کہتے ہیں۔
اور جب اس کا اعتبار تدبرِ منزل کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو حریت کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار تدبیرِ مدینہ (شہر اور ملک کی تدبیر) کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو سیاست کہتے ہیں۔ اور جب اس کا اعتبار اپنے اخوان و احباب کی تالیف کے اعتبار سے کیا جاتا ہے تو اس کو حسن المحاضرہ یا حسن المعاشرہ کہتے ہیں۔
اور اس صفتِ عدالت کو حاصل کرنے کے لیے عمدہ تدابیر یہ ہیں: رحمت و مودت، رقۃ القلب (قسوت قلب کا نہ ہونا)، افکار کلیہ کا انقیاد، اور امور کے عواقب و انجام پر نظر رکھنا ہے۔ عدالت کی مشق کرنے والا اپنے اوپر ہر چیز کا حق خیال کرتا ہے۔ مثلاً دائیں ہاتھ کو کھانے اور اچھے کاموں کے لیے استعمال کرے گا، اور بائیں ہاتھ کو ازالہ نجاست کے لیے اور حقیر کاموں کے لیے۔ بعض کام ملائکہ کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں اور بعض کام ایسے ہیں جو شیاطین کے ساتھ مناسبت ہیں۔ جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے، اور مقطوع الاعضا انسان (بد وضعی میں) شیطان جیسا ہے۔ اور فرمایا کہ تم اپنی صفیں ملائکہ کی طرح کیوں نہیں بناتے۔
مواقع عدالت
امام ولی اللہؒ نے کچھ جزئیات بیان کیے ہیں اور احادیث سے کچھ مثالیں ذکر کی ہیں جن سے عدالت کے مواقع پر روشنی پڑتی ہے۔ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدالت کے بڑے بڑے ابواب پر تنبیہ فرمائی ہے اور اس کے مواقع بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرنے کے محاسن بیان فرمائے ہیں اور اس کی ترغیب دی ہے اور اس کی مختلف قسمیں ذکر فرمائی ہیں۔ مثلاً اہلِ منزل کی آپس میں محبت اور الفت، اور قبیلہ والوں اور اہلِ شہر اہلِ ملک کے ساتھ حسنِ معاشرت، اور عظماء ملت کی تعظیم و توقیر، اور ہر ایک کو اس کے مرتبہ پر اتارنے کا حکم وغیرہ۔
چند احادیث جو عدالت کے باب سے تعلق رکھتی ہیں انہیں ذکر کیا ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن کئی کئی ظلمتیں بن کر سامنے آئے گا۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر تمہارے خون، مال اور آبرو کو اس طرح محترم قرار دیا ہے کہ جس طرح تمہارا یہ حجۃ الوداع یا عرفہ کا دن تمہارے اس شہر مکہ میں محترم ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان محفوظ رہیں۔ اور فرمایا بخدا جو شخص کسی کا حق ناحق دبا لے گا تو قیامت کے دن اسی کو اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے ہو گا۔ اگر اونٹ ہے تو بڑبڑاتا ہوا آئے گا، اور گائے بیل ہیں تو وہ آواز کرتے ہوئے، اور بھیڑ بکریاں ہیں تو وہ بولتی ہوئی اس کی گردن پر سوار ہوں گی۔ اور جس نے ایک بالشت بھر زمین کسی کی دبا لی تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں کو اتنی مقدار میں اس کی گردن میں ڈال دیا جائے گا اور اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسا ہے جیسا کہ دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کے لیے مضبوطی کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اور مسلمانوں کی مثال آپس میں مودت و رحمت اور مہربانی کے لحاظ سے جسمِ واحد کی طرح ہے، جب جسم کا ایک حصہ درد و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے مثلاً تو سارے جسم میں تکلیف ہوتی ہے، بخاری اور بیداری لاحق ہوتی ہے۔
اور فرمایا، جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس پر اللہ تعالیٰ بھی رحم نہیں کرتا۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کر سکتا ہے اور نہ اس پر ظلم برداشت کر سکتا ہے۔ او رفرمایا کہ جو شخص اپنے کسی بھائی کی ضرورت کے پورا کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی حاجت کو پورا کرتا ہے۔ اور جو کسی مسلمان سے تکلیف کو دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پریشانیوں کو قیامت کے دن دور فرمائیں گے۔ اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی قیامت کے دن فرمائیں گے۔ تم سفارش کرو تم کو اجر ملے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے فیصلہ کرتا ہے جس بات کو پسند فرماتا ہے۔
اور فرمایا کہ دو انسانوں کے درمیان انصاف کرو یہ بھی صدقہ ہے۔ اور کسی آدمی کو سواری پر سوار کرنے میں مدد دو یہ بھی صدقہ ہے۔ اور پاکیزہ کلمہ منہ سے نکالنا یہ بھی صدقہ ہے۔ کسی کا سامان اٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص یتامیٰ اور بیواؤں اور مساکین کے لیے ان کی ضروریات اور حوائج پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہوتا ہے۔ اور فرمایا کہ جو شخص ان بیٹیوں کے ساتھ مبتلا کیا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ بیٹیاں اس کے لیے دوزخ کی آگ کے سامنے ستر بن جائیں گی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ تم لوگوں کو عورتوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی وصیت (تاکید) کی جاتی ہے۔ عورتوں میں فطرتاً کجی ہوتی ہے تو اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی۔ اور فرمایا کہ جبرائیلؑ برابر مجھے پڑوسیوں کے بارے میں تاکید کرتے رہے حتیٰ کہ میں نے گمان کیا کہ شاید وہ پڑوسی کو وراث بنانا چاہتے ہیں۔ اور آپ علیہ السلام نے فرمایا، اے ابو ذرؓ! جب تم شوربا بناؤ تو پانی زیادہ ڈالو اور پڑوسی کا خیال رکھو۔ اور فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ وہ شخص ہم میں سے نہیں جو چھوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا۔ اور فرمایا کہ لوگوں کو ان کے مرتبہ پر اتارو۔ اور یہ بھی ارشاد ہوا کہ جو شخص بیمار کی مزاج پرسی کرے گا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرے گا اور جنت میں جگہ بنائے گا۔
یہ چند مثالیں ہیں جن میں عدالت کے مواقع اور مظان کا ذکر کیا ہے۔
امام ولی اللہؒ حجۃ البالغہ میں لکھتے ہیں کہ یہ چار خصلتیں ایسی ہیں کہ تم ان کی حقیقت کو اچھی طرح چھان بین کر لو گے اورا س بات کو جان لو گے کہ یہ اخلاق کس طرح کمال علمی اور عملی کا اقتضا کرتے ہیں، اور کس طرح یہ اخلاق ایک ایک انسان کو ملائکہ کے سلسلہ میں منسلک کرتے ہیں، اور تم نے یہ سمجھ لیا کہ کس طرح شرائعِ الٰہیہ ہر زمانہ میں ان اخلاقِ اربعہ سے پھوٹتے رہے ہیں، تو تم کو خیر کثیر دی گئی اور تم فی الواقع فقیہ فی الدین ہو گئے۔ ان میں سے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بہتری اور خیر کا ارادہ فرمایا ہے، اور ان اخلاق کے ساتھ تلبس اور تمسک اختیار کرنے سے انسان میں جو ایک مرکب حالت پیدا ہوتی ہے اس کو فطرت کہتے ہیں۔ اس فطری حالت کو حاصل کرنے کے کئی اسباب ہیں، بعض علمی اور بعض عملی۔ اور کچھ حجابات ہیں جو انسان کو اس فطری حالت سے روکتے ہیں، اور کچھ تدابیر ہیں جن سے ان حجابات کو توڑا جاتا ہے اور رفع کیا جاتا ہے۔ ان سب کی تفصیل امام ولی اللہؒ نے بیان فرمائی ہے۔
امام ولی اللہؒ اپنی کتاب الطاف القدس میں لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان چار خصلتوں پر متنبہ فرمایا ہے اور ان کی رعایت، نگرانی اور حفاظت کا حکم دیا ہے اور ان کی اضداد سے نہی فرمائی ہے۔ اگر تم اچھے طریقے پر غور کرو اور گہرائی سے اس کو معلوم کرنا چاہو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ نیکی (بر) تمام انواع و اقسام انہیں چار خصلتوں کی شرع اور تفصیل ہے، اور اثم (بدی) اور گناہ کے تمام اقسام ان کی اضداد کی تفصیل و تضریع ہے۔
تمام انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام نے ان کی طرف دعوت دی ہے اور ان کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، اور ان کے منسوخ ہونے کی کوئی صورت نہیں اور ان میں تغیر و تبدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ مختلف انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں کا اگر اختلاف ہے تو صرف ان کے اشکال و قوالب میں یعنی ظاہری سانچے اور شکل و صورت کا ہی اختلاف ہے ورنہ حقیقت اور مغز شارع علیہ السلام کی شریعت میں ایک ہی ہے۔ یہ صرف لباس کی تبدیلی ہے اور لباس کی تبدیلی سے صاحبِ لباس نہیں بدل جاتا۔
پس طہارت کی صفت سے ملائکہ کی مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اور خضوع کے ذریعہ ملاء اعلیٰ کی نقل و مشابہت پیدا ہو جاتی ہے، اور سماحت کے ذریعہ رذیل صفات انسان سے برطرف ہوتے ہیں، اور عدالت کے ذریعہ ملاء اعلیٰ کی رضا اور ان کی موافقت حاصل ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کی جانب سے راحت اور رحمت حاصل ہوتی ہے۔
امام ولی اللہؒ فرماتے ہیں کہ شریعت کی تدبیر انسان کی رہنمائی کے لیے دونوں طرف سے متوجہ ہوتی ہے:
ایک تو اصلاح کے ذریعہ اچھے اعمال کرنے سے، اور برے اعمال سے اجتناب کرنے سے جن کو کبائر کہتے ہیں، اور ملتِ حقہ کے شعائر کو قائم کرنے سے۔ ان تینوں چیزوں کے وقت اور حد کا تعین کیا گیا ہے اور تمام مکلفین پر ان کی پابندی لازم قرار دی گئی ہے اور اسی کو ظاہرِ شریعت اور اسلام کہتے ہیں۔
اور دوسری بات نفوس کی تہذیب ہے ان اخلاقِ اربعہ کے ذریعہ۔ اور ان کی صورت یہ ہو گی کہ نیکی (بر) کی اشباہ و اشکال یعنی ظاہری شکل و صورت سے بڑھ کر ان کے انوار تک پہنچنے سے تہذیب حاصل ہو گی۔ اور اسی طرح اثم (گناہ) کی صورتوں سے بچنے کے ساتھ ان کے باطنی معانی اور مفاسد سے بچنے کے ساتھ جن کے متعلق نہی وارد ہوئی ہے، اور اسی کو باطنِ شریعت اور احسان کہتے ہیں۔
’’حماس اسرائیل جنگ‘‘ کی خبری سرخیاں
روزنامہ جنگ
اکتوبر 2023ء
غزہ کے واحد بجلی گھر کا ایندھن ختم، بجلی کی فراہمی مکمل منقطع — 11 اکتوبر
حماس سے جنگ اربوں ڈالر مہنگی پڑ جائے گی، اسرائیلی بینک کی وارننگ — 11 اکتوبر
اسرائیل فلسطین تنازع کے پھیلاؤ سے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں، روسی صدر پیوٹن — 11 اکتوبر
امریکا اسرائیل۔فلسطین کشیدگی کا پھیلاؤ نہیں چاہتا، مشیر قومی سلامتی — 11 اکتوبر
برطانوی و اسرائیلی وزیر فلسطینی حملے کا سائرن بجتے ہی بھاگ کھڑے ہوئے — 11 اکتوبر
اسرائیل فلسطین تنازع، سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہوگا — 12 اکتوبر
اسرائیل کو خبردار کیا تھا غزہ پھٹ پڑے گا، مصر — 12 اکتوبر
اسرائیل فلسطین تنازع کا 2 ریاستی حل نکالا جائے، چین — 12 اکتوبر
ایرانی صدر کا محمد بن سلمان سے پہلا ٹیلیفونک رابطہ — 12 اکتوبر
حماس کے حملوں میں ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد 1300 ہو گئی — 12 اکتوبر
اسرائیل پر حماس کے حملے، 22 امریکیوں کی ہلاکت کی تصدیق — 12 اکتوبر
سعودی ولی عہد اور ترک صدر کی مسئلہ فلسطین پر گفتگو — 12 اکتوبر
غزہ میں اسرائیلی مظالم دیکھ کر ایمبولینس ڈرائیور رو پڑا — 12 اکتوبر
عرب لیگ کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ — 12 اکتوبر
غزہ میں اسکولوں، اسپتال، یو این مراکز کو نشانہ نہ بنایا جائے: سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ — 12 اکتوبر
اسرائیلی فوج نے حماس کے حملوں میں اپنے جانی نقصان کی تعداد بتا دی — 12 اکتوبر
اسرائیل: 10 گھنٹے کے وقفے کے بعد سائرن بجنے لگے، متعدد دھماکے — 12 اکتوبر
امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن اسرائیل پہنچ گئے، نیتن یاہو سے ملاقات — 12 اکتوبر
پاکستان کا غزہ میں فلسطینیوں پر غیر انسانی بمباری فوری روکنے کا مطالبہ — 12 اکتوبر
اماراتی صدر شیخ محمد بن زید اور امریکی صدر جوبائیڈن کا ٹیلی فونک رابطہ — 12 اکتوبر
غزہ میں بجلی بند، اسپتال مردہ خانوں میں تبدیل ہونے کا خطرہ — 12 اکتوبر
جرمنی کا حماس کی سرگرمیوں پر پابندی کا اعلان — 12 اکتوبر
مسلم ممالک فلسطین اور اسرائیل مبں ثالث کا کردار ادا کریں: گورنر سندھ کامران ٹیسوری — 12 اکتوبر
غزہ میں جنگ بندی کی عالمی کوششیں تیز — 12 اکتوبر
ترکیہ کی اسرائیل فلسطین تنازع میں ثالثی کی پیشکش — 12 اکتوبر
حماس غزہ کے فلسطینیوں کے مفاد کے لئے ہرگز کام نہیں کر رہی ہے، امریکی وزیر خارجہ — 12 اکتوبر
حق دفاع اور مزاحمت جائز ہے، شام اور ایران کا فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان — 12 اکتوبر
اسرائیل کے دفاع کا امریکی صدر کا جھوٹ پکڑا گیا — 12 اکتوبر
صدر اردوان کا اماراتی صدر شیخ محمد سے رابطہ، اسرائیل فلسطین تنازع پر گفتگو — 12 اکتوبر
غزہ میں اسرائیلی جارحیت: شہید فلسطینیوں کی تعداد 1417 ہوگئی — 12 اکتوبر
فلسطینیوں کی آزادی تک جنگ جاری رہے گی، حماس — 12 اکتوبر
فضل الرحمان کا کل ملک بھر میں یوم طوفان اقصٰی منانے کا اعلان — 12 اکتوبر
اسرائیل کےخلاف حماس کی کارروائیوں کی ویڈیو رپورٹ جاری — 12 اکتوبر
1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے اب تک کئی جنگیں ہوچکیں — 12 اکتوبر
1948 میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے اب تک کئی جنگیں ہوچکیں — 12 اکتوبر
اسرائیلی حملوں کی رپورٹنگ کرتی خاتون رپورٹر رو پڑیں — 12 اکتوبر
اسرائیل کا غزہ پر 6 ہزار بم گرانے کا اعتراف — 13 اکتوبر
دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے — 13 اکتوبر
برطانیہ اسرائیل کی مدد کیلئے رائل نیوی کے جہاز بھیجے گا — 13 اکتوبر
اسرائیل میں امریکی شہریوں کیلئے خصوصی پروازوں کا اعلان — 13 اکتوبر
حزب اللّٰہ اسمارٹ، اسرائیلی وزیر دفاع احمق ہیں، ٹرمپ — 13 اکتوبر
غزہ میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 1800ہوگئی — 13 اکتوبر
اسرائیل نے زمینی حملہ کیا تو فوج کو نیست و نابود کردیں گے، حماس — 13 اکتوبر
اسرائیلی وزیرِ اطلاعات گالیت ڈسٹل اچانک مستعفی — 13 اکتوبر
اسرائیل کا الٹی میٹم، حماس کا غزہ نہ چھوڑنے کا اعلان — 13 اکتوبر
امریکی وزیرِ خارجہ کے بعد وزیرِ دفاع بھی اسرائیل پہنچ گئے — 13 اکتوبر
اسرائیل غزہ اور لبنان پر بمباری میں سفید فاسفورس استعمال کر رہا ہے: ہیومن رائٹس واچ — 13 اکتوبر
اسرائیل فلسطین جنگ، بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں سیکیورٹی الرٹ — 13 اکتوبر
فلسطینیوں سے یکجہتی، ملک بھر میں ریلیاں اور مظاہرے — 13 اکتوبر
امامِ حرم فلسطینیوں کے لیے دعا کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے — 13 اکتوبر
حماس کے پاس جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ — 13 اکتوبر
عرب سر زمین پر اسرائیل ناسور بن چکا ہے: مولانا فضل الرحمٰن — 13 اکتوبر
پاکستان علماء کونسل کی اپیل پر آج ملک بھر میں یوم یکجہتیٔ فلسطین منایا جا رہا ہے — 13 اکتوبر
ہارورڈ یونیورسٹی میں 30 سے زائد طلبہ تنظیموں کا اسرائیلی بربریت کیخلاف مظاہرہ — 13 اکتوبر
امریکی وزیر خارجہ کی امیر قطر سے دوحہ میں ملاقات، اسرائیل، غزہ کشیدگی پر گفتگو — 13 اکتوبر
اسرائیلی فوجی دستے غزہ پٹی میں داخل، کچھ دیر بعد واپس — 13 اکتوبر
فلسطینی عوام پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج — 13 اکتوبر
سعودیہ نے غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلا مسترد کردیا — 14 اکتوبر
اسرائیل کا غزہ سے فلسطینیوں کے انخلاء کا حکم خطرناک ہے: انتونیو گوتریس — 14 اکتوبر
پاک بھارت میچ سے قبل انتظامیہ پان اور گٹکا کھانے والوں سے پریشان — 14 اکتوبر
اسرائیلی فوج کا حماس کے 2 رہنماؤں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ — 14 اکتوبر
پابندیوں کے باوجود ہمیں اپنی توجہ غزہ پر رکھنے کی ضرورت ہے، فاطمہ بھٹو — 14 اکتوبر
حکومت کو فلسطین کے معاملے پر واضح مؤقف اختیار کرنا چاہیے، خالد مقبول — 14 اکتوبر
لبنان میں خبر ایجنسی کے ویڈیو گرافر کی ہلاکت فلسطین اسرائیل تنازع پھیلنےکا خطرہ ظاہر کرتی ہے، انتونیو گوتریس — 14 اکتوبر
جوزپ بوریل نے بھی شمالی غزہ کے فلسطینیوں کے انخلاء کو ناممکن قرار دے دیا — 14 اکتوبر
کراچی: فلسطینیوں سے یکجہتی، بار ایسوسی ایشن اور جماعت اسلامی کی ریلی — 14 اکتوبر
سعودی عرب نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کیلئے گفتگو روک دی — 14 اکتوبر
عرب ٹی وی کے اینکر کے سابق نائب اسرائیلی وزیر سے سخت سوالات — 14 اکتوبر
غزہ کی صورتحال: امریکی کانگریس اراکین کا صدر بائیڈن کو خط — 14 اکتوبر
اسرائیل کی غزہ پر بربریت رکوانے کیلئے روس میدان میں آگیا — 14 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی ڈیڈلائن کے دوران بھی بمباری، جنوبی غزہ جانے والے 250 فلسطینی شہید — 14 اکتوبر
سی این این کی صحافی نے اسرائیلی دعووں کی تائید کرنے پر معافی مانگ لی — 14 اکتوبر
فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی 15ہزار افراد کا بی بی سی ہیڈکوارٹر کا گھیراؤ — 14 اکتوبر
اسرائیل فلسطین کشیدگی، انسانی المیے میں مدد کیلئے اتحادیوں کیساتھ کام جاری ہے، صدر بائیڈن — 14 اکتوبر
بی بی سی حماس کو دہشت گرد کیوں نہیں کہتا، سوال کرنا برطانوی وزیر کو مہنگا پڑ گیا — 14 اکتوبر
غزہ میں انسانی بحران کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، مارٹن گریفتھس — 14 اکتوبر
اسرائیلی جارحیت کیخلاف صحافتی تنظیموں کا کراچی پریس کلب پر احتجاج — 14 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی غزہ میں تین طرف سےحملہ کرنے کی دھمکی — 14 اکتوبر
برطانیہ، فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے — 15 اکتوبر
اسماعیل ہنیہ کا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام خط، اسرائیل پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد — 15 اکتوبر
غزہ کے اسپتالوں سے مریضوں کی بے دخلی سزائے موت کے مترادف ہے: ڈبلیو ایچ او — 15 اکتوبر
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں اضافہ — 15 اکتوبر
اسرائیلی حملوں میں فلسطینی شہداء کی تعداد 2329 ہو گئی — 15 اکتوبر
عرب ٹی وی کے اینکر کے سابق نائب اسرائیلی وزیر سے سخت سوالات — 14 اکتوبر
غزہ کی صورتحال: امریکی کانگریس اراکین کا صدر بائیڈن کو خط — 14 اکتوبر
اسرائیل کی غزہ پر بربریت رکوانے کیلئے روس میدان میں آگیا — 14 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی ڈیڈلائن کے دوران بھی بمباری، جنوبی غزہ جانے والے 250 فلسطینی شہید — 14 اکتوبر
سی این این کی صحافی نے اسرائیلی دعووں کی تائید کرنے پر معافی مانگ لی — 14 اکتوبر
فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی 15ہزار افراد کا بی بی سی ہیڈکوارٹر کا گھیراؤ — 14 اکتوبر
اسرائیل فلسطین کشیدگی، انسانی المیے میں مدد کیلئے اتحادیوں کیساتھ کام جاری ہے، صدر بائیڈن — 14 اکتوبر
بی بی سی حماس کو دہشت گرد کیوں نہیں کہتا، سوال کرنا برطانوی وزیر کو مہنگا پڑ گیا — 14 اکتوبر
غزہ میں انسانی بحران کی صورتحال تیزی سے بگڑ رہی ہے، مارٹن گریفتھس — 14 اکتوبر
اسرائیلی جارحیت کیخلاف صحافتی تنظیموں کا کراچی پریس کلب پر احتجاج — 14 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی غزہ میں تین طرف سےحملہ کرنے کی دھمکی — 14 اکتوبر
برطانیہ، فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے مظاہرے — 15 اکتوبر
اسماعیل ہنیہ کا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے نام خط، اسرائیل پر جنگی جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد — 15 اکتوبر
غزہ کے اسپتالوں سے مریضوں کی بے دخلی سزائے موت کے مترادف ہے: ڈبلیو ایچ او — 15 اکتوبر
عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں اضافہ — 15 اکتوبر
اسرائیلی حملوں میں فلسطینی شہداء کی تعداد 2329 ہو گئی — 15 اکتوبر
اسرائیل فلسطین تنازع: چینی وزیرِ خارجہ کا سعودی ہم منصب سے فون پر رابطہ — 15 اکتوبر
اسرائیل کی غزہ کے نہتے فلسطینیوں کو انخلاء کی پھر دھمکی — 15 اکتوبر
حماس اسرائیل جنگ: چینی سفیر اگلے ہفتے مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کریں گے — 15 اکتوبر
اسرائیلی فوج نے جنگ کا دائرہ بڑھانے کا اشارہ دیدیا — 15 اکتوبر
مختلف شہروں میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے — 15 اکتوبر
اسرائیل کا لبنانی سرحد پر جنگی حالت نافذ کرنے کا فیصلہ — 15 اکتوبر
جنگ کےاگلےمرحلےکاوقت آپہنچا:اسرائیلی وزیرِ اعظم — 15 اکتوبر
عالمی برادری فلسطینیوں کا قتل عام رکوائے، مریم نواز — 15 اکتوبر
عاطف اسلم نے بھی فلسطین کے مظلوموں کے لیے آواز اٹھا دی — 15 اکتوبر
ایرانی وزیر خارجہ کی قطر میں حماس چیف اسماعیل ہنیہ اور امیر قطر سے ملاقات — 15 اکتوبر
اسرائیلی فوج دھوکے بازی پر اتر آئی، امریکی میڈیا نے پول کھول دیا — 15 اکتوبر
عالمی برادری فوری طور پر اسرائیلی بمباری رکوائے، شہباز شریف — 15 اکتوبر
حماس نے اسرائیل پر حملے کی تیاریوں کی ویڈیو جاری کردی — 15 اکتوبر
اسرائیل فلسطین جنگ: امریکی نشریاتی ادارے نے 3 مسلمان اینکرز کو معطل کردیا — 15 اکتوبر
حماس فلسطینیوں کے حق خودارادیت کے لیے نہیں لڑ رہی، امریکی صدر — 15 اکتوبر
برسلزمیں آزادی پسند تنظیموں کا فلسطین پر اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاجی مظاہرہ — 15 اکتوبر
اسرائیل نسل کشی کررہا ہے، فلسطینیوں پر ظلم و ستم ناقابل قبول، ہر طرح کی امداد کیلئے تیار ہیں، پاکستان، بمباری روکی جائے، چین، سعودی عرب — 16 اکتوبر
فلسطین میں صورتحال بگڑی تو خاموش نہیں رہیں گے، ایران — 16 اکتوبر
غزہ میں 10 لاکھ افراد کے بھوک سے مرنے کا خطرہ ہے: پی پی اے کا اقوام متحدہ کو خط — 16 اکتوبر
غزہ: اقوامِ متحدہ کے کیمپ پر اسرائیلی بمباری، 1 ہی خاندان کے 17 افراد شہید — 16 اکتوبر
نگراں وزیرِ اعظم کا غزہ میں فوری جنگ بندی اور ناکہ بندی ختم کرنے کا مطالبہ — 16 اکتوبر
اسرائیل کی غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کی تردید — 16 اکتوبر
اسرائیلی جارحیت پوری انسانیت پر حملہ ہے: نواز شریف — 16 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی بمباری، ابتک 11 صحافی جاں بحق — 16 اکتوبر
غزہ: 23 سال قبل بیٹے کی شہادت دیکھنے والے شخص کے مزید 2 بیٹے شہید — 16 اکتوبر
غزہ اسپتال میں ڈاکٹر والد اور بھائی کی لاشیں دیکھ کر غم سے نڈھال ہوگیا — 16 اکتوبر
امریکی صدر کا اسرائیل کو غزہ پر قبضہ نہ کرنے کا مشورہ — 16 اکتوبر
امریکا میں 6 سالہ بچہ فلسطینی ہونے کے باعث قتل — 16 اکتوبر
دورہ سعودی عرب میں انٹونی بلنکن کو ہزیمت کا سامنا، گھنٹوں انتظار کے بعد ملاقات دوسری صبح تک منسوخ — 16 اکتوبر
تنازع فلسطین اور اسرائیلی مظالم کی قصور وار امریکی حکومت ہے، ایران — 16 اکتوبر
حماس کے پاس یرغمالیوں کی واپسی سے دستبردار نہیں ہوں گے، نیتن یاہو — 16 اکتوبر
حماس کی ستائش کرنے والوں سے پوری قوت سے نمٹیں گے، رشی سونک — 16 اکتوبر
ممکنہ راکٹ حملوں کے باعث سائرن پر اسرائیلی پارلیمنٹ کا اجلاس ملتوی — 16 اکتوبر
ایم کیو ایم کی شہباز شریف کو فلسطین یکجہتی ریلی میں شرکت کی دعوت — 16 اکتوبر
پاکستان کا غزہ میں انسانی بنیادوں پر امدادی سامان بھیجنے کا فیصلہ — 16 اکتوبر
امریکی سفیروں کیلئے جنگ سے متعلق بعض لفظ ممنوع قرار — 16 اکتوبر
فلسطین کی حمایت کرنے پر تیراکی کی بین الاقوامی فیڈریشن نے مصری گولڈ میڈلسٹ کی تصویر ہٹا دی — 16 اکتوبر
مصر کا فلسطینیوں کو بطور پناہ گزین رکھنے سے انکار — 16 اکتوبر
قطری نیوز چینل پر خوف سے آزاد معصوم فلسطینی بچے کی خبر — 16 اکتوبر
امریکا ہمارا عظیم اتحادی ہے، اسرائیل — 16 اکتوبر
اسرائیلی وحشیانہ بمباری بڑھ گئی، غزہ میں 1000 سے زائد فلسطینی ملبے تلے دب گئے، انسانی زندگی کا تصور ختم ہورہا ہے، اقوام متحدہ — 17 اکتوبر
امریکا سعودی اور مصر سے حماس کی مذمت نہ کراسکا — 17 اکتوبر
روس کی اسرائیل، فلسطین تنازع ختم کرانے کی پیشکش — 17 اکتوبر
جنگ بندی، سلامتی کونسل میں روس کی قرارداد منظور نہ کی جاسکی — 17 اکتوبر
ماہرہ خان فلسطین کی صورتحال پر غمگین، بچوں سے اظہارِ یکجہتی — 17 اکتوبر
امریکی صدر جوبائیڈن کل اسرائیل جائیں گے — 17 اکتوبر
سونم کپور کا فلسطینی بچوں سے اظہارِ یکجہتی — 17 اکتوبر
ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل و فلسطین جنگ پر سیاست چمکانے لگے — 17 اکتوبر
بچے کی لاش کے سرہانے کھڑی فلسطینی ماں کی گود میں موجود بیٹی بھی شہید — 17 اکتوبر
حماس کے حملوں کے بعد 5 لاکھ اسرائیلی شہریوں کی نقل مکانی — 17 اکتوبر
جاپان کا غزہ کے شہریوں کیلئے 1 کروڑ ڈالرز امداد کا اعلان — 17 اکتوبر
تن تنہا اسرائیل کا غرور خاک میں ملانے والے پاکستانی پائلٹ کون تھے؟ — 17 اکتوبر
نگراں وزیرِ خارجہ او آئی سی کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کریں گے — 17 اکتوبر
پاکستان کرکٹ ٹیم پر تنقید، فاطمہ بھٹو کا اسرائیلی حکومت کو کرارا جواب — 17 اکتوبر
اسرائیلی حملوں میں شہید خواتین اور بچوں کی تعداد سامنے آ گئی — 17 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی حملے جاری، 5500 خواتین کے ہاں اسی مہینے ولادت متوقع — 17 اکتوبر
’ہم کہاں جائیں؟‘ کمسن فلسطینی بچے کا اسرائیلی جارحیت پر دنیا سے سوال — 17 اکتوبر
اقوام متحدہ فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا نوٹس لے: خلیل جارج — 17 اکتوبر
غزہ جنگ کا اگلا مرحلہ مختلف ہو سکتا ہے، اسرائیلی فوج — 17 اکتوبر
آیت اللّٰہ خامنہ ای کا اسرائیلی بمباری فوری بند کرنے کا مطالبہ — 17 اکتوبر
’مجھے خون کا پیسہ نہیں چاہیے‘، ہدیٰ قطان کا اسرائیلی خاتون کو منہ توڑ جواب — 17 اکتوبر
فلسطینی عوام کو پاکستانی قوم کی مکمل حمایت حاصل ہے، آرمی چیف — 17 اکتوبر
اسرائیل فلسطین تنازع: اردن کی سربراہی میں چار ملکی اجلاس کل ہوگا — 17 اکتوبر
نیدرلیڈز کا غزہ متاثرین کیلئے ایک کروڑ ڈالر امداد کا اعلان — 17 اکتوبر
لبنان کی سرحد پر اسرائیلی حملے آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے، لبنانی وزیر خارجہ — 17 اکتوبر
غزہ میں شہریوں کی جبری بے دخلی عملاً شروع ہوچکی، اقوام متحدہ — 17 اکتوبر
غزہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل، 10 لاکھ سے زیادہ افراد بے گھر ہوچکے ہیں، اقوام متحدہ — 17 اکتوبر
برطانوی اخبار نے اسرائیلی وزیراعظم کا خاکہ بنانے والے کارٹونسٹ کو برطرف کردیا — 17 اکتوبر
صدر بائیڈن کے دورے کی وجہ سے زمینی حملہ ملتوی کردیا گیا، اسرائیلی میڈیا — 17 اکتوبر
فلسطینیوں کی جبری بےدخلی کی کوششیں اردن سے جنگ کے مترادف ہے، ایمن الصفدی — 17 اکتوبر
اسرائیل، فلسطین تازہ صورتحال کی کوریج کیلئے جیو ٹیم بیروت پہنچ گئی — 17 اکتوبر
جبری نقل مکانی کا اسرائیلی حکم انسانیت کےخلاف جرم ہے، اقوام متحدہ — 17 اکتوبر
امریکی میرینز ریپڈ فورس اسرائیل کی جانب روانہ — 17 اکتوبر
اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس کا حماس حملوں کا اندازہ لگانے میں ناکامی کا اعتراف — 17 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی غزہ کے اسپتال پر بم باری، لمحوں میں 500 سے زائد فلسطینی شہید — 18 اکتوبر
سعودی عرب کی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مذمت — 18 اکتوبر
اسرائیلی بم باری، اسکاٹش فرسٹ منسٹر کی اہلیہ کے رشتہ دار بھی زخمی — 18 اکتوبر
اسکاٹ لینڈ کے فرسٹ منسٹر کا غزہ کے لوگوں کو پناہ دینے کا اعلان — 18 اکتوبر
بلاول بھٹو اور مریم نواز کی غزہ میں اسرائیلی بمباری کی مذمت — 18 اکتوبر
غزہ میں بمباری، امریکی صدر کا اردن کا دورہ منسوخ — 18 اکتوبر
اسپتال اور طبی عملے کو تحفظ حاصل ہے، سیکرٹری جنرل یو این — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر بمباری گھناؤنا جرم ہے: سعودی عرب — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر حملے پر نیتن یاہو کو جوابدہ قرار دینا چاہیے: عامر خان — 18 اکتوبر
ملالہ یوسف زئی کی غزہ کے اسپتال پر بمباری کی مذمت — 18 اکتوبر
امارات کی غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت — 18 اکتوبر
سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ غزہ کے اسپتال پر حملے سے دہشت زدہ — 18 اکتوبر
پاکستان اسپتال پر اسرائیل کے وحشیانہ و مجرمانہ حملے کی مذمت کرتا ہے: منیر اکرم — 18 اکتوبر
"لا غالب اِلا اللّٰہ" اسٹیٹس لگانے پر اسرائیل نے فلسطینی فنکارہ کو گرفتار کر لیا — 18 اکتوبر
’یہ نسل کُشی ہے‘ فاطمہ بھٹو کا ملالہ کی مذمت پر ردِ عمل — 18 اکتوبر
لبنان نے اپنی ایئر لائن کے 5 مسافر طیارے ترکیہ منتقل کر دیے — 18 اکتوبر
کولمبیا کا اسرائیلی سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم — 18 اکتوبر
نگراں وزیراعظم کی غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت — 18 اکتوبر
امریکا کی اپنے شہریوں کو لبنان کا سفر نہ کرنے کی ہدایت — 18 اکتوبر
غزہ میں اسپتال پر حملے سے غمزدہ ہوں: امریکی صدر جو بائیڈن — 18 اکتوبر
جرمن چانسلر غزہ کے اسپتال پر حملے کی تصاویر دیکھ کر دہشت زدہ — 18 اکتوبر
امریکا نے ہمیشہ دہشت گرد ریاستوں کی پشت پناہی کی: حافظ نعیم الرحمٰن — 18 اکتوبر
لبنان: مظاہرین کا امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر حملہ: نواز شریف کی آمد پر ترانے کی تقریبِ اجراء منسوخ — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی حملہ: بھارتی فلمی مبصر کی تنقید — 18 اکتوبر
فلسطینی اور اسرائیلی دونوں کی حمایت پر جمائما کی وضاحت — 18 اکتوبر
امریکی صدر جوبائیڈن اسرائیل پہنچ گئے — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر براہِ راست حملے کا کوئی ثبوت نہیں ملا: اسرائیلی فوج — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر حملہ، صدرِ و چیئرمین سینیٹ کی مذمت — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر حملے کے ذمے داروں سے جواب طلب کیا جائے: سربراہ یورپی کمیشن — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری: فاطمہ بھٹو امریکی میڈیا پر برہم — 18 اکتوبر
اسرائیلی بمباری میں بچنے والا بچہ ڈاکٹر سے مل کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا — 18 اکتوبر
غزہ میں اسپتال پر بمباری: بائیڈن نے اسرائیلی موقف کی تائید کردی — 18 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی حملہ، پاکستان کا اظہار مذمت — 18 اکتوبر
امریکا نے حماس پر نئی پابندیاں لگادیں — 18 اکتوبر
اسرائیل کی حمایت میں امریکا اندھی جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے، حماس کا بائیڈن کے بیان پر ردعمل — 18 اکتوبر
راکٹ حملوں کا خوف، جرمن چانسلر زمین پر لیٹ گئے — 18 اکتوبر
برسلز میں پاکستانی سفیر آمنہ بلوچ کی فلسطینی سفارتخانے آمد، اموات پر اظہار تعزیت — 18 اکتوبر
امریکا نے ایک بار پھر سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی قرارداد کو ویٹو کردیا — 18 اکتوبر
غزہ اسپتال میں تباہی سے پہلے کے مناظر میں بچوں کو کھیلتے دیکھا جا سکتا ہے — 18 اکتوبر
بائیڈن کا امداد بحالی کےلیے اسرائیل سے معاہدے کا اعلان — 18 اکتوبر
اسپتال پر حملے سے متعلق اسرائیلی بیانات جھوٹ کا ثبوت بن گئے — 18 اکتوبر
وزیراعظم کی یو این چیف سے ملاقات، فلسطینیوں کا قتل عام رکوانے کا مطالبہ — 18 اکتوبر
مصر کے راستے غزہ آنے والی امداد پر حملہ نہیں کریں گے، اسرائیل — 18 اکتوبر
برطانوی و امریکی میڈیا نے اسپتال پر حماس کے حملے کا اسرائیلی دعویٰ مسترد کردیا — 18 اکتوبر
جدہ: اسلامی تعاون تنظیم نے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کردیا — 18 اکتوبر
پاکستانی کرکٹرز نے بھی مظلوم فلسطینیوں کیلئے آواز اٹھادی — 18 اکتوبر
غزہ اسپتال پر حملے کیخلاف دنیا کے کئی ممالک میں مظاہرے و جھڑپیں — 18 اکتوبر
فلسطین مسئلے پر سینیٹ اجلاس بلایا جانا چاہیے، ن لیگی سینیٹر افنان اللّٰہ — 18 اکتوبر
اسرائیل کو جب تک جواب نہیں دیا جائے گا وہ باز نہیں آئے گا، سلیم مانڈوی والا — 18 اکتوبر
طبی امداد میں مصروف فلسطینی خاتون بھائی کی لاش دیکھ کر غم سے نڈھال — 18 اکتوبر
مغرب آگ پر تیل چھڑکنے کے سوا کچھ نہیں کررہا، ترک صدر — 18 اکتوبر
فلسطین مسئلے کی جڑ اسرائیل کا خطے پر ناجائز قبضہ ہے، ولید اقبال — 18 اکتوبر
بائیڈن کی اسرائیل کو کلین چٹ، اسپتال حملے سے بری الذمہ قرار دیدیا، سلامتی کونسل میں انسانی امداد اور جنگ بندی قرارداد بھی ویٹو کردی — 19 اکتوبر
جرمِ ضعیفی: حامد میر — 19 اکتوبر
آج کے ہٹلرز: انصار عباسی — 19 اکتوبر
غزہ، اسپتال حملے پر عالمی ردعمل، اسرائیلی حکومت اور افواج بوکھلاہٹ کا شکار — 19 اکتوبر
عالمی دباؤ اور ردعمل کے باعث اسرائیل دفاعی پوزیشن پر چلا گیا، تجزیہ کار — 19 اکتوبر
غزہ میں فلسطینیوں کے ساتھ مظالم کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، تجزیہ کار — 19 اکتوبر
اسرائیلی اہلکار بھارتی میزبان کی ساڑھی کو فلسطینی جھنڈا سمجھ بیٹھا — 19 اکتوبر
غزہ فوجی محاصرے میں ہے وہاں بجلی، پانی اور انسانی امداد بند ہے، منیر اکرم — 19 اکتوبر
’کورولوس عثمان‘ کے 5 ویں سیزن کی نئی قسط کیوں نشر نہیں ہوئی؟ — 19 اکتوبر
اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 3500 سے بڑھ گئی — 19 اکتوبر
بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کی حمایت پر سینئر رکنِ امریکی محکمۂ خارجہ جوش پال مستعفی — 19 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر حملہ، ترک اداکار براق اوزچیوت کی شدید مذمت — 19 اکتوبر
فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے کراچی بار کا احتجاج — 19 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی حملے پر بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کا بیان سامنے آ گیا — 19 اکتوبر
غزہ کے مزید اسپتال بھی اسرائیل کے نشانے پر — 19 اکتوبر
روس کا غزہ کے لیے انسانی امداد بھیجنے کا اعلان — 19 اکتوبر
صدر عارف علوی، شاہد خاقان، علی محمد خان فلسطینی سفارتخانے پہنچ گئے — 19 اکتوبر
سینکڑوں پاکستانی ڈاکٹرز اور سرجنز کی غزہ جانے کیلئے آمادگی — 19 اکتوبر
دنا نیر کا فلسطینیوں پر مظالم کو کبھی نہ بھولنے کا عزم — 19 اکتوبر
غزہ پر مسلماں حکمراں تماشائی بنے بیٹھے ہیں: سراج الحق — 19 اکتوبر
ایم کیو ایم کی فلسطین ریلی: مفتی منیب، مفتی نعمان، مفتاح اسماعیل کو دعوت — 19 اکتوبر
برطانوی وزیراعظم رشی سونک کی اسرائیلی ہم منصب نیتن یاہو سے ملاقات — 19 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی بمباری: ایک ہی خاندان کے 13 افراد بھی شہداء میں شامل — 19 اکتوبر
غزہ کے اسپتالوں کے صحن میں بے ہوش کیے بغیر آپریشن کیے جارہے ہیں — 19 اکتوبر
غزہ کا بحران پورے خطے کے تنازع کی شکل اختیار کرنے جا رہا ہے، روس — 19 اکتوبر
بچوں کی شہادتوں پر الاقصیٰ اسپتال کی لیڈی ڈاکٹر کا صبر جواب دے گیا — 19 اکتوبر
حماس، حزب اللّٰہ حملوں میں اسرائیل نے 2 ہزار ہلاکتوں کی تصدیق کردی — 19 اکتوبر
فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر فرانسیسی حکومت اپنے لیجنڈ فٹبالر سے ناراض — 19 اکتوبر
فلسطینیوں کی حمایت کرنے پر فرانسیسی حکومت اپنے لیجنڈ فٹبالر سے ناراض — 19 اکتوبر
امریکا کے یہودیوں نے بھی غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کردیا — 19 اکتوبر
غزہ میں امدادی سامان کے قافلے آج داخل ہوں گے — 20 اکتوبر
امریکا کا اپنے شہریوں کے لیے دنیا بھر میں الرٹ جاری — 20 اکتوبر
فلسطینیوں کا قتل عام اور عالم اسلام — 20 اکتوبر
اسرائیل غزہ تنازع، سوشل میڈیا کا گند اور لوگوں کا اس پر اندھا یقین، غلط معلومات، جھوٹے امیجز، میمز ویڈیوز سے جذباتی ماحول — 20 اکتوبر
مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل کے سوا کوئی راستہ نہیں، چینی صدر — 20 اکتوبر
مغرب کے روایتی میڈیا کی بھی یکطرفہ کوریج، افواہوں کی شہ سرخیاں 40 بچے ذبح کرنے کی افواہ ’اسکائی نیوز نے پھیلائی، دی ٹائمز، دی انڈیپنڈنٹ دی اسکاٹ مین ودیگر نے شہ سرخی بنایا، یورپی یونین کے تھیری بریٹن کا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو دھمکی آمیز خط — 20 اکتوبر
غزہ صورتحال پر شدید تحفظات ہیں، پاکستانی فوج فلسطین بھیجنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، دفتر خارجہ — 20 اکتوبر
پاکستانی طیارہ غزہ کیلئے امداد لیکر مصر پہنچ گیا — 20 اکتوبر
امریکی صدر نے غزہ جنگ کو یوکرین سے جوڑ دیا — 20 اکتوبر
ہمیں اسرائیل سے سفارتی تعلقات معطل کر دینے چاہیئں: ہسپانوی وزیر — 20 اکتوبر
اسرائیل میں امریکی فوجیوں کیساتھ صدر بائیڈن کی تصویر ڈیلیٹ کر دی گئی — 20 اکتوبر
تعصبانہ صحافت: فاطمہ بھٹو کا مغربی میڈیا کے بائیکاٹ کا مطالبہ — 20 اکتوبر
بھارتی وزیرِ اعظم مودی کا فلسطینی صدر محمود عباس کو فون — 20 اکتوبر
غزہ کیلئے 20 امدادی ٹرکوں کی اجازت سمندر میں قطرہ قرار — 20 اکتوبر
پاکستانی وزارتِ صحت کو ادویات فلسطین بھجوانے کیلئے اجازت نامہ مل گیا — 20 اکتوبر
کراچی میں ایم کیو ایم کی فلسطین ریلی: شہریوں کو متبادل راستے اختیار کرنے کی ہدایت — 20 اکتوبر
اسرائیل کو تسلیم کرنے والی ہر سازش ناکام بنائینگے: حافظ نعیم الرحمٰن — 20 اکتوبر
اسپیکر قومی اسمبلی کا فلسطینی سفارتخانے کا دورہ — 20 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر بمباری پر امریکی صدر کا بیان مضحکہ خیز ہے: مہاتیر محمد — 20 اکتوبر
اسرائیل پر غزہ میں جارحیت روکنے کیلئے دباؤ ڈالیں، عرب سفیروں کا یورپی یونین سے مطالبہ — 20 اکتوبر
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا غزہ کیلئے امدادی ٹرکوں کو جلد اجازت دینے کا مطالبہ — 20 اکتوبر
اسرائیلی فوج کا غزہ کے قدیم ترین آرتھوڈوکس چرچ پر بھی فضائی حملہ — 20 اکتوبر
غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی انسانی قانون کا اطلاق ہونا چاہیے، سعودی عرب — 20 اکتوبر
متحدہ قومی موومنٹ کی فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلی — 20 اکتوبر
سوارا بھاسکر کا غزہ کے بچوں سے اظہار ہمدردی — 20 اکتوبر
میرے جوتے غریب بچوں کو دیے جائیں، شہید فلسطینی بچی کی دلخراش وصیت — 20 اکتوبر
نگراں وزیراعظم کا فلسطینی صدر سے فون پر رابطہ — 20 اکتوبر
القسام بریگیڈز نے 2 امریکی شہریوں کو رہا کر دیا — 20 اکتوبر
حماس کی قید سے رہائی پانے والی امریکی ماں بیٹی کی تصویر جاری — 21 اکتوبر
حماس سعودیہ اسرائیل تعلقات پرضرب لگانا چاہتی تھی، بائیڈن — 21 اکتوبر
فلسطین کے ساتھ تھی، آج بھی ہوں اور کل بھی رہوں گی، ثناء خان — 21 اکتوبر
اسرائیل فلسطین کشیدگی: ایم ٹی وی میوزک ایوارڈز کی تقریب منسوخ — 21 اکتوبر
حماس کی قید سے رہا ہوئی ماں بیٹی کا اہل خانہ سے رابطہ — 21 اکتوبر
اسرائیل کی القدس اسپتال بھی تباہ کرنے کی دھمکی — 21 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی حملے، شہداء کی تعداد 4 ہزار سے متجاوز — 21 اکتوبر
مصر کی رفاہ کراسنگ سے غزہ میں امدادی ٹرک داخل ہونے لگے — 21 اکتوبر
12 سالہ فلسطینی یوٹیوبر اسرائیلی حملے میں شہید — 21 اکتوبر
اسرائیل کی حمایت پر جسٹن ٹروڈو سے مسلم کمیونٹی ناراض — 21 اکتوبر
فلسطینیوں کو بےدخل نہیں کیا جاسکتا، محمود عباس — 21 اکتوبر
اسرائیل کے غزہ پر حملے جاری، شہید فلسطینیوں کی تعداد 4 ہزار 385 ہوگئی — 21 اکتوبر
مصر: غزہ صورتحال پر امن اجلاس، عالمی رہنماؤں کا اسرائیل فلسطین تنازع کے حل پر زور — 21 اکتوبر
غزہ میں جارحیت رُکنے تک اسرائیلی فوجیوں کی رہائی پر بات نہیں کریں گے، حماس — 21 اکتوبر
دنیا بھر میں فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے مظاہرے، اسرائیل مخالف نعرے — 21 اکتوبر
غزہ اسپتال کی لیڈی ڈاکٹرکی ایندھن کی فوری فراہمی کی اپیل — 21 اکتوبر
حماس نے سعودیہ، اسرائیل تعلقات کا عمل خراب کرنے کیلئے حملہ کیا، بائیڈن، صیہونی بمباری جاری، 20 ٹرک امداد ناکافی قرار — 22 اکتوبر
اسرائیل امریکی گٹھ جوڑ سے فلسطینیوں پر مظالم کئے جارہے ہیں، روسی سفیر — 22 اکتوبر
عالمی برادری اسرائیلی محاصرہ ختم، فوجی کارروائیاں روکنے کیلئے دباو ڈالے، سعودی عرب — 22 اکتوبر
سوئزرلینڈ سے حماس کی مالی مدد، چھان بین شروع — 22 اکتوبر
اسرائیل سے جھڑپیں جاری، شہید حزب اللّٰہ کارکنوں کی تعداد 17 ہوگئی — 22 اکتوبر
مشرق وسطیٰ کی صورت حال: امریکی سینیٹرز کا مشترکہ وفد سعودی عرب پہنچ گیا — 22 اکتوبر
حماس اسرائیل تنازع: امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن کا لبنانی عوام کی حمایت کا اعادہ — 22 اکتوبر
بھارتی کمپنی نے اسرائیلی پولیس کو وردیوں کی سپلائی روک دی — 22 اکتوبر
حزب اللّٰہ لبنان کو جنگ میں دھکیل رہا ہے، اسرائیلی فوج — 22 اکتوبر
اسرائیل کا غزہ پر حملے تیز کرنے کا اعلان — 22 اکتوبر
امریکا کا مشرق وسطیٰ میں میزائل دفاعی نظام بھیجنے کا اعلان — 22 اکتوبر
غزہ میں اسرائیل کے حملے جاری، گزشتہ 24 گھنٹوں میں بمباری سے 266 فلسطینی شہید — 22 اکتوبر
اسرائیل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، راجا پرویز اشرف — 22 اکتوبر
مصر: رفح کراسنگ سے امدادی ٹرکوں کا دوسرا قافلہ غزہ میں داخل — 22 اکتوبر
میری 3 بیٹیاں ہیں میں اس بچی کا درد سمجھ سکتا ہوں، محمد عامر — 22 اکتوبر
جو اسرائیل کو درکار ہوا وہ فراہم کریں گے، امریکی صدر — 22 اکتوبر
بصورت شہادت شناخت: غزہ کے والدین نے بچوں کے پیروں پر نام لکھنا شروع کر دیے — 22 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی غزہ میں داخلے کی کوشش ناکام بنادی گئی — 22 اکتوبر
اسرائیلی بمباری پر خوف سے لزرتے بچے کی ہنسنے اور کھیلنے کی ویڈیو سامنے آگئی — 22 اکتوبر
مصطفیٰ کمال کی اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل — 22 اکتوبر
اہل فلسطین پر اسرائیلی حملے جنگی جرائم ہیں، گورنر سندھ — 22 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی بمباری، گھنگریالے بالوں والا یوسف شہید، والدہ کی نشانیاں بتا کر اسپتال میں تلاش — 22 اکتوبر
بیلجیئم میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف یورپی بیوروکریسی دفتر کے سامنے مظاہرہ — 22 اکتوبر
اسرائیل حماس تنازع مشرق وسطیٰ میں پھیلنے کا خدشہ — 23 اکتوبر
فلسطین معاملے پر سعودی عرب قیادت کرتا ہے تو زبردست اثرات مرتب ہونگے، ملائیشین وزیراعظم — 23 اکتوبر
اسرائیلی فوج کا زمینی حملہ پسپا، مقبوضہ کنارے پر بمباری، مسجد شہید، غزہ میں 24 گھنٹوں کے دوران 266 افراد شہید — 23 اکتوبر
امریکا، اسرائیل، چین اور ایران میں لفظی جنگ تیز — 23 اکتوبر
بصورت شہادت شناخت، غزہ کے والدین نے بچوں کے پیروں پر نام لکھنا شروع کر دیئے — 23 اکتوبر
حماس اور حزب اللّٰہ کیخلاف دو محاذ پر کارروائی نہ کریں، بائیڈن کا اسرائیل کو مشورہ — 23 اکتوبر
بائیڈن کا اہم مغربی ممالک کے رہنماؤں سے فون پر رابطہ — 23 اکتوبر
سعودی ولی عہد کا غزہ کا محاصرہ ختم کرنے پر زور — 23 اکتوبر
متعصبانہ صحافت پر فلسطینی صحافی نے برطانوی چینل کی اینکر کو آڑے ہاتھوں لے لیا — 23 اکتوبر
اسرائیل فلسطین کشیدگی: چین کے 6 بحری جنگی جہاز مشرقِ وسطیٰ میں تعینات — 23 اکتوبر
فلسطینیوں کی حمایت پر باکسر عامر خان کی اہلیہ فریال کو سنگین دھمکیاں موصول — 23 اکتوبر
غزہ کی صورتحال لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں: عہدیدار اقوامِ متحدہ روایہ حلس — 23 اکتوبر
جب تک فلسطین آزاد نہیں ہو گا ہم چُپ نہیں بیٹھینگے: اشنا شاہ — 23 اکتوبر
غزہ پر زمینی حملے 3 ماہ تک جاری رہ سکتے ہیں: اسرائیلی وزیرِ دفاع — 23 اکتوبر
غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، اسپتال خالی کرنے کی دھمکیاں — 23 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی بمباری، 24 گھنٹوں میں مزید 436 فلسطینی شہید — 23 اکتوبر
شامی وزیر خارجہ کا سعودی ہم منصب سے ٹیلی فونک رابطہ — 23 اکتوبر
میری ماں دنیا کے سب سے بہترین کھانے بناتی تھی، فلسطینی بچہ شہید ماں کو یاد کرکے اشکبار — 23 اکتوبر
فرانس کا اسرائیل سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ — 23 اکتوبر
ناروے کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی حملوں میں شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت — 23 اکتوبر
میں اپنی ماں کے بغیر نہیں رہ سکتی، فلسطینی بچی کی دلخراش ویڈیو — 23 اکتوبر
ویڈیو: غزہ کے اسپتال میں ٹانگ کی سرجری کے دوران بچہ قرآن پاک کی تلاوت کرتا رہا — 23 اکتوبر
حماس کے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں، امریکی ترجمان — 23 اکتوبر
رفح کراسنگ، امدادی سامان کے مزید 20 ٹرک غزہ میں داخل، یو این — 24 اکتوبر
حماس نے مزید 2 یرغمالیوں کو رہائی دیدی — 24 اکتوبر
اسرائیلی فوج کا لبنانی سرحد پر حملہ، حزب اللّٰہ کے 4 کارکن شہید — 24 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی فائرنگ، مغربی کنارے میں 2 فلسطینی شہید — 24 اکتوبر
گوگل میپ نے اسرائیل میں عارضی طور پر ٹریفک ڈیٹا معطل کر دیا — 24 اکتوبر
حماس کے 2 یرغمالیوں کو رہا کرنے پر امریکی صدر نے کیا کہا؟ — 24 اکتوبر
بارک اوباما نے اسرائیل کو خبردار کر دیا — 24 اکتوبر
تمام یرغمالیوں کی رہائی تک غزہ میں جنگ بند نہیں ہو گی: جوبائیڈن — 24 اکتوبر
حماس کی قید سے رہائی پانے والی خواتین کی ویڈیو سامنے آ گئی — 24 اکتوبر
اسرائیلی ظلم کے نتیجے میں دہرا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے: شہبازشریف — 24 اکتوبر
لندن: ’فری فری فلسطین‘ کے نعرے لگانے پر ٹیوب ڈرائیور معطل — 24 اکتوبر
چینی وزیرِ خارجہ نے اسرائیلی ہم منصب سے کیا کہا؟ — 24 اکتوبر
فرانسیسی صدر کی اسرائیلی صدر سے ملاقات، یکجہتی کا اظہار — 24 اکتوبر
عالمِ اسلام میں غزہ پر قبرستان کی طرح خاموشی ہے: سراج الحق — 24 اکتوبر
غزہ پر وحشیانہ بمباری اور ننگی جارحیت پر خاموش نہیں رہ سکتے ہیں: امیرِ قطر — 24 اکتوبر
جنگ چھڑی تو لبنان کو بھاری قیمت چکانا ہو گی: اسرائیلی صدر کی حزب اللّٰہ کو دھمکی — 24 اکتوبر
مجھے بھی بیٹی کیساتھ دفن کر دو: غزہ کے لاچار باپ کی دہائی — 24 اکتوبر
حماس کی قید سے رہا ہونے والی اسرائیلی خاتون کی گفتگو سامنے آ گئی — 24 اکتوبر
اسرائیل کی غزہ پر اندھا دھند بمباری، بچوں سمیت 56 فلسطینی شہید — 24 اکتوبر
اسرائیلی تنگ نظری کے تحت جبر ہورہا ہے، آرمی چیف — 24 اکتوبر
سعودی وزیر خارجہ کی نیویارک آمد، مسئلہ فلسطین پر منعقدہ اجلاس میں شرکت کرینگے — 24 اکتوبر
اسرائیل میں گوگل ایپس پر لائیو ٹریفک اپ ڈیٹس عارضی طور پر بند — 24 اکتوبر
امریکا، فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کیلئے پُرعزم ہے، جو بائیڈن — 24 اکتوبر
غزہ میں غذائی قلت سنگین، اشیائے ضروریہ کی کمی، بیکریوں کے باہر لمبی قطاریں — 24 اکتوبر
عرب، اسلامی ممالک اور اقوام متحدہ اسرائیلی جارحیت رُکوانے میں کردار ادا کریں، حماس — 24 اکتوبر
غزہ پر عالم اسلام میں قبرستان کی سی خاموشی ہے، سراج الحق — 24 اکتوبر
فلسطینی 56 سال سے حبس زدہ قبضے کا شکار ہیں، انتونیو گوتیریس — 24 اکتوبر
کسی بھی قوم کے حق دفاع کی توثیق کرنی چاہیے، امریکا — 24 اکتوبر
مصر سے غزہ جانے والی امداد میں تعطل، 20 ٹرک نہیں پہنچ سکے — 24 اکتوبر
انتونیو گوتیریس کا فلسطینیوں کی حمایت میں بیان، اسرائیل تلملا اٹھا — 24 اکتوبر
سلامتی کونسل کا اجلاس، روسی مندوب نے امریکی تجاویز مسترد کردیں — 25 اکتوبر
اسرائیلی بمباری سے مزید 425 فلسطینی شہید — 25 اکتوبر
غزہ سے فلسطینیوں کا جبری انخلاء انسانیت کیخلاف جرائم کا عکاس ہے، آرمی چیف — 25 اکتوبر
غزہ، اسرائیلی بمباری، 704 فلسطینی شہید، مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات ختم کریں، حماس — 25 اکتوبر
مغربی ممالک فلسطینیوں کے قتل عام میں برابر کے شریک ہیں، ملکہ اردن — 25 اکتوبر
سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن پر مباحثے میں تنقید — 25 اکتوبر
اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کررہا ہے، منیر اکرم — 25 اکتوبر
غزہ: انکیوبیٹر پر موجود 120 نومولودوں کی زندگی کو خطرہ — 25 اکتوبر
شام کے شہر درعا میں اسرائیلی فضائی حملہ، 8 شامی فوجی شہید — 25 اکتوبر
غزہ پر رات بھر اسرائیلی بمباری، مزید 80 سے زائد فلسطینی شہید — 25 اکتوبر
سربراہ آئی ایم ایف کا غزہ میں اسرائیلی بربریت پر اظہارِ تشویش — 25 اکتوبر
اسرائیلی مظالم کیخلاف جو بھی کرنا ہے مسلم ممالک کے حکمرانوں نے کرنا ہے، آفاق احمد — 25 اکتوبر
اسرائیل کا اقوامِ متحدہ کے نمائندوں کو ویزا دینے سے انکار — 25 اکتوبر
اسرائیلی افواج کا ایران پر حماس کی مدد کا الزام — 25 اکتوبر
غزہ میں جنگ بندی نہ ہوئی تو تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے: سراج الحق — 25 اکتوبر
حماس دہشت گرد تنظیم نہیں: ترک صدر رجب طیب اردوان — 25 اکتوبر
غزہ جنگ: دوحہ میں قطری اور ترک وزرائے خارجہ کی ملاقات — 25 اکتوبر
اسرائیل کا ایندھن کی اجازت دینے سے صاف انکار، غزہ کے اسپتال آج بند ہوجائیں گے — 25 اکتوبر
ہم درد ختم ہونے تک یہاں رہیں گے، غزہ کے ڈاکٹروں کا اعلان — 25 اکتوبر
غزہ میں صحت کا نظام مکمل غیر فعال ہوگیا، وزارت صحت — 25 اکتوبر
ویڈیو: بمباری کے دوران فلسطینی بچے بے خوف و خطر کھیل میں مصروف — 25 اکتوبر
غزہ: ملبے میں دبے بچے کو زندہ نکال لیا گیا، بچہ مسکراتا ہوا باہر نکلا — 25 اکتوبر
اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت کرتے ہیں، برطانوی وزیراعظم — 25 اکتوبر
ماہرہ خان نے غزہ کی دل دہلا دینے والی ویڈیوز جاری کر دیں — 25 اکتوبر
زمینی حملے سے دونوں جانب مزید جانی نقصانات ہوگا، مصر — 25 اکتوبر
ہم نے فلسطینی قیادت کے ساتھ مل کر دنیا میں فلسطین کا مقدمہ لڑا، بلاول بھٹو زرداری — 25 اکتوبر
یو این سیکریٹری جنرل اسرائیلی دباؤ میں آکر فلسطینیوں کے حق میں بیان سے ہی مکر گئے — 25 اکتوبر
امریکا اسرائیل کو غزہ میں بمباری کی ہدایت دے رہا ہے، آیت اللہ خامنہ ای — 25 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی بمباری، عرب ٹی وی کے صحافی کی اہلیہ، بیٹی اور بیٹا شہید — 25 اکتوبر
غزہ میں انسانی المیہ، نظام صحت تباہ، ایندھن ختم، اسرائیلی طیاروں کی بمباری، شہدا 6500 سے زائد، زمینی حملے سے پیچھے ہٹ گیا — 26 اکتوبر
حماس فلسطینیوں کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتی، بائیڈن — 26 اکتوبر
ترکیہ، قطر اور ملکہ اردن کی اسرائیلی حملوں پر عالمی برادری کے دہرے معیار کی مذمت — 26 اکتوبر
اسرائیلی زمینی فوج کا غزہ میں رات کو بڑا حملہ کرنے کا دعویٰ — 26 اکتوبر
غزہ کے اسپتال پر حملہ، امریکی اخبار نے اسرائیل کا مؤقف مسترد کر دیا — 26 اکتوبر
کاش لوگ دل کا زخم محسوس کر پاتے: نعمان اعجاز — 26 اکتوبر
یہودی عالم کا اسرائیل سے تمام زمینیں فلسطینیوں کو واپس کرنے کا مطالبہ — 26 اکتوبر
طالب علم تعلیم کیساتھ حالات پر بھی نظر رکھیں: حافظ نعیم الرحمٰن — 26 اکتوبر
فلسطینیوں کی نسل کشی، اشنا شاہ نے سبق آموز ویڈیو شیئر کر دی — 26 اکتوبر
غزہ تک امداد کی رسائی کیلئے مکمل جنگ بندی کی ضرورت ہے: فلسطینی وزیرِ خارجہ — 26 اکتوبر
سینیٹ کا اجلاس کل ہو گا، اسرائیلی جارحیت پر بحث ہوگی — 26 اکتوبر
غزہ: خوراک اور ادویہ کے مزید 12 ٹرک رفح کراسنگ پہنچ گئے — 26 اکتوبر
اسرائیلی ٹینکوں کی غزہ میں داخلے کی کوشش، گولہ باری سے کئی رہائشی عمارتیں تباہ — 26 اکتوبر
عرب ممالک کی جانب سے غزہ میں اسرائیلی مظالم و جنگی جرائم کی مذمت — 26 اکتوبر
غزہ: دنیا سے بچوں کی فریاد موت کی سزا بن گئی — 26 اکتوبر
سیکڑوں اسکوائر کلومیٹر غزہ پٹی کو اسرائیل نے کھنڈر بنا دیا — 26 اکتوبر
اسرائیلی بمباری نہ رکی تو کشیدگی پھیل سکتی ہے، فلسطینی مندوب — 26 اکتوبر
اسرائیل کو ماورائے قانون حیثیت دینا ناقابل قبول ہے، اردن — 26 اکتوبر
حماس کے ہاتھوں یرغمال افراد کی تکلیف کو بیان نہیں کیا جاسکتا، اسرائیل — 26 اکتوبر
حماس شہری یرغمالیوں کو ایران کے حوالے کرنے پر تیار ہے، ایرانی وزیرخارجہ — 26 اکتوبر
غزہ میں صحت کا بحران تباہ کن حد کو چھو رہا ہے، عالمی ادارہ صحت نے خبردار کر دیا — 26 اکتوبر
حزب اللّٰہ کا حماس کی حمایت سے دستبردار نہ ہونے کا اعلان — 27 اکتوبر
اسرائیلی حملوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 7ہزار 28 ہو گئی — 27 اکتوبر
اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب اور دیگر شہروں پر حماس کے راکٹ حملے — 27 اکتوبر
مسجدِ اقصیٰ میں عبادت کیلئے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت — 27 اکتوبر
بہت سے لوگوں کو حماس کی حمایت کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے: حافظ نعیم الرحمٰن — 27 اکتوبر
بیانات، قراردادوں سے اسرائیلی ٹینکوں کو نہیں روک سکتے: سراج الحق — 27 اکتوبر
غزہ میں 1 دن میں ہمارے 15 ساتھی مارے گئے: عہدیدار یو این آر ڈبلیو اے — 27 اکتوبر
اسرائیلی فوج کا 310 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف — 27 اکتوبر
فلسطینیوں پر اسرائیل کے حملے جنگی جرائم ہیں: کامران ٹیسوری — 27 اکتوبر
امریکا کی حماس اور ایرانی پاسداران انقلاب گارڈز پر نئی پابندیاں — 27 اکتوبر
حماس کے خاتمے سے متعلق اسرائیل کے اندازے غلط ہیں، محمد شتیایا — 27 اکتوبر
غزہ: اسرائیلی فوج کی بمباری، فلسطینی شہداء کی تعداد 7326 ہوگئی — 27 اکتوبر
بیلہ حدید نے اسرائیل کے جنگی جرائم پر خاموشی توڑ دی، فلسطینیوں کے حق میں طویل نوٹ لکھ دیا — 27 اکتوبر
میئر لندن صادق خان کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ — 27 اکتوبر
میری خواہش ہے یہ سب خواب ہو، فلسطینی بچے کی فریاد — 27 اکتوبر
اقوام متحدہ نے فلسطینی وزارت صحت کی تائید کر دی — 27 اکتوبر
جنگ میں ایران، حزب اللّٰہ اور حامی قوتوں کو شرکت کیلئے آمادہ کریں گے، حماس — 27 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی فوج کی شدید بمباری، مواصلاتی نظام تباہ، شہادتوں کا خدشہ — 28 اکتوبر
اقوام متحدہ میں جنگ بندی قرارداد منظور، غزہ پر بڑے حملے کی تیاری — 28 اکتوبر
غزہ میں اسرائیل کی زمینی کارروائی خطے کیلئے تباہ کن ہوگی، سعودی عرب کی امریکا کو وارننگ — 28 اکتوبر
غزہ میں شہداء کی تعداد 7 ہزار 326 ہو گئی — 28 اکتوبر
اسلامی تعاون تنظیم کا عالمی فریقوں سے اسرائیلی جارحیت بند کرانے کا مطالبہ — 28 اکتوبر
غزہ میں شدید بمباری سے انٹر نیٹ اور فون سروسز معطل — 28 اکتوبر
کینیڈا: یونیورسٹی طلباء کا فلسطین کےحق میں بھرپور مظاہرہ — 28 اکتوبر
اسرائیلی فوج کا سربراہ حماس فضائی فوج کو مارنے کا دعویٰ — 28 اکتوبر
اسرائیلی فوجیوں کی باقیات غزہ کی سر زمین نگل جائے گی: حماس — 28 اکتوبر
اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ مسترد کر دیا — 28 اکتوبر
غزہ میں 20 لاکھ انسانوں کو تباہی کا سامنا ہے: سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ — 28 اکتوبر
نیویارک: ہزاروں یہودیوں کا غزہ میں سیز فائر کا مطالبہ — 28 اکتوبر
نیتن یاہو کی موت سسک سسک کر ہو: عثمان خالد بٹ کی بددعا — 28 اکتوبر
رات بھر غزہ پر اسرائیلی بمباری پر حماس کا بیان سامنے آ گیا — 28 اکتوبر
غزہ پر زمینی کارروائی کیساتھ بمباری بھی کی جا رہی ہے: اسرائیلی فوج — 28 اکتوبر
کل اسلام آباد میں غزہ مارچ کریں گے: سراج الحق — 28 اکتوبر
غزہ میں موت کا سناٹا، مسجد سے گونجتی آواز پر درد دل رکھنے والے دہل کر رہ گئے — 28 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی بمباری: شہداء کی تعداد 7 ہزار سے زیادہ 3600 بچے بھی شامل — 28 اکتوبر
’مما اٹھو، مجھے بتاؤ تم زندہ ہو‘، ماں کو کھونے والی بچی کی ویڈیو دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار — 28 اکتوبر
گرفتاریوں کے باوجود کل کے غزہ مارچ کی بھرپور تیاری ہے، سراج الحق — 28 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی جارحیت، ترک صدر کا دنیا کو سخت اور واضح پیغام — 28 اکتوبر
اسرائیل نے ترکیہ سے اپنا کچھ سفارتی عملہ واپس بلالیا — 28 اکتوبر
غزہ جنگ کے اسرائیل کی معیشت پر برے اثرات پڑنے لگے — 28 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی بمباری کیخلاف دنیا بھر میں مظاہرے — 28 اکتوبر
ہم بھی انتظار میں ہیں دشمن کو نئی قسم کی موت کا مزہ چکھائیں، ترجمان حماس — 28 اکتوبر
غزہ پٹی کے اندر جنگ مشکل اور طویل ہوگی، اسرائیلی وزیراعظم — 28 اکتوبر
اسلام آباد، ایم ڈبلیو ایم کے زیراہتمام فلسطین کانفرنس — 29 اکتوبر
ایلون مسک کا غزہ کیلئے اسٹار لنک کی سہولت دینے کا اعلان، اسرائیل نے مخالفت کردی — 29 اکتوبر
اسرائیل کی غزہ میں نسل کشی جاری، مزید 377 فلسطینی شہید — 29 اکتوبر
ترکیہ نے اسرائیلی وزیرِ خارجہ کے بیان پر ردعمل دیدیا — 29 اکتوبر
غزہ میں اسرائیلی زمینی کارروائیاں، یو اے ای کی مذمت — 29 اکتوبر
حماس کا اسرائیل کے اہم ترین شہر کو نشانہ بنانے کا دعوٰی — 29 اکتوبر
حماس کا اسرائیل کے اہم ترین شہر کو نشانہ بنانے کا دعوٰی — 29 اکتوبر
فلسطینیوں کیلئے مظاہرے کرنیوالوں کے ویزا منسوخ کرینگے، ڈونلڈ ٹرمپ — 29 اکتوبر
عالمی برادری اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے دباؤ ڈالے: جلیل عباس — 29 اکتوبر
انجلینا جولی کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ — 29 اکتوبر
صیہونی حکومت ریڈ لائن پار کر چکی: ایرانی صدر — 29 اکتوبر
اسرائیل کا غزہ کے سب سے بڑے اسپتال کے قریب فضائی حملہ — 29 اکتوبر
مختلف شہروں میں فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے اجتماعات — 29 اکتوبر
انتونیو گوتیرس نے غزہ کی صورتحال پر انتباہ جاری کردیا — 29 اکتوبر
ڈاکٹروں کی عالمی تنظیم کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ — 29 اکتوبر
اسرائیل کا ایلون مسک کو اسٹار لنک سروس غزہ کو فراہم کرنے سے روکنے کا اعلان — 29 اکتوبر
غزہ کے لوگوں کی صبح کیسی ہوتی ہے؟ فلسطینی صحافی نے دکھا دیا — 29 اکتوبر
اسرائیل نے غزہ کو پانی فراہم کرنے والی 3 میں سے دوسری پائپ لائن کھول دی — 29 اکتوبر
غزہ میں خوراک کی قلت نہ ہونے کے اسرائیلی دعوے پر امریکی حکام نے سوال اٹھادیا — 29 اکتوبر
اسرائیل کی غزہ کے القدس اسپتال کو خالی کرنے کی پہلے دھمکی اور قریب میں بمباری — 29 اکتوبر
مصر کی رفح کراسنگ سے امدادی سامان کے مزید 10 ٹرکوں کی غزہ آمد — 29 اکتوبر
غزہ: بچے سوتے گھر میں ہیں، ہوش اسپتال میں آتا ہے — 29 اکتوبر
فلسطین کی آزادی میں شرکت کا اعلان کرتے ہیں، فضل الرحمان — 29 اکتوبر
صحافی اسرائیلی ٹارگٹڈ حملے کا نشانہ بنا، رپوٹررز ود آؤٹ بارڈرز — 30 اکتوبر
قتل گاہ سے آخری پیغام — 30 اکتوبر
غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کا 24 واں روز — 30 اکتوبر
غزہ، امداد کی فراہمی میں رکاوٹ جرم قرار دی جاسکتی ہے، انٹرنیشنل کرمنل کورٹ — 30 اکتوبر
غزہ میں القدس اسپتال کے اطراف اسرائیل کے میزائل حملے — 30 اکتوبر
ثانیہ مرزا کو غزہ کیلئے دنیا کی خاموشی پر تشویش — 30 اکتوبر
اقوامِ متحدہ کے 33 امدادی ٹرک رفاہ کراسنگ سے غزہ میں داخل — 30 اکتوبر
داغستان ایئر پورٹ پراسرائیل مخالف احتجاج، 60 افراد گرفتار — 30 اکتوبر
عاصم اظہر کا فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی، سالگرہ نہ منانے کا اعلان — 30 اکتوبر
اسرائیل کا غزہ میں حماس کے 600 ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے دعویٰ — 30 اکتوبر
امریکا کا اسرائیل یا غزہ میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں: امریکی نائب صدر — 30 اکتوبر
اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو معصوم بچوں کا مقتل بنا دیا — 30 اکتوبر
حزب اللّٰہ کا لبنان میں اسرائیلی ڈرون مار گرانے کا دعویٰ — 30 اکتوبر
سینیٹ: غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری کیخلاف قرارداد منظور — 30 اکتوبر
غزہ میں جنگ بندی پر اتفاق تک مزید بچوں کی جانیں جائینگی، سیو دی چلڈرن — 30 اکتوبر
منصوبے کے مطابق غزہ میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے ہیں: ترجمان اسرائیلی فوج — 30 اکتوبر
غزہ میں وحشیانہ مظالم چھپانے کیلئے اسرائیل کی مذموم حرکت — 30 اکتوبر
ویڈیو: اسرائیلی ٹینک نے عام شہری کی گاڑی کو بھی نشانہ بنایا — 30 اکتوبر
حماس کی حمایت، اسرائیل کی جانب سے فلسطینی انتظامیہ کے فنڈز منجمد — 30 اکتوبر
جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی ہے، فلسطینی شہری دفاع — 30 اکتوبر
ویڈیو: فلسطینی نوجوانوں نے پتھراؤ کرکے اسرائیلی ٹینکوں کو فرار پر مجبور کردیا — 30 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی حملوں کے بعد تیل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا خدشہ — 30 اکتوبر
کینیڈا کا غزہ میں انسانی بنیاد پر وقفہ دینے کا مطالبہ — 30 اکتوبر
قیامت کے دن اللّٰہ غزہ کا حساب کسی اور سے لے نہ لے، مسلم امہ سے ضرور لے گا، خواجہ آصف — 30 اکتوبر
غزہ میں اسرائیلی بمباری، اماراتی خاتون نے اپنے 30 رشتہ داروں کو کھودیا — 30 اکتوبر
حماس نے 3 یرغمالی خواتین کی ویڈیو جاری کر دی — 30 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی غزہ چھوڑنے کے لیے فلسطینی شہریوں کو فون پر دھمکیاں — 31 اکتوبر
غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے پر برطانوی وزیر برخاست — 31 اکتوبر
غزہ پر اسرائیلی حملے تیز، حماس کے 600 ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ — 31 اکتوبر
غزہ: ترک اسپتال کے قریب اسرائیلی فوج کی شدید بمباری، 23 فلسطینی شہید — 31 اکتوبر
نیمل خاور کا پینٹنگز کا معاوضہ فلسطینیوں کیلئے دینے کا اعلان — 31 اکتوبر
حماس کے حملوں کے بعد اسرائیل کو بڑا جھٹکا — 31 اکتوبر
غزہ میں ہر 10 منٹ میں 1 بچہ شہید ہو رہا ہے، یونیسیف — 31 اکتوبر
سیلینا گومز دوبارہ سوشل میڈیا سے کنارہ کش کیوں ہوئیں؟ — 31 اکتوبر
سعودی وزیرِ دفاع اور مشیرِ امریکی قومی سلامتی کی ملاقات — 31 اکتوبر
امریکا جتنے پیسے جنگ میں لگاتا ہے دنیا پر لگائے تو غربت ختم ہو جائے: حافظ نعیم الرحمٰن — 31 اکتوبر
اسرائیلی مظالم پر مسلم امہ اور حکومتیں خاموش ہیں، سینیٹر رضا ربانی — 31 اکتوبر
غزہ بچوں کا قبرستان بن چکا، 940 بچے لاپتہ ہیں، یونیسف — 31 اکتوبر
غزہ پر بمباری میں وقفہ کےلیے مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ بڑھنے لگا — 31 اکتوبر
اسرائیلی فوج کی جبالیا کیمپ پر وحشیانہ بمباری، 100 سے زائد فلسطینی شہید — 31 اکتوبر
غزہ کی وزارت صحت کی شفا اسپتال کو کھلا رکھنے کے لیے فیول فراہمی کی آخری اپیل — 31 اکتوبر
غزہ کے فلسطینیوں کو مصر کے شمالی سینائی میں منتقل کرنے کا اسرائیلی منصوبہ بےنقاب — 31 اکتوبر
یمن کے حوثیوں کا اسرائیل پر میزائلوں سے حملہ — 31 اکتوبر — غزہ میں 7 اکتوبر سے اب تک اقوام متحدہ کے 67 کارکن جاں بحق — 31 اکتوبر
سینیٹ کمیٹی میں امریکی وزیر خارجہ کے بیان کے دوران احتجاج، غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ — 31 اکتوبر
اسرائیل حماس تنازع میں اضافہ سخت تشویشناک ہے، اقوام متحدہ — 31 اکتوبر
اسرائیل کی مکمل حمایت پر خطے کے مزاحمتی گروپ چُپ نہیں بیٹھیں گے، ایران — 31 اکتوبر
اسرائیل کو دفاع کا حق حاصل ہے، امریکی وزیر خارجہ — 31 اکتوبر
نومبر 2023ء
اسرائیل کی وحشیانہ بمباری، جبالیہ کیمپ مکمل تباہ، خواتین و بچوں سمیت 50 شہید، حماس، حوثیوں اور حزب اللّٰہ کے اسرائیلی شہروں پر راکٹ حملے — 01 نومبر
فلسطینیوں کی نسل کشی، اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار مستعفی — 01 نومبر
اسرائیل اور حماس کی جنگ، امریکا میں حملوں کا خطرہ بڑھ گیا، ایف بی آئی — 01 نومبر
غزہ پر حملوں کے بعد بولیویا نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کردیے — 01 نومبر
اسرائیلی فوج کا حماس کمانڈر ابراہیم بیاری کو شہید کرنے کا دعویٰ — 01 نومبر
یو اے ای کی جبالیہ کیمپ پر اسرائیلی بمباری کی شدید مذمت — 01 نومبر
بھارت: ورلڈ کپ میچ میں فلسطین کا جھنڈا لہرا دیا گیا — 01 نومبر
نگراں وزیرِ اعظم کی جبالیہ کیمپ پر اسرائیلی بمباری کی مذمت — 01 نومبر
غزہ میں مزید 9 اسرائیلی فوجی مارے گئے — 01 نومبر
اسرائیلی حملوں میں شہداء کی تعداد 8 ہزار 525 ہو گئی — 01 نومبر
فلسطین کیساتھ اظہارِ یکجہتی کی قرار داد منظور — 01 نومبر
سینیٹر حافظ عبدالکریم کی سینیٹ میں عربی میں تقریر — 01 نومبر
7 اکتوبر کے بعد سے پہلی بار رفح کراسنگ کھول دی گئی — 01 نومبر
اسپیکر قومی اسمبلی کی جبالیہ کیمپ پر اسرائیلی بمباری کی مذمت — 01 نومبر
اسرائیلی حملے غزہ تک محدود نہیں: جلیل عباس جیلانی — 01 نومبر
پاکستانیوں کو 1 دن مسجد اقصیٰ میں خوش آمدید کہیں گے: فلسطینی سفیر احمد جواد ربیع — 01 نومبر
غزہ:24 گھنٹوں میں 12 اسرائیلی فوجی ہلاک — 01 نومبر
غزہ کی صورتحال پر ہمیں خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیے: سراج الحق — 01 نومبر
اسرائیلی فوج کی دوسرے روز بھی غزہ کے جبالیا کیمپ پر بمباری — 01 نومبر
غزہ پر حملے، چلی نے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا — 01 نومبر
عمان نے اسرائیلی پروازوں کیلئے فضائی حدود بند کردیں — 01 نومبر
مسلم ممالک اسرائیل کو تیل و خوراک کی برآمدات روکیں، ایران — 01 نومبر
عالمی ادارہ صحت کی ایک بار پھر غزہ میں بمباری روکنے کی اپیل — 01 نومبر
غزہ: ماں سے محروم ہوجانے والی بچی کو خاتون ڈاکٹر اور صحافی کا دلاسہ، ہر آنکھ اشکبار — 01 نومبر
غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم، اردن نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بُلا لیا — 01 نومبر
حماس کی القسام بریگیڈ نے نئے ہتھیار تارپیڈو سے اسرائیلی فوج کو نشانہ بنانے کی ویڈیو جاری کردی — 01 نومبر
متحدہ عرب امارات اور اردن کی جانب سے غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ — 01 نومبر
فلسطین کی آزادی و خودمختاری تک خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا، اسمٰعیل ہنیہ — 01 نومبر
القسام بریگیڈز کی اسرائیلی ٹینکوں کو تباہ کرنے کی نئی ویڈیو جاری — 01 نومبر
مصر، حماس اور اسرائیل میں رفح کراسنگ کھولنے کا معاہدہ ہوگیا — 01 نومبر
زخمیوں کے علاج میں مصروف خاتون ڈاکٹر اپنی بیٹی کو اسٹریچر پر دیکھ کر غم سے نڈھال — 01 نومبر
امریکی نائب صدر کی برطانیہ آمد، فلسطین کے حق میں مظاہرہ — 02 نومبر
غزہ جدید تاریخ میں صحافیوں کا سب سے بڑا مقتل — 02 نومبر
جنگ بند کی جائے، سینیٹ میں فلسطینیوں کیخلاف اسرائیلی جارحیت پر مذمتی قرارداد منظور — 02 نومبر
حماس کے اسرائیل پر حملے، 16 فوجی ہلاک — 02 نومبر
اسرائیل کی غزہ پر بمباری سے مزید 250 فلسطینی شہید — 02 نومبر
سعودی عرب غزہ جنگ کے بعد اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے میں دلچسپی رکھتا ہے: جان کربی — 02 نومبر
غزہ پر بمباری، انجیلینا جولی امریکا اور اسرائیل پر برہم — 02 نومبر
اسرائیل کی بمباری کیے بغیر بھی فلسطینیوں کو جان سے مارنے کی کوشش — 02 نومبر
متحدہ عرب امارات کا فلسطینی بچوں سے متعلق بڑا اعلان — 02 نومبر
سندھ امن مارچ اور طوفانِ اقصیٰ کانفرنس کیلئے جے یو آئی ف کے قافلے کراچی روانہ — 02 نومبر
رفح کراسنگ سے زخمی فلسطینیوں کا انخلاء دوسرے روز بھی جاری — 02 نومبر
اس وقت ساری دنیا میں اہم مسئلہ فلسطین کا ہے: سراج الحق — 02 نومبر
خادم حرمین شریفین کا فلسطین کیلئے 30 ملین ریال کا عطیہ — 02 نومبر
تیونسی خاتون ٹینس کھلاڑی کا فلسطینیوں کو انعامی رقم عطیہ کرنے کا فیصلہ — 02 نومبر
غزہ کے بچوں پر مالی و جانی نقصان کے اثرات تاحیات رہ سکتے ہیں، یونیسیف — 02 نومبر
اردن کے بعد بحرین نے بھی اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا — 02 نومبر
شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی غزہ کیلئے عطیات مہم شروع کرنے کی اپیل — 02 نومبر
جنگ سے کچھ بھی حل نہیں ہوتا، پوپ فرانسس — 02 نومبر
مسلمان کم از کم فلسطین کے مسئلے پر ایک ہوجائیں، مصطفیٰ کمال — 02 نومبر
اسرائیل ریاستی دہشتگرد ہے، فلسطینی مجاہد اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان — 02 نومبر
اسرائیلی فوج نے البریج پناہ گزین کیمپ پر بھی بم برسا دیے — 02 نومبر
فلسطینی پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں، اسماعیل ہنیہ — 03 نومبر
غزہ پر بمباری، شہداء 9 ہزار، بحرین نے اسرائیل سے تعلقات توڑ لئے، حزب اللّٰہ کے ڈرون حملے — 03 نومبر
خادمِ حرمین شریفین اور ولی عہد کے حکم پر غزہ کی امداد کیلئے مہم کا آغاز — 03 نومبر
فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کیلئے عرب و افریقی گلوکار ہم آواز — 03 نومبر
غزہ میں قتلِ عام پر اسرائیلی ترجمان کی زبان پر سچ آ گیا — 03 نومبر
غزہ میں فوری جنگ بندی کیلئے کوششیں کر رہے ہیں: متحدہ عرب امارات — 03 نومبر
اسرائیلی فوج کا غزہ سٹی کو گھیرے میں لینے کا دعویٰ — 03 نومبر
امریکی ایوانِ نمائندگان میں 14.3 ارب ڈالرز کا اسرائیل ایڈ بل منظور — 03 نومبر
مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیل نے متعدد محنت کش فلسطینی رہا کر دیے — 03 نومبر
لاپتہ غزہ کے رہائشیوں کی اسرائیلی ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر — 03 نومبر
اسرائیلی جارحیت: مسجدِ اقصیٰ میں آج بھی نماز جمعہ ادا نہ ہوئی — 03 نومبر
غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں کی تعداد241 ہو گئی — 03 نومبر
ویگنر کی جانب سے حزب اللّٰہ کو فضائی دفاعی نظام دینے کی رپورٹ بے بنیاد ہے، روس — 03 نومبر
غزہ میں اسرائیلی بمباری: شہید فلسطینیوں کی تعداد 9 ہزار سے زائد ہوگئی — 03 نومبر
لبنانی تنظیم حزب اللّٰہ کا اسرائیلی فوجی قافلے پر راکٹ حملے کا دعویٰ — 03 نومبر
طوفان اقصیٰ آپریشن نے اسرائیل کو ہر سطح پر جھنجھوڑ کر رکھ دیا، حسن نصراللّٰہ — 03 نومبر
حماس کا بڑا حملہ، 6 اسرائیلی ٹینک تباہ، فوجی افسر ہلاک — 03 نومبر
اسرائیلی فوج کی غزہ کے 2 اسپتالوں کے قریب بمباری، شہادتوں کا خدشہ — 03 نومبر
بس بہت ہو گیا، اسرائیل کو غزہ پر بمباری بند کرنا ہوگی، امریکی رکن کانگریس — 03 نومبر
سعودی وزیر خارجہ کا چینی ہم منصب سے ٹیلیفونک رابطہ، غزہ کی صورتحال پر گفتگو — 03 نومبر
اسرائیلی فوج کا غزہ میں 25 فوجیوں کے مارے جانے کا اعتراف — 03 نومبر
غزہ پر امریکی ڈرون کی پروازیں، اسرائیل کے ایمبولینس پر حملے، درجنوں شہید — 04 نومبر
امریکی وزیر خارجہ کا دورۂ اسرائیل، بڑی پیش رفت نہ ہوسکی — 04 نومبر
فرسٹ منسٹر حمزہ یوسف کے سسرالی والدین غزہ سے نکلنے میں کامیاب — 04 نومبر
غزہ میں شہداء کی تعداد 9300 ہو گئی — 04 نومبر
اشنا شاہ اور عرفان پٹھان ایک پیچ پر آ گئے — 04 نومبر
غزہ میں الشفا اسپتال کے قریب سڑکوں پر لاشوں کی تصاویر ہولناک ہیں: سیکریٹری جنرل اقوامِ متحدہ — 04 نومبر
غزہ کا قتل گاہ بننا عالمی برادری کے ضمیر پر سوال ہے: شیری رحمٰن — 04 نومبر
اسرائیل کا شمالی غزہ خالی کرنے کیلئے مرکزی شاہراہ 3 گھنٹے کھولنے کا اعلان — 04 نومبر
غزہ: شہید فلسطینیوں کی تعداد 9 ہزار 488 ہو گئی — 04 نومبر
ترکیہ نے اسرائیل سے اپنا سفیر واپس بلا لیا — 04 نومبر
فلسطین سے اظہار یکجہتی کیلئے سینٹرل لندن میں احتجاج، ایک لاکھ سے زائد افراد کی شرکت — 04 نومبر
غزہ میں اسرائیل نے 900 کلو کے دو بم گرائے — 04 نومبر
غزہ پر اسرائیلی بمباری: برازیل کے ساحل پر علامتی میتیں رکھ دی گئیں — 04 نومبر
غزہ سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کا اسرائیلی منصوبہ سامنے آگیا — 04 نومبر
تہران: حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی آیت اللّٰہ خامنہ ای سے ملاقات — 04 نومبر
غزہ میں جنگ بندی سے حماس کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل جائے گا، امریکی وزیر خارجہ — 05 نومبر
غزہ میں اقوام متحدہ کے اسکول پر اسرائیلی بمباری، ترکیہ نے تل ابیب سے سفیر واپس بلالیا، غزہ میں جنگ جاری، حزب اللّٰہ، اسرائیل سرحدی جھڑپیں — 05 نومبر
تاریخ کے گناہ اور مسئلہ فلسطین — 05 نومبر
پاکستان کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ — 05 نومبر
ایران میں فلسطینیوں کی حمایت اور امریکا اور اسرائیل مخالف ریلیاں — 05 نومبر
امریکی وزیر خارجہ کا عرب ممالک کے مطالبے پر غزہ میں جنگ بندی پر زور دینے سے انکار — 05 نومبر
حماس غزہ میں طویل جنگ کیلئے تیار، اسرائیلی پیش قدمی روکنے کے قابل — 05 نومبر
اسرائیلی فوج کا غزہ پر رات کو فضائی حملہ، 30 افراد شہید — 05 نومبر
اسرائیل حماس جنگ میں ’وقفے‘ پر پیش رفت ہوئی ہے، جوبائیڈن — 05 نومبر
شمالی غزہ پر اسرائیل نے بمباری تیز کردی — 05 نومبر
فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے، براک اوباما — 05 نومبر
عمان: عرب امریکی اجلاس کے موقع پر سعودی اور امریکی وزرائے خارجہ کی ملاقات — 05 نومبر
فلسطینی بچے بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے اسرائیلی اور امریکی بچے، برنی سینڈرز — 05 نومبر
اسرائیلی فوج کی نگرانی میں مقامی اور غیرملکی صحافیوں کا شمالی غزہ کا دورہ — 05 نومبر
غزہ جنگ میں اب تک 2500 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا، اسرائیلی فوج کا دعویٰ — 05 نومبر
غزہ پر ایٹم بم گرانا خارج از امکان نہیں، اسرائیلی وزیر — 05 نومبر
پریانکا گاندھی نے فلسطینیوں کی حمایت میں بیان دیدیا — 05 نومبر
امریکی وزیرِ خارجہ کی فلسطینی صدر سے ملاقات — 05 نومبر
مولانا فضل الرحمٰن قطر پہنچ گئے — 05 نومبر
غزہ میں اسرئیلی جنگی جرائم، چاڈ نے بھی اپنا سفیر واپس بلالیا — 05 نومبر
وائٹ ہاؤس پر ’بائیڈن تم چھپ نہیں سکتے‘ کے نعرے — 05 نومبر
کچھ قوتیں پاک افغان تعلقات خراب کرنا چاہتی ہیں، طاہر اشرفی — 05 نومبر
مولانا فضل الرحمان کی دوحہ میں حماس رہنما خالد مشعل اور اسماعیل ہنیہ سے ملاقات — 05 نومبر
سینیٹر مشتاق احمد غزہ کے فلسطینیوں کی امداد کیلئے مصر پہنچ گئے — 05 نومبر
فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کرنے پر پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اسماعیل ہنیہ — 05 نومبر
غزہ کی ایک گلی کی بمباری سے پہلے اور بعد کی ویڈیو وائرل — 05 نومبر
اسرائیلی وزیر کی غزہ پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی، شہباز شریف کی مذمت — 05 نومبر
بین الاقوامی مطالبات رد، اسرائیل کی جنگ بندی نہ کرنے کی ہٹ دھرمی برقرار — 05 نومبر
فلسطینیوں کی نسل کشی کیخلاف مہم چلانے پر امریکی صحافی نوکری سے فارغ — 05 نومبر
غزہ میں جنگ بندی: امریکی شوبز شخصیات کا امریکی صدر کے نام کُھلا خط — 05 نومبر
غزہ: تباہ شدہ ملبے میں دبی لڑکی کو نکالنے کی کوشش کے دل چیرتے مناظر — 05 نومبر
اسرائیلی فوج کا لبنان میں فضائی حملہ، 3 بچے شہید — 05 نومبر
لندن: فلسطنیوں کے حق میں مظاہرہ، طالبہ کی مغربی میڈیا پر شدید تنقید — 05 نومبر
اسرائیلی وزیر کی غزہ پر ایٹم بم گرانے کی دھمکی، سعودیہ کی مذمت — 06 نومبر
فلسطینیوں کی کھلے آسمان تلے راکٹوں کی بارش میں کھانا کھانے کی ویڈیو وائرل — 06 نومبر
غزہ پر اسرائیلی حملوں کو 1 مہینہ ہو گیا — 06 نومبر
اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فتح پارٹی رہنما، فلسطینی حکومتی مشیر گرفتار — 06 نومبر
اسرائیلی فوج نے فلسطینی خاتون صحافی کو گرفتار کر لیا — 06 نومبر
غزہ کی صورتحال پر سلامتی کونسل کا اجلاس آج ہو گا — 06 نومبر
اسرائیلی فوج کی پیش قدمی، غزہ کی سیٹلائٹ تصاویر محدود کر دی گئیں — 06 نومبر
ویڈیو: اسرائیلی فورس کا 12 سالہ فلسطینی بچی پر تشدد — 06 نومبر
امریکی ہپ ہاپ ریپر کیڈ کوڈی کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ — 06 نومبر
اقوام متحدہ کا غزہ میں جنگ بندی اور امداد کی فراہمی کا مطالبہ — 06 نومبر
انقرہ میں ترک اور امریکی وزرائے خارجہ کی ملاقات، غزہ تنازع کے عدم پھیلاؤ پر گفتگو — 06 نومبر
فلسطینی وزیراعظم غزہ میں بچوں کے قتل کا تذکرہ کرتے ہوئے رو پڑے — 06 نومبر
غزہ بچوں کا قبرستان بن رہا ہے، یو این سیکرٹری جنرل — 07 نومبر
رفح کراسنگ دوبارہ کھول دی گئی — 07 نومبر
یو این قراردادوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے حامی ہیں، چین — 07 نومبر
غزہ کی پٹی دو حصوں میں تقسیم، اسرائیلی فورسز نے شمالی حصے کو باقی سے کاٹ دیا — 07 نومبر
غزہ تنازع میں فوجی طور پر شامل نہیں ہونا چاہیں گے، پاکستانی مندوب — 07 نومبر
سعودی وزیرِ خارجہ کی بنگلا دیشی وزیرِ اعظم سے ملاقات — 07 نومبر
اقوام متحدہ شہریوں کی حفاظت سے قاصر ہے: شہبازشریف — 07 نومبر
غزہ کے 2 اسپتالوں کے قریب اسرائیل کی بمباری — 07 نومبر
امریکی صدر کی اسرائیلی وزیراعظم سے غزہ جنگ میں جزوی وقفے پر گفتگو — 07 نومبر
غزہ پر اسرائیلی جارحیت، اسلامی تعاون تنظیم کا ہنگامی اجلاس 12 نومبر کو ہوگا — 07 نومبر
غزہ میں ہر گھنٹے 6 بچے، 5 خواتین شہید — 07 نومبر
پوجا بھٹ بھی فلسطینی بچوں کیلئے غمزدہ — 07 نومبر
2 ہزار سے زائد ڈاکٹرز غزہ جانے کو تیار ہیں: حافظ نعیم الرحمٰن — 07 نومبر
ڈیلس: انسانی حقوق کی تنظیموں کا فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کیخلاف مظاہرہ — 07 نومبر
غزہ میں 160 ہیلتھ کیئر ورکرز فرائض ادائیگی کے دوران جاں بحق ہوچکے، عالمی ادارہ صحت — 07 نومبر
ایندھن کے بغیر غزہ میں ہماری خدمات رُکنے کے قریب ہیں، اقوام متحدہ ایجنسی — 07 نومبر
اسرائیلی فوج کی غزہ کے چلڈرن اسپتال کو خالی کرنے کی دھمکی — 07 نومبر
ترک پارلیمنٹ کے ریسٹورنٹس سے اسرائیلی کمپنیوں کی اشیا ہٹا دی گئیں — 07 نومبر
اسرائیلی فوج نے 32 دن میں 4237 فلسطینی بچے شہید کردیے — 07 نومبر
مصری صدر سے سی آئی اے چیف کی ملاقات، مصر کا غزہ میں فوری جنگ بندی پر زور — 07 نومبر
اسرائیلی وزیراعظم کا غزہ پٹی پر قبضے کا اشارہ — 07 نومبر
صہیونی فوج کے مظالم نے نامور اسرائیلی صحافی کو بھی رلادیا — 07 نومبر
امریکا نے اسرائیل کے غزہ پٹی پر نئے طویل مدتی قبضے کی مخالفت کردی — 08 نومبر
کیا لاطینی امریکی ممالک فلسطین کے حامی بلاک کی تشکیل کررہے ہیں؟ — 08 نومبر
کینیڈین فنکارہ کا اسرائیل کی حمایت پر بائیڈن انتظامیہ کی تقریبِ دیوالی کا بائیکاٹ — 08 نومبر
سعودی عرب کی فلسطینیوں کی مدد کرنے کی ایک اور کوشش — 08 نومبر
جماعتِ اسلامی کراچی کا غزہ کے بچوں سے یکجہتی کیلئے مارچ — 08 نومبر
شمالی غزہ میں خوراک کا بحران شدید — 08 نومبر
بین الاقوامی قوانین کے تحت اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے: جی سیون ممالک — 08 نومبر
یہ واضح ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کرسکتا: انٹونی بلنکن — 08 نومبر
غزہ پٹی پر اسرائیلی بمباری، کم از کم 18 فلسطینی شہید — 08 نومبر
غزہ پٹی پر اسرائیلی بمباری میں طبی عملے کے 192 ارکان شہید ہوئے، فلسطینی حکام — 08 نومبر
القسام بریگیڈ نے اسرائیلی فوج کی 10 گاڑیوں کو نشانہ بنایا، فلسطینی میڈیا — 08 نومبر
سیکیورٹی صورتحال بہتر ہونے پر غیرملکی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر تیار ہیں، حماس — 08 نومبر
نیتن یاہو نے حزب اللّٰہ کو دھمکی دیدی — 08 نومبر
نیتن یاہو اسرائیل کیلئے خطرہ بن چکے ہیں، سابق اسرائیلی وزیراعظم — 08 نومبر
ناز شاہ برطانوی پارلیمنٹ میں غزہ کے بچوں کی حالت زار بیان کرتے ہوئے آبدیدہ — 08 نومبر
فضل الرحمان کا اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینے کا مطالبہ — 08 نومبر
قطر کی غزہ میں مختصر جنگ بندی کی کوششیں — 08 نومبر
اسرائیل فلسطین کشیدگی: عائزہ خان نے پوسٹ ڈیلیٹ کر دی — 09 نومبر
شاعرِ مشرق علامہ اقبالؒ کا فلسطین سے رشتہ — 09 نومبر
غزہ میں جھڑپیں، ایک اور اسرائیلی فوجی مارا گیا — 09 نومبر
اسرائیلی وزیرِ اعظم کے بھتیجے کی غزہ میں ہلاکت کی اطلاع — 09 نومبر
بیلا حدید کو فلسطینیوں کی حمایت مہنگی پڑ گئی — 09 نومبر
فرانسیسی صدر کی میزبانی میں پیرس میں غزہ کیلئے امدادی کانفرنس آج ہو گی — 09 نومبر
فلسطینیوں کی امداد کے لیے سو ملین یورو دیں گے، فرانس — 09 نومبر
اسرائیل دفاع کے حق سے باہر نکل چکا ہے، مصر — 09 نومبر
ترک صدر کا اقتصادی تعاون تنظیم سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت پر آواز اٹھانے کا مطالبہ — 09 نومبر
اسرائیل کی وحشیانہ بمباری 34ویں روز بھی جاری، شہدا کی تعداد 10 ہزار 812 ہوگئی — 09 نومبر
امریکا اور اسرائیل کا شمالی غزہ میں روزانہ 4 گھنٹے وقفے پر اتفاق، وائٹ ہاؤس — 09 نومبر
اسرائیلی وزیراعظم آفس نے غزہ میں وقفوں کے معاہدے کی تصدیق نہیں کی، اسرائیلی میڈیا — 09 نومبر
فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے پر غور کر رہے ہیں، بیلجیئم — 09 نومبر
اسرائیل سے ابھی کوئی معاہدہ نہیں ہوا، حماس — 10 نومبر
غزہ کے باغ اور میدان بھی قبرستانوں میں تبدیل — 10 نومبر
اسرائیل فرعون کے نقش قدم پر، حضرت موسیٰؑ کے پیروکار ہونے کے دعویدار فلسطین میں بچوں کو قتل کررہے ہیں، نگراں وزیراعظم — 10 نومبر
جو صورتحال کشمیر میں ہے وہی فلسطین میں ہے، منیراکرم — 10 نومبر
غزہ: القدس اسپتال کے اطراف اسرائیل کی شدید بمباری، 6 فلسطینی شہید — 10 نومبر
یورپی پارلیمنٹ: آسٹریلوی اداکارہ کی غزہ میں جنگ بندی کی اپیل — 10 نومبر
فلسطینی بچوں، خواتین کی شہادت سے امریکا کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا: حافظ نعیم الرحمٰن — 10 نومبر
مغربی کنارے میں اسرائیلی حملوں میں مزید 19 فلسطینی شہید — 10 نومبر
مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی پالیسی وہی ہے جو قائدِ اعظم کی تھی: حافظ طاہر اشرفی — 10 نومبر
اسرائیلی فورسز نے دو ایمبولینس ڈرائیوروں کو گرفتار کرلیا — 10 نومبر
غزہ میں اسرائیل کے فوجی بلڈوزر تباہ کر دیے، القسام بریگیڈ — 10 نومبر
یرغمالیوں کی رہائی کیلئے اسرائیل اور حماس کے درمیان اتفاق رائے ہوگیا — 10 نومبر
صدر عارف علوی کا فلسطینی صدر محمود عباس سے ٹیلیفونک رابطہ — 10 نومبر
غزہ میں اسرائیلی وحشیانہ جارحیت کی پرزور مذمت کرتے ہیں، سعودی ولی عہد — 10 نومبر
اسرائیلی بمباری میں ماں باپ کو کھودینے والی بچی کی حالت پر ہر آنکھ اشکبار — 10 نومبر
رسول اللّٰہ سے کہنا آپ کی امت ہمارے قتل دیکھتی رہی، فلسطینی کی پوتے، پوتی کی میت پر دہائی — 10 نومبر
لندن: فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلی، جنگ عظیم کی یادگار سینوٹاف کے قریب جانے پر پابندی — 10 نومبر
لندن: فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیلئے ریلی، جنگ عظیم کی یادگار سینوٹاف کے قریب جانے پر پابندی — 10 نومبر
غزہ: بچوں کیساتھ 5 گھنٹے پیدل سفر، باہمت خاتون کو خراج تحسین — 10 نومبر
جنگ پورے خطے میں پھیل جائے گی، ایران کا انتباہ — 11 نومبر
اسرائیلی فوج نے انسانوں کو ڈھال بنالیا، اسپتالوں اور انخلا کرنے والوں پر وحشیانہ بمباری — 11 نومبر
سربراہ حماس اسماعیل ہنیہ کی پوتی اسرائیلی حملے میں شہید — 11 نومبر
غزہ: اسرائیلی طیارے الشفا اسپتال کے اطراف ہر شخص کو نشانہ بنانے لگے — 11 نومبر
غزہ کا محاصرہ ختم اور انسانی امداد کی رسائی دی جائے، سعودی ولی عہد — 11 نومبر
غزہ میں جنگ بندی کی ناکامی کا ذمہ دار امریکا ہے، فلسطینی صدر — 11 نومبر
غزہ: معصوم بچی کی شہید والدین کے ساتھ تصویر دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار — 11 نومبر
غزہ پر اسرائیلی بمباری پر دنیا کی خاموشی شرمناک ہے، ترک صدر — 11 نومبر
غزہ الشفا اسپتال حکام کا پیغام پڑھتے ہوئے برطانوی ڈاکٹر رو پڑیں — 11 نومبر
غزہ پر مسلسل بمباری، اسرائیلی جنگی جرائم کا مرتکب ہو گیا، حسن نصر اللّٰہ — 11 نومبر
عرب لیگ اور او آئی سی اجلاس پر حماس کا ردعمل آگیا — 11 نومبر
غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام فوری طور پر روکا جائے، انوارالحق کاکڑ — 11 نومبر
ویڈیو: غزہ میں پانی کا بحران، بے بس لڑکا زمین پر گرا پانی جمع کرنے پر مجبور — 11 نومبر
او آئی سی اور عرب لیگ کا غزہ محاصرہ ختم اور انسانی امداد کی فراہمی کا مطالبہ — 11 نومبر
جارحیت روکی جائے، مسلم حکمراں، اسرائیل کیخلاف اقدامات پر عدم اتفاق — 12 نومبر
عرب اور مسلمان ممالک پر فلسطینیوں کی مالی و عسکری امداد فرض ہے، 100 سے زائد علماء کی اپیل — 12 نومبر
لندن، پیرس میں ہزاروں افراد کا فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی، جنگ روکنے کا مطالبہ — 12 نومبر
جافا، عرب و یہودیوں کی وسطی اسرائیل کو کشیدگی سے بچانے کی کوشش — 12 نومبر
امریکا: کولمبیا یونیورسٹی نے غزہ پر اسرائیل کی بمباری کے خلاف احتجاج کرنے والے گروپوں کو معطل کردیا — 12 نومبر
ایلون مسک نے بھی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کردی — 12 نومبر
غزہ میں جھڑپوں کے دوران مزید 5 اسرائیلی فوجی ہلاک — 12 نومبر
امریکی ٹک ٹاکر میگن رائس نے اسلام قبول کرلیا — 12 نومبر
قطر میں سربراہ حماس اسماعیل ہنیہ سے سراج الحق کی ملاقات — 12 نومبر
اسپتالوں پر اسرائیلی حملے جاری، الشفا کے بعد القدس اسپتال بھی غیر فعال — 12 نومبر
او آئی سی اجلاس سے عملاً ثابت ہوگیا یہ سقوط غزہ کا انتظار کر رہے ہیں، سینیٹر مشتاق احمد — 12 نومبر
غزہ میں بچوں کیلئے کوئی جگہ محفوظ نہیں، یونیسیف — 12 نومبر
جنوبی افریقہ کا نیتن یاہو کی فوری گرفتاری کا مطالبہ — 12 نومبر
خان یونس پر اسرائیلی حملہ، 13 فلسطینی شہید، تعداد 11 سے متجاوز — 12 نومبر
جنگجوؤں کے لبنان سرحد کے قریب ٹینک شکن میزائلوں سے حملہ متعدد اسرائیلی زخمی — 12 نومبر
حماس نے دنیا کے سامنے اسرائیلی طاقت کا بھانڈا پھوڑ دیا، راجا ناصر عباس — 12 نومبر
رفح کراسنگ آج دوبارہ کھل گئی، زخمی فلسطینی اور غیرملکیوں کا پہلا گروپ مصر میں داخل — 12 نومبر
غزہ میں مواصلاتی سروسز جمعرات سے منقطع ہوجائیں گی، فلسطینی وزیر مواصلات — 12 نومبر
بھائیوں بس بہت ہوگیا، غزہ میں زخمیوں کی دیکھ بھال فوری ہونی چاہیے، پوپ فرانسس — 12 نومبر
اسرائیل کا غزہ میں شہریوں کو راستہ دینے کا دعویٰ، ہلال احمر تصدیق سے انکاری — 12 نومبر
غزہ، اسپتال قبرستانوں میں تبدیل، الشفا میں ICU کے تمام مریض دم توڑ گئے — 13 نومبر
حماس کے ہر حامی کو ختم کر دینا چاہیے، اسرائیلی وزیر جنگ — 13 نومبر
اشنا شاہ نے اسرائیل کیخلاف بائیکاٹ مہم کا درست طریقہ شیئر کر دیا — 13 نومبر
امریکا: ایپک اجلاس کے موقع پر احتجاج، مظاہرین کا غزہ کی آزادی کا مطالبہ — 13 نومبر
غزہ: ایندھن کی عدم فراہمی، اسپتالوں میں بیماریاں پھیلنے لگیں — 13 نومبر
آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تمام مسائل کا حل ہے: حافظ طاہر اشرفی — 13 نومبر — سراج الحق کا 19 نومبر کو لاہور میں غزہ مارچ کا اعلان — 13 نومبر
غزہ تنازع میں انسانی صورتحال انتہائی سنگین ہوگئی، چین — 13 نومبر
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یورپی ممالک سے غزہ میں جنگ بندی کرانے کی اپیل — 13 نومبر
اسرائیلی بمباری نے مستقبل کے ہزاروں فلسطینی معماروں کو موت کی نیند سُلا دیا — 13 نومبر
غزہ: الشفاء اسپتال میں 32 مریض دم توڑ گئے، ایندھن نہ ہونے کے باعث کام بند — 13 نومبر
غزہ میں 38ویں روز بھی اسرائیلی طیاروں کی بمباری، شہداء کی تعداد 11 ہزار سے زائد ہوگئی — 13 نومبر
اسرائیل کو غزہ کے الشفا اسپتال کو بچانا ہوگا، امریکی صدر — 14 نومبر
شمالی غزہ کے تمام اسپتال غیر فعال، جبالیہ، خان یونس پر بمباری، درجنوں شہید — 14 نومبر
شام، امریکی فوجی اڈوں پر راکٹوں سے حملہ، 4 فوجی ہلاک — 14 نومبر
حماس کی جنگ بندی کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی پر آمادگی ظاہر — 14 نومبر
غزہ میں رپورٹنگ کے لیے نیوز آرگنائزیشنز کا اسرائیل اور مصر کو خط — 14 نومبر
غزہ: جھڑپوں میں مزید 2 اسرائیلی فوجی ہلاک — 14 نومبر
غزہ کے اسپتالوں پر اسرائیلی حملوں کی تحقیقات بطور جنگی جرائم ہونی چاہیے: ہیومن رائٹس واچ — 14 نومبر
او آئی سی سے اسرائیل کے اقتصادی بائیکاٹ کی امید تھی: سراج الحق — 14 نومبر
الشفا اسپتال میں موجود 179 لاشوں کو اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا — 14 نومبر
امریکا و برطانیہ کی جانب سے حماس اور اس سے وابستہ افراد پر مزید پابندیاں عائد — 14 نومبر
اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری: شہید فلسطینیوں کی تعداد ساڑھے11ہزار ہوگئی — 14 نومبر
ٹیکساس: اسرائیل کو 100 ملین ڈالر امداد دینے پر گورنر کیخلاف تاریخی مظاہرہ — 14 نومبر
غزہ میں اسرائیلی مظالم کےخلاف امریکی یہودی بھی سراپا احتجاج — 14 نومبر
یقین ہے یرغمالیوں کی رہائی ہونے والی ہے، صدر جو بائیڈن — 14 نومبر
او آئی سی کا مایوس کن اعلامیہ — 15 نومبر
اردن کی پارلیمنٹ کا اسرائیل کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کا فیصلہ — 15 نومبر
غزہ پر اسرائیلی حملے جنگی جرم، سری لنکن ارکان پارلیمنٹ، جنگ بندی کا مطالبہ — 15 نومبر
بائیڈن کیخلاف غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی میں ملوث ہونے کا مقدمہ دائر — 15 نومبر
اسرائیل کا غزہ کے الشفا اسپتال پر حملہ — 15 نومبر
غزہ: شہداء کی تعداد کا ریکارڈ رکھے جانے کا عمل رک گیا — 15 نومبر
امریکی صدر کیخلاف غزہ میں نسل کشی میں ملوث ہونے کا مقدمہ دائر — 15 نومبر
اسرائیلی فوج کو کیلنڈر پر حماس اہلکاروں کے نام نظر آنے لگے — 15 نومبر
بائیڈن تم چھپ نہیں سکتے، امریکا میں غزہ کے اسپتال پر حملے کیخلاف مظاہرہ — 15 نومبر
کرسٹیانو رونالڈو اور لیونل میسی سے فلسطینیوں کی حمایت کا مطالبہ — 15 نومبر
غزہ جنگ: صادق سنجرانی کا صدر ملائیشین سینیٹ سے ویڈیو رابطہ — 15 نومبر
غزہ پر بمباری: بلیز کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع — 15 نومبر
امریکا خاموشی سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی منتقلی بڑھا رہا ہے: بلوم برگ — 15 نومبر
غزہ میں جاری جارحیت پر انسانیت شرمندہ ہے: صدرمملکت — 15 نومبر
مصر سے ایندھن کا پہلا ٹرک رفح کے ذریعے غزہ میں داخل — 15 نومبر
غزہ: الشفا اسپتال سے اسرائیلی فوج نے 30 افراد گرفتار کر لیے — 15 نومبر
جسٹن ٹروڈو کا نیتن یاہو سے غزہ میں فوجی آپریشن روکنے کا مطالبہ — 15 نومبر
اسرائیل کو دنیا دہشت گرد ریاست قرار دے: ترک صدر رجب طیب اردوان — 15 نومبر
غزہ کے الشفاء اسپتال پر اسرائیلی فوجی کارروائی کی خبریں تشویشناک ہیں، عالمی ادارہ صحت — 15 نومبر
غزہ میں بچوں پر مظالم، یونیسیف کا اظہار مذمت اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ — 15 نومبر
بھارت، امریکا اور اسرائیل گٹھ جوڑ قابل تشویش ہے، سینیٹر مشاہد حسین سید — 15 نومبر
پلے کارڈ پر ناریل میں رشی سونک کا چہرہ دکھانے پر خاتون ٹیچر سے تفتیش — 15 نومبر
اسرائیلی فوج فلسطین کے مرحوم رہنما یاسر عرفات سے بھی خوف میں مبتلا — 15 نومبر
ترک صدر کا اطالوی وزیراعظم سے ٹیلیفونک رابطہ، غزہ میں جنگ بندی پر گفتگو — 15 نومبر
اقوام متحدہ سلامتی کونسل: غزہ میں انسانی بنیاد پر وقفے پر آج ووٹنگ — 15 نومبر
برطانیہ، غزہ جنگ بندی کی قرارداد پر لیبر پارٹی میں بغاوت — 16 نومبر
غزہ، الشفا اسپتال کے ڈاکٹرز کا مریضوں کو چھوڑ کر جانے سے انکار — 16 نومبر
سلامتی کونسل کا غزہ میں جنگ میں وقفے کا مطالبہ — 16 نومبر
اسرائیلی فوجی ٹینک اسپتال میں گھس گئے، قتل عام روکا جائے، اقوام متحدہ کی عالمی برادری سے اپیل — 16 نومبر
حماس اور حزب اللّٰہ جانتے ہیں ان کا دشمن ایک ہے، فلسطینی صحافی — 16 نومبر
غزہ: اسرائیلی فوج کی مسجد پر بمباری، 50 نمازی شہید — 16 نومبر
غزہ میں زمینی آپریشن، مزید 2 اسرائیلی فوجی ہلاک — 16 نومبر
عالمی ادارے اسرائیلی فورسز سے الشفا میڈیکل کمپلیکس کا محاصرہ ختم کرائیں، منتظمین — 16 نومبر
اسرائیل مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں کا نوٹس لے، فرانس — 16 نومبر
اسرائیلی فوج نے الشفا اسپتال کی خصوصی سرجری والی عمارت تباہ کردی — 16 نومبر
91 فیصد پاکستانیوں کی غزہ کے فلسطینیوں کی حمایت — 16 نومبر
حماس کا کئی اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک و زخمی کرنے کا دعویٰ — 16 نومبر
غزہ میں انڈونیشین اسپتال میں کام مکمل رُک گیا — 17 نومبر
غزہ جنگ، اسرائیل مایوس، رائے عامہ کی جنگ ہار رہا ہے، امریکی میڈیا — 17 نومبر
اسرائیل کا جنین کا اسپتال فوری خالی کرنے کا حکم، مزید 3 فلسطینی شہید — 17 نومبر
اسرائیل پر غزہ جنگ کے معاشی اثرات سامنے آنا شروع — 17 نومبر
امریکا، لندن، جنوبی کوریا میں فلسطینیوں کی حمایت میں مظاہرے — 17 نومبر
اسرائیلی فورسز کو الشفاء اسپتال میں کیا ملا؟ — 17 نومبر
غزہ کے ساحلی علاقے پر قبضہ نہیں کرنا چاہتے: اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو — 17 نومبر
بابر اعظم نے فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموشی توڑ دی — 17 نومبر
غزہ: مریضوں کو تنہا نہ چھوڑنے والے ڈاکٹر حمام اللّٰہ اہل خانہ سمیت شہید — 17 نومبر
شفا اسپتال کے گرد دل چیر دینے والا انسانی بحران ہے، کینیڈین وزیراعظم — 17 نومبر
غزہ: الشفا اسپتال کے آئی سی یو میں کوئی مریض زندہ نہیں رہا — 17 نومبر
نیویارک ٹائمز کی صحافی غزہ میں اسرائیلی مظالم پر مستعفی — 17 نومبر
جنوبی افریقہ کی اسرائیل کیخلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شکایت — 17 نومبر
القسام بریگیڈز نے اسرائیلی فورسز پر حملے کی فوٹیج جاری کردی — 17 نومبر
غزہ، جنوب میں بھی بمباری، مغربی کنارے پر حملے، درجنوں شہید، الشفا اسپتال کے مزید 24 مریض دم توڑ گئے — 18 نومبر
غزہ، اسرائیلی بمباری سے اناج کا گودام تباہ، آٹا اور نمک بھی نایاب — 18 نومبر
5 ممالک نے بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کر لیا — 18 نومبر
اسرائیل کا مغربی کنارے میں بھی حملہ، 5 افراد شہید — 18 نومبر
مارے گئے اسرائیلی فوجیوں کی تعداد جلد یا بدیر اسرائیل تک پہنچ جائیگی: ابو عبیدہ ترجمان القسام بریگیڈ — 18 نومبر
غزہ میں شہداء کی تعداد 12 ہزار سے زائد ہو گئی — 18 نومبر
خان یونس: اسرائیلی بمباری سے بچوں سمیت 26 فلسطینی شہید — 18 نومبر
امریکا کی درخواست پر اسرائیل کا غزہ میں ایندھن کے ٹینکر بھیجنے کا فیصلہ — 18 نومبر
چاند نہیں مانگ رہے، غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کر رہے ہیں: سربراہ انسانی حقوق اقوامِ متحدہ — 18 نومبر
ناروے: فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی قرارداد منظور — 18 نومبر
مسلم ممالک مسئلہ فلسطین حل کرنے کے بجائے راستہ تلاش کر رہے ہیں: حافظ نعیم الرحمٰن — 18 نومبر
اسرائیلی فوج کی الشفا اسپتال 1 گھنٹے میں خالی کرنے کی وارننگ — 18 نومبر
غزہ: الوفا اسپتال پر اسرائیلی فوج کا حملہ، ڈائریکٹر شہید، کئی افراد زخمی — 18 نومبر
بحرین کے ولی عہد نے مشرق وسطیٰ کیلئے امن فارمولا دے دیا — 18 نومبر
الشفا اسپتال ویران ہوگیا، کچھ عملہ اور مریض رہ گئے، ڈائریکٹر کا بیان — 18 نومبر
اسرائیلی بمباری میں گھر والوں کو کھودینے والی بچی کی ویڈیو دیکھ کر ہر کوئی رنجیدہ — 18 نومبر
اقوام متحدہ اسکول پر اسرائیلی بمباری، 200 فلسطینی شہید و زخمی — 18 نومبر
اسرائیلی فوج الشفا اسپتال سے متعدد شہید فلسطینیوں کی لاشیں لے گئی، اسامہ حمدان — 18 نومبر
اسرائیل کا خاتمہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہوگا، ایرانی کمانڈر — 18 نومبر
اسرائیل کے جھوٹے دعووں کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹ گئی — 18 نومبر
اسرائیلی درخواست پر غزہ جنگ سے متعلق فیس بک، انسٹاگرام کی ہزاروں پوسٹس ڈیلیٹ — 18 نومبر
اسرائیل کا خاتمہ تاریخ کے کوڑے دان میں ہوگا، ایرانی کمانڈر — 19 نومبر
غزہ سے 15 فلسطینی زخمیوں کا پہلا گروپ یو اے ای پہنچ گیا — 19 نومبر
برونائی، انڈونیشیا اور ملائیشیا کا غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ — 19 نومبر
اسرائیل نے غزہ جنگ سے متعلق اپنے خلاف فیس بک، انسٹاگرام کی ہزاروں پوسٹس ڈیلیٹ کروادیں — 19 نومبر
امریکا، یورپ بھر میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی ریلیاں — 19 نومبر
اسرائیلی افواج نے الشفا اسپتال کے احاطے میں دفن 100 میتیں نکال لیں — 19 نومبر
’چاند نہیں مانگ رہے‘ غزہ میں جنگ بندی کردیں، اقوام متحدہ امدادی ادارے کے سربراہ کی اپیل — 19 نومبر
غزہ کی جنگ پر اسرائیل میڈیا وار سے بھی پریشان — 19 نومبر
اسرائیلی فوجیوں کی الشفا اسپتال میں خواتین سے بدسلوکی، برہنہ کرکے تلاشی لی — 19 نومبر
غزہ، جبالیہ، اقوام متحدہ اسکول پر اسرائیلی بمباری، 300 شہید، الشفا اسپتال سے جبری انخلا، صیہونی فوجی اڈے میں تبدیل — 19 نومبر
لبنان، اسرائیل ڈرون کی 2006 کے بعد پہلی بار ’’نبطیہ‘‘ میں بمباری — 19 نومبر
اسرائیلی جارحیت کے خلاف حزب اللّٰہ کی بھرپور جوابی کارروائیاں — 19 نومبر
دنیا بھر میں اسرائیلی مظالم اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے — 19 نومبر
غزہ اور مغربی کنارے کو ایک ہوجانا چاہیے، جو بائیڈن — 19 نومبر
جرمنی کی مغربی کنارے میں اسرائیلی کارروائیوں کی مذمت — 19 نومبر
غزہ میں 5 دن کیلئے جنگ بندی پر اتفاق، امریکی اخبار — 19 نومبر
او آئی سی کے سربراہوں نے مایوس کیا ہے: لیاقت بلوچ — 19 نومبر
غزہ میں جنگ بندی سے متعلق اسرائیلی وزیراعظم کا بیان سامنے آگیا — 19 نومبر
سوشل میڈیا پر فلسطین کے معاملے پر پروپیگنڈا سامنے آگیا — 19 نومبر
غزہ میں ایک کربلا برپا ہے، چھوٹی سی بستی پر بم برس رہے ہیں، سراج الحق — 19 نومبر
شمالی غزہ سے نکلنے والوں کے پاس سوائے کھانے پانی کے کچھ نہیں، فلسطینیوں کی دہائی — 19 نومبر
غزہ میں اسرائیلی مظالم کی حمایت پر بائیڈن کی مقبولیت میں کمی آگئی، رپورٹ — 19 نومبر
غزہ میں اسرائيلی فوجیوں کی ہلاکتیں 380 ہوگئيں — 19 نومبر
یمنی حوثیوں نے اسرائیلی بحری جہاز ہائی جیک کرلیا، جنگ بندی معاہدے کیلئے رابطے تیز — 20 نومبر
حماس سے جنگ، اسرائیلی اقتصادیات مفلوج، غزہ کے قریب سے لاکھوں افراد کی نقل مکانی — 20 نومبر
غزہ کے کچھ شمالی علاقوں سے اسرائیلی فوجی ٹینکوں کو پسپائی کا سامنا، عرب میڈیا — 20 نومبر
غزہ میں اسرائیلی مظالم کی حمایت پر بائیڈن کی مقبولیت میں کمی آگئی، رپورٹ — 20 نومبر
رفح میں فوجی کارروائیاں مختصر وقت کیلئے روکی ہیں، اسرائیلی فوج — 20 نومبر
لندن، فلسطینیوں پر حملوں کےخلاف یہودی بھی سراپا احتجاج — 20 نومبر
غزہ: انڈونیشین اسپتال پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ، 12 افراد شہید — 20 نومبر
مشرقِ وسطیٰ میں امن کی بحالی میں مدد کیلئے تیار ہیں: چینی وزیرِ خارجہ — 20 نومبر
مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی فائرنگ، فلسطینی شہید — 20 نومبر
ایرانی وزیرِ خارجہ کا امریکا پر جنگ کو ہوا دینے کا الزام — 20 نومبر
اسرائیل غزہ میں نہتے بچوں کا قتل عام کر رہا ہے: نگراں وزیرِ اعظم — 20 نومبر
عرب لیگ وزرائے خارجہ، او آئی سی حکام روس کا دورہ کریں گے — 20 نومبر
اسرائیل نے جنوبی افریقا سے اپنا سفیر واپس بلالیا — 21 نومبر
مسلم ممالک کے وزراء کا دورہ بیجنگ، چین اور عرب ممالک کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ — 21 نومبر
غزہ، انڈونیشین اسپتال پر اسرائیلی بمباری، ڈاکٹروں سمیت 14 شہید، مجموعی تعداد 13300 ہوگئی — 21 نومبر
غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ قریب ہے، امریکی صدر — 21 نومبر
اسرائیلی مغویوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ مرحلہ وار ہو گا — 21 نومبر
غزہ میں اسپتالوں کے نیچے بنکرز ہماری فوج نے بنائے تھے: سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم ایہود بارک کا اعتراف — 21 نومبر
میرا دل فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے رو رہا ہے: ثناء خان — 21 نومبر
کیلیفورنیا: مسلم کمیونٹی کا اسرائیل کے حق میں یکطرفہ قرارداد واپس لینے کا مطالبہ — 21 نومبر
غزہ میں مختصر سیز فائر آج متوقع — 21 نومبر
دیا مرزا نے بھی فلسطینیوں پر مظالم کیخلاف آواز اُٹھا دی — 21 نومبر
سینیٹر رضا ربانی کا صدر عارف علوی سے استعفیٰ کا مطالبہ — 21 نومبر
اسرائیل اور حماس کے درمیان ڈیل آخری مراحل میں داخل ہوگئی، امریکی ٹی وی — 21 نومبر
تمام ملک اسرائیل کو ہتھیار دینا بند کردیں، محمد بن سلمان — 21 نومبر
اسرائیلی فوج کی بمباری، حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ کا بڑا پوتا شہید — 22 نومبر
اسرائیلی فورسز کی خان یونس میں اپارٹمنٹ پر بمباری، مزید 10 شہید — 22 نومبر
اسرائیل نے جنگ میں وقفے اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری دے دی — 22 نومبر
اسرائیل و حماس عارضی جنگ بندی معاہدے کی تفصیلات سامنے آ گئیں — 22 نومبر
غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر امریکی صدر نے کیا کہا؟ — 22 نومبر
غزہ میں زمینی آپریشن میں مزید ایک اسرائیلی فوجی ہلاک — 22 نومبر
غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت، ثناء خان نے اسرائیلی اداکارہ گال گیڈوٹ کو آڑے ہاتھوں لے لیا — 22 نومبر
ڈزنی اسٹوڈیو کو اسرائیل کی حمایت مہنگی پڑ گئی — 22 نومبر
حماس کی جانب سے یرغمالیوں کی رہائی کل سے شروع ہونے کا امکان — 22 نومبر
یرغمالیوں کو فلسطینیوں کے گھروں میں رکھا ہوا ہے، حماس — 22 نومبر
غزہ: اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں شہید 111 فلسطینیوں کی اجتماعی قبر میں تدفین — 22 نومبر
اسرائیل اور حماس کے درمیان معاہدے کا حصہ نہیں، حزب اللّٰہ — 22 نومبر
عارضی جنگ بندی معاہدے کے بعد بھی اسرائیلی فوج نے ایمبولینس پر حملہ کردیا — 22 نومبر
غزہ کے حق میں پوسٹ کرنے پر اداکارہ کو ہالی ووڈ فلم سے نکال دیا گیا — 22 نومبر
فلسطینی والدین کے عمل کو شاعر نے الفاظ کا روپ دے دیا — 22 نومبر
غزہ: اسرائیلی فوج نے اسپتال کو فوجی بیرک، اجتماعی قبر، بربادی میں تبدیل کر دیا — 22 نومبر
ویڈیو: بیٹے کا جنازہ دیکھ کر فلسطینی بوڑھی خاتون شدت غم سے نڈھال — 23 نومبر
عارضی جنگ بندی سے پہلے اسرائیل کے حملے، مزید 52 افراد شہید — 23 نومبر
آئیں اسرائیل سے بدلہ لیں — 23 نومبر
جنگ بندی کا آغاز آج سے نہیں کل سے ہو گا، اسرائیل — 23 نومبر
اہل ادارے غزہ کے لیے عطیات جمع کرسکتے ہيں، اسٹیٹ بینک — 23 نومبر
فلسطینی قیدیوں اور اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں تاخیر — 23 نومبر
القدس بریگیڈز کا 11 اسرائیلی فوجی گاڑیوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ — 23 نومبر
غزہ جنگ میں وقفے میں 1 روز کی تاخیر کی وجہ سامنے آ گئی — 23 نومبر
پاکستان غزہ میں جنگ بندی کا شدت سے انتظار کر رہا ہے، ترجمان دفترِ خارجہ — 23 نومبر
اشنا شاہ کی سورۃ البقرہ پڑھنے کی گزارش — 23 نومبر
چاہتے ہیں فلسطینیوں کے قاتلوں اور ظالموں کو اس دنیا میں سزا ملے: سراج الحق — 23 نومبر
اسرائیلی فوج نے الشفاء اسپتال کے ڈائریکٹر کو گرفتار کر لیا — 23 نومبر
غزہ کی وزارت صحت نے عالمی ادارہ صحت سے رابطے ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا — 23 نومبر
صدر مملکت سے امام مسجد الحرام کی ملاقات، غزہ اور اسلاموفوبیا سمیت دیگر چیلنجز پر گفتگو — 23 نومبر
اسرائیلی فوجی کے ہاتھ میں اپنا گٹار دیکھ کر فلسطینی گلوکار حیران — 23 نومبر
غزہ پٹی میں عارضی جنگ بندی جمعہ کی صبح 7 بجے شروع ہوگی — 23 نومبر
مسلم حکمراں غزہ میں بچوں کے قتل عام پر خاموش ہیں، امیر جماعت اسلامی — 23 نومبر
غزہ: 48ویں دن بھی اسرائیلی فوج کے 300 سے زیادہ حملے — 23 نومبر
القسام بریگیڈ نے اسرائیلی فوج کی 335 گاڑیاں تباہ کردیں، ترجمان — 23 نومبر
حماس کے ساتھ یہ مختصر وقفہ ہے، اسرائیلی وزیر دفاع — 24 نومبر
غزہ جنگ بندی اور قیدیوں کا تبادلہ آج، حملے، جھڑپیں جاری، لبنان پر بھی اسرائیلی بمباری — 24 نومبر
جرمنی: فلسطینی تنظیموں کے ارکان اور حامیوں کے گھروں پر چھاپے — 24 نومبر
غزہ میں 4 روزہ عارضی جنگ بندی شروع — 24 نومبر
غزہ کے جنوبی علاقوں سے اسرائیلی فوجی طیاروں کی پروازیں بند — 24 نومبر
غزہ سے مزید 50 زخمیوں کو آج ترکیہ لایا جائے گا — 24 نومبر
غزہ کے زخمیوں کو پاکستان میں طبی سہولتیں دینا چاہتے ہیں: نگراں وزیرِ خارجہ — 24 نومبر
غزہ میں عارضی جنگ بندی کے پہلے دن کیا صورتِ حال ہے؟ — 24 نومبر
مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی پولیس کی نمازیوں پر شیلنگ — 24 نومبر
مسلم دنیا اسرائیل کی اجازت کے بغیر غزہ والوں کیلئے کچھ نہیں بھجوا سکتی: سینیٹر مشتاق احمد — 24 نومبر
حماس نے 25 یرغمالی، اسرائیل نے 39 فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا — 24 نومبر
غزہ میں 4 روزہ جنگ بندی، فلسطینی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی شروع، امدادی ٹرکوں کی مصر آمد — 25 نومبر
وقت آگیا دو ریاستی حل پر کام کیا جائے، بائیڈن — 25 نومبر
اسرائیلی قید سے رہا ہونیوالے فلسطینی قیدیوں نے کیا بتایا؟ — 25 نومبر
امریکی کوششوں سے غزہ میں جنگ بندی ممکن ہوئی: صدر جوبائیڈن — 25 نومبر
فلسطین پر اسرائیل کا وحشیانہ قبضہ ختم ہونا چاہیے: اسرائیلی کالم نگار گیدیون لیوی — 25 نومبر
آج اسرائیل سے 42 فلسطینی رہا کیے جائیں گے — 25 نومبر
حماس نے اسرائیل پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگادیا — 25 نومبر
غزہ میں انسانی صورتحال: اقوام متحدہ امدادی ایجنسی نے دلخراش منظر بیان کردیا — 25 نومبر
اسرائیل کی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی، حماس نے یرغمالیوں کی رہائی موخر کردی — 25 نومبر
سراج الحق کی اسلامی ممالک سے غزہ کو بچانے کی درخواست — 25 نومبر
یرغمالیوں کی رہائی مؤخر کرنے پر اسرائیل کی حماس کو دھمکی — 25 نومبر
حماس نے دوبارہ جنگ شروع کرنے کی اسرائیلی دھمکیوں کو کھوکھلا قرار دیدیا — 25 نومبر
حماس 13 اسرائیلی اور 7 غیر ملکی یرغمالی رہا کرنے پر آمادہ — 26 نومبر
حماس کے تحفظات دور، قیدیوں کے تبادلے پر عمل درآمد ہوگا، قطر، مصر — 26 نومبر
حماس نے 13 اسرائیلی، 4 تھائی شہریوں کو رہا کردیا — 26 نومبر
فلسطین کے بعد دیگر اسلامی ممالک بھی اسرائیل کے نشانے پر ہوں گے: سراج الحق — 26 نومبر
حماس آج اسرائیلی یرغمالیوں کے تیسرے گروپ کو رہا کرے گا — 26 نومبر
غزہ: عارضی جنگ بندی کا تیسرا دن، اسرائیل کی خلاف ورزی، مزید ایک فلسطینی شہید — 26 نومبر
پوپ فرانسس کا غزہ میں عارضی جنگ بندی کا خیر مقدم — 26 نومبر
حماس نے اسرائیل کو پسپا کردیا، حافظ نعیم — 26 نومبر
مقبوضہ بیت المقدس میں نتین یاہو کیخلاف مظاہرہ، استعفے کا مطالبہ — 26 نومبر
قومی ٹی20 کپ: اعظم خان پر میچ فیس کا 50 فیصد جرمانہ — 26 نومبر
حماس نے 5 غیرملکیوں سمیت 13 اسرائیلیوں کو ریڈکراس کے حوالے کردیا — 26 نومبر
غزہ، چار روزہ عارضی جنگ بندی کا آج آخری روز — 27 نومبر
جنگ بندی کے بعد دوبارہ مہم شروع کردیں گے، اسرائیلی وزیراعظم — 27 نومبر
بارسلونا، ہزاروں افراد کا عارضی جنگ بندی میں توسیع کا مطالبہ — 27 نومبر
غزہ میں عارضی جنگ بندی: ابتک کتنے افراد کو رہا کیا جا چکا؟ — 27 نومبر — چینی وزیرِ خارجہ 29 نومبر کو امریکا جائیں گے — 27 نومبر
ہماری حکومت نے صرف چاول فلسطین بھیجے ہیں: سراج الحق — 27 نومبر
امریکا: 3 فلسطینی نژاد طالبعلم فائرنگ سے زخمی — 27 نومبر
ایلون مسک اسرائیل پہنچ گئے، نیتن یاہو کیساتھ مختلف علاقوں کا دورہ — 27 نومبر
الشفا اسپتال میں بمباری سےجلنے والوں میں 45 فیصد بچے ہیں، سرجن غسان ابوسیطہ — 27 نومبر
ایران کا غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ، اس وقت صورتحال مستحکم ہے، ناصر کنعانی — 27 نومبر
کئی ملکوں کی جانب سے غزہ میں جنگ بندی میں توسیع کی کوششیں جاری — 27 نومبر
غزہ: عمارت کے ملبے پر فلسطینی بچوں کے کھیلنے کی ویڈیو — 27 نومبر
غزہ جنگ بندی میں 2 روز کی توسیع ہوگئی، قطری وزارت خارجہ — 27 نومبر
اسرائیل سے رہا فلسطینی والدین سے لپٹ کر رو پڑے — 27 نومبر
غزہ جنگ بندی میں توسیع، وائٹ ہاؤس کا خیرمقدم — 27 نومبر
آج رہا ہونے والے فلسطینی قیدیوں کے نام مل گئے، حماس — 27 نومبر
اسرائیل و حماس جنگ بندی میں 2 روز کی توسیع، غزہ امن کیلئے اقدامات مثبت ہیں، چین — 28 نومبر
کے الیکٹرک کو لائسنس نہیں ملنا چاہیے: حافظ نعیم الرحمٰن — 28 نومبر
غزہ کی بحالی کیلئے یومیہ 1 ہزار امدادی ٹرکوں کی ضرورت — 28 نومبر
غزہ میں خراب نظامِ صحت سے بمباری سے زیادہ اموات کا خدشہ ہے: عالمی ادارۂ صحت — 28 نومبر
غزہ میں 4 روزہ جنگ بندی میں کُل 69 یرغمالی رہا ہوئے: قطر — 28 نومبر
اسرائیل کی غزہ میں ایندھن پر پابندیاں امداد کی فراہمی میں رکاوٹ ہیں، یورپی یونین — 28 نومبر
دبئی: عالمی ماحولیاتی کانفرنس، اسرائیلی و فلسطینی صدور بھی شرکت کریں گے — 28 نومبر
غزہ میں مکمل جنگ بندی کیلئے کوششیں بڑھا دی ہیں، قطر — 28 نومبر
حماس نے 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کردیا — 28 نومبر
حماس کے سینئر رہنما کی ایلون مسک کو غزہ کے دورے کی دعوت — 29 نومبر
اسرائیل فلسطین پر سے قبضہ ختم کرے: ہزاروں گلوکار و موسیقار غزہ میں جنگ بندی کیلئے متحد — 29 نومبر
سینئر سی آئی اے آفیسر کی سوشل میڈیا پر فلسطین کی حمایت — 29 نومبر
غزہ میں جنگ بندی کی 2 روزہ توسیع کا آخری روز — 29 نومبر
کراچی: آج فلسطین یکجہتی مارچ، ٹریفک پلان جاری — 29 نومبر
پاکستانی عوام اور پارلیمان فلسطینی بھائیوں سے مکمل اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں، راجہ پرویز اشرف — 29 نومبر
کراچی: غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت میں ’یکجہتی فلسطین‘ ریلی — 29 نومبر
غزہ کے 80 فیصد لوگوں کو جبری بے دخل کیا جا چکا ہے، اقوام متحدہ — 29 نومبر
اسرائیلی فوج کا ایک اور ہولناک جنگی جرم سامنے آگیا — 29 نومبر
غزہ میں جنگ بندی میں توسیع کے امکانات ہیں، سعودی عرب — 29 نومبر
القسام بریگیڈ کے یرغمالیوں میں 3 اسرائیلی بمباری سے مر گئے — 29 نومبر
فلسطینی بچی اسرائیلی بمباری سے تباہ شدہ گھر دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی — 29 نومبر
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی میں 1 روز کی توسیع — 30 نومبر
متحدہ عرب امارات اور امریکی صدر کی غزہ کی صورتحال پر گفتگو — 30 نومبر
جیجی حدید کی شدید دباؤ پر اسرائیل مخالف پوسٹ کرنے پر معذرت — 30 نومبر
فلسطینیوں کی حمایت پر اُشنا شاہ کا انسٹاگرام اکاؤنٹ محدود — 30 نومبر
نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کا فلسطینی طلباء کو اسکالر شپ دینے کا فیصلہ — 30 نومبر
امریکی وزیر خارجہ کی رام اللّٰہ آمد، فلسطینیوں کا احتجاج — 30 نومبر
اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے میں 2 فلسطینی بچوں کو شہید کردیا — 30 نومبر
دسمبر 2023ء
اسرائیلی یرغمالیوں کی ویڈیو نے حماس کیخلاف پروپیگنڈے کی نفی کردی — 01 دسمبر
جنگ بندی میں توسیع کی کوششیں جاری رکھیں گے، جان کربی — 01 دسمبر
جنگ بندی بغیر کسی توسیع کے ختم، غزہ پر اسرائیلی فوج کا حملہ، 21 فلسطینی شہید — 01 دسمبر
بھارتی اداکارہ نے اپنا فلم فیئر ایوارڈ فلسطینیوں کے نام کردیا — 01 دسمبر
پاکستان کا غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ — 01 دسمبر
7 روزہ جنگ بندی ختم، غزہ بھر میں اسرائیلی حملے، 178 فلسطینی شہید — 01 دسمبر
مزید یرغمالیوں کی رہائی پر 1 روزہ جنگ بندی کا سوچا جاسکتا ہے، اسرائیلی عہدیدار — 01 دسمبر
غزہ: کم عمر ولاگر بمباری کے دوران بھی مسکراتے ہوئے ویڈیو بناتا رہا — 01 دسمبر
غزہ میں پھر آگ و خون، خواتین و بچوں سمیت 178 فلسطینی شہید — 02 دسمبر
اسرائیل کا دنیا بھر میں حماس رہنماؤں کے قتل کا منصوبہ — 02 دسمبر
غزہ پر حملے جاری، 3 صحافیوں سمیت 184 فلسطینی شہید — 02 دسمبر
غزہ میں بفر زون کا قیام چاہتے ہیں: اسرائیل — 02 دسمبر
غزہ: جنگ بندی ختم ہونے کے بعد 240 فلسطینی شہید — 02 دسمبر
غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں ڈیڈ لاک آگیا — 02 دسمبر
امریکا: اسرائیلی قونصلیٹ کے باہر فلسطینی پرچم لیکر احتجاج کرنے والی خاتون نے خود کو آگ لگالی — 02 دسمبر
ویڈیو: معصوم فلسطینی بچے شہید والد کا آخری دیدار کرتے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے — 02 دسمبر
اسرائیلی بمباری سے 6 رہائشی فلیٹس تباہ، سیکڑوں خاندان بے گھر — 02 دسمبر
جنگ بندی اور تمام قیدیوں کی رہائی تک اسرائیلی یرغمالی رہا نہیں کیے جائیں گے، حماس — 02 دسمبر
فلسطینیوں کی زندگی مزید خطرے میں — 03 دسمبر
غزہ کی سرحد کا دوبارہ تعین کرنے نہیں دیں گے، کاملا ہیریس — 03 دسمبر
غزہ پر عرب ممالک کا رویہ سمجھ سے بالاتر ہے، سینئر صحافیوں کا اظہار خیال — 03 دسمبر
اسرائیل مذاکرات سے فرار، غزہ پر سیکڑوں حملے، درجنوں شہید، دمشق پر بھی بمباری — 03 دسمبر
غزہ کے گنجان حصوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری — 03 دسمبر
برطانیہ کا طیاروں سے غزہ کی جاسوسی کا اعلان — 03 دسمبر
سربراہ ڈبلیو ایچ او نے غزہ کے اسپتال کا دورہ کرنے کے بعد کیا کہا؟ — 03 دسمبر
امریکا میں فائرنگ سے زخمی 3 فلسطینیوں میں سے ایک معذور ہوگیا — 03 دسمبر
خان یونس اور رفح میں آج صبح اسرائیلی بمباری سے 30 فلسطینی شہید — 03 دسمبر
استنبول میں ترک ڈاکٹروں اور طلبا کا غزہ سے یکجہتی کیلئے خاموشی مارچ — 03 دسمبر
پوپ فرانسس کا غزہ میں عارضی جنگ بندی کے خاتمے پر اظہار افسوس — 03 دسمبر
غزہ پٹی میں بمباری بند نہ ہوئی تو پورا خطہ جنگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے، نگراں وزیراعظم — 03 دسمبر
غزہ: 1 دن میں 700 سے زائد فلسطینی شہید — 03 دسمبر
اسرائیل کی حمایت امریکی صدر بائیڈن کو مہنگی پڑ گئی — 03 دسمبر
برطانیہ اسرائیل کی مدد کیلئے آگیا، برٹش طیارے غزہ میں حماس کی جاسوسی کریں گے، بحیرہ احمر میں امریکی و برطانوی جہازوں پر راکٹ و ڈرون حملے — 04 دسمبر
اسرائیل نے زمینی کارروائی پورے غزہ تک بڑھا دی — 04 دسمبر
قطری وزیر خارجہ کا اسرائیل حماس جنگ بندی کا مطالبہ — 04 دسمبر
کینیڈین گلوکار کا فلسطینیوں کیلئے 2.5 ملین ڈالرز امداد کا اعلان — 04 دسمبر
میرا جسم پیرس میں، دل غزہ میں ہے: سینٹ لیونٹ نے اپنا ایوارڈ فلسطینیوں کے نام کر دیا — 04 دسمبر
اسرائیلی گلوکاروں کا بیلا حدید، دعا لیپا اور میا خلیفہ کے قتل کا مطالبہ — 04 دسمبر
اسرائیل نے غزہ کے آدھے سے زائد گھر تباہ کر دیے، عرب میڈیا — 04 دسمبر
اسرائیلی فوج کی فلسطینی صحافیوں پر ٹینکوں سے فائرنگ، ویڈیو سامنے آگئی — 04 دسمبر
غزہ جنگ میں شریک اسرائیلی فوجی خطرناک بیکٹریا کا شکار ہونے لگے — 04 دسمبر
اسرائیلی طیاروں نے الدرج کے 2 اسکولوں کو نشانہ بنایا، 50 سے زائد شہید — 05 دسمبر
اسرائیل نے زمینی جنگ کا دائرہ جنوبی غزہ تک بڑھا دیا — 05 دسمبر
اُشنا شاہ کی عمرے پر فلسطین کیلئے خصوصی دعائیں — 05 دسمبر
غزہ کی صورتحال ناقابل بیان ہے، عالمی ریڈ کراس — 05 دسمبر
غزہ میں زمینی آپریشن میں مزید 3 اسرائیلی فوجی ہلاک — 05 دسمبر
’ہم یہیں رہیں گے جب تک درد ختم نہیں ہوجاتے‘: فلسطینی صحافیوں کا پیغام — 05 دسمبر
غزہ میں اقوام متحدہ کی امدادی ایجنسی کے مزید 19 ارکان ہلاک — 05 دسمبر
سلامتی کونسل اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر واپس لائے، امیر قطر — 05 دسمبر
نیتن یاہو حکومت پورے خطے کی سلامتی اور مستقبل کو خطرے میں ڈال رہی ہے، ترک صدر — 05 دسمبر
غزہ پر اسرائیلی حملوں میں امریکی ساختہ گولہ بارود استعمال کیا جا رہا ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل — 05 دسمبر
خلیج تعاون کونسل کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ — 05 دسمبر
اسرائیلی فوج کی بمباری، آج 100 سے زائد فلسطینی شہید — 05 دسمبر
اعتزاز احسن کا اہل فلسطین کو شاندار خراج عقیدت — 05 دسمبر
غزہ: بمباری اور بیماری، شہداء کی تعداد میں مسلسل اضافہ — 06 دسمبر
چین اور امریکا کی فلسطین اسرائیل تنازع پر بات چیت — 06 دسمبر
غزہ میں صورتحال انتہائی خطرناک ہے، فلسطینی صحافی — 06 دسمبر
فلسطین میں 2 ریاستوں کے قیام کی بات سے پرہیز کیا جائے، مفتی تقی عثمانی — 06 دسمبر
ترک صدر نے غزہ میں بفرزون کے قیام کا اسرائیلی منصوبہ مسترد کر دیا — 06 دسمبر
ریڈ کراس کی غزہ میں اسرائیلی یرغمالیوں تک رسائی ہونی چاہیے، اسرائیل — 06 دسمبر
غزہ کی صورتحال ہر منٹ میں ابتر ہو رہی ہے، اقوام متحدہ — 06 دسمبر
دو ریاستی حل کو تسلیم کرنا مقاصد تشکیل پاکستان سے انحراف ہوگا، فضل الرحمان — 06 دسمبر
القسام کی اسرائیلی ٹینکوں کو راکٹوں سے نشانہ بنانے کی ویڈیو — 06 دسمبر
حماس کی جانب سے رہا اسرائیلی یرغمالی نیتن یاہو پر برس پڑے — 07 دسمبر
امریکی سینیٹ کا یوکرین اور اسرائیل کیلئے مزید اربوں ڈالرز کی ہنگامی امداد دینے سے انکار — 07 دسمبر
اسرائیلی ریزرو فورس کا میجر غزہ میں ہلاک — 07 دسمبر
قائدِ اعظمؒ نے کہا تھا اسرائیل ناجائز ریاست ہے، آج یہ جائز کیسے بن گیا؟ سراج الحق — 07 دسمبر
غزہ میں مزید 2 اسرائیلی فوجی ہلاک — 07 دسمبر
’پرسن آف دی ایئر‘ کا اعزاز ٹیلر سوئفٹ کی بجائے فلسطینیوں کو ملنا چاہیے تھا: عثمان خالد بٹ — 07 دسمبر
لبنانی صحافی اسرائیلی ٹینک سے فائر کیے گئے گولے سے ہلاک ہوا: ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ — 07 دسمبر
غزہ میں شدید بمباری کے سبب امداد کی فراہمی نہیں ہو پا رہی، اقوام متحدہ — 07 دسمبر
غزہ میں امریکی’ویپن گائیڈنس سسٹم‘ کے استعمال کا ثبوت حاصل کرلیا، ایمنسٹی انٹرنیشنل — 07 دسمبر
غیر ملکی شہریوں کا انخلا، رفح بارڈر آج پھر کھولا جائے گا — 07 دسمبر
اسرائیل کی سفاکیت، ذہنی معذور فلسطینی کو بھی نہ بخشا — 07 دسمبر
ایرانی صدر رئیسی کی ماسکو میں صدر پیوٹن سے ملاقات، باہمی دلچسپی اور غزہ پر گفتگو — 07 دسمبر
غزہ: اسرائیلی بمباری کو دو ماہ مکمل، الجزیرہ کی اہم رپورٹ جاری — 07 دسمبر
سابق اسرائیلی آرمی چیف کا بیٹا غزہ میں جھڑپ کے دوران مارا گیا — 07 دسمبر
غزہ کی صورتحال پر مسلم ممالک کے رابطہ گروپ کا اجلاس آج ہوگا — 08 دسمبر
72 گھنٹوں میں 135 اسرائیلی گاڑیوں کو تباہ کیا، ابوعبیدہ — 08 دسمبر
اسرائیل کو فوجی سامان کے 200 طیارے ملے — 08 دسمبر
غزہ، اسرائیلی فوج کے جنگی جرائم، گرفتار فلسطینیوں کو بے لباس کر کے زمین پر بٹھا دیا گیا — 08 دسمبر
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینیوں کے حق میں 5 قراردادیں منظور — 08 دسمبر
غزہ: زمینی آپریشن میں ہلاک اسرائیلی فوجیوں کی تعداد 91 ہو گئی — 08 دسمبر
القسام بریگیڈز کا متعدد اسرائیلی کمانڈوز کی ہلاکت کا دعویٰ — 08 دسمبر
غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں میں مزید 350 سے زائد فلسطینی شہید — 08 دسمبر
اسرائیلی فوج نے ممتاز فلسطینی استاد کو بیوی بچوں سمیت شہید کردیا — 08 دسمبر
اسرائیلی فوج نے غزہ میں 650 سال قدیم مسجد شہید کردی — 08 دسمبر
سلامتی کونسل، غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد امریکا نے ویٹو کردی — 09 دسمبر
امریکا نے غیر اخلاقی و غیر انسانی مؤقف اپنایا ہے: حماس — 09 دسمبر
اب اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوئی جرأت نہیں کریگا: علامہ عارف حسین واحدی — 09 دسمبر
غزہ جنگ بندی قرارداد پر امریکی ویٹو اشتعال انگیزی ہے، محمود عباس — 09 دسمبر
غزہ جنگ بندی قرارداد پر امریکا کا ویٹو، ایران اور ترکیہ کا بھی شدید ردعمل — 09 دسمبر
اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرنے والے شہدائے پاکستان سے غداری کر رہے ہیں، حافظ نعیم — 09 دسمبر
اسرائیل کا 425 فوجیوں کی ہلاکت، 5 ہزار زخمی ہونے کا اعتراف — 09 دسمبر
لندن: اسرائیلی جارحیت کیخلاف بارش کے باوجود احتجاج — 09 دسمبر
اسرائیل کی ریاستی دہشتگردی: فلسطینی سڑکوں پر اجتماعی قبریں بنانے پر مجبور — 09 دسمبر
اسرائیل غزہ پر اپنے ظالمانہ اور غیرانسانی حملے روکے، دفتر خارجہ — 09 دسمبر
اسرائیلی فوجی غزہ کی گفٹ شاپ میں توڑ پھوڑ کرکے وڈیو بنواتا رہا — 09 دسمبر
غزہ پٹی پر ہلاک اسرائیلی فوجیوں میں سابق آرمی چیف کا بھتیجا بھی شامل — 09 دسمبر
اسرائیلی فوج غزہ میں جان بوجھ کر عام شہریوں کو نشانہ بنارہی ہے، اسرائیلی اخبار — 09 دسمبر
اسرائیلی حملوں میں شدت، غزہ میں غذائی بحران سنگین — 10 دسمبر
اسرائیل فلسطینیوں کو بدترین نسل کشی کا نشانہ بنا رہا ہے: صدرِ مملکت — 10 دسمبر
اسرائیل غزہ میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کررہا ہے، نگراں وزیراعظم — 10 دسمبر
شیری رحمٰن کی فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت — 10 دسمبر
اسرائیل کا منصوبہ فلسطینیوں کو غزہ سے مصر میں دھکیلنا ہے، اقوام متحدہ — 10 دسمبر
اسرائیلی وزیراعظم کا روسی صدر سے ٹیلیفونک رابطہ — 10 دسمبر
غزہ میں بمباری سے بچنے والوں کا بھوک اور بیماریوں سے مرنے کا خطرہ، اقوام متحدہ — 10 دسمبر
خان یونس میں ایک گھر پر اسرائیلی بمباری میں 10 فلسطینی شہید — 10 دسمبر
اقوام متحدہ نے اسرائیل کے ’دوسرے نکبہ‘ کی سازش بے نقاب کردی — 10 دسمبر
غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کرنے میں سلامتی کونسل کی ناکامی پر افسوس ہے،انتونیو گوتریس — 10 دسمبر
مذاکرات کے بغیر کوئی یرغمالی رہا نہیں ہوگا، ابو عبیدہ — 10 دسمبر
غزہ کی صورتحال عالمی نظام قانون سے متعلق سوالات پوچھنے پر مجبور کر رہی ہے، قطری وزیراعظم — 10 دسمبر
غزہ، شہری مصر دھکیلنے کی سازش، پتا نہیں فلسطینی یہاں رکھتے ہیں یا کہیں اور بھیجے جاتے ہیں، اقوام متحدہ، صاف جھوٹ ہے، اسرائیل — 11 دسمبر
متنازع تشہیری مہم، اشنا شاہ کی ملبوسات کے برانڈ کے بائیکاٹ کی حمایت — 11 دسمبر
اقوام متحدہ: جنرل اسمبلی کا غزہ پر خصوصی اجلاس کل ہو گا — 11 دسمبر
اسرائیلی فوج کا شمالی غزہ کے رہائشیوں کو انخلاء کا دوبارہ الٹی میٹم — 11 دسمبر
سلامتی کونسل کے سفیروں کا رفح سرحد کا غیر سرکاری دورہ — 11 دسمبر
سینیٹ قائمہ کمیٹی کی غزہ پر قرار داد منظور — 11 دسمبر
فلسطین پر قابض اسرائیل کو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے؟ عبدالغفور حیدری — 11 دسمبر
غزہ کے فلسطینیوں سےاظہار یکجہتی کیلئے لبنان میں عام ہڑتال — 11 دسمبر
غزہ کی لڑائی لبنان اور یمن کے محاذوں تک پہنچ چکی ہے، ایران — 11 دسمبر
غزہ میں مزید 4 افسران سمیت7 اسرائیلی فوجی ہلاک — 11 دسمبر
اسرائیلی فوج کی بمباری، الجزیرہ ٹی وی رپورٹر کے والد شہید — 12 دسمبر
غزہ میں صورتحال ہولناک، وحشیانہ اسرائیلی حملے، شام اور لبنان پر بھی بمباری — 12 دسمبر
غزہ جنگ کا واحد حل عسکری ہے، امریکا — 12 دسمبر
غزہ میں شہری ہلاکتیں مجموعی اموات کا 70 فیصد ہیں، جوزف بوریل — 12 دسمبر
غزہ میں مستقل رہنے کا کوئی ارادہ نہیں، اسرائیل — 12 دسمبر
غزہ، اسرائیلی فوج کی بمباری، مزید 200 فلسطینی شہید — 12 دسمبر
جمائما نے غزہ میں جنگ بندی کی حمایت کر دی — 12 دسمبر
غزہ میں 20 اسرائیلی فوجی اپنے ہی ساتھیوں کے ہاتھوں مارے گئے — 12 دسمبر
اسرائیلی فوج نے شمالی غزہ کے کمال عدوان اسپتال پر دھاوا بول دیا — 12 دسمبر
امریکی شوبز اسٹارز کی غزہ کیلئے امدادی تقریب میں شرکت — 12 دسمبر
کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی غزہ جنگ بندی کیلئے کوششوں کی حمایت — 12 دسمبر
اسرائیلی فورسز کا غزہ کے کمال عدوان اسپتال پر دھاوا، طبی عملہ گرفتار، بمباری میں 200 سے زائد شہید — 13 دسمبر
اسرائیل نے تمام فلسطینیوں پر جنگ مسلط کر رکھی ہے، پی ایل او، جنین میں ڈرون حملہ، فائرنگ، 5 فلسطینی شہید — 13 دسمبر
جنرل اسمبلی، غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرار داد منظور — 13 دسمبر
شمالی غزہ میں مزید 8 اسرائیلی فوجی ہلاک — 13 دسمبر
کینیڈا: کنونشن سینٹر کے باہر فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ — 13 دسمبر
فلسطینی بچوں، خواتین پر بمباری، بائیڈن بھی اسرائیل کیخلاف بول پڑے — 13 دسمبر
حماس سے جنگ جاری رہے گی، اسرائیلی وزیر خارجہ — 13 دسمبر
اسرائیل فلسطین تنازع کے مستقل حل کیلئے اقوام متحدہ کانفرنس بلائے، روس — 13 دسمبر
اسرائیلی فوج مردہ فلسطینیوں سے بھی خوفزدہ، سیکڑوں قبریں مسمار کردیں — 13 دسمبر
حماس نے سینئر افسر سمیت مزید 10 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک کردیا — 13 دسمبر
شہریوں کی اموات، امریکا کا اسرائیل سے اظہار تشویش — 14 دسمبر
غزہ، حماس کا بھرپور جوابی حملہ، صیہونی کرنل سمیت 10 فوجی ہلاک، رہائشی عمارتوں پر اسرائیلی بمباری — 14 دسمبر
بچوں کی ویکسین ختم ہوچکی، وزارت صحت غزہ — 14 دسمبر
اسرائیلی فوج کی کمال عدوان اسپتال کے وارڈز پر فائرنگ، بچوں کی جان کو خطرہ — 14 دسمبر
اسرائیل آخر تک جنگ جاری رکھے گا، نیتن یاہو — 14 دسمبر
اسرائیلی فوج کی ویب سائٹ فلسطینی حامی گروپ نے ہیک کر لی — 14 دسمبر
اسرائیل فلسطین تنازع کے آغاز کے بعد پہلی بین الاقوامی صحافی کا دورۂ غزہ — 14 دسمبر
بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں کا وائٹ ہاؤس کے باہر فلسطین کے حق میں احتجاج — 14 دسمبر
قائد اعظم کی اسرائیل کے معاملے پر رائے سے اختلاف ’کفر‘ نہیں: نگراں وزیر اعظم — 14 دسمبر
القسام نے متعدد اسرائیلی ٹینک تباہ کردیے، ویڈیو بھی جاری کردی — 14 دسمبر
اسرائیلی فوجیوں کو موت کا خوف، غزہ میں بارودی جیکٹ میں لپٹے جنگلی سور بھیجنے کی تجویز — 14 دسمبر
اسرائیلی فوج کی غربی کنارے میں اشتعال انگیز کارروائیاں، مسجد کی بے حرمتی — 14 دسمبر
الشجاعیہ میں 3 صہیونی گاڑیوں کو ’ال یاسین 105‘ راکٹ سے نشانہ بنایا، القسام بریگیڈز — 14 دسمبر
برطانیہ کا فلسطینیوں پر تشدد میں ملوث اسرائیلی آباد کاروں پر پابندیوں کا اعلان — 14 دسمبر
غزہ سے یکجہتی کا اظہار جاری رکھیں، حماس کی اپیل — 15 دسمبر
غزہ کا یوکرین سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا، ولادیمیر پیوٹن — 15 دسمبر
دو ریاستی حل نہیں مانتے، اسرائیل، غزہ پر بمباری، غذا کا بحران شدید — 15 دسمبر
امریکا جنگ بندی کی قرارداد ویٹو نہ کرے، اسامہ حمدان — 15 دسمبر
اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بمباری، مزید 180 فلسطینی شہید — 15 دسمبر
سعودی اور برطانوی وزرائے خارجہ کا غزہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال — 15 دسمبر
اسرائیلی بمباری، عرب ٹی وی کے رپورٹر زخمی، اہلیہ اور بچے گذشتہ ماہ شہید ہوئے تھے — 15 دسمبر
غزہ فلسطین کا اٹوٹ انگ ہے، صدر محمود عباس، یہودی آباد کاروں کے حملوں پر مغربی و یورپی ممالک کو تشویش — 16 دسمبر
اسرائیل کا حماس کی قید میں موجود اپنے ہی تین ساتھیوں کو ہلاک کرنیکا اعتراف — 16 دسمبر
اسرائیلی بمباری سے خان یونس میں ایک اور صحافی شہید — 16 دسمبر
القدس بریگیڈز کی اسرائیل کیخلاف جمعے کو کارروائیوں کی تفصیل جاری — 16 دسمبر
چین کا غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد پر مکمل عملدرآمد کا مطالبہ — 16 دسمبر
غزہ میں مظالم کیخلاف قراردادیں ویٹو کرنے پر ہیومن رائٹس واچ کی امریکا پر تنقید — 16 دسمبر
غزہ میں نئی عارضی جنگ بندی پر بات چیت جاری ہے: قطر — 16 دسمبر
غزہ میں اسرائیلی مظالم کیخلاف دنیا بھر میں احتجاج جاری — 16 دسمبر
غزہ، اسرائیلی فوج کے حملے جاری، مزید 35 فلسطینی شہید — 17 دسمبر
غزہ میں پھنسے رشتے داروں کو نکالنے کیلئے دو فلسطینی خاندانوں کا بائیڈن پر مقدمہ — 17 دسمبر
غزہ، اسپتالوں کی ناکہ بندی جاری، حزب اللّٰہ اور حوثیوں کے اسرائیل پر حملے، شہداء کی مجموعی تعداد 19 ہزار سے بڑھ گئی — 17 دسمبر
اسرائیلی مظالم کا یہودیت یا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، ربی یسروئیل — 17 دسمبر
فلسطین پر کوئی بھی معاہدہ فلسطینی عوام کی مرضی سے ہونا چاہئے، سعودیہ، چین اور ایران کا اتفاق — 17 دسمبر
انسٹاگرام نے زاہد احمد کی فلسطین کے حق میں پوسٹ ہٹادی — 17 دسمبر
آسٹریلیا میں فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ — 17 دسمبر
برائیڈل فیشن شو میں احسن خان کا فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی — 17 دسمبر
فرانس کا اسرائیل سے فوری اور پائیدار جنگ بندی کا مطالبہ — 17 دسمبر
فلسطین کے معاملے پر 60 مسلم ممالک کی بےبسی شرمناک ہے، سینیٹر مشتاق احمد — 17 دسمبر
غزہ میں جنگ: برطانوی و جرمن حکومت کے لہجوں میں تبدیلی، جنگ بندی کی حمایت — 17 دسمبر
غزہ میں نہتے شہریوں پر اسرائیلی فوج کے حملے دہشت گردی ہے، پوپ فرانسس — 17 دسمبر
غزہ میں نئی جنگ بندی کی قطر اور مصر کی کوششیں، حملے رکنے تک بات نہیں کرینگے، حماس — 17 دسمبر
شمالی غزہ میں آج ایک اور اسرائیلی فوجی مارا گیا، اسرائیل کا اعتراف — 17 دسمبر
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے اپوزیشن لیڈر کا مستعفی ہونے کا مطالبہ — 17 دسمبر
غزہ میں جنگ نہیں دہشتگردی ہورہی ہے، پوپ فرانسس، جنگ بندی کیلئے اسرائیل کو عالمی اور اندرونی دباؤ کا سامنا — 18 دسمبر
اسرائیل کو جانی نقصان کا ڈر، غزہ میں روبوٹ کتے استعمال کرنے کا فیصلہ — 18 دسمبر
غزہ کی سڑکیں اسرائیلی فوجیوں کیلئے جان لیوا بھول بھلیاں — 18 دسمبر
اسرائیل اور حماس جنگ بندی اور رہائی کے لیے تیار ہیں، مصر — 18 دسمبر
غزہ: اسرائیلی فوج کا سرنگوں کے سب سے بڑے نیٹ ورک کا پتہ لگانے کا دعویٰ — 18 دسمبر
سلامتی کونسل: غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد آج پیش ہو گی — 18 دسمبر
شمالی غزہ میں اسرائیلی فوج کا ایک اور میجر مارا گیا، اسرائیل کی تصدیق — 18 دسمبر
تم دیر سے پہنچے، مشن پورا ہوگیا، حماس کا اسرائیلی وزیر کے دورے پر ردعمل — 18 دسمبر
چرچ میں 2 اسرائیلی خواتین کی ہلاکت، اٹلی کی صہیونی کارروائیوں کی مذمت — 18 دسمبر
اسرائیلی فوج نے مزید 200 فلسطینی شہید کردیے، شہداء کی تعداد 19 ہزار سے بڑھ گئی — 18 دسمبر
فلسطین کے معاملے پر امریکا کی جانب سے ایک بار پھر دہرے رویے کا اظہار — 18 دسمبر
حماس کے حملوں میں 7 اسرائیلی فوجی ہلاک — 19 دسمبر
ایران حوثیوں کی مدد بند کرے: امریکی وزیرِ دفاع — 19 دسمبر
برطانوی وزیرِ خارجہ ڈیوڈ کیمرون کا غزہ مذاکرات کیلئے پیرس،روم کا دورہ — 19 دسمبر
غزہ جنگ کے اسرائیلی معیشت اور پروازوں پر منفی اثرات — 19 دسمبر
اسرائیلی فوج نے غزہ کا العودہ اسپتال فوجی بیرک میں تبدیل کردیا گیا — 19 دسمبر
غزہ میں جلد پائیدار جنگ بندی چاہتے ہیں، برطانیہ — 19 دسمبر
اسرائیل غزہ میں ایک اور جنگ بندی پر آمادہ — 19 دسمبر
غزہ کا تنازع بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ناکامی ہے، ریڈ کراس — 19 دسمبر
سلامتی کونسل میں غزہ سے متعلق قرارداد پر ووٹنگ موخر — 20 دسمبر
غزہ میں بچوں کے مرنے کا خدشہ — 20 دسمبر
اسرائیلی فوج کا رفح میں اسپتال کے نزدیک فضائی حملہ، مناظر لائیو کوریج میں ریکارڈ — 20 دسمبر
برطانیہ میں فلسطینی سفیر کی عالمی برادری سے سیزفائر کی اپیل — 20 دسمبر
صدر علوی اور ایرانی ہم منصب رئیسی میں ٹیلیفونک رابطہ، غزہ سمیت اہم امور پر گفتگو — 20 دسمبر
اسرائیل حماس جنگ: ٹورنٹو میں نفرت انگیز جرائم کی شرح بڑھ گئی — 20 دسمبر
اسرائیلی فوج کی وردیوں میں انتہا پسند آباد کار فلسطینیوں کو دھمکانے لگے — 20 دسمبر
اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی پر ووٹنگ ایک بار پھر مؤخر — 21 دسمبر
امریکی قیادت میں بننے والی میری ٹائم فورس میں ڈنمارک بھی شامل — 21 دسمبر
اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملے جاری، مزید 60 فلسطینی شہید — 21 دسمبر
غزہ، امریکا نے سلامتی کونسل میں جنگ بندی قرارداد پھر موخر کروا دی — 21 دسمبر
اسرائیل، حماس میں جلد معاہدے کی امید نہیں، جوبائیڈن — 21 دسمبر
فلسطینیوں پر مظالم سوشل میڈیا پر پھیلنے سے روکنے کی ’میٹا‘ کی کوشش — 21 دسمبر
غزہ: فلسطینی لڑکی کی موسیقی کے ذریعےخوفزدہ بچوں کا دھیان بٹاتے ویڈیو وائرل — 21 دسمبر
اسرائیل کی حماس کو طویل مدتی جنگ بندی کی پیشکش — 21 دسمبر
حماس کی بحیرہ احمر میں امریکی قیادت میں اتحاد کی شدید مذمت — 21 دسمبر
اسرائیلی اقدامات یہودی ریاست کی حمایت کو خطرے میں ڈال رہے ہیں، ٹروڈو — 22 دسمبر
انسانی حقوق کے گروپ کی فلسطینی حامی آوازوں کو دبانےپر میٹا کی مذمت — 22 دسمبر
غزہ، یورپی اسپتال کے قریب بمباری، 55 فلسطینی شہید — 22 دسمبر
غزہ: مصری نوجوان مظلوموں کی بھوک مٹانے میں مصروف عمل — 22 دسمبر
اسرائیلی فوج کا غزہ وزارتِ صحت کے جنرل ڈائریکٹر ڈاکٹر منیر البرش کے گھر پر حملہ — 22 دسمبر
فلسطینی صحافی نے امریکی صدر جوبائیڈن کو پیچھے چھوڑ دیا — 22 دسمبر
غزہ میں جلد قحط پڑنے کی وارننگ جاری — 22 دسمبر
سلامتی کونسل نے غزہ میں فلاحی امداد کی فراہمی کی قرار داد منظور کرلی — 22 دسمبر
اسرائیلی فورسز کے مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے، نماز جمعہ کی ادائیگی سے روکدیا — 23 دسمبر
غزہ، امریکی بموں کا استعمال، دو روز میں 400 فلسطینی شہید — 23 دسمبر
غزہ میں امداد سے متعلق اقوامِ متحدہ کی قرارداد ناکافی ہے، حماس — 23 دسمبر
غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کی ہلاکت میں اضافہ — 23 دسمبر
غزہ میں 75 روز میں اقوامِ متحدہ کے 136 ارکان مارے گئے، انتونیو گوتیرس — 23 دسمبر
غزہ میں مزید 5 اسرائیلی فوجی مارے گئے، ہلاک فوجیوں کی تعداد 477 ہوگئی — 23 دسمبر
غزہ کی سڑکوں پر فلسطینی شہریوں کا قتل عام، 5 صیہونی فوجیوں کے مارے جانے کی تصدیق — 24 دسمبر
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے جنگ بندی کیلئے نہیں کہا: امریکی صدر جو بائیڈن — 24 دسمبر
غزہ پر اسرائیلی بمباری میں ایک اور صحافی شہید — 24 دسمبر
اسرائیل نے غزہ میں حلب سے دگنی عمارتیں تباہ کیں: امریکی اخبار — 24 دسمبر
اسرائیل میں مظاہرہ، یر غمالیوں کی رہائی کیلئے ڈیل کا مطالبہ — 24 دسمبر
فلسطینی مزاحمت کاروں سے جھڑپ، 13 اسرائیلی فوجی ہلاک — 24 دسمبر
7 اکتوبر کو متعدد اسرائیلی صہیونی فوج کا نشانہ بنے: اسرائیلی فوجی افسر کا اعتراف — 24 دسمبر
خان یونس کے اسپتال پر اسرائیلی ڈرون حملہ، 13سالہ فلسطینی بچہ شہید — 24 دسمبر
گزشتہ شام سے اسرائیلی بمباری میں 40 فلسطینی شہید — 24 دسمبر
غزہ میں اسرائیلی بمباری، 24 گھنٹوں میں شہید فلسطینیوں کی تعداد 166 ہوگئی — 24 دسمبر
عثمان خواجہ کو فلسطین کے حق میں نشان بنانے سے روک دیا گیا — 24 دسمبر
مسئلہ فلسطین پر دو ریاستی حل کی باتیں اسرائیلی عزائم کو تقویت پہنچانا ہے، حافظ نعیم — 24 دسمبر
غزہ میں اسرائیلی جارحیت، بیت لحم میں کرسمس کی خوشیاں ماند پڑنے لگیں — 24 دسمبر
فوجیوں کا جانی نقصان افسوسناک، جنگ بھاری قیمت وصول کر رہی ہے، اسرائیلی وزیر اعظم — 24 دسمبر
حماس کا جبالیا کیمپ میں اسرائیلی فوج پر حملہ، اسرائیلی فوجی ہلاک اور زخمی — 24 دسمبر
انسانی حقوق کے معاملے میں دنیا دوغلے پن کا شکار ہے، انجلیناجولی — 24 دسمبر
حماس سے جھڑپ، مزید 15 صیہونی فوجی ہلاک، جنگ کی بھاری قیمت ادا کررہے ہیں، اس کے سوا چارہ بھی نہیں، اسرائیلی وزیراعظم — 25 دسمبر
مشرق وسطیٰ میں امریکا اور اسرائیل کو ایک نئے طاقتور دشمن کا سامنا — 25 دسمبر
غزہ، اسرائیلی فوج کے حملے جاری، شہداء کی تعداد 20 ہزار 500 ہوگئی — 25 دسمبر
کرسمس پر حضرت عیسیٰ ؑ کی جائے پیدائش بیت اللحم میں سوگ — 25 دسمبر
اسرائیل کی غزہ میں تباہ کاریوں کے حوالے سے امریکی اخبار کا انکشاف — 25 دسمبر
غزہ میں جمعے سے اتوار کے دوران 16 اسرائیلی فوجی ہلاک — 25 دسمبر
فلسطینی بچوں کی زمین سے آٹا جمع کرتے دل دہلا دینے والی ویڈیو وائرل — 25 دسمبر
غزہ میں معصوم شہریوں پر اسرائیلی حملوں کا خاتمہ ہونا چاہیئے، پوپ فرانسس — 25 دسمبر
اسرائیلی فوج اب تک 20 ہزار 674 فلسطینی شہید کرچکی ہے، فلسطینی وزارت صحت — 25 دسمبر
حماس، اسلامی جہاد نے مصر کی جنگ بندی تجاویز مسترد کردیں — 25 دسمبر
انٹرنیشنل کرمنل کورٹ اسرائیل کا احتساب کرے، حماس کا مطالبہ — 25 دسمبر
غزہ کی جنگ خاتمے کے قریب نہیں، طویل عرصے تک چلے گی، اسرائیلی وزیر اعظم — 25 دسمبر
غزہ جنگ اسرائیل کے بجٹ خسارے کو بڑھا رہی ہے، اسرائیلی وزارت خزانہ — 25 دسمبر
اسرائیلی جارحیت سے 20 ہزار 674 فلسطینی شہید، 55 ہزار زخمی، حماس — 25 دسمبر
حماس فلسطین کاز کی حمایت پر پاکستانی قوم کی شکر گزار ہے، خالد قدومی — 25 دسمبر
برطانیہ کون ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرے؟ ترجمان حماس — 25 دسمبر
غزہ، اسرائیلی جارحیت کے خلاف امریکا میں مظاہرہ — 26 دسمبر
اسرائیل کا فلسطینیوں کو مصری سرحد کی جانب دھکیلنے کا منصوبہ — 26 دسمبر
غزہ: 11 سالہ بچی نے شہادت سے ایک روز قبل ڈائری میں کیا لکھا؟ — 26 دسمبر
کم کارڈیشین کیجانب سے غزہ کے شہدا کی تضحیک پر صارفین سیخ پا — 26 دسمبر
غزہ: اسرائیلی فوج کا اپنے مزید 2 فوجیوں کی ہلاکت کا اعتراف — 26 دسمبر
اسرائیلی فورسز کا چھاپہ، فلسطینی سیاستداں خالدہ جرار گرفتار — 26 دسمبر
7 اکتوبر کے بعد سے ہم پر 7 جگہوں سے حملے کیے جا رہے ہیں، اسرائیلی وزیر دفاع — 26 دسمبر
نئی دلی: اسرائیلی سفارت خانے کے قریب دھماکا، بھارتی میڈیا — 26 دسمبر
ایک دن میں اسرائیل کے 100 سے زائد حملے، 240 فلسطینی شہید — 26 دسمبر
اسرائیلی فوجی جیپ تباہ، 3 فوجی ہلاک، القاسم — 27 دسمبر
حماس کیخلاف جنگ ہار چکے ہیں، سابق اسرائیلی آرمی چیف کا اعتراف — 27 دسمبر
غزہ سے واپس لوٹنے والا اسرائیلی فوجی انفیکشن سے ہلاک — 27 دسمبر
اسرائیل سے ٹرک میں 80 فلسطینیوں کی اعضاء چرائی گئی لاشیں غزہ لائی گئیں — 27 دسمبر
مغربی کنارا، اسرائیلی ڈرون حملہ، 6 فلسطینی شہید — 27 دسمبر
اسرائیل کا مقصد غزہ سے فلسطینیوں کی بے دخلی ہے: نمائندہ خصوصی اقوامِ متحدہ — 27 دسمبر
شارجہ میں نئے سال پر آتشبازی اور تقریبات پر پابندی — 27 دسمبر
اسرائیلی ڈرون حملہ، ہلالِ احمر کو زخمیوں کے قریب جانے سے روک دیا گیا — 27 دسمبر
غزہ میں فون اور انٹرنیٹ ایک بار پھر مکمل بند — 27 دسمبر
غزہ جنگ، ڈیمو کریٹک نمائندے کی امریکی پالیسی پر تنقید — 27 دسمبر
اسرائیل کا اقوام متحدہ اہلکاروں کے ویزے از خود روکنے کا فیصلہ — 27 دسمبر
فلسطینی قیدیوں کیساتھ نرم رویہ رکھنے پر اسرائیلی جیل کمشنر برطرف — 27 دسمبر
یمنی حوثیوں کی جانب سے بحیرہ روم میں اسرائیلی جہاز پر میزائل حملہ — 27 دسمبر
غزہ: اسرائیل بمباری سے 24 گھنٹوں میں 200 سے زائد فلسطینی شہید — 27 دسمبر
ترک صدر نے اسرائیلی وزیراعظم کو ہٹلر سے تشبیہ دیدی — 27 دسمبر
فلسطینی جنگجو غزہ جنگ میں زیادہ جدید ترین ہتھیار استعمال کر رہے ہیں، امریکی تھنک ٹینک — 28 دسمبر
فلسطینیوں سے یکجہتی کیلئے نئے سال پر ہر قسم کی تقریب پر پابندی کا اعلان — 28 دسمبر
غزہ بدترین فاقہ کشی کی زد میں آرہا ہے، مزید امداد اور جنگ بندی کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ — 28 دسمبر
اسرائیل نے قیدیوں کے تبادلے کے نئے معاہدے کیلئے تجاویز قطر کو بھجوادیں — 28 دسمبر
اسرائیلی حملوں سے در بدر فلسطینی خاتون نے چار بچوں کو جنم دے دیا — 28 دسمبر
القسام بریگیڈز کے حملوں میں متعدد اسرائیلی فوجی گاڑیاں، بلڈوزر اور کیمپ تباہ — 28 دسمبر
شمالی غزہ کے شہری اب فاقہ کشی سے مر رہے ہیں، حماس رہنما — 29 دسمبر
حوثی باغیوں کا اسرائیل جانیوالے بحری جہازوں پر 22 واں حملہ — 29 دسمبر
اسرائیلی فوج نے بچوں سمیت متعدد فلسطینی گرفتار کر کے پھر سڑک پر نیم برہنہ بٹھا دیے — 29 دسمبر
غزہ: رات بھر اسرائیلی بمباری، متعدد بچے شہید و زخمی — 29 دسمبر
شادی میں فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار — 29 دسمبر
جنوبی افریقا کا اسرائیل کیخلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع — 30 دسمبر
غزہ پر خوفناک بمباری، بیماریاں پھوٹ پڑیں — 30 دسمبر
غزہ میں حماس نے میجر سمیت کئی اسرائیلی فوجی مار دیے، متعدد ٹینک بھی تباہ — 30 دسمبر
غزہ میں نسل کشی جاری، بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کو مزید ڈیڑھ سو ملین ڈالر کا اسلحہ بیچنے کی منظوری — 31 دسمبر
اسرائیلی فوج کی رپورٹ میں یرغمالیوں کے بچانے کے مشن کی ناکامی کا انکشاف — 31 دسمبر
غزہ جنگ کئی ماہ تک جاری رہے گی: اسرائیلی وزیرِ اعظم — 31 دسمبر
ہزاروں فلسطینیوں کی شہادتوں کے بعد اسرائیل ’عالمی تنہائی‘ کا شکار ہونے لگا: برطانوی اخبار — 31 دسمبر
غزہ: اسرائیلی حملوں میں مزید 150 فلسطینی شہید — 31 دسمبر — غزہ کا سیکیورٹی کنٹرول ہم سنبھال لیں گے: اسرائیلی وزیرِ خارجہ — 31 دسمبر
2023 فلسطینیوں کیلئے بدترین سالساڑھے 22 ہزار شہید ہوئے، عرب میڈیا — 31 دسمبر
(جاری)