2023

جنوری ۲۰۲۳ء

’’فرد “ اور ’’حق “ کے سیاسی تصور کا تجزیہمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
صنف و جنس اور اس میں تغیر (۱)مولانا مشرف بيگ اشرف
سودی نظام کے خاتمے کی جدوجہدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۲)ابو الاعلیٰ سید سبحانی
علامہ یوسف قرضاویؒ کا سانحہ وفاتمفتی حبیب حسین
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۳)ڈاکٹر شیر علی ترین

’’فرد “ اور ’’حق “ کے سیاسی تصور کا تجزیہ

محمد عمار خان ناصر

جدید دانش نے غالب تہذیب کی جارحیت کو اخلاقی اور فکری جواز دینے کے لیے ایک فریب کاری یہ اختیار کی ہے کہ ’’فرد “ اور ’’حق “ کے ایک خاص تصور کو آفاقی تصورات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ مقدمہ یہ ہے کہ فرد، اجتماع سے مقدم ہے اور اس کے کچھ ’’حقوق’’ ہیں جو فرد کی حیثیت سے اس کو معاشرے سے پہلے حاصل ہیں۔ چنانچہ معاشرہ اور اجتماع پابند ہے کہ ’’فرد “ کے ان ’’حقوق “ کو لازمی طور پر تسلیم کرے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

یہ فلسفہ تاریخی اور منطقی، دونوں اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ تاریخی اعتبار سے تو واضح ہے کہ تاریخ کا کوئی ایسا مرحلہ ہمارے علم یا تخیل کی رسائی میں نہیں جب انسان الگ الگ، افراد کے طور پر رہ رہے ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس وقت ان کو فلاں اور فلاں ’’حقوق “ حاصل تھے۔ پھر اس کے بعد وہ مل جل کر رہنے لگے جس سے اجتماع وجود میں آیا۔ یوں اجتماع چونکہ فرد سے موخر تھا، اس لیے اجتماع سے پہلے ہی فرد اور اس کے حقوق کا کوئی تصور تاریخی طور پر پایا جاتا تھا۔

منطقی طور پر اس لیے کہ ’’فرد’’ یا ’’حق “ کی کوئی تعریف یا تصور ہی اجتماع سے الگ کر کے اور اس کا حوالہ دیے بغیر ممکن نہیں۔ کسی انسان کو فرد کہنا تبھی بامعنی ہے جب وہ دوسرے افراد کے تقابل میں ہو۔ فرض کریں، مختلف انسان دور دراز فاصلوں پر بالکل الگ الگ رہ رہے ہوں اور ان کا آپس میں کسی قسم کا کوئی تعلق یا رابطہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ان میں سے ہر ایک کو ’’فرد “ کے طور پر متصور کرنا لایعنی بات ہوگی۔ فرد وہی ہوتا ہے جو دوسرے افراد کے ساتھ تعلق میں ہو اور امور زندگی میں ان کے ساتھ شریک ہو۔

یہی صورت حال ’’حق “ کی ہے۔ ایک دوسرے سے مکمل انقطاع میں رہنے والے انسانوں کے لیے ’’حق “ کا تصور ہی قابل تشکیل نہیں۔ ایک انسان جو اکیلا کسی جنگل میں رہ رہا ہے اور اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن یا ذمہ داری نہیں ہے، آپ ذرا اس کے حوالے سے ’’حق “ کے تصور کو ذہن میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ بے معنی بات ہوگی۔ ’’حق “ تبھی قابل تصور ہے جب ایک سے زیادہ انسان باہمی تعلق میں آئیں اور ایک دوسرے کی نسبت سے کسی ذمہ داری یا قدغن کا تعین کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔

ان دونوں پیمانوں پر فرد یا حق کا کوئی تصور، اجتماع سے الگ کر کے یا اس سے پہلے قائم کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ کہنا کہ یہاں فرد کا یا حق کا کوئی آفاقی تصور پایا جاتا ہے جس کو تسلیم کرنا، فلسفیانہ سطح پر، ہر انسانی اجتماع پر لازم قرار دیا جا سکتا ہے، ایک لایعنی  بات ہے۔ فرد اور حق کے تصورات اجتماع کے وضع کردہ ہیں اور اجتماع کی ضرورتوں اور ترجیحات کے لحاظ سے ہی ان کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں ہر اجتماع اپنے تمدنی وتاریخی احوال کے لحاظ سے یہ طے کرتا رہا ہے کہ معاشرے کا اپنے افراد کے ساتھ کیا تعلق ہے اور کون سے حقوق ہیں جو معاشرہ، افراد کے لیے تسلیم کرتا ہے۔ یہ حقوق اجتماع کے ’’وضع کردہ“ اور اس کے ’’دیے ہوئے“ ہوتے ہیں، اجتماع ان کو خود سے پہلے موجود متصور کر کے ان کی پابندی قبول نہیں کرتا۔

موجودہ غالب تہذیب میں بھی ’’فرد “ اور ’’حق “ کا تصور تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر ایک خاص سماجی سیاق میں وضع کیا گیا ہے جبکہ پوری انسانی تاریخ اور دنیا کے دوسرے معاشرے اس تصور سے ناواقف رہے ہیں۔ البتہ اس میں فریب کاری یہ کی گئی ہے کہ مغربی اجتماع نے فرد اور اس کے حقوق کا جو تصور خود وضع کیا ہے، اس کو دنیا کے باقی اجتماعوں پر مسلط کرنے کے لیے یہ فلسفہ گھڑ لیا گیا ہے کہ یہ کوئی آفاقی تصور ہے جس کی پابندی کسی خاص اجتماع یا تہذیب پر نہیں، بلکہ تمام انسانی معاشروں پر لازم ہے۔

--------------------

امریکا میں ٹرانس جینڈرز کے "حقوق" کے حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے سے ایک قانونی، سیاسی اور سماجی بحث جاری ہے۔  یہ اس سوال کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے مددگار ہے۔

ایک معاشرے میں کسی فرد کا "حق" کیا ہے اور یہ کیسے طے ہوتا ہے؟ یہ عرض کیا گیا کہ اس کا تعین معاشرہ ہی کرتا ہے اور معاشرہ مجموعی طور پر جن اقدار اور اخلاقی تصورات کو تسلیم کرتا ہے، انھی کے تحت فرد کے حقوق کا بھی تعین کرتا ہے۔ معاشرے میں ایک یا دوسرے مجموعہ اقدار کے مابین کشمکش بھی ہو سکتی ہے اور اسی کے نتیجے میں معاشروں میں تبدیلی آتی رہتی ہے، لیکن کوئی بھی نئی قدر اسی وقت حقوق یا فرائض کی بنیاد بن سکتی ہے جب اسے معاشرے میں ایک عمومی قبولیت حاصل ہو جائے۔

مروج یا غالب اقدار میں تبدیلی کو قابل قبول بنانے کے لیے فکری وسائل عموما" معاشرے میں موجود مختلف روایتوں سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں اور انھی کی ایک نئی تشکیل کی گنجائش یا ضرورت واضح کرتے ہوئے تبدیلی کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پیچیدہ عمل سے صرف نظر کرتے ہوئے محض اس بنیاد پر فرد کے حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے کہ وہ اصل ہے اور معاشرہ بس اس کے فائدے کے تحفظ کے لیے قائم ہوا ہے۔ یہ قطعی طور پر لایعنی بات ہے۔

اس بحث سے سیکولر ریاست کی غیر جانب داری کے مفروضے کی سادگی بھی نمایاں ہوتی ہے۔ اس پر اب کئی پہلوؤں سے بحثیں موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بالفعل ریاست کلی طور پر غیر جانب دار ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک سطح پر اسے لازما" کسی ایک یا دوسری تہذیبی قدر کو اختیار کرنا اور سیاسی طاقت سے اس کو نافذ کرنا ہوتا ہے، چاہے وہ بہت سے شہریوں کے مذہبی واخلاقی تصورات کے خلاف ہو۔

ٹرانس جینڈرز کے قضیے  میں، امریکی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جو افراد اپنی جنس تبدیل کرنا چاہیں، یہ ان کا غیر مشروط حق ہے، اس لیے امریکی اسپتالوں میں وہ بے شمار ڈاکٹر جو مسیحی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور تبدیلی جنس کا آپریشن کرنا ان کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہے، وہ اپنے عقیدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپریشن کرنے کے پابند ہیں، کیونکہ وہ ٹرانس جینڈرز کے ایک "حق" کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور اس پر انھیں ملازمت سے ہاتھ بھی دھونے پڑ سکتے ہیں۔ تاہم امریکی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو مذہبی آزادی کے اصول کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا اور یوں مسیحی اقدار کو ماننے والوں کے مذہبی حق کا تحفظ کیا۔

اب دیکھ لیجیے، یہاں نہ تو فرد کے حق کا تعین اور اس کی تنفیذ معاشرے میں موجود اور مسلم معیارات سے ماورا ہو کر ممکن ہے اور نہ ریاست اس معاملے میں کوئی ایسی نیوٹرل پوزیشن لے سکتی ہے جو سب کے سب شہریوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ٹرانس جینڈرز کے نزدیک ڈاکٹرز کو پابند ہونا چاہیے کہ وہ ان کا آپریشن کریں چاہے یہ ان کے ذاتی عقیدے کو خلاف ہو، جبکہ مسیحی اقدار کے ماننے والوں کے نزدیک ان کا مذہبی عقیدہ ان کے لیے مقدم ہونا چاہیے اور انھیں اس کے خلاف کسی کام پر ریاست مجبور نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بائیڈن انتظامیہ نے اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کر کے کم سے کم اس مرحلے پر اس موقف کو تسلیم کر لیا ہے۔

اس مثال سے ان دونوں مفروضوں یعنی فرد کے ازخود کوئی معیار ہونے اور ریاست کے، کلی طور پر غیر جانب دار ہونے کی سادگی کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(383) لیل اور لیلة میں فرق

لیلة ایک رات کے لیے جب کہ لیل رات کے لیے آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں لَیْلًا ہے جس کا ترجمہ ایک رات نہیں بلکہ راتوں رات کیا جائے گا۔

سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ۔ (الاسراء: 1)

”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی ایک شب مسجد حرام سے اس دور والی مسجد تک جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے“۔ (سید مودودی)

”وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو راتی رات ادب والی مسجد سے پرلی مسجد تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھیں ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو، راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی“۔ (احمد رضا خان)

آخری دونوں ترجموں میں لیلًا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ سبحان پاکی بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے، لیکن اصل میں عظمت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ پاکی عظمت کا لازمہ ہے۔ بطور خاص اس آیت میں تو عظمت کا محل معلوم ہوتا ہے۔ ترجمہ کریں گے: ’باعظمت ہے وہ ذات‘۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ درج ذیل آیت میں لیلا کا ترجمہ تقریبا سبھی نے راتوں رات کیا ہے۔  غالبا اس لیے کہ إِنَّکُمْ مُتَّبَعُونَ کہنے کی وجہ سے ایک رات کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ بہرحال لیلا کا دونوں جگہ یہی ترجمہ ہونا چاہیے۔

فَأَسْرِ بِعِبَادِی لَیْلًا إِنَّکُمْ مُتَّبَعُونَ۔ (الدخان: 23)

”(جواب دیا گیا) اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا“۔ (سید مودودی)

”(خدا نے فرمایا کہ) میرے بندوں کو راتوں رات لے کر چلے جاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)

”(حکم ہوا کہ) میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ“۔(امین احسن اصلاحی)

(384)  وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ

درج ذیل جملے میں خود جھکنے کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ خاکساری کے بازو جھکانے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ بہت خوب صورت تعبیر ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ کمال درجے کی خاکساری کے ساتھ پیش آؤ۔ پر بچھانے اور جھک جانے میں فرق ہے۔ من الرحمۃ  کا مطلب ہے کہ یہ خاکساری رحمت کے جذبے کے ساتھ ہو۔ یعنی رحم دلی اور ہم دردی کے سارے تقاضے پورے کرو۔

وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ۔ (الاسراء: 24)

”اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا“۔ (اشرف علی تھانوی)

مذکورہ بالا یہ تینوں ترجمے درست نہیں ہیں، کیوں ان کے سامنے جھکنے کا حکم نہیں دیا جارہا ہے۔

”اور ان کے لیے رحم دلانہ اطاعت کے بازو جھکائے رکھو“۔ (امین احسن اصلاحی، الذل کا مطلب اطاعت نہیں ہوتا، پھر رحم دلانہ اطاعت بھی معنوی لحاظ سے مضبوط بات نہیں لگتی۔)

”اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا“۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں من الرحمۃ کا ترجمہ درست نہیں ہوسکا۔ رحمۃ کا مطلب عاجزی اور محبت نہیں ہوتا ہے)

”اور بچھا واسطے ان دونوں کے بازو ذلت کا مہربانی سے“۔(شاہ رفیع الدین، یہاں ذل کا ترجمہ تواضع و خاکساری ہوگا، ذلت نہیں)

”اور جھکا ان کے آگے کندھے عاجزی کرکر نیاز سے“۔ (شاہ عبدالقادر، جناح کا مطلب کندھے نہیں ہوتا، بازو ہوتا ہے۔اور رحمۃ کا مطلب نیاز نہیں ہوتا)

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے“۔ (احمد رضا خان)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”اور ان کے لیے رحمت کے جذبے سے خاکسارانہ بازو جھکائے رکھو“۔

(385) نہر کا مطلب

نھر کا معنی جھڑکنا ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ جھڑک کر جواب دیا جائے، ابتدا سے جھڑکنا بھی اس میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے ذیل کے ترجموں میں دوسرا ترجمہ درست ہے۔

وَلَا تَنْہَرْہُمَا۔ (الاسراء: 23)

”نہ انہیں جھڑک کر جواب دو“۔ (سید مودودی)

”اور نہ ان کو جھڑکو“۔ (امین احسن اصلاحی)

(386)  ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّکَ تَرْجُوہَا

درج ذیل آیت کے ترجموں پر غور کریں:

وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْہُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّکَ تَرْجُوہَا فَقُلْ لَہُمْ قَوْلًا مَیْسُورًا۔ (الاسراء: 28)

”اگر اُن سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اُس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو“۔ (سید مودودی)

”اور اگر تمھیں اپنے رب کے فضل کے انتظار میں، جس کے تم متوقع ہو، ان سے اعراض کرنا پڑجائے تو تم ان سے نرمی کی بات کہہ دو“۔ (امین احسن اصلاحی)   

”اور اگر تو ان سے منہ پھیرے اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے تو ان سے آسان بات کہہ“۔ (احمد رضا خان)

ان ترجموں سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ کہ انسان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لیے وہ حاجت مندوں سے کترا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کترانے والے کو اللہ کی طرف سے دولت آنے کا انتظار، توقع یا امید بھی ہے۔

لیکن اشکال یہ ہے کہ جب انسان کے پاس کچھ ہے نہیں تو اسے کترانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ صاف صاف کہہ سکتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ کیا ضروری ہے کہ تنگ حالی میں آدمی خوش حالی کا انتظار کرے۔ پھر خوش حالی کا انتظار صرف وہی کیوں کرے، حاجت مند بھی کیوں نہ کریں۔ غرض یہ کہ تعبیر کی معنویت واضح نہیں ہوپاتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابتغاء کا مطلب انتظار یا تلاش نہیں ہوتا ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ آیت اس کیفیت کو بتارہی ہے کہ آدمی کے پاس مال ہے، لیکن وہ اسے ان حاجت مندوں کو دینے کے بجائے کسی ایسی جگہ دینا چاہتا ہے جہاں اسے اللہ کی رحمت کی خاص امید ہے۔ یعنی موقع اللہ کے دین کی نصرت کے لیے خرچ کرنے کا ہو، اور اسی لیے مذکورہ حاجت مندوں سے اعراض کرکے وہ ان سے زیادہ اہم مد یعنی نصرتِ دین کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہو اور اسے امید ہو کہ اس راہ میں خرچ کرکے وہ اللہ کی خاص رحمت کا سزاوار ہوگا۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں:  

”اگر تم ان سے اعراض کرو اپنے رب کی رحمت کی طلب میں جس کی تم توقع رکھتے ہو۔“

(387)  نفور کا مطلب

عربی میں نفور کا اصل مطلب بدکنا ہے۔ اور اس کا اصل استعمال جانوروں کے لیے ہوتا ہے۔

فیروزآبادی لکھتے ہیں: نَفَرَتِ الدَّابَّةُ تَنْفِرُ وتَنْفُرُ نُفوراً ونِفاراً، فہی نافِرٌ ونَفورٌ: جَزِعَتْ، وتَباعَدَتْ، والظَّبْیُ نَفْراً ونَفَراناً، محرکةً: شَرَدَ،کاسْتَنْفَرَ.

اس کا اردو ترجمہ نفرت نہیں ہے۔ نفرت کے لیے عربی میں بغض آتا ہے۔ درج ذیل آیتوں میں بہت سے مترجمین نے نفور کا ترجمہ نفرت کیا ہے، جب کہ بیزار ہونا اور بدکنا درست ترجمہ ہے۔

(۱) وَإِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْآنِ وَحْدَہُ وَلَّوْا عَلَی أَدْبَارِہِمْ نُفُورًا۔  (الاسراء: 46)

”اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جب تم قرآن میں اپنے اکیلے رب کی یاد کرتے ہو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہیں نفرت کرتے“۔ (احمد رضا خان)

”اور جب تم قرآن میں تنہا اپنے رب ہی کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت کے ساتھ پیٹھ پھیرلیتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، تنہا پہلے لانے سے شبہہ ہوتا ہے کہ رسول کا تنہائی میں ذکر کرنا مراد ہے، اس لیے تنہا کو بعد میں ذکر کرنا بہتر ہے، اپنے رب کا تن تنہا)

”اور جب تم قرآن میں اپنے پروردگار یکتا کا ذکر کرتے ہو تو وہ بدک جاتے اور پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمے میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۲)  وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی ہَذَا الْقُرْآنِ لِیَذَّکَّرُوا وَمَا یَزِیدُہُمْ إِلَّا نُفُورًا۔ (الاسراء: 41)

”اور بیشک ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان فرمایا کہ وہ سمجھیں اور اس سے انھیں نہیں بڑھتی مگر نفرت“۔ (احمد رضا خان)

”ہم نے اِس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ ہوش میں آئیں، مگر وہ حق سے اور زیادہ دور ہی بھاگے جا رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں گے۔ مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری دونوں ترجموں میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۳) وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُورًا۔  (الفرقان: 60)

”اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں ”رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟“ یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کر دیتی ہے“۔ (سید مودودی)

”اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہ چیز ان کی نفرت کو اور بڑھاتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس سے بدکتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اس حکم نے انہیں اور بدکنا بڑھایا“۔ (احمد رضا خان)

آخری دونوں ترجموں میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۴)  وَأَقْسَمُوا بِاللَّہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَاءَہُمْ نَذِیرٌ لَیَکُونُنَّ أَہْدَی مِنْ إِحْدَی الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَہُمْ نَذِیرٌ مَا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُورًا۔  (فاطر: 42)

”اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہدایت کرنے والا آئے تو ہر ایک اُمت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں۔ مگر جب ان کے پاس ہدایت کرنے والا آیا تو اس سے ان کو نفرت ہی بڑھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آ پہنچے تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پھر جب ان کے پاس ڈر سنانے والا تشریف لایا تو اس نے انہیں نہ بڑھایا مگر نفرت کرنا“۔ (احمد رضا خان)

”مگر جب خبردار کرنے والا ان کے پاس آگیا تو اس کی آمد نے اِن کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمے میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۵)  أَمَّنْ ہَذَا الَّذِی یَرْزُقُکُمْ إِنْ أَمْسَکَ رِزْقَہُ بَلْ لَجُّوا فِی عُتُوٍّ وَنُفُورٍ۔ (الملک: 21)

”بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کرلے تو کون ہے جو تم کو رزق دے؟ لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”بلکہ وہ سرکشی اور نفرت میں ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”بلکہ یہ لوگ سرکشی اور حق بیزاری پر اڑ گئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”دراصل یہ لوگ سرکشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں“۔ (سید مودودی)

”بلکہ (کافر) تو سرکشی اور بدکنے پر اڑگئے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری تینوں ترجموں میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(388)  حجابا مستورا

وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ حِجَابًا مَسْتُورًا۔  وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ أَکِنَّةً أَنْ یَفْقَہُوہُ وَفِی آذَانِہِمْ وَقْرًا۔ (الاسراء: 45، 46)

”اور جب قرآن پڑھا کرتے ہو تو ہم تم میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے حجاب پر حجاب کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کر دیتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری، حجاب پر حجاب نہیں بلکہ نظر نہ آنے والا حجاب، حجاب ایک ہی ہے مگر وہ پوشیدہ ہے)

”جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جب تم قرآن سناتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایک مخفی پردہ حائل کردیتے ہیں، اور ان کے دلوں پر حجاب اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ صرف حجابا نہیں کہا گیا ہے بلکہ حجابا مستورا کہا گیا ہے۔ اس لیے ترجمے میں صرف حجاب یا پردہ کہنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ پوشیدہ پردہ یا مخفی حجاب کہنے سے پورا مفہوم ادا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ پچھلی آیت کے جواب شرط یعنی جعلنا پر عطف نہیں ہے، بلکہ مستقل جملہ ہے۔ یعنی پہلی آیت میں تو یہ کہا گیا کہ جب نبی ان کو قرآن سناتے ہیں تو پوشیدہ پردہ حائل کردیا جاتا ہے، جب کہ دوسری آیت میں بتایا گیا کہ مستقل طور پر ان کے دلوں میں حجاب اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا گیا ہے۔ چوں کہ ان کی مستقل کیفیت یہ ہے، اس لیے جب انھیں قرآن سنایا جاتا ہے تو ایک پوشیدہ پردہ حائل ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے دوسری آیت کا ترجمہ ماضی سے کیا جائے گا۔ ’پردے ڈال دیتے ہیں‘کی بجائے ’پردے ڈال دیے ہیں‘۔ اس سے پردے ڈالنے والی بات کی تکرار نہیں رہے گی اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ پردہ صرف اس خاص وقت میں نہیں ڈالا جاتا ہے بلکہ ان کے دلوں پر تو مستقل پردہ پڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ نبی کی بات بھی نہیں سنتے۔

مذکورہ بالا دونوں پہلوؤں سے درج ذیل ترجمہ درست ہے۔

”تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔ اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ“۔ (محمد جوناگڑھی)

(389) تحویلا کا مطلب

قرآن کی درج ذیل آیت میں تبدیل اور تحویل دونوں تعبیریں ایک ساتھ آئی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان فرق ہے۔ اس فرق کو علامہ طاہر بن عاشور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ تبدیل کا مطلب ہے کسی چیز کو بدل دینا اور تحویل کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردینا۔

والتبدیل: تغییر شیء... والتحویل: نقل الشیء من مکان إلی غیرہ، وکأنہ مشتق من الحول وہو الجانب. والمعنی: أنہ لا تقع الکرامة فی موقع العقاب، ولا یترک عقاب الجانی. وفی ہذا المعنی قول الحکماء: ما بالطبع لا یتخلف ولا یختلف. (التحریر والتنویر)

درج ذیل آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے کچھ مترجمین نے یہ فرق ملحوظ رکھا ہے کہ تبدیلا کا ترجمہ تو تبدیلی کیا ہے اور تحویلا کا ترجمہ ٹلنا کیا ہے۔

(۱) فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلًا۔ (فاطر: 43)

”تو تم سنت الٰہی میں نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور تم سنت الٰہی کو ٹلتے ہوئے ہی پاؤ گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”سو تو نہ پاوے گا اللہ کا دستور بدلنا اور نہ پاوے گا اللہ کا دستور ٹلنا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے، اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی، اردو محاورے کے لحاظ سے ’منتقل ہوتا ہوا‘ کے بجائے ’ٹلتا ہوا‘ کہنا چاہیے۔)

”یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے“۔(سید مودودی، ”کوئی طاقت پھیر سکتی ہے“ کہنے کا محل نہیں ہے، کہنا تو یہ ہے کہ خود اللہ کی طرف سے نہ کوئی تبدیلی ہوگی اور نہ اسے ٹالا جائے گا۔)

”سو تم خدا کی عادت میں ہرگز تبدل نہ پاؤ گے۔ اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمے میں تبدیل اور تحویل دونوں کا ایک ہی ترجمہ کردیا گیا۔

(۲)  قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِہِ فَلَا یَمْلِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلَا تَحْوِیلًا۔ (الاسراء: 56)

”کہہ دو کہ ان کو پکار دیکھو جن کو تم نے اس کے سوا معبود گمان کر رکھا ہے، نہ وہ تم سے کسی مصیبت کو دفع ہی کر سکیں گے نہ اس کو ٹال ہی سکیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”کہہ دیجیے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اِن سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری تینوں ترجموں میں تحویلا کا ترجمہ بدلنا کیا ہے، حالاں کہ ٹالنا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے پہلا ترجمہ بہتر ہے۔

(۳)  سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا۔ (الإسراء: 77)

”یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے“۔ (سید مودودی)

”جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے تھے ان کا (اور ان کے بارے میں ہمارا یہی) طریق رہا ہے اور تم ہمارے طریق میں تغیروتبدل نہ پاؤ گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے، ان کے باب میں ہماری سنت کو یاد رکھو۔ اور تم ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں عام طور سے تحویلا کا ترجمہ تبدیلی کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے، ان کے باب میں یہ رویہ رہا ہے، اور تم یہ نہیں پاؤ گے کہ ہماری سنت ٹل جائے۔“

(390) فَاسْأَلْ بَنِی إِسْرَاءِیلَ إِذْ جَاءَہُمْ

وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِی إِسْرَاءِیلَ إِذْ جَاءَہُمْ فَقَالَ لَہُ فِرْعَوْنُ إِنِّی لَأَظُنُّکَ یَامُوسَی مَسْحُورًا۔ (الاسراء: 101)

”ہم نے موسیٰؑ کو تو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نا کہ ”اے موسیٰؑ، میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے“۔ (سید مودودی)

یہاں لگتا ہے مترجم سے سہو ہوگیا ہے اور جاء ھم کا فاعل آیات یعنی نشانیوں کو مان لیا ہے، اگر نشانیوں کے آنے کی بات ہوتی تو جاء تھم ہوتا۔ ظاہر ہے کہ جب جاء ھم مذکر کا صیغہ ہے تو فاعل نشانیاں نہیں بلکہ خود موسی علیہ السلام ہیں۔ درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(جاری)


صنف و جنس اور اس میں تغیر (۱)

مولانا مشرف بيگ اشرف


بسم الله الرحمن الرحيم!  یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

مفہوم: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے!

آپ فیروز اللغات کھول کے"جنس" کے مادے کے تحت دیے گئے معانی شمار کیجیے تو اس میں آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "ذات، نوع، صنف، جماعت" اور اگر آپ صفحے پلٹاتے ہوئے "صنف" کے مادے کے تحت مذکور الفاظ  تک پہنچیں تو آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "نوع، جنس، قسم"۔

جنس، نوع وصنف یہ سب الفاظ ہماری زبان میں ایک ہی معنے کے لیے برتے گئے ہیں۔ اس میں آپ کو کوئی ایسا فرق نہیں ملے گا کہ ان میں سے ایک انسانی کی جسمانی  خصائص کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا اس کے سماجی مظاہر کی طرف۔

اسی طرح، انگریزی زبان میں gender and sex دو نوں کلمات کو  ۱۹۵۰ تک ایک ہی شمار کیا جاتاتھا۔ لیکن اسی صدی میں جنسی انقلا ب آیا اور اس  کے جلو میں، ان دونوں میں فرق ہونا شروع ہوا۔اس فرق میں بنیادی عنصر یہ تھا کہ "جنس" انسان کے جسمانی خصائص سے وابستہ ہے جو  مختلف معاشروں کے لحاظ سے بدلتے نہیں جب کہ "صنف" اس جنس سے وابستہ سماجی رویوں، مفروضوں  واعراف سے عبارت ہے جو  مختلف سماجوں میں جدا جدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں لباس، زبان کا استعمال، پیشوں کی تقسیم (کہ کون سے پیشے سے مرد وابستہ ہوتے ہیں اور کون سے پیشے زنانہ شمار ہوتے ہیں) وغیرہ شامل ہیں۔

ذیل میں ہم اس جاری بحث کو شریعت اسلامی کے قواعد ، کتاب، سنت ،عمل صحابہ اور امت کے اہل اجتہاد  کے تناظرمیں پیش کریں گے۔اور جنس وصنف کے حوالے سے شرعی قواعد واضح کیے جائیں گے۔ساتھ ساتھ ، علم جینیات ونفسیات میں موجود ان تصورات  کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا۔

اس گفتگو میں مندرجہ ذیل سوالات زیر بحث ہوں گے:

۱: اسلام کا تصور  جنس کیا ہے؟ نیز اسلامی شریعت میں اس کی تعیین کا معیار کیا ہے؟

۲:اسلام اشیا اور کائناتی مظاہر سے معنویت کیسے وابستہ کرتا ہے؟ نیز کیا اشیا کی تعیین شریعت کا موضوع ہے؟

۳: خنثی  کسے کہتے ہیں؟نیز خنثی مرد ہے یا زن یا تیسری جنس؟خنثی اور Intersex میں کیا تعلق ہے؟

۴:  علم جینیات جنس  کو کیسے دیکھتا ہے؟

۵: نفسیات  کی بنیاد پر انسانی جنس ونوع کے تعلق کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟نیز کیا انسانی نفسیات فقہ وقانون کی بنیاد بننے کے لیے کافی ہے؟

۶: خنثی کے تفصیلی احکام کیا ہے؟

۶: خنثی مشکل کسے کہتے ہیں؟ اور اس کے کیا احکام ہیں؟

۷: تبدیلی جنس کا کیا حکم ہے؟ کیا اعضا کی تبدیلی، یا شعور کے بدلنے یا ہارمونز کے تغیر سے جنس بدل جاتی ہے؟ کسی انسان کے مرد یا زن ثابت ہوجانے کے بعد، اس طرح کی تبدیلی کا کیا حکم ہے؟ نیز اس طرح کے اقدام کا شرعی حکم کیا ہے؟

۸: کیا جنس کے اصول کا اطلاق غیر مسلم اور ذمی پر بھی ہوگا؟

۹: ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ سیرت طیبہ میں مسلمان ٹرانس جینڈرز کے لیے کیا رہنمائی موجود ہے؟

صنف وجنس  شرعی نقطہ نگاہ سے

قاعدہ : جنس دو ہی ہیں اور باہمی جدا جدا ہیں:

جنس سے متعلق اسلام جو پہلا قاعدہ طے کرتا ہے وہ یہ کہ جنس دو ہی ہیں اور یہ ایک دوئی پر مبنی تصور ہے جسے Sex/Gender Binary سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ کوئی رنگوں کی طرح نہیں کہ ایک رنگ کا جھکاؤ دوسری طرف ہو سکتا ہے۔ جیسے عنابی یعنی سیاہی مائل سرخ رنگ کہ نہ اسے پورے طرح سیاہ کہہ سکتے ہیں نہ سرخ۔ اس لیے، اسلامی شریعت کے ہاں جنس (اورصنف )دو ٹوک انداز سے دو ہی ہیں ، نیز ان میں نوع کا فرق ہے، درجات کا نہیں۔ اس امر پر امت کے علما کا اجماع ہے۔

قرآن مجید کی متفرق آیات میں اس امر کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو "نر ومادہ" (الذكر والأنثى) میں تقسیم کیا ہے۔ اس کی ایک مثال سورة النجم کی ہے۔ آیت پر غور کیجیے:

وَأَنَّهُۥ خَلَقَ ٱلزَّوجَينِ ٱلذَّكَرَ وَٱلأُنثَىٰ مِن نُّطفَةٍ إِذَا تُمنَىٰ [النجم: 45-46]

ترجمہ: (کیا انہیں موسی وابراہیم کے صحیفوں میں موجود باتوں کی خبر نہیں کہ جس میں سے یہ بھی ہے) کہ اس نے مرد وزن کو نطفے سے پیدا کیا جب وہ ٹپکتا ہے۔۱۲

مشہور حنفی مجتہد علامہ جصاص رازی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

۱: اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ جنس دو ہی ہیں: نر ومادہ اور کوئی بھی انسان نر ہے یا مادہ۔

۲: جہاں تک خنثی مشکل کا تعلق ہے، اس کا معاملہ اگرچہ ہمارے اوپر واضح نہیں۔ تاہم وہ بھی ان دو میں سے ایک ہے۔

یہاں "خنثی مشکل" کی اصطلاح استعمال ہوئی اس سے مراد وہ خنثی (Intersex) ہے جس میں اعضائے تناسل دونوں ہوں اور اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔اس سے واضح ہوا کہ خنثی بھی شریعت کی نگاہ میں مرد ہے یا عورت۔ (اس پر مزید تفصیل آگے آئے گی)

۳: نیز احناف نے خاص طو ر سے، اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی کی جنس میں اشتباہ اس کے بچپن تک ہی رہتا ہے۔ بالغ ہونے کے بعد یہ دور ہو جاتا ہے۔ یہ خنثی برادری سےمتعلق ایک اہم اصول ہے۔ جس کی طرف اس گفتگو کے اخیر میں آئیں گے۔

علامہ فرماتے ہیں:

«لما كان قوله: {الذكر والأنثى} اسما للجنسين استوعب الجميع، وهذا يدل على أنه لا يخلو من أن يكون ذكرا أو أنثى، وأن ‌الخنثى وإن اشتبه علينا أمره لا يخلو من أحدهما; وقد قال محمد بن الحسن: إن ‌الخنثى المشكل إنما يكون ما دام صغيرا فإذا بلغ فلا بد من أن تظهر فيه علامة ذكر أو أنثى. وهذه الآية تدل على صحة قوله»«أحكام القرآن للجصاص ط العلمية» (3/ 551)

مفہوم: چونکہ اللہ تعالی کا فرمان: "نر ومادہ" دو جنسوں کے لیے ہے، اس لیے اس میں سب کے سب انسانی افراد آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان نر یامادہ ، نیز خنثی کا معاملہ اگرچہ ہم پر واضح نہیں، تاہم وہ بھی نر یامادہ ہی ہے۔امام محمد کا کہنا ہے کہ خنثی مشکل صرف بچپن تک ہے۔ جو خنثی بالغ ہو جائے، تو نر یامادے کی کوئی نہ کوئی ایسی علامت ضرور نمودار ہوتی ہے(جس کی بنا پر فیصلہ ہو جاتا ہے)۔ یہ آیت ان کی اس رائے کی تائید کرتی ہے۔۱۲

اسی طرح، سورة النساء کی پہلی آیت بھی اس شرعی قاعدے کو واضح کرتی ہےجسے ہمارے ہاں نکاح خواں نکاح کے خطبے میں عام طور سے پڑھتے ہیں اور اس حقیقت کا اعلان ہر نکاح کے ساتھ کیا جاتا ہے:

یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے! ۱۲

مشہور مالکی مجتہد ومفسر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان جنس دو ہی ہیں۔ نیز "خنثی" کوئی جداگاہ جنس نہیں۔ بلکہ چونکہ وہ انسان ہے، اس لیے اسے مرد وزن میں سے کسی ایک ہی طرف لوٹایا جائے گا۔اور کسی ایک جنس سے جوڑنے میں اعضا کا اعتبار کیا جائے گا۔ وہ فرماتے ہیں:

حصر ذريتهما في نوعين، فاقتضى أن ‌الخنثى ليس بنوع، لكن له حقيقة ترده إلى هذين النوعين وهي الآدمية فيلحق بأحدهما«تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 2)

ترجمہ: اس آیت میں اللہ تعالی نے انسانی جنس کو دو میں بند کر دیا۔ پس اس کا تقاضا یہ ہے کہ خنثی کوئی مستقل نوع نہیں۔ بلکہ اس میں حقیقت آدمیت پائی جاتی ہے جو اسے کسی ایک جنس کی طرف پھیر دیتی ہے اور اس طرح، اس کا الحاق کسی ایک سے کیا جائے گا۔۱۲

ان آیات میں یہ قاعدہ کس طرح گندھا ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی اس پر نقل کرتے ہیں :

«أن الله تعالى خلق بني آدم ذكورا وإناثا ... وقد بين حكم كل واحد منهما ولم يبين حكم من هو ذكر وأنثى، فدل على أنه لا يجتمع الوصفان في شخص واحد، وكيف وبينهما مضادة »«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: اللہ تعالی نے بنی انسان کو نر ومادہ پیدا کیا ہے ... اور ہر ایک کے حکم جداگانہ بیان کیے لیکن اس کا حکم نہیں بیا ن کیا جو نر ومادہ ہو۔ پس یہ دلیل ہے کہ کوئی ایک انسان ایک وقت میں نر ومادہ نہیں ہو سکتا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ ان کے بیچ میں تضاد ہے۔

خنثی وجودی سطح پر مرد یا عورت ہی ہے تاہم ہمارا علم اس کی دریافت سے ، وقتی طور سے، قاصر رہتا ہے۔ اور ایسا ہونا بھی دراصل اللہ تعالی کی قدرت کا اظہار ہے۔ انسان کو اللہ تعالی نے بہت محدود علم دیا جس سے وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے مرد وزن میں فرق کر لیتا ہے۔ تاہم چونکہ علم محدود ہے، اس لیے انسان کے سامنے چیلنجز آتے رہتے ہیں جہاں اس کا علم بے بسی محسوس کرتا ہےاور اگر اس کا عقیدہ درست ہو، تو وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی معنویت محسوس کرتا ہے جو اس موقع پر کہا گیا جب روح سے متعلق سوال ہوا:

وَمَآ أُوتِيتُم مِّنَ ٱلعِلمِ إِلَّا قَلِيلاً‌ [الإسراء: 85]

ترجمہ: تمہیں انتہائی کم علم دیا گیا ہے!

اس اصول سے ہمیں مزید دو قواعد ملے جن کا تذکرہ مناسب ہے۔

علامہ قرطبی نے فرمایا کہ انسان میں "آدمیت" کی وجہ سے وہ کسی ایک جنس ہی پر ہو گا۔اس سےیہ اندازہ ہوا کہ انسان جس طرح جانداروں میں اپنی نوع (Species)لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ "انسان" ہے، "چڑیا " نہیں۔ اسی طرح، وہ اپنی "جنس" بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے اور "جنس" کوئی ایسا تصور نہیں جسے انسان اپنی خوائش اور اندرونی احساس کی بنا پر بدل ڈالے۔اگر کوئی انسان یہ کہے کہ وہ "انسان" نہیں بلکہ گھوڑا ہے یا اس کا "خاندان سگان" سے تعلق ہے، تو ظاہر ہے کہ معاشرہ اس پر سے انسان کے قانون کا اطلاق چھوڑ نہیں دے گا۔

اس سے ہمیں یہ قاعدہ ملا: قاعدہ: انسانی جنس ناقابل تغیر ہے۔اسے دریافت کرنے میں اشکال ہو سکتا ہےلیکن اسے دریافت کر کے بدلا نہیں جا سکتا۔

چونکہ مذکورہ بالا قاعدہ قانون شرعیت میں ایک "تسلیم شدہ حقیقت وامر واقعہ" ہے، اس لیے یہ اصول مسلمان معاشروں میں رہنے والے ذمیوں پر بھی ایسے ہی عائد ہو گا جیسے مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ میں آگے بڑھ کر یہ کہوں گا کہ جنگ کے دوران میں جن امور کا تعلق انسانی جنس کے ساتھ ہے اس کا فیصلہ بھی اسی اصول پر ہو گا۔ جیسے ان عورتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا جو جنگجو نہیں۔ چناچہ مثلا اگر کوئی عیسائی مرد اپنے آپ کو عورت قرار دے، تو ایک مسلمان معاشرے کے لیے وہ مرد ہی رہے گا (قطع نظر اس بات سے کہ وہ اپنے ذاتی دینی معاملات میں کیا کرتا ہے)۔

قاعدہ: جنس کا قانون جس طرح مسلمان پر لاگو ہوتا ہے اسی طرح ذمی پر لاگو ہو تا ہے۔

اشیا اور ان میں قدر اسلامی شریعت کی روشنی میں

فقہا کے ہاں  جنس کا تعین انسان کی ظاہری ساخت واعضا اور زیادہ صحیح الفاظ میں، نظام تولید سے وابستہ اعضا سے کیا جاتا ہے۔اور اس پر اور خنثی پر ہم ایک ہی عنوان کے تحت گفتگو کریں گے۔لیکن اس سے پہلے اس امر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ شریعت  ایک قدر پر مبنی نظام ہے جبکہ سائنس اور طبعی علوم، قدر سے عاری، کم از کم، اپنےاعلان میں۔اس لیے، جنس کی تعیین   پر گفتگو سے پہلے شریعت کے اس پہلو گفتگو ضروری ہے۔

شریعت کا اشیا او روقائع کی حدبندی کرنا:

فقہ ایک مقاصد پر مبنی (Purpose Drive)انسانی سرگرمی ہے۔ وہ کچھ امور کو ایک واقع (فیکٹ)کے طور پر لیتی ہے اور اس پر حکم عائد کرتی ہے  اور وہی "حکم شرعی " ہی اصل میں "قانون" ہے۔

اس لیے، اسلامی شریعت  پہلے یہ طے کرتی ہے کہ "واقع"  کیا ہے اور پھر اس کا "حکم/قانون"۔ مثلا  یہ جملہ دیکھیے:

"عاقل بالغ پر نماز فرض ہے"۔

واقع: عاقل بالغ ہونا

حکم/قانون: نماز کی فرضیت

شریعت کا کام صرف یہ بتانا نہیں کہ نماز فرض ہے، بلکہ شریعت یہ بھی طے کرتی ہے کہ "عاقل بالغ" کون ہے۔اسے ہمیشہ انسانی اجتہاد پر نہیں چھوڑتی۔اسے ایک مثال سے سمجھیے:

 شریعت کے ہاں بلوغت کے کچھ معیار ہیں جنہیں ذیل میں دیا جاتا ہے:

۱: شریعت نے ایک کم از  کم عمر مقرر کی ہے کہ اس سے پہلے انسان کو بالغ تصور نہیں کیا جا سکتا۔(فقہ حنفی میں، لڑکے کے لیے بارہ اور لڑکی کے لیے نو سال ہے۔)

۲: شریعت نے زیادہ سے زیادہ عمر مقرر کی ہے کہ اس کے بعد، انسان کو نابالغ نہیں تصور کیا جا سکتا۔(جیسےحنفی فقہ میں امام ابو یوسف کے مطابق یہ عمر  مرد وعورت دونوں  میں پندرہ سال  ہے اور اس پرفتوی دیا جاتا ہے۔)

۳: ان دو حدود کے درمیان  میں، شریعت نے کچھ امور طے کیے ہیں کہ اگر وہ پائے جائیں تو انسان بالغ شمار ہو گا:

    1. احتلام ہونا،

    2. جاگتے میں انزال ہوجانا۔

    3. حیض آجانا(لڑکی کو)

    4. قرار حمل (فرض کریں کہ لڑکی کے ساتھ کسی نے تعلق قائم کیا، قطع نظر اس بات سے کہ وہ درست تھا یا نہیں، اور وہ امید سے ہوگئی، تو اس بندے کو سزا دیں یا نہ دیں، لیکن وہ بالغ شمار ہو گی۔)

    5. لڑکے کا کسی کو حامل کر دینا۔(احناف کے ہاں تفصیلات کے لیے دیکھیے، شرح الوقاية، كتاب الحجر، لصدر الشرعية الثاني)

واضح رہے کہ یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ کوئی رائے غلط ہو یا درست ہو کیونکہ یہ اجتہادی معاملات ہے اور ان میں ایک سے زیادہ رائے کا امکان ہے۔ مقصود یہ ہے کہ فقہا کی نگاہ میں شریعت یہ امور بھی طے کرتی ہے، ہمیشہ اسے لوگوں پر نہیں چھوڑ دیتی۔

اسی طرح، شریعت کے ہاں اسباب کی بحث دیکھ لیجیے۔مثلا:

"بیت اللہ کا حج مسلمان پر فرض ہے"

سبب: بیت اللہ

حکم/قانون: فرضیت

کعبہ شریف حج کی فرضیت کا سبب ہے۔ اور چونکہ وہ ایک ہی ہے اس لیے انسان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی بندہ مثلا پاکستان میں کعبہ بنا لے اور فرض کریں کہ جم غفیر اسے کعبہ تسلیم کرنے لگے، تو یہ نہیں کہا جائے گاکہ شریعت کا اصل مقصود "حکم وقانون" بنانا ہے اور "سبب ومحل" وغیرہ میں اس نے معاملات کو لوگوں کے عرف پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے اب لوگوں پر دو حج فرض ہوں گے یا انسان کو اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے جس پر بھی قادر ہو اس کا حج  کرے (اس توجیہ کے ساتھ کہ اصلی کعبہ اور بعد والا کعبہ علی سبیل البدلیت سبب بن رہے ہیں جیسے اگر طواف میں کوئی جنایت ہو تواس پر اس کا اعادہ ہے۔تاہم اگر وہ دم دے دے، تو اعادہ نہیں کرنا پڑتا کہ دم اس کا بدل ہے)۔

اسی طرح، نماز کے لیے سورج کا ڈھلنا چڑھنا وغیرہ۔ اگر کسی علاقے میں لوگ چاند کو سورج ماننے لگیں اور سورج کو چاند ، تو یہ نہیں ہو گا کہ روزہ دن کے بجائے رات کو فرض ہو جائے گاکہ چلو لوگوں کے لیے بھی آسانی ہے کہ رات میں آرام سے روزہ رکھ کر سو جائیں۔دن کو اپنے کاروبار زندگی میں پوری طاقت سے مگن رہیں۔

آخری مثال، انسان کی خود ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات میں  اپنے تشریعی ارادے کی تنفیذ کے لیے بھیجا ہے۔ اسے باکرامت بنایا (وہ اس وقت بھی باکرامت ہے جب وہ خنثی ہے)۔مسجود ملائک بنایا۔ ابلیس نے جب سجدے سے انکار کیا، تو اسے مردود ٹھہرایا۔اوران شرعی احکام کا "مخاطب" انسان ہے (اور جنات بھی)۔ سوال یہ ہے کہ کیا "انسان" کی ماہیت طے کرنا شریعت کا موضوع ہے یا نہیں؟ فرض کر لیں کہ اگر کسی عرف میں پہاڑوں کو انسانوں کی طرح  تصور کیا جائےیا دریا کو، تو کیا اس علاقے کا فقیہ یہ کہے گا کہ چونکہ اس کے عرف میں"انسان" کی تعریف میں  پربت بھی شامل  ہیں اس لیے،  وہ بھی انسان ہے۔ (کسی خاص معاملے میں کسی کو کسی کے "حکم" میں کرنا ایک الگ معاملہ ہے۔ جیسے مرض الموت میں واقع زندہ شخص کو بعض تصرفات میں "مردے" کے حکم میں کیا جاتا ہے۔لیکن تحقیق مناط میں  اسے بالکل "مردہ" کی کیٹیگری میں شامل کرنا درست نہیں۔)

اسی طرح، "جنس" کا معاملہ ہے۔ شریعت نے اس حوالے سے انسانوں کو ان کے عرف ورواج پر نہیں چھوڑ دیا۔ ہم اس معاملے کا  تجزیہ کرتے ہیں۔ذیل میں دیے گئے شرعی قضایا (Propositions) پر غور کیجیے:

۱: انسانی نر کے لیے انسانی مادہ سے جنسی تعلق قائم کرنا ، رشتہ ازدواج  یا ملکیت میں، جائز ہے۔

۲: انسانی نر کے لیے انسانی نر سے جنسی تعلق قائم کرنا ناجائز ہے۔

۳: انسانی مادہ کے لیے وہ لباس پہننا جو اس کے سماج میں انسانی مادہ پہنتی ہو، ناجائز ہے۔

۴: انسانی نر کے لیے کسی ایسی انسانی مادہ کے ساتھ تنہا ہونا جو نہ کے ساتھ نسبی رشتہ رکھتی ہو، نہ رضاعی نہ  مصاہرتی نہ ازدواجی، ناجائز ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔

ان سب قضایا میں شریعت نے ایک حکم یا قانون عائد کیا ہےاور ایک "محکوم علیہ "پر عائد ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح اوپر کی مثالوں میں شریعت نے   محکوم علیہ یا اسباب کی خود حد بندی کی ہے، اسی طرح شریعت نے یہاں بھی اس کی حد بندی کی ہے یا نہیں؟ ہمارے فقہا کے اس حوالے سے نقطہ نگاہ کیا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا نے اس حوالے سے حد بندی کی ہے اورہم نے آغاز میں جو کہا کہ فقہا اس حوالے سےانسان کے تولیدی نظام سے وابستہ اعضا کو بنیاد بناتے ہیں، وہ ان کے نزدیک ایک ایسا معاملہ ہے جو زمانے کے لحاظ سے، عرف کے لحاظ سے بدلتا نہیں۔چونکہ اس حوالے سے گفتگو خنثی کے تحت ہوتی ہے، اس لیے ہم اس پر گفتگو کریں گے۔

اشیا ووقائع میں معنویت مقاصد سے آتی ہے:

اگلے بات یہ دیکھیے کہ سورج، چاند،مرد ہونا یا عورت ہونا یہ صرف اللہ تعالی کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ سورج چڑھتا ہے، ڈھلتا ہے۔ اور یہ سب اللہ تعالی کے تکوینی ارادے کا مظاہر ہیں۔ تاہم اسلامی شریعت میں اس کی معنویت یہ ہے کہ ان دونوں کائناتی مظاہر کے ساتھ مجھے اپنے رب کے تشریعی ارادہے کا علم ہوتا ہے کہ میں دنیا کے سارے مشاغل پس پشت ڈال کر اس کے سامنے سربسجود ہوں اور نماز پڑھوں۔ اسی طرح،ماہ وسال آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اور اپنے رب کے تکوینی ارادے کو نبھا جاتے ہیں۔ لیکن رمضان کے مہینے کی معنویت یہ ہے کہ یہ مجھے اپنے پروردگار کے تشریعی ارادے کا علم دیتا ہے کہ میں روزہ رکھو۔

اسی طرح، کسی کا "انسانی نر "  کے اعضا کا حامل ہونا یا "انسانی مادہ" کے اعضا کا اللہ تعالی کا ایک تکوینی فیصلہ ہے جو نہ اس نر کے ہاتھ میں ہے نہ مادہ کے ہاتھ میں۔لیکن اس تکوینی ارادے کے ساتھ اللہ تعالی کا تشریعی ارادہ جڑا ہوا ہےجو اس زنانہ ومردانہ مظہر کو معنویت دیتا ہے  کہ "نر" سے خاص مقاصد جڑے ہوئے ہیں اور "مادہ" سے مخصوص۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سائنس کا یہ طے کرلینا کہ وہ کسے "نر" اور کسی "مادہ" کہتی ہے یا علم نفسیات کا طے کرلینا کہ وہ کسے "زن" اور کسی "مرد" کہتا ہے، فقہی نقطہ نظر سے اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک وثوق سے ثابت نہ ہوکہ شریعت نے اس معاملے کو انسانوں کے اپنے معیار پر چھوڑ دیا ہے۔ جیسے مثلا  بیع کے قانون میں ، عقد کے تقاضے کے خلاف شرط کو فاسد قرار دینے کو شریعت  نے عرف پر چھوڑ ہے کہ جو شرط اتنی عام ہو جائے کہ اس سے نزاع نہ رہے تو اس سے سودا فاسد نہیں ہوگا ورنہ فاسد ہو گا۔اس پیمانے کا تعلق انسان کے اپنے تجربے سے ہے۔اور یہاں بھی آپ غور کریں تو دراصل "نزاع کا ظن غالب" وہ علت وسبب ہے جو شرعیت نے طے کر دیا ہے۔ تاہم یہ تصور ایسا ہے کہ زماں ومکا ں سے بدلتا رہتا  ہے، اس لیے اس کی حد بندی ہو ہی نہیں سکتی اور شریعت نے انسان کے  دست تجربہ میں اسے دے دیا ہے۔

جنس ومقاصد:

اب ہم مزید اس پر روشی ڈالتے ہیں کہ فقہا "نر ومادہ" دونوں جنسوں کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کے ہاں "جنس" کی تعریف کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علم منطق کے جلو میں "جنس" ، "نوع" اور "فصل" وغیرہ اصطلاحات اسلامی علوم میں در آئیں اور ان کے تناظر میں مختلف علوم   میں گفتگو ہونے لگی۔ تاہم  شرعی علوم کے ماہرین یہاں محض خاموش تماشائی نہیں تھے بلکہ متحرک ناقد تھے اور انہوں نے ا  ن اصطلاحات کو اسلامی بنایا اور اسلامی علمیت واصول معرفت (اپسٹیم) سے ہم آہنگ بنایا اور یہی ہر دور کے ماہرین کا کام ہے۔ چناچہ علم منطق میں چیزوں کی ماہیت وحقیقت اور جس طرح  کہ "وہ ہیں"(الشيء كما هو) اس پر گفتگو ہوتی ہے۔ بالفاظ دگر، وہ وجودی سطح(آنٹولوجی) کا سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن فقہا نے جب یہ اصطلاح برتی تو اس کی کایا پلٹ دی۔ چناچہ فقہا نے یہاں ماہیت کے بجائے مقاصد کو بنیاد بنایا جو قدر کا سوال ہے اور جنس کی تعریف یہ کی  اس کے تحت آنے والے افراد وہ ہیں جن کے اغراض ومقاصد جدا جدا ہوں۔ چناچہ انسان جنس ہے کہ اس کے تحت مرد وعورت ہیں اور شریعت کی نگاہ میں دونوں مختلف ہیں۔مرد کے مقاصد کچھ اور عورت کے مقاصد کچھ ہیں۔

اسی حقیقت کے حوالے سے، مشہور علمی شخصیت محمد بن علی صابر فاروقی تھانوی فرماتے ہیں:

«وعند الفقهاء والأصوليين عبارة عن كلي مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض دون الحقائق كما ذهب إليه المنطقيون، كالإنسان فإنه مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض، فإن تحته رجلا وامرأة، والغرض من خلقة الرجل هو كونه نبيا وإماما وشاهدا في الحدود والقصاص ومقيما للجمع والأعياد ونحوه. والغرض من خلقة المرأة كونها مستفرشة آتية بالولد مدبرة لأمور البيت وغير ذلك. والرجل والمرأة عندهم من الأنواع، فإن النوع عندهم كلي مقول على كثيرين متفقين بالأغراض دون الحقائق كما هو رأي المنطقيين. »«كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم» (1/ 594 - 595)

ترجمہ: فقہا واصولی حضرات کے ہاں جنس اس کلی (کیٹیگری)کو کہتے ہیں جس کا اطلاق ایسے افراد پر ہو جن کے (شرعی)اغراض ومقاصد جدا ہوتے ہیں،  نہ کہ  ان کی ماہیت جیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔اس کی مثال انسان  کی کلی ہے جو مختلف اغراض  کے حامل افراد پر منطبق ہوتی ہے کہ اس کے  تحت زن ومرد ہیں اور مرد کی تخلیق سے مقصود نبوت، امامت، حدود وقصاص میں گواہی، جمعہ وعیدین کی نمازوں میں امامت وغیرہ ہے اور عورت کی تخلیق سے مقصود   جنم دینا، رشتہ ازدواج میں بندھ کر کسی ایک ہی مرد کی اولاد کو جنم دینا اور اس اولاد کا اس کی طرف منسوب ہونا  (عورت کے فراش ہونے کا فقہی تصور)، گھر گھرستی وغیرہ ہے۔اور مرد وزن فقہا کے ہاں انواع ہیں کہ نوع ان کے ہاں اس کلی سے عبارت ہے جو ہم غرض افراد پر لاگو ہو نہ کہ ہم ماہیت  پرجیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔

یہاں مندرجہ ذیل امور پر غور کیجیے:

۱: فقہا مرد وزن اور نر ومادہ کو ہم معنی برتتے ہیں۔

۲: فقہا کے ہاں  کسی انسان کا مادہ کے نظام تولید کا حامل ہونا  مادہ کے اغراض میں شامل ہے۔اسی وجہ سے، فقہی نقطہ نظر سے، کسی "مادہ"  کی تحدید دراصل اس کے نظام تولید سے ہوتی ہے۔ اور منطقی طور سے، اس کے برعکس نظام تولید کا حامل "نر" ہے۔(اس پرتفصیل بعد میں آئے گی)

۳: اسی طرح، عورت کا ایک وقت میں ایک ہی مرد سے وابستہ ہونا اس کے اغراض میں سے ہے۔

[نوٹ: اصول فقہ کی کتابوں میں "خاص" کی اقسام ، خاص الفرد، خاص النوع وخاص الجنس، کے تحت یہ بحث مل جاتی ہے۔ منار کی شرح نور الانوار میں بھی اس پر تفصیل سے گفتگو موجود ہے۔]

فقہا کے ہاں جنس وصنف میں فرق:

چونکہ یہاں جنس وصنف  کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔ اس لیے اس پر لگے ہاتھ کچھ گفتگو کر لینا مناسب ہے۔

آغاز میں یہ بات گزری کہ بیسوی صدی کے جنسی انقلاب کے بعد، جنم لینے والی علمیت  کے مطابق جنس وصنف کے مابین فرق  کی بنیاد یہ  ہے کہ تولیدی نظام سے جنس طے ہوتی ہے اور صنف اس کے سماجی مظاہر سے عبارت ہے۔ نیز یہ علمیت مندرجہ ذیل امور کے مابین ڈور کاٹ دیتی ہے:

۱:جنس (Sex) ،

۲: جنسی رجحان(Sexual Orientation)،

۳: سماجی کردار (Gender Role)،

۴: اور سماجی مظاہر(Gender Expression)۔

چنانچہ ایسا نہیں کہ اگر آپ "جنس" کا جواب دے دیں تو باقی امور خود بخود طے ہو گئے۔

یہاں ہم نے دیکھا  کہ  فقہا   کے ہاں یہ تمام امور آپس میں اس طرح  ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں  کہ اگر پہلے کا جواب دیں تو  دوسرے کا جواب خود بخود آئے گا۔

تاہم، یہ واضح رہے کہ بعض سماجی مظاہر اور سماجی کردار ایسے ہیں جو عرف کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے، یہ ضروری نہیں کہ ایک عرف میں اگر کسی مظہر کو مرد وزن کے ساتھ خاص کیا گیا تو وہ ہر زماں ومکاں میں ایسا ہے۔ تاہم   یہاں بھی فقہا عرف کے احترام کی تلقین ، مقاصد شریعت کی حدود میں، کرتے ہیں۔

اس پوری گفتگو سے ہمیں مندرجہ ذیل قواعد حاصل ہوئے:

قاعدہ: شریعت ایک قدر پر مبنی نظام ہے جو اشیا کو اللہ تعالی کے ارادے کے تحت معنویت بخشتا ہے۔

قاعدہ: شریعت اشیا کی قدر طے کرتے ہوئے، اشیا کی تعیین وتحدید بھی کرتی ہے۔ تاہم جو امور زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلیں، وہاں شریعت انسانی تجربے پر معاملے کو چھوڑ دیتی ہے۔

قاعدہ: جنس کی تعیین وتحدید شریعت کا موضوع ہے  اور یہ زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلتی نہیں۔

اسلام میں جنس کا معیار اور خنثی

یہاں تک  یہ طے ہو گیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے جنس دو ہی ہیں  اور وہ دونوں جداگانہ ہیں اور انسان اپنے پیدائش کے ساتھ  جس طرح اپنی نوعی شناخت ( Identity of being a specific species)لاتا ہے اسی طرح اپنی صنفی شناخت بھی لے کر آتا ہے۔ یہ ناقابل تغیر عنصر ہے۔نیز جنس وصنف فقہا کے ہاں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ تاہم بعض اوقات کسی انسان کی جنس کی دریافت میں الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور اسے "خنثی" کہا  جاتا ہے۔اب شریعت کے نقطہ نگاہ سے، یہاں بنیادی سوال خنثی کی تعریف ہے اور اسی کے تحت اسلام میں جنس کا معیار طے ہوگا۔

خنثی کی تعریف:

"خنثی " دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنے ایسے انسان کے ہیں جس میں مرد وزن دونوں کے اعضائے تناسل پائے جائیں۔

فقہا کے ہاں اس کی علمی تعریف بھی یہی ہے۔ البتہ وہ اس میں ایک مزید عنصر کا اضافہ کرتے ہیں۔وہ یہ کہ اگر کسی انسان کے دونوں اعضا سرے سے  نہ ہوں ، تو اس پر بھی "خنثی" ہی کا قانون نافذ ہو گا۔چناچہ مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی فرماتے ہیں:

«وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

[خنثی وہ ہے جس  میں مرد وزن دونوں کے آلہ تناسل ہوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو۔]

خنثی مرد ہے یا عورت ہے:

فقہا کے ہاں ، فنی نقطہ نگاہ سے، خنثی کوئی تیسری باقاعدہ جنس نہیں، بلکہ خنثی مرد ہے یا عورت۔اور اس کا فیصلہ صحابہ کے دور سے فقہا کے ہاں اس کے  اعضائے تناسل سے کیا جاتاہے۔

اس حوالے سے ابن عدی کے ایک روایت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے منسوب ہے لیکن اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ چناچہ مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ جمال الدین زیلعی نے ہدایہ کی تخریج میں  بھی اسے ضعیف گردانا ہے۔ تاہم اس حکم کا دارومدار اس پر نہیں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے صحابہ سے روایا ت منقول ہیں۔

حضرت علی سے منقول ہےکہ:

«عن علي أنه ورث خنثى ذكرا من حيث يبول»«مصنف عبد الرزاق» (8/ 389 ط التأصيل الثانية)

مفہوم:حضرت علی سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرد خنثی کو اس کی جائے پیشاب کی بنیاد پر وراثت دی۔

دیگر صحابہ سے منقول ہے:

عن جابر بن زيد، والحسن، في الخنثى قالا: «يورث من مباله»، قال قتادة: فكتب في ذلك لسعيد بن المسيب فقال: نعم، وإن بال منهما جميعا فمن أيهما سبق«مصنف ابن أبي شيبة» (6/ 277 ت الحوت)

مفہوم:حضرت جابر وحسن رضی اللہ تعالی عنہما سے  منقول ہے کہ خنثی کو اس  کی جائے پیشاب کی بنیاد پر میراث دی جائے گی۔ قتادہ کہتے ہیں کہ  انہوں نے اس حوالے سے سعید بن المسیب کو خط لکھا۔ انہوں نے بھی اس کی تائید کی۔ نیز فرمایا کہ اگر دونوں اعضا سے پیشاب کرے، تو جہاں سے پہلے شروع کیا ہو (اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔)

عن الشعبي، في مولود ولد ليس له ما للذكر ولا ما للأنثى، يبول من سرته، قال: «له نصف حظ الأنثى ونصف حظ الذكر»

علامہ زیلعی نے یہ روایات نقل کی ہیں بغیر کسی تنقید ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کے ہاں قابل حجت ہیں۔

نیز یہاں  اصل استدلال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول حدیث  نہیں جو کمزور ہے۔اور فقہی کتابوں میں منقول ہر حدیث یا ہر استدلال کا معتبر ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ فقہا کی عادت ہے کہ وہ ایک مسئلے پر کئی استدلالات اکھٹے کر دیتے ہیں جن میں سے بعض کمزور بھی ہوتے ہیں اور ہر فقہی مذہب کے ماہرین وقت کے ساتھ ساتھ اسے نکھارتے آئے ہیں۔  بلکہ بنیادی استدلال تین ہیں:

۱: شریعت کی طرف سے تقریر:

زمانہ جاہلیت میں بھی  یہ معاملہ رائج تھا  کہ ایسی صورتوں میں لوگ عضو تناسل کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے۔شریعت آئی اور اس نے اس حوالے سے کوئی  تبدیلی نہیں کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اسی یوں سمجھیے کہ "استصناع" کو (فنی باریکی برطرف، استصناع  آرڈر پر چیز بنوانے  سے عبارت ہے جب کہ میٹیریل بنانے والے کا ہو) احناف درست کہتے ہیں اور دوسرے فقہا نادرست کہ اس میں ایسی چیز کا سودا ہے جو موجود نہیں اور یہ "سلم" میں بھی شامل نہیں۔ احناف کے استدلالات میں سے ایک بنیادی استدلال یہ ہے کہ یہ معاملات رائج تھے۔ اس لیے، اگر ان میں تبدیلی مقصود ہوتی تو شریعت اس حوالے سے باقاعدہ رہنمائی فرماتی۔ اسی طرح، صحابہ  وتابعین کے دور میں یہ رائج  رہا پر اس پر نکیر نہ ہوئی۔پس ایسے امور میں ، شریعت کی یہ خاموشی اس کی طرف سے قانونی سازی  و"تقریر"ہے کہ یہ جائز ہے۔  یہی بات فقہا جنس  اور اس سے وابستہ احکام کے  حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ "حکم جاہلی "تھا اور شریعت نے اسے برقرار رکھا۔ اور صحابہ کا فیصلہ اس کی مزید توثیق ہوا۔اسے مختلف حنفی وغیر حنفی فقہا نے رقم کیا ہے۔ ہم علامہ سرخسی کی سنتے ہیں:

«وهذا حكم كان عليه العرب في الجاهلية على ما يحكى أن قاضيا فيهم رفعت إليه هذه الحادثة فجعل يقول هو رجل وامرأة فاستبعد قومه ذلك فتحير ودخل بيته في الاستراحة فجعل يتقلب على فراشه ولا يأخذه النوم لتحيره في هذه الحالة وكانت له بنية فغمزت رجليه فسألته عن تفكره فأخبرها بذلك وقالت دع الحال وابتغ المبال فخرج إلى قومه وحكم بذلك فاستحسنوا ذلك منه فعرفنا أن حكمه كان في الجاهلية قرره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وسيجيء من المعنى ما يدل عليه»«المبسوط للسرخسي» (30/ 103)

مفہوم: یہ معاملہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا جیسا کہ منقول ہے کہ ان کے ایک قاضی کے پاس یہ (خنثی کا )معاملہ لایا گیا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ مرد وزن دونوں ہے۔ لوگوں  اس بات سے مطمئن نہ ہوئے۔ قاضی صاحب کشمکش کا شکار ہوگئے۔ وہ اپنے گھر آرام گاہ میں گئے۔ لیکن اس مسئلے کے ساتھ انہیں ایک پل چین نہ آئے،نیند نہ آئے۔اس کی ایک بٹیا تھی۔اس نے (جب با پ کر پریشان دیکھاتو)اس کے پاوں کو دبایا اور پریشانی کی وجہ جاننا چاہی۔ اس نے ماجرا کہہ ڈالا۔ بیٹی نے کہا کہ:"اس بات کو چھوڑیے اور پیشاب گاہ کو بنیاد بنائیے"۔ قاضی صاحب نے لوگوں میں جاکر اسی کے مطابق فیصلہ کیا، تو انہیں یہ پسند آئی۔ (اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں )اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ خنثی کا حکم زمانہ جاہلیت میں تھا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے برقرار رکھا۔ نیز آگے اس  حکم کی علت سے بھی اس کی مزید تائید ہوگی۔

۲: فقہا کا اجماع:

دوسرا یہ کہ اس معاملے پر فقہا کا اجماع ہے جو خود ایک مستقل دلیل ہے۔ اس حوالے سے ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی  نے بھی واضح فرمایا ہے کہ خنثی کا دارومدار پیشاب گاہ پر ہونا فقہا کے مابین ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور ابن المنذر سے انہوں نے اس پر فقہا کا اجماع نقل کر کےصحابہ کے آثار اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب  احادیث پیش کی ہیں۔ اس لیے، واضح رہے کہ یہاں مسئلے کی بنیادنبی   صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب خبر واحد پر نہیں۔ اور بلاشبہ، اس جیسے مسئلے کی بنا ایسے چیز پر نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ   رفع یدین جیسے مسئلے کی طرح اجتہادی مسئلہ بن جائے اور ساری بات زیادہ سے زیادہ "خلاف اولی" پر آجائے۔فقہا کے ہاں یہ ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور صحابہ کے دور سے فقہا نے اس کے حکم کی بنا اس زمانے کے عرف پر نہیں، بلکہ انسان کے ظاہری عضویاتی فطری پر رکھی ہے اور وہ معلوم تاریخ کے مطابق ابھی تک ارتقا کر کے  بدلی نہیں۔ نیز جینیاتی علم نے آ کر اسے بدلا نہیں بلکہ محض اس کی تفسیر کی ہے جیسا کہ تفصیل سے آگے آئے گا۔ انسانی فطرت وہیں کی وہیں ہے۔

اور یہی سے ہمیں واضح ہوتا ہے کہ ایک فقہا نے ضعیف روایت اس لیے نقل فرمائی کہ وہ مسئلے کی بنا نہیں  بلکہ حکم اور دلائل سے ثابت ہے۔اس لیے، اگر یہ روایت نہ ہو، تب بھی یہ حکم ثابت ہے۔

بہر کیف، علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت ملاحظہ ہو:

«الخنثى هو الذي له ذكر وفرج امرأة، أو ثقب في مكان الفرج يخرج منه البول ويعتبر بمباله في قول من بلغنا قوله من أهل العلم. قال ابن المنذر: أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن الخنثى يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل، فهو رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة، فهو امرأة. وممن روى عنه ذلك؛ على، ومعاوية، وسعيد بن المسيب، وجابر بن زيد، وأهل الكوفة، وسائر أهل العلم. »«المغني» لابن قدامة (9/ 108 ت التركي)

مفہوم: خنثی وہ ہے اس میں مرد وزن دونوں کی شرم گاہ ہو یا شرمگاہ کی جگہ پر سوراخ ہو جس سے پیشاب نکلے۔ ہم تک جن اہل علم کی رائے بھی پہنچی ہے ان کے مطابق اس کی جائے پیشاب کا اعتبار کیا جائے گا۔ابن المنذر کہتے ہیں کہ جن اہل علم سے ہم نے علم نقل کیا ان سب کا اتفاق ہے کہ خنثی کو میراث جائے پیشاب کی بنیاد پر دی جائے گی۔ اگر وہاں سے کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو  وہ مرد ہے  اور اگر وہاں سے کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو وہ عورت ہے۔ جن جن سے یہ بات منقول ہے ان میں حضرت علی، معاویہ، سعید بن المسیب، جابر بن زید  شامل ہیں۔ نیز اہل کوفہ اور باقی حضرات سے بھی یہی منقول ہے۔۱۲

مشہور مالکی فقیہ علامہ قرطبی نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ خنثی میں اس کے اعضائے تناسل کا اعتبار ہے۔

أجمع العلماء على أنه يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل ورث ميراث رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة ورث ميراث المرأة. «تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 65)

مفہوم:علما کا اتفاق ہے کہ خنثی کو اس کی جائےپیشاب کی بنیادپر میراث د ی جائے گی: اب  وہ ضرورت وہاں سے پوری کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو اسے مرد کی میراث ملے گی اور اگر وہاں سے ضرورت پوری کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو عورت کی میراث۔ ۱۲

۳: قول صحابی:

نیز جو فقہا قول صحابی کو حجت تسلیم کرتے ہیں ان کے ہاں صحابہ سے منقول اقوال بھی ایک مستقل دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور احناف کے ہاں بھی قول صحابی حجت ہے۔

واضح رہے کہ اگر ہم جنس کے معاملے کو عرف  یا طب پر چھوڑ دیں، تو ہمارے پاس اس کی کوئی اصولی بنیاد نہیں رہے گی کہ ہم محض نفسیات واحساسات کو غیر معتبر ٹھہرائیں۔اور اس کے بعد، ہمارا یہ کہنا کہ "متبدل صنف" (ٹرانس جینڈر)کا اعتبار نہیں  ،بے بنیاد ہو جائے گا۔

یہاں قاری اس الجھن کا شکار نہ ہو کہ "جنس وصنف " میں فرق ہے۔ ہم واضح کر چکے کہ شریعت کے ہاں یہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہیں اور "جنس" کو طے کرنا دراصل "صنف" (شریعت کے مختلف احکام)کے لیے ہے۔ ورنہ شریعت کو اس سے  کوئی سروکار نہیں کہ کسی چیز کی ماہیت کیا ہے۔ مثلا ماربل کی ماہیت کیا ہے، اینٹ کی کیا ہے؟

اس لیے، واضح رہے کہ اس ساری بحث میں کلیدی کردار اس بات ہے کہ "خنثی " کی تعریف کیا ہے۔ہم یہ طے کر آئے ہیں کہ شریعت   کے ہاں جنس غیر متبدل ہے اور یہ اللہ تعالی کی اٹل تقدیر ہے۔

پس شریعت کی نگاہ میں خنثی وہ ہے جس کے نظام تولید سے وابستہ اعضا  دونوں ہوں یا ان میں ابہام ہو۔اس کے علاوہ ،ثانوی جسمانی خصائص جیسےچہرے پر بال یا ہونا یا نہ ہونا،چھاتی کا ہونا نہ ہونا(جنہیں طب میں ثانوی خصائص Secondary Traits کہا جاتا ہے ) خنثی کی تعیین میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ اور نفسیات کا تو کیا ہی کہنا کہ اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح، واضح رہے کہ کسی مرد یا عورت کا آپریشن کروا لینا اسے خنثی یا خنثی مشکل نہیں بناتا۔ جنس صرف اعضا ئے تناسل کا نام نہیں۔ بلکہ کسی بچے کا مخصوص اعضائے تناسل کے ساتھ پیدا ہونا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالی کی تقدیر ازلی میں وہ نر ہے یا مادہ۔ اس لیے، اگر کوئی مرد اپنے اعضا بدلوا لے، تو وہ خنثی نہیں ہو گا بلکہ وہ  بدستور مرد ہی رہے گا۔

تاہم جب کسی کا خنثی ہونا ثابت ہو جائے، تو اس کے بعد، فقہا کے ہاں بہت گنجائش  ہے۔ لیکن اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم جینیات اور انسانی نفسیات کے پہلو سے اس موضوع پرغور کریں تا کہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ ہمارے فقہا کے علمیات ان کے لحاظ سے کہاں ہے۔

(جاری)


سودی نظام کے خاتمے کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(کراچی میں مرکز الاقتصاد الاسلامی اور وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت پاکستان کے زیراہتمام قومی حرمتِ سود سیمینار سے خطاب)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ’’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ اور ’’وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان‘‘ کا شکرگزار ہوں کہ ایک اہم ترین قومی و دینی مسئلہ پر تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام اور تاجر طبقہ کے راہنماؤں کے اس اجتماع کا اہتمام کیا، بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم اور ان کے رفقاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں۔

میں دو تین باتیں سودی نظام کے حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا:

پہلی بات یہ کہ سودی نظام سے نجات پوری نسلِ انسانی کی ضرورت ہے، سودی نظام نے دنیا میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ آج کے ماہرینِ معیشت خود کہہ رہے ہیں کہ سود نے انسانی معیشت کو نقصان دیا ہے اور اس کا مجموعی ماحول ’’اثمہما اکبر من نفعہما‘‘ کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ پھر یہ نظام اکیلا ہی دنیا پر اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہے اور کوئی متبادل نظام میدانِ عمل میں نہیں ہے۔ جبکہ اصول یہ ہے کہ کوئی متبادل نظام سامنے ہو تاکہ دنیا دونوں کو دیکھ کر فیصلہ کر سکے کہ کون سا نظام اختیار کرنا ہے کیونکہ مقابلہ سے ہی کسی نظام کے بہتر ہونے کا علم ہو سکتا ہے۔

دوسرا دائرہ ہمارا قومی ہے جو اس حوالہ سے ہے کہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے اور قرآن و سنت کا صریح حکم ہے اور ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔

اور اس حوالہ سے بھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قیامِ پاکستان کے مقاصد میں کہا تھا کہ ہم ملک میں مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق معاشی نظام چاہتے ہیں۔

پھر یہ پہلو بھی اہم ہے کہ دستورِ پاکستان میں صرف یہ وعدہ نہیں بلکہ ضمانت دی گئی ہے کہ ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اس لیے یہ دستوری تقاضا بھی ہے کہ سودی نظام سے ملک کو جلد از جلد نجات دلائی جائے۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری معاشی مشکلات اور بحران کی سب سے بڑی وجہ سودی نظام ہے۔ ہم معاشی بحران کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور بیرونی قرضوں نے ہمیں جکڑ رکھا ہے جس سے ہماری قومی خود مختاری سوالیہ نشان بن گئی ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ بھی ہماری قومی ضرورت ہے کہ قومی خود مختاری، معاشی استحکام اور ملکی استحکام کے لیے سودی نظام کی لعنت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کریں۔

ہمیں خوشی ہے کہ تمام دینی مکاتبِ فکر کی قیادتیں اور بزنس کمیونٹی کے قائدین آج سودی نظام سے نجات کے عزم کے ساتھ ایک فورم پر جمع ہیں۔ اس موضوع پر ملک کے مختلف حصوں میں متعدد فورم کام کر رہے ہیں اور میں بھی تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کے نام سے ایک فورم کی نمائندگی کر رہا ہوں جو تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل ہے۔ اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس عنوان سے کام کرنے والے تمام حلقے اور فورم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن، حضرت مولانا پروفیسر ساجد میر، محترم جناب سراج الحق، اور دیگر قیادتیں آج جو فیصلہ بھی کریں گے، ہم سب ان کے ساتھ ہیں اور جو لائحہ عمل طے ہو گا اس پر عملدرآمد کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔


ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۲)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے علمی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور اجتماعی زندگی بھی گزاری اور خاص طور پر ہندوستان کی اسلامی تحریک میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔  ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی کے سلسلہ میں نہ صرف فکرمند رہا کرتے تھے بلکہ ملت کو درپیش اہم مسائل اور چیلنجز پر بہت ہی واضح اور جرأتمندانہ موقف بھی رکھتے تھے۔  ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی سے متعلق ایک واضح پروگرام اور نقشہ کار رکھتے تھے، اور اس کا اظہار مختلف مواقع پر بہت ہی شدومد کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر صدیقی کا مزاج شروع سے علمی اور فکری محاذ پر کام کرنے کی طرف مائل رہا، اور علمی وفکری محاذ پر وہ بہت ہی ڈائنامک انداز میں کام کرتے رہے، البتہ عملی قیادت اور نظم وانتظام کا کام ان کے مزاج سے بہت زیادہ ہم آہنگ نہیں تھا، چنانچہ وہ تحریک اسلامی میں بھی اور دوسرے ملی پلیٹ فارمس پر بھی زمینی قیادت کا حصہ کبھی نہیں بن سکے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی اپروچ عام تحریکی مفکرین اور مصنفین سے کافی مختلف ہوا کرتی تھی، عملی زندگی میں بھی وہ بہت کشادہ اور وسیع الظرف واقع ہوئے تھے اور فکری وعلمی محاذ پر بھی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے والد محترم بہت علم دوست بھی تھے اور بہت کشادہ ظرف بھی۔ ان کے یہاں ابوالکلام آزاد کے”البلاغ“اور”الہلال“بھی آتے تھے، اور مولانا اشرف علی تھانوی کا”التبلیغ“بھی آتا تھا، اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا”ترجمان القرآن“بھی آتا تھا۔ اس زمانے میں سیرت کمیٹی لاہور کا ترجمان”ایمان“کافی مقبول تھا، یہ مجلہ آپ کے یہاں بڑی تعداد میں آتا تھا اور شہر بھر میں تقسیم کیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر صدیقی نے بہت کم عمری سے مختلف مکاتب فکر سے استفادہ کا جو مزاج پایا تھا وہ آخری عمر تک باقی رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں اور خاص طور پر خطوط کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے نہ صرف استفادہ کرتے تھے بلکہ ان سے ایک گہرا تعلق بھی رکھتے تھے۔

جماعت اسلامی سے وابستگی سے قبل آپ کچھ دن مسلم لیگ کی طلبہ تنظیم”مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن“سے بھی وابستہ رہے اور کچھ دن علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک کی طرف بھی میلان رہا۔

والد محترم کی ذاتی لائبریری میں ماہنامہ ترجمان القرآن سے مستقل استفادہ کے نتیجے میں مولانا مودودی کی تحریروں سے آپ پہلے سے واقف تھے اور ان سے مستقل استفادہ بھی جاری تھا، البتہ 1946 کے آس پاس آپ کچھ مقامی افراد کی کوششوں سے جماعت اسلامی کی مقامی یونٹ گورکھپور سے جڑ گئے اور پھر جماعت اسلامی کی فکر اور تحریک کے لیے مکمل طور پر یکسو ہوگئے۔ چند سال بعد 1950 میں رکن ہوئے، اور پھر تادم زیست جماعت اسلامی سے وابستہ رہے، البتہ عمر کے آخری مرحلہ میں امریکی شہریت کا حامل ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی ہند میں ان کی رکنیت برقرار نہ رہ سکی، جس کا انہیں آخر تک شدید صدمہ تھا۔

مولانا مودودی کے ساتھ خط وکتابت:

مولانا مودودی علیہ الرحمہ سے آپ کی خط وکتابت کا آغاز 1944 کے اواخر یا 1945 کی ابتدائی تاریخوں میں ہوا، اور مولانا مودودی کی وفات تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کے نام مولانا مودودی کا پہلا خط 28جنوری 1945 کا ہے، اور آخری خط 6 مئی 1979 کا ہے۔ ان خطوط سے مولانا مودودی علیہ الرحمہ اور ڈاکٹر صدیقی علیہ الرحمہ کی قربت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا مودودی ڈاکٹر صدیقی کی بات کو کس قدر سنجیدگی سے سنتے تھے۔ ان خطوط میں فکر اسلامی اور تحریک اسلامی سے متعلق بہت سی اہم اور منفرد باتوں کی وضاحت ہے۔ مثلاً 4 جولائی 1962 کو ایک خط کے جواب میں مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں:

”آپ کے نقطہ نظر کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں اور جس حد تک اپنی اخروی ذمہ داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے لبرلزم برت سکتا ہوں برتتا بھی ہوں۔ لیکن پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ حالات کو جس رخ پر جاتے دیکھ رہا ہوں اس کی بنا پر کوئی ایسی بات کرتے ہوئے میری روح کانپ جاتی ہے جو بے لگام اجتہادات کا دروازہ کھولنے کی ذمہ داری میں مجھے شریک کردے۔ میرا خیال یہ ہے کہ میری اس احتیاط کی روِش سے جو نقصان ہوسکتا ہے اس سے بہت زیادہ نقصان یہ احتیاط ملحوظ نہ رکھنے سے ہو جائے گا۔ گاڑی بہت گہرے نشیب کی طرف جار ہی ہے۔ بر یک ڈھیلا کرتے ہی سیدھی کھڈ میں جاگرے گی۔“(اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 29)

مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی کئی کتابوں کو اشاعت سے قبل دیکھنے کے بعد ان پر تفصیلی نوٹس دیے اور بعض کے سلسلہ میں اصولی رہنمائی فرمائی، خطوط کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ”غیرسودی بینک کاری“،”شرکت ومضاربت کے شرعی اصول“اور”معاصر اسلامی فکر“مولانا مودودی نے اشاعت سے قبل دیکھی تھیں، اور ان کے تعلق سے کسی نہ کسی صورت میں اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا۔”شرکت ومضاربت کے شرعی اصول“نامی کتاب کے تعلق سے مولانا مودودی نے جو اصولی رائے دی تھی، وہ کچھ اس طرح تھی:

”اس مسئلہ میں قانون کا ڈھانچہ تو حنفی ہی رہنا چاہیے۔ البتہ جہاں حنفی مسلک سے کام نہ چلتا ہو وہاں ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مسلک کو اختیار کرلیا جائے اور اسے اختیار کرنے کے حق میں مضبوط دلائل دے دیے جائیں۔ اگر چاروں مذاہب سے بھی کام نہ چلے تو پھر بدرجہ آخر دوسرے ائمہ مجتہدین کے جو اقوال کتابوں میں ملتے ہیں ان میں سے کسی کو اختیار کر لیا جائے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 45)

جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمون پر آزمائشوں کے سخت پہاڑ توڑے تھے، اخوان پر پابندی، سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی اور نہ جانے کتنے دل دوز واقعات اس کے عہد حکمرانی سے جڑے ہوئے ہیں، جمال عبدالناصر کا انتقال ہوا تو اُس وقت بعض سیاسی مجبوریوں کے تحت مولانا مودودی نے بھی ایک تعزیتی پیغام جاری کردیا تھا، اس تعزیت کے سلسلہ میں فطری طور پر تحریک سے متعلق دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صدیقی کو بھی سخت اعتراض ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹر صدیقی کے ایک خط کے جواب میں 10 اکتوبر 1970 کو مولانا مودودی اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہاں کے حالات اس کے مقتضی تھے کہ چند محتاط الفاظ میں صدر ناصر کی وفات پر تعزیت کا تار دے دیا جائے۔ یہاں جن گروہوں سے ہمیں سابقہ درپیش ہے وہ میری خاموشی کو ایک نئے مخالفانہ پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 48)

1972 میں ڈاکٹر صدیقی ایک پروگرام کے تحت امریکہ گئے، وہاں سے بھی مولانا مودودی کے ساتھ آپ کی ایک اہم خط وکتابت ہوئی، اس دوران مولانا مودودی نے ڈاکٹر صدیقی کے نام اپنے خط میں مغربی ممالک کے تناظر میں تحریک اسلامی کی کچھ اہم ضرورتوں اور وہاں موجود مسلمانوں سے متعلق کچھ اہم پہلووں کی نشاندہی کی، اورڈاکٹر صدیقی سے مطالبہ کیا کہ وہ وہاں موجود مسلم طلبہ ونوجوانوں کی اس سلسلہ میں ذہن سازی کی کوشش کریں، لکھتے ہیں:

”امر یکہ اور کینیڈا میں مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت اچھی اور کارآمد طاقت جمع ہے۔ان لوگوں سے مل کر انہیں اس بات پر آمادہ کیجیے کہ ہندوستان وپاکستان اور فلسطین کے مسائل پر محض غم و غصے سے کام نہیں چل سکتا۔ اور نہ ہی ساری قوتیں اور وسائل انہی مسائل پر صرف کردینا مناسب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اپنی قوتوں اور وسائل کو جمع کر کے ایک ایسا نظام بنائیں جو ایک طرف تحقیقی مواد (اسلام کے متعلق بھی اور مسلمان ملکوں کے مسائل کے متعلق بھی) مر تب کرے۔اور دوسری طرف ان چیزوں کی اشاعت کا بھی انتظام کرے۔جب تک خود اپنا کوئی دارالاشاعت نہ بنالیا جائے کام نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ امریکہ اور کینیڈا کے اشاعتی وسائل ہمارے ساتھ تعاون تو در کنار تجارتی بنیاد پر بھی معاملہ کرنے کے لیے تیار نہ ہو سکیں گے۔ یہی حال یورپ کا بھی ہے، لندن میں ایک مستقل مرکز تحقیق و اشاعت قائم ہونا چاہیے جو یورپ میں اس کام کو انجام دے“۔(حوالہ سابق، صفحہ 50)

نئے ہندوستان میں نیا رخ اور نیا طریقہ کار:

تقسیم ہند کے بعد 1948 میں ہندوستان میں جماعت اسلامی ہند کے نام سے جماعت اسلامی کی تشکیل نو تو ہوگئی، نئی قیادت اور نیا سسٹم بھی وجود میں آگیا، لیکن ذہن وہی رہا جو تقسیم سے پہلے کے ماحول میں تیار ہوا تھا، اور لٹریچر بھی وہی رہا جو تقسیم سے پہلے وجود میں آیا تھا۔ یہ لٹریچر ایک قسم کی منفی ذہنیت اور موجود نظام حکومت کے بائیکاٹ کا مزاج فروغ دے رہا تھا، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی تحریروں میں اس لٹریچر اور اس مزاج کو شدید انداز میں رد کرنے اور ہندوستان کے تناظر میں ازسرنو اپنی پوزیشن طے کرنے پر خاصا زور دیا ہے۔ اس سلسلہ میں جہاں انہوں نے دیگر علماء اور مفکرین کے نام خطوط لکھے، ان کے ساتھ مختلف مواقع پر مباحثے کیے، وہیں انہوں نے اس سلسلہ میں ایک بہت دوٹوک خط مولانا مودودی کے نام بھی لکھا تھا، یہ خط قدرے طویل ہے، البتہ اس کا ابتدائی حصہ یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، ڈاکٹر صدیقی 14اکتوبر 1972 کو مولانا مودودی کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:

”اپنے ملک کی نسبت سے تحریک اسلامی کے مفادات ومصالح ملک کے موجودہ نظام سے کنارہ کشی یا بے تعلقی کی بجائے ایک ایجابی رویہ اور شرکت کے متقاضی نظر آتے ہیں۔ ہندوستان میں ہمارا اصل کام دعوت کا کام ہے اور اس کی خاطر مسلمانوں کی اصلاح و تربیت مطلوب ہے۔ تحریک اسلامی کی علمبر دار مسلم اقلیت کاRole یہی ہو سکتا ہے کہ وہ برادران وطن کو اسلام سے روشناس کرائے۔ اپنے حسن عمل سے اسلام کی خوبیوں پر گواہ بن کر رہے اور ساتھ ہی ملک کی معاشرت، معیشت، سیاست سب کی تشکیل میں اسلامی قدروں کے قبول اور فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ یہ کام شرکت اور فعال طریقہ سے موجودہ نظام کو اپنے لیے قوت اور سماجی اثر حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ کنارہ کشی سے ربط عام اور موثر طریقہ پر ربط کے مواقع ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ ظاہر ہے کہ سارے مسلمان اجتناب وبے تعلقی کے طریقہ پر عمل کر ہی نہیں سکتے، چنانچہ تحریک کااس موقف پر اصرار مسلمانوں سے بھی علیحدگی کا سبب بنتا ہے۔ جس زمانہ میں ہمارے لٹریچر میں اس موقف کے حق میں لکھا گیا تھا اس وقت متحدہ ہندوستان کا سیاسی مستقبل زیر بحث تھا۔ اس بحث میں اسلامی نقطہ نظر کی ترجمانی اور اس سیاق میں اس وقت کے نظام کے سلسلہ میں رویہ کی وضاحت کی گئی تھی۔ اب وہ سیاسی مسئلہ ایک خاص طور پر طے پاچکا اور ہم تاریخ کے ایک مختلف مرحلہ میں داخل ہو چکے۔ اس مرحلہ میں دعوت اسلامی اور اس کے تقاضوں کو ہی نظام وقت کی طرف سے ہمارے رویہ کی تشکیل کرنا چاہیے نہ کہ ہمارے سابق موقف کو۔ میں اس مسئلہ میں آپ کی رائے اس لیے جاننا چاہتا ہوں کہ سابق موقف آپ ہی کا بیان کیا ہوا ہے۔ اور اکثر سند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کیا آپ اس پوری بات کو ہر ملک ہر زمانہ ہر حالت کے لیے کی گئی بات کا درجہ دیتے ہیں یا نئے حالات میں از سر نو سو چنے کی ضرورت محسوس کریں گے۔ چونکہ دنیا کے بہت سے ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں تحریک اسلامی کی داغ بیل پڑ رہی ہے اس لیے اس مسئلہ پر رائے قائم کرنے کی ایک اصولی اہمیت بھی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ہر جگہ ہمارے کارکن نظام وقت سے اجتناب کو اس معنی میں ضروری سمجھتے رہے جیسا کہ ہم نے ہندوستان میں سمجھا تو وہ وسائل سے محروم، بے اثر اور عام زندگی سے کٹ کر رہ جائیں گے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 51-52)

اس خط کے جواب میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے جہاں کئی اہم اصولی باتوں کی طرف رہنمائی کی ہے، وہیں ایک اہم اور اصولی بات یہ بھی کہی کہ

”ان تمام مختلف حالات میں چند بنیادی اصول تو یکساں رہیں گے لیکن ہر جگہ کے حالات کے لحاظ سے عملی طریقوں میں فرق کرنا پڑے گا۔ میں نے جو کچھ بھی لکھ دیا ہے اس کو تمام حالات کے لحاظ سے اگر حرف آخر سمجھ لیا گیا تو بے شمار مشکلات پیدا ہوں گی“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 55)

اسلامک ریسرچ سرکل اور اسلامک تھاٹ کا آغاز:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم ثانوی درسگاہ سے فارغ ہوئے تو ثانوی درسگاہ کے اپنے ساتھیوں اور کچھ دوسرے تحریکی  رفقاء کے ساتھ مل کر”اسلامک ریسرچ سرکل“کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے ڈائرکٹر مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم بنائے گئے اور اسسٹنٹ ڈائرکٹر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہوئے۔ اس ادارے کا ایک اہم مجلہ”اسلامک تھاٹ“کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے ایڈیٹر سید زین العابدین صاحب تھے اور معاونین میں ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم، ڈاکٹر عرفان احمد خان مرحوم (شکاگو) اور ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مرحوم تھے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم اس ادارے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

”ہمارا مقصد تحریک اسلامی ہند کے لیے افکار تازہ کی تلاش وجستجو تھا، ہم نے نئے انداز پر سوچنے کی دعوت دی، اور الحمدللہ یہ رسالہ کافی مقبول ہوا“۔ (ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012)

تقریباً پندرہ سال کی اشاعت کے بعد یہ رسالہ بھی بند ہوگیا اور یہ ادارہ بھی نہیں چل سکا۔ ڈاکٹر صدیقی کہتے تھے کہ اس کے بند ہونے کی وجہ ہم ساتھیوں کا یکے بعد دیگرے مختلف ممالک کی طرف منتقل ہوجانا تھا۔

اسلامک تھاٹ کی فائیلیں آج بھی بعض جگہوں پر موجود ہیں، ان کا اس پہلو سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اُس زمانے میں تحریک کے ان تازہ دم نوجوانوں نے فکر اسلامی کے کن نئے پہلووں کو موضوع گفتگو بنایا تھا اور وہ کس قدر تحریک اسلامی ہند پر اثرانداز ہوسکے تھے۔

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری میں:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم 1964 میں جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے اور تقریباً 1980 تک یعنی سعودی عرب منتقل ہونے کے دوسال بعد تک رکن شوری رہے۔

شوری میں ڈاکٹر صدیقی کا انداز فکر بہت ہی جداگانہ تھا، وہ کہتے تھے کہ مولانا مودودی نے انگریزوں کے زیر تسلط غیرمنقسم ہندوستان میں جو انداز فکر دیا تھا تقسیم کے بعد ہمارے ملک کی نوعیت، یہاں پر ہماری پوزیشن اور عالمی سطح پر تبدیل ہوتے حالات میں اس کو من وعن تسلیم کرلینا کسی طور پر مناسب نہ ہوگا۔

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوری میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے رول اور کردار پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تصنیفات کے ساتھ ساتھ، اس محاذ پر ان کا بڑا کنٹری بیوشن وہ کردار ہے جو وہ جماعت کی فیصلہ ساز مجالس میں ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اُس دستور ساز مجلس نمائندگان کے رکن تھے جس نے ملک کی آزادی کے بعد جماعت اسلامی ہند کے پہلے دستور کو منظوری دی تھی۔ غالباً 1965سے بیرون ملک منتقلی تک وہ مسلسل مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ بیرون ملک منتقلی کے بعد بھی جماعت کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں وہ ممکنہ حد تک کنٹری بیوٹ کرتے رہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کی نشستوں میں ان کی شرکت بھرپور تیاری کے ساتھ ہوتی تھی۔ شوریٰ کی رودادوں میں ان کے جو مقالات اور تجویزیں ملتی ہیں ان کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تجاویز اور مباحث کبھی بھی برجستہ یا محض ذاتی وجدان اور تجربے کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ وہ موضوع سے متعلق سنجیدہ تحقیق اور گہرے مطالعے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرتے۔ ان کی تقاریر بھی اور شوریٰ ودیگر مشاورتی محفلوں کی پیشکش بھی، ہمیشہ مکمل تحریری صورت میں ہوتی۔ تربیتی پروگراموں میں بھی ان کی تقریروں کا ڈرافٹ مکمل طور پر لکھا ہوا اور محنت سے تیار کیا ہوا ہوتا۔قرآن وسنت اور اسلام کی اساسیات کے ساتھ ساتھ، تحریک کی پالیسی سازی کے لیے انہوں نے معاصر علوم، سماجیات، سیاسیات، عمرانیات وغیرہ سے بھرپور استفادہ کیا۔ معاشیات تو ان کا اصل میدان تھا ہی۔ ان سنجیدہ کوششوں سے ہندوستان کی اسلامی تحریک کے لیے بدلے ہوئے حالات میں قابل عمل اور مفید لائحہ عمل کی تشکیل میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔“

ڈاکٹر حسن رضا جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن ہیں، اور اسلامی اکیڈمی نئی دہلی کے چیئرمین ہیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ان سے میری پہلی تفصیلی ملاقات آج سے 45 برس پہلے بھوپال کے خصوصی اجتماع مئی1977 میں ہوئی تھی، جب انہوں نے اپنا قیمتی مقالہ”ہندوستان میں اقامت دین کی راہ“پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے پہلی دفعہ اقامت دین کی تشریح و تعبیر میں معاشرے کی تعمیر کی اہم کڑیوں سے سرسری گزر کر ریاست کی تشکیل کو اقامت دین کا مصداق سمجھ لیا جاتا ہے اس پر نقد کیا تھا، نیز سماجی قوت اور سیاسی قوت میں کیا رشتہ ہے، اخلاقی قوت اور سماجی قوت میں کیا تعلق ہے، نظریاتی انقلاب اور سیاسی انقلاب کا سفر کیسے طے پاتا ہے، قوت کے ذیلی مراکز پر اثرانداز ہونے کی کیا تدبیریں ہیں۔ان سب پر سیر حاصل بحث کی تھی۔اس وقت یہ باتیں جماعت اسلامی کے داخلی حلقوں میں تازہ افکار کا ایک خوشگوار جھو نکا معلوم نہیں ہوتی تھیں بلکہ بحث کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے تحریک اسلامی کی آئیڈیالوجیکل بحث کی نشوونما میں کلیدی رول ادا کیا۔ مرکزی شوری کے اجلاس میں بھر پور تیاری سے وہ شریک ہوتے تھے۔ مولانا سید حامد علی مرحوم نے مجھ سے ایک دفعہ کہا تھا کہ ارکان شوری میں سب سے زیادہ مطالعہ اور ایجنڈے کے مطابق علمی تیاری کرکے نجات اللہ صدیقی آتے ہیں“۔

1977 میں ارکان جماعت سے ایک فکرانگیز خطاب:

1977 میں جماعت اسلامی ہند کے ارکان کے لیے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ایک بہت ہی فکرانگیز مقالہ لکھا تھا، یہ مقالہ پہلی بار عوامی استفادہ کے لیے ماہنامہ زندگی نو دسمبر 2022 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس مقالہ کا عنوان ہے”ملک کا موجودہ نظام اور تحریک اقامت دین“، اس مقالہ میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہندوستان میں اقامت دین کی راہ میں درپیش تین رکاٹوں کو بیان کرنے کے بعد اس تناظر میں تین نکاتی دعوتی پروگرام پیش کرتے ہیں، اور پھر”موجودہ نظام کے سلسلہ میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟“اس پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔ اس مضمون کا آخری حصہ گرچہ کچھ طویل ہے، لیکن اس پوری بحث کا ایک اچھا خلاصہ کہا جاسکتا ہے، لکھتے ہیں:

”آخری بات یہ ہے کہ یہ محض خوش فہمی ہے کہ موجودہ نظام کے سلسلہ میں ہمارا رویہ آج بھی وہی ہے جو 1941 میں تاسیس جماعت کے وقت سوچا گیا تھا۔ حالات کے دباؤ، تحریک کے مصالح کے تقاضوں اور جزئی وقتی اجتہادات کے تحت لاتعداد جزئیات میں ہمارا رویہ بدل چکا ہے، جس سے اپنوں اور دوسروں کی نظر میں اب ہماری تصویر وہ نہیں رہ گئی ہے جو 1941 اور مابعد کے قریبی زمانہ میں تھی۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ صرف چند یہ ہیں:

ملازمت، جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، عدالتی چارہ جوئی، حکومت کے انتظامیہ سے اپنے کاموں میں مدد چاہنا، حکومت کے انتظامیہ کو اپنا تعاون پیش کرنا، بنکوں میں حساب رکھنا یا ارکان حکومت اور ممبران مجالس قانون ساز سے ربط رکھنا، انتخابات میں رائے دہی کی مخالفت نہ کرنا۔ یہ آٹھوں مثالیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جماعت بننے کے بعد ابتدائی چند برسوں تک ہمارا رویہ انتہائی شدید تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مجھے اطمینان ہے کہ ایسا کسی کم زوری یا مداہنت کی علامت نہیں بلکہ ٹھیک ہوا۔ یہ ہماری مخصوص نفسیات ہے کہ ہم جزئی اجتہاد کر گزرتے ہیں مگر کلی اجتہاد اور رویہ کی تبدیلی سے، جس کے حالات متقاضی ہیں جھجکتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ جھجک خوف خدا کی وجہ سے کم ہے انسانوں کے خوف اور لومۃ لائم کے اندیشہ سے زیادہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا جزئی تبدیلیوں نے ہماری جماعت کو بھی اور عامۃ المسلمین کو بھی اس کے لیے پوری طرح تیار کر دیا ہے کہ ہم موجودہ نظام کے سلسلے میں اپنا رویہ بدل دیں اور وہ رویہ اختیار کرلیں جو میں نے تجویز کیا ہے۔ اگر مناسب افہام وتفہیم کے ساتھ ایسا کیا جائے تو نہ اس سے جماعتی صفوں میں کسی انتشار کا اندیشہ ہے نہ دوسرے مسلمان طبقوں کی طرف سے کسی دیر پا ناخوش گوار رد عمل کا“۔

انتخابات میں شرکت منصوص علیہ مسئلہ ہے یا مجتہد فیہ:

جماعت اسلامی ہند کی تاریخ میں جو مسئلہ سب سے زیادہ زیر بحث رہا وہ انتخابات میں شرکت کا مسئلہ تھا، اس مسئلہ پر بہت سی بزرگ اور قدآور شخصیات نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس مسئلہ پر جماعت میں کھل کر گفتگو کرانا چاہتے تھے کہ اس مسئلہ کی نوعیت کو طے کرلیا جائے کہ یہ مسئلہ منصوص علیہ ہے یا مجتہد فیہ ہے۔ اپریل 1986 میں مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب ایک بار پھر امیر جماعت منتخب ہوئے، اس موقع پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے جدہ سعودی عرب سے مولانا ابواللیث صاحب کے نام ایک خط لکھا تھا، اس خط میں اس بات پر پورا زور دیا ہے کہ اس مسئلہ پر بحث ومباحثے کے بعد ایک نتیجہ تک پہنچنا اب بہت ضروری ہوگیا ہے، لکھتے ہیں:

”نئی میقات میں جماعت اسلامی ہند کی امارت کے لیے آپ کے ازسرنو انتخاب سے اطمینان ہوا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کی سر پرستی اور رہنمائی میں جماعت کو متحد رکھے اور باوجود صحت کی کمزوری کے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں آپ نے جس ذمہ داری کو قبول کیا ہے اس کی ادائیگی کی قوت و توفیق دے، وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

ڈاکٹر ضیاء الہدی صاحب اور مولانا یوسف صاحب کے آپ کے نام خطوط اور رودادِ شوری 1984-85 مجھے حال ہی میں ملے۔ان کے مطالعہ کے بعد مجھے اپنی اس سابقہ رائے اور تجویز کو دوبارہ آپ کے سامنے دوہرانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ مسئلہ مختلف فیہ کو ’رسالہ زندگی‘ میں کھل کر زیر بحث آنے کی نہ صرف اجازت دیجئے بلکہ اہتمام کیجئے۔ کیوں کہ مسئلہ کا ایک پہلو جو کسی وقت بھی جماعت کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر جب اسے جوڑے رکھنے کے لیے آپ جیسی شخصیت نہ موجود رہ جائے، یہ ہے کہ بعض لوگوں کو فیصلہ کے مقررہ طریقوں پر اعتماد باقی نہیں رہ گیا ہے۔ بلکہ وہ اس کو اس طریقہ سے فیصلہ کیے جانے سے بالا وبرتر منصوص کا درجہ دیتے ہیں۔ جو پہلو ’زندگی‘ میں تحریروں کے ذریعہ منقح ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ مسئلہ مختلف فیہ منصوص علیہ ہے یا مجہتد فیہ۔ میں سمجھتاہوں کہ اگر مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب، مولانا عروج قادری صاحب وغیرہ کھل کر اس بحث میں حصہ لیں تو شاید یہ مسئلہ صاف ہو جائے اور اگر سب کو بشمول ڈاکٹر ضیاء الہدی صاحب، مولانا یوسف صاحب اور بعض ارکان جماعت اترپردیش، مسئلہ کی اجتہادی نوعیت پر اطمینان ہوجائے تو پھر ان کو اور سب کو اس اصل پر متحد رکھا جاسکتا ہے کہ وحی ورسالت کا دروازہ بند ہو جانے کے بعد ہم انسان یہی کر سکتے ہیں، کہ فیصلہ کرنے کے شرعی طریقوں کا جنھیں ہم نے اپنے دستور میں درج کر رکھا ہے التزام کرتے ہوئے جب جو فیصلہ ہو جائے اس کے تحت جماعت کو چلائیں اور اس سے وابستہ رہیں“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 80)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی انتخابات میں شرکت کے مسئلہ کو ایک اجتہادی مسئلہ قرار دیتے تھے، اور وہ کہتے تھے کہ اس مسئلہ کی نوعیت کا تعین بہت سے اختلافات کو ازخود ختم کردے گا۔

صحیح بات یہ ہے کہ بہت سی باتوں کو منصوص سمجھ کر لوگ ان سے اس طرح چمٹ جاتے ہیں کہ ان میں ذرا سی بھی تبدیلی گوارا نہیں کرتے۔ جماعت اسلامی کے نصب العین کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ حکومت الہیہ کے الفاظ کو تبدیل کرتے ہوئے اقامت دین کے الفاظ کو اختیار کیا گیا تو اس پر نہ جانے کتنے تنقیدی مضامین اور کتابیں لکھی گئیں اور یہ باور کرایا گیا کہ جماعت اپنے نصب العین سے انحراف کررہی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک اسلامی اور سید مودودی کے یہاں اصل تصور دین ہے جو منصوص ہے۔ حکومت الہیہ یا اقامت دین کا لفظ اختیار کرنا ایک اجتہادی عمل ہے جو بہرحال تبدیلی کے امکانات رکھتا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کی پالیسی اور رخ:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تحریک اسلامی ہند کے پالیسی وپروگرام، رخ، طریقہ کار اور مستقبل کے سلسلہ میں ہمیشہ فکرمند رہا کرتے تھے، مولانا سراج الحسن صاحب اپریل 1999 میں تیسری بار امیر جماعت منتخب ہوئے، اس وقت ڈاکٹر صدیقی جدہ سعودی عرب میں مقیم تھے، وہاں سے آپ نے مولانا سراج الحسن صاحب کو ایک بہت ہی فکرانگیز خط لکھا، اس خط کا درج ذیل حصہ تحریک اسلامی ہند سے متعلق ڈاکٹر صدیقی کی پوری فکر کو بیان کردیتا ہے، لکھتے ہیں:

”آپ نے گزشتہ آٹھ سالوں میں تحریک کو جو نیار خ دیا ہے اس میں زیادہ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے مسائل اور خیالات میں الجھنے اور ڈوبے رہنے کی بجائے پورے ملک کے لیے سوچنے اور کچھ کرنے کی جو رسم آپ نے ڈالی ہے اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم اصلا تو سب میں خدا کی پہچان پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن اکثر اوقات ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جن افراد سے ہم مخاطب ہیں ان کو غربت و افلاس، مرض اور جہالت نے ایسا توڑ دیا ہے کہ سر اٹھانے، بات سننے اور سوچنے کا حوصلہ باقی نہ رہا۔ ایسی صورت میں ان کو صرف خطبے سنانا، اگر وہ پڑھ سکتے ہوں تو کتابیں دینا کارگر نہ ہوگا، ان کو حفظان صحت کی باتیں بتانا، علم سکھانا اور کوئی ہنر سکھا کر روزی کمانے کا راستہ دکھانا، دعوت کے تقاضوں میں سمجھا جانا چاہیے۔

میرا تاثر یہ ہے کہ جماعت کے بہت سے لوگ یہ بات سمجھتے تو ہیں مگر اس کو زبان پر لانا اپنی روایات کے خلاف سمجھتے ہیں، بہرحال اس پر بات چیت ہونی چاہیے تا کہ عقل کی رہنمائی روایات کی پابندی کے مقابلہ میں اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔“(اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 332)

 کل ہند طلبہ تنظیم سے متعلق واضح موقف:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی جماعت اسلامی ہند کی دستوری سرپرستی میں کل ہند طلبہ تنظیم کے قیام کے حق میں نہیں تھے۔ ڈاکٹر صدیقی کہا کرتے تھے کہ

”سیمی کی سرپرستی چھوڑدینے کا نتیجہ اچھا نہیں رہا، وہ لوگ دوسروں کے بہکاوے میں آکر بھٹک گئے“۔ (ماہنامہ رفیق منزل، ستمبر 2011)

مرکزی مجلس شوری کی جانب سے جب ایس آئی او آف انڈیا کی تاسیس کا فیصلہ ہوگیا، اس وقت 18 اپریل 1982 کو نجات صاحب نے جدہ سعودی عرب سے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث اصلاحی کے نام ایک طویل خط لکھا، جس میں اس فیصلے سے متعلق اپنے تحفظات کو تفصیل سے مدلل طور پر بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”مذکورہ بالا عرضداشت کی روشنی میں میری تجویز ہے کہ مجوزہ تنظیم کے دستور میں جماعت کی سرپرستی کی وضاحت اور تعیین نہ کی جائے اور کسی لفظ سے بھی اس تنظیم کا رسمی طور پر جماعت سے منسلک ہونا نہ ظاہر ہو“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 76)

مسلم پرسنل لا کا مسئلہ

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ سے متعلق بہت ہی عملی اور حقیقت پسندانہ رائے رکھتے تھے، ڈاکٹر صدیقی کا ماننا تھا کہ مسلم پرسنل لا میں موجود کمزور پہلووں کی اصلاح کا کام ملت کو خود بڑھ کر کرلینا چاہیے، اس سلسلہ میں متعدد اہم نکات کی طرف”معاصر اسلامی فکر“میں بھی اشارے موجود ہیں۔ 1985 میں شاہ بانو کیس کے بعد جس وقت ملک بھر میں مسلم پرسنل لا کو لے کر تحریک چل رہی تھی، اسی دوران 8 اگست 1985 کو ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث اصلاحی کو ایک طویل خط لکھا تھا، جس میں واضح طور پر اپنے موقف کو پیش کیا تھا، لکھتے ہیں:

”اس وقت آئین کی دفعہ 44 اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے سلسلہ میں جو احتجاج کیا گیا اس سے اختلاف نہیں، مگر۔۔۔ ہر مسئلہ میں ہمیشہ صرف احتجاج سے کام نہیں چلے گا۔۔۔ طویل المیعاد طور پر مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی موثر شکل یہی ہے کہ اس کے جن کمزور پہلووں کا ہمیں اعتراف ہے ان کمزوریوں کو دور کرلیا جائے“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 78)

1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا، اس وقت ڈاکٹر صدیقی جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے رکن تھے، لیکن اتفاق سے جس مجلس شوری میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا اس میں آپ موجود نہیں تھے، غالبا اس وقت آپ امریکہ کے سفر پر تھے۔ اس موقع پر جماعت کی مرکزی مجلس شوری نے آپ کا نام مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاسیسی ممبر کے طور پر تجویز کیا تھا، تاہم ڈاکٹر صدیقی نے مسلم پرسنل لا بورڈ کی ممبرشپ لینے سے صاف انکار کردیا تھا، انہیں مسلم پرسنل لا کے مسئلہ اور اس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے مسلم پرسنل لا بورڈ نامی ادارے سے بنیادی نوعیت کا اختلاف تھا۔ ڈاکٹر صدیقی اس قسم کی کسی بھی کوشش کو ملت کے حق میں ایک منفی اقدام تصور کرتے تھے۔ مسلم پرسنل لا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بہت صاف طور پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ

”میں بورڈ کے حق میں نہ تھا، نہ ہوں اور نہ رہوں گا۔ ہم نے علی گڑھ میں پرسنل لا پر ایک بہت بڑا جلسہ کرایا تھا، اس میں مولانا علی میاں ندوی بھی شریک ہونے والے تھے، لیکن نہیں آ سکے، البتہ مولا نا منت اللہ رحمانی صاحب جو پرسنل لا کے روح رواں تھے، وہ آئے تھے۔ اس جلسہ میں ہم نے کہا تھا کہ ہم حکومت کو پرسنل لا میں دخل اندازی سے روک رہے ہیں، یہ ٹھیک ہے۔ تاہم بورڈ کی جانب سے اس سلسلہ میں ایسا قدم اٹھانا چاہیے کہ مسلم پرسنل لا آج کے مسلم معاشرہ کے لیے بامعنی بن جائے، لیکن ایک کام نہیں کیا گیا۔ جب جب حکومت کی جانب سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے، اس وقت یہ لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہیں، اور شور مچانے لگتے ہیں کہ تم کون ہو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کر نے والے۔ ظاہر ہے یہ انداز دنیا میں آگے بڑھنے کا نہیں ہے“۔ (ماہنامہ رفیق منزل، ستمبر2011)

مسلم پرسنل لا بورڈ نے اوّل روز سے خود کو احتجاج اور مظاہروں تک محدود رکھا، اور پھر 2014 میں ہندوستان کے سیاسی حالات تبدیل ہونے کے بعد رہی سہی آواز بھی دب کر رہ گئی، تین طلاق کے خلاف ایک جارحانہ قانون نافذ کیا گیا، کامن سول کوڈ پر پہلے ملک کی مختلف ریاستوں میں اور اب مرکزی سطح پر قانون سازی کی طرف پیش قدمی ہورہی ہے، جبکہ دوسری طرف مسلم پرسنل لا بورڈ اور دوسری مسلم جماعتیں اور ادارے اب اس پوزیشن میں بالکل بھی نہیں رہے کہ کوئی ملک گیر مہم چلاسکیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا میں موجود کمزور پہلووں کی اصلاح کا کام کرنے کی ضرورت جتنی پہلے تھی،اتنی ہی یا اس سے کہیں زیادہ، آج بھی ہے۔

مسلم مجلس مشاورت کی گولڈن جبلی

مسلم مجلس مشاورت کی تاسیس 8اگست 1964 میں ہوئی تھی، اس کے تاسیسی ممبران میں مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی، مولانا منظور نعمانی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا محمد مسلم، وغیرہ ملک کی نمائندہ شخصیات شامل تھیں، ایک زمانے میں یہ ادارہ ملت اسلامیہ ہند کا ایک نمائندہ ادارہ مانا جاتا تھا، ملک کی تقریبا تمام ہی تنظیمیں اور جماعتیں اس فیڈریشن کا حصہ تھیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم مسلم مجلس مشاورت کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔31 اگست 2015 میں مسلم مجلس مشاورت کا گولڈن جوبلی پروگرام رکھا گیا تھا، جس کا افتتاح نائب صدر جمہوریہ ہند جناب حامد انصاری صاحب نے کیا تھا، اس پروگرام میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ”حاصل زندگی“ کے نام سے ایک پیغام پیش کیا تھا، اس پیغام کے کچھ خاص نکات درج ذیل تھے:

٭    ہم سب بڑے چیلنجز سے دو چار ہیں۔ ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے ماضی کی طرف لوٹنا چاہیے،سوچتے ہیں کاش! ہم اپنا شاندار ماضی پھر سے واپس لاسکتے!مگر میں اس سوچ سے اتفاق نہیں رکھتا۔ وجہ یہ ہے کہ آج ہم جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ ان مسائل سے بالکل مختلف ہیں جن سے ماضی میں سابقہ پیش آیا تھا۔نئے انداز سے سوچنا ضروری ہے۔

٭    تعجب اس بات پر ہے کہ اِس فضا میں بھی کچھ لوگ ساری دنیا کو اسلام کی طرف بلانے اور دعوتی کام کو اپنا مشن بنانے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا ردِّعمل کیا ہوتا ہے کہ آپ جس چیز کو اپنی مخصوص شناخت بنائے ہوئے ہیں اسی کی طرف ساری دنیا کو لانے پر مصر ہوں۔ مجھے تو یہ طریقہ موجودہ فضا میں اس حکمت کے خلاف معلوم ہوتا ہے جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔۔۔ خاکساری اور تواضع کے ساتھ ہم ان مشکلات کو دور کرنے میں انسانوں کا ہاتھ بٹائیں جن سے آج ہر کس و نا کس پریشان ہے۔ مسائل تو اَن گنت ہیں مگر میں خاص طور پر تین طرح کے مسائل کا ذکر کروں گا:(۱)بدلتی آب وہوااور ماحولیاتی عدم توازن(۲) نظامِ زر، بینک کاری اور فنانس (۳)خاندان اور سماجی رشتے۔زندگی کے ان دائروں میں تباہی اور انحطا ط کی رفتار اتنی تیز ہے، اتنی گہرائی تک جاپہنچی ہے اور ساری دنیا پر اس طرح چھا گئی ہے کہ جو بھی ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے آگے بڑھے اسے خوش آمدید کہا جائے گا۔ میرے خیال میں پرانے انداز کی جگہ خدمتِ انسانیت کے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی روِش اختیار کرنا چاہیے۔ اسلام کی ان تعلیمات کا چرچا کرنے کی ضرورت ہے جو اختیار کی جائیں تو مشکل حل ہو سکتی ہے۔ ان قدروں اور رویوں کی بات ہونی چاہیے جو اپنائی جائیں تو ایسے سماجی ادارے جنم لے سکتے ہیں جو انسانوں کو اس مخمصے سے نجات دلا سکیں۔

٭    حالات آپ کی پیش قدمی کے منتظر ہیں بشرطیکہ آپ ہمت دکھائیں۔احتجاج،مطالبے،شکایتیں، سب کا اپنا وقت تھا جو گزر گیا۔ نصف صدی قبل ہمارے بزرگوں نے مسلم مجلسِ مشاورت خیر سگالی کی مہم چلانے کے لیے قائم کی تھی،سارے ملک میں وفود بھیجے تھے۔پھر وقت آگیاہے کہ ہم خدمتِ انسانیت اور تعمیرعالم میں شریک کار بن کر سامنے آئیں۔

(جاری)

علامہ یوسف قرضاویؒ کا سانحہ وفات

مفتی حبیب حسین

حقیقت یہ ہے کہ اس ناکارہ کا فکری ہیکل جن شخصیات کی کتب کے زیر اثر رہ کر پروان چڑھا ، اورجن کے علمی افکار، فقہی اتجاہات اور سماجی وادبی آراء ونزاعات نے اس کے دل ودماغ پر بے پناہ اثر ڈالا، ان میں علامہ یوسف القرضاویؒ نمایاں ہیں۔

سن 1997ء میں ان کی کتاب "فقه الزکاۃ" مطالعہ میں آئی تو عربی زبان وادب کے اس مبتدی طالب علم کو ان کی قوت استدلال، اسلوب استنتاج اور طرز تحریر نے اپنے سحر میں اس طرح جکڑے رکھا کہ اسباق کے رسمی دوانیے کے کئی دن اس کی ورق گردانی کی نذر ہوگئے۔اس کتاب کا ہر مبحث قاری کو فکر ونظر کی نئی جہات سے روشناس  کراتا ہے اور اسے یہ محسوس ہوتا ہےکہ اس کا مصنف گویادقت نظر اور حیرت انگیز اجتہادی بصیرت میں قرون اولی کے مجتہدین فقہ کے قافلے کا  پچھڑا ہوافرد ہو ۔اس بے مثال علمی وفقہی کتا ب کے بارے  میں ان کے بعض معاصرین نے کہا ہے کہ اگر علامہ قرضاوی اور کوئی بھی کاوش نہ کرتےتو ان کی علمی جلالت شان کے لئے یہی کارنامہ کافی تھا۔

ڈاکٹر یوسف قرضاوی ۹ ستمبر ۱۹۲۶ میں مصرکے ایک گاوں صف تراب میں پیدا ہوئے اور ۲۶ ستمبر ۲۰۲۲ کو زندگی کی ۹۶ بہاریں دیکھ کر قطر میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس  دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔ان کی جائے پیدائش صف تراب میں رسول اللہ ﷺکے  اصحاب میں سب سے آخر میں  انتقال کرنے والے صحابی  عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی  مدفون ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایام شباب میں یہ شاعری کیا کرتے تھے اور یہی ان کی شخصیت کی شناخت تھی۔مگر دست قدرت  نے انہیں فقہ وحدیث کی خدمت اور دعوت دین کے نبوی مشن پر لگادیا۔ان کا ایک پیشہ ور شاعر سے فقیہ وداعی دین بننے تک کا سفر بھی دلچسپ ہے۔ یہ قید وبند کی عقوبتوں اور ہجر کی قہرماں آزمائشوں سے بھی گزرے۔ 1954ء میں جب انہیں قیدخانے میں ڈالا گیا تو انہوں نے شہرہ آفاق قصیدہ "الملحمة النونية" لکھا۔ اس کے چنداشعار ملاحظہ کیجئے:

يا سائلي عن قصتي اسمع
أمسك بقلبك أن يطير مفزعًا
فالهول عاتٍ والحقائق مرةٌ
والخطب ليس بخطب مصر وحدها
في كل شبر للعذاب مناظرٌ
فترى العساكر والكلاب معدة
هذي تعض بنابها وزميلها
ومضت علي دقائق وكأنها
يا ليت شعري ما دهانِ؟ وما جرى؟
عجبًا أسجن ذاك أم هو غابةٌ
أأرى بناء أم أرى شقي رحى
واهًا أفي حلم أنا أم يقظةً
لا لا أشك هي الحقيقة حية
هذي مقدمة الكتاب فكيف ما
إنها قصص من الأهوال ذات شجون
وتولّ عن دنياك حتى حين
تسمو على التصوير والتبيين
بل خطب هذا المشرق المسكين
يندى لها -والله - كل جبين
لنهش طوع القائد المفتون
يعدو عليك بسوطه المسنون
مما لقيت بهن بضع سنين
لا زلت حيًا أم لقيت منوني؟!
برزت كواسرها جياع بطون؟!
جبارة للمؤمنين طحونِ؟!
أم تلك دار خيالة وفتون؟!
أأشك في ذاتي وعين يقيني؟!
تحوي الفصول السود من مضمون؟
فقہ الزکاۃ کی طرح ان کی دوسری مقبول ترین کتاب "الحلال والحرام فی الاسلام "ہے۔عالم عرب میں اس سے زیادہ مقبولیت شاید کسی کتاب کوملی ہو۔مصطفی زرقاءکہا کرتے تھے کہ ہر مسلم گھرانے پر اس سے استفادہ کرنا واجب ہے۔مشہور ادیب علی طنطاوی مکہ مکرمہ میں کلیۃ التربیۃکے طلبہ کو یہ کتاب درسا اور سبقا پڑھایا کرتے تھے۔علامہ ناصر الدین البانی نے اس کی حدیثوں کی تخریج کی  جس سے اس کتاب کی وقعت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

 ان کی کتاب "دور القيم والأخلاق في الاقتصاد الاسلامي" بھی اپنے موضوع پر ایک منفرد اور البیلی کاوش ہے ۔ اقتصادیات کے طالب علم اس سے فکر ونظر کی نئی راہیں تلاش کرسکتے ہیں۔ تجارت پیشہ افراد کو اس کا اردو ترجمہ اپنے سرہانے رکھ کر روز کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنا چاہئے۔ دگنی قیمت پر اشیا فروخت کرنا ایک گھناونا اخلاقی جرم ہے۔ احادیث، آثار صحابہ اور سلف کے اقوال میں اس طرح کے سفاکانہ کاروباری رویوں پر شدید نکیریں کی گئی ہیں۔ اس پہلو پر اس کتاب کے ایک مستقل باب میں علامہ قرضاوی ؒنے  تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی مطالعاتی زندگی امام غزالیؒ کی کتاب "إحیاء علوم الدین" سے ہوئی،جو انہوں نے اپنے پڑوسی سے عاریتا لے کر مطالعہ کی۔کہتے تھے: "میرے علمی وفکری اعتدال کی وجہ یہی کتاب ہے۔میں نے ابن تیمیہؒ کو پڑھا مگر غزالی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ "

ان کی تحریر میں علمی وادبی پختگی، گہرائی اور گیرائی تھی۔سلاست اور روانی تھی۔ موضوع کے تمام اطراف وجوانب کا احاطہ کرتے۔ حیرت انگیز حسن ترتیب سے مختلف ابواب اور فصول میں اس کی تقطیع کرتے۔ دلائل کا محاکمہ کرتے۔ کھل کر اپنی رائے دیتے۔ جو دلیل روایت ودرایت کی رو سے انہیں مطمئن کرتی، اس پر فتوی دیتے۔ کسی ایک امام کے مقلد نہ تھے۔ ائمہ اربعہ کے علاوہ دیگر ائمہ مجتہدین کی آراء پر عوام کی سہولت کی خاطر انہوں نے فتوی دیا۔ ان کی فقہی آرا   پر تیسیری پہلو غالب ہے۔  مشہور عربی اینکر احمد منصور نے الجزیرہ پر ان سے انٹریو لیا۔اس میں شیخ قرضاوی نےاپنے تیسیری مزاج پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے رُخَص اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شدائد معروف ہیں۔میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف زیادہ مائل ہوں۔ان کے الفاظ تھے"أنا أقرب إلي ابن عباس إلي من ابن عمر"۔کہا کرتے تھے افتاء میں تشدید اور تعسیر کے مقابلہ میں تیسیر اور تخفیف پر عمل کرنااولی اور افضل ہے۔ اپنی اس رائے کی تائید میں وہ قرآن کی آیات یُرِیدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلیُسرَ وَلَا یُرِیدُ بِكُمُ ٱلعُسرَ (البقرۃ ۱۸۵)، یُرِیدُ ٱللَّهُ أَن یُخَفِّفَ عَنكُم (النساء ۲۸ٔ)، مَا یُرِیدُ ٱللَّهُ لِیَجعَلَ عَلَیكُم مِّن حَرَج (المائدہ ۶) سے اور حدیثی روایات میں "خَيرُ دينِكم أَيْسرُه"  (رواه أحمد فی مسندہ، والبخاري في الأدب المفرد، والطبراني في الأوسط) "أحب الأديان إلى الله الحنيفية السَّمْحة"، "ما خُيِّرَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بين أمرين؛ إلاَّ أَخَذ أيسرهما ما لم يكن إثمًا، فإذا كان إثمًا كان أبعد الناس عنه" اور "إن الله يُحبُّ أن تُؤتَى رُخَصُه، كما يَكره أن تُؤْتَى معصيته" (رواه أحمد وابن حبان والبيهقي في الشعب، صحيح الجامع الصغير:  1886) سے استدلال کیا کرتے تھے۔ان کے پاس دنیا بھر سے ہزاروں استفتاء آتے تھے۔ان کے فتاوی کا مجموعہ "فتاوی معاصرہ" کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔اس کی پہلی جلد کے مقدمےمیں انہوں نے اپنے منہج افتاء پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

  تحریر اور تصنیف وتالیف میں وہ کبھی جادہ اعتدال سے نہیں ہٹے۔مگر زبانی  گفتگو میں کبھی توازن برقرار نہ رکھ پاتے۔ غیرت وحمیت اور جہادی سپرٹ ان میں تھی، جس کے زیر اثر وہ معاصر حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے۔اس رد عمل نے انہیں کرب آسا اذیتوں  سے گزارا۔

عصر حاضر کے مقتضیات وتحدیات پر ان کی گہری نظر تھی۔ جدید وسائلِ اعلام کی اہمیت وافادیت کے قائل تھے۔ جس زمانے میں عرب کے علمی حلقوں میں ٹی وی نشریات اور ویڈیو کے جواز وعدم جواز کی بحثیں گرم تھیں، قرضاوی نے اس دورانیے میں الیکٹرانک میڈیا کو دعوت وتبلیغ دین اور اپنی فکر کے ابلاغ کے لئے استعمال کیا۔

دوہزاریے(2000ء) کے آغاز میں الجزیرہ ٹیلویزن چینل کے پروگرام "الشريعة والحياة" میں انہوں نے مختلف علمی وفکری اور سماجی موضوعات پر اپنے طویل علمی مطالعے اور تجربے کی روشنی میں گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔  اس پروگرام کو شرق اوسط اور اس سے باہر کی دنیا میں بے پناہ مقبولیت ملی۔

ان کی پوری زندگی تصنیف وتالیف اور دعوت دین  میں گذری۔درجنوں کتابیں تالیف کیں۔بےشمار مقالے لکھے۔زندگی کا کوئی لمحہ بے کار نہیں گذرا۔ فضائی اسفارمیں بھی مطالعہ وتحریر کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ زندگی کا آخری دورکلام اللہ کے زیر سایہ رہا کہ  ان ایام میں شیخ نےاپنی ساری توانائیاں تفسیر قرآن کی تکمیل پر مرکوز کی تھیں۔اتحاد بین المسلین کے عظیم داعی تھے۔دنیا بھر میں مسلم اقلیات کا دفاع کیا۔ حق بات کہتے اور لایخاف لومۃ لائم والی صفت سے معمور تھے۔مختلف مواقع پر انہوں نے وزرا و ملوک کے روبرو جرات سے کلمہ حق بلند کیااور انہیں مداہنت پر ٹوکا۔ایک سیمنار  میں فرمایا " ماضی میں ایسے بیسیوں مجتہدین ہو گذرے ہیں جو عوام یا سلاطین وقت کی خوشنودی کے لئے فتوے تراشاکرتےتھے،مگر الحمدللہ میرا مقصد عوام کی خوشنودی رہی، نہ سلاطین وقت کے تقرب کی خواہش، کسی کی پرواہ نہیں کی، دائم اللہ کی رضا مطمح نظر رہی"۔پھرفرمایا: ”اس باب میں صالحین کے ہاں متنبی کے یہ اشعار معمول  بہارہے ہیں ،جو اس نے سیف الدولہ کی مدح میں کہے تھے:

فليتك تحلو والحياة مريرة
وليتك ترضى والأنام غضاب
وليت الذي بيني وبينك عامر
وبيني وبين العالمين خراب
إذا صح منك الود فالكل هين
وكل الذي فوق التراب تراب

صلحاء کی نظر صرف اللہ کی  رضاجوئی پر رہی“۔ رجّاع الی الحق تھے، غلطی پر متنبہ کئے جاتے تو فورا رجوع کرتے ۔اپنے مکتب میں ہر طرح کے لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے۔کسی ایک مذہب کے متقید نہ تھے۔ مجدد فی الفقہ والملۃ تھے۔ معاندین وحاسدین نے ان پربے جاتنقیدیں کیں۔ مگر وہ جواب نہ دیتے  ما یقال لک الا ما قد قیل للرسل من قبلک۔ایک مرتبہ کسی نے عرض کیا آپ انہیں جوا ب کیوں نہیں دیتے؟ زیر لب مسکراتے ہوئے  کہا :

لو كلُّ كلبٍ عوى ألقمتُه حجرًا
لأصبح الصخرُ مثقالاً بدينارِ

(یعنی ہر بھونکتے کتے کو پتھر مارنا شروع کروں تو اس سے پتھر کی قیمت مثقال سے بڑھ کرایک دینار ہوجائے گی،اور تو کوئی فائدہ نہیں۔)

-------------------

عالم عرب اور یورپ ومغرب  میں شیخ یوسف قرضاوی کی علمی و فقہی آراء سے خوب استفادہ کیا گیا۔مگربرصغیر ہند وپاک میں ان کی علمی خدمات اور فقہی وحدیثی آراء کوخاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی ۔ یہاں بعض حلقے ان پر بے جا تساہل اور تجددپسندی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی تصنیفات سے استفادے کا دائرہ وسیع نہیں ہوسکا۔ ہمارے ہاں ایک سکہ بند طبقہ علماء کی اجارہ داری ہے۔ جب تک نوجوان طبقہ اس کے دائرہ اثر سے نکل کر عالم عربی کے معاصرعلماء ومشائخ کے علمی تراث سے  استفادہ نہیں کرےگا تب تک وہ ان علمی وفکری آفاق سے روشناس نہیں ہوپائے گا  جن سے آگاہ ہونا داعیان دین کے لئے ضروری ہے۔بعض مورخین نےاساطین اہل علم  کی اس طرح قدرناشناسی پر امام رازی کا واقعہ  لکھا ہے۔ ابو عبد الله الحسين الواسطی کہتے ہیں کہ میں نے امام فخرالدین رازی کو ہرات کی ایک جامع مسجد کے منبر پر مقامی لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے اوریہ شعر کہتے سنا:

المرءُ ما دام حيًّا يُستهان به
ويعظم الرُّزءُ فيه حين يُفتقَدُ

(یعنی آدمی جب بقید حیات ہوتواس کی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔اسے کھوجانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کی موت کتنا بڑا سانحہ ہے۔)

حقیقت یہ ہے کہ ایسے نوابغ اور بواقع صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ان کی قدآور شخصیت کی بوقلموں علمی وفکری جہات پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ انہوں نے تقریبا سو کے لگ بھگ کتابوں کا جو متاع گراں مایہ چھوڑا ہے وہ ہمیشہ علم و تحقیق اور دعوت دین کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ رہے گا۔ان کی دلاویز شخصیت سے عجب انس رہا۔ آج ۲۶ ستمبر۲۰۲۲کوجب ان کی رحلت کی دلفگار خبر پڑھی تو دل بیٹھ سا گیا۔ بخدا ایسا محسوس ہوا جیسے سر سے ایک سائبان چھن گیا ہو۔

و ما كان قيس هلكه هلك واحد
و لكنه بنيان قوم تهدّما

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۳)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)


اب میں بدعت اور اس کی حدود کی تعیین کے لیے چند کلیدی تعبیری پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، لیکن جنوبی ایشیا کی طرف جانے سے پہلےمیں کچھ لمحات کے لیے الشاطبی کے ساتھ رکوں گا۔

بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول: بدعت بطور تقلیدی / جعلی مذہب

بدعت کی تعریف میں بنیادی نکتہ انسانی فرد کے لیے یہ گنجائش ماننا ہے کہ ایک حاکمِ مطلق ذات کی حیثیت سے اس کے الٰہی اقتدار کے مقابلے میں شریعت کے ایک متوازی نظام کو بڑھاوا دیا جائے۔دراصل  اختیار کا یہی وہ اساسی گناہ ہے جو بدعت کو وجود میں لاتا ہے: انسانی ارادے کو دین کی ایک جعلی عمارت کھڑی کرنے کے لیے استعمال کرنا ہی اسلام میں تکفیر وتضلیل کے شدید اشتعال انگیز مباحث میں سے ایک مبحث کی حیثیت سے بدعت کو علامتی شہرت عطا کرتا ہے۔

زیادہ واضح انداز میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بدعت کی اصطلاح فقہ اور عقیدے کے سنگم پر متحرک رہتی ہے؛ سنتِ نبوی کی موجودگی میں کسی نئی چیز کے ایجاد کی ممانعت کی بنیاد ایک ایسے وسیع تر اعتقادی تصور میں پیوست ہے جس کا مقصد خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی حفاظت ہے۔ مثلاً الشاطبی نے الاعتصام میں بدعت کی تعریف کچھ یوں کی ہے: "دین میں ایک ایسے عمل کو شامل کرنا جو شریعت کی طرح ہو" (طريقة في الدين مختارة تضاهي الشريعة) (23)۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں: "شریعت کی طرح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں ایسا (شریعت جیسا) نہ ہو" (تشابه الشريعة من غير أن تكون في الحقيقة كذلك) (25)۔

شرعی نظام کی مماثلت کی خواہش میں کار فرما گہری حرکیات کو سامنے لانے کے لیے الشاطبی نے بدعتی کی نفسیات کا ایک دل چسپ مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بدعتی سرتوڑ کوشش کرتا ہے کہ اپنی بدعات کو ثابت سنتوں کی طرح بنا کر پیش کرے، تاکہ بدعت اور سنت کے درمیان التباس پیدا ہو جائے (تلتبس عليه بالسنة)۔ یہ اس کی سب سے عمدہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس فکری الجھن میں مبتلا کرے کہ اس کی بدعتیں اصل میں سنتیں ہیں – یہ ایک ضروری کام ہوتا ہے، کیوں کہ کوئی شخص کسی عمل کی اتباع اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ سنت نبوی کی روشنی میں جائز قرار نہ پائے" (25)۔ بالفاظ دیگر الشاطبی کے بیان کی تشریح کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ لوگوں کو اپنا پیروکار بنانے کے لیے انھیں اپنے دام میں لانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے پیش کردہ خیالات کو سنت کی شکل میں پیش کرنا ہوگا۔ جعل سازی کی یہی وہ طاقت اور دھوکے کا یہی امکان ہی وہ وصف ہے جو بدعتی اور بدعات کو بہت خطرناک بناتے ہیں۔

اس لیے الشاطبی اور دیگر متعدد علما کے نزدیک مماثلت کی یہ صفت اسلام میں ایک ایسے فکری خط فاصل کی حیثیت سے بدعت کے فعال کردار کی اہمیت واضح کرتا ہے جو عمل کے مسنون اور بدعتی طُرُق کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ سنت کی حدود اس وقت پامال ہو جاتی ہیں، جب کوئی شخص ایسے عمل کی بنیاد رکھتا ہے جسے 'جعلی مسنون' کہا جا سکتا ہے، ایک غیر منظور شدہ عمل کو پابندی سے کرنا، ایسے جوش وجذبے اور اہتمام کے ساتھ جو کسی شرعی عمل کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ایک غیر مسنون عمل کے ساتھ اس قدر مذہبی وابستگی اس عمل کو تقدس فراہم کرتا ہے، جو خدا کی طرف سے منظور شدہ نہیں ہے۔

اس وجہ سے میں نے بدعت کا ترجمہ عام طور پر رائج innovation (ایجاد) کے بجاے heretical innovation  (مبنی بر انحراف ایجاد) سے کیا ہے۔بدعت کا ترجمہ صرف innovation  (ایجاد) سے کرنا قابلِ اشکال ہے، کیوں کہ یہ اس لگے بندھے مفروضے کو جنم دیتا ہے کہ قانون اور اصول قانون کے دائرے میں اسلام بحیثیتِ مذہب ایجاد اور تخلیقی سوچ کی تمام صورتوں کا مخالف ہے۔ بدعت کی اصطلاح سے متعلق فقہی مباحث اور سماجی تعاملات ناگزیر طور پر انسانوں کے ایجاد کردہ اور خدا کے منظور کردہ شریعت کے نظاموں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی مخاصمت کی نفسیات کے ساتھ ناگریز طور پر بندھے ہوئے ہیں۔

یہ ایک اچھا موقع ہے کہ میں نے بدعت کا جو ترجمہ  heretical innovation (مبنی بر انحراف ایجاد) سے کیا ہے، اس کی مزید تشریح وتوضیح کروں۔ 'مبنی برانحراف ایجاد' میں 'انحراف' کا لفظ مذہب سے یا اہل ایمان سے اخراج کے مترادف نہیں۔ بدعت اور کفر یا ارتداد ایک جیسے نہیں۔ خدا کی حاکمیت سے انکار یا کفر کا قریبی تعلق خدائی حاکمیت کو چیلنج کرنے سے ہے جو بدعت کے تصور کو تقویت پہنچاتا ہے۔ لیکن اخروی نتیجے کے اعتبار سے بدعت کا وہ مقام نہیں جو کفر کا ہے۔ تاہم میں نے تسلسل کے ساتھ بدعت کا ترجمہ 'قابل تنقید ایجاد' یا 'قابلِ مذمت' الزام کے بجاے مبنی بر انحراف ایجاد کیا ہے، کیوں کہ مخالفت یا انتخاب کو بدعت کے فکری قالب سے جدا کرنا ناممکن ہے۔

بدعت کی مذمت اس بنا پر کی جاتی ہے کہ یہ وہ انسانی کوشش ہے جو ایک ایسے نظامِ حیات کے انتخاب کے لیے کیا جاتا ہے جسے خدا کی منظوری حاصل نہیں ہوتی، اور اس لیے وہ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کو چیلنج کرتی ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ یہ ایک ایسے منڈلاتے خطرے کی پیش بینی ہے جو کفر کی سرحد پر سرگرم رہتا ہے، اور ہمیشہ اس سرحد کو پار کرنے کی دھمکی دیتا ہے، لیکن اسے کھل کر پار نہیں کرتا۔ اس میں کفر کا امکان ہوتا ہے، اور یہی امکان اسے اعتقادیات اور سماجیات کی رو سے تخریبی بناتا ہے۔ بدعت میں موجود تجاوز کی آفت  اس نقالانہ سرکشی پر منحصر ہوتی ہے جو انسانی ارادے کو خدا کے حاکمانہ ارادے کی مماثلت پر آمادہ کرتی ہے۔ بغاوت یا خود ساختہ مسنون طریقے کا انتخاب ہی وہ گناہ ہے جو اعتقادی اور فرقہ وارانہ اعتبارات سے بدعت کو اس کا نامبارک کردار عطا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے میں بدعت کا ترجمہ 'مبنی بر انحراف ایجاد'  کرتا ہوں۔

انیسویں صدی میں شمالی ہندوستان کی مسلم اصلاحی فکر میں بدعت کے مباحث اپنی ذہنیت کے اعتبار سے بعینہ انسانی اور خدائی طور طریقوں کے درمیان ایک کش مکش کی طرح تھے۔ مثال کے طور بدعت پر اپنی بنیادی کتابوں میں شاہ محمد اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی نے بتایا کہ ہر وہ رسم بدعت ہے جو خدا کی قانون سازی کے اختیار مطلق کو للکار کر شروع ہوتی ہے، اور اسے اس طرح سے بیان کرنا گویا کہ وہ سنتِ نبوی ہے، جب اسے اس جذبے، اہتمام اور نظم سے ادا کیا جائے، جو صرف اور صرف شرعی اعمال جیسے نماز، روزہ سے مختص ہے، اور جس کا شریعت اہل ایمان سے مطالبہ کرتا ہے، اور جو خدا سے تقرب کا ذریعہ ہیں1۔

رسم عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی نقشہ بنانا، اثر چھوڑنا، خاکہ بنانا ہے۔ بدعت پر ہندوستانی مسلمانوں کی فکر میں یہ ایک اہم اصطلاح ہے۔ اپنے اردو قالب میں رسم کا سب سے اچھا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ عادات واطوار جو بار بار عمل میں لائے جانے اور دہرائے جانے کی وجہ سے کسی سماج کی بنیادی عادات کا جزو لاینفک بن جائے۔ بالفاظ دیگر رسم ایک اجماعی (doxic) صورت کی طرح ہو سکتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک بدیہی اور مانی جانی حقیقت بن جاتی ہے، بجاے اس کے کہ وہ کئی متبادل اور ایک جیسے آزاد امکانات میں سے کوئی ایک ہو۔

رسوم: فکری تسلسلات اور تغیرات

اٹھارویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے اوائل اور اواخر تک جنوبی ایشیا کی مسلم فکر میں 'رسم' کی اصطلاح کا علمی مفہوم باریک لیکن نمایاں تبدیلیوں سے گزرا۔ اس تبدیلی  کو صحیح انداز میں تب سمجھا جا سکتا ہے، جب اس اصطلاح سے متعلق اٹھارویں صدی کے نامور عالم شاہ ولی اللہ کی عظیم شاہ کار حجة الله البالغة میں رسوم کی بحث پر کی جانے والی گفتگو کو مد نظر رکھا جائے۔  حجة الله البالغة ایک تہہ در تہہ، دقیق  اور پیچیدہ متن ہے۔ ان کے کلام کا اگر خلاصہ کیا جائے تو رسوم پر ان کی گفتگو کو ایک پاک اور اخلاقی طور پر مضبوط سیاسی نظام کی کونیاتی بنیادوں کے طور پر بیان کر سکتا ہے۔ اس کتاب کو تشکیل دینے والی ایک بنیادی اصطلاح وہ ہے جسے شاہ صاحب نے 'ارتفاقات'2 (اخلاقی اصلاح کے آلات وذرائع) کا نام دیا ہے، یا عام طور پر جس کا ترجمہ تہذیبی آسائشوں سے کیا جاتا ہے۔ اپنے فکری مواد کے اعتبار سے حجة الله البالغة بیسوی صدی کے جرمن ماہر سماجیات نوربرٹ ایلیاس (Norbert Elias) کی انتہائی مؤثر کتاب The Civilizing Process سے قریب تر ہے3۔ حیرت انگیز طور پر دونوں کتابوں کا موضوع تہذیب کا فروغ ہے، تاہم شاہ ولی اللہ کی کتاب منظم زندگی کے بارے میں ایک حریف تصور پیش کرکے ایلیاس کے یورپ مرکز (Eurocentric) بیانیے  کے لیے ایک تصحیح کنندہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔

حجة الله البالغة کے ایک باب میں، جس کا عنوان 'لوگوں میں رائج رسوم' (الرسوم السائرة في الناس) ہے، شاہ صاحب بتاتے ہیں: "رسوم ارتفاقات (یعنی تہذیبی ترقی) کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو حیثیت دل انسان کے بدن کے لیے رکھتا ہے۔ شریعت کا بنیادی اور ذاتی موضوع ومقصد ہی یہی رسوم ہیں" (الرسوم من الارتفاقات هي بمنزلة القلب من جسد الإنسان، وإياها قصدت الشريعة أولاً وبالذات)4۔ رسوم کے تصور کا شجرہ بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب نے ایسے متعدد ماخذات کی نشان دہی کی ہے، جو کسی سماج کی روزمرہ زندگی میں ان رسوم کے رائج ہونے کے لیے سبب بنتے ہیں۔ انبیا، اولیا اور بادشاہوں کے زور دینے کے ساتھ ساتھ رسوم وعادات وجدانی طور پر لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ جب رائج رسوم سچائی سے ماخوذ ہوتے ہیں تو وہ سماج کی اخلاقی تشکیل کا تحفظ کرتے ہیں، اور لوگوں کو علمی اور عملی کمالات سے بہرہ ور کرتے ہیں۔ وہ آگے بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ اقدار نہ ہوں تو لوگ جانوروں کے مانند بن جائیں (لولاها لالتحق الناس بالبهائم)۔ شاہ صاحب نے ایک دل چسپ استدلال یہ کیا کہ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی تربیت کے لیے منظم سرگرمیوں میں شرکت کے محرکات کی توضیح وتشریح کر سکیں۔ شاہ صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں:

غور کرو کتنے آدمی یہ کہتے ہیں کہ شادی کرو اور اسی طرح کے دیگر عمومی اور اقدار کو سدھارنے والے اعمال میں شرکت کرو۔ اگر تم کسی ایسے شخص سے پوچھو کہ ان جھمیلوں میں کیوں پڑ رہے ہو؟ تو اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں ہوگا کہ میں لوگوں کی موافقت میں ایسا کر رہا ہوں (لم يَجِدْ جَواباً إلا موافقة القوم)۔ زیادہ سے زیادہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے پاس اپنے اعمال کے پیچھے محرکات کا ایک اجمالی علم ہے، اگر چہ اس درجے کی بات کو بھی وہ بیان کرنے سے قاصر ہوگا چہ جائیکہ وہ اپنے اعمال کو اخلاقی ترقی کی تمہید قرار دے (100)۔

بالفاظ دیگر شاہ صاحب کے نزدیک ایک منظم زندگی گزارنے کے محرکات پہلے سے بنے بنائے اور واضح نہیں ہوتے۔ جیسا کہ طلال اسد کہتے ہیں کہ زندگی 'بالذات ضروری' ہے5۔ مزید برآں شاہ صاحب کی اس بحث میں جو چیز سب سے زیادہ میری دل چسپی کی ہے وہ عوام کے افعال کو سنت کے ماخذ کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔

انیسویں صدی کے پیش روؤں کے ساتھ ایک گہرے تقابل میں شاہ صاحب ایک پاک باز زندگی گزارنے کے لیے عوام کی وجدانی صلاحیتوں کے اعتراف میں زیادہ خود اعتماد نظر آتے ہیں۔  تاہم یہ کہنا مغالطہ آمیز ہوگا کہ وہ اپنے آس پاس رائج متعدد رسوم اور اعمال کے ناقد نہ تھے۔ وہ ایسی تعبیری وسعت کے قائلین سے بہت دور تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی سمائج میں رائج رسوم میں ہمیشہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس فساد کی سب سے بنیادی وجہ اخلاقی طور پر ایسے کمزور لوگوں کا حکومت کے منصب پر سرفراز ہونا ہے، جو کلی مصالح کو سمجھنے سے قاصر ہوں (100)۔ شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیش روؤں کی طرح شاہ صاحب بھی بالخصوص روزمرہ زندگی کے دائرے میں شاہانہ رسوم وعادات کے شدید ناقد تھے۔  ان میں لباس اور خوراک کی مسرفانہ عادتیں، فضول تفریحات جیسے شطرنج، شکار، کبوتر بازی اور موسیقی میں حد سے زیادہ وقت گزارنا وغیرہ شامل ہیں۔  ایسے رسوم کے لیے نہ صرف یہ کہ بے تحاشا دولت چاہیے ہوتی ہے (التعمُّقُ البالغُ في الأَكْسابِ)، بلکہ ان کی وجہ سے آدمی دنیا وآخرت کے معاملات سے غافل ہو جاتا ہے (إهمال أمر المعاش والمعاد) (101 – 102)۔ وہ اپنا بیانیہ جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ان فاسد رسوم کے حامل لوگ طاقت واقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو عوام، جن کے لیے ارباب حکومت کی مخالفت ناممکن ہوتی ہے، ان کی پست تقلید شروع کرنے لگتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پاک بازوں یا پاکیزہ اعمال کی طرف عوام اپنے قوی رجحان کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ وہ بس سیدھا انھی اعمال پر کاربند ہوتے ہیں جنھیں وہ اربابِ اقتدار کے درمیان رائج پاتے ہیں (101)۔ اور وہ لوگ جو ان کے اخلاقی معیارات کو قبول کرنے سے انکار کرکے پاک بازی پر ڈٹ جاتے ہیں، وہ ارباب اقتدار اور ان کے آس پاس کے لوگوں سے دوری اختیار کرکے ناراضگی سے کنارہ کش اور خاموش رہنے لگتے ہیں (ويبقىٰ قومٌ فطرتُـهم سويًّا في أُخْرَيات القوم لا يُخَالِطونهم ويسْكُتون على الغيظ) (101)۔ اس خاموشی کے ذریعے وہ اپنے اردگر اکثر لوگوں سے ناراضگی اور قطع تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح ایک بری عادت رائج اور پختہ ہو جاتی ہے (فتنعقدُ سنةٌ سيِّئةٌ وتَتأَكَّدُ) (101)۔ شاہ صاحب ایسے وسیع علم کے حامل اہل علم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انھیں لاتعلقی اور ناامیدی پر مبنی ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ "انھیں چاہیے کہ سچائی کو پھیلائیں اور سماج میں اسے رائج کریں۔ انھیں چاہیے کہ وہ برائی کے سامنے ڈٹ جائیں اور اس کے خلاف حکمتِ عملی اپنائیں۔ اس میں سخت لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آ سکتی ہے (مـُخاصَماتٌ ومقاتَلاتٌ) (101)۔

اس گفتگو سے یہ واضح ہے کہ چند دہائیاں بعد پیدا ہونے والے اپنے پوتے شاہ اسماعیل کی طرح شاہ صاحب نے ایک واضح اصلاحی ایجنڈا اپنایا جو ان عادات اور رسوم کا شدید ناقد تھا، جو مغل اشرافیے میں رائج تھیں۔تاہم شاہ صاحب کی فکر میں رسوم کی  علمی حیثیت شاہ اسماعیل کے اصلاحی ایجنڈے سے کئی حوالوں سے مختلف تھی۔ رسوم میں فساد پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، ایسا فساد جو کسی سماج کو چلانے والے سیاسی نظام اور قیادت میں پائی جانی والی اخلاقی دراڑوں سے پیدا ہوتا ہے۔ شاہ صاحب کی فکر کونیات، سیاسیات اور روزمرہ زندگی کی اخلاقی تشکیل کے تعامل پر مرتکز تھی۔ وہ نسبتاً اس بات سے لا تعلق تھے کہ عوام اپنی رسمی زندگی گزارنے کے دوران واجب اور غیر واجب اعمال کے درمیان فرق کر سکتے ہیں یا نہیں، یا یہ کہ وہ ان دونوں کو خلط کرتے ہیں یا نہیں۔

تاہم جیسا کہ میں اس حصے میں دکھاؤں گا، بدعت سے متعلق یہ فکر اور بے چینی شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیش رؤوں کے مباحثوں میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ پوری انیسویں صدی میں رسوم کی اصطلاح بتدریج بدعت کے مترادف بنتی چلی گئی۔ اٹھارویں سے لے کر انیسویں صدی اور اس کے مابعد تک جنوبی ایشیا کی مسلم اصلاحی فکر میں رسوم کی اصطلاح کے استعمال سے متعلق یہ بنیادی فکری تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک رسوم عارضی دنیا کے معاملات پر کونیاتی سانچے کا ٹھپہ لگاتے ہیں۔ اچھے رسوم وعادات کونیاتی دائرے میں ملا اعلی کے برکات وفیوضات کو سمیٹنے اور حظیرۃ القدس کے اطمینان کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے برعکس فاسد رسوم وعادات ان کی مخالفت اور ناراضگی کو دعوت دیتے ہیں (101)6۔

اب اگر چہ انیسویں صدی کے مصلحین جیسے شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی ہم نوا اپنے اصلاحی تصورات میں کار فرما وسیع تر کونیات پر  سوچتے تھے۔ تاہم ان کی فکر میں رسوم اور بدعت کے درمیان نسبتاً‌ زیادہ یک جائی پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ رسوم اور رسمی اعمال کے درمیان نسبتاً ایک زیادہ باریک فرق قائم کیا گیا ہے۔ میں اس فرق کو مزید سادگی اور وضاحت سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب کے برعکس، جن کے رسوم کی تفہیم کونیات پر مبنی تھی، انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کی مسلم اصلاحی فکر  میں رسوم نے بتدریج ایک منفی مفہوم اختیار کیا، اور سنتِ نبوی کے بالمقابل بدعات پر اس کا اطلاق ہونے لگا۔ بالفاظِ دیگر مسنون اعمال کی تحدید بدعات کی توسیع کا سبب بنی۔ روزمرہ کی رسوم و روایات کی ایک غیر معمولی تعداد کی شرعی حیثیت مشکوک اور نقد ونظر کا موضوع بن جاتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ باریک لیکن گہری تبدیلی نہ صرف یہ کہ رسم/رسوم کی اصطلاح میں پیدا ہوئی، بلکہ زیادہ وسیع تناظر میں اٹھارویں سے انیسویں صدی تک جنوبی ایشیا کے مسلم مفکرین کی علمی اور سماجی زندگی میں بھی پیدا ہوئی۔

اس تبدیلی کی ایک عمدہ مثال حجة الله البالغة کے ترجمے اور شرح میں ، جس کا نام رحمۃ اللہ الواسعۃ ہے، پائی جاتی ہے، جسے معاصر دیوبندی عالم مولانا سعید احمد پالن پوری نے تصنیف کیا ہے7۔ کتاب میں اس باب کی شرح لکھتے ہوئے، جسے میں نے ابھی موضوع بحث بنایا، مولانا پالن پوری نے 'رسوم اور بدعات' کو مرکبِ عطفی کے طور پر استعمال کیا ہے، گویا یہ دونوں ہم معنی ہیں۔

مثال کے طور پر شاہ صاحب کی درج ذیل عبارت لیجیے جس کے کچھ اقتباسات پر میں نے پہلے بحث کی ہے: "وسیع علم کے حامل اہل علم کو چاہیے کہ سچائی کو پھیلائیں اور اسے سماج میں رائج کریں، اور برائی کے سامنے ڈٹ کر اس کا رستہ روکیں۔ اس میں مخالفت اور جنگ وجدال تک نوبت جا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ نیکی کے بہترین اعمال شمار کیے جائیں گے" (101)۔ اب اس بیان کا تقابل مولانا پالن پوری کے ترجمے اور تشریح سے کیجیے:"رسوم وبدعات کی اصلاح کرنا بہترین عمل ہے۔۔۔۔ بدعات ورسوم جب کسی قوم میں جڑ پکڑ لیتی ہیں تو ان کو اکھاڑنا سخت دشوار ہوتا ہے"8۔ پالن پوری خود اعتمادی سے اپنی پوری شرح میں بدعت کے لیے 'بدعات ورسوم' کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، حالانکہ شاہ صاحب نے اس باب میں بدعت کا لفظ نہ تو آزادانہ طور پر اور نہ رسوم وعادات کی اصطلاح کے تعلق سے استعمال کیا ہے۔ اس کے باوجود بیسویں صدی میں پالن پوری جیسا عالم ان دونوں اصطلاحات کے ترادف کو تقریباً طے شدہ سمجھتا ہے۔ بدعات اور رسوم کے درمیان اس مفروضہ ترادف میں انیسویں صدی کے جنوبی ایشیا کے نامور مصلحین جیسے شاہ محمد اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی کے علمی وفکری اثرات کا نمایاں کردار ہے۔ اب میں بطور ایک نظریے اور تصور کے بدعت کی فکری عمارت کی تعمیر میں ان کے مباحثوں اور کردار کا تفصیلی جائزہ لیتا ہوں۔

بدعت کی تعریف

جنوبی ایشیائی اسلام میں بدعت کی حدود کے اردگرد کش مکش میں یہ سوال بنیادی نوعیت کا حامل ہے: کن حالات کے تحت رسوم شریعت، بالخصوص شرعی اعمال کے دائرے میں سنتِ نبوی کے پورے ڈھانچے، کی حاکمیت کے حریف یا ان کے لیے خطرہ بننے لگتے ہیں؟بالفاظِ دیگر ممکنہ طور پر وہ کون سا مقام ہے جس میں انسانوں کی ایجاد کردہ اقدار خدا کی منظور کردہ اقدار کی برتری کو للکارنے لگتی ہیں؟

مختلف علما نے اپنے مسلکی مزاج کے اعتبار سے اس مرکزی سوال کا جواب متعدد طریقوں سے دیا ہے۔ مزید برآں اس سوال کے جواب میں ایک مزید بڑے سوال کے لیے کلید بھی مل جاتی ہے کہ مذہبی اشرافیہ کے نمائندے کی حیثیت سے، جن کا کام مذہب کی شرعی حدود کو تحفظ فراہم کرنا ہے، وہ اپنے کردار کو کیسے خیال کرتے تھے۔

شاہ اسماعیل اور دیوبندی علما جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے پیروکار ایسے رسمی اعمال کے بارے میں شدید شک اور احتیاط میں مبتلا تھے جو آگے جا کر جعلی شریعت (یعنی شریعت کا ایسا مد مقابل جو خدائی حکم کے بجاے انسانی خواہش کا عکاس ہو-) میں بدل جائے۔ ان علما نے بتایا کہ مذہب کے معاملات میں عوام پر کوئی بھروسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی سرگرمیوں پر ایک مضبوط پہرہ نہ بٹھایا جائے تو وہ غیر شرعی رسوم پر کار بند ہو کر شریعت کی اولیت کو یقینی طور پر تج دیں گے۔

دیوبند کے اصلاحی پروجیکٹ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ بظاہر نیک اور روحانی اجر وثواب کے رسوم کے خلاف، جو باوجود یکہ مباح تھے لیکن واجب نہیں تھے، دینی واجبات وفرائض کی اولیت کا تحفظ کریں۔ دیوبند کے پیش روؤں کو یہ اندیشہ تھا کہ عوام بآسانی نیکی کے مباح/مستحب اعمال کو واجب اعمال کے ساتھ بدل دیں گے۔ مثال کے طور پر مولانا تھانوی نے مباح رسوم کو ایسے مٹھائیوں سے تشبیہ دی ہے، جسے کھانے سے چھوٹے بچوں کی رال بہنے لگتی ہے۔ اگر چہ کھانے کے دوران یہ متاثر کن طور پر فرحت بخش ہیں، تاہم بعد میں یہ نوجوانوں اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

مولانا تھانوی والدین اور علماے دین کے درمیان ایک موازنہ کرکے اپنا قیاس جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے  بچوں کی تربیت کریں اور انھیں ایسی خوش ذائقہ لیکن نقصان دہ مٹھائیوں کی بری لت سے بچائیں۔ اسی طرح مسلمان علما کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عوام کی دینی تربیت کریں، تاکہ وہ ایسے خوش کن رسوم سے بچاو حاصل کر سکیں، جو اس دنیا میں اگر چہ شدید اطمینان فراہم کرتے ہیں، لیکن آخرت میں صرف تکلیف اور عذاب کا سبب نتے ہیں۔ اس تشریح کے مطابق بدعت ایک ایسا ممنوع عمل ہے جس کا ارتکاب دوسروں کو غلط کام کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ فرائیڈ نے اپنے مشکل لیکن معنی خیز کلاسیک Totem and Taboo میں، جو حیران کن طور پر مولانا تھانوی کے افکار کی بازگشت ہے، لکھا ہے: "ایک فرد جو کسی ممنوع عمل کا ارتکاب کرتا ہے، وہ خود ممنوع (taboo) بن جاتا ہے، کیوں کہ اس میں یہ ترغیبی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے اس کی مثال پر عمل کرسکیں۔ اس لیے وہ واقعی 'متعدی' (contagious) ہے، کیوں کہ ہر مثال تقلید پر ابھارتا ہے، اس لیے اس سے احتراز برتنا چاہیے"9۔ بدعت کی بنیاد رکھنے والا یا مبتدع اسی طرح خطرناک ہے، کیوں کہ وہ تقلید پر ابھارنے کے ذریعے ترغیب کی وبا کا اور ممنوع عمل کو باضابطہ بنانے کے خطرے کا حامل ہے۔ ایسے وبائی عامل کو نہ صرف علمی اعتبار سے مغلوب کرنا چاہیے بلکہ اس سے سماجی فاصلہ بھی رکھنا چاہیے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں بدعت دیگر گناہوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ بدعت مذہب کا روپ دھار سکتی ہے۔ مولانا تھانوی نے دعوی کیا کہ بدعات کے مرتکبین ایسا اس مفروضے کی اساس پر کرتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے گویا وہ پاکیزہ عبادات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہی وہ وصف ہے جو بدعت کو دیگر گناہوں سے ممتاز کرتا ہے۔ دیگر بہت سے گناہوں میں گناہ گار کو کم از کم یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی خطا کا ارتکاب کر رہا ہے، جس سے وہ کبھی تو توبہ کر لے گا۔ تھانوی نوحہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے برعکس بدعت کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے مرتکبین کو کبھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ اپنی بدعات کو دینی عمل سمجھتے ہیں10۔ علاوہ ازیں چوں کہ یہ اعمال مذہب کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں، اس لیے جو شخص ان میں شریک ہوتا ہے، لوگ اس کی تقوی وپارسائی کی تعریف کرتے ہیں، اور جو کوئی ان اعمال میں سے خود باز رکھتا ہے، سب لوگ اس پر لعنت ملامت کرتے ہیں، اور اسے گمراہ سمجھتے ہیں۔

دراصل بدعت یا جعلی مذہبی رسم کی سب سے بنیادی خاصیت یہی ہے۔ ایسے کسی عمل میں شرکت پر معاشرے کا اصرار اور ہم جولیوں کا دباو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اگر کوئی رضاکارانہ طور پر اس میں شریک نہیں ہوتا تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی رسوم میں شرکت کی وجہ سماجی اخلاق واقدار کا غیر مرئی دباو ہوتا ہے، نہ کہ خدائی قانون کے تقاضوں کی اتباع۔ شاہ محمد اسماعیل نے بدعت کی جو تعریف کی ہے، اس سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوتا ہے۔ وہ رسم کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں: "ایک غیر واجب عمل جو کسی معاشرے میں اس گہرائی سے جڑ پکڑ لے کہ جو کوئی بھی اسے ترک کرتا ہے، اسے معاشرے کی طرف سے لعنت وملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں آبا واجداد کے روایات کی تقلید یا دوستوں، عزیزوں اور معاشرے کے دیگر افراد کا اس مقبولیت میں اساسی کردار ہے، جو یہ رسوم حاصل کر لیتے ہیں"11۔اس لیے غیر واجب یا سیدھا سادہ مباح عمل اس جذبے اور پابندی سے انجام پانا شروع ہو جاتا ہے، گویا یہ واجب ہے۔ لیکن ایسا کیسے ہوتا ہے؟ وہ کون سا عمل طریقہ ہے جس کے ذریعے رسوم اس قدر جڑ پکڑ لیتے ہیں؟ کس طرح انفرادی اعمال کسی سماج کی زندگی میں اس قدر پختہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا چھوڑنا پھر ناقابل تصور بن جاتا ہے؟

قانون، تاریخ اور شریعت

اپنی ایک نسبتاً کم معروف لیکن دل چسپ اور عمدہ کتاب 'ایضاح الحق' میں، جو تقریباً پوری کی پوری بدعت کے موضوع کے لیے وقف ہے، شاہ محمد اسماعیل ان سوالات میں سے کچھ کو دل آویز تفصیلات کے ساتھ زیر بحث لائے ہیں12۔ غیر شرعی اعمال کا شرعی اعمال کا روپ دھار لینے کے متعلق ان کے بیانیے میں مرکزی سوال شریعت، سماج اور تاریخ کے درمیان تعلق کا تھا۔ انھوں نے واضح کیا کہ سماج کی زندگی میں تمام رسمیں مخصوص مصالح کے حصول کے لیے داخل ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں کسی سماج کا علمی اشرافیہ ان رسموں کو مخصوص صورت دے دیتا ہے، تاکہ ان سے جڑے مصالح زیادہ ہو جائیں، اور حتی الامکان بآسانی قابل حصول بن جائیں۔ رفتہ رفتہ یہ مخصوص صورتیں عوام کے درمیان رائج اور غالب ہو جاتی ہیں۔ تاہم جیسے یہ صورتیں کسی سماج کی روزمرہ زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں، تو اصلاً جن بنیادی مقاصد ومصالح کے لیے انھیں تشکیل دیا گیا تھا، انھیں بھلا دیا جاتا ہے۔

 لوگوں کی نظر میں ان مخصوص رسموں میں کار فرما اصلی استدلال کھو جاتا ہے، جب ان رسموں کی مُروَّجہ صورت زیادہ شدت سے رائج ہو جاتی ہے13۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورت اور مقصد میں مکمل تفریق واقع ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر عوام کا سارا جوش وخروش ان رسموں کی ظاہری صورتوں کو تحفظ فراہم کرنے تک محدود ہو جاتی ہے، اگر چہ یہ صورتیں اب ان مصالح کو نہ بھی پورا  کرتی ہوں، جن کے لیے اصلاً‌ انھیں نافذ کیا گیا تھا۔ اس لیے اگر چہ رسم کا مقصد دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جا سکتا ہو، لیکن اس کی موجودہ صورت کو ترک نہیں کیا جاتا۔ اور جو بھی شخص موجودہ صورت پر اس کی جزئیات سمیت کاربند نہیں ہوتا، وہ سماج کے غیظ وغضب کا نشانہ بن جاتا ہے۔

شاہ اسماعیل نے میت کے 'ایصالِ ثواب' کے لیے خاندان اور معاشرے کے دیگر افراد کے درمیان طعام کی تقسیم کی مثال دی ہے۔ آج کے جنوبی ایشیا میں تقریباً متفقہ طور پر رائج اس رسم کو 'فاتحہ' کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اس میں عزیز واقارب، دوست، مشہور اولیا اور علما کی ارواح کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانے پر قرآن مجید کی پہلی سورت الفاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ عام طور پر فاتحہ کسی میت کی وفات کے تیسرے یا چالیسویں دن پڑھی جاتی ہے۔ ان تقریبات کو آج کل علی الترتیب سوم یا چالیسواں کہتے ہیں۔ مشہور اولیا اور علما کے ایصال ثواب کی صورت میں فاتحہ کا انعقاد عام طور پر ان کے یوم پیدائش کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات کا حجم اور کردار پڑوس کے چند خاندانوں کو جمع کرنے سے لے کر  بھاری بھر کم عوامی اجتماعات تک ہے جو  پورے کے پورے گاؤں اور قصبوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ فاتحہ کی عوامی مقبولیت کے باوجود شاہ اسماعیل اس عمل کو ایک ایسی بدعت سمجھتے ہیں کہ یہ جس طریقے اور مقصد کے لیے ادا کیا جاتا تھا، اس میں انتہائی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اصل میں اس رسم کا بنیادی مقصد میت کے یتیم ورثا کو صدقے کے طور پر کھانا کھلانا تھا۔ اس صدقے کے ثواب کو میت کی روح کو بخش دیا جاتا تھا۔ چونکہ اسلام میں یتیم ورثا ہی ہر قسم کے صدقات وخیرات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، اس لیے اس موقع پر انھیں خوراک کے سب سے زیادہ مستحق کی حیثیت سے ترجیح دی جاتی تھی۔

شاہ  اسماعیل نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس کے دور کے ہندوستانی مسلمان اس رسم کی ایک مخصوص طرز کی ادائیگی سے ایسی شدت کے ساتھ چمٹ گئے ہیں کہ اس کا اصل مقصد اور فائدہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ انھوں نے بتایا  کہ یہی وجہ ہے کہ اب جب میت کے عزیز واقارب کو خوراک دی جاتی ہے، تو کوئی بھی صراحتاً یہ نہیں کہتا: "یہ خوراک میت کے لیے صدقہ ہے" یا "یہ یتیموں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے"۔ اسماعیل نے پیشین گوئی کی  کہ اگر اس عمل کے اصل مقصد کو بیان کرنے کے لیے کوئی ایسی بات کی جائے  تو بہت سے رشتہ دار اور عزیز واقارب اس خوراک کو قبول بھی نہیں کریں گے،14 بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ اسے ایک توہین سمجھیں گے۔

 مزید برآں اس رسم کے مجوزہ مقصد یعنی میت کے ایصالِ ثواب کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے ذریعے کو مکمل ناقابل برداشت سمجھنا اس بات کو یقینی طور پر ثابت کرتا ہے کہ وہ اس مخصوص صورت کو واجب سمجھتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ اگر کوئی میت کی خاطر ہر قسم کا صدقہ وخیرات کرے تو  سماج اسے تسلیم نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ اس امر پر اصرار کرنے لگے ہیں کہ کھانا بعینہ رسم کے مطابق تقسیم ہونا چاہیے۔ اگر کھانا اس انداز میں تقسیم نہ کیا جائے تو رسم پورا کرنے والا شخص گالم گلوچ اور لعنت ملامت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ تاہم اگر یہی شخص میت کی خاطر صدقے میں کچھ بھی خرچ نہ کرے، اور صرف رائج رسم کے مطابق کھانا تقسیم کرے تو اسے کسی قسم کی تنقید یا نفسیاتی دباو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔شاہ اسماعیل نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ اس لیے میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا تقسیم کرنا اب عبادت کی سرگرمی نہیں رہی۔ اس کے بجاے اب یہ ایک رسم بن گئی ہے، جو اپنے اصل غرض اور مقصد سے ہٹ گئی ہے15۔

یہاں پر شاہ اسماعیل کے بیانیے میں شریعت کی تشکیل میں تاریخ کے کلیدی کردار کو نوٹ کرنا اہم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ تاریخ رسموں کو اس انداز میں جواز دیتی ہے کہ پھر ان کو ناجائز ٹھہرانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایصالِ ثواب کے طور پر کھانا دینے کا بنیادی مقصد زمان اور تاریخ میں دفن ہو گیا، بلکہ تاریخ نے رسم کو سنت بنا دیا، سماج کا ایک ایسا ناقابلِ اعتراض عمل، جس کے کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا۔

شاہ اسماعیل کے نزدیک اس رسم کا اصل مقصد اب غیر مرئی ہے جو تاریخ/زمان کی گرد میں دب گیا ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقصد کچھ وقت کے لیے موجود تھا۔ لیکن شاہ اسماعیل نے ہندوستان میں رائج اس رسم کا عدم جواز کیسے بتایا؟ ایسا انھوں نے تاریخ ہی کی طرف رجوع کرکے کیا۔ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال کی نیو اس بات پر اٹھائی کہ اس رسم کو "تاریخ میں لانے" کا ایک خاص مقصد تھا جو اب باقی نہیں رہا۔  تاریخیت (historicity) پر مبنی  اپنے انداز سے انھوں نے یہ کوشش کی کہ اس رسم کے وقتی جواز کو واضح کریں، تاکہ اس کی ناقابل اعتراض ضرورت کو تہہ وبالا کر سکیں۔ اس عمل میں لاینحل تضاد یہ تھا: تاریخ ہی کے ذریعے شاہ اسماعیل نے وہ ظاہر کیا جسے تاریخ نے اپنی گرد میں چھپا دیا تھا۔ تاریخ کی وجہ سے جائز بننے والے عمل کی طاقت سے نمٹنے کی کوشش میں شاہ اسماعیل نے مزید تاریخ سے کام لیا۔ شریعت اور تاریخ کی یک جائی کے خلاف احتجاج کے باوجود وہ تاریخ سے آگے نہ دیکھ سکے۔

شاہ  اسماعیل کی نظر میں اصلاحی کوشش کا تقاضا ہے کہ حال کے باسیوں کو ان کی ماضی کی ذمہ داری کی یاد دہانی کرائی جائے۔ تاہم انھوں نے اس امر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ حال پر کوئی دعویٰ جتانے کے لیے ماضی دست یاب نہیں ہوتا اور زمنیت اس قدر غیر یقینی ہے کہ وہ زندگی کو ایک ایسے مسلسل اور بے جوڑ دھاگے کی شکل میں  جو ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑتا ہو، تاریخ  میں تحقق  (historcizing) کے امکان کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ تاریخ کی شہہ پر عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنے اصلاحی پروگرام میں جو نکتہ شاہ اسماعیل کی نظر سے اوجھل رہا وہ یہ تھا، جیسا کہ زاں  لوک نانسی (Jean-Luc Nancy) نے استنباط کیا ہے، کہ تاریخ مابعد الطبیعات کے بجاے سماج یا عوام کا نام ہے۔ نانسی نے یادگار انداز میں لکھا کہ " اگر ہم تاریخ کے  لفظ کو اس کی مابعد الطبیعاتی ، اور اس بنا پر تاریخی مفہوم سے الگ کر سکیں  تو تاریخ بنیادی طور پر نہ تو زمان کے ساتھ ہے، نہ ہی تسلسل اور علیت (causality) کے ساتھ، بلکہ سماج یا  اجتماعی وجود  (being-in-common) ہے16۔

نانسی کی تنبیہ کا مقصد تاریخ کو تاریخیت سے الگ کرنا (dehistoricizing) ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کسی سماج کا اخلاقی حال (present) اس کے بیان کی جانے والی ماضی سے مربوط نہیں۔ بالفاظ دیگر کسی سماج کا ماضی سیدھے سادے انداز میں حال میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ تاہم شاہ اسماعیل کے تاریخی تخیل میں ماضی ایک مطلق اہم اور سیدھا سادہ زمرہ ہے۔ ان کے تصور کی رو سے شریعت اور تاریخ کے درمیان تعلق میں کسی سماج کی اخلاقی زندگی اس کی ماضی کی تجربی تاریخ سے ماخوذ ہونی چاہیے۔ شاہ اسماعیل اس جستجو میں تھے کہ سماج کی ایک معروضی تاریخ کی تشکیل کریں اور پھر اسے بیان کریں۔ اس ماڈل کی بنیاد پر وہ سماج کی اصلاح کے خواہاں تھے۔

 لیکن اس عمل کے تسلسل میں انھوں نے سماج کو نظریاتی طور پر خود آگاہ کرداروں کے ایک گروہ کی صورت میں معروضی بنایا، جو پہلے عملی اعمال کے چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ سماج کی مثالی تاریخ سے اپنی وفاداری کا مظاہرہ کریں۔ آج جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں ان رسموں کی مسلسل موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ سماج اور تاریخ کے درمیان تعلق کا یہ تصور نامعقول ہے، کیونکہ زندگی کو تاریخ سے متعلق اپنی ذمہ داری یاد دلانے سے عملی زندگی میں یکسر تبدیلی کبھی ممکن نہ ہو سکی۔ یہ توقع کبھی پوری نہیں ہو سکتی، اور ایک نامعلوم مستقبل تک ناقابل تکمیل رہےگی17۔

عملی زندگی کو یکسر تبدیل کرنے کی کم وبیش یہی توقع بدعت پر مولانا اشرف علی تھانوی کی فکر کی اساس بنی۔ ہندوستانی مسلمان جن اخلاقی امراض میں مبتلا تھے، ان پر مولانا تھانوی شاہ اسماعیل کے تجزیے اور ان بیماریوں کے علاج کی حکمتِ عملی سے مکمل متفق تھے۔ شاہ اسماعیل کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ عوام میں رائج رسمیں، جو بظاہر عباداتی مقاصد کے لیے ہیں، درحقیقت اپنے مال ودولت کی نمائش اور سماج کے دباو کی وجہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اس استدلال کی وضاحت میں انھوں نے میت کے چالیسویں کی مثال دی ہے۔ اگر چہ بظاہر اس کا مقصد میت کی روح کے لیے ایصالِ ثواب ہے، تاہم اس تقریب پر خرچ کی جانے والی رقم، اساسی طور پر کھانا تیار کرنے اور تقسیم کرنے، کا بنیادی مقصد مال ودولت اور سماجی حیثیت کی عوامی نمائش ہے18۔ اس رسم کے انعقاد کے پیچھے منتظمین کا اصلی مقصد معلوم کرنے کے لیے مولانا تھانوی نے ایک دلچسپ طریقہ تجویز کیا۔

انھوں نے تجویز کیا کہ اس تقریب کے منتظمین کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی برادری کے افراد کو برسر عام کھانا کھلانے کے بجاے اسے خفیہ طور پر  یتیموں کو دے دیں یا یہ رقم کسی مسجد یا مدرسے کو صدقہ کر دیں۔ کیونکہ یہ واضح ہے کہ صدقہ جس قدر ضرورت مند اور غریب لوگوں کو دیا جائے گا، اسی قدر وہ میت کے لیے زیادہ اجر وثواب کا موجب ہوگا۔ مولانا تھانوی نے پیش بینی کی کہ اگر یہ تجویز پیش کی جائے تو منتظمین جھٹ سے کہہ دیں گے: سبحان اللہ! کیا آپ ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنا پیسہ خرچ کریں اور کسی کو پتا بھی نہ چلے؟ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟19 تھانوی کے نزدیک ریا اور سماج کی طرف سے شرم دلانے کا خوف ہی ان تمام اجتماعات کے پیچھے بنیادی محرکات ہیں۔ ایصال ثواب کے لیے اس طریقے کو رد کرنا جس میں مال ودولت کی عوامی نمائش نہ ہو، اس امر کی تائید کرتا ہے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں اس صورتِ حال نے میت کے ایصالِ ثواب کی اصل روح کو مار دیا ہے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس طریقے کا بنیادی مطمح نظر یہ تھا کہ چند زندہ لوگ صحیح نیت کے ساتھ نیک اعمال کرکے اجر وثواب حاصل  کریں  اور پھر اس حاصل کردہ اجر وثواب کو میت کی روح کو بخش دیں۔ لیکن موجودہ صورت میں ان رسموں میں کار فرما بنیادی نیت خراب ہو گئی ہے، اور اس کا مقصد دکھاوا بن گیا ہے۔ اس لیے زندہ لوگ کوئی اجر وثواب کما ہی نہیں رہے کہ اسے آگے میت کو بخش سکیں۔ انھوں نے طنزیہ پیرایے میں اسے یوں بیان کیا ہے: "جب یہاں ہی صفر ہے تو وہاں کیا بخشو گے؟"20۔

یہاں ایک اہم وضاحت کا اندراج ضروری ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی میت کے ایصال ثواب جیسی رسموں کے علی الاطلاق مخالف نہیں تھے۔ اس کے برعکس ان کی نظر میں یہ پاکیزہ اعمال تھے جو اپنی اصل میں قابلِ تعریف تھے۔ لیکن انھیں ان نیتوں پر تحفظات تھے جن سے عوام ان رسموں کو ادا کرتے ہیں۔ خراب رویوں کے شامل ہو جانے  کی وجہ سے یہ جائز اعمال ناجائز بن گئے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کے استدلال میں سماج کی شرعی حدود کی تشکیل میں تاریخ کے کردار کو بھی ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

 ان علما کی نظر میں اخلاقی بگاڑ نے ان پاکیزہ اعمال پر ایک ایسی تہہ چڑھا دی ہے جسے عوام دیکھ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بنا سوچے سمجھے اس حد تک ان رسموں کی ان صورتوں سے جڑ گئے ہیں جو تاریخ کی پیداوار ہیں کہ وہ ان صورتوں کے اصلی مقاصد ان کے ذہن سے بالکل فراموش ہو گئے ہیں۔ نتیجتاً نیک اعمال کے ارتکاب کی روپ میں وہ ایک ایسی عوامی فضا تشکیل دے رہے ہیں جو اخلاقی بگاڑ کی کُشتہ ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کی نظر میں اصلاحی کاوشوں کا بنیادی مقصد عوام کو مذہب کی منظور کردہ شرعی حدود اور ان رائج رسموں کے درمیان، جو روزمرہ زندگی کی عادات سے پیدا ہوئے ہیں، بے جوڑ پن دکھا کر انھیں بیدار کرنا ہے۔ذرا  مختلف الفاظ  میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی اپنے کردار کو اس طرح دیکھ رہے تھے کہ وہ تاریخ میں مداخلت کرکے اس کے دھارے کو بدل دیں۔ وہ ان رائج عادات کو روایت کی حدود سے تجاوز ثابت کرکے انھیں یکسر بدلنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کون سا فقہی تصور اور تعبیر وتشریح کا منہج تھا جس نے سماجی اور مذہبی اصلاح کے اس پروگرام کو سہارا فراہم کیا، اور اس کی رہ نمائی کی؟


حواشی

  1.  دیکھیے: اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ اشرفیہ، 1958) اور شاہ محمد اسماعیل، ایضاح الحق (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1976)۔
  2.  میں نے ارتفاقات کا ترجمہ "تہذیب کو سہارا فراہم کرنے والے" کے بجاے "اخلاقی اصلاح کے ذرائع" کا زیادہ بامحاورہ ترجمہ کیا، تاکہ شاہ ولی اللہ کی فکر کو مغرب کی نوآبادیاتی تواریخ اور ان کی تہذیب کی اصطلاح سے الگ کروں۔ دیکھیے: طلال اسد، Conscripts of Western Civillization?، مدون سی گیلے، Dialectical Anthropology: Essays in Honor of Stanley Diamond، جلد 1 (گینس ویلے: یونیورسٹی پریسز آف فلوریڈا، 1992)، 333 – 5۔ علاوہ ازیں میرے خیال میں اس کتاب میں شاہ صاحب کے مقاصد کے اعتبار سے اخلاقی اصلاح کے لیے کونیاتی، رسمیاتی، سماجی اور معاشی عمل مرکزی حیثیت رکھتا ہے، بالخصوص جس انداز میں وہ ارتفاقات کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر چہ اس بحث میں، میں نے حجۃ اللہ البالغہ کے تراجم خود کیے ہیں، اور اگر چہ مجھے ارتفاقات کی اصطلاح کے ترجمے پر مارسیا ہرمینسن کے ساتھ معمولی اختلاف بھی ہے، تاہم میں اس کتاب کے عمدہ انگریزی ترجمے کے لیے ان کا مرہونِ منت ہوں۔ دیکھیے: مارسیا ہرمانسن، The Conclusive Argument from God: Shah Wali Allah of Delhi’s Hujjat Allah Al-Balighah (لائیڈن: ای جے برِل، 1996)۔
  3.  نوربرٹ ایلیاس، The Civilizing Process: Sociogenetic and Psychogenetic Investigations (کیمبرج: ویلے بلیک ویل، 2000)۔
  4.  شاہ ولی اللہ، حجة الله البالغة، جلد 1 (بیروت: دار الجیل، 2005)، 100۔ آنے والے حوالے بھی اس اشاعت سے ہیں، جو متن میں بین القوسین دیے گئے ہیں۔
  5.  طلال اسد، Genealogies of Religion: Discipline and Reasons of Power in Christianity and Islam (بالٹی مور: جونز ہاپکنز یونیورسٹی پریس، 1993)، 290۔ جیسا کہ اسد نے یادگار انداز میں لکھا: "میرا بنیادی اشکال یہ ہے کہ سماجی زندگی آرٹ کی کسی کاوش کے مانند نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ سماجی زندگی اپنی مجموعی حیثیت میں پہلے سے موجود مادے سے باہر تشکیل نہیں دی جا سکتی، جس طرح کہ آرٹ کے کام تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔ زندگی ضروری بالذات ہے۔ صرف اس کا وہ جز جسے بیانیے میں بدل دیا گیا، اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اسے ایک آرٹسٹ کی کہانی کی طرح 'بنایا' جا سکتا ہے"۔
  6.  ملاے اعلیٰ یا خدا کے مقرب ترین فرشتوں کی مجلس، حظیرۃ القدس یا وہ مقدس مقام جہاں فرشتوں کی مجلس میں سب سے بلند مقام والے فرشتے اور انفرادی ارواح روح اعظم (highest spirit) سے ملتے ہیں، ایسی اصطلاحات ہیں جنھیں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب میں بار بار استعمال کیا ہے۔ یہ اصطلاحات خدا کے تشریعی نظام اور انسانوں کی اخروی نجات سے متعلق تدبیر کے کونیاتی امور پر دلالت کرتی ہیں۔ ان اصطلاحات کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے: ہرمانسن، Conclusive Argument from God، 46 – 47۔
  7.  سعید احمد پالن پوری، رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ، ج 1 (دیوبند، مکتبۂ حجاز، 2000)۔
  8.  ایضاً، 509۔
  9.  سگمنڈ فرائڈ، Totem and Taboo: Resemblances between the Psychic Lives of Savages and Neurotics (نیو یارک: بارنس اینڈ نوبل، 2005)، 32۔
  10.  اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، ج 9 (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1984)، 149۔
  11.   اسماعیل، ایضاح الحق، 94۔
  12.  یہ کتاب اصلاً فارسی زبان میں لکھی گئی ہے، اور غالباً شاہ اسماعیل نے اپنی زندگی کے آخری دور میں لکھی ہے، کیونکہ یہ نامکمل رہ گئی ہے۔ بعد میں اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ مجھے اصل فارسی نسخے کا سراغ نہیں مل سکا اور اس لیے میں نے معراج محمد بارق کے اردو ترجمے پر انحصار کیا ہے۔
  13.  اسماعیل، ایضاح الحق، 93 – 95۔
  14.   ایضاً۔
  15.  ایضاً۔
  16.  جین-لوک نانسی، Finite History، مُدَوِّن: ڈیوڈ کیرول، The States of “Theory: History, Art, and Critical Discourse (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 1990)، 149۔
  17.  یہاں پر میرا تجزیہ انندا ابیسیکارا سے متاثر اور اس کی فکر کے مرہونِ منت ہے۔ دیکھیے: انندا ابیسیکارا، The Politics of Postsecular Religions: Mourning Secular Futures (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2008، 33 – 83۔
  18.  اشرف علی تھانوی، وعظُ الدین الخالص (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2001)، 25۔
  19.   ایضاً۔
  20.  ایضاً۔


فروری ۲۰۲۳ء

ٹی ٹی پی کا بیانیہ اور افغان حکومت کی سرپرستیمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۳)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
صنف وجنس اور اس میں تغیر (۲)مولانا مشرف بيگ اشرف
پیغامِ پاکستان اور میثاقِ وحدتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا گیلانی اور شیخ اکبر ابن عربی (۱)مولانا طلحہ نعمت ندوی
صاحبِ تعبیر کے تصور ِدین میں تذبذبحسنین خالد
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۴)ڈاکٹر شیر علی ترین

ٹی ٹی پی کا بیانیہ اور افغان حکومت کی سرپرستی

محمد عمار خان ناصر

گذشتہ دنوں پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء نے ’’پیغام پاکستان’’ کے عنوان سے  تحریک طالبان پاکستان کے   ریاست مخالف موقف کو رد کرتے ہوئے  ایک متفقہ  اعلامیہ جاری کیا۔ اسی موقع پر ممتاز  عالم دین مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے   طالبان کے راہنما مفتی نور ولی صاحب کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کی تفصیلات بھی   بیان کیں اور  واضح کیا کہ    انھوں نے  افغانستان میں  امریکا کے خلاف جنگ  کے شرعی جواز کا جو فتویٰ دیا تھا، اس سے پاکستان میں  نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے کا جواز  کیوں  اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

امریکی حملے کی مزاحمت کے لیے جناب مولانا تقی عثمانی صاحب اور دیگر دیوبندی علماء نے پاکستانی قبائلی علاقوں کی مختلف تنظیموں کی "جہاد" میں شرکت کو صرف جائز نہیں کہا بلکہ اس کی ترغیب دی تھی۔ اس فتوے سے کئی  قانونی، فقہی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوئی تھیں اور  اسی سے تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی ریاست کے خلاف جہاد کا جواز بھی اخذ کیا تھا۔  اس سارے معاملے  پر ہم نے اس دور میں تفصیلی اظہار خیال کیا تھا۔  بہرحال موجودہ تناظر میں، ٹی ٹی پی کو "مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کا ساتھ دینے" کی بنیاد پر پاکستانی ریاست اور امریکا کا حکم ایک قرار دینے کا استدلال دستیاب نہیں ہے اور وہ دراصل فاٹا میں اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں جو ریاست پاکستان کے تابع نہ ہو۔ اس کے لیے وہ دوبارہ اسلام اور جمہوریت اور شریعت وغیرہ کا حوالہ دے کر پاکستانی مذہبی طبقات کی ہمدردی لینا چاہتے ہیں۔ اس سیاق میں تمام مکاتب فکر کے علماء کا ایک واضح اور دوٹوک موقف پیش کرنا اور مفتی صاحب کا نور ولی صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ پر لے آنا انتہائی قابل تحسین ہے۔ اس کی مکمل تائید کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ  ہمیں اس سوال پر بھی معروضی انداز میں  غور کرنے کی ضرورت ہے کہ افغان حکومت، تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی کیوں کر رہی ہے؟ اس پر مختلف تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔ مثلا" یہ کہ دونوں کا نظریہ مشترک ہے، دونوں نے امریکا کے خلاف جنگ اکٹھے لڑی ہے، تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں کافی منظم ہے، اور اس وقت أفغانستان کی حکومت داخلی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہے ۔ یہ سب تجزیے جزوی طور پر درست  اور  قابل فہم ہیں، لیکن اس کا ایک اور پہلو سب سے اہم ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

پاکستان اور افغانستان دو، قومی ریاستیں ہیں جن کے مابین، دنیا کی بیشتر قومی ریاستوں کی طرح، تاریخی طور پر کئی حوالوں سے کشمکش موجود ہے۔ ایسی صورت حال میں ہر ریاست کا دوسری ریاست میں اپنے مفاد کے مطابق مختلف سیاسی یا غیر سیاسی عناصر کو تقویت پہنچانا یا ان کی سرپرستی کرنا ایک واضح سی بات ہے۔ چنانچہ جیسے پاکستانی ریاست کی یا یہاں کے مختلف طبقات کی خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان یا ان کی مخالف سیاسی قوتیں غالب ہوں، اسی طرح طالبان کی بھی فطری طور پر خواہش ہوگی کہ افغانستان سے متصل علاقوں میں ان کے ہم نظریہ عناصر طاقت میں ہوں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک وقتی مسئلہ نہیں ہے جس کو کسی فوری نوعیت کی حسن تدبیر سے حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جو موجود رہے گا اور اس کو اسی طرح طویل مدتی پالیسی کا موضوع بنانا پڑے گا جیسے پاک بھارت تعلقات کو بنایا جاتا ہے۔ تقسیم ہند سے ایک تاریخی مسئلے کے سلجھ جانے کی جو خوش فہمی ہمارے قائدین کو تھی، اس کو تو اب واضح کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ افغانستان کا مسئلہ بھی اپنی نوعیت میں ویسا ہی ہے، بلکہ کئی حوالوں سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ مثلا" بھارت کے ساتھ ہمدردانہ رشتہ رکھنے والے عناصر پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن افغانستان کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے علاوہ بھی جو پیچیدگیاں ہیں، ان کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

ہمارے جس طرح کے جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز ہیں، افسوس کہ سیاسی فہم اور دیرپا نبردآزمائی کی صلاحیت اس سے بہت ہی کم ہے اور اس فاصلے  میں مسلسل قومی حماقتوں کی وجہ سے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(391) استمع بہ

استمع کا معنی کان لگا کر غور سے سننا ہے۔یہ عام طور سے کسی صلے کے بغیر راست مفعول بہ کے ساتھ آتاہے۔ جیسے: یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ (الاحقاف: 29)یا پھر کبھی لام آتا ہے، جیسے: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ (الاعراف: 204) یہ لام تاکید کے لیے آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں یستمعون کے ساتھ بہ آیا ہے۔ اس لیے یہاں سننے کی غرض مراد ہے۔ معنوی لحاظ سے بھی یہ بات تو قابل ذکر نہیں ہے کہ وہ کیا سنتے ہیں، ظاہر ہے جو کلام سنایا جارہا ہے وہی سنتے ہیں، اس لیے بھی کہ وہ خود کان لگاکر توجہ سے سنتے ہیں۔ قابل ذکر بات دراصل یہ ہے کہ وہ کس غرض سے سنتے ہیں۔  بتایا جارہا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی خفیہ غرض اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ غرض اللہ کے علم میں  اچھی طرح سے ہے۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُونَ بِہِ إِذْ یَسْتَمِعُونَ إِلَیْکَ۔ (الاسراء: 47)

”ہم خوب جانتے ہیں جیسا وہ سنتے ہیں جس وقت کان رکھتے ہیں تیری طرف“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ غور سے کیا سنتے ہیں؟ جب یہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں تو دراصل کیا سنتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی طرف کان لگا کر سنتے ہیں تو کیا سنتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

مذکورہ بالا ترجموں میں (ب) کا حق ادا نہیں کیا گیا، جب کہ درج ذیل ترجموں میں کیا گیا ہے:

”ہم خوب جانتے ہیں جس لیے وہ سنتے ہیں جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس نیت سے یہ سنتے ہیں ہم اسے خوب جانتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جس غرض سے وہ لوگ اسے سنتے ہیں ان (کی نیتوں) سے ہم خوب آگاہ ہیں، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(392) مُبْصِرَۃً

مبصرۃ کا مطلب روشن اور واضح ہے۔ درج ذیل آیت میں عام طور سے یہی ترجمہ کیا گیا ہے:

وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَةَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً۔ (الاسراء: 12)

”دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور دن کی نشانی کو روشن“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، سو ہم نے رات کی نشانی تو دھندلی کردی اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا“۔ (امین احسن اصلاحی، دھندلی کے بجائے بے نور ہونا چاہیے۔)

درج ذیل آیت میں بھی مبصرۃ کا ترجمہ کھلی ہوئی نشانی یا روشن نشانی کرنا مناسب تھا، لیکن بہت سے مترجمین نے اس سے مختلف اور پرتکلف راہیں اختیار کیں۔

وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا۔ (الاسراء: 59)

”ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اس پر ظلم کیا، ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں“۔ (سید مودودی، مبصرۃ کا مطلب علانیہ نہیں ہوتا ہے)

”اور ہم نے ثمود کو ناقہ دیا آنکھیں کھولنے کو تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو“۔ (احمد رضا خان، یہ بھی پرتکلف مفہوم ہے۔)

”ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی، اونٹنی کا بطور بصیرت ہونا پرتکلف بات ہے)

”اور ہم نے قوم ثمود کو ان کی خواہش کے مطابق اونٹنی دے دی جو ہماری قدرت کو روشن کرنے والی تھی لیکن ان لوگوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی، قدرت کو روشن کرنے کی بات بھی پرتکلف ہے۔)

”اور ہم نے قومِ ثمود کو ایک (خاص) اونٹنی دی جوکہ روشن نشانی تھی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی، یہ ترجمہ موزوں ہے۔)

(393) صدق جب اضافت کے ساتھ ہو

صدق، کذب کی ضد ہے اور اس کا معنی سچ ہے۔ صدق، سوء کی ضد بھی ہے یعنی اچھائی کے معنی میں۔ کہا جاتا ہے، رجل صدق ورجل سوء۔ اسی طرح صدق خوبی اور کمال کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ خاص طور سے لفظ صدق جب اضافت کے ساتھ آتا ہے تو اس موقع پر اس چیز کی خوبی بیان کرنا عام طور سے مقصود ہوتا ہے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ ہر اچھے کام کو خواہ وہ خوبی ظاہری ہو یا باطنی، صدق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ویعبر عن کل فعل فاضل ظاہرا وباطنا بالصدق۔ (المفردات)

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: ویضاف شیء إلی (صدق) بمعنی مصادفتہ للمأمول منہ المرضی وأنہ لا یخیب ظن آمل۔کسی چیز کی اضافت صدق کی طرف کی جاتی ہے، یہ بتانے کے لیے کہ وہ خواہش و امید کے عین مطابق ہے، وہ امید پر پانی پھیرنے والی نہیں ہے۔ (التحریر والتنویر)

زبیدی نے صدق کی بہت اچھی وضاحت کی ہے کہ ہر وہ چیز جس کی نسبت صلاح اور خیر کی طرف ہو اس کی اضافت صدق کی طرف کی جاسکتی ہے۔

وَمن الْمجَاز: الصِّدقُ، بالکَسْر: الشِّدّۃ۔ وَفِی العُباب: کُلُّ مَا نُسِبَ الی الصّلاح والخَیْر أُضیف الی الصِّدْق۔ فَقیل: هوَ رَجُلُ صِدْقٍ، وصَدیقُ صِدْق، مُضافَیْن، ومَعْناہ: نِعْمَ الرّجُلُ هُوَ، وَکَذَا امرأۃُ صِدْقٍ فَإِن جعلتہ نَعْتاً قلت: الرجل الصَّدْق بفَتْح الصّاد وَہِی صَدْقة کَمَا سَیَأْتِی، وَکَذَلِکَ ثوبٌ صَدْقٌ۔ وخِمارُ صِدْق حَکَاہُ سیبَوَیْہ۔ (تاج العروس)

اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل آیتوں میں صدق کا ترجمہ خوبی اور کمال سے کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا، اور اگر وہاں سچ اور راستی کا محل نہ ہو سچ اور راستی سے ترجمہ کرنا پرتکلف معلوم ہوتا ہے۔

(394)  مبوأ صدق کا ترجمہ

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِی إِسْرَاءِیلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ۔ (یونس: 93)

”اور جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو پوری جگہ دینا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا“۔ (سید مودودی)

”اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی“۔ (احمد رضا خان)

اس آیت میں عام طور سے لوگوں نے اچھا ٹھکانا اور عزت کی جگہ جیسا ترجمہ کیا ہے۔ یہی اس تعبیر کا حق ہے۔

بہت کم لوگوں نے یہاں صدق کا ترجمہ سچ یا راستی کیا ہے، جیسے:

”اور البتہ تحقیق جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو جگہ دینا راستی کا“۔ (شاہ رفیع الدین)

البتہ قرآن کے دیگر مقامات پر بہت سے مترجمین سے اس کی رعایت نہیں ہوسکی اور انھوں نے سچ اور راستی ترجمہ کیا۔

(395) قدم صدق کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں قدم صدق سے مراد اچھا اور انچا مقام و مرتبہ ہے۔

وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا أَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۔ (یونس: 2)

”اور اہل ایمان کو بشارت پہنچادو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا مرتبہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو۔ کہ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں اچھا مقام و مرتبہ ہے“۔ (محمد حسین نجفی)

مذکورہ بالا ترجمے بہتر ہیں۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں صدق کا ترجمہ سچ کیا گیا ہے، جس سے مفہوم واضح نہیں ہوپاتا ہے اور پر تکلف تاویل کی ضرورت پڑتی ہے۔

”اور خوش خبری سنادے جو کوئی یقین لاوے کہ ان کو ہے پایہ سچا اپنے رب کے یہاں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟“۔ (سید مودودی، سچی کی ضرورت نہیں، عزت و سرفرازی سے پورا مفہوم ادا ہورہا ہے۔)

زمخشری لکھتے ہیں: وإضافتہ إلی صدق دلالة علی زیادۃ فضل، وأنه من السوابق العظیمة۔

(396) مدخل صدق اور مخرج صدق کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں مدخل صدق اور مخرج صدق سے مراد خوش اسلوبی سے داخل ہونا اور خوش اسلوبی سے نکلنا مراد ہے۔

وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ۔ (الاسراء: 80)

”اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے) اچھی طرح نکالیو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال“۔ (محمد جوناگڑھی)

بعض لوگوں نے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور سچائی کے ساتھ نکالنا ترجمہ کیا ہے، جو زیادہ موزوں نہیں ہے:

 ”اور کہہ اے رب پیٹہا مجھ کو سچا پیٹہانا اور نکال مجھ کو سچا نکالنا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال“۔ (سید مودودی)

”اور یوں عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے جا“۔ (احمد رضا خان)

”اور کہیے اے میرے پروردگار! مجھے (ہر جگہ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور نکال بھی سچائی کے ساتھ“۔ (محمد حسین نجفی)

(396) مقعد صدق کا ترجمہ

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَہَرٍ.  فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ۔ (القمر: 54، 55)

”نافرمانی سے پرہیز کرنے والے یقینا ً باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب“۔ (سید مودودی)

”سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضور“۔ (احمد رضا خان)

”(یعنی) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس“۔ (محمد جوناگڑھی)

”صداقت و سچائی کے محل میں بڑی عظیم قدرت والے بادشاہ (خدا) کے حضور میں (مقرب ہوں گے)“۔ (محمد حسین نجفی)

”سچی بیٹھک میں نزدیک پادشاہ کے جس کا سب پر قبضہ“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”ایک عمدہ مقام میں قدرت والے بادشاہ کے پاس“۔ (اشرف علی تھانوی)

تفسیر بیضاوی میں ہے: فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ: فی مکان مرضی۔

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: فمقعد صدق، أی مقعد کامل فی جنسہ مرضی للمستقر فیہ فلا یکون فیہ استفزاز ولا زوال. (التحریر والتنویر)

(397) لسان صدق کا ترجمہ

وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۔ (مریم: 50)

”اور ان کو سچی ناموری عطا کی“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے لیے سچی بلند ناموری رکھی“۔ (احمد رضا خان)

یہاں سچی نام وری سے زیادہ مناسب ذکر جمیل ہے، جیسا کہ درج ذیل ترجموں میں ہے:

 ”اور ان کا ذکر جمیل بلند کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے ان کے ذکر جمیل کو بلند درجے کا کر دیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: الصدق: بلوغ کمال نوعہ، کما تقدم آنفا، فلسان الصدق ثناء الخیر والتبجیل۔ (التحریر والتنویر)

وَاجْعَلْ لِی لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِینَ۔ (الشعراء: 84)

”اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر“۔ (سید مودودی)

”اور میری سچی ناموری رکھ پچھلوں میں“۔ (احمد رضا خان)

”اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور پچھلے لوگوں میں میرا ذکر نیک (جاری) کر“۔ (فتح محمد جالندھری)

تفسیر جلالین میں ہے: (وَاجْعَلْ لِی لِسَان صِدْق) ثَنَاء حَسَنًا۔

(جاری)


مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۳)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

ڈاکٹر سید مطیع الرحمن /محمد عمار خان ناصر


مطیع سید: ایک روایت میں آیا ہے کہ کھیتی کا آلہ دیکھ کر آپﷺ نے فرمایاکہ جس گھر میں یہ آجائے، وہ ذلیل ہو جاتاہے۔1

عمارناصر: اس کا ایک خاص تناظر ہے جو بعض دوسری روایتوں میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ صحابہ کی جماعت پر جو جہاد کی ایک ذمہ داری ڈالی گئی تھی، اس میں یہ کھیتی باڑی سے اشتغال خاص طورپر رکاوٹ بن سکتا تھا۔ تبوک میں آپ نے دیکھا کہ نکلنا کتنا دشوار تھا اور منافقین نے تو حیلے بہانے سے جان ہی چھڑا لی۔ اس تناظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ نے یہ کہا کہ میرے بعد جب تک تم جہاد کرتے رہوگے، غلبہ پاؤ گے اور جب تم گایوں کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی میں مشغول ہو جاو گے یعنی جہاد ترک کر دو گے تو عزت اور سرفرازی سے محروم ہو جاو گے۔ تو یہ اس کا اصل تناظر ہے، ایسا نہیں کہ اس میں فی نفسہ کاشت کاری کی کوئی مذمت کی گئی ہے۔

مطیع سید: مزارعت کے بارے میں صحیح بخاری میں دونوں طرح کی روایات ہیں 2۔ 3یہ دونوں باہم مخالف ہونے کے باوجود کیسے صحیح ہو سکتی ہیں؟

عمار ناصر: صحیح ہونے کا مطلب تو محدثین کے نزدیک یہ ہے کہ سند کے اعتبار سے دونوں ثابت ہیں۔ جہاں تک مضمون میں کسی ظاہری ٹکراو کا تعلق ہے تو اس سے روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ وہ سوال پھر روایت کی تشریح اور تطبیق سے متعلق ہو جاتا ہے۔ جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ مزارعت میں فی نفسہ قباحت نہیں ہے۔ ممانعت یا تو بعض خاص شکلوں کی، کی گئی تھی جن میں خرابی پائی جاتی تھی۔ مثلاً‌ یا تو آپﷺ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس طرح کے معاملوں پر بعد میں جھگڑا ہو جاتاہے، اس پہلو سے ممانعت فرمائی، یا یہ کہ آپﷺ نے اس بات کو زیادہ ترجیح دی کہ مالک اگر خود زمین کو کاشت نہیں کرناچاہ رہا تو پھر اپنے کسی بھائی کو دےدے تاکہ وہ کاشت کر لے اور پھر اس سے فصل میں حصہ وصول نہ کرے۔ یہ دو تین توجیہات ہیں۔ البتہ اس میں امام ابو حنیفہ کی رائے مختلف ہے، وہ اس کو فی نفسہ درست نہیں سمجھتے۔

مطیع سید: امام صاحب کس بنیاد پر اس کو فی نفسہ درست نہیں سمجھتے؟

عمار ناصر: ان کا استدلال یہ ہے کہ اس میں چونکہ زمین کی فصل کا ہی ایک حصہ بطور کرایہ طے کیا جاتا ہے اور اس کی مقدار معلوم نہیں تو اس طرح ایک طرح کا غرر کا پہلو آ جاتا ہے۔ بعض روایات میں اس طرح کے معاملے کے لیے ربا کی تعبیر بھی آئی ہے۔

مطیع سید: زمین کرایے پر دینے پر اختلاف ہے۔ صحابی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور امیر معاویہ کے دور تک ہم کرایے پر دیتے رہے ہیں۔ جب حضرت معاویہ نے منع کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے اعتراض کیا کہ اگر چہ وہ اس بات کا برامانیں لیکن یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کرایے پر دیتے آئے ہیں۔4 اس کی ممانعت کیا کسی انتظامی بنیادپر کی گئی؟

عمارناصر: شاید وہ روایتیں جن میں مزارعت سے منع کیا گیاہے، ان کے سامنے وہ ہوں گی۔

مطیع سید: زمین کرایے پر نہیں دی جاسکتی، لیکن سونے چاندی کے عوض دی جاسکتی ہے۔ بات تو ایک ہی بن جاتی ہے۔

عمارناصر: نہیں، کرایے میں تھوڑی سی نوعیت بدل جاتی ہے۔ آ پ زمین کسی کو دیں دیں اور اس کی فصل ہی کا ایک حصہ بطور کرایہ لیں تو اس کو مزارعت کہتے ہیں۔ آپ فصل نہ لیں، بلکہ الگ سے سونا یا چاندی کی صورت میں کرایہ وصول کر لیں تو یہ مزارعت نہیں ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ پہلی صورت میں تو آپ کو پتہ نہیں کہ آپ نے کتنا کرایہ وصول کرنا ہے، یعنی فصل کی مقدار معلوم نہیں جو آپ کو کرایے کے طور پر ملے گی۔ جو فصل ہوگی، اسی میں آپ تناسب طے کر سکتے ہیں۔ جبکہ سونے چاندی کی صورت میں آپ کو ملنے والی رقم پہلے سے متعین ہوتی ہے۔

مطیع سید: جیسے ہمارے ہاں ایک ایکڑ چالیس پچاس ہزار سالانہ کرایے پر دیتے ہیں۔

عمارناصر: جی، اس کے جواز کے سب قائل ہیں۔

مطیع سید: حمیٰ کون سا علاقہ ہےجسے کہا گیاکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے؟5

عمارناصر: حمیٰ کا مطلب ممنوعہ علاقہ ہو تا ہے، یعنی جس کو کسی مقصد کے لیے مخصوص کر لیا جائے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی علاقے کو اس طرح کسی شخص یا کسی مقصد کے لیے مخصوص قرار دینے کا اختیار صرف اللہ اور رسول کو ہے، لوگ اپنے طور پر یہ تخصیص نہیں کر سکتے۔ عرب میں یہ ہوتاتھا کہ یہ حق سر دار کو دیاجاتا تھا کہ وہ کسی خاص جگہ کے متعلق کہہ دیتا تھا کہ یہ میری ہے، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوگا۔ جب ریاست بن گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب یہ حق صرف ریاست کے پاس ہوگا۔ یعنی مقامی سرداروں کو جو حق تھا، وہ اب ریاست کو منتقل ہو گیا ہے۔

مطیع سید: اسے وقف کہہ سکتے ہیں؟

عمارناصر: نہیں، یہ وقف نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے انتظامی طور پر کسی مقصد کے لیے علاقے کو خاص کر دینا۔ اس کو بعد میں بدلا بھی جا سکتا ہے۔ وقف کی نوعیت مستقل ہوتی ہے، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

مطیع سید: خیاِرِ بیع میں حدیث تو اختیار دیتی ہے کہ جب تک مجلس بر خاست نہیں ہوجاتی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے یہ سودا منظور نہیں ہے۔6 لیکن احناف کہتے ہیں کہ جب عقد ہو گیا اور آپ نے کہہ دیا کہ میں نے یہ چیز لے لی توپھر آپ کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

عمارناصر: بعض احناف تو اس اختیار کو بالکل رد کر دیتے ہیں لیکن امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ اصل میں قانون کا بیان نہیں ہے۔ یہ اچھے برتاؤ کی ترغیب ہے۔ یعنی اگر چہ عقد ہو چکا ہے، لیکن شریعت آپ کو ترغیب دیتی ہے کہ اسی مجلس میں اگر دونوں میں کوئی فرق چاہے تو معاملے کو ختم کر سکتا ہے۔

مطیع سید: انہی پہلوؤں سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ بعض اوقات حدیث کے ظاہرپر عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن فقہا خوامخواہ اس کی گہرائی میں جاکر بات کو الجھا دیتے ہیں۔

عمارناصر: جی، بعض جگہ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نے تر اور خشک کھجور کا آپس میں تبادلہ کرنے سے منع فرمایا اور صرف عرایا میں اس کی اجازت دی۔7 یہ عرایا کیا چیز ہے؟

عمارناصر: عرایا کی تشریح میں فقہا کی مختلف تشریحات ہیں۔ امام مالک اس صورت یہ متعین کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے باغ کا کوئی درخت کسی شخص کو بیچا ہو، لیکن پھر اس کے وقت بے وقت باغ میں آ کر پھل اتارنے سے دقت محسوس کرے اور اس سے بچنے کے لیے اسے پیش کش کرے کہ پھل کٹنے تک درخت پر جتنا پھل لگے گا، اس کا اندازہ کر کے تم مجھ سے وصول کر لو اور باغ میں نہ آیا کرو۔ امام مالک کے نزدیک ایسا کرنا درست ہے اور وہ حدیث میں بیان ہونے والی رخصت کو عام قانون سے ایک استثنا قرار دیتے ہیں۔ احناف کی تشریح اس سے کچھ مختلف ہے۔

مطیع سید: احناف کی کیا تشریح ہے؟

عمارناصر: وہ یہ ہے کہ باغ کا مالک اپنے باغ کے کچھ درخت کسی غریب خاندان کو دے دیتا تھا کہ یہ تمھارے استعمال کے لیے ہیں۔ اب پھل تو درخت پر لگا ہوا ہے، اس لیے وہ اپنی ضرورت کے تحت کبھی دن کو کبھی شام کو کھجور اتارنے کے لیے آ جاتے ہیں جس سے مالک کو تنگی ہوتی ہے۔ اس میں آپﷺ نے رخصت دی کہ اگر درخت کا مالک درخت پر لگے ہوئے پھل کے بدلے میں انھیں اندازے سے اتاری ہوئی کھجوریں دے دے تاکہ وہ بار بار نہ آئیں تو یہ درست ہے۔ اس میں چونکہ کوئی کاروباری لین دین نہیں ہو رہا جس میں مقدار کی کمی بیشی سے کسی کا حق مارا جائے، اس لیے اس کا جواز ہے۔

مطیع سید: اگر کوئی آدمی مفلس ہو جائے اور بائع اس کے پاس اپنا مال دیکھے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔8 یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

عمارناصر: اس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی ہے، اس کے ذمے لوگوں کے بہت سے واجبات ہیں، لیکن وہ دیوالیہ ہوگیا۔ اس کا سامان تجارت ڈوب گیا یا بر باد ہوگیا اور وہ دیوالیہ ہوگیا۔ اب حق دار آئیں گے اور جو کچھ بھی اس کے پاس پڑا ہوا ہے، اس میں سے اپنا حق وصول کریں گے۔ ان حق داروں میں سے وہ ایک دکاندار بھی ہے جس نے اس کوکوئی چیز بیچی تھی، لیکن ابھی رقم وصول نہیں کی تھی۔ اگر اس کی و ہ چیز بعینہ ویسے ہی موجود ہے تو حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس پر بیچنے والے کا پہلا حق ہے، وہ اپنی چیز واپس لے سکتا ہے۔ اس چیز کو سارے حق داروں میں مشترک نہیں سمجھا جائے گا۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے پچھنے لگانے والی کی کمائی کو برا کہا، لیکن خود لگوائے تو اس کی اجرت بھی ادا کی بلکہ جو طے ہوئی تھی اس سے زیادہ دی۔9 اس کا کیا مطلب ہے؟

عمارناصر: اصل میں پچھنے لگاتے ہوئے منہ سے خون چوسنے کا جو کام کرنا پڑتاتھا، اس سے گھن محسوس ہوتی ہے۔ اس کو آپﷺ نے طبعاً‌ ناپسند فرمایا کہ یہ کام کرکے کوئی پیسے کمائے، لیکن بہرحال ایک پیشےکے طور پر یہ جائز تو ہے اور اگر آپ نے کسی سے پچھنے لگوائے ہیں تو اس کی اجرت تو دینی ہے۔

مطیع سید: بلی کی تجا رت آپﷺ نے کیوں منع فرمائی؟10 اسی طرح ایک موقع پر کتوں کو مارنے کا حکم بھی دیا۔11 صحابہ نے کہا کہ پھر ہم نے کوئی کتا نہیں چھوڑا سوائے چند ایک کے۔

عمارناصر: پیغمبر کی جو نفیس طبیعت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے کچھ چیزیں اس کو ناگوار گزرتی ہیں۔ اس پہلو سے بعض اوقات وہ لوگوں سے بھی کہہ دیتا ہے کہ ایسا نہ کرو، لیکن اس کو شریعت کا عام حکم نہیں بنا یاجاسکتا۔

مطیع سید: لیکن جو کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا، اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا ان کے کلچر میں یہ با ت عام ہو گئی تھی کہ وہ کتوں کو بہت زیادہ پسند کر نے لگے تھےجیسے آج کل یورپ میں ہے؟

عمارناصر: اس کے تو مختلف پس منظر قیاس کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ اصولی بات یہ ہے کہ یہ حکم کوئی عمومی حکم نہیں ہے کہ آپ ہر جگہ اس کو لاگو کر دیں۔ یعنی انسانوں کے ماحول میں کتے نہ ہوں اور آپ کو نظر نہ آئیں، یہ شریعت کا منشا نہیں ہے۔ کوئی خاص وجہ تھی جس کے تحت آپﷺ نے کتے رکھنے سے منع کیا اور عبوری طور پر ان کو مار دینے کا بھی حکم دیا، پھر اس میں آہستہ آہستہ تخفیف کردی۔ اب وہ وجہ کیاتھی، یہ ہمارے قیاسات ہیں۔ بعض شارحین کہتے ہیں کہ کتے تعداد میں بہت زیادہ ہوگئے تھے۔ تو ایسی صورت میں ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ جب آوارہ کتے زیادہ ہوجاتے ہیں تو ان کو مار دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ جانور کسی وبا کو پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں، جیسے چوہوں سے طاعون پھیل جاتا تھا۔ ممکن ہے، ایسی کوئی بات ہو۔ تو مختلف قیاسات ہو سکتے ہیں۔

مطیع سید: سیاہ کتے کے بارےمیں نبیﷺ نے خصوصی تاکید فرمائی کہ اس کو ضرور قتل کرو، یہ شیطان ہے۔12 سیاہ رنگ کے کتے سے شیطان کا کیا تعلق ہے؟

عمارناصر: بعض جانوروں کے ساتھ جنات اور شیاطین کی خاص مناسبت بھی ہوتی ہے۔ تو اگرا س طرح کا ماحول ہے کہ کتے گھر کے اندر اور باہر ہر جگہ آجا رہے ہیں تو اس تناظر میں آپﷺ نے اگر یہ فرمایا کہ ان کے ساتھ شیاطین کا بھی آنا جانا ہے، اس لیے ان کو خاص طور پر مار دو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔

مطیع سید: حضرت جابر فرماتےہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر سے واپس آ رہا تھا۔ میرا اونٹ تیز نہیں چل رہاتھا۔ آپﷺ نے وہ اونٹ مجھ سے خرید لیا، لیکن مدینہ پہنچ کر وہ مجھے واپس دےد یا اور اس کی قیمت کے پیسے بھی دے دیے، بلکہ کچھ رقم عطا فرمائی جو میں نے برکت اور نشانی کے طور پر سنبھال کر رکھ لی۔ پھر وہ رقم واقعہ حرۃ میں کوئی چھین کر لے گیا۔13 اس سے تو لگتا ہے کہ واقعہ حرہ میں نہ صرف مدینے میں قتل وغارت ہوئی بلکہ لوٹ مار بھی خوب ہوئی کہ عموماً‌ َایسی قیمتی چیزوں کو گھر کےاندر ہی کہیں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔

عمارناصر: جی، ایسا ہی ہوا۔ چونکہ مدینہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ دی تھی، اس لیے ان کو باغی قرار دیا گیا۔ پھر فوج آکر باغیوں کی جان ومال کو بھی مباح کر لیتی ہے اور سب کچھ تہس نہس کر دیتی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر بھی ہوا۔ نمازیں بھی لوگ کئی دن تک چھپ کر اور انفرادی طور پر پڑھتے رہے۔

مطیع سید؛ جانور ادھار لے کر اس کے بدلے میں بعد میں دوسرا جانور دے دیا جائے، اس کا حدیث میں جواز آتا ہے14 لیکن احناف اسے جائزقرا ر نہیں دیتے۔

عمارناصر: اس مضمون کی بعض احادیث بھی ہیں جن کی صحت مختلف فیہ ہے۔ احناف ان پر بنیاد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ احناف یہ نکتہ بھی پیش کر سکتے ہیں کہ جو آپ نے جانور لیا ہے، اس کے بدلے میں بعد میں جو جانور واپس کریں گے، وہ ظاہر ہے مقدار میں بعینہ ویسا تو نہیں ہوگا۔ اس لیے اس میں ربا کا شبہ پیدا ہو جاتا ہے۔

مطیع سید: جو عصر کے بعد کوئی چیز بیچے یا جھوٹی قسم کھائے، اس کے لیے وعید وارد ہوئی ہے۔15 جھوٹی قسم تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہ عصر کے بعد قسم کھانے کا کیا مطلب ہے؟

عمارناصر: بعض دفعہ عملی صورت حال کوسامنے رکھتے ہوئے کوئی بات کہہ دی جاتی ہے، یہ کوئی قید نہیں ہوتی۔ عام طورپر عصرکے بعد لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کام سمیٹیں اور نمٹا کر گھر نکلیں۔ تو دن کے وقت ایمانداری سے کام کر لیا، لیکن عصرکے وقت سامان وغیرہ سمیٹنا ہے تو کچھ غلط بیانی سے کام لے کر یا قسم وغیرہ کھا کر سامان بیچنے کا داعیہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر حدیث میں وعید بیان کی گئی ہے۔


حواشی

  1. صحیح البخاری، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب من ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع او مجاوزۃ الحد الذی امر بہ، رقم الحدیث: 2321، ص: 599
  2. صحیح البخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اكل منہ، رقم الحدیث: 2320، ص: 599
  3.  صحیح البخاری، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب من ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع او مجاوزۃ الحد الذی امر بہ، رقم الحدیث: 2321، ص: 599
  4. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الحرث والمزارعۃ، باب ما كان من اصحاب النبی صلى الله عليہ وسلم يواسی بعضہم بعضا فی الزراعۃ والثمرة، رقم الحدیث: 2343، ص: 604
  5. صحیح البخاری، کتاب الشرب والمساقاۃ، ‌‌باب لا حمى الا لله ولرسولہ صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2370، ص: 611
  6. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب البیوع، باب البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، رقم الحدیث: 2111، ص: 550
  7. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب البیوع، باب تفسير العرايا، رقم الحدیث: 2192، ص: 565
  8. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب فی الاستقراض، باب اذا وجد مالہ عند مفلس، رقم الحدیث: 2402، ص: 618# صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب فی الاستقراض، باب من اجرى امر الامصار على ما يتعارفون بینہم فی البيوع والاجارة، رقم الحدیث: 2210، ص: 568

  9. صحیح مسلم، كتاب المساقاۃ، باب تحريم ثمن الكلب وحلوان الكاہن ومہر البغی والنہی عن بيع السنور، رقم الحدیث: 1569، جلد: 3، ص: 1199
  10. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب بدء الخلق، ‌‌باب اذا وقع الذباب فی شراب احدكم فليغمسہ، رقم الحدیث: 3323، ص: 845
  11. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الصلاۃ، باب قدر ما يستر المصلی، رقم الحدیث: 510، جلد: 1، ص: 365
  12. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب المساقاۃ، باب بيع البعير واستثناء ركوبہ، رقم الحدیث: 1599، جلد: 3، ص: 1222
  13. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب المساقاۃ، باب من استلف شيئا فقضى خيرا منہ، رقم الحدیث: 1600، جلد: 3، ص: 1224
  14. صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب الشرب والمساقاۃ، ‌‌باب من رأى ان صاحب الحوض والقربۃ احق بمائہ، رقم الحدیث: 2369، ص: 610


(جاری)


صنف وجنس اور اس میں تغیر (۲)

مولانا مشرف بيگ اشرف

جنس کی تعیین کا پیمانہ: علم جینیات کی روشنی میں

ہماری موجود ہ گفتگو میں کلیدی کردار اس بحث کا ہے کہ کسی جنس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ظاہر ہے کہ ہم یہاں شرعی نقطہ نگاہ سے بات کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں کتاب وسنت اور فقہا کے اجتہاد کی روشنی میں چیزوں کو دیکھنا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں موجودہ انسانی علم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنس کے تعین کے حوالے سےچار  امکانات ہیں:

۱: جنسی اعضا ووظائف،

۲: کروموسومز اور

۳: ہارمونز

۴: نفسیاتی کیفیت

یہاں پہلے تینوں امور کا تعلق انسان کی عضویاتی ووظائفی جہت (فیزیولوجی اورآنٹولوجی)سے ہے اور آخری کا تعلق نفسیاتی جہت سے۔

سر دست ہم پہلے تین امور پر غور کریں گے!

اس وقت انسان کی جنس وظاہری اعضا سے متعلق معیاری علم جینیات کا ہے۔ اس علم کے مطابق انسان خلیوں سے بنا ہوا ہے اور ہر خلیے میں کروموسومز ہیں جو کسی بھی انسان کے جسمانی خصائص کی ہدایات کے حامل ہیں۔

ہر انسانی خلیے میں کروموسومز کے تئیس جوڑے ہوتے ہیں، یعنی چھیالیس کروموسومز۔ ان میں سے  پہلے بائیس جوڑے عضوی غیر جنسی کروموسومز کہلاتے ہیں. انہیں ایک سے بائیس تک نمبر دیے جاتے ہیں۔ جبکہ تئیسواں جوڑا انسانی جنس سے متعلق ہدایت کا حامل ہے ۔ عام طور سے، عورت  میں یہ جوڑا ایکس ایکس (XX) سے مل کر بنتا ہے جبکہ مرد میں ایکس وائے (XY) سے۔ عورت کے بیضے سے ہمیشہ ایکس آتا ہے جبکہ مرد کی منی سے ایکس بھی آ سکتا ہے اور وائے بھی۔ اس لیے، کہا جاتا ہے کہ جنسی ساخت  کا تعین باپ کی طرف سے ہوتا ہے۔

 یہ کروموسومز دراصل ایک دھاگے کی ہیئت میں ہوتے ہیں جن میں  انسان کا ڈی این اےگندھا ہوا ہوتا ہے  ۔ جینز پر مبنی نظریے کے مطابق انسان کے جسمانی اعضا دراصل اسی "ڈی این کے "کے مطابق تشکیل پاتے اور وظائف ادا کرتے  ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے دو اصطلاحات پر غور کرتے ہیں:

جینوٹائپ(Genotype): جینز کا یہ سارا مجموعہ جو انسان کی ساخت سے متعلق ہدایات کا حامل ہے، اسے جینوٹائپ یا جینوم کہتے ہیں۔

فینوٹائپ(Phenotype): اس کے برعکس وہ ساخت واعضا جو اس جینوم سے وجود میں آتی ہے اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔یہاں لفظ "فینو" دراصل یونانی لفظ ہے جس کا مطلب چمکنا، آشکار ہونا، ظاہر ہونا ہے۔اور اسی لیے جینز کے نتیجے میں جس طرح انسان کی عضویاتی تشکیل ہوتی ہے اور اس کے اعضا نمو دار ہوتے ہیں اور عمل کرتے ہیں، اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔چناچہ کسی انسان کی آنکھ کا رنگ جو ہمیں نظر آتا ہے وہ حقیقت میں فینوٹائپ ہے جبکہ اس کے متوازی ہدایت جو انسان کے جینز میں موجود ہے وہ جینوٹائپ ہے۔یہ انسانوں کا معاملہ ہے جبکہ تتلی وغیرہ بعض پرندو ں میں  اور چھپکلی (ریپٹائل)کی نسل سے وابستہ بعض اقسام میں معاملہ برعکس ہے۔ نر میں یکساں جنسی کروموسومز ہوتے ہیں جنہیں زیڈ زیڈ (ZZ) سے ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ مادہ میں مختلف ہوتے ہیں جنہیں زیڈ ڈبلیو (ZW) سے ظاہر کیا جاتاہے۔

یونانی زبان میں گٹھلی،خلیے کو  کیرنیو (karyon ) کہتے ہیں۔ وہی سے انسان کے کروموسومز کی مکمل تصویر سازی کو Karyotype کہا جاتا ہے۔

بہر حال، اس نظریے کے مطابق انسان کے فینوٹائپ  اور جینوٹائپ میں باہمی رشتہ ہے (وہ سببیت کا ہے یا محض زمانی ہم آہنگی  کا یہ فلسفہ سائنس کا موضوع ہے)۔ اس لیے، انسان کی عضویاتی تشکیل، اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی یا بعض لوگوں میں پائے جانے والی استثنائی حالتوں (سنڈروم) کی تفسیر جینوٹائپ سے ہو گی۔اور خاص طور پر، جنسی کروموسوم سے انسانی اعضا میں  تفاوت رونما ہوتا ہے(Sex-linked)

جنیز کے علم میں جنس (سیکس) دراصل جنسی  فینوٹائپ کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چناچہ مشہورجینیات کے استاد " بینجمن اے پیئرس "  اپنے کتاب  " Genetics: A Conceptual Approach"میں رقم طراز ہیں:

The term sex refers to sexual phenotype. Most organisms have two sexual phenotypes: male and female. The fundamental difference between males and females is gamete size: males produce small gametes, and females produce relatively large gametes Sex: Sexual phenotype: male or female.
….
We define the sex of an individual organism in reference to its phenotype

مفہوم: جنس   کی اصطلاح جنسی  جسمانی خصائص  اور ان کے وظائف کے  لیے برتی جاتی ہے۔ اکثر زندہ کائنات میں دو  طرح کے خصائص ہوتے ہیں: نر ومادہ۔ نرومادہ میں بنیادی فرق جرثومی خلیے کے حجم کا ہے: نر میں یہ چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ  مادہ میں قدرے بڑے۔

جنس =جنسی ظاہری ساخت  ووظیفہ(فینو ٹائپ) = نر + مادہ

ہم(علم جینیات میں) کسی جاندار کی جنس اس کے ظاہری ساخت واعضا ووظائف سےطے کرتے ہیں۔

بینجمن مزید واضح کرتے ہیں کہ جنس کی اصطلاح اس فن میں انسانی ساخت (Anatomy) کے لیے کہی جاتی ہے۔ چناچہ عام طور سے، مردانہ ساخت کے پیچھے ایکس وائے(XY) ہوتے ہیں اور زنانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس(XX)۔ لیکن بعض شاذ ونادر حالات میں مردانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے، ایسا جاندار جینیاتی طور پر اگرچہ "مادہ "ہے لیکن ساخت کے لحاظ سے "نر" ۔تاہم ان شاذ ونادر حالات میں بھی (ایکس ایکس نر)وائے کروموسومز کا ایک ذرہ کسی دوسرے کروموسومز سے نتھی ہوتا ہے۔بینجمن کی سنیں:

For instance, the cells of human females normally have two X chromosomes, and the cells of males have one X chromosome and one Y chromosome. A few rare individuals have male anatomy although their cells each contain two X chromosomes. Even though these people are genetically female, we refer to them as male because their sexual phenotype is male. (As we see later in the chapter, these XX males usually have a small piece of the Y chromosome that is attached to another chromosome.)

مفہوم: مثلا انسانی مادہ کے خلیے میں عام طور سے دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں جبکہ نر میں ایک ایکس اور ایک وائے۔ کچھ شاذ ونادر صورتوں میں انسان کی ساخت نر کی ہوتی ہے لیکن اس کے خلیوں میں دونوں کروموسومز ایکس ہی ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ جینیاتی طور سے مادہ ہیں، لیکن ہم انہیں نر ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ ان کی جنسی ساخت واعضا ووظائف  نر کے ہیں۔(آگے اسی باب میں ہم دیکھیں گے  کہ ان "ایکس ایکس" نر میں عام طور سے وائے کروموسومز کا ایک ٹکڑا کسی دوسرے کروموسوم سےلٹکا ہوا ہوتا ہے)۔

نیز  مصنف کے مطابق  ایسا بہر کیف ہوتا ہے کہ انسانی جینیاتی کروموسومز میں وائے نہ ہو، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس میں ایکس نہ ہو۔ اور ان کا کہنا ہے کہ غالبا اس طرح کے جنین گر جاتے ہیں۔

اس کے بعد، مصنف جنس اور صنف کا فرق واضح کرتے ہیں کہ جنس دراصل کسی شخص  کی ساختیاتی وعضویاتی   ووظائفی جہت ہے جبکہ صنف کسی انسان کی سماجی جہت کی عکاس ہے۔  مثلا ایک انسان ساختیاتی وعضویاتی طور سے مرد ہے لیکن وہ ساڑھی پہننا ، مہندی لگانا، سینڈل پہننا پسند کرتا ہے۔ان کی دوبارہ سنتے ہیں:

Gender is not the same as sex. Biological sex refers to the anatomical and physiological phenotype of an individual. Gender is a category assigned by the individual or others based on behavior and cultural practices. One’s gender need not coincide with one’s biological sex.

مفہوم: صنف جنس سے الگ ہے۔ حیاتیاتی جنس کسی جاندار فرد کی ساختیاتی ووظائفی جہت کی طرف اشارہ ہے۔ کسی فرد ووغیرہ کی طرف سے رویے اور سماجی مظاہر  کی بنیاد پر جو عنوان اختیار کیا جاتا ہے، اسے صنف کہتے ہیں۔ ایک جاندار کی صنف کا اس کی حیاتیاتی جنس سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنسی کروموسومز انسانی جنس کی تشکیل کے ذمے دار ہیں تاہم غیر جنسی کروموسومز بھی اس میں ذیلی کردار ادا کرتے ہیں۔اسی طرح، انسان میں جنس کی تشکیل کے لیے جو جین ذمے دار ہے اسے "ایس آر وائے"(SRY) کہا جاتا ہے جو عام طور سے، وائے کروموسوم پر پایا جاتا ہے۔اسی لیے، انسانی جنس کی تشکیل میں وائے کروموسوم کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور جینیاتی استثنائی مظاہر(سنڈرومز) سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ہم ذیل میں ان مظاہر کو سرسری طور سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ ساری تفصیل بینجمن سے لی گئی ہے:

ٹرنر استثنائی مظہر (Turner Syndrome):

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں) صرف ایک ایکس ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایکس غیر موجود ہوتا ہے۔ اسے، "ایکس او"(XO)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔نیز مندرجہ ذیل مخفف بھی اس کے لیے استعمال ہوتے ہیں:

45, X

45, XO

 "او" سے مقصود صرف کروموسوم کی عدم موجودگی کا اظہار ہے۔اس کا نام ڈاکٹر ہنری ٹرنر کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے ۱۹۳۸ ءمیں پہلی مرتبہ طبی ادب میں اس کا تذکرہ کیا۔یہ مظہر تین ہزار میں سے ایک انسانی مادہ میں پایا جاتا ہے۔(واضح رہے کہ یہ مقدار دراصل ان لوگوں کے لحاظ سے ہے جن کا ریکارڈ محفوظ ہوا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ہر بندے کی یہ تفصیل محفوظ ہونا ضروری نہیں)۔ان کا قد عام طور سے، میانہ،بال پیشانی کی طرف معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عام طور سے بانجھ ہوتی ہیں تاہم عقلی صلاحیتیں ان میں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔اسی مظہر کے تحت، بعض حالات ایسے بھی پائے گئے ہیں جن میں انسانی مادہ کے "کچھ "خلیے معمول کے مطابق ایکس ایکس کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال، جہاں مختلف خلیوں کے جنسی کروموسومز میں  اختلاف ہو"جینیاتی پچی کاری" (Genetic mosaicism)کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔

کلائن فیلٹر  استثنائی مظہر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک سے زیادہ ایکس کروموسوم ہوتا ہے۔ ہزار لڑکوں میں سے ایک میں یہ مظہر پایا جاتاہے۔ اس کا نام مشہور امریکی ماہر ہارمونیات پر ہے جنہوں نے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں اسے دریافت کیا۔ اسے (XXY 47)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔تاہم یہ اس کی ایک مشہور صورت ہے۔ ورنہ  بعض حالات میں تین بلکہ چار تک ایکس بھی ہوتی ہیں۔ نیز بعض اوقات دو وائے بھی پائے جاتے ہیں۔ انہیں ذیل میں ظاہر کیا جا رہا ہے:

XXXY, XXXXY, XXYY

یہ عام طورسے بانجھ ، لمبوتڑے ، ان کے خصیے چھوٹے  جبکہ چہرے اور زیر ناف بال  کم ہوتے ہیں۔ان کی عقلی صلاحیتیں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔

تین ایکس  یا متعدد ایکس استثنائی مظہر:

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں)  تین ایکس کروموسومز ہوتے ہیں۔اس کے لیے کوڈ  " 47XXX" استعمال ہوتا ہے۔  ان میں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا۔بس یہ ذرا چھریرے بدن کی حامل ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ بانجھ بھی ہوتی ہیں لیکن اکثر کو حیض معمول سے آتا ہے۔اسی طرح، ذہنی صلاحیتیں بھی معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔ تاہم انتہائی شاذ ونادر حالات میں بعض خواتین میں تین سے بھی زیادہ ایکس ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اسے "متعدد ایکس" کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ایسی عورتیں ذہنی طور سے معذور اور ان میں دیگر مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ایکس جوں جوں تین سے زیادہ ہوتے ہیں، ذہنی وجسمانی مسائل ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔

ایکس وائے وائے نر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک اضافی وائے کروموسوم ہوتا ہے۔یہ ہزار میں سے ایک مرد میں ہوتا ہے۔ان کا قد قدرے لمبا ہوتا ہے۔ تاہم ان میں کوئی اور مسئلہ نہیں۔ بعض تحقیقات کا اس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سیکھنے کی صلاحیت   ذرا کمزور ہوتی ہے۔

ایکس ایکس نر:

طبی تاریخ میں ایک دلچسپ صورت حال یہ پیش آئی کہ ایک مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان میں ایکس ایکس کروموسومز ہیں۔ یہ ماہرین کے لیے ایک معمہ بنا رہا۔کئی عرصے کی تحقیق کے بعد، یہ آشکار ہوا کہ ان لوگوں میں وائے کروموسومز کا ذرہ ایک دوسرے کروموسوم سے ٹنگا ہوا ہوتاہے۔اور اسی تحقیق سے جینز سے متعلق ہمارا تصور مزید نکھارا کہ "نر" ہونے میں بنیادی کردار پورے وائے کروموسوم کا نہیں بلکہ اس کروموسوم میں ایک "جین "کا  ہے جو اگر مثلا وائے کروموسوم میں بھی پائی جائے، تو ایک "نر" کو جنم دیتی ہے۔

جنسی کروموسومز کی فعالیت وکردار:

اس ساری گفتگو سے ہمیں ،مندرجہ ذیل امور کا علم ہوتا ہے:

۱: انسانی نشو ونما کے لیے ایک ایکس ضروری ہے۔ اس لیے، یہ مرد وزن دونوں کا مشترک اثاثہ ہے۔

۲: وہ جین جو مرد کو تشکیل دیتا ہے اس کاٹھکانا وائے کروموسوم ہے۔

۳: اگر ایک بھی وائے (Y)ہو، تو اس سے ایک انسانی نر کی ساخت واعضا وجود میں آتے ہیں۔

۴: وائے (Y)کی عدم موجودگی، انسانی مادی کی ساخت واعضا کو ظہور پذیر کرتی ہے۔

۵: انسان کے تناسل کی صلاحیت سے متعلق جینز  ایکس اور وائے دونوں پر پائی جاتی ہیں۔ مادہ کو عام طور سے، دو ایکس کروموسومز درکار ہیں قرار حمل کے لیے۔

۵: ایکس کروموسومز جوں جوں بڑھتے ہیں، ذہنی  اور جسمانی نقائص پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔

قرار حمل سے "جنس" بننے تک:

قرار حمل کے بعد، انسانی جنین میں جب تناسلی غدے بنتے ہیں، وہ نر یا مادہ کے ساتھ خاص نہیں ہوتے اور ان میں دونوں میں سے کسی ایک کی طرف جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس طرح، اس میں نر ومادہ دنوں کی نالیاں وجود میں آتی ہیں۔تقریبا چھ ماہ کے بعد، وائے کروموسوم میں سویا ہوا ایک "جین" جاگتا ہے اور ان غدوں کو خصیوں میں بدلنے کا عمل شروع کرتا ہے۔اور ان خصیوں سے دو قسم کے ہارمونز نکلتے ہیں  جو مادہ  والی نالی کو ختم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ  جنین "نر" بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر یہ "جین" موجود ہی نہ ہو، تو پھر مادہ وجود میں آتی ہے۔اسی اہم ترین جین کو "ایس آر وائے جین" (SRY) کہتے ہیں جیسا کہ  اس  کی طرف اشارہ کلام کے آغاز میں ہوا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانی جنس کے تعین میں اس کے علاوہ کوئی دوسری جین کردار ادا نہیں کرتی۔

اس پوری گفتگو سے جو بات واضح ہوئی ہے وہ یہ   کہ:

۱:جینیاتی علم میں انسانی جنس کے تعین میں اس کی ساخت واعضا  ووظائف (Phenotypical Aspects) بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔

۲: نیز  انسانی فینوٹائپ ان کے جینو ٹائپ پرفیصل وحکم ہے۔

۳: تاہم اگرچہ ایک عام مرد میں ایکس وائے اور ایک عام عورت میں ایکس ایکس جنسی کروموسومز ہوتے ہیں، لیکن بعض حالات میں اس کے برعکس بھی ہوتا ہے جیساکہ ہم نے جینیاتی استثنائی مظاہر (سینڈرومز) میں ملاحظہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ نر یا مادہ ہونے کا فیصلہ ظاہری اعضا نے کیا ۔  "ایکس ایکس نر" کی صورت میں ہم نے دیکھا کہ بعض اوقات ظاہری خصائص (فینوٹائپ) اگرچہ جینوٹائپ سے ہم آہنگ نہیں دکھتے، مگر جینوم میں کچھ ایسا موجود ہوتا ہے جو اس عضو کی تشکیل کی تفسیر کرتا ہے اگرچہ ماہرین کو اس کی دریافت میں وقت لگے۔ اس لیے، صرف جینیاتی ڈھانچہ دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی نر ہے یا مادہ۔ بلکہ اصل فیصلہ اعضائے تناسل سے کیا جائے گا۔اور یہی وہی امر ہےجس کی بنیاد پر صدیوں سے لوگ نومولود کی جنس کا فیصلہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی اس کا فیصلہ اسی پرہوتا ہے کیونکہ انسان وہی ہے، اس کی ساخت وہی ہے۔ اس میں کوئی ارتقا، کم از کم، معلوم تاریخ میں نہیں ہوا۔

اس آخری نقطے کے لیے ہم  دومثالیں پیش کر کے بات ختم کریں گے۔

۱: انڈیپنڈنٹ میں ایک خبر چھپی جس کی سرخی تھی: "جینیاتی طور سے پچانوے فیصد مرد، عورت نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔"

ان خاتون کی صورت حال یہ تھی کہ ان میں پچانوے فیصد مردانہ کروموسومز تھے۔لیکن ان کی ساخت واعضا بالکل زنانہ تھے۔ خاتون نے ایک مرد سے شادی بھی کی۔ان میں بیضہ دان(ovary) تھا، نہ کبھی حیض آیا۔

اطبا نےاس کے رحم کا علاج معالجہ کر کے  کسی دوسری عوت کا بیضۃ  ان میں رکھا۔ خاتوں کے ہاں، جڑواں پیدا ہوئے۔اور اطبا کو عمل جراحی کرنا پڑا۔

۲: اسی طرح، سپین کی ایک خاتون ماہر ریاضیات جو اولمپکس میں بھی شریک رہیں، اپنے آپ کو عورت سمجھتی تھیں، ساخت واعضا سب کچھ زنانہ ۔ لیکن ایک مرتبہ ایک کھیل میں شرکت کے لیے جب ان کی جانچ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان میں ایکس وائے کروموسومز ہیں۔اس پر انہیں نا اہل کر دیا گیا کہ  عورت نہیں ہیں ۔اس پر معاشرے میں انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کہ ایک مرد عورت کا روپ دھار کر اس کھیل میں شریک ہوا۔ تاہم خاتون نے مقدمہ کیا کہ صرف کروموسومز سے جنس کا تعین نہیں ہوتا اور وہ مقدمہ جیت گئیں۔ یہ مثال، بعض نسوی تحریک  والے جنس کی تعیین  کے لیے کوئی واقعی پیمانہ نہ ہونے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ سٹینفرڈ کے انسائیکلوپیڈا میں، "جنس وصنف سے متعلق نسوی تحریک کے نقطہ نظر" پر  موجود مقالے میں اس  پر موجود تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

To illustrate further the idea-construction of sex, consider the case of the athlete Maria Patiño. Patiño has female genitalia, has always considered herself to be female and was considered so by others. However, she was discovered to have XY chromosomes and was barred from competing in women's sports (Fausto-Sterling 2000b, 1–3). Patiño's genitalia were at odds with her chromosomes and the latter were taken to determine her sex. Patiño successfully fought to be recognised as a female athlete arguing that her chromosomes alone were not sufficient to not make her female.

مفہوم: جنس کی تصور سازی کیسے ہوتی ہے، اس کی مزید وضاحت کے لیے ماریہ  کی صورت حال ملاحظہ کیجیے جو ایک ایتھلیٹ تھی۔ ماریہ کے اعضائے تناسل زنانہ تھے، اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو مادہ سمجھا۔ اسی طرح دوسروں نے بھی۔تاہم بعد میں انکشاف ہوا کہ اس  کے خلیوں میں ایکس وائے کروموسومز ہیں اور اسے زنانہ کھیلوں میں شرکت سے روک دیا گیا۔ماریہ کے کروموسومز اس کے اعضائے تناسل سے ہم آہنگ نہ تھے اور بنیاد کروموسومز کو بنایا گیا۔پر ماریہ نے اس پابندی کے خلاف مقدمہ اس بنیاد پر جیتا کہ کروموسومز اسے "مادہ" بنانے کے لیے کافی نہیں۔

"سویر ا استثنائی مظہر" (Swyer syndrome):

اسے دراصل " سویر ااستثنائی مظہر "کہتے ہیں۔ابھی ہم نے اوپر دیکھا کہ وائے کروموسومز میں "ایس  آر وائے"جین" موجود ہے جس کا ہونا یا نہ ہونا مرد یا زن ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔چناچہ اس طرح کی صورتوں کا ماہرین نے تجزیہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ پندرہ فیصد لوگوں میں وہ جین موجود تھا تاہم ان کا وائے کروموسوم بالکل ناکارہ تھا جس کہ وجہ سے صرف "ایکس" نے اپنا کام کیا ، وائے نے اپنا کردار ادا  نہیں کیا اور اس طرح، جنین "مادہ" بن گیا۔تاہم یہ بات اوپر گزری کہ اگرچہ جین میں "ایس آر وائے" کا مرکزی کردار ہے لیکن اس میں دوسرے جینز کا بھی حصہ ہے۔ اس لیے، اس مادہ میں نقائص رہ جاتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جینز پر مبنی نظریے کی روشنی میں ، یہاں بھی فیصلہ ظاہری اعضا پر ہوا اور تحقیق سے اندازہ ہوا کہ اگرچہ مردانہ کروموسومز موجود ہیں لیکن کالعدم ہیں۔ اور ویسے بھی جب نظریے نے یہ تسلیم کر لیا کہ ظاہری ساخت واعضا  ووظائف (فینو ٹائپ) دراصل جینوٹائپ کے مظاہر ہیں، تو اس کے بعد، اگر کوئی ایسی صورت آتی ہے جس میں یہ ہم آہنگی محسوس نہ ہو، تو آیا نظریہ بدلے گا یا اس کی تفسیر اس چوکھٹے میں ہوگی اور یہ علم ومنہج کے بنیادی مسلمات میں سے ہے۔

اس ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ جینیاتی طور سے بھی اصل بنیاد انسان کے اعضائے تناسل ہیں اور جنس کا فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہو گا۔ اور اگر کسی صورت میں ایک انسان کے جینوم کا ڈھانچہ ایسا آتا ہے جو اس کے ظاہری اعضا وساخت سے بے جوڑ ہو،  تو فیصلہ کن کردار ظاہری اعضا وساخت ہی  ادا کریں گے اور بچے کو نر، مادہ یا خنثی اسی کی بنیاد پرقرار دیا جائے گا۔

اب ہم ، تعیین جنس کے پہلے تین امکانات کی طرف آتے ہیں۔

۱: ظاہری اعضا اور کروموسومز: اس پوری گفتگو میں واضح ہوا کہ انسانی ساخت واعضا ووظائف(فینوٹائپ) اور جینوٹائپ دراصل ایک تصویر کے دو  رخ ہیں۔اسی لیے، ہم نے انہیں اکھٹا ایک عنوان کے تحت کر دیا۔ جینیاتی نظریے کے مطابق ، ہر ظاہری خصوصیت کسی جینیاتی  ہدایت کی عکاس ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ کسی خاص حالت میں  ہم اسے دریافت نہ کر سکیں۔ تاہم کسی انسان میں صرف نر یا صرف مادے کے اعضائے تناسل کا وجود میں آجانا ہی اس بات کی کافی علامت ہے کہ وہ نریا مادہ ہے اگرچہ ہمیں اس کے جینوم میں کوئی استثنائی کیفیت نظر آئے۔اور اگر کسی میں دونوں اعضا کی افرائش ہو  یا ابہام ہو، تو وہ خنثی ہے۔

۲: ہارمونز: اسی گفتگو سے، یہ بھی واضح ہو گیا کہ ہارمونز خود ایک ثانوی امر ہے۔ جینوٹائپ سے فینوٹائپ کی تشکیل میں یہ ایک کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

اس لیے، جینیات کی روشنی میں بھی انسان کی جنس کا تعین اور اس کے خنثی ہونے یا نہ ہونے کی فیصلہ اس کے ظاہری جنسی اعضا اور ان کے وظائف سے وابستہ ہے۔اور اس فن کی علمیت نے بھی کچھ ایسا فراہم نہیں کیا جس کی بنیاد پر جنس کی تعیین کا روایتی پیمانہ متاثر ہو۔بس اس نے انسان  کے ظاہری اعضا ووظائف کے لیے ایک جدید تفسیر فراہم کی۔

اس کے بعد، ہم نفسیات کی بنیاد پر جنس وصنف  کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

 جنس کی تعیین : انسانی نفسیات کی روشنی میں

دراصل یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہمارے اس ماحول میں بحث ہو رہی ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسانی جنس ، صنف ، جنسی رجحان اور سماجی مظاہر، وسماجی کردار کی، جنہیں روایتی تہذیب نے ایک  ڈور سے باندھ دیا ہے ، گرہ کھول دی جائے۔اس لیے، ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ  جینز، ظاہری اعضا وغیرہ میں سے  ہر ایک پر کچھ سوال اٹھا کر انہیں غیر معتبر شمار کیا جائے اور اس حوالے سے وہ مختلف شاذ واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ اب جب ان سے یہ سوال ہوتا کہ یہ سب معیارات کالعد م ٹھہرے ،تو جنس آخر طے کیسے ہو گی؟

ان کا دو ٹوک جواب یہ ہوتا ہے کہ جنس  کے طے کرنے سے مقصود جنسی رجحان (Sexual Orientation)، سماجی مظاہر  (Gender Expression)اور سماجی کردار (Gender Role)کو طے کرنا ہے کہ مثلا ایک مرد اپنا جنسی تعلق کس سے قائم کرنا پسند کرتا ہے(جنسی رجحان)، ایک مرد اپنے لیے زنانہ نام پسند کرتا ہے یا مردانہ (سماجی مظہر)، ایک عورت گھر یلو خاتون بننا پسند کرتی ہیں یا  کسی ادارے میں نوکری(سماجی کردار)۔ ان سب امور میں اصل انسان کا اپنا رجحان ہے۔ وہ جس طرف جانا چاہے جائے۔ اس کے بعد، تم کسی کی جنس کو جو بھی سمجھو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔اور یہی اندر کے احساس پر مبنی تصور ہے جسے "صنفی شناخت" (Gender Identity)  کہا جاتاہے۔اسی سے "متبدل صنف " کا تصور وابستہ ہے  جسے ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے (Transgender)۔ یعنی ایک انسان کے ساتھ اس کی پیدائش سے جو صنف جوڑ دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں، بلکہ اپنے آپ کو دوسری صنف سے وابستہ سمجھتا ہے۔

متبدل صنف (ٹرانس جینڈر) اور "شناخت":

لگے ہاتھ، ہم صنفی شناخت پر بھی تفصیل سے گفتگو کر لیں۔

شناخت دراصل انسان  کا اپنی ذات کے بارے میں تصورو خیال ہے کہ اس کا کس صنف سے تعلق ہے، وہ مرد ہے یا عورت، قطع نظر اس سے کہ وہ اپنے اعضا کے لحاظ سے نر ہے یا مادہ۔جدید مغربی ادییات  میں شناخت کا جنسی رجحان یا سماجی مظاہر سے کوئی لازمی تعلق نہیں ۔ یہ بس کسی انسان کے احساس کا نام ہے۔اس لیے،عمرانیات میں شناخت کو باقی دو سے الگ رکھا جاتا ہے۔

یہی سے علم عمرانیات کے شعبہ جنسیات وصنفیات میں  "متبدل صنف " کا تصور ہے جسے Transgender کہا جاتا ہے۔ یہاں تبدیلی سے مقصود صرف یہ ہے کہ کسی انسان کو بوقت پیدائش میں جو صنف دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں ۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وہ  اپنے جنسی رجحانات بھی بدل دے۔ اسی طرح، یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سماجی مظاہر کو بدلے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ ایسا انسان اپنا لباس تبدیل کر لے۔ مثلا مرد زنانہ لباس پہننے لگے۔ (لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری  ہے ہر لباس تبدیل کرنے والا “متغیر صنف” نہیں ہوتا۔ ایک مرد اپنے آپ کو مرد سمجھتے ہوئے بھی زنانہ لباس اختیارکر سکتا ہے۔  بس اہم بات اس  "دستور "میں  یہ ہے کہ کسی  کے جنسی رجحان  اور صنفی شناخت کے حوالے سے کوئی مفروضہ نہیں قائم کیا جا سکتا ۔ یہ ہر انسان کا ذاتی حق ہے اور وہ اسے کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔)

 چنانچہ   مندرجہ ذیل مثال پر غور کیجیے:

۱: ٹونی پیدائشی طور سے نر ہے۔ لیکن جب وہ بالغ ہوا تو اسے یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے۔ لیکن اس کا جنسی جھکاو  بھی عورتوں ہی کی طرف ہے۔ اسی طرح، وہ اپنا نام بھی نہیں بدلتا، یہ مطالبہ بھی نہیں کرتا کہ گفتگو میں اس کے لیے تانیث کی ضمائر برتی جائیں وغیرہ۔ بس اس کے اندر کا احساس ہے۔

۲: نومی پیدائشی طور سے مرد ہے۔ اسے بھی یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ  عورت ہے۔ اس کا بھی جنسی جھکاو عورتوں ہی کی طرف رہتا ہے۔ تاہم  وہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ سماجی مظاہر میں اس کے ساتھ عورتوں کا سلوک کیا جائے۔ وہ اپنا نام نومی سے عینی کردیتا ہے۔ اپنے لیے، مونث کی ضمائر استعمال کروانا پسند کرتا ہے۔اب روایتی نقطہ نظر سے یہ مخالف جنس رجحان کا حامل ہے (Heterosexual)  لیکن اپنے احساس کے تحت وہ موافق جنس رجحان (Homosexual) والا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ خنثی (Intersex)اور متغیر جنس (Transgender) متبادل اصطلاحات نہیں۔

خنثی اور متغیر صنف میں فرق:

خنثی سے مقصودطبی اصطلاح میں  وہ لوگ ہیں جن کے جنسی خصائص، نظام تولید، ہورمونز، یا کروموسومز نہ خالص مردانہ ہوتے ہیں نہ خالص زنانہ، روایتی تناظر میں۔[روایتی تناظر اس وجہ سے کہا کہ ٹرانس سے متعلقات تحریکات اسے ہی ختم کرنا چاہتی ہیں کہ کسی کو معیار بنا کر دوسرے کو اس پر پرکھا جائے۔]

چنانچہ کئی متغیر جنس لوگ ایسے ہیں جو خنثی نہیں ہوتے۔ اور کئی خنثی اپنے آپ کو  متغیر جنس (Transgender)شمار نہیں کرتے۔اسی طرح، اسی حوالے سے بھی اختلاف ہے کہ آیا خنثی کو ایل جی بی ٹی (LGBT)  میں شمولیت کرنی چاہیے یا نہیں۔چناچہ عمرانیات کی ایک مشہور نصابی کتاب میں آتا ہے جسے  اوپن سٹیک نے متعدد اساتذہ  فن کے اشتراک سے شائع کیا:

Intersex and transgender are not interchangeable terms; many transgender people have no intersex traits, and many intersex people do not consider themselves transgender. Some intersex people believe that intersex people should be included within the LGBTQ community, while others do not.

ترجمہ:خنثی اور متبدل صنف دو الگ الگ اصطلاحات ہیں، ہر موقع پر ، ایک دوسرے کی جگی نہیں لے سکتی۔ کئی ٹرانس لوگوں میں خنثی کی خصوصیات نہیں ہوتیں اور کئی خنثی اپنے آپ کو ٹرانس نہیں گردانتے۔ نیز خنثی برادری کے کچھ لوگوں کاخیا ل ہے کہ انہیں   ایل جی بی ٹی کیو(LGBTQ) میں شامل کیا جانا چاہیے جبکہ دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔۱۲

ایل جی بی ٹی کیو دراصل جنسی رجحانات (Sexual Orientation)کے حوالے سے استعمال کیا جانے والا مخفف ہے جو مخصوص جنسی رجحانات کے حامل لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے استعمال کرتے ہیں:

۱: ایل(L): وہ عورت  جو عورت کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۲: جی(G): وہ مرد جو مرد کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۳: بی (B): وہ انسان جو دونوں جنسوں کی طرف جھکاو رکھے

۴: ٹی(T): متبدل صنف یعنی ٹرانس جینڈر

۵: کیو (Q): یہ ایک عام لفظ ہے جس سے مقصود "سماج کے مارےہوئے "  ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے  جو روایتی صنفی وجنسی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں تاہم وہ اوپر کے چاروں میں بھی نہیں سماتے۔ اس لیے، اس سے اشارہ عجیب وغریب (Queer)کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور "پوچھنے" (Questioning) کی طرف بھی کہ خود سے کچھ فرض کرنے کے بجائے پوچھ لیا جائے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں جنسی شناخت کے حوالے سے آتا ہے:

gender identity, an individual’s self-conception as a man or woman or as a boy or girl or as some combination of man/boy and woman/girl or as someone fluctuating between man/boy and woman/girl or as someone outside those categories altogether. It is distinguished from actual biological sex—i.e., male or female. For most persons, gender identity and biological sex correspond in the conventional way. Some individuals, however, experience little or no connection between sex and gender; among transgender persons, for example, biological sexual characteristics are distinct and unambiguous, but the affected person identifies with the gender conventionally associated with the opposite sex.

ترجمہ:صنفی شناخت ایک انسان کا اپنے حوالےسے ذاتی تصور ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ، مرد ہے یا عورت، یا انکے بیچ میں کہیں یا وہ بالکل ان تصورات میں آتا ہی نہیں۔ صنفی شناخت حیاتیاتی جنس  نر ومادہ سےجداگانہ تصور ہے۔ عام طور سے، صنفی شناخت اور جنس  ہم آہنگ ہوتے ہیں۔تاہم کچھ افراد کو اپنی صنفی شناخت اور جنسی شناخت    کے درمیان  تعلق بالکل یا بڑی حد تک اپرا اور اجنبی لگتا ہے۔مثلا ٹرانس اشخاص میں حیاتیاتی جنسی خصائص بالکل واضح اور غیر مبہم ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود متاثرہ شخص اپنے آپ کو جنس مخالف سے وابستہ صنف سے وابستہ کرتا ہے۔

بریٹینکا کا یہ اقتباس بہت حد تک واضح کر دیتا ہے کہ کیسے صنف کو جدید ادبیات میں ایک مسلسل اور مائل بہ سیلان (Fluid)  تصور ہے۔ اور اسی طرح، جنس کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے، اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ جنس وصنف کا روایتی تصور دوٹوک دوئی پر مبنی ہے۔

متغیر صنف کے آثار:

تاہم "متغیر صنف" کے لیے اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی جنس،  سماجی مظاہر میں تبدیلی کروائے کہ یہ محض ایک احساس کا نام ہے، لیکن ان میں کئی ایسے ہیں جو یہ تبدیلی کرواتے ہیں۔اور ان تبدیلیوں کو تین  حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے:

۱: طبی: اس میں ظاہری اعضا کی تبدیلی، اسی طرح جنسی خصائص کی تبدیلی شامل ہے۔ مثلا بعض مرد اپنا عضو تناسل کٹوا کر اندام نہانی بنوا لیتے ہیں۔(Neovagina Creation)

۲: قانونی تبدیلی۔

۳: سماجی:اس میں نام، ضمائر کا استعمال ،رشتے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ رشتے  سے مقصود یہ ہے کہ ایک شادی شدہ مرد کو  یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے اور اس نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر کے خود کسی دوسرے کی بیوی بننا پسند کیا۔

چونکہ یہاں بنیاد انسانی احساس وشعور ہے، اس لیے یہ بحث "علم نفسیات" سے جڑتی ہے جو سماجی علوم کی ایک شاخ ہے۔ سماجی علوم میں منہج کے حوالے سے بحث  معروف ہے کہ کیا انسان کے مطالعے کے لیے وہی منہج برتا جا سکتا ہے جو ارادے سے عاری مادے کے مطالعے کے لیے برتا جاتا ہے ؟ تاہم اس وقت جن تحقیقات پر پیسہ صرف ہوتا ہے و ہ اسی منہج کو استعمال کرتی ہیں۔

متغیر صنف کے احساس کی سماجی وقانونی معنویت:

ہم بات آگے بڑھانے سے پہلے، ایک مرتبہ پھر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک انسان کا دوسرے انسان کی "جنس یا صنف" کا تعین، ایک معاشرے کا یا قانون کا ایسا کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے اندر کوئی احساس رکھتا ہے، تو دوسرا انسان، سماج یا قانون اسےکچھ نہیں کہتا؟ یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ اسی وجہ سے اب تک ہم جنس، صنف، جنسی رجحان، سماجی مظاہر اور سماجی کردار کی بات کرتے آئے ہیں لیکن "صنفی شناخت " کو اس فہرست میں نہیں لائے کیونکہ انسان میں ابھرنے والا نرا احساس ایسا نہیں کہ اس پر شریعت کوئی حکم لگائے جب کہ انسان خود اس کی آبیاری نہ کر رہا ہو۔اسی طرح، جہاں انسان کسی احساس کو پکا رہا ہے، وہاں بھی فرد  کی ذات سے متعلق یہ سوال  کسی دوسرے کے لیے اس  وقت معنی خیز ہوتا ہے جب وہ سماجی مظہر بنتا ہے، اس کا ظہور کسی عمل  سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے، ایک انسان کی جنس وصنف کا سوال  غیر کے لیے ، مندرجہ ذیل وجوہ سے اہمیت اختیار کرتا ہے: جنسی تعلق قائم کرنا، شادی بیاہ میں بندھنا، معاشرتی کردار ادا کرنا، معاشرتی مظاہر وغیرہ۔اور سوال کچھ یوں بنتا ہے کہ کیا انسانی جذبات واحساسات اور اس کے جبلی رجحانات ان افعال کو جواز بخشنے کے لیے کافی ہیں؟ کیا کسی مرد کا مرد کی طرف رجحان یا زن کا زن کی طرف صرف اس وجہ سے سند جواز یافتہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایسے کیمیائی تفاعلات جنم لے رہے ہیں، جو اسے ان چیزوں پر ابھار رہے ہیں؟

انسانی نفسیات اور اخلاقی ذمے داری:

 اس کے لیے، آپ اس پر غور کیجیے کہ بچے سے زیادتی کرنے کا عادی اور سلسلاتی قاتل (سیریل کلر) کی ذہنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اگر پہلا کسی سے بھی جنسی تعلق قائم کر لیے اسے قرار نہیں آتا جب تک کسی بچے کا شکار نہ کرے اوردوسراجسے بھی قتل کر لے جب تک وہ اپنے طے کیے ہوئے پیمانے کے مطابق قتل نہیں کرتا، تو بے چین رہتا ہے۔ اب طبی آلات کی ترقی کے بعد، ہم کسی بھی انسان کی ایم آر آئی(MRI)  کر کے اس کے ذہن کی ساخت کی تصویر کشی کر سکتے ہیں اور "ایف ایم آر آئی "(FMRI) کے ذریعے  سے، اس کے ذہن کے مختلف حصوں میں جاری  کیمیائی تفاعلات اور توانائی بننے کا عمل (میٹابولزم) دیکھا جا سکتاہے۔ بلاشبہ، اگر ان دونوں کے دماغوں کی تصویریں لی جائیں، تو وہ ایک نامرد سے اور اس مسکین سے جس کے دل  میں مرغی کو ذبح کرنے کے تصور سے ہول اٹھتے ہیں، بہت مختلف ہوگا۔ اور سائنسی مجلا ت میں اس طرح کی مختلف تحقیقات چھپتی رہتی ہیں.مثلا "سائنٹفک امریکا"  میں ایک مضمون اس  موضوع پر چھپا کہ  آیا "ایم آر ائی "کے ذریعے سے کسی انسان کی بابت یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اندر (دو سے دس سال تک کے )بچوں کی طرف جنسی رجحان ہے تا کہ بچوں کو اس کی پہنچ سے دور رکھاجا سکے؟  یہ ایک بالکل ابتدائی  ناپختہ تحقیق ہے اور اس پر اخلاقی وقانونی سوالات بھی ہیں۔ تاہم یہاں اس کا حوالہ دینے کی وجہ مضمون نگارکا، جس کی تحقیق کا میدان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے  ہیں، مندرجہ ذیل تبصرہ ہے:

Despite the fact that sexual interest in children was once believed to be the result of sexual abuse in childhood, current research suggests that pedophilia is biological as opposed to learned, and apparently immutable due to associated differences in brain structure and function. Furthermore, a recent fMRI study showed that non-offending pedophiles have greater inhibitory control than pedophiles who have offended, which likely explains why some are more successful in avoiding abusing a child.

ترجمہ:اگرچہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ بچوں کی طرف  جنسی رجحان رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے رجحان کے حامل  انسان کے ساتھ خود بچپن میں یہ سانحہ پیش آیا،  تاہم جدید تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان رجحانات  کی بنیاد حیاتیاتی وعضویاتی ہے، نہ کہ تجربہ جس سے وہ گزرتا ہے۔ نیز  ذہنی ساخت اور اس کے عمل میں جو فرق ہے ان کی وجہ سے، بظاہر یہ میلان بدلا نہیں جا سکتا ۔مزید بر آں، ایک قریب کی "ایف ایم آر ائی "پر مبنی تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ ان جذبات کے حامل غیر جارحانہ   لوگوں کو اپنے آپ پر قابو ان سے زیادہ ہوتا ہے جن کی طبیعت میں جارحیت ہو، اور غالبا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوں بعض ایسے رجحان مند لوگ (اس کے تقاضے پر عمل کر کے) بچے سے زیادتی سے باز رہتے ہیں۔

اسی طرح، علم اعصاب وعلم جرمیات کے امتزاج سے  پھوٹنے والی شاخ "عصبی جرمیات" (نیوروکرائمولوجی) میں جرم اور مجرم کی ذہنی ساخت پر بہت تحقیق ہو رہی ہے۔نیز ان تحقیقات کی بنیاد پر عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو رہی ہے، عدالتوں پر دباو  پڑ رہا ہے۔ ہم اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ مقصود صرف اشارہ ہے۔

ا ب سوال یہ ہے کہ کیا انسانی ذہن اور اس میں جاری کیمیائی عمل  کسی فعل  کے جواز کے لیے کافی ہے؟

یہاں واضح رہے کہ ہمارا مقصود یہ نہیں کہ انسان کی "اہلیت ادا "کا فقہی وقانونی فیصلے پر اثر نہیں پڑتا۔ بلاشبہ پڑتا ہے۔ چنانچہ مجنوں کے فعل کے احکام الگ ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی نے اتنے شدید غصے میں طلاق دی کہ اس حالت کے ڈانڈے جنون سے جا ملتے ہوں، تو اس طلاق کا حکم الگ ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہ ثابت ہوجانا کہ بعض لوگوں کے دماغ  کا کسی فعل سے ہم آہنگ ہے اور ان کا رجحان اس طرف پایا جاتا ہے، اس فعل کو "جرم" کی فہرست ہی سے نکال دے گا؟ظاہر ہے شاید ہی کوئی اس کا جواب اثبات میں دے۔ اب اس پر سوال یہ اٹھے گا کہ پھر کس "فعل "  کو جرم مانا جائے اور کسے نہیں؟ ہمارا جواب واضح ہے کہ یہ "تہذیبی قدر " کا سوال ہے۔یہ سائنس کا سوال ہی نہیں جس کا دعوی ہے کہ وہ صرف بیان پر اکتفا کرتی ہے، معیار ی حکم نہیں لگاتی۔

انسانی نفسیات اور انسانی ارادہ:

یہاں پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ یہ بحث دراصل "انسانی ارادے" سے جا ملتی ہے کہ کیا واقعی انسان میں کوئی ارادہ بھی ہے یا نہیں۔ اور پھر اخلاق وقانون کے وجود ہی پر سوال اٹھے گا۔ اس حوالے سے، سماجی علوم میں تحقیق جاری ہے اور جرگہ ابھی بھی بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ یہ علوم کچھ بھی ثابت کر دیں اور خواہ کتنے ہی تجرباتی ثبوت لے آئیں، جب وہ "چاہیے" کا جملہ تشکیل دیں گے اور "قدر" کا سوال اٹھائیں گے، تو اس وقت وہ کچھ بھی کر رہے ہوں، پر "سائنس " کی حدود سے نکل چکے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نوم چومسکی نے ، اپنے مخصوص  انداز میں، اس طرح کی تحقیقات پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا  جب ان سے کسی نے یہی سوال پوچھا کہ جدید اعصاب وغیرہ کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں اس کا عمل غیر شعوری طور سے طے ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا یہ سوچنا کہ وہ باارادہ ہے ایک دھوکا ہے۔ چومسکی کا کہنا تھا کہ یہ سب تحقیقات بہت اچھی ہے لیکن یہ ہمیں اس موضوع سے متعلق کچھ نہیں بتاتیں۔ ہم میں ارادہ ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن اسے ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں۔چومسکی نے ولیم جیمز کی طرف سے نقل کیا کہ جو لوگ انسانی ارادے کو مانتے ہی نہیں، تو یہ دلائل کیوں دے رہے ہیں؟! ان کے نظریے کے مطابق ماننے والے ماننے پر مجبور ہیں۔ ان کے مخالفین بھی نہ ماننے پر مجبور ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ وہ بیٹھ کر کوئی تفریحی پروگرام دیکھ لیں۔ (یہ محض ایک مزاح تھا۔ جس میں اصل بنیاد یہ تھی کہ اگر واقعی انسان میں اپنا ارادہ نہیں، تو کسی انسان کو دلائل کی بنیاد پر قائل کرنا ایک بے معنی عمل ہے کیونکہ دلائل کی بنیاد پر دوسرے کو قائل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرے کو ذی ارادہ مانتے ہیں)

یہاں پھر واضح کرتا چلوں کہ مقصود یہ نہیں کہ ارادہ ہے یا نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جب انسانی ارادے کا فیصلہ یہ فنون نہیں کر سکتے اور ہم کسی بنیاد پر اسے مانتے ہیں، تو ان علوم سے جو بھی تحقیقات یا ، صحیح الفاظ میں  ، تخمینیں سامنے آتے ہیں، وہ ہماری اقدار کے حوالے سے کوئی خاص رہنمائی نہیں کر سکتے۔

اس لیے، جرگہ اگرچہ بیٹھا ہوا ہے، لیکن کیا اسے حق سماعت بھی ہے؟! ہمارا جواب نفی میں ہے۔ انسانی صنف اور سماجی کردار کا فیصلہ نفسیات اور ذاتی رجحان پر نہیں چھوڑا جا سکتا!

(جاری)


پیغامِ پاکستان اور میثاقِ وحدت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ روز ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے حوالے سے منعقد ہونے والے قومی سیمینار میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور مختلف مکاتبِ فکر کے بزرگوں اور دوستوں کے ساتھ ملاقات کے علاوہ ایک قومی فریضہ کی ادائیگی میں شریک ہونے کا موقع بھی مل گیا، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کا اس پر اجماع چلا آ رہا ہے کہ پاکستان میں اس کے مقصدِ قیام کے مطابق شریعتِ اسلامیہ کا مکمل اور عملی نفاذ ناگزیر مِلّی تقاضہ اور ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جس کی دستورِ پاکستان میں بھی صراحت موجود ہے، مگر اس کے لیے کسی مسلح جدوجہد کی بجائے پُرامن سیاسی جدوجہد اور جمہوری عمل ہی واحد راستہ ہے جس پر اب تک مجموعی طور پر عمل ہو رہا ہے۔ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پاکستان کے کچھ حلقوں میں یہ تصور ابھرا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے بھی مسلح راستہ اختیار کرنا چاہیے مگر ملک کے جمہور علماء نے اسے قبول نہیں کیا اور اس عمل کو خروج اور بغاوت قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے والوں سے دوٹوک طور پر کہا کہ نفاذِ شریعت کے لیے ان کا جذبہ، قربانی اور محنت قابلِ قدر ہے مگر مسلح جدوجہد کا طریق کار قطعی طور پر غلط اور غیر شرعی ہے، جس کا اظہار چند سال قبل ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک متفقہ قومی دستاویز کی صورت میں کر دیا گیا۔ مگر اس کے بعد بھی مختلف اطراف سے اس کے بارے میں شکوک و شبہات اور تحفظات ابھی تک سامنے لائے جا رہے ہیں اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس ’’قومی موقف‘‘ کا ایک بار پھر اظہار کیا جائے۔ چنانچہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے ۲۳ جنوری کو فیصل مسجد اسلام آباد کے علامہ اقبال آڈیٹوریم میں اس کا اہتمام کیا جس کی کاروائی اور تفصیلات مختلف اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔ اس بروقت اقدام پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بالخصوص ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء الحق شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں۔

کانفرنس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا خطاب اس اجتماع کا حاصل اور علماء پاکستان کے دوٹوک موقف کا اظہار تھا، جبکہ اس کے ساتھ مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا مفتی عبد الرحیم، مولانا پروفیسر ساجد میر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اور مولانا قاضی نیاز حسین نقوی کے خطابات اس مسئلہ پر امت کی وحدت او رہم آہنگی کی واضح علامت تھے۔ راقم الحروف نے بھی چند گزارشات پیش کیں اور آج کے اہم ترین قومی و مِلی تقاضے کی بروقت تکمیل پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اس موقع پر اس موقف کے بارے میں تحفظات و اشکالات کا اظہار کرنے والے دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ موقف آج کا نہیں بلکہ یہ ہمارے ماضی اور دینی جدوجہد کے تسلسل کا ایک اہم باب ہے جس کے لیے اس تاریخی حقیقت کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ مسلم حکمرانوں سے مختلف ادوار میں علماء امت کو شکایات رہی ہیں جن کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا ہے، احتجاج و اضطراب کی مختلف صورتیں اختیار کی گئی ہیں، اور مسلم حکمرانوں کو اپنے غلط فیصلوں اور طرزِ عمل سے رجوع بھی کرنا پڑا ہے، مگر ہمارے اسلاف و اکابر نے یہ سارے کام ہتھیار اٹھائے بغیر کیے ہیں اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے منکرات و فواحش کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ اکبر بادشاہ کے نام نہاد دینِ الٰہی اور شریعت میں اس کی تحریفات سے بڑے ’’منکر‘‘ کا سامنا شاید کسی اور دور میں امت کو نہ کرنا پڑا ہو، اس کا مقابلہ علماء امت نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں پوری جرات کے ساتھ کیا اور مغل بادشاہت کو بالآخر اس نام نہاد ’’دینِ الٰہی‘‘ سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اس دور میں شریعت کی عملداری کو وقت کی سب سے بڑی دینی ضرورت قرار دیا اور اسے سب سے بڑی عبادت بتایا مگر ہتھیار اٹھائے بغیر اس مہم کو سر کیا اور اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔

ہمارے اکابر نے جہاد اور بغاوت کا فتوٰی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد غیر ملکی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دیا تھا جیسا کہ افغانستان میں روسی فوجوں کے تسلط اور پھر امریکی فوجوں کی یلغار کے موقع پر علماء افغانستان نے جہاد کا فتوٰی دیا اور مسلح جنگ لڑی جو بلاشبہ جہاد تھی۔ پاکستان کے علماء کرام نے بھی اس کی تائید کی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح ہزاروں پاکستانیوں نے عملاً اس جہاد میں شریک ہو کر یہ مقدس فریضہ سرانجام دیا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کروں گا کہ میں نے خود اس جہاد میں مختلف حوالوں سے شرکت کی ہے اور جہادی مراکز کے علاوہ مورچوں میں بھی وقت گزارا ہے جسے اپنے لیے باعثِ نجات سمجھتا ہوں، مگر غیرملکی قوتوں کے خلاف جہاد پر کسی مسلم ریاست کے اندر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ ہمارے اکابر و اسلاف کی روایت رہی ہے۔

اس لیے تمام متعلقہ دوستوں سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ وہ اپنے موقف اور طرزعمل پر نظرثانی کریں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’علماء پاکستان‘‘ کے اس اجماع و اتفاق کا احترام کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو دستورِ پاکستان کے دائرے میں لے آئیں، یہی آج کے دور کا شرعی اور دینی تقاضہ ہے جو پاکستان کے تمام اہلِ دین کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت، سلامتی، استحکام، اسلامی تشخص، اور شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ و ترویج کے لیے صحیح رخ پر محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

پیغامِ پاکستان میثاقِ وحدت

آج کے اس اجتماع میں پاکستان بھر سے ان جید اور مستند علماء کرام اور مشائخ عظام نے شرکت کی جن کی اکثریت نے ”پیغام پاکستان“ کے قومی بیانیے کو جاری کیا تھا۔ دینی قیادت کے اس اجتماع نے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے، قومی وحدت اور وطن عزیز کی سالمیت کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی جیسے چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے، 16 جنوری،2018ء کو جاری کردہ قومی بیانیہ اور فتوی ”پیغام پاکستان“ کے تسلسل میں حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا۔

  1. پاکستان بھر کے تمام مسالک کے نمائندہ علماء و مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ ”پیغام پاکستان“ جو کہ 16جنوری،2018ء کو ایوان صدر سے جو قومی بیانیہ جاری ہو ا تھا وہ قرآن و سنت، دستور پاکستان اور پاکستان قوم کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، یہ بیانیہ ہمارے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسا عملی لائحہ عمل پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے نہ صرف قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں ایک ایسا مضبوط، متحد اسلامی اور جمہوری معاشرہ قیام کیا جاسکتا ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کی روحانیت، عدل و انصاف، مساوات، اخوت، باہمی رواداری و برداشت اور حقوق و فرائض میں توازن جیسی خصوصیت سے ہی مزین ہو۔ اس بیانیہ پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس کروایاجائے اور پورے ملک میں بطور پالیسی نافذ کیا جائے۔
  2. علماء کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ کسی بھی نام نہاد دلیل کی بنا پر اسلامی جمہوری پاکستان کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار درست نہیں۔ لہذا اس کی بنا پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی شریعت و قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔
  3. علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع سمجھتا ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں، جن کا ہمارے ملک کو سامنارہاہے،قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔یہ ریاست ملک و قوم اور وطن عزیز کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے جو آپریشن کیے تھے اورقومی اتفاق رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا تھا وہ درست ہے اور اس پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہیے، مزید یہ کہ اگر دہشت گردی ختم کرنے کے لیے مزید اس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہو تو وہ بھی کیے جائیں۔
  4. دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء کرام اور مشائخ عظام سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست، مسلح افواج، پولیس، امن و امان قائم کرنے والے تمام اداروں اور عوام الناس کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم قومی بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔
  5. یہ اجتماع پیغام پاکستان کی تجدید کرتے ہوئے یہ عہد دہراتا ہے کہ لسانی، علاقائی، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں، یہ سب شرعی احکامات کی مخالفت کر رہےہیں ، لہذار یاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کے خلاف ایسی بھرپور کارروائی کی جائےجس کے بعد یہ لوگ پھر سے سر نہ اٹھا سکیں، نیز ان گروہوں کے سدباب کے لیے فوری، دیرپا،پائیدار اور سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہییں۔
  6. علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک سنگین جرم ہے لہذا اس قسم کے رویوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جانا چاہیے اور ان کا سد باب کرنے کے لیے تزویراتی، اقدامی، دفاعی، سماجی اور اقتصادی اقدامات کیے جانے چاہییں۔
  7. علمائے مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے نام نہاد جہاد کےنام پر بھتہ خوری شریعت و قانون کی شدید خلاف ورزی اور سنگین جرم ہے جس سے ہمارے معاشرے میں کاروباری سرگرمی متاثر ہو رہی ہیں، اس لیے امن و امان قائم کرنے والے اداروں کو ان جرائم کے خلاف سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
  8. وطن عزیز میں قائم تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے۔ ملک کی تمام سرکاری ونجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت (militancy)، نفرت انگیزی (hatred)، انتہا پسند کی (extremism)، تشدد پسندی (violence) اور علاقائیت پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ پیغام پاکستان جاری کرنے کے بعد اس ضمن میں نمایاں بہتری آئی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں نسبتاً امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔ یہ اجتماع سفارش کرتا ہے کہ اس قسم کے مضر اثرات سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے پیغام پاکستان کی روشنی میں بھر پور کوششیں جاری رکھی جانی چاہییں۔
  9. دہشت گردی اور نفرت انگیزی کا فکری رحجان(Mindset)ہماری معاشرتی امن کا دشمن ہے۔ اس رجحان کے خلاف فکری جد وجہد تمام اداروں اور افراد کی قومی ذمہ داری ہے۔
  10. اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص، مسلک یا ادارے کے خلاف اہانت ، نفرت انگیزی اور اتہام بازی پر مبنی تحریر و تقریر غیر اسلامی اور غیر قانونی عمل ہے اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرناضروری ہے۔
  11. مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اولی سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گے ،یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں ان کو عوام الناس میں انتشار اور تفرقہ بازی کے لیے استعمال کرنادینی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
  12. پاکستان علماء و مشائخ کا یہ اجتماع محسوس کرتا ہے کہ دوسرے ممالک میں موجود کچھ نام نہاد علماء کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل دہشت گرد تنظیموں کے بیانیے اور اقدامات کی حمایت میں اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے خلاف ایسے بیانات دیے گئے ہیں جو شرعی احکام اور بین الا قوامی قانون کے صریحاً خلاف ورزی ہیں، چنانچہ پاکستانی علماء و مشائخ کا یہ نمائندہ اجتماع اس غیر ذمہ دارانہ عمل کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس قسم کے غیر شرعی اور غیر قانونی عمل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
  13. چند روز قبل سویڈن میں ایک انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے اور شرمناک فعل سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں، جس کی مذمت کے لیےالفاظ ناکافی ہیں۔ آزادی اظہار کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی آزادی نہیں دی جاسکتی۔ حکومت پاکستان اور انسانی حقوق کے علمبردار ایسے نفرت انگیز عمل کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
  14. سوشل میڈیا کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی استعمال کی وجہ سے ہماری سماجی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا کو وطن دشمنی، فرقہ پرستی، تشدد، نفرت انگیزی اور دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جانے چاہیے۔ پیغام پاکستان سے متعلقہ سر گرمیوں کے ذریعے عوام الناس خاص طور پر نوجوانوں کی ذمہ داری کے ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت کی جانی چاہیے۔

(مؤرخہ 23 جنوری، 2023ء، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، فیصل مسجد، اسلام آباد)

مولانا گیلانی اور شیخ اکبر ابن عربی (۱)

مولانا طلحہ نعمت ندوی

یہ عنوان مختصر ہے لیکن تہ دار اور وسیع المعانی، ایک طرف شیخ اکبر ابن عربی کی جامع ومعرکہ آرا شخصیت، ایک طرف بر صغیر کے نامور عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی، جنہیں خود ان کے رفیق دیرینہ مولانا عبدالباری ندوی نے وقت کاابن عربی قرار دیا تھا، وہ ابن عربی کے عاشق تھے بلکہ عاشق زار، ان کے ذکر پر بے اختیار ہوجاتے، جب جب نام سنتے یا ان کے انتساب سے کسی کا نام ان کے کانوں میں پڑتا تو پھڑک اٹھتے، کاش کہ ان کے سدا بہار وپرفیض قلم سے ابن عربی کے احوال وافکار اور ان کے خیالات وآراء کی توضیح مرتب شکل میں ہوگئی ہوتی، ابن عربی پر اس دور میں برصغیر میں جیسا مطالعہ مولانا کا تھا شاید ہی کسی کا رہا ہوگا۔

اگرچہ ابن عربی کے حوالہ سے ہندوستان بالکل تہی مایہ نہیں رہا ہے، ان کے ابتدائی دور ہی سے ان کے افکارکی خوشبو اس ملک میں آنے لگی تھی، چشتیہ اور قادریہ سلاسل کے اولین بزرگوں میں تو نہیں لیکن اس کے معاً بعد آٹھویں، نویں صدی ہجری میں ان کے افکار یہاں کے صوفیہ کا موضوع بحث بننے لگے تھے، حضرت سید علی ہمدانی اور مخدوم جہانگیر اشرف سمنانی، شیخ ابوالمحاسن شرف الدین دہلوی اور سید محمد گیسو دراز نے ان کو باضابطہ یہاں متعارف کرایا، ان کے آراحضرت مخدوم الملک شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری کے یہاں تو ان کا ذکر نہیں ملتا لیکن ان کے سلسلہ کے تیسرے بزرگ اور خلیفۃ الخلیفہ حضرت حسین بن معز بلخی معروف بہ حسین نوشہ توحید نے اپنی تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ گرچہ نام نہیں لیتے لیکن ان کے افکار حضرت ابن عربی ہی کے خیالات کا عکس نظر آتے ہیں، بالخصوص جو کچھ انہوں نے اپنی کتاب حضرات خمس میں لکھا ہے، وہ اس باب میں قابل ذکرہے۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے شیخ حضرت مظفر شمس بلخی کے ساتھ حجاز میں بھی ایک عرصہ گذارا تھا، لیکن ان کی تحریروں میں ابن عربی کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔1

ان کے بعد شیخ محب اللہ الہ آبادی اس ملک میں ابن عربی کے سب سے بڑے ترجمان تھے، پھر تو ایک بڑی تعداد نظرآتی ہے جس نے فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کی شرح وتوضیح میں اپنا زور قلم اور قوت ذہن صرف کی ہے۔2

مولانا گیلانی کو ابن عربی سے ان کے دور آغاز ہی سے دلچسپی ہوگئی تھی اور وہ ان کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کرنے لگے تھے، اس مطالعہ کا محرک کیا ہوا، اس کا پتہ تو نہیں چلتا نہ مولانا کی کسی تحریرمیں اس کا اشارہ ملتا ہے، ا لبتہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے محبوب استاد علامہ انور شاہ کشمیری جن کی نظر دیگر مصنفین اسلام کے ساتھ ابن عربی پر بھی بہت گہری تھی، ان کی صحبت اور علمی استفادہ اور ابن عربی کے تذکرہ نے ان میں یہ ذوق پیدا کیا ہو، مولانا لکھتے ہیں:

’’بہ ظاہر تصوف اور صوفیا کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ اس طبقہ اوران کے علوم ومعارف سے شاہ صاحب کو شاید چنداں دلچسپی نہیں، لیکن وہی بھولے بسرے خیالات جو دماغ میں رہ گئے ہیں ان ہی میں سےدو باتیں میرے اندراس طرح جاگزیں ہوگئی ہیں، کہ تصوف کے نظری وعملی دونوں حصوں کے متعلق بعد کو جو کچھ بھی اس فقیر نے سوچا یا سمجھا زیادہ تر ان ہی دونوں کی روشنی میں سمجھا اور سوچا‘‘۔

پھر وحدت الوجود کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

’’حادث (یعنی کائنات ومخلوقات ) کا قدیم (یعنی خالق جل مجدہ )سے کیا تعلق ہے، شاہ صاحب کے الفاظ میں ربط الحادث بالقدیم، یہی عنوان قائم کرکے اس سلسلہ میں کچھ فرماتے تھے، یہی تصوف کے نظری حصہ کا بنیادی واساسی مسئلہ تھا، پہلی دفعہ شاہ صاحب نے اس مغالطہ کا ازالہ فرمایا کہ عوام الناس خالق ومخلوق کے تعلقات کو صانع ومصنوع یا معمار ومکان کی مثال سے سمجھنا چاہتے ہیں، مصنوع اپنے باقی رہنے میں چوں کہ صانع کا محتاج نہیں رہتا، یعنی مکان کو مثلا بن جانے کے بعد معمار کی ضرورت باقی نہیں رہتی، عوام کی سمجھ میں صحیح طور پر اس لئے نہیں آتا کہ پیدائش میں تو عالم خدا کا محتاج ہےلیکن پیدا ہوجانے کے بعد عالم کو اپنی بقا میں خدا کی کیا ضرورت ہے، صوفیہ اسی وسوسہ کا ازالہ اپنے اس نظریہ سے کرتے ہیں، جو وحدت الوجود وغیرہ ناموں سے مشہور ہے، اور نہ جاننے والوں نے مشہور کررکھا ہے کہ صوفیہ وحدت الوجود کے جو قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان وحدت الوجود پر ہے، یعنی سارے موجودات ایک ہیں، حالاں کہ’’الوجود ‘‘ کی وحدت کو ’’الموجود‘‘ کی وحدت سےکیا تعلق؟

خاکسار نے اپنی کتاب الدین القیم میں اس وحدت الوجود کے مسئلہ کی جو تشریح وتفصیل کی ہے، سچی بات یہ ہے کہ بنیادی امور اس کے شاہ صاحب کی تقریر ہی سے ماخوذ ہیں‘‘۔3

نیز تصوف کا ذوق جو ان کے خمیر میں ابتدا ہی سےودیعت کردیا گیا تھا، اس نے بھی شیخ کی ذات وافکار سے انہیں قریب کیا تھا، بقول مولانا غلام محمد شاگرد حضرت گیلانی حضرت والا جذب کی دولت اپنے ساتھ ہی لیتے آئے تھے، اوروہ ’’مجذوب سالک‘‘ تھے۔4 ٹونک کے دور قیام میں ہی ان کو صوفیا کی کتابوں سے دلچسپی ہوگئی تھی، بالخصوص امام غزالی کی احیاء العلوم کے مطالعہ کا آغاز ہوگیا تھا جیسا مولانا کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے لیکن ابن عربی سے اس دور میں ہی انہیں دلچسپی ہوگئی ہو اس کا کوئی ذکر نہ ان کی تحریر میں کہیں ملتا ہے نہ کسی اور تحریر سے اس کا علم ہوسکا۔

چنانچہ انہوں نے جب دارالعلوم دیوبند سے تکمیل تعلیم کے بعد وہاں کے ترجمان القاسم کی ادارت سنبھالی تو اس وقت اس میں انہوں نے ابن عربی پر کئی مضامین لکھے تھے، اور ان کی شخصیت سے اردو کے علمی حلقوں کو متعارف کرایاتھا۔5

القاسم میں اس سلسلہ سب سے پہلا مضمون اتحاد وحلول کی تشریح میں ملتاہے، جس کی تمہید میں علامہ شعرانی اور دیگر بزرگوں کے حوالہ سے ابن عربی کی کتابوں میں الحاقات کے اجمالی تذکرہ کے بعد ان کے نظریہ ٔ حلول اور وحدت وجود کی تشریح کی گئی ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے قول کا مطلب بس اتنا ہے کہ ہے جس طرح روح کے بارے میں علماء امت کا یہ اختلاف رہا ہے کہ روح جسم میں ہے یا جسم سے باہر ہی رہ کر جسم کو کنٹرول کرتی ہے، شیخ ابن عربی کے بقول ’’روح کو جو تعلق عالم اصغر کے ساتھ وہی تعلق عالم اکبر کے ساتھ خدا کو ہے‘‘۔6

ان کے بقول عام متکلمین روح کے حلول وتجسم کے قائل ہیں لیکن شیخ ابن عربی روح کے تجرد کے قائل ہیں، اسی بنیاد پر انہوں نے خدا کی بھی مثال دی تھی کہ جس طرح روح کا تعلق جسم کے ساتھ ہے اسی طرح خدا کا تعلق اس عالم یعنی عالم اکبر کے ساتھ ہے۔ مولانا نے بھی بتایا ہے کہ روح کے جسم کے تعلق وتجرد پر مسلم ویونانی اور ایرانی فلاسفہ کے سیکڑوں مذاہب ہیں، ’’اور فلاسفہ مغرب نے اپنے اضافوں سے اسے دو چند بنا دیا ہے، افلاطون، ارسطاطالیس، امام غزالی، رازی وغیرہ روح کے تجرد کے قائل ہیں‘‘۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم وغیرہ روح کے تجسم کے قائل ہیں۔7

مولانا مزیدلکھتے ہیں:

’’مسئلہ وحدت الوجود میں جو آئے دن غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں، وہ زیادہ تر اسی قسم کی دجالانہ ریشہ دوانیوں، حاسدانہ عدواتوں کے نتائج ہیں۔ وحدت الوجود ایک صحیح مسئلہ تھا، عہد تصوف کی ابتدا سے اس کی بنا پڑ گئی تھی، لیکن چرچا اس قدر نہیں ہوا تھا، شیخ محی الدین عربیؒ آئے تو انہوں نے نہایت شاندار، پُر شوکت بیانوں میں اس پر روشنی ڈالی، اپنی مؤلفات کا بیشتر حصہ اسی مسئلے کی نذر کردیا۔ کائنات کے تمام اصول، قوانین کو زیادہ تر اسی پر مبنی کرنے لگے، الغرض مدارج سلوک کے اعتبار سے صوفیا پر جو احوال طاری ہوتے ہیں، شیخ نے بھی اپنی مختلف حالتوں میں اس مسئلہ کی مختلف حیثیتوں سے شرح کی، اور چونکہ اپنے زمانے میں اور بعد میں بھی عام اہل ملت پر پورا اثر تھا، ان کے اعتراف ولایت سے اکثروں کے دل لبریز تھے، ان کے ہر قول و فعل نے وہ رتبہ حاصل کیا تھا کہ بڑے بڑے اکابر علماء بھی بجز تسلیم کے اور کوئی چارہ نہیں پاتے تھے، یہی وہ موقعہ تھا کہ جہاں ان دجالوں کو کھیل کھیلنے کی گنجائش مل گئی۔ وحدت الوجود کا مسئلہ، صوفی کا کلام، ولایت کی دھاک، یہ تین چیزیں ایسی جمع ہو گئیں کہ ان متمردوں سے جو کچھ بھی ہو سکا کر گذرے، حتی کہ آج سمجھا جاتا ہے کہ اتحاد و حلول، وحدت الوجود دونوں ایک چیز ہے، اور یہ بالکل صحیح ہے کہ شیخ قدس سرہ کے بعض کلمات سے اس کا وسوسہ پیدا ضرور ہوتا ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں کبھی ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جو ایک حد تک اتحاد و حلول پر المطابقہ دال ہیں‘‘۔8

مولانا نے ثابت کیا ہے کہ شیخ خود حلول کے سخت منکر ہیں اور ایسا کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں اور اخیر میں علامہ شعرانی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حلول کے قائل تو بہت سے مشرکین بھی نہیں چہ جائے کہ شیخ اکبر۔ ان کی طرف اس طرح کی باتیں غلط منسوب کی گئی ہیں۔

انہوں نے القاسم والرشید ہی میں ابن عربی کے بعض نصائح کے ترجمےبھی شائع کیے تھے۔9

کرامت اولیاء کے سلسلہ میں بھی شیخ ابن عربی کے کلام کی تشریح کی ہے، اور اس سے قبل چند سوالات قائم کرکے لکھا ہے کہ معاصر دور کے ان کلامی سوالات کے جوابات شیخ کی اس تحریر میں مل سکتے ہیں۔10

شیخ کے نزدیک کرامت کی دو قسمیں ہیں کرامت حسیہ اور کرامت معنویہ۔ انہوں نے اس کے بعد بتایا ہے کہ شیخ کے نزدیک کرامت معنویہ اصل ہیں، کرامت حسیہ کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔

یہ تمام مضامیں مولانا کے بالکل ابتدائی دور کے ہیں، اس کے بعد چالیس کی دہائی میں انہوں نے ابن عربی پر اپنے معمول کے خلاف عربی میں تقریباً‌ چالیس صفحات کا مفصل مضمون لکھا اور اس میں شیخ کے منہج اور ان کے طریقۂ کار کو پورے تاریخی پس منظر کی تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی، اس میں انہوں نے اپنے اب تک کے مطالعہ کا نچوڑ پیش کردیا ہے، اس کی تفصیل آگے ذکر کی جارہی ہے۔

سوانح اویس قرنی جو ان کی بالکل ابتدائی دور کی کتابوں میں ہے، اور فراغت کے چند سال بعد ہی لکھی گئی ہے، اور القاسم ہی میں شائع ہوئی تھی، اس میں بھی ابن عربی کی فتوحات کے حوالےا وراقتباسات ملتے ہیں، نیز مولانا کی اکثر کتابوں میں کہیں نہ کہیں ابن عربی کا ذکر عام طور پرملتا ہے، مقدمہ تدوین فقہ ہو یا الدین القیم ان سب میں اس کے حوالے موجود ہیں۔

الدین القیم کے بارے میں علامہ سیدسلیمان ندوی علیہ الرحمۃ کے ایک تبصرے پر ان کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’الدین القیم پر جناب والا کی رائے معارف والی پڑھی، ‘‘صوفیانہ علم کلام’’نام آپ نے خوب رکھا، مجھے اس کا خوف ہے کہ اپنے فطری اسہالی رنگ کے خوف سے پنسل برداشتہ والے اس مسودہ کو اسی اجمال واختصار کی حالت میں شائع کرنا پڑا، اہل بصیرت تو اندازہ کرلیتے ہیں، لیکن عوام بیچارہ کو اس کا صحیح اندازہ لگانا کہ کن کن مسائل میں نئی راہیں اختیار کی گئی ہیں ذرا مشکل ہے، گو بعضوں نے اعتراف کیا ہے کہ تقریبا کتاب کے دو ثلث مسائل ایسے ہیں جن کے دعاوی تو ٹھیٹ قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں۔ لیکن استدلال میں کسی کی تقلید نہیں کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات آپ نے صحیح لکھی کہ متکلمین سے ہٹ کر در حقیقت حضرات صوفیہ کی زلہ ربائی کا یہ نتیجہ ہے، میرے پیش رو اس راہ میں شیخ اکبر اور مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ہیں‘‘۔11

لیکن اس ذوق کو جلا اس وقت ملی اور یہ دوآتشہ بن گیا جب مولانا حیدرآباد پہنچے اور وہاں مولانا انوار اللہ خاں صاحب کےدرس میں شریک ہوئے اور ان سے استفادہ کیا، مولانا خود لکھتے ہیں:

’’مولانا انواراللہ خاں مرحوم کے یہاں رات کو فتوحات مکیہ کا سبق ہوتا تھا، حیدر آباد کےمشاہیر علماء اصحاب جبہ وعمامہ بڑ ی بڑی داڑھیوں کے ساتھ اس حلقۂ درس میں شریک ہوتے تھے، فقیر تو اسی مکان میں رہتا تھا، حلقہ درس کا ایک رکن میں بھی بن گیا ‘‘۔12

اور پھر بعد میں شیخ ابن عربی کے حالاً وقالاً ترجمان شیخ محمد حسین کی صحبتوں میں مستقل حاضرہوکر استفادہ کرنے لگے یہاں تک کہ ان کے خلیفہ مجاز ہوئے، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی نےمکاتیب گیلانی میں ایک جگہ ان کاتعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:

’’حضرت مولانا محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیدرآباد کے ایک بڑے صاحب حال وقال بزرگ تھے، دوام حضور کا حال مقام بن گیا تھا، حیدرآباد میں گمراہ کن وجودیت کا بہت دور دورہ تھا، لیکن حضرت ممدوح کو جس سلسلہ سے تعلق تھا اس نے اس کی ایک خاص تعبیر وتعلیم اختیار کرکے گمراہیوں کی بڑی اصلاح کردی تھی، اسی کی تعبیر وتعلیم حضرت کا دن رات کاقال ہی نہیں حال تھا، اس کی دوسروں کو تفہیم وتلقین فرماتے رہتے ہیں، اور طریق صوفیا کی عام اذکاری واشغالی تعلیمات کو اس اطلاقی طریقہ کے مقابلہ میں اشغالی عقیدہ فرماتے اور اہل علم کے لئے خصوصاً پسند نہ فرماتے، در اصل یہ حضرت ابن عربی کے خاص فلسفیانہ تصوف وتوحید کا مسلک تھا، اور حضرت گیلانی کوحضرت شیخ سے اتنی خلقی وفطری مناسبت تھی کہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی تو انہیں وقت کا ابن عربی ہی کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ تحریری رنگ میں بھی مولانا کو فتوحات کی جھلک دکھائی دیتی تھی‘‘۔13

مولانا عبدالباری ہی کے نام ایک مکتوب میں مولانا گیلانی کے ذوق وجودیت کا اظہار بھی ہوا ہے، لکھتے ہیں:

’’آج کل نہ معلوم کیوں رب العالمین اور ربی الاعلیٰ پر دماغ متوجہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت، نیچر، فطرت، مادہ یہ شیر کے منہ کے پتھر تھے، ان کو حذف کردینے کے بعد رب اور مربوب میں کیا پردہ رہ جاتا ہے، اورمربوب سے رب کیا جدا ہوسکتا ہے، کیا درخت سے اس کی طبیعت، اس کا مزاج، اس کی صورت نوعیہ جدا ہوسکتی ہے، پرو رش کرنے والی قوت کو جب ’’ربی الاعلیٰ‘‘ کی تعبیر واضافت کےساتھ سونچتا ہوں توپستی میں بڑی بلندی محسوس ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب میں صرف اپنی قوت کا پرستار ہوں، عجب حال ہے اس خودپرستی کا، مربوب اسی قوت مربیہ کا اثر معلوم ہوتا ہے ‘‘۔14

اس پر مولانا عبدالباری صاحب نے حاشیہ میں لکھا ہے ’’مولانا کے خاص مذاق توحیدی کے اشارات‘‘۔

ابن عربی سے ان کی عقیدت کا جو عالم تھا اس کا تذکرہ ان کے شاگرد مولانا غلام محمد نے ان الفاظ میں کیا ہے۔

’’قادری چشتی ہونے کی وجہ سے اپنے اکابر سلسلہ سے حضرت گیلانی کو جو تعلق تھا وہ تو تھا ہی، مگر شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہ کے تو وہ بالکل شیدائی تھے، حالت یہ تھی کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کا سفرنامہ مشرق وسطی جب جریدۂ صدق (لکھنؤ )میں چھپا مگر شہر دمشق کے تذکرہ میں شیخ اکبر ؒ کا کوئی ذکر نہ تھا، اس پر حضرت گیلانی نےفوراًایک خط میں بڑے سوز وحسرت سے اس مفہوم کا جملہ فرمایا تھا کہ، ’’یہ بھی تو مولانا نے لکھا ہوتا کہ ہمارے شیخ اکبر کےنام لیوابھی ابھی وہاں کچھ باقی ہیں یا نہیں‘‘۔15

مولانا کو ابن عربی سے جس قدر دلچسپی تھی اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے مشہور ہم وطن بزرگ مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری کی ذات سے بھی عقیدت تھی، اور ان کے علوم پر عالمانہ نظر بھی، انہوں نے اس علاقہ سے نکلنے والے ایک ماہنامہ رسالہ فطرت (راجگیر، بہارشریف )کے پہلے شمارہ کے لئے مدیر مجلہ کی طلب پر فتوحات مکیہ کی طرح ’’فتوحات مخدومیہ‘‘ کے عنوان سے ایک اہم مضمون لکھا جو اس کے پہلے اور دوسرے شمارہ میں شائع ہوا، پہلاشمارہ جو ۱۹۳۳ء کے کسی مہینہ میں شائع ہوا تھا مجھے نہیں مل سکا، اس میں مولانا نے اپنے نام کی صراحت کے بجائے رمز استعمال کیا تھا، لیکن اس مضمون کی دوسری قسط راقم کی نظر سے گذری ہے، وہ حضرت مخدوم کے ایک اہم مجموعۂ ملفوظات’’معدن المعانی‘‘ کے اہم مباحث کی تشریح پر مشتمل ہے۔

تصوف واحسان کے مباحث پر مولانا کی معرکہ آرا کتاب’’مقالات احسانی‘‘ جس میں وہ صوفیہ کے زبردست وکیل نظر آتے ہیں، اس کا بیشتر حصہ بھی ابن عربی ہی کے افکار وعلوم کی شرح وتوضیح پر مشتمل ہے۔ وہ ابن عربی پر ایک مستقل تصنیف کا عزم کرچکے تھے، اور ان کی بڑی تمنا تھی کے ان کے حالات وافکار کی تشریح کرتے، لیکن افسوس کہ یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا، ایک جگہ بہت حسرت سے لکھتے ہیں:

’’بجائے خود یہ ایک مستقل مضمون ہے، تفصیلات کے لئے دعا فرمائیے کہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کے علوم اور ان کے حالات پر عنفوان شباب سے ایک کتاب ہی کے لکھنے کی نیت کرچکا ہوں، لیکن خدا ہی جانتا ہے، اس پرانی آرزو کی تکمیل کا موقع ملتا بھی ہے یا نہیں۔ شیخ اکبر رضی اللہ عنہ جیسا کہ معلوم ہے، خاص اندلس (یورپ )سے وطنی تعلق رکھتے تھے، اندلس کے مشرقی ساحل پر اب بھی مرسیہ نامی شہر پایا جاتا ہے، جو خاص مسلمانوں کا آباد کیا ہوا شہر ہے، عربوں نے صحرائے عرب کی مشہور راجدھانی تدمیر کے پر اس یورپین شہر کانام بھی تدمیر ہی رکھا تھا، لیکن چلا نہیں، مرسیہ ہی کے نام سے مشہور ہوا، یہ علاقہ اندلس کا باغ سمجھا جاتا تھا، شیخ رحمۃ اللہ علیہ جس زمانہ میں پیدا ہوئے یہی وہ وقت ہے جب مسلمانوں کی سیاسی قوت کا یہ انتشار عیسائیوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، بے حمیت امراء اندلس کی عیسائی حکومتوں سالانہ خراج ادا کرتے تھے، ان ہی میں مرسیہ کا نواب مرونیش بھی تھا، شیخ اسی خاندان کے عہد حکومت میں مرسیہ کے ایک علمی گھرانے میں رورنق افروز ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد اشبیلیہ اندلس کے مغربی علاقے میں چلے گئے، وہاں کے تعلیمی مرکزوں سے مستفید ہوتے رہے، اندلس سے مسلمان اس زمانے میں مسلسل ہجرت کرکر کے افریقہ اور ایشیا یعنی مشرقی ممالک کی اسلامی حکومتوں میں پناہ لے رہے تھے، بارادۂ حج اندلس کو خیر باد کیا، اور مشرقی ممالک ہی میں گھومتے رہے، تاایں کہ دمشق میں وفات ہوئی‘‘۔16

افسوس کہ ان کے قلم سے اس کی شرح وتوضیح نہیں ہوسکی جس کا آغاز باضابطہ انہوں نے کردیا تھا۔ لیکن اس سے قبل بھی وہ بہت سے مضامین ابن عربی پر لکھ چکے تھےجن میں سے کچھ کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا کی کوئی تحریر عربی میں سوائے ابن عربی کے خیالات وافکار کی تشریح وترجمانی کے نہیں ملتی، اسی سے ان کی عربی انشانگاری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، تقریباً‌ چالیس صفحات کا یہ مفصل مضمون بجائےخود ایک رسالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں پورے پس منظر کا جائزہ لینے کےبعد مولانا نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ایسی صورت میں شیخ کے لئے اس کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں تھی کہ وہ ظاہریت اختیار کریں اور ساتھ ہی وحدت قیومیت کی صدا لگائیں، شیخ نے اپنی تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس پورے ماحول کو سامنے رکھ کر اور اسلام کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی خاطر لکھا ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ ابن رشد کی وجہ سے اس ثنوی فکر کی ترویج ہورہی تھی، جو مسلمانوں کے درمیان رائج ہونے والے مشائی فلسفہ کی بنیاد تھی، اس لئے ضرورت تھی کہ وحدت قیومیت کی با ت کی جائے۔ یہ شیخ کا اساسی منہج ہے جو ان کی کتابوں میں نظر آتا ہے۔

مولانا نے شیخ کی پوری فکر کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

  1. پہلا مسئلہ جو شیخ اپنی تصانیف میں با بار ذکر کرتے ہیں، اور اس کی توضیح کرتے ہیں، وہ عقل فکری کی انتہاء اور نظر انسانی کی حد پروازسے متعلق ہے۔
  2. دوسرا مسئلہ رد ثنویت و بت پرستی سےمتعلق ہے، یہی مسئلہ لوگوں کے درمیان وحدت الوجود کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔
  3. تیسرا مسئلہ قرآنی جنت و آخرت کی وہ تصویر کشی ہے جیسی قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
  4. چوتھا مسئلہ اسرار تقدیر سے متعلق ہے، بالفاظ دیگر جسے مسئلہ خیر و شر سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
  5. پانچواں مسئلہ ذات و صفات کے سلسلہ میں وارد نصوص کو تشبیہ و تنزیہ کے درمیان کی راہ متعین کرنے سے متعلق ہے، اور اس سلسلہ میں فرق ضالہ نے جو دسیسہ کاریاں کی ہیں ان کا ازالہ ہے۔

مولانا کے بقول ’’جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں اکثر مسائل کی اصل مشائی فلسفہ اور اس کے شکوک و شبہات کے دین پر غلط زہریلے اثرات اور باطل نتائج سے بچانے اور اس سےاٹھنے والے فتنہ کو ختم کرنا ہے ‘‘۔17

پھر اس کی توضیح کی ہے، کاش وہ اس پر مزید لکھتے اورانہیں پوری کتاب لکھ کر اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کا موقع ملتا۔18

انہوں نے اس میں ایک اہم بات کا انکشاف کیا ہے وہ یہ کہ کا نٹ کا فلسفہ حضرت شیخ اکبر ہی سے ماخوذ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جس چیز کو دیکھ کرحیرت ہوتی ہے، اورآدمی مبہوت ہو کر رہ جاتاہے، وہ یہ ہے کہ یورپ والےاورجوان یورپ والوں کےطفیلی یاان کی ہاں میں ہاںملانےوالےہیں، ان سبھوں نےاس مسئلہ کی ایجادوتنقیح کاسہراجرمنی کےحکیم کانٹ کےسرباندھتے ہیں، اپنی قوم کےلئےاس چیزکویہ مایۂ فخروفضل بنائےہوئےہیں، لیکن جو لوگ دونوں سے واقف ہیں، اور دونوں پران کی نظر ہے، انہیں یہ کہنے میں تردد نہیں ہوگا، کہ جرمن فلسفی نے اس سلسلہ میں جو حقائق و نکات ذکر کئے ہیں، وہ شیخ کے لطائف و دلچسپ مباحث و نکات کے سامنے ایک سمندرکے قطرہ سے زیادہ نہیں معلوم ہوتے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ امام غزالی کی کتابیں اور شیخ ابن عربی کی تصانیف ہی ہیں جنہوں نے اہل یورپ کی اس طرف رہنمائی کی، جس کو انہوں نے معاصر اسلوب اور عصر ی قالب میں ڈھال کر پیش کر دیا۔ اس طرح کے مسائل میں انہوں نے کتنا سرقہ کیا ہے، اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، اگر موقع ملا تو اصل کتاب میں اس کی تفصیل و توضیح ذکر کی جائے گی، اور ان کا جائزہ لیا جائے گا، ان شاء اللہ‘‘۔19

جب مولانا کا یہ مقالہ شائع ہوا تو ان سے اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کی گذارش کی گئی، چنانچہ انہوں نے اردو میں اس پر تفصیل سے لکھا’’شیخ اکبر ابن عربی کا نظریۂ علم‘‘ کے عنوان سے معارف کی دو قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں مولانا نے شیخ کے اقتباسات کے ذریعہ عقل انسانی کی حد پرواز اور دیگر مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔

(جاری)

حواشی

  1. از افادات مولانا شاہ شمیم الدین احمد منعمی عظیم آبادی۔
  2. مولانا سید عبدالحي حسنی نے تاریخ الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند میں فصوص الحکم کی شروح کا ذکر کیا ہے، جو حسب ذیل ہیں، شرح الفصوص شیخ علی ہمدانی کشمیری، فارسی، شرح حضرت گیسو دراز، مشروع الخصوص شرح الفصوص، شخ علی مہائمی، عین الفصوص شیخ شرف الدین دہلوی، عربی، نقش الفصوص شیخ شمس الدین دہلوی، شرح الفصوص حضرت جہانگیر اشرف کچھوچھوی، شرح الفصوص شیخ عبدالنبی شطاری، شرح ترجمۃ الفصوص شیخ عبدالنبی مذکور، شرح الفصوص شیخ محب اللہ الہ آبادی، عربی، انہیں کی دوسری فارسی شرح، شرح عبدالکریم سلطان پوری، شرح شیخ عبدالنبی نقشبندی سیام چوراسی، شخوص الحکم شیخ غلام مصطفیٰ تھانیسری دہلوی فارسی، شرح الفصوص علی وفق النصوص شیخ محمد افضل الہ آبادی، الطریق الامم شرح فصوص الحکم شیخ نورالدین گجراتی، شرح الفصوص شیخ علی اصغر قنوجی صدیقی، شرح شیخ طاہر بن یحییٰ عباسی الہ آبادی، تاویل المحکم شیخ محمد حسن امروہوی، شرح شیخ جمال الدین گجراتی، تایید الہمم فی شرح اربع کلما ت من فصوص الحکم شیخ محمد افضل الہ آبادی۔ (الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند، ص۱۶۸، موسسۃ ہنداوی مصر ۲۰۱۲)، ان کے علاوہ شرح شیخ عبدالقدوس گنگوہی، سید عبدالاول دولت آبادی کی شرح، ملا عبدالعلی بحرالعلوم کی شرح، ان کے علاوہ شیخ عبدالکریم لاہوری اور مولانا احمد حسن کانپوری کی فارسی شرحیں قابل ذکر ہیں، اردو میں سب سے پہلے اس موضوع پر کس نے کام کیا اس کا صحیح علم نہیں، مولوی عبدالغفور دوستی بہاری، مولوی سید مبارک علی اور مولوی عبدالقدیر حیدرآبادی کے فصوص الحکم کے اردو ترجمےاس سلسلہ کی اولین کوشش کہے جاسکتے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے خلیق احمد نظامی کا مضمون ابن عربی اور ہندوستان، شائع شدہ ماہنامہ برہان دہلی جنوری ۱۹۵۰ء۔ موصوف نے اس میں مذکورہ بالا شرحوں میں سے اکثر کا ذکر کیا ہے، اور شیخ علی ہمدانی کشمیری کی کوشش کو اس سلسلہ کی اولین کوشش قرار دیا ہے، گرچہ ان کے بقول ان سے قبل شیخ شمس الدین عارف کے یہاں سب سے پہلے شیخ ابن عربی کی تصانیف کا حوالہ ملتا جو حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کے متوسلین میں تھے۔ مولانا عبدالحی کی ذکر کردہ شروح کے علاوہ جو نام ہیں وہ اسی مذکورہ بالا مضمون سے ماخوذ ہیں۔ مزید جن کتابوں کا علم ہوا ان میں حاشیہ فصوص الحکم از شاہ عاشق علی عظیم آبادی، فارسی میں ہے، اور خانقاہ شاہ ارزاں میں موجود ہے۔ (نعمت ارزاں مقدمہ از شاہ حسین احمد، مطبوعہ خانقاہ شاہ ارزانی پٹنہ ۲۰۲۱ء)۔ شرح فصوص عربی از علیم اللہ بدایونی خلیفہ مولانا محمد اسلم جعفری کاکوی، دست خاص کا نسخہ کتب خانہ خانقاہ مجیبیہ پٹنہ میں موجود ہے۔ ان کاموں کے علاوہ ابن عربی کے فلسفہ بالخصوص فلسفہ وحدت الوجود پر یہاں بہت کام ہوا ہے۔ اس کے لئے خلیق احمد نظامی کامحولہ بالا مضمون ملاحظہ فرمائیے۔ خانقاہ مجیبیہ پٹنہ کے بزرگوں میں اس موضوع پر دو کام قابل ذکر ہیں ایک مواطن التنزیل از مولانا عبدالغنی منعمی اور ملا امر اللہ جعفری کی تحلیل المعضلات لابن عربی۔ الفیض التقی فی حل مشکلات ابن عربی، شاہ انور قلندر کاکوروی، فارسی مطبوعہ مطبع سرکاری رامپور ۱۹۱۲ء۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مسعود انور علوی کاکوروی کے قلم سے ۱۹۹۹ میں شائع ہوا۔ چودہویں صدی کے مشہور بزرگ شاہ پیر مہر علی گرلڑوی نے بھی فصوص الحکم کی شرح لکھی تھی۔
  3. احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چند دن، ص ۹۳ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان، ۱۴۱۸ھ۔
  4. مقالات احسانی، ص، ۱۷، مکتبہ الحق بمبئی ۲۰۰۶ء
  5. ابن عربی پر سب سے پہلے اردو میں کب لکھا گیا اس سلسلہ میں کچھ کہنا مشکل ہے، تمام قدیم مجلات ورسائل کی مراجعت کے بعد ہی کوئی بات کہی جاسکتی ہے، جو آسان نہیں، البتہ دستیاب شواہد کے مطابق انیسویں صدی کے وسط سے اردو میں ابن عربی کے تعارف وتوضیح کا علم ہوتا ہے۔ البتہ جو قدیم تحریریں ملتی ہیں ان میں حسب ذیل قابل ذکر ہیں ۱۸۵۰ میں حیدر آباددکن کے مطبع محبوب شاہی سے شائع شدہ ترجمہ فصوص الحکم از ابن اولاد علی۔ سوانح حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، مطبع کلاں ساڈھورہ پنجاب، ترجمہ فصوص الحکم محمد برکت اللہ لکھنوی مطبع مجتبائی، لکھنؤ، ٍ۱۹۰۹ء، ترجمہ فصوص الحکم از عبدالغفور دوستی بہار۔ فلسفہ ا بن عربی عبداللہ عمادی، تقریبا بیس صفحا ت کا رسالہ، تقریبا بیسویں صدی کے اوائل میں شائع ہوا۔ ترجمہ فتوحات مکیہ شائع از راولپنڈی، راجہ غلام قادر وفضل خاں، اسٹیم پریس لاہور سے ۱۹۲۷ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تو مختلف کتابیں، تراجم اور فلسفہ وحدت الوجود پر مضامین شائع ہوئے، جن کا استقصاء دشوار ہے۔
  6. مسئلہ اتحاد وحلول اور ابن عربی، ماہنامہ القاسم دیوبند، ذی الحجہ، ۱۳۳۴ھ ومحرم ۱۳۳۵ھ۔
  7. حوالہ سابق۔ محرم ۱۳۳۵ھ
  8. حوالہ سابق۔
  9. دیکھئے ماہنامہ القاسم دیوبند، ذی القعدہ وذی الحجہ ۱۳۳۴ھ۔
  10. یہ مضمون ماہنامہ الرشید ردیوبند کے شمارہ بیع الثانی ۱۳۳۵ھ میں شائع ہوا ہے۔
  11. مکاتیب گیلانی، مرتبہ مولانا منت اللہ رحمانی، مطبوعہ خانقاہ رحمانی مونگیر۔ ۱۹۷۲ء۔ ص۳۶۲
  12. احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چند دن۔ ص۲۴۹۔ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان، ۱۴۱۸ھ۔
  13. مکاتیب گیلانی، محولہ بالا، ص ۱۲۵
  14. حوالہ سابق، ص ۲۱۳
  15. مقالات احسانی، ص ۱۹، مکتبہ الحق بمبئی ۲۰۰۶ء۔ ۔ یہ خط پرانے چراغ میں موجود ہے، (ص۷۹)، مطبوعہ لکھنؤ، ۲۰۱۰ء
  16. مقالات احسانی، ص ۲۹۷
  17. الشیخ الاکبر وطریقتہ مندرجہ المقالات السنیہ مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن، ۱۹۳۱ء۔
  18. راقم نے اس عربی مضمون کا اردوترجمہ کیا ہے، اور مولاناکی کسی تحریر کے اردو کا ترجمہ کا یہ پہلا اتفاق ہے جس میں ان کےب اسلوب کو اپنانے کی کوشش کی گئی ہے، نہیں معلوم کس حد تک کامیابی ہوسکی۔ اس مضمون میں جابجا انہوں نے اپنی مجوزہ تصنیف کا حوالہ دے کر بحث کو نامکمل چھوڑ دیا ہے، جیسے وہ اس کا پختہ عزم کرچکے تھے، لیکن لگتا ہے کہ مولانا کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ کام مکمل نہیں ہوسکے گا۔ ان شاء اللہ یہ مضمون اور ابن عربی پر ان کے سارے مضامین جلد ہی ایک مجموعہ کی شکل میں شائع ہوں گے۔
  19. مقالہ الشیخ الاکبر، محولہ بالا۔ ص ۳۱


صاحبِ تعبیر کے تصور ِدین میں تذبذب

حسنین خالد

مولانا مودودیؒ نے اپنے زمانے کے اسلوب میں جدید دور کے اذہان کے سامنے اسلام کی حقیقی روح اور اس کے مطالبات کو رکھا جس کے نتیجے میں عالم اسلام کی اکثریت نے ان کی اذان پر لبیک کہہ کر کام کا آغاز کیا۔ یہ کوئی قومیت یا مخلوقی کبریائی کی طرف اذان نہیں تھی، بلکہ توحید کامل کی صدا تھی، جس کو پہلے سے لوگ محسوس تو کر رہے تھے لیکن واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کرنے سے قاصرتھے۔ مسلمانوں کے لئے درپیش چیلنج یہ تھا کہ وہ دور جدید سے جنم شدہ مسائل اور سوالات کا اسلام کی روشنی میں جواب تلاش کرسکیں۔ لیکن گلوبلائزیشن کے دور میں اس کی تشریح اور اس کا دفاع ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ بظاہر لوگ مخلوق کی خدائی میں خدائے واحد کی بندگی سے محروم تو نہیں تھے، لیکن صرف خدائے واحد کی جزی، کلی اور "الا لہ الخلق و الأمر" والی بندگی سے محروم ضرور تھے۔ اسی اثنا میں تنقید و تائید سے ماوراء مولانا مودودی ؒ صحابہ کرام والے بیانیہ کو لےکر  آئے تاکہ "لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد" بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف لا سکیں۔

ملوکیت سے لے کر دور ِجدید تک دینِ اسلام کا تصور دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک تصور بادشاہ کا اور دوسرا مذہب کا۔ ان دو خود ساختہ تصوروں نے وقت گزرنے کےساتھ ایسا رنگ پکڑا کہ کئی صدیوں تک یہ دین کا رنگ اختیار کر گئے تھے۔ دین اسلام کے حقیقی تصور کو دوبارہ سامنے لانے کے لیے ائمہ اربعہ اور محدثین کے ساتھ دیگر علماء نے بھی کوششیں کیں، جن میں نمایاں طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒوغیرہ نے اپنے حصے کی شمع جلائی۔ انہی حضرات کے بعد مولانا مودودیؒ جدید دور میں عالم کفر کے فتنہ انگیز زہریلے تیروں کے سامنے جواب کی صلاحیت کے ساتھ سینہ تان کر دین کی خدمت کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے وہ فریضہ انجام دیا جو وقت کی شدید ضرورت تھا۔ اُس وقت ملوکی تصور ِدین کے غلبے میں جو تصور دین مولانا مودودی ؒنے پیش کیا، وہ وہی چودہ سو سال قبل اسلام کا حقیقی تصور تھا جس کے سامنے اور جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے عالم کفر اس وقت بھی کھڑا تھا اور آج بھی۔ اس تصور کو ہم زیادہ زیر ِبحث نہیں لاتے، اس لیے کہ اس کی توضیح و تشریح مولانا مودودی کی کتابوں اور لٹریچر میں شرح موجود ہے۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے تصور دین پر تنقید کے نتیجے میں قائم ہونے والے تصورات اور اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اعتراضات کے جائزے سے پہلے مولانا مودودیؒ کے تصور دین کے بارے میں چند سطریں ملاحظہ کیجئے، تاکہ وہ بنیادی بات جس پر بحث ہو گی سامنے موجود ہو۔ لکھتے ہیں:

" حقیقت میں دین وہ ہے جو زندگی کا ایک جز نہیں بلکہ تمام زندگی ہو، زندگی کی روح اور اس کی قوت محرکہ ہو، فہم و شعور اور فکر و نظر ہو، صحیح و غلط میں امتیاز کرنے والی کسوٹی ہو، زندگی کے ہر میدان میں ہر ہر قدم پر راہ راست وراہ حق اور راہ کج کے درمیان فرق کر کے دکھائے، اور راہ کج سے بچائے، راہ راست پر استقامت اور پیش قدمی کی طاقت بخشے، اور زندگی کے اس لامتناہی سفر میں جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلا جا رہا ہے، انسان کو ہر مرحلے سے کامیابی و سعادت کے ساتھ گزارے۔ " (1)

دین کے اسی مذکورہ جامع تصور کو پھر مولانا مودودی نے قرآن کی عملی تفسیر (یعنی اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ) سے پیش کیا اور اسی دین کے قیام کے لیے اپنے بیشتر لٹریچر کے ساتھ، خاص طور پر سورہ شوریٰ کی آیت ٣٣ سے اپنی تفسیر میں استدلال کیا۔ (2)

مولانا مودودیؒ کے تصور دین پر معترض حضرات میں مولانا وحید الدین خان ؒ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور جاوید احمد غامدی شامل ہیں۔

خان صاحبؒ مولانا مودودیؒ کے تصور دین کے دس سال حامی اور مبلغ رہنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مولانا مودودیؒ کا تصور دین صحیح نہیں تھا۔ دین کی اقامت، دین کا غلبہ یہ سب مولانا مودودیؒ کے اپنی طرف سے خود ساختہ تصورات ہیں۔ اس کے مقابل انہوں نے "تعبیر کی غلطی" لکھی، جس میں انہوں نے خود کو ایک کامل اور آخری سطح پر فائز سمجھ کر اسے اسلاف کا دفاع قرار دیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا وحید الدین خان نے مولانا مودودیؒ کی فکر پر تنقید کرنے کے بعد ایک عنوان "صحیح تصور دین" لکھا ہے  جس میں انہوں نے اسلام کو جزوی طور پر سمجھنے کی سعی کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ یہ مولانا مودودی ؒکے تصور دین کے مقابلے میں درست تصور دین ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:

"دین کی آخری حقیقت ایک باطنی ادراک ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہمیں بس آخری مقام تک پہنچناہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم خداکو اپنے حقیقی الہ و معبود کی حیثیت سے پالیں۔ ہم اس سے حیاتی طور پر جڑ گئے ہوں، نہ کہ ہم کوئی سماجی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں یا اس کو کھڑا کرنے کے لئے ہم نے جدوجہد کرڈالی ہو۔ اگر چہ حالات کا تقاضا ہو تو یہ کام بھی لازماً اہل ایمان کو کرنے ہوتے ہیں۔ مگر اس کی حیثیت اضافی ہے نہ کہ حقیقی۔ "(3)

مولانا وحید الدین خان صاحب ؒ جاوید احمد غامدی صاحب کو اپنا استاد مانتے تھے۔ کہتے ہیں " اگر چہ یہ مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں لیکن علم میں مجھ سے بڑےہیں"۔ (4) خان صاحب نے جاوید احمد غامدی صاحب کے علاوہ عصر حاضر کے علماء کے ساتھ ساتھ اسلاف میں سے  بھی کسی پر نقد نہیں چھوڑا، جس پر ہم " علماء پر تنقیدی جائزہ" انشاءاللہ جلد ہی پیش کریں گے۔ خان صاحب کا تصور دین صحیح تھا یا نہیں، اس پر بات کرنے سے پہلے ہم آپ کے سامنے وہ واقعہ پیش کریں گے جومحمد احسن تہامی دار التذكير لاہور (5) نے خان صاحب کی وفات پر ایک مضمون میں، جو الرسالہ خصوصی شمارہ داعی اسلام مولانا وحید الدین خان صاحب اگست، ستمبر ٢٠٢١ءمیں شائع ہوا، زیر بحث لایا ہے۔ اس میں انہوں نے خان صاحب کے پاکستانی سفر کی ایک تاریخی روداد کوحصۂ تاریخ بنا دیا ہے۔ جس کے بعد وہ خان صاحب سے اور بھی متاثر ہوئے تھے۔ لکھتے ہیں:

"١٩٩١ء میں جناب نعیم بلوچ اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر مولانا محترم کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ مولانا ایک ہفتے کے لیے تشریف لائے۔ ان کی رہائش کا بندوبست گارڈن ٹاون، لاہور میں جناب کرامت شیخ کے ہاں کیا گیا۔ یہاں فجر کی نماز کے بعد مولانا محترم سے استاد گرامی جاوید احمد غامدی کی معیت میں خصوصی نشستیں ہوئیں۔ ان مجلسوں میں استاد نے مولانا کے تصور دین پر چند سوالات اٹھائے۔ ان مجالس کے دیگر شرکا میں ڈاکٹر منیر احمد، طالب محسن، رفیع مفتی اور نعیم بلوچ شمال ہیں۔ میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے وقت مولانا نے غامدی صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ میری فکر پر پہلی مرتبہ آپ نے سنجیدہ علمی تنقید کی ہے۔ آپ کے نقد کی روشنی میں اپنی فکر کا اب مجھے از سر نو مطالعہ کر کے جائزہ لینا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ "(6)

مذکورہ واقعہ اس نکتے کی نشان دہی کر رہا ہے کہ خان صاحب جس تصور دین کو درست سمجھتے تھے، اس کو انہوں نے غامدی صاحب کے نقد پر تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی تھی، مگر تبدیل کیوں نہیں کیا؟ اس کو خان صاحب نے عمر کی طوالت کا تقاضا بتایا ہے۔ اب یہ بات ثابت ہوئی کہ خان صاحب کے تصور دین کو مولانا مودودیؒ کے بیان کردہ تصور دین کے مقابلے میں پیش کرنا ذہنی طفولیت کے جذبات ہی شمار کیا جائے گا۔ مولانا مودودیؒ پر دو ٹکوں کے مصنفین کی تنقیدی بارش ابھی تک برس رہی ہے، لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس تنقید سے ان کے احباب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تصور دین کے حوالے سے مولانا کا جو موقف ہے وہ دو جمع دو مساوی چار کی طرح واضح ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقیدی کتاب "عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح" پر مولانا مودودی ؒنے اپنے خط میں کچھ یوں لکھا تھا کہ:

" عنایت نامہ مؤرخہ ٥ / صفر ٩٩ ھ ملا، اور اس کے ساتھ آپ کی تازہ کتاب "عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح " کا ایک نسخہ بھی موصول ہوا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ میری جس چیز کو آپ نے خدشات کا موجب سمجھا اس پر تنقید فرمائی۔ مزید میری جن چیزوں کو آپ دین اور اہلِ دین کے لیے مضرت رساں یا موجبِ خطر سمجھتے ہوں ان پر بھی آپ بلا تکلف تنقید فرمائیں۔ میں نے کبھی اپنے کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا، نہ میں اس پر بُرا مانتا ہوں۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ میں ہر تنقید کو برحق مان لوں، اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کرلوں۔ " (7)

مولانا مودودی ؒپر تنقیدی کتاب میں اگر چہ انھوں نے خود کو تنقید سے مبرا نہیں سمجھا ہے لیکن اپنے تصور دین، اپنی فکر اور اپنی تحریک کے حوالے سے ان کے یہ دو ٹوک الفاظ کافی ہیں کہ: "البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ میں ہر تنقید کو برحق مان لوں، اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کرلوں۔ "

مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ کسی پر تنقید اور کسی کی تائید سے بالاتر ہو کر دنیا سے مخاطب ہوئے۔ جس کو خان صاحب ؒاور غامدی صاحب تعبیر کہتے ہیں اور اس کے مقابل میں بغیر کسی قوی برہان کے تنقیدی اسلوب میں اپنے موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی۔

خان صاحب کی کتاب "تعبیر کی غلطی" پر مولانا مودودی کا آخری کمنٹ یہ تھا، جو کہ ہر ایک ذو علم قاری کو ان کی کتاب پڑھنے کے بعد نظر آتا ہے کہ:

"میرا خیال یہ ہے کہ آپ کا مطالعہ نہایت ناقص ہے، آپ نے غلط نتائج نکالے ہیں اور میرے مسلک کو بھی آپ پوری طرح نہیں سمجھے ہیں، بلکہ اس کی ایک غلط تعبیر آ پ نے کرلی ہے۔ لیکن غضب یہ ہے کہ اس مضمون میں آپ اپنے آپ کو ایک بہت اونچے مقام پر فائز بیٹھ کر کلام فرمارہے ہیں اور آپ کا انداز ِکلام یہ ہے کہ جو شخص بھی آپ کے نقطہ نظر کوقبول نہیں کرتا وہ جاہل و نادان بھی ہے اور ضال ومضل بھی۔ اب میری مشکل یہ ہے کہ علم کی کمی کے ساتھ جو اس طرح کے زعم میں مبتلا ہو اس سے مخاطب ہونے کی مجھے عادت نہیں ہے۔ "(8)

اس کے بعد تو کوئی بات نہیں بنتی جس پر کوئی بحث کریں۔ اس لیے کہ مولانا مودودی ؒنے انہیں دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے" آپ نے غلط نتائج نکالے ہیں اور میرے مسلک کو بھی آپ پوری طرح نہیں سمجھے ہیں بلکہ اس کی ایک غلط تعبیر آ پ نے کرلی ہے" یعنی جو بات خان صاحب بتا رہے ہیں یہ سرے سے مولانا مودودی کی تصور کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی، جس پر عامر عثمانی صاحب نے خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:

"مولانا مودودی کا یہ (مذکورہ) ریمارک پڑھ کر ہمیں ان پر غصہ آیا تھا، ہم واقعی اس کتاب کو پڑھنے سے قبل خان صاحب کی استعداد کے بارے میں کافی حسن ظن رکھتے تھے، کم سے کم انہیں عربی کا فارغ التحصیل تو سمجھتے ہی تھے۔ لیکن جوں جوں کتاب کو پڑھا، حسن ظن کے شیش محل کی ایک ایک دیوار پاش پاش ہوتی چلی گئی اور ماننا پڑا کہ مولانا مودودی کا بحث سے اجتناب غلط نہیں تھا۔ آخر ایسے شخص سے کوئی سنجیدہ اور علمی انسان مباحثے میں وقت کیوں برباد کرے گا جو  چند سال ریل کی ڈرائیووری کر لینے کے بعد، اس نے سمجھا کہ اب وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مشین کے میکنزم اور تکنیک کا  ماہرانہ کام کر سکتا ہے۔" (9)

میں حیران ہوں کہ اگر مولانا مودودیؒ کا تصور دین درست نہ ہوتا تو مدرسۃ الاصلاح، مدرسہ دیوبند، مولانا مودودی کے معاصرین وغیرہ میں اتنا کوئی رجل رشید نہیں تھا کہ مولانا مودودی ؒکے تصور دین پر تنقید کر کے بتا دیتا کہ یہ تصور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اور ان کے معاصر مدرسہ دیوبند کے اکابر مولانا اشرف علی تھانویؒ کو جب مولانا منظور نعمانیؒ نے جماعت اسلامی کا دستور بھیج کر اس پر کمنٹ چاہا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یہ خلافِ اسلام نہیں ہے لیکن بس میرا دل اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (10)

کیا صاحبِ تدبر قرآن امین احسن اصلاحیؒ کوئی طفل مکتب میں سے تھے کہ دار الاصلاح چھوڑ کر مولانا مودودی کی رفاقت میں ایک غلط تصور دین کے تحت دارالاسلام میں شامل ہوئے تھے۔ جو جاوید احمد غامدی اور خان صاحب دونوں کے استاد تھے۔ اگر مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے مولانا مودودی ؒکے تصور دین پر تنقیدی قلم نہیں اٹھایا، جس نے اپنے عمر کا کم و بیشتر سارا حصہ قرآن مجید کے سوچ و تدبر میں گزارا تھا تو ان کے شاگردوں کی بے جا کنفیوژن پیدا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مولانا مودودیؒ نے اپنا تصور دین "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں" میں خالص قرآنی آیات اور عربی لغت کے مصادر سے پیش کیا ہے۔ اب اگر کوئی ان کے سامنے اس تصور دین کے خلاف علمی میدان میں کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی قرآن ہی کو برہان بنا کر لے آئے، نہ کہ زَمن ملوکی سے مغلوب و متاثر علماء کے اقوال و آراء کو۔ اس لیے کہ مولانا مودودی ؒکا تصور دین رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور ہی کا اول ایڈیشن ہے جس میں زَمن ملوکی کے درباری علماء کے اقوال و آثار کی امیزش شامل نہیں ہے۔


حوالہ جات

  1.  (اسلامی ریاست مولانا مودودی، صفحہ 32، اسلامک پبلیکیشنز لاہور، اشاعت 2018ء)
  2.  (تفہیم القرآن: جلد 4 صفحہ، 486، 87، 88، 89 ا، دارہ ترجمان القرآن پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور؛ اشاعت ستمبر 2011ء)
  3.  (تعبیر کی غلطی ص: 301 گڈ ورڈ بک انڈیا )
  4.  لنک https: //youtu.be/aCrzV21qQ2Y
  5.  (محمد احسن تہامی صاحب، خان صاحب کا الرسالہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کرنے والے CPS کے اولین ارکان میں سے تھے۔ پاکستان سے دار التذكير کے نام سے خان صاحب کی کتب کی اشاعت بھی انہوں نے شروع کی تھیں)
  6.  (الرسالہ خاص شمارہ اگست ستمبر 2021ء، صفحہ 91، گڈ ورڈ بک انڈیا )
  7.  (پرانے چراغ حصہ دوم ص: 279، 280، مکتبہ شباب العلمیہ، ندوہ روڈ لکھنؤ اشاعت شسشم 2010ء۔ (اسی طرح اس کا ذکر "عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح" میں بھی موجود ہے۔ صفحہ)
  8.  (تعبیر کی غلطی: صفحہ 118، گڈ ورڈ بک انڈیا )
  9.  ( ماہنامہ تجلی دیوبند، تنقید نمبر، فروری مارچ 1965ء)
  10.  (مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف، صفحہ: 138، مجلس نشریات اسلام کراچی، اشاعت مارچ 1980ء بار اول)

دل کا قبول نہ کرنا کسی شے کے غلط ہونے کا دلیل نہیں بن سکتا۔ ویسے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اپنے عمر کے آخری مرحلے میں تھے۔ 1941ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور 1943ء میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فوت ہوئے تھے۔ عمر کے اس حصے میں ان کا کیسے اپنے طرز پر کام کرنے کے بجائے ایک نئے طرز کے ساتھ اتفاق پیدا ہو جاتا؟


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۴)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)



ایجاد کب بدعت بن جاتی ہے؟ بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول

شاہ محمد اسماعیل اور دیوبند کے پیش روؤں کے لیے نہ صرف نبی اکرم ﷺ کا عمل اور عہد مقدس ہے، بلکہ اس کے ساتھ سلف صالحین، یعنی تمام صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین واجب الاتباع اور تنقید سے ماورا ہیں1۔ اگر چہ سنت کا معنی رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے، لیکن جب اسے بدعت کے مقابلے میں استعمال کیا جائے تو اس کا حقیقی معنی وہ تمام اعمال واقدار ہیں جو اسلام کی ابتدائی تین نسلوں (قرونِ ثلاثہ) کی پیدا کردہ اور منظور کردہ ہیں۔ دیوبند کے پیش روؤں نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ، ان کے صحابہ کرام، ان کے تابعین اور تبع تابعین کا تعلق ایک ہی زمانی عمارت سے ہے۔ 

ان کا کہنا یہ تھا کہ کوئی بھی عمل یا رواج جو عہد صحابہ یا تابعین وتبع تابعین کے دور میں رائج اور عام تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے پیچھے رسول اللہ ﷺ کے قول، فعل اور تقریر کی صراحت یا استدلال نہ ہو2۔ اس لیے عربی زبان کے قواعد اور لغت کی تدوین، قرآن کریم کے اعجاز کا اثبات، اصول فقہ اور قواعد فقہیہ کی تشکیل؛ بظاہر یہ تمام وہ نئی چیزیں ہیں جن کا اضافہ رسول اللہ ﷺ کی دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد دین میں کیا گیا، لیکن سنت کی مخالفت کرنے کے بجاے ان مابعد کی ایجادات نے درحقیقت اس کی شرعی قدر وقیمت میں اضافہ کیا، یا اس کی تشریح وتوضیح کی، اس لیے انھیں بدعات نہیں کہا جا سکتا۔

دیوبند کے پیش روؤں نے بتایا کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اصطلاحوں کے درمیان عام طور پر جو فرق کیا جاتا ہے، وہ غیرضروری ہے۔ ان کی نظر میں بدعت ہمیشہ سے ان ناجائز اعمال پر دلالت کرتی آئی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مد مقابل ہیں۔انھوں نے کہا کہ غلط طور پر موسوم کی گئی بدعتِ حسنہ کے لیے سنت کا الحاق (ملحق بالسنۃ) کی اصطلاح دی استعمال کرنی چاہیے۔ ایسا اس لیے ہونا چاہیے کہ یہ اضافہ جات کوئی نئی شرعی نظیر قائم نہیں کرتے، بلکہ پہلے سے موجود ایک نظیر کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں3۔ آئیے، اس نکتے کو  مزید واضح کرتے ہیں۔

علماے دیوبند کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ان عقائد واعمال اور عادات واطوار سے عبارت تھا جو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں بغیر کسی اختلاف کے رائج (شائع بلا نکیر) تھے۔ ایسا نہیں کہ تاریخ کے اس مثالی دور میں برے اعمال سرے سے موجود نہیں تھے۔ اس دور میں لوگ جھوٹ بولتے، دھوکا دیتے اور تمام قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ تاہم ان گناہوں کا دائرہ محدود تھا اور ان پر تنقید کی جاتی تھی۔ دیوبندیوں کے فقہی تخیل میں اس لیے بدعت کا تصور ہر اس نئی چیز پر دلالت نہیں کرتا جو مادی طور پر ابتدائی تین صدیوں میں موجود تھی۔ اس کے بجاے اس کا مطلب ان سنتوں کی روح سے انحراف یا مخالفت ہے جو اس بابرکت دور میں رائج تھیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بہت عمدہ طریقے سے اس اصول کی وضاحت بیان کی ہے۔

تھانوی کی نظر میں اسلام کی ابتدائی تین صدیوں کے بعد دو قسم کی نئی چیزیں سامنے آئیں4۔ پہلی قسم کی نئی چیزیں وہ تھیں جو اپنی شکل وصورت اور اپنے وجود کے بنیادی مقصد (سببِ داعی) دونوں کے اعتبار سے نئی تھیں۔ مزید برآں یہ نئی چیزیں واجب دینی اعمال کی تکمیل کے لیے ضروری تھیں۔ مثلاً‌ دینی کتابوں کی لکھائی اور ان کی فہرست سازی، دینی مدارس اور خانقاہوں کی تعمیر اور عربی قواعد کی تشکیل وہ تمام نئی چیزیں تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں موجود نہیں تھیں، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ ان کی موجودگی کی ضرورت بھی اس دور میں نہ تھی۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ نئی چیزیں دینی فرائض کی تکمیل کے لیے ضروری بن گئیں۔ کیوں؟ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے تھانوی نے ایک کہانی بیان کی کہ کس طرح دین کی ترویج وحفاظت کے لیے انسانی صلاحیتوں میں عمومی زوال پیدا ہوا، جس کی وجہ سے دین اپنے ابتدائی دور کی شکل سے زیادہ دور چلا گیا، اور جس نے ایسے آلات اور ایجادات کی پیداوار کی ضرورت پیدا کی جو اس عمل میں معاونت فراہم کر سکیں۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ اسلام کی پہلی تین صدیوں میں ابتدائی معاشرہ دین کو تمام نقصانات سے تحفظ فراہم کرنے میں اتنا آگے اور ماہر تھا کہ اس کام میں انھیں کسی بیرونی وسیلے یا طریق کار کی ضرورت ہی نہ تھی۔ مثلاً اس زمانے کے لوگوں کا حافظہ غلطی سے پاک تھا۔ وہ ہر وہ چیز یاد کر لیتے تھے جو وہ سن لیتے۔ وہ مذہب اور اس کی باریکیوں کو اس قدر گہرائی سے سمجھتے تھے کہ انھیں ایسے نکات سمجھانے یا سکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح احادیث نبویہ اور علوم سیرت کے حفظ وتدوین کا ایک پورا ماحول عروج پر تھا5۔

مولانا تھانوی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تین نسلوں تک اغلاط سے مبرا یہ ابتدائی عہد باقی رہنے کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا جس میں کئی محاذوں پر تدریجی لیکن گہرے زوال کا مشاہدہ ہونے لگا۔ لوگ دین کی حفاظت میں اس طرح پرجوش نہیں رہے جس طرح وہ پہلے تھے۔ ایک عمومی بےپروائی روزمرہ کا معمول بن گئی۔ اہل بدعت اور ایسے لوگوں کے پاس طاقت واقتدار آگیا جو عقل کو دینی حقائق پر ترجیح دیتے تھے6۔ اس موقع پر مسلمان علما نے یہ جان لیا کہ ان کا دین خطرے کی زد میں ہے، اور اگر وہ اس کا فوری علاج نہ کر سکے تو دین آہستہ آہستہ فنا ہو جائے گا۔ اس لیے انھوں نے ایک شدید بحران کے دور میں دین کی حفاظت کے لیے مخصوص آلات اور طریق ہاے کار ایجاد کیے۔  ان ایجادات میں دینی کتابوں کی اشاعت، علم فقہ، اصول فقہ اور حدیث (جس کی سند اور متن کی کتابی تدوین حضور ﷺ کی وفات کے کافی عرصے بعد کی گئی)  جیسے علوم کی باضابطہ تدوین عمل میں لائی گئی۔ ممتاز اہل علم نے دینی مدارس تعمیر کیے جہاں ان نئے مضامین کی تعلیم وتبلیغ کی جانے لگی۔ اسی طرح اس زمانے کے نامور صوفیا نے خانقاہیں اور تربیتی مراکز بنائے، تاکہ دینی علوم اور استناد کے تسلسل کو قائم رکھ سکیں۔

مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا کہ ان پیش رفتوں اور سرگرمیوں کے پیچھے جو بنیادی محرک کار فرما تھا، وہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ یہ تمام نئی پیش رفتیں بظاہر بدعات دکھائی دیتی ہیں، تاہم حقیقت میں یہ وہ ضروری آلات ووسائل ہیں، جو واجبات دین کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ تھانوی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: اس لیے  فقہی قاعدے کی رو سے کہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے (مقدمة الواجب واجبة)، ان ایجادات کو بھی واجب سمجھنا چاہیے۔

علم کے ان نئے اعمال اور طور طریقوں نے دین کے تسلسل میں کوئی خلل پیدا نہیں کیا۔ اس کے بجاے وہ دین کی بقا کے لیے ناگزیر تھے۔ بالفاظ دیگر یہ بظاہر نئی ایجادات سنت نبوی کے اندر مضمر تھیں جن کا ظہور بعد کے دور میں ہوا۔ اگر چہ وہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے نئی تھیں، لیکن اپنے اصلی جوہر کے اعتبار سے وہ براہ راست سنتِ نبوی کی روح سے جڑی ہوئی تھیں۔ یہ ایجادات وہ بنیادی وسائل ہیں جو ایک ایسی دنیا میں جہاں سنت نبوی پر عمل زوال پذیر ہو، اسی سنت کے اندر مضمر  امکانات کو مادی صورت عطا کرتے ہیں7۔

ایجادات کی دوسری قسم وہ ہے جو ان اعمال پر مشتمل ہے جو اپنی صورت میں تو نئی ہیں، لیکن اپنی ابتدا میں کار فرما "بنیادی محرک" کے اعتبار سے نئی نہیں ہوتیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے یومِ ولادت کو منانے کا "بنیادی مُحَرِّک" آپ کے یومِ پیدائش پر خوشی ومسرت کا اظہار ہے۔ یہ بنیادی محرک رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کے عہد میں موجود رہا۔ اگر وہ چاہتے تو وہ بھی حضور ﷺ کے یوم پیدائش کو منا سکتے تھے۔ مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا  کہ ایسا نہیں تھا کہ اس رسم کا آغاز رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے لیے ناقابلِ تصور تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے نہ کوئی ایسی محفل منعقد کی نہ اس میں شریک ہوئے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں کسی عمل کی غیر موجودگی، باوجود یکہ اس کا محرک اور مُقتَضِی اس دور میں موجود ہو، اس بات کی واضح علامت ہے کہ سنتِ نبوی کی رو سے اس کی اجازت نہیں۔ زیادہ آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کسی عمل کو ایجاد نہ کریں، باوجود یکہ اس کی ایجاد کی وجہ ان کے پاس ہو تو یہ واضح ہے کہ ان کے طرزِ عمل کی رو سے اس عمل کی تائید نہیں ہو سکتی۔ مولانا تھانوی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، اس لیے مؤخر الذکر ایجادات بدعت ہیں، کیونکہ یہ دین میں ایک ایسی نئی چیز کو شامل کرتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ نے شامل نہیں کی، باوجود یکہ وہ ایسا کر سکتے تھے۔ تھانوی نے نتیجہ نکالتے ہوئے ہوئے کہا کہ ایسی ایجادات نہ صرف یہ کہ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ اپنے اصلی جوہر کے اعتبار سے نئی ہیں۔ سنت نبوی سے یہ جوہری علیحدگی سنت کی کاملیت اور حتمیت میں شبہ میں پیدا کرتی ہے۔ یہ سنتِ نبوی کی کاملیت اور حتمیت پر سوال اٹھا کر اس کا حریف بنتی ہے8۔

مولانا تھانوی کے لیے اسلام میں بدعت کی حدود پر اس سارے مناقشے میں اساسی موضوع سنتِ نبوی اور اس کی توسیع کے طور پر قانونِ الہی کی مطلق حاکمیت ہے۔ وہ بتاتے ہیں: "بدعت کا مرتکب درپردہ مدعیِ نبوت ہے"۔ شریعت میں کسی نئی چیز کو شامل کرکے ایسا شخص بالواسطہ شریعت کو ناقص اور نامکمل ہونے کا دوش دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ بالواسطہ اس بات پر اتراتا ہے کہ وہ نئی چیزوں کا اضافہ کرکے شریعت کے نقائص کو دور کرنے کے لیے حاکمیتِ مطلقہ رکھتا ہے"9۔ مولانا تھانوی نے جو اگلا قیاس پیش کیا ہے، وہ اس نکتے کو زیادہ صراحت کے ساتھ واضح کرتا ہے۔ "مثلاً کسی شخص نے گورنمنٹ (تھانوی نے یہاں انگریزی زبان کا لفظ استعمال کیا ہے) کے آئین کی نقل شائع کی، اور اس دستاویز کے آخر  میں اپنی طرف سے کسی شق کا اضافہ کیا۔ اگر چہ یہ اضافی شق ملک اور حکومت کے لیے کتنی مفید کیوں نہ ہو، لیکن آئین پر ایسی غیر منظور شدہ دست درازی جرم کہلائے گی، اور اس کے مرتکب کو سخت سزا دی جائے گی"۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: "اس لیے اس دنیا کے قانون میں ایک غیر منظور شدہ شق کو شامل کرنا جرم ہے، تو قانون الہی میں اس طرح کے اضافے سے کیسے چشم پوشی کی جا سکتی ہے؟"10

مولانا تھانوی نے مزید وضاحت کی کہ ایجادات کی ان دونوں قسموں میں بنیادی فرق  زیادہ صراحت کے ساتھ اس ارشاد نبوی سے سمجھ میں آتا ہے: "جو ہمارے اس امر میں کوئی ایسی ایجاد کرتا ہے، جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مسترد ہے" (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردٌّ)11۔ بدعات کی پہلی قسم جو فرائض دینیہ کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں، ان کا تعلق حدیث کے اس حصے سے ہے جو دین میں شامل (منه) ہے۔ اس کے برعکس ایجادات کی دوسری قسم وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کی سنتوں کے مخالف ہے، تو ان کا تعلق حدیث کی رو سے اس حصے سے ہے جو دین میں شامل نہیں (ما ليس منه) ہے۔

مولانا تھانوی نے تجویز کیا کہ اس فرق کو یاد رکھنے کے لیے دین کے لیے ایجاد (احداث للدین) اور دین میں ایجاد (احداث فی الدین) کو یاد رکھیں12۔ احداث فی الدین بظاہر ایجاد ہو جاتی ہے لیکن معنی کے اعتبار سے وہ سنت نبوی ہی کی اتباع ہے۔ اس کے برعکس احداث فی الدین نہ صرف یہ کہ اپنی ظاہری ہیئت میں ایجاد ہوتی ہے، بلکہ وہ رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ کے بنیادی مقصد میں تغیر پیدا کرتی ہے۔ نتیجتاً جہاں احداث للدین  شریعت کے بنیادی ماخذ اور اسوۂ کاملہ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو مزید مضبوطی عطا کرتی ہے، وہیں احداث فی الدین اخروی نجات کے پروگرام کی کاملیت اور حتمیت کو للکار کر نبی اکرم ﷺ کے شرعی مقام کو گھٹاتی ہے۔

بدعت بحیثیت تجاوز اور بدنظمی

مولانا اشرف علی تھانوی کے نزدیک بدعت بدنظمی کا دوسرا نام تھا۔ انھوں نے بدنظمی کا مطلب ضابطے کی خلاف ورزی لیا۔ انھوں نے اس کو ایک مثال سے واضح کیا ہے: فرض کرو ایک شخص ظہر کی فرض نماز چار رکعات کے بجاے پانچ رکعات پڑھے۔ اس صورت میں چونکہ اس نے ایک عبادتی سرگرمی کے پہلے سے چلے والے نظم میں اضافہ اور اس طرح سے اس نظم میں خلل پیدا کیا، اس لیے اس کی پوری نماز فاسد ہوئی؛ اور اسے اپنی پہلی چار رکعتوں پر بھی کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔ اب ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کو اس تجاوز میں کسی قسم کی بدعت نظر نہ آئے؛ کیونکہ وہ  کہہ سکتا ہے کہ نماز جیسی پاکیزہ عبادت میں تجاوز کا اظہار کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ مولانا تھانوی نے بتایا کہ اس سلسلے میں جس بنیادی گناہ کا ارتکاب کیا گیا، وہ پہلے سے شریعت کے ایک قائم نظم کی خلاف ورزی ہے۔ تھانوی نے نظم اور تجاوز کے درمیان فطری تضاد کو واضح کرنے کے لیے ایک دقیق قیاس کیا جو ایک بار پھر جدید استعمار کے ٹیکنالوجیکل تناظر کی اساس پر تھا: "اگر کوئی شخص کسی ایسے لفافے پر ایک روپے کی ٹکٹ لگائے جس کےلیے 80 پیسے کی ٹکٹ درکار ہے (سو پیسے = ایک روپے)، تو ڈاک والے اس لفافےکو آگے نہیں بھیجیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ بھیجنے والے نے غلط ٹکٹ چسپاں کرکے  ضابطے کی خلاف ورزی کی"13۔

مولانا تھانوی کے نزدیک روزمرہ کی زندگی گزارنے کے لیے نظم برقرار رکھنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے، حتی کہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں بھی یہ ضروری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتی زندگی کی تمام تفصیلات پر عمل کرنا بھی اس وقت تک قابل تعریف ہے، جب تک یہ فرائض دینیہ کی تکمیل میں نہ خلل پیدا نہ کرے اور  نہ انھیں کمزور کرے۔ انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے دو پہلو ہیں: فعلی اور قولی۔ فعلی پہلو آپ کی روزمرہ زندگی کی مخصوص عادات سے عبارت ہے۔ مثلاً آپ کیا کھاتے تھے، پگڑی کیسے باندھتے تھے، چھڑی کیسے پکڑتے تھے، اپنا گھر کیسے رکھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ بالفاظِ دیگر یہ پہلو ذاتی عادات پر مشتمل ہے۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ آپ کے بعد مسلمانوں پر یہ فرض نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تمام عادات کو جزئیات سمیت اپنی زندگی میں روبعمل کریں۔ دوسری طرف ان کے اسوہ کے قولی پہلو میں وہ اعمال شامل ہیں جو واضح طور پر اہم عبادات ہیں۔ ان کے اسوۂ حسنہ کے فعلی پہلو کے برعکس، ان احکام پر عمل لازمی ہے جو آپ کے اقوال کی رو سے لازم قرار دیے گئے ہیں، اگر چہ انسانوں کو ایک قابل ذکر حد تک آزادی دی گئی ہے کہ وہ ان حدود کے اندر اپنے مزاج کے مطابق انتخاب کریں۔

مولانا تھانوی نے ان لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کے عُشّاق قرار دیا جو باوجود لازم نہ ہونے کے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر لمحے کی پیروی کی دوہری مشقت اٹھاتے ہیں۔ تھانوی کے نزدیک عام لوگ ایسے عشاق کی راہ پر نہیں چل سکتے۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے: "رسول اللہ ﷺ کے ہر عمل کی اتباع کا منشا محبت ہے۔ان عشاق میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر تشکیل دیتے ہیں؛ وہ ٹھیک اسی طریقے سے کھاتے، پیتے اور پہنتے ہیں، جس طریقے سے رسول اللہ ﷺ نے یہ اعمال کیے۔ لیکن ہم جیسے عام لوگوں کے لیے یہ پابندیاں لازمی نہیں، تاکہ ہم نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی عمومی قولی حدود کے اندر رہیں"14۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: "تمام معاملات میں پوری  چابک دستی سے شریعت کی حدود کی پاس داری کرنی چاہیے۔ ہر شے کو اپنی حد پر رہنا چاہیے"15۔

مولانا تھانوی نے متنبہ کیا کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی عادات کی اتباع میں اس قدر غلو نہ کرے جس سے فرائضِ دینیہ پر کوئی سمجھوتا ہوتا ہو۔ بلکہ ایسی اتباع کو مسترد کرنا چاہیے جو کسی فرض عمل کی تکمیل کے رستے میں کاوٹ بن جائے۔ مثال کے طور پر تھانوی نے واضح کیا کہ  رسول اللہ ﷺ ہر رات تہجد کی آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ اس غیر واجب عمل کی اتباع قابل تعریف ہے، اگر کسی شخص میں اس کے لیے مطلوبہ استعداد اور شوق ہو۔ لیکن ایک ایسی صورت فرض کریں جس میں ایک شخص ساری رات تہجد کے نوافل پڑھے، اور نتیجتاً فجر کے وقت فرض نماز کے لیے اٹھنے سے قاصر ہو جائے تو یہ غلط ہوگا۔ ایسی صورت میں اس شخص پر لازم تھا کہ وہ تہجد کی نماز کو ایک طرف رکھ دے، بروقت سوئے، اور فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے لیے صبح بروقت جاگ جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے ہر ہر لمحے کی اتباع صرف اس صورت میں قابل تعریف ہے جب وہ فرض عبادات کی اولیت کے لیے خطرہ نہ بنے۔ جب دینی جذبہ فرائض کے لیے خطرہ بن جائے تو  پھر اس جذبے کو اعتدال میں لانا چاہیے یا اسے فنا کرنا چاہیے۔ مولانا تھانوی امت کے بعض افراد میں پائے جانے والے غلبۂ عشق کو تسلیم کرتے ہیں، اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تاہم رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اظہار میں  ایسے عاشقانہ تجاوز کو جو نظم کی کمزوری کا سبب بنے، ناقابل برداشت سمجھتے ہیں۔

فرائض کے تقدس کا تحفظ

مولانا تھانوی کے تعبیری منہج کی بنیاد وہ فقہی اصول ہے جو غیر واجب اعمال کو واجب میں بدلنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ تھانوی کے نزدیک مباحات بھی ناجائز قرار پاتے ہیں، اگر عوام ان اعمال کو واجباتِ دین فرض کرنے لگیں، بلکہ اگر کسی مستحب عمل کو واجب کا درجہ دیا جائے تو اس کا چھوڑنا لازم ہو جاتا ہے۔ تھانوی نے بتایا کہ یہ فقہ حنفی کا معیاری اصول ہے۔

اس بحث میں مولانا تھانوی نے بہ تکرار انیسویں صدی کے بااثر حنفی عالم محمد امین ابن عابدین شامی (م 1836) کا حوالہ دیا ہے، جنھوں نے وسیع پیمانے پر اپنی مقبولِ عام کتاب 'رد المحتار' میں علی الترتیب غیر واجب اعمال کو واجب اعمال کا رتبہ دینے کے خلاف تنبیہات کی ہیں۔ مثلاً ابن عابدین نے واضح کیا کہ وترکی نماز میں تین قرآنی سورتوں یعنی سورۃ الاعلی، سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص کا پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص وتر کی نماز میں قرآن کی دیگر سورتوں کو چھوڑ کر صرف ان تین سورتوں کے پڑھنے پر اصرار کرے تو یہ اصرار اس مستحب عمل کو ناجائز عمل میں بدل دے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس طرح کی تخصیص کسی غیر واجب عمل کو واجب عمل کی حیثیت دے دیتا ہے۔ اس لیے ابن عابدین کے نزدیک کسی کو نمازوں کے دوران رکعتوں میں سورتوں کے انتخاب کے لیے کسی قسم کے تعین سے گریز کرنا چاہیے16۔

اسی طرح تھانوی کی نظر میں صحابہ کرام نے بالتصریح مباح اور مستحب اعمال  کو اس اہتمام سے ادا کرنے پر تنبیہ کی ہے جس سے ان اعمال کا واجب ہونا ظاہر ہو۔ اس سلسلے میں مولانا تھانوی نے بطور خاص رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک بیان نقل کیا ہے: "نماز ختم کرنے کے بعد دائیں طرف مُڑنے کو ضروری جان کر اپنی نماز کا ایک حصہ شیطان کو مت دو، کیوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بائیں طرف بھی پھر جایا کرتے تھے"17۔ اس سنتِ نبوی کے مطابق نماز کے بعد دائیں طرف مڑنا ایک مستحب امر تھا۔ تاہم جب لوگوں نے اس عمل کو واجب سمجھنا شروع کیا تو حضرت ابن مسعود نے اس پر روک ٹوک کی اور انھیں یاد دلایا کہ بائیں جانب مڑنے میں کوئی خرابی نہیں۔ دراصل انھوں نے دائیں جانب مڑنے پر اصرار کو "نماز کا ایک حصہ شیطان کو دینا" قرار دیا۔ اس روایت کی شرح کرتے ہوئے علوم حدیث اور فقہ شافعی کے نامور عالم علامہ ابن حجر عسقلانی (م 1448) نے واضح کیا: "مستحب اعمال مکروہ بن جاتے ہیں، اگر انھیں ان کے متعین درجے سے اوپر اٹھایا جائے"18۔

ان مثالوں میں کار فرما بنیادی منطق یہ تھی کہ غیر واجب اعمال، باوجودیکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اجازت بھی دی  ہو، انھیں کبھی بھی واجب اعمال کی حیثیت نہیں دینی چاہیے۔ تھانوی نے باصرار بتایا کہ یہ وہ بنیادی اصول ہے جس کا لوگ خیال نہیں رکھتے اور الٹا  دیوبندی علما پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ مباح اعمال سے منع کرتے ہیں۔ انھوں  نے پرزور اصرار کرتے ہوئے کہا کہ دیوبندی علما کے خلاف یہ الزام بے انصافی پر مبنی ہے۔ وہ صرف ان اعمال سے منع کرتے ہیں جو ناجائز اعمال کا مقدمہ بنتے ہیں۔ جس طرح واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے، اسی طرح حرام کا مقدمہ بھی حرام ہوتا ہے (مقدمة الحرام حرام)۔ تھانوی نے تاکید کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں جو اہم نکتہ یاد رہنا چاہیے، وہ یہ تھا کہ جب ایک معروف مباح عمل حرام کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن جائے تو ایک مباح عمل کی حیثیت سے اس کی رکنیت معطل ہو جاتی ہے، اور یہ بذات خود ایک ناجائز عمل بن جاتا ہے19۔

مولانا تھانوی کے مطابق کسی مخصوص عمل کی اخلاقی اور دینی قدر وقیمت کا انحصار ان حالات پر ہے جن میں یہ عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔حتی کہ  نیکی کا ایک عمل غیر مطلوب بن جاتا ہے، اگر اسے درست شرائط کے ساتھ سرانجام نہ دیا جائے۔ تھانوی نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ مثال کے طور پر،  نماز پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جس کی اچھائی پر سب لوگ متفق ہیں۔ تاہم اگر پاخانہ کا تقاضا ہو تو اس وقت نماز مکروہ ہو جاتی ہے20۔ یہی وہ 'راز' ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات مباح اعمال بھی حرام ٹھہرتے ہیں۔ لیکن، انھوں نے دل گرفتگی سے کہا کہ، یہ نکتہ عوام کو سمجھ نہیں آتا۔ تھانوی نے  مزاح آمیز نصیحت میں واضح کیا:

جب کبھی میں ان (عوام) کو عید میلاد النبی جیسی رسموں سے روکتا ہوں تو وہ شکایت کرتے ہیں کہ میں انھیں نیکی کے کاموں میں شرکت سے روک رہا ہوں۔ مجھے اس سے اتفاق ہے کہ یہ کام بلا شبہ نیکی کے ہیں۔ اپنے اصل جوہر کے اعتبار سے ان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم جس امر کی وجہ سے یہ بدعت کے زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں، وہ اجر وثواب کے حصول کے لیے مخصوص پابندیوں کو ضروری جاننا ہے۔ ایسی پابندیوں کو لازمی سمجھنے کی کوئی گنجائش شریعت میں نہیں۔ لیکن اس باریک دلیل کو عوام کیوں کر سمجھیں؟ اس لیے جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو میں اپنے دلیل کی تفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ سیدھا سادہ سختی سے انھیں ان کاموں سے روک لیتا ہوں، جو انھیں نہیں کرنے چاہییں۔ مثلاً‌ ایک بار ایک دیہاتی نے احتجاج کیا: "جمعے کی نماز دیہاتوں میں کیوں نہیں پڑھی جاتی؟" میں نے اسے یہ جواب دے کر خاموش کیا: "پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ حج بمبئ میں کیوں نہیں ادا کیا جاتا؟21"

برائی کے سد باب کے لیے اچھائی کی ممانعت: کس کا اختیار ہے اور کیسے؟

مولانا تھانوی نے تاکید سے بتایا کہ ایک مباح عمل کو اس بنیاد پر حرام قرار دینے کا فیصلہ کہ وہ فساد کا سبب بنتا ہے، ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ ماہر علما کا کام ہے جن میں یہ جاننے کی صلاحیت ہوتی ہے کہ کیا کسی مباح عمل میں کسی خاص قسم کا فساد اس حد تک سنگین ہو گیا ہے، جو اس عمل کی حرمت کا تقاضا کرتا ہے؟22 لیکن یہ فیصلہ ہوگا کیسے؟ وہ معیار کیا ہے جس کی اساس پر کسی مباح عمل کو احتیاطی بنیادوں پر حرام قرار دیا جائے؟ ان اہم سوالات کو موضوع بحث بناتے ہوئے مولانا تھانوی نے اپنے قارئین کے سامنے غور وفکر کے لیے ایک دلچسپ صورتِ حال رکھ دی ہے۔ انھوں نے درج ذیل فکری تجربہ تجویز کیا ہے۔

 فرض کرو ایک عمل بالذات اچھا اور نیک ہے، لیکن عوام اسے مکروہ اور قابل نفرت سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ جو کوئی بھی اس عمل کا ارتکاب کرے گا، اسے سماج کی طرف سے لعنت ملامت کا سامنا کرنا ہوگا۔ ایسی صورت میں اس عمل کے متعلق کون سا حکم ہونا چاہیے؟ کیا فقیہ اس عمل کو مباح قرار دے، اور اس تنازع سے صرف نظر کرے، جو اس عمل کے ارتکاب کی وجہ سے پیدا ہوسکتا ہے؟ یا وہ اس عمل کے ترک کرنے کی دعوت دے، تاکہ سماجی سطح پر اس کے ممکنہ نقصان دہ نتائج کا تدارک ہو سکے؟23

مولانا تھانوی نے بتایا کہ اس قسم کے عمل کو نہ تو مطلقاً حرام قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی علی الاطلاق مباح۔ یہ  سوال ایک سیدھے سادے جواب کے بجاے شریعت کے مصادر کی روشنی میں ایک پیچیدہ حل کا تقاضا کرتا ہے جو ان فقہا کا کام ہے جو یہ فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ تھانوی نے اپنے استدلال کو رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دو واقعات پر بحث کے دوران واضح کیا جو ان کی راے میں ایسی صورتِ حال میں کسی فقیہ کے لیے دست یاب متعدد امکانات کو بہترین انداز میں بیان کرتا ہے۔ ان دونوں واقعات میں اس مباح عمل کا حکم بھی زیر بحث لایا گیا ہے، جو سماج کی طرف سے شدید تنقید کا سبب بنتا ہے۔ ان صورتوں میں سے ایک صورت میں نبی اکرم ﷺ نے ایک عمل کو چھوڑ دیا تاکہ یہ سماجی تشویش کا سبب نہ بنے۔ تاہم دوسری صورت میں انھوں نے باوجود ممکنہ خطرات کے ایک عمل کا ارتکاب کیا۔ یہی نظریاتی صورت دو مختلف نتائج فراہم کرتی ہے24۔

پہلا واقعہ حطیم کی دیوار کا مشہور مقدمہ ہے  جو مکہ میں خانہ کعبہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ جب مسلمانوں نے 628 عیسوی میں مکہ کو فتح کیا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک عمدہ موقع ملا کہ آپ اس دیوار کو خانہ کعبہ کی حدود میں شامل کر دیں۔اس وقت تک یہ دیوار کعبہ کی حدود سے باہر تھی۔ لیکن اس کام میں تعمیرِ نو سے پہلے خانہ کعبہ کو گرانا ضروری تھا۔ باوجود یہ کہ یہ عمل بظاہر اچھا تھا، لیکن نبی اکرم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ تعمیرِ نو کے منصوبے کو ملتوی کر دیں۔ انھوں نے دلیل میں فرمایا کہ کعبہ کو گرانا مکہ مکرمہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو برہم کر سکتا ہے، جن کے لیے کعبہ بہت محترم ہے۔ بالفاظِ دیگر نبی اکرم ﷺ کو احساس تھا کہ اس مقام پر اسلام کی نوزائیدگی اور کمزوری کے باعث ممکنہ طور پر ایسے اشتعال انگیز عمل کو شروع کرنا حکمت کا تقاضا نہیں۔ اس لیے اگر چہ کعبے کی تعمیر نو اور اس کے اندر حطیم کی شمولیت درست اور جائز تھی، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس منصوبے کو ترک کرنا پسند کیا، کیوں کہ اس سے دشمنی اور افراتفری پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔

نبوی فیصلے اور خواہشات: اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری

دوسرا واقعہ حضور ﷺ کے حضرت زینب بنت جحش (م 633) سے نکاح کا ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ کے منہ بولے بیٹے اور اولین دور میں اسلام قبول کرنے والے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (م 629)  نے طلاق دی تھی25۔ یہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ایک انتہائی قابل ذکر واقعہ ہے جو بیک وقت نبوت اور انسانی رشتوں کی قربت کے ایک باریک جال میں الجھا میں ہوا ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے ایک سابقہ غلام ( جسے بعد میں آپ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا) کی بیوی سے نکاح کی خواہش کی ایک کہانی ہے۔  اس واقعے  کے دوران ان کے منہ بولا بیٹا ہونے کی نفی کی گئی اور وہ بیٹے سے ایک عام صحابی میں تبدیل ہوگئے (باوجود یہ کہ وہ  رسول اللہ ﷺ کے مقربین میں رہے)۔ جیسا کہ ڈیوڈ پاورز نے بتایا ہے کہ یہ کہانی اسلام میں نبوت کے تصور کے لیے گہرے مضمرات رکھتی ہے، اس لیے کہ اگر محمد (ﷺ) نے زید کے منہ بولے بیٹے ہونے کی نفی نہ کی ہوتی اور زید آپ ﷺ کے بعد زندہ رہتے تو اس کے نتیجےمیں خاندانِ نبوت کےاندر نبوت  جاری رہنے کا امکان ہوتا26۔ مولانا تھانوی نے حضرت محمد ﷺ، حضرت زینب اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کے واقعے کو جس طرح دیکھا ہے، میں پہلے اس کی طرف توجہ کرتا ہوں، اور پھر کہانی کے ان پہلوؤں کو سامنے لاؤں گا جو انھوں نے چھوڑ دیے ہیں، تاکہ اس کے تعبیری منہج میں موجود کچھ ممکنہ ابہامات کو نمایاں کر سکوں۔

مولانا تھانوی نے اپنی بحث کو اس نکتے پر مرکوز رکھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے طلاق ملنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے زینب سے شادی کی (تھانوی ان وجوہات کے بارے میں  بات نہیں کرتے  جو اس طلاق کا سبب بنیں)۔ یہ عمل بدنامی کے اسباب سے بھرپور تھا کیونکہ اس دور کے 'جاہل عوام' اسے یوں خیال کر سکتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بہو کے ساتھ نکاح کرنے جا رہے ہیں۔ایک بار پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا تھا جس میں ایک جائز عمل عوامی تنقید اور تشویش کا سبب بن رہا تھا۔ تاہم حطیم کے واقعے کے برعکس اس صورت میں اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو ہدایت کی کہ اس عمل کو سرانجام دیں، باوجودیکہ اس کے غیر یقینی نتائج ہو سکتے تھے27۔ اس لیے آپ ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے ایک جائز لیکن ممکنہ طور پر متنازع فعل کو انجام دیا۔

مولانا تھانوی واضح کرتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں کی حرکیات تقریباً‌ یکساں ہیں ۔ دونوں صورتوں میں ایک جائز عمل کی وجہ سے سماج کی طرف سے لعنت وملامت کا امکان تھا۔ تاہم ان دونوں صورتوں میں جو فیصلے تھے، وہ یکسر مختلف تھے۔ ایک صورت میں ایک عمل کے انجام دینے پر تنازع کا امکان اس قدر قوی سمجھا گیا کہ اس کی وجہ سے اس عمل کو بالکل ترک کر دیا گیا، جب کہ دوسری صورت میں عمل کو انجام دے دیا گیا۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ یہاں جو اہم نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کسی جائز عمل کو صرف اس امکان کی بنیاد پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ وہ سماج میں تشویش اور بے چینی کا سبب بنے گا، صرف ممتاز اہل علم کا کام ہے۔ بالفاظِ دیگر ایسے عمل سے جڑے ظاہری مصالح کے حصول سے پہلے ممکنہ طور پر کسی سماج میں اس سے پیدا ہونے والے انتشار پر غور وفکر کا سوال ایسا ہے جس کا جواب صرف اور صرف کامل ترین علما دے سکتے ہیں28۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان معاملات میں حتمی یا تخمینی رائے موجود نہیں ہوتی، جیسا کہ اپنی اصل میں ان ایک جیسے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے مختلف فیصلوں سے ثابت ہوتا ہے۔

تاہم مولانا تھانوی نے صرف اس تشریح پر اکتفا نہیں کی۔  اپنے منفرد تحقیقی اسلوب میں وہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ اللہ نے نبی اکرم ﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کا حکم دیا، جب کہ انھیں کعبہ کے اندر حطیم شامل کرنے سے منع کر دیا۔ دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک جیسے جائز اعمال ہیں جن پر سماج کی طرف سے ناراضگی اور دشمنی کا خطرہ ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے مولانا تھانوی نے خود کو مبارک باد دی کہ اس نے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ انھوں نے لکھا "الحمد للہ ان دونوں صورتوں کے درمیان فرق میرے سامنے واضح ہو گیا ہے"29۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ یہاں یہ سوال پوچھنا بے حد اہم ہے کہ کسی جائز عمل کو اس بنیاد پر ممنوع قرار دینے کا فیصلہ کہ وہ بدنامی اور لعن وطعن کا سبب بن جائے گا، اس بنیاد پر ہونا چاہیے کہ کیا وہ واجبات یا ضروریاتِ دین میں کسی شے کی تکمیل میں معاونت فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ اگر  کرتا ہے تو پھر ان سے جڑے منفی نتائج کی پروا کیے بغیر انھیں ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر کوئی عمل واجب نہیں، نہ ہی وہ دین کے ضروری واجبات کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے، تو پھر سماج کی طرف سے طنز وتنقید کی روک تھام کو ترجیح ملنی چاہیے اور اس عمل کو ترک کر دینا چاہیے۔

مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم ﷺ کا نکاح دینی اصلاح کا ایک اہم عمل تھا، جبکہ حطیم کو کعبہ میں شامل کرنا ایسا عمل نہ تھا۔ انھوں نے تاریخیت پر مبنی موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں  کسی کا اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا ناجائز اور حرام سمجھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بد رسم اس قدر عام اور پختہ تھی جس کی بیخ کنی محض زبانی تنبیہ سے ممکن نہ تھی۔ اس کے لیے عملی اقدام ضروری تھا۔ اصلاحی مقاصد کے حصول کے لیے محض یہ کافی نہ تھا کہ نبی ﷺ زبانی اپنے پیغام کی تبلیغ کریں؛ انھیں اپنی تبلیغ کا عملی نمونہ بھی دکھانے کی ضرورت تھی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی شادی اسی طرح کا ایک اقدام ہے۔

 اس نکاح کی وجہ سے ایک فاسد رسم کی اصلاح کے لیے عملی نمونہ پیش کرنے سے دین کا ایک بنیادی مقصد پورا ہوا۔ اس لیے تھانوی کی نظر میں نبی ﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کی بنیاد پر ممکنہ تنقید کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اس عمل سے جڑا اصلاح کا امکان تنقید کے پنہاں خطرے پر بھاری تھا۔ مولانا تھانوی نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حطیم کو کعبہ میں شامل کرنے سے دین کا کوئی بنیادی مقصد پورا نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ یہ ایک جائز عمل تھا لیکن دین کے تحفظ یا اصلاح کے لیے یہ کسی بھی صورت میں اساسی نہ تھا۔ اس لیے اس صورت میں ایسے اقدام سے اشتعال پیدا ہونے کا جو شدید اندیشہ تھا، وہ اندیشہ ممکنہ فوائد کی بہ نسبت بڑھا ہوا تھا، اور اسی وجہ سے اس عمل کا ترک یا التوا جائز ٹھہرا30۔

مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی ایسے کئی دیگر واقعات پیش کیے ہیں جن میں آپ نے کسی عمل کو اس لیے ترک نہیں کیا کہ اس پر سماج کی طرف سے دباو کا سامنا ہو سکتا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے جوہری مثال توحید کی طرف رسول اللہ ﷺ کی دعوت تھی۔ آپ کی برادری نے توحید خالص کے پیغام کا جواب شدید اور بے لاگ تردید کے ساتھ دیا، لیکن اس کی وجہ سے آپ نے اپنا پیغام نہیں چھوڑا۔ اسی طرح جب نبی اکرم ﷺ معراج سے واپس آئے تو آپ کی چچا زاد بہن ام ہانی نے، جن کے گھر سے آپ اس سفر پر روانہ ہوئے تھے، آپ سے تقاضا کیا کہ آپ اس واقعے کو اپنی قوم کے سامنے بیان نہ کریں، وگرنہ وہ آپ پر جھوٹ کا الزام لگائیں گے۔ لیکن آپ ﷺ نے ان کے مشورے کو قبول کرنے سے انکار کیا، کیونکہ پیغام نبوت کی تبلیغ کے لیے واقعۂ معراج کی اشاعت ضروری تھی۔ اس لیے جھوٹ کی تہمت اور الزامات کے باوجود، جو اس واقعے کو عوام میں بیان کرنے سے آپ پر لگنے تھے، آپ نے یہ واقعہ بیان کیا، کیونکہ اس سے دین کے ضروری مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی اور اس وجہ سے اسے ترک نہیں کیا جا سکتا تھا31۔


حواشی

  1. اسماعیل، ایضاح الحق، 5 – 35۔
  2. خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعۃ (کراچی: دار الاشاعت، 1987)، 30 – 170۔
  3. اسماعیل، ایضاح الحق، 5 – 35۔
  4. محمد زید ندوی، فقہ حنفی کے اصول وضوابط (کراچی: زم زم، 2003)، 125 – 26۔
  5. ایضاً۔
  6. یہاں پر تھانوی کا اشارہ معتزلہ کی طرف ہے۔
  7. ندوی، فقہ حنفی کے اصول، 125 – 26۔
  8. ایضاً۔
  9. اشرف علی تھانوی، بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام ومسائل (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2001)، 62 – 63۔
  10. ایضاً، 43۔
  11. النووی، الاربعین، 5 – 7۔
  12.  اشرف علی تھانوی، بدعت کی حقیقت، 43۔
  13. اشرف علی تھانوی، مقالاتِ حکمت (لاہور: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1977)، 136۔
  14. ندوی، فقہ حنفی کے اصول، 135۔
  15. اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، 9 : 98۔
  16. محمد بن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج 2، باب الوتر والنوافل (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1994)، 6۔
  17. احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباري شرح صحیح البخاري (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 2003)، 2 : 437۔
  18. ایضاً۔
  19. اشرف علی تھانوی، التبلیغ (دیوبند: ادارۂ تالیفاتِ اولیا، 1901)، 23۔
  20. ایضاً۔
  21. تھانوی، بدعت کی حقیقت، 62۔
  22. التبلیغ، 11 – 15۔
  23. الافاضات الیومیۃ، 9 : 48۔
  24. ایضاً۔
  25. زید کی زندگی اور رسول اللہ ﷺ سے ان کے تعلق کے بارے میں مسلمانوں کے بدلتے روایتی اظہارات کے ایک دلچسپ مطالعے کے لیے دیکھیے: ڈیوڈ پاورز، Zayd: The Little-Known Story of Muhammad’s Adopted Son (فلاڈلفیا: یونیورسٹی آف پینسلوینیا پریس، 2014)۔
  26. ایضاً، 95 – 123۔
  27. یہ قرآن کی آیت 33 : 37 کی طرف اشارہ ہے (سورۃ الاحزاب میں)، جس کے متعلقہ حصے کا ترجمہ کچھ یوں ہے: "پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اس (زینب) کا نکاح کر دیا، تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو، جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر لیں"۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حضرت زینب سے شادی کا اشارہ دے دیا ہے، اور یہ آیت ان نایاب مواقع میں سے ہے، جہاں مسلمانوں کے ابتدائی معاشرے کے ایک فرد یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو نام سے یاد کیا گیا۔
  28. تھانوی، الافاضات الیومیۃ، 48۔
  29. ایضاً۔
  30. ایضاً۔
  31. ایضاً۔


مارچ ۲۰۲۳ء

ریاستی نظام کی تنقید کے مروجہ رجحاناتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۴)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
صنف وجنس اور اس میں تغیر (۳)مولانا مشرف بيگ اشرف
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے ساتھ معاشرتی رویہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۳)ابو الاعلیٰ سید سبحانی
مولانا گیلانی اورشیخ اکبر ابن عربی (۳)مولانا طلحہ نعمت ندوی

ریاستی نظام کی تنقید کے مروجہ رجحانات

محمد عمار خان ناصر

نظام حکمرانی کی تنقید کے حوالے سے  ہمارے ہاں مختلف زاویے اور بیانیے موجود ہیں۔ ہمارا  مجموعی تاثر یہ ہے کہ ہمارا، سیاسی تنقید کا غالب پیرایہ زمینی سیاسی حقیقتوں سے قطعی طور پر غیر متعلق ہے اور اس کی وجہ تنقید کے صحیح اور متعلق (relevant) فکری وسائل کی کم یابی یا نایابی ہے۔

اس وقت سیاسی تنقید کے جو اسالیب کسی نہ کسی سطح پر ذرائع ابلاغ میں دستیاب ہیں، انھیں ہم حسب ذیل مختلف درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

۱۔ غالب ترین پیرایہ تنقید شخصی حکمرانی، یعنی بادشاہت یا خلافت کے دور سے چلے آنے والے معیارات پر مبنی ہے۔ اس میں حکمران کے اچھے یا برے ہونے یعنی مختلف طرح کے شخصی اوصاف سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ نظام حکمرانی کیسا ہے یا کیسا ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر مذہبی ذہن تو ابھی تک حضرت عمر اور حضرت عمر بن عبد العزیز کا حوالہ دیتا ہے کہ اگر ان جیسے اوصاف کے حامل حکمران ہمیں مل جائیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اسی انداز فکر کے تحت بہت سے مذہبی سیاسی ’’مفکرین “ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مختلف طریقوں سے اچھے اور نظریاتی لوگ ریاستی نظام کے مختلف مناصب تک پہنچا دیے جائیں تو ملک میں اسلامی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔

اب زمینی صورت حال یہ ہے کہ جدید ریاست قطعی طور پر ایک غیر شخصی اور انتہائی پیچیدہ ادارہ ہے۔ اس میں کسی طاقتور سے طاقتور فرد کو اس اختیار کا سوواں حصہ بھی حاصل نہیں جو بادشاہی نظام میں بادشاہ کو حاصل ہوتا ہے۔ (اگرچہ یہ مفروضہ اپنی جگہ قابل اصلاح ہے کہ بادشاہ کے پاس اختیار یا طاقت کی کوئی جادو کی چھڑی ہوتی تھی جس کے آگے کوئی اور قوت مزاحم نہیں ہو سکتی تھی)۔ بہرحال، ہمارا عمومی سیاسی شعور ابھی اسی سطح پر سوچتا ہے۔

۲۔ سیاسی تنقید کا اس سے اگلا درجہ جدید ریاستی نظام میں اداروں کے کردار اور ادارہ جاتی کارکردگی پر ارتکاز کرتا ہے۔ یہ تنقید آپ کو کئی سیاسی راہ نماوں اور اہل صحافت کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ اس سطح پر کم سے کم اتنا ادراک حقیقت ضرور پایا جاتا ہے کہ شخصی حکومت کے معیارات اس نظام پر منطبق نہیں ہوتے اور ادارہ جاتی کارکردگی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

۳۔ سیاسی تنقید کی اس سے اگلی سطح یہ ہے کہ ادارہ جاتی نظام کو چلانے والی اصل طاقتوں اور حرکیات کی نشان دہی کی جائے، ان پر نظر رکھی جائے اور دیکھا جائے کہ بظاہر ایک قانونی وآئینی ڈھانچے کے ذریعے سے آگے بڑھنے والا سیاسی عمل حقیقت میں ریاستی ذمہ داریوں کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔ کیا اس بندوبست سے صرف بالادست اور مراعات یافتہ یا حصول مراعات کی مسابقت میں شریک مختلف طبقات کے مفاد کی حفاظت ہو رہی ہے یا معاشرے کے عام طبقوں کے مسائل ومشکلات کو بھی کوئی اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ تنقید آپ کو تقریباً‌ نہ ہونے کے برابر ملے گی۔ بہت کم اہل صحافت (مثلاً‌ آصف محمود ایڈووکیٹ) ان موضوعات پر بات کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

۴۔ سیاسی تنقید کی اس سے بھی اگلی سطح یہ ہے کہ ہماری ریاست جس بین الاقوامی نظام کا حصہ ہے، اس کے بھی اپنے خاص مطالبات اور ترجیحات ہیں اور یہ نظام بھی ان گنت طریقوں سے آئینی، قانونی اور جمہوری عمل پر اور حکومتی طبقات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک بڑی سطح پر ہمارے جیسی سیاسی طور پر کمزور اور اسٹریٹجک پہلو سے بہت غیر محفوظ ریاستیں اس عالمی نظام اور اس کے طاقت ور اسٹیک ہولڈرز کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ اس نظام کی اصل قوتیں عالمی حکومتوں یا اداروں کی صورت میں ہمیشہ نمایاں اور سامنے ہوں۔ عالمی سرمایہ داری نظام کی قوت اور اثر ورسوخ کے بہت سے غیر مرئی اور پس پردہ پہلو بھی ہیں جن کو سمجھنے کے لیے بھی ایک غیر معمولی ذہنی کاوش اور محنت درکار ہے۔ سیاسی تنقید کا یہ پہلو تو شاید ہمارے ہاں بالکل اجنبی ہے۔ محمد دین جوہر صاحب یا ڈاکٹر اختر علی سید کی بعض تحریروں میں البتہ اس کی طرف ضرور اشارات ملتے ہیں۔

(یہ واضح رہے کہ ہمارے ہاں عام مروج ’’سازشی بیانیے“ کا اس پہلو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بیانیے کے لیے کسی تفہیم یا تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی، بس ہر چیز کو ’’سازش “ کا نام دے دینا کافی ہوتا ہے)۔

۵۔ جدید ریاست کی ساخت پر ایک اور تنقید مغربی اہل علم مثلاً‌ مشل فوکو، کارل شمت اور اگیمبن وغیرہ نے پیش کی ہے اور وائل حلاق جیسے اہل علم کی تنقیدات ان کا حوالہ دیتی ہیں۔ یہ تنقید کافی پیچیدہ ہے، بہت تجریدی نوعیت کی ہے اور کافی  جاروبی قسم کے بیانات پر مشتمل ہے۔ ہماری ناقص رائے میں کم سے کم موجودہ مرحلے میں ہماری ریاست کے مسائل کو سمجھنے میں یہ تنقید بہت زیادہ مدد نہیں کرتی اور شاید سردست ہم اس سے صرف نظر کر سکتے ہیں۔

پس  یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی صورت حال حقیقت میں کیا ہے، وہ کس سطح کی ذہنی وفکری محنت مانگتی ہے اور ہم نے خود کو سیاسی تنقید کی کس سطح پر الجھا کر رکھا ہوا ہے۔

عمران خان کی سیاسی مقبولیت

عمران خان کی مقبولیت کے اسباب کیا ہیں؟ وہ طبقے جو خود پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے سے اتفاق نہیں رکھتے، ان کی طرف سے اس کے مختلف نفسیاتی وسیاسی تجزیے پیش کیے گئے ہیں اور سب میں جزوی طور پر وزن محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً‌ یہ کہ

1۔ خاندانی یا موروثی سیاست دان نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ خصوصاً‌ نوجوان اس کو زیادہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔

2۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور سیاسی قائدین کے ساتھ وابستہ بدعنوانی وغیرہ کے الزامات کی وجہ سے ایک متبادل سیاسی قیادت کی خواہش معاشرے میں موجود ہے جو موجودہ حالات میں عمران خان ہی ہے۔

3۔ پوری دنیا میں پاپولسٹ سیاست دانوں کی مقبولیت کا ایک عمومی چلن ہے۔ حالات کی پیچیدگی، مشکلات اور چیلنجز کے سامنے ایک عام آدمی کو جو حوصلہ، اعتماد اور امید چاہیے ہوتی ہے، وہ ایسے لیڈر فراہم کرتے ہیں اور خود کو حتمی حل کے طور پر اس طرح پیش کرتے ہیں جو عام آدمی کو اپیل کرتا ہے۔

4۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو بیرونی سازش سے جوڑنے اور اس کے قرائن وشواہد اجاگر کرنے کا بیانیہ کامیابی سے تشکیل دیا جس کو پذیرائی ملی اور گویا قومی حمیت کے جذبے کو خان صاحب نے مہارت سے استعمال کر کے سیاسی قوت حاصل کی۔

ان سب تجزیوں میں یقیناً‌ وزن ہے اور یہ سارے پہلو اہمیت رکھتے ہیں۔ البتہ ایک پہلو میرے خیال میں سب سے اہم ہے جس پر عام طور پر تجزیوں میں توجہ نہیں دی گئی۔

یہ پہلو ’’مفاد پرستی کی وجہ سے بے وفائی“ کے احساس کا ہے جس کا رخ مقتدرہ کی طرف ہے۔ یہ ویسے تو واضح ہے، لیکن اس کو درست طور پر سمجھنے کے لیے کچھ تشریح کی ضرورت ہے۔

مقتدرہ کے ساتھ سیاسی قوتوں کی معاملہ بندی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ سیاست کا ایک معمول ہے، لیکن عمران خان کے معاملے میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے جتنی بھی سیاسی قوتوں کے ساتھ معاملہ کیا گیا، وہ خالصتاً‌ اشتراک مفاد کی بنیاد پر یعنی قطعی طور پر سیاسی معاملہ تھا۔ اس میں فریقین پر ابتدا سے یہ واضح تھا کہ یہ ایک لین دین ہے، اس کی بنیاد کسی اخلاقی مقصد پر نہیں ہے۔ عمران خان کے ساتھ معاملہ اس اصول پر نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے ساتھ معاملہ مخالف سیاسی قوتوں کے خلاف ایک اخلاقی مقدمے کی بنیاد پر کیا گیا اور نہ صرف عمران خان کو بلکہ ان کے لیے عدلیہ اور میڈیا میں زمین ہموار کرنے والوں کو بھی یہی باور کرایا گیا کہ مقتدرہ اخلاقی بنیادوں پر بدعنوان سیاستدانوں سے نالاں ہے اور قوم کو ان سے چھٹکارا دلانا چاہتی ہے۔

اگر اس زاویے سے دیکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ کیوں سفر کے درمیان میں مقتدرہ کا ان کی حمایت سے اچانک دستکش ہو جانا عمران خان کے لیے قابل فہم نہیں تھا اور کیوں وہ اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے نقطہ نظر سے یہ تعلق کسی مفاد یا باہمی لین دین کے اصول پر قائم ہی نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک اخلاقی معاہدہ تھا جس میں فریقین نے مل کر ہر طرح کا بوجھ اٹھانا اور ہر طرح کے دباو کا سامنا کرنا تھا۔ اگر عمران خان کی فوری کارکردگی متاثر کن نہیں تھا تو معاہدے کی اخلاقیات کی رو سے اس کا جواز نہیں بنتا تھا کہ مقتدرہ اپنے کپڑے جھاڑ کر ایک طرف ہو جائے۔

اس سیاق میں مقتدرہ نے جن اسباب سے بھی اور جس دباو کے تحت بھی حمایت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہو، عمران خان کے لیے قطعی طور پر ناقابل فہم تھا۔ وہ اس کو سیاسی زاویے سے دیکھ ہی نہیں سکتے تھے، کیونکہ ان کے لیے یہ ایک اخلاقی کمٹمنٹ کو توڑنے کا اور گویا ذاتی نوعیت کی بے وفائی کا معاملہ تھا۔ اسی سے ان کے شدید ردعمل اور مقتدرہ کے خلاف جارحانہ سیاسی بیانیے کی اصل وجہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔

یہی ’’صدمہ “ صحافت میں ان لوگوں کو بھی پہنچا جو مقتدرہ کی اخلاقی کمٹمنٹ کے گواہ تھے اور عمران خان نے جب اس کو سیاسی بیانیے کی شکل دی تو صرف ان کے سابق حمایتیوں کو نہیں، بلکہ بڑی تعداد میں دوسرے لوگوں کو بھی اس میں مقتدرہ کی مفاد پرستی اور اخلاقی بدعہدی اتنے نمایاں طور پر دکھائی دی کہ ان کے پاس عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونے یا کم سے کم اس کے لیے ہمدردی محسوس کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔

غور کیا جائے تو اس معاملے میں مقتدرہ نے وہی حرکت کی جو روس کے خلاف جذبہ جہاد سے تیار کی گئی نسل کے ساتھ کی تھی۔ مقتدرہ کے نقطہ نظر سے یہ ایک اسٹریٹجک معاملہ تھا، لیکن جو نسل تیار کی گئی، اس کو یہ باور کرایا گیا کہ یہاں اسلام کے عالمی غلبے کا لانچنگ پیڈ بنایا جا رہا ہے اور آج روس کے گرنے کے بعد کل ہندوستان اور امریکا کی باری ہوگی۔ یہ قول وقرار کرنے کے بعد جب آپ ایک فون کال پر امریکا کا جنگی حلیف بننے کا فیصلہ کر لیں اور طاقت کے نشے میں جامعہ حفصہ جیسے سانحے کو جنم دے دیں جس سے قطعی طور پر گریز ممکن تھا تو پھر انسانی ردعمل وہی ہو سکتا تھا جو اس کے بعد ہوا۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(398)  تنزیلا کا ترجمہ

قرآن مجید میں کتابیں نازل کرنے کے لیے باب تفعیل سے تنزیل اور باب افعال سے انزال، دونوں ہی تعبیریں آئی ہیں۔ کیا ان دونوں میں فرق ہے یا یہ مترادف اور ہم معنی ہیں؟ زمخشری نے ان دونوں کے درمیان فرق یہ کیا ہے کہ تنزیل تھوڑا تھوڑا کرکے قسطوں میں نازل کرنے کے لیے ہے جب کہ انزال یک بارگی نازل کرنے کے لیے ہے۔ درج ذیل دونوں آیتوں کے تحت وہ اس فرق پر زور دیتے ہیں:

نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ۔ (آل عمران: 3)

”اس نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے تورات اور انجیل نازل کی“۔ (فتح محمد جالندھری)

زمخشری لکھتے ہیں کہ یہاں قرآن کے لیے نزّل اور تورات و انجیل کے لیے أنزل اس لیے آیا ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا اور تورات و انجیل کو یک بارگی اتارا گیا: فإن قلت: لم قیل (نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتابَ) (وَأَنْزَلَ التَّوْراةَ وَالْإِنْجِیلَ)؟ قلت: لأن القرآن نزل منجماً، ونزل الکتابان جملة۔ (الکشاف)

یہی بات زمخشری نے درج ذیل آیت میں بھی کہی ہے:

یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۔  (النساء: 136)

”مومنو! خدا پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنے پیغمبر (آخرالزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)

زمخشری کہتے ہیں: فإن قلت: لم قیل (نَزَّلَ عَلی رَسُولِہِ) و (أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ)؟ قلت: لأن القرآن نزل مفرّقا منجما فی عشرین سنة، بخلاف الکتب قبلہ۔ (الکشاف)

بعض مفسرین جیسے ابوحیان نے زمخشری کی اس توجیہ کو سختی سے رد کیاہے۔ ابوحیان کا یہ کہنا ہے کہ باب تفعیل میں کثرت اور تکرار یا تنجیم (قسط واریت) کا مفہوم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی متعدی فعل ثلاثی مجرد سے باب تفعیل میں جائے، جیسے کسر، جرح، قطع وغیرہ، لیکن اگر کوئی فعل ثلاثی مجرد لازم ہو اور باب تفعیل میں آئے تو اس میں صرف تعدیہ کا مفہوم ہوتا ہے جیسے فرح اور فرّح۔

ابوحیان کی تنقید کے علاوہ بھی زمخشری کی اس توجیہ پرخود قرآنی استعمالات کی روشنی میں شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ ایک اعتراض تو یہ ہے کہ اگلی ہی آیت میں اور اسی جملے کا حصہ بن کر وَأَنْزَلَ الْفُرْقَان آیا ہے، اگر قرآن اور دیگر کتابوں میں مذکورہ فرق ہے تو فرقان کے ساتھ  نزّل آنا چاہیے تھا۔

زمخشری کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہ بات بھی کافی ہے کہ خود تورات کے لیے نزّل آیا ہے، درج ذیل آیت ملاحظہ کریں:

کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوہَا إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔ (آل عمران: 93)

”سب کھانے بنی اسرائیل کو حلال تھے مگر وہ جو یعقوبؑ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا توریت اترنے سے پہلے تم فرماؤ توریت لاکر پڑھو اگر سچے ہو“۔ (احمد رضا خان)

اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ چوں کہ تورات یک بارگی نازل ہوئی اس لیے اس کے ساتھ أنزل  آیا ہے۔ خود یہ بات بھی ثابت نہیں ہے کہ تورات اور انجیل ایک بار میں نازل کی گئی تھیں۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ خود قرآن نے صراحت کے ساتھ ایک بار اتارنے کے لیے نزّل کا استعمال کیا ہے، فرمایا:

وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَۃً۔ (الفرقان: 32)

”اور کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

دوسرے مقام پر کہا گیا:

 وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ۔ (الانعام: 7)

”اور اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب نازل کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری) یہاں بھی ایک کتاب کی صورت میں اتارنے کے لیے نزّل آیا ہے۔

ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں بعض جگہ نزّل اور أنزل ایک ہی چیز کے لیے آئے ہیں، فرمایا:

وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (النحل: 44)

”یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور وفکر کریں“۔ (محمد جوناگڑھی) یہاں قرآن کے لیے أنزل اور نزّل دونوں ایک ہی آیت میں آئے ہیں۔

دوسری جگہ فرمایا:

 وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْکَمَةٌ وَذُکِرَ فِیہَا الْقِتَالُ رَأَیْتَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ یَنْظُرُونَ إِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَی لَہُمْ۔ (محمد: 20)

”اور جو لوگ ایمان لائے وہ کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پس بہت بہتر تھا ان کے لیے“۔ (محمد جوناگڑھی) یہاں ایک سورت کے لیے نزّل اور أنزل دونوں آیا ہے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآن میں کئی جگہ فرد واحد کے لیے نزّل آیا ہے، ظاہر ہے اس سے مراد قسط وار نازل کرنا نہیں لے سکتے، جیسے:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللَّہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ إِنَّ اللَّہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِینَ وَالْکَافِرِینَ فِی جَہَنَّمَ جَمِیعًا۔ (النساء: 140)

”اور خدا نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں۔ ان کے پاس مت بیٹھو۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں اکھٹا کرنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

نیز:

 قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِکَةٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولًا۔ (الإسراء: 95)

”کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے (کہ اس میں) چلتے پھرتے (اور) آرام کرتے (یعنی بستے) تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے“۔ (جالندھری) پہلی آیت میں ایک حکم نازل کرنے اور دوسری آیت میں ایک فرشتہ نازل کرنے کی بات ہے، لیکن لفظ نزّل استعمال ہوا ہے۔

غرض یہ کہ اگرچہ مفسر زمخشری اور ان کے بعد مفسر رازی نے نزّل کو بتدریج نازل کرنے کے معنی میں لیا ہے، لیکن یہ بات بہت کم زور ہے، قرآن کے استعمالات اس رائے کو مسترد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ دونوں مترادف ہیں اور لفظی تنوع کے لیے دونوں کا استعمال ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن آیتوں میں زمخشری نے زور دے کر کہا ہے کہ یہاں نزّل تدریج کا مفہوم رکھتا ہے، جیسے مذکورہ بالا دونوں آیتیں ہیں، وہاں مترجمین نے ترجمے میں تدریج کا ذکر نہیں کیا، البتہ بعض دوسری آیتوں میں تدریج کا ذکر کیا ہے۔

اس تفصیل کے بعد ہم کچھ آیتوں کے ترجموں کو پیش کرتے ہیں:

(۱) وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیلًا۔ (الاسراء: 106)

”قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتارا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور قرآن ہم نے جدا جدا کرکے اتارا کہ تم اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ہم نے اسے بتدریج رہ رہ کر اتارا“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھ کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اُتارا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آیت کے ترجمے میں تدریج کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ فرقناہ (ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا) تو پہلے کہہ ہی دیا گیا، پھر اس مضمون کوآخر کیوں دوہرایا جائے گا؟؟

درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”اور قرآن کو تو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا ہے کہ تم اس کو لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سناؤ، اور ہم نے اس کو نہایت اہتمام سے اتارا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲)  إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ تَنْزِیلًا۔ (الانسان: 23)

”ہم نے اتارا تجھ پر قرآن سہج سہج اتارنا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے محمد (ﷺ) ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اے نبیؐ، ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے“۔ (سید مودودی)

”بیشک ہم نے تم پر قرآن بتدریج اتارا“۔ (احمد رضا خان)

”بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں تدریج کا ذکر کرنے کا کوئی محل بھی نہیں ہے۔ قرآن نازل کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”ہم ہی نے تم پر قرآن نہایت اہتمام سے اتارا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۳) قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ۔ (النحل: 102)

”اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے“۔ (سید مودودی)

”کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرئیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کہہ دو کہ اس کو روح القدس تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ (قرآن) مومنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لیے تو (یہ) ہدایت اور بشارت ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

پہلی بات تو یہی ہے کہ ترجمے میں تدریج کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ قرآن نازل کرنے کا ایک مقصد یہ بتایا گیا اس سے اہل ایمان کو ثبات حاصل ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ھدی اور بشری کا عطف لیثبت پر کرنے سے بہتر ہے کہ دونوں کو حال مانا جائے۔ یعنی یہ کتاب سیدھی راہ بتاتی ہے اور اسلام والوں کو بشارت دیتی ہے۔ اس دوسرے پہلو کی آخر الذکر ترجمے میں رعایت کی گئی ہے۔

مذکورہ بالا تینوں آیتوں کے ترجمے کے حوالے سے ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جو حضرات نزّل یا تنزیلا کا ترجمہ تدریج کے ساتھ نازل کرنا کرتے ہیں، وہ کچھ آیتوں ہی میں ایسا ترجمہ کرتے ہیں، بقیہ آیتوں میں وہ بھی صرف نازل کرنا ہی ترجمہ کرتے ہیں۔ قرآن میں کئی جگہ تنزیل (حالت رفع میں) کا لفظ آیا ہے، وہاں بھی سب لوگ نازل کرنا ترجمہ کرتے ہیں، تدریج کے ساتھ نازل کرنا نہیں کرتے ہیں۔ مناسب بات یہ ہے کہ سب جگہ نازل کرنا ترجمہ کرنا چاہیے، تدریج کا مفہوم اس لفظ کے اندر شامل ہونے کی کوئی دلیل یا بنیاد نہیں ہے۔

(399) وَعَلَی اللَّہِ قَصْدُ السَّبِیلِ

وَعَلَی اللَّہِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْہَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ۔ (النحل: 9)

”اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“۔ (سید مودودی)

”اور اللہ پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور ان میں کچھ راستے کج بھی ہوتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ (زبردستی) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور اللہ پر پہنچتی ہے سیدھی راہ اور کوئی راہ کج بھی ہے اور وہ چاہے تو راہ دے تم سب کو“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور سیدھا رستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے اور بعض راہیں کج ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر کردیتا“۔ (امین احسن اصلاحی)

قصد السبیل کا مطلب تو سیدھا راستہ ہے، یعنی الطریق القاصد۔  اختلاف اس میں ہے کہ علی اللہ کا کیا مفہوم ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا کہ اللہ کی ذمے داری ہے کہ وہ سیدھا راستہ بتائے۔ لیکن اس صورت میں دو اشکال ہیں، ایک یہ کہ جملے میں بیان کو محذوف ماننا پڑے گا۔ یعنی وعلی اللہ بیان قصد السبیل، دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس ترجمے میں ومنھا جائر (کچھ راستے ٹیڑے ہیں) کی پہلے جملے سے مطابقت نہیں ظاہر ہوتی۔ اس توجیہ کے ماننے والوں نے دونوں اشکالات کے جواب دیے ہیں، لیکن اس تکلف کی ضرورت نہیں رہتی ہے اگر جملے کا مطلب یہ لیا جائے کہ سیدھا راستہ اللہ تک پہنچاتا ہے۔ یہاں کوئی پوچھ سکتا ہے کہ پھر الی آنا چاہیے تھا علی کیوں آیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں علی الی کے مفہوم میں ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا:

قَالَ ہَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ۔ (الحجر: 41)

”ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)، گو کہ بعض مفسرین نے اس آیت کا بھی یہ مفہوم لیا ہے کہ سیدھے راستے کو دکھانا میری ذمے داری ہے، لیکن یہ اور بھی زیادہ پرتکلف توجیہ ہے۔ تکلف سے خالی مفہوم یہی ہے کہ یہ سیدھا راستہ مجھ تک پہنچتا ہے۔ یہ بات کہ سیدھا راستہ اللہ تک پہنچاتا ہے، درج ذیل آیت میں بھی کہی گئی ہے:

 إِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔ (ہود: 56)

”بیشک میرا پروردگار سیدھے رستے پر ہے“۔(فتح محمد جالندھری)

زیر بحث آیت کا یہ دوسرا مفہوم آیت کے تینوں ٹکڑوں کو عمدہ طریقے سے جوڑتا ہے۔ آیت کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ ایک سیدھا راستہ ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے، اور کچھ ٹیڑھے راستے ہیں، بہت سے لوگ ٹیڑھے راستوں پر چل رہے ہیں، اگر اللہ چاہتا تو سب کو سیدھے راستے پر چلادیتا۔

(جاری)


مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۴)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن / عمار خان ناصر



مطیع سید: ایک پیشین گوئی ہے کہ اسلام غریب ہو جائے گا اور غریبوں کے لئے خوشخبری ہے۔1 غریبی کا اسلام سے کیا تعلق؟

عمار ناصر: غریب کا لفظ اجنبی کے معنوں میں ہے۔ جو لوگ اپنے ماحول میں صحیح اسلام پر عمل کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں اجنبی بن جائیں اور ماحول کے رنگ میں نہ رنگے جائیں، وہ مراد ہیں۔

مطیع سید: لوگوں سے قتال کروجب تک وہ لا الہ نہ کہہ دیں۔2 یہ کیا کوئی خاص مشرکین کے لیے حکم تھا؟کیونکہ دین میں تو جبر نہیں ہے۔

عمار ناصر: یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اگر کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اللہ تعالیٰ اسے سزادیتے ہیں۔ یہ جبر ہی ہےکہ اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ ایمان لاو، اگر نہیں لاتے تو سزا ملے گی۔ اسی طریقے پر حضرت موسیؑ کی قوم کو شرک اختیار کرنے پر قتل کی سزا دی گئی۔ تو اللہ کا ضابطہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کا مواخذہ کر نا چاہے تو کر لیتا ہے، یعنی اللہ چاہے تو جبرکر سکتاہے۔ ایمان نہ لانے کی آزادی بھی اس نے دی ہے، تو وہ جب چاہے، اپنی حکمت کے تحت یہ آزادی سلب بھی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ حق انسانوں کو حاصل نہیں ہے، مجھے اور آپ کو اللہ نے یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم لوگوں سے جبراً‌ ایمان کا مطالبہ کریں۔

اسی ضابطے کے مطابق قرآن مجید میں عرب کے مشرکین کو حجۃ الوداع کے موقع پر ایک مہلت دی گئی اور اس سے پہلے بھی اعلان کیا گیا کہ وہ اگر شرک چھوڑ کر ایمان نہیں لاتے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ یہ حدیث بھی اسی سے متعلق ہے۔ البتہ فقہا کے ہاں اس میں کئی بحثیں ہیں۔ بعض اس حدیث کو اسی آیت کےتحت سمجھتے ہیں اور مشرکین عرب کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عمومی طور پر جہاد اور قتال کا حکم ہے جو کسی کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ مقصود اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں۔ پھر اس میں بعض گروہوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ گنجائش بھی دے دی کہ وہ اگر جزیہ دے کر اپنے دین پر قائم رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔

مطیع سید: ایک آدمی کو پھوڑا نکلا۔ اس نے اسے پھاڑدیا اور اسی کے باعث مر گیا توآپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر جنت حرام ہو گئی۔3 آپ ﷺ نے اسے خودکشی کے زمرے میں لیا حالانکہ پھوڑے کو پھاڑنا تو ٹھیک ہی ہوتا ہے؟

عمار ناصر: نہیں، اس میں نیت کو دیکھنا اہم ہے۔ اگر تو اس نے علاج کے لیے پھاڑا ہے یا غلطی سے پھٹ گیا تو وہ اور بات ہے۔ یہ وعید اس وقت صادق ہوگی جب اس نے مرنے یعنی خود کشی کی نیت سے ہی پھاڑا ہو۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے انصار کو فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح دی جائے گی۔4 تو کیا اس بات کو ہم خلافت کی تقسیم کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں؟

عمار ناصر: نہیں، خلافت کے حوالے سے تو آپ ﷺ نے انصار کو واضح طور پر منع کر دیا تھا کہ تم اس کشمکش میں شریک نہ ہونا۔ یہاں قومی خزانے سے دی جانے والی مراعات میں ترجیح کی بات ہو رہی ہے کہ جب خزانے آئیں گے، اموال آئیں گے تو ان کی تقسیم میں تمہیں نظر انداز کیا جا ئے گا اور باقی لوگوں کو دیا جا ئےگا تو تم اس پر صبر کرنا۔

مطیع سید: آپ کہیں مہمان بن کر جائیں اور کوئی آپ کی مہمان نوازی نہ کرےتو اپنی مہمان نوازی کا حق اس سے لے لو۔5 یہ کس تناظرمیں نبی ﷺ نے فرمایا تھا؟

عمار ناصر: یہ آپ ﷺ نے لشکروں سے کہا تھا کہ جب تم کسی علاقے میں جاؤ اور وہ تمہاری مہمان نوازی نہ کریں یعنی قیام وطعام کے ضروری بندوبست میں تعاون نہ کریں تو تم جبراً‌ اپنا حق لے سکتے ہو۔

مطیع سید: اسلامی علاقوں میں یا کسی بھی علاقے میں؟

عمار ناصر: نہیں، کسی بھی علاقے میں۔

مطیع سید: مسافر کی حیثیت سے؟

عمار صاحب: مسافر کی حیثیت سے بھی لے سکتے تھے اور خاص طور پر بہت سے علاقے تھے جیسے نجران وغیرہ جن کے ساتھ باقاعدہ معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ اسلامی لشکر آئیں گے تو تم پابند ہو گے کہ مقامی طور پر ان کی مہمان نوازی کرو۔ اس تناظر میں فرمایا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو جتنا تمہار ا حق بنتا ہے کہ تم جبراً‌ لے سکتے ہو۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ غلام اپنے مالک کے لیے رب کا لفظ نہ بولے۔6

عمار ناصر: جی، یہ مناسب نہیں ہے۔ رب کے لفظ میں پالنے پوسنے کا مفہوم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جاتا ہے۔

مطیع سید: لیکن نبی ﷺ نے خود بھی قیامت کی پیشین گوئی میں باندی کی مالکہ کے لیے ربتھا کا لفظ بولا۔7 حضرت یوسف بھی قرآن میں ایک جگہ عزیز مصر کو اسی لفظ سے یاد کرتے ہیں۔

عمار ناصر: درست ہے، نبی ﷺ نے بعض جگہ یہ لفظ بولابھی ہے۔ اس میں یوں ہوتا ہے کہ زبان میں اگر ایک لفظ رائج ہے تو عرف کے لحاظ سے آپ اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے، لیکن بعض موقعوں پر آپ محسوس کرتےہیں کہ اس لفظ کے استعمال سے ایک خاص طرح کا رویہ پیداہوتا ہے تو اس تناظر میں آپ کو کچھ تردد بھی محسوس ہوتا ہے۔ اسی پہلو سے آپ ﷺ بھی اس لفظ سے گریز کی تلقین فرما رہے ہیں۔

مطیع سید: کسی صحابی نے تلاوت فرمائی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے مجھے یہ آیات یاد دلادیں، میں ان کو بھول چکا تھا۔8 جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ہم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ بھولیں گے نہیں۔

عمار ناصر: نہیں، وہ سنقرک فلاتنسیٰ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اور مفہوم میں ہے۔ وقتی طور پر بھول جانے کی نفی یہاں مراد نہیں ہے۔ نبی ﷺ اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں کوئی چیز بھول بھی سکتے تھے، قرآن کی کوئی آیت بھی بھول سکتے تھے۔ اس آیت میں دراصل قرآن کے نزول اور حفاظت کے دو مرحلوں کا ذکر ہے۔ ایک جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس میں کمی بیشی اور نسخ کا معاملہ بھی جاری تھا۔ اس مرحلے پر آپ پر نازل کیے جانے والے کئی حصوں کو مستقلاً‌ محفوظ کرنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں تھا۔ اللہ کی حکمت کے تحت یہ حصے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادداشت میں بھی محفوظ نہ رہے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی حوالے سے اس آیت میں کہا گیا کہ آپ اس کے متعلق فکرمند نہ ہوں، کیونکہ دوبارہ جب ہم آپ کو اس کی قراءت پڑھائیں گے جو حتمی ہوگی تو پھر آپ اس کو نہیں بھولیں گے۔

مطیع سید: یعنی یہ آیات وقتی طور پر آپ کو مستحضر نہیں تھیں؟

عمار ناصر: جی، مستحضر نہیں تھیں۔

مطیع سید: رھط، یہ لفظ آدمی کے معنی بھی آتا ہے؟

عمار ناصر: آدمی کے معنوں میں نہیں، عام طور پر چھوٹی جماعت کے معنوں میں آتا ہے۔

مطیع سید: میں نے کہیں اس کے معنی آدمی کے دیکھے تو مناسب نہیں لگا۔

عمار ناصر: قافلہ، جماعت، چھوٹا گروہ، ان معنوں میں آتا ہے۔ مفردکے لیے استعمال کی کوئی نظیر میری نظر میں نہیں ہے۔ ممکن ہے اصل لغت میں اس کی گنجائش ہو۔

مطیع سید: بنو نضیر کی جلا وطنی کے بعد ان کی زمینیں مسلمانوں کو مل گئی تھیں اور ان کی پیداوار سے سال بھر کا خرچ آپ ﷺ کے گھر بھی آجاتا تھا۔ تو یہ جو کہا جاتا تھا کہ دو دو ماہ تک چولہا نہیں جلتا تھا، یہ کس دور کی بات ہے؟

عمار ناصر: روایت میں تو تصریح نہیں ہے کہ یہ کب کی بات ہے۔ دیکھنا پڑے گا کہ پہلے کی بات ہے یا بعد کی۔

مطیع سید: حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے پتلی روٹی اور بھنی ہوئی بکری کبھی نہیں کھائی۔9 جبکہ مختلف روایات موجود ہیں کہ آپ ﷺ کو دستی کا گو شت بہت پسند تھا10 اور حضرت انس تو حضور ﷺ کے پاس مسلسل دس سال رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتاہے؟ یہ کب کی روایت ہے؟

عمار ناصر: اس طرح کی روایتیں غالباً‌ عموم کے لحاظ سے صورت حال کو بیان کر دیتی ہیں۔ دیگر تفصیلات کو سامنے رکھیں تو صورت حال اس سے تھوڑی مختلف دکھائی دیتی ہے۔

مطیع سید: کیا یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ ﷺ کی ازواج میں سے ایک زوجہ محترمہ نے فرمایاکہ میں نے حضور ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا؟11

عمار ناصر: چاشت کی نماز معمولاً‌ پڑھنے کا تو واقعی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ کسی موقع پر آپ ﷺ سفر سے آئے تو دو رکعتیں ادا فرما لیں یا فتح مکہ کے موقع پر آٹھ رکعات ادا کیں۔ عموم میں آپ کا یہ معمول نہیں تھا۔ البتہ آپ کی معیشت سے متعلق اس طرح کی روایتیں محلِ غور ہیں۔ ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی صاحب کی ایک اچھی تحقیق مدنی عہدِ میں نبی ﷺ کی معیشت کے موضوع پر انڈیا کے کسی علمی مجلے میں اور یہاں ماہنامہ اشراق میں بھی شائع ہوئی تھی۔ مجھے اس کی تفصیل مستحضر نہیں، لیکن اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے، انہوں نے اس پر کوئی روشنی ڈالی ہو ۔

مطیع سید: عجوہ کھجور کے بارےمیں بخاری کی جو روایت ہے کہ اس کے کھانے سے جادو اثر نہیں کرتا،12 کیا لوگوں نے اس کا تجربہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ تو تجربے سے تعلق رکھنے والی چیزہے۔ کیا کسی نے کہیں اس کاتجربہ لکھا بھی ہے؟

عمار ناصر: ابن قیم نے زاد المعاد میں اس پر بات کی ہے۔ وہ اس میں کئی تحدیدات بیان کرتے ہیں کہ کیا مطلق عجوہ میں شفا ہے یا یہ عجوۃ العالیہ یعنی مدینے کے بالائی حصے میں اگنے والی کھجور کی خاصیت ہے، کیونکہ حدیث میں مدینے کی بالائی بستی کے بار ے میں شفا کا ذکر آیا ہے۔ تو بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ساتھ خاص ہے۔

مطیع سید: راویوں کی جانچ پرکھ کے تو بہت سے اصول ہیں۔ اس پر کتابیں بھی ہیں، بہت کام ہواہے۔ کیا متن پر تنقیدکے حوالےسے بھی اتنا کام ہوا ہے؟

عمار ناصر: کچھ نہ کچھ ہواہے۔ درایتاً‌ نقد کرنے کے اصولوں کی مثالیں تو بہت ملتی ہیں لیکن ان کو اصولی قالب میں ڈھالنے کا کام زیادہ نہیں ہوا۔ احناف کے ہاں کچھ تھوڑی سی بحث ملتی ہے، لیکن وہ زیادہ جامع نہیں۔ حنفی اصول ِ فقہ کی کتابوں میں اس بحث کو روایت کے معنوی انقطاع کا عنوان دیتے ہیں۔ اس میں کچھ اصولوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق زیادہ تر فقہی مسائل سے ہوتا ہے۔ لیکن عمومی طورپر ہر طرح کی روایات کو درایتاً‌ دیکھنے کے اصول کیا ہیں، اس پر یکجا اور مربوط شکل میں کام نہیں ہے، بکھراہو کام ہے۔ تاہم انفرادی مثالیں بہت ملتی ہیں۔

مطیع سید: گھوڑا اور گدھا دیکھنے میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، پھر کس اصول کے تحت گدھا حرام ہے اور گھوڑا حلال ہے؟ درندہ صفت ہونے کی جو علامات ہیں، وہ تو ان دونوں میں نہیں ہیں۔

عمار ناصر: اصل میں یہ تین اصناف بنتی ہیں۔ اصول تو یہ ہے کہ خبائث ممنوع ہیں اور طیبات حلال ہیں۔ خبائث میں ایک کیٹیگری بالکل واضح ہے، جیسے طیبات میں بھی ایک کیٹیگری ہے جو بالکل واضح ہے۔ درمیان میں کچھ اشتباہ والی چیزیں بھی ہیں۔ تو اس میں ہم خود اپنے اصول سے کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس میں دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ کہیں پیغمبر کے ذوق اور پیغمبر کی فطرت سلیمہ نے ایک فیصلہ کیا ہے تو اس کو ہم قبول کر لیں گے۔ یا اگر پیغمبر کی طرف سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی اور وہ چیز اس درمیان کی کیٹیگری میں ہے تو اس میں اجتہادی اختلاف پیدا ہو جائے گا۔

مطیع سید: تو کیا مذکورہ مسئلے میں کوئی اجتہادی اختلاف نہیں ہے؟

عمار ناصر: گدھے کے بارے میں یہ بحث رہی ہے، لیکن وہ بحث نص سے استدلال پر ہے۔ عبد اللہ بن عباس اور کوئی دوسرے صحابہ کا خیال یہ تھا کہ گدھےاصولاً‌ حرام نہیں ہیں۔ نبی ﷺ نے کسی اور عارضی وجہ سے ان کا گوشت کھانے کی ممانعت کی تھی۔ لیکن اس کے پیچھے ان کا جو استدلال ہے، وہ نص سے ہے۔ یعنی جو حرام جانور ہیں، وہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کر دیے ہیں اور گدھا اس میں شامل نہیں ہے۔

مطیع سید: اور گھوڑے کے بارے میں کیا اختلاف ہے؟

عمار ناصر: گھوڑے کے بارے میں حنفی فقہا کی رائے کراہت کی ہے۔ امام ابو حنیفہ سے منسوب ایک روایت ہے کہ وہ اسے حرام تو نہیں کہتے لیکن ناپسند کرتے ہیں۔

مطیع سید: مزفت ایک برتن ہے۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ نے سارے برتنوں میں کھانے پینے کی اجازت دے دی تھی۔13 یہ کس قسم کا برتن تھا؟ کیا خاص وجہ تھی کہ اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی؟

عمار ناصر: اصل میں جن برتنوں کے استعمال سے منع کیا گیا، وہ بنیادی طور پر بنائے ہی اس لیے جاتے تھے کہ ان میں شراب پی جائے یا محفوظ کی جائے۔ ان میں نبیذ وغیرہ ڈال کر رکھنے سے وہ جلدی نشہ آور ہو جاتی تھی۔ مزفت میں شاید یہ تھا کہ باقی برتنوں میں اگر آپ احتیاط سے کام لیں تو تو نشہ آور ہونے سے پہلے اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ مزفت میں برتن کے مسام وغیرہ اس طرح بند کر دیے جاتے تھے کہ تھوڑی تاخیر سے بھی اس میں نشہ پیدا ہو جاتا تھا۔ تو یہ سدِ ذریعہ کے طور پر ممانعت کی گئی تھی۔

مطیع سید: ہاتھی، زیبرا اور زرافہ جیسے جانوروں کے بارے میں کیا حکم ہے، یہ حلال ہیں یا حرام؟

عمار ناصر: اصل میں حرمت کی واضح علامت تو جانور کا چیر پھاڑ کرناہے۔ قرآن نے جانوروں کی حلت بیا ن کرتے ہوئے بہیمۃٰ الانعام کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس سے حلت کا جو معیار بنتاہے، وہ یہ ہے کہ انعامِ کی نوعیت کے چوپایے ہونے چاہییں، یعنی درندے نہ ہوں۔ ہاتھی کو فقہاء حرام ہی شمار کرتے ہیں، کیونکہ وہ اگرچہ چیر پھاڑ نہیں کرتا اور شکار بھی نہیں کرتا، لیکن اس کے دانتوں کی وجہ سے اس کی ظاہری ہیئت درندے کی سی ہے۔ البتہ زرافے اور زیبرے میں درندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ ان کا گوشت حلال سمجھا جاتا ہے۔

مطیع سید: گھوڑے کے حوالےسے نبی ﷺ نے حرمت کا حکم نہیں فرمایا بلکہ اجازت دی، جبکہ احناف کہتے ہیں کہ ابوداؤد کی روایت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔14 آپ کس کو ترجیح دیں گے؟

عمار ناصر: احناف کے اندر بھی کئی رجحانات ہیں۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں بس کراہت ہے، ورنہ اصولاً‌ گھوڑا حلال ہے۔ بعض حرام کی طرح کی چیز سمجھتے ہیں اور وہ اسی ابو داؤود والی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ مالکیہ کے ہاں بھی شاید اسی طرح کا رجحان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے اصل میں ان کو کھانے پینے کے جانوروں سے الگ ذکر کیاہے۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اللہ نے تمہارے لیے انعام پیداکیے، اور اس کے بعد کہا ہے کہ اللہ نے گھوڑے گدھے اور خچر بھی سواری کے لیے پیداکیے ہیں۔ یعنی ان کو الگ ذکر کیا ہے۔ اسی طرح خالد بن ولید کی روایت میں بھی ممانعت کا ذکر ہے، لیکن محدثین کہتے ہیں کہ کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ محدثین کے معیار کے مطابق وہ ایک کمزور روایت ہے۔ مستند روایات محدثین کے نزدیک وہی ہیں جس میں گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت ہے۔

مطیع سید: گوہ کے بارے میں ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ یہ میرے علاقے میں نہیں ہوتی، اس لیے مجھے اس کا گوشت پسند نہیں۔15 لیکن دوسری جگہ پر یہ فرمایاکہ کچھ قوموں کو مسخ کر کے جانور بنا دیا گیا تھا، شاید یہ گوہ انھی کی نسل سے ہو۔16 پھر ایک دوسری حدیث میں بندروں کے بارے میں فرمایا کہ جو قومیں مسخ ہوئیں، ان کی آگے کوئی نسل نہیں چلی۔ لیکن گوہ کے بارے میں آپ ﷺ فرمارہے ہیں کہ قومیں مسخ ہوئیں ہیں۔

عمار ناصر: جی، یہ ایک مسئلے کے بارے میں دو متضاد روایتیں آگئیں جن میں ترجیح قائم کرنی پڑ ے گی۔ احناف حرمت والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں، دوسرے فقہاء کے نزدیک حلت کی روایت کو ترجیح حاصل ہے۔ جہاں تک کسی مسخ شدہ گروہ کی نسل سے ہونے کا تعلق ہے تو محدثین کہتے ہیں کہ شاید آپ نے پہلے اپنے قیاس اور ظن سے یہ بات فرمائی ہوگی، لیکن پھر آپ کو وحی سے بتا دیا گیا ہوگا کہ کسی مسخ شدہ گروہ کی نسل آگے نہیں چلی۔ جیسے دجال کے بارے میں آپ ﷺ کےبعض تبصروں سے لگتاہے کہ پوری طرح تفصیلات آپ ﷺ کو نہیں بتائی گئی تھیں اور آپ کچھ قیاسات سے بھی مدد لیتے تھے۔ ظاہر ہے، یہ کوئی شریعت کا مسئلہ نہیں تھا۔

مطیع سید: آپ ﷺ کو دو پیالےپیش کیے گئے، ایک دودھ کا اوردوسرا شراب کا۔ پھر جب آپ نے دودھ کا پیالہ لے لیا تو کہا گیا کہ اگر آپ شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔17 یہ آپ کی کیسی عجیب آزمائش کی گئی اور آپ کے پیالہ لینے سے آپ کی امت کی ہدایت یا گمراہی کا فیصلہ کیسے ہوا؟

عمار ناصر: یہ تمثیلی نوعیت کی ایک تعلیم تھی۔ مقصد آپ کو یہ بتانا تھا کہ جیسے آپ راہ راست پر ہیں اور آپ نے درست انتخاب کیا ہے، اسی طرح آپ کی امت بھی مجموعی طور پر راہ راست پر قائم رہے گی۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا، لیکن خود کھڑے ہو کر پیا بھی۔18 حضرت علی کھڑے ہو کر پانی پیتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر بھی پیا ہے۔19

عمار ناصر: اس کے متعلق دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ بعض لوگ اس میں بہت شدت کرتے ہیں، لیکن عام فقہا ءکا عمومی رجحان یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے میں کوئی شرعی یا اخلاقی کراہت نہیں۔ ہاں، طبی پہلو سے یہ بہتر ہے کہ کھڑے ہوکر پینے سے احتیاط کی جائے اور بیٹھ کر سکون اور اطمینان سے پیا جائے تاکہ کوئی نقصان نہ ہو۔ اسی طرح استحباب یا ادب کے لحاظ سے بھی یہی مناسب ہے کہ بیٹھ کر پانی پیا جائے۔

مطیع سید: میں نے کئی جگہ یہ محسوس کیاہے کہ جب کوئی حدیث سامنے آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ احناف نے جو بات پہلے طے کرلی ہے، حدیث سامنے آنے پر بجائے اس کو تسلیم کرنے کے ایسی تاویل کرتے ہیں کہ وہ ان کے موقف کے مطابق ہوجائے۔

عمار ناصر: دیکھیں، سبھی ایسے کرتے ہیں۔ اس میں بعض دفعہ تعصب بھی ہوتا ہے۔ جب کچھ آراء مقبول اور رائج ہوگئی ہوں اور فقہی پہچان بن گئی ہوں تو اس میں تعصب پیدا ہو جانا ایک قابل فہم بات ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ لازماً‌ تعصب ہی وجہ ہو۔ کئی مواقع پر مجموعی دلائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روشنی میں کسی ایک حدیث کو ظاہری مفہوم میں لینے کے بجائے یہ بہتر محسوس ہوتا ہے کہ حدیث کو کسی ایسے مفہوم پر محمول کر لیا جائے جو مجموعی دلائل کے مطابق ہو۔

مطیع سید: حدیث کے شارحین میں آپ کی پسندیدہ ترین شخصیت کون سی ہے؟

عمار ناصر: حدیث کے شارحین میں میری پسندیدہ شخصیت علامہ انور شاہ کشمیری ہیں۔

مطیع سید: ان کی فیض الباری کی وجہ سے؟

عمار ناصر: جی، حدیث کی باقی جتنی بھی شروحات ہیں، ان کے اہم مباحث بھی فیض الباری میں آ جاتے ہیں اور ان کا یک بہت اچھا محاکمہ بھی مل جاتا ہے۔ شاہ صاحب کی جو باقی تحریریں ہیں جن میں وہ اصل میں کسی خاص فقہی مسئلے پر کلام کررہے ہوتے ہیں، وہاں تو کچھ ان کا رنگ مختلف ہے۔ لیکن فیض الباری میں یہ ہے کہ متن کے، سند کے بھی، فقہ کے، اصول فقہ اور اصول حدیث کے، ہر طرح کے مباحث آپ کو ساتھ ساتھ ملتے ہیں۔ اس میں آپ کو ان کے علم کا بہت وسیع کینوس نظر آتاہے۔ حدیث کے فہم میں جو ان کا زاویہ ہے، اس سے آپ صحیح فائدہ تب اٹھاسکتے ہیں یا صحیح قدر وقیمت کااندازہ تب کر سکتے ہیں جب پوری دینی روایت کی نمائندہ چیزیں آپ کے سامنے ہوں۔ اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ شاہ صاحب ان بحثوں میں کیا اضافہ کر تے ہیں۔

مطیع سید: فقہا میں آپ کی پسندیدہ شخصیت؟

عمار ناصر: آپ اگر علمی صلاحیت کے لحاظ سے پوچھ رہے ہیں تو کچھ کہنا بہت مشکل ہے اور میری تو بالکل یہ حیثیت نہیں۔ ذہانت وذکاوت یا علمی سطح کے لحاظ سے تو شاید آپ کوئی خاص فرق نہیں کر سکتے۔ البتہ فقہی اپروچ کے متعلق اگر آپ پوچھنا چاہ رہے ہیں تو وہ حضرت عمر ہیں۔ اصل میں فقیہ الامت وہی ہیں۔

مطیع سید: تمام فقہا میں سے آپ کن کو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر فاروق کی زیادہ پیروی کی ہو؟

عمار ناصر: مجموعی طور پر کچھ کہنامشکل ہے۔ ان کے ہاں جو اجتہاد کی اسپرٹ ہے، اس کے کچھ نہ کچھ نمونے سبھی فقہا کے ہاں ملتے ہیں۔ اسپرٹ سے مرا د یہ ہے کہ وہ حکم کو بالکل ظاہر پر لینے کی بجائے اس کے مقصد و منشا کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، اس کی روح اور مقصد کو متعین کرنے کے لیے عقل اور قیاس سے اور شریعت کے مقاصد اور پیش نظر مصالح سے مدد لیتے ہیں، اور دیگر تمام نصوص کو بھی سامنے رکھتے ہوئے یہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شارع اصل میں کہنا کیاچاہتاہے۔ اس کے لحاظ سے حکم کی ظاہری شکل کو چھوڑ کر وہ کئی دفعہ ایک دوسری شکل بھی اختیارکر لیتے ہیں۔ یہ ان کے اجتہاد کی سپرٹ ہے۔ اب اس کے نسبتا ً‌ زیادہ نمونے آپ کو مالکیہ اور احناف کے ہاں ملیں گے اور حنابلہ کے ہاں بھی اس کی بہت اچھی مثالیں۔ ایسا نہیں کہ شوافع کے ہاں اس کی مثالیں بالکل نہیں ملتیں، لیکن اطلاقی سطح پر آپ کو اس کے زیادہ نمونے مالکیہ اور احناف کے ہاں اور پھر حنابلہ کے ہاں ملیں گے۔


حواشی

  1. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الایمان، باب بيان ان الاسلام بدا غريبا وسيعود غريبا، رقم الحدیث: 145، جلد: 1، ص: 130
  2. صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب الایمان، ‌‌باب فان تابوا واقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فخلوا سبيلهم، رقم الحدیث: 25، ص: 76
  3.  صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب احادیث الانبیاء، ‌‌باب ما ذكر عن بنی اسرائيل، رقم الحدیث: 3463، ص: 888
  4.  صحیح البخاری، کتاب الشرب والمساقاۃ، باب القطائع، رقم الحدیث: 2376، ص: 612
  5.  صحیح البخاری، کتاب الادب، باب اكرام الضيف وخدمتہ ایاه بنفسہ‌‌، رقم الحدیث: 6137، ص: 1523
  6.  صحیح البخاری، کتاب العتق، باب كراہیۃ التطاول على الرقيق، رقم الحدیث: 2552، ص: 655
  7.  صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، ‌باب ان الله عنده علم الساعۃ ، رقم الحدیث: 4777، ص: 1214
  8.  صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، ‌باب نسيان القرآن ‌‌ ، رقم الحدیث: 5037، ص: 1301
  9.  صحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، ‌‌باب الخبز المرقق والاكل على الخوان والسفرة ، رقم الحدیث: 5385، ص: 1380
  10.  صحیح البخاری، ‌‌كتاب الهبۃ وفضلها، ‌‌باب القليل من الھبۃ، رقم الحدیث: 2568، ص: 661
  11.  صحیح البخاری، ‌‌ابواب التہجد، ‌‌باب من لم يصل الضحى ورآه واسعا، رقم الحدیث: 1177، ص: 338
  12.  صحیح البخاری، ‌‌ابواب الاطعمۃ، ‌‌باب العجوۃ ، رقم الحدیث: 5445، ص: 1391
  13.  صحیح البخاری، ‌‌کتاب الاشربۃ، ‌‌‌‌باب ترخيص النبی صلى الله عليہ وسلم فی الاوعيۃ والظروف بعد النہی، رقم الحدیث: 5593، ص: 1411
  14.  سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، ‌‌باب فی اكل لحوم الخيل، رقم الحدیث: 3790، جلد: 3، ص: 352
  15.  صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح وما يؤكل من الحيوان، باب اباحۃ الضب، رقم الحدیث: 1945، جلد: 3، ص: 1543
  16.  صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح وما يؤكل من الحيوان، باب اباحۃ الضب، رقم الحدیث: 1949، جلد: 3، ص: 1545
  17.  صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، باب جواز شرب اللبن، رقم الحدیث: 2009، جلد: 3، ص: 1592
  18.  صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، باب كراہیۃ الشرب قائما، رقم الحدیث: 2024، جلد: 3، ص: 1600
  19.  صحیح البخاری، ‌‌ابواب الاشربۃ، باب الشرب قائما، رقم الحدیث: 5615، ص: 1426

(جاری)

صنف وجنس اور اس میں تغیر (۳)

مولانا مشرف بيگ اشرف

خنثی  ، خصی خنثی مشکل وغیرہ سے متعلق شرعی احکام

اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلامی شریعت کا تصور جنس وصنف  کیا ہے۔ نیز علم جینیات میں ان تصورات کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔ نیز نفسیات کی بنیاد پر اس قضیے کی کیا حیثیت ہے۔

نیز فقہا نے جس علمیت پر جنس کا تصور کھڑا کیا تھا، وہ آج بھی بالکل متعلق اور زندہ ہے۔ جینیات کے علم نے کچھ ایسا ثابت نہیں کیا کہ وہ بدل جائے۔ بس اس نے ظاہری اعضا کے پیچھے جینز کا تصور کھڑا کیا ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک بہت بڑی کاوش ہے اور اس سے کئی بیماریوں  کے علاج میں مدد ملی۔ لیکن انسان اب بھی وہی ہے۔

اس لیے، ہم اب ہم  خنثی سے متعلق شرعی احکام کی طرف لوٹتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ کہ فقہا کے ہاں دو امورمیں واضح فرق دکھائی دیتا ہے:

۱: فقہا "خنثی" کے لیے دو ٹوک معیار مقرر کرتے ہیں۔

۲: تاہم اگر کسی کا "خنثی" ہونا ثابت ہو جائے، تو اس کے بعد، ان کے ہاں بہت گنجائش اور نرمی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان میں اصل یہ ہے کہ وہ مرد ہے یا زن اور اس میں دونوں اعضا نہ ہوں۔اور یہی انسانی تاریخ کا غالب مشاہدہ بھی ہے۔ اس لیے، اس حوالے سےتعین کو مشکوک نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن جب ایک مرتبہ شک کی دراڑ پڑ گئی، تو اس کے بعد، گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔

خنثی: فقہا کے ہاں خنثی وہ ہے جس میں  دونوں اعضائے تناسل ہوں۔ اس لیے، فقہا کے ہاں، معیار تولیدی نظام سے وابستہ اعضا ہیں۔ اس سے ہمیں مندرجہ ذیل امور واضح ہوئے:

۱: جس انسان کا جینیاتی ڈھانچہ اس کے نظام تولید سے ہم آہنگ نہیں لیکن اس میں اعضا صرف ایک ہی جنس کے ہیں، تو وہ خنثی نہیں۔ اگرچہ ہم پیچھے یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ ہم آہنگی صرف ہماری کم علمی ہوتی ہے ورنہ اصل میں ہر ساختیاتی تبدیلی کے پیچھے جینیاتی تفسیر کھڑی ہوتی ہے۔ اس لیے، یہ لوگ خنثی نہیں۔

۲: اگر کسی عورت میں مردانہ ہارمونز زیادہ ہوں جس کی وجہ سے اس کے جسم پر بال آر ہے ہیں تو خنثی نہیں۔ بلکہ وہ "مادہ" ہی ہے۔

۳: "خصی" بھی خنثی نہیں بلکہ نر ہے۔ خصی (eunuch)اسے کہتے ہیں جس کے خصیے وغیرہ کاٹ دیے گئے ہوں۔اس لیے، اس پر "نر" کے احکام لاگو ہوں گے۔

۴: جس پیدائشی نر کو نفسیاتی طور سے یہ لگے کہ وہ  عورت ہے، تو وہ مرد ہی ہے اور اسی طرح پیدائشی مادہ۔ بالفاظ دگر، "متبدل صنف" خنثی نہیں، وہ نر یا مادہ ہی ہے۔

۵: جس متبدل جنس نے اپنے اعضا کو تبدیل کر لیا جبکہ اس کے اعضائے تناسل واضح طور سے نر یا مادہ کے تھے، تو وہ بھی خنثی یا خنثی مشکل نہیں۔ بلکہ اس عمل جراحی سے پہلے اس کی جو جنس تھی ، وہی اب بھی ہے۔ جنس ناقابل تغیر ہے۔

تاہم، یہ ہو سکتا ہے کہ کسی انسان کے ظاہری اعضا کسی ایک جنس کے ہوں لیکن اس کے اندر دوسرے جنس کے اعضا ابتدا میں نشو ونما نہ پا سکیں لیکن بعد میں وہ زندگی کے کسی موڑ پر اچانک ظاہر ہو جائیں۔ اگر سکین کے ذریعے وہ اعضا نظر آ جائیں، تو یہ خنثی ہے۔پر یہاں بھی حقیقت میں ظاہری اعضا ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

خنثی کا تعین بین الاقوامی عرف میں:

اقوام متحدہ کے اعلی کمیشنر برائے انسانی حقوق نے جولائی ۲۰۱۳ میں جی بی ٹی آئی (LGBTI) کے لیے ایک مہم کا اجرا کیا جس کا عنوان ہے: "اقوام متحدہ: آزاد ویکساں"۔ یہ دراصل حقوق انسانی کے عالمی منشور کی پہلی شق سے مستعار ہے کہ:

"تمام انسان آزاد اور کرامت و حقوق میں  یکساں پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں (فطرت نے) عقل  وشعور کے تحفے سے نوازا ہے ۔ اس لیے، انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ  اخوت اور بھائی چارےسے پیش آئیں۔" 

اس مہم نے خنثی کے حقوق کے حوالے سے ایک معلوماتی دستاویز شائع کی جس کے مقدمے میں خنثی کی تعریف ان الفاظ سے کی گئی:

Intersex people are born with sex characteristics (including genitals, gonads and chromosome patterns) that do not fit typical binary notions of male or female bodies. Intersex is an umbrella term used to describe a wide range of natural bodily variations. In some cases, intersex traits are visible at birth while in others, they are not apparent until puberty. Some chromosomal intersex variations may not be physically apparent at all. According to experts, between 0.05% and 1.7% of the population is born with intersex traits – the upper estimate is similar to the number of red haired people. Being intersex relates to biological sex characteristics, and is distinct from a person's sexual orientation or gender identity. An intersex person may be straight, gay, lesbian, bisexual or asexual, and may identify as female, male, both or neither.

مفہوم:  خنثی  برادری میں دونوں جنس کی خصوصیات ہوتی ہیں جو روایتی دوئی پرمبنی جسمانی تصور نر ومادہ سے ہم آہنگ نہیں۔ (ان خصوصیات میں اعضائے تناسل، تناسلے غدے، کروموسومز کی ہیئت شامل ہے)۔ خنثی   کی اصطلاح تلے کئی مختلف جسمانی تنوعات   آتے ہیں۔ بعض اوقات، خنثی کی خصوصیات بوقت پیدائش ہی ظاہر ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات بلوغ پر ظاہر ہوتی ہیں۔نیز یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض کروموسومز پر مبنی تنوع    بالکل جسمانی طور سے ظاہر ہی نہ ہو۔ماہرین کے مطابق  0.05 سے 1.7 فیصد لوگ خنثی ہوتے ہیں جیسا کہ سرخ بالوں والوں کی زیادہ سے زیادہ شرح بھی یہی ہے۔خنثی ہونے کا تعلق انسان کی حیاتیاتی جنسی خصوصیات سے ہے جو جنسی رجحان اور صنفی شناخت سے جداگانہ تصور ہے۔  ایک خنثی کا جنسی رجحان  "انسانی نر "کی طرف بھی ہو سکتا ہے،  انسانی مادہ کی طرف بھی، دونوں کی طرف بھی اور سرے سے اس رجحان سے عاری بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح، خنثی اپنی شناخت مردانہ، زنانہ یا دونوں قرار دے سکتا ہے یا سرے سے کوئی شناخت قرار ہی نہ دے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں اس کی تعریف یہ ہے:

intersex, in biology, an organism having physical characteristics intermediate between a true male and a true female of its species. The condition usually results from extra chromosomes or a hormonal abnormality during embryological development.

مفہوم:  علم احیا میں، خنثی اس زندہ کائنات کو کہتے ہیں جس کی جسمانی خصوصیات  اپنے نوع کے ٹھیٹ نر اور ٹھیٹ مادہ کے بیچ میں ہو۔ یہ صورت حال عام طور سے، اضافی کروموسومز سے جنم لیتی ہے یا رحم ماد میں جنین کی نشو ونما  کے وقت  ہارمونز  میں انحراف سے۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ  خنثی میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو جنسی ساخت کے حوالے سے بالکل واضح اور دوٹوک ہیں لیکن ان کے کروموسوز کا ڈھانچہ اس سے جوڑ نہیں کھاتا۔ اور ہم واضح کر چکے ہیں کہ شرعی نقطہ نگاہ سے یہ خنثی نہیں، بلکہ نر یا مادہ ہیں اور اسی کے مطابق انہیں حقوق ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تناظر میں صرف اتنی بات کافی نہیں کہ طبی دستاویز کی بنیاد پر  جنسی اعضا کی عمل جراحی کی اجازت دے  کر قانون میں جنس کو بدل دیا جائے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ فقہ دراصل قدر کا سوال ہےاور طب ، سائنس وغیرہ اس سے کوسوں دور ہیں یا ہونا چاہیے اصولی طور سے۔ اب کسی طبیب کی کیا قدر ہے، وہ اس کے مطابق فیصلہ کر ے گا اور عنوان یہ دیا جائے گاکہ "سائنس کی بنیاد پر فیصلہ ہوا" اوراس دھرتی کے لوگ جو سائنس کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں، اس پر خوشی محسوس کریں گے کہ ہم نے جدید ہونے کا ثبوت دیا جب کہ  حقیقت میں ہم نے سائنس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا، بلکہ ایک طبیب کے عقیدے اور اس کی قدر کو مان لیا۔اور اس سے بڑھ کر  ہماری تہذیبی اقدار کا اور کیا خون ہو گا۔

اس لیے واضح رہے کہ "کئی ڈاکٹرز اس مسئلے کا حصہ  ہیں   حل نہیں۔"

ڈاکٹرز اس مسئلے کا حصہ ہیں حل نہیں:

ڈاکٹرز ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ ہمارے بھائی، بہن ، بیٹے بیٹی ہی ہیں اور جس طرح، ہر شعبے میں بھانت بھانت کے افکار رکھنے والے ہیں، اس پیشے میں بھی ہے۔ اور جس طرح، ہر میدان میں اچھے برے ہیں، اس میدان میں بھی ہیں۔ میرا اپنا جتنے اطبا سے واسطہ پڑا، ان میں سے کئی دین کو پسند کرنے والے اور خوب صورت اخلاق کے مالک تھے اور اس شعبے کو واقعی خدمت خلق سمجھ کر نبھانے والے تھے۔

تاہم افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو انسانوں کی صحت پر اپنی جاگیریں کھڑی کرتے ہیں۔ دواساز ادارےمیڈیکل نمائندوں کے ذریعے سے کئی اطبا کو  بڑی بڑی مراعات (فریج، اے سی، بیرون ملک سیر وسیاحت کی سہولت وغیرہ)دے کر اپنی ادویہ دینے پر راضی کرتے ہیں ۔ اب بازار میں ایک بیماری کے لیے سستی دوا موجود ہے لیکن میڈیکل نمائندے نے چونکہ  اپنا ہدف(ٹارگٹ) پورا کرنا ہوتا ہے اس لیے ڈاکٹر اسی کمپنی کی دوا لکھ کر دے گا جس کے نمائندے نے اسے مراعات سے نوازا۔ اسی طرح، بعض ڈاکٹرز خاص مختلف عنوان سے ادویہ بناتے ہیں جو صرف ان کی اپنی  فارمیسی سے ان کے اپنے نرخ پر ملتی ہیں جبکہ وہی تاثیر رکھنے والی سستی دوا بازار میں موجود ہوتی ہیں اور نسخے پر لکھے ہوئے عنوان کو اس فارمیسی کے علاوہ کوئی دوسری فارمیسی والے پہچانتے بھی نہیں۔

ہمارے زیر بحث مسئلے میں کہ جنس کا پیمانہ کیا اور کسے خنثی مان کر اس عمل جراحی کی اجازت دی جائے، کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس حوالے سے دو پہلوؤں کو دیکھنا ہے:

۱: اس وقت جنس وصنف سے متعلق مسائل کے پشت پر ایک مکمل عقیدہ کھڑا ہے جو مابعد جدیدیت اور وجودیت کے نظریات سے متاثر ہے۔ اس کے خیال میں : "وجود ماہیت پر مقد م ہے"۔ انسان کے ساتھ پیدائشی طور سے مختلف ماہتیں اور نسبتیں جڑ جاتی ہیں، وہ اپنے ساتھ نہیں لاتا بلکہ معاشرہ انہیں بچے کو پہناتا ہے۔ اس لیے، وجود ہر ماہیت پر مقدم ہے اور کس انسان نے اپنے لیے کس ماہیت کا لباس اوڑھنا ہے، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔اسی طرح، مرد وعورت ہونا کوئی بچہ اپنے ساتھ نہیں لاتا، بلکہ ڈاکٹر جب پہلی مرتبہ یہ کہتا ہے کہ: "آپ کا بیٹا ہوا"یا "آپ کی بیٹی ہوئی"، تو وہ اپنے انشائی بول (illocutionary speech act) سے "مرد" یا "عورت" کو جنم دیتا ہے، وہ کسی حقیقت کی خبر نہیں دیتا، بلکہ ایک حقیقت کو خود وجود دے رہا ہوتا ہے۔نیز بعض لوگ اس کی تائید اس سے بھی کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرانس لوگوں کے جینز دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں جو ان کے ذہن کو ان کی جسمانی جنس سے مختلف کر دیتے ہیں۔ اس کا ہمیں خود بھی  تجربہ ہے کہ ہمارے ایک عزیز کی بچی اس نفسیاتی الجھ میں ہے اور ایک ڈاکٹر سے رہنمائی لی۔ اس نے کہا کہ یہ فطری ہے کہ بعض لوگوں میں خاص جینز ہوتے ہیں ۔والدین جو پہلے ہی بچی کی صورت حال سے پریشان تھے، ان کے لیے مزید معاملہ گھمبیر ہوگیا۔اور ہم نفسیات کے تحت واضح کر چکے ہیں کہ انسانی نفسیات ودماغ  کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

۲ : دوسرا پہلو سرمایہ دارانہ ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ جنس اور باقی اعضا تبدیل کروانا ، جیسے مرد کا  عورت جیسا بننے کے لیے اپنی چھاتی بنوانا اور اندام نہانی کی تنصیب وغیرہ، یہ دنیا کی مہنگی ترین سرجری میں آتا ہے۔جب کوئی انسان اپنے اعضا کو بدلواتا ہے تو عام طور سے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس جنس کا خواہاں ہے، اپنے جسم کو پوری  طرح ویسے کروائے اور یہ کاسمیٹک سرجری بہت مال طلب ہے۔اس لیے، اس کے ساتھ بہت سا سرمایہ جڑا ہوا ہے۔پھر ان لوگوں کو مستقل کسی معاینہ کروانا پڑتا ہے۔ اسی طرح، کئی لوگ جو اپنے اعضا بدلوا لیتے ہیں، وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار  ہو کر، مستقل کسی ماہر نفسیات کے در پر آج جاتے ہیں۔ اگر ایک سے اطمینان نہ ہوا، تو دوسرے کی طرف۔ اس طرح، ان کے کلینک آباد اور اکاونٹس بھرے ہوئے رہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں خنثی بچوں کی ولادت پر اس کی جراحی کر کے اسے کسی ایک جنس کی پھیر دیا جاتا ہے۔ اب اس پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے مہم چلائی جاتی ہے کہ اس عمل کو روکا جائے ۔ ایسے بچے بڑے ہو کر پیچیدگیوں کا شکار رہتے ہیں۔ اور نوبت خودکشی تک آجاتی ہے۔

ان وجوہ سے، صرف یہ کافی نہیں کہ ڈاکٹر کی رپٹ پر کسی کے خنثی ہونے کا فیصلہ کر دیا جائے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ دین دار اور اسلامی اقدار کے حوالے سے پختہ  اطبا بیٹھ کر ایک معیار طے کریں  کہ جو اس پر پورا اترے اسے خنثی قرار دیا جائے اور اس کے بعد، اسے عمل جراحی وغیرہ کی اجازت ہو اور اس کی شناخت کی تعیین کے حوالے سے  نادرا  سے رجوع کرنے کی اجازت ہو۔ ورنہ، اگر ان اصطلاحات کو جدید  طب کی روشنی میں واضح اور ان کے لیے کوئی واضح معیار (بنچ مارک) مقرر  نہ کیا گیا، تو وہی نتائج  ان اصطلاحات سے ایک ڈاکٹر باآسانی حاصل کر لے گاجس کے خدشے سے اس وقت  ساری محنت کی جاری ہے جیسے ایک ماہر قانون ایک قانونی متن کو مختلف طرح سے پڑھ لیتا ہے۔

اس امر کے لیےشرعی  اصول، بیمار کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے کہ اگر طبیب اسے کہے کہ روزہ اس کے لیے نقصان دہ ہے، تو وہ چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ طبیب مسلمان ہو اور اسلامی اقدار  کو وہ اہم سمجھتا ہو۔شریعت اس زبان زد عام تصور کو تسلیم نہیں کرتی کہ "بس ماہر کی بات کو تسلیم کیا جائے۔" بلکہ ماہر بھی انسان ہے او ر وہ بھی اپنی مہارت کو غلط استعمال کر سکتا ہے۔ نیز اس کی تحقیق اس کے کسی عقیدے کا اثر بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے، صرف سائنس کا نام سے مرعوب ہونے کے بجائے، شرعی اصولوں پر فیصلہ کرنے والے کو ایک متحرک ناقد کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے خواہ اس پر کتنا ہی استہزا کا سامنا کرنا پڑے کہ اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی زیادہ شدید ہے اس استہزا سے۔

خنثی کے دو مختلف حالات:

اوپر یہ قاعدہ گزرا کہ اسلام صرف دو جنسوں کو تسلیم کرتا ہے۔ تاہم چونکہ انسان کا علم ناقص ہے، اس لیے بعض محدود صورتوں میں انسان کے لیے یہ دریافت مشکل ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف، انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ، فرشتوں سے سجدہ کروایا اور اس زمین کی خلافت سے نوازا۔ اس شرف وبلندی کا مظہر یا اس کا ایک سبب اس کا اپنے افعال کا ذمے دار ہونا ہے۔اور چونکہ عقل  کے قاضی  کا فیصلہ ہے کہ بغیر اختیار کے کسی چیز کی ذمے داری غیر حکیمانہ  امر ہے، اس لیے اللہ تعالی نے جس نے یہ عقل  اور  اس کا ڈھانچہ خود بنایا، انسان کو اختیار دے دیا ۔چناچہ اب اس کا فعل بے زبان چوپایوں اور بے جان در ودیوار کی طرح نہ رہا۔بلکہ اس کا فعل اس کے اختیار سے پھوٹتا ہے اور انسان کی اپنی نفسیاتی حالت اسے یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ اس نے جو فعل کیا وہ اس کا ذمے دار ہے کہ اس کے اپنی اختیار سے بہہ کر آیا ہے۔وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ وہ سائے کی طرف پوری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔

تیسری طرف، انسان کے ساتھ ایسے عوارض جڑے ہوئے ہیں، جو اس کے اختیار کو کبھی ماؤُف اور کبھی محدود کر دیتے ہیں۔ ان ہی عوارض میں سے ایک بچپن ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو شاید اسے اپنے وجود ہی کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس کی عقل کا بیج اپنی ابتدائی حالت میں ہوتا ہے کہ اگر سازگار حالات رہے تو بلوغ تک وہ ایک  ہرا بھرا درخت بن جائے۔ اوراسی وجہ سے ، اخلاق اور اس پر مرتب ہونے والے قانون میں ،اس بچے کے جان مال کو وہی حرمت ملتی ہے جو ایک باشعور وباعقل انسان کو دی جاتی ہے کہ اس نے اپنے مآل ونتیجے میں ایک ذی شعور وذی  عقل  مخلوق بننا ہے۔

اسی وجہ سے، فقہ جو مقاصد پر مبنی (Purpose-Driven)انسانی سرگرمی ہے،بچے کے معاملات کو اس کے ارد گرد میں موجود لوگوں کے سپرد کرتی ہے کہ وہ اس بیچ کی نگہداشت وآبیاری کر کے اسے ایک تناور درخت بنائیں۔ اور ان لوگوں میں بچے کے والدین اور پھر دیگر رشتے دار، درجہ بہ درجہ، آتے ہیں جن کی بابت انسانی تاریخ، انسانی فطرت اور ادیان یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ اس بچے کے  خیر خواہ ترین ہیں۔اور بچے کے جانی ، جسمانی ومالی معاملات کا فیصلہ وہ والدین کرتے ہیں تا کہ وہ بچہ ان کی چھاؤں میں جوان ہو اور ایک صحت مند فرد بنے۔ اس کے بعد، وہ اپنے معاملات کا فیصلہ خود کر سکے۔

ان سب باتوں کے پیش نظر فقہا ، خنثی کے احکام کو دو مراحل میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ پیدائش سے بلوغ سے پہلے کا  اوردوسرا مرحلہ بلوغ سے بعد ہے۔ 

خنثی بچپن میں:

اب چونکہ خنثی ایک انسان ہے جسے  وہ تمام حقوق ملیں گے جو ایک انسان کو ملتے ہیں  اور انسان  "نر" یا "مادہ" ہوتا ہے،اس لیےفقہا کے ہاں بنیادی سوال  اس کی جنس کی تعین ہے تاکہ اس کے ساتھ کچھ مقاصد واحکام وابستہ کر سکیں۔ جب تک بچہ بالغ نہیں ہوتا، تو بنیادی ترین حکم میراث کا ہے کہ اگر اس کا مورث مر گیا تو اسے کتنی میراث ملے، نیز اس کے حق پرورش کا ہے کہ اگر ماں باپ میں جدائی ہو گئی، تو اگرچہ اصولی  طور سے، حق پرورش نومولود کا ماں کے پاس  ہے،تاہم ایک خاص عمر میں پہنچ کر یہ باپ کو منتقل ہوتا ہے: لڑکے میں یہ جلدی ہوجاتا ہے کہ جیسے ہی اسے ہوش آئے اورروزمرہ کی بنیادی ضرورتوں میں وہ خود کفیل ہو توباپ کو حق ملتا ہے کہ اسے مردانہ اخلاق وعادات کا عادی بنائے  اور معاشرے میں اپنا کردار (Gender Role)ا دا کرنے کا لیے پوری طرح سے تیار ہو(جی ہاں، شریعت کا مقصود ہے کہ معاشرے لڑکے اورلڑکیوں کو سماجی کردار کے لیے تیار کریں۔) اور لڑکی میں یہ کچھ دیر سےملتا ہے   کہ اسے اس کے سماجی کردار کے لیے آمادہ اس کی ماں کر سکتی ہے۔ اس لیے، جب اس کی شادی کی عمر ہو، تو یہ حق باپ کو منتقل کیا جاتا ہے کہ "پدر قوّامی"(واو کی تشدید کے ساتھ)معاشرے میں ، جوعین    فطرت ہے،بیٹی  کی حفاظت ،اسے معاشرے کے تاریک گوشوں سے بچانے اور عمر کے ساتھ پنپتے ہوئے احساسات وجذبات  کی بیل کو منڈھے چڑھانے کی ذمے داری باپ پر ہے۔اور جب وہ بالغ ہوتا ہے تو قانونی وفقہی احکام کا ایک جہاں وا ہو جاتا ہے۔ اس لیے، اس وقت  اس کی جنس کا فیصلہ دوبارہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ ایک بالکل فطری معاملہ ہے کہ بلوغ کے وقت انسان بالکل ایک نیا روپ دھار لیتا ہے۔ اس کی جسمانی و نفسیاتی  کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔

بہر کیف، بلوغ سے پہلے خنثی کا فیصلہ اس  کے پیشاب کی جگہ پر کیا جاتا ہے۔ چناچہ اگر  اس کا جسم مردانہ عضو سے ہو کر آتا ہے، تو اسے نرقرار دیا جائے گا او رزنانہ عضو سے کرتا ہے، تو مادہ۔ اور اگر دونوں ہی اعضا استعمال کرتا ہو، تو اب یہ "خنثی مشکل" ہے۔ اس کے جنسی فیصلے کو اس کی جوانی تک روک دیاجائے گا۔ اور میراث وغیرہ کے احکام میں فقہا کچھ فقہی اصولوں کی روشنی میں اس کا حل پیش کرتے ہیں جن کی تفصیل یہاں پیش نظر نہیں۔اوپر جو فقہا کی عبارات دی گئیں ان کے ضمن میں یہ تفصیالات موجود ہیں۔ تاہم علامہ حصکفی کی عبارت ملاحظہ ہو:

«فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: اگر خنثی مردانہ عضو سے پیشاب کرے، تو لڑکا، اور اگر زنانہ سے کرے تو لڑکی اور دونوں سے کرے، تو جس سے آغاز ہوا اس پر فیصلہ ہوگا۔ اور اگر دونوں ہی ہر لحاظ سے برابر ہوں، تو یہ خنثی مشکل ہے۔۱۲

اس پر علامہ شامی فرماتے ہیں:

«(قوله فالحكم للأسبق) لأنه دليل على أنه هو العضو الأصلي ولأنه كما خرج البول حكم بموجبه لأنه علامة تامة فلا يتغير بعد ذلك بخروج البول من الآلة الأخرى»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727):

مفہوم: (علامہ حصکفی کا فرمانا کہ جو پہلے ہے اس پر فیصلہ ہو گا) اس لیے کہ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اصلی  کارآمد عضو ہے، نیز اس لیے کہ جوں ہی وہ پیشاب کرے گا، وہ اس کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا کہ پیشاب کرنا ، جنس کی تعیین میں، ایک مکمل علامت ہے۔ اس کے بعد، دوسرے آلے سے پیشاب خواہ کرے، پر حکم نہیں بدلا جائے گا۔

یہاں یہ بات نوٹ کیجیے کہ فقہا اس حوالے سے کتنی واضح ہے کہ چونکہ جنس ایک امر ربی ہے ، وہ بدلنے سے نہیں بدلتی اور ہمیں اس کا اندازہ علامات سے ہوتا ہے(جیسے نماز کی فرضیت کا اندازہ سورج کے چڑھنے ڈھلنے سے)، اس لیے جب ایک بار حکم ثابت ہو گیا تو اسے وہ بدلنے نہیں دیتے۔ (آگے اس پہلو پر کچھ تفصیل اور تقیید آئے گی۔)

اہم بات یہ ہے کہ فقہا کے نظام میں اس بچے کو عمل جراحی سے گزارنا اور اسے کسی ایک جنس کی طرف موڑ دینا ضروری نہیں۔  بالکل اگر میں یہ کہنے کی جرات کروں کہ ناپسندیدہ ہے، تو بعید نہیں  کیونکہ بغیر کسی ضرورت کے اس بچے کا جسم کی ہیئت کا فیصلہ کرنا  جو ساری زندگی اس کے ساتھ رہی گی مناسب نہیں۔البتہ اگر بچے کی حالت ایسی ہوئی کہ جان پر بن رہی ،مثلا پیشاب میں دشواری ہو اور اطبا کا خیال ہو کہ عمل جراحی ضروری ہے، تو وہ ایک جائز عمل ہے۔

 بس وہ بچہ دوسرے بچوں ہی  کی طرح اپنی زندگی گزارے اور جب وہ شعور وبلوغ کی دہلیز پر قدم رکھے، تو اس کا فیصلہ کیا جائے۔

اس وقت بین الاقوامی عرف بھی اس پر زور دے رہا ہے  کہ خنثی کو عمل جراحی کے ذریعے کسی ایک جنس کی طرف بچپن ہی میں نہ موڑا جائے، اور یہ بات اسلامی اخلاق سے بھی ہم آہنگ ہے کیونکہ بلوغ کے بعد، خنثی کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے اور اس وقت حتمی رائے سامنے آتی ہے کہ اس کی وہ جنس کیا ہے جس کے ساتھ اس نے زندگی بسر کرنی ہے۔

خنثی کا فیصلہ جوانی میں:

خنثی جب جوان ہوتا ہے، تو وہ ایک بالکل نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جو بچپن سے بہت مختلف ہے۔ اس کی نفسیات واحساسات، ترجیحات  ومعیارات، جسم، عقل، شعور، تحت الشعور سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اس لیے، بالغ ہونے کے بعد، فقہا خنثی کا فیصلہ دوبارہ کرنے کا کہتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے، میں دوبارہ یاددہانی کرنا چاہوں گا کہ یہاں گفتگو اس کی بابت ہو رہی ہے جس کا "خنثی" ہونا ثابت ہوگیا، فقہا کےطے کیے ہوئے کڑے معیار پر پورا اتر گیا۔

چناچہ فقہا کے کلام میں مندرجہ ذیل پیمانے ملتے ہیں:

حیض آنا، قرار حمل، کسی خنثی کا اس قابل ہونا کہ کوئی مرد اس سے زن وشو کا تعلق قائم کر لے یا کسی خنثی کا کسی عورت سے یہ تعلق باآسانی قائم کر لینا، عورتوں کی طرح چھاتی نکلنا، یا دودھ اترنا وغیرہ۔

حتی کہ اگر کسی خنثی کا کہنا ہے کہ وہ "مرد" کی طرف جنسی جھکاؤ رکھتا ہے، تو وہ عورت شمار ہو گا اور اگر اس کا جنسی جھکاؤ عورت کی طرف ہو، تو وہ مرد شمار ہو گی۔ یہاں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ فقہا کے ہاں جنس جنسی رجحان کے ساتھ گتھم گتھا ہے۔

یہاں جو پیمانے دیے گئے ہیں اس میں ایک ایسے قاری کو اشکال ہوسکتا ہے جو فقہی جزئیات پڑھنے سے آشنا نہ ہو۔ مثلا،ہماری گفتگو اس بابت ہے کہ خنثی کو مرد مانا جائے یا عورت تا کہ اسے نکاح، معاشرتی کردار  بھرپور طریقے سے ادا کرنے  کا موقع ملے۔تو یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کسی خنثی نے کسی عورت سے تعلق قائم کر لیا، تو سے "نر "اور کسی مرد نے اس سے تعلق قائم کر لیا تو اسے "مادہ" تصور کیا جائے گا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ ایسا کرے ان کا مقصود یہ ہے کہ اگر ایسا ہوگیا ، تو یہ حکم عائد کیا جائے گا۔اس کی دو صورتیں سمجھیے:

۱: ایک خنثی  بالغ ہوا ور اس نے کسی مرد کو برضا ورغبت اپنے پاس آنے دیا۔ عدالت میں زنا کا جرم ثابت ہوا اور انہیں سزا ملے۔ لیکن اس سزا کے ضمن ہی میں یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ وہ خنثی "مادہ" ہے اور آئندہ اس پر مادہ ہونے کا حکم عائد ہو گا۔

۲: نیز فقہا جو قانون مرتب کر رہے تھے اس وقت غلام اور باندی سماج کا اٹوٹ انگ تھے۔ چناچہ  ایک خنثی کسی مرد کا غلام ہے۔ جب وہ بالغ ہوا، تو اس کے آقا نے اس سے تعلق قائم کر لیا اور اس خنثی میں جسمانی صلاحیت تھی، اس سے ثابت ہو جائے گا کہ وہ خنثی عورت تھا۔اور یہ تعلق گناہ اس وجہ سے نہیں شمار ہو گا کہ انسان اپنی جنس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے، اس تعلق سے صرف یہ "تبیین" ہو گئی کہ وہ پہلے ہی سے عورت تھا۔(اسلامی فقہ فیصلے کے ثابت ہونے کے چار طریقوں کو تسلیم کرتی ہے: الانقلاب، والاقتصار، والاستناد، والتبيين۔  اس پر تفصیل کا یہ موقع نہیں)۔

علامہ شامی فرماتے ہیں:

«هذا قبل البلوغ (فإن بلغ وخرجت لحيته أو وصل إلى امرأة أو احتلم) كما يحتلم الرجل (فرجل، وإن ظهر له ثدي أو لبن أو حاض أو حبل أو أمكن وطؤه فامرأة»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: یہ بلوغت سے پہلے ہے۔ (پس اگر وہ بالغ ہو اور باریش ہو جائے یا کسی عورت سے تعلق قائم کر لے یا اسے اس طرح احتلام ہو ) جیسے  مرد کو ہوتا ہے (تو وہ مرد ہے۔ اور اگر اس کے پستان ظاہر ہو جائیں یا دودھ اتر آئے یا حیض آ جائے یا قرار حمل ہو یا جنسی تعلق میں فطری طریقے سے اسے مفعول بنانا ممکن ہو تو وہ عورت ہے)۔

«السيد قدس سره ... قال وإذا أخبر الخنثى بحيض أو مني أو ميل إلى الرجال أو النساء يقبل قوله ولا يقبل رجوعه بعد ذلك إلا أن يظهر كذبه يقينا مثل أن يخبر بأنه رجل ثم يلد فإنه يترك العمل بقوله السابق اهـ»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 729)

مفہوم:۔۔۔ سید شریف رحمہ اللہ تعالی ... فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خنثی حیض یا منی یا مرد یا زن کی طرف جھکاؤکی خبر دے تو اس کی بات قبول کی جائے گی۔تاہم اگر وہ اس سے پھرے تو اسے اس وقت تک نہیں تسلیم کیا جائے گا جب تک اس کا جھوٹ یقینی طور سے ثابت نہ ہو، مثلا وہ یہ کہے کہ وہ مرد ہے ،پھر اس کے ہاں ولادت ہو جائے، تو اس کے سابقہ قول پر عمل کو چھوڑ دیا جائے۔

اس گفتگو سے بلوغت کے بعد، خنثی کے حوالے سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:

جنس کے ناقابل تغیر ہونے کا مطلب:

اب یہ ضروری ہے کہ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ جنس کے نہ بدلنے سے مقصود کیا ہے؟ جب ہم کہتے ہیں کہ جنس نہیں بدلتی، اور جو بندہ اس کا اقدام کرتا ہے، تو وہ گناہگار ہے، تو فقہ وقانون میں اس سے مقصود کیا ہے؟

کیا اس سے یہ مقصود ہے کہ اگر کسی نےعمل جراحی کے ذریعے اپنے اعضا بدلوا لیے، تو اگرچہ وہ گناہگار ہو گا تاہم اس کی جنس بدل جائے گی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جنس نہیں بدلے سکتی اور فاعل کا یہ عمل شرعی قانون میں کالعدم ہے۔ جو بندہ "خنثی" نہیں یا ایسا "خنثی" ہے کہ حتمی علامات سے اس کی جنس طے ہو جائے، تو اب اگر وہ عمل جراحی کے ذریعے اپنے اعضا بدلواتا ہے، تو اس کا کوئی قانونی اثر نہیں۔یہ بیع باطل کی طرح ہے کہ جو سودا ہو رہا ہے، وہ بائع سے مشتری کی ملکیت میں منتقل ہی نہیں ہوتا اگرچہ مشتری اس پر قبضہ کر لے۔یہ ایک تین سالہ بچے کے ہبہ (گفٹ) کی طرح ہے کہ اگرچہ بچہ اپنی مرضی سے کسی کو اپنی چیز دے دے (اور قبضہ بھی ہو جائے)، وہ بدستور اس بچے ہی کی ملکیت ہے۔

یہ جمہور کے ہاں ایک مجلس میں تین طلاق کی طرح نہیں کہ اگر کسی نے تین طلاقیں دیں، تو اگرچہ اس نے برا کیا، لیکن اس طلاق کو قانون تسلیم کرتا ہے۔ اعضا کی تبدیلی ایسا معاملہ نہیں ۔ بلکہ اعضا کی تبدیلی سے پہلے جو حالت انسان کی تھی، وہ اس کے بعد ہے۔

۱: چناچہ اگر وہ  نر تھا  اور اس نے زنانہ اعضا بنوا لیے، تو وہ مرد ہی رہے گا۔

۲: اگر وہ  مادہ تھی  اور اس نے مردانہ اعضا بنوا لیے، تو وہ عورت ہی رہے گا۔

۳: اگر وہ خنثی تھا لیکن کسی قطعی علامت سے نر یا مادہ ہونے کا فیصلہ ہو چکا، تو  جس علامت کی بنیاد پر فیصلہ ہوچکا، وہ خنثی وہی رہے گا۔

۴: اگر وہ خنثی ہےپر کوئی قطعی علامت نہیں، تو چونکہ اس کے جنسی رجحان پر فیصلہ ہو گا، تو اب اگر اس نے کسی جنس کی طرف اپنے آپ کو موڑ دیا اور عمل جراحی کروائے، تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔ تاہم یہاں بھی مفروضہ یہی ہے کہ عمل جراحی سے پہلے اس کی جنس کے جنسی رجحان سے طے ہو گئی اور عمل جراحی سے کچھ بدلا نہیں۔اسی سے واضح ہوا کہ  عمل جراحی کروا نے کے بعد وہ خنثی مشکل نہیں رہے گا بلکہ کسی ایک جنس کی طرف پھر جائے گا(آگے یہ بات آنے کو ہے کہ بلوغ کے بعد، عام طور سے اشکال نہیں رہتا۔)

خصی:

«"والخصي في النظر إلى الأجنبية كالفحل" لقول عائشة رضي الله عنها: الخصاء مثلة فلا يبيح ما كان حراما قبله ولأنه فحل يجامع»«الهداية في شرح بداية المبتدي» (4/ 372):

مفہوم: اجنبی عورت کو دیکھنے میں خصی کام مرد کی طرح ہے ۔ ا س کی دلیل بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا فرمان ہے کہ  خصی کرنا مثلہ ہے۔ پس جو امر خصی ہونے سے پہلے حرام تھا وہ حرام نہیں ہو گا، نیز اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک کامل مرد ہے جو زن وشو کا تعلق قائم کر سکتا ہے۔۱۲

یہاں واضح رہے کہ فقہا کے ہاں خصی کا اصطلاح صرف اس کے لیے استعمال ہوتی ہے جسے کے خصیے نہ ہوں لیکن آلہ تناسل ہو  اور جس کا آلہ تناسل نہ ہو، اسے "مجبوب" کہتے ہیں۔

اس وضاحت کے بعد، یہ غور کیجیے کہ جنسی اعضا میں تبدیلی  سے جنس نہیں بدلتی۔ بلکہ وہ مرد ہی ہے اور اسی کے احکام لاگو ہوں گے۔مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ عینی نے اس پر اس حوالےسے کلام کیا ہے کہ یہ آیا اس اثر سے استدلال درست ہے یا نہیں اور اس مدعی کو ثابت کرتا ہے یا نہیں، لیکن کس مقصد کے لیے ہم نے یہ بات نقل کی ہے کہ وہ شرعی احکام میں مرد ہی ہے،وہ بہر حال اس سے واضح ہے۔

نیز  خصی کرنا اللہ تعالی کی خلقت میں تبدیلی ہے۔صحیح بخاری کی  مندجہ ذیل روایت  ملاحظہ ہو:

« عبد الله رضي الله عنه، قال: " كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء، فقلنا: ألا ‌نختصي؟ فنهانا عن ذلك»«صحيح البخاري» (6/ 53 ط السلطانية)

مفہوم:  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ : ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں تھی اور گھر والیاں ساتھ نہ تھیں۔ ہم نے عرض کیا کہ کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ اللہ کے نبی  نے اس سے منع فرمایا۔

اس پر علامہ عینی  ہی فرماتے ہیں کہ:

«وفيه تحريم الاختصاء لما فيه من ‌تغيير ‌خلق ‌الله تعالى، ولما فيه من قطع النسل وتعذيب الحيوان»«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» (18/ 208)

مفہوم:   اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خصی ہونا حرام ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنا ہے، نیز اس میں نسل کو بڑھنے سے روکنا اور جاندار کو عذاب سے دوچار کرنا ہے۔

اور یہی سے ہماری گفتگو تغییر فی خلق اللہ کی طرف مڑ جاتی ہے۔

عمل جراحی کی اجازت اور تغییر فی خلق اللہ:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مشہور حدیث منقول ہے کہ انہوں نے جسم گدنے (ٹیٹوز بنوانے) پر لعنت کی۔ اسی طرح، دانتوں میں زیب وزینت کے لیے فاصلہ  پیدا کرنے پر بھی لعنت کی۔ اس پر علامہ عینی فرماتے ہیں کہ:

«أما إذا احتيج إليه لعلاج أو عيب في السن ونحوه فلا بأس به»«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» (19/ 225)

مفہوم:اگر علاج معالجے یا دانتوں کی بیماری کی وجہ سے ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔۱۲

اسی طرح، حدیث کے مطابق، اگر کسی کا ناک کٹ گیا اور اس نے چاندی کا ناک لگوا لیا، تو یہ جائز ہے۔ امام محمد کے ہاں سونے اور چاندی دونوں کے ناک کی گنجائش ہے۔اور اسے بھی تغییر فی خلق اللہ میں شمار نہیں کیا گیا۔«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 362)

اس لیے، جسم میں ہر تبدیلی تغییر فی خلق اللہ کے تحت ممنوع نہیں۔بلکہ اگر عام لوگوں میں جو ہیئت فطرت شمار ہوتی ہے اگر کوئی چیز اس سے ہٹی ہوئی ہو، تو اس کی اصلاح درست ہے۔

بالفاظ دگر، شریعت ایک چیز کو معیار تسلیم کرتی ہے اور جو اس سے ہٹی ہوئی ہو، اسے وہ عیب قرار دے کر اس کی اصلاح دیتی ہے۔ اور ہم پھر یاد کروانا چاہیں گے کہ شریعت ایک معیار پر مبنی نظام ہے۔

خنثی کی حالت کو شریعت فطرت صحیحہ سے ہٹا ہوا گردانتی ہے،اس لیے اس کے لیے عمل جراحی درست ہو گی اس شرط کے ساتھ کہ وہ  ان اعضا کو ختم کروائے جو اس کی طے شدہ جنس سے ہم آہنگ نہیں اور یہ اللہ تعالی کی خلقت کو بدلنے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔(یعنی یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ مادہ ہو اور اپنے نرینہ اعضا کو  برقرار رکھ لے اور یہ کہے کہ اس کا جنسی جھکاو عورتوں کی طرف ہے۔)

مخنث:

ایک اصطلاح مخنث کی بھی ہمارے فقہی ادب میں نظر سے گزرتی ہے۔ یہ محض ایسے مرد کو کہتے ہیں جس کی چال ڈھال، ادا وانداز میں نزاکت،تکسر ہو۔

یہ مرد ہی ہےتمام احکام میں۔ تاہم اگر یہ اس میں فطری ہو، تو گناہ نہیں۔ البتہ اگر جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کرے، تو یہ گناہ ہے۔

خنثی مشکل:

یہاں سرسری طور سے، ہم خنثی مشکل کے تصور اور اسے وابستہ احکام پر بھی نظر ڈال لیں۔

جب تک خنثی  کی جنس طے نہیں ہو جاتی، اسے خنثی مشکل کہتے ہیں۔ چونکہ یہ انسان ہے اور اسی طرح کرامت ہے جس طرح دوسرے انسان، اس لیے یہ شرعی احکام کا پابند ہے۔ اس لیے، فقہا خنثی کے باب میں ، نماز جنازہ، نظر، ستر ، باجماعت نماز میں  صف بندی وغیرہ کے معاملات میں تجزیہ کرتے ہیں کہ اگر اسے مرد مانا جائے، تو کیا معاملہ ہو گا اور عورت مانا جائے تو کیا۔ اور اس کے موازنے سے فیصلہ کرتے ہیں۔

لیکن سماجی لحاظ سے، سب سے اہم معاملہ نکاح کا ہے۔ خنثی مشکل نکاح نہیں کر سکتا۔ جب تک اس کی جنس کی حتمی فیصلہ نہ ہو، وہ اس انتظار کرے گا۔ اور یہی سے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ کیوں فقہا اس پر زور دیتے ہیں کہ جلد جلد اس کی جنس کا فیصلہ کیا جائے کہ اس کی کرامت انسانی کے خلاف ہے کہ اسے بیچ میں لٹکایا جائے اور اسے سماجی کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے۔

علامہ شامی خنثی مشکل کے ختنے کے حوالے سے ایک جزئیے کے تحت فرماتے ہیں کہ:

«وقد يجاب بأن كونه موقوفا إنما هو من حيث الظاهر، وإلا فالنكاح في نفس الأمر إما صحيح إن كان ذكرا فيحل النظر وإما باطل إن كان أنثى»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 729)

مفہوم: اس کا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ خنثی مشکل کا (کسی باندی سے) نکاح کا موقف ہونا ظاہر کے لحاظ سے ہے۔ ورنہ اگر وہ مرد ہے تو نکاح درست ہے اور اس کا دیکھنا درست ہے، اور اگر خود عورت ہے تو نکاح کالعدم ہے۔

یہاں سے اس بات کی بھی تائید ہو گئی جو اس سے پہلے ایک آدمی کا اپنے خنثی سے تعلق قائم کرنے کے حوالے سی گزری کہ وہ "تبیین" کے قبیل سے ہے۔ اس لیے، اس کے تعلق سے یہ ثابت ہو گا کہ اس کا خنثی غلام دراصل باندی تھا اور وہ گناہ گار بھی نہیں ہو گا۔

بلوغت کے بعد، عام طور سے اشکال باقی نہیں رہتا:

اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں، علامہ جصاص رازی رحمہ اللہ تعالی کا حوالہ گزرا کہ امام محمد رحمہ اللہ تعالی فرماتے تھے کہ بلوغت کے بعد، عام  طور سے اشکال باقی نہیں رہتا۔ علامہ سرخسی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

«قلنا لا يبقى الإشكال فيه بعد البلوغ وإنما يكون ذلك في صغره إذا مات قبل أن يبلغ وقد بينا اختلاف العلماء في ميراثه قبل أن يستبين أمره فيما سبق»«المبسوط للسرخسي» (30/ 105)

مفہوم: ہمارا کہنا ہے کہ بلوغت کے بعد، اشکال باقی نہیں رہتا۔ یہ صرف بچپن میں ہوتا ہے جو وہ بالغ ہونے سے پہلے مر جائے۔ اور نابالغ خنثی مشکل کی میراث کے حوالے سے علما کا اختلاف ہم بیان کر چکے۔

اسی طرح، خنثی مشکل کے حوالے سے علامہ شامی فرماتے ہیں:

والتقييد بالمراهق لكونه بعد البلوغ لا يبقى مشكلا غالبا»«حاشية ابن عابدين ط الحلبي» (6/ 730)

مفہوم: قریب البلوغ ہونے کی قید اس لیے لگائی ہے کہ بلوغ کے بعد عام طور سے، اشکال باقی نہیں رہتا۔

احناف کے ہاں، یہ پہلو بہت واضح طور سے ملتا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد، معاشرے میں کسی بھی انسان کی جنسی شناخت کو لٹکایا نہیں جائے گا اور اسے فوری طور سے حل کیا جائے گا تا کہ وہ معاشرے کا ایک موثر فرد بن سکے۔وہ کسی سے نکاح کر کے اپنے وجودی احساسات کی تسکین کر سکے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہیں، نیز کوئی اس کے لیے وقار کا لباس بن سکے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کاپیرہن ہیں۔ یہ ان  لوگوں کے لیے بھی عبرت کا مقام ہے جو اس طرح کے لوگوں کو ایک اچھوت سمجھ کر ان سے معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں انسان بنا کر مکرم ومعظم کیا۔اور ان کی جنس  کا مسئلہ اللہ کی تقدیر ہے۔ اس کی بنا پر ان  کو حقیر سمجھنا، اللہ کی تقدیر پر اعتراض ہے۔

ٹرانس کے لیے  سیرت سے رہنمائی:

نیز ایسے خواجہ سرا لوگوں کے لیے بھی اللہ تعالی کی طرف سے خاص فضیلت کی امید ہے جب معاشرہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتاہے اور وہ صبر کرتے ہیں۔ اور اسلام کی نگاہ میں اصل زندگی آخرت ہی کی ہے: إن الدار الآخرة لهي الحيوان.  یہ دنیا کی زندگی چند دنوں کی ہے اور ہمیشہ رہنے والے زندگی ہی اصل ہے اور وہاں کسی کی جنس ،  رنگ یا نسل کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ اس دن معزز ومکرم وہ ہے جو متقی ہے اور ایک خنثی بھی ایسے ہی متقی ہو سکتا ہے جیسے ایک صحیح الجنس  متقی ہوسکتاہے۔

اسی طرح، متبدل صنف (ٹرانس) پر بھی اس  وجہ سے کوئی دوش نہیں کہ ان کے اندر یہ احساس جنم لے رہا ہےکہ ان کی صنفی شناخت  ان کی جنسی شناخت سے ہم آہنگ نہیں۔ دل میں خیال آنا اور نفس میں خواہش ابھرنا ایمان ودین کے خلاف نہیں جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے۔ ایسے ٹرانس لوگ جو ہمارے بھائی ہیں ان کو میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں جو ان کے لیے ایک روحانی ونفسیاتی سکون واطمینان کا باعث بنے:

عن أبي هريرة، قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: «وقد وجدتموه؟» قالوا: نعم، قال: «ذاك صريح الإيمان»«صحيح مسلم» (1/ 119 ت عبد الباقي)

مفہوم: حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ کچھ لوگوں نے  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ: "ہمارے جی میں ایسی باتیں آتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کا اسے زبان پر لانا بہت شاق ہے۔"اللہ کے نبی نے دوبارہ پوچھا: "کیا واقعی یہ بات تم اپنے اندر پاتے ہو؟"(یعنی شیطان کا وسوسہ ڈالنا اور اسے زبان پر لانے کا شاق ہونا)۔ انہوں کے کہا: جی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "یہ خالص ایمان ہے"

اس لیے، ان لوگوں سے میرے گزارش ہے کہ ان احساسات سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ بس ان احساسات کو  یہی سمجھیں کہ یہ صحتمندانہ نہیں۔ اور جب تک وہ یہ سمجھتے رہیں گے، ان کے ایمان کا پیمانہ بلند رہے گا۔ نیز ہمارے ان ساتھیوں کو یہ بھی معلوم ہو کہ ان کی اس طرح کی کیفیت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  انہیں ایک حل بھی بتایا کہ جب انسان کو ایسے وسوسے آئیں، تو یہ یاد کرے کہ وہ اللہ تعالی پر ایمان لاتا ہے  ۔ حدیث میں آتا ہے کہ:

«فمن وجد من ذلك شيئا، فليقل: آمنت بالله»«صحيح مسلم» (1/ 119 ت عبد الباقي)

مفہوم: ۔۔۔ پس جو یہ کیفیت محسوس کرے، تو یہ کہے اور یاد کرے کہ: "میں اللہ تعالی پر ایمان لایا۔"

وہ یا دکرے کہ اس کا خالق ،اس کا  مالک اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اورنفس وشیطان جو ان خیالات کو لاتے ہیں ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ وہ اللہ کی قدرت سے باہر نہیں۔اور اس کا بھروسا اللہ تعالی پر ہے جو نفس وشیطان کا بھی خالق ومالک ہے۔وہ اپنے اس گہرے ایمان کو یاد کرےاور اپنے رب سے لو لگائے تا کہ یہ خیالات ختم ہو جائیں یا وہ اتنی شدت نہ اختیار کریں کہ انسان ان کے تقاضے پر عمل کرنے لگے۔

ٹرانس کے حوالے سے مسلمان سماج کی ذمے داری:

اس حوالے سے، میں اپنے آپ کو سب سے پہلے اورباقی سماج کو اس کے بعد، یہ کہوں گا کہ ایسے لوگ ہمارے ارد گرد ہیں۔ یہ ہمارے رشتے داروں میں ہو سکتے ہیں اور دوستوں میں بھی۔ٹرانس کسی کا بیٹا ہے کسی کی بیٹی، کسی کا بھائی، کسی کی بہن۔ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ دنیاوی اغراض کے لیے ایسا کریں بلکہ واقعی یہ لوگ نفسیاتی  طور سے، اس مشکل سے گزرتے ہیں۔ اس لیے، ان کی بات سننے کی ضرورت ہے،اور کسی بدگمانی کے بغیر ان سے مکالمہ  ہونا چاہیے۔ اللہ سے امید ہے کہ ایسا انسان اس مشکل سے نکل آئے اور اس کا ساتھ دینے والا اپنی دنیا وآخرت سدھار جائے!

ٹرانس کے حوالے سے تبلیغی جماعت کا کردار بہت اچھا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ساتھ ملاتے اور معاشرے کا ایک صحت مند فرد بنانے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ کئی لوگ اس مخمصے سے نکلے اور ایک صحتمندانہ زندگی گزارنے لگے۔

ہماری تہذیب کا ایک اہم ترین ادارہ تصوف ہے جس کے بغیر دین محض ایک قانونی ڈھانچہ ہے جو انسان کے عمیق ایمان سے نہیں ابھرتا۔ صوفیہ کا وجود معاشرے میں پھیلی ہوئی نفسیاتی الجھنوں کے حوالے سے ہمیشہ سے ایک نعمت رہا ہے اور وہ اس کا علاج کرتے رہے ہیں۔ اس وقت ماہر نفسیات کے کلینکس کھلے ہوئے ہیں جو اچھی خاصی اجرت پر کچھ لمحات عنایت کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے صوفیہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی معاوضے کے گلے سے لگاتے، ان کے درد کا درماں کرتے رہے ہیں۔ اب بھی یہ جاری ہے۔ لیکن یہ ادارہ کمزور پڑ گیا ہے۔ اس میں موجود خرابیوں کی اصلاح ہونی چاہیے لیکن ان خرابیوں کی وجہ سے بالکل ہی اسے لپیٹنا سماجی خودکشی ہے۔ اسے نام تصوف کا دیں یا نہ دیں، لیکن اس کے بنا ہمارے سماج میں آنے والا نفسیاتی کہرام، صرف قانون میں تبدیلی کر لینے سے حل نہیں ہونے کا۔ بلکہ یہ قانون صرف یہ خبر دیتا ہے کہ معاشرے میں یہ نفسیاتی الجھنیں کتنی شدت اختیار کر چکی ہیں اور کتنی گہری ہیں۔ اگر اصلاحی سماجی اداروں نے جن میں صوفیہ، مدارس، مساجد کے منبر سر فہرست ہیں، عوامی سطح پر، انفرادی سطح پر، اس کا حل نہ کیا، تو ہماری اگلی نسل اس جنسی انقلاب کی زد میں پوری طرح سے آ جائے گی اور شاید آنا شروع ہو چکی ہے۔ ایک عالم دین، ایک امام مسجد کی اولاد بھی اب عصری اداروں میں پڑھتی ہے اور اس کی ذہن سازی وہیں ہوتی ہے۔ اس کے بچوں کے ذہنوں میں، کیا نظریات پکے ہو چکے ہیں، وہ شاید بچپن میں معلوم نہ ہو کہ اسے مخالفت کا ڈر ہو، لیکن بڑے ہو کر وہ بھرپور طریقے سے اس پر عمل کرے گا اور اپنی نسل کی بھی اسی پر تربیت کرے گا۔ اس لیے، ہم کم از کم، یہ کر سکتے ہیں کہ ان مسائل پر زجر، تجہیل وتضحیح کا رویہ نہ اپنائیں جو سیاسی حلقوں میں تو ہے ہی، لیکن ہمارے دینی حلقے میں بھی دینی اختلافات کے معاملے میں دوسروں سے کم نہیں اور اس وقت بھی ٹرانس پر گفتگو میں یہ رویہ بھی نمایاں رہا ہے۔

بلکہ ان سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے، ان کے سوالات کو سمجھنے اور صبر سے جوابات سوچنے اور دینے کی حاجت ہے۔ اگر کسی میں اس کی سکت نہ ہو، تو کم از کم، وہ نئی نسل کو متنفر کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کرے کہ یہ آخری درجہ ہے۔

كُفَّ أَذَاكَ عَنِ الناس فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بها عن نَفْسِكَ (مسند أحمد)

(مکمل)


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے ساتھ معاشرتی رویہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(اکتوبر ۲۰۱۶ء کے دوران مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور میں ایک تربیتی نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے اس پہلو پر آج کی محفل میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپؐ نے کافروں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں کیا معاملہ کیا ہے اور ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری ہے؟ اس حوالے سے جناب سرور کائناتؐ کی حیاتِ مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا حصہ اس چالیس سالہ دور کا ہے جو نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں گزرا۔ نبی اکرمؐ چونکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اس لیے کفر و شرک، بت پرستی اور جاہلانہ رسوم سے آپؐ کی نفرت طبعی تھی۔ حضورؐ ان امور میں معاشرے کے ساتھ شریک نہیں تھے اور ایسی تمام باتوں سے الگ تھلگ رہتے تھے، لیکن عمومی معاشرت میں باقی لوگوں کے ساتھ آپؐ بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے، سوسائٹی کے معاملات میں شریک ہوتے تھے، رشتہ داریاں قائم تھیں اور لین دین کے معاملات بھی جاری رہتے تھے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کا دوسرا حصہ نبوت ملنے کے بعد کا ہے۔ جب نبوت ملی اور آنحضرتؐ نے توحید کی دعوت کا آغاز کیا تو صورتحال مختلف ہو گئی۔ اس سے قبل اخلاقِ حسنہ اور خدمتِ خلق کے باعث آپؐ کو سوسائٹی کی پسندیدہ ترین شخصیت کی حیثیت حاصل تھی، صادق و امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا اور مختلف امور میں آپ سے راہنمائی لی جاتی تھی۔ لیکن توحید کے اعلان اور عام محفلوں میں قرآن کریم کی تلاوت کو ناپسند کیا گیا اور مخالفت کا دور شروع ہو گیا جو تیرہ سال جاری رہا۔ یہ تیرہ سالہ دور مخالفت کا دور تھا، آزمائش و ابتلا کا دور تھا اور اذیت و تکلیف کا دور تھا۔ اس دور میں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا، اپنی جماعت کی توسیع کی محنت کرتے رہے، ساتھ دینے والے حضرات کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنے مشن کو مسلسل آگے بڑھاتے رہے، وہاں مکہ مکرمہ کی عمومی معاشرت کا حصہ رہے اور معاشرتی معاملات میں برابر شریک ہوتے رہے۔ حتٰی کہ ایک موقع پر قریش کے مختلف خاندانوں نے اجتماعی فیصلہ کر کے آنحضرتؐ اور ان کے ساتھیوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جو تین سال جاری رہا۔ اس دوران شعبِ ابی طالب میں انہیں محصور کر دیا گیا اور بائیکاٹ کی نگرانی کے لیے ناکہ بندی کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن یہ بائیکاٹ یکطرفہ تھا۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور میں بھی دعوت و تبلیغ کے تقاضوں کی تکمیل کی اور بائیکاٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے تعلقات اور دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور میں کافروں کا غلبہ تھا اور مسلمان اقلیت میں تھے بلکہ وہ اکثریت کے مظالم اور اذیتوں کا نشانہ تھے، لیکن آنحضرتؐ نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہ کیا، نہ اجتماعی مزاحمت کی اور نہ ہی انفرادی طور پر کسی ساتھی کو اس کی اجازت دی، بلکہ حوصلہ اور صبر کے ساتھ مظالم برداشت کرتے ہوئے دعوتِ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ قائم رکھا۔ البتہ اس دوران مکہ مکرمہ کی آبادی سے ہٹ کر مختلف اطراف سے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کافر قبائل میں اپنی حمایت و حفاظت کے مواقع بھی تلاش کرتے رہے۔

طائف کا سفر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے کیا تھا کہ بنو ثقیف کے سرداروں کو قریش کے مظالم کے خلاف اپنی حمایت کے لیے آمادہ کر سکیں۔ حبشہ کی طرف صحابہ کرامؓ کی ہجرت کا بھی ایک اہم مقصد مسلمانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنا تھا جو حاصل ہو گئی۔ جبکہ حج کے لیے یثرب (مدینہ) سے آنے والے قافلوں کے خیموں میں حضورؐ کا بار بار جانا اور انہیں دعوت دینا بھی اسی لیے تھا کہ وہ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھی بنیں اور انہیں محفوظ ٹھکانہ مہیا کریں جیسا کہ عملاً ہو بھی گیا۔ یثرب سے آنے والے لوگوں کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد نبی اکرمؐ کی ہجرت کی راہ ہموار ہوئی اور اس ہجرت پر مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ مظلومانہ دور کا اختتام ہوا۔

اس کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا جو دس سال جاری رہا اور یہ سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور تھا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت کی ہجرت سے پہلے یثرب اور اردگرد کے قبائل ایک علاقائی حکومت کے قیام پر متفق ہو چکے تھے اور بادشاہ کے طور پر عبد اللہ بن اُبی کے نام کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا، صرف تاج پوشی کی رسم باقی تھی کہ حضورؐ کی تشریف آوری سے ساری صورتحال بدل گئی۔ وہ حکومت جو عبد اللہ بن اُبی کی سربراہی میں قائم ہونا تھی وہ آپؐ کی قیادت میں تشکیل پا گئی۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس ریاست و حکومت کے خدوخال طے کرنے کے لیے قبائل کے درمیان جو مذاکرات ہو چکے تھے وہی ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کا ہوم ورک اور اساس بنے جس میں حضورؐ نے بنیادی تبدیلی یہ کی کہ اسے ایک نظریاتی ریاست کی شکل دے دی جو آگے چل کر خلافتِ راشدہ اور عالمی اسلامی خلافت کی صورت میں دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔

ابتدا میں اس حکومت و ریاست میں مسلمان بھی شامل تھے، یہودی قبائل بھی اس کا حصہ تھے، اور اردگرد کے دیگر قبائل بھی اس میں شریک تھے۔ جبکہ اس نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکمِ اعلیٰ جبکہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو دستور کی حیثیت حاصل تھی۔ بعد میں یہودی قبائل میثاق کی خلاف ورزی کے باعث یکے بعد دیگرے مدینہ منورہ سے جلاوطن ہوتے گئے اور بنو قریظہ کی جلاوطنی کے بعد مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکالنے میں مسلمانوں نے پہل نہیں کی تھی بلکہ خود یہودیوں نے اپنی فطرت کے مطابق مسلسل بدعہدی کے ذریعے یہ ماحول پیدا کر لیا تھا اور ان کی جلاوطنی کے فیصلے اس وقت کے عام عرف کے مطابق جرگوں اور ثالثوں کے ذریعے ہوئے اور یہودیوں نے ان فیصلوں کو تسلیم کیا۔

مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور طبقہ سے بھی سابقہ درپیش رہا جس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے کہ وہ ایمان کا دعوٰی تو کرتے ہیں مگر ’’وما ھم بمومنین‘‘ وہ مومن نہیں ہیں۔ یہ منافقین تھے جن کی قیادت عبد اللہ بن اُبی کر رہا تھا۔ میری طالب علمانہ رائے میں عبد اللہ بن اُبی کو حکومت کا چانس ختم ہو جانے پر جو غصہ تھا وہ باقی ساری زندگی اس کا بدلہ ہی لیتا رہا۔ اس نے مدینہ منورہ میں بڑے بڑے فتنے کھڑے کیے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ احد کی جنگ میں وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے نکل گیا، اس وقت جنگ کے لیے احد تک جانے والے لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں سے تین سو افراد عبد اللہ بن اُبی کی قیادت میں میدان چھوڑ کر واپس آ گئے تھے۔ اس سے ان کا تناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کم و بیش تیس فیصد تھے۔

غزوہ احد کے بعد مسلمانوں میں ان منافقین کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے؟ بعض کی رائے تھی کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے جبکہ دوسرے حضرات کا خیال تھا کہ انہیں اسی طرح ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کا ذکر قرآن کریم نے ’’فما لکم فی المنافقین فئتین۔۔‘‘ کی آیتِ کریمہ میں کیا ہے۔ ان منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جھوٹی تہمت کا بازار گرم کیا، انہوں نے مدینہ منورہ سے مہاجرین کو نکال دینے کی سازش بھی کی جس کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ المنافقون میں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حضورؐ نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ وہ معاشرتی زندگی حتٰی کہ مذہبی معاملات میں بھی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل شریک رہے۔ ان کے خلاف نہ کوئی احتجاجی کاروائی ہوئی اور نہ ہی انفرادی طور پر ان میں سے کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کسی کو اجازت ملی۔ عبد اللہ بن اُبی کو قتل کرنے کی اجازت حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے علاوہ حضرت سعد بن معاذؓ نے بھی مانگی تھی مگر آپؐ نے کسی کو اجازت نہیں دی اور یہ فرمایا کہ اس سے دنیا کے دوسرے لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ حضرت محمدؐ تو اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔

یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال حکمتِ عملی تھی کہ ان منافقین کی الگ گروہی شناخت قائم نہ ہونے دی جائے اور انہیں مدینہ منورہ کے اندر کوئی داخلی محاذ بنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ حتٰی کہ جن چودہ منافقین نے نبی اکرمؐ کو راستے میں گھیر کر قتل کرنے کی ناکام کاروائی کی تھی، آپؐ نے ان کے نام تک حضرت حذیفہؓ کے علاوہ کسی کو نہیں بتائے اور انہیں بھی سختی کے ساتھ تاکید کی کہ ان میں سے کسی کا نام ظاہر نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا کہ انہیں مسجد کے نام پر الگ مرکز بنانے کی اجازت نہ دی گئی بلکہ ان کی بنائی ہوئی مسجد کو ’’مسجدِ ضرار‘‘ قرار دے کر منہدم کرا دیا گیا۔ ان منافقین کے بارے میں جنہیں قرآن کریم نے ’’وما ھم بمومنین‘‘ کہہ کر کافر قرار دینے کا اعلان کر دیا تھا، آنحضرتؐ کی حکمتِ عملی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں معاشرتی طور پر الگ کر کے اپنا تشخص قائم کرنے کا موقع نہ دیا جائے، اور داخلی طور پر اپنے لیے کوئی محاذ کھڑا نہ ہونے دیا جائے، اس کامیاب حکمتِ عملی کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ وہ لوگ جو غزوۂ احد کے وقت کم و بیش تیس فیصد دکھائی دے رہے تھے، حضرت حذیفہؓ والے واقعہ تک ان کی تعداد درجن بھر رہ گئی تھی اور اس کے بعد تاریخ میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ وہ کدھر گئے۔ ظاہر بات ہے کہ سارے مر کھپ تو نہیں گئے تھے بلکہ آہستہ آہستہ توبہ تائب ہو کر مسلمانوں کے عمومی معاشرے میں تحلیل ہو کر رہ گئے تھے جو جناب رسول اللہ کی کمال حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔

اس دس سالہ مدنی دور میں کفار کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی حکمتِ عملی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جہاں کافر قوموں کے ساتھ دو درجن سے زیادہ جنگیں موجود ہیں وہاں معاہدات بھی تاریخ کا حصہ ہیں، مل جل کر رہنے کی روایت بھی میثاقِ مدینہ کی صورت میں واضح دکھائی دیتی ہے، اور داخلی دشمنوں کو صف آرائی کا موقع نہ دیتے ہوئے آہستہ آہستہ انہیں بے اثر کر دینے کی کامیاب حکمتِ عملی کے ثمرات بھی نظر آتے ہیں۔


ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۳)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے فکر کی ایک امتیازی خصوصیت فکری گہرائی اور فکری وسعت کے ساتھ ساتھ فکر میں موجود کلیئرٹی، وضاحت اور عصری معنویت ہے۔ ڈاکٹر صدیقی زمینی حقائق پر نصوص کی روشنی میں آزادانہ غوروفکر کرتے تھے اور آزادانہ رائے قائم کرتے تھے۔ وہ تحریک اسلامی کے ایک قدآور فکری رہنما تھے لیکن انہوں نے مولانا مودودی یا ابتدائی تحریکی مفکرین کی کھینچی ہوئی لائن کا خود کو کبھی اسیر نہیں بنایا، اس سلسلہ میں ان کے اندر زبردست خوداعتمادی اور جرأت مندی دیکھنے کو ملتی ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کا رخ اور مستقبل

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا احساس تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان کا سیاسی محاذ پر غیرضروری جھکاؤ تحریک کے مستقبل اور تحریک کے بنیادی مشن اور بنیادی فکر کو متأثر کردے گا، چنانچہ مولانا مودودی کے نام شکاگو سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں ڈاکٹر صدیقی نے جماعت اسلامی پاکستان کی موجودہ صورتحال کا بہت ہی بے لاگ تجزیہ کیا ہے اور کچھ عملی قسم کے مشورے دیے ہیں، یہ خط اکتوبر 1972 کا ہے، اس کے درج ذیل اقتباسات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:

”دوسرا مسئلہ آپ کے ملک میں تحریک اسلامی سے متعلق ہے۔ روزمرہ سیاست سے تعلق اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ عام خاص سب کی نظر میں وہ طویل المیعاد اصولی حیثیت باقی نہیں رہی جو تحریک کا مابہ الامتیاز بھی تھی اور جس سے اونچے نتائج کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ جو بنیادی کام صبر کے ساتھ مسلسل کیے چلے جانا چاہیے تھا ان پر بھی اتنی متلاطم سیاست میں الجھنے سے اثر پڑنا لازم ہے۔ گزشتہ دو سال کے واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام ابھی بہت بنیادی قسم کی اصلاح وتربیت کے محتاج ہیں۔ عام افراد معاشرہ کو تقلید جامداور لیڈروں کے اندھے اتباع سے نکال کر خود سوچنے سمجھنے پر آمادہ کرنے اور جذباتی رسمی اسلام کی جگہ شعوری اسلام سے آراستہ کیے بغیرہم ان کی طرف سے اس سے مختلف رویے کی توقع نہیں کرسکتے جو انتخابات اور پھر حالیہ بحران میں سامنے آیا۔ اسلامی صفات حسنہ سے پہلے اور ان کی ضروری بنیادکے طور پر خود انسانی صفات پر زور دینے کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ یہ کام تعلیم، حفظان صحت، اور معاش سے متعلق دوسرے ضروری کاموں کے ساتھ اگر گاؤں اور محلہ کی سطح پر آپ کے کارکنوں کے ذریعہ انجام پائے تب شائد وہ ٹھوس عوامی base بن سکتا ہے جو کسی بڑی اور گہری تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکے۔“

آگے جماعت اسلامی پاکستان کی صورتحال اور اس کے تبدیل ہوتے رخ پر اپنا احساس درج کراتے ہوئے دنیا بھر کی اسلامی تحریکات پر ایک مختصر لیکن بہت ہی گہرا اور معنی خیز تبصرہ کرتے ہیں، اور پھر فکری محاذ پر توجہ دینے کا مشورہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مجھے یہاں (شکاگو) پاکستان کی تحریک سے وابستہ دوستوں کی اکثریت پر اب بھی سیاست ہی غالب نظر آئی، اس سے اور زیادہ توجہ اس بات کی طرف ہوئی کہ اپنی اسٹریٹجی میں بنیادی ترمیم کی ضرورت ہے، مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں پوری اسلامی دنیا میں اب کسی مشاہد کو تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں وہ امنگیں نہیں محسوس ہوتیں جو پندرہ برس پہلے تھیں۔ اپنے معاشرے کی کمزوریوں کا نئے سرے سے جائزہ لے کر مرض کی دوبارہ تشخیص کرنے اور علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے چند ماہ ہوئے ایک علمی ضرورت کے تحت آپ کی بعض بنیادی تصانیف بالخصوص سیاسی کشمکش حصہ سوم، تجدید واحیائے دین، اور تعلیمات وغیرہ کا مطالعہ پھر سے کیا تھا، میرا خیال ہے کہ وہ تجزیہ بڑی حد تک صحیح سمت میں تھا اور اسی سے میں یہ رائے اخذ کرتا ہوں کہ آج پاکستان میں تحریک کو یک گونہ کم سیاسی بناکر زیادہ مفید کام ہوسکتا ہے“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 54)

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسین کے نام

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے مجموعہ خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1987کے آس پا س کے زمانے میں جدہ قیام کے دوران آپ کی سید منور حسین صاحب سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سے متعدد ملاقاتیں اور گفتگوئیں رہیں، ایک ملاقات میں ہوئی گفتگو کے حوالے سے ڈاکٹر صدیقی منور حسین صاحب کے نام اپنے مکتوب میں اسلامی انقلاب کے لیے سیاسی محاذ پر تبدیلی کی ضرورت سے متعلق ان کے موقف پر اپنے کچھ سوالات پیش کرتے ہیں، اس مکتوب سے جہاں منور حسین صاحب اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی رجحان اور اپروچ کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ڈاکٹر صدیقی کی فکری اپروچ اور ان کے رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے، لکھتے ہیں:

”آپ کی بعض باتوں نے سوچنے کی راہیں کھولی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مراسلت کے ذریعہ تبادلہ خیال جاری رہے، جیسا کہ عرض کیا تھا کہ ہماری سوچ یہ رہی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے دو محاذوں پر گہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے، فکری (ملاحظہ ہو تنقیحات کا مضمون نشان راہ اور رسالہ تعلیمات) اور اخلاقی (ملاحظہ ہو تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں نیز بناؤ بگاڑ)، آپ کی بات نے مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ ایک محاذ سیاسی بھی ہے۔ دو سوال پیدا ہوتے ہیں، سیاسی محاذ سے ہمارا مفہوم کیا ہے، اور یہ کہ اس محاذ کی اہمیت مذکورہ بالا دو محاذوں کی نسبت سے کیا ہے۔ یہ کس درجہ پر ہے۔ ان دونوں کے ہم پلہ ہے یا ان کے مقابلے میں ثانوی، دوسرے درجہ کا محاذ۔ان سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ انبیاء کے طریقہ انقلاب میں سیاست یا سیاسی محاذ پر کام کو کوئی مقام حاصل رہا ہے تو وہ کیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اس کے نظائر کیا ہیں وغیرہ۔

ہماری آپ کی گفتگو تو کراچی کے فسادات یا پاکستان کے حالیہ واقعات کے محدود سیاق میں ہوئی تھی، لیکن مذکورہ بالا سوال ایک اور وجہ سے اہم ہوگیا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی صفوں میں ایرانی انقلاب کے بعد مولانا مودودی کے فکر (بالخصوص طریقہ انقلاب کی نسبت سے) پر تنقیدیں بھی کی گئی ہیں اور اسے غیرحقیقت پسندانہ، غیرتاریخی اور خیالی قرار دیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا سوال کے جواب میں اس بحث میں بھی مدد ملے گی، اگرچہ اصلاً اس کے اٹھانے والوں کا منشا اسلامی طریقہ انقلاب میں طاقت کے استعمال کا مقام متعین کرنا ہے۔ عام طور پر سیاسی عمل حصول اقتدار کی کوشش pursuit of power ہے۔ اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے اوپر کے سوالات کا جواب ضروری دیں۔ مولانا مودودی نے پاکستان آکر جو طریقے اختیار کیے یا جو ان کی مرضی سے جماعت اسلامی نے اختیار کیے، اسے اسلامی حکمت عملی کا نام دیا گیا، جو یقینا فکری اور اخلاقی محاذوں پر ایک اضافہ ہے۔ ہماری آپ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ سیاسی محاذ یا سیاسی عمل اور اس حکمت عملی میں اگر فرق ہو تو واضح کریں، نہ ہو تو دونوں کو ایک قرار دینے کی دلیل دیں۔“(حوالہ سابق، صفحہ: 215-216)

 مسلم تاریخ کا مطالعہ اور اسلامی موقف کی تعیین

عموماً اسلامیات اور مسلم تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یا اس پر لکھنے والے مصنفین مسلم تاریخ اور اسلامی موقف کے درمیان فرق نہیں کرپاتے، چنانچہ تاریخی غلطیوں کی تاویل کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے اور اسے اسلامی موقف ثابت کرنے یا کم از کم اسلامی موقف سے غیرمتصادم ثابت کرنے پر سارا زور لگادیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس سلسلہ میں بہت ہی واضح موقف رکھتے تھے، وہ اسلامی موقف کی تعیین یا اسلام کے فہم کے سلسلہ میں تاریخ کو حوالہ بنانے کے بالکل بھی روادار نہ تھے، چنانچہ ابونصر محمد خالدی کے ایک خط کے جواب میں بہت صاف طور پر لکھتے ہیں:

”آپ کے یہاں ایک خاص بات نظرآتی ہے جس سے اتفاق مشکل ہے، مسلمانوں کی تاریخ کو اسلام کے فہم کا ذریعہ بنانا، بلکہ اس پر قاضی اور حاکم بنانا، کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ ملوکی ہو یا جمہوری، آمری ہو یا متغلبانہ، ہر حکومت مرضی ئ الٰہی کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ وہ حکومت مرضی ئ الٰہی کے مطابق ہے جو (۱) امرہم شوری بینہم (۲)اذا تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ ورسولہ (۳) ما آتاکم منہ فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا، نیز ماکان لمومن ولا لمومنة اذا قضی اللہ ورسولہ امرا أن یکون لہم الخیرۃ من أمرہم، کے مطابق قائم ہو، اور اس کے مطابق حکمرانی کرے۔ خلافت کا انعقاد بھی شورائی ہو اور وہ چلے بھی انہی بنیادوں پر۔ اللہ کی کتاب اور رسول خدا کی سنت تاریخ پر قاضی ہے۔ اسی کی روشنی میں مسلمانوں کی تاریخ کو evaluate کرنا اور اس میں اسلامی اور غیراسلامی رجحانات واعمال اور اداروں کی نشاندہی کی جانی چاہیے، نہ کہ اس کے برعکس۔ میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ تاریخ کے مطالعہ کا ایک بڑا حاصل حقیقت پسندی realismکا پیدا ہونا ہے، جو idealism میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھنے کو قرآن وسنت سے کوئی ”سلطان“ نہیں حاصل ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 82)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ابونصر محمد خالدی کے نام ایک دوسرے مکتوب میں مطالعہ تاریخ سے متعلق اپنا ذاتی موقف کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

”تاریخ اسلام سے میری دلچسپی سراسر حال کے لیے سبق حاصل کرنے اور درپیش مسائل میں رہنمائی حاصل کرنے کی حد تک ہے، علمی اور اکیڈمک دلچسپی بالکل نہیں ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 93)

اجتہاد اور  ازسرنو غوروفکر کی ضرورت

اسلامی تاریخ کے مطالعہ پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں بنیادی اور کلی ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے دورجدید کے پیداکردہ مسائل پر ازسرنو غوروفکر کے عمل کو آگے بڑھانا ہے، قانون کے میدان میں کام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے بھی اجتہاد اور مختلف علوم اور مختلف مسائل پر ازسرنو غوروفکر کی طرف توجہ دلاتے ہیں، میکانکل ریسرچ یا محض تشریح، تفسیر اور تہذیب وتنقیح کے کام کے بجائے بامقصد ریسرچ پر زور دیتے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ حالات کے تناظر میں ڈاکٹر صدیقی کے اس موقف کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے جبکہ ہماری یونیورسٹیز میں میکانکل ریسرچ کا رواج بڑھتا جارہا ہے، ڈاکٹر صدیقی کا ذیل کا اقتباس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

”اسلامی تاریخ کا ان شاء اللہ تفصیلی مطالعہ ہوگا، اور واقعہ یہ ہے کہ جاری ہے۔ معاشی امور اور عام اجتماعی مسائل کے سلسلہ میں خاص توجہ رہے گی، لیکن دور جدید نے ہمارے لیے جو مسائل پیدا کردیے ہیں ان کے ضمن میں مجھے اس طرف سے بہت زیادہ رہنمائی یا inspiration کی امید نہیں ہے۔ حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ بنیادی اور کلی ہدایات کو سامنے رکھ کر ایک دم نئے سرے سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ مجھے قانون کے میدان میں کام کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات وسیع معنی میں کہہ رہا ہوں، جس کے تحت معاشی وسیاسی زندگی کے مروجہ اداروں اور ہیئتوں کی اسلامی تشکیل نو کا کام آجاتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم متجددین یا اسلام کو حالات کے مطابق ڈھالنے والے کہہ کر رد کردیتے ہیں وہ دراصل ایک حقیقی دباؤ اور ایک واقعی challengeکا جواب ہیں۔ ان کو رد کرکے ہم اس دباؤ اور چیلنج کو نہیں دفن کرسکتے۔ وہ اپنی جگہ پر ہے۔ اس کا ہماری طرف سے صحیح اقدام اور جواب کی شکل میں ردعمل نہ ہوا تو نتائج اسلام کے لیے بہت تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے میں mechanical research، اپنے مآخذ کی تشریح وتفسیر اور تہذیب وتنقیح سے زیادہ اہم، ہر اس کام کو سمجھتا ہوں جس کا اس اجتہاد سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہو، جس کے ذریعہ ہی اس وقت اسلام کا واقعی احیاء ونفاذ ممکن ہے، البتہ یہ کام بھی جاری رہنے چاہئیں“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 83)

انتہاپسندانہ رجحانات اور اسلامی تحریکات

جدید دور کی اسلامی تحریکات کے سامنے ایک بڑا چیلنج انتہاپسندانہ رجحانات کا بھی ہے، یہ رجحانات کس طرح فروغ پاتے ہیں، ان کا پس منظر کیا ہے اور ان کی بنیاد کیا ہوتی ہے، اسلامی تحریکات کا عموماً ان کے تعلق سے کیا رویہ ہوتا ہے، اور نئے عالمی نظام میں ان رجحانات کے لیے عملاً کہاں تک گنجائش موجود ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس پر بہت ہی مختصر لیکن فکرانگیز گفتگو کی ہے۔

ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی امریکہ میں مقیم ایک بڑے اسلامی اسکالر ہیں، اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے تاسیسی صدر رہے، لیکن 1981میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد ان کا اس تنظیم سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا۔ آپ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے بھتیجے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی مرحوم احمداللہ صاحب کے نام اپنے خط مورخہ 12 اپریل 1995 میں لکھتے ہیں: 

”بہت سی باتیں سوچنے کی ہیں۔ اس وقت دو اشوز پر loud thinking کرنا چاہتا ہوں۔ اسلامک موومنٹس جو1930سے 1940 میں شروع ہوئیں (اخوان، جماعت اور ان جیسی دوسری تحریکیں جو بالآخر اقتدار اسلامیین کے ہاتھوں میں لانے کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھتے تھے) ایک ایسے حال میں ہیں کہ کسی progress کی امید نہیں رہی۔ اس کی تفصیل بعد میں۔ دوسری بات یہ کہ ان کے بطن سے بعض ایسے گروہ پیدا ہوگئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے liability بن چکے ہیں۔ یہ کھل کر ان کو condemnنہیں کرتے، بلکہ ان کے فالوورس میں ان گروہوں کے لیے کافی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ یہ گروہ طاقت کے استعمال کے ذریعہ مقاصد حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ دوسروں کے لیے ان میں کوئی tolerance نہیں۔ زیادہ تر ہر مسئلہ میں شدت والی راہ اختیار کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے صدی کی ابتدا میں اٹھنے والی تحریکیں اس مفروضے پر چلی تھیں کہ اپنے ملک کی غالب اکثریت کو ساتھ لے لیا جائے تو مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ گلوبلائزیشن نے اس مفروضے کو ختم کردیا، جب تک world opinion کو ساتھ نہ لیا جاسکے کسی جگہ مقصد نہیں حاصل ہوسکتا۔ خاص کر dependent ملکوں میں کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بناسکتا، نہ economically نہ culturally۔ اپنے مقاصد کے ایسے interpretationکی ضرورت ہے جو اتصالات اور معلومات میں انقلاب کو اور انسانوں کے بدلے ہوئے حوصلوں کو سمجھ کر کیا گیا ہو۔ possiblities کی طرف سے غافل ہوکر priorities مقرر کرنا لاحاصل ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 289)

جہاد وقتال سے متعلق غیرمعتدل رویوں کی نشاندہی

برصغیر کی تحریکات اسلامی میں جہاد سے متعلق عموماً تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں، ایک مولانا مودودی کا، دوسرا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا اور تیسرا مولانا عبدالعلیم اصلاحی کا۔

ڈاکٹر صدیقی مولانا مودودی علیہ الرحمہ اور مولانا عبدالعلیم اصلاحی علیہ الرحمہ کی تعبیراتِ جہاد سے بالکل بھی متفق نہ تھے۔ ڈاکٹرصدیقی کا موقف تقریباً وہی تھا جو ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی ”جہاد اور روح جہاد“ اور ”جہاد اور آیات جہاد“ میں بیان کیا گیا ہے، اور علامہ یوسف القرضاوی نے بہت ہی تفسیل کے ساتھ ”فقہ الجہاد“ میں پیش کیا ہے، چنانچہ آپ اس موضوع پر ڈاکٹر سبحانی اور علامہ قرضاوی کی کتابوں کوبہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مولانا عبدالعلیم اصلاحی صاحب مرحوم ایک عرصہ تک جماعت اسلامی ہند کے رکن اور جماعت کی مرکزی مجلس نمائندگان کے ممبر رہے، مولانا اصلاحی جہاد کے سلسلہ میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، اور کئی پہلووں سے جہاد پر آپ کا موقف مولانا مودودی کے موقف کے مقابلے میں بہت سخت اور آگے کا تھا، آپ نے اس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں جو طلبہ اور نوجوانوں کے ایک مخصوص گروہ کے درمیان ایک زمانے میں کافی مقبول بھی ہوئیں، ڈاکٹر صدیقی اپنے ایک مکتوب میں مولانا عبدالعلیم اصلاحی مرحوم کی جہاد سے متعلق کتاب کے سلسلہ میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

”مولانا عبدالعلیم اصلاحی نے اپنی ایک تازہ کتاب بھجوائی ہے، جہاد پر۔ پوری دنیا میں کسی کافر حکومت کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان پر حملہ کرکے ان کو ہٹانا ہے۔ جہاد کے لیے امیرالمومنین کا ہونا ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ہی فیصلہ کرے، چھوٹے مسلمان گروہ ایسے حالات میں جیسے کہ آج کل ہیں، اپنے کو جہاد کے لیے آرگنائز کرسکتے ہیں، بلکہ واجب ہے کہ کریں۔ مکی دور اب irrelivant ہے۔“

آگے اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”سوچنے کی دوباتیں ہیں: (۱) جدید دنیا میں طاقت کے استعمال کی جو limitationsہیں، خاص طور پر چھوٹے گروہوں کے لیے، اور اس پروسیس کو خفیہ طور پر ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرنے کے جو implications ہیں ان سے ہمارے یہ لکھنے والے کیوں اتنے غافل ہیں۔ (۲) دین کے تقاضوں، واجبات کو کتابوں اور زیادہ تر individual historical precedents کی اپنی مخصوص تعبیر کی بنیاد پر متعین کرنا، اس کے علی الرغم کہ اس کے عملی زندگی میں کیا نتائج مرتب ہوں گے، یہ طریقہ فکر ہمیں کہاں لے جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان باتوں سے چشم پوشی کرتے رہنے نے ہمیں brinkپر پہنچا دیا ہے، we must do something۔“ (حوالہ سابق، صفحہ 290)

ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی کے نام ایک اور خط میں اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہ بات کہ اس وقت تک جہاد، قتال کرنا ہے جب تک کافر حکومت کہیں بھی ہو اور اسے نص قرآنی ”حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ“سے مستنبط کرنا غور طلب ہے۔ جن ملکوں میں ڈیموکریسی اور آزادیئ مذہب ہے (پوری مغربی دنیا) ان پر منطبق کیجیے، تو ہماری اب تک کی تعبیر absurdمعلوم ہوتی ہے۔ یہاں کوئی بادشاہ یا سردار قبیلہ نہیں، جو انکار کردے تو اس کو لڑکر ہٹادینا عام لوگوں کو دعوت یا ان کو قبول دعوت کا موقع فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ عوام کو دعوت کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ عوام دعوت قبول کرلیں تو حکومت بدلنے کا راستہ کھلا ہوا ہے، پھر لڑائی کیوں اور کس سے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں، ہماری زندگیاں اور ہمارے بہت سے interpretationلوگوں کے قبول اسلام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر عوام کسی ملک کے دعوت نہ قبول کریں تو پھر لڑ کر وہاں اسلامی حکومت قائم کرنی ضروری ہے، تو یہ بھی صحیح نہیں ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 290-291)

عصر حاضر میں دین کی دعوت

جدید دنیا میں دعوت دین کا طریقہ کار اور منہاج کیا ہوگا، اور اس سلسلہ میں کون کون سے اسلوب اختیار کیے جاسکتے ہیں، یہ ایک تفصیلی بحث ہے، جس پر مختلف مصنفین اور داعیوں نے اپنے اپنے تجربات، مطالعات اور مشاہدات کی روشنی میں مختلف پہلووں سے گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے جماعت اسلامی کیرلا کے سابق امیرمرحوم کے سی عبداللہ صاحب کے ایک مقالہ بعنوان ”غیرمسلموں میں براہ راست دعوت“ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں دونکات پیش کیے ہیں، پہلا نکتہ اسلوب دعوت سے متعلق ہے اور دوسرا نکتہ دعوت اوراس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں سے متعلق ہے، اسلوب دعوت سے متعلق لکھتے ہیں:

”عصر حاضر کے مزاج کو سمجھ کر ہم نے دنیوی مسائل کے حل کو بھی آخرت کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بنایا اور اس میں کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ”میری اطاعت کرو“ صرف نبی مرسل کی دعوت کی شان ہوتی ہے، ہم اس کی نقل نہیں کرسکتے۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ’دعوت کیسے دی جائے‘ کے جواب صرف کتابوں میں تلاش کرنے کے بجائے مخاطب فرد اور قوم اور دنیا کو دیکھ سمجھ کر طے کرنا چاہیے اور ماضی کے دعوتی تجربوں سے بھی سیکھنا چاہیے۔“ 

 آگے دعوت دین اور اس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

”واقعہ یہ ہے کہ نہ تو مخالفت کی شدت اس بات کی دلیل ہے کہ دعوت ٹھیک طرح دی جارہی ہے، نہ مخالفت نہ ہونے سے لازماً یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دعوت ٹھیک طرح نہیں دی جارہی ہے۔ حق وباطل اور حکمت اور خلاف حکمت انداز کے معیار قرآن وسنت، تاریخ اور آج کے عملی تجربے سے اخذ کیے جانے چاہئیں۔ میرے خیال میں ان میں سے کوئی بات شدت مخالفت کو معیار حق اور حکمت دعوت کی کسوٹی بنانے کی تائید نہیں کرتی“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 286-287)

حقیقت پسندی کی طرف دعوت

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مرحوم ڈاکٹر صدیقی کے دیرینہ رفیق تھے، آپ ثانوی درسگاہ رام پور کے مایہ ناز فارغین میں شمار ہوتے تھے،آپ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوری کے ایک مؤثر رکن تھے، ڈاکٹر فریدی ایک عرصے تک ماہنامہ زندگی نو کے مدیر رہے، اس دوران ڈاکٹر صدیقی سے وہ مختلف فکری اور نظریاتی امور ومسائل پر رائے مشورہ لیتے رہا کرتے تھے۔

ڈاکٹرفریدی مرحوم کے نام ایک خط میں بدلتے ملکی وعالمی منظرنامے کے تناظر میں جماعت اسلامی ہند کی پالیسی وپروگرام میں ترجیحات کے تعین کے مسئلہ پر دوٹوک الفاظ میں لکھتے ہیں:

”میں سمجھتا ہوں کہ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ اگر تحریک نے بھی اپنے اولویات (priorities) درست نہ کیں اور اہم تر کاموں کو مرکز توجہ نہ بنایا تو بالکل ناقابل اعتناء اور Irrelevent ہوکر رہ جائے گی“۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جذباتی اپروچ اور جذباتی اپیل والے اسلوب کے سخت ناقد تھے، چنانچہ ڈاکٹر فریدی کے نام ایک خط میں جذباتی اپیل کے بعض مروجہ طریقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حقیقت پسندی اور موجود کے سچے اعتراف والی اپروچ اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”بعض جذباتی اپیل کے طریقے اس صدی کے شروع سے ایسے استعمال کیے جارہے ہیں کہ جن کا شروع میں فائدہ تھا، مگر اب منفی اثر ہوتا ہے، وہ آپ کی تحریر میں اب بھی پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں اپنی بڑائی اور بہتری دوسروں سے زیادہ صالح، لائق، ہوش مند، دردمند ہونے کا احساس، اس کی توثیق اور اس احساس برتری کو مزید راسخ کرکے اس کی بنیاد پر اپیل، لہٰذا تم ہی انسانیت کو بربادی سے بچاسکتے ہو، مہربانی کرکے آگے بڑھو۔ عملاً اس طرح سے آگے تو کوئی نہیں بڑھتا، البتہ نفس موٹا ہوتا ہے، احساس برتری کی افیون عملی دنیا کی ذلت، کمزوری، لاچاری، خودکردار کی کمزوری اور اخلاقی زوال سے چشم پوشی میں مددگار ہوتی ہے اور بس۔

اس کے بجائے حقیقت واقع کی بنیاد پر مسلمانوں کو ان کی موجودہ صورتحال، مادی اور اخلاقی پستی کا خطرناک سطح تک پہنچ جانا، دکھلانے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھانے کی کہ اسلام کی دعوت اور خود اسلامی زندگی گزارنے والوں کے لیے اس حالت کو بدلنا ضروری ہے۔

دوسروں کی مظلومیت، کرپشن، اخلاقی زوال وغیرہ پر بھی بعض اوقات تبصرہ اس طرح آتا ہے کہ پڑھنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ اپنوں میں بھی یہ مرض عام ہے، اس سے بھی بالواسطہ صرف مسلمانوں کی اَنا کی تشفی ہوتی ہے، قوت عمل میں اضافہ نہیں ہوتا۔“  (حوالہ سابق، صفحہ: 278-279)

علم وتحقیق کے کام میں معروضیت

علمی اور تحقیقی کاموں میں بھی ڈاکٹر صدیقی معروضیت، حقیقت پسندی اور موجود کے صحیح صحیح اعتراف پر زور دیا کرتے تھے، ڈاکٹر طاہر بیگ صاحب سابق اسسٹنٹ پروفیسر ملیشیا یونیورسٹی نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خدمت میں مسلمان ملکوں کے درمیان تجارتی تعاون کے موضوع پر ایک مقالہ بغرض اصلاح ارسال کیا تھا، ڈاکٹر صدیقی اس مقالے پر قدرے تفصیلی نوٹس چڑھانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”آخر میں میرا اجمالی تأثر یہ ہے کہ یہ پورا مقالہ ایک ایسے جذباتی ریسرچ کی عکاسی کرتا ہے (اور اس موضوع پر شائع شدہ دوسرے مقالے اور کتابیں بھی اس میں شریک ہیں) جو انیسویں صدی کے آخر، بیسیوں صدی کے ابتدائی نصف کی اسلامی اور Pan Islamic تحریکوں کی پیداوار تھا، جس کے قدم حقائق وواقعات میں کم، خواہشات اور تمناؤں میں زیادہ راسخ تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف دنیا کی بلکہ اسلامی حلقوں کی حالت کافی بدل چکی ہے، اور گزشتہ رجحانات وخیالات پر نظرثانی کی ضرورت ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 241-242)

ہندوستانی مصنف حفظ الرب صاحب کی کتاب ”نظام سرمایہ داری اور اسلامی معاشیات“ کے حوالے سے مصنف کے نام ڈاکٹر صدیقی کے مکتوب میں بھی یہ اپروچ بہت واضح طور پر نظر آتی ہے، کئی پہلووں پر توجہ دلانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”آپ کا یہ دعوی کہ صرف سود کے خاتمہ اور زکوۃ کے نفاذ سے ہمارے معاشی مسائل حل ہوکر عدل وانصاف ہی نہیں ترقی وخوش حالی کی ضمانت حاصل ہوجائے گی، درست نہیں ہے۔ افسوس کہ آپ نے دورجدید میں ان مسائل پر اسلامی معاشیات دانوں کی تحریریں بھی نہیں دیکھی ہیں کہ معتدل رائے قائم کرسکیں۔ موجودہ دنیا کے معاشی اور مالی مسائل بہت پیچیدہ ہیں، ان کا تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ بے شک سود کا خاتمہ اور زکوۃ کا نفاذ ان مسائل کے حل کے لازمی ارکان ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اور کیا کرنا ہے۔ رہے ہندوستانی مسلمان، اور مسلمان ممالک کے مسلمان تو ان کا اصل مسئلہ پسماندگی ہے۔ ان کے کرنے کا پہلا کام ہنر سیکھنا، محنت کرنا، ایجاد واختراع، ترقی اور معاشی قوت کا حصول، اور بالآخر دنیا میں اپنی موجودہ کمزوری، لاچاری اور کسمپرسی کی حالت جو ان کو بھیک مانگنے اور دوسروں کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کرتی رہتی ہے، سے نکل کر عزت نفس کے ساتھ خودکفیل بلکہ دوسروں کو دینے والے بننے کی کوشش کرنا ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 139-140)

خواتین سے متعلق صحیح علمی اپروچ

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے خطوط میں ایک خط مولانا سلطان احمد اصلاحی مرحوم کے نام بھی ملتا ہے۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ایک عرصے تک ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ رہے، ’اسلام کا نظریہ جنس‘ سلطان اصلاحی مرحوم کی معروف تصنیف ہے۔ مولانا سلطان اصلاحی کے نام اپنے ایک مکتوب میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم اس کتاب پر اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے متعدد اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہیں، جس میں ایک اہم مسئلہ خواتین سے متعلق موقف اور اپروچ کا بھی ہے، لکھتے ہیں:

”کتاب کا لہجہ بدلنا ضروری ہے۔ ہمارے مصنفین نے ابھی تک جو ادب اسلام اور عورت کے عنوان سے پیش کیا ہے اس سے پڑھنے والا یہ تأثر قائم کرتا ہے کہ خدائے تعالی نے دنیا مردوں کے لیے بنائی ہے۔ رہیں عورتیں تو وہ بھی مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ مگر کتاب اللہ صاف کہتی ہے کہ تکلیف شرعی مرد کی طرح عورت کے لیے بھی ہے۔ قیامت میں وہ اکیلی مستقل بالذات جواب دہ ہوگی اور وہ خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملاً میں مرد کی طرح برابر کی مخاطب ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آپ کی تحریر اس تأثر کو کم نہیں کرتی بلکہ اسی مزاج میں بہتی نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب مرد ہیں۔ رہی مسلمان عورت تو اس کا ذکر اس طور پر تو آتا ہے کہ اس سے کس طرح مسلمان مرد لطف اندوز ہو مگر اس کے آگے اس سے تخاطب مفقود ہے، کیوں؟ اللہ تعالی نے تو ”وانتم لباس لہن“ کہہ کر بات پوری کی ہے۔

صفحہ 74 پر ایک آدھ جگہ انسان کا لفظ استعمال ہوا، مگر یہاں بھی سیاق سے انسان کے معنی مرد ہی کے بنتے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ آپ مسلمان عورت سے مخاطب ہوتے اور بتاتے کہ وہ اس مودۃ اور رحمۃ کو کیسے حاصل کرسکتی ہے اور کیسے دے سکتی ہے، جس کا قرآن سورہ 30 آیت 21 میں ذکر ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ پچھلی صدی یا اس صدی کے شروع تک مسلما ن علماء جب کتاب لکھتے تھے تو غیرشعوری مفروضہ یہ ہوتا تھا کہ اسے پڑھنے والے صرف مرد ہوں گے۔ مسلمان عورتیں یا تو ناخواندہ ہوتی تھیں یا علمی کتب ان کی دسترس سے باہر تھیں۔ بیسویں صدی کے آخر میں یہ صورتحال نہیں رہی۔ مزیدبرآں اب آپ کی کتاب مغرب کی وہ خواتین بھی پڑھیں گی جن کو اپنی اس رائے کے حق میں دلیل چاہیے کہ اسلام عورت کو برابر کے انسان کا درجہ نہیں دیتا“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 157-158)

مغربی معاشرت پر تنقید میں توازن

امریکہ، یوروپ اور مغربی تہذیب ومعاشرت پر تنقید اردو مصنفین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، اس موضوع پر قلم اٹھانے والے اکثر افراد یا تو ثانوی حوالوں پر اعتماد کرتے ہیں یا پھر سنی سنائی باتوں کو اپنی تحریروں کا حصہ بنالیتے ہیں، چنانچہ یہ تنقیدیں اپنے اندر کئی قسم کی کمزوریاں رکھتی ہیں، ان تحریروں میں حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں ہوتا، معروضیت نہیں پائی جاتی، اکیڈمک معیارات پر پوری نہیں اترتیں اور پھر ان سے ایک قسم کا منفی رجحان پروان چڑھتا ہے جو بہرحال کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوتا۔ مولانا سلطان اصلاحی مرحوم کے نام مذکور بالا مکتوب کے آخر میں ڈاکٹر صدیقی امریکہ اور مغربی دنیا کے طرز معاشرت پر تنقید کے سلسلہ میں توازن اور معروضیت اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”آپ کا پورا باب اوّل غیرمتوازن ہے۔ اس باب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ اسلام کی تعلیمات متعلقہ جنس کے بیان کے لیے مغرب اور امریکہ کی بے راہ روی سے آغاز کیوں ضروری ہے؟ جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا اس سے امریکہ کی زندگی کا یک طرفہ غیرمتوازن نقشہ سامنے آتا ہے جس سے ان لوگوں کی نظر میں تحریر کا وقار گرتا ہے جو توازن کے ساتھ رائے قائم کرتے ہیں۔ اس طرح کی تحریروں کا گزشتہ دنوں زوال کے شکار مسلمانوں کی اَنا کی تسکین مقصد رہا ہے۔ اس سے وہ اپنی خرابیاں اور کمزوریاں بھول جاتے ہیں اور جن کے قدموں کے نیچے پامال ہورہے ہیں ان کو گمراہ اور تباہی کے گڈھے کی طرف تیزی سے بڑھنے والا یقین کرکے تھوڑی تسلی ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی تحریروں کا کوئی ایجابی عمل موضوع زیربحث میں سمجھ میں نہیں آتا“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 159)

(جاری)


مولانا گیلانی اورشیخ اکبر ابن عربی (۳)

مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا کے بقول شیخ نے اپنی کتابوں میں جن کلی امور پرسیر حاصل بحثیں فرمائی ہیں، ان میں علم کا مسئلہ بھی ہے، جس کی تعبیر موجودہ اصطلاح میں تھیوری آف نالج (Theory of Knowledge) کے الفاظ سے کی جاتی ہے، یعنی دین سے بغاوت کا وہ حصہ جو علم کے جھوٹے دعویٰ پر مبنی ہے، شیخ لوگوں کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ خود اس علم اور دانش کی کیاحقیقت ہے، ہم یہ جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں، اور اپنے اسی جاننے کی بنیاد پر نہ سوچنے والوں کے قلوب میں دین کا جو احتقار پیدا ہوتا ہے، شیخ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ خود یہ جاننا کیا چیز ہے، اور تمہارے اس جاننے کی رسائی کا آخری نقطہ کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ آدمی پر جب’’ اپنی دانش‘‘کی اصلی حقیقت کھل جاتی ہے تو وہ سارا نشہ کرکرا ہو جاتا ہے، جس کے شکار عموماً وہی لوگ ہو جاتے ہیں، جو تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کے بعد ہر چیز کی تنقید اپنے علم کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں، لیکن علم و جہل کے سلسلہ میں آدمی کا جو صحیح مقام ہے، جب وہ اس پر واضح ہو جاتا ہے، تب سمجھ میں آتا ہے کہ:

معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد

اس مسئلہ کو شیخ نے فتوحات مکیہ وفصوص الحکم وغیرہ میں مختلف اسالیب میں ادا کیا ہے، سب کو اگر جمع کیا جائے، تو محض اس ایک مسئلہ کے متعلق ان کے خیالات و نظریات ہزار ڈیڑھ ہزار صفحات کی گنجائش سے کم میں نہ آئیں گے، ’’ خصوصاً شیخ کا ایک خاص طریقہ ہے، وہ اپنے مسودہ پر نظر ثانی نہیں کرتے، اور قلم اٹھا کر لکھتے چلے جاتے ہیں، اس لئے کہیں کہیں اس کا شبہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں تضاد ہے ‘‘، ضرورت ہے کہ تسلسل کے ساتھ ان کے کلام کے مختلف اجزاء کو ایک خاص ترتیب کی شکل میں ترتیب دیا جائے، مولانا اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس تدبیر سے ان کے کلام میں بہ ظاہر جوتضاد محسوس ہوتا ہےعموماً وہ دور ہوجاتا ہے‘‘۔ 1

انہوں نے شیخ کےکلام کی تفہیم کے اور بھی طریقے بتا ئے ہیں، اور پھر فصوص الحکم کی عبارات واقتباسات کی روشنی میں شیخ کے اس نظریہ پر روشنی ڈالی ہے۔ اور اخیر میں ثابت کیا ہے کہ عام طور پر اہل مغرب نے حواس ہی کو ذریعۂ علم تسلیم کیا ہے، لیکن شیخ نے وضاحت کی ہے کہ ان حواس کے علاوہ بھی وحی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شیخ کا خیال ہے کہ ان صفات کے پیچھے محض حواس اور عقل کے زور سے کسی ذات کا ثابت کرنا قطعاً نا ممکن ہے، وہ مدعی ہیں کہ مادہ ہی نہیں، بلکہ ان صفات کے پیچھے جن کا مشاہدہ ہمارے حواس اس عالم کی شکل میں کر رہے ہیں، کسی خدا کی ذات کو بھی محض حواس و عقل کے زور سے ثابت کرنے کی کوشش ایک ایسی کوشش ہے جو کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی، ان کا مشہور فقرہ ہے کہ: ’’ خدا کو عقل یعنی فکر ونظر کی راہ سے جس نے ڈھونڈھا وہ سر گشتہ اور سر ا سیمہ ہو کر رہ گیا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں اسی خیال کو یوں ادا کرتے ہیں: ’’عقل اس حیثیت سے کہ وہ نظر و فکر، بحث و تلاش کا کام کرتی ہے، خدا کو جان نہیں سکتی‘‘۔ 2 انہوں نے اخیر میں اپنی کتاب الدین القیم کا حوالہ دیا ہے، الدین القیم میں انہوں اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اور ابن عربی کے حوالہ سے تفصیل سے لکھا ہے۔

انہوں نے ایسے وقت میں ابن عربی پر کام کا آغاز کیا جب وہ ضعیفی کے مرحلہ میں پہنچ کر اپنے وطن میں گوشہ گیر ہوچکے تھے، اس کا ایک حصہ لکھنے کے دوران ہی بیماری نے طول پکڑا، انہوں نے ابن عربی کے علمی پس منظر کے طور پر ان کے مولد ومنشا اندلس کے حالات تفصیل سے لکھے، دارالمصنفین سے ان انہوں نے اس کے لئے کتابیں بھی منگوائی تھیں جو افسوس کہ رکھی رہ گئیں، اورسید صباح الدین عبدالرحمن صاحب کے ہاتھ واپس کردی گئیں، صباح الدین صاحب نے لکھا ہےکہ جب مولانانے ریٹائر ہوکر گیلا نی میں آ کر قیام فرمایا تو ان کا قلم اور بھی جوان ہو گیاتھا، وہ حضرت شیخ محی الدین بن عربی سے بہت متاثر تھے اور ان کے کارناموں کو تفصیل کے ساتھ لکھنا چاہتے تھے۔ مولانا نے لکھاہے:

’’سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے کلام کے سمجھنے اور اس سے استفادہ کے لیے ایمان قوی اور نظر سلیم کے ساتھ ضرورت ہے کہ علم میں وسعت ہو، محدود معلومات والے تنگ نظر لوگوں کے لیے بسا اوقات ان کی باتیں نقصان رساں ہو جاتی ہیں لیکن یہ ان کے کلام کا نہیں بلکہ پڑھنے والوں کا نقصان ہے‘‘۔ 3

ان میں یہ تمام شرائط موجود تھے، اس لیے شیخ اکبر کو ان سے بہتراور کون سمجھ سکتا تھا، لیکن اس کام کو شروع کرنے سے پہلے وہ دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ 4

   صباح الدین صاحب نے لکھا ہے کہ ایک بار وطن گیا تو ان کے یہاں جاکر ملاقات کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ ان کا خط ملا:

’’عزیر محترم..................5 السلام علیکم ورحمة الله و برکاتہ، اتنے طویل المدت مریض کے متعلق یہ واقعہ ہے کہ مر جانے یا تندرست ہوجانے کا فیصلہ قدرتی ہے، لیکن کیا کیجئے، آپ کا یہ درویش اسمی بہ مناظر احسن گیلانی نہ اب تک مرا ہے اور نہ اچھے ہونے کی بشارت سنا سکتا ہے، اسی حال میں مگن ہے جس میں رکھا گیا ہے، کل شاہ صاحب6 قبلہ کا نوازش نامہ ملا، جس میں آپ کے دیسنہ پہنچنے کی خبر درج تھی، دارالمصنفین کی جو امانت ہمارے پاس محفوظ ہے اس کو آپ کے حوالہ کردینا چاہتا ہوں، کیونکہ اب شیخ ابن عربی پر کچھ لکھوں تو ضرورت ہے کہ دوسری دفعہ پیدا کیا جاؤں، اب فرمایئے کہ اس کے لیے کیا کروں؟ کیا دیسنہ ان کتابوں کو کسی کی معرفت بھیج دوں مگر آپ کی ملاقات سے محروی معمولی محرومی نہ ہوگی، بہر حال جورائے عالی7 ہو، اس سے مطلع فرمائیں، ڈاک سے اس لیے بھیج رہا ہوں کہ زمینداری ختم ہونے کے بعداب چھٹی چپاتی کی کوئی راه ڈاک کے سوا باقی نہیں رہتی ............ ‘‘۔ 8

مولانا نے کتاب کا آغاز جس مضمون سے کیا وہ شیخ اکبر کے وطن اندلس کے بارے میں تھا، تین قسطوں میں معارف میں ان کا یہ مضمون ’’مسلمانوں کا اندلس خود ان کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ 9 اس کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں:

’’مشہور اندلسی کہئے یایورپین صوفی شیخ محی الدین عربی پڑھے لکھے مسلمانوں میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں، کافی سر گرانیوں کے باوجود ان کے مخالفین بھی شیخ کی علمی وسعت، نظر کی دقت کے بہر حال معترف ہیں۔ ہمارے مخدوم و محترم مولانا شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی ناظم علمی دار المصنفین(اعظم گڑھ) و مدیر معارف کا اصرار ہے کہ شیخ ابن عربی کے متعلق معارف میں مقالات کا سلسلہ خاکسار شروع کرے، اپنے اصرار کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے آخر میں تو شاہ صاحب نے یہاں تک ارقام فرمادیا کہ تونے لکھا تو لکھا، ورنہ پھر کوئی دوسرا اس موضوع پر لکھنے والا نظر نہیں آتا، 10 ایک حوصلہ افزا حسن ظن کے سوا ظاہر ہے کہ اس کو اور کیا قرار دیا جا سکتا ہے، فوق کل ذی علمٍ علیم کی قرآنی حقیقت کا اقتضا بھی یہی ہے، اور سچی بات بھی یہی ہے کہ لکھنا چاہیں تو اب بھی اس فقیر سے کہیں بہتر طریقہ سے اس مضمون کو مرتب کر کے پیش کرنے والے پیش کر سکتے ہیں۔ مگر ایک’’صابری چشتی‘‘ فقیر کے لئے یہ بھی تو آسان نہ تھا کہ اپنے مخدوم ہی نہیں، بلکہ جو جانتے ہیں کہ ہندوستا ن کے طریقۂ چشتیہ صابریہ کے ایک رکن رکین صاحب ردولی شریف سیّدنا شیخ احمد عبد الحق قدس اللہ سرّہ العزیز بھی ہیں، اور ہمارے شاہ معین الدین صاحب کو اسی آستانہ ردولی شریف کی صاحبزادہ گی کا بجا فخر حاصل ہے، اس لحاظ سے مخدوم ہونے کے ساتھ ہی وہ ہمارے مخدوم زادے بھی تو ہیں، اپنے مخدوم زادے کے حکم سے سرتابی کی کوئی شکل نظر نہ آئی، اللہ کے نام سے قلم کو ہاتھ میں لیتا ہوں، شاید بزرگوں کی روحانیت سے تائید کی راہ میری یہی نیت مجھ پر کھول دے، واللہ وَلی الامر والتوفیق۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوا کہ ان کے مولد و منشا اندلس کی تاریخ کا وہ رُخ پیش کر دیا جائے، جس سے میرا خیال یہی ہے کہ شیخ اور شیخ کے خصوصیات کے سمجھنے میں کافی مدد پڑھنے والوں کو ان شاءاللہ ملے گی، اسی لیے پہلا مقاملہ ’’اندلس‘‘ پر لکھ کر حاضر کیا جاتا ہے، والامر بیدہ سبحانہ تعالی۔ ‘‘

مولانا کایہ مضمون کئی زاویے سے قابل اشکال بھی ہے، اور قابل غور بھی، انہوں نے اندلس کا تذکرہ اس لئے کیا تھا کہ ابن عربی کے ماحول کو سمجھنے میں مدد ملے گی لیکن انہوں نے اس کا آغاز اس بحث سے کیا ہے کہ مسلمانوں کو آخر اندلس کی بربادی کی داستان باربار کیوں سنائی جاتی ہے، وہی یورپ جو اپنے ہر ظلم پر پردہ ڈالتا ہے وہی یورپ اندلس میں اپنے مظالم کو اس قدر علانیہ کیوں بیان کرتا ہے۔ مولانا نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ہے، ممکن ہے وہ مزید کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں جس کا موقع انہیں نہیں مل سکا۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا ہے کہ ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوئی، پھر بنوامیہ کے مظالم اور بے اعتدالی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور بہت تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں زیادہ تر انہوں نے کامل ابن الاثیر اور تاریخ ابن خلدون پر اعتماد کیا ہے، یہ حصہ مزید نقد ونظر کا محتاج ہے، مولانا شروع سے بنو امیہ کے سخت ناقد تھے، ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں بھی انہوں نے یہی موقف اختیار کیا ہے، اور بنوامیہ پر سخت تنقید کی ہے، مولانا اس سلسلہ میں عام طور پر کمزور واقعات پر بھی اعتماد کرلیتے ہیں۔ پھر اخیر میں مولانا نے یہ لکھا ہے کہ مجھے ایسے واقعات تاریخ میں نظر سے گذرے جن کو پڑھ کر میں مزید پر امید ہوگیا ہوں۔ شاید پہلے سوال کے جواب میں ان واقعات کے ذریعہ وہ اس کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہوں کہ اہل یورپ مسلمانوں کے سامنے اپنی کمزوریوں کو چھپا نا چاہتے ہیں۔

مولانا کے بقول

’’اس زمانہ مین اندلس کے لفظ کو خوف و ہراس، دہشت و وحشت کے بھیانک خطرات کا جو مجسمہ مسلمانان عالم کے لئے بنا دیا گیا تھا، بالکل اس کے برعکس اندلس کا یہی لفظ مجھے تو رجائیت اور امید کا مطلع نظر آتا ہے اور اندلس کی تاریخ کے اس رخ کو مسلمانوں میں مردنی اور افسردگی پیدا کرنے کے بجائے امید و شگفتگی اور زندگی پیدا کرنا چاہیے‘‘۔ 11

بنوامیہ پر انہوں نے تنقید کی اس کے بعد خود ہی اخیر میں ان کے ایک مثبت پہلو کو بھی پیش کیاہے، اس کے ذریعہ اس سے متعلق خود مولانا کے دو متضاد نظریات سامنے آتے ہیں، گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں، جس کی صراحت نہیں کرتے کہ، بنو امیہ نے عصبیت عربیہ کو فروغ دیا، دین کی دعوت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اور وہاں کی آبادی کو لوٹا جس کا یہ انجام انہیں دیکھنا پڑا، لیکن انہوں نے شیخ ابن عربی کے معاصر حالات بالکل نہیں ذکر کئے، اس وقت تک تو بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا تھا، شاید اشارہ میں وہ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ بعد میں جو کچھ ہوتا رہا اس کی بنیاد بنوامیہ ہی نے رکھی تھی، پھر شیخ ابن عربی کے متعلق صراحت سے کچھ نہیں لکھتے، ممکن ہے اگلی قسط میں وہ اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتے ہوں جس کا موقع نہیں مل سکا۔ ویسے موجودہ مواد سے جو کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ شاید ان حالات نے شیخ ابن عربی کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہو، وہ وہاں کی آبادی کو قانع ومطمئن کرنا چاہتے ہوں، اورعربوں کے تئیں حکومت کے رویہ سے ان میں جو نفرت پیدا ہوگئی تھی اپنے ان افکار کے ذریعہ ان کو دور کرنا چاہتے ہوں۔ مولانا نے اپنے عربی مضمون میں جس پس منظر کی طرف اشارہ کیا ہے، اس میں فقہی ومسلکی اور عربی تعصب اور فلسفہ مشائیہ اور اس کے ذریعہ ثنویت کی تقدیس کو خاص طور سے بیان کیا ہے جس کی وجہ سے شیخ کو ظاہریت اور وحدت قیومیت کا نظریہ اختیار کرنا پڑا، اور انہوں نے وحدت الوجود کی رائے پیش کی۔

خوش قسمتی سے فتوحات مکیہ کے اس نسخہ کا بھی سراغ مل گیا ہے جو مولانا کے مطالعہ میں تھا اور وہ گویا وہ اس کی تلاوت کیا کرتےتھے، اس کے حواشی پر جابجا پنسل سے بعض الفاظ کے اردو ترجمے اورکہیں کہیں مختصر توضیح ہے لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہے، البتہ آگے پیچھے کے سادہ اوراق ان کی تحریروں سے بھرے ہوئے ہیں، اگرچہ ان میں بیشتر یادداشتیں ہیں، اور اہم قابل ذکر مباحث کے صفحات نمبر درج کرکے ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ ضخیم جلد کا قدیم مصری ایڈیشن ہے۔ مولانا کی بعض توضیحات جو اہم ہیں یہاں درج کی جاتی ہیں۔

ص ۳۵۵پر بعض الفاظ کے ترجمے بھی ہیں، اور دو جگہ حسب ذیل توضیحات بھی۔

’’فان السراب لم یکن عین ذلک المحل الذی جاء الیہ محل السراب‘‘۔ اس پر مولانا حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’بل کان محله فی عین الرائی‘‘۔ اسی کی دو سطر کے بعد فھو المعبر عنه بالماء ہے۔ اس پر مولانا کا نوٹ ہے، ’’اطفا اللہ حرارۃ العطش باذنه تعالیٰ‘‘۔ ص۳۳۷ پر ایک شعر میں سورۃ القلب لکھا ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئےمولانا نے لکھا ہے ’’ اي سورۃ یسین‘‘۔

شروع کے اوراق میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ما معنی الاسباب والاعتماد علیھا، جاء ھھنا بیان کاف استنبطه من الآیة الکریمة ونبّه علی معنی الرجولیة، ویمکن ان ینتقد علی الشیخ قوله فی تفسیر خائنة الاعین فانه رضی اللہ عنه قد بعد، والظاهر أنه كان مأموناً عند نفسه فالإشارة ردّها بالعين كأنه كانت خيانة‘‘.

ایک جگہ لکھتے ہیں

’’تمام اجسام میں بلوریت کی پیدائش کا امکان۔ ۔ ص ۲۹۵۔ ۔ شیخ نے اسی پرمکاشفہ، اور طی الارض اور عذاب قبر کی تصحیح کی ہے‘‘۔

ص ۲۹۵ کے آغاز میں ایک عبارت ہے:

’’وكان الإمام عبدالقادر على انتقل إلينا من أحواله حال الصدق لا مقامه، وصاحب الحال له الشطح، وكذلك كان رضي الله عنه، وكان للإمام أبي السعود بن الشبلي تلميذ عبدالقادرمقام الصدق‘‘۔

اس پر مولانا نوٹ لکھتے ہیں، ’’وجہ یہ ہے کہ ان سے تبلیغ احکام متعلق نہیں تھی، اور حضرت سے تبلیغ متعلق تھی، اس لئے حال صدق دیا گیا اور ان کے شاگرد کو مقام صدق دیا گیا‘‘۔

صفحہ ۲۳۳ پر عبارت ہے: مضاف إليها مشيئته

مولانا اس کے متعلق حاشیہ میں لکھتے ہیں: مثلاً لو شاء الله لهداكم

اس کے نیچے ہے: فإذا علمت هذا أقمت عذر العالم عندالله.

اس پر مولانا کا حاشیہ ہے ’’كما قال الله تعالى فالعذر يمكن بأن يقول لا تهدينا‘‘۔ یہ تشریح اپنی معنویت میں بہت اہم ہے کیوں کہ اسی طرح کے جملے سے شیخ سے لوگ زیادہ متنفر ہوتے ہیں۔

صفحہ ۳۷۵ پر ایک عبارت ہے فيسلب هذا العالم المستحق دارالشفاعة علمه حتى كأنه ما علمه أو لم يعلم شيئاً فيتعذب بجهله۔ اس پر مولانا لکھتے ہیں ’’کیوں کہ جہنم میں کوئی کار خیر نہیں ہوتا، اور علم کار خیر ہے۔ ‘‘

اسی صفحہ پر ایک عبارت ہے: لأن الواحد شيخ فخاطبه باللطف.

اس کی توضیح میں مولانا لکھتے ہیں، ’’یعنی نوح علیہ السلام‘‘۔

اس کے بعدہے: والآخر شابّ فخاطبه بالشدة.

مولانا لکھتے ہیں’’یعنی سرور عالم ﷺ جوان تھے‘‘۔

ص ۳۲۴ پر عبارت ہے:

’’وهم فيه أي في العذاب مبلسون أي مبعدون من السعادة العرضية لأن السعادة الدائمة من حيث الوجود موجودة ولكنّ السعادة العرضية غير موجودة. ‘‘

یہ تشریحات کہیں باریک سیاہ روشنائی سے ہیں، کہیں پنسل سے ہیں، بہت سی جگہوں پر صرف اشارات ہیں۔ بہرحال جہاں تک ممکن ہوسکا اہم توضیحات کو اخذ کرکے یہاں درج کردیا گیا ہے، ممکن ہے کچھ چھوٹ گئی ہوں، جس ایڈیشن پر یہ حواشی ونوٹس وہ استنول کا شائع شدہ قدیم ایڈیشن ہے، اور دارالعلوم وقف دیوبند کے کتب خانہ میں حضرت قاری طیب صاحب کے ذخیرہ میں محفوظ ہے۔

حضرت قاری صاحب حضرت گیلانی کی عمر کے آخری دور میں وفات سے کچھ ماہ یا ایک دو سال قبل ان کی عیادت کے لئےمولانا کے وطن تشریف لے گئے تھے، اس وقت سوانح قاسمی کی ترتیب کا بھی ذکر آیا تھا اور اسی موقع پر مولانا قاری صاحب کو اپنی کتابوں کا جو ذخیرہ عنایت کیا تھا اس میں یہ نسخہ بھی تھا، جس کی وہ گویا تلاوت کیا کرتے تھے، اور ابن عربی پر اپنی مجوزہ تصنیف کے لئے بھی اس میں انہوں نے جا بجا نوٹس تحریر فرمائے تھے، حضرت گیلانی کی تحریر جس نے دیکھی ہے اور ان کے زیر مطالعہ کتابوں پر ان کے حواشی وتعلیقات جس کی نظر سے گذرے ہیں اسے ان عبارتوں کو حضرت گیلانی کی تحریر تسلیم کرنے میں شبہ نہیں ہوسکتا۔

ایک دوسرا حسن اتفا ق یہ بھی ہے کہ مولانا کی وہ بیاض بھی شائع ہوگئی ہے جو خدا بخش لائبریری میں محفوظ تھی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہو ر سے جناب عثمان احمد صاحب کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس میں بھی ابن عربی کے اقتباسات اور جابجا اشارات موجود ہیں جو مولانا کے ان سے شدت تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ اقتباسات ان زیر تجویز تصنیفی کتاب کے لئے قلمبند کیے گئے ہوں۔ ایک جگہ صرف عنوان لکھا ہے، لقاء الشیخ الاکبر۔

ایک جگہ ’’حیوانی شکل کے دیوتا ‘‘ کا عنوان قائم کرکےمولانا اشعار اور ایک روایت کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقوام قدیم میں بت پرستی اس خیال پر مبنی ہے کہ ملائکہ کے چہرے حیوانوں کی مانند ہیں، پھر روایت کے بعد شیخ اکبر کا اقتباس نقل کیا ہے، قال الشیخ الاکبر فی فتوحاتہ، الواحد من حملة العرش علی صورۃ الانسان والثانی علی صورۃ الاسد فتخیل انہ الہ موسیٰ فصنع لقولہ العجل وقال هذا إلهكم وإله موسى...القصة

 117 صفحہ پر فتوحات مکیہ سے حضرت رابعہ بصریہ کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے۔

اس کے بعد صفحہ ۱۲۱ پر ’’وصیہ اکبریہ‘‘ کے عنوان سے حسب ذیل عبارت ہے:

فليجتهدأن يكون عند الموت عبداً مخلصاً ليس فيه شيئ من السيادة على أحد من المخلوقين ويرى نفسه فقيرة إلى كلّ شيئ من العالم من حيث أنه عين الحق من خلف حجاب الاسم الذي قال الله فيه.ص540 ت 32

پھر صفحہ ۱۲۷ پر ایک مسئلہ ہے جس کا عنوان ہے:

’’ تمام ارواح طیبہ وملائکہ وانبیاء ورسل سے حصول دعا کا طریقہ ‘‘۔

اس کے نیچے حسب ذیل عربی عبارت ہے:

قال شيخ الأكبر[كذا] في فتوحاته منسوباً إلى بعض أولياء الله أنه قال له، إذا قلت "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين"أو قلت "السلام عليكم" إذا سلمت في طريقك على أحد فأحضر قلبك كلّ صالح لله من عباده في الأرض والسماء وميّت حيّ، فإنه من ذلك المقام يرد عليك فلا يبقى ملك مقرب ولا روح مطهر يبلغه سلامك إلاّ ويرد عليك وهو دعاء مستجاب فيستجاب فيك فتفلح، ومن لم يبلغه سلامك من عباد الله المهيمين في جلاله المشتغلين به المستفرغين فيه، وأنت قد سلمت عليهم بهذا الشمول فإن الله ينوب عنهم في الردّ عليك.

اس کے بعد لکھتے ہیں:

’’در اصل درود شریف کی ایک شرح فقیر یہ کرتا ہے، اور اسی کو مسلمانوں کے رواج فاتحہ کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اسی کی یہ تائید ہے، فللہ الحمد۔ ‘‘

   صفحہ نمبر ۱۴۰پر لکھتے ہیں:

نکتہ عملیہ

الإنسان لا يخلو عن طلب نفساواحداً يقوم به الأمر ما. یعنی آدمی کسی نہ کسی قسم کی طلب اپنے اندر رکھتا ہے، چاہے اس طلب کو مجہول بنالے۔ إلا من جهة واحدة وهو أن يكون متعلق طلبه ما يحدثه الله في العالم في نفسه أو في غيره، فما وقعت عليه عينه أو تعلق به سمعه أو وجده في نفسه أو عامله به أحد فليكن ذلك عين مطلوبه المجهول، قد عيّنه له الوقوع فيكون قدوفى حقيقة كونه طالباً وتحصل له اللذة بكلّ واقع منه أو فيه أو من غيره أو في غيره. کبھی کبھی حس وحرکت پیدا نہ ہوگی فإن اقتضى ذلك الواقع التغيير له تغير لطلب الحق منه التغير وهو طالب الواقع، والتغير هو الواقع، وليس بمقهور فيه، بل هو ملتذ ّ في تغييره كما هو ملتذ في الموت للتغير وما ثمّ طريق إلى تحصيل هذا المقام إلاّ ما ذكرناه فلا تقل كما قال من جهل الأمر فطلب المحال فقال أريدفقال أريد أن لا أريد، وإنما الطلب الذي تعطيه حقيقة الإنسان لا أن يقول أريد ما تريد.

اس کے بعد کے صفحات میں ابن عربی کے متعدد اشعار بھی نقل کئےگئے ہیں۔

   صفحہ ۱۵۷ پر ابن عربی کا قول نقل کرتے ہیں:

’’وعظ سے اگر کسی کو فائدہ نہ ہو فعلیہ ان یتہم نفسہ فان اللہ تعالیٰ قال وامر فذکر فان الذکریٰ تنفع المومنین‘‘۔

مفصل عبارت یہ ہے:

فإن كنت مومنا فإن الذكرى تنفع المؤمنين، فإني قد امتثلت أمر الله بما ذكر تك به وانتفاعك بالذكرى شاهد لك بالإيمان بالله، قال الله عزوجلّ في حقي، وفي حقك، وذكّر فإن الذكرى تنفع المومنين، فإن لم تنفعك الذكرى فإتهم نفسك في إيمانك فإن الله صادق، وقد أخبربأن الذكرى تنفع المومنين.

مولانا کی مندرجہ بالا تحریروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت گیلانی شیخ ابن عربی کے علوم پر کیسی نظر رکھتے تھے، اور ان سے انہیں کیسا والہانہ عشق تھا، اور کس طرح وہ ان کے افکار کی شرح وتوضیح کے سب سے زیادہ حق دار تھے، ؛لیکن

            اے بسا آرزو کہ خاک شدہ


حواشی

  1. معارف، فروری، ۱۹۴۵ء
  2. حوالہ سابق، مارچ ۱۹۴۵ء
  3.  یہ عبارت ان کے مضمون شیخ اکبر کا نظریہ علم کی ہے۔
  4. حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی، [کتابچہ]، از سید صباح الدین عبدالرحمن، مطبوعہ استھاواں، بہارشریف، ۲۰۱۶ء۔ ص۲۸
  5. مولانا اپنے اخلاص و شفقت میں چھوڑوں کے لیے بھی ایسے القاب لکھ دیتے جن کے وہ مستحق نہ ہوتے، اس لیے کچھ الفاظ حذف کردئے گئے۔ (اصل)
  6. جناب شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی مراد ہیں۔ (اصل)
  7. یہ الفاظ ان کےظرف عالی کا ثبوت ہیں۔ (اصل)
  8. سید صباح الدین عبدالرحمن، حوالہ سابق، ص۴۷
  9. یہ مضمون ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کے نومبر، دسمبر ۱۹۵۳ ور جنوری ۱۹۵۴ میں تین قسطوں میں شائع ہوا۔
  10. مولانا کی یہ پیشین گوئی درست نکلی، اس کے بعد معارف جومسلمانوں کی علمی تاریخ وشخصیات کاا نسائیکلوپیڈیا کہاجاسکتا ہے اس میں ابن عربی پر کوئی قابل ذکر مضمون نہیں ملتا، ضمنی طور پرکچھ بحثیں ہوں تو الگ بات ہے۔ (طلحہ)
  11. معارف، جنوری ۱۹۵۴۔


اپریل ۲۰۲۳ء

مشرقی معاشرے اور عورت کی تقدیس وتکریممحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
مدرسہ اور یونیورسٹی کا تاریخی تعلقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا محمد یوسف رشیدیؒ اور مولانا قاری جمیل الرحمان اختر ؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۴)ابو الاعلیٰ سید سبحانی
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۱)مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۵)ڈاکٹر شیر علی ترین
فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثر و نفوذڈاکٹر سید متین احمد شاہ

مشرقی معاشرے اور عورت کی تقدیس وتکریم

محمد عمار خان ناصر

مشرقی معاشروں میں عورت کی تقدیس اگر ایک قدر کے طور پر مانی جاتی ہے تو خواتین کو عدم تحفظ کی اس عمومی صورت حال کا سامنا کیوں ہے جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں؟

اس سوال کا ایک جواب تو ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم سے ملتا ہے جس میں طوائف کلچر کے تناظر میں ثنا خوانان تقدیس مشرق سے کافی چبھتے ہوئے سوال پوچھے گئے ہیں۔ یہ تنقید ایک خاص پہلو سے معاشرت میں پائے جانے والے تضاد اور منافقت کی نشان دہی کرتی ہے۔ تقدیس کی جگہ آزادی کو قدر قرار دینے والا جدید لبرل بیانیہ اس سے آگے بڑھ کر اس مفروضے پر ہی سوال اٹھا دیتا ہے کہ مشرقی معاشرت واقعتاً‌ عورت کو تکریم دیتی ہے۔ اس بیانیے کی رو سے مشرقی معاشرت اصلا عورت پر جبر اور استحصال کی عکاس ہے جس کو جواز دینے کے لیے عزت اور تکریم کے تصورات کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ تکریم کا اصل معیار انفرادی خود مختاری اور آزادی ہے جس کی عملی صورت مغربی معاشرت میں ہم دیکھتے ہیں۔ گویا اس نقطہ نظر کے مطابق یہ سوال کسی نئی وضاحت کا متقاضی ہی نہیں کہ عورت کو آج عدم تحفظ کی صورت حال سے کیوں واسطہ ہے۔ عورت کا جو مقام مشرقی معاشرت میں مانا گیا ہے، یہ اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے اور تہذیبی قدروں میں ایک پیراڈائم شفٹ کو قبول کیے بغیر اس صورت حال سے نہیں نکلا جا سکتا۔

سوال کا دوسرا جواب اس نقطہ نظر میں سامنے آتا ہے جو اس صورت حال کی بنیادی ذمہ داری صنفی اظہارات کو فروغ دینے اور اس بے حجابی کو آزادی کا ایک پیمانہ قرار دینے والے جدید تصور معاشرت پر عائد کرتا ہے۔ اس موقف کی رو سے عورت کی تکریم حیا اور ستر وحجاب کے تصورات کے ساتھ وابستہ ہے۔ جدید معاشرت ان قدروں کی پامالی کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے نوجوان نسل کو گمراہ کر رہی ہے جس کی بدولت عورت کو تلذذ اور جنسی لطف اندوزی کی نظر سے دیکھنے کی نفسیات غالب ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال اسی کا براہ راست نتیجہ ہے۔

کیا ان دونوں جوابات میں سے کوئی ایک کلی طور پر درست اور دوسرا کلی طور پر غلط ہے؟ یا دونوں میں جزوی صداقتیں موجود ہیں جن کو تسلیم کرنے سے صورت حال کی بہتر تفہیم سامنے لائی جا سکتی ہے؟

اہل دانش کی کافی بڑی تعداد کا رجحان اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ روایتی مشرقی معاشرت میں عورت کی تکریم ایک قدر کے طور پر موجود ہوتے ہوئے عورت کی سماجی آزادی اور اختیار کے جو حدود طے کیے گئے ہیں، وہ متوازن نہیں ہیں اور جبر اور استحصال کی بہت سی صورتوں کو متضمن ہیں۔ ان اہل دانش کے تجزیے کی رو سے، دور جدید کی متعارف کردہ سماجی تبدیلیوں سے عورتوں کے لیے سماجی کردار کے مواقع اور آزادیاں بڑھی ہیں اور روایتی طور پر خواتین کا میل جول اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہونے کا رواج متاثر ہوا ہے جسے ہماری مجموعی پدرسرانہ نفسیات قبول نہیں کر رہی۔ یوں گھر کے ماحول سے باہر متحرک ایسی خواتین کے لیے جنھیں عہدے یا منصب وغیرہ کا تحفظ حاصل نہ ہو، تکریم کا زاویہ نظر مفقود ہے جس کا نتیجہ عمومی عدم تحفظ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

یہ موجودہ صورت حال کے تجزیے کے تین بنیادی زاویے ہیں اور تینوں کا استدلال کافی حد تک واضح ہے۔ ان تینوں تجزیوں میں ایک خاص طرز معاشرت کی وکالت بھی موجود ہے۔ چنانچہ پہلے نقطہ نظر کے مطابق خواتین کو اپنے اسی دائرہ کار تک محدود رہنا چاہیے جو روایتی معاشرت میں قرار دیا گیا ہے اور جس کو مذہبی تشریحات کی تائید بھی حاصل ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کی مجوزہ معاشرت وہی ہے جو مغربی انفرادیت پسندی کے معیارات پر پوری اترتی ہو۔ اور تیسرے نقطہ نظر میں مشرقی معاشروں کے لیے متوازن طرز معاشرت وہ ہے جس میں تکریم وتقدیس اور خاندانی تحفظ کی روایتی قدروں کے ساتھ ساتھ خواتین کے متحرک سماجی کردار کو بھی پوری اہمیت دی جائے اور گھر سے باہر کے ماحول میں بھی ان کے لیے تکریم واحترام کے رویے اور مکمل تحفظ کو نئی معاشرتی تشکیل کا حصہ بنایا جائے۔

یہ تینوں زاویے، ایک بڑے فکری اور تہذیبی اختلاف کے مظاہر ہیں جن کا تصفیہ یا محاکمہ یہاں مقصود نہیں۔ تاہم ہمارے نقطہ نظر سے ایک خاص پہلو پر جو موجودہ حالات میں بہت بنیادی اور اہم پہلو ہے، ان تینوں کے مابین مفید اور تعمیری مکالمے کی گنجائش بلکہ ضرورت موجود ہے۔ یہ پہلو خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال ہے جس کی اہمیت یا نزاکت سے کوئی بھی فریق انکار نہیں کر سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر ایسے معاشرے کی تشکیل ایک مسلمہ مقصد ہے جس میں خواتین محفوظ ہوں تو کیا مذکورہ مختلف الخیال طبقے اس کی ناگزیر ضروريات اور درکار اقدامات پر باہم اتفاق کر سکتے ہیں؟

ہمارے نزدیک اس بحث میں دونوں فریق کچھ اہم پہلووں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مثلاً‌ لبرل نقطہ نظر اس چیز کو عموماً‌ پیش نظر نہیں رکھتا کہ عورت کو عدم تحفظ کی صورت حال کا سامنا اپنی خلقی اور حیاتیاتی خصوصیات کی وجہ سے ہوتا ہے اور آج سے نہیں، ہمیشہ سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں، عورت کا غیر محفوظ یا مردانہ جارحیت کا ہدف ہونا ایک فطری صورت حال ہے، انسانی معاشروں کی پیدا کردہ نہیں۔ انسانی معاشروں کی تگ ودو تو اس state of nature کو اپنی نوعی وسماجی ضروریات کے تحت بدلنے اور اخلاقی ضابطوں کے تحت لانے کی رہی ہے۔ جدیدیت کے علمی ڈسکورسز کے زیر اثر آج ہمارے لیے ماقبل جدید معاشروں پر مختلف قسم کے تاریخی اور اخلاقی حکم لگانا آسان ہے، لیکن اس سے یہ حقیقت بدل نہیں جاتی کہ تمدنی ارتقا کی مختلف سطحوں پر تمام انسانی معاشرے عورت کے، جارحیت یا objectification کا ہدف بننے کے امکانات کو محدود کرنے اور اسے کسی نہ کسی انداز میں تحفظ دینے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ آج انفرادی آزادی کے مواقع پیدا ہو جانے کے تناظر میں عورت کو فراہم کیے گئے یہ تحفظات ہمیں جبر دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ہم یہ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ "جبر" ایک دوسری قسم کے عدم تحفظ اور استحصال کے سدباب کے لیے روایتی معاشروں نے اجتماعی ضرورتوں کے تحت اختیار کیا تھا۔

روایتی معاشرت میں ایسی تبدیلیاں جن سے انفرادی آزادیوں کی بہت زیادہ گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، بنیادی طور پر مغربی معاشروں کا تاریخی تجربہ ہے جس کے ساتھ وابستہ نتائج اور مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے سماجی میکنزم بنانے کا موقع بھی اہل مغرب کو میسر رہا ہے۔ ان میں اہم ترین میکنزم جدید ریاست کا نظام ہے جس کی نئے خطوط پر تشکیل اس دور کے بالکل آغاز میں شروع ہو چکی تھی جسے اب ہم جدید دور کہتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایتی معاشرت کے سٹرکچرز ٹوٹنے سے پہلے مغربی معاشرے ریاست کی صورت میں تنظیم معاشرت کا ایسا میکنزم وجود میں لا چکے تھے جس نے انارکی یا لاقانونیت کے لیے جگہ خالی نہیں چھوڑی، بلکہ نئے اسٹرکچرز کو کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مشرقی معاشروں کی صورت حال اس سے مختلف رہی ہے۔ یہاں ماڈرنائزیشن کا عمل اصلاً‌ مغربی اثرات کے تحت شروع ہوا ہے اور اپنی ساخت میں مقامی معاشرت کے لیے اجنبی ہونے کی وجہ سے ابھی تک کسی ٹھکانے پر نہیں پہنچا۔ اس پر مزید پیچیدگی ان اقداری تبدیلیوں نے پیدا کر دی ہے جن کو ہم جدیدیت کا عمومی عنوان دیتے ہیں۔ خواتین کو ملنے والی آزادیوں اور مواقع کے ساتھ ایک طرف تہذیبی اضطراب اور دوسری طرف عدم تحفظ کے مسئلے کا پیدا ہو جانا اسی صورت حال کا ایک جزو ہے۔ یعنی مجموعی معاشرتی نفسیات اس تبدیلی کے ساتھ معاملہ کرنے کا کوئی مسلمہ اخلاقی فریم ورک نہیں رکھتی اور ریاست، اپنی ادھوری اور ناتمام تشکیل کی وجہ سے اس پراسیس کو مطلوبہ رخ دینے اور ضروری عملی اقدامات کی صلاحیت سے محروم ہے۔

روایتی مذہبی موقف اس بحث میں اس بات کی اہمیت کو عموماً‌ نظرانداز کر دیتا ہے کہ مذہبی اخلاقیات اور قانون میں مرد وعورت کے حقوق وفرائض کے حوالے سے ’’عدل “ کا جو فریم ورک دیا گیا ہے، اس کا تصور کی سطح پر موجود ہونا کافی نہیں۔ اس کے رو بہ عمل ہونے کے لیے خاص معاشرتی حالات اور شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان میں سے اہم ترین شرط یہ ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق اور مسائل پر بات کرنے کی آزادی اور داد رسی کے ذرائع تک رسائی حاصل ہو۔ قرآن اور حدیث اور آثار صحابہ سے مثالیں اور شواہد بیان کرتے ہوئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس ماحول میں اس بنیادی شرط کے پائے جانے کی وجہ سے ہی یہ ممکن تھا کہ شریعت کا بیان کردہ ’’عدل “ عملاً‌ تحقق پذیر ہو۔ مثلاً‌

پس خواتین کےساتھ عدل وانصاف کے حوالے سے اسلامی معاشرت کے امتیاز کو واضح کرنے کے لیے صرف اصولی تعلیمات کا حوالہ دینا کافی نہیں، اس کو یقینی بنانا زیادہ ضروری ہے کہ ان معاشرتی أصول واقدار کے مطابق خواتین کو عملاً‌ بھی سماجی آزادیاں اور حقوق دستیاب ہوں۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(400) لَنُبَوِّئَنَّہُمْ کا ترجمہ

درج ذیل دو آیتوں کے ترجموں میں کچھ قابل توجہ امور ہیں۔

وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا فِی اللَّہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ۔ الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔ (النحل:41-42)

پہلا ترجمہ:

”اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی بعد اس کے کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، ہم ان کو دنیا میں بھی اچھی طرح متمکن کردیں گے اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش وہ جانیں۔ (یہ ان مہاجرین کے لیے ہے) جنھوں نے استقامت دکھائی اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

قابل توجہ امور:

پہلی بات: بوّء کا معنی ٹھکانہ دینا اور بسانا ہوتا ہے نہ کہ متمکن کرنا اور اقتدار دینا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے اور سب جگہ ٹھکانے اور بسیرے کے معنی میں ہی ہے۔ اور یہاں اسی مفہوم کا محل بھی ہے،کہ جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں اپنا گھر بار چھوڑا، اللہ تعالی انھیں بہترین ٹھکانہ نصیب فرمائے گا۔

دوسری بات: (یہ ان مہاجرین کے لیے ہے) قوسین میں اس اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا کافی ہے کہ ”وہ جنھوں نے استقامت دکھائی۔“

تیسری بات: لو کا ترجمہ کاش کرنا اللہ کی شان کے پہلو سے مناسب نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا: اگر کہیں وہ جانتے ہوتے۔ (یعنی منکرین)

دوسرا ترجمہ:

”جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)“۔ (سید مودودی)

قابل توجہ امور:

پہلی بات: لو کانوا یعلمون کا ترجمہ ”کاش جان لیں“ مناسب نہیں ہے، بہتر ترجمہ یہ ہے: ”اگر کہیں وہ جانتے ہوتے“۔

دوسری بات: لو کانوا یعلمون کا ترجمہ کرنے کے بعد فل اسٹاپ (ختمہ) لگنا چاہیے۔ کیوں کہ الذین صبروا  یعلمون کا فاعل نہیں ہے، اس کا فاعل تو وہ منکرین ہیں جن کا ذکر گزشتہ آیتوں میں بھی ہے۔ صبر و توکل والے تو بخوبی جانتے ہی ہیں بلکہ ایمان رکھتے ہیں، ان کے بارے میں یہ کیوں کہا جائے گا کہ ”کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)“۔

تیسری بات: الذین صبروا کا ترجمہ وہ مظلوم جنھوں نے صبر کیا موزوں نہیں ہے۔ بہتر ترجمہ ہوگا: وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا۔

چوتھی بات: وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ کا ترجمہ ہوگا: اور جو اپنے رب کے اوپر بھروسہ رکھتے ہیں۔

پانچویں بات: (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے) قوسین میں اسے ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جملہ اس کے بغیر مکمل ہے۔

تیسرا ترجمہ:

”جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

 ظُلِمُوا کا مطلب ظلم کا نشانہ بننا ہے نہ کہ ظلم کو برداشت کرنا۔

درج ذیل ترجمے میں مذکورہ بالا خامیاں نہیں ہیں:

”اور جنھوں نے گھر چھوڑا اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ظلم اٹھایا، البتہ ان کو ہم ٹھکانہ دیں گے دنیا میں اچھا اور ثواب آخرت کا تو بہت بڑا ہے، اگر ان کو معلوم ہوتا۔ جو ثابت رہے اور اپنے رب پر بھروسہ کیا“۔ (شاہ عبدالقادر)

(401) إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں الھین کے ساتھ اثنین بھی آیا ہے، اس لیے ترجمہ دو معبود کرنے کے بجائے دو دو معبود کرنا چاہیے۔

وَقَالَ اللَّہُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ۔(النحل: 51)

”اور اللہ نے فرمادیا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

إِنَّمَا هُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ کا ترجمہ عام طور سے کیا گیا ہے، ”معبود وہی ایک ہے“۔ ھو ضمیر کا مرجع اللہ کو مانا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں ھو ضمیر شان ہے، یعنی: معبود ایک ہی ہے۔

 اس طرح آیت کا ترجمہ ہوگا:

”اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود ایک ہی ہے۔“

(402)  کَمَنْ لَا یَخْلُقُ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں کَمَنْ لَا یَخْلُقُ کا مفعول بہ مذکور نہیں ہے۔ ترجمے میں اس کا لحاظ کرنا چاہیے۔

أَفَمَنْ یَخْلُقُ کَمَنْ لَا یَخْلُقُ۔ (النحل: 17)

”پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؟“۔ (سید مودودی)

یہاں ”کچھ بھی“ زائد ہے۔

”تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے۔ کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں ”اتنی مخلوقات“ اور ”کچھ بھی“ زائد ہے۔

”تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا؟“۔ (محمد جونا گڑھی)

یہاں ”کرسکتا“ کی ضرورت نہیں ہے۔

”تو کیا جو بنائے وہ ایسا ہوجائے گا جو نہ بنائے“۔ (احمد رضا خان)

یہ مناسب ترجمہ ہے، اس میں کوئی زائد از لفظ اضافہ نہیں ہے۔ دراصل یہاں موازنہ ہے اس میں جو خالق ہے اور اس میں جو خالق نہیں ہے۔

(403) مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ کا ترجمہ

اسرار کا مطلب چھپانا اور اعلان کا مطلب ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ یہی اس کا صحیح ترجمہ ہے۔ کھلا اور چھپا یا ظاہر وباطن ان الفاظ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اسرار کا لفظ بتاتا ہے آدمی نے کسی خاص نیت سے کسی بات کو پوشیدہ رکھا ہے۔ کسی چیز کے باطن یا پوشیدہ ہونے کے لیے اسرار ضروری نہیں ہے۔ انسان کے ارادے کے بغیر اس کی بہت سی چیزیں دوسروں سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔ یہاں انسانوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ ا ن چیزوں کو بھی جانتا ہے جن کو وہ چھپاکر سمجھتے ہیں کہ کوئی جان نہیں سکے گا۔

(۱) وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (النحل: 19)

”اور اللہ ہی تمہارے باطن و ظاہر دونوں سے باخبر ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”حالانکہ وہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی“۔ (سید مودودی)

”اور جو کچھ تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو سب سے خدا واقف ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۲)  وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (النمل: 25)

”اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو“۔ (سید مودودی)

(۳)  وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (التغابن: 4)

”اور جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو کھلم کھلا کرتے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری) چھپاکر کرنا ہی نہیں بلکہ کسی بھی چیز کو چھپانا مراد ہے۔

”اور ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جن کا تم اظہار کرتے ہو یا جنہیں تم چھپاتے ہو“۔ (ذیشان جوادی) ترتیب الٹ گئی ہے۔ چھپانے کا ذکر پہلے ہے۔

”جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۴) أَوَلَا یَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (البقرۃ: 77)

”کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگی اور ظاہرداری سب کو جانتا ہے؟“۔ (محمد جوناگڑھی) پوشیدگی اور ظاہر داری سے دونوں لفظوں کا مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے۔ پوشیدگی کا مطلب چھپانا نہیں بلکہ چھپنا ہوتا ہے اور ظاہر داری کا مطلب بھی ظاہر کرنا نہیں ہوتا ہے۔

”کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، خدا کو (سب) معلوم ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۵) أَلَا حِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (ہود: 5)

”سن رکھو جس وقت یہ کپڑوں میں لپٹ کر پڑتے ہیں (تب بھی) وہ ان کی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”تو آگاہ رہیں کہ یہ جب اپنے کپڑوں کو خوب لپیٹ لیتے ہیں تو اس وقت بھی وہ ان کے ظاہر و باطن دونوں کو جانتا ہے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں بھی ترتیب الٹ گئی ہے، اسرار پہلے اور اعلان بعد میں ہے۔)

”خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی“۔ (سید مودودی)

”آگاہ ہو یہ (اس وقت بھی اس کی نظر میں ہوتے ہیں) جب اپنے اوپر کپڑے لپیٹتے ہیں۔ وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری ترجمہ درست ہے۔ البتہ اس میں قوسین والے جملے کی ضرورت نہیں ہے۔ کپڑے لپیٹتے ہیں کے بعد فل اسٹاپ (ختمہ) نہیں رہے گا۔ ترجمہ اس طرح ہوگا:

 ”آگاہ ہو یہ جب اپنے اوپر کپڑے لپیٹتے ہیں وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔“

(۶) لَا جَرَمَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (النحل: 23)

”اللہ یقینا اِن کے سب کرتوت جانتا ہے چھپے ہوئے بھی اور کھلے ہوئے بھی“۔ (سید مودودی)

”فی الحقیقت اللہ جانتا ہے جو چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۷) إِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (یس: 76)

”اِن کی چھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”ہم ان کی پوشیدہ اور علانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمیں سب معلوم ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(404)  کفیلا کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں کفیلا کے عام طور سے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک گواہ اور دوسرا ضامن۔

وَأَوْفُوا بِعَہْدِ اللَّہِ إِذَا عَاہَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّہَ عَلَیْکُمْ کَفِیلًا إِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ۔ (النحل: 91)

”اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے“۔ (سید مودودی)

”اور تم اللہ کو گواہ بھی بناچکے ہو“۔ (اشرف علی تھانوی)

”درآنحالیکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ٹھہراچکے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کرکے اللہ کو اپنا ضامن“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو“۔ (احمد رضا خان)

”کہ تم خدا کو اپنا ضامن مقرر کرچکے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”حالانکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)

دونوں ہی ترجمے کچھ اشکال رکھتے ہیں۔ کفیل کا ترجمہ گواہ تو لغت کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے۔ اور جہاں تک ضامن کی بات ہے تو انسان اللہ کے نام سے جب عہد کرتا ہے یا قسم کھاتا ہے تو وہ اللہ کو ضامن نہیں بناتا ہے۔ اگر وہ عہد پورا نہ کرے تو اللہ کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے،  وہ خود اپنی عہد شکنی کا پورے طور سے ذمے دار ہوتا ہے۔ کفیل بمعنی ضامن کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے عہد پورا نہ کرنے کی ذمے داری ضامن پر ہوگی، اور ظاہر ہے یہ مراد نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں اس لفظ کا ترجمہ سرپرست اور نگہبان ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ک ف ل کے دیگر کچھ مشتقات آئے ہیں، ان مقامات پر سرپرستی کا مفہوم ہے۔ جیسے:

وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَہُمْ أَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ۔ (آل عمران: 44)

 اور: وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا۔ (آل عمران: 37)

 نیز: فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی مَنْ یَکْفُلُہُ۔ (طہ: 40)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”جب کہ تم اللہ کو اپنا سر پرست و نگہبان بنا چکے ہو۔“

غالبا شاہ ولی اللہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں، ان کا ترجمہ ہے:

”وہر آئینہ ساختہ اید خدارا بر خویش نگاہ بانندہ“۔

امام طبری کی رائے یہی ہے۔

یَقُولُ: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّہَ بِالْوَفَاءِ بِمَا تَعَاقَدْتُمْ عَلَیْہِ عَلَی أَنْفُسِکُمْ رَاعِیًا یَرْعَی الْمُوفِی مِنْکُمْ۔ (تفسیر طبری)

مطلب یہ ہوا کہ جب اللہ سے تم نے عہد کیا ہے اور اسی کے حضور پختہ قسمیں کھائی ہیں اور تم یہ بھی مانتے ہو کہ وہی تمہارا نگہبان و سرپرست ہے، تو پھر تمہارے دل میں عہد شکنی اور قسم توڑنے کا خیال نہیں آنا چاہیے۔ تمھیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تمہارا سرپرست و نگہبان ہے وہ تمہارے عہد وپیمان کی تکمیل میں تمہاری مدد کرے گا۔

(جاری)


مدرسہ اور یونیورسٹی کا تاریخی تعلق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۵ مارچ کو جامعۃ الرشید کراچی کے سالانہ کانووکیشن اور الغزالی یونیورسٹی کی تعارفی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلی نشست کی صدارت کا شرف ملا جبکہ تیسری نشست میں کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب، تمام معززین مہمانانِ خصوصی، شرکاء محفل اور وہ طلباء کرام جو آج مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کر کے اسناد لے کر جا رہے ہیں! جامعۃ الرشید کے سالانہ کانووکیشن میں حاضری اور الغزالی یونیورسٹی کی تعارفی تقریب میں شرکت میرے لیے سعادت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔

جامعۃ الرشید کے ساتھ میری بہت سی نسبتیں ہیں، ان میں سے ایک نسبت کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نور اللہ مرقدہٗ اور میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز دورہ حدیث کے ساتھی تھے، انہوں نے اکٹھے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے دورہ حدیث پڑھا تھا۔ اس نسبت کے اظہار کے بعد عرض کرنا چاہوں گا کہ ’’الغزالی یونیورسٹی‘‘ میری زندگی بھر کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ میں اس وقت جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کے سنگم پر کھڑا ہوں تو تھوڑی سی تاریخ بیان کرنا چاہوں گا اور مدرسہ اور کالج کے تعلقات کے دو چار مراحل ذکر کرنا چاہوں گا۔ مدرسہ اور کالج کی لڑائی کا تو ہم ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے تعلقات کی تاریخ پر بھی ہماری نظر رہنی چاہیے۔

(۱) دیوبند میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے مدرسہ عربیہ بنایا تھا اور سر سید احمد خان مرحوم نے علی گڑھ میں کالج بنایا تھا۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ علی گڑھ کالج میں دینیات کے شعبے کے سربراہ حضرت مولانا عبد اللہ انصاریؒ تھے جو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے داماد تھے اور سر سید احمد خان مرحوم کی طلب پر وہاں بھیجے گئے تھے۔ یہ مدرسہ اور یونیورسٹی کا پہلا تعلق تھا۔

(۲) پھر ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ تاریخ کا طالب علم ہوں، میرا یہ سوال ہے کہ ہماری تین بڑی تحریکات (۱) تحریکِ خلافت (۲) تحریکِ آزادی (۳) تحریکِ پاکستان جن میں دونوں اداروں کے تربیت یافتہ حضرات نے مشترک کردار ادا کیا تھا۔ تحریکِ خلافت میں بھی علماء اور سیاستدان اکٹھے تھے، تحریکِ آزادی میں بھی اور تحریکِ پاکستان میں بھی۔ ان میں یہ ملاپ کہاں سے آیا تھا؟ دونوں کو لیڈرشپ کے میدان میں کس نے اکٹھا کیا تھا؟ اس کا نقطہ آغاز شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ ہیں جو دونوں کا خلا پر کرنے کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ تشکیل پائی تھی جو آج بھی ’’جامعہ ملیہ‘‘ کے نام سے دہلی میں کام کر رہی ہے۔ تحریکِ خلافت، تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان میں دونوں طبقوں کی مشترک قیادت اس سوچ کا نتیجہ ہے جو نیشنل مسلم یونیورسٹی نے دی تھی۔

(۳) تیسرے نمبر پر یہ ذکر کروں گا کہ پاکستان بننے کے بعد ایک مرحلہ بہاولپور کی اسلامی یونیورسٹی ہے جو پہلے جامعہ عباسیہ تھا، اسے یونیورسٹی کا ٹائٹل دے کر ہم نے ملاپ کا مرکز بنایا تھا۔ علامہ شمس الحق افغانیؒ، علامہ سعید احمد کاظمیؒ، مولانا عبد الغفار حسنؒ اور دیگر اکابر نے آج کی جدید تعلیم یافتہ قیادت کے ساتھ مل کر ایک مشترک ادارہ بنایا تھا جو ریاستی سطح پر تھا۔ اگرچہ وہ اپنے ہدف پر قائم نہیں رہ سکا، یہ بات اپنی جگہ پر ہے، لیکن بہرحال یہ مدرسہ اور کالج کے تعلق کا تیسرا مرحلہ ہے۔

درمیان میں ایک کوشش ہم نے بھی کی تھی، جسے ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ ۱۹۹۲ء میں گوجرانوالہ میں ہم نے اٹھائیس ایکڑ جگہ خرید کر عمارت تعمیر کر کے ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے ایک ادارے کا آغاز کیا تھا جس کا پہلا نام ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ رکھا گیا تھا۔ ہمارے دونوں بزرگ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ اس کے سرپرستِ اعلیٰ، اس کے ٹرسٹی اور اس کے نیٹ ورک کا حصہ تھے۔ ان کی سرپرستی میں ہم نے وہ ادارہ بنایا تھا جو کہ اب جامعۃ الرشید کے ایک شعبے کے طور پر ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔

ان مراحل کے بعد آج جب میں جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کو دیکھ رہا ہوں تو ماضی کی ان ناکامیوں کو محمود غزنویؒ کے پہلے سولہ حملے شمار کرتے ہوئے جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کو سترہواں حملہ سمجھ رہا ہوں جو کامیابی کی طرف گیا ہے۔ اور میں حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم اور ان کے تمام معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے ہمارا وہ خواب شرمندہ تعبیر کیا جو ہم نے ۱۹۹۲ء میں گوجرانوالہ میں بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے۔ میں آج اس خواب کی تعبیر صرف دیکھ نہیں رہا بلکہ اس خواب کی تعبیر کے عملی مرحلے میں شریک بھی ہوں، اللہ تعالیٰ برکتیں، رحمتیں، کامیابیاں، ثمرات اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

ایک اور بات کہہ کر بات سمیٹوں گا۔ تاریخ اور سماجیات کا طالب علم ہوں۔ میں خود کو اس وقت سو سال پہلے کے ماحول میں دیکھ رہا ہوں کہ ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ بنی تھی جس نے ’’جامعہ ملیہ‘‘ کی شکل اختیار کی۔ اس نے متحدہ ہندوستان کو تحریکِ خلافت کی قیادت فراہم کی تھی، تحریکِ پاکستان اور تحریکِ آزادی کی مشترک قیادت فراہم کی۔ آج میں پھر سے تاریخ کو خود کو دہراتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دعا گو ہوں کہ جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی مستقبل میں ہماری ایسی تحریکات کی نرسری بنے اور میں اس حوالے سے مستقبل کو روشن دیکھ رہا ہوں کہ ہمیں مشترک دیانت دار قیادت ملے گی جس کی راہنمائی میں پاکستان بحران سے نکلے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور صرف خود نہیں نکلے گا بلکہ عالمِ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کو بحران کی دلدل سے نکالنے میں ہراول دستہ ثابت ہو گا۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔


مولانا محمد یوسف رشیدیؒ اور مولانا قاری جمیل الرحمان اختر ؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا محمد یوسف رشیدی کی جدائی کا غم ابھی تازہ تھا کہ مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر بھی داغِ مفارقت دے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دونوں دینی و تعلیمی جدوجہد کے سرگرم راہنما اور میرے انتہائی معتمد ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی گہرے دوست تھے جو یکے بعد دیگرے ہم سے رخصت ہو گئے ہیں۔

مولانا محمد یوسف رشیدی کے والد گرامی امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ کے تبلیغی رفقاء میں سے تھے جو قیامِ پاکستان کے وقت میوات سے ہجرت کر کے تحصیل ڈسکہ کے قصبہ میترانوالی میں آ بسے۔ ان پر تبلیغی جماعت اور حضرت امیر التبلیغؒ کی صحبت کا اثر نمایاں تھا اور انہوں نے ایک مسجد اور مدرسہ کی بنیاد رکھی جو آج مدرسہ تعلیم القرآن کے نام سے پورے علاقہ کی تبلیغی، دینی اور تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ان کے فرزند مولانا محمد یوسف رشیدی نے جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں تعلیم پائی جبکہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے ساتھ ان کا عمر بھر قریبی تعلق رہا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے گہرے عقیدت مندوں میں سے تھے، اور اس کے ساتھ حضرت مولانا محمد طارق جمیل دامت برکاتہم اور راقم الحروف کے ساتھ بھی قلبی عقیدت و تعلق رکھتے تھے۔

مولانا محمد یوسف رشیدی نے علاقہ بھر میں مسلکی، تعلیمی، تبلیغی اور تحریکی محاذوں پر سرگرم کردار ادا کیا، مختلف دیہات میں دینی مدارس کا قیام اور قرآن کریم کی تعلیم کا فروغ ان کا سب سے بڑا مشن تھا جس کے لیے وہ آخر عمر میں بھی شدید علالت کے باوجود متحرک رہے۔

مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے والد گرامی مفسر قرآن حضرت مولانا محمد اسحاق قادریؒ ہمارے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کے دورہ حدیث کے ساتھی تھے اور انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے اکٹھے شرفِ تلمذ حاصل کیا تھا۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خاص تربیت یافتہ علماء کرام میں سے تھے۔ انہوں نے باغبانپورہ لاہور میں مسجد امن اور اس کے ساتھ مسجد حنفیہ قادریہ کی بنیاد رکھی جس میں زندگی بھر دینی، علمی اور تحریکی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ایک عرصہ جمعیۃ علماء اسلام لاہور کے امیر رہے اور حضرت لاہوریؒ کے جانشین حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے رفیق کار کے طور پر شیرانوالہ میں سالانہ دورۂ تفسیرِ قرآن کریم پڑھاتے رہے، ان کا ترجمہ و حواشی شائع ہو چکے ہیں۔

مولانا قاری جمیل الرحمٰن اخترؒ ان کے فرزند و جانشین تھے اور ان کے قائم کردہ دینی اداروں کی نگرانی کرتے آ رہے تھے۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں ان کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ باضابطہ تعلق تھا اور دونوں کے ذمہ دار حضرات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

مجھے جماعتی زندگی اور نصف صدی کے تحریکی ماحول میں جن بزرگوں اور دوستوں کا مسلسل اور بے لچک اعتماد حاصل رہا ہے ان میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا قاری سعید الرحمانؒ اور مولانا فداء الرحمان درخواستیؒ کے ساتھ مولانا قاری جمیل الرحمان اخترؒ کا نام بھی سرفہرست تھا۔ انہوں نے ہر موقع پر ساتھ دیا اور مشکل مواقع پر اعتماد اور حوصلہ سے نوازا، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور ان کے خاندان و رفقاء کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔



ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۴)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

فکر اسلامی کی ازسر نو تشریح کی ضرورت

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم مولانا مودودیؒ کے نام اپنے ایک خط میں اپنی تحریر ”معاصر اسلامی فکر“ کے حوالہ سے بدلتے ہوئے حالات میں فکر اسلامی سے متعلق مختلف امور ومسائل کی از سر نو تعبیر وتشریح پر بھی زور دیتے ہیں:

”ڈیڑھ دو سال پہلے آپ کی خدمت میں ”معاصراسلامی فکرکے چند توجہ طلب پہلو“ کے عنوان سے ایک مقالہ بھیجا تھا، جس کے ذریعہ آپ کے سامنے یہ احساس پیش کرنا مقصود تھا کہ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کی تشریح وتعبیر کے ذیل میں بہت سے امور پر تحریک کا موقف ازسرنو تعیین وتشریح کا طالب ہے، جب تک یہ کام نہیں انجام پاتا جدید انسان ہماری قیادت پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ کم سے کم اسے یہ اطمینان تو ہو کہ ہم نے ان امور کے سلسلہ میں غوروفکر کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور رائے بدلنے کی پوری گنجائش ہے! صورت حال یہ ہے کہ ہماری پچھلی بہت سی باتوں پر اب اپنوں کو بھروسہ نہیں رہا۔ خاص طور پر جن لوگوں کو علم حاصل کرنے اور خود سوچنے سمجھنے کا موقع ملا وہ مسائل کے اس پورے باب میں دوسری رائیں رکھتے ہیں جس باب کا ذکر میں نے مقالہ میں کیا ہے۔ دوسروں کو مطمئن کرنے یا اپنی طرف بلانے میں جب ان مسائل سے متعلق وہ مخصوص رائیں پیش نظر رہتی ہیں جو تحریکی حلقوں کی طرف منسوب ہوچکی ہیں تو خود یہ بات تحریک کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ اس بات کی اہمیت بڑھتی چلی جائے گی اور اس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ جب سے مغربی ممالک میں اسلامی تحریک کا کام بڑھا ہے اس طرح کے مسائل کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اور اب ضرورت اوپر اوپر سے صرف بعض عملی مسائل پر اظہار رائے میں لچک اختیار کرنے کی نہیں بلکہ اصولی طور پر ان مسائل کے حل کے طریقے، انفرادی آزادی کے حدود، اجتہاد واختلاف کی گنجائش اور قرآن کریم اور سنت ثابتہ کے متعلقہ نصوص کی تعبیرنو کی ہے“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب)

”معاصر اسلامی فکر“ پر مولانا مودودی کے خدشات:

مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ نے ڈاکٹر صدیقی کی تحریر ”معاصر اسلامی فکر“ سے متعلق الگ الگ تین خطوط میں اپنے کچھ احساسات اور کچھ خدشات کو بیان کیا ہے، ذیل میں ان خطوط سے متعلقہ اقتباسات درج کیے جارہے ہیں:

پہلا مکتوب (6ستمبر 1970):

”اس وقت ہم خصوصاً یہاں جن نازک حالات سے گزر رہے ہیں ان میں پہلے ہی ہمارے راستے میں بے شمار کانٹے ہیں، کجا کہ آپ چند اور کانٹوں کی نشاندہی کرکے یہاں نئی بحثیں چھڑوادیں۔ ہندوستان کی حد تک تو یہ صرف علمی بحثیں ہوں گی، لیکن ہمارے لیے یہ عملی پیچیدگیاں بن جائیں گی۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن سے صرف اس وقت تعرض کرنا چاہیے جب کسی جگہ عملاً اسلامی نظام قائم ہوجائے اور ہم اس پوزیشن میں ہوں کہ ان مسائل پر جو رائے بھی قائم کریں اس کو نافذ کرنے کی طاقت ہمیں حاصل ہو۔ اس سے پہلے ان پر تفصیلی بحثیں کرنا اپنی راہ کی مشکلات کو بڑھانے کا موجب بن جائے گا۔ اس لیے بعض بحثوں سے ہم قصداً احتراز کررہے ہیں“۔

دوسرا مکتوب (10نومبر1970):

”آپ کا مقالہ میں نے دیکھ لیا ہے، اس میں بہت سے ایسے مسائل چھیڑدیے گئے ہیں جنہیں اس وقت پاکستان میں چھیڑدینا ہمارے لیے مزید مشکلات کا موجب ہوجائے گا۔ اس لیے یہاں تو اس کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو ہندوستان میں اسے شائع کردیں، کیونکہ وہاں اس کی حیثیت محض علمی بحث کی سی ہوگی“۔

تیسرا مکتوب (26نومبر1970):

”میرا خیال یہ ہے کہ جن مسائل پر آپ نے بحث کی ضرورت ظاہر کی ہے ان کو مسائل کی شکل میں چھیڑنے اور شائع کرنے کے بجائے ان میں سے کسی ایک یا چند مسائل پر خود تحقیقی بحث کریں۔ اور دوسرے ان رفقاء کو جو اس قسم کے تحقیقی کام کرنے کے اہل ہیں دوسرے مسائل کی طرف توجہ دلائیں، یہ ایک مثبت طریقہ ہوگا جس سے زیادہ بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے“۔

معاصر اسلامی فکر اور مولانا علی میاں ندویؒ کا اعتراف

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ”معاصر اسلامی فکر“ کا مسودہ اشاعت سے قبل وقت کے بڑے اہل فکر ونظر کی خدمت میں ارسال کیا تھا، یہ مسودہ مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی کی خدمت میں بھی ارسال کیا گیا تھا، مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے مسودہ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صدیقی کے نام اپنے دو خطوط میں اس مقالہ کا تذکرہ کیا ہے، ان خطوط کے ذریعہ نہ صرف مولانا ندوی مرحوم نے تائید نوٹ کرائی، بلکہ اس کام کی اہمیت کا کھل کر اعتراف بھی کیا، اور اس سلسلہ میں کچھ حد تک عملی رہنمائی بھی فرمائی، یہ دونوں مکتوب ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:

پہلا مکتوب (19اپریل 1970):

”مضمون فکرانگیز اور پرمغز ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس طریق فکر سے سو فیصدی اتفاق ہو۔ آپ نے جن مسائل کو اٹھایا ہے اور جن کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے انکار نہیں، لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ آپ قرآن مجید اور سیرت نبوی سے براہ راست ان کا حل طلب کریں اور ان کے قلب وجگر میں اترنے کی کوشش کریں، جہاں تک میرے سوچنے کے طریقے کا تعلق ہے میری عربی کتاب النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن اور الارکان الاربعۃ میں وہ ذہن بہت حد تک سامنے آگیا ہے، پھر بھی میں نے آپ کی تحریر سے استفادہ کیا اور اس کے بہت سے حصوں سے اتفاق ہے“۔

دوسرا مکتوب(17 مئی 1970):

”آپ کا مقالہ ”معاصر اسلامی فکر“ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا کہ یہ ایک پرمغز اور فکرانگیز رسالہ ہے۔ آپ نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کو نظرانداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشرہ میں اِس دور میں ملی ہے اور وہ زیادہ تر اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے حصہ میں آئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کون غور کرے یا وہ لوگ ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں اور جو اہل ہیں ان کو ترکی کے پچھلے دور کے علماء کی طرح اپنی دوسری مصروفیتوں سے فرصت نہیں۔ مجلس تحقیقات شرعیہ کا قیام اسی سلسلہ کی ایک ناچیز کوشش تھی مگر اس کو ابھی تک کوئی موزوں آدمی نہ ملا۔ ہمارے صاحب ثروت طبقہ کو نہ اس کی سمجھ ہے نہ توفیق کہ جو نوجوان فاضل اس کی اہلیت رکھتے ہیں اور قدیم وجدید پر ان کی ایک حد تک نظر ہے ان کو معاشی حیثیت سے بے فکر اور اس کام کے لیے فارغ کردیں۔ میں پہلے بھی اس کام کے لیے زیادہ موزوں نہ تھا اور اب تو نظر کی کمزوری نے بالکل ہی معذور کردیا ہے۔ اگر کبھی امنگ پیدا ہوتی ہے تو ”تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے“ کا مصرعہ پڑھ کر خاموش ہوجاتا ہوں۔ آپ ان سوالات میں سے ایک ایک کو لے کر خود ہی جواب دینے کی کوشش کریں اور اپنا فکرومطالعہ پوری احتیاط وتوازن کے ساتھ پیش کریں، تو شائد یہ بات دوسروں کے لیے تحریک بن جائے اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔ بہرحال میں نے اس تحریر سے استفادہ کیااور اب شکریہ کے ساتھ آپ کو واپس کررہا ہوں۔“ (حوالہ سابق، صفحہ 59)

معاصر اسلامی فکر، مولانا عبدالماجد دریابادی کا احساس:

مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ معاصر اسلامی فکر میں مذکور امور ومسائل سے متعلق اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:

”یہ سارے مسائل ہیں واقعی نازک اور جب تک خود مخاطبین کی ہی ذہنیت بدل نہ جائے پوری کامیابی کی توقع بھی نہیں“۔ (حوالہ سابق)

معاصر اسلامی فکر پر نظرثانی کا کام

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کا یہ مقالہ پہلی بار مجموعہ خطوط ”اسلام، معاشیات اور ادب“ میں ضمیمہ کے طورپر شائع ہوا۔ اس کے بعد ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمیں شائع ہوا، اور پھر ترجمان القرآن کے شکریہ کے ساتھ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ نے اس مقالہ کو ”عصر حاضر میں اسلامی فکر۔ چند توجہ طلب مسائل“ کے عنوان سے اپنے یہاں اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا کہ ”ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا شمار عالم اسلام کے نامور اصحاب علم اور ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے۔ زیرنظر تحریر میں انہوں نے نہایت بالغ نظری کے ساتھ ان مباحث کی نشاندہی کی ہے جو دین وشریعت کی تعبیر وتشریح اور امت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنجوں کے حوالے سے عالم اسلام کے علمی حلقوں میں زیربحث ہیں“۔ (جولائی 2002ء، صفحہ20)

2006ء میں مولانا امین عثمانی ندوی مرحوم، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی گزارش پرڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس مقالہ پر نظرثانی فرمائی، مولانا امین عثمانی کی خواہش تھی کہ مقالہ پر چونکہ ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران ڈاکٹر صدیقی نے دنیا بھر کے اسفار بھی کیے ہیں اور دنیا بھر کے مفکرین کے ساتھ تعامل بھی رہا ہے، چنانچہ ان کی روشنی میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس پر نظرثانی کردی جائے۔ چنانچہ ڈاکٹر صدیقی مرحوم نے اس مقالے میں حواشی کے تحت متعدد اہم اضافی نوٹس درج کرائے، اور متعدد جگہوں پر اپنی رائے میں تبدیلی بھی ظاہر کی ہے۔ اس طرح یہ مقالہ پہلی بار کتابی صورت میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے شائع ہوا۔ اس کے مقدمہ میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم لکھتے ہیں:

”2006ء کے اواخر میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اس میں اٹھائے گئے سوالات پر مزید غوروبحث کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے مجھ سے فرمائش کی کہ، اس حقیقت کے پیش نظر کہ مقالہ لکھے کافی وقت گزرا اور اس عرصے میں دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی، اس میں اضافہ کروں تاکہ اسے اہل فکرونظر کے سامنے تبادلہئ خیالات کے لیے پیش کیا جائے۔ میں نے یہ اضافے متن مقالہ میں کرنے کی بجائے حاشیہ میں کیے ہیں تاکہ ایک تاریخی امانت میں کسی تصرف کے بغیر تازہ افکار سامنے رکھ سکوں۔ واضح رہے کہ یہ مقالہ، یا اس پر تازہ اضافے، کسی معروضی بحث کا نتیجہ نہیں۔ یہ ایک طالب علم کے مطالعہ، مشاہدات اور تأثرات کا نتیجہ ہیں جو تبادلہ آراء کی غرض سے پیش کیے جارہے ہیں۔ میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا شکرگزار ہوں کہ اس نے یہ موقع فراہم کیا۔“ (مقدمہ)

معاصر اسلامی فکر کا دوسرا ایڈیشن

2016ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی سے شائع کیا گیا، یہ وہی ایڈیشن ہے جو 2006ء میں فقہ اکیڈمی سے شائع ہوا تھا، البتہ اس ایڈیشن میں مولانا امین عثمانی ندوی مرحوم کے مختصر مقدمہ بعنوان ”اشارہ“ کا اضافہ ہے۔ مولانا عثمانی مرحوم مقدمہ میں لکھتے ہیں:

”مایہ ناز مفکر محترم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے حکمت و دانائی سے احیاء و تجدید کے مضامین کو سامنے رکھتے ہوئے معاصر فکر اسلامی کے ان نئے سوالات کو اپنا موضوع سخن بنایا جن کاتعلق عملاً مستقبل میں کام کرنے اور مستقبل کی فکری منصوبہ بندی سے تھا،ان کا یہ فکر انگیز مضمون ہند و پاک کے جرائد میں کافی پہلے شائع ہوا، ایک مدت کے بعد اندازہ ہوا کہ ان بیش قیمت موتیوں کو دوبارہ منظر عام پر لانا مناسب ہوگا، چنانچہ صاحب مقالہ سے گزارش کی گئی کہ وہ اس میں ضروری اضافات فرمادیں۔ انھوں نے علمی دیانت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضروری حاشیوں کا اضافہ کیا اور ان حواشی میں اہم اشارات درج کیے، حالانکہ یہ اشارات بذات خود مستقل مضامین کے نکات ہیں۔“ (صفحہ6)

مولانا امین عثمانی مرحوم کی خواہش تھی کہ 2016ء کے ایڈیشن میں بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم کی جانب سے نظرثانی کا کام ہوجائے، جس کی جانب ایک ہلکا سا اشارہ مذکورہ اقتباس میں بھی موجود ہے، اس سلسلہ میں مولانا امین عثمانی مرحوم نے 19 اپریل 2016کو ڈاکٹر صدیقی کے نام ایک مکتوب بھی ارسال کیا تھا، اس کے مشمولات اس طرح تھے:

”معظمی ومحترمی! السلام علیکم۔ میں خود حاضر ہوکر ایک بات کہنا چاہ رہا تھا لیکن ای میل کے ذریعہ ہی گزارش کرتا ہوں کہ آپ کی ایک قیمتی تحریر ’معاصر اسلامی فکر‘ جو ہم نے شائع کی تھی، اس کے نسخے ہمارے یہاں کافی پہلے ختم ہوچکے اور دوبارہ وہ اب تک چھپ نہیں سکی۔ برادر ابوالاعلی صاحب چاہتے ہیں کہ اسے شائع کریں، البتہ ساتھ میں ہماری بھی اور ان کی بھی یہ خواہش ہے کہ اگر روزانہ تھوڑا تھوڑا سا وقت آپ دے دیں اور اس میں ضروری اضافات کرادیں تو ایک بہت قیمتی چیز اہل علم کے ہاتھوں تک جلد سے جلد پہنچ جائے گی۔ اگر روزانہ پندرہ منٹ بھی آپ کا قیمتی وقت مل جائے تو ابوالاعلی صاحب آپ کے پاس بیٹھ کر ضروری نکات بشکل اضافات نوٹ کرلیں گے اور پھر آپ کو دکھا بھی دیں گے۔ والسلام، امین عثمانی“۔

لیکن اس وقت تک ڈاکٹر صدیقی مرحوم صحت کے اعتبار سے کافی کمزور ہوگئے تھے، استحضار بھی پہلے جیسا نہیں تھا، کچھ وقت دہلی میں رہتے تھے اور زیادہ وقت بچوں کے ساتھ امریکہ میں گزرتا تھا، چنانچہ یہ ایڈیشن بغیر کسی اضافے کے جوں کا توں شائع کردیا گیا۔

آئندہ سطور میں ”معاصر اسلامی فکر“ میں موجود کچھ اہم نکات کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی:

نفاذ اسلام اور عوامی تائید کا حصول

اسلامی تبدیلی ایک ہمہ گیر تبدیلی کا نام ہے، ذہنی اور فکری تبدیلی کا پہلو اس کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے، معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور نظم وانصرام کا پہلو اس تبدیلی کے اہم ترین عناصر میں شمار کیا جاسکتا ہے، عوامی تائید اور قیادت کی منتقلی اس تبدیلی کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن محض عوامی تائید کا حصول اور قیادت کی منتقلی سے بات پوری نہیں ہوتی ہے، اس تناظر میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم کے درج ذیل پیراگراف پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، پہلا پیراگراف 1970 کے متن کا ہے، جبکہ دوسرا پیراگراف 2006 کے ایڈیشن سے ہے، اس پیراگراف میں گزشتہ موقف پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ 1970 کی عبارت یہ ہے:

”آج مسلمان دانشوروں میں ایک معتد بہ عنصر موجود ہے جو پورے اسلام کو اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہے، اور شریعت کو نہ صرف واجب العمل سمجھتا ہے بلکہ قابل عمل سمجھتا ہے، اور دور جدید میں اسے نافذ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ عنصر متحرک اور فعال ہے اور متعدد مسلمان معاشروں میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کرکے ان کی قیادت شک وریب میں مبتلا یا کمزور ایمان رکھنے والے اور دین ودنیا کے درمیان تفریق کرنے والے دانشوروں سے بڑی حد تک چھین بھی لی ہے۔ لیکن ابھی عوام کی غالب اکثریت کی اس نئی اسلامی قیادت کے ساتھ وابستگی زیادہ تر جذباتی ہے جس کے سبب وہ غیر اسلامی قیادت کے تسلط کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے او راس راہ میں قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے، نہ اس بگڑے ہوئے ”مذہبی مزاج“ کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علماء اور اسلامی قیادت کے پیچھے لاکھڑا کرتا ہے، مگر معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور امور مملکت کے نظم وانصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتا ہے۔“ (صفحہ 13-15)

اس متن پر 2006 کا تنقیدی حاشیہ درج ذیل ہے:

”نفاذ اسلام کے داعیہ او راس سلسلہ میں عوامی تائید کے حصول کے تعلق سے متن میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے گزشتہ بیس برسوں کی تاریخ کی روشنی میں، پڑھ کر آج منھ بدمزہ ہوجاتا ہے۔ خواہی نہ خواہی، دور جدید میں شریعت کو ’نافذ کرنے کے عزم‘ کی مثال طالبان قرار پاتے ہیں مگر اس مثال کو اسلامی قبول کرنے سے عقل عام اور فطرت سلیم اِبا کرتی ہے۔ آنکھیں بند کرکے چند حدود کے نفاذ کو اسلامی نظام کا قیام نہیں کہا جاسکتا۔ رہیں وہ کوششیں جو پاکستان، ایران اور سوڈان میں کی جاتی رہیں تو وہ سیاست، دکھاوے اور لیپاپوتی کے کثیف غلافوں میں ملفوف ہونے کے سبب ابھی طبع مسلم پر کوئی ایجابی تأثر چھوڑنے میں ناکام ہیں۔متن مقالہ میں قیادت کی تبدیلی پر بڑازور ہے، جیسے کہ یہی فتح مبین کی کنجی ہو۔ آج یہ بھولے پن کی بات Naive معلوم ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کا انحصار مسلم معاشرہ کے کسی گوشے میں موجود نئے لیڈروں کی قیادت وسیادت بروئے کار آنے میں نہیں۔ اس کے لیے فرد مسلم کی سرچشمہ ہدایت سے راست وابستگی، اسی سے کسب شعور Inspiration اور دور جدید کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ اسلامی زندگی کے ایک ایسے تصور Vision کی ضرورت ہے جس میں مقاصد کو ذرائع پر اور اصل دین کو شرائع پر فوقیت حاصل ہو۔“(صفحہ 15)

سنت کے حوالے سے مطلوبہ موقف

”سنت“ کے حوالے سے جدید اسلامی لٹریچر میں کافی جدید بحثیں موجود ہیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے، ڈاکٹر صدیقی اوّل تو ذخیرہ حدیث پر مزید بحث وتحقیق پر زور دیتے ہیں، ڈاکٹر صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک اسلامی کے بڑے رہنماؤں کا یہی موقف تھا، تیسرا نکتہ یہ کہ جدید دنیا کے مسائل کے تناظر میں بحث وتحقیق کا یہ کام بہت ضروری ہوگیا ہے، اور آخری اوربہت ہی اہم نکتہ سنت میں مصالح اور مقاصد کے اعتبارپر تحقیق کا کام ہے، چنانچہ”سنت“ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

”اصولی طور پر اس ذخیرہ سے استفادے میں ماضی کی بحث وتحقیق کو حرف آخر سمجھنے کے بجائے مزید تحقیق وتدبیر کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات روایت ودرایت یا تاریخی تحقیق اور قرآن کریم کی رہنمائی میں عقلی جانچ پرکھ دونوں کے بارے میں صحیح ہے۔ چند مجموعوں میں درج ہر روایت کو لفظاً ومعناً رسو ل کریمؐ کی طرف منسوب کرنے اور مستشرقین کی اتباع میں احادیث کے پورے ذخیرہ کی صحت کو مشکوک سمجھنے کے دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان یہی وہ مسلک اعتدال ہے جو تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اختیار کیا ہے۔ اصل مسئلہ زیر غور مسائل میں اس موقف کو عملاً برت کر دکھانے اورانتہا پسندانہ موقفوں پر علمی تنفید کا ہے۔ یہ کام بھی از حد تشنہ ہے۔

روایت ودرایت کے اعتبار سے احادیث کی از سر نو تحقیق اور جدید مسائل کی نسبت سے سنت کی تنقیح کی سب سے زیادہ اہمیت ان دستوری، سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل میں ہے، جن میں دور جدید میں اسلامی موقف کی از سر نو تعیین اس لیے ضروری ہوگئی ہے کہ متعلقہ احوال وظروف یکسر بدل گئے ہیں۔ اس دائرہ میں متعدد مسائل کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہوگیا ہے کہ سنت ان مقاصد ومصالح کے اعتبار سے اور ان کے حصول کے لیے مزاج شریعت سے مناسبت رکھنے والے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے، جن کا اعتبار نبیؐ نے اپنے زمانے کی دستوری سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کی تطہیر وتنظیم میں کیا تھا، یا خود ان متعین قواعد وضوابط کا نام ہے جو آپؐ نے وضع کیے تھے۔“ (صفحہ:23-24)

2006 کے ایڈیشن میں اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”گزشتہ تین دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں اس فقرہ کی آخری چار سطروں کی طرف از سر نو دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں سنت کی تشخیص، فہم اور تطبیق کا مسئلہ مسلکی تصلب، بسا اوقات تعصب، کاشکاررہا جس کے سبب اس پر عالمانہ بحث وتحقیق کا حق نہ ادا ہوسکا۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ دستوری، سیاسی اور سماجی مسائل میں، اپنے اپنے فہم کے مطابق ’سنت‘ کی تطبیق نے گزشتہ دنوں جو شکلیں اختیار کیں ان پر اکثر اسلامیانِ عالم کا منھ بدمزہ ہے۔ مسئلہ کی از سر نو تنقیح او رتحقیق ناگزیر ہے۔

سنت کے فہم کے لیے، خاص طور پر اگر اس کا تعلق دستوری، سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سے ہو، پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ جس مسئلہ سے زیر غور سنت کا تعلق ہے اس میں ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے زمینی حقائق کیا تھے۔ لوگوں کی عادات کیا تھیں، ان کے درمیان عرف کیا تھا۔ نبیؐ نے جو حکم دیا اس کے نتیجہ میں صورت واقعہ میں کیا تبدیلی درکار تھی۔ نبی کے اس تصرف (Intervention) کا مقصود کیا تھا۔ اگلا قدم یہ ہے کہ ہم اسی مسئلہ سے متعلق اپنے زمانہ کے ارضی حقائق (Ground Realities) کو سمجھیں، آج کے عادات واعراف کو نوٹ کریں، پھر دیکھیں کہ اس مقصود نبوی کی تکمیل کے لیے صورت واقعہ میں کیا تبدیلی درکار ہے اور اسے بروئے کار لانے کے لیے کیا پالیسی اختیار کرنا مناسب ہے۔

ظاہر ہے کہ اس پورے عمل، سنت نبوی کی روایت اور درایت کے معیاروں پرتشخیص، ساتویں صدی میں اہل عرب کے حالات کی تحقیق، حکم نبوی کے مقصود کی تعیین، پھر عصر حاضر کے احوال کو سمجھنا اور ان حالات میں مقاصد شریعت کی تحصیل کے لیے موزوں پالیسی تک پہنچنا، اس کا م میں قدم قدم پر رائیں مختلف ہوں گی۔ اس اختلاف آراء سے اسلام کے بتائے ہوئے شورائی طریقہ سے عہدہ برآہونا ہوگا۔ اس کے لیے اختلافی مسائل میں اظہار خیالات اور تبادلہ آراء کی وہ فضا بحال کرنا ہوگی جو اسلام کے دور زرّیں میں پائی جاتی تھی مگر اب بوجوہ مفقود ہے۔ رواداری اور علمی بحث ومناقشہ میں مختلف یہاں تک کہ متضاد آراء کو سننے اور دلیل کا جواب اینٹ پتھر کی بجائے دلیل سے دینے کی روایت کو پھر سے زندہ کرنا ضروری ہے۔“

اسلامی حدود اور تعزیرات پر ایک اضافی نوٹ:

حدود وتعزیرات کے سلسلہ میں بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم جدید سوالات کو پیش کرتے ہیں، اور پھر اس باب میں بھی مقاصد شریعت کی روشنی میں غوروفکر پر زور دیتے ہیں، لکھتے ہیں:

”متن میں اٹھائی گئی بحثیں اب کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ خاص طور پر آزادئ ضمیر اور اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے یا ناپسندی کی صورت میں مذہب چھوڑنے کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ آج دنیا کے ہر ملک میں مسلمان موجود ہیں۔ شاذ ونادر کو چھوڑ کر ان تمام ملکوں میں انہیں اپنے مذہبی آداب ورسوم کے ساتھ رہنے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ مغربی ممالک سے مسلسل نئے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو آزادیاں مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں عزیز رکھتے ہوں ان سے مسلم اکثریت والے ممالک کے غیر مسلموں کو محروم رکھا جائے۔ عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ دوہرے معیار نہ اختیار کیے جائیں۔جہاں تک دوسرے حدود کا سوال ہے، ان کے نفاذ کو ’شبہات‘ کی بنا پر معطل یا مؤخر کرسکنے پر اتفاق ہے۔ نفسیات، جنینیات(Genetics) اور جرم وسزا سے تعلق رکھنے والے دوسرے علوم کے اضافات اورانکشافات نے نئے شبہات کو جنم دیا ہے جن سے صرف اس بنا پر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ قدیم فقہی لٹریچر میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ سزائیں مقصود نہیں ہوا کرتیں بلکہ اعلی مقاصد کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اس باب میں مقاصد شریعت کی روشنی میں غوروفکر کی ضرورت ہے۔“ (صفحہ31-32)

عائلی قوانین میں اصلاح

گزشتہ ایک صدی میں اسلامی عائلی قوانین کی اصلاح اور اس پر بحث وتحقیق کا کافی کچھ کام ہوا۔ عرب دنیا کے ممالک میں خاص طور پر اس موضوع پر مختلف پہلووں سے کام کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی نے عائلی قوانین میں اصلاح کو بھی معاصر فکر اسلامی کو درپیش ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے، خاص طور پر غیرمسلم ممالک کے مسلمانوں کے تناظر میں اس مسئلہ پر خصوصی غوروفکر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”چونکہ یہ مسئلہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ تعدد ازدواج کے حق کی تحدید اور ضابطہ بندی، طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا، حق خلع کی تجدید، مطلقہ کے حقوق، ایک ساتھ تین طلاقوں کا مسئلہ، صغیرہ کے نکاح، ولایت اجبار اور خیار بلوغ کے مسائل، نیز یتیم پوتے کی وراثت کے ضمن میں جبری وصیت کا مسئلہ اس دائرے کے چند ایسے مسائل ہیں جن پر غور وفکر ضروری ہے۔“ (صفحہ38-39)

2006 میں اس پر لگائے گئے اضافی نوٹ میں ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کو لے کر چل رہی سیاست اور مسلم قیادت کی سردمہری پر بہت ہی معنی خیز تبصرہ کرتے ہیں، نیز بدلتے ہوئے حالات میں ان مسائل پر بھی مقاصد شریعت کی رعایت کرتے ہوئے ایک متوازن رائے تک پہنچنے پر زور دیتے ہیں:

”مسلم پرسنل لاز کا مسئلہ ہنوز سیاست اور سیادت کی چکی کے دوپاٹ کے درمیان بربادی کا شکار ہے۔ متن مقالہ میں مذکور حساس اختلافی مسائل پر نئے غور وفکر کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ تکنیکی ترقی، عام خوش حالی، معلومات کی فراوانی، خواندگی اور تعلیم میں اضافہ وغیرہ نے انسانی سماج میں عورت اور مرد کے باہم تعلق اور خاندان کی تنظیم پر جو اثرات ڈالے ہیں ان کو سمجھ کر اس باب میں مقاصد شریعت کی تحصیل اور ایک نئے توازن کی بحالی کی کوشش کی جائے۔“

مسلمان اقلیتوں کا سیاسی مسلک

غیرمسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتوں کا سیاسی موقف کیا ہونا چاہیے اور ان ممالک کی سیاست میں مسلم اقلیتوں کا کیا رول اور کردار ہونا چاہیے، اس پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی تحریروں میں کافی زور دیا ہے، معاصر اسلامی فکر میں بھی اس پر توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اب تک یہ سمجھا گیا ہے کہ انسانوں کو حاکمیت الٰہ کی طرف دعوت دینا اس بات کو  مستلزم ہے کہ جس ملک میں حاکم اعلیٰ جمہور کو قرار دیا گیا ہو اس کے سیاسی نظام سے کنارہ کش رہا جائے۔ یہ موقف نظر ثانی کا محتاج ہے۔ قانون سازی، تشکیل حکومت اور انتظام ملکی میں فعال حصہ لے کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ اور تعلیمی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ خود ملک کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونا زیادہ آسانی سے ممکن ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکمیت الٰہ کا عقیدہ اور اس کی طرف دعوت اصولی طور پر ایسا کرنے میں مانع ہے۔ اس مسئلے پر کھل کر بحث ومذاکرہ ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ بحث مسلم ممالک کے اسلامی مفکرین کی شرکت سے محروم رہے۔ اگر مستقبل میں اسلامی تحریکوں کا منتہائے نظر صرف مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب ہے تو اس مسئلے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔“ (صفحہ41)

یہ کچھ اہم فکری مباحث ہیں جو ڈاکٹر صدیقی مرحوم کے مقالہ ”معاصر اسلامی فکر“ سے بطور نمونہ پیش کیے گئے۔ صحیح بات یہ ہے یہ پورا ہی مقالہ بہت ہی سنجیدہ غوروفکر کا طالب ہے۔ فکر اسلامی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس کا مطالعہ بہت ہی مفید ہوگا۔

معاصر اسلامی فکر کے موجودہ ایڈیشن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ:

1970 کے زمانے میں جبکہ برصغیر کی اسلامی تحریکات ابھی بالکل ابتدائی نوعیت کے مباحث میں الجھی ہوئی تھیں، اس زمانے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم دنیا بھر کے افکار کا نہ صرف مطالعہ کررہے تھے، بلکہ تحریک اسلامی کو درپیش فکری وعملی چیلنجز پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

2006کے ایڈیشن میں موجود حواشی کا مطالعہ اس پہلو سے بہت اہم ہے کہ اسلامی مفکرین کے یہاں فکری ارتقاء کس طرح رونما ہوتا ہے، اور ان کے لیے اپنی چیزوں پر تنقیدی نظر رکھنا کس قدر ضروری ہوتا ہے، اور اس کے مثبت اور ایجابی نتائج کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک اہم پہلو ہے، اس لحاظ سے مولانا مودودی کے افکار کا بھی مطالعہ کیا جانا چا ہیے۔ 

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے معاصر اسلامی فکر میں جن فکری امور ومسائل کی نشاندہی کی ہے، آج نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی برصغیر کی اسلامی تحریکات کے یہاں ان کے سلسلہ میں کوئی واضح اور قابل ذکر فکری پیش رفت نظر نہیں آتی۔


شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۱)

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

اصحاب علم نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکر و شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن متعدد ایسے پہلو ہیں جن پر تفصیلی وتحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ان میں سے ایک پہلو شاہ صاحب کے کلامی تفردات کا ہے۔ ان کا مطالعہ دو وجہوں سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے: ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاہ صاحب، جیسا کہ شبلی نے لکھا ہے ،دور زوال  وانحطاط  کی سب سے عظیم و عالی دماغ شخصیت ہیں۔(۱) دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ برصغیر کی  اسلامی فکری روایت پر شاہ صاحب کی فکرونظر کے نقوش دوسری کسی شخصیت کے مقابلے میں زیادہ  گہرائی کے ساتھ مرتسم ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں شاہ صاحب سے قبل بر صغیر ہند کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلامی فکر وثقافت کی نمائندہ  متعدداہم شخصیات پیدا ہوئیں لیکن ان کی اپنی مساعی فکر کے امتیازات کے باوجود ان کا فکری سرمایہ شاہ صاحب کی طرح نسبتاً‌ ہمہ جہت اور دور رس نہیں ہے۔شاہ صاحب کا کمال وصف ان کی جامعیت ہے۔ وہ  اسلامی علوم میں بیک وقت معقولات ومنقولات :تفسیر، حدیث،فقہ،کلام،فلسفہ اور ان کی مختلف شاخوں پر ماہرانہ دسترس رکھتے تھے۔اس لیے ان کے یہاں فکر اسلامی کی روایت کے ساتھ تعامل کے حوالے سے عقل ونقل کے استعمال کا بہت ہی خوبصورت امتزاج نظر آتا ہےجس کا سب سے اہم مظہر ان کی کتاب" حجۃ اللہ البالغہ" ہے۔

تفرد پسندی اور اسلامی فکری روایت میں اس کے عملی نقوش

تفرد پسندی کی اصولی حیثیت کیا ہے؟ اسلام کی فقہی وتفسیری روایات میں اس پر بحثیں ہوتی رہی ہیں جو’ قول شاذ‘ کے عنوان سے ملتی ہیں۔امام غزالی   نےشاذ کی تعریف  یہ کی ہے: الشاذ عبارۃعن الخارج عن الاجماع بعد الدخول فیہ۔’’شاذوہ قول یاموقف ہے جواجماع کا حصہ ہونے کے بعد اس سے  علاحدہ  ہوگیاہو‘‘۔ (۲) آمدی  بھی اس سے ملتی جلتی تعریف کرتے  ہیں ۔ان  کے مطابق: الشاذ ھو المخالف بعد الموافقة، لا من خالف قبل الموافقة-’’شاذ ایسا مخالف قول یا موقف ہے جو موافقت کے بعد، نہ کہ موافقت سے پہلے ،اختیارکیا گیا ہے‘‘۔(۳)

 اصولی طور پر کسی مسئلے کی تائید میں آرا ومواقف کی کثرت اس کے صواب ودرست ہونے کا مضبوط قرینہ ہے۔ چاہے متعلقہ مسئلے کا تعلق دینی امور سے ہو یا دنیاوی امور سے۔ عقل انسانی اس معیار کو قبول کرتی  اور مختلف متنازعہ فیہ امور میں اس اصل سے کام لیتی ہے۔ اصول فقہ وحدیث میں اسے تقریبا مسلمہ امر تصور کیا جاتا ہے۔تاہم اہل اصول کے نزدیک یہ بھی مسلم ہے  کہ کسی رایے کو اختیار کرنے والوں کی کثرت اس کے صواب وبرحق ہونے کی قطعی اور شافی دلیل نہیں ہے۔ فقہائے عراق  وحجازکے استنباط کردہ مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جن میں وہ  اکثریت کےمقابلے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ابن حزم فرماتے ہیں کہ: ولقد اخرجنا علی ابی حنیفة والشافعی ومالک مئین کثیرۃ من المسائل قال فیھا کل واحد منھم بقول لا نعلم احدا من المسلمین قال قبله-’’ امام ابوحنیفہ ،شافعی اور مالک کے بہت سے ایسے مسائل ہمارے علم میں آئے  جن سے متعلق انہوں نے ایسی بات کہی جوبات ان سے پہلے کسی نے نہیں کہی تھی‘‘۔(۴) لیکن یہ معاملہ ائمہ مجتہدین اور علماء اسلاف واخلاف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس روایت کا سرا صحابہ کرام سے ملتا ہے۔ اجلہ صحابہ مختلف مسائل میں نہایت شاذ اور جمہور صحابہ کے مواقف سے متصادم آرا رکھتے تھے۔ جماعت صحابہ میں عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن مسعود سر فہرست ہیں جن کی متفرد تفسیری وفقہی آرا پر  علمی حلقوں میں گفتگو رہی ہے ۔ مشہور ہے کہ عباسی خلیفہ منصورنے امام مالک سے کہا کہ ابن عباس کی رخصت،ابن عمر کی شدت پسندی اورعبد اللہ ابن مسعود کے شاذ اقوال سے بچتے ہوئے ایک کتاب لکھ دیں۔(۵) تابعین میں  نخعی ،شعبی،کعب احبار وغیرہ سے کثرت سے شاذ اقوال منقول ہیں۔

صحابہ وتابعین کی یہی روایت بعد کی نسلوں میں منتقل ہوئی۔چناں چہ  نص کو دانتوں سے پکڑنے اور قیاسات اور عقل وخرد کی موشگافیوں سے احتراز کرنے والی شخصیات کے یہاں بھی مخالف جمہور ایسی آرا مل جاتی ہیں جن پر   ہردور کےعلمی وفکری حلقوں میں ردوکد کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی روایت   اسی فکری ماحول میں پروان چڑھی ہے۔ان متفرد اقوال سے متعلق اصحاب علم کا مجموعی موقف یہ رہا ہے کہ ان کی اتباع محض رخصتوں کی جستجو اور ان پر عمل کے لیے نہ ہو۔ امام ذہبی کہتے ہیں:  من یتتبع رخص المذاھب وزلات المجتھدین فقد رق دینہ۔’’جومختلف مذاہب میں پائی جانےوالی رخصتوں  اور مجتہدین کی لغزشوں کی تلاش وجستجو میں رہتا ہے ،اس کا دین کمزور ہوجاتا ہے‘‘۔(۶)

یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ منفرد یا شاذ سے موسوم کی جانے والی بہت سی  آرا واقوال کی حیثیتیں تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ چناں چہ ایک نسل کے علما  ومجتہدین کے شاذ تصور کیے جانے والے اقوال  ان کی بعد کی نسلوں میں  قبولیت  اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔صرف خلافت کے مسئلے کو سامنے رکھ کر دیکھیں۔ جمہور   کے نزدیک نہ توغیرقریشی کی اور نہ ہی  بیک وقت دو لوگوں کی خلافت منعقد ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس رایے اہل بدعت کی تھی لیکن وہی رایے جمہور علما کا مسلک بن گئی۔تفرد کے حوالے سے اہل الرایے زیادہ مشہور ہیں لیکن اہل الحدیث کے یہاں بھی اس کی کم مثالیں نہیں ہیں ۔اوپر ابن حزم کا قول گزرا جس میں امام ابوحنیفہ کے ساتھ انہوں نے امام شافعی و امام مالک کو بھی شمار کیا ہے جن کے بہت سے اقوال اس معنی میں شاذ ہیں کہ ان سے قبل کوئ ان کا قائل نظر نہیں آتا  ۔خود یہی حال ابن حزم ،ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے  محتاط اکابر علما کا ہے جو امور شریعت میں قیاس و اجتہاد کے شدید مخالف ہیں لیکن ان کے یہاں بھی بہت سے (کلامی وفقہی)تفردات  پائے جاتے ہیں۔چناں چہ مثلا ابن تیمیہ عرش باری کے قدم  اور ابن قیم فنائے جہنم کے قائل تھے۔(۷) علمائے سلف کے درمیان پائے جانے والے تفردات کواگر جمع کیا جائے متعدد  جلدیں تیارہوجائیں گی۔

تفردپسندی کے اسباب اورشاہ صاحب کا موقف

دین کی تفہیم وتعبیر کے حوالے سے شاہ ولی اللہ نے بھی متعدد مسائل میں جمہور علمائے امت سے الگ ہٹ کر اپنی آرا قائم کی ہیں۔اس کا تعلق  فقہ واجتہاد اور کلام دونوں سے ہے۔ اس تحریر میں  ہم شاہ صاحب کے  صرف کلامی تفردات سے بحث کریں گے۔

 سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کلامی وفلسفیانہ مسائل میں شاہ ولی اللہ کی تفرد پسندی کے اسباب کیا ہیں؟  اس کے مختلف اسباب میں سے سب سے اہم سبب، جو مشترکہ طور پر دوسروں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، وہ شاہ صاحب کا  مجتہدانہ مزاج ہے۔قرون اولی کے اصحاب علم کے طرز پر دلائل و براہین کی روشنی میں جمہورکے مروجہ موقف سے ہٹ کر نیا موقف اختیار کرنے میں وہ کوئ تامل محسوس نہیں کرتے۔ تاہم فقہ میں ان کے یہاں اجتہاد کے مقابلے میں تقلید کا پہلوغالب ہے ۔لیکن کلام وفلسفہ میں ان کی مجتہدانہ طبیعت  با ضابطہ طور پرتقلیدکی پابند نہیں ہے،جس کا  اظہار شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ کے مقدمے میں کیا ہے۔

ان کی کلامی وفلسفیانہ  فکر کا سب سے اہم پہلو دین وشریعت کے درمیان عقلی ہم آہنگی پیدا کرنا ہے جس کےلیے وہ مختلف سطحوں پرفکری طورپرکوشاں رہے۔چناں چہ ایک طرف انہوں نے اسلامی فکرکے بنیادی ڈھانچے، الہیات کی تشکیل نوکواپنا موضوع بنایا اوراس حوالے سے متعدد تصانیف قلم بند کیں ۔دوسری طرف انہوں نے دین کی عملی بنیادوں کوجواحکام شریعت سے عبارت ہیں،عقلی تفہیم پراستوارکرنے کی کوشش کی۔ الہیات  سے متعلق انہوں نے اپنا ایک منفرد نظام فکر وضع کیا جس پر ابن عربی کے وجودی فلسفے کے اثرات غالب ہیں۔ ابن عربی  کے بعدبظاہر انہوں نے سب سے زیادہ غزالی کی فکرسے خوشہ چینی کی ہے جس کے  واضح اثرات  ان کی کلامی فکرپرنظر آتے ہیں۔

مختلف امور دونوں شخصیات میں مشترک نظر آتے ہیں جیسے:علوم معقولات ومنقولات دونوں پردست رس،اس فرق کے ساتھ کہ حدیث میں غزالی کمزور ہیں جب کہ روایت ودرایت دونوں میں  شاہ صاحب  کا پایہ  بہت بلند ہے،فلسفہ و کلام کے ساتھ تصوف کی بہم آمیزی اور فلسفہ وکلام میں اہل سنت واہل بدعت دونوں کے مختلف مکاتب فکر سے استفادے کا رجحان، چناں چہ غزالی کی طرح وہ بھی اخوان الصفاء اور دیگر مبتدع گروہوں کے فلسفیانہ افکار کے خوشہ چیں ہیں۔غزالی کی طرح  متعدد مابعد الطبیعاتی مسائل میں فلاسفہ کے طرز پر وہ  نصوص میں تاویل کا رجحان رکھتے ہیں۔ دونوں کے یہاں ان  فلسفیانہ اصطلاحات واسالیب کی چھاپ نظرآتی ہے جن کی تشکیل وفروغ میں اہل سنت سے باہرکے فرقوں نے اہم رول ادا کیا۔(۸) سطعات  اور بعض دیگر تحریروں میں شاہ صاحب کی مابعد الطبیعاتی فکرپراشراقی فلسفے کے اثرات کوصاف طور پرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔ علوم ولی اللہی کے شارحمولانا عبید اللہ سندھی  بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ شاہ صاحب کسی بھی صاحب علم کی بات کوخواہ وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہو،اس شرط کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں کہ وہ ان کی فکرکے  مطابق ہو۔(۹)

شاہ صاحب نے مختلف کتابوں میں بہت سے مسائل کے حوالے سے اپنے متفردانہ موقف کا برملا اظہار کیا ہے، لیکن عام طور پر اس کی توجیہ واستدلال سےگریز کیا ہے۔ البتہ حجۃ اللہ البالغہ میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ اس پر پیدا ہونے والے سوالات و اعتراضات سے بحث کی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کلامی مسائل دو طرح کے ہیں: منصوص مسائل جو آیات و احادیث اور صحابہ وتابعین کے اقوال ومواقف سے ثابت ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں آگے چل کر امت میں دو رجحانات پیدا ہوئے۔ ایک گروہ نے ظاہر نصوص کو اختیار کیا جب کہ دوسرے گروہ نے ایسی نصوص میں تاویل کی روش اختیار کی۔ ان مسائل کے ذیل میں قبر کا سوال وعذاب، قیامت میں اعمال کا وزن، رؤیت باری اور کرامات اولیاء جیسے مسائل آتے ہیں۔ مسائل کی دوسری نوع وہ ہے جو  منصوص ہے۔ ان کے معانی و مفاہیم پر نہ قرآن وحدیث سے روشنی پڑتی ہے اور نہ صحابہ کے اقوال سے۔ شاہ صاحب کے بقول انہوں نے اس دوسری قسم کے مسائل میں متقدمین سے اختلاف کیا ہے اور انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ ان مسائل میں غورو خوض کرکے اپنا موقف متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مسائل کی توضیح ان کی تفہیم پر موقوف ہے۔(۱۰)

شاہ صاحب فرماتے ہیں ان مسائل میں تاویل کی راہ اختیار کرنے اور نہ کرنے والےدونوں ہی گروہ راہ حق پر ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے پر اپنی برتری کا اظہار کرے۔(ھذا القسم لست استصح ترفع احدی الفرقتین علی صاحبتھابانھا علی السنة۔) (۱۱)  کیونکہ دونوں ہی فریق مختلف مسائل میں تاویل کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ دوسری شکل تو صرف یہ رہتی ہے کہ ان مسائل میں سرے سے غوروخوض نہ کیا جائے جس طرح سلف (صحابہ و تابعین) نے غور وخوض نہیں کیا ۔(وان ارید قح السنة فھو ترک الخوض فی ھذہ المسائل رأسا کما لم یخض فیھا السلف(۱۲) گویا اشاعرہ و ماتریدیہ کے مطابق شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ عقل سے بظاہر متعارض نصوص میں تاویل کی جا سکتی ہے۔ محدثین کے مسلک کے مطابق اس کا انکار صحیح نہیں ہے۔

شاہ صاحب کے کلامی تفردات پر ایک  نظر

اب ہم شاہ صاحب کے تفردات پرنظرڈالتے ہیں۔شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں اپنے چند  کلامی تفردات کا ذکران الفاظ میں کیا ہے:

وستجدنی اذا غلب علیَّ شقشقة البیان وامعنت فی تمھید القواعد غایة الامعان، ربما اوجب المقام ان اقول بما لم یقل به جمھور المناظرین من اھل الکلام کتجلی اللہ تعالی فی مواطن المعاد با لصور والاشکال و کاثبات عالم لیس عنصریا یکون فیہ تجسد المعانی والاعمال باشباح مناسبة لھا فی الصفة وتخلق فیه الحوادث قبل ان تخلق فی الارض وارتباط الاعمال بھیئات نفسانیة وکون تلک الھیئات فی الحقیقة سببا للمجازاة فی الحیاة الدنیا وبعد الممات والقول بالقدرالملزم ونحوذلک۔

’’جب مجھ پربیان کا جوش غالب ہوگا اور  قاعدوں کی تمہید بیان کرنے میں مجھ کو نہایت غور کرنا پڑے گا تو  بمقتضائے کلام میرے قلم سے وہ باتیں نکلیں گی  جن کے مناظر متکلمین میں سے کم لوگ  قائل  رہے ہیں۔ مثلا اس  بات کا قائل ہونا کہ اللہ تعالی آخرت میں مختلف شکلوں  اور صورتوںمیں تجلی فرمائے گا اور ایک ایسے عالم کو ثابت کرنا جس کی ترکیب عنصری نہیں ہے ۔اس میں اعمال اور معانی ایسے قالبوں میں جو وصف میں ان اعمال وغیرہ کے مناسب ہوتے ہیں، مجسم ہو کر ظاہر ہوتے ہیں اور قبل اس کے کہ زمین پر واقعات کی شکل میں وہ ظہور پذیر ہوں ،وہ پہلے ہی سے اس عالم (عالم مثال ) میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ نیز اس بات کا قائل ہونا کہ اعمال کو نفس کی حالتوں سے ایک خاص تعلق ہے اور دنیا و آخرت میں جزا پانے کا حقیقتاوہی باعث ہوتے ہیں اور تقدیر  ملزم (مبرم)کا قائل ہونا وغیرہ‘‘۔ (۱۳)

  لیکن دوسرے مقامات پرشاہ صاحب نے بہت سے دوسرےمسائل میں بھی تفرد کی روش اختیار کی ہے ۔ان  پر ایک نظر ڈالنے سے جو بڑے اور اہم تفردات سامنے آتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں، جن پر اس مقالے میں گفتگو کی  گئی ہے:

 عالم مثال کا قول، قدم عالم کا قول، معجزہ شق القمرکا’ انکار‘،واقعات انبیاء کی فلسفیانہ تاویل، قرآن کے الفاظ کی رسول اللہ کی طرف نسبت وغیرہ۔ ان تفردات میں سے چند کو علامہ زاہد الکوثری نے شدید طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شاہ صاحب کے اس نوع کے افکار و آراء کو انہوں نے فکری اضطراب (اضطراب فکری) سے موسوم کیا ہے (۱۴) اوراس کی ایک بنیادی وجہ یہ لکھی ہے کہ وہ  فلسفۂ وحدت والوجود کے قائلین میں سے ہیں۔ انہوں نے شیخ ابو طاہر کے والد ابراہیم کورانی شافعی کی کتب و رسائل سے خصوصی استفادہ کیا جن میں حشویہ، اتحاد وحلول کے قائلین اور فلاسفہ و متکلمین کے گرے پڑے اقوال کے درمیان جمع و تطبیق کی کوشش کی گئی ہے۔(۱۵) کلامی مسائل کے حوالے سے انہوں نے شاہ صاحب کے تین تفردات کا ذکر کیا ہے :معجزہ ٔ شق القمر کا’ انکار‘  یا اس کی جمہور کے نقطہ نظر کے خلاف تاویل ،عالم مثال  کا تصورقبول کرنا اورقدم عالم کا قائل ہونا۔ ہم سب سے پہلے ان مذکورہ تین تفردات پر گفتگو کریں گے۔

 عالم مثال کا تصور:

شاہ صاحب نے اپنی متعدد کتب ورسائل میں عالم مثال پر گفتگو کی ہے ۔حجۃ اللہ البالغہ، سطعات،لخیر الکثیر، التفہیمات الالہیہ وغیرہ۔ لیکن باضابطہ اور تفصیلی گفتگو ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں کی ہے ۔انہوں نےعالم المثال پر ایک مکمل باب قائم کیا ہے جو مبحث اول کا دوسرا باب ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:

اعلم انہ دلت احادیث کثیرۃ علی ان فی الوجود عالما غیرعنصری تتمثل فیہ المعانی باجسام مناسبة لھا فی الصفة وتتحقق ھنالک الاشیاء قبل وجودھا فی الارض نحوا من التحقق۔

’’جاننا چاہیے کہ اکثر حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسا عالم موجود ہے جس کی ترکیب عناصر سے نہیں ہے۔اس میں ہرایک جسمانی چیز کی مناسب صفت اورحالت میں وہ چیزیں جومعنوی ہیں ،صورت پکڑتی ہیں اور قبل اس کے کہ یہ چیزیں زمین پرظاہرہوں،پہلے اس عالم میں موجود ہوجایا کرتی ہیں‘‘۔ (۱۶)

دلیل میں ان احادیث کو پیش کیا ہے جن میں اعراض و کیفیات کو مجسم انداز میں دکھایا گیا ہے ،جیسے قیامت کے دن    انسان کے اعمال :نماز،روزہ اورزکوۃ وغیرہ کا محسوس ومجسم شکل میں سامنے آنا۔(۱۷) موت کا مینڈھے کی شکل میں لایا جانا اور پھر اسے جنت و دوزخ کے درمیان ذبح کر دیا جانا (۱۸)   یا اسی طرح دنیا کا ایک بڑھیا کی شکل میں حاضرہونا۔وغیرہ۔(۱۹) ان جیسی احادیث کی بنیاد پرشاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے تین میں سے کوئی ایک موقف اختیارکرنا ضروری ہے: یا توان احادیث کے ظاہر کی بنیاد پر عالم مثال کا اقرارکیا جائے، محدثین کا  منہج اسی کامتقاضی ہے،یایہ سمجھاجائے کہ دیکھنے والے کوایسا محسوس ہوتا ہے ،خارج میں ایسے واقعات  کا کوئی وجودنہیں ہوتا۔ یا یہ کہ ا سے محض تمثیل تصورکیا جائے لیکن  صرف تیسرے معنی پران کومحمول کرنا شاہ صاحب کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔(۲۰)

ڈاکٹر فضل الرحمن  کہتے ہیں  کہ عالم مثال کا خیال سب سے پہلے شہاب الدین سہروردی(مقتول، م،۱۱۹۱)نے پیش کیا، ابن عربی( م،۱۲۴۰) اور ملا صدرا نے اسے پروان چڑھایا۔ شاہ ولی اللہ کا رول اس حوالے سے یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مابعد الطبیعاتی فلسفےمیں اسے  وسعت کے ساتھ استعمال کیا۔ (۲۱)  لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کا ابتدائی تصور ابن سینا نے’’ الشفاء ‘‘اور ’’الاشارات ‘‘میں معاد سے متعلق مباحث میں پیش کیا۔ سہروردی نے اسے ایک خیال کی شکل دی لیکن دونوں نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی۔ سہروردی کے شارح  شمس الدین الشہرزوری ( م،۱۲۸۸)نے  غالبا باضابطہ طور پر پہلی مرتبہ  اس اصطلاح کا استعمال کیا اور اسے آگے بڑھایا ۔ابن عربی  نے   عالم المثال کے بجائے ’عالم الخیال‘ کے ذریعے اس تصورکووسعت کے ساتھ استعمال کیا۔ا ن کے بعد ان کے شارحین کے ذریعے عالم المثال کی اصطلاح اور اس کے تصور کو فروغ حاصل ہوا اور ملا صدرا سے ہوتا ہوا شاہ ولی اللہ تک پہنچا۔ شاہ صاحب سے قبل  نہ صرف صوفیہ بلکہ فقہا ومحدثین کی ایک جماعت   بھی اس تصور کی حامل رہی ہے جس میں تاج الدین سبکی،سیوطی،ملا علی قاری وغیرہ شامل ہیں۔شاہ صاحب اس کو بظاہر  اپنے تفردات میں اس لیے شمار کرتے ہیں کہ یہ تصور اور اصطلاح اصلا صوفیہ کے یہاں مقبول رہی ہے،محدثین وفقہا نے بہت کم ہی اس سے اعتنا کیا ہے بلکہ زیادہ تر انہوں نےصوفیہ کے حوالے سے ہی اس کا ذکرکیا ہے۔

شاہ صاحب کی اس حوالے سے دو انفرادیتیں ہیں: ایک یہ کہ انہوں نے اپنے مابعدالطبعیاتی فلسفے میں  عالم مثال کے تصور کو اساسی اور مرکزی جگہ دی ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے نصوص کو اس کا ماخذ قرار دیا اور اس تصور کے بنیادی خدو خال کو تفصیل کے ساتھ ان پر منطبق کرنے کی کوشش کی ۔جیساکہ سطور بالا میں ان کی پیش کردہ عبارت سے واضح ہے  کہ ان کی نظر میں بہت سی احادیث اس پردلالت کرتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو عالم المثال کے تصور کو اختیار کرنا شاہ صاحب کا کوئی تفرد نہیں ہے ۔صرف اس معنی میں اس کو تفرد کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ پوری صراحت کے ساتھ اس تصور کو معقول کے بجائے منقول سے برآمد کرنے کی کوشش کی۔

شاہ صاحب کے عالم مثال کے تصور پر اعتراض کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ افلاطونی فلسفے سے ماخوذ ہے۔زاہد الکوثری  نے بھی یہی اعتراض کیا ہے۔  جس کی ان کے بقول شریعت  اور عقل  دونوں لحاظ سے  کوئی اصل نہیں ہے۔(لم یثبت وجودہ فی الشرع ولا فی العقل) (۲۲) لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کے تصورکا اصل ماخذ افلاطون کا تصورعالم المثل( world of ideas) یا عالم الاشکال (world of forms)نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اوپر کی مثالوں اور حوالوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، شاہ صاحب نے اسے خود اسلامی فلسفہ و تصوف کی روایت سے اخذ کیا ہے ۔خاص طورپر ابن عربی کے وجودی اور شہاب الدین سہروردی مقتول کے اشراقی فلسفے میں اس کے نقوش بہت واضح ہیں۔

 تاہم بظاہر یہ دعوی کرنا بہت مشکل ہے کہ افلاطون کے تصور عالم المثل   کا اسلامی( شیعی و سنی دونوں) روایتوں میں تشکیل اور فروغ پانے والے عالم المثال کے فلسفے میں کوئی دخل نہیں رہا ہے۔زیادہ صحیح بات یہ نظر آتی ہے  کہ وجودی اور اشراقی صوفیہ نے  نوافلاطونیت کے زیر اثر ابتدائی سطح پر اس تصور کوقبول کیا۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اسلام کی کلامی  وفلسفیانہ روایت کا خمیر یونانی و ایرانی فلسفے کے آب و گل سے ہی تیار ہوا ہے اور نو افلاطونیت نے اس میں ایک اہم عنصر کا کردار ادا کیا ہے۔  وجود کی ماہیت کیا ہے  اورقدیم سے  حادث  کے صدور اور عالم ناسوت  سے عالم جبروت وملکوت کےتعلق کی کیا نوعیت ہے؛  اس نوع کی بحثیں یونانی فلسفے کے زیر اثر اسلامی فکر کا حصہ بنیں۔ عالم مثال کے تصور کواسی پرقیاس کرنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کا ابتدائی تصور یونانی فلسفےسے اسلامی فکر کا حصہ بنا  اورشاہ صاحب نے اسے دراصل یونانی کے بجائے اسلامی فکرسے اخذ کیا۔

معجزہ شق القمر سے’ انکار‘: 

شاہ صاحب کا دوسرا تفرد معجزہ شق القمر سےایک نوع کا’ انکار ‘ہے۔ شاہ صاحب اسے  معروف معنی میں معجزے کے بجائے قرب قیامت کی پیشین گوئی قرار دیتے ہیں۔ ’التفھیمات الالھیۃ‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

 اما شق القمر، فعندنا لیس من المعجزات، انماھو من آیات القیامة کما قال اللہ تعالیٰ: اقتربت الساعة وانشق القمرولکنہ صلی اللہ علیہ وسلم اخبرعنہ قبل وجودہ فکان معجزة من ھذا السبیل ۔۔۔ ولم یذکر اللہ سبحانہ شیئا من ھذہ المعجزات فی کتابه ولم یشر الیھا قط۔

’’ جہاں تک شق قمر کے معجزے کی بات ہے تووہ ہمارے نزدیک  معجزات میں سے نہیں ہے، وہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس کے وقوع سے پہلے خبر دی ہے اس لحاظ سے یہ معجزہ ہے---اللہ سبحانہ نے ان معجزات میں سے کسی معجزہ کا ذکر اپنی کتاب ( یعنی قرآن) میں نہیں کیا ہے اور نہ مطلق اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘(۲۳)

اس کی مزید وضاحت انہوں نے دوسری جگہ  کی ہےجس کے مطابق، یہ ضروری نہیں ہے کہ عین قمر کا انشقاق ہوا ہو بلکہ بظاہر حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والوں کوایسا محسوس ہوا ہو۔ چناں چہ ’تاویل الاحادیث ‘میں لکھتے ہیں:

ولیس یجب ان یکون انشقاقه البتة انشقاقا لعین القمر بل یمکن ان یکون ذلک بمنزلة الدخان وانقضاض الکوکب والخسوف و الکسوف مما یظھر فی الجو لأعین الناس۔

’’یہ ضروری نہیں ہے کہ عین قمر کا انشقاق ہوا ہو بلکہ ممکن ہے اس کی شکل ایسی ہو جیسےآسمان میں دھوئیں یا ستاروں کے ٹوٹنے  اورکسوف وخسوف (سورج اورچاند گرہن)کی کیفیت دیکھنے والوں کومحسوس ہوتی ہے‘‘۔(۲۴)

یوم تأتی السماء بدخان مبین ( جس دان آسمان ایک کھلے ہوئے  دھوئیں کے ساتھ نمودار ہوگا۔: الدخان:۱۰) کی تفسیر میں عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت پرمحمول نہیں ہے بلکہ ایک بار مکے میں قحط آیا تو  اہل مکہ کو بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں دھواں نظر آتا تھا  ۔اسی طرح ابن ماجشون مالکی کا قول ہے کہ  قیامت میں اللہ تعالی دیکھنے والوں کومختلف شکلوں میں نظر آئے گا۔ (۲۵) شاہ صاحب کے مطابق ،اس طرح کے حادثات و اقعات نبی کے لیے اس  طرح معجزات بن جاتے ہیں کہ  نبی ان کی خبر پہلے ہی دے دیتا ہے یا وہ خدا کے قانون مجازات کے مطابق ہوتے ہیں جیسے عاد وثمود کی ہلاکت ہود اورصالح علیہما السلام کے لیےبمنزلہ معجزہ تھی۔(۲۶) شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ خوارق ومعجزات کے بارے میں یہ سارے امکانات موجود ہیں جن کے تناظر میں ان کی حقیقت کوسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام معنوں میں جسے معجزہ کہا جاتا ہے بہرحال وہ خدا کی قدرت سے باہر نہیں ہے ۔چناں چہ انہوں نے اس معجزے کی جوتاویل کی ہے وہ  ان کے بقول بربنائے امکان واحتمال ہے نہ کہ بربنائے  یقین۔(۲۷) اسی تنا ظر میں شاہ صاحب کے اس نقطہ نظر کی حقیقت کوبھی سمجھاجاسکتا ہے کہ قرآن میں رسول اللہ کے کسی معجزےکا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔(۲۸)   بعض اصحاب علم  جن میں علامہ خطابی شامل ہیں کے  نزدیک  قرآن کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی معجزہ  تواتر کی حدتک نہیں پہنچتا۔(۲۹) لیکن یہ جہاں تک  شاہ صاحب  کا معاملہ ہے وہ رسول اللہ کے معجزات کے متواترا ثبوت کے توقائل  ہیں البتہ کسی معجزے کے قرآن میں مذکورہونے کے قائل نظرنہیں آتے۔

 انشقاق قمر کے حوالے سےشاہ صاحب کا موقف اور ان کی تشریح جمہور کے مسلک سے ہٹی ہوئی نظرآتی ہے۔تاہم  اس کے قائلین علمائے اسلاف میں موجود رہے ہیں ۔تفسیر قرطبی میں ہے :

قال قوم لم یقع انشقاق القمر بعد وھومنتظرای اقترب قیام الساعة و انشقاق القمر وان الساعة اذا قامت انشقت السماء بما فیھا من القمر وغیرہ وکذا قال القشیری وذکر الماوردی ان ھذا قول الجمھور وقال لانہ اذا انشق ما بقی احد الا راہ لانہ آیة والناس فی الآیات سواء۔ و قال الحسن اقتربت الساعة فاذا جاءت انشق القمربعد النفخة الثانیة و قیل وانشق القمر ای وضح الامر وظھر والعرب تضرب بالقمر مثالا فیما وضح ۔۔۔وقیل انشقاق القمروانشقاق الظلمة عنه بطلوعه فی اثنائھا۔

’’بعض لوگ اس کے قائل ہیں کہ انشقاق قمرکا واقعہ اب تک ظہورپذیر نہیں ہوا اوروہ ہواچاہتا ہے۔چناں چہ جب قیامت  واقع ہوگی تو آسمان سمیت اس کی تمام چیزیں جیسے چاند وغیرہ پھٹ جائیں گے۔قشیری کا قول  یہی ہے۔ اور ماوردی کہتے ہیں کہ جمہور کا یہی موقف ہے۔ان کے بقول اگرچاند شق ہوتا تو یہ واقعہ ہرکسی کے مشاہدے میں آتا۔ اس لیے کہ یہ خدا کی نشانی ہے اور وہ تمام لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔حسن کہتے ہیں کہ قیامت قریب ہے لہذاجب وہ قائم ہوگی توچاند نفخہ ثانیہ کے بعد دوٹکڑے ہوجائے گا۔اورایک تاویل یہ کی گئی ہے کہ قرآن کا بیان کہ چاند پھٹ گیا،اس کا مطلب یہ ہے  کہ بات واضح ہوگئی۔عرب کسی چیز کونہایت واضح ہوجانے کے لیے چاند پھٹ جانے کا محاورہ استعمال کرتے تھے۔۔۔۔اسی طرح ایک قول یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا کا مطلب ہے کہ اندھیرا  اس کے طوع ہونے سے دورہوگیا‘‘۔ (۳۰)

 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موقف کے قائلین اسلاف میں قابل ذکر تعداد میں رہے ہیں۔ ورنہ ماوردی اسے قول جمہور قرار نہ دیتے اور حسن بصری جیسی شخصیت اسے  روز    قیامت پر محمول نہ کرتی۔ البتہ شاہ صاحب کا اس واقعہ کو قرب قیامت کی پیشین گوئی پر محمول کرتے ہوئے  رسول اللہ کا معجزہ قرار دینا محل نظر  محسوس ہوتا ہے ۔ کیو ں کہ اس طرح تو قرب قیامت کی تمام ہی پیشین گوئیاں معجزہ قرار پائیں گی۔ معجزہ کی تعریف میں یہ داخل ہے کہ وہ رسالت کی تصدیق اور منکرین پر اتمام حجت کے لئے   عطا کیا جاتاہے ۔

علامہ زاہد الکوثری نے معجزہ شق القمر کے تعلق سے شاہ صاحب کےموقف پر  تنقید کرتے ہوئے اس نکتے کا اظہارکیا ہے کہ: ولیس سحر الاعین من شان رسل اللہ ''اللہ کے رسولوں کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ شعبدہ بازی دکھائیں"۔(۳۱)  گویا علامہ کوثری کے نزدیک سحر اورمعجزے میں فرق یہ ہے کہ سحر میں  خارق عادت کے طورپرجوچیز نظر آتی ہے وہ نظر کا دھوکا ہوسکتا ہے جب کہ معجزے کے لیے لازم ہے کہ شے عادی میں تغیر کے لحاظ سے  دیکھنے والوں کوجوکچھ نظر آتا ہو وہ بعینہ حقیقت پرمحمول ہو۔ لیکن شاہ صاحب کا موقف اس کے بر خلاف نظر آتا ہے۔ وہ اس فرق کے ساتھ سحر اورمعجزے کےدرمیان تفریق کے قائل نظر نہیں آتے۔

معجزہ انشقاق قمر کی بحث کے تناظرمیں خود  نفس معجزات کے حوالے سے شاہ صاحب  کے موقف کوسامنے رکھنا ضروری ہے۔اس کے بغیرشاہ صاحب کے موقف کی  حقیقت  مکمل طور پرسامنے نہیں آسکتی۔ شاہ کاموقف یہ نظرآتا ہے کہ رسول اللہ کو کلی معجزے کی شکل میں تو اصلا قرآن دیا گیا تھا، باقی    بظاہر خوارق   کی شکل میں جوامور آپ   ﷺ سے صادر ہوئے جیسے، دعا سے مریض کا صحت مند ہو جانا یا کھانے پینے کی اشیاء میں برکت   کا ہونا؛   ان کی  حیثیت جزئی معجزات کی ہے۔(۳۲) جس کی تائید ان کی نظر میں اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ صفات صرف انبیا کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ مفہمین اور اولیا  میں بھی پائی جاتی ہیں۔ان کی کرامتیں اسی قبیل سے ہیں۔(۳۳) شاہ صاحب کے نزدیک انہیں خوارق بس اس لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ  قلیل الوقوع ہوتے ہیں۔شاہ صاحب لکھتے ہیں:

 والحق ان کل ما یسمی خرقا فانه من الامور العادیة لکن لما کان  اسبابھا قلیلة الوقوع لا یظھر الا قلیلا حیث کان العامة لا یتوقعونھا سمیت  خوارق۔ وربما کان للخارق نظیر مالوف عندھم او ما ھو اتم منه فی الخرق فلا یلتفت الیہ العامة۔

’’حقیقت یہ ہےکہ جن چیزوں پرخرق عادت کا اطلاق کیا جاتا ہے،وہ معمول کے امور  ہوتے ہیں لیکن چوں کہ ان کے اسباب کا وقوع بہت کم ہوتا ہے اس لیے ان کا ظہور بھی کم ہی ہوتا ہے۔اب چوں کہ عوام کوایسے واقعے کی توقع نہیں ہوتی، اس لیے انہیں خوارق سے موسوم کردیا جاتا ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خرق عادت کے طورپرجوواقعہ سامنے آتا ہے اس جیسی یا اس سے بڑھ کرکوئی نظیرپہلے سے عوام کی نگاہ میں ہوتی ہے ایسے میں وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے‘‘۔(۳۴)

معجزات کے حوالے سے شاہ صاحب کا تصور  ایک حد تک معتزلہ سے متاثر نظر آتا ہے جومعجزے  کے اقرار وقبول کے ساتھ اس کے قلیل الوقوع ہونے کے قائل ہیں۔ابومسلم اصفہانی کی طرح شاہ صاحب بھی قرآن میں مذکور مختلف انبیا کے معجزات کی تاویل کرتے نظرآتے ہیں۔(جس پرگفتگو آگے آرہی ہے)

حواشی وتعلیقات

(۱)  شبلی نعمانی،علم الکلام، اعظم گڑھ، دار المصنفین،۱۹۹۳ص،۱۰۵

(۲) ابوحامد الغزالی، المستصفی ، الریاض: دار المیمان للنشروالتوزیع، سال اشاعت غیرمذکور،ص،۲۷۷

(۳)سیف الدین الآمدی،  الاحکام  فی اصول الاحکام ،(ج،۱)الریاض، دار الصمیعی للنشروالتوزیع،۲۰۰۳، ۲۳۸

(۴) ابومحمد ابن حزم، الاحکام فی اصول الاحکام،ج،۳، بیروت:دار ابن حزم، ۲۰۱۶ص،۵۷۹

(۵) ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون،۱؍۱۸ ،مکتبہ شاملہ

(۶) شمس الدین الذھبی،سیر اعلام النبلاء ج،۸ص،۹۰ مکتبہ شاملہ

(۷) ابن تیمیہ کے موقف کی تفصیل اور اس پررد کے لیے دیکھیے : رسالۃ فی الرد علی ابن تیمیہ فی مسئلۃ حوادث لا اول لھا،تحقیق:سعید عبد اللطیف فودہ،اردن: ناشر،محقق خود،۱۹۹۸،ص،۵۹ وما بعد، ابن حجر نے بھی فتح الباری میں ابن تیمیہ پراس تعلق سے شدید رد کیا ہے اور  مرقاۃ الطارم(ص،۶۱) اورفیض الباری (ج،۶،ص،۵۷۴) میں انورشاہ کشمیری نے بھی جابجا اس پررد کیا ہے۔ ابن قیم کے موقف اس کے حق میں دلائل کے لیے ملاحظہ کیجیے :حادی الارواح الی بلاد الارواح ،المکۃ المکرمۃ: دار عالم الفوائد للنشروالتوزیع،  ج،۲،ص،۷۱۸۔۷۹۲

(۸) مبتدع فرقوں کے غزالی کی فکر پراثرات  کے حوالے سے تنقید کے لیے دیکھیے: ذکی مبارک: الاخلاق عند الغزالی، قاہرہ: دارالشعب،  بدون سن ص ،۷۵

(۹) مولانا عبید اللہ سندھی کا مقالہ’’ امام ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ ،الفرقان،(بریلی)شاہ ولی اللہ نمبر،۱۳۵۹ھ،ص،۲۳۸

(۱۰)   شاہ ولی اللہ دہلوی ،حجۃ اللہ البالغۃ (تحقیق وتعلیق سعید احمد پالن پوری)ج،۱،الباب الثانی، ذکرعالم المثال، دیوبند: مکتبہ حجاز، ۲۰۱۰ ، ص،۶۰

(۱۱) ایضا،ص،۶۱

(۱۲) ایضا

(۱۳) حجۃ اللہ البالغہ ،ص،۵۷۔۵۸

(۱۴)محمد  زاہد الکوثری،حسن التقاضی فی سیرۃ الامام ابی یوسف القاضی، مصر:دار الانوار،۱۹۴۸،ص،۹۵

(۱۵)  ایضا،ص،۹۴

(۱۶)  حجۃ اللہ البالغہ ج،۱،ص،۷۰

(۱۷) مسند احمد ، حدیث نمبر،۸۷۲۷

(۱۸) ترمذی، حدیث نمبر،۲۵۵۸

(۱۹) اس طرح کی بہت سی احادیث کوشاہ صاحب نے عالم مثال کےثبوت  میں پیش کیا ہے۔ دیکھیے،حجۃ اللہ البالغۃ،ص،۷۲،۷۱

(۲۰)  ایضا،۷۵

(۲۱) دیکھیے:Fazlur Rahman: Revival and Reform in Islam, ed. Ebrahim Moosa, Noida: One World Publications, 2006, p.175

(۲۲) حسن التقاضی،ص،۹۷۔۹۸

(۲۳) شاہ ولی اللہ الدہلوی ، التفھیمات الالٰھیہ ،(ج،۲)  گجرات:المجلس العلمی ڈھابیل، ۱۹۳۶، ص: ۵۷۔۵۸

(۲۴)شاہ ولی اللہ الدہلوی  ،تاویل الاحادیث،(تحقیق وتقدمۃ، غلام مصطفی القاسمی) حیدرآباد،(پاکستان): اکادمیۃ الشاہ ولی اللہ الدھلوی:۱۳۸۵ھ ص،۱۰۲۔۱۰۳ 

(۲۵)  ایضا ،۱۰۳،یہی دونوں مثالیں شاہ صاحب نے عالم مثال کے  اثبات کے لیے بھی دی ہیں۔ حجۃ اللہ البالغۃ،ص،۷۴

(۲۶)   تاویل الاحادیث،ایضا،ص،۱۰۲

(۲۷) ایضا ،ص،۱۰۴

(۲۸) التفھیمات الالھیۃ ، ج،۲،ص،۵۸

(۲۹) انورشاہ کشمیری،  فیض الباری  علی صحیح البخاری مع حاشیۃ البدر الساری الی فیض الباری (ج،۴)حاشیہ،دیوبند: مکتبہ فیصل ،۲۰۱۷ص،۴۵۷۔۴۵۸

(۳۰) ابوعبد اللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن،ج،۱۷، بیروت: دار الکتب العلمیہ،۱۹۸۸ ص،۸۳

(۳۱) حسن التقاضی،ص،۹۷

(۳۲)  التفھیمات الالھیۃ، ج،۲ص،۸۴

(۳۳) شاہ ولی اللہ الدہلوی، تاویل الاحادیث،ص،۱۰۱

(۳۴) ایضا،ص،۱۰۱

(جاری)


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۵)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا آٹھواں باب)



توحید کی احیا کے لیے نیکی کی ممانعت: مسئلۂ عید میلاد النبی

انیسویں صدی کے مسلمان اہل علم کے درمیان عید میلاد النبی پر جتنے پرجوش مناظرے ہوئے ہیں، اتنے کسی اور مسئلے پر نہیں ہوئے ہیں۔ استعماری دور میں مسئلۂ میلاد پر کش مکش دور حاضر میں اس عمل کے متعلق پائے جانے والے تنازعات کی ٹھوس بنیاد ہے۔ ابتداءً گیارھویں صدی میں مقبول ہونے والا میلاد آج تقریباً تمام مسلم معاشروں میں وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ یہ اسلامی کیلنڈر کے تیسرے مہینے ربیع الاول کے بارھویں دن منایا جاتا ہے۔ یہ حضور ﷺ کا یوم ولادت ہے۔ اگر چہ عموماً یہ ایک تہوار کی شکل میں ہوتا ہے، تاہم یہ مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ البتہ میلاد کی سب سے بنیادی خاصیت یہ ہے کہ اس میں حضور ﷺ کی شان میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں، جن کا آغاز آپ ﷺ کی پیدائش کے ذکر سے ہوتا ہے، اور پھر آپ کی سیرت وفضائل بیان کیے جاتے ہیں1۔

میلاد پر مناقشہ اس کے مخالفین وموافقین دونوں کی طرف سے جذباتی ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ برصغیر کے تناظر میں میلاد میں سب سے زیادہ متنازع عمل 'قیام' ہے۔ قیام سے مراد حضور ﷺ کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہونا اور انھیں سلام پیش کرنا ہے، اور اس کے نتیجے میں آپ کی طرف سے برکات کا حصول ہے۔ اس عمل کے دوران عام طور پر نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ اس عمل کی قدر وقیمت کا دار ومدار اس اعتقاد پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ شرکاء پر برکات کے نزول کے لیے اس مجلس میں بذات خود حاضر ہوتے ہیں۔ قیام کے مخالفین کہتے ہیں کہ بیک وقت میلاد کے مختلف اجتماعات میں حضور ﷺ کے حاضر ہونے کے اعتقادمیں رسول اللہ ﷺ کو خدا کے مرتبے پر فائز کیے جانے کا خطرہ ہے ۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس عمل میں خدا کے حاضر وناظر اور مختار کل ہونے کی صفات سے پیغمبر کو متصف کرنے کا خدشہ  ہے۔ مزید برآں حضور ﷺ کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہونا ایک ایسا تعظیمی عمل ہے جو آپ کی بشری حیثیت کو کمزور کرتا ہے۔

اس کے برعکس، جیسا کہ میں اگلے دو ابواب میں تفصیل سے بتاؤں گا، قیام کے حامی اسے ایک انتہائی متبرک عمل سمجھتے ہیں کیونکہ یہ خدا کی محبوب ترین ہستی یعنی حضور ﷺ کی تعظیم کا عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ توحید کے لیے خطرہ ہونے کے بجائے قیام رسول اللہ ﷺ کے بے نظیر روحانی مقام ومرتبے کا عملی اقرار ہے۔ قیام سے متعلق مناقشے کے علاوہ میلاد متعدد اہم کلامی اور فقہی مسائل کو یکجا کرتا ہے، جو استعماری ہندوستان میں حریف مسلمان اہل علم کے اعتقادی اختلاف میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور ان مسائل میں غیر واجب اعمال کے لیے وقت کا تعین (توقیت الوقت)، غیرمسلموں کے مذہبی اعمال جیسے کرسمس کے ساتھ مشابہت (تشبہ)، ممکنہ طور پر گناہ کے اعمال جیسے گانا بجانا، محفل موسیقی جمانا، محفل میلاد کی سجاوٹ کے لیے چراغاں کرنا، اگربتیاں جلانا، خوشبو لگانا جیسے اعمال شامل ہیں۔

ان مسلکی اور ظاہری پہلوؤں کے ساتھ مولد ایک سنجیدہ اصولی مسئلہ اٹھاتا ہے اور وہ ان نئے اعمال اور رسوم کی شرعی حیثیت ہے جو شریعت نے صراحتاً نہ تو منع کیے ہیں، اور نہ انھیں جائز قرار دیا ہے۔ میلاد ایک ایسے رسم کی مثالی صورت ہے، جو حضور ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے عمل سے ثابت نہیں، لیکن اسے حضور ﷺ کی یاد منانے کے نیک مقصد کے لیے برتا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ قرونِ وسطیٰ اور عہد جدید کے اوائل میں اسلام کی فقہی روایت میں کافی مختلف فیہ رہا ہے۔ کچھ اہل علم نے میلاد کو نیک ترین اعمال کی حیثیت سے سراہا ہے، جبکہ بعض نے اس کی شرعی حیثیت پر گہری تشکیک کا اظہار کیا ہے۔ میلاد سے متعلق امام ابن تیمیہ (م 1328) اور جلال الدین السیوطی (م 1505) رحمہما اللہ کی آرا ان متقابل رجحانات کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ فقہ شافعی کے  نامور عالم علامہ سیوطی میلاد کے پرجوش وکیل تھے۔ سیوطی کے نزدیک اگر چہ میلاد کی ابتدا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے کافی عرصے بعد ہوئی، لیکن یہ بدعتِ حسنہ ہے کیونکہ اس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی مدح اور ان کی یاد منانا ہے۔ اس رسم کے ذریعے مسلمان حضور ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اور آپ کی بعثت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ سیوطی نتیجہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ یہ مقاصد قطعاً نیک ہیں،  اس لیے میلاد کے شرعی جواز میں کوئی شک نہیں2۔

ابن تیمیہ، جو قرون وسطی کے ایک کثیر التصانیف عالم ہیں اور جو سیوطی سے کئی صدیاں پیش تر گزرے ہیں، اس بات میں سیوطی کی موافقت کرتے ہیں کہ میلاد منانا کئی نیک مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: "جو شخص میلاد مناتا ہے، وہ اپنے نیک ارادے اور رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے عظیم اجر کا مستحق ہو سکتا ہے"3۔ ابن تیمیہ نے اگر چہ مولد میں خیر کے ممکنہ پہلو کو تسلیم کیا، اس کے باوجود وہ اسے بدعت سمجھتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ میں اس کی کوئی نظیر نہیں۔ ابن تیمیہ نے نے اپنے استدلال میں بتایا کہ جب صحابہ کرام نے، جو رسول اللہ ﷺ کے عاشق زار تھے، اور نیکی کے کاموں میں سب سے آگے تھے، میلاد نہیں منایا، تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ میلاد نہیں منانا چاہیے4۔ میلاد کے بارے میں سیوطی اور ابن تیمیہ کی مخالف آرا اس عمل کی شرعی حیثیت سے متعلق ابہام کی ایک جھلک فراہم کرتے ہیں5۔ میلاد ایک ایسے رسم کی مثالی صورت ہے جو اگر چہ دینی مصالح کا حامل ہے، لیکن یہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ سے ثابت نہیں۔ پھر اس کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

اپنے ماقبل جدید پیش روؤں کی طرح استعماری ہندوستان میں مسلمان اہل علم نے اس مسئلے کو زیادہ جوش وخروش کے ساتھ موضوع بحث بنایا۔ اس کے حامیوں اور مخالفوں دونوں نے اپنے مواقف کے دفاع میں تفصیل سے لکھا۔ دیوبند کے پیش رو نے ، جیسا کہ اس کہانی میں عکاسی کی گئی جس سے یہ حصہ شروع ہوا تھا، ہندوستان میں رائج میلاد کی پرزور مخالفت کی۔ یہاں بھی مولانا اشرف علی تھانوی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے دیوبندی موقف کو اپنے ایک رسالے 'طریقۂ مولد شریف' میں سب سے زیادہ جامع انداز میں واضح کیا6۔ اس رسالے میں مولانا تھانوی نے ایک منظم فقہی استدلال ترتیب دیا جس کا مقصد میلاد کو ایک مذموم بدعت ثابت کرنا تھا۔ 

اس باب میں، میں میلاد کے مسئلے پر مولانا تھانوی کے فقہی فریم ورک کا ایک دقیق تجزیہ پیش کروں گا۔ اس تجزیے کے ذریعے میں چاہتا ہوں کہ بدعت کے موضوع پر دیوبندی آرا کے ان فکری دلائل کی ایک ٹھوس وضاحت پیش کروں جس کا ذکر پچھلے باب میں ہوا۔ وہ کون سے مخصوص طریقے ہیں جن کے ذریعے مولانا تھانوی نے مجالسِ میلاد کے عدم جواز کا دعوی کیا اور اس دعوے کے لیے عقلی ونقلی دلائل فراہم کیے۔ ان کے استدلال سے علم، زمان اور عبدیت/اطاعت کے درمیان تعلق کے حوالے سے ان کے تصور کے متعلق کیا منکشف ہوتا ہے؟  کس استدلالی حکمتِ عملی کے ذریعے وہ روایت اور اس کی حدود کے نگہبان کے طور پر اپنی حیثیت کو تسلیم کراتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں میں زیرِ بحث لاؤں گا۔

طریقۂ مولد شریف میں مولانا تھانوی نے میلاد جیسی رسم کی، جو شریعت کی رو سے نہ صراحتاً جائز ہو نہ ناجائز، لیکن اس کی نظیر آپ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ میں موجود نہ ہو، شرعی حیثیت کو متعین کرنے کے لیے پانچ اصول وضع کیے ہیں۔ مولانا تھانوی کے اصولی منہاج میں بنیادی اہمیت اس فقہی قاعدے کو حاصل ہے کہ جب کسی عمل میں حلال اور حرام دونوں پہلو جمع ہو جائیں، تو ترجیح حرام والے پہلو کو دی جاتی ہے۔ ان اصولوں میں سے ہر ایک اصول کا ایک دقیق جائزہ ہمیں اس کے فقہی تصورات اور اصولی حساسیت کی نسبتاً گہری تفہیم کا موقع فراہم کرے گا۔

اصول 1: "اگر کوئی غیر واجب عمل واجب عمل کی حیثیت اختیار کر لے، تو اسے ترک کرنا چاہیے" (46)۔

جیسا کہ میں نے اس پورے باب میں استدلال کیا ہے، تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ کا مرکزی نکتہ غیر واجب رسوم کے مقابلے میں واجبات دینیہ کی اولیت کا تحفظ ہے، جنھیں عوام بآسانی غیر واجب رسوم کے ساتھ خلط کر سکتے ہیں۔ بالذات جائز ہونے کے باوجود یہ رسوم بدعات کی صورت اختیار کر گئی ہیں، کیونکہ وہ ایسی خصوصیات کے مشابہ بن گئی ہیں، جو صرف دینی واجبات کے ساتھ مختص ہیں۔ یہ اصولی تجاوز اس وقت یقینی بن جاتا ہے جب ایک سماج ایسے شخص کو لعنت ملامت کرتا ہے اور اسے عذاب کا مستحق سمجھتا ہے، جو اپنی مرضی سے ان رسوم میں شرکت سے گریز کرتا ہے۔

مولانا تھانوی کے نزدیک میلاد ایک ایسی رسم کی مثالی صورت ہے۔ تھانوی اپنے قارئین کو بار بار یاد دہانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بالذات میلاد نہ صرف یہ کہ مباح ہے بلکہ مستحب ہے۔ تھانوی کی نظر میں محفلِ میلاد کا انعقاد اور اس میں شرکت دینی اعتبار سے مفید اعمال ہیں، لیکن یہ صرف اس صورت میں جب یہ مروجہ حدود وقیود سے آزاد ہوں۔ مثلاً‌ اگر کچھ لوگ بغیر دعوت دیے اتفاقا کہیں نشست کریں، یا وہ  میلاد کے علاوہ کسی  مقصد کے لیے جمع ہوں، اور اس مجلس میں وہ زبانی یا قرآن کی تلاوت سے رسول اللہ ﷺ کے کردار، ذاتی خصوصیات، معجزات اور فضائل کو ایسے انداز میں ذکر کریں، جو صحیح احادیث کے موافق ہوں، تو ایسی مجلس بغیر کسی تحفظ کے جائز ہے۔

تاہم مولانا تھانوی کہتے ہیں کہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عوام میلاد کو اس کی اصل اور جائز حیثیت سے اوپر اٹھا کر واجب سمجھنے لگتے ہیں۔اس صورت میں میلاد مذموم بدعت بن جاتی ہے۔ مزید برآں اگر میلاد میں شرکت پر اصرار اس جوش وجذبے کے برابر یا اس سے متجاوز ہو جائے،  جس کے ساتھ واجب اعمال کی ادائیگی ہوتی ہے، تو ایسا اصرار شریعت کی برتر حیثیت پر سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اور جیسا کہ تمام مباح اعمال کے متعلق حکم ہے کسی ایسے شخص کو ملامت کرنا جو میلاد میں اپنی رغبت سے شریک ہونے سے گریز کرتا ہے، حدود سے تجاوز کی کلیدی علامت ہے۔ تھانوی کے نزدیک جب اپنی مرضی سے میلاد میں شرکت سے گریز پر سماج کی طرف سے تنقید ہونے لگے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ عوام اسے واجب سمجھنے لگے ہیں۔

اس بحث میں مولانا تھانوی نے بار بار التزام ما لا يلزم (یعنی ایسی چیز کی پابندی کرنا جو شرعاً لازم نہ ہو) کی تعبیر استعمال کی ہے۔ اگر کسی غیرواجب عمل پر اصرار اس حد تک پہنچ جائے کہ اس سے گریز کرنے والے شخص پر لعن طعن کی جائے، تو پھر وہ لوگ جنھوں نے ایسے اعمال پر اصرار کا ماحول تشکیل دیا ہے، ایک صحیح وثابت شدہ سنت کے مد مقابل عمل کے ایجاد کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تھانوی کے نزدیک ایسے افراد بدعتی ہیں۔ ایسے لوگ اس لائق ہیں کہ انھیں سزا دی جائے، ان سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، اور انھیں قابل نفرت بنایا جائے، تاکہ وہ اپنے معاشروں دوسرے عوام کے دین کو خراب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں۔

مولانا تھانوی کے نزدیک میلاد میں حرمت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی قیود ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں۔ مثال کے طور پر سال میں ایک دن کا تعین (ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ) جس کو میلاد کا انعقاد کیا جاتا ہے، لوگوں کی اپنی طرف سے ایجاد کردہ ایک اضافی قید کی مثال ہے۔ تھانوی نے اپنے استدلال کو تقویت فراہم کرنے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا: "رات کی نماز اور دیگر عبادات کے لیے صرف جمعے کی رات کو خاص مت کرو، اور نہ ہی روزے کے لیے جمعے کے دن کی تخصیص کرو"(47)۔

اصول نمبر 2: "ہر جائز بلکہ مستحب عمل ناجائز اور حرام بن جاتا ہے، اگر اس میں کوئی ناجائز عمل یا شرط شامل ہو جائے" (47)۔

تھانوی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی تقریب کی دعوت کو قبول کرنا مستحب ہے، بلکہ احادیث مبارکہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔تاہم اگر تقریب میں کوئی ناجائز عمل سرانجام پا رہا ہو تو پھر اس میں شرکت ناجائز قرار پائے گی (48)۔ یہ اصول دینی واجبات کے خالص پن کو برقرار رکھنے کے لیے مولانا تھانوی کی فکر مندی کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید برآں یہ تشخیص پر مرتکز ایک ایسے سماجی تخیل کی بھی غمازی کرتا ہے، جو میلاد جیسے متنازعہ دینی اعمال کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے پیچھے کار فرما ہے۔ تھانوی کی نظر میں شریعت ایک انسانی جسم کی طرح ہے، جسے تمام تخریبی اور فاسد اثرات سے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اگر عید میلاد النبی جیسا نیک عمل بھی مفسدات کا شکار ہوجائے، تو اسے ترک کرنا چاہیے، تاکہ امت اجتماعی نقصان سے بچ جائے۔ تھانوی نے جو مفسدات گنوائی ہیں، وہ ان کی نظر میں عوامی دین داری کے تصور پر خوب روشنی ڈالتی ہیں۔ نوٹ کیجیے کہ ان رسموں کا سارا ارتکاز اور زور حواس کی جذباتی تربیت پر ہے:

دو بنیادی اخلاقی اصول جو میلاد میں شامل فاسد اثرات کی تنقید میں مولانا تھانوی کی فکر پر حاوی ہیں، سادگی اور سنجیدگی ہیں۔ دراصل سادگی اور سنجیدگی ان انتہائی اہم دینی اقدار میں سے ہیں جس پر دیوبندی مسلک استوار ہے۔ دیوبند کے پیش رو بشمول مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا تھانوی متفقہ طور پر دینی اعمال کی ایسی تمام صورتوں کے مخالف تھے جو مسلمانوں کے درمیان غیر ضروی جوش وجذبے اور خواہشات کو ابھارتی ہوں۔ ان کی نظر میں ایسا اخلاقی نظام جو جذباتی اسراف کو برداشت کرتا ہو، عوام میں سنت وبدعت کے درمیان امتیاز کی صلاحیت کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔

دیوبندیوں کے وسیع تر اصلاحی بیانیے سے ہم آہنگ ہو کر مولانا تھانوی نے ایسے نیک اعمال کی وکالت کی، جن میں مسلمان سادگی اور سنجیدگی پر کار بند رہیں، اور جو انھیں اس قابل بنائیں کہ وہ اسراف، شان وشوکت کے عوامی اظہار اور عیش پرستی کو عیب اور باعث عار سمجھنے لگیں7۔ اس لیے مولانا تھانوی جیسے مصلحین کی اخلاقی اصلاح کے پروجیکٹس کو 'نجی دائرے' کی طرف واپسی کے سفر کے طور پر سمجھنا، جس کا مقصد صرف اور صرف پاکیزہ بندوں کی تربیت ہے، غلط ہے۔ اس کے برعکس بدعت پر مولانا تھانوی کی فکر کی امتیازی خصوصیت فرد کی اخلاقی اصلاح اور سماج کے سیاسی نظام کے درمیان ربط ہے۔ اُن کی فکر میں نجی اور عوامی دائرے کے درمیان کسی امتیاز کا کوئی ذکر  نہیں۔ میں اس باب کے اختتام میں اس نکتے کی طرف واپس آؤں گا۔

اصول نمبر 3: "یہ علماے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ  عوام کے دین وایمان کی حفاظت کریں" (48)۔

مولانا تھانوی نے بتایا کہ چونکہ لوگ علما کے پیچھے چلتے ہیں، اس لیے علما کو عوامی دائرے میں دین پر عمل کے حوالے سے انتہائی حزم واحتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مولانا تھانوی کی راے میں یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی اخلاقی و دینی تربیت اور حفاظت کریں۔ اس لیے اگر کسی مباح عمل کو عوام کی طرف سے فرض سمجھنے کا خطرہ پیدا ہو جائے، تو علما پر لازم ہے کہ وہ اس عمل کو ترک کریں۔ دوسروں کے لیے مثال ہونے کی بنا پر علما سے تقاضا ہے کہ وہ اپنے ان اعمال کے حوالے سے محتاط رہیں، جو معاشرے میں عام لوگوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی تسلیم کرتے ہیں کہ علما اپنے وسیع علم کی بدولت واجب اور غیر واجب اعمال میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم چونکہ عوام ان کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے عوام کے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر انھیں ایسے مستحب اعمال سے بھی دست بردار ہونا چاہیے، جنھیں عوام غلطی سے فرض سمجھ سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا کہ علما کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کو اعتقادی اور اخلاقی فساد سے تحفظ فراہم کریں۔

مولانا تھانوی نے اپنے استدلال کی وضاحت میں اپنی بنائی ہوئی دو اصطلاحات  پیش کیں۔ ان میں سے ایک اصطلاح کو وہ 'ضررِ لازمی' اور دوسرے کو 'ضررِ متعدّی' کہتے ہیں۔ مولانا تھانوی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لازمی ضرر سے مراد ایسی صورت ہے جہاں ایک ضرر رساں عمل میں شرکت کی وجہ سے صرف  اس میں شریک شخص کو نقصان پہنچتا ہو۔ اس کے برعکس متعدی ضرر سے مراد ایسا ضرر ہے جس کا نقصان صرف اس شخص تک خاص نہیں ہوتا، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ تھانوی نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح کوئی جائز عمل انفرادی ضرر کا باعث بننے کی وجہ سے ممنوع قرار پاتا ہے، ، اسی طرح ایک عمل تب بھی ممنوع ٹھہرتا ہے، اگر وہ متعدی ضرر کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر "ایک شخص بیمار ہے، اور ڈاکٹر نے اسے اجازت دی کہ وہ روزہ توڑے۔ اس صورت میں اس کا کھانا پینا اصلاً جائز ہوگا۔ تاہم اگر اس اجازت سے یہ امکان ہو کہ کوئی دوسرا شخص اس کی صورتِ حال کو دیکھ کر روزہ توڑ دے گا، تو پھر یہ بظاہر جائز عمل بھی ناجائز قرار پائے گا (57)۔

اس لیے علما کو چاہیے کہ وہ ایسے غیر واجب اعمال پر کڑی نظر رکھیں، جو ایسی شرعی حدود کے ساتھ گھل ملنے کا امکان رکھتے ہوں، جو مباح اعمال کو واجب اعمال سے الگ کرتے ہیں، اور نتیجتاً لازمی یا متعدی ضرر کا سبب بنتے ہوں۔ مزید برآں علما کو چاہیے کہ ایسے اعمال کو لازماً ترک کریں، جو کسی بھی مرحلے پر اپنی شرعی حیثیت کو پھلانگ کر برتر حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا تھانوی بتاتے ہیں کہ وفات کے دن میت کے خاندان سے تعزیت کرنا مسنون اعمال میں سے تھا۔ تاہم جب سے لوگوں نے اس رسم کو واجب عمل کی حیثیت دی ہے، علما نے اسے ممنوع اور واجب الترک قرار دیا۔ اسی طرح خدا کے سامنے شکر کی خاطر سجدہ ریز ہونا ایک روایت تھا اور رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جائز تھا لیکن جب لوگوں نے اسے سنتِ مقصودہ سمجھنا شروع کیا، تو اسے ناجائز قرار دیا گیا۔

تاہم تھانوی نے اس اصول میں ایک اہم قید کا اضافہ کیا: اگر کوئی واجب شرعی عمل کئی غیرشرعی رسوم کی شمولیت سے فاسد ہو جائے، پھر اس عمل کو بالکلیہ ترک کرنے کے بجاے فاسد اعمال سے اس کی تطہیر اور اصلاح کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر کسی جنازہ میں نوحہ کرنے والی عورت شامل ہوجائے، تو جنازہ یا تدفین کے عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نوحہ کرنے والی عورت کو خاموش کرنا چاہیے۔  لیکن جہاں تک غیر ضروری یا غیر واجب عمل کی بات ہے، جیسے کسی مجلس میں شرکت کی دعوت قبول کرنا، تو ایسی دعوت سے انکار لازم ہے، جس میں مکروہ یا فاسد سرگرمیاں ہو (49)۔ مولانا تھانوی کے نزدیک مباح اور واجب اعمال کے متعلق اصول میں یہ ایک اہم فرق ہے۔  جیسا کہ مجھے اگلے باب میں واضح کرنے کا موقع ملے گا، یہ بعینہ وہی نکتہ ہے، جس پر دیوبند کے پیش رو اپنے بریلوی مخالفین سے واضح اختلاف رکھتے ہیں۔

لیکن اس اصولی پہلو سے قطع نظر، یہ بحث عوام کے بالمقابل طبقۂ علما کے ایک فرد کی حیثیت سے مولانا تھانوی اپنے کردار کو جس طرح تصور کرتے تھے، اس سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ ان کے سماجی تخیل میں علما پر مسلسل یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود کو ایک قابل تقلید نمونے کی حیثیت سے پیش کریں۔اگر علما عوام کے سامنے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، تو اس سے عوام کے دینی رجحانات پر ضرر رساں اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر وہ اپنی اس صلاحیت کو کہ لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں، سنجیدگی سے لیں تو وہ اخلاقی طور پر ایک مضبوط اور صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس سیاق میں مولانا تھانوی اور دیگر متعدد ہندوستانی مسلمان مصلحین (دیوبندیوں اور بریلویوں دونوں) نے ایک خطیبانہ تعبیر استعمال کی ہے جس کی رو سے وہ عوام کو  مال مویشی کے ایک گلے کے برابر قرار دیتے ہیں۔ اس احساس کا اظہار وہ عربی کے ایک مشہور کہاوت 'العوام کالانعام' (یعنی عوام جانوروں کی طرح ہیں) سے کرتے ہیں، اور برصغیر کے مختلف الخیال علما یہ کہاوت بار بار استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں عوام سادہ اور کم فہم ہیں، اور انھیں مستقل طور پر  گلہ بانوں کی ایک جماعت کی ضرورت ہے، جو انھیں دینی رہ نمائی اور اخلاقی ہدایات فراہم کریں۔ لیکن یہ بڑا عجیب رویہ ہے کیونکہ مولانا تھانوی جیسے علما جس قسم کے انداز فکر کو فروغ دے رہے ہیں وہ تو کافی پیچیدہ اور لسانی اعتبار سے مشکل ہے۔ پھر حیرت ہےکہ یہ مباحث اور ان میں موجود پیچیدہ افکار ان 'عوام کالانعام'  کے لیے کیسے قابل فہم ہو سکتے ہیں، جن کی اصلاح اور اخلاقی تطہیر کے لیے وہ کوشاں ہیں۔ شاید اور کسی بھی چیز سے زیادہ عوام کو جانوروں کے برابر قرار دینا دراصل ان علما کے دینی استناد کو سہارا فراہم کرتا ہے، جنھوں نے اس کہاوت کا استعمال کیا۔ گلہ بان اور اس کے ریوڑ سے علما اور عوام کے درمیان تعلق کی تصویر کشی کرکے یہ کہاوت علما کے شرعی استناد اور عوام کے مزعومہ تقلیدی رجحان اور انحصار کو باہم جوڑتی ہے۔

اصول نمبر 4: "زمانی، مکانی اور تجربی مشاہدات ان معاملات میں مختلف نتائج پیدا کرتے ہیں، جو عارضی طور پر مکروہ (مکروہِ عارضی) ہوں" (49)۔

جیسے پہلے ذکر ہوا کہ قرون وسطی اور عہد جدید کے اوائل میں نامور مسلمان فقہا جیسے علامہ سیوطی نے میلاد کو مطلقا جائز اور مثالی رسم قرار دیا ہے۔ اس حقیقت نے مولانا تھانوی کے لیے ایک شرعی چیلنج پیدا کیا، کیونکہ میلاد کے حوالے سے ان کی مخالفت ان اکابر اہل علم کی مخالفت پر محمول کیا جا سکتا تھا۔ مولانا تھانوی نے اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ اصول وضع کیا۔ مولانا تھانوی پوری قطعیت سے بتاتے ہیں کہ ان متقدمین علما نے میلاد کو اس لیے مستحب قرار دیا تھا، کیونکہ ان کی زندگی میں اس میں وہ مفسدات نہیں تھے جو بعد میں شامل ہو گئے۔  جیسا کہ وہ  لکھتے ہیں: "اگر ان فقہا کو آج میلاد کا حکم بتانا پڑے، تو وہ بھی اسے حرام قرار دیں" (49)۔ اس لیے تھانوی کے نزدیک کسی عمل کا حکم ہر زمان ومکان میں ایک جیسا یا ابدی نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہے کہ آج مکروہ قرار دیا جانے والا ایک عمل گزشتہ دور میں مباح قرار دیا گیا ہو۔

 مولانا تھانوی نے رسوم کے حوالے سے اسی انداز استدلال کو جغرافیائی اختلافات پر بھی منطبق کیا: یعنی کوئی عمل ایک علاقے میں (وہاں پر رائج حالات کی مناسبت سے) جائز ہو سکتا ہے، جب کہ وہی عمل کسی دوسرے علاقے میں ناجائز ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دو ماہر فقہا  کسی ایک مسئلے کے متعلق اپنے تجربے اور مشاہدے میں اختلاف کی بنیاد پر دو مختلف مواقف اختیار کر سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے اپنے استدلال میں بتایا کہ اگر کوئی فقیہ کسی مباح عمل کے ساتھ جڑے اخلاقی فسادات سے آگاہ نہیں ہے تو اسے اس عمل کو جائز بتانے میں کوئی اشکال نہیں ہوگا۔ تاہم ایک دوسرے فقیہ کا تجربہ اور مشاہدہ اسے اس عمل کو مکروہ قرار دینے پر آمادہ کر سکتا ہے، اور اس لیے وہ اس عمل کو ناجائز قرار دے سکتا ہے۔

مولانا تھانوی نے اپنے مخالفین کے اعتراضات کا قلع قمع کرتے ہوئے باصرار بتاتے ہیں کہ "یہ اختلاف محض ظاہری ہے نہ کہ حقیقی۔ یہ صرف صوری نہ کہ معنوی" (49)۔  اس طرح مولانا تھانوی میلاد کی حرمت والے موقف پر قائم رہنے میں کام یاب ہوگئے، اور اس کے ساتھ انھوں نے قرونِ وسطی کے نامور عالم علامہ سیوطی سے اپنی وفاداری بھی برقرار رکھی، جن کا موقف اس موضوع پر ان سے مختلف ہے۔ 

مولانا تھانوی کے تعبیری منہاج کے مطابق کسی عمل کی اخلاقی حیثیت ان حالات سے مشروط ہے، جن میں یہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ آخر کار اضافیت پر مبنی اس منہاج نے ایک مصلح عالم کی حیثیت سے مولانا تھانوی کے استناد کو بڑھاوا دیا، اس طرح کہ کسی مخصوص زمان ومکان میں کسی عمل کی شرعی حیثیت کے تعین کا اختیار ان کے پاس رہا۔ کار اصلاح سرانجام دیتے ہوئے مولانا تھانوی نے ایک ایسے اخلاقی نظام کی سرپرستی کی کوشش کی، جو الٰہی شریعت کی توقعات اور حدود کا محافظ ہو۔ لیکن یہ توقعات اور حدود ہیں کیا؟ اس کے تعین کا دار ومدار مولانا تھانوی اور حال کے متعلق ان کے جائزے پر رہا۔ انھوں نے خدا کی مرضی کو معلوم کرنے کے لیے اپنی مرضی کا استعمال کیا۔ 

مزید برآں مولانا تھانوی کا تعبیری اسلوب پوری گہرائی کے ساتھ زمان کی ایک مبہم تفہیم اور اس تفہیم کا سماج کی اقدار کی تشکیل کے ساتھ تعلق سے جڑا تھا۔ ایک طرف مولانا تھانوی کا فقہی منہاج زمان کے ایک متحرک تصور میں پیوست  تھا۔اس متحرک تصور کی رو سے اختلافی رسوم واعمال کے شرعی احکام بدلتے زمانے اور سماجی حالات کے مطابق تبدیل ہوئے اور ہونے چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر چہ علامہ سیوطی جیسے بزرگ عالم نے میلاد کو مستحب قرار دیا تھا، لیکن جب وہ حالات تبدیل ہوئے جن میں میلاد سرانجام دیا جاتا تھا، اس لیے اس کی شرعی حیثیت بھی بدل گئی۔ کسی عمل کی شرعی حیثیت ان حالات کے مطابق متحرک اور تغیر پذیر رہتی ہے، جن کے تحت وہ سرانجام پاتا ہے۔

اس صورت میں شریعت ایک لچک دار استدلالی فضا ہے، جو ان بدلتے زمانی حالات سے خود کو ہم آہنگ کرتی ہے جن میں وہ فعال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خواہش کہ حضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ تمام ازمنہ وامکنہ میں قابل عمل رہے (یہ خواہش مولانا تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے)،  زمان کو غیر متغیر اور مستقل فرض کرتی ہے۔

تھانوی کی فکر میں زمان کے مسئلے پر ابہام کو ایک اور پہلو مزید واضح کرتا ہے۔مخصوص زمانی اداوار میں پائے گئے خارجی حالات کے مطابق فقہی آرا اختیار کرنے کی ضرورت کے بارے میں اپنے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے تھانوی بتاتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت تھی، کیونکہ مرد وعورت کے درمیان کشش کا امکان نہ تھا۔ تاہم بعد میں بدلتے حالات کی بنیاد پر صحابہ کرام نے اس عمل کو ممنوع قرار دیا" (50)۔

اس مثال میں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ایک بنیادی زمانی منہاج کا کام دیتا ہے، جس کے مطابق حال کو ڈھلنا چاہیے۔  اس احساس کی تہہ میں کار فرما زمنیت کے ماڈل میں تاریخ کا ایک ایسا الہامی اسلوب جان ڈالتا ہے، جس میں حال کی زندگی ساتویں صدی کے ایک الہام (عہد نبوی) کی تصویر میں منکشف ہوتی ہے۔ تاریخ کا ایسا الہامی تصور تبدیلی اور حرکیت کا مخالف ہے؛ یہ زمان کے ایک ایسے تصور کو فرض کرتا اور اس سے پرورش پاتا ہے، جو مستقل اور غیر متبدّل ہو۔ تاہم اگر چہ تھانوی تاریخ اور زمان کی ایک الہامی تفہیم کو قبول کرتے ہیں، لیکن زمان کے ایک متحرک تصور کو اختیار کرنے سے بھی انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔صحابہ کرام کی طرف سے خواتین کی مسجد میں آنے کی ممانعت سے، جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے عمل سے ایک واضح تبدیلی اور انحراف ہے، یہ امر بالکل بدیہی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ اس مثال میں مولانا تھانوی نے ایک طرف فقہی لچک کی حمایت کی، اور بدلتے سماجی حالات کے مطابق  احکام کی تبدیلی کی گنجائش کی تائید کی۔ الہامی ماڈل کے برعکس قانون کے بارے میں اس لچک دار اور متحرک رویے نے حال کو ایک ایسے زمانی تناظر کی حیثیت عطا کی، جو کسی سماج کے لیے شرعی و اخلاقی پروگرام کی تشکیل کے لیے سب سے زیادہ مناسب تھا۔ نتیجتاً قانون اور تاریخ کے الہامی تصور کے برعکس جو زمان کو مستقل ہونے پر مجبور کرتا ہے، یہ بعد والا رویہ زمان کی حرکیت کی تائید کرتا ہے۔ تب یہ امر واضح ہے کہ مولانا تھانوی نے بدعت کے حوالے سے اپنا پسندیدہ استدلال وضع کرنے کے لیے اپنے افکار میں زمان کے استقلال اور تحرک کو حکمتِ عملی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ان کی فکر میں مستقل اور متحرک زمان دونوں بیک وقت موجود اور باہم معاون ہیں، جو ایک لاینحل لیکن تعمیری ابہام کی غمازی کرتے ہیں۔ 

صحابہ کرام کے عہد میں مساجد کے اندر خواتین کی موجودگی کی ممانعت کی جو وضاحت مولانا تھانوی نے کی ہے، اس کے اندر ایک اور ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ کون سے تاریخی اسباب ہیں، جن کی بنا پر وقت گزرنے کے ساتھ انسانی فطرت میں ایسی جوہری تبدیلیوں کو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ مثلاً مولانا تھانوی کس بنیاد پر یہ استدلال کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں مرد وزن کے درمیان کشش موجود نہ تھی، اور آپ علیہ السلام کی وفات کے فورًا بعد پیدا ہوئی؟ مولانا تھانوی ان ابہامات کو نہیں چھیڑتے۔ تاہم ان کے استدلال کے منطقی ربط سے زیادہ دل چسپ تاریخ اور زمان کا وہ تصور ہے جو یہ استدلال فرض کرتا اور تشکیل دیتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے دینی عروج وزوال کا جو بیانیہ مولانا تھانوی کے استدلال میں کار فرما ہے، اس یقین کے ساتھ نتھی ہے کہ ایک شخص تاریخ میں جتنا پیچھے کی طرف سفر کرتا ہے، اتنا ہی اسے اسلام اپنی خالص شکل میں ملے گا۔ اس میں عہد نبوی ایک غیر فاسد اخلاقی نظام کے ایک حتمی ماڈل کا کام دیتا ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنے حال میں زمان کے منفی تجزیےنے دین کی اخلاقی پاکیزگی کے نگہبان کی حیثیت سے مولانا تھانوی کی اپنی حیثیت کو استناد عطا کیا۔ حال کے ایک یاس انگیز تصور نے ایسے پیغمبری مصلحین کے استناد کی ضرورت پیدا کی، جو عوام کو بدعات سے ہٹا کر سنت کے رستے پر ڈال سکیں۔ حقیقت میں مولانا تھانوی کے دینی فرائض کی کڑی علمیاتی تحقیق کا پورا پروجیکٹ بالکل اہم نہ ہوتا، اگر یہ ایک عالم گیر اخلاقی زوال کے بیانے میں ملفوف نہ ہوتا۔

المختصر مولانا تھانوی نے ماضی کے ایک مثالی معاشرے کے تصور اور حال اور مستقبل کی ایک مکروہ تصویر کے درمیان تقابل پیدا کرکے اپنے دینی استناد کو تقویت پہنچائی۔ مولانا تھانوی کی فکر میں مثالی معاشرہ (نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کا عہد) ہمارے پیچھے ہے؛ یہ تاریخ کا ایک ایسا عہد ہے جسے سماج کی عادت (habitus) کو تبدیلی کے ایک جامع اور مسلسل پروگرام کے ذریعے واپس لایا جا سکتا ہے،اور اسی طرح سے ماضی کی گم شدہ میراث کو حال میں پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن واپسی کی یہ خواہش ہمیشہ ناآسودہ رہی۔ یہ عدم امکان کبھی بھی وقوع سے ہم کنار نہ ہوا۔

یہاں میں یہ اضافہ کرتا چلوں کہ عہد نبوی کو زمانۂ موجود میں واپس لانے کی ناآسودہ خواہش اخلاقی بحران کی اس الہامی ضرورت کو ایندھن فراہم کرتی ہے، جو 'فسادِ زمان' کے مقبولِ عام اصلاحی استدلال میں پایا جاتا ہے۔ یہ  ایک ایسا استدلال ہے جسے مولانا تھانوی نے بدعت سے متعلق اپنے افکار میں بار بار پیش کیا ہے۔ اس تصور میں زمان کی علامت مجازی طور پر عوام کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو ایسی عادات واطوار کو بڑھاوا دیتے ہیں، جو ہر آنے والے عہد میں فساد کے شماریے (index) میں معتد بہ اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ مزید برآں مولانا تھانوی کے افکار میں بیک وقت مثالی اور مکروہ زمنیتوں کے لاینحل تناقض کی موجودگی ہی سنتِ نبوی کے ایک سرپرست اور احیا کے علم بردار کی حیثیت سے ان کے استناد کو تقویت فراہم کرتی ہے۔

اصول نمبر 5: "ایک ناجائز عمل اس بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا کہ سماج کے لیے متعدد مصالح اور بہبود کا حامل ہے۔ اگر اس عمل کے ساتھ جڑے مصالح شریعت کی رو سے ضروری نہ ہوں، تو پھر وہ عمل ناجائز رہتا ہے" (50)۔

اس اصول کو وضع کرنے کا بنیادی مقصد میلاد کے حامیوں کے اس استدلال کا جواب دینا تھا کہ اس رسم میں موجود کچھ مفید مصالح  ہیں جیسے غریبوں کو کھانا کھلانا، غیرمسلموں میں اسلام کی تبلیغ اور دینی طبقے کا پھلنا پھولنا، جن کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ مولانا تھانوی نے اس کے جواب میں بتایا کہ میلاد سے پیدا ہونے والے اجتماعی مصالح اس سے جڑے  مضر اثرات کا ازالہ نہیں کرتے۔ مولانا تھانوی کے مطابق اگر میلاد کے ساتھ جڑے مجوزہ مصالح شرعاً ضروری نہیں، یا ان کے حصول کے لیے دیگر ذرائع موجود ہیں، تو پھر یہ مصالح میلاد کے لیے وجۂ جواز نہیں بن سکتے۔ مثلاً ایک شخص یہ استدلال کر سکتا ہے کہ میلاد جیسی رسم سماج کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ مولانا تھانوی کی نظر میں یہ مصلحت میلاد کے جواز کے لیے کافی نہیں۔ اس کے سماجی تخیل میں ایک متحرک سماج کی تشکیل سے زیادہ اہم فوری اور قابل توجہ حکم شریعت کی مستقل حدود کا تحفظ ہے۔

قانون الٰہی کی سالمیت برقرار رکھنا دیگر تمام مصالح پر فوقیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ مولانا تھانوی نے تعلیق کی ہے: "اچھی نیت سے ایک مباح عمل عبادت کا درجہ حاصل کر سکتا ہے، لیکن ایک مکروہ عمل کبھی مباح نہیں بن سکتا، اگر چہ اس میں ہزار مصالح اور مفید مقاصد ہوں" (50)۔ 

وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مثلا کوئی ظلم وناانصافی سے مال جمع کرتا ہے، اس نیت سےکہ  وہ اسے غریبوں میں بانٹے گا۔ اس صورت میں ظلم وناانصافی جائز نہیں قرار پائے گی، اگر چہ اس بظاہر نیک عمل سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ملنے کی امید ہو" (50)۔

مولانا تھانوی احکامِ الہی کے ایک وکیل کی حیثیت سے

یہ پانچ اصول وضع کرنے کے بعد مولانا تھانوی نے ان اصولوں کی روشنی میں میلاد کا جائزہ لیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے اس بات کی تعیین ضروری ہے کہ لوگ میلاد میں شرکت کو فرض سمجھتے ہیں یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس بات کا یقین حاصل کرنا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر رائج میلاد مختلف فاسد رسوم کی وجہ سے بگڑ گیا ہے یا نہیں۔ مولانا تھانوی ان دونوں سوالوں کا جواب قطعی طور پر اثبات میں دیتے ہیں۔جیسا وہ لکھتے ہیں:

جس بات کا یقین ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے زمانے میں یہ مباح اعمال فساد کا سبب بن رہے ہیں؟ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ان اعمال میں فساد ہے، تو پھر انھیں ناجائز ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ جائز رہیں گے۔ اور یہ یقین تجربے اور مشاہدے کی رو سے بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔میلاد کے بارے میں اپنے سالہا سال کے تجربے کی روشنی میں بلا جھجھک یہ کہہ سکتا ہوں کہ عوام کے اندر تقریباً ہر فرد اس رسم کو شرعی فریضہ سمجھتا ہے، اور ان تقریبات میں اس طرح شرکت کرتا ہے کہ گویا یہ شریعت کے فرائض یا مرتبے میں اس سے بھی برتر ہیں (51)۔

مولانا تھانوی نے میلاد کو علی الاطلاق یعنی اپنے جوہر کے اعتبار سے اور بالذات ناجائز قرار نہیں دیا۔  وہ اس بات پر قائم رہے کہ اصلاً میلاد جائز ہے۔ تاہم انھوں نے اس کے جواز کے لیے نہایت کڑی شرائط مقرر کیں۔ ان کے مطابق اگر اس محفل کے شرکا اپنے قول وفعل سے یہ ظاہر کریں کہ وہ میلاد کو ایک غیر واجب رسم سمجھتے ہیں، تو پھر یہ جائز رہے گا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ مولانا تھانوی تجویز کرتے ہیں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ محفل میلاد سے جڑی قیود میں کچھ تنوع پیدا کریں- ایسی قیود جن پر شدت کے ساتھ کاربند ہونے کی وجہ سے وہ شریعت کی طرح بن گئی ہیں۔ 

میں چاہتا ہوں کہ تھانوی کے اپنے الفاظ میں وہ طریق کار واضح کروں، جس کے ذریعے وہ میلاد کو ایک غیر واجب رسم بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں:

اگر مٹھائیوں کی تقسیم محفل میلاد کا ایک مستقل جزو ہے، تب متعدد مواقع پر شرکا کو اس عمل میں تبدیلیاں کرنی چاہیے، مثلاً‌ انھیں چاہیے کہ وہ فقرا کو تنہائی میں نقدی یا کپڑے یا گندم دیں۔ اور بعض اوقات انھیں اس موقع پر صدقہ خیرات دینے مکمل گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح جب محفل میلاد میں رسول اللہ ﷺ کے ذاتی فضائل وخصوصیات کا بیان ہو، اور کوئی وفورِ جذبات کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہو، تو اس قیام کے لیے کسی وقت کی تخصیص بالکل معقول نہیں۔ جب کسی شخص پر وجد طاری ہو جائے تو وہ کھڑا ہو جائے، چاہے یہ ابتدا میں ہو یا درمیان یا محفل میلاد کے آخر میں۔ اس کے ساتھ بعض اوقات اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بیٹھے رہنا چاہیے۔ مزید برآں صرف محفل میلاد کے مقام پر جذبات سے مغلوب ہو کر قیام نہیں کرنا چاہیے۔ میلاد کے علاوہ ایسے دیگر مواقع پر بھی اس وجد اور قیام پر عمل کرنا چاہیے، جہاں نبی اکرم ﷺ کے فضائل وخصائص بیان ہوتے ہوں (52)۔

یہاں پر مولانا تھانوی کی بحث میں ایک نکتے کے حوالے سے دلچسپ تبدیلی سامنے آتی ہے جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ سادگی پر تمام زور کے باوجود ان کے مسلکی تصور میں پھر بھی جذبات کی کچھ گنجائش ہے۔ وہ جذبات کے بالکلیہ استیصال کے قائل نہیں،بلکہ ان کے درست استعمال اور تصرف کو اخلاقی اعتبار سے راست باز اور ثابت قدم بندے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ مولانا تھانوی یہ بتانے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ایسے کسی بندے کو تلاشنا تقریبا ناممکن ہے جو ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہو، یعنی وہ شخص جو میلاد کو سرانجام دیتے وقت اسے ایک فرض عمل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرے۔ وہ طنزیہ انداز میں بتاتے ہیں: "ایسا شخص عنقا سے بھی زیادہ نایاب ہے" (51)۔

مولانا تھانوی کے تعبیری منہاج کا دار ومدار ایک ایسے تصور پر جسے اخلاقیات کے اضافی اسلوب (relativistic mode of ethics) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مولانا تھانوی کے مطابق کسی عمل کی شرعی حیثیت ان خارجی عوارض سے طے پاتی ہے جن کے تحت وہ سرانجام پاتا ہے۔ یہ تعبیری اسلوب بھی ان کے اپنے دینی استناد کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ کسی عمل کے ذاتی اور جوہری حسن وقبح سے صرف نظر کرکے بحث کا رخ ان احوال وظروف کی طرف موڑ دینے سے جن کے تحت یہ عمل انجام پاتا ہے، تھانوی نے  ایک عالم کی حیثیت سے اپنی قانون سازی کے اختیار کو تقویت دی۔ یعنی آخر الامر وہ ہی ہیں جو اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ خارجی عوارض مثبت ہیں یا منفی، صالح ہیں یا فاسد۔

اپنی کتابJustice Miscarried: Ethics, Aesthetics and the Lawمیں قانونی مفکرین کوستاس دوزیناس (Costas Douzinas) اور رونی وارنگٹن (Ronnie Warrington) بتاتے ہیں کہ انسانوں کی قانون سازی کے اختیارات میں تدریجی توسیع جدیدیت میں قانونی پیش رفت کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جدیدیت کے زیر اثر "جدید شعور اور آزاد ارادہ قانون ساز بن گئے ہیں: ماتحت بذات خود قوانین کا جائزہ لیتے ہیں، اور انھیں رد کر سکتے ہیں، اور ان کو دوسرے قوانین سے بدل سکتے ہیں، اگر وہ ان معیارات پر پورا نہ اترتے ہوں، جو حالات اور عقائد کے مطابق تغیر پذیر ہوتے ہیں"8۔  بعینہ طریقۂ مولد شریف میں مولانا تھانوی نے مخصوص قانونی معیارات وضع کیے ہیں، جو دینی فرائض کو استدلال کے ایک انتہائی منظم طریقے سے بنیاد فراہم کرتے ہیں، اور جس کے وضع کرنے میں انسانی عقل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جو اعمال صراحتاً جائز نہ ہوں نہ ہی قطعاً حرام ہوں، ان کی شرعی حیثیت کے تعین کو خارجی عوارض پر منحصر کرنے سے مولانا تھانوی نے خود کو مجتہد کے درجے پر فائز کر دیا۔ الٰہی منشا اور اختیار کے ترجمان کی حیثیت سے مولانا تھانوی نے خود کو ایک سادہ حقیقت کو معنی عطا کرنے والے کی حیثیت دی۔

دیوبند کو 'باطنی اصلاح' کی تحریک سمجھنے کی غلطی

خلاصہ یہ کہ آخری دو ابواب میں میں نے دکھایا کہ بدعت سے متعلق شاہ محمد اسماعیل اورمولانا اشرف علی تھانوی کے مباحث کو تقویت پہنچانے کے لیے شریعت کے تصور میں مرکزی نکتہ شریعت کی متعین کردہ علمیاتی حدود اور روزمرہ کی عادات واطور کی سمت متعین کرنے والے وجودیاتی نمونوں کے درمیان ہم آہنگی کے حصول کی خواہش تھی۔ ان علما کی نظر میں کوئی عمل اس وقت بدعت بنتا ہے جب یہ شریعت کی عطا کردہ 'حلال'، 'مباح'، 'واجب'، 'مکروہ' یا 'حرام' حیثیت سے تجاوز کر جاتا ہے، وہ حیثیت جو کسی عمل کو شریعت کی مخصوص تعبیر وتشریح کے نتیجے میں دی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شریعت کی مستقل اقدار علم کا ایک جامع منہج ہیں، اور چاہیے کہ انفرادی عادات اور اعمال کو ان کے مطابق ڈھلیں اور ان سے ہم آہنگ ہوں۔ جب شریعت کے علم اور اکتسابی عادات کے درمیان یہ ہم آہنگی ٹوٹ جاتی ہے، تو بدعات رونما ہوتی ہیں۔ علمیاتی انتشار وجودیاتی اور سماجی پراگندگی کا سبب بنتا ہے۔ یہاں یہ ملاحظہ کرنا مفید ہوگا کہ علم وعمل کی یہ الجھن بوردیو کے نظریۂ عادت (habitus) میں مرکزی نکتے کی حیثیت رکھتی ہے، جیسا کہ مائیکل دی سرتیو (Michel De Certeau) نے واضح کیا ہے۔

دی سرتیو بتاتا ہے کہ بوردیو کے ماڈل میں کسی سماج کی عادات کو اس کے معروضی عقائد سے جوڑے رکھنے کے لیے کلیدی متغیر (variable) اکتسابی علم ہے۔ دی سرتیو کے مطابق بوردیو کا نظریہ "اعمال کا عقائد سے ان کی اصل کے ذریعے ہم آہنگی کی وضاحت کی کوشش کرتا ہے۔ 'اصل' سے مراد عقائد کو (اکتساب کے ذریعے) باطن کا حصہ بنانا اور اعمال کے حاصلات (جس کو بوردیو 'عادات' کہتا ہے) کو خارج کا حصہ بنانا ہے۔ اس طرح ایک زمانی پہلو سامنے آتا ہے: اعمال (جو تجربے کا اظہار ہیں) حالات (جو عقائد کا مظہر ہیں)سے  صرف اس صورت میں مکمل طور پر ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، اگر عقائد باطن/خارج کا حصہ بننے کے عمل کے دوران مستحکم (stable) رہیں9۔

عقائد اور اعمال کے درمیان تعلق کی تقریباً یہی صورت مسلمانوں کے ان اصلاحی مباحث میں دیکھی جا سکتی ہے، جن کا مقصد شرعی احکام کی ایک بالادست ساخت کی حیثیت سے شریعت کی اولیت کا تحفظ ہے۔ شریعت کی طے کردہ علمیاتی حدود اور معیارات کی بقا اور استحکام کو صرف ان اکتسابی میلانات کو خارجی صورت عطا کرنے کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے جو عوامی سطح پر ان حدود اور معیارات کی تنفیذ اور تصدیق کرتے ہیں، لیکن یہ حدود اور معیارات کبھی ایک طے شدہ امر نہیں رہے۔ 'شرعی میلانات' کے حوالے سے کس کا موقف سماج کی عادت (habitus) کا رخ متعین کرے، اس پر اختیار حاصل کرنےکی  کش مکش ہمیشہ سے ایک جاری رہنے والا عمل ہے، جس پر نہ ختم ہونے والے اختلافات رہے ہیںَ۔ بالفاظ دیگر ایک معیاری عقیدے پر اختلاف اس عقیدے کی عدم موجودگی پر دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ ایسے عقیدے کی موجودگی میں متبادل ترجیحات ناقابلِ تصور اور شعور کے خانے سے محو ہو جاتے ہیں۔ میری رائے میں حریف عقائد پر یہ کش مکش  بدعت کے مفہوم اور دائرۂ کار پر بین المسالک اختلافات کے رزمیوں میں کار فرما بنیادی بیانی پلاٹ (narrative plot) کا کام دیتا ہے۔

ان آخری دو ابواب میں جو تجزیہ کیا گیا ہے اس سے باربرا مٹکاف (Barbara Metcalf) کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ بانیانِ دیوبند نے دینی اصلاح کا ایک ایسا پروجیکٹ شروع کیا تھا جس کا بنیادی زور نجی دائرے میں شخصی پاکیزگی پر تھا۔ دیوبند مدرسے کے ابتدائی دور سے متعلق اپنی شان دار کتاب میں مٹکاف نے یہ موقف اپنایا کہ دیوبندی نظریے کی بنیادی خصوصیت 'داخلی تبدیلی' ہے، یعنی ایک مسلمان کی حیثیت سے فرد کی اصلاح پر از سرِ نو زور دینا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں علماے دیوبند نے "ریاست اور سماج کی تشکیل کے مسائل سے اک گونہ پہلو تہی کرکے انفرادی مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کی طرف اپنا رخ موڑ دیا"10۔

دیوبند سے متعلق اپنی بلند پایہ تحقیق میں محمد قاسم زمان نے مٹکاف کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ "بیسویں صدی میں علماے دیوبند کی سرگرمیوں کی عوامی اور سیاسی پہلو کی وضاحت نہیں کر سکتا"11۔  قاسم زمان کا نکتہ تسلیم ہے، لیکن یہاں پر میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ باربرا مٹکاف کے موقف میں اس سے بھی زیادہ ایک بنیادی مشکل ہے اور وہ یہ مفروضہ ہے کہ عوامی یا نجی دائرہ  زندگی کے الگ میدانوں کی حیثیت سے بنے بنائے طور پر ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ مٹکاف کا فکری دائرۂ کار ایسے کرداروں کے سر داخلی/خارجی اور اجتماعی/انفرادی جیسے لبرل سیکولر تقابلات منڈتی ہے جنھوں نے نہ تو اپنی زندگیاں ان تقابلات کی حدود کے تحت گزاریں، اور اپنے اصلاحی تصورات ان کی روشنی میں ترتیب دیے۔

جیسا کہ میں نے اس حصے میں بار بار بتایا ہے کہ بدعت کے حوالے سے دیوبندیوں کے مباحث بیک وقت فقہ، کلام اور روزمرہ کے اعمال کے سنگم پر واقع ہیں۔ ایک مسلمان کی اخروی نجات کا امکان ایک ایسے عوامی دائرے کی نگرانی پر منحصر ہے جو یک سر اور مطلق خدائی حاکمیت (توحید) کے عقیدے کا اعتراف کرے۔ کسی مسلمان کے انفرادی تزکیے کے لیے ایک ایسے سماج کی تعمیر کی ضرورت ہے، جو روزمرہ زندگی میں قانونِ الہی کی حدود کو عملی شکل دینے کے لیے ہمہ تن یک سو ہو۔ دیوبند کی اصلاحی تحریک کی بنیادی خصوصیت اسلام کو باطن کا حصہ بنانا یا 'سماج کی تنظیم سے رخ پیرنا نہیں' جیسا کہ مٹکاف نے موقف اپنایا ہے۔ اس کے برعکس دیوبند کے پیش رو سماج کو اس انداز میں بدلنا چاہتے تھے، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی تخیل میں خدائی حاکمیت کی اولیت بحال ہو۔ فرد کی اصلاح کے ہدف کو سماج کی تنظیمِ نو کے مقصد سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا تھانوی جب شمالی ہندوستان میں رائج شادی بیاہ کے رسوم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تو اس سے ان کے علمی تراث میں ایک قابل ذکر اور واضح انداز میں فرد، سماج اور عقائد کا ربط معلوم ہوتا ہے۔ روزمرہ کے عوامی رسموں کی ایک جامع تنقید کے طور پر اپنی مقبول عام تصنیف 'اصلاح الرسوم' میں مولانا تھانوی نے ان رسموں کا ایک تفصیلی شجرہ بیان کیا ہے12۔ وہ شادی بیاہ سے متعلقہ رسموں کی مقررہ ترتیب اور سماجیاتی پہلؤوں کو موسوعی اور تصویری تفصیلات کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور ان سینکڑوں مراحل کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں، جو صرف شادی میں پیش آتے ہیں۔ ان رسموں کی جزئی تفصیلات سے مولانا تھانوی کی واقفیت سے ایک آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شادی بیاہ کی رسموں کی تحقیق ان کا اگر مستقل پیشہ نہ بھی تھا، لیکن ایک پسندیدہ مشغلہ ضرور تھا۔ تاہم جہاں مولانا تھانوی ان رسموں کا شجرہ بیان کرنے میں باریک بین ہیں، وہیں وہ بمشکل اپنے پیروکاروں سے ہم دردی کا کوئی اظہار کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو شادی بیاہ جیسی تقریبات کو علی الترتیب 'قیامتِ صغری' اور 'قیامتِ کبری' جیسے اخروی نام دیتے ہیں۔ شادی میں سر انجام دیے جانے والے 'خوف ناک رسموں' کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا تھانوی نے پرزور لیکن دلچسپ اناز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ہے، جو یہاں پر میرا بنیادی نکتہ ہے۔ وہ طنز بھرے لہجے میں شکایت کرتے ہیں: "پہلے پہل ایک قبیلے کے مرد اکٹھے ہو جاتے اور ایک مقامی نائی کو شادی کی تاریخ طے کرنے کے لیے دلہن کے گھر والوں کے نام خط پہنچانے کے لیے دیتے۔ اب لوگوں میں یہ رسم اس قدر پختہ ہو گئی ہے کہ اگر شدید بارش ہو، سڑکیں سیلاب کی وجہ سے بند ہوں، اور نائی کے مستقل ڈوب جانے کا بھی خطرہ ہو، تو بھی وہ اس رسم سے باز نہیں آتے۔ آپ بتائیں کہ یہ ایک ایسی چیز کو خود پر لازم کرنا نہیں ہے، جسے خدا نے لازم نہیں کیا ؛ یہ سنت کے مخالف ایک نئے عمل کی بنیاد رکھنا نہیں، جو شریعت کو چیلنج کرتا ہے؟"13

مولانا تھانوی کےاگلے فقرے میرے لیے سب سے زیادہ دل چسپ ہیں: "یہ لوگ کس قدر احمق ہیں۔ وہ ایک شخص کو پیغام پہنچانے کے لیے ایک روپیہ اور چار آنے دیتے ہیں، حالانکہ یہی کام وہ پچاس پیسوں میں ایک لفافہ اور ڈاک ٹکٹ خرید کر کر سکتے ہیں۔ وہ یہ خط  سیدھا ڈاک سے کیوں نہیں بھیجتے؟ اور اگر وہ خواہ مخواہ خط کو ایک واسطے کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں، تو پھر انھیں اس کے لیے مقامی نائی کے بجاے سماج کا کوئی زیادہ معزز فرد کیوں نہیں ملتا"14۔ یہ احساسات عمدگی سے کلام، قانون اور دین دار عوام کے درمیان ربط کی تصویر  کشی کرتے ہیں۔شادی بیاہ کی رسمیں شریعت کی حاکمیت کے لیے خطرہ ہونے سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔  یہ اس نظام اور مراتب ودرجات میں بھی خلل ڈالتا ہے، جو دین دار عوام کی تشکیل اور تحفظ کا کام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اخراجات اور وقت دونوں کی بچت کرنے والے ڈاک کے نظام کی افادیت پسندانہ حمایت سے مولانا تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ اور استعمار کے استدلالی اور ادارتی نظام کی فراہم کردہ ساز وسامان کے درمیان حیرت انگیز تعامل کا بھی پتا چلتا ہے۔ تاہم مولانا تھانوی کے افادیت پسندانہ اقدام کا وزن اس حد تک نہ بڑھایا جائے کہ اسے ان کے علمی مزاج کے لیے ایک تشکیلی عنصر کے طور پر مانا جائے۔ ان کے افادیت پسندانہ اقدام کو عوام کی روزمرہ زندگی اور اخروی نجات کے حوالے سے ان کی جذباتی اصلاحی فکر سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ عوام کی دین داری سے جذباتی محبت اور عوام کی دینی وابستگی کو قائم رکھنے کی افادیت پسندانہ عقلیت ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں15۔ جذباتیت اور عقلیت دونوں باہم یک جا اور ناقابل علیحدگی تھے۔

اس مختصر بحث کو سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ علماے دیوبند کی دینی فکر کی تصور سازی کرتے وقت داخلی/خارجی، شخصی پاکیزگی/عوامی مذہب، فرد/سماج یا عقلی/جذباتی جیسی تقسیمات بنانا درست نہیں ہے۔ یہ تقسیمات روایت اور اس کی حدود کے تصورات کی حد بندی کرنا چاہتی ہیں، تاہم انھیں ان بنے بنائے خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ اگلے باب میں بالخصوص بدعت کے مسئلے پر دیوبندی مسلک کی ایک کاٹ دار تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے میں روایت اور اصلاح کی ایک ایسے متقابل تفہیم سے بحث کروں گا، جس کی وکالت دیوبند کے بنیادی حریف مولانا احمد رضا خان بریلوی  نے کی۔ فاضل بریلوی نے سنتِ رسول کے معتمد نگہبانوں کی حیثیت سے دیوبند کے پیش رؤوں کی ثقاہت کو غیر مستند ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مزید برآں انھوں نے ان کی اصلاحی تحریک کو بدعت قرار دیا، جو روایت کے سابقہ اور موجودہ مستند نمائندوں کی آرا کے برعکس ہے اور اس طرح انھوں نے ان کے تسلسل میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ اگلا باب پوری وضاحت سے اس پر بحث کرتا ہے کہ فاضل بریلوی نے کس طرح اپنے دیوبندی مخالفین کو بدعتی قرار دیا، جو ہندوستان میں اسلام کے لیے ایک نیا خطرہ تھے۔


حواشی

  1. دیکھیے: ماریون کاٹز، The Birth of Prophet Muhammad: Devotional Piety in Sunni Islam (لندن: روٹلیج، 2007)۔
  2. جلال الدین السیوطی، حسن المقصد في عمل المولد، الحاوي للفتاوى کے اندر (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1975) 1: 192۔
  3. تقی الدین ابن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقيم في مخالفة أصحاب الجحيم (قاہرہ: المکتبۃ التوفیقیۃ، 2000)، 2 : 123۔
  4. ایضاً
  5. میلاد کے جواز پر ماقبل جدید مسلم اہل علم کے فقہی مباحث کے لیے دیکھیے: راکوئل یوکیلیس، Innovation or Deviation: Exploring the Boundaries of Islamic Devotional Law (پی ایچ ڈی مقالہ، ہاورڈ یونیورسٹی، 2006)، 200 – 239۔
  6. اشرف علی تھانوی، طریقۂ مولد شریف (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 1976)۔ آنے والے حوالہ جات اسی اشاعت سے ہیں، اور متن میں بین القوسین دیے گئے ہیں۔ یہ رسالہ اصلاً 1899 میں بدعت کے موضوع پر مولانا تھانوی کی مفصل کتاب 'اصلاح الرسوم' کے ایک باب کے طور پر چھپی۔  میلاد سے متعلق یہ حصہ بعد میں طریقۂ مولد شریف کے نام سے علاحدہ چھپا۔ میں نے بعد والی اشاعت سے اصلی متن کا تقابل کیا ہے، اور مجھے اس میں کوئی تغیر وتبدیلی نہیں دکھائی دی۔
  7. 'عیش پرستی' سے میری مراد چراغاں کرنا، حد سے زیادہ تزئین وآرائش کرنا، مرد وزن کے اختلاط کی اجازت دینا، خوش شکل لڑکوں کو گانے کی اجازت دینا جیسے اعمال ہیں، جس کی وجہ سے سماج ایسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے، جو اپنی بُنت میں ایک سادہ شخصیت کے فروغ اور بعد میں ایک ایسے سماج کی تربیت سے، جو روزمرہ کے اعمال میں سادگی کی مثالی صورت اپنائے، کے ضد میں ہے۔
  8.  کوستاس دوزیناس اور رونی وارنگٹن، Justice Miscarried: Ethic, Aesthetics and the Law (نیو یارک: ہارویسٹر ویٹشیف، 1999)، 83۔
  9. مایکل دی سرتیو، The Practice of Everyday Litfe (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1984)، 50۔
  10. باربرہ مٹکاف، Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1982)، 351۔
  11. محمد قاسم زمان، The ‘Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2002)، 13۔
  12. اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1958)، 10 – 40۔
  13. ایضاً، 48۔
  14. ایضاً۔
  15. مولانا تھانوی کی فکر میں جذباتی اور افادیت پسندانہ دونوں پہلؤوں کے یک جا اظہار کے بارے میں غور وفکر کے لیے میں نے کافی حد تک علی میاں اور مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) کی بات چیت سے استفادہ کیا ہے، جیسا کہ میں نے مولانا تھانوی کی فکر اور خدمات کے مختلف پہلؤوں پر ان کی ذاتی کاوشوں سے استفادہ کیا ہے۔

(جاری)

فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثر و نفوذ

ڈاکٹر سید متین احمد شاہ

مغربی دنیا اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے احوال کے نئے مطالعات کے دور سے گزر ر ہی ہے۔ مغرب کی یہ فکری تحریک، جسے عرفِ عام میں استشراق (Orientalism) سے تعبیر کیا جاتا ہے، اپنا تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی عیسوی تک کا پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں اسلام اور مغرب کا تعلق سیاسی اور حربی نوعیت کا ہے۔یہ عہد اسلام کے غلبے کا عہد ہے جس میں اسلام نے دنیا میں اپنی تہذیب کے جھنڈے گاڑے اور اسلامی علوم وافکار نے اس دور میں زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

دوسرا مرحلہ یورپ کی نشاتِ ثانیہ کا ہے جس میں تاریخ اپنا نیا سفر شروع کرتی ہے۔اس دور کے ظہور میں اساسی کردار میراثِ مشرق کا مغربی زبانوں میں ترجمے کا ہے جس کا اثر مغربی مفکرین نے قبول کیا۔ اسی دور میں مشرقی ادب ،کے بعض فن پارے مغربی زبانوں میں ڈھلے جیسے ’’ألف ليلة وليلة‘‘ جس کا فرانسیسی ترجمہ سترھویں صدی کے آخر میں ہوا اور پھر اسے دیگر زبانوں میں منتقل کیا گیا۔اسی دور میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ مغرب میں کیا گیا اور اسلام اور اس کی تاریخ کے بارے میں اہلِ یورپ کی کتابیں اور قرآنِ کریم کے تراجم سامنے آنے لگے، یورپی اہلِ تحقیق نے علومِ شرقیہ کے مخطوطات کی کھوج لگائی اور انھیں منصۂ شہود پر لانا شروع کیا۔استشراقی مطالعات کی سلبیات سے قطعِ نظر اس بات کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں کہ آج بہت سے بنیادی علمی مصادر، جن کو پانے کی حسرت علامہ شبلی نعمانی جیسے محققین کی تحریروں میں ملتی ہے، کے ظہور میں ہم اس استشراقی تحریک کے انگریز، فرنچ، جرمن اور اٹلی کے اہلِ علم کے سپاس گزار ہیں جن کی محنت سے یہ مصادر ہم تک پہنچ سکے۔انیسویں صدی کے نصفِ ثانی میں ان استشراقی تحقیقات کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنسوں کا آغاز ہوا اور ان حضرات کے مشرقی اہلِ علم سے بھی روابط استوار ہوئے۔ اس طرح کی کانفرنسوں میں ہمیں عرب دنیا کے معروف شاعر استاد شوقی اپنا کلام اور عبداللہ باشا فکری اپنی تحقیقات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

استشراق کا تیسرا مرحلہ وہ ہے جس میں اہلِ مغرب کے مطالعات کی تگ وتاز اسلام کے کلاسیکی مصادر ، قرآن اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے مطالعے تک محدود نہیں رہتی ، بلکہ اس میں اسلامی دنیا میں احیا وتجدید کے رجحانات، اس کی شخصیات اور اصلاحی و تجدیدی تحریکوں اور ان کے سیاسی، عمرانی ، مذہبی اور دیگر اثرات کے مطالعے کی طرف توجہ زیادہ مبذول ہوئی ہے۔ اس دور میں اسلام کئی پہلوؤں سے مغرب کی یونی ورسٹیوں میں زیرِ مطالعہ بننے کا رجحان پروان چڑھا ہے۔ اس مرحلے میں واضح طور پر ’دینی‘ اور ’لادینی‘ کی تقسیم کے پیکار کے تحت مذاہب کے مطالعے کا رجحان بیدار ہوا ہے اور ان کے درمیان مشترکات کی تلاش کی سعی شروع ہوئی ہے، تہذیبوں کے تصادم کے نظریات وضع کیے گئے ہیں اور تاریخ کے خاتمے کے تصورات پیش کیے گئے ہیں۔ نائن الیون کے روایت شکن اور روایت ساز واقعے کی صراحی سے قطرے قطرہ نئے حوادث ٹپکے ہیں اور دینی تعبیرات ونظریات کی تسبیح کے نئے دانے شمار ہوئے ہیں۔

تحریک استشراق کے نتیجے میں علومِ شرقیہ کے مطالعے کا ایک چوتھا مرحلہ بھی شمار کیا جا سکتا ہے جس کے اثرات مسلم دنیا میں اس وقت نفوذ کر رہے ہیں اور وہ ہے Continental Philosophy کے تناظر میں خصوصاً نصوصِ شرعی کا مطالعہ؛ Continental Philosophy کی روایت کا آغاز مغربی فلسفے میں کانٹ(Kant) کے افکار سے ہوتا ہے (اگرچہ ہر علم وفن کی طرح اس کے جذور قدیم یونان میں بھی ملتے ہیں۔)۔ اس رجحانِ فکر نے مندرجہ ذیل فلسفیانہ رجحانات کو جنم دیا:

علومِ دینیہ اور نصوصِ سماوی کے مطالعات کے مستقل رجحانات مغربی دنیا میں اس Continental Philosophy کے وجود پذیر ہونے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس میں اوپر ذکر کردہ رجحانات میں سے خاص طور پر آخری تین رجحانات کا سماوی نصوص کے فہم پر اثر اب نہ صرف مستقل تحریک کی شکل میں ڈھل چکے ہیں، بلکہ ان کا تنقیدی مطالعہ بھی علومِ اسلامیہ کے حامل اہلِ علم کے ذمے ایک فرضِ کفایہ بھی ہے جس کی طرف کوئی خاص توجہ ہمارے دینی حلقوں میں نظر نہیں آتی۔ دینی مدارس میں تو اس حوالے سے بیداری پیدا ہونے میں شاید وقت لگے گا، لیکن یونی ورسٹیوں میں علومِ اسلامیہ کے شعبہ جات میں بھی ان رجحانات کے سنجیدہ مطالعے اور پھر علومِ اسلامیہ سے ان کے تعلق اور ان کے تنقیدی مطالعے پر کوئی مطالعاتی مواد شاملِ درس ہوتا نظر نہیں آتا۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ استشراقی مطالعات کے تاریخی ارتقا کے اس رجحان میں شاید پہلی بار مغرب کی مضبوط ترین عقلی روایت نے حصہ ڈالا ہے۔اس سے پہلے مطالعاتِ علومِ دینی کے مناہج بالعموم مسلم روایت کے استوار کردہ مناہج کے زیادہ قریب تھے، لیکن تحلیلی فلسفے کے بعد مغرب میں پروان چڑھنے والےContinental Philosophy کے رجحان نے مطالعات کی اس نئی روش کو خالص عقلی اور فلسفیانہ پس منظر بخش دیا ہے اور ، جب کہ ہمارے یہاں علومِ اسلامیہ کا حامل اسکالر کی ان علوم میں کوئی خاص مضبوط بنیاد نہیں ہوتی۔

اس اعتبار سے یہ وقت کا ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونا ناگزیر ضروریات میں سے ہے۔ عرب دنیا اور ایران کے علمی حلقوں میں اس حوالے سے بیداری نسبتاً خوش آئند ہے جن کی تحقیقات وتصانیف سے اس سلسلے میں مدد لی جا سکتی ہے، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ علومِ اسلامیہ کے طلبہ میں تدریس کے لیے فلسفہ(کانٹی نینٹل)، جدید لسانیات، خصوصاً Semantics اور Literary Theory کے ماہرین کے علم سے استفادہ کیا جائے۔اس کے ساتھ مسلم روایت کے علوم میں سے اصولِ فقہ، اصولِ تفسیر اور علمِ بلاغت کے ساتھ اعتنا ناگزیر ہوگا، تاکہ مسلم اور مغربی روایتوں کے ہرمینیاتی آلات کے مابہ الاشتراک اور مابہ الافتراق وجوہ کی بصیرت حاصل کی جا سکے۔

ہمارے ہاں اس طرف سب سے پہلے ایک بڑی شخصیت نے توجہ ضروری کی ہے، لیکن اس کا پس منظر دینیات کا نہیں، بلکہ ادب کا ہے۔ وہ شخصیت اردو ادب کے قدآور نقاد جناب حسن عسکری ہیں۔ الجزائر کے ایک معروف مصنف ومفکر محمد ارکون ہیں جن کی اکثر کتابیں فرانسیسی میں ہیں، تاہم عربی میں ان کا بڑا حصہ ترجمہ ہو چکا ہے۔ انھیں مسلم فکری مطالعات میں Deconstructionist شمار کیا جا سکتا ہے۔ محمد حسن عسکری نے انھیں 25 نومبر 1958ء میں خط لکھا کہ وہ جس طرزِ مطالعہ کو دینیات کے باب میں فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ خطرناک ہے۔ اس حوالے سے جناب ڈاکٹر عزیز ابن الحسن ، ناصر بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’چونکہ ساختیات بنیادی طور پر سیکولر تاویلات اور تصورات سے مشتق ہے، لہذا قرآنِ مجید اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے وہ اس نظریے کے مضرب رساں مضمرات سے کماحقہ واقف تھے۔ اس مضمون میں انھوں نے محمد ارکون جیسے اسلام کے مردِ آگاہ اور صاحبِ علم کو ان امکانی نقصانات سے باخبر کیا ہے جو قرآنِ مجید کی قراءت کو لسانیاتی، ساختیاتی، ثقافتی، بشریات اور دیگر علوم کے حوالے سے کی جانے (والی تعبیر) سے پہنچنے کا احتمال ہے۔ ‘‘(2)

یہ بات ذرا طوالت اختیار کی گئی، لیکن اس سے یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ استشراق کے جدید ترین رجحانات کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے اور اس پر بھی علمی مواد کی تیاری کی ضرورت ہے۔

اس تحریکِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کے اثرات کے بھرپور مطالعے کی ناگزیر علمی ضرورت کو ڈاکٹر محمد شہباز منج کی زیرِ تبصرہ کتاب ’’فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثرونفوذ‘‘ نے خوب صورتی کے ساتھ پورا کیا ہے۔کتاب کے جملہ مندرجات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ بالا مراحل میں زیادہ تر پہلے دو مراحل کے مطالعے اور ان کے اثرات سے متعلق ہے۔ کتاب کے مرکزی عناوین حسبِ ذیل ہیں:

ان میں سے ہر ایک عنوان ذیلی طور پر کئی عناوین میں منقسم ہے۔

مصنف نے تاریخِ استشراق پر گفت گو کرتے ہوئے اسے عمومی طور پر پیغمبرِ اسلام ﷺ سے دشمنی کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والے رحجان کے طور پر پیش کیا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس سے نکلنے والے نتائج اور اثرات کو نمایاں کیا ہے؛ چناں چہ عہدِ رسالت ، قرونِ وسطیٰ اور عہدِ جدید ، تینوں ادوار میں اس دشمنی کے مختلف مظاہر کوعلمی انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ اس تحریک کے اغراض واہداف میں سے دینی، سیاسی، معاشی اور علمی اہداف کو واضح کیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف استشراق، استعمار اور تنصیر وتبشیر کو ایک ہی تصویر کے مختلف رخ سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کتاب میں زیادہ تر استشراق کے مسلم معاشروں میں مختلف میدانوں پر مرتب ہونے والے سلبی اثرات کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے، تاہم مصنف کو’’مشرق سے ہو بے زار ، نہ مغرب سے حذر کر‘‘ کے مصداق اس بات کا اعتراف ہے کہ ’’کسی دوسرے کے علم وتہذیب کا اثرہر حال میں برا نہیں ہوتا، اس کی مذمت وتردید اور اس سے بچاؤ کی تدابیر پر زور تغلیباً ہوتا ہے، ورنہ اس میں کچھ خیر کے پہلو بھی ہوتے ہیں، اور ان پہلوؤں کا تعلق مذہب اور کلام سے بھی ہو سکتا ہے اور دنیا ومادیت سے بھی۔عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے عقائد وایمانیات اور تصورِ زندگی کے بنیادی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ان پہلوؤں کو نہ صرف نظر انداز نہ کرے، بلکہ جہاں مفید پائے، کام میں لانے سے ہرگز نہ چوکے۔‘‘(3) چناں چہ وہ مسلمانوں کو ’’خُذْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا كَدَر‘‘ کا رویہ اپنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اس رجحان پر نقد کرتے ہیں، جو تہذیبِ مغرب کو ایک ایسا پیکج قرار دیتے ہیں جس میں اخذ وترک(Pick and Choose) ممکن نہیں۔وہ لکھتے ہیں:”راسخ العقیدہ اسلامیت کے اس حلقے سے راقم کو ہمیشہ شکایت رہی ہے جو" خذ ما صفا ودع ما كدر" کے رویے کو غیر اسلامی قرار دینے پر اپنی صلاحیتیں صرف کرتا اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مغربی فکروتہذیب ایک پیکج ہے ؛ آپ اس کے معاملے میں اخذ وترک (Pick and Chose) کا رویہ نہیں اپنا سکتے۔ آپ یا سب کچھ قبول کر دیں یا ہر چیز رد کر دیں۔ “(4)

تاہم استشراقی تحریک کے ایجابی فوائد پر یہ گفت گو نہایت تشنہ رہ گئی ہے(جو محض چند صفحات پر مشتمل ہے۔) اور کتاب سے اس کے بارے میں تاثر بالعموم سلبی نوعیت ہی کا سامنے آتا ہے۔ یہاں اگر ان پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا جاتا کہ مستشرقین نے اپنی ان علمی سرگرمیوں میں خود مسلم تراث کی کئی کتابوں کو پہلی بار منظرِ عام پر لایا، مخطوطات کی اشاعت کی، تراجم میں حصہ لیا تو مناسب ہوتا۔(5)

یہاں اس بات کو پیشِ نظررکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مختلف علوم وفنون میں اپنے نشو وارتقا کے مراحل سے گزرنے کے بعد تقسیم در تقسیم اور اس کے نتیجے میں مستقل بالذات Science بنے کا عمل جاری رہتا ہے، تحریکِ استشراق کو بھی اس کلیے سے شاید استثنا دینا ممکن نہ ہو؛ چناں چہ یہ درست ہے کہ استشراق، استعمار اور تنصیر میں ایک گونہ توافق اور اہداف میں یکسانی رہی ہے، لیکن استشراق اب ایک خالص علمی تحریک کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔اسے اپنے دیگر مقاصد سے کلیتاً جدا کرنا اگر ممکن نہ بھی ہو، تب بھی اس طرح کے ’اہداف‘ کے بارے میں اس بات کی تنقیح کی ضرورت ہے کہ آیا وہ دانستہ حاصل کیے جاتے ہیں یا خود بخود ایک عمل کے نتیجے میں منطقی اور علمی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔

استشراقی کام نے جن دینی مباحث کو جنم دیا، مصنف نے ان میں سے وحی الہی، معجزات وخوارق، قرآن اور اس کی حیثیت ، حدیث اور اس کا مقام، سیرتِ طیبہ، معاد، جہاد، تعدد ازواج، اسلامی قانون وعقوبات وغیرہ کے حوالے سے ان فکر کے پیدا کردہ مباحث اور ان کے نتائج پر گفت گو کی ہے۔ ان امور کے حوالے سے مستشرقین کے دعواے غیر جانب داری پر نقد کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:’’مستشرقین کے ہاں اسلام کے حوالے سے تعصب اور عدمِ معروضیت کا رویہ پایا جاتا ہے۔ چناں چہ وہ اپنے اسلامی مطالعات میں موضوعی اندازِ فکر ونظر کے حامل رہے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص کے لیے اسلام کی غیر حقیقی اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ اسلام کو لوگوں کے سامنے اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ ان کو کوئی غیر معمولی اور خاص وقعت کی چیز محسوس نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس انسانی ترقی وتمدن کی راہ میں مزاحم دکھائی دے۔‘‘(6)

مذکورہ بالا موضوعات پر استشراقی فکر پر گفت گو کرتے ہوئے اس فکر کے سلبی امور ہی سامنے آتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم سماج پر ان بحثوں کا اثر زیادہ تر منفی ہی رہا ہے اور تشکیک واضطراب کا باعث بنا ہے۔

عالمِ اسلام پر اس کے اثرات پر بحث کرتے ہوئے دو طبقوں پر گفت گو کی گئی ہے: اہلِ اقتدار اور اہلِ علم۔اہلِ اقتدار میں سے ترکی کے ضیاء گوک الپ ، مصطفیٰ کمال اور بعض دیگر افراد پر گفت گو کی گئی ہے۔ اہلِ علم میں سے چودہ افراد کی فکر زیرِ بحث لائی گئی ہے۔ ان میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، محمد عبدُہُ، رشید رضا، قاسم امین، علی عبدالرزاق، طنطاوی جوہری، سرسید، مولوی چراغ علی، ممتاز علی ، سید امیر علی، محمد علی لاہوری، غلام احمد پرویز اور مرزا غلام احمد قادیانی شامل ہیں۔ ان اہلِ علم کے افکار کو ان کی بنیادی کتابوں سے اخذ کر کے بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے ان کے تجدد پسندانہ افکار واضح ہوتے ہیں۔

کتاب کے منہج کے بارے میں مصنف کہتے ہیں:" اس کتاب کے مطالعے میں یہ بات پیشِ نگاہ رہنی چاہیے کہ یہاں مستشرقین کے افکار ونظریات کا تجزیہ یا اسلامی عقائد وتصورات سے متعلق ان کے اعتراضات کے جوابات دینے کی کوشش نہیں کی گئی، نہ ہی مختلف حوالوں سے ان سے متاثر و مرعوب مسلم اہلِ فکروقلم کے افکار و نظریات کا تفصیلی نقد وتجزیہ پیش کیا گیا ہے۔اس کے لیے الگ بحث و تحقیق کا منصوبہ پیشِ نظر ہے۔ "(7)

مصنف نے کتاب میں اسی منہج کو پیشِ نظر رکھا ہے اور اپنی طرف سے نقد و تبصرہ سے گریز کیا ہے، تاہم بعض مقامات پر ان کی اپنی راے بھی شامل ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ص 163 پر حاشیہ نمبر 178 میں وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے محرکات پر نقد کرتے ہیں۔ (8) اسی طرح ص 263 ، حاشیہ 182 میں سید امیر علی کی فکر پر نقد کرتے ہوئے کچھ تفصیل سے کلام کیا ہے۔ (9)

بعض مقامات پر مصنف دوسرے اہلِ علم کا نقدو تبصرہ بھی باحوالہ نقل کرتے ہیں، مثال کے طور پر ایک جگہ مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ اور ڈاکٹر محمد البہی کے تبصرے اور نقد کو شامل کتاب کیا ہے۔(10)

ایک مستقل عنوان ”استشراق، تجدد اور راسخ العقیدگی: چند تاثرات و معروضات“ کے الفاظ کے ساتھ ہے جس میں مصنف اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔

کتاب کے صفحہ 286 پر مرزا غلام احمد قادیانی کے افکار پر گفت گو کی گئی ہے۔ مرزا صاحب باتفاقِ اہل سنت اسلام سے خارج ہیں، اس لیے انھیں عالمِ اسلام کے دیگر اہلِ تجدد کے ساتھ شمار کرنا کچھ محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ یہی حال محمد علی لاہوری کا ہے جو مرزا کو مجدد مانتے ہیں۔کتاب کے ص 272 پر محمد علی لاہوری کے افکار پر بحث کی گئی ہے۔ محمد علی لاہوری قادیانیوں کے لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اہلِ سنت بالعموم تکفیر کے قائل ہیں۔(11)

مصنف جہاں عالمِ اسلام میں تجدد کے پھیلنے پر گفت گو کرتے ہیں، وہاں اس کے اسباب میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کے طرزِ عمل کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں:

” اگر راسخ العقیدہ اسلامیت ان سائنسی و سماجی وغیرہ جدید امور کو بھی خواہ مخواہ اسلام کے لیے خطرہ نہ سجھ لیا کرے، جن کا اسلام سے اس حوالے سے کوئی تعلق نہیں تو سچ یہ ہے کہ تجدد کامیاب تو کیا ہو، پیدا ہی نہ ہو۔ تجدد کے پیدا ہونے کی وجہ اسلامی راسخ العقیدگی میں جدیدیت کی نفی ہے۔راقم الحروف اس تناظر میں دوستوں سے عرض کیا کرتا ہے کہ مستشرقین اور ان کے افکار کا تو ہے ہی، تجدد کے وجود میں مولویوں کے تشدد کا حصہ بھی کچھ کم نہیں۔ اسلام بلاشبہ ایک متحجر دین نہیں ہے۔وہ ان چیزوں کو جو اس کے بنیادی تصورات و نظریات سے نہیں ٹکراتیں، کھلے دل سے قبول کرلیتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خواہ مخواہ خطرہ بنا کر راسخ العقیدہ تجدد کو راہ دیتے ہیں۔ “(12)

اسی طرح اہلِ تجدد کی ہر بات کو رد کرنے کے بجائے مصنف اس بات کے قائل ہیں کہ عقائد کے سوا بعض دیگر میادین میں ان کی آرا سے استفادہ کرنے میں حرج نہیں۔ ان کی ہر بات کو رد کرنے کے پیچھے پڑ جانا صحیح رویہ نہیں ہے۔یہی تبصرہ ان کا مغربی تہذیب کے حوالے سے بھی ہے۔(13)

زیرِ تبصرہ کتاب اردو میں اپنے موضوع پر بہت عمدہ اضافہ ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی نظر اپنے موضوع پر بہت وسیع ہے۔ معلومات کو بہت سلیقے سے اخذ کر کے ایک منطقی ترتیب میں پرویا گیا ہے۔

کتاب میں مصادر ومراجع کی فہرست کے ساتھ ایک جامع اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس سے کتاب سے استفادہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔

حواشی

  1. Simon Critchley, Continental Philosophy: A Very Short Introduction (Oxford: Oxford University Press, 2001), 13.
  2. عزیز ابن الحسن، ’’ساختیاتی مباحث اور حسن عسکری‘‘ مشمولہ سہ ماہی جی(لاہور)، جولائی – اکتوبر 2012ء، ص 111، بحوالہ، ناصر بغدادی، ’’ساختیات اور عسکری صاحب‘‘،مشمولہ بادبان، شمارہ 1 ص 125، 126۔
  3. محمد شہباز منج، فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثرونفوذ(لاہور: القمر پبلی کیشنز، 2016ء)، 310۔
  4. منج، نفسِ مصدر، 310، 311۔
  5. استشراق پر لکھنے والے مسلم مصنفین میں ایک معروف مصنف محمد خلیفہ حسن ہیں۔ ان کی عربی زبان میں ایک کتاب ، زیرِ تبصرہ کتاب کے موضوع سے ملتی جلتی ہے: آثار الفكر الاستشراقي في المجتمعات الإسلامية (مسلم معاشروں میں استشراقی فکر کے اثرات)۔ اس کتاب میں انھوں نے جہاں تحریکِ استشراق کے مسلم معاشروں پر سیاسی، معاشی ، دینی، علمی اور دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے، وہیں تحریکِ استشراق کے ایجابی پہلوؤں پر بھی مستقل فصل قائم کی ہے۔اس سے موضوع کا دوسرا رخ بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔(دیکھیے: محمد خلیفہ حسن، آثار الفكر الاستشراقي في المجتمعات الإسلامية(ہرم:عين للدراسات والبحوث الإنسانية و الاجتماعية، 1997ء )، 129 تحت عنوان:الفصل السابع-الآثار الفكرية الإيجابية للاستشراق۔
  6. منج، مصدرِ سابق، 105۔
  7. منج، مصدرِ سابق، 28۔
  8. منج، مصدرِ سابق، 163، 164۔
  9. منج، مصدرِ سابق، 263۔
  10. دیکھیے: منج، مصدرِ سابق، 167 و مابعد۔
  11. لاہوری گروپ کی تکفیر کے حوالے سے دیکھیے: مولانا سرفراز خان صفدر، مودودی صاحب کا ایک غلط فتوی اور ان کے چند دیگر باطل نظریات(گوجرانوالہ: مکتبہ صفدریہ، 2004ء)۔
  12. منج، مصدرِ سابق، 305۔
  13. ایضا، 308 و مابعد۔

مئی ۲۰۲۳ء

دینی روایت کی موجودہ صورت حالمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۰)ڈاکٹر محی الدین غازی
عمومِ بلوٰی کی شرعی حیثیت، شرائط اور وضاحتی مثالیںمفتی سید انور شاہ
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات :ایک تجزیاتی مطالعہ (۲)مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۶)ڈاکٹر شیر علی ترین

دینی روایت کی موجودہ صورت حال

محمد عمار خان ناصر

روایتی مذہبی طبقہ ہمارے معاشرے کا ایک بہت اہم عنصر ہے اور اس کی کارکردگی اور کردار پر مختلف زاویوں سے بات ہوتی ہی رہتی ہے۔ کسی بھی شخص یا طبقے کے کردار اور اس کی کارکردگی میں Self-image بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جو فرد یا طبقہ اپنی صلاحیتوں اور محدودیتوں اور دائرۂ عمل کا زیادہ درست اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کر لیتا ہے، وہ زیادہ با معنی اور موثر طریقے سے معاشرے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ جدید معاشرے میں روایتی مذہبی طبقہ اس وقت جو کردار ادا کر رہا ہے، ا س کی بنیاد اس سیلف امیج پر ہے جو اس وقت اس کے ذہن میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مختلف کسی کردار کی توقع اس سے کی جائے گی تو وہ صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ اس لیے اس طبقے کی ترجیحات میں اصلاح یا کسی مختلف کردار کی گفتگو سے پہلے اس پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ سیلف امیج کیا ہے اور اس میں کون سی چیزیں دوبارہ غور کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔

ذیل کی سطور میں اس حوالے سے چند معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔


دینی طبقے کے سماجی کردار کا ایک بنیادی اور اہم پہلو یہ ہے کہ عام مسلمان دینی زندگی گزارنے کے لیے کچھ نفسیاتی اور معاشرتی سہاروں کا محتاج ہوتا ہے اور مختلف دینی گروہ اور ادارے اس کو یہ سہارا فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے میں دینی طبقوں کی ایک بڑی خدمت ہے۔ اگرچہ دینی طبقے اس کی قیمت وہ معاشرے سے فرقہ بندی کی صورت میں وصول کرتے ہیں، تاہم اس قیمت کے ساتھ بھی عام مسلمان کو دین سے ظاہری وابستگی میں کافی سہارا مل جاتا ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔

سماج سے اور خصوصاً‌ سماج کے کمزور اور غریب طبقوں سے، جڑا ہوا ہونا مذہبی تنظیموں اور دینی مدارس کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اسی لیے ان کی خدمات کا دائرہ بھی بیشتر سماج کی یہی سطح ہوتی ہے۔ اس تعلق کی بدولت یہ طبقے ایک بہت بنیادی سطح پر معاشرے کو مذہبی شناخت اور رفاہی خدمات فراہم کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے ہنگامی حالات میں سب سے پہلے وہی اپنے وسائل اور خدمات لے کر لوگوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ شہری ماحول میں مذہبی مراکز ایک بڑا اہم ذریعہ ہیں جو شہری طبقے کے وسائل کو مختلف صورتوں میں پس ماندہ علاقوں کے لوگوں تک پہنچانے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس سے مذہبی طبقوں کو ایک طاقت بھی ملتی ہے جو کئی جگہوں پر غلط بھی استعمال ہوتی ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ تعلق معاشرے کے لیے بلاشبہ ایک اثاثہ ہے۔

علمی سطح پر دیکھا جائے تو  جدید تعلیم یافتہ طبقے میں ایک  عمومی تاثر  یہ پایا جاتا ہے کہ مذہبی روایت نئے دور کے مسائل اور سوالات سے ہمیشہ پیچھے ہوتی ہے۔ یہ تاثر  کم سے کم فقہی اجتہاد کے دائرے میں درست نہیں۔ جدید فقہی اجتہادات سے اختلاف یا ان پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ جدید دور کا کوئی اہم سوال جو کسی فقہی جواب کا تقاضا کرتا ہے، اسے عالم اسلام میں مذہبی روایت کی نمائندگی کرنے والے بڑے اہل علم یا اداروں نے توجہ نہیں دی، اور اس ضمن میں کوئی بڑا خلا پایا جاتا ہے۔  ان مسائل پر عالمی فقہی ادارے بہت عرصے سے تفصیلی غور وخوض کر رہے ہیں اور سامنے آنے والے تمام اہم سوالات پر باقاعدہ فتاوی بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

یہ غلط تاثر اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ جو بات ٹی وی یا سوشل میڈیا پر زیر بحث نہیں آتی یا عوامی علماء کے ہاں موضوع نہیں بنتی، یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اعلی سطح کے علماء یا علمی ادارے بھی ان سے ناواقف ہوتے ہیں۔ مذہبی روایت کے اور بہت سے مسائل ہیں، لیکن فقہی مسائل ان کا کمزور پوائنٹ نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کئی اہم اور ضروری مباحث سے صرف نظر کرنے کے باوجود علماء اور علمی اداروں کی حیثیت اور احترام تازہ ترین فقہی سوالات کو تسلسل کے ساتھ ایڈریس کرتے رہنے ہی کی بدولت قائم ہے۔


مذکورہ تمام مثبت اور قابل قدر  پہلووں کے ساتھ یہ بھی  اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کسی بڑے تہذیبی سوال کو ایڈریس کرنے کے حوالے سے  موجودہ دینی روایت کی علمی اہلیت اور قابلیت کا معاملہ توجہ کا مستحق ہے۔ اس کی ناگفتہ بہ صورت حال ویسے تو کم وبیش ہر بڑے سوال کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے، لیکن مثال کے طور پر اس ایک بڑے اور بنیادی سوال کے حوالے سے اس کو دیکھ لیجیے کہ کسی گروہ کو دائرہ اسلام میں شامل سمجھنے یا نہ سمجھنے کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟ یہاں تکفیر کے نظری اصولوں کی بات نہیں ہو رہی کہ اس پر تو دفتروں کے دفتر علمی روایت میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عملاً‌ کسی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا ہو تو اس کا معیار اور طریقہ کیا ہوگا؟

ماضی میں اس حوالے سے حتمی اتھارٹی مذہبی علماء کے پاس تھی۔ فتوی اور قضاء کے منصب سے وہ جس فرد یا گروہ کے متعلق تکفیر کا فیصلہ کر دیتے، اس پر احکام نافذ ہو جاتے تھے۔ جدید دور میں دینی روایت کو پہلی دفعہ اس صورت حال سے سابقہ پیش آیا کہ انھیں کسی گروہ کی تکفیر اپنے علاوہ کسی دوسری اتھارٹی یعنی جدید ریاست اور قانون کے سامنے جسٹیفائی کرنی ہے۔ مسئلہ قادیانیوں کے حوالے سے اٹھا تھا اور مذہبی روایت کے نمائندوں کے سامنے سب سے مشکل سوال یہ تھا کہ تکفیر کے فتوے تو ہر معروف مذہبی گروہ نے ایک دوسرے کے متعلق دیے ہوئے ہیں تو قادیانیوں کے متعلق علماء کے فتوے کو کیسے عام تکفیری فتووں سے الگ سمجھا جائے اور سنجیدگی سے لیا جائے؟ اور اگر حقیقی تکفیر صرف قادیانیوں کی ہے تو مختلف گروہوں کی باہمی تکفیر کی حقیقت اور جواز کیا ہے؟

مقدمہ بہاولپور سے لے کر جسٹس منیر انکوائری کمیشن اور قومی اسمبلی کی کارروائی تک ساری بحث کا جائزہ لیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس بنیادی سوال کا کوئی تشفی بخش جواب دینی روایت کے پاس نہیں ہے۔ دیوبندی وسلفی موحدین، بریلویوں کی تکفیر کرتے ہیں، بریلوی حضرات وہابی گستاخوں کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں، سنیوں کے نزدیک شیعہ کافر ہیں، لیکن پھر یہ سارے کافر مل کر قادیانیوں کی تکفیر کرنا چاہتے ہیں۔ جب ریاست اور قانون کے سامنے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو یہ کہہ کر خلاصی حاصل کر لی جاتی ہے کہ یہ فتوے متفقہ نہیں ہیں اور ان کی ذمہ داری پورا طبقہ نہیں اٹھاتا۔ گویا تکفیر کی عملی بنیاد یہ ہوئی کہ چونکہ ایک دوسرے کو کافر کہنے میں یہ سارے متفق نہیں، لیکن قادیانیوں کی تکفیر پر سب متفق ہیں، اس لیے ان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے۔ قومی اسمبلی میں تو اس سے بھی کمزور بنیاد پر معاملہ طے کیا گیا جو یہ تھا کہ چونکہ قادیانی عام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، اس لیے عام مسلمان بھی ان کی تکفیر کا حق رکھتے ہیں (جبکہ خوارج کے باب میں یہ اصول نہیں مانا گیا تھا)۔ پھر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود ان کو باقی اقلیتوں جیسے حقوق اور آزادیاں دینے کے حوالے سے مذہبی موقف کے تضادات اپنی جگہ لاینحل اور قانونی وفقہی دانش کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔

یہ ایک بڑے تہذیبی سوال یعنی امت کی بنیادی شناخت (عقیدہ ختم نبوت) کے تحفظ کے ضمن میں موجودہ دینی روایت کی اہلیت اور علمی قابلیت کی صورت حال ہے۔ اس پر آپ دوسرے بڑے سوالات کو بھی قیاس کر سکتے ہیں ۔


دینی روایت کا ایک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ مدارس کے تعلیمی نظام کا مجموعی مطمح نظر اسلاف کے علمی ورثے کی حفاظت اور اس کے ساتھ علمی واقفیت کے تسلسل کو برقرار رکھنا نہیں رہا۔ یہ سارا نظام معاصر فکری اور سیاسی کشمکش کے تناظر میں پوری طرح حزبیت کا شکار ہو چکا ہے اور سلف کے ذخیرے کی صرف وہ باتیں اس کے لیے قابل قبول ہیں جو موجودہ فکری کشمکش کے تناظر میں ایک خاص  پوزیشن کی تائید کرتی ہوں۔  اس ضمن میں مستند دینی روایت کے بہت سے حصوں کی تنسیخ یا کتمان کو موجودہ دینی ماحول میں ایک دینی تقاضے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر  امام محمدؒ نے عورت کے چہرے کے پردے کے حوالے سے اپنا اور امام ابوحنیفہ کا نقطہ نظر بڑی  صراحت سے یوں بیان کیا ہے :

’’أما المرأة الحرة التي لا نكاح بينه وبينها ، ولا حرمة ، ممن يحل له نكاحها : فليس ينبغي له أن ينظر إلى شيء منها مكشوفا ؛ إلا الوجه والكف ، ولا بأس أن ينظر إلى وجهها وإلى كفها ، ولا ينظر إلى شيء غير ذلك منها .وهذا قول أبي حنيفة.
وقال الله تبارك وتعالى { وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا } ، ففسر المفسرون أن ما ظهر منها : الكحل والخاتم ، والكحل زينة الوجه ، والخاتم زينة الكف ، فرخص في هاتين الزينتين .ولا بأس بأن ينظر إلى وجهها وكفها ؛ إلا أن يكون إنما ينظر إلى ذلك اشتهاء منه لها. فإن كان ذلك ، فليس ينبغي له أن ينظر إليه‘‘ (كتاب الأصل ٢/ ٢٣٥-٢٣٦)

اس اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ آزاد اور غیر محرم عورت کے جسم کے کسی حصے کی طرف دیکھنا مرد کے لیے جائز نہیں، البتہ چہرے اور ہاتھ کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ چہرے اور ہاتھ کی طرف دیکھنا بالکل جائز ہے، الا یہ کہ دیکھنے والا شہوت کی نظر سے دیکھے۔ ایسی صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا۔

مطلب یہ ہے کہ اصل حکم یہ نہیں کہ چہرہ چھپانا لازم ہے اور چہرہ دکھانا استثنائی ضرورت کے تحت جائز ہے۔ اس کے برعکس اصل حکم یہ ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہاتھ حجاب کا حصہ نہیں اور ان کو دیکھنا مباح ہے۔ ہاں، استثنائی صورت جس میں دیکھنا ممنوع ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی بد نیتی سے اور شہوت کی حالت میں دیکھے۔ یہی تصریح فقہ حنفی کی تمام امہات کتب میں تفصیل سے ملتی ہے۔  تاہم موجودہ تناظر میں اگر یہ موقف بیان کیا جائے تو  خود حنفی  علماء کا ایک بڑا طبقہ اس پر چیں بجبیں ہوتا ہے اور  ایسی باتوں کے ذکر کو  فتنہ انگیزی سے کم نہیں سمجھتا۔

اسی طرح موسیقی سے متعلق مالکیہ کا موقف اہل مدینہ کے تعامل کی روشنی میں، حرمت کے عمومی موقف سے مختلف اور کافی توسع اور اعتدال پر مبنی ہے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربیؒ نے  جامع ترمذی کی شرح ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ میں غنا اور آلات موسیقی کی حرمت کے استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سورہ لقمان کی آیت میں ’’لھو الحدیث‘‘ کا مصداق موسیقی کو قرار دینا ضعیف قول ہے اور  آیت کی مراد یہ نہیں ہے۔ اسی طرح  حدیث میں ’’گانے والی باندی‘‘ کی خرید وفروخت کی ممانعت کی وجہ بھی غناء کا حرام ہونا نہیں، بلکہ ایسی باندی کو اپنی ملکیت میں لانے سے جو دوسرے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ان سے گریز کرنا ہے۔ غنا اور موسیقی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں بھی سنی ہے اور گھر سے باہر بھی، اس لیے وہ حرام نہیں ہو سکتی۔

ابن العربی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اس اباحت کو دف وغیرہ تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کوئی بھی آلہ موسیقی ہو تو وہ اس اباحت میں داخل ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ موسیقی سے انسان کے دل پر سے بوجھ کم ہوتا ہے اور نفس اس میں راحت محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کسی آلہ موسیقی سے اگر کچھ لوگوں کو یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے تو شریعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس نوعیت کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں موجودہ دینی ماحول ماضی کی مستند علمی روایت کو نظرانداز کرنے بلکہ  اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے کا  عمومی رجحان رکھتا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے ایک دلچسپ تبصرہ یہ کیا  ہے کہ ’’لعمری انھم لیسوون القواعد للنقیضین‘‘، یعنی علماء اپنی سہولت کے مطابق دو متضاد پوزیشنوں کو جواز دینے کے لیے قواعد بنا لیتے ہیں۔  موجودہ دینی ماحول میں اس رویے کا مظہر یہ ہے کہ اگر کسی طبقے کا موقف کچھ نصوص سے بظاہر ٹکرا رہا ہو لیکن کچھ دلائل اس کی تائید میں بھی ہوں تو یہ قاعدہ بیان کیا جاتا ہے کہ اجتہادی اختلاف میں قطعی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، ظنی دلائل ہی کافی ہوتے ہیں یا یہ کہ کسی مسئلے میں معتبر علماء کا اختلاف خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ اجتہادی مسئلہ ہے، اس لیے اس میں شدت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ لیکن ، اگر کسی مسئلے میں مخالف کو گنجائش نہ دینی ہو، لیکن مسئلہ اختلافی ہو تو یوں کہا جائے گا کہ نص صریح کے مقابلے میں کسی اجتہاد کا اعتبار نہیں، یعنی پھر نص کے صریح ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اس سے بالا ہی بالا نص، صریح اور قطعی ہو جاتی ہے۔

اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ ابنائے مدارس کے لیے جدید علوم سے ناواقفیت کا چیلنج ثانوی ہے۔ اصل چیلنج دینی روایت سے کماحقہ واقفیت نہ ہونا بلکہ ایسی واقفیت پیدا نہ ہونے دینے کا شعوری فیصلہ ہے۔ اس کا باعث یہ ہے کہ مدارس جدید تناظر میں روایتی مدرسے کا تسلسل نہیں ہیں جو مسلم سیاسی طاقت کی چھتری کے نیچے ایک تہذیبی عمل کو آگے بڑھا رہے تھے۔ جدید مدارس، سیاسی طاقت کے زوال سے پیدا ہونے والے تہذیبی خطرے کے عہد میں مختلف قسم کی مذہبی شناختیں قائم کرنے اور ان کو تحفظ دینے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ علمی روایت کے ساتھ تعلق اور تسلسل ان میں مطلوب ہے، لیکن ثانوی حیثیت میں اور اس شرط پر کہ وہ خاص گروہی شناخت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اس کے نتیجے میں دینی مدارس کا مجموعی ماحول فرقہ وارانہ ہو گیا ہے، اگرچہ انفرادی اور جزوی استثناءات بھی موجود ہیں۔


دینی اختلافات کی تحقیق میں دور اول کی طرف واپس جانا اس لیے ہمیشہ مفید ہوتا ہے کہ وہاں ابھی "آرتھوڈوکسی"  وجود میں نہیں آئی ہوتی اور اختلافات کی صحیح نوعیت سے متعلق اہل علم کے فطری احساسات سامنے آ جاتے ہیں۔ بعد کے ادوار میں جب کوئی ایک یا زیادہ مواقف مقبول ہو جاتے ہیں تو ایک تعصب بھی پیدا ہو جاتا ہے اور ہمارے دور میں جب مذہبی علماء کو کئی اسباب سے اپنی اتھارٹی خطرے میں نظر آتی ہے تو سب سے بڑا استدلال یہ بن جاتا ہے کہ طے شدہ مسئلے میں اختلاف کر کے انتشار کیوں پیدا کیا جا رہا ہے۔ اس سے ان کی مراد امت کے مختلف گروہوں میں بٹنے پر فکرمندی نہیں ہوتی کیونکہ اس کے تو وہ خود حصہ دار ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسی بات جو اس وقت علماء کے طبقے میں نہیں کہی جا رہی، وہ اگر کوئی کہے گا تو انتشار پیدا ہوگا، یعنی علماء کی اتھارٹی مزید کمزور ہوگی۔

پس مذہبی طبقوں کی سیاسی ضروریات جو بھی ہوں، علم دین کے طلبہ اور محققین کے لیے درست راستہ یہی ہے کہ وہ متاخرین "اکابر" کے ہاں طے شدہ سمجھے جانے والے موقف کو بنیاد بنانے کے بجائے ہمیشہ واپس ابتدائی دور میں جائیں اور دیکھیں کہ اہل علم چیزوں کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض اہم فقہی اختلافات کے حوالے سے امام شافعی ؒ کا یہ تبصرہ ملاحظہ ہو:

والمستحل لنکاح المتعة والمفتی بها والعامل بها ممن لا ترد شهادته وکذلک لو کان موسرا فنکح امة مستحلا لنکاحها مسلمة او مشرکة لانا نجد من مفتی الناس واعلامهم من یستحل هذا وهکذا المستحل الدینار بالدینارین والدرهم بالدرهمین یدا بید والعامل به لانا نجد من اعلام الناس من یفتی به ویعمل به ویرویه وکذلک المستحل لاتیان النساء فی ادبارهن فهذا کله عندنا مکروہ محرم وان خالفنا الناس فیه فرغبنا عن قولهم ولم یدعنا هذا الی ان نجرحہم ونقول لهم انکم حللتم ما حرم اللہ واخطاتم لانہم یدعون علینا الخطا کما ندعیه علیهم وینسبون من قال قولنا الی انه حرم ما احل اللہ عز وجل (الام کتاب الاقضیۃ، شہادۃ اہل الاشربۃ ۶/۲۰۶)

’’جو شخص نکاح متعہ کو حلال سمجھتا ہو، ا س کے جواز کا فتویٰ دیتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو، اس کی گواہی کو رد نہیں کیا جائے گا۔ یہی حکم اس شخص کا ہے جو (مالی طور پر) صاحب حیثیت ہو، لیکن کسی مسلمان یا مشرک لونڈی سے نکاح کو حلال سمجھتے ہوئے اس سے نکاح کر لے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو فتویٰ دینے والے بعض معروف اور ممتاز اہل علم اس کو حلال سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص نقد تبادلے میں ایک دینار کے بدلے میں دو دینار اور ایک درہم کے بدلے میں دو درہم لینے کو حلال سمجھتا ہو (اس کی بھی گواہی قبول کی جائے گی) کیونکہ ہم بعض ممتاز اہل علم کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کا فتویٰ دیتے، اس پر عمل کرتے اور اس مسلک کو (سلف سے) روایت کرتے ہیں۔ یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو بیویوں سے دبر میں جماع کو حلال سمجھتے ہیں۔ یہ سب کام ہمارے نزدیک ناپسندیدہ اور حرام ہیں۔ اگرچہ اس میں ہم ان لوگوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کی بات کو قبول نہیں کرتے، لیکن یہ چیز ہمارے لیے اس بات کا باعث نہیں بنتی کہ ہم ان کی ذات پر جرح کریں اور ان سے کہیں کہ تم لوگوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ہے اور خطا کے مرتکب ہوئے ہو کیونکہ جس طرح ہم ان کے خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے متعلق خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ہماری رائے کو اختیار کرنے والوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے دیا ہے۔‘‘

یعنی امام شافعی یہ فرما رہے ہیں کہ  آپ متعہ اور بیوی کے ساتھ وطی فی الدبر جیسے امور کے جواز کے قائلین پر بھی تنقید کر رہے ہیں تو انھیں یہ طعنہ نہیں دے سکتے کہ تم ’’حرام ‘‘ کو ’’حلال ‘‘ کر رہے ہو۔ کیونکہ ہمارے فہم کے مطابق اگرچہ یہ امور ازروئے دلائل حرام ہیں، لیکن اجتہادی معاملات میں ایسی زبان استعمال نہیں کی جاتی۔


روایتی دینی طبقہ، اپنی داخلی تقسیم سے قطع نظر، اس وقت ایک مشترک چیلنج کے روبرو ہے۔ توسعاً‌ ہم اس میں جماعت اسلامی کو بھی شمار کر سکتے ہیں، اگرچہ سکہ بند روایتی طبقوں کی نظر میں وہ کلی طور پر اس دائرے میں شامل نہیں سمجھی جاتی۔ دیوبندی طبقے کی صورت حال ہم براہ راست جانتے ہیں، جبکہ اہل حدیث، بریلوی اور جماعت اسلامی کے حلقوں کے متعلق بھی کافی معلومات ہمارے سامنے ہیں۔

چیلنج ایک ہی ہے جو یہ ہے کہ ان میں سے ہر طبقے نے دین کے فہم اور عمل کا اپنے تئیں جو ایک معیاری فریم ورک وضع کیا ہے، ہر طبقے کی نئی نسل میں ان کے اپنے تربیت یافتہ متعلقین کی ایک بڑی تعداد اس سے ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہے اور طبقاتی دائرے سے باہر مسائل وامور کی متبادل تفہیم کی تلاش میں ہے، بلکہ بہت سے متعلقین کشمکش کے ذہنی مرحلے سے آگے بڑھ کر مختلف متبادل تعبیرات کے متعلق ہمدردانہ زاویہ نظر رکھتے ہیں، جبکہ بہت سے اپنے طبقے سے فکری عدم تعلق کے مرحلے تک جا چکے ہیں۔

ان تمام طبقوں کا چونکہ بنیادی بیانیہ "تحفظاتی" ہے جس میں اپنے متعلقین کو بیرونی دنیا سے ایک فاصلے پر رکھ کر ان کی دینی حفاظت کا انتظام بنیادی ترجیح ہے، اس لیے اس چیلنج پر کھلے ماحول میں غور وفکر یا تجزیہ اور تبادلہ خیال کا اہتمام نہیں ہو سکتا، بلکہ کسی نمائندہ فورم پر ایسی کوئی گفتگو چھیڑی بھی جائے تو اسے روک دیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے داخلی کمزوری یا عدم تحفظ کا پیغام ملتا ہے جو تحفظاتی ماحول میں اضطراب کا موجب ہوتا ہے۔

البتہ بہت سے اہل قلم اپنی انفرادی حیثیت میں اس پر وقتاً‌فوقتاً‌ اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، کیونکہ چیزوں کو قالین کے نیچے چھپانے سے ان کا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ تاہم ابھی تک جو تجزیے دیکھنے میں آ رہے ہیں، ان کا رخ زیادہ تر اپنے "منحرفین" پر مختلف قسم کے اخلاقی حکم لگانے یعنی انھیں ڈس کریڈٹ کرنے کی طرف ہے، مثلاً‌ یہ کہ ان کا علم ناپختہ ہے، انھوں نے اساتذہ سے صحیح طرح سے فیض نہیں پایا، وہ ماحول سے باہر جا کر دنیا کی چکاچوند سے متاثر ہو گئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔  طبقے کے سرکاری بیانیے میں کچھ مسائل ہیں یا ہو سکتے ہیں، اس کو فکری سطح پر تسلیم کرنے کی جرات فی الحال ان تجزیوں میں دکھائی نہیں دیتی۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(405) طیِّب کا ترجمہ

طیب اور خبیث ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ طیب کے معنی پاک کے بھی ہیں اور عمدہ و خوش گوار کے بھی ہیں۔ اہل لغت طاب کا معنی لذّوز کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی لذیذ اور پاکیزہ۔ اس لفظ میں وسعت پائی جاتی ہے۔

ابن منظور رقم طراز ہیں:

أَرضٌ طَیِّبة اس زمین کو کہتے ہیں جو زراعت کے لیے سازگار ہو۔ رِیحٌ طَیِّبَةٌ اس ہوا کو کہتے ہیں جو نرم ہو شدید نہ ہو۔ طُعْمة طَیِّبة حلال لقمے کو کہتے ہیں۔ امرأَةٌ طَیِّبة عفیف وپاک دامن خاتون کو کہتے ہیں۔ کلمةٌ طَیِّبة ایسی بات کو کہتے ہیں جس میں کوئی ناپسندیدہ امر نہ ہو۔ بَلْدَة طَیِّبة اس بستی کو کہتے ہیں جو خوش حال اور پر امن ہو۔ حِنْطة طَیِّبة اوسط درجے کے عمدہ گیہوں کو کہتے ہیں۔ تُرْبة طَیِّبة پاک مٹی کو کہتے ہیں۔ زَبُونٌ طَیِّبٌ اس گراہک کو کہتے ہیں جس سے خرید و فروخت کرنا آسان ہو۔ طعامٌ طَیِّب اس کھانے کو کہتے ہیں جس سے لذت حاصل ہو۔ وغیرہ۔ (لسان العرب)

درج ذیل آیت میں طیبات کا مطلب عمدہ چیزیں اور خبیث کا مطلب خراب چیز ہے۔

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ۔ (البقرۃ: 267)

قرآن مجید میں مختلف مقامات پریہ لفظ آیا ہے۔ بیشتر مقامات پر پاک یا پاکیزہ سے اس کا پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے، لیکن عمدہ و خوش گوار جیسی تعبیرات مفہوم کو پورے طور پر ادا کرتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ عمدہ میں پاکیزہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے۔

درج ذیل مقامات پر اس پہلو سے غور کیا جاسکتا ہے:

(۱)  مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاةً طَیِّبَةً۔ (النحل: 97)

”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ (سید مودودی)

”جو کوئی نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، اور وہ ایمان پر ہے، تو ہم اس کو ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری دو ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔یہاں عمدہ و خوش گوار زندگی سے حَیَاةً طَیِّبَةً کی بہتر ترجمانی ہوتی ہے۔

(۲)  وَعَدَ اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ۔ (التوبۃ: 72)

”ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ مکانوں“۔ (احمد رضا خان)

”صاف ستھرے پاکیزہ محلات“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پاکیزہ مکانوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”نفیس مکانات“۔ (فتح محمد جالندھری)

عمدہ و نفیس مکانات کہنے سے اس وعدے کی معنوی قوت بڑھ جاتی ہے۔ پاکیزہ کا مفہوم اس میں شامل ہوتا ہے۔

(۳)  حَتَّی إِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیحٍ طَیِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِہَا۔ (یونس: 22)

”جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو“۔ (سید مودودی)

”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہو اور وہ اچھی ہوا سے انھیں لے کر چلیں اور اس پر خوش ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں پاکیزہ ہوا کا محل نہیں ہے بلکہ موافق و سازگار ہوا کا محل ہے۔

(۴)  أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ۔ (ابراہیم: 24)

”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ درخت“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ درخت“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پاکیزہ درخت“۔ (محمد جوناگڑھی)

مضبوط جڑ اور آسمان میں پھیلی شاخیں عمدہ قسم کے درخت کی صفات ہیں۔ یہاں پاکیزہ کہنے کا کوئی محل نہیں ہے۔

(۵)  لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِی مَسْکَنِہِمْ آیَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ یَمِینٍ وَشِمَالٍ کُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوا لَہُ بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ۔ (سبا: 15)

”سبا کے لیے اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں، کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ شہر“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ شہر ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یہ عمدہ شہر“۔ (محمد جوناگڑھی)

”زمین شاداب و زرخیز“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخر کے دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔

(۶)  وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ۔ (الصف: 12)

”اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا“۔ (سید مودودی)

”عمدہ مکانوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”صاف ستھرے گھروں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پاکیزہ محلوں“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ مکانات“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں بھی پاکیزہ محلوں کی بات نہیں بلکہ عمدہ و شان دار محلوں کی بات زیادہ موزوں ہے۔

(۷)  وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِی خَبُثَ لَا یَخْرُجُ إِلَّا نَکِدًا۔ (الاعراف: 58)

”اور زرخیز زمین کی پیداوار تو خوب اپجتی ہے اس کے رب کے حکم سے، پر جو زمین ناقص ہوتی ہے اس کی پیداوار کم ہی ہوتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے ا س سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔ (سید مودودی)

”اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا“۔ (احمد رضاخان)

”جو زمین پاکیزہ (ہے) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے (نفیس ہی) نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں جو کچھ ہے ناقص ہوتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخر کے دونوں ترجمے موزوں نہیں ہیں۔ یہاں بات اچھی زمین اور خراب زمین کی ہے۔

(406) جُعِلَ السَّبْتُ کا مطلب

إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیہِ۔ (النحل: 124)

”رہا سبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمہ اس مفروضے پر کیا گیا ہے کہ سبت عذاب کی نوعیت کی ایک پابندی تھی۔ درحقیقت سبت بنی اسرائیل کی شریعت کا ایک فریضہ تھا۔ وہ کوئی عذاب نہیں تھا۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”ہفتے کا دن تو ان ہی لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ جنہوں نے اس میں اختلاف کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہ وہ فریضہ تھا جس کی انجام دہی کرنے والے سچے مومن قرار پاتے اور اس میں کوتاہی کرنے والے فاسق شمار ہوتے۔

(407)  وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ

إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ۔ (النحل: 100)

اس آیت میں وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ کا تین طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے:

 ایک میں باء کو سببیہ مانا گیا ہے۔ یعنی شیطان کے سبب سے شرک کرتے ہیں۔ سبب کی تشریح وسوسے اور بہکاوے سے کی گئی۔ یہ پرتکلف تاویل ہے۔

دوسرے ترجمے میں بِہِ مُشْرِکُونَ کی ھاء ضمیر مجرور کا مرجع شیطان کو مانا گیا ہے۔ اس بنا پر ترجمہ کیا گیا: شیطان کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ یہ ترجمہ لغت کے قاعدے کی رو سے غلط ہے۔ کیوں کہ فعل أشرک میں جسے شریک کیا جاتا ہے وہ راست مفعول ہوتا ہے اور جس کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اس پر باء داخل ہوتی ہے۔ اس ترجمے میں بات الٹ جاتی ہے۔ جس کو شریک کیا گیا اس پر باء کا داخل ہونا لازم آتا ہے۔

 تیسرے ترجمے میں بِہِ مُشْرِکُونَ کی ھاء ضمیر مجرور کا مرجع اللہ کو مانا گیا ہے۔ اس بنا پر ترجمہ کیا گیا ہے: اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ اس میں کوئی سقم نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ضمیر کا مرجع اس آیت میں مذکور نہیں ہے۔ لیکن یہ کوئی سقم نہیں ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اگر قاری کے سامنے مرجع اچھی طرح واضح ہو تو اس کے ذکر کے بغیر بھی اس کی ضمیر ذکر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پورے قرآن میں ہر جگہ أشرک بہ سے مراد اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا مراد ہے، تو یہاں بھی ذہن فورًا ادھر ہی جائے گا خواہ آیت میں وہ مذکور ہو یا نہ ہو۔

ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

”اس کا زور ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو رفیق بناتے ہیں اور اس کے (وسوسے کے) سبب (خدا کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں“۔ (سید مودودی)

ان دونوں ترجموں میں باء کو سببیہ مانا گیا ہے۔ اس توجیہ میں تکلف معلوم ہوتا ہے۔

”اس کا زور انھیں پر ہے جو اس کو رفیق سمجھتے ہیں اور جو اس کو شریک ٹھہراتے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس کا قابو تو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”ہاں اس کا غلبہ ان پر تو یقیناً ہے جو اسی سے رفاقت کریں اور اسے اللہ کا شریک ٹھہرائیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں وہ غلطی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

”اس کا زور بس انھی پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے ہیں اور جو اللہ کے شریک ٹھہرانے والے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بس اس کا قابو تو صرف ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں پر جو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

یہ آخری دونوں ترجمے درست ہیں۔

(408) مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ کا مفہوم

قوت کا مطلب مضبوطی ہوتا ہے محنت نہیں ہوتا ہے۔ درج ذیل آیت کی تفسیر میں علامہ ابن عاشور لکھتے ہیں:

والقوۃ: إحکام الغزل۔ (التحریر والتنویر) یہاں قوت سے مراد مضبوطی سے کاتا ہوا ہے۔

بعض لوگوں نے قوۃ کا ترجمہ محنت کیا ہے، جو لغت کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔

وَلَا تَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ أَنْکَاثًا۔ (النحل: 92)

”تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا“۔ (سید مودودی)

”اور اُس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے محنت سے تو سوت کاتا۔ پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور نہ ہو جیسے وہ عورت کہ توڑا اس نے اپنا سوت کاتا محنت کیے پیچھے ٹکڑے ٹکڑے“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(جاری)


عمومِ بلوٰی کی شرعی حیثیت، شرائط اور وضاحتی مثالیں

مفتی سید انور شاہ

اسلام ایسا دینِ فطرت اور ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوں پر حاوی ہے۔اس میں انسانی مزاج، خواہشات،ضرورت و حاجت،عذر ،کمزوریوں اور مشقتوں کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔حرج،تنگی،مشقت،پریشانی اور معتبر عذر کے وقت اجازت،سہولت،وسعت،گنجائش اور لچک سے کام لیا گیاہے۔تاکہ انسان اس کی روشنی میں اپنی زندگی اعتدال کے ساتھ خوشگواری کی حالت میں گزار سکے،اور شریعت پر عمل کرنےمیں کوئی دشواری،تنگی اور مشقت محسوس نہ کرے۔

فقہاء کرامؒ نےقرآن و سنت کی روشنی میں تخفیف و رخصت کے بنیادی طور پہ سات اسباب بیان فرمائے ہیں، جبکہ ماضی قریب کے بعض علماء نے مزید تفصیل و تشقیق سے کام لیتے ہوئے چودہ اسباب بیان فرمائے ہیں۔ان اسبابِ تخفیف میں ایک اہم سبب عموم بلوٰی ہے۔

عمومِ بلوٰی

   عمومِ بلوٰی دو لفظوں سے مرکب ہے۔(۱)عموم اور(۲)بلوٰی۔

لفطِ عموم باب نصر ینصر کا مصدر ہے اس کا لغوی معنی ہے:عام ہونا،پھیل جانا۔(مختار الصحاح:۴۶۷/بیروت)

( لسان العرب لابن منظور/مادۃ عم/۱۰/۲۸۷)

اور لفظِ بلوٰی بھی باب نصر ینصر   کامصدر ہے،جس کا لغوی معنی :آزمائش ،امتحان اور مشقت کے ہیں۔

(لسان العرب:۱۴/۱۰۳/فصل فی الباء الموحدۃ)(مختار الصحاح:۷۳)

عمومِ بلوٰی کی اصطلاحی تعریف

عمومِ بلوٰی سے مراد یہ ہے کہ کوئی ممنوع چیز اتنی عام اور اس قدر پھیل جائے کہ عام آدمی کے لیے اس سے بچنا واقعتًامشکل اور دشوار کن ہو جائے۔

ڈاکٹر شیخ عبد الکریم زیدان عمومِ بلوٰی کی تعریف کے متعلق لکھتے ہیں:

شیوع ما یتعرض لہ الانسان بحیث یصعب لہ التخلص منہ۔ (الوجیز فی شرح القواعدا لفقہیۃ،۶۱/بیروت)

ترجمہ: عمومِ بلوٰی کا مطلب ہے کسی  چیزکا اس طور پر پھیل جانا کہ جس سے بچنا انسان کے لیے مشکل ترہو جائے۔

ملک شام کے مشہور عالمِ دین شیخ ڈاکٹروھبہ زحیلی صاحبؒ نے عمومِ بلوٰی کی تعریف یوں بیان کی ہے:

شیوع البلاء بحیث یصعب علی المرء التخلص او الابتعاد منہ۔ (نظریۃ الضروریۃ الشرعیۃ:۱۲۳،بیروت)

 ترجمہ:یعنی مصیبت کا اس قدر عام ہونا کہ آدمی کیلئے اس سے چھٹکارا حاصل کرنا اور بچنا دشوارہو جائے۔

معجم الفقہاء میں اس کی تعریف یوں بیان ہوئی ہے:عموم البلوٰی:شیوع المحظور شیوعًا یعسر علی المکلّف معہ تحاشیہ۔یعنی کسی ممنوع چیز کا اس قدر پھیل جانا کہ آدمی کیلئےاس سے دوررہنا مشکل ہو جائے۔ (معجم لغۃ الفقہاء:۳۲۲)

عمومِ بلوٰی کاحکم

عمومِ بلوٰی کاحکم یہ ہے کہ جن امور میں نص قطعی اور نص صریح موجود نہ ہو وہاں عمومِ بلوٰی کی وجہ سے عدمِ جواز کا حکم ساقط ہوجاتا ہےیا مکروہات میں تخفیف آجاتی ہے۔جیساکہ ایک حدیث میں بلی کو درندہ قرار دیا گیا ہے،یعنی بلی کا حکم وہی ہے جو درندہ کا ہے،اور درندے کا گوشت،لعاب اور جھوٹا ناپاک و نجس اور حرام ہے،لہذا قیاس کا تقاضہ تو یہ ہے کہ  بلی کا جھوٹا بھی ناپاک ہو،مگر چونکہ بلی کےجھوٹے سے عام طور پر بچنا دشوار ہوتا ہے،اس لیے ابتلاء عام کی وجہ سے   بلی کے جھوٹےکی نجاست ساقط ہوگئی ہے،البتہ کراہت باقی ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ:وہ خود ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے گھر میں ہریسہ(ایک خاص قسم کا کھانا جو گوشت اور گندم سے تیار کیا جاتا تھا)ایک پیالے میں رکھا ہوا تھا۔اس دوران بلی آکر اس سے کھا گئی،جب حضرت عائشہ ؓ  نماز سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے پڑوس کی خواتین کو اپنے گھر بلایا،تاکہ وہ ان کے ساتھ اس خاص کھانے میں شریک ہو جائیں، چنانچہ جب وہ خواتین کھانا کھانے کیلئےبیٹھ گئیں تو اس جگہ سے پرہیز کرنے لگیں جہاں بلی نے منہ مارا تھا،حضرت عائشہ ؓ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسی جگہ سے تناول فرمایا جہاں سے بلی نے کھایا تھا،اور فرمایا کہ میں نے جناب نبی کریم ﷺسے سنا ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے،کیونکہ وہ تمہارے گھر میں کثرت سے آتی رہتی ہے۔ (ابو داود:باب سورا لھرۃ)  

بہر حال حاصل یہ ہے کہ قیاس کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک ہو مگراس حدیث کی وجہ سے اس کی نجاست ساقط ہوگئی ہے،البتہ کراہت باقی ہے۔

علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ:بلی کا جھوٹا اپنی اصل کے اعتبار سے نجس ہے،لیکن عمومِ بلوٰی کی وجہ سے اس کی اجازت دی گئی ہے،حدیث میں ذکر کردہ علتِ طواف خود کراہتِ تنزیہی پر دلالت کرتی ہے۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۶،DKI،بیروت)

لیکن جس چیزمیں ابتلاء عام نہ ہو اس کے متعلق کراہت میں تخفیف نہیں آئیگی،بلکہ اس کی ممانعت بحالہ باقی رہے گی۔جیسے گدھے کا گوشت کہ اس میں عمومِ بلو ی نہیں ہے اس لیے اس کی ممانعت اپنی جگہ بعینہ باقی رہے گی۔علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

إن کان الأصل فیہ الحرمة ،فإن سقطت لعموم البلوٰی فتنزیہ کسؤر الھرة وإلا فتحریم کلحم الحمار۔(رد المحتار:۹/۵۵/کتاب الحظر والاباحۃ/رشیدیہ)

یعنی اگر اصل کے اعتبا رسے اس میں حرمت موجود ہو لیکن عمومِ بلوٰی کی وجہ سےوہ حرمت ساقط ہوچکی ہوتوپھر  کراہت ِ تنزیہی کے درجہ میں آجاتی ہے۔(یعنی عمومِ بلوٰی کی وجہ سےوہ چیز مکروہِ تحریمی کے بجائےمکروہ تنزیہی شمار ہوگی)۔اور اگر عموم بلوٰی نہ ہو تو مکروہ تحریمی اپنی حالت پر باقی رہے گی،جیسا کہ گدھے کا گوشت۔مبسوط میں ہے: فللبلوٰی تأثیر فی تخفیف حکم النجاسة۔ (۲۱/۲۳)

ترجمہ:عمومِ بلوی کی وجہ سے نجاست کے حکم میں تخفیف ہوجاتی ہے۔

عمومِ بلوٰی کی حجیت قرآن کی روشنی میں

عمومِ بلوٰی کی مشروعیت اور جواز  قرآن و سنت دونوں سے ثابت ہے۔ قرآن مجید  میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

یا أیُّھا الّذین اٰمنوا لیستأذنکم الذین ملکت أیمانکم  والذین لم یبلغوا الحُلُمَ منکم ثلاٰث مرّاتط من قبل صلاۃ ا لفجر وحین تضَعُوْن ثیابکم  من الظھیرۃ  ومن بعد صلاۃ العشاءط ثلاث عورات لکم  طلیس علیکم ولا علیھم جناح بعدھنططوافون علیکم بعضکم علی بعضطکذلک یبین اللہ لکم الایاتطواللہ علیم حکیم۔(سورۃ النور:۵۸)

اس آیتِ کریمہ میں نابالغ بچوں ،غلاموں اور خدام  کے خلوت گاہ میں داخل ہوتے وقت اجازت کے احکام موجود ہیں۔چونکہ نابالغ بچےاور خدام وغیرہ عمومًا ساتھ ایک گھر میں  رہتے ہیں۔ہر وقت ان کا آنا جانا رہتا ہے۔ان سے عورتوں کا پردہ بھی نہیں ہوتا،اس لیے ان کے لیے حکم یہ ہے کہ تین اوقات میں ان کو بھی کمرہ میں داخل ہوتے وقت اجازت لینی چاہیے۔وہ تین  اوقات یہ ہیں فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کوآرام کرتے وقت  اور عشاء کی نماز کے بعد۔ان اوقات میں اقارب، محارم یہاں تک کہ نا بالغ بچوں اور غلام کو بھی  اجازت کا پابند کیا گیا ہےکہ ان تین اوقات میں کوئی بھی کسی کی خلوت گاہ میں بغیر اجازت کے نہ جائے،کیونکہ یہ اوقات خلوت اور استراحت کے ہیں۔ البتہ باقی اوقات میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے،وجہ اس کی یہ ہے کہ بچوں اور خدام وغیرہ کابکثرت  آنا جانا اور میل جول ہوتاہے اب اگر ہر وقت ان پر اجازت لینے کی پابندی لگائی جائے  تو اس سے دشواری اور تنگی پیدا ہوگی۔آیتِ کریمہ میں لفظِ ’’طوّافون‘‘ سے اسی طرف اشارہ ہے ۔اس لیے ابتلاء عام کی وجہ سے تنگی اور دشواری کو ختم کرتے ہوئے دیگر اوقات میں اجازت لینے کے حکم کو ساقط کردیا گیا ہے۔اسی کو فقہ اسلامی کی زبان میں عمومِ بلوٰی کہتے ہیں کہ ابتلاء عام کے وقت لوگوں کی مشکلات کو  سامنے رکھ کر شرعی حدود میں رہتےہوئے آسانی کا جائز راستہ تلاش کیا جائے۔

(۲) یرید اللہ أن یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفًا۔ (سورۃا لنساء:۲۸)

ترجمہ: اللہ چاہتا ہے کہ  تمہارے ساتھ آسانی کامعاملہ کرے اور  انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

یعنی اللہ تعالی نےانسان کی ضروریات اور مشکلات کا لحاظ کر کے آسان اور ہلکے احکام نازل فرمائے ہیں تاکہ ان آسان اور نرم احکام پر  سب بآسانی عمل پیرا ہوسکیں۔

(۳) وما جعل علیکم فی الدین من حرج۔(سورۃالحج:۷۸)

ترجمہ:اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

حضراتِ مفسرین نے اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شریعت  نے انسانوں پر ایسے معتدل  اور مناسب احکام لازم کیے ہیں،جن پر عام حالات میں عمل کرنے سے بہت زیادہ مشقت،تنگی اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی،بلکہ شریعت میں کوئی ایساحکم نہیں ہے  جو انسان کی طاقت سے باہر ہو۔دوسری طرف شریعت نے غیرمعمولی اور ہنگامی صورتِ حال یعنی ضرورت و حاجت اور ابتلاء عام کے وقت لچک،وسعت،گنجائش،سہولت اور آسانیاں فراہم کی ہیں، جیسے سفر میں نماز کاقصر،بیماری میں تیمم وغیرہ۔

فقہاء کرامؒ نے اسی آیتِ کریمہ سے مندرجہ ذیل فقہی قواعد  کا استنباط کیا ہے،مثلاً: ’’أنّ المشقة تجلب التیسیر‘‘ و ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ و ’’أن الضرر یزال‘‘ وغیرہ۔

 وفی تفسیر السعدی: وما جعل علیکم فی الدین من حرج :أی مشقة وعسر، بل یسرہ غایة التیسیر، وسھلہ بغایة السھولة، فأولا ما امرو ألزم  إلا بما ھو سھل علی النفوس، لا یثقلھا ولا یؤودھا، ثم إذ اعرض بعض الأسباب الموجبة للتخفیف، خفف ما اٰمر بہ، إما بإسقاطہ أو اسقاط بعضہ، ویؤخذ من ھذہ الاٰیة: قاعدۃ شرعیة وھی ’’أن المشقة تجلب التیسیر‘‘ و’’الضرورات تبیح المحضورات‘‘فیدخل فی ذالک من الأحکام الفرعیة شیءکثیر معروف فی کتب الحکام۔(تفسیر السعدی:سورۃ الحج:۷۸)
وفی تفسیر الوسیط الطنطاوی: ومن مظاھر رحمتہ بکم أیّھا  المؤمنون أنہ سبحانہ لم یشرع فی ھذا  الدین الذی یدینون بہ ما فیہ مشقة بکم، أو ضیق علیکم وِإنما جعل أمر ھذا الدین مبنی علی الیسر والتخفیف ورفع الحرج، ومن قواعدہ التی تدل علی ذلک: ’’أن الضرر یزال‘‘و’’أن المشقة تجلب التیسیر‘‘و’’أن الیقین لا یزول  بالشک‘‘(تفسیر الوجیز لطنطاوی، سورۃالحج:۷۸)


(۴) یرید اللہ بکم الیسر ولا ترید بکم العسر۔(سورۃا لبقرۃ:۱۸۵)

ترجمہ:اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتاہے اور تمہیں مشکل میں  اور تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا ۔

عمومِ  بلوٰی احادیثِ طیبہ کی روشنی میں

احادیث طیبہ کے عظیم ذخیرہ میں بہت سی احادیث  سے بھی یہ بات واضح طور پر ثابت  ہےکہ جناب نبی کریمﷺ  نے مشقتِ شدیدہ ،تنگی اور ابتلاء عام کے وقت تخفیف،وسعت اور آسانی کا حکم فرمایا ہے۔ذیل میں صرف چند احادیث پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

(۱) یسّروا ولا تعسّروا وبشروا ولا تنفروا۔ (بخاری:کتاب العلم/باب ما کان  النبی ﷺ ینخو لھم بالموعظۃ)

ترجمہ:لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیا کرو،انہیں تنگی اور مشقت میں نہ ڈالو،لوگوں کو خوشخبری سناؤ،انہیں  نفرت نہ دلاؤ۔

(۲) إنما بعثتم میسّرین ولم تبعثوا  معسّرین۔ (بخاری/کتاب الوضوء/باب صب الماء علی البول)

          ترجمہ:تمہیں اس لیے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ تم آسانی اور سہولت کا معاملہ کرو نہ کہ تنگی اور پریشانی کا۔

(۳)بنو اشھل کی ایک خاتون حضوراقدسﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:یا رسول اللہ!ہمارے گھروں سے مسجد کی طرف جو راستہ نکلا ہوا ہے اس میں اکثر گندگی رہتی ہے خاص کر جب بارش ہوجائے تو گندگی پانی کے ساتھ مل جاتی ہےاور پھر اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ:اس کے بعد صاف راستہ شروع نہیں ہوتا؟،انہوں نے فرمایا :جی ہاں اس کے بعد صاف راستہ آتا ہے،آپ نے فرمایا:یہ صاف راستہ  اس گندگی کوصاف کردے گا،یعنی صاف جگہ کے رگڑنے سے وہ گندگی صاف ہوجائے گی۔(سنن ابی داؤد:کتاب الطھارۃ،باب فی الأذی،۱/۹)

اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوئی  کہ جس چیز سے بچنا مشکل ہو  وہاں تخفیف اور آسانی آجاتی ہے۔

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات کریمہ اور احادیثِ طیبہ سےمعلوم ہوا کہ اسلام  نے انسانوں کے مفادات و مصالح، تنگی وحرج،ضرورت و حاجت ، کمزوریوں اورمشقتوں کا پورا پورا لحاظ و پاس رکھاہے۔اس لیے مقاصد شریعت میں رفع ِحرج و تنگی ،دفع ضرر ومشقت اور ابتلاء عام کے معتبر ہونے کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

عمومِ بلوٰی کے معتبر ہونے کی شرائط و حدود

واضح رہے کہ ان آیات واحادیث کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ عمومِ بلوٰی یعنی ابتلاءِ عام کے وقت وسعت وگنجائش اور سہولت و لچک کیلئے ہر انسان کو آزاد چھوڑ دیا جائےیا اس کی حدود کی تعیین کے لیے ہر ایک شخص  کو ترازو ہاتھ میں دیدیا جائے کہ وہ اپنی نفسانیت اور خواہش کے مطابق اس کو تولتا رہےکہ ایسا کرنا اباحیت کے دروازے کو کھولنے کے مترادف ہوگا۔اس لیے فقہاء کرام ؒنے  عمومِ بلوٰی کے معتبر ہونے کیلئے چند شرائط مقررکی ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

(۱) عمومِ بلوٰی کسی نص قطعی اورنص صریح سےمعارض نہ ہو:-

جن مسائل کےمتعلق قرآن کریم  یا سنت ِنبوی میں نص قطعی یا نص صریح موجود ہو  ان میں کسی  قسم کا اجتہاد نہیں ہوسکتا۔اس لیے ایسے معاملات میں عمومِ بلوٰی کی کوئی گنجائش نہیں۔عمومِ بلوٰی کا اعتبار وہیں ہوتا ہے  جہاں کوئی نص قطعی موجود نہ ہو ۔مثلاً سود کاحرام ہونا قرآن کریم کی واضح نصوص سے ثابت ہے۔کسی بھی طرح کے سود کو حلال بنانے کیلئے اجتہاد کرنا یا عمومِ بلوٰی یا ابتلاء عام کو سند بنانا شریعت سے انحراف کے مترادف ہے۔لہذا اگر  کسی  ملک یا ساری دنیا میں سودی کاروبار اور شراب نوشی عام ہوجائے ،اسی طرح سٹہ بازی یا ایسا کاروبار  جو اس کی تعریف میں آتا ہو رواج پذیر ہوجائے،یا عورتیں  پردہ بالکل ترک کردیں تو ان امور میں عمومِ بلوٰی کا اعتبار بالکل نہیں  کیاجائے گا،کیونکہ نص قطعی کے مقابلے میں عمومِ بلوٰی کا  اعتبار نہیں ہوتا ۔

عمومِ بلوٰی نص ظنی کے معارض ہو:-

اگر عمومِ بلوٰی نص ظنی کے معارض ہو تو ایسی صورت میں عمومِ بلوٰی پر عمل کیا جائے گا ؟ یا خبر واحد پر؟ چنانچہ اس سلسلے میں فقہاء کرام ؒکا اختلاف ہے۔امام سرخسیؒ اور علامہ ابن نجیمؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر نص ظنی اور عموم بلوٰی میں تعارض ہوجائے تو ایسی صورت میں نص ظنی (خبر واحد) پر عمل کیا جائے گا۔

امام سرخسیؒ فرماتے ہیں:

وإِنما تعتبر البلوٰی فیما لیس فیہ نص بخلافہ فأما مع وجود النص لا معتبر بہ.  (المبسوط:۴/۱۰، تبیین الحقائق:۲/۸۰)

ترجمہ:عمومِ بلوٰی کا اعتبار وہاں کیا جائے گا جہاں اس کے خلاف کوئی نص موجود نہ ہو۔جہاں نص موجود ہو وہاں عمومِ بلوٰی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

وقال ابن نجیمؒ: ولا اعتبار عندہ بالبلوٰی فی موضع النص، وقال الحمویؒ: المشقة والحرج  إنما یعتبران فی موضع لا نص فیہ، وأما مع النص بخلافہ فلا.(غمز عیون الأبصار شرح کتاب الأشباہ والنظائر،۱/۲۷۴/تحت القاعدۃ الرابعۃ:المشقۃ تجلب التیسیر/بیروت)

جبکہ علامہ ابن ہمام ؒاور بعض دیگر فقہاء کرامؒ کی رائے یہ ہے کہ اگر عمومِ بلوٰی اور نص ظنی میں ٹکراؤ آجائے تو خبرِ واحد کو چھوڑ کر عمومِ بلوٰی پر عمل کیا جائے گا۔

علامہ ابن ہمامؒ فتح القدیر میں لکھتے ہیں:

وما قیل إن البلوٰی لاتعتبر  فی موضع النص عنہ ،کبول الانسان  ممنوع، بل تعتبر إذا تحققت،  بالنص النافی للحرج وھو لیس معارضة للنص بالرأی۔(فتح القدیر:۱/۱۸۹)

یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ عمومِ  بلوٰی اس مسئلے میں معتبر نہیں ہے جس میں نص موجود ہو،یہ بات ناقابل تسلیم ہے۔نص کی موجودگی میں بھی عموم کا اعتبار کیا جائیگابشرطیکہ عمومِ بلوٰی متحقق ہو،اس نص کی بناء پر جو حرج کی نفی کرتی ہے،اور یہ رائے کے ذریعے نص کا معارضہ نہیں ہے۔

اس  مسئلے کے متعلق امام سرخسی ؒ اور علامہ ابن نجیم ؒ کا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔لیکن مجھے دیگر فقہی عبارات اور جزئیات کی  روشنی میں یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ عمومِ بلوٰی کی وجہ سے حدیث (خبرِ واحد) کو بالکلیۃ چھوڑنا تو درست نہیں ہے البتہ حدیث میں تخصیص کرکے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس صورت کے متعلق حدیث وارد ہوئی ہے وہ تو ناجائز ہے لیکن دیگر صورتیں عمومِ بلوٰی کی وجہ سے جائز ہیں۔جیسا کہ بلخ کے فقہاء کرامؒ نے قفیز الطحان سے ملتی جلتی صورتوں کو تعامل کی بنیاد پر اس لیے جائز کہا ہے کہ عرف و تعامل کی وجہ سے اگرچہ حدیث کو منسوخ تو نہیں کیا جاسکتا،البتہ اس میں تخصیص کی جاسکتی ہے۔علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

لو دفع إلی  حائک غزلاً لینسجه بالثلث فمشایخ بلخ کنصیر بن یحیی ومحمد بن سلمة وغیرھما کانوا یجیزون ھذہ الإجارۃ فی الثیاب لتعامل أھل بلدھم فی الثیاب، والتعامل حجة یترک بہ القیاس ویخص بہ الأثر  وتجوز ھذہ الإجارۃ فی الثیاب للتعامل بمعنی تخصیص النص الذی ورد فی قفیز الطحان، لأن النص ورد فی قفیز الطحان لا فی الحایک إلا أن الحایک نظیرہ  فیکون واردًا فیہ دلالة فمتی ترکناالعمل بدلالة ھذا النص فی الحایک  عملنا بالنص فی قفیز الطحان کان تخصیصًا لا ترکًا اصلاً وتخصیص النص بالتعامل جائز.(شرح عقود رسم المفتی:۱۴)

ترجمہ: اگر کسی نے کپڑا بننے والے کو کپڑا اس شرط پر دے دیا کہ اس کپڑے کی ایک تہائی مقدار کے بدلے میں اسے کپڑا بن دے گا تو بلخ کے مشائخ جیسے نظیر بن محمد یحییٰ،محمد بن سلمہ وغیرہ نے اس صورت کو جائز قرار دیا ہےکیونکہ ان کے شہر میں اس طرح معاملہ کرنے کا عام رواج تھااور تعامل ایک ایسی دلیل ہے جس کی وجہ سے قیاس کو ترک کیا جا سکتا ہے اور حدیث میں تخصیص کی جاسکتی ہے،لہذا تعامل کی  وجہ سے کپڑوں کے اجارہ میں اس صورت کو جائز قرار دینے کا  مطلب یہ  ہوگا کہ قفیز الطحان سے متعلق وارد حدیث کے اندر تخصیص کردی گئی ہے کیونکہ حدیث قفیز الطحان سے متعلق ہے،کپڑے بننے سے متعلق نہیں،البتہ کپڑابننے کی صورت اس کی نظیرہے،اس لیے وہ حدیث دلالۃً اس  کے بارے میں بھی ہوگی،لہذا ہم نے تعامل کی وجہ سے کپڑا بننے کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل نہیں کیا اور قفیز الطحان کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل کیا تو یہ حدیث میں تخصیص ہوئی،حدیث کوبالکلیہ ترک کرنا نہ ہوا اور تعامل کی وجہ سےحدیث میں تخصیص کی جا سکتی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ  اگر قفیز الطحان  کا رواج ہوجائے تو تعامل کی وجہ سے اس کوجائز نہیں قرار دیا جاسکتا  کہ اس سے حدیث کو بالکلیہ چھوڑنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے،البتہ اس سے ملتی جلتی صورتوں کا تعامل ہوجائے تو تعامل کی وجہ سے حدیث میں تخصیص کرکےان کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔

(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ عموم بلوٰی کی وجہ سے واقعۃً مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت متحقق ہو ،محض وہم اور تن آسانی  کی بنیادپر عموم بلوٰی کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

(۳) عموم بلوٰی پر مبنی احکام کی سہولت ابتلائےعام کےوقت تک محدود ہوگی۔ابتلائے عام ختم ہوتی ہی سہولت وتخفیف کا حکم ختم ہوجائے گا۔یہ شرط فقہ کے اس مشہور قاعدہ سےماخوذہے (ما جاز لعذرٍ بطل بزوالہ) جو چیز کسی عذر کی بناءپر جائز قراردیا گیا ہو تو عذر ختم ہوتے ہی جواز کا حکم بھی ختم ہوجاتاہے۔

(۴) عموم بلوٰی بالفعل موجود ہو،آئندہ اس کی وقوع کا اندیشہ معتبر نہیں۔

(۵)عموم بلوٰی کے تحقق کا فیصلہ ارباب اہل علم واہل فتوی حضرات کے رائے پر موقوف ہوگا۔عوام کا فیصلہ  اس سلسلے میں معتبر نہیں ہوگا۔نیز اس سلسلے میں مناسب یہ ہے کہ  کوئی ایک مفتی خود رائی  کے ساتھ فیصلہ نہ کرےبلکہ دیگر اہل فتوی حضرات سے مشورہ کرے اگر وہ بھی متفق ہوں تواتفاق رائے کے ساتھ ایسا فتوی دیاجائے۔

عموم بلوٰی کی وضاحتی مثالیں

جن مسائل میں فقہاءکرام ؒنے عموم بلوٰی کو بنیاد بناکر سہولت ،وسعت اور گنجائش کا حکم لگایا ہےان کی تعداد تو فقہی کتب میں کافی زیادہ ہے جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں مشکل ہے اس لیے ذیل میں عموم بلوٰی کو مزید واضح کرنے کے لیے صرف پانچ مثالوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

(۱) پیشاب کی باریک چھینٹیں

پیشاب کا ایک قطرہ قطرہ نجس و ناپاک ہے،لیکن  پیشاب کرتے وقت بدن اور کپڑے پرسوئی کی نوک کے برابر باریک چھینٹیں پڑ ہی جاتی ہیں۔عام طور پراس سے بچنا مشکل ہوتاہے،اس لیے شریعت نے عام لوگوں کے ابتلاء کی وجہ سے اس کو معاف قراردیاہے،لہذا پیشاب کے ایسی باریک چھینٹیں جوسوئی کی نوک کے برابر ہوں معاف ہے۔ان سے کپڑا اور بدن ناپاک نہیں ہوگا۔

وفی التنویر مع شرحہ: وبول انتضح کرأس إبرٍ، وفی الشامیة تحتہ: والحاصل أنّ فی المسألة قولین مبنیین علی الإختلاف فی المراد من قول محمّدؒ کرؤس الإبر، أحدھما:أنّہ قیّد بہ عن رأسھا من الجانب الآخر وعن رأوس المال...وثانیھما:أنّہ غیر قید وإنّما ھو تمثیل للتقلیل، فیعفی عنہ سواءً کان مقدار رأسھا من جانب الخرز أو من جانب الثقب، ومثلہ ما کان کرأس المسئلة، وعلمت أنّہ فی الکافی اختار القول الثانی ولکن ظاھر المتون والشروح اختار الأول لأنّ العلة الضرورۃ قیاساًعلی ما عمّت بہ البلوٰیٰ ممّا علی أرجل الذناب فإنّہ یقع علی النجاسة ثمّ یقع علی الثباب، قال فی النھایة ولا یستطاع الإحتراز عنہ۔ (۱/۳۲۳/باب الأنجاس)

(۲) بارش میں کیچڑ اور پانی کے چھینٹوں کا مسئلہ

بارش کی موسم میں راستوں پر موجودکیچڑ اور پانی کے چھینٹے اگر کپڑوں یا بدن پر لگ جائیں تو عموم بلوٰی کی وجہ سے فقہاء کرامؒ نے فرمایا ہے کہ ان چھینٹوں سے کپڑا اور بدن ناپاک نہیں ہوگا بشرطیکہ اس میں نجاست کا اثر محسوس نہ ہو۔

وفی ردالمحتار:طین الشوارع  عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلاۃ معہ۔۔۔ والحاصل أن الذی ینبغی أنّہ حیث کان  العفو للضرورۃ۔۔۔ وإلّا فلا ضرورۃ۔ (۱/۳۲۴/باب الأنجاس وکذا فی حاشیۃ الطحطاوی: ۱/۱۶۱/باب الأنجاس)

(۳) تر نجاست سے جوتے کی پاکی کا مسئلہ

جوتے اور چمڑے کے موزے پراگر تر نجاست لگ جائے جیسے گوبر،پاخانہ اور خون وغیرہ اور خشک ہونے سے پہلے جوتے اورموزے کو زمین پر رگڑا جائے تو جمہور کے نزدیک  محض  زمین پر رگڑنے سے جوتا اور موزہ پاک نہیں ہوگا،کیونکہ تر نجاست زمین پر رگڑنے سے اور زیادی پھیل جاتی ہے،ظاہرہے کہ اس سے جوتا اور موزہ مزید  ملوث ہوگا نہ کہ پاک۔ لیکن امام ابویوسفؒ کے نزدیک اس صورت میں اگر جوتے اور موزے کو اچھی  طرح رگڑ دیا جائے یہاں تک کہ نجا ست کا اثر ختم ہوجائے تو عموم بلوٰی کی وجہ سے جوتا اور موزہ وغیرہ پاک ہوجائے گا،  دھونے کی ضرورت نہیں ۔

صاحب ہدایہ، علامہ ابن ہمامؒ اور علامہ ابن عابدین شامیؒ نے عموم بلوٰی یعنی ابتلائےعام کی وجہ سے حضرت امام ابویوسفؒ کے قول کو راجح قرار دیاہے۔

وفی الرطب لایجوز حتّی یغسلہ، لأنّ المسح بالأرض یکثرہ ولایطھرہ، وعن ابی یوسفؒ أنّہ إذا مسحه بالأرض  حتّی لم یبق اثرا لنجاسة یطھرلعموم البلوٰیٰ۔(فتح القدیر،کتاب الطھارۃ،۱/۹۴)
وفی ردّالمحتار:وعلی قول أبی یوسفؒ  أکثر المشائخ وھو الأصح، المختار وعلیہ الفتوی لعموم البلوٰیٰ۔ (۱/۳۱۰)

(۴) نماز میں قرأت کے دوران ایک  حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنے کا مسئلہ

نماز میں قرأت کے دوران اگر ایک حرف دوسرے حرف سے بدل جائے تو نماز کے فساد اور عدم فساد کےمتعلق متقدمین فقہاءکرامؒ کےنزدیک تفصیل یہ ہےکہ اگران دوحرفوں کامخرج ایک یامتقارب ہو،اور ایک حر ف کا دوسرےسےبدل لینا بقواعد عربیت جائزبھی ہو،یعنی بدلنے سےمعنیٰ مراد میں زیادہ تغیرفاحش نہ  پیدا ہوتا ہو تو ان کے باہمی تبدیلی سے نمازفاسد نہ ہوگی،خواہ کوئی  بھی حرف ہواور کسی طرح بھی بدلا جائے،مثلاً:قاف اور کاف، سین اور صاد وغیرہ اور جہاں یہ  صورت نہ ہو،بلکہ اس کے تبدیل سے معنی میں تغیر فاحش  پیدا ہوجائے وہاں نماز فاسد ہو جائےگی۔

چنانچہ متقدمین کے قول کے موافق جب کوئی شخص ضاد کو ظا خالص سےبدل دے،یا دال پڑھے،دونوں صورتوں میں معنی پر غور کیا جائےگا،اگر تغیر فاحش پیداہوگیا کہ مراد قرآن بالکل بدل گئی تو فساد نماز کا حکم کیا جائے گا ورنہ نہیں۔

’’شرح منیہ‘‘ میں ہے:

أمّا إذا قرأ مکان الذال المعجمة ظاءً معجمةً او قرأ الظاء المعجمة مکان الضاد المعجمة أو علی القلب۔۔۔فتفسد صلاتہ وعلیه اکثر الأئمة للغیر الفاحش البعید ومنھا خضرا بالدال المھملة مکان الضاد المعجمة تفسد للبعد الفاحش۔(کبیری شرح منیہ،۱/۴۴۸)

متاخرین فقہاء کرام نے جب اس مسئلےمیں عموم بلوٰیٰ کا مشاہدہ کیا کہ اول تو عرب میں بھی بوجہ اختلاط عجم  اب ان چیزوں کی رعایت  کما حقہ نہیں رہی،پھر عجم تو اس سے عمومًا ناواقف ہیں۔اس لیے متقدمین کے مذہب کے مطابق تو شائد صرف خاص خاص قراء حضرات کی نماز صحیح رہےگی۔اس لیے متاخرین فقہاء نے عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے یہ فتوی دیا کہ حروف کی باہمی تبدیلی  مطلقاً مفسد نماز نہیں،خواہ اتحاد وقرب مخرج ہو یا نہ ہو اور معنی میں تغیرفاحش ہو یا نہ ہو۔

الخطا إذا دخل فی الحروف لاتفسد لأنّ فیہ بلوٰی عامة الناس لأنھم لا یقیمون الحروف إلّا بمشقّةٍ وفیھا إذا لم یکن بین الحروفین اتحاد المخرج ولا قربة إلّا فیہ بلوٰی العامة کالذال  مع الضاد او الزاء المخلص مکان الذال والظاء مکان الضاد لاتفسد عند بعض المشائخ۔(شامیہ:۱/۵۹۲،با ب زلۃ القاری)

البتہ چونکہ متأخرین کے قول کے موافق عوام میں زیادہ بے پروائی ہونے کا احتمال تھا۔اس لیے بعض محققین متأخرین نے ایک بین بین اور درمیانی صورت اختیار فرمائی جس میں عوام پر تنگی بھی نہیں اور اصل حکم  سے زیادہ بُعدبھی نہیں۔وہ یہ ہے کہ  عوام جو مخارج اور صفات سے واقف نہیں،بوجہ عذر ناواقفیت یا عدم التمیزکے اگر ان کی زبان سے ایک حرف کے جگہ دوسرا حرف نکل جائے اور وہ سمجھے کہ میں نے وہی حرف نکالاہے جو قرآن مجید میں مذکور ہےتو عموم بلوٰی کی وجہ سےاس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔اور جو شخص واقف ہےاورصحیح حرف نکالنے پر قادر ہے اور پھر بھی جان بوجھ کریا بے پروائی سے غلط حرف نکا لتا ہے تو جس جگہ معنی میں تغیر فاحش پیدا ہوجائے گا،تو متقدمین کے قول کے موافق اس کی نماز فاسد قرار دی جائے گی۔

حاصل یہ ہے کہ  عوام کے حق میں عموم بلوٰی کی وجہ سے متاخرین کے قول پر فتوی ہے،جبکہ مجودین  علماء اور مشاق قراء کے حق میں متقدمین کے قول پر فتوی ہے۔

کما فی الشامیة: والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغییرا فاحشاً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک۔۔۔فإن لم یکن مثله فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد۔۔۔وقال بعض المشائخ:لاتفسد لعموم البلوٰیٰ، وأمّاالمتأخرون ۔۔۔۔ فاتفقوا علی أنّ الخطأ فی الإعراب لایفسد مطلقاً ولو كان اعتقادہ کفراً لأنّ أکثر الناس لایمیّزون بین وجوہ الإعراب۔قال قاضی خاں:وما قال المتأخرون أوسع، وما قال المتقدمون أحوط، وإن کان الخطأ بابدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینھما بلا کلفةٍ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنّہ مفسد، وإن یمکن إلّا بمشقّة کا لظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرھم علی عدم الفساد لعموم البلوٰیٰ (۱/۵۹۰، باب زلۃ القاری)
وفی شرح المنیة: أنّہ یفتی فی حقّ الفقہاء بإعادۃ الصلاۃ وفی حقّ العوام بالجواز۔ (کبیری:۱/۴۴۸، وکذا فی جواھر الفقہ،۳/۳۴)

(۵) درخت پر پھل چھوڑنے کی شرط لگانے کا مسئلہ

درخت پر موجود پھل اس شرط کے ساتھ خریدناکہ پھل کچھ مدت تک درخت پرلگا رہےگا تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔البتہ امام محمدؒکے نزدیک اگر پھل پک چکا ہوتو درختوں پر چھوڑنےکی شرط لگانا اگر چہ مقتضائےکے  خلاف ہےمگر عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے یہ شرط لگانا جائزہے۔

وفی الدرالمختار: وإن شرط ترکھا علی الأشجار فسد وقیل قائله محمدؒ لایفسد إذا تناھت الثمرۃ لتعارف وبه یفتی، وفی ردّالمحتار:قوله وبه یفتی، ویجوز عند محمدؒاستحساناً وھو قول الأئمة الثلاثة، واختارہ الطحاوی لعموم البلویٰ۔ (۴/۵۵۴/کتاب البیوع،مطلب فی  بیع الثمر والشجر)

عموم بلویٰ کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دینا

جس مسئلے میں واقعتا ابتلاءِ عام کی وجہ سے اپنے امام کے مذہب پر عمل کرنے میں شدید دشواری ہو ،تو ایسی صورت میں فقہاء کرامؒ نے مذہبِ غیر پر فتوی دینے کو جائز قرار دیا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں خاص طور پر دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔

پہلی بات یہ ہے: کہ کوئی ایک مفتی خود رائی کے ساتھ فیصلہ نہ کرے بلکہ اس سلسلے میں دوسرے اہلِ فتوی سے مشاورت کا اہتمام کرے ۔ دوسری بات یہ ہے: کہ ائمہ اربعہ سے خروج نہ کیا جائے ۔

چنانچہ فقہاء ِاحنافؒ نے ضرورت وحاجت اور ابتلاءِ عام کی وجہ سے کئی مسائل میں دوسرے مذہب پر فتوٰی  دیا ہے۔ مثلا:اگر کسی کا مال دوسرے شخص کے ذمہ لازم ہو اور وہ نہ دے رہاہو ،پھر مدیون کا کوئی مال جو مالِ واجب کی جنس سے نہ ہو اور دائن کے پاس کسی طریقے سے آجائے ،تو اصل حنفی مسلک کے مطابق دائن کےلئے اس مال کو بیچ کر اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے ۔لیکن متاخرین حنفیہؒ نے اس سلسلے میں امامِ شافعیؒ کے قول پر فتوٰی دیا ہے ۔ چنانچہ در مختار میں ہے :

لیس لذی الحق أن  یأخذ غیر جنس حقہ وجوّزہ الشافعیؒ وھو الأوسع۔

اس کے تحت علامہ شامیؒ لکھتےہیں:

قولہ:(وجوّزہ الشافعیؒ) قدمنا فی کتاب الحجر أن عدم الجواز کان فی زمانھم ۔أمّاالیوم فالفتوٰی علی الجواز ۔ قولہ:(وھو الأوسع) لتعینہ طریقا لإستیفاء حقہ فینقل حقہ من الصورۃ إلی المالیة ۔ (رد المحتار ،۶/۱۵۱،کتاب الحظر والإباحۃ ) ۔

اس سلسلے میں استاد محترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

’’چونکہ چاروں مذاہب بلاشبہ برحق ہیں اورہر ایک کے پاس دلائل موجود ہیں اس لئے اگر مسلمانوں کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہو ،تو اس موقع پر کسی دوسرے مجتہد کے مسلک پر فتوی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ،حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ نے حضرت تھانویؒ کو یہ وصیت کی تھی اور حضرت تھانویؒ نے ہم سے فرمایا کہ آجکل معاملات پیچیدہ ہوگئے ہیں اور اس کی وجہ سے دیندار مسلمان تنگی کا شکار ہیں ؛اس لئےخاص طور سے بیع وشرء اورشرکت وغیرہ کے معاملات میں جہاں  عام ہو وہاں ائمہ اربعہ میں سے جس امام کے مذہب میں عام لوگوں کے لئے گنجائش کا پہلو ہو اُس کو فتوی کے لئے اختیار کرلیا جائے ۔لیکن حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ کسی دوسرے امام کا قول اختیار کرنے کے لئے چند باتوں کا اطمینان کرلینا ضروری ہے ۔سب سے پہلے تو یہ کہ واقعۃً مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت متحقق ہے یا نہیں،ایسا نہ ہو کہ محض تن آسانی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کرلیا جائے اور حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس اطمینان کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی ایک مفتی خود رائی کے ساتھ یہ فیصلہ نہ کرے ،بلکہ دوسرے اہل فتوی حضرات سے مشورہ کرے ،اگر وہ بھی متفق ہوں تو اتفاق رائے کیساتھ ایسا فتوی دیا جائے ۔دوسری بات یہ ہے کہ جس مام کا قول اختیار کیا جارہا ہے اس کی پوری تفصیلات براہ راست اس مذہب کے اہل فتوی علماء سے معلوم کی جائیں ،محض کتابوں میں دیکھنے پر اکتفاء نہ کیا جائے ؛کیونکہ بسا اوقات اس قول کی بعض ضروری تفصیلات عام کتابوں میں مذکور نہیں ہوتیں اور ان کے نظر انداز کردینے سے تلفیق کا اندیشہ رہتا ہے۔‘‘

تیسری بات یہ ہے: کہ ائمہ اربعہ سے خروج نہ کیا جائے ؛کیونکہ ان حضرات کے علاوہ کسی بھی مجتہد کا مذہب مدوّن شکل میں ہم تک نہیں پہنچا اور نہ ان کے متعین اتنے ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی قول استفاضہ یا تواتر کی حد تک پہنچ جائے۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نےعقد المجید میں ائمہ اربعہ سے باہر جانے کے مفاسد تفصیل کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔

چنانچہ بعض مصیبت زدہ خواتین کے لئے حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے مالکی مذہب پر فتوی دینے کا ارادہ کیا تو ان تمام باتوں کو پوری احتیاط کے ساتھ مدِّنظر رکھا اور براہ راست مالکی علماء سے خط و کتابت کے ذریعے مذہب کی تمام تفصیلات معلوم کیں اور تمام علمائے ہندسےاستصواب کے بعد فتوی شائع فرمایا ۔(مفتی اعظم نمبر ۱/۳۸۱)۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے امداد الفتاویٰ کے اندر متعدد مسائل میں عموم بلوٰیٰ  کے خاطرمذہب غیر پر فتوی دیا۔مثلاً:بیع سلم میں احناف کے نزدیک شرط یہ ہے کہ مسلم فیہ وقت میعاد تک بازارمیں موجود رہے ، لیکن حضرتؒ نے اس معاملے میں عموم بلوٰی کی وجہ سےامام شافعیؒ کے قول پر عمل کی گنجائش دیتے ہوئےفرمایا ہے کہ:مبیع کا وقت میعاد تک پایا جانا حنفیہ کے نزدیک شرط ہے،لیکن امام شافعیؒ کے نزدیک صرف وقت میعاد پر پایا جاناکافی ہے،کذا فی الھدایۃ،تو اگر ضرورت میں اس قول پرعمل کرلیا جاوے تو کچھ ملامت نہیں ،رخصت ہے۔(امداد الفتاوی:۳/۱۰۴)

اسی طرح احناف کے نزدیک بیع سلم میں ایک مہینے کی مدت شرط ہے،لیکن حضرتؒ فرماتے ہیں:

’’اور امام شافعیؒ کے نزدیک چونکہ اجل شرط نہیں ،اس لیے سلم میں داخل ہوسکتاہے،چونکہ ابتلاء عام ہے،لہذا امام شافعیؒ کے قول پر عمل  کی گنجائش ہے۔‘‘ (امداد الفتاویٰ:۳/۲۱)

حضرت مولانا ظفراحمد عثمانی صاحبؒ امداد الأحکام میں لکھتے ہیں:

’’عموم بلوٰی کی وجہ سے کہ خاص وعام ایک ناجائز کام میں مبتلا ہوں،ہر ناجائز کام جائز نہیں ہوتا،بلکہ جس میں بوجہ اختلاف ائمہ کے کسی درجہ میں جواز کی گنجائش ہو وہاں عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے کسی دوسرے امام کے قول کو اختیار کرلیاجاتاہے۔‘‘ (امداد لاحکام،۱/۲۱۳/کتاب العلم)

محدث العصر حضرت مولاناسید محمد یوسف بنوری صاحبؒ لکھتے ہیں:

’’اگرمسئلہ مطلوبہ سب فقہاء کے ہاں ملتا ہے،لیکن حنفی مذہب میں دشواری ہے اور بقیہ مذاہب میں نسبتاً سہولت ہے اور عوام کا عام ابتلاء ہے تو اخلاص کے ساتھ جماعت اہل علم غور کرے،اگر ان کویقین ہوجائے کہ عموم بلوٰی کے پیش نظر عصر حاضر میں دینی تقاضا سہولت وآسانی کا مقتضی ہے تو پھر مذہب مالک،مذہب شافعی،مذہب احمدابن حنبل کوعلی الترتیب اختیار کرکے اور اس پر فتوی دیکر فیصلہ کیا جائے۔‘‘ (بصائر وعبر:۱/۲۵۴،جدید فقہی مسائل اور چند رہنما اصول)

ایک اور موقع پر حضرت ؒنے فرمایا:

’’اگر مذہب حنفی میں واقعی دشواری ہے او رامت محمدیہ واقعی تیسیروتسہیل کی محتاج ہے،اور اعذار بھی صحیح واقعی ہیں،محض وہمی و خیالی نہیں ہیں تو دوسرے مذہب پر عمل کرنے اورفتوی دینے کی گنجائش ہوگی، اور ضرورت کس درجہ میں ہے اور ہے بھی یا نہیں؟ یہ صرف علماء اور فقہاء  کی جماعت طے کرے گی۔‘‘ (بصائروعبر:۱/۴۷۹،عصر حاضر کے جدید مسائل اور ان کا حل)

فتاوی قاسمیہ میں ہے:

’’جس طرح ضرورت عامہ کی وجہ  سےعدول عن المذہب جائز ہے،اسی طرح عموم بلوٰی کی وجہ سے بھی عدول عن المذہب جائزہے۔‘‘ (فتاوی قاسمیہ:۱/۲۷۳)

عموم بلوٰی اور حرج میں فرق

عموم بلوٰی اور حرج میں فرق یہ ہے کہ حرج عام ہےاور عموم بلوٰی اس کے مقابلے میں خاص ہے،جہاں عموم بلوٰی ہوگا وہاں حرج بھی ہوگا لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ جہاں حرج ہو وہاں عموم بلوٰی  بھی پایا جائے۔

عرف اور عموم بلوٰی میں فرق

بعض حضرات نے عرف اور عموم بلوٰی میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ اسباب غیر اختیاری کے تحت جو حاجت عامہ واقع ہوتی ہے اس کو عموم بلوٰی کہتے ہیں اور اسباب اختیاری کے تحت جب  حاجت عامہ کا وقوع ہوتا ہے تو اس کو عادۃ الناس تعامل اور عرف سے موسوم کیا جاتاہے۔استقراء سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ عام طور پر طہارت وعبادات میں ابتلائے عام از قسم عموم بلوٰی ہوتاہے اور معاملات میں ابتلائے عام کو عرف وتعامل کہتےہیں۔ (ضرورت وحاجت کا احکام شرعیہ میں اعتبار،۴۳)

اس سلسلے میں عمدہ اورمناسب بات وہی ہے جو حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب نے فتاوی قاسمیہ میں بیان فرمائی ہے :چنانچہ مفتی شبیر احمدقاسمی صاحب  لکھتے ہیں:

’’عرف الگ چیز ہے اور عموم بلوٰی الگ سے دوسری چیزہے،کیونکہ بہت سے امورایسے ہیں جو عموم بلوٰی کے دائرہ میں تو آتےہیں،مگر عرف کے دائرہ میں نہیں،مثلاً:طین شارع کا مسئلہ،گوبر کی راکھ کا مسئلہ،غسالہ میت کا مسئلہ اور اس نوعیت کی بعض دیگر مسائل کا تعلق عموم بلوٰی سے تو ہے مگر عرف سے نہیں۔اور بعض جزئیات ایسے بھی ہیں جن کا تعلق کبھی عموم بلوٰی اور عرف دونوں سے ہوجاتا ہے،مگر قلیل درجہ میں ہے،مثال کے طور پربیع الوفاء کا مسئلہ ہے کہ اس کا تعلق عرف سے بھی ہے اور عموم بلوٰی سے بھی ،اسی طریقہ سے نسج الحائک کی اجرت ،یہ مسائل ایسے ہیں جن کا تعلق عرف اور عموم بلوٰی دونوں سے ہو سکتا ہے۔‘‘ (فتاوی قاسمیہ:۱/۲۶۴)

عموم بلوٰی سے متعلق چند اہم قواعدِ فقہیہ

(۱) المشقة تجلب التیسیر۔ (الأشباہ النظائر:الفن الأول،۷۷)

مشقت آسانی کو لیکر آتی ہے۔

(۲) الأمر إذا ضاق إتسع ۔ (الأشباہ النظائر:الفن الأول،۸۵)

جب کسی کام میں تنگی پیدا ہو جائے تو وہاں وسعت دی جائیگی۔

(۳)الضرر یزال۔(مجلۃ الاحکام العدلیہ)        

ضرر کا ازالہ کیا جائے گا۔

(۴) الضرورات تبیح المحظورات،(الأشباہ النظائر۱/۸۸)

شدید حاجات،ممنوع چیزوں کو مباح کردیتی ہیں۔

(۵) ما لا یمکن التحرز منہ یکون عفواً۔ (بدائع الصنائع،۱/۲۲۹)

جس چیز سے بچنا ممکن  نہ ہو وہ قابل عفو ہے۔


ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

یکم مئی کو عام طور پر دنیا بھر میں محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے جو امریکہ کے شہر شکاگو میں مزدوروں کے حقوق کے لیے جانوں کی قربانی دینے والے مزدوروں کی یاد میں ہوتا ہے، اس میں مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق و مفادات کی بات ہوتی ہے اور محنت کشوں کی تنظیموں کے علاوہ دیگر طبقات بھی ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

محنت اور مزدوری انسانی معاشرہ کی ضروریات میں سے ہیں اور زندگی کے اسباب مہیا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بلکہ انسانی آبادی کی اکثریت کا ذریعہ معاش یہی ہے کہ وہ معاوضہ پر دوسرے انسانوں کے کام کرتے ہیں اور وہ معاوضہ ان کا ذریعہ معاش ہوتا ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق حضرات انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی محنت مزدوری کا کام کیا، بلکہ خود نبی اکرمؐ نے ایک دور میں مکہ مکرمہ کے بعض خاندانوں کی بکریاں معاوضہ پر چرائی تھیں۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اکثریت کا مشغلہ یہی تھا۔

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے غسل کو فرض اور بعد میں سنت قرار دیے جانے کی حکمت یہ بیان فرماتی ہیں کہ لوگ محنت مزدوری کیا کرتے تھے، لباس کے لیے ایک ہی جوڑا بلکہ بعض کے پاس صرف ایک چادر ہوتی تھی، محنت مزدوری میں پسینہ کی وجہ سے لباس اور جسم سے بدبو اٹھتی تھی، کام کرتے کرتے مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے آجایا کرتے تھے، مسجد چھوٹی اور چھت نیچی تھی، اس میں دوپہر کے وقت ہجوم سے بدبو کا عام ماحول بن جاتا تھا۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نمازِ جمعہ کے لیے غسل کر کے آیا کرو اور اگر میسر ہو تو دھلا ہوا لباس پہن کر آؤ تاکہ بدبو کا ماحول نہ بنے۔ بعد میں کچھ سہولت ہوئی، لباس کی متبادل چادریں میسر ہوئیں اور خود کام کرنے کی بجائے دوسروں سے معاوضہ پر کام لینے کی آسانی ہوئی تو ماحول میں فرق پیدا ہوا تو نمازِ جمعہ کے لیے غسل فرض کی بجائے سنت کا درجہ اختیار کر گیا۔

مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عمومی زندگی تنگ دستی اور فقر و فاقہ کی تھی۔ آہستہ آہستہ حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے وہ وقت بھی دکھایا کہ حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ جب اجتماعی کاموں کے لیے چندہ دینے کی بات فرمایا کرتے تھے تو ہم میں سے بہت سے لوگوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا، ہم بازار جا کر لوگوں کی مزدوری کر کے تھوڑی بہت کمائی کرتے تھے، اس میں سے کچھ اپنے خرچہ کے لیے رکھ لیتے تھے اور باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے۔ یہ بتا کر حضرت ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں کہ اب تو ہمارے پاس لاکھوں درہم موجود رہتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہؓ کا بنیادی ذوق بلکہ مشغلہ بھی جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا، باتیں سننا، یاد رکھنا اور لوگوں تک پہنچانا تھا۔ گزر اوقات کے لیے ہفتہ میں ایک دو روز محنت مزدوری کر کے باقی ہفتہ اسی سے گزارتے تھے۔ جنگل سے لکڑیاں لا کر بازار میں بیچتے تھے۔ جن دنوں حضرت مروان بن الحکمؒ مدینہ منورہ کے گورنر تھے، حضرت ابو ہریرہؓ ان کے دوست تھے اور معاون بھی تھے۔ گورنر صاحب جب کہیں باہر دورے پر جاتے تو حضرت ابو ہریرہؓ کو قائم مقام گورنر بنا جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ بہت خوش مزاج بزرگ تھے، ہلکی پھلکی دل لگی اور ہنسی مذاق ان کے مزاج کا حصہ تھا۔ قائم مقام گورنر ہوتے ہوئے ایک روز جنگل میں اپنے کام کے لیے گئے، لکڑیاں جمع کر کے ان کا گٹھڑ سر پر اٹھا کر بازار میں آگئے اور آواز لگانا شروع کر دی ’’جاء الامیر، جاء الامیر‘‘ کہ لوگو! راستہ دو تمہارا امیر آ رہا ہے۔ یعنی خود ہی اپنی پروٹوکول ڈیوٹی دے رہے ہیں جو کہ ان کی خوش مزاجی کا اظہار تھا۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ محنت مزدوری کوئی عیب یا توہین کی بات نہیں، اپنی محنت کو ذریعہ معاش بنانا حضراتِ انبیاء کرام علیہم السلام اور حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مشغلہ رہا ہے بلکہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی محنت سے حاصل ہونے والی کمائی کو بہترین کمائی قرار دیا ہے۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رسول اور ملک کا بادشاہ ہونے کے باوجود ہاتھ کی کمائی سے اپنا وقت چلاتے تھے۔

مگر مزدور اور محنت کش اس فضیلت اور عظمت کے باوجود ہمیشہ سے معاشرتی زیادتیوں کا شکار چلے آ رہے ہیں، ان کی حق تلفی ہر دور میں کسی نہ کسی عنوان سے جاری رہتی ہے، انہیں محنت کا معاوضہ کم ملتا ہے اور انہیں وہ معاشرتی عزت و وقار میسر نہیں ہوتا جو اُن کا حق ہے۔ آج بھی دنیا کے حالات کافی بدل جانے کے باوجود اس صورتحال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے، جبکہ اس ہوشربا مہنگائی کے دور میں اس کا احساس دوچند ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں دو باتیں گزارش کرنا اس موقع پر ضروری محسوس ہوتی ہیں۔

ایک یہ کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا اپنا کام بازار میں پھیری لگا کر کپڑے بیچنا تھا، جو انہیں خلافت کی ذمہ داریوں میں مسلسل مصروفیت کے باعث ترک کرنا پڑا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مشورہ سے اصحابِ شورٰی نے خلیفہ کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس کا معیار یہ مقرر کیا کہ اتنا وظیفہ دیا جائے جس سے وہ ایک عام شہری کے معیار پر باوقار زندگی بسر کر سکیں اور اپنا اور زیرکفالت افراد کا خرچہ چلا سکیں۔ اس سے فقہاء کرامؒ نے یہ اصول قائم کیا کہ جو شخص دوسروں کے کام کی وجہ سے اپنا کام نہ کر سکے اس کا گھر کا باوقار خرچہ کام لینے والوں کے ذمہ ہے جو اس دور کے ماحول کے مطابق ہونا چاہیے۔

دوسری بات حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے اس ارشاد کے حوالہ سے عرض کروں گا کہ ’’لا رضاء مع الاضطرار‘‘ یعنی مجبوری کی رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ اس کا مطلب فقہاء کرامؒ یہ بیان فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی مجبوری یا لاچاری کی وجہ سے اپنے جائز حق سے کم پر راضی ہو گیا ہے تو اس کی اس رضا کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اسے وہی کچھ ملنا چاہیے جو اس کا حق بنتا ہے۔

میری طالبعلمانہ رائے میں آج کے دور میں محنت اور ملازمت دونوں دائروں میں اس اصول کو اختیار کرنا ضروری ہے کہ کسی مزدور، کسان یا ملازم کو اس کے کام کا اتنا معاوضہ ملنا ضروری ہے جو اس کے اپنے اور زیر کفالت افراد کی باوقار گزربسر کے لیے کافی ہو۔ اور اگر کوئی شخص مجبوری کی وجہ سے اپنے اس حق سے کم پر راضی ہو گیا ہے تو اس کی رضا کو کافی سمجھنے کی بجائے اس کے جائز حق کی ادائیگی معاشرہ اور قانون کی ذمہ داری بنتی ہے جسے ریاست اور نظام کو ادا کرنا چاہیے۔

شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات :ایک تجزیاتی مطالعہ (۲)

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

قدم عالم کا قول

شاہ صاحب کا قدم عالم کا تصور بھی ان کے تفردات میں شما رہوتا ہے۔التفہیمات الالہیۃ میں لکھتے ہیں:

(العماء) لیست عین الذات من کل وجه ولا غیرھا من کل وجه وانھا قدیمة بالزمان حادثة بالذات من جھة انھا موجودة بالذات الالھیة

’’عما ء نہ تومن کل وجہ عین ذات (قدیم) ہے اور نہ اس کا غیر ہے۔وہ زمان کے لحاظ سے قدیم اور ذات کے لحاظ سے حادث ہے۔ایک حیثیت سے وہ ذات الہیہ کے ساتھ (دائمی طورپر) موجود ہے‘‘۔ (۳۵ الف)

اپنے اس خیال کوشاہ صاحب نے’’ الخیرالکثیر‘‘ میں بھی موکد کرنے کی کوشش کی ہے۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ شاہ صاحب نے یہ تصورپوری طرح غوروفکر کے بعد ہی قبول کیا ہے۔ (۳۵ ب) زاہد الکوثری نے اس خیال کو ایک شر عظیم (داھیۃ الدواھی) قرار دیا ہے۔ (۳۶) شاہ صاحب نے ترمذی کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ : اے اللہ کے رسول! ہمارا رب اپنی مخلوقات کوپیدا کرنے سے قبل کہاں تھا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ:’’عماء‘‘ میں تھا۔نہ اس کے اوپرہوا تھی اور نہ اس کے نیچے ہواتھی اور اس نے اپناعرش پانی پر بنایا۔ (۳۷) شاہ صاحب ’’عماء‘‘ کی تشریح ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ وہ ایک ہیولانی مزاج رکھنے والی چیز ہےجوتمام روحانی اور جسمانی صورتوں کوقبول کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔اس کا قیوم رحموت ہے جواس کے وجود کی شرط ہے۔ (وھو طبیعة ھیولانیة قابلة لجمیع الصور الروحانیة والجسمانیة وقیومھا الرحموت) (۳۸) لیکن انورشاہ کشمیری فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ سائل کا سوال مطلق عالم کے بارے میں نہیں ہے بلکہ اس عالم کے بارے میں ہے جسے وہ دیکھ اورمحسوس کررہا ہے۔ظاہرہے سوال کرنے والا ’’عماء‘‘ کی حقیقت کا کوئ علم نہیں رکھتا۔کیوں کہ اس کاعلم شریعت سے حاصل ہوا ہے۔ چناں چہ اگرسائل کا سوال یہ ہوتا کہ خدا عما سے قبل کہاں تھا تواس کا جواب یہ ہوتا کہ خدا موجود تھا اور اس کے سوا اور کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ (۳۹)

قدم عالم کامسئلہ فلاسفہ ومتکلمین کے درمیان ایک معرکۃ الآرا مسئلہ رہا ہے۔متکلمین اس بات کے قائل رہے ہیں کہ عالم من جملہ اپنی تمام ترجزئیات وحیثیات کے ساتھ حادث ہے اورکلی طورپر کتم عدم سے وجود میں آیا ہے۔جب کہ فلاسفہ کا مذہب اس کے برعکس یہ ہے کہ قدیم حادث کی علت نہیں ہوسکتا کیوں کہ علت ومعلول کا وجود ایک ساتھ ہوتا ہے۔اس لیے علت کے قدیم ہونے کی صورت میں معلول بھی لازما قدیم ہوگا۔اس لحاظ سے وہ عالم کے قدم زمانی کے قائل ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ عالم کے وجود وخلق کوجس کی حیثیت ایک مظروف کی ہے ظرف زمانی کے بغیرفرض نہیں کیا جاسکتا۔ارسطوکے نزدیک زمان ماضی غیر متناہی ہے۔ (افلاطون کے برعکس جواسے متناہی تصورکرتا ہے) خلیق کا عمل حرکت سے عبارت ہے اورزمانہ دراصل حرکت ہی کی ایک مقدار کا نام ہے۔’’ فصل المقال‘‘ میں ابن رشد نے اس پرتفصیل کے ساتھ بحث کی ہے اوراس پر اپنے دلائل پیش کیے ہیں اور اس کا خلاصہ چند جملوں میں کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ قدیم یعنی خدا اور حادث یعنی کائنات یہ دونوں طرفین بالکل واضح اور متکلمین اورفلاسفہ دونوں کے نزدیک مسلم ہیں۔ البتہ فلاسفہ کے نزدیک ان دونوں کے وسط میں ایک اوروجود ہے جس میں طرفین میں سے ہرایک کی ایک گونہ شباہت پائی جاتی ہے۔اس لیےجس کی نظر میں قدیم کا پہلوغالب ہے اس نے اسے قدیم اورجس کی نظر میں حادث کا پہلوغالب ہے اس نے اسے حادث قراردیا۔حالاں کہ حقیقت میں نہ وہ حقیقی معنوں میں حادث ہے اورنہ قدیم۔ (فمن غلب علیه ما فیه من شبه القدیم علی ما فیه من شبه (المحدث) سماہ قدیما، ومن غلب علیه ما فیه من شبه المحدث سماہ محدثا۔وھوفی الحقیقة لیس محدثا حقیقیا ولا قدیما حقیقیا۔) (۴۰) شاہ صاحب فلاسفہ کے مسلک پراسی کے قائل ہوئے ہیں- تاہم اسی کے ساتھ اس میں ابن عربی کے وجودی فلسفے کی جھلک بھی موجود ہے۔جس کے مطابق کائنات اعیان ثابتہ کی شکل میں ابتدا سے ہی ذات واحدکا حصہ تھی۔البتہ اس نے جب تعینات کی شکل اختیارکی تواس میں حدوث کی صفت پید ا ہوگئی۔ شاہ صاحب واضح طورپر اس مسئلے میں فلاسفہ کے مسلک پرگامزن نظرآتے ہیں۔

انورشاہ کشمیری نے’ مرقاۃ الطارم لحدوث العالم‘میں اس مسئلےسے تفصیلی بحث کی ہے اور فلاسفہ کے اس قدم زمانی کے مفروضے کوغلط ٹھہرایا ہے۔علامہ کشمیری کا خیال ہے کہ شاہ صاحب کو اس تعلق سے ابن تیمیہ کے موقف سے شہہ ملی ہے جوقدم عرش اور حوادث لا اول لھا کے قائل ہیں۔ (۴۱) حوادث لا اول لہا کا مطلب یہ ہے کہ ایسے حوادث (جمع حادث) پائے جاتے ہیں جن کی کوئی ابتدا نہیں ہے۔گویا بالفاظ دیگروہ ایک حیثیت سےقدیم ہیں۔اس معنی میں وہ کائنات کے قدم نوعی کے قائل ہیں۔ ابن حجر نے ’’فتح الباری ‘‘ میں اورمتعدد دوسرے علما نے نے ابن تیمیہ سے منسوب اس نظریے کاشدت کے ساتھ رد کیا ہے۔جن میں ایک اہم نام بہا الدین الاخمیمی الشافعی (م، ۱۳۶۳ء) کا ہے، جنہوں نے اس موضوع پر کتاب: رسالة فی الرد علی ابن تیمیة فی مسألة حوادث لا اول لھا لکھی ہے۔ (۴۲)

اہم بات یہ ہےکہ علامہ کشمیری نے فلاسفہ کے اس نقطہ نظرکا رد کیا ہے لیکن وہ اسے خالص علمی مسئلہ تصور کرتے ہیں اور اس معنی میں ان کا اسلوب غزالی کے مقابلے میں ابن رشد سے زیادہ قریب ہے۔یعنی وہ اسے حق وباطل کے بجائے خالص علمی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔اسی لیے انہوں نے کہیں بھی باضابطہ طورپرشاہ صاحب پرنکیر نہیں کی ہے بلکہ ان کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے مسئلے کی وضاحت کی ہے۔

واقعاتِ انبیا کی شاذ تاویلات اور دیگر تفردات

شاہ صاحب کے تفردات کا ایک پہلوواقعات انبیا کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس موضوع پر ان کی کتاب’’تاویل الاحادیث‘‘ بہت اہم ہے جس میں انہوں نے قرآن وحدیث میں مذکور انبیا سے متعلق خوارق عادت واقعات کی عقلی تفہیم کی کوشش کی ہے۔ چناں چہ وہ حضرت آدم کے جنت میں سکونت اختیار کرنے اورپھروہاں سے اخراج کے واقعے کوعالم مثال کا واقعہ قراردیتے ہیں، جس کی کیفیت شاہ صاحب کی نظر میں محض خواب (رؤیا) کی تھی۔ (۴۳) عالم مثال کی اس جنت میں اپنے ارضی جسم کے ساتھ اقامت اختیارکرنا ان کے لیے بایں معنی ممکن ہوسکا کہ اپنےکمال ذاتی وروحانی کی وجہ سے انہوں نے اخروی بدن حاصل کرلیا تھا۔ جن فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا، وہ صرف زمینی فرشتے (الملأ السافل) تھے نہ کہ فلکی (الملأ الاعلی)۔ حوا کی تخلیق آدم کے تخیل کا کرشمہ تھی۔ آدم کو جنسی رغبت محسوس ہوئی تو جنس لطیف کا خیال ان کے ذہن میں پیدا ہوا جس کے نتیجے میں حوا وجود میں آئیں۔ (۴۴)

حضرت موسی نے وادی ایمن میں جس آگ کا مشاہدہ کیا تھا وہ عالم مثال کی تھی۔ عصا کے سانپ بن جانے اور ید بیضا کی تاویل وہ اس طرح کرتے ہیں کہ کبھی کبھی عالم مثال کا جسم طبعی میں ظہور ہو جاتا ہے۔ (۴۵) حضرت عیسی علیہ السلام کا مردوں کو زندہ کرنا اس معنی میں نہیں تھا کہ ان کی روح ان کو لوٹا دی جاتی تھی بلکہ مردہ جسم کے ساتھ زندگی کاقائم ہونے والا یہ تعلق روح کے بجائے’ وہم‘ کا ہوتا تھا، (فالنفس المتعلقة بالجسد تعلق الوهم لا تعلق الحیاة) چنانچہ جیسے ہی حضرت عیسی اس مقام سے رخصت ہوتے تھے، زندہ ہونے والے شخص کوفی الفوردوبارہ موت آجاتی تھی۔ (۴۶) حضرت عیسی کازہد اوردنیا اوردنیاوی حکومت وریاست سے بے رغبتی اختیارکرنا اورحضرت یحی کا عورت سے کنارہ کش رہنے کی وجہ یہ تھی کہ ان دونوں شخصیات کی ولادت عام طبعی قوانین سے ہٹ کرہوئی تھی اور ہروہ چیز جوزمینی اسباب کے بغیروجود میں آئےاس کی حیوانی طبیعت میں کمزوری رہ جاتی ہے۔ (۴۷)

یہ اوراس نوع کے دیگر واقعات کی تفہیم کے حوالے سے شاہ صاحب نے جواسلوب اورموقف اختیارکیا ہے، اس کے پس پشت واضح طورپر شاہ صاحب کایہ نقطہ نظر کارفرما نظرآتا ہے کہ بظاہر مافوق الفطری نظرآنے والے ان واقعات کی عقل اور اسباب و قوانین فطرت کے تناظر میں تشریح کرنے کی کوشش کی جائے، خواہ وہ اسبا ب کتنے ہی ضعیف کیوں نہ ہوں۔ چناں چہ لکھتے ہیں:

واعلم ان اللہ تعالی اذا یظھر خارق عادة لتدبیر فانه انما یظھر فی ضمن عادة ما ولو ضعیفة کالرجل یمرض مرضا ضعیفا اذا رآہ الحکیم الطبیعی لم یکترث به ولم یظن انه یموت ولکن یظھرقضاء اللہ فی ضمن ذلک المرض فیموت۔ فللخوارق اسباب ضعیفة کأنھا وجدت مشایعة لنفاذ قضاء اللہ تعالی وعنایته بالاسباب الارضیة لئلا یتخرق (کذا) العادۃ من کل وجه۔

’’جاننا چاہیے کہ اللہ تعالی جب کسی خارق عادت کوظہور میں لاتا ہے تووہ کسی معمول اورعادت کے ہی ضمن میں ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ کتنی ہی ضعیف کیوں نہ ہو۔اس کی مثال ایسے مریض کی سی ہے جسے معمولی قسم کا مرض لاحق ہوا ہو۔طبیب اسے دیکھ کراس کے مرض کوسنجیدگی سے نہیں لیتا اور یہ گمان نہیں کرتا کہ اس مرض سے اس کی موت ہوجائے گی۔لیکن پھر اللہ تعالی کا قضا اسی مرض کے تحت اس کی زندگی چھین لیتا ہے۔اس لیے خوارق کے کمزوراسباب ہوتے ہیں جو گویا اللہ تعالی کے فیصلے کونافذکرنے اورزمینی اسباب سے بے اعتنا نہ ہوجانے کے لیے اس کے ساتھ ساتھ وجود میں آتے ہیں۔تاکہ ہرطرف عادت اورمعمول کا قاعدہ ٹوٹ نہ جائے‘‘۔ (۴۸)

ان تفردات کے علاوہ شاہ صاحب کے چند مزید تفردات بھی ہیں۔ ان میں سے تین کا ذکر انہوں نے حجۃ اللہ البالغہ میں کیا ہے جن کا حوالہ اس سے منقولہ عبارت میں اوپر آ چکا ہے یعنی آخرت میں اللہ تعالی کی تجلی کا ظہور مختلف شکلوں میں ہونا، انسان کے اعمال کے بجائے اس کی نفسیاتی کیفیت کا جزا و سزا کا سبب ہونا اور تقدیر کو صرف تقدیر مبرم میں محصور کرنا۔شاہ صاحب نے اپنی مختلف کتابوں میں اپنے ان تفردات کی توجیہ کی ہے۔ مثلا آخرت میں خدا کا مختلف صورتوں میں تجلی کرنے کے موقف کی تائید میں انہوں نے ابن ماجشون مالکی کا نقطہ نظر اختیار کیا ہے جس کا حوالہ اوپرآیا۔ تقدیر مبرم (القدر الملزم) کی تشریح مولانا سندھی کے لفظوں میں یہ ہے کہ:’’ تمام عالم مادی و غیر مادی ایک خاص نظام میں بندھا ہوا ہے اور ایک خاص تدبیر اس کے اندر کام کر رہی ہے۔ اس کا کوئی ذرہ اس نظام کے قانونوں سے باہر نہیں ہے۔ اس مسئلے کا نام شاہ صاحب کی اصطلاح میں قدر ملزم ہے‘‘۔ (۴۹) کیفیات قلبی کے مجازات کا سبب ہونے کا مطلب مولانا سندھی کی نگاہ میں یہ ہے کہ انسان جو بھی اعمال انجام دیتا ہے اس کا نتیجہ اور جوہر انسان کے نفس کے اندر ایک خاص کیفیت کی شکل میں جمع ہو جاتا ہے۔ یہی نفسیاتی کیفیت (نہ کہ نفس اعمال) جزا و سزا کا سبب بنتی ہے۔ چاہے اس سزا اور جزا کا تعلق اس زندگی سے ہو یا اخروی زندگی سے۔ (۵۰) شاہ صاحب کے کلامی تفردات کی ان کی جزئیات کے ساتھ ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے لیکن ان تمام کا اس مقالے میں ذکر کرنا اوران کا جائزہ لینا مقصود نہیں ہے۔

قرآن میں مذکورانبیا وصالحین کے خوارق عادت واقعات کی تاویل کا جواندازواسلوب شاہ صاحب نے اختیارکیا ہے اس میں اشراقیت کا رنگ نمایاں ہے۔قرین قیاس یہ نظرآتا ہے کہ شاہ صاحب نے بجائے سہروردی مقتول کے، صدرالدین شیرازی (ملا صدرا) کے توسط سے یہ رنگ قبول کیا۔

شاہ ولی اللہ کے کلامی تفردات کے اثرات

شاہ صاحب کے کلامی تفردات پربحث کے ضمن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علمی حلقوں پران کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ برصغیر کی اسلامی فکری روایت پرولی اللہی فکر کے جواثرات مرتب ہوئے ہیں، ان کوپیش نظررکھتے ہوئے اس سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے متفردانہ اقوال وآرا نے اصحاب علم ودانش کے ایک طبقے کووادی فکر ونظر کی نئی راہوں سے روشناس کیا اور اس نے اس جہت سے اپنی فکر کوپروان چڑھانے میں خصوصی دل چسپی دکھائی۔اس حوالے سے سب سے اہم نام سرسید احمد خاں کا ہے۔ سرسید نے تحریر فی اصول التفسیر کے نام سے جوتفسیری اصول مرتب کیے اور ا ن کی روشنی میں ’’تفسیر القرٓن‘‘ کی تحریر کی، ان میں سے اکثراصول شاہ صاحب کی فکرسے ماخوذ ہیں۔خاص طور پرمعجزات اور اس حوالے سے اسباب ومسببات کی بحث میں اورواقعات انبیا کی تاویل کے حوالے سے شاہ صاحب کے کلامی موقف کے واضح اثرات سرسید کی فکرپرمحسوس کیے جاسکتے ہیں۔سرسید نے بجائے خود جا بجا اس کا اعتراف واظہارکیا ہے۔بعض اصحاب نے مافوق الفطری مظاہر اورخوارق عادت کے حوالے سے فراہی مکتب فکرپرسرسیدی فکرکے اثرات کا ذکرکیا ہے۔ (۵۱) لیکن راقم الحروف کا خیال ہے کہ یہ بالواسطہ یا بلا واسطہ خود شاہ صاحب کی فکرکے اثرات ہیں۔شاہ صاحب کے کلامی فکری پروجیکٹ کاسب سے اہم پہلویہی ہے کہ مافوق الفطری مظاہر و واقعات کی قوانین فطرت کے سیاق میں توضیح کی کوشش کی جائے۔

اس تعلق سے دوسرا اہم نام شبلی نعمانی کا ہے۔’’ الکلام‘‘ میں خاص طورپرخرق عادت کے حوالے سے ان کا موقف عین شاہ صاحب کے مطابق ہے کہ جوچیز بظاہر خرق عادت نظر آتی ہے’’وہ اصول قدرت (فطرت) کے خلاف نہیں ہوتی‘‘۔عالم مثال کے حوالے سے بھی وہ شاہ صاحب کی تشریحات سے متاثرنظرآتے ہیں۔ (۵۲) علمائے دیوبند میں مولانا عبید اللہ سندھی ولی اللہی علوم کے سب سے بڑے شارح تصورکیے جاتے ہیں۔صرف سیاست ومعیشت اورسماجیات ہی نہیں بلکہ وہ اسلامی مابعد الطبیعات کی ولی اللہی تشریحات کوبھی بعینہ قبول کرتے نظرآتے ہیں۔ (۵۳) علمائے دیوبند میں شاہ صاحب کے علوم ومعارف پرسب سے گہری اوروسیع نگاہ علامہ انورشاہ کشمیری کی ہے۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، وہ شاہ صاحب کے قدم عالم کے تصورکے ناقد ہیں لیکن دوسرے معاملات میں وہ بالکل خاموش نظر آتے ہیں۔عالم مثال کے تصور میں وہ شاہ صاحب سےبالخصوص متاثر نظر آتے ہیں۔ (۵۴)

چند ملاحظات

شاہ صاحب کے مشہور تفردات کے حوالے سے مندرجہ بالا سطور میں جو گفتگو کی گئی، اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے اکثرتفردات میں شاہ صاحب منفرد نہیں ہیں۔ یا تو علمائے اسلاف واخلاف میں ایک طبقہ ان کا براہ راست یا بعض پہلوؤں سے قائل رہا ہے۔ یا پھر اہل سنت کے متعین دائرے سے باہر بعض اسلامی فرقے یا ان سے وابستہ اصحاب علم ان کے قائل رہے ہیں۔اگر شاہ صاحب کے اس موقف کو پیش نظر رکھ کر غور کیا جائے تو اس میں کوئی حیرت کا پہلو باقی نہیں رہتا کہ شاہ صاحب نے جمہور اہل سنت سے اختلاف رائے رکھتے ہوئے دوسرا موقف کیوں اختیار کیا؟ شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ علم کلام میں اہل سنت کا اطلاق کسی متعین مکتب فکر پر نہیں ہوتا کہ اس کے مخصوص عقائد و افکار کے حاملین کو اہل سنت شمار کیا جائے اور باقی کو اہل بدعت، بلکہ اس کا تعلق مسائل سے ہے۔ منصوص مسائل کو بلا تاویل قبول کرنا ضروری ہے ۔ (۵۵) شاہ صاحب کے اس موقف کو غزالی کے اس موقف کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جو انہوں نے فلاسفہ کی تکفیر کے حوالے سے اختیار کیا ہے۔۔ (۵۶) لیکن غیر منصوص مسائل جن میں صحابہ کرام سے کچھ بھی مروی نہیں ہے، ان میں کوئی نیا موقف اختیار کرنا اہل سنت کے منہج سے انحراف کے ہم معنیٰ نہیں ہے۔ تاہم ان کے بقول ان کے تفردات عام معنی میں تفرد بھی نہیں کیوں کہ علم لدنی کے حاملین بعض اہل سنت ان کے قائل رہے ہیں۔ (۵۷)

میرے خیال میں شاہ صاحب کا صرف ایک تفرد ایسا ہے جس کی بظاہر کوئی بھی قابل ذکر شخصیت قائل نہیں رہی ہے۔شاہ صاحب نے التفہیمات الالہیہ میں اس خیال کا ذکر کیا ہے کہ قرآن کے الفاظ خود رسول اللہ کے تخیل کانتیجہ ہیں۔ صرف معانی کا القا یا فیضان غیب سے ہوا ہے۔ (الفاظ القرآن انما ھی من اللغة العربیة التی یعرفھا نبینامحمدﷺ والمعانی فائضة من الغیب۔۔) (۵۸) شاہ صاحب کے اس موقف پر سرسید جیسی آزاد خیال شخصیت نے بھی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ (۵۹) البتہ شاہ صاحب کی متعلقہ عبارت میں کچھ ابہام سانظرآتا ہے۔مزید یہ کہ شاہ صاحب کے اس نقطہ نظر کی کوئی توجیہ وتشریح یا اس پرکوئی تنقید مجھے کہیں نظرنہیں آئی۔

شاہ صاحب کے تفردات پر غور کرتے ہوئے یہ نکتہ نگاہ میں رہنا ضروری ہے کہ غزالی اور بعض دیگر اکابرین امت کی طرح شاہ صاحب کی بعض تحریریں صرف اصحاب علم وذوق کے ایک مخصوص طبقہ کے لیے ہیں۔غزالی نے ’’جواہر القرآن ‘‘ اوربعض دوسری کتابوں میں اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ ان کی بعض کتابیں صرف خواص کے لیے ہیں۔ شاہ صاحب کا کوئی ایسا بیان میری نگاہ سے نہیں گزرا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کے بعض فرمودات کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے کوئی رائے قائم کرنی چاہیے۔ظاہر ہے شاہ صاحب کے بعض ’قابل اعتراض مواقف ‘کے حوالے سے یہ تو جیہ کافی نہیں ہے۔تاہم اس سے شاہ صاحب کی ذہنی وفکری ساخت کو پڑھا جا سکتا ہے۔

ابوالحسن علی ندوی کا خیال ہے کہ ’’تفہیمات‘‘ کی حیثیت ایک ذاتی بیاض کی سی ہےجس کی اشاعت ممکن ہےشاہ صاحب کوپسند نہ ہو۔ (۶۰) لیکن یہ خیال صحیح محسوس نہیں ہوتا۔کیوں کہ’تفہیمات‘‘ کی نوعیت کے مضامین اورفکری تفردات دوسری متعدد کتابوں ’’ تاویل الاحادیث‘‘، ’’الخیر الکثیر‘‘ وغیرہ میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کلام میں’ اجتہاد ی‘ فکر کے دائرے کو وسیع تر رکھنے کے قائل تھے۔ اسی وجہ سے انہوں نے بھی اس حوالے سے اپنی فکر ونظر کی جولانیوں پر کوئی بندش قائم نہیں کی۔ علم کلام کے حوالے سے شاہ صاحب کی آزاد طبیعت کا ایک پہلو یہ ہے، جیسا کہ اوپر اس کا ذکرآیا، کہ انہوں نے غزالی کی ہی طرح تمام اسلامی اور نیم اسلامی فرقوں کے فلسفیانہ و کلامی افکار سے وسعت کے ساتھ استفادہ کیا، جس کے واضح اثرات ان کی کلامی فکر پر مرتب ہوئے۔ غزالی کی طرح وہ اپنی اسلامی ما بعد الطبیعاتی فکر کو ان فرقوں کی ایجاد کردہ اصطلاحات اور اختیار کردہ فکری اسلوب میں پیش کرتے ہیں اور گویا اسلامی فکر کا معیاری عقلی قالب تشکیل دینے کے لیے اسے وہ ضروری تصور کرتے ہیں۔ چنانچہ ابو علی سینا اور اخوان الصفا کی مشائی اور شہاب الدین سہروردی (مقتول) کی اشراقی فکر کی جھلکیاں شاہ صاحب کی فکر میں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ شاہ صاحب کی کلامی فکر نے ان تمام رجحانات سے عطر کشید کیا لیکن اپنی فکر کو اس میں مدغم نہیں ہونے دیا۔ تاہم کہنے والے کو پھر بھی ایک حد تک یہ کہنے کا حق حاصل ہے، جیسا کہ غزالی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: انہ دخل فی بطون الفلاسفة ثم اراد ان یخرج فما قدر۔ ( غزالی فلاسفہ کے پیٹ کے اندرون میں داخل ہوگئے لیکن جب اس سے نکلناچاہا تونہ نکل سکے۔ (۶۱)

خلاصۂ کلام

شاہ صاحب کے فقہی مسلک اورنظریات اور مسلک پراصحاب علم نے کافی لکھا ہے۔لیکن ان کے کلامی نظریات کوعام طورپرعلمی حلقوں میں بحث کا موضوع نہیں بنایا جاسکا۔حالاں کہ، جیساکہ اوپرکی بحث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، شاہ صاحب کی کلامی فکر اور اس کے مختلف پہلو اہل علم کے مطالعے اورغوروفکرکے متقاضی ہیں۔زیر نظرمقالے میں شاہ صاحب کی کلامی فکرکے صرف ایک زاویے کوموضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ان شا اللہ اس سلسلے کی بعض دوسری تحریروں میں شاہ صاحب کلامی نکات فکر کے بعض دوسرے پہلووں سے بحث کی جائے گی۔



حواشی و تعلیقات

(۳۵ الف) التفھیمات الالھیۃ، ج، ۱، ص، ۱۵۸۔

(۳۵ب) الخیر الکثیر، گجرات: المجلس العلمی، ۱۳۵۲ص، ۴۱)

(۳۶) حسن التقاضی، ص، ۹۸علامہ کشمیری نے بھی اس پر اپنی حیرت کا اظہارکیا ہے۔ملفوظات محدث کشمیری، (مرتب:احمد رضا بجنوری) دیوبند: بیت الحکمت، سال اشاعت غیرمذکور، ص، ۲۳۶

(۳۷) ترمذی، حدیث نمبر، ۳۱۰۹

(۳۸) ) التفھیمات الالھیۃ، ص، ۱۸۵

(۳۹) حاشیہ فیض الباری، ج، ۴ص، ۲۹۹۔۳۰۰

(۴۰) ابن رشد، فصل المقال فی تقریرما بین الشریعۃ والحکمۃ من الاتصال، (مع مدخل ومقدمہ الدکتور محمد عابد الجابری) بیروت:مرکز دراسات الوحدۃ العربیۃ، ص، ۱۰۴۔۱۰۵

(۴۱) انورشاہ کشمیری، مرقاۃ الطارم لحدوث العالم، مشمولہ’’مجموعہ رسائل الکشمیری، دیوبند:دارالعلم، ۲۰۱۵ص، ۶۱، علامہ کشمیری کے اس قول کے لیے کہ شاہ صاحب نے ابن تیمیہ کا اثرقبول کیا ہے دیکھیے: ملفوظات محدث کشمیری، ص، ۲۳۷

(۴۲) انور شاہ کشمیری بلاتاویل اس بات کوقبول کرتے ہیں کہ ابن تیمیہ عرش کے قدم نوعی کے قائل ہیں کیوں کہ وہ استوا کے معنی جلوس کے لیتے ہیں جس کا لازمی تقاضا عرش کی قدامت کا قائل ہونا ہے۔فیض الباری، ج، ۶ص، ۵۶۳

(۴۳) تاویل الاحادیث، ص، ۶

(۴۴) ایضا، ص، ۱۲۔۱۳

(۴۵) ایضا، ص، ۴۵

(۴۶) ایضا، ص، ۷۵

(۴۷) ایضا، ص، ۷۲۔۷۲

(۴۸) ۔تاویل الاحادیث، ص، ۸۔۹

(۴۹) عبید اللہ سندھی، اردو شرح حجۃ اللہ البالغۃ، کراچی: حکمت انسٹی ٹیوٹ، ۲۰۱۰ ص، ۵۵

(۵۰) ایضا

(۵۱) یسین مظہر صدیقی کا مقالہ بعنوان، ’’سرسید کے تفسیری اصول‘‘ مشمولہ، ماہنامہ تہذیب الاخلاق، اکتوبر، ۱۹۹۵، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ، ص، ۱۸

(۵۲) پہلی مثال کے لیے : الکلام ص، ۲۴۸، ( اعظم گڑھ:دار المصنفین، ۱۳۴۱ھ) دوسری مثال کے لیے :علم الکلام (اعظم گڑھ:دار المصنفین، ۱۹۹۳) ، ۱۰۹۔۱۱۰

(۵۳) ( مختلف تحریروں کے علاوہ حجۃ اللہ البالغہ کی ان کی شرح اور الفرقان شاہ ولی اللہ نمبر میں شامل ان کے مقالے’’ امام ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ سے اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

(۵۴) کشمیری مختلف مقامات پرعالم مثال کی تشریح شاہ صاحب کی تشریحات کے مطابق کرتے نظرآتے ہیں۔مثلا دیکھیے:فیض الباری، ص، ۲۶۶۔۲۶۷

(۵۵) حجۃ اللہ البالغۃ، ص، ۵۸۔۵۹

(۵۶) غزالی نے بیس مسائل میں سے تین : عالم قدیم ہے، خدا کو جزئیات کا علم نہیں اور حشر جسمانی نہیں ہوگا؛ میں فلاسفہ کی تکفیر جبکہ باقی میں تبدیع کی ہے دیکھیے الغزالی، تھافت الفلاسفۃ، (تحقیق وتقدیم الدکتورسلیمان الدنیا) القاہرۃ:دار المعارف، ط، ۸، سن غیرمذکور، ص، ۳۰۷۔۳۰۸

(۵۷) حجۃ اللہ البالغۃ، ص، ۵۸

(۵۸) التفہیمات الالھیۃ، ج، ۱، ص، ۱۸۵

(۵۹) سرسید احمد خاں، تفسیر القرآن وھو الہدی والفرقان، لاہور: رفاہ عام پریس، ص، ۱۹۔۲۰

(۶۰) دیکھیے: ابوالحسن علی ندوی، تاریخ دعوت وعزیمت، ج، ۵، لکھنؤ: مجلس تحقیقت ونشریات اسلام، ۲۰۱۰ص، ۴۰۲

(۶۱) یہ قول ابن عربی مالکی کا ہے جوغزالی کے شاگرد ہیں۔


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۶)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا نواں باب)



نواں باب: مذہبی اصلاح کے دیوبندی تصور  پر بریلوی علماء کی تنقید

جنوری 1906 میں جب مولانا احمد رضا خان اپنے دوسرے حج کے سفر پر تھے، انھوں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے تیس نامور فقہا کی خدمت میں اپنا ایک فتوی پیش کیا۔ اس فتوے میں خان صاحب نے چند نامور ہندوستانی علما کی تکفیر کی تھی۔ خان صاحب نے علماے حرمین سے تقاضا کیا کہ وہ ان کے فتواے تکفیر کی تائید کریں1۔ وہ ایک اشتعال انگیز مخبر کا کردار ادا کرتے ہوئے حرمین کے علما کو 'گمراہوں' اور 'کافروں' کی نئی قسموں کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے تھے جو اس وقت ہندوستان میں افزائش پا رہے تھے۔ اپنے عرب مخاطبین سے ہم کلام ہوتے ہوئے خان صاحب نے لکھا: "مجھے واضح انداز میں بتائیں کیا آپ ان ائمۂ ضلال کے بارے میں میرے موقف سے اتفاق کرتے ہیں؟ کیا آپ میرے فتواے تکفیر سے متفق ہیں؟ یا ہم انھیں صرف اس بنا پر کافر نہ کہیں کہ نام نہاد علما اور مولوی ہیں، اگر چہ وہ وہابی ہیں، اور خدا اور رسول کی توہین کرتے ہیں؟ کیا ہمیں عوام کو ان لوگوں سے نہیں بچانا چاہیے جو ضروریات دین سے انکار کرتے ہیں، اور جو علی الاعلان اپنے گستاخانہ افکار کی نشر واشاعت کرتے ہیں؟2"

احمدی تحریک کے بانی مرزا غلام احمد کے ساتھ ساتھ ان 'ائمۂ ضلال' (مولانا احمد رضا خان کے الفاظ میں) میں اکابر دیوبند بشمول مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے براہ راست جانشین مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا اشرف علی تھانوی شامل تھے۔ یہ فتوی جو عربی زبان میں لکھا گیا تھا، بعد میں 'حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین' کے عنوان کے تحت کتابی صورت میں چھپا3۔ مولانا احمد رضا خان حرمین میں اپنے معاصر علما کی تائید حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئے۔ ان کی رائے میں یہ تائیدات سنی اسلام کے مرکز سے تعلق رکھنے والے علما کی ہیں، اور ان کی وجہ سے ان کے دیوبندی مخالفین کو شکست فاش ہوگئی۔اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دیوبندی دائرۂ اسلام سے خارج ہیں۔ یہ مسلم جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔

ہندوستانی علما کے درمیان جارحانہ مناظروں اور مباحثوں کا میدان کارزار گرم ہونا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ تاہم اپنے معاصر نامور حنفی علما کو کافر قرار دینے سے خان صاحب نے ایک نئی مثال قائم کی۔  دیوبندی علما پر خان صاحب کی طرف سے کفر کا فتوی ان دو مکاتبِ فکر کے اکابرین کے درمیان دو دہائیوں پر محیط مناظرانہ سرگرمیوں کا نقطۂ عروج تھا۔ اس جلتی پر تیل چھڑکنے میں ایک ایسے نئے استعماری عوامی فضا نے بھی کردار ادا کیا جس میں ٹیکنالوجی کی ترقی کے باعث تحریری مواد کی نشر واشاعت پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہو گئی۔

دیوبندی اور بریلوی علما دونوں ایک دوسرے کے خلاف کاٹ دار تنقیدوں اور جوابی تنقیدوں کے گھونسے رسید کرتے تھے۔ اس اختلاف کی معیاری مثالوں میں 'انوارِ ساطعہ در بیانِ مولود وفاتحہ' اور 'براہینِ قاطعہ علی ظلام الانوار الساطعہ' کے عناوین سے یہ دو کتابیں بہت اہم ہیں4۔ مولانا عبد السمیع نے انوار ساطعہ 1885 میں لکھی (1890 میں یہ دوسری بار چھپی)۔ انھوں نے یہ کتاب شمالی ہندوستان میں رائج میلاد اور فاتحہ کی رسم کی تردید میں لکھے جانے والے دو مختصر فتووں کے جواب میں لکھی۔ مطبع ہاشمی سے 1885 کے اوائل میں چھپے ان فتووں کے دست خط کنندگان میں مولانا رشید احمد گنگوہی سرفہرست تھے۔ 'انوار ساطعہ' میں مولانا عبد السمیع نے عقیدے اور رسمی اعمال کے متعدد مسائل کے حوالے سے دیوبندی آرا پر زبردست تنقید کی۔ اس تنقید میں ان کی توجہ زیادہ تر علمِ نبوی، عید میلاد النبی اور مردوں کے لیے ایصال ثواب جیسے مسائل پر مرکوز رہی، اس لیے تکنیکی طور پر انھیں 'بریلوی عالم' کہنا درست نہیں ہوگا۔ تاہم عقیدے اور رسوم کے بنیادی متنازع مسائل، جو دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان تقسیم کا سبب بنے، تقریباً وہی تھے جن پر مولانا احمد رضا خان نے بھی علماے دیوبند سے اختلاف کیا تھا۔

مولانا عبد السمیع ہندوستان کے شہر رام پور (اسی وجہ سے وہ عبد السمیع رام پوری کے نام سے بھی معروف ہے) کے ایک معروف سنی حنفی عالم تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم مولانا رحمت اللہ کیرانوی (م 1891) سے حاصل کی جو انیسویں صدی کے ایک ممتاز عالم اور تقابل ادیان کے مشہور مناظر تھے۔  یہ مدرسہ مولانا کیرانوی نے اپنے علاقے کیرانہ میں قائم کیا تھا5۔ 1847 میں مولانا عبد السمیع دہلی وارد ہوئے جہاں انھوں نے نامور علما اور شعرا بشمول مفتی صدر الدین الدین آزردہ (م 1854) اور اردو کے معروف شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب (م 1869) کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ ان کا شاعرانہ تخلُّص بے دل تھا، اور اسی وجہ وہ عوام میں عبد السمیع بے دل سے بھی جانے جاتے تھے۔ کچھ عرصہ غزل اور اردو شاعری کی دیگر اصناف میں طبع آزمائی کرنے کے بعد وہ پوری یکسوئی کے ساتھ دینی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ انھوں نے اپنی زندگی کے آخری بیالیس سال میرٹ کے لال کرتی بازار میں گزارے جہاں وہ ایک معروف امیر شخصیت شیخ الہی بخش (م 1883) کے بنگلے سے ملحق ایک جامع مسجد کے پاس رہائش پذیر رہے۔ شیخ الہی بخش کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی۔ انھوں نے مولانا بے دل کو اپنے بھتیجوں کا اتالیق مقرر کیا۔ ان کی وفات کے بعد انھیں شیخ صاحب کے بھتیجوں میں سب سے زیادہ معروف شخصیت خان بہادر (تاریخ وفات معلوم نہیں ہوئی) کے خاندانی مقبرے میں دفن کیا گیا۔ دلچسپ یہ کہ دیوبند کے اکابر علما بشمول دیوبندی مکتب کے بانیوں کے، جن میں مولانا قاسم نانوتوی، اکابر دیوبند کے صوفی شیخ حاجی امداد اللہ اور حدیث کے نامور عالم مولانا خلیل احمد سہارن پوری (م 1880) شامل ہیں، ان کے ابتدائی اساتذہ میں سے تھے۔ بلکہ وہ حاجی امداد اللہ کے ان خاص مریدوں میں تھے جو حاجی صاحب کے مجاز بیعت بھی تھے6۔ مولانا بے دل کے علمی شجرے پر اہم دیوبندی علما کے اثرات کے باوجود وہ دیوبندی مسلک کے ایک شدید اور بے لچک ناقد کی حیثیت سے سامنے آئے7۔

دیوبندی علما میں سے مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے، جو مولانا رشید احمد گنگوہی کے جلیل القدر شاگردوں میں تھے، مولانا عبد السمیع کی 'انوار ساطعہ' کا ایک دندان شکن جواب تحریر کیا۔ مولانا سہارن پوری کئی سال تک دیوبند کی سرپرستی میں قائم شمالی ہندوستان کے شہر سہارنپور کے مدرسے مظاہر العلوم کے مہتمم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دیوبندی مکتب فکر اور تبلیغی جماعت کے درمیان ایک بنیادی رابطے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اصلاً علوم حدیث کے ماہر تھے۔ ان کی مشہور ترین کتابوں میں 'بذل المجہود فی سنن ابی داؤد' ہے جو امام ابوداؤد کی مرتب کردہ 'السُنَن' کی ایک تفصیلی شرح ہے۔

نامور محدث ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا سہارن پوری نے بریلوی دیوبندی کش مکش میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1887 میں اپنے شیخ مولانا گنگوہی کے حکم پر مولانا سہارن پوری نے مولوی عبد السمیع کی 'انوار ساطعہ' کی نکتہ بہ نکتہ تردید لکھی جسے انھوں نے بجا طور پر 'براہین قاطعہ لظلام الانوار الساطعۃ' کا عنوان دیا۔ یہ کتاب پہلی بار  276 صفحات میں سادھورا (آج کے ہریانہ) میں بلالی سٹیم پریس سے چھپی8۔ آج کل بہت سی طباعتوں میں یہ دونوں کتابیں ایک ساتھ چھپی ہوتی ہیں، جس میں اوپر 'انوار ساطعہ' کا اور نیچے 'براہینِ قاطعہ' کا متن دیا گیا ہوتا ہے، جس میں مؤخر الذکر کتاب اول الذکر کتاب کے مضامین کی مسلسل تردید پر مشتمل ہوتی ہے۔ مولانا عبد السمیع اور مولانا سہارن پوری فارسی اور عربی زبان میں مرتب کردہ فقہی روایت (بالخصوص حنفی فقہی روایت) کی متقابل اور عموماً دقیق اور پیچیدہ تفہیمات سامنے لاکر اور اس کش مکش سے ایک دوسرے کو غیر معتبر ٹھہرا کر شریعت کی حدود کو کنٹرول کرنے کے لیے جد وجہد کر رہے تھے۔

مولانا احمد رضا خان بھی مناظروں کی اس ترقی پذیر صنعت میں بھرپور طریقے سے اپنا حصہ ڈال  رہے تھے۔ مزید برآں وہ دوسروں کو تحقیر آمیز القابات دینے  میں کسی سے پیچھے نہ تھے، بلکہ مولانا احمد رضا نے علماے دیوبند اور شاہ محمد اسماعیل کے خلاف اپنی مناظرانہ کتابوں کے لیے جو عنوانات چنے ہیں، ان سے ان کی نفرت کا کچھ اندازا ہوتا ہے: مسلمانوں کی قبروں کی توہین پر وہابیوں کی سرکوبی (اہلاک الوہابیین علی توہین قبور المسلمین)، وہابیوں کے باپ کی کفریات کے بارے میں ایک چمکتا ستارہ (الکوکبۃ الوہابیۃ فی کفریات ابی الوہابیۃ)، نجدی پیشواؤں کی کفریات پر لٹکتی ہندوستانی تلواریں (سل السیوف الہندیۃ علی کفریات بابا النجدیۃ)، کافروں کے کفر پر قہار کے تیروں کی برسات (رماح القہار علی کفر الکفار)9۔

جیسا کہ ان عنوانات اور محولہ بالا اقتباس سے معلوم ہوتا ہے، مولانا احمد رضا خان نے یہ حکمت عملی اس لیے اختیار کی کہ اپنے دیوبندی مخالفین کو 'ہندوستانی وہابی' قرار دے کر بد نام کریں۔ خان صاحب نے بتایا کہ علمائے دیوبند اگر چہ بظاہر حنفی مسلک سے منسوب ہیں، لیکن درحقیقت وہ بعینہ اٹھارویں صدی کے عرب مصلح محمد بن عبد الوہاب  کی طرح ان شرعی اعمال وعقائد کو نشانہ بنا رہے ہیں جو حنفی مسلک میں مسلمہ ہیں۔

مزید برآں علماے دیوبند ہندوستان میں غیر مقلد اہل حدیث مکتب فکر کے شدید مخالف تھے، جو اپنی فکر کے اعتبار سے وہابیوں کے سب سے زیادہ قریب تھے، بلکہ دیوبندی بریلویوں سے کہیں زیادہ غیر مقلدین کے ساتھ مخالفت اور دشمنی رکھتے ہیں۔

دیوبندی فکر کے مطابق بریلوی اگر چہ بدعات ورسومات کا ذوق رکھتے ہیں، اور حضور ﷺ کو خدا کے درجے پر فائز رکھنے کا رجحان رکھتے ہیں، تاہم پھر بھی ان کا تعلق حنفی مسلک کی علمی روایت سے ہے۔ کم از کم وہ ان مصادر اور شخصیات کو حجت تسلیم کرتے ہیں جنھیں دیوبندی بھی مانتے ہیں۔ لیکن اہل حدیثوں کا مسلک اس سے مختلف ہے۔ وہ تو سنی فقہ کے چاروں مسالک کی تقلید سے انکار کرتے ہیں، اور  اس بنیادی منہج کو مسترد کرتے ہیں جسے بریلوی اور دیوبندی دونوں مانتے ہیں۔

مولانا تھانوی دیوبندی نقطۂ نظر سے بریلویوں اور اہل حدیث میں فرق کا خلاصہ چند واضح موازنوں کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "بریلوی اپنے ہی گھر کے افراد ہیں، جو گمراہ ہو گئے۔ جب کہ اس کے بالمقابل اہل حدیث اور غیر مقلدین اس گھر کے افراد ہیں ہی نہیں۔ بریلوی بے دین لیکن باادب ہیں۔ اس کے برعکس اہل حدیث بادین لیکن بے ادب ہیں"10۔

جدید جنوبی ایشیا کی مذہبی تحریکوں کے وسیع تر تناظر کو واضح کرنے کے لیے مولانا تھانوی اپنا قیاس جاری رکھتے ہوئے ہندوستانی حنفیوں اور غیرمقلدین کے درمیان ٹکراو کو ہندوستان میں آریا سماج اور سناتن دھرمیوں کے درمیان اختلاف سے تشبیہ دیتے ہیں۔ بظاہر آریا موحد نظر آتے ہیں، جب کہ سناتن دھرمی غیر موحد۔ تاہم مولانا تھانوی دعوی کرتے ہیں کہ زیادہ چھان بین سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سناتن دھرمیوں نے ہندو مذہب کے مسلمات کی تقدیس میں آریا سماج سے زیادہ احترام کا اظہار کیا ہے۔ وہ آگے بتاتے ہیں: "بلکہ آریا کا دعواے توحید بھی محل نظر ہے۔ وہ تین چیزوں -مادہ، روح اور پرمیشور- کو قدیم بالذات مانتے ہیں۔ اس میں توحید کہاں سے آگئی؟11"

بہرصورت مولانا احمد رضا خان نے اپنے دیوبندی مخالفین پر 'وہابیت' کا لیبل چسپاں کرنے پر اصرار کیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر اور اٹھارویں صدی کے اوائل میں، ہندوستان اور عالم عرب دونوں میں یہ اصطلاح بڑی خوف ناک سمجھی جاتی تھی۔ اٹھارویں صدی کے اواخر کے حجاز میں علمائے احناف اور ان کے غیر مقلد حریفوں کے درمیان نظریاتی جنگیں زوروں پر تھیں12۔ ان جنگوں نے خان صاحب کو ایک سنہرا موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے مسلکی ایجنڈے کو کافی واضح انداز میں استناد فراہم کریں۔ دراصل یہی وہ وقت تھا جب مخصوص ادارتی، سیاسی اور مادی حالات نے مل کر مولانا احمد رضا کو  سامنے کے محاذ پر آنے اور 'حسام الحرمین' میں علماے دیوبند کی تکفیر کا موقع فراہم کیا۔ 1933ء میں سعودی بادشاہت کے قیام کے بعد خان کی دینی تفہیم اور اختلاف کی تائید میں کوئی فتوی سامنے نہیں آیا۔

مولانا احمد رضا خان نے اکابر دیوبند پر کفر کا فتوی کیوں صادر کیا؟ ان کے نزدیک اس عداوت کی بنیاد کیا تھی؟ علماے دیوبند نے خان صاحب کے تکفیری الزامات کے مقابلے میں اپنا دفاع کس طرح  کیا؟ اور سب سے بنیادی بات یہ کہ وہ کون سے اساسی علمی اختلافات ہیں جن کی وجہ سے روایت اور اس کی حدود کے بارے میں دیوبندی اور بریلوی مسالک میں علیحدگی ہوئی؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں میں زیر نظر اور آئندہ ابواب میں زیر بحث لاؤں گا۔ میں دو بنیادی مقاصد پر اپنی توجہ مرکوز کرکے ان سوالات کو موضوعِ بحث بناؤں گا: (1) ان بنیادی طریقہ ہائے استدلال وضاحت  جن سے خان صاحب نے دیوبندی مخالفین کے مقابلے میں اپنے تصورِ بدعت کو پیش کیا، اور (2) علم، حاکمیتِ اعلیٰ اور نبوی تصرفات پر ان کے مقابل آرا کی پیش کش۔

میں گیارھویں باب میں حضور ﷺ کے علم غیب کے مسئلے کا، جو اکابر دیوبند کے خلاف خان صاحب کے فتواے تکفیر کا براہ راست سبب ہے، ایک گہرا جائزہ لینے کے ساتھ اس دوسرے ہدف کی تکمیل کروں گا۔ چلیے، مولانا احمد رضا خان اور ان کی علمی شخصیت کے ایک مختصر تعارف سے آغاز کرتے ہیں۔

مولانا احمد رضا خان: عہد جدید میں روایت کے زبردست مُدافع

شمالی ہندوستان کے شہر بریلی میں 1856ء میں، برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی سے ایک سال پہلے، پیدا ہونے والے مولانا احمد رضا خان اپنے عہد کے ایک کثیر التصانیف، کرشماتی اور متنازع علما میں سے تھے۔ ایک متصلب حنفی فقیہ ہونے کے ساتھ وہ سلسلۂ قادریہ کے ایک صوفی شیخ کی تمام اسناد سے بہرہ ور تھے۔ خان صاحب جنوبی ایشیا میں بریلوی مسلک کے بانی مبانی تھے۔ ان کے پیروکار انھیں جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کے ایک مجدد کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کا تعلق سترھویں اور اٹھارویں صدی میں شمالی ہندوستان (روہیل کھنڈ کے خطے میں) کی طرف ہجرت کرنے والے ایک افغان خاندان سے تھا۔ ان کے براہ راست آبا واجداد مغلیہ سلطنت کی افسر شاہی میں سپاہیوں یا منتظم سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوئے13۔

دراصل خان صاحب کے جد امجد حافظ کاظم علی خان اودھ لکھنو کے نواب بھی رہے، اگر چہ ان کے خاندان کے بیش تر افراد کا تعلق مقامی جاگیردار اشرافیہ سے تھا، جنھیں ان کی فوجی خدمات کے عوض میں مغلیہ سلطنت نے جاگیریں دی تھی14۔ انیسویں صدی کے وسط میں ان کے دادا رضا علی خان (م 1866) نے فوجی خدمات فراہم کرنے کی خاندانی روایت ختم کی، اور وہ ایک مفتی اور قادری سلسلے کے صوفی بن گئے۔ انیسویں صدی کے دوران میں مسلمان جاگیر دار اشرافیہ کی طاقت کے تدریجی خاتمے نے اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی مسلمان فوجیوں کی بے روزگاری نے اس تغیر کے لیے راہ ہموار کی۔

 علم فقہ میں کمال اور علوم حدیث میں مہارتِ تامہ کے ساتھ ساتھ مولانا احمد رضا خان منطق، فلسفہ، لسانیات اور فصاحت وبلاغت جیسے مضامین میں بھی خاصی دست گاہ رکھتے تھے۔ انھوں نے اردو میں قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر بھی مرتب کیا۔ خان صاحب نے فتاوی کی تربیت درس نظامی کی تعلیم کے دوران ہی اپنے والد مولانا نقی علی خان (م 1880) سے حاصل کی جو خود بھی ایک طبقۂ علما میں ایک نامور عالم کی حیثیت سے مشہور تھے۔ مولانا نقی علی خان بھی شاہ محمد اسماعیل کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ وہ ان کئی علما میں سے تھے جنھوں نے شاہ اسماعیل کی وفات کے بعد تقویۃ الایمان کی تردید میں کتابیں لکھیں15۔ حقیقت یہ ہے کہ ان سے شہ پاکر اور ان کے زیر اثر  شاہ اسماعیل اور وہابی فکر سے مولانا احمد رضا خان کی دشمنی میں شدت آئی۔

خان صاحب نے درس نظامی کی تعلیم 13 سال کی قلیل عمر میں مکمل کی۔ اس کے بعد وہ مدرسہ مصباح العلوم میں، جنھیں ان کے والد نے 1872ء میں بریلی میں قائم کیا تھا، منصب افتاء پر متمکن ہو گئے16۔ اپنے گہرے فقہی فتاوی کی وجہ سے بہت وہ بہت جلد معروف ومقبول ہوئے۔ 1880ء تک انھوں نے خود کو ہندوستان کے ایک نامور فقیہ اور مفتی کی حیثیت سے تسلیم کرا لیا تھا۔ ہر روز ان کی میز پر ہندوستان بھر سے بلکہ حجاز، چین، وسطی ایشیا، افریقہ اور حتی کہ امریکا سے پانچ سو سے زیادہ سوالات موصول ہوتے تھے17۔ خان صاحب اپنے مدرسے منظر اسلام میں، جسے انھوں نے 1904 میں قائم کیا تھا، مسلسل فتاویٰ لکھنے کی مشق کرتے رہے۔

اپنے والد کے علاوہ مولانا احمد رضاخان کی علمی زندگی پر اثر انداز ہونے والے دوسرے فرد ان کے پیر ومرشد شاہ علی رسول (م 1879) تھے، جو شمالی ہندوستان کے شہر مارہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک کرشماتی بزرگ تھے۔ علی رسول صوفی مشائخ کے ایک انتہائی قابل احترام خاندان برکاتیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سادات کا خاندان تھا۔ 1878 میں پہلے حج پر جانے سے پہلے مولانا احمدرضا خان علی رسول کے مرید بن گئے، اور اس کے ایک سال بعد ہی علی رسول وفات پاگئے۔ لیکن نسبتاً تھوڑے عرصے کے لیے علی رسول کی ارادت میں رہنے کے باوجود انھوں نے تصوف اور نبوت پر مولانا احمد رضا خان کے نقطۂ نظر کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔

1878 اور 1905 میں حج کے لیے حجاز مقدس کے دو اسفار خان صاحب کی علمی زندگی کے تشکیلی ادوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان اسفار کے دوران میں انھوں نے حجاز کے نامور علما سے قریبی تعلقات استوار کیے۔ ان میں سے کچھ ان کے اساتذہ بھی رہے۔ مثلاً مشہور شافعی عالم احمد زینی دحلان مکی (م 1886) کا خان صاحب کی شخصیت پر گہرا اثر ہوا۔ خان صاحب نے 1878 میں اپنے پہلے حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں ان کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کیا۔ خان صاحب کے والد کی طرح وہ بھی وہابی فکر کے پرجوش مخالفین میں سے تھے، اور محمد بن عبد الوہاب کی فکر کی تردید میں انھوں نے کئی رسالے لکھے تھے18۔ جیسا کہ میں اس باب میں بتاؤں گا، خان صاحب نے شاہ محمد اسماعیل اور اکابر دیوبند پر تنقید کے لیے بار بار زینی دحلان کے افکار کا حوالہ دیا۔ 

عالم عرب میں خان صاحب کے ایک اور اہم مربی شیخ عبد الرحمان سراج مکی (م 1883) تھے، جو ایک معروف حنفی عالم اور انیسویں صدی کے اواخر میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مفتی اعظم تھے۔ شیخ دحلان کی طرح، جن سے ان کا قریبی تعلق تھا، شیخ سراج مکی بھی اس وہابیت مخالف مہم میں براہ راست شریک رہے جس میں اس دور میں حجاز کے متعدد حنفی علما سرگرم رہے۔ ان عرب علما سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ خان صاحب نے ان پر بھی اپنی علمی لیاقت کی دھاک بٹھا دی تھی۔

مثلاً نبی اکرم ﷺ کے علم غیب کے حوالے سے مکہ کے نامور حنفی عالم شیخ صالح کمال کی درخواست پر ہی خان صاحب نے اپنی معروف کتاب الدولة المکية بالمادة الغیبية سپرد قلم کی جس پر ہم آگے گیارھویں باب میں بحث کریں گے19۔ فروری 1906 میں وہابی علما کی طرف سے ایک جارحانہ پمفلٹ شائع ہوا، جس میں نبی اکرم ﷺ کے علم غیب کے حوالے سے حنفی علما کے سامنے پانچ سوالات رکھے گئے تھے، اور انھیں چیلنج دیا گیا تھا کہ ان کے جوابات دیں۔ شیخ کمال نے اس سلسلے میں مولانا احمد رضا خان سے تعاون طلب کیا۔ آپ نے ان کی درخواست قبول کی اور چند دنوں کے اندر الدولية المکية تحریر کی۔ علماے حجاز نے نبی اکرم ﷺ کے علم کے بارے میں وہابی آرا کی فیصلہ کن تردید کی حیثیت سے اس کتاب کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس کتاب کو اس وقت کے شریفِ مکہ علی پاشا بن عبد اللہ (م 1932) کی خدمت میں پیش کیا گیا اور اس کے دربار میں بآواز بلند پڑھا گیا۔ کتاب کے مضامین سن کر شریفِ مکہ نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "خدا (نبی ﷺ کو علم غیب کی نعمت) عطا کرتا ہے، اور یہ (وہابی) اسے منع کرتے ہیں (الله يُـعطِي وهم يـمنعون)20۔

خان صاحب کی تحریریں متعدداہم علوم اور مضامین کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان میں تفسیرِ قرآن، نقد رجال، فقہ، علم الکلام، فلسفہ اور منطق شامل ہیں۔ تقریباً آپ کی تمام تحریریں 2006 میں 32 جلدوں میں الفتاوی الرضویۃ کے نام سے ہندوستان کے شہر گجرات کے بریلوی پریس مرکز اہل سنت سے شائع ہوئیں۔ ان میں سے ہر جلد پانچ سو سے لے کر سات سو صفحات پر اور 10 سے 15 رسائل پر مشتمل ہے۔ اگر چہ خان صاحب بنیادی طور پر اردو میں لکھتے تھے، لیکن انھوں نے عربی اور فارسی میں بھی متعدد کتابیں لکھیں۔

عہد حاضر میں خان صاحب کے دینی استناد کو کیسے یاد اور تصور کیا جاتا ہے، اس کی عمدہ عکاسی فتاوی رضویہ کے ہر جلد کے سرورق پر موجود تصویری خاکے سے ہوتی ہے جسے 9.1  نمبر تصویر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ تصویر ایک جھلک فراہم کرتی ہے کہ بریلوی اعلیٰ حضرت کی کرشماتی شخصیت پر استوار اپنی روایت کو خود کیسے تصور کرتے ہیں۔


تصویر 9.1: بریلوی مسلک کی بنیادیں۔ مولانا احمد رضا خان کے فتاویٰ کی 32 جلدیں کو مختلف مستند مصادر سے ماخوذ دکھایا گیا۔ یہ مصادر حدیث سے مستنبط ہیں، اور حدیث قرآن کریم پر انحصار کرتی ہے۔ تصویر کے اندر مختلف اندراجات میں نے اپنی طرف سے کی ہیں۔


پروفیسر ابراہیم موسیٰ نے روایت کے تصور کے بارے میں کیا عمدہ بات کہی ہے:

روایت بیک وقت ایک وضعی تصور اور عہد/میثاق ہے۔ روایت کے ساتھ علمی اور روحانی قربت رکھنے والوں سے تعامل کے لیے باریک قواعد وضوابط ہی وہ شے ہے، جسے میں 'وضعی تصور' کہتا ہوں۔ ماہرین بشریات اور سیاحوں کے برعکس وہ لوگ جو روایت کو اپنی شناخت بتاتے ہیں، فیلڈ ورک نہیں کرتے، نہ ہی وہ ماضی کے اندر سفر کرتے ہیں۔ روایت سے جڑے لوگ وجودیات (ontology) پر بحث کا دعوی کرتے ہیں، یعنی وجود (being) کی حیثیت/سرشت پر تحقیق۔ لیکن اس تحقیق سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ اس وجود (being) کے سلسلے سے کیسا تعلق رکھتے ہیں۔ میثاق یا معاہدہ 'کیسے' کو سادہ بناتا ہے: عقائد واعمال کی مخصوص شکلیں زندگی کی خاص صورتوں سے جڑنے کی علامات ہیں21۔

تصویر 9.1 روایت کے بارے میں پروفیسر موسی کے بیان کی وضاحت ہے۔ یہ تصویر ہمیں ان مصادر اور درجات کے بارے میں بتاتی ہے جنھوں نے ایک سنی حنفی عالم کی حیثیت سے مولانا احمد رضا خان کے دینی استناد کو ممکن بنایا۔ اس نظام میں یقیناً‌ سب سے اونچا درجہ قرآن کا ہے (اور یہی وجہ ہے کہ تصویر میں قرآن کو سب سے اوپر رکھا گیا ہے، اور اس کے نیچے سنیوں کے ہاں مستند صحاحِ ستہ کی تصویر رکھی گئی ہے)۔ اس کے بعد ہمیں روایتی مصادر نظر آتے ہیں۔ یہ دراصل اس تعبیری منہج کی نمائندگی کرتے ہیں جو مستند انداز میں عہد نبوی کو زمانۂ حال سے جوڑتے ہیں۔ یہ مختلف ادوار، علوم اور علاقوں میں لکھے جانے والے مستند مصادر ہیں جن میں امام غزالی کی الـمُستصفیٰ، علامہ تفتازانی کی شرح المقاصد، امام مرغینانی کی الهداية، شیخ جامی کی نفحات الانس اور فضل امام خیر آبادی کی المرقاۃ شامل ہیںَ۔ یہ سب مصادر مل کر 'مسلکِ اعلیٰ حضرت' (جسے تصویر میں اینٹوں کے اندر کندہ کیا گیا ہے) کی تشکیل کرتے ہیں۔

انھی مصادر سے 32 جلدوں پر مشتمل ان کے فتاویٰ ایک ایسے علم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے جو ماضی کو حال سے جوڑتا ہے، اور شریعت سے ثابت شدہ "وجودیاتی لوازم/اثاثوں (ontological belongings) کے سلسلے" کو استحکام بخشتا ہے۔ درحقیقت خان صاحب کی کسی بھی تحریر کے مطالعے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ روایت کی پرشکوہ عمارت میں محو سفر ہیں۔ مولانا احمد رضا خان تھوک کے حساب سے حوالہ جات پیش کرنے کے بے تاج بادشاہ تھے۔ تقریباً وہ اپنی ہر تحریر میں اپنے دعوی کو تقویت فراہم کرنے کے لیے مختلف زمان ومکان اور شعبہ ہاے علم میں لکھے گئے متعدد مآخذ ومصادر سے حوالہ جات کی بھرمار کر دیتے ہیں جس سے قارئین مبہوت ہو جاتے ہیں۔

خان صاحب کے تصور روایت  کی بنیادی خاصیت تمام مخلوقات میں سب سے برتر ہستی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہے۔ خان صاحب کا  نبی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے تقدس کی حفاظت کا جذبہ ایک بے لچک نظام مراتب (hierarchy) پر مبنی تصورِ جہاں سے ماخوذ تھا اور یہ نظام ایک وسیع تر سیاسی تصور سے گہرے انداز میں مربوط تھا  بلکہ سماجی اور مذہبی نظام کا مراتبی (hierarchial) تصور خان صاحب کے نظریۂ روایت کے امتیازات میں سے ہے22۔ انبیا و اولیا کے توسل سے ہی خدا اور بندے کے درمیان تعلق کو استحکام مل سکتا ہے۔ مزید برآں اخروی سرگرمی کے نظام میں ہر شخص کا اپنا ایک مرتبہ ہے۔ خان صاحب کے اعتقادی تصور نے ان کے سماجی تصور کو بھی متاثر کیا۔

سماجی دائرے میں خان صاحب نے سادات اور دیگر 'شریف اقوام' جیسے مغلوں، پٹھانوں، انصاریوں، صدیقیوں، فاروقیوں کو دیگر ہندوستانی مسلمانوں پر برتری اور فوقیت دی23۔ لیکن یہ واضح رہے کہ خان صاحب اشراف کو کسی بھی دینی فریضے سے مستثنی نہیں سمجھتے تھے، اور نہ ہی فقہ وقضا کے دائرے میں ان کے لیے کسی مخصوص رعایت کے قائل تھے24۔ تاہم خان صاحب کے نزدیک شریف لوگ اور نسبی شرافت کسی سماج کی تشکیل اور روزمرہ کی عادات واطوار کی حد بندی کے لیے اہم عناصر ہیں۔ مثلاً سلام دعا، عوامی مجالس میں اٹھک بیٹھک، بازار اور عوامی میل ملاپ کے دیگر مقامات کے آداب میں یہ ضروری ہے کہ ایک ایسا جمالیاتی ذوق یا اخلاقی حس پروان چڑھایا جائے جو ایک ایسے معاشرتی تصور پر مبنی ہو، جس میں چند مخصوص حدود، اعزازات اور مراتب کو برقرار رکھا جاتا ہو۔

اس کے ساتھ خان صاحب نے بتایا کہ شرفا کی خواتین کے لیے خاص طور پر ضروری ہے کہ وہ کسی کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے نسبی برابری اور ہم آہنگی (کفاءت) کو یقینی بنائیں۔ مثلاً اپنی ایک کتاب إراءة الأدب لفاضل النسب میں، جو بطورِ خاص نسبی شرافت کی شرعی حیثیت کے موضوع پر ہے، خان صاحب نے واضح کیا: "ایک مغلانی یا پٹھانی لڑکی کے لیے، جو ابھی شادی کی عمر کو نہیں پہنچی، جائز نہیں کہ وہ ایک مسلمان جولاہے سے شادی کرے25"۔ یہاں کوئی شخص اس بات پر زور دے سکتا ہے کہ خان صاحب شریف النسب لوگوں میں بے دینی یا اخلاقی بے راہ روی کے بالکل روادار نہیں تھے۔ تاہم انھوں واضح کیا کہ نسبی شرافت نیک اعمال کی جگہ نہیں لے سکتی۔ مزید برآں وہ ان لوگوں کے شدید ناقد تھے جو اپنے نام ونسب یا قبائلی نسبت پر فخر کرتے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ ان لوگوں کا یہ رویہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے اسوۂ حسنہ سے مکمل جہالت کا غماز ہے۔

ایسے ہی کسی موقع پر خان صاحب سے ایک بار کسی نے پوچھا کہ ان لوگوں کا کیا حکم ہے جو کسی کے خاندانی پیشے کی بنیاد پر ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ ایک ایسا عمل تھا جو اس وقت شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں بہت عام تھا۔ سائل کچھ اس طرح پوچھتا ہے: "کیا فرماتے ہیں علما اس بارے میں کہ کسی شخص کی توہین کے واسطے اسے اس کے آبائی پیشے، جیسے جولاہا، کاشت کار، ماہی فروش، نور باف  سے پکارا جائے، جس سے اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے، اور اس کی دل شکنی ہو؟26" خان نے پوری قطعیت سے جواب دیا: "ان ناموں سے پکار کر کسی کی دل شکنی کرنا نہ صرف مسلمانوں کے حق میں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے ذمیوں کے حق میں بھی حرام ہے، اگر چہ ان ناموں کے مصداق بھی درست ہوں۔ کیوں کہ ہر درست بات سچ ہوتی ہے، لیکن ہر سچی بات درست نہیں ہوتی (فإن كل حق صدق وليس كل صدق حق)"27۔

ایک اور موقع پر ایک سائل نے خان صاحب سے پوچھا: "ہمارا امام حافظِ قرآن ہے، اور وہ پورے اہتمام سے پنج وقتہ نماز کی امامت کراتا ہے۔ تاہم وہ پیشے کے لحاظ سے قصائی ہے۔ کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے؟" خان نے جواب میں کہا: "ہاں جب تک وہ وہابی، دیوبندی یا کوئی ایسا شخص نہ ہو جو اس طرح کے فاسد عقائد کا حامل ہو، اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیںَ۔ قصائی ہونا کسی کو امامت کے لیے نااہل نہیں قرار دیتا۔ سلف صالحین میں متعدد حضرات اس پیشے سے وابستہ تھے"28۔

جیسا کہ ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے، خان صاحب کسی طرح بھی نسب کی بنیاد پر اخلاقی برتری کے قائل نہیں تھے۔ تاہم وہ اپنے اس دعوے پر قائم تھے کہ تفاضلِ انساب سماجی رکھ رکھاو کے لیے ناگزیر ہے۔ انھوں نے بھرپور انداز میں اس جدید تصور کو رد کیا کہ سلسلہ ہائے نسب اور ان پر مبنی سماجی امتیازات غیر ضروری یا فضول ہیں۔ خان صاحب نے بتایا: "نسب کو مطلقاً محض بے قدر برباد جاننا مردود و باطل ہے"29۔ یہاں پر نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ خان صاحب کے نزدیک نبوی تصرف کی وسعت اور  سماج میں عمومی انسانی تعلقات کے لیے مثالی اقدار کے درمیان کافی قربت ہے۔ اُخروی نجات اور سماجی دائرے دونوں میں طاقت کے ایک نظام مراتب (hierarchial) کا بندوبست ضروری ہے۔ مزید برآں ایک عظیم ترین کونی اور وجودی حقیقت کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کی تعظیم وتقدیس اس طرح کی مبنی بر مراتب سیاسی الہیات کے لیے حتمی قالب ہے۔ اور سیاست کا بعینہ یہی وہ پہلو ہے جو علماے دیوبند کے ساتھ خان صاحب کی مخاصمت میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ 

شریعت میں تحریف: دیوبندی تصور بدعت کی تردید

مولانا احمد رضا خان نے رسمی اعمال کے حوالے سے علمائے دیوبند اور شاہ محمد اسماعیل کے تصور بدعت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسلام میں بدعت کے تصور پر ان کی سب سے زیادہ تفصیلی بحث ان کی کتاب إقامة القيامة على طاعن القيام لنبي تهامة میں ہے30۔ اس کتاب میں خان صاحب نے عید میلاد النبی کے موقع پر آنحضور ﷺ کے احترام میں قیام کی شرعی حیثیت پر بحث کی۔ خان صاحب نے اپنی نظر میں اپنے مخالفین کے مغالطہ آمیز تصورِ بدعت پر مفصل تنقید کی۔ آنے والی بحث میں، میں اس تنقید کے چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا۔

خان صاحب کو سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر تھی کہ ان کے مخالفین ایسی رسموں مثلاً عید میلاد النبی کو کیوں ناجائز قرار دے رہے ہیں، جو رسول اللہ ﷺ کی سنت وسیرت کو یاد کرنے اور منانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ خان صاحب نے ایک ایسے عوامی ماحول کو پروان چڑھانے کی وجہ سے ان پر طنز وتشنیع کی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کی تعظیم وتقدیس کو تقریباً جرم قرار دیا گیا ہے۔ انھوں نے اصول کے طور پر اپنے استدلال میں بتایا کہ کوئی عمل اس وقت ناجائز یا حرام ہو سکتا ہے جب اس کی حرمت یا عدم جواز پر کوئی قطعی نص موجود ہو۔

ہر ایسا عمل جسے شریعت نے صراحتاً حرام قرار نہ دیا ہو، اصلاً مباح ہے۔ اس اصول کی وضاحت میں خان صاحب نے سولھویں صدی کے ایک فقیہ محمد القسطلانی کا حوالہ دیا جو اپنی معروف کتاب المواهب اللدنية میں واضح کرتے ہیں: "(رسول اللہ ﷺ کی سنت میں موجود) کوئی عمل اس کے جواز پر دلالت کرتا ہے، لیکن کسی عمل کی عدم موجودگی اس کی حرمت/ممانعت پر دلالت نہیں کرتی (الفعل يدل على عدم الجواز وعدم الفعل لايدل على المنع)31۔ یہ اصول کہ وہ تمام اعمال جو ناجائز قرار نہیں دیے گئے ہیں، اصلاً جائز ہیں، خود رسول اللہ ﷺ نے اپنی ایک حدیث میں بیان کیا ہے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: "حلال وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، حرام وہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں سکوت اختیار فرمایا ہے، اس سے عفو ودرگزر فرمایا ہے" (الحلال ما أحلَّ الله في كتابه، والحرامُ ما حرَّم اللهُ في كتابه، وما سكت عنه فهو مـمّا عُفي عنه)32۔ فقہی اصطلاح میں اس حدیث کا منشا یہ ہے کہ شریعت جب تک کسی عمل کو صراحتاً ممنوع قرار نہ دے، وہ جائز رہتا ہے۔

خان صاحب نے اپنے دیوبندی مخالفین کو الزام دیا کہ وہ اصلاً مباح اعمال کو ناجائز قرار دے کر شریعتِ الہی میں تحریف کے مرتکب ہو رہے ہیںَ۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ شریعت ابدی ہے۔ اس لیے جب کوئی عمل اپنے اصل کے اعتبار سے مباح ہو، تو اسے ناجائز کہنا ایک نئے اور خود ساختہ شرعی حکم کی ایجاد ہے۔ خان صاحب کے نزدیک شریعت کی طرف سے مقرر کردہ حکم میں تغیر وتبدل شریعت کی حیثیت کو کمزور کرتی ہے۔

ان کی نظر میں علماے دیوبند اور شاہ اسماعیل کا ناقابل معافی جرم مباح اعمال کو بے باکی سے ناجائز قرار دینا تھا، جس سے شریعت کے بنیادی اصول میں بدل گئے33۔ خان صاحب اپنے دیوبندی مخالفین (جیسے مولانا تھانوی) سے شاید اس بات پر اتفاق کرتے کہ مفسدات کے شامل ہونے کی وجہ سے مباح اعمال بھی بدعت بن جاتے ہیں۔ تاہم ان کے درمیان جس مقام پر واضح علیحدگی ہوتی ہے، وہ حال اور اس کی اخلاقی حالت کے حوالے سے ان کا تجزیہ ہے۔ خان صاحب کی نظر میں ایسی کوئی ہنگامی ضرورت یا اخلاقی انتشار نہیں جو لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کی تعظیم وتقدیس کی خاطر کی جانے والی رسوم سے باز رکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بلکہ وہ بتاتے ہیں کہ جب تک خدائی حاکمیت/توحید کے لیے خطرہ نہ ہو، تو کسی بھی ایسے عمل کو بدعت قرار دے کر منع کر دینا، جو رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے ہے، بذات خود بدعت ہے۔ خان صاحب کے نزدیک میلاد منانا اور آپ ﷺ کے احترام میں کھڑا ہونا (قیام) کوئی معمولی عمل نہیں جسے اپنی مرضی سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ چونکہ اس رسم کا مقصد نبی اکرم  ﷺکا ذکر اور ان کی تکریم ہے، اس لیے یہ دین کے لیے ناگزیر ہے34۔  

زمان اور روایت کے حریف تصورات

نظریاتی طور پر خان صاحب کی بنیادی شکایت دین اور زمان کے درمیان تعامل کی اس تفہیم سے تھی جس کے حامل ان کے مخالفین تھے۔ خان صاحب کے نزدیک علماے دیوبند خیر القرون کے بارے میں ایک بہت محدود اور غلط نظریے کے قائل تھے۔ جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں: "یہ سب زمان کو حاکمِ شرعی بنانے کے مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ صرف اسی بات سے سروکار رکھتے ہیں کہ کوئی عمل تاریخ کے ایک مخصوص دور (نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کے زمانے) میں موجود تھا یا نہیں۔ اگر کوئی عمل اس دور میں موجود تھا تو وہ اسے جائز کہتے ہیں، بصورت دیگر وہ اسے ناجائز قرار دیتے ہیں"35۔

زمان پر مبنی تعبیری منہاج کے مخالف نقطۂ نظر کے طور پر خان صاحب نے بتایا کہ کسی عمل کا شرعی جواز اس میں خیر کی موجودگی یا عدم موجودگی پر منحصر ہے، نہ کہ اس بات پر کہ وہ تاریخ کے کس دور میں وقوع پذیر ہوا ہے۔ ایک اچھا عمل اچھا ہوتا ہے، جس وقت بھی اسے سرانجام دیا جائے۔ اسی طرح ایک برا عمل برا رہتا ہے، چاہے وہ جب بھی وقوع پذیر ہو۔ خان صاحب شکوہ کناں ہیں کہ ان کے مخالفین کسی عمل کی اصلی حیثیت  جانچنے کے بجاے اس بات میں پوری دلچسپی رکھتے ہیں کہ کیا وہ اسلام کی ابتدائی تین صدیوں (قرونِ ثلاثہ) میں وقوع پذیر ہوا ہے یا نہیں۔

خان صاحب نے بتایا کہ تعبیر کا ایسا منہج جو چند صدیوں کو مقدس مانتا ہو، لازماً دین کی ایک بڑی سطحی تفہیم کو پروان چڑھائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی اکرم ﷺ، صحابہ کرام اور تابعین سب سے زیادہ مثالی اور مقدس ہستیاں تھیں۔ لیکن، اور یہ سب سے اہم نکتہ ہے، خیر القرون کے تقدس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی ادوار- یعنی ماقبل اسلام، زمانۂ حال اور مستقبل-  کے بارے میں یہ طے شدہ ہے کہ وہ اخلاقی زوال میں ڈوبے رہیں گے۔ خیر کسی بھی مخصوص دور کو محدود نہیں، یہاں تک کہ خیر القرون کو بھی نہیں۔ یہاں پر خان صاحب ایک حدیث کا برمحل حوالہ دیتے ہیں: "میری امت کی مثال بارش کی سی ہے، کسی کو پتہ نہیں کہ بارش کی ابتدا میں خیر ہوگا یا اس کے آخر میں (مثل أمتي مثل المطر لا يُدرى أولُه خيرٌ أم آخرُه)36۔

خان صاحب کی نظر میں اس حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خیر کسی خاص دور کے ساتھ مخصوص نہیں۔ عہد نبوی کے مثالی دور کی یاد ممکنہ طور پر ان لوگوں کی اخلاقی صلاحیت کو تحریک دے گی جو زمانۂ حال میں رہ رہے ہیں، نہ کہ انھیں ایک ناقابل واپسی ماضی کے سائے میں رہنے کے اضطراب سے اپاہج کرے گی۔ خان صاحب کے نزدیک اصلاح میں قوت تب آتی ہے جب  آنے والے ہر نئے عہد میں رسمی اعمال کے اندر متشکّل مستقل خیر کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے۔ وہ لوگ جو ان اعمال کو بدعت کہتے ہیں، ایسے اعمال کو روکنے کی وجہ سے بذات خود بدعت کے مرتکب ہو رہے ہیںِ جنھیں موقر علما اور اکابرین امت کئی صدیوں تک جائز قرار دیتے آئے ہیں۔

اس پہلو سے خان صاحب کا تصورِ اصلاح علما دیوبند کے تصور اصلاح سے یک سر مختلف ہے۔ جیسا کہ میں نے سابقہ ابواب میں بتایا ہے کہ مولانا اشرف علی تھانوی جیسے دیوبندی اہل علم کا اصلاحی پروجیکٹ مسلسل اخلاقی زوال کے ایک ایسے بیانیے میں ملفوف تھا، جو علماے کرام سے ایک انتہائی اقدام کا تقاضا کر رہا تھا۔ اس صورت حال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بعض نیک اعمال جیسے عید میلاد النبی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ زمانۂ حال جس اخلاقی بحران سے دو چار تھا، اس نے ایسے متعدد رسمی اعمال کو جڑ سے اکھاڑنے کے شعوری فیصلے کا تقاضا کیا، جو اگر چہ ماضی میں پھلے پھولے تھے، لیکن اب وہ حتمی طور پر فاسد ہو گئے ہیں۔

زمان، خیر، عملی زندگی

چونکہ یہ نکتہ بہت اہم ہے- یعنی زمان اور شریعت کے درمیان تعامل کے دیوبندی اور بریلوی تصورات کا موازنہ- اس لیے میں اپنے تجزیے کی مزید تشریح وتوضیح کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے میں خان صاحب کی فکر کو چھوڑ کر زمنیت کے بارے میں دیوبندی موقف کی مزید وضاحت کرتا ہوں، تاکہ بریلوی موقف کے ساتھ اس کا دقیق موازنہ ہو۔ اس مقصد کے لیے میں دیوبندی عالم مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی مناظرانہ کتاب براہین قاطعہ میں ان کے بھرپور مباحث کو زیر غور لاؤں گا۔ (ذہن میں رہے  کہ یہ مناظرانہ کتاب دیوبندیوں کے نقطۂ نظر کے خلاف مولانا عبد السمیع کی لکھی ہوئی کتاب انوارِ ساطعہ کی تردید ہے)۔

مولانا عبد السمیع نے اپنے استدلال میں خان صاحب کی پیروی  کرتے ہوئے ایک مقام پر اکابر دیوبند کے خلاف یہ الزام لگایا  کہ وہ خیر القرون کو غلط طور پر رسول اللہ ﷺ اور اسلام کی ابتدائی تین صدیوں کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ انھوں نے شکایت کی کہ یہ نقطۂ نظر مسلمانوں کی آنے والی نسلوں سے یہ امکان چھین لیتا ہے کہ  وہ خیریت کا عملی نمونہ بن سکیں، یا اس تک رسائی پالیں۔

اپنے جواب میں مولانا سہارن پوری نے مولوی عبد السمیع پر یہ تنقید کی کہ  انھوں نے خیریت کے تصور کو عام بنا دیا ہے۔ کیسے؟ اس طرح کہ وہ ابتدائی تین صدیوں کی کلی فضیلت (فضل کلی) اور بعد کی صدیوں کی جزئی فضیلت (فضل جزئی) کے درمیان امتیاز نہیں کرتے۔ ابتدائی تین صدیوں کے اہل ایمان خدا اور عہدِ نبوت سے قربت کی وجہ سے کلی فضیلت سے سرفراز تھے۔ اس کے برعکس وہ پاکیزہ لوگ جو اس دور کے بعد آئے، رسول اللہ ﷺ پر اپنے ایمان بالغیب کی بدولت جزئی فضیلت کے حامل ہیں۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ خیریت یا فضیلت کی یہ دو قسمیں دو مراتب ہیں نہ کہ یہ باہم ایک دوسرے کی ضد ہیں37۔

اس نکتے کو آشکارا کرنے کے لیے سہارن پوری اپنے قارئین کی ضیافت ایک دلچسپ غذائی قیاس سے کرتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ جزئی فضیلت پر کلی کی برتری ایسے ہے جیسے خوش ذائقہ قورمہ پلاو کی فضیلت  پاخانے پر ہے38۔ صاف ظاہر ہے کہ قورمہ پلاو میں کھاد کے فوائد نہیں، نہ ہی وہ کھاد کا کام سرانجام دے سکتا ہے۔ تاہم کھاد پلاو میں موجود کلی فضیلت کے برابر نہیں ہو سکتا۔ ابتدائی تین صدیوں کی خیریت کو آنے والی تمام نسلوں کی خیریت کے برابر قرار دینا، جیسا کہ مولانا عبد السمیع نے کیا ہے، ایسا ہی ہے جیسے پلاو اور پاخانے کو مساوی بتایا جائے۔ "مؤلف کو فضل کلی اور جزئی کے درمیان فرق معلوم ہی نہیں، اور اسی وجہ سے وہ کمزور توجیہات کرتا ہے۔ اگر اس کو اس بابت کچھ بھی معلوم ہوتا تو وہ ایسی لایعنی بات نہ لکھتا"، مولانا سہارن پوری نے اپنی  تنقید کا ترکش خالی کرتے ہوئے کہا39۔

چلیے کچھ لمحوں کے لیے مولانا سہارن پوری کے قیاس کو ایک طرف رکھ دیجیے۔ ان کے استدلال کا ایک نازک پہلو بھی ہے، جسے یہاں ضرور زیر بحث لانا چاہیے۔ خیر القرون کو دیگر زمانوں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے، وہ نہ صرف ان کے دور کی خیریت وبرکت ہے، بلکہ جس خیر کے وہ حامل تھے، اس کی اقسام میں فرق بھی اس دور کو امتیازی حیثیت عطا کرتا ہے۔ خیر القرون کے نیک اعمال میں جو خیریت پنہاں تھی، وہ آنے والی تمام نسلوں کے لیے فقہی احکام اور رسمی اعمال کے جواز کی بنیاد تھی۔ بالفاظ دیگر یہ خیریت ایک 'حکمِ اتباع' سے مربوط تھی۔ اس نے آنے والی نسلوں کو وہ شرعی قالب فراہم کیا جس میں وہ ڈھلیں اور اس کی اتباع کریں۔ اس کے برعکس قرون ثلاثہ کے بعد کیے جانے والے نیک اعمال کی خیریت میں یہ طاقت اور حجت نہیں۔ اس لیے ایسے اعمال جیسے اپنی بیوی سے حسن سلوک کرنا یا ایک سماج کا دوسرے سماج کو فائدہ پہنچانا اگر قرونِ ثلاثہ کے بعد ہوں تو وہ فقہی وشرعی احکام کے لیے بنیاد کا کام نہیں دے سکتے۔

ان اعمال کی خیریت، قرونِ ثلاثہ کے نیک اعمال کے برعکس 'حکم اتباع' سے مربوط نہیں، وہ مستقل نہیں تھے40۔ جیسا کہ میں نے ساتویں باب میں واضح کیا ہے دیوبندی موقف یہ نہیں کہ قرون ثلاثہ میں واقع ہونے والا ہر عمل اچھا ہے، اور اس کے بعد ہونے والا ہر عمل برا ہے، اگر چہ ان کے مخالفین جیسے مولانا احمد رضا خان اور مولوی عبد السمیع بعض اوقات ان کے موقف کو انھی معنوں میں لیتے ہیں۔ تاہم خان صاحب نے واضح کیا کہ دیوبندی فکر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلام کے قرونِ ثلاثہ کے بعد انسانیت کو زوال ہوا ہے، جیسا کہ مولانا سہارن پوری کی فکر سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے۔

اب میں خان صاحب کی طرف لوٹتا ہوں۔ ان کا تصور زمان اس کے بالکل برعکس تھا۔ فلسفے کی اصطلاح میں کہا جا سکتا ہے کہ  انھوں تاریخ کو مسلسل زوال پذیر لمحات کی حیثیت سے دیکھنے پر تنقید کی۔ اس یاس نے ایک جامد تصورِ زمان کو جنم دیا، جس کی روسے تاریخ ایک اصلی مقدس زمان اور اس کے بعد آنے والے تدریجاً‌ ناپاک زمان میں منقسم ہے۔ یہ ثنویت خود رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے اسوۂ حسنہ سے میل نہیں کھاتی۔ انھوں نے زور دے کر بتایا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم زمان کے متحرک تصور کے قائل تھے41۔

وہ کسی نئے عمل کے شرعی حکم کا جائزہ لیتے وقت اس کی ذاتی خصوصیات پر توجہ مرکوز رکھتے تھے، نہ کہ اس زمان پر جس میں وہ عمل واقع ہوا۔ مولانا احمد رضا نے مثال کے طور پر متن قرآن کی تدوین پر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے درمیان ہونے والی ایک بحث کی روایت نقل کی۔ 632ء میں جنگ یمامہ کے دوران کئی حفاظ صحابۂ کرام شہید ہوئے۔ اس واقعے کے بعد حضرت عمر کو فکر لاحق ہوئی کہ جس تیزی سے حفاظ قرآن جنگوں میں شہید ہو رہے ہیں، خطرہ ہے کہ قرآن کریم کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو جائے۔

انھوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تقاضا  کیا کہ قرآن کریم حفاظت وتدوین کا فوری بندوبست کیا جائے۔ ابتدا میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو تردد ہوا۔ انھوں نے استفسار کیا: "ہم ایسا کام کیوں کریں جو رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا؟" حضرت عمر رضی اللہ نے اس کے جواب میں فرمایا: "اللہ کی قسم اس کام میں خیر ہی خیر ہے" (هو والله خير)۔ بہرحال کچھ بحث ومباحثے کے بعد حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کی تجویز مان لی۔ آخر کار وہ قائل ہوگئے کہ یہ ایک ضروری امر ہے جو فوری توجہ کا طالب ہے۔ اس کے بعد جلد ہی قرآن کریم کی تدوین کا منصوبہ شروع ہو گیا42۔

خان صاحب کے نزدیک اس روایت کا سب سے قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جب ایک نئے کام میں، جو رسول اللہ ﷺ کی سنت میں موجود نہ تھا، حضرت ابوبکر کو ابتدا میں تردد ہوا تو ان کے جواب میں حضرت عمر نے صحابۂ کرام کو غلطی سے تحفظ فراہم کرنے والے کسی مخصوص زمانے کی تقدیس بیان نہیں کی۔ مثلاً انھوں نے یہ نہیں کہا کہ حضور ﷺ کی طرف سے کسی نئے کام (بدعت) کی ممانعت تھی، لیکن قرون اولیٰ کے صحابۂ کرام ان قدغنوں سے مستثنی ہیں۔ اس کے بجاے وہ جس بات کے قائل تھے، انھوں نے اس عمل کی ذاتی اچھائی کی بنیاد پر حضرت ابوبکر کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عمر نے اپنے استدلال میں کسی عمل کے ایک مخصوص زمانے میں موجودگی یا عدم موجودگی سے قطع نظر کرکے اس کی ذاتی خصوصیت پر بات کی۔ 

بالفاظِ دیگر، مولانا احمد رضا نے زور دے کر کہا، شریعت اور اس کی حدود کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تصور ایسے کسی مخصوص تحکمانہ زمان میں جکڑا ہوا نہیں تھا جو آنے والی تمام نسلوں کے دینی رجحانات پر حاوی رہے گا۔ اس کے برعکس وہ دیگر تمام صحابہ کرام کی طرح دین کو ایک مسلسل پھلنے پھولنے والے باغ کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے جو ایک ارتقا پذیر اخلاقی پروجیکٹ کے طور پر مضبوطی سے اپنی مقدس جڑوں میں پیوست ہے۔ خان صاحب نے زمنیت اور دین کے درمیان تعلق کی واضح تصویر کشی کے لیے باغ کی تشبیہ استعمال کی ہے۔

ان کے قیاس میں اسلام حضرت محمد ﷺ کا باغ ہے، ایک ایسا باغ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی شان وشوکت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس باغ کے اولین رکھوالوں نے ابتدا میں اس کے لیے  زمین تیار کی، جس نے شروع کے چند سالوں میں اس کی بقا کی صلاحیت کو یقینی بنایا۔ تاہم ان کے پاس وقت یا موقع نہ تھا کہ اس کو مزید بڑھاوا دے سکیں۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ باغ پھل پھول رہا تھا۔ حتی کہ یہ سرسبز وشاداب ہو گیا، اور اس میں رنگ برنگے پھول اور  پتے کھلنے اور چشمے ابلنے لگے، کیونکہ علما اور اولیا کی ہر نئی آنے والی نسل نے جس طرح اسے اپنے اسلاف سے وراثت میں حاصل کیا تھا، اس کی خوب صورتی میں مزید اضافہ کیا۔

اعلیٰ حضرت نے بتایا کہ دین ایک کھلتے ہوئے باغ کی طرح مختلف زمنیتوں (temporalities) اور متنوع مناہج فکر کی آماج گاہ ہے جسے اخلاقی خیر کا ایک مشترکہ بیانیہ جوڑے رکھتا ہے۔ مزید برآں جس طرح ایک باغ میں نئے پھولوں کی کئی انواع واقسام اپنے اصل پودوں سے کھلتی ہیں، اسی طرح نئے اعمال جو اپنی اصل میں خیر/نیک ہیں، وہ بھی رسول اللہ ﷺ کی سنت سے لازمی طور پر مربوط ہیں۔  جو کوئی کسی نیک عمل پر صرف اس لیے تنقید کرتا ہے کہ یہ اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں موجود نہیں تھا، اس احمق کی طرح ہے جو باغ میں کھلنے والے نئے پھولوں کی خوب صورتی سے انکار کرتا ہے۔ خان صاحب نے کہا: "نتیجتاً ایسا احمق باغ کے پھلوں اور پھولوں سے محروم رہے گا"43۔

خان صاحب کے نزدیک رسمی اعمال اپنی شکل وصورت کے اعتبار سے نئے ہیں، لیکن اپنے جوہر کے لحاظ سے باغ کے پھولوں کے مشابہ ہیں۔ ان کے جواز کو متنازعہ بنانا حماقت ہے۔ مزید برآں ان رسوم میں سب سے زیادہ مقدس وہ ہیں، جو حضور ﷺ کے مقام ومرتبے کو بڑھاتے ہیں جیسا کہ عید میلاد النبی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ کوئی ایسا نیا عمل جو حضور ﷺ کے مرتبے کو بڑھاتا ہے، وہ اصلاً مستحب اور اس وقت تک تنقید سے بالاتر ہے جب تک وہ خدائی حاکمیت (توحید) کے منافی نہ ہو۔ اپنے اس موقف کو استناد فراہم کرنے کے لیے خان صاحب نے سولھویں صدی کے شافعی عالم حافظ ابن حجر الہیتمی (م 1667) کا حوالہ دیا۔ وہ لکھتے ہیں: "نبی کریم ﷺ کی تعظیم کے وہ تمام ذرائع جن میں باری تعالیٰ کی الوہیت میں شرک کا خطرہ نہ ہو، ایک قابل تعریف امر ہے" (تعظيم النبي بجميع أنواع التعظيم التي ليس فيها مشاركة الله تعالى في الألوهية أمر مستحسن)44۔

خان صاحب نے واضح کیا ہے کہ حافظ ہیتمی نے جو شرط عائد کی ہے، اس سے مراد وہ افعال ہیں جو صراحتاً‌ اور قطعاً مشرکانہ ہیں، جیسے رسول اللہ ﷺ کو سجدہ کرنا، یا ذبیحہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے بجائے نبی ﷺ کا نام لینا وغیرہ۔ تاہم ان کے علاوہ تمام ایسے اعمال جن کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہے، جیسے ان کے احترام میں کھڑا ہونا، بلند مرتبت پاکیزہ اعمال ہیں۔ خان صاحب نے اپنے مخالفین کو للکارا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے کی جانے والی ان رسوم کو ناجائز ثابت کرنے کے لیے قرآن وسنت سے کوئی صریح دلیل پیش کریں۔ ایسی کسی دلیل کی عدم موجودگی میں اپنی اصل کے اعتبار سے کسی نیک عمل کو ناجائز قرار دینا، جو شریعت کی نظر میں جائز ہے، شریعت کی بالادستی کو چیلنج کرنا ہے۔ اس لیے وہ علما، بشمول ان کے دیوبندی مخالفین کے، جو عید میلاد النبی منانے کی مخالفت کرتے ہیں، شریعتِ الٰہی سے کھلواڑ کر رہے ہیں45۔ وہ ایسی رسموں کو ناجائز قرار دے رہے ہیں جنھیں خدا نے ناجائز نہیں قرار دیا۔ توحید کا تحفظ کرنے کے بجاے شریعت الہی میں یہ الٹ پھیر اسے مزید کمزور کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں یہ علما ایسی رسموں کو جو رسول اللہ ﷺ اور دیگر مقدس دینی شخصیات کی یاد کے لیے ہیں، بدعت کہنے سے ایک نئی شریعت ایجاد کر رہے ہیں جو ادب واحترام کے گزشتہ معیارات کی ضد میں ہے۔ خان صاحب کی نظر میں یہ بحث جتنی شریعت سے متعلق تھی، ادب واحترام کا موضوع بھی اس میں اس قدر اہم تھا۔

علماے دیوبند نے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے رائج رسموں کو جس جوش وجذبے سے ممنوع قرار دیا ہے، یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کا ادب واحترام نہیں کرتے۔ مولانا احمد رضا کہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ شاہ محمد اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیروکار عوام کو بتاتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو اسی انداز میں مخاطب کریں جس میں وہ ایک دوسرے کو مخاطب کرتے ہیں۔ آپ ﷺ کو اپنا بھائی پکارنے سے نہ ہچکچائیں۔ وہ ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں جو اپنے بچوں کا نام نبی بخش (نبی ﷺ کی طرف سے تحفہ) رکھتے ہیں۔

ان عجیب وغریب اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت کا احترام نہیں کرتے۔ وہ نبی ﷺ کو صرف ایک عام آدمی کی روپ میں پیش کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کے حوالے سے یہ رویہ سلف صالحین کے طرز عمل سے قطعاً مختلف ہے۔ صحابۂ کرام نے کبھی رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو نہیں گھٹایا۔ بلکہ اس کے برعکس انھوں نے اپنی پوری زندگی اس رنگ میں رنگ دی جس سے رسول اللہ ﷺ سے عشق ومحبت کا اظہار ہو۔

مولانا احمد رضا خان نے آٹھویں صدی عیسوی کے شہرۂ آفاق عالم اور فقہ مالکی کے بانی امام مالک بن انس (م 795) کی مثال کو بطور حوالہ پیش کیا۔ کہا جاتا ہے کہ جب امام مالک کے پاس طلبہ پڑھنے کی نیت سے آتے تو ان کی ایک باندی ان کا استقبال کرتی، اور ان سے پوچھتی: "شیخ پوچھتے ہیں آپ کیا پڑھنا چاہتے ہیں: فقہی مسائل یا حدیث؟ اگر وہ جواب میں 'فقہ' کہتے تو امام مالک فورًا باہر آجاتے اور درس شروع کرتے۔ تاہم اگر ان کا جواب 'حدیث' ہوتا تو امام مالک اس کی تیاری میں وقت لیتے۔ وہ وضو کرتے، نیا لباس زیب تن کرتے، خوش بو لگاتے، اور پگڑی پہنتے۔ پھر ان کے لیے ایک  مخصوص نشست لائی جاتی جس پر وہ رونق افروز ہوتے۔  تب درس کا آغاز ہوتا۔ اگر کوئی ان سے اس اہتمام کے بارے میں استفسار کرتا  تو وہ جواب میں فرماتے: "میں رسول اللہ ﷺ کے الفاظ کی تعظیم کو پسند کرتا ہوں۔ اس لیے میں یہ الفاظ اس وقت تک اپنی زبان پر نہیں لاتا جب تک میں مکمل طہارت اور جسمانی نشاط میں نہیں ہوتا"46۔

رسول اللہ ﷺ کی تعظیم میں سلف صالحین کی روش یہی تھی جو ان علما میں یکسر ناپید ہے جو عید میلاد النبی کو ناجائز کہتے ہیں، خان صاحب نے دعویٰ کیا۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خان صاحب کی نظر میں دیوبندیوں کی اصلاحی تحریک نہ صرف یہ کہ فقہی اعتبار سے غلط تھی، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ یہ ادب واحترام کے قدیم متوارث معیارات کے بھی خلاف تھی۔                       

(جاری)



حوالہ جات و حواشی

  1. مسلمانوں کی علمی فکر اور تاریخ میں جس طرح تکفیر کا تصور اور استعمال اور اس پر پائے جانے والے اختلافات کے لیے دیکھیے: کاملہ اڈنگ، حسن انصاری اور ماریبل فیرو (مدونین)، Accusations of Unbelief in Islam: A Diachronic Perspective on Takfir (لائیڈن: بریل، 2016)
  2. احمد رضا خان، حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین (لاہور: مکتبۂ نبویہ، 1975)، 11۔ 
  3. یہاں پر حرمین سے مراد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں، جو دین اسلام میں سب سے زیادہ مقدس شہر ہیں۔
  4. عبد السمیع، انوار ساطعہ در بیانِ مولود والفاتحہ، اعلیٰ حضرت نیٹ ورک، تاریخ اشاعت ندارد، رسائی بتاریخ 16 فروری، 2018،www.alahazratnetwork.org، خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعہ علی ظلام الانوار الساطعہ (کراچی: دارالاشاعت، 1987)۔
  5. مولانا کیرانوی اپنے مناظروں اور عیسائی مشنریوں کے خلاف چھ جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب إظهار الحق کے لیے مشہور ہیں۔ 1857 کے ہنگامے کے بعد علامہ کیرانوی مکہ مکرمہ چلے گئے، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کا نصف آخر گزار دیا۔ ان کی حیات، فکر اور سرگرمیوں کے حوالے سے مزید معلومات کے لیے دیکھیے: ارول پاول، Muslims and Missionaries in Pre-Mutiny India (ریکمونڈ، سرے: کرزن پریس، 1993)، اور سیما علوی،Muslim Cosmopoltanism in the Age of Empire (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2015)۔
  6. عبد السمیع، انوار ساطعہ در بیان مولد والفاتحہ میں محمد چریاکوٹی کا مضمون "صاحب انوارِ ساطعہ" (چریاکوٹی: ادارۂ فروغ اسلام، 2010)، 11 – 13۔
  7. اس کا مطلب یہ نہیں کہ مولوی سمیع ایک برے یا باغی طالب علم تھے، بلکہ دیوبندی آرا پر ان کی تنقید اس امر کا عکاس ہے کہ (i) جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے تمام نظریاتی اختلافات کے باوجود علمی سلسلوں میں توسع تھا، اور (ii) یہ کہ دیوبندی مکتبِ فکر کے اندر اندرونی اختلافات اور مزاج ومذاق کا تنوع موجود تھا (جس پر میں بارھویں باب میں تفصیل سے بحث کروں گا)۔ مولوی سمیع اپنے آپ کو مولانا گنگوہی اور مولانا سہارن پوری جیسے سخت گیر دیوبندی اکابر کی بنسبت مولانا قاسم نانوتوی اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے قریب سمجھتے تھے۔
  8. یہ وہی پریس تھا جس نے پھر 1905 میں مولانا اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور کو شائع کیا۔
  9. احمد رضا خان، الفتاوی الرضویۃ (گجرات: مرکز اہل سنت، 2006) جلد 15۔
  10. اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، تاریخ اشاعت ندارد) 4: 58-59۔
  11. ایضاً، 6: 83۔ آریہ سماج کے بانی دیانندا سرسوتی (م 1883) اور اکابرِ دیوبند کے درمیان مناقشوں کے لیے میرا مضمون دیکھیے: Polemic of Shahjahnpur: Religion, Miracles, History، اسلامک سٹڈیز 51، نمبر 1 (2012): 49 – 67۔ نیز دیکھیے: فواد نعیم، Interreligious Debates, Rational Theology and the ‘Ulama in Public Sphere: Muhammad Qasim Nanutvi and the Making of Modern Islam in South Asia (پی ایچ ڈی مقالہ، جارج ٹاون یونیورسٹی، 2015)۔ نوآبادیاتی ہندوستان میں آریا کے بین المسالک اور بین المذاہب مناظروں کے لیے ملاحظہ کیجیے: کینتھ جونز، Arya Dharm: Hindu Consiousness in 19th-Century Punjab (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1976)۔
  12. دیکھیے: نتانا ڈی لانگ باس، Wahhabi Islam: From Revival and Reform to Global Jihad (نیویارک: آکسفرڈ یونیورسٹی، 2004)؛ ڈیوڈ کامنز، The Wahhabi Mission and Saudi Arabia (لندن: آئی بی ٹورس، 2006)؛ اور سمیرا حاج، Reconfiguring Islamic Trdition: Reform, Rationality and Modernity (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 2009)۔
  13. اوشا سانیال، Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Riza Khan Barelwi and His Movement, 1870 – 1920 (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1996)، 49 – 68۔
  14. محمد مسعود احمد، حیاتِ مولانا احمد رضا خان بریلوی (سیالکوٹ: اسلامی کتب خانہ، 1981)، 83- 97۔
  15. ایضاً، 51۔
  16. اس مدرسے کا اصل نام مصباح التہذیب تھا۔
  17. محمد احمد، حیاتِ مولانا، 122۔
  18. دیکھیے: احمد زینی دحلان، الدرر السنية على الوهابية (استانبول: دار الشفقہ، تاریخ اشاعت)۔
  19. احمد رضا خان، الدولة المکية بالمادة الغیبية (لاہور: نذیر سنز، 2000)۔
  20. نسیم بستوی اور محمد صابر، اعلی حضرت بریلوی: حالاتِ مجدد (لاہور: مکتبۂ نبویہ، 1976)، 47 – 51۔
  21. ابراہیم موسیٰ، The Deoband Madrasa کا تعارف، مدون: ابراہیم موسی، خاص نمبر، مسلم ورلڈ جرنل 99، شمارہ نمبر 3 (جولائی 2009): 427۔
  22. مسلمانوں کی فکر اور سماجی تاریخ میں طبقاتی مسلکی تصورات کے ظہور وافزائش کے لیے دیکھیے: لوئس مارلو، Hierarchy and Egalitarianism in Islamic Thought (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2002)۔
  23. جنوبی ایشیا کے تناظر میں شریف (جمع شرفا) کی اصطلاح کا واضح اسلامی مفہوم 'سادات' ہے، یا اس کا سیدھا سادہ مطلب وہ قبائل ہیں، جو زمین دار اشرافیہ کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیا کرتے۔ استعماری اور مابعد استعماری دور کی سیاست میں ان کے کردار کے لیے دیکھیے: ڈیوڈ گلمارٹن، Empire and Islam: Punjab and the Making of Pakistan (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1988)۔
  24. احمد رضا خان، إراءة الادب في فاضل النسب، الفتاوی الرضویہ، 9 : 201 – 77۔
  25. ایضا، 206۔
  26. ایضا، 202۔
  27. ایضاً، 204۔
  28. ایضا، 255۔
  29. ایضاً، 253۔
  30. احمد رضا خان، إقامة القيامة على طاعن القيام لنبي تهامة ، الفتاوی الرضویۃ میں، جلد 26۔
  31. محمد القسطلانی، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية (بیروت: المکتب الاسلامی، 1991)، بحوالہ احمد رضا خان، اقامۃ القیامۃ۔
  32. ابو عیسی الترمذی، جامع الترمذي، جلد 1 (دلہی: امین، اشاعت ندارد)، 206۔
  33. احمد رضا خان، إقامة القيامة ، 525 – 31۔
  34. ایضا، 546 – 50۔
  35. ایضاً، 532۔
  36. ایضاً، 537۔
  37. سہارن پوری، البراہین القاطعہ، 39۔
  38. پاخانہ عام طور پربیت الخلا  کے لیے استعمال ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات بول وبراز پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔ بظاہر یہاں مولانا سہارن پوری اسے مؤخر الذکر معنی میں لے رہے ہیں۔ اس جملے کا ممکنہ طور پر دوسرا مطلب : 'جانوروں کا گوبر جسے بیت الخلا میں رکھا جاتا ہے' زیادہ قرینِ قیاس معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ یہاں پر مولانا سہارن پوری کو زیادہ دل چسپی اس میں موجود کھاد کے فائدے یا خیر میں ہے، نہ کہ اس کے ثانوی فوائد میں۔
  39. سہارن پوری، البراہین القاطعہ، 39۔
  40. ایضاً۔
  41. احمد رضا خان، إقامة القيامة ، 539 – 43۔
  42. ایضاً، 540 – 42۔
  43. ایضاً، 544 – 44۔
  44. ابن حجر الہیتمی، الجوهر المنظم مقدمة في أدب السفر (لاہور: المکتبۃ القادریۃ، فی الجامعۃ النظامیۃ)، 12، بحوالہ ایضا، 531۔
  45. احمد رضا خان، إقامة القيامة ، 504 – 34۔
  46. ایضاً، 547۔


جون ۲۰۲۳ء

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالاتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
محدثین اور فقہاء کا دائرہ کار اور منہج عملمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۵)ابو الاعلیٰ سید سبحانی
مسائل تحسین و تقبیح: معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ کے مواقفڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
طہٰ حسین: مغرب پرستی سے اسلام پسندی تکمولانا ابو الحسین آزاد
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۷)ڈاکٹر شیر علی ترین

قربانی کی عبادت : چند اہم سوالات

محمد عمار خان ناصر

اسلام میں جذبہ عبودیت کے اظہار کے لیے جو مخصوص طریقے اور مراسم مقرر کیے گئے ہیں، ان میں جانوروں کی قربانی بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس حوالے سے دور جدید میں پائے جانے والی ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ قربانی صدقہ اور انفاق کی ایک صورت ہے اور جانور قربان کرنے کے بجائے اگر اس رقم کو اہل احتیاج کی عمومی ضروریات پر صرف کیا جائے تو یہ رقم کا بہتر مصرف ہے۔

تاہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی، صدقہ وانفاق کی ذیلی صورت نہیں، بلکہ ایک مستقل اور بذات خود مطلوب رسم عبادت ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر بیٹے کو قربان کرنے کا فیصلہ کر کے جس جذبہ اطاعت کا اظہار کیا تھا، قربانی اسی کی یادگار اور اس جذبے کا ایک علامتی اظہار ہے۔ قربانی کے گوشت سے فقرا اور محتاجوں کی امداد، اس کا ایک ضمنی اور اضافی پہلو ہے، ورنہ پہلی شریعتوں میں قربانی کی ایک بڑی قسم ”سوختنی قربانی“ ہوتی تھی جس میں جانور کو ذبح کر کے گوشت کو جلا دیا جاتا تھا اور اسے کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ اس امت پر اللہ نے خاص عنایت کرتے ہوئے قربانی کا گوشت بھی کھانے کی اجازت دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ اس عمل میں اصل چیز جانور کو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے، جبکہ محتاجوں کی مدد اور اعانت ایک زائد پہلو ہے۔ اس وجہ سے ان مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ہی ذبح کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ یہ رقم بطور صدقہ فقرا پر صرف کرنے سے شریعت کا منشا پورا نہیں ہوگا۔

قربانی سے متعلق دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ شریعت میں عید الاضحی کے موقع پر قربانی ، فقہی طور پر کیا درجہ رکھتی ہے؟ کیا اس کا درجہ، وجوب کا ہے اور کیا یہ ہر اس شخص پر واجب ہے جو ایک مخصوص مالی نصاب کا مالک ہو؟ اس ضمن میں امت کے اہل علم کے مواقف مختلف ہیں۔ جمہور صحابہ وتابعین اور جمہور فقہائے امت کی رائے یہ ہے کہ قربانی ایک مسنون اور مستحب عمل ہے، یعنی واجب نہیں ہے۔ یہ قول صحابہ میں سے سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، عبد اللہ بن عباس، عبد اللہ بن عمر، عقبة بن عمرو، ابو مسعود انصاری، شعبی اور بلال رضی اللہ عنہم سے جبکہ تابعین میں سے علقمہ، عطا اور سعید بن المسیب وغیرہ سے منقول ہے (جصاص، احکام القرآن، ۳/۲۴۸۔ مصنف عبد الرزاق، ۸۱۳۴، تا ۸۱۵۶) اور ان میں سے ابو مسعود، عقبہ بن عمرو، اور علقمہ اس امر کی باقاعدہ تصریح کرتے ہیں کہ ان کے قربانی نہ کرنے کا باعث یہ ہے کہ لوگ کہیں اس کو واجب نہ سمجھ لیں۔

اس کے برعکس امام ابوحنیفہ اور ان کی اتباع میں جمہور فقہائے احناف نے استطاعت ہونے کی صورت میں ہر بالغ مسلمان مرد وعورت پر قربانی کو واجب قرار دیا ہے۔ امام قرطبی نے اس ضمن میں مجتہدین کے اختلاف کو یوں بیان کیا ہے کہ

إن الضحية ليست بواجبة ولكنها سنّة ومعروف. وقال عكرمة: كان ٱبن عباس يبعثني يوم الأضحى بدرهمين أشتري له لحماً، ويقول: من لقيتَ فقل هذه أضحية ٱبن عباس. قال أبو عمر: ومحمل هذا وما روي عن أبي بكر وعمر أنهما لا يضحيان عند أهل العلم؛ لئلا يعتقد في المواظبة عليها أنها واجبة فرض، وكانوا أئمة يقتدي بهم من بعدهم ممن ينظر في دينه إليهم؛ لأنهم الواسطة بين النبي صلى الله عليه وسلم وبين أمته، فساغ لهم من الاجتهاد في ذلك ما لا يسوغ اليوم لغيرهم. وقد حكى الطحاوي في مختصره: وقال أبو حنيفة: الأضحية واجبة على المقيمين الواجدين من أهل الأمصار، ولا تجب على المسافر. قال: ويجب على الرجل من الأضحية على ولده الصغير مثل الذي يجب عليه عن نفسه. وخالفه أبو يوسف ومحمد فقالا: ليست بواجبة ولكنها سنة غير مرخص لمن وجد السبيل إليها في تركها. قال: وبه نأخذ. قال أبو عمر: وهذا قول مالك؛ قال: لا ينبغي لأحد تركها مسافراً كان أو مقيماً، فإن تركها فبئس ما صنع إلا أن يكون له عذر إلا الحاج بمنىً. وقال الإمام الشافعي: هي سنة على جميع الناس وعلى الحاج بمنىً وليست بواجبة. (تفسیر القرطبی، تفسیر سورۃ الصافات، آیت ۱۰۴)

یعنی ایک قول یہ ہے کہ قربانی واجب نہیں، بلکہ سنت ہے۔ چنانچہ ابن عباس عید کے دن عکرمہ سے کہتے تھے کہ دو درہم کا گوشت خرید کر لاو اور جو لوگ ملیں، ان سے کہو کہ یہ ابن عباس کی قربانی ہے۔ اسی طرح ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما بھی قربانی نہیں کرتے تھے جس کا محمل اہل علم کے نزدیک یہی ہے کہ ان حضرات کے پابندی سے قربانی کرنے سے کہیں لوگ یہ نہ سمجھیں کہ یہ واجب ہے۔دوسرا قول امام ابوحنیفہ کا ہے جو اسے واجب کہتے ہیں، جبکہ امام ابو یوسف اور محمد کے نزدیک اس کا درجہ واجب سے کسی قدر کم یعنی سنت موکدہ ہے جسے ترک کرنا درست نہیں۔ یہی امام مالک کا قول ہے۔امام شافعی قربانی کو صرف سنت قرار دیتے ہیں، واجب نہیں سمجھتے۔

قربانی کے حوالے سے جمہور اہل علم اور احناف کے مابین اختلاف کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آیا قربانی ہر شخص پر انفرادی طور پر واجب ہے یا ایک گھرانے میں ایک قربانی کا اہتمام بھی اس مقصد سے کافی ہے؟ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھرانے کی طرف سے ایک جانور کی قربانی کو کافی قرار دیا۔ چنانچہ مخنف بن سلیم روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر اپنے خطبہ عرفہ میں فرمایا:

علی کل اھل بیت فی کل عام اضحیة وعتیرة (ترمذی، ۱۴۳۸)

”ہر گھر کے رہنے والوں پر ہر سال ایک جانور کی قربانی اور ایک عتیرہ لازم ہے۔“

صحابہ اور تابعین کے ہاں بھی اسی تصور کے شواہد ملتے ہیں۔ حذیفہ بن اسید فرماتے ہیں کہ میں تو سنت کو جانتا ہوں، لیکن میرے گھر والوں نے مجھے مشقت میں ڈال دیا ہے۔ پہلے ہر گھر والے مجموعی طور پر ایک یا دو بکریوں کی قربانی کو کافی سمجھا کرتے تھے، لیکن اب (اگر ہم ہر فردکی طرف سے الگ قربانی نہ کریں تو) ہمارے پڑوسی ہمیں کنجوس ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ (ابن ماجہ، ۳۱۳۹) سعید بن المسیب فرماتے ہیں کہ ہمارے علم میں قربانی کا تصور یہی تھا کہ ایک گھر کی طرف سے ایک قربانی کافی ہوتی ہے، یہاں تک کہ اہل عراق نے ہر شخص کی طرف سے علیحدہ قربانی کو ضروری قرار دیا۔ (مصنف عبد الرزاق، ۸۱۵۴)

اس حوالے سے تیسرا اہم فقہی اختلاف یہ ہے کہ آیا قربانی کے جانور کو ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کرنا بہتر ہے یا اس رقم کو فقرا اور ضرورت مندوں پر صدقہ کر دینا۔ امام قرطبی نے اس ضمن میں فقہاء کے اختلاف کو یوں واضح کیا ہے۔

واختلفوا أيهما أفضل: الأضحية أو الصدقة بثمنها. فقال مالك وأصحابه: الضحية أفضل إلا بمنىً؛ لأنه ليس موضع الأضحية؛ حكاه أبو عمر. وقال ابن المنذر: روينا عن بلال أنه قال: ما أبالي ألا أضحي إلا بديك ولأن أضعه في يتيم قد تَرِب فيه ـ هكذا قال المحدث ـ أحب إليّ من أن أضحي به. وهذا قول الشعبي إن الصدقة أفضل. وبه قال مالك وأبو ثور. وفيه قول ثانٍ: إن الضحية أفضل؛ هذا قول ربيعة وأبي الزناد. وبه قال أصحاب الرأي. زاد أبو عمر وأحمد بن حنبل قالوا: الضحية أفضل من الصدقة؛ لأن الضحية سنة مؤكدة كصلاة العيد. ومعلوم أن صلاة العيد أفضل من سائر النوافل. وكذلك صلوات السنن أفضل من التطوّع كله. (تفسیر القرطبی، تفسیر سورۃ الصافات، آیت ۱۰۴)

یعنی قربانی کرنے یا قیمت کا صدقہ کرنے کی افضلیت کے متعلق امام مالک، امام ابوحنیفہ اور امام احمد کا موقف یہ ہے کہ قربانی کرنا رقم کا صدقہ کرنے سے افضل ہے، کیونکہ قربانی کرنا عید کی نماز طرح سنت موکدہ ہے جبکہ صدقہ کرنا نفل عبادت ہے، اور معلوم ہے کہ عید کی نماز، باقی نوافل کے مقابلے میں افضل ہے۔

یہ قول سیدنا بلال، امام شعبی، امام مالک اور امام ابو ثور سے بھی منقول ہے کہ انھوں نے صدقہ کرنے کو افضل قرار دیا۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے کہا کہ

ما ابالی لو ضحیت بدیک ولان اتصدق بثمنھا علی یتیم او مغبر احب الی من ان اضحی بھا (مصنف عبد الرزاق، ۸۱۵۶)

”مجھے کوئی پروا نہیں اگر میں ایک مرغ کی ہی قربانی کروں۔ قربانی کے جانور کی قیمت کو کسی یتیم یا پراگندہ حال مسکین پر صدقہ کرنا مجھے قربانی کرنے سے زیادہ پسند ہے۔“

قربانی سے متعلق فقہی اختلاف کا ایک اور اہم پہلو فقہ حنفی کے دائرے میں ہے۔ حنفی فقہاء نے عموماً‌ قربانی کے وجوب کا موقف اختیار کیا ہے اور اس کا مدار نصاب زکوٰۃ کو قرار دیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس قربانی کے دنوں میں زکوٰۃ کے نصاب کے بقدر رقم یا سونا چاندی وغیرہ موجود ہو، اس پر قربانی واجب ہے۔ نصاب زکوٰۃ میں حنفی اہل فتویٰ عموماً‌ چاندی کی قیمت کا اعتبار کرتے ہیں جس کی رو سے بہت معمولی رقم کا مالک ہونے پر بھی آدمی پر قربانی واجب ہو جاتی ہے۔ یہ پیچیدگی اہل افتاء کے مابین کافی عرصے سے زیربحث ہے اور ۲۹ جولائی ۲۰۲۰ء کو دار العلوم کے دار الإفتاء کی طرف سے جاری کیے گئے ایک فتوے میں اس کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ

’’اگر کوئی تنگدست شخص چاندی کے نصاب کے بقدر کرنسی یا مال تجارت کا مالک ہونے کے باوجود قربانی کی وسعت نہ رکھتا ہو اور اس کے اثاثوں کی مالیت نصاب ذہب کو بھی نہ پہنچتی ہو اور قربانی کا جانور خریدنے یا بڑے جانور میں حصہ لینے کی صورت میں اسے ناقابل برداشت حرج پیش آنے کا شدید اندیشہ ہو اور وہ اس بنا پر قربانی نہ کرے تو امید ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ معذور سمجھا جائے گا۔“

اس فتوے کی رو سے قربانی کے وجوب کے لیے چاندی کے بجائے سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جا سکتا ہے اور مالی وسعت نہ رکھنے والے اگر تنگ دستی کی وجہ سے قربانی نہ کرنا چاہیں تو وہ اس میں معذور شمار ہوں گے۔ ہماری رائے میں اس رائے پر بھی مزید غور کی ضرورت ہے اور قربانی کو نصاب زکوٰۃ سے متعلق کرنے کے بجائے احادیث کے متبادر مفہوم کی روشنی میں قربانی کے ایام میں مالی گنجائش اور وسعت سے متعلق قرار دینا چاہیے۔

اہل علم کے مذکورہ اقوال اور آرا کے پس منظر میں شرعی وفقہی دلائل کو مجموعی طور پر پیش نظر رکھتے ہوئے حسب ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔

  1. ذی الحجہ کے مخصوص دنوں میں تقرب الٰہی کے لیے جانور ذبح کرنا ایک شرعی شعار کا درجہ رکھتا ہے۔ اسلام کی ایک بڑی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہونے کی حیثیت سے قربانی کے عمل کو اجتماعی طور پر زندہ رکھنا ضروری ہے اور ہر شہر اور علاقے میں لوگوں کو قربانی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
  2. اس عبادت کو انفرادی حیثیت میں صاحب استطاعت لوگوں پر واجب قرار دینے کے بجائے اسے واجب علی الکفایہ کہنا زیادہ درست ہوگا اور اگر ہر علاقے میں صاحب استطاعت گھرانے اس کا اہتمام کریں جس سے بطور ایک شعار کے قربانی کو زندہ رکھنے کا مقصد پورا ہو جائے تو شریعت کی منشا یقیناً‌ پوری ہو جائے گی۔
  3. قربانی کا تعلق کسی مخصوص مالی نصاب سے نہیں ہے کہ جس کے پاس بھی خاص مقدار میں سونا یا چاندی پڑا ہو، اس کو قربانی دینی چاہیے۔ اس کا تعلق استطاعت سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قربانی کے دنوں میں اگر کسی کے پاس معمول کی ضروریات سے زائد اتنی رقم موجود ہو کہ وہ قربانی کا جانور خرید سکے تو اس کو قربانی کرنی چاہیے۔
  4. قربانی اور عمومی صدقہ وخیرات دونوں نیک اور مطلوب اعمال ہیں، اس لیے معاشرے کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آدمی یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ ان دنوں میں قربانی کی رسم کی ادائیگی کو ترجیح دے یا صدقہ وخیرات کرنے کو۔ اگر اپنی مالی حیثیت کے لحاظ سے آدمی دونوں کا تحمل کر سکتا ہو تو یہ بہت بہتر ہے، لیکن اگر ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ماحول کی ضروریات کے لحاظ سے جانور قربان کرنے یا اتنی رقم ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(409) وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ

سورۃ الحجر کی درج ذیل آیتوں میں زَیَّنَّاہَا اور حَفِظْنَاہَا دونوں ہی میں مفعول بہ   ضمیر ’ھا‘ کی صورت میں ہے۔ نحوی لحاظ سے اس ضمیر کا مرجع السماء بھی ہوسکتا ہے اور بروجاً بھی۔ اول الذکر صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ آسمان کو مزین کیا اور آسمان کو شیطانوں سے محفوظ کیا، جب کہ ثانی الذکر صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ برجوں کو مزین اور شیطانوں سے محفوظ کیا۔ سورۃ الصافات میں صراحت کردی گئی ہے کہ مزین و محفوظ آسمان کو کیا ہے:

إِنَّا زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِزِینَۃٍ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ مَارِدٍ۔ (الصافات:6-7)

سورۃ الملک میں بھی کہا گیا ہے:

 وَلَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیحَ وَجَعَلْنَاہَا رُجُومًا لِلشَّیَاطِینِ۔ (الملک: 5)

غرض ان دونوں مقامات سے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ درج ذیل آیتوں میں آسمان کے مزین و محفوظ ہونے کی بات کہی گئی ہے نہ کہ بروج کے۔ اس لیے  ضمیر ’ھا‘ کا مرجع السماء کو مان کر ترجمہ کرنا چاہیے۔ بعض لوگوں نے اس حوالے سے غلطی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:

وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَاءِ بُرُوجًا وَزَیَّنَّاہَا لِلنَّاظِرِینَ۔ وَحَفِظْنَاہَا مِنْ کُلِّ شَیْطَانٍ رَجِیمٍ۔ (الحجر: 16-17)

”اور ہم ہی نے آسمان میں برج بنائے اور دیکھنے والوں کے لیے اُس کو سجا دیا۔ اور ہر شیطان راندہئ درگاہ سے اُسے محفوظ کر دیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہ ترجمہ درست ہے، جب کہ درج ذیل دونوں ترجموں میں مذکورہ غلطی پائی جاتی ہے۔

”یہ ہماری کار فرمائی ہے کہ آسمان میں ہم نے بہت سے مضبوط قلعے بنائے، اُن کو دیکھنے والوں کے لیے مزین کیا۔اور ہر شیطان مردود سے ان کو محفوظ کر دیا“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے آسمان میں برج بنائے اور انہیں دیکھنے والوں کے لیے ستاروں سے آراستہ کردیا۔ اور ہر شیطان رجیم سے محفوظ بنادیا“۔ (ذیشان جوادی)

درج ذیل انگریزی ترجمے دیکھیں۔ اس حوالے سے پہلے ترجمہ میں یہ غلطی موجود ہے جب کہ دوسرا صحیح ہے۔

It is We Who have set out the zodiacal signs in the heavens, and made them fair-seeming to (all) beholders;  And (moreover) We have guarded them from every cursed devil. (Yusuf Ali)
And verily in the heaven we have set mansions of the stars, and We have beautified it for beholders. And We have guarded it from every outcast devil. (Pickthall)

(410)  وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی

درج ذیل آیتوں میں من روحی میں من تبعیض کا نہیں بیان کا ہے۔ نفخ کا معنی ہی پھونکنا ہوتا ہے۔ من روحی یا  من روحنا یا من روحہ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز اللہ نے پھونکی ہے وہ اللہ کی روح ہے۔ روح میں سے پھونکنا یا روح میں سے کچھ پھونکنا مراد نہیں ہے بلکہ روح پھونکنا مراد ہے۔

(۱)  فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ۔ (الحجر: 29)

”تو جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو جب میں اس کو مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک لوں تو تم اس کے لیے سجدے میں گرپڑنا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا“۔ (سید مودودی)

آخری دونوں ترجموں میں مذکورہ خامی پائی جاتی ہے۔

(۲) وَالَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہَا مِنْ رُوحِنَا۔ (الانبیاء: 91)

”اور اس خاتون (کا ذکر کیجئے) جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی (خاص) روح پھونک دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اس (پاک دامن بی بی) پر بھی اپنا فضل کیا جس نے اپنے اندیشہ کی جگہوں کی حفاظت کی۔ تو ہم نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی ہم نے اُس کے اندر اپنی روح سے پھونکا“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمے میں مذکورہ خامی پائی جاتی ہے۔

(۳) وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہِ مِنْ رُوحِنَا۔ (التحریم: 12)

”اور عمران کی بیٹی مریمؑ کی مثال دیتا ہے جس نے اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی تھی، پھر ہم نے اس کے اندر اپنی طرف سے روح پھونک دی“۔ (سید مودودی)

”اور (دوسری) عمران کی بیٹی مریمؑ کی جنہوں نے اپنی شرم گاہ کو محفوظ رکھا تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی“۔ (فتح محمد جالندھری)

اپنی طرف سے روح پھونکنے کے بجائے اپنی روح پھونکنا عبارت کے مطابق ترجمہ ہے۔

(۴)  ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِیہِ مِنْ رُوحِہِ۔ (السجدۃ: 9)

”پھر اس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی“۔ (سید مودودی)

”پھر اسے ٹھیک کیا اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکی“۔ (احمد رضا خان)

یہاں بھی اپنی طرف سے روح پھونکنے کے بجائے اپنی روح پھونکنا عبارت کے مطابق ترجمہ ہے۔

(۵) فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی۔ (ص: 72)

”تو جب میں اس کو درست کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک لوں“۔ (امین احسن اصلاحی، درست کردوں اور روح پھونک دوں درست عبارت ہے۔)

”پھر جب میں اسے ٹھیک بنالوں اور اس میں اپنی طرف کی روح پھونکوں“۔ (احمد رضا خان)

”پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں“۔ (سید مودودی)

یہاں بھی اپنی طرف سے روح پھونکنے کے بجائے اپنی روح پھونکنا عبارت کے مطابق ترجمہ ہے۔

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ اگر کسی مترجم نے ایک جگہ تبعیض والا ترجمہ کیا تو اسی نے دوسری جگہ بیانیہ والا ترجمہ کیا۔

(411)  أَبَی أَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ

درج ذیل آیتوں میں دو بار مع الساجدین آیا ہے۔ اس سے مراد سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونا اور ان میں شامل ہونا ہے۔ سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینا اس سے مختلف مفہوم رکھتا ہے اور وہ یہاں مراد نہیں ہے۔ شامل ہونے میں سجدہ کرنے والا بن جانا مراد ہوتا ہے جب کہ ساتھ دینے میں یہ مراد ہونا ضروری نہیں ہوتا ہے۔

فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّہُمْ أَجْمَعُونَ۔ إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَی أَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ۔ قَالَ یَاإِبْلِیسُ مَا لَکَ أَلَّا تَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ۔ (الحجر:30-32)

”تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے، سوا ابلیس کے، اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔ فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں سے الگ رہا؟“۔ (احمد رضا خان)

”چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کر لیا۔ مگر ابلیس کے۔ کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شمولیت کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔ (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو فرشتے تو سب کے سب سجدے میں گر پڑے۔ مگر شیطان کہ اس نے سجدہ کرنے والوں کے ساتھ ہونے سے انکار کر دیا۔ (خدا نے فرمایا) کہ ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا۔ سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ رب نے پوچھا:”اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمے میں مذکورہ بالا کم زوری پائی جاتی ہے۔

(412)  من المنظرین

قرآن مجید میں شیطان کے واقعے میں جب اس کے مہلت مانگنے پر اللہ تعالی نے اسے مہلت دی، تو اس کے لیے إِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ کی تعبیر آئی ہے۔ عربی کے عام اسلوب کے لحاظ سے تو اس کا ترجمہ ہوگا: ”تو ان لوگوں میں سے ہے جنھیں مہلت دی گئی“۔ لیکن اس ترجمے سے یہ بات نکلتی ہے کہ اور بھی لوگوں کو مہلت دی گئی۔ قرآن میں اس کا ذکر کہیں نہیں ہے کہ کسی اورکو قیامت تک کے لیے مہلت دی گئی ہے۔ البتہ عربی کے ایک خاص اسلوب کا لحاظ کیا جائے تو اس کا ترجمہ ہوگا: ”تجھے مہلت دی گئی“، قرآن مجید میں اس اسلوب کی بہت مثالیں ہیں۔

درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ بتاتا ہے کہ مختلف مترجمین نے کبھی اس اسلوب کا لحاظ کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے۔

(۱) قَالَ إِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ۔ (الاعراف: 15)

”فرمایا: تو مہلت دے دیا گیا“۔ (امین احسن اصلاحی، اردو محاورے کے لحاظ سے درست جملہ ہوگا: ”تجھے مہلت دی گئی“)

”فرمایا تجھے مہلت ہے“۔ (احمد رضا خان)

”ارشاد ہوا کہ تو مہلت والوں میں سے ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”فرمایا: اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت دی گئی ہے“۔ (محمد حسین نجفی)

آخری دونوں ترجموں میں مذکورہ بالا کم زوری موجود ہے۔

(۲) قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ۔ إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ۔ (الحجر:37-38)

”فرمایا: اچھا، تجھے مہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے“۔ (سید مودودی)

”فرمایا کہ تجھے مہلت دی جاتی ہے۔ وقت مقرر (یعنی قیامت) کے دن تک“۔ (فتح محمد جالندھری)

”فرمایا تو ان میں سے ہے جن کو اس معلوم وقت کے دن تک مہلت ہے“۔ (احمد رضا خان)

”فرمایا کہ اچھا تو ان میں سے ہے جنہیں مہلت ملی ہے، روز مقرر کے وقت تک کی“۔ (محمد جوناگڑھی، وقت مقرر کے روز کی جگہ غلطی سے روز مقرر کے وقت ہوگیا ہے۔ آگے سورہ ص کی اسی طرح کی آیت کا درست ترجمہ کیا ہے۔)

”فرمایا: اچھا! روز معین تک مہلت پانے والوں میں سے تو بھی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری تینوں ترجموں میں مذکورہ کم زوری موجود ہے۔

(۳) قَالَ فَإِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِینَ۔ إِلَی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ۔  (ص:80-81)

”ارشاد ہوا: تجھ کو مہلت دی گئی! وقت معین تک کے لیے“۔  (امین احسن اصلاحی)

”فرمایا، اچھا، تجھے اُس روز تک کی مہلت ہے، جس کا وقت مجھے معلوم ہے“۔ (سید مودودی)

”فرمایا کہ تجھ کو مہلت دی جاتی ہے، اس روز تک جس کا وقت مقرر ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”فرمایا تو تُو مہلت والوں میں ہے، اس جانے ہوئے وقت کے دن تک“۔ (احمد رضا خان)

”(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا تو مہلت والوں میں سے ہے، متعین وقت کے دن تک“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری دونوں ترجموں میں وہ کم زوری موجود ہے۔

(413)  مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ

درج ذیل آیت میں اگر مِنَ الْغَاوِینَ کے من کو تبعیض کے لیے مانیں گے تو اس کا ترجمہ ہوگا ”بدراہوں میں سے جس نے تیری پیروی کی“ اور اس سے مفہوم یہ نکلے گا کہ بدراہوں میں سے کچھ شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں اور کچھ بدراہ ایسے بھی ہیں جنھوں نے شیطان کی پیروی نہیں کی۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بدراہ ہوتا ہی وہی ہے جو شیطان کی پیروی کرے، اور شیطان کا زور سارے ہی بدراہوں پر چلتا ہے۔ اگر من کو بیانیہ مانیں تو ترجمہ ہوگا: ”تیری پیروی کرنے والے بدراہ“ یعنی جو بد راہ ہیں وہی شیطان کی پیروی کرنے والے ہیں۔ اس مفہوم پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا ہے۔ اس کی روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ۔ (الحجر: 42)

”بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا، تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں“۔ (سید مودودی)

”جو میرے (مخلص) بندے ہیں ان پر تجھے کچھ قدرت نہیں (کہ ان کو گناہ میں ڈال سکے) ہاں بد راہوں میں سے جو تیرے پیچھے چل پڑے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میرے بندوں پر تیرا کوئی اختیار نہیں ہے علاوہ ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کرنے لگیں“۔ (ذیشان جوادی)

”میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا، بجز ان کے جو گمراہوں میں سے تیرے پیرو بن جائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری تینوں ترجموں میں وہ کم زوری موجود ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہاں سلطان کے معنی ’بس‘، ’قدرت‘ یا ’اختیار‘ کے نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ شیطان کو کسی پر اختیار اور قدرت نہیں دی گئی ہے۔ البتہ جیسا کہ آخری ترجمے میں ہے، یہاں سلطان کے لیے ’زور‘ مناسب تعبیر ہے۔

ایک اور بات کی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ غاوی کا ترجمہ گم راہ کے بجائے بد راہ زیادہ صحیح ہے۔ ضلال اور غوایة میں یہ فرق ہے کہ ضلال راستہ گم ہوجانے کے لیے آتا ہے اور غوایة بے راہ روی یا بد راہی کے لیے آتا ہے۔ زمخشری کے مطابق: الضلال: نقیض الہدی، والغی نقیض الرشد۔ (تفسیر کشاف)

(414) قَدَّرْنَا إِنَّہَا لَمِنَ الْغَابِرِینَ

درج ذیل آیت میں قَدَّرْنَا کا ترجمہ عام طور سے مقدر کرنا، مقرر کرنا، طے کرنا اور فیصلہ کرنا کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں قَدَّرَ اندازہ کرنے کے معروف معنی میں ہے۔ قالوا کے بعد آخر تک پورا مقولہ فرشتوں کا ہے، جس میں قَدَّرْنَا والا جملہ بھی شامل ہے۔ 

قَالُوا إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَی قَوْمٍ مُجْرِمِینَ۔ إِلَّا آلَ لُوطٍ إِنَّا لَمُنَجُّوہُمْ أَجْمَعِینَ۔ إِلَّا امْرَأَتَہُ قَدَّرْنَا إِنَّہَا لَمِنَ الْغَابِرِینَ۔ (الحجر: 58 - 61)

”وہ بولے، ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ صرف لوطؑ کے گھر والے مستثنیٰ ہیں، ان سب کو ہم بچا لیں گے۔ سوائے اُس کی بیوی کے جس کے لیے (اللہ فرماتا ہے کہ) ہم نے مقدر کر دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی“۔ (سید مودودی)

”مگر اس کی عورت ہم ٹھہراچکے ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)

”البتہ ان کی عورت (کہ) اس کے لیے ہم نے ٹھہرا دیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”سوائے اس (لوط) کی بیوی کے کہ ہم نے اسے رکنے اور باقی رہ جانے والوں میں مقرر کر دیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بجز اس کی بیوی کے۔ اس کو ہم نے تاک رکھا ہے۔ وہ بے شک پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوگی“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی توجیہ کے مطابق ترجمہ ہوگا:

”سوائے اُس کی بیوی کے جس کے بارے میں ہمارا اندازہ ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی۔“

(415)  لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِینَ

توسّم کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز پر غور و فکر کرکے اسے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرنا۔ درج ذیل آیت میں متوسّمین کی تشریح کرتے ہوئے زمخشری لکھتے ہیں:

 لِلْمُتَوَسِّمِین:َ للمتفرّسین المتأملین۔ وحقیقة المتوسمین النظّار المتثبّتون فی نظرہم حتی یعرفوا حقیقة سمة الشیء۔ (الکشاف)

درج ذیل آیت میں عام طور سے متوسّمین کا درست ترجمہ نہیں کیا گیا:

إِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِینَ۔ (الحجر: 75)

”بے شک اس سرگزشت میں بصیرت حاصل کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بلاشبہ بصیرت والوں کے لیے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بیشک اس میں نشانیاں ہیں فراست والوں کے لیے“۔ (احمد رضا خان)

”بیشک اس (قصے) میں اہل فراست کے لیے نشانی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

متوسّم کا مطلب بصیرت والا یا فراست والا نہیں ہے۔ توسّم کے اندر غور و فکر کرکے حقیقت جاننے کی کوشش کرنے کا مفہوم ہوتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”بے شک غور سے نظر ڈالنے والوں کے لیے اس میں نشانیاں ہیں“۔

(جاری)

محدثین اور فقہاء کا دائرہ کار اور منہج عمل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اسے اپنی امت کے ساتھ اجتماعی طور پر الوداعی ملاقات قرار دیتے ہوئے مختلف خطبات میں بہت سی ہدایات دی تھیں اور ان ارشادات و ہدایات کے بارے میں یہ تلقین فرمائی تھی کہ:

فلیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعٰی لہ من سامع۔

’’جو موجود ہیں، وہ ان باتوں کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں۔ بسا اوقات جس کو بات پہنچائی جائے، وہ سننے اور پہنچانے والے سے زیادہ اس بات کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

اس حفاظت کرنے میں یاد رکھنا، سمجھنا، اسے اہتمام کے ساتھ آگے پہنچانا اور صحیح طور پر استعمال میں لانا بھی شامل ہے۔ چنانچہ جب تابعین کرامؒ کے دور میں حدیث و سنت کی حفاظت و روایت اور تفقہ و استنباط کا ایک وسیع سلسلہ سامنے آیا تو حضرت محمد بن سیرینؒ اس کا مشاہدہ و تجربہ کرتے ہوئے بے ساختہ پکار اٹھے: ”صدق محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا، وہ آج ایک زندہ سچائی کی صورت میں سب کے سامنے جلوہ گر ہے۔

حدیث و سنت کی روایت اور حفاظت و ترویج کا محاذ محدثینِ کرام نے سنبھالا اور درایت و تفقہ کا پرچم فقہائے عظام نے بلند کر دیا، جبکہ ان دونوں کی جڑیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ان علمی کاوشوں میں پیوست تھیں جن کی نمائندگی کرنے والوں میں حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عثمان، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت ابو ہریرہ، حضرت انس بن مالک، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص، حضرت ام المومنین عائشہ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نمایاں ہیں۔

محدثین اور فقہاء کی یہ محنت و کاوش آگے بڑھی تو دائرۂ کار الگ الگ ہونے کی وجہ سے ذوق اور تفہیم و اظہار کا امتیاز بھی واضح ہونے لگا، اور رفتہ رفتہ یہ دونوں گروہ مستقل طبقوں کی صورت میں نمایاں ہوتے گئے۔ انسانی ذہن و فہم اور استعداد و صلاحیت کا دائرہ اور سطح کبھی ایک نہیں رہے۔ اسی تنوع و اختلاف کے باعث آرا و افکار کا فرق و امتیاز ہمیشہ سے انسانی سوسائٹی میں قائم ہے جو قیامت تک موجود رہے گا۔ اور اگر یہ اپنی حدود میں رہے تو یہی انسانی سوسائٹی کا حسن و امتیاز ہے جو اسے باقی تمام مخلوقات سے ممتاز کرتا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں ارتفاقات یعنی انسانی سوسائٹی کی معاشرتی بنیادوں اور تقاضوں پر بحث کرتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ معاشرت اور تمدن کی بنیادی ضروریات پر تو تمام اقوام متفق ہیں، مگر ان کا اظہار ہر طبقہ اپنے اپنے انداز میں کرتا ہے۔ شاہ صاحب کا ارشاد ہے:

والناس بعدھا فی تمھید قواعد الآداب مختلفون فالطبیب یمھدھا علی استحسانات الطب والمنجم علی خواص النجوم والالھی علی الاحسان کما تجد فی کتبھم مفصلا۔

’’اصولوں پر اتفاق کے بعد لوگ آداب و ضوابط کی تشکیل و تعبیر میں مختلف ہو جاتے ہیں۔ طبیب انہیں طب کی اصطلاحات اور فوائد کی زبان میں بیان کرے گا، نجومی انہی باتوں کا ستاروں کے خواص کے پس منظر میں ذکر کرتا ہے، جبکہ صوفی نے اس کی وضاحت سلوک و احسان کے اسلوب میں کرنا ہوتی ہے، جیسا کہ تمھیں ان کی کتابوں میں اس کی تفصیل ملے گی۔’’

محدثین کرام روایت کی نمائندگی فرماتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ ان کے ہاں ترجیح کی بنیاد روایت کے اصول اور تقاضے ہوں گے، جبکہ فقہاء کرام درایت و استنباط کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں تو وہ تفقہ و استنباط کی ضروریات کو ترجیح دیں گے۔ اس لیے یہاں یہ فرق صرف ذوق و اسلوب کا نہیں رہتا بلکہ اپنے اپنے کام کی ضروریات بھی اس کا حصہ بن جاتی ہیں، اور یہی بات امت میں محدثین کرام اور فقہاء عظام کے دو مستقل طبقات کے ظہور و ارتقا کا باعث بنی ہے۔

قرونِ اولیٰ میں بہت سے محدثینِ کرام نے حدیث و سنت کی روایت، جمع، حفاظت، رواۃ کی نقد و جرح اور سند و متن کی درجہ بندی کے شعبہ میں خدمات سرانجام دیں، جن میں سے صحاح ستہ کے مصنّفین اور امام مالک و احمد رحمہم اللہ تعالیٰ نمایاں ہو کر سامنے آئے اور تمام محدثین کے سرخیل قرار پائے۔ بالخصوص امام بخاریؒ کو سب محدثین کے سردار کے لقب سے نوازا گیا۔ اسی طرح بیسیوں فقہاء کرام نے اپنے اپنے استنباطات و استدلالات کو جمع کیا، اصول و قواعد وضع کیے، ان کے مطابق مسائل و احکام کا استنباط کیا، اور اپنے اپنے علمی حلقے قائم کیے۔ جن میں سے ائمہ اربعہ نے فقہاء کرام کی سیادت و قیادت کا اعزاز حاصل کیا اور امام اعظم ابوحنیفہؒ کی امامتِ عظمیٰ کی فوقیت کو سب نے تسلیم کیا۔

اہلِ سنت کے چاروں ائمہ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل، بلکہ حضرت امام داؤد ظاہری رحمہم اللہ تعالیٰ کی فقہ و درایت سے بھی امت مسلمہ نے ہر دور میں استفادہ کیا ہے، ان کے مقلدین و متبعین لاکھوں کی تعداد میں ہمیشہ موجود رہے ہیں اور آج بھی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ مگر ان میں سب سے زیادہ امتیاز فقہ حنفی کو حاصل ہوا جس کا اعتراف و احترام اہلِ علم و فضل نے ہمیشہ کیا ہے۔ ہمارے خیال میں اس امتیاز و تفوق کے اسباب یہ ہیں:

فقہ حنفی کے انہی امتیازات و خصوصیات کی وجہ سے بجا طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ عالمِ اسلام میں عدالتی اور انتظامی طور پر شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کے جو امکانات دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں، ان میں فقہ حنفی ہی نفاذِ اسلام اور تنفیذِ شریعت کی علمی قیادت کی پوزیشن میں ہے۔ اس لیے یہ بات پہلے سے زیادہ ضروری ہو گئی ہے کہ فقہ حنفی کو ماضی کے معاملات و تجربات کے ساتھ ساتھ مستقبل کے امکانات و ضروریات کے حوالے سے بھی تحقیق و مطالعہ کا موضوع بنایا جائے، اور انسانی سوسائٹی کی ضروریات و مشکلات کے دائرہ میں فقہ حنفی کی افادیت و اہمیت کو علمی اسلوب اور فقہی انداز میں واضح کیا جائے۔

فقہ حنفی کو اس امتیاز و تفوق کے پس منظر میں فطری طور پر کچھ الزامات و اعتراضات کا بھی ہر دور میں سامنا رہا ہے جن میں بعض کا تعلق دائرۂ کار اور ذوق و اسلوب کے فرق و تنوع سے ہے، بعض اعتراضات نے غلط فہمی کے باعث جنم لیا ہے، کچھ الزامات معاصرت کی پیداوار ہیں، اور ان میں ایسے اعتراضات بھی موجود ہیں جو ”حسدًا من عند انفسھم من بعد ما تبین لھم الحق‘‘ کا مصداق قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان الزامات و اعتراضات کا دفاع مختلف ادوار میں اہلِ علم نے کیا ہے اور صرف احناف نے نہیں، بلکہ منصف مزاج غیر حنفی علماء و افاضل اس دفاع میں پیش پیش رہے ہیں جو یقیناً امامِ اعظمؒ کے خلوص و دیانت اور علم و فضل کی ’’خدائی تائید‘‘ ہے۔ فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۵)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی خدمات کا ایک بڑا دائرہ اسلامی فکر ہے اور دوسرا بڑا دائرہ اسلامی معاشیات ہے۔ اسلامی معاشیات پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی متعدد کتابیں ہیں، جن میں اہم ترین درج ذیل ہیں:

اسلام کا معاشی نظام

اسلام کا نظریہ ملکیت

غیرسودی بینک کاری

 مالیات میں اسلامی ہدایات کی تطبیق

 معاش، اسلام اور مسلمان

انشورنس، اسلامی معیشت میں

اسلام کا نظام محاصل، قاضی ابویوسف کی کتاب الخراج کا اردو ترجمہ

اسلام میں عدل اجتماعی، سید قطب شہید کی العدالۃ الاجتماعیۃ کا اردو ترجمہ

آپ نے انگریزی زبان میں بھی اسلامی معاشیات سے متعلق متعدد کتب تصنیف فرمائی ہیں۔اس کے علاوہ انگریزی زبان میں متعدد اہم علمی مقالات اسلامی معاشیات کے حوالے سے قلم بند فرمائے ہیں، جومختلف مین اسٹریم جرنلس میں شائع ہوئے۔ یہ مقالات ڈاکٹر صدیقی کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔

زیر نظر تحریر میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے ڈاکٹر صدیقی کے بعض اُن خیالات اور افکارکو پیش کیا جائے گا جو مرحوم کے مجموعہ خطوط میں ملتے ہیں۔

غیرمعمولی دولت والوں کے ساتھ اسلام کا معاملہ

اسلام میں جائز طریقے سے دولت کمانے کی پوری پوری اجازت دی گئی ہے، انفاق کی بھی خوب خوب ترغیب دی گئی ہے، اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ دولت چند مال داروں کے درمیان گردش کرتی نہ رہ جائے، لیکن کہیں اس بات کی طرف اشارہ نہیں ملتا کہ غیرمعمولی دولت رکھنے والوں سے ان کی دولت ضبط کرلی جائے، یا اسلامی ریاست کو اس بات کا اختیار ہو کہ وہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی دولت سے بغیر کسی اصول اور ضابطے کے محروم کردے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جناب جمیل احمد صاحب (مدراس) کے نام اپنے ایک مکتوب میں اس پر اپنے خیالات کچھ اس طرح رقم کرتے ہیں:

”غیرمعمولی دولت رکھنے والوں کو خرچ میں اعتدال، نمود ونمائش والے خرچوں سے پرہیز، غریبوں کی امداد اور سماجی فلاحی کاموں کی سرپرستی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جائے، مگر جائز طریقے سے حاصل کردہ دولت کو صرف اس لیے چھین لینا کہ وہ بہت زیادہ ہے، تین خرابیاں پیدا کرسکتا ہے:

(۱) دولت کمانے کی جدوجہد کی ہمت شکنی۔

(۲) ظالموں اور استبداد کرنے والوں کے لیے ظلم کا دروازہ کھولنا۔

(۳) فاضل دولت کو ترغیب کے ذریعہ جن اچھے کاموں کی طرف Direct کیا جاسکتا تھا اس کی جگہ چھینی ہوئی فاضل دولت کا حکومتی استعمال گمان غالب ہے کہ کم اہم کم مفید ثابت ہوگا۔

صرف کثرت کی بنا پر دولت لے لینے کا طریقہ اسلام میں مقبول نہیں، البتہ جب اجتماعی ضرورت کے لیے ٹیکس لگایا جائے تو فاضل مال پر زیادہ لگے گا، واللہ عندہ علم الصواب۔“ (صفحہ:117)

کرنسی کا مسئلہ

کاغذی کرنسی پر اعتراض کرنے والے اس بات کو بہت شدت کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اسلام کی نگاہ میں کرنسی کی حیثیت صرف اور صرف سونے اور چاندی کو حاصل ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو اس رائے سے اختلاف تھا، اس حوالے سے ڈاکٹر صدیقی نے کئی مقامات پر بہت زور دے کر لکھا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں:

 ”سونے چاندی کو شریعت یاوحی نے کوئی درجہ نہیں دیا ہے۔ ابن تیمیہ اور دوسرے اکابر مفکرین اسلام کی رائے میں کسی چیز کو زر Money بنانا ایک انسانی فعل ہے جو سہولت پر مبنی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نیا نقد نہیں چلایا۔ رومی دینار سونے کے اور فارسی درہم چاندی کے بیرون عرب سے ڈھل کر آتے اور مقامی بازاروں میں رائج تھے، جو رواج تھا اسی میں زکوۃ کا نصاب بتادیا۔ اس بات کی قطعی دلیل کہ سونے چاندی کو مقام زر کا وحی الٰہی سے کوئی تعلق نہیں موطأ امام مالک کی وہ روایت ہے جس کے مطابق رائج الوقت سکوں میں کمی محسوس کرتے ہوئے سیدنا عمرؓ نے ارادہ کیا تھا کہ اونٹ کی کھال سے بنے چمڑے کے سکے جاری کریں گرچہ بوجوہ اس اسکیم پر عمل نہ ہوا، مگر ارادہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی بھی چیز کو زر بنانے کا انسان کو اختیار ہے۔ آپ کا یہ خیال بھی تاریخی ثبوت کا محتاج ہے کہ عہد رسالت میں سونے چاندی کی قیمت خرید یکساں رہی تھی۔ رہا عہد خلافت راشدہ تو اس میں تو اشیاء کی نرخ میں نمایاں اضافہ ہوا تھا، جس کی وجہ سے سیدنا عمرؓ نے دیت کی مقدار میں اضافہ کیا تھا۔ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں مزید فتوحات کے بعد عرب میں سونا چاندی باہر سے بہت آگیا، اس کی وجہ سے افراط زر جیسی کیفیت شروع ہوگئی۔ آپ نے کاغذی نوٹ کے خلاف جتنا لکھا ہے اس کے سلسلہ میں یہ کہنا ہے کہ موجودہ دنیا میں زر کی مجموعی رسد کا بیشتر حصہ کاغذی نوٹوں کی شکل میں نہیں مجرد دفتری اندراج کی شکل میں رہتا ہے۔ کاغذی نوٹ مجموعی زر کا چوتھائی سے دسواں حصہ تک ہوتے ہیں اور بس۔ رہا مستقبل تو زیادہ تر لین دین الکٹرانک ٹرانسفر کی شکل میں ہوتا جائے گا۔ کاغذی نوٹوں کا تناسب بہت ہی کم ہوجائے گا۔“ (صفحہ: 138-139، تاریخ: 21ستمبر1996)

کاغذی زر سے متعلق ایک مکتوب کا جواب

امریکہ میں مقیم ڈاکٹر منیر احمد ڈاکٹر صدیقی مرحوم کے نام ایک خط میں کاغذی زر کے حوالے سے 23 فروری 1992 کو ایک تفصیلی مکتوب لکھ کر کچھ استفسارات پیش فرماتے ہیں، ملاحظہ ہو (صفحہ:365-366)، اس مکتوب کے جواب میں ڈاکٹر صدیقی نے کاغذی زر کے حوالے سے قدرے تفصیلی جواب دیا ہے، جواب کا یہ حصہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

”کاغذی زر کے علاوہ زر کی اور بھی شکلیں ہیں، بینک نہ ہوں تو بھی زر پایا جاسکتا ہے اور پایا ہے اور اس حالت میں بھی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ زر کی قوتِ خرید کو، یعنی محنت، عوامل پیداوار اور اشیاء صرف خریدنے کی قوت کو ایک سطح پر قائم رکھ سکے۔ سونا یا چاندی بھی اس بات کی ضمانت نہ دے سکے نہ دے سکتے ہیں۔ اسباب تفصیل چاہتے ہیں۔

اس تاریخی حقیقت کی طرف بھی توجہ مبذول کرانی ہے کہ ایک بار سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارادہ کیا کہ اونٹ کے چمڑے کے سکے چلائیں (اس زمانے میں رومی اور فارسی دینار ودرہم اسلامی علاقوں میں بھی چلا کرتے تھے)، مگر صحابہ کے مشورے کے بعد آپ نے ارادہ ترک کردیا۔ یہ روایت موطأ امام مالک میں دیکھی جاسکتی ہے۔ غور فرمائیے کہ کاغذ کے سکے اور چمڑے کے سکے میں کیا جوہری فرق ہے۔ جن ارشادات باری کو آپ زر پر منطبق کررہے ہیں، یا جس وسیع دائرے میں منطبق کرنا چاہتے ہیں، دلیل چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں منطبق کرنے کے لیے ہیں۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہیے کہ زر اور تبادلہ اشیاء میں قسط وتوازن کا حصول براہ راست ناممکن ہو تو بالواسطہ اس کے لیے کیسے اہتمام کیا جائے۔“ (صفحہ:367)

بینک کاری تمام تر مغرب کی پیداوار نہیں

موجودہ نظام بینک کاری کے سلسلہ میں ایک بات بڑے شدومد سے کہی جاتی ہے کہ یہ پورا بینک کاری کا نظام مغرب کی پیداوار ہے اور یہ درحقیقت استعماری عزائم کو بروئے کار لانے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا موقف اس سلسلہ میں بھی عام رائے سے کچھ ہٹ کر ہے، ڈاکٹر منیر احمد کے مکتوب کے جواب میں اس مسئلہ پر بھی قدرے تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہے، لکھتے ہیں:

”آپ کو یہ غلط فہمی معلوم ہوتی ہے کہ بینک کاری تمام تر مغربی دنیا کی پیداوار ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔ کسی مناسب تاریخی ماخذ سے درج ذیل تین الفاظ کی تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ اسلامی تاریخ میں تیسری صدی سے ”تخلیق زر“ کا عمل نمودار ہونے لگا تھا یا کم سے کم جہبذہ (Jahbaza: Credit Creation)، سفتجہ (Suftaja)، اور رقعہ(Ruqa)۔

محنت، عوامل پیداوار، صرف، نیز خون پسینہ بڑے پیمانے پر دولت (ضرورت کی چیزیں، مکان وغیرہ)پیدا کرنے میں بہت پیچھے رہ جائیں، اگر زر یا Creditکا نظام تنگ اور محدود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ Barter کا دور دورہ جب تک رہامعیشت محدود رہی۔ بینک کاری کا پیدا کردہ سرمایہ ضروری نہیں کہ لازماً وہ پھیلاؤ اختیار کرے جو آج دیکھا جارہا ہے، اس کو سماج کی ضرورت اور صلاحیت کے حدود میں رکھنا ممکن ہے۔۔۔

آپ کا یہ تأثر کہ بینک کاری کا نظام ارشادات باری کے خلاف ہے میرے لیے پوری طرح قابل فہم نہیں ہے۔ یہ نظام سود پر قائم ہے، سود حرام ہے۔ اس پہلو سے آپ کی بات صد فی صد درست ہے۔ مگر سود کی جگہ مضاربت، مشارکت وغیرہ لانے کے بعد، جیسا کہ آپ نے میری کتاب میں دیکھا ہوگا، اب جس چیز کو آپ ارشادات باری کے خلاف بتارہے ہیں اس کی متعین نشاندہی کیجیے، کسی چیز کو حرام کہنا بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔

البتہ یہ بات سمجھنے میں مجھے دقت نہیں کہ موجودہ نظام بینک کاری کے نتائج آپ کو پسند نہیں۔ مجھے بھی پسند نہیں۔ کوئی ایسا حل ڈھونڈنا ہے جو پسند ہو، مگر بینک کاری کو حرام کہہ دینا حل نہیں ہے۔ آپ بتائیں کہ اس کی جگہ کیا لانا چاہتے ہیں؟“۔ (صفحہ: 367-368)

اس مسئلہ پر مزید وضاحت کرتے ہوئے ایک خط میں لکھتے ہیں:

”جب تک کسی تدبیر کی مخالفت پر دلیل نہ قائم ہوجائے اس کو مباح سمجھا جائے گا۔ امور دنیا کی تنظیم وتدبیر کے لیے اختیار کیے جانے والے ذرائع ووسائل میں سے ہر ایک کی بابت الگ سے سندِ جواز کی ضرورت نہیں۔ ان غیرمنصوص امور میں بالآخر مصالح اور مفاسد کا میزانیہ ہی فیصلہ کن ہوگا“۔ (صفحہ:371)

افراط زر اور سود کے علاوہ بھی مسائل ہیں

موجودہ معاشی نظام کا تجزیہ کرتے ہوئے عموماً اسلامی معاشیات کی وکالت کرنے والے تجزیہ کار یہ بات کہتے ہیں کہ موجودہ معاشی نظام کا اصل مسئلہ افراط اور سودی لین دین ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا خیال ہے کہ موجودہ معاشی نظام میں تبدیلی کے لیے محض سود اور افراط زر کا مسئلہ حل کردینا کافی نہ ہوگا، بلکہ ایک بھرپور اور ہمہ جہت تبدیلی لانے کے لیے کئی اہم محاذوں پر سنجیدہ علمی وتحقیقی کام کرنا ہوگا، لکھتے ہیں:

”آپ کی یہ رائے کہ تمام مشکلات ومسائل کا سبب افراط زر ہے صحیح نہیں ہوسکتی۔ افراط زر چلا جائے گا پھر بھی بہت سے مسائل ومشکلات کا سامنا ہوگا اور سود ختم کرکے شرکت ومضاربت وغیرہ رائج ہوجائے تو بھی ظلم وبے انصافی کی دوسری شکلیں باقی رہیں گی۔ آپ کا یہ دعوی کہ صرف سود کے خاتمہ اور زکوۃ کے نفاذ سے ہمارے معاشی مسائل حل ہوکر عدل وانصاف ہی نہیں ترقی وخوش حالی کی ضمانت حاصل ہوجائے گی، درست نہیں ہے۔۔۔ موجودہ دنیا کے معاشی اور مالی مسائل بہت پیچیدہ ہیں، ان کا تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ بے شک سود کا خاتمہ اور زکوۃ کا نفاذ ان مسائل کے حل کے لازمی ارکان ہیں، لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اور کیا کرنا ہے“۔ (صفحہ: 139-140، تاریخ: 21ستمبر1996)

دو ملکوں کی کرنسی کے تبادلہ میں نقد کی شرط

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے خطوط میں ایک خط قاضی مجاہدالاسلام قاسمی مرحوم کے نام بھی ہے، قاضی صاحب اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے مؤسسین میں سے تھے اور مولانا علی میاں ندوی مرحوم کی وفات کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ خط کے آخر میں موجود حاشیہ اور دوسرے شواہد بتاتے ہیں کہ قاضی صاحب سے ڈاکٹر صدیقی کی مختلف علمی مسائل پر خط وکتابت ہوتی رہتی تھی، لیکن اتفاق سے مجموعہ خطوط میں ایک ہی خط شامل کیا جاسکا، اس خط میں ڈاکٹر صدیقی نے دو ملکوں کی کرنسی کے تبادلہ سے متعلق ایک اہم مسئلہ کی طرف قاضی صاحب کو توجہ دلائی ہے، لکھتے ہیں:

”بحث ونظر جنوری تا مارچ 1990 میں صفحہ 12پر یہ لکھا ہے کہ: ”دو ملکوں کی کرنسیاں دو اجناس ہیں، اس لیے ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی سے کمی بیشی کے ساتھ حسب رضائے فریقین جائز ہے“، مجھے ایسا خیال آتا ہے کہ مذکورہ بالا عبارت کے بعد درج ذیل عبارت لکھنے سے رہ گئی ہے، بہرحال یہ اضافہ ضروری ہے: ”بشرطیکہ یہ تبادلہ نقد (دست بدست) ہو“۔

موجودہ عبارت سے پڑھنے والا یہ سمجھے گا کہ فریقین راضی ہوں تو دو کرنسیوں کے تبادلہ میں نہ صرف کمی بیشی جائز ہے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ ایک فریق نے ایک کرنسی نقد دے دی اور دوسرے فریق نے دوسری کرنسی کچھ عرصہ بعد دینے کا ذمہ لیا۔ مذکورہ عبارت سے پہلے شق (۲) کے آخر میں چونکہ نقد اور ادھار دونوں شکلوں کا صراحتاً ذکر ہے اس لیے اس کے بعد شق (۳) سے پڑھنے والا وہی سمجھے گا جو میں نے بیان کیا۔ دو کرنسیوں کے تبادلہ میں کمی بیشی جائز ہونے مگر اُدھار ناجائز ہونے کی دلیل ’مسلم، باب الصرف‘ میں عبادہ بن الصامت کی روایت کی ہوئی حدیث ہے جس کے آخر میں تاکید ہے کہ صرف کا عمل دست بدست ہونا ضروری ہے، حدیث کا متن درج ذیل ہے:

الذھب بالذھب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر  والتمر بالتمر والملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء یدا بید فاذا اختلفت ھذه الأصناف فبیعوا کیف شئتم اذا کان یدا بید۔

اس ممانعت کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر اُدھار کی اجازت ہو تو صرف Money Changing کو سود کا ذریعہ بنایا جاسکتا ہے، مثلاً ایک ایسے وقت میں جب کہ بازار کا نرخ ایک ڈالر برابر بیس روپیہ ہو، اگر ایک آدمی بائیس روپے فی ڈالر کی شرح سے پچاس ڈالر اُدھارخرید رہا ہو تو اس کا قوی امکان ہے کہ وہ دراصل آج ایک ہزار روپے اُدھار لے کر وقت مقررہ پر گیارہ سو روپے ادا کرنے کا ذمہ لے رہا ہو (چونکہ اُدھار لیے ہوئے پچاس ڈالر سے وہ آج ہزار روپے نقد حاصل کرسکتا ہے)۔“ (صفحہ: 284-285)

بینکنگ سسٹم سے متعلق کچھ بنیادی سوالات

16مئی 1984 کو سعودی عرب میں ملازمت کررہے ایک ہندوستانی نوجوان نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی خدمت میں معاشی معاملات سے متعلق کچھ سوالات ارسال کیے تھے، ڈاکٹر صدیقی کے مجموعہ خطوط میں یہ سوالات اور ان کے جوابات موجود ہیں، ان میں سے کچھ سوالات اور جوابات ذیل میں ذکر کیے جارہے ہیں:

سوال: آج کل بینک کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ کرنا جائز ہے جو فی نفسہ حرام نہ ہو؟

جواب:جو معاملات فی نفسہ حرمت کے عناصر سے پاک ہیں وہ بینکوں سے کیے جاسکتے ہیں، کیونکہ ضرورت عام ہے، اور سہولتِ متبادل موجود نہیں، مثلاً لاکر لینا، کرنٹ اکاونٹ رکھنا، ڈرافٹ بنوانا وغیرہ۔

سوال: اگر سود کی یہ تعریف صحیح ہے کہ ہر وہ زیادتی جو قرض پر لی جائے تو عام افراد جو بینکوں میں سیونگ اکاونٹ یا فکسڈ ڈپازٹ رکھتے ہیں ان پر اضافہ کس طرح سود کہلائے گا، کیونکہ بہرحال یہ روپیہ قرض نہیں، بلکہ امانت ہے، یہاں یہ بحث غیرمتعلق ہے کہ بینک امانت میں خیانت کرتے ہیں۔

جواب: سیونگ یا فکسڈ ڈپازٹ امانت کی تعریف میں نہیں آتے ہیں، بلکہ بینک کو دیے قرض کی تعریف میں آتے ہیں، متعلقہ بینکنگ لاز اور بعض معاصر فقہاء کی تحریریں ملاحظہ ہوں، ان پر ملنے والا سود حرام ہے۔

سوال: جب تک کسی ایک اسلامی ملک میں پوری طرح غیرسودی نظام نافذ نہیں ہوجاتا اگر سب لوگ بینکوں سے ہر قسم کے لین دین (ملازمت، حسابات رکھنا، L/C کھولنا، Bills وغیرہ)کو حرام سمجھ کر بند کردیں تو ملک میں معاشی اثرات کیا نتیجہ دکھائیں گے؟

جواب: بینکوں سے ناگزیر معاملات کی معاصر معاصر فقہاء اسلام اجازت دیتے ہیں، مگر جہاں متبادل غیرسودی بینک سرگرم عمل ہوں ان کی طرف رجوع اولیٰ ہے۔ ملازمت کا مسئلہ ذاتی ضروریات پر موقوف ہے۔ حرمت اور ترک ملازمت کے وجوب پر اکثر علماء کو اصرار نہیں ہے، متبادل ذریعہ معاش ملے تو بہتر ہے، ملک کے معاشی حالات کی بہتری کی ایک شرط نظام بینک کاری کا سود سے پاک کیا جانا بھی ہے۔

سوال: لاکھوں افراد جو خود کاروبار نہیں کرسکتے اگر اپنی فالتو دولت بینکوں کے ذریعہ ملک کی صنعتوں میں نہیں لگائیں گے تو سرمایہ کاری کس طرح ہوگی؟

جواب: افراد کو اپنی فالتو دولت کی غیرسودی بنیاد پر سرمایہ کاری کرنا چاہیے، جن ملکوں میں ایسے ادارے نہ موجود ہوں مل جل کر ایسے ادارے قائم کرنے چاہئیں جیسا کہ ہندوستان، فلپائن، وغیرہ اقلیتی ممالک میں عملاً ہورہا ہے۔ مسلم اکثریتی ملکوں میں سے زیادہ ممالک میں اسلامی بینک قائم ہوچکے ہیں، ان کے ذریعہ سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے۔

سوال: اور پھر دولت کا یہ استعمال کہاں تک درست ہے کہ اسے نہ تو خرچ کیا جائے نہ کاروبار میں لگایا جائے، بلکہ اسے روک کر رکھ لیا جائے۔ معاشی لحاظ سے اس پالیسی کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔

جواب:دولت کا یہ استعمال مناسب نہیں کہ اسے نہ خرچ کیا جائے نہ مزید نفع کمانے کے لیے سرمایہ کاری میں لگایا جائے، مگر اگر کسی مخصوص صورت حال میں دولت کو روکے رکھنے کا متبادل صرف یہ رہے کہ اسے سودی طور پر لگایا جائے تو اسے روکے رکھنا حرام سے بچنے کے لیے بہتر ہے۔ اس کے برے معاشی اثرات سے بچنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو دولت کو مشغول کرسکیں۔ نہ یہ کہ دولت کے سودی استعمال میں شریک ہوجایا جائے جو ظالمانہ معیشت کو تقویت پہنچائے۔ ملاحظہ ہو میری کتاب ”Issues in Islamic Banking“(مطبوعہ: اسلامک فاؤنڈیشن، لسٹر 1983)

سوال: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاں رسک زیادہ ہوگا وہاں نسبتاً سرمایہ کاری کم ہوگی، مضاربت میں نفع کی گارنٹی تو کجا سرمایے کی سلامتی کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، چونکہ صاحب ِ مال کا سرمایے پر اختیار نہیں ہوتااس لیے وہ غیریقینی صورت حال میں مضاربت میں روپیہ لگانے سے گریز کرے گا۔ موجودہ نظام میں سرمایے اور نفع کی ضمانت ہوتی ہے اس لیے سرمایہ مختلف صنعتوں میں لگتا رہتا ہے، مگر مضاربت میں ان خدشات کی روشنی میں سرمایہ کاری موجودہ نظام کے مقابلے یقینا بہت ہی کم ہوگی، اور نتیجہ ملک کی معیشت کے لیے تباہ کن۔ ان حالات میں یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مضاربت کا نظام موجودہ نظام سے بہتر ہوگا۔

جواب: مضاربت میں جس خطرہ کی آپ نے نشاندہی کی ہے وہ شخصی معاملات میں زیادہ پیش ہوتا ہے، مثلاً آپ کسی فرد سے مضاربت کا معاہدہ کریں، جب کسی درمیانی ادارہ مثلاً اسلامی بینک کے توسط سے اس کا انتظام کیا جائے گا تو ایسا خطرہ کم ہوجائے گا، اوّلاً اس لیے کہ یہ ادارہ بہت سے لوگوں کے سرمایہ کو بہت سے کاروبار میں لگائے گا اور ایک ساتھ سب کی طرف سے خسارے کا امکان کم ہے۔ ثانیاً اس لیے کہ یہ ادارہ آپ سے کہیں زیادہ مہارت کے ساتھ کاروباری لوگوں کی اسکیموں کا جائزہ لے کر ایسے فریقوں سے معاہدہ کرے گا جس سے نفع اور کاروبار کی امید ہو۔ ثالثاً اس لیے کہ مضاربت کا معاہدہ اس کاروبار کے حالات کی جانچ اور اس کے کاروباری فیصلوں پر نظر رکھنے کی پوری گنجائش دیتا ہے جس میں مال لگایا گیا ہو اور بینک اپنے اسٹاف کے ذریعہ یہ کام کرے گا۔ہمارا تجزیہ یہ ہے کہ جب کسی ملک میں پورا نظام مالیات وبینک کاری مضاربت کے اصولوں پر سرمایہ کاری کرنے کے اصول پر قائم ہوگا تو عام ڈپازٹر کو نفع کی شرح کم وبیش ہونے کا خطرہ تو رہے گا مگر خالص نقصان یا جمع کردہ سرمایہ میں کمی کا اندیشہ عملاً نہ رہے گا۔ (صفحہ 308-311)

یہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے کچھ اہم اور قابل ذکر معاشی افکار تھے، جو مجموعہ خطوط کی روشنی میں مرتب کیے گئے، ڈاکٹر صدیقی کے مجموعہ خطوط میں مذکورہ بالا افکار کے علاوہ بھی معاشی امور سے متعلق کئی اہم امور اور مسائل کے سلسلہ میں رہنمائی ملتی ہے۔

مسائل تحسین و تقبیح: معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ کے مواقف

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

مسائل حسن و قبح (خیر و شر) پر مختلف کلامی گروہوں (معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ) بعض نتائج میں ہم آہنگ اور بعض میں مختلف فیہ ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اکثر و بیشتر کتب میں اس کی بنیاد پر گفتگو و بحث نہ ہونے کے برابر ہے، اکثر مصنفین نتائج کا فرق بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ معتزلہ فلاں مسئلے میں فلاں بات کہتے ہیں اور ماتریدیہ و اشاعرہ فلاں جن میں سے بعض پر ان کے مابین اتفاق ہوتا ہے اور بعض میں اختلاف۔ مثلاً تکلیف مالا یطاق کے عدم جواز اور اسی طرح عقلی ادراک کی بنیاد پر بعض امور کی تکلیف لازما آنے پر معتزلہ و ماتریدیہ کے ایک گروہ کا اتفاق ہے جبکہ خلق افعال عباد (بندوں کے افعال کی تخلیق ) کے مسئلےپر ان کا اختلاف ہےوغیرہ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتفاق و اختلاف کس اصول پر متفرع ہے؟ یہاں ہم اختصار کے ساتھ چند نکات کی صورت اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ تحریر کا مقصد یہ تعین کرنا نہیں کہ کس فریق کا موقف درست ہے،نہ ہی ہر فریق کے دلائل پر بحث کی گئی ہے۔

معتزلہ کا موقف

پہلے ہم معتزلہ کا موقف بیان کرتے ہیں۔

1۔ اختلاف کی بنیاد ہر فریق کے نزدیک ذات باری سے متعلق عدل و حکمت کے مفہوم کا فرق ہے۔ معتزلہ و ماتریدیہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حسن و قبح افعال و اشیا کے اوصاف ہیں، اس لئے ان کے نظریہ اخلاق کو essentialist or objectivist theory of morality کہا جاسکتا ہے۔ افعال و اشیاء کے یہ اوصاف دراصل اللہ کی صفت حکمت کا مظہر ہیں جس کے بعض تقاضوں کو انسان پہچان سکتا ہے۔

2۔ معتزلہ کے نزدیک حکمت کا مطلب خدا کے فعل میں "اصلح للعباد" کا پہلو پایا جانا ہے۔ ان کے مطابق ہر فاعل کا ارادہ کسی مصلحت پر مبنی ہوتا ہے، یہ مصلحت یا فاعل کی جانب لوٹتی ہے اور یا مفعول کی۔ چونکہ خدا مصلحت و فائدے کے حصول سے ماورا ہے، لہذا ماننا ہوگا کہ اس کے ارادے میں بندوں کی مصلحت پیش نظر ہوتی ہے۔

3۔ چونکہ خدا قادر و جواد ہے، لہذا اس کی بارگاہ سے بندوں سے متعلق ایسے ہی فعل کا صدور ہوتا ہے جس میں بندوں کا امکانی طور پر سب سے زیادہ (optimal or maximum possible) فائدہ ہو، اسے "اصلح للعباد "کہتے ہیں۔ جو فعل انسانوں کی مصلحت کے پہلو کے مطابق ہووہ حسن ، عدل و حکمت ہے، جو اس کے خلاف ہو وہ قبیح و ظلم ہے اور جو اس سے خالی ہو وہ "عبث " ہے جو کہ سفاہت ہے۔ انسان کی مصلحت و فائدے سے مراد وہی عام تصورات ہیں جن سے انسان واقف ہے اور شریعت انہی بنیادوں پر انسان کو خطاب کرتی ہے۔ چنانچہ اخلاقی قضایا (moral judgements) بندے و خدا کے مابین مشترک ہیں اور یہی اشتراک خطاب کی تفہیم کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اگر عدل و ظلم اور حکمت پر مبنی یہ قضایا دونوں کے مابین مشترک نہ ہوں تو شارع کے خطاب کا مفہوم سمجھنا ممکن نہ ہوگا۔

4۔ حکمت کے اس تصور کے پیش نظر افعال تین قسم کے ہیں:

(الف) وہ جن کی اچھائی کے پہلو کو انسان اس بنا پر پہچان سکتا ہے کہ ان میں انسان کا یقینا فائدہ و مصلحت ہی ہوگی جیسے کہ ایمان باللہ کا مفید ہونا، شکر منعم (یعنی انعام کرنے والے کا شکر بجا لانا) حسن ہونا وغیرہ،

(ب) وہ جن کے عدم مصلحت کے پہلو کو انسان عقل سے جان سکتا ہے جیسے کفر کا برا ہونا، بلا وجہ جھوٹ بولنا یا بلاوجہ کسی کی جان تلف کرنا وغیرہ،

(ج) وہ جن سے متعلق انسان قطعیت کے ساتھ فیصلہ نہیں کرسکتا اور متذذب ہوتا ہے جیسے کہ پانچ وقت نماز کی ادائیگی یا زنا کی قباحت وغیرہ

5۔ ہر تین صورت میں عقل اور شارع کاحکم یا خطاب افعال میں قدر پیدا نہیں کرتے بلکہ انہیں ظاہر کرتے ہیں، یعنی عقل ذات باری کی صفت حکمت کے بعض پہلووں یا نتائج کو اصلح للعباد کے تناظر میں قطعی طور پر پہچان لیتی ہے اور یہ ادراک خدا کی جانب بندے کی تکلیف کی بنیاد ہے۔ اسی طرح شارع جب نماز کا حکم دیتے ہیں تو یہ حکم نماز میں خیر کا پہلو وضع نہیں کرتا بلکہ اسے ظاہر کرتا ہے۔ افعال کی قدر کی وجودی بنیاد خدا کا حکم نہیں بلکہ اس کی صفت حکمت ہے اور عقل کے ذریعے بعض اخلاقی امور کا یہ ادراک اسی طرح ہے جیسے عقل ذات باری کے وجود اور اس کی بعض صفات کا ادراک کرلیتی ہے کہ مثلا وہ عالم و قادر ہے۔ اسی طرح وہ اس کی صفت حکمت کے مفہوم کے تقاضوں کا بھی ادراک کرسکتی ہے۔

6۔ اس بنا پر معتزلہ کا ماننا تھا کہ:

الف) جن لوگوں تک نبی کی خبر نہیں پہنچی ان پر ان امور کی تکلیف ہے جن کے حسن و قبح کو عقلاً جاننا ممکن ہے اور وہ خدا کی بارگاہ میں ان کے لئے جوابدہ ہیں۔ نبی کو مبعوث کرنا بھی بندوں کی مصلحت سے متعلق ضروری عقلی تقاضا ہے، لہذا یہ بھی ضروری ہے۔

ب) خدا شر کا ارادہ نہیں کرتا اور نہ بندوں کے افعال تخلیق کرتا ہے بلکہ بندے اپنے افعال کو خدا کی جانب سے دی گئی قدرت و اختیار سے خود خلق کرتے ہیں اور یہی ان کی جوابدہی کی بنیاد ہے۔ اگر خدا برائی کا ارادہ کرے گا یا ان افعال کو خلق کرے گا تو اس پر شریر ہونے کا الزام آئے گا، اور یہ بات محال ہے کہ ایک حکیم ایسے افعال کا ارادہ کرے۔ کسی برے فعل کا ارادہ تبھی ممکن ہے جب فاعل کو اس کی برائی کا علم نہ ہو، یا وہ اس فعل کو کرنے کا محتاج ہو اور یا اسے یہ علم نہ ہو کہ اسے اس کی حاجت نہیں اور خدا ان تینوں باتوں سے ماورا ہے۔ یہ معتزلہ کے نزدیک انسانی افعال سے متعلق "مسئلہ شر " (problem of evil) کا حل ہے۔

ج) اسی طرح بندوں کے افعال سے جو نتائج جنم لیتے ہیں (مثلا پتھر پھینکنے پر وہ لڑھکتا ہوا جاتا ہے، تو پتھر کو پھینکنا فعل جبکہ اس کا لڑھکنا فعل کا نتیجہ ہے) ان کی نسبت بھی بندوں کی جانب ہوگی (انہیں "افعال متولدہ " کہتے ہیں، اس کی نسبت سے متعلق پر حکمائے معتزلہ کی آرا مختلف ہیں)۔

د) یہ جائز نہیں کہ خدا بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ سزا یا تکلیف دے کیونکہ یہ ظلم (اصلح للعباد یعنی بندوں کی مصلحت کے خلاف) ہے۔ رہے وہ اعمال و مظاہر جن میں بظاہر کسی بے گناہ انسان کو تکلیف ہوتی ہے (جیسے حادثہ، طوفان و زلزلہ وغیرہ) تو لطف و عوض کے اصولوں کے تحت ان کا مداوا کیا جانا لازم ہے۔ لطف کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس تکلیف کی وجہ سے بندے کو کسی نیک عمل کی توفیق عطا کردیتا یا معصیت سے بچا لیتا ہے، عوض کا مطلب آخرت میں بندوں کی ایسی تکالیف کا ازالہ کردیا جانا ہے جو بلا عذر تھیں۔ یہ معتزلہ کے نظام فکر میں "مسئلہ شر " کے اس پہلو کا حل ہے جو انسانی افعال سے متعلق نہیں۔

ھ) عدل و حکمت (یعنی بندوں کی مصلحت) کے تقاضوں کے تحت یہ جائز نہیں کہ خدا اعمال کی جزا ان کی نوعیت کے مطابق نہ دے، یعنی اچھے عمل کی جزا ثواب اور برے کی عقاب۔

و) بندوں پر ایسے اعمال کی تکلیف ڈالنا جائز نہیں جنہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہ ہو (اسے تکلیف مالا یطاق کہتے ہیں)۔ ایسا حکم دینا سفاھت ہے جو خدا کے شایان شان نہیں۔

ذ) خدا از روئے حکمت بندوں کو ایسے افعال کا مکلف نہیں بنا سکتا جو برے ہیں، مثلا وہ کفر کرنے یا جھوٹ بولنے کا حکم نہیں دے سکتا کہ ایسا کرنا سفاہت ہوگی اور خدا اس سے منزہ ہے۔

ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ (الف ) تا (ذ) تمام جزئیات معتزلہ کے نظریہ عدل و حکمت کے ساتھ مربوط ہیں۔

ماتریدیہ کا موقف

اب ہم ماتریدیہ کے موقف کا خلاصہ لکھتے ہیں۔

7۔ ماتریدیہ کے نزدیک حکمت کا مطلب کسی فعل میں "اصلح للعباد" کا پایا جانا نہیں بلکہ "عاقبت حمیدہ" کا پہلو پایا جانا ہے، چاہے اس میں اصلح للعباد کی رعایت ہو یا نہ ہو۔ یعنی حکیم وہ ہے جس کا فعل نتیجے کے اعتبار سے اچھا اور حمد کا کوئی پہلو لئے ہو، بعض معاملات میں وہ پہلو بندوں کی مصلحت بھی ہوسکتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں۔ ایک عمل اپنے بعض فوری نتائج کے اعتبار سے شر معلوم ہوسکتا ہے، لیکن چونکہ وہ حکیم کا فعل ہے لہذا وسیع تر تناظر میں اس میں کوئی ایسا پہلو موجود ہوتا ہے جو نتیجے کے اعتبار سے اچھا و برتر اور لائق حمد ہوتا ہے۔ مثلاً کسی ڈاکٹر (حکیم) کا مریض کا آپریشن کرنا فوری طور پر تکلیف کا باعث ہوتا ہے، تاہم مریض کے وسیع تر تناظر میں وہ خیر ہوتا ہے۔ اسی طرح خدا کے ہر فعل (یہاں تک کہ شیطان کی تخلیق) میں بھی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔

8۔ ماتریدیہ کا تصور حکمت دو اعتبارات سے معتزلہ کے تصور سے مختلف ہے:

الف) معتزلہ کا تصور (اصلح للعباد) بہت حد تک انسان مرکزیت (humancentricism) پر مبنی ہے اور اسی لئے ان کے ہاں اخلاقی قضایا سے متعلق انسانی تصورات و احساسات کو خدا پر لاگو کرنے کا رویہ زیادہ ہے جبکہ ماتریدیہ کے مطابق حکمت کے پہلو خدا کی جانب لوٹتے ہیں۔ چونکہ خدا حکیم ہے لہذا اس کے ہر فعل میں یقیناً کوئی نہ کوئی قابل حمد پہلو ہوتا ہے، چاہے انسان کو سمجھ آئے یا نہ آئے

ب) معتزلہ کا تصور "اصلح للعباد" محدود جبکہ ماتریدیہ کا تصور "عاقبت حمیدہ" وسیع تناظر کا حامل ہے اور اسی بنا پر وہ بعض ایسے افعال کی توجیہہ فراہم کرتا ہے جو معتزلہ کے تصور کے تحت ممکن نہیں جس کی مثالیں آگے آئیں گی۔

9۔ معتزلہ کی طرح ماتریدیہ کے نزدیک بھی عقل نیز خطاب الہی اعمال کی اخلاقی قدر ظاہر کرتے ہیں نہ کہ ان میں قدر وضع کرتے ہیں، اخلاقی قدر کی بنیاد صفت حکمت ہے۔ اسی بنا پر احناف کے ہاں حسن و قبیح لعینہ کی اقسام موجود ہیں۔ ماتریدیہ بھی معتزلہ کی طرح اعمال کو تین اقسام میں رکھتے ہیں جن کا ذکر اوپر گزرا ، اس کی بنیاد یہ ہے کہ ان کے مطابق حکمت (عاقبت حمیدہ) کے بعض مثبت و منفی پہلووں کو انسانی عقل جان سکتی ہے۔

10۔ جوابات کی نوعیت کے اعتبار سے ماتریدیہ کی آرا کو دو بڑے گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: سمرقندی روایت اور بخاری روایت۔ اول الذکر کے بڑے نمائندگان مثلاً خود امام ابو منصور ماتریدی (م 334 ھ) اور امام ابو معین نسفی (م 508 ھ) ہیں جبکہ میسر کتب کی رو سے موخر الذکر کے نمائندگان میں امام ابو الیسر بزدوی (م 493 ھ) اور علامہ کمال ابن الہمام (م 861 ھ ) وغیرہ ہیں۔ ان گروہوں کے مابین تحسین و تقبیح سے متعلق بعض مسائل پر اختلاف ہے، اگرچہ عام طور پر اول الذکر کی آر ا ہی ماتریدیہ کے ہاں عام مقبول ہیں۔

11 ۔ چنانچہ ماتریدیہ کا کہنا ہے کہ:

الف) جس شخص تک نبی کی خبر نہیں پہنچی اس پر توحید کا اقرار اور شرک سے اجتناب عقلاً واجب ہے، یہ اہل سمرقند کا قول ہے اور اس کی حمایت میں امام ابوحنیفہ (م 150ھ) سے دو مشہور اقوال بھی منقول ہیں۔ ان حضرات کے مطابق کفر وشرک کی شناعت اور ایمان باللہ و شکر منعم کا حسن ہونا حکمت کے ایسے لازمی تقاضوں میں سے ہے جن کا ادراک عقل کرسکتی ہے۔ تاہم امام ابوالیسر بزدوی اس تکلیف کے قائل نہیں اور وہ امام ابوحنیفہ کے قول کی توجیہہ کرتے ہیں۔ اہل سمرقند میں بعض کے ہاں یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ نبی کو مبعوث کرنا بھی حکمت کے ضروری تقاضوں میں سے ہے۔

ب) خدا تمام افعال کا ارادہ کرنے والا اور انسان کے تمام افعال کا خالق ہے۔ چونکہ خدا کے ہر فعل میں کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے جو اس فعل کو بالآخر حسن بناتی ہے، لہذا خدا کا کوئی بھی ارادہ و فعل شر نہیں ہوسکتا۔ یہ مسئلہ خیر و شر (problem of evil) کا ماتریدی حل ہے اور اس مسئلے پر اہل سمرقند و بخاری کا اتفاق ہے۔ معتزلہ اصلح للعباد کے اپنے محدود تصور کی بنا پر انسانی ارادے سے ظاہر ہونے والے شر کی نسبت خدا کے ارادے کی جانب کرنے سے قاصر تھے، ماتریدیہ حکمت کے تصور کو پھیلا کر ایسا ممکن بنا دیتے ہیں کہ اگرچہ بندے کا کوئی فعل فوری و محدود تناظر میں شر ہو تاہم وسیع تر تناظرمیں وہ خیر (عاقبت حمیدہ کا پہلو لئے) ہی ہوتا ہے، لہذا خدا کی جانب سے اس کا ارادہ کرنا عدل و حکمت کے خلاف نہیں۔ کیونکہ معتزلہ کے نظرئیے میں شر کی نسبت خدا کی جانب جائز نہیں، لہذا ان کے نزدیک بندے کو عطا کردہ فعل کرنے کی قدرت فعل کرنے کے لمحے سے قبل ہوتی ہے جس میں استقلال پایا جاتا ہے تاکہ اس کے ارادے سے جنم لینے والے شر کی نسبت خدا کی جانب نہ ہو۔ اس کے برعکس ماتریدیہ کے نزدیک یہ قدرت فعل کے ساتھ اور لمحاتی ہوتی ہے اور یہ نتیجہ ان کے تصور حکمت کی بنا پر ممکن ہے۔ تاہم دونوں میں مشترک یہ ہے کہ ہر فریق اپنے اپنے انداز سے شر کی نسبت خدا سے دور کرتا ہے۔

ج) بندوں کے افعال سے جو نتائج ظاہر ہوتے ہیں (یعنی افعال متولدہ)، اسی درج بالا اصول پر خدا ان کا بھی خالق ہے۔

د) عقلاً یہ جائز ہے کہ خدا بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ تکلیف دے اور اس پر عوض دینا واجب نہیں، اس لئے کہ عین ممکن ہے ان مصائب کے پس پشت خدا کی کوئی حکمت پوشیدہ ہو جس کا ہمیں علم نہیں۔ یہاں پھر غور کیجئے کہ ماتریدیہ کا تصور حکمت کیونکر انہیں معتزلہ کے نتیجے سے الگ کررہا ہے۔ یاد رہے کہ یہاں یہ نہیں کہا جارہا کہ خدا ناگہانی مصائب کا عوض نہیں دے سکتا یا نہیں دے گا، وحی کی خبر کی بنیاد پر یہ تصور رکھنا جائز ہے۔ تاہم عقل کی رو سے تصور حکمت کے تحت یہ لزوم ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ معتزلہ کا کہنا ہے۔

ھ) عدل و حکمت کے تقاضوں کے تحت یہ جائز نہیں کہ خدا کفر و شرک کرنے والے کو ابدی جنت اور اہل ایمان کو ابدی جہنم عطا کرے۔ اس مسئلے پر اہل سمرقند و بخاری کا اختلاف ہے کہ کیا واقعی عقل کی رو سے یہ حکمت کا کوئی تقاضا ہے؟ علامہ ابن الہمام اس کے قائل نہیں۔ لیکن جو اس کے قائل ہیں ان کے نزدیک ایسا فعل عاقبت حمیدہ کے پہلو سے خالی ہوگا اور نتیجتاً یہ خدا کے شایان شان نہیں۔

و) بندوں کو ایسے اعمال کی تکلیف دینا جائز نہیں جنہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہ ہو کیونکہ ایسا حکم دینا انسانوں کو مکلف بنا کر آزمائش میں ڈالنے کی حکمت کے خلاف ہے لہذا یہ سفاھت ہے جو خدا کے شایان شان نہیں۔ اس مسئلے پر بھی اہل سمر قند و اہل بخاری کا اختلاف ہے۔

ذ) خدا از روئے حکمت بندوں کو ایسے افعال کا مکلف نہیں بنا سکتا جو قطعی طور پر برے (قبیح لعینہ) ہیں جیسے کفر کرنے یا جھوٹ بولنے کا حکم دینا کہ ایسا حکم سفاہت ہے۔

12۔ ماتریدیہ کا تصور حکمت وسیع تر تناظر رکھنے کے باوجود چونکہ essentialist اخلاقی تصور ہے جس کے بعض پہلووں کے عقلی ادراک کا امکان بھی موجود ہے، لہذا معتزلہ کے نظرئیے کی طرح بعض مسائل میں وہ بھی قدرت و ارادہ باری تعالی پر چند اخلاقی حدود و قیود عائد کرتا ہے۔ تاہم اس بحث سے واضح ہے کہ ہر گروہ کی جزئیات ان کے اصول سے متفرع ہیں اور محض ان جزئیات کی مطابقت و اختلاف کی بنیاد پر انہیں ایک جیسا یا الگ قرار دینا درست نہیں۔

اشاعرہ کا موقف

اب اشاعرہ کے موقف کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے ۔

13۔ اشاعرہ کے نزدیک حکمت کا معنی نہ اصلح للعباد ہے اور نہ عاقبت حمیدہ، بلکہ اس کا مطلب فعل کا ارادے و مشیت کے مطابق ہونا ہے۔ حکیم وہ ہے جس کے افعال اس کے ارادے کے عین مطابق ہوں اور سفاہت کا مطلب فاعل کے ارادے اور فعل میں عدم مطابقت ہونا ہے، کہ مثلاً فاعل نے خاص طرز کا تالا یا جھولا بنانے کا ارادہ کیا لیکن بعینہ ویسا بنا نہ سکا۔ اس تعریف کے ذریعے اشاعرہ حکمت کو ان تمام اخلاقی تصورات سے جدا کر کے اسے خدا کی قدرت و ارادے کی جانب پھیر دیتے ہیں جو معتزلہ و ماتریدیہ کے اخلاقی نظریات میں پیوست ہیں۔

14۔ اشاعرہ کے نزدیک انسانی سطح پر اخلاقی قضایا کے نام پر افعال کے جو اخلاقی احکام و تصورات پائے جاتے ہیں وہ ان افعال کی خصوصیات نہیں ہیں، بلکہ وہ تصورات افعال اور فاعل کی غرض و مصلحت کے مابین ہم آہنگی یا عدم آہنگی سے جنم لیتے ہیں۔ جو فعل کسی فاعل کی غرض کے مطابق ہو وہ اسے حسن کہتا ہے ، جو اس کی غرض کے خلاف ہو وہ اس کے نزدیک قبیح کہلاتا ہے اور جو نہ اس کی غرض کے حصول میں مفید ہو اور نہ مزاحم اسے عمل عبث (یا سفاہت) کہتے ہیں۔ انسان کی بالاخر غرض و مصلحت جلب منفعت و دفع مضرت ہے اور انسانوں کی سطح پر خیر و شر کے تمام تصورات انہی سے ماخوذ ہیں۔

15۔ چونکہ خدا جلب منفعت و دفع مضرت نیز اغراض و مصلحتوں سے ماورا ہے، لہذا انسانوں کی سطح پر جاری ہونے والے اخلاقی تصورات کو خدا کے افعال کی نوعیت سمجھنے اور ان کی حد بندی کے لئے استعمال کرنے کی بنیاد موجود نہیں۔ اخلاقی قضایا سے متعلق Essentialist نظرئیے کا مفروضہ ہے کہ اخلاقی قضایا کی سچائی فاعل پر مبنی نہیں بلکہ از خود فعل کی نوعیت پر مبنی ہے۔ فاعل چاہے خدا ہو یا بندہ ، فعل کی اخلاقی قدر (moral value) کا اس سے تعلق نہیں۔ اس کے برعکس اشاعرہ کا کہنا ہے کہ فاعل دو طرح کے ہیں، انسان اور خدا۔ چونکہ انسانی سطح پر افعال پر لاگو ہونے والے اخلاقی احکام (moral judgements) اغراض و مصلحتوں سے عبارت ہیں اور خدا ان انسانی اغراض و مصلحتوں سے ماورا (بلکہ ان کا خالق) ہے، لہذا اول الذکر فاعل (یعنی انسان ) کے اخلاقی تصورات کو بنیاد بنا کر موخر الذکر فاعل (یعنی خدا ) کے افعال کی تفہیم ممکن نہیں۔ حسن، قبیح و عبث نیز عدل و ظلم کے جن تصورات سے ہم واقف ہیں وہ خدا کی بارگاہ میں لاگو ہی نہیں ہوتے۔ مثلاً ظلم کا مطلب کسی کی ملکیت میں ایسا تصرف ہےجو جائز نہیں جبکہ خدا کائنات کا تنہا مالک ہے اور اسے حق ہے کہ اپنی مملکت میں جیسے چاہے تصرف کرے، اس کا ہر فعل لازماً حسن و عدل (necessarily good and just) ہے (یعنی جو وہ کرے وہی حسن ہے)، اس کا ہر فعل حکمت والا ہے کیونکہ اس کا ہر فعل اس کے ارادے کے عین مطابق ہوتا ہے۔

16۔ حسن و قبح کے essentialist تصور کی تردید کے بعد اشاعرہ کا کہنا ہے کہ حسن کا ایک معنی کسی شے و فعل کی اغراض کے ساتھ ہم آہنگی ہے، دوسرا معنی کسی فعل کا مطلقا جواز ہونا ہے اور تیسرا مطلب اس پر ثواب و عقاب کے احکام کا مرتب ہونا ہے۔ پہلے معنی بندوں کے مابین معقول ہیں، دوسرے معنی اللہ تعالی سے متعلق ہیں اور تیسرے معنی انسان کی تکلیف کی بنیاد ہیں۔ چونکہ حسن و قبح کے انسانی تصورات (یعنی اغراض کے ساتھ ہم آھنگی و عدم آھنگی) کو بنیاد بنا کر یہ طے نہیں کیا جاسکتا کہ خدا کیسا حکم دے اور کیسا نہ دے، لہذا کس عمل پر ثواب ہوگا اور کس پر عقاب، اس کا عقلی ادراک ممکن نہیں اور یہ نبی کی خبر پر موقوف ہے۔ خدا کو حق ہے کہ جیسا چاہے حکم دے کہ اس کا ہر حکم عدل و حسن ہے۔

17۔ اسی لئے اشاعرہ کے نزدیک خدا کا حکم وخطاب کسی عمل کی قدر ظاہر نہیں کرتا بلکہ اس میں قدر وضع کرتا ہے اور خدا کے حکم پر کسی اخلاقی تصور کی بنیاد پر کوئی روک نہیں۔ معتزلہ و ماتریدیہ چونکہ essentialist تھیوری کے قائل ہیں، لہذا ان کے نزدیک خدا ایسا ہی حکم دیتا ہے جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہو (وہ تقاضے جو حکم سے الگ مستقل حیثیت رکھتے ہیں)۔ ان تقاضوں میں سے بعض کو چونکہ انسان جان سکتا ہے، لہذا ثواب و عقاب سے متعلق بعض پہلووں کو پہچاننے کی اساس انسانی عقل و فطرت کی گرفت میں ہے اور خدا کا حکم بھی ان کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ اسی اصول کی بنا پر اصول فقہ میں امر کی بحث کی ابتدا کرتے ہوئے احناف کہتے ہیں کہ ہر امر میں لازما کوئی نہ کوئی حسن پہلو ہوتا ہے، اگرچہ وہ ہمیں معلوم نہ ہو۔ حنفی نظام میں اس جملے میں "حسن" سے مراد "عاقبت حمیدہ" ہوتی ہے جبکہ معتزلہ کے ہاں "اصلح للعباد"، تاہم دونوں کے ہاں امر و نہی حکمت الہیہ کے مطابق ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ خدا کے حکم کی عقل سے ماخوذ اخلاقی قضایا کے ساتھ مطابقت کا لزوم اس بنا پر نہیں کہ انسان اپنی عقل سے خدا پر کچھ واجب کررہا ہے بلکہ اس بنا پر ہے کہ یہ خدا کے حکیم ہونے کا تقاضا و مفہوم ہے جسے انسان نے بس پہچان لیا ہے، اسی طرح جیسے انسان نے خدا کے قادر ہونے کو پہچان لیا ہے (اس ادراک کی بنا پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ "انسان نے خدا کو قادر بنا دیا ہے" بلکہ خدا لازما قادر ہی ہے)۔ معتزلہ و ماتریدیہ دونوں کے ہاں اس لزوم کا یہی مفہوم ہے۔ اشاعرہ چونکہ اس لزوم کو ثابت کرنے والی بنیاد ہی کے قائل نہیں، لہذ ان کے ہاں ایسا کوئی لزوم ثابت نہیں۔

18۔ اس اصول پر ان جزئیات سے متعلق اشاعرہ کے موقف کو سمجھا جا سکتا ہے جن کا ذکر اوپر گزرا:

الف) جس شخص تک نبی کی خبر نہیں پہنچی اس پر کسی شے کی تکلیف لازم نہیں کیونکہ تکلیف کا مطلب اللہ کی جانب سے ثواب و عقاب کے حکم کا جاری ہوکر بندے کو اس کا علم ہونا ہے اور یہ نبی کی خبر پر موقوف ہے۔

ب) خدا بندوں کے تمام افعال کا ارادہ کرنے والا ہے، اس کا ہر ارادہ لازماً حسن ہے۔ وہ جس چیز پر ثواب و عقاب کا ارادہ کرے، بندے کے لئے وہی حسن و قبیح ہے کیونکہ بندے کی غرض منفعت کا حصول اور مضرت کو دفع کرنا ہے ، لہذا ابدی زندگی کے ثواب کا حصول اور عقاب سے بچنے کے جذبات خدا کے حکم کو بندے کے عمل کی بنیاد بناتے ہیں۔ اس کے برعکس معتزلہ و ماتریدیہ کے ہاں اس کی بنیاد اخلاقی قضایا کی فاعل سے علی الرغم معروضی حیثیت ہے (کہ مثلاً شکر منعم چونکہ ہے ہی حسن اور انسان پر اس کی تکلیف عقل کی رو سے لازم ہے، لہذا یہ عقلی ادراک نبی کی بات ماننے کی بنیاد بنتا ہے)۔ چونکہ اشاعرہ کے ہاں حسن کامطلب خدا کی جانب سے ثواب دینے کا ارادہ کرنا اور قبیح کا مطلب عقاب دینے کا ارادہ کرنا ہے، لہذا خدا کا بندوں کےتمام افعال کا ارادہ کرنا عدل و حسن ہے کیونکہ اس پر حسن و قبح کا وہ اصول لاگو ہی نہیں جو بندوں پر لاگو ہے، وہ جو چاہے وہی حسن ہے۔ یہ "مسئلہ شر " (problem of evil) کا اشعری حل ہے۔

یہاں نوٹ کیجئے کہ ماتریدیہ بھی اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ خدا انسان کے سب افعال کا خالق ہے لیکن ان کے استدلال کا اصول مختلف ہے۔ اسی طرح تینوں (معتزلہ، ماتریدیہ و اشاعرہ) کے نزدیک خدا کا ہر فعل حسن ہے اور وہ شر کا ارادہ نہیں کرتا، تاہم توجیہ کا طریقہ الگ اصول پر مبنی ہے۔

ج) اسی اصول پر خدا افعال متولدہ کا بھی خالق ہے۔

د) خدا کے لئے جائز ہے کہ بندوں کو بلا کسی سابقہ گناہ لطف و عوض کے بنا تکلیف دے۔

ھ) خدا کے لئے جائز ہے کہ کافر کو ابدی جنت اور ایمان والے کو ابدی جہنم دے، عقل کی رو سے خدا کے اس فعل میں کوئی ظلم و سفاہت نہیں۔

و) خدا کے لئے جائز ہے کہ بندوں کو ایسا حکم دے جس کی ادائیگی کی استطاعت بندے میں نہ ہو، عقل کی رو سے اس میں کوئی سفاہت نہیں۔

ذ) خدا کی جانب سے کفر و کذب پر ثواب دینے کا ارادہ کرنا عقلاً جائز ہے۔

نوٹ کیجئے کہ (د) تا (ذ) تمام جزئیات کی بنیاد اشاعرہ کے تصور حکمت پر مبنی یہ اصول ہے کہ خدا کا کوئی بھی فعل قبیح، ظلم یا سفاہت نہیں ہوسکتا، حکمت کے وہ تصورات (اصلح للعباد اور عاقبت حمیدہ) جن کی بنیاد پر قبیح لعینہ، ظلم یا سفاہت کے احکام خدا کے افعال پر جاری کئے جاتے ہیں، اشاعرہ اس کی بنیاد ہی کے قائل نہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اشاعرہ یہ نہیں کہتے کہ خدا کے حکم میں انسان کی کوئی مصلحت ہو ہی نہیں ہوسکتی، نص سے یقینا اس کا علم ہوسکتا ہے۔ درج بالا بحث حکم عقلی کے تناظر میں ہے۔

19۔ مسائل حسن و قبح پر تین گروہوں کے مواقف کا خلاصہ و موازنہ اس گوشوارے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ماتریدیہ کے ہاں دو آراء دکھانے کا مقصد جزئیات میں ماتریدیہ کا معتزلہ و اشاعرہ کے ساتھ امکانی حد تک اتفاق و عدم اتفاق کے پہلووں کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ ماتریدیہ کو عام طور پر تحریروں میں ان دو گروہوں کے مابین رکھ کر بحث کی جاتی ہے، ان جزئیات سے متعلق بعض اختلافات دیگر کلامی مکاتب فکر کے ہاں بھی مل جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ جزئیات میں دونوں گروہوں سے اتفاق و عدم اتفاق سے علی الرغم ماتریدیہ کا اصول اور توجیہہ کا طریقہ دونوں سے مختلف ہے۔

خاتمہ بحث

20۔ یہ تحریر چند امور پر روشنی ڈالتی ہے:

الف) "فلاں قدیم عالم کی فلاں رائے ظاہر کرتی ہے کہ ان پر اعتزال کا اثر تھا"، یہ طریقہ بحث ناکافی ہے کیونکہ یہ محض نتائج دیکھ کر فیصلہ کرنا ہے جبکہ یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ان کا اصول کیا تھا۔ معتزلہ و ماتریدیہ الگ اصول کی بنیاد پر بعض یکساں نتائج تک پہنچتے ہیں۔

ب) معتزلہ و ماتریدیہ ہر ایک کے نزدیک اگرچہ عقل اور وحی خیر و شر کو ظاہر کرتے ہیں نیز عقل سے بعض امور کی تکلیف لازم آتی ہے، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے نزدیک وحی کی ضرورت نہیں کیونکہ عقل سے معلوم ہونے والے ایسے معاملات بہت کم ہیں نیز وحی نے انہیں بھی موضوع بنایا ہے۔ چنانچہ حکمت کے پہلو سے ماخوذ قضایا کا زیادہ تر مقصد نص کی شرح کی بعض حدود و قیود متعین کرنا ہے (کہ مثلا چونکہ یہ اصول قطعی ہیں، لہذا نص میں ان امور کے خلاف بات نہیں ہوسکتی اور اگر بظاہر ہو تو ان اصولوں کی روشنی میں ان کی مناسب توجیہہ کی جائے گی)۔

ج) معتزلہ کے موقف سے متعلق یہ غلط فہمی عام رہی ہے کہ ان کے نزدیک عقل موجب (تکلیف شرعی واجب کرنے والی) ہے جبکہ ماتریدیہ کے نزدیک عقل صرف کاشف (اس تکلیف کو ظاہر کرنے والی) ہے، موجب ذات باری ہے۔ تاہم یہ کمزور بات ہے جیسا کہ قاضی عبد الجبار معتزلی (م 415 ھ ) کی کتب نیز متاخرین علمائے کلام کی آرا سے واضح ہے کیونکہ معتزلہ کے نزدیک بھی حسن و قبح کی وجودی بنیاد ذات باری کی صفت حکمت ہے (اگرچہ وہ اس کا الگ مفہوم مراد لیتے ہیں)۔ اس غلط فہمی کی بنا پر معتزلہ کو ان کے مخالفین کی جانب سے عقل سے شریعت سازی کرنے کا الزام دیا جاتا رہا۔

د) معتزلہ کا اصل مقصد شریعت کو معطل کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا اصل زور چار پہلووں پر تھا:

  • شر سے خدا کی تنزیہہ و پاکی بیان کرنا،
  • انسانی ذمہ داری کے لئے انسان کے اختیار کے پہلو کو اجاگر کرنا،
  • یہ واضح کرنا کہ خدا کی جانب سے بندوں کو مکلف بنانا عدل کے انسانی تصورات و تقاضوں کی رو سے عین جائز ہے اور اگر نبی مبعوث نہ ہو تب بھی بندے عقل و فطرت کے تقاضوں کے تحت جوابدہ ہوں گے،
  • نیز اثبات نبوت کی دلیل سے متعلق بعض مسائل کا قابل فہم حل نکالنا (اس پہلو پر تحریر میں گفتگو نہیں ہوئی، ماتریدیہ کے بعض مواقف کے پس پشت بھی یہ پہلو موجود ہے)۔

ھ) معتزلہ کے موقف کو عمومی قسم کے بیانات کے ساتھ بیان کرکے اسے معتزلہ کی جانب منسوب کرنا درست نہیں کیونکہ وہ عمومی بیانات اہل سنت کے موقف پر بھی لاگو ہو جاتے ہیں۔ مثلاً یوں کہنا کہ "معتزلہ کے نزدیک حسن و قبح اعمال کے ذاتی اوصاف ہیں جنہیں عقل سے جانا جاسکنا ممکن ہے اور اس عقلی ادراک سے تکلیف شرعی لازم آتی ہے"۔ ظاہر ہے یہ عمومی بیان اہل سنت میں ماتریدیہ کے ایک گروہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی لئے خود ماتریدیہ اپنی کتب میں تحسین و تقبیح پر بحث کرتے ہوئے اپنا موقف یوں بیان نہیں کرتے بلکہ وہ اصلح للعباد کے پہلو اور اس کے تقاضوں کی تردید پر زور دیتے ہیں کیونکہ یہ وہ خاص پہلو ہے جو ماتریدیہ کو معتزلہ سے الگ کرتا ہے۔

و) ماتریدیہ کے موقف کو صرف جزئیات پر فوکس کرتے ہوئے معتزلہ و اشاعرہ کے مواقف کے مابین بطور سینڈوچ ("درمیانی" یا "متوسط" رائے) بنا کر پیش کرنا درست طریقہ نہیں، بالخصوص جب اصول بھی واضح نہ کیا جائے۔

ذ) محض جزئیات کے پیش نظر اشاعرہ کے بعض مواقف سے جو توحش محسوس ہوتا ہے(مثلاً یہ کہ خدا کفر کا حکم دے سکتا ہے)، وہ ان کا اصول نہ سمجھنے کی بنا پر ہوتا ہے۔

ح) ماتریدیہ میں بخاری روایت کے حاملین مسائل تحسین و تقبیح میں اگرچہ اکثر و بیشتر اشاعرہ کے ساتھ ہیں، تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں کے ہاں حکمت کا مفہوم بھی یکساں ہے، اشاعرہ ان نتائج تک حکمت کے اپنے جدا گانہ تصور کی بنا پر پہنچتے ہیں۔ اسی لئےیہ ہر مسئلے پر یکساں رائے نہیں رکھتے۔

ط) اسی طرح مسائل تحسین و تقبیح پر ماضی قریب اور جدید دور کی بعض شخصیات کی آرا کو بھی بعض جزوی مماثلتوں کی بنا پر معتزلہ کی رائے کے ساتھ ملانا درست نہیں کیونکہ اس نوع کی آرا اہل سنت کے ہاں بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی ہر کسی کے اصول کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

اس مختصر تحریر میں مسائل تحسین و تقبیح کے اصولوں اور اکثر جزئیات کا نچوڑ پیش کردیا گیا ہے۔ وما توفیقی الا باللہ


طہٰ حسین: مغرب پرستی سے اسلام پسندی تک

مولانا ابو الحسین آزاد

بیسویں صدی عیسوی کی اسلامی دنیا نے جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو فکری اور تہذیبی ارتداد میں مبتلا ہوتے اور پھر واپس اسلام پسندی کی طرف رجوع کرتے ہوئے دیکھا۔ جن میں ایک بڑا نام طہ حسین کا بھی ہے۔اس عبقری ادیب اور عالمی شہرت کے حامل مفکر کا نام اب اردو دنیا کے لیے اجنبی نہیں رہا۔ ان کی متعدد کتب کے اردو میں تراجم ہو چکے ہیں لیکن عرب دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی ان کے متعلق بہت سے ذہنوں میں مختلف طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد انھیں ملحد، مستشرق، دین دشمن اور متجدد جیسے القابات سے یاد کرتی ہے۔دوسری طرف ان کے پرستار بھی ان کی فکر کے اسی منحرف پہلو ہی کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں فریق اس طہ حسین کو فراموش کردیتے ہیں جس نے حدیبیہ کی مٹی کو اٹھا کر زار و قطار روتے ہوئے کہا:مجھے اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو آتی ہے۔

 معروف مصری مفکر، محقق اور سینکڑوں کتابوں کے مصنف ڈاکٹر محمد عمارہ مرحوم نے 2014ء میں "طه حسين ما بين الانبهار بالمغرب إلى الانتصار للإسلام" کے نام سے کتاب لکھی جس میں انھوں نے افراط و تفریط سے ہٹ کر طہ حسین کے متعلق ایک متوازن رائے قائم کرنے کی کوشش کی اور شدید قسم کی مغرب زدگی سے لے کر گہری اسلام پسندی تک طہ حسین کے فکری سفر کی داستان خود طہ حسین کی اپنی تحریروں کی روشنی میں بیان کی ۔ ذیل میں ہم  ڈاکٹرمحمد عمارہ کی اسی کتاب کی روشنی میں طہ حسین کے اس فکری ارتقا کا جائزہ لیں گے۔

طہ حسین 1989ء میں مصر کی ایک بستی میں پیدا ہوئے۔ تین سال کی عمر  میں ایک بیماری سے ان کی بینائی چلی گئی۔انھوں نے اپنی بستی ہی کے مکتب میں قرآن مجید حفظ کیا اور 1902ءمیں جامعۃ الازہر میں داخل ہو گئےجہاں اس وقت مفتی محمد عبدہ اور شیخ محمد بخیت سمیت متعدد بڑے بڑے شیوخ پڑھاتے تھے۔ طہ حسین ایک ذہین لیکن باغی اور سرکش طالب علم تھے۔ جس کی وجہ سےالازہر کے شیوخ نے انھیں عالمیہ کی ڈگری دینے سے انکار کر دیا۔چناں چہ1908ء میں طہ حسین یہاں سے جامعہ مصریہ میں چلے گئے۔ جہاں انھوں نے مستشرقین اساتذہ سے پڑھا۔ انھیں تعلیم کا یہ  طریقہ اور مستشرقین کا اسلوب کافی پسند آیا۔اسی دوران انھوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھی۔

ڈاکٹر عمارہ نے طہ حسین کی فکری زندگی کو چار ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ 1908ء سے 1914 تک کے دورانیے کو وہ "شیخ طہ حسین کا دور" یا اردو محاورے میں "مولانا طہ حسین کا دور" کہتے ہیں۔ اس عرصے میں طہ حسین ایک مسلمان عالم و مفکر کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔وہ تجدید اور اجتہاد کی بات کرتے ہیں،قرآن مجید کو عبادات، قانون، حکمت اور تشریع کی کتاب بتاتے ہیں، احکام کی علل و مقاصد کا ذکر کرتے ہیں،ایک خاص معنی میں سیکولرازم کو مسترد کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ إننا ملزمون بنشر الإسلام، و محو آثار الشرك ،وہ عورتوں کی ترقی کے معاملے میں کتاب اللہ ہی کو بنیاد مانتے ہیں اور کہتے ہیں:

"إن رقي المسلمين رهين بأن يرجعوا إلى أصول دينهم الذي أهملوه، وكتابهم الذي أغفلوه…وعلى غير ذلك لا تقوم لهم قائمة، ولاتصلح لهم جيل."(ص: ٢٧)

"مسلمانوں کی ترقی کا مدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے دین کے ان اصولوں کی طرف رجوع کریں جنھیں انھوں نے چھوڑ دیا ہے اور اس کتاب کی طرف جسے وہ پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔۔۔ اس کے بغیر ان کی حالت درست ہوسکتی ہے نہ ان کی نسلیں سنور سکتی ہیں۔"

بلکہ سب سے بڑھ کر طہ حسین اہلِ کتاب عورتوں سے مسلمانوں کےنکاح پر بھی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں اورسد ذرائع کے طورپر اسے ممنوع قرار دینے کی بات کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اب ہمارے اخلاق ورجحانات اس قدر بدل چکے ہیں اور ہمارے نفوس اتنے کمزور پڑ چکے ہیں کہ کتابیہ سے نکاح کی حلت کے حکم پر عمل کرنا انتہائی خطرناک ہے:

"لاشک عندي أنه يجب علينا أن نحتاط كل الاحتياط في استعمال هذا الحكم… ولست أرى من بأس إن قلت إنه حرام ممقوت."(ص 28)

"میرے نزدیک اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس حکم (کتابیہ سے نکاح کا جواز)کے استعمال میں مکمل احتیاط سے کام لینا چاہیے۔۔۔۔اور میرے خیال میں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر میں یہ کہہ دوں کے یہ سخت حرام ہے۔"

لیکن "مولانا" طہ حسین کی اس ابتدائی زندگی میں بھی ایک چیز کافی تشویشناک ہے، جو آگے بہت دورتک ان کے ساتھ چلتی رہے گی اور وہ ان کے سیاسی رجحانات ہیں۔ طہ حسین سیاسی اعتبار سے "حزب الامۃ" نامی شدید سیکولر اور وطن پرست سیاسی جماعت کی لسانِ ناطق  بن گئے تھے۔

 انھوں نے اس جماعت کے جریدے میں "ملت از وطن است" کے نظریے کا بھرپور پرچار کیا اور کہا کہ دین قومیت کی تشکیل نہیں کرسکتا۔ قومیت کی بنیاد ہمیشہ وطن ہی پر ہوتی ہے۔ حتی کہ انھوں نے خلافتِ راشدہ کی قومیت کی بنیاد بھی اسلامیت کی بجائے عربیت کو قرار دیا۔

1914ء میں طہ حسین کا اعلی تعلیم کے لیے فرانس جانا ان کی زندگی کے دوسرے اور معرکۃ الآراءمرحلے کا مقدمہ تھا۔ مغرب میں جاکر وہ مغربی فلسفے، تہذیب اور افکار و نظریات کی چکا چوند سے صرف متاثر ہی نہیں ہوئے بلکہ بقول ڈاکٹر عمارہ طریقتِ مغربی  کے ایک مست حال  درویش بن گئے۔ اب ان کی نابینا آنکھوں کو مغربی قمقموں کے علاوہ ہر چراغ کی روشنی ناکارہ محسوس ہونے لگی۔

فرانس میں انھیں سوزان نامی ایک مسیحی لڑکی ملی جو پڑھنے لکھنے سے لے کر چلنے پھرنے تک ہر طرح کے کاموں میں ان کی مدد کرتی تھی۔ طہ حسین نے سوزان کو شادی کی پیش کش کی۔ سوزان نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ تم ایک مسلمان، غیر ملکی اور نابینا آدمی ہو۔ لیکن ازاں بعد اپنے پادری چچا کے کہنے پر اس راسخ العقیدہ مسیحی لڑکی نے اس "غیر ملکی، مسلمان اور نابینا" سے شادی کر لی۔ ڈاکٹر عمارہ کے خیال میں سوزان کا پادری چچا اس شادی کے ذریعے طہ حسین کی عالی ذہانتوں اور صلاحیتوں کو مغربی عزائم و مقاصدکے فروغ کے لیے ٹھوس بنیادوں پر وقف کروانا چاہتا تھا۔

1919ء میں طہ حسین فرانس سے ڈاکٹریٹ کر کے واپس آئےتو ان کے دل ودماغ مکمل طور پر مغربیت کے نشے سے چور تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ ان کی اہلیہ نے بقیہ تمام زندگی مصر میں گزارنے کے باوجود اپنےمذہب، اپنی تہذیب وثقافت اور اپنی زبان سے تعصباتی لگاؤ کو ترک نہیں کیا اور عميد الأدب العربي کی اس بیوی نے اپنے اوپر ادنی برابر بھی عربیت کا رنگ نہ چڑھنے دیا۔ وہ طہ حسین کے لیے ہمیشہ مسیحی سیکرٹری رکھتی تھیں۔قرآن سمیت طہ حسین کو سب کتابیں وہی سناتا۔گویا نابینا طہ حسین کی آنکھیں، کان، زبان اور ٹانگیں سب مغربی، فرانسیسی اور مسیحی بن گئے تھے۔ طہ حسین نے بچوں کے نام امینہ اور مؤنس رکھے لیکن سوزان نے انھیں ہمیشہ مارگریٹ (Margaret)اور کلود(Claude) ہی پکارا۔ مؤنس بعد ازاں فرانس جا کر مسیحی ہوگیا۔ سوزان کو طہ حسین سے محبت ضرور تھی۔ اس نے "تمھارے ساتھ" کے نام سے طہ حسین کے بارے میں فرانسیسی میں کتاب بھی لکھی لیکن طہ حسین پر اس کے سلبی اثرات کا یہ عالم تھاکہ وہ جب شاہ مراکش کی دعوت پر مراکش گئے تو انھوں نے اپنے معاون سے کہا: مجھے مسجد القرویین لے چلو، میں وہاں دو رکعتیں ادا کروں گا لیکن یہ بات مادام کو مت بتانا۔طہ حسین کو کتابی عورتوں کےساتھ نکاح کرنےکےنقصانات کے متعلق لکھی ہوئی اپنی بات ہی یاد نہ رہی!

1919ء میں فرانس سے واپسی سے لے کر 1930ء تک کے اس دوسرے مرحلے کو ڈاکٹر عمارہ ، طہ حسین کےشدید ترین مغرب پرستی کے دور  سے تعبیر کرتے ہیں۔اب اسلامی تجدید واجتہاد تو کیا وہ سرے سے اسلام ہی سے بیزار نظر آنےلگے۔انھوں نے فرانسیسی کے علاوہ یونانی اور لاطینی زبان بھی سیکھ لی تھی۔1925ء میں انھوں نے "قادۃ الفکر" کے نام سےیونانی فلسفیوں کے بارے کتاب لکھی۔ جس میں انھوں یونانیوں کی مدح و ثنا میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے:انسانی فکر کا آغاز یونان سے ہوتا ہے، یونان ہی عقل و شعور اور تہذیب و تمدن کا منبع ہے، یونانی منطق اپنی پائیداری میں دہر سے زیادہ طاقت ور ہے۔افلاطون کی کتابیں آیات ہیں۔ ارسطو کی منطق ابدی و اٹل ہے۔

اس پوری کتاب میں یونانی فلسفے پر طہ حسین نے وہ لازمی نقد وجرح بھی نہیں کی جو تمام مغربی محققین تک کرتے رہےہیں۔حتی کہ انھوں نے اسکندر کو بھی محض ایک حملہ آور اور فاتح کی بجائے عظیم ترین فکری لیڈر قرار دیا۔ان کے بقول اسلام اور مسیحیت ایک درمیانی وقفہ ہیں ورنہ انسانیت کا ماضی ، حال اور مستقبل سب یونانی فکر و تہذیب ہی سے وابستہ ہے۔وہ مصر کی اصل بھی یونانی اور رومی تہذیب کو قرار دینے لگے اور پرجوش انداز میں مغربی فکر و فلسفے اور مناہج و اسالیب کی مکمل اتباع اور کامل پیروی(جس میں خذ ما صفا ودع ما کدر کے فطری اصول کے لیے کوئی جگہ نہ تھی بلکہ صریح لفظوں میں غیر مشروط اور اندھی تقلید) کے داعی بن گئے۔

عثمانی خلافت کے سقوط کے بعد 1925ء میں طہ حسین کے دوست شیخ علی عبد الرزاق کی متنازع کتاب "الإسلام وأصول الحكم" آئی۔ جس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام کو ایک سیکولر مذہب کے روپ میں پیش کیا گیا اور یہ دعوی کیا گیا کہ اسلام کی تعلیمات اخلاقی اور ایمانی نوعیت کی ہیں، ان کا حکومت و سیاست سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ کتاب طہ حسین کی نظرِ ثانی کے بعد ہی شائع ہوئی اوربقول ڈاکٹر عمارہ ایک طویل فکری مزاحمت اور معرکے کے بعد علی عبد الرزاق کی اپنی وضاحتوں اور قرائن سے یہی ثابت ہوا کہ اس کتاب کا قابلِ اعتراض اور اسلام کی سیکولرائزیشن کرنے والا حصہ طہ حسین ہی نے لکھا تھا۔

اگلے سال ان کی کتاب "في الشعر الجاهلي" آئی جس میں انھوں نے شک و ارتیاب کے منہج کو اختیار کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ عہد جاہلی کی طرف منسوب تمام شاعری کو اختراعی اور من گھڑت قرار دیا بلکہ یہاں تک کہا کہ تورات اور قرآن ہمیں ابراہیم اور اسماعیل کے بارے میں بتاتے ہیں لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ واقعتا کوئی تاریخی شخصیات ہوں۔ نیز یہ بھی کہا کہ حضرت ابراہیم کے ہاتھوں کعبہ کی تعمیر کی کہانی دراصل اسلام کے نئے مذہب کو عرب کا قدیم مذہب ثابت کرنے اور اسلام اور یہودیت کے مابین تعلقات استوار کرنے کا ایک حیلہ تھی۔ اسی طرح انھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےخانوادے اور قبیلے کی عالی نسبی، شرف اور سیادت سے متعلقہ روایات کو بھی تعریضا استہزا کا نشانہ بنایا۔

یہ کتاب اپنے ساتھ ایک بھونچال لے کر آئی۔ اس کے رد میں لکھی جانے والی کتابیں، مقالات اور اس پر کیے جانے والے تبصرے اتنے زیادہ ہیں کہ ان سے ایک الماری بھری جاسکتی ہے۔اس معرکے کی حرارت آج بھی عربی ادب کے طالب علم رافعی اور فرید وجدی وغیرہ کی کتابوں میں محسوس کرتے ہیں۔ طہ حسین کو شدید مخالفت، عوامی وحکومتی مزاحمت اور تفتیش کا سامنا کرنا پڑا اورکتاب مکتبوں سے اٹھا لی گئی۔آخرِ کار طہ حسین نے قابلِ اعتراض عبارتیں حذف کر دیں اور وضاحتی اور معذرتی بیان جاری کردیا۔

بیسوی صدی کی تیسری دہائی طہ حسین نے انہی تنازعات اور معرکہ آرائیوں میں گزاری۔ ایک خاص بات یہ دیکھنے میں آئی کہ ان کی تحریروں سے رسولِ اکرمؐ کے اسمِ گرامی کے ساتھ "صلی اللہ علیہ وسلم" کا لاحقہ لگنا ختم ہوگیا۔"في الشعر الجاهلي"  کے بعد طہ حسین نے "في الأدب الجاهلي" بھی لکھی تھی جس پر بھی وہی معرکہ آرائیاں اور رسوائیاں دیکھنے کو ملیں۔طہ حسین کو نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور بہت سے حمایتی بھی ڈھیلے پڑ گئے۔ حتی کہ بقول سوزان وہ اتنا تنگ آئے کہ خود کشی کا بھی سوچنے لگے۔اس سب صورتِ حال نے آخرِ کارطہ حسین کو بہت کچھ سوچنے اور فکری مراجعت کرنے پر مجبور کیا۔ انھوں نے بعد میں یہ اعتراف بھی کیا کہ ان کتابوں پر برپا ہونے والی معرکہ آرائی میں معترضین کے خلاف جو توہین آمیز رویہ  اورسخت لب ولہجہ انھوں نے اختیار کیا وہ ایک احمقانہ اور شریر حرکت تھی۔یہیں سے ان کی فکری زندگی کا اگلا دور شروع ہوتا ہے۔

طہ حسین کی زندگی کا تیسرا دور 1932ء سے 1952ء تک کے بیس سالوں پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر عمارہ اسے "بتدریج رجوع" سے تعبیر کرتے ہیں۔اس عرصے میں طہ حسین نے پہلی مرتبہ مغرب کی تمجید وتعظیم کے مبالغہ آمیز رویے سے ہٹ کر اسے تنقید کے دائرے میں لانے کی روش اپنائی۔ انھوں نےاعتراف کیا کہ انقلابِ فرانس حریت اور مساوات کی انسانی قدروں کو عالمی سطح پر فروغ دینے میں ناکام رہا ہے۔نیز وہ نطشے اور شوپن ہار کی بجائے نوجوانوں کو ابو العلا معری کے مطالعے کی طرف راغب کرتے دکھائی دیے۔

 بیسیویں صدی کی چوتھی دہائی(1930 - 1940) میں مصری ادب میں ایک غیر معمولی انقلاب آیا۔مصر کے تمام بڑے ادیب اور اعلی تعلیم یافتہ مفکری،ن جن کے دل و دماغ پر مغربی سیکولرازم اور لبرل ازم نے اپنے گہرے جالے بُن رکھے تھے وہ اسلامی موضوعات اور خصوصیت سے اسلامی شخصیات کے متعلق لکھنے لگے۔حسین ہیکل، عقاد اور احمد امین وغیرہ کی مشہور و معروف کتابیں اسی دور میں منظرِ عام پر آئیں۔ یہ محض عوامی رجحانات اور مطالبات کے ساتھ ایک سمجھوتہ نہیں تھا بلکہ ایک طویل فکری مسافت قطع کرنے کے بعد یہ لوگ اس حقیقت تک پہنچ چکے تھے کہ مغربیت کی بجائے اسلامی فکر و نظر ان کے سیاسی، سماجی، اخلاقی اور نفسیاتی مسائل کا بہترین اور متوازن حل ہے۔

تدریجی رجوع کے اس دورانیے میں طہ حسین نے "على هامش السيرة" کے عنوان سے سیرت ِ طیبہ کے مختلف واقعات کو مخصوص ادبی پیرائے میں لکھنا شروع کیا۔ اس کتاب میں انھوں نے معجزات اور خرقِ عادت واقعات کو بھی بکثرت ذکر کیا۔ وہی طہ حسین جو کچھ عرصہ پہلے تک یونانی منطق اورکارتیسی تشکیک کی محراب میں کھڑے ہوکراندھی عقل پرستی  کےزمزمے گایا کرتےتھے وہ اس کتاب کی پہلی جلد میں عقل کے دائرۂ کار کی محدودیت اور انسانی شعور کے دیگر آفاقی میلانات کی بات کرنے لگتے ہیں۔ دوسری جلد میں یہ رنگ زیادہ تیز ہوجاتا ہے۔ایک راہب کی زبانی  طہ حسین لکھتے ہیں:

فإني يابني أرى أن في العقل تمردا وغرورا. قد خضعت له طائفة من الأشياء، وذلت له بعض صور الطبيعة، فظن أن كل شيء يجب أن يخضع له، وأن كل صورة من صور الطبيعة يجب أن تذعن لسلطانه، والحوادث مع ذلك تثبت له من يوم إلى يوم، بل من لحظة إلى لحظة أنه لم يعلم من الأمر إلا أقله، ولم يستذل من صور الطبيعة إلا أيسرها وأهونها شأنا.
وإن غرور العقل يابني قد زين له أن يجعل للطبيعة قوانين، ويفرض عليها قيودا وأغلالا، وألا يؤمن إلا بها ولايرضى عنها إلاإن خضعت لقوانينه، ورسفت في قيوده وأغلاله. ولكن قوانينه لم تحط بكل شيء، ولكن قيوده وأغلاله لم تبلغ كل شيء. ومازالت الطبيعة حرة طليقة، وما زالت أكبر من العقل، وأوسع من سلطانه وأبعد من مرماه…والله يجري هذه المعجزات على أيدي رسله وأنبيائه ليظهر العقل على أنه مازال ضعيفا قاصرا، وعلى أن علمه ما زال بعيدا، وسيظل بعيدا عن أن يحيط بكل شيء. (على هامش السيرة ٢/٢٩٣، ٢٩٤)

"بیٹا! میری رائے یہ ہے کہ عقل میں سرکشی اور خودفریبی ہے۔ بہت سی چیزیں اس کے آگے جھک گئی ہیں اور فطرت کی بعض صورتیں اس کے تابع ہوگئی ہیں تو اب وہ یہ گمان کرنے لگی ہے کہ ہر چیز کو اس کے سامنے جھک جانا چاہیے اور فطرت کی ہر صورت کو اس کی حکمرانی کے سامنے سر تسلیم خم کردینا چاہیے۔ جب کہ حوادث روز بہ روز بلکہ لمحہ بہ لمحہ ثابت کر رہے ہیں کہ اس (عقل)نے ابھی بہت تھوڑا علم حاصل کیا ہے اور فطرت کی محض سب سے سہل اور ہلکی صورتوں کو اپنے تابع کیا ہے۔

اور بیٹا! عقل کی خود فریبی نے اس کے لیے یہ مزین کردیا ہے کہ وہ فطرت کے لیے قوانین بنائے اور اس پر قیود اور پابندیاں نافذ کرے اور صرف انھیں قوانین ہی پر راضی ہو اور فطرت سے صرف تب خوش ہو جب وہ ان قوانین کے آگے جھک جائےاور اسی کی بیڑیوں اور زنجیروں میں گھسٹتی رہے۔ لیکن عقل کے قوانین نے ہر چیز کا احاطہ نہیں کر رکھا اور اس کی قیود اور بیڑیوں کی رسائی ہر چیز تک نہیں ہے۔ فطرت اب بھی آزاد ہے، وہ اب بھی عقل سے بڑی ہے اور اس کے دائرۂ اختیار اور جولان گاہ سے زیادہ وسیع ہے۔۔۔ اللہ اپنے رسولوں اور انبیاء کے ہاتھ پر معجزات جاری کرتا ہے تا کہ عقل پر ظاہر کر کے کہ وہ ہنوز کمزور اور عاجز ہے، اس کا علم ابھی بھی بہت  بعیدہے اور آئندہ بھی ہر چیز کا احاطہ کرنے سے بعید ہی رہے گا۔"

اسی دوران مصر میں مسیحی مشنریوں نے دھونس دھاندلی کے ذریعے مسیحیت کی ترویج شروع کردی۔ جس کے خلاف طہ حسین نے پرزور احتجاجی مضامین لکھے۔ پھر بہائیت اپنے پر پرزے نکالنے لگی تو طہ حسین نے اس پر بھی قلم اٹھایا۔ قرآنی بیانات کی صداقت میں شک کرنے والا طہ حسین ایک مرتبہ پھر سے قرآن کے معجزانہ اسلوب اور اس کے احکام کی ابدیت کے رجز پڑھنے لگا۔ شیخ الازہر نے سود کے معاملے میں نرمی دکھانے کی کوشش کی تو طہ حسین نے کہا: خطیب بغدادی کی کتاب جس میں ابو حنیفہ پر تنقید کی گئی ہے اس پر پابندی لگانے سے زیادہ اللہ کو یہ پسند ہے کہ حکومت، عوام اور الازہر سود کو روکیں۔

نیز کل تک طہ حسین محمد عبدہ کو بھی کسی خاطر میں نہ لاتے تھے۔ اب وہ ابن تیمیہ اور ابن عبد الوہاب کو بھی سراہنے لگے۔ لکھتے ہیں:

إن مذهب محمد بن عبد الوهاب جديد قديم معا. جديد بالنسبة للمعاصرين، ولكنه قديم في حقيقة الأمر لأنه ليس إلا الدعوة القوية إلى الإسلام الخالص النقي المطهر من كل شوائب الشرك والوثنية، هو الدعوة إلى الإسلام كما جاء به النبي خالصا. (107)

"محمد بن عبد الوہاب کا مسلک بیک وقت جدید اور قدیم ہے۔ معاصرین کے لیے تو وہ جدید ہے لیکن حقیقت الامر میں وہ قدیم ہے کیوں کہ یہ محض شرک و بت پرستی سے پاک صاف اور خالص اسلام کی طاقت ور دعوت ہے۔ یہ اسلام کی طرف دعوت ہے جیسا کہ اسے نبی علیہ السلام خالص شکل میں لے کر آئے تھے۔"

وہ اسلام کے سیاسی نظام اور خلافت کے ایک متوازن دینی و دنیوی نظامِ حکومت ہونے کے قائل ہوگئے۔ اس دورانیے میں حضور علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شخصیات سے طہ حسین کا تاثر بڑھتا چلا گیا۔ انھوں نے "المعذبون في الأرض" لکھی جس میں صحابہ کرام کی سیرتوں کی روشنی میں اسلام کے سماجی انصاف کی منظر کشی کی اور سرمایہ دارانہ نظا م پر تنقید کی۔ "الفتنة الكبرى" طہ حسین کی وہ پہلی کتاب جس کا آغاز بسم اللہ اور صلوۃ وسلام سے ہوتا ہے۔

لیکن اس رجوعی دورانیے میں دو چیزیں ایسی تھیں جن پر طہ حسین بدستور برقرار رہے۔ ایک تو وہ اسلام اور عربی زبان کو مصری اور عرب قومیت کا اہم ترین عنصر ماننے کے باجود اسے قومیت کی اساس اور بنیاد قرار دینے کے قائل نہ ہوئے۔ انھوں نےبدستور مصری قومیت کا مرکزی انتساب فرعونیت کی ہی طرف باقی رکھا۔ دوم 1938ء میں ان کی ایک اور متنازعہ کتاب "مستقبل الثقافة في مصر" آئی۔ جس میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر سے مصر کو یونانی، رومی اور جدید مغربی تہذیب کے اتباع کی دعوت دی ۔ اور انھی تہذیبوں کو مصر کا قوامِ عظیم ثابت کیا۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسلام اور مسیحیت مصر کی اصلی تہذیبی شناخت کو نہیں بدل سکے۔ اسلام پسندی کے برعکس طہ حسین کی یہ کتاب ایک یکسر متضاد رجحان ظاہر کرتی ہےجس کے رد میں سید قطب نے بھی قلم اٹھایا۔ مجموعی طور پر 1952ء تک کے اس دورانیے کو ڈاکٹر عمارہ نے زچگی کے مرحلے سے تعبیر کیا جس سے 1952ء کے بعد ایک نئے طہ حسین نے جنم لیا۔

جولائی 1952ء میں مصر میں جمہوری انقلاب نےبادشاہت کا تختہ الٹ دیا۔ یہ طہ حسین کی زندگی کا بھی ایک انقلاب انگیز مرحلہ تھا۔ انقلاب کے بعد وہ جمہور، عربیت اور اسلام کی لسانِ ناطق بن گئے۔ 1953ء میں دستور سازی کے دوران انھوں نے ڈاکٹر عبد الرحمن بدوی کی اس رائے کو رد کردیا کہ عورت کو مرد کے مساوی میراث ملے۔ انھوں نے قانون سازی میں اس بات پر زور دیا کہ اگر اسلام ریاست کا مذہب ہے تو پھر قانون سازی قرآن کے مطابق ہونی چاہیے۔ اسی طرح تدریجا وہ مصری وطن پرستی، فرعونی قومیت اور مغرب پرستی سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔ وہ اپنی کتاب "مستقبل الثقافة في مصر"کو دوبارہ شائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اس کی وجہ انھوں نے یہ بیان کی کہ اب یہ کتاب کافی ترمیم واصلاح کی مستحق ہے۔ انھوں نے مغربی استعمار پر تنقید بھی کی اور مصری قومیت کا انتساب اسلام، قرآن اور عربیت کی طرف کرنے لگے۔انھوں نے کہا:

والقومية العربية إذا أردنا أن نعرف متى تكونت بالمعنى الدقيق لكلمة القومية فينبغي أن نرد هذا إلى ظهور الإسلام، فالمكون الحقيقي للوحدة العربية بجميع أنواعها وفروعها: الوحدة السياسية والاقتصادية والاجتماعية واللغوية أيضا، إنما هو النبي ﷺ هو الذي جاء بالقرآن، ودعا إلى الحق. (ص 126)

"اگر ہم قومیت کے لفظ کے دقیق معنی میں جا کر یہ جاننا چاہیں کہ عرب قومیت کب بنی تو ہمیں اسے اسلام کے ظہور سے جوڑنا چاہیے۔ سیاسی، اقتصادی، سماجی حتی کہ لسانی وحدت سمیت عرب وحدت کی تمام انواع کےحقیقی تشکیل دینے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو کہ قرآن لے کر آئے اورجنھوں نے حق کی طرف دعوت دی۔"

اس چوتھے مرحلے میں طہ حسین کی زندگی کا سب سے بڑا انقلابی موڑ وہ تھاجب وہ 1955ء میں حجازِ مقدس کی زیارت کے لیے گئے۔ جدہ سے مکہ جاتے ہوئے وہ حدیبیہ سے گزرے تو انھوں نے گاڑی رکوائی اور اتر کر حدیبیہ کی مٹی کو اٹھا کر سونگھا اور کہا کہ مجھے اس سے محمد ؐ کی خوشبو آتی ہے۔ پھروہ یہاں گھنٹہ بھر رک کر مسلسل روتے رہے۔ مسجد الحرام میں پہنچے تو حجرِ اسود کے پاس جاکر اور ستارِ کعبہ سے لپٹ کر زار و قطار روئے۔مدینہ جانے کے لیے زمینی راستے سیلاب کی وجہ سے بند تھے اور ہوائی جہاز کے سفر سے طہ حسین کو سخت تکلیف ہوتی تھی حتی کہ انھوں نے بڑے بڑے دورے اس وجہ سے منسوخ کردیے کہ وہ ہوائی جہاز کے سفر سے عاجز تھے۔ لیکن مدینہ جانے کے لیے انھوں نے ہوائی جہاز کی ہامی بھر لی۔ ان سے کہا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو مدینہ کی زیارت اگلی مرتبہ کے لیے ملتوی کردیں لیکن انھوں نے کہا اگر میں نے ایسا کیا تو میں خود کو مجرم تصور کروں گا۔ میں آیا نہیں ہوں مجھے بلایا گیا ہے۔  روضۂ رسول پر ان کی وارفتگی و بے خودی کاعالم دیدنی تھا۔

ان سے پوچھا گیا کہ آپ حجازِ مقدس آ کر کیسا محسوس کر رہے ہیں تو انھوں نے کہا:

"اس مسافر کی طرح جو طویل عرصے کے غیاب و سفر کے بعد اپنی عقل، اپنے دل اور اپنی روح کے وطن میں واپس آیا ہو۔"

ان سے پوچھا گیا کہ یہاں آکر آپ کو کون سے اشعار یاد آئے تو انھوں نے کہا:

"میں اشعار سے زیادہ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہوں۔"

مصر کی فرعونی قومیت وطنیت کا پرچار کرنے والے اور مغرب کی غیر مشروط تقلید کی دعوت دینے والے طہ حسین نے کہا:

"ہرمسلمان کے دو وطن ہیں: ایک وہ جہاں وہ پیدا ہوتا ہے اور ایک یہ بلدِ مقدس جس نے اس کی امت کو پیدا کیا اور اس کے دل، دماغ، ذوق اور جذبات کو تشکیل دیاہے۔"

مدینہ کے ایئر پورٹ پر صحافی نے ان سے کچھ بولنے کو کہا تو وہ بولے:

"اس ارضِ مقدس کی ہیبت بولنے سے مانع ہے۔ میں اس جگہ کیسے کلام کرسکتا ہوں جب کہ اللہ نے کہا ہے: اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اونچی نہ کرو۔"

حجازِ مقدس سے واپسی کے پانچ سال بعد طہ حسین نے اپنی کتاب "مرآة الإسلام" نشر کی۔ایک نئی روحانی اور ایمانی ولادت کے بعد ان کی یہ کتاب ان کی زندگی کا سب سے بڑا فکری رجوع شمار کی جاسکتی ہے۔ اس کتاب میں تقریبا انھوں نے اپنے تمام سابقہ منحرف نظریات سے رجوع کر لیا۔ انھوں نے ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے تاریخی وجود کا بصدقِ دل اقرار کیا، قرآن کی وجوہِ اعجاز سے بحث کی، عقل پرستانہ غلو کی مذمت کرتے ہوئے عقل کی حدود کو زیرِ بحث لائے، یونانی فلاسفہ، ان کے مسلم متبعین، اشراقی تصوف ، معتزلہ اور ابو العلا معری وغیرہ کو نقد وجرح کی میزان میں رکھ کر ان کی غلطیوں کو واضح کیا۔ وہی بات جو اس سے پہلے وہ ایک راہب کی زبانی کہلوا چکے تھے اب وہ انھوں نے خود کہہ دی:

"أن العقل الإنساني ملكة من ملكات الإنسان، وأن هذه الملكة كغيرها من ملكات الإنسان محدودة القوة تستطيع أن تعرف أشياء وتقصر عن معرفة أشياء لم تهيأ لمعرفتها… فلقد تجاوزت المعتزلة ما ألف الصالحون من القصد، فأغرقوا في تحكيم العقل فيما لا يستطيع العقل أن يحكم فيه."(مرآة الإسلام، ص: 282)

"عقل بھی انسانی صلاحیتوں میں سے ایک صلاحیت ہے۔ یہ صلاحیت بھی بقیہ انسانی صلاحیتوں کی طرح محدود قوت والی ہے، کچھ اشیاء کی معرفت حاصل کر سکتی ہے جب کہ کچھ اشیاء جن کی معرفت کی اہلیت اسے نہیں ملی، یہ ان کی معرفت سے عاجز ہو جاتی ہے۔۔۔۔ معتزلہ نے صالحین کی میانہ روی والی  سے تجاوز کیا اور غلو کرتے ہوئےعقل کو ان معاملات میں بھی فیصل بنانے کی کوشش کی جن کے بارے میں فیصلہ صادر کرنے کی استطاعت اس میں نہیں ہے۔"

وہ علمِ جدید کے زیرِ اثر قرآنی آیات کی بے محل تاویل کے بھی سخت خلاف نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں قرآن کی آیات سے وہی مطلب نکالنا چاہیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے سمجھا۔ وہ معجزات کی تاویلِ کی بھی سخت مخالفت کرتےہیں۔ وہ کہتے ہیں:

"وکذلك الذين يقولون إن السموات السبع التي تذكر في القرآن هي الكواكب السيارة، إنما يرجمون بالغيب ويقولون ما لم يقله النبي وأصحابه، ومصدر هذا أنهم يريدون أن يلائموا بين القرآن ومستكشفات العلم الحديث، فيضطرهم ذلك إلى تكليف النصوص من التأويل ما لاتحتمل. وليس على الدين بأس أن يلائم العلم الحديث أو لا يلائمه، فالدين من علم الله الذي لا حد له، والعلم الحديث كالعلم القديم محدود بطاقة العقل الإنساني، وبهذا العالم الذي يعيش الإنسان فيه."(أيضا)

"اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن میں جن سات آسمانوں کا ذکر آیا ہے وہ سات سیارے ہیں، وہ اٹکل پچو اندازے لگا رہے ہیں اور ایسی بات کہہ رہے ہیں جو آنحضرت اور آپ کے صحابہ نے نہیں کہی۔ ان کی بات کا منبع یہ ہے کہ وہ قرآن اور علمِ جدید کے اکتشافات کے مابین ہم آہنگی قائم کرنا چاہتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ نصوص کی ایسی تاویلات کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جن کا وہ احتمال نہیں رکھتیں۔حالاں کہ دین علمِ جدید کے ہم آہنگ  ہو یا نہ ہو اس سے دین پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیوں دین اللہ کے لا محدود علم سے تعلق رکھتا ہے جب کہ علم جدید، قدیم علم کی طرح انسانی عقل کی طاقت اور اس عالم کے ساتھ محدود ہے جس میں انسان رہتا ہے۔"

اسی طرح انھوں نے اجتہاد اور اس کے مصادر کتاب، سنت، اجماع اور اجتہاد پر بھی بات کی اور ان کی ترتیب وار اہمیت کو ذکر کیا۔

اس کتاب کی طباعت کے ایک سال بعد طہ حسین نے اپنے فکر و قلم کاتقریبا آخری گوہر"الشيخان" پیش کیا۔ جس میں انھوں اسلامی قومیت وسیاست کے تصور کا پھر سے اعادہ کیا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گہری محبت اور عقیدت کا اظہار کیا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کی روشنی میں قرآن ہی کو مسلم ریاست کا آئین اور دستور ثابت کیا۔یوں "في الشعر الجاهلي" سے شروع ہونے والا تشکیک و ارتیاب کا سفر "علی ھامش السیرۃ" سے ہوتا ہوا "مرآۃ الاسلام" تک آیا تو "قادۃ الفکر" کے افلاطون و ارسطو کی جگہ حضراتِ شیخین لے چکے تھے۔

اس کے بعد کی زندگی طہ حسین نے لکھنے سے زیادہ پڑھنے میں ہی گزاری۔ وہ ایک دعا مسنون دعا بکثرت پڑھا کرتے تھے۔عمرہ کے موقع پر بھی یہی دعا ان کے وردِ زبان رہی۔ اس سے پہلے کسی مغربی ملک کے اجلاس میں انھوں نے اس دعا کا فرانسیسی ترجمہ پڑھا تھاتو ایک مسیحی خاتون نے اس سے گہرا تاثر لیا، اس نے یہ دعا طہ حسین سے دوبارہ سن کر لکھی اور اسلام اور مسلمانوں کے لیے بے حد محبت وعقیدت کا اظہار کیا۔1973ء میں طہ حسین کا انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق ان کی قبر کے کتبے پر بھی یہ دعا تحریر کی گئی۔ وہ دعا یہ ہے:

اللهم لك الحمد، أنت نور السموات والأرض، لك الحمد، أنت قيوم السموات والأرض، ولك الحمد، أنت رب السموات والأرض ومن فيهن، أنت الحق، ووعدك الحق، والجنة حق، والنار حق، والنبيون حق، والساعة حق، اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت. أنت إلهي لا إله إلا أنت.

"اے اللہ! تیرے لیے ہی ساری تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ تیرےہی لیے ساری تعریف ہے۔ تو آسمانوں اور زمین کو تھامنے والا ہے اور تیرے لیے ہی ساری تعریف ہے تو آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے ان کا رب ہے۔ توہی حق ہے اورتیرا وعدہ ہی حق ہے۔جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، انبیاء حق ہیں اور قیامت کی گھڑی حق ہے۔ اے اللہ! میں نے تیرے سامنےہی سرِ تسلیم خم کیا، تجھی پر ایمان لایا، تجھی پر توکل کیا، تجھ سے ہی لو لگایا ، تیری مدد سے ہی سے نزاع کیا اورتجھی کو فیصل بنایا۔ پس میں نے جوکچھ اعمال آگے بھیجے ہیں، جو کچھ پیچھے چھوڑا ہے، جو چھپایا ہے اور جو علانیہ ظاہر کیا ہے، اس سب کو بخش دے۔ تو میرا معبود ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں۔"

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۷)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا نواں باب)



شرعی حکم اور عرف وعادت کے درمیان امتیاز

بدعت کی حدود پر دیوبندی اور بریلوی مواقف ایک اور دقیق لیکن نمایاں نکتے پر بھی مختلف تھے، یعنی  کسی سماج کی شرعی حدود کی تعیین میں عرف وعادت کا کردار۔ جیسا کہ ہم گزشتہ ابواب میں دیکھ چکے ہیں، دیوبند کی اصلاحی پروجیکٹ کا بنیادی مقصد ایسی رسموں اور عادتوں کا قلع قمع تھا جو شرعی فرائض وواجبات کا روپ دھار چکے تھے۔  علماے دیوبند کی نظر میں اچھے اعمال کو بھی ترک کر دینا چاہے، جب وہ کسی سماج کی زندگی میں اس حد تک دخیل ہو جائیں کہ جو کوئی اپنی مرضی سے انھیں چھوڑنا چاہتا ہے، اسے اجتماعی طور پر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ اس لیے مسلکِ دیوبند کا سارا زور اس بات پر تھا کہ سماج کی روزمرہ زندگی میں دخیل رسموں کو یک سر بدل کر انھیں قانونِ الٰہی کی حدود کا پابند بنائیں۔

اگر ہم زیادہ باریکی میں جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نقطۂ نظر اس مفروضے پر مبنی تھا کہ شرعی احکام اور معمول بہ عادات دونوں باہم جدا ہو سکتے ہیں، اور اس میں مؤخر الذکر کو ہمیشہ اول الذکر کے مقرر کردہ حدود کے اندر رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس مولانا احمد رضا خان نے شریعت اور عرف وعادت کے درمیان تعلق کی ایک بہت مختلف تشریح وضع کی۔ خان صاحب نے بتایا کہ سماج کے لیے وضع کردہ قانون کو سماج کی عادات سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے ان کی نظر میں ایسی عادات اور رسموں کو باضابطہ بنانے میں کوئی مسئلہ نہیں، جو اپنی اصل میں نیک ہیںِ اور جو کئی نیک مقاصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتی ہیں، باوجودیکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ سے ثابت نہ ہو۔

جیسا کہ میں نے پہلے واضح کیا ہے، خان صاحب کے لیے کسی عمل کے شرعی جواز کے تعین کے لیے فیصلہ کن عامل یہ تھا کہ وہ اپنی اصل کے اعتبار سے نیک ہے یا نہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ کب ایجاد ہوا، اور سماج کی روزمرہ زندگی میں کب متعارف ہوا۔ مزید برآں اگر کوئی سماج کچھ مخصوص اعمال کو باضابطہ بنانے پر متفق ہو، اس انداز سے کہ وہ ان کے مزاج اور عملی ضروریات سے ہم آہنگ ہو، تو بجائے حوصلہ شکنی کے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مثال کے طور پر اکابر دیوبند کے بالکل برعکس خان صاحب کو مختلف رسموں (مثلاً عید میلاد النبی یا اولیا کے عرس وغیرہ) کی ادائیگی کے لیے وقت یا تاریخ کے تعین (توقیت الوقت) سے کوئی مسئلہ نہیں۔ یہاں پر مناسب ہے کہ ہم ان کے استدلال کو ذرا تفصیل سے پیش کریں، کیوں اس سے بطور خاص یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا فقہی تصور ان کے دیوبندی مخالفین سے کس طرح مختلف تھا۔

مولانا احمد رضا خان نے واضح کیا کہ رسموں کی ادائیگی کے تعلق سے دو قسم کی زمانی تخصیصات ہیں: پہلی وہ جو شرعاً مطلوب ہیں (توقیتِ شرعی)، دوسری وہ جو شرعاً مطلوب نہیں (توقیتِ عادی)۔ پہلی قسم میں وہ اعمال شامل ہیں جو شریعت کے مطابق صرف مخصوص اوقات میں سرانجام دیے جا سکتے ہیں، مثال کے طور پر پنج وقتہ نماز کو ان کے مخصوص اوقات میں پڑھنا، قربانی عید الاضحی کے تین دنوں (ایام النحر) میں کرنا، اور مناسکِ حج کو اسلامی کلینڈر کے مطابق شوال، ذوالقعدہ اور ذوالحجہ میں ادا کرنا۔ اس کے برعکس غیر شرعی زمانی تخصیصات واجب نہیں ہوتیں، اور یہ رسموں کی ادائیگی اور باضابطگی کے لیے صرف ایک وسیلے کا کام سرانجام دیتی ہیں۔ خان صاحب نے بہت سادہ لفظوں میں اسے بیان کیا ہے: "کسی بھی کام کی انجام دہی کے لیے وقت کی تخصیص ضروری ہے"1۔ اس لیے اولیا اور صالحین کا عرس ہر سال یا ہر چھ ماہ بعد منایا جاتا ہے۔ اسی طرح میت کے ایصال ثواب کے لیے تیجے یا چہلم کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان رسموں میں اوقات کی تخصیص شرکا کو ان کی ادائیگی کا موقع یاد دلانے کا ذریعہ ہے۔ مولانا احمد رضا واضح کرتے ہیں کہ "جب کسی عمل کے لیے وقت متعین کیا جائے، تو اس کو سرانجام دینا آسان ہو جاتا ہے"2 ۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے وضاحت سےمتنبہ کیا کہ ان رسموں کے وقت کی جو تخصیص کی جاتی ہے، انھیں شرعی طور پر مطلوب تخصیصات (جیسے کہ پنج وقتہ نمازوں کے لیے اوقات کی تخصیص) سے گڈ مڈ نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں پر وہ اپنے دیوبندی مخالفین سے مکمل طور پر متفق ہیں۔ تاہم خان صاحب کی نظر میں جب تک لوگ غیر شرعی تحدیدات کو واجب نہیں سمجھتے، تب تک ان میں کوئی حرج نہیںَ۔ بلکہ انھوں نے بتایا کہ تاریخ کا تعین وقت گزرنے کے ساتھ روحانی طور پر مفید اعمال کے تسلسل کے لیے ضروری ہے3۔ خان صاحب نے مزید بتایا کہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے طرز عمل میں نیک اعمال کے لیے اوقات کی تخصیص کی کافی مثالیں موجود ہیں۔

مثلاً حضور ﷺ ہر سال کے آغاز میں شہدا کی قبروں کی زیارت کرنے جاتے، اور اس عمل کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے بھی جاری رکھا۔ اسی طرح نبی اکرم ﷺ کے قریبی صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (م 650) نے اپنے خطبات کے لیے جمعرات کا دن متعین کیا تھا۔ مولانا احمد رضا خان نے اپنے قارئین سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں پر سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تخصیصات کو کبھی بھی شرعی واجبات کے درجے تک نہیں پہنچایا گیا۔ یہ بس عرف وعادت کی حد تک رہے۔ ایسا نہیں تھا کہ حضرت ابن مسعود اپنے خطبات کے لیے جمعرات کے علاوہ باقی تمام دنوں کو ناجائز، نامناسب یا کم مناسب سمجھتے تھے۔ خطبات کے لیے جمعرات کے دن کے تعین کے پیچھے ان کا مقصد یہ تھا کہ ایک پسندیدہ عمل کو باضابطہ بنایا جائے۔ دینی اعتبار سے کسی مفید عمل کے لیے تاریخ کا تعین کرکے اسے باضابطہ بنانے میں کوئی نقصان یا حرمت نہیں۔

خان صاحب اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: مزید برآں اگر کسی نیک عمل کے لیے تاریخ کے تعین کا کوئی ظاہری فائدہ یا مقصد نہ ہو، پھر بھی اس تعین کو ناجائز نہیں کہا جا سکتا ۔ فرد کو اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے تو تاریخ کا تعین کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے۔ تمام غیر شرعی تخصیصات (تعیناتِ عادیہ) کی تعیین یا عدم تعیین کا مکمل اختیار ہر فرد کو حاصل ہے، اور تعیین یا عدم تعیین کی صورت میں اسے کوئی ثواب یا عذاب نہیں ملتا۔ خان صاب کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا یہی مفہوم ہے: "روزے کے لیے ہفتے کے دن کے تعین میں نہ آپ کے لیے ثواب ہے نہ عذاب" (صيام السبت لا لك ولا عليك)4۔ اس حدیث نبوی کا مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے لیے ہفتے کے دن کی تخصیص ایک مباح عمل ہے، جس پر کوئی مثبت یا منفی شرعی نتائج مرتب نہیں ہوتے۔ علاوہ ازیں روزہ رکھنے کے لیے ہفتے کے دن کی تخصیص یا باضابطگی ہر فرد کا ذاتی استحقاق ہے۔

اس لیے مولانا احمد رضا  کے مطابق جائز رسمی اعمال کے لیے تاریخ کے تعین پر ان کے دیوبندی مخالفین جو اعتراض کرتے ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے طرز عمل کے خلاف ہے۔ اس بابت علماے دیوبند کی غیرمعمولی فکرمندی کہ تاریخ کے تعین سے جائز اعمال دینی واجبات کا روپ دھار لیں گے، ایک ایسا خدشہ ہے جو حضور ﷺ کو لاحق نہیں تھا۔ اس کے برعکس حضور ﷺ نے مذہبی اعمال کی ادائیگی میں عام مسلمانوں کی صلاحیتوں پر غیرمعمولی اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ مزید برآں خان صاحب نے نصیحت کی کہ بالفرض عوام میں سے کوئی ان تخصیصات کو شرعی یا واجب سمجھتا ہے، تو ہر صورت کی مناسبت سے اس رویے کی اصلاح کرنی چاہیے۔ کسی جائز عمل کو صرف اس ممکنہ خطرے کے پیش نظر بالکلیہ ترک نہیں کرنا چاہیے کہ کوئی اسے واجب سمجھنا شروع کر دے گا۔

خان صاحب کی راے میں دیوبندی بجائے اس کے کہ پاکیزہ رسموں میں در آنے والی خرابیوں کے سد باب کے لیے ایک محتاط طریق کار اختیار کرتے، انھوں نے ان رسموں کو ہی ممنوع قرار دیا۔ نتیجتاً وہ لوگ جن کے عقائد فاسد نہیں ہیں، وہ بھی ان رسموں میں شرکت نہیں کرتے، جو قانونِ الٰہی کی رو سے مفید یا جائز ہیں۔ یہاں پر ہمیں خان صاحب اور علماے دیوبند کے درمیان ایک دقیق لیکن نمایاں فرق نظر آتا ہے۔

علماے دیوبند مثلاً‌ مولانا اشرف علی تھانوی کے لیے غیرواجب رسوم کے لیے وقت کا تعین ان کو واجب اعمال کا روپ عطا کرتے ہیں، اور اس وجہ سے یہ دینی واجبات کی اولیت کو کم زور کرتا ہے۔ اس لیے اس تعین کی وجہ سے جائز اعمال بدعت بن جاتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس مولانا احمد رضا خان کے نزدیک نیک اعمال کے لیے تاریخ کا تعین انھیں رسم کی شکل دینے کو یقینی بناتا ہے۔ نتیجتاً یہ اس نیکی کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنے میں مدد کرتا ہے، جو ان اعمال میں جوہری طور پر موجود ہے۔ خان صاحب کے خیال میں نیکی کے کام میں رکاوٹ پیدا کرنا کوئی معقول بات نہیں، تاآں کہ ایسا کرنا فوری طور پر ضروری ہو۔

چوں کہ قانون الٰہی ابدی ہے، اس لیے کسی سماج میں اس قانون پر عمل درآمد علما اور فقہا سے یہ تقاضا نہیں کرتا کہ وہ اس پر مسلسل علمیاتی پہرہ (epistemological policing) دیں۔  ایک عالم کا اصل فرض یہ ہے کہ وہ اس قانون الہٰی کی متوقع خیریت کو ممکن بنائے، جو رسم کی شکل اختیار کرکے سماج کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔خان صاحب کے نزدیک قانون کا اصل کام یہ ہے کہ وہ  کسی سماج کی جمالیاتی حساسیت سے ہم آہنگ اور دینی اعتبار سے مفید رسموں کو جاری رکھے، نہ کہ انھیں ممنوع قرار دے۔ انھوں نے بتایا کہ حضور ﷺ کا یہ فرمان: "لوگوں کی نیکیوں میں ان کی موافقت کرو، اور ان کی برائیوں میں ان کی مخالفت کرو" (خالقوا الناس بأخلاقهم وخالفوهم بأعمالهم) اس نقطۂ نظر کو پایۂ ثبوت تک پہنچاتا ہے5۔

مولانا احمد رضا خان نے گیارھویں/بارھویں صدی کے بلند پایہ اور متبحر  عالم امام ابوحامد الغزالی (م 1111) کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے استدلال کو سمیٹا۔ وہ اپنی شاہ کار کتاب إحیاء علوم الدین میں لکھتے ہیں: "ہر سماج کی اپنی رسمیں ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ لوگوں سے معاملہ ان کے نیک کردار کے مطابق کیا جائے (جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا)، بالخصوص ایسے اعمال کے تعلق سے، جو حسن عمل یا تطہیر قلب کو ممکن بناتے ہیں۔ اور جو کوئی ان اعمال کو بدعت کہتا ہے اس وجہ سے کہ صحابہ کرام نے ان کا ارتکاب نہیں کیا، وہ غلطی پر ہے۔ صحابۂ کرام نے تمام جائز اعمال کو بالکلیہ ہم تک منتقل نہیں کیا۔ صرف اس عمل کو بدعت کہا جا سکتا ہے، جو رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام کے اسوۂ حسنہ کے مخالف میں ہو"6۔

'فاتحہ' کے جواز وعدم جواز پر حریف انداز ہاے فکر

میں چاہتا ہوں کہ فقہ اور عادت کے متعلق اس بحث کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان اصولی طریق ہاے کار اور حوالہ جات کی روایت کا ذرا گہرائی کے ساتھ جائزہ پیش کروں جن کے ذریعے دیوبندی اور بریلوی اکابر نے روایت کی حدود پر مناقشہ کیا۔ اس مقصد کے لیے میں مخصوص اختلافی مسائل پر بریلویوں اور دیوبندیوں کے الگ الگ مواقف کی وضاحت کرتا ہوں۔ یہاں پر میں چاہتا ہوں کہ قارئین کو روایت/دین کے ان حریف استدلالات اور تفہیمات کی ایک متعین مثال سے متعارف کراؤں جو مناظرانہ سیاق وسباق کی ایک مخصوص صورتِ حال میں سامنے آئی۔ ذیل میں پیش کی جانے والی بحث کو ایک براہ راست تحریری مناظرے کی جھلکیوں کے طور پر دیکھیے۔ اس مقصد کے لیے میں دوبارہ مولوی عبد السمیع کی کتاب 'انوار ساطعہ' اور مولانا خلیل احمد سہارن پوری کی طرف سے اس کے دندان شکن جواب 'براہین قاطعہ' کی طرف لوٹتا ہوں۔

میت کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ سے متعلق ان کی باہم مخالف آرا کو آمنے سامنے رکھوں گا۔ میں نے ان کی مناظرانہ جھڑپ کی جھلکیاں پیش کرنے کے لیے اس مخصوص مسئلے کا انتخاب اس لیے کیا ہے کہ  یہ مؤثر انداز میں ان کی متنوع فکری گتھیوں اور تجزیاتی مسائل کو سامنے لاتی ہے۔ ان میں مادیت اور جذبے کے درمیان تعامل،  قانون، رسم اور عادت کے درمیان تعلق اور جیسا کہ ہم دیکھیں گے، نبی اکرم ﷺ کی شخصیت کا مقام ومرتبہ اور برکت شامل ہے۔

ذیل میں مجھے نہ صرف مولانا عبدالسمیع اور مولانا سہارن پوری کے استدلال کی بنت اور تہوں میں دلچسپی ہے، بلکہ بطور خاص ان تفسیری مناہج میں بھی، جن کے ذریعے انھوں نے مستند دینی مصادر بالخصوص حنفی فقہی روایت سے استفادہ کیا۔ اس تجزیے کے بعد میں واپس مولانا احمد رضا خان کو لوٹوں گا کہ انھوں نے کس طرح دیوبندی مسلک کو اہل سنت سے خارج کیا، اور خود کو سنی مسلک کا نمائندہ ثابت کیا۔ البتہ میں ہندوستان میں رائج فاتحہ کے فوائد اور شرعی حیثیت سے متعلق مولانا عبد السمیع کے جوشیلے دفاع سے شروع کرتا ہوں۔ انوارِ ساطعہ میں دیوبندی تنقید کے حملے سے فاتحہ کا دفاع کرتے ہوئے مولانا عبد السمیع نے بتایا ہے کہ میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا  کھلانا یا مٹھائی تقسیم کرنا ایک ایسا عمل ہے جس میں بدنی اور مالی عبادات دونوں ہیں7۔

 بدنی عبادت اس طرح سے کہ کھانے پر یا تو سورۂ فاتحہ یا دیگر مسنون دعائیں اس نیت سے پڑھی جاتی ہیں کہ اس کا ثواب ایک فوت شدہ شخص کو بخش دیا جائے۔مولانا عبد السمیع نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس رسم میں پائے جانے والے اس عمل کی وجہ سے اسے فاتحہ کہا جاتا ہے۔ اس لیے جب عوام کہتے ہیں کہ آج فاتحہ ہے تو اس کا مطلب ایصال ثواب کی خاطر فاتحہ کی تلاوت ہوتا ہے۔ مولانا عبد السمیع ایک ایسے مقرر کے انداز میں جو اپنے سامعین کو گرمانا چاہتا ہے، اپنی بات جاری رکھتے ہیں کہ اس رسم میں مالی عبادت بھی ہے کیوں کہ اس میں خوراک یا مٹھائی کے حصول کے لیے مالی وسائل بھی خرچ کیے جاتے ہیں۔ مولانا عبد السمیع نے بتایا کہ ان میں سے ہر جز چاہے مالی ہو یا بدنی شریعت کی رو سے جائز ہے۔ اپنے دعوے کو ترتیب دیتے ہوئے انھوں نے چودھویں صدی کے شش جہت فارسی عالم علامہ سعد الدین التفتازانی کا حوالہ دیا۔ بارھویں صدی کے ایک اور متبحر عالم نجم الدین النسفی (م 1142)8 کی کتاب 'العقائد' پر اپنی  شرح میں انھوں نے پوری صراحت سےکہا ہے: "سواے معتزلہ کے اس بات میں اور کسی کا بھی اختلاف نہیں کہ مُردوں کے لیے دعا کرنے اور ان کی طرف سے صدقہ کرنے سے انھیں ثواب ملتا ہے" (وفي دعاء الأموات وصدقتهم عنهم نفع لهم خلافا للمعتزلة)9۔ اسی طرح وہ اپنے موقف کے اثبات میں سترھویں صدی کے حنفی عالم محمد الہروی (م 1656؛ جو ملا علی قاری کے نام سے مشہور ہیں) سے استدلال کرتے ہیں۔ وہ امام ابوحنیفہ کی شہرۂ آفاق کتاب الفقه الأكبر پر اپنی عربی شرح میں لکھتے ہیں: "امام ابوحنیفہ اور دیگر جمہور اہل علم کی راے ہے کہ میت کو ثواب پہنچتا ہے" (ذهب أبوحنيفة وجمهور السلف إلى وصولها)10۔

قاضی ثناء اللہ پانی پاتی کا حوالہ بھی دیا۔ وہ اپنی فارسی کتاب تذکرۃ الموتی میں لکھتے ہیں: "تمام فقہا نے حکم دیا ہے کہ ہر عبادت کا ثواب میت کو پہنچتا ہے" (جمیع فقہاء حکم کردہ اند کہ ثوابِ ہر عبادت بمیت می رسد)11۔

مولانا عبد السمیع نے بتایا کہ حنفی مذہب کے ان عظیم اکابر کی راے اس مسئلے میں ایک جیسی ہے۔ چوں کہ بدنی اور مالی عبادت الگ الگ سے جائز ہیں، اس لیے ان کا واضح تقاضا یہ ہے کہ ان دو اجزا سے تشکیل پایا جانے والا عمل بھی مباح ہو۔ بالفاظ دیگر اگر کوئی رسم دو شرعی اجزا سے مل کر بنتی ہے، تو اس صورت میں ان دو اجزا سے مرکب رسم کی شرعی حیثیت پر سوال اٹھانے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔ اپنی دلیل کی وضاحت میں مولانا عبد السمیع نے ایک غذائی قیاس پیش کیا، جیسا کہ ان کے پرجوش مدمقابل مولانا سہارن پوری نے پہلی مثال میں پیش کیا تھا، جسے میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ اگر مولانا سہارن پوری کو پلاو قورمہ عزیز تھا، تو ان کے مقابلے میں مولانا عبد السمیع نے بریانی کا انتخاب کیا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ فاتحہ کو ممنوع قرار دینا اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا کہ بریانی کھانے پر پابندی لگانا۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان دونوں باتوں میں کیا نسبت ہے؟ اس کے جواب میں وہ بتاتے ہیں کہ جس طرح فاتحہ مالی اور بدنی دونوں عبادات سے مرکب ہے، اسی طرح بریانی بھی بشمول چاول، گوشت اور بعض صورتوں میں زعفران جیسے متنوع اجزا سے بن کر تیار ہوتی ہے۔ "اب ایک احمق یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ جی یہ اجزا تو الگ الگ سے جائز ہیں، لیکن مجھے قرآن وحدیث سے کوئی اصل بتاؤ جس میں ان سے بنی بریانی کا جواز بھی معلوم ہوتا ہو"12۔ مولانا  عبد السمیع نے ادعا کیا کہ فاتحہ سے روکنے والے علماے دیوبند کی علمی وذہنی سطح کا اندازہ اس مضحکہ خیز استدلال سے لگائیں۔ خلاصہ یہ کہ مولانا  عبد السمیع کا استدلال دو جائز عبادتوں سے مرکب پانے والے عمل (جمع بین العبادتین) کے جواز کے اثبات سے عبارت تھا۔ 

مولانا عبد السمیع نے اپنے استدلال کو وسعت دیتے ہوئے حنفی مذہب کے مصادر کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی سیرت وسنت سے بھی ایک مثال دلیل میں پیش کی۔ (630 میں) غزوۂ تبوک کے دوران رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی درخواست پر کھانے دعا پڑھی تھی۔ جیسا کہ ہزاروں لوگوں نے مشاہدہ کیا، رسول اللہ ﷺ کی اس دعا کی وجہ سے کھانے میں اس قدر برکت ہوئی کہ تمام حاضر لوگوں نے سیر ہو کر کھایا۔ یہ حدیث نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی شخصیت میں موجود برکت کی دلیل ہے، بلکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کھانے پر فاتحہ پڑھنا عملِ عبادت ہے، مولانا عبد السمیع نے خود اعتمادی سے بتایا۔ اگر حضور ﷺ کو کھانے پر دعا کرنے میں کوئی تردد نہیں تھا، تو علماے دیوبند کون ہوتے ہیں جو اس عمل کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور اس میں تردد کرتے ہیں؟ مولانا عبد السمیع نے اس خاص مسئلے میں علماے دیوبند پر اپنی تنقید کو اس طنز بھری کہاوت پر ختم کیا: "مجھے تم سے کسی خیر کی توقع نہیں، لیکن کم از کم میرے ساتھ برا نہ کرو (مرا بہ خیر تو امید نیست، بد مہ رسان)13۔

اس تنقید کے جواب میں مولانا سہارن پوری کا جواب اس تنبیہ کے ساتھ شروع ہوتا ہے کہ علماے دیوبند کو صدقات مثلا کھانے کے ذریعے میت کے لیے ایصالِ ثواب پر کوئی اعتراض نہیں۔ ان کا اعتراض اس رسم کی اس مخصوص ہیئت پر ہے جو ہندوستان میں رائج ہے، جس میں دعا کرنے والے کے سامنے کھانا رکھا جاتا ہے اور وہ اس کے اوپر فاتحہ پڑھتا ہے۔ بالفاظ دیگر علماے دیوبند جس چیز کے خلاف تھے، وہ صرف اس مخصوص انداز میں فاتحہ پڑھنے پر اصرار تھا، اس عقیدے کے ساتھ کہ اس طریقے کے علاوہ اس عمل کا ثواب میت تک نہیں پہنچتا۔  اس رسم کی یہ مخصوص ہیئت اور اس پر اصرار بدعت ہے جس کی کوئی نظیر قرونِ ثلاثہ میں نہیں ہے۔ بلکہ اس میں قباحت کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ اس میں ہندؤوں کے ساتھ مشابہت بھی ہے کیوں کہ وہ بھی دعا کرنے والے کے سامنے کھانا رکھتے ہیں۔ بلکہ ہندؤوں میں رائج اور مقبول ہونے کے باعث یہ ہندوستانی مسلمانوں میں رائج اور جاری وساری ہو گیا ہے14۔

لیکن بریانی کی اشتہا انگیز قیاس کا کیا کیا جائے جو مولانا عبد السمیع نے بڑے غور وفکر کے ساتھ فاتحہ کے جواز میں پیش کیا کہ دو جائز اعمال سے مرکب رسم بھی جائز ہونی چاہیے؟ مولانا سہارن پوری نے اس قیاس کو کیسے غلط ثابت کیا؟ سہارن پوری نے جواب میں کہا کہ اگر چہ ان اجزا کی حلت میں کوئی اشکال نہیں لیکن باورچی پر لازم ہے کہ انھیں استعمال کرنے سے پہلے ان کا اچھی طرح جائزہ لے۔  مثال کے طور پر اگر زعفران میں کوئی زہریلا مادہ موجود ہو، اور اسے بریانی میں ڈالا جائے تو جائز بریانی بھی ناجائز بن جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی جائز رسم ناجائز یا مکروہ اجزا کی وجہ سے فاسد ہو جائے تو پھر وہ جائز نہیں رہتی۔ فاتحہ کی رسم میں ہندؤوں کے ساتھ مشابہت اور ایک ایسے عمل کو ضروری قرار دینے سے، جس کی کوئی نظیر آنحضرت ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے عہد میں نہیں، کراہت اور حرمت پیدا ہو جاتی ہے۔

مولانا سہارن پوری کی فکر میں کار فرما وسیع تر تعبیری اصول یہ تھا: اباحتِ اصلی صرف اس صورت میں برقرار رہتی ہے، جب کوئی ایسی نص موجود نہ ہو، جو اس سے منع کرے۔ لیکن فاتحہ کے سلسلے میں یہ احادیث: "ہر بدعت گم راہی ہے، اور ہر گم راہی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے" اور "جو کوئی دوسرے لوگوں کی مشابہت اختیار کرے، وہ انھی میں سے ہے" ایسی نصوص ہیں۔ سہارن پوری کے مطابق ان احادیث نبویہ نے پوری صراحت کے ساتھ ہندوستانی عوام میں رائج اس رسم کی مخصوص صورت کو ممنوع قرار دیا15۔

لیکن شاید مولانا سہارن پوری اور مولوی عبد السمیع کے درمیان رسا کشی کا سب سے دل چسپ پہلو اس روایت پر مولانا سہارن پوری کی بحث ہے، جس میں غزوۂ تبوک کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے کھانے کے اوپر دعا پڑھی۔ یہاں رسول اللہ ﷺ، خوراک کی مادیت، اور فقہی مسلک اور زمانۂ حال کے درمیان تعلق پر مولانا سہارن پوری کا نقطۂ نظر مولوی عبد السمیع سے واضح طور پر الگ ہے۔ مولانا سہارن پوری کا مولوی عبدالسمیع سے اختلاف اس بات پر نہیں تھا کہ حضور ﷺ کے سامنے غزوۂ تبوک کے موقع پر کھانے پر دعا پڑھی یا نہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ یہ تھا کہ سیرت کے کسی واقعے سے استدلال کا اہم پہلو یہ ہے کہ کس تعبیری منہاج کے مطابق اس کی تعبیر وتشریح کی جا رہی ہے۔

اس امر سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اللہ ﷺ نے کھانے کے اوپر قرآن یا کوئی اور دعا پڑھی، کیوں کہ تلاوت اور دعائیں تو آپ کی روزمرہ زندگی کے ہر لمحے کا معمول تھا۔ اس لیے یہ کوئی قابل ذکر امر نہیں16۔ سہارن پوری اپنے قارئین کو یاد دلاتے ہیں کہ دیوبندی یہ نہیں کہتے کہ حضور ﷺ نے کبھی خوراک کے اوپر دعائیں نہیں پڑھیں، بلکہ ہندوستان میں رائج اس عمل کی مخصوص ہیئت اسلام کے قرون ثلاثہ میں موجود نہیں تھی۔ 

لیکن یہاں جو اہم سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی کے سامنےکھانا رکھ کر اس پر دعا پڑھنا ہندوستانی مسلمانوں کی اس رسم میں بنیادی مسئلہ ہے، تو اگر بعینہ یہی کام حضور ﷺ نے بھی کیا ہے، تو پھر ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ ان بظاہر ایک جیسے اعمال کے حکم میں اس قدر تضاد کیوں ہے؟ اس اساسی سوال کے جواب میں سہارن پوری کا موقف بیک وقت دل چسپ بھی ہے، اور انکشافی بھی۔

انھوں نے بتایا کہ مولوی عبد السمیع نے حوالے کے طور پر غزوۂ تبوک کا جو واقعہ پیش کیا ہے اس سے اتنی بات ثابت ہوتی ہے کہ حضور ﷺ نے طعام میں برکت کی خاطر اس پر دعا پڑھی۔ مزید برآں طعام میں برکت کے لیے دعا کی اس وقت کی فوری ضرورت تھی۔ اگر حضور ﷺ طعام پر دعا نہ پڑھتے، تو اس میں برکت نہ پیدا ہوتی اور نتیجتاً مسلمانوں کی فوج فاقہ کرتی۔ اور چوں کہ اس تناظر میں رسول اللہ کا بنیادی مقصد طعام میں برکت پیدا کرتا تھا، اس لیے یہ ظاہر ہے کہ اس وجہ سے انھوں نے اپنے سامنے رکھے طعام پر دعا پڑھی17۔

سہارن پوری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے اس واقعے کو ہم ہندوستان میں رائج فاتحہ کے لیے قطعی دلیل کے طور پر پیش کریں۔ مولانا سہارن پوری کے استدلال میں یہ نکتہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے کہ مولوی عبد السمیع کی پیش کردہ مثال میں دعا کا بنیادی مقصد طعام میں برکت ڈالنا تھا، جب کہ فاتحہ کا مقصد یہ نہیں ہوتا، اس لیے یہ قیاس مع الفارق ہے۔ کیوں؟ مولانا سہارن پوری نے بتایا: اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے فعل کا مقصد اصلاح تھا، اس کا مقصد طعام کی کمی کا ازالہ کرنا تھا، تاکہ وہ سب لوگوں کے لیے کافی ہو جائے۔ رسول اللہ ﷺ کو اولین اور بزرگ مصلح کی روپ میں پیش کرتے ہوئے مولانا سہارن پوری نے استدلال کیا کہ ان کی دعا بہت زیادہ دنیوی اصلاح کے ایک عمل کے مشابہ تھا، جس کا مقصد فساد کا خاتمہ اور ضرر کا ازالہ تھا۔ نبی اکرم ﷺ نے اپنی دعا سے طعام کی صورتِ حال کی اصلاح اور تصحیح کی کوشش کی18۔

اس کے بالمقابل فاتحہ ایک ایسا عمل ہے جو طعام کی خرابی کا باعث بنتا ہے، کیوں کہ کھانے کی تیاری کے بعد اس پر تلاوت ودعا پڑھنے کے مرحلے میں وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں مجمع اور قاری دونوں کی نظریں کھانے پر جمی ہوتی ہیں۔  اس لیے یہ عمل کھانے والوں کی نیت اور اخلاص پر فاسد اثر ڈالتا ہے۔مولانا سہارن پوری نے نتیجے کے طور پر کہا: یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے طعام میں برکت ڈالنے کے لیے دعا کا جو عمل اختیار کیا تھا، اپنی اصل کے اعتبار سے فاتحہ کے فاسد عمل کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ "فعل مصلِح کو فعلِ مفسد کا مقیس علیہ بنانا مولوی عبد السمیع کا ذاتی فہم ہے۔ کوئی علم والا شخص ایسی فضول بات نہیں کہہ سکتا"19۔

مولوی عبد السمیع سے واضح فرق کے ساتھ مولانا سہارن پوری کے تعبیری منہج نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مصلح اعظم میں کے روپ میں پیش کرکے ان کی ذاتی کرامت کی حیثیت بدل ڈالی۔ مزید برآں انھوں نے طعام جیسی مادی چیز کو رسول اللہ ﷺ کے اصلاحی مشن کے تابع بنایا۔ طعام کا سواے اس کے اور کوئی کردار نہیں کہ وہ نبوی اصلاح کے لیے آلے کا کام سرانجام دے۔ یہ بھی طعام کے کردار اور مقام کے حوالے سے عبد السمیع کے سماجی تصور سے واضح طور پر الگ ہے۔ مولوی عبد السمیع کی نظر میں فاتحہ جیسی اجتماعی رسم تب ممکن ہے، جب خوراک ناگریز طور پر موجود ہے۔ خوراک ہی وہ چیز ہے جو انسانوں کی جانب سے اس رسم کی صورت گری کو ممکن بناتی ہے۔ لیکن مولانا سہارن پوری کا موقف یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور ﷺ نے خوراک پر جو دعا پڑھی تھی، اس میں خوراک بنیادی طور پر امت سے استعارہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کا کام ہی اصلاح تھا، اور اس غرض سے انھوں نے خوراک کی اصلاح کی، بالکل اسی طرح جس طرح وہ اپنی امت کی دینی اور اخروی کام یابی کے لیے ان کی اصلاح وتربیت کی کوشش کرتے تھے۔

لیکن ملا علی قاری، سعد الدین التفتازانی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی جیسے اکابر حنفی فقہا کا کیا جائے، جن کی آرا سے مولوی عبد السمیع نے استدلال کیا ہے، اور جو واضح طور پر مولانا سہارن پوری اور دیگر اکابر دیوبند کی راے سے متصادم ہیں؟ اس عدم ہم آہنگی کا جواب دینے کے لیے مولانا سہارن پوری نے جو طرز استدلال اختیار کیا ہے وہ بعینہ وہی ہے جو مولانا تھانوی کا تھا، جسے گزشتہ باب میں بیان کیا جا چکا ہے۔ اس میں بنیادی نکتہ یہ تھا کہ علماے دیوبند انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہندوستان میں رائج رسوم کو اپنی تنقید واصلاح کا ہدف قرار دے رہے ہیں۔ تھانوی نے میلاد کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہی مولانا سہارن پوری نے فاتحہ کے متعلق کہا: اگر ان اہل علم کو ہندوستانی مسلمانوں کی طرف سے عائد کردہ ان مخصوص شرائط کا علم ہوتا، تو وہ بھی ان رسموں پر وہی حکم صادر کرتے، جو علماے دیوبند صادر کرتے ہیں۔

اس سے یہ اہم سوال بھی سامنے آتا ہے کہ کیوں کر علما کے دو گروہ، جو ایک ہی طرح کی متون اور شخصیات کو مقدس مانتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں، ایسے دو متضاد اصلاحی ایجنڈوں کے قائل ہیں۔ آخر کار اتنا بڑا تضاد کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کے جواب میں کلیدی نکتہ یہ ہے کہ بریلویوں اور دیوبندیوں میں سے کسی ایک کے متعلق بھی یہ تجزیہ یا موقف اختیار نہ کیا جائے کہ ان میں سے کون حنفی مسلک کا زیادہ وفادار تھا۔ اس سے کہیں زیادہ مفید یہ ہے کہ ان متنوع اور عام طور پر متضاد تعبیری مناہج پر توجہ دی جائے، جن کے ذریعے انھوں نے ایک مشترکہ علمی سلسلے کو سمجھا اور موضوع بحث بنایا۔ مولوی عبد السمیع اور مولانا احمد رضا خان کی نظر میں متن کی صورت اور رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور مقام ومرتبے میں وحدت ہے، اور ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر علامہ تفتازانی جیسے علما نے کسی مخصوص عقیدے یا روایت پر ایک واضح تحریری موقف کے ذریعے مہر تصدیق ثبت کی ہے، تو پھر اس کو متنازع بنانا یا اس کی متبادل تفہیمات پیش کرنا حد درجے کی زیادتی ہے۔ دین کی سالمیت ایک ایسے تعبیری منہج اور مزاج پر منحصر ہے، جو متن کے استحکام کا تحفظ کرے۔ متن کا استحکام ہی رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور بلند مرتبے کے دیرپا ہونے کو یقینی بناتا ہے۔

اس کے برعکس علماے دیوبند زمانی ومکانی سیاقات کے مطابق متون کی تشریح کے قائل تھے۔ حنفی اکابر کی آرا محترم ہیں، لیکن ان تغیر پذیر زمانوں اور حالات کے مطابق ان کی تطبیق کی جائے گی، جو حال کے اخلاقی (یا دیوبندیوں کے تصور کے مطابق غیر اخلاقی) پس منظر کی تشکیل کرتے ہیں۔ اہم بات یہ کہ اکابر دیوبند مثلا مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی اس تعبیری منہج کو حنفی یا جمہور امت کے اصولی منہج میں بدعت یا انحراف کے طور پر نہیں دیکھتے تھے، بلکہ ان کے خیال میں یہ اپنے مقصد، روح اور مطابقت کے اعتبار سے اسی کا جزو لاینفک ہے۔ لیکن باوجود یہ کہ وہ خود کو جیسا سمجھتے اور ظاہر کرتے تھے، مختلف رسموں اور اعتقادی معاملات پر حنفی روایت کے قدیم اور بنیادی مآخذ سے ثابت شدہ مسائل کے ساتھ ان کے مواقف کی عدم ہم آہنگی کی وجہ سے وہ اس الزام کی زد میں رہے کہ وہ مسلکِ اہل سنت پر نہیں ہیں۔ یہی وہ زدپذیری تھی جس کی اساس پر مولانا احمد رضا خان نے انھیں مسلک اہل سنت سے خارج کیا۔ لیکن انھوں نے ایسا کیا کیسے؟ یہ دیوبند کی مسلکی تحریک پر چوٹ لگانے کے لیے ان کی حکمت عملی کا ایک اہم اور مفید پہلو ہے۔ مولانا احمد رضا خان اور ان کی فکر کی طرف واپس لوٹتے ہوئے میں اب اس حکمت عملی کے چند کلیدی نکات کا جائزہ لوں گا۔

اجماع امت کی مخالفت

مولانا احمد رضا خان نے کوشش کی کہ اپنے دیوبندی مخالفین کو ہندوستانی مبتدعین کے ایک گروہ کے روپ میں پیش کریں  جن کے نظریات تمام اسلام کے گزشتہ اور موجودہ علما کے خلاف ہیں۔ خان صاحب کی نظر میں اکابر دیوبند اکابر اہل سنت کے اجماع کے مخالف ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ علماے دیوبند ایسی رسموں کو ناجائز کہتے ہیں جنھیں نہ صرف نامور علماے امت نے پسندیدہ اعمال قرار دیے ہیں، بلکہ ان میں بلاجھجھک خود بھی شریک ہوئے ہیں۔ مثلاً دیوبندی موقف کے برعکس مسلمان اہل علم کی غالب اکثریت عید میلاد النبی ﷺ اور قیام (میلاد میں حضور ﷺ کی آمد کے وقت احتراما کھڑے ہونا) کو جائز سمجھتی ہے۔ اپنے دعوے کے ثبوت میں خان  صاحب نے متعدد اکابر کے حوالے دیے ہیں۔

مثلاً اٹھارویں صدی میں مدینہ منورہ کے نامور عالم سید جعفر البرزنجی (م 1766) لکھتے ہیں: "تمام اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قیام ایک مستحب عمل ہے۔ جو کوئی رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی خاطر اس عمل کو سرانجام دیتا ہے، اسے  اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر وثواب ملے گا"20۔ انیسویں صدی میں مکہ کے ممتاز شافعی عالم احمد زینی دحلان، جو اعلیٰ حضرت کے اساتذہ میں سے بھی تھے، کی تحریروں میں یہی صدا گونجتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "میلاد النبی کی رات خوشی کا اظہار کرنا، نعتیہ قصائد پڑھنا، شرکاے محفل کو کھانا کھلانا اور اس طرح کی دیگر تمام رسموں کا مطلب رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہے۔ یہ اعمال نیکی کی مختلف اقسام ہیں۔ متعدد علما نے اپنی کتابوں میں بے شمار شواہد ودلائل کی روشنی میں ان اعمال کا استحباب ثابت کیا ہے۔ مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں"21۔

خان صاحب نے متنوع علمی رجحانات، مختلف علاقائی پس منظر اور تاریخ کے متعدد ادوار سے تعلق رکھنے والے دیگر اہل علم کا بھی حوالہ دیا ہے جنھوں نے پوری وضاحت کے ساتھ میلاد اور قیام کو نیک اعمال قرار دیا ہے۔ ان علما میں علامہ جلال الدین السیوطی، احمد قسطلانی، علی برہان الحلبی (م 1636)، امام تاج الدین السبکی (م 1370)، محمد بن  یحییٰ التادفی (م 1556)، یوسف بن یحیی الصرصری (م 1258) اور عبد الوہاب الشعرانی (م 1565) شامل ہیں۔ خان کے نزدیک دیوبندی میلاد جیسے نیک اعمال کی جو مخالفت کرتے ہیں، یہ ان علما کے اجماع کی خلاف ورزی ہے۔ خان نے بتایا کہ اکابر دیوبند رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کی حجیت کو چیلنج کرتے ہیں: "میری امت کبھی گم راہی پر جمع نہیں ہو سکتی" (لا تجتمع أمتي على الضلالة)22۔ اگر کوئی دیوبندی مسلک کے اتباع میں ان اعمال کو بدعات قرار دے، تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ تمام علما بدعتی تھے۔ خان صاحب کی نظر میں یہ نتیجہ روز روشن کی طرح صاف ظاہر ہے۔

وہ اپنے قارئین سے مخاطب ہو کر کہتے  ہیں: "فیصلہ آپ پر ہے۔ کیا مکہ، مدینہ، شام، مصر، یمن، داغستان، اندلس اور ہندوستان کے اتنے سارے علما کا اجماع ناقابل اعتبار ہے؟ یاہم یہ فرض کر لیں کہ یہ اکابرین امت بدعتی اور غلط عقائد کے حامل تھے جو صدیوں سے اپنے معاشروں کو گم راہ کر رہے تھے، کیوں کہ وہ بدعات کو پاکیزہ اور پسندیدہ اعمال قرار دے رہے تھے؟23 آگے خان نے اپنے قارئین کو ایک دل چسپ فکری مشق کی تجویز کی دی:

چند لمحوں کے لیے اسلامی ہند کے تمام حریف نظریات کی سوچ سے اپنے دل کو پاک کیجیے۔ اختلافی مسائل پر ان کے متضاد مواقف کو بھول جائیں۔ اپنی آنکھیں بند کریں، سر جھکائیں اور تصور کریں۔ سوچیں اگر ماضی وحال کے متعدد ممتاز علما زندہ ہوں، اور ایک عالی شان مکان میں جمع ہو جائیں۔ ان سے میلاد اور قیام کے جواز کے بارے میں پوچھا جائے۔ اور وہ سب بیک آواز کہہ اٹھیںَ: "اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک پسندیدہ عمل ہے۔ کون اسے برا کہتا ہے؟ اگر اس میں جرات ہے تو سامنے آئے"۔

اب ان علما کی شان وشوکت کو دیکھیے اور پھر ان چند ہندوستانی گستاخانِ رسول (دیوبندیوں) کی حیثیت پر غور کریں۔ کیا اس وقت ان میں سے کسی ایک میں بھی یہ جرات ہوگی کہ وہ اس مجلس میں آئے، اور ان نامور اہل علم کے اجتماع کا سامنا کرے؟24۔

خان صاحب نے یہ دل چسپ استدلال کیا کہ اکابر دیوبند پوری آزادی سے اپنی گستاخانہ آرا کی اظہار اس لیے کر رہے ہیں کہ انیسویں صدی کے ہندوستان میں کوئی اسلامی حکومت اور حکمران موجود نہیں۔ دیوبندی اس سیاسی ماحول کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں  جہاں کوئی ایسا مقتدر طاقت نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ سے متعلق ان کے گستاخانہ نظریات پر انھیں سرزنش کرے۔ جہاں کہیں اسلامی حکومت عملا قائم ہو، وہاں کے حکمران پر لازم ہے کہ وہ اجماع امت کی کھلی مخالفت کے باعث ان پر باقاعدہ تعزیر کا اجرا کرے۔

چوں کہ ایسا کوئی حکومتی نظام موجود نہیں جو دینی افکار کی نگرانی کرتا ہو، اس لیے دیوبندیوں کے منہ میں جو آتا ہے، کہہ دیتے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ  اسلامی حکومت کے ہوتے ہوئے دیوبندیوں کا عقیدہ نہیں پنپ سکتا۔ بالفاظِ دیگر خان صاحب کی نظر میں برطانوی استعمار کی موجودگی نے دیوبندی مسلک کی نمو وافزائش کو ممکن بنایا ہے۔ لیکن خان صاحب نے زور دے کر کہا کہ اگر چہ ان کے دیوبندی مخالفین استعماری حکومت کی وجہ سے دنیا میں عذاب سے بچ گئے ہیں، لیکن آخرت میں وہ یقیناً جہنم کا ایندھن بنیں گے کیوں کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے: "سواد اعظم کی اتباع کرو، کیوں کہ جو کوئی سواد اعظم سے جدا ہو جاتا ہے، وہ جہنم میں چلا جاتا ہے" (اتبعوا السواد الأعظم، فإنه من شَذَّ شُذَّ في النار)25۔ المختصر خان صاحب کے نزدیک علماے دیوبند اجماع کی شرعی حجیت کو کم زور کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ ایک ایسے اصلاحی ایجنڈے کو پیش کر رہے ہیں جو پوری ڈھٹائی نامور علما کی راے اور عمل کے خلاف ہے۔

خاندان ولی اللہی کی مخالفت

خان صاحب کی نظر میں مختلف رسموں پر تنقید ان نامور اہل علم کی زندگی اور روایت کے بھی خلاف ہے، جنھیں علماے دیوبند اپنا علمی وفکری مقتدا مانتے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا کہ دیوبند کی اصلاحی تحریک خاص طور پر اٹھارھویں صدی کے شہرۂ آفاق عالم حضرت شاہ ولی اللہ ان کے دو مشہور صاحب زادوں شاہ عبد العزیز اور شاہ رفیع الدین کے افکار کے سراسر مخالف ہے۔ یہ ایک ایسا معزز علمی خاندان تھا کہ استعماری جنوبی ایشیا کے تمام مسلمان اہل علم اور تحریکیں اس کا بے حد احترام کرتی تھیں۔ اس لیے خان صاحب کو اس نقصان کا پورا پورا اندازہ تھا جو اکابر دیوبند کو ان سے الگ ثابت کرنے میں ان کے اصلاحی ایجنڈے کو پہنچنے والا تھا۔ خان صاحب نے اپنے استدلال میں کہا کہ علماے دیوبند کا اپنا موقف یہ ہے کہ وہ ولی اللہی ورثے کے امین ہیں۔ تاہم تھوڑی سی گہرائی میں جاکر مختلف فیہ رسموں کے جواز پر شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادوں اور علماے دیوبند کے موقف کے درمیان واضح تضاد معلوم ہوتا ہے۔ مثلا خان صاحب نے واضح کیا کہ شاہ ولی اللہ ایصالِ ثواب کے لیے فاتحے کے بغیر کسی ابہام کے اس کے حق میں تھے۔ 

مولانا احمد رضا خان کے مطابق دیوبندیوں اور شاہ محمد اسماعیل کے برعکس، جو اس رسم کو بدعت قرار دیتے ہیں، ولی اللہ خاندان نے بلا جھجھک اس عمل کو سر انجام دیا، اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دی۔ مثلاً شاہ ولی اللہ نے اپنے والد اور حدیث کے مشہور عالم شاہ عبد الرحیم کے تذکرے میں لکھتے ہیں کہ وہ ہر سال نبی اکرم ﷺ کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا تیار کرتے اور لوگوں میں تقسیم کرتے تھے۔ ایک سال معاشی مشکلات کی وجہ سے شاہ عبد الرحیم کے پاس اتنی وسعت نہ تھی کہ وہ باضابطہ کھانا تیار کریں، سواے بھنے ہوئے چنوں کے جو انھوں نے لوگوں میں تقسیم کیے۔ اس رات جب وہ سوئے تو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوئی۔ رسول اللہ ﷺ مسکرا رہے تھے، اور آپ کے ہاتھوں میں چنے تھے26۔

شاہ ولی اللہ نے خود بھی دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ کسی ولی کے ایصالِ ثواب کی خاطر مالیدہ اور کھیر پکانے میں کوئی مضائقہ نہیں (اگر مالیدہ وشیرِ برنج بنا بر فاتحۂ بزرگِ بقصدِ ایصالِ بہ روے احسان پزند وبخورند مضائقہ نیست)27۔ ایک دوسرے موقع پر شاہ ولی اللہ نے اپنے پیروکاروں کو ہدایت کہ : سلسلۂ چشتیہ کے مشائخ کے لیے ایصالِ ثواب کی خاطر ہر روز شیرینی کے اوپر فاتحہ پڑھ کر اسے تقسیم کریں (بر قدرِ شیرینی فاتحہ بنام خواجگانِ چست بہ خوانند وہمیں طور ہر روز می خواندی باشند)28۔

اسی طرح شاہ ولی اللہ کے صاحب زادے شاہ عبد العزیز نے شیعوں کی تاریخ اور افکار پر اپنی مشہور کتاب تحفۂ اثنا عشریہ میں لکھا ہے: "تمام مسلمان حضرت علی اور ان کے بابرکت خاندان کو اپنے پیر و مرشد مانتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ ان سے تکوینی امور وابستہ ہیں۔ ان کے لیے دعا کرنا، ان کی شان میں قصائد پڑھنا، ان کے نام پر صدقہ خیرات کرنا، منت ماننا اور کھانا کھلانا لوگوں کے درمیان رائج ہے، بالکل اس طرح جس طرح تمام دیگر اولیاء اللہ کے سلسلے میں یہ روایات عوام میں موجود ہیں" (حضرتِ امیر وذریتِ طاہرۂ او را تمام امت بر مثال پیران ومرشدین می پرستند، وامور تکوینیہ راوابستہ بایشان می دانند، وفاتحہ وہ درود وصدقات ونذر ومنت بنام ایشان رائج ومعمول گردیدہ، چنانچہ بجمیع اولیاء اللہ ہمیں معاملہ است)29۔

مزید برآں تفسیرِ عزیزی میں شاہ عبد العزیز صاحب نے حال میں وفات پانے والے کو ایک ایسے شخص سے تشبیہ دی ہے، جو ڈوب رہا ہو۔ "جس طرح ایک ڈوبنے والا شخص بے چینی سے مدد کے لیے چیخ پکار کرتا ہے، اسی طرح جو شخص ابھی ابھی وفات پاگیا ہو، وہ ان لوگوں کو دعاؤں اور برکتوں کے لیے  پکارتا ہے، جو اس نے دنیا میں اپنے پیچھے چھوڑے ہیں۔ ان اوقات میں عبادات کی تمام صورتیں، صدقہ خیرات اور کھانا کھلانے جیسے اعمال میت کے لیے زیادہ فائدے اور دل جوئی کا سبب بنتے ہیں"۔ وہ وضاحت کرتے ہیں: "یہی وجہ ہے کہ کسی کے مرنے بعد ایک سال تک اور بالخصوص ابتدائی چالیس دنوں لوگ اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں کہ نیکی کے ایسے اعمال کی ادائیگی سے میت کی مدد کریں"30۔

شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادوں نے عمومی معنوں نے ایصالِ ثواب کے لیے کھانے کے اوپر فاتحہ پڑھنے کی تائید کی، خان صاحب نے باصرار کہا۔ مزید برآں دیوبندیوں کے برعکس انھیں ان شرائط وحدود سے کوئی سروکار نہیں تھا، جو اس رسم میں شامل ہو گئی تھیں، اور جو شریعت میں موجود نہیں ہیں، لیکن مقامی عرف وعادت سے ہم آہنگ تھیں۔ مثلاً شاہ رفیع الدین (جو شاہ عبد العزیز کے چھوٹے بھائی تھے) نے واضح طور پر قرار دیا ہے کہ وہ خاص انداز، جس کے مطابق کسی رسم کو ادا کیا جاتا ہے، شرکا کے مزاج اور ان کی سہولت پر منحصر ہوتا ہے۔

شاہ رفیع الدین نے کہا کہ ان تخصیصات میں کوئی حرج نہیں، جو لوگوں میں میت کے ایصال ثواب کے لیے کھانے کی تقسیم میں رائج ہوئے ہیں31۔ ان کی نظر میں ہندوستان میں مقبول اس عام رسم میں کوئی حرج مضائقہ نہیں تھا، جس میں میت کے ایصالِ ثواب کے مخصوص کھانے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ کے پوتے حضرت حسین رضی کی روح پرفتوح کے لیے ایصال ثواب کی خاطر کھچڑی یا توشہ تقسیم کرنا سولھویں صدی کے معروف عالم شیخ عبد الحق محدثِ دہلوی کی نظر میں بالکل جائز تھا۔ شاہ رفیع الدین نے بتایا کہ ان تخصیصات کا مکمل اختیار اس طرح کی تقریبات کے منتظمین کے پاس ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے واضح کیا کہ انسانوں کی وضع کردہ یہ تخصیصات ابتداءً کسی معاشرے میں اس مقصد کے لیے ہوتی ہیں کہ وہ مخصوص عملی فوائد کی تکمیل کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ رسم بن کر سماج کی روزمرہ عادات کا حصہ بن جاتی ہیں (ایں تخصیصات از قسمِ عرف وعادت اند کہ بمصالحِ خاصہ ومناسبتِ خفیہ بہ ظہور آمدہ ورفتہ رفتہ شیوع یافت)32۔ اس کے رسم بننے میں کوئی قباحت نہیں، شاہ رفیع الدین نے واضح کیا۔ اس لیے مختلف دینی رسموں میں یہ تخصیصات، جن کی وجہ سے ان رسموں کا باضابطہ ہونا ممکن ہو جاتا ہے، ناجائز یا شریعت کی نظر میں نامناسب نہیں ہیں۔

مولانا احمد رضا خان کی نظر میں دینی رسوم میں تخصیصات کے جواز پر شاہ رفیع الدین کی راے دیوبندیوں اور شاہ محمد اسماعیل کے موقف کے مکمل برعکس ہے۔ اکابر دیوبند کے برعکس غیر واجب اعمال کو واجباتِ دینیہ کے مقام تک پہنچانے میں شاہ صاحب اور ان کے صاحب زادوں کو کوئی شدید بے چینی لاحق نہ تھی۔ بلکہ وہ بھی چاہتے ہیں کہ شرعی حدود کی تعیین کرتے وقت وہ بھی اپنے دیگر پیش رو سنی علما کی طرح سماج کے جمالیاتی ذوق اور عملی فلاح وبہبود کو جگہ دیں۔ مزید برآں اپنے نام نہاد دیوبندی پیرکاروں کے برعکس وہ ایسے نیک اعمال کو ناجائز نہیں ٹھہراتے، اور نہ عوام کو ایسے اعمال سے روکتے ہیں، جن کا مقصد مقدس دینی شخصیات کی عزت وتوقیر ہو۔

خان صاحب نے مزید بتایا کہ شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادے چوکیدارانہ رویے کے زیر اثر بھی نہیں تھے، جس کا مقصد فساد اور اخلاقی زوال کی علامات کی تلاش میں عوام کی روزمرہ زندگی پر مسلسل پہرہ دینا تھا۔ اس کے بجاے انھوں نے سماج کو اختیار دیا کہ وہ نیک رسوم میں موجود شرعی بھلائی کو اپنے مزاج، کردار اور عملی تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر حاصل کریں۔ اس کے برعکس اکابر دیوبند اور شاہ اسماعیل نے ایک ایسے عوامی دائرے کو پروان چڑھایا جس میں ہمیشہ شرعی حدود سے تجاوز کا خوف غالب رہتا ہے۔ مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی عوامی صلاحیت سے چوں کہ دیوبندی حد سے زیادہ یاس انگیز نقطۂ نظر کے حامل ہیں، اس لیے انھوں نے ایسی اچھی رسموں کو بھی جرم قرار دے دیا، جو خود ان کے شجرے سے تعلق رکھنے والے اہل علم نے صراحتاً جائز قرار دی ہیں۔ خان صاحب نے دعوی کیا کہ یہ تضاد اکابر دیوبند کی بے شرمی اور منافقت کی واضح دلیل ہے۔ میلاد یا فاتحہ میں شرکت کرنے والے کسی بھی شخص پر لعنت ملامت کرنے میں دیوبندی ذرہ برابر ہچکچاہٹ سے بھی کام نہیں لیتے۔ تاہم وہ اپنے علمی پیشواؤں پر کوئی اعتراض نہیں کرتے جنھوں نے نہ صرف ان اعمال کو جائز کہا، بلکہ خود میں ان میں شریک ہوئے۔

خان صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں: "دیوبندی عقیدے کے مطابق شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادے بغیر کسی شک وشبہے کے 'دین میں بدعت' کے مجرم اور بے اصل بدعات کے مرتکب ہیں۔ انھوں نے ڈھٹائی سے ایسی رسموں کو ایجاد کیا ہے، جو خیر القرون میں نہیں تھیں۔ لیکن دیوبندی کبھی انھیں گم راہ یا بدعتی نہیں کہیں گے۔بلکہ وہ انھیں معزز علما، دینی اکابر اور خدا رسیدہ صوفی قرار دیتے ہیں۔ لیکن جب دوسرے لوگ ان رسموں میں شرکت کرتے ہیں، تو انھیں گم راہ بدعتی قرار دے کر ان پر لعنت کرتے ہیں"33۔ خان صاحب طنزیہ پیراے میں اپنی بات جاری رکھتے ہیں: "شاید ان کے علاوہ سب لوگوں کا گناہ یہی ہے کہ وہ ایسے نیک اعمال میں حصہ اس طریقے سے حصہ لیتے ہیں، جو شریعت نے جائز قرار دیا ہے۔ اس بے جا زبردستی کو آخر کیا نام دیا جائے (این تحکم بے جا را چہ گفتہ آید)34۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ خان صاحب کے مطابق علماے دیوبند ایک نئی شریعت ایجاد کر رہے تھے، جو (بشمول ان کے اپنے پیش روؤں کے) دین کے تمام بزرگ ہستیوں کی آرا کی مخالف تھی، اور جو لوگوں کو  شریعت کی نظر میں نیک اور جائز اعمال میں شرکت پر سزا دیتی تھی۔ اچنبھے کی بات یہ ہے کہ دیوبندی شرک وبدعت کے مقابلے کا دکھاوا کرتے ہیں، لیکن حقیقت میں وہ ایک نئے اخلاقی نظام کی تشکیل کر رہے ہیں، جس نے پہلے سے چلے آنے والے تصورِ دین وشریعت کو پلٹ دیا۔

خان صاحب کی نظر میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اکابر دویوبند شرک وبدعت کے نام پر اجماع امت کو الل ٹپ طریقے سے مسترد کرتے ہیں، اور اجماع کے مقابلے میں اپنی ذاتی خواہشات کو مسلط کر تے ہیں۔ قانونِ الٰہی میں تحریف کرکے دیوبندی اس قانون کی ابدیت پر سوالات پیدا کر رہے ہیں۔ نتیجتاً وہ پوری ڈھٹائی سے شریعت اور اس کی حدود کے مطلق واضع کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کو للکار رہے ہیں۔ خان صاحب نے بتایا: یہی وجہ ہے کہ توحید کی احیا کا نام نہاد دیوبندی جذبہ سواے ایک ڈھونگ کے اور کچھ نہیں۔ کیوں کہ وہ توحید کے تحفظ کے نام پر اس پر اپنا حق جتلاتے ہیں۔ اس عمل میں انھوں نے قانون الہی کی مطلق حاکمیت کی حیثیت کو گھٹایا اور اس کے تقدس کو پاے مال کیا۔ جیسا کہ خان صاحب طنزیہ پیراے میں اپنے دیوبندی مخالفین سے تقاضا کرتے ہیں: "کیا شریعت تمھارا خانگی معاملہ ہے کہ آپ اسے جس طرف موڑنا چاہیں، موڑ دیتے ہیں" (شریعت کارِ خانگئ شما است کہ ہر چوں خواہد پہلو گردانید)35۔



حواشی

    1. احمد رضا خان، الحجة الفائحة لطیب التعین والفاتحة، الفتاوی الرضویۃ، 9 : 580۔

    2. ایضاً، 582۔

    3. ا۔ خان، إقامة القيامة ، 547۔

    4. احمد بن حنبل، مسند أحمد بن حنبل، جلد 6 (بیروت: دارالفکر، تاریخ ندارد)، 368۔

    5. الحاکم النیشاپوری، المستدرك على الصحيحين في الحديث (بیروت: دار الفکر، تاریخ اشاعت ندارد)، 513۔

    6. ابو حامد الغزالی، إحياء علوم الدين،كتاب السماع والوجد  (قاہرہ: المشہدی الحسینی، تاریخ ندارد)، 305۔

    7. سمیع، انوارِ ساطعہ، 52۔

    8. نسفی اور تفتازی دونوں آج کے دور کے وسطی ایشیا کے ملک ازبکستان کے شہر سمرقند کے رہنے والے تھے۔

    9. بحوالہ سمیع، انوارِ ساطعہ، 52۔

    10. محمد الہروی، شرح كتاب الفقه الأكبر (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 2006)، بحوالہ سمیع، انوار ساطعہ، 52۔

    11. بحوالہ ایضاً۔

    12.  ایضا، 53۔

    13. ایضاً۔

    14. سہارن پوری، البراہین القاطعۃ، 75۔

    15. ایضا، 76۔

    16. ایضاً، 78۔

    17. ایضاً۔   

    18. ایضاً، 79۔

    19. ایضاً۔

    20. سید جعفر البرزنجی، عقد الجواهر في مولد النبي الأزهر (لاہور: جامعہ اسلامیہ، تاریخ ندارد)، 67۔ دحلان، الدرر السنية، 18۔

    21.  دحلان، الدرر السنية، 18۔

    22. النیشاپوری، المستدرك، 1: 116۔

    23. ا۔ خان، إقامة القيامة ، 521۔

    24. ایضاً۔

    25. ۔ ابن ماجہ، سنن ابن ماجه (قاہرہ: دارالحدیث، 1998)، حدیث 3950، بحوالۂ ایضاً، 522۔

    26. شاہ ولی اللہ، الدر الثمين في مبشرات النبي الأمين (فیصل آباد: کتب خانہ علویہ رضویہ، تاریخ ندارد)، 40۔

    27. بحوالہ ا۔ خان، الحجة الفائحة، 575۔

    28. شاہ ولی اللہ، الانتباه في سلاسل أولیاء الله (دلی: برقی پریس، تاریخ ندارد)، 100۔

    29. شاہ عبد العزیز، تحفۂ اثنا عشریہ (لاہور: سہیل اکیڈمی، تاریخ اشاعت ندارد)، 214۔ امورِ تکوینیہ سے مراد وہ خدائی اوامر ہیں، جن کی وجہ سے چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جیسی وہ ہیں۔ اس کے مقابلے میں امور تکلیفیہ کا تصور ہے۔ امور تکلیفیہ کا مطلب کا وہ خدائی اوامر ہیں، جو مکلفین کے لیے شرعی احکام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دیکھیے: مائیکل کودکائیوکز، The Spiritual Writings of Amir ‘Abdul Kader (البانی: سٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک پریس، 1995)، 220، اور مائکل سیلز، Mystical Languages of Unsaying (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 1994)، 250۔

    30. شاہ عبد العزیز، تفسیرِ عزیزی (دلی: لال کواں، تاریخ ندارد)، 206۔

    31.  شاہ رفیع الدین، فتاوی شاہ رفیع الدین (دلی: مطبع مجتبائی، تاریخ ندارد)، بحوالہ احمد رضا خان، الحجۃ الفائحۃ، 591 – 92۔

    32.  ایضاً، بحوالۂ احمد رضا خان، الحجة الفائحة، 592۔

    33. احمد رضا خان، إقامة القیامة، 584۔

    34. ایضاً۔

    35. ایضاً۔


جولائی ۲۰۲۳ء

مغربی فکر میں ایمان اور الحاد کی بحثمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۵)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
دعوت وارشاد کے دائرے اور عصری تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۱)مولانا محمد بھٹی
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۸)ڈاکٹر شیر علی ترین

مغربی فکر میں ایمان اور الحاد کی بحث

محمد عمار خان ناصر

جدیدیت کے پس منظر میں مغربی فکر کے ارتقا کی تفہیم کے کئی مختلف زاویے موجود ہیں۔ یہ سبھی زاویے کسی نہ کسی خاص پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں اور بحیثیت مجموعی بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک زاویہ میخائیل ایلن نے اپنی  کتاب ’’جدیدیت کی الہیاتی اساسات“ (The Theological Origins of Modernity) میں پیش کیا ہے۔

مصنف نے اس سوال کو موضوع بنایا ہے کہ جدیدیت بطور ایک ورلڈویو (نظام فکر) کیسے اور کس سوال کے جواب میں سامنے آئی ہے۔ مصنف کے نقطہ نظر کے مطابق مسیحی الہیات میں خدا، کائنات، انسان اور عقل کے باہمی تعلق کو سمجھنے کے حوالے سے ایک کشمکش موجود تھی، اور اسی کشمکش کے تناظر میں جدیدیت نے بطور ایک ورلڈویو کے تشکیل پائی ہے۔

مصنف نے اس فکری سفر کے حسب ذیل مراحل متعین کیے ہیں:

۱۔ قرون وسطی کے اواخر میں تھامس اکوائنس وغیرہ کے ہاتھوں مسیحی متکلمانہ روایت جس کو Scholasticism  کا عنوان دیا جاتا ہے، تکمیل کو پہنچ چکی تھی۔ اس روایت میں یونانی فلسفے کے طبیعی کائنات اور فطری اخلاقیات کے تصورات کے ساتھ مسیحی عقیدہ خدا کو ملا کر ایک الہیاتی ورلڈویو تشکیل دیا گیا جس کا جوہر یہ ہے کہ خدا ایک ’’ریزن’’ رکھنے والی ہستی ہے جس کی ریزن کا ظہور کائنات میں ہوا ہے۔ چونکہ انسان کو خدا کی صورت پر پیدا کیا گیا اور اسے عقل دی گئی ہے، اس لیے انسان کائنات کے مشاہدے اور غور وفکر سے خدا کے ذہن کو سمجھ سکتا ہے اور کائنات میں موجودہ ’’غائیت’’ کو دریافت کر سکتا ہے۔

۲۔ اسکولیسٹسزم کے جواب میں اسمیت (nominalism) کے فلسفے کا ظہور ہوا جس نے بہت طاقتور استدلالات سے اس تصور کی نفی کی کہ کائنات خدا کے ذہن یا علم میں موجود کچھ خاص ماہیات (essences) کی جزئیات کا نام ہے جن کو انسانی عقل جزئیات کے مشاہدے اور مطالعے سے سمجھ سکتی ہے۔ اسمیت کے حامی مسیحی مفکرین نے کہا کہ کائنات کی ہر چیز انفرادی نوعیت رکھتی ہے اور کسی بھی کلی ماہیت کا جزوی نمونہ نہیں ہے۔ اس لیے کائنات اور اس کی اشیاء کی غرض یا معنویت خود کائنات کے مطالعے سے معلوم نہیں ہو سکتی، اس کا ذریعہ صرف بائبل میں درج الہام یا انسان کا روحانی تجربہ ہو سکتا ہے۔

۳۔ اسمیت کے پیدا کردہ چیلنج نے خدا، کائنات اور انسان کے باہمی تعلق کو نئے سرے سے متعین کرنے اور ایک نیا ورلڈویو تشکیل دینے کی کوششوں کو تحریک دی۔ بنیادی سوال یہ تھا کہ اس نئے ورلڈویو میں مرکزی مقام کس کا ہو؟ خدا کا، فطرت یعنی کائنات کا یا انسان کا؟ یہ تینوں آپشن مغربی فکر میں مختلف مکاتب فکر نے اختیار کیے۔

۴۔ اصلاح مذہب کے قائدین یعنی پروٹسٹنٹ ماہرین الہیات نے خدا کو مرکزی مقام دیتے ہوئے انسان کے مقام اور انسانی عقل کی اہمیت کو محدود تر کرنے کی کوشش کی۔ ہیومنسٹ مفکرین نے اس کے برعکس (خدا کی نفی کیے بغیر) اپنے ورلڈویو میں انسان کے مقام کو مرکزیت دی اور انسان کے زاویہ نظر سے خدا اور کائنات کی نوعیت اور اہمیت متعین کرنے کی کوشش کی۔ (اس کشمکش اور مجادلے کے نمونے ہم مارٹن لوتھر اور اس کے ہم عصر ہیومنسٹ دانش ور اراسمس کے مباحثوں میں دیکھ سکتے ہیں جن میں لوتھر انسان کے جبر اور بے اختیاری کو موکد کرتا جبکہ اراسمس انسانی اختیار اور آزادی کا اثبات کرتا دکھائی دیتا ہے)۔

۵۔ اسی سوال کے جواب میں تیسرا آپشن یہ تھا کہ ان تینوں میں سے فطرت یعنی کائنات اور اس کے طبیعی قوانین کو مرکزی اہمیت دیتے ہوئے ان کے تحت خدا اور انسان کو سمجھا اور ان کا مقام متعین کیا جائے۔ اس انتخاب سے جو ورلڈویو تشکیل پاتا ہے، بنیادی طور پر اس کو ہم ’’جدیدیت’’ سے تعبیر کرتے ہیں۔

۶۔ لیکن فطرت کو مرکزی مقام دے کر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا، جب تک کہ خدا اور انسان کی (یعنی خدا اور انسان کے ایسے تصور کی جو نیچرلسٹک نہ ہو) نفی نہ کر دی جائے۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ خدا کی نفی کا نتیجہ انسان کو کلیتاً‌ ایک حیوان قرار دینے کی صورت میں نکلتا ہے، جبکہ انسان کی نفی مذہبی جنونیت پر منتج ہوتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ جدیدیت دراصل مسیحی فکر میں ایک الہیاتی سوال (خدا، کائنات اور انسان کے مابین تعلق کس نوعیت کا ہے) کا متبادل جواب تلاش کرنے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوئی جس کی فکری مشکلات اور چیلنجز سے مغربی فکر ابھی تک نبردآزما ہے۔


ایک اور معاصر مصنف چارلس ٹیلر نے  اپنی کتاب  ’’عہد بے خدا “ (A Secular Age) میں ٹیلر نے پچھلی پانچ صدیوں میں ایمان والحاد کے سفر کے تین بنیادی مراحل واضح کیے ہیں۔

پہلا مرحلہ سولہویں سے اٹھارہویں صدی تک پھیلا ہوا ہے۔ ان تین سو سالوں میں مسیحی ایمان کے متبادل کے طور پر خالص انسان پرستی (exclusive humanism) یعنی الحاد ایک فکری انتخاب کے طور پر سامنے آیا جو ماورائی حقائق کی نفی اور عقلی انداز فکر کا اثبات کرتا ہے اور باہمی افادہ (mutual benefit) کو انسانی معاشرے کی تنظیم کی بنیاد قرار دیتا ہے۔

دوسرا مرحلہ اٹھارہویں صدی کے اواخر سے شروع ہو کر بیسویں صدی کے وسط تک آتا ہے۔ اس مرحلے کا بنیادی عنوان ’’نووا ایفکٹ’’ (nova effect) ہے، یعنی مسیحی ایمان، ڈی ازم (کائنات سے غیر متعلق خدا کا تصور) اور الحاد کی باہمی تنقید اور جدال کے نتیجے میں متنوع اور رنگارنگ آپشنز کا ظہور پذیر ہونا۔ ان آپشنز میں ایسے تصورات بھی شامل ہیں جن میں سے بعض عقلیت پسندی کو اور بعض انسانی مساوات کی تنویری فکر کو رد کرتے ہیں، جیسے رومانویت اور نیٹشے کا فلسفہ۔

تیسرا مرحلہ بیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوتا ہے، تاہم یہ ایک لحاظ سے دوسرے مرحلے کا تسلسل بھی ہے۔ پہلے اور دوسرے مرحلے میں الحاد سمیت جو مختلف آپشنز معاشرے کے بارسوخ طبقات (elite classes) کے لیے دستیاب ہوئے تھے، تیسرے مرحلے میں ان کا دائرہ عام آدمی تک وسیع ہو گیا ہے اور اس کے علاوہ کئی نئے آپشنز بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ اس مرحلے میں سرمایہ دارانہ مارکیٹ کے زیر اثر انفرادیت اور شخصی پسند وناپسند نے ایک قدر کی حیثیت اختیار کی ہے جس کی جڑیں تو رومانوی تحریک میں ہیں، تاہم اس نے بیسویں صدی کے نصف آخر میں عام ثقافت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

مذہبی شناخت پر اس تیسرے مرحلے کا اثر یہ ہے کہ اس سے پہلے مذہبی وروحانی زندگی جو کسی نہ کسی اجتماعی شناخت (مثلاً‌ ریاست، کلیسا یا کوئی مذہبی فرقہ) کے ساتھ جڑی ہوتی تھی، انفرادیت پسندی کے اس عہد میں یہ تعلق مزید کمزور ہو گیا ہے۔ (ص ۲۹۹، ۳۰۰)

--------------

مذکورہ کتاب کے اختتامی باب کے آخر میں ٹیلر نے الحاد کے مستقبل کے متعلق ایک (غیر حتمی) اندازہ بیان کیا ہے۔ ٹیلر کا کہنا ہے کہ جن مغربی معاشروں میں عموماً‌ الحادی طرز فکر کو قبول کر لیا گیا ہے اور کسی شخص کے خدا پر یقین رکھنے کو اچنبھے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہاں آئندہ نسلوں میں کئی وجوہ سے اس سے بے اطمینانی پیدا ہوگی اور سیکولرائزیشن کے رائج الوقت نظریے کی قوت یا تاثیر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی چلی جائے گی۔

اس کا ایک سبب تو یہ ہوگا کہ جب دوسرے مغربی (اور غیر مغربی) معاشروں میں الحاد کی قبولیت عامہ پیدا نہیں ہوگی تو اس نظریے کی توقعات پر زد پڑے گی جو یہ قرار دیتا ہے کہ مذہب کا خاتمہ انسانی معاشروں کی ایک آفاقی منزل ہے اور جلد یا بدیر سب معاشروں کو اسی منزل پر پہنچنا ہے۔

ایک اور وجہ یہ بھی ہوگی کہ معاشرے کی جن قباحتوں اور خرابیوں کا ذمہ دار مذہب کو ٹھہرایا جاتا ہے، وہ ویسے ہی موجود رہیں گی۔ اس بیانیے کو استحکام دینے کے لیے مذہبی معاشروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے کہ وہ جدید اقدار کے لیے سازگار نہیں ہیں، جیسا کہ امریکی معاشرے پر اور اسی طرح مسلمان معاشروں پر یہ تنقید موجود ہے۔ تاہم سیکولرائزیشن کے نظریے کو اس طرح تقویت پہنچانے کا أسلوب زیادہ دیر تک کارگر نہیں ہوگا اور جلد یا بدیر غیر موثر ہو جائے گا۔

ایک تیسری وجہ یہ ہوگی کہ ماورائی حقائق سے انسان کو قطعی طور پر غیر متعلق کر دینے کے نتیجے میں زندگی کی بے معنویت کا إحساس گہرا ہوگا اور آئندہ نسلیں خود کو ایک waste land (بے مقصد دنیا) میں محسوس کریں گی۔ یوں نوجوان نسلیں مادیت کے محدود دائروں سے باہر معنویت کی تلاش کی طرف دوبارہ متوجہ ہوں گی۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(416) بلاء کا ترجمہ

قرآن مجید میں ب ل و کے مادے سے مشتق ہونے والے بہت سے صیغے آئے ہیں، یہاں خاص لفظ بلاء کے مفہوم پر گفتگو مقصود ہے۔ قرآن مجید میں یہ لفظ جہاں بھی آیا ہے وہاں انعامات کا تذکرہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہاں آزمائش کا بھی ذکر ہے، لیکن اصل سیاق آزمائشوں کے بیان کا نہیں بلکہ آزمائشوں کے حوالے سے انعامات کے بیان کا ہے۔ زیادہ تر یہ لفظ بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے بچانے کے حوالے سے آیا ہے۔ایسی ہر جگہ ظلم کو فرعون کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور بلاء کو اللہ نے اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ اس لیے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے کہ فرعون کے ظلم کو اللہ کی طرف سے آزمائش قرار دیا جائے جب کہ یہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے ظلم سے نجات کو اللہ کی طرف سے انعام قرار دیا جائے۔ اس کے علاوہ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ کے اسلوب پر غور کریں تو امتحان کے مقابلے میں احسان کا پہلو بہت زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔

غور طلب بات ہے کہ اگر کسی نے ایک شخص کو مصیبت میں ڈالا اور پھر خود ہی مصیبت سے باہر نکالا تو اسے وہ احسان کے طور پر کیسے پیش کرے گا؟ اس کا احسان تو اس وقت ہوگا جب کوئی اپنی شامت اعمال یا کسی دوسرے کے ظلم و زیادتی کا شکار ہو اور اسے وہ بچالے۔ قرین قیاس بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ زیر نظر مقامات پر اللہ نے بلاء عظیم، بلاء مبین اور بلاءً حسنًا کہہ کر کے اپنے بڑے، خوب اور نمایاں احسانات کا ذکر کیا ہے۔

جہاں تک عربی لغات کی بات ہے، علمائے لغت صاف لکھتے ہیں کہ بلاء کا استعمال مصیبت و آزمائش کے لیے بھی ہوتا ہے اور احسان و انعام کے لیے بھی ہوتا ہے۔

لسان العرب میں ہے: قَالَ ابْنُ بَرِّیٍّ: والبَلاء الإِنعام؛ قَالَ اللَّہُ تَعَالَی: وَآتَیْناہُمْ مِنَ الْآیاتِ مَا فِیہِ بَلَاء مُبِینٌ؛ أَی إِنْعَامٌ بَیِّن. وَفِی الْحَدِیثِ: مَنْ أُبْلِیَ فَذَکَرَ فَقَد شَکَرَ۔

القاموس المحیط میں ہے: والبَلاءُ یکونُ مِنْحَةً، ویکونُ مِحْنَةً۔

جاہلی دور کے مشہور شاعر زہیر کا یہ شعر بلاء کے انعام کے معنی میں استعمال ہونے کی واضح دلیل ہے:

رأی اللہُ، بالإحسانِ، ما فعلا بکمُ
فأبْلاہُما خَیرَ البَلاءِ الذی یَبْلُو

درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ بتاتا ہے کہ بعض مترجمین نے زیادہ تر مقامات پر بلاء کا ترجمہ آزمائش و امتحان کیا اور کہیں کہیں انعام کیا، جب کہ بعض نے زیادہ ترمقامات پر بلاء کا ترجمہ انعام کیا اور کہیں آزمائش بھی کردیا۔ بعض مترجمین نے سب جگہ آزمائش ترجمہ کیا ہے، تاہم صحیح بات یہ لگتی ہے کہ ان تمام ہی مقامات پر انعام یا اس مفہوم کے کسی لفظ سے ترجمہ کیا جائے۔

(۱) وَإِذْ نَجَّیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ۔ (البقرۃ: 49)

”اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام)“۔(احمد رضا خان)

”اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس نجات دینے میں تمہارے رب کی بڑی مہربانی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)

”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”(اس واقعہ میں)ایک امتحان تھا تمہارے رب کی جانب سے بڑا بھاری“۔ (اشرف علی تھانوی)

(۲) وَإِذْ أَنْجَیْنَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ یُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ۔ (الاعراف: 141)

”اور یاد کرو جب ہم نے تمہیں فرعون والوں سے نجات بحشی کہ تمہیں بری مار دیتے، تمہارے بیٹے ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں باقی رکھتے، اور اس میں رب کا بڑا فضل ہوا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس میں احسان ہے تمہارے رب کا بڑا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)

”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے سخت آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی بھاری آزمائش تھی“۔ (محمد جوناگڑھی، بالکل اسی مفہوم کی درج بالا آیت میں مہربانی ترجمہ کیا ہے۔)

”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس (واقعہ) میں بڑی بھاری آزمائش تھی“۔ (اشرف علی تھانوی)

(۳) فَلَمْ تَقْتُلُوہُمْ وَلَکِنَّ اللَّہَ قَتَلَہُمْ وَمَا رَمَیْتَ إِذْ رَمَیْتَ وَلَکِنَّ اللَّہَ رَمَی وَلِیُبْلِیَ الْمُؤْمِنِینَ مِنْہُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ۔ (الانفال: 17)

”تو تم نے انہیں قتل نہ کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا، اور اے محبوب! وہ خاک جو تم نے پھینکی تھی بلکہ اللہ نے پھینکی اور اس لیے کہ مسلمانوں کو اس سے اچھا انعام عطا فرمائے، بیشک اللہ سنتا جانتا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور کیا چاہتا تھا ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس سے یہ غرض تھی کہ مومنوں کو اپنے (احسانوں) سے اچھی طرح آزمالے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”(اور مومنوں کے ہاتھ جو اِس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے“۔ (سید مودودی)

”بلکہ اللہ نے پھینکی کہ (اللہ اپنی شانیں دکھائے) اور اپنی طرف سے اہل ایمان کے جوہر نمایاں کرے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے“۔(اشرف علی تھانوی)

 (۴) وَإِذْ قَالَ مُوسَی لِقَوْمِہِ اذْکُرُوا نِعْمَةَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ أَنْجَاکُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ یَسُومُونَکُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ وَفِی ذَلِکُمْ بَلَاءٌ مِنْ رَبِّکُمْ عَظِیمٌ۔ (ابراہیم: 6)

”اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا یاد کرو اپنے اوپر اللہ کا احسان جب اس نے تمہیں فرعون والوں سے نجات دی جو تم کو بری مار دیتے تھے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں زندہ رکھتے، اور اس میں تمہارے رب کا بڑا فضل ہوا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس میں مدد ہوئی تمہارے رب کی بڑی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)

”اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بے شک اس میں تمہارے رب کی جانب سے بہت بڑی آزمائش تھی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے ایک بڑا امتحان تھا“۔(اشرف علی تھانوی)

(۵) فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّہُ لِلْجَبِینِ۔ وَنَادَیْنَاہُ أَنْ یَاإِبْرَاہِیمُ۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ۔ إِنَّ هَذَا لَہُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِینُ۔ (الصافات: 103 - 106)

”جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا۔ تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم۔ تم نے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں۔ بلاشبہ یہ صریح آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”بے شک یہی ہے صریح جانچنا“۔(شاہ عبدالقادر، سب جگہ انعام اور مدد وغیرہ ترجمہ کیا مگر یہاں جانچنا یعنی آزمائش ترجمہ کردیا)

”یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)

”بیشک یہ روشن جانچ تھی“۔ (احمد رضا خان)

”درحقیقت یہ کھلا امتحان تھا“۔ (حمد جوناگڑھی)

”بے شک یہ کھلا ہوا امتحان تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”حقیقت میں یہ تھا بڑا امتحان“۔ (اشرف علی تھانوی)

(۶) وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِی إِسْرَاءِیلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِینِ۔ مِنْ فِرْعَوْنَ إِنَّہُ کَانَ عَالِیًا مِنَ الْمُسْرِفِینَ۔ وَلَقَدِ اخْتَرْنَاہُمْ عَلَی عِلْمٍ عَلَی الْعَالَمِینَ۔ وَآتَیْنَاہُمْ مِنَ الْآیَاتِ مَا فِیهِ بَلَاءٌ مُبِینٌ۔ (الدخان: 30 - 33)

”اور ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت کے عذاب سے نجات دی۔ (یعنی) فرعون سے۔ بیشک وہ سرکش (اور) حد سے نکلا ہوا تھا۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو اہل عالم سے دانستہ منتخب کیا تھا اور ان کو ایسی نشانیاں دی تھیں جن میں صریح آزمائش تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اُنہیں ایسی نشانیاں دکھائیں جن میں صریح آزمائش تھی“۔ (سید مودودی)

”ہم نے انہیں وہ نشانیاں عطا فرمائیں جن میں صریح انعام تھا“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہم نے انہیں ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح آزمائش تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں کھلا ہوا انعام تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دیں جن میں صریح انعام تھا“۔(اشرف علی تھانوی، اکثر جگہ آزمائش ترجمہ کیا، مگر یہاں انعام ترجمہ کردیا)

(417) لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِہِ کا ترجمہ

وَجَعَلُوا لِلَّہِ أَنْدَادًا لِیُضِلُّوا عَنْ سَبِیلِہِ۔ (ابراہیم: 30)

”اور اللہ کے کچھ ہم سر تجویز کر لیے تاکہ وہ انہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمہ میں کم زوری ہے۔ یہ مفہوم درست نہیں لگتا ہے کہ مشرکین ہم سر تجویز کریں اور وہ تجویز کیے ہوئے ہم سر ان تجویز کرنے والے مشرکوں کو بہکائیں۔ مفہوم بالکل واضح ہے کہ شرک کے پیشوا اللہ کے ہم سر تجویز کرتے ہیں اور اس طرح وہ پیشوا عام لوگوں کو گم راہ کرنا چاہتے ہیں۔ درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”انہوں نے اللہ کے ہم سر بنالیے کہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں“۔(محمد جوناگڑھی)

(جاری)


مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۵)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

ڈاکٹر سید مطیع الرحمن /محمد عمار خان ناصر



مطیع سید:ایک عورت آئی اور مرگی کی تکلیف کا ذکر کیا اور کہا کہ اس سے شفا یابی کی دعا فرمائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ مرگی پر صبر کرے تو اس پر اسے جنت ملے گی۔1 کیا اس وقت مرگی کا کوئی علاج نہیں تھا؟

عمار ناصر:علاج کا تو علم نہیں، لیکن وہ خاتون تو دعا کے لیے آئی تھی۔

مطیع سید :آپ ﷺ نے اسے علاج کروانے کا نہیں فرمایا؟

عمار ناصر:ہر موقع ہر طرح کی بات کہنے کا نہیں ہوتا۔ ممکن ہے، وہ علاج کروا رہی ہو یا ہو سکتا ہے، کوئی طبیب میسر نہ ہو۔ آپﷺ کے پاس وہ جس مقصد کے لیے آئی، اس میں آپ ﷺ اس کو ایک پہلو کی طرف راہنمائی فرمارہے ہیں کہ اگر وہ تکلیف پر صبر کرے تو اس کا اجر ملے گا۔ اس طرح کی تجویز مخاطب کے احوال کے لحاظ سے دی جاتی ہے۔ شاید کوئی اور ہوتا اور آپ یہ محسوس فرماتے کہ اس کے لیے تکلیف برداشت کرنا مشکل ہے تو اس کے لیے دعا فرما دیتے۔ اس خاتون میں آپ نے ایمان اور صبر کی ایسی حالت محسوس فرمائی کہ اسے بیماری کو برداشت کرنے کا مشورہ دینا زیادہ مناسب سمجھا۔

مطیع سید:بری نظر لگنے کی کیا حقیقت ہے؟2 کچھ لوگ نظر لگنے کی بات کو توہم سمجھتے ہیں۔

عمار ناصر:اس کا مطلب ہے، نظر میں ایسی تاثیر جس سے دوسرے انسان کو کوئی جسمانی نقصان پہنچے۔ عام طور پر تو اس کی تاثیر مانی ہی جاتی ہے۔ معتزلہ کے متعلق عموماً‌ گمان کیا جاتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں پر سوال اٹھاتے ہوں گے، لیکن جاحظ نے کتاب الحیوان میں نظر لگنے کا واضح دفاع کیا ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایاکہ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں ہوتی۔3 کیا اس دو ر میں ایسی کوئی بیماری نہیں تھی؟

عمار ناصر:اس موضوع سے متعلق دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ایک روایت میں ہے،لاعدوی ولا طیرۃ۔ لا طیرۃ تو واضح ہے کہ بدشگونی کوئی چیز نہیں ہوتی۔لا عدوی کے بارے میں شارحین کہتے ہیں کہ متعدی مرض کے بارے میں لوگوں میں جوتصور رائج تھا،اس نے توہم کی شکل اختیار کرلی تھی۔ حدیث میں اس کی نفی مقصود ہے، مطلقاً‌ بیماری کے متعدی ہونے کی نفی مقصود نہیں۔بہرحال روایتیں بظاہر متعارض ہیں۔بعض میں لگتا ہے کہ آپﷺ واقعتاً‌ نفی کررہے ہیں،لیکن دوسری روایات میں اس کا اثبات ہے۔ بعض محدثین اس میں ترجیح کا اصول استعمال کرتے ہیں، بعض تطبیق کی کوشش کرتےہیں۔ اس میں دو تین توجیہیں ہیں۔ شرح نخبۃ الفکر میں ابن حجر نے یہی احادیث تعارض کی مثال کے طور پر بیان کی ہیں۔

مطیع سید: ایک حدیث میں ہے کہ مکھی اگر کسی مشروب میں جا گرے تو اسے پورا ڈبو کر باہر نکالا جائے، کیونکہ اس کے ایک پر میں اگر بیماری ہوتی ہے تو دوسرے پر میں اس کی شفا ہوتی ہے۔4 یہ کوئی اس دور کی خاص مکھی تھی یا ایک کلی حکم ہے؟

عمار ناصر: جی، یہ حدیث معترضین کی طرف سے کافی محل اعتراض رہی ہے۔ بہرحال جدید سائنس میں اس نوعیت کی کچھ تحقیقات کا ذکر تو ملتا ہے کہ کیا مکھی کے پروں کو مائیکروب کشی کے قدرتی ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ممکن ہے، ان سے زیربحث حدیث کا مفہوم واضح کرنے میں کچھ مدد ملتی ہو۔ البتہ اصولی بات یہ ہے کہ اس طرح کی کسی بات کو ہم کلیت پر محمول نہیں کر سکتے۔ یعنی اس سے یہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ دنیاکی ہر مکھی میں یہی صفت پائی جاتی ہے۔جیسا کہ عجوہ والی روایت میں ہم نے دیکھا کہ مدینہ کی خاص عجوہ کھجوروں کے متعلق بات کہی گئی ہے۔ اس طرح کی کسی چیز کو کلی کہنا بڑا مشکل ہے۔

مطیع سید:کلالہ کے بارے میں حضرت عمر کیا فیصلہ کرنا چاہتے تھے؟5 وہ اس مسئلے کو کیوں اتنی اہمیت دیتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں اس پر اتنا اصرار کرتے تھے؟

عمار ناصر: حضرت عمر ایک منتظم کا مزاج رکھتے تھے جس کی حدیث میں بھی تعریف آئی ہے کہ عمر کے دور حکومت میں مسلمانوں کے معاملات کا جتنا بہترین انتظام ہوگا، دوسرے کسی دور میں نہیں ہوگا۔ اسی پہلو سے حضرت عمر کے ہاں ایک نمایاں رجحان یہ بھی تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ سارے اہم مسائل کے بارے میں شریعت میں واضح اور حتمی فیصلہ کر دیا جائے تاکہ بعد میں لو گ اس معاملے میں الجھن اور اختلاف میں نہ پڑیں۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ کئی اجتہادی مسائل میں بھی انھوں نے اپنے عہد حکومت میں کوشش کی کہ صحابہ کے مابین جو اختلاف ہے، اس کو اتفاق میں تبدیل کر دیں۔ مثلاً‌ جنازے کی تکبیرات اور بغیر انزال کے غسل واجب ہوتا ہے یا نہیں، ان مسائل میں انھوں نے صحابہ کے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

اس روایت میں کلالہ سے متعلق بھی وہ اپنے اسی رجحان کا ذکر کر رہے ہیں کہ میری خواہش اور کوشش تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وراثت میں کلالہ رشتہ داروں کے حصے بھی واضح فرما دیں اور سود کی جو بعض مشتبہ شکلیں ہیں، ان کا حکم بھی بیان فرما دیں۔ قرآن مجید نے کلالہ رشتہ داروں میں سے بہن بھائیوں کے حصے تو بیان فرمائے ہیں، لیکن ان کے علاوہ بھی کلالہ رشتے دار ہو سکتے ہیں۔ حضرت عمر چاہتے تھے کہ ان کے متعلق بھی واضح ہدایات دے دی جائیں، لیکن نبی ﷺ نے اس سے گریز کیا اور فرمایا کہ آیۃ الصیف یعنی سورہ مائدہ کی آخری آیت کافی ہے جس میں بہن بھائیوں کے حصے بتائے گئے ہیں۔ آپ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جن رشتہ داروں کے حصے بیان فرمائے ہیں، انھی پر اکتفا کی جائے۔

مطیع سید: کلالہ کے علاوہ دادا کے حصے اور سود کے بارے میں بھی حضرت عمر یہی بات فرماتے تھے۔6

عمار ناصر: جی، یہ بھی اسی نوعیت کے مسائل تھے۔ اگر باپ موجود ہے تو ظاہر ہے، دادا کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ لیکن اگر باپ نہیں ہے اور دادا زندہ ہے تواس کا حصہ کیا ہوگا؟ کیا وہ باپ کا قائم مقام ہے؟یا وہ وراثت میں حصہ دار نہیں ہوگا؟ یا اس کو شریک کرنے کا کوئی اور اصول ہوگا؟ تو یہ کچھ تفصیلی شکلیں ہیں جو حضرت عمر کے ذہن میں تھیں اور وہ ان کا فیصلہ چاہتے تھے۔سود کا بھی یہی معاملہ تھا۔سود کی کچھ شکلیں توبہت واضح ہیں،کچھ ایسی ہیں جن میں ایک پہلو سے سود کے ساتھ اشتباہ پایا جاتا ہے اور ایک لحاظ سے نہیں پایا جاتا۔ تو حضرت عمر چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کا بھی واضح حکم بیان فرما دیں۔

مطیع سید: ایک روایت ہے کہ جو شخص مال چھوڑے گا، وہ تو اس کے ورثا کا ہے لیکن اگر قرض چھوڑ کر جائے تو وہ ہ ہمارے ذمے ہے۔7

عمار ناصر: یہ بات نبیﷺ نے بطور صاحبِ امر کے بیان فرمائی ہے کہ ایسے شخص کے قرض کی ادائیگی ریاست کی ذمہ داری ہے۔

مطیع سید: اصول تو یہ ہے کہ جو شخص مال چھوڑکر جا تا ہے، سب سے پہلے اس کا قرض اتار ا جا تا ہے۔ پھر جو بچ جائے، وہ ورثا میں تقسیم کیا جاتا ہے۔لیکن یہاں ایسے لگ رہا ہے کہ قرض کی ساری ذمہ داری ریاست لے رہی ہے۔

عمار ناصر:اگر مرنے والا ما ل چھوڑ کر گیا ہے اور اس کے ذمے کوئی قرض ہے تو اس میں ریاست نہیں آئے گی۔لیکن اگر وہ مر گیا اور کچھ بھی نہیں چھوڑ کر گیا اور اس پر قرض ہے تو تب ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس میں یہ مضمر ہے کہ اس کے وارث بھی اس قرض کو اتارنے کے متحمل نہیں ہیں یا وارثوں میں کوئی ہے ہی نہیں جو اس ذمہ داری کو اٹھا ئے۔یہ ساری قیود اس کے اند رشامل ہیں۔

مطیع سید: ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ کوئی شخص تین راتیں ایسی نہ گزارے کہ وہ مال کے بار ےمیں جو وصیت کر نا چاہتا ہے، اس کو لکھوا نہ دیا ہو۔8 کیا یہ روایت وراثت کے حصے متعین ہونے سے پہلے کی ہے؟

عمار ناصر: نہیں،اس تخصیص کی ضرورت نہیں۔ ایک دائرے میں وصیت کا حق اب بھی ہے جس کے متعلق نبی ﷺ نے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی تک وصیت کرنی چاہیے۔اگر آدمی کے ذہن میں کچھ چیزیں ہیں جن کی وہ وصیت کرنا چاہتا ہے تو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ لکھوا دینی چاہیے۔ موت کا چونکہ کوئی بھروسہ نہیں، اس لیے تین دن سے زیادہ وصیت لکھوانے میں سستی نہیں ہونی چاہیے۔

مطیع سید:ایصالِ ثواب کے مسئلے میں احادیث میں تو صدقہ کا ذکر آیا ہے9 لیکن قرآن ِ مجید پڑھنا یا دوسرے اعمال کا ثواب پہنچانا،کیا اس کو صدقے سے ہی اخذ کیا گیا ہے؟

عمار ناصر: جی، باقی اعمال کو صدقے پر ہی قیاس کیا جاتا ہے۔اس میں فقہا کا کچھ اختلاف بھی ہے۔ شوافع کے نزدیک قرآن کی تلاوت کا ایصال ثواب نہیں کیا جا سکتا، صرف انھی اعمال کا کیا جا سکتا ہے جن کا حدیث سے ثبوت ملتا ہے، مثلاً‌ صدقہ اور نفلی حج وغیرہ۔ دیگر فقہاء اس میں قیاس کے قائل ہیں اور تمام اعمال خیر کے ایصال ثواب کو درست مانتے ہیں۔

مطیع سید: واقعہ قرطاس10 کے حوالےسے عام طو رپر یہ تاویل کی جاتی ہے کہ آپﷺ دین کی ہی کچھ اہم باتیں بیان فرما نا چاہ رہے تھے۔مجھے یہ تاویل اطمینا ن بخش نہیں لگتی۔

عمار ناصر: واقعے کا سیاق تو واضح ہے کہ آپﷺ چاہتے بھی یہ تھے اور آپ نے بعض ایسے اقدامات بھی کیے اور آپ کو عمومی اعتما د بھی تھا کہ میرےبعد مسلمان ابو بکر ہی کو چنیں گے۔ تو عموماً‌ آپ یہی چاہ رہے تھے کہ اس معاملے میں کوئی حکم نہ دیں، بلکہ مسلمانوں پر ہی اس کو چھوڑ دیں۔لیکن کسی وقت آپﷺ کے دل میں یہ خواہش بھی پیداہوتی تھی کہ میں اس کو لکھوا دوں تاکہ کوئی نزاع نہ پیداہو۔یہ بعض اوقات میں ایک وقتی کیفیت ہوتی تھی جس پر آپ نے عمل نہیں فرمایا۔

مطیع سید: اس کے بعد بھی نبیﷺ زندہ رہے ہیں لیکن آپ نے کچھ نہیں لکھوایا۔ حضرت عباس بڑا افسوس کر تے تھے کہ کا ش آپﷺ لکھوا دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔

عمار ناصر: دیکھیں، دونوں ہی پہلو تھے۔حضرت عمر کے سامنے ایک پہلوتھا۔ اگر جانشینی کی وصیت لکھوائی جاتی تو اس فیصلے کے بہت سے مضمرات ہوتے۔اگر آپﷺ کسی کو نامزد کر کے جاتے،تو اس سے آگے جو روایت بنتی اور جو تصورات پیداہوتے،وہ اور طرح کے ہوتے۔ آپﷺ اس کو امت پر چھوڑ کرچلے گئے تو ظاہر ہے کہ اس کے مضمرات دوسرے تھے۔دونوں ہی پہلو تھے۔ حضرت عمر کےسامنے ایک پہلو تھا، حضرت عباس دوسرے پہلو کو دیکھ رہے تھے۔

مطیع سید:آپﷺ بیمار تھے اور حضرت عائشہ کے پاس تھے۔آپ نے فرمایاکہ ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجو تاکہ میں ان کو وصیت کر دوں۔ کیا یہ وصیت خلافت کے حوالے سے تھی؟

عمار صاحب: تعیین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ممکن ہے، خلافت کا مسئلہ ذہن میں ہو۔ ممکن ہے، کچھ اور اہم امور کے حوالے سے وصیت فرمانا چاہتے ہوں۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ نذر ماننےسے کوئی چیز نہیں ٹلتی۔11 نذر ماننا تو صدیوں سے چلاآرہا ہے اور کتب ِ حدیث میں نذر کے باقاعدہ ابواب ہیں،تو کیا اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا؟

عمار ناصر: دو پہلو ہیں۔ایک تو یہ کہ آپ کسی کام کی منت مانیں تو کیا اس کی روشنی میں اللہ تعالیٰ اپنے تقدیری فیصلوں کو تبدیل کر دیتے ہیں؟ ایک یہ پہلو ہے۔دوسرایہ کہ منت ماننا اور اس کے مطابق کوئی مقصد پورا ہو جائے تو منت کو پوراکرنا، کیا یہ شریعت میں غیر مستحسن چیز ہے؟ تو حدیث میں یہ دوسری بات مرا د نہیں ہے۔قرآن بھی کہتا ہے کہ یوفون بالنذر، یعنی اہل ایمان جو منت مانتے ہیں، ا س کو پورا کرتے ہیں۔اس طرح کی حدیثوں میں یہ بھی مسئلہ ہوتا ہےکہ بعض دفعہ تبصرہ بڑا عمومی سا لگ رہا ہوتا ہے لیکن اصل میں وہ کسی خاص واقعے پر ہوتا ہے۔اس لیے حدیثوں میں تعبیر وتشریح کی بڑی گنجائش رہتی ہے کہ آپ ﷺ عمومی طور پر منت ماننے کے عمل کے بارے میں فرما رہے تھے یاکسی واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے،کسی خاص سیاق میں یہ بات کہہ رہے تھے جس کی کوئی خاص وجہ تھی۔

مطیع سید:حالت ِ کفر میں اگر کوئی نذر مانی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ پوری کی جائے۔12

عمار ناصر: جی، اگر وہ پوری کرے گا تو اسے ثواب مل جائے گا۔

مطیع سید: میرے خیال میں احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔

عمار ناصر:نہیں وہ اور بحث ہے۔وہ بحث یہ ہے کہ کیا کفر کی حالت میں جو منت مانی تھی،اسلام لانے کے بعد اس کو پورا کرنا آدمی کے ذمے قانوناً‌ لازم ہے؟ احناف کہتے ہیں کہ وہ لازم نہیں ہے۔ اس میں احناف کے موقف میں ایک وزن ہے، لیکن وہ ایک فقہی بحث ہے۔یہاں جو مسئلہ حدیث میں بیان ہوا ہے، اس میں آپﷺ فقہی وجوب بیان نہیں فرما رہے۔آپ فرما رہے ہیں کہ جو منت مانی تھی، وہ کوئی غلط کام تو نہیں ہے،اس لیے اس کو پورا کرو گے تو اللہ اجر دے گا۔

مطیع سید: حضرت موسی ؑ موت کے فرشتے کو مکا مار دیتے ہیں۔13 اس کی عام توجیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ جلالی مزاج رکھتے تھے، لیکن پھر بھی یہ ہضم نہیں ہوتا کہ فرشتے کو مکا ہی مار دیا۔ اس سے حضرت موسی جیسے جلیل القدر پیغمبر کی شخصیت کی کیا تصویر بنتی ہے؟

عمار ناصر: اس واقعے کی ٹھیک ٹھیک صورت کیا تھی، اس کے متعلق یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ واقعے کے مطابق بظاہر حضرت موسیٰ نے فرشتے کے اچانک آ جانے کی وجہ سے اس کو مکا نہیں مارا، بلکہ وہ آپ کی روح قبض کرنا چاہتا تھا، اس پر اسے مکا مارا۔ فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے جا کر شکایت کی کہ حضرت موسیٰ اس وقت وفات کے لیے آمادہ نہیں، بلکہ دنیا میں مزید رہنا چاہتے ہیں۔ اشکال یہ بنتا ہے کہ روایت کے ظاہر کے مطابق آپ موت کے لیے تیار نہیں تھے اور پھر جب ان کو بتایا گیا کہ یہ کام آج ہو یا کئی ہزار سال کے بعد ہو، آخر مرناتو ہوگا تو انھوں نے اسی وقت رخصت ہونا قبول فرمایا۔ یہ کافی عجیب سی بات لگتی ہے۔ بظاہر یہ سنداً‌ درست ہے اور امام بخاری نے اسے نقل کیا ہے، لیکن اس طرح کی بعض دیگر روایات کے متعلق جو حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہیں، بعض اکابر محدثین نے کہا ہے کہ چونکہ وہ اسرائیلی روایات بھی بیان کرتے تھے، اس لیے غالباً‌ ایسی کوئی روایت ان کے شاگردوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دی ہے۔

مطیع سید: حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں واقعہ آتا ہے کہ انہو ں نے فرمایا کہ میں آج کی رات ۱۰۰ عورتوں کے پاس جاؤں گا اور ان سب کے پیٹ سے اللہ کی راہ کے مجاہد پیدا ہوں گے۔14 اس کے بارے میں آپ کے خیال میں کون سی توجیہ بہتر ہے؟

عمار ناصر: یہ روایت بھی پوری طرح سمجھ میں نہیں آتی۔اس پر بعض اشکا ل ایسے ہیں جو حل نہیں ہوتے۔

مطیع سید: بعض لوگ اسے معجزے کے پہلو سے دیکھتے ہیں، لیکن معجزہ تو عموما َ کسی دینی یا دعوتی ضرورت کے تحت رونما ہوتا ہے،یعنی قوم پر اتمام ِ ججت کے لیے ہوتا ہے۔اگر یہ کوئی معجزہ تھا تو اس کا حضرت سلیمان علیہ السلام کی نبوت سے کیا تعلق تھا؟

عمار ناصر:یہ تو معجزے کا ایک عام مفہوم ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر بھی انبیا ؑ کے لیے اگر اللہ تعالیٰ کچھ غیر معمولی واقعات ظاہر فرما دیں تو ان کو بھی دینی اصطلاح میں معجزہ کہہ سکتے ہیں۔اس کا اُس دینی مقصد سے کوئی تعلق نہیں ہے،لیکن اپنے پیغمبر کی تکریم وتشریف کے لیے بھی اللہ تعالیٰ معجزہ رونما کر سکتے ہیں۔ مثلا َ حضرت سلیمانؑ کو اللہ نے غیر معمولی مردانہ طاقت دے دی ہو جیسے ان کو حکومت واقتدار کی بعض صورتیں اور شکوہ وجلال کے بعض پہلو ان کی خواہش پر دیے گئے،تو اس طر ح کی کوئی چیز دے دی ہو تو یہ کوئی بعید بات نہیں ہے۔ اگر حضرت سلیمان ؑ نے کسی موقع پر اس طاقت کا اظہار کرنا چاہا ہو تو اس واقعے کا ایک تناظر بن جاتا ہے۔ لیکن کچھ سوالات پھر بھی باقی رہتے ہیں۔

مطیع سید:قرآن مجید میں ایک جسم کا ذکر ہے جسے حضرت سلیمان کی کرسی پر ڈال دیا گیا۔ مفسرین عموما َاسی ضمن میں یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ان کے ہاں ناقص الخلقت بچے کی پیدائش ہوئی۔ کیا وہ اسی واقعے سے متعلق ہے؟

عمار ناصر: نہیں، قرآن کا سیاق تو اس واقعے سے ہم آہنگ نہیں ہے۔لیکن اس میں کس واقعے کی طرف اشارہ ہے اور اس کی تفصیلات کیا تھیں،ہم حتمی طورپر کچھ نہیں کہہ سکتے۔

مطیع سید:تو پھر اس کی وضاحت کیا کی جائے؟ وہ کیسا جسم تھا جو ان کی کرسی پر ڈال دیا گیا؟

عمار ناصر: یہ قرآن کے ان مقامات میں سے ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے واقعے کا جو پس منظر ہے، اس کا ذکر کیے بغیر بس ایک اشارہ سا کردیا ہے۔ایسے تمام مقامات پر ظاہر ہے، قرآن اولین مخاطبین کے پاس جو واقعے کا عمومی علم موجود ہے، اس پر ا نحصار کر رہا ہوتا ہے۔جیسے حضرت ایوب کے واقعہ میں کہا گیا کہ ایک جھاڑولیں اور بیوی کو مار دیں تاکہ قسم پوری ہو جائے۔ اب اس کا پس منظر کیا ہے،وہ قرآن نے نہیں بتایا۔

مطیع سید: اس کی تفصیل نبیﷺ نے حدیث میں بیان فرمائی ہے یا اسرائیلیات سے اس کی وضاحت کی جاتی ہے؟

عمار ناصر : مجھے جہاں تک مستحضر ہے، اس واقعے سے متعلق کوئی مستند حدیثیں موجود نہیں ہیں۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ پر رحم کر ے، ان کو تو ایک مضبوط سہارا حاصل تھا۔15 یہ نبی ﷺ نے ان کے بارے میں منفی مفہوم میں فرمایا یا مثبت مفہوم میں؟

عمار ناصر:بظاہر منفی تبصرہ لگتا ہے۔مطلب یہ کہ مشکل صورت حال میں انہیں اس طرف توجہ نہیں رہی کہ مجھے تو اللہ کا سہارا حاصل ہے اور ان کے دل میں خیال آیا کہ کوئی ظاہری سہارا مثلاً‌ کسی مضبوط جتھے یا کنبے کی حمایت انھیں حاصل ہوتی تو قوم انھیں اذیت نہ پہنچا سکتی۔

مطیع سید: آپ ﷺ کو بیماری کی حالت میں گھر سے مسجد تک لے جایا گیا۔ آپ کو سہارا دینے والے ایک حضرت عباس تھے اور دوسری طرف حضرت علی تھے۔ حضر ت عائشہ نے روایت بیان کرتے ہوئے حضرت عباس کا نا م لیا، لیکن حضرت علی کا نا م نہیں لیا۔16 ان کا نام نہ لینے کی کیا وجہ تھی؟ کیا شروع سے ہی ان کا آپس میں کچھ اختلاف تھا؟

عمار ناصر: شارحین بعض روایات کی روشنی میں قیاس کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ پر واقعہ افک میں جو الزام لگایا گیا تھا، اس موقع پر حضرت علی سے جب حضور ﷺ نے ان کی رائے پوچھی تو انھوں نے کہا کہ اللہ نے آپ کے لیے اور بڑی عورتیں رکھی ہیں۔ اشارہ یہ تھا کہ ایک مشکوک معاملے میں اگر آپ علیحدگی اختیار کر لیں تو بہتر ہے۔ شاید اس وجہ سے حضرت عائشہ کے دل میں ایک رنجش ہو۔ ظاہرہے، وہ فطری طور پر حساس تھیں کہ اس موقع پر کس نے ان کے متعلق کیا کہا۔

مطیع سید: ایک موقع پر نبی ﷺ نے اپنی ازواج کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ تم انھی عورتوں جیسی ہو جن سے حضرت یوسف کو واسطہ پڑا تھا۔17 یہ کس حوالے سے نبی ﷺ نے تشبیہ دی؟

عمار ناصر: مراد یہ تھی کہ جیسے ان عورتوں نے مکر کیا یا تدبیر کی، اسی طرح تم بھی میری بات نہیں مان رہی اور دوسری طرف بات کو لے کر جارہی ہو۔مبالغے میں آپ ڈانٹ رہے ہوں تو اس میں تشبیہ اتنی مقصود نہیں ہوتی جتنا غصے کا اظہار ہو تا ہے۔

مطیع سید: ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا۔ اس نے آپ کو بہت سی چیزیں بتائیں کہ میرے قبیلے کے لوگ توہم بھی کرتےہیں،کہانت بھی کرتے ہیں اور کچھ لکیریں بھی کھینچتے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں، اللہ کے ایک نبی بھی لکیریں کھینچتے تھےتو جس کی لکیر ان کے موافق ہو، وہ ٹھیک ہے۔18 یہ کون ساعلم تھا؟

عمار ناصر:اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ بظاہر رمل اور جفر یا کوئی زائچے بنانے جیسا علم لگتا ہے۔

مطیع سید: یہ اب موجود نہیں؟

عمار ناصر: کچھ نہیں کہا جاسکتا۔اس وقت بھی حضورﷺ نے کہا کہ اس علم کی اصل تو ہے۔ لیکن یہ اب لوگوں کے پاس کتنا اس اصل کے مطابق ہےاور کتنا اس کے خلاف ہے، اس کی تصدیق کسی مستند ذریعے سے نہیں کی جا سکتی۔

مطیع سید: آج ہم زائچے کی مدد سے کسی کے مستقبل کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ ایک نبی کو اس کی کیا ضرورت ہو سکتی تھی؟ وحی کا سلسلہ موجود تھا۔وہ اللہ تعالیٰ سے براہ ِ راست پو چھ سکتے تھے؟

عمار ناصر: ایسا تو نہیں ہے کہ نبی کو کسبی چیزوں سے دلچسپی نہیں ہوسکتی یا اسے سب کچھ جو بھی بتایا جاتا ہے، وہ وحی سے ہی بتایا جاتا ہے۔انبیا کی کسبی چیزیں بھی ہو سکتی ہے۔بہت سی چیزیں وہ تجربات سے اور اس طرح کے ذرائع سے بھی سیکھتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ وحی کا موضوع اس طرح کی چیزیں نہیں ہوتیں۔وحی تو اللہ تعالیٰ اور مقصد کے لیے نازل فرماتے ہیں۔


حواشی

  1.  صحیح البخاری، ‌‌کتاب المرضی، ‌‌باب فضل من يصرع من الريح، رقم الحدیث : 5652، ص :1433
  2. صحیح البخاری، ‌‌کتاب الطب، ‌‌باب العین حق، رقم الحدیث : 5740، ص :1451
  3. صحیح البخاری، ‌‌کتاب الطب، ‌‌باب الجذام، رقم الحدیث : 5707، ص :1445
  4. صحیح البخاری، ‌‌کتاب الطب، ‌‌باب اذا وقع الذباب فی الاناء، رقم الحدیث : 5782، ص :1459
  5. صحیح مسلم، ‌كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نہی من اكل ثوم او بصلا او كراثا او نحوها، رقم الحدیث : 567، جلد:1،ص :396
  6. صحیح مسلم، كتاب التفسیر، باب فی نزول تحريم الخمر، رقم الحدیث : 3032، جلد:4،ص :2322
  7. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الفرائض، باب من ترك مالا فلورثتہ، رقم الحدیث : 1619، جلد:3،ص :1237
  8. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الوصیۃ، رقم الحدیث : 1627، جلد:3،ص :1250
  9. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الوصیۃ، باب وصول ثواب الصدقات الى الميت، رقم الحدیث : 1630، جلد:3،ص :1254
  10. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الوصیۃ، باب ترك الوصيۃ لمن ليس لہ شيء يوصی فيہ، رقم الحدیث : 1637، جلد:3،ص :1259
  11. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب النذر، باب النہی عن النذر وانہ لا يرد شيئا، رقم الحدیث : 1639، جلد:3،ص :1260
  12. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الایمان، باب نذر الكافروما يفعل فيہ اذا اسلم، رقم الحدیث : 1656، جلد:3،ص :1277
  13. صحیح البخاری، کتاب الجنائز، باب من احب الدفن فی الارض المقدسۃ او نحوہا، رقم الحدیث : 1339، ص : 375
  14. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الایمان، باب الاستثناء، رقم الحدیث : 1654، جلد:3،ص :1275
  15. صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب احادیث الانبیاء، ‌‌باب قول الله تعالى لقد كان فی يوسف واخوتہ آيات للسائلين، رقم الحدیث : 3387، ص :866
  16. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الہبۃ وفضلها، ‌‌‌‌‌‌باب ہبۃ الرجل لامرأتہ، رقم الحدیث : 2588، ص :666
  17. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الاذان، ‌‌‌باب حد المريض ان يشهد الجماعۃ، رقم الحدیث : 664، ص :226
  18. صحیح مسلم،كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحريم الكلام فی الصلاةونسخ ما كان من اباحۃ، رقم الحدیث : 537، جلد:1،ص :381

(جاری)

دعوت وارشاد کے دائرے اور عصری تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۳۱ مئی ۲۰۲۳ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں ’’التخصص فی الدعوۃ والارشاد‘‘ کی افتتاحی کلاس سے گفتگو)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ دعوت سے مراد دعوتِ دین اور ارشاد کا معنیٰ ہے رہنمائی۔ دعوت کا دائرہ پوری انسانیت ہے اور ارشاد کا دائرہ امتِ مسلمہ ہے۔ ایک ہے غیر مسلموں کو دین میں داخل ہونے کی دعوت دینا، اور ایک ہے مسلمانوں کو دین کی طرف واپس آنے کی دعوت دینا۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہماری تبلیغی جماعت مسلمانوں کو دین کی طرف واپس آنے کی دعوت دینے کا عمل کر رہی ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاسؒ پر اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں، وہ اس شعبے کے مجدد تھے، انہوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا۔ تبلیغی جماعت کا سارا عمل امت کو دین کی طرف واپسی کی دعوت دینا ہے۔ مسلمان عموماً نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امت بحیثیت امت دین پر قائم ہے، نہ عمل کے اعتبار سے، نہ تہذیب، ماحول اور طرز عمل کے لحاظ سے۔ چنانچہ تبلیغی جماعت کی دعوت امت کو دین کے ماحول کی طرف واپس لانے کی دعوت ہے۔

دعوت کا ایک دائرہ غیر مسلموں کو دین میں داخل ہونے کی دعوت دینے کا ہے، اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ مثال کے طور پر عرض کروں گا کہ قرآن مجید کا دائرہ خطاب ’’ھدًی للناس‘‘ ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ’’یا ایہا الناس‘‘ کہہ کر خطاب کیا تھا۔ قرآن مجید نے نبی کریمؐ کے بارے میں واضح الفاظ میں فرمایا اور پوری صراحت کے ساتھ آپؐ سے کہلوایا ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘ کہ میں پوری نسل انسانی کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ نسلِ انسانی کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب کے قریب ہے۔ ان میں سے کلمہ پڑھنے والے کم و بیش دو ارب ہیں اور کلمہ نہ پڑھنے والے چھ ارب ہیں۔ ان چھ ارب انسانوں کو اللہ اور رسول سے متعارف کرانا، انہیں اسلام کی دعوت دینا، انہیں کلمہ اور دین سکھانا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ فرشتوں کا کام تو نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جسے ہماری اصطلاح میں فرضِ کفایہ کہتے ہیں کہ کوئی ادا کر لے تو سب کی طرف سے ہو گیا، لیکن کوئی بھی نہ ادا کرے تو سب گنہگار قرار پاتے ہیں۔

میں اس حوالے سے عرض کیا کرتا ہوں کہ دنیا میں نسلِ انسانی کو دین کی دعوت دینے کا نظم ہمارے ہاں اجتماعی طور پر کہیں نہیں ہے۔ ہمارا سب سے بڑا نیٹ ورک تبلیغی جماعت کا ہے جو امت کو دین کی طرف واپسی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا کام بہت اچھا اور بہت ضروری ہے لیکن ان کا دائرہ کار غیر مسلموں کو باقاعدہ اہتمام کر کے دین کی دعوت دینا نہیں ہے۔ میں اس کی مثال دوں گا۔ اس وقت دنیا میں نسلِ انسانی کا مذہب اسلام ہے۔ ہمارے علاوہ ایک اور مذہب پوری نسلِ انسانی کا دعویدار ہے اور وہ ہے عیسائیت۔ یہودیت نسلی دین ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے ہٹ کر بات نہیں کرتے، ہندو وطنی دین ہے اور وہ ہندوستان سے باہر کی بات نہیں کرتے۔ بدھ مت بھی وطنیت کے دائرے میں ہے۔ کوئی اور آدمی اپنے طور پر ہندو یا بدھ ہو جائے تو الگ بات ہے لیکن وہ دوسروں کو ہندو اور بدھ ہونے کی دعوت نہیں دیتے۔ یہودیوں کے ہاں یہودی ہونے کی دعوت کا کوئی نظام نہیں ہے۔ نسلِ انسانی کے حوالے سے یا مسلمان بات کرتے ہیں، یا عیسائی بات کرتے ہیں۔ دنیا میں دعوت کا نظم ہمارا یا عیسائیوں کا ہے۔ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ بنی اسرائیل کے نبی تھے، لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ وہ نسلِ انسانی کے پیغمبر تھے۔ اس پر ہمارا مستقل مکالمہ رہتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں آپ کو عیسائیوں کے مشنری ادارے ہزاروں کی تعداد میں ملیں گے۔ وہ ایشین، آسٹریلین، ہر ایک کو اپنا کلمہ پڑھاتے ہیں، بپتسمہ دیتے ہیں اور عیسائی بناتے ہیں۔

عیسائیوں کا مشن اور جدوجہد

چنانچہ یہ دعوٰی کہ ہم نے نسل انسانی کو اپنے مذہب میں لانا ہے، یہ ہمارا اور عیسائیوں دونوں کا ہے۔ جبکہ اجتماعی اور منظم محنت صرف عیسائیوں کی ہے، ہماری محنت اس سطح کی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گروپوں میں دعوت ہے، عیسائیوں کے ہاں دعوت کا اجتماعی نظم ہے۔ ان کی مشنریاں پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، نائیجیریا ہر علاقے میں ہیں۔

ان کا دوسرا ٹارگٹ یہ تھا کہ اس خطے میں دو سو خالص مسیحی کالونیاں بنائی جائیں گی جہاں پر صرف مسیحی رہیں گے۔ چنانچہ اس کے مطابق کام شروع ہوا، مسیحی بستیاں بننی شروع ہوئیں۔ فرانسیس آباد، مریم آباد وغیرہ دو تین تو ہمارے گوجرانوالہ میں ہیں۔ کالونیاں بننا بھی شروع ہوگئیں اور زمینوں کے خریداری بھی شروع ہو گئی۔ رائیونڈ کے علاقے کی زمینوں کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک شاگرد آیا اور کہنے لگا کہ استاذ جی ہماری لاٹری نکل آئی ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں آئی ہیں وہ زمین کی کئی گنا قیمت دے رہے ہیں۔ میں نے کہا بیڑا غرق ہونا شروع ہو گیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ زمینوں کا نظم چلانے والے ریونیو بورڈ کا ایک ممبر سپریم کورٹ میں چلا گیا اور درخواست دائر کی کہ ملک کی زمین غیر ملکیوں پر بیچنا ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے سٹے لیا جس کی بنیاد پر آج تک رکاوٹ موجود ہے ۔ سپریم کورٹ کے بعض سٹے ایسے ہیں جن پر ہمیں بہت غصہ آتا ہے لیکن بعض سٹے ہمارے فائدے کے بھی ہیں۔ کام کرنے والے کام کرتے ہیں، ہماری طرح نہیں کرتے کہ نعرے لگائے اور گھر میں جا کر سو گئے۔ جب سپریم کورٹ نے سٹے دیا تو نئی سمری آئی کہ زمینیں نہ بیچو بلکہ سو سال کے لیے ٹھیکے پر دے دو۔ یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مالک نہ بناؤ لیکن لمبے عرصے کے لیے ان کو ٹھیکے پر زمینیں دے دو۔ لیکن اس میں عملی طور پر کیا فرق ہے؟ اس کی سمری بھی میز پر پڑی ہوئی ہے، ان شاء اللہ کوئی اچھا نتیجہ ہی سامنے آئے گا۔

میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ جیسے عیسائی اپنے دین کی محنت کرتے ہیں، اس طرز کی ہماری کوئی محنت نہیں ہے۔ ہمارے چھوٹے چھوٹے گروپ محنت کر رہے ہیں۔ میں بعض گروپوں کو جانتا ہوں۔ ایک دفعہ شکاگو گیا، وہاں انڈیا کے ہمارے دوست سید امیر علی اور پاکستان کے ریاض وڑائچ تھے، انہوں نے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دینے کا گروپ بنایا ہوا تھا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نوے کی دہائی میں وہاں بہت دفعہ گیا، ان کے پروگرام اٹینڈ کیے۔ میں یہ بتا رہا ہوں کہ دعوت کے محاذ پر اس وقت ہمارا عالمی مقابلہ عیسائیوں سے ہے اور میں نے ان کی محنت کا انداز بھی بتایا ہے، جبکہ ہمارا حال کیا ہے وہ بھی عرض کیا ہے۔

آج کا اسلوب اور تقاضے

ایک دائرہ یہ ہے کہ آج کے دور میں دعوت و ارشاد کے تقاضے کیا ہیں؟ آج آپ کس زبان، کس اسلوب اور کس دائرے میں بات کریں گے؟ آج کی نفسیات کیا ہیں؟ آج کی ذہنی سطح کیا ہے؟ آج کی دنیا کو سمجھانے کے ہتھیار کیا ہیں؟ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے اور ہم نہیں کر رہے، اب آہستہ آہستہ آہستہ احساس شروع ہوا ہے۔ ایک زمانہ مشاہدات کا تھا، پھر معقولات اور فلسفے کا زمانہ تھا۔ اب سائنس اور سماجیات کا زمانہ ہے۔ آج کی دنیا میں جب تک آپ لوگوں کے سماجی نفع کی بات نہیں کریں گے کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا۔ اس کو سوشیالوجی، سماجیات، ہیومینیٹی، ہیومن ازم کا دور کہتے ہیں۔ آج کی زبان اور اسلوب مختلف ہے۔ آج مشاہدات، تجربات، نفع، نقصان سماجیات کی زبان ہے۔ اس ماحول میں نئے سوالات پیدا ہو رہے ہیں، اشکالات جنم لے رہے ہیں۔ میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ آج کا نوجوان لڑکا یا لڑکی جو کالج کی حد تک پہنچ گیا ہے اور اس کے پاس دینی معلومات نہیں ہے تو اسے گمراہ سمجھ کر بات نہ کریں بلکہ نومسلم سمجھ کر بات کریں۔ ہم اس سے گفتگو کا آغاز ہی گمراہی کے فتوے سے کرتے ہیں، ہمیں بات کرنے سے پہلے نفسیات کو سمجھنا چاہیے۔ میں اس پر ایک حوالہ دوں گا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو دین کی دعوت دی، اللہ تعالیٰ، رسالت اور قیامت کی بات کی، اس پر ملنے والے ثمرات کا تذکرہ کیا۔ لیکن جب ابوجہل نے آپؐ سے آپؐ کی دعوت کے بارے میں پوچھا کہ تو حضورؐ نے اسے جواب دیا کہ میں تمہیں ایسا کلمہ پیش کر رہا ہوں اگر اسے اپنا لو گے ’’تملک بہا العرب‘‘ تو عربوں کے بادشاہ بن جاؤ گے اور عجم تمہارے تابع ہوگا۔ اس پر میں کہا کرتا ہوں کہ حضورؐ نے ایک چودھری سے چودھریوں والی بات کی۔ اسی کلمے کی بنیاد پر مسلمان عرب کے بادشاہ بنے اور عجم ان کے تابع ہوا۔ لیکن یہ بات ابوجہل سے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سے اس لہجے میں اس لیے بات کی کیونکہ وہ یہی زبان سمجھتا تھا۔ اس لیے ہمیں مخاطب کی زبان، اس کی ذہنی سطح اور نفسیات سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔ آج کا ماحول کیا ہے، کون سی زبان اور اسلوب چلتا ہے، ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے۔

شکوک و شبہات ہر زمانے میں رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتنے شبہات تھے مثلاً قرآن کریم کے بارے میں کہ ’’ان ہذا الا اساطیر الاولین‘‘ یہ پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں۔ ’’ان ھذا الا اختلاق‘‘ یہ گھڑی ہوئی باتیں ہیں۔ ’’ھل انتم الا بشر مثلکم‘‘ تم ہمارے جیسے انسان ہو۔ یہ اعتراضات اس زمانے کی زبان میں ہیں۔ آج بھی آپ کو اعتراضات کی بھرمار اور شکوک و شبہات کا جنگل ملے گا۔ فرق یہ ہے کہ آج تکنیکی اور منظم کام ہے۔ آج کا گمراہ کرنے والا سمجھتا ہے کہ دس سال کے بچے کے ذہن میں کیا سوال ڈالنا ہے اور اَسی سال کے بوڑھے کے ذہن میں کیا اشکال ڈالنا ہے۔ کالج کے پروفیسر کے ذہن میں کیا سوال ڈالنا ہے اور بھٹی کے مزدور کے ذہن میں کیا سوال ڈالنا ہے۔ آپ کو جن شکوک و شبہات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، انہیں کس طرح ڈیل کریں گے؟ اگر آپ صفائی نہیں دیں گے تو کیا کریں گے؟ شکوک و شبہات کو دور کرنے کا ہمارا انداز کیا ہے؟ اگر ایک نوجوان کے ذہن میں شکوک و شبہات ہیں تو اگر میں فتوے سے کام شروع کروں تو اس کے اشکال کو دور کروں گا یا اسے مزید پکا کروں گا؟ اس کے ذہن میں جو شک ہے میں نے اس کی تیاری نہیں کی ہوئی تو اگر میں گول مول بات کروں گا تو اس کے شک کو اور پکا کر دوں گا۔ اس لیے اشکالات پہلے میرے علم میں ہونے چاہئیں، شکوک و شبہات پر خود تیاری کرنی چاہیے، پھر دوسرے سے بات کرنی چاہیے۔ یہ میں نے مختلف زاویے عرض کی ہیں کہ دعوت و ارشاد کے آج کے تقاضے کیا ہیں، دائرہ کار کیا ہے۔

میں ایک اور دائرہ عرض کر دیتا ہوں۔ آج ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں کام بھی ہونا چاہیے، فلاں کام بھی ہونا چاہیے، اور پھر ہم سب کام کرنے لگ پڑتے ہیں۔ میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ایک دائرہ یہ ہے کہ فلاں کام ہونا چاہیے، ٹھیک ہے اس کی ضرورت ہو گی، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس میں سے کتنا کام ہو سکتا ہے؟ ہمارا دھیان ’’ہونا چاہیے‘‘ پر ہوتا ہے، اس پر نہیں ہوتا کہ ’’کتنا ہو سکتا ہے‘‘۔ سو فیصد کے چکر میں ہم اس ستر فیصد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو کہ ہو سکتا ہے۔ پھر اس سے اگلا مرحلہ یہ دیکھنے کا ہے میں خود اس میں سے کتنا کام کر سکتا ہوں۔ اگر ہم کچھ منصوبہ بندی کر لیں کہ ایک کام کتنا ہو سکتا ہے اور میں اس میں کتنا حصہ ڈال سکتا ہوں، تو کام بہتر انداز سے ہو سکتا ہے۔

حضرت شاہ ولی اللہؒ کی حجۃ اللہ البالغہ سے رہنمائی

آج کے دور میں دعوت و ارشاد کے حوالے سے یہ سب باتیں ہمارے دائرہ کار کی ہیں۔ دعوت و ارشاد کے دائرے میں ہم روایتی ماحول سے ہٹ کر بات کریں گے۔ سب سے پہلے ہماری بنیاد یہ ہوگی کہ آج کی سوشیالوجی کی زبان کیا ہے، سماجیات کی بنیاد کیا ہے، اور قرآن مجید کے احکام و قوانین کی سماجی تشریح کیا ہے؟ اس کے بعد نظام اور معاشرت کے حوالے سے ہماری بنیاد تو قرآن مجید، سنتِ رسول اور تعاملِ صحابہؓ بالخصوص خلافت راشدہ کا دور ہے۔ انہی میں قیامت تک کے لیے ہماری رہنمائی موجود ہے۔ لیکن آج کی زبان میں اس کی تعبیر و تشریح اور وضاحت میں ہمارے پاس کلاسیکل کتاب ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ ہے، ہم اس سے رہنمائی لینے کی کوشش کریں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ’’الفوز الکبیر‘‘ میں لکھا ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح پر بات کرنی چاہیے۔ مخاطبین کی ذہنی سطحیں مختلف ہوتی ہیں۔ آپؒ نے اس کی مثال یہ دی کہ اللہ تعالیٰ نے عام آدمی سے عام آدمی کی سطح پر بات کی ہے۔ قرآن مجید میں مکڑی، مکھی اور مچھر کی مثالیں دیں۔ زمین، آسمان، پہاڑ، اونٹ کو دیکھ کر ان میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی۔ یہ گراس لیول ہے۔ اگر اللہ تعالی اپنے لیول پر بات کرتے تو کسی کے پلے کچھ پڑتا؟ لیکن شاہ صاحبؒ نے ہمیں تو یہ سبق دیا ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح کو دیکھو جبکہ خود شاہ صاحبؒ چوتھے آسمان سے نیچے نہیں اترتے، ان کی اپنی زبان اور اصطلاحات کیا ہیں؟ بہرحال ہمارے پاس چونکہ سب سے بہتر اثاثہ وہی ہے اس لیے ہماری کوشش ہو گی کہ حجۃ اللہ البالغہ کے جتنے مباحث دعوت و ارشاد کے حوالے سے اور دین کی سماجی تعبیر و تشریح کے حوالے سے میسر ہیں، ان کا خلاصہ آسان لہجے میں پیش کر دیں۔

حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۱)

مولانا محمد بھٹی

بیشتر انسانی افعال اخلاقی اقدار سے استناد کرتے ہیں لیکن یہ اقدار کس پہ تکیہ کرتی ہیں؟ اس سوال کو جواب آشنا کرنے کے لیے کی گئیں کاوشوں نے کئی ایک دبستانِ علم اور مکاتبِ فکر کو جنم دیا ہے۔ ہماری علمی روایت کی بیشتر مذہبی و علمی جدلیات کا محور و مدار بنا رہنے والا حسن و قبح کا مسئلہ بھی اسی سوال کے جواب کی ایک کوشش تھی۔یہ مسئلہ ان چند کلامی مسائل میں سے ایک ہے جن کی صراحی آج بھی معنویت سے لبالب ہے کیونکہ انسان کو ہر آن اقدار کا مسئلہ درپیش ہے۔جب تک انسان 'زندہ' ہے اقدار یا حسن و قبح کا سوال بھی زندہ ہے کیونکہ فطرتِ انسانی کے کلبلاتے اقتضاءات ہی اسے جانبر رکھے ہوئے ہیں۔ضرورتِ اقدار کی وساطت سے مسئلہ حسن و قبح کی انسان کے ساتھ پیہم چسپیدگی نے اس کی معنویت کو  گویا جاوداں کر دیا ہے۔

کلامی روایت میں حسن و قبح کی بابت غیر معمولی موقف کے حامل اشعری دبستانِ علم کے نمائندہ علماء میں سے ایک بڑا نام ابو عبداللہ امام محمد بن عمر فخر الدین رازیؒ ہے۔ امام رازی کا شمار اشاعرہ کے چیدہ و چنیدہ جہابذۂِ علم میں ہوتا ہے۔آپ نے سن ۵۴۴ھ میں خطۂِ خراسان کے شہر "رے" کے ایک علمی خانوادے میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم والد صاحب کے ہی سایۂ عاطفت میں حاصل کی۔تصنیف و تالیف کے میدان میں اترے تو قلم حق رقم کی علمی تابانی سے بڑے بڑے صاحبان علم و فضل کی آنکھوں کو چندھیا دیا۔امام صاحب کی قوتِ استدلال نے لوحِ علم پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔علوم اسلامیہ کو اصولی بنیادیں فراہم کرنے میں آپ کی کاوشیں بے مثل ہیں۔آپ نے جہاں اشعری علمِ کلام کو منضبط اور منظم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا وہیں قرآنِ حکیم کی مایہ ناز کلامی "تفسیر کبیر" سپرد قرطاس کر کے نصوص سے اس کی گہری وابستگی کو بھی معرض ظہور فراہم کیا۔اگر آپ کو مسلم علمی روایت کا دُرِّ فرید قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا۔کلام،تفسیر،فقہ،اصول فقہ،فلسفہ اور منطق،الغرض ہر مہم شعبۂِ علم آپ کی شمع فروزاں سے تابش حاصل کرتا ہے ۔آپ کے آثارِ خامہ سے ہلکا سا مس رکھنے والا بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ عبقریت  آپ کے در کی دریوزہ گر اور ذہانت آپ کی باندی ہے ۔۶۰۶ھ میں آپ واصل بحق ہوئے اور اپنے ترکے میں علم و عرفان کی بے بہا دولت چھوڑ گئے جس سے آج بھی تشنگانِ علم اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔حسن و قبح سے متعلق آپ کے حاصلاتِ فکر کی طرف پیش قدمی سے پیشتر بہتر ہوگا کہ بہ طورِ پس منظر،اخلاقی حسن و قبح کی بابت تینوں کلامی مکاتبِ فکر(معتزلی،اشعری اور ماتریدی) کے مواقف کو اختصاراً سپردِ قلم کر دیا جائے۔

پس منظر

دریں باب معتزلہ و ماتریدیہ کا موقف خاصی حد تک ملتا جلتاہے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ افعال کا حسن و قبح شرعی نہیں بلکہ ذاتی و عقلی ہے۔ذاتی بایں معنی کہ کسی فعل کے اچھا یا برا ہونے میں حکم شرعی کی کوئی اثر آفرینی نہیں ہے بلکہ کوئی بھی فعل حکم الہی کے نزول سے پیشتر اپنی ذات ہی میں برا یا بھلا ہوتا ہے۔اور عقلی بایں معنی کہ نزولِ شرع سے پیشتر ہی بذریعہ عقل ان افعال کے حسن و قبح کو حیطۂ ادراک میں لایا جا سکتا ہے۔گویا حکم شرعی کا وظیفہ پہلے سے موجود اور بذریعہ عقل معلوم حسن و قبح پر محض مہر تصدیق ثبت کرنا ہے،بہ الفاظِ دیگر،حسن و قبح حکمِ شرعی کا موجَب نہیں، مدلول ہے۔ہاں بعض افعال ایسے بھی ممکن ہیں کہ جن کا حسن و قبح تو اگرچہ نزولِ شرع سے پیشتر ہی ان کی ذات میں پیوست ہوتا ہے لیکن اس کا قطعی علم بذریعہ عقل ممکن نہیں ہوتا سو حکم شرعی اس پیشگی موجود مگر مخفی حسن و قبح سے پردہ اٹھاتا ہے۔

گزارش ہے کہ معتزلہ کا موقف دو گونہ جہات کا حامل ہے۔پہلی جہت وجودی(Ontological ) ہے اور وہ یہ کہ افعال کا حسن و قبح ذاتی،واقعی اور خانہ زاد ہے،جو اپنے 'ہونے' میں کسی خارجی عامل سے تاثر پذیر نہیں ہے۔بعد ازاں اس وجودی موقف کی تفصیل میں پیرایۂِ اظہار کا خفیف سا اختلاف پایا جاتا ہے۔قدماءِ معتزلہ کا ماننا ہے کہ یہ ذاتی حسن و قبح ان افعال کی ذات کا براہِ راست وصف ہے جبکہ قاضی عبدالجبار معتزلی(م:٤١٥ھ) اور ان کے پیروکاروں کا کہنا ہے کہ اچھائی یا برائی کسی صفت یا وجہِ عائد کی بنا پر ان افعال کی ذات میں پیوست ہوتی ہے۔عموماً‌ اس کو معتزلہ کی دو الگ الگ وجودی حیثیات خیال کر لیا جاتا ہے،مگر ادنی تامل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس اختلاف کی نوعیت محض نزاعِ لفظی کی سی ہے، جوہری موقف ایک ہی ہے۔متقدمینِ معتزلہ جب یہ کہتے ہیں کہ حسن و قبح، افعال کا براہ راست وصف ہے تو وہ دراصل جنسِ فعل اور 'وجہِ عائد'(مثلاً‌ کذب) میں تفریق کیے بنا وصف یا وجہ(کذب یا ظلم) کو ہی فعل گمان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قبح مثلاً‌ 'فعلِ کذب' کا براہ راست وصف ہے،جبکہ متاخرین معتزلہ کا شیوۂِ بیان اس امتیاز پر استوار ہے کہ صدق و کذب اور ظلم و احسان وغیرہ ازخود فعل نہیں بلکہ جنسِ فعل کے 'اوصاف عائدہ' ہیں، تاہم فعل کو اکثر اوقات انہی اوصاف سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ان کے نزدیک حسن و قبح اولاً‌ ان اوصاف یا وجوہ عائدہ کے ذاتی وصف بنتے ہیں، بعد ازاں ان کے توسط سے وہ فعل کا وصف قرار پاتے ہیں۔اسی موقف کو قاضی عبدالجبار معتزلی نے یوں قلمبند کیا ہے:

"اعلم ان الظلم لو قبح لجنسه لوجب أن يقبح كل ضرر و ألم، وفي علمنا بأن فيه ما يحسن دلالة علي فساد هذا القول۔"1

"جان لیجئے کہ اگر ظلم اپنی جنس کی وجہ سے برا ٹھہرے تو یہ لازم آئے گا کہ ہر ضرر اور الم برا ہے،حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض ضرر و الم اچھے بھی ہوتے ہیں۔ہماری یہ جانکاری اس قول کے فساد پر دلالت کناں ہے۔"

گزارش ہے کہ قدماءِ معتزلہ دراصل جنس فعل(مثلاً‌ کلام) اور وصف عائد(مثلاً‌ کذب) کو ایک ہی مالا میں پرو کر دونوں کو ایک اکائی خیال کرتے ہیں جبکہ متاخرین اس مالا کو توڑ کر ہر دو میں دوئی کا قول اختیار کرتے ہیں۔متاخرین کا ماننا ہے کہ کلام اور ضرر وغیرہ جنس فعل ہیں جو کسی صفتِ عائد کی وجہ سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی مثلاً‌ ضرر اگر برحق ہو اور اس سے عدل کے تقاضے پورے ہوتے ہوں تو وہ اچھا ہے اور اگر ناحق یا بطور ظلم ہو تو برا ہے۔فعل اور وجہ عائد کا یہ فرق قاضی عبدالجبار کی اس عبارت سے بھی عیاں ہے جس میں وہ کلام کو بطور جنس فعل لیتے ہوئے عبث و کذب کو فعل کا وصف عائد ٹھہراتے ہیں:

"الکلام قد یقبح لانه عبث، وقد یقبح لانه امر بقبيح، ولانه نهي عن حسن، ولانه كذب ... الي آخرہ۔"2

"کلام کبھی تو عبث ہونے کی وجہ سے قبیح ٹھہرتا ہے،کبھی (ارتکابِ)قبیح کا حکم ہونے کی وجہ سے،کبھی فعلِ حسن سے روکنے کی وجہ سے اور کبھی کذب ہونے کی بنا پر ۔۔۔الخ۔"

وجودی موقف کے بنیادی اتفاق کے بعد اس سوال کے جواب میں معتزلہ دونیم ہو جاتے ہیں کہ آیا کسی امر مانع کی بنا پر فعلِ قبیح سے قبح کا تخلف جائز ہے یا نہیں؟ پہلا گروہ اخلاقی مطلقیت کو اختیار کرتے ہوئے اس سوال کا جواب نفی میں دیتا ہے جبکہ دوسرا گروہ اس بات کا قائل ہے کہ امر مانع کی وجہ سے فعلِ قبیح سے قبح کا حکم اٹھایا جا سکتا ہے۔قاضی عبدالجبار معتزلی نے "المغنی فی ابواب التوحید و العدل" میں یہی رائے اختیار کی ہے۔آپ کے مطابق اگر مثلاً‌ دروغ گوئی یا ظلم رانی سے کسی ایسے نفع کا حصول یا ضرر کا دفعیہ مقصود ہو جو دروغ یا ظلم کے ضرر سے بڑا ہو تو ان افعال سے قبح کا حکم اٹھا لیا جائے گا۔3

موقفِ اعتزال کی دوسری جہت علمیاتی (epistemological ) ہے اور وہ یہ کہ اس ذاتی حسن و قبح کا عرفان بذریعہ عقل ہوتا ہے۔ پھر یہ عرفانِ عقلی یا تو علم ضروری کے طور پر ہوگا یا پھر اس کی نوعیت کسبی و استدلالی ہوگی۔ ہاں کچھ افعال و اشیاء ایسے بھی ممکن ہیں کہ جن کے حسن و قبح کے حضور عقل کی باریابی نہیں ہو پاتی سو شرع ان کا پردہ چاک کرتی ہے۔4مختصر یہ کہ معتزلہ حسن و قبح بابت معروضیت کے دعویدار اور اصولیاتی(Deontological) اخلاقیات کے قائل ہیں،بایں معنی کہ حسن و قبح اپنے وجود اور تعین میں نہ تو کسی خارجی قوت کے دست نگر ہیں اور نہ ہی کسی غایت و مآل سے انہیں کوئی سروکار ہے۔ نیز ظلم،احسان اور عدل جیسے 'اخلاقی' الفاظ افعال کی ذاتی و حقیقی خصوصیات کی طرف مشیر ہوتے ہیں۔مزید براں معتزلہ اپنے تصورِ حسن و قبح میں آفاقیت کی ایک لہر دوڑا کر اس کو انسان اور خدا ہر دو کے افعال پر حاکم بنا دیتے ہیں اور انسانی افعال کی طرح الہی افعال کو بھی اسی عدسے سے تاکتے اور اسی پیمانے سے ماپتے ہیں۔اسی تصور کا افعالِ الہیہ پر اطلاق کرتے ہوئے انہوں نے خدا کو مخصوص قسم کے 'عدل' اور 'اصلح للعباد' کا پابند  ٹھہرایا اور قعرِ ضلالت میں جا گرے۔حسن و قبح کے اسی اصول کی رو سے قدرت و ارادہ الہیہ پر یوں حملہ آور ہوئے کہ خدا تعالی کے جو أفعال ان کے خودساختہ نظریۂِ 'عدل' اور 'اصلح للعباد' کے معیار پر پورے اترتے دکھائی نہیں دیتے، نہ صرف ان کو خدائی فعل ماننے سے انکار کر دیا بلکہ  انہیں خدا کے ارادے اور قدرت سے ہی خارج قرار دے دیا۔اس تصور حسن و قبح سے معتزلہ نے دوسرا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ بغیر حکم ربی کے محض عقل سے معلوم شدہ حسن و قبح بھی مدار تکلیف ہے اور وجوہ حسن و قبح بذاتِ خود علتِ موجبہ ہیں۔یعنی عقل جن افعال کو اچھا یا برا گردانے،مدارجِ حسن و قبح کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی انجام دہی واجب،مباح اور حرام ٹھہرتی ہے5۔اس نتیجے کے لزوم میں تمام ائمہ اعتزال متفق نظر آتے ہیں۔وجوہ حسن و قبح کو یوں تکلیف و تشریع کا منبع بنا دینا معتزلہ کو دائرۂِ سنیت سے خارج کر دیتا ہے۔

ماتریدیہ وجودی اور علمیاتی سطح پر معتزلہ ہی کے ہم نوا ہیں۔وہ بھی افعال کے حسن و قبح کو ذاتی،واقعی و خانہ زاد گردانتے ہیں۔ان کے نزدیک بھی حسن و قبح اپنے 'ہونے' میں کسی خارجی حکم کا محتاج نہیں ہے،یعنی حسن و قبح حکمِ شرعی کا مدلول تو ہے لیکن موجَب نہیں۔اسی طرح علمیاتی سطح پر بھی ماتریدیہ کا وہی موقف ہے جو معتزلہ کا تھا کہ عقل بھی عرفانِ حسن و قبح کا ایک ذریعہ ہے۔امام الہدى ابو منصور ماتریدیؒ(م:٣٣٣ھ) "کتاب التوحید" میں کذب و جور پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

"قبح ذلك في العقول بالبديهة والفكر جميعا حتی لایزداد عند التامل والبحث عنه الا قبحا۔"6

"بداہت اور فکر و نظر ہر دو ان افعال کے قبح کی گواہی دیتے ہیں، حتی کہ ان کے بارے میں جس قدر سوچ بچار کیا جائے ان کا قبح ہی بڑھتا چلا جاتا ہے۔"

البتہ کچھ افعال کے حسن و قبح میں چونکہ عقل نارسا رہتی ہے لہذا ان کی پہچان صرف شرع کے ذریعے ہی ممکن ہے-اس اصولی موافقت کے باوجود ماتریدیہ نے معتزلہ کے برعکس اس اصول کے گمراہانہ اطلاقات سے اپنا دامن یوں سمیٹ لیا کہ نہ تو خدا پر 'عدل' اور 'اصلح للعباد' کو واجب قرار دے کر قدرت و ارادہ الہیہ پر ضرب لگائی اور نہ ہی وجوہِ حسن و قبح کو علت موجبہ قرار دیتے ہوئے انہیں تکلیف و تشریع کا مستقل منبع قرار دیا۔ یعنی ماتریدیہ نے حسن و قبح کے تکوینی پہلو میں تو معتزلہ کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کی اور حسن و قبح کو اشیاء کا نفس الامری خاصہ قرار دیا لیکن تشریعی پہلو کو یہ کہہ کر تج دیا کہ تشریع و تکلیف میں بلا حکم ربی،ذاتی حسن و قبح کو کوئی دخل نہیں ہے۔معتزلہ و ماتریدیہ کے ذیلی مواقف کی تفصیل اپنے اپنے مواقع پر آ رہی ہے۔

گزارش ہے کہ موقفِ اعتزال کے محتویات،یعنی معتزلی نظریہ کے اطلاقات پر طائرانہ نگاہ دوڑائی جائے تو جہاں جنابِ باری تعالی میں معتزلہ کی بے جا جرات آزمائی آشکار ہوتی ہے وہیں یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ یہ موقف عقل کو جانِ متن بنا دینے اور شریعت کو حاشیہ نشیں کر دینے کا پیش خیمہ ہے۔اشاعرہ نے انہی صریح جسارت آمیزیوں کو بھانپتے ہوئے ماتریدیہ کے برعکس حسن و قبح کی نسبت معتزلی موقف کو کلیتاً‌ مسترد کیا ہے۔اشاعرہ کا کہنا ہے کہ حسن و قبح عقلی نہیں، مذہبی مسئلہ ہے۔اس کی اساس خردِ نارسا نہیں،ہدایتِ ماورا ہے۔ بقول اقبال

خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے

اشاعرہ نے معتزلی موقف کے وجودی پہلو پر ایسا ہلہ بولا کہ علمیاتی پہلو بھی اسی کی زد میں آ کر فنا کے گھاٹ اتر گیا۔بجائے اس کے کہ مبحث کو 'عقل کے ذریعہ عرفان ہونے یا نہ ہونے' کے سوال پر دائر کیا جاتا، انہوں نے حسن و قبح کے ذاتی و نفس الامری ہونے کو ہی ہدفِ سوال بنا دیا۔ان کے مطابق اشیاء و افعال کا حسن و قبح ذاتی و واقعی نہیں بلکہ شرعی ہے،یعنی نہ تو کوئی فعل ازخود بھلا ہے اور نہ ہی ازخود برا ہے۔شریعت جس کو اوجِ حسن پر براجمان کرے وہی حسَن ہے اور شریعت جس کو پاتالِ قبح میں دھکیل دے وہی قبیح ہے،گویا شریعت سے ماقبل کوئی اچھائی ہے،نہ برائی۔اشاعرہ کے ہاں حسن و قبح مدلولِ شرع نہیں موجَب شرع ہے،بایں معنی کہ حکم شرعی کی حیثیت حسن و قبح پر محض ایک دلالت کنندہ کی نہیں بلکہ مثبت و موجِب کی ہے۔اشاعرہ کے اس دوٹوک وجودی موقف کے رو بہ رو 'عقل کے وسیلۂِ عرفان ہونے،نہ ہونے' کا لحیم شحیم علمیاتی سوال بھی چِتا میں بدل جاتا ہے کیونکہ جب حسن و قبح ذاتی نہیں،شرعی ہے، تو پھر عقل کی کیا مجال کہ وہ اس میدان میں اچھل کود کرتی پھرے۔

یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اشاعرہ کی جانب سے اخلاقی اقدار کی معروضیت کے معتزلی دعوی کا رد  اخلاقی موضوعیت کے اثبات کو مستلزم نہیں ہے۔ بعض لوگ اس واہمہ میں مبتلا ہیں کہ اشاعرہ شاید اقداری موضوعیت کا دم بھرتے ہیں۔گزارش ہے کہ حسن و قبح کو عقلی معروض و موضوع کے مابین محصور کرنا کوتاہ نظری کا شاخسانہ ہے۔عقلی معروض ہو یا موضوع،دونوں زمان و مکان کی اسیر عقل سے نتھی اور انسان سے متعلق ہیں۔اشاعرہ جب حسن و قبح کے عقلی ہونے کو ٹھکراتے ہیں تو وہ معروض و موضوع، ہر دو پر بہ یک آن خطِ تنسیخ پھیر دیتے ہیں۔ان کے نزدیک اخلاق و اقدار کا واحد منبع و سرچشمہ ماوراء ہے۔

حسن و قبح کے اطلاقات

زیر بحث موضوع کا پہلا اور کلیدی سوال یہ ہے کہ آخر حسن و قبح سے مراد کیا ہے؟امام رازیؒ  اسی سوال سے اعتناء کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"الحسن والقبح قد يعنى بهما كون الشيء ملائما للطبع أو منافرا، وبهذا التفسير لا نزاع في كونهما عقليين، وقد يراد بهما كون الشيء صفة كمال أو صفة نقص كقولنا العلم حسن و الجهل قبيح؛ ولا نزاع ايضا فی كونهما عقليين بهذا التفسير وانما النزاع في كون الفعل متعلق الذم عاجلا والعقاب آجلا؛ فعندنا أن ذلك لا يثبت الا بالشرع۔"7

"حسن و قبح سے کبھی تو شے کا طبیعت کے مناسب یا مخالف ہونا مراد لیا جاتا ہے،اور اس مراد کے مطابق ہر دو کے عقلی ہونے میں کوئی جھگڑا نہیں۔(البتہ ان کے معروضی یا موضوعی ہونے میں اختلاف ہے جو کہ آئندہ سطور میں کلامِ امام کی روشنی میں پیش کیا جائے گا)۔اور کبھی کسی شے کے صفت کمال یا نقصان سے متصف ہونے پر حسن و قبح کا اطلاق کیا جاتا ہے۔اس مراد کے مطابق بھی حسن و قبح کے عقلی ہونے کی نسبت کوئی کشاکشی نہیں۔نزاع دراصل فعل کے اس دنیا میں مستحقِ ذم(یا مدح) اور آخرت میں باعثِ سزا(یا جزا) ہونے کی بابت ہے(آیا اس اطلاق میں حسن و قبح ذاتی و عقلی ہے یا شرعی)،سو ہمارے نزدیک تو یہ امر صرف شرع سے ہی ثابت ہوتا ہے۔"

امام صاحب کا کلام جہاں لسانیاتی دائرے میں التباس کی گرد سے ڈھکےحسن و قبح کے مختلف اطلاقات و مرادات کو نکھار کر سامنے لے آتا ہے، وہیں ان متنوع تناظرات کو بھی کہ جن میں حسن و قبح بامعنی ہوتا ہے منصۂ شہود فراہم کر دیتا ہے۔گزارش ہے کہ لفظِ حسن و قبح،گاہ جمالیاتی تناظر میں بولا جاتا ہے، گاہ نفسی تناظر میں اور بسا اوقات اخلاقی تناظر اس کو معنی سے ہمکنار کرتا ہے۔کمال پر فریفتہ ہو کر اسے حسن کا عنوان دے دینا اور نقص سے متلاتے ہوئے اسے قبیح ٹھہرا دینا جمالیاتی شعور کی ترجمانی ہے،نیز طبیعت کی رغبت و نفرت کی بنیاد پر کسی شے کو حسن و قبح کا محمل بنا دینا نفسی موضوعیت کا مظہر ہے۔جمالیاتی ذوق کی پرداخت اور طبعی شوق کی آبیاری میں مذہب یا انسان کے تصورِ حقیقت کا کلیدی کردار ضرور ہوتا ہے تاہم یہ 'صرف' مذہب سے ماخوذ نہیں ہوتے۔تیسرا تناظر جس میں حسن و قبح اخذِ معنی کرتے ہیں، اقداری اخلاقی اور قانونی ہے۔

ممکن ہے کہ 'قانونی حسن و قبح' کی ترکیب بعضے احباب کے لیے اچنبھے کا باعث ہو۔عرض ہے کہ اسلامی روایت میں 'اخلاقی' اور 'قانونی' کے درمیان کوئی واضح خطِ امتیاز نہیں کھینچی گئی اور اگر قانون سے نظامِ سزا و جزا کے ضوابط مراد لیے جائیں تو بھی روایتِ اسلامی میں قانون اقدار سے غیر متعلق،طاقت کا زائدہ اور سرمائے کا پروردہ نہیں بلکہ اجتماعی اقدار کا دید بان اور انفرادی اقدار کا سائبان ہے۔ سو ضروری ہے کہ وہ بھی ایسے ہی تصورِ حسن و قبح پر استوار ہو جس پر اقدار اپنی بِنا کرتی ہیں۔اقدار،اخلاقیات اور جمالیات کی واحد اساس ہیں اور قانون اقدار کا محافظ ہے۔امام صاحب کے بیان کردہ موقف سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اخلاقی اقدار تو محض ماورائی ہیں البتہ کچھ جمالیاتی قدریں ضرور مشترک انسانی سطح پر موجود ہوتی ہیں۔تاہم اس سے یہ مفہوم اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ انسان کی جمالیاتی تشنگی مذہب سے لاتعلق رہ کر بھی بجھائی جا سکتی ہے۔ہم کوشش کریں گے کہ آئندہ سطور میں ان سہ گانہ تناظرات کی روشنی میں امام صاحب کے کلام ہدایت التیام کی مزید تفہیم کی جائے۔

مراداتِ حسن و قبح بیان کرنے کے بعد امام صاحب وضاحت فرماتے ہیں کہ ما بہ النزاع جمالیاتی یا نفسی نہیں بلکہ اخلاقی و قانونی نوعیت کا حسن و قبح ہے،یعنی ایسا حسن و قبح جو دنیا میں مدح و ذم اور آخرت میں جزا و سزا کا سزاوار بنائے۔حسن و قبح کی زمرہ بندی اور محلِ نزاع کی تعیین،دورانِ بحث امتیازِ موضوع کو برقرار رکھنے اور التباسِ بحث سے دامن بچانے کے لئے ازحد ضروری ہے تا کہ جمالیاتی و نفسی حسن و قبح کو اخلاقی و قانونی حسن و قبح پر وارد کرنے سے گریز کیا جا سکے۔گزارش ہے کہ مذکورہ عبارت میں امام صاحب نے جہاں محلِ نزاع کو متعین کر کے خلطِ مبحث کے امکان کو  معدوم کیا ہے وہیں حسن و قبح کو ماورائیت کے پہلو بہ پہلو ایک گونہ غایاتی (Teleological) جہت بھی مہیا کر دی ہے،یعنی بھلائی وہی ہے جس کی غایت مدح و ثواب ہے اور برائی وہی ہے جس کا مآل ذم و عقاب ہے۔غور کیا جائے تو فریقِ مخالف کے اس غایاتی تعریف کو تسلیم کر لینے کے ساتھ ہی نصف بحث انتاج پذیر ہو جاتی ہے۔کیونکہ جب مدح و ثواب،مدارِ حسن اور ذم و عقاب،محور قبح ٹھہراجو کہ سراسر شرعی ہے،اور جس کا اثبات شرع ہی کے ذریعے ممکن ہے تو پھر حسن و قبح کو معلومیت کے حصار میں لانے کے لئے عقل سے داد طلبی چہ معنی دارد؟

اخلاقی اقدار اور نفسی حسن و قبح

حسن و قبح کے نفسی تناظر کا راست فہم معتزلی و اشاعری جدلیات کی صائب جانکاری سے مشروط ہے۔امام صاحب معتزلی معروضیت کے انتقاد میں حسن و قبح کے اسی تناظر کو بروئے کار لائے ہیں۔لہذا مناسب ہو گا کہ معروضیتِ اخلاق کی بابت معتزلہ کی دلیل اور امام رازیؒ کی تردید  قارئین کے پیشِ خدمت کر دی جائے۔معتزلہ نے اپنے وجودی موقف،معروضیتِ حسن و قبح کی تائید میں کوئی قابلِ ذکر نظری دلیل پیش کرنے کے بجائے اپنا تمام تر مقدمہ بداہتِ عقل کے ادعاء پر استوار کیا ہے اور پھر بہ طور 'تنبیہ' چند ایک امثلہ کے ذریعے اس مزعومہ بداہت کا اثبات چاہا ہے۔وہ اپنی وجودی عمارت کو پختہ کرنے کے لئے اس پر علمیاتی ردا چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ بعض افعال و اشیاء کا برا یا بھلا ہونا بداہتِ عقل سے ثابت ہے،جس سے کوئی بھی ذی شعور مجالِ انکار نہیں پاتا۔ظلم کا برا اور احسان کا اچھا ہونا ایسی شے ہے کہ جس کے لئے کسی استدلالی و اکتسابی دلیل کی حاجت نہیں بلکہ ہر ایک شخص کی عقل غور و فکر کا کشٹ اٹھائے بنا بدیہی طور پہ ان افعال کی اچھائی و برائی سے پوری طرح واقف ہے۔غور کیا جائے تو معتزلہ کا یہ علمیاتی موقف سر تا پا التباس میں لتھڑا ہوا ہے۔اسی التباس کو زائل کرنے کے لئے امام صاحب نفسی حسن و قبح کے تصور کو کام میں لائے ہیں۔امام صاحب اس شبہ نما دلیل کی چولیں ہلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تمہاری یہ بات تو درست ہے کہ یہ حسن و قبح 'عقل' سے معلوم ہے لیکن نہ تو یہ وہ اخلاقی حسن و قبح ہے جس کی معروضیت کے تم داعی ہو اور نہ ہی یہ وہ 'معروضی و بدیہی عقل' ہے جس کا تم دم بھرتے ہو بلکہ :

"ان ھذا الحسن و القبح عبارتان عن رغبة الطبع و نفرته۔"8

"یہ حسن و قبح،طبیعت کی رغبت و نفرت سے عبارت ہے۔"

یعنی اس حسن و قبح کا تناظر اقداری نہیں،نفسی ہے،جس کا نفس و طبیعت کی پالی پوسی عقل سے معلوم ہونا سرے سے محلِ نزاع ہی نہیں۔امام صاحب نے اس عبارت میں معروضی اور اصولیاتی(Deontological) اخلاقیات کے امکان کو بہ یک وقت مسترد کیا ہے۔گویا امام صاحب کے مطابق اگر حسن و قبح کی بنا عقل پر استوار کی جائے گی تو اس کا لازمی نتیجہ غایتیت (Teleology) یا نفسی موضوعیت کی صورت میں برآمد ہو گا۔دونوں صورتوں میں اخلاقی اقدار کا دھڑن تختہ اور التباس کا چوپٹ راج ہو گا۔"المطالب العالیہ" میں آپ رقم طراز ہیں:

"ان الذی عقلناه من معنى الحسن ما يكون نفعا او موديا الیه، والذي عقلناه من معنى القبح ما يكون ضررا او موديا  اليه۔"9

"(بدونِ شریعت) ہم منفعت کو یا وسیلۂِ منفعت کو ہی بھلا سمجھتے ہیں اور مضرت یا ذریعۂ مضرت کو ہی برا جانتے ہیں۔"

 گویا امام صاحب کے نزدیک عقلی بنیادوں پر،اصولیت یا معروضیتِ اخلاق بالکلیہ خارج از امکان ہے۔آپ کے مطابق دریں باب عقلی حسن و قبح سراسر موضوعی،نفسی،غایاتی اور اضافی ہوتا ہے۔عموماً‌ کسی فعل کی بابت عقلی بنیادوں پر کیا جانے والا حسن و قبح کا فیصلہ کسی نہ کسی ذاتی غرض یا فعل کے مآل کو پیش نگاہ رکھ کر کیا جاتا ہے۔اگر فیصلہ کرنے والے شخص کے لئے کسی فعل کی غایت منفعت کی صورت میں نمودار ہو اور اس بنا پر اس کی طبیعت اس فعل کی طرف رغبت پائے تو وہ اس فعل کو اچھا گردانتا ہے اور اگر اس کے لئے کسی فعل کا مآل سراپا ضرر ہے تو وہ اسے برا گردانتا ہے۔گویا بظاہر عقلی اساس پر کیا جانے والا حسن و قبح کا فیصلہ دراصل نفسی مالوفات کا پروردہ ہوتا ہے۔ممکن ہے کہ ایک ہی فعل مختلف اشخاص کے ہاں ان کی شخصی افتاد طبع اور فعل کی ظاہری فوری یا دنیوی غایت و مآل کی بنا پر بہ یک وقت خوب بھی قرار پائے اور زشت بھی ٹھہرایا جائے۔ماحصل یہ کہ عقلی حسن و قبح در اصل فرد کی ذاتی منفعت و مضرت کا نام ہے۔بھلا کون ذی شعور اس موضوعیت کو معروضیت کا عنوان دے سکتا ہے۔

منفعت و مضرت کی مرادات

امام صاحب کی تردیدی سرگرمی میں دو تصورات: منفعت اور مضرت نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔منفعت،جس کی طرف انسانی طبائع اور نفوس رغبت رکھتے ہیں اور مضرت،جس سے انسانی طبائع اور نفوس نفور ہوتے ہیں،سے کیا مراد ہے؟امام صاحب اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

"ان المنفعة المطلوبة بالذات اما اللذة او السرور وان المضرة المکروهة بالذات اما الألم او الغم۔"10

"بذاتہ مطلوب منفعت یا تو لذت ہے یا پھر مسرت اور بذاتہ ناپسند کی جانے والی مضرت یا تو الم ہے یا پھر غم۔"

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ امام صاحب کے نزدیک طبعیت یا نفس انسانی،منفعت کی طرف مائل ہوتے اور مضرت سے رم کھاتے ہیں۔عقل اسی طبعی رجحان و توحش سے تحریک پا کر اس منفعت و مضرت پر حسن و قبح کا حکم کرتی ہے۔منفعت و مضرت کی مرادات بابت اپنے کلام کو مفصل و مدلل کرتے ہوئے امام صاحب کا فرمانا ہے کہ جب طبع کا کسی شے کی طرف مائل ہونا اور کسی سے رم کھانا طے ہو چکا،تو اب اگر یہ کہا جائے کہ اس شے کی طرف میلان و توحش کسی دوسری شے کی وجہ سے ہے تو اس سے یا تو تسلسل لازم آئے گا یا دور کا پہیہ گھومے گا۔لہذا تسلسل و دور سے دامن کشی کے لیے لازم ہے کہ کوئی شے مطلوب بذاتہ اور کوئی مکروہ بذاتہ ہو۔اگر ہم اپنے آپ میں جھانک کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مطلوب لذاتہ یا تو لذت ہے یا پھر سرور اور مکروہ لذاتہ یا تو الم ہے یا پھر غم، پس انہی کا عنوان منفعت و مضرت ہے۔11 گویا انسانی عقل، فعل کی کسی ذاتی خصوصیت کی بنا پر اسے حسن و قبح کا تمغہ عطا نہیں کرتی بلکہ جس فعل سے طبعِ انسانی مسرت و لذت کشید کرتی ہے،وہ بارگاہِ عقل سے انعامِ حسن وصول کرتا ہے اور جس فعل سے غم و الم کو انگیخت ملتی ہے،عقل اس پر قبح کی چھاپ لگا کر راندۂِ درگاہ بنا دیتی ہے۔مزید براں، یہ لذت و سرور اور غم و الم بھی کسی فعل کا ذاتی و جوہری خاصہ نہیں بلکہ انسان کا موضوعی احساس اور نفسی جذبہ ہی فعل کو لذت انگیز و مسرت ناک یا غم خیز و الم ناک ٹھہراتا ہے۔

یہیں سے ظلم و احسان کے حسن و قبح بابت معتزلہ کے دعوائے بداہت کی بھی نفی ہو جاتی ہے کیونکہ ظلم بھی انسان کو تبھی گھناؤنا لگتا ہے جب وہ اسے غمگیں کرتا ہے اور احسان اس کو تبھی بھاتا ہے جب وہ اسے شادماں کرتا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ سماج میں رونما ہونے والے ایک ہی فعل پر  بعض طبقات داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہوتے ہیں کیونکہ یہ فعل ان کے نفسی مالوفات،یعنی لذت و مسرت کی تسکین برآری کا وسیلہ بنتا ہے اور بعض طبقات اسی فعل کو پھٹکار و نفرین کا ہدف بناتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے نفسی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہوتی ہے۔غرض یہ کہ بذریعہ عقل، حسن و قبح کے تمام فیصلے متبدل جذبات کی تسکین کے تابع ہوتے ہیں۔بہ ظاہر عقل سے معلوم ہونے والا خوب و زشت دراصل فرد تا فرد متلون اور درونِ فرد متحول نفسی رجحان اور طبعی میلان کے زیرِ اثر ہوتا ہے۔ایسے مرنجاں مرنج اور بوقلموں رجحانات و میلانات کو اخلاقیات کا حتمی پیمانہ قرار دے کر کوئی اخلاقی قدر اخذ نہیں کی جا سکتی۔

معتزلہ کی واماندگیاں:

معروضیتِ حسن و قبح کا سارا مدعا بداہت کے اثبات پر تمکنت پذیر تھا،اور بداہت کا دعوی اشاعرہ کی علمی ضربوں کی تاب نہ لا سکا۔یعنی جس بنیاد پر ساری معروضیت کی عمارت استوار تھی وہی ڈھے گئی۔

پر وہی گر گیا کبوتر کا
جس میں نامہ بندھا تھا دلبر کا

معتزلہ نے اپنے اس  اکھڑتے دعوائے بداہت میں جان ڈالنے کے لیے قریب قریب ایک ہی نوعیت کی متعدد توجیہات اور تمثیلات کی صورت میں بہتیرے پاپڑ بیلے ہیں۔گو کہ ان توجیہات کی حیثیت ٹھنڈی راکھ دھونکنے جیسی ہے تاہم امام صاحب نے بہرِ اتمامِ حجت اپنی مختلف تصانیف میں ان دلائل و توجیہات کو نقل کر کے ان کے تشفی بخش جوابات عنایت فرمائے ہیں۔ معتزلہ کی طرف سے قدرے بہتر اور نسبتاً‌ معقول توجیہ یہ پیش کی گئی کہ ظالم یا اس کے ہمنوا جب کسی ظالمانہ فعل کی تحسین کرتے ہیں تو وہ اس فعل کو 'ظلم' سمجھتے ہوئے ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے تئیں وہ اس ظلم کو عدل وغیرہ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔جب ان پر یہ عیاں ہو جاتا ہے کہ ان کا یہ فعل ظالمانہ ہے تو وہ کسی ذاتی مفاد کی بنا پر گو اس ظلم سے دست کش نہ بھی ہوں تب بھی اس فعل کی تحسین نہیں کرتے اور بلا تامل اسے برا ہی جانتے ہیں۔بنا بریں یہ معلوم ہوا کہ 'ظلم' کا قبح اس کے 'ظلم' ہونے کی وجہ سے ہی ہے یعنی اس کی ذات یا صفت لازم ہی میں پنہاں ہے اور یہ بات سراسر بدیہی ہے۔

اس دفاعی توجیہ کی بے مائیگی آشکار کرتے ہوئے امام صاحب کا کہنا ہے کہ تمہاری یہ بات تسلیم ہے کہ عموماً‌ ظالم یا اس کے ہمنوا اپنے فعل کے مبنی بر ظلم ہونے سے غفلت برتتے ہوئے اس کی تحسین کرتے ہیں اور اگر ان پر اس فعل کا ظلم ہونا آشکار ہو جائے تو وہ اس کو برا ہی قرار دیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ ظلم کا قبیح ہونا محض اس کے ظلم ہونے کی وجہ سے ہے۔دراصل امام صاحب نے معتزلی جواب میں موجود علمیاتی اور وجودی دلیل کے مابین پائے جانے والے التباس کو عیاں کیا ہے۔آپ رقم طراز ہیں:

"قولہ:《العلم بالقبح دائر مع العلم بکونه ظلما، وجودا وعدما》قلنا: لم قلت:إن الدوران العقلي دليل العلية عليه؟وما الدليل عليه!؟"

"(جہاں تک بات ہے)خصم کے اس قول کی کہ قبح کا علم،فعل کے ظلم ہونے کی آگہی پر وجودا اور عدما دائر ہے،تو ہم کہتے ہیں کہ آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ یہ 'دوران عقلی' علیت کی بھی دلیل ہے؟اس (دعوی پر آپ کے پاس) کیا دلیل ہے!؟"12

یعنی اگر بہ پاسِ خاطر یہ بات مان بھی لی جائے کہ 'قبح کی جانکاری،فعل کے ظلم ہونے کے علم پر دائر ہے' تو اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس فعل کا ظلم ہونا اس کے قبیح ہونے کی علت بھی ہے؟یہ بھی تو ممکن ہے کہ ظالم یا اس کے حمایتی ظلم کو کسی اور علت کی وجہ سے قبیح جانتے ہوں اور جب وہ اپنے اس فعل کے ظالمانہ ہونے سے آگاہ ہوں تو وہ اس کو بھی قبیح جاننے لگیں۔ اسی نوعیت کے دیگر معتزلی دلائل پر امام صاحب کی تنقید پر نگاہ اعتناء دوڑائی جائے تو زیر بحث قضیہ کی مزید تنقیح کچھ یوں ہوتی ہے کہ ظالم جب اپنے ظلم کو قبیح جانتا ہے تو یہ تو ممکن ہے کہ اس 'قبیح جاننے' کا مدار اس فعل کے ظالمانہ ہونے کا 'علم' ہو لیکن وجودی سطح پر اس کے نزدیک ظلم کے قبیح ہونے کی علت محض ظلم ہونا نہیں بلکہ اس کا نفسی و موضوعی احساس ہے۔وہ یوں،کہ جب وہ خود کو کسی ظلم کا ہدف بنتے ہوئے تصور کرتا ہے تو اس تصور سے وہ خود کو غم و الم میں گھرا ہوا پاتا ہے،اب اس کا ظلم کی تحسین کرنا یقینا خود پر بھی کسی پیش آمدہ ظلم کو جائز ٹھہرانے کے مترادف ہو گا۔ بنا بریں وہ 'ظلم' کو برا قرار دیتا ہے پھر جب اس بات سے آگاہ ہو جاتا ہے کہ خود اس کا فعل بھی از قبیلِ ظلم ہے تو وہ اس 'آگاہی' کی بنا پر اپنے فعل کی تحسین سے ہچکچاتا ہے۔عرض ہے کہ تردیدِ بداہت پر مبنی امام صاحب کے اس جواب پر معمولی غور اور ادنی تامل سے ہی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ دریں صورت بھی حسن و قبح کا عقلی فیصلہ معروضیت و اصولیت سے خالی اور موضوعیت اور غایتیت سے مملو ہے۔نیز یہ بھی ممکن ہے کہ ظالم ظلم کو شرعاً‌ قبیح سمجھتے ہوں اور اپنی اسی آگہی کی بنا پر اپنی ستم گری کو بھی قبیح جاننے لگیں۔ دریں صورت ظلم کا قبح  شرع پر اور ظالمانہ فعل کو قبیح سمجھنا شرع کی جانکاری پر موقوف ہے۔

اثباتِ بداہت و معروضیت کے لیے معتزلہ ایک ایسے شخص کی مثال بھی پیش کرتے ہیں کہ جس کے حق میں صدق و کذب پر کسی بھی منفعت و مضرت یا مسرت و الم کو اٹھا لیا جائے یا مساوی کر دیا جائے اور پھر اس سے کوئی سوال کیا جائے تو جواب میں وہ سچ کو ہی ترجیح دیتا ہے۔معتزلہ کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حسن و قبح افعال کا ذاتی خاصہ ہیں اور انسانی عقل ان کو بداہتا پہچانتی ہے۔امام صاحب اپنی یگانہ آفاق تصنیف "نہایۃ العقول فی درایۃ الاصول" میں ،اس معتزلی دلیل کا بودا پن عیاں کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس مثال میں صدق و کذب کے حسن و قبح کو ذاتی و بدیہی قرار دیتے ہوئے معتزلہ نے اس حقیقت سے پہلو تہی کی ہے کہ جو انسانی عقل حسن و قبح پر فیصل بن رہی ہے وہ یا تو خود ہدایتِ ربانی کی ضیاء پاشیوں سے پیہم مستفیض ہوتی رہی ہے یا پھر ایسی اقوام سے اس کا مسلسل اختلاط رہا ہے جو ان افعال کو اچھا یا برا قرار دیتے آئے ہیں۔نتیجتاً‌ یہ تصور اس میں یوں گھر کر گیا کہ وہ بلاجھجک بعض افعال کو بعض پر راجح ٹھہرانے لگی۔اگر ہم خود کو ایک ایسے انسان کے طور پر متصور کریں جو ابھی،اسی لمحہ تخلیق کیا گیا ہو،جس کا نا تو کسی مذہب سے پالا پڑا ہو اور نہ ہی وہ کسی قوم میں گھُلا ملا ہو،تو کیا وہ بھی اس جزم و اتقان کے ساتھ ان افعال کے حسن و قبح کا فیصلہ صادر کر سکتا ہے؟امام صاحب کی عبارت حسبِ ذیل ہے:

"فاما اذا قدر الانسان نفسه کانه خلق فی ھذہ الساعة و قدر انه لم يالف مذهبا ولا خالط قوما ولا سمع مقالة ولم يلتفت ذهنه إلى اختيار المصالح واختيار المفاسد، ثم عرض على عقله أن الصدق هل هو حسن والكذب قبيح على الوجه الذي لخصناه؟ فانا لا نسلم أنه -في هذه الحالة- يقطع بذلك."13

گزارش ہے کہ امام صاحب کا یہ جواب صرف ایک دلیل کی تردید نہیں بلکہ معتزلی نظامِ اخلاقیات میں پائے جانے والے بنیادی سقم کی تشخیص ہے۔یہ وہ شہ کلید ہے جس سے معتزلی تصورِ حسن و قبح کی ناتوانی  بیچ چوراہے طشت از بام ہو جاتی ہے۔ دراصل معتزلہ ایک ایسی عقل کے شانے پر حسن و قبح کا بوجھ لادتے اور پھر اس کے 'منزلِ مقصود' کو پا لینے پر شادیانے پیٹتے ہیں،جس نے خارجی ہدایت سے فیض یاب ماحول میں لمسِ شباب محسوس کیا ہے،جو از آدم تا ایں دم مذہبی آدرشوں کو بہ گوشِ ہوش سنتی اور بہ چشمِ وا دیکھتی آئی ہے۔اگر اس عقل کو اس ماحول سے منقطع کر کے اس سے اخلاقیات یا حسن و قبح کا سوال پوچھا جائے تو وہ جذبات کے ہرکارے کے طور پر کچھ نہ کچھ ظنی اظہار تو شاید کر دے لیکن اس سے کوئی ایسا قطعی جواب بن پڑنا خارج از امکان ہےکہ جسے اخلاقیات کے لیے کسوٹی قرار دے دیا جائے۔

حسن و قبح بابت اشاعرہ کا وجودی موقف معتزلہ کی وجودی بیخ و بن کو اکھاڑ دینے سے ازخود استحکام پا لیتا ہے۔امام صاحب نے معتزلی موقف کے بخیے ادھیڑنے کے لیے دو ڈھب اختیار کیے ہیں۔اولاً‌،آپ نے یہ واضح کیا کہ معتزلہ جس حسن و قبح کو اخلاقی باور کروا کر اس کی معروضیت،اصولیت اور بداہت کی مالا جھپتے ہیں وہ سراسر رجحانِ نفس اور ميلانِ طبع سے عبارت ہے۔ثانیاً‌ آپ نے تجربی امثلہ سے موید اور الزامی آہنگ سے ممیز دلائل کو بروئے کار لا کر معروضیتِ اخلاقیات کے معتزلی پھریرے کو سرنگوں کیا ہے۔بہتر ہو گا کہ چند دلائل قارئین کی نذر کر دیے جائیں۔

امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر مثلاً‌ جھوٹ، محض دجھوٹ ہونے کی بنا پر قبیح ہے تو اس سے اُس جھوٹ کا بھی قبیح ہونا لازم آتا ہے جو مثلاً‌ کفار کی ایذاء رسانیوں سے انبیاء کرام کو رستگاری دلانے کی خاطر بولا جائے۔حالانکہ معتزلہ بھی اس کو قبیح نہیں گردانتے۔لہذا معلوم ہوا کہ کذب و دروغ محض کذب و دروغ ہونے کی بنا پر قبیح نہیں بلکہ شرع جس جھوٹ کو قبیح کہے وہی حکمِ قبح کا سزاوار ہے۔

اس دلیل کے جواب میں متاخرین معتزلہ نے یہ شبہ نما موقف اختیار کیا کہ جھوٹ کا قبیح ہونا تو اس کے جھوٹ ہونے کی بنا پر ہی ہے البتہ بعض مواقع پر موانع و مزاحم(جلب منفعت یا دفع مضرت) کے پائے جانے کی بنا پر 'علت(کذب) سے حکم(قبح) کا تخلف ممکن ہے'۔امام صاحب اس شبہ کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کسی مانع کی بنا پر کذب سے قبح کے تخلف کو جائز ٹھہرایا جائے تو معتزلہ کا بنیادی موقف مزید ڈگمگاہٹ اور ناپائیداری کا شکار ہو جاتا ہے۔کیونکہ یہ مانع(جلب نفع یا دفع ضرر) کوئی قابلِ انضباط یا معروضی شے نہیں ہے کہ جسے معیار بنایا جا سکے۔یوں تو پھر ہر دروغ گوئی کے بارے میں تردد کی فضاء قائم کی جا سکتی کہ شاید یہاں کسی مانعِ قبح کی وجہ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔اس صورت میں کسی بھی جھوٹ پر قطعیت کے ساتھ قبح کا حکم کرنا خارج از امکان ٹھہرے گا۔

سلسلہ دلائل کو آگے بڑھاتے ہوئے امام صاحب ایک ایسے ظالم کی مثال پیش فرماتے ہیں جو کسی شخص کو دھمکی آمیز خبر دیتا ہے کہ "کل میں تجھے قتل کر دوں گا"۔آپ فرماتے ہیں کہ اب اس بیداد گر کے لیے یا تو قتل کر دینا حسن ہو گا۔یا پھر قتل سے دست کش ہو جانا حسن ہو گا۔بہر تقدیر معتزلی موقف کا خون ہونا یقینی ہے۔کیونکہ اگر وہ اسے قتل کر دے تو یہ قطعی طور پر ناروا ہے اور اگر نہ کرے تو اس کا یہ کہنا کہ "میں تجھے قتل کر دوں گا"،جھوٹ ٹھہرے گا۔اب اگر جھوٹ کو ذاتاً‌ یا جھوٹ ہونے کی بنا پر قبیح  شمار کیا جائےہے تو ترکِ قتل کی صورت میں یہ قبح لازم آ رہا ہے لہذا قتل سے اس کی دست کشی بھی قبیح ٹھہرے گی،حالانکہ یہ باطل ہے۔سو معلوم ہوا کہ کذب و دروغ کو مطلقاً‌،بلا حکمِ شرع قبیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔14 ممکن ہے اس مثال سے نمٹنے کے لئے بھی اسی توجیہ کو بروئے کار لایا جائے کہ یہاں جھوٹ کے مقابل قتل کی مضرت بدرجہا زیادہ ہے اور مضرت کا دفع کرنا جھوٹ پر حکم قبح لگانے سے مانع ہے۔لیکن پھر وہی سوال عود کر آئے گا کہ موانع اور شروط کی تحدیدات کیا ہیں؟یوں تو کوئی بھی شخص فرضی مانع کی آڑ میں مطلب براری کرتا پھرےگا۔اگر اس کی کوئی تحدید نہیں ہے تو پھر کسی بھی جھوٹ پر بالجزم حکمِ قبح کیسے کیا جا سکتا ہے؟

حسن و قبح کا جمالیاتی تناظر

حسبِ وعدہ اب ہم قلم کو مبحث کے جمالیاتی پہلو،یعنی کمال و نقص کے حسن و قبح کی طرف پھیرتے ہیں۔آغازِ کلام سے پیشتر مناسب ہوگا کہ امام صاحب کے کلام سے کمال و نقص کا معنی معلوم کر لیا جائے۔امام فخرالدین رازیؒ 'کمال' کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"نعني بالکمال: وجود شیئ لشیئ من شانه ان يكون له اما بجنسه او بنوعه او بعينه"

"کمال سے ہماری مراد کسی چیز کا ایسی شے کے ہاں پایا جانا ہے کہ اس شے کی حیثیتِ رتبی اپنی جنس،نوع یا ذات کے لحاظ سے اس چیز کا تقاضا کرتی ہو"15

بالفاظِ دیگر کمال اسے کہا جاتا ہے جو کسی شے کے وجود کی تکمیل کرے،اس شے کا 'ہونا' اس کمال کا تقاضا کرے اور اس کے بغیر اس کا 'ہونا' نامکمل و ناقص ہو۔امام صاحب نے اپنی متعدد کتب میں کمال و نقص پر گفتگو فرمائی ہے۔"کتاب النفس و الروح" میں آپ فرماتے ہیں کہ کمال اپنی ذات ہی میں ہر شخص کو 'پسند' ہوتا ہے اور نقص سے ہر شخص کا جی متلاتا ہے۔مزید فرماتے ہیں کہ لذت و کمال اور الم و نقص تمام ہی  لذاتہ مطلوب و مکروہ ہوتے ہیں،البتہ لذت و الم کا تعلق جسم سے جبکہ کمال و نقص روحِ انسانی کے محبوب ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ امام صاحب لذت و الم کے برعکس کمال و نقص کو اشیاء کا ذاتی خاصہ قرار دیتے ہیں،یعنی کمال و نقص لذت و الم کی طرح کوئی موضوعی احساس نہیں بلکہ مختلف اشیاء میں معروضی وجود کے حامل ہیں،جیسا کہ محولہ بالا تعریف سے معلوم ہوا۔اسی طرح امام صاحب لذت کے علی الرغم،کمال کے لیے مطلوب بذاتہ کی بجائے محبوب بذاتہ کی اصطلاح بروئے کار لائے ہیں، کیونکہ بعض کمالات ناممکن الحصول ہوتے ہیں جیسے واجب الوجود ہونا انسان کے لیے ناممکن ہے لہذا اس کی طلب کا کوئی معنی نہیں البتہ اس کے تصور سے جی بہلایا جا سکتا ہے۔ وجوبِ وجود انسان کو محبوب ہے، مطلوب نہیں۔ وجوبِ وجود سے انسان کی محبت ہی ہے جو اللہ تعالی کو اس کا محبوب بنا دیتی ہے۔غور کیا جائے تو کمال و نقص کے مبحث میں امام صاحب متکلم سے زیادہ ایک صوفی کے روپ میں نظر آتے ہیں۔16

مدارجِ کمال اور عشقِ الہی:

امام صاحب کمال کو ذاتی و صفاتی میں تقسیم کرتے ہوئے ذاتی کمال کی تعریف یوں فرماتے ہیں:

"اما الکمال فی الذات فهو ان يكون واجبا لذاته من حيث غير قابل للعدم والفناء بوجه البتة"

"ذات میں کمال یہ ہے کہ ذات (کا ہونا) اپنی ذات کی وجہ سے ہی اس طرح واجب(ضروری) ہو کہ کسی طور بھی اس پر فناء اور عدم طاری نہ ہو۔17

امام صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کمال خدا تعالی کا خاصہ ہے۔اس کے برعکس انسان ممکن الوجود ہے جس کا وجود خدا کے وجود سے قائم ہے۔وجوبِ وجود کی وجہ سے جس طرح انسان خدا کو محبوب رکھتا ہے ایسے ہی خدا بھی اس کمال کی وجہ سے خود سے محبت کرتا ہے۔مزید براں،چونکہ ممکنات کا وجود ذات واجب تعالی کا ہی فیضان اور ان کی ایجاد اسی موجود حقیقی کا فعل ہے لہذا وہ انسانوں سے بھی محبت کرتا ہے۔گویا انسان سے خدا کی محبت دراصل اپنے افعال،جو کہ لازمِ ذات ہیں،سے ہی محبت ہے۔18

کمالِ صفاتی پر گفتگو کرتے ہوئے امام صاحب فرماتے ہیں کہ صفات میں کمال صرف علم و قدرت میں محصور ہے اور یہ بھی بتمامہ خدا تعالی کا خاصہ ہے۔19 گزارش ہے کہ امام صاحب کی یہ تعریفات درحقیقت کمالات کی درجہ بندی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔تصوف کے رمز شناس بخوبی جانتے ہیں کہ دریں مقام، امام صاحب کمال سے کمالِ حقیقی مراد لے رہے ہیں اور انسانی کمالات کو آپ نشیبِ مجاز میں اتار لائے ہیں۔"شرح عیون الحکمۃ" کی درجِ ذیل عبارت نہ صرف ہماری اس بات کی توثیق کرتی ہے بلکہ امام صاحب کے صوفیانہ ذوق کو بھی مزید عیاں کرتی ہے۔آپ رقم فرماتے ہیں:

"الاستقراء دل على ان الكمال محبوب لذاته، واذا كان كذلك لزم ان يقال ان الشيء كل ما كان أشد كمالا كان اولى بالمحبوبية. واكمل الاشياء هو الحق-سبحانه-فكان هو أولى بالمحبوبية"

"استقراء دلالت کرتا ہے کہ کمال،لذاتہ محبوب ہوتا ہے۔بنابریں یہ کہنا ضروری ٹھہرتا ہے کہ جب بھی کوئی شے کامل تر ہو تو وہ سب بڑھ کرلائقِ محبت ہوتی ہے اور چونکہ سب سے کامل و اکمل شے حق تعالی کی ذات ہے لہذا وہ سب سے بڑھ کر اس بات کی سزاوار ہے کہ اسے محبوب بنایا جائے۔"20

کمالاتِ انسانی:

امام صاحب کمالاتِ انسانی پر چھائے کہر کو صاف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان کا کمال عرفانِ حق و خیر میں مضمر ہے۔عرفانِ حق اعتقاد کی راست سمتی کا ضامن جبکہ عرفانِ خیر عمل کا راہ نما ہے۔مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ عرفانِ حق یہ ہے کہ انسان کی نظری قوت ایسی کامل ہو جائے کہ اس پر اشیاء کی صورت و حقیقت جلوہ گر ہونے لگے،یہ تجلی ایسی صیقل و شفاف اور ایسی کامل و تام ہو کہ عرفانِ شے کی راہ میں کسی بھی خطا و چوک کا گزر نہ ہونے پائے۔عرفانِ خیر یہ ہے کہ انسان کی عملی قوت یوں کامل ہو جائے کہ اسے اعمالِ صالحہ کا ملکہ دان ہو جائے اور اعمال صالحہ کا یہ ملکہ ایسا ہو جو انسان کو جسمانی لذات سے بے نیاز کر کے روحانی اور اخروی سعادت کے طرف کشاں کشاں لے جائے۔آپ فرماتے ہیں کہ یہ کمال بتمامہ صرف انبیاء و اولیاء کے نصیب میں ہے نیز اولیاء پر بھی اس کا فیضان انبیاء کا رہین منت ہے۔21 امام صاحب کمال و نقص کی ان مرادات کو اثبات نبوت کے لئے بطور دلیل بروئے کار لائے ہیں جس پر بشرطِ توفیق آئندہ سطور میں کلام کیا جائے گا۔

آمدم برسر مطلب! گزارش ہے کہ کمال و نقص پر حسن و قبح کے اطلاق کی کوئی اخلاقی معنویت نہیں ہے۔حسن و قبح کا یہ اطلاقی اظہار سراسر جمالیاتی تناظر میں کشیدِ معنی کرتا ہے۔امام صاحب اور دیگر متکلمین کا کلام اس بات کا غماز ہے کہ انہوں نے کمال و نقص کی اصطلاح کو غیر اخلاقی حقائق کی توضیح میں برتا ہے۔عموماً‌ خدائی صفات کی تشریح اسی تناظر میں کی جاتی ہے۔عرض ہے کہ کمال و نقص کا ہونا ایک وجودی قضیہ ہے لیکن ان پر حسن و قبح کا اطلاق ایک جمالیاتی بیان ہے۔جب کمال و نقص پر لفظِ حسن و قبح بولا جائے تو اس سے اخلاقی اچھائی اور برائی نہیں،سُندرتا اور بھداپن مراد ہوتے ہیں۔کسی بھی شے کا ایسی صفت سے متصف ہونا جو اس کے وجودی معنی کو لازم ہے اسے جمیل(سُندر) بنا دیتا ہے۔ بصورت دیگر وہ شے بھدی نظر آتی ہے۔حدیث ’’ان اللہ جمیل‘‘ کا یہی معنی ہے کہ اللہ تعالی تمام صفات کمالیہ سے بتمامہ متصف ہے۔مختصر یہ کہ جمال دراصل کمال کی پھبن کا نام ہے۔کمال شے کی ذات کو مکمل کرتا ہے اور جمال اسی مکمل و اکمل شے میں جلوہ فگن ہوتا ہے۔کمال و جمال کے اسی گہرے ارتباط کو حجۃ الاسلام امام غزالیؒ (م:٥٠٥)  نے اپنی مایہ ناز تصنیف "احیاء علوم الدین" میں یوں بیان فرمایا ہے:

"کل شیئ فجماله و حسنه فى أن يحضر كماله اللائق به الممكن له، فاذا كان جميع كمالاته الممكنة حاضرة فهو في غاية الجمال"

"کسی بھی شے کا حسن و جمال یہ ہے کہ اس میں اس کی (ذات،جنس،نوع) کے مناسب ممکنہ22 کمال پایا جائے،پھر اگر اس میں تمام ممکنہ کمالات پائے جائیں تو وہ تو جمال کی انتہاء کو چھو رہا ہے"23

گزارش ہے کہ امام رازیؒ نے جمالیاتی طلب کی آسودگی کو کمال سے نتھی کر کے کمالِ مطلق کو خدا میں محصور اور کمالِ انسانی کو نبوت سے مشروط کر کے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مذہب کے بغیر جمالیاتی شعور کی آبیاری ممکن نہیں ہے۔


حواشی

  1. قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج6-1،ص88    -  https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
  2. ايضا،ج6-1،ص61
  3. ايضا،ج٦-١،ص٨١
  4. ايضا،ج٦-١،ص٦٤
  5. ايضا،ج٦-١،ص٦٥
  6. امام ابو منصور ماتريدى،كتاب التوحيد(لاہور: مكتبہ  دارالاسلام،۲۰۱۴)، ۲۹۸ ۔
  7. امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،١٩٩٢)،ج١،ص١٢٣،١٢٤
  8. امام فخر الدين رازى،الاربعين فى اصول الدين(بیروت: دارالکتب العلميه،بیروت،۲۰۰۹)، ۲۔
  9.   امام فخرالدین رازی،المطالب العاليه من العلم الإلهي (دارالکتب العلمیہ،بیروت،١٩٩٩)، ج۳، ص ۱۸۰۔
  10.  ایضا،ج٣،ص١٤
  11.  ایضا،ج٣،ص٢١٦
  12.  امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،١٩٩٢)،ج١،ص١٣٢
  13.  امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،٢٠١٥)،ج٣،ص٢٨٥
  14.  امام فخر الدين رازى،الاربعين فى اصول الدين(دارالکتب العلمیہ،بیروت،٢٠٠٩)ص٢٤٣،٢٤٤
  15.  امام فخرالدين محمد بن عمر رازى،الاشارة فى علم الكلام(المكتبة الازهرية للتراث،مصر،٢٠٠٩)،ص٢٢٦
  16.  امام فخرالدين محمد بن عمر رازى،كتاب النفس والروح و شرح قواھما(معہد الابحاث الاسلامیہ،اسلام آباد)،ص٢٠،٢١
  17.  ايضا،ص٢١
  18.   ایضا،ص٢١،٢٢
  19.  ایضا ص٢٢
  20.  امام فخرالدین رازی،شرح عیون الحکمة(موسسة الصادق للنشر والطباعة،طهران،ايران،١٣٧٣ھ)ج٣،ص١٦٧-١٢٨
  21.   امام فخرالدين رازى،المطالب العالية من العلم الالهى(مكتبة علمية ،ببروت،١٩٩٩)ج٨،ص٦١
  22.  امکانِ عام مراد ہے۔
  23.  امام ابو حامد محمد بن محمد غزالی،احیاء علوم الدین(دارالحدیث،قاہرہ،٢٠٠٤)ج٤،ص٣٧٢

(جاری)

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۸)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا دسواں باب)



دسواں باب: مشترکات


اب تک میں نے کوشش کی ہے کہ مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین کے درمیان بنیادی اختلافات کو نمایاں کروں، اور یہ کہ ان کی بدعت کی تعریف کیا ہے، اور وہ اس کے خطرے کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس باب میں، میں بتاؤں گا کہ علما کے ان دو مخالف کیمپوں کے درمیان کیا کیا مشترکات ہیں۔ یہاں میں جن بنیادی سوالات کا جواب دوں گا، وہ یہ ہیں:

  1. مولانا احمد رضا خان کا تصورِ بدعت کیا تھا؟
  2. ان کی نظر میں شرعی حدود سے تجاوز کا مطلب کیا تھا؟
  3. ان کا تصوّرِ اصلاح کیا تھا؟
  4. عوام کی روزمرہ مذہبی زندگی میں کون سے امور قابلِ اعتراض ہیں، اور کیوں؟

چلیں میں مختصراً‌ واضح کرتا ہوں کہ میری اس کد وکاوش کا مقصد کیا ہے۔ گزشتہ صفحات میں میں نے بڑی حد تک مختلف رسوم وعادات پر علماے دیوبند کی تنقید اور ان اعمال کے شرعی جواز کے حق میں مولانا احمد رضا خان کے دفاع کو پیش کیا ہے۔ لیکن یہ تصویر ادھوری اور ٹیڑھی رہے گی، اگر ہم دیوبندیوں کو استعماری جنوبی ایشیا میں رائج رسموں کے محض معترضین اور بریلویوں کو ان کے مدافعین سمجھنے لگ جائیں۔

مولانا احمد رضا خان کی فکر کے ایک دقیق جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں وہ علماے دیوبند کے ناقد تھے، وہیں وہ پوری گہرائی کے ساتھ بلکہ بعض اوقات تو ان سے بھی زیادہ اس طریق کار کے ناقد تھے، جس کے مطابق عوام رسوم ورواجات میں شریک ہوتے ہیں۔ دیوبندیوں سے ان کے اختلاف کی اصل وجہ جائز اعمال کو ناجائز قرار دینے کا اصولی اختلاف تھا، بالخصوص وہ اعمال جن سے رسول اللہ ﷺ کی توقیر ہوتی ہو۔ ان کے اور دیوبندیوں کے درمیان روایت اور زمنیت کے تعامل پر بھی شدید اختلاف تھا، جسے میں نے گزشتہ باب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ تاہم ان فکری اختلافات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مولانا احمد رضا خان عوام کے روزمرہ چال چلن سے دیوبندیوں کے بنسبت کچھ کم غیر مطمئن تھے۔ خان کوئی آزاد خیال بزرگ نہیں تھے۔ نہ وہ ایسے روادار صوفی تھے، جن کا موازنہ دیوبندیوں کی نام نہاد خشک فقہیت سے کیا جا سکتا ہو۔ اس کے برعکس خان کو ان چیزوں کے مقابلے میں ہندوستانی مسلمانوں کی ایک متصور شناخت کی نگرانی اور تحفظ کا فوری خدشہ لاحق تھا، جنھیں وہ داخلی اور خارجی غیر سمجھتے تھے۔ انھیں ہندوستانی مسلمانوں کی روزمرہ زندگی میں رائج عادات واطوار کے بارے میں شدید بے چینی تھی۔ مزید برآں بالکل اپنے دیوبندی مخالفین کی طرح عوام کی روزمرہ زندگی کو باضابطہ بنانے کے لیے ان کی کاوشیں بیک وقت  شرعی حدود کو پائمال نہ کرنے کی عوامی صلاحیت کے متعلق وہ کچھ زیادہ خوش گمان نہ تھے۔ میں اس کی چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔

موت، خوراک، میزبانی

درج ذیل سوال پر غور کریں جو مولانا احمد رضا خان سے ان عورتوں کے بارے میں پوچھا گیا، جو فوتگی کے فوراً‌ بعد تعزیت کے لیے میت کے گھر میں جمع ہوتی ہیں:

ہندوستان کے بہت سے علاقوں میں مرحوم کے دوستوں اور رشتہ داروں کی خواتین میں یہ رائج ہے کہ فوتگی کے دن ہی مرحوم کے گھر آجاتی ہیں۔ عام طور پر وہ تین، دس حتی کہ چالیس دن میت کے گھر میں گزارتی ہیں۔ وہ مرحوم کے گھر کو خوشی کی ایک تقریب کے مقام میں بدل دیتی ہیں، گویا وہ کسی شادی میں شرکت کے لیے آئی ہیں۔ اس طویل اقامت کے دوران مرحوم کا خاندان بغیر کسی پس وپیش کے ان مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہراتا ہے، ان کے کھانے پینے اور پان چالیا تک کے اخراجات اٹھاتا ہے۔ ان اخراجات کو اٹھانے میں بسا اوقات انھیں شدید معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتی کہ بعض اوقات انھیں سود پر قرضہ لینا بھی پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ اچھی طرح سے مہمانوں کی خاطر تواضع نہ کریں، تو مہمان انھیں طعن وتشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ شرعاً جائز ہے1؟

اس سوال کے جواب میں خان برہمی کے اظہار کے ساتھ سائل پر طنز کے تیر ونشتر چلاتے ہوئے کہتے ہیں: "سبحان اللہ، اے مسلمان! تم پوچھتے ہو کہ کیا یہ شرعاً جائز ہے؟ اس کے بجاے آپ کو پوچھنا چاہیے تھا کہ اس غلیظ رسم میں کون کون سی گھناونی اور قبیح صفات یک جا ہو گئی ہیں2؟"

سب کچھ ایک طرف رکھ دیجیے، مرحوم کے گھر کو ایک بڑی سماجی تقریب میں بدل دینا بذات خود حرام ہے، خان نے سختی سے کہا۔ میت کے خاندان پر ضیافت کا بوجھ بالکل بھی نہیں ڈالنا چاہیے۔ اپنے مقدمے کے اثبات میں خان نے پندرھویں صدی کے مصری حنفی فقیہ علامہ ابن الہُمام (م 1457) کی شرح فتح القدیر (جو فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ کی شرح ہے) کا حوالہ دیا: "میت کے گھر والوں سے ضیافت کھانا مکروہ ہے، کیوں کہ ضیافت خوشی کے لمحات میں جائز ہے، نہ غمی کی صورت میں۔ (غمی کی صورت میں ضیافت) ایک قبیح بدعت ہے"3 (يكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت، لأنه شرع في السرور لا في الشرور، وهي بدعةٌ مستقبحة)۔ سب سے مناسب اور شرعاً مطلوب عمل یہ ہے کہ میت کی تعزیت میں شریک خاندان کے افراد کو پڑوسی اور رشتہ دار کھانا کھلائیں، تاکہ اس صدمے کے دوران انھیں کچھ راحت نصیب ہو۔ خان نوحہ کناں ہیں کہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔

مصیبت زدہ خاندان سے تعاون کرنے اور انھیں راحت پہنچانے کے بجاے ان پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی میزبانی کرنے اور انھیں کھانا کھلانے اور اخراجات اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ حتی کہ انھیں اس مقصد کے لیے ادھار لینے پر مجبور کیا جاتا ہے، جو اس رسم کی ہول ناکی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ لیکن خان کو سب سے زیادہ جس چیز سے پریشانی ہے، وہ ایسے مواقع پر خواتین کا طرز عمل ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: "یہ خواتین میت کے گھر میں جمع ہوتی ہیں، اور ہمہ اقسام کے قابل اعتراض امور کا ارتکاب کرتی ہیں۔ وہ دھاڑیں مار مار کر روتی ہیں، پاگلوں کی طرح چیختی ہیں، اپنے سینوں کو زد وکوب کرتی ہیں، اور اپنے چہرے کو دکھاوے کی خاطر ڈھانپ کر رکھتی ہیں، تاکہ وہ غمگین نظر آئیں"4۔

یہ تمام حرکات نوحے کے زمرے میں آتی ہیں، اور نوحہ حرام ہے۔ جہاں پر ایسی عورتیں جمع ہوں، میت کے دوستوں اور رشتہ داروں کو چاہیے کہ وہاں پر کھانا بھی نہ بھیجیں، کیوں کہ یہ گناہ میں تعاون کرنے کے مترادف ہوگا5۔ مولانا اشرف علی تھانوی اور خان کے دیگر دیوبندی حریف معمولی پس وپیش کے ساتھ ان جذبات کی تائید کریں گے۔ رسم ورواج پر بریلویوں اور دیوبندیوں دونوں کی تنقیدات ایک بھاری خدشے میں ملفوف ہیں۔  یہ خدشہ اخلاقی نظام اور استحکام کے لیے عورت کا وبائی خطرہ ہے، جسے دبانا ضروری ہے۔ استعماری جنوبی ایشیا میں مسلم مصلحین کی فکر پر خواتین کا بھاری بھر کم بوجھ سوار ہے، جیسا کہ فیصل دیوجی نے اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "ہر ایک مصلح عورت کو، مثال کے طور پر، ایک منحوس اور مہلک خرابی کے کردار کے طور پر دیکھتا ہے۔۔۔ مغلوب نسوانیت کے مقابلے میں مردانہ زدپذیری (vulnerability) کا یہ احساس صرف اس صورت میں ابھر سکتا ہے، جب بذات خود ان مردوں کو استعمار نے مغلوب کر دیا ہو"6۔

خان کی طرف واپس آتے ہیں۔ ان کا اساسی نکتہ یہی تھا کہ اگر چہ ایصالِ ثواب کے لیے کھانا کھلانا جائز ہے، لیکن (کسی شخص کی فوتگی کے موقع پر) ضیافت کے طور پر کھانا پیش کرنا ناجائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے فوتگی خوشی کی ایک تقریب میں بدل جاتی ہے، اور فوتگی کا غم اور اہمیت زائل ہو جاتی ہے۔ جب کوئی شخص مرتا ہے، تو لوگ اس کی موت پر خفا ہونے کے بجاے کھانے کے مشتاق نظر آتے ہیں۔ اس نکتے پر زور دینے کے لیے مولانا احمد رضا خان نے عربی کے ایک مقولے کی من پسند تشریح پیش کی۔ مقولہ کچھ یوں ہے: فوتگی کے موقع پر کھانا کھانا دل کو مردہ کر دیتا ہے (طعام الميّت يُميتُ القلبَ)۔ خان نے بتایا کہ اس مقولے میں ان لوگوں کی حالت کا بیان ہے جو اپنے معاشرے میں کسی کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں، تاکہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس کے کھانے سے لطف اندوز ہو سکیں۔ ایسے لوگوں کے دل مردہ ہیں، کیوں کہ وہ کھاتے وقت موت سے غافل اور کھانے کی لذت میں شاغل ہوتے ہیں۔ خان نے تنبیہ کی کہ یہ فوتگی کو بڑی تقریبات اور کھانے پینے میں بدلنے کا افسوس ناک نتیجہ ہے۔

مولانا احمد رضا خان کے مطابق (فوتگی کے دن) میت کے خاندان کو کھانا کھلانے کے ساتھ واحد جائز عمل یہ ہے کہ غربا میں کھانا تقسیم کیا جائے۔ معاشرے کے دیگر افراد کو بلانے اور ان میں کھانا تقسیم کرنے کا کوئی مقصد نہیں۔ اور مال داروں کو بطور خاص ایسا کھانا کھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر انھیں یہ کھانا بھیج بھی دیا جائے، تو انھیں چاہیے کہ اسے غربا کو دے دیں۔ ان آرا سے بھی علماے دیوبند کے لیے اختلاف کی گنجائش کم ہے۔ لیکن ان مشترکات کے باوجود اس کلیدی سوال پر خان صاحب کا موقف اپنے دیوبندی مخالفین سے الگ تھا: ایصالِ ثواب کی خاطر کھانا تقسیم کرنے کے لیے دن کی تخصیص۔ علماے دیوبند کے برعکس خان کو مثلا مروّجہ تیجے، دسویں یا چہلم کی تخصیص سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ خان صاحب نے بتایا کہ کسی دن کی تخصیص مصالح عرفیہ کے حصول کے لیے ہے، اور اس وجہ سے جائز ہے7۔

مشروط نجات

لیکن جہاں چند مسائل کے حوالے سے خان کے رویے میں لچک تھی، مثلاً کھانے کی تقسیم کے لیے دن کا تعین، وہیں ان لوگوں کی مذہبی وابستگی کے بارے میں بالکل بے لچک تھے، جن میں یہ خوراک تقسیم کیا جاتا، یا جن کی ارواح کو اس کا ثواب بخش دیا جانا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ صرف  ایسے مسلمان کی روح کو فقرا میں کھانے کی تقسیم سے حاصل ہونے والی برکات حاصل ہو سکتی تھیں جو ضروریات دین کا منکر نہ ہو ۔ اور صرف ایسے بے داغ کردار کے حامل شخص کے لیے یہ کھانا لینا اور کھانا جائز ہے۔ تمام غیر مسلم، چاہے وہ مشرکین ہوں یا غیر مشرکین، وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔ اسی طرح ان اسلامی فرقوں کو بھی ایصال ثواب کا کھانا دینا یا کھلانا جائز نہیں، جو ضروریاتِ دین کے منکر ہوں، جیسے شیعہ (رافضی/تبرّائی) جو اولین دو خلفا حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو مسترد کرتے ہیں، یا ان کی توہین کرتے ہیں8۔

اس بابت خان صاحب کا رویہ نیچ ذات کے چماروں کے بارے میں بے انتہا متشددانہ ہے۔ ایصالِ ثواب کے موضوع سے ذرا ہٹ کر اس پر بات کرتے ہیں۔ ایک بار خان صاحب سے ان ہندوؤں کے مقام کے بارے میں پوچھا گیا جنھوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ان سے بطور خاص پوچھا گیا کہ قبول اسلام کے بعد ان کے لیے جائز ہے کہ اپنی اس ذات یا برادری سے منسوب رہیں، جس سے وہ اسلام لانے سے پہلے منسوب تھے؟ اپنے جواب میں خان صاحب نے واضح کیا کہ چوں کہ دینی شناخت کا تعلق کسی مخصوص گروہ یا قبیلے سے نہیں، اس لیے قبول اسلام کے بعد اپنی ذات یا برادری سے منسوب رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں یہ ایک عام رواج تھا۔ خان صاحب نے واضح کیا کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہونے سے بڑھ کر کوئی اعزاز نہیں، اور اس وجہ سے اس کے مقابلے میں برادری اور ذات پات کی تمام نسبتیں بے حد معمولی بن جاتے ہیں9۔  

تاہم اس کے باوجود ماقبل اسلام کی سماجی حیثیت مکمل طور پر غیر متعلق نہیں ہو جاتی۔ بلکہ روایات میں آیا ہے کہ جب کسی قوم کا معزز شخص تمھارے پاس آئے، تو تم ان کی عزت کرو (إذا أتاكم كريمُ قومٍ فأكرِموه)۔ اس حدیث کو ہندوستانی سیاق میں پیش کرتے ہوئے خان کہتے ہیں کہ اگر کوئی ہندو ٹھاکر یا راجپوت کسی مسلمان کے پاس آتا ہے، تو چاہیے کہ وہ اسے عزت دے۔ اس لیے  کہ ٹھاکر/راجپوت ہندوستانی سماج میں معزز سمجھے جاتے تھے۔

قبولِ اسلام یا خان کی تعبیر کے مطابق "بالکل ٹوٹ کر ہم میں آ ملنے" سے سماجی مقام میں ہزار گنا اضافہ ہو جاتا ہے، خان صاحب نے واضح کیا۔ حتی کہ جب کوئی چمار مسلمان بن جاتا ہے، تو اسے کم تر جاننا قطعاً حرام ہے، کیوں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد میں وہ دین میں ہمارا بھائی بن جاتا ہے"10۔

بالفاظ دیگر خان کی نظر میں قبول اسلام ان نیچ ذات کے لوگوں کو بھی یہ موقع دیتا ہے کہ وہ تمام سماجی داغ دھبوں سے پاک ہو کر از سرِنو زندگی کا آغاز کریں۔ اور جو پہلے سے کسی معزز مقام ومرتبے کے حامل ہیں، اسلام قبول کرنے سے ان کے رتبے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے- ہزار گنا  زیادہ۔

تاہم یہ رعایت صرف انھیں حاصل ہے جنھوں نے قبول اسلام کے سنگ میل کو عبور کیا ہو۔ ایک اور موقعے پر خان سے پوچھا گیا کہ غیرمسلم نادار چماروں میں ایصالِ ثواب کے کھانے کی تقسیم کا حکم کیا ہے؟ سائل کچھ اس انداز سے پوچھتا ہے: "میت کے تیجے کے موقع پر لوگ چنوں کے اوپر فاتحہ پڑھتے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ مسلمانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور بقیہ مشرک چماروں کو دے دیا جاتا ہے۔ کیا جن چنوں پر قرآن پڑھا گیا ہے، انھیں (ہندو) چماروں کو کھلانا جائز ہے"11؟ "یہ کھانا مشرک کو یا (غیر مسلم) چمار کو دینا گناہ ہے، گناہ ہے، گناہ ہے"12۔ خان کی نظر میں چمار کو کھانا کھلانے میں ثواب تب ہے جب وہ مسلمان ہو۔ چمار کی سماجی حیثیت اور دینی احترام اس امر پر منحصر ہے کہ وہ باضابطہ طور پر اسلام قبول کر لے۔ ایک بار وہ اسلام قبول کرلے، تو پھر وہ مسلمانوں کی رسمی تقریبات کا حصہ بن سکتا ہے۔ لیکن یہ دروازہ اس کے لیے اس وقت تک بند ہے جب تک وہ "ٹوٹ کر ہم سے نہ آ ملے"۔ صرف صحیح مذہب قبول کرنے کے بعد ہی موت سے پہلے یا موت کے بعد چمار کی کچھ میزبانی کی جا سکتی ہے۔

شعائر اللہ کا تحفظ

مولانا احمد رضا خان عوامی دائرے میں مسلمانوں کی امتیازی علامات کے تحفظ کے بھرپور داعی تھے۔ غیر مسلموں (بالخصوص ہندؤوں) کی نقالی یا ان کی تہواروں میں شرکت پر ان کی تنقید کی کاٹ دیوبندی مخالفین اور شاہ محمد اسماعیل کے برابر یا شاید ان سے بھی زیادہ تھی۔ مثلاً ایک بار خان سے پوچھا گیا کہ کہ مسلمانوں کے لیے ہندو تہواروں جیسے رام لیلا (رام چندر جی کی فتح یابی کی ڈرامائی نقل) اور دوسہرہ (راون پر رام کی فتح کی یاد میں میلا) میں جانے کی بارے میں آپ کی راے کیا ہے۔ بلکہ ان سے پوچھا گیا کہ ان مقامات میں وقت گزارنے پر کیا شرعی نتائج مرتب ہوتے ہیں، جہاں کفریہ اور شرکیہ کلمات اور نعرے پوری آزادی سے لگائے جاتے ہوں۔ کیا یہ کسی مسلمان کے ایمان کو ضرر پہنچاتا ہے13؟ خان صاحب نے اس کا جو جواب دیا، اس میں تہوار میں شرکت کی نوعیت کو بنیادی حیثیت حاصل تھی کہ وہاں جانے کا مقصد کیا تھا؟ اس شخص نے وہاں پر کیا کیا؟ اور سب سے اہم یہ کہ جب وہ وہاں پر تھا تو اس کے ساتھ کیا حالات پیش آئے؟

خان صاحب کی راے میں اگر یہ تہوار مذہبی ہو تو پھر تو بہر صورت اس میں شرکت حرام ہے،  کیوں کہ اس تقریب میں ضرور کچھ ایسی باتیں اور سرگرمیاں ہوں گی، جو بنیادی اسلامی عقائد کے خلاف ہوں گی۔ تاہم حرام ہونے کے باوجود صرف اس تہوار میں شرکت کرنا کفر نہیں ہوگا۔ البتہ وہاں جو کچھ ہوا، اس کو مثبت انداز سے دیکھنا اخروی اعتبار سے خطرناک نتائج کا حامل ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ مثال کے طور پر اگر ایک مسلمان  ہندؤوں کے بھجن اور رسموں، جو شرک کی تبلیغ اور توحید کی تردید کرتی ہیں، کو پسندیدہ نگاہوں سے دیکھنے لگ جائے تو خطرہ ہے کہ وہ کہیں کافر نہ بن جائے۔ اس شخص کے لیے اور بھی بڑا خطرہ ہے جو ان بھجنوں اور رسموں کو ہلکا لیتا ہے، اور اس میں شرکت کے جرم کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ ایسے لوگ نہ صرف دائرۂ اسلام سے خارج ہیں، بلکہ نتیجتاً ان کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے14۔ کسی تہوار میں شرکت کی یہ بڑی بھاری قیمت ہے!

اگر یہ کوئی مذہبی تہوار نہ ہوتا، بلکہ بنیادی طور غیر مذہبی میلہ ہوتا، تو بھی افضل یہی ہے کہ ایسی جگہوں میں جانے سے اجتناب کیا جائے، جہاں ہندؤوں کی اکثریت ہو، خان صاحب نے نصیحت کی۔ "یہ ممکن نہیں کہ ایسی تقریبات میں قابل اعتراض یا مکروہ اعمال نہ ہوں"15۔ لیکن ان مسلمان دکان داروں اور تاجروں کا کیا حکم ہے، جو ایسے مقامات پر صرف اپنی تجارت یا کمائی کی خاطر جاتے ہیں؟ خان صاحب نے کہا کہ انھیں اس کی اجازت ہے بشرط یہ کہ وہاں پر کفر وشرک کی کوئی علامت نہ ہو، اور نہ وہ کسی ناگوار عمل کو دیکھیں، اور نہ اس میں بذاتِ خود شریک ہوں۔ پھر بھی بہتر یہی ہے کہ وہ ایسے مقامات میں جانے سے مکمل گریز کریں۔

مولانا احمد رضا خان کے مطابق صرف ایک صورت ہے، جس میں ہندؤوں کی تہواروں، چاہے مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، میں نہ صرف یہ کہ شرکت جائز بلکہ درحقیقت مستحب اور قابل تعریف ہے۔ وہ صورت یہ ہے کہ کوئی مسلمان عالم  وہاں پر لوگوں کو اسلام کی تعلیم وتبلیغ کے لیے جائے۔ انھوں نے واضح کیا کہ غیر مسلموں کو دعوت دینے کی غرض سے رسول اللہ ﷺ بذاتِ خود بار بار ایسے مقامات پر جاتے۔ یہاں پر ان کا مقصد یہ تھا کہ اس عمومی قاعدے سے ایک استثنا قائم کریں16۔ تو خان صاحب کے نزدیک صرف ایک مسلمان عالم، جس کے پاس تعلیم وتبلیغ کی مناسب مہارت ہو، ہندو تہواروں میں بار بار جا سکتا ہے۔ صرف ایک ایسا مسلمان عالم جو لوگوں کو راغب کر سکتا ہو، ان کی رہ نمائی اور آخرت میں ناکامی سے حفاظت کر سکتا ہو،وہ منحرف کفری مقامات، افکار اور تہواروں کے خطرے سے محفوظ ہوتا ہے۔ ایسا عالم کفر وشرک کے علاقے میں داخل ہو سکتا ہے، جو مطلوبہ علمی اسلحے اور ساز ومان سے لیس ہو۔ جہاں تک عام لوگوں کی بات ہے، ان کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ ان خطرات سے خود کو دور رکھیں، ایسا نہ ہو کہ ان کی آخرت قبل از وقت برباد ہو جائے۔

جیسا کہ میں نے کہیں اور بھی بتایا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کی اصالت کو برقرار رکھنے کی جو کوشش مولانا احمد رضا خان کر رہے تھے، وہ ایک سلطانی سیاستِ شرعیہ کے بیانیے میں ملفوف تھی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دیگر مذہبی معاشروں پر مسلمانوں کے غلبے اور برتری کو برقرار رکھا جائے17۔ مسلمانوں کی سیاسی طاقت کی عدم موجودگی میں ایسی کوششوں کا رخ مکمل طور پر روزمرہ کی رسموں اور اعمال کی طرف پھر گیا۔ مثال کے طور پر خان صاحب بیسویں صدی کے اوائل میں برپا ہونے والی تحریک خلافت کے قائدین (ایک استعمار مخالف تحریک جس کا مقصد خلافتِ عثمانیہ کی بحالی تھی) پر شدید تنقید کرتے تھے؛ کیوں کہ انھوں نے گاندھی سے قربت واتحاد اختیار کیا تھا۔ خان کو اس اتحاد کے سیاسی فوائد  کی بجاے عوامی دائرے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان قربت سے زیادہ بے چینی تھی۔ اپنے دیوبندی حریفوں کی طرح ان کے لیے بھی سب سے اہم شعائرِ اسلام کا تحفظ تھا۔ اگر ہندؤوں سے موالات کی حمایت کی جائے، جو ان کی نظر میں تحریک خلافت کے قائدین کر رہے ہیں، تو شعائرِ اسلام اور اس کے نتیجے میں ناگریز طور پر مسلمانوں کی اخلاقی برتری مٹ جائے گی۔ ان کی مذہبی افکار میں اس شدید بے چینی کے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں18۔

تاہم خان صاحب کوئی بے لچک اور انتہا پسند تکفیری نہ تھے؛ وہ بھی عملی سیاست میں  کافی دل چسپی رکھتے تھے۔ مثلاً تحریک خلافت کے دوران انھوں نے تحریک سے جڑے ان علما، جیسے مولانا ابو الکلام آزاد (م 1958) کی یہ دعوت پوری شدت سے مسترد کر دی کہ برطانیہ کے خلاف جہاد کیا جائے۔ ایک طاقتور سامراجی طاقت کے خلاف یہ دعوت نری حماقت ہے، خان صاحب نے واضح کیا۔ علاوہ ازیں انھوں نے برطانوی استعمار سے ترکِ موالات کی تحریک کو بھی مسترد کر دیا، جس کا تحریکِ خلافت نے (گاندھی کے عدم تعاون کی تحریک سے موافقت میں) مطالبہ کیا تھا۔ خان صاحب نے بتایا کہ استعمار کے خلاف ایسی تحریک سے صرف ہندوستانی مسلمانوں کو سماجی اور معاشی طور پر نقصان ہوگا، جب کہ برطانوی حکومت کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا۔ بلکہ انھیں یقین تھا کہ برطانیہ کے خلاف یہ نام نہاد بائیکاٹ گاندھی کی ایک چال ہے، تاکہ وہ مسلمانوں کی سماجی اور معاشی حیثیت کو کم زور کرے۔ ان کی نظر میں یہ ایک سازش تھی، اور تحریکِ خلافت کے قائدین/علما دانستہ یا نادانستہ طور پر اس سازش کا حصہ بن گئے تھے۔

برطانیہ کے خلاف جہاد برپا کرنے کے انتہائی مخالف استعمار اقدام کو مسترد کرکے خان صاحب نے ایک عملی موقف اختیار کیا، اور وہ یہ تھا کہ باوجود یہ کہ برطانوی غیر مسلم ہیں، لیکن ان سے مالی عقود اور تعلقات قائم کرنے چاہییں۔ ان کے استدلال کی بنیاد حقیقی دوستی (جو غیرمسلموں کے ساتھ ناجائز ہیں) اور محض تجارتی تعلقات (جو جائز ہیں) میں تفریق تھی۔ بلکہ انھوں نے مسلمانوں کو یہاں تک اجازت دی کہ اگر ضرورت ہو، تو انھیں برطانویوں کی طاقت واقتدار کو مد نظر رکھتے ہوئے ان سے دوستی کا دکھاوا کرنا چاہیے19۔

ان سب باتوں کا مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ بیرونی 'غیر' سے متعلق خان کی آرا تہہ در تہہ پیچیدگیوں کی حامل ہیں، اور اس وجہ سے ان کی تصویر کشی روادار/تکفیری، پرامن/متشدد اور اصلاحی/غیر اصلاحی جیسے تقابلات سے نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انھوں نے اپنا ایک اصلاحی ایجنڈا پیش کیا، جس میں جہاں مکمل اخلاقی پاکیزگی کے حصول کی خواہش تھی، وہیں برطانوی استعمار کی موجودگی میں مسلمانوں کی سیاسی طاقت کے عدم امکان کا حقیقت پسندانہ اعتراف بھی تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سیاسی حقیقت پسندی کو روزمرہ زندگی کے دائرے میں ان کی مثالیت پسندی کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے، کیوں کہ انھوں نے ان تھک کوشش کی کہ عوامی دائرے میں شعائر اسلام کی برتری اور اصالت کو قائم کرے۔

روزمرہ زندگی کی اصلاح

خان صاحب اور ان کے دیوبندی مخالفین کے نزدیک قانون کی حدود محض ایک نظری معاملہ نہیں۔ قانونی حدود کی تشکیل اور تنفیذ صرف اس صورت میں بامعنی ہو سکتی ہے، جب دین دار عوام ان حدود کے مطابق خود کو ڈھالیں، اور پوری باریک بینی سے مرتب کی گئی سماجی اقدار اور ترجیحات کو معمول بنائیں۔ مثال کے طور پر شمالی ہندوستان میں وسیع پیمانے پر رائج  تفریحی سرگرمیوں (جو آج تک جنوبی ایشیا میں جاری ہیں)، جیسے پتنگ بازی، تاش اور شطرنج، بٹیروں اور مرغوں کی لڑائی کے مقابلے اور جانوروں کے شکار سے متعلق ان کی بحث کو ملاحظہ کیجیے۔ ان اعمال کو ممنوع قرار دینے کے ساتھ ساتھ مولانا احمد رضا خان ایک قدم آگے بڑھ گئے۔ انھوں نے جزئی تفصیلات کے ساتھ بتایا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے، جو ان جیسے اعمال میں شرکت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر خان صاحب نے ہدایت کی کہ اگر کسی ایسے شخص سے آمنا سامنا ہو، جو مرغوں کی لڑائی کے مقابلے منعقد کرتا ہے، یا کبوتر بازی میں گھنٹے صرف کرتا ہے، تو افضل یہی ہے کہ اسے سلام نہ کیا جائے۔ اور اگر وہ سلام کرے تو یہ ضروری نہیں کہ اس کے سلام کا جواب دیا جائے۔  خان صاحب کے تصورِ شریعت میں یہ کافی نہیں تھا کہ کسی عمل کو صرف شرعاً ناجائز قرار دیا جائے۔ شرعی ممانعت کے ساتھ ساتھ عوامی دائرے میں اس عمل سے براءت کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔ شرعی حدود سے تجاوز کے مرتکبین کی نہ صرف یہ کہ علمی تردید کی جائے، بلکہ سماجی طور پر بھی ان سے براءت اور اگر ضروری ہو تو قطع تعلق بھی کرنا چاہیے20۔

تفریح کے لیے جانوروں کے شکار کی ممانعت کے متعلق خان صاحب کے استدلال سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ عوام کو ایک مخصوص معنوں میں دین دار دیکھنا چاہتے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ شکار بالکل جائز ہے اگر اس سے کسی مفید مقصد کی تکمیل ہوتی ہو۔ مثال کے طور پر خوراک یا دوائی یا کسی اور مفید مقصد کی غرض سے شکار میں کوئی حرج نہیں۔ مچھلی پکڑنا یا شکار کرنا اس صورت میں ناجائز ہے، جب اس کا مقصد کھیل کود یا تفریح ہو۔ لیکن یہ پتا کیسے چلے گا کہ شکار کا مقصد تفریح ہے، یا کوئی جائز مقصد جیسے خوراک کا حصول؟ تفریح اور ضرورت/مقصد کے درمیان تفریق کے لیے بنیادی پیمانہ کیا ہے؟ یہاں پر خان صاحب کا جواب بہت دل چسپ ہے، کیوں یہ پوری وضاحت کے ساتھ ان کی تنقید کی افادی بنیادوں کو سامنے لاتا ہے۔

مولانا احمد رضا خان نے بتایا کہ ہمارے عہد کے متمول اشراف کے مسرفانہ اور لایعنی طرز عمل کو جاننے کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ اپنی روزمرہ زندگی میں ذرہ برابر جسمانی مشقت کے روادار نہیں۔ جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں: "یہ مال دار شکاری اس قدر خود پسند ہیں کہ طعام ولباس کی بنیادی ضروریات کی خریداری کے لیے گھر سے نکلنے کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں۔ یہ اس قدر آرام طلب ہیں کہ نماز پڑھنے کے لیے دھوپ میں دس قدم تک چلنے سے گریز کرتے ہیں"21۔

خان صاحب طنز وتضحیک کے پیراے میں اپنی گفتگو جاری رکھتے ہیں: "یہ سوچنا لغو ہے کہ ایسے لوگ طعام کے حصول کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑیں گے، اور تپتے صحراؤں کی چلچلاتی دھوپ میں گھنٹوں پیدل چلیں گے اور رکیں گے، جہاں انھیں ہر طرف سے گرم ہوا کے تھپیڑے پڑتے ہیں"22۔ اپنے قارئین کو ایک بدیہی بات سمجھاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ شکار سے کئی گنا آسان طریقے سے مثلا مقامی بازار سے مچھلی خرید کر وہ طعام کا حصول کر سکتے ہیں۔ لیکن شکار کے لیے جانے پر اصرار، باوجود یہ کہ اس سے زیادہ آسان طریقے سے طعام کا حصول ممکن ہو، حتمی پیمانہ ہے کہ ان مہمات کا اصل مقصد خوراک یا کسی اور فائدے کے بجائے تفریح اور عیاشی ہے۔ بلکہ اکثر شکار کیے جانے والوں جانوروں کو عام لوگوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، اور شکار کرنے والے شاذ نادر اسے پکاتے اور کھاتے ہیں۔ ان تمام امور یہ بات یقینی ہو گئی کہ یہ شکار محض ایک کھیل کود ہے، اور لوگ جو یہ کھیل کھیلتے ہیں، انھیں اپنے بھوک کو مٹانے یا کسی اور ٹھوس مقصد کو پورا کرنے میں بمشکل کوئی دل چسپی ہوتی ہے۔

ان چیزوں کو ناجائز قرار دینے کے پیچھے خان کا بنیادی مقصد ایک ایسے اخلاقی نظام کی تشکیل تھا، جو فضول مشاغل، اسراف اور زندگی وفطرت کو کھیل کود اور تفریح جیسے غیرضروی مقاصد کا ذریعہ بنانے کی حوصلہ شکنی کرتا ہو۔ ایک اور بات یہ، اگر چہ خان صاحب نے اسے اس انداز میں بیان نہیں کیا، لیکن انھوں نے 'بامقصد' شکار پر جو زور دیا، اس سے جانوروں  کی حفاظت اور تقدس اور غیر ضروری انسانی تسکین کے لیے اس کی پاے مالی ناجائز قرار پائی۔ اگرچہ یہ کسی طرح سے جانوروں کے ایک حقوق کے کارکن کا موقف نہیں، تاہم یہ نوٹ کرنا دل چسپ ہوگا کہ خان صاحب کے اختیار کردہ ایک ٹھیٹھ روایتی فریم ورک میں اس طرح کے موقف کے لیے کچھ گنجائش نکل آتی ہے۔

شادی بیاہ کی رسومات پر تنقید

شادی بیاہ کی رسموں پر بے رحم تنقید کے حوالے سے مولانا احمد رضا خان اپنے سب سے بڑے حریف مولانا اشرف علی تھانوی سے انتہائی مشابہت رکھتے ہیں۔ مولانا تھانوی کی طرح (آٹھویں باب کا آخری حصہ دیکھیے) خان صاحب کے نزدیک بھی ہندوستانی شادیاں تمام مکروہ اعمال کی گڑھ تھیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات کسی بھی رسم سے زیادہ عوام میں رائج تمام اخلاقی وباؤں کو ایک ساتھ جمع کرتی ہیں۔ ان میں فضول خرچی، مرد وزن کا آزادانہ اختلاط، جھوٹی شان وشوکت، معاشی دیوالیہ پن اور بعض اوقات قابل اعتراض رسمیں، اور غیرمسلموں (بالخصوص ہندؤوں) کے تہواروں کی تقلید شامل ہیں۔ یہ سب مفسدات عوام کے تقوی اور آخرت کو برباد کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی معاشی حیثیت اور طاقت کو بھی گھٹاتے ہیں23۔  

شادی بیاہ کی جس سرگرمی پر خان سب سے زیادہ برافروختہ ہیں، وہ گانا بجانا اور موسیقی کی محفلیں ہیں، جن میں عام طور پر عورتیں شرکت کرتی ہیں۔ ان تقریبات میں جو گانے گائے جاتے ہیں، وہ عام طور پر فحش اور بازاری جملوں پر مشتمل ہوتے ہیں، اور اس میں غیر شرعی جنسی رویوں کا بار بار ذکر آتا ہے۔ بجاے شرمندہ یا نادم ہونے کے وہاں پر جمع عورتیں بمشکل اپنے زوردار قہقہوں کو روک پاتی ہیں۔ جوان اور غیر شادی شدہ لڑکیاں یہ بے ہودہ تماشے اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں، اور اس سے اثر لیتی ہیں، جب کہ "بے شرم، بے پروا، بے دماغ اور نکمے مرد" ان کے خلاف ایک لفظ نہیں کہتے، اور بغیر کسی رکاوٹ کے ان سب کو چلنے دیتے ہیں24۔ مولانا احمد رضا کے تجزیے کے مطابق ہندوستانی مسلمانوں نے یہ قابل اعتراض عادتیں ہندؤوں سے سیکھی ہیں۔ "یہ ناپاک اور ملعون رسمیں بے تمیز گدھوں اور احمق جاہلوں نے ملعون ہندو شیطانوں سے سیکھی ہیں"25۔ اس عبارت میں خان صاحب کے الفاظ سے واضح ہے کہ انھیں ان رسموں سے کس قدر شدید نفرت تھی۔

ایک بار پھر ان کے احتجاج میں مرکزی نکتہ 'غیروں' کی اندھی نقالی ہے۔ میری پیش کردہ سابقہ مثالوں کی طرح بعینہ یہاں بھی خان صاحب کو جو اصل خدشہ لاحق ہے، وہ روزمرہ معاشرت کے اقدار کی تشکیل ہے۔ اس خدشے کی واضح نشانی یہ ہے کہ انھوں نے نہ صرف ان 'مفسد اعمال' کی نشان دہی کی، جو ان کی نظر میں ہندوستانی شادیوں میں سرایت کر چکے تھے، بلکہ انھوں نے واضح ہدایات بھی دیں کہ اگر کوئی شادی بیاہ میں شرکت کرتے وقت ان اعمال کو دیکھے، تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ جوں ہی مہمانوں کو شادی میں شرکت کے دوران بداخلاقی کے مظاہر جیسے فحش گانوں کے بارے میں پتا چلے، انھیں چاہیے کہ  فوراً‌ اٹھ کھڑے ہو جائیں، اور وہاں سے باہر چلے جائیں۔ انھوں نے پرزور انداز میں کہا: "اپنی بیویوں، بیٹیوں، ماؤں اور بہنوں کو ایسی فحش تقریبات میں شرکت پر مجبور نہ کریں"26۔ بلکہ اصل تو یہ ہے کہ لوگ ایسی شادیوں میں سرے سے شرکت نہ کریں۔

لوگ انھیں اپنی خوشیوں کا دشمن نہ سمجھ بیٹھیں، اس لیے انھوں نے واضح کیا کہ وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں خوشی منانے کی تمام صورتوں کے مخالف نہیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں، جب تک شریعت کی حدود پائمال نہ کی جائیں۔ تو شرعاً جائز شادی کی صورت کیا ہوگی؟ شریعت کی نظر میں قابل قبول شادی بیاہ کی تقریب کے لیے نمونہ پیش کرتے ہوئے خان صاحب رسول اللہ ﷺ کے دور میں رائج رسموں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ شادی کی خوشیاں منانے کے لیے دف بجانے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی یہ رائج تھا۔ یا مثلاً مدینہ میں عام رواج تھا کہ دولہن کے گھر میں پہنچنے پر سادہ اشعار کہے جاتے تھے جیسے: "ہم آپ کے ہاں آئے ہیں، ہم آپ کے ہاں آئے ہیں، اللہ  ہمیں بھی زندگی دے، اور تمھیں بھی" (أتيناكم أتيناكم فحَيَّانا فحيَّاكم)27۔ خان صاحب کے نزدیک ان مناسب کلام میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن جلد ہی وہ یہ اضافہ کرتے ہیں کہ ہندوستان میں اس قدر آزادی بھی مناسب نہیں۔ کیوں؟ اس لیے اگر ہندوستانی عورتوں کو اس کی اجازت دی جائے، تو کوئی امید نہیں کہ وہ ان کے لیے مقررہ حدود کی پابندی کریں گی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ شادی بیاہ کے دوران اس قسم کے کسی بھی عمل پر مکمل پابندی عائد کی جائے، تاکہ "سرے سے فتنے کا دروازہ ہی بند کیا جائے"28۔

شادیوں سے "بازاری اور فاحشہ فاجرہ" عورتوں جیسے رنڈیوں اور ڈومنیوں(نیچ ذات کی گانا گانے والی لڑکیاں) کے نکال باہر کرنے کے سلسلے میں مولانا احمد رضا خان بطورِ خاص بے لچک تھے29۔ اس بابت ان کے استدلال سے ان کے نازک طبقاتی شعور کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔ ایسی خواتین سے نہ صرف اس وجہ سے دور رہنا چاہیے کہ ان کے لیے شرعی حدود کی پاس داری ناممکن ہے، بلکہ اس سے زیادہ اہم تر یہ ہے کہ وہ دیگر 'شریف زادیوں' کو بھی نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ خان صاحب کے اپنے الفاظ میں: "اخلاقی طور پر کم زور اور خراب خواتین کو شریف زادیوں سے دور رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ (ان خواتین کی) صحبتِ بد زہرِ قاتل ہے"۔30 وہ اپنی بات کو اس ادعا پر ختم کرتے ہیں، جس سے ان کے تصوّرِ صنف کی واضح تصویر سامنے آتی ہیں: "خواتین شیشے کی طرح ہیں، اگر وہ ٹوٹ جائیں، تو تباہ ہو جاتی ہیں"31۔ خان صاحب کی واعظانہ بے چینی طبقے اور صنف کو یک جا کرکے واضح انداز میں سامنے لاتی ہے۔ اگر چہ تمام عورتوں کی یہ صلاحیت مشکوک ہے کہ وہ شریعت کی حدود کی پاس داری کر سکیں، تاہم نیچ طبقات اور ذاتوں کی عورتوں میں یہ امکان بھی ہے کہ وہ دیگر عورتوں کو خراب کریں۔ وہ اخلاقی اور سماجی نظام کے استحکام کے لیے اساسی خطرہ ہیں، ایک ایسا نظام جو عورت کے جسم کی پاکیزگی میں جھلکتا، اور اسی پاکیزگی سے اسے استحکام ملتا ہے، ایک ایسا جسم جو شیشے کی طرح نازک ہے، جو ہمیشہ موت اور بربادی کو قبول کرتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ شادی بیاہ کی تقریبات کے لیے اقدار وضع کرنے میں مولانا احمد رضا خان نے کوشش کی کہ اس بھورے آدمی کا کردار ادا کرے، جو بھوری عورت کو دوسری بھوری عورت سے بچاتا ہے۔

اور شادی بیاہ کی رسموں پر خان صاحب کی تنقید کے حوالے سے آخری بات: ہندوستانی مسلمانوں کی شادی بیاہ پر ان کی تنقید کے اخلاقی اور قانونی پہلوؤں کا ایک گہرا ربط سماجی اور معاشی زوال سے بھی تھا۔ انھوں نے بتایا کہ شادی بیاہ کے رسم ورواج پر لوگوں کا شدید اصرار معاشی بدحالی پر منتج ہوا ہے۔

اخلاقی اور سماجی ومعاشی زوال کے درمیان موازنے کی بہترین عکاسی مولانا احمد رضا خان  کے ان الفاظ میں ہوئی ہے: "کچھ لوگ شادی بیاہ کی رسموں پر ایسے فریفتہ ہو گئے ہیں کہ اگر انھیں پورا کرنے کے لیے انھیں گناہ کرنا پڑے، تو بھی وہ دریغ نہیں کرتے، لیکن رسم کو بہرصورت نہیں چھوڑیں گے۔ وہ بھاری شرح سود پر قرضے لیتے ہیں، اور اس کے نتیجے میں اپنی جاے داد اور گھروں تک سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں"۔ یہی وہ فضول خرچیاں ہیں جس نے (ہندوستانی) مسلمانوں کی جاے دادوں اور اثاثوں کو برباد کر ڈالا ہے"32۔  جیسا کہ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے دیوبندی حریفوں کی طرح اخلاقی اور معاشی نظام ناقابل علیحدگی ہیں۔ مزید برآں جس قدر کوئی شخص خدائی قانون کو پائمال کرکے اخروی زوال کا شکار ہوتا ہے، اسی قدر اس کی دنیوی طاقت اور فلاح وبہبود کو بھی زوال ہوتا ہے۔

گزشتہ صفحات میں میرا بنیادی مقصد یہ تھا کہ کافی شواہد جمع کرکے (اس کے علاوہ مزید بہت سے شواہد ہیں) اس تصور کو رد کروں کہ مولانا احمد رضا خان کے پاس دینی یا اخلاقی اصلاح کا کوئی معقول پروگرام نہیں تھا۔ اب یہ واضح ہو گیا ہوگا کہ دیوبندی بریلوی اختلاف کو اصلاح پسندوں یا مخالفینِ اصلاح کے درمیان بحث ومباحثے سے تعبیر کرنا فکری اور تجربی دونوں اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ خان صاحب اور ان کے دیوبندی حریفوں میں شدید اختلاف کے باوجود یہ امر مشترک تھا کہ وہ عوام کی اصلاح کو ایک فوری نوعیت کا تقاضا سمجھتے تھے۔ مزید برآں نہ صرف یہ کہ ان کی تنقید کا موضوع ایک جیسا تھا (جیسا کہ شادی بیاہ کی صورت میں)، بلکہ صنف، طبقے اور شریعت کے محافظین کی حیثیت سے اپنے کردار کے بارے میں ان کا تصور بھی تقریباً ایک جیسا تھا۔ اگر چہ دیوبندیوں کی طرف بعض رسموں جیسے مولد کی مخالفت کو خان صاحب نے پرزور انداز میں رد کیا، لیکن وہ خود بھی عوامی رسموں اور روزمرہ کی عادات کی تردید میں بعض اوقات ان سے بھی زیادہ کرخت تھے۔ وہ کوئی آزاد منش صوفی نہ تھے۔

اس کے برعکس شریعت کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی عوامی صلاحیت کے بارے میں ان کی راے بھی زیادہ خوش گمانی پر مبنی نہ تھی، اور یہ ان کے مذہبی تصور میں مرکزی نکتہ تھا۔ اگر ان کے دیوبندی مخالفین سے ان کا موازنہ کیا جائے، تو وہ بھی ہندوستان کے عام مسلمانوں کی روزمرہ زندگی کی کارکردگی سے اگر ان سے زیادہ نہیں تو ان سے کم بھی غیرمطمئن نہ تھے۔ اور جیسا کہ میں نے دکھایا ہے انھوں نے اس عدم اطمینان کا برملا اظہار کیا ہے، اور پورے لگن اور جذبے سے اصلاح کی ایک ایسی حکمت عملی وضع کی ہے، جو ان ان مسائل کو حل کرے۔

مذہبی تشکیل کے سیاسی تصورات پر ایک نظر

لیکن مولانا احمد رضا خان اور علماے دیوبند کے بعض پروگراموں اور مفروضوں کے درمیان مشترکات سے ہمیں ان کے درمیان موجودہ اختلافات کی شدت اور حیثیت کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔ اگر چہ یہ دونوں گروہ مثلاً شادی کے عوامی رسموں کے ایک جیسے ناقدین ہو سکتے ہیں، لیکن فقہ، عقائد اور رسمی اعمال کے باہمی تعامل کے حوالے سے ان کی تفہیمات ایک دوسرے کے یک سر مخالف تھیں۔ اس اختلاف میں سب سے بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ کسی سماج کی اخلاقی بھلائی کے تصور کے ساتھ قانون الٰہی کے تعامل کی شکل کیا ہو؟ خان صاحب کے نزدیک کسی سماج کی اخلاقی بھلائی کا تصور بڑی حد تک خدائی منشا کی عکاس ہے۔   خان صاحب نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث: جو مسلمانوں کو بھلا لگے، وہ اللہ کے ہاں بھی بھلا ہے (ما رآه المسلمون حسناّ فهو عند الله حسنٌ)33 کا مفہوم یہی ہے۔ منشاے الٰہی اورسماج کی عملی زندگی میں اکثر وبیش تر ہم آہنگی ہوتی ہیں، اگر چہ بعض اوقات ان میں عدم مطابقت کا پہلو بھی ہوتا ہے، جو فوری توجہ اور اصلاح کا طالب ہوتا ہے۔ اس لیے جب کسی سماج کا عرف وعادت صراحتاً شریعت کے مخالف نہ ہو (یہ بہت اہم شرط ہے)، اس وقت تک اسے علما کی مکمل نظرثانی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علما کا کام یہ ہے کہ وہ قانونِ الہی کی مقررکردہ مستقل اقدار کی ابدیت کا تحفظ کریں، بجاے اس کے کہ وہ ان اقدار کو پائ مال کریں، اور ان کی نظر میں دیوبندی اس جرم کے مرتکب ہیں۔ خان صاحب نے اس اصولی موقف پر زور دیا، بالخصوص ایسی رسموں کے معاملے، جن سے رسول اللہ ﷺ کی تعظیم ہوتی ہو مثلاً عید میلاد النبی۔

لیکن میں نے اس باب کے گزشتہ حصے میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ رائج اقدار کے تسلسل پر زور دینے کا مطلب عوام کو کھلی چھوٹ دینا نہیں تھا کہ وہ جو چاہیں کریں۔ یہاں پر اہم نکتہ ان کا یہ اصولی استدلال ہے کہ سماج کے دینی اعمال اور رسموں میں شریعتِ الہی کی مقرر کردہ اقدار کا تسلسل ضروری ہے۔ اور یہ استدلال ایک مراتبی کونیات (hierarchical cosmology) پر مبنی تھا، جو تمام مخلوقات میں سب سے برتر ہستی کی حیثیت سے رسول اکرم ﷺ کے مقام ومرتبے کا دفاع کرنے کے لیے پرجوش انداز میں متحرک تھا۔ یہ استدلال عوام کے لیے نرمی یا لچک کی بنیاد پر نہیں تھا۔   

خلاصۂ کلام یہ کہ آخری تین ابواب میں روایت واصلاح کے دو متوازی تصورات کا بنیادی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ خان صاحب اور بریلوی مسلک کے برعکس اکابر دیوبند کے اصلاحی ایجنڈے کا زور تسلسل کے بجاے مکمل تبدیلی پر تھا۔ ان کی نظر میں اصلاح کا مطلب کسی سماج کی عادات کی مکمل تبدیلی اور اس کے تسلسل کو روکنا ہے۔ شاہ محمد اسماعیل اور علماے دیوبند نے ماضی کی ان عادتوں اور رسموں کو ترک کرنے کی دعوت دی، جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) کی مکمل انفرادیت کے لیے خطرہ تھیں۔

مولانا احمد رضا خان نے روایت اور اصلاح کا ایک متوازی تصور پیش کیا۔ ان کے نزدیک اصلاح کا بنیادی مقصد مستند روایات کا تحفظ ہے، نہ کہ ان کی از سرِ نو ایجاد۔ انھوں نے بتایا کہ عملی زندگی کو مکمل تبدیل کرنے کا دیوبندی جذبہ بے جا اور غیرمعتدل ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے دیوبندی حریفوں پر الزام عائد کیا کہ وہ ان رائج رسوم وروایات کو سبوتاژ کر رہے ہیں، جو سماج کو اخلاقی رہ نمائی فراہم کرتے ہیں، اور حضور ﷺ اور دیگر مثالی دینی شخصیات کی تقدیس کرتی ہیں۔ خان صاحب کہتے ہیں کہ رسوم کو بہت سی خرابیوں سے پاک کرنے کے بہانے شاہ محمد اسماعیل اور علماے دیوبند نے عوام پر جائز نیک اعمال کا دروازہ بند کیا۔ ایسا کرنے سے وہ قانونِ الہی میں تحریف کے مرتکب بھی ہوئے، کیوں کہ انھوں نے ایسے اعمال سے روکا جس سے خدا نہیں روکا ہے، اور جنھیں صدیوں سے واجب الاحترام مسلمان علما جائز کہتے آئے ہیں۔ اس لیے خان صاحب کی نظر میں علماے دیوبند نے نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی تعظیم پر مشتمل رسموں کو ناجائز قرار دیا، بلکہ انھوں نے موقر علما کے فیصلوں کی حجیت پر سوال اٹھا کر ان کے استناد کو بھی چیلنج کیا۔ المختصر انھوں  نے اپنے دیوبندی مخالفین پر الزام لگایا کہ وہ شریعت میں اس طرح سے تحریف کر رہے ہیں، جس سے اس کا تسلسل مجروح ہوتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ کی امتیازی حیثیت متاثر ہوتی ہے۔   

بلکہ میرے پیش کردہ تجزیے سے مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین کے درمیان میں جو بنیادی اختلاف راے سامنے آتا ہے اس کا ماحصل اس باریک نکتے پر اختلاف ہے کہ اس صورت میں کیا لائحۂ عمل اختیار کیا جائے جب رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کے لیے کیے جانے والے جائز اعمال میں فساد واقع ہو جائے؛ اس طریقے میں یا اس نیت میں، جس کے ذریعے عوام ان (جائز اعمال) میں شرکت کرتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کی نظر میں ایسی صورتِ حال میں ان اعمال کو بالکلیہ مسترد کرنے کے بجاے علماے دین کو چاہیے کہ ان میں پیدا ہونے والے فساد کی اصلاح اور تصحیح کریں۔ دوسرے لفظوں میں خان صاحب کے نزدیک ایسے اعمال کو ناجائز نہیں ٹھہرانا چاہیے جو رسول اللہ ﷺ کی تعظیم اور اس طرح کے دیگر پاکیزہ مقاصد کے حصول کے لیے ہوں۔ اس کے برعکس علماے دیوبند کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) کے لیے ممکنہ خطرے کا ازالہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم یا نیکی کی کسی بھی دوسرے غیر واجب عمل پر فوقیت رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک عوام کے طرز عمل کی خرابی اس قدر مہلک ہے کہ اس کی بحالی یا اصلاح کا کوئی امکان نہیں، اس لیے ان اعمال کو ناجائز قرار دینا ہی واحد مناسب حل ہے۔ اس باریک اصولی اختلاف کو فقہ اور تصوف کے درمیان بنیادی اختلاف کے طور پر نہیں لیا جا سکتا، نہ  سخت گیر/لچک دار، اصلاح پسند/مخالفِ اصلاح اور جدت پسند/قدامت پسند جیسےسطحی تقابلات سے اسے سمجھا جا سکتا ہے، جو اگر چہ سمجھنے میں آسان ہیں، لیکن نتیجتاً انتہائی گمراہ کن ہیں ۔   

اس نکتے کو مزید پھیلاتے ہوئے میں مذہبی تشکیل کے سیاسی نظام(political theology) کے اس تصور کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، جو اس کتاب کے اکثر حصے میں کار فرما ہے۔ بریلوی اور دیوبندی اکابر کی برپا کردہ متحارب تحریکوں کی اساس سیاسی استدلالات اور مفروضات تھے۔ اگر چہ یہ استدلالات اور مفروضات پوری وضاحت کے ساتھ مُرتَّب نہیں کی گئی ہیں۔ سیاست سے میری مراد ریاست یا انتخابی سیاست کے بارے میں ان کے تصورات نہیں بلکہ فرد، سماجی نظام اور فرد اور معاشرے کے محافظین کی حیثیت سے ان کے مذہبی استناد کے درمیان تعامل کو وہ کیسے سمجھتے تھے۔ خلاصۂ کلام یہ کہ دیوبندی بریلوی کش مکش سماج کے ساتھ فرد کے تعلق کے تصورات میں کار فرما اختلافات کو سامنے لائی۔ دیوبندی تصوراتِ اصلاح میں فرد کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے آپ میں روزمرہ کی صورتِ احوال اور سماجی دباو کو رد کرنے کی صلاحیت پیدا کرے۔ فرد معاشرے سے فاصلہ رکھتے ہوئے اسے مکمل تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔

توحید کی تقویت اور تحفظ اور حال کو عہدِ نبوی کے مطابق ڈھالنا اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ فرد کے اندر آئے روز کے فسادات سے آلودہ سماجی نظام کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کی جائے۔ نتیجتاً اس امر کی ضرورت ہے کہ ایسے دین دار افراد پیدا کیے جائیں، جو شریعتِ الہیہ سے واقف ہوں، اور فاسد سماجی نظام کی اصلاح کریں۔ فرد ایک واسطہ ہے، جو ایک ایسی دنیا پر اثرانداز ہوگا، جس سے وہ فاصلے پر رہے گا، اور جو بیمار اور فاسد دنیا کا علاج شریعتِ الٰہیہ کی جراثیم کش دوا سے کرے گا۔ ایسے تصورِ جہاں میں مذہب کی حدود سماج کے تغیر پذیر حالات سے باہر خارج میں وجود رکھتی ہیں۔ مذہبی احکام ایک قادرِ مطلق ذات کی طرف سے آتے ہیں، جو تاریخ کی افراتفری سے ماورا ہے۔ مذہب ایک ایسی خدائی طاقت اور عہد نبوی کی نمائندگی کرتا ہے، جو دین دار افراد کے توسط سے خارجی دنیا سے متصادم ہے۔

اور بدعت مذہب کے اسی تصور کو خارجی دنیا سے آنے والے دباو اور نظاموں سے گڈ مڈ کرنا ہے، ایسی منہیات، عادات اور دباو جن کا سرچشمہ سماج ہے، اور جسے دیوبندی خود ساختہ شریعت کہتے ہیں۔ لیکن یہ تصور تضادات سے بھرپور ہے۔ اکابر دیوبند ایک طرف فرد کو یہ ذمہ داری سونپتے ہیں کہ وہ سماج سے فاصلے پر رہ کر سماج کی بنائی رسم ورواج کو رد کرے، اور دوسری طرف وہ عوام کو مال مویشی قرار دیتے ہیں، جنھیں علما کی قیادت اور رہ نمائی پر انحصار کرنا چاہیے۔ دین دار فرد کے لیے اس وقت  خارجی دنیا میں خدائی شریعت کی تنفیذ ممکن ہے، جب وہ ایک عالم کے مذہبی استناد کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ یہ امکان علما کی مداخلت اور رہ نمائی کے بغیر ناممکن ہے۔

مولانا احمد رضا خان اور ان کے بریلوی پیروکار اس تصورِ جہاں کے بہت سے پہلوؤں سے متفق ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ وہ بھی دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی عوامی صلاحیت سے خاصے غیر مطمئن تھے۔ تاہم ان کی فکر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فرد اور سماج کے درمیان علیحدگی کے اس حد تک قائل نہ تھے۔سب سے اہم بات یہ کہ سماج میں تمام تر خرابیوں کے باوجود سماجی رسوم ہی وہ بنیادی ذریعہ ہیں جو مثلاً عید میلاد النبی ﷺ جیسی رسموں کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی یاد کو زندہ وتابندہ رکھتی ہیں۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ سماج سے گہرا ربط رکھتے ہیں، جس کی بہترین عکاسی میلاد کے وقت ان کی موجودگی سے ہوتی ہے۔ میلاد کے دوران جب نبی اکرم ﷺ کی شان میں مدحیہ قصائد پڑھے جاتے ہیں، تو وہ وہیں موجود ہوتے ہیں۔ دین دار فرد کو چاہیے کہ وہ عالم کی رہ نمائی سے روزمرہ زندگی کے نشیب وفراز کی اصلاح ونظرثانی کرے۔ لیکن یہ اصلاح سماج میں رائج دینی فوائد کے حامل رسموں کی بیخ کنی کا ذریعہ نہ ہو، اور اس عمل میں بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی تقدیس پر مشتمل امور کو بند نہ کیا جائے۔ سماج کے ساتھ انسانی تعامل ہی کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی برتر ی دین کی امتیازی علامت کی حیثیت سے قائم، نافذ اور جاری ہے۔

علما کا مذہبی استناد ایک ایسی سماجی ساخت کے تحفظ سے مربوط ہے، جس کا کام جذباتی اور بیانی انداز میں رسول اللہ ﷺ کے وجودی امتیاز کو برقرار رکھنا ہے۔ اور یہ صرف اس وقت ممکن ہے جب فرد کا رخ سماج کی طرف ہو: فرد اگر چہ سماج کے کاموں پر غیر مطمئن ہو، تاہم اس سے جڑا ہوا ہو۔ اسی طرح قانون، زمنیت اور تاریخ کی متوازی تفہیمات جنھوں نے بریلوی دیوبندی مخاصمت کی تشکیل کی، وہ ایک اخلاقی نظامِ سیاست کے متوازی تصورات پر مبنی تھیں۔ بدعت کے معنی اور حدود پر ان کے اختلاف کی تہہ میں کارفرما ایسے سیاسی نظریات تھے، جو فرد اور سماج کے درمیان تعلق اور اس تعلق کو متوازن رکھنے کے لیے علما کے مقام کو واضح کرتے تھے34۔

بدعت کی حدود پر خان صاحب اور علماے دیوبند کے درمیان سنجیدہ اختلافات کے باوجود خان نے ان کی تکفیر اس بنیاد پر نہیں کی۔ اس فتوے کی ایک خاص وجہ تھی، اور وہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب سے متعلق علماے دیوبند کی متعدد متنازعہ عبارات تھیں۔ یہ بحث علم، حاکمیت اور نبوی اقتدار کے درمیان تعلق پر متوازی نظریات سے وجود میں آئی۔ اس بحث کا ایک گہرا تجزیہ ان مسلکی حساسیتوں کی تفہیم کو مزید بہتر کرے گا، جنھوں نے روایت کے دیوبندی اور بریلوی تصورات کو تقسیم کیا۔ اگلے باب میں یہی موضوع زیر بحث رہے گی۔


حواشی

  1.  یاسین اختر مصباحی، امام احمد رضا: ردِّ بدعات ومنکرات (کراچی: ادارۂ تصنیفاتِ امام احمد رضا، 1985)، 529۔
  2.  ایضاً۔
  3.  ابن الہمام، شرح فتح القدیر (بیروت: دارالفکر، 1900)، بحوالہ الفتاوی الرضویہ (گجرات: مرکزِ اہل سنت، 2006) میں إقامة القيامة على طاعن القيامة لنبي تهامة، 26: 530۔
  4.  احمد رضا خان، إقامة القيامة، 531۔
  5.  فیصل دیوجی، Gender and the Politics of Space: The Movement for Women’s Reform in Muslim India, 1857 – 1900، ساوتھ ایشیا: جرنل آف ساؤتھ ایشین سٹڈیز 14، نمبر 1 (1991): 150۔
  6.  ا۔ خان، إقامة القيامة، 536۔
  7.  ایضاً، 534۔
  8.  ایضاً، 536۔
  9.   ایضاً، 467 – 68۔
  10.  ایضاً، 468۔
  11.   ایضاً، 534 – 35۔
  12.   ایضاً، 535۔
  13.  ایضاً، 459۔
  14.   ایضاً، 459 – 60۔
  15.   ایضاً، 460۔
  16.  ایضاً۔
  17.  شیر علی ترین، Contesting Friendship in Colonial Muslim India، ساؤتھ ایشیا: جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈیز 38، نمبر 3 (اگست 2015): 419 – 34۔
  18.  دیکھیے ایضاً۔
  19.  ایضاً، 426 – 32۔
  20.  مصباحی، امام احمد رضا، 540۔
  21.  ایضاً۔
  22.  ایضاً۔
  23.   ایضاً، 543 – 49۔
  24.  ایضاً، 544۔
  25.  ایضاً۔
  26.  ایضاً، 545۔
  27.  ایضاً۔
  28.   ایضاً، 546۔
  29.  ایضاً؛ یہ بات دل چسپی سے خالی نہ ہوگی کہ انیسویں صدی کے اوخر میں رنڈی کی اصطلاح ناچنے والی لڑکی کے لیے استعمال ہوتا تھا، اور آج کل یہ قحبہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
  30.  ایضاً۔
  31.  ایضاً۔
  32.   ایضاً۔
  33.  الحاکم النیشاپوری، المستدرك على الصحيحين في الحديث (بیروت: دارالفکر، تاریخ اشاعت ندارد)، 3 : 78، بحوالہ: ا۔ خان، إقامة القيامة، 513۔
  34.  میں ڈیوڈ گلمارٹن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے اس تصور کے امکان کی تجویز دی۔


اگست ۲۰۲۳ء

قادیانی مسئلہ: مذہبی بیانیے کی تنقید وتجزیہ کی ضرورتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۶)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبی تعلق کا فائدہ؟ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہاماتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۲)مولانا محمد بھٹی
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۹)ڈاکٹر شیر علی ترین

قادیانی مسئلہ: مذہبی بیانیے کی تنقید وتجزیہ کی ضرورت

محمد عمار خان ناصر

حالیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر بعض مذہبی تنظیموں  کی طرف سے  سوشل میڈیا پر یہ مہم چلائی گئی کہ

’’تعزیرات پاکستان کی دفعہ ۲۹۸ سی اور  عدالتی نظائر قادیانیوں کو پابند کرتے ہیں کہ وہ خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے اور نہ ہی شعائر اسلامی کا استعمال کر سکتے ہیں جس کی خلاف ورزی قابل دست اندازی  جرم ہے اور سزا تین سال قید اور جرمانہ ہو سکتا ہے۔ لہذا اگر کوئی قادیانی قربانی یا عید کی نماز کا اہتمام کرے تو معززین علاقہ کے ساتھ پولیس انتظامیہ کو اطلاع دیں۔“

راقم الحروف نے   اس پر یہ وضاحت جاری کی کہ

’’اہل اسلام یہ ذمہ داری ضرور ادا کریں، لیکن یہ سمجھ لیں کہ آئین اور قانون میں دراصل پابندی کس بات کی ہے۔ سپریم کورٹ کی تشریح کی روشنی میں قادیانیوں کے خود کو مسلمان ظاہر کرنے یا اسلامی شعائر کے اظہار سے لوگوں کو یہ تاثر دینے پر قانونی پابندی ہے، لیکن وہ اپنی چاردیواری میں ہر وہ مذہبی عمل کر سکتے ہیں جو ان کا مذہب انھیں سکھاتا ہے۔ اس لیے ان کی چار دیواری کے اندر مداخلت کرنے یا اس پر ہنگامہ کھڑا کرنے کا، آئین مسلمانوں کو حق نہیں دیتا، بلکہ قادیانیوں کو مذہبی تحفظ دیتا ہے۔ اس وضاحت کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرور یہ ذمہ داری ادا کریں۔“

اس وضاحت میں قانون کی جو  تشریح پیش کی گئی ہے،  وہ  اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں  پر مبنی ہے۔  اس ضمن میں گزشتہ سال جاری ہونے والے سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی تلخیص  الشریعہ کے ایک گزشتہ شمارے میں پیش کی جا چکی ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے  کہ اپنی عبادت گاہ اور چار دیواری کے اندر احمدی اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں اور اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی جا سکتی۔  یہ فیصلہ ایک ایسے مقدمے میں دیا گیا جس میں  بعض مذہبی تنظیمیں  یہ مقدمہ لے کر عدالت میں گئی تھیں کہ قادیانیوں کا اپنے گھر میں قرآن رکھنا قانون کے خلاف اور توہین قرآن کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ وہ مسلمان نہیں، تاہم سپریم کورٹ نے اس پر آئینی اور قانونی پوزیشن واضح کر دی کہ عبادت گاہوں یا گھروں کے اندر متعلقہ آرڈیننس کا اطلاق نہیں ہوتا۔   سپریم کورٹ کے فیصلے کا متعلقہ اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔ فیصلے کی شق نمبر ۱۰ میں فاضل عدالت نے کہا ہے:

To deprive a non-Muslim (minority) of our country from holding his religious beliefs, to obstruct him from professing and practicing his religion within the four walls of his place of worship is against the grain of our democratic Constitution and repugnant to the spirit and character of our Islamic Republic. It also deeply bruises and disfigures human dignity and the right to privacy of a non-Muslim minority, who like all other citizens of this country enjoy the same rights and protections under the Constitution. Bigoted behaviour towards our minorities paints the entire nation in poor colour, labelling us as intolerant, dogmatic and rigid. It is time to embrace our constitutional values and live up to our rich Islamic teachings and traditions of equality and tolerance.  (Crl. P. 916-L/2021)

’’ہمارے ملک کی ایک غیر مسلم (اقلیت) کو  اپنے مذہبی عقائد رکھنے  کے حق سے محروم کرنا اور اسے اپنی عبادت گاہ کے حدود کے اندر اپنے مذہب کا اظہار کرنے یا اس پر عمل کرنے  سے روکنا  ہمارے جمہوری آئین کی  اساسات کے منافی ہے اور ہمارے اسلامی جمہوریہ  کی بنیادی روح اور  اوصاف سے متصادم  ہے۔  یہ شرف انسانی کو اور ایک غیر مسلم اقلیت کی نجی زندگی کے تحفظ کو  بھی بری طرح مجروح اور پامال کرتا  ہے ، جو  آئین کی رو سے اس ملک کے دیگر تمام شہریوں کی طرح  یکساں  حقوق اور تحفظات سے بہرہ ور ہیں۔ اپنی اقلیتوں سے متعلق  تعصب اور نفرت  پر مبنی رویہ  پوری قوم کی ایک منفی تصویر بنا دیتا ہے  اور  ہم پر ایک غیر روادار،  غور وفکر  سے نفور  اور   بند ذہن رکھنے والی قوم  کے القاب چسپاں کرنے کا موجب بنتا ہے۔   وقت آ گیا  ہے کہ ہم اپنی دستوری اقدار کو  دل وجان سے اپنائیں  اور  برابری اور رواداری   کی پر ثروت اسلامی تعلیمات اور روایات  کا نمونہ پیش کریں۔“

یہ واضح رہنا چاہیے کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے میں پہلی دفعہ یہ نہیں کہا گیا کہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کا اطلاق چاردیواری کے اندر احمدیوں کے مذہبی حقوق پر نہیں ہوتا۔ دراصل جب امتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف انسانی حقوق کے منافی ہونے کی بنیاد پر عدالتی چارہ جوئی کی گئی تھی تو وفاقی شرعی عدالت نے اسی فیصلے میں یہ واضح کر دیا تھا کہ آرڈیننس احمدیوں کے نجی حدود میں حق عبادت پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں بھی شرعی عدالت کے اس فیصلے کا متعلقہ اقتباس نقل کیا گیا ہے۔ یہ قانونی تشریح اس نئی مہم کی اجازت نہیں دیتی جس کو فروغ دینے کی کوشش بعض مذہبی تنظیموں نے  کی، یعنی یہ کہ قادیانیوں کو ان کی نجی حدود میں بھی نماز عید کی ادائیگی یا قربانی وغیرہ سے روکا جائے۔

اعلیٰ عدلیہ کی یہ تشریح اس بنیادی نکتے پر مبنی  ہے کہ ہمارے آئین اور قانون میں دو چیزوں کی ضمانت موجود ہے:

ایک یہ کہ احمدی کمیونٹی، مسلمانوں سے الگ ایک مذہبی گروہ ہے جو خود کو مسلمان کے طور پر پیش نہیں کر سکتا اور نہ اسلامی شعائر کے اظہار سے عام مسلمانوں کو دھوکے اور اشتباہ میں ڈال سکتا ہے۔ اسی مقصد سے تعزیری قانون سازی بھی کی گئی ہے۔

دوسری یہ کہ بطور ایک مذہبی اقلیت کے احمدیوں کو بھی دیگر تمام اقلیتوں کی طرح اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کے احکام ورسوم بجا لانے کا حق حاصل ہے، یعنی ان کو غیر مسلم قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اپنے عقیدے کے مطابق جو اعمال وشعائر ان کے مذہب کا حصہ ہیں، ان پر عمل کے حق سے وہ محروم ہیں۔

ان دونوں آئینی ضمانتوں پر بیک وقت عمل کی صورت یہی ہے کہ احمدیوں کو اپنے نجی دائرے میں مذہبی آزادی حاصل ہو اور ان کے مذہبی اعمال ورسوم میں کوئی مداخلت نہ کی جائے، جبکہ عام مسلمانوں کے سامنے یعنی پبلک ڈومین میں ان شعائر کے اظہار سے وہ اپنے مسلمان ہونے کا التباس پیدا نہ کر سکیں۔ یہی آئینی تشریح وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ نے بھی کی ہے اور یہ بالکل واضح اور معقول تشریح ہے۔

البتہ احمدیوں کو دی گئی اس آزادی سے اگر ضمناً‌ پھر بھی مسلمانوں کے لیے اشتباہ والتباس کے کچھ امکانات نکلتے ہیں تو یہ دائرہ علماء اور مذہبی اداروں یا تنظیموں کے کردار ادا کرنے کا ہے۔ وہ پہلے بھی مسلمانوں پر واضح کرتے چلے آ رہے ہیں کہ احمدیوں کو مسلمان امت، مسلمان شمار نہیں کرتی اور اب بھی یہی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے آئین اور قانون میں دی گئی ضمانتوں کی نفی کرنا درست نہیں ہے اور نہ احمدیوں کی عبادت گاہوں یا ان کی اپنی خاص بستیوں میں جا کر انھیں اسلامی شعائر سے روکنے کی مہم چلانا کوئی معقول یا قابل عمل طریقہ ہے۔

علماء اور مذہبی تنظیموں کا کردار اس کے بغیر بھی موثر ہے اور مثال کے طور پر انڈیا یا انڈونیشیا جیسے ممالک میں جہاں احمدیوں کی تکفیر کے حوالے سے کوئی ریاستی قانون سازی موجود نہیں، یہ مقصد سماجی سطح پر مذہبی اہل علم اور اداروں کے کردار ہی کی بدولت کامیابی سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ اس لیے اس اصرار یا خوف کی کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں علماء سماجی سطح پر یہ ذمہ داری ادا کریں تو وہ موثر نہیں ہوگی اور اس کے لیے آئینی ضمانت کی ہی نفی کرنا ضروری ہے۔


تقریباً‌ پانچ سال پہلے قادیانی معیشت دان عاطف میاں کی  کسی حکومتی کمیٹی میں شمولیت کے مسئلے پر  اسی نوعیت کی ایک بحث اٹھی تھی تو  اس موقع پر  ہم نے اس حوالے سے کچھ معروضات  مذہبی حلقوں کے سامنے پیش کی تھیں کہ ۱۹۷۴ء میں  ایک طویل جدوجہد کے بعد جو آئینی فیصلہ   دینی حلقوں کے مطالبے پر کیا گیا تھا اور جسے بجا طور پر   ریاستی قانون سازی کی سطح پر  ایک اہم کامیابی  شمار کیا جاتا ہے،    کیا مذہبی طبقوں کا اس کے بعد کا طرز عمل اور حکمت عملی    اس فیصلے کو تقویت پہنچانے کا موجب  رہی ہے یا   اسے کمزور کرنے  اور  مشتبہ بنانے کا باعث بن رہی ہے۔ ان معروضات کی اہمیت موجودہ تناظر  میں بھی برقرار ہے، اس لیے  یہاں انھیں نقل کرنا  مناسب ہوگا۔

سعدیہ سعید نے اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اس سوال کا سوشیولاجیکل تناظر میں مطالعہ کیا ہے کہ پاکستانی ریاست نے احمدی مسئلے میں تدریجاً‌ اپنی پالیسی کیوں اور کن عوامل کے تحت تبدیل کی ہے۔ سعدیہ نے اس کے تین مراحل متعین کیے ہیں اور انھیں accommodation, exclusion and criminalization کا عنوان دیا ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً‌ بعد کی ریاستی پالیسی، مسلم لیگ کی قبل از تقسیم چلی آنے والی پالیسی کے تسلسل میں، احمدیوں کو مسلم شناخت میں شامل کرنے کی تھی اور قائد اعظم نے نہ صرف احمدیوں کو مسلمان قرار دیا بلکہ سرظفر اللہ کو اپنی کابینہ میں بھی شامل کیا۔ یہ صورت حال ۱۹۵۳ تک برقرار رہتی ہے جب احمدیوں کی تکفیر کا مسئلہ عدالتی سطح پر زیر بحث آیا اور عدالت نے علماء کے موقف کو رد کر دیا۔ اس کے بعد ۱۹۷۴ میں قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کا آئینی فیصلہ کیا گیا اور پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس حوالے سے بعض تعزیری اقدامات کو کتاب قانون کا حصہ بنایا گیا۔ مصنفہ نے اس سوال کا جواب بھی پیش کیا ہے جس کی تفصیل ہمارا موضوع نہیں۔

یہ یقیناً‌ صورت حال کا ایک منظر ہے۔ تاہم صورت حال میں ہونے والی پیش رفت کے صرف یہی ایک پہلو نہیں، بلکہ کچھ اور پہلو بھی ہیں جن سے اہل مذہب دانستہ یا نادانستہ صرف نظر کر رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ ان کا موقف دیرپا مضبوطی اور حفاطت کے حصار میں ہے، جبکہ حقیقتاً‌ ایسا نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ آئینی یا قانونی اقدامات کو جب تک علمی وفکری اور اخلاقی سطح پر جواز حاصل رہے، ان کی معنویت اور قدر وقیمت ہوتی ہے۔ جب علمی اور اخلاقی تائید سے وہ محروم ہو جائیں تو بتدریج ان کی ساکھ ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ احمدی مسئلے کے ضمن میں اہل مذہب نے جو انداز فکر اختیار کیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ اسے اسی طرح کی صورت حال کا سامنا ہے جسے جذباتیت اور غلط فہمیوں کی شدید دھند میں وہ دیکھ نہیں پا رہے اور ہمارے نزدیک ایک انتہائی بنیادی اعتقادی مسئلے میں ایک متفقہ دینی موقف کا اس صورت حال سے دوچار ہونا مذہبی قیادت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔

۱۹۷۴ سے اب تک احمدی مسئلے میں مین اسٹریم مذہبی موقف کو جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، ان کا ذکر اوپر کیا گیا ۔ تحریک انصاف کی  حکومت کے ابتدائی ایام میں احمدی معیشت دان عاطف میاں کی تقرری کا فیصلہ واپس لینے کے حکومتی فیصلے سے اس فہرست میں ایک اور اضافہ ہوا جس پر  اہل مذہب نے اطمینان اور خوشی محسوس کی۔ البتہ ہم صورت حال کے دوسرے پہلو کو واضح کرنا چاہ رہے ہیں جو مذہبی موقف اور حکمت عملی، دونوں کا ازسرنو جائزہ لینے کا تقاضا کرتا ہے۔

۱۹۷۴ کا فیصلہ، جیسا کہ سب جانتے ہیں، اس وقت کی مذہبی وسیاسی قیادت کے باہمی اتفاق سے ایک آئینی فورم پر کیا گیا تھا اور ایک بہت اہم سوال کے حوالے سے متفقہ قومی فیصلے کی حیثیت سے اس پر عمومی اطمینان پیدا ہو گیا تھا۔ سیکولر اور لبرل ناقدین کی تنقید سے قطع نظر، مین اسٹریم مذہبی وسیاسی قیادت، جدید تعلیم یافتہ طبقات اور فکری رجحان ساز عناصر (اہل دانش، اہل صحافت وغیرہ) اس فیصلے کے ساتھ کھڑے تھے اور اسے مسلم معاشرے کے ایک بڑے داخلی خلفشار کے قابل عمل اور پائیدار حل کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ کم وبیش نصف صدی کے بعد بھی صورت حال کیا یہی ہے اور اگر نہیں تو اس کے عوامل کیا ہیں؟

یہ سامنے کی بات ہے کہ اجتماعی فیصلے جس طرح فکری یکسوئی اور مضبوط اخلاقی جواز کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتے، اسی طرح انھیں اپنے تسلسل اور جواز کو برقرار رکھنے کے لیے بھی فکری واخلاقی تائید کا حاصل رہنا ضروری ہوتا ہے۔ غور طلب نکتہ یہ ہے کہ چوالیس سال میں جو پیش رفت ہوئی ہے، اس کے نتیجے میں اس فیصلے کو حاصل فکری واخلاقی تائید اور اس کے نتیجے میں قومی فکری یکسوئی کی صورت حال بہتر ہوئی ہے یا کم سے کم اسی سطح پر برقرار ہے یا اس میں کمزوری آئی ہے؟ اگر اسے کسی فکری چیلنج کا سامنے ہے تو وہ کیا ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں؟

آئیے، اس پہلو سے دیکھتے ہیں کہ ہمارے سامنے منظر نامہ کیا ہے؟

منظر نامہ کچھ یوں ہے کہ

  1. بین الاقوامی فورم پر اس فیصلے اور اس پر مبنی بعد کے اقدامات نیز احمدیوں کے ساتھ ہونے والے برتاو کے اخلاقی یا قانونی جواز کی تفہیم کے حوالے سے ہمیں مکمل ناکامی کا سامنا ہے۔ احمدیوں کی اس شکایت کو کہ پاکستان میں ان کے بنیادی انسانی ومذہبی حقوق سلب کر لیے گئے ہیں، کسی دوسری رائے یا اختلاف کے بغیر عالمی رائے عامہ درست تسلیم کرتی اور ان کی تائید اور حمایت کے لیے حکومت پاکستان پر دباو ڈالنے کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتی ہے۔ اس محاذ پر ہماری سفارت کاری کے پاس سوائے شرمندگی اٹھانے اور لاجواب ہونے جبکہ اہل مذہب کے پاس سوائے نظریہ سازش کا حوالہ دے کر جذباتی تقریریں کرنے کے، اور کوئی راستہ نہیں ہے۔
  2. ہماری مین اسٹریم سیاسی قیادت اعلی ترین سطح پر بحیثیت مجموعی مذہبی موقف کے حوالے سے نہ صرف بے اطمینانی رکھتی ہے، بلکہ باقاعدہ اس کا اظہار بھی کر چکی ہے۔ میاں نواز شریف، الطاف حسین، عمران خان، آصف زرداری اور بلاول وغیرہ، یہی ہماری سیاست کے نمائندے ہیں اور سب کے سب مختلف مواقع پر احمدیوں کے ساتھ ہونے والے برتاو پر اپنے تحفظات ظاہر کر چکے ہیں، بلکہ عمران خان اور الطاف حسین تو غالباً‌ خود تکفیر کے فیصلے کو ہی ذہنی طور پر قبول نہیں کرتے۔
  3. اہل صحافت اور اہل دانش میں سے بہت سے راسخ العقیدہ مذہبی رجحانات رکھنے والے حضرات تکفیر کے فیصلے اور کلیدی مناصب سے احمدیوں کو دور رکھنے کے مطالبے سے سے اتفاق رکھتے ہیں، لیکن اہل مذہب کے عمومی رویے، خاص طور پر احمدیوں کو بطور گروہ ملک دشمن قرار دینے اور ایک مذہبی حکم کے طور پر ان کا سماجی بائیکاٹ کرنے سے اختلاف کرتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
  4. دینی مدارس کے ان گنت فضلاء اور جامعات میں اسلامیات کے اتنی ہی تعداد میں اساتذہ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو مین اسٹریم مذہبی بیانیے کو غیر معقول اور حد اعتدال سے متجاوز سمجھتے ہیں اور اپنی نجی گفتگووں میں کھل کر اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔
  5. پرنٹ میڈیا میں مذہبی موقف کی تائید کی صورت حال جناب آصف محمود ایڈووکیٹ نے اپنے ایک کالم میں بیان کی تھی اور گنتی کے دو تین ناموں کے علاوہ من حیث الجماعت سب کو ’’گونگے شیطان“ قرار دیا تھا۔ نوائے وقت جیسے اخبار نے کچھ سال قبل ایک اہم قومی دن کے موقع پر جماعت احمدیہ کا اشتہار شائع کیا اور اگلے دن صرف مذہبی غیظ وغضب سے بچنے کے لیے، ایک معذرت نامہ پیش کر دیا ۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ احمدیوں کے حوالے سے کوئی تنقیدی تحریر شائع نہ کرنے کی باقاعدہ ادارتی پالیسی بھی وضع کی گئی ہے۔
  6. اور اب اس فہرست میں سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کو بھی شامل کیا جا  سکتا ہے جس میں  مروجہ مذہبی بیانیے اور  طرز عمل پر یہ تبصرہ کیا گیا ہے کہ ’’ اپنی اقلیتوں سے متعلق  تعصب اور نفرت  پر مبنی رویہ  پوری قوم کی ایک منفی تصویر بنا دیتا ہے  اور  ہم پر ایک غیر روادار،  غور وفکر  سے نفور  اور   بند ذہن رکھنے والی قوم  کے القاب چسپاں کرنے کا موجب بنتا ہے۔   “

آئینی فیصلے اور اس پر مبنی اقدامات کے حوالے سے بے اطمینانی پیدا ہونے کی کئی توجیہات ہو سکتی ہیں اور یقیناً‌ مذہبی ذہن ایسی توجیہات کو زیادہ پسند کرے گا جس سے اس کے اختیار کردہ موقف پر نظر ثانی کی ضرورت کم پیش آئے، مثلاً‌ یہ کہ بے اطمینانی رکھنے والے طبقات تک اس موقف کی تفہیم اور ابلاغ میں کوتاہی ہو رہی ہے، یا اسلامی عقائد اور مذہبی حساسیت ایک عالمی فکری یلغار کی زد میں ہیں، یا یہ کہ یہ بے دینی اور دینی بے خبری کے عمومی ماحول کا اثر ہے، وغیرہ۔ لیکن ہماری رائے میں ان توجیہات کا جزوی طور پر تو وزن ہو سکتا ہے، لیکن یہ پوری طرح صورت حال کی عکاسی نہیں کرتیں۔ خاص طور پر تفہیم اور ابلاغ میں کمی کا عذر تو بداہتاً‌ غلط معلوم ہوتا ہے، اس لیے کہ پچھلی پوری ایک صدی میں اگرکوئی ایسا اعتقادی مسئلہ بتایا جائے جس پر اعلی ٰ ترین مذہبی اسکالرشپ نے استدلال وبیان کی انتہائی صلاحیتیں صرف کی ہوں، اس پر کم وبیش ہر معروف مذہبی عالم نے کچھ نہ کچھ لکھا ہو اور مذہبی جماعتوں اور تنظیموں نیز خطباء اور اہل قلم کی طرف سے اس پر تقریروں اور تحریروں کا ڈھیر لگا دیا گیا ہو تو وہ صرف ختم نبوت کا عقیدہ اور احمدی مسئلہ ہے۔ (اس پر صرف بلند پایہ اہل علم کی لکھی گئی علمی تحریروں کا مجموعہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی طرف سے ساٹھ کے لگ بھگ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے اور غالباً‌ ابھی مزید کام جاری ہے)۔

تعلیم یافتہ طبقات کیا، ایک معمولی پڑھا لکھا مسلمان بھی اس بحث میں اہل مذہب کے بنیادی مقدمے اور استدلال سے واقف ہے۔ اس لیے یہ عذر کوئی وزن نہیں رکھتا کہ اہل مذہب کی طرف سے مسئلے کی نوعیت اور حقیقت سمجھانے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے اور اس کوتاہی کو اگر دور کر لیا جائے تو مذہبی موقف کے حوالے سے پائی جانے والی بے اطمینانی ختم ہو جائے گی۔ لازمی طور پر خود موقف اور اس کے حق میں پیش کیے جانے والے استدلال میں مسئلہ ہے جو عقل ومنطق کو اپیل نہیں کرتا اور اسی کی وجہ سے مختلف سطحوں پر فہیم اور سنجیدہ ذہنوں میں مذہبی موقف کے حوالے سے بے اطمینانی یا کم سے کم بے اعتنائی کی ایک کیفیت پیدا ہو رہی ہے اور بڑھتی جا رہی ہے۔

چنانچہ لازم ہے کہ پلٹ کر خود مذہبی موقف کے دروبست کا جائزہ لیا جائے اور دیکھا جائے کہ کمزوری کہاں ہے، اور خاص طور پر یہ کہ ۱۹۷۴ء میں ایک قومی اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد صورت حال میں کون سے ایسے پہلو شامل ہوئے ہیں جنھیں موجودہ بے اطمینانی کا موجب کہا جا سکتا ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(418) فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ

یُثَبِّتُ اللَّہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْآخِرَۃِ۔ (ابراہیم: 27)

”ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے“۔ (سید مودودی، القول کا ترجمہ ’ایک‘ قول نہیں ہوگا، قول ثابت ترجمہ کیا جائے گا)

”اللہ تعالی ایمان والوں کو اس پکی بات (یعنی کلمہ طیبہ کی برکت) سے دنیا اور آخرت میں مضبوط رکھتا ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اللہ ایمان والوں کو دنیا اور آخرت کی زندگی میں سچی بات پر ثابت قدم رکھتا ہے“۔ (احمد علی)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں الْحَیَاۃ الدُّنْیَا کا ترجمہ دنیا کردیا ہے، حالاں کہ یہاں دنیا کی زندگی ترجمہ ہونا چاہیے۔ دونوں میں بہرحال فرق ہے۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے درست ہیں: 

”مضبوط کرتا ہے اللہ ایمان والوں کو مضبوط بات سے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی“۔(محمد جوناگڑھی)

(419) وَمِنْ وَرَائهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ

درج ذیل دونوں آیتوں کو دیکھیں تو دو مرتبہ من وَرَائهِ آیا ہے، پہلے مِنْ وَرَاءِہِ جَہَنَّمُ آیا ہے اور آخر میں وَمِنْ وَرَائهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ آیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ دو الگ الگ پیش آنے والی چیزیں ہیں، کہ پہلے جہنم پیش آئے گی اس کے بعد سخت عذاب پیش آئے گا، یا جہنم ہی کو بعد میں سخت عذاب کہا گیا ہے۔ اور یہ تکراروعید میں زور پیدا کرنے کے لیے ہے۔ قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ آخرت میں جو بھی عذاب ہوگا وہ دراصل جہنم کا ہی عذاب ہوگا، اس کے علاوہ جہنم سے ما ورا کوئی دوسرا عذاب نہیں ہوگا۔ ذیل میں درج بعض ترجموں سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جہنم کے بعد ایک اور عذاب بھی ہوگا۔ قرآن کے بیانات سے اس مفہوم کی تائید نہیں ہوتی ہے۔

مِنْ وَرَاءِہِ جَہَنَّمُ وَیُسْقَی مِنْ مَاءٍ صَدِیدٍ۔ یَتَجَرَّعُہُ وَلَا یَکَادُ یُسِیغُہُ وَیَأْتِیہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَمَا ہُوَ بِمَیِّتٍ وَمِنْ وَرَائهِ عَذَابٌ غَلِیظٌ۔ (ابراہیم: 16، 17)

”اس کے سامنے دوزخ ہے جہاں وہ پیپ کا پانی پلایا جائے گا جسے بمشکل گھونٹ گھونٹ پئے گا۔ پھر بھی اسے گلے سے اتار نہ سکے گا اور اسے ہر جگہ سے موت آتی دکھائی دے گی لیکن وہ مرنے والا نہیں۔ پھر اس کے پیچھے بھی سخت عذاب ہے“۔ (محمد جوناگڑھی، ایسا نہیں ہے کہ سامنے دوزخ ہے اور پیچھے کوئی اور سخت عذاب ہے۔ دونوں کے لیے مِنْ وَرَاءِہِ آیا ہے۔ جہنم ہی کو دوبارہ عذاب غلیظ کہا گیا ہے۔)

”اور (مزید برآں) اس کے پیچھے ایک اور سخت عذاب ہوگا“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور آگے ایک اور سخت عذاب اس کے لیے موجود ہوگا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور (پھر) اس کے پیچھے (ایک اور) بڑا ہی سخت عذاب ہوگا“۔ (طاہر القادری)

درج ذیل ترجموں میں وہ غلطی نہیں ہے جو درج بالا ترجموں میں پائی جاتی ہے:

”پھر اس کے بعد آگے اس کے لیے جہنم ہے وہاں اُسے کچ لہو کا سا پانی پینے کو دیا جائے گا۔ جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا۔ موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا“۔ (سید مودودی)

”پیچھے اس کے دوزخ ہے۔۔۔اور اس کے پیچھے مار ہے گاڑھی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس کے آگے دوزخ ہے۔۔۔اور اس کو سخت عذاب کا سامنا ہوگا“۔(اشرف علی تھانوی)

(420) إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ

درج ذیل جملے کا تین طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے:

إِنِّی کَفَرْتُ بِمَا أَشْرَکْتُمُونِ مِنْ قَبْلُ۔ (ابراہیم: 22)

”میں اس بات سے انکار کرتا ہوں کہ تم پہلے مجھے شریک بناتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

ان دونوں ترجموں میں کم زوری یہ ہے کہ شیطان اس بات کا منکر نہیں تھا کہ انھوں نے اسے شریک بنایا تھا۔ یہ تو ایک حقیقت تھی، اس کا انکار کرنے کی گنجائش وہاں کہاں ہوگی۔

”میں تو پہلے ہی سے اس بات سے بیزار ہوں کہ تم نے مجھے اس کا شریک بنا دیا“۔ (ذیشان جوادی)

”تم نے جو مجھے شریک بنالیا تو میں نے اس کا پہلے سے انکار کردیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

ان دونوں ترجموں میں کم زوری یہ ہے کہ من قبل کو کفرت سے متعلق مان لیا گیا ہے۔ جب واقعہ یہ ہے کہ پہلے تو اسی کے بہکاوے میں آکر انھوں نے اسے شریک بنایا، تو پہلے وہ کیسے اس عمل سے بیزار یا اس کا منکر ہوتا۔ یہ انکار اور بیزاری تو وہ قیامت کے دن کرے گا، پہلے تو وہ اس کا داعی تھا۔

”میں نہیں قبول رکھتا جو تم نے مجکو شریک ٹھیرایا تھا پہلے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”وہ جو پہلے تم نے مجھے شریک ٹھہرایا تھا میں اس سے سخت بیزار ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”میں خود تمہارے اس فعل سے بیزار ہوں کہ تم اس کے قبل (دنیا میں) مجکو (خدا کا) شریک قرار دیتے تھے“۔ (اشرف علی تھانوی)

یہ تینوں ترجمے اس پہلو سے درست معلوم ہوتے ہیں۔ ان سے تصویر یہ سامنے آتی ہے کہ دنیا میں شیطان کے اکسانے پر انھوں نے شیطان کو شریک ٹھہرایا، اور آخرت میں شیطان خود ہی ان کے اس سابقہ جرم سے خود کو الگ کرنے لگا۔

شیطان کی اسی حرکت کو درج ذیل آیت میں دکھایا گیا ہے:

کَمَثَلِ الشَّیْطَانِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اکْفُرْ فَلَمَّا کَفَرَ قَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْکَ إِنِّی أَخَافُ اللَّہَ رَبَّ الْعَالَمِینَ۔ (الحشر: 16)

(421)  أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ

أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ۔ (ابراہیم: 24)

”جس کی جڑ (زمین میں) اتری ہوئی ہے اور جس کی شاخیں فضا میں (پھیلی ہوئی ہیں)“۔ (امین احسن اصلاحی)

جڑ کے زمین میں اترنے کا مطلب یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ مضبوطی سے جمی ہوئی بھی ہو۔ اس لیے قرآنی تعبیر یعنی ’ثابت‘کا حق اتری ہوئی کہنے سے ادا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا لفظی ترجمہ ہی درست مفہوم ادا کرتا ہے۔ درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:

”جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں“۔ (سید مودودی)

(422) دَائِبَیْنِ کا ترجمہ

دأب کا مطلب ہے مسلسل چلتے رہنا۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں: الدَّأْب: إدامة السّیر، دَأَبَ فی السّیر دَأْباً۔ قال تعالی: وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ (ابراہیم: 33)۔ (المفردات فی غریب القرآن)

دأب کے معنی عادت و دستور کے بھی آتے ہیں لیکن جب دائب کہتے ہیں تو وہ مراد نہیں ہوتا ہے، مسلسل حرکت مراد ہوتی ہے۔

درج ذیل آیت میں دائبین کا ترجمہ ہوگا مسلسل چلنے والے:

وَسَخَّرَ لَکُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَائِبَیْنِ۔ (ابراہیم: 33)

”جس نے سورج اور چاند کو تمہارے لیے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور تمہارے نفع کے واسطے سورج اور چاند کو (اپنی قدرت کا) مسخر بنایا جو ہمیشہ چلنے میں ہی رہتے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

درج بالا دونوں ترجمے درست ہیں۔

جب کہ درج ذیل تینوں ترجموں میں ایک انداز اور ایک دستور ترجمہ کیا ہے، یہ لغت کے موافق نہیں ہے:

”اور سورج اور چاند کو بھی تمہاری نفع رسانی میں لگادیا، دونوں ایک ہی انداز پر گردش میں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور کام میں لگائے تمہارے سورج اور چاند ایک دستور پر“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمہ اس لیے درست نہیں ہے کہ دائب صرف حرکت کرنے والے کو نہیں کہتے ہیں بلکہ مسلسل حرکت کرنے والے کو کہتے ہیں، دوسرے یہ کہ مسخر کرنا انھیں مسلسل حرکت پر لگانا ہے، نہ کہ وہ حرکت کرنے والے تھے اور انھیں مسخر کیا۔

”اور تمہارے لیے حرکت کرنے والے آفتاب و ماہتاب کو بھی مسخر کردیا ہے“۔ (ذیشان جوادی)

(جاری)


مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۶)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

ڈاکٹر سید مطیع الرحمن /محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: عبد اللہ بن سہل کے قتل کا واقعہ ہوا توآپﷺ نے یہودیوں سے پچاس قسمیں اٹھوائیں،جسے قسامت کہا جا تا ہے۔آپ ﷺ نے غالباً‌ ان کی دیت بھی دی۔1یہ پچاس قسمیں اٹھوانا کیا ہماری شریعت میں ہے یا یہ یہود کے قانون کے مطابق تھا؟

عمار ناصر: نہیں، یہود کے ہاں یہ قانون نہیں تھا۔جو عرب میں ایک روایت چلی آرہی تھی، اس میں یہ طریقہ موجود تھا۔

مطیع سید: کیاایسے کیس میں قسامت کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں کوئی گواہ موجود نہ ہو؟

عمار ناصر:اس کی صورت یہ ہے کہ کسی جگہ کوئی آدمی مقتول ملے اور گواہ وغیرہ کوئی نہ ہو تو کیا اس خون کو ایسے ہی رائیگاں جانے دیا جائے یا اس علاقے کے لوگوں کو مجموعی طور پر اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟ عرب میں یہ رواج تھا کہ جہاں مقتول کی لاش ملی ہے، وہاں پہلے مقامی لوگوں سے قسمیں لی جائیں کہ انھوں نے اس کو قتل نہیں کیا اور نہ وہ قاتل کو جانتے ہیں، اور پھر ان پر دیت کی رقم عائد کی جائے۔ فقہاء کے مابین اس حوالے سے کافی بحث ہے۔ مالکیہ اس میں کافی شرائط لگاتے ہیں۔ان کا موقف نسبتاً‌ زیادہ قرین قیاس ہے۔ مثلاً‌ وہ کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں پر تب ذمہ داری عائد کی جائے گی جب کچھ ایسے قرائن موجود ہوں جو یہ بتائیں کہ اس قبیلے کے ساتھ مقتول کی کوئی دشمنی تھی، ورنہ نہیں۔ باقی فقہا کہتے ہیں کہ اس شرط کی ضرورت نہیں۔ جہاں مقتول ملا ہے، بس ان لوگوں پر دیت کی ذمہ داری عائد کردی جائے تاکہ خون رائیگاں نہ جائے۔تو یہ کافی محلِ اجتہاد بحث ہے۔

مطیع سید؛ کیا یہ مذہبی نوعیت کی چیز تھی یا محض اہل عرب کے ہاں ایک رواج تھا؟

عمار ناصر: اصل میں تو اہل عرب کا رواج ہی تھا، لیکن جب نبیﷺ نے اس کو اختیار کیا توا یک طرح کی توثیق ہوگئی،لیکن اس کے بارے میں فقہا میں بڑی بحثیں ہیں۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کا آپﷺ نے قولاً‌ تو حکم نہیں دیا کہ ایسے مقدمات میں ایسے کیا کرو۔ لیکن ایک واقعہ میں اس طریقے کو برتا تو اس میں کئی حوالےسے بحثیں ہیں۔اس واقعہ کی تفصیلات میں بھی روایتیں بہت مختلف ہیں۔بعض میں ہے کہ آپﷺ نے ان سے قسمیں لینے کی بات کی اور اس کے بعد فرمایا کہ تم وہ آدمی بتاؤ جس پر شک ہے، میں اسے تمھارے حوالے کر دیتاہو ں۔بعض روایات میں ایسا لگتا ہے کہ آپﷺ نے قصاص کے لیے کہا،بعض میں لگتا ہے کہ صرف دیت لینے کی بات کی۔تو یہ بھی فقہا میں مختلف فیہ ہے کہ کیا قسامت کی بنیادپر ہم قصاص لے سکتے ہیں یا صر ف دیت ہی لے سکتے ہیں؟ خلفاء کے ہاں جو واقعات ملتے ہیں، ان سے لگتا ہے کہ بعض حضرا ت قصاص لینے کے بھی قائل تھے۔ تابعین کے زمانے میں اس پر کافی بحث بھی ہوئی۔ امام بخاری نے وہ پوری بحث نقل کی ہے۔ عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور میں اہل ِ علم کو جمع کیا اور قانونی نقطہ نظر سے اس طریقے پر جو سوالات پیداہوتے ہیں، وہ اٹھا کر کہا کہ میں چاہتاہوں کہ اس طریقے کو ختم کردوں اور اس پر فیصلے نہ کیے جائیں۔اس پر ابو قلابہ نے ان سے کہا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے،ا س لیے کہ یہ پیچھے سے ایک روایت چلی آرہی ہے اور معلوم ومعرو ف ہو چکی ہے۔

پھر آگے چل کر ابن رشد کو البدایہ میں دیکھیں تو انھوں نے بعض فقہا کے حوالے سے کچھ تنقیدی سوالا ت اٹھا ئے ہیں۔ جمہور کے ہاں تو یہ مانا جاتا ہے کہ قسامت کا طریقہ ٹھیک ہے،اس اختلاف کے ساتھ کہ ان قسموں کی بنیاد پر قصاص ہو گا یا صرف دیت لی جائے گی۔ احناف کہتے ہیں کہ صرف دیت ہو گی۔لیکن بعد میں بعض فقہا نے یہ سوالا ت بھی اٹھائے کہ اصل میں نبی ﷺ نے جو قسامت کے طریقےکا حوالہ دیا تو آپ ﷺ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یہ کوئی فیصلہ کرنے کا مستند طریقہ ہے۔ آپﷺ دراصل چاہ رہے تھے کہ یہ ایک ایسا مقدمہ ہے جس میں ہم کسی پر بھی الزام عائد نہیں سکتے، کیونکہ کوئی گواہ اور ثبوت موجود نہیں ہیں۔چنانچہ آپﷺ نے انصار کو مطمئن کرنے کے لیے کہا کہ دیکھو، ایسا کر لیتے ہیں کہ یہودیوں سے قسمیں لے لیتے ہیں۔مقصد یہ تھا کہ مقتول کے ورثاء خود ہی متوجہ ہوں کہ یہ تو فیصلہ کرنے کا مناسب طریقہ نہیں ہے۔یعنی آپ کا مقصد اس طریقے کی توثیق کرنانہیں تھا،بلکہ یہ اشارہ کرنا تھا کہ یہ انصاف کے معروف اصولوں کے لحاظ سے ناقابل عمل طریقہ ہے۔ ابن رشد کا رجحان بھی اسی رائے کی طرف لگتا ہے۔

مطیع سید:کچھ لوگ مدینے میں بیمار ہو گئے تھے تو آپﷺ نے انہیں اونٹوں کا پیشاب پینے کا کہا۔2 کیا اونٹوں کا پیشاب پینے کا رواج پہلے سے عرب میں تھا یا آپﷺ نے یہ مشورہ دیا؟

عمار ناصر: عرب کے ہاں یہ رواج موجود تھا۔ وہ پیٹ کی بعض بیماریوں کے لیے اونٹ کا پیشاب بطور دوااستعمال کرتےتھے۔

مطیع سید: ایک عورت کو دوسری عورت نے چوٹ لگائی تو اس کے بچے کی جان ا س کے پیٹ میں ہی ضائع ہو گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی دیت الگ سے عائد کی۔ اس پر ایک شخص نے اعتراض کیا کہ بچے کی دیت دینے کی کیا تک ہے، وہ تو نہ بولا اور نہ چیخا نہ کوئی آواز نکالی۔ ایسے وجود کی تو کوئی دیت نہیں ہوتی۔3 بظاہر اس کی بات بڑی معقول لگتی ہے،لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کاہنوں کا بھائی لگتا ہے۔

عمار ناصر: اس نے بڑے مسجع قسم کے الفاظ بولے تھے، اس لیے آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کاہنوں جیسا کلام کر رہا ہے۔

مطیع سید:گویا اس کی بات پر نہیں،الفاظ پر اعتراض تھا؟

عمار ناصر:نہیں، بات پر ہی اعتراض تھا۔آپﷺ نے فرمایا کہ ایک انسانی جان ہے جس کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ وہ پیٹ میں زندہ تھی اور جارح نے اس کو چوٹ لگا کر جان ضائع کر دیا تو اس کی دیت ہو نی چاہیے۔ اس شخص نے اس پر ایک مسجع کلام پیش کر دیا کہ جو بچہ پیٹ سے باہر ہی نہیں آیا اور نہ بولا نہ چیخا، اس کی دیت کیوں دی جائے؟ اس کی نامعقولیت پر آپﷺ نے تبصرہ کیا۔ مراد یہ ہے کہ اگرچہ وہ ایک پورا انسان نہیں بنا تھا، اس لیے پوری دیت اس کی نہیں دلوائی جائے گی،لیکن وہ ایک زندہ وجود تو تھا۔اس کو اگر کسی نے مار دیا ہے تو کچھ نہ کچھ تو سزا ہونی چاہیے۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ حدود کے علاوہ دس کوڑوں سے زیادہ سز ا نہیں ہونی چاہیے4 جبکہ فقہا اس سے زیادہ کے بھی قائل ہیں۔

عمار ناصر: اس میں بڑی بحث ہے کہ فی حد من حدود اللہ سے کیا مرا د ہے؟یعنی کیا یہ حد اس معنی میں ہے جسے ہم فقہی اصطلاح میں حد کہتے ہیں؟ یا یہ مراد ہے کہ اللہ کے کسی حکم کو توڑنے پر کسی کو سزا دی جائے تو وہ دس کوڑوں سے زیادہ ہو سکتی ہے،لیکن کچھ سزائیں جو عام تادیبی نوعیت کی ہوتی ہیں، ان میں دس سے زیادہ کوڑے نہیں لگانے چاہییں۔میرے خیال میں یہاں یہ دوسرا مفہوم مراد ہے۔جب تک شریعت کا کوئی حکم کسی نے نہیں توڑا، تب تک اس کو دس سے زیادہ کوڑوں کی سزا نہیں دینی چاہیے۔ مثلاً‌ استاد کسی کو سز ا دے رہا ہے یا غلام کو مالک تادیب کررہا ہے یا کسی بد انتظامی پر ماتحت کو سزا دی جا رہی ہے یا باپ بیٹے کو نافرمانی پر سزا دے رہا ہے تو اس کے متعلق آپ ﷺ نے یہ فرمایا ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ حد کفار ہ ہے یعنی جس شخص پر حد نافذ ہو ئی، و ہ اس کے لئے کفارہ بن گئی۔5 لیکن بالفرض کسی نے دس لوگوں کو قتل کیا،اس پر حدِ قصاص نافذ بھی ہوگئی، پھر بھی اس کی تو ایک ہی جان گئی۔ اس نے تو دس جانیں لی تھیں، یہ کیسے اس کے جرم کا کفارہ بن سکتی ہے؟ایک ستر سال کا بوڑھا ہے جس نے ایک بیس سالہ نو جوان کو قتل کردیا تو اس کی جان لینے سے نوجوان کا قصاص نہیں ہو جاتا، کیونکہ پوری طرح تلافی نہیں ہورہی۔ تو پھر نبیﷺ کا یہ فرمان کہ حد کا نفاذ کفارہ بن جاتا ہے،کس حوالےسے ہے؟

عمار ناصر: اس کو سمجھنے کے دوطریقے ہوسکتےہیں۔ظاہر ہے کہ جب روایت کوئی بڑا اشکال پیداکر ے تو اس کو حل کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ایک یہ ہوسکتا ہے کہ آپ اس کو بعض چیزوں کے ساتھ مخصوص کردیتےہیں،مثلاً‌ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قتل کا معاملہ الگ ہے، وہ اس اصول کے تحت نہیں ہے۔دوسرے گناہ جن کے بارےمیں کوئی دوسری نص یا کوئی عقلی یاقیاسی اصول ایسی کوئی الجھن پیدا نہیں کرتا، ان کا حکم حدیث میں بیان ہوا ہے۔یا یہ ہو سکتا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ قتل بھی اس میں شامل ہے لیکن اس میں پھر یہ اور یہ قیود ہیں، مثلاً‌ یہ کہ بہت زیادہ قتل کرنے والے لوگ اس میں شامل نہیں۔ گویا جو بھی فرق ہوتا ہے، اسے پھر آپ قیاساً‌ اس طرح حل کرتے ہیں۔ یعنی قتل اس دائرے میں آئے گا تو یہ اور یہ شرطیں اس پر لاگو ہوں گی، اور یا پھر قتل کو باقی جرائم سے الگ شمار کیا جا سکتا ہے۔تو یہ دونوں طریقے ہو سکتے ہیں۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے ایک گواہ اور ایک قسم سے فیصلہ کردیا۔6 احناف اس کے قائل نہیں۔ وہ کہتےہیں کہ یہ خبر ِ واحد ہے اور قرآن کے مقابلےمیں ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔

عمار ناصر: میرے خیال میں شہادات کے معاملے میں احناف کے موقف میں جو بنیادی کمزوری ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن میں جو نصاب بیان ہوا ہے، اس کو عدالت کے لیے ضابطہ مان لیا گیا ہے کہ اس کی پابندی ہونی چاہیے۔دومرد ہوں یا ایک مرد ہو اور دوعورتیں، قرآن میں تو عدالت زیرِ بحث نہیں ہے۔قاضی کو اللہ نے نہیں کہا کہ تم نے اس کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔اس میں تو اللہ تعالیٰ لوگوں کی راہنمائی کر رہے ہیں کہ بہتر ہے کہ اس طرح سے کر لو تاکہ اگر کوئی تنازع ہو تو اس کا تصفیہ ہو سکے۔ قاضی تو کسی طرح بھی مخاطب نہیں ہے۔قاضی کے پاس کوئی بھی گواہ نہ ہو، تب بھی اس نے فیصلہ کرنا ہے۔اس لیے میرے خیال میں تو یہ ایک گواہ اور ایک قسم پر فیصلہ کرنا بڑی قابل فہم بات ہے۔اصل میں تو قاضی مجموعی قرائن وشواہد سے مطمئن ہوگیا ہے کہ مدعی کا دعویٰ ٹھیک ہے۔اب اگر دو گواہوں کی قانونی رسم نہیں پوری ہورہی تواس کی تلافی کے لیے مدعی کی ایک قسم کو بھی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔

مطیع سید: فدک کے حوالے سے میراثِ نبوی ﷺ کی تقسیم کے مسئلے میں حضرت فاطمہ ؑ حضرت ابو بکرصدیق کے پاس جاتی ہیں اور وہ انہیں بتاتے ہیں کہ نبی کی وراثت تقسیم نہیں ہوتی۔7 اس پر ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبیﷺ کو تو اس معاملے میں غیرمعمولی حساس ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو واضح طور پر بتا دیتےکہ میراث ِ نبی کا یہ معاملہ ہوتا ہے۔ آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟

عمار ناصر: دیکھیں، مسئلہ تو ہمارے سامنے آیا ہے اور ہم توقع کرتےہیں کہ جو سوال ہمارے سامنے آیا، رسول اللہ ﷺ اس کو کیوں نہیں حل کرکے گئے۔اللہ تعالیٰ کا اور پیغمبر کا یہ انداز نہیں ہے۔ان کی ترجیحات،ان کا چیزوں کو موضوع بنانے کا طریقہ، وہ بالکل اور ہوتا ہے۔

مطیع سید: ایسا لگتا ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کی بات سے حضرت فاطمہ مطمئن نہیں ہوئیں۔

عمار ناصر: جی، وہ مطمئن نہیں ہوئیں اور روایات میں ہے کہ وہ اس بات پر اپنی وفات تک حضرت ابوبکر سے ناراض رہیں اور ان کے ساتھ کلام نہیں کیا۔ حضرت ابوبکر کے ساتھ گفتگو میں سیدہ کا استدلال یہ تھا کہ جیسے ہر آدمی کی وراثت تقسیم ہوتی ہے، اسی طرح حضور کی وراثت بھی ہمیں ملنی چاہیے، لیکن یہ واضح نہیں ہوتا کہ حضرت ابوبکر نے جو ارشاد نبوی بیان کیا، اس کو سیدہ نے قبول کیوں نہیں کیا یا اس کی ان کے ذہن میں کیا توجیہ تھی۔ ابن سعد کی ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت ابوبکر نے یہ حدیث بیان کی تو سیدنا علیؓ نے اس پر معارضہ کیا کہ قرآن میں ہے کہ حضرت سلیمان حضرت داود کےوارث بنے اور حضرت زکریا نے اللہ سے دعا کی کہ انھیں اولاد عطا کی جائے جو ان کی وارث بنے۔ حضرت ابوبکر نےکہا کہ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن جو بات میں بیان کر رہا ہوں، وہ آپ کے علم میں بھی ہے۔ اس میں بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ حضرت علیؓ اس حدیث کی کیا توجیہ کرتے تھے جو حضرت ابوبکر نے بیان کی۔

ابن سعد کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوبکر نے سیدہ فاطمہ سے کہا کہ میں نے تو حضور سے یہ بات سنی ہے، لیکن اگر آپ یقین سے یہ کہہ سکتی ہے کہ مدینہ اور خیبر اور فدک کی یہ زمینیں حضور نے آپ کو دی ہیں تو میں آپ کی بات مان لیتا ہوں۔ سیدہ نے کہا کہ مجھے ام ایمن نے بتایا تھا کہ فدک کی زمین حضور نے مجھے دی ہے۔ حضرت ابوبکر نے کہا کہ اگر آپ نے حضور سے خود یہ بات سنی ہے تو میں آپ کا مطالبہ مان لیتا ہوں۔ سیدہ نے کہا کہ میرے پاس جو خبر تھی، وہ میں نے آپ کو بتا دی ہے۔ (الطبقات الکبریٰ، ذکر میراث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)

تو یہ اس مسئلے میں ایک مشکل سوال ہے کہ آخر حضرت علی اور سیدہ فاطمہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واضح ارشاد سامنے ہوتے ہوئے بھی اس پر کیوں اصرار کر رہے ہیں کہ فدک اور خیبر وغیرہ کی زمینیں بطور وراثت ان کو دی جائیں۔ میرے ذہن میں یہ آتا ہے کہ شاید یہ حضرات اس کو اس پر محمول کرتے ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بطور قانون نہیں فرمائی تھی، بلکہ اپنا ایک رجحان ظاہر کیا تھا کہ آپ کو دیا گیا مال دوسرے لوگوں کی طرح بطور جائیداد تقسیم نہ ہو، بلکہ اس سے بس اہل خانہ کی ضروریات پوری کی جاتی رہیں۔ اگر یہ فرض کیا جائے کہ آپ کے ارشاد کی نوعیت یہ تھی تو پھر ان حضرات کا موقف کافی حد تک قابل فہم بن جاتا ہے کہ آپ ان زمینوں کے متعلق کوئی قانونی فیصلہ نہیں فرما کر گئے، بلکہ آپ نے اپنی پسند اور ترجیح بیان فرمائی ہے۔ تاہم قانونی اور شرعی طور پر اس کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا آپ کے وارثوں کا اختیار ہے، اس لیے اصول کے مطابق ان زمینوں کو تقسیم کیا جائے اور پھر ورثاء اپنی پسند اور اختیار سے جو فیصلہ کرنا چاہیں، کر لیں۔ میرے خیال میں یہ یا اسی سے ملتا جلتا کوئی قیاس ان حضرات کے ذہن میں تھا جس کی وجہ سے وہ اصرار کر رہے تھے اور حضرت عمر کے دور تک کرتے رہے کہ یہ زمینیں بطور ملکیت ان کے حوالے کی جائیں۔

مطیع سید: میں نے ایک معتبر عالم سے سنا، وہ فرمارہے تھے کہ حضرت فاطمہ فدک کی مالکیت مانگنے نہیں گئی تھیں بلکہ وہ یہ چاہ رہی تھیں کہ ان زمینوں کا انتظام و انصرام انہیں دے دیا جائے۔

عمار ناصر: نہیں،یہ بھی صحیح نہیں ہے۔اہلِ بیت کا موقف یہ نہیں تھا۔ ان کا اصل موقف یہ تھا کہ یہ زمینیں ہمیں بطور وراثت ملنی چاہییں،جیسے ہر مرنے والے کے وارثوں کو ملتی ہیں۔ جہاں تک انتظام و انصرام حضرت علی اور حضرت عباس کے سپرد کرنے کا تعلق ہے تو حضرت عمر نے یہ اقدام ان حضرات کو مطمئن کرنے کے لیے کیا تھا، لیکن یہ ان کا اصل مطالبہ نہیں تھا۔

مطیع سید:غلامی کو ممنوع قرار دینے کے حوالے سے قرآن میں کوئی واضح حکم تو نہیں ہے۔

عمار ناصر: قرآن نے آزاد کرنے کی عمومی ترغیب دی ہے،بعض کفاروں میں اس کو شامل کردیا ہے،زکوٰۃ کے مصارف میں بھی شمار کیا ہے، لیکن کوئی قانونی حکم نہیں دیاکہ بطور ایک سماجی ادارے کے اب غلامی ختم کی جا رہی ہے۔

مطیع سید: یہ کہاجاتا ہے کہ قرآن نے اس کو ختم کر نے کی ابتدا کی تھی،تبھی غلامی ختم ہوئی۔ لیکن اگر امریکہ کی مثال لیں توابراہام لنکن نے غلامی کے خاتمے کا جو فیصلہ کیا، اس کی ابتدا کہاں سے ہوئی تھی؟

عمار ناصر: جی یہ بھی درست بات نہیں کہ قرآن سے پہلے غلام کو آزاد کرنے کا تصور اخلاقی طور پر موجود نہیں تھا۔ مختلف تہذیبوں میں یہ تصور موجود تھا اور بعض یونانی اور ایرانی حکمرانوں نے غلامی پر باقاعدہ پابندی لگانے کی بھی کوشش کی تھی۔ مغربی تہذیب میں بھی مسیحی اخلاقیات کے زیر اثر یہ بحث موجود رہی ہے۔ جدید دور میں یورپ اور امریکا میں غلامی کے خاتمے میں کلیسا کا اور مسیحی الہیات کا بھی کافی موثر کردار ہے۔ مسلمانوں کے ہاں یہ خیال تو بظاہر پیدانہیں ہواکہ بطور ادارہ غلامی کا خاتمہ کر دیا جائے، لیکن قرآن نے غلاموں کو آزاد کرنے کی جو ترغیب دی تھی، اس سے مسلمانوں کے ہاں غلام کو آزاد کرنا ایک کار خیر کے طورپر جاری رہا اور زیادہ تر معاشروں میں غلامی عوامی سطح پر بہت محدود ہو گئی تھی۔ بعد کی صدیوں میں زیادہ تر بادشاہوں اور اشرافیہ کے مختلف طبقات میں ہی غلام باندیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

مطیع سید: بدر کے قیدیوں کے بارے میں آپ ﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق کی رائے بظاہر بعد میں درست نکلی8 کیونکہ ان لوگوں میں سے بہت سے لوگ بعد میں مسلمان ہوئے انہیں ہدایت نصیب ہوئی،اورانہو ں نے دین کے لیے بڑی گراں قدر خدمات بھی سرانجام دیں۔اگر وہ اس وقت قتل کر دیے جاتے تو اسلام سے بھی محروم ہو جاتے۔ لیکن قرآن کی آیات میں اس پر ایک طرح کا عتاب نظر آتا ہے اور حضرت عمر کے موقف سے زیادہ مطابقت رکھتاہے۔

عمار ناصر:ہاں، فیصلوں کے ممکنہ نتائج تو مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن قرآن مجید میں خاص اس موقع پر جو اللہ تعالیٰ کی منشا تھی، اس کو نمایاں کیا ہے۔اصل میں اللہ تعالیٰ اس موقع پر جو چاہ رہے تھے، وہ بڑا اہم تھا۔ سورۃ الانفال میں اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ بدر میں دونوں گروہوں کو آپس میں بھڑانے کا سارا بندوبست ہم نے ہی کیا تھا، ورنہ عام اسباب کے لحاظ سے شاید دونوں ہی گروہ اس لڑائی کے لیے آمادہ نہ ہوتے۔تو اللہ تعالیٰ چاہ رہے تھے کہ یحق الحق و یبطل الباطل،جب یہ معرکہ برپا ہو گیا ہے تو اس موقع پر قریش کو خوب زک پہنچائی جا ئے اور کسی قسم کی رعایت سے کام نہ لیا جائے۔

مطیع سید: آپﷺ گدھے پر سوار جارہے تھے،مسلمان اور مشرکین اکٹھے بیٹھے ہوئے تھے تو عبد اللہ بن ابی نے کہا کہ آپﷺ ہمیں اپنے گدھے کی دھول سے اذیت نہ دیں۔9 بعض کہتے ہیں کہ یہ آیت اس موقع پر نازل ہوئی کہ جب مومنوں کی دوجماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو صلح کر وادو۔لیکن وہاں تو مسلمان،یہودی اور مشرکین بیٹھے ہوئے تھے، وہاں کون سی مسلمانوں کی دوجماعتیں تھیں؟

عمار ناصر: اصل میں آیتوں کا واقعات پر جو انطباق ہے وہ بعد میں لوگ قیاس سے بھی کرتےہیں۔ ضروری نہیں کہ وہ آیت بعینہ اسی موقع پر آئی ہو، لیکن بات سمجھانے کے لیے اس آیت کا حوالہ دے دیا جاتا تھا۔اصلاً‌ تو یہ آیت مومنین کے بارے میں ہے، لیکن کچھ لوگ اگر اکٹھے رہ رہے ہوں،مثلاً‌ مشرکین اور مسلمان وغیرہ اکٹھے رہ رہے ہوں تو قرآن یہ تونہیں کہہ رہا کہ آپ وہاں کوئی صلح کے لیے کوئی کردار ادا نہ کریں۔گویا اس ہدایت کا انطباق اس صورت حال پر بھی ہوتاہے۔عبد اللہ بن ابی کے واقعے میں منافقین کو بھی اگر وسیع مفہوم میں مومنوں میں شمار کیا جائے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ اگر چہ مومنوں کی جماعت میں کچھ دوسرے لوگ بھی شریک ہیں، لیکن بحیثیت گروہ یہ مومنوں کا ہی گروہ ہے۔تو اس پر بھی آیت کا انطباق ہو سکتا ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نے جو مختلف مواقع پر اشعار پڑھے 10 وہ آپ کے اپنے اشعارتھے یاکسی کے اشعار آپ نے پڑھے؟

عمار ناصر: زیادہ تر آپ نے دوسرے شعرا کے اشعار ہی پڑھے ہیں۔ بطور فن کے آپ نے شاعری نہ سیکھی اور نہ کی۔ البتہ حنین کے موقع پر آپ نے انا النبی لا کذب، انا ابن عبد المطلب کے کلمات پڑھے۔ اس طرح کے جو ارتجالی جملے ہیں، وہ ایک استثنائی بات ہے۔

مطیع سید: عورتوں کے لیے مالِ غنیمت نہیں تھا۔11 لیکن عورتیں ساتھ تو جاتی تھیں اور میدانِ جنگ میں خدمات بھی سر انجام دیتی تھیں۔

عمار ناصر:عورتیں بنیادی طورپر جنگ میں حصہ لینے کی مکلف نہیں تھیں اور نہ وہ بطور جنگجو، میدان میں جاتی تھیں۔ اس لیے مال غنیمت میں ان کی حیثیت ثانوی رکھی گئی۔ انھیں کچھ نہ کچھ دے دیاجاتا تھا، لیکن باقاعدہ ایک مقاتل کی حیثیت سے ان کو حصہ نہیں دیا جاتا تھا، کیونکہ وہ اس حیثیت سے شریک ہی نہیں ہوتی تھیں۔

مطیع سید: نجدہ بن عامر جو خوارج کا سردارتھا،حضرت عبد اللہ بن عمر اس کے پیچھے نمازپڑھ لیتے تھے۔حالانکہ نبیﷺ نے ان کے بارے میں فرمایاکہ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیرکمان سے۔

عمار ناصر:یہ ان کی مذہب حالت پر نبیﷺ نے تبصرہ فرمایا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہی شمار نہیں ہوں گے۔

مطیع سید: یہ بارہ خلفا جو لقریش سے ہوں گے،12 ان کے بارے میں راجح قول کیاہے؟کیا یہ تسلسل کے ساتھ برسراقتدار آئے یا مختلف اوقات میں وقفے وقفے سے آتے رہے؟

عمار ناصر: مجھے شارحین کا رجحان یہی مستحضر ہے کہ یہ وقفے وقفے سے برسراقتدار آئے۔

مطیع سید: نبیﷺ نے حکمرانوں کے قریشی ہونے کو شرط قرار دیا کیونکہ اس وقت عرب کی سیاسی فضا اسی کا تقاضا کر رہی تھی۔تو کیا اس بات کا انصارکو علم نہ تھا جو سعد بن عبادہ کو نبی ﷺ کے بعد خلیفہ بنانے پر آمادہ تھے؟ان میں سے کسی کو بھی اس بات کا علم نہ تھا کہ نبیﷺ نے قریشی ہونے کی شرط لگائی ہے؟

عمار ناصر: نہیں، ان کے علم میں تو تھا۔ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے سامنے یہ بات پیش کی گئی تھی۔ لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ نبیﷺ کی یہ ہدایت تشریعی نوعیت کی نہیں تھی،یعنی آپ دین کا کوئی حکم بیان نہیں فرما رہے تھے جس کے خلاف کوئی رائے نہیں رکھی جا سکتی۔ساری روایات آپ جمع کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺسیاسی انتظام کی ایک وجہ بیان کرکے اس حوالےسے یہ بات کہہ رہے تھے۔ مہاجرین کی طرف سے اس ارشاد کا حوالہ دیا گیا تو اس کا انداز بھی ایسا ہی تھا اور جواباً‌ انصار کے ردعمل سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ دونوں اس کو کوئی تشریعی حکم نہیں سمجھ رہے تھے، بلکہ اس کے علاوہ دوسرے عملی امکانات کو بھی قابل غور مانتے تھے۔ مثلاً‌ انصار کی طرف سے اس کے جواب میں یہ تجویز آئی کہ مہاجرین اور انصار، دونوں میں سے ایک ایک امیر ہو۔ لیکن یہ تجویز ناقابل عمل تھی، یوں حضرت ابوبکر کی خلافت پر عمومی اتفاق ہو گیا۔

مطیع سید:آپﷺ نے حضرت ابوذر کو ایک موقع پر فرمایا کہ تم کمزور ہو، اگر تمھیں دو آدمیوں پر بھی حاکم بنایا جائے تو نہ بننا۔13

عمار ناصر: مطلب یہ ہے کہ انتظامی ذمہ داری اٹھانا تمہارامزاج نہیں ہے۔کمزور ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم میں امانت نہیں ہے۔مراد یہ ہے کہ اس ذمہ داری کے لیے جو ایک خاص صلاحیت چاہیے ہوتی ہے، وہ تم میں نہیں ہے۔

مطیع سید: صحابہ نے نبی ﷺ سے ایک مرتبہ پوچھاکہ کیاہم برے حکمرانوں کے خلاف جنگ نہ کریں جب وہ ہم پر مسلط ہو جائیں تو آپﷺ نے منع فرمادیا۔14 روایات میں ظالم حاکموں کے بارے میں صبر کی ہی تلقین ملتی ہے15 اس کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: وجہ یہی ہے کہ اس میں جو خون بہے گا، وہ مسلمانوں کاہی بہے گا۔

مطیع سید: تو فقہا نے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کا جواز کہاں سے مستنبط کیاہے؟

عمار ناصر:اصل میں آپﷺ نے جو خروج سے منع فرمایا تو اس لیے نہیں فرمایاکہ ظالم کے ظلم کو جائز سمجھا جائے کہ جو وہ کر رہاہے، اسے اس کا اختیار ہے۔یہ اس حوالےسے تھا کہ اس سے مسلمانوں میں فساد اور خون خرابہ ہوگا اور نظام زندگی بالکل منتشر ہو جائے گا، اس لیے یہ راستہ اختیار نہ کیا جائے۔اب جو لوگ کو شش کررہے تھے،وہ اپنے فہم کے لحا ظ سے ایسی صورتِ حال دیکھ رہے تھے کہ ہمارے لیے اپنی کوشش میں کامیابی کا امکان ہے اور اگر کامیابی ہو گئی تو جابر حکمرانوں سے مسلمانوں کو نجات مل جائے گی۔ گویا وہ اس سے خروج کا جواز اخز کرتے تھے کہ اگر ان ظالموں سے جان چھوٹ گئی تو اس دوران میں جو خون خرابہ ہو گا، وہ جسٹیفائی ہو جائے گا۔ تو اس میں بھی ایک اجتہادی گنجائش موجود ہے۔

مطیع سید: آپ نے فرمایا کہ جو جماعت سے نکل گیا، وہ جاہلیت کی موت مرا۔16 اس طرح کی روایات بھی آتی ہیں کہ جس کے گلے میں بیعت کا قلادہ نہ ہوا، وہ بھی جاہلیت کی موت مرا۔ لیکن حضرت سعد بن عبادہ نے تو نہ حضرت ابوبکر کی بیعت کی اور نہ حضرت عمر ِ فاروق کی۔

عمار ناصر:میرے خیال میں یہ وعید اصلاً‌ اور براہِ راست تو ان لوگوں کے لیے ہے جو بیعت نہ کریں اور مخالفانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوں اور اجتماعیت کو پھاڑنے کی کوشش کریں۔سعد بن عبادہ کا معاملہ یہ تھا کہ انہوں نے اگر چہ حضرت ابوبکر کی بیعت کو قبول نہیں کیا، لیکن عملاً‌ کوئی مسئلہ پیدانہیں کیا۔ بس مسلمانوں کے معاملات سے الگ تھلگ ہو گئے۔

مطیع سید: بیعتِ رضوان پر کچھ صحابہ نے کمنٹس دیے کہ ہم نے موت پر بیعت نہیں کی تھی بلکہ صرف نہ بھاگنے پر بیعت کی تھی۔بعض نے کہا کہ ہم نے موت پر بیعت کی تھی۔17 کیا یہ معاملہ صحابہ کے ہاں واضح نہیں تھا؟

عمار ناصر: یہ الفاظ کا ہی فرق لگتا ہے۔ کچھ صحابہ نے یہ الفاظ کہے ہوں گے کہ ہم موت تک آپ کے ساتھ رہیں گے۔ کچھ نے یوں کہا ہوگا کہ ہم کسی حال میں بھی فرار نہیں ہوں گے۔ نتیجے کے لحاظ سے تو مطلب ایک ہی بنتا ہے۔

مطیع سید: دشمن کے علاقے میں قرآن لے جانے کی ممانعت18 کیا صرف بے حرمتی کی وجہ سے تھی؟

عمار ناصر:بظاہر یہی لگتاہے، کیونکہ اس کی وجہ روایت میں یہ بیان ہوئی ہے کہ کہیں وہ دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔ اس کے علاوہ اگر قرآن کے نسخوں کی حفاظت بھی پیش نظر ہو تو وہ بھی بعید نہیں کہ قرآن کے جتنے نسخے موجود ہیں، انھیں ضائع ہونے سے بچایا جائے۔

مطیع سید: حضرت ام حرام کے ساتھ نبیﷺ کا رشتہ کس نوعیت کا تھا؟ آپ ان کے ہاں جا کر آرام بھی کر لیتے تھے اور وہ آپ کے سر کی بھی صفائی کر دیتی تھیں۔ کیا وہ بڑی عمر کی کوئی خاتون تھیں؟19

عمار ناصر: نہیں، ان کے زیادہ معمر ہونے کا تو کوئی قرینہ نہیں ہے۔ وہ آپ کی وفات کے بعد حضرت معاویہ کے عہد میں بحری سفر پر جہاد کے لیے گئی تھیں۔ شارحین یہ قیاس کرتے ہیں کہ غالباً‌ ان کے ساتھ کوئی ایسا ایسا رشتہ تھا، شاید رضاعی رشتہ ہو، جس کی وجہ سے وہ آپ کے لیے محرم کے حکم میں تھیں۔

مطیع سید:حضرت ابو ذر کو آپﷺ نے کچھ چیزیں بتائی تھیں۔ جس بگاڑکی طرف آپﷺ نے اشارہ فرمایا تھا20 ان کے مطابق وہ حضرت عثمان کے دور میں ہی شروع ہو گیاتھا۔کیا ان کی طبیعت ایسی غصے والی تھی کہ ان کو چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس ہوتی تھیں یا اس دور میں واقعی انحراف شروع ہوگیا تھا؟

عمار ناصر:دونوں ہی چیزیں تھیں۔وہ طبعاً‌ زہد وریاضت کا مزاج رکھتے تھے،خاص طورپر مال ودولت کے پہلو سے، اور کچھ تبدیلی بھی ظاہر ہے، آناشروع ہو گئی تھی۔دونوں ہی چیزیں تھیں۔ جو تبدیلی اس وقت رونما ہو رہی تھی، باقی لوگ بھی اس کو دیکھ رہے تھے،لیکن حضرت ابوذر کے ردعمل میں اور باقی لوگوں کے رد عمل میں فرق تھا۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں یہ بات کہی گئی کہ ان کے پاس کوئی مخفی اورخاص علم ہے جو نبیﷺ نے انہیں بتایا ہے۔21 حضرت علی کے بارے میں یہ ذہنیت کب پیداہوئی؟ کسی اور صحابی کے بارے میں تو اس طرح کی بات پیدانہیں ہوئی۔

عمار ناصر:یہ ان کےدور میں ہی پیداہو گئی تھی،اسی لیے ان کو وضاحت کرنی پڑی اور اپنی تلوار کی میان سے چند لکھے ہوئے احکام انھوں نے نکال کر دکھائے اور کہا کہ میرے پاس یا تو یہ کچھ باتیں ہیں اور یا کتا ب اللہ کا فہم ہے جو اللہ کسی بندے کو دے دے۔

مطیع سید: یہ روایت ٹھیک ہے جس میں بتایا گیاہے کہ جنت میں بھولے بھالے اور شریف لو گ زیادہ ہوں گے؟

عمار ناصر: جی صحیح ہے۔دنیا میں جو ایمان وعمل کی آزمائش ہے، اس میں زیادہ وہی لوگ گرفتار ہوتے ہیں جو تیزی طراری دکھا سکتے ہیں۔جو شریف اور بھولے بھالے لوگ ہوتے ہیں، وہ سادہ سی زندگی گزار کر چلے جاتے ہیں، اس لیے ان پر حساب کتاب کا بوجھ کم ہوتا ہے۔


حواشی


  1. صحیح مسلم،كتاب القسامۃ والمحاربين والقصاص والديات، باب القسامۃ، رقم الحدیث: 1669، جلد:3،ص:1291
  2. صحیح مسلم،كتاب القسامۃ والمحاربين والقصاص والديات، باب حكم المحاربين والمرتدين، رقم الحدیث: 1671، جلد:3،ص:1296
  3. صحیح البخاری، ‌‌کتاب الطب، ‌‌باب الکہانۃ، رقم الحدیث: 5758، ص:1454
  4. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الحدود وما يحذر من الحدود، ‌‌باب كم التعزيروالادب، رقم الحدیث: 6848، ص:1667۔ صحیح مسلم،كتاب الحدود، باب قدر اسواط التعزير، رقم الحدیث: 1708، جلد:3،ص:1332
  5. صحیح مسلم،كتاب الحدود، باب الحدود كفارات لاهلہا، رقم الحدیث: 1709، جلد:3،ص:1333
  6. صحیح مسلم،كتاب الاقضیۃ، باب القضاء باليمين والشاهد، رقم الحدیث: 1712، جلد:3،ص:1337
  7. صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب قول النبی صلى الله عليہ وسلم لا ‌نورث ما تركنا فہو صدقۃ، رقم الحدیث: 1758، جلد:3،ص:1379
  8. صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب الامداد بالملائكۃ فی غزوة بدر واباحۃ الغنائم، رقم الحدیث: 1763، جلد:3،ص:1383
  9. صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب فيف دعاء النبی صلى الله عليہ وسلم وصبره على اذى المنافقين، رقم الحدیث: 1798، جلد:3،ص:1422
  10. صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب غزوة الاحزاب وہی الخندق، رقم الحدیث: 1803، جلد:3،ص:1430
  11. صحیح مسلم،كتاب الجہاد والسیر، باب النساء الغازيات يرضخ لهن ولا يسہم، رقم الحدیث: 1812، جلد:3،ص:1444
  12. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب الناس تبع لقريش والخلافۃ فی قريش، رقم الحدیث: 1821، جلد:3،ص:1453
  13. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب كراہۃ الامارة بغير ضرورة، رقم الحدیث: 1826، جلد:3،ص:1455
  14. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب وجوب الانكار على الامراء فيما يخالف الشرع وترك قتالہم ما صلوا، رقم الحدیث: 1854، جلد:3،ص:1480
  15. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب الامر بالصبر عند ظلم الولاة واستئثارہم، رقم الحدیث: 1845، جلد:3،ص:1474
  16. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ اکمسلمين عند ظہور الفتن، رقم الحدیث: 1848، جلد:3،ص:1476
  17. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب استجباب مبايعۃ الامام الجيش عند ارادة القتال، رقم الحدیث: 1856، جلد:3،ص:1483
  18. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب النہی ان يسافر بالمصحف الى ارض الکفار اذا خيف وقوعہ بايديہم، رقم الحدیث: 1869، جلد:3،ص:1490
  19. صحیح مسلم،كتاب الامارۃ، باب فضل الغزو فی البحر، رقم الحدیث: 1912، جلد:3،ص:1518
  20. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الزکوۃ، باب الخوارج شر الخلق والخليقۃ، رقم الحدیث: 1067، جلد:2،ص:570
  21. صحیح مسلم،کتاب الاضاحی، باب تحريم الذبح لغير الله تعالى ولعن فاعلہ، رقم الحدیث: 1978، جلد:3،ص:1567

(جاری)

رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبی تعلق کا فائدہ؟

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

علامہ ابن عابدین الشامی رحمہ اللہ (م 1252ھ/1836ء) نے اس موضوع پر کا مختصر رسالہ "العلم الظاھر فی نفع النسب الطاھر"  کے عنوان سے لکھا ہے، جو ان کے مجموعۂ رسائل کی پہلی جلد کا پہلا رسالہ ہے اور صرف 7 صفحات پر مشتمل ہے لیکن اس میں انھوں نے اس کے ہر پہلو پر بات کی ہے۔ یہاں اس رسالے کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔

جن نصوص سے اس فائدے کی نفی کی جاتی ہے

ان نصوص میں ایک یہ آیت ہے:

فَإِذَا نُفِخَ فِي ٱلصُّورِ فَلَآ أَنسَابَ بَينَهُم يَومَئِذ وَلَا يَتَسَآءَلُونَ (المؤمنون، 101)

(پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن نہ ان کے درمیان رشتے ناتے باقی رہیں گے، اور نہ کوئی کسی کو پوچھے گا۔)

اس آیت کی تفسیر میں قاضی بیضاوی نے لکھا ہے  کہ قیامت کے دن کسی کو اس کا نسب کچھ فائدہ نہیں دے سکے گا کیونکہ اس دن آدمی اپنے بھائی سے، والدین سے، بیوی بچوں سے  دور بھاگے گا اور ہر ایک کو اپنی پڑی ہوگی؛ نہ ہی نسب پر کوئی فخر کرے گا کیونکہ آخرت میں نسب کا کسی کو کچھ فائدہ ہی نہیں ہوگا۔

دوسری آیت جس سے استدلال کیا جاتا ہے، درج ذیل ہے:

إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ ٱللَّهِ أَتقَىٰكُم (الحجرات، 13)

(درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو۔)

اسی طرح بعض احادیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے۔

مثلاً مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حج کے موقع پر خطبے میں فرمایا کہ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں ہے، مگر تقوی کی بنا پر۔

اسی طرح صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی: وَأَنذِر عَشِيرَتَكَ ٱلأَقرَبِينَ (اور تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبردار کرو)، (الشعرآء، 214) تو رسول اللہ ﷺ نے قریش کی سب شاخوں کو اکٹھا کرکے سب کو خبردار کیا کہ وہ خود کو آگ سے بچائیں اور انھیں کہا کہ میں اللہ کے سامنے تمھارے لیے کچھ اختیار نہیں رکھتا لیکن تم سے جو میرا رشتہ ہے اسے میں نبھاؤں گا (‌سَأَبُلُّهَا ‌ بِبَلَالِهَا)۔ (صحیح بخاری کی روایت میں اس استثنا ‌سَأَبُلُّهَا ‌ بِبَلَالِهَا کا ذکر نہیں ہے۔)

اس نوعیت کی بعض دیگر روایات بھی ہیں۔ مثلاً الادب المفرد میں امام بخاری نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن متقی لوگ ہی میرے دوست ہوں گے؛ اور ایسا نہ ہو کہ لوگ نیک اعمال ساتھ لے آئیں اور تم گردنوں پر دنیا کا بوجھ لادے ہوئے آؤ اور مجھے پکارو، تو میں تمھیں کہوں کہ یوں اور یوں۔ صحیحین میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ فلاں خاندان والے میرے دوست نہیں ہیں، بلکہ اللہ اور نیک مومن میرے دوست ہیں۔

اسی طرح صحیح مسلم کی روایت ہے کہ جسے اس کے عمل نے پیچھے کردیا، اسے اس کا نسب آگے نہیں کرسکے گا۔

نسبی تعلق کے اثبات کے لیے نصوص

تاہم دوسری جانب کئی نصوص ایسی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبی تعلق کا فائدہ ان کے رشتہ داروں میں ایمان والوں کو ہوگا۔

مثلاً سنن ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، اگر تم ان سے چمٹے رہو تو تم راستے سے نہیں ہٹوگے، ان میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہے: اللہ کی کتاب جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی رسی ہے اور میرا خاندان، میرے گھر والے؛ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض پر پہنچیں؛ پس تم دیکھو کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟

ایسی کئی روایتیں مختلف الفاظ میں دیگر کتب میں بھی روایت ہوئی ہیں۔ مثلاً سنن دیلمی میں عبد الرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمھیں اپنے خاندان کے بارے میں حسنِ سلوک کی وصیت کرتا ہوں اور ان کے ساتھ ملنے کی جگہ حوض ہے۔

اسی طرح طبرانی میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حوض پر پہلے پہنچنے والے میرے اہلِ خاندان ہوں گے اور وہ ایمان والے جو مجھ سے محبت رکھتے ہیں۔

کئی اور اسالیب میں اپنے اہلِ خاندان کےلیے خصوصی دعاؤں کا ذکر بھی طبرانی اور دیگر کتب میں آیا ہے۔ اسی طرح صحیح سند سے مستدرک حاکم کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے رب نے میرے خاندان والوں کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ ان میں جو ایمان لایا تو وہ اسے عذاب نہیں دے گا۔ خصوصاً سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد کےلیے عذاب سے نجات کا ذکر بھی طبرانی کی روایت میں ہے جس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

فائدے کی نفی کرنے والی نصوص کا درست مفہوم

جہاں تک المؤمنون کی آیت 101 کا تعلق ہے جس سے اس فائدے کی نفی کےلیے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے، تو ایک تو اس کا سیاق و سباق اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ آیت کافروں کے بارے میں ہے۔ پھر اگر یہ کافروں اور مسلمانوں سب کے بارے میں ہو، تب بھی اس کی تخصیص دیگر نصوص نے کی ہے۔

پھر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے آپ کے اہلِ خاندان کےلیے بعض خصوصی احکام تو دنیا میں بھی ہیں۔ مثلاً زکاۃ ان کو نہیں دی جاسکتی، اور اس حکم میں گنہگار اور نیکو کار کی تقسیم نہیں ہے۔

نیز رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے اہلِ کبائر کو فائدہ ہوگا (اور ہم سب آپ کی شفاعت کے امیدوار ہیں)، تو آپ اپنے خاندان میں ایمان لانے والوں کےلیے خصوصی شفاعت کیوں نہیں کریں گے اور ان کے حق میں آپ کی شفاعت کیوں قبول نہیں کی جائے گی؟

سورۃ الکہف میں جہاں ایک بستی والوں کا ذکر ہے جہاں سیدنا موسی علیہ السلام اور آپ کے ساتھی نے گرتی دیوار کی مرمت کرکے اسے بچالیا تھا، تو آپ کے ساتھی نے بتایا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کےلیے ان کے بزرگ نے خزانہ چھوڑا تھا اور وہ بزرگ نیکوکار تھے (وَكَانَ أَبُوهُمَا صَٰلِحا)۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ بچے ان بزرگ کی ساتویں پشت میں تھے۔ تو رسول اللہ ﷺ کی اولاد ان سے کتنے ہی واسطوں بعد کی ہو، ان پر ان برکات کو کیوں مستبعد سمجھا جائے؟

جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں یہ کہا گیا ہے کہ قیامت کے دن کوئی کسی کو فائدہ نہیں پہنچا سکے گا اور فیصلہ صرف اللہ کا ہی ہوگا، تو یہ بات تو مسلّم ہے کہ کسی کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، سواے اس کے جو اللہ نے اسے دیا ہے، اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت اور آپ کی نسبت سے ملنے والا فائدہ بھی دراصل اللہ تعالیٰ ہی کے فیصلے میں شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے کرم نوازی اور رحمت کے آثار میں ہیں۔

البتہ جہاں عمل پر تاکید دینے کا موقع ہو، وہاں اس پہلو پر زور دینا ضروری ہوتا ہے کہ فیصلہ اللہ ہی کا ہے اور کوئی شخص اس فیصلے سے بے فکر ہو کر نہ بیٹھ جائے، لیکن ساتھ ہی رسول اللہ ﷺ کی شفاعت اور آپ کے ساتھ تعلق کی نسبت کا پہلو بھی بتا دیا (‌سَأَبُلُّهَا  ‌بِبَلَالِهَا) تاکہ پوری بات واضح ہو اور یہ نبوی بلاغت اور حکمت کا شاندار نمونہ ہے   اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہ آپ اپنے اہلِ خاندان اور رشتہ داروں کے متعلق یہ شدید خواہش رکھتے تھے کہ وہ عمل اور تقوی کے معاملے میں پیچھے نہ رہ جائیں۔

اس زاویے سے دیکھا جائے، تو ان تمام نصوص کی آپس میں تطبیق واضح ہوجاتی ہے اور کسی نص کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں پڑتی، بلکہ سب کا درست فہم میسر ہوجاتا ہے۔

اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے

یہ بات بہرحال واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حرام کی گئی چیزوں کے متعلق سب سے زیادہ غیرت رکھنے والا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے پاس وہی اختیار ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے، اور آپ نے جن چیزوں کی تمنا کی ان میں وہی آپ کو ملیں گی جو اللہ کی مشیئت ہو۔ چنانچہ آپ کی شدید خواہش کے باوجود آپ اپنے چچا ابو طالب کو ایمان لانے پر آمادہ نہیں کرسکے، حالانکہ انھوں نے آپ کی نصرت کی اور انھیں آپ کے والد کا مقام حاصل تھا۔

إِنَّكَ لَا تَهدِي مَن أَحبَبتَ وَلَٰكِنَّ ٱللَّهَ يَهدِي مَن يَشَآءُ وَهُوَ أَعلَمُ بِالمُهتَدِينَ۔

(حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے، اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔)

لَيسَ لَكَ مِنَ ٱلأَمرِ شَيءٌ أَو يَتُوبَ عَلَيهِم أَو يُعَذِّبَهُم فَإِنَّهُم ظَٰلِمُونَ

(تمہیں اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں۔)

اسی طرح نوح علیہ السلام اپنے بیٹے کو نفع نہیں پہنچا سکے کیونکہ وہ ایمان نہیں لایا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں نوح علیہ السلام کو فرمایا:

إِنَّهُۥ لَيسَ مِن أَهلِكَ إِنَّهُۥ عَمَلٌ غَيرُ صَٰلِح (ہود، آیت 46)

(یقین جانو وہ تمہارے گھر والوں میں سے نہیں ہے، وہ تو ناپاک عمل کا پلندہ ہے۔)

پس سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے مطابق ہوگا ۔

فَلَا يَأمَنُ مَكرَ ٱللَّهِ إِلَّا ٱلقَومُ ٱلخَٰسِرُونَ (اعراف، آیت 99)

(پس اللہ کی دی ہوئی ڈھیل سے وہی لوگ بےفکر ہو بیٹھتے ہیں جو آخر کار نقصان اٹھانے والے ہوتے ہیں۔)

رسول اللہ ﷺ اور صحابۂ کرام و اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اسوہ

پس رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے اور اس کی عظمت اور بڑائی بیان کرنے والے تھے۔ یہی حالت صحابۂ کرام اور اہل بیت اور ان کے متبعین کی تھی۔

چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے لشکر تیار کیے، توحید کے علم برداروں کونصرت فراہم کی، بہت سارے ممالک فتح کیے، مسلمانوں کے ساتھ عناد رکھنے والوں کو مغلوب کیا، رسول اللہ ﷺ نے انھیں جنت کی بشارت دی، لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ تمنا کرتے کہ کاش عمر کی ماں نے عمر کو نہ جنا ہوتا! اور فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کی ڈھیل سے بے فکر نہیں ہوسکتا اور اس سب کچھ کے باوجود وہ بے پروا ہو کر نہیں بیٹھے۔ پس کوئی نسب والا اپنے نسب کی وجہ سے دھوکے میں نہ پڑے کیونکہ اللہ تعالیٰ نےاگر ہمارے ساتھ عدل پر فیصلہ کیا، تو ہم میں بچنے والے تھوڑے ہی ہوں گے۔ 

یہ بھی جان لینا چاہیے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا  رسول اللہ ﷺ کے جگر کا ٹکڑا تھیں لیکن ان کی کوئی نسبت رسول اللہ ﷺ کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت سے نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی چاہت  ہی آپ کی چاہت تھی اور اللہ تعالیٰ جس سے ناراض ہو، تو آپ بھی اس سے ناراض ہوتے خواہ وہ آپ کو سب لوگوں میں محبوب ہوتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اس شخص سے آپ کی محبت کے خاتمے کا سبب بن جاتی۔ پس رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی ذات ہی سب سے زیادہ شان والی اور سب سے زیادہ محبوب تھی۔

صحیح سمجھ رکھنے والے کےلیے یہ بات واضح ہے اور جو شخص رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین پر عمل پیرا نہ ہوتا، اس سے آپ کا دور ہوجانا، خواہ وہ آپ کا کتنا ہی قریبی رشتہ دار ہو، اس بات کی دلیل ہے۔ تو جو شخص رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نسبی تعلق کا دعوی کرتا ہے اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام کو پامال کرتا ہے، وہ کیسے یہ گمان کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اس کی کچھ حیثیت ہوگی؟ کیا یہ کند ذہن شخص یہ سمجھتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے نزدیک اس کی حیثیت اللہ تعالیٰ کی حرمتوں سے بڑھ کر ہے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ جو شخص ایسا اعتقاد رکھتا ہے، اس کے برے خاتمے کا اندیشہ ہے۔

پس اس شخص کو اہل بیت اطہار کے بزرگوں کا کردار دیکھنا چاہیے کہ ان کا بھروسہ کس چیز پر تھا، ان کے اخلاق کیسے تھے اور ان کے اعمال کیسے تھے؟پس اگر یہ شخص اس پر غور کرے گا اور نیک نیتی سے اس پر عمل کرنا چاہے گا، تو اس کےلیے اللہ کی توفیق سے اس راستے پر چلنا آسان ہوگا۔


علامہ شامی کے رسالے کا خلاصہ ختم ہوا۔ آگے میں چند نکات مولانا اصلاحی کی تفسیر سے پیش کروں گا کیونکہ اس موضوع پر موجودہ بحث ان لوگوں نے شروع کی ہے جو اپنی نسبت مولانا اصلاحی کے مکتبِ فکر کی طرف کرتے ہیں۔

یہ بھی نوٹ کیجیے کہ علامہ شامی خود حسینی سادات میں سے تھے۔

قرآن کریم کے تین مقامات: مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر کی روشنی میں

اس بحث میں قرآن کریم میں 3 مقامات خصوصاً قابلِ غور ہیں۔ ان تینوں مقامات پر ترجمہ مولانا اصلاحی کا پیش کیا جارہا ہے۔ (اس سے قبل اس مضمون میں آیات کا ترجمہ مفتی محمد تقی عثمانی کا تھا۔)

پہلا مقام سورۃ المؤمن کی آیت 8 ہے جہاں مومنوں کے حق میں اللہ تعالیٰ کے مقرّب فرشتوں کی دعا کا ذکر ہے اور اس میں یہ بات بھی آئی ہے:

رَبَّنَا وَأَدخِلهُم جَنَّٰتِ عَدنٍ ٱلَّتِي وَعَدتَّهُم وَمَن صَلَحَ مِن ءَابَآئِهِم وَأَزوَٰجِهِم وَذُرِّيَّٰتِهِم إِنَّكَ أَنتَ ٱلعَزِيزُ ٱلحَكِيمُ

(اے ہمارے رب! ان کو ہمیشگی کے ان باغوں میں داخل کر جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ اور ان کو بھی جو ان کے آباء اور ازواج و دّرّیات میں سے جنت کے لائق ٹھہریں۔ بے شک عزیز و حکیم تو ہی ہے۔)

دوسرا مقام سورۃ الرعد کی آیت 23 ہے جہاں اس دعا کی قبولیت کا ذکر ہے:

جَنَّٰتُ عَدن يَدخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِن ءَابَآئِهِم وَأَزوَٰجِهِم وَذُرِّيَّٰتِهِم وَٱلمَلَٰٓئِكَةُ يَدخُلُونَ عَلَيهِم مِّن كُلِّ بَاب

(ابد کے باغ جن میں وہ داخل ہوں گے اور وہ بھی جو اس کے اہل بنیں گے ان کے آبا و اجداد، ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے۔)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا اصلاحی فرماتے ہیں:

"فرمایا کہ ان کے لیے ابد کے باغ ہوں گے جن میں وہ اتریں گے اور ان کی مسرت کی تکمیل کے لیے ان کے ساتھ ان کے باپ دادوں اور ان کی ازواج و اولاد میں سے ان لوگوں کو بھی جمع کر دیا جائے گا جو اپنے اعمال کی بدولت اس کے اہل قرار پائیں گے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ جب وہ کسی نعمت سے بہرہ مند ہوتا ہے تو اس کی یہ دلی آرزو ہوتی ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شریک ہوں جو اپنے عزیز رہے ہیں یا جنھوں نے اس کو عزیز رکھا ہے۔ اس کی اس فطرت کے تقاضے کا لحاظ کر کے اللہ تعالیٰ اس کے عزیزوں اور قریبوں کو بھی اس کے ساتھ جمع کر دے گا بایں شرط کہ وہ جنت میں جانے کے اہل ہوں۔ یہ شرط ایک بنیادی شرط ہے جو ملحوظ نہ رہے تو وہ نظام حق ہی متزلزل ہو جائے جو ان آیات میں زیربحث ہے لیکن اس شرط سے اللہ تعالیٰ کے اس فضل کی نفی نہیں ہوتی کہ وہ ان صالحین و ابرار کی مسرت کی تکمیل کے لیے ان کے ان اعزا و اقربا کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دے جو اگرچہ باعتبار درجہ و مرتبہ ان سے فروتر ہوں لیکن ہوں وہ جنت کے حق داروں میں سے۔"

یہ تقریباً وہی بات ہے جو علامہ شامی کے رسالے کی تلخیص میں ذکر کی گئی، لیکن اتمامِ حجت کےلیے تیسرا مقام بھی دیکھ لیجیے جو سورۃ الطور کی آیت 21 ہے:

وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱتَّبَعَتهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ أَلحَقنَا بِهِم ذُرِّيَّتَهُم وَمَآ أَلَتنَٰهُم مِّن عَمَلِهِم مِّن شَيء كُلُّ ٱمرِيِٕ بِمَا كَسَبَ رَهِين

(اور جو لوگ ایمان لائے، اور ان کی اولاد نے بھی ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ان کے ساتھ ہم ان کی اولاد کو بھی جمع کر دیں گے اور ان کے عمل میں سے ذرا بھی کمی نہیں کریں گے۔ ہر ایک اس کمائی کے بدلے میں گرو ہو گا جو اس نے کی ہو گی۔)

اس آیت کی تفسیر میں مولانا اصلاحی کہتے ہیں:

"اہل ایمان کی مسرت کی تکمیل کے لیے ایک بشارت: جنت میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی مسرت کی تکمیل کے لیے جو اہتمام فرمائے گا اسی سلسلہ میں یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ ان کی اولاد میں سے جس نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہو گی اللہ تعالیٰ ان کو بھی ان کے ساتھ ملا دے گا اگرچہ وہ ایمان و عمل کے اعتبار سے ان کے درجے کے مستحق نہ ہوں۔ اس یکجائی کے لیے ضابطہ یہ بیان فرمایا کہ وَمَآ أَلَتنَٰهُم مِّن عَمَلِهِم مِّن شَيء اولاد کے ایمان کے کسر کا جبر ان کے والدین کے عمل میں کمی کر کے نہیں کیا جائے گا۔ وہ اپنے اسی مرتبہ پر سرفراز رہیں گے جس کے وہ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے مستحق قرار پائے ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل خاص سے ان کی اولاد کے درجے کو اونچا کر دے گا۔ وَٱتَّبَعَتهُم ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَٰنٍ  میں لفظ ایمان کی قید سے یہ بات نکلتی ہے کہ یہ رعایت صرف اسی اولاد کے لیے خاص ہے جس نے ایمان کے ساتھ اپنے بزرگ کی اتباع کی ہو، اگر وہ ایمان سے محروم ہو تو اس رعایت کی مستحق نہیں ہو گی اگرچہ وہ ان کے اتباع کی کتنی ہی بلند آہنگی کے ساتھ مدعی ہو۔ لفظ ’ایمان‘ کی تنکیر سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ اس کے مدارج ہیں۔ اگر اولاد کو ایمان کا وہ ادنیٰ درجہ بھی حاصل ہوا جو اس کو جنت کے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ کا بھی مستحق ٹھہراتا ہے تو وہ اس رعایت کی مستحق قرار پائے گی۔"

آگے فرماتے ہیں:

" نجات سے متعلق اصل ضابطہ كُلُّ ٱمرِيِٕ بِمَا كَسَبَ رَهِين۔ نجات سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اصل ضابطہ بیان فرما دیا ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کے عوض گرو ہے۔ عمل ہی چھڑائے گا، عمل ہی ہلاک کرے گا۔ یہ نہیں ہو گا کہ ایمان و عمل کے بغیر محض نیکوں سے ظاہری نسبت رکھنے کے سبب سے کوئی جنت میں ان کے پاس پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل انہی پر فرمائے گا جو اپنے ایمان و عمل سے اس کا استحقاق پیدا کریں گے۔"

پھر اس مقام پر مولانا اصلاحی نے اپنے تئیں ایک شبہے کے ازالے کی بھی کوشش کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

"ایک شبہ کا ازالہ: یہاں ممکن ہے کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو کہ جب نجات کے باب میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے عمل کے عوض میں گرو ہے تو اولاد کا اپنے سے برتر درجے کے بزرگوں کی صف میں جا پہنچنا کس بنیاد پر ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تعلق رکھنے والا ہے جو اس نے اپنے باایمان بندوں کے لیے خاص رکھا ہے۔ اس سے اس ضابطہ کی نفی نہیں ہوتی جو كُلُّ ٱمرِيِٕ بِمَا كَسَبَ رَهِين کے الفاظ سے بیان ہوا ہے۔ نجات تو بے شک کسی کو ایمان و عمل کے بغیر حاصل ہونے والی نہیں ہے لیکن اس سے یہ بات لازم نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ اپنے باایمان بندوں کے مراتب و مدارج میں اپنے فضل سے اضافہ بھی نہیں فرمائے گا۔ ان دونوں چیزوں کے دائرے الگ الگ ہیں۔ ان میں باہمدگر کوئی تناقض نہیں ہے۔ "

میرا خیال ہے کہ ان اقتباسات سے بات ان لوگوں کےلیے بھی واضح ہوگئی ہوگی جو اپنی نسبت مولانا اصلاحی کے مکتبِ فکر سے کرتے ہیں۔بس وہ صرف اس سوال پر غور کریں کہ ان تین مقامات پر جو بات کہی گئی ہے کہ اسے کسی شخص کی ساری صلبی اولاد کے بجاے صرف پہلی یا دوسری نسل (بیٹوں، بیٹیوں  اور پوتوں پوتیوں، نواسوں، نواسیوں) تک محدود کرنے کی کیا دلیل ہے؟ پھر اگر یہ بشارت ہم میں سے ہر مومن کےلیے ہے، تو رسول اللہ ﷺ کی اولاد کےلیے یہ کتنی خوش بختی کا مقام ہے؟

ھذا ما عندی، والعلم عند اللہ!

قادیانی مسئلہ اور دستوری و قانونی ابہامات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا مفتی محمد رویس خان ایوبی نے قادیانی گروہ کی حالیہ سرگرمیوں کے بارے میں پائے جانے والے ابہامات کی وجہ دستوری تقاضوں اور بعض عدالتی فیصلوں میں ظاہری تضاد کو قرار دیا ہے، اور ایک بیان میں تجویز دی ہے کہ اس ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کے لیے دستوری و قانونی طور پر قادیانی گروہ کو ایک مستقل امت کے طور پر تسلیم کرنے کی بجائے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ یہ بات موجودہ حالات میں گہرے غور و خوض کی متقاضی ہے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے۔

چند سال قبل بادشاہی مسجد لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس میں اس وقت کے وفاقی وزیر امور مذہبی کی موجودگی میں راقم الحروف نے بھی قدرے مختلف حوالے سے یہی بات کہی تھی جو کانفرنس کے شرکاء کو یاد ہو گی۔ میں نے عرض کیا تھا کہ ملک میں بہت سی جماعتوں کو قانون شکنی اور ملکی سالمیت کے منافی سرگرمیوں کے عنوان سے خلافِ قانون قرار دیا گیا ہے اور ان کے خلاف مختلف مراحل میں آپریشن اور کریک ڈاؤن کا اہتمام کیا گیا ہے، تو دستورِ پاکستان کی دفعات اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ کو قبول نہ کرنے پر قادیانی گروہ کے بارے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کو اس طرح کا ایکشن لینا چاہیے۔ وہی بات آج مولانا قاضی محمد رویس خان ایوبی نے آئینی ترمیم کے حوالے سے فرمائی ہے اور مجھے ان کی بات سے اصولی طور پر اتفاق ہے۔

۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے تاریخی فیصلہ کو قبول کرنے سے قادیانی گروہ کے واضح انکار اور اس کے خلاف عالمی سطح پر مسلسل مہم جوئی نے جو مسائل کھڑے کر دیے تھے، انہی کے باعث ۱۹۸۴ء میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس نافذ کرنا پڑا تھا، مگر اس کے باوجود صورتحال میں کوئی واضح فرق نہیں پڑا اور قادیانیوں کے بارے میں دستوری اور قانونی فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کے درمیان آنکھ مچولی بدستور جاری ہے، جس کا اظہار عید الاضحٰی کے موقع پر قربانی کے سلسلہ میں بھی کچھ عرصہ سے ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کا تقاضہ ہے کہ چونکہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روک دیا گیا ہے اس لیے وہ قربانی نہیں کر سکتے۔ جبکہ قادیانیوں نے متعلقہ فورموں پر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور ملکی دستور کے مطابق چار دیواری کے اندر کسی کو عبادت سے نہیں روکا جا سکتا اس لیے گھر کے اندر قربانی سے انہیں روکنا درست نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں گھر کی چار دیواری کے اندر کسی بھی گروہ کی عبادت کو تحفظ دیا گیا ہے۔

کچھ عرصہ قبل گوجرانوالہ میں یہ صورتحال پیش آئی اور ضلعی امن کمیٹی کے مختلف مکاتب فکر کے ممبر علماء کرام نے اس طرف توجہ دلائی تو جمعیت علماء اسلام پاکستان کے ضلعی سیکرٹری جنرل اور امن کمیٹی کے ممبر بابر رضوان باجوہ نے ایک سوالنامہ مرتب کر کے کچھ مفتیان کرام کی خدمت میں ارسال کیا جس پر میں نے تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والے بعض حضرات کو مشورہ دیا کہ چونکہ مسئلہ قانون کے نفاذ اور تطبیق سے بھی تعلق رکھتا ہے اس لیے اس بات کا اہتمام ہونا چاہیے کہ سرکردہ مفتیان کرام اور ختم نبوت کے لیے کام کرنے والے سرکردہ وکلاء مل بیٹھ کر اس کے بارے میں کوئی موقف اور لائحہ عمل اختیار کریں تاکہ یہ ابہام دور ہو اور قادیانیوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے عملاً روکا جا سکے۔

میرے نزدیک اس کے دونوں پہلو اہم ہیں (۱) ایک یہ کہ کسی غیر مسلم کو چار دیواری کے اندر مذہبی سرگرمیوں سے روکنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (۲) دوسرا یہ کہ دستور و قانون اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں اس کے نفاذ اور تطبیق کی عملی صورت کیا ہو گی، اور یہ بھی کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کے حوالے سے ہمارا طرز عمل کیا ہونا چاہیے؟

یہ مسئلہ حل طلب ہے، دونوں طبقوں کو مل کر اس کا حل نکالنا چاہیے اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ اہتمام کرنا چاہیے، کیونکہ پیش آمدہ مسائل سے اعراض کی بجائے ان کا سامنا کرنا ہی بہتر طریقہ ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کچھ عرصہ سے میرا ایک سنجیدہ سا تاثر چلا آ رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے قادیانیوں کے بارے میں دستوری و قانونی فیصلہ پر عملدرآمد کے بارے میں ابہام کی فضا قائم کر رکھی ہے اور مختلف تشریحات و تعبیرات کا ماحول ان فیصلوں پر عملدرآمد میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اس لیے اس کنفیوژن کو جلد از جلد دور ہونا چاہیے، جس کی ایک صورت وہ ہے جو مولانا مفتی محمد اویس خان ایوبی نے پیش کی ہے کہ قادیانیوں کو مذہبی گروہ تسلیم کرنے کی بجائے غیر قانونی قرار دیا جائے۔ جبکہ اس سلسلہ میں اسٹیبلشمنٹ اور تحفظ ختم نبوت کے لیے کام کرنے والی جماعتوں کے لیے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اگر سپاہ صحابہؓ، سپاہ محمدؐ، جماعت الدعوۃ اور سنی فورس سمیت بیسیوں جماعتوں کو قانون شکنی کے عنوان سے کالعدم اور غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے تو جماعتِ احمدیہ پاکستان کو دستور کے واضح فیصلہ سے انکار کی بنیاد پر کالعدم اور غیر قانونی کیوں قرار نہیں دیا جا سکتا؟ ختم نبوت کی مقدس جدوجہد سے دلچسپی رکھنے والے تمام حلقوں کو اس کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینا چاہیے، اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح رخ پر کام کرنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

حسن و قبح کی کلامی جدلیات اور امام رازیؒ (۲)

مولانا محمد بھٹی

مبحث کا قانونی پہلو1

نفسِ مسئلہ کی مقدور بھر تنقیح کے بعد لازم ہے کہ اس کے مضمرات و اطلاقات کا جائزہ لیا جائے۔ عنوان ہذا کا کلیدی سوال یہ ہے کہ کیا اخلاقی حسن و قبح کی کوئی تکلیفی حیثیت بھی ہے یا نہیں؟ معتزلہ اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں،اور اشاعرہ سوال کی کایا کلپ کر دیتے ہیں۔معتزلہ کا کہنا ہے کہ جو چیز حسَن یا قبیح ہے وہ واجب،مندوب،مباح یا حرام بھی ہے جبکہ اشاعرہ حسن و قبح کو حکم کا ضمنی پہلو قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جو چیز واجب،مندوب،مباح یا حرام ہے وہ حسن یا قبیح بھی ہے۔گویا اشاعرہ حکم کو اخلاقیات(حسن و قبح) پر مقدم قرار دیتے ہیں اور معتزلہ مزعومہ اخلاقیات کو حکم پر سبقت دیتے ہیں۔معتزلہ کے ہاں اخلاقیات تکلیفی و شرعی احکام کی اصل ہیں جبکہ اشاعرہ کے نزدیک معاملہ معکوس ہے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ اہل سنت والجماعت_اشاعرہ و ماتریدیہ_کا متفقہ موقف یہ ہے کہ کسی بھی شے کے ایجاب(واجب کرنے) اور تحریم(حرام ٹھہرانے) کا حتمی اختیار صرف اللہ رب العزت کو حاصل ہے۔2

معتزلہ کا موقف:

گزارش ہے کہ معتزلہ کا موقف اصولی سطح  پر نہایت خجستہ و بے ضرر معلوم ہوتا ہے لیکن جیسے ہی اس کی اطلاقات و مضمرات کو کھنگالا جائے تو  اس کا بھیانک رخ بے حجاب ہو جاتا ہے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ جن وجوہِ عائدہ کی بنا پر کوئی فعل برا یا بھلا ٹھہرتا ہے وہی وجوہ عائدہ فعل کو واجب حرام یا مباح بھی ٹھہراتی ہیں۔یعنی موجبِ اصلی وجوہ عائدہ ہیں اور عقل یا شریعت کا کام بس ان احکام موجَبہ پر دلالت یا ان کی نشاندہی کرنا ہے۔ظلم اس لیے حرام ہے کہ وہ ظلم ہے،عقل یا شرع محض اس کی حرمت پر دلالت کرتی ہے۔ان کے نزدیک نفسِ وجوب میں حکم ربی کو کوئی دسترس نہیں ہے۔ نماز کا وجوب کنندہ بھی حکم ربی نہیں بلکہ نماز سے حاصل ہونے والی عظیم منفعت ہے،حکم ربی محض اس کے وجوب سے ہمیں آگاہ کرتاہے۔مزید براں،اگر ان منافع کا علم عقل کے ذریعے حاصل ہو جائے تو  وہی علم اس کے وجوب پر دلالت کے لئے کافی ہوگا،حکم ربی کی کوئی ضرورت نہ رہے گی۔قاضی عبدالجبار لکھتے ہیں:

"لو علمنا بالعقل ان لنا فی الصلاة نفعا عظیما،وانها تؤدی بنا الی ان نختار فعل الواجب و نستحق بها الثواب،لعلمنا وجوبها عقلا"

"اگر ہم بذریعہ عقل یہ جان لیں کہ نماز میں عظیم منفعت ہے،یہ ہمیں فعلِ واجب(شکر منعم) کی ادائیگی کی طرف لے جاتی ہے اور اس کے ذریعے ہم ثواب کے حق دار ٹھہرتے ہیں تو ہم بذریعہ عقل ہی اس کا واجب ہونا بھی جان لیں گے"3

یعنی معتزلہ کے نزدیک نماز کا وجوب کنندہ بھی خدا تعالی نہیں،وجوہ عائدہ ہیں۔خدا نے تو محض اس مخفی وجوب کی نشاندہی کی ہے۔قاضی عبدالجبار خداوند متعال کے وجوب کنندہ ہونے،نہ ہونے بابت ایک استفسار کا جواب دیتے ہوئے حاکمیتِ باری تعالی کےمتعلق کچھ یوں جرات آزماتے ہیں:

"الغرض بقولهم ان الله اوجب،أنه اعلمنا وجوب الواجب،او مكننا من معرفته بنصب الأدلة"

"ان(امت) کا یہ کہنا کہ "اللہ نے(فلاں فعل) واجب کیا ہے" تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے ہمیں واجب کے وجوب سے آگاہ کیا ہے یا پھر دلائل قائم کر کے وجوب کی پہچان ہمارے لیے ممکن بنا دی ہے"4

یعنی خدا تعالی کسی فعل کو واجب نہیں کرتا بلکہ پہلے سے واجب شدہ فعل سے ہمیں محض آگاہ کرتا ہے۔معتزلہ کے اسی موقف کو عموما یوں تعبیر کیا جاتا ہے کہ معتزلہ عقل کو موجب/حاکم قرار دیتے ہیں۔گو کہ براہ راست تو وہ عقل کو وجوب کنندہ یا حاکم نہیں ٹھہراتے تاہم غور کیا جائے تو اس موقف کے نہاں خانوں میں حاکمیتِ عقل ہی دبکی ہوئی ہے۔کیونکہ جب یہ کہا جائے کہ 'وجہ عائد کے واجب کردہ فعل کا علم،شرع کے ساتھ ساتھ عقل پر بھی موقوف ہے اور بعض افعال کے وجوب و حرمت پر عقل کی رہ نمائی ہی کافی ہے' تو یہ بالواسطہ عقل کو ہی موجِب/حاکم قرار دینے کے مترادف ہے۔بالفرض اگر عقل کو موجب نہ بھی قرار دیا جائے جب بھی ان کے ہاں عقل جداگانہ طور پر میں مدارِ تکلیف اور ماخذ دین تو بہرحال رہتی ہے،کیونکہ ان کے مطابق حکم تک رسائی میں عقل بدونِ شریعت بھی ایک کارگر قوت ہے۔گزارش ہے کہ متذکرہ بالا موقف معتزلہ کی عقلی خودسری کا بھرپور اظہار ہے اور اپنے مآل میں شریعت اسلامی کو marginalize کر دینے کے مترادف ہے۔یہی وجہ ہے کہ اشاعرہ بھرپور استدلالی قوت کے ساتھ تردید اعتزال کے اکھاڑے میں قدم زن ہوئے اور شریعت اسلامی کے تفوق کا دفاع کیا۔عصرِ رواں کے متجددین بھی فطرت و عقل کے مبحث میں اسی معتزلی جسارت کا اعادہ کر رہے ہیں گو کہ ان کا ایسا کرنا یکسر مختلف تاریخی موثرات سے اثرپذیری کا نتیجہ ہے۔

ماتریدی زاویۂ نظر:

معتزلہ کے برعکس ماتریدی موقف اس اصول پر استوار ہے کہ موجب و حاکم صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔ماتریدیہ وجوہ عائدہ کو موجب یا حاکم نہیں کہتے اور نہ عقلی حسن و قبح کو مدار تکلیف ٹھہراتے ہیں۔وہ وجوب کو دو حصوں(نفسِ وجوب اور وجوبِ ادا) میں تقسیم کرتے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ انسان میں وجوب کی اہلیت بوقتِ تخلیق ہی موجود ہوتی ہے،اسی پل انسان پر اللہ تعالی کی طرف سے بنیادی احکام واجب کر دیے جاتے ہیں۔ماتریدیہ کے اس موقف کی اساس عہد الست ہے۔وہ کہتے ہے ہیں کہ بوقت تخلیق ہی اللہ تعالی نے انسان کے شانوں پر بارِ امانت لاد دیا ہے۔قاضی ابو زید دبوسیؒ(م:۴۳۰ھ) رقم طراز ہیں:

"ان الذمة عبارة عن العهد فى اللغة،فالله تعالى لما خلق الانسان لحمل امانته و اكرمه بالعقل و الذمة حتى صار بها اهلا لوجوب الحقوق له و عليه"

"ازروئے لغت ذمہ عہد کو کہتے ہیں، سو اللہ تعالی نے جب انسان کو تخلیق کیا تو (اسی پل) اس پر بارِ امانت لاد دیا اور اسے عقل و ذمہ کے ذریعے عزت بخشی تاآنکہ وہ ان کے ذریعے حقوق و فرائض کے وجوب کا اہل بن گیا"5

 البتہ پیدائش کے بعد صغر سنی کے عذر کی بنا پر اس واجب کی ادائیگی انسان سے ساقط ہو جاتی ہے کیونکہ حکم کی ادائیگی کے لئے شریعت کی طرف سے ادائیگی کا مطالبہ ضروری ہے اور شرعى مطالبے کا مخاطب بننے کے لئے عقلی تمییز اور بدنی قوت کا ہونا ناگزیر ہے۔یعنی حکم تو بوقتِ الست ہی انسان کے ذمہ میں واجب ہے لیکن اس کی ادائیگی جبھی لازم ہوگی جب شریعت فرد سے اس کا مطالبہ کرے گی۔ممکن ہے قارئین کی سطحِ ذہن پر اصولی ہم آہنگی سے متعلق یہ سوال ابھرے کہ پھر حسن و قبح کے عقلی ہونے کا ثمرہ کیا برآمد ہوا؟ گزارش ہے کہ ماتریدیہ حسن و قبح کی پہچان، جسے قاضی ابو زید دبوسی تمییز سے تعبیر کرتے ہیں، کو حکم شرعی کا مخاطب بننے کے لئے ضروری قرار دیتے ہیں۔یعنی عقلی حسن و قبح کسی شے کو قانونا واجب یا حرام نہیں ٹھہراتا بلکہ انسان کو شریعت کا مخاطب بننے کے قابل کر دیتا ہے۔گویا بھلے برے کی تمیز کا ملکہ حاصل ہو جانے کے بعد انسان مخاطبِ شریعت بننا qualify کر جاتا ہے۔ چونکہ ان کے نزدیک حسن و قبح بلا کسی گہرے سوچ و بچار کے، محض بداہتِ عقل سے ہی حصارِ معلومیت میں آ جاتا ہے لہذا جیسے ہی کوئی شخص سنِ تمیز میں قدم رکھے گا تو خو بہ خود شریعت کا مخاطب بن جائے گا۔

اسی طرح ماتریدیہ عرفانِ حسن و قبح کے عقلی ملکہ کو بوقتِ تخلیق اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ احکام پر دلالت سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔گویا بذریعہ عقل معلوم ہونے والا حسن و قبح دراصل انہی احکام واجبہ کی یاد دہانی ہے جو بوقتِ الست واجب کیے گئے۔ با ایں ہمہ محض اس عقلی دلالت سے کسی حکم کی ادائگی لازم نہیں ہو گی بلکہ اس حکم کی ادائیگی یا بالفاظ دگر قانونی حیثیت ازروئے شرع ہی لازم و متعین ہو گی۔6 حسن و قبح کے عقلی ہونے کا مفاد بس اسی قدر ہے کہ اس سے آدمی شریعت کا مخاطب بننے کی اہلیت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ غور کیا جائے تو اشاعرہ و معتزلہ دونوں کے روبرو ماتریدیہ کا موقف زیادہ متوازن، عمیق اور بصیرت افروز ہے۔

اشعری موقف:

دریں باب اشعری موقف گزشتہ مواقف کی طرح نہایت دوٹوک ہے۔اشعری نظام میں حکم و وجوب کے معاملہ میں نبی اور شریعت کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔نبی کی آمد سے پیشتر وہ کسی حکم کے قائل نہیں ہیں۔ان کے نزدیک موجب/حاکم محض اللہ تعالی کی ذات ہے اور حکم/وجوب محض سمع و شریعت سے معلوم ہوتا ہے چنانچہ شریعت سے ماقبل بندے کے لئے کوئی حکم نہیں ہے۔يہی موقف امام فخرالدین رازیؒ "المحصول" میں یوں ضبط قرطاس فرماتے ہیں:

"ان قبل الشرع ما ورد خطاب الشرع-فوجب ان لا یثبت شیئ من الاحکام لما ثبت:ان الاحکام لاتثبت الا بالشرع"

"شریعت سے ماقبل چونکہ خطاب شرعی کا ورود نہیں ہوا چنانچہ لازم ہے کہ کوئی بھی حکم ثابت نہ ہو کیونکہ یہ امر پایہ ثبوت کو پہنچ چکا ہے کہ احکام صرف شریعت سے ہی ثابت ہوتے ہیں"7

عرفانِ باری تعالی

انسان پر اولین واجب کیاہے؟اس سوال کے جواب میں تینوں کلامی مکاتبِ فکر یک زبان ہو کر گویا ہوتے ہیں کہ معرفتِ خداوندی کے لئے آیاتِ الہی میں غور و فکر كرنا انسان پر واجبِ اولیں ہے۔فرد پر یہ لازم ہے کہ وہ انفس و آفاق میں موجود خدا کی نشانیوں پر غور و فکر کر کے خدا کا عرفان حاصل کرے۔لیکن جب یہ استفسار کیا جائے کہ انسان پر یہ نظر و فکر واجب کرنے والا کون ہے تو ہر سہ فریق حسبِ اختلافِ اصول،مختلف جوابات ارزاں کرتا ہے۔اشاعرہ کے نزدیک عرفان خدا کے لئے نظر و فکر کا موجب اللہ تعالی ہے اور یہ وجوب شرع سے ہی ثابت ہوتا ہے۔لہذا اگر کسی شخص کو نبی کی دعوت نہ پہنچی ہو تو اس سے معرفتِ خداوندی بابت بھی کوئی پرسش نہ ہوگی۔معتزلہ کے نزدیک اس غور و فکر کو واجب ٹھہرانے والی وجہ شکرِ منعم ہے جس کا حسن ہونا بذریعہ عقل معلوم ہے لہذا عرفان خدا کے لئے انفس و آفاق میں غور و فکر کا وجوب بھی عقلا ثابت ہوتا ہے۔

ماتریدی اصولی نظام کی رو سے بظاہر اس مسئلہ کا جواب یوں ہونا چاہیے تھا کہ غور و فکر کا موجب اللہ تعالی ہے اور اس واجب کی ادائیگی شرع کے مطالبے سے لازم ہوتی ہے۔لیکن یہاں امام ابوحنیفہؒ کا ایک قول آڑے آ جاتا ہے کہ غور و فکر کی ادائیگی حکمِ شریعت کی غیر موجودگی میں بھی واجب ہے اور اس سے بے اعتنائی کا کوئی عذر مسموع نہیں ہے۔قاضی ابو زید دبوسیؒ اس قول کو اصولی سانچے میں موزوں کرنے کے لئے اس کی توجیہہ یوں فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے ادائیگی کو بذریعہ عقل لازم نہیں ٹھہرایا بلکہ آپ کی مراد دراصل یہ ہے کہ خدا تعالی نے انسان کو  جا بہ جا پھیلی آیات الہی کی صورت میں جو دلائل اور  نظر و فکر کے لئے جو مہلت عنایت کی ہے اس کے ہوتے ہوئے بھی اگر کوئی عدم تفکر کا عذر تراشے تو اس کا عذر خدا کے ہاں قابلِ قبول نہ ہوگا8۔قاضى صاحب ایک اور مقام میں اس مسئلہ کو  قدرے بسط کے ساتھ موضوعِ سخن بناتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معرفتِ باری تعالی کا نفسِ وجوب تو بوقت تخلیق ہی ثابت ہے تاہم چونکہ انسان اہواء و شہوات کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہو کر اس واجب کو فراموش کر بیٹھتا ہے،اس لیے بذریعہ شرع اس واجب کی ادائیگی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔گویا نبی کے ذریعے واجب کی ادائیگی کا مطالبہ غافل کو تنبیہ کیے جانے کی مانند ہے۔اس مطالبہ کا مطلب دراصل خوابِ غفلت میں مگن انسان کو جھنجوڑ کر بیدار کرنا ہوتا ہے۔

مزید براں آپ فرماتے ہیں کہ تصویر کے لئے مصور کا ہونا اور عمارت کے لئے کسی معمار کا ہونا بدیہی حقیقت ہے جسے بغیر کسی خارجی راہنمائی کے انسان بُوجھ لیتا ہے۔ایسے ہی زمین و آسمان کا بھی کسی خالق کی تخلیق ہونا ایک بدیہی امر ہے۔عرفان باری تعالی کے معاملہ میں یہ بداہتِ عقلی دراصل نبی کی تنبیہہ کے ہی قائم مقام ہے۔پس جس انسان کے پاس عقل بھی ہو اور مہلت بھی ہو،پھر اس کی عقل اسے خواب غفلت سے بیدار بھی کر رہی ہو اسے کیسے یہ عذر دیا جا سکتا ہے کہ اس نے گوناگوں عجائب سے لدے اور بوقلموں غرائب سے اٹے گیتی و گگن تو دیکھے لیکن یہ نہ جان سکا کہ ان کا کوئی مصور و خالق بھی ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ بداہتِ عقلی کا یہ جھنجوڑنا نبی کے جھنجوڑنے کے ہی قائم مقام ہے۔اب بھی اگر وہ خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہو تو یہ حجت اور دلیل کے استخفاف اور اس شخص کی ہٹ دھرمی کے سوا کچھ نہیں،ایسے ہٹ دھرم کے لئے کوئی عذر بروز قیامت کیونکر مسموع ہوگا؟!9

شکرِ منعم کا قضیہ

جیسا کہ سابقہ سطور میں مرقوم ہوا کہ معتزلہ عرفانِ خدا کے وجوب کی بنیاد شکر منعم کو بناتے ہیں۔دریں باب معتزلی موقف کی جڑیں ان کے تصور حسن و قبح میں ہی پیوست ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انواع و اقسام کی نعمتوں سے محظوظ ہوتے شخص سے عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ منعِم کا شکر بجا لائے۔عقل شکر کو اچھا اور واجب ٹھہراتی ہے اور ناسپاسی کو قبیح اور حرام جانتی ہے۔لہذا شکر کا سب سے پہلا تقاضا یہ ہے کہ عرفانِ منعم کی جستجو کی جائے اور جانا جائے کہ آخر کون ذات ہے جو یہ انعامات ہم پر ارزاں کر رہی ہے۔ہرچند کہ عقلی حسن و قبح کے استرداد کے بعد شکر منعم کے وجوب پر الگ سے بحث کی زیادہ حاجت نہیں رہتی،با ایں ہمہ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر امام رازی نے اس معتزلی موقف کی بھی خوب خبر لی ہے۔آپ شکر منعم کے عقلی وجوب کی تردید کے لئے برسبیل تنزل عقلی حسن و قبح کو تسلیم کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عقلا شکر منعم کی تمام تر سرگرمی بے معنی ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ شکر منعم کے وجوب میں اگر کوئی خارجی غرض اور فائدہ مضمر نہ ہو تو ایسے بے غرض فعل کو عقلی (Rational) بنیادوں پر لازم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ایسا فعل عقلا ایک فعلِ عبث ہے جو معتزلہ کے نزدیک قبیح ہے اور اگر اس سے کوئی غرض براری مقصود ہے تو لازمی طور پر وہ غرض یا تو کسی منفعت کا حصول ہے یا پھر کسی پیش آمدہ مضرت سے خلاصی،اور یہ دونوں موہوم ہیں۔کیونکہ اللہ تعالی اس بات پر قادر ہے اور اس بات كا قوی احتمال موجود ہے کہ وہ بندے کو بغیر شکرگزاری کے بھی منفعت بخش دے اور شکرگزاری کے باوجود مضرت سے دوچار کردے،نیز اگر منفعت کا حصول قطعی بھی ہو تو بھی عقل منفعت کی تحصیل کو واجب و لازم نہیں ٹھہراتی۔اسی طرح اگر شکرگزاری سے مقصود مضرت کو دور کرنا ہو،بایں معنی کہ ناشکری کی صورت میں بندے کو کسی افتاد کا یقین ہو اور وہ شکر کے ذریعے اس کو ٹالنا چاہتا ہو تو یہ بھی موہوم امر ہے،کیونکہ ناشکری کی صورت میں عذاب و سزا سے دوچار ہونے کا جزم و یقین جبھی ممکن ہے جب مشکور کے لئے سپاس گزاری راحت افزا اور ناسپاسی رنج افزا ہو ،جبکہ خدا تو راحت و رنج سے بے نیاز ذات ہے۔لہذا ناشکری پر افتاد کا ٹوٹ پڑنا کوئی لازمی امر نہیں ہے بلکہ شکرگزاری کے باوجود عذاب و سزا کا اندیشہ برقرار رہتا ہے۔بنابریں بہر صورت شکر منعم ازروئے عقل ایک لایعنی سرگرمی قرار پاتی ہے۔

امام صاحب کی حصری تقسیم پر یہ سوال وارد ہوا کہ یہ بھی تو ممکن ہے کہ شکر محض شکر ہونے کی وجہ سے واجب ہو،اس کو اغراض یا منفعت و مضرت سے لازمی طور پر نتھی کرنا کیوں ضروری ہے؟اگر غور کیا جائے تو یہ اشکال ایک داخلی تضاد کا شکار ہے۔معترض فعل کے عقلی(Rational) ہونے پر بھی مصر ہے اور اسے بے غرض بھی منوانا چاہتا ہے۔امام صاحب فرماتے ہیں کہ از روئے عقل یہی تقسیم ممکن ہے کہ فعل یا تو جلب منفعت پر مبنی ہو یا پھر اس میں دفع مضرت پوشیدہ ہو کہ عقل صرف منفعت کی اور لپکتی اور مضرت سے بھاگتی ہے۔اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ شکر محض شکر ہونے کی بنا پر ہی حسن و واجب ہے تو اس کا معتزلہ کے ہاں بھی منتہائی مطلب یہی ہے کہ شکرگزاری مدح و اجر کا تقاضا کرتی ہے اور ناسپاسی مذمت و عقاب کا حقدار ٹھہراتی ہے۔یہ شکر اور عدم شکر پر منفعت ومضرت کا ترتب نہیں تو اور کیا ہے؟ امام صاحب کے انتقاد پر یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ یوں تو پھر شرعا بھی شکر خداوندی کا واجب ہونا بے کار بلکہ قبیح ٹھہرتا ہے۔ مگر گزارش ہے کہ اگر عقلی حسن و قبح کو کسوٹی بنایا جائے تو بات یقینا ایسی ہی ہے لیکن یہاں امام صاحب اپنا موقف بیان نہیں فرما رہے بلکہ معتزلی موقف کی داخلی ناہمواری کو عیاں کر رہے ہیں۔امام صاحب کا مقصود فریق مخالف کے بنیادی مقدمہ کو برسبیلِ تنزل مان کر اسے اس کے موقف اور اصول کی باہمی کھٹ پٹ اور آپسی ان بن کا احساس دلانا ہے۔10

افعالِ الہیہ پر اخلاقی قیود کا اطلاق

جیسا کہ پیش ازیں مرقوم ہوا کہ معتزلہ اپنے تصورِ اخلاقیات میں آفاقیت کا رنگ بھر کے اسے خدائی افعال تلک وسعت بخشتے اور انسانی عقل سے معلوم شدہ مزعومہ اخلاقیات کو خدا پر وارد کرتے ہیں۔معتزلہ کی یہ اخلاقی توسیع اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ آیا خدا تعالی ان مزعومہ قبائح پر قادر ہے یا پھر خدا کا دامانِ قدرت ایسے افعال کے کر گزرنے سے تہی ہے۔اس سوال کی جواب ارزانی معتزلہ کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ایک گروہ ایسے افعال پر خدائی قدرت کا ہی انکار کر دیتا ہے جبکہ دوسرا گروہ یہ تو اقرار کرتا ہے کہ خدا ان قبائح پر قادر ہے لیکن اس کا ماننا ہے کہ خدا کی بے نیازی ایسے افعال سے گریز پائی کی متقاضی ہے۔اسی اختلاف کو قاضی عبدالجبار معتزلی یوں سپرد قرطاس کرتے ہیں:

"حكى عن النظام والأسوارى والجاحظ أن وصفه تعالى بالقدرة على الظلم والكذب و ترك الاصلح محال.............والذى يذهب اليه شيوخنا أبو الهذيل واكثر اصحابه وابو على وابو هاشم رحمهم الله أنه تعالى يوصف بالقدرة على ما لو فعله لكان ظلما و كذبا وان كان تعالى لا يفعل ذلك لعلمه بقبحه و باستغنائه عن فعله"

"نظام(م:۲۲۱ھ)،اسوارى(م:۲۴۰ھ) اور جاحظ(م:۲۵۵ھ) سے یہ موقف منقول ہے کہ خدا تعالی کو ظلم و کذب اور ترک اصلح پر قادر قرار دینا محال ہے۔۔۔۔اور ہمارے شیوخ یعنی ابو ہذیل(م:۲۳۵ھ)، ان كے اكثر أصحاب، ابو علی جبائی(م:۳۰۳ھ) اور ابو ہاشم(م:۳۲۱ھ) نے یہ موقف اپنایا ہے کہ خدا تعالی ظلم و کذب ایسے افعال پر قدرت سے موصوف تو ہے تاہم وہ ان کے قبح سے آگاہ ہونے اور ان سے بے نیاز ہونے کی بنا پر ان کو انجام نہیں دیتا"11

اخلاقی اقدار کی معروضیت و اصولیت کی نفی پر ایستادہ اشعری نظام میں معتزلی موقف اور اس کا پیدا کردہ قدرت و عدم قدرت کا سوال بے معنی ہے۔کیونکہ جب حسن و قبح کسی شے کی ذاتی و خانہ زاد خاصیت نہیں بلکہ خدائی حکم کا ہی اطلاقی اظہار ہے تو پھر خدا کے حق میں کسی شے کو اخلاقی طور پر قبیح ٹھہرانے کی سرگرمی مکمل طور پر لایعنی ہو جاتی ہے۔اشعری نظام کی رو سے خدائی افعال بابت معتزلی موقف 'بناء الفاسد علی الفاسد' کا شاخسانہ ہے۔اشاعرہ کا دوٹوک اور بے لاگ موقف یہ ہے کہ خدا پر مزعومہ اخلاقی اقدار کو وارد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خدا موردِ اخلاقیات نہیں منبعِ اخلاقیات ہے۔اشاعرہ کے نزدیک جس طرح خدا کا حکم کردہ فعل لازماً حسن ہے اسی طرح خدا کا اختیار کردہ فعل بھی لازمی طور پر حسن ہے۔امام رازیؒ "نهایة العقول" میں اسی اشعری پوزیشن کو کچھ یوں ارقام فرماتے ہیں:

"انا لانسلم انه یقبح من الله شیئ،بل کل ما یفعله فهو صواب وحسن،وهذا بناء علی نفی الحسن و القبح العقلیین"

"ہم اللہ تعالی سے کسی قبیح کا صدور تسلیم نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی جو کچھ بھی کرتا ہے وہ صواب اور بھلا ہوتا ہے۔ ہمارا یہ موقف عقلی حسن و قبح کی نفی پر مبنی ہے۔"12

عدل، رعایتِ اصلح اور غرض و علت:

مناسب ہو گا کہ خدا تعالی کی نسبت معتزلہ کی طرف سے گھڑے گئے عدل اور رعایتِ اصلح ایسے مخصوص تصورات بارے راہِ سخن نکالی جائے کیونکہ یہ دونوں تصورات بھی معتزلی حسن و قبح کے خم سے ہی چھلکے ہیں۔بھلا کون ناہنجار ہے جو خدا کی عدل گستری سے مجالِ انکار پاتا ہے،مگر سوال یہ ہے کہ معتزلہ عدل سے مراد کیا لیتے ہیں۔اس سوال کا جواب ارزاں کرتے ہوئے 'المغنی' میں قاضی عبدالجبار معتزلی کا کہنا ہے کہ عدل ہر اس فعل کو کہا جاتا ہے جو غیر کی نفع رسانی یا ضرر رسانی کے پیش نظر انجام دیا جائے۔بعد ازاں وہ ضرر رسانی کے ساتھ 'علی وجہ یحسن' کی قید کا اضافہ فرماتے ہیں یعنی وہ ضرر ظلماً نہ ہو بلکہ کسی گزشتہ جرم کی پاداش میں ہو۔مزید فرماتے ہیں کہ خدائی افعال پر بھی عدل کا اطلاق اسی بنا پر کیا جاتا ہے کہ خدا انہیں مخلوق کے فائدہ یا ضرر کے لئے انجام دیتا ہے۔13رہی 'اصلح للعباد' کی رعایت،تو اس سے معتزلہ کی مراد خدا کا اپنے تمام تر افعال میں بندوں کی بہتری کو پیشِ نگاہ رکھنا ہے۔ان کے نزدیک یہ بات خدا کے لائق نہیں کہ وہ کفر و معاصی کو معرضِ تخلیق میں لا کر بندوں کو عصیان کا موقع فراہم کرے۔  لہذا وہ کفر و عصیان پر مبنی أفعال کا خالق بندوں کو قرار دیتا ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو عدل اور رعایت اصلح پر مبنی معتزلی موقف کی تہہ میں معروضیتِ حسن و قبح کے سنگ بہ سنگ ایک اور اصل بھی کارفرما ہے،وہ یہ کہ خدائی افعال کسی نہ کسی غرض اور علت سے منسلک ہوتے ہیں۔وہ غرض یا تو منفعتِ عباد ہے یا مضرتِ عباد  علی وجہ یحسن یا پھر رعایتِ اصلح للعباد!

امام رازیؒ ان مخصوص معتزلی تصورات کے محاکمہ سے پیشتر ان کی اسی اصولی بنیاد کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں۔آپ کا فرمانا ہے کہ خدائی أفعال معلل بالعلۃ نہیں ہوتے، ان کو کو اغراض و علل(اصلح وغیرہ) پر موقوف قرار دینا ذاتِ باری تعالی کے نقص کو مستلزم ہے،کیونکہ جب بھی کوئی فعل غرض براری کے لئے انجام دیا جاتا ہے تو لازمی طور پر فاعل کے لئے اس غرض کا بر آنا اولی اور بہتر ہوتا ہے کیونکہ اگر غرض کا پورا ہونا اور نہ ہونا دونوں اس کے لئے برابر ہوں تو وہ 'غرض' نہیں کہلائی جا سکتی۔اب اگر یہ مان لیا جائے کہ خدائی افعال اغراض و علل پر مبنی ہیں اور بندے کی منفعت یا مضرت خدا کی اغراض ہیں تو اس کا ناگزیر نتیجہ یہ ہے کہ ان اغراض کا بر آنا خدا کی لئے بہتر اور اولی ہے۔یہ نتیجہ بارگاہِ خداوندی میں نقص کو مستلزم ہے کیونکہ یہ کہنا کہ ان اغراض کا پورا ہونا خدا کے لئے بہتر ہے دراصل یہ ماننا ہے کہ ان اغراض کے بر آنے سے خدا کو ایک گونہ ایسی بہتری اور اولویت نصیب ہوئی ہے جس سے وہ پہلے محروم تھا۔یہ بات خدا تعالی کی اکملیت کے منافی اور اس كے نقص کے مترادف ہے جو اس ذاتِ ستودہ صفات کے حق میں محال ہے۔

مزید براں آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ رب تعالی کسی نہ کسی غرض کے پیش نظر فعل انجام دیتا ہے تو دریں صورت دو احتمال ابھرتے ہیں۔ یا تو خدا فعل کو وسیلہ بنائے بغیر اس غرض کے حصول پر قادر ہے یا نہیں، اگر قادر ہے تو پھر فعل کو وسیلہ بنانا عبث ہے اور اگر قادر نہیں تو یہ عدمِ قدرت عجزِ خدا کو مستلزم ہے جو کہ محال ہے۔14 دریں باب مشہور اشعری متکلم قاضی ابوبکر باقلانی(م: ۴۰۳ھ) کی دلیل ذکر کر دینا بھی فائدہ سے خالی نہ ہو گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ أغراض کی نسبت اس ذات کی طرف درست ہوتی ہے جو  جلبِ منفعت اور دفعِ مضرت کا حاجت مند ہو اور جلبِ منفعت و دفعِ مضرت کی نسبت اس ذات کی طرف درست ہوتی ہے جس پر آلام و لذات کا گزران ممکن ہو۔ خدا تعالی آلام و لذات سے مبرا اور جلبِ منفعت و دفعِ مضرت سے منزہ ہے۔

آپ مزید فرماتے ہیں کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ افعالِ الہیہ کسی علت، باعث یا محرک پر موقوف ہوتے ہیں تو بتایا جائے کہ خلقِ عالم کا فعل جس علت، باعث یا محرک پر موقوف ہے وہ حادث ہے یا قدیم؟ اگر یہ کہا جائے کہ قدیم ہے تو عالم کا بھی قدیم ہونا لازم آئے گا کیونکہ جب علت قدیم ہے تو لازما معلول بھی قدیم ہوگا کہ علت و معلول میں تخلف جائز نہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ خلقِ عالم کی علت حادث ہے تو لازم ہے کہ اس کے حدوث کی بھی کوئی علت ہو اور پھر اس علت کے حدوث کی بھی کوئی علت ہو۔ یہ سلسلہ لانہایۃ تک وسعت پذیر ہو گا جو کہ محال ہے؛ نتیجتا عالم کا وجود ہی محال ٹھہرے گا۔15گزارش ہے کہ خدائی افعال کا کسی علت و غرض پر موقوف نہ ہونا اصلاً {لا یسئل عما یفعل} اور {فعال لما یرید} ایسی آیاتِ قرآنیہ کا مدلول ہے۔امام رازی کے عقلی دلائل کا مقصد دراصل اس مدلولِ قرآنی اور عقیدۂِ حقہ کے گرد دفاعی حصار قائم کر کے معتزلہ کی خودسر عقل کو اس کی 'اوقات' سے آگاہ کرنا ہے۔

افعالِ باری تعالی کے مبنی بر اغراض و علل ہونے کو مسترد کر دینے کے بعد امام صاحب کے لئے یہ سوال نمودار ہوتا ہے کہ اگر خدائی افعال کسی غرض و علت کا شاخسانہ نہیں ہیں تو پھر احکام میں مصلحت اور دورانِ قیاس علت تلاشنے کی تمام تر سرگرمی کا کیا معنی ہے؟دراں حالیکہ اشعری فقہاء بھی خدائی احکام کے مخصوص اوصاف کو حکم کی علت قرار دے کر حکم کو متعدی کرتے ہیں۔امام صاحب 'نہایة العقول' میں اس شبہہ کو فرو کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر چند ہمارا ماننا ہے کہ خدائی افعال معلل بالاغراض نہیں ہوتے اور خدا کا مطمح نظر مصالحِ عباد کی رعایت نہیں ہوتا تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ خدائی احکام سے مصالحِ عباد کی تکمیل بھی نہیں ہوتی۔یہ عین ممکن ہے کہ کسی فعل و حکم سے خدا کی غرض مصلحت کی رعایت نہ ہو لیکن اس کے باوجود معتد بہ احکام مصلحتِ عباد کے مطابق ہوں۔16 البتہ خدا کے لئے کسی مصلحت کی رعایت واجب نہیں ہے؛ وہ مختارِ کل جو چاہے کر گزرے۔علتِ قیاسی سے متعلق اشکال کو رفع کرتے ہوئے امام صاحب اصول فقہ پر اپنی مایہ ناز تصنیف "المحصول" میں ارشاد فرماتے ہیں کہ قیاس میں بروئے کار لائی جانے والی اصطلاح 'علت' سے مراد حکم کے پیچھے کارفرما کوئی غرض یا داعیہ نہیں بلکہ اس سے ایسا وصفِ معرِّف مراد ہےجو نص سے ثابت شدہ حکم کی نوع کے دیگر افراد کی پہچان کرواتا ہے۔17یعنی قیاسی علت حکمِ خداوندی کا باعث نہیں ہوتی بلکہ یہ محض ایک علامت و نشانی ہوتی ہے جس کا کسی اور شے میں پایا جانا انسان کو اس شے سے متعلق حکم شرعی سے آگاہ کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر علت ایسی علامت ہے جو حکم کے دیگر اطلاقات کو ظاہر کرنے میں معاونت کرتی ہے۔یہ اس بات کی غماز ہوتی ہے کہ حکم کن کن چیزوں کو شامل ہے۔ جیسے سود کی علت احناف کے نزدیک قدر مع الجنس ہے۔ یہ قدر مع الجنس حکمِ حرمت میں موثر نہیں ہے بلکہ ایک ایسا معرف ہے جو اس  حکم کے دیگر اطلاقات کی پہچان کروا رہا ہے؛ جس شے میں قدر مع الجنس کا تحقق ہو گا اس میں سود پایا جائے گا اور اسی پر حرمت کا حکم کا اطلاق ہوگا۔ 

وجودِ شر اور عدلِ الہی:

معروضی و آفاقی حسن و قبح پر مبنی معتزلی نظامِ اخلاقیات کے لئے پہلے ہی قدم پر ایک اچنبھا یہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر حسن و قبح اشیاء کی ذاتی و واقعی صفات ہیں اور خدا تعالی ان قبائح سے پاک و منزہ ہے تو پھر سینہ گیتی پر موجود شر کو کس نے پیدا کیا؟اس سوال نے معتزلہ  کے لئے نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی سی کیفیت پیدا کر دی،اگر خدا کو شر کا خالق بتائیں تو اپنا موقف زمیں بوس ہوتا ہے،بصورتِ دیگر تعمیمِ قدرت پر حرف آتا ہے۔بایں ہمہ،معتزلہ نے اپنے مخصوص تصورِ تنزیہہ کو ترجیح دیتے ہوئے قدرتِ خداوندی پر حرف گیری کو قبول کر لیا۔انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا ازخود خالق ہے،خدا کے دستِ قدرت کو تخلیقِ افعال میں کوئی دخل نہیں۔گویا بارش سے بچتے پرنالے تلے جا کھڑے ہوئے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ بندے کو افعال کی انجام دہی کی مستقل قدرت حاصل ہے اور بندہ اپنی اسی مستقل قدرت کے ذریعے شر کو معرِض وجود میں لاتا ہے۔گزارش ہے کہ تخلیقِ شر کا معتزلی جواب دراصل تحدیدِ قدرت کی جسارت ہے۔مجوس کو یہی سوال درپیش ہوا تو انہوں نے یزداں کو نسبتِ قبح سے بچانے کے لئے 'اہرمن' کی صورت میں دوسرا خدا گھڑ لیا۔معتزلہ نے خدا کی یکتائی پر تو آنچ نہ آنے دی مگر خدا پناہ کہ اسی یکتا خدا کو گویا اپاہج قرار دے دیا۔ملامت کا دغدغہ اور بات کی پچ بھی کیا کیا رنگ دکھاتے ہیں۔

معتزلہ کے برعکس اہل سنت کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ عالم ممکنات میں خدا کے ارادے اور تخلیق کے بنا کوئی بھی شے معرضِ وجود میں نہیں آ سکتی اور نہ ہی کوئی بندہ ارادہ الہیہ سے بالکلیہ آزاد اور مستقل قدرت کا حامل ہے بلکہ اس کی قدرت ہر آن قدرت الہیہ سے وابستگی کا دم بھرتی اور اس کا فعل ہر پل بارگاہِ حق سے اذنِ وجود پاتا ہے۔گزارش ہے کہ خلقِ افعال بابت معتزلی موقف دو گونہ مفروضہ جات پر مبنی ہے۔اول یہ کہ حسن و قبح اشیاء کی خانہ زاد خصوصیت ہے اور دوسرا یہ کہ جو فعل بندوں کے لئے قبیح ہے وہی خدا کے لئے بھی قبیح ہے۔امام رازیؒ نے  ان دونوں مفروضہ جات کو بہ یک قلم مسترد کیا ہے۔پہلا فرضیہ تو تنقید کی چھلنی سے ہو گزرا، دوسرے کے متعلق آپ کا فرمانا ہے کہ خدا پر انسانی اخلاقیات کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اپنے اس موقف کو  آپ ایک مثال سے موید فرماتے ہیں،آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو یہ جانتے ہوئے ایک مکان میں بند کر دے کہ وہ ایک دوسرے سے غلط کاری میں ملوث ہو سکتے ہیں اور اپنے اس فعل کی جواز سازی کے لئے یہ حیلہ گھڑے کہ میں نے ان کو اس لیے یکجا کیا ہے تا کہ یہ صبر سے کام لیں اور ثواب کے سزاوار ہوں،تو کوئی بھی ذی شعور اس شخص کے اس فعل کو حسن نہیں کہے گا لیکن خدا اگر اپنے بندوں کو اسی ڈھب پر ایک جگہ محصور کر دے تو کوئی بھی خردمند اس خدائی فعل کو قبیح گرداننے کی جسارت نہیں سكتا۔18معلوم ہوا کہ یہ فرضیہ سراسر غلط ہے کہ جو انسان کے لئے قبیح وہی خدا کے لئے بھی قبیح ہے۔گزارش ہے کہ خلقِ افعال یا خلق شر کا معتزلی نظریہ جہاں براہ راست مسئلہ حسن و قبح سے متعلق ہے وہیں ان کے تصورِ عدل و اصلح سے بھی کسبِ فیض کرتا ہے۔معتزلہ کا ماننا ہے کہ خدا کا خالقِ شر ہونا ترکِ اصلح کو مستلزم ہے۔ترک اصلح کی قباحت کا بے اساس و بے بنیاد ہونا گزشتہ سطور میں بیان کیا جا چکا ہے۔

معتزلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ خدائی عدل کا تقاضا ہے کہ وہ کفر و عصیان کو وجود ہی نہ بخشے،بصورت دیگر خدا کا ظالم ہونا لازم آئیگا کہ وہ خود ہی کفر و عصیان کو تخلیق کرتا ہے اور پھر بندوں کو اس کے اختیار پر مبتلائے عذاب بھی کرتا ہے۔امام صاحب اپنی شہرہ آفاق تفسیر "تفسیر کبیر" میں سورة الانبياء كى آیت مبارکہ {فلا تظلم نفس شیئا} کی تفسیر کے ذیل میں اس معتزلی شبہہ کو يوں فرو کرتے ہیں:

"الظلم ھو التصرف فی ملك الغير وذلك في حق الله تعالى محال لانه المالك المطلق"

"ظلم غیر کی ملکیت میں تصرف سے عبارت ہے اور یہ اللہ تعالی کے حق میں محال ہے کیونکہ وہ مالک مطلق ہے"19

 امام صاحب کے نزدیک خدا تعالی کے لئے ظلم کے روا یا ناروا ہونے کا اخلاقی سوال پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ خدا کے حق میں ظلم سرے سے ہی محال ہے کہ ظلم تو غیر کی ملکیت میں بے جا تصرف کا نام ہے اور جملہ مخلوق اللہ تعالی ہی کی ملک ہے،وہ مالک مطلق جس سے جیسا چاہے معاملہ فرمائے،اس کا ہر معاملہ عدل سے لبالب ہے۔یہیں سے اشاعرہ کا تصور عدل بھی ہویدا ہو جاتا ہے۔امام رازی نے "لوامع البینات" میں اللہ تعالی کے اسم عدل کی جو توضیح کی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک اللہ تعالی کی ذات پر اسم عدل کا اطلاق،کسی اخلاقی معنی کی بجائے خالصتا لغوی(Lexical) معنی میں ہوتا ہے۔خدا کے عدل ہونے سے مراد اس کی ذات کا بایں معنی معتدل و متوازن ہونا ہے کہ وہ ایسے جملہ نقائص سے پاک ہے جو اس کے خدا ہونے کے وجودی معنی میں خلل انداز ہوں۔مزید براں آپ کا فرمانا ہے کہ افعال الہیہ پر عدل کا اطلاق اس معنی میں ہے کہ وہ ظلم پر مبنی نہیں ہوتے۔20یعنی امام صاحب دراصل عدل کو ظلم کی نقیض کے طور پر لیتے ہیں۔گویا آپ کے ہاں خدائی افعال پر عدل کا اطلاق،کوئی اخلاقی حکم نہیں بلکہ خدا تعالى پر اطلاقِ ظلم کے عقلی استحالہ کا بیان ہے۔

چونکہ ہمارا براہ راست موضوعِ بحث خلقِ افعال نہیں،حسن و قبح ہے،لہذا خلق افعال کی تفصیلی کھود کرید سے گریز کرتے ہوئے اس سلسلہ میں اختصارا عرض ہے کہ دریں باب معتزلہ کا موقف خلق و کسب کے التباس پر مبنی ہے۔افعال کا خالق بے شک خدائے قادر ہے مگر افعال کا کاسب بندہ ازخود ہے اور جزا و سزا کا ترتب کسبِ فعل پر ہوتا ہے نہ کہ خلقِ فعل پر!

حکمت الہیہ:

مبحث حسن و قبح میں حکمت الہیہ کی بحث ازبس اہمیت کی حامل ہے۔ہر سہ کلامی فریق کا تصورِ حسن و قبح اس کے تصورِ حکمت کا صورت گر ہے۔بلکہ خدائی افعال بابت ماتریدی زاویہ نظر تو مکمل طور پر ان کے تصورِ حکمت سے وابستہ ہے۔گزارش ہے کہ تینوں مکاتب فکر کے تصور ہائے حکمت باہم ایسی مخاصمانہ چسپیدگی رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کا فہم دوسرے کی تفہیم سے مشروط ہے۔معتزلہ حکمت کو عدل ہی کے معنی میں لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ خدا تعالی کے حکیم ہونے کا مطلب یہی ہے کہ وہ مخلوق کے نفع یا کسی ایسے ضرر کے لئے فعل انجام دے جو کسی سابقہ جرم پر سرزنش کے طور پر ہو۔21حکمت و عدل کے اس تصور کا تفصیلی استرداد پیش ازیں تحرير کیا جا چکا ہے۔معتزلہ کے برعکس،ماتریدیہ کا تصورِ حکمت منفعت و مضرت ایسی اغراض پر بنا نہیں کرتا۔ماتریدیہ حکمت کو خدا کی صفت تکوین کا لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔امام ابومنصور ماتريدیؒ اپنی گراں مایہ تصنیف "کتاب التوحید" میں حکمت کی تعریف کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

"تاویل الحکمة الاصابة،وهو وضع كل شيئ موضعه"

"حکمت کا معنی اصابت ہے اور اصابت،شے کو اس کی مناسب جگہ میں رکھنے کا کا نام ہے"22

امام ماتریدی نے اسی تصور حکمت کو بنیاد بنا کر معتزلہ کے تصور اصلح و عدل کا انتقاد سپرد قلم کیا ہے۔آپ کے مطابق خدا کے تمام افعال مبنی بر حکمت و عدل ہوتے ہیں اگرچہ انسانی عقل بعض افعال کی حکمت کے ادراک سے قاصر ہی کیوں نہ ہو۔ اس جہانِ رنگ و بو کے حیطۂ عدم سے معرض وجود میں آنے کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

"لزم القول بضرورة العقل لجواز کون العالم لا عن شیئ و خروج فعله علی الحکمة،وان عجزت عقول حکماء العالم عن ادراکها لخروج وجه الحكمة عن نهاية قوة عقولها"

" اس جہان کے عدم سے وجود میں آنے کو ممکن ٹھہرانا خدائی فعل کو مبنی بر حکمت قرار دینا ضرورتِ عقلی کا تقاضا ہےاگرچہ جہان بھر کے خردمندوں کی عقلیں،دلیلِ حکمت تک بار نہ پا سکنے کی بنا پر اس کے ادراک سے قاصر ہوں۔"23

قاضی ابو زید دبوسیؒ حکمت کی مراد عاقبت حمیدہ بیان کرتے ہیں۔آپ فرماتے ہیں کہ خدائی افعال کے مبنی بر حکمت ہونے سے مراد یہ ہے کہ  وہ خیر انجام ہوں،یعنی ان افعال سے خدائی عظمت اور کبریائی جھلکتی ہو۔24گزارش ہے کہ قاضی صاحب کی بیان کردہ مراد امام ماتریدی کے اجمال کی تفصیل ہے۔ دونوں مرادات کو ایک کینوس میں یکجا کیا جائے تو ماتریدی نظام میں حکمت کا تصور کچھ یوں نکھر کر ہمارے روبرو ہوتا ہے کہ حکمت خدائی افعال_جو ماتریدیہ کے نزدیک صفتِ تکوین کا مظہر ہیں_میں ایسی اصابت، درستی، استواری اور پختگی کا نام ہے جو خیر انجامی یا عاقبت حمیدہ پر منتج ہو۔گویا خیر انجامی اسی وقت متوقع ہے جب افعال میں اصابت،استواری اور پختگی پائی جائے،اور اس اصابت و پختگی سے مراد یہ ہے کہ ہر شے اپنے مناسب مقام پر رکھ دی جائے۔ماتریدیہ کا کہنا ہے  کہ حکمت خدا کے ہر ہر فعل کا جزوِ لاینفک ہے،حتی کہ شر کی پیدائش بھی حکمت الہیہ سے خالی نہیں؛ کیونکہ وہ حوادث جو بظاہر شر دکھتے ہیں انجام کار کے اعتبار سے ان میں طرح طرح کی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ آفات سماوی کبھی عذاب کا تازیانہ بن کر دنیا کو بدکاروں سے پاک کرتی ہیں تو کبھی آزمائش کی گھڑی بن کر ایمان والوں کی بلندیِ درجات کا باعث ہوتی ہیں، نیز انہی آفات سے خدا کی صفت قہاریت و جباریت کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ رہی بات خدا کے تخلیق کردہ انسانی أفعال کی تو یہ بات بھی پیش پا افتادہ ہے کہ کسی انسان کا مبنی بر شر فعل دیگر انسانوں کے لئے مختلف پہلوؤں سے رحمت و یافت کا سبب بن جاتا ہے۔معتزلہ اور ماتریدیہ کے تصور حکمت میں  ایک فرق تو یہی ہے کہ معتزلہ فعل کے انجام سے پہلو تہی کر کے اس کے فوری نتائج کی بنا پر اسے سراپا شر قرار دیتے ہیں اور پھر خدا تعالی کی قدرت سے اس کو خارج کر دیتے ہیں؛ جبکہ فعل کو دیکھنے کا ماتریدی زاویہ قدرے وسعت کا حامل ہے کہ وہ انجام و عواقب کو مدنظر رکھتے ہوئے اسی بظاہر شر سے خیر کا پہلو دریافت کر لیتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ معتزلہ اصلح للعباد کے نام پر حکمت کو فرد مرکز بنا ڈالتے ہیں کہ خدائی حکمت کا تقاضا ہے کہ ہر ہر فرد کی مصلحت اس کی انفرادی حیثیت میں ملحوظ رکھی جائے جبکہ ماتریدیہ من حیث المجموع انسانیت کی مصلحت یا خیر کو مد نظر رکھتے ہیں نیز خدا تعالی کی صفات کے اظہار کو عاقبت حمیدہ یا خیر انجامی کا  لازمی جزو قرار دیتے ہیں۔

اسی مبحث میں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا خدا تعالی معاذاللہ براہ راست اخلاقی قبائح کا مرتکب ہو سکتا ہے؟ یقینا ہر اہل ایمان کا جواب نفی میں ہو گا۔  ماتریدیہ بھی اپنے تصور حکمت کے تحت خدا سے قبائح کے صدور کا انکار کرتے ہیں۔وہ خدا پر کسی شے کے واجب ٹھہرانے کو تو رد کرتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ بات خدا تعالی سے مستبعد ہے کہ وہ  أفعال شنیعہ کا مرتکب ہو کیونکہ ان میں کوئی حکمت یا عاقبت حمیدہ نہیں پائی جاتی جبکہ خدائی افعال تو حکمت و دانائی کے عکاس اور عظمت و جلال کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ دریں باب اشاعرہ کا موقف پیشتر بیان ہو چکا ہے۔

بعد از تمہید اب ہم امام رازیؒ کے حاصلاتِ فکر کی طرف عود کرتے ہیں تا آنکہ دریں باب اشعری و ماتریدی اختلاف کا مکمل منظر نامہ اپنے اطلاقات سمیت عیاں ہو جائے۔امام رازیؒ "لوامع البینات" میں اللہ تعالی کے اسم حکیم کی شرح کرتے ہوئے اس کے اشتقاقی اختلاف کو پیش نگاہ رکھ کر دو معنی بیان فرماتے ہیں۔آپ کے نزدیک حکیم اگر حکمت سے مشتق ہو تو اس کا معنی ایسی ذات ہے جو معلومات کا خوب خوب ادراک رکھتی ہے اور بایں معنی حکیم سے مراد خدا تعالی کا علیم ہونا ہے۔گویا حکمت دراصل واجب تعالی کے کمالِ علم کا ہی نام ہے۔"المطالب العالیہ" میں بھی آپ نے حکمت کے اسی معنی کو اختیار فرمایا ہے۔اسم حکیم کا دوسرا معنی بیان کرتے ہوئے آپ کا فرمانا ہے کہ افعال باری تعالی کی وساطت سے خدا پر حکیم کا اطلاق مصدرِ 'اِحکام' کے تحت ہوتا ہے۔دریں صورت خدا کے حکیم ہونے سے مراد اس کے فعلِ تخلیق میں پختگی،انتظام اور حسنِ تدبیر کا پایا جانا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

"انما المراد منه حسن التدبير فى وضع كل شيئ موضعه"

(افعال میں حکمت) سے یہی مراد ہے کہ ہر شے کو اس کے مناسب مقام میں رکھنے کی بابت بہترین تدبیر کرنا"25

امام صاحب کے متذکرہ بالا کلام میں اگرچہ ماتریدیہ سے ان کا اصولی اتفاق جھلکتا ہے تاہم  اگر بیان کردہ دونوں معانیِ حکمت کو  اشاعرہ کے اصولی چوکھٹے میں موزوں کیا جائے تو آپ کا تصورِ حکمت کچھ یوں ممتاز ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک افعال الہیہ کا الہی علم و ارادے کے مطابق ہونا حکمت ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اشاعرہ تکوین کو اللہ تعالی کی علی حدہ صفت کی بجائے فعل الہی قرار دیتے ہوئے اسے علم و ارادہ الہیہ سے نتھی کرتے ہیں۔چنانچہ تکوین میں درستی اور پختگی بھی دراصل اللہ تعالی کے علم و ارادہ سے تطابق کا نام ٹھہرتی ہے۔امام رازی کا یہ فرمانا کہ حکمت کا ایک معنی کمال علم ہے،اسی طرف اشارہ کناں ہے کہ افعال میں حکمت دراصل اسی کمالِ علم کا کرشمہ ہے۔یعنی اللہ تعالی چونکہ علیم ہے بنابریں شے کے لئے مناسب وہی مقام ہے جو علم الہی میں معلوم و متعین ہے،عقلِ انسانی اس معلومِ الہی تک بار نہیں پا سکتی۔ اس کے برعکس ماتریدیہ افعال کے ذاتی حسن و قبح کے قائل ہونے اور کچھ افعال کے حسن و قبح کو عقلا معلوم ماننے کی بنا پر بعض اشیاء کے 'مناسب مقام' کو بھی بذریعہ عقل معلوم مانتے ہیں اور خدا سے اس کا خلاف،حکمت کے منافی خیال کرتے ہیں۔کافر کی ممکنہ بخشش کو خلافِ حکمت اور شانِ خداوندی سے بعید تر قرار دیتے ہوئے امام ابو منصور ماتریدیؒ کی مذکور ذیل توجیہ اسی موقف کا اظہار ہے:

"ان العفو عن الکافر عفو فی غیر موضع العفو"

"کافر کو معاف کر دینا عفو کو اس کے(مناسب) مقام سے ہٹا دینا ہے"26

مختصر یہ کہ ماتریدیہ کے نزدیک بعض اشیاء و افعال کا 'مناسب مقام' عقل سے معلوم کیا جا سکتا ہے جبکہ امام رازیؒ کے نزدیک 'مناسب مقام' وہی ہے جس پر اللہ تعالی کسی شے کو براجمان کر دے۔آپ کا فرمانا ہے:

"من تصرف فی ملک نفسہ فاي فعل فعله کان حکمة و صوابا"

جو اپنی ملک میں تصرف کرے وہ جو بھی فعل سرانجام دے وہ مبنی بر حکمت اور درست ہی ہوتا ہے"27

ماحصل یہ کہ اشاعرہ کے نزدیک حکیم وہ ذات ہے جو اپنے علم و اردے کے مطابق فعل سرانجام دے سکے جبکہ سفیہ وہ ہے جو اپنے علم و ارادے کے مطابق فعل انجام دینے سے قاصر ہو۔ “موضعِ کل شئی” وہی ہے جو خدا تعالی کے علم اور ارادے میں ہے اور حکیم ہونا اسی کا نام ہے کہ اپنے اس علم و ارادے کے مطابق ہر شے کو اس کے موضع میں رکھ دے۔ ماتریدی اور اشعری نزاع کی تفہیمِ مزید کے لئے 'مومن کے خلود جہنم' کے مسئلہ پر غور بھی مفید رہے گا۔ماتریدیہ کے نزدیک خدا اگرچہ اس امر پر قادر ہے کہ کسی مومن کو ہمیشک باش جہنم رسید کر دے لیکن ایسا کرنا سراسر ظلم اور خلافِ حکمت ہوگا؛ خدا ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس کے افعال پُر از حکمت ہوتے ہیں۔ اس مثال سے "وجوب علی اللہ" بابت ماتریدی موقف بھی مزید نکھر کر سامنے آجاتا ہے کہ وہ خدا پر بندے کی جہت سے کچھ واجب نہیں ٹھہراتے بلکہ قبائح سے پاکی کو اقتضائے حکمت قرار دیتے ہیں۔اسی موقف کو بعض مشائخ ماتریدیہ نے "خدا پر وجوب" اور "وجوب از روئے خدا / وجوب از روئے حکمت" کے مابین خطِ امتیاز کھینچ کر نمایاں کیا ہے۔پانچویں صدی ہجری کے معروف ماتریدی متکلم امام ابوشکور السالمیؒ(م:۴۶۰ھ) "وجوب از روئے حکمت" کی ماتریدی تعبیر کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"والوجوب من الحکمة يكون على وجه المجاز،والغرض منه نفي القبح من اللہ تعالی عند اهل السنة والجماعة"

"وجوب ازروئے حکمت، مجازی طور پر (بولا) جاتا ہے اور اہل سنہ(ماتریدیہ) کے ہاں اس سے محض جناب باری تعالی سے قبائح کی نفی کرنا مقصود ہوتا ہے"28

ماتریدیہ کے برعکس،اشاعرہ کا ماننا ہے کہ اگر خدا کسی مومن کو بلا جرم و تعدی ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنا دے تو بھی یہ ظلم اور خلاف حکمت نہ ہو گا کیونکہ ایک تو ایسا کرنا دراصل اپنی ہی ملک میں تصرف ہے اور مالک کا اپنی ملک میں کسی بھی طرح کا تصرف ظلم یا خلاف حکمت شمار نہیں کیا جا سکتا، دوسرا یہ کہ اگر خدا ایسا کرے تو یقینا وہ اپنے علم و ارادے کے مطابق ایسا کرے گا اور یہی دراصل حکمت کا تقاضا ہے۔لیکن یہاں یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ کیا خدا ایسا کرے گا؟ اس کا تشفی بخش جواب ہمیں امام رازیؒ کی درج ذیل عبارت سے مہیا ہوتا ہے:

"فرب شیئ یعلم انه يجوز ذلك من الله تعالى و ان كنا نعلم قطعا أنه لا يفعله والدليل عليه جملة الامور العادية،فاني قاطع على ان اللہ قادر علی قلب الجماد حيوانا،فاذا خرجت عن داري جوزت أن يقلب الله تعالى من الأواني ولآلات اناسا فاضلين او سباعا ضارية موذية و مع ذلك فانا نعلم قطعا انه ما فعل ذلك فاذا لم يلزم هناك تجويز الوقوع زوال القطع بعدم الوقوع فلم لا يجوز هاهنا مثله؟!"

"کتنے ہی ایسے افعال ہیں جن کا اللہ تعالی سے صدور ممکن ہونا معلوم ہے تاہم ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ اللہ ایسے افعال کا ارتکاب نہیں کرے گا۔بطور دلیل امور عادیہ کو ہی لے لیجئے کہ مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ اللہ تعالی بے جان چیزوں کو جیتے جاگتے حیوان بنا دینے پر قدرت رکھتا ہے،سو جب میں گھر سے نکلتا ہوں تو اس بات کو ممکن قرار دیتا ہوں کہ اللہ تعالی گھر میں موجود برتنوں اور دیگر آلات کو انسانوں یا موذی و خطرناک درندوں میں بدل سکتا ہے،با ایں ہمہ ہمارا اس بات پر بھی پختہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ نے ایسا نہیں کیا ہوگا۔سو جب اس صورت میں محض امکانِ وقوع سے عدمِ وقوع کا پختہ یقین زائل نہیں ہوتا تو دریں باب ایسا کیوں نہیں سکتا؟!"29

گزارش ہے کہ ماتریدیہ  اور اشاعرہ کی علمی کشاکشی سنیت و ضلالت کا  نزاع نہیں بلکہ دائرہ سنیت میں رہتے ہوئے زاویہ نگاہ کا معمولی اختلاف ہے۔تکوین کو خدا تعالی کی مستقل صفت قرار دیا جائے یا پھر اسے علم و ارادہ الہیہ کا ضمنی پہلو گردانا جائے اس سے کسی قطعی عقیدہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔اسی طرح ظلم و جور کو ازروئے حکمت شانِ خداوندی سے کوسوں دور ٹھہرایا جائے یا پھر مخبرِ صاڈق کی دان کردہ قطعیت(certainty) کی بنا پر اسے مستبعد قرار دیا جائے،اس سے بھی کسی قطعی عقیدہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔اس کے برعکس معتزلہ کا موقف صراحتا قدرت باری تعالی کے عقیدہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ماتریدی و اشعری زاویہ نگاہ کے اختلاف پر معروف اشعری عالم علامہ تاج الدین سبکی(م:۷۷۱ھ) کا بیان قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے،آپ فرماتے ہیں:

"ان الخلاف الیسیر بیننا و بین الحنفیة فى مسائل معدودة غير طائلة لا يقتضى تكفيرا ولا تبديعا."

"معدودے چند مسائل میں ہمارے اور احناف(ماتریدیہ) کے مابین معمولی اختلاف ایک دوسرے کو کافر یا بدعتی قرار دینے کا تقاضا نہیں کرتا"30

صداقتِ خدا، ثقاہتِ رسول اور وثاقتِ وعد:

معروضیتِ حسن و قبح کو رد کرنے کے ساتھ ہی اشاعرہ کا سامنا صداقتِ ربانی بابت ایک ناقابلِ مفر سوال سے ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر حسن و قبح افعال کی ذاتی خصوصیت نہیں اور خدا کے لئے کسی بھی فعل کا کر گزرنا اس کے حق میں بھلا ہے تو اس کا ناگزیر نتیجہ یہی ہے کہ خدا کے حق میں دروغ گوئی بھی بھلی اور ممکن ہے۔دریں صورت کوئی شخص کیوں کر خدا کے وعد و وعید کا وثوق کرے اور مذہبی اخبار کی سچائی کیوں کر اس کے دل میں گھر کرے؟یہی سوال قدرے مختلف انداز میں ثقاہت رسول سے بھی متعلق ہے،وہ یوں کہ جب خدا کا ہر فعل بھلا ہے تو لازما کسی جھوٹے مدعی رسالت کے ہاتھ پر خدا کی طرف سے بہ طور تصدیق معجزہ کا ظہور بھی بھلا اور ممکن ہونا چاہیے۔دریں صورت نبی اور متنبی کے مابین مابہ الامتیاز کیا ہو گا؟

امام رازیؒ پہلے سوال سے تعرض کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ کذب و صدق،کلام کی دو مختلف کیفیات ہیں اور کلام باری تعالی خدا کا فعل نہیں بلکہ خدا کی صفت ہے۔لہذا جب أفعال الہیہ پر اخلاقی حسن و قبح کا سوال وارد نہیں تو اس صفت پر تو بطریق اولی اخلاقی حسن و قبح کا سوال وارد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اخلاقیات سراسر افعال سے متعلق ہوتی ہیں۔جب یہ بات طے ہو چکی تو اس کے بعد امام صاحب فرماتے ہیں کہ خدا کے کلام کا کذب پر مشتمل ہونا سرے سے ہی محال ہے؛ لیکن کسی اخلاقی حکم کی بنا پر نہیں نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ:

"ان کلامه قائم بنفسه، ويستحيل الكذب فى كلام النفس على من يستحيل عليه الجهل، اذ الخبر يقوم بالنفس على وفق العلم والجهل على الله تعالى محال"

"اللہ تعالی کا کلام،کلام نفسی ہے اور هر اس ذات کے کلام نفسی میں کذب محال ہے جس کا جاہل ہونا محال ہے کیونکہ کلام نفسی علم کے موافق ہوتا ہے اور جہل اللہ تعالی پر محال ہے(لہذا اس پر کذب بھی محال ہے)"31

گزارش ہے کہ کلام نفسی سے ایسا کلام مراد ہے جو حروف و اصوات سے منزه ہو۔تقریبِ فہم کے لئے اس کو مَن ہی مَن میں کی گئی خود کلامی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔اہل سنت کا متفقہ عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی صفتِ کلام حروف و اصوات سے مبرا ہے۔بعدہ عرض ہے کہ امام صاحب کے مطابق کلام نفسی اور علم باہم اس طرح متلازم ہیں کہ گویا کلام نفسی علم کا پرتو ہو۔اب اگر یہ مان لیا جائے کہ کلام نفسی کذب پر مشتمل ہے تو یہ ماننا بھی ناگزیر ہو جاتا ہے کہ خداوند متعال جہل سے متصف ہے،جبکہ خدائی اور جہالت باہم یک نگر (mutually exclusive) ہیں،جو جاہل ہو اس کا خدا ہونا ممکن نہیں اور جو خدا ہو اس کا جاہل ہونا ممکن نہیں۔کیونکہ علم ایسی صفت ہے جو خدا کے وجودی معنی یعنی اس کے خدا ہونے کو مکمل و اکمل کرتی ہے۔اب اگر خدا میں جہل کو ممکن مانا جائے تو گویا اس کے خدا ہونے میں نقص کو مانا جا رہا ہے۔یوں بات جمعِ نقیضین کی طرف بڑھ جاتی ہے کہ خدا،خدا ہے بھی اور نہیں بھی۔مختصر یہ کہ خدا کے کلام میں کذب کا امکان محال ہے کیونکہ کذب جہل کو مستلزم ہے۔ یاد رہے کہ یہ استحالہ کسی اخلاقی اصول کی بنا پر نہیں بلکہ خدائی میں نقص کے محال ہونے کی بنا پر ہے۔

گزارش ہے کہ بات یہاں مکمل نہیں ہوتی، امام صاحب کا یہ جواب ایک اور سوال کو جنم دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ یہ تو مان لیا کہ کلام نفسی میں کذب محال ہے لیکن کلام مسموع،جو ہم سنتے سناتے اور پڑھتے پڑھاتے ہیں،تو بحالہ امکانِ کذب سے مملو ہے؟ اسی سوال کے ہمراہ مذکورہ بالا ثقاہتِ نبوت اور وثاقتِ وعد و وعید کا سوال بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ مدعی کاذب کے دست باطل پرست پر معجزہ کا اظہار تو تاحال خدا کے لئے ممکن ہی ٹھہرتا ہے۔امام صاحب ان دونوں سوالوں کے جواب میں اسی اصول کا اعادہ فرماتے ہیں کہ امکانِ وقوع عدمِ وقوع کی قطعیت کے منافی نہیں ہے۔آپ فرماتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے افعال ہیں جن کا کر گزرنا اللہ تعالی کے لئے ممکن ہے لیکن ہمیں کامل جزم  اور پختہ یقین ہے کہ وہ ذات ستودہ صفات ایسا نہیں کرے گی۔محض عقلی امکان کا پایا جانا جزم و یقین کا خون نہیں کرتا کیونکہ کسی فعل کے امکان سے مراد محض یہی ہے کہ اللہ تعالی اس فعل پر قادر ہے۔32

امام رازیؒ نے معجزہ کے سوا بھی اثبات نبوت کا طریقہ بیان فرمایا ہے،جو آپ کے نزدیک معجزاتی اثبات سے بڑھ کر معقول اور کارگر ہے۔آپ کا فرمانا ہے کہ معجزہ کی طرح ناقصین کو کامل بنا دینے کی نبوی اہلیت بھی نبوت کی دلیل ہے،جو اثبات مدعا میں معجزے سے بڑھ کر اثر آفرینی کی حامل ہے۔جیسا کہ پیش ازیں ذکر کیا کہ امام صاحب کے نزدیک انسانی کمال سے مراد انسان کی قوت نظریہ اور قوت عملیہ کا اس درجہ کمال کو پا لینا ہے کہ وہ اشیاء کی راست حقیقت(خدا کے ماسوا کا فانی و محدث ہونا) سے آگاہ اور عمل خیر کے ملکہ سے مالا مال ہو جائے۔آپ کے نزدیک اس کمال کا لازمی نتیجہ حق سے ہمہ تن اعتناء اور مخلوق سے مکمل استغناء ہے۔کمالِ انسانی کی مراد کو قیدِ تحریر میں لانے کے بعد آپ نے کمال و نقص کے اعتبار سے انسانی سلسلہ مراتب(hierarchy) کو حسب ذیل سپرد قلم فرمایا ہے:

۱- عامة الناس،جو سراسر ناقص ہیں۔

۲- اولیاء، جو خود تو کامل ہیں تاہم دوسروں کی تکمیل ان کے بس سے باہر ہے۔

۳- انبیاء،جو خود بھی کامل ہیں اور دوسروں کی تکمیل پر بھی قادر ہیں۔

آپ اپنی بات کو مبرہن کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسانوں میں کمال و نقص شدت و ضعف کے مختلف مدارج میں پائے جاتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ بعض انسان درجہ انسانیت سے اس قدر فروتر ہوتے ہیں کہ بہائم ان پر پھٹکار کریں اور بعض ایسے کامل تر ہوتے ہیں کہ فرشتے ان پر ناز کریں۔جس طرح ناقص تر انسانوں میں سے بعض ضال کے ساتھ ساتھ مضل بھی ہوتے ہیں جو دیگر ہم جنسوں کو نقص کی اتھاہ گہرائیوں میں ٹھیلتے ہیں۔اسی طرح یہ ضروری ہے کہ کامل تر انسانوں میں رشد و ہدایت کے ایسے پیکر موجود ہوں جو دیگر ہم جنسوں کو اوج انسانیت کی طرف گامزن کریں۔غور کیا جائے تو امام صاحب کی دلیل نہ صرف کسی مخصوص دعوائے نبوت کی تصدیق کو شامل ہے بلکہ ضرورتِ نبوت کا بھی احاطہ کرتی ہے۔امام صاحب کے مطابق اثبات رسالت کے اس طریقہ کی کارگری حق اور عملِ خیر کے پیشگی ادراک سے مشروط ہے۔33لیکن سوال یہ ہے اگر حق اور عمل خیر کا ادراک ماقبلِ نبی ممکن ہے تو پھر نبی کی کیا حاجت؟ اغلب یہ ہے کہ حق اور خیر کے پیشگی ادراک سے امام صاحب کی مراد اس کا ظنی اور جزوی ادراک ہے جیسے ایک تشنہ لب کو پانی کا ادراک ہوتا ہے۔گویا حق اور خیر کا کج مج تصور تو انسانی شعور میں پیوست ہوتا ہے لیکن وہ دولتِ یقین سے قطعی محروم ہوتا ہے کیونکہ شعور کے زائدہ تصورات اول و آخر شک میں گھرے ہوتے ہیں۔یقین کی خلقی طلب ہی انسان کو انبیاء کے در پر سر نیاز خم کرنے پر مجبور کرتی ہے۔انبیاء کے سوا کوئی راہنما انسان کو دولت یقین سے مالا مال کر کے اوج انسانیت تک کی رہبری نہیں کر سکتا۔امام صاحب کے اس کلام ہدایت التیام سے ناقدین کا یہ شبہ بھی کافور ہو جاتا ہے کہ اشعری منہجِ اخلاقیات انسان کو اخلاقی داعیات و اقتضاءات سے تہی دامن اور ایک میکانکی وجود باور کرواتا ہے۔یہ تنقیدی نتیجہ سطحی اور پایاب مطالعہ کی پیداوار ہے۔اشاعرہ کے نزدیک انسانی فطرت میں اخلاقی داعیات اور اقتضاءات ضرور موجود ہیں مگر انہیں کرید کر سامنے لانے پر انسان ازخود قادر نہیں ہے۔یہ داعیات بے قرار سوال کی صورت میں نمودار ہوتے اور جواب نہ پا کر نفسی مالوفات میں جا دبکتے ہیں۔شریعت انہیں اقتضاءات کو کریدتی اور انہیں جوابی اظہار فراہم کرتی ہے یہی وجہ کہ ہدایات و احکام شرع کو دیکھ کر ہر سلیم الفطرت ان پر یوں ٹوٹتا ہے جیسے کسی دشت میں سرگرداں خاک بسر شدتِ تشنگی میں نخلستان کی اَور لپکتا ہے۔

بیانِ طریق کے بعد امام صاحب اس سوال کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ نبوی رہبری کی نوعیت کیا ہوگی؟امام صاحب فرماتے ہیں کہ ناقصین کی تکمیل کا طریقہ نہ تو محض فلسفیانہ ہے اور نہ ہی محض خطیبانہ(rhetoric)۔آپ کے مطابق اگر نبی محض فلسفیانہ دلیل و برہان پر انحصار کرے تو اس صورت میں مقصود پس منظر میں چلا جائے گا اور مجادلہ و مناقشہ کا بازار گرم ہو جائے گا۔لہذا ضروری ہے کہ دلیل کے دستوں کے متصل ہی ترغیب و ترہیب کے اسلحہ سے لیس خطیبانہ آہنگ کی کمک بھی دستیاب ہو۔34گزراش ہے کہ اثبات نبوت اور ضرورت نبوت کے طریق ثانی کی متذکرہ بالا علمی تشکیل کے ڈانڈے امام غزالی کے افکار سے ہوتے ہوئے جاحظ اور ابن سینا سے جا ملتے ہیں۔چونکہ یہ ہمارا براہ راست موضوع نہیں ہے لہذا تطویل سے اجتناب کرتے ہوئے سلسلہ تحریر کو یہیں قطع کر دینا مناسب ہو گا۔ آغازِ مضمون میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ اخلاقی اقدار کس سے استناد کرتی ہیں؟ امام رازیؒ کی تحریرات کی روشنی میں اس کا جواب قارئین کے رو بہ رو ہو چکا ہے۔اس دراز سلسلہ میں مبحثِ حسن و قبح کے خاصے اہم گوشے احاطۂِ تحریر میں آ چکے ہیں۔ یقینا مسئلہ کے بعض ضمنی پہلو ہنوز تشنۂ بیان ہیں مگر کیا کیجئے کہ امام رازی کی اقلیمِ علم غیر مختتم  اور ہمارا رہوارِ قلم تھکن سے چورہے۔دست بہ دعا ہوں کہ خداوند متعال امام فخرالدین رازیؒ کے تصدق خاکسار کی اس ادنی کاوش کو توشۂ آخرت بنا دے۔آمین



حواشی

  1. اگرچہ حکم شرعی پر قانون کا اطلاق بوجوہ محلِ نظر ہے تاہم یہاں لسانیاتی مجبوری کے تحت ایسا کیا جا رہا ہے کہ عموما فعل کے وجوبی، صوابدیدی، اولی یا ممنوع ہونے کی حیثیت کو اس کی قانونی حیثیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
  2.  گو یہ بات کلامی و اصولی کتب میں صراحت کے ساتھ مرقوم ہے تاہم اس کی نمایاں جھلک اصولیین کی طرف سے حکم شرعی کی بیان کردہ تعریف میں بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ حکم شرعی  افعالِ عبد کے متعلق اللہ تعالی کے خطاب کا نام ہے۔ 
  3. قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۶۴   https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
  4. ايضا ج۶-۱،ص۶۵
  5. ابو زید عبیداللہ بن عمر الدبوسی،تقویم الادلہ فی اصول الفقہ(مکتبہ عصریہ،بیروت،۲۰۰۶)ص۴۳۲
  6. ايضا،ص۴۳۲،۴۳۳،۴۳۴،۴۳۵،۴۶۵
  7. امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،۱۹۹۲)ج۱،ص۱۵۹،۱۶۰
  8. ابو زید عبیداللہ بن عمر الدبوسی،تقویم الادلہ فی اصول الفقہ(مکتبہ عصریہ،بیروت،۲۰۰۶)،ص۴۵۹
  9. ايضا،ص۴۶۲،۴۶۳
  10. امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه(موسسة الرساله،بيروت،۱۹۹۲)،ج۱،ص۱۴۷-۱۵۴
  11.  قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۱۲۷،۱۲۸      https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
  12. امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۲،ص۱۰
  13. قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۳۸     https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
  14. امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۳،ص۲۹۰،۲۹۱/الاربعين فى اصول الدين(دارالکتب العلمیہ،بیروت،۲۰۰۹)،ص۲۴۵
  15.  قاضی ابوبکر محمد بن طیب  باقلانی، کتاب تمہید الاوائل و تلخیص الدلائل ( موسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، ۱۹۸۷)، ص ۵۰،۵۱،۵۲
  16. امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول (دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)، ج۳،ص۲۸۸
  17. امام فخر الدين محمد بن عمر رازى،المحصول فى علم اصول الفقه (موسسة الرساله، بيروت،۱۹۹۲ )، ج۵،ص۱۳۵
  18. امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۳،ص۲۹۵،۲۹۶
  19. امام فخرالدین رازی،تفسیر کبیر(دارالفکر،بیروت،۱۹۸۱)،ج۲۲،ص۱۷۷
  20. امام فخرالدین رازی،لوامع البینات شرح الاسماء الحسنہ والصفات (المطبعہ الشرفیہ، مصر،۱۳۲۳ھ)، ص۱۸۴
  21.  قاضی عبدالجبار اسد آبادی،المغنی فی ابواب التوحید والعدل،ج۶-۱،ص۴۸،۴۹     https://archive.org/details/almoghny-kady-abdelgabar/11 27-10-2020
  22.  امام ابومنصور محمد بن محمد ماتریدی،کتاب التوحید(دارالاسلام،لاہور،۲۰۱۴)،ص۱۶۴
  23. امام ابومنصور محمد بن محمد ماتریدی،کتاب التوحید(دارالاسلام،لاہور،۲۰۱۴)،ص۲۹۷
  24. ابو زید عبیداللہ بن عمر الدبوسی،تقویم الادلہ فی اصول الفقہ(مکتبہ عصریہ،بیروت، ۲۰۰۶)، ص۴۶۶،۴۶۷
  25. امام فخرالدین رازی،لوامع البینات شرح الاسماء الحسنہ والصفات(المطبعہ الشرفیہ،مصر،۱۳۲۳ھ)،ص۲۰۹،۲۱۰
  26. امام ابومنصور محمد بن محمد ماتریدی،کتاب التوحید(دارالاسلام،لاہور،۲۰۱۴)،ص۴۵۹
  27. امام فخرالدین رازی،لوامع البینات شرح الاسماء الحسنہ والصفات(المطبعہ الشرفیہ، مصر، ۱۳۲۳ھ)، ص۲۱۰
  28. امام ابو شکور سالمی،التمہید فی بیان التوحید(مرکزالبحوث الاسلامیہ،استنبول،۲۰۱۷)ص۲۷۶
  29. امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول(دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)،ج۲،ص۷۴
  30. تاج الدین ابو نصر عبدالوہاب بن علی السبکی،السیف المشہور فی شرح عقیدة ابی منصور (شعبہ الہیات،جامعہ مرمرہ، استنبول، ۲۰۰۰)ص۱۲
  31. امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول (دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)، ج۲،ص۳۳۷
  32. امام فخرالدین محمد بن عمر رازی،نہایة العقول فی درایة الاصول (دارالذخائر،بیروت،۲۰۱۵)، ج۲،ص۷۱،۳۳۰،۳۳۱
  33. امام فخرالدین رازی،المطالب العالیہ من العلم الالہی(دارالکتب العلمیہ، بیروت، ۱۹۹۹)، ج۸،ص۶۱،۶۲
  34. امام فخرالدین رازی،المطالب العالیہ من العلم الالہی(دارالکتب العلمیہ،بیروت،۱۹۹۹)،ج۸،ص۶۹


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۹)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا گیارہواں باب)



گیارہواں باب :علم غیب


نبی اکرم ﷺ  کے علمِ غیب پر بحث میں مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی مخالفین اس بات پر متفق تھے کہ علم اور نبوت باہم لازم وملزوم ہیں۔ وہ اس بنیادی عقیدے پر بھی متفق تھے کہ خدا کی تمام مخلوقات میں نبی اکرم ﷺ ہی سب سے بڑے عالم، واجب الاتباع اور خدا کی محبوب ہستی ہیں۔ تاہم علم کی تعریف اور علم ونبوت کے درمیان تعلق کے سوالات پر ان کے درمیان شدید اختلاف واقع ہوا۔

ان بنیادی سوالات نے ایک ایسی کش مکش کو جنم دیا،جس کے نتیجے میں آخر کار مولانا احمد رضا خان نے دیوبندی اکابر (مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا اشرف علی تھانوی) پر کفر کا فتویٰ صادر کیا1۔ اس تکفیر میں بنیادی کردار نبی اکرم ﷺ کے علم غیب کے بارے میں مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کی دو عبارات تھیں۔ جب سے یہ عبارات منظر عام پر آئی ہیں، ایک صدی سے زیادہ عرصہ بیت چکا ہے، لیکن یہ مسلسل تنقید وتجزیے کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ خان صاحب نے علماے دیوبند کی تکفیر ان عبارات کی وجہ سے کی، کیوں کہ ان کی نظر میں یہ ضروریاتِ دین کے خلاف تھیں۔

اس باب میں میں ان عبارات کے سیاق وسباق، ان پر خان صاحب کی تنقید اور آخر میں بیسویں صدی کے ہندوستان کے دیوبندی عالم مولانا منظور احمد نعمانی (م 1997) کی جانب سے خان صاحب کو دیے گئے جوابات کا جائزہ لوں گا۔ اس مناظرانہ بحث کا ایک دقیق جائزہ لینے کے ساتھ میں ان متحارب مناہج کو نمایاں کروں گا، جن کے ذریعے خان صاحب اور ان کے دیوبندی مخالفین نے علم، حاکمیت اور نبوت کے باہمی تعلق کو سمجھا۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو بریلوی اور دیوبندی مسالک کے اختلاف میں ایک بارودی سرنگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

میں دکھاؤں گا کہ  بظاہر علم نبوی کی حدود پر مرتکز اس مباحثے میں اصلاً جو موضوع زیر بحث تھا، وہ جدیدیت میں مذہب کی تعریف تھی۔ یہ سوال کہ کیا نبی اکرم ﷺ کے پاس علم غیب ہے یا نہیں، اس امر پر منحصر ہے کہ بذاتِ خود علم کی تعریف کیا ہے۔ اور علم کی حدود کی تعیین منحصر ہے علم کی ان تمام اقسام کی تعریف پر جو مذہبی سمجھی جاتی ہیں۔ نتیجتاً مذہبی علم کی تعریف کو مذہب کی تعریف سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ اس لیے یہ مناظرہ جس قدر زندگی کے ایک زمرے کی حیثیت سے مذہب کی حدود سے متعلق تھا، اسی قدر یہ علم اور نبوت کی متحارب تفہیمات سے بھی تعلق رکھتا تھا۔

آغاز

اس مباحثے کا آغاز اصلاً اس مسئلے سے ہوا کہ عید میلاد النبی میں شرکاے میلاد کو برکتوں سے نوازنے کے لیے رسول اللہ ﷺ محفلِ میلاد میں تشریف لاتے ہیں۔ علماے دیوبند بشمول مولانا گنگوہی، مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی نے اس امکان کو رد کیا۔ انھوں نے بتایا کہ بیک وقت متعدد مقامات میں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کے عقیدے سے عوام یہ سمجھنے لگیں گے کہ رسول اللہ ﷺ حاضر وناظر ہیں۔ اس لیے وہ ان خدائی صفات سے نبی اکرم ﷺ کو متصف کرنے لگ جائیں گے2۔ شمالی ہندوستان کے معروف عالم مولانا عبد السمیع نے دیوبندی فکر کی کاٹ دار تنقید میں 'انوار ساطعہ' کے نام سے جو کتاب لکھی (جس کا تعارف پچھلے ابواب میں ہو چکا ہے)، اس میں انھوں نے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش کی۔

انوارِ ساطعہ میں مولوی عبد السمیع نے علماے دیوبند کو ان کے اس موقف پر کھری کھری سنائیں کہ متعدد مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی موجودگی کا عقیدہ شرک ہے۔ انھوں نے اس کے جواب میں بتایا کہ یہ عقیدۂ توحید کے بالکل منافی نہیں، جیسا کہ دیوبندی کہتے ہیں3۔ مولوی عبد السمیع نے واضح کیا کہ شرک کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کسی اور ہستی کو ایسے علم سے متصف کیا جائے جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہے۔ تاہم انھوں نے تاکیداً کہا کہ محفل میلاد کے انعقاد کے تمام مقامات کے علم کو خدا کے علم کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 

خدا تمام کائنات کے ذرے ذرے کا علم رکھتا ہے، اور ہر جگہ حاضر وناظر ہے۔ اس لامحدود علم کے مقابلے میں صرف ان مقامات کا علم جہاں محفل میلاد منعقد ہوتی ہے، ایک ذرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا۔اس لیے اس عقیدے کا کہ نبی اکرم ﷺ بیک وقت کئی مقامات پر حاضر ہوتے ہیں، بالکل بھی یہ مطلب نہیں کہ خدا اور ان کے علم میں برابری ہے۔ نہ ہی اس سے یہ معنی برآمد کیا جا سکتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ علمِ کلی کی خدائی صفت میں ان کے ساتھ شریک ہیں۔ مولانا عبد السمیع نے باصرار بتایا کہ یہ تشریح صرف اس صورت میں درست ہوتی کہ اگر خدا کا حاضر وناظر ہونا بھی میلاد کی محفلوں تک محدود ہوتا۔ چوں کہ یہ درست نہیں، اس لیے محفل میلاد میں رسول اللہ ﷺ کی آمد کا عقیدہ بھی توحید کے مخالف یا منافی نہیں، نہ ہی اس میں شرک کا کوئی امکان ہے4۔

مولانا عبد السمیع نے واضح کیا کہ صفاتِ الہیہ وہ ہیں جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، اور ان کے علاوہ کسی اور میں نہیں پائی جاتیں (يوجد فيه ولايوجد في غيره)۔ مولوی عبد السمیع نے دعوی کیا کہ ہر جگہ حاضر وناظر ہونے کی صفت ان صفات میں شامل نہیں ہے۔ یہ صفت خدا کے ساتھ خاص نہیں۔ مولانا عبد السمیع نے واضح کیا کہ مثلاً موت کے فرشتے (ملک الموت) کی یہ صفت مشہور ہے کہ وہ تمام کائنات میں بیک وقت موجود ہوتا ہے۔ وہ تمام انسانوں، جانوروں، کیڑوں مکوڑوں اور پرندوں تک رسائی رکھتا ہے۔ جہاں کہیں خدا کی کوئی مخلوق مرتی ہے، وہیں وہ موجود ہوتا ہے۔ عبد السمیع نے بتایا کہ اس کے ساتھ ساتھ شیطان بھی دن رات تمام انسانوں کے پیچھے لگا رہتا ہے (سواے ان لوگوں کے جنھیں خدا نے اپنے فضل سے محفوظ رکھا ہے)۔ خدا نے شیطان کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ ہر زمان ومکان میں بیک وقت موجود ہو، جس طرح اس نے ملک الموت کو یہ صلاحیت عطا کی ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ سے اسی صفت کی نفی کر کے علماے دیوبند نے بھرپور طریقے سے  ان کا رتبہ شیطان اور ملک الموت سے بھی گھٹا دیا ہے5۔

مولانا عبد السمیع کی نظر میں رسول اکرم ﷺ کے علم کی جامعیت کا انکار کرکے رسول اکرم ﷺ دیوبندی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ رسول اکرم ﷺ کی عظمتِ شان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ مولانا عبد السمیع نے وضاحت کی کہ ان کی بات کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ لازماً ہر محفل میلاد میں تشریف لاتے ہیں۔ بلکہ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس عقیدے کے حامل فرد کو مشرک نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ سے مقام ومرتبے میں کم تر مخلوقات جیسے شیطان اور ملک الموت کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ بیک وقت لاتعداد مقامات میں حاضر وموجود ہوں۔

اس لیے رسول اللہ ﷺ میں اس صفت کا نہ ہونا ناقابل فہم ہے۔ کوئی بھی ایسا شخص جو اشارتاً یہ کہہ دے کہ رسول اللہ ﷺ کا علم شیطان اور ملک الموت سے کم تر ہے، وہ حضور ﷺ کی توہین اور گستاخی کا مرتکب ہے6۔ مولوی عبد السمیع نے علم نبوی کے مسئلے پر دیوبندی مسلک کے خلاف جو الزام عائد کیا، یہ اس کا ایک مختصر خلاصہ ہے۔

مولانا سہارن پوری نے مولوی عبد السمیع کی کتاب انوار ساطعہ کے جواب میں اپنی کتاب براہین قاطعہ میں، جس کا ذکر میں پہلے بھی متعدد مقامات پر کر چکا ہوں، دیوبندی مسلک کا دفاع کرتے ہوئے اس الزام کا جواب دیا۔ اس کتاب کے جس حصے میں، میں غوطہ زن ہونے جا رہا ہوں، اس میں مولانا سہارن پوری نے یہ کوشش کی ہے کہ مولانا عبد السمیع کے اس دعوے کا ابطال کریں کہ علماے دیوبند شیطان کو نبی اکرم ﷺ سے زیادہ علم والا اور نتیجتاً ان سے برترحیثیت والا قرار دیتے ہیں۔ اس تنازع میں ان کا جواب بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے میں، میں اگلے صفحات میں تفصیل کے ساتھ اس کا تجزیہ کروں گا۔

علم اور مقام ومرتبہ میں تفریق: مولانا عبد السمیع کے جواب میں مولانا سہارن پوری کا موقف

اپنے دندان شکن جواب میں مولانا سہارن پوری نے مولانا عبد السمیع کی اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ دیوبندی، شیطان کو رسول اللہ ﷺ سے بلند رتبہ قرار دیتے ہیں۔ علم اور نبوت پر دیوبندی موقف کی توضیح کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ خدا نے اپنے بندوں میں سے ہر ایک کو خاص مقدار میں علم سے نوازا ہے۔ مزید یہ کہ خدا نے اپنی مخلوق میں جسے جتنا علم دیا ہے، اس سے زیادہ علم سے اس کو موصوف کرنا شرک کے زمرے میں آتا ہے7۔

مولانا سہارن پوری کے نزدیک خدا کی یہ صفت کہ وہ علم عطا کرتا ہے، اور ان کے علاوہ تمام مخلوقات کا علم محدود ہے،  بغیر کسی شک وشبہے کے قرآن کریم سے ثابت ہے: "اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں؛ صرف وہی اسے جانتا ہے"8۔ مولانا سہارن پوری نے واضح کیا کہ شرک کا مطلب صرف یہ نہیں کہ خدا اور رسول اللہ ﷺ کے علم کو مساوی قرار دیا جائے۔ خدا کی کسی بھی صفت کو جیسے اس کے علمِ کلی کا اثبات کسی اور کے لیے کرنا بھی شرک ہے۔

اس اصول کا اطلاق آنحضرت ﷺ سمیت تمام غیر اللہ پر ہوتا ہے9۔ اس کی تائید میں مولانا سہارن پوری حنفی مذہب (جیسا کہ البحر الرائق اور الدر المختار میں ہے) کا ایک حوالہ پیش کرتے ہیں، جس کے مطابق جو کوئی بھی نکاح کرتے وقت خدا اور حضور ﷺ کو گواہ بناتا ہے، وہ کافر بن جاتا ہے10۔

اس کی وجہ اس عمل کی تہہ میں موجود یہ اعتقاد ہے کہ رسول اللہ ﷺ عالم الغیب ہیں۔ مولانا سہارن پوری نے تنبیہ کی کہ ایک اہم نکتہ جسے یاد رکھنا چاہیے، یہ ہے کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کی صریح نفی کی گئی ہے۔ یہاں پر ایسی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی کہ یہ عقیدہ شرک تب ہوگا جب خدا اور نبی اکرم ﷺ کے علم کو بالکل برابر قرار دیا جائے۔

مولانا سہارن پوری اپنی بات جاری رکھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر یہ ماننا پڑے گاکہ عہد نبوی کے مشرکین بھی حقیقت میں کافر نہیں تھے، کیوں کہ وہ تو کسی ایک معبود کے لیے بھی مکمل حاکمیت اور علمِ غیب کا اثبات نہیں کرتے تھے۔ وہ تو کئی جھوٹے خداؤں (معبودان باطلہ) کو مانتے تھے، جن میں سے ہر ایک کے پاس الگ الگ اختیارات تھے۔ مولانا سہارن پوری کے نزدیک اللہ نے اپنے سوا تمام مخلوقات بشمول انبیا، شیاطین اور ملک الموت کو علم کی ایک مخصوص مقدار عطا کی ہے، جس سے ان کا علم نہ بڑھ سکتا ہے نہ گھٹ سکتا ہے11۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ خدا نے اپنی مخلوقات کو جو علم عطا کیا ہے، اس کے اور روحانی رتبے کے درمیان تعلق نہیں ہے، بلکہ مولانا سہارنپوری کے استدلال کی پوری عمارت اس دعوے پر استوار ہے کہ رتبے کا انحصار خارجی دنیا کے علم پر نہیں۔ ایک فرد کم علم ہونے کے باوجود بلند مرتبے کا حامل ہو سکتا ہے۔ مثلاً‌ انھوں نے واضح کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قرآن میں مذکور حضرت خضر علیہ السلام سے مقام ومرتبے میں کئی گنا بلند وبرتر تھے، لیکن ان کا علمی مکاشفہ حضرت خضر علیہ السلام کے مقابلے میں کم تھا۔ ان دونوں شخصیات کا علم اس حد تک محدود تھا، جو خدا نے انھیں عطا کیا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کے مقام ومرتبے میں فرق تھا۔

مولانا سہارن پوری نے مولانا عبد السمیع کی اس بات سے اتفاق کیا کہ شیطان اور ملک الموت کو جو وسیع علم ملا ہے، وہ قطعی نصوص سے بلا شک وشبہ ثابت ہے۔ تاہم اس کی بنیاد پر کوئی شخص یہ قیاس نہیں کر سکتا کہ مثلاً رسول اللہ ﷺ جیسے بلند مقام ومرتبے والی شخصیت کا علم شیطان اور ملک الموت سے زیادہ نہ ہو تو کم از کم ان کے برابر تو ہونا چاہیے۔ مولانا سہارن پوری نے تجویز کیا کہ اس کے برعکس ایسی نصوصِ قاطعہ موجود ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ علمِ غیب تک رسائی نہیں رکھتے تھے۔ مثلاً  رسول اللہ خود فرماتے ہیں: "اور مجھے پتا نہیں کہ (قیامت کے دن) میرے یا تمھارے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا (لا أدري ما يفعل بي ولا بكم)۔ اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے آپ سے علمِ غیب کی نفی کی۔ مولانا سہارن پوری نے بتایا کہ مولانا سمیع کے طرز استدلال میں جو بنیادی خامی ہے، وہ رتبے اور علم کے درمیان فرق نہ کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا رتبہ شیطان سے اونچا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان سے زیادہ علم بھی رکھتے ہیں12۔ علم اور رتبہ متساوی نہیں ہوتے، جیسا کہ مولانا عبد السمیع نے غلط فہمی سے فرض کر لیا ہے۔

مولانا سہارن پوری نے مولانا سمیع پر اس حوالے سے بھی ملامت کی کہ وہ نصوصِ قطعیہ کے مقابلے میں قیاس پیش کرتے ہیں۔ مولانا سہارن پوری نے سختی سے تنبیہ کی کہ عقائد کے مسائل میں قیاس کا کوئی دخل نہیں۔ ان کے لیے نصوصِ قطعیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ خارجی دنیا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے وسیع علم کے حوالے سے نصوصِ قطعیہ موجود نہیں، اور اس وجہ سے مولانا سمیع کا استدلال نادرست ہے۔

اس مقام پر مولانا سہارن پوری نے ایک ایسی بات کہی جو کئی دہائیوں تک ان کی علمی تراث سے متعلق مناظرانہ جنگوں کو بھڑکاتی رہی: "شیطان اور ملک الموت کا تمام دنیا کو محیط علم (علمِ محیطِ زمین) نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔ فخرِ موجودات ﷺ کے لیے فاسد قیاس سے ایسے علم کا اثبات اگر شرک نہیں تو اور کیا ہے؟ شیطان اور ملک الموت کو یہ وسعت نص سے ثابت ہے، فخرِ ِموجودات کے وسعتِ علم کے بارے میں کون سی نص قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کرکے اس شرک کا اثبات کیا جا سکے؟"13

مولانا سہارن پوری کے نزدیک علم اللہ تعالی کی صفاتِ خاصہ میں سے ہے۔ ان کی نظر میں توحید کی  خاطر علم غیب کی خدائی صفت کا تحفظ ضروری ہے۔

مولانا سہارن پوری کی فکر میں خدا نے تمام مخلوقات کو علم کی ایک مخصوص مقدار عطا کی ہے۔ اللہ کے سوا تمام مخلوقات کا علم اس حد تک محدود ہوتا ہے، جو خدا نے اپنے نظامِ علم میں ان کے لیے مقرر کیا ہے۔ سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ توحید کا دار ومدار اسی نظام کے استحکام پر ہے۔ جو کوئی اس نظام میں خلل پیدا کرتا ہے، وہ اس نظام کے خالق یعنی اللہ کی حاکمیت (عقیدۂ توحید) کو نقصان پہنچاتا ہے۔   اس لیے یہ تجویز کرنا کہ نبی اکرم ﷺ محفل میلاد کے دوران بیک وقت متعدد مقامات پر حاضری دیتے ہیں، ان کی نظر میں فاسد ہے۔

سہارن پوری سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اکرم ﷺ کو عطا کردہ علم سے ان کے بڑھ جانے کا تصور شرک ہے۔ ان کے عقیدے کی رو سے علم اللہ تعالی کی طرف سے مخلوق کے لیے ایک تحفہ ہے۔ جب علم کا یہ تحفہ دوسرے لوگوں کو ملا، تو اس سے ان پر خدا کی حاکمیت ثابت ہو گئی۔ اسے یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے: دوسروں کو علم دینے سے خدا نے خود کو حاکمیت عطا کی۔ علم کے تحفے نے حاکمیت کے تحفے کو حاصل کیا۔ سب سے اہم یہ خدا کے علاوہ کوئی ہستی یہاں تک حضور ﷺ کو بھی یہ اجازت نہیں کہ خدا کے عطا کردہ اس تحفے کی حدود سے تجاوز کرے۔

لیکن مولانا سہارن پوری نے علم اور مقام ومرتبے کے درمیان علاحدگی کی جو کوشش کی، وہ ابہامات سے خالی نہیں تھی۔ علم اورمقام ومرتبے کے درمیان علاحدگی کی اس کوشش کا سب سے مشکوک پہلو وہ رتبہ ہے جو اس نے بذاتِ خود علم کو عطا کیا۔ ایک طرف مولانا سہارن پوری کا پورا استدلال اس دعوے پر مبنی تھا کہ علم اور رتبہ متساوی نہیں، یا ان کے درمیان سرے سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس موقف کے ذریعے ان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ بیک وقت ایک مقدس ہستی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کا احترام بھی کریں، اور انھیں ایک ایسا انسان بھی مانیں جن کا علم شیطان یا ملک الموت سے کم تر ہے۔

توحیدِ باری تعالیٰ  کی مطلقیت کے حوالے سے ان کا استدلال علمِ باری تعالیٰ کی استثنائی حیثیت پر مبنی تھا۔ یہاں پر پیدا ہونے والا بنیادی سوال یہ ہے: اگر علم اور مقام ومرتبہ کے درمیان تساوی نہیں یا سرے سے کوئی نسبت نہیں تو پھر ایک قادر مطلق اور یکتا خدا علم غیب کلی سے کیسے متصف  ہو سکتا ہے؟ بالفاظ دیگراگر روحانی کمالات کے مدارج میں کسی ہستی کے مقام ومرتبے کا تعلق علم سے نہیں، تو پھر خدا کی حاکمیتِ مطلقہ اس علم پر کیوں کر منحصر ہو سکتی ہے؟   یہ وہ سوالات ہیں (جیسا کہ ہم اس باب میں تھوڑا آگے دیکھیں گے)، جو مولانا سہارن پوری کے متذکرہ بالا مواقف سے شدید اختلاف کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے۔ مزید برآں ان کے مخالفین کو ان بیانات کے ساتھ ساتھ اس انداز بیان سے بھی اتنا ہی مسئلہ تھا جس میں انھوں نے اپنا استدلال پیش کیا۔ مولانا سہارن پوری نے رسول اللہ ﷺ اور شیطان کے درمیان موازنے قائم کرنے کے لیے جو لسانی تعبیرات اختیار کیں، ان سے بطور خاص وہ اس الزام کی زد میں آئے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے متعلق احترام کے جذبات نہیں رکھتے۔ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب سے متعلق تعبیرات پر ایک اور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی کو بھی اسی طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔

کیا رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے؟ مولانا اشرف علی تھانوی کا موقف

قریب قریب اپنے بزرگ دوست مولانا سہارن پوری کی طرح مولانا تھانوی کو بھی خدشہ لاحق تھا کہ کہیں عوام خدا اور نبی اکرم ﷺ کے علم کوآپس میں گڈ مڈ نہ کر بیٹھیں۔ اپنے ایک نسبتاً مختصر واعظانہ مکتوب 'حفظ الایمان' میں مولانا تھانوی نے اس مسئلے کو موضوعِ بحث بنایا کہ کیا رسول اللہ ﷺکو عالم الغیب کہنا جائز ہے۔ یہ سوال مولانا تھانوی سے ان کے ایک مرید نے پوچھا تھا کہ کیا کوئی شخص جسے اللہ تعالیٰ علم غیب عطا کرے، اس لقب کا اہل ہے؟  سائل کچھ اس انداز میں پوچھتا ہے: "زید کہتا ہے کہ علم غیب کی دو قسمیں ہیں: بالذات اور بالواسطہ۔ وہ کہتا ہے کہ پہلی قسم خدا کے ساتھ خاص ہے، جب کہ دوسری قسم کا علم رسول اللہ ﷺ کو حاصل ہے۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ کو بھی عالم الغیب کہا جا سکتا ہے۔ کیا یہ موقف درست ہے؟"14

اپنے جواب میں مولانا تھانوی نے قطعیت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب پکارنے کے جواز کو رد کیا۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ خدا ہی وہ واحد ذات ہے جو  علمِ غیب کلی کی حامل ہے، اس لیے خدا کے علاوہ اور کوئی مخلوق یہاں تک کہ پیغمبر بھی اس لقب کا مستحق نہیں15۔ خدا کی کسی مخلوق کی طرف اس صفت کی اضافت کرنا شرک کا دروازہ کھولنا ہے۔ انھوں نے واضح کیا: یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہمارے نگہبان (راعنا)، میرے آقا (ربی) جیسی صفات سے متصف کرنا ممنوع قرار دیا گیا۔ مولانا تھانوی نے مزید بتایا کہ نصوصِ قاطعہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ  رسول اللہ ﷺ کو جزوی علمِ غیب حاصل تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی اپنی زندگی کے تجربات اور مشاہدات بھی اس پر شاہد ہیں۔ مثلاً نبی اکرم ﷺ خفیہ معلومات تک رسائی کے لیے جاسوسوں اور مخبروں کو بھیجتے تھے۔ اسی طرح انھیں آخرت کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ وہ کب واقع ہوگی۔ ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ  انھیں علمِ غیب کلی حاصل نہ تھا۔ اس وجہ سے عالم الغیب کا اطلاق صرف اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے، اور نبی اکرم ﷺ پر نہیں ہوسکتا۔ اس نکتے پر مزید زور دینے کے لیے مولانا تھانوی نے ایک فرضی قیاس پیش کیا، جو آج تک شدید تنازعات کو ہوا دیتا ہے:

بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حضور ﷺ کی ذات اقدس پر عالم الغیب کا اطلاق درست ہے، تو سوال یہ ہے کہ اس غیب سے کون سا غیب مراد ہے: بعض غیب یا کل غیب؟ اگر مراد بعض علوم غیبیہ ہیں تو اس میں حضور ﷺ کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علم تو زید، عمرو بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ تمام جانوروں اور چوپاؤں کو بھی حاصل ہے، کیوں کہ ہر شخص کو کسی نہ کسی ایسی بات کا علم ہوتا ہے، جو دوسرے شخص کو نہیں ہوتا۔ تو پھر تو چاہیے کہ سب کو عالم الغیب کہا جائے۔۔۔۔ اور اگر مراد تمام علومِ غیبیہ ہیں، تو اس کا بطلان دلیل عقلی ونقلی دونوں سے ثابت ہے16۔

اس اشتعال انگیز قیاس کے ذریعے مولانا تھانوی نے کوشش کی کہ خدا اور نبی اکرم ﷺ کی حیثیت میں فرق کو نمایاں کریں۔ مولانا تھانوی کے نزدیک صرف خدا ہی وہ ہستی ہے جو علم غیب کی خاص صفت سے متصف ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ مقام حاصل نہیں ہے۔ لیکن یہ نکتہ پیش کرتے ہوئے مولانا تھانوی نے مولانا سہارن پوری کی طرح ایک ایسا انداز بیان اختیار کیا جو کئی دہائیوں تک دیوبندی مسلک کی علمی تراث کے لیے مسئلہ بنا رہے گا۔ مولانا تھانوی نے علمِ نبوی کا موازنہ جانوروں، چوپایوں اور پاگلوں سے کرکے اپنے مخالفین کو وہ بارود فراہم کیا، جس سے وہ دیوبندیوں کے خلاف یہ استدلال کریں کہ وہ گستاخان رسول ہیں۔

بعینہ یہی وہ استدلال تھا، جو علمِ نبوی سے متعلق دیوبندی نظریات کی تردید کے لیے مولانا احمد رضا خان کی تردید کا سبب بنا، جس کی طرف میں اب متوجہ ہوتا ہوں۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا تھا، مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کے مذکورہ بالا بیانات نے دیوبندیوں کے خلاف مولانا احمد رضا خان کے فتواے تکفیر کے لیے جلتی پر تیل کا کام دیا۔ دیوبندیوں سے تمام تر اختلافات کے باوجود انھوں نے ان کی تکفیر صرف ان دو عبارات کی بنیاد پر کی، جو ان کی نظر میں ضروریات دین کے خلاف تھیں۔

شیطانی عقائد

حُسام الحرمین وہ فتویٰ تھا جو عرب حنفی علما کی تائید کے حصول کے لیے مرتب کیا گیا تھا۔ اس  میں مولانا احمد رضا خان نے مولانا گنگوہی،مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کو شیطان وہابیوں (وہابیہ شیطانیہ) کا ایک گروہ قرار دیا17۔ انھوں نے ان پر الزام لگایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی توہین اور شیطان کی تعظیم کرتے ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے مولانا سہارن پوری کو اپنا نشانہ بنایا۔ خان صاحب کے نزدیک یہ کہنا کہ اللہ کی محبوب ترین ہستی حضور ﷺ کا علم شیطان یا ملک الموت سے کم تر ہے، ناقابل برداشت ہے۔ خان صاحب کی نظر میں مولانا سہارن پوری کا بیان اور طرز بیان دونوں گستاخانہ تھے۔

ایسے گستاخانہ سوالات پوچھنا کہ: "رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے بارے میں کون سے قطعی نصوص موجود ہیں؟" رسول اللہ ﷺ کی توہین ہے۔ علاوہ ازیں نبی اکرم ﷺ اور شیطان کے علم کے درمیان موازنہ قائم کرنا ایک ایسی جسارت ہے جس سے رسالت مآب کا مقام ومرتبہ یقیناً مجروح ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے متعلق مولانا گنگوہی اور ان کے پیروکاروں کے رویے پر خان صاحب کی برہمی اور اشتعال کا اندازہ ان کے تیکھے لہجے سے لگائیے۔ وہ لکھتے ہیں:

ہم مسلمانوں سے فریاد کرتے ہیں، ہم سید المرسلین ﷺ پر ایمان لانے والوں سے فریاد کرتے ہیں! آپ غور کریں کہ یہ مولوی (مولانا رشید احمد گنگوہی) علم میں بڑے اونچے پاے کا دعویٰ کرتا ہے، ایمان اور معرفت میں یدِ طولیٰ کا مدعی ہے، اور اپنے حلقے میں غوث اور قطبِ زمانہ کہلاتا ہے، کس طرح منہ بھر کر گالی دے رہا ہے؟ اپنے پیر ابلیس کے علم کی وسعت پر تو ایمان رکھتا ہے،اور اسے نصِ قطعی تسلیم کرتا ہے، مگر جنھیں اللہ تعالی نے تمام علوم سے آگاہ فرمایا، سب علوم سکھا دیے، ان پر اللہ کا فضل کثیر تھا، جن کے سامنے ہر چیز روشن تھی، جنھوں نے ہر چیز کو پہچان لیا تھا، اور جن کے پاس آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ ہے اس کا علم تھا، مشرق ومغرب میں جو کچھ ہے اس کا علم تھا، تمام اگلوں اور پچھلوں کا علم حاصل تھا، اور یہ بات قرآن پاک کی کئی آیات میں درخشاں نظر آتی ہے، بے شمار احادیث حضور ﷺ کے وسعتِ علمی کی گواہ ہیں، مگر یہ بدبخت ان کے لیے یوں لکھتا ہے کہ ان کے حق میں کون سی نص آئی ہے؟ کیا یہ نظریہ ابلیس پر ایمان لانے اور حضور ﷺ کے علم سے انکار اور کفر کرنے پر مبنی نہیں ہے؟18

خان صاحب نے مولانا سہارن پوری پر الزام لگایا کہ وہ شیطان کو رسول اللہ سے اعلم (زیادہ علم والا) سمجھتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے سوا کسی اور مخلوق سے کم تر علم والا قرار دینے اور انھیں گالی دینے میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے خان صاحب کی نظر میں مولانا سہارن پوری حضورﷺ کو گالی دینے کے مرتکب ہیں، اور اس وجہ سے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں19۔ مزید یہ کہ خان صاحب کے نزدیک سہارن پوری شیطان کے علم کی وسعت کو جس جوش وجذبے سے ثابت کر رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ جارحانہ انداز میں وہ رسول اللہ ﷺ کے وسعتِ علم کی نفی کر رہے ہیں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کو شرک قرار دے رہے ہیں، لیکن شیطان کے لیے علم غیب ثابت کرنے سے انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔ اس لیے خان صاحب بتاتے ہیں کہ مولانا سہارن پوری ایک طرف تو رسول اللہ ﷺ کو صفاتِ الہیہ سے متصف کرنے پر بے چین ہیں، لیکن دوسری طرف طرف شیطان کو خدا کا شریک ٹھہرانے سے بالکل نہیں کتراتے۔

خان صاحب نوحہ کناں ہیں کہ اس بے ہودہ عقیدے کا اصل فائدہ صرف شیطان کو ہے۔ خان صاحب ایک خطیبانہ جوش کے ساتھ کہتے ہیں کہ مولانا سہارن پوری بیک وقت رسول اللہ ﷺ کی توہین اور شیطان کی تعظیم کرتے ہیں، کیوں کہ وہ مؤخر الذکر کو خدائی شان وشوکت کے زیادہ حامل قرار دیتے ہیں۔ بالفاظ دیگر مولانا سہارن پوری نے روایت کے مکمل تصور کو الٹ پلٹ کردیا ہے، کیوں کہ انھوں نے حضور ﷺ کا مقام شیطان کو دے دیا ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ ایسا شیطانی عقیدہ دین کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دے گا20۔

نبی اکرم ﷺ کی عزت و حرمت پر ڈاکہ

اس کے بعد خان مولانا اشرف علی تھانوی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ وہ اپنے عرب مخاطبین سے مولانا تھانوی کا تعارف کچھ یوں کرتے ہیں:

اس فرقہ وہابیہ کے بڑوں میں ایک اور شخص اسی گنگوہی کا دم چھلا ہے، جسے اشرف علی تھانوی کہتے ہیں۔ اس نے  چار اوراق کا ایک چھوٹا سا رسالہ تصنیف کیا ہے، جس میں اس نے تصریح کی ہے کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم رسول اللہ ﷺ کو ہے، ایسا تو ہر بچے، بلکہ ہر جانور اور چوپاے کو حاصل ہے۔ اس کی ملعون عبارت کے الفاظ کچھ یوں ہیں: "آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر کسی کے نزدیک صحیح ہو، تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب؟ اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں، تو اس میں حضور ﷺ کی کیا تخصیص ہے؟ ایسا علم غیب تو ہر شخص کو بلکہ ہر صبی ومجنون بلکہ جمیع بہائم وحیوانات کے لیے بھی حاصل ہے۔ اور اگر تمام علومِ غیبیہ مراد ہیں، اس طرح کہ اس سے ایک فرد بھی خارج نہ رہے، تو اس کا بطلان دلیل عقلی ونقلی سے ثابت ہے21۔

خان صاحب نے مولانا تھانوی پر الزام لگایا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو جانوروں اور پاگلوں کے مساوی قرار دیا ہے۔ وہ اپنے عرب مخاطبین سے گویا تقاضا کر رہے ہیں کہ وہ ان کے طیش اور غیض وغضب میں ان کا ساتھ دیں۔ خان صاحب گرج دار انداز میں لکھتے ہیں: "دیکھیے اس نے کیسے قرآن کو چھوڑا، اور ایمان کو خیر باد کہا، اور نبی اکرم ﷺ اور حیوان کے درمیان فرق کی کوشش کرنے لگ گیا (انظر كيف ترك القرآن، وودَّع الإيمان، وأخذ يسعى الفرق بين النبي والحيوان)22۔ خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی نے جس سادہ بات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا، وہ یہ ہے کہ خدا کےعلاوہ تمام مخلوقات کو جو علم غیب حاصل ہے، وہ ظنی ہے۔ امور غیبیہ کے متعلق یقینی علم اصالتاً خاص انبیاے کرام علیہم السلام کو ملتا ہے۔ کسی اور کو ایسا یقینی علم نہیں ملتا۔ پھر جلیل القدر انبیا اس علم کو خدا کی دیگر مخلوقات کو منتقل کرتے ہیں23۔

مولانا تھانوی پر خان صاحب کا بنیادی کلامی اشکال یہ تھا کہ انھوں نے اس تصور کورد کیا ہے کہ علم فضیلت کی علامت نہیں۔ خان کی نظر میں علم اور فضیلت کا ایک دوسرے سے تعلق مراتبی (hierarchical) ہے، اور ان  میں سے ہر ایک دوسرے کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ خان صاحب بتاتے ہیں: لیکن مولانا تھانوی نے علم اور فضیلت کے درمیان اس نسبت کو مٹا دیا۔ اس کے بجاے مولانا تھانوی کی فکر میں عالم الغیب اللہ اور  غیراللہ کے درمیان ایک دو قطبی تقسیم پائی جاتی ہے، جو اپنے علم کی وسعت کے اعتبار سے خدا سے یکسر کم تر ہیں۔ خان اپنی بات جاری رکھتے ہیں کہ  یہاں مولانا تھانوی جس بات پر غور نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا دیگر مخلوقات کو حاصل علم ایک جیسا یا یکساں نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان علم کے مراتب ہیں، جو صراحتاً افضل مخلوقات جیسے انبیا واولیا کو دیگر کم فضیلت والی مخلوقات جیسے عام انسانوں اور جانوروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ چوں کہ مولانا تھانوی ان فروق اور مراتب کو نظر انداز کرتے ہیں، اس لیے وہ حضور ﷺ کے علم کا بچوں، پاگلوں اور چوپایوں کے ساتھ موازنہ کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔

رسول اللہ ﷺ کے علم غیب پر مولانا احمدرضا خان کی سب سے زیادہ مفصل کتاب الدولة المکية ہے۔ یہ انھوں نے عربی میں اس وجہ سے لکھی ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے علما کو مخاطب بنائیں۔ اس کتاب میں وہ  مولانا تھانوی کو توجہ دلانے کے لیے اپنے قارئین  کو ایک دل چسپ تجربے کی تجویز دیتے ہیں:

"اگر آپ ان (مولانا تھانوی) کی حقیقت جاننا چاہتے ہیں تو ان کے پاس جائیں، اور انھیں اس طرح سے سلام کریں: اے وہ شخص جو علم اور حیثیت میں کتے اور خنزیر کے برابر ہے"۔ خان صاحب نے پیش گوئی کی کہ یہ غیر متوقع سلام سن کر"وہ (مولانا تھانوی) غصے سے جل بھن کر کباب بن جائیں گے، اور ممکن ہے وہ ذلت سے مر جائیں"۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہیں: "پھر ان سے پوچھیں: کیا آپ کا علم خدا کے علم کی طرح ہر چیز کو محیط ہے؟" اگر وہ ہاں میں جواب دے، تو اس نے کفر کیا۔ اور اگر وہ نا میں جواب دے تو ان سے کہیے: "پھر آپ کے علم کی کیا خصوصیت ہے؟کیوں کہ کتوں اور خنزیروں کے پاس بھی بعض چیزوں کا علم ہوتا ہے۔ پھر آپ خود کو عالم کیوں کہتے ہیں، اور کتوں اور خنزیروں کو کیوں نہیں؟" (فإن شئت ترى حقيقة ذالك فأته وخاطبه بقولك: "يا من يساوي الكلب والخنزير في العلم والتوقير". ستراه يحترق غيظا ويكاد يموت غنزا. فسله: هل أحاط بكل شيء علمك كمثل الله سبحانه وتعالى؟ فإن قال نعم فقد كفر، وإن قال لا فقل له: أي خصوصية لك في العلم، فإن العلم ببعض حاصل لكل الكلب والخنزير. فما لك تسمى عالماً دون نظرائك الكلاب والخنازير؟) 24.

خان صاحب کے نزدیک مولانا تھانوی کے استدلال میں بنیادی خامی یہ ہے کہ یہ علم کی مختلف اقسام میں فرق نہیں کرتا۔ خاص طور پر مولانا تھانوی نے مطلق علم اور علم مطلق ( علم غیب کلی) کے درمیان فرق کو سرے سے نظر انداز کیا ہے25۔ علمِ مطلق سے مراد کسی شے کو فی نفسہ جاننا ہے، بغیر اس کے کہ اس کے ساتھ کوئی اضافی پہلو یا قید  ملحوظ ہو۔ ایسا علم خدا کے علاوہ دیگر مخلوقات بشمول نبی اکرم ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔ خدا نے اپنی مخلوقات میں مختلف ہستیوں کو ان کے روحانی مقام ومرتبے کے اعتبار سے علم دیا ہے۔دوسری طرف علم مطلق سے مراد غیر مشروط طور پر لامحدود علم ہے، جو مخلوق کی گرفت سے ماورا ہے۔ انسان اس علم کے مقدار اور محتویٰ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس علم کی کوئی حد وحساب نہیں۔ اس قسم کا علم صرف خدا کے پاس ہے26۔

خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی کے طرز فکر کی  رو سے کسی کو بلند مقام اس وقت حاصل ہوتا ہے، جب اس کے پاس علمِ مطلق ہو، لیکن وہ فضیلت کے ان مراتب کا کوئی احترام نہیں کرتے، جو خدا کی مخلوق میں مطلقِ علم کے مختلف حاملین کو حاصل ہے۔ اس کے بجاے مولانا تھانوی مطلق علم کے سب حاملین کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہیں۔ مطلق علم کو اس طرح یکساں سمجھنے کی وجہ سے لیے ان کے لیے ناممکن ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے علم کو باقی دنیا کے علم سے ممتاز کر سکیں۔

خان صاحب کی نظر میں مطلق علم کے اس یک رخے تصور کی وجہ سے مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت کی نفی کی۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے بلند مقام سے محروم کر دیا۔ خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کا جو موازنہ پاگلوں، جانوروں اور چوپایوں سے کیا ہے، یہ اس گہری اصولی بیماری کا غماز ہے جو ان کی فکر پر مسلط ہے ۔ جیسا کہ وہ وضاحت کرتے ہیں:  "مولانا تھانوی مطلق علم کی مختلف اقسام میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھتے؛ ایک دو حرف جاننے میں، اور بے شمار علموں میں جن کی کوئی حد وحساب نہیں ہے۔ وہ فضیلت کو صرف علمِ مطلق کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں مقام فضیلت صرف اسے حاصل ہے، جو کلی علمِ غیب رکھتا ہو۔ اس لیے رسولوں کو علم مطلق کے اعتبار سے جو فضیلت حاصل تھی، وہ انھوں نے ان سے چھین لی"27۔

جیسا کہ اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے، خان صاحب کی نظر میں مولانا تھانوی نے توحید اور نبی اکرم ﷺ کی حیثیت کے درمیان ایک حد سے زیادہ بے لچک تقابل قائم کرکے رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت پر ڈاکا ڈالا ہے۔ اپنے پیش رو علامہ فضل حق خیر آبادی کی طرح، خان صاحب کے اعتقادی تصور میں  بھی توحید اور مقامِ نبوت باہم مربوط ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ علمِ الٰہی اور علم نبوی اگر چہ اپنی کمیت اورکیفیت کے اعتبار سے الگ ہیں، تاہم وہ ایک جیسے استدلالی مقام کا حصہ ہیں۔ خان صاحب نے رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کی صفت کو خدا کی طرف سے ایک موعودہ تحفہ قرار دیا۔

شفاعت  کی طرح علم بھی خدا کی طرف سے ایک تحفہ ہے، جو رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام اور بے مثال روحانی عظمت کی علامت ہے۔ علم کا تحفہ ہی رسول اللہ ﷺ کو باقی مخلوق سے امتیاز بخشتا ہے۔اپنے محبوب ترین بندے کے لیے یہ خدا کی محبت کی ایک علامت ہے۔ اپنے دیوبندی حریفوں سے ایک بے لچک تقابل کے ساتھ خان صاحب کا موقف یہ تھا کہ حضور ﷺ کو محض خدائی علم حاصل نہیں، بلکہ وہ اس علم میں براہ راست شریک بھی ہیں۔ خان صاحب نے مزید کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے علم غیب کا تحفہ چھیننا خدا کے علم ہی کی تحقیر ہے۔

خان صاحب کی نظر میں جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی شان کو گھٹاتے ہیں، وہ خدا پر بھی افترا پردازی کرتے ہیں۔ توحید باری تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام ومرتبے میں کلی منافات نہیں، جیسا کہ دیوبندیوں نے غلط طور پر فرض کیا ہے۔ بلکہ وہ ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ انھیں الگ نہیں کیا جا سکتا۔ خان صاحب نے لکھا: "تم کو کبھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو رسول اللہ ﷺ کی شان گھٹاتا ہے، اور وہ اپنے رب کی تعظیم بھی کرتا ہے۔ خدا کی قسم! جو کوئی ان کی شان گھٹائے گا، وہ ضرور بالضرور خدا کی شان بھی گھٹائے گا (لاترى أبدا من ينقص شان محمد وهو معظم لربه، والله إنما ينقصه من ينقص ربه)28۔

خان صاحب نے مولانا تھانوی کو ایک ایسے شخص کی روپ میں پیش کیا جو رسول اللہ ﷺ کی عظمتِ شان گھٹاتا ہے۔ خان صاحب کے نزدیک مولانا تھانوی کے فرضی قیاسات، جو رسول اللہ ﷺ کاپاگلوں، جانوروں اور چوپایوں سے موازنہ کرتے ہیں، نہ  صرف رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور مرتبے کی کھلم کھلا گستاخی ہیں، بلکہ اس سے کہیں زیادہ ایسے گستاخانہ موازنے اسلام کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ خان صاحب نے واضح کیا کہ اگر مولانا تھانوی کے استدلال کو مانا جائے، تو ایک کافر یا اسلام کا دشمن اسی استدلال کے ذریعے توحید باری تعالیٰ کے تصور پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ مولانا تھانوی کے استدلال کو دیکھتے ہوئے کوئی کافر یہ کہہ سکتا ہے:

اگر مسلمان یہ دعوی کریں کہ خدا حاکمِ مطلق ہے، تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے: کیا خدا کی حکومت صرف تمام چیزوں پر ہے یا کچھ چیزوں پر؟ اگر یہ صرف کچھ چیزوں پر ہے، تو اس میں خدا کی کیا خاصیت ہے، کیوں کہ کئی دیگر مخلوقات جیسے انسان، جانور، پاگل، بچے اور چوپاے تک کچھ چیزوں پر حاکمیت کے حامل ہیں؟ اور اگر یہ کہا جائے کہ خدا ہر چیز پر حاکم ہے، تو پھر اسے نقلی اور علقی دلائل دونوں دلائل سے رد کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ 'ہر چیز' کے مفہوم میں خدا بھی شامل ہے، تو پھر وہ اس کی حاکمیت خود اپنے آپ پر بھی ہے۔ اس صورت میں اس کی حاکمیت کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ نتیجتاً وہ خدا ہی نہیں رہے گا29۔   

خان صاحب کی نظر میں یہ وہ اعتقادی فساد ہے، جو مولانا تھانوی کی فکر نے برپا کیا ہے۔ خان صاحب کے لیے مولانا تھانوی کے انداز بیان میں سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ انھوں نے تصور کو اپنی حدودسے متجاوز کر دیا ہے۔ کیوں کہ جب رسول اللہ ﷺ اور احمقوں اور چوپایوں کے درمیان موازنہ قابل تصور بن گیا، پھر تو اتنی سی کسر رہ گئی کہ اسلام کے بنیادی عقائد مثلاً‌ توحید کے متعلق بھی لوگ ایسے گستاخانہ موازنے کرنے لگ جائیں۔



حواشی

  1. خان صاحب نے دیگر بانیانِ دیوبند میں سے مولانا قاسم نانوتوی کی ختم نبوت سے انکار کے الزام میں تکفیر کی ہے۔ یہ الگ موضوع ہے، جس پر اس باب میں بحث نہیں ہے۔
  2. خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعۃ (کراچی: دارالاشاعت، 1987)، 50 – 55۔
  3. مولانا سہارن پوری کی البراہین القاطعۃ میں مولانا عبد السمیع کی انوار ساطعہ در بیانِ مولود وفاتحہ، 53۔
  4. ایضاً۔
  5. ایضاً، 54 – 57۔
  6. ایضاً۔
  7. سہارن پوری، البراہین القاطعۃ، 53۔
  8. القرآن 6 : 59۔
  9. سہارن پوری، البراہین القاطعہ، 55۔
  10. عبد اللہ بن احمد النسفی، البحر الرائق في شرح كنز الدقائق في فروع الحنفية (بیروت، دارالکتب العلمیۃ، 1997)؛ محمد بن علی الحصکفی، الدر المختار في شرح تنوير الأبصار، (کلکتہ، مطبع اشتیاق لیتھوگرافک کمپنی، 1827)۔
  11. سہارن پوری، البراہین القاطعۃ، 55۔
  12.  ایضاً، 53 – 56۔
  13. ایضاً، 53۔
  14. اشرف علی تھانوی، حفظ الایمان (دیوبند: دارالکتاب دیوبندی، تاریخ ندارد)، 2۔
  15. ایضاً۔
  16. ایضاً، 15۔ رسول اللہ ﷺ سے علم غیب کی نفی کے بارے میں مولانا تھانوی نے قرآنِ کریم کی یہ آیت پیش کی: "اگر میرے پاس علمِ غیب ہوتا، تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا" (قرآن 7 : 188)۔
  17. خان نے اس فہرست میں مولانا گنگوہی کو بھی شامل کیا، کیوں کہ انھوں البراہین القاطعہ مولانا گنگوہی کے اشارے پر لکھی تھی۔
  18. مولانا احمد رضا خان، حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین(لاہور: مکتبۂ نبویہ، 1975)، 24۔
  19. ایضاً۔
  20.  ایضاً، 23 – 28۔
  21. ایضاً، 27۔
  22. ایضاً، 29۔
  23. ایضاً۔
  24. مولانا احمد رضا خان، الدولة المكية بالمادة الغيبية(لاہور: نذیر سنز، 2000)، 272۔
  25. ا۔ خان، حسام الحرمین،29۔
  26. اس استدلال کو خان نے الدولة المكية کے کافی حصے میں دہرایا ہے۔
  27. ا۔ خان، حسام الحرمین،29۔
  28. ایضاً۔
  29. ایضاً، 32۔

(جاری)

ستمبر ۲۰۲۳ء

تحفظ مذہب کی سیاست اور اس کی حرکیاتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۴)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۷)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
کاروباری جھگڑوں کےعمومی اسباب اور ان کا حلمفتی سید انور شاہ
سانحہ جڑانوالہ اور انصاف کے تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۰)ڈاکٹر شیر علی ترین
"امام و صحیح بخاری کے مآخذ: ناقدانہ جائزہ"وقار اکبر چیمہ
تحریک تحفظ ختم نبوت کی معروضی صورت حالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

تحفظ مذہب کی سیاست اور اس کی حرکیات

محمد عمار خان ناصر

ایچ ای سی پنجاب نے جامعات کے وائس چانسلرز کے ساتھ سوک ایجوکیشن کے موضوع پر 16 اور 17 اگست کو فلیٹیز ہوٹل لاہور میں دو روزہ نشست کا اہتمام کیا۔ اس کے ایک سیشن میں ڈاکٹر راغب نعیمی، علامہ سید جواد نقوی، مولانا صہیب میر محمدی، جناب سبیسٹین فرانسس اور دیگر حضرات کے ساتھ راقم الحروف کو بھی کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا۔  اتفاق  سے عین انھی دنوں میں جڑانوالہ میں قرآن مجید کی توہین کا  اور اس کے  ردعمل میں  مسلمانوں کی جانب سے مسیحی عبادت گاہوں  اور بستیوں کو جلا دینے کا  سانحہ رونما ہوا جس پر مذکورہ مجلس میں بھی گفتگو ہوئی۔

ایک بنیادی نکتہ جس پر پوری مجلس کا عمومی اتفاق دکھائی دیا، یہ تھا کہ اس حوالے سے قومی شرمندگی کا باعث بننے والے واقعات اور رویوں پر اعلی دینی قیادت کا اظہار افسوس اور مذمت وغیرہ اپنی جگہ، لیکن مسئلے کی جڑ نچلی سطح پر منبر ومحراب سے مذہب کی نمائندگی کرنے والا وہ طبقہ ہے جو نہ کسی دینی یا سماجی ادارے کو جواب دہ ہے اور نہ ریاست کی نگرانی میں ہے۔ ایسے تمام واقعات میں یہی عنصر پیش پیش  ہوتا ہے۔

ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ مساجد جو اوقاف کے تحت ہیں یا بڑے دینی اداروں یا جماعتوں  کی نگرانی میں ہیں یا مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیز کے زیر اہتمام کام کر رہی ہیں، وہاں سے ایسے غیر ذمہ دارانہ کردار کا اظہار نہیں ہوتا۔ یہ وہی طبقہ ہوتا ہے جو یا تو مستند دینی تعلیم سے بہرہ ور نہیں ہوتا یا کہیں نہ کہیں سے دینی سند لے کر (جو بہرحال سند جاری کرنے والے دینی اداروں کے لیے بھی غور کا مقام ہے) اپنے زور خطابت سے عام لوگوں میں ایک حلقہ اثر پیدا کر لیتا ہے اور پھر کسی نہ کسی پرتشدد بیانیے سے مدد لے کر لوگوں کو بھڑکانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس خاص طبقے کا بندوبست ریاست، دینی اداروں اور سماج سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور یونیورسٹیاں سوک ایجوکیشن (شہری حقوق وفرائض کی تعلیم) کے مضمون کے ذریعے سے طلبہ میں ذمہ داری کا شعور پیدا کر کے اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں۔

ایک بہت اہم بات ڈاکٹر راغب نعیمی نے یہ کہی کہ سوک ایجوکیشن کا مضمون مدارس کے نصاب میں شامل نہیں جبکہ اس کو ہونا چاہیے۔ یہ بہت اہم بات ہے، کیونکہ دراصل اسی مضمون سے طلبہ کو پتہ چل سکتا ہے کہ وہ جس ریاست کے شہری ہیں، وہ کن سیاسی وقانونی تصورات پر قائم ہے اور اس میں اقلیتوں کو کیا آئینی وقانونی ضمانتیں دی گئی ہیں جن کو پورا کرنا ریاست اور معاشرہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے خیال میں اس مضمون کی اہمیت عصری جامعات سے بھی زیادہ دینی مدارس کے لیے ہے، کیونکہ مدارس میں جو فقہی سیاسی تصورات پڑھائے جاتے ہیں، وہ بالکل مختلف ہیں اور اگر فکری سطح پر یہ واضح نہ ہو کہ ہماری ریاست اس تصورات پر قائم نہیں ہوئی اور نہ یہاں کے غیر مسلموں کی آئینی حیثیت کو "اہل ذمہ" کے تصور سے سمجھا جا سکتا ہے تو وہ تمام الجھنیں پیدا ہوتی ہیں جو مذہبی طبقے میں اس حوالے سے عموما" اور احمدی کمیونٹی کے حوالے سے خصوصا" پائی جاتی ہیں۔

البتہ اس مجلس میں اس نکتے پر بات نہیں ہو سکی کہ نچلی سطح کا غیر ذمہ دار مذہبی طبقہ جن پرتشدد مذہبی بیانیوں کا سہارا لے کر عوام کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، وہ کہاں سے اور کیسے وجود میں آتے ہیں؟ یہ نکتہ گفتگو میں نظروں سے اوجھل رہا جس کی وجہ سے ہمارے خیال میں بحث تشنہ رہی۔ لیکن بہرحال، جس بنیادی نکتے پر اتفاق رائے سامنے آیا، وہ بھی بہت اہم اور قابل قدر ہے۔ اس پر توجہ مرکوز کی جائے گی تو دوسرا نکتہ بھی خود بخود موضوع بنتا چلا جائے گا۔


گلی محلے کی سطح کے ائمہ وخطباء کے معیار اور کردار کی اور اس کو بہتر بنانے کی جب بھی بات ہوتی ہے، ایک خوف جو مذہبی طبقے کو فوری طور پر لاحق ہو جاتا ہے، وہ یہ کہ مساجد کو حکومتی کنٹرول میں لینے اور علمبرداران حق کو حکومتی ترجیحات کا پابند بنانے کی سازش ہو رہی ہے۔ یہ درست ردعمل یا تاثر نہیں اور یہ مسئلے کے حل کا واحد طریقہ بھی نہیں۔ طریقے اور بھی ہو سکتے ہیں، لیکن پہلے مسئلے کی موجودگی کو تو ماننا چاہیے اور یہ بھی کہ اس کو ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم نے ذکر کیا کہ یہ ایک تجرباتی بات ہے کہ جو مساجد محکمہ اوقاف کے تحت ہیں یا ذمہ دار دینی اداروں کی نگرانی میں ہیں یا ہاؤسنگ سوسائٹیز کی انتظامیہ کو جواب دہ ہیں، وہاں کے ماحول اور خطباء سے متعلق یہ شکایت موجود نہیں کہ وہ عوام کو اشتعال دلانے میں ملوث ہوں۔ جہاں بھی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں، وہاں جواب دہی کا نظام مفقود ہے۔ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ایسے خطباء جو اپنے محلے کی مسجد میں شعلہ بیانی کر رہے ہوتے ہیں، کسی ذمہ دار فورم پر جانے سے ان کی ٹون بھی بدل جاتی ہے اور وہ بڑی مہذب گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ خطیب یا امام کا کسی نہ کسی اتھارٹی کو یا اپنے مخاطبین کو جواب دہ ہونا غیر ذمہ دارانہ رویے کے سدباب کا آزمودہ طریقہ ہے۔

سوال یہ ہے کہ ائمہ مساجد کی اکثریت جو ایسی کسی اتھارٹی کو جواب دہ نہیں اور مقامی مسجد کمیٹیاں بھی عموماً‌ تیز طرار خطیبوں کے زیر اثر ہی ہوتی ہیں، کیا انھیں جواب دہی کے کسی میکنزم کے تحت لایا جا سکتا ہے؟ مساجد کو حکومتی کنٹرول میں دے دینا ہمارے تناظر میں کوئی قابل عمل حل نہیں، لیکن کیا اس کے علاوہ کوئی اور طریقے بھی ہو سکتے ہیں؟  اہل فکر ودانش کو اس سوال کو سنجیدہ  اظہار خیال کا موضوع بنانا چاہیے تاکہ ایک سماجی ودینی مسئلے کا کوئی بہتر اور قابل عمل حل ریاست، دینی اداروں اور سماج کے سامنے آ سکے۔


کسی دور میں علماء کرام، ہمارے ہاں مروج رسوماتی دین پر اس طرح کی پھبتیاں کستے تھے اور درست کستے تھے کہ محلے کے مولوی کی روزی روٹی یا اس کی سماجی اہمیت کسی نہ کسی کے مرنے سے وابستہ ہے۔ ایک آدمی مرے گا تو تیس چالیس دن تک مقامی مولوی صاحب کے  رزق کا انتظام ہو جائے گا، اور یہ مدت پوری ہوتے ہوتے کوئی اور مر جائے گا۔ یوں یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ہمارے خیال میں ذمہ داری مذہبی قیادت  کو اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ معاشرتی حالات کے بدلنے سے نچلی سطح کے ایک خاص مذہبی  طبقے نے اپنی روزی روٹی اور معاشرتی اہمیت کو برقرار رکھنے کے کیا نئے طریقے ایجاد کیے اور کون سے نئے ایشوز کے ساتھ اس کو وابستہ کیا ہے۔ گذشتہ ایک ڈیڑھ صدی کے سماجی تغیرات کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ لمبے عرصے تک مسلکی اور فرقہ وارانہ تنازعات اس طبقے کے لیے وسیلہ رزق بنے رہے ہیں، پھر ریاستی سرپرستی میں فروغ پانے والے جہادی کلچر نے اس کے قیمتی مواقع پیدا کیے اور بدبخت سلمان رشدی کے بپا کردہ فتنے کے بعد سے پچھلی تین دہائیوں میں توہین مذہب، توہین رسالت اور توہین صحابہ واہل بیت نے ایک پوری نئی مارکیٹ تخلیق کی ہے۔ اس میں بے شمار بے گناہ لوگ شکار بنے ہیں اور اب بھی بن رہے ہیں۔ معاشرے پر اور نئی نسل کے دین وایمان پر اس کے جو تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں، وہ اگلی نسل تو آنکھوں سے دیکھ لے گی۔ سوال موجودہ نسل کا ہے کہ ذمہ دار دینی قیادت کو اس کا کچھ احساس ہے یا نہیں؟ یا وہ یہ میدان اسی طبقے کے سپرد کر کے اپنی ذمہ داریوں میں سرخرو ہے؟

یہ فرق ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ فطری اور ذمہ دار دینی قیادت ان ایشوز میں کردار ادا کرتی ہے جو واقعتاً‌ سامنے آ جائیں۔ جب مذہبی لیڈر شپ کی ایک پوری مارکیٹ کھل جائے تو جدید دور تو سرمایہ داری کا دور ہے۔ بزنسز صرف مارکیٹ کی فطری طلب کو پورا نہیں کرتے، بلکہ ضرورت کو تخلیق کرنا اور بڑھاتے چلے جانا بزنس کی بقا کے لیے ناگزیر ہوتا ہے۔ آپ اپنے اردگرد ایک سرسری نظر ڈال کر دیکھ لیں، بلاسفیمی کے واقعات پر ایک مسلمان کو جو دکھ اور اضطراب ہونا چاہیے، وہ کتنا نظر آتا ہے اور اس کو شخصی یا گروہی اقتدار بڑھانے کے لیے ایک سنہری موقع  کی نظر سے دیکھنے کا رویہ کتنا ہے۔ میرا ذاتی مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے حضرات کی آنکھیں چمک اٹھتی ہیں جب ان کے علم میں کوئی ایسا واقعہ آتا ہے یا کسی واقعے کو یہ رنگ دینے کا امکان دکھائی دیتا ہے۔

جب ہم بزنس کہتے ہیں تو ضروری نہیں کہ اس کا نفع مالی صورت میں ہی ہو۔ اس کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں اور انسان کی نفسیاتی پیچیدگیاں بیشتر اوقات اس کو احساس بھی نہیں ہونے دیتیں کہ اس کے افعال کے اصل محرکات کیا ہیں۔  بہرحال، سرمایہ دارانہ نظام میں جو بھی مارکیٹ وجود میں آتی ہے، اسے اپنی بقا اور پھیلاؤ کے لیے مسلسل مصروف کار رہنا پڑتا ہے۔ تحفظ مذہب یا تحفظ ناموس رسالت کے عنوان سے وجود میں آنے والی مذہبی مارکیٹ کا بھی یہی معاملہ ہے اور ہمارے معاشرے میں یہ مختلف سطحوں پر مختلف رنگ اور شکلیں پیدا کرنے اور اپنی بقا اور پھیلاؤ کے اسباب فراہم کرنے کی پوری استعداد بھی رکھتی ہے۔

ہماری معروضات کا حاصل یہ ہے کہ ایسی چیزوں کو انفرادی واقعات کے طور پر دیکھنے کے بجائے سماج، سیاست اور معیشت کی حرکیات کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ  بحیثیت مجموعی پورا مذہبی طبقہ اپنی حالت اور رویوں کا جائزہ لے، کیونکہ   معاشرتی تبدیلیوں کے تناظر میں  نچلی سطح پر غیر ذمہ دار مذہبی  قیادت کے سوال کا سامنا سبھی دینی طبقات کو ہے۔



اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(423) وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں بعض لوگوں نے وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ گویا وہ اسے حال مان رہے ہوں۔ ایسی صورت میں یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جن پر اللہ صواعق بھیجتا ہے وہ اللہ کے بارے میں جدال میں مصروف ہوتے ہیں۔ جب کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ بجلیاں تو کسی پر بھی کسی بھی حالت میں گرسکتی ہیں۔ صحیح مفہوم تک پہنچنے کے لیے وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کو حال نہیں بلکہ نیا جملہ ماننا ہوگا۔ یعنی اللہ تعالی نے اپنی قدرت کے کرشموں کا ذکر کرنے کے بعد یہ بات کہی کہ ایک طرف اللہ کی قدرت کے یہ زبردست مظاہر ہیں اور دوسری طرف یہ اللہ کے بارے میں جدال کررہے ہیں۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَیُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِہِ وَالْمَلَائِکَةُ مِنْ خِیفَتِہِ وَیُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَیُصِیبُ بِہَا مَنْ یَشَاءُ وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ وَہُوَ شَدِیدُ الْمِحَالِ۔ (الرعد: 13)

”بادلوں کی گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتی ہے اور فرشتے اس کی ہیبت سے لرزتے ہوئے اُس کی تسبیح کرتے ہیں وہ کڑکتی ہوئی بجلیوں کو بھیجتا ہے اور (بسا اوقات) اُنہیں جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جبکہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں، فی الواقع اس کی چال بڑی زبردست ہے“۔ (سید مودودی)

”اور وہ خدا کے باب میں جھگڑتے ہی ہوتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور وہ اللہ میں جھگڑتے ہوتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں وَہُمْ یُجَادِلُونَ فِی اللَّہِ کو حال مان کر ترجمہ کیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”اور وہ خدا کے بارے میں جھگڑتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کفار اللہ کی بابت لڑ جھگڑ رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہ لوگ جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور یہ لوگ اللہ کے باب میں جھگڑتے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

ایک اور بات قابلِ توجہ ہے۔ اس آیت میں سبھی لوگوں نے یجادلون کا ترجمہ جھگڑا کرنا کیا ہے، جدال کا اصل معنی جھگڑا کرنا نہیں بلکہ بحث کرنا ہے۔ یہاں بھی بحث کرنے کا محل ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”اور وہ اللہ کے بارے میں بحث کرتے ہیں“۔

(424) فَلَا مَرَدَّ لَہُ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں فَلَا مَرَدَّ لَہُ  کا ایک ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ”کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی“ یا ”کوئی ٹال نہیں سکتا ہے“۔ جب کہ الفاظ میں کسی کے ٹالنے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ صرف اس کے نہیں ٹلنے کا ذکر ہے۔ دونوں باتوں میں بہرحال فرق ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ درج ذیل آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ جب ایسا ارادہ کرلیتا ہے تو وہ پھر ہوکر رہتا ہے۔

وَإِذَا أَرَادَ اللَّہُ بِقَوْمٍ سُوءً ا فَلَا مَرَدَّ لَہُ۔ (الرعد: 11)

”اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کرلیتا ہے تو کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کر لے تو پھر وہ کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی“۔ (سید مودودی)

”اور جب خدا کسی قوم پر عذاب کا ارادہ کرلیتا ہے تو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”اور جب کسی قوم سے برائی چاہے تو وہ پھر نہیں سکتی“۔ (احمد رضا خان)

”اور جب خدا کسی قوم کے ساتھ برائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر وہ پھر نہیں سکتی“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری دونوں ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں۔

(425) یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ کا ترجمہ عام طور سے یہ کیا گیا ہے: ”اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے۔“ حالاں کہ اس جملے میں مثال کا ذکر ہی نہیں ہے۔ مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں:  

أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَالَتْ أَوْدِیَةٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَابِیًا وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِی النَّارِ ابْتِغَاءَ حِلْیَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاءً وَأَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ. (الرعد: 17)

”اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آ گئے اور ویسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں اِسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے“۔ (سید مودودی)

”اس طرح خدا حق اور باطل کی مثال بیان فرماتا ہے“۔(فتح محمد جالندھری)

”اللہ تعالی حق (یعنی ایمان وغیرہ) اور باطل (یعنی کفر وغیرہ) کی اسی طرح کی مثال بیان کررہا ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اللہ بتاتا ہے کہ حق و باطل کی یہی مثال ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اسی طرح اللہ تعالیٰ حق وباطل کی مثال بیان فرماتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

جب ہم آیت پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس جملے سے پہلے اللہ نے کوئی مثال بیان نہیں کی ہے بلکہ اس امر کا مشاہدہ کرایا ہے کہ جھاگ کہاں کہاں نمودار ہوتا ہے، اس کے بعد حق اور باطل کو ٹکرانے کا ذکر کیا ہے، اور اس کے بعد جھاگ کے اڑ جانے کی مثال سے باطل کی بے بضاعتی کو واضح کیا ہے۔ جس کے بعد کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْأَمْثَالَ کہا ہے۔ گویا مثال بعد میں ہے نہ کہ پہلے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ میں مثال کے مفہوم پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ نہیں ہے۔ اس لیے کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللَّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ کا درج ذیل ترجمہ صحیح ہے:  

”اسی طرح اللہ حق اور باطل کو ٹکراتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(426) سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا کا ترجمہ

یہ تعبیر سورہ یوسف میں دو جگہ آئی ہے۔ اس لفظ کی لغوی توضیح اور زیر نظر آیت کے متعلقہ جملے کی تشریح لسان العرب میں عمدہ طریقے سے بیان کی گئی ہے:

التَّسْوِیل: تَحْسِینُ الشَّیْءِ وتزیینُہ وتَحْبِیبُہ إِلی الإِنسان لِیَفْعَلَہُ أَو یَقُولَہُ. وَفِی التَّنْزِیلِ الْعَزِیزِ: بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْراً فَصَبْرٌ جَمِیلٌ؛ ہَذَا قَوْلُ یَعْقُوبَ، عَلَیْہِ السَّلَامُ، لِوَلَدِہِ حِینَ أَخبروہ بأَکل الذِّءْبِ یوسفَ فَقَالَ لَہُمْ: مَا أَکَلَہُ الذءْب بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنفسکم فِی شأْنہ أَمراً أَی زَیَّنَتْ لَکُمْ أَنفسکم أَمراً غَیْرَ مَا تَصِفُون، وکأَنَّ التَّسْوِیلَ تَفْعِیلٌ مِنْ سُوِلَ الإِنسان، وَہُوَ أُمْنِیَّتہ أَن یَتَمَنَّاہا فتُزَیِّن لِطَالِبِہَا الباطلَ وغیرَہ مِنْ غُرور الدُّنْیَا۔ (لسان العرب)

یعنی تسویل کہتے ہیں کسی کام کو اچھا بنا کر پیش کرنا اور اسے کرنے پر آمادہ کرنا۔

درج ذیل دونوں آیتوں میں تسویل سے مراد کیا وہ بات ہے جو اپنے والد کے سامنے انھوں نے بیان کی، جس کے بارے میں والد نے کہا کہ یہ تمہاری گھڑی ہوئی یا بنائی ہوئی بات ہے؟

یا تسویل سے مراد وہ پورا حیلہ ہے جو ان کے والد کے اندازے کے مطابق ان کے نفس نے انھیں سجھایا اور جس حیلے کو استعمال کرکے ان کے والد کے اندازے کے مطابق انھوں نے پہلے یوسف اور بعد میں ان کے بھائی کو غائب کردیا۔

لفظ تسویل کی رو سے دوسرا مفہوم صحیح معلوم ہوتا ہے، لیکن مترجمین نے عام طور سے پہلا مفہوم اختیار کیا ہے۔ جیسے:

(۱) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا۔ (یوسف: 18)

”اس نے کہا کہ (نہیں!) بلکہ یہ تو تمہارے جی کی ایک گھڑی ہوئی بات ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بلکہ تم اپنے دل سے (یہ) بات بنا لائے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”بلکہ تم نے اپنے دل ہی سے ایک بات بنا لی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی حسب ذیل ترجمہ کرتے ہیں:

”بلکہ تمہارے نفس نے تم کو کوئی چال سجھائی ہے“۔

(۲) قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ أَنْفُسُکُمْ أَمْرًا۔ (یوسف: 83)

”اس نے کہا: بلکہ تمہارے دل نے یہ بات گھڑ لی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”انہوں نے کہا کہ (حقیقت یوں نہیں ہے) بلکہ یہ بات تم نے اپنے دل سے بنالی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کہا یہ تو نہیں، بلکہ تم نے اپنی طرف سے بات بنالی“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی دونوں جگہ حسب ذیل ترجمہ کرتے ہیں:

”بلکہ تمہارے نفس نے تم کو کوئی چال سجھائی ہے“۔

اس ترجمے کے حق میں ایک بات تو یہ ہے کہ أَمْرًا  نکرہ آیا ہے، اس لیے اس سے مراد وہ بات ہوگی جو سامنے نہیں ہے۔ وہ بات ان کی خفیہ چال ہوسکتی ہے نہ کہ ان کی وہ بات جو انھوں نے سامنے پیش کردی تھی۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس واقعہ میں ان بھائیوں کا باتیں بنانا زیادہ اہم نہیں تھا، زیادہ اہم تو ان کی وہ چال تھی جو ان کے نفس نے انھیں سجھائی ہے، جسے چھپانے کے لیے وہ باتیں بنارہے تھے۔

(427) وَأَسَرُّوہُ بِضَاعَةً کا ترجمہ

درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَأَسَرُّوہُ بِضَاعَةً۔ (یوسف: 19)

”اور انھوں نے اس کو ایک پونجی سمجھ کر محفوظ کرلیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ان لوگوں نے اس کو مال تجارت سمجھ کر چھپا لیا“۔ (سید مودودی)

”اور اسے ایک پونجی بناکر چھپالیا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس کو قیمتی سرمایہ سمجھ کر چھپا لیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور چھپالیا اس کو پونجی سمجھ کر“۔ (شاہ عبدالقادر)

”انہوں نے اسے مال تجارت قرار دے کر چھپا دیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

ان ترجموں کے بارے میں پہلی بات یہ ہے کہ قافلے والوں نے یوسف کو پونجی سمجھا نہیں، بلکہ پونجی بنالیا تھا۔ وہاں سمجھنے کا معاملہ ہی نہیں تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے یوسف کو نہیں چھپایا بلکہ اس بات کو چھپایا کہ وہ ان کی پونجی نہیں تھے بلکہ کنویں میں ملے تھے۔

ان دونوں باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”انھوں نے خاموشی سے اسے پونجی (مال تجارت) بنالیا“۔

(428) وَکَانُوا فِیہِ مِنَ الزَّاہِدِینَ کا ترجمہ

درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَکَانُوا فِیہِ مِنَ الزَّاہِدِینَ۔ (یوسف: 20)

”اور وہ اس کے معاملے میں بالکل بے پروا تھے“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں بے پروا ہونے کی بات نہیں ہے، بے رغبت ہونے کی بات ہے)

”اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے امیدوار نہ تھے“۔ (سید مودودی، کم یا زیادہ قیمت کی بات نہیں ہے، بات یہ ہے کہ وہ یوسف کو اپنے ساتھ رکھنے کی رغبت نہیں رکھتے تھے)

”اور ہورہے تھے اس سے بے زار“۔ (شاہ عبدالقادر، یہاں بیزار ہونے کی نہ کوئی بات ہے نہ اس کی کوئی وجہ ہے۔ رغبت نہ ہونا ایک بات ہے اور بے زار ہونا دوسری بات ہے۔)

”اور وہ لوگ ان کے کچھ قدر دان تو تھے ہی نہیں“۔ (اشرف علی تھانوی، یہاں قدر دانی کی بات نہیں ہے، قدر دانی سے قطع نظر انھیں حضرت یوسف کو اپنے پاس رکھنے میں کوئی رغبت نہیں تھی)

درج ذیل ترجمے الفاظ کی بہتر ترجمانی کررہے ہیں:

 ”اور انہیں اس میں کچھ رغبت نہ تھی“۔ (احمد رضا خان)

”اور انھیں اس کے معاملے میں کوئی دلچسپی نہ تھی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(429) آتَیْنَاہُ حُکْمًا کا ترجمہ

درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّہُ آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا۔ (یوسف: 22)

”اور جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا ہم نے اس کو حکومت اور علم عطا کیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے تو ہم نے ان کو دانائی اور علم بخشا“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور جب وہ اپنی جوانی کو پہنچے ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا“۔ (اشرف علی تھانوی)

 حکم حکومت واقتدار کے لیے بھی آتا ہے اور حکمت و دانائی کے لیے بھی۔ زیر نظرمقام پر وہ حکمت و دانائی کے لیے آیا ہے، کیوں کہ اس وقت تک انھیں اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ ویسے ہی ہے جیسے حضرت یحییٰ کے بارے میں فرمایا: یَایَحْیَی خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ وَآتَیْنَاہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا۔ (مریم: 12)

اس پہلو سے آخری دونوں ترجمے بہتر ہیں۔

(430) وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ کا بظاہر عطف یخل پر ہے، یعنی وہ جواب امر ہے۔ گویا ایک طرح سے نتیجے کا بیان ہے۔ وہ یہ کہ یوسف کو راستے سے ہٹادو گے تو یہ دو فائدے تمھیں حاصل ہوں گے، ایک تو والد کی پوری توجہ تمھیں ملے گی اور دوسرے تم ان کی نظر میں نیک ہوجاؤ گے، ابھی تو یوسف ان کی نگاہ میں نیک ہے۔ بعض لوگوں نے وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ کا ترجمہ امر کا کیا ہے، یعنی یہ کرنے کے بعد تم نیک بن جانا۔ آیت کی ترکیبی ہیئت میں اس مفہوم کے لیے زیادہ گنجائش نہیں نکلتی ہے۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

اقْتُلُوا یُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوہُ أَرْضًا یَخْلُ لَکُمْ وَجْہُ أَبِیکُمْ وَتَکُونُوا مِنْ بَعْدِہِ قَوْمًا صَالِحِینَ۔ (یوسف: 9)

”چلو یوسفؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا“۔ (سید مودودی)

”اور ہو رہیو اس کے پیچھے نیک لوگ“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس کے بعد پھر نیک ہوجانا“۔ (احمد رضا خان)

”اس کے بعد تم نیک ہو جانا“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمے زیادہ بہتر ہیں:

”اور اس کے بعد تم اچھی حالت میں ہوجاؤ گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تمہارے سب کام بن جاویں گے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور اس کے بعد تم بالکل ٹھیک ہوجاؤ گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(جاری)

مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۷)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

ڈاکٹر سید مطیع الرحمن /محمد عمار خان ناصر



مطیع سید: نبی ﷺنے حضرت علی کو درمیانی انگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔1 اس کی کیا وجہ تھی؟

عمار ناصر: بعض چیزیں اتنی لطیف ہوتی ہیں کہ پیغمبر کا ذوق ان کو محسوس کرتا ہے، ہماری ذوقی گرفت میں نہیں آتیں۔ اسی طرح بعض بہت لطیف چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق پیغمبر کوئی عمومی ہدایت بھی بیان نہیں کرتا۔صرف اپنے لیے اور اپنے خاص متعلقین کے لیے ان سے گریز کو پسند کرتا ہے۔ یہ بھی انھی میں سے ہے۔ روایت میں دو تین اور چیزوں کابھی ذکر ہے جن کے متعلق حضرت علی بتاتے ہیں کہ ان سے ہمیں منع کیاگیاہے، لیکن میں نہیں کہتاکہ تمہیں بھی یعنی عام لوگوں کو بھی منع کیاگیاہے۔

مطیع سید: جیسے ایک صحابی کو آپ نے چھوٹی عمر کا جانور قربان کرنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ تمھارے بعد کسی اور کے لیے یہ رخصت نہیں ہے۔

عمار ناصر: نہیں، وہ تو ایک فقہی حکم تھا جس میں خصوصی طور پر کسی کو رخصت دی جا سکتی ہے۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ آپﷺ صرف انھی کو ان کا پابند کرتے تھے جن کے بارے میں آپ چاہتے ہیں کہ یہ میرے شخصی ذوق کا بھی خیا ل رکھیں،لیکن عمومی طورپر لوگوں کو اس کا پابند نہیں بناتے تھے۔

مطیع سید: نبیﷺ نے بال لگوانے سے منع فرمایا2 لیکن آج تو علما اس کی اجازت دیتے ہیں۔

عمار ناصر:حدیث میں جس صورت سے منع کیا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ اصل بالوں کے ساتھ زائد بال اس طرح جوڑ لیے جائیں کہ وہ قدرتی اور اصلی دکھائی دیں۔ یہ تصنع ہے جس کو نبیﷺ کے مزاج اور ذوق نے پسند نہیں کیا۔ اگر اس میں دھوکے اور تلبیس کا پہلو بھی شامل ہو جائے تو پھر یہ حرمت کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ آج کل بھی اگر اسی طرح کی صورت ہو تو اس کاحکم یہی ہوگا۔ لیکن ایک چیز اور جدید ٹیکنالوجی نے پیدا کی ہے کہ آپ گنجے پن کا علاج مصنوعی طور پر بال لگوا کر کر سکتے ہیں۔ یہ اور چیز ہے، اس کی نوعیت علاج کی یا ایک عیب کو دور کرنے کی ہے۔ یہ اس حدیث کے تحت نہیں آتی۔

مطیع سید: نبیﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ انا قاسم واللہ یعطی، میں تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ دیتا ہے۔3 یہ آپ ﷺ نے کن معنوں میں فرمایا؟علم کے حوالے سے یا مال کی تقسیم کے حوالے سے؟

عمار ناصر: جس سیاق میں آپﷺ نے یہ فرمایا، وہ تو مال کے حوالے سے ہی تھا۔ اگر علمی حوالے سے کہا ہوتو وہ بھی ٹھیک ہے۔البتہ اس میں وہ تصور بالکل نہیں پایا جاتا جو بریلوی حضرات بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ کو مختار کل بنا دیا گیا تھا۔ تکوینی امور میں آپ بھی اللہ کے دوسرے بندوں کی طرح دعا کے ہی محتاج تھے اور دعا ہی کر سکتے تھے۔

مطیع سید: رباح،یسار، نافع وغیرہ ناموں سے آپﷺ نے منع فرمایا۔4 یہ تو اچھے نام ہیں، ان سے کیوں منع کیا گیا؟

عمار ناصر: اس کی وجہ حدیث میں ہی ذکر ہوئی ہے کہ آپ نے اس کو ناپسند کیا کہ کوئی پوچھے، کیا گھر میں رباح (یعنی فائدہ اور نفع) ہے اور جواب میں کہا جائے کہ نہیں ہے۔ اسی طرح پوچھا جائے کہ نافع گھر میں ہے اور کہا جائے کہ نہیں ہے۔ مطلب یہ ایک لطیف ذوق کی بات ہے کہ بلا ارادہ بھی گھر میں نفع اور فائدہ کی موجودگی کی نفی نہ کی جائے۔ یہ ایک طرح سے تفاول کے اصول کا اطلاق ہے۔ البتہ حدیث میں ہی یہ وضاحت بھی ہے کہ آپ نے ان ناموں سے منع کرنے کا بس ارادہ ہی فرمایا، عملاً‌ ایسا کیا نہیں اور نہ ہی ایسے ناموں کو تبدیل کیا۔

مطیع سید: عام طورپر جونبیﷺ نے نام تبدیل فرمائے، وہ بھی اسی طرح کی وجوہ سے فرمائے؟

عمار ناصر: جی، عموماً‌ نام کے معنی میں کوئی ایسی بات ہوتی تھی۔ جیسے ایک لڑکی کا نام برّۃ تھا جس کا معنی ہوتا ہے بڑی نیک تو آپﷺ نے فرمایا کہ بدل دو۔لاتزکوا انفسکم، خود کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو۔لیکن آپ اس کی بنیاد پر کوئی اصول اخذ کرنا چاہیں کہ کوئی بھی ایسانام جس میں تعریف کا پہلو ہو، وہ نہیں رکھنا چاہیے تو وہ بھی نہیں ہو سکتا۔کئی صورتوں میں بس پیغمبر کے ذوق اور پسند سے ہی حکم کی توجیہ کی جا سکتی ہے۔ اس سے کوئی عام شرعی اصول اخذ نہیں ہوتا۔

مطیع سید: اہلِ کتاب کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایاکہ ان کو سلام میں پہل نہ کرو اور وہ سلام کریں تو صرف وعلیکم کہو۔5 یہ بات میرے خیال سے اس وقت کے خاص حالات سے متعلق ہی لگتی ہے۔

عمار ناصر:میرا خیال بھی یہی ہے کہ اس وقت کا جو خاص ماحول تھا، اس کے تناظر میں یہ کہا گیا۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی تھی اور اہلِ کتاب کا ایک گروہ تھا جو پیغمبر کو سامنے پا کر اور صداقت کی نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لا رہا تھا۔تو ان سے ایک خاص طرح کا فاصلہ رکھنے اور ان سے براءت کے اظہار کا طریقہ اختیار کیا گیا۔بہت سے فقہاء اس کی تعمیم بھی کرتے ہیں، یعنی تمام غیر مسلموں پر اس کا اطلاق کرتے ہیں۔لیکن میری رائے میں اگر کسی ماحول میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے عمومی تعلقات پرامن اور خوشگوار ہوں اور ایک دوسرے کو سلام نہ کرنے سے معاشرتی تعلقات میں بدمزگی پیدا ہوتی ہو یا مسلمانوں سے متعلق کوئی منفی تاثر پیدا ہوتا ہو جو دعوت کے لیے یا مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہو تو پھر اس پر اصرار کرنا درست نہیں۔ یہ کیا جا سکتا ہے کہ سلام کرتے ہوئے ہدایت کی نیت ذہن میں رکھ لی جائے، لیکن ظاہری میل جول کے آداب کی حد تک سلام اور سلام کا جواب دینا چاہیے۔ عبد اللہ بن مسعودؓ کے متعلق بھی مروی ہے کہ ایک سفر میں وہ کچھ یہودی یا مسیحی رفقاء سے جدا ہونے لگے تو ان کو سلام کیا۔ ساتھیوں نے اس پر اعتراض کیا تو ابن مسعود نے فرمایا کہ رفاقت کا حق ہوتا ہے، وہ ادا کرنا چاہیے۔

مطیع سید: نظر کے بارے میں آپﷺ نے فرمایاکہ تقدیر سے سبقت لے جانے والی کوئی چیز اگر ہوتی تو نظر ہوتی۔6 گویا یہ تقدیر سے سبقت نہیں لے جاسکتی، لیکن پھر نظر کے برحق ہونے کا کیا مطلب؟

عمار ناصر: نظر کا برحق ہونا تو تقدیر کے منافی نہیں۔ جیسے باقی تمام اسباب جو کسی فائدے یا نقصان کا ذریعہ بنیں، وہ تقدیر کے منافی نہیں۔ نظر لگنا بھی اسباب میں سے ایک سبب ہے اور اس حدیث میں اس کی تاثیر کی شدت بیان کی جارہی ہے کہ اگر تقدیر سے آگے بڑھ جانے والی کوئی چیز ہوتی تو یہ ہوتی، یعنی اتنا موثر سبب ہے۔

مطیع سید: آپﷺ جب بیمار تھے تو آپ کے منہ میں دوا ڈالی گئی۔ پھر آپ نے فرمایا کہ سب کے منہ میں دوا ڈالی جائے گی جو یہاں موجود ہیں۔7 یہ کس حوالے سے نبی ﷺ نے فرمایا؟کیا آپ دوا نہیں پیناچاہ رہے تھے؟

عمار ناصر: جی، آپ پینا نہیں چاہ رہے تھے، لیکن حضرت عباس نے ازواج کے ساتھ مل کر زبردستی پلادی۔ بدلے میں پھر آپ نے بھی سب کو دوا پلوائی۔ یہ آپ کا اہل خانہ کے ساتھ دل لگی کا ایک انداز تھا۔

مطیع سید:آپﷺ نے فرمایاکہ مجھے فال پسند ہے۔8

عمار ناصر: اس سے اچھی فال مرادہے۔ بری فال کی تو آپﷺ نے نفی کی ہے۔

مطیع سید: اچھی فال اور بری فال میں فرق کیسے کریں گے؟

عمار ناصر: بری فال وہ ہے جسے ہم بدشگونی کہتے ہیں۔مثلاً‌ کوئی ایسا کام ہو گیا جو بظاہر ناخوشگوار ہے تو آدمی یہ سوچے کہ یہ گویا اشارہ یا نشانی ہے کہ اس کام کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔یہ توہم ہے۔اچھی فال اچھی سمجھی گئی ہے،اس لیے کہ وہ آپ کے دل میں امید پیداکرتی ہے،اور اس سے دل میں اللہ تعالیٰ کے متعلق اچھا اعتقاد پیداہوتاہے۔ اس کی تحسین اسی پہلو سے ہے کہ اس سے انسان کے دل میں اللہ کے بارے میں اچھا گمان اور اچھی امید پیداہوتی ہے۔مثلاً‌ آپ کوئی کام کرنے جارہے ہیں اور اچانک کوئی بندہ آگیا جس کا نام فلاح یا نافع ہے تو آپ اس سے یہ اچھی توقع قائم کریں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کامیابی ملے گی۔اصل میں آپ اللہ سے امید وابستہ کررہے ہیں جو کہ اللہ کو پسند ہے۔ایمان کی یہ نشانی ہے کہ آپ اللہ سے ہمیشہ اچھا گمان رکھیں۔

مطیع سید: یہ دست شناس اور نجومی وغیرہ بھی اگر آپ کے اندر ایسے ہی امید پیداکریں تو ان کے پاس جانا کیسا ہے؟

عمار ناصر:یہ بالکل اور چیز بن جاتی ہے۔ اچھی امید انسان کے اپنے احساس اور گمان کی بنیاد پر ہو تو یہ اللہ کے ساتھ تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔ لیکن اس کو آپ ایک فن بنا دیں اور غیب دانی کا کوئی ذریعہ سمجھ لیں تو وہ انسان کو توہم پرست بنادیتاہے۔ ایمان تو چاہتاہے کہ آپ مستقبل کے بارے میں اللہ پر اعتماد رکھتے ہوئے اور اس پر توکل کرتے ہوئے معاملات کو انجام دیں۔ خود کو یقین دلانے کے مصنوعی اور غیر یقینی طریقے اختیار نہ کریں۔

مطیع سید:چھپکلی کو مارنے کا خاص طورپر اجر بیان کیا گیاہے9 حالانکہ چوہا اور دیگر جانور بھی نقصان کا باعث بنتے ہیں۔

عمار ناصر: بعض روایات میں اس کا تعلق حضرت ابراہیم کے واقعے سے جوڑاگیاہے کہ یہ چونکہ ان کی آگ کو بھڑکانے کے لیے پھونک مارتی تھی، اس لیے اس کو مار دیا کرو۔مختلف جانوروں کی طبیعت میں شر تو ہوتا ہی ہے جس کی وجہ سے وہ نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض جانوروں میں کفر وایمان کے ساتھ بھی مناسبت ہوتی ہے۔ تو چھپکلی طبعاً‌ بھی ایک خبیث چیزہے جس کے اندر شر کا مادہ پایاجاتاہے اور کفر وایمان کے تقابل میں بھی اس کی مناسبت کفر سے ہے۔

مطیع سید:آپﷺ نے فرمایاکہ حوضِ کوثر پر میرے پاس آنے سے کچھ لوگوں کو روک دیا جائے گا۔وہ میرے صحابہ میں سے ہوں گے جو دنیا میں میرے ساتھ رہے ہوں گے۔10 یہ اصحابِ رسول میں سے ہی کچھ لوگوں کی طرف اشارہ ہے؟

عمار ناصر: حدیثوں میں اصحاب کی تعبیر دو طرح سے آتی ہے۔بعض حدیثوں میں اصحاب کالفظ آپ کے ان قریبی ساتھیوں کے لیے بولا گیا ہے جو آپ کے انتہائی معتمد تھے۔بعض دوسرے مواقع پر ذرا عموم کے ساتھ یہ لفظ آپ کے دور کے مسلمانوں کے لیے بولا گیا ہے جو مسلمانوں کی جماعت میں شامل تھے۔ان میں بہت سے منافقین بھی تھے اور بہت سے وہ لوگ بھی تھے جو آپ کی وفات کے بعد ارتداد کے فتنے کا شکار ہو گئے۔یہ بھی ہو سکتاہے کہ ان میں سے کچھ لوگ جس طرح ایک منتخب گروہ اپنے عہد پر قائم رہا،وہ اس طرح قائم نہ رہے ہوں۔ تو حوض کوثر سے روک دیے جانے والوں میں یہ سب لوگ شامل ہو سکتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معتمد اور ثابت قدم اصحاب کی جو جماعت تھی، وہ اس سے مراد نہیں ہے۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں کےدرمیان مہرِ نبوت تھی۔11 روایت سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اسے ازخود بطور دلیل نبوت پیش نہیں فرمایا۔کسی نے دیکھاتو چھپ چھپا کر یا فرمائش کر کے ہی دیکھا۔اگر یہ مہرِ نبوت تھی تو آپﷺ نے باقاعدہ اسے بطور دلیلِ نبوت پیش کیوں نہیں فرمایا؟

عمار ناصر:نبوت کی مہر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی کے کندھے پر مہر کا ہونا اس کو نبی ثابت کرتاہے۔یہ اس نوعیت کی چیز نہیں ہے۔یہ تو من جملہ علامات میں سے ایک جسمانی علامت تھی جو اہل کتاب کو بتائی گئی تھی،اور ظاہر ہے کہ یہ سب کے لیے اس طرح مفید بھی نہیں ہوسکتی تھی۔یہ تو انھی کے لیے مددگار ہو سکتی تھی جن کو ان نشانیوں کا کچھ علم تھا۔ تو جس نے آکر تحقیق کرنا چاہی، آپﷺ نے اس کو دکھا دی، لیکن عمومی طور پر ظاہر ہے یہ کوئی ایسی دلیل نہیں تھی کہ اسے یوں پیش کیا جاتا کہ دیکھو، چونکہ میرے کندھے پر مہر نبوت ہے، اس لیے میں نبی ہوں۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایا کہ جب بچہ پیداہونے کے بعد روتاہے تو شیطان کے کچوکا لگانے سے روتا ہے۔12 سائنسی لحاظ سے توپیدائش کے فوراً بعد بچے کا رونا نہایت ضروری ہوتاہے۔اسی سے اس کے پھیپھڑے کام کرنا شروع کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات اسے خود رُلایا جاتا ہے۔

عمار ناصر: اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ اس کا رونا اچھا ہے یا براہے۔یہ بھی نہیں کہا گیا کہ اس کو رونا نہیں چاہیے۔ رونے کے، طبی یا جسمانی لحاظ سے بہت سے فوائد بھی ہیں، لیکن ایک پہلو سے رونا بظاہر ناخوشی اور دکھ کی بھی علامت ہے۔ اس پہلو سے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے۔ حدیثوں میں آپ کو یہ اسلوب عام ملے گا کہ کسی بھی بُرے عمل کی نسبت عموماً‌ شیطان کی طرف کی جاتی ہے۔اس سے مقصود انسان کو شیطان سے متنفر کرنا ہوتا ہے۔ حدیث سے مزید یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک سلسلہ اسباب وہ ہے جو ہمارے لیے مادی لحاظ سے قابل ادراک ہے،اور اس کے ساتھ ایک اور سلسلہ بھی ہے جو ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔بہت سی احادیث میں اس غیبی سلسلہ اسباب کے کچھ پہلو بیان کیے جاتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ جیسے ملائکہ کسی انسان کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں،اسی طرح شیاطین بھی پیدائش کے وقت سے ہی وابستہ ہو جاتے ہیں۔

مطیع سید: ختنہ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے نہیں ہوتا تھا؟13

عمار ناصر:بظاہر تو حدیث سے اور بائبل کے بیان سے بھی یہی لگتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ سے ہی ایک رسم کے طور پر اس کی ابتدا کی گئی۔ اول من اختتن کے الفاظ آئے ہیں۔ البتہ تاریخی لحاظ سے حتمی طور پر یہ کہنا کہ اس سے پہلے یہ طریقہ بالکل ہی نہیں تھا، مشکل ہے۔ ممکن ہے، فی نفسہ یہ طریقہ تو موجود ہو، لیکن خاص ماحول اور خطے میں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت ہوئی، ثقافتی روایت کے طور پر یا مذہبی عمل کے طور پر اس کا رواج نہ ہو۔ اس صورت میں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کے دور میں پہلی مرتبہ اس کو شریعت کا حصہ بنایا گیا اور ایک پوری امت نے اس کو اختیار کر لیا۔

مطیع سید: حضرت ابراہیم ؑ نے تین خلاف واقعہ باتیں کہیں،یہ مشہور روایت ہے۔14 اس کی آپ کیا تاویل کرتے ہیں؟ قرآن تو ان کو صدیقا نبیا کہتاہے۔

عمار ناصر:عربی میں اصل میں کذب کا لفظ وہاں بھی بول دیاجاتاہے جب حقیقت کے لحاظ سے یا سننے والے کے فہم کے لحاظ سے بات خلاف واقعہ ہو، لیکن کہنے والے کی نیت غلط بیانی کی یا جھوٹ کی نہ ہو۔اسی طرح بعض جگہ قائل جان بوجھ کر کسی حکمت کے تحت ایسے ذومعنی الفاظ بولتا ہے جن کی اصل مراد کو سامع سے اوجھل رکھنا مقصود ہوتا ہے۔ اس کو توریہ کہتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حوالے سے جن مثالوں کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے، وہ اسی نوعیت کی ہیں۔ معروف اور اصطلاحی مفہوم میں جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے، وہ یہاں مراد نہیں۔

مطیع سید: آپﷺ نے فرمایاکہ انبیا کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو۔ایک موقع پرفرمایا کہ یونس بن متی پر بھی مجھ کو فضیلت نہ دو۔15 جبکہ قرآن کہتاہے کہ ہم نے بعض انبیا کو بعض پر فضیلت دی ہے۔

عمار ناصر:یہ دونوں باتیں درست ہیں، لیکن موقع ومحل الگ الگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو باہم فضیلت تو دی ہےاور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں۔نبیﷺ نے بھی بعض مواقع پر آپ کو جو خاص فضیلتیں دی گئیں،ان کا ذکر کیا۔لیکن بعض صورتوں میں وہی بات جو فی نفسہ درست ہوتی ہے، محرک بدل جانے سے نادرست قراردی جاتی ہے۔اگر تو محض اللہ کے فضل اور انعام کو بیان کر نا مقصود ہے،پھر تویہ ٹھیک ہے کہ انبیاء کی باہمی فضیلت کا ذکر کیا جائے۔ لیکن اگر یہ پہلو شامل ہو جائے کہ ایک نبی کی فضیلت کے ذکر سے دوسرے نبی کو کم تر دکھانا مقصود ہے تو پھر یہ جائز نہیں۔ اسی طرح دوسرے انبیاء کے ماننے والوں کے سامنے فضیلت جتائی جائے تو ان کی عقیدت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اس سے بھی حدیث میں منع کیا گیا ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نےفرمایا کہ کوئی ایسا نبی ہوا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔16 ایسے تو کئی انبیا ہیں مثلا ً‌ حضرت سلیمان جنھوں نے شاید کبھی بکریاں نہیں چرائی ہوں گی۔ حضرت یوسف تو بچپن میں ہی مصر چلے گئے اور شاہی محل میں پہنچ گئے۔

عمار ناصر: حضرت سلیمان نے بھی ہو سکتاہے، بکریاں چرائی ہوں۔حضرت داؤد تو چراتے رہے ہیں، ہو سکتا ہے حضرت سلیمان بھی ساتھ چراتے رہے ہوں۔ اسی طرح حضرت یوسف نے بھی ممکن ہے، بچپن میں چرائی ہوں یا مصر میں جس عرصے میں غلام رہے، تب چرائی ہوں۔ البتہ یہ سمجھنا چاہیے کہ حدیث میں بعض دفعہ تعمیم کے اسلوب میں کہی جاتی ہے۔ اس سے یہ سمجھنا کہ اس میں کوئی استثنا نہیں ہوگا، یہ ضروری نہیں ہوتا۔

مطیع سید: یعنی یہ کہہ سکتے ہیں کہ انبیا ء کی اکثریت ایسی تھی؟

عمار ناصر: جی، مثلاً‌ اگر یہ کہنا ہو کہ کم ہی کوئی نبی ہوگا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں تو عربی میں اس کے لیے بھی تھوڑے سے مبالغے کے اسلوب میں یہ کہنا ٹھیک ہوگا کہ ما من نبی الا۔ اور یہ سمجھ میں بھی آتاہے کہ انبیاء کا تعلق عموماً‌ دیہی کلچر سے ہی رہا ہے۔ اس زمانے میں شہری کلچر بھی بڑی حد تک دیہی ہی ہوتا تھا۔

مطیع سید: روایت ہے کہ نبیﷺ کچھ لکھوانا چاہ رہے تھے،تو حضرت عائشہ کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرا جی چاہ رہا ہے کہ میں ابوبکر کے حوالے سے تحریر لکھوا دوں تاکہ کوئی خلافت کی تمنا نہ کرے۔17 اس روایت سے تو بڑا واضح ہو جاتاہے کہ نبیﷺ کیا لکھواناچاہ رہے تھے۔

عمار ناصر:جی، واضح ہے۔ صورت حال اور سیاق بھی یہ تھا اور آپ ﷺ چاہ بھی یہی رہے تھے کہ اس معاملے کو بالکل واضح کردیں تاکہ کوئی مسئلہ نہ کھڑاہو۔

مطیع سید: عبد اللہ بن ابی کے جنازے پر حضرت عمر نے آپﷺ کو روکنے کی کو شش کی لیکن آپ نے پھر بھی پڑھا دی۔اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو منع فرمادیا۔18 اس کے بعد باقی منافقین کہاں گئے؟ حضرت عائشہ کے بقول تو منافقوں کا ایک سمندرتھا۔تو کیا کسی روایت میں آیاہے کہ کسی منافق کے جنازے کا مسئلہ نبیﷺ کے دور میں پیدا ہواہو اور آپﷺ نے اس کا جنازہ پڑھنے سے انکارکر دیاہو؟ایسا لگتا ہے کہ اس کے بعد منافقت کی پوری تحریک ہی زیرِزمین چلی گئی۔

عمار ناصر: اصل میں کچھ لوگ تھےجو منافقت میں بالکل نمایاں ہوکر سامنے آگئے تھے۔ قرآن نے ان کے بارے میں کہا کہ ان کا نفاق مختلف مواقع پر بالکل ابھر کر سامنے آگیاہے، ان کو نماز جنازہ پڑھانے کا اعزاز نہ دیا جائے۔ اسی طرح جن کے متعلق آپ کو وحی کے ذریعے سے بتا دیا گیا کہ وہ منافق ہیں، قرین قیاس یہی ہے کہ آپ اس ممانعت کے بعد ان کی بھی نماز جنازہ نہیں پڑھاتے ہوں گے۔ البتہ یہ ضروری نہیں تھا کہ آپ اس کا اعلان بھی کریں کہ میں اس لیے جنازہ نہیں پڑھا رہا کہ یہ منافق تھا۔ اصل میں رسول اللہﷺ کو منع کیا گیا تھا کہ آپ نے ان کا جنازہ نہیں پڑھانا۔یہ نہیں کہا گیا کہ ان کی نمازِ جنازہ ہی نہ پڑھی جائے۔ البتہ بعد میں حضرت عمر بھی اس کا اہتمام کرتے تھے کہ کسی منافق کی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔حضرت حذیفہ کو آپﷺ نے ایک خاص واقعے میں بہت سے لوگوں کے نام بتائے تھے جو درپردہ منافق تھے۔تو مدینہ میں جب کوئی شخص فوت ہوتا تو حضرت عمر دیکھتے تھے کہ جنازے میں حذیفہ ہیں یا نہیں۔ اگر حذیفہ ہوتے تو حضرت عمر بھی جنازے میں شریک ہو جاتے تھے، ورنہ نہیں ہوتے تھے۔

مطیع سید: حضرت امیر معاویہ نے حضرت سعد کو خط لکھا کہ تم علی کو برا بھلاکیوں نہیں کہتے؟ یہاں لفظ "سبّ" آیاہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں علی کے بارے میں تین ایسی باتیں جانتاہوں کہ اگر ان میں سے ایک بھی میرے پا س ہوتی تو میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا۔19 اس روایت میں تو بڑا واضح ہے کہ وہ انہیں ابھار رہے ہیں کہ تم علی پر سب و شتم کیا کرو۔ تو یہ کیوں کہاجاتاہے کہ حضرت امیر معاویہ نے حضرت علی پر سب وشتم نہیں کروایا؟

عمار ناصر:جی،ہمارے ہاں تو ایسا ہی ماحول بن گیاہے کہ اس طرح کی ہر روایت کو کہہ دیا جاتاہے کہ یہ وضع کی گئی ہے۔تاریخی حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں باہمی اختلافات کی بنا پر ایک دوسرے کے بارے میں برا بھلا کہنے کا عمل ہوا تھا۔ اس رسم بد کی ابتدا مخالفین عثمان نے کی تھی اور حضرت عثمان پر سیاسی ودینی اعتراضات اٹھانے کے علاوہ ان کے خلاف فتنہ برپا کرنے کے لیے لعن طعن اور سب وشتم کی رسم بھی جاری کی تھی۔ حضرت عثمان کی شہادت کے بعد حالات کے جبر کے نتیجے میں یہ سارا کیمپ حضرت علی کی چھتری تلے جمع ہو گیا تو دوسری طرف سے سب وشتم کی اسی بد رسم کا ہدف حضرت علی کو بنا لیا گیا، کیونکہ حضرت عثمان کے برابر کی شخصیت وہی تھے۔ ظاہر ہے، حضرت عثمان کے متعلق عیب جوئی یا بدزبانی کا بدلہ مالک اشتر کو گالی دینے سے نہیں ہو سکتا تھا، تسلی اور اطمینان تبھی ہو سکتا تھا جب نعوذ باللہ حضرت علی کو برا بھلا کہا جائے۔ گویا دونوں بزرگ اپنے مقام اور حیثیت کی وجہ سے فریقین کے سب وشتم کا مرکزی ہدف بن گئے تھے، حالانکہ دونوں کے درمیان کوئی شخصی جھگڑا نہیں تھا۔

البتہ اس "سبّ" کی نوعیت کیا تھی،یہ دیکھنے کی چیزہے۔وہ غالباً‌ اسی مفہوم میں تھا کہ متحارب گروہ اور سیاسی فریق ایک دوسرے کے لیڈروں کے بارے میں معائب یا نقائص بیان کرتے تھے یا مختلف حوالوں سے نکتہ چینی کرتے تھے۔بسا اوقات خود کو حق پر اور مخالف کو باطل پر سمجھ کر ایک دوسرے پر لعن بھی کرتے تھے۔یہ لعن کا عمل صرف ایک طرف سے نہیں ہوا، حضرت علی کی طرف سے اور ا ن کے ساتھیوں کی طرف سے بھی مخالفین کے خلاف ہوا۔اہل شام کے بارے میں قنوتِ نازلہ کا اہتمام اور ان پر لعنت کی ابتدا حضرت علی نے کی تھی،اس لیے کہ وہ اپنے برحق ہونے کا پورا یقین رکھتے تھے اور مخالفین کو باغی سمجھتے تھے۔جواب میں اہل شام نے بھی قنوت نازلہ شروع کر دی۔

مطیع سید: حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں اسلام لانے سے تین سال پہلے بھی نماز پڑھتاتھا۔20 غامدی صاحب اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ قرآن نے نماز کا ڈھانچہ اس لیے بیان نہیں کیا کہ وہ عربوں کے ہاں معروف تھا۔ کیا یہ درست ہے؟

عمار ناصر: یہ بات تو ٹھیک ہے کہ نماز کا تصور اور اس کا طریقہ عرب میں معروف تھا۔ قرآن نے جب کہا کہ اقیموا الصلوۃ تو وہ ایک نئی اصطلاح نہیں تھی،بلکہ عرب کے ہاں معروف تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمان بھی ابتداءً‌ اسی کے مطابق نماز پڑھتے تھے۔ روایات میں ہے کہ آپ نبوت کے بعد ابتدائی سالوں میں چاشت کے وقت کی نماز تو کھلے بندوں پڑھتے تھے، کیونکہ قریش کے لوگوں میں یہ وقت نماز کے لیے معروف تھا اور وہ بھی یہ نماز پڑھتے تھے، البتہ دیگر نمازیں آپ اور اہل ایمان چھپ کر ادا کرتے تھے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ نماز کے طریقے میں ابتداءً‌ خاص فرق نہیں تھا۔ لیکن پھر اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تدریجاً‌ اس میں ضروری تبدیلیاں بھی کیں اور بہت سے نئے احکام شامل کیے۔ وہ ظاہر ہے، پہلے سے معروف نہیں تھے بلکہ پیغمبر کے بتانے سے شریعت کا حصہ بنے۔

مطیع سید: ایک واقعہ تفسیروں میں بیان کیا جاتاہے کہ حضرت داؤد کو ایک عورت پسند آگئی تھی جو کسی کی بیوی تھی۔ بعض کہتے ہیں کہ جب وہ عورت انہیں پسند آگئی تو انہوں نے اسے طلاق دلوا دی۔ بعض کہتے ہیں کہ اس کے خاوند کو جنگ میں بھیج کر مروا دیا۔ بعض کہتے ہیں کہ اس دورکا یہ کلچر تھا کہ کسی کی بیوی پسند آ جائے تو اس کے خاوند سے بات کرلیتے تھے کہ تم اسے چھوڑ دو۔کیاقرآن نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیاہے؟

عمار ناصر: یہ واقعہ بائبل میں بیان ہواہے کہ حضرت داود علیہ السلام چھت پر چڑھے تو دیکھا کہ ان کے پڑوسی اوریا حتی کی بیوی نہا رہی تھی۔ وہ انہیں پسند آگئی۔ پھر انھوں نے اس کو اس نیت سے کسی محاذ جنگ پر بھیج دیا کہ وہ جنگ میں مر جائے اور وہ اس کی بیوی سے نکاح کر لیں۔قرآن میں یہ واقعہ تو نہیں ہے، لیکن قرآن نے حضرت داود کے حوالے سے ایک خاص مثال بیان کی ہے کہ انھیں متنبہ کرنے کے لیے ان کے پاس دو ایسے فریق بھیجے گئے جن میں سے ایک دوسرے کی دنبی لے لینا چاہتا تھا، حالانکہ اس کے پاس ایک ہی دنبی تھی اور دوسرے کے پاس ننانوے تھیں۔ اس سے مفسرین نے قیاس کیا ہے کہ یہ شاید اسی طرح کے کسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ ممکن ہے، بعینہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہو،لیکن اس واقعہ کے علاوہ اور بھی کوئی بات ہو سکتی ہے۔

مطیع سید: اسرائیلی واقعہ کو اگر ہم لیں تو اس سے ایک پیغمبر کی شان پر حرف نہیں آتا؟ پرانےمفسرین نے اس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس واقعہ کو لے لیا تو کیا اُن کے سامنے یہ پہلو نہیں تھا؟

عمار ناصر: بائبل میں جو تفصیلات مذکور ہیں، ان کے متعلق تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ساری صحیح ہیں یا قرآن ان کی تصدیق کر رہا ہے۔ ہمارے قدیم مفسرین عموماً‌ اس آیت کے تحت اسرائیلی واقعہ ہی نقل کر دیتے ہیں، اس پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔لیکن دورجدید میں زیادہ تر مفسرین اس روایت پر نقد کرتے ہیں۔

مطیع سید:اگر یہ واقعہ نہیں تھا، لیکن اس سے ملتا جلتا کوئی اور واقعہ تھا تو کیا نبی سے ایسا فعل صادر ہو سکتا ہے؟

عمار ناصر: انبیا کے بارے میں قرآن یہ بیان کرتاہے کہ وہ اللہ کے بہت منتخب بندے ہوتے ہیں، لیکن ان کے ساتھ بشریت بھی ہوتی ہے، خواہشات بھی ہوتی ہیں، اور ان سے کچھ نامناسب چیزیں بھی سرزد ہو جاتی ہیں۔ لیکن وہ فوراً‌ متنبہ ہو کر معافی کے طلب گار ہو جاتے ہیں۔وہ بالکل فرشتہ نہیں ہوتے۔ قرآن نے جو دنبیوں والی مثال بیان کی ہے، اس سے حضرت داؤد کو ان کی کسی غلطی کی طرف متوجہ کرنا ہی مقصود تھا۔قرآن کے بیان کے مطابق وہ فوراً‌ سمجھ گئے اور انہوں نے توبہ کی اور اللہ نے بھی وہ خطا معاف کر دی۔فغفرنا لہ ذالک۔

مطیع سید: مجھے ایسے لگتاہے کہ نبی جب دنیا سے وفات پاتاہے، تب اس کی پوری زندگی عصمت والی ہوجاتی ہے۔مطلب جب تک وہ زندہ ہوتاہے،اس بات کا امکان ہے کہ اس سے کوئی خطاہو جائے۔ساتھ ساتھ اس کی اصلاح کا عمل بھی جاری رہتاہے، لیکن جیسے ہی وہ دنیا سے چلا جاتا ہے،اس کی زندگی مکمل ہو جاتی ہے۔ اب وہ مکمل طور پر گناہوں یا خطاوں سے پاک ہے۔

عمار ناصر:جی، یہ بھی تعبیر درست ہے کہ نبی دنیا سے گویا طاہر ومطہر ہوکر جاتا ہے۔

مطیع سید:کسی نے ایک اونٹنی پر لعنت کی،آپﷺ نے فرمایاکہ اسے چھوڑ دو۔ یہ ملعونہ ہے، یہ ہمارے ساتھ نہیں چلے گی۔21  ایک آدمی کی غلطی کی وجہ سے اونٹنی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟

عمار ناصر: مراد یہ تھی کہ ایک ایسی چیز جس پر لعنت کر دی گئی ہے، وہ سفر میں ہمارے ساتھ نہ ہو۔ اس سے یہ بھی مقصود تھا کہ لوگوں پر جانوروں پر لعنت کرنے کی شناعت واضح کی جائے، تاکہ وہ اس کو ہلکا اور معمولی عمل نہ سمجھیں۔ یعنی یہ حساسیت پیدا کرنے کا ایک حکیمانہ اسلوب تھا۔

مطیع سید: وعدہ الست مجھے تو یاد نہیں ہے۔کسی کو بھی یاد نہیں،کوئی نہیں کہتا کہ مجھے اس کا شعور ہے۔تو کیا یہ اعتراض نہیں بن جاتا کہ ایسے واقعے کا حوالہ دیاجارہاہے جو کسی کو یادنہیں؟

عمار ناصر:یہ کوئی ضروری بھی نہیں کہ مجھے اس وقت یاد ہو۔انسانی شعور کی مختلف سطحیں ہیں۔ نفسیات بتاتی ہے کہ جو اس کی تین سطحیں(شعور، تحت الشعور، لاشعور ) ہیں،اس میں احساس آپ صرف اسی کاکرسکتے ہیں جو آپ کےشعور کی سطح پر ہے۔ہمیں اس وقت وہ عہد یاد نہیں ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔جب ہم سے یہ عہد لیا گیا تھا، اس وقت یہ پوری طرح ہماری شخصیت کا حصہ تھا،اور قیامت میں جب ہم سے پوچھا جائے گاتو پھر یہی کیفیت ہوگی۔

مطیع سید: بعض یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بعد کی بات ہے جب آدم علیہ السلام پیداہوگئے اور دنیامیں آگئے تو ان کو اور ا ن کی اولاد کو مخاطب کرکے یہ کہا گیاہے۔

عمار ناصر: جی، بعض مفسرین مثلاً‌ ابن کثیر اس کو ایک واقعہ نہیں مانتے۔ان کی رائے یہ ہے کہ یہ روحوں کی دنیا میں کوئی حقیقی واقعہ نہیں ہوا۔بلکہ مطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کر دیا اور ان کی اولاد کے لیے اس دنیا میں خدا کی معرفت کے دلائل اور معاون ذرائع مہیا کردیے۔پھر ان سے کہا کہ اِن دلائل کو دیکھو اور خدا کو پہچانو۔ یعنی وہ اس کو ایک تمثیلی تعبیر سمجھتے ہیں۔لیکن قرآن کے الفاظ بظاہر اس کو قبول نہیں کرتے۔الفاظ سے ایسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ واقعہ ہوا۔ وہ واقعہ عالمِ ارواح میں ہوا ہو،قرآن کے الفاظ اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں۔وہ واقعہ اس دنیا میں آدم علیہ السلام کے آنے کے بعد ہوا،اس کا بھی احتمال رکھتے ہیں۔زیادہ قرینِ قیاس یہی ہے کہ وہ عالمِ ارواح کا واقعہ ہے،کیونکہ اس میں حضرت آدم کا ذکر نہیں ہے۔اس میں ذکرہے کہ اللہ نے بنو آدم سے عہد لیا،جبکہ دنیا میں تو ابھی سارے بنی آدم آئے ہی نہیں۔اس لیے یہ امکان زیادہ درست لگتا ہے کہ عالمِ ارواح میں یہ عہد لیا گیا۔

مطیع سید: ایک بندہ تھا،وفات پا گیا۔اس نے اپنے وارثوں سے کہا کہ مجھے جلا کر میری راکھ پانی میں پھینک دینا اور ہوا میں اڑا دینا تاکہ مجھے اللہ کے سامنے پیش نہ ہونا پڑے۔22 ایک طرف وہ ایمان والا ہے اور اسے اتنا خوف ہے اور دوسری طرف وہ عجیب قسم کی وصیت کر تاہے۔ کیا اسے خدا کی قدرت کے بارے میں معلوم نہیں تھا؟

عمار ناصر: یہ بڑادلچسپ واقعہ ہے۔اس واقعے سے مختلف کلامی گروہوں کے بنائے ہوئے قاعدے اور قانون ٹوٹتے ہوئے لگتے ہیں۔لیکن واقعہ یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اصل چیز دل کی کیفیت ہے،ظاہری اعمال اتنے اہم نہیں۔ اس شخص کو اللہ کی قدرت کا بھی علم تھا اور گناہوں کے مواخذے کا قانون بھی معلوم تھا، لیکن اللہ کے سامنے پیش ہونے کا خوف اتنا غالب تھا کہ اس نے یہ وصیت کر دی اور اللہ تعالیٰ کو بھی اس کا یہ جذبہ اتنا پسند آیا کہ اسی پر اس کی بخشش کا فیصلہ کر دیا گیا۔

مطیع سید: کیا اس کو یہ اندازہ نہیں تھاکہ ایساکرنے سے کچھ نہیں ہوگا؟ اللہ تو قادر ہے، وہ مجھے پھر جسم عطاکر کے اپنے حضور کھڑ اکر دے گا؟

عمار ناصر: نہیں، یہ ضروری نہیں کہ وہ یہ سمجھتاہوکہ اس طرح اگر کر لیا جائے تو میں اللہ تعالیٰ کی گرفت سے بچ جاؤں گا۔یہ ایک ایسا بندہ ہے جو اپنے احساس ندامت کی وجہ سے اللہ کے حضور میں پیش ہونے سے بچنے کے لیے اپنی بساط کے مطابق جو کچھ سکتاہے، کر گزرتاہے۔ بس اس کا یہی احساس اللہ کو پسند آیا اور اس کی بخشش کا ذریعہ بن گیا۔

مطیع سید: قیامت کے دن جہنم سے چھٹکارا پانے کے لیے مسلمان کو ایک فدیہ دے دیاجائے گا۔ مسلمان کو کہاجائے گا کہ تم اپنی طرف سے فدیے کے طور پر ایک آدمی دےدو اور جہنم کی سزا سے بچ جاؤ۔پھر کوئی یہودی یا نصرانی اس کے حوالے کر کے کہاجائے گا اس کو اپنی جگہ فدیے میں دے دو اور جہنم سے بچ جاؤ۔23 اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ تو عجیب سی بات لگتی ہے۔

عمار ناصر: اصل میں تو اللہ تعالیٰ مومن کو بخشنا چاہتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے طے کردہ کسی اصول پر بھی کوئی زد نہیں آرہی۔ جس یہودی یا نصرانی نے اپنے اعمال یا کفر کی وجہ سے جہنم میں ہی جانا ہے، اسی کو مسلمان کا فدیہ بنا دیا جائے گا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سزا سے بچانے کے لیے ایک رسمی کارروائی اس طرح ہو جائے گی، ورنہ اصل میں تو اللہ کی طرف سے چھٹکارے کا فیصلہ ہی اس کی بنیاد ہوگا۔

مطیع سید:آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں بارہ منافق ہوں گے24 جبکہ حضرت عائشہ ایک روایت میں فرماتی ہیں کہ جب نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو مدینہ میں منافقین کا سمندر تھا۔

عمار ناصر:اس روایت میں جو آپﷺ نے بارہ منافقین کا ذکر کیا ہے، یہ تو وہ ہیں جن کے نام آپﷺ نے حضرت حذیفہ کو بتائے تھے۔ یہ مدینہ کے سرکردہ منافقین تھے۔ باقی آپ کی وفات کے بعد کئی کمزور ایمان کے لوگ بھی متزلزل ہو گئے تھے اور بہت سے کچے پکے منافق بھی کھل کر سامنے آ گئے تھے۔ سیدہ عائشہؓ اس کا ذکر کر رہی ہیں۔

مطیع سید: ایک دفعہ آندھی چلی تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ آندھی کسی بڑے منافق کی موت کی وجہ سے ہے۔25 وہ کون تھا؟

عمار ناصر: احادیث کی کتابوں میں تو اس کے نام کی تصریح نہیں ملتی۔بس اتنا ذکر ہے کہ آپﷺ ایک سفر میں تھے اور آندھی چلی تو یہ بات ارشاد فرمائی۔ جب صحابہ مدینہ پہنچے تو پتہ چلا کہ ایک بہت سرکردہ منافق کا انتقال ہو چکا ہے۔ البتہ بعض تفسیری روایات میں ذکر ہے کہ یہ رفاعہ بن زید نامی ایک یہودی تھا جو منافقین کی بڑی سرپرستی کرتا تھا۔ بغوی اور ابن کثیر وغیرہ نے اس کا ذکر کیا ہے۔

مطیع سید:حضرت آدم کے قد کے بارے میں جو روایتوں میں آتاہے،26 وہ جنت میں ان کے قد سے متعلق ہے یا زمین پر بھی اتنا ہی قد تھا اور پھر کم ہوتا چلا گیا؟ تاریخی طورپر تو اس کا ثبوت نہیں ملتا۔انسانوں کے انتہائی پرانے ڈھانچے بھی جو ملے ہیں، ان کا قد ہمارے جیسا ہی ہے۔

عمار ناصر: بظاہر تاریخی شواہد سے اس کی تائید نہیں ہوتی اور صحیح بخاری کے شارح حافظ ابن حجر نے بھی اس اشکال کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ اس کا کوئی جواب ان کے سامنے نہیں ہے۔ ابن خلدون نے بھی یہ اشکال پیش کیا ہے۔ اگر یہ روایت صحیح ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے ابتدائی حالات کے بارے میں ہمار ی تحقیق ابھی مکمل نہیں،اور اگر روایت صحیح نہیں تو غالباً‌ اسرائیلیات میں سے ہو سکتی ہے۔ زیادہ تر اہل علم کا رجحان یہ ہے کہ حدیث صحیح ہے اور ہماری موجودہ معلومات ناقص ہو سکتی ہیں، جبکہ بعض اہل علم سیدنا ابوہریرہ کی مرویات میں اسرائیلیات کے مخلوط ہو جانے کی متعدد دیگر مثالوں کے پیش نظر یہ رجحان رکھتے ہیں کہ یہ روایت بھی اسی قبیل سے ہے۔ دونوں آرا کی علمی طور پر گنجائش نظر آتی ہے، حقیقت حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

مطیع سید: یاجوج ماجوج کے دیوار چاٹنے والی روایت سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

عمار ناصر: مسند احمد میں یہ روایت ہے۔ اس پر ابن کثیر نے یہ تبصرہ کیاہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے ہے۔سند اس کی اگرچہ صحیح ہے لیکن اسرائیلیات میں سے ہے اور غلطی سے رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہو گئی ہے۔ویسے جس طرح کی تفصیل اس میں بیان ہوئی ہے، وہ کافی افسانوی سی چیز بن جاتی ہے۔

مطیع سید:قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک جہجاه نامی شخص بادشاہ نہ بن جائے۔27 کیا اس نام کا کوئی شخص بادشاہ بنا ہے؟

عمار ناصر: ابھی تک تو نہیں ہوا۔اس کا مطلب ہے کہ مستقبل میں ہوگا۔

مطیع سید:قیامت کے قریب یہودی جب درختوں کے پیچھے چھپیں گے تو سارے درخت ان کا چھپنا بتادیں گے، سوائے غرقدکے درخت کے۔28 آپﷺ نے فرمایا کہ وہ یہودیوں کا درخت ہے۔درخت یا اس طرح کی چیزیں تو کسی مذہب کی نہیں ہوتیں۔یہ کس پہلو سے نبیﷺ نے فرمایا؟کیا درخت کے اندر فطری طورپر ایساکچھ ہے؟

عمار ناصر:یقیناً‌ چیزوں میں ایسی مناسبتیں ہوتی ہیں۔ ہمارے ادراک کے لحاظ سے بظاہر درخت وغیرہ شعور اور کسی خاص چیز سے مناسبت نہیں رکھتے، لیکن یہ ہمارے ادراک کا قصور ہے۔ نبی کو اس طرح کے بہت سے غیبی امور کی بھی اطلاع ہوتی ہے۔

مطیع سید: ابن صیاد کے بارے میں پڑھ کر بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ آپﷺ اس سےسوال پوچھتے ہیں اور وہ جواب دیتاہے۔پھر آپ نے پوچھا کہ جنت کی مٹی کیسی ہوگی،وہ اس کا صحیح جواب بتادیتاہے۔پھرآپ نے فرمایا کہ میں نے دل میں ایک بات سوچی ہے، بتاؤ وہ کیا ہے۔وہ بھی وہ آدھی بو جھ لیتاہے۔پھر جب ابن صیاد جوان ہوتاہے تو اس سے اس طرح کے واقعات صادر نہیں ہوتے۔پھر وہ حج کے لیے جاتے ہوئے یہ گلہ بھی کرتاہے کہ دیکھو تم نے مجھے دجال سمجھا اور میں تو مکہ میں داخل ہوں گا۔لیکن پھر آخر میں یہ کہہ کر پھر شک میں ڈال دیتاہے کہ مجھے پتہ ہے کہ وہ یعنی دجال کہاں ہے۔29

عمار ناصر:جی، یہ ایک دلچسپ کردار تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اند رکچھ خفیہ اور غیرمعمولی نفسی صلاحیتیں تھیں جن کی بدولت اس کو کشف صدور وغیرہ ہو جاتا تھا۔بعض صحابہ کو تو ان واقعات کی وجہ سے پورایقین تھا کہ وہی دجال ہے۔

مطیع سید: نبیﷺ نے فرمایا کہ ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا۔30 جب اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ حضرت نوح،ادریس، ابراہیم علیہم السلام کے دور میں وہ نہیں آئے گا تو پھر ہر نبی اپنی امت کو اس سے کیوں ڈرارہا ہے؟ جب ایک نبی کی امت کو ایک فتنہ سے واسطہ ہی نہیں پڑنا تو اس سے اپنی امت کو ڈرانے کی کیا ضرورت ہے؟

عمار ناصر: اصل میں یہ پیش گوئی کے طور پر یعنی لوگوں کو متنبہ کرنے کے لیے اور اس فتنے سے متعلق پیشگی آگاہی دینے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔دیکھیں، حضرت مسیح علیہ السلام کی دوبارہ آمد اور قربِ قیامت کے بہت سے مناظر اور بہت سے واقعات بھی آپ کو پیشین گوئیوں میں ملیں گے۔اسی طرح سابقہ صحائف میں بھی اور خصوصاً‌ یوحنا کے مکاشفہ میں بھی ایسی بہت سی چیزیں ہیں۔تواس پہلو سے اسے دیکھاجا سکتاہے۔

مطیع سید: یاجوج وماجوج کے بارے میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ یورپی اقوام ہیں،اور یاجوج وماجوج کے دنیا میں پھیل جانے سے انہی اقوام کا دنیا میں چھا جانا مرادہے۔لیکن حدیث میں آیا ہے کہ حضرت مسیح کے بعدان کا ظہور ہوگا۔پھر تو یہ تاویل درست معلو م نہیں ہوتی۔

عمار ناصر: اصل میں بابئل کے بیانات ہیں،جن میں سے کچھ ہمارے ذخیرے میں بھی نقل ہوئے ہیں کہ حضرت نوح کے تین بیٹے تھے،سام، حام اور یافث۔ حام جو سیاہ فام نسلیں ہیں،ان کا ابوالآبا ہے۔ عرب اور بنو اسرائیل وغیرہ، یہ سام کی نسل سے ہیں۔اور جوسفید فام نسلیں ہیں، ان کا باپ یافث ہے۔ روایت میں اہل روم کا لفظ آیا ہے جس سے مرا د یہی سفید فام نسلیں ہوتی ہیں۔ انھی یعنی یافث کی اولاد میں سے یاجوج وماجوج کے قبیلے تھے۔

یورپی اقوام کو یاجوج وماجوج قرار دینا یہ مولانا آزاد اور علامہ أنور شاہ صاحب وغیرہ کا رجحان ہے۔ علامہ أنور شاہ صاحب کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یاجوج وماجوج کے خروج کی پیشین گوئیوں میں کسی ایک خاص اور متعین واقعے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ ایک سلسلہ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان کے خروج کا پہلا مرحلہ سد ذو القرنین کے ٹوٹنے کا تھا جس کے بعد یاجوج وماجوج، اپنے علاقے سے باہر نکلنا شروع ہو گئے۔ شاہ صاحب کے مطابق یہ تاریخ میں کئی صدیاں پہلے ہو چکا ہے۔ اس کے بعد فوقتاً‌ فوقتاً‌ مختلف مراحل پر ان کے خروج کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ ترکی نسل، اہل روس اور اہل برطانیہ یاجوج ماجوج کی اولاد ہیں اور دنیا میں فساد اور تباہی پھیلانے کے لیے ان کے خروج کا آغاز منگولوں کے حملوں کی صورت میں ہو چکا ہے۔ شاہ صاحب چنگیز خان، ہلاکو اور تیمور لنگ کی تباہ کاریوں کو بھی اسی پیشین گوئی کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ جب یہ سلسلہ مختلف مراحل سے گزرتا ہوا دنیا کی تباہی اور فساد کے آخری مرحلے میں داخل ہوگا تو وہ بالکل قیامت کا قریبی زمانہ ہوگا جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ الانبیاء میں بھی ہے اور احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے۔

مطیع سید: یہ جو جساسہ والا واقعہ ہے، بڑا دلچسپ ہے۔ حضرت تمیم داریؓ ایک سمندری سفر میں ایک جزیرے پر جا پہنچتے ہیں اور وہاں ان کی ملاقات ایک عجیب وغریب جانور سے ہوتی ہے جس کو وہ جساسہ کہتے ہیں۔ وہ ان کو دجال کے متعلق اطلاع دیتا ہے۔31  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واقعہ لوگوں کو سنانے کے لیے خصوصی مجلس منعقد فرمائی اور لوگوں سے کہا کہ دیکھو، میرا بھائی تمیم داری بھی وہی بات کہہ رہاہے جو میں تمھیں بتاتا تھا۔ آج تو دنیا نے ہر جزیرہ چھان ماراہے۔اگر ایسا کوئی جزیرہ تھا تو دوبارہ صحابہ اس طرف کیوں نہیں گئے؟ اور وہ جزیرہ کہاں غائب ہوگیا؟

عمار ناصر: جی، یہ روایت کافی سوالات پیداکرتی ہے۔مثلاً‌ اس روایت میں تمیم داری کہتے ہیں کہ وہ عجیب سی بولی بولتاتھا اور ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔لیکن اسی روایت میں اس کے ساتھ جو اتنا لمباچوڑا مکالمہ مذکور ہے، وہ کیسے سمجھ میں آگیا؟ بہرحال اس طرح کا ایک واقعہ عباسی عہد کے معروف سیاح ابن فضلان نے بھی اپنے سفرنامے میں بڑے وثوق سے بیان کیا ہے جس نے تیسری صدی ہجری میں روس اور ترکی کے بہت سے علاقوں کا سفر کیا تھا۔ حقیقت اللہ ہی جانتا ہے۔

مطیع سید: دجال سےمتعلق جو روایات ہیں،32 ان کو ہم دورِ جدیدکے الحاد پر منطبق کر سکتے ہیں؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دورِ حاضر میں جو انکارِ خداکی لہر پھیل رہی ہے اور الحاد بڑھ رہاہے، اسی کی انتہا دجال کا ظہور ہوگا۔

عمار ناصر: ظاہر ہے، انسان کا اپنا تخیل بھی کام کرتا رہتا ہے۔وہ جن چیزوں کو دیکھتا ہے، ان کا آپس میں رشتہ جوڑنے کی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔میرے خیال میں الحاد کو فتنہ دجال کے متعلقات یا تمہیدات کے معنی میں لے سکتے ہیں، لیکن بعینہ فتنہ الحاد کو آپ دجال کا مصداق قرار دے دیں، یہ کافی مشکل لگتا ہے۔دجال بظاہر ایک شخص ہی ہوگا۔

مطیع سید:ایسے لگتا ہے جیسے وہ کوئی غیر مذہبی آدمی ہوگا۔ جس طرح یہ دور چل رہاہے،ترقی ہورہی ہے اور الحادبڑھ رہا ہے،اسی کا ایک نمائندہ آئے گا۔

عمار ناصر: یہ تو اس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا کہ وہ غیر مذہبی ہوگا۔ وہ تو خدائی کے دعوے کے ساتھ ظاہر ہوگا۔ یہودی تو بالکل اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔ جو خداہونے کا دعویٰ کرے گا، وہ غیر مذہبی کیسے ہوسکتاہے؟ وہ یہی دعویٰ کرکے آئے گا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کو اللہ نے یہ سارے اختیارات دیے ہوئے ہیں،لیکن حقیقت میں ہوگا نہیں۔وہ غیر مذہبی نہیں ہوگا بلکہ تینوں مذاہب کے اندر جو حضرت مسیح کا ایک انتظارِ شدید ہے، وہ اسی انتظار کو اپنے دعوے کی بنیاد بنائے گا۔ مطلب یہ کہ وہ غیر مذہبی نوعیت کی چیز نہیں ہوگی،بلکہ مذہبی قسم کا ایک فتنہ ہوگا۔

مطیع سید: کچھ دیہاتی آئے،انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟آپﷺ نے فرمایاکہ یہ جو سامنے نوجوان ہے، اس کے بوڑھاہونے سے پہلے آجائے گی۔33 اس سے کیا مرادتھا؟

عمار ناصر: یہاں اصل مقصود قیامت کا وقت بتانا نہیں ہے،اور وہ آپﷺ کے علم میں بھی نہیں ہے۔ قرآن مجید بیان کرتاہے کہ سوائے اللہ کے کوئی بھی نہیں جانتا کہ قیامت کا وقت کیا ہے۔اصل میں آپ کا مقصود مخاطب کے لحاظ سے جواب دینا ہوتا ہے کہ اس کو کیا بات بتانی چاہیے یا کس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہیے۔مثلاً‌ ایک مرتبہ آپ سے سوال ہوا کہ قیامت کب آئے گی تو آپ نے فرمایا کہ تمہاری قیامت کے لیے کتنی تیاری ہے؟ اسی طرح اس واقعے میں آپ نے سائل کی تقریبِ ذہنی کے پہلو سے فرمایا کہ تم یہ سمجھو کہ گویا اس کے بوڑھا ہونے سے پہلے آجائے گی۔مطلب یہ کہ اس کے لیے تم اب تیاری کرو۔قرآن میں بھی یہی اسلوب ہے۔قرآن میں آپ کو قیامت کا ذکر بہت سی جگہوں پر ایسے ہی ملے گا جیسے وہ بہت ہی قریب ہے۔اسی سے بعض مستشرقین نے یہ کہا ہے کہ شروع کے دنوں میں محمد ﷺ یہ سمجھتے تھے کہ دنیا اپنے اختتام کے قریب ہے اور قیامت کا وقت بالکل آ پہنچا ہے۔


حواشی

  1. صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ، باب النہی عن التختم فی الوسطى والتی تليہا، رقم الحدیث: 2095، جلد:3،ص:1659
  2. صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ، باب تحريم فعل الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ، رقم الحدیث: 2122، جلد:3،ص:1676
  3. صحیح مسلم،کتاب الآداب، باب النہی عن التكنی بابی القاسم وبيان ما يستحب من الاسماء، رقم الحدیث: 2133، جلد:3،ص:1682
  4. صحیح مسلم،کتاب الآداب، باب كراہۃ التسميۃ بالاسماء القبیحۃ وبنافع ونحوه، رقم الحدیث: 2136، جلد:3،ص:1685
  5. صحیح مسلم،کتاب السلام، باب النہی عن ابتداء اہل الكتاب بالسلام وكيف يرد علیہم، رقم الحدیث: 2163، جلد:4،ص:1705
  6. صحیح مسلم،کتاب السلام، باب الطب والمرض والرقى، رقم الحدیث: 2188، جلد:4،ص:1719
  7. صحیح مسلم،کتاب السلام، باب كراہۃ التداوی باللدود، رقم الحدیث: 2213، جلد:4،ص:1733
  8. صحیح مسلم،کتاب السلام، باب الطيرة والفال، رقم الحدیث: 2224، جلد:4،ص:1746
  9. صحیح مسلم،کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ، رقم الحدیث: 2240، جلد:4،ص:1758
  10. صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب اثبات حوض نبينا صلى الله عليہ وسلم وصفاتہ، رقم الحدیث: 2290، جلد:4،ص:1793
  11. صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب اثبات خاتم النبوة وصفتہ ومحلہ من جسده صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2344، جلد:4،ص:1823
  12. صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب فضائل عيسى عليہ السلام، رقم الحدیث: 2366، جلد:4،ص:1838
  13. صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب من فضائل ابراہیم الخليل صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2370، جلد:4،ص:1839
  14. صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب من فضائل ابراہیم الخليل صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2371، جلد:4،ص:1840
  15. صحیح مسلم،کتاب الفضائل، باب فی ذكر يونس عليہ السلام، رقم الحدیث: 2376، جلد:4،ص:1846
  16. صحیح البخاری، ‌‌ابواب الاجارۃ، ‌‌باب رعی الغنم على قراريط، رقم الحدیث: 2262، ص:580
  17. صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل ابی بكر الصديق رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2387، جلد:4،ص:1857
  18. صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل عمر رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2400، جلد:4،ص:1865
  19. صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل علی بن ابی طالب رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2404، جلد:4،ص:1871
  20. صحیح مسلم، كتاب فضائل الصحابۃ رضی الله تعالى عنہم، باب من فضائل ابی ذر رضی الله عنہ، رقم الحدیث: 2473، جلد:4،ص:1923
  21. صحیح مسلم، كتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن لعن الدواب وغيرہا، رقم الحدیث: 2595، جلد:4،ص:2004
  22. صحیح مسلم، كتاب التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ الله تعالى، وانہا سبقت غضبہ، رقم الحدیث: 2756، جلد:4،ص:2109
  23. صحیح مسلم، كتاب التوبۃ، باب قبول توبۃ القاتل وان كثر قتلہ، رقم الحدیث: 2767، جلد:4،ص:2119
  24. صحیح مسلم، كتاب صفات المنافقين واحكامہم، رقم الحدیث: 2779، جلد:4،ص:2143
  25. صحیح مسلم، كتاب صفات المنافقين واحكامہم، رقم الحدیث: 2782، جلد:4،ص:2145
  26. صحیح مسلم، كتاب الجنۃ وصفۃ نعيمہا واھلہا، باب اول زمرة تدخل الجنۃ على صورة القمر ليلۃ البدر وصفاتہم وازواجہم، رقم الحدیث: 2834، جلد:4،ص:2179
  27. صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتى يمر الرجل بقبر الرجل، رقم الحدیث: 2911، جلد:4،ص:2232
  28. صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب لا تقوم الساعۃ حتى يمر الرجل بقبر الرجل، رقم الحدیث: 2922، جلد:4،ص:2239
  29. صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذكر ابن صياد، رقم الحدیث: 2927، جلد:4،ص:2241
  30. صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب ذكر الدجال وصفتہ وما معہ، رقم الحدیث: 2933، جلد:4،ص:2248
  31. صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب قصۃ الجساسۃ، رقم الحدیث: 2942، جلد:4،ص:2261
  32. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب احادیث الانبیاء، ‌‌باب قول الله واذكر فی الكتاب مريم اذ انتبذت من اهلہا، رقم الحدیث: 3439، ص:884
  33. صحیح مسلم، كتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب قرب الساعۃ، رقم الحدیث: 2952، جلد:4،ص:2269


(مکمل)

کاروباری جھگڑوں کےعمومی اسباب اور ان کا حل

مفتی سید انور شاہ

ہمارے سماج میں آپس کے، رنجشوں، نفرتوں،جھگڑوں اور تنازعات کا جو سلسلہ چل رہا ہے، ان کی تہہ میں اگر دیکھا جائے، تو ان کے اسباب میں سےایک بنیادی سبب کاروباری معاملات کو صاف اورواضح نہ رکھنا ہے، چنانچہ روپیہ، پیسہ، زمین وجائداد اور دیگر مالی معاملات کو صاف نہ رکھنے کی وجہ سے بعض اوقات جو جھگڑے اورعداوت پیدا ہوتی ہے، وہ کئی پشتوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اور پرانے تعلقات کو دیکھتے ہی دیکھتے بھسم کرڈالتا ہے، اور اس کی وجہ سے بڑی مثالی دوستیاں آن کی آن میں دشمنیوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ وجہ وہی زروزمین اوربزنس کے معاملات کا ابہام اور واضح نہ ہونا ہی ہوتا ہے۔

حالانکہ اسلام نے معاملات کی صفائی کی طرف خاص توجہ دلائی ہے کہ جو بھی معاملہ کیا جائے، خواہ وہ قریب ترین رشتہ دار،بھائیوں کے درمیان ہو، باپ بیٹے کے درمیان ہو، شوہر اور بیوی کے درمیان ہو، غرض کسی بھی شخص اور فرد کے ساتھ جو بھی معاملہ ہو، وہ بالکل واضح اور بے غبار ہونا چاہئے۔ اس میں ایسا ابہام نہیں ہونا چاہئے جو آئندہ کسی تنازع اور جھگڑے کا باعث ہو، اسی لئے خرید وفروخت کی ایسی تمام صورتوں کو منع کیا گیا ہے، جس میں فروخت کی جانے والی چیز، ادا کی جانے والی قیمت، سامان کی سپردگی کے مقام اور ادھار کی صورت میں قیمت یا ادائیگی کا وقت مبہم ہو، تجارت کے بہت سے احکام اسی اصول پر مبنی ہیں۔ اس لئے شرعی نقطۂ نظر سے جو معاملات کسی بھی پہلو سے ابہام کی وجہ سے آئندہ کسی نزاع کا سبب بن سکتے ہیں وہ درست نہیں ہوں گے۔

آپس میں بھائیوں کی طرح رہو مگر معاملات اجنبیوں کی طرح کرو

معاملات کے باب میں اہل علم حضرات لکھتے ہیں: "آپس میں بھائیوں کی طرح رہو، لیکن لین دین کے معاملات اجنبیوں کی طرح کرو"(1)۔ مطلب یہ ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ایسا برتاؤ اور حسن سلوک کرو، جیسے ایک مخلص بھائی کو دوسرے بھائی کے ساتھ کرنا چاہیئے، جس میں ایثار، محبت، شفقت، مروت، رواداری، تحمل اور انسانیت کا جذبہ ہو، لیکن جب روپے پیسے اور تجارت ونفع کے لین دین، جائداد کے معاملات اور شرکت وحصہ داری کا معاملہ آجائے ،تو اچھے تعلقات کی حالت میں بھی انہیں اس طرح انجام دو، جیسے دو اجنبی ا فراد انہیں انجام دیتے ہیں۔ کہ معاملہ کا ہر پہلواور بات صاف اور واضح ہو، نہ کوئی پہلو مبہم رہے، اور نہ معاملہ کی حقیقت میں کوئی اشتباہ باقی رہے۔

اگر محبت، اتفاق اور خوشگوار تعلقات کی حالت میں اس اصول پر عمل کر لیاجائے، تو بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے فتنوں اور جھگڑوں کا سد باب ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوسناک صورت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس اصول کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے ،جس کی ایک واضح صورت ہمارے معاشرے میں یہ ہے:

کاروبار میں والد کے ساتھ اولاد کی شرکت

ہمارے ہاں تجارت وکاروبار میں عام طور پر یوں ہوتا ہے، کہ ایک شخص نے کاروبار شروع کیا، اس وقت اس کے بچے چھوٹے تھے۔ رفتہ رفتہ کاروبار بھی بڑھا اور بچے بھی بڑھے ہو کر اپنے والد کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں، ان کے کاروبار میں پورے طور پر معاونت کرتے ہیں ، اس کاروبار کو اپنا کاروبار تصور کرتے ہیں اور حسب استطاعت اس کو ترقی دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں ، والد ان کی جملہ ضروریات کی مکمل کفالت کرتا ہے اور جب تک حالات خوشگوار رہتے ہیں ،ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ مشترکہ نظام برقرار رہے۔ لیکن جب والد کی زندگی میں اور یا ان کے انتقال کے بعد اس کا روبار کی تقسیم کا مسئلہ سامنے آتا ہے، تو بڑے لڑکوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کاروبار میں چھوٹے بھائیوں کی بنسبت ان کا تعاون زیادہ رہا ہے ، اسلئے اسی تناسب سے انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہئیے،پھر جب تمام بھائیوں کے درمیان کاروبار کی مساوی طور پر تقسیم کی بات ہوتی ہے۔توان کی احساس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ اور وہ اس میں اپنی حق تلفی محسوس کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بھائیوں کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں۔ یوں قریبی رشتہ داروں کے درمیان نفرت کی دیوار قائم ہوتی ہے۔ اور بات مقدمہ بازی اور خون بہانے تک پہنچ جاتی ہے ،اسلئے ہونا یہ چائیے کہ اگر کسی کاروبار میں والد کے ساتھ ان کے بچے بھی شریک ہوں ،تو جس وقت وہ شریک ہوں اسی وقت یہ طے ہونا چائیے ،کہ اس کا روبار میں ان کی شرکت کس حیثیت سےہے ؟ کیا وہ اس میں پاٹنر ہیں ؟ یا ان کی حیثیت ملازم کی ہے ؟ یاوه محض اپنے والد کے معاون و مددگار ہیں؟ لیکن جس وقت لڑ کے والد کے خواہش پر کا روبار میں عملی طور پر شریک ہو جاتے ہیں، تو اس وقت معاملہ کو واضح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ چنانچہ ہر شخص اپنی خواہش یا ضررورت کے مطابق کاروبار کی آمدنی استعمال کرتا رہتا ہے۔

اگر کسی وقت کوئی شخص یہ تجویز پیش کرے کہ کاروبار میں حصہ یا تنخواہ وغیرہ متعین کر لینی چاہیے، تو اسے محبت، اتفاقی اور غیرت کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسطرح کے کاروبار کا انجام اکثر وبیشتر یہ ہوتا ہے کہ دل ہی دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں اور رنجشیں پرورش پاتی رہتی ہیں ،خاص کر جب تقسیم کا مرحلہ آتا ہے، تو ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ دوسرے نے کاروبار سے زیادہ فائدہ اُٹھایا ہے۔ اندر ہی اندر ان رنجشوں کا لاوا پکتار رہتا ہے اور بالآخر جب رنجشیں بدگمانیوں کے ساتھ مل کر پہاڑ بن جاتی ہیں تو یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے۔محبت واتفاق کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ زبانی تو تکار سے لیکر لڑائی ، جھگڑے اور مقدمہ بازی تک کسی کام سے دریغ نہیں ہوتا۔ بھائی بھائی کی بول چال بند ہو جاتی ہے۔ ایک بھائی دوسرے کی صورت دیکھنے کا روادار نہیں رہتا۔ جس کے قابو میں کاروبار کاجتنا حصہ آتا ہے وہ اس پر قابض ہو کر عدل وانصاف کا جنازہ نکال لیتا ہے۔ اپنی نجی مجلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف ، الزامات ، بد زبانی اور بدگمانی جسے خطر ناک گناہوں کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔ چونکہ سالہا سال مشترکہ کا روبارکا نہ کو ئی اصول طے تھا اور نہ حساب و کتاب کا خیال رکھا گیا ہو تا ہے۔ اسلئے بسا اوقات اختلاف کو ختم کرنے کے لئے افہام وتفہیم کی بھی کوشش کی جائے، تو بھی مصالحت کا کوئی ایسا فارمولاوضع کرنا بھی انتہائی دشوار ہوجاتا ہے،جو تمام متعلقہ فریقوں کے لئے قابل قبول ہو۔

معاملہ کرتے وقت کن پہلوؤں کو واضح کرنا ضروری ہے؟

یہ سارا فتنہ وفساد اس وجہ سے پیدا ہوتا ہےکہ کاروبار کےآغاز میں معاملہ صاف اور واضح نہیں رکھا تھا۔اگرشروع ہی میں یہ بات واضح کی جائے کہ کس کی کیا حیثیت ہے؟ آیا وہ ملازمت کےطور پر کام کررہا ہے؟یاشرکت اور تعاون کے طورپر؟تو بعد میں پیش آنےوالی پیچیدگیوں اورجھگڑوں کا سد باب ہوجائے، لہذا اگر کسی کاروبار میں ایک سے زیادہ افراد کام کررہے ہیں،توپہلے ہی مرحلے میں ان میں سے ہر شخص کی حیثیت کا تعین ضروری ہے،کہ وہ تنخواہ پر کام کرےگا؟یا کاروبار میں باقاعدہ حصہ دار ہوگا؟یا محض اپنے والد کی معاونت کرےگا؟

پہلی صورت میں اس کی تنخواہ متعین ہونی چاہئے،نیز یہ وضاحت بھی کرلی جائے کہ وہ کاروبارکا حصہ دارنہیں ہوگا۔ دوسری صورت میں اگراسے ملکیت میں باقاعدہ حصہ داربنانا ہےتو اس کے لئے شرعایہ بھی ضروری ہےکہ اس کی طرف سے کاروبار میں کچھ سرمایہ شامل ہوناچاہئے(جس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ باپ اسے کچھ نقد رقم ہبہ کردےاوروہ اس رقم سےکاروبارکا فیصد کے اعتبار سےایک متعین حصہ خریدلےاور فیصد کےاعتبارسے نفع کی تعیین بھی کرلے۔

یہ تمام تفصیلات تحریری طورپر ایک معاہدہ کی شکل میں محفوظ کرلینی چاہئے،تاکہ بعد میں کوئی الجھن پیدانہ ہو۔

اگر کسی ایک حصہ دارکو کاروبار میں وقت اور کام زیادہ کرنا پڑتا ہو،تویہ بات بھی طےکرلینی چاہئے،کہ زیادہ کام وہ رضا کارانہ طورپر کرےگا؟یا اس کا کوئی معاوضہ اسےدیا جائےگا،اگرکوئی معاوضہ دیاجائےگاتووہ نفع کے فیصد حصے میں اضافہ کرکےدیاجائےگا، یاالگ سے متعین تنخواہ کی صورت میں؟غرض ہر فریق کے تمام امور وحقوق اتنے واضح ہوں کہ ان میں کوئی ابہام واشتباہ باقی نہ رہے۔

معاملات کی صفائی کو محبت، اتفاق اور غیرت کے خلاف سمجھنا دھوکا ہے

اگر بالفرض کسی کاروبار میں اب تک ان باتوں پر عمل نہ کیا گیاہو، تو جتنی جلدی ہوسکے ان امورکو واضح طور پر طے کرلیا جائے۔ اس میں کسی شرم،مروت اور طعن وتشنیع کو آڑےنہ آنے دیناچاہئے۔معاملات کےمتعلق اس صفائی اوروضاحت کومحبت، اخوت،احترام اور اتحاد واتفاق کے خلاف سمجھنا بہت بڑا دھوکہ ہے،ورنہ آگے چل کریہ محبت واتحاد عداوت میں تبدیل ہوسکتی ہے۔

والد کی بزنس میں شرکت کے متعلق اہم مسائل

آج کل دارالافتاؤں میں اس طرح کے مسائل کثرت سے آتے ہیں،خاص کر جب میراث کی تقسیم کا مرحلہ سامنے آتا ہے،تو اس وقت اس طرح کے تنازعات کثرت سے پیش آتے ہیں، چوں کہ میرا تعلق بھی دارالافتاءسے ہےاورفتوی کے کام سے منسلک ہوں، اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ شرعی نقطہ نظر سے ان مسائل کو تفصیل سے لکھ دوں،تاکہ ان مسائل سے آگاہ ہوکرہم سب اس پر عمل پیرا ہوسکیں۔چنانچہ اس سلسلے میں عرض یہ ہےکہ شریعت کا اصل حکم تو وہی ہےکہ کاروبار کےشروع ہی میں ہر ایک کی حیثیت کاتعین کرلینا چاہئےاور معاملہ ہر پہلو سےواضح کردیناچاہئے۔

کاروبار میں شریک اولاد باپ کی زیر کفالت ہو

تاہم اگر معاملہ کوابتدا میں ویسی ہی چھوڑ دیا تھا، کسی چیز کی وضاحت نہیں ہوتی تھی ،تو اس پس منظر میں پہلے مسئلہ یہ ہے کہ اگر والد نے اپنے سرمائےسےکاروبار شروع کیا،بعد میں اس کے لڑکوں میں سےبعض والد کی خواہش پرکاروبارمیں شریک ہوگئے،مگر انہوں نےالگ سے اپنا کوئی سرمایہ نہیں لگایا اور والدنے بھی ایسے لڑکوں کی کوئی حیثیت متعین نہ کی ہو،تو اگر یہ لڑکےوالد کے زیرِ کفالت ہوں ،تواس صورت میں لڑکےوالد کے معاون شمارکئےجائیں گے،اور ان کی طرف سے یہ عمل تبرع شمار کیاجائےگا۔ان کی حیثیت پارٹنریا ملازم کی نہیں ہوگی،ہمارے ہاں عرف بھی یہی ہےکہ اس طرح کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت شمار ہوتی ہےاور اولاد محض معاون ومددگارہوتے ہیں۔لہذا مذکورہ صورت میں کاروبارکی کل آمدنی باپ کی ملکیت ہوگی ،اور اس کے انتقال کےبعد معاونت کرنے والےلڑکوں کوالگ سے کچھ نہیں ملےگا،بلکہ دوسرےبیٹوں کے ساتھ ان کومیراث میں مساوی طورپرحصہ ملےگا۔(یعنی سب لڑکوں کو برابر حصہ ملےگا)

بزنس میں شریک بعض بیٹے زیرکفالت نہ ہوں

اگر بیٹےباپ کی کفالت میں نہ ہوں یعنی باپ ان کی جملہ ضروریات کے اخراجات برداشت نہ کرتاہو،توایسی صورت میں اگر متعین اجرت سے کام کرنا طے ہواہوتو لڑکےاسی اجرت کےحقدارہوں گے،تاہم اگر اس صورت میں اجرت طے نہ ہوئی ہ،وتو جہالت کی وجہ سے یہ اجارہ فاسدہ ہوگا،جس کاحکم یہ ہےکہ کل سرمایہ بمع نفع باپ کاہوگا اوربیٹے اجرت مثل کے مستحق ہوں گے،خیال رہےکہ ان دوصورتوں میں اولادکی حیثیت ملازم کی ہوگی ،اور اگر اجرت کے متعلق بالکل بھی وضاحت نہ ہوئی ہو توایسے میں بیٹوں کا یہ عمل تبرع اوراحسان کے زمر ے میں آئے گااور وہ اجرت کے حقدار نہیں ہوں گے،کیوں کہ اجرت کا استحقاق عقدِاجارہ سے ثابت ہوتا ہے،جبکہ یہاں کوئی عقد نہیں ہوا ہے،لہذا اس صورت میں بیٹوں کی حیثیت محض معاون اور متبرع کی ہوگی۔کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگی۔

علامہ شامی ؒلکھتے ہیں :

الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب۔ (رد المحتار، فصل فی الشرکة، مطلب: اجتمعا فی دار واحد واکتسبا ولا یعلم التفاوت،/۶/۴۹۷)

ہندیہ میں ہے:

أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدة ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرۃ تکون للأب۔ (الباب الرابع: فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال،/۲/۳۳۲، مکتبة دارالفکر)

اولاد نے مشترکہ کاروبار میں کچھ سرمایہ بھی لگایا ہو

اگریہی صورت ہو لیکن بیٹوں نے کاروبار میں شریک ہوتے وقت اپنا کچھ سرمایہ بھی والدکی اجازت سے کاروبارلگایاہو، تو اس صورت میں اگر شرکت کی غرض سےسرمایہ لگایا گیا ہو ،توبیٹوں کی حیثیت شریک اور پاٹنر کی ہوگی اور بیٹےاپنے سرمایہ کے تناسب سے کاروباراوراس کے منافع میں شریک ہوں گے۔ اگر سرمایہ قرض کہہ کر دیا ہے تو قرض شمار ہوگا۔البتہ اگر زبانی طور پرشرکت یا قرض وغیرہ کی کوئی صراحت نہیں ،مگر لڑکے کا مقصود سرمایہ لگانے سے والد کی اعانت اور اس کے ساتھ حسن سلوک ہے توپھریہ اس کی طرف سے تبرع ہے،کل کاروبار والد کاشمارہوگا۔

تاہم اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی بھی صورت نہیں ہے۔ یعنی نہ کوئی صراحت ہےاور نہ ہی مقصد اعانت ہے تو پھر حسب عرف فیصلہ کیا جائے۔

فإذا خلطا المالين على وجه لا يمكن تمييز أحدهما عن الآخر؛ فقد ثبتت الشركة في الملك؛ فينبني عليه شركة العقد. ( المبسوط /کتاب الشرکة ۱۵۲ / ۱۱ )
وفي رد المحتار : يقع كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية.
ثم رأيت التصريح به بعينه في فتاوى الحانوتي، فإذا كان سعيهم واحدا ولم يتميز ما حصله كل واحد منهم بعمله يكون ما جمعوه مشتركا بينهم بالسوية وإن اختلفوا في العمل والرأي كثرة وصوابا كما أفتى به في الخيرية۔(۶/۴۷۲/ کتاب الشرکة ، مطلب : فیما یقع کثیرا في الفلا حین )
وفي البدائع : وأما حكم القرض فهو ثبوت الملك للمستقرض في المقرض للحال، وثبوت مثله في ذمة المستقرض للمقرض للحال، وهذا جواب ظاهر الرواية. (فصل في حكم القرض:۷/۳۹۶)

بعض بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیار کیے اور بعض نے والد کا ہاتھ بٹایا

۲۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر ایک بھائی یا کچھ بھائیوں نے کاروبار میں والد کا ہاتھ بٹا دیا ہے ، جبکہ دوسرے دیگر بھائیوں نے کسب معاش کے دوسرے ذرائع اختیار کئے ہیں اور آپس میں ابھی تک تقسیم نہیں ہوئی ہے ،اس صورت میں اگر سب کا کھانا پینا ایک ساتھ ہواور تمام بھائی کمائی والد کے پاس جمع کرتے ہوں تو کل مال باپ کی ملکیت شمار ہوگا۔ والد کے انتقال کے بعد تمام لڑکے اس مال کے حق دار ہوں گے۔

( یہاں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر بیٹےباپ کے عیال میں ہیں اور آپس میں تقسیم نہیں ہوئی ہے، تو خواہ سب ایک ہی کاروبار میں مشغول ہوں یا مختلف قسم کے کاروبار میں مشغو ل ہوں ، یعنی ایک کا کاروبار دوسرے کے کاروبار سے مختلف ہو، مثلا :ایک سبزی کے کاروبار میں لگا ہو اور دوسرا مارکیٹ میں فرنیچر کے کاروبار میں مشغول ہو ، بہر صورت تمام مال کا مالک باپ ہوگا ، اسلئے کہ ہمارے عرف میں سب بھائیوں کو ایک مشترک فیملی کا فرد سمجھا جاتا ہے ، ان کو علیحدہ تصور نہیں کیا جاتا۔ رہیں فقہاء کرام ؒکی وہ عبارتیں جن میں لڑکے کےمعاون ہونے کےلئے اتحاد ِصنعت کی صراحت ہے ، تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ بظاہر اتحاد ِصنعت کی وضاحت فقہائے کرام نے اپنے زمانے کے عرف کے اعتبار سے کی ہیں ، لہذا وہ اپنے زمانے کے عرف پر مبنی ہیں۔

آج کل صورت حال یہ ہے کہ بعض اوقات اولاد کو دوسرے ذرائعِ معاش اختیار کرنے کا مشورہ باپ دیتا ہے ، اس سلسلے میں وہ اپنا مالی تعاون بھی کرتا ہے اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال بھی ، اس کے نفع و نقصان کی فکر بھی کرتا ہے ، اور سمجھتا ہے کہ میرے مختلف بیٹے مختلف ذرائع سے میرے معاون ہیں ، بلکہ بسا اوقات معاشی پریشانی کی وجہ سے باپ اپنے بعض لڑکوں کو دوسرے ملک بھیجتے ہیں ، اور اس کے لیے لمبا چوڑا خرچہ برداشت کرتا ہے ، اس کی ذمہ داری قبول کرلیتا ہے ، کھانا سب مشترک ہی رہتا ہے ، ایسی صورت میں لڑکوں کی دوسرے ممالک کی کمائی پوری باپ کی ملک ہوگی ، ایسے لڑکے باپ کے معاون شمار ہوں گے ، وہ اپنی کمائی کے تنہا مالک نہ ہوں گے ، البتہ اس صورت میں اگر کوئی لڑکا اپنا کھانا پینا الگ کردے اور باقاعدہ الگ ہونے کا والد سے اظہار کردے ،تو اس کے بعد وہ الگ شمار ہوگا اور اپنی کمائی کا وہ خود مالک ہوگا۔ لہذا آج کل کے عرف میں لڑکے کے معاون ہونے کے لیے اتحاد ِصنعت کی شرط قابل نظرہے۔)

الگ ذرائع معاش اختیارکرنے والوں کی کمائی کا حکم

اگر الگ ذرائع معاش اختیار کرنے والے بھائیوں کا رہنا سہنا اور کھانا پینا الگ ہو اور انہوں نے اپنا سرمایہ علاحدہ جمع کر رکھا ہو تو پھر وہ کمائی ان کی ذاتی ملکیت ہوگی، دوسرے بھائی اس میں شریک نہ ہوں گے۔

كما في رد المحتار : زوج بنيه الخمسة في داره و كلهم في عياله واختلفوا في المتاع فهو للأب، و للبنين الثياب التي عليهم لا غير . (فصل في الشركة الفاسدة:۴/۳۹۲ ).
وأيضا فيه : الأب وابنه يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء فالكسب كله للأب إن كان الابن في عياله لكونه معينا له ألا ترى لو غرس شجرة تكون للأب۔ (رد المحتار،فصل فی الشرکة، مطلب: اجتمعا فی دار واحد واکتسبا ولا یعلم التفاوت،/۶/۴۹۷)
وفي الهندية : أب وابن یکتسبان فی صنعة واحدۃ ولم یکن لھما شیئ فالکسب کلہ للأب إن کان الابن فی عیالہ لکونہ معینا لہ، ألا تری أنہ لو غرس شجرۃ تکون للأب۔ (الباب الرابع: فی شرکة الوجوہ وشرکة الأعمال،/۲/۳۳۲،مکتبة دارالفکر)
وفي درر الحکام : فإذا کان الأب مزارعا والابن صانع أحذية فکسب الأب من الزراعة والابن من صناعة الحذاء ، فکسب کل واحد منهما لنفسه و لیس للأب المداخلة في کسب ابنه لکونه في عياله۔ (۳/۴۴۵/مادۃ:۱۳۹۸)

کاروبار ختم ہونے کے بعد اولاد میں سے کسی نے اپنے سرمایہ سے دوبارہ کاروبار شروع کیا

اس سلسلے میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر کسی وجہ سے والد کا کاروبار ختم ہوگیا ، لیکن کاروبار کی جگہ خواہ مملوکہ ہو یا کرایہ پر حاصل کی گئی ہو ، موجود ہو ، اولاد میں سے کسی نے اپنا سرمایہ لگا کر اسی نام سے دوبارہ کاروبار شروع کیا ،اس صور ت میں جس لڑکےنے سرمایہ لگاکرکاروبارشروع کیاہے،یہ کاروبار اسی کی ملکیت شمار ہوگی ، والد اور دیگر بھائیوں کی ملکیت شمار نہیں ہو گی۔ البتہ وہ مملوکہ جگہ والد کی ہوگی۔ یا اگر دوکان کرایہ پر تھی اور اس سلسلے میں کچھ رقم پیشگی والد کو ادا کردیا تھا تو وہ رقم بھی والد کی ملکیت شمار ہوگی ، اور تمام بھائی والد کے بعد اس میں شریک ہوں گے۔

عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :"الخراج بالضمان"۔ (سنن أبی داؤد: باب فيمن اشترى عبدا فاستعمله/۵/۳۶۸)
وفي الدر المختار : لا يستحق الربح إلا بإحدى ثلاث: بمال، أو عمل، أو تقبل.( مطلب شركة الوجوه:۴/۳۲۴)
اعلم أن أسباب الملك ثلاثة: ناقل كبيع وهبة وخلافة كإرث وأصالة، وهو الاستيلاء حقيقة بوضع اليد أو حكما بالتهيئة كنصب الصيد لا لجفاف على المباح الخالي عن مالك ( الدر المختار :کتاب الصید:۶/۴۶۳)
وفي رد المحتار : وما اشتراه أحدهم لنفسه يكون له ويضمن حصة شركائه من ثمنه إذا دفعه من المال المشترك۔ (کتاب الشرکة:۴/۳۰۷)

ائمہ، خطباء اور علماء کرام سے گزارش

ائمہ، خطباء اور علماء کرام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں اور حلقوں میں معاملات کی صفائی کے سلسلے میں لوگوں کی ذہن سازی کریں۔ شرکت اور میراث کے متعلق جو شرعی احکام ہیں ان سے ان کو آگاہ کریں۔ خاص طور پر والدین اولاد اور بھائیوں کے درمیان کاروبار اور شرکت کے بنیادی مسائل سے واقف کرائیں۔



سانحہ جڑانوالہ اور انصاف کے تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

جڑانوالہ میں گزشتہ دنوں رونما ہونے والا سانحہ ان دنوں عوامی اور دینی حلقوں میں زیربحث ہے، اس کے بارے میں چند باتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے۔

جڑانوالہ ضلع فیصل آباد میں چند روز قبل یہ سانحہ ہوا ہے کہ قرآن مقدس کے اوراق پھاڑ کر ان پر توہین آمیز جملے لکھ کر باہر پھینکے گئے جنہیں دیکھ کر لوگوں میں اشتعال پیدا ہوا جو معاملات کو بروقت کنٹرول نہ کیے جانے کے باعث بڑھتے بڑھتے مسیحی آبادی کے بہت سے مکانات حتیٰ کہ عبادت گاہوں کے جلا دیے جانے تک جا پہنچا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا دھواں آناً‌ فاناً‌ ملک بھر میں پھیل گیا۔

دوستوں نے بتایا ہے کہ علاقہ کے بزرگ عالم دین مولانا مفتی محمد یونس رضوی نے، جن کا تعلق بریلوی مکتب فکر سے ہے، دیگر ساتھیوں کے ہمراہ اس کا بروقت نوٹس لیا اور موقع پر پہنچ کر حالات قابو کرنے کی سنجیدہ کوشش کی، ملزمان کی نشاندہی ہوئی، انہیں حراست میں لیا گیا اور پولیس سے رابطہ کر کے صورتحال کو سنبھالنے کی طرف توجہ دلائی گئی مگر انتظامیہ کے ذمہ دار افسران کی مبینہ بے پروائی کے باعث تین چار گھنٹے گومگو کے ماحول میں گزر گئے اور اتنی دیر میں اشتعال اپنا کام کر گیا جو دنیا بھر میں ملک و قوم کی بدنامی کا باعث بنا اور اس پر دنیا میں ہر سطح پر ردعمل کا مسلسل اظہار ہو رہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایک مسیحی خاندان کے جن دو لڑکوں کو توہینِ قرآن کریم کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ان کے والدین اور خاندان والوں کا کہنا ہے کہ اگر ان لڑکوں کا یہ جرم ثابت ہو جائے تو وہ ان کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انہیں جو سزا بھی دی جائے وہ اس کا ساتھ دیں گے مگر اس سے قبل پوری طرح تحقیق کر لی جائے، کیونکہ ان کے خیال میں یہ لڑکے مجرم نہیں ہیں اور انہیں کسی سازش کے تحت اس میں پھنسایا گا ہے جس کا واضح قرینہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے ان اوراق کے ساتھ ان لڑکوں کے فوٹو اور ان کے فون نمبر بھی پائے گئے ہیں جبکہ کوئی مجرم موقع واردات پر اپنی تصویر اور فون نمبر نہیں چھوڑا کرتا۔

بہرحال اتنی بات تو طے ہے کہ قرآن کریم کی توہین ہوئی ہے، جس نے بھی کی ہے اسے اس سنگین جرم کی قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ اگر منصفانہ تحقیقات کے نتیجے میں یہ جرم ان لڑکوں کا ہے تو وہ کسی نرمی کے مستحق نہیں ہیں اور انہیں قانون کے مطابق سزا دینا ضروری ہے ،لیکن اگر انہیں اس میں پھنسایا گیا ہے تو سازش کرنے والے بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں بلکہ پوری طرح سزا کے مستحق ہیں۔ البتہ یہ کام انتظامیہ اور عدلیہ کا ہے اور انہیں جلد از جلد اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایسی کسی کاروائی پر فوری اشتعال میں آنا اور سوچے سمجھے بغیر بہت کچھ کر گزرنا ہمارے معاشرتی مزاج کا حصہ بن گیا ہے اور ایسے متعدد واقعات ہمارے ہاں ہو چکے ہیں کہ فوری اشتعال کے تحت جذباتی ردعمل کا اظہار کیا گیا اور اس کے جانی و مالی نقصانات ملک و قوم کے ساتھ ساتھ دین کی بدنامی کا باعث بن گئے۔ جبکہ بعد میں یہ ثابت ہوا کہ محض سنی سنائی باتوں پر ایسا کیا گیا جبکہ حقائق اس کے برعکس ظاہر ہوئے۔ گوجرانوالہ میں کچھ عرصہ قبل ایک حافظ قرآن کو ایسے ہی الزام میں سڑک پر گھسیٹ کر انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا اور الزام بعد میں غلط ثابت ہوا۔

یہ طرز عمل قرآن کریم کے اس ارشاد کے بھی منافی ہے کہ ’’فتبینوا ان تصیبوا قوما بجہالة فتصبحوا علیٰ ما فعلتم نادمین‘‘ (الحجرات ۶) کوئی بھی ایسی خبر آنے پر تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ بے خبری میں تم کسی قوم پر حملہ کر دو اور بعد میں خبر غلط ثابت ہونے پر خود تمہیں ندامت کا سامنا کرنا پڑے۔ اس لیے ایسے کسی اشتعال میں مکانات اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنا اور قانون کو ہاتھ میں لینا بھی کوئی کم سنگین جرم نہیں ہے، اور یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اشتعال کا پیدا ہونا تو فطری بات ہے مگر اشتعال پیدا کرنا اور اس کے دائرے کو پھیلانا فطری نہیں بلکہ مصنوعی عمل ہے جو منصوبہ بندی کے بغیر نہیں ہوتا اور یہ بھی سنگین جرم ہے جس کا سخت نوٹس لیا جانا ضروری ہے۔

ہمارا مطالبہ ہے کہ سانحہ جڑانوالہ کی اعلیٰ سطحی عدالتی تحقیقات کرائی جائے اور توہین قرآن کریم کے سنگین جرم کے ساتھ ساتھ عبادت گاہوں اور مکانات کو نذر آتش کرنے کے جرم پر بھی مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۰)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا گیارہواں باب)



امکانِ کذب یا امکانِ نظیر؟

دین کے بنیادی عقائد کے دفاع کے حوالے سے گہری بے چینی نے مولانا احمد رضا خان کو مجبور کیا کہ وہ علماے دیوبند کی تکفیر کریں۔ یہ بے چینی اس وقت مزید وضاحت کے ساتھ سامنے آتی ہے، جب امکانِ کذب (خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) اور امکانِ نظیر (خدا کا نبی اکرم ﷺ کی طرح ایک اور نبی پیدا کرنے کے امکان) کے بارے میں شاہ محمد اسماعیل اور علماے دیوبند کے موقف پر خان صاحب کی عائد کردہ فرد جرم پر غور کیا جائے۔ ضروری پس منظر جاننے کے لیے تیسرے باب کو ذہن میں لائیے، جہاں شاہ محمد اسماعیل کا استدلال امکان اور وقوع کے درمیان امتیاز پر مبنی تھا۔

اگر چہ خدا استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہے، اور اسی طرح وہ استثنائی حادثات کو وقوع میں لاکر اپنی قدرتِ کاملہ کا استعمال کر سکتا ہے، لیکن وہ حقیقت میں ایسا نہیں کرتا۔ یہ وہ امکان ہے جو کبھی وقوع پذیر نہیں ہوگا ، اور شاہ اسماعیل کے نزدیک یہ توحید کی کسوٹی ہے۔ شاہ اسماعیل پر اس موقف کی وجہ سے ان کی زندگی اور بعد میں بھی تنقید ہوتی رہی، لیکن علماے دیوبند بالخصوص مولانا گنگوہی اور مولانا سہارن پوری ان کے دفاع میں پیش پیش رہے۔ یہ واضح رہے کہ انھوں نے اس امر کی وضاحت کی کوشش کی کہ کوئی بھی بشمول شاہ اسماعیل اور وہ بذات خود اس بات سے اختلاف نہیں کرتے کہ جو کوئی یہ کہے کہ خدا نے فی الواقع جھوٹ بولا ہے، وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک اور اختلاف ہے ہی نہیں۔ مولانا گنگوہی نے واضح کیا کہ جس نکتے کو شاہ اسماعیل کے مخالفین سمجھ نہیں پا رہے، وہ یہ ہے کہ ان کا سارا زور اس امر کے اثبات پر تھا کہ خدا استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہے، اس بات پر نہیں کہ خدا کی طرف جھوٹ جیسی صفت کی نسبت کی جا سکتی ہے۔ مولانا گنگوہی نے شاہ اسماعیل کے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگر چہ خدا نے بتایا ہے کہ وہ فرعون، ابولہب اور ہامان کو جہنم میں بھیجے گا، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ان کو جنت میں بھیجنے سے عاجز ہو چکا ہے1۔

مولانا سہارن پوری نے اس مسئلے پر دیوبندی موقف کو وسعت دی، اور بریلوی موقف سے اس کا تقابل پیش کیا۔ انھوں نے اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اشاعرہ اور معتزلہ کے درمیان اختلاف کا ذکر کیا۔اپنے بریلوی مخالفین کو غیر مستند ثابت کرنے کےلیے مولانا سہارن پوری نے بتایا کہ بریلوی جدید معتزلی ہیں۔ انھوں نے اپنے قارئین کو یاد دلایا کہ بریلوی خدا کے حق میں یہ ناممکن سمجھتے ہیں کہ اس کے پاس کسی نافرمان شخص کو سزا کے بدلے میں جزا دینے، یا ایک فرماں بردار بندے کو جزا کے بدلے میں سزا دینے کی قدرت نہیں۔ اسی طرح معتزلہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ خدا بالذات اور ضرور بالضرور عادل ہے، اور عدل اس پر واجب ہے۔ بالکل بریلوی جس طرح اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ خدا بالذات یہ قدرت نہیں رکھتا کہ اپنے وعدے سے پھر جائے، یا ایک اور محمد کو پیدا کرے۔ اس کے برعکس اشاعرہ نے، جو جمہور اہل سنت کے اعتقادی پیشوا ہیں، اس موقف کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے کہ خدا ایک ناپسندیدہ کام مثلاً‌ بے انصافی یا جھوٹ بولنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ان کی نظر میں خدا کے لیے اس امکان کے اثبات سے اس کی قدرتِ مطلقہ پر کوئی حرف نہیں آتا۔ مولانا سہارن پوری نے واضح کیا کہ دیوبندی اپنے پیش رو شاہ اسماعیل کی طرح صرف جمہور اشاعرہ کے مذہب پر ہیں اور بس۔

لیکن مولانا احمد رضا خان کے نزدیک دیوبندی ان وضاحتوں کی آڑ میں ایک خطرناک استدلالی ایجنڈے کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے، جس کا مقصد اخلاقی اور اعتقادی فساد برپا کرنا تھا۔ ایک بار پھر ان کا استدلال اس نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ دیوبندیوں نے تصور کے دائرے کو خطرناک حد تک توسیع دی ہے۔ اگر کوئی یہ سوچنا شروع کرے کہ خدا کے لیے جھوٹ بولنا ممکن ہے تو اس کی کسی بات یا وعدے کا اعتبار کرنا ضروری نہیں رہے گا۔ ان کے اپنے الفاظ میں: "جب خدا کا جھوٹ بولنا ممکن ہوا تو اس کا سچا ہونا ضروری نہ رہا"۔ اس کے نتیجے میں دین کا سارا نظام الٹ پلٹ ہو جائے گا۔ آخرت میں ثواب وعذاب، بعث بعد الموت، جنت وجہنم: یہ تمام خدائی وعدے اور دعوے ناقابل تردید یا قطعی عقائد نہ رہیں گے۔ اس کے نتیجے میں اسلامی عقائد کی بلند وبالا عمارت زمین بوس ہو جائے گی۔ 

طنز پر توہین کا تڑکا لگاتے ہوئے خان صاحب نے واضح کیا کہ اگر خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان کوئی مسئلہ نہ رہے، تو پھر خدا کی طرف کسی قسم کی نفرت انگیز، توہین آمیز یا سوقیانہ صفت کی نسبت سے لوگوں کو نہیں روکا جا سکتا۔ پھر خدا کے لیے ممکن ہے: "وہ زنا کرے، شراب پیے، چوری کرے، بتوں کو پوجے، پیشاب کرے، پاخانہ بھرے، اپنے آپ کو آگ میں جلائے، دریا میں ڈبوئے، جوتیاں کھائے"2۔

خان صاحب نے بتایا کہ جھوٹ بولنا ایک ایسا شنیع فعل ہے کہ جس میں معمولی سی بھی عزتِ نفس ہو، وہ اس سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔جس زبان میں خان صاحب نے ان جذبات کا اظہار کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے معاشرے کو کیسا خیال کرتے تھے۔ 'نیچ ذات' چمار کا غیر مہذب کردار ایک بار پھر ان کی بحث میں نمودار ہوتا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں: "ہر بھنگی چمار بھی اپنی طرف جھوٹ کی نسبت سے عار رکھتا ہے"3۔ تو ایک مسلمان یہ تصور بھی کیسے کر سکتا ہے کہ ناپاکی کے اس منبع کو، بداخلاقی کی اس علامت کو خدا کی طرف منسوب کرے؟ خان صاحب نے اپنے مخالفین کو ناقابل اعتبار ثابت کرنے کے لیے ایک بار پھر چودھویں صدی کے شش جہت فارسی عالم علامہ سعد الدین التفتازانی کی کتاب شرح المقاصد کا حوالہ دیا: "اس بات پر علما کا اتفاق ہے کہ خدا کا جھوٹ بولنا محال ہے، کیوں کہ جھوٹ بولنا تمام عقلاء کے نزدیک عیب ہے، اور خدا کی ذات میں عیب ہونا محال ہے" (الكذب محال بإجماع العلماء لأن الكذب نقص باتفاق العقلاء، وهو على الله تعالى محال)4۔ خان صاحب کے نزدیک شاہ اسماعیل اور دیوبندیوں کے مواقف کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ وہ چند فلسفیانہ موشگافیوں کی خاطر اسلام کے بنیادی عقائد کی شدید گستاخی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ 

رسول اللہ ﷺ کے علمِ غیب کے معاملے میں بھی خان صاحب کا احساس یہی ہے کہ دیوبندیوں کے استدلالی قیاسات اور اعتقادی مباحثات توہین رسالت پر منتج ہوتے ہیں۔ لیکن اکابرِ دیوبند کے نزدیک انھوں نے جو استدلالی خطرے مول لیے ہیں، وہ ان فوائد کے حصول کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، جو اخلاقی بحران اور انتشار کے اس دور میں توحید کے تحفظ سے حاصل ہوں گے۔

علم، معلومات اور مذہب کی حدود: مولانا محمد منظور نعمانی کا جواب

 یہ توقع بجا طور پر کی جا سکتی ہے کہ مسلکِ دیوبند کے بانیوں پر خان صاحب کے فتواے تکفیر کو ضرور چیلنج کیا گیا ہوگا۔ حسام الحرمین کی اشاعت سے دیوبندی اور بریلوی دونوں مسالک کے علما کی طرف سے تردیدات اور جوابی تردیدات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اوشا سانیال نے بجا کہا ہے کہ "فتووں کی ایک جنگ چھڑ گئی"5۔ اس مناظرے کے دوسرے ادوار کی طرح یہ واقعات بھی لاینحل متحارب بیانیوں میں الجھے رہے۔ بریلوی بیانیے کے مطابق عرب علما کی طرف سے حسام الحرمین کی تائیدات نے علماے دیوبند کو اس قدر سراسیمہ کیا کہ مولانا خلیل احمد سہارن پوری، جو اس وقت مکہ مکرمہ میں تھے، ہندوستان واپس بھاگنے پر مجبور ہو گئے۔ دوسری طرف دیوبندی بیانیے کی رو سے خان نے صریح جھوٹ اور غلط بیانی کی بنیاد پر بزعم خویش جو فتح حاصل کی، وہ زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکی۔ علماے حجاز نے ابتداءً ان کے فتوے کی تائید اس لیے کی تھی کہ ان کے ہاں اپنے ایک معاصر عالم کی علمی دیانت اور اخلاص پر اعتماد کرنے کی روایت تھی۔ لیکن جب انھیں علماے دیوبند کے عقائد کے بارے میں مستند ذرائع سے پتا چلا تو ان میں سے اکثر نے اپنی تائیدات سے رجوع کر لیا ۔ انھوں نے مولانا احمد رضا خان پر بھی اس لحاظ سے تنقید کی کہ اس نے انھیں گمراہ کیا تھا۔ اس رجوع میں بنیادی کردار مولانا سہارن پوری نے ادا کیا۔ انھوں نے نومبر 1907 میں المهنَّد علی الـمُفنَّد کے نام سے عربی میں ایک کتاب لکھی6۔ اس کتاب میں مولانا سہارن پوری نے ان چھبیس سوالات/اشکالات کا جواب دیا، جو علماے حجاز نے مسلک دیوبند اور ان کے عقائد کے متعلق اٹھائے تھے۔ ان سوالات کا سارا زور دیوبندی فکر میں نبی اکرم ﷺ کے علم اور مقام پر ، اور  امکانِ کذب اور امکانِ نظیر جیسے اعتقادی مسائل پر تھا۔ اس کے ساتھ حسام الحرمین میں مولانا احمد رضا خان نے علماے دیوبند کی جو متنازعہ عبارات پیش کی تھیں، ان کے بارے میں بھی متعدد اشکالات تھے7۔ یہاں اس تاریخی سوال کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہ اصل میں اس پورے واقعے میں ہوا کیا تھا، اور کس فریق نے علماے حجاز کو رام کرنے میں کام یابی حاصل کی، میں دیوبندی اور بریلوی نظریات کی تشکیل کرنے والے متحارب شرعی تصورات کا ذکر کروں گا۔ میں اس مناظرے میں اہم علمی وفکری اضافہ جات کرنے والے بیسویں صدی کے دیوبندی عالم مولانا محمد منظور نعمانی کی فکر کو زیرِ بحث لا کر ایسا کروں گا۔

حسام الحرمین کی اشاعت کی چند دہائیوں کے بعد خان صاحب کے فتواے تکفیر کے خلاف مولانا نعمانی علماے دیوبند کے دفاع میں شمشیر براں بن کر سامنے آئے۔ مولانا نعمانی اصلاً علوم حدیث کے ماہر تھے، اور مابعد استعماری ہندوستان کے علما میں ایک بے حد اثر ورسوخ رکھنے والے دیوبندی عالم تھے۔ اصلاً وہ بریلی کے تھے، لیکن انھوں نے اپنی بیش تر زندگی لکھنو میں گزاری، جہاں انھوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں ایک ممتاز استاذِ حدیث کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ اس ادارے  سے انھوں اپنی پوری علمی زندگی میں قریبی تعلقات استوار رکھے۔ ان کی مشہور ترین کتابوں میں چار جلدوں پر مشتمل معارف الحدیث اور اسلام کے حوالے سے ایک تعارفی کتاب: 'اسلام کیا ہے؟' شامل ہیں۔ یہ دونوں کتابیں انگریزی میں ترجمہ ہو چکی ہیں، اور دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر شائع  ہیں۔

مولانا نعمانی نے فن مناظرہ میں بھی کمال حاصل کیا تھا۔ 1934 میں حسام الحرمین کی اشاعت کے اٹھائیس سال بعد انھوں نے 'فیصلہ کن مناظرہ' کے نام سے اس کی ایک تردید لکھی8۔ مولانا نعمانی کے مطابق انھوں نے یہ کتاب اسی سال لاہور میں بریلوی مسلک کے نمائندوں کے خلاف زبانی مناظرے کے لیے تیار کی تھی جس میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کو ثالثی کے فرائض سرانجام دینے تھے۔

جس وقت یہ مناظرہ ہونے جا رہا تھا، اس وقت لوگ سمجھ رہے تھے کہ اس سے یہ مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ "لیکن افسوس بریلوی علما مناظرے میں آنے سے باز رہے"! اس کے بعد مولانا نعمانی نے ارادہ کیا کہ اس مناظرے کے لیے انھوں نے جو یاد داشتیں مرتب کی تھیں، انھیں 'فیصلہ کن مناظرہ' کے نام سے کتابی شکل میں چھاپ دیں۔ تاہم مولانا نعمانی کی تردید میں میری دل چسپی کی وجہ وہ دل چسپ حالات نہیں، جن میں یہ سامنے آئی۔  بلکہ دیوبندی بریلوی مناقشے میں ان کا کردار اس بابت رہنما ہے کہ انھوں نے علم اور توحید کے درمیان تعلق کو کس طرح جوڑا، اور اس کے ساتھ جدیدیت میں مذہب اور غیر مذہب کی حدود کے بارے میں بڑے اہم سوالات کو زیر بحث لایا ہے۔ میں مولانا نعمانی کی فکر کے ایک معتد بہ حصے سے استفادہ کرکے ذیل کی بحث میں بتاؤں گا کہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب پر مناقشے میں جو بنیادی مسئلہ زیر بحث تھا، وہ علم کی تعریف تھا۔ نتیجتاً علم کی تعریف مذہب کی حدود کی تحدید سے کوئی الگ عمل نہیں تھا۔ اس مناظرے کی تہہ میں یہ اہم سوال بھی زیر غور تھا کہ کون سی چیز مذہب ہے اور کون سی نہیں۔ ذیل میں، میں حسام الحرمین پر مولانا نعمانی کی تنقید کے ایک دقیق مطالعے سے اس استدلال کو آگے بڑھاؤں گا۔

مولانا منظور نعمانی نے مولانا احمد رضا خان پر الزام لگایا کہ وہ مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی کی بات کو اردو سے نابلد علماے عرب کے سامنے غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں: "ایسا دکھائی دیتا ہے کہ حسام الحرمین لکھتے وقت مولانا احمد رضا خان نے قسم کھائی تھی کہ وہ سچ بولنے یا دیانت کا مظاہرہ کرنے سے باز رہیں گے" (184)۔ مولانا نعمانی نے بتایا کہ مولانا سہارن پوری اور مولانا تھانوی پر کفر کا فتوی لگاتے وقت خان نے دانستہ یا نادانستہ ان کی عبارات کے سیاق وسباق کو درخورِ اعتنا نہ سمجھا۔ مولانا نعمانی نے واضح کیا کہ مثلاًمولانا تھانوی کی عبارت (جو اس باب میں پہلے گزر چکی) اس سوال کا جواب تھا: "کیا رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہنا جائز ہے"؟ مولانا تھانوی کو اس سوال سے کوئی غرض نہیں تھی کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس علمِ غیب ہے یا نہیں۔

مولانا تھانوی کا بنیادی مقصد یہ بتانا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کی صفت سے متصف کرنا جائز نہیں ہے (184)۔ ان دونوں سوالات میں کہ کیا رسول اللہ ﷺ کے پاس علم غیب ہے؟ اور کیا ان کو عالم الغیب کہا جا سکتا ہے؟ زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس نکتے کی وضاحت کے لیے مولانا نعمانی نے ایک فلسفیانہ اصول وضع کیا اور وہ یہ تھا کہ کسی صفت کا واقع میں کسی ذات کے لیے ثابت ہونا اس کو مستلزم نہیں کہ اس کا اطلاق بھی اس پر جائز ہو۔ مثال کے طور پر انھوں نے وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح کیا ہے کہ وہ تمام مخلوق کا خالق ہے۔ مزید برآں تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ بھی ہے، چھوٹا یا بڑا، معمولی یا غیر معمولی، سب خدا کی پیدا کردہ ہیں۔ تاہم اس کے باوجود خدا کو بندروں اور خنزیروں کا خالق کہنا جائز نہیں۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ اس قدر خود کفیل تھے کہ وہ اپنے جوتے تک خود سیتے تھے، اور اپنی بکریاں تک خود دوہتے تھے۔ اس کے باوجود یہ انتہائی نامناسب ہوگا کہ انھیں 'خاصف النعل' (موچی) یا 'حالب الشاۃ' (بکریاں دوہنے والا) سے پکارا جائے۔

جیسا کہ مولانا نعمانی اپنے مخاطبین سے تقاضا کرتے ہیں: "میں قارئین کو جو بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس علم غیب ہونا یا نہ ہونا الگ بحث ہے، اور آپ کی ذاتِ مقدسہ پر عالم الغیب کے اطلاق کا جواز اور عدم جواز ایک الگ مسئلہ ہے۔ ان دونوں میں باہم تلازم بھی نہیں" (185)۔ مولانا نعمانی کے مطابق مولانا تھانوی 'حفظ الایمان' میں بس یہی بتانا چاہ رہے تھے کہ 'عالم الغیب' کا اطلاق رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ مقدسہ پر نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ عالم الغیب کا لقب صرف اسے دیا جا سکتا ہے جو علم غیب کا حصول کسی واسطے کی مدد کے بغیر کرے۔ خدا کے سوا ایسی ہستی اور کوئی نہیں۔ اس لیے عالم الغیب کے لقب کا اطلاق خدا کے علاوہ اور کسی ہستی پر بشمول نبی اکرم ﷺ کے نہیں ہو سکتا، مولانا نعمانی نے واضح کیا (185)۔

مولانا نعمانی نے تفصیل سے بیان کیا کہ مولانا تھانوی کی فکر کا خلاصہ کچھ یوں ہے: اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہتا ہے، تو اس کے صحیح ہونے کی دو صورتیں ہیں: یا تو انھوں نے علمِ غیب کلی تک رسائی حاصل کی ہوگی یا بعض علمِ غیب تک۔ پہلی صورت تو درست نہیں ہو سکتی کیوں کہ علمِ غیب کلی صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے۔ دوسری صورت بھی درست نہیں، کیوں کہ بہت سی پست مخلوقات جیسے جانوروں، چوپایوں اور پاگلوں کو بھی علم کی ایسی کچھ اقسام عطا کی گئی ہیں، جو دوسروں کے پاس نہیں۔ اس لیے اگر کوئی اس اصول کو مان لے کہ علم غیب کے کچھ حصے تک رسائی کسی شخص کو عالم الغیب بناتا ہے، پھر تو  ساری دنیا کو اس لقب سے نوازا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مولانا نعمانی نے خان صاحب کے احتجاجی طرز استدلال کو الٹتے ہوئے ایک پر تجسس استفسار کیا: ایک ایسا لقب جس کا اطلاق دنیا کی ہر چیز پر ہو سکتا ہو، کس طرح رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو بڑھا سکتا ہے؟ اس کے برعکس ساری دنیا پر قابل اطلاق یہ لقب رسول اللہ کے مقام ومرتبے کی تنقیص کرتا ہے (185 – 188)۔ مولانا نعمانی نے مولانا تھانوی کے موقف کے دفاع میں ایک اور دلچسپ قیاس پیش کیا:

تصور کریں کہ ایک ملک ہے کہ جس کا بادشاہ انسانی ہمدردی کے لیے مشہور ہے۔ وہ ہزاروں فقرا کو دن رات کھانا کھلاتا ہے۔ پھر ایک احمق شخص مثلاً زید یہ اعلان کرے کہ وہ اس بادشاہ کو رازق کہے گا۔ اسی لمحے ایک دوسرا شخص مثلاً‌ عمرو زید سے یہ سوال پوچھے: جب تم اس بادشاہ کو رازق کہتے ہو، تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمام انسانوں کو کھانا کھلاتا کرتا ہے، یا اس وجہ سے کہ وہ کچھ انسانوں کو کھلاتا ہے؟ پہلا مفروضہ تو قطعاً غلط ہے، اس لیے کہ یہ معلوم ہے کہ بادشاہ تمام انسانوں کو کھانا نہیں کھلا رہا۔ اور اگر بادشاہ کو اس بنیاد پر رازق قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ صرف چند لوگوں کو کھانا کھلاتا ہے، تو اس میں بادشاہ کی کیا خصوصیت ہے۔ کسی ملک کے مزدور بھی اپنے بچوں کو کھانا کھلاتے ہیں۔ انسانوں کو جانے دیں، پرندے بھی اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی شخص آپ کی دلیل کو مانیں، تو اسے چاہیے کہ ہر مزدور اور پرندے کو رازق قرار دے (196)۔

مولانا نعمانی نے زور دے کر کہا کہ مذکورہ بالا قیاس میں جو اہم ترین نکتہ ہے، وہ یہ ہے کہ یہاں پر عمرو کے بیان کو یہ معنی نہیں پہنائے جا سکتے کہ وہ شریف النفس بادشاہ اور ہر مزدور یا پرندے کو مقام ومرتبے یا انسانی ہمدردی کے اعتبار سے برابر نہیں قرار دے رہا۔ مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کو عالم الغیب کہنے کی تردید کی، اس کی توجیہ بعینہ یہی ہے۔ ان کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا موازنہ چوپایوں، پاگلوں اور جانوروں سے کریں، چہ جائیکہ انھیں ان کے برابر قرار دیں۔ 

مولانا تھانوی کے استدلال میں کار فرما بنیادی اصول کا خلاصہ مولانا نعمانی نے کچھ یوں کیا: (1) علم غیب کلی صرف خدا کے پاس ہے اور (2) رسول اللہ ﷺ کے پاس جو علم غیب جزئی ہے، اس میں کوئی خصوصیت نہیں۔یہ کہنا کہ مولانا تھانوی نے چوپایوں اور پاگلوں کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ علم والا قرار دیا ہے، محض مولانا احمد رضا خان کے ذہن کی کارستانی ہے۔ مولانا نعمانی اس پر ہنس کر کہتے ہیں: "مولانا تھانوی کی صاف اور بے غبار عبارت کی جو سنسنی خیز تشریح خان صاحب نے کی ہے، اگر شیطان بھی اسے سن لے، تو وہ کفر سے پناہ مانگنے کے لیے دوڑے" (188)۔

وکیلِ استغاثہ کی طرح جج کے سامنے عائد کردہ فرد جرم کے حق میں شہادتیں لہراتے ہوئے مولانا نعمانی نے مولانا احمد رضا خان کی اپنی تحریروں سے متعدد مثالیں پیش کیں، جن میں انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے علاوہ دیگر شخصیات کے لیے علم غیب کا اثبات کیا ہے۔ مثلاً‌ اپنے ملفوظات کے ایک مجموعے میں خان صاحب نے اپنے والد کی ایک پیش گوئی کے ذیل میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بعض علوم غیبیہ سے نوازا تھا (193)۔ بلکہ خان صاحب بتاتے ہیں کہ تمام کائنات کی ہر چیز حتیٰ کہ درختوں کے پتے اور ریگستانوں کے ذرے بھی توحید ورسالت پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ وہ خدا کی تسبیح کرتے ہیں، اور رسول اللہ ﷺ کی نبوت ورسالت کی شہادت دیتے ہیں9۔

خان صاحب کے ان بیانات کی روشنی میں علم غیب کے متعلق ان کے اور مولانا تھانوی کے موقف میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ جہاں علم غیب کلی صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے، علم غیب جزئی تمام انسانوں بلکہ غیر انسانوں کو بھی حاصل ہے۔ مولانا نعمانی نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ خان صاحب مولانا تھانوی کے خلاف جو شدید اختلاف برپا کیے ہوئے ہیں، حقیقت میں وہ موجود ہی نہیں۔  

علم اور مذہب کی تعریف: مولانا سہارن پوری کا دفاع

مولانا نعمانی نے خان صاحب پر یہ الزام لگایا کہ وہ دانستہ مولانا سہارن پوری کی عبارت کو سیاق وسباق سے کاٹ رہے ہیں، تاکہ اسے گستاخانہ ثابت کر سکیں۔ انھوں نے بتایا کہ خان صاحب اپنے اس تجزیے میں سراسر غلطی پر ہیں کہ مولانا سہارن پوری نے شیطان کو حضور اکرم ﷺ سے زیادہ علم والا کہا ہے۔ مولانا نعمانی نے وضاحت کی کہ اصلاً مولانا سہارن پوری، مولوی عبد السمع کے اس قیاس کی تردید کر رہے ہیں کہ جب شیطان کے پاس روے زمین کا کافی علم ہے، تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے پاس اتنا علم نہ ہو10۔ مولانا نعمانی نے اس بات پر زور دیا کہ مولانا سہارن پوری اس قیاس کی اصلیت سے پردہ اٹھانا چاہ رہے تھے۔ انھوں نے واضح کیا کہ صرف اس بنیاد پر کہ رسول اللہ ﷺ کا رتبہ شیطان سے برتر ہے، یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا علم بھی لازمی طور پر دوسروں سے زیادہ ہو۔ نعمانی نے بتایا کہ یہاں پر مولانا سہارن پوری کی فکر میں زیر بحث جو علم تھا، اس سے مراد علمِ کلی یا اخروی نجات اور کمالاتِ انسانی سے متعلق علم نہ تھا۔ بلکہ مولانا سہارن پوری صرف اس دنیوی علم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، جس کا مذہب یا اخروی نجات سے کوئی تعلق نہیں (151)۔

اس نکتے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے مولانا نعمانی نے علم اور معلومات کے درمیان ایک اہم فرق قائم کیا۔ انھوں نے بتایا کہ علم کی تعریف یہ ہے جو بندے کو اخروی نجات اور خدا سے قریب کرتا ہے۔ علم کا براہ راست تعلق دینی معاملات سے ہے۔ اس کے برعکس معلومات کا اخروی نجات سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ بعض صورتوں میں تو وہ لوگوں کی اخروی نجات کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں۔ مولانا نعمانی نے زور دے کر بتایا کہ سب سے اہم بات یہ ہے جب ایک شخص کو دوسرے کے مقابلے میں بڑا عالم کہا جاتا ہے، تو یہ صرف اس بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس کو دینی یا اخروی اعتبار سے مفید علم میں برتری حاصل ہے۔  

علم کی دیگر تمام اقسام کا حصول، جن کا تعلق دین سے نہیں، کسی شخص کو اعلم (دوسروں سے زیادہ علم والا) نہیں بناتا۔  یہی وجہ ہے کہ اگر معمولی اور ثانوی درجے کی چیزوں سے متعلق ایک ناخواندہ شخص کی معلومات مثلاً‌ رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ہوں، تو اسے اس بنیاد پر رسول اللہ ﷺ سے زیادہ علم والا قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مولانا نعمانی نے علم اور معلومات کے درمیان فرق کی وضاحت کے لیے کئی موازنے کیے، جو اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ علم اور مذہب کی حدود کے حوالے سے ان کا تصور کیا تھا۔

انھوں نے لکھا:

مثلاً آج کی مادی ایجادات اور صنعتی اختراعات کے متعلق جو معلومات یورپ کے ایک ملحد کو حاصل ہیں، یقیناً وہ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام مالک کو حاصل نہ تھے۔ گرامو فون بنانے کا علم جو اس کے غیر مسلم موجد کو تھا، وہ یقیناً حضرت غوثِ پاک کو نہ تھا۔ لیکن کون احمق ہے جو ان مادی اور دنیوی علوم کی وجہ سے یورپ کے ان ملحدین کو حضرت امام ابوحنیفہ، امام مالک اور شیخ عبد القادر جیلانی سے اعلم (زیادہ علم والا) کہنے کی جرات کرے۔ سینما اور تھیٹر کے متعلق جو معلومات ایک فاسق وفاجر بلکہ ایک کافر ومشرک تماش بین کو ہیں، وہ یقیناً ایک بڑے متقی عالم کو نہیں۔ تو کیا کوئی تاریک دماغ ہر تماش بین کو اس عالم سے اعلم کہہ سکتا ہے (185)۔

درج بالا اقتباس مولانا نعمانی کے سماجی تصور کے بارے میں اہم سراغوں کا پتا دیتا ہے۔ مولانا نعمانی نے سینما کے فاسق وفاجر تماش بینوں کی جو مثال پیش کی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے اخلاقی نظام سے غیر مطمئن تھے۔ ان کی نظر میں ہندوستانی مسلمان حقیر اور نقصان دہ 'غیر دینی' سرگرمیوں میں اس قدر منہمک ہو گئے ہیں کہ اسلام اور اس کے علمی ورثے سے ان کا تعلق ختم ہو گیا ہے۔ مولانا نعمانی کی فکر میں دینی اور غیر دینی دنیاؤں میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔ دینی دنیا میں دینی لوگ مثلاً نامور علماے دین بستے ہیں۔ غیر دینی دنیا جدید پیش رفتوں جیسے یورپی ایجادات، غیر اسلامی زبانوں جیسے انگریزی اور سنسکرت کے علم اور عوامی تھیٹر اور سینماؤں کی کثرت سے آلودہ ہے۔ مولانا نعمانی کے سماجی تصور میں علم اور معلومات کے درمیان فرق فکر وعمل اور عوامی زندگی کے دینی اور اخروی دائروں کے ساتھ متعلق ہے۔ 

سب سے اہم بات یہ کہ دینی اور غیر دینی دنیاؤں کے درمیان مولانا نعمانی کے قائم کردہ فرق کا گہرا تعلق ان کے اس استدلال سے تھا کہ خارجی دنیا کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے علم کی کمی ان کے مقام ومرتبے کو گھٹاتا نہیں۔ انسانِ کامل کی حیثیت سے آپ ﷺ کے مقام ومرتبے کا دار مدار دینی واخروی علوم کی وسعت پر ہے۔ نبی اکرم ﷺ کے مقام ومرتبے کا انحصار ان غیر دینی علوم پر بالکل بھی نہیں، جن میں قابل اعتراض اخلاقی کردار کے حامل لوگ دل چسپی لیتے ہیں۔

مولانا نعمانی کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کا امتیازی مقام اس علم پر منحصر ہے، جس کا تعلق انسانی اور دینی کمالات سے ہے۔ اس لیے کسی مخصوص دنیوی معاملے کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی ناواقفیت ان کی کامل شخصیت اور رتبے کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ مولانا نعمانی نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی سیرت سے زیادہ بہتر اس بات کی وضاحت کسی اور چیز سے نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ ﷺ نے مومنوں کو واشگاف انداز میں بتایا: "تم اپنی دنیا کے امور (مجھ سے) بہتر جانتے ہوں" (أنتم أعلم بأمور دنياكم

علاوہ ازیں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں انھیں اپنے آس پاس کئی واقعات کے بارے میں علم نہیں ہوتا تھا۔ مثلاً مدینہ میں آپ نے کئی منافقین کو غلط فہمی سے اہل ایمان سمجھ لیا۔ صرف وحی کے ذریعے آپ کو ان منافقین کے اصلی کرتوتوں کا علم ہوا (40)11۔ اسی طرح مولانا نعمانی نے قرآن کریم کی اس آیت سے استدلال کیا: "اور ہم نے انھیں (نبی اکرم ﷺ) کو شاعری نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کے لیے مناسب ہے"12۔ مولانا نعمانی نے بتایا کہ اس آیت سے یہ واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو شاعری کا علم حاصل نہیں تھا، باوجود یکہ بہت سے 'فاسقوں' اور کافروں کو فن شاعری میں کمال حاصل تھا۔ لیکن صرف فن شعر میں مہارت کی وجہ سے وہ اعلم نہیں قرار دیے جا سکتے۔ اس سے ان کی معلومات میں ایک حقیر سا اضافہ ہوا۔ مولانا نعمانی کے الفاظ میں: "امرؤ القیس (جاہلی شاعر، م 575) بدترین کافر تھا، اور ساتھ ہی اعلیٰ درجہ کا شاعر بھی تھا۔ فردوسی (م 1020) فاسد العقیدہ شیعہ تھا، اور فارسی کا بہترین شاعر بھی۔ پس جب کہ فاسقوں اور کافروں تک کو یہ فن حاصل ہے، تو رسولِ خدا ﷺ کو، جو افضل المرسلین سید الاولین والآخرین ہیں، ضرور حاصل ہوگا۔ بلکہ اگر شاعری کا علم کسی طرح بھی مقام ومرتبے اور دینی برتری کی علامت ہوتی، تو پھر تو ہر نیک مسلمان کو امرؤ القیس اور فردوسی سے بہتر شاعر ہونا چاہیے (153)۔

دینی علم اور غیر دینی معلومات کے درمیان یہ تفریق اس حوالے سے بھی اہم تھا کہ اس کے ذریعے مولانا نعمانی نے مولانا سہارن پوری کے اس اعتراض کا جواب دیا کہ وہ شیطان کو رسول اللہ ﷺ سے اعلم سمجھتے ہیں۔ مولانا نعمانی نے دعوی کیا کہ مولانا سہارن پوری کا استدلال اس اعتراض کے بالکل الٹ ہے۔ مولانا نعمانی کے نزدیک سہارن پوری نے اصل میں یہ بتایا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے برتر دینی علم اور شیطان کے غیر دینی اور دنیوی معلومات کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے۔

جیسا کہ مولانا نعمانی نے واضح کیا ہے:

درحقیقت خدا نے شیطان کو ہر قسم کی وہ معلومات عطا کی ہیں، جن سے وہ انسانوں کو گمراہ کر سکے، اور اس کا مقصد انسانوں کے ایمان کا امتحان ہے۔ مثلاً‌ شیطان کو انسانی خواہشات اور مزاج کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے تاکہ وہ انھیں دھوکا دے سکے۔ اسے علم ہونا چاہیے کہ فلاں فلاں مقام پر بے حیائی اور ناچ گانے کی محفل منعقد ہو رہی ہے، تاکہ وہ بھولے بھالے لوگوں وہاں جانے کے لیے بھٹکائے، اور فسق وفجور میں شرکت کرے۔ شیطان کو معمولی دنیوی معاملات کے بارے میں وسیع معلومات کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے شیطانی مقاصد کی تکمیل کر سکے۔ لیکن انبیا اور اللہ تعالیٰ کی دیگر مقرب ہستیوں کو ان معمولی اور فحش معمولات سے کوئی سروکار نہیں۔ ان کا کام گمراہی نہیں بلکہ ہدایت اور دینی رہ نمائی ہے۔ اس لیے خدا نے اس مقصد کے لیے انھیں وسیع اور لامحدود علم عطا کیا ہے (159)۔

یہاں پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مولانا نعمانی نے مولانا سہارن پوری کے دفاع کے لیے دینی علم اور غیردینی معلومات کے درمیان ایک واضح فرق وضع کیا ہے۔ مولانا نعمانی کے نزدیک جب مولانا سہارن پوری یہ کہتے ہیں کہ شیطان کے خارجی دنیا کا علم نبی اکرم ﷺ سے زیادہ ہے، تو اس سے مراد غیر اخروی اور دنیوی معلومات ہوتی ہیں، جن کے ساتھ اہل دین کا کوئی سروکار نہیں۔ بلکہ اہل دین خاص طور پر انبیاء اس قسم کی معلومات اور ان معلومات کے حاملین سے دور رہتے ہیں۔ اس لیے خان کے اعتراض کے برعکس کہ مولانا سہارن پوری نے شیطان کو رسول اللہ ﷺ سے اعلم کہہ کر آپ ﷺ کی گستاخی کی ہے، مولانا سہارن پوری نے شیطان کی غیر مذہبی معلومات پر رسول اللہ ﷺ کے دینی واخروی علم کی قطعی برتری کا اثبات کیا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ کہ مولانا نعمانی کا استدلال اس دعوے پر مبنی ہے کہ ان معاملات کے متعلق رسول اللہ ﷺ کا علم جو اخروی نجات اور کمالات انسانی کے فروغ کے لیے نہ ہو، ایک غیر نبی، ایک کافر اور حتی کے شیطان سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ تاہم دنیوی معاملات اور حوادث میں رسول اللہ ﷺ کے علم کی  کمی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ سب سے بڑے عالم نہیں ہیں۔ مولانا نعمانی نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا: مولانا سہارن پوری پر الزام لگانے سے پہلے خان نے اس بنیادی اصول پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔

یہاں پر مولانا نعمانی کے استدلال میں مجھے جس چیز سے سب سے زیادہ دل چسپی ہے، وہ ان کا تشکیل دیا ہوا تصورِ علم اور دین اور ان کے ماخذات ہیں۔ مولانا نعمانی کے نزدیک علم کا تصور صرف مذہبی علم تک محدود ہے۔ زیادہ واضح الفاظ میں مذہبی علم ہی وہ علم ہے، جو خدا کی نظر میں اخروی نجات کے لیے ضروری ہے۔ ان علوم میں قرآن وحدیث اور شریعت شامل ہیں، اگر چہ انھوں نے ان علوم کی کوئی فہرست مہیا نہیں کی، جو ان کی نظر میں دینی تھے۔ مولانا نعمانی نے علم کی شعوری تعریف کی جو کوشش کی، اس سے ان کی نظر میں مذہب کی حدود کی تحدید بھی ہوتی ہے۔

کس چیز کو علم کہا جائے گا، اس بارے میں ان کے اجتہاد سے یہ بھی متعین ہو گیا کہ کس چیز کو مذہب سمجھا جائے گا اور کس کو نہیں۔ مزید برآں علم اور مذہب کی حدود طے کرنے کے عمل نے ان دونوں کا نمایاں طور پر ایک محدود تصور پیدا کیا۔ مثلاً‌ مولانا نعمانی نے جس انداز میں ماقبل جدید ممتاز مسلمان علماے دین اور مجتہدین کے علم کا موازنہ دیگر روایتی علوم کے حامل اہل علم سے کیا ہے، وہ کافی قابل غور ہے۔ وہ رقم طراز ہیں:

امام ابوحنیفہ کو شریعت کے لاکھوں کروڑوں مسائل کا علم تھا، اور ابن رشد کو بھی علوم شرعیہ میں خاصی دست گاہ حاصل تھی، لیکن ان کا علم امام ابوحنیفہ کے علم کا عشرِ عشیر بھی نہیں تھا۔ لیکن فلسفۂ یونان کے متعلق جو 'معلومات' ابن رشد کو حاصل تھے، وہ یقیناً حضرت امام ابوحنیفہ کو حاصل نہ تھے۔ کیوں کہ ان کے زمانے میں فلسفۂ یونان عربی زبان میں ترجمہ ہو کر آیا ہی نہ تھا، لیکن اس کی بنیاد پر ابن رشد کو امام ابوحنیفہ سے اعلم نہیں کہا جا سکتا۔ علی ہذا القیاس حضرت امام شافعی، امام احمد، امام بخاری اور امام مسلم کو کتاب وسنت کا بیش بہا علم حاصل تھا، مگر تاریخ وسیر میں جو معلومات ابن خلدون اور ابن خلِّکان کے تھے، وہ بحیثیتِ مجموعی ان حضرات کو یقیناً حاصل نہ تھے، کیوں کہ ابن خلکان کے علم میں تو بہت سے وہ تاریخی واقعات بھی تھے، جو ان حضرات ائمہ کی وفات کے بعد پیش آئے۔ لیکن اس کی وجہ سے ابن خلدون اور ابن خلکان کو یا آج کل کے کسی مؤرخ کو ان ائمۂ دین سے اعلم نہیں کہا جا سکتا (150)۔

مولانا نعمانی نے علم کو معلومات پر جو فوقیت دی ہے، اسے ایک ایسے استدلالی پروگرام نے استناد بخشا جو 'مذہبی' سمجھے جانے والے علم کی حدود کو کنٹرول کر رہا تھا۔ انھوں نے 'مذہبی علم' کی تعریف سے تاریخ، فلسفے، شاعری اور متعدد دیگر علوم خارج کر دیا۔ مولانا نعمانی کے نزدیک یہ تمام علوم محض معلومات تھے۔ فرد کی اخروی زندگی کے لیے اگر یہ مضر نہیں، تو کم از کم اسے فائدہ بھی نہیں پہنچاتے۔ مولانا نعمانی کی فکر میں علم اور مذہب کی حدود باہم بلکہ بیک وقت متصور ہیں۔ ہر کوئی دوسرے کو اس فیصلے کے قابل بناتا ہے کہ کس چیز کو علم اور مذہب سمجھا جائے۔ اہم ترین بات یہ کہ علم اور مذہب دونوں کی تقسیم، تعریف، نمائندگی (representation) اور انتقال (translation)بآسانی ممکن تھا۔

انسانی زندگی میں مذہب کو غیر مذہب سے اور علم کو معلومات سے اجتہادی انداز میں جدا کرنا بآسانی ممکن تھا۔ آخر کار مولانا نعمانی ہی وہ شخصیت تھی، جنھوں نے مجتہدِ مطلق کی طرح علم کی تعریف کا تعین کیا، اور اس تعریف کو توسیع دے کر مذہب کا بھی۔ ابھی جو اقتباس پیش کیا گیا، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے اس مجتہدانہ موقف نے مذہب کے ایک محدود تصور کو جنم دیا، ایک ایسا تصور جو صرف قانون تک محدود تھا۔ علوم میں قانون سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں تھا۔ اس کے علاوہ باقی سب غیر مذہبی، غیر اخروی اور ممکنہ طور پر غیر دینی معلومات تھے۔

مولانا نعمانی کی فکر کے ایک مفید تناظر پر مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) کا یہ دقیق نکتہ بہت اہم ہے، جو انھوں نے انیسویں صدی کے اواسط کے متعلق پیش کیا ہے: "علما کا تصور صرف ان اہل علم کا مفہوم اختیار کر گیا، جو علوم دینیہ میں اختصاص رکھتے ہیں"13۔ اس کے بالمقابل انیسویں صدی کے اوائل اور اٹھارویں صدی میں "دینی اور غیر دینی علوم میں اختصاص رکھنے والوں میں کوئی خاص امتیاز نہیں تھا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی اور مفتی صدر الدین آزردہ جیسے علما کی علمیت انھیں استعماری انتظامیہ میں کسی عہدے، کسی نواب کے دربار میں کسی منصب اور یا کسی مدرسے میں تدریس کی اسامی کے لیے برابر اہل بناتے تھے"14۔ علم اور مذہب کے بارے میں مولانا نعمانی کی محدود فکر سے پرناؤ کے تجزیے کی تصدیق ہوتی ہے۔ جس قدر علما کی طاقت اور مہارت مذہبی علم تک محدود ہوتی چلی گئی، اسی قدر مذہب اور علم دونوں کا تصور بھی محدود ہوتا چلا گیا۔

   مولانا نعمانی کا استدلالی منہج کئی پہلوؤں سے متناقض تھا۔ اگر چہ انھوں نے 'خالص مذہبی' علم کے تحفظ کی کوشش کی، تاہم ان کے پروجیکٹ کے پیچھے یہ جدید مفروضہ کار فرما تھا کہ انسانی زندگی کو مذہبی/غیر مذہبی اور علم/معلومات کے بنے بنائے خانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس جدید تصور کے مطابق فرد زندگی کے حدود کے اندر نہیں جیتا، بلکہ وہ اپنی اجتہادی صلاحیت کے بل بوتے پر خود اپنے لیے زندگی کی حدود متعین کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ان حدود کا مسئلہ، جو مذہب کو غیر مذہب سے اور علم کو معلومات سے جدا کرتا ہے، اب غیر یقینی یا مشکوک نہ رہا۔ بلکہ ان حدود کا انتقال، نمائندگی اور تعیین بآسانی ممکن تھا۔

ظاہراً‌ تو مولانا نعمانی کا مناقشہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کی حیثیت اور حدود تک محدود نظر آتا ہے،لیکن فی الواقع یہ بحث ایک بہت زیادہ بنیادی مسئلے کے متعلق تھا اور وہ یہ اجتہادی فیصلہ تھا کہ کون سی چیز مذہب ہے، اور کون سی نہیں۔ وہ مقام علم تھا، جس کے متعلق انھوں نے اپنا یہ فیصلہ صادر کیا۔ علم کی حدود متناسب انداز میں مذہب کی حدود سے ملتی ہیں۔ جس دم وہ علم اور معلومات میں تفریق کر رہے تھے، اس دم وہ مذہب کے مقام کی تحدید بھی کر رہے تھے۔

المختصر علم اور مقام نبوی کے درمیان تعلق پر مولانا نعمانی کی فکر کو ایسی 'مذہب سازی' کی سیاسیات سے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا، جس کا مقصد مذہب کی اعتقادی حدود کی تحدید تھی۔ علاوہ ازیں جس طرح مولانا نعمانی نے مذہب کی حدود کو ایک قابل تحدید وتعیین چیز بنایا، اسی طرح انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے علم کو بھی قابل تحدید وتعیین بنایا، اور اس کے نتیجے میں نبی کے تصور کو شرعی رہ نمائی کے ایک سرچشمے کی حیثیت سے پیش کیا۔ مذہب  کی تحدید وتعیین کے ذریعے سے مولانا نعمانی نے نبی کے علم کی بھی تحدید وتعیین کر دی۔15۔

روایت و اصلاح کے متحارب تصوّرات

رسول اللہ ﷺ کے علم کے متعلق مولانا تھانوی اور مولانا سہارن پوری کی عبارات سے جس تنازعے نے جنم لیا تھا، اس سے واضح طور پر ان متضاد نکات اور استدلالات کا علم ہوتا ہے، جو روایت کی دیوبندی اور بریلوی تفہیمات کی تشکیل کرتے ہیں۔ مولانا احمد رضا خان کی نظر میں اکابر دیوبند اپنے مبہم اور بھونڈے دلائل سے رسول اللہ ﷺ کی شان کو گھٹا رہے ہیں۔ انھوں نے آخری اقدام کے طور پر ان کی تکفیر کی کہ ان کی نظر میں رسول اللہ ﷺ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے وہ ضروریاتِ دین کو پامال کرنے کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ اس کے جواب میں متقدمین ومتاخرین علماے دیوبند مثلاً‌ مولانا منظور نعمانی نے خان صاحب پر یہ الزام لگایا کہ وہ علماے دیوبند کی عبارات کو قصداً مسخ کرکے ان پر بے بنیاد الزامات کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔

اس سے بڑی بات یہ کہ انھوں نے خان صاحب پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تقدیس کی آڑ میں خدا کی حاکمیتِ اعلی (توحید) کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جیسا کہ ایک بار مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا تھا: "حق تعالیٰ کا شان گھٹاتے ہیں، اوراس  کا نام حبِّ رسول رکھتے ہیں"16۔ مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی حریفوں کے لیے علم اور حاکمیت ایک دوسرے کے ساتھ گہرے انداز میں مربوط تھے۔ تاہم جس انداز میں انھوں نے اس تعلق کو سمجھا اور اپنے اصلاحی پروگراموں میں اسے برتا، وہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف تھا۔

گزشتہ صفحات میں اس مناظرے کا جو تجزیہ پیش کیا گیا ہے، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی حریف کئی پہلوؤں سے ایک ہی طرح کے مسائل پر متضاد مواقف رکھتے تھے۔ ان کے اختلافات کے باوجود کافی حد تک ان کے اعتقادی تصورات کئی حوالوں سے ایک دوسرے سے ملتے تھے۔ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ علم غیب کلی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ وہ اس بات پر بھی متفق تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے علاوہ دیگر مخلوقات بشمول نبی اکرم ﷺ کو علم عطا کیا ہے۔ علاوہ ازیں نظری اعتبار سے مولانا احمد رضا خان کو مولانا تھانوی کی اس بات سے اتفاق ہوگا کہ اگر 'عالم الغیب' کا مطلب علم غیب کلی کا حامل ہونا ہے، تو اس کا اطلاق رسول اللہ ﷺ پر نہیں ہو سکتا۔

ان واضح نکاتِ اتفاق کی روشنی میں یہ نوٹ کیا جا سکتا ہے، اور جیسا کہ میں نے اس پوری کتاب میں کیا بھی ہے کہ یہ تنازع بڑی حد تک رسول اللہ ﷺ سے متعلق گفتگو کے آداب اور آپ کی حیثیت کے متوازی تصورات کے بارے میں ہیں۔ خان صاحب کے نزدیک جس انداز میں علماے دیوبند رسول اللہ ﷺ کے متعلق بات کرتے ہیں، وہ غیر ضروری طور پر اشتعال انگیز اور صراحتاً گستاخانہ ہے۔ عقلی اعتبار سے ان کے دلائل درست بھی ہوں، تو بھی جس انداز سے وہ اپنے دلائل پیش کرتے ہیں، وہ قابل مذمت ہے۔ خان کی نظر میں انھوں نے جس ڈھٹائی سے رسول اللہ ﷺ کا موازنہ شیطان، پاگلوں اور چوپایوں کے ساتھ کیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کی شکل بگاڑ رہے ہیں۔ خان صاحب سمجھتے تھے کہ یہ موازنے اور فرضی مثالیں روایت کے لیے ایک فوری خطرہ ہیں، کیونکہ یہ خوف ناک حد تک تصور کی حدود کو وسعت دیتی ہیں۔ دیوبندی فکر سے خان صاحب کو جو شدید مسئلہ تھا، اس میں آداب گفتگو کی اہمیت الدولة المکية میں ان کی اس عبارت سے معلوم ہوتی ہیں: "ہم یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ خدا نے رسول اللہ ﷺ کو صرف بعض علم عطا کیا۔ لیکن ان کے 'بعض' اور ہمارے 'بعض' میں اتنا فرق ہے، جتنا دن اور رات میں۔ وہابیوں کا 'بعض' نفرت اور توہین کا  ہے، اور ہمارا 'بعض' عزت واحترام کا ہے"(فبعض الوهابية بعض بغض وتوهين وبعضنا بعض عز وتمكين)17۔ جیسا کہ اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ خان صاحب نے دیوبندی اور بریلوی مواقف کے درمیان کافی ہم آہنگی کو تسلیم کیا، لیکن وہ جس بات سے سراسیمہ ہیں، ان کی نظر میں وہ دیوبندی فکر کا گستاخانہ رویہ ہے۔ اس کے برعکس اکابر دیوبند جہاں خان نے ان کی جو تصویر کشی کی ہے، اس سے اختلاف کرتے ہیں، وہیں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ توحید کے تحفظ کے لیے چند استدلالی خطرات مول لینا مناسب ہے۔ صورتِ حال کی نزاکت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ کسی قدر استدلالی بے باکی سے کام لیا جائے۔

 نتیجتاً جو مناظرانہ دور پچھلے ابواب میں ذکر ہوا، وہ ان اخلاقی بھلائیوں کے دو بنیادی متوازی تصورات کو سامنے لاتا ہے، جو روایت کی ہم آہنگی کے لیے ناگزیر ہیں۔ مزید برآں یہ حریفانہ کش مکش کی وہ ہنگامی صورتِ حال تھی جس کے اندر مولانا احمد رضا خان اور اکابرِ دیوبند نے روایت کی حدود پر اپنے متخالف نظریات پر بحث ومباحثہ کیا، اور اس طرح سے انھیں بنیادی طور پر نمایاں کیا۔ یہی مخالف استدلال وہ چیز تھا، جس کے ذریعے ان دو مکاتبِ فکر کی شناختوں نے ایک استدلالی فکر صورت اختیار کی۔ ان کے مناظروں میں شناخت اور اختلاف ایک دوسرے کی تشکیل کر رہے تھے۔ اس لیے اسلام کے متعلق پہلے سے قائم کردہ تصورات کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اس مناظرے میں داخل نہیں ہوا جا سکتا۔بلکہ اسلام کی حدود سے متعلق مخصوص سوالات اور ان کے جوابات اسی مناقشے کی مخاصمانہ فضا میں پیدا ہوئے۔ بریلوی اور دیوبندی مسلک کے اکابر نے اپنے اپنے زاویۂ نظر کے مطابق روایت واصلاح کے مربوط اور مستند حریف تصورات تشکیل دیے۔ روایت کے متعلق ان کے حریف بیانیوں کو فقہ/تصوف، اصلاحی/غیر اصلاحی، یا روایتی/جدت پسند جیسے تقابلات کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ تقابلات روایت واصلاح کی سرحدوں پر واقع شرعی افکار سے متعلق نظریاتی دائرے تشکیل دیتے ہیں، اس سے پہلے کہ ان مناقشوں کی ہنگامی صورتِ حال کو زیر غور لائیں، جن میں یہ حدود بنیادی طور پر نمایاں ہوئیں۔ اس کے بجاے بریلوی دیوبندی مناقشہ ایک ایسے تجزیاتی طریق کار کا تقاضا کرتا ہے، جو اس مفروضے پر مبنی نہ ہو کہ کون جیتا اور کون ہارا، بلکہ وہ اس سوال کا جواب فراہم کرتا ہو کہ وہ کون سی فکری یا غیر فکری نسبتیں تھیں، جن کے ذریعے روایت کی وسعت اور حدود تشکیل دی گئیں، پھر ان کو سامنے لایا گیا، اور اس پر بحث ومباحثہ کیا گیا18۔

حواشی

  1. مولانا رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ (کراچی: محمد کارخانۂ تجارت اسلامی کتب، 1987)، 234 – 38۔
  2. ایضاً، 454۔
  3. ایضاً۔
  4. ایضاً، 453۔
  5. اوشا سانیال، Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Riza Khan Barelwi and His Movement, 1870 – 1920 (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1996)، 233۔
  6. مہند عربی زبان کا لفظ ہے،جس کا معنی ہے ہندوستانی لوہے کی بنی تلوار۔ اور یوں یہ ایک ہندوستانی عالم کی جانب سے ہندوستانی علما کے دفاع میں لکھی گئی کتاب کا کوئی اتفاقی نام نہیں۔
  7. خلیل احمد سہارن پوری، المهند على المفند(لاہور: المیزان، 2005)، 22 – 73۔
  8. منظور نعمانی، فیصلہ کن مناظرہ (کراچی: دارالاشاعت، تاریخ ندارد)، 61 – 95۔ آنے والے تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے لیے گئے ہیں،اور متن میں بین القوسین درج کیے گئے ہیں۔
  9. مولانا نعمانی نے یہ عبارت علم غیب سے متعلق خان کی مشہور کتاب الدولة المكية سےمستعار لی ہے۔ بحوالہ نعمانی، فیصلہ کن مناظرہ، 194۔
  10. یاد کریں کہ یہ مسئلہ اس محفل میلاد کے دوران متعدد مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی موجودگی سے شروع ہوا تھا۔
  11. مولانا نعمانی نے قرآنی آیت کا حوالہ دیا: "تمھارے ارد گرد جو اعراب کے لوگ ہیں، وہ منافق ہیں، اور مدینے کے کچھ باسی تو اور تمھارے گردونواح کے بعض دیہاتی بھی منافق ہیں اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں تم انھیں نہیں جانتے ہم جانتے ہیں (قرآن 9: 101)۔
  12. قرآن 36 : 69۔
  13. مارگریٹ پرناو، Ashraf into Middle Classes: Muslims in Nineteenth-Century Delhi(نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2013)، 271۔
  14. ایضاً۔
  15. مولانا نعمانی کا منہج یہاں پر عبد القادر طیب کی عالمانہ تحقیق بعنوان Religion in Modern Islamic Discourse (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)مین کیے گئے دعوے کو پھیلاتی ہے، اور اس کی ایک اہم وضاحت پیش کرتی ہے کہ انیسویں صدی کے بعد "وقتا فوقتاً دین اور دینی کلیدی اصطلاحا ت بن گئے، جن کے ارد گرد اسلام کے نئی معانی کی بنیاد اور تشکیل کی گئی(16)۔  اگر چہ طیب نے اپنے تجزیے میں بڑی حد تک جدیدیت پسند، اسلام پسند اور تانیثیت پسند علما پرانحصار کیا ہے، تاہم مولانا نعمانی اور مولانا تھانوی کی مثالیں بھی  (جیسا کہ ساتویں باب میں حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ ﷺ کی شادی کے فیصلے کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے)وہ تخلیقی پہلو سامنے لاتی ہیں، جہاں روایتی مسلمان اہل علم نےزندگی کے ایک ممتاز دائرے کی حیثیت سے  مذہب کی جدید فکری تشکیلات میں اپنا کردار کیا۔
  16. رشید احمد گنگوہی، فتاویٰ رشیدیہ (لاہور: مکتبۂ رحمانیہ، تاریخ ندارد)، 225۔
  17. ا۔ خان، الدولة المكية، 277۔
  18. یہاں پر میرا نظری موقف انندا ابیسیکارا کے مرہونِ منت ہے۔Identity for and against Itself: Religion, Criticism, and Pluralization، جرنل آف دی امیریکن اکیڈمی آف ریلجن 72، نمبر 4 (2004): 973 – 1001۔

(جاری)

"امام و صحیح بخاری کے مآخذ: ناقدانہ جائزہ"

وقار اکبر چیمہ

عنوانِ کتاب:  امام و صحیح بخاری کے مآخذ: ناقدانہ جائزہ

تحقیق و تصنیف:  ڈاکٹر محمد فؤاد سزگین

ترجمہ و تعلیق:  ڈاکٹر خالد ظفر الله

ناشر:  مکتبہ اسلامیہ لاہور/ فیصل آباد

سنہ اشاعت:  ۲۰۲۲

عربی کے بعد علوم اسلامیہ پر سب سے زیادہ کام اردو میں ہوا ہے۔ پچھلے دو سو  برس سے مستقل تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی سے تراث کی اہم ترین کتب اور انگریزی میں اسلام اور مسلم تہذیب سے متعلق تحقیقی کام کو اردو قالب میں ڈھالنے کا جو سلسلہ جاری ہے، اس کی بدولت بلا شبہ اب اردو علوم اسلامیہ کے حوالے سے عربی کے بعد اہم ترین زبان بن چکی ہے۔ اسی سلسلہ میں ایک تازہ اضافہ ترکیہ کے فاضل محقق مرحوم ڈاکٹر محمد فؤاد سزگین صاحب کے پی ایچ ڈی مقالے کا براہ راست ترکی زبان سے اردو ترجمہ ہے۔ یہ کارنامہ سمندری فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر خالد ظفر الله صاحب نے سر انجام دیا ہے۔ یہ اس نادر تحقیق کا کسی بھی زبان میں پہلا ترجمہ ہے اور اس باب میں اردو کو عربی پر بھی سبقت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کاوش کا عنوان "امام و صحیح بخاری کے مآخذ: ناقدانہ جائزہ" رکھا گیا ہے۔

ڈاکٹر سزگین کے مقالے کا عنوان "بخاری کے مآخذ کی تحقیق" ہے جس کی تکمیل پر انہوں نے ۱۹۵۴ میں استنبول یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں انقرہ یونیورسٹی میں استاد کے طور پر تعیناتی کے دوران ۱۹۵۶ میں اسے انقرہ یونیورسٹی سے ہی شائع کروایا۔ اس اولین طبع کی پی ڈی ایف کاپی انقرہ یونیورسٹی کی ویبسائٹ سے بآسانی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن مقالہ ترکی زبان میں ہونے کی وجہ سے کماحقہ استفادہ نہیں ہو سکا۔

ابتداء میں فاضل مترجم و ناقد ڈاکٹر خالد ظفر الله صاحب نے اس کام کے حوالے سے تین دہائیوں پر مشتمل اپنی سرگزشت بیان کی ہے۔ کہ کیسے ترکیہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم کے طور پر ان کے ایک ہم سبق کی دی ہوئی فوٹو کاپی سے اس علمی سفر کا آغاز ہوا اور پھر یہ دل چسپی کبھی کم نہیں ہوئی۔ ساتھ ہی مترجم نے اپنے کام کی کامل نوعیت واضح کی ہے۔ کہ انہوں نے ترجمہ سے بڑھ کر سزگین صاحب کی تحقیق کا ناقدانہ جائزہ بھی لیا ہے اور جہاں تحقیق میں کچھ سقم معلوم ہوا اسے بھی رفع کرنے کی کوشش کی ہے۔ تسامحات کر رفع کرنے اور خصوصا ضمیمہ جات میں موجود قیمتی معلومات کی تکمیل و تصحیح میں جن کتب سے استفادہ کیا گیا ہے ان کا تعارف اور اس کام کے حوالے سے ان کے کارآمد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔ یوں دیگر کئی علمی کاموں کا مختصر احوال بھی شاملِ کتاب ہے۔

فاضل مترجم (اگرچہ یہ کام ترجمہ سے کہیں بڑھ کر ہے لیکن سہولت کیلیے ہم ڈاکٹر خالد صاحب کیلئے مترجم کا ہی لفظ استعمال کریں گے) نے ڈاکٹر سزگین کا مختصر شخصی تعارف پیش کیا ہے جس میں ان کی ابتدائی زندگی اور علمی سفر و کارناموں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ڈاکٹر سزگین صاحب کی ذات اور کام کے حوالے سے کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ بھی کیا گیا ہے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر سِزگین کو غیر مسلم مستشرق سمجھے جانے کی افسوسناک غلطی کے بیان کے ساتھ ان کے نام کے صحیح تلفظ کی وضاحت ہے ۔ اسی طرح صحیح بخاری کے مآخذ کے حوالے سے ان کی کتاب کے بارے میں غلط فہمیوں کو بھی دور کیا گیا ہے مثلاً یہ کہ مقالہ اصلاً انگریزی میں ہے یا جرمنی میں قیام کے دوران لکھا گیا یا یہ کہ اس کا عربی ترجمہ ہو چکا ہے۔

اس کے بعد فاضل مصنف (ڈاکٹر سزگین) کا مقدمہ ہے جس میں کتاب کے محتویات کا مختصر بیان ہے۔ ڈاکٹر سزگین کی فرمائش پر ان کے ایک دوست مارٹن ڈِکسن نے ان کے مقدمے کا انگریزی ترجمہ کیا تھا ۔ یہ انگریزی ترجمہ زیرِ نظر کام میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔

کتاب کا بنیادی متن تین ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب میں حدیث کے ابتدائی تحریری مآخذ کا ذکر ہے۔ اس تناظر میں تحملِ حدیث کے صیغوں (یعنی حدثنا، اخبرنا، وغیرہ جیسے الفاظ) کا تعارف اور استعمال کا محل اور مصنف کے اس دعوی کہ امام بخاری نے اپنے سے پہلے کے تحریری مجموعہ ہاۓ حدیث سے استفادہ کیا ہے کے درمیان تعلق کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فاضل مصنف نے تحملِ حدیث سے متعلق مستعمل الفاظ بارے متقدمین کے طرزِ عمل کو اس طرح واضح کیا ہے کہ روایتِ حدیث کے الفاظ کی موجودگی اور تحریری مآخذ سے استفادہ کے دعوی میں تعارض ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً وہ متقدمین سے منقول اقوال کی روشنی میں ثابت کرتے ہیں کہ روایت میں "اخبرنا" وغیرہ کا استعمال مناولہ یا مکاتبت کی صورت میں بھی روا رکھا جاتا رہا (ص ۱۰۱) اور کئی متقدمین ان صیغوں میں وہ فرق نہیں کرتے تھے جو متاخرین نے ان کے حوالے سے عمومی طور پر بیان کیا ہے (ص ۹۳، ۱۰۱)۔ اس اصولی قضیہ کو حل کرتے ہوۓ وہ صحیح بخاری میں قدیم تر کتب سے اخذ کو شارحین کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ مثلاً کتاب العِلم میں امام بخاری کے استاد حُمیدی کی کتاب النوادر سے استفادہ کرنا حافظ ابن حجر کر حوالے سے ذکر کرتے ہیں (ص ۹۶-۹۳، ۱۵۵) اور لکھتے ہیں کہ امام بخاری کا محمد بن بشار سے بطریق مکاتبت روایت کرنا (حدیث ۶۶۳۳) بھی تسلیم کیا گیا ہے (ص ۹۸، ۹۹)۔ اسی طرح ابن حجر ہی کے حوالے سے مسند اسحاق بن راہویہ سے روایت کی مثال بھی پیش کرتے ہیں (ص ۱۲۹)۔ امام بخاری کے اہلِ شام کی کتابوں پر اعتماد کرنے کی وجہ سے حرفِ تنقید بنائے جانے کی روایت کو فاضل ڈاکٹر سزگین نے ان کے تحریری مآخذ سے استفادہ کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے (ص ۱۳۰)، جو ان کی دقّتِ نظری اور قوتِ استدلال کا مظہر ہے۔ اسی طرح صحیح بخاری کی ایک روایت میں امام بخاری ایک شیخ کی کتاب میں بیاض (خالی جگہ) کا ذکر کرتے ہیں (حدیث ۵۹۹۰) جس کی مصنِّف نے خوب نشاندہی کی ہے (ص ۱۳۱، ۱۳۲)۔ اسی طرح وہ امام بخاری کے موطأ کی روایت التنیسی سے اخذ و نقل کو امام زُرقانی کے حوالے سے ذکر کرتے ہیں (ص ۱۳۲)۔ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ امام بخاری کی امام مالک سے ایک معلّق روایت ابن عبد البر نے ابن وھب کی روایت موطأ کے نسخہ سے نقل کی ہے (ص ۱۳۲)۔ البتہ وہ یہ بھی لکھتے ہیں صحیح بخاری میں امام مالک سے مروی تمام روایات کا موطأ سے نقل ہونے کے مقابلے میں بعض اوقات موطأ سے براہ راست نقل اور زیادہ تر موطأ سے استفادہ کی بنیاد پر لکھی جانے والی دیگر شیوخ کی کتب سے مراجعت کا احتمال زیادہ مناسب ہے (ص ۱۴۰)۔ تحریری مآخذ سے نقل کرنے کے باب میں امام بخاری کے منفرد ہونے کے تاثر کو زائل کرنے کیلیے مصنف اسی سیاق میں امام مسلم کا اپنی صحیح میں تحریری مآخذ سے استفادہ کرنے کو بھی بیان کرتے ہیں (ص۱۲۹، ۱۳۲)۔ اور یہ بھی ذکر کرتے ہیں کہ امام ابو داود اور ان سے قبل امام شافعی کا تحریری مآخذ سے نقل کرنا تو مستشرقین نے بھی تسلیم کیا ہے (ص ۱۲۲)۔

 کتاب کا دوسرا باب "صحیح بخاری میں تفسیر ِقرآن کے مآخذ" کے عنوان سے ہے۔ اس میں صحیح بخاری میں مختلف مقامات پر مذکور تفسیری اقوال کی اصل کے بارے میں تحقیق پیش کی گئی ہے۔ فاضل مصنف نے صراحت کی ہے کہ اگرچہ یہ مواد صحیح بخاری میں جابجا موجود ہے لیکن ان کی تحقیق کا محور کتاب التفسیر میں منقول اقوال ہی ہوں گے (ص ۱۹۵) ۔ باب کے شروع میں مصنف نے صحیح بخاری کے پہلے سے موجود تحریری ذخیرہ ہاۓ علم کا خلاصہ ہونے  کا نظریہ دہرایا ہے۔ اور تمہیداً یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ امام بخاری سے پہلے کے مؤلفین کتبِ سُنن نے اپنی کتب میں تفسیر کا باب قائم نہیں کیا (ص ۱۹۵) اور اس حوالے سے بخاری اپنے متقدمین سے ایک امتیازی وصف رکھتے ہیں بلکہ اپنی تالیف میں موجود تفسیری و لغوی مواد کی کیفیت و ماہیت کے اعتبار سے بعد کے کاموں سے بھی صحیح بخاری مختلف ہے۔ صحابہ، تابعین اور بعد کے لوگوں سے منسوب تفسیری اقوال کو الگ الگ شمار کیا گیا ہے اور اس اہم امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان اقوال کیلیے امام بخاری نے کوئی سند ذکر نہیں کی اگرچہ ان میں بہت سے اقوال کو آپ سے پہلے امام عبدالرزاق صنعانی اور آپ کے بعد امام  طبری اور ابن ابی حاتم نے انہی حضرات سے با سند روایت کیا ہے۔ بلکہ ان اقوال کو مسند نقل کرنے والے بعض ذرائع تک امام بخاری کی رسائی کے شواہد بھی موجود ہیں۔ لہذا مصنف کا خیال ہے کہ امام موصوف نے ایسا قصداً  کیا ہے (ص ۱۹۶-۲۰۱) ۔

اس باب میں ابو عبیدہ اور فراء کے تفسیری اور لغوی اقوال کو الگ الگ زیر بحث لایا گیا ہے۔ اول تو یہ بتایا گیا ہے کہ ابو عبیدہ جن کا اصل نام مَعمر تھا ان کو صحیح بخاری میں صرف معمر کہہ کر ذکر کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی درست شناخت ایک عرصہ تک معروف طور پر متعین ہی نہیں کی جا سکی۔ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابو عبیدہ کا کام دیکھنے سے قبل وہ یہی سمجھتے تھے کہ معمر سے مراد معمر بن راشد ہیں۔ اگرچہ بعد میں ان کو اس حوالے سے ابن التین اور نووی کی شہادتیں بھی میسر آ گئیں (ص ۲۱۴-۲۱۶)۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ابو عبیدہ کی مجاز القرآن سے نقل میں کوئی خاص ترتیب معلوم نہیں ہوتی۔ کئی مقامات پر غیر ضروری اور غیر متعلقہ اقباسات نقل کر دے گۓ ہیں (ص ۲۱۹-۲۲۱)۔ کہیں بلا ضرورت اقتباسات کی تکرار بھی ہے اور تفسیر قرآن سے متعلقہ کچھ حصّے تو مصحف کی ترتیب کے مطابق بھی نہیں (ص ۲۲۲-۲۲۳)۔ اس صورتِ حال نے بعض شارحین کو پریشان بھی کیا ہے۔ ساتھ ہی وہ اس بے ترتیبی پر شارحین کے مختلف رویّوں کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ ابن حجر کہیں تو اس کی توجیہ کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں اس کی ذمہ داری ناسخین پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قسطلانی بھی عقیدت میں اسے عمیق امر جانتے ہیں البتہ کرمانی اس کو لا یعنی کہنے کی جرأت رکھتے ہیں۔ عینی کی بھی ایسی ہی راۓ ہے گو وہ ان کی افادیت کے منکر نہیں (ص ۲۲۲-۲۲۵، ۲۴۱)۔ بعض مقامات پر ابن حجر بھی اقتباسات کی مناسبت کی بابت کسی تاویل و توجیہ سے عاجز دکھتے ہیں تو مصنف اس سے اپنے موقف کو تقویت پاتا محسوس کرتے ہیں کہ یہ سب امام بخاری نے دیگر کتب کے اسلوب سے متاثر ہو کر کیا ہے اور اس حوالے سے متاخرین کی بیان کردہ شرائط محض خیالی ہیں (ص ۲۲۲)۔

فراء کی شناخت بھی ان کا نام صرف یحییٰ لکھے جانے کی وجہ سے مستور ہی رہی، اور شروع کے شارحین جیسے خطابی وغیرہ نے اس سے تعرض ہی نہیں کیا۔ یہاں بھی ابن حجر نے ہی ان کا فراء ہونا واضح کیا۔ کرمانی، یحییٰ کے نام سے منقول اقوال کو یحییٰ بن سعید سے منسوب کرتے رہے۔ علامہ عینی نے بھی ان کا فراء ہونا دیر سے ہی قبول کیا (ص ۲۳۳-۲۳۸)۔ اس کے بعد مصنف نے فراء کے اقوال کی مناسبتوں پر بات کی ہے۔ یوں اس باب میں صحیح بخاری میں منتشر ان اقتباسات کے امام بخاری سے قبل کے دو تحریری مآخذ کی نشاندہی شارحین کے اقوال کے حوالے سے ثابت کی گئی ہے۔ ان اقباسات کی نشاندہی ضمیمہ سوم و چہارم میں کی گئی ہے (ص ۳۰۹-۳۳۲)۔

کتاب کا تیسرے باب کا عنوان ہے "الجامع الصحیح کی روایات۔"  اس باب میں فاضل مصنف نے صحیح بخاری کی مختلف روایات کی تاریخ، ان کے باہم تقابل اور اس سے متعلقہ امور پر بحث کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایک ہزار راویوں میں سے صرف پانچ کے نام محفوظ ہیں اور ان میں سے بھی دو کی روایت کا متداول ہونا تاریخی طور پر ثابت ہے۔ یہ فِرَبری اور نَسَفی کی روایات ہیں۔ چھٹی صدی ہجری کے بعد سے البتہ صرف فربری کی روایت ہی معروف رہی ہے (ص ۲۵۱) ۔ نسفی کی روایت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام بخاری کے بعد دو صدیوں تک تو معروف رہی اور امام خطابی نے اپنی شرح بھی اسی روایت کے متن کو سامنے رکھ کر لکھی لیکن بعد میں پس منظر میں چلی گئی ۔فربری کی روایت کو نسفی پر ترجیح حاصل ہونے کے کچھ ممکنہ اسباب کا ذکر کرتے ہیں کہ ایک وجہ تو یہ بیان کی گئی ہے کہ صحیح بخاری کے آخر سے کچھ حصہ کا براہ ِراست امام بخاری سے سماع کا موقع نسفی صاحب کو غالبا نہیں مل سکا، دوسری وجہ راویوں کی تعداد کا فرق رہی کہ فربری کی روایت کو نو (۹) راوی ملے اور نسفی کی روایت کو صرف دو (۲)۔ پھر نسفی کی روایت میں کچھ غیر محفوظ اضافوں کا اندیشہ بھی شاید اس کی وجہ بنا (ص ۲۵۸-۲۵۹)۔ لیکن بعض پہلو ایسے بھی تھے جن میں نسفی کی روایت فربری سے بہتر سمجھی گئی جیسے متن کی اہم تفصیلات کا مکمل طور پر محفوظ ہونا۔ اسی طرح کچھ لغوی مواد کا صرف روایت نسفی میں ہی پایا جانا اور اس میں تکرار کا نہ ہونا بھی روایت نسفی کے اوصاف میں شمار کیا گیا ہے (ص ۲۵۹-۲۶۲)۔ ان امور اور فربری کی بعض ذیلی روایات کا تذکرہ کرنے کے بعد مصنف فرماتے ہیں کہ مِن جملہ نسفی کی روایت فربری کی روایت سے بہتر گردانی گئی ہے (ص ۲۳۵)۔ اس کا بعد فاضل مصنف نے صحیح بخاری میں کاتبین کے تصرف پر بات کی ہے کہ ایسا ہو بھی تو زیادہ اہم نہیں ہے جیسے کسی کا مبہم نام "محمد" کی جگہ (التباس کو رفع کرنے کی نیت سے) "نفیلی" لکھ دینا (ص ۲۳۳)۔ شروطِ بخاری کے حوالے سے کتب کا ذکر کرتے ہیں اور مثال سے واضح کرتے ہیں کہ اس باب میں بعض غیر حقیقی باتیں بھی کی گئی ہیں جن کی غلطی ابن حجر و دیگر شارحین نے بیان کی ہے۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ چونکہ صحیح بخاری اور دیگر کتب کا باقاعدہ مقدمہ وغیرہ نہیں ہے لہذا اس باب میں جو کہا گیا ہے وہ ان ائمہ سے منقول نہیں۔ امام مسلم کی کتاب کا مقدمہ ہے لیکن اس میں بھی ان امور کی وضاحت نہیں (ص ۲۸۰-۲۸۱)۔  آخر میں صحیح بخاری پر ہونے والی تنقیدات ذکر کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ صحیح بخاری کو جو مقام حاصل ہے یہ صدیوں کے نقد اور بحث و تمحیص کا نتیجہ ہے اور امت کے اجماع نے صحیح بخاری کو بلند مقام پر فائز کیا ہے (ص ۲۸۵-۲۸۸)۔

ڈاکٹر سزگین کے کام کا معرکہ آرا ہونا ان تین ابواب میں محقَّق نظریات سے ظاہر ہے تو چوتھے باب میں دیے گئے ضمیمہ جات میں دی گئی معلومات سے اظہر ہے۔ پہلے ضمیمے میں شیوخ بخاری اور شیوخِ شیوخ بخاری کے بارے میں انتہائی اہم تفصیلات نقشوں کی صورت میں دی گئی ہیں۔ کمپیوٹر اور فہارس کے دور سے قبل اس کام کے سرانجام دینے میں جو محنت اور ہمّت درکار تھی وہ فاضل مصنف کے عمیق مطالعہ صحیح بخاری پر شاہد ہے۔

دوسرے ضمیمے میں مصنف نے صحیح بخاری میں امام مالک کی مرویات کی موطأ میں نشاندہی کی ہے۔ یقیناً یہ بھی ایک دلچسپ اور اہم موازنہ ہے اور پہلے باب میں درج مصنف کے نظریے کا گویا بین ثبوت ہے۔ تیسرا اور چوتھا ضمیمہ صحیح بخاری میں بالترتیب ابو عبیدہ کی مجاز القرآن اور فراء کی معانی القرآن کے اقتباسات کی نشاندہی کیلیے مختص ہیں۔ یہ دوسرے باب کے تکملہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر سزگین کا یہ کہنا درست ہے کہ ان کی تحقیق میں عام خیال سے بہت ہٹ کر نتائج سامنے آئے ہیں اور تین صدیوں تک محض زبانی روایت کے تصور کی قلعی کھل گئی ہے۔ اہم بات یہ ہے فاضل مصنف نے اس امر کو ثابت کرنے کیلئے روایت سے ہی شواہد اس طرح اکھٹے کر دیے ہیں کہ امام بخاری کا ماقبل کے تحریری مآخذ سے استفادے کا مطلقاً انکار ممکن نہیں رہا۔ البتہ فاضل مصنف کا یہ دعوی کہ "ابتدا سے انتہا تک" صحیح بخاری تحریری مجموعہ ہائے حدیث سے ہی مرتب کی گئی تھی (ص ۱۲۱) نہ صرف یہ کہ ابھی تشنہ تحقیق ہے بلکہ کافی حد تک مستعبد بھی ہے۔ اس درجہ عمومیت اور قطعیت کے ساتھ اس نظریہ کا ثابت ہونا شاید ممکن ہی نہیں۔ مصنف کا فرمانا کہ مثلاً امام مالک کی مرویات کے سلسلے میں امام بخاری نے ہمیشہ موطأ سے براہ راست استفادہ نہیں کیا ہو گا بلکہ یہ روایات انہوں نے اپنے اساتذہ/شیوخ کے تحریری مجموعوں سے لی ہوں گی کچھ مبنی بر تَحکم محسوس ہوتا ہے۔ ایسے تمام غیر معروف تحریری مجموعات کا تاریخی ثبوت سامنے آنا بظاہر ممکن نہیں اور نہ ہی امام بخاری کا ایسا کوئی قول ذکر کیا گیا ہے اس لیے زیادہ مناسب احتمال یہی معلوم ہوتا ہے کہ زبانی روایت کے ساتھ ساتھ اصولِ روایت کے تحت موطأ امام مالک سمیت تحریری مآخذ سے استفادہ کیا گیا۔ بہر صورت فاضل مصنف کی تحقیق مستشرقین اور منکرین و مشککینِ حدیث کے مزعومات کا رد کرتی ہے۔

ترجمہ کا کام ہی کچھ کم نہ تھا کہ ڈاکٹر خالد ظفر نے اس پر تحقیق و تعلیق سے امّت کی طرف سے ڈاکٹر سزگین کی تحقیق سے دہائیوں تک عدم اعتناء کا گویا کفارہ ادا کر دیا ہے۔ فاضل مصنف کی ذکر کردہ روایات اوردیگر حوالہ جات کی تحقیق اور محولہ کتب سے اصل اقتباسات کو نقل کرنا ازسرنو تحقیق سے کم نہیں۔ مزید یہ کہ فاضل مترجم نے صرف ترجمہ اور اقتباسات کے نقل سے بڑھ کر نقد و نظر کا فریضہ بھی سر انجام دیا ہے۔ جہاں کہیں انہیں محسوس ہوا کہ اصل اقتباس اور فاضل مصنف کے بیان میں کچھ فرق ہے آپ نے اس کی بلا تردد نشاندہی کی ہے (مثلاً ص ۹۳، ۲۰۰)۔

اسی طرح متن کی بعض اغلاط کی بھی فاضل مترجم نے نشاندہی کی ہے (مثلاً ص ۹۱ حاشیہ ۱، ص ۱۵۴، ص ۱۹۹، ص ۲۱۳ حاشیہ ۴، ص ۲۱۶-۲۱۳ حاشیہ ۶، ص ۲۲۱ حاشیہ ۳) متعدد مقامات پر مترجم نے اہم امور کی وضاحت اور معلومات کا خود سے بھی حاشیہ میں اضافہ کیا ہے البتہ رموز کی مدد سے ان اضافوں کو مصنف کے حواشی سے ممیز رکھا گیا ہے (ص ۸۲-۸۳، ۹۰، ۱۰۶، ۱۲۱، ۱۴۶-۱۴۳، ۱۴۹، ۱۳۵) ۔

تاہم بعض مقامات پر مصنف پر مترجم کا تعاقب محل نظر بھی ہے۔ مقدمے اور پہلے باب کے آخر میں امام بخاری کے اسناد وروایت کی اہمیت کو کم کرنے کے حوالے سے مصنف کے قول کو سمجھنے میں مزید تأمل کیا جانا چاہیے تھا (ص ۳۶-۳۳ و ۱۹۱) باب اول کے جمیع مشمولات کو سامنے رکھا جائے تو مذکورہ مقامات پر مصنّف کے الفاظ سے یہی مفہوم ہوتا ہے کہ تحریری استفادہ کو شامل طریقہ ہائے تحملِ روایت کو بَرت کر امام بخاری نے محض زبانی روایت کی اہمیت کو کلّی انحصار کے اعتبار سے کم کر دیا تھا۔ اور آپ اتنے بڑے پیمانے پر یہ کام کرنے والے پہلی شخصیت تھے۔ اس امر کے محقق ہونے پر تو دو رائے ہو سکتی ہیں لیکن یہ کہنا کہ مصنف کی مراد مطلقا روایت واسناد کی اہمیت کو کم کرنا تھا درست نہیں۔

تدوین حدیث سے متعلق امام زہری  کے مساعی کے ذکر میں متن کا ترجمہ یہ تاثر دیتا ہے کہ مصنف کے خیال میں حضرت عمر بن عبد العزیز نے ان کو خلافت سے متعلق احادیث جمع کرنے کا کہا تھا۔ چنانچہ مترجم اس پر معترض ہیں کہ حضرت عمر بن عبد العزیز کا مقصود عموما احادیث کی تدوین تھا نہ کہ خاص خلافت سے متعلقہ روایات کو جمع کرنا (ص ۸۳-۸۴)۔ البتہ اصل ترکی عبارت میں مصنف کا کہنا ہے کہ تدوین حدیث کا آغاز جس دور میں ہوا اس وقت عمر بن عبد العزیز خلافت کے منصب پر فائز تھے۔ لہذا مترجم کا اعتراض درست نہیں اور مصنف کی اصل عبارت کا ترجمہ دُرستی چاہتا ہے۔ ایک مقام پر فتح الباری سے منقول ایک عبارت میں ترکیب "شقيق الراوي" سے مراد راوی حدیث شقیق (بن سلمہ) ہیں۔ مصنف نے ترکی ترجمہ میں بھی اس کو ایسے ہی لکھا ہے لیکن مترجم اس کو "راوی کا بھائی" سمجھے ہیں (ص ۱۲۹)۔ ڈاکٹر سزگین صاحب کے مقدمے کا انگریزی ترجمہ شامل کتاب تو کیا گیا ہے (ص ۳۹-۴۵)  لیکن محض نقل کے اس کام میں بھی کمپوزنگ کی بہت زیادہ غلطیاں ہو گئی ہیں ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کمپوزر اور ناشر نے اس کو ایک نظر دیکھنے کی بھی زحمت نہیں کی۔  مصنف نے مقدمے میں صحیح بخاری کے روایتِ فربری اور روایتِ نسفی کے تقابل میں جو لکھا ہے اس کا اردو اور انگریزی ترجمہ بالکل مختلف  ہے. اردو ترجمہ کے مطابق فربری کی روایت کو روایتِ نسفی پر تاریخی ترجیح کے متعدد اسباب تھے (ص ۳۳) جبکہ انگریزی ترجمہ کی رو سے نسفی کی روایت کے مقابلے میں روایتِ فربری کی ترجیح نا مناسب (ill-chosen) تھی۔ کتاب کے تیسرے باب میں درج تفصیلات کی روشنی میں انگریزی ترجمہ مصنف کے حاصلِ تحقیق سے زیادہ ہم آہنگ معلوم ہوتا ہے۔

ترجمہ ایک مشکل فن ہے اور ترجمہ کی عبارت میں کچھ مشکل کا آنا گویا ناگزیر ہوتا ہے۔ اس کتاب میں بھی کچھ عبارات نظرِ ثانی کی متقاضی ہیں۔ اصل زبان میں ترکیب کا اسلوب کچھ بھی ہو "عادت کے مالک" (ص ۸۱) کی جگہ "عادی" کا استعمال زیادہ مناسب تھا۔ ص ۱۰۹ پر ابو سلمہ التبودکی اور ابن معین کے حوالے سے عبارت غیر واضح ہے۔ بعض جگہ املاء کی معمولی غلطیاں ہیں۔ امید ہے کہ آئندہ طباعت میں ان کو درست کر لیا جائے گا۔

پہلے ضمیمے میں شیوخِ بخاری سے متعلق معلومات انتہائی اہم ہیں۔ مترجم نے مصنف کی تحقیق میں واقع متعدد تسامحات کی اصلاح کی ہے جو اس باب میں ان نے کی محنت اور تحقیق پر دلالت کرتا ہے۔ مقدمہ میں مترجم نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ شیوخ بخاری پر مستقل کام بھی کر رہے ہیں (ص ۱۳)۔ دعا ہے کہ اللہ ان کو اس کام کی جلد تکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔

مجموعی طور پر طبع وجلد معیاری ہے۔ ضخامت کے اعتبار سے قیمت بھی زیادہ نہیں۔ کاغذ درمیانہ ہے۔ اس سے بہتر ہوتا تو قیمت بہت گراں ہو سکتی تھی۔ صفحہ نمبر ۱۰۱ اور ۱۰۲ کی ترتیب الٹ گئی ہے۔ صفحہ ۱۳۶-۱۳۳ پر دیے گئے اسناد کے نقشے ایک ہی صفحہ پر ہوتے تو سمجھنے میں آسانی رہتی ۔

ہر بشری کاوش میں بہتری کی گنجائش تو رہتی ہی ہے لیکن اس کتاب کی اشاعت یقیناً لائقِ ستائش ہے۔ کتبِ حدیث اور علومِ حدیث پر اردو زبان میں کام کرنے والوں کو اس کتاب کے مصنف ومترجم کی اپنے موضوع سے لگن سے راہ لینی چاہیے۔ اور سب سے اہم یہ ہے صحیح بخاری کے تحریری مآخذ اور ان سے متعلق دیگر امور کے حوالے سے مصنف کے نظریات پر تحقیق کو آگے بڑھایا جائے۔ روایتی اور عصری جامعات کے دینی علوم سے وابستہ اہلِ علم کو مترجم کی کوشش سے استفادہ کرتے ہوئے فاضل مصنف کی تحقیق کا تنقیدی نظر سے جائزہ لینا چاہیے۔ اس ضمن میں امام بخاری کے اسلوبِ تالیف وتصنیف اور ان کے شیوخ کے حالات اور ان کے تحریری مجموعات کی موجودگی کے ثبوت یا عدم ثبوت، تحملِ حدیث کے حوالے سے ان کی آراء پر دستیاب معلومات، معلَّق روایات اور تراجمِ ابواب کے تحت درج لغوی مواد کی اپنے مقامات سے مناسبت اور اس حوالے سے صحیح بخاری کی مختلف روایات میں فرق اور ان کی معنویت کو تحقیق کو میدان کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے مترجم کی یہ کوشش امت مسلمہ کے سرمایہ افتخار علم حدیث کی اہم ترین کتاب صحیح بخاری پر نئے زاویہ ہائے نگاہ سے تحقیقات کا سبب بنے۔

تحریک تحفظ ختم نبوت کی معروضی صورت حال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

نوے سال کی طویل جدوجہد کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ کیا تھا جسے نصف صدی گزر چکی ہے اور آج ہم تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے اہم موڑ پر کھڑے ہیں۔ اس مرحلہ میں ضروری ہے کہ ہم تحریک تحفظ ختم نبوت کی معروضی صورتحال کا جائزہ لیں اور اب تک کی کارکردگی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی طے کریں۔

اس سلسلہ میں پہلی گزارش یہ ہے کہ دستور و پارلیمنٹ کے اس فیصلہ کو ابھی تک قادیانیوں نے تسلیم نہیں کیا جبکہ ان کے سرپرست عالمی ادارے اور بین الاقوامی لابیاں بھی اس فیصلہ کو تبدیل کرانے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں جس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور ہم دستوری و قانونی طور پر عجیب سے مخمصہ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس پس منظر میں ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ ملک میں دستور و قانون کی بالادستی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والی بہت سی جماعتوں اور حلقوں کو خلافِ قانون قرار دے کر ان کے خلاف ایکشن کی جو روایت چلی آ رہی ہے قادیانیوں کو بھی اس کے دائرے میں لینا ضروری ہو گیا ہے، اور حکومت سے یہ مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر قادیانی دستور کو تسلیم نہ کرنے پر بضد ہیں تو ان کے خلاف دستور کی رٹ کو چیلنج کرنے پر کاروائی کی جائے اور اس وقت تک انہیں سرگرمیوں سے قانوناً‌ روک دیا جائے جب تک وہ دستور کی بالادستی اور قوم کے متفقہ فیصلہ کو تسلیم کرنے کا دوٹوک اعلان نہیں کرتے۔

دوسری گزارش یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ تحفظ ختم نبوت کے لیے محنت کرنے والی جماعتیں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت، مجلس احرار اسلام، انٹرنیشنل ختم نبوت اور شبان ختم نبوت عوامی محاذ پر تو مسلسل سرگرم عمل ہیں اور عوام میں بیداری قائم کرنے کے لیے بہت محنت کر رہی ہیں مگر قادیانیوں نے یونیورسٹیوں، تعلیمی اداروں، ابلاغ کے ذرائع، بیوروکریسی، سیاست دانوں، وکلاء اور دیگر حلقوں میں محنت کا جو جال پھیلا رکھا ہے ان دائروں میں جو کام ہونا چاہیے وہ نظر نہیں آ رہا۔ اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کرنے والی جماعتوں اور اداروں کو اس خلا کو پر کرنے کی سنجیدہ کوشش کرنی چاہیے۔

تیسری گزارش یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کی قادیانیوں کے حق میں سرگرمیوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین، انسانی حقوق کمیشن اور دیگر بین الاقوامی ادارے قادیانیوں کی کمین گاہیں ثابت ہو رہی ہیں جن کے ذریعے سے وہ وسیع تر مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان اداروں تک ہماری رسائی دیکھنے میں نہیں آ رہی اور جن فورموں میں یہ مسائل زیربحث آتے ہیں اور وہ فیصلے کیے جاتے ہیں جو حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، ہم ان اداروں اور فورموں میں پہنچ کر اپنا موقف واضح نہیں کر پا رہے جو بہت بڑے نقصان کا باعث ہے۔ یہ ذمہ داری اصل میں تو ملک کی وزارت خارجہ اور وزارت مذہبی امور کی ہے کہ وہ ان عالمی سرگرمیوں پر مسلسل نظر رکھیں اور باقاعدہ محکمانہ طور پر ملک کے قانون و دستور اور قوم کے متفقہ فیصلوں کے خلاف سازشوں کی نشاندہی کر کے ان کے تدارک کے لیے عالمی ماحول میں محنت کریں۔ لیکن اگر وہ نہیں کر رہے تو اس محاذ پر کام کرنے والی جماعتوں کو کوئی صورت ضرور نکالنی چاہیے اور قادیانیوں کی ان یکطرفہ سرگرمیوں کے سدباب کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے، اور اس سلسلہ میں ہمارے ہم خیال نظریاتی حضرات مغربی ممالک میں موجود ہیں ان سے رابطہ کر کے مختلف ورکنگ گروپ بنائے جا سکتے ہیں۔

جبکہ چوتھی بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء، اور ۱۹۸۴ء کی تحریکاتِ ختم نبوت میں تمام مذہبی حلقے اور طبقات مشترکہ طور پر سرگرم عمل تھے جس سے قومی تحریک کا ماحول بن گیا تھا۔ آج وہ صورتحال نہیں ہے، ہماری محنت سمٹ کر محدود ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جبکہ قادیانیوں کی ملکی اور بین الاقوامی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان تحریکات میں تمام مسالک کی قیادتیں فرنٹ پر تھیں اور مشترکہ جدوجہد ہوئی تھی، ان کے ساتھ وکلاء حضرات، تاجر برادری، اساتذہ اور طلبہ کی تنظیمیں بھی متحرک تھیں۔ یہ ماحول دوبارہ واپس لانے کی ضرورت ہے ورنہ قادیانی سازشوں اور ان کے حق میں بین الاقوامی حلقوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا کرنا مشکل ہو جائے گا۔

اکتوبر ۲۰۲۳ء

اخروی نجات اور مواخذہ کے ضابطےمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۵)ڈاکٹر محی الدین غازی
حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف ذوقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مذہبی انقلابی جماعتوں کی سماجیات اور نفسیاتپروفیسر راؤ شاہد رشید
عصرِ حاضر کے فساد کی فکری بنیادیںمولانا محمد بھٹی
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۱)ڈاکٹر شیر علی ترین

اخروی نجات اور مواخذہ کے ضابطے

محمد عمار خان ناصر

سورہ مائدہ کی آیت ۱۹ میں اہل کتاب سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:

یَـٰأَهلَ ٱلكِتَـٰبِ قَد جَاءَكُم رَسُولُنَا یُبَیِّنُ لَكُم عَلَىٰ فَترَة مِّنَ ٱلرُّسُلِ أَن تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِن بَشِیر وَلَا نَذِیر فَقَد جَاءَكُم بَشِیر وَنَذِیر وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیء قَدِیر (المائدہ، آیت ۱۹)

’’اے اہل کتاب، تحقیق تمھارے پاس ہمارا رسول آیا جو تمھارے سامنے حق کو واضح کرتا ہے، رسولوں کے آنے میں ایک انقطاع (یا ایک طویل وقفے) کے بعد، تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے اور ڈرانے والا نہیں آیا۔ سو اب تمھارے پاس خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا آ چکا ہے اور اللہ ہر چیزپر قدرت رکھنے والا ہے۔“

اس آیت سے متکلمین اسلام نے زمانہ فترت کی اصطلاح اخذ کی ہے۔ فترت کا لفظی مطلب ہے کسی چیز کے تسلسل میں انقطاع اور وقفہ پیدا ہو جانا۔ علم کلام میں اس سے مراد وہ زمانہ لیا جاتا ہے جب کسی قوم یا علاقے میں پیغمبر کی بعثت کے بعد طویل عرصہ گزر چکا ہو اور مرور زمانہ سے اس کی صحیح تعلیم ضائع یا لوگوں کے ذہن اور عمل سے محو یا باطل کے ساتھ خلط ملط ہو چکی ہو۔

آیت سے معلوم ہوتا ہےکہ   اہل کتاب ، کتاب الٰہی  کا حامل ہونےکے باوجود   مذہبی روایت میں پیدا ہو جانے والے اختلافات کی وجہ سے   اس کے محتاج تھے کہ حق وباطل کے فیصلے کے لیے اللہ کی طرف سے کسی نبی کو بھیجا جائے اور  نبی کی بعثت سے پہلے  وہ یہ عذر بھی پیش کر سکتے تھے کہ  چونکہ ان کے پاس نبی نہیں آیا، اس لیے  حق وباطل کے باب میں  ان کا مواخذہ نہ کیا جائے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ  متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت سے پہلے دور جاہلیت میں وفات پانے والے مختلف لوگوں کے متعلق سوال کیے جانے پر فرمایا کہ وہ شرک کرنے کی وجہ سے جہنم میں ہیں۔

قاضی ابن عطیہ الاندلسیؒ نے تفسیر المحرر الوجیز میں  سورۃ الانعام، آیت ٩٠ کے تحت اس سوال پر کلام کیا ہے کہ جب قرآن مجید کی رو سے رسولوں کی بعثت سے پہلے اللہ تعالیٰ کسی کو عذاب نہیں دیتے اور متکلمین (یعنی اشاعرہ) کا یہ کہنا ہے کہ محض عقل سے انسان پر کوئی چیز واجب نہیں ہوتی، یعنی نبی کی دعوت کے بغیر انسان محض عقلی استدلال کی بنیاد پر توحید پر ایمان رکھنے کے بھی مکلف نہیں تو پھر دور جاہلیت میں  مرنے والے لوگ کیونکر عذاب کے مستحق ہو سکتے ہیں۔

ابن عطیہ نے اس کی توجیہ یہ کی ہے کہ دراصل توحید کی دعوت حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے ہی پوری دنیا میں عام رہی ہے، اس لیے انبیاء کے لائے ہوئے شرائع اور احکام پر عمل کے تو لوگ مکلف نہیں ہیں، لیکن توحید کے متعلق انسان مکلف ہیں کہ شریعت کے اس حکم کو بجا لاتے ہوئے (جس کا علم ان تک انبیاء کی عمومی دعوت کے ذریعے سے پہنچ چکا ہے) دلائل توحید پر غور کریں اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھیں۔ ہاں، اگر کسی تک شریعت کا یہ حکم نہ پہنچا ہو کہ وہ ایمان باللہ کا مکلف ہے اور پھر اس نے خدا پر ایمان سے ایک طرح کی علیحدگی سی اختیار کر لی ہو، لیکن کفر نہ کیا ہو اور نہ شرک میں مبتلا ہوا ہو، تو ان کے متعلق اہل علم کا کہنا ہے کہ یہ اہل فترت ہیں اور ان کا حکم پاگلوں اور نابالغ بچوں کا ہے، اور وہ جنت میں داخلے کے حقدار ہوں گے۔ تاہم جنھوں نے غور وفکر میں کوتاہی کرتے ہوئے بت پرستی اختیار کر لی تو وہ قابل مواخذہ اور عذاب کے مستحق ہیں۔ دور جاہلیت میں وفات پانے والے مشرکین بھی چونکہ اسی زمرے میں آتے ہیں، اس لیے ان کے متعلق احادیث میں بیان کیا گیا حکم اصول شرع کی رو سے درست ہے۔

ابن عطیہؒ کی اس توجیہ کا ایک جزو درست لیکن دوسرا جزو محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ اگر انسانوں کے کسی گروہ تک توحید کا پیغام انبیاء کی نسبت سے پہنچا ہو، یعنی فی الجملہ ایسے قرائن واسباب موجود ہوں جو ان کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہوں اور اس کے باوجود وہ تعصب یا تقلید کی وجہ سے اس کو نظر انداز کر دیں تو اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے بے پروائی یا کوتاہی سے کام لیا ہے اور اس پر ان کا مواخذہ ہوگا۔ دور جاہلیت کے اہل عرب کی صورت حال ایسی ہی تھی۔ ان کے ہاں مشرکانہ تصورات ورسوم بعثت نبوی سے کوئی تین صدیاں قبل رائج ہوئے تھے، لیکن توحید کا تصور بالکل مٹ نہیں گیا تھا۔ یہ بھی ان پر واضح تھا کہ ابراہیم علیہ السلام نے جو دین دیا، وہ بت پرستی کا دین نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہ ارد گرد کی اقوام میں سے اہل کتاب سے اور ان کے دین سے بھی واقف تھے اور جانتے تھے کہ ان کے پاس اللہ کی اتاری ہوئی کتابیں موجود ہیں۔ اسی پس منظر میں  ’’حنیفیت“ کا ایک پورا رجحان عرب میں موجود تھا اور بہت سے سوچنے سمجھنے والے لوگ بت پرستی اور شرک سے بیزار ہو کر ہدایت کی تلاش میں سرگرم تھے۔

تاہم توحید سے واقفیت کی یہی صورت حال دنیا کے تمام مشرک معاشروں میں پائی جاتی تھی، یہ دعویٰ بہت مشکل ہے اور عمومی تاریخی معلومات اس کی تصدیق نہیں کرتیں۔ اگر کسی معاشرے تک ابراہیمی مذاہب کے توسط سے یہ تعلیم پہنچ کر اسے متوجہ کر چکی ہو اور غور وفکر کے دواعی پائے جانے کے باجود لوگ توجہ نہ دیں یا تعصب کی وجہ سے انکار کریں تو یقیناً‌ وہاں بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے مشرکین سے متعلق مجدد الف ثانیؒ وغیرہ کا رجحان یہی ہے کہ ان تک توحید کی عمومی دعوت پہنچ چکی ہے جس کے بعد یہ غور وفکر کرنے اور توحید پر ایمان لانے کے مکلف ہیں۔ دنیا کے باقی معاشروں کا اصولی حکم بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔


یہ سوال عموماً‌  ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور پیدا ہونا بالکل فطری ہے کہ دنیا میں بہت سے لوگ جو حالت کفر میں دنیا سے چلے گئے اور بظاہر ان کے بعض اعذار سمجھ میں آتے ہیں، ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت میں کیسے معاملہ فرمائیں گے؟ متعدد  احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایسے لوگ قیامت کو اپنا عذر پیش کر سکیں گے اور ان کے عذر کو قبول کرتے ہوئے  ان کو ایمان کی آزمائش کا موقع دوبارہ دیا جائے گا۔  چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

يؤتى بأربعة يوم القيامة بالمولود والمعتوه، ومن مات في الفترة وبالشيخ الفاني كلهم يتكلم بحجته فيقول الله تبارك وتعالى لعنق من جهنم أحسبه قال: ابرزي فيقول لهم: إني كنت أبعث إلى عبادي رسلا من أنفسهم وإني رسول نفسي إليكم ادخلوا هذه فيقول من كتب عليه الشقاء: يا رب أتدخلناها ومنها كنا نفرق؟ ومن كتبت له السعادة فيمضي فيقتحم فيها مسرعا قال: فيقول الله: قد عصيتموني وأنتم لرسلي أشد تكذيبا ومعصية قال: فيدخل هؤلاء الجنة ويدخل هؤلاء النار. (مسند البزار، رقم ۶۹۵۵)

’’قیامت کے دن نابالغ بچے اور پاگل اور زمانہ فترت  میں مر جانے والے اور  انتہائی ضعیف العمر کو لایا جائے گا اور یہ سب اپنا اپنا عذر پیش کریں گے۔  اللہ تعالیٰ جہنم کی ایک گردن سے کہیں گے کہ ان کے سامنے نمودار ہو جا۔ پھر ان لوگوں سے فرمائے گا کہ میں نے اپنے بندوں کی طرف تو انھی میں سے اپنے رسول بھیجے تھے، لیکن  تمھیں میں براہ راست حکم دیتا ہوں کہ اس آگ میں داخل ہو جاو۔  اس پر ان میں سے جن کی قسمت میں  بدنصیب ہونا لکھا ہوگا، وہ کہیں گے کہ اے پروردگار، کیا تو ہمیں اس میں  ڈالنا چاہتا ہے جبکہ ہم اسی سے تو ڈر رہے تھے۔  اور جن کی قسمت میں  خوش بختی لکھی ہوگی،  وہ (حکم کی تعمیل کرتے ہوئے) آگے بڑھیں گے اور تیزی سے  آگ میں داخل ہو جائیں گے۔  چنانچہ اللہ تعالیٰ   انکار کرنے والوں سے فرمائیں گے کہ تم نے میری نافرمانی کی ہے   تو میرے رسولوں کی اس سے بڑھ کر تکذیب اور نافرمانی کرنے والے ہوتے۔  چنانچہ  حکم ماننے والے جنت میں اور  نافرمانی کرنے والے آگ میں داخل ہو جائیں گے۔“

یہی مضمون کچھ فرق کے ساتھ متعدد دیگر صحابہ مثلاً‌ اسود بن سریع،  معاذ بن جبل، ابو سعید خدری ، ثوبان اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے بھی   مروی ہے۔  (مسند احمد، رقم  ۱۶۰۵۵،  المعجم الاوسط للطبرانی، رقم  ۸۱۸۴،  مسند البزار، رقم ۳۵۴۱، تفسیر الطبری  ج ۱۷، ص ۴۰۲)

ان روایات  میں وضاحت کی گئی ہے کہ  جو لوگ اللہ کے حکم پر اس آگ میں داخل  ہوں گے، وہ ان پر  ٹھندک اور سلامتی بن جائے گی۔ اسی طرح  ان  لوگوں کے عذر کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے جو وہ پیش کریں گے۔ مثلاً‌  بہرا کہے گا کہ میں تو سن ہی نہیں سکتا تھا۔   (روایت میں بہرے کا ذکر ہے، جبکہ اسی پر دیگر معذوروں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے جن کے ظاہری حواس کا نقص بلوغ دعوت میں مانع ہو۔) کم عقل لوگ جنھیں چیزوں کی سمجھ نہ ہو،  کہیں گے کہ ہمیں تو سمجھ ہی نہیں تھی اور بچے ہماری بے عقلی کی وجہ سے مینگنیاں اٹھا اٹھا کر ہم پر پھینکتے تھے۔ انتہائی ضعیف العمر لوگ کہیں گے کہ ہمیں ایسی حالت میں دعوت پہنچی  کہ ہم اس وقت  قوت فیصلہ ہی کھو چکے تھے۔ جبکہ ایسے لوگ جو دور فترت میں مرے، یعنی جب انبیاء کی دعوت مرور زمانہ سے مٹ چکی تھی اور کسی قابل اعتماد اور واضح صورت میں موجود نہیں تھی، وہ کہیں گے کہ ہم تک تو اللہ کا کوئی نبی  پیغام لے کر آیا ہی نہیں۔ 

اس اصول کو توسیع دیتے ہوئے امام غزالیؒ  فرماتے ہیں کہ جن لوگوں تک اسلام یا پیغمبر اسلام کا تعارف ایسی صورت میں پہنچا ہو کہ بجائے متوجہ کرنے کے انھیں متنفر کرنے کا باعث بنے، وہ بھی اسی زمرے میں شمار ہوتے  ہیں۔ گویا ایسے لوگ بھی اصحاب فترت میں شمار ہوتے ہیں۔ لکھتے ہیں:

ان اکثر نصاری الروم والترک فی هذا الزمان تشملهم الرحمة ان شاء اللہ تعالیٰ اعنی الذین هم فی اقاصی الروم والترک ولم تبلغهم الدعوۃ فانهم ثلاثة اصناف صنف لم یبلغهم اسم محمد صلی اللہ علیه وسلم اصلا فهم معذورون وصنف بلغهم اسمه ونعته وما ظهر علیه من المعجزات وهم المجاورون لبلاد الاسلام والمخالطون لهم وهم الکفار الملحدون وصنف ثالث بین الدرجتین بلغهم اسم محمد صلی اللہ علیه وسلم ولم یبلغهم نعته وصفته بل سمعوا ایضا منذ الصبا ان کذابا ملبسا اسمه محمد ادعی النبوۃ کما سمع صبیاننا ان کذابا یقال له المقفع بعثه اللہ تحدی بالنبوۃ کاذبا فهولاء عندی فی اوصافه فی معنی الصنف الاول فانهم مع انهم لم یسمعوا اسمه سمعوا ضد اوصافه وهذا لا یحرک داعیة النظر فی الطلب.(فیصل التفرقۃ، مجموعۃ رسائل الامام الغزالی، ۳/۹۶)

  ”اس زمانے میں روم کے مسیحیوں اور ترکوں کی اکثریت ان شاء اللہ، اللہ کی رحمت کے دائرے میں شامل ہوں گے۔ میری مراد وہ لوگ ہیں جو سلطنت روم اور ترکوں کے دوردراز علاقوں میں رہتے ہیں اور ان تک اسلام کی دعوت نہیں پہنچی۔ یہ تین قسم کے لوگ  ہیں۔ ایک وہ جنھوں نے سرے سے کبھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سنا۔ یہ تو معذور ہیں۔ دوسرے وہ جن تک آپ کا نام اور اوصاف اور آپ کے حق میں ظاہر ہونے والے اوصاف پہنچے ہیں اور وہ اسلامی ممالک کے پڑوس میں رہتے ہیں اور مسلمانوں سے ان کا میل ملاپ رہتا ہے۔ یہ لوگ کافر اور بے دین ہیں۔ تیسرا گروہ ان دونوں کے درمیان ہے۔ ان تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام تو پہنچا ہے، لیکن آپ کے حالات و اوصاف نہیں پہنچے، بلکہ انھوں نے بچپن سے یہ سن رکھا ہے کہ (نعوذ باللہ) محمد نام کے ایک جھوٹے اور فریبی نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا، ایسے ہی جیسے ہمارے بچوں نے سن رکھا ہے کہ مقفع نامی ایک کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا۔ یہ گروہ میرے نزدیک اپنے حالات کے لحاظ سے پہلے گروہ کے حکم میں ہے، کیونکہ ان تک نہ صرف یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی تعارف نہیں پہنچا بلکہ انھوں نے اس کے الٹ سن رکھاہے اور یہ چیز (ان میں اسلام کے بارے میں) تلاش اور جستجو کا داعیہ پیدا نہیں کرتی۔“

احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ  جیسے جیسے قیامت کا وقت قریب ہوتا جائے گا،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذریعے سے  بھیجی گئی ہدایت کے أجزاء بھی ایک ایک کر کے ضائع ہوتے چلے جائیں گے، تاآنکہ مسلمانوں میں بھی  صرف خدا کی توحید کو  جاننے والے باقی رہ جائیں گے۔   چنانچہ حذیفہ بن الیمانؓ روایت کرتے ہیں:

يدرس الإسلام كما يدرس وشي الثوب ، حتى لا يدرى ما صيام ولا صلاة ولا نسك ولا صدقة، وليسرى على كتاب الله عز وجل في ليلة، فلا يبقى في الأرض منه آية، وتبقى طوائف من الناس الشيخ الكبير والعجوز، يقولون : أدركنا آباءنا على هذه الكلمة: لا إله إلا الله، فنحن نقولها، فقال له صلة : ما تغني عنهم : لا إله إلا الله ، وهم لا يدرون ما صلاة ولا صيام ولا نسك ولا صدقة؟ فأعرض عنه حذيفة، ثم ردها عليه ثلاثا، كل ذلك يعرض عنه حذيفة ، ثم أقبل عليه في الثالثة ، فقال : يَا صِلَةُ، تُنْجِيهِمْ مِنَ النَّارِ ثَلَاثًا (سنن ابن ماجہ رقم ۴۰۸۱)

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام اس طرح مٹ جائے گا جیسے کپڑے کے نقش ونگار مٹ جاتے ہیں، یہاں تک کہ لوگوں کو نہ روزے کا پتہ ہوگا نہ نماز کا، نہ حج کا اور نہ صدقے کا۔ اللہ کی کتاب ایک ہی رات میں اٹھا لی جائے گی اور زمین پر اس کی ایک بھی آیت باقی نہیں رہے گی۔ لوگوں میں کچھ بڈھے اور بڈھیاں رہ جائیں گی۔ وہ کہیں گے کہ ہم نے اپنے آباواجداد کو یہ کلمہ پڑھتے ہوئے سنا کہ لا الہ الا اللہ، تو ہم بھی یہی کلمہ پڑھتے ہیں۔  یہ روایت سن کر ایک شاگرد نے حضرت حذیفہ سے کہا کہ لا الہ الا اللہ ان کے کس کام آئے گا، جبکہ انھیں نہ نماز کا پتہ ہوگا نہ روزے کا، نہ حج کا اور نہ صدقے کا؟ حذیفہ نے جواب دینے سے گریز کیا، لیکن پھر تیسری دفعہ سوال دہرائے جانے پر تین دفعہ تکرار کے ساتھ کہا کہ یہ ایک کلمہ ہی انھیں آگ سے نجات دلا دے گا۔“

سیدنا حذیفہ کے ارشاد سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ دور فترت میں لوگوں کو ہدایت الٰہی تک جتنی رسائی حاصل ہوگی، ان کا مواخذہ بھی اسی کے مطابق ہوگا۔


قرآن وحدیث کے حوالے سے جب اہل ایمان کے لیے مختلف نیک اعمال کا اجر بیان کیا جاتا ہے تو ایک سوال جو عمومی طور پر جدید ذہن میں پیدا ہوتا ہے اور بعض اوقات مذہب سے نفور طبقے کی طرف سے بھی اٹھایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ اہل کفر بھی دنیا میں نیکی کے بہت سے کام کرتے ہیں تو ان کے لیے اللہ نے کیا اجر رکھا ہے؟ اور اگر نہیں رکھا تو کیا یہ ناانصافی نہیں ہے؟

قرآن مجید اور احادیث سے اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ اللہ تعالی کے ہاں جو کام نیکی کے کام شمار ہوتے ہیں، ان کا صلہ انسان کو ضرور دیا جاتا ہے، البتہ اللہ نے اس کا ضابطہ یہ بنایا ہے کہ جو لوگ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے یا اللہ کے رسولوں کی دعوت پر کسی تعصب یا عناد کی وجہ سے توجہ نہیں دیتے، ان کے اعمال آخرت کے اجر کے حوالے سے ضائع کر دیے جاتے ہیں، اور جو کچھ بھی اس کا صلہ بنتا ہے، وہ اس دنیا میں ہی مختلف صورتوں میں ان کو دے دیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی چند روزہ زندگی کو ترجیح دے کر گویا خود اس کا انتخاب کر لیتے ہیں کہ ان کے اچھے اعمال کا حساب دنیا میں ہی صاف کر دیا جائے اور جب آخرت میں وہ پہنچیں تو ان کے نامہ اعمال میں سزا بھگتنے کے لیے صرف ان کا کفر اور انکار موجود ہو۔

ارشاد باری ہے:

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا وَہُمۡ فِیۡہَا لَا یُبۡخَسُوۡنَ ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَیۡسَ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوۡا فِیۡہَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿ہود، آیت ۱۵، ۱۶﴾

’’جو دنیا کی زندگی اور اُس کی زینت چاہتے ہیں، ہم اُن کے اعمال کا بدلہ اُن کو یہیں چکا دیتے ہیں اور اُس میں اُن کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دنیا میں جو کچھ اُنھوں نے بنایا، وہ سب ملیامیٹ ہوا اور اُن کا کیا دھرا اب باطل ہے۔“

سورۃ الشوریٰ میں ارشاد ہے:

مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ وَمَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَمَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ ﴿آیت ۲۰﴾

’’جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے، ہم اُس کی کھیتی میں اُس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور دنیا میں بھی اُس کا حصہ اُسے دیتے ہیں اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے، اُس کو ہم اُس میں سے (جتنا چاہتے ہیں)، دے دیتے ہیں، مگر (اِس کے بعد پھر) آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔“

یہ اللہ کا مقرر کیا ہوا ضابطہ ہے جو عقلاً‌ بھی بالکل واضح ہے۔ جو شخص آخرت پر اور آخرت کی جزا وسزا پر ہی یقین نہیں رکھتا اور اللہ کے رسولوں کی مسلسل تعلیم وتذکیر کو اپنی غفلت یا تکبر کی نذر کر دیتا ہے، وہ اللہ کی بارگاہ میں پیش ہونے پر آخر کس منہ سے یہ مطالبہ کر سکتا ہے کہ اس نے دنیا میں کئی نیک اعمال کیے تھے، اب اسے ان کا بدلہ دیا جائے؟

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(431) شَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا

شھد شاھد کا ترجمہ کچھ لوگوں نے فیصلہ کرنا اور زیادہ تر لوگوں نے گواہی دینا کیا ہے۔

وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِنْ أَہْلِہَا۔ (یوسف: 26)

”اس کے قبیلے میں سے ایک فیصلہ کرنے والے نے فیصلہ کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی“۔ (سید مودودی)

”اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی“۔ (احمد رضا خان)

”اور عورت کے قبیلے ہی کے ایک شخص نے گواہی دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

شھد کے معنی فیصلہ کرنے کے نہیں آتے، گواہی دینے کے آتے ہیں لیکن اس شخص نے مشاہدہ نہیں کیا تھا کہ گواہی دیتا۔ اس شخص نے نہ تو فیصلہ کیا اور نہ ہی گواہی دی، اس نے تو اپنی بات رکھی تھی، اس لیے شاھد کا ترجمہ گواہ کرنا درست نہیں ہوگا، وہ شخص گواہ تھا بھی نہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے اور یہ اللہ کی طرف سے حضرت یوسف کے حق میں خاص انتظام ہی تھا   کہ وہ اس خاص اس موقع پر کہیں سے وہاں آ گیا تھا اور اسی لیے اسے اپنی بات رکھنے کا موقع مل گیا تھا۔ تو شھد شاھد کا ترجمہ ہوگا ایک شخص جو وہاں آگیا تھا۔  شھد کا معنی موجود ہونا ہوتا بھی ہے۔ اور چوں کہ اس کا قول موجود ہے اس لیے قال وہاں مقدر ہوگا۔ ترجمہ ہوگا:

”اس عورت کے کنبے میں سے ایک موجود شخص نے جو وہاں آگیا تھا، کہا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(432) قَالَ إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ

درج ذیل آیت میں زیادہ تر لوگوں نے رأی اور قال کا فاعل عورت کے شوہر کو بناکر ترجمہ کیا ہے۔ جب کہ ضمائر میں تبدیلی کا کوئی سبب نہیں ہو تو تبدیلی نہیں کی جاتی ہے۔ شھد شاھد کے بعد آنے والے ضمائر کو شاھد کی طرف لوٹانا چاہیے۔ بعض لوگوں نے کید کا ترجمہ چالاکی کیا ہے، جب کہ یہاں چالاکی کا محل نہیں ہے اور کید کا معنی چالاکی ہوتا بھی نہیں ہے۔

فَلَمَّا رَأَی قَمِیصَہُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّہُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ۔(یوسف: 28)

”سو جب (عزیزنے) ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا دیکھا تو (عورت سے) کہنے لگا کہ یہ تم عورتوں کی چالاکی ہے، بے شک تمہاری چالاکیاں بھی غضب ہی کی ہوتی ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی، یہاں کید کا ترجمہ چالاکی کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے۔)

”جب شوہر نے دیکھا کہ یوسفؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا،یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں“۔ (سید مودودی، یہاں چالاکیاں نہیں، بلکہ چالبازیاں ترجمہ ہوگا۔)

”خاوند نے جو دیکھا کہ یوسف کا کرتا پیٹھ کی جانب سے پھاڑا گیا ہے تو صاف کہہ دیا کہ یہ تو تم عورتوں کی چال بازی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جب اس کا کرتا دیکھا (تو) پیچھے سے پھٹا تھا (تب اس نے زلیخا سے کہا) کہ یہ تمہارا ہی فریب ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمے میں ضمیر کا ترجمہ شوہر یا عزیز سے نہیں کیا ہے اور یہی درست طریقہ ہے۔

(433) مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ

یہاں یدعون مذکر ضمیر استعمال ہوئی ہے لیکن مراد تو زنانِ مصر ہی ہیں۔ اس لیے اردو میں ترجمہ مونث کا کیا جائے گا۔ ’جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں‘ کی بجائے ’جو یہ عورتیں مجھ سے چاہتی ہیں‘۔

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا یَدْعُونَنِی إِلَیْہِ۔  (یوسف: 33)

”یوسفؑ نے کہا،اے میرے رب، قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں“۔ (سید مودودی، لوگ نہیں بلکہ عورتیں)

”یوسف نے عرض کی اے میرے رب! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”یوسف نے کہا کہ پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ لوگ دعوت دے رہی ہیں“۔ (ذیشان جوادی، لوگ نہیں بلکہ عورتیں۔)

”یوسف نے کہا اے میرے رب میرے لیے قید حانہ بہتر ہے اس کام سے کہ جس کی طرف مجھے بلا رہی ہیں“۔ (احمد علی، بہتر نہیں بلکہ زیادہ پسند۔)

”یوسف نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! جس بات کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس سے تو مجھے جیل خانہ بہت پسند ہے“۔ (محمد جوناگڑھی، ”بہت پسند ہے“ نہیں کہا ہے، ”اس عمل سے زیادہ پسند ہے“ کہا ہے۔)

(434)  فَتَیَانِ کا ترجمہ

وَدَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ فَتَیَانِ۔ (یوسف: 36)

”اور یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ (یعنی اسی زمانہ میں) اور بھی دو غلام (بادشاہ کے) جیل خانہ میں داخل ہوئے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”قید خانہ میں دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے“۔ (سید مودودی)

مولانا تھانوی کی طرح مولانا مودودی نے فَتَیَانِ کا ترجمہ دو غلام کیا اور اس کے بعد تفسیر میں اسی بنیاد پر استدلال کی ایک عمارت بھی کھڑی کی ہے، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہاں فتیان کا ترجمہ دو غلام نہیں بلکہ دو جوان ہوگا۔ فتی کا لفظ جب کسی شخص کی طرف مضاف ہو تو اس میں غلام کا مفہوم پیدا ہوسکتا ہے، ورنہ اس کا اصل مطلب غلام نہیں بلکہ نوجوان ہی ہے۔ لگتا ہے انھیں زمخشری کی عبارت سے غلط فہمی ہوگئی، زمخشری نے لکھا ہے: فَتَیانِ عبدان للملک ”دو جوان جو بادشاہ کے غلام تھے“، یہ زمخشری کی طرف سے تفسیری اضافہ ہے، لفظ فَتَیَانِ کا یہ معنی نہیں ہے۔ تفسیر جلالین میں ہے: غُلَامَانِ لِلْمَلِکِ، لیکن عربی میں غلام کا مطلب اردو کا غلام نہیں بلکہ نوجوان ہی ہوتا ہے۔

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اس کے ساتھ ہی دو اور جوان بھی جیل خانے میں داخل ہوئے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(435) إِنِّی أَرَانِی کا ترجمہ

أَرَانِی فعل مضارع ہے نہ کہ فعل ماضی، اس کا ترجمہ حال والا کیا جائے گا نہ کہ ماضی والا۔ حال والے ترجمے سے ایک تو یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جلد ہی یہ خواب دیکھا ہے، مزید یہ مفہوم بھی نکل سکتا ہے کہ وہ خواب کئی مرتبہ دیکھا ہے۔ بہرحال قرآن نے جو اسلوب اختیار کیا ہے، ترجمے میں اس کی رعایت ہونی چاہیے۔

(۱) قَالَ أَحَدُہُمَا إِنِّی أَرَانِی أَعْصِرُ خَمْرًا وَقَالَ الْآخَرُ إِنِّی أَرَانِی أَحْمِلُ فَوْقَ رَأْسِی خُبْزًا تَأْکُلُ الطَّیْرُ مِنْہُ۔ (یوسف: 36)

”ان میں ایک بولا میں نے خواب میں دیکھا کہ شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرند کھاتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا: میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

یہ ماضی کا ترجمہ ہے جو عربی عبارت کے مطابق نہیں ہے۔

”ایک نے ان میں سے کہا کہ (میں نے خواب دیکھا ہے) دیکھتا (کیا) ہوں کہ شراب (کے لیے انگور) نچوڑ رہا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ (میں نے بھی خواب دیکھا ہے) میں یہ دیکھتا ہوں کہ اپنے سر پر روٹیاں اٹھائے ہوئے ہوں اور جانور ان میں سے کھا رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

اس ترجمے میں جتنے قوسین ہیں ان کے مشمولات غیر ضروری ہیں۔

”کہنے لگا ان میں سے ایک کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں نچوڑتا ہوں شراب اور دوسرے نے کہا میں دیکھتا ہوں کہ اٹھارہا ہوں اپنے سر پر روٹی کہ جانور کھاتے ہیں اس میں سے“۔ (شاہ عبدالقادر)

مذکورہ بالا دونوں ترجموں میں الطیر کا ترجمہ جانور کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ الطیر کا ترجمہ پرندے ہونا چاہیے۔ شاہ رفیع الدین نے بھی الطیر کا ترجمہ جانور کیا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں جانور کا ایک معنی پرندہ بھی دیا ہے۔ ممکن ہے پہلے یہ استعمال رائج رہا ہو۔

(۲) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ۔ (یوسف: 43)

”بادشاہ نے کہا، میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی فربہ گائیں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بادشاہ نے کہا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات موٹی گائیں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری ترجمہ آیت کے اسلوب کے مطابق ہے یعنی حال کے صیغے میں ہے۔

(436)  قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیہِ تَسْتَفْتِیَانِ

قُضِیَ الْأَمْرُ الَّذِی فِیہِ تَسْتَفْتِیَانِ۔ (یوسف: 41)

”فیصلہ ہو گیا اُس بات کا جو تم پوچھ رہے تھے“۔ (سید مودودی)

”حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے“۔ (احمد رضا خان)

”جو امر تم مجھ سے پوچھتے تھے وہ فیصلہ ہوچکا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تم دونوں جس کے بارے میں تحقیق کر رہے تھے اس کام کا فیصلہ کردیا گیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا ترجموں میں تستفتیان کا ترجمہ ماضی سے کیا گیا ہے، جب کہ وہ حال کی بات ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

”فیصلہ ہوچکا اس بات کے بارے میں جو تم پوچھ رہے ہو“۔

(437) فَأَرْسِلُونِ کا ترجمہ

ارسال کا ایک مطلب تو بھیجنا ہوتا ہے اور ایک مطلب جانے دینا ہوتا ہے۔ موقع و محل کی مناسبت سے مفہوم متعین ہوتا ہے۔ درج ذیل آیت میں بھیجنے کے مقابلے میں جانے دینے کا مفہوم زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے:

أَنَا أُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِیلِہِ فَأَرْسِلُونِ۔  (یوسف: 45)

”میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یوسفؑ کے پاس) بھیج دیجیے“۔ (سید مودودی)

”میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا مجھے بھیجو“۔ (احمد رضا خان)

”میں آپ کو اس کی تعبیر (لا) بتاتا ہوں مجھے (جیل خانے) جانے کی اجازت دے دیجیے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میں تمہیں اس کی تعبیر بتلا دوں گا مجھے جانے کی اجازت دیجئے“۔ (محمد جوناگڑھی)

بھیجنے اور اجازت دینے سے زیادہ بہتر’جانے دینا‘ ہے۔

”مجھے جانے دیجیے“۔

(438) لعلّ کا ترجمہ

لعلّ کا ترجمہ ہمیشہ شاید نہیں ہوتا ہے، درج ذیل آیت میں شاید کا استعمال جملے کے مفہوم کو عجیب سا بنادیتا ہے۔

لَعَلِّی أَرْجِعُ إِلَی النَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَعْلَمُونَ۔ (یوسف: 46)

”شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں“۔ (سید مودودی)

”شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”شاید میں لوگوں کے پاس باخبر واپس جاؤں تو شاید انہیں بھی علم ہوجائے“۔ (ذیشان جوادی)

”تاکہ میں واپس جاکر ان لوگوں سے کہوں کہ وہ سب جان لیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(439) بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ

درج ذیل آیت میں سوتیلا بھائی مناسب تعبیر نہیں ہے، باپ کی طرف سے ایک بھائی کی تعبیر بہتر ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے میں یہاں مراد یہ ہے کہ وہ بھائی جو تمہارے باپ کے پاس ہے، جس کے نام سے تم نے غلہ مانگا ہے اسے لے کر آنا۔

ائْتُونِی بِأَخٍ لَکُمْ مِنْ أَبِیکُمْ۔ (یوسف: 59)

”اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا“۔ (سید مودودی)

”اپنا سوتیلا بھائی میرے پاس لے آؤ“۔(احمد رضا خان)

”جو باپ کی طرف سے تمہارا ایک اور بھائی ہے اسے بھی میرے پاس لیتے آنا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تم میرے پاس اپنے اس بھائی کو بھی لانا جو تمہارے باپ سے ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تم اپنے باپ کے پاس سے اپنے بھائی کو لے آنا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(جاری)


حب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف ذوق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(یکم ربیع الاول کو الشریعہ اکادمی، کوروٹانہ، گوجرانوالہ میں ہفتہ وار نقشبندی محفل سے خطاب)


بعد الحمد والصلوۃ۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے، اس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا کیونکہ ایمان کا معیار ہی حبِ رسول ؐہے۔ جناب نبی کریمؐ کے ساتھ جیسی محبت ہوگی ویسا ہی ایمان ہو گا۔ محبت ایمان کی علامت ہے اور تذکرہ محبت کا تقاضا ہے۔ ’’من احب شیئا اکثر ذکرہ‘‘ فطری بات ہے کہ جس کو جس سے محبت زیادہ ہوتی ہے اس کا تذکرہ بھی زیادہ کرتا ہے۔ چنانچہ دنیا بھر میں پورا سال کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں لاکھوں کروڑوں مرتبہ حضور نبی کریمؐ کا ذکر مبارک نہ ہو رہا ہو۔ ماہِ ربیع الاول میں آپؐ کا تذکرہ باقی دنوں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن پورا سال آپ کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی علامت ہے۔ تاہم تذکرے کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے کہ جیسے محبت کے ذوق مختلف ہیں اور تذکرے کے بھی مختلف ذوق ہوتے ہیں، ہر کوئی اپنے طریقے سے تذکرہ اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔

حضور نبی کریم ؐ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تھی۔ امت میں کوئی شخص صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر حضورؐ کے ساتھ محبت کا سوچ بھی نہیں سکتا، دعویٰ تو بعد کی بات ہے۔ لیکن حضرات صحابہ کرامؓ کے آپؐ کے ساتھ محبت کے ذوق اور انداز مختلف تھے۔ میں چند ایک کا ذکر کرنا چاہتا ہوں:

حضرت صدیق اکبرؓ اپنا ذوق ذکر فرماتے ہیں ’’حبب الی من الدنیا ثلاث‘‘ کہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ تین چیزیں پسند ہیں۔ (۱) ’’النظر الی وجہ رسول اللہ‘‘۔ پہلی چیز یہ پسند ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ ہو اور میری آنکھیں ہوں، میں حضور نبی کریمؐ کو نظر جما کر دیکھتا رہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق اکبرؓ کو اس کا موقع بھی زیادہ دیا۔ (۲) حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا مجھے دوسری چیز یہ پسند ہے ’’انفاق مالی علی رسول اللہ‘‘ کہ کماؤں میں اور خرچ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں۔ میری کمائی حضور نبی کریمؐ پر خرچ ہو، یہ میری تمنا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالی نے اس کا بھی حضرت صدیق اکبرؓ کو سب سے زیادہ موقع دیا۔ (۳) ’’ان تکون ابنتی تحت رسول اللہ‘‘ حضرت صدیق اکبرؓ نے تیسری خواہش یہ بیان کی کہ مجھے یہ چیز پسند ہے کہ بیٹی میری ہو اور حضور نبی کریمؐ کی زوجہ ہو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کا موقع بھی دیا۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے فرمایا مجھے دنیا میں سے تین چیزیں پسند ہیں: حضور نبی کریم ؐ چہرے کو تکتے رہنا، اپنا مال حضورؐ پر خرچ کرنا ، اور میری بیٹی کا زوجہ رسول ہونا۔

دوسری طرف حضرت عمر و بن العاصؓ جو کہ اکابر صحابہؓ میں سے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے کسی نے پوچھا کہ حضور اکرمؐ کے چہرہ انور کی کیفیت بیان فرمائیں کہ آپؐ کا چہرہ کیسا تھا؟ حضرت عمرو بن العاص ؓنے فرمایا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ کبھی مجھے آنکھ بھر کر حضورؐ کے چہرہ انور کو دیکھنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوا۔ جب میں نبی اکرمؐ کا دشمن تھا تو دیکھنے کو جی نہیں چاہتا تھا، اور جب آپ کے قدموں میں آیا تو آپؐ کے چہرے کو دیکھنے کا حوصلہ نہیں پڑتا تھا۔ یہ بھی محبت کا انداز ہے کہ کبھی آنکھ اٹھا کر غور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چہرے کو نہیں دیکھا، کبھی اس کا حوصلہ ہی نہیں ہوا، ایمان اور محبت کا اتنا رعب تھا۔ یہ بھی محبت کا ایک ذوق ہے۔ حضور نبی کریمؐ کے چہرے کو دیکھتے رہنا یہ بھی محبت کا انداز ہے، اور نہ دیکھ سکنا بھی محبت ہی کا اظہار ہے۔

محبت رسولؐ کا ایک اور انداز ذکر کیا جاتا ہے۔ ایک انصاری صحابی جو کہ یہودیوں کے محلے میں رہتے تھے، ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے، انہوں نے سمجھا کہ میں اسی مرض میں انتقال کر جاؤں گا تو گھر والوں کو وصیت کی کہ اگر رات کو میرا جنازہ پڑھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے جنازے کی اطلاع نہ کرنا۔ ایک مسلمان یہ کہہ رہا ہے کہ حضورؐ کو میرے جنازے کا نہ بتانا۔ اس پر کتنی باتیں ہوئی ہوں گی اور کیا کچھ نہیں کہا گیا ہو گا۔ چنانچہ ان کا رات کو جنازہ ہو ا اور آپؐ کو اطلاع نہیں دی گئی۔ اگلے دن گھر والوں نے بتایا کہ انہوں نے وصیت کی تھی کہ اگر رات کو میرا جنازہ ہوا تو حضور ؐکو نہ بتانا کیونکہ دشمنوں کا محلہ ہے،ایسا نہ ہو کہ آپؐ تشریف لائیں اور آپؐ کو کوئی تکلیف پہنچ جائے۔ یہ بھی محبت کا انداز ہے۔ میرا جنازہ رسول اکرمؐ پڑھائیں، یہ بھی محبت ہے۔ اور میرے جنازے کی اطلاع رسول اکرمؐ کو نہ کرنا کہ میری وجہ سے انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے، یہ بھی محبت ہے۔

حضرت حمزہؓ کے قاتل حضرت وحشی بن حربؓ فتح مکہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے پہچانا ہے؟ حضورؐ نے فرمایا، ہاں پہچان لیا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا میرا ایمان قبول ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ ہاں قبول ہے، ایمان لانے کی وجہ سے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں، یہ وعدہ ہے۔ چنانچہ وہ ایمان لے آئے ، لیکن حضرت وحشیؓ سے حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ وحشی! میں تجھے دیکھوں گا تو اپنے چچا حضرت حمزہؓ کی کٹی پھٹی لاش یاد آئے گی، سینہ چاک، کلیجہ نکالا ہوا۔ اس پر حضرت وحشیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آج کے بعد آپ مجھے نہیں دیکھیں گے۔ چنانچہ حضرت وحشی بن حرب ؓنے مکہ مکرمہ چھوڑا اور شام چلے گئے کہ مجھے دیکھنے سے حضور نبی کریمؐ کو تکلیف کا ایک موقع یاد آتا ہے۔ یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے۔

شمائل ترمذی کی روایت ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تھے تو ہمارا بہت جی چاہتا تھا کہ آپ کے ادب و احترام میں کھڑے ہوں۔ ادب کا تقاضا ہوتا ہے کہ بڑوں کے آنے پر احترام میں کھڑا ہوا جائے۔ جناب نبی اکرمؐ نے بھی فرمایا ہے کہ کوئی بزرگ آ جائے تو اس کے اکرام میں کھڑا ہوا کرو۔ لیکن آپؐ خود اپنے لیے یہ پسند نہیں فرماتے تھے۔ چنانچہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو ہمارا جی چاہتا تھا کہ ہم آپ کے احترام کھڑے ہوں لیکن ہم کھڑے نہیں ہوتے تھے ’’لمکان کراہتہ‘‘ اس لیے کہ آپؐ کو یہ پسند نہیں تھا۔ یہ بھی محبت کا ایک انداز ہے۔

میں نے گزارش کی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت ایمان کی بنیاد اور علامت ہے جبکہ آپؐ کا تذکرہ آپؐ کے ساتھ محبت کا تقاضا ہے۔ مگر محبت کا اپنا اپنا ذوق ہے اور محبت کے اظہار کے طریقے مختلف ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نہ کوئی طریقہ اور ذوق نصیب فرما دیں، آمین یا رب العالمین۔


مذہبی انقلابی جماعتوں کی سماجیات اور نفسیات

پروفیسر راؤ شاہد رشید

'مذہبی انقلابی جماعتوں کی سماجیات اور نفسیات'  یہ کسی نہایت سنجیدہ اور وقیع علمی مقالے کا عنوان لگتا ہے۔ لیکن مجھے اب یہ لگنے لگا ہے کہ بہت مربوط اور منظم تحقیقی اور تجزیاتی مضامین سچائیوں کے کسی رخ کو اگر بے نقاب کرتے بھی ہیں تو کچھ اور، شاید زیادہ اہم، پہلوؤں کو چھپا بھی لیتے ہیں۔ چونکہ انسان اور انسانی صورت حال منطق اور تجزیے سے ورا ہے۔ منطق اور تجزیہ خود انسانی ذہن ہی کی product ہے۔ لیکن انسان صرف ذہن نہیں ہے۔

اسی لیے تجزیاتی مقالات کی بجائے بعض اوقات داستان گو، کہانی نویس اور شاعر، فطرتِ انسانی کے کسی سربستہ راز سے اچانک پردہ اٹھا دیتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوتی ہے کہ تجزیہ نگار صرف اپنے ذہن سے تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں جبکہ داستان گو اور شاعر اپنے پورے وجود کو خرچ کر دیتے ہیں، بلکہ قربان کر دیتے ہیں۔ شاید کوئی عظیم اصول اس کائنات میں کارفرما ہے کہ بقا کا ہر چشمہ، فنا کی زمین سے پھوٹتا ہے۔

میں اس تحریر میں ایک بیچ کی راہ اپنانا چاہتا ہوں۔ میں صرف ذہنی تجزیہ نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے پورے وجود کو بروئے کار لاؤں اور اپنی واردات بیان کروں۔ کبھی کبھی موضوع سے بھٹک بھی جاؤں۔ کچھ غیر اہم باتیں بھی کروں۔ ایسی غیر اہم باتیں جو بڑے عجیب طریقے سے اہم ہو جاتی ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو بیان کروں جو بڑی بڑی باتوں سے آگے نکل جاتی ہیں۔ یہ دیکھنے کی کوشش کروں کہ چھوٹا اور بڑا، اہم اور معمولی کس طرح باہم جڑ جاتے ہیں اور ایک بے رنگ کُل میں بدل جاتے ہیں۔ اس لیے ایک منظم و مربوط بیان کی بجائے، آپ اس تحریر میں منتشر تاثرات پائیں گے۔

مذہبی ہوں یا غیر مذہبی، انقلابی جماعتیں ان بچوں کی طرح ہوتی ہیں جو بڑا ہونے سے انکار کر دیتے ہیں۔ بڑے ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف وزن اور جسامت میں بڑا ہوا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے مقاصد کا از سر نو جائزہ لے، خود پر ہنسنا سیکھے، اونچی آواز میں بات کرنے کی بجائے دھیمی آوازوں کو سننے کی کوشش کرے۔ ذہنی تناؤ کو کم کرے اور اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں کھول دے۔

لیکن ایسا سب کچھ انقلابی جماعت کے لیے موت ہو گا۔ لہذا ان جماعتوں میں بیک وقت بڑا ہونے اور چھوٹا رہنے کی متضاد قوتیں جاری ہو جاتی ہیں جس سے اکثر جماعتیں ٹوٹ بھی جاتی ہیں۔ انقلابی جماعتوں کی یہ ٹوٹ پھوٹ جماعتوں کے لیے شاید نقصان دہ ہوتی ہو لیکن خود انقلابیوں کے لیے رحمت کا باعث ہو سکتی ہے، ایسی رحمت جس سے اکثر وہ خود بھی لا علم ہوتے ہیں اور جو ان کے وجود کی نشوونما کا سندیسہ لاتی ہے۔

لیکن نشوونما کے ان مراحل سے گزرنے کے لیے گزشتہ انقلابیوں کو ذہنی و نفسیاتی تکالیف سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی انقلابی تو بے چارے شکوہ و شکایت اور الزام تراشیوں و دشنام طرازیوں کے گڑھوں میں ہی گر جاتے ہیں۔ ردعمل کی نفسیات میں رک جاتے ہیں اور 'اینٹی-انقلابی جماعت' بن جاتے ہیں۔ بعض زندگی کی بنیادی اقدار اور دین ہی کا انکار کر بیٹھتے ہیں لیکن بعض اپنی تپسیا کو جاری رکھتے ہیں۔ اپنے اندر بھی سفر کرتے ہیں اور باہر بھی۔ نئی درسگاہوں کا رخ کرتے ہیں اور زندگی کے دیگر زاویوں کو تلاشتے ہیں۔

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

یہ بھی دلچسپ ہے کہ کس طرح ان گزشتہ انقلابیوں کے حالات و واقعات دیکھ کر موجودہ انقلابی ان کا بچوں کی طرح مذاق اڑاتے ہیں۔ سنیئر انقلابی جونئیر انقلابیوں کو درس دیتے ہیں، "دیکھا ہم نے نہ کہا تھا۔۔۔" " دیکھا جماعت اور نظریے سے الگ ہونے کا انجام"۔ یہ سب نہایت دلچسپ ہے۔ یہ سب نہایت ٹریجک ہے۔

پرانے پرندے تنکا تنکا جوڑ کر آشیانہ بناتے ہیں۔ بعد میں آنے والے پرندوں کو بنا بنایا گھونسلہ مل جاتا ہے، ایک سوچ اور شناخت مل جاتی ہے۔ ایک انقلابی جماعت میں موجود مختلف جنریشنز کا اگر باہم مقابلہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی دور کے لوگ زیادہ تخلیقی اور mature ہوتے ہیں۔ آہستہ آہستہ تقلیدی رجحان بڑھتا جاتا ہے۔

انقلابی جماعت کے بانی راہنماوں پر رنگ رنگ کے اثرات ہوتے ہیں جبکہ دوسری اور تیسری جنریشن مکمل طور پر صرف اپنی ہی جماعت کے لیڈرز کے زیر اثر ہوتی ہے۔ اس میں "تنظیمیت" بڑھ جاتی ہے لیکن سوچ ماند پڑ جاتی ہے۔ فکر کی جگہ ڈسپلن اور Quality کی جگہ Quantity لے لیتی ہے۔ انقلابی جماعت کا یک رخا پن اور گہرا ہو جاتا ہے۔

انقلابی جماعت کی پہلی جنریشن نے اپنے عہد کے مختلف جماعتوں کی لیڈرشپ سے interact کیا ہوتا ہے ان کا ایکسپوژر بڑا ہوتا ہے جبکہ انقلابی جماعت کی دوسری جنریشن نے صرف اپنے بانی لیڈر اور اپنی ہی جماعت کے پہلے کیڈر پر انحصار کیا ہوتا ہے۔ پہلی جنریشن نے بہت محنت سے لٹریچر تیار کیا ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسری اور تیسری جنریشن کے انقلابیوں کا مطالعہ صرف جماعتی لٹریچر تک محدود ہو جاتا ہے۔ یوں جماعت میں تنگ نظری اور تعصب بڑھتا جاتا ہے۔

انقلابی جماعتوں کی بنیاد رکھنے والے اکثر رہنما وہ ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے عہد شباب بی سے اپنے آپ کو کسی کاز کے لیے وقف کر دیا ہوتا ہے۔ وہ قربانی اور جانفشانی سے جماعت کا پہلا کیڈر تیار کرتے ہیں۔ چونکہ اس سلسلے میں ان کا انٹریکشن دوسری جماعتوں کے رہنماؤں سے ہوتا ہے اس لیے ان کا ذہن نسبتاً‌ pragmatic اور لچکدار ہوتا ہے۔ انقلابیوں کی یہ پہلی جنریشن بہت سی عملی مشکلات کا سامنا کرتی ہے اس لیے اپنے ظرف اور ذہنی اپروچ میں پریکٹیکل اور flexible ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے جماعت میں نئے لوگوں کی امد ہوتی ہے اور انقلابیوں کی دوسری جنریشن تیار ہونے لگتی ہے تو وہ ابتدائی پریگمٹزم اور فلیکسیبلٹی بھی دھیرے دھیرے رخصت ہونے لگتی ہے۔ اب جماعت بڑی ہونے لگتی ہے اور اور یہ انقلابیوں کا احساس برتری مزید بڑھا دیتا ہے۔ ایسے نظریاتی امور جو انقلابی جماعت اور دوسری جماعتوں میں مشترک ہوتے ہیں، ان پر بات کم ہوتی ہے اور جماعت کے مخصوص نظریات پر بات زیادہ ہونے لگتی ہے۔ اعتدال پسند عناصر کم ہونے لگتے ہیں اور انتہائی سوچ رکھنے والے عناصر بڑھنے لگتے ہیں۔ دھیرے دھیرے انقلابی جماعتوں میں فاشسٹ رویے بڑھ جاتے ہیں۔

ہر انقلابی جماعت اور اس کے ہر رکن کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے۔ وہ طبعاً اس ایجنڈے کا ایسا پابند ہو جاتا ہے کہ اسے کبھی بھی suspend نہیں کر سکتا۔ اس کا مزاج کچھ ایسا ڈھل جاتا ہے کہ وہ ہر social interaction اور ہر social situation کو اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا سامان بنانا چاہتا ہے۔ وہ جب کسی نئے شخص سے ملتا ہے تو اس زاویے سے اس کا جائزہ لیتا ہے کہ وہ کس حد تک اس کی جماعت میں ضم ہو سکتا ہے۔ وہ جب کسی سینئر اور با اثر شخص سے ملتا ہے تو اس لیے کہ اس کی تائید اور تصدیق سے راۓ عامہ ہموار کرنے کا کام لے سکے۔ جب وہ مطالعہ کرتا ہے تو اس لیے کہ اپنے انقلابی نظریات کے لیے معلومات فراہم کر سکے۔ جب وہ لکھتا ہے تو اپنے نظریات کے پرچار کے لیے۔  ہر صورتحال اس کے لیے ایک opportunity ہوتی ہے، ایک خام مال۔

انقلابی شخص چونکہ واضح مقصد رکھتا ہے اور اس کی سوچ میں ایک میکانکی ربط اور تنظیم ہوتی ہے۔اور ایک مشن کا حامل ہونے کی وجہ سے وہ فطری طور پر پر جوش بھی ہوتا ہے۔ اور پے در پے دلائل دینے کا فن سیکھ جکا ہوتا ہے اس لیے اس کی گفتگو بہت گہری اور علم و حکمت سے لبریز دکھائی دیتی ہے۔

وہ جب محقق ہوتا ہے تو چھوٹی سے چھوٹی اور شاذ بات کو بھی اپنے استدلال کی بنیاد بناتا ہے اور اس سے ملتے جلتے دیگر شواہد نظر انداز کر دیتا ہے جو اس کے نظریاتی فریم ورک کی تائید نہیں کرتے۔ اس کی Rationality،  Instrumental Rationality  ہوتی ہے نہ کہ Substantive Rationality۔  Instrumental Rationality  مقاصد پر زیادہ سوال نہیں اٹھاتی بلکہ اس پر غور و فکر کرتی ہے کہ کس طرح ذرائع کو efficiently manipulate کرے اور مقاصد کی تکمیل کرے۔

اپنے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم رہنا بہت اچھا ہے اگر انسان بنیادی انسانی سچائیوں اور اعلیٰ اخلاقی حس کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دے اور کسی بھی صورتحال کو genuinely appreciate کرنے کے قابل رہے اور اس پر اپنا ایجنڈا impose نہ کرے۔ لیکن اگر اس کا ایجنڈا ہر وقت اس کے ساتھ چپکا رہے تو وہ نیک اور انقلابی ہونے کے ساتھ ساتھ، آہستہ آہستہ نظریاتی اور سماجی طور پر ایک چالاک اور ہوشیار شخص میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک ایسا شکاری جو ہر وقت گھات میں رہتا ہے۔وہ آپ کا جائزہ لیتا ہے، سونگھتا ہے، ٹٹولتا ہے، آپ کو categorize کرتا ہے اور پھر آپ کو label کرتا ہے کہ اس کے سسٹم میں آپ کیا حیثیت رکھتے ہیں: دوست، دشمن، بے ضرر، مفید یا کچھ اور ۔کوئی بھی شخص اور سچائی اس کے لیے بجائے خود مقصد نہیں رہتی بلکہ ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کا نفس اس کے لیے یہ بات خوشنما بنا دیتا ہے کہ

Ends justify means.

انتہائی صورت میں وہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کوئی سے بھی ذرائع اختیار کر سکتا ہے۔

انقلابی جماعتیں عام طور پر خود کو ایسی پوزیشن پر رکھتی ہیں جہاں سے سب پر فائرنگ ہو سکے لیکن کوئی ان پر فائر نہ کر سکے۔ ایسا اس لیے ممکن ہوتا ہے کیونکہ وہ معاشرے میں جاری و ساری سماجی و سیاسی عمل سے کٹ کر اس کا مشاہدہ و مطالعہ تو کرتے ہیں، اس میں active agent کے طور پر شریک نہیں ہوتے۔ یوں تجزیہ و تنقید ہی ان کا بنیادی وظیفہ بن جاتا ہے۔ ہر دوسری جماعت اور شخصیت اب ان کے تجزیے کی زد پر ہوتی ہے۔

انقلابی جماعتوں کے یہاں اصحابِ علم کی تین فہرستیں ہوتی ہیں۔ ایک محبوب علماء کی، دوسرے ان علماء کی جنہیں کبھی کبھی گوارا کیا جا سکتا ہے، اور تیسرے ان علماء کی جو مردود اور قابلِ ملامت ہوتے ہیں۔ ان کیمپوں میں تمیز بہت کڑی اور تیکھی ہوتی ہے۔

ان کیمپوں کے بیچ میں لائن آف کنٹرول بہت واضح ہوتی ہے۔ اگر دوسرے کیمپ سے کوئی اچھی اور معقول بات بھی کرے تو اسے سراہا نہیں جاتا مبادا مکتبِ انقلاب میں زیرِ تربیت نو خیز انقلابی مخالف کیمپ کی کسی شخصیت سے متاثر ہو جائیں۔ اگر دوسرے یا تیسرے کیمپ کے کسی عالم یا دانشور کی بات زیادہ ہی پسند آۓ تو بہترین حکمتِ عملی یہ سمجھی جاتی ہے کہ کتاب اور مصنف کا حوالے دیے بغیر بات کو خود اپنے ہی منہ سے مناسب انداز میں بیان کر دیا جائے۔

ہاں اگر اپنے اکابر کی شان میں کوئی قول وغیرہ فریق مخالف کے کیمپ سے دستیاب ہو تو اس کا فوری تذکرہ پورے حوالے اور شرح و بسط کے ساتھ کیا جاتا ہے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔

کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ بڑے بھی بس بچے ہی ہیں، بظاہر چالاک اور ہوشیار مگر در اصل معصوم!

انقلابی جماعتوں کے کارکن عام طور پر یک رخے پن اور نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں۔ ان جماعتوں کا نظامِ تعلیم و تربیت کارکنوں کو یک رخا (One-Dimensional) بنا دیتا ہے۔ ایک یک رخا شخص ایک ہی دِشا میں دیکھنے کے قابل رہتا ہے۔ اور اس دِشا کا تعین اس کی آیڈیالوجی کرتی ہے۔ رفتہ رفتہ وہ دوسری سمتوں کے وجود سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ لہذا یہ جماعتیں ایک خاص حد تک کارکنوں کے دانش اور شعور میں اضافہ کرتی ہیں، لیکن جب کوئی "ضرورت سے زیادہ" مطالعہ اور تحقیق شروع کر دے تو اسے رفتہ رفتہ ناپسندیدہ بنا دیا جاتا ہے

جماعتوں اور تنظیموں کے مطالعہ میں یہ بات دلچسپ اور دانش افروز ہوتی ہے کہ اس کے لیڈر اور کارکن اپنے آپ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

ایسی جماعتیں جو کسی ایک ہی مفکر کے افکار و نظریات پر قائم ہوتی ہیں، اکثر نرگسیت کا شکار ہو جاتی ہیں اور پھر اس نرگسیت کے لیے دلائل بھی فراہم کر لیتی ہیں۔ جماعت کے راہنما اور کارکن اپنے ہی حسن پر فریفتہ ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ پر ہی فدا ہوتے رہتے ہیں۔ اس نرگسیت کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں۔

ہمارا نظریہ سب سے عالی اور بلند ہے۔

ہم انسانی سماج کے مسائل کی جڑ کو پہچانتے ہیں۔

ہمارے پاس انسانیت کے تمام مسائل کا حل موجود ہے۔

ہم دین اسلام کی حقیقی روح کا کامل شعور رکھتے ہیں۔

جو لوگ ہمارے مخالفین ہیں وہ بے شعور ہیں یا سرمایہ دارانہ نظام اور سامراج کے آلہ کار ہیں۔

دھیرے دھیرے یہ mindset کارکنوں کے وجود میں خون کی طرح دوڑنے لگتا ہے۔ یہ ان کی ہر تعبیر ، تجزیے اور تشریح کے اصول موضوعہ بن جاتے ہیں۔

جماعتوں میں جو نظام تربیت تشکیل دیا جاتا ہے اس کا مقصد کارکنوں کی شعوری اور وجودی نشوونما نہیں بلکہ ان کے ذہن کی مخصوص نظریات کے مطابق پروگرامنگ ہوتی ہے۔ان کا ذہن ایک سافٹ ویئر کے تابع ہو جاتا ہے اور وہ اپنے کسی بھی تجزیے اور تنقید میں ان حدود سے باہر نہیں جاتا جو اس سافٹ ویئر نے طے کر رکھی ہوں۔ وہ ہر بات پر سوال اٹھائے گا، تنقید کرے گا سوائے اس سافٹ ویئر کے۔ چونکہ self-critique اس سافٹ ویئر کا حصہ ہی نہیں ہے۔

ایک انسان کیسے اپنے وجود کو ایک جماعت کے سپرد کر دیتا ہے؟

ایک تو یہ کہ کالجوں اور مدارس کے نوجوان جب ایک منظم جماعت کے مختلف لوگوں سے، جو عمر، تجربے اور معلومات میں ان سے بڑے ہوں، ایک ہی بات کو بار بار سنتے ہیں تو اس سے متاثر ہو جاتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ انفس و آفاق کی ابدی سچائیوں کی مختلف پیرایوں میں تکرار انسانی نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ لیکن ایک مخصوص انسانی تعبیر اور تشریح کی تکرار ذہن کے گہرے ساگر کو ایک جوہڑ میں بدل سکتی ہے۔ انسان کسی contingent truth کو بار بار سن کر اور بار بار بیان کر کے اسے absolute truth کا درجہ دے دیتا ہے۔ اس سے، زیادہ سے زیادہ، ایک mediocre ذہن تشکیل پاتا ہے۔ ایک ایسا ذہن جسے استعمال کیا جا سکے، جس کا استحصال کیا جا سکے۔۔۔کسی جماعت کے کارکن کا ذہن۔ یہ ذہن چند برس ایک جماعت میں گزارنے کے بعد اس قابل نہیں رہتا کہ کسی اور رخ پر سوچ سکے۔ اس کی سوچ اور تخیل کا سفینہ جماعتی ساحل پر ٹھہر جاتا ہے۔ اس لیے حالات حاضرہ کے تجزیے کو بار بار سن کر انسانی ذہن پستی کی طرف جاتا ہے، جبکہ کلاسیکی ادب کا مطالعہ اس کے شعور کو رفعت عطا کرتا ہے۔

جماعت میں ایک یا زیادہ لوگوں کی Charismatic Personality بھی کارکنوں کے ذہنوں پر گہرے اثرات چھوڑتی ہے۔ جب کوئی لیڈر لوگوں کا محبوب ہو جائے اور لوگوں کو اس کی شخصیت Charismatic لگنی لگے تو وہ مخصوص سافٹ ویئر بہت جلد تیار ہو جاتا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ شروع میں کوئی بات ، گیت سنگیت کی طرح، دل کو نہیں چھوتی لیکن جب اس راگ کو بار بار سنا جائے تو آخرکار من کو بھا جاتا ہے۔ اور پھر تو یہ حال بھی ہو جاتا ہے اس راگ کو سنے بنا دل ایک پل بھی چین نہیں پاتا۔

اکثر قائدین کی تقریروں کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ پہلے پہل نامانوس لگتی ہیں اور بعد میں یہ حال ہو جاتا ہے کہ جی ان کی ہر دلیل کی تصدیق اور ہر لہجے کی تائید کرنے لگتا ہے۔ اور حیران ہوتا ہے ان لوگوں پر جنہیں "سامنے کی یہ بات" بھی سمجھ نہیں آتی۔

انقلابی جماعتوں کی فکر کا مرکزی نقطہ ایک مثالی اور آدرش سماج کا قیام ہے۔ یہ شاید ایک فطری انسانی آرزو ہے۔ لیکن جدیدیت (modernity) نے انسان کی اس فطری آرزو کو ایک metanarrative بنا دیا۔ ہماری مذہبی انقلابی جماعتیں جدیدیت کے اسی metanarrative کے زیرِ اثر پروان چڑھی ہیں۔

ایک آئیڈیل معاشرے کا قیام انسان کا دیرینہ خواب ہے۔ تاریخ میں ایسے دور بھی آتے رہے جب اخلاقی اقدار مظبوط تھیں، معاشرے میں عدل، سکھ اور شانتی تھی اور ایسے کلجگ بھی آتے رہے جہاں بدامنی، ظلم اور دکھ تھا۔ سوال یہ ہے کہ انسانی سماج میں عدل اور شانتی مستقل قرار کیوں نہیں پاتے؟ عدل کے بعد ظلم اور روشنی کے بعد اندھیرا کیوں انسان کا مقدر ہے؟ یہ ایک مشکل سوال ہے۔

تاریخِ انسانی میں اندھیرے اجالے کا یہ کھیل ابھی بھی سماجیات اور نفسیات کے علماء کے لیے ایک معمہ ہے۔ کیا اندھیرے اجالے کا یہ کھیل در اصل انسان کے باطن میں ہے اور خارج میں اس کی صرف پروجیکشن ہوتی ہے؟ یا تاریخ اور سماجی ڈھانچہ اصل ہے اور وہ انسانی باطن کو بھی اپنے رنگ میں رنگ لیتا ہے؟  باطن پہلے ہے، خارج بعد میں یا خارج پہلے ہے اور باطن بعد میں؟ اس سوال کے جواب میں پنہاں ہے آپ کا تصور سماج اور تصورِ انسان جن پر مبنی ہیں اصلاح اور انقلاب کے تمام نظریات۔

سماج کیا ہے؟ یہ عمرانیات کا آسان سا سوال دکھائی دیتا ہے۔ عمرانیات کے پہلے سمسٹر کے طلباء ہمیں بتائیں گے کہ معاشرہ افراد کا ایک ایسا گروہ ہے جو ایک جغرافیائی خطے میں رہتا ہے اور ایک مخصوص ثقافت کا حامل ہے۔ کاش انسانی صورتِ حال نفسیات و عمرانیات کی کتابوں کے مطابق ہوتی۔

جدید مغربی عمرانیات کے بانی جن میں آگسٹ کونت (August Comte)، ہربرٹ اسپنسر (Herbert Spencer)، اور ایمیل درخایم(Emile Durkheim) شامل ہیں، سماج کو فرد سے بالکل الگ ایک مستقل بالذات حقیقت کہتے ہیں۔ درخایم کہتا ہے

Society is sui generis.

یعنی انسانی معاشرہ افراد کا محض مجموعہ نہیں ہے بلکہ اپنی نوع میں ایک جدا گانہ وجود رکھتا ہے۔

معاشرے کے عام تصور کی ایک ریاضیاتی مساوات (mathematical equation). کی سادہ شکل کچھ یوں ہو گی:

Society = Individual 1+ Individual 2+... Individual n
where n is a positive integer, n>0

لیکن انیسویں صدی کے مغربی علماء عمرانیات کے نزدیک یہ مساوات غلط ہے۔ ان کے نزدیک معاشرہ افراد کے مجموعے کے "برابر" نہیں ہوتا بلکہ اس سے بڑا ہوتا ہے۔ یعنی

Society > Ind 1+Ind 2+...Ind n
n>0

یہ مانا گیا کہ معاشرہ فرد سے باہر خارج میں نہ صرف موجود ہے بلکہ فرد پر حاکم ہے۔ گویا افراد مل کر معاشرہ نہیں بناتے بلکہ معاشرہ افراد کی تخلیق و تشکیل کر رہا ہے۔

اس تصورِ سماج کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سماجی ڈھانچہ ہی انسانی صورت حال کی کلید ہے۔ آپ انسانوں کو بدلنا چاہتے ہیں تو سماجی ڈھانچہ بدل دیجیے۔

نیا سماجی ڈھانچہ = نیا انسان

لہٰذا

انقلاب زندہ باد!

ہماری انقلابی جماعتوں کی بنیاد انیسویں صدی کے اسی تصور سماج پر ہے۔

جدید عمرانیات کے اس ابتدائی دبستان کے بعد دیگر مکاتب بھی ابھرے۔ کچھ ماہرینِ عمرانیات نے سماج کو یوں دیکھا کہ وہ کوئی macro خارجی ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ micro level پر افراد ہی کے باہمی interaction کا نام سماج ہے۔

پھر منظر پر کچھ اور sociological perspectives آتے ہیں جو نہایت دلچسپ اور اہم ہیں یعنی phenomenology اور ethnomethodology. ان کے نزدیک سماجی ڈھانچہ خارج میں حقیقی معنوں میں وجود نہیں رکھتا بلکہ ہمیں صرف یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا کوئی خارجی وجود ہے۔ ان کے نزدیک سماجیات کی اصل سمت یہی ہونی چاہیے کہ اس احساس کا کھوج لگاۓ کہ ہمیں یہ دھوکا کیونکر ہوتا ہے۔ نہ کہ سماجی ڈھانچے کو پہلے ہی سے قائم بالذات مان لیا جائے۔ ان کے نزدیک معاشرے اور سماجی ڈھانچے کا تصور ایک سراب ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک convenient fiction۔  ایک میٹرکس (matrix) یا مایا جال۔

اگر آپ کو یہ ساری بات عجیب و غریب لگ رہی ہے تو واقعتاً انسانی صورتِ حال عجیب و غریب ہی ہے۔ انسان کا باطن کائنات کی سب سے بڑی mystery ہے۔

دینی روایت کے مطابق ایک روشن دل ہی دوسرے دل کو اجیار سکتا ہے، ایک بیدار روح ہی دوسری روح کو جگا سکتی ہے۔ تاریخ اور سماج کا نظام اس میں معاون یا مخالف ہو سکتے ہیں لیکن کوئی حتمی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ بہترین انسان اور اخلاق و حکمت کے معلم اکثر بدترین سیاسی و سماجی حالات میں پیدا ہوئے ہیں جو ممکن نہیں ہے اگر انسان محض ایک Social Product ہے اور فقط اپنے زمانے کے سماج کی پیداوار ہے۔

(یہ وہ مقام ہے جہاں انقلابی جماعتوں کے لوگ مجھ سے مایوس ہوں گے اور میرا مذاق اڑائیں گے، مایوسی میں تو نہیں البتہ اپنا مذاق اڑانے میں، میں بھی ان کے ساتھ شریک ہوں گا۔)

جدیدیت کے مطابق دل، روح اور باطن محض چند لفظ ہیں جنہیں سائنس ثابت نہیں کر سکتی۔ یہ انسان کی توہم پرستی کے زمانے کی یادگار ہیں۔ اصل چیز خارجی ہے اور مادی ہے۔ انسانی سماج کے خارجی مادی حقائق انسان کی عقل اور شعور میں رنگ بھرتے ہیں۔ لہٰذا معاشرہ اور اس کا نظام پہلے ہے اور فرد بعد میں اور قلب اور روح کی تو سرے سے گنجائش ہی نہیں۔

لہٰذا کارل مارکس اعلان کرتا ہے کہ وہ انسانی الجبرے کی equation میں Independent variable کی value معلوم کر چکا ہے اور نیوٹن کے قوانینِ حرکت کی طرح انسانی سماج اور اس کی حرکت کے قوانین دریافت کر چکا ہے، اور یہ کہ کسی عہد کے انسانی سماج کا شعور اس کے مادی یعنی معاشی نظام ہی کا پرتو ہوتا ہے، اور یہ کی انسانی تاریخ دراصل معاشی طبقات کی باہمی آویزش سے ہی حرکت پذیر ہوتی ہے، اور تاریخ کی یہ حرکت جاری رہے گی تاآنکہ ایک ہمہ گیر انقلاب ان تضادات کو ختم نہ کر دے جو معاشی طبقات کی بنیاد ہیں۔

ایک ایسے انسان کے لیے جس کا خدا پر سے اعتبار اٹھ چکا ہو، روح اور قلب جس کے لیے توہم پرستی ہوں، جو ہر انسانی جذبے کی اساس بائیو کیمسٹری میں تلاش کرتا ہو، کارل مارکس کے فلسفہ تاریخ میں بہت اپیل تھی۔

مارکس کا فلسفہ یورپ کے نوجوانوں میں تیزی سے مقبول ہوا۔ اس کی بڑی وجہ یہ نہ تھی کہ یہ فلسفہ فی نفسہ بہت منطقی تھا۔ اکثر مارکسسٹ انقلابی تو سرے سے فلسفے میں دلچسپی بھی نہ رکھتے تھے۔

بڑی وجہ یہ تھی کہ مارکسیت نے اس خالی پن کو بھرا تھا جو مذہب کے رخصت ہونے سے پیدا ہوا تھا۔ مارکسزم میں ایک اخلاقی بلکہ روحانی اپیل بھی تھی۔ انسانی دکھوں کے علاج کا دعویٰ بھی تھا اور دوسری طرف سائنس ہونے کا بھی دعویٰ تھا۔ سائنس کی دیوی سے لوگ پہلے ہی مسحور ہو چکے تھے۔

مذہب سے خلاصی، سائنس کی کشش، انسانیت کا درد، ایک بامقصد مشن کی فراہمی اور ایک ایسا فکری بیان جو ہر چھوٹے بڑے واقعے کی توجیہ کر سکے۔۔۔یہ سارے مصالحے الگ الگ تو دوسری دکانوں پر بھی دستیاب تھے لیکن اکٹھے صرف مارکسیت میں ملتے تھے اور یہی بنیادی سبب تھا مارکسزم کی اپیل کا۔

شعور اور لاشعور دونوں سطحوں پر جدیدیت کے ان سماجی تصوّرات اور فکری و سیاسی تحریکوں نے ہماری دینی روایت پر اثر ڈالا۔ خصوصاً‌ انیسویں صدی کے مغربی تصور سماج ، مارکسزم اور روس کے انقلاب نے ہماری مذہبی انقلابی جماعتوں کی فکر پر گہرا اثر ڈالا ۔ حتیٰ کہ وہ جماعتیں جو بظاہر مغربی تہذیب اور مارکسزم کو رد کرتی ہیں اپنے فکری اور تنظیمی ڈھانچے اور اپنی سیاسی حکمت عملی میں مارکسی تحریکات ہی سے متاثر نظر آتی ہیں۔

لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ جدیدیت کے ان سیاسی رجحانات کے زیر اثر ہماری مذہبی انقلابی جماعتوں نے دین کا مزاج ہی بدل ڈالا۔ ایک سیدھا سادہ نیک انسان جو اللّہ کو یاد کرتا ہے، آخرت کی فکر کرتا ہے، خدا سے ڈرتا ہے ان کے نزدیک غیر اہم ہے۔ ایک شخص جو اپنی گلی یا محلے میں لوگوں کی بھلائی کا کوئی نیک کام رہا ہے، غیر اہم ہے۔ انفرادی نیکی کی ان کے نزدیک اہمیت ہی نہیں۔ لہذا انفرادی اصلاح کی دعوت پر مبنی تمام جماعتیں ان کے نزدیک اکثر شعوری یا لا شعوری طور پر سامراجی ایجنڈے پر گامزن ہوتی ہیں۔ ان کے یہاں اہمیت ہے تو صرف انقلاب لانے کے لیے ان کی جماعت میں شمولیت کی۔ قرآن کی ساری تفسیر ، سیرت نبوی کی ساری تشریح ، فکر اسلامی کی ساری تعبیر اور تاریخ کا سارا تجزیہ انقلاب کے اسی نقطے کو بنیاد مان کر کیا جاتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ انقلابی جماعت کے کارکن نیک نہیں ہوتے اور نماز اور تلاوت کا اہتمام نہیں کرتے۔ وہ سب کچھ کرتے ہیں لیکن ان کی توجہ کا قبلہ ذرا بدل جاتا ہے۔ رب کریم کی محبت و معرفت کا حصول ان کا مقصود نہیں رہتا۔ ان کا دھیان بٹ جاتا ہے، یکسوئی کا قبلہ سرک جاتا ہے۔ ان کے احوال کی کیمسٹری بدل جاتی ہے۔ ان کے زبان و قلم تو ہوشیار ہوتے ہیں مگر ہر وقت کی سیاسی گفتگو، دوسروں پر تنقید اور انقلابی جماعت کی مینجمنٹ ان میں آخرت کا ذوق و شوق ماند کر دیتی ہے، ان کے ultimate concerns انقلاب پر ختم ہوتے ہیں نہ کہ رب کی رضا و محبت پر، گو جماعتی لٹریچر میں تحریر یہی ہوتا ہے کہ یہ ساری تگ و تاز خدا کے لیے ہے۔ یہ ساری تبدیلی بڑے دبے پاؤں آتی ہے۔ یہ جماعتی لٹریچر میں کہیں لکھی نہیں ہوتی۔ یہ لکھنے پڑھنے میں کہیں بھی نہیں ہوتی۔ بس جماعت کے مجموعی ماحول میں موجود ہوتی ہے اور بہت باریکی سے قلوب میں داخل ہو جاتی ہے۔

باریکی اور لطافت سے داخل ہونے والے یہ سگنلز سب سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں اور یہی دل کے حال کو متعین کرتے ہیں۔ لہذا خدا کی محبت حسی اور قلبی تجربہ نہیں بن پاتی۔ واردات نہیں بن پاتی۔ زیادہ سے زیادہ ذہن میں محفوظ ایک بات ہوتی ہے۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب بجائے خود مقصد نہیں رہتے بلکہ ذریعہ بن جاتے ہیں ایک انقلابی میں روحانی قوت پیدا کرنے کا، تاکہ وہ اصل مقصد حاصل کر سکے یعنی انقلاب لا سکے۔ قرآن کتابِ انقلاب ہے، رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرِ انقلاب ہیں، صحابہ رہبرِ انقلاب ہیں۔ غرض بندگی کے تمام اقوال، افعال اور احوال انقلاب کے نعروں تلے دب جاتے ہیں اور نظریۂ انقلاب چپکے سے ایمان کی جگہ لے لیتا ہے۔

عصرِ حاضر کے فساد کی فکری بنیادیں

مولانا محمد بھٹی

گزشتہ  پون صدی سے مسلم دنیا  دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ تخریب کاری  کا یہ جدید مظہر اپنی سنگینی،آشوب ناکی اور حشر سامانی میں ماضی کے تمام مظاہر کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ خوارج اور باطنی اپنی تمام تر فساد مآبی کے ساتھ اس نوخارجیت کے آگے ہیچ نظر آتے ہیں۔اس عفریت سے عملی سطح پر دو دو ہاتھ کرنے کے ساتھ ساتھ فکری سطح پر نمٹنا بھی ازحد ضروری ہے۔مگر صد حیف کہ اس ضمن میں ہمارا طرزِ فکر اتھلے پن کا منتہائی اظہار بن کر رہ گیا ہے اور اس کی وجہ ہمارے کارِ علمی کی عمومی صورت حال ہے۔ ہمارے  ہاں عمومی رجحان یہی ہے کہ اشیا کو کما ھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی اور مسئلے کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کی بجائے اس کی شاخیں وغیرہ چھانگنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ یوں فتنے کا درخت کچھ عرصہ  ٹنڈ منڈ رہ کرپھر سے برگ و بار لانے لگتا ہے۔کسی بھی مسئلے کو لے کر ہماری دادِ تحقیق کا محور اس کے ظاہری خدو خال ہوتے ہیں، پس پردہ کارفرما اصولوں کی پڑتال کا کشٹ نہیں اٹھایا جاتا۔ہماری  تمام تر علمی ترک تازیاں اور فکری چاند ماریاں تعمق کے وصف سے بالعموم محروم ہیں۔

تاہم اس سے  یہ مطلب اخذ نہ کیاجائے کہ ہم ان اربابِ فکر و نظرکو کم آنکنے کی کوشش کر رہے ہیں جو افلاسِ علم کی اس  تیرہ شبی میں گہری بصیرت کی جوت جگائے ہوئے ہیں۔ حاشا و کلا ہمارا مطمح نظر قطعا یہ نہیں، بہ ایں ہمہ یہ کہنے میں بھی ہمیں کوئی باک نہیں کہ ایسے صاحبانِ فکر و نظر معدودے چند ہیں اور بالعموم ہمارا علمی منظر نامہ سطحیت کی دھول سے اٹا ہوا ہے۔ یعنی فکر و نظر  کا کال نہ بھی پڑا ہو تو کال کی سی صورتِ حال ضرور ہے۔ اسی باعث ہنوز ہم اس دبدھا میں ہیں کہ حمایتِ اسلام کا دم بھرتے ان جتھوں کی برق بے چارے مسلمانوں پر ہی کیوں گرتی ہے۔ یہ کیسی جہادی تلوار ہے جو خونِ مسلم بہانے سے بھی نہیں چوکتی اور’’خلافت“  کی یہ کون سی قسم ہے کہ جسے دیکھ کر طوائف الملوکی بھی شرما جائے۔اس مخمصے کا ازالہ  گہرے تجزیاتی تفکر سے مشروط ہے۔ اس ضمن میں ہمارے یہاں  فکر اور تجزیے کے نام پر صحافیانہ انٹ شنٹ تو بہتیرے مارے گئے مگر شومئِ قسمت سے تاحال کوئی ثقہ علمی تجزیہ سامنے نہیں آ سکا جو مسئلے کے سرے کی درست نشاندہی کر سکے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ عمومی روش سے ہٹ کر، یعنی صحافیانہ رپورٹنگ کی سطح سے اوپر اٹھ کر اس مسئلے کی تہوں کو کھنگالا جائے اور تہذیبی تناظر میں اس کا جائزہ لیا جائے۔ کیونکہ مایۂ فساد کو متعین کیے بغیر فساد کا قلع قمع نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ ایک عرصے سے سامنے آنے والے شواہد سے اس امر کا اندازہ تو بخوبی ہو جاتا ہے کہ طرح طرح کے ناموں سے موسوم یہ گروہ مسلمانوں کے حق میں خاصے مسموم ہیں لیکن  یہ سوال  ابھی تک تشنۂ جواب ہے کہ آخر ان کو فکری بھوجن کہاں سے بہم ہوتا ہے۔ مدارس اور روایتی سنی اسلام سہل اہداف ہیں سو  ہم انہی کے سر الزام منڈھ کر اپنے تئیں ذمہ داری سے سبکدوش ہو رہتے ہیں۔ جدید اسلام کہ جس کا یہ  سب برگ و بار ہے ہماری تنقیدی چھلنی سے صرف اس لیے محفوظ رہتا ہے کہ وہ ’’جدید“ ہے اور ’’جدید“ تو سراسر ’’تعمیر و تہذیب“ہے،تخریب کا اس سے بھلا کیا ناتا۔  گزارش ہے کہ ’’جدید عالمی جہاد“ کی پھریرا بردار  یہ ناشدنی  تکفیری تحریکیں، جماعتیں،تنظیمیں، جنود اور لشکر دراصل جدید استعماری اسلام کے دو بڑے دھاروں وہابیت اور سیاسی اسلام کے باہمی ملاپ کا نتیجہ ہیں۔اس اجمال کی تفصیل کے لیے تخریب کار گروہوں کے مابین پائے جانے والے مشترکات یا ان کے تشکیلی اجزا کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جو حسبِ ذیل ہیں:

    1. توحید کی  سیاسی نظریہ سازی

    2. تخلیص پسندی

    3. نفاذ اسلام بذریعہ ریاست

    4. تنوع پسند سنی روایت سے بیزاری

    5. حرفیت پرست دینی تعبیر اور اس کی قطعیت پر اصرار

    6. قرآن و سنت کو براہ راست صورت حال سے نتھی کر نا

    7. تکفیرِ مسلم

    8. انقلابی رومانیت

    9. نابودیت

نوخارجی گروہوں کے مندرجہ بالا عناصرِ ترکیبی باہمدگر  گندھے ہوئے ہیں۔ توحید کو سیاسی نظریے کے طور پر متشکل کر دیا جائے تو دین و شریعت محض ریاستی نفاذ کی شے بن جاتے ہیں، یعنی انہیں محض ریاستی قانون کے درجے پر فائز کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سیاسی نظریے اور سیاسی طاقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور سیاسی طاقت قانون کے بغیر اپاہج ہوتی ہے۔ مزید براں، ضابطہ بندی جدید ریاستی قانون کا امتیازی وصف ہے؛ جس کا حصول سنی روایت میں پائے جانے والے تہذیبی و فقہی تنوع کو ٹھکانے لگائے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ اس رنگا رنگی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ظاہر پر اصرار کیا جائے اور اس ضمن میں اپنے ’’فہم“ ہی کو حرف آخر قرار دیا جائے۔ جدیدیت کے پیدا کردہ سیاسی  ڈھانچے ’’کنٹرول“اور ’’ڈسپلن“ کے اصول پر استوار ہوتے ہیں اور تنوع اور رنگارنگی کے روادار نہیں ہوتے۔  یہی یکسانیت پسندانہ فطرت (Homogeneous nature) جدیدیت اور اس کے زائیدہ طاقتی ڈھانچوں کو Exclusive   بناتی ہے۔ وہابیت بھی چونکہ ایک جدید مظہر ہے  جو طاقت سے سازباز بھی رکھتا ہے لہذا یہ بھی اپنی جبلت میں Exclusive ہے۔اس Exclusivity کو رو بہ عمل لانے کے لیے تکفیر  وہابیت کا انتہائی کارگر ہتھیار ہے۔ بہرحال یہ سارا گھناؤنا کھیل توحید کی نظریہ سازی اور روایتی علوم و اوضاعِ تہذیب سے بیزاری کا شاخسانہ ہے۔

خشتِ اول چوں نہد معمار کج

نظریۂ توحید وہابیت اور سیاسی اسلام کا محوری نقطہ ہے۔ یہی وہ خشتِ اول ہے جس پہ خارجیتِ جدیدہ کی عمارت کھڑی ہے۔اس ضمن میں سطحِ ذہن پر پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ توحید کو سیاسی نظریہ (Ideology) بنانے سے کیا مراد ہے۔ عرض ہے کہ عقیدۂ توحید خدا کی وحدانیت کے اقرار اور خدائی میں اس کے شریک و سہیم کی نفی سے عبارت ہے۔ توحید کو نظریہ بنانے کا مطلب ہے اس کو حصول طاقت کے لیے بروئے کار لائے جانے والے سیاسی عمل کا لائحۂ عمل بنا دینا۔سیاسی نظریہ ایک لائحہ عمل ہوتا ہے جو کسی گروہ کو درپیش سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل کی تفہیم کر کے  ان کا سیاسی حل تجویز کرتا ہے اور  اسی کے ضمن میں عملی تگ و تاز کا خاکہ  بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ نظریہ سازی سر تا پا ایک عقلی سرگرمی ہوتی ہے۔ عقیدے کی نظریہ سازی سے عقیدہ، جوعلم کا مرکز ہوتا ہے خود ’’علم“ بنا دیا جاتا ہے۔  توحید کو نظریہ و علم  بنا دیا جائے تو وہ غیبی وحی نہیں رہتی بلکہ انسانی تشکیل بن جاتی ہے۔ مزید براں،  بندے و خدا کے  مابین باہمی تعلق کی بنیاد بننے کی بجائے سیاسی و معاشی مسائل کی تفہیم اور ان کے سیاسی حل کے لیے حصول طاقت کی اسکیم میں کھپنے لگتی ہے۔ سیاسی اسلام کی زائیدہ ’’توحید فی الحاکمیت“ ایسا ہی ایک نظریہ ہے جو حصولِ طاقت کے لیے گھڑا گیا ہے۔

واضح رہے کہ یہاں محلِ نظر حصول طاقت نہیں توحید کی نظریہ سازی ہے۔ عقیدے کو نظریہ بنا دیا جائے تو دین سارے کا سارا سیاسی نظر آنے لگتا ہے۔ نماز، روزہ وغیرہ جملہ عبادات سیاسی عمل کا دیباچہ قرار پاتی ہیں۔ سیاسی انقلاب تعلق باللہ کا منتہا ٹھہرتا ہے۔ اس پر مستزاد  یہ کہ خدا بھی مرتبۂ تنزیہہ سے نزول کر کے ایک سیاسی حاکم اعلی  بن جاتا ہے۔ خدا کو مقنن یا  سیاسی حاکم اعلی کے سنگھاسن پر براجمان کرنا تشبیہ ہی کی ایک جدید صورت ہے۔ توحید کی  ایسی تشبیہی(Anthropomorphic (  نظریہ سازی عقیدے کی ایجاب کاری(positivisation  (  پر مبنی وسیع تر مہم ہی کا جزو ہے؛ جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔ نظریۂ توحید اور اس مضمرات کے بیان کے بعد سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے چودہ سو سالہ تاریخی سفر میں سیاسی عمل، عقیدہ، شریعت  اور قانون و اقدار کی باہمی نسبتیں کیا تھیں۔ ہماری تہذیبی تاریخ میں سیاسی عمل اوج  پر رہا ہے، کیا اس دوران تاریخ کے کسی موڑ پر عقیدے کی نظریہ سازی یا دین کو سیاسیانے  کی نوبت درپیش آئی؟ اس ضمن میں ہمارے تہذیبی و روایتی موقف اور سیاسی اسلام و وہابیت کے موقف کے مابین مابہ الامتیاز کیا ہے؟

اس  حوالے سے گزارش ہے کہ ہماری تہذیب میں سیاسی عمل کی راہنمائی کا کام شریعت اور عقل سے لیا جاتا تھا۔ عقل صورت حال کو سمجھنے جب کہ شریعت تہذیبی علوم کی وساطت سے اظہار پا کر سیاسی عمل کی رہبری کرتی تھی۔ سیاسی عمل کہ جس کی غایتِ اولیٰ معاشی عدل کا قیام ہے شریعت کے فراہم کردہ لائحہ عمل پر گامزن ہوتا تھا۔اس کے علی الرغم سیاسی اسلام یہ دونوں کام عقیدے کو سونپ دیتا ہے اور شریعت کو محض عقوبات  تک محدود کر دیتا ہے۔  بارِ دگر عرض ہے کہ ہماری معروضات کا مقصد حصولِ طاقت یا سیاسی عمل کی نفی نہیں، کہ طاقت  دین کی تلوار بھی ہے اور سپر بھی۔  نہ ہی سیاست کو دین کے تابع رکھنے کی نفی  ہمارامطمحِ نگاہ ہے کیوں کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی“۔ مگر سیاست کو دین کے تابع رکھنے اور دین کو ہی سیاست بنا دینے کے مابین خط امتیاز کھینچنا ضروری ہے۔ سیاست کا دین کے زیرِ اثر ہونا دین کی قوت کا باعث ہوتا ہے جبکہ دین کو سیاسی بنا دینا اس کی موت کا پروانہ ہے۔اس حوالے سے گزارش ہے کہ دینی ہدایت جن احکام کا مجموعہ ہے ان میں سے بعض کا تعلق نج سے ہے، بعض کا معاشرت سے اور کچھ اجتماع سے متعلق ہیں۔ سیاست کی تہہ میں مذہبی ورلڈ ویو کارفرما ہو تو یہ سبھی دوائر اپنی اپنی شرائط کے مطابق  دین سے نتھی رہتے ہیں۔

ہمارے تہذیبی سفر میں خلوت و نج کو عقائد و عبادات اجالتے تھے،  معاشرت کو اخلاق اور نظم اجتماعی کو قانون نَک سِک سے درست رکھتا تھا تا کہ اس کے زیرِ سایہ دینی معاشرت پروان چڑھے اور پھولے پھلے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ صحت مند معاشرت کے قیام اور بقا کی اولین شرط افرادِ معاشرہ کے مابین  باہمی محبت و یگانگت کا پایا جانا ہے۔جس کا فروغ معاشی عدل کے بنا ممکن نہیں۔ ہیئتِ حاکمہ کا اولین فرض معاشی عدل کا قیام ہے۔ ہماری تہذیب میں یہ قیام نظمِ اجتماعی کی درستی سے ہوتا تھا۔ بالفاظ دیگر نظم اجتماعی کی درستی اور معاشی عدل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔جیسا کہ پیش ازیں معروض ہوا معاشی عدل کا قیام سیاسی عمل کا اولین مقصد اور ہیئت حاکمہ کا اولین فریضہ ہے۔ اقامتِ عدل کے لیےبروئے کار لائے جانے والے سیاسی عمل کے لیے شریعت نہ صرف لائحہ عمل پیش کرتی تھی بلکہ اجتماع درستی کو برقرار رکھنے کے لیے قوانین بھی سامنے لاتی تھی۔  قانون اجتماع  کی درستی میں آڑے آنے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے بروئے کار آتا تھا۔ سود، سٹہ،استحصال، لوٹ کھسوٹ، شہوات کی خارجی ترغیبات کا پھیلاؤ وہ اڑچنیں ہیں جو نظمِ اجتماعی میں خلل پیدا کرتی ہیں۔

نظم اجتماعی کا یہی بگاڑ دھیرے دھیرے معاشرت اور فرد کو متاثر کرتا ہے۔ اس کا خاتمہ بذریعہ حدود و تعزیرات ہوتا تھا۔ یوں نظمِ اجتماعی درست رہتا تھا اور عدل فروغ پاتا تھا، نتیجتاً‌ افراد کا باہمی تعلق مودت و یگانگت پر استوار رہنے کے کارن دینی معاشرت پروان چڑھتی تھی۔  یعنی  حاکم براہ راست مداخلت کر کے معاشرت کو دینی نہیں بناتا تھا بلکہ دینی معاشرت کے پنپنے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتا تھا۔ اس کے برعکس مذہب کو سیاسی بنا دیا جائے تو نج اور معاشرت براہ راست ریاست کی دست برد میں آ جاتے ہیں اور ان سے متعلقہ احکام بھی ریاستی قانون بن کر بزور نافذ ہونے لگتے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ موجودہ ریاستی قانون توسع اور تنوع سے عاری اور ضابطہ بندی سے متصف ہوتا ہے۔ نتیجتاً‌ چیرہ دستی پروان چڑھتی ہے اور عوام دین و مذہب سے بدکتے ہیں۔ سعودیہ اور ایران کی نابودی حالت اسی امر  کی غمازی کرتی ہے۔ عوامی بے قراری  کی کھولتی دیگ جو ابل پڑنے کو تیار ہے، اسی نظریۂِ توحید کی آنچ پر تیار ہوئی ہے۔ جدید  نراجیت پسند نوخارجیوں کی فکری جڑیں بھی اسی نظریۂ توحید میں پیوست ہیں اور اسی کے نفاذ کے لیے  وہ تیغ بدست ہیں۔

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے، مٹا دو

خارجیتِ نوی کا ایک اور نمایاں وصف تخلیص پسندی1 (Puritanism) ہے۔ تخلیص پسندی  جدیدیت کی پروردہ ذہنیت ہے جو مذہبی روایت کو ’’خالص دین“ میں ایک آمیزش سمجھتی ہے۔ تخلیص پسند ان بعد کی ’’آمیزشوں یا بدعات“ سے  دین کی تطہیر کو اپنا فرض منصبی جانتا ہے۔ معلوم ہوا تخلیص پسندی دین کو روایت سے جدا کر دینے کا نام ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رہنا ضروری ہے کہ تخلیص کا تجدید سے کوئی تعلق نہیں۔عموماً‌ ان کو باہم گڈمڈ کر دیا جاتا ہے حالانکہ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔ تجدید روایت کے اندر رہتے ہوئے اس میں در آنے والے جزوی انحرافات کو زائل کرتی ہے جبکہ تخلیص سرے سے روایت ہی  کو منہدم کر دینے کا نام ہے۔ تجدید روایت کی خود تنقیدی کا ثمر ہوتی ہےجس سے مآل  کار روایت ہی مزید قوی اور مضبوط ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تخلیص روایت کی جڑیں کاٹنے سے عبارت ہے۔غور کیا جائے تو تعبیر دین کے نوع بہ نوع راگ دراصل تخلیص کی سرگم میں ہی الاپے گئے ہیں۔ روایت باقی نہ رہے تو مذہب بازیچۂِ تعبیر بن جاتا ہے۔ تعبیری عقل حَکَم بنتی ہےاور دین کو من چاہے معانی پہنائے جانے لگتے ہیں۔ تخلیص کی وبا مغرب میں پھیلی تو مذہب کو نگل گئی؛ مشرق میں بھی عزائم کچھ ایسے ہی ہیں2۔

ذہن نشیں رہے کہ دین ہم تک روایت کے ذریعے منتقل ہوا ہے۔ روایت دین کی سند بھی ہے اور سائبان بھی۔ اسے روایت سے تہی کر دینا دراصل استعماری جدیدیت کی ترجیحات پر دین کی تشکیل ہے؛ باقی سب ملمع کاری ہے۔وہابیت أصلاً‌ شریعت و عقیدہ کے جدید استعماری تصور پر استوار ہے؛ اسی اعتبار سے اسے ’’تخلیص پسندی“ خوش آئی ہے۔علاوہ ازیں، جیسا کہ گزشتہ سطور میں مرقوم ہوا، وہابیت اور سیاسی اسلام کا جدیدیت کی  پیداکردہ اوضاعِ طاقت کے ساتھ گہرا سمبندھ ہے چنانچہ؛ طاقت کی گرفت (Control (کو قائم رکھنا بھی اس امر کا مقتضی ہے کہ تنوع پسند سنی  روایت کی ڈھال ہٹا کر مذہب کو نہتا کر دیا جائے۔ اسی نہتے اور بے سند دین کا نام ’’دینِ خالص“ ہے۔

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اسلامی تہذیب وحدت میں کثرت اور کثرت میں وحدت کے اصول پر استوار رہی ہے؛ چنانچہ ہماری سنی روایت ازحد تنوع پسند (Heterogeneous )اور رنگا رنگی سے بھرپور ہے۔ اس کے برعکس جدیدیت اور اس کے ڈھانچے یکسانیت اور یک رنگی کے رسیا ہیں۔  تنوع جدیدیت کو ایک آنکھ نہیں بھاتا کیونکہ یہ اس کی گرفت کو ڈھیلا کرتا ہے؛  چنانچہ وہ  شریعت کو ضابطہ بندی (Codification )  کے شکنجے میں کستی اور دین و شریعت کے کس بَل نکال کر اسے قانونی نوعیت کا ’’ضابطۂ حیات“ بنا ڈالتی ہے۔ وہابیت بھی  تنوع سے خار کھاتی ہے اور  خودساختہ تعبیرِ دین پر اصرار کرتی ہے۔  فقہی و تفسیری رنگا رنگی کو ٹھکانے لگانے کے لیے ضروری تھا کہ فقہ و تفسیر کی غیر معمولی طور پر متمول  سنی روایت کو خیرباد کہہ کر حرفیت پرستی کا ڈول ڈالا جائے۔

چنانچہ یہی ہوا اور اب اپنی اسی حرفیت پر مبنی تعبیر کو قطعی اور حتمی3 باور کروایا جاتا ہے اور اسی سے وہ ضابطہ بند دین و شریعت اخذ کیے جاتے ہیں جو ’’نفاذ“ کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں اور اسی سے وہ فتوے کشید کیے جاتے ہیں جو تکفیرِ مسلم کا ہتھیار ہیں۔ تکفیری نوخارجی گروہوں کا ’’نفاذ شریعت“ دراصل اسی ٹنڈ منڈ شریعت کا نفاذ ہے جس میں شریعت بس نام کو ہے کیونکہ  زندہ حقیقت کے طور پر شریعت دراصل فقہ ہی کا دوسرا نام ہے جس سے یہ لوگ نفور ہیں۔ شیخ عبدالقادر الصوفی4 نے درست نشاندہی فرمائی ہے:

What was abolished by the Wahhabis was the FIQH which, in reality IS the Shari’at. For the Shari’at is not a module of hadd punishments for crimes, that is only a near peripheral aspect of it. The Shari’at as a living reality is the practice of FIQH. That is the ‘Amal of the Muslim society.5

’’وہابیت نے جس شے پر خطِ تنسیخ پھیرا وہ فقہ ہے جبکہ فقہ ہی درحقیقت شریعت ہے۔ کیونکہ شریعت محض جرائم پر حد لگانے کا کوئی نظام نہیں۔  یہ اس کا ایک مضافاتی پہلو ضرور ہے تاہم ایک زندہ حقیقت کے طور پر  شریعت فقہ ہی  کی عملی تجسیم  کا نام ہے۔ یعنی مسلمانوں کا تعامل۔“6

خارجیتِ جدیدہ  کا ایک اور خاصہ قرآن و سنت کو براہ راست صورت حال سے نتھی کرنا ہے جو دین کو نظری علم کی سطح پر اتار لانے کے مترادف ہے۔یہ وصف بھی انہیں جینیاتی طور پر وہابیت سے دان ہوا ہے اور تخلیص پسندی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ ہماری سنی روایت میں صورت حال سے تعامل کے لیے حق کا مؤید علم سامنے لایا جاتا تھا مگر عملِ انسانی کے انکار اور عقل دشمنی کی بدولت وہابیت چونکہ دینی و تہذیبی علوم سے گریز پا رہتی ہے لہذا صورت حال سے تعامل درپیش ہو تو  قرآن و سنت کو براہ راست اس کے رو بہ رو کر  کے انہیں vulnerable  بنا دیتی ہے۔ گزارش ہے کہ صورت حال سے تعامل کے لیے  ایسا نظری علم اور نظریہ ناگزیر  ہوتا ہے جو دین کا جنبہ دار اور معروف علمی شرائط کا پاسدار ہو۔ دین کو ہی نظریہ بنا دیا جائے تو  دین اور عقل دونوں اضمحلال کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دریں صورت، دین کی حیثیت یکسر بدل جاتی ہے اور وہ انسانی ساختہ  علم بن جاتا ہے۔ مزید براں، تہذیبی علوم کی ڈھال میں محفوظ و مامون رہنے کی بجائے وہ  براہ راست انکاری علوم  کی تاخت کی زد میں آ جاتا ہے۔ یہ امر غور طلب ہے کہ وہابیت دین کے تائید کنندہ تہذیبی  علوم  کو تو اس بنیاد پر رد کرتی ہے کہ ان میں انسانی عمل کی آمیزش ہے مگر دین کو انسانی تشکیل کی پست سطح پر اتار لانے میں اسے کوئی عار محسوس نہیں ہوتی۔ دینی و تہذیبی علوم سے نفرت ہی کا ثمرہ ہے کہ وہابیت کسی بھی قسم کی تہذیبی اور سیاسی بصیرت سے کلیتا محروم ہے۔ حرمِ مکی پر وہابی شورہ پشتوں کے حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ عبدالقادر الصوفی فرماتے ہیں:

The attack on the Haram in Makkah was a devastating exposure of a movement that had NO, simply NO, political understanding. Why? Because they had abolished the Fiqh.7

“حرمِ مکی پر حملہ  دراصل اس تحریک (وہابی تحریک) کا تباہ کن اظہار ہے جو شمہ بھر سیاسی بصیرت سے بھی عاری ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس نے فقہ کا خون کر دیاہے۔”

ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو

غور کیا جائے تو وہابیت کے تمام تر  ذیلی نظریات میں عملِ انسانی کا انکار سرایت کیے ہوئے ہے۔ تخلیص پسندی کو ہی لے لیجئے۔ روایت کو اس بنا پر ٹھکرا دیا جاتا ہے کہ اس میں فقہا کی آرا کا دخل ہے۔علاوہ ازیں، شریعت کو قانونِ ریاست بنا کر عملِ انسانی کو میکانکی بنانا ہو یا تنوع سے بیزار ہو کر فقہی روایت کا استرداد، عقیدے کو نظریہ بنا کر عقیدے اور عمل کی مغایرت کا انکار ہو یا اہل سنت کے ثقافتی معمولات سے ابا کرنا؛ ہر موقف کی تہہ میں  انسانی عمل بلکہ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ انسان کا انکار پنہاں ہے۔ تکفیرِ مسلم، نراجیت، دہشت گردی و تخریب کاری غرض ہر گھناؤنا مظہر وہابیت کی انسان دشمنی کا پرتوہے۔ ہر بھیانکتا میں یہی زہر گھُلا ہوا ہے۔وہابی تعمیر میں مضمر یہی خرابی اس کے تمام تر  ذیلی نظریات کی جان ہے۔ عرض ہے کہ  مسلم تہذیب کی علمی،فقہی  اور ثقافتی أوضاع و اعمال کا انکار دراصل اسلام کی قوتِ تہذیب سازی کا انکار ہے؛ اور  یہ انکار  بھی عملِ انسانی کے انکار ہی کی فرع ہے کیونکہ تہذیب انسانی عمل کا ہی ثمر ہوتی ہے۔

اجمالاً‌ عرض ہے کہ تصورِ حق اور اس سے نتھی اقدار جب انسانی منشور (prism) سے گزرتے ہیں تو معروض میں تہذیب برپا ہوتی ہے ۔ معلوم ہوا کہ تہذیب تصورِ حق اور اقدار  کے معروض میں ظہور  کا نام ہے اور انسانی عمل کی شمولیت اس ظہور کی لازمی شرط ہے۔اس حوالے سے ہمارے ہاں دو قسم کے گمراہ کن رویے ظاہر ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو مظاہرِ تہذیب کو ہی اصل جان کر  انہیں حق و ہدایت سے کاٹ دیتا ہے  اور دوسرا وہ جو ظہورِ حق کے انسانی لازمےکو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔  یہ دونوں رویے مذہب و حق دشمن ہیں مگر بدقسمتی سے دوسرا مذہب ہی کے غلاف میں ملفوف ہے۔ یہی دوسرا رویہ وہابیت کے عنوان سے معنون ہے۔ حق اور اقدار کو مظاہر سے عاری باور کروانا ان کی تہذیبی، سماجی، اخلاقی اور جمالیاتی تاثیر کا انکار ہے۔ یوں نہ تو حق کی بنیاد پر تہذیب سازی ممکن رہتی ہے نہ اقدار کی بنیاد پر مردم سازی کا کوئی امکان بچتا ہے۔حق اور اقدار جو آفاقی، ابدی، لازمانی اور ماورائی ہوتے ہیں اپنی تنزیہہ برقرار رکھتے ہوئے زمان و مکان اور تاریخ میں ہی اپنا اظہار کرتے ہیں۔ زمانی و مکانی مظاہر سے تہی کر دیا جائے تو وہ  محض ایک مجرد تصور بن جاتے ہیں اور عملا معدوم ہونے لگتے ہیں۔ یہی صورت حال تہذیبی انقطاع سے عبارت ہے۔ وہابیت نہ تو تاریخ اور زمانے کا کوئی شعور رکھتی ہے نہ ہی لازمان و ابدیت سے بہرہ ور ہے چہ جائیکہ ان دونوں کے باہمی ربط سے آگاہ ہو۔ اسی باعث وہ حق کے تاریخی مظاہر کا تو انکار کرتی ہے مگر خود حق کی نظریہ سازی کر کے اسے مکمل طور پر تاریخی و زمانی بنانے سے نہیں چوکتی۔

تو بدل گیا تو بہتر کہ بدل گئی شریعت

 مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اسلام  اور وہابیت کے تصورِ دین و شریعت  کی کچھ مزید پرتیں کھولی جائیں تا کہ نوخارجی جتھوں کے ’’نفاذ شریعت“ کی بلی بتمامہ تھیلے سے باہر آ جائے۔ نظریۂ توحید اور طاقت کے ساتھ اس کی گرویدگی نے یہاں بھی اپنا رنگ دکھایا ہے۔ اس نظریے کی وساطت سے دین جب سارا کا سارا سیاسی ہوا تو شریعت بھی محض ’’قانونی نفاذ“ کی شے بن کر رہ گئی۔ اس مقصد کی برآری کے لیے پہلے شریعت کو روایت سے تہی کیا گیا پھر اس کی ضابطہ بندی بروئے کار آئی۔ یوں اس عملِ قطع و برید سے گزار کر شریعت کے نفاذ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ غور کیا جائے تو’’نفاذِ شریعت“ کا نعرہ جدید سیاسی طاقت کی ہوسِ دسترس ہی کی صدائے بازگشت ہے۔

جیسا کہ پیش ازیں مذکور ہوا، اسلام انسانی معاشرت اور نج کو قانون کی براہ راست دست رس سے آزاد رکھتا ہے اور ان کی تقویم بذریعہ اقدار کرتا ہے۔  اس کے برعکس جدید طاقتی ساخت معاشرت اور نج کو بھی ’’قانونی نفاذ“ کے دائرۂ اثر میں لانا چاہتی ہے، یعنی براہ  راست اپنی دست رس اور جکڑ میں رکھنا چاہتی ہے۔  جدید ہیئتِ طاقت کا أصول گرفت اور جکڑ بندی  ہے، اسی لیے یہ اپنی نہاد میں لا اخلاقی ہے۔ گرفت اور جکڑ بندی کی ہوس کا محرک یہ  خواہش ہے کہ انسان اور انسانی معاشروں کی آزادانہ حیثیت، خود مکتفیت اورخودمختاری کا گلا گھونٹ کر انہیں سرمایہ داریت پر استوار عالمگیر سسٹم میں پرو دیا جائے۔ سرمایہ داریت اور جدید ہیئتِ طاقت کی یہ خواہش بڑی حد تک پوری ہو چکی ہے اور آزاد ارادے سے عاری ایسے میکانکی انسانوں کی کھیپ ہمارے گرد و پیش میں موجود ہے جوسسٹم کے کارآمد  کل پرزے (Human Resource) ہیں۔ یہ  لا اخلاقی انسان جدید ریاست کے  بے تحاشا نفاذِ قانون ہی کی ثمر آوری ہے۔وہابیت اور سیاسی اسلام از آغاز تا امروز اس کارِ شر میں جدیدیت کے معاون ہیں۔

گزارش ہے کہ  اکثر و بیشترانسانی افعال  اخلاق و قدر أساس ہوتے ہیں مگر  جدید ہیئتِ طاقت اپنی لا اخلاقی  (Amoral)   نہاد  کی بنا پر انہیں  قانون أساس بنانے میں جتی ہوئی ہے۔ سیاسی اسلام  جب اسلام کے نفاذ کی بات کرتا ہے تو درحقیقت وہ بھی  دین کو مجموعۂِ اقدار کی بجائے ایک ایسا ریاستی قانون بنا دینے کے لیے سلسلہ جُنباں ہوتاہے جو ارادی فعل کے بجائے میکانکی فعل میں ظہور کرے۔ واضح رہے کہ مبنی بر قانون افعال میکانکی ہوتے ہیں جبکہ مبنی بر قدر فعل انسانی ارادے  کی آزادانہ فعلیت سے پھوٹتا ہے۔ اسلام کو محض قانونی نفاذ کی شے سمجھنا دراصل انسان کو آزاد ارادے سے عاری ایک مشینی وجود، انسانی عمل کو میکانکی اور شریعت کو مشین چلانے کا ایک مینول یا کوڈ و ضابطہ بنا دینے کے مترادف ہے۔مزید براں، شریعت کو ریاستی قانون بنا کر بالجبر نافذ کرنا اس کے قدری پہلو کو  بھی گہنا دیتا ہے۔ قدر اور قانون کے مابین ایک اور ما بہ الامتیاز  یہ ہے کہ قدر ایک گونہ جمالیاتی اساس بھی رکھتی ہے جبکہ قانون سر تا پا جبر ہی جبر ہے۔ جمالیات حق کو ایسا حضور عطا کرتی ہے کہ بندگی وجودی حال بن جاتی ہے۔ یوں دین پر عمل مجبوری کے بجائے ایک خوشگوار تجربہ بن جاتا ہے۔حکمِ شرع کی بجا آوری جبر کے تحت نہیں ہوتی، اس میں لبھاؤ  پیدا ہو جاتا ہے۔جمالیاتی شعور انفس میں حق کی دروں کاری کرتاہے اور اخلاقی و قدری فعل اسی دروں کاری کا خارجی اظہار ہوتا ہے۔

اس کے برعکس قانون و ضابطہ چونکہ کسی بھی قسم کی جمالیاتی اساس سے عاری ہوتا ہے لہذا انفس میں حق کا حضور نہیں ہونے پاتا۔ یوں  نہ تو بندگی وجودی حال بن پاتی ہے نہ ہی اخلاقی فعل وجود میں آتا ہے بلکہ ’’ضابطے“ کا ایک فعل ہوتا ہے جسے’’بیرونی“ دباؤ کے تحت عمل میں لایا جا رہا ہوتا ہے۔ شریعت کو ضابطہ و قانون بنا کر قدری جہت سے محروم کر دینا اسے بے رس اور غیر مؤثر بنا دیتا ہے۔ اسلام کو ’’ضابطۂ حیات“  قرار دینے کی معنویت  شریعت اور عملِ انسانی کی اسی قلبِ ماہیت میں پوشیدہ ہے۔ جدید خارجی جتھوں کا نفاذ شریعت بھی دراصل اسی ’’ضابطہ بند قانونی شریعت“ کا نفاذ ہے۔  یہیں سے اس چیرہ دستی کی بھی ابتدا ہوتی ہے جو عوام کو دین و شریعت سے برگشتہ کرنے کا باعث بنتی ہے۔

سیاسی اسلام کا جدید ریاست سے نفاذ شریعت کا مطالبہ دراصل اس ناسمجھی سے پھوٹا ہے کہ  جملہ شرعی احکام بزورِ طاقت “نافذ“ ہونے کی شے ہیں۔نفاذ کی دیر ہے کہ سارے دلِدَّر مٹ جائیں گے اور خلیل خاں پھر سے فاختہ اڑاتے پھریں گے۔ شریعت کا یہ غلط تصور استعماری جدیدیت سے مستعار ہے۔ اس کے علی الرغم ما قبل جدید دور میں  حکمِ شرع کی بجا آوری بزورِ طاقت نہیں،نفسی اور سماجی عوامل کی کارفرمائی سے ہوتی تھی۔ اقدار کی بنیاد پر قائم سماجی ڈھانچا،اس کے تسلیم کردہ معیاراتِ  تحسین و تقبیح اور ان کی بنیاد پر برپا ہونے والا باہمی معاشرتی تفاعل تھا جو شریعت کو معاشرے کی زندہ حقیقت بناتا تھا۔ اقدار پر استوار اخلاقی ماحول  (Milieu) میں فرد کی پرداخت و تکییف عمل میں آتی تھی اور یہی افراد اس اخلاقی ماحول اور سماجی ڈھانچے کی صورت گری کرتے تھے۔

فرد اور سماج کا  یہ دو طرفہ تعلق ہی تھا  جو شریعت کو جیتا جاگتا وجود بنا دیتا تھا۔ یوں انفس و آفاق دونوں قدر سے معمور رہتے تھے۔اس ماحول  کا قیام  بڑی حد تک تصوف کے ادارے کا رہینِ منت تھا جو سماج سے منفک نہیں بلکہ اسی کا حصہ تھا۔ سماج سے منفک اور قدری لبھاؤ سے عاری ’’ریاستی قانون“  قطعا اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ گزارش ہے کہ’’نفاذ شریعت“ کے تصور ساز ریاست کے بارے میں بھی چند در چند غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں۔ سیاسی اسلام کے متوالے شریعت کو ریاست کی تحویل میں دینے کے لیے بے کل  ہیں حالانکہ ہماری تہذیب میں فرماں روا شریعت کے رو بہ رو سرنگوں ہوتا تھا۔ بہر کیف دور جدید کے ان  فساد پرور نوخارجی جتھوں کو جہاں بھی سُلطہ و اقتدار حاصل ہوا انہوں نے شریعت کو بطور ریاستی قانون ہی نافذ کرنے کی سعی کی ہے اور نتیجتاً‌ اسے بھیانک بنا کر پیش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔

کرتے ہیں شب و روز مسلمانوں کی تکفیر

شریعت کی گھناؤنی تصویر کشی میں تکفیرِ ناحق کا بھی بے پایاں کردار رہا ہے۔ تکفیرِ ناحق اہلِ بدعت  بالخصوص خوارج کا شیوہ رہا ہے جو عموماً‌ عقیدے اور عمل کے امتیاز کو ختم کر کے عمل کو عقیدے میں مدغم کر دینے سے جنم لیتا ہے۔ یعنی یہ ناسور بھی عملِ انسانی کے انکار کا آفریدہ ہے۔ اہلِ سنت نے تکفیر کا دروازہ  کلیتا مسدودنہیں کیا مگر اسےاپنا شعار بھی نہیں بنایا۔نوخارجیت کی کشتِ سرشت میں تکفیر ناحق کا تخم بونے میں ان کے مخصوص تصورِ توحید کا بھی اہم کردار ہے۔ یعنی اس پردۂ زنگاری میں بھی وہی معشوق چھپی بیٹھی ہے۔گزارش ہے کہ عقیدہ مرکزِ علم ہوتا ہے جبکہ نظریہ لائحۂ عمل ہوتا ہے۔ عقیدہ اقلیم شعور کی تنظیم کرتا ہے جبکہ نظریہ اقلیم عمل کا ناظم ہوتا ہے۔ عقیدے کو نظریہ بنا دیا جائے تو وہ براہ راست عمل سے متعلق ہو جاتا ہے۔یوں عملِ انسانی کی جداگانہ حیثیت فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے اور وہ عقیدے میں ہی منضم ہو جاتا ہے۔نتیجتاً‌ تکفیر جو عقیدہ أساس ہوتی ہے اعمال کو بھی شامل ہو جاتی ہے۔گزارش ہے کہ وہابیت روزِ اول سے ہی اپنی فتنہ سامانیوں اور مفسدہ پردازیوں سمیت ایک دروں بیں  (Introverted)تحریک رہی ہے؛ چنانچہ یہ مسلمانوں کے اندر ہی ایک ’’غیر“ (other) تخلیق کر کے اس سے نبرد آزما رہتی ہے۔ تخلیقِ غیر کا یہ عمل بذریعہ تکفیر انجام پاتا ہے۔

 وہابیت کی دروں بینی بھی دراصل نظریۂ توحید کی وساطت سے طاقت  کے جدید ڈھانچوں کے ساتھ اس کے گہرے تال میل کی بدولت ہے۔ جیسا کہ پیش ازیں مرقوم ہوا جدیدیت اور اس کی کوکھ کے جنم لینے والی  ہیئتِ طاقت کی طرح وہابیت بھی اپنی نہاد میں یکسانیت پسند ہے، مذہبی و تہذیبی تنوع اسے کَھلتا ہے لہذا یہ بھی ازحد Exclusive  ہے، اور اس کے ہاں یہ Exclusivity   تکفیر کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت ہو یا سرحدی مسلمانوں سے پنجہ آزمائی ہر دو مواقع پر وہابیت کے ہاتھ میں تکفیر کی تیغ بے نیام رہی ہے۔ آج بھی مسلمان اس خوں آشام شمشیرِ تکفیر کی زد میں ہیں۔اپنے جنم دن سے ہی وہابیت مسلمانوں سے برسرپیکار رہی ہے۔استعمار  کے قدوم میمنت لزوم کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کا جنم ہوا اور  یہ جہالت کی دیدہ دلیری سے’’اصلاح“ اور ’’جہاد “ کا نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوں سے مصروفِ پیکار ہو گئی۔ یعنی جہاد جو اصلاً‌ باطل سے نبرد آزمائی کا نام ہے، مسلمانوں کے خلاف بروئے کار آنے لگا۔

معلوم ہوتا ہے کہ وہابیت کا تاریخی اعتبار سے بھی استعماری جدیدیت سے دیرینہ تعلق ہے8۔اس کا تکفیری رویہ استعمار کی جانب سے مقامی باشندوں کی بابت  اپنائے گئے تحقیر آمیز  رویے کا تسلسل ہے۔ استعمار ہمیں غیر مہذب جتا کر ’’مہذب“ بنانے کے جتن کرتا تھا اور وہابیت مشرک بتا کر ّّموحد“ بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ  عام مسلمان کو نفرت و حقارت کے عدسے سے دیکھتے ہیں اور اسے نَکُّو بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ سیاسی اسلام سے باقاعدہ ملاپ کے بعد وہابیت کی تکفیری حدت حد سے سوا ہو گئی ہے۔  یہی فزوں تر حدت ان نوخارجی دہشت گرد مظاہر میں ظاہر ہوئی ہے جنہیں ہم داعش اور القاعدہ وغیرہ کے نام سے جانتے ہیں۔ عمل کو تو پہلے ہی عقیدے کی طرح کفر و اسلام کی تقسیم میں دائر کیا جا چکا تھا مگر اب اس کا دائرہ مزید وسعت پذیر ہے۔ پہلے پہل صرف اولیا کرام سے توسل وغیرہ کو شرک باور کروایا جاتا تھا پر اب نوبت بایں جا رسید کہ بیلٹ بکس میں ووٹ کی پرچی ڈالنا بھی ”شرکیہ فعل“ شمار ہوتا ہے۔

تا ثریا می رود دیوار کج

 یہ امر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ تخریب کاروں کو مسلم نوجوانوں میں، معمولی ہی سہی مگرمقبولیت  حاصل ضرور ہوئی ہے۔ استعمار کے ہاتھوں سیاسی شکست سے پیدا شدہ لاچارگی، بے بسی اور احساسِ محرومی اس پذیرائی کے جملہ اسباب میں سے ایک ہے۔ یہی احساس محرومی جھنجھلاہٹ میں ڈھلااور بعد ازاں ردعمل کی نفسیات پر منتج ہوا۔ضرورت اس امر کی تھی کہ مظہر استعمار  کو کماھی پہچاننے  اور اس کے بالمقابل مزاحمت کھڑی کرنے کے لیے اپنا نظری علم وجود میں لایا جاتالیکن ترکِ جدیدیت ، تحصیل جدیدیت اور ردعمل کے مظاہر پنپنے لگے۔ اول الذکر مکمل راہبانہ جبکہ دوسرے دونوں انفعالی ہونے  کی بنا پر کلیتا استعماری ترجیحات پر ڈھلے ہوئے ہیں۔ ردعمل نام کو جدیدت کے خلاف ہے مگر حقیقتا' اپنی ہی روایتی علمی و سماجی اوضاع کے خلاف بروئے کار آیا ہے۔  یہی ردِ عمل پر مبنی شکست خوردہ ذہنیت تھی جو بڑی تعداد میں حشر ساماں نراجی تحریکوں کا ایندھن بنی۔ احساسِ شکست کو مٹانے بلکہ جھٹلانے کی بے تابی ہمیں ہر اس نظریے پہ لپکنے کو مجبور کر دیتی ہے جو اس تکلیف دہ احساس سے خلاصی دلانے کا دعوی رکھتا ہو۔ اس صورت حال میں ’’خالص اسلام“ اور ’’سیاسی اسلام“ سے بڑھ کر بھی بھلا کوئی نظریہ پر کشش ہو سکتا ہے؟ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں!

غور کیا جائے توتخریب کاروں اور نراجیوں کے بہکاوے میں آنے والے نوجوان ایک عجب سی رومانیت کا شکار ہیں۔ سیاسی اسلام کی طرف نوجوانوں کے میلان کا ایک بڑا راز یہی رومان پرستی ہے۔ جس کا حقیقت سے تعلق تو منقطع ہے ہی، دین سے بھی اسے کچھ سروکار نہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیر رک کر سیاسی اسلام کی رومان پرور فطرت کا جائزہ لیا جائے۔ گزارش ہے کہ  تاریخی طور پر جدیدیت  نے اپنے سیاسی، معاشی اور سماجی پھیلاؤ کے لیے دو قسم کے طرزِ عمل اختیار کیے ہیں: اصلاحی طرزِ عمل اور انقلابی طرزِ عمل۔ اصلاحی طرزِ عمل بتدریج تبدیلی کی راہ ہموار کرتا ہے جب کہ انقلاب یہی تبدیلی یکمشت حاصل کر لینا چاہتا ہے۔ وہابیت بھی عملی میدان میں انہی دو طریق ہائے عمل کو بروئے کار لاتی رہی ہے۔ اول اول اس نے  ’’تحریکِ اصلاح“ کا علم بلند کیا مگر جب   بیل منڈھے چڑھتی نظر نہ آئی تو وہی تحریکِ اصلاح ’’تحریکِ جہاد“ میں منقلب ہو گئی، جس میں جہاد کی معنویت وہی ہے جو انقلاب کی ہوتی ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ  جہاد خارج بینی پر مبنی ہوتا ہے؛ یعنی باطل کے خلاف عمل میں آتا ہے جب کہ انقلاب دروں بینی کا نتیجہ ہوتا ہے؛ یعنی اپنے ہی روایتی سماجی، سیاسی و معاشی  ڈھانچوں کو تلپٹ کرتا ہے۔ اسی بنیاد پر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ تحریکِ جہاد اصلاً‌ تحریکِ انقلاب تھی۔

انقلاب کی نسبت یہ امر پیشِ نگاہ رہنا ضروری  ہے کہ اس کی آبیاری رومانیت سے ہوتی ہے۔ مغرب میں رومانیت عقل کی خود سری کا ردعمل تھا جبکہ وہابی سیاسی اسلام کے ہاں عقیدے کو نظریہ اور  مذہب کو سیاسی بنا دینے کا نتیجہ ہے۔ مذہب سیاست اور نظریے کی بھینٹ چڑھ جائے تو اس کی فراہم کردہ تہذیبی اقدار9 کی معنوی جہتوں کا کام رومانوی آدرشوں سے نکالا جاتا ہے۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اقدار کی مذہبی اور  تہذیبی  معنویت فنا کر کے انہیں رومانوی آدرشوں میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ، سیاسی اسلام میں جہاد، خلافت وغیرہ کا تصور مذہب کی فراہم کردہ تہذیبی قدر کے طور پر نہیں بلکہ ایک غیر حقیقی رومانوی آدرش کی حیثیت سے ہے۔ رومانوی مثال پرستی کے معیار پر پورا نہ اترنے کے باعث ہی سیاسی اسلام کے تصور سازوں کو اسلامی تاریخ کے اموی، عباسی اور عثمانی ادوار خلافت و سلطنت محض ’’غیر اسلامی ملوکیت“ نظر آتے ہیں۔ اس میں اچنبھے کی بات نہیں، اقدار کی تہذیبی اور مذہبی معنویت عنقا ہو جائے تو مسلم تہذیب و تاریخ ’’غیر اسلامی“ ہی نظر آتے ہیں۔ ’’خالص اسلام“ کے تصور کو زیرِ غور لایا جائے تو اس کا سوتا بھی دراصل رومانوی مثالیت پسندی سے  ہی پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اسلام کے تناظر میں بذریعہ روایت منتقل ہونے والا اسلام ’’غیر اسلامی“ نظر آنے لگتا ہے۔ خیال نشیں رہے کہ رومانیت محض ایک فریبِ خیال ہے۔ اس کا زائیدہ ’’خالص اسلام“ فقط ایک طلسم ِ دین رباہے اور اس کا آفریدہ تصورِخلافت محض ایک  یوٹوپیائی سراب ہے۔  جبھی تو یہ دونوں آج تک خارج میں متحقق نہیں ہو پائے۔ جو ہوا وہ دین خالص اور خلافت نہیں انتشارِ خالص اور نراجِ محض ہے، یعنی ہر کہ و مہ کی اپنی اپنی تعبیرِ دین اور ہر ہما شما کی اپنی اپنی خلافت۔

 گزارش ہے کہ رومانیت کی تان نابودیت پر ٹوٹتی ہے۔رومان کا فسوں ٹوٹتے ہی رومان پرست نابودیت کی تحویل میں چلا جاتا ہے۔  بالفاظ دیگر، رومانیت کی طلسم شکنی (Disenchantment) نابودیت کا باعث بنتی ہے۔  نابودیت کے حوالے سے یہ جان لینا ضروری ہے کہ نابودیت مذہب کی نظریہ کاری کا منطقی نتیجہ ہے۔ گو استعمار کے ہاتھوں ہزیمت سے پیدا ہونے والی یاس آمیز کیفیت بھی  نابودیت کے پنپنے میں معاون ہوئی ہے؛ تاہم اس حوالے سے اصل الاصول یہی ہے کہ  مذہب کو نظریہ بنا دیا جائے یا نظریے کو مذہب، بہر تقدیر نابودیت کا ظہور لازم ہے؛ کیونکہ بہرصورت مذہب کا خون ہوتا ہے۔ مذہب معنی اور امید کا سرچشمہ ہے اور انہیں دو کے خاتمے کا نام نابودیت ہے۔ مغرب نے نظریے کو مذہب کی جگہ پر متمکن کیا تو خود کو ہمہ جہتی نابودیت میں گھرا ہوا پایا۔وہابیت نے مذہب کو نظریے کی پست سطح پر لا پھینکا تو اسی شامت سے دوچار ہوئی۔دریں اثنا دونوں نے مسمار ہوتے معنی اور امید کو رومانیت کے پائے چوبیں سے سہارا دینا چاہا مگر بے سود۔مختصر یہ کہ مذہب کو سیاسیا کر نفسی اور سماجی دوائر میں اس کے کردار کو منہا کر  دیا جائے تو  وہ مرنے مارنے کا ہتھیار بن جاتا ہے۔

گزارش ہے کہ نابودیت دہشت گردی، نراجیت اور تخریب کاری کی ماں ہے اورخودکش حملے اس  کا منتہائی اظہار ہیں۔ گھر،  کنبہ، خاندان، برادری،  دوستی، معاشرت اور رشتہ داری سب اخلاقی اقدار پر استوار ہوتے ہیں اور  مذہب سے معنویت کشید کرتے ہیں۔ جب مذہب سیاست کی بلی چڑھ جائے اورسماجی جہت سے محروم کر دیا جائے تو سماج قدری بحران (Anomie (کا شکار ہو جاتا ہے اور سبھی اوضاعِ تعلق بے معنی نظر آنے لگتے ہیں۔ایسی  کٹھن صورت حال میں رومان پرست نوجوان کے لیے کنجِ نابودیت ہی بچتا ہے کہ جس میں وہ پناہ لے اور  مرنے  مارنے کا استعارہ بن جائے۔’’مارو یا مر جاؤ“ کی ہیجانی کیفیت جب عَبائے مذہب اوڑھتی ہے تو ’’شریعت یا شہادت“ کا روپ دھارتی ہے۔ یوں بھی مذہب  کا روغن چپڑا ہو تو کڑوی گولی نگلنا سہل ہو جاتا ہے۔ شیخ عبدالقادر الصوفی یوں کشفِ حقیقت کرتے ہیں:

The ethos of suicide-bombing – its leaders, its military wing, its helpless victim youths – it is all an antithesis of Islam, an anti-Islam. Full of hate. Full of fear. Full of menace and threats. Devoid of hope. Devoid of Tawakkul. Devoid of Iman. Devoid of ‘Ibada. Devoid of men. No Jama’at. No Amir. Nothing! Nihilism – the bastard child of capitalism.10

’’خودکش حملہ آوری  کا مزاج – اس کے  حامل  قائدین، عسکری وِنگ، اس  مزاج کے صیدِ زبوں بنتے نوجوان – سبھی اسلام کی ضد  ہیں، نقیضِ اسلام ہیں۔ نفرت سے لبالب، خوف سے مملو، تخویف اور دہشت  سے بھرے ہوئے۔ امید سے خالی، توکل سے عاری، ایمان سے کورے، عبودیت سے محروم، رجال سے تہی داماں۔ نہ کوئی جماعت ہے نہ امیر۔ کچھ بھی نہیں! بس نابودیت – سرمایہ داریت کا ناجائز بچہ۔“

نابودیت کو جنم دینے میں سرمایہ داریت کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سرمایہ داریت جدیدیت کے پھیلاؤ کی معاشی قوت ہے۔ روایتی سماجی ڈھانچے جو اقدار پر بنا کرتے تھے، ان کی کایا کلپ کرنے میں سرمایہ داریت کے معاشی مؤثرات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔  ان کے زیرِ اثر اقدار کے بندھن میں بندھے سماجی تعلقات یکا یک معاشی مفاد اور ضرورت پر منتقل ہونے لگے اور بذریعہ قانون regulate ہونے لگے۔ نتیجتاً‌ معاشرے  قدری خلا سے دوچار ہوتے چلے گئے اور انسان بے معنویت اور نابودیت کی دلدل میں دھنستا چلا گیا۔  اس تحول سے صرف مغربی معاشرے ہی نہیں مسلم معاشرے بھی دوچار ہوئے ہیں اور کچھ ہنوز عبوری مرحلے میں ہیں۔ مسلم دنیا میں برپا ہونے والے اس اقدار کش طرزِ عمل میں  وہابیانہ تصورِ دین جدیدیت اور سرمایہ داری کا ہمنوا رہا ہے۔ سرمایہ داری کے پہلو بہ پہلو تہذیبِ مغرب کی دیگر اوضاع نے بھی نابودی رویے کی آبیاری میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

اس سلسلے میں جدید تعلیم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ  یہ امر  کسی سے پوشیدہ نہیں کہ دہشت گرد جتھوں کا ایندھن بننے والوں میں بڑی تعداد جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے۔اس کی وجہ بھی جدید تعلیم سے نمو پانے والے  قدری بحران  Anomie) (اور اس سے پھوٹنے والی نابودیت ہے۔جدید تعلیم اپنی ساخت اور محتویٰ ہر دو اعتبار سے سماجی و اخلاقی اقدارکے  اضمحلال کا باعث ہوتی ہے۔یہی اضمحلال قدری بحران  پرمنتج ہو کر نابودیت میں ڈھلتا ہے۔قدری بحران کے نخچیروں میں ’’مذہبی“اور غیرمذہبی کی کوئی تفریق نہیں، کیونکہ انفس سےقدر عنقا ہو جاتی ہےاور مذہب محض ’’ضابطے“ کا رہ جاتا ہے۔قدری بحران کا شکار (Anomic (نوجوان جب معاشرے میں کسی بھی طرح موزوں نہیں ہو پاتا تو نابودیت کی اور لپکتا ہے۔  شیخ عبدالقادر الصوفی اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:

Terrorists are a mixed bunch of social misfits and outcasts, adhering to a philosophy of nihilism. For this reason, neither the lives of their victims or themselves really matter, and the only transcendence is in the nihilistic act of annihilation.11

’’ دہشت گرد دراصل سماج کے دھتکارے ہوئے اور معاشرے کے نااہل افراد کا مجموعہ ہیں جو فلسفۂ نابودیت پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظر میں نہ اپنی زندگیوں کی کوئی قدر ہے نہ ان کا نشانہ بننے والوں کی زندگی ان کے ہاں کوئی قیمت رکھتی ہے۔  اس صورت حال سے چھٹکارا وہ نابودیت پر مبنی تباہ کن فعل میں دیکھتے ہیں۔“

ماحصل یہ کہ وہابیت اور سیاسی اسلام نے نظریۂ توحید اور اس میں مضمر انکارِ عملِ  کا جو درخت بویا تھا تخریب کار نابودیت اسی کا زہریلا پھل ہے۔ خشت اول میں کجی ہو تو اس پر اٹھائی گئی عمارت کیونکر سیدھی ہو گی۔اور جب عمارت میں ٹیڑھ ہو تو پھر  بھلے وہ کتنی ہی فلک بوس کیوں نہ ہو، مآل کار زمین بوس ہو کے رہتی ہے۔ تعمیر میں کجی نابودیت کو مستلزم ہے۔

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

بات کو سمیٹتے ہوئے یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ تحریر ہذا وطنِ عزیز میں جاری  فرقہ وارانہ کفش آزمائی کا تسلسل نہیں ہے۔ اس کا تناظر قطعاً‌ فرقہ پرستانہ نہیں، نہ ہی کسی طبقے کی ابلیس کاری (Demonisation )  مقصودہے۔  فقط عالمِ اسلام کو درپیش  تباہ کن صورت حال کا تجزیہ و تحلیل مطمح نظر ہے۔اور دیانت دارانہ تجزیے میں مغالطہ آفریں خوش اندیشی کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ نیز صورت حال کی سنگینی بھی مقتضی ہے کہ تجزیے کو بے لاگ رکھا جائے۔گو کہ پاکستان کی حد تک عملی سطح پر ہمارے دفاعی اداروں نے اپنی بے پناہ قابلیت کی بدولت اس گھمبیر صورت حال پر خاصی حد تک قابو پا لیا ہے جو بلاشبہ لائقِ تحسین ہے تاہم اس کامیابی کو پائیدار بنانے کے لیے فکری میدان میں بھی اس آشوب ناک مظہر کو دھول چٹوانا ضروری ہے۔ تحریرِ ہذا اسی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بروئے کار لائی گئی ایک ادنی سی کاوش ہے۔ یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ یہ تحریر اس قدر مبسوط نہیں ہے کہ موضوع کی کفایت کر پائے، بلکہ سچ پوچھیں تو شاید اس کے استقصا کے لیے کتاب بھی ناکافی ہو۔بنا بریں، ممکن ہےکچھ رخنے رہ گئے ہوں۔ لامحالہ اس کا ایک سبب عجزِ اظہار اور موضوع کی پیچیدگی بھی ہے۔ قارئین سے امید ہے کہ درگزر فرمائیں گے۔

یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ یہ تحریر کسی نئے گفتمان کو تشکیل نہیں دیتی بلکہ  جدیدیت اور  استعمار  سے نبرد آزما پہلے سے موجود گفتمان ہی کی توسیع ہے۔ ایسے گفتمان کا پنپنا ہمارے سماج کے لیے ازبس ضروری ہے جو محض دہشت گردی کے رد پر اکتفا نہ کرے بلکہ ام الخبائث استعماری جدیدیت کے فکری و ذہنی تسلط کے خلاف مزاحمت کی راہ بھی ہموار کرے۔ کیوں کہ ہمارے سیاسی، سماجی  اور معاشی پس منظر میں کرنے کا کام استعماریت و جدیدیت سے  ثقہ نظری بنیادوں پر نبردآزمائی ہی ہے، باقی سب اسی کے ذیلی شعبے ہیں۔ اس ضمن میں پہلا کام یہ ہے کہ اہل سنت کی کلامی اور فقہی روایت سے کسبِ فیض اور اخذِ بصیرت کرتے ہوئے اسی کی طرز پر ثقہ علم کی بنیاد رکھی جائے جو جدیدیت و استعماریت سے فراست پر مبنی مزاحمانہ تعامل کے لیے خطوط وضع کرے۔ اس مزاحمانہ تعامل یا نبرد آزمائی کا مبنیٰ رومانیت کی بجائے قابلِ عمل لائحۂ عمل کو بنایا جائے۔

گزارش ہے کہ جدیدیت سے تعامل کی ضرورت مسلم ہے، مزاحمت سے مراد  تیاگ،تخریب یا اسلام کی پیوندکاری نہیں بلکہ جدید استعماری اوضاع کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جدیدیت کی ضرر رسانیوں کی راہ میں مزاحم ہونا، یعنی ان  اوضاع کے دینی و تہذیبی اعتبار سے مضر اثرات کو resist کرنا اور  پہلو بہ پہلو ان کی قلبِ ماہیت کی طرف پیش رفت کرنا ہے۔ مزاحمت کے  اول الذکر پہلو کی برآری کے لیے عملِ صالح کی قوت جبکہ مؤخر الذکر کے لیے اعلی سطحی ذہانت اور گہری بصیرت درکار ہے۔ بیک جنش ایک ہی ہلے میں سب کچھ تلپٹ کر دینے کی رومانوی اپروچ اور جدید اوضاع کی تہہ میں کارفرما تصورِ حقیقت سے کو کھرچے بغیر، ان کی وجودیات کی تقلیب کیے بغیر محض پیوند کاری سے کام نکالنے کی ہزیمانہ سوچ سے الگ رہ کر استعماریت اور جدیدیت کو  یوں کھرچنا مقصود ہے کہ مسلم طاقت کے مراکز بھی کسی داخلی انتشار کا شکار نہ ہوں اور استعماری اوضاع کی  استعماریت بھی  erode  ہوتی جائے۔ یعنی سانپ بھی مرے اور لاٹھی نہ ٹوٹے۔

سنی فقہی روایت کی ایک نمایاں خصوصیت  اس کا حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر  (Pragmatic Approach) ہے۔ صورت حال کا گہرا ادراک کرتے ہوئے زمانی معروض کو لازمانی قدر سے ہم آہنگ بنائے رکھنا اس کا امتیازی وصف ہے۔ وہ اس بات سے پوری طرح آگاہ نظر آتی ہے کہ زمانے کی رَو لازمان سےگہرا ربط رکھتی ہے اور اس باہمی ربط میں مرکزیت اور غلبہ لامحالہ لازمان و ماورا کو حاصل ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو تو بحرانات کی آماج گاہ بن جانا دنیا کی تقدیر ٹھہرتا ہے۔زمان و لازمان، ماورا و تاریخ، ابدیت و تغیر کے اس باہمی ربط کو برقرار رکھنا اور اسی ارتباط سے زمانی معروض کو تہذیبی معنویت بہم کرتے رہنا فقہِ اسلامی کی شان رہی ہے۔جذباتی ردعمل، آدرش پرستی، رومان پروری یا  تیاگ   پر مبنی رویے فقہی بصیرت سے قطعاً‌ لگا نہیں کھاتے۔ آدرش پرستی اور معروض پرستی کی دو انتہاؤں کے بیچ آدرش و معروض کا سنگم بنے رہنا سنی فقہی روایت  کی نمایاں پہچان ہے۔ یہی وہ توازن و اعتدال ہے جو اہل سنت کی علمی روایت کے ماتھے کا جھومر ہے۔

دستیاب معروضی حالات میں  دینی آدرشوں اور لازمانی و ماورائی اقدار  کے لیے  نہ صرف گنجائش بنائے رکھنا بلکہ انہیں غالب رکھتے ہوئے  تاریخی معروض کو ان کے سانچے میں ڈھالتے رہنا اور تہذیب کو مرکزِ تہذیب (ذاتِ رسالت مآب ﷺ  اور آپ کے زمانِ خیریت نشان)  سے  مربوط رکھنا سنی فقہی روایت کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ وہ معروض کو ماورائی حق و قدر سے ایسے جوڑے رکھتی ہے کہ وہ تاریخی و ارضی معروض من وجہ لازمان و ماورا کا آئینہ دار بن جاتا ہے۔نہ تو رومانوی ردعمل کو سندِ جواز دے کر بے دھیانی میں دشمن کی آلہ کار بنتی ہے  اور نہ ہی حاضر و موجود سے ساز باز کر کے اس پر ’’اسلامی “ کا ٹھپا لگاتی ہے۔ قدر اور معروض کے ارتباط پر مبنی فقہی روایت کے اسی طرزِ عمل کے باعث  قدر  تاریخ اورمعاشرے کی زندہ حقیقت بنتی ہے۔ اسی روشِ کار کو حکیم الامت علامہ  محمداقبال اسلام کی خصوصیت قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

With Islam the ideal and the real are not two opposing forces which cannot be reconciled…… The life of the ideal consists, not in a total breach with the real…….but in the perpetual perpetual endeavour of the ideal to appropriate the real with a view eventually to absorb it, to convert it into itself.12

’’اسلام میں  آدرش اور معروض دو متحارب قوتیں نہیں ہیں کہ جن میں مفاہمت ممکن نہ ہو۔۔۔۔ آدرش کا زندہ رہنا معروض سے کلی انفصال پر منحصر نہیں ہے۔۔۔۔ بلکہ معروضی دنیا کو اس مطمح نظر کے ساتھ مسخر کر لینے کی مسلسل کاوش پر منحصر ہے کہ مآل کار وہ  آدرش اس دنیا کو خود میں سمو لے، اسے اپنے سانچے ڈھال لے۔“

یہی وہ مزاحمت یا نبرد آزمائی پر مبنی تعامل ہے جو جدیدیت اوراستعمار کی تشکیل کردہ دنیا کے رو بہ رو اپنانا ناگزیر ہے۔ اس مزاحمانہ طرزِ عمل کے اولین نقوش  جیسا کہ بیان ہوا  فقہی روایت سے حاصل ہوتے ہیں۔البتہ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ فقہ و شریعت قضا کے ادارے کے بغیر نہ صرف بے اثر  ہوتی ہے، بسا اوقات آلاتی بھی بن جاتی ہے۔ بنا بریں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صورت حال سے نمٹنے کا اولین تقاضا نظامِ  قضا  کی بحالی ہے۔  قضا کی  بحالی شریعت کی بالادستی کی ضمانت ہے13۔اس سے نہ صرف ’’فتوی“ مؤثر،معقول اور آزاد14  ہو گا بلکہ جدید ریاست کی وجودیات کی  تقلیب بھی ہو جائے گی۔  ریاستی بند و بست کی یہی قلبِ ماہیت دینی اقدار کے لیے  سکڑتی ہوئی گنجائش کو پھر سے کشادہ کر دینے کی نوید ثابت ہو گی۔ اسی سےنظم اجتماعی میں پائے جانے والے بگاڑ کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدام کیا جا سکے گا۔جدید دہشت گردانہ ذہنیت کی بیخ کنی  بھی قضا کی بحالی سے ہی مشروط ہے کیوں کہ  تاریخی طور پر اس ذہنیت کے فروغ کا ایک بڑا محرک قضا کے ادارے کی عدم موجودگی بھی ہے15۔

دوسرا نکتہ جو اس ضمن میں نہایت اہم ہے قضا کی بحالی کے پہلو بہ پہلو تصوف کے ادارے کی فعالیت ہے۔گزارش ہے کہ قدر کی جمالیاتی جہت تصوف پر ہی استوار ہے۔ اسی سے قلب میں حق مستحضر رہتا ہے، نفسِ انسانی دین و شریعت پر ریجھتا ہے اور بندگی وجودی حال بن جاتی ہے۔ جدیدیت کے رو بہ رو مزاحمت کی دو شروط میں سے ایک عملِ صالح کی قوت بھی تصوف کے اسی عملِ مردم سازی پر موقوف ہے۔ مزید براں، انفکاکیت، بے گانگی اور نابودیت جیسے نفسی و وجودی احوال، جو دہشت گردی یا الحاد کی اور لپکنے کا باعث ہوتے ہیں، دراصل قدری بحران کے غماز ہیں۔ تصوف کے روایتی کردار کا احیا ہی اس بحران کا مداوا ہے۔   خیال رہے کہ ضابطہ نما شریعت کے استعماری تصور پر قائم  منفک از سماج جدید اصلاحی تحریکیں اور جماعتیں تصوف کی قائم مقام نہیں ہو سکتیں۔ تصوف اور ان تحریکوں کے مابین چھتیس کا آنکڑہ ہے۔ تصوف ایک سماجی ادارہ ہےجو داخلِ فرد میں حق اور قدر کی دروں کاری کر کے شریعت و فقہ کے سماجی پہلو کو  زندہ رکھتا ہے۔مزید براں، یہ انسانی عمل کو میکانکی بنائے بغیر، ارادے کی آزادانہ فعلیت کو برقرار رکھتے ہوئے انفس میں قدر کو رچاتا اور انہیں شریعت کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یوں  نہالِ قدر شاداب رہتاہے اور نتیجتاً‌ انسان اپنی آدمیت سے سرشار رہتا ہے۔

اس کے برعکس، جدید اصلاحی تحریکیں سماج سے منقطع وجود کی حامل ہیں۔ جمالیات سے عاری ضابطہ بند شریعت کی مبلغ ہیں۔ باطن سے پہلو تہی کر کے ظاہر پر زور آزماتی ہیں۔ چنانچہ نہ تو حق کی دروں کاری ہوتی ہے نہ ہی اس کا خارجی نتیجہ (مبنی بر قدر معاشرت) سامنے آتا ہے۔ تاہم یہ بھی سچ ہے کہ فی زمانہ تصوف کے ادارے میں بہت سی خامیاں نہ صرف راہ پا گئی ہیں بلکہ جڑ پکڑ چکی ہیں۔ اور جو ان خامیوں سے مامون ہیں وہ اپنے عصر کے اخلاقی امراض اور نفسی احوال کےراست ادراک سے  ہی قاصر ہیں، الا ما شاء اللہ۔ بہرحال ان سب امور کو نگاہ میں رکھتے ہوئے تصوف کو پھر سے فعال کرنے کی ضرورت ہے تا کہ  ایمان و شریعت سیاسی نظریے اور استعماری ضابطے کی بجائے انفس کا حال بنیں،شریعت کی سماجی و اخلاقی جہت بحال ہو اور میکانکیت اور دہشت گرد نابودیت سے خلاصی کا سامان ہو۔ واللہ المستعان۔


حواشی

  1. تخلیص پسندی وہابیت اور تجدد کا نقطۂِ اتصال ہے۔ ہمارے  ہاں وہابیت اور تجدد کو ایک دوسرے کی نقیض باور کروایا جاتا ہے  حالانکہ یہ دونوں اصولی سطح پر ایک ہیں۔ دونوں ہی دین کو روایتی علوم سے ’’پاک“ کر کے ’’خالص“ بنانا چاہتے ہیں۔ سرسید بجا طور پر اپنے آپ کو نیم چڑھا وہابی کہا کرتے تھے۔
  2.  گو کہ تہذیبی اثرات غیر محسوس طور پر منتقل ہوتے ہیں تاہم اس امر کی تصدیق تاریخی قرائن سے بھی ہوتی ہے کہ وہابیت کا تخلیص پسندانہ رویہ مغرب کی پروٹسٹنٹ/ لوتھرن تحریک سے مستعار ہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی وہابی تحریک کو اسلام کا پروٹسٹنٹ فرقہ  قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شیخ عبدالوہاب نجدی کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ ایک زمانے تک ان کا قیام مشرق و مغرب کی کڑی ملانے والی مشہور تاریخی بندرگاہ بصرہ میں رہا ہے اور بقول ان کے ایک عقیدت مند کے:  بصرہ میں یہ جذبہ (جذبۂ وہابیت) اور تیز ہو گیا“۔ علاوہ ازیں ، پاک و ہند کے تناظر میں، آپ نے ماثر الامراء کے حوالے سے  شاہ جہاں کے دربار میں ملا عبدالحکیم سیالکوٹی سے مناظرے کرنے والے ایک عالم دانشمند خاں سے متعلق آپ نے ماثر الامراء کے حوالے سے درج ذیل حالات نقل کیے ہیں: ’’کہتے ہیں کہ خان صاحب موصوف یعنی دانشمند خاں آخر عمر میں اہل فرنگ کے علم کی طرف مائل ہو گئے تھے اور اہلِ فرنگ کی تحریفات کو دہراتے رہتے تھے۔“ (تذکرۂ شاہ ولی اللہ (مکتبۃ الحسن: لاہور، ۲۰۱۱ء) ص ۱۳، ۱۷)
  3. یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ وہابیت نے سنی روایت سے بغاوت کا صور تو اس کے تنوع سے بیزار ہو کر پھونکا تھا لیکن اب خود انتشارِ محض کا عنوان بن گئی ہے۔ ہر محقق کے اپنے اپنے کئی عدد “قطعی” اور “حتمی” مواقف ہیں۔ تنوع اصول پر مبنی ہوتا ہے جبکہ انتشار اصول کے خاتمے سے عبارت ہے۔ یہ وہی صورت حال ہے جس سے انکارِ مذہب کے بعد مغرب دوچار ہے۔  عمل میں بھی وہابیت اور مغرب دونوں نراجیت کا شکار ہیں جیسا کہ آئندہ سطور میں اس کا ذکر آئے گا۔  بہرکیف اس مقدمے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مذہب کی حیثیت بدل دی جائے تو فکر وعمل میں انتشار مقدر ہو جاتا ہے۔
  4. شیخ عبدالقادر الصوفی سلسلہ شاذلیہ قادریہ سے منسلک  صاحبِ ارشاد بزرگ  تھے۔ نسلاً یوروپی تھے، سن ۱۹۶۷ء میں مراکش کے شہر فاس میں مشرف با اسلام ہوئے۔ عقیدۃً سنی اور مذہبا مالکی تھے۔ آپ مغربی تہذیب  بالخصوص اس کی معاشی قوت سرمایہ داری کے زبردست ناقد تھے۔ سنی المذہب ہونے اور جدیدیت کے ناقد ہونے کی بنا پر وہابی دہشت گرد گروہ بھی آپ کی تنقیدی تلوار کی زد پر رہتے تھے۔ آپ جدیدیت کے پیدا کردہ تہذیبی ڈھانچوں کے بالمقابل مسلم اوضاعِ تہذیب کے احیا کے لیے سرگرم رہے۔اس حوالے سے آپ نے  اسلام کے معاشی، سیاسی اور سماجی  پہلوؤں پر بہت سی کتب تصنیف کیں، مقالہ جات لکھے اور محاضرات دیے ہیں۔  یکم اگست ۲۰۲۱ء کو جنوبی افریقہ کے شہر رأس امید میں وفات پائی۔ طاب اللہ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ۔
  5. Shaykh Dr. Abdalqadir as-Sufi, The Salafi Anomaly : https://shaykhabdalqadir.com/the-salafi-anomaly
  6. امام العصر علامہ أنور شاہ صاحب کشمیری کا ارشاد فیض بنیاد ہے: “التوارث والتعامل ھو معظم الدین. وقد أری کثیرا منھم یتعبون الأسانید، ویتغافلون عن التعامل.” (الفوائد المنتقاة من أمالي الإمام العصر محمد أنور شاہ، ص ۱۳۱) ترجمہ: توارث و تعامل دین کی چوٹی ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اسناد کے پیچھے بھاگتے پھرتے ہیں اور تعامل کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
  7. Shaykh Dr. Abdalqadir as-Sufi, The Salafi Anomaly :  https://shaykhabdalqadir.com/the-salafi-anomaly
  8. وہابیت کی استعماری جدیدیت سے فکری نسبتیں تو متن میں بیان کر دی گئی ہیں، رہ گیا تاریخی ناتا تو گزارش ہے کہ ایسے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ جن سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ برصغیر کی تحریک وہابیت کی اٹھان استعماری سرپرستی یا کم ازکم استعماری معاونت کی رہینِ منت تھی۔استعمار وہابیت کے فروغ میں اپنے اقتدار کا دوام دیکھتا تھا۔ استعمار اور وہابیت کے باہمی ربط ضبط کے حوالے سے ایک دلچسپ تاریخی شہادت مولانا جعفر تھانیسری صاحب کی ’’سوانح احمدی“ سے یہ فراہم ہوتی ہے کہ ’’مولانا محمد اسحاق نے دہلی کے کسی مہاجن کی ہنڈوی  مجاہدین کو بھیجی تھی۔ پنجاب میں اس کا روپیہ وصول نہ ہوا تو مولانا صاحب نے انگریزی عدالت میں مہاجن پر دعوی دائر کیا اور ڈکری حاصل کی۔ آگرہ کی عدالتِ بالا سے بھی مہاجن کا مرافعہ خارج ہوا اور اسے ڈکری کی رقم ادا کرنی پڑی“۔  (بحوالہ: سید ہاشمی فرید آبادی، تاریخِ مسلمانانِ پاکستان و بھارت (کراچی: انجمن ترقی اردو، ۲۰۰۳ء) جلد دوم، ص ۳۱۲)
  9. تہذیبی اقدار سے مراد ایسی اقدار ہیں جو معروض میں ظہور پا کر تہذیب کی مقوم و محافظ بنیں؛ جیسے خلافت اور جہاد۔ خلافت کے ادارے کی تہذیبی معنویت یہ ہے کہ یہ دیگر تہذیبی اوضاع کا قِوام ہے اور جہاد کی تہذیبی معنویت اس امر میں مضمر ہے کہ تہذیب کے بقا اور پھیلاؤ میں اس کا مرکزی کردار ہے۔وہابیت تہذیبی اقدار کو رومانوی بنا دیتی ہے جبکہ اخلاقی و سماجی اقدار کو قانون میں ڈھال دیتی ہے۔ اس حوالے سے بھی جدیدیت اور وہابیت ایک صفحے پر ہیں۔
  10.  Shaykh Abdalqadir as-Sufi, Risala to a young man on the edge : https://shaykhabdalqadir.com/risala-to-a-young-man-on-the-edge/
  11.  Shaykh Abdalqadir as-Sufi, On terrorism : https://shaykhabdalqadir.com/on-terrorism/
  12.  Allama Muhammad Iqbal, The Reconstruction of Religious Thought in Islam (ILQA publications: Lahore, 2019), pg. 12.
  13.   بالا دستی اور نفاذ کا فرق ملحوظ خاطر رہے۔ شریعت کا نفاذ شریعت کو  جدید ریاست کا قانونی آلہ بنا دینے کے مترادف ہے جبکہ شریعت کی بالادستی کا مطلب ہے شریعت کا ہر شے پر حکم ہونا حتی کہ مرکزِ طاقت پر بھی۔
  14.  قضا کا سائبان نہ رہے تو فتوی آزاد نہیں رہتا، ہاں بے لگام ضرور ہو جاتا ہے!
  15.  برصغیر میں استعمار کے ہاتھوں سنی حنفی نظامِ قضا کے تعطل کے جہاں اور بہت سے نتائجِ بد برآمد ہوئے، وہیں اس کا ایک شاخسانہ تکفیر کی بے لگامی بھی ہے۔ قاضیوں کو برخاست کرنے والے استعماری فرنگی اس بات سے پوری طرح آگاہ تھے کہ اس کے کیسے کیسے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، تاہم جیسا کہ پیش ازیں بیان ہوا ان کی  اپنی مصلحت اسی میں تھی اور اسی فتنہ پردازی میں وہ اپنے اقتدار کا دوام دیکھتے تھے۔ ایک انگریزاستعماری افسر تحریر کرتا ہے کہ قاضیوں کی برخاستگی کا دو طرح سے اثر مرتب ہوا ہے، اولاً‌ یہ کہ اس سے پرجوش نیم ملاؤں کی تعداد بڑھ گئی ہے اور ثانیاً‌ یہ کہ مسلمانوں کی زندگی کا اور ان کے مذہب کا قائم رہنا دشوار ہو چلا ہے۔  مراجعت فرمائیے: سید طفیل احمد صاحب منگلوری، مسلمانوں کا روشن مستقبل (دارالکتب: لاہور،۲۰۱۶ء) ص ۱۴۰ ۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۱)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا بارہواں باب)



تیسرا حصہ -- بین الدیوبندی تنازعات

بارھواں باب: اندرونی اختلافات


ایک بار مولانا رشید احمد گنگوہی مکہ مکرمہ میں اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر کی زیارت کرنے گئے۔ حسن اتفاق سے اس وقت حاجی صاحب کے پڑوس میں محفل میلاد جاری تھی۔ حاجی صاحب نے مولانا گنگوہی سے محفل میلاد میں شرکت کی درخواست کی۔ مولانا گنگوہی نے درخواست سنتے ہی اسے پرزور انداز میں رد کیا اور کہا: "حاجی صاحب! میں میلاد میں کیسے شریک ہو سکتا ہوں، جب کہ میں ہندوستان میں دوسرے لوگوں کو اس بری محفل میں شرکت سے روکتا ہوں"۔ یہ جواب سنتے ہی حاجی صاحب مسکرائے اور مولانا گنگوہی سے کہنے لگے: "اللہ آپ کو جزاے خیر دے۔ میں میلاد میں آپ کی شرکت سے اتنا خوش نہ ہوتا، جتنا آپ کے اس انکار سے خوش ہوا، کیوں کہ جس چیز کو آپ حق سمجھتے ہیں، اس پر آپ مضبوطی سے قائم ہیں"۔ بعد میں اسی دن جب حاجی صاحب محفل میلاد میں شرکت کرنے گئے، تو مولانا گنگوہی کے ایک شاگرد جو اس ملاقات میں ان کے ساتھ تھے، بھی اپنے شیخ کو بتائے بغیر حاجی صاحب کے ساتھ چلے گئے۔ جب محفل ختم ہوئی، تو مولانا گنگوہی کے شاگرد نے کہا: "اگر میرے شیخ مولانا رشید احمد گنگوہی اس محفل میلاد میں شرکت کرتے، تو وہ بھی اسے مسترد نہ کرتے، کیوں یہ تمام قسم کی خرابیوں اور ناجائز اعمال سے پاک تھی"1۔

یہ واقعہ اکابرینِ دیوبند کے درمیان متنازعہ رسمی اعمال میں باریک تغیرات اور مذاق ومزاج کے اختلاف کی تصویر کشی کرتا ہے۔ اس واقعے میں جس اختلاف کا ذکر ہے، اسے فقہ/تصوف کے تقابلی خانے میں نہیں بٹھایا جا سکتا، نہ ہی یہ ایک حقیقی یا واضح اختلاف کی صورت ہے۔ اس کے بجاے یہ ایک ایسے اختلاف کی مثال ہے، جو محبت اور اطاعت کے آداب سے مکمل مطابقت رکھتا ہے۔ میلاد کے متعلق حاجی صاحب اور مولانا گنگوہی کا موقف ایک دوسرے سے یک سر مختلف تھا، لیکن انھوں نے اس اختلاف کا اظہار ایک ایسے انداز میں کیا، جس سے مرید اور شیخ کے درمیان تعلق کو کوئی گزند نہیں پہنچا، نہ ہی اس کا تقدس پامال ہوا۔اس اختلاف کا عمل اور اس کے متعدد پہلو اس باب کا موضوع ہیں۔

بلکہ زیادہ وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ باب متنازعہ اعمال سے متعلق اختلافی سوالات پر دیوبندی مسلک کے اکابرین کے درمیان داخلی اختلافات کا جائزہ لیتا ہے۔ مزید برآں یہ ان مناہج کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، جن کے ذریعے انھوں نے یکساں مسلکی فکر کے اندر ان اختلافات کا اظہار کیا۔ محبت اور اطاعت کا تعلق نباہنے کے باوجود اکابر دیوبند نے ایک دوسرے سے دقیق تاہم واضح انداز میں اختلاف کیا۔ بلکہ یہ باب بطور خاص دیوبندی بریلوی قضیے میں حاجی صاحب کے کردار کو بھی موضوعِ بحث بناتا ہے۔ اس مقصد کے لیے حاجی صاحب کی ایک اہم رسالے کو زیربحث لایا جائے گا، جو انھوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں ہندوستانی علما کے مناظرانہ جوش وجذبے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے لکھی تھی۔ یہ رسالہ اردو میں لکھا گیا تھا، اور اس کا نام 'فیصلۂ ہفت مسئلہ' تھا۔ اس رسالے میں حاجی صاحب نے ایک ایسا طرز استدلال اختیار کیا ہے، جس میں بیک وقت شرعی حدود سے ایک گہری وابستگی بھی ہے، اور بین المسلمین ہم آہنگی اور یک جہتی کے حصول کی کوشش بھی۔

رسالہ حاجی صاحب نے 1894 میں اپنی وفات سے پانچ سال پہلے لکھا تھا۔ یہ تقریباً چھ صفحات کا ایک مختصر رسالہ ہے، جس میں حاجی صاحب نے سات متناعہ رسمی اعمال اور اعتقادی مسائل پر بحث کی ہے: (1) عید میلاد النبی، (2) مُروَّجہ فاتحہ، (3) اللہ کے سوا کسی اور کو پکارنا (نداے غیر اللہ)، (4) مسجد کے اندر دوسری جماعت پڑھنا (جماعتِ ثانیہ)، (6) خدا کے جھوٹ بولنا کا امکان (امکانِ کذب)، (7) خدا کا حضرت محمد ﷺ کی نظیر پیدا کرنے کا امکان (امکانِ نظیر)۔ چوں کہ ہندوستان میں میلاد کا مسئلہ سب سے زیادہ اختلافی اور بحث ومباحثہ کا موضوع تھا، اس لیے فیصلۂ ہفت مسئلہ میں سب سے زیادہ طویل بحث اس پر ہے۔ میلاد کے مسئلے پر حاجی صاحب نے ان بنیادی اصولوں اور حکمت ہاے عملی کا اطلاق بھی کیا، جو ان کی نظر میں ایسے متنازع مسائل میں بروے کار لانے چاہییں۔

فیصلۂ ہفت مسئلہ ان پہلی کاوشوں میں سے ہے، جس نے بریلوی دیوبندی اختلاف کو ہوا دینے والے متنازعہ اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی تھی۔ حاجی صاحب کو اس تنازع کے حل میں ذاتی دل چسپی تھی، کیوں بریلوی اور دیوبندی مسالک دونوں میں ان کے مریدین تھے، اگر چہ وہ بانیانِ دیوبند کے صوفی شیخ ہونے کے حوالے سے زیادہ مشہور ہیں۔ اگر چہ حاجی صاحب اپنے دیوبندی مریدوں کی طرح باضابطہ عالم نہ تھے، تاہم اسلام میں بدعت کی حدود کے پُرپیچ قانونی مسائل کی تشریح کے بارے میں ان کا یہ رسالہ ایک صوفی عالم کی ایک شاہ کار تحریر کی حیثیت رکھتا ہے۔ حاجی صاحب نے کوشش کی کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کی نظریاتی آرا میں مشترکات تلاش کرکے انھیں باہم قریب لائے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان کے رسالے کی اشاعت کے بعد ان کی مبنی برمفاہمت تشریح کا الٹا اثر ہوا کہ ہر دو فریق نے اسے اپنے اصلاحی پروگرام کی تائید سمجھا۔

حاجی صاحب کی فکر میں موجود ابہام نے دیوبندی حلقوں کے درمیان بھی کافی ہلچل پیدا کی، جس کی وجہ سے ان کے دیوبندی مرید مجبور ہوئے کہ شیخ ومرید کے درمیان اختلاف کی حدود میں رہتے ہوئے متعلقہ مسائل کو موضوع بحث بنائیں، اور حاجی کی فکر کے ان پہلوؤں کی وضاحت کریں، جو بظاہر ان کی اصلاحی تحریک کے مخالف تھے۔ آخر کار 'فیصلۂ ہفت مسئلہ' سے متعلق ایک نامور دیوبندی عالم کے ایک خواب کے ذریعے (جس کا ذکر بعد میں اس باب میں کیا جائے گا)، جس میں رسول اللہ ﷺ خود نمودار ہوئے، اور علماے دیوبند کے حق میں فیصلہ کیا، اس رسالے میں موجود تعبیری تکثیریت کے کسی امکان کو دفنا دیا گیا۔

اس خواب کو انھوں نے جس طرح پیش کیا ہے، وہ اس اہم ابہام کو واضح کرتا ہے کہ اکابرین دیوبند نے حاجی صاحب کے ساتھ اپنے علمی موقف کا اظہار کس طرح کیا۔ جس وقت وہ اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ ان کا حاجی صاحب کے ساتھ کوئی اختلاف نہیں، بعینہ اسی وقت انھوں نے اپنے موقف کو برتر ثابت کرنے کے لیے خواب کے ذریعے رسول اللہ ﷺ کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ وہ ابہامات اور تضادات ہیں، جس کو یہ باب زیر بحث لاتا ہے۔ تاہم میں حاجی صاحب کے تعارف اور ان کی علمی زندگی سے شروع کرتا ہوں۔ میں یہ بھی واضح کروں گا کہ دیوبندی شجرے میں بالخصوص اور جنوبی ایشیا کی مسلم علمی روایات میں بالعموم ان کا کردار اور مقام کیا تھا۔

حاجی امداد اللہ: ایک جلا وطن روایتی صوفی

حاجی صاحب 1814 میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک دل چسپ شخصیت تھے، جو متعدد علمی وفکری اور مختلف النوع زبانی اور مکانی مراکز سے فیض یاب ہوئے تھے۔ وہ کم وبیش پوری انیسویں صدی میں حیات رہے (انھوں نے 1899 میں وفات پائی)، اور جس دور میں وہ جیے، اس دور کا مجسم عبوری کردار تھے۔جیسا کہ حال ہی میں سیما علوی نے اپنی تحقیق میں بتایا ہے کہ حاجی امداد اللہ انیسویں صدی کی جنوبی ایشیا کے ان متعدد علما میں سے تھے، جنھوں نے نہ صرف ماوراے قومیت (transnational) متنوع سلاسل سے استفادہ کیا، بلکہ ایسے سلاسل کی تشکیل بھی دیے2۔

پیدائش کے وقت حاجی صاحب کا اصلی نام امداد حسین تھا، لیکن بعد میں اپنے ابتدائی مربی شاہ محمد اسحاق نے انھیں امداد اللہ کے لقب سے سرفراز کیا۔ بیسویں صدی کے سوانح نگار مولانا محمد انوار الحسن شیر کوٹی نے اس کی ایک مسلک پرستانہ توجیہ یہ پیش کی ہے: "شاید ان کو امداد حسین کا نام پسند نہ آیا کہ اس میں شرک کی بو آتی ہے" (یعنی اس وجہ سے کہ حسین نام کی نسبت شیعیت سے ہے)3۔ حاجی صاحب کی عمر صرف سات سال تھی کہ ان کی والدہ بی بی حسینی (م 1824) وفات پاگئیں۔ وہ نانوتہ کی رہنے والی تھیں۔ ان کے والد محمد امین ان کی پیدائش سے پہلے وفات پا گئے تھے۔ اپنی وفات سے پہلے بی بی حسینی نے وصیت کی تھی کہ ان کے تیسرے صاحب زادے امداد اللہ کو حصول علم میں جسمانی سزا نہ دی جائے، نہ ہی انھیں جھڑکا جائے4۔ گویا کہ وہ اپنے بستر مرگ پر اسی چیز کی تربیت چاہتی تھی جو بعد میں اس کے بیٹے کے منفرد اور صلح جو مزاج کا حصہ بن گیا۔

حاجی صاحب نے سات سال کی عمر میں حفظ قرآن شروع کیا، لیکن انھوں نے اس کی تکمیل بہت بعد میں کی جب وہ مکہ ہجرت کر گئے۔

ان کی علمی زندگی کا ایک فیصلہ کن مرحلہ وہ تھا، جب وہ سولہ سال کی عمر میں مولانا مملوک علی (م 1851) کے ساتھ دلی عازم سفر ہوئے۔ مولانا مملوک علی دلی عربک کالج میں شعبۂ مطالعاتِ شرقیہ کے سربراہ تھے۔ دلی کالج میں ہی حاجی صاحب نے اپنی فارسی اور عربی تعلیم کا ابتدائی مرحلہ مکمل کیا۔ حاجی صاحب کو جس گونج دار شخصیت نے تمام صوفی سلسلوں میں کی تعلیم وتربیت دی، وہ اترپردیش میں مظفر گڑھ کے گاؤں جھنجھانہ سے تعلق رکھنے والے میاں نور محمد جھنجھانوی (م 1843) تھے5۔ شیخ طریقت بننے سے قبل میاں صاحب لوہاری گاؤں (آج کے ہریانہ) میں، جو جھنجھانہ سے تقریباً 53 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، بچوں کو قرآن کریم اور فارسی پڑھایا کرتے تھے۔ ان کا قیام وطعام کے اخراجات اور دو روپے کی ماہانہ تنخواہ علاقے کی ایک مال دار خاتون اقبال بیگم ادا کرتی تھیں۔ وہ ہر ہفتے جمعے کو چھٹی کرکے جھنجھانہ میں اپنے گھر چلے جاتے۔ میاں صاحب نے بعد میں مشہور عالم شاہ عبد الرحیم فاطمی ولایتی (م 1831) سے چشتی سلسلے میں تربیت حاصل کی۔ جھنجانوی کی ارادت میں حاجی صاحب نے چشتی صابری سلسلے میں کمال حاصل کیا6۔ کہا جاتا ہے کہ جب 1848 میں جھنجھانوی صاحب وفات پاگئے، تو حاجی صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ کھانا پینا چھوڑ کر کئی دنوں تک پنجاب میں آوارہ پھرتے رہے۔ ان حالات میں انھیں خواب میں ماضی کے عظیم صوفیا بشمول شاہ معین الدین چشتی، جنھوں نے حاجی صاحب پر سلسلۂ چشتیہ کے اسرار منکشف کیے، کی زیارات ہونے لگیں۔ حاجی صاحب جب تک ہندوستان میں رہے، اپنے آبائی گاؤں تھانہ بھون میں خانقاہ امدادیہ کے نام سے ایک خانقاہ چلاتے رہے۔ اس خانقاہ کو 1857 کی جنگ آزادی کے دوران نذر آتش کیا گیا7۔

اسی طرح حاجی صاحب کی تعلیم وتربیت جدید جنوبی ایشیا کے سب سے بااثر علما نے کی۔ آپ کی تحریریں صوفیانہ مراقبے، فکر اور روایت کے مختلف پہلؤوں سے متعلق ہیں، اور ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب ضیاء القلوب ہے، جس کا ایک عمدہ تجزیہ سکاٹ کگل (Scott Kugle) نے کیا ہے8۔ انھوں نے فارسی اور عربی میں کافی شاعری کی، جن میں 'جہاد اکبر' اور 'گلزار معرفت' جیسی مشہور نظمیں شامل ہیں۔ حاجی صاحب چشتی سلسلے اور دارالعلوم دیوبند کے شجرے میں ایک بلند وبالا مقام پر فائز ہیں9۔ عہد حاضر میں وہ مولانا قاسم نانوتوی، مولانا رشید احمد گنگوہی اور پھر بعد میں مولانا اشرف علی تھانوی جیسے دیوبندی اکابر کے صوفی شیخ کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں۔ جیسا کہ اس باب میں بتایا جائے گا، حاجی صاحب کی شخصیت کی کلیدی خصوصیت باہمی افہام وتفہیم سے محبت اور مناظرانہ معرکہ آرائیوں، تعصب اور اختلاف سے نفرت تھی۔ تاہم ان کی مصالحت پسند طبیعت اور عمومی نرم مزاجی ان کی استعمار مخالف مزاحمت میں نمایاں اور بسا اوقات براہ راست عسکری کردار ادا کرنے میں حائل نہیں ہوئی۔

حاجی صاحب پر اس وجہ سے بغاوت کا الزام لگا کہ انھوں نے 1857 نے کی جنگ آزادی میں گوروں کے خلاف مبینہ طور پر فوجی کارروائی کی تھی۔ اس جنگ میں ان کی شمولیت کی حیثیت اور کردار کا حتمی تعین مشکل ہے۔ البتہ سوانحی مآخذ پورے اعتماد سے حاجی صاحب کو اس جنگ کے ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہیں، جو اس معرکے کی تنظیم اور اس میں براہ راست شرکت میں پیش پیش تھے10۔ اس جنگ میں اپنے قریبی متعلقین بشمول مولانا نانوتوی، مولانا گنگوہی اور ان کے بے تکلف دوست حافظ محمد ضامن (م 1857) کی مدد سے انھوں نے کامیابی سے انگریزوں کے ایک ٹینک پر حملے کی منصوبہ بندی کی، جو ضلع سہارن پور کے ایک قصبے شاملی سے گزر رہا تھا۔ بدقسمتی سے حافظ ضامن کو جنگ کے دوران گولی لگی اور وہ شہید ہو گئے۔ اس واقعے کو  دیوبندی تذکروں میں آج تک شدت کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے۔ جنگ شاملی کے بعد برطانیہ نے حاجی صاحب کو گرفتار کرنے کی ٹھان لی۔ لیکن وہ معجزانہ طور پر ان تمام کوششوں سے بچنے میں کام یاب ہو گئے۔

اس حوالے سے سب سے زیادہ یادگار اور بار بار سنائی جانے والی حکایت یہ ہے کہ ایک بار جب حاجی صاحب برطانوی پولیس کے تعاقب سے بچ نکلنے کی کوشش میں وہ اترپردیش کے ضلع انبالہ میں گھوڑوں کے ایک اصطبل میں چھپ گئے۔ یہ اصطبل ان کے وفاداروں میں سے ایک شخص راو عبد اللہ کا تھا۔ جب ضلع کا برطانوی کلکٹر (جس کے پاس ضلع کا عمومی انتظام ہوتا ہے) کو حاجی صاحب کے خفیہ ٹھکانے کا علم ہوا، تو وہ انھیں گرفتار کرنے کے لیے عبداللہ کے ہاں آ گیا، اور اس بہانے سے اصطبل کی تلاشی شروع کی کہ وہ کچھ نئے گھوڑے دیکھنا چاہتا ہے۔ عبد اللہ اور ان کے رفقا اور کچھ نہیں کر سکتے تھے، سواے اس کے حاجی صاحب کی گرفتاری کا بے بسی سے انتظار کریں۔ لیکن جب کلکٹر نے اصطبل کے دروازے کو دھکا دیا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ حاجی صاحب معجزانہ طور پر غائب تھے۔ ان کا بستر، جاے نماز اور وضو کے لیے پانی کا لوٹا سب کچھ موجود تھا۔ حتی کہ زمین ان کے وضو کے پانی سے تر تھی۔ لیکن وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اور جوں ہی انگریز کلکٹر چلا گیا، حاجی صاحب دوبارہ اپنی جاے نماز پر بیٹھے نظر آنے لگے۔ یہ ان کی کرامت تھی11۔ اس کے فوراً‌ بعد وہ پنجاب گئے، اور پاک پتن پر مشہور صوفی بزرگ خواجہ فرید الدین گنج شکر (م 1265) کے مزار کی زیارت کی، اور وہاں سے کراچی کے بندر گاہ چلے گئے۔ 1859 میں وہاں سے وہ ایک بحری جہاز میں سوار ہو کر مکہ چلے گئے، اور پھر زندگی بھر ہندوستان واپس نہیں لوٹے12۔ اپنی زندگی کی آخری چار دہائیاں جلا وطنی میں گزارنے کی وجہ سے ان کے متعلقین نے انھیں 'مہاجر مکی' کا لقب دیا۔

ہندوستان میں رہائش پذیر نہ ہونے کے باوجود حاجی صاحب نے یہاں کے مسلم علمی حلقوں سے انتہائی قریب تعلق استوار رکھا۔ اپنی جلاوطنی کے دوران انھوں نے متعدد مریدوں کی اصلاح وتربیت کی، جن میں سے بعض بعد میں جنوبی ایشیا کے نامور مسلمان اہل علم بن گئے۔ ان کے مریدوں میں نہ صرف علماے دیوبند بلکہ ان کے بہت سے مخالفین بھی شامل تھے۔ بلکہ مولوی عبد السمیع بھی، جو علماے دیوبند کے قدآور حریف اور ان کے خلاف 'انوار ساطعہ' جیسی کاٹ دار تنقید کے مصنف تھے، حاجی صاحب کے قریبی مریدوں میں سے تھے۔ ہندوستان میں مولوی سمیع کو اپنی بیعت میں لینے کے بعد حاجی صاحب نے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران بھی ان سے فعال رابطہ برقرار رکھا، بلکہ تب بھی جب اکابرین دیوبند سے ان کا بحث ومباحثہ زوروں پر تھا۔ حاجی صاحب کے متنوع اور بسا اوقات تنک مزاج پیروکار ہی 'فیصلۂ ہفت مسئلہ' اور اس کے بعد رونما ہونے والے تنازع کے بنیادی کردار ہیں۔

حاجی صاحب کو اپنے مریدین کے تنوع کا بخوبی علم تھا، اور یہ بھی کہ وہ سب ان کے فکری ورثے کے امین ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ بلکہ اس امر پر اختلاف کہ کون حاجی امداد اللہ کا صحیح فکری جانشین ہے، ایک ایسا اختلاف جو اس باب کے نصف آخر کے اکثر حصے میں زیر بحث آیا ہے، ایک عالم کی حیثیت سے ان کے شعور ذات کا ایک اہم پہلو ہے۔ ایک بار اس الجھن کو سراہنے کے انداز میں انھوں نے خود کہا: "ہر کوئی مجھے اپنے رنگ میں دیکھنا چاہتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی میرا رنگ نہیں۔ میں پانی کی طرح ہوں۔ جب آپ ایک بوتل میں پانی ڈالتے ہیں، تو یہ اس بوتل کے رنگ کی طرح دکھائی دینے لگتا ہے"13۔

حاجی صاحب کو معلوم تھا کہ ان کی وسیع المشربی اس فضا کے یکسر خلاف ہے، جس میں ہر وقت شدید مناظرانہ جھڑپیں جاری رہتی ہیں، اور جس نے انیسویں صدی کے اواخر کے مسلمان اہل علم کو جھکڑ رکھا ہے۔ انھیں شدت سے احساس تھا کہ ان کا مزاج اس نئے ماحول سے ہم آہنگ نہیں، اور انھوں نے بار بار اس پر اپنے غم اور افسوس کا اظہار کیا۔ مثلاً انوار ساطعہ کی اشاعت کے بعد جولائی 1887 میں اپنے ایک (فارسی) خط میں حاجی صاحب نے مولوی عبد السمیع کی 'تیز قلمی' اور 'غیظ نفسانی' پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ حاجی صاحب انھیں لکھتے ہیں: "یہ علما اور اہل علم کا انداز نہیں ہے"۔ حاجی صاحب نے مولوی سمیع سے مطالبہ کیا کہ اس کتاب کی کسی بھی تردید کا جواب دینے سے باز رہے۔ "تمھارا مقصد حق کا اظہار تھا، وہ ہو گیا۔ اب بس کرو" (قصدِ شما اظہارِ حق بود ظاہر شد، بس!)14۔

چند ماہ بعد مولوی سمیع کے نام اپنے ایک اور خط میں حاجی صاحب اسلامی ہند میں مناظروں کے بھڑکتے شعلوں پر نسبتاً زیادہ جذباتی انداز میں نوحہ کناں ہیں: "(ہندوستان میں) اپنے صوفی بھائیوں کے درمیان اختلافات کا سن کر رونا آتا ہے۔ بہتر ہوگا کہ اتفاق رہے، برے جذبات سے دور رہا جائے، اور محبت کا رشتہ استوار کیا جائے۔ یہ طبقۂ علما کی ذمہ داری ہے" (موجبِ از دیارِ معارف است)15۔ جیسا کہ مجھے یاد دہانی کا موقع ملے گا، اتحاد بین العلما کے پیچھے حاجی صاحب کا اصل مقصد یہ تھا کہ عوام کی نظروں میں اہل علم کی حیثیت ووقار اور کشش کا تحفظ کریں۔ دراصل ان کا پروجیکٹ مکمل طور پر ایک ایسے نظام مراتب کی حمایت تھا، جو علما اور سماج کے درمیان اس امتیاز کا تحفظ کرے، جس کی وجہ سے عوام علما سے متاثر اور ان کی قدر کرتے ہیں۔ مناظرانہ بکھیڑے اور جھڑپیں اس نظامِ مراتب کی سالمیت کو کمزور کرتی ہیں۔ اور یہی وہ بنیادی خطرہ تھا، جس سے نمٹنے اور اس کے سدباب کی انھوں نے کوشش کی۔

حاجی صاحب باضابطہ عالم نہ تھے، اگر چہ انھوں نے فقہ اور حدیث کی ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں۔ ان کے دیوبندی مریدین فقہی علوم میں ان کی مہارت نہ ہونے کی تاویل کچھ یوں کرتے کہ وہ خدا کی طرف سے عطا کردہ علم (علم لدنی) کے ماہر ہیں، جس کی وجہ سے انھیں علومِ ظاہرہ وباطنہ دونوں میں کمال حاصل ہو گیا ہے۔اس منطق کے رو سے حاجی صاحب نے اللہ تعالیٰ سے براہ راست علم حاصل کیا ہے، اور اس وجہ سے کسی خاص علمی روایت کی باضابطہ تعلیم ان کے لیے غیر ضروری تھی۔ مثال کے طور پر مولانا قاسم نانوتوی کا جواب ملاحظہ کیجیے جب ایک بار ان سے پوچھا گیا: "کیا حاجی صاحب حقیقی عالم ہیں"؟ مولانا نانوتوی نے الزامی جواب دیا: "یہاں پر عالم کے عمومی معنی غیرمتعلق ہے، کیوں کہ حقیقی عالم ہونا صرف خدا کی خصوصیت ہے"16۔ ایک اور موقع پر جب کسی نے حاجی صاحب کے عالم ہونے پر کچھ شک کا اظہار کیا، تو مولانا نانوتوی آب دیدہ ہوئے، اور کہنے لگے: "عالم ہونا کیا بات ہے، وہ تو علما کے بنانے والے (عالم گر) ہیں"17۔

مولانا تھانوی نے بھی حاجی صاحب کے علم لدنی کے حوالے سے اسی طرح کا استدلال پیش کیا ہے: "اگر چہ حاجی صاحب شریعت کے نامور علما میں سے نہ تھے، لیکن وہ سراپا روحانی علوم کے نور سے منور تھے"18۔ ایک بار کسی نے مولانا تھانوی سے پوچھا: "حاجی صاحب میں آخر کیا بات ہے کہ اتنے لوگ علما کو چھوڑ کر ان کے ارد گرد جمع ہو گئے ہیں"؟ مولانا تھانوی نے اختصار کے ساتھ جواب دیا: "ہمارے پاس الفاظ ہیں، اور وہاں معنی"19۔ ایک اور موقع پر مولانا تھانوی نے اپنا علمی کمال جتلانے کے ساتھ ساتھ اپنے شیخ کی روحانی برتری کے لیے ایک دل چسپ انداز میں کہا: "حاجی صاحب نے صرف کافیہ (درس نظامی میں علم النحو کی ایک اہم کتاب) تک پڑھا تھا، اور ہم نے اتنا پڑھا ہے کہ ایک اور کافیہ لکھ سکیں۔ لیکن حضرت کا علم اس درجے کا تھا کہ ان کے مقابلے میں علماے شریعت کے علم کی کوئی حقیقت نہیں تھی20۔

ان بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ اکابرین دیوبند نے متفقہ طور پر شرعی علوم میں حاجی صاحب کی عدم مہارت کی ایسی تاویل کی، جس سے ان کے دینی استناد کو تقویت پہنچی۔ لیکن علوم دینیہ میں باضابطہ مہارت نہ ہونے کے باوجود فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب نے عمدہ انداز میں فقہی اور کلامی دلائل ترتیب دیے۔ بلکہ جیسا کہ میں ذیل میں بتاؤں گا کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کے طرز استدلال سے کوئی ان پر واضح مسلکی لیبل نہیں لگا سکتا۔  انھوں نے بہت تخلیقی انداز میں متعدد طریق ہاے استدلال اور مصادر علم بشمول فقہ، تصوف اور روزمرہ کے تجربات سے استفادہ کرکے باہمی افہام وتفہیم پر مبنی ایک ایسا اصول تعبیر پیش کیا، جس میں مکمل تنوع تھا۔ اس اصول تعبیر پر فقہ/تصوف، روادارانہ/غیر روادارنہ اور معتدل/انتہاپسندانہ جیسے سطحی تقابلات کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا۔ میں اب اس اصول تعبیر کا ایک تفصیلی جائزہ پیش کرتا ہوں۔

باہمی افہام وتفہیم کے اصول: فیصلۂ ہفت مسئلہ کی ساخت

کس چیز نے حاجی صاحب کو فیصلۂ ہفت مسئلہ لکھنے پر آمادہ کیا؟ آخر وہ کون سی مجبوری تھی جس کی وجہ سے انھوں نے جنوبی ایشیا کے متحارب دھڑوں کے درمیان مفاہمت کے حصول کا بیڑا اٹھایا؟ انھوں نے آغاز ہی میں ان سوالات کو موضوع بحث بنایا ہے:

یہ امر مسلمات میں سے ہے کہ باہمی اتفاق دنیوی ودینی برکات کا باعث ہے، اور نا اتفاقی دنیوی اور دینی نقصانات کی وجہ ہے۔ آج کل بعض فروعی مسائل میں اس قدر اختلاف واقع ہوا ہے، جس کی وجہ سے طرح طرح کی لڑائیاں اور مشکلات جنم لے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں عوام اور خواص اہل علم کا وقت برباد ہو رہا ہے۔ حال آں کہ ان میں سے اکثر امور میں اختلاف لفظی نزاع ہے، اور دونوں مخالف فریقوں کا مقصد ایک ہوتا ہے۔ عموماً مسلمانوں اور خصوصاً اپنے متعلقین کی یہ حالت دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے۔ اس لیے فقیر کے دل میں آیا کہ مذکورہ مسائل کے متعلق ایک مختصر سا مضمون قلم بند کرکے شائع کیا جائے۔ قوی امید ہے کہ اس سے یہ اختلافات اور کش مکش ختم ہو جائے گی21۔

انھوں نے اس رسالے میں جن مسائل کو موضوع بحث بنایا ہے، اس کی علت بھی وہ بیان کرتے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ میں نے ان مسائل کا انتخاب اس لیے کیا کہ میرے مریدوں کے درمیان جو اختلافات ہیں، وہ گنے چنے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان سے امید ہے کہ وہ میری بات مانیں گے۔  باقی لوگوں سے یہ توقع نہیں۔ مسائل کی ترتیب کی بابت وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے ان مسائل کو بیان کیا ہے، جس میں زیادہ اختلاف ہے، اس کے بعد ان کو، جن میں اختلاف نسبتاً کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میلاد کو سب سے پہلے زیر بحث لایا گیا ہے۔ حاجی صاحب اپنے تعارف کا خاتمہ ایک سخت تنبیہ سے کرتے ہیں: "اگر کوئی شخص اس تحریر کو قبول کرکے اس سے فائدہ اٹھا لے، تو مجھے اپنی دعا میں یاد فرما لے۔ لیکن کوئی بھی اس کے جواب کی فکر نہ کرے، کیوں کہ میرا مقصد ہرگز مناظرہ کرنا نہیں"(3)۔

حاجی صاحب کے موقف میں بہت کچھ ایسا تھا جسے دیوبندی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے قبول کرسکتے تھے۔ مثلاً اپنے دیوبندی مریدوں کی طرح حاجی صاحب نے باصرار کہا: میلاد میں شامل کردہ تخصیصات کو واجب سمجھنا بدعت (ان کے اپنے الفاظ میں 'غیر دین کو دین میں داخل کر لیا جاوے') ہے، مثلاً رسول اللہ ﷺ کے احترام میں کھڑے ہونے (قیام) کو(4)۔

حاجی صاحب نے یہ بھی بتایا کہ بدعت اور جواز کی درمیان حد اس وقت پامال ہو جاتی ہے، جب ایک شخص میلاد کی تخصیصات کو نماز اور روزے جیسے فرائض سے گڈ مڈ کرنے لگے۔ اس اصول کی وضاحت وہ اپنے انداز میں یوں کرتے ہیں:

"کوئی شخص یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ اگر متعین تاریخ پر میلاد نہیں پڑھا گیا، یا قیام نہ ہوا، یا خوش بو اور شیرینی کا بندوبست نہیں ہوا تو ثواب نہیں ملے گا، تو بے شک یہ اعتقاد مذموم ہے۔ کیوں کہ یہ حدود شرعیہ سے تجاوز ہے۔ اسی طرح مباح عمل کو حرام اور گمراہی سمجھنا بھی مذموم ہے۔ الغرض ان دونوں صورتوں میں حدود سے تجاوز (تعدی حدود) پایا جاتا ہے (4)۔

یہ ایک صوفی شیخ کی جانب سے باریک فروق اور حدود پر مبنی فقہی استدلال پیش کرنے کی ایک عمدہ مثال ہے۔ لیکن حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان جہاں فقہی زاویۂ نظر میں مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، وہیں علماے دیوبند کے برعکس حاجی صاحب اس نیت کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، جس کے ساتھ کوئی عمل سرانجام دیا جاتا ہے۔ حاجی صاحب نے یہ دل چسپ استدلال کیا کہ اگر کوئی مولد کی تخصیصات (جیسے قیام، شیرینی کی تقسیم یا وقت کی تعیین) کو اس نیت کے ساتھ ضروری سمجھے کہ یہ کوئی شرعی تقاضا نہیں بلکہ ان کی وجہ سے چند برکات کا حصول ہوتا ہے، تو اس صورت میں یہ مذموم نہیں۔  اس نکتے کی وضاحت کے لیے ان کے اپنے الفاظ پر غور زیادہ مفید رہے گا:

بعض اعمال سرانجام دیتے وقت کچھ تخصیصات کی ضرورت ہوتی ہیں، کیوں کہ اگر ان تخصیصات کی رعایت نہ کی جائے، تو ان اعمال کا خاص اثر مرتب نہیں ہوتا۔ مثلاً بعض اعمال کھڑے ہو کر پڑھے جاتے ہیں۔ اگر بیٹھ کر پڑھے جائیں، تو خاص اثر نہ ہوگا۔ اس پہلو سے اگر کوئی شخص میلاد کے دوران قیام کو ضروری سمجھتا ہے، اور جن لوگوں نے اس تخصیص کو ایجاد کیا ہے، ان کو تجربے، کشف یا الہام کے ذریعے اسے اس کی افادیت معلوم ہو جائے، تو پھر یہ بدعت نہیں ہے (4 - 5)۔

شرعی حدود سے اپنی وفاداری ثابت کرنے کے بعد حاجی صاحب نے علم کے کچھ ایسے ممکنہ ذرائع بھی پیش کیے، جو شریعت اور اس کی حدود سے ماورا ہیں، یعنی وہ علم جو تجربے یا کشف والہام سے حاصل ہوتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ حاجی صاحب کا مختلف النوع منہج فقہ/تصوف کے تقابل کو تسلیم نہیں کرتا، نہ ہی اس پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس حاجی صاحب اولیا کے تجربات، کشف یا الہام کو اس صورت میں حجت مانتے ہیں، جب اس کی وجہ سے شرعی حدود کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔ اگر کوئی میلاد کو شریعت وتصوف کی رو سے جائز طور پر منانا چاہے، تو اس میں موجود تخصیصات کے لیے کشف والہام سے پہلے اسے شرعی حدود کی پاس داری کرنی ہوگی۔

حاجی صاحب کے اصول تعبیر میں ایک کلیدی حیثیت مصلحت کی اصطلاح کو بھی حاصل ہے، جس کا ترجمہ عام طور پر عوامی مفاد یا فلاح وبہبود کیا جاتا ہے۔ تاہم حاجی صاحب کے ہاں یہ عوامی فلاح وبہبود کی بہ نسبت سہولت وآسانی کے معنی میں زیادہ مستعمل ہے۔ اگر میلاد جیسی کسی رسم کی مخصوص صورتیں یا تخصیصات اس وجہ سے کی گئی ہوں کہ ان میں کوئی مصلحت ہے، تو پھر ان صورتوں اور تخصیصات کو بدعت نہیں قرار دیا جا سکتا۔

مثلاً اگر کوئی شخص میلاد کے لیے ایک مخصوص تاریخ مثلا بارہ ربیع الاول کی تعیین کرتا ہے، کیوں کہ اس طرح سے یہ معمول بن جائے گا، اور ہر سال اسی تاریخ آنے پر اس کا کرنا آسان ہوجائے گا، تو یہ تخصیص بدعت نہیں ہوگی۔ قیام کے متعلق بھی حاجی صاحب نے بعینہ یہی استدلال کیا کہ "اگر کوئی شخص میلاد میں قیام کو شرعاً واجب نہیں سمجھتا، بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کو مقصودی عبادت جانتا ہے، اور اس مصلحت کے لیے اس نے میلاد میں قیام کی تخصیص کی ہے، تو یہ بدعت نہیں ہے"(5)۔ وہ مزید کہتے ہیں: "مصالح کی تفصیل کافی طویل ہے، اور ہر مقام پر الگ الگ مصلحت ہوتی ہے۔ میلاد سے متعلق لکھے گئے رسائل میں بعض مصالح مذکور بھی ہیں" (5)۔

حاجی صاحب نے جس طرح سے رسوم میں موجود تخصیصات اور تعینات کے لیے مصلحت کو جواز کا شرعی پیمانہ بنا دیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سماج کے اجماع سکوتی پر یقین رکھتے تھے۔ اگر کوئی سماج کسی رسم کی ایک مخصوص صورت پر راضی ہو جائے، اور اسے معمول بنا لے، اس بنیاد پر کہ اس کی وجہ سے انھیں متعدد مصالح حاصل ہوتے ہیں، تو پھر حاجی صاحب کی نظر میں انھیں ناجائز قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حتی کہ اگر کسی رسم میں ان تخصیصات کا جواز شرعی مصادر سے معلوم بھی نہ ہوتا ہو، جب تک وہ سماج میں جڑ پکڑ چکے ہوں، انھیں ناجائز نہیں قرار دیا جا سکتا۔ حاجی صاحب کے لیے کسی سماج کی رسموں کو ان کے مخصوص حالات اور ان کی اپنی آسانی اور سہولت سے علاحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ حاجی صاحب نے بڑی دانش مندی سے ایک طرف سہولت اور مصلحت اور دوسری طرف تجرباتی تقاضوں کی اساس پر ہندوستان میں رائج میلاد اور اس میں موجود تخصیصات کے لیے شرعی گنجائش پیدا کی۔

زمان، مصلحت اور سماج

حاجی صاحب کی تفہیمِ مصلحت کی بنیاد وہ انداز بھی تھا، جس میں وہ کسی سماج کی رسمی زندگی اور زمان کے درمیان تعلق کو دیکھتے تھے۔ انھوں نے اس تعلق کو زیادہ وضاحت کے ساتھ ایصال ثواب کی بحث کے ذیل میں بیان کیا۔ یہ ان کی نظر میں میلاد کے بعد دوسرا شدید متنازعہ مسئلہ تھا۔ حاجی صاحب نے اس رسم کی پوری تاریخ بیان کی ہے، تاکہ وہ اس استدلال اور عمل کو واضح کرے، جس کے ذریعے اس رسم کی مخصوص شکلیں اور عناصر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں رائج ہو گئیں۔ ذیل میں، میں اس تاریخی خاکے کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں۔ یہ بطور خاص اس بات کی ایک اچھی مثال ہے کہ حاجی صاحب نے کس طرح زمان، رسم اور سماجی اقدار کے باہمی ربط کو اس غرض کے لیے پیش کیا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک رسم سے جڑی نئی شکلوں اور تخصیصات کو جواز دیا جائے۔ انھوں نے یہ کہانی کچھ اس طرح بیان کی ہے:

تامل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلف میں یہ تو یہ عادت تھی کہ وہ کھانا پکا کر مسکین کو دے دیتے تھے، اور دل سے ایصال ثواب کی نیت کر لیتے تھے۔ متاخرین میں سے کسی کو یہ خیال ہوا کہ جیسے نماز میں صرف دل سے نیت کافی ہے، لیکن عوام کے لیے دل سے موافقت میں زبان سے کہنا بھی مستحسن ہے،اسی طرح اگر ایصالِ ثواب میں بھی زبان سے کہہ دیا جائے کہ یا اللہ اس کھانے کا ثواب فلاں شخص کو پہنچ جائے، تو بہتر ہے۔ پھر کسی کو خیال ہوا کہ اس لفظ سے جس چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے یعنی کھانا، اگر وہ بھی سامنے موجود ہو، تو اس سے قلبی استحضار زیادہ ہو۔ اور اسی وجہ سے کھانا سامنے رکھا جانے لگا۔ پھر کسی کو یہ خیال ہوا کہ یہ تو محض دعا ہے، اگر اس کے ساتھ کچھ کلامِ الہی بھی پڑھا جائے تو قبولیتِ دعا کی بھی امید ہے، اور اس کلام کا ثواب بھی پہنچ جائے گا۔ کسی نے سوچا کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا سنت ہے، تو ہاتھ اٹھانا بھی شروع ہو گیا (7 – 8)۔

حاجی صاحب نے بتایا کہ یہ نئے اضافے قابل اعتراض نہیں ہیں۔ اس لیے کہ یہ اضافہ جات اور ایجادات سماج کے طویل اجتماعی فہم اور تجربات کے نتیجے میں سامنے آئے ہیں۔ حاجی صاحب کے تصور مصلحت کی تشکیل میں جس چیز نے بنیادی کردار ادا کیا وہ عوامی منطق تھی، اور اس کے ساتھ سماج کی مصلحت اور ان کی طرف سے خاموش رضامندی کو بھی بنیادی حیuثت حاصل تھی۔ انھوں نے نرمی سے اپنے قارئین کو ذہن نشین کرایا کہ جب ایک رسم طویل زمانے کا طے سفر کرتی ہے، وہ سماج کے مذاق ومزاج، حساسیتوں اور جمالیات کے مطابق نئی شکلیں اور تخصیصات قبول کر لیتی ہے۔ ایسی شکلیں اور تخصیصات جب تک شرعی حدود سے متجاوز نہ ہوں، انھیں بدعت نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اس رسم کی تفہیم وتاریخ کے بارے میں حاجی صاحب اور شاہ محمد اسماعیل و مولانا اشرف علی تھانوی کے منہج (جس پر ساتویں باب میں بحث گزر چکی ہے) کے درمیان واضح فرق ملاحظہ کریں۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی نے اس بات کا نوحہ کیا ہے کہ یہ رسم جس مقصد (یعنی صدقے کے ذریعے میت کے لیے ایصالِ ثواب) کے لیے تھا، لوگ اس اصل مقصد کو بھلا بیٹھے ہیں۔ وہ سراپا احتجاج ہیں کہ لوگوں نے اس رسم میں کچھ ایسی قیودات اور تخصیصات شامل کی ہیں، جس کی وجہ سے اس کا اصل مدعا ومقصود فوت ہو گیا ہے۔ اور ان قیودات وتخصیصات کی اندھی تقلید نے ریاکاری اور نام ونمود کی ایک عمومی ثقافت تشکیل دی ہے۔ اس رسم سے متعلق شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کی فکر کا خلاصہ یہی ہے۔

حاجی صاحب بھی شہرت اور نام ونمود کی خاطر اس رسم کی ادائیگی کو مذموم سمجھتے ہیں، لیکن انھوں نے زمان، رسم اور سماج کے درمیان  تعامل کا ایک بالکل الگ تصور تشکیل دیا ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کے برعکس حاجی صاحب کو اس رسم کے اصل مقصد کی عدم موجودگی سے کوئی مسئلہ نہیں۔ حاجی صاحب کے نزدیک رسم اور اس کی تخصیصات ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ رسم کا وجود معمول کے مرہونِ منت ہے، جو نتیجتاً اجتماعی تجربات اور غور وفکر سے متاثر ہوتا ہے۔ ایک سماج کی رسمی زندگی کی تشکیل میں زمان اور تاریخ کیا کردار ادا کرتے ہیں؟ حاجی صاحب اور شاہ اسماعیل ومولانا تھانوی کے رویے میں بنیادی فرق کی وجہ اس مسئلے کے متعلق ان کا الگ مختلف زاویہ نظر ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کے نزدیک زمان اور تاریخ رسمی زندگی پر فاسد اثرات مرتب کرتے ہیں، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی رسم میں نئی ہیئآت اور تخصیصات آ ملتی ہیں، جن کی وجہ سے اس کا اصل مقصد اور مفہوم دفن ہو جاتا ہے۔ لیکن حاجی صاحب تاریخ اور زمان کے ارتقا کو اس طرح نامبارک تصور نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک مقصد اور ہیئت دونوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر رہتے ہیں۔ مقصد ہیئت سے علuحدہ نہیں ہوتا۔ بلکہ کسی رسم کی نئی ہیئآت اور تخصیصات میں ہی، جو سماج نے وقت گزرنے کے ساتھ اپنے تجربات اور ترجیحات کی روشنی میں شامل کی ہوتی ہیں، رسم کا اصل مقصد شامل ہوتا ہے۔ رسم کا مقصد، سماج کا تجربہ اور تاریخ ایک تکون کی صورت میں کام کرتے ہیں۔ اس لیے عوام کو نئی ہیئآت اور تخصیصات کو خیر باد کہنے پر تنبیہ کرنے اور انھیں چھوڑنے کی ترغیب دینے کے بجاے حاجی صاحب نے تصوّرِ مصلحت کی رو سے ان کے لیے گنجائش پیدا کی۔

حاجی صاحب نے اس اصول کا اطلاق اولیا کے عرس منانے پر بھی کیا۔ عرس کا لفظی معنی شادی ہے۔ یہ ایک طویل عرصے سے رائج رسم ہے، جو ہر سال کسی صوفی بزرگ کے یوم وفات یا وصالِ محبوب حقیقی کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس رسم کے جواز میں رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث پیش کی جاتی ہے: "دولہوں کی طرح آرام کرو" (نم كنومة العروس)۔ یہ حدیث موت اور عشق الہی کے درمیان ایک جاذب اور عاشقانہ انداز میں ربط پیدا کرتی ہے۔ جس طرح شادی میں شب زفاف کو میاں بیوی یک جا ہو جاتے ہیں، اسی طرح موت خدا اور بندے کے درمیان یک جائی کا ذریعہ ہے۔ عرس میں متن، مکان اور رسم سب یکجا ہوتے ہیں۔ مدحیہ قصائد میں صوفی بزرگ کی زندگی اور افکار کو بیان کیا جاتا ہے، مراقبے کیے جاتے ہیں، اور بزرگ کے ایصالِ ثواب کی خاطر کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بزرگ کی یاد اور احترام میں اور بھی اعمال سرانجام دیے جاتے ہیں۔ عام طور پر یہ سرگرمیاں صوفیا کے مزارات یا قبروں پر سرانجام دی جاتی ہیں، اور اس طرح سے ان کی قبروں اور مزارات (جو وصالِ الٰہی کی علامات ہیں) کا ان کی فکر اور جسمانی برکت سے تعلق جڑ جاتا ہے22۔

اس رسم میں ایک متنازع عمل 'سماع' کا ہے۔ سماع ایک ایسا عمل ہے، جو پوری اسلامی تاریخ میں شدید مختلف فیہ رہا ہے۔  اور جس طرح میلاد کے متعلق تنازع ہے، اسی طرح عرس کی تقریبات میں جو تہوار یا میلے جیسا ماحول پایا جاتا ہے، اس پر بھی کافی اختلاف ہے۔ اس اختلاف کا ماخذ یہ حدیث ہے: "تم میری قبر کو میلا نہ بناؤ" (لا تتخذوا قبري عيدًا

حاجی صاحب نے عرس پر بدعت کے الزام کو مسترد کیا۔ انھوں نے وہ مختلف زاویے نمایاں کیے، جن کی رو سے یہ سماج کے متعدد دینی مصالح اور ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اول یہ کہ عرس اولیاے کرام کی ارواح کے ایصالِ ثواب کے پاکیزہ مقصد کی تکمیل کرتا ہے۔ دوم یہ کہ عرس کے موقع پر سلسلے کے اکثر لوگ جمع ہو کر ملاقات کرتے ہیں، جس سے ان کے درمیان محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے موقع پر متعدد مشائخ موجود ہوتے ہیں، اگر کوئی ان میں سے کسی سے بیعت ہونا چاہے، تو اس کو زیادہ تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا (9)۔

لیکن رسول اللہ ﷺ نے جو اپنی قبر پر میلے ٹیلے سے منع کیا ہے، اس کا کیا جواب ہے؟ حاجی صاحب بتاتے ہیں کہ یہ ممانعت اس صورت کے ساتھ خاص ہے، جب وہاں میلہ لگایا جائے، خوشیاں منائی جائیں، اور زینت وآراستگی اور دھوم دھام کا اہتمام کیا جائے، کیوں کہ زیارت قبور کا بنیادی مقصد آخرت کا تذکرہ اور حصولِ عبرت ہے نہ کہ غفلت وزینت۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ قبر پر جمع ہونا بالکل منع ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مدینہ منورہ میں رسول اللہ کے روضۂ اقدس کے لیے جانے والے قافلے بھی ممنوع قرار پاتے (9)۔ میلاد اور ایصالِ ثواب کے متعلق آپ کا جو منہج تھا، بعینہ اسی اصولی منہج کا اطلاق آپ نے عرس کی تخصیصات کو جواز دینے کے لیے کیا ہے، جس میں سماج کے تجربات اور مصالح بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

تاہم یہ واضح رہے کہ ان کی نظر میں یہ مصلحت اور تجربہ اسی صورت میں قابل قبول ہے، جب وہ اسی فقہی شرط کے مطابق ہو کہ غیر واجب عمل کو واجب عمل نہ سمجھا جائے۔ حاجی صاحب بیک وقت فقہ اور اس کی حدود سے بھی اپنی وفاداری استوار رکھتے ہیں، اور علم وتجربے کے ایسے دیگر زاویے بھی سامنے لاتے ہیں، جو فقہ سے ہٹ کر ہیں۔ تاہم یہ کہنا زیادہ قرین قیاس ہوگا کہ (علماے دیوبند کی طرح) ان کا زور اس بات پر نہیں تھا کہ واجبات کو غیر واجبات سے خلط نہ کیا جائے۔ اس کے بجاے وہ میلاد وغیرہ جیسی رسموں کے لیے ایسے انداز میں گنجائش پیدا کرنا چاہتے تھے، جس میں شریعت کی حدود پا مال نہ ہوں۔انھوں نے جو درمیانی راہ اختیار کی اس کی بہتر تصویر کشی ان کے اپنے اس بیان سے ہوتی ہے، جس کا حوالہ میں نے پہلے بھی دیا ہے: "جس طرح کسی مباح عمل کو حرام اور ضلالت کہنا مذموم ہے، اسی طرح ایک مباح عمل کو واجب میں بدلنا بھی مذموم ہے" (4)۔

دعوت واصلاح کے آداب

اب میں واپس میلاد کی طرف لوٹتا ہوں۔ حاجی صاحب بڑے محتاط انداز میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جو علما ان رسموں کو عوام کے تجاوزات کی وجہ سے منع کرتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اس بابت پوری حزم واحتیاط سے کام لیں۔ انھوں نے اصرار کیا کہ وہ کسی رسم سے علی الاطلاق منع نہ کریں، جب تک وہ شرکا کے مقاصد اور ان مخصوص حالات کی پوری چھان پھٹک نہ کریں، جن میں یہ عمل سرانجام دیا جا رہا ہے۔ حاجی صاحب کے نزدیک بدعت کا فتوی صرف ان خاص صورتوں میں لگانا چاہیے، جن میں بڑے اعتقادی فسادات جیسے قیام کو واجب سمجھنا بغیر کسی شک وشبہے کے ثابت ہو۔ بصورتِ دیگر کسی خاص رسم جیسے میلاد پر بدعت کا عمومی حکم لگانا نامناسب ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: "بعض اہل علم صرف جاہلوں کی بعض زیادتیاں دیکھ کر جیسے موضوع روایات پڑھنا، گانا وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ جہلا کی مجلسوں میں ہوتا ہے، عموماً ہر میلاد پر یہی حکم لگا لیتے ہیں۔ یہ بھی انصاف کے خلاف ہے" (5)۔

اگر اس طرح کی سختی کو مانا جائے، تو پھر تو مجالسِ وعظ کو بھی ممنوع قرار دیا جانا چاہیے، کیوں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان مجالس میں مرد وزن کے اختلاط کی وجہ سے فتنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اخلاقی خطرے اور فساد کے محض امکان کے سدباب کے لیے کسی بھی رسم اور پاکیزہ عمل کو پیشگی بند نہیں کیا جا سکتا۔ "ایک پسو کے لیے پورا قالین کیوں جلاتے ہو" (بہر کیکے تو گلیمے را مسوز) (6)۔

حاجی صاحب نے یہ اصول بھی پیش کیا: "جب کوئی شخص کسی رسم کی ادائیگی میں کوئی قابل اعتراض امر کا ارتکاب کر رہا ہو، تو ایک عالم کو چاہیے کہ اسے سمجھائے، اور اس کے عمل کی اصلاح کرے، نہ کہ سرے سے اس رسم کو ممنوع قرار دے" (10)۔ حاجی صاحب زور دے کر بتایا کہ ممانعت سے صرف مسائل ہی پیدا ہوں گے۔ غالب امکان یہ ہے کہ وہ شخص کسی بھی صورت اس رسم کو نہیں چھوڑے گا، اس لیے اس پر اس حوالے سے زور کرنا معاملے کو اور بگاڑے گا۔

حاجی صاحب نے صرف علما سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اس بابت ایک مثبت ومحتاط رویہ اختیار کریں۔ بلکہ انھوں نے ایک دل چسپ انداز میں عوام سے یہ بھی اپیل کی کہ جب کوئی عالم اپنے سماج میں کسی پر ملامت کرتا ہے، تو عوام کو چاہیے کہ اس کے پیچھے عالم کی جو وجہ ہے، اس کے متعلق حتمی نتائج اخذ کرنے میں عجلت سے کام نہ لیں۔ بالفاظ دیگر اگر وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایک عالم کسی شخص پر ملامت کر رہا ہے، تو اس سے وہ ملامت زدہ شخص کو فاسد العقیدہ یا اخروی اعتبار سے نامراد فرض نہ کریں۔ کیوں کہ ملامت کی بہت سی وجہیں ہوتی ہیں (5)۔

اس امر کی وضاحت میں حاجی صاحب کئی مثالیں پیش کرتے ہیں، جب کسی عمل پر کوئی عالم کسی شرعی سقم کی بنیاد پر اعتراض نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر ایک بزرگ ایک مجلس میں تشریف لائے اور سب لوگ ان کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائیں، صرف ایک شخص بیٹھا رہے، تو اس پر اس وجہ سے کوئی ملامت نہیں کرتا کہ اس نے کسی شرعی حکم کو ترک کیا ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ اس نے آداب مجلس کی رعایت نہیں کی۔ اسی طرح تراویح میں ختم قرآن مجید کے بعد شیرینی تقسیم کی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص شیرینی تقسیم نہ کرے، تو اس پر ملامت کی جاتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اس نے ایک نیک رسم کو ترک کیا (5)۔

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ حاجی صاحب اہل علم کی اصلاحی فکر کو فقہ کے زور دار ہتھوڑے سے بچانا چاہتے تھے۔ عوام کی روزمرہ زندگی کی اصلاح اور تحفظ کے لیے علما کی مصلحانہ کوششوں کو مسلکی اور فقہی تصورات تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ حاجی صاحب نے ان غیر فقہی عوامل کو نمایاں کرکے اس کی مسلکی اور اعتقادی اہمیت کو گھٹا دیا۔حاجی صاحب نے تجویز دی کہ جب ایک عالم کسی شخص کو ملامت کرے تو  سماج کے افراد کو چاہیے کہ وہ یہ نتیجہ اخذ کرنے کے بجائے کہ اس نے خدائی قانون کو توڑنے کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے، ان حالات میں ایک زیادہ نرم اور کم ملامتی رویہ اپنائیں۔ حاجی صاحب اپنے اسی وسیع اور لچکدار اصول تعبیر، جس میں سنگین الزامات کے بجاے متعدد امکانات کے لیے گنجائش تھی، سے یہ بہترین موقع فراہم کیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان بحث ومباحثے کے درجۂ حرارت میں کمی آئے۔ تاہم حاجی صاحب کے لیے سب سے مشکل کام یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے کانٹے دار مسئلے کو حل کرے۔ اب میں اسی مسئلے کی طرف توجہ کرتا ہوں۔

تنوع

رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے مسئلے سے نمٹتے ہوئے حاجی صاحب نے حیرت انگیز طور پر ایک ایسا باریک موقف پیش کیا، جسے بیک وقت دونوں فریق اپنے موقف کے مخالف اور موافق سمجھ سکتے تھے۔ حاجی صاحب نے صراحتاً اس امر کا اقرار کیا کہ رسول اللہ ﷺ میلاد کے دوران متعدد مقامات میں حاضر ہونے کی قدرت رکھتے ہیں۔ وہ اسے یوں بیان کرتے ہیں:

رہا یہ اعتقاد رکھنا کہ میلاد کی مجلس میں رسول اللہ ﷺ رونق افروز ہوتے ہیں، اس اعتقاد کو کفر وشرک کہنا حد سے تجاوز ہے۔ اس لیے کہ یہ امر عقلاً ونقلاً ممکن ہے، بلکہ بعض مقامات پر اس کا وقوع بھی ہوا ہے۔ رہا یہ شبہ کہ آپ ﷺ کو ہر جگہ حاضر ہونے کا علم کیسے حاصل ہوا، یا وہ بیک وقت کئی مقامات میں کس طرح تشریف فرما ہوتے ہیں، تو یہ کمزور شبہ ہے۔ دلائل نقلیہ اور کشفیہ سے آپ ﷺ کے علم وروحانیت کی جو وسعت ثابت ہے، اس کے مقابلے میں یہ ایک ادنی سی بات ہے (6)۔

رسول اللہ ﷺ کی وسعتِ علم کے متعلق بیان دینے کے متصل حاجی صاحب یہ اضافہ کرتے ہیں: "لیکن اس سے آپ ﷺ کے بارے میں علم غیب کا اعتقاد لازم نہیں آتا۔ کیوں کہ علم غیب اللہ تعالیٰ کے خصائص میں سے ہے" (6)۔ تاہم وہ واضح کرتے ہیں کہ: "علم غیب اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفت ہے۔ اور جو علم اللہ تعالی اپنی طرف سے عطا کرتا ہے، وہ ذاتی نہیں بلکہ بالواسطہ ہے۔ ایسا علم مخلوق کے حق میں ممکن بلکہ واقع ہے۔ اور امر ممکن کا اعتقاد شرک وکفر کیسے ہو سکتا ہے" (6)۔

حاجی صاحب کے اصول وضع کرنے کی مشق صرف اس پر بس نہیں۔ انھوں نے ایک اور تنبیہ بھی کی: رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کا امکان ضروری نہیں کہ واقع بھی ہو۔ ان کے اپنے الفاظ میں: "البتہ ہر ممکن کے لیے وقوع ضروری نہیں"۔ ایسا اعتقاد رکھنا دلیل کا محتاج ہے۔ اگر کسی کو دلیل مل جائے، مثلاً اسے کشف ہو جائے، یا کوئی صاحبِ کشف اسے بتا دے، تو پھر یہ اعتقاد رکھنا جائز ہے۔ ورنہ دلیل کی عدم میں موجودگی یہ ایک غلط خیال ہے۔ اور ایسے شخص کے لیے رجوع کرنا ضروری ہے(6)۔ حاجی صاحب نے اس مسئلے کا تجزیہ اپنے اس نتیجے پر ختم کیا: "لیکن یہ (رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کا اعتقاد) کسی طرح بھی کفر وشرک نہیں ہو سکتا" (6)۔ 

حاجی صاحب نے ایک مخصوص انداز میں اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی، تاکہ ایک درمیانی راہ تلاش سکیں، اور ہر مخالف موقف کی تہہ میں کارفرما حساسیتوں اور مفروضوں کو جواز فراہم کر سکیں۔ ان کے کلام کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا علم غیب ممکن ہے، لیکن ضروری نہیں، اور ہر چند کہ اس طرح کا علم صرف ذات خداوندی کے ساتھ خاص ہے، تاہم وہ اسے اپنی مخلوقات بشمول نبی اکرم ﷺ کو عطا کر سکتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے علم غیب میں اعتقاد رکھتا ہے، تو اسے کافر یا مشرک نہیں سمجھنا چاہیے۔

جس انداز میں انھوں نے اپنے موقف کی ترتیب اور پیش کش کی، وہ بھی بہت اہم اور مفید ہے۔ بالخصوص ان کے اور گزشتہ ابواب میں بیان کیے گئے بریلوی اور دیوبندی اکابر کے استدلالی مزاج کے درمیان فرق ملاحظہ کیجیے۔ حاجی صاحب کی یہ کوشش نہیں تھی کہ اپنے مخالفین کے مقابلے میں اپنے موقف کو حتمی طور پر ثابت کریں۔ اس کے بجاے وہ مخصوص اعتقادی مسائل میں کئی طرح کی توجیہات اور ابہامات کے امکان کو واضح کر رہے تھے۔ انھوں نے ان مناہج کا تنوع دکھانے کی کوشش کی، جن کے ذریعے کسی ایک مسئلے کو زیر بحث لایا جاتا ہے، اور اس کا مقصد یہ تھا کہ کسی ایک موقف کو حتمی نہ سمجھا جائے۔ ایک اعتقادی دعوے کو مدلل انداز میں ثابت کرنے کے بجاے انھوں نے ایک ایسا اصول تعبیر اختیار کیا، جو تنوع کا ساعی وداعی تھا، اور اسے اچھا سمجھتا تھا۔

تاہم یہ ابہام ایسا نہ تھا جو معنی سے خالی تھا، اور جس کی بے لگام تشریحات کی جا سکتی تھیں۔اس کے برعکس جہاں ایک طرف حاجی صاحب نے یہ ثابت کرکے دکھایا کہ وہ شد ومد سے شرعی حدود کی پاس داری کرتے ہیں، وہاں انھوں نے ان شرعی حدود کے اندر موجود نزاکتوں اور ابہامات کو بھی ظاہر کیا۔ ابہامات کو نمایاں کرنے سے انھوں نے ایک ایسا اصول تعبیر دیا، جس کا اساسی ہدف انسانی تعلقات کی حفاظت اور استحکام تھا۔ دراصل حاجی صاحب تعبیر وتشریح سے ایک قدم آگے گئے، اور انھوں نے علما اور اہل علم کو اپنے اختلافات کو موضوع بحث بنانے اور حل کرنے کے لیے ایک حد تک تفصیلی خاکہ دیا۔ اس پروگرام کے حصے کے طور پر انھوں نے مخصوص رویوں اور حساسیتوں کو تجویز کیا۔ ان کی نظر میں ان رویوں کے اپنانے سے فتنہ وفساد اور تعصب کے پھیلاو کو روکا جا سکتا ہے۔ حاجی صاحب کی پیش کردہ تجاویز ایک ایسے ضابطۂ اخلاق کی ممتاز مثال ہے، جسے ایک صوفی بزرگ نے اس غرض کے لیے تشکیل دیا ہے کہ اپنے باہم دست وگریباں مریدوں کے درمیان ہم آہنگی اور افہام وتفہیم کی فضا کو قائم کرے۔

آدابِ اختلاف

حاجی امداد اللہ صاحب نے اہل علم کو ترغیب دی کہ وہ اپنے اختلافات سے اس انداز میں نمٹیں جس کی وجہ سے ان کے مخالفین کی نظر میں ان کی حیثیت مجروح نہ ہو، یا جس کی وجہ سے مختلف جماعتوں کے درمیان سماجی تعلقات میں رخنہ نہ پڑے۔ وہ کچھ اس انداز میں نصیحت کرتے ہیں: "انھیں (علما) کو چاہیے کہ فریقِ مخالف سے بغض وکینہ نہ رکھیں۔ نہ انھیں نفرت وتحقیر کی نگاہ سے دیکھیں۔ نہ ان کی تفسیق وتضلیل کریں۔۔۔۔۔ اور باہم ملاقات، خط وکتابت، سلام دعا اور موافقت ومحبت کی رسموں کو جاری رکھیں" (6)۔ اس کے ساتھ وہ اپنے مریدوں کو تلقین کرتے ہیں کہ تردیدات اور جوابی تردیدات سے پرہیز کریں۔ ان کے اپنے الفاظ میں "بلکہ ایسے مسائل میں فتوے نہ لکھا کریں، نہ ان پر مہر ودست خط کریں کہ یہ ایک فضول کام ہے" (6)۔ انھوں نے اپنے باہم دست وگریباں مریدوں کے درمیان صلح وآشتی کو فروغ دینے کے لیے جو انداز اختیار کیا، اس کی سب سے دل چسپ مثال ان کا وہ مشورہ ہے، جو انھوں نے قیام کے شدید متنازعہ عمل کے بارے میں دیا ہے۔

حاجی صاحب کے موقف کا لب لباب یہ کہ اس رسم کے بارے میں ہر گروہ فریقِ مخالف سے حسن ظن رکھے، اور ان متنازعہ مسائل پر محدود اور نرم انداز میں اپنی آرا پیش کرے۔ علاوہ ازیں انھوں نے تجویز کیا کہ ان اختلافی مسائل میں ہر دو فریق ایک دوسرے کی رعایت رکھیں۔ مثلاً جو لوگ قیام کے مخالف ہیں، اگر وہ قیام کے قائلین کی محفل میں شامل ہوں، تو بہتر یہ ہے کہ قائلین اس محفل میں قیام نہ کریں، تاکہ فتنہ واقع نہ ہو۔ اور اگر قیام واقعی ہو، تو پھر مخالفینِ قیام کو بھی اس قیام میں شرکت کرنی چاہیے۔ اور عوام نے جو غلو اور زیادتیاں کر لی ہیں، ان کو نرمی سے منع کریں۔ اور ان کا اس طرح سے منع کرنا ان کی اصلاح کے لیے زیادہ مفید ہوگا (6)۔

یہ بات بہت اہم ہے کہ حاجی صاحب کا نکتہ یہ نہیں کہ اختلاف کرنے والے گروہ اپنے موقف سے بالکلیہ دست بردار ہو جائیں۔ اس کے بجاے وہ اپنی آرا کا اظہار واشاعت اس انداز میں کریں جس میں ان کے مخالفین کے ساتھ حسن ظن سے کام لیا گیا ہو۔ اس طرح سے امید ہے کہ فتنہ وفساد کا سد باب ہو سکے گا۔

اس معتدل رویے کی صورت کیا ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں حاجی صاحب نے ٹھوس تجاویز دی ہیں۔ جہاں تک اہل علم کی بات ہے، تو ان کو یہ نصیحت کی ہے کہ میلاد کے قائلین مخالفین کے طرز عمل کی یہ تاویل کریں کہ یا تو ان کی تحقیق یہی ہو گی، یا وہ انتظامی اعتبار سے منع کرتے ہوں گے، کیوں کہ بعض اوقات جب تک اصل عمل کو منع نہ کیا جائے، تب تک قابل اعتراض اعمال سے نہیں بچا جا سکتا۔ دوسری طرف حاجی صاحب نے یہ بھی بتایا: "میلاد کے مخالفین قائلین کے عمل کی یہ تاویل کریں کہ ان کی دیانت دارانہ رائے یہی ہوگی، یا وہ نبی اکرم ﷺ سے غلبۂ محبت میں یہ کام کرتے ہیں" (7)۔

عوام کو حاجی صاحب نے جو نصیحت کی ہے ان کے اپنے الفاظ میں وہ کچھ یوں ہے: "اور عوام کو چاہیے کہ جس عالم کو متدین اور محقق سمجھیں، اس کی تحقیق پر عمل کریں اور فریق مخالف کے لوگوں سے تعرض نہ کریں۔ خصوصاً دوسرے فریق کے علما کی شان میں گستاخی چھوٹی منہ اور بڑی بات کا مصداق ہے۔ غیبت اور حسد سے نیک اعمال ضائع ہوتے ہیں" (7)۔ وہ مزید نصیحت کرتے ہیں: "اور ایسے (اختلافی) مضامین کی کتابیں اور رسائل مطالعہ نہ کیا کریں۔ یہ کام علما کا ہے" (7)۔ حاجی صاحب نے مختصر لیکن پر اثر انداز میں میلاد کے حوالے سے اپنے طرز عمل کا بھی ذکر کیا ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ بذاتِ خود میلاد میں شریک ہوتے ہیں۔بلکہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر ببانگ دہل کہتے ہیں: "اور فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفل میلاد میں شریک ہوتا ہوں، بلکہ برکات کا ذریعہ سمجھ کر منعقد کرتا ہوں، اور میں قیام میں لطف ولذت محسوس کرتا ہوں" (7)۔ لیکن فاتحہ کے حوالے سے حاجی صاحب نے اپنا طرز عمل جس طرح بیان کیا ہے، وہ ان کی سوچ وفکر کی بہتر عکاسی کرتا ہے: " فقیر کا مشرب یہ ہے کہ وہ کسی مخصوص ہیئت کا پابند نہیں، لیکن وہ دوسروں پر اس بابت تنقید بھی نہیں کرتا"(9)۔

حاجی صاحب نے اپنے رسالے کے آخر میں ایک وصیت بھی کی ہے، جس میں انھوں نے اپنے مرید اور دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے ایک مولانا رشید احمد گنگوہی کی مدح سرائی کرکے دیوبندی تحریک سے اپنی وفاداری کی تصدیق ایک دل چسپ انداز میں کی۔ پس نوشت کی صورت میں انھوں نے اس وصیت میں دیوبند اور مولانا گنگوہی کے مخالفین اور موافقین دونوں کو مخاطب کیا ہے۔ انھوں نے علماے دیوبند کے مخالفین کو وصیت کی کہ وہ ہندوستان میں مولانا گنگوہی کے بابرکت وجود کو غنیمت سمجھیں، اور ان سے فیوض وبرکات کا حصول کریں۔ حاجی صاحب نے بتایا کہ مولانا گنگوہی وہ شخصیت ہیں، جو کمالاتِ ظاہری وباطنی دونوں کے جامع ہیں، اور ان کی تحقیقات محض اللہ کی خاطر ہیں۔ ان میں نفسانی خواہشات کا کوئی شبہ نہیں۔ گویا کہ وہ اپنے مرید کو مناظرانہ گولہ باری سے بچانا چاہتے تھے، اس لیے انھوں دیوبند کے پیروکاروں اور حامیوں سے بھی گزارش کی کہ مولانا گنگوہی کی مجلس میں ایسے تنازعات کا تذکرہ نہ کریں (13 - 14)۔ "انھیں اپنے جھگڑوں میں شریک نہ کیا کریں" (14)۔ آخری جملہ جس قدر سادہ اور جامع ہے، اسی قدر مؤثر اور بامعنی ہے: "سب پر لازم ہے کہ مفت کی بحث وتکرار میں عمر عزیز کو ضائع نہ کیا کریں کہ یہ محبوب حقیقی (اللہ تعالی) سے حجاب ہے" (14)۔

حواشی

  1. محمد اقبال قریشی، معارفِ گنگوہی (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 1976)، 67۔
  2. سیما علوی، Muslim Cosmopolitanism in the Age of Empire (کیمبرج، ایم اے: ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 2015)۔ تاہم حاجی صاحب کی فکر کو انھوں نے جس طرح سے سمجھا ہے، اس کے کئی پہلؤوں سے میں اختلاف کرتا ہوں۔ جیسا کہ میرے اور ان کے متنی تجزیے کے تقابل سے بالکل واضح ہو جائے گا۔
  3. محمد شیر کوٹی، حیاتِ امداد (کراچی: مدرسہ عربیہ اسلامیہ، 1965)، 53۔
  4. نثار احمد فاروقی، نوادرِ امدادیہ (گلبرگہ، کرناٹکہ: سید گیسو دراز تحقیقی اکیڈمی، 1996)، 26۔
  5. شیرکوٹی، حیاتِ امداد، 58۔
  6. نوادرِ امدادیہ، 28 – 30۔
  7. شیرکوٹی، حیاتِ امداد، 83۔
  8. سکاٹ کگل، Sufis and Saints’ Bodies: Mysticism, Corporeality, and Sacred Power in Islam (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2007)۔
  9. سلسلۂ چشتیہ میں حاجی امداد اللہ صاحب کے مقام اور کردار کے لیے مزید دیکھیے: کارل ڈبلیو ارنسٹ اور بروث بی لارنس، Sufi Martyrs of Love: The Chishti Order in South Asia and Beyond (نیو یارک: پالگریو میکملن، 2002)، 105 – 26۔
  10. سید نظر زیدی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سیرت وسوانح (گجرات: مکتبۂ ظفر، 1978)، 43۔
  11. شیر کوٹی، حیاتِ امداد، 59۔
  12. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 36۔
  13. اشرف علی تھانوی، قصص الاکابر لحصص الاصاغر (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 2006)، 84۔
  14. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 72۔
  15. ایضاً، 74۔ حاجی صاحب ڈاک یا ہندوستان سے مکہ مکرمہ آنے جانے والے مختلف واقف کاروں کے ذریعے خطوط بھیجا کرتے تھے۔ وہ اپنے خط کو اس پورے سلسلۂ سند کے ساتھ شروع کرتے، جس کے ذریعے خط متعلقہ شخص تک پہنچتا۔ ان خطوط کے مضامین روزمرہ کے معمولی معاملات، جیسے مکہ میں منی آرڈر کی سہولت کی عدم دست یابی کی شکایات، یا الدر المختار پر احمد طحطاوی کے حاشیے کی بے تحاشا قیمت کی شکایت اور اس کے ساتھ یہ درخواست کہ اس کے چند نسخے ہندوستان سے بھیجے جائیں، سے لے کر شرعی اعمال وعقائد کے پیچیدہ مسائل پر مشتمل ہوتے تھے۔
  16. اشرف علی تھانوی، امداد المشتاق الی اشرف الاخلاق (کراچی: دارالاشاعت، 1976)، 14۔
  17. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 27۔
  18. ایضاً، 15۔
  19. فاروقی، نوادرِ امدادیہ، 27۔
  20. اشرف علی تھانوی، ارواحِ ثلاثہ (کراچی: دارالاشاعت، 2001)، 138۔
  21. حاجی امداد اللہ، فیصلۂ ہفت مسئلہ (کراچی: ایم ایچ سعید، تاریخ ندارد)، 3۔ یہاں پر تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے دیے گئے ہیں، اور متن میں بین القوسین درج ہیں۔
  22. نائل گرین، Making Space: Sufis and Settlers in Early Modern India (نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2012)، 13 – 64۔

(جاری)

نومبر ۲۰۲۳ء

یہودی ریاست کا خواب اور اس کی حقیقی تعبیرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ سنن النسائی (۲)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
فلسطین کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
یہود اور خدا کا فیصلہخورشید احمد ندیم
فلسطینی ایسا کیا کریں کہ اسرائیل ناراض نہ ہو؟یاسر پیرزادہ
فلسطینی کیوں لڑتے ہیں؟ڈاکٹر اختر علی سید
۲۰۲۲ء میں امریکہ میں قتلِ عام کا بصری تجزیہمراد علی
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۲)ڈاکٹر شیر علی ترین

یہودی ریاست کا خواب اور اس کی حقیقی تعبیر

محمد عمار خان ناصر

جدید اسرائیل کے قیام کی تاریخ صہیونی تحریک کے بغیر نامکمل ہے اور اس میں صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل کی کتاب ’’یہودی ریاست“ (The Jewish State) بنیادی دستاویز ہے جس میں یہودیوں کے سامنے اس تصور کو سیاسی اور تاریخی طور پر ایک قابل فہم اور قابل عمل تصور بنا کر پیش کیا گیا ہے، یعنی ایک باقاعدہ مقدمہ پیش  کیا گیا ہے کہ یہودی ریاست کا قیام یہودیوں کی اور خود یورپی اقوام کی ایک ناگزیر تاریخی وسیاسی  ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں پوری طرح قابل عمل ہے۔

یہودی ریاست کے خواب کو روبہ عمل کرنے کے سلسلے میں ہرزل کے ذہن میں جو منصوبہ تھا، اس کا بنیادی خاکہ یہ تھا کہ  یورپی اقوام کی تائید اور سرپرستی سے  دنیا کے کسی خطے میں   یہودی زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر  اپنی ایک آزاد ریاست قائم کر لیں اور دنیا بھر  میں جہاں بھی یہودیوں کو نفرت اور  جبر کا سامنا ہے،  ان کو وہاں سے لا کر اس خطے میں آباد کر دیا جائے اور   وہ اپنی محنت اور  لیاقت سے  خود بھی ترقی کریں اور  اس خطے کی ترقی میں بھی مددگار  بنیں۔

ہرزل مذکورہ کتاب میں لکھتا ہے:

’’اگر عالمی طاقتیں ایک غیر جانب دار علاقے پر ہماری خود مختاری کے خیال کے ساتھ اتفاق کی خواہش کا اعلان کرتی ہیں تو پھر جیوش سوسائٹی اس سرزمین پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے مذاکرات منعقد کرے گی۔ یہاں دو علاقے زیر غور آتے ہیں: فلسطین اور ارجنٹائن۔ دونوں ملکوں میں نوآبادیات کے حوالے سے اہم تجربے کیے جا چکے ہیں، اگرچہ ایسا یہودیوں کی تدریجی در اندازی کے غلط اصول پر کیا گیا۔ در اندازی کا انجام آخر کار برا ہوتا ہے۔ یہ اس ناگزیر لمحے تک ہی جاری رہ سکتی ہے جب تک مقامی آبادی خود کو خطرے سے دوچار محسوس نہ کرے اور حکومت کو مجبور کر دے کہ وہ یہودیوں کی مزید آمد پر پابندی عائد کرے۔ چنانچہ جب تک ہمیں ہجرت کو جاری رکھنے میں خود مختاری حاصل نہ ہوجائے، یہ عمل نتیجے کے لحاظ سے بے فائدہ ہے۔

اگر یورپی طاقتیں اس منصوبے کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کرتی ہیں تو ان کی زیر حفاظت سوسائٹی آف جیوز زمین کے موجودہ مالکوں سے معاملہ کرے گی۔ ہم انہیں بے بہا فائدوں کی پیش کش کر سکتے ہیں، عوامی قرضے کا ایک حصے کی ادائیگی اپنے ذمے لے سکتے ہیں، ٹریفک کے لیے نئی سڑکیں بنا سکتے ہیں جو کہ اس ملک میں ہماری موجودگی کی بنا پر لازمی ہو جائے گا، اور دیگر بہت سے کام کر سکتے ہیں۔ ہماری ریاست کا قیام پڑوسی ممالک کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا کیونکہ زمین کی ایک پٹی کو زرخیز بنانے سے اس کے ارد گرد کے علاقوں کی قدروقیمت میں بھی ان گنت طریقوں سے اضافہ ہو جاتا ہے۔

ہمیں فلسطین کا انتخاب کرنا چاہیے یا ارجنٹائن کا؟ ہمیں جو علاقہ بھی مل جائے اور یہودی رائے عامہ جس کا بھی انتخاب کرے، ہم اسے لے لیں گے۔ دونوں نکات کا فیصلہ سوسائٹی کرے گی۔

ارجنٹائن دنیا کے زرخیز ترین خطوں میں سے ایک ہے، ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے، بے حد کم آبادی اور معتدل آب وہوا رکھتا ہے۔ جمہوریہ ارجنٹائن اپنے علاقے کا ایک حصہ ہمارے سپرد کر کے معقول فوائد حاصل کر سکتی ہے۔ یہودیوں کی موجودہ در اندازی نے یقینا کچھ بے اطمینانی پیدا کی ہے اور جمہوریہ کو ہماری نئی تحریک کے داخلی فرق کے بارے میں واضح طور پر آگاہ کرنا ہوگا۔

فلسطین ہمارا ناقابل فراموش تاریخی وطن ہے۔ فلسطین کا نام ہی ہمارے لوگوں کو ایک معجزانہ طاقت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لے گا۔ اگر عزت مآب سلطان ہمیں فلسطین عنایت کر دیں تو ہم بدلے میں ترکی کے تمام مالیاتی امور کی ذمہ داری اٹھا سکتے ہیں۔ وہاں ہمیں ایشیا کے مقابلے میں یورپ کے لیے ایک حفاظتی فصیل قائم کرنی ہوگی، جو تہذیب سے نابلد خطے میں گویا ایک دورافتادہ تہذیب کا نمائندہ ہوگا۔ ایک غیر جانب دار ریاست کی حیثیت سے ہمیں سارے یورپ سے تعلقات رکھنا ہوں گے جو ہمارے وجود کی ضمانت دے گا۔“ (باب دوم)

اپنی کتاب کا اختتام ہرزل نے اس پرتیقن امید پر کیا ہے کہ

’’اگر ہم اپنے منصوبے پر عمل کا محض آغاز کر دیں تو سامی مخالف تحریک فوراً ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی کیونکہ امن کا نتیجہ اسی صورت میں نکلا کرتا ہے۔

جیوش کمپنی کے قیام کی خبر ٹیلی گراف کی برق رفتار تاروں کے ذریعے سے زمین کے دور دراز کناروں تک ایک ہی دن میں پہنچ جائے گی اور اس کے بعد فوری طور پر ہمیں سکھ کا سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔……

ہمارے منصوبے کی کام یابی کے لیے ہماری عبادت گاہوں اور گرجوں میں دعائیں کی جائیں گی کیونکہ اس کے نتیجے میں ہم اس پرانے بوجھ سے سبک دوش ہوں گے جس کی تکلیف ہم سب کو اٹھانی پڑی ہے۔لیکن پہلے ہمیں لوگوں کے ذہنوں میں روشن خیالی پیدا کرنا ہوگی۔ اس خیال کا نفوذ ان نہایت دور دراز اور بدحال علاقوں تک ہونا چاہیے جہاں ہمارے لوگ سکونت پذیر ہیں۔ وہ اپنی یاس زدہ گہری سوچوں سے بیدار ہوں گے کیونکہ ان کی زندگیوں میں ایک نئی اہمیت آ جائے گی۔ ہر شخص کو بس اپنی فکر کرنی ہوگی اور یوں تحریک ایک وسیع دھارے کی شکل اختیار کر لے گی۔ اور اس مشن کے لیے بے غرض ہو کر جدوجہد کرنے والوں کے لیے جو شان اور جو مرتبہ منتظر کھڑے ہیں، ان کی عظمت کا اندازہ کون کر سکتا ہے!

اس بنا پر مجھے یقین ہے کہ یہودیوں کی ایک حیران کن نسل وجود میں آ جائے گی۔ مکابی دوبارہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے ابتدائی کلمات کو یہاں دوبارہ دہرا سکوں: ”یہودی جو اپنی ریاست کے آرزومند ہیں، اس کو حاصل کر لیں گے۔ آخر کار ہم بھی اپنی سرزمین پر ایک آزاد قوم کی حیثیت سے رہ سکیں گے اور اپنے گھروں میں چین کے ساتھ مر سکیں گے۔“

ہماری آزادی سے دنیا کو آزادی نصیب ہوگی، ہماری دولت سے اس کی ثروت میں اضافہ ہوگا اور ہماری عظمت سے اس کی عظمت میں چار چاند لگ جائیں گے۔ اپنے ملک میں ہم اپنی بہبود کے حصول کے لیے جو بھی کوششیں کریں گے، ان کا اثر انسانیت کی فلاح پر نہایت طاقت ور اور بے حد فائدہ مند ہوگا۔“ (خاتمہ بحث)

یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے لیے  ہرزل نے  امکانی طور پر فلسطین اور ارجنٹائن کا  ذکر کیا ہے۔  منصوبے کے مطابق ہرزل نے  سلطنت عثمانیہ کا سفر کیا اور خلیفہ عبد الحمید ثانی  سے  فلسطین  کا علاقہ یہودیوں کے سپرد کر  دینے کی درخواست کی جسے خلیفہ نے مسترد کر دیا۔  اس کے بعد ارجنٹائن کے علاوہ یوگنڈا بھی صہیونی قائدین کے ہاں زیرغور رہا، لیکن  ۱۹۰۶ء میں  بیسل (سوئٹزر لینڈ) میں منعقدہ ساتویں صہیونی کانگریس نے  متفقہ طور پر یہ طے کر لیا کہ  یہودی ریاست صرف اور صرف فلسطین میں ہی قائم کی جائے گی۔

یہ منصوبہ سوچتے ہوئے جس سوال کو قطعی طور پر نظر انداز کیا گیا، وہ یہ تھا کہ  فلسطین صدیوں پہلے چاہے یہودیوں کا قومی وطن رہا ہو اور یہودیوں  نے یہاں واپسی کے خواب کو نسل در نسل زندہ رکھا ہو،  بحالت موجودہ  یہ  پوری دنیا کے یہودیوں کا وطن نہیں تھا ۔ چنانچہ اس منصوبے کو رو بہ عمل کرنا پرامن سیاسی ذرائع سے ممکن نہیں تھا اور  اس کے لیے  لازم تھا کہ مغربی اقوام کی استعماری  پشت پناہی اور تائید  حاصل کی جائے۔ خود ہرزل کو بھی پوری طرح اس کا  احساس تھا کہ  یورپی طاقتوں کی سرپرستی کے بغیر یہاں یہودی ریاست کا قیام بھی ممکن نہیں ہوگا اور یہ ریاست اپنی بقا کے لیے بھی مسلسل  اس سرپرستی کی محتاج رہے گی۔

یہودی ریاست کے قیام کی کوششیں  جیسے جیسے آگے بڑھتی گئیں،  یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی چلی گئی۔ چنانچہ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے، جن کو اسرائیل کی خارجہ اور دفاعی پالیسی کا بنیادی معمار مانا جاتا ہے، واضح طور پر کہا کہ اسرائیل اگرچہ شرق اوسط میں قائم ہوا ہے، لیکن یہ ایک جغرافیائی حادثہ ہے، کیونکہ ہم بنیادی طور پر یورپی لوگ ہیں۔ بن گوریان نے کہ ’’ہمارا عربوں کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں۔ ہماری ریاست، ثقافت اور تعلقات اس خطے کے اندر سے نہیں پھوٹے۔ ہمارے درمیان نہ کوئی سیاسی رشتہ ہے اور نہ کوئی بین الاقوامی تعلق۔“ اس پہلو سے بن گوریان نے یہودی ریاست کے تحفظ کی جو  حکمت عملی وضع کی اور جو آج تک اسرائیل کی دفاعی پالیسی کا بنیادی پتھر  مانی جاتی ہے، وہ یہ تھی کہ امریکا کو یہ باور کرایا جائے کہ اسرائیل اس کے لیے اس خطے میں ایک تزویراتی اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔*

یہودی ریاست کے قیام کا صہیونی منصوبہ چاہے یہودیوں کی  کتنی ہی   ہمدردی اور خیر خواہی سے   سوچا گیا ہو،  تاریخی طور پر  صہیونی تحریک نے یہودیوں کو جو کچھ دیا ہے، اس کا حاصل یہی ہے کہ یورپی قوموں میں یہودیوں کے لیے پائی جانے والی نفرت کو مسلم دنیا میں منتقل کر دیا جائے جہاں تاریخ میں کبھی بھی مذہبی یا نسلی بنیادوں پر یہودیوں کو نفرت کا سامنا نہیں رہا، بلکہ مسلم علاقے ہمیشہ ان کے لیے بطور اقلیت اور بطور اہل کتاب، پناہ گاہ بنے رہے ہیں۔   صہیونی حلقوں میں  تھیوڈور ہرزل کو ’’موسیٰ ثانی“ کا مقام دیا جاتا ہے جس نے دوبارہ یہودیوں کو فلسطین میں جمع کرنے کا عمل شروع کیا۔ آج اس کوشش کے نتائج دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے لیے موسیٰ نہیں، بلکہ بخت نصر دوم اور اہل فلسطین کے لیے فرعون ثابت ہوا جس نے لاکھوں یہودیوں کو بھی دنیا بھر سے اکٹھا کر کے اسرائیل کے جہنم میں لا پھینکا اور پورے خطے کو بھی نفرت، دشمنی اور انسانیت سوزی کی آماج گاہ بنا دیا۔  صہیونی منصوبہ ڈھائی ہزار سال سے جاری یہودی قوم کی اس تقدیر کا تسلسل ہے  کہ وہ دنیا کی مختلف قوموں کے ہاتھوں ذلت ومسکنت کا عذاب چکھیں اور درمیان میں امن کے جو وقفے ملیں، ان میں بھی کبھی کردہ اور کبھی ناکردہ گناہوں پر اتنی نفرتیں جمع کریں تاکہ جب دوبارہ خدا کا عذاب آئے تو ان کے ساتھ ہمدردی محسوس کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔



* Avi Shlaim, “Israel, the Great Powers, and the Middle East Crisis of 1958”, Journal of Imperial and Commonwealth Hisoty, 12:2, May 1999


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(440) أُوفِی الْکَیْلَ

أَلَا تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ۔ (یوسف: 59)

”کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ناپتا ہوں“۔ (احمد رضا خان)

”کیا تم نہیں دیکھتے کہ میں ناپ بھی پوری پوری دیتا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں پورا ناپ کر دیتا ہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ میں سامان کی ناپ تول بھی برابر رکھتا ہوں“۔ (ذیشان جوادی)

”دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں“۔ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ درج بالا آیت میں أُوفِی الْکَیْلَ سے ناپ تول میں کمی نہیں کرنا اور پورا ناپ کردینا مراد نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ اس مرتبہ بھائیوں نے بتایا کہ وہ ایک بھائی کو اپنے باپ کے پاس چھوڑ آئے ہیں، تو ان کے کہنے پر اس بھائی کا حصہ بھی دے دیا۔ یعنی پورا پورا دے دیا۔ البتہ ان سے یہ کہہ دیا کہ اس بار تمہارے کہنے پر اس کاحصہ دے دیا ہے اگلی بار اسے لے کر آنا تاکہ تمھاری بات کی تصدیق ہوجائے، اس کے بعد ہی اگلی بار کا غلہ ملے گا، ورنہ تمہاری بات جھوٹ ثابت ہوگی اور پھر غلہ بھی نہیں ملے گا اور جھوٹ کی پاداش میں قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔

اس رائے سے ایک تو اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ حضرت یوسف نے ایک اور بھائی کو لانے کو کیوں کہا تھا، کیوں کہ ان بھائیوں نے کہا تھا کہ ایک بھائی اور ہے جو باپ کے پاس ہے اس کا حصہ بھی دے دیجیے۔

پھر اس رائے سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ حضرت یوسف نے اگلے سال کے غلے کے لیے اس بھائی کو لانے کی شرط کیوں لگائی تھی، اور نہیں لانے پر اتنی سخت بات کیوں کہی تھی۔

اس طرح أَلَا تَرَوْنَ أَنِّی أُوفِی الْکَیْلَ کا ترجمہ ہوگا: ”کیا تم دیکھتے نہیں میں پورا پورا دے رہا ہوں“۔ یعنی جتنے افراد بتارہے ہو سب کا حصہ دے رہا ہوں۔

(441) ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ 

ذَلِکَ کَیْلٌ یَسِیرٌ۔ (یوسف: 65)

”اتنے غلہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا“۔ (سید مودودی)

”یہ ناپ تو بہت آسان ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”وہ بھرتی آسان ہے“۔ (شاہ عبدالقادر)

مذکورہ بالا ترجموں کے مقابلے میں درج ذیل ترجمہ زیادہ بہتر ہے۔

”یہ تو تھوڑا سا غلّہ ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”یہ غلّہ جو ہم لائے ہیں تھوڑا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

دراصل جب حضرت یوسف نے کہہ دیا کہ اگلی بار بھائی کو لے کر آؤ گے تبھی غلہ ملے گا، ورنہ نہیں ملے گا۔ تو انھوں نے اپنے باپ کو قائل کرنے کے لیے کہا کہ یہ غلہ جو ملا ہے یہ تو تھوڑا ہی ہے ختم ہوجائے گا پھر غلے کی ضرورت پڑے گی اور وہ بھائی کو لے جائے بغیر ملے گا نہیں، اس لیے بھائی کو لے جانا ضروری ہوگا۔ اس پورے سیاق کو دیکھیں تو آخری ترجمہ درست معلوم ہوتا ہے۔ البتہ مراد یہ نہیں ہے کہ اس بار کم ملا ہے اگلی بار بھائی والا مل کر زیادہ ہوجائے گا۔ مراد یہ ہے کہ جو ملا ہے وہ اپنے آپ میں تھوڑا ہی ہے اور اگلی بار کا وقت آتے ختم ہوجائے گا اور  پھر غلہ لینے کے لیے جانا اور بھائی کو ساتھ لے جانا ضروری ہوگا۔ 

(442) فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِہِمْ، فاعل کون؟

فَبَدَأَ بِأَوْعِیَتِہِمْ قَبْلَ وِعَاءِ أَخِیہِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَہَا مِنْ وِعَاءِ أَخِیہِ۔ (یوسف: 76)

”تب یوسفؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کر لی“۔ (سید مودودی)

”تو اول ان کی خرُجیوں سے تلاشی شروع کی اپنے بھائی کی خرُجی سے پہلے پھر اسے اپنے بھائی کی خرُجی سے نکال لیا“۔ (احمد رضا خان)

”پھر یوسف نے اپنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شروع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس یوسف نے ان کے سامان کی تلاشی شروع کی، اپنے بھائی کے سامان کی تلاشی سے پہلے، پھر اس پیمانہ کو اپنے بھائی کے سامان (زنبیل) سے نکالا“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تمام ترجموں میں حضرت یوسف علیہ السلام کو سب کے سامان کی تلاشی لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جب کہ یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ہے، حضرت یوسف تو عرش اقتدار پر متمکن تھے، وہ لوگوں کے سامانوں کی تلاشی کیوں لیں گے؟

دراصل جس نے پکار لگائی تھی کہ پیمانہ گم ہوگیا ہے، اسی نے تلاشی لی تھی۔ اس کے مطابق ترجمہ ہوگا:

”تب اس نے اس کے بھائی سے پہلے اُن کی خرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اس کے بھائی کی خرجی سے گم شدہ چیز برآمد کرلی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(443) کَبِیرُہُمْ کا ترجمہ

سب سے بڑے کے لیے کبیر نہیں اکبر آئے گا۔ کبیر کا مطلب وہ شخص جو کسی گروہ میں منصب کے لحاظ سے بڑا ہو، ان کا لیڈر ہو خواہ وہ عمر میں سب سے بڑا ہو یا نہ ہو۔

قَالَ کَبِیرُہُمْ۔ (یوسف: 80)

”ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا“۔ (سید مودودی)

”سب سے بڑے نے کہا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ان میں جو سب سے بڑا تھا اس نے کہا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ان کے بڑے نے کہا“۔(امین احسن اصلاحی)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(444) فَرَّطْتُمْ کا ترجمہ

 تفریط کا مطلب کسی کے معاملے میں کوتاہی کرنا ہے، نہ کہ کسی کے ساتھ زیادتی کرنا۔

وَمِنْ قَبْلُ مَا فَرَّطْتُمْ فِی یُوسُفَ۔ (یوسف: 80)

”اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں تم کوتاہی کر چکے ہو“۔(محمد جوناگڑھی)

”اور اس سے پہلے یوسف کے بارہ میں کس قدر کوتاہی کرہی چکے ہو“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور اس سے پہلے یوسفؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو“۔ (سید مودودی)

پہلے دونوں ترجمے درست ہیں۔

(445) وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ

وَمَا کُنَّا لِلْغَیْبِ حَافِظِینَ۔ (یوسف: 81)

”اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے“۔ (سید مودودی)

”اور ہم غیب کے نگہبان نہ تھے“۔ (احمد رضا خان)

”مگر ہم غیب کی باتوں کو جاننے اور یاد رکھنے والے تو نہیں تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم کچھ غیب کی حفاظت کرنے والے نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم کو غیب کی خبر یاد نہ تھی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور ہم غیب کی باتوں کے تو حافظ تھے نہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور ہمیں غیب کی خبر نہ تھی“۔ (احمد علی)

آخری ترجمہ درست ہے۔ یہاں غیب سے باخبر نہ ہونے کی بات ہے۔ غیب کی حفاظت یا غیب کی نگہبانی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟

(446) تَاللَّہِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ

درج ذیل آیت مستقبل کے صیغے میں ہے، لیکن بعض حضرات نے اس کا حال کا ترجمہ کیا ہے:

قَالُوا تَاللَّہِ تَفْتَأُ تَذْکُرُ یُوسُفَ حَتَّی تَکُونَ حَرَضًا أَوْ تَکُونَ مِنَ الْہَالِکِینَ۔ (یوسف: 85)

”بیٹوں نے کہا،خدارا! آپ تو بس یوسف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے“۔ (سید مودودی، تاللہ کا ترجمہ خدارا نہیں ہوگا، یہ قسم کے لیے ہے اس کا ترجمہ خدا کی قسم ہوگا۔)

”بولے خدا کی قسم! آپ ہمیشہ یوسف کی یاد کرتے رہیں گے یہاں تک کہ گور کنارے جا لگیں یا جان سے گزر جائیں“۔ (احمد رضا خان)

”کہنے لگے قسم اللہ کی تو نہ چھوڑے گا یاد یوسف کی جب تک کہ گل جاوے یا ہوجائے مردہ“۔ (شاہ عبدالقادر)

آخری دونوں ترجمے اس لحاظ سے درست ہیں کہ مستقبل کے صیغے میں ترجمہ کیا گیا ہے۔

(447) فتحسّسوا کا ترجمہ

تحسس کے معنی خبر لینے کے ہوتے ہیں، لسان العرب میں ہے: وتَحَسَّسَ الْخَبَرَ: تطلَّبہ وتبحَّثہ۔جب یہ کسی راز یا پوشیدہ امر کے بارے میں ہو تو اردو میں ٹوہ لگانا کہیں گے، لیکن اگر کسی گم شدہ چیز کے لیے ہو تو تلاش کرنا اور سراغ لگانا کہیں گے۔ درج ذیل ترجموں میں ٹوہ لگاؤ درست ترجمہ نہیں۔

یَابَنِیَّ اذْہَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ یُوسُفَ وَأَخِیہِ۔ (یوسف: 87)

”اے بیٹو جاؤ اور تلاش کرو یوسف کی اور اس کے بھائی کی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے بیٹو! جاؤ یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ“۔  (احمد رضا خان)

”بیٹا (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کو تلاش کرو“۔  (فتح محمد جالندھری)

”میرے بچو، جا کر یوسفؑ اور اس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ“۔ (سید مودودی)

”اے میرے بیٹو! جاؤ، یوسف اور اس کے بھائی کی ٹوہ لگاؤ“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری دونوں ترجموں میں فتحسسوا کے ترجمے کے لیے اردو تعبیر ٹوہ لگاؤ موزوں نہیں ہے۔

(448) لَا تَثْرِیبَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں تثریب کا مطلب گرفت و سرزنش ہے، نہ کہ الزام، جیسا کہ بہت سے لوگوں نے ترجمہ کیا ہے۔ کیوں کہ الزام تو تھا ہی، الزام کی نفی کیوں کی جائے گی۔ الزام سے آگے بڑھ کر جرم ثابت ہوچکا تھا۔ البتہ جرم ثابت ہونے کے باوجود اس پر سزا نہیں دی جائے گی، اس بات کا اعلان کیا گیا۔ یعنی بے گناہ قرار نہیں دیا گیا، سزا معاف کردی گئی۔

قَالَ لَا تَثْرِیبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ (یوسف: 92)

”کہا کچھ الزام نہیں تم پر آج“۔ (شاہ عبدالقادر)

”یوسف (علیہ السلام)  نے فرمایا کہ نہیں تم پر آج کوئی الزام“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اس نے کہا: اب تم پر کچھ الزام نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اس نے جواب دیا، آج تم پر کوئی گرفت نہیں“۔ (سید مودودی)

”کہا نہیں سرزنش اوپر تمہارے آج کے دن“۔ (شاہ رفیع الدین)

(449) وَ إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ کا ترجمہ

وَ إِنْ کُنَّا لَخَاطِئِینَ۔ (یوسف: 91)

”اور واقعی ہم خطا کار تھے“۔ (سید مودودی)

”اور یقینا ہم ہی خطاکار تھے“۔ (طاہر القادری)

”اور بے شک ہم ہی غلطی پر تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری دونوں ترجموں سے یہ بات نکل سکتی ہے کہ لوگ کسی اور کو بھی خطاکار سمجھ رہے تھے، جب کہ ایسا نہیں ہے۔ صرف ان کے خطاکار ہونے اور نہیں ہونے کا سوال تھا، جس کے بارے میں انھوں نے اعتراف کیا کہ ہم خطاکار تھے۔ اس لحاظ سے پہلا ترجمہ زیادہ درست ہے۔

(450) ادْخُلُوا مِصْرَ کا ترجمہ

یوں تو ادخلوا مصر کا ترجمہ ہونا چاہیے”مصر میں داخل ہوجاؤ“، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ تو حضرت یوسف کے پاس آچکے تھے، پھر مصر میں داخل ہونے کو کیوں کہا جائے گا۔ اس کا ایک جواب یہ دیا گیا کہ حضرت یوسف نے پہلے مصر سے باہر ایک خیمے میں ان کا استقبال کیا، بعد میں مصر میں لے کر آئے۔ لیکن یہ بات تکلف سے بھرپور اور دلیل سے خالی ہے۔ دوسری توجیہ یہ ہے کہ یہاں ادخلوا قیام کرنے کے مفہوم میں ہے، یہ توجیہ مناسب لگتی ہے۔

وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاءَ اللَّہُ آمِنِینَ۔ (یوسف: 99)

”اور کہا داخل ہو مصر میں اللہ نے چاہا تو خاطر جمع سے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”کہا،چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے“۔ (سید مودودی، مصر غیر منصرف ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شہر کے معنی میں نہیں بلکہ اس جگہ کے معنی میں ہے جس کا نام مصر ہے۔)

”اور کہا مصر میں داخل ہو اللہ چاہے تو امان کے ساتھ“۔ (احمد رضا خان)

”اور کہا مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو جمع خاطر سے رہیے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”اور کہا: مصر میں ان شاء اللہ امن چین سے رہیے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(451) رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ

یہاں ”پہلے خواب“ ترجمہ کرنے سے بہتر ہے ”وہ خواب جو پہلے دیکھا تھا“، کیوں کہ پہلے خواب سے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس کے بعد بھی خواب دیکھے تھے۔ جب کہ کہنا مقصود یہ ہے کہ وہ خواب جو پہلے زمانے میں دیکھا تھا۔

وَقَالَ یَا أَبَتِ ہَذَا تَأْوِیلُ رُؤْیَایَ مِنْ قَبْلُ۔ (یوسف: 100)

”اور کہا اے باپ یہ بیان ہے میرے اس پہلے خواب کا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس نے کہا: اے میرے باپ! یہ ہے میرے پہلے خواب کی تعبیر“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے“۔ (احمد رضا خان)

”یوسف نے کہا کہ بابا یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”یوسف ؑ نے کہا،ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔

(452) نَزَغَ الشَّیْطَانُ کا ترجمہ

مِنْ بَعْدِ أَنْ نَزَغَ الشَّیْطَانُ بَیْنِی وَبَیْنَ إِخْوَتِی۔ (یوسف: 100)

”بعد اس کے کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوادیا تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بعد اس کے شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈلوادیا“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور اس کے بعد کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں فساد ڈال دیا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

شیطان نے فساد خود ڈالا تھا، کسی سے ڈلوایا نہیں تھا۔ اس لیے پہلے دونوں ترجمے درست نہیں ہیں۔ نزغ کا مطلب بھی خود فساد ڈالنا ہوتا ہے: لسان لعرب میں ہے: نَزَغَ بَیْنَہُمْ یَنْزَغُ ویَنْزِغُ نَزْغاً: أَغْرَی وأَفْسَدَ وَحَمَلَ بعضَہم عَلَی بَعْضٍ۔

(453) من الملک اور من تاویل الاحادیث میں من کیسا ہے؟

من دیکھ کرتبعیض کی طرف ذہن چلا جاتا ہے، لیکن من ہمیشہ تبعیض کے معنی میں نہیں ہوتا۔ قرآن میں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ کہیں تبعیض کے بجائے تاکید العموم مقصود ہوتی ہے۔ درج ذیل تینوں مقامات پر مترجمین کا رویہ بہت مختلف قسم کا ہے، ایک ہی مترجم کہیں تبعیض کا ترجمہ کرتا ہے اور کہیں تبعیض کا نہیں کرتا ہے۔ درست بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہاں تینوں مقامات پر تبعیض مراد نہیں ہے۔ بلکہ عموم ہی مراد ہے۔

(۱) وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ۔ (یوسف: 6)

”اور سکھلادے گا کلبٹھانی باتوں کی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا“۔ (احمد رضا خان)

”اور تمھیں باتوں کی حقیقتوں تک پہنچنا سکھائے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور تجھے معاملہ فہمی (یا خوابوں کی تعبیر) بھی سکھائے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۲) وَلِنُعَلِّمَہُ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ۔ (یوسف: 21)

”اور اس واسطے کہ اس کو سکھادیں کچھ کل بٹھانی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس کو باتوں کی تعبیر بتائیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں“۔ (احمد رضا خان)

”کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۳) رَبِّ قَدْ آتَیْتَنِی مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِی مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ۔ (یوسف: 101)

”اے رب تو نے دی مجھ کو کچھ سلطنت اور سکھایا مجھ کو کچھ پھیر“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے میرے رب! تو نے مجھے اقتدار میں سے بھی حصہ بخشا اور باتوں کی تعبیر کے علم میں سے بھی سکھایا“۔(امین احسن اصلاحی)

”اے میرے رب بیشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا“۔ (احمد رضا خان)

”اے میرے پروردگار تو نے مجھ کو حکومت سے بہرہ کیا اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو نے مجھے ملک عطا فرمایا اور تو نے مجھے خواب کی تعبیر سکھلائی“۔ (محمد جوناگڑھی)

اوپر کی تینوں آیتوں کے ترجموں میں ’کچھ‘  یا اس کا ہم معنی لفظ نہیں رہے گا۔

(454) وَہُمْ یَمْکُرُونَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں وھم یمکرون عربی کے اسلوب کے لحاظ سے جملہ حالیہ ہے، لیکن اس کا ترجمہ عام طور سے جملہ معطوفہ کا کیا گیا ہے۔ 

وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ أَجْمَعُوا أَمْرَہُمْ وَہُمْ یَمْکُرُونَ۔ (یوسف: 102)

”اور تم تو ان کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے جب کہ انھوں نے اپنی رائے پختہ کی اور وہ سازش کررہے تھے“۔(امین احسن اصلاحی)

”آپس میں اتفاق کرکے سازش کی تھی“۔ (سید مودودی، جملے کی ترکیب کے لحاظ سے ترجمہ ہونا چاہیے: سازش پر اتفاق کیا تھا۔)

”اور جب برادران یوسف نے اپنی بات پر اتفاق کیا تھا اور وہ فریب کر رہے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جب انہوں نے اپنا کام پکا کیا تھا اور وہ داؤں چل رہے تھے“۔ (احمد رضا خان)

وھم یمکرون کو جملہ حالیہ بنائیں گے تو ترجمہ ہوگا:

”جب کہ انھوں نے سازش کرتے ہوئے اپنی رائے پختہ کی“۔(امانت اللہ اصلاحی) یعنی سازش پر متفق ہوگئے اور اس کا تہیہ کرلیا۔

رائے پختہ کرنا اور سازش کرنا الگ الگ دو کام نہیں تھے، بلکہ جو سازش وہ کررہے تھے اسے کرتے ہوئے اپنی رائے پختہ کرلی تھی کہ کیا کرنا ہے۔

(جاری)

مطالعہ سنن النسائی (۲)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن / محمد عمار خان ناصر

(اس سلسلے کا پہلا حصہ اگست ۲۰۲۲ء میں شائع ہوا تھا)


مطیع سید: ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے اور ایک اوٹ میں بیٹھ گئے۔بعض مشرکین نے دیکھا تو کہا کہ یہ عورتوں کی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا، اس کو بھی بھلی بات سے روکنے پر عذاب ہوا۔بنی اسرائیل میں اگر بدن پر کہیں پیشاب لگ جاتا تو وہ بدن کا وہ حصہ چھیل دیتے تھے، تو ان کے ساتھی نے ان کو اس سے منع کیا جس پر اسے عذاب دیا گیا1۔ اس حدیث سے یوں لگتا ہے کہ یہ پہلی شریعت کا حکم تھا، لیکن یہ تو کوئی معقول بات نہیں لگتی۔جسم کا کوئی حصہ چھیل دینا، اس طرح کی سختی کیوں تھی؟

عمار ناصر: ایک بات تو یہ ہے کہ حدیث میں نجاست آلود کپڑے کو کاٹنے کا ذکر ہے، جسم کو چھیلنے کا نہیں۔اگر کپڑے پر پیشاب لگ جاتا تو اس کو دھو کر استعمال کرنے کی اجازت بنی اسرائیل کو نہیں تھی۔بہرحال اس میں بھی ایک سختی نظر آتی ہے۔ایک بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی پابندیاں لگانے کی حکمتیں اللہ تعالی ہی بہتر سمجھتا ہے، لیکن بنی اسرائیل کے باب میں کچھ اسباب نصوص میں ذکر ہوئے ہیں کہ ان پر اتنی سخت پابندیاں کیوں لگائی گئیں۔وہ ایک سرکش قوم تھی اور ان کی بعض بد اعمالیوں کی وجہ سے کچھ حلال چیزیں بھی ان پر حرام کر دی گئیں، کچھ پابندیاں لگا دی گئیں۔تو کچھ خاص اسباب ہیں جن کی وجہ سے بنی اسرائیل پر پابندیاں لگائی گئیں۔ان میں سے ایک پابندی یہ بھی ہو سکتی ہے۔جیسے وہ لوگ نماز معبد میں ہی جا کر پڑھ سکتے تھے اور مال غنیمت ان کو جلانا پڑتا تھا، استعمال میں نہیں لا سکتے تھے۔حلال جانوروں کی چربی نہیں کھا سکتے تھے۔

مطیع سید: قرآن مجید میں وضو کا طریقہ اللہ تعالیٰ نے بڑے سادہ انداز میں بیان کر دیا ہے، لیکن جب ہم احادیث میں دیکھتے ہیں تو اس میں بڑی تفصیلات و جزئیات ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ جیسے قرآن مجید بہت باریکیوں میں نہیں جانا چاہتا اور وہ کہتا ہے کہ بس ایسے کر لیں، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تفصیلات میں جانا چاہتے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی تفصیلات میں کیوں جا رہے ہیں؟ آپﷺ سادہ طریقے پر کیوں نہیں رہے؟

عمار ناصر: اس میں ایک تو قرآن مجید کے اسلوب کا معاملہ ہے۔خاص طور پر احکام کے اندر قرآن مجید بہت اجمال کے ساتھ بات بیان کرتا ہے اور بس اس کا ایک ڈھانچہ سا بنا دیتا ہے، تفصیلات میں نہیں جاتا۔یہ قرآن مجید کا اسلوب ہے، اور ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے بھی حکمت ہے۔بعض جگہوں پر تفصیلات میں نہ جانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وسعت رہے، بعض جگہ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جس طرح کی تفصیلات چاہییں، وہ عمل سے متعلق ہیں تو ان کو بیان کرنا، قرآن کے عمومی اسلوب و مزاج سے مختلف ہے۔بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید ایک بنیادی بات بیان کرتا ہے اور اس بنیادی بات کے پس منظر میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس پر عمل کر کے دکھانے کے لیے پیغمبر موجود ہے۔تو وضو کا جو اسوہ ہے جس میں طہارت کا احساس پیدا ہو، اس کا مکمل نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کر کے دکھایا۔آپ دیکھیں کہ یہ جو ساری تفصیلات ہیں، ان کا تعلق عمل سے ہے۔اگر قرآن ان کو بھی الفاظ میں بیان کرنے لگے تو پھر قرآن بھی فقہ کی کتاب بن جائے گی۔

مطیع سید: ہم بعض دفعہ فقہاء پر اعتراض کرتے ہیں کہ یہ بہت باریکیوں میں چلے جاتے ہیں اور جزئیات میں چلے جاتے ہیں،اصل مسئلہ بہت سادہ ہوتا ہے۔تو فقہاء کی جو موشگافیاں ہیں، کیا ان کو اس سے جوڑا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ انہوں نے راہنمائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لی ہے۔

عمار ناصر: آپ دو طرح کی موشگافیاں کہہ سکتے ہیں۔ایک تو تکلف کا پہلو اس سے پیدا ہو جاتا ہے کہ ایک عمل آپ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں تو وہ چیز آپ کو فطری لگتی ہے اور اسی چیز کو آپ لفظوں میں بیان کرنا شروع کر دیں اور قاعدوں ضابطوں میں ڈھالنا شروع کر دیں تو وہ غیر فطری لگتی ہے۔ آپ احادیث میں کسی عمل کی تفصیلات کو پڑھیں تو گویا ایک زندہ عمل کو دیکھ رہے ہیں۔ایک واقعہ بیان ہو رہا ہوتا ہے جو آپ کو عجیب نہیں لگتا۔لیکن اسی کو اگر آپ فقہ میں قانون اور ضابطے کے انداز میں بیان کریں تو وہ ایک مصنوعی سی چیز لگے گی۔تو ایک تو یہ ہوا ہے کہ جو چیزیں فطری ہیں، فقہ میں ان کو قاعدے کے سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے۔موشگافیوں کا دوسرا دائرہ وہاں شروع ہو جاتا ہے جب فقہاء قیاساً اس میں مزید تحدیدات شامل کرنا شروع کرتے ہیں تو اس سے مزید ایک تکلف کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔

مطیع سید: یہاں ایسے لگتا ہے کہ کچھ مزاج بھی ایسے ہوتے ہیں جن کو تفصیل میں جانے سے روکا نہیں جا سکتا۔مثلاً‌ چہرہ دھونا ہے، اس میں یہ سوال ہوتا ہے کہ کہاں تک دھونا ہے؟ اور پھر اگر کوئی بال خشک رہ گیا تو کیا ہوگا؟ اسی طرح بھنوؤں کے اندر پانی جانا چاہیے کہ نہیں؟ تو کچھ اذہان اس طرح کے ہوتے ہیں جو اس طرح کے سوال پیدا کر دیں گے، تو خود بخود ایسی چیزیں پیدا ہو جائیں گی۔

عمار ناصر: ایسا ہی ہے۔ایک تو فقہ ایسی چیز ہے کہ احکام جہاں پر بھی ہوں، أوامر اور نواہی جہاں بھی ہوں، ان کو آپ جب ایک ضابطے کی شکل دینا شروع کرتے ہیں تو اس کی نیچر ایسی ہے کہ آپ کو اسے لکھنا پڑتا ہے۔پھر کچھ اذہان کا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔یعنی کچھ تفصیلات تو اس عمل کا اپنا تقاضا ہوتی ہیں، پھر کچھ اذہان جب اس مزاج کے اس میں آجاتے ہیں تو اس کو وہ مزید سخت بنا دیتے ہیں۔

مطیع سید: شریعت میں جنابت کے بعد جو غسل کا حکم ہے، اس کی حکمت کیا ہو سکتی ہے؟ اگر اس کی حکمت احساسِ طہارت ہے وہ تو ہم وضو سے بھی حاصل کر سکتے ہیں، تو الگ سے ایک مشقت رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟

عمار ناصر: اس میں دراصل درجے کا فرق ہے۔طہارت کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے،اگر آپ اسے شاہ ولی اللہ کے ہاں دیکھیں تو وہ اس کو روحانی پہلو سے بیان کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جب آپ نے پیشاب یا پاخانہ کیا تو روحانی طور پر آپ کے اندر ایک ایسی کیفیت پیدا ہو گئی جس کو دور کرنے کے لیے طہارت کی ضرورت ہے۔ نجاست سے جسم کا تلوث ہوا ہے، نجاست آپ کے جسم سے نکلی ہے،آپ نے اس کو دھویا ہے، تو یہ پورا عمل آپ کے اندر ایک روحانی ناپاکی کا احساس پیدا کرتا ہے۔اس کو پھر طہارت سے دور کیا جاتا ہے۔جنابت میں وہ عمل اس سے ایک مرحلہ آگے ہوتا ہے۔خاص طور پر اگر آپ نے ہم بستری کی ہے تو وہ بالکل ایک حیوانی عمل ہے، اس میں شرم و حیا ایک طرف رہ جاتی ہے۔تو اس میں ناپاکی کا زیادہ احساس ہوتا ہے۔شریعت کہتی ہے کہ یہ احساس ہونا چاہیے کہ تلوث ہو گیا ہے اور اس معنوی ناپاکی سے نکلنے کے لیے پورے جسم کو طہارت حاصل کرنی چاہیے۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں ہاتھ سے ہر کام کرنا پسند کرتے تھے جہاں تک ممکن ہوتا تھا2، مثلاً‌ کھانا کھانا اور لباس پہننا وغیرہ۔اس میں کیا حکمت ہے؟

عمار ناصر: بس یہ ایک مابعد الطبیعیاتی نسبت ہے، اس کی کوئی عقلی توجیہ نہیں ہے۔بس یہ ہے کہ اللہ تعالی کو دائیں جانب پسند ہے۔جیسے وتر ہے، اللہ تعالی کو طاق تعداد پسند ہے۔تو چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور اس نے دائیں جانب نیک لوگوں کے لیے رکھی ہوئی ہے، تو ہم بھی اس کی پیروی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مطیع سید: عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے میری قوم کا امام بنا دیجیے۔آپ نے فرمایا کہ تو اپنی قوم کا امام ہے، لیکن امامت کرتے ہوئے ایسے شخص کی رعایت کرنا جو سب سے ضعیف اور ناتواں ہے، اور ایسے موذن کو مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے3۔سوال یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تو ان چیزوں مثلاً‌ اذان کی اجرت کا تصور بھی پیدا نہیں ہوا ہوگا، یہ چیزیں تو بہت بعد میں آئی ہیں۔

عمار ناصر: آپ کے دور میں یہ تصور تو پیدا نہیں ہوا ہوگا، لیکن اس کا تصور تو کیا جا سکتا تھا۔اذان ایک ذمہ داری اور پابندی ہے۔مدینے میں تو حضرت بلال اور حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم تھے، یہ ان کی ڈیوٹی تھی، اور اس پر ان کے لیے کوئی وظیفہ نہیں تھا۔اس وقت نماز پڑھانے کے لیے بھی وظیفے کا کوئی تصور نہیں تھا۔تو اس وقت ان چیزوں کا رواج اور تصور نہیں تھا، لیکن یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ اگر ان چیزوں پر کسی کو مامور کیا جائے تو اس کے دل میں طلب پیدا ہو سکتی ہے۔جیسے یہ عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ثقفی ہیں، یہ نو مسلم ہیں، تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ میری یہ ذمہ داری لگائی گئی ہے تو میرے لیے کچھ وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا۔اصولاً یہی بات بہتر ہے کہ عبادات میں یعنی نماز پڑھانے کے لیے یا اذان دینے کے لیے کسی ایسے آدمی کی ڈیوٹی نہ لگائی جائے جو صرف اس لیے یہ کام کرے کہ اسے اس پر وظیفہ دیا جائے گا۔

مطیع سید: ایسے لگتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض باتوں کو ناپسند فرماتے تھے، لیکن ان کی سوسائٹی بہت سادہ تھی، ابھی معاشرہ بہت پیچیدہ نہیں ہوا تھا، لیکن بعد میں صورتحال بدل گئی۔

عمار ناصر: جی بالکل ایسے ہی ہے،لیکن اس میں ترجیح کا اظہار ہو جاتا ہے کہ دین کی ترجیح کیا ہے۔لیکن جیسا کہ آپ نے کہا، جب سوسائٹی پیچیدہ ہو جاتی ہے تو پھر انتظامی مصلحتوں کو مقدم کرنا پڑتا ہے، اور اس طرح کی لطیف مصلحتیں پیچھے کرنی پڑتی ہیں، ورنہ پھر نظام نہیں چلتا۔

مطیع سید: ایک روایت میں حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سمرہ کے بیٹے! امارت کی طلب نہ کرنا۔اگر تم نے امارت مانگی اور تمہیں مل گئی تو پھر ساری ذمہ داری تمہارے اوپر ہوگی، اور اگر بن مانگے ملی تو اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔4 اس میں سوال یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام نے بھی امارت طلب کی تھی اور ظاہر ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس لائق سمجھتے تھے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس پہلو سے اس کو پسند نہیں فرما رہے؟

عمار ناصر: اس کو دو لحاظ سے سمجھ سکتے ہیں۔ایک تو یہ ہے کہ امارت کی خواہش پیدا ہونا یہ فطری ہے، یعنی اس میں دیانت داری کے ساتھ بھی کوئی انسان سمجھ سکتا ہے کہ مجھے یہ عہدہ ملنا چاہیے۔بعض طبیعتوں کے اندر اختیار رکھنے اور استعمال کرنے کا فطری رجحان ہوتا ہے۔اس پہلو سے حدیثوں میں آتا ہے کہ اس کا پیدا ہونا اور پھر اس کے لیے تگ و دو کرنا، یہ انسان کی روحانی شخصیت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔یہ کوئی قانونی بات نہیں ہو رہی ہے، آپ علیہ السلام ایک آدمی کو نصیحت فرما رہے ہیں۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ایسے لوگوں کو واپس لوٹا دیا جن کے اندر طلب ہے لیکن وہ ذمہ داری کو صحیح طرح سے ادا نہیں کر سکتے تھے۔آپﷺ نے ان سے فرمایا کہ جو خود مانگتا ہے، ہم اسے منصب نہیں دیتے۔تو بنیادی بات اس میں یہ ہے کہ اگر انسان کے اندر خواہش ہو تو وہ اس کے لیے خود تگ و دو نہ کرے۔اگر اس شخص کی اہلیت کو دیکھ کر وہ ذمہ داری اس کو دی جائے گی تو اس میں اللہ کی توفیق بھی شامل ہوگی، اس کو لینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا جو معاملہ ہے، وہ تو صورتحال ہی بالکل مختلف ہے۔وہ عام معاملہ نہیں ہے، وہاں تو ایک ایسی صورتحال ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے ذریعے ہی آشکارا ہوئی ہے کہ آگے چل کر یہ آفت آنے والی ہے اور اس کا انتظام کرنے کے لیے ایک خاص سطح کی صلاحیت چاہیے۔اس کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام اپنے آپ کو پیش کر رہے ہیں، اور اس میں یہ بھی بعید نہیں ہے کہ یہ پیغام انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہو۔چونکہ ان کو نبوت ملی ہوئی تھی اور اللہ تعالیٰ بھی ایک اسکیم بنا رہے تھے کہ ان کے ذریعے سے ان کا سارا خاندان یہاں آ جائے تو اللہ کی راہنمائی بھی یقیناً اس کے اندر شامل ہوگی۔قرآن مجید میں آتا ہے کہ "وكذلك مكنا ليوسف في الارض" تو ممکن ہے، تکوینی بندوبست کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ان کو ہدایت بھی کی گئی ہو کہ آپ یہ منصب طلب کریں۔

مطیع سید: "ولقد اتيناك سبعا من المثاني والقرآن العظيم" اس آیت کے بارے میں ایک روایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرما دیا کہ اس سے مراد سورہ فاتحہ ہے5، اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس سے سات بڑی سورتیں مراد لیتے ہیں۔فراہی مکتبہ فکر کی ان دو روایتوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ اگر یہ روایت درست ہے تو پھر وہ اس روایت کو کس درجے میں رکھتے ہیں اور کیا توجیہ کرتے ہیں؟

عمار ناصر: مولانا فراہی کی رائے تو مجھے مستحضر نہیں، اس لیے کہ وہ قرآن کی سورتوں کے پانچ گروپ بناتے ہیں۔لیکن مولانا اصلاحی سات گروپوں میں سورتوں کو تقسیم کرتے ہیں، اور انھوں نے ہی اس آیت کا مصداق پورے قرآن کو قرار دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ "سبعا من المثانی" سے مراد پورا قرآن ہے اور "والقرآن العظیم" اس کی تشریح ہے، یعنی میں نے تمہیں سات چیزیں دیں جو جوڑا جوڑا ہیں۔مولانا اصلاحی "المثانی" کا ترجمہ بھی مختلف کرتے ہیں، یعنی جوڑا جوڑا ۔مطلب یہ ہوا کہ ہم نے آپ کو سورتوں کے سات گروپ دیے جن کی سورتیں جوڑا جوڑا ہیں اور یہ سارے گروپ مل کر پورا قرآن عظیم ہے۔وہ اس روایت کو رد نہیں کرتے جس میں اس کا مصداق سورہ فاتحہ کو کہا گیا ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ میں چونکہ پورے قرآن کا جوہر آگیا ہے تو معنوی طور پر اس کو بھی کہہ سکتے ہیں۔

مطیع سید: یعنی ایک بات کی وضاحت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کر دی ہے، اس کے باوجود وہ اس میں دوسری تفسیر کی گنجائش سمجھتے ہیں؟

عمار ناصر: اس کی وجہ یہ ہے کہ "سبعا من المثانی" کو سورہ فاتحہ پر منطبق کرنے میں وہ روایت اتنی واضح نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ حتمی طور پر یہی مراد ہے۔مثال کے طور پر اس میں سات آیتوں کا ذکر ہے، لیکن سورۃ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔بسم اللہ اس کا حصہ ہے یا نہیں؟ اگر بسم اللہ اس کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ سات آیتیں نہیں بنتیں۔یا پھر یہ کہ "صراط الذين انعمت عليهم" کو پوری آیت کہنا پڑے گا، لیکن جو قرآن میں سجع کا طریقہ ہے، اس کے خلاف ہے۔تو ایک ابہام یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ وہ سات آیتیں ہیں یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ مثانی کا جو مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ بار بار دہرائی جانے والی، اس پر مولانا سوال اٹھاتے ہیں کہ مثنیٰ کا مطلب تو دو دو ہوتا ہے، تو مثانی کا مطلب دو دو یعنی جوڑا جوڑا ہونا چاہیے۔بار بار دہرایا جانا، اس کا یہ لغوی معنی اتنا واضح نہیں ہے۔اس طرح کے اشکالات کی وجہ سے دوسری تفسیر کی گنجائش بن جاتی ہے، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں آپ بتا رہے ہیں کہ وہ اس سے مراد سات سورتیں لیتے ہیں۔

مطیع سید: آپ سورتوں کی گروپس میں تقسیم کو کیسے دیکھتے ہیں؟

عمار ناصر: گروپس کی تقسیم تو بالکل استنباطی ہے۔اتنی قطعی نہیں ہے کہ آپ اس سے ہٹ کر تقسیم نہ کر سکیں۔آپ مضمون کے لحاظ سے اور طریقوں سے بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔پھر یہ کہ "سبعا من المثانی" کا مصداق سورتوں کے سات گروپس کو قرار دینا مولانا فراہی اور مولانا اصلاحی کے اصول تفسیر پر پورا نہیں اترتا۔وہ أصول یہ ہے کہ جب قرآن ایک تعبیر استعمال کر رہا ہے تو اس کا مصداق مخاطب کو سمجھ میں آنا چاہیے، وہ بعد کے کسی وقت تک موخر نہیں ہونا چاہیے۔اب یہ تو مکے کی آیت ہے اور شاید ابتدائی دور کی ہے۔اس وقت تو ابھی سورتوں کے یہ جوڑے بنے ہی نہیں تھے تو مکے میں یہ آیت سن کر مخاطبین کیسے اس مصداق کو سمجھ سکتے تھے؟ مولانا نے عام تفسیر پرجو سوالات اٹھائے ہیں وہ بھی اہم ہیں کہ اگر ہم اس کا مصداق سورہ فاتحہ کو قرار دیں تو آپ لغوی طور پر کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں، لیکن اس کا جو مصداق مولانا اصلاحیؒ بتا رہے ہیں، اس پر بھی سنجیدہ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مولانا فراہی کے اصول پر قرآن ایسی بات نہیں کہتا، جس کا مطلب لوگوں کو سمجھ میں نہ آئے۔یہ بات کہ قرآن قطعی الدلالت ہے اور عربی مبین ہے، اس لحاظ سے بھی ان کی بات محلِ نظر ہے۔

مطیع سید: غامدی صاحب نے بھی البیان میں گروپس کی ایک ترتیب بنائی ہے، اس میں کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ سورۃ صحیح طرح سے تقسیم میں بیٹھ نہیں رہی۔

عمار ناصر: جی، بعض سورتوں کے متعلق وہ بتاتے ہیں کہ یہاں پر عام ترتیب سے ہٹ کر کسی خاص حکمت کے تحت استثنائی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔

مطیع سید: آپ "سبعا من المثانی" کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟

عمار ناصر: میرے ذہن میں تو اس حوالے سے ابھی تک سوال ہی ہے۔قرآن مجید کا اسلوب بتاتا ہے کہ وہ بظاہر ایک ایسی چیز کا ذکر کر رہا ہے جس کے بارے میں مخاطب کو پہلے سے معلوم ہے۔

مطیع سید: اسی لیے اس کے بارے میں باقاعدہ سوال نہیں کیا گیا۔

عمار ناصر: جی بالکل، یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ صحابہ نے بھی اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہیں کیا کہ اللہ تعالی نے آپ کو "سبعا من المثانی" دی ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے۔

مطیع سید: ایک روایت آتی ہے، اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ آیت آئی "فاكهة وابّا" تو ان کو ابّا کا مطلب معلوم نہیں تھا۔پھر انھوں نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، یہ جو چیز بھی ہے، کوئی کھانے کی چیز ہی ہو گی۔کیا صحابہ کا یہ بھی مزاج تھا کہ قرآن مجید کی اگر کوئی جزوی بات واضح نہیں اور پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی تو پھر بھی ٹھیک ہے؟

عمار ناصر: امام شاطبیؒ نے اس پر پوری فصل لکھی ہے کہ صحابہ کا مزاج یہ تھا کہ وہ قرآن کی آیت یا کسی حصے کا جو مجموعی پیغام ہے، اس کو اہم سمجھتے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں اس سورت میں پیغام کیا دینا چاہ رہے ہیں۔اگر صحابہ کو کسی سورت کا مجموعی پیغام سمجھ میں آرہا ہے لیکن اس کے کسی جز کا مطلب واضح نہیں ہو رہا تو اس کے بارے میں جاننے کو صحابہ تعمق اور تکلف سمجھتے تھے۔

مطیع سید: مشہور روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی تو آپ علیہ السلام نے اسے بلایا اور فرمایا کہ دوبارہ نماز پڑھو۔اس نے دوبارہ نماز پڑھی تو آپ نے فرمایا کہ تو نے نماز نہیں پڑھی، جاؤ دوبارہ نماز پڑھو۔دو تین دفعہ ایسے ہوا تو اس صحابی نے عرض کیا کہ آپ ہی بتا دیں کہ میں نماز کیسے پڑھوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز پڑھنے کا طریقہ بتایا6۔اس حدیث کو امام نسائیؒ نے ذکر کیا ہے اور اس کے لیے باب باندھا ہے کہ "باب الرخصة في الترك في الركوع"۔اب حدیث میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعدیلِ ارکان کا بتا رہے ہیں کہ آرام سے اور سکون سے نماز پڑھو، لیکن امام نسائی اس سے استدلال یہ کر رہے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے چونکہ انہیں رکوع میں پڑھنے کے لیے کچھ نہیں بتایا، اس لیے رکوع میں کچھ نہ پڑھنے کی بھی رخصت ہے۔

عمار ناصر: اس روایت سے بہت سے محدثین اور بہت سے فقہاء یہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ چیزیں واجب نہیں ہیں جن کا اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر نہیں کیا، اور ان کی تعلیم نہیں دی۔ امام نسائیؒ بھی اس کو اسی انداز سے دیکھ رہے ہیں کہ آپ اس صحابی کو نماز کا پورا طریقہ بتا رہے ہیں، لیکن یہ چیز نہیں بتا رہے۔میرا خیال ہے کہ یہ کمزور استدلال ہے۔دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نماز کا مجموعی ڈھانچہ تو بتا رہے ہیں، نماز کا پورا طریقہ یعنی صفۃ الصلوۃ نہیں بتا رہے۔خاص طور پر جس چیز کے متعلق وہ صحابی کوتاہی کر رہے تھے، اس کی تعلیم دے رہے ہیں۔

مطیع سید: حکیم سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات پر بیعت کی کہ میں سجدہ نہیں کروں گا مگر کھڑے ہونے کی حالت میں7۔اس روایت کا کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: یہ روایت بھی تعدیل ارکان کے حوالے سے ہے، یعنی وہ کہہ رہے ہیں کہ میں رکوع سے ہی سیدھا سجدے میں نہیں گر جاؤں گا، بلکہ میں سیدھا کھڑا ہوں گا، پھر اس کے بعد سجدہ کروں گا۔

مطیع سید: لیکن حدیث میں ہے کہ میں نے بیعت کی۔یہ چیز تو ویسے بھی بیان کی جا سکتی تھی۔

عمار ناصر: یہ تاکید کے لیے ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ ان چیزوں میں لوگ زیادہ بے پروائی کر رہے ہیں تو اس پر آپ نے توجہ دلائی اور خبردار کیا۔اس پر ممکن ہے، صحابی نے عزم کے اظہار کے ساتھ کہا ہوکہ میں آئنده ایسے ہی نماز پڑھوں گا اور اس پر بیعت کر لی ہو۔

مطیع سید: امام نسائی نے باقاعدہ باب باندھا ہے کہ ایک وتر کیسے پڑھیں8۔احناف ایک وتر کو درست نہیں سمجھتے۔وہ کہتے ہیں کہ کم از کم تین وتر ہونے چاہییں، جبکہ روایتوں میں بڑا واضح آتا ہے کہ آپ علیہ السلام نے ایک رکعت وتر ادا کی۔

عمار ناصر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل ملتا ہے، اس میں یہ نہیں ہے کہ آپ نے کسی دن صرف ایک رکعت پڑھی ہو۔آپ تہجد کی نماز کے آخر میں ایک یا تین رکعتیں ملا کر تعداد کو طاق بنا دیتے تھے۔آپ نے صحابہ کو جو اجازت دی، اس میں ایک رکعت کا بھی ذکر ملتا ہے، لیکن آپ علیہ السلام نے خود ایک رکعت نہیں پڑھی۔ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اجازت دی کہ کوئی چاہے تو سات رکعتیں پڑھ لے، کوئی پانچ پڑھ لے، کوئی تین پڑھ لے اور کوئی چاہے تو ایک پڑھ لے۔صحابہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عمل منقول ہے، اسی طرح اور صحابہ سے بھی منقول ہے کہ وہ بسا اوقات ایک ہی رکعت پڑھ لیتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو دن میں بھی بعض اوقات وقت کی کمی کی وجہ سے صرف ایک رکعت نفل پڑھ لیتے تھے۔ یہ سارے آثار امام ابن ابی شیبہ اور امام عبد الرزاق نے نقل کیے ہیں۔

مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبتی جوتا پہن کر قبرستان میں جانے سے منع قرار دیا ہے9۔یہ کوئی خاص جوتا تھا؟

عمار ناصر: اس کا پس منظر مذکور نہیں ہے کہ یہ خاص چپل پہن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان جانے سے کیوں منع کیا ہے۔جوتا پہن کر جانے سے منع نہیں کیا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے جوتے بھی یہی ہوتے تھے اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ ایسے ہی جوتے پہنتے تھے، لیکن ایسے جوتے پہن کر قبرستان جانے سے کیوں منع کیا؟ اس کا پس منظر بیان نہیں ہوا۔

مطیع سید: دوسری روایت میں امام نسائی نے اخذ کیا ہے کہ دوسرے جوتے پہن کر جانے کی اجازت ہے، اور دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ جب مردے کو دفن کر کے لوگ واپس جاتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے10۔

عمار ناصر: جی، امام نسائی بھی یہی بتانا چاہ رہے ہیں کہ قبرستان میں بنیادی طور پر جوتے پہننے کی ممانعت نہیں ہے، اور اگر ان جوتوں سے منع کیا گیا ہے تو اس کی کوئی خاص وجہ ہے۔

مطیع سید: امام نسائی کو کتاب الصیام میں باقاعدہ باب باندھنا پڑا ہے "باب الرخصة في أن يقال لشهر رمضان رمضان11" اس بارے میں رخصت ہے کہ کوئی ماہ رمضان کو صرف رمضان بول دے۔یہ سمجھ میں نہیں آئی۔

عمار ناصر: بعض دفعہ تعبیرات کے حوالے سے لوگوں کے اندر حساسیت پیدا ہو جاتی ہے، جیسے ایک خیال یہ تھا کہ سورتوں کا نام سورۃ کے لفظ کے بغیر نہیں بولنا چاہیے، مثلاً‌ سورۃ البقرہ کو صرف البقرہ نہیں کہنا چاہیے۔شاید امام نسائی کے ماحول میں اسی طرح کی کوئی بحث ہو کہ ماہ رمضان کو صرف رمضان نہیں کہنا چاہیے۔ اس کی وضاحت کر رہے ہیں کہ ایسا کہا جا سکتا ہے۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے12۔ظاہریہ کے نزدیک سفر میں روزہ رکھنا جائز ہی نہیں، بلکہ جو رکھے، اس پر قضا لازم ہو تی ہے۔امام اوزاعیؒ اور اسحاقؒ کے نزدیک روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔یہ مختلف اذہان ہیں، مختلف ذوق و مزاج ہیں جن سے شریعت کی تشریحات ہو رہی ہیں۔لیکن اصل میں شریعت کا مزاج کیا ہے؟ کیا اصل شریعت کا مزاج نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا مزاج ہے؟ ان مسائل میں تو بعد میں فقہاء کا مزاج شامل ہوا، جب ہم دین کا اصل مزاج کہہ رہے ہوتے ہیں تو وہ کیا ہوتا ہے؟

عمار ناصر: دین کا اصل مزاج کیا ہے؟ یہ بھی تو ہم شرعی دلائل پر غور کرنے سے ہی اخذ کریں گے۔اس مضمون کی ساری روایتیں آپ دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بندے کو اختیار حاصل ہے۔سفر میں اگر کوئی روزہ رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے، شریعت نے اس کو ناپسند نہیں کیا۔اس میں اصل اباحت ہے، اور آدمی کو اپنی سہولت دیکھنی چاہیے۔بعض دفعہ روزہ رکھنے میں سہولت ہوتی ہے اور بعض دفعہ روزہ نہ رکھنے میں سہولت ہوتی ہے۔یہ آدمی پر چھوڑا گیا ہے۔جہاں تک اس وعید کا تعلق ہے تو روایات میں مذکور ہے کہ یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے۔ایک خاص سفر میں کسی وجہ سے آپ علیہ السلام نے روزہ رکھنے سے منع کیا تھا۔جہاد کے لیے جا رہے تھے تو ایک شخص کو آپ نے دیکھا کہ وہ نقاہت سے بے ہوش ہو رہا ہے، لیکن وہ روزہ نہیں چھوڑ رہا۔ تو جہاں یہ کیفیت ہو جائے، وہاں شریعت یہ بتاتی ہے کہ یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے۔

مطیع سید: کئی دفعہ غور و فکر کر کے اپنے مزاج کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔تو کیا اس سے شریعت کے مزاج کے اندر خرابی پیدا ہوگی؟ ظاہریہ کی فقہ کو دیکھیں اور حنفی فقہ کو دیکھیں تو ان میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔

عمار ناصر: فہم اور مزاج اور ذوق، یہ سب شریعت کی تعبیر میں شامل ہو جاتے ہیں، اس سے ہم نکل نہیں سکتے۔اگر اللہ تعالیٰ نے یہ کام انسانوں کے سپرد کیا ہے تو انسانی کمزوریوں کا لحاظ بھی رکھا ہے۔اس میں اگر آپ کی حسن نیت ہے تو پھر معاملہ ٹھیک ہے، کوئی گھبرانے کی بات نہیں۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اگر تیری قوم کا جاہلیت کا زمانہ قریب نہ ہوتا تو میں کعبے کو گرا کر نئی تعمیر کرتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا13۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے نئے اقدام کیے جن میں اس بات کا لحاظ نہیں رکھا گیا اور ان کاموں نے سوسائٹی کے اسٹرکچر کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ لیکن یہاں جب کہ پورا عرب مسلمان ہو گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جان قربان کرنے والے ہزاروں لوگ ہیں، اب آپ یہ بات کیوں کہہ رہے ہیں کہ اگر میں یہ کام کروں گا تو اس سے نقصان ہوگا۔

عمار ناصر: اس میں یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ آپ کس چیز کے تقابل میں کسی چیز کو اہمیت دیں گے یا نہیں دیں گے؟ بت گرانا اور شرک کا خاتمہ کرنا تو آپ کا فرض منصبی تھا، اسی کے لیے تو آپ کو بھیجا گیا تھا۔اس کے مقابلے میں تو اس چیز کو کوئی اہمیت نہیں دی جا سکتی تھی کہ ان لوگوں کے دل ٹوٹیں گے۔لیکن کعبہ کو نئے سرے سے تعمیر کرنا، یہ ظاہر ہے کہ اس طرح کی چیز نہیں تھی۔کعبہ کی جگہ متعین ہے، اس کو محفوظ رکھنا شریعت کا منشا ہے، لیکن کعبہ کی تعمیر کیسے ہوئی ہے؟ اور تعمیر شدہ عمارت کو منہدم کر کے نئے سرے سے بنانے کو اس موقع پر ترجیح دی جائے یا اس بات کو ترجیح دی جائے کہ یہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، ان پر اس چیز کا کوئی منفی اثر نہ پڑے؟ یہاں تقابل ان دو چیزوں میں ہے۔یہاں اہم یہ چیز تھی کہ یہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہیں، ان کے دلوں میں قومی رقابت کا کوئی جذبہ یا کوئی منفی تاثر پیدا نہ ہو جائے۔

مطیع سید: اس میں پیغمبر علیہ السلام کے پاس اتھارٹی بھی تھی، لیکن اس کے باوجود آپ یہ کام نہیں کر رہے۔

عمار ناصر: اصل بات یہ ہے کہ جو ایک روایت چلی آرہی ہو، اس میں اگر تبدیلی بہت زیادہ ضروری نہ ہو تو بہتر یہ ہے کہ اسی کو قائم رکھا جائے۔جیسے حاجیوں کی خدمت اور پانی پلانے کی ذمہ داری، اس حوالے سے جو روایت چلی آرہی تھی، آپ نے اسی کو قائم رکھا، تاکہ ان لوگوں کو جو ذمہ داری ملی ہوئی ہے، نئے دین میں وہ اسی جذبے کے ساتھ اس کو نبھائیں۔اگر آپ اس چیز کو بدل دیتے تو بجائے ایمان میں قوت پیدا کرنے کے، اس چیز سے منفی اثرات پیدا ہو جاتے۔آپ عبداللہ بن ابی کو دیکھیں، اس کی جو شرارتیں تھیں، وہ ایکشن کا تقاضا کرتی تھیں، لیکن آپ نے ان کو گوارا کیا تاکہ پورے قبیلے کے اندر کوئی منفی اثرات پیدا نہ ہوں۔اوس اور خزرج روایتی حریف تھے۔ اگر عبداللہ بن ابی پر ہاتھ ڈالا جاتا تو مخالف قبیلے کے لوگ خوش ہوتے اور طعنہ وغیرہ بھی دے دیتے جیسا کہ بعض مواقع پر ایسا ہوا بھی، تو یہ چیزیں بڑی اہم ہوتی ہیں۔

مطیع سید: یہ عبداللہ بن ابی اوس سے تھا یا خزرج سے؟

عمار ناصر: عبداللہ بن ابی خزرج سے تھا، اسی لیے ایک موقع پر اوس میں سے جب کسی نے بات کی کہ یا رسول اللہ، یہ عبداللہ بن ابی آپ کو ستاتا ہے تو آپ اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔اس موقع پر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے کہ اچھا یہ ہمارے قبیلے کا ہے، اس لیے تمہیں اتنا جوش آگیا؟ تمھارے قبیلے کا ہوتا تو دیکھتا۔

مطیع سید: میرے خیال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تو اوس اور خزرج کا باہمی مسئلہ نہیں رہا، جس طرح بنو ہاشم اور بنو امیہ کے درمیان باقی رہا۔

عمار ناصر: بعد میں تو بالکل صورت حال ہی بدل گئی اور انصار، ایک سیاسی گروپ کے طور پر باقی نہیں رہے۔اقتدار قریش میں آگیا۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور تک انصار کے سیاسی گروپ رہے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بھی ان میں رنجش موجود تھی۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جو باغی مدینے میں آئے تھے، اس میں انصار کی بھی معاونت شامل تھی، ورنہ یہ نہیں ہو سکتا تھا۔لوگ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا کہ کچھ لوگ ادھر ادھر سے آ کر جمع ہو گئے اور انہوں نے مدینے میں خلیفہ پر حملہ کر دیا۔اصل میں جو انصار تھے، جو مقامی آبادی تھی، ان کی سپورٹ انہیں حاصل تھی۔حضرت عثمان کی شہادت کے بعد پھر دارالخلافہ بدل گیا اور صورت حال تبدیل ہو گئی۔پھر یزید کے دور میں حرہ کا واقعہ رونما ہو گیا۔اس کے بعد انصار کی جو پہلی نسل تھی، وہ رخصت ہو گئی تو پھر اس طرح سے ان کی الگ شناخت برقرار نہیں رہی۔


حواشی

  1. سنن النسائی،کتاب الطہارۃ،باب البول الی السترۃ،رقم: 30
  2. کتاب الطہارت،باب التیمن فی الطہور،رقم: 463
  3. کتاب الاذان،باب اتخاذ الموذن الذی لا یاخذ علی اذانہ اجراََ،رقم: 675
  4. کتاب آداب القضاۃ، باب النہی عن مسالۃ الامارۃ، رقم ۵۳۹۴
  5. کتاب الافتتاح، باب تاویل قول عزوجل و لقداتیناک سبعامن المثانی، رقم: 916
  6. کتاب الافتتاح، باب الرخصة في الترك في الركوع،رقم: 1056
  7. کتاب الافتتاح،باب كيف يخر لسجود،رقم: 1087
  8. کتاب قیام اللیل،باب کیف الوتر لواحد،رقم: 996
  9. کتاب الجنائز،باب کراھیۃ المشی بین القبورفی النعال السبتیۃ،رقم: 2052
  10. کتاب الجنائز، باب التسھیل فی غیر السبتیۃ، رقم: 2053
  11. کتاب الصیام، باب الرخصة في أن يقال بشهر رمضان رمضان،رقم: 2113
  12. کتاب الصیام،باب مایکرہ من الصیام فی السفر،رقم: 1192
  13. کتاب الحج میں باب بناء الکعبہ،رقم: 2906

(جاری)

فلسطین کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی جماعت ’’حماس‘‘ کی کارروائی کے بعد غزہ پر اسرائیل کے فضائی حملوں کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور اب تک مبینہ طور پر ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں جبکہ غزہ کا بہت بڑا حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ خوراک، بجلی، پانی اور طبی سہولیات کا بحران بھی پیدا ہو چکا ہے۔

حماس نے ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ کے عنوان سے ۷۔ اکتوبر کو  غزہ سے متصل اسرائیلی علاقوں کو حملے کا نشانہ بنایا تھا جس میں اخباری رپورٹوں کے مطابق چودہ سو سے زائد اسرائیلی ہلاک ہوئے اور دو سو سے زائد افراد کو حماس نے یرغمال بنا لیا ہے، اگرچہ اتنی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکت والا معاملہ غور طلب ہے کیونکہ حماس سے رہائی پانے والی ایک خاتون نے انٹرویو کے دوران رپورٹروں سے کہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ بہرحال حماس کے اس آپریشن پر ہر طرف سے حیرت کا اظہار کیا گیا ہے، اس پہلو سے بھی کہ اچانک اتنی بڑی کارروائی کیسے منظم کی گئی، اور اس حوالہ سے بھی کہ اس کے مقاصد کیا ہیں اور حماس اس سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

ہمارے خیال میں حماس چونکہ اپنے علاقہ اور وطن کو اسرائیل کے قبضہ سے چھڑانے کی جنگ لڑ رہی ہے جو معروف معنوں میں ’’جنگِ آزادی‘‘ کہلاتی ہے، اس لیے آزادی کی جدوجہد میں اس طرح کے اقدامات جنگ کا حصہ ہوتے ہیں۔ خود ہمارے ہاں برطانوی استعمار کے تسلط کے خلاف دو سو سالہ جنگِ آزادی کے دوران بیسیوں ایسے معرکے بپا ہوئے ہیں جنہیں جذبۂ آزادی سے سرشار مجاہدین کے ’’تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وہ جنگ آزادی کا حصہ تصور ہوتے ہیں بلکہ اس قسم کے معرکوں کا تسلسل ہی بالآخر جنگ آزادی کی کامیابی تک مجاہدین کو لے جاتا ہے۔سلطان ٹیپوؒ، جنرل بخت خانؒ، سردار احمد خان کھرل ؒ، حاجی شریعت اللہؒ، تیتومیرؒ پیر صبغۃ اللہ راشدیؒ، حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ جیسے مجاہدینِ آزادی کے علاوہ تحریک ریشمی رومال اور اس نوعیت کے دیگر معرکوں میں یہی جذبۂ حریت اور شوقِ شہادت کارفرما تھا، اگر انہیں ان پیمانوں سے ماپا جائے جو آج حماس کی اس جرأتِ رندانہ پر سوالیہ نشان کھڑا کر کے کیے جا رہے ہیں تو ان میں سے کوئی معرکہ بھی آج کے ناقدین کے ’’معیار‘‘ پر پورا نہیں اترے گا۔ مگر یہ سب معرکے ہماری جنگ آزادی کا حصہ ہیں جن پر ہمیں آج بھی فخر ہے اور ہم اپنے ان محسنین کے لیےمسلسل دعاگو رہتے ہیں۔ اس لیے حماس کی اس کاروائی کو جذبۂ حریت اور آزادئ وطن سے سرشاری کے حوالے سے ہی دیکھنا ہو گا اور فلسطینیوں کی حوصلہ افزائی اور پشت پناہی کا اہتمام کرنا ہو گا جو ہماری ملی و دینی ذمہ داری بنتی ہے۔

باقی رہا اس کاروائی کے مقاصد اور نتائج کا سوال تو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حماس کے اس اقدام سے پہلے عالمی ماحول میں اسرائیل کو بہت سے مسلم ممالک بالخصوص سعودی عرب اور پاکستان سے تسلیم کرانے کا جو ماحول پروان چڑھ رہا تھا اور اس کے لیے بیک ڈور سرگرمیاں دکھائی دے رہی تھیں، انہیں بریک لگ جانا اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے آگے بڑھنے والے قدموں کا رک جانا ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ خدا کرے کہ اسرائیل کے مظالم اور ارضِ فلسطین پر اس کے غاصبانہ اور ناجائز قبضہ کو جواز کی سند فراہم کرنے میں مصروف عناصر کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ وہ ایسا کر کے نہ صرف فلسطینی عوام پر ظلم کر رہے ہیں بلکہ انصاف اور اصول کی مسلمہ روایات سے بھی انحراف کے مرتکب ہیں۔

اس صورتحال میں عالم اسلام کے تمام طبقات بالخصوص مسلم حکومتوں سے ہماری گزارش ہے کہ اس معاملہ میں دینی حمیت اور ملی غیرت کے جذبہ و احساس کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا اہتمام کریں، جس کے لیے ضروری ہے کہ

مصیبت اور تکلیف کے اس سنگین مرحلہ میں ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ ہیں اور ان کی مکمل حمایت و تائید کرتے ہوئے دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت اس آزمائش میں انہیں سرخروئی نصیب فرمائیں اور بیت المقدس اور فلسطین کو آزادی سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔


یہود اور خدا کا فیصلہ

خورشید احمد ندیم

اسرائیل کا ظلم،اُس خوف کا برہنہ اظہار ہے جو روزِ اوّل سے اس کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔بنی اسرائیل کے لیے عالم کے پروردگار کا یہ فیصلہ ہے کہ ذلت ومسکنت تاقیامت ان پر مسلط رہے گی۔

یہود کی تاریخ،خدا کے ساتھ بے وفائی کی ایک طویل داستان ہے۔ان کا آخری بڑا جرم اپنی ہی قوم سے اٹھنے والے اللہ تعالیٰ کے ایک جلیل القدر رسول سیدنا مسیح ؑ کواپنے تئیں مصلوب کرنا تھا۔یہ الگ بات کہ اللہ نے ان کو محفوظ رکھا۔انہی جرائم کی بنا پر انہیں منصب ِ امامت سے معزول کرتے ہوئے، ذریتِ ابراہیم کی ایک دوسری شاخ بنی اسماعیل کو اس پر فائز کر تے ہوئے،اس کے ایک عالی مرتبت فرزند،سید نامحمد ﷺ کو منصبِ رسالت و امامت عطاکر دیا گیا۔سیدنا عیسیٰ ؑ کے انکار اور ان کو مصلوب کرنے کی ناکام کوشش کے بعد،یہود کے بارے میں یہ طے کر دیا گیا کہ وہ قیامت تک بطور سزا،حضرت مسیح ؑ کے ماننے والوں کے رحم وکرم پر رہیں گے۔(آلِ عمران:55)۔

اسرائیل،امریکہ،برطانیہ اوریورپ کی تائید اور نصرت سے قائم ہے۔یہ سب مسیحی اقوام ہیں۔برطانیہ نے اس کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔امریکہ نے پھراس کوگود لے لیا۔حماس کے حملے کے بعد،اسرائیل نے عام فلسطینیوں کو جس طرح نشانہ بنایا،اس میں اسرائیل کو امریکہ کی مکمل تائید حاصل رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں جب حماس کے حملے کی مذمت کے ساتھ،اسرائیل کو جنگ بندی کے لیے کہا گیا تاکہ عام متاثرین کو انسانی بنیادوں پر امداد فراہم کی جا سکے تو امریکہ نے اس کو ویٹو کر دیا۔اپناجدید ترین طیارہ بردار جنگی جہاز’جیرالڈ فورڈ‘ کو اسرائیل کی مدد کے لیے سمندر میں اتارا۔اسرائیل کے دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ کو مضبوط بنانے کے لیے اسلحے سے لدا ایک اور جہاز بھیجا۔ پہلے وزیر خارجہ اور پھرامریکی صدر، اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے پہنچ گئے۔

امریکہ نے،جس طرح اسرائیل کی مسلسل حمایت کی،اس کی داستان چشم کشاہے۔مارچ میں شائع ہونے والی امریکی کانگریس کی ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ 1948ء سے آج تک، امریکہ نے اسرائیل کو دو سو ساٹھ ارب ڈالر کی امداد دی،جس میں سے نصف عسکری ہے۔اقوام متحدہ میں امریکہ نے اسی(80) بار ویٹو کا حق استعمال کیا اور یہ حق،کم و بیش چالیس بار، اسرائیل کے دفاع میں کیا گیا۔

کیا امریکہ یہ سب یہودیوں کی محبت میں کر رہا ہے؟کیا اسرائیل کی حمایت اس لیے ہے کہ وہ ایک صیہونی ریاست ہے؟مجھے ان سوالات کے جواب اثبات میں نہیں ملے۔امریکہ کی یہودیوں سے محبت کی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔یہودی سیدنا مسیح ؑ کو پیغمبر تو دور کی بات،ایک جائز اولاد نہیں مانتے۔یہ تو قرآن ہے جس نے دنیا کے سامنے سیدہ مریم ؑ کی پاک دامنی کی شہادت دی۔یہ اعلان بھی کیا کہ سیدہ کو دنیا کی تمام عورتوں میں سے منتخب کیاگیااور انہیں سب خواتین پرپرفضیلت دی گئی ہے۔ (آل عمران:42)۔ کوئی ایسا تاریخی سبب بھی موجود نہیں جو اس اتحاد کو سندِ جواز فراہم کر سکے۔

اس کی صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے اور وہ ان قوتوں کا مفاد ہے جن کی سلطنتیں،بیسویں صدی کے اوائل میں ختم ہو رہی تھیں۔اُس دور میں زمانے نے جو کروٹ لی، اس میں استعمار کی پرانی صورتوں کا باقی رہنا ممکن نہیں تھا جس کا ایک مظہر’سلطنت‘ تھی۔دنیا بھر میں آزادی کی تحریکیں اٹھ رہی تھیں اورقومی ریاستیں وجود میں آ رہی تھیں۔ان اقوام کو اگراب دنیا پر اپنا تسلط قائم رکھنا تھا تو اس کے لیے کوئی نئی صورت تلاش کرنا ضروری تھا۔ جنگِ عظیم اوّل کے بعد عالمی قیادت کی دوڑ میں کچھ نئی قوتیں بھی شریک ہوگئیں جن میں ایک امریکہ بھی تھا۔ان سب نے مل کر دنیا کو’لیگ آف نیشنز‘ کا تصور دیا۔

سیاسی تسلط کو قائم رکھنے کے لیے زمین کے مادی وسائل پر قبضہ لازم تھا۔اُس وقت توانائی کا سب سے اہم ماخذ تیل تھا جس کے سب سے بڑے ذخائر مشرقِ وسطیٰ میں تھے۔ان پرقبضے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر کنٹرول ضروری تھا۔اقوام ِ متحدہ کے قیام کے بعد،دوسرے علاقوں پر طاقت کے زور پر اُس طرح قبضہ ممکن نہیں تھا جس طرح سلطنتوں کے دور میں ہوتا تھا۔ نئی صورت یہ تھی کی ان خطوں کی سیاست کو اپنے ہاتھ میں لیا جا ئے۔

مشرقِ وسطیٰ پر اپنا تسلط قائم رکھنے کی سب سے اچھی صورت، یہاں ایک ایسی ریاست کاقیام تھا جو ان اقوام کی نمائندگی اور ان کے مفادات کا تحفظ کرے۔ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ جو سلوک کیا تھا،اس کو ان اقوام نے جواز بناکر،بظاہر یہودیوں کی دل جوئی کے لیے ان کی ایک ریاست کا تصور پیش کیا۔اس کے لیے یہودیوں کے مذہبی جذبات کواستعمال کیا گیا۔اُن کو بتایا گیا کہ یہ ان کی مذہبی پیش گوئیوں کے پورا ہونے کا وقت ہے اور وہ دوبارہ اپنا مذہبی مرکز حاصل کر سکیں گے۔یہودیت کی ایک سیاسی تعبیر صیہونیت (Zionism) کے نام سے موجود تھی جس نے دنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں جمع کردیا۔

یہ ریاست قائم ہوگئی لیکن اس سے یہودیوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔وہ آج بھی بقا کے خوف میں مبتلا ہیں۔حماس کے وسائل کا اگر اسرائیل کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ایک اور سو کی نسبت بھی نہیں بنتی۔اسرائیل کے خوف کا مگر یہ عالم ہے کہ حماس کے مقابلے کے لیے بھی اسے امریکی امداد کی ضرورت ہے۔ آج امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک،عربوں کے لیے اسرائیل کو اور اسرائیل کے لیے عربوں کو استعمال کرتے ہیں۔عربوں کا سارا اسلحہ امریکہ کا دیا ہوا ہے اور اسرائیل تو ہے ہی ’میڈ ان امریکہ‘۔

اسرائیل کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ مفادات کا محافظ ہے۔یہودیوں کے حصے میں کیا آیا؟ایک مسلسل خوف اور امریکہ پر مستقل انحصار۔ ایک طرف انہیں یہ خوف لاحق ہے امریکہ میں کوئی ایسی حکومت قائم نہ ہو جائے جو اسرائیل مخالف ہو۔۔اس لیے وہ امریکہ میں اپنا اثرو رسوخ قائم رکھنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر تے ہیں۔یہ خوف ایسا بے بنیاد بھی نہیں۔جولائی2022ء میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق،60 سے 65 سال کے امریکی،اسرائیل کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔18سے9 2 سال میں یہ شرح کم ہو کر41 فیصد رہ گئی ہے۔دوسری طرف یہ احساس کہ وہ چاروں طرف سے عربوں میں گھرے ہیں۔اگر امریکہ نے سرپرستی چھوڑ دی تو وہ جئیں گے کیسے؟

چالیس سال پہلے امریکی سیکریٹری خارجہ الیگزنڈر ہیگ نے کہا تھا:”اسرائیل امریکہ کا سب سے بڑا طیارہ بردار جنگی جہاز ہے جو ڈوب نہیں سکتا۔اس پر کوئی امریکی سوار نہیں۔یہ ایک ایسے خطے میں موجود ہے جو امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے“۔ اسرائیل کی سلامتی اگر ہر امریکی انتظامیہ کی ترجیح ہے تو اس کی وجہ یہودی نہیں،امریکہ کے اپنے مفادات ہیں۔

یہ طاقت کا کھیل ہے جس میں یہودی استعمال ہو رہے ہیں۔اس کھیل سے مگر قرآن مجید کی یہ پیش گوئی ایک ناقابلِ تردید حقیقت کے طور پرثابت ہو رہی ہے کہ بنی اسرائیل،خدا کے ساتھ کیے گئے عہد کو توڑنے کے جرم میں، قیامت تک،حضرت مسیح کے نام لیواؤں کے رحم و کرم پر رہیں گے۔آج وہ ایک طرف خوف میں مبتلا ہیں اوردوسری طرف ساری دنیا کی ملامت کا ہدف۔ یہی ان کی سزاہے۔صدق اللہ العظیم۔

(بشکریہ روزنامہ دنیا)


فلسطینی ایسا کیا کریں کہ اسرائیل ناراض نہ ہو؟

یاسر پیرزادہ

چلیے آج’ شیطان کے وکیل ‘بن کر کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتے ہیں۔

پہلا سوال: حماس نے اسرائیل پر راکٹوں سے حملہ کیا جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر خوفناک بمباری کی، نتیجے میں اب تک پانچ ہزار سے زائد فلسطینی عورتیں، بچے اور جوان شہید ہوچکے ہیں، بمباری کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا، تو کیا یہ سمجھا جائے کہ حماس نے حملہ کر کے حماقت کی جس سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچا؟

دوسرا سوال: حماس نے نہتے اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے جن میں عورتیں بھی شامل ہیں اور مغربی میڈیا کے مطابق حماس کے حملوں میں بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں تو کیا ایسے بے رحمانہ اقدامات کی دو ٹوک مذمت نہیں کی جانی چاہیے؟

تیسرا سوال: اگر فلسطینیوں نے اسرائیل سے نمٹنا ہے اور اپنا کھویا ہوا خطہ زمین واپس لینا ہے تو اِس کے لیے ضروری ہے کہ دانشمندانہ حکمت عملی اپنائی جائے، حماس جیسے گروہ اِس دانشمندی کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اُلٹا فلسطینی ’کاز‘ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، کیا یہ بات درست ہے؟

اِن سوالوں کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ اِن میں پوشیدہ مفروضوں کو سامنے لایاجائے۔ مثلاً ہم نے فرض کر لیا ہے کہ حماس کے حملے سے پہلے فلسطینی، گو کہ اسرائیل کے زیرِ تسلط تھے اور اسرائیل اُن کے علاقوں پر قابض تھا، مگر پھر بھی اُن کی زندگیاں جیسے تیسے امن سے گزر رہی تھیں، وہ صبح اُٹھ کر اپنے کاموں پر جاتے تھے، چار پیسے کماتے تھے، شام کو اپنے بچوں کے پاس بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، لیکن حماس کے حملے کے بعد تو اُن کے ہاتھ سوائے تباہی کے کچھ نہیں آیا۔ اِس مفروضے کی دھجیاں بسیم یوسف نے اڑا دیں، بسیم ایک مصری ٹی وی اینکر اور سیاسی طنز نگار ہے، گزشتہ دنوں اُس نے برطانوی صحافی پئیرس مورگن کو ایک انٹرویو دیا جسے یوٹیوب پر اب تک 18 ملین لوگ دیکھ چکے ہیں، جو لوگ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کا فلسطین کے خلاف مقدمہ کس قدر کھوکھلا ہے اور وہ اپنے حقِ دفاع کی آڑ میں کس طرح فلسطینیوں کی نسل کُشی کر رہا ہے وہ یہ انٹرویو ضرور دیکھیں۔

بسیم یوسف نے کہا کہ چلیے ایک ایسی دنیا کا تصور کرتے ہیں جہاں حماس نہیں ہے اور اُس دنیا کا نام مغربی کنارہ رکھ دیتے ہیں کیونکہ مغربی کنارے میں حماس کا وجود نہیں، اِس کے باوجود اسرائیل اِس سال وہاں 172 فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ لہذا یہ کہنا کہ حماس کے حملے سے پہلے راوی چین ہی چین لکھتا تھا یا فلسطینی کم از کم اپنے گھروں میں سکون کے ساتھ رہ رہے تھے بالکل حقائق کے منافی بات ہے۔ دوسرا مفروضہ حماس کی دہشت گردی سے جُڑا ہے، مغربی میڈیا کے اینکر فلسطین کے حمایتیوں کو اپنے پروگرام میں مدعو کر کے کہتے ہیں کہ کیا آپ حماس کی دو ٹوک مذمت نہیں کرتے اور اگر نہیں کرتے تو اِس کا مطلب ہے کہ آپ کو اسرائیل کی مذمت کا بھی کوئی حق نہیں۔

یہ موازنہ بھی گمراہ کُن ہے کیونکہ اِس موازنے کی وجہ سے اسرائیلی فوج کے اقدامات کو جواز مل جاتا ہے جبکہ فلسطینیوں کا استدلال یہ ہے کہ خطے میں اگر کوئی دہشت گرد ہے تو وہ اسرائیلی فوج ہے جو فلسطین کی زمین پر قابض ہے اور یہ بات بین الاقوامی قانون سے ثابت شدہ ہے۔ ایسے میں جب مغربی میڈیا حماس کو فوکس کرتا ہے تو وہ دراصل اسرائیلی کو ’بلینک چیک‘ دے رہا ہوتا ہے کہ اب اسے فلسطینی بستیوں پر بمباری کا پورا حق ہے، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے حمایتیوں کو مغربی میڈیا کے کسی اینکر نے بلا کر یہ نہیں پوچھا کہ تم لوگ اپنی فوج کی عام شہریوں پر بمباری کی مذمت کیوں نہیں کرتے، اصل میں یہ ہے وہ دہرا معیار جس کی وجہ سے حماس کی مذمت نہیں کی جاتی۔

اب کچھ بات حکمت عملی کی بھی ہو جائے۔ فلسطینی کاز کے حمایتیوں پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ وہ دانشمندانہ حکمت عملی اپناتے تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ چلیے مان لیا، اب آپ اُن کے لیے کوئی ایسی حکمت عملی بنا کر دکھائیے جس سے اسرائیلی فوج کا قبضہ بھی ختم ہوجائے اور وہ امن اور عزت سے زندہ بھی رہ سکیں! صرف یہ کہنا کہ دنیا میں طاقت ور کا حکم چلتا ہے کوئی ایسی بات نہیں جس سے دانش جھلکتی ہو یا جس میں کوئی گہرا تجزیہ شامل ہو۔ جب آپ کے سامنے ظلم ہو رہا ہو اور آپ کو اچھی طرح علم ہو کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون تو کسی بھی دانشور کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ظالم کی کھُل کر نشاندہی کرے اور مظلوم کے حق میں آواز بلند کرے۔ اگر وہ یہ نہیں کرتا اور دلیل کے طور پر کہتا ہے کہ طاقت ور کے خلاف آواز بلند کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تو پھر وہ تاریخ کی غلط سمت میں کھڑا ہے کیونکہ وہ بالواسطہ طریقے سے ظالم کی حمایت کر رہاہے۔

یہی کام آج امریکی یونیورسٹیوں کے وہ پروفیسر کر رہے ہیں جن کی نوکریاں سپریم کورٹ کے ججز کی طرح محفوظ ہیں لیکن اِس کے باوجود وہ فلسطین کی حمایت میں بولنے سے قاصر ہیں، اِن کا لبرل ازم صرف ایران میں عورتوں کے خلاف بننے والے قوانین تک ہے، بغل میں اسرائیل آ کر اُن کے پر جلتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہاورڈ کے جن طلبا نے فلسطین کے حق میں قرارداد پر دستخط کیے تھے اُن کے نام افشا کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور مہم چلائی جا رہی ہے کہ انہیں مستقبل میں نوکریاں نہ دی جائیں، یہی نہیں بلکہ امریکہ سے یہودی نوجوان ’جہاد‘ کی غرض سے اسرائیل بھی آرہے ہیں۔ سو اُن کا جہاد، جہاد ہے اور ہمارا جہاد دہشت گردی !

حکمت عملی پر واپس آتے ہیں۔ فلسطینیوں کے پاس حکمت عملی کے کیا آپشن ہیں؟ ماضی میں کون سا آپشن کامیاب ہوا اور آئندہ کیا حکمت عملی ہونی چاہیے؟ فلسطینیوں نے پُر امن جدو جہد اور بین الاقوامی قانون کی عملداری کی دہائی دے کر دیکھ لیا ہے، دنیا اُن کی آوا ز پر کان نہیں دھرتی، اسرائیل بین الاقوامی قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتا ہے مگر امریکہ اور مغربی ممالک اُس کے ’حق دفاع‘ کو جواز بنا کر اُس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ماضی میں پی ایل او نے مسلح جدہ جہد کی، نتیجے میں اوسلو معاہدہ ہوا، امریکہ، اسرائیل اور فلسطینیوں نے دو ریاستوں کے قیام پر اصولی اتفاق کر لیا مگر آج تک اسرائیل نے فلسطینی ریاست کے لیے راہ ہموار نہیں کی۔ اب بتائیے کہ فلسطینی کیا کریں؟

اسرائیلی حکومت آئے دن فلسطینیوں کا قتل کرتی ہے، اُن کی زمین پر نئی بستیاں تعمیر کرتی ہے، جب چاہے اُن کی بجلی، پانی اور کھانا بند کر دیتی ہے، فلسطینی اپنی ایک ایک ضرورت کے لیے اسرائیل کے محتاج ہیں، اِس کے باوجود قصور فلسطینیوں کا ہے کیونکہ دنیا کا اصول ہے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس، واہ! اِس اصول کے تحت کسی مزارع کو اُس وقت مزاحمت نہیں کرنی چاہیے جب علاقے کا چوہدری بندوق کے زور پراُس کی بیٹی کو اٹھا کر لے جائے بلکہ اسے کوئی ایسی حکمت عملی بنانی چاہیے کہ چوہدری بھی ناراض نہ ہو اور اُس کی بیٹی بھی واپس آجائے چاہے یہ حکمت عملی بنانے کے دوران مزارع کی بیٹی حاملہ ہی کیوں نہ ہوجائے!

مجھے اندازہ ہے کہ میری کچھ باتیں جذباتی ہیں، لیکن میں گوشت پوشت کا انسان ہوں کوئی مشین نہیں کہ جذبات سے عاری ہو کر بات کروں۔ میں دنیاوی معاملات میں مذہب سے دلیل دینے کا عادی نہیں ہوں لیکن جو دینی اکابرین یہ مقدمہ پیش کر رہے ہیں کہ حماس کے حملے سے فلسطینیوں کو نقصان پہنچا تو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ دنیا کی ہر بات نفع و نقصان یا سود و زیاں کو ذہن میں رکھ کر نہیں کی جاتی۔ نبوت کے اعلان کے بعد قریش مکہ نے رسول اللہ ﷺ کو ہر وہ پیشکش کی جس میں آپ ﷺ کا دنیاوی فائدہ تھا مگر آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور دوسرے ہاتھ پر چاند بھی رکھ دو تومیں اپنے موقف سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ حماس کے حملے کے بعد بظاہر یہی لگتا ہے کہ فلسطینیوں کا زیادہ نقصان ہو رہا ہے لیکن اگر آپ کے پاس کوئی حکمت عملی ہے تو بسم اللہ پیش کیجیے، لیکن خیال رہے کہ اسرائیل ناراض نہ ہو، کیونکہ اگر وہ ناراض ہوا، جو کہ وہ بہت معمولی بات پر ہوجاتا ہے، تو غزہ اور مغربی کنارے کو فاسفورس بم مار کر ملیا میٹ کر دے گا۔ اب بتائیے فلسطینی کیا کریں؟

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


فلسطینی کیوں لڑتے ہیں؟

ڈاکٹر اختر علی سید

فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوئے کچھ دن گزر چکے ہیں۔ تشدد کے یہ سلسلے فلسطینیوں، اسرائیلیوں اور اس تنازعے کو دیکھنے والوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ حسبِ  سابق بے پناہ جانی اور مالی نقصانات کی اطلاعات ہیں۔ تاہم اس دفعہ جانی نقصان میں اسرائیلی اور فلسطینی اموات کا تناسب پہلے سے مختلف ہے۔ ایک چیز جو اس تنازعے کے حوالے سے خاص ہے وہ اس پر کیا جانے والا وہ تبصرہ ہے جو ملکی اور غیر ملکی تجزیہ نگار اس معاملے پر کرتے ہیں۔ پوری دنیا کا پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا اس تنازع پر ایک مرتبہ پھر تجزیوں سے بھر چکا ہے۔

بین الاقوامی میڈیا اس 70 سال سے زائد پرانے تنازع کو ایک مرتبہ پھر کاروباری اور سیاسی وابستگیوں کی روشنی میں دیکھنے اور دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سب سے اہم اور قابل مشاہدہ بات یہ ہے کہ اس تنازع پر گفتگو اس کے تاریخی تناظر کو یکسر نظر انداز کر کے کی جاتی ہے۔یوں لگتا ہے جیسے یہ تنازع  چند دن قبل حماس کے راکٹ حملوں سے شروع ہوا ہے۔ گنتی کے چند نشریاتی ادارے اس معاملے کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاہم بالعموم تمام تجزیوں کا نچوڑ یا تو تاریخی ہوتا ہے یا سیاسی اور یا اخلاقی۔ ایک بات جو   اب  کثرت سے کہی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ حماس نے ناعاقبت اندیشی کا مظاہرہ  کرتے ہوئے ان حملوں کے نتیجے میں مزید فلسطینی ہلاکتوں کا سامان کیا ہے۔ اسرائیلی جارحیت اور منتقم مزاجی کی تاریخ ذہن میں رکھتے ہوئے اگر حماس کے حملوں کو دیکھا جائے تو یہ خود کشی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتے۔ ان حملوں کے نتیجے میں مزید فلسطینی جان سے جائیں گے، مزید فلسطینی علاقے پر قبضہ ہوگا، فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں لگیں گی اور زندگی مزید اجیرن ہوتی چلی جائے گی۔ ان حملوں سے نشانہ بننے والے اسرائیل ہی نہیں بلکہ اس کے ہمدردوں کے بھی غصے میں اضافہ ہوگا۔ اس موقع پر ایک جائز سوال کا اٹھنا لازم ہے اور وہ یہ کہ فلسطینی تنظیم نے  اپنے سے کہیں بڑی فوجی طاقت کے خلاف حملہ کیوں کیا ہے اور اس طرح کے حملے وہ بار بار کیوں کرتی ہے؟

اس موقع پر یہ بھی جائز طور پر سوچا جا رہا ہے کہ حماس کے ان حملوں کی پشت پناہی کون کون سی بین الاقوامی طاقتیں کر رہی ہیں۔ غزہ کے جغرافیے سے واقف یہ بات سوچ سکتے ہیں کہ حماس کے پاس اتنی بڑی تعداد میں میزائلوں اور دیگر ہتھیاروں کی موجودگی کسی بڑی طاقت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ ہتھیار تو کوئی اور طاقت فراہم کر سکتی ہے مگر ان ہتھیاروں کو چلانے والے ہاتھ بہر طور فلسطینی ہی تھے۔ لہذا اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ ان حملوں کی سب سے بڑی ذمہ داری خود فلسطینیوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔

اس طرح کے حملے فلسطینی بار بار کیوں کرتے ہیں؟ کیا یہ ایک مختلف نوعیت کے خود کش حملے ہیں جس میں صرف حملہ آوروں کی نہیں، بلکہ معصوم شہریوں کی جان کو بھی داو پر لگایا جاتا ہے؟ اگر آپ نے فلسطینی پیراگلائیڈرز کو اسرائیل میں اترتے ہوئے دیکھا ہے تو آپ یقیناً‌ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ یہ خود کش حملوں کی ایک مختلف شکل ہے، لیکن ایک فرق بہرحال نمایاں ہے اور وہ یہ کہ یہ حملے بنیادی طور پر مرنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی نفسیاتی حیات کے لیے کیے گئے ہیں۔  اس کے علاوہ بھی ان حملوں میں اور دنیا کے مختلف خطوں میں کیے جانے والے خودکش حملوں میں کئی طرح کے فرق دیکھے جا سکتے ہیں۔

یہ حملے ایک سیاسی جدوجہد کا حصّہ ہیں۔ جیسا کہ حماس نے اپنے 2017 کے چارٹر میں بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق ان کی جدوجہد کا مرکزی نکتہ ’’صیہونی پروجیکٹ کی مکمل تباہی“ ہے نہ کہ یہودیوں کی۔ دنیا کے دیگر خود کش حملوں کے برعکس فلسطینی حملہ آوروں نے ان حملوں کے مقاصد اور ٹارگٹس کو بہت صاف اور واضح لفظوں میں دنیا کے سامنے بیان کیا ہے۔ انہوں نے خود کش حملوں کے لیے کبھی بھی کم عمر افراد کو استعمال نہیں کیا اور نہ ہی کسی بھی طرح کے نشے کے عادی، ذہنی معذوروں اور ذہنی مریضوں کو اس جدوجہد میں شریک کیا ہے۔ فلسطینیوں اور حزب اللہ کے خودکش حملہ آور دیگر تنظیموں کی نسبت سیاسی طور پر زیادہ باشعور اور تعلیم یافتہ پائے گئے ہیں۔ دیگر تنظیموں کے مقابلے میں فلسطینی تنظیمیں اور حزب اللہ ان حملہ کی  خبروں کو بھولتے بھی نہیں ہیں وہ ان کی یاد مناتے ہیں ان کی تصویریں مختلف مقامات پر آویزاں کرتے ہیں اور ان کی جدوجہد کی تفصیلات بھی شائع کرتے ہیں۔ ان حملہ وروں کی سیاسی جدوجہد اور نظریات پر کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان حملوں میں حصہ لینے والے افراد نہ تو کم علم اور بے شعور ہیں اور نہ ذہنی طور پر معذور اور ماؤف ہیں۔

اس وقت اس حالیہ کشمکش پر ہونے والے تجزیے میں ان افراد کی رائے اور نقطہ نظر سِرے سے ناپید ہے۔ یہ سمجھدار، سیاسی طور پر باشعور اور پڑھے لکھے لوگ اس طرح کی جنگ جس میں حتمی کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں کیوں بار بار شرکت کرتے ہیں؟ہمارے تجزیہ نگار ان افراد کو اپنی تباہی پر آمادہ اور کم عقل ثابت کرنے پر مصر نظر آتے ہیں۔ یہ تجزیہ نگار دن رات یہ بتلاتے ہیں کہ جب دنیا کے کسی بھی کونے سے کسی بھی اعلانیہ عملی، اقتصادی اور فوجی امداد کے امکانات معدوم ہیں تو پھر فلسطینی ایسا کیوں کرتے ہیں۔ ان تجزیہ نگاروں کے مسائل ہمہ جہت ہیں۔ مذہبی رجحان رکھنے والوں کے لیے اپنی فرقہ وارانہ وابستگی سے آزاد ہوکر تجزیہ کرنا مشکل ہوگیا اور ان کو حماس کے حملوں میں سعودی عرب کی شکست اور ایران کی فتح دکھائی دینے لگی۔ غیر مذہبی رجحان رکھنے والوں کو ان حملوں میں بیت المقدس ذمہ دار نظر آنے لگا اور انہوں نے آخری نتیجے کے طور مذہب کو اس سارے فساد کی جڑ قرار دے کے اپنے تعصبات ظاہر کیے۔ لیکن حقیقت میں یہ سارے دانشور کسی بھی سیاسی اور فوجی کشمکش کو صرف “فتح و شکست” کے  پیمانوں سے ناپتے ہیں چونکہ فلسطینیوں کی موجودہ کشمکش اس پیمانے پر پوری نہیں اترتی اس لیے اسے سمجھنے میں شدید دشواری ہوتی ہے۔

الجزائر کی جنگ آزادی کے نظریہ ساز اور سائکیٹرسٹ فرانز فینون نے تجزیے کی اس مشکل کا ایک حل پیش کیا تھا۔ فینون وہ پہلا شخص تھا جس نے ظالم اور مظلوم کے تشدد میں فرق کو واضح کر کے دکھایا تھا۔ اس نے یہ کہا تھا کہ ظالم صرف ایک زبان بولتا ہے اور وہ ہے تشدد کی زبان۔۔۔ اور وہ صرف ایک زبان سمجھتا ہے اور وہ بھی تشدد کی زبان ہے۔ انسانیت اور دلیل ظالم سے گفتگو کے لیے بے معنی پیمانے ہیں۔ نہ وہ مظلوم کو انسان سمجھتا ہے اور نہ اس کی دلیل اس کی سمجھ میں آتی ہے۔ گو ظالم کے پاس اپنی کارگزاری کے لیے متعدد راستے ہوتے ہیں مگر وہ تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے برعکس مظلوم کے پاس آپشنز محدود ہوتے ہیں۔ انہیں نہ صرف یہ کہ اپنی جدوجہد میں کامیابی کو اپنے سامنے رکھنا ہوتا ہے بلکہ اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر زندہ رکھنے کے لیے بھی سبیل کرنا پڑتی ہے۔ ہر روز کا تشدد اور توہین مظلوموں کو بالآخر نفسیاتی طور پر مردہ کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ زندہ تو رہتے ہیں مگر انسان کے طور پر اپنی شناخت کو بتدریج کھوتے چلے جاتے ہیں۔ فینون کے مطابق تشدد کے ذریعے مظلوم اپنی تشکیل نو کرتے ہیں۔ ظالم یہ چاہتا ہے کہ مظلوم اپنی کمزوری اور بے بسی پر ایمان لے آئیں اور اس کو اپنی شناخت بنا لیں۔ مظلوموں کا تشدد اس شناخت کو رد کرنے کا ایک عمل ہے۔

ہمارے تجزیہ نگار جس دلیل کا سہارا لے کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ دلیل طاقت کے ایوانوں سے آتی ہے اور طاقت ور کو مدد کرنے کے لیے پینترے بدلتی رہتی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اسرائیل کا “حق دفاع” ہے۔ مغربی میڈیا کے کسی بھی ٹاک شو میں کوئی یہ سوال نہ اٹھا سکا کہ حق دفاع طاقتور کے لیے ہوتا ہے یا کمزور کے لیے۔ اس لیے کہ دلیل گھڑنے کی فیکٹری بھی اسلحہ ساز فیکٹریوں کی طرح طاقتور کی گرفت میں ہوتی ہے۔ ایسے میں مظلوم کے لیے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ نفسیاتی طور پر وہ طاقتور کی ہر دلیل کو رد کردے اور اپنے لیے صحیح اور غلط کا فیصلہ خود کرے۔ یہ حق صرف اور صرف مظلوم کے پاس ہوتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کرے کہ اس نے کس کے ساتھ اشتراک عمل کرنا ہے اور کس کو نظر انداز۔۔ اور یہ  آ خری فیصلہ کرنے کا حق بھی مظلوم کے پاس ہوتا ہے کہ وہ بے بسی اور ذلت کی زندگی گزارتا ہے یا ظالم کے خلاف لڑنے کو ترجیح دیتا ہے۔

7اکتوبر سے پہلے گفتگو یہ تھی کہ اسرائیل نے فلسطینی مسئلے کو کولڈ سٹوریج میں ڈال دیا ہے جہاں سے اس کے باہر نکلنے کے امکانات اب کم سے کم ہو گئے ہیں لیکن فلسطینیوں میں اپنے آپ کو تاریخ کی ڈسٹ بن میں گم ہو جانے سے بچا لیا ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ اس طرح مزید فلسطینی جانوں کا نقصان ہوگا۔ لیکن کیا جب وہ خاموش تھے تو ان کی جانیں, اموال اور اسباب محفوظ تھے؟

تجزیہ نگار جو فلسطین سے ہزاروں میل کے فاصلے پر بیٹھے ہیں جنہیں کبھی اس تشدد اور ذلت کا خود سامنا نہیں کرنا پڑا جو فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر کرتے ہیں اس وقت فلسطینیوں کو دو طرح کی نصیحتوں سے نواز رہے ہیں۔ یا تو فلسطینی ایک خاموش زندگی گزاریں یا پھر جدوجہد صرف اس صورت میں کریں جب کامیابی کے امکانات ان کے لیے بہت روشن ہوں۔ لیکن فلسطینی اس نصیحت کے برعکس کرتے ہیں۔ جب تک یہ تجزیہ نگار فلسطینیوں کی جگہ پر خود کو رکھ کر نہیں سوچیں گے معاملہ نہیں سمجھ پائیں گے۔ جب تک یہ “فتح و شکست” کے گھسے پٹے اصول سے چھٹکارا نہیں پائیں گے فلسطینی جدوجہد ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی. فلسطینی اس وقت جیتنے کے لیے نہیں بلکہ معدوم ہونے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ وہ اس وقت اپنے معاملے میں بنیادی کردار ادا کرنے پر اصرار کر رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں کے فیصلے اسرائیل، مغربی طاقتوں اور ان کے حلقہ بگوشوں کے بجائے اپنے ہاتھ میں رکھنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ آزادی سے زیادہ خود ارادیت کی جنگ ہے۔

یہ سب بہت جائز سوال ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ لوگ کہ جو اس کشمکش میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں وہ اپنا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں۔ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں کیسا کیسے کرنا چاہتے ہیں یہ آخری فیصلہ کرنے کا حق بھی بہر حال ان ہی کے پاس ہے۔ اسی فیصلے کے نتیجے میں وہ اپنے اپ کو وقت کے ساتھ ساتھ دریافت کرتے چلے جائیں گے اور یہ فیصلہ کریں گے کہ انہوں نے اس ساری کشمکش کے مرکز میں کیسے رہنا ہے اور یہ فیصلہ کرنے کا حق اور اختیار ان کے علاوہ اور دیا بھی کس کو جاسکتا ہے۔

(بشکریہ  مکالمہ ڈاٹ کام)


۲۰۲۲ء میں امریکہ میں قتلِ عام کا بصری تجزیہ

مراد علی

    (زیر نظر رپورٹ مئی 2022ء کو ’الجزیرہ‘ پر شائع ہوئی)


قتلِ عام (Mass Shooting) کی کوئی عمومی تعریف نہیں ہے، بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی واقعے کے تجزیے کےلیے کون سا ڈیٹا بیس استعمال کیا جاتا ہے۔ بنا بریں رواں برس (2022ء) پورے امریکہ میں 3 سے لے کر 268 قتلِ عام ہوئے ہیں۔

24 مئی کو ایک 18 سالہ بندوق بردار نے ٹیکساس کے شہر یووالڈے میں روب ایلی منٹری اسکول پر دھاوا بول دیا، قبل اس سے کہ پولیس اس کو گولی مار کر ہلاک کردے، اس نے 19 بچوں اور دو اساتذہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جس سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں بندوق کے تشدد کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

یہ خون ریزی امریکہ میں برسوں پر محیط قتلِ عام کے تسلسل کا تازہ ترین حادثہ ہے۔ ‘‘Gun Violence Archive’’ کے ایک جائزے کے مطابق یہ 2022ء کا اس نوعیت کا 213 واں واقعہ ہے، اسی ایک ہی واقعے میں حملہ آور کے علاوہ چار یا اس سے زیادہ افراد کو گولی مارکر ہلاک کردیا گیا۔

مندرجہ بالا تعریف کے مطابق ایک ہفتہ قبل ٹیکساس کے ایک اسکول میں فائرنگ کے بعد پورے امریکہ میں کم از کم 17 دیگر قتلِ عام ہو چکے ہیں۔

تاہم چونکہ ’’قتلِ عام‘‘ (Mass Shooting) کی کوئی عمومی تعریف نہیں ہے، بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی واقعے کے تجزیے کےلیے کون سا ڈیٹا بیس استعمال کیا جاتا ہے ۔اس سال کے آغاز سے امریکہ بھر میں قتلِ عام کی تعداد 3 اور 374 کے درمیان ہے۔
قتلِ عام کی تعریف کیسے کی جاتی ہے؟

اس وقت تقریبا پانچ ایسے ڈیٹا بیس متحرک ہیں، جو پورے امریکہ میں قتلِ عام کے واقعات کا پتا لگاتے ہیں۔ ہر ڈیٹا بیس میں ہلاکتوں کی تعداد، جائے وقوعہ اور حملہ آور کے محرکات کے معیارات مختلف ہیں۔

دی مدر جونز (The Mother Jones) اور دی وائلنس پروجیکٹ (The Violence Project) قتلِ عام کی تعریف بہت محدود دائرے میں کرتے ہیں، ان کے مطابق کم از کم تین یا چار ہلاکتوں والے واقعات اس تعریف کے تحت آتے ہیں، مزید یہ کہ حملہ عوامی جگہ پر ہو اور حملہ آور کا ہدف اپنی میں فطرت اندھا دھند ہو۔

ایوری ٹاؤن فار گن سیفٹی (Everytown for Gun Safety) ڈیٹا بیس کے مطابق قتلِ عام کی تعریف بہت وسیع ہے، جس میں ہلاکتوں کی تعداد چار یا اس سے زائد ہو، جائے وقوعہ میں بشمول نجی بیٹھک کے کوئی بھی جگہ ہوسکتی ہے، جہاں حملہ آور ڈکیتی، جتھے کی صورت میں تشدد کرے یا گھریلو تشدد کے غرض سے حملہ کرے۔

اس کے برعکس گن وائلنس آرکائیو (Gun Violence Archive) اور ماس شوٹنگ ٹریکر (Mass Shooting Tracker) قتلِ عام کی تعریف بہت محدود دائرے تک ہے، جس میں ایسے واقعات شامل ہیں جہاں مقام کے تعین یا حملہ آور کے مقصد سے قطع نظر چار یا اس سے زیادہ لوگوں کو مارنے یا زخمی کرنے کے لیے بندوق کا استعمال کیا جائے۔

ان تعریفات کی روشنی میں2021ءمیں پورے امریکہ میں چھ سے لے کر 818کے درمیان قرل عام کے واقعات پیش آئے ہیں۔

6 جولائی 2022ء تک پورے امریکا میں قتلِ عام کی اعداد و شمار درج ذیل ہے:

مدر جونز:  7 قتلِ عام میں 52 ہلاک، 77 زخمی۔

دی وائلنس پروجیکٹ: 1 قتلِ عام ، 10 ہلاک، 3 زخمی (آخری اپ ڈیٹ 14 مئی 2022ء)۔

ہر ٹاؤن فار گن سیفٹی: 11 قتلِ عام ، 70 ہلاک، 23 زخمی (آخری اپ ڈیٹ 7 جون 2022ء)۔

گن وائلنس آرکائیو: 322 قتلِ عام ، 351 ہلاک، 1425 زخمی۔

ماس شوٹنگ ٹریکر: 374 قتلِ عام ، 430 ہلاک، 1566 زخمی۔

وفاقی سطح پر ’’فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن‘‘(ایف بی آئی) خصوصی طور پر قتل عام کے واقعات کا پتا نہیں لگاتا، بلکہ وفاقی قانون نافذ کرنے والی ایجنسی ’’اجتماعی قتل ‘‘ (mass murder)کو ایک ایسے واقعے کے طور پر بیان کرتی ہے جہاں ایک واقعے میں چار یا زائدافراد کو قتل کیا جائے۔
امریکہ میں قتل کے واقعات میں اضافہ

رینڈ کارپوریشن کے اعداد و شمار کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے قتلِ عام کی تعریف میں تضادات نے مختلف جائزوں کو جنم دیا ہےکہ کتنی کثرت سے قتلِ عام ہوتاہے اور کیا وہ ایک یا دو دہائی قبل کی بہ نسبت اب زیادہ ہے۔

عام طو ر ایف بی آئی اس کےلیے پر ’’ایکٹیو شوٹنگ ایکسیڈنٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتی ہے جس کی حکومتی ایجنسیوں کی متفقہ تعریف یہی ہے۔

2014ء کے بعد ایف بی آئی نے قتل کے واقعات پر نظر رکھی ہوئی ہے، جس کی وہ تعریف یہ کرتی ہے کہ ایک فرد جو ایک خاص آبادی والے علاقے میں لوگوں کو قتل کرنے یا قتل کی کوشش میں سرگرم رہتا ہے؛ بیش ترصورتوں میں، حملہ آور آتشیں ہتھیار استعمال کرتے ہیں ، جس میں مقتولین کو نشانہ بنانے کےلیے کوئی خاص طریقہ نہیں ہوتا [بلکہ ان کو اندھا دھند موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے]۔

ایف بی آئی کی 23 مئی کو جاری کردہ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 2021ء میں امریکہ میں اس قسم کےقتل عام کے 61 واقعات پیش آئے ہیں، جس میں 2020ء کی نسبت 52 فیصد اضافہ ہوا ہے ، یہ معلوم ریکارڈ کے مطابق سب سے بڑا اضافہ ہے۔ گزشتہ سال کے حملے 30 ریاستوں تک پھیل چکے تھے، جن میں 103 افراد ہلاک اور 140 زخمی ہوئے تھے۔ ایف بی آئی نے 2014ءسے 2016ءتک ہر سال 20ایسے واقعات ریکارڈ کیے ہیں، 2017ء میں 31 اور 2018ء اور 2019ء دونوں میں 30 ایسے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

ایف بی آئی نے واضح کیا ہے کہ اس کی ’’فعال شوٹر رپورٹ‘‘ میں گن وائلنس یا ماس شوتنگ شامل نہیں ہیں۔
امریکہ میں سب سے مہلک اجتماعی فائرنگ

امریکی تاریخ میں 10 میں سے 7مہلک ترین اجتماعی فائرنگ کے واقعات صرف گزشتہ 10سالوں میں رونما ہوچکے ہیں، ان میں سے چار صرف ٹیکساس کے ہیں۔

’’دی وائلنس پروجیکٹ‘‘ کے مطابق، جس کو 1966ءکے بعد سے امریکہ میں قتلِ عام کا ریکارڈمحفوظ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، امریکہ میں سب سے مہلک اجتماعی فائرنگ کا ریکارڈ درج ذیل ہے:

  1. لاس ویگاس کنسرٹ، یکم اکتوبر 2017ء: ایک بندوق بردار نے ہوٹل کی 32 ویں منزل سے کنٹری میوزک فیسٹیول پر فائرنگ کی، جس سے 58ا فراد نے جان کی بازی ہار کر ہلاک ہوگئے۔
  2. اورلینڈو نائٹ کلب ،12جون، 2016ء: ایک بندوق بردار نے ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب میں 49 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، قبل اس سے کہ پولیس اسے مار دیں۔
  3. ورجینیا ٹیک، 16 اپریل 2007ء: ورجینیا ٹیک کے ایک 23سالہ طالب علم نے اپنی جان لینے سے پہلے27طلباء اور پانچ پروفیسرز کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
  4. سینڈی ہک ایلی منٹری، 14دسمبر 2012ء: ایک20سالہ بندوق بردار نے اپنی جان لینے سے پہلے20طلباء اور چھ اورافراد کو قتل کر دیا۔
  5. سدرلینڈ اسپرنگس چرچ – 5 نومبر، 2017ء: اپنی بیوی اور بچے کو مارنے پر امریکی فضائیہ سے نکالے گئے ایک شخص نے ٹیکساس کے ایک دیہی چرچ میں25افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جہاں اس کے سسرال والوں نے خود کو مارنے سے پہلے عبادت کی۔
  6. لوبی کی شوٹنگ ، 16 اکتوبر 1991ء: ٹیکساس میں ایک 35 سالہ شخص نے اپنا ٹرک لوبی کے ایک ریستوراں کی سامنے کی کھڑکی سے اندر کیااور پھر اپنی جان لینے سے قبل 23 افراد کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
  7. ایل پاسو والمارٹ ، 3 اگست، 2019ء: ایک شخص نے ایل پاسو، ٹیکساس میں والمارٹ اسٹور میں22 افراد کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ایک بیان، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ مشتبہ شخص نے لکھا تھا، اس حملے کو "ٹیکساس پر ہسپانوی حملے کا جواب" قرار دیا۔ بعد میں اس کو گرفتار کر لیا گیا۔
  8. سان یسیدرو میک ڈونلڈ، 18 جولائی، 1984ء: ایک41سالہ بندوق بردار نے 21 افراد کو گولی مار کر ہلاک اور19کو زخمی کر دیا، بعد میں پولیس اسنائپر نے حملہ آور کو ہلاک کردیا۔
  9. روب ایلی منٹری اسکول ، 24مئی، 2022ء: ایک 18سالہ بندوق بردار نے یوالڈے، ٹیکساس میں روب ایلی منٹری اسکول پر دھاوا بول دیا، پولیس کی گولی سے ہلاک ہونے سے پہلے19بچوں اور دو اساتذہ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
  10. پارک لینڈ ہائی اسکول، فروری 14، 2018ء: فلوریڈا کے پارک لینڈ میں مارجوری اسٹون مین ڈگلس ہائی اسکول کے ایک سابق طالب علم نے17طلبہ اور اساتذہ کو ہلاک کردیا۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲۲)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا بارہواں باب)



فقہ وتصوف کی دوگانہ تقسیم

فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب نے تخلیقی انداز میں متعدد مصادر علم سے استفادہ کیا ہے۔ ان مصادر میں فقہ، تصوف اور ذاتی تجربہ شامل ہیں۔ یہ کسی صوفی کی جانب سے مصلح فقیہوں کے غیظ وغضب کے خلاف عوامی عرف اور رسوم کا دفاع نہیں، جس طرح فقہ/تصوف کی دوگانہ تقسیم کی طرف سطحی مراجعت فرض کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس متن کا ایک سرسری مطالعہ یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حاجی صاحب اپنے ارادت مند علما بالخصوص علماے دیوبند کے اس متشددانہ رویے کو ناپسند کرتے تھے، جس سے وہ ہندوستان میں رائج میلاد جیسی رسموں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ تاہم اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے وہ اس بابت محتاط تھے کہ فقہی اصول وضوابط کے مطابق استدلال کرکے اپنے موقف کو جواز اور استناد فراہم کریں۔حاجی صاحب نے فقہ یا اس کے تقاضوں کو ترک نہیں کیا بلکہ انھوں نے ایک ایسا تعبیری منہج اپنایا، جس میں فقہ وتصوف دونوں باہم یک جا تھے، اور دونوں مل کر قانونِ الہی اور انسانی تعلقات کے درمیان استحکام کو توازن بخش رہے تھے۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا، حاجی صاحب کے پروجیکٹ کا لبِّ لُباب انسانی رشتوں کا تحفظ واستحکام تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ شدید اختلافات کے درمیان بھی سماجی تعلقات کے ادب آداب اور رسوم کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ وہ علما اور عوام کے درمیان احترام کا رشتہ برقرار رکھنے کے بارے میں بھی بہت حساس تھے۔ مناظروں اور نہ ختم ہونے والے اختلافی جھگڑوں کے ماحول میں ان کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ تھی کہ یہ علما اور عوام کے درمیان احترام واعتماد کے رشتے کو کمزور کرتا ہے۔ یہ بات حتمی ہے کہ چاہے علما کا تعلق جس مسلک سے بھی ہو، ان کے متحارب دھڑوں کے بے لچک رویے ان کی مجموعی ساکھ اور وقعت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ کیوں کہ جب مختلف دھڑوں کے درمیان مناظرے اور گالم گلوچ کی آگ بھڑکتی ہے، تو مخالف کیمپ کے پیروکار علما پر کیچڑ اچھالنے میں آزادی محسوس کرتے ہیں۔ حاجی صاحب نے اپنے علما مریدوں کو تنبیہ کی کہ اگر وہ اپنے مخالفین سے مناظرہ جیتنے میں کامیاب بھی ہو جائیں، لیکن اس دوران مناظرانہ جدل وجدال کی آگ بے قابو ہو جائے، تو یہ عوام کی نظروں میں ان کی دینی ساکھ کے پورے محل کو راکھ کا ڈھیر بنا دے گی۔ اس مناظرانہ آگ کے شعلوں کو کم کرنے کے لیے اہل علم اور ان عوام کالانعام کے درمیان روایتی فاصلہ برقرار رکھنا ضروری ہے، جن کی رہ نمائی کا کام علما کا منصب ہے۔

عوام اور علما کے درمیان فرق مراتب، مختلف فیہ اعتقادی مسائل پر حاجی صاحب کے نظریات کی ایک اساس بھی ہے۔ مثلاً خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان (امکانِ کذب) اور نبی ﷺ کی نظیر پیدا کرنے کے امکان (امکانِ نظیر) پر بحث کرتے ہوئے انھوں نے علما کو نصیحت کی کہ ان حساس موضوعات پر زیادہ قیل وقال میں کمی لائیں۔ اگر وہ بہر صورت علمی طبع آزمائی کا شوق فرماتے ہیں، تو انھیں چاہیے کہ کتابیں اور رسائل چھاپنے کے بجاے ایک دوسرے سے خط وکتابت کے ذریعے تبادلۂ خیال کیا کریں۔  لیکن اگر کتابیں اور رسائل لکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، تو پھر صرف عربی میں لکھا کریں۔ یہ دقیق مسائل عوام کی سمجھ سے بالا ہیں، اور اس وجہ سے ان کے پڑھنے سے وہ خراب ہو سکتے ہیں۔حاجی صاحب نے تاکید سے کہا کہ عوام کو ان مسائل پر بحث ومباحثہ سے باضابطہ طور پر روکا جائے (13)۔

غور کیجیے کہ یہ روک کسی حد تک ان کے اس موقف کے خلاف ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ عوام کو ایسی کسی رسم میں شرکت سے نہ روکا جائے، جو اصلاح وتصحیح کا متقاضی ہو۔ حاجی صاحب اعتقادی مسائل میں لچک دکھانا یا خطرات مول لینا چاہتے تھے۔ ان کی کوشش یہ تھی کہ تمام اعتقادی بارودی سرنگوں سے بچا جائے، تاکہ مُحکم علمی اور سماجی اقدار کو ناقابل تلافی نقصان پہچنے سے بچایا جائے۔

اصولی زاویے سے دیکھا جائے تو فیصلۂ ہفت مسئلہ میں ایک طرف حاجی صاحب نے بنیادی فرائض کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ دوسری طرف انھوں نے رائج الوقت رسمی اعمال کے لیے شرعی گنجائش پیدا کی ہے۔ یہ معتدل موقف پیش کرتے وقت حاجی صاحب نے اپنے آپ کو ایک محتاط اور حقیقت پسند شخص کی روپ میں پیش کیا ہے۔ انھوں نے ببانگ دہل واضح کیا کہ کسی غیر واجب عمل کو واجب سمجھنا بدعت ہے۔ علاوہ ازیں انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ دوسروں پر غیرواجبات کے سلسلے میں دباو نہ ڈالا جائے۔ یہ احساس نہایت عمدگی سے ان کے اس بیان میں سمویا گیا ہے: "بار بار اور غیر ضروری اصرار سے ایک مستحب عمل بھی گناہ میں بدل جاتا ہے" (5)۔ تاہم ان کے اندر جو حقیقت پسندی تھی، اس نے فوراً‌ ان کو اس اضافے پر آمادہ کیا کہ اگر یہ مسئلہ نہ ہو، تو کسی عمل کو بدعت نہیں قرار دیا جا سکتا۔

ان کے موقف میں کلیدی حیثیت فرد کی نیت کو حاصل تھی۔ اگر کسی فرد کی نیت کسی اختیاری شرعی عمل کو اپنے لیے یا دوسروں کے لیے واجب بنانا نہ ہو، تو پھر وہ جائز رہتا ہے۔ تاہم اگر کوئی کسی اختیاری رسم کو ضروری سمجھنے پر اصرار کرے، تو یہ اصرار ناجائز ہے۔ اپنے پیروکاروں کو یہ تنبیہ کرتے ہوئے کہ لوگوں کے ظاہری اعمال کی بنیاد پر ان پر بدعت وگمراہی کے فتوے نہ لگائیں، حاجی صاحب نے لوگوں کی نیتوں کے متعلق جلد بازانہ فیصلوں پر بھی اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ اپنے مریدوں کے لیے ان کا پیغام سادہ اور واضح تھا: دوسروں کی نیتوں کے متعلق مفروضے اخذ نہ کریں۔ آپ کسی کی نیت کو اپنے ظن وتخمین سے معلوم نہیں کر سکتے۔ اپنے دیوبندی مریدوں کے برعکس، جو طویل عرصے سے رائج عادات اور رسوم کی اصلاح یا خاتمہ چاہتے تھے، حاجی صاحب زیادہ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے ایسے کسی انقلابی پروجیکٹ کے مشکلات کو سمجھتے تھے۔ ان کا مطمح نظر یہ تھا کہ قانونِ الہی کی تنفیذ وتبلیغ انسانی رشتوں میں دراڑ پیدا کرنے کا سبب نہ بنے ۔

کچھ اس اختلاف کی ذاتی نوعیت ایسی تھی، اور کچھ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کی تعبیر وتشریح کی ایسی کئی تشریحات وتوجیہات ہو سکتی تھیں، جن کی بنا پر یہ اختلاف پیدا ہو گیا کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کا اصل موقف کیا تھا۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ نے بھی ایک بڑی کش مکش کو جنم دیا۔ دیوبند کے مخالفین نے کہا کہ یہ اپنے ہی شیخ کی جانب سے ان کے مسلک کی واضح تردید ہے۔ جب کہ اکابرین دیوبند نے داخلی اختلافات کے ایسے کسی تاثر کو مسترد کرکے بتایا کہ یہ کتاب سراسر ان کے اصلاحی پروجیکٹ کی تائید میں ہے۔ اس کے باوجود فیصلۂ ہفت مسئلہ نے جو تناو پیدا کیا تھا، وہ واضح ہے۔ دیوبندی اس تناو سے کس طرح نمٹے، یہ شیخ ومرید کے درمیان رشتے کی تفہیم، حفاظت اور حدود کی ایک دلچسپ داستان ہے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے فورًا بعد جو ماحول پیدا ہوا، میں اب اس کی چند جھلکیاں پیش کرتا ہوں۔ ذیل میں، میں جن دیوبندی اختلافات اور تنازعات کی تحقیق پیش کرنے جا رہا ہوں، وہ واضح کرتا ہے کہ کسی شیخ سے بیک وقت اختلاف اور ارادت کو کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے۔ اور جیسا کہ میں بتاؤں گا، دیوبندی اکابر نے آخر کار حاجی صاحب کو ایسے رنگ میں ڈھال لیا، جو ان کے اصلاحی لباس سے سب سے زیادہ ہم آہنگ تھا۔

مصنف کون ہے؟

یہ عجیب بات ہے کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے ابتدائی سالوں میں یہ بنیادی اختلاف پیدا ہوا کہ اس کا مصنف کون ہے۔ حتی کہ حاجی صاحب کی زندگی میں ہی شمالی ہندوستان میں بڑے پیمانے پر یہ افواہ پھیل گئی کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ اصلاً ان کے من چلے مرید مولانا اشرف علی تھانوی کی تصنیف ہے،  بلکہ کافی عرصے تک یہ رسالہ مولانا تھانوی کی تصنیف کردہ کتابوں کی فہرست میں رہا۔ اس مسئلے کی سنگینی کو ہندوستان میں حاجی صاحب کے ایک مرید حاجی سید نورالحسن کی حکایت سے جانچا سکتا ہے، جس میں وہ حاجی صاحب سے اپنی ملاقات کے احوال بیان کرتے ہیں:

ہندوستان میں (ضلع بلند شہر) کے خورجہ نامی گاؤں میں ایک بار میں اتفاقاً ایک خان صاحب سے گفت وشنید کر رہا تھا۔ جب فیصلۂ ہفت مسئلہ کا ذکر آیا، تو انھوں نے بتایا کہ یہ مضمون حاجی صاحب کا نہیں، بلکہ کسی اور نے لکھ کر بعد میں ان کی طرف منسوب کیا ہے۔ان کی اس بات کی وجہ سے میرے دل میں شک وشبہ پیدا ہوا۔ اس لیے میں حج کے لیے مکہ روانہ ہوا، اور اپنے ساتھ فیصلۂ ہفت مسئلہ کا ایک نسخہ لیا۔ میں نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ جب میں حاجی صاحب سے ملوں گا، تو ان کے سامنے اس مضمون کا ایک ایک لفظ سناؤں گا، اور ان سے تصدیق کراؤں گا کہ کیا یہ سب ان کا لکھا  ہوا ہے۔ میری روانگی سے قبل میں مولوی محمد سابق سے ملا۔ وہ بھی حج کے لیے مکہ مکرمہ کی طرف عازم سفر تھے۔ میں نے ان سے اپنے ارادے کا ذکر کیا۔ وہ بھی خوش ہوئے اور ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ حاجی صاحب کی زیارت کے لیے اکٹھے جائیں گے۔ جب ہم مکہ پہنچے تو حاجی صاحب کے گھر گئے، اور میں اپنے ساتھ یہ مضمون بھی لے گیا۔ جس وقت ہمیں ان کی قدم بوسی کی سعادت حاصل ہوئی، انھوں نے فوراً‌ اپنی نگاہ مولوی محمد سابق پر جمالی اور ان سے کہا: "میاں محمد سابق! ہندوستان کے لوگ عجیب وغریب تنازعات میں پڑ گئے ہیں۔ میں نے یہ بھی سنا ہے کہ بہت سے لوگ فیصلۂ ہفت مسئلہ کے متعلق یہ شبہات اٹھا رہے ہیں کہ یہ فقیر کی تصنیف نہیں۔ لیکن افسوس کہ اس کے مصنف کے متعلق اندازے لگانے کے بجائے وہ اس حقیقت پر کیوں توجہ نہیں کرتے، جو اس میں موجود ہے"1۔ 

انھوں نے اس امر کی تصدیق کی کہ اس رسالے کے مصنف وہی ہیں۔ اس کے بعد انھوں نے فیصلۂ ہفت مسئلہ کے پہلے مسئلے سے لے کر ساتویں  مسئلے تک تمام مواد ومضامین کی تفصیلی وضاحت کی۔ نور الحسن کے اپنے الفاظ میں:

"(انھوں نے فیصلۂ ہفت مسئلہ کی) وضاحت ایسے اطمینان بخش اور جامع طریقے سے کی کہ ان کے سامنے رسالے کے لفظ بلفظ پڑھنے کی ضورت ہی ختم ہو گئی۔ حاجی صاحب کی وضاحت سننے کے بعد ہم سکون سے ان کے گھر سے واپس لوٹے، اور میں نے مولوی محمد سابق سے کہا: 'کام ہو گیا۔ ہماری اس قدر تشفی ہو گئی کہ ہمیں سوال پوچھنے کی ضروت بھی محسوس نہیں ہوئی۔ اس پر خدا کا شکر ہے"2۔

یہ حکایت فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے بعد اس کی متنازعہ حیثیت کو نمایاں کرتی ہے۔ لیکن مصنف سے زیادہ اس کا متن اور بالخصوص یہ امکان کہ حاجی صاحب نے مختلف شرعی مسائل پر اپنے دیوبندی مریدوں کی مخالفت کی ہے، اس تنازع کا مرکزی نکتہ تھا۔ مولانا تھانوی اور مولانا گنگوہی نے، جن میں سے ایک کم سن اور دوسرے معمر تھے، لیکن دونوں دیوبندی سلسلے کی قد آور شخصیات تھیں، اپنے اور اپنے شیخ کے درمیان تنازع کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی۔ اس کے برعکس انھوں استدلال کیا (ان کے استدلال کو میں تفصیل سے زیر بحث لاؤں گا) کہ فیصلۂ ہفت مسئلہ نے درحقیقت ان کے موقف کی تصدیق وتائید کی ہے۔لیکن اختلاف کے تمام آثار کو مٹانے کے لیے ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود دوسرے وقتوں میں یہ اختلافات بالکل واضح تھے۔ مثلاً‌ مولانا گنگوہی کے سوانح تذکرۃ الرشید میں مولانا عاشق الہی بتاتے ہیں کہ جس وقت فیصلۂ ہفت مسئلہ سے متعلق شور وغل اپنے عروج پر تھا، مولانا گنگوہی نے رسالے کی شہرت کے حوالے سے اپنی جھنجھلاہٹ کا اظہار کچھ اس طرح سے کیا: "ہندوستان میں سب کچھ اچھا ہے، اور کسی چیز کے متعلق کوئی پریشانی نہیں ہے"۔ آگے وہ ایک درپردہ طنز کے ساتھ کہتے ہیں: "لیکن آج کل ہمیں عربستان سے طرح  طرح کی عجیب وغریب خبریں پہنچ رہی ہیں"3۔

ذیل میں، میں زیادہ گہرائی سے ان مخصوص اختلافی نکات کا تجزیہ کروں گا، جن کا تعلق حاجی صاحب اور ان کے بزرگ دیوبندی مریدوں کے ساتھ ہیں، اور جو فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے فوراً‌ بعد زیر بحث آئے۔ ان کے درمیان یہ اختلافی نکات اور مباحث نہ صرف دیوبند کے ابتدائی سالوں میں شریعت کی حدود پر ان کے مواقف کے دقیق لیکن نمایاں اندرونی تنوع کو بھی ظاہر کرتے ہیں، بلکہ ایک ایسی روایت کو بھی ظاہر کرتے ہیں، جس میں محبت، وفاداری اور ارادت کے ہوتے ہوئے کانٹے دار مسائل پر اختلافات سے نمٹنے کے لیے مکالمے اور بحث ومباحثے کی ایک حیرت انگیز وسعت تھی۔

شیخ اور مرید کے درمیان اختلاف کی حدود

حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان تناو کا بہتر اندازہ مکاتیب کے اس سلسلے سے ہوتا ہے، جو فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور ایک نامعلوم دیوبندی سائل کے درمیان وقوع پذیر ہوا۔ سائل نے مولانا تھانوی سے ان مخصوص اشکالات اور اعتراضات کے اطمینان بخش جوابات کا مطالبہ کیا جو دیوبندی مسلک کے مخالفین اٹھاتے ہیں، بالخصوص اکابر علماے دیوبند (بشمول مولانا تھانوی) کے ساتھ حاجی صاحب کے تعلق کی نوعیت بھی واضح کی جائے۔ اپنے آپ کو دیوبندی مسلک کا بہی خواہ ثابت کرتے ہوئے اس سائل نے مولانا تھانوی سے ان دلائل کا مطالبہ کیا، جن کے ذریعے حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان پرخلوص روحانی تعلق کے بارے میں الزامات کا سد باب ہو سکے۔ اس خط وکتابت کے دوران سائل ایک نکتہ چیں کا کردار ادا کرتے ہوئے ان تمام مخصوص اختلافی نکات کی فہرست اور وضاحت مرتب کرتا ہے جو مولانا تھانوی کو زیر بحث لانے چاہئیں۔

مولانا تھانوی کے نام اپنے پہلے خط میں یہ نامعلوم سائل تین بنیادی سوالات اٹھاتا ہے۔

پہلا اختلافی نکتہ یہ ہے کہ کیا فیصلۂ ہفت مسئلہ میں بیان کیے گئے حاجی صاحب کے بعض عقائد اور خیالات حقیقتاً وہی ہیں، جو ان کا عقیدہ ہے، یا وہ کسی سیاسی مصلحت کی بنیاد پر ہیں، جن کا مقصد مکہ مکرمہ کے سیاسی اشرافیہ اور اکابر کی تشفی ہے؟ اگر ایسا ہو تو یہ تو روافض کی علامت ہے، جو حاجی صاحب کے ظاہری اور باطنی کمالات کے یکسر خلاف ہے۔ اور اگر ان کی تحریر ان کے اعتقاد کے موافق ہے، تو پھر اپنے ان (دیوبندی) مریدوں کے ساتھ ان کے تعلق کی نوعیت کیا ہے، جو ان عقائد واعمال کو بدعت اور گمراہی سمجھتے ہیں؟ ان کے بارے میں لوگ کیا سوچیں گے، اگر ان کا اپنا شیخ ان چیزوں کی مخالفت کرے، جن کی وہ تبلیغ کرتے ہیں؟4

دوسرے سوال نے ایک زیادہ عمومی اور وسیع تر سوال کو موضوع بحث بنایا: کیا شیخ ومرید کے درمیان تعلق کا تقاضا یہ ہے کہ مرید تمام دینی امور میں اپنے شیخ کی اتباع کریں؟ یا ان کے لیے اتنا کافی ہے کہ صرف روحانی اعمال کے دائرے میں اطاعت کا مظاہرہ کریں، مثلاً‌ مراقبہ، ذکر واذکار وغیرہ میں، جبکہ فقہی مسائل میں اپنے علم وفکر پر انحصار کریں؟ سائل نے واضح کیا کہ اس امر کی وضاحت اس لیے ضروری تھی اگر مؤخر الذکر بات درست ہو، اور اس کے باوجود شیخ نے فقہ یا رسمی اعمال کے بارے میں اپنے مرید کی مخالفت کی ہو، تو پھر مرید کے دل میں اپنے شیخ کی عزت برقرار نہیں رہ سکتی۔ اور نتیجتاً شیخ ومرید کا رشتہ پھلے پھولے گا نہیں۔ دوسری طرف اگر مرید یہ محسوس کرے کہ اس کے شیخ کے عقائد واعمال شریعت اور سنت کے خلاف ہیں، تو پھر وہ اپنے شیخ کے ساتھ محبت کا رشتہ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بلکہ محبت کا رشتہ تو کیا، ایسے حالات میں شیخ اس بلند منصب پر متمکن ہونے کا اہل بھی نہیں تصور کیا جا سکتا۔

بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اگر شیخ اپنے مرید کے ساتھ حق وباطل کے درمیان اور یہ کہ کون سی چیز جائز ہے اور کون سی گمراہی، اس کے مابین فرق پر متفق نہ ہو، تو پھر وہ کس طرح اپنے مرید کو خدا کی طرف لے جانے والے منازل پر چلانے کے قابل بنا سکتا ہے؟ جیسا کہ سائل واضح کرتا ہے: "اگر کوئی یہ تسلیم بھی کرے کہ شرعی احکام سے متعلق اختلاف پرانے زمانے سے واقع ہے، اور طریقت کے معاملات پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ یہ اختلاف کوئی معمولی بات نہیں۔دوسرا یہ کہ اس اختلاف سے چشم پوشی کے نتیجے میں یہ مسلّمہ شرط بے حیثیت ہو جائے گی کہ متلاشیانِ حقیقت ایک ایسے شیخ کو تلاش کریں، جو کامل متبعِ سنت ہو" (99 – 100)۔ 

اس کے بعد سائل اپنے ان تجریدی سوالات کا اطلاق اکابر دیوبند کے ساتھ مخصوص مسائل میں حاجی صاحب کے واضح اختلافات پر کرتا ہے۔ وہ حیرت کے عالم میں کہتا ہے کہ اگر کوئی اس مقدمے کو تسلیم کرتا ہے کہ شیخ اور مرید مکمل ہم خیال، ہم عقید اور ہم عمل ہونے چاہییں، تو پھر حاجی صاحب اور ان کے مریدوں کے درمیان اختلافات کی روشنی میں یہ امر واضح ہے کہ یہ حضرات شیخ ومرید کے درمیان ہم آہنگی کی بنیادی شرط پر پورا نہیں اترتے۔

سائل نے کا اٹھایا ہوا تیسرا اختلافی نکتہ اپنے مریدوں کے ساتھ حاجی صاحب کے تعلق کے اخلاص یا پختگی سے توجہ ہٹا کر اس سوال کی طرف موڑتا ہے کہ حاجی صاحب کے ورثے کے اصلی امین کون ہیں؛ علماے دیوبند جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھا، یا علماے دیوبند کے مخالفین جیسے مولانا عبد السمیع۔ سائل نے اس مسئلے کو اس طرح سے پیش کیا ہے:

حاجی صاحب کے مریدوں کو دو کیمپوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، اور یہ دونوں کیمپ علما کے ہیں۔ ایک کیمپ میں ہمیں مولوی احمد حسن صاحب کانپوری اور شاہ عبد الحق مہاجر مکی جیسے لوگ نظر آتے ہیں، جن کے عقائد واعمال حاجی صاحب اور چشتی صابریہ وقدسیہ کے دیگر حضرات کی طرح ہیں۔ دوسرا کیمپ علماے دیوبند جیسے مولوی رشید احمد گنگوہی اور مولوی اشرف علی تھانوی پر مشتمل ہے، جو پہلے گروہ کے عقائد واعمال کو بدعت اور گمراہی قرار دیتے ہیں، اس حد تک کہ بعض اوقات وہ ان پر کفر وشرک کے فتوے لگاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں کیمپوں میں سے کون سا کیمپ حاجی صاحب کے ورثے کا حقیقی محافظ ہے؟ اور حاجی صاحب کے اس عمل کی کیا تاویل کی جائے کہ انھوں نے ایسے دو متوازی گروہوں کے لوگوں کو کیوں کر بیعت کرایا، جو اپنے عقائد واعمال میں دوسروں سے اس قدر مختلف تھے؟ (101)

آئیے اب مولانا تھانوی سے ان تیکھے سوالات کے جوابات سنتے ہیں۔

ان تینوں سوالات کے بارے میں مولانا تھانوی کا سارا جواب اس مقدمے پر مبنی ہے کہ علمی اختلافات کی دو قسمیں ہیں: حقیقی اور اضافی۔پہلی قسم میں وہ اختلافات شامل ہیں جو حتمی ہیں، اور ان میں تطبیق نہیں ہو سکتی، جب کہ دوسری قسم کے اختلافات وہ ہیں، جو وقتی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوئے ہوں، جیسے کسی متعلقہ مسئلے پر علم میں عدم مساوات۔ مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ اس سیاق میں اختلاف کی نوعیت کو جاننے کے لیے متعلقہ مسائل کی نوعیت کے متعلق بیدار رہنا پڑتا ہے۔ یہاں پر مناقشہ ایسی رسموں کے متعلق ہے، جو اصلاً جائز ہیں، لیکن چند وقتی اور فاسد اثرات کی وجہ سے مکروہ اور ناپسندیدہ بن گئی ہیں۔ مثلاً میلاد اور گیارھویں شریف (صوفی بزرگ کی وفات کے گیارھویں دن ایصالِ ثواب کے  لیے تلاوتِ قرآن) جیسے متنازعہ اعمال اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا تھانوی کے نزدیک اس طرح کی رسموں کے بارے میں دو طرح کی آرا ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ایک شخص اس بات سے انکار کرے کہ ان رسموں میں جو فاسد تخصیصات شامل ہو گئی ہیں، وہ ناجائز نہیں ہیں۔ جو یہ شخص ایسی رائے رکھتا ہے، اس کے بدعتی اور گمراہ ہونے میں کوئی شک نہیں۔ مزید برآں اگر یہ حاجی صاحب کی رائے ہوتی، تو پھر علماے دیوبند کے ساتھ ان کا اختلاف حقیقی اور ناقابل مفاہمت ہوتا (102)۔  

مولانا تھانوی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ ہم ان فاسد تخصیصات کو ناپسندیدہ سمجھیں، اور ان سے ملوث اعمال میں دوسرے لوگوں کو شریک ہونے سے منع کریں، لیکن عوام کے ساتھ اس شک کی وجہ سے حسن ظن سے کام لیں کہ کیا حقیقت میں ان کی رسمیں فاسد ہیں، اور اس طرح انھیں ان اعمال میں شریک ہونے کی اجازت دیں۔ بظاہر یہ اجازت ان لوگوں کے موقف کے خلاف معلوم ہوتی ہے، جو ان اعمال کو جائز قرار نہیں دیتے۔ تاہم مولانا تھانوی متنبہ کیا کہ اس دوسری قسم کا اختلاف جوہری یا حقیقی نہیں۔ اس کے بجاے یہ مذکورہ عوام کی زندگیوں کے متعلق تحقیق یا علم کی کمی کے باعث غلطی کی ایک مثال ہے۔ مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ ایسی غلطی علما، اولیا اور یہاں تک کہ نبی ﷺ سے بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کی غلطی سے کسی کی عظمت وشان، کمال اور قربِ الہی میں نقص نہیں واقع ہوتا۔ مولانا تھانوی نے استدلال کیا کہ حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے درمیان جو اختلاف ہے، وہ اسی نوعیت کا ہے۔ یہ حقیقی یا جوہری نہیں۔ یہ ہندوستان میں عوام کی صورت حال سے حاجی صاحب کی لاعلمی کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے وہ ان کی عبادتی زندگی سے متعلق غیر معمولی حد تک حسن ظن سے کام لیتے ہیں (103- 4)۔

مولانا تھانوی نے اپنے استدلال میں ہندوستان میں حاجی صاحب کی فعلاً عدم موجودگی پر زور دیا۔چونکہ حاجی صاحب مکہ میں رہائش پذیر تھے، اور ہندوستان سے کافی عرصے کے لیے باہر تھے، اس لیے ان کے پاس وہ ضروری معلومات نہیں تھیں، جن کی بنیاد پر وہ عام ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی زندگی کا جائزہ لے سکیں۔ چونکہ ان کے نقطۂ نظر میں غلطی کی وجہ مشاہداتی علم کی کمی ہے، اس لیے اس کی وجہ سے ان کی روحانی حیثیت اور اپنے مریدوں کو قربِ الہی کے منازل طے کرانے کی صلاحیت  پر کوئی حرف نہیں آتا۔ انھوں نے اپنے استدلال میں مزید بتایا: حتی کہ نبی اکرم ﷺ نے بھی تجربی علم نہ ہونے کی وجہ سے غلطی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر "فرض کرو کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کے کھانے میں زہر ملائے، اور وہ اسے بے خبری میں کھالے تو یہ غلطی صحابہ کے دلوں میں ان کی عظمت کو نہیں گھٹائے گی۔ وہ رسول اللہ ﷺ کو زہر کھانے کی وجہ سے غلط نہیں کہیں گے۔ اس کے بجاے وہ کہیں گے کہ انھوں نے جو غذا کھائی، اس کا کھانا جائز تھا۔ وہ اسے ہرگز نہیں تناول نہ فرماتے، اگر ان کو پتا ہوتا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے (105)۔

مولانا تھانوی قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر بے توجہی کی کیفیت میں شرعی حکم کی خلاف ورزی صحابۂ کرام کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کو کم نہیں کرتی، تو پھر ہندوستانی عوام کے متعلق حاجی صاحب کا غلط تجزیہ بھی بطور ایک شیخ کے مریدوں کے دلوں میں ان کی شان کو نہیں گھٹاتا۔ لیکن اس امر کی کیا تاویل کی جائے کہ حاجی صاحب بذات خود میلاد جیسی رسموں میں شریک ہوتے تھے، جن کے علماے دیوبند سخت مخالف تھے؟ یہاں بھی مولانا تھانوی کا جواب انھی بنیادوں پر استوار ہے۔ مولانا تھانوی دعوی کرتے ہیں کہ حاجی صاحب صرف ان رسموں میں شرکت کرتے تھے، جن میں خرابیاں نہیں ہوتی تھیں۔ مزید برآں مولانا تھانوی نے تجویز کیا کہ حاجی صاحب کا اپنا طرز عمل بہت صاف اور بے داغ تھا، اور اسی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں سے حسن ظن سے کام لیتے تھے۔ ہو سکتا ہے ان کا حسن ظن کسی مقام پر درست ہو، لیکن زیادہ مواقع پر وہ بے جا تھا۔ لیکن حاجی صاحب کا نرم موقف اپنے دیوبندی مریدوں کے سخت گیر موقف سے کیوں متاثر نہیں ہوا، اگر وہ حقیقت میں ان کے اتنے قریب تھے؟ بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ اگر اکابر دیوبند ایسے اعمال سے روکتے تھے، جن میں حاجی صاحب شریک ہوتے تھے، تو کیا نتیجتاً یہ ان کی اپنے شیخ پر تنقید کے برابر نہیں؟

ان سوالات کا جواب دیتے ہوئے (جو سائل نے بھی اٹھائے تھے)، مولانا تھانوی نے دوبارہ ایک اہم فرق وضع کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایک عمل اصلًا اور بالذات ناجائز ہوتا ہے، اور ایک عمل فاسد تخصیصات کی وجہ سے وقتی طور پر بدعت بن جاتا ہے۔ ان دونوں کے درمیان فرق ہے۔ انھوں نے یاد دہانی کرائی کہ جب علماے دیوبند میلاد کو بدعت کہتے ہیں، تو وہ نفس عمل کو تنقید کا نشانہ نہیں بناتے، بلکہ ان کی تنقید اس سے جڑی فاسد تخصیصات پر ہوتی ہے۔ مولانا تھانوی نے باصرار بتایا کہ حاجی صاحب ان تخصیصات پر عمل پیرا نہیں تھے، نہ ہی ان کے نزدیک اس کی اجازت یا گنجائش تھی۔اس لیے حاجی صاحب اور ان کے دیوبندی مریدوں کے مواقف میں کوئی حقیقی تضاد نہیں۔

مولانا تھانوی نے اپنے استدلال کو ایک مفید تقابلی بیان کے ساتھ سمیٹا: "حاجی امداد اللہ صاحب کے قول وفعل کا لبِّ لباب یہ ہے کہ رسمی اعمال جائز ہیں، اگر وہ خرابیوں سے خالی ہوں، اور علماے دیوبندی کے شرعی موقف کا خلاصہ یہی ہے کہ یہ اعمال ناجائز ہیں، اگر یہ فاسد تخصیصات سے خراب ہو جائیں" (104)۔ مولانا تھانوی نے تسلیم کیا کہ "جہاں تک یہ سوال ہے کہ اکثر مثالوں میں یہ خرابیاں حقیقتاً موجود ہوتی ہیں یا نہیں، تو اس صورت میں اختلاف موجود ہے" (104)۔ لیکن مولانا تھانوی نے پرزور انداز میں واضح کیا کہ یہ اختلاف محض مشاہدے کا اختلاف ہے جس کی وجہ سے حاجی صاحب پر کیچڑ اچھالنا جائز نہیں، نہ یہ اکابر دیوبند کا اپنے موقف پر سمجھوتا ہے، اور نہ ہی ان کے اپنے شیخ سے تعلق کی پاکیزگی یا مضبوطی پر کوئی شبہ اٹھاتا ہے۔ مولانا تھانوی کی دفاعی حکمتِ عملی کا ایک نمایاں پہلو ان کے استدلال کا قطعی انداز ہے؛ اگر حاجی صاحب کو زمینی حقائق کا اسی طرح علم ہوتا، جو اکابر دیوبند کو ہے، تو وہ بھی اسی نتیجے تک پہنچتے، جس نتیجے تک علماے دیوبند پہنچے ہیں۔ مزید برآں مولانا تھانوی نے فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کی متعلقہ آرا پر بحث کو جس انداز سے پیش کیا ہے، وہ خاص طور پر بہت اہم ہے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کے دلائل کی جزئی تفصیلات پر ارتکاز کے بجاے انھوں نے لوگوں کی توجہ ان دلائل کے مشاہداتی بنیادوں کی طرف مبذول کرائی۔ اس طرح سے انھوں نے اس بحث کی شرائط کو ایک اور شکل دی، تاکہ وہ علماے دیوبند کے موقف کے زیادہ موافق بن جائیں۔ کس لیے؟ اس لیے کہ اگر زمینی حقائق کے مطابق شرائط کا مشاہدہ کسی استدلال کا جائزہ لینے کے لیے معیار بن جائے، تو پھر تو اکابر دیوبند کا موقف بآسانی اپنے شیخ کے موقف پر فتح یاب ہو جائے گا، کیوں کہ وہ ہندوستان میں بیٹھے تھے، اور ان کے شیخ یہاں سے بہت دور مکہ میں تھے۔

ایک 'حقیقی' مرید کی علامات

یہ سوال کہ کون حاجی صاحب کے 'حقیقی' ارادت مند ہیں، دیوبندی یا ان کے مریدوں میں سے ان کے مخالفین؟ مولانا تھانوی نے ایک طنزیہ نوٹ سے اس کا جواب شروع کیا: "میں حاجی صاحب کے تمام مریدوں کی اصلاح کا ذمہ دار نہیں ہوں" (106)۔  وہ ایک پرتجسس اور مبہم انداز میں مذمت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "کئی اہل علم" حاجی صاحب کے اعتقادی مسلک کو غلط طرح سے سمجھتے ہیں، یا اس کی غلط توجیہ کرتے ہیں، کیوں کہ وہ ان کی زبان سے غلبۂ حال میں نکلے ہوئے الفاظ کو ہو بہو لے لیتے ہیں۔ مولانا تھانوی کے نزدیک پیچیدہ مسائل کے حوالے سے بیان کی گئی آرا کو، بالخصوص جب وہ غلبۂ حال میں زبان سے نکل جائیں، ان کے لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہیے۔ اس کے بجاے ایسی صورتوں میں شارح کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ زیادہ باریکی سے کام لیتے ہوئے بظاہر واضح بیانات کے داخلی پہلوؤں کی تحقیق کرے (107)۔ مولانا تھانوی نے یہ تعیین نہیں کی کہ کیا حاجی صاحب کی آرا غلبۂ حال میں ان سے صادر ہوئی ہیں یا نہیں۔ لیکن اپنے شیخ کے غلبۂ کو موضوع بحث بنا کر انھوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے: فیصلۂ ہفت مسئلہ اپنے کسی ناپسندیدہ قول کا غلبۂ حال کا نتیجہ قرار دینا، اور اپنے مخالفین کی تشریحی مہارت اور رویے کی کمزوری جتلانا۔

آخری سوال یہ تھا کہ حاجی صاحب نے مسلکی اعتبار سے اس قدر متضاد اور متحارب گروہوں کو کیوں اپنی ارادت میں لیا۔ اس  کا جواب دیتے ہوئے مولانا تھانوی نے وہی مشاہدے والا موقف دوبارہ اختیار کیا۔ انھوں نے بتایا کہ حاجی صاحب نے علماے دیوبند کے ان مخالفین سے بھی تعلقات استوار کیے، جو مشکوک عقائد واعمال کے حامل ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس ان کے بارے میں مطلوبہ مشاہداتی علم نہیں تھا۔ اس غلطی کی وجہ علمی الجھن یا نقص نہیں (107)۔ لیکن مولانا تھانوی نے اس سوال سے کوئی تعرض نہیں کیا کہ علم کی اسی کمی کے باوصف انھوں نے اکابر دیوبند کو کیوں کر اپنی ارادت میں داخل کیا۔

یہ ابہامات ایک طرف لیکن مولانا تھانوی اور دیوبندی سائل کے درمیان یہ تبادلۂ خیال اکابرِ دیوبند کی اس خواہش کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ حاجی صاحب کے علمی ورثے کو ایک ایسے انداز میں پیش کرنا چاہتے تھے، جس سے وہ ان کے اصلاحی ایجنڈے سے بالکل ہم آہنگ ہو۔ ان کے تعلق میں دراڑ پیدا کرنے والے کسی بھی شبہے کو زائل کرنے کے لیے مولانا تھانوی کی ان تھک کوششوں سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حاجی صاحب کے ورثے کو دیوبندی تحریک کے بیانی مفادات کے مطابق ڈھالنے کے لیے کس قدر غیر معمولی فکر مند تھے۔

خوابوں کا سلسلہ

فیصلہ ہفت مسئلہ کے متعلق شاید سب سے زیادہ دلچسپ انداز وہ منامی حکایت ہے، جو علماے دیوبند نے اپنے اصلاحی پروگرام کو اپنے ہی شیخ کے لاحق کردہ ممکنہ خطرے سے بچانے کے لیے بیان کی۔ یہ خواب مولانا رشید احمد گنگوہی کے ایک قریبی معاون مولانا حافظ احمد نے بیان کیا ہے، جو اس رسالے کی اشاعت کے وقت مدرسہ دیوبند کے مہتمم تھے۔ اس خواب میں رسول اللہ ﷺ نے اس مسئلے میں ثالثی کی، اور مولانا گنگوہی اور علماے دیوبند کے حق میں فیصلہ فرمایا۔ مولانا تھانوی کی تاویلی مشق کے بجائے اس منامی حکایت نے حاجی صاحب کی آرا کو ان کے دیوبندی مریدوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ اس کے بجائے اس نے اول الذکر کو مؤخر الذکر کے ذریعے منسوخ کیا۔ میں حافظ احمد کے اس یادگار خواب کا خلاصہ پیش کرکے بتانا چاہتا ہوں کہ یہ مقصد کیسے حاصل کیا گیا۔ حافظ صاحب بیان کرتے ہیں:

میں خواب میں ایک بڑا ہال دیکھ رہا ہوں، جس میں حاجی صاحب تشریف فرما ہیں، اور میں بھی، اور ہم دونوں فیصلۂ ہفت مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں۔ حاجی صاحب کہتے ہیں: "علماے دیوبند اس مسئلے میں اس قدر انتہا پر کیوں ہیں؟ اس میں لچک کی گنجائش ہے"۔ اس کے جواب میں میں کہتا ہوں: "حضرت! اس میں گنجائش نہیں ہو سکتی، اگر ہو تو عقائد کی حدود پامال ہو جائیں گی"۔ وہ جواب میں کہتے ہیں: "یہ صراحتاً عدمِ برداشت ہے"۔ میں نے انتہائی ادب سے عرض کیا: "حضرت! آپ جو فرماتے ہیں، وہ درست ہے لیکن حضرت! فقہا ان (عوام کی فاسد رسموں) کی مخالفت کرتے ہیں"۔ تناو سے بھرپور اس گفتگو کے آخر میں حاجی صاحب نے کہا: "چلیں اس بحث کو سمیٹے ہیں۔ اگر شارع خود اس اس مسئلے میں فیصلہ سنا دیں؟" میں نے کہا: "ٹھیک ہے، ان کے فیصلے کے بعد کس کو اختلاف کی مجال ہے؟" حاجی صاحب نے کہا: "تو اب اسی جگہ شارع بذات خود آکر میرے اور تمھارے درمیان فیصلہ کریں گے"۔ میں نے جب یہ سنا تو بے حد خوش ہوا کہ آج مجھے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی سعادت نصیب ہوگی۔ کچھ دیر بعد حاجی صاحب نے کہا: "تیار ہو جاؤ، حضور ﷺ تشریف لا رہے ہیں"۔ چند منٹوں میں میں نے ایک جم غفیر دیکھا جو ہال کے سامنے جمع ہو گیا۔ جوں ہی مجمع قریب آیا، میں نے حضور ﷺ کو آگے اور ان کے پیچھے سب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا۔ اور اس بھیس میں رسول اللہ ﷺ کا جو شان وشکوہ تھا، وہ بعینہ مولانا رشید احمد گنگوہی کی طرح تھا۔ وہ بغیر کسی بنیان کے ایک لمبی اور بہت باریک قمیص کا کرتا زیب تن کیے ہوئے تھے۔ اور انھوں نے بالکل علماے دیوبند کی طرح پانچ کونوں کی ایک ٹوپی پہنی تھی۔ جب حضور ﷺ ہال میں داخل ہوئے، تو حاجی صاحب ہال کے ایک کونے میں ادب سے کھڑے ہوگئے۔ اور میں بھی اسی طرح ادب سے ان کے مخالف جانب ہال کے ایک کونے میں ہاتھ باندھے کھڑا ہو گیا (91 – 93)۔

رسول اللہ ﷺ سب سے گزر کر میرے بہت قریب آئے، اپنے ہاتھ میرے کاندھے پر رکھے، اور پھر بآواز بلند فرمانے لگے: "یہ لڑکا جو کچھ کہہ رہا ہے، وہ ٹھیک ہے"۔جب میں نے یہ سنا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ اور اس کے ساتھ حاجی صاحب کا مقام ومرتبہ بھی مجھے سمجھ میں آیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: "خدا نے ہمارے روحانی مشائخ کو کتنے بلند مقام پر سرفراز کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے ہاں اس قدر اتفاقاً تشریف لاتے ہیں، اور ان سے بات کرتے ہیں"۔ جب میں نے رسول اللہ ﷺ کی محبت وشفقت کو دیکھا تو میں نے ان سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کی: "حضور! احادیث میں ہم نے آپ کی ہیئتِ مبارکہ کے بارے میں جو پڑھا ہے، وہ اس سے مختلف جو آپ اب پہنے ہوئے ہیں۔ حضور ﷺ نے جواب دیا: "یہ مولانا گنگوہی کا لباس ہے۔ میرا اصلی لباس وہی ہے جس کے بارے میں آپ نے پڑھا ہے، لیکن اس وقت میں نے مولانا گنگوہی کی ہیئت اس لیے اختیار کی ہے، کیوں کہ مجھے پتا ہے کہ آپ کو ان سے کتنی محبت ہے"۔ اس جواب سے مولانا گنگوہی سے میری محبت اور ارادت کئی گنا بڑھ گئی۔ قربِ الہی میں ہمارے مشائخ کا بلند مقام اظہر من الشمس ہو گیا۔ اس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ اسی راستے سے واپس چلے گئے، جس سے آئے تھے، اور میں نیند سے جاگ گیا (94)۔

حافظ احمد کے اس خواب میں متعدد نکات قابل توجہ ہیں۔ پہلے لفظ 'شارع' کے استعمال پر غور کریں۔  شریعت تو قانونِ الہی کا نام ہے، لیکن یہاں پر حضور ﷺ کے لیے یہ لفظ مجازاً‌ استعمال کیا گیا ہے۔ اس پر بھی غور کیجیے کہ اس خواب میں ایک تیر سے دو شکار کیے گئے ہیں: یہ خواب بیک وقت نبی اکرم ﷺ سے حاجی صاحب کے قرب کو تسلیم کرتا ہے، اور اس کے ساتھ فیصلۂ ہفت مسئلہ میں حاجی صاحب کے علمی افکار کو بے اعتبار بھی ثابت کرتا ہے۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حاجی صاحب کے دینی استناد کے ذریعے ہی ان کے استناد کو کمزور کیا گیا ہے۔ زمین پر رسول اللہ ﷺ کا نزول حاجی صاحب کی وجہ سے ممکن ہوا، یا زیادہ معین انداز میں ان کے روحانی مقام ومرتبے کی وجہ سے، جس کے باعث وہ انتہائی اونچے درجے کی دعوت دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن یہ دعوت قبول کرنے اور منظر پر پہنچنے کے بعد نبی اکرم ﷺ حاجی صاحب کے خلاف اور علماے دیوبند کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں۔ گویا حاجی صاحب نے اپنی قبر خود اپنے ہاتھوں سے کھودی۔ 

یہ بھی اہم ہے کہ رسول اللہ ﷺ تنہا ظاہر نہیں ہوئے۔ ان کی جلو میں ان کے تمام صحابہ کرام بھی تھے، جو سنی تصور جہاں میں شرعی استناد کے ایک مکمل نظام کی تائید پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ساتویں باب میں ذکر کیا ہے، سنتِ نبوی کی روایتی سنی تفہیم میں صحابہ کرام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، اور ان کی تقلید بھی ایک مرکزی مقام کا حامل ہے۔اس خواب میں رسول اللہ ﷺ کو افادیت پسندانہ انداز میں ہندوستانی لباس میں ڈھالنے پر بھی غور کیجیے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے کہ رسول اللہ ﷺ علماے دیوبند کے قریب ہیں، نہ صرف انھوں نے ان کے موقف کی تائید کی، بلکہ ان کا لباس بھی زیبِ تن کیا۔ قریبی تعلق کا یہ اشارہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ دیوبندی تحریک کے مکمل حامی تھے۔ انھوں نے اپنے موقف اور ہیئت دونوں سے دیوبندی موقف کی تائید کی۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ خواب اتباع کے شرعی نظام کو الٹ پلٹ کرتا ہے۔ چاہیے یہ تھا کہ علماے دیوبند رسول اللہ ﷺ کی تقلید کریں، لیکن یہاں رسول اللہ ﷺ علماے دیوبند بلکہ زیادہ تخصیص کے ساتھ مولانا گنگوہی کی تقلید کر رہے ہیں۔

سرد، تاریک، طلسمات سے آزاد دنیا؟

دیوبندی تراث میں اور بھی کئی مثالیں ہیں، جن میں ہمیں ایسے خواب ملتے ہیں، جن میں رسول اللہ ﷺ کو ہندوستانی قالب میں دکھایا جاتا ہے، اور ان خوابوں سے رسول اللہ ﷺ کی علماے دیوبند سے محبت کا اثبات کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی مشہور مناظرانہ کتاب البراہین القاطعہ (جس کے کئی نکات اس کتاب میں زیر بحث لائے گئے ہیں) نامور دیوبندی عالم مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے ایک حکایت بیان کی ہے، جس میں ایک دیوبندی عالم (عالم کا نام مذکور نہیں) کو خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت ہوتی ہے، اور آپ ﷺ ان سے اردو میں بات کرتے ہیں۔ اس بات سے اس عالم پر حیرت طاری ہوتی ہے، اور وہ پوچھتا ہے: "حضرت! میرا خیال تھا کہ آپ عرب ہیں۔ آپ اردو کیسے بول رہے ہیں"5؟ رسول اللہ ﷺ جواب میں فرماتے ہیں: "میں نے یہ زبان علماے دیوبند سے گہرے تعلق کی وجہ سے سیکھی ہے"6۔

ایسی منامی حکایات سے استفادہ ثابت کرتا ہے کہ اگر چہ علماے دیوبند کو عام طور سخت گیرعقلیت پرست اور ظاہریت پسند سمجھا جاتا ہے، لیکن ان کے مباحث وافکار میں خواب اہم مقام رکھتے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں دینی دلائل کی ترتیب وتشکیل میں خوابوں نے نمایاں عوامل کا کردار ادا کیا ہے۔ وہ روحانی بصیرت کے لیے ایک اہم ظرف کا کردار بھی ادا کرتے ہیں، جو انسانی روح کی سلامتی اور بیماری دونوں پر دلالت کرتے ہیں7۔ خوابوں کی اس طویل المیعاد روایت میں علماے دیوبند نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ انھوں نے منامی تخیلات سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر اپنے اعتقادی موقف کی برتری ثابت کی۔ اس مسابقتی عمل اور جدید صورت حال کے باوجود انھیں خوابوں کی اہمیت کے متعلق کسی قسم کے جدید اور عقلیت پسندانہ خدشات لاحق نہ تھے، اور وہ خواب میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت اور اس سے دینی استدلال کرنے میں کوئی باک نہیں رکھتے تھے۔

منامی تخیلات کو قبول کرنے کی جو دیوبندی روایت ہے، اس پر مؤرخ فرانسس روبنسن کا یہ دعوی ٹھیک طرح سے نہیں بیٹھتا کہ دیوبند جیسے جدید ہندوستانی مدرسوں نے "پگڑی والے فضلا کا ایک کمزور حلقہ تیار کیا، جو دنیا کو محض وحی کے چشمے سے دیکھنے کے قابل تھا"8۔ روبنسن پوری قطعیت کے ساتھ علماے دیوبند جیسے جدید ہندوستانی مسلمان مصلحین کے بارے میں کہتا ہے: "خالص اسلام کے ان  داعیوں نے اولیا اور آباؤ اجداد کے ان عظیم سلاسل کو خیر باد کہنا شروع کیا، جن کے ذریعے وہ کبھی خدا کے قریب آئے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان مسلمانوں کو دنیا ایک سرد، تاریک، طلسمات سے آزاد (disenchanted) جگہ نظر آ رہی ہے"9۔ میں جنوبی ایشیائی اسلام کے بارے میں رابنسن کے علم ودانش کا اعتراف کرتا ہوں اور ان سے مستفید بھی ہوتا ہوں۔ تاہم یہاں پر میں احترام بلکہ پوری شدت کے ساتھ ان سے اختلاف کرتا ہوں۔ ان کے یہ بیانات غیرمعمولی حد تک پریشان کن ہیں۔

آئیے ایک لمحے کے لئے دیوبندی 'علماء' کے لئے "پگڑی والے فضلا" (سیکولر یونیورسٹیوں کے بغیر پگڑی والے فضلا کے مقابلے میں پگڑی والے فضلا) کی نامناسب اصطلاح کے انتخاب کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ علمائے دیوبند کے تصورِ جہاں کو "سرد، تاریک اور طلسمات سے آزاد" قرار دینا اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ ان میں سے سخت ترین لوگوں نے بھی معجزات، جنات اور دیگر مافوق الفطرت عناصر کے وجود کو رد نہیں کیا، اور ان کا یہ رویہ طلسمات سے آزاد (disenchanted) تصور جہاں سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہے۔ لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ طلسمات سے آزاد یا مقید دنیا (disenchanted/enchanted world) کی تقابلی تقسیم (binary) دیوبندیوں بلکہ بریلویوں کی مذہبی اصلاح کے تصورات کی داخلی منطق اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے بطور خاص کارآمد نہیں ہے10۔

جیسا کہ میں نے اس پوری کتاب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے، جدید جنوبی ایشیا میں مسلم اصلاحی فکر کو خالص اسلام کے داعیوں کے طلسمات سے آزاد دنیا اور صوفیوں کے طلسمات سے مقید دنیا کے مابین روایتی مسابقت کی داستان کے ذریعے پیش کرنا ایک ہی وقت میں غلط اور علمی اعتبار سے پسپا شدہ تصور ہے۔ اکابرینِ دیوبند دنیا کو وحی کی عینک سے آگے دیکھنے اور متعدد علمی مصادر اور روایات سے استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ نظریہ کہ وحی کسی نہ کسی پہلو سے صوفیا کے سلاسل کے مخالف ہوتی ہے، اس غیر معقول مفروضے پر قائم ہے کہ تصوف اور وحی میں باہمی تضاد ہے۔ یہ تقابل یا تضاد وحی/فقہ اور تصوف کے درمیان نہیں، بلکہ توحید، نبوت، اور رسمی اعمال کے مابین تعلق کی ایسی متحارب تفہیمات میں ہے، جو بریلوی دیوبندی تنازعات جیسے بین المسالک اختلاف میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔مافوق الفطرت عناصر سے آزاد/مافوق الفطرت عناصر میں مقید دنیا کی دوگانہ تقسیم فقہ/تصوف کی دوگانہ تقسیم کی طرح جتنی پرکشش ہے، اتنی یہ ایک پیچیدہ داستان کو آسان بناتی ہے۔ لیکن یہ مسلم علمی روایات اور مباحثوں  کے سمجھنے کے لیے بنیادی طور پر ایک گمراہ کن طریقہ ہے۔

لبرل سیکولر اعتدال پسندی پر سوال

اس باب کے اختتام پر فیصلۂ ہفت مسئلہ کے نتائج واثرات پر مختصر انداز میں غور کرنا مفید ہوگا۔ کیا حاجی صاحب اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب رہے جو انھوں نے خود متعین کیا تھا؟ یعنی ہندوستان میں 'علماء' کے مختلف طبقات کے درمیان اس تناؤ اور شدت کو کم کرنا، جس کے ساتھ اکابر دیوبند نے مخصوص اعمال کو ممنوع قرار دیا تھا؟ اگرچہ اس سوال کا حتمی طور پر جواب دینا مشکل ہے ، لیکن دستیاب شواہد اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ اس کا جواب نفی میں ہے۔ 1894 میں فیصلۂ ہفت مسئلہ کی اشاعت کے بعد کی دہائیوں میں بریلوی دیوبندی تنازعہ مزید شدت اختیار کر گیا۔

اور اکابرینِ دیوبند جیسے مولانا تھانوی اور مولانا گنگوہی اسی جذبے اور شدت کے میلاد جیسے اعمال سے منع کرتے رہے۔ اس لیے ایک خاص معنی میں کوئی فیصلۂ ہفت مسئلہ کو ایک المیہ متن قرار دیا سکتا ہے، جو ان مقاصد کے حصول میں ناکام رہا جن کی اس سے توقع اور امید تھی۔ لیکن جیسا کہ میں نے اس پورے باب میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے، اس کی المیاتی نوعیت کے باوجود، شاید اس کا سب سے قابل ذکر پہلو وہ انداز ہے جس میں اس نے مفاہمت کے اصول تشکیل دیے، جو بیک وقت فقہ، تصوف اور روزمرہ کے مصالح جیسے متعدد استدلالی نظاموں میں مستفاد تھے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ سراسر ایک متنوع متن تھا۔

اس کے علاوہ، اور یہ ایک نکتہ ہے جس کو میں تاکیداً‌ واضح کرنا چاہتا ہوں۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ مذہب کو "اعتدال پسند" بنانے کی لبرل سیکولر کارروائی کا حصہ نہیں تھا، تاکہ مذہب زیادہ پرامن یا روادار بن سکے۔ اعتدال پسند مذہب کے مطالبے کو، جو آج اکثر اسلام اور مسلمانوں سے کیا جاتا ہے، لبرل سیکولر گورننس کی اس خواہش سے الگ نہیں کیا جاسکتا ہے کہ مذہب کو انتہائی سازگار طریقے سے کنٹرول اور منظم کیا جائے۔ جیسا کہ آنندا ابیسیکارا نے ہمیں عمدگی سے یاد دلایا ہے کہ انگریزی میں 'اعتدال پسندی' کے لیے moderate کا لفظ مستعمل ہے، جو لاطینی لفظ moderare سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے "قابو پانا،" "کنٹرول،" "محدود کرنا،" اور "روکنا"11۔  معتدل مذہب وہی ہے جو کافی حد تک قابو میں لایا گیا اور سدھایا گیا ہو، تاکہ اس سے جدید ریاست (چاہے  وہ بالکل مذہبی ہو یا سیکولر) کی خودمختاری کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو جائے۔ اعتدال پسندی کی ضرورت ایک لاینحل تضاد سے پیدا ہوتی ہے، اور یہ تضاد جدید ریاست کی خودمختاری کی بنیادی دلیل کو متاثر کرتا ہے۔ لبرل ریاست کی شناخت کی تشکیل کرنے والے بنیادی عناصر جیسے تنوع اور تکثیریت ہی اس کی شناخت کے لیے خطرہ ہیں۔تمام شہریوں کی آزادی اور خودمختاری کا وعدہ ایک مرکزی اصول ہے جو لبرل سیکولر ریاست کو استحکام بخشتا ہے۔ تاہم تکثیریت اور اختلاف اسی آزادی کی بقا کے لئے خطرہ ہیں12۔

اس لاینحل تضاد کی وجہ سے مسلسل سر پر منڈلاتے ہوئے بحران کے پیش نظر، مذہب اور مذہبی زندگی کو معتدل بنانا بحران کے حل کی ایک صورت کے طور پر ابھر کر سامنے آتا ہے۔ لیکن اس طرح کے بحران کو جدید لبرل ریاست کے جوہری متضاد کردار کی وجہ سے حل نہیں کیا جاسکتا، جس کا کام ہے کہ وہ مذہبی اختلافات اور عدم مساوات (جو تمام شہریوں سے کیے گئے آزادی اور مساوات کے وعدے کو مسلسل خطرے میں ڈالتے ہیں) کا ازالہ کرے، اور اس کے ساتھ ساتھ مذہب اور مذہبی اختلافات کے متعلق غیر جانب دار بھی رہے۔ جیسا کہ صبا محمود نے سوال اٹھایا ہے: "ایک ایسی ریاست جو مذہبی عدم مساوات کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ مذہبی اختلافات کو اپنی سیاسی لغت کا حصہ بنائے بغیر ایسا کیسے کر سکتی ہے؟"13 یہ سوال سیاسی سیکولرازم اور جدید ریاست کی خودمختاری کی غیر معمولی صورتِ حال کو گہری توجہ کا توجہ کا مرکز بناتا ہے۔ یہ ایک ایسی لاینحل صورت حال ہے، جسے مذہبی اعتدال پسندی، برداشت اور رواداری جیسے اقدامات سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ اعتدال پسندی کی لکیر پیٹنا خود مسئلے کی سنگینی کی علامت ہے۔ مذہب کو معتدل بنانے کا مطلق العنان سیکولر مطالبہ سیکولرازم اور جدید خودمختاری کی حدود اور لاینحل تضادات پر دلالت کرتا ہے۔ میں نے ایک اور مقام پر بھی سیکولرازم کے تضادات اور معتدل اسلام کی فکر کے درمیان تعلق کے اس استدلال کو پوری تفصیل سے واضح کیا ہے14۔ یہاں پر میں مذہبی اعتدال پسندی اور رواداری کے لبرل سیکولر ڈسکورسز اور فیصلۂ ہفت مسئلہ میں کارفرما بین المسالک مفاہمت کی منطق کے درمیان ایک اہم تضاد کی نشان دہی کرنے کے لیے اس کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔

حاجی صاحب کی فکر سے جو کچھ ہمیں سمجھ میں آتا ہے، وہ بالکل مختلف ہے۔ انھوں نے انسانی تعلقات کو ہم آہنگ کرنے کی جو کوششیں کیں، ان میں اور ریاست کی مطلق العنان خواہشات اور خدشات میں کوئی نسبت نہیں ہے۔ حاجی صاحب کو سب سے زیادہ جس چیز کی فکر لاحق تھی، وہ اہل علم کی حیثیت ووقار کو پرتشدد تنازعات اور بین العلما عداوت کے خطرے سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اس طرح کی بحث جب اپنی حدود سے نکل گئی، تو اس کی وجہ سے نہ صرف علما میں غیر معمولی دھڑے بندی پیدا ہوئی، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عوام کی نظروں میں ان کا وقار بھی مجروح ہوا۔

غور کیجیے کہ حاجی صاحب مذہبی مساوات کے حصول کے لیے اختلافات میں اعتدال پیدا کرکے مذہب کو معتدل بنانے کے لبرل سیکولر ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا رہے۔اس کے برعکس علما اور ان کے عوام پیروکاروں کے مابین فرق مراتب کو برقرار رکھنے کی ایک غیر لبرل کوشش ان کے مشن میں مرکزی حیثیت رکھتی تھی۔ دینی استناد کے بارے میں اس طرح کا مراتبی تصور پیش کرتے ہوئے حاجی صاحب نے روایتی فارمولے "عوام مویشیوں کے ریوڑ کی طرح ہیں" (العوام کا الانعام) کے ساتھ اپنی وفاداری کا مظاہرہ کیا۔ مزید برآں ان کی فکر میں دینی استناد کے مراتبی تصور کی بازگشت کا مقصد جدید ریاست کے مفادات اور خودمختاری کے تابع ایک لبرل فرد کی افزائش نہیں تھا15۔  بلکہ علما کے اثر ورسوخ کی حفاظت کا تقاضا ان کی اس حیثیت کے ساتھ منسلک تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے وارث اور احکام شرعیہ کے ترجمان تھے۔

حاجی صاحب کے مذہبی تصور میں "علماء" کے تقدس کی حفاظت نبی ﷺ سے روحانی رشتے کا احترام اور توحید کے تحفظ کے مترادف ہے۔ جس چیز نے حاجی صاحب کی فکر کے لیے راہ ہموار کی، وہ ایک مفروضہ غیر جانب دار ریاست کے لیے مساوی شہریوں کی تشکیل نہیں تھی۔ اس کے بجاے انھوں نے محتاط انداز میں تشکیل دی گئی حدود اور شرعی مصادر کے اصولوں کے مطابق ایک پاکیزہ سماج تشکیل دینے کی کوشش کی۔ بالفاظِ دیگر ان کی یہ لبرل جستجو نہیں تھی کہ ریاست کی خدمت کے واسطے مذہب کو معتدل بنائے۔ اس کے بجائے ان کا مقصد بین المسالک تنازعات کو بہتر بنانا تھا، تاکہ عقیدے پر مبنی اس بیانیے کا استحکام یقینی بنایا جاسکے کہ علم، طاقت اور سماج کے درمیان ہم آہنگی اور ان کا باہمی تعامل کیسے ہونا چاہیے۔

وسیع تر نکتہ یہ ہے کہ حاجی صاحب کے مفاہمتی اصولوں کو برداشت اور مذہبی اعتدال پسندی کی خاطر صوفیانہ رواداری کی کوشش نہیں سمجھا سکتا، جس طرح ایک اچھے مسلمان/برے مسلمان کی تقابلی تقسیم، جو تصوف کو امن، رواداری اور اعتدال پسند اسلام کے برابر سمجھتی ہے، ہمیں عجلت میں یہ ماننے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ وہ تقابل ہے، جو ان کی فکر کی روشنی میں غلط اور قابل اعتراض ہے۔ ایسا نہ صرف اہل علم اور عوام کے مابین شرعی تعلق کے بارے میں ان کی غیر لبرل منطق کی وجہ سے تھا، بلکہ ان متنوع طرز ہاے استدلال کی بنا پر بھی تھا، جن کی روشنی میں ان کے دلائل سامنے آئے۔ فیصلۂ ہفت مسئلہ کسی لبرل روادار صوفی کی کاوش نہیں تھی، جس کا مقصد انتہا پسند فقہی مریدوں کو نصیحت کرنا تھا۔ ہم اساسی طور پر غلط ہوں گے اگر ہم فیصلۂ ہفت میں حاجی صاحب کے اپنے دیوبندی مریدوں سے اختلافات یا مسلکی ہم آہنگی کے لیے ان کی کاوشوں کو فقہ اور تصوف کے درمیان اختلاف سمجھیں۔ یہ نقطۂ نظر ان نزاکتوں، ابہامات اور تعبیری پرتوں اور اس متن میں پنہاں المیے کی غلط تفہیم یا مٹانے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور یہ وہ کچھ عناصر ہیں، جس کو میں نے اس باب کے گزشتہ صفحات میں تفصیل سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

حاجی صاحب اور علماے دیوبند کا تعلق: ایک آخری بات

یہاں پر زیر بحث آنے والے بین الدیوبندی تعلقات کے متعلق ایک آخری بات عرض کرنی ہے۔ جیسا کہ اس باب میں واضح کیا گیا کہ حاجی صاحب اور دارالعلوم دیوبند کے بزرگوں جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی کے درمیان تعلق بسا اوقات کشیدہ اور مبہم رہا۔ تاہم تمام تر اختلافات کے باوجود اس تعلق کی بنیادوں کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا، اور حاجی صاحب دیوبندی تحریک کے اوائل کے لیے ناگزیر رہے۔ مزید یہ کہ بانیان دیوبند اور بعد میں مولانا اشرف علی تھانوی حاجی صاحب کو اپنے کلیدی روحانی شیخ اور اپنی دینی زندگی کا سرچشمہ باور کرتے رہے۔ بلکہ علماے دیوبند کے ساتھ حاجی صاحب کا تعلق شیخ ومرید کے درمیان ایک ایسے تعلق کی بہترین مثال ہے، جس میں اصولی اختلاف سے کوئی دراڑ پیدا نہیں ہوتا۔ مزید برآں حاجی صاحب اور دیوبندی اکابر جیسے مولانا گنگوہی ایک دوسرے سے سو فی صد موافقت کے طالب نہیں تھے۔ عدم موافقت کی قابل برداشت حد ایک ایسی خصوصیت تھی جس نے ہمیشہ ان کے تعلقات میں کار فرما تھی، اور جس پر ان کا باہمی سمجھوتا تھا۔ اور نتیجتاً علماے دیوبند حاجی صاحب کے ساتھ اپنے اختلاف کو اضافی نہ کہ حقیقی سمجھتے تھے۔

حاجی صاحب کی وفات کے بعد ایک شخص نے مولانا تھانوی سے شکایت کے انداز میں پوچھا: "حاجی صاحب بہت لچک دار اور صابر تھے، لیکن آپ بہت سخت ہیں"۔ مولانا تھانوی نے اس کا ایک یادگار جواب دیا۔ انھوں نے کہا کہ میرے اور حاجی صاحب دونوں کا مقصد ایک ہے اور وہ ہے (عوام کی) اصلاح۔ لیکن حاجی صاحب جس قدر بابرکت تھے، میں اتنا نہیں ہوں۔ حرکت اور برکت کے ہم آواز الفاظ کو استعمال کرتے ہوئے مولانا تھانوی نے استدلال کیا کہ مجھ جیسا شخص، جس میں حاجی صاحب کی طرح برکت نہیں، اصلاح کا کام سخت طرز عمل سے ہی کر سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے الفاظ میں اس بحث کو یوں سمیٹا ہے: "ہم حرکت سے اصلاح کرتے ہیں، اور حضرت برکت سے اصلاح کرتے ہیں"16۔ ایک ہی وار میں مولانا تھانوی نے اپنے مخصوص انداز میں اپنے شیخ کے روحانی مرتبے کو تسلیم کیا، اس مرتبے کے سامنے اپنی اطاعت ثابت کی، اور اپنے منفرد مزاج اور طریقۂ اصلاح کو جواز بھی فراہم کیا۔

اختتامیہ

اس کتاب میں جو مرکزی نکتہ اٹھایا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ بریلوی دیوبندی مناظروں جیسی بین المسلمین رقابتوں کو روایت اور اصلاح کی متحارب تفہیمات کے درمیان اختلاف کے طور پر دیکھا جائے۔ یہ تفہیمات اساسی طور پر کچھ مخصوص ادوار میں نمایاں ہوئیں، جب سنت وبدعت اور شناخت واختلاف پر نصوص کی روشنی میں بحث مباحثہ شروع تھا۔ اس کتاب کے ہر باب میں ان مناہج کو واضح کیا گیا ہے جن کے ذریعے مستند مذہبی کرداروں نے اپنی حکمتِ عملی سے روایت کی حدود پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ انیسویں صدی کے اسلامی ہندوستان میں مسلکی عداوت کے ایک مخصوص سیاق تک محدود رہتے ہوئے میں نے خدائی حاکمیت (توحید)، مقام نبوی اور رسمی اعمال کی حدود کے دو متوازی بیانیوں کا ذکر کیا ہے۔ ان بیانیوں کے حاملین نے اپنے مذہبی استناد کی تشکیل اس طرح سے کی کہ پہلے اپنی بے چینی کے اسباب کی شناخت کی، اور پھر اس بے چینی پر قابو پانے کے لیے ایک اصلاحی پروگرام تجویز کیا۔

شاہ محمد اسماعیل اور اکابر دیوبند نے عوامی دائرے میں رائج ان رجحانات اور اعمال کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا، جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) کے لیے ایک فوری خطرہ تھے۔ اس صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے انھوں نے اس طرح کے تمام اعمال کو ترک کرنے کا ایک اصلاحی پروجیکٹ پیش کیا، تاکہ خالص توحید کو بحال کیا جائے۔ انھوں نے نبی اکرم ﷺ کے ایک ایسے تصور کی وکالت کی، جس میں ان کی بشریت ہی ان کے شخصی کمال کی علامت تھی۔ اس کے برعکس علامہ فضل حق خیر آبادی اور ان کے بعد مولانا احمد رضاخان نے اسی اصلاحی تصور کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے طویل عرصے سے چلے آنے والی ان رسموں اور اعمال کا پرجوش انداز میں دفاع کیا، جو ان کی نظر میں روایت کے لیے ناگزیر تھے۔

علاوہ ازیں انھوں نے بتایا کہ شفاعت اور علم غیب جیسی صفات سے رسول اللہ ﷺ کی جس امتیازی حیثیت کی تصدیق ہوتی ہے، اس پر کسی بھی صورت میں سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل خالص توحید کی بقا صرف اس صورت میں ممکن ہے، جب آنحضرت ﷺ کے امتیازی مقام کو قبول کیا جائے۔ توحید اور شان رسالت باہم لازم وملزوم ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ انیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں روایت واصلاح کے ان حریف بیانیوں کی اساس وہ باہم مخالف سیاسی کلامیات (political theology) ہیں، جن کا تعلق فقہ اور روزمرہ کے شرعی اعمال کی متحارب تفہیمات سے ہے۔ اس استدلال کو پیش کرتے وقت میں نے کوشش کی ہے کہ دیوبندی بریلوی مخاصمت کی ان مشہور تفہیمات پر سوالات اٹھاؤں، جو اس اختلاف کو فقہ اور تصوف، یا 'سخت' اور 'نرم' اسلام کے درمیان تصادم سے تعبیر کرتی ہیں۔ ان مشہور عام تقابلی تقسیمات کے متعلقہ مآخذ ومصادر کی چھان پھٹک کچھ تفصیل سے کی گئی ہے۔  

تجزیے کا رخ سیاسی کلامیات کی طرف موڑنے سے میں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ بظاہر علما کے درمیان غیر واضح مناقشوں کی بنیاد میں طاقت، اخلاقیات اور سماجی نظام کے کلیدی سوالات کارفرما تھے۔ کیا میت کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ کے دوران کھانے پر ہاتھ اٹھانا جائز ہے؟ کیا میلاد کے موقع پر قیام جائز ہے؟ ہمارے جدید ذہنوں کے لیے سوالات بظاہر اگر معمولی نہیں تو غیرواضح اور خواہ مخواہ کی تکرار ضرور ہیں۔ چند سال پہلے میں نے شمالی ورجینیا میں جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے ایک مجمع سے خطاب کیا۔ سوال وجواب کی نشست میں ایک فرد نے حیرت کے انداز میں کہا: "ان (بریلوی اور دیوبندی) علما کے پاس ان جیسے معمولی مسائل پر بحث ومباحثے کے لیے اتنا فارغ وقت کہاں سے تھا؟" مجھے امید نہیں کہ یہ کتاب ایسے افراد کے ان جیسے تشکیکی بیانات کی تشفی کر سکیں گے، تاہم اس نے ان استدلالات، مشارکات اور خدشات کو سمجھانے کی کوشش کی ہے، جن کی وجہ سے اس تنازع نے جنم لیا، اور اس قدر شدت اختیار کی۔ 

میں نے اس پوری کتاب میں جو کچھ بتانے کی کوشش کی ہے وہ یہ ہے کہ انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کے درمیان عقائد، فقہ اور رسموں پر ہونے والی بحث حاکمیت، علم، قانون، زمنیت اور مادی اظہارات پر بڑے سوالات سے متعلق گہری بے چینیوں اور توقعات میں الجھی ہوئی تھی۔ اس میں ماضی کے مستند مذہبی کرداروں سے ایسے سوالات پوچھنا بھی شامل ہیں، جو ان کے زمانے میں ان سے نہیں پوچھے گئے تھے، تاکہ ان کی فکر کو ان بڑے موضوعات سے مربوط کیا جائے، جو شاید ان کے عہد میں اس قدر نمایاں نہ تھے۔ میرا مقصد یہ رہا ہے کہ جانبین کے دینی دلائل کی جزئی تفصیلات پیش کرنے کے ساتھ ان گہرے نظریاتی اور فلسفیانہ مسائل کی نشان دہی بھی کروں، جنھوں نے ان دلائل کی فوری ضرورت کا احساس دلایا، اور ان میں وزن پیدا کیا۔

روایت کے مطالعے سے سیکولرازم پر سوال

بین المسالک روایات کے مذہبی دلائل کی نظریاتی پہلو سے ہم آہنگ تحقیق یہ امکان پیدا کرتی ہے کہ مذہب کو بنے بنائے خانوں میں تقسیم کرنے کے سیکولر مفروضوں پر سوال اٹھایا جائے، اور انھیں کمزور ثابت کیا جائے۔ گزشتہ چند دہائیوں میں مذہب وسیکولرازم کی تقابلی تقسیم میں خلل کی نشان دہی نے مطالعۂ مذہب کے دائرے میں ایک غالب رجحان کی حیثیت اختیار کی ہے۔ اگر چہ یہ کتاب سیکولر ازم کو براہ راست موضوع بحث نہیں بناتی، لیکن یہاں پر میں بالاختصار ان مناہج کو واضح کرنا چاہتا ہوں، جن کی رو سے یہ کتاب آج کی اصطلاح میں سیکولرازم کے تنقیدی مطالعات (critical secularism studies) کے بعض مسائل پر بحث اٹھاتی ہے۔ مختلف انداز میں ان کاوشوں نے ثابت کیا ہے کہ سیکولر ازم کو مذہب کا مد مقابل سمجھنے کے بجاے ایک ایسی استدلالی اور ادارتی طاقت وحکومت کی حیثیت سے بہتر انداز میں سمجھا جا سکتا ہے، جو مسلسل مذہب کی حدود کی ضابطہ بندی اور تنظیم کی کوشش کرتی ہے۔ زیادہ سادہ لفظوں میں: سیکولر ازم مذہب کی تعریف 'غیر' سے کرکے خود اپنی تعریف وضع کرتی ہے17۔ علاوہ ازیں سیکولر ازم کے ہاتھوں مذہب کی اس طرح سے تشکیل نو کہ اسے بنیادی عقائد اور انفرادی تزکیے تک محدود کیا جائے، مذہب کو اس انداز میں پیش کرنا ہے جو لبرل نظام حکومت کے لیے سب سے زیادہ سازگار ہو۔

سیکولر طاقت کی ان اساسات کی تحقیقات ماہر بشریات پروفیسر طلال اسد کی کاوشوں سے متاثر ہو کر کی گئی ہیں۔ عہد حاضر میں یہ ایک معروف فکر کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، لیکن اصل میں اس کی ترویج واشاعت میں اسد کا کردار ایک پیش رو کا ہے کہ مذہب اور سیکولر ازم زندگی کے متضاد دائروں کی نمائندگی کرنے کے بجاے ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ان کا یہ موقف مذہب کے متعلق ولفرڈ کینٹول سمتھ کے نظریات پر ان کی بصیرت افروز تنقید میں سب سے زیادہ واضح انداز میں نظر آتی ہے: "میں یہ عرض کروں گا کہ 'مذہب' ایک جدید تصور ہے، اس اعتبار سے نہیں کہ یہ اب بنا ہے، بلکہ اپنی ہم عمر اصطلاح 'سیکولرازم' کے ساتھ تقابل کے اعتبار سے۔ جدیدیت میں مذہب نے عملاً زمان ومکان، عملی علوم اور طاقتوں، موضوعی رویوں، حساسیتوں، ضروریات اور توقعات کی نئی تشکیل وترتیب اپنا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہی کام سیکولرازم نے بھی کیا ہے، جس کا کام یہ رہا ہے کہ اس تشکیلِ نو کو راہ راست پر لائے، اور مجموعی اعتبار سے 'مذاہب' کو (غیر عقلی) عقیدے کی ایک قسم قرار دے"18۔

اسد کی نظر میں کسی بھی مذہب کی طرح سیکولرازم بھی ایسی چند مخصوص اقدار، حساسیتوں اور مادی اظہارات (جو مخصوص قسم کے ماتحتوں اور جذباتی نمائندوں کی افزائش کرتے ہیں) کو تقدس فراہم کرکے اپنے آپ کو معمول کے مطابق بناتا ہے۔ اسد کے نزدیک اہم ترین بات یہ ہے کہ سماج میں مذہب کے کردار کے متعلق یہ سیکولر مفروضے کہ مذہب کا تعلق داخلی عقائد اور خاندان کے ایک 'نجی دائرے' سے ہے، اور سیکولرازم پر مبنی سیاسی نظام انھی مفروضوں کو جواز فراہم کرتا ہے، یہ مفروضے سب کچھ ہو سکتے ہیں، لیکن آفاقی نہیں ہیں۔ بلکہ کسی بھی دوسرے نظریاتی تصور کی طرح سیکولرازم بھی مخصوص تاریخی، ادارتی اور استدلالی قوتوں کے توسط سے تشکیل پانی والی عارضی صورتِ حال سے شہہ پاتا ہے19۔ اسد نے پوری گہرائی اور باریکی سے بطور خاص سیاسی سیکولرازم (وہ عقیدہ جو مذہب اور ریاست کے درمیان علاحدگی کو جواز فراہم کرتا ہے)، سیکولر (ایک نظریاتی طاقت جو خوف ناک لیکن غیرمعمولی طاقت دیتا ہے) اور سیکولیرٹی (وہ نظام زندگی، جذبات اور رویے جو سیکولرازم اور سیکولر کے نتیجے سے تشکیل پاتے ہیں) کے درمیان ربط کا جائزہ لیا ہے۔

اسد کا علمی تراث تجویز کرتا ہے کہ ایک مثالی اقداری تصور کی حیثیت سے سیکولرازم کی طاقت اور اثر ونفوذ اس امر پر منحصر ہے کہ سماج کی مختلف سطحوں پر ان تصورات کی مجموعی کارکردگی اور باہمی تعاون کی صورت کیا ہے۔ سیکولرازم کی اساسات کی شجرہ جاتی (genealogical) تحقیق نے سیکولر جدیدیت کے اس خوش نما بیانیے میں کافی خلل پیدا کیا ہے کہ اس نے روایت اور مذہب کا چراغ گل کر دیا ہے۔ ان تحقیقات نے فرد کی حاکمیت، آزادی اور مذہب وسیاست کی علاحدگی کے لبرل فضائل کی عمومی مفروضہ آفاقیت کے تار وپود بھی بکھیر دیے ہیں۔ حالیہ وقتوں میں اسد کے کام کو بنیاد بناتے ہوئے حسین ارگاما اور صبا محمود جیسے اہل علم نے ثابت کیا ہے کہ سیاسی سیکولر ازم ایک لاینحل تناقض میں قید ہے۔ وہ تناقض یہ ہے کہ سیاسی سیکولرازم ریاست سے کہتی ہے کہ وہ مذہبی عدم مساوات سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ مذہب اور مذہبی اختلافات کے بارے میں غیر جانب دار بھی رہے۔ اور غیر جانب داریت کے تمام تر دعووں کے باوجود اکثریتی آبادی کے خلاف تعصب جدید سیکولر ریاست کی ساخت اور تنظیمی منطق کے لیے ناگزیر رہا ہے20۔

اس کتاب میں اسد اور ان کے ہم کلاموں سے ایک ایسے طریقے سے استفادہ کیا گیا ہے، جو سیکولر ازم کی شجرہ جاتی (genealogical) تنقید پیش کرنے سے مختلف ہے۔ اس کے بجاے یہاں پر کوشش کی گئی ہے کہ سیکولر استعماری حکومتوں کی 'مذہب سازی' سے توجہ ہٹا کر مذہب کی حدود پر مقامی استنادی مباحثوں اور مناقشوں کی نمایاں عارضی صورتِ احوال کو مبذول کرائی جائے21۔شجرہ جاتی تنقید ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ زندگی اور تنقید کے متبادل مناہج بھی سیکولرازم کی فکری بالادستی کی آفاقیت کو چیلنج اور اتھل پتھل کرنے کا نتیجہ دے سکتے ہیں۔ چند دینی عداوتوں (جو استعماری جنوبی ایشیا میں ایک مخصوص استدلالی روایت کے وجود میں آنے کی وجہ بنی ہیں) کی موٹی تفصیلات فراہم  کرکے یہ کتاب بجنسہ یہی نتیجہ دے رہی ہے۔ ایسا کرنے سے میں نے دینی استدلال کی ایک ایسی روایت کی کچھ تفصیلات بیان کرنے کی کوشش کی ہے، جو بہرصورت لبرل سیکولر سیاسیات کے ضابطہ جات، توقعات اور اقداری خواہشات کے مطابق سرگرم عمل نہیں تھی۔ استعماری طاقت کے سایے میں سرگرم عمل ہونے کے باوجود علما کے وہ مباحث اور مناقشے جو یہاں پر زیر بحث لائے گئے ہیں، اسی طاقت کے تابع نہیں تھے۔ یہاں پر البتہ ایک تنبیہ ضروری ہے۔ اس فکری موقف کا مطلب سیکولر استعماری استدلالی نظام کی طاقت یا اہمیت کو گھٹانا نہیں۔ بلکہ ہندوستان میں استعمار نے ایسی مذہبی اصلاحی تحریکوں، جن میں سے کچھ کا ذکر اس کتاب میں ہوا، کی افزائش کے امکان کے لیے بنیادی صورت حال کا کام سرانجام دیا۔ علم کے متعلق مولانا منظور احمد نعمانی کے نظریات، جنھیں گیارھویں باب میں زیر بحث لایا گیا، یہ ثابت کرتے ہیں کہ علما کے مباحث اور مذہب کے جدید سیکولر تصورات عموماً کسی مقام پر مل جاتے ہیں۔

علاوہ ازیں میں نے علمی اعتبار سے مشکوک 'متبادل جدیدیت' کی کسی مثال کو نمایاں کرنے  کی مشق نہیں کی ہے، نہ ہی میں نے 'مقامی  کردار' کو استعماری طاقت کے ملبے تلے نکالنے کی کوشش کی ہے۔ بہت سے اہل علم نے اطمینان بخش انداز میں نام نہاد متبادل جدیدیت اور مقامیوں کے کردار کا استعمار سے متاثر ہونے کے استدلال کی فکری تنگنائے کو واضح کیا ہے، جیسا کہ میں نے اس کتاب کے پہلے حصے کے اختتام پر اس کی کچھ تفصیل بھی بیان کی ہے22۔ اس کے بجاے میں نے کوشش کی ہے کہ کسی استدلالی روایت کے ان داخلی پہلوؤں کو واضح کروں جو عموماً سیکولر فکر کے استعماری قواعد کے مطابق وجود میں نہیں آتے۔ اس کتاب میں بیان کیے گئے روایت کے متوازی تصورات کو فقہ/تصوف، معتدل/انتہا پسند، اصلاحی/روایتی، مذہبی/سیکولر، عقیدہ/عمل اور اجتماعی/انفرادی جیسے سیکولر ازم کے بنائے گئے خانوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ باوجود یہ کہ اس روایت کے حاملین استعماری اور سیکولر جدیدیت کی سماجی اور ادارتی صورت احوال میں مقید تھے، تاہم انھوں نے اپنی زندگی ان تقابلی تقسیمات کے مطابق نہیں بسر کی۔ بلکہ ان کی زندگی اور فکر ان تقابلی تقسیمات کی محدودیت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ روایت واصلاح کے بارے میں ان کے حریف بیانیے ایسے سوالات، توقعات اور اضطرابات پر مبنی تھے، جو لبرل سیکولر فکر یا حکمرانی کے پیمانے پر آسانی سے پورا نہیں اترتے۔مزید برآں وہ کردار جو ان مناقشوں میں شامل تھے، باوجود اپنے شدید اختلافات کے اس امر پر متفق تھے کہ یہ اعمال، موضوعات اور اعتقادات قابلِ بحث ہیں، اور اس وجہ سے یہ حل کا تقاضا کرتے ہیں۔

یہ کردار کسی مخصوص عمل یا واقعے کی تفہیم پر ایک دوسرے سے پوری بے جگری سے لڑے ہوں گے، لیکن جس چیز پر ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں، وہ اخلاقی فضیلت کے حصول کے لیے اس عمل یا موضوع کی اہمیت وضرورت ہے۔ ان کے اختلافات اور تنازعات کے باوجود ان کے درمیان اس امر پر ایک بالواسطہ اتفاق موجود تھا کہ ان اچھائیوں، نیکیوں اور فضائل کی قدر کی جائے، انھیں تحفظ فراہم کیا جائے، اور انھیں ذہن نشین کیا جائے۔

ماہر بشریات ڈیوڈ سکاٹ نے اسے بلیغ انداز میں یوں بیان کیا ہے:

روایت صرف ایک ایسی وراثت کا نام نہیں، جو آپ کو ملتی ہے۔ روایت ماضی اور حال کے درمیان ایک انفعالی اور انجذابی تعلق کا نام بھی نہیں۔ بلکہ روایت ایک فعال تعلق پر دلالت کرتی ہے، جس میں حال ماضی کو پکارتا ہے۔ اس معنی میں روایت سے ہمیشہ اعمال اور اداروں کا ایک ایسا مجموعہ مراد ہوتا ہے، جو براہ راست ان فضائل کو بار بار پیدا کرتا ہے، جو اس روایت میں 'داخلی' سمجھے جاتے ہیں۔ اس معنی میں اصولاً روایت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ماضی میں کیا ہوا تھا۔ یہ ماضی کی تمنا سے زیادہ ماضی کی یاد ہے، یہ بقا اور بصیرت اور کا ایک ذریعہ ہے23۔

اس کتاب نے (اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کی جنوبی ایشیا میں) ایک استدلالی روایت کی زندگی میں ان مخصوص اداوار کو بیان کیا ہے، جن میں وہ متوازی اعمالِ صالحہ اور شرعی تفہیمات میں الجھی ہوئی تھی۔ ایک بین المسالک اختلافات کی ایک جاری بحث میں جان ڈالنے والی متون اور سیاقات کا مطالعہ کرکے اس کتاب نے کوشش کی ہے کہ جنوبی ایشیا کی مسلم علمی روایات کی پیچیدگوں اور حرکیات کو سامنے لائے۔ ایسا کرتے وقت میں نے کوشش کی ہے کہ ان توقعات، بے چینیوں اور ابہامات کو نمایاں کروں جو جدید جنوبی ایشیا کے علما کی دینی فکر کی شناخت ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ان کے اختلافی نکات اور مناہج سے متفق نہ ہو، لیکن ان کے دینی تصورات کی تشکیل کرنے والے استدلالات اور تنازعات کی مختلف پرتیں ان کی فکر کی کافی گہرائی، نزاکت، تضاد اور ابہام کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کتاب نے یہ کوشش کی ہے کہ ان کے استدلالات اور تنازعات کی کچھ تفصیل پیش کرے، اس امید پر کہ انیسویں صدی کے ایک ایسے مناقشے کی وضاحت ہو جائے، جو آج تک جنوبی ایشیا کے اندر اور باہر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو متاثر کرتا ہے۔


حواشی

  1. شیرکوٹی، حیاتِ امداد، 131 – 32۔
  2. ایضاً۔
  3. بحوالۂ ایضاً، 133۔
  4. جمیل تھانوی (مدون)، شرح فیصلۂ ہفت مسئلہ (لاہور: جامعہ ضیاء العلوم، 1971)، 98۔ اس کتاب کے آنے والے تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے ہیں، اور متن میں بین القوسین درج ہیں۔
  5. خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعہ (کراچی: دارالاشاعت، 1987)، 30۔
  6. ایضاً۔
  7. دیکھیے: امیرہ میٹرمائیر، Dreams That Matter: Egyptian Landscapes of Imagination (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2010)۔
  8. فرانسس روبنسن، Islam and Muslim History in South Asia (نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2000)، 125۔
  9. ایضاً، 127۔ 
  10. طلسم سے آزاد (disenchantment) کی اصطلاح، بالخصوص جب یہ جدید مغرب کی ایک اہم کام یابی کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، کی ایک عمدہ تحقیق کے لیے دیکھیے: جیسن جوزیفن سٹورم، The Myth of Disenchantment: Magic, Modernity, and the Birth of the Human Sciences (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2017)۔
  11. انندا ابیسیکارا، The Im-possibility of Critique: The Future of Religion’s Memory، ریلجن اینڈ کلچر 11، نمبر 3 (2010): 213 – 46۔
  12. انندا ابیسیکارا، The Political Postsecular Religion: Mourning Secular Futures (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2007)۔
  13. صبا محمود، Religious Difference in a Secular Age: A Minority Report (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2016)، 74۔
  14. شیر علی ترین، Islam, Democracy, and the Limits of Secular Conceptuality، جرنل آف لا اینڈ ریلیجن 29، نمبر 1 (2014): 1 – 17۔
  15. سیما علوی نے فیصلۂ ہفت مسئلہ کے مطالعے سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ کہ حاجی صاحب نے "فرد کی اصلاح پر مرتکز ایک وسعت مشربی" کی تشکیل وتجسیم کی، یا یہ کہ انھوں نے "تمام امت کو متحد کرنے کی خواہش کی اور یورپ کی تہذیبی یلغار کا سامنا کیا (علوی، Muslim Comopolitanism، 248، 251)۔ جیسا کہ میں نے ایک اور مقام پر پوری تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے کہ "فیصلۂ ہفت مسئلہ کا بنیادی استدلال فرد کی مرکزیت یا سماجی ترقی نہیں تھا، بلکہ بالکل اس کے الٹ تھا۔ حاجی صاحب کا بنیادی خداشہ علما اور عوام کے درمیان فرق مراتب کی سالمیت کو برقرار رکھنا تھا۔ انھوں نے یہ رسالہ اس شمالی ہندوستان میں بین العلما مناظروں کی اس آگ کو بجھانے کے لکھا، جو ان کو بے چین کیے رکھتا تھا، کیوں کہ ان کی نظر میں یہ مناظرے عوام کی نظروں میں علما کی عزت وقار کے خاتمے کا سبب بن رہے ہیں۔۔۔ ان کا پروجیکٹ جہاں ایک طرف مکمل طور پر شمالی ہندوستان میں بریلوی دیوبندی مناظروں کے سیاق سے مربوط تھا، وہیں وہ عوام کے اوپر علما کی برتری اور استناد کو برقرار رکھنے کا بھی شدت سے داعی تھا"۔ شیر علی ترین، سیما علی کتاب Muslim Cosmopolitanism in an Age of Empire پر تبصرہ، انٹرنیشنل جرنل آف ایشین سٹڈیز 15، نمبر 1 (جنوری 2018): 131۔ 
  16. 38۔ تھانوی، ارواحِ ثلاثہ، 132۔
  17. مثال کے طور پر دیکھیے: چارلس ٹیلر، A Secular Age (کیمبرج، ایم اے: ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 2007)؛ اروند منڈیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality and the Politics of Religion (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)؛ رسل میک کوچین، They ‘Licked the Platter Clean’: On the Co-dependency of the Religious and the Secular، میتھڈ اینڈ تھیوری این دی سٹڈی آف ریلجن 19 (2007): 173 – 99؛ جان ماڈرن، Secularism in Antebellum America (شکاگو، یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2011)۔ 
  18. طلال اسد، Reading a Modern Classic: W. C. Smith’s The Meaning and End of Religion، ہسٹری آف ریلجنز 40، نمبر 3 (فروری 2001): 205 – 21۔
  19. حسین اگراما، Questioning Secularism: Islam, Sovereignty, and the Rule of Law in Modern Egypt (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2012)؛ صبا محمود، Religious Difference in a Secular Age: A Minority Report (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2016)۔
  20. طلال اسد، Formations of the Secular: Christianity, Islam, Modernity (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 2003)۔
  21. مذہب سازی پر دیکھیے: مارکوس ڈریسلر اور اروند منڈیر، Secularism and Religion Making (نیو یارک: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2011)۔
  22. اس استدلال کی سب سے زیادہ اطمینان بخش مثال کے لیے دیکھیے: ڈیوڈ سکاٹ، Conscripts of Modernity: The Tragedy of Colonial Enlightenment (درہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2004)، 98 – 132۔
  23. ڈیوڈ سکاٹ، Refashioning Futures: Criticism after Postcoloniality (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1999)، 115۔

(مکمل)

دسمبر ۲۰۲۳ء

امریکا کا حالیہ سفر: احوال وتاثراتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ سنن النسائی (۳)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
حلال وحرام سے آگاہی اور علماء کرام کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
درسِ نظامی کی بعض کتب کے ناموں اور نسبتوں کی تحقیقمولانا احمد شہزاد قصوری
امریکی جامعات میں فلسطین کے حق میں مظاہرےمراد علی

امریکا کا حالیہ سفر: احوال وتاثرات

محمد عمار خان ناصر

برادرم حسن الیاس (ڈائریکٹر غامدی سنٹر آف اسلامک لرننگ، ڈیلس، امریکا) کا کافی عرصے سے حکم تھا کہ کچھ دن کے لیے ڈیلس میں غامدی سنٹر کا مہمان بنا جائے۔  احادیث نبویہ کی شرح ووضاحت پر مبنی ایک مجموعے   کی تیاری میں مشاورت کے حوالے سے  نومبر کے دوسرے ہفتے میں اس سفر کی ترتیب بن گئی اور  میں اس وقت تقریباً‌  تین ہفتے سے ڈیلس میں ہوں۔

۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۹ء کے عرصے میں، جب میں المورد کے ساتھ بطور   تحقیق کار وابستہ تھا اور ہفتہ وار علمی نشستوں میں غامدی صاحب کی کتاب میزان اور تفسیر البیان زیر مطالعہ رہتی تھی،  تو حدیث کی شرح وتحقیق کا کام بنیادی طور پر المورد کے مختلف اسکالرز کے سپرد تھا۔ طالب محسن صاحب، رفیع مفتی صاحب اور معز امجد صاحب مختلف شکلوں میں احادیث کی شرح ووضاحت کا کام کر رہے تھے۔ غامدی صاحب کی اصولی راہنمائی ان سب اہل علم کو حاصل تھی، لیکن وہ بذات خود میزان اور البیان کی تکمیل میں مصروف تھے۔ میزان تو اسی عرصے میں مکمل ہو چکی تھی، جبکہ البیان کی تکمیل ۲۰۰۹ء سے ۲۰۱۹ء کے عرصے میں ہوئی جب وہ ملائشیا میں مقیم تھے۔ البتہ ان کا یہ ارادہ ضرور تھا کہ البیان مکمل ہونے کے بعد وہ حدیث کی شرح ووضاحت پر بھی خود کام کریں گے۔

اسی دورانیے میں برادرم حسن الیاس ان کے پاس ملائشیا چلے گئے تھے اور وہاں انھوں نے اور مولانا ڈاکٹر عامر گزدر (فاضل جامعہ علوم اسلامیہ، بنوری ٹاون) نے ۲۰۱۷ء میں غامدی صاحب کی نگرانی میں حدیث پراجیکٹ کی باقاعدہ ابتدا کی۔ اس میں احادیث کے متن کی تحقیق وتخریج اور متن کا ترجمہ وحواشی لکھنے کا کام یہ دونوں فاضلین کرتے ہیں۔ غامدی صاحب کی نظرثانی کے بعد جب روایت کا بہترین نمائندہ متن منتخب کر لیا جاتا ہے تو پھر اس کے اہم پہلووں پر غامدی صاحب خود اپنے قلم سے تشریحی حواشی لکھتے ہیں۔

اس تحقیقی کام کا پہلا مجموعہ ’’علم النبی“ کے عنوان سے اشاعت کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔ میں اس کے متفرق اجزا تو اشراق میں دیکھتا رہا، تاہم کچھ ماہ قبل حسن الیاس صاحب نے جناب جاوید احمد غامدی کی یہ تجویز مجھ تک پہنچائی کہ شائع ہونے سے قبل اگر ایک دفعہ میں بھی اس پورے مواد کو دیکھ کر اپنی تجاویز اور مشورے عرض کر دوں تو مناسب ہوگا۔ میں نے تعمیل ارشاد میں کچھ منتخب حصوں سے متعلق اپنی بساط اور سمجھ کے مطابق تجاویز یا ترامیم پیش کر دیں۔ بہت سے سوالات بھی سامنے آتے رہے جن پر غامدی صاحب سے براہ راست استفادہ کی ضرورت تھی۔ یوں موجودہ سفر کا ایک تقاضا بنتا چلا گیا جس کا خاص مقصد اسی مجموعے کی نظرثانی اور بہتری کے عمل میں شریک ہونا اور اہم سوالات سے متعلق غامدی صاحب سے استفادہ کرنا ہے۔


ٹیکساس کی طرف پہلی دفعہ آنا ہوا۔ اس سے پہلے تین اسفار میں زیادہ تر نیو یارک، واشنگٹن، ورجینیا اور نارتھ کیرولائنا کی طرف رخ رہا۔ گزشتہ سفر میں انڈیانا اور شکاگو کے علاقے دیکھے تھے۔ اس سفر میں زیادہ تر قیام ڈیلس میں رہا جو ٹیکساس کے بڑے اور متمول شہروں میں سے ایک بتایا جاتا ہے۔ سابق امریکی صدور جارج بش سینئر وجونیئر کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔ بتایا گیا کہ یہاں معاشرتی طور پر مذہبی رجحان بہت نمایاں ہے جس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ڈیلس میں گھومتے ہوئے ہر روڈ پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چرچ دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا تعلق مختلف مسیحی فرقوں سے ہے اور یہ آباد چرچ ہیں۔

مسلمان، خاص طور پر پاکستانی اور ہندوستانی مسلمان بھی یہاں کافی تعداد میں ہیں اور اکثریت پروفیشنل طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ غامدی سنٹر میں ہفتہ وار آن لائن درس قرآن میں جو پندرہ بیس حاضرین وحاضرات جسمانی طور پر موجود تھے، ان میں سے زیادہ تر ڈاکٹر تھے۔ پتہ چلا کہ امریکا کے کئی نمایاں مسلم اہل علم ومبلغین مثلاً‌ شیخ یاسر قاضی، عمر سلیمان اور نعمان علی خان بھی اسی علاقے میں ہیں۔ یہاں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا مرکز منہاج القرآن سنٹر بھی ہے اور غامدی صاحب نے بتایا کہ وہ نماز جمعہ معمولاً‌ وہیں ادا کرتے ہیں۔ قلم کے نام سے جامعہ بنوریہ عالمیہ کے بعض دیوبندی فضلا نے یہاں ایک دینی مدرسہ بھی قائم کیا ہے جہاں درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔  اس سارے تنوع میں اب غامدی سنٹر کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

جنوبی ایشیا کی بعد از استعمار سیاسی تاریخ اور مذہبی فکر کے ایک طالب علم کے طور پر یہ سوال غور وفکر اور تجزیے کا موضوع رہتا ہے کہ بدلے ہوئے تاریخی حالات میں ہمارے اہل فکر اور سیاسی اشرافیہ کے ہاں مسلم معاشرے کی تعمیرنو کے خطوط کیا رہے ہیں اور اس حوالے سے کون سی قابل توجہ کوششیں اب تک سامنے آئی ہیں۔ اس ضمن میں اگر بڑی سطح کی، جامعیت رکھنے والی اور عملاً‌ قابل لحاظ اثرات مرتب کرنے والی کوششیں شمار کی جائیں تو وہ ہمارے خیال میں اب تک تین ہی بنتی ہیں:

۱۔ سرسید احمد خانؒ کی دینی وسیاسی فکر

۲۔ دیوبندی تحریک ، اور

۳۔ مولانا مودودیؒ کی فکر۔

ان تینوں نے پچھلی ڈیڑھ صدی میں ہماری تاریخ اور معاشرے پر خاص اثرات مرتب کیے ہیں، لیکن تاریخ کے عام اصول کے مطابق ہر فکری تحریک کی کچھ محدودیتیں ہوتی ہیں جن سے تاریخ پر اثراندازی کا ایک saturation point وجود میں آتا ہے۔ یہ تینوں فکری دھارے اس نقطے تک پہنچ کر داخلی اضمحلال اور انتشار کا شکار ہیں جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ کوئی نیا فکری دھارا جو مسلم معاشرے اور اس کے مسائل کو بحیثیت کل کے موضوع بناتا ہو، اپنا کردار ادا کرے اور متقدم فکری دھارے، اپنے تاریخی بوجھ اور محدودیت کی وجہ سے، جس تاریخی صورت حال کو سمجھنے، اس پر توجہ دینے اور اس کو ایڈریس کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس پر ایک بیانیہ پیش کرے۔

میری طالب علمانہ رائے میں جاوید احمد غامدی صاحب کی فکر، گزشتہ تین دہائیوں کے نضج اور ارتقاء کے بعد، اب ان ضروری شرائط کو پورا کرتی ہے جو کسی فکر کو یہ کردار سونپے جانے کے قابل بناتی ہیں۔ تاہم میرا یہ بھی احساس ہے کہ ان کو اس وقت جو ایک وسیع پذیرائی اور عصبیت میسر ہے، شاید اس پر بھی اس فکر کا یہ potential اتنا واضح نہیں۔ اس تناظر میں، دینی فکر کی تاریخ کے ایک طالب علم اور غامدی صاحب کی فکر کی ایک ہمدردانہ تفہیم رکھنے والے مبصر کے طور پر یہ ارادہ ہے کہ اس حوالے سے کچھ اہم معروضات، دینی امانت سمجھ کر، وقتاً‌ فوقتاً‌ اس حلقے کی خدمت میں پیش کی جائیں۔


غامدی سنٹر میں  ہفتہ اور اتوار کو  آن لائن درس قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں کچھ حضرات وخواتین بالمشافہہ بھی شریک ہو جاتے ہیں۔ درس کے بعد غیر رسمی نشست میں حاضرین عمومی موضوعات پر تبادلہ خیال یا سوال وجواب کرتے ہیں۔  ایسی ہی ایک نشست میں حاضرین کے مابین فلسطین کے مسئلے پر گرما گرم بحث سننے کو ملی  جس میں دونوں انتہاؤں کی نمائندگی ہو رہی تھی۔ ایک نقطہ نظر یہ تھا کہ سارے اسرائیلی شہری مقاتل ہیں اور ان کو نشانہ بنانا جائز ہے۔ دوسرا یہ تھا کہ غزہ کے لوگ حماس کے حامی اور موید ہونے کی وجہ سے خود موجودہ صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ غامدی صاحب بیچ بیچ میں کوشش کر رہے تھے کہ اعتدال کا نقطہ واضح ہو۔

ایک اہم بات انھوں نے یہ کہی جو گزشتہ دنوں میں نے بھی عرض کی تھی کہ صہیونی تحریک نے حقیقت میں یہودیوں کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ ان کی مصیبت کو بڑھا دیا ہے۔ غامدی صاحب نے اس کا یہ پہلو واضح کیا کہ دراصل صہیونی قائدین نے تاریخ میں رونما ہونے والی تبدیلی کو نہیں سمجھا اور اس کے علی الرغم ایک اقدام کر ڈالا۔ یورپ میں تاریخ اس سمت میں بڑھ رہی تھی کہ وطنی قومیت کی بنیاد پر ریاستیں بنیں جن میں تمام شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں، لیکن صہیونیوں نے وطنی قومیت کے عہد میں ایک نسلی ریاست قائم کر ڈالی۔ نتیجہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کی تمام قومی ریاستوں میں یہودی بالکل محفوظ ہیں اور یہودی مسئلہ ختم ہو چکا ہے (بلکہ اتنا تحفظ حاصل ہے کہ ہولوکاسٹ کا انکار ایک جرم سمجھا جاتا ہے) جبکہ خود نسلی یہودی ریاست میں ان کو بعینہ اس صورتحال کا سامنا ہے جس سے نجات پانے کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔ یوں صہیونیت نے، ظاہری اسباب کے دائرے میں، یہودی مسئلے کو حل کرنے میں نہیں بلکہ اس کو مزید طول دینے میں کردار ادا کیا ہے۔

میرے خیال میں اسی وجہ سے یورپ اور امریکا میں خود یہودیوں میں بھی اسرائیل کی مخالفت کرنے والا ایک بڑا طبقہ پایا جاتا ہے۔ جو کچھ صہیونی کر رہے ہیں، اس پر مجموعی حیثیت میں سارے یہودیوں کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ صہیونی نظریہ اگرچہ بظاہر ایک سیکولر نظریہ تھا، لیکن اس نے مسئلے کے حل کے لیے یہودیوں کے مذہبی تصورات کو بنیاد بنایا اور آج اسرائیل میں متشدد مذہبی وسیاسی بیانیے غالب ہو چکے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر بقا کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ عالمی سیاست کی سطح پر اسرائیل خالصتا" استعماری کردار ہے جس کی خطے کے ساتھ کوئی فطری اور مثبت نسبت نہیں پائی جاتی۔ یہ پہلو عالمی سیاسی ڈسکورس میں نمایاں کرنے کی ضرورت ہے اور امریکا میں موجود اہل قلم واہل دانش اس میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔


مدرسہ ڈسکورسز پراجیکٹ کے بانی پروفیسر ابراہیم موسی صاحب کو میری آمد کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے امریکن اکیڈمی آف ریلیجن کے سالانہ اجتماع میں شرکت کا انتظام کر لیا جو اتفاق سے نومبر میں سین اینٹونیو، ٹیکساس میں ہی منعقد ہو رہا تھا۔  امیرکن اکیڈمی آف ریلیجن امریکا میں مذہبی مطالعات سے وابستہ اسکالرز کی ایک بڑی تنظیم ہے جو دیگر سرگرمیوں کے علاوہ محققین کے ایک سالانہ اجتماع کا اہتمام کرتی ہے۔ اس سال یہ اجتماع سین اینٹونیو، ٹیکساس میں منعقد ہوا جس میں پورے امریکا سے دس ہزار کے لگ بھگ اسکالرز شریک ہوئے۔ بتایا گیا کہ کووڈ کی وباسے پہلے یہ تعداد بیس سے پچیس ہزار تک ہوا کرتی تھی جس میں  اب کافی تخفیف ہو گئی ہے۔

یہ اجتماع ۱۷ سے ۲۱ نومبر تک جاری رہا۔ صبح سات  سے رات نو  بجے تک درجنوں موضوعات پر اسکالرز، مختلف سیسشنز میں باہمی افادہ واستفادہ میں مصروف رہے۔ اجتماع کا انتظام ایک بڑے کنونشن سنٹر میں کیا گیا تھا جس کے مختلف ہالز میں مقررہ اوقات میں سیشنز جاری رہے۔ یہ ایک بہت بڑا اور اہم علمی اجتماع سمجھا جاتا ہے جس میں مذہبی مطالعات کے اسکالرز شرکت کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اس کے تمام سیشنز کے موضوعات اور وقت ومقام انعقاد کی تفصیل کے لیے سوا چار سو صفحات کی ایک کتاب شائع کی گئی ہے اور ایک ایپ بھی اسی مقصد کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔

اجتماع میں جن مختلف سیشنز میں شرکت ہوئی، ان میں سے ایک پروفیسر جوناتھن لارنس کی کتاب Coping with Defeat پر ایک مذاکرہ تھا جس میں مصنف کے علاوہ، پروفیسر ابراہیم موسیٰ سمیت دوسرے اسکالرز بھی تبصرے کے لیے موجود ہیں۔

اسی طرح اسلامی معاشیات اور امریکہ میں مسلمانوں کی خیراتی تنظیموں سے متعلق ایک پینل ڈسکشن میں بطور سامع شرکت ہوئی جس میں ڈاکٹر صہیب خان بھی ایک پینلسٹ تھے۔ ڈاکٹر صہیب خان کی فراغت جامعہ اشرفیہ لاہور سے ہے اور اسلامی بینکنگ میں اختصاص حاصل کرنے کے بعد اب یہیں امریکا میں تدریسی وتحقیقی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ اسلامی بینکنگ کے مروجہ ڈھانچے اور اس کے نظری و عملی مسائل پر ان سے وقتاً فوقتاً سیکھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ ایک خاص نکتہ انھوں نے یہ بیان کیا کہ اسلامی بینکنگ کے مروج بیانیے نے کیپٹلزم کی تنقید کے اس بیانیے کو کافی حد تک دبا دیا ہے جو ابتدا میں اسلامی معاشیات کا ایک بنیادی موضوع تھا۔

ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر شیر علی ترین نے حال ہی میں   برطانوی عہد میں ہندو مسلم تعلقات کے حوالے سے اہم مذہبی بحثوں پر ایک کتاب شائع کی ہے۔ ایک سیشن اس کتاب پر بھی تھا جس میں مختلف اسکالرز نے  ڈاکٹر ترین کے نتائج بحث پر سوالات اٹھائے اور ڈاکٹر ترین نے  ان کے حوالے سے اپنی معروضات  پیش کیں۔

ایک شام کو مولانا امین بھٹی صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے اور عشائیہ کے لیے ایک ریستوران میں لے گئے۔ وہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے فاضل اور جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے علوم حدیث کے متخصص ہیں۔ انھوں نے مولانا معین الدین لکھوی ؒاور مولانا قاضی اسلم سیف ؒکے حوالے سے اپنی یادیں بیان کیں اور غامدی صاحب کے ساتھ تعارف اور تاثر کی داستان بھی سنائی۔ سین اینٹونیو میں ایک اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں اور خطبہ جمعہ بھی دیتے ہیں۔

اور بھی کئی اسکالرز سے ملاقات ہوئی۔ برطانیہ سے مولانا ہارون سیدات پہلے دن سے ہمارے ساتھ تھے۔ انھوں نے برطانیہ کے علاوہ دیوبند، ندوہ اور سہارنپور میں دینی تعلیم مکمل کی ہے اور یورپ میں دینی مدارس کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا ہے۔ پاکستان سے ڈاکٹر نعمان فیضی بھی یہاں موجود تھے جو LUMS میں پڑھاتے ہیں اور ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ علامہ اقبال کی ری کنسٹرکشن پر ہے۔

ڈاکٹر علی الطاف میاں بھی پاکستان سے ہیں اور انھوں نے پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی نگرانی میں مولانا اشرف علی تھانوی[  کی دینی فکر پر کام کیا ہے۔ آج کل یونیورسٹی آف فلوریڈا میں ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر علی میاں نے مذکورہ سب احباب کو عشائیے پر جمع کیا اور مختلف علمی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔

ایک اور سیشن جس میں شرکت ہوئی، اس کا عنوان Constructive Muslim Theology تھا جس میں پروفیسر ابراہیم موسی بھی پینلسٹ تھے۔  غیر متوقع طور پر یہاں ڈاکٹر شعیب ملک سے ملاقات ہو گئی جو ان دنوں امریکا میں ہیں اور اسلام اور سائنس کے موضوع پر مسلمان نوجوانوں کے ساتھ اہم سوالات پر گفتگو کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ سات امریکی ریاستوں میں انھوں نے اجتماعات کیے ہیں اور اس موضوع پر نوجوانوں میں کافی علمی طلب پائی جاتی ہے۔ ڈاکٹر شعیب ملک نے اسلام اور نظریہ ارتقا پر اپنی کتاب کا اردو ترجمہ مکمل ہونے کی بھی اطلاع دی جو پاکستان میں مولانا یونس قاسمی کے ادارہ، افکار کے زیر اہتمام شائع ہوگی۔


۲۴ نومبر کو  غامدی صاحب اور برادرم حسن الیاس کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مقامی منہاج القرآن سنٹر  جانا ہوا۔ غامدی صاحب اصولاً حنفی فقہاء کے قدیم موقف کو درست سمجھتے ہیں جن کے نزدیک، عہد نبوی وعہد صحابہ کے تعامل کی روشنی میں، نماز جمعہ کی امامت حکمران یا اس کے مقرر کردہ عمال کا حق ہے۔ علماء ازخود کہیں بھی جمعہ کی امامت نہیں کر سکتے۔

احناف اس کی دلیل اجتماعی مصلحت سے بھی دیتے ہیں کہ جمعے کا منبر اسلامی ریاست کا ایک اجتماعی اور پبلک پلیٹ فارم ہے اور اس کو انفرادی صوابدید کے سپرد کرنے سے منافست اور مقابلہ بازی پیدا ہوگی جس سے معاشرے میں انتشار پھیلے گا۔ یہ اسلامی اجتماعیت کے حوالے سے بہت اہم بات تھی جس کا ثبوت آج ہمارے سامنے یوں ہے کہ خود علماء کے لیے بھی اس کا راستہ کھول دینے کے بعد اب منبر ومحراب کو اصول وآداب کا پابند رکھنا اور غیر ذمہ دار عناصر کا محاسبہ ومواخذہ ناممکن ہو چکا ہے۔ اس کے برعکس جن مسلم ممالک میں جمعہ کی امامت نظم اجتماعی کے اختیار میں ہے، وہاں آج بھی مذہبی اجتماعیت کی صورت حال بہت بہتر ہے۔

خیر، یہ غامدی صاحب کا نظری اور اصولی موقف ہے۔ عملاً وہ پاکستان میں بھی مسلمانوں کے عام معمول کے مطابق نماز جمعہ ادا کرتے تھے اور یہاں امریکا میں بھی یہی معمول ہے۔ ان کا موقف یہ ہے کہ کسی اجتماعی معاملے میں مسلمان جو فیصلہ کر لیں، اس سے اختلاف رکھتے ہوئے بھی عملاً اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں غیر مسلم ممالک کا حکم اصولاً بھی مختلف ہونا چاہیے، کیونکہ جمعہ مسلمانوں کی اجتماعیت کا بھی ایک اظہار ہے جس کی ضرورت غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو زیادہ ہے اور ظاہر ہے، یہاں کوئی مسلمان حکمران نہیں ہے جس کے لیے امامت کا استحقاق مانا جائے۔

قلم کے نام سے ایک دینی ادارے کا ذکر ہوا تھا جو جامعہ بنوریہ عالمیہ کے فارغ التحصیل مولانا شیخ ناصر جھانگڑا کے زیر انتظام ڈیلس میں کام کر رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ آج کل عمرے کی ادائیگی کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ یہ بھی علم میں آیا کہ اس ادارے کا الحاق بھی جامعہ بنوریہ عالمیہ سے ہی ہے اور اسی کی سرپرستی میں کام کی ترتیب بنائی گئی ہے۔

 یہاں متعدد دفعہ  نماز مغرب ادا کرنے کے لیے جانا ہوا۔  ایک بات تو فوراً‌ یہ نوٹس  میں آتی ہے  کہ مسجد کے بڑے ہال کا پچھلا حصہ خواتین کے لیے مخصوص ہے اور درمیان میں کوئی آڑ یا پردہ وغیرہ نہیں ہے۔ خواتین کو نماز ادا کرتے، قرآن پڑھتے اور حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جیسا کہ عہد نبوی میں مسجد نبوی کا منظر ہوتا تھا۔ خواتین کے سر ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں، لیکن نقاب کی پابندی نظر نہیں آتی۔ مغرب کی نماز میں بھی کافی خواتین تھیں اور معلوم ہوا کہ یہاں عموماً‌ بھی ان کا ادارے کی طرف کافی رجوع ہے۔

ایک دوسرے موقع پر  نماز مغرب کے لیے گئے تو ایک اور چیز دیکھی۔ نماز کی امامت کے لیے ایک ایسے دوست کھڑے ہوئے جو غالباً عرب تھے اور ڈاڑھی قبضے سے بہت کم کتری ہوئی تھی۔ انھوں نے خوب صورت قراءت کے ساتھ نماز پڑھائی۔ پھر دیکھا کہ کچھ دوست جو جماعت میں شامل نہیں ہو سکے تھے، بعد میں ایک چھوٹی سی الگ جماعت کرنے لگے اور ان کے امام بھی ایک مقطوع اللحیہ نوجوان تھے۔

ایک دیوبندی ادارے میں یہ ساری چیزیں بظاہر عام معروف سے ہٹ کر ہیں، لیکن معروف کا تعلق ماحول اور کلچر سے ہوتا ہے۔ فقہی مسائل اس میں ضمنی کردار ادا کرتے ہیں۔ خواتین کے، مردوں کے ساتھ ایک ہی ہال میں اکٹھے نماز ادا کرنے اور قبضے سے کم ڈاڑھی والے کی امامت کی دینی وفقہی گنجائش ہر جگہ ایک جیسی ہی ہے۔ اس میں حنفی فقہ انڈیا اور پاکستان اور امریکا کے لیے مختلف نہیں ہے۔ لیکن کلچر اور دینی راہ نماؤں کا ذہنی رویہ مختلف ہے۔ غیر مسلم ممالک میں دینی راہ نماؤں پر دعوتی انداز نظر غالب ہوتا ہے اور کمیونٹی کو، خصوصاً نوجوان نسل کو جوڑنا مقصود ہوتا ہے۔ اس لیے فقہی ترجیحات ثانوی ہو جاتی ہیں اور دعوتی مصلحت اور شرعی وسعت اصل اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔

اس کے برخلاف  اکثریتی مسلم معاشروں میں دعوتی سے زیادہ ثقافتی اور مسلکی شناخت اہم مانی جاتی ہے اور ائمہ وخطبا اور مفتیان کرام کو عموماً اپنی دینی اتھارٹی کو منوانے سے زیادہ سروکار ہوتا ہے۔ بہرحال، آنے والے وقتوں میں جو دینی حلقے نوجوان نسل کے ساتھ اسی طرح کا تعامل سیکھ لیں گے جیسا اقلیتی مسلم معاشروں میں ہوتا ہے، وہی دین اور معاشرے کے ربط باہمی میں زیادہ موثر کردار ادا کر سکیں گے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(455) کفرہ اور کفر بہ میں فرق

قرآن مجید میں کفر بہ تو کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اکثر جگہوں پر انکار کے معنی میں اور کہیں کہیں ناشکری کے معنی میں۔ جب کہ کفرہ چند مقامات پر آیا ہے۔ دونوں کے درمیان فرق کا ذکر ہمیں عام طور سے نہیں ملتا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کفرہ اور کفر بہ کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کفر کے بعد اگر باء نہ ہو تو کفر انکار کا معنی نہیں بلکہ ناشکری کا معنی دیتا ہے۔ حدیث میں لتکفرن العشیر ناشکری کے معنی میں آیا ہے۔ قرآن کی درج ذیل آیت میں عام طور سے کفر کا ترجمہ ناشکری کیا گیا ہے، کیوں کہ واضح طور پر شکر کے سیاق میں بات ہورہی ہے:

(۱) فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوا لِی وَلَا تَکْفُرُونِ۔ (البقرۃ: 152)

”سو تم مجھے یاد کرو۔ میں تمہیں یاد کیا کروں گا۔ اور میرے احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس لیے تم میرا ذکر کرو، میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو تم یاد رکھو مجھ کو میں یاد رکھوں تم کو اور احسان مانو میرا اور ناشکری مت کرو“۔(شاہ عبدالقادر)

البتہ ذیل کے ترجمے میں کفر کا ترجمہ کفر کیا گیا ہے جو درست نہیں ہے:

”پس یاد کرو تم مجکو یاد کروں گا تم کو اور شکر کرو واسطے میرے اور کفر نہ کرو مجھ سے“۔ (شاہ رفیع الدین)

(۲) وَمَا یَفْعَلُوا مِنْ خَیْرٍ فَلَنْ یُکْفَرُوہُ۔ (آل عمران: 115)

اس آیت میں کفر دو مفعولوں کی طرف متعدی ہے۔ اس وجہ سے بعض نے اس کا ترجمہ محروم کرنا کیا ہے، کچھ لوگوں نے لفظ کفر کو دیکھ کر انکار کرنا کیا ہے۔ لیکن مناسب ترین ترجمہ ناقدری کرنا ہے۔ یہ دراصل فَأُولَءِکَ کَانَ سَعْیُہُمْ مَشْکُورًا (الاسراء: 19) کے ہم معنی تعبیر ہے۔ ایک جگہ کہا گیا ہے کہ قدر کی جائے گی دوسری جگہ کہا گیا کہ ناقدری نہیں کی جائے گی۔ اب ذیل کے ترجمے ملاحظہ ہوں: 

”اور جو بھی نیکی یہ کریں گے تو اس سے محروم نہیں کیے جائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور وہ جو بھلائی کریں ان کا حق نہ مارا جائے گا“۔ (احمد رضا خان)

”یہ جو بھی خیر کریں گے اس کا انکار نہ کیا جائے گا“۔ (ذیشان جوادی)

”اور یہ لوگ جو نیک کام کریں گے اس سے محروم نہ کیے جاویں گے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”اور جو کریں گے نیک کام سو ناقبول نہ ہوگا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”یہ جو کچھ بھی بھلائیاں کریں ان کی ناقدری نہ کی جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری دونوں ترجمے مناسب اور واضح ہیں۔

البتہ درج ذیل دونوں آیتوں میں کفر کا ترجمہ عام طور سے کفر و انکار کیا گیا ہے، اگر  کفرہ اور کفر بہ میں مذکورہ بالا فرق کا لحاظ کیا جائے تو دونوں جگہ ناشکری کرنا ترجمہ ہونا چاہیے۔

(۳) أَلَا إِنَّ عَادًا کَفَرُوا رَبَّہُمْ۔ (ہود: 60)

”دیکھو عاد نے اپنے پروردگار سے کفر کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”سنو! عاد نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (سید مودودی)

”سن لو! بیشک عاد اپنے رب سے منکر ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”دیکھ لو قوم عاد نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (محمد جونا گڑھی)

”سنو عاد نے اپنے رب کی ناشکری کی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(۴)  أَلَا إِنَّ ثَمُودَ کَفَرُوا رَبَّہُمْ۔ (ہود: 68)

”سنو! ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (سید مودودی)

”سن لو! بیشک ثمود اپنے رب سے منکر ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”سن رکھو کہ ثمود نے اپنے پروردگار سے کفر کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”آگاہ رہو کہ قوم ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”سنو ثمود نے اپنے رب کی ناشکری کی“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(456)  مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ

درج ذیل آیت میں مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ کا تعلق سابقہ مذکور باتوں میں کس سے ہے؟

کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ۔ (ہود: 1)

اس بارے میں تین رائے ہوسکتی ہیں۔ صرف فصلت سے، یعنی آیتوں کی تفصیل اللہ کی طرف سے ہے۔ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ سے، یعنی آیات کا محکم اور مفصل ہونا اللہ کی طرف سے ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اسے خبر مانا جائے، اور کتاب کو مبتدا یا مبتدا  محذوف کی خبر اوّل مانا جائے۔ یعنی یہ کتاب ہے جو حکیم و خبیر کی طرف سے ہے۔ دوسری صورت میں پہلی صورت بھی شامل ہوجاتی ہے اور تیسری صورت میں پہلی اور دوسری صورت بھی شامل ہوجاتی ہے۔ یعنی جب کتاب اللہ کی طرف سے ہے تو اس کا محکم و مفصل ہونا بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اس لحاظ سے تیسری صورت بہتر ہے۔   

کِتَابٌ أُحْکِمَتْ آیَاتُہُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ حَکِیمٍ خَبِیرٍ۔

”یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم ہیں اور خدائے حکیم وخبیر کی طرف سے بہ تفصیل بیان کردی گئی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یہ ایک کتاب ہے جس کی آیتیں حکمت بھری ہیں پھر تفصیل کی گئیں حکمت والے خبردار کی طرف سے“۔ (احمد رضا خان)

”یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم بنائی گئی ہیں اور ایک صاحبِ علم و حکمت کی طرف سے تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

”یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں پہلے محکم کی گئیں پھر خدائے حکیم و خبیر کی طرف سے ان کی تفصیل کی گئی“۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا ترجموں میں من لدن حکیم خبیر کو صرف فصلت سے متعلق مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔

”فرمان ہے، جس کی آیتیں پختہ اور مفصل ارشاد ہوئی ہیں، ایک دانا اور باخبر ہستی کی طرف سے“۔ (سید مودودی، اس ترجمہ میں ثم کی رعایت بھی نہیں ہے۔ رعایت کی صورت میں ترجمہ ہوگا: ”جس کی آیتیں پختہ ہیں پھر ان کی تفصیل کی گئی ہے“۔) اس ترجمہ میں لگتا ہے کہ أحکمت اور فصلت دونوں سے متعلق مانا گیا ہے۔

”یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم اور مضبوط بنائی گئی ہیں اور پھر تفصیل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں یہ اس کی طرف سے ہے جو بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے“۔(محمد حسین نجفی)

یہ آخری ترجمہ بہتر ہے۔ اس ترجمہ میں من لدن حکیم خبیر کو خبر مانا گیا ہے۔

(457) بَادِیَ الرَّأْیِ کا ترجمہ

وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلَّا الَّذِینَ ہُمْ أَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّأْیِ۔ (ہود: 27)

”اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس اُن لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے بے سوچے سمجھے تمہاری پیروی اختیار کر لی ہے“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نہیں دیکھتے کہ تمہاری پیروی کسی نے کی ہو مگر ہمارے کمینوں نے سرسری نظر سے“۔ (احمد رضا خان)

”اور تیرے تابعداروں کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ واضح طور پر سوائے نیچ لوگوں کے اور کوئی نہیں جو بے سوچے سمجھے (تمہاری پیروی کر رہے ہیں)“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم (تمہاری پیروی کرنے والوں میں) انھی کو پاتے ہیں جو ہمارے اندر کے ذلیل لوگ بے سمجھے بوجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا ترجموں میں بادی الرّأی کا ترجمہ بے سوچے سمجھے کیا گیا ہے۔ عربی تفاسیر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہی مفہوم عام طور سے لیا گیا ہے۔ اگر بادئ  ہوتا (ہمزہ کے ساتھ)  تو یہ مفہوم لینا درست ہوتا۔ یعنی زیادہ سوچا نہیں جو رائے شروع میں بن گئی اسے پکڑلیا۔ لیکن یہاں بادی ہے بدا یبدو سے، جس کا مطلب ظاہر و واضح ہونا ہوتا ہے۔ بادی الرأی کی ترکیب دراصل موصوف صفت کی اضافت کی ہے۔ یعنی اصل میں وہ الرأی البادی ہے، یعنی واضح بات۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی بادی الرّأی کا ترجمہ کرتے ہیں: واضح طور سے۔ 

”اور ہم واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ہماری قوم میں سے بس ان لوگوں نے جو ہمارے ہاں اراذل تھے تمہاری پیروی اختیار کی ہے“۔

امام لغت الفراء نے یہ بات بخوبی واضح کی ہے:

(بادِیَ الرَّأْیِ) لا تَہمز (بادِیَ) لأن المعنی فیما یظہرُ لنا و یبدو. ولو قرأت (بادیء الرأی) فہمزت ترید أوّل الرأی لکان صوابًا. (معانی القرآن)

(458) وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ آیا ہے۔ جب کہ باقی تین باتوں کے ساتھ لا أقول آیا ہے۔ بعض لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ جیسے أَعْلَمُ الْغَیْبَ کے ساتھ   بھی لا أقول  ہو۔

وَلَا أَقُولُ لَکُمْ عِنْدِی خَزَاءِنُ اللَّہِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَیْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّی مَلَکٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِینَ تَزْدَرِی أَعْیُنُکُمْ لَنْ یُؤْتِیَہُمُ اللَّہُ خَیْرًا۔ (ہود: 31)

”اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ یہ کہتا ہوں کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں، نہ یہ میرا دعویٰ ہے کہ میں فرشتہ ہوں اور یہ بھی میں نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تمہاری آنکھیں حقارت سے دیکھتی ہیں انہیں اللہ نے کوئی بھلائی نہیں دی ان کے نفس کا حال اللہ ہی بہتر جانتا ہے اگر میں ایسا کہوں تو ظالم ہوں گا“۔ (سید مودودی،لَنْ یُؤْتِیَہُمُ کا ترجمہ ماضی نہیں مستقبل کا ہوگا: اللہ انھیں ہرگز کوئی بھلائی نہ دے گا)

”اور میں تمہارے سامنے یہ دعوی نہیں کرتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا اور نہ یہ دعوی کرتا ہوں کہ میں کوئی فرشتہ ہوں اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جن کو تمہاری نگاہیں حقیر دیکھتی ہیں، یہ کہہ سکتا کہ خدا ان کو کوئی خیر دے ہی نہیں سکتا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں کہہ سکتا اور دے ہی نہیں سکتا کی تعبیریں موزوں نہیں ہیں، موزوں تعبیر ہے: یہ کہتا کہ خدا ان کو کوئی خیر نہیں دے گا۔ یہاں استطاعت کی بات نہیں ہے۔)

”اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان جاتا ہوں“۔ (احمد رضا خان، اور ”نہ یہ کہ“ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بھی لا اقول ہے۔ درست ترجمہ ہے: اور نہ میں غیب جانتا ہوں۔)

”میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جانتا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری، درست ترجمہ: اور نہ میں غیب جانتا ہوں)

”اور میں تم سے یہ بھی نہیں کہتا ہوں کہ میرے پاس تمام خدائی خزانے موجود ہیں اور نہ ہر غیب کے جاننے کا دعوی کرتا ہوں“۔ (ذیشان جوادی، دعوی کرنے کی بات نہیں ہے۔)

مذکورہ بالا تمام ترجموں میں یہ تسامح ہوا ہے کہ انھوں نے لا أعلم الغیب میں بھی لا أقول کا مفہوم شامل کردیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ اس غلطی سے خالی ہے۔

”میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، (سنو!) میں غیب کا علم بھی نہیں رکھتا“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہ بات کہ اس  لا أقول أعلم الغیب کیوں نہیں کہا گیا؟  غور طلب بات ہے۔ اس کی ضرور کوئی حکمت ہوگی۔ لیکن ترجمہ کرتے ہوئے قرآن نے جو فرق قائم کیا ہے اسے بہرحال  ملحوظ رکھنا چاہیے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ لا أعلم الغیب میں علم غیب کی نفی پر جو زور اور قطعیت ہے وہ  لا أقول أعلم الغیب میں نہیں ہے۔

(459)  وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ

وراء کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’پیچھے‘کیا ہے بعض نے’بعد‘ کیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی دونوں میں ایک لطیف فرق بتاتے ہیں۔ ’پیچھے‘  میں یہ اشارہ ہے کہ یعقوب کی پیدائش جلد ہوگی اور حضرت ابراہیم اور ان کی بیوی اپنی زندگی میں ہی یعقوب کی پیدائش بھی دیکھ لیں گے۔’بعد‘ میں یہ اشارہ نہیں ہے۔ اس لحاظ سے وراء کا ترجمہ’پیچھے‘ کرنا زیادہ مناسب ہے۔

وَامْرَأَتُہُ قَائِمَةٌ فَضَحِکَتْ فَبَشَّرْنَاہَا بِإِسْحَاقَ وَمِنْ وَرَاءِ إِسْحَاقَ یَعْقُوبَ۔ (ہود: 71)

”اور اس کی بی بی کھڑی تھی وہ ہنسنے لگی تو ہم نے اسے اسحاق کی خوشخبری دی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی“۔ (احمد رضا خان)

”اس کی بیوی جو کھڑی ہوئی تھی وہ ہنس پڑی، تو ہم نے اسے اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی خوشخبری دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ابراہیمؑ کی بیوی بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کر ہنس دی پھر ہم نے اس کو اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی“۔ (سید مودودی)

”اور ابراہیم کی بیوی (جو پاس) کھڑی تھی، ہنس پڑی تو ہم نے اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اس کی بیوی پاس کھڑی تھی۔ وہ ہنسی، پس ہم نے اس کو اسحاق کی خوش خبری دی اور اسحاق کے آگے یعقوب کی“۔ (امین احسن اصلاحی، ’آگے‘ تو غلط ترجمہ ہے، اس سے تو یہ مفہوم نکلے گا کہ یعقوب کی پیدائش پہلے ہوگی۔ یہ تسامح معلوم ہوتا ہے۔)

”پھر ہم نے خوش خبری دی اس کو اسحاق کی اور اسحاق کے پیچھے یعقوب کی“۔ (شاہ عبدالقادر)

یہاں یہ بات سامنے رہے کہ ایک ہی بار میں دونوں خوش خبریاں دی گئیں، نہ یہ کہ پہلے ایک خوش خبری اور پھر دوسری خوش خبری جیسا کہ بعض لوگوں نے تفسیر میں لکھا ہے۔

ایک سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی بیوی کو کس بات پر ہنسی آئی تھی؟ بعض نے لکھا کہ بیٹے کی بشارت پر، لیکن قرآن میں ہنسی کا ذکر بشارت سے پہلے ہے۔ بعض نے لکھا کہ قوم لوط کے عذاب کی خبر سن کر، لیکن وہ کوئی ہنسنے والی بات نہیں ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ انھیں ہنسی اس بات پر آئی کہ یہ تو فرشتے ہیں اور ہم ان کے سامنے اتنے اہتمام سے کھانا بناکر پیش کررہے ہیں۔ جیسے ہی انھوں نے یہ سنا کہ یہ میہمان  جن کے لیے دسترخوان سجایا گیا ہے انسان نہیں فرشتے ہیں انھیں بے ساختہ ہنسی آگئی۔

(460)  عَذَاب یَوْمٍ أَلِیمٍ کا ترجمہ

یہاں الیم، عذاب کی صفت نہیں بلکہ یوم کی صفت ہے۔ بعض لوگوں سے اس کا لحاظ کرنے میں تساہل ہوگیاہے۔

(۱)  إِنِّی أَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ أَلِیمٍ۔ (ہود: 26)

”مجھے تمہاری نسبت عذاب الیم کا خوف ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میں تم پر ایک دردناک عذاب کے دن کا اندیشہ رکھتا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”مجھے تو تم پر دردناک دن کے عذاب کا خوف ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری ترجمہ درست ہے۔ مذکورہ بالا آیت کے پہلے دونوں ترجموں میں الیم کو عذاب کی صفت جن حضرات نے بنایا ہے، درج ذیل آیت میں انھی نے درست طور سے اسے یوم کی صفت بنایا ہے۔ حالاں کہ مذکورہ بالا آیت میں عذاب منصوب ہے اور اس غلطی کا امکان کم ہے جب کہ درج ذیل آیت میں عذاب مجرور ہے اور اس غلطی کا امکان زیادہ ہے۔

(۲)  فَوَیْلٌ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْ عَذَابِ یَوْمٍ أَلِیمٍ۔ (الزخرف: 65)

”پس ہلاکی ہو ان لوگوں کے لیے جنھوں نے شرک کا ارتکاب کیا ایک دردناک دن کے عذاب کی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”سو جو لوگ ظالم ہیں ان کی درد دینے والے دن کے عذاب سے خرابی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(461) وَعَلَی أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ

حضرت نوح کے ساتھ گنتی کے کچھ لوگ تھے (وَمَا آمَنَ مَعَہُ إِلَّا قَلِیلٌ۔ ہود: 40) اقوام کا مجموعہ تو تھا نہیں کہ کہا جائے کہ سوار ہونے والی اقوام میں سے کچھ قومیں برکت کی مستحق ہوئیں اور کچھ قومیں عذاب کی۔ لیکن زیادہ تر ترجموں میں یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وَعَلَی أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ میں من کو بیانیہ مان لیا گیا ہے (وہ قومیں جو آپ کے ساتھ ہیں)۔ لیکن اگر من کو ابتدا کے لیے مانیں یعنی جو افراد آپ کے ساتھ ہیں ان سے وجود میں آنے والی قومیں، تو مذکورہ اشکال دور ہوجائے گا اور یہ مفہوم واضح ہوجائے گا کہ حضرت نوح کے ساتھ مجموعہ اقوام نہیں تھا بلکہ قلیل افراد تھے جن سے وجود میں آنے والی کچھ اقوام برکتوں کی مستحق ہوئیں اور کچھ عذاب کی۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

قِیلَ یَانُوحُ اہْبِطْ بِسَلَامٍ مِنَّا وَبَرَکَاتٍ عَلَیْکَ وَعَلَی أُمَمٍ مِمَّنْ مَعَکَ وَأُمَمٌ سَنُمَتِّعُہُمْ ثُمَّ یَمَسُّہُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِیمٌ۔ (ہود: 48)

”حکم ہوا،اے نوحؑ اتر جا، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتیں ہیں تجھ پر اور ان گروہوں پر جو تیرے ساتھ ہیں، اور کچھ گروہ ایسے بھی ہیں جن کو ہم کچھ مدت سامان زندگی بخشیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے درد ناک عذاب پہنچے گا“۔ (سید مودودی)

”فرمایا گیا اے نوح! کشتی سے اتر ہماری طرف سے سلام اور برکتوں کیساتھ جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کے کچھ گروہوں پر اور کچھ گروہ ہیں جنہیں ہم دنیا برتنے دیں گے پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا“۔ (احمد رضا خان)

”حکم ہوا کہ نوح ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ (جو) تم پر اور تمہارے ساتھ کی جماعتوں پر (نازل کی گئی ہیں) اتر آؤ۔ اور کچھ اور جماعتیں ہوں گی جن کو ہم (دنیا کے فوائد سے) محظوظ کریں گے پھر ان کو ہماری طرف سے عذاب الیم پہنچے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”فرما دیا گیا کہ اے نوح! ہماری جانب سے سلامتی اور ان برکتوں کے ساتھ اتر، جو تجھ پر ہیں اور تیرے ساتھ کی بہت سی جماعتوں پر اور بہت سی وہ امتیں ہوں گی جنہیں ہم فائدہ تو ضرور پہنچائیں گے لیکن پھر انہیں ہماری طرف سے دردناک عذاب پہنچے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری کے دونوں ترجموں میں، وأمم سے مستقبل کی قومیں مراد لی گئی ہیں لیکن أمم ممن معک سے اس وقت کشتی میں ساتھ رہنے والی اقوام کو مراد لیا ہے۔

درج ذیل ترجمہ اس پہلو سے درست ہے:

”ارشاد ہوا اے نوح اترو، ہماری طرف سے سلامتی اور برکتوں کے ساتھ، اپنے اوپر بھی اور ان امتوں پر بھی جو ان سے ظہور میں آئیں جو تمھارے ساتھ ہیں، اور ایسی امتیں بھی اٹھیں گی جن کو ہم بہرہ مند کریں گے، پھر ان کو ہماری طرف سے ایک عذابِ دردناک پکڑے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)   

(462) أُشْہِدُ اللَّہَ کا ترجمہ

قَالَ إِنِّی أُشْہِدُ اللَّہ۔َ (ہود: 54)

”ہودؑ نے کہا،میں اللہ کی شہادت پیش کرتا ہوں“۔ (سید مودودی)

”اس نے کہا: میں اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

دوسرا ترجمہ مناسب اور پہلا نامناسب ہے۔ أشھدہ کا مطلب کسی کو گواہ بنانا ہوتا ہے نہ کہ اس کی گواہی پیش کرنا۔

(463) سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ کا ترجمہ

منضود کا مطلب تہہ بہ تہہ ہوتا ہے۔ (وَطَلْحٍ مَنْضُودٍ اور تہہ بہ تہہ کیلے۔ الواقعۃ: 29) درج ذیل آیت میں سجیل منضود کا مطلب کیا ہوگا؟ بعض لوگوں نے اس سے  لگاتار، پے در پے اور تابڑ توڑ کا مفہوم لیا ہے، شاید اس لیے کہ تہہ بہ تہہ پتھر برسانے کا لفظی مطلب تصورمیں نہیں آتا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک منضود دراصل برسنے کے بعد کی حالت کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی اتنے زیادہ پتھر برسائے گئے کہ وہ برسنے کے بعد تہہ بہ تہہ جم گئے۔ ترجمے ملاحظہ ہوں:

 وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُودٍ۔ (ہود: 82)

”اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے“۔ (سید مودودی)

”اور اس پر کنکر کے پتھر لگا تار برسائے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ان پر پتھر کی تہہ بہ تہہ (یعنی پے درپے) کنکریاں برسائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان پر کنکریلے پتھر برسائے جو تہ بہ تہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور برسائیں اس پر پتھریاں کھنگر کی تہ بہ تہ“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر برسائے جو تہہ بہ تہہ جم گئے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(463) وَلَا تَطْغَوْا کا ترجمہ

طغی کا ترجمہ کج ہونا نہیں ہے۔ حد سے تجاوز کرنا اس فعل کی شدت کو بیان نہیں کرتا۔ سرکشی کرنا اس لفظ کی صحیح اردو تعبیر ہے۔ 

وَلَا تَطْغَوْا۔ (ہود: 112)

”اور کج نہ ہونا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور حد سے تجاوز نہ کرنا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اے لوگو! سرکشی نہ کرو“۔ (احمد رضا خان)

(جاری)


مطالعہ سنن النسائی (۳)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

ڈاکٹر سید مطیع الرحمن / محمد عمار خان ناصر


مطیع سید: زبیر بن عدی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حجر اسود کے چومنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود کو چومتے اور چھوتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا کہ اگر لوگ مجھ پر ہجوم کریں اور میں مغلوب ہو جاؤں تو پھر بھی ضرور اس کو چوموں؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ اگر مگر تم یمن میں رکھ کر آؤ1۔ سوال یہ ہے کہ پوچھنے والے کی بات تو معقول تھی کہ اگر بہت زیادہ رش ہو تو میں کیا کروں؟ اور دوسری بات یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل موجود ہے جو دور سے استلام کر لیتے تھے۔

عمار ناصر: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا ایک خاص مزاج تھا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصی چیزوں میں بھی اتباع کرتے تھے، اور یہ تو حج کے مناسک میں سے ایک ہے۔ تو اس موقع پر جو کسی کا ذوق ہے، وہ نمایاں ہوتا ہے۔ دور سے استلام کرنا تو رخصت ہے، لیکن حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حج تو مشقت ہی کا نام ہے تو مشقت میں یہ بھی شامل ہے کہ یہ کام کرو۔ اگر ہجوم ہے تو بھی یہ کام کرو، کیونکہ جو باقی لوگ ہجوم میں موجود ہیں، وہ بھی تو اسی مشقت سے گزر کر یہ کام کر رہے ہیں۔

مطیع سید: مجھے لگتا ہے کہ ہم لوگ بسا اوقات اہل حدیث کے منہج کو عجیب سا محسوس کرتے ہیں اور ایک الجھن سی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن کئی صحابہ کے مزاج اس طرح کے نظر آتے ہیں کہ وہ ظاہر پر عمل کرتے ہیں۔

عمار ناصر: ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ظاہر میں آپ کو دونوں ایک لگتے ہیں لیکن ان میں بہت فرق ہے۔ صحابہ کے ہاں وہ چیز ایک دینی مزاج اور دینی ذوق سے پیدا ہوئی ہے، یہاں وہ چیز حرفیت پسندی Literal Understanding سے پیدا ہوئی ہے۔ صحابہ کے ہاں یہ Literalismنہیں تھا، وہ ان کے اندر سے پیدا ہوئی ایک چیز ہے جو بری نہیں لگتی۔ اس کی ایک اساس موجود ہے اور ایک ذوق اس میں جھلکتا ہے ، اور آپ دیکھیں گے کہ صحابہ کی پوری شخصیت میں وہ مزاج اور ذوق نظر آئے گا۔ خدا خوفی، لوگوں کے ساتھ معاملات، حسن سلوک، تقویٰ ان کی پوری شخصیت کا حصہ نظر آتا ہے۔ یہ جو Literal Understanding ہے، اس میں آپ کو نظر آئے گا کہ باقی چیزوں میں تو کوئی دینی ذوق دکھائی نہیں دیتا، لیکن یہ بات بہت اہم بن جاتی ہے کہ حدیث میں اگر کوئی بات آگئی ہے تو اس پر لفظ بلفظ عمل کیا جائے۔ تو یہ بالکل الگ چیز ہے۔

مطیع سید: وہ جو مشہور روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عصر کی نماز بنو قریظہ جا کر پڑھنا، اس میں بھی یہی چیز ہے؟

عمار ناصر: وہاں ذوق کا اتنا مسئلہ نہیں ہے بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کیا ہے، اس کو سمجھنے کا مسئلہ ہے۔ کچھ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ منشا نہیں ہے کہ ہم نماز قضا کردیں، مقصد یہ ہے کہ جلدی پہنچیں، لیکن اگر نہیں پہنچ سکے تو نماز تو وقت پر پڑھنی ہے۔ جو دوسرے تھے، انہوں نے یہ سمجھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حکم دیا ہے، اسی کو پورا کرنا ہے۔ اگر نماز قضا بھی ہو رہی ہے تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہی ہو رہی ہے۔

مطیع سید: کیا یہ بات کہیں آئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو پسند کیا جنہوں نے نماز پڑھ لی تھی؟

عمار ناصر: میرے ذہن میں نہیں ہے۔ بخاری کی روایت میں اتنا ہی ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پر بھی تنقید نہیں کی۔

مطیع سید: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ پہنچ گئے۔ حضرت ابوبکر نے پوچھا کہ تم امیر ہو کر آئے ہو یا کوئی پیغام لے کر آئے ہو2؟ میرا سوال یہ ہے کہ اس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان براءت کے لیے خاص طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کیا اس لیے بھیجا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات کو لوگ اہمیت نہیں دیں گے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بات کو میری قربت کی وجہ سے اہمیت دیں گے؟جبکہ خلافت جو اس سے بڑی ذمہ داری تھی، اس کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا گیا، اس کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: اس میں یہ وجہ نہیں تھی کہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بات کو نہیں مانیں گے یا ان کی بات کی تصدیق نہیں کریں گے۔ ان کو امیر بنا کر بھیجا گیا ہے تو ظاہر ہے کہ لوگ ان کی بات مانیں گے۔ یہ اصل میں معاہدے توڑنے کا اعلان کرنا تھا، اس کی خاص حساسیت اور نوعیت ہے۔ مشرکین سے آپ نے معاہدے کیے تھے اور اللہ کے پیغمبر کے طور پر کیے تھے، اب ان معاہدوں کو توڑنا ہے تو یہ ایک بڑا حساس کام تھا۔ اس موقع پر جو عربوں کے ہاں حساسیت تھی، اس چیز کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لحاظ کیا کہ میری طرف سے معاہدے ٹوٹنے ہیں تو میرے اپنے خاندان کا اور میرے اپنے گھر کا کوئی فرد جا کر اعلان کرے تاکہ وہ میری طرف سے ہی سمجھا جائے۔ تو یہ حساسیت پیش نظر تھی، یہ مسئلہ نہیں تھا کہ لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بات پر اعتماد نہیں کریں گے یا نہیں مانیں گے۔ معاملے کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو بھیجا کہ جس کو آپ کا ذاتی نمائندہ سمجھا جائے۔

مطیع سید: ایک سوال یہ ذہن میں آرہا تھا کہ اگر احادیث، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا تاریخی ریکارڈ ہے تو اس کو محفوظ کرنے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو امام احمد بن حنبل نے اپنایا کہ صحابہ کی ترتیب سے روایتیں اکٹھی کی جائیں۔ جب محدثین نے فقہی ابواب کے تحت احادیث اکٹھی کر دی تو میرے خیال میں اس سے پیغمبر کی شخصیت کا قانونی پہلو ہی نمایاں رہ گیا ہے، اورجو بہت سی لطیف چیزیں تھیں اور قانون سے ہٹ کر جو قیمتی باتیں تھیں، ان کو اس ابواب بندی سے نقصان پہنچا ہے۔ آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں؟

عمار ناصر: محدثین جو کام کر رہے تھے، بنیادی طور پر ان کے پیش نظر یہ نہیں تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو کسی خاص انداز سے پیش کریں۔ وہ کسی دعوتی پہلو سے یا نبی علیہ السلام کی شخصیت کو خاص انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کرنے کے پہلو سے تو کام کر ہی نہیں رہے تھے۔ ان کا کام تو بالکل علمی کام ہے کہ جو مواد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں موجود ہے، اس میں ضروری چھان پھٹک کے بعد اسے محفوظ کرنا ہے۔ اسے محفوظ کرنے کے جو مختلف انداز ہیں، ان کی اپنی اپنی افادیت ہے۔ کسی ایک صحابی کی مرویات کیا ہیں؟ اس کی اپنی ایک افادیت ہے، اور جو فقہی ترتیب سے مرتب کر رہے ہیں، وہ دراصل علماء اور اسکالرز کی سہولت کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ عام لوگوں کو بتا ہی نہیں رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ایسے دیکھو۔ وہ تو اہل علم کے لیے سہولت پیدا کر رہے ہیں کہ ان کو جب ضرورت پڑے تو وہ اس کی طرف رجوع کریں اور دیکھ لیں۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی شخصیت کے متعلق معلومات سینہ بہ سینہ اور نسل در نسل منتقل ہوئی ہیں؟

عمار ناصر: لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو کیسے دیکھیں اور آپ کی شخصیت کیسی تھی؟ یہ چیز آپ کو شمائل کی کتابوں میں ملے گی۔ جب صحابہ زندہ تھے تو لوگ ان کے پاس جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے بارے میں سنتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو انھوں نے کیسے دیکھا اور فلاں موقع پر کیا کیا، فلاں موقع پر کیا ہوا۔ پھر جب صحابہ گزر گئے تو بعد والے لوگ ان معلومات کو آگے بیان کرتے تھے۔ لوگوں نے اسے محفوظ کرنا شروع کر دیا اور سیرت نگاروں نے سیرت لکھنا شروع کر دی۔

مطیع سید: آپ نے اپنی کتاب جہاد میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل کے لیے اقتدار کا وعدہ متعین جغرافیائی حدود کے اندر تھا، اور یہی وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے بھی تھا۔ ترکوں اور اہل حبشہ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کی روایت بھی امام نسائی نے نقل کی ہے3 لیکن اس کے ساتھ غزوہ ہند کی روایت بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک متعین حدود میں اقدامات کی ہدایت فرمائی تھی، لیکن پھر آپ ﷺہند کی طرف بھی اشارہ فرما رہے ہیں۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ ایک طرف غزوہ ہند کی روایت ہے اور دوسری طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہند کی طرف پیش قدمی پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا ۔ تو کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے غزوہ ہند کی روایت نہیں تھی؟ اگر تھی تو وہ اس کو کس طرح دیکھتے تھے؟

عمار ناصر: جو جغرافیائی تعین کی بات ہے، وہ بشارت کے حوالے سے ہے کہ یہ سرزمین تو میری امت کو اللہ نے دے دی ہے۔ یہ اصل میں فتح کی بشارت ہے کہ یہ امت کو مل جائیں گی۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کے بھی علاوہ جنگیں، لڑائیاں اور حملے ہوئے، یہ واقعات تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔ بشارت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے علاوہ کوئی جنگیں نہیں ہوں گی یا کسی اور طرف ان کو جانے کی اجازت نہیں۔ آپ نے قسطنطنیہ کا ذکر کیا تو آپ دیکھیں کہ اس کا ذکر ان فتوحات کے سیاق میں نہیں کیا جو آپ کی امت آپ کے فوراً‌ بعد حاصل ہونی تھیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس پر بھی میری امت حملہ کرے گی اور کسی وقت میں یہ شہر فتح بھی ہو جائے گا۔ اسی طریقے سے ہند پر حملے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ قریب کے علاقوں پر حملہ کرنے سے آپ صحابہ کو کسی مصلحت کے تحت منع بھی کر رہے ہیں۔ تو یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق امت کو کون کون سے علاقے مل جائیں گے۔ اور دوسری یہ کہ لڑائی کی ضرورت اور جگہوں پر بھی پیش آئے گی، اور مقامات پر بھی جنگیں ہوں گی۔ کچھ جگہ پر کامیابی ملے گی،کچھ جگہ پر نہیں ملے گی۔ کچھ علاقوں کی طرف ان کو بڑھنا چاہیے، کچھ کی طرف نہیں بڑھنا چاہیے۔ تو یہ ایک دوسرا معاملہ ہے۔

مطیع سید: حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس فرق کواچھے طریقے سے سمجھ گئے تھے؟

عمار ناصر: حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو فارس کو بھی مکمل فتح نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ وہ دونوں باتوں کا فرق سمجھ رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ہمیں بشارت تو ہے، لیکن ہمیں کب آگے بڑھنا ہے، اس کا فیصلہ ہمیں اپنی تدبیر کے لحاظ سے کرنا ہے۔ ہمارے لیے کب آگے بڑھنا مناسب ہے اور کب نہیں، یہ ہمارے کرنے کا فیصلہ ہے۔

مطیع سید: ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حسب نسب والی عورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوگی۔ آپ نے اس کے ساتھ نکاح سے منع فرما دیا۔ وہ پھر آیا اور آپ نے پھر منع فرما دیا۔ پھر تیسری بار منع فرمانے کے بعد فرمایا کہ ایسی عورت سے نکاح کرو جس کی اولاد ہو، میں اپنی امت کی تعداد دوسری امتوں سے زیادہ دیکھنا چاہتا ہوں4۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا شادی کی غرض صرف اولاد ہے؟ کیا اور اغراض نہیں ہیں؟

عمار ناصر: اس حدیث میں یہ مسئلہ اصولی سطح پر زیربحث نہیں کہ کس عورت سے نکاح کرنا چاہیے اور کس سے نہیں کرنا چاہیے ۔ ایک آدمی آپ سے ذاتی مشورہ لینے آیا ہے اور آپ اس کو مشورہ دے رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ آپ ﷺنے نکاح کے مقاصد میں سے ایک بڑا بنیادی مقصد بھی نمایاں کیا ہے کہ نکاح کرو تو اس میں ایک بڑا مقصد یہ بھی ہے، اس کو ترجیح حاصل ہونی چاہیے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بانجھ عورتیں ہیں ان سے نکاح ہی کوئی نہ کرے، ظاہر ہے کہ یہ مقصود نہیں ہے۔ ان کے ساتھ بھی کوئی نکاح کر لے گا، لیکن اگر کسی نے ایک ہی نکاح کرنا ہے اور وہ کسی بانجھ عورت سے اس کے حسن یا حسب نسب کی وجہ سے کرنا چاہتا ہے تو آپﷺ نے اس کو اس سے گریز کا مشورہ دیا۔ آپ اس میں یہ بات مضمر سمجھ سکتے ہیں کہ اگر ایک ہی سے کرنا ہے تو کسی بچے جننے والی عورت سے کرو۔

مطیع سید: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا کہ میری ایک عورت ہے ، مجھے اس سے بہت محبت ہے، لیکن اس میں ایک عیب ہے کہ اگر اس کو کوئی ہاتھ لگائے تو وہ اس کو منع نہیں کرتی۔آپ نے فرمایا کہ اس کو طلاق دے دو۔ اس شخص نے کہا کہ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، آپ نے فرمایا کہ پھر اپنا کام نکال لیا کرو5۔ پیغمبر علیہ السلام کا یہ مشورہ مجھے بڑا عجیب سا لگا، کیونکہ ہاتھ لگانے سے مقصد صرف ہاتھ لگانا نہیں ہے اور امام نسائی نے جو باب باندھا ہے، اس سے بھی یہ بات واضح ہو رہی ہے، لیکن آپ اسے مشورہ دے رہے ہیں کہ اپنا کام نکال لو۔ وہ شخص اپنی بیوی کے بارے میں آ کر بتا رہا ہے کہ وہ اس طرح کے کام میں ملوث ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو لعان وغیرہ کی طرف کیوں نہیں لے کر گئے؟ بلکہ فرمایا کہ اپنا کام نکال لیا کرو، اس کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: اس میں ایک بات تو یہ ہے کہ حدیث میں جو الفاظ آتے ہیں "لا ترد يد لامس" وہ کسی چھونے والے کا ہاتھ پیچھے نہیں ہٹاتی، امام نسائی نے اس کو زنا سے کنایہ سمجھا ہے۔ کچھ دیگر شارحین نے بھی اس کو زنا سے کنایہ سمجھا ہے، لیکن بعض دوسرے شارحین نے یہ مطلب سمجھا ہے کہ کوئی اس سے چھیڑ چھاڑ کرے تو وہ اس سے منع نہیں کرتی۔ تو یہ باقاعدہ کوئی زنا کا صریح الزام نہیں ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ چھیڑ چھاڑ کرنے کا یہ مطلب بھی درست نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اگر آ کر اس کے گھر سے کوئی چیز اٹھا لیں تو وہ چیزیں سنبھالتی نہیں ، بلکہ جو کوئی مانگے اسے دے دیتی ہے، یعنی گھر کے اسباب کی حفاظت نہیں کرتی۔ تو امام احمد اس کو اس طرح دیکھتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر شارحین یہ معنی لیتے ہیں کہ جو ایک ذمہ دار اور محتاط خاتون ہوتی ہے، اس طرح وہ نہیں ہے اور لوگ آ کر چھیڑ چھاڑ کر لیں تو وہ روکتی نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ چھوڑ دو، تو اس شخص نے کہا کہ نہیں پھر میرا دل اس کے پیچھے جائے گا، میں اس کے بغیر رہ نہیں سکوں گا، تو آپ نے فرمایا کہ پھر اس کو رکھو۔ اس مشورے میں یہ بات اہم ہے کہ ہر معاملہ فقہی اور قانونی نہیں ہوتا۔ یہ بھی اہم ہوتا ہے کہ بندے میں خود کتنی غیرت ہے، اور بات بتاتے ہوئے اور مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ جس کو بات بتائی جا رہی ہے، خود اس کے اندر کتنی غیرت موجود ہے۔ دراصل وہ بندہ بھی تسلی لینے کے لیے ہی آیا تھا کہ اگر میں کام چلاتا رہوں تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے؟ ورنہ تو وہ خود ہی اسے چھوڑ دیتا۔ وہ اپنے لیے گنجائش ہی معلوم کرنے آیا تھا۔

مطیع سید: یہ روایت ہے کہ "من بدل دينه فاقتلوه6" جو اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔ کیا یہ روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں عام مسلم کمیونٹی کے تناظر میں تھی؟ کیونکہ کمیونٹی بہت تھوڑی ہے اور اگر دین کو چھوڑ کر واپس جانے کا دروازہ کھول دیا جائے ، تو اس سے ایک ناقابل تلافی نقصان ہو سکتاتھا ۔ تو کیا یہ حدیث اس تناظر میں ہے؟ یا یہ عمومی طور پر بیان کی گئی ہے؟

عمار ناصر: اصل میں اس میں بہت سے احتمالات ہیں۔ حدیث کے الفاظ میں اس کا کوئی دائرہ یا پس منظر تو بیان نہیں ہوا، بس حکم بیان ہوا ہے۔ اب اس کو کس اصول کے تحت سمجھا جائے یا اس کے پیچھے کیا مقصد پیش نظر تھا؟ یہ ایک استنباطی چیز ہے۔ فقہاء یہی مختلف امکانات بیان کرتے ہیں۔ اس میں بنیادی دو تین رجحانات ہیں جن کو میں نے اپنی کتاب میں بھی بیان کیا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مد نظر یہ ہے کہ جو لوگ مجھے خوب پرکھ کر اور میری جانچ پڑتال کر کے مجھ پر ایمان لائے ہیں، اور اس کے بعد اپنا دین بدل رہے ہیں تو یہ ناقابل معافی ہے۔ اس کو فقہاء یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ اصل میں اتمام حجت کے بعد ، یعنی حق واضح ہو جانے کے بعد دین تبدیل کرنے کی سزا ہے۔ کچھ دوسرے فقہاء یہ کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ارتداد کا راستہ روکنے کے لیے ہے کہ اگر یہ دروازہ کھول دیا جائے تو فتنے تو ہر وقت رہتے ہی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر آسانی سے یہ داعیہ پیدا نہ ہو کہ وہ دین کو بدل دیں، اور جب جس کا جی چاہے دن چھوڑ کر چلا جائے۔ اس زاویے سے بھی فقہا دیکھتے ہیں۔

مطیع سید: روایت ہے کہ مسلمان سے لڑنا کفر ہے7۔ دوسری روایت میں ہے کہ میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگو8۔تو صحابہ کے ہاں جو لڑائیاں ہوئی ہیں، ان میں بڑے لوگ قتل ہوئے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان سے لڑنا تو کفر ہے۔ اس کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

عمار ناصر: اس حدیث کا سیاق تو یہ ہے کہ انفرادی سطح پر مسلمانوں کے درمیان جو کھٹ پٹ ہوتی ہے، یہ کھٹ پٹ اس سطح پر نہیں پہنچنی چاہیے کہ آپس میں لوگ لڑنے لگیں۔ یعنی معاشرتی اخلاقیات کے حوالے سے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی مسلمان کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، کوئی عام سماجی جھگڑا ہے اور اس وجہ سے ایک مسلمان دوسرے سے لڑ پڑا ہے تو اس صورت حال میں گالم گلوچ اور لڑائی جھگڑے کی شناعت بیان کی جا رہی ہے۔ اگر کسی نے واقعتاً زیادتی کی ہے اور دوسرا اس کا دفاع کر رہا ہے تو یہ صورت حال، ظاہر ہے کہ یہاں زیر بحث نہیں ہے۔اسی طرح مسلمانوں کے مابین اگر سیاسی جھگڑے اور جنگیں ہوں تو ان کے پیچھے بھی ایک تاویل ہوتی ہے، وہ ایک اختلاف ہوتا ہے، اس میں حق اور باطل پر بھی لوگ ہو سکتے ہیں، بعض دفعہ اجتہادی خطا بھی ہو سکتی ہے، بعض دفعہ اور اسباب ہو سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ پسندیدہ صورت تو یہ بھی نہیں ہے، لیکن قتال المومن کفر کی حدیث دراصل سماجی اخلاقیات کے حوالے سے ہے اور حدیث کا دوسرا ٹکڑا "سبابہ فسوق" بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

مطیع سید: حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ آپ نے غزوہ حنین کا مال بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا ہے۔ ان میں بنو ہاشم کی فضیلت کو تو ہم مانتے ہیں، لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ ﷺنے بنو مطلب کو دیا جو ہمارے بھائی ہیں لیکن ہمیں کچھ نہیں دیا، حالانکہ ہم بھی آپ سے وہی قرابت رکھتے ہیں جو وہ رکھتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ بنوہاشم اوربنو مطلب تو ایک ہی ہیں اور جاہلیت اور اسلام میں کبھی مجھ سے الگ نہیں ہوئے۔9 یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کس طرف اشارہ ہے؟

عمار ناصر: یہ دونوں قریبی خاندان تھے اور نبوت کے بعد ان دونوں کی نصرت وتائید آپﷺ کو حاصل رہی ہے۔ بنو مطلب چاہے ایمان بعد میں لائے ہوں، لیکن آپﷺ کی تائید میں وہ ہمیشہ کھڑے رہے ہیں۔ آپﷺ یہاں یہی بات بیان فرما رہے ہیں۔

مطیع سید: ایک بیع کے اندر دوسری بیع کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے10۔ کیا ہمارے ہاں جو قسطوں پر چیز فروخت کی جاتی ہے، کیا وہ اس کے تحت آتی ہے؟ مثلاً‌ ایک شخص کہتا ہے کہ یہ چیز میں تمہارے ہاتھ فروخت کرتا ہوں، اگر تم نقد دو گے تو ایک سوروپے کی ہے اور اگر تم ادھار کرو گے تو دو سوروپے کی ہے۔

عمار ناصر: اس حدیث میں ممانعت اس چیز کی نہیں ہے کہ قسطوں پر کوئی چیز نہیں بیچنی۔ اصل ممانعت اس چیز کی ہے کہ معاملے کی جو صورت ہے، اس کو متعین کیے بغیر مبہم چھوڑ دیا جائے کہ اگر یوں کر لیا تو یوں ہو جائے گا اور یوں کر لیا تو یوں ہو جائے گا، لیکن اس کو طے نہ کیا جائے۔ اس طرح صفقة فی صفقتین کی اور بھی شکلیں آتی ہیں۔ کیونکہ ایک معاملہ ایک نوعیت کا ہوتا ہے، اس کی شرائط کچھ اور ہوتی ہیں، اور ایک دوسرا معاملہ دوسری نوعیت کا ہوتا ہے تو اس کی شرائط کچھ اور ہوتی ہیں، تو آپ اگر ان دونوں کو گڈمڈ کر دیں تو اس سے ابہام بھی پیدا ہو جاتا ہے اور آگے چل کر وہ معاملہ پیچیدہ ہو جائے گا یا جھگڑے تک پہنچے گا۔تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک معاملے کے اندر دونوں آپشنز اس طرح کھلے رکھنا کہ کل کو ایک فریق کہے کہ میری انڈرسٹینڈنگ تو یہ تھی اور دوسرا کہے کہ میں تو یہ سمجھ رہا تھا، یہ درست نہیں تاکہ اس صورت میں نزاع پیدا نہ ہو اور آگے چل کر ابہام کی صورت نہ بنے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ اگر نوعیت معاملہ کو طے کر لیا جائے، مثلاً‌ خریدار کہے کہ میں ادھار لوں گا اور اتنی رقم اتنی مدت میں دے دوں گا، تو اب اس معاملے میں ابہام باقی نہیں رہا، اس لیے یہ بیعة فی بیعتین کے تحت نہیں رہتی۔ البتہ کسی دوسری أصول پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ معاملہ درست نہیں۔ مثلاً‌ بعض اہل علم کا یہ کہنا ہے کہ اس میں قسطوں کی وجہ سے جو رقم زائد وصول کی جاتی ہے، وہ ربا کا مصداق ہے۔

مطیع سید: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اور شیطان کے درمیان انگور کے درخت پر جھگڑا ہوا، وہ کہنے لگا کہ یہ میرا ہے۔ آخر میں صلح اس بات پر ہوئی کہ دو حصے شیطان کے اور ایک حصہ نوح علیہ السلام کا ہے11۔

عمار ناصر: یہ ایک تمثیل ہے کہ دنیا میں جتنا انگور ہے، اس کے دو تہائی کی شراب بنے گی اور ایک تہائی کا سرکہ بن جائے گا۔ جو مذہبی کلام اور انبیاء کا کلام ہے، تمثیل اس کا باقاعدہ حصہ ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے ہاں تو تمثیلیں بہت ہیں، اور خاص طور پر جو غیبی حقائق ہیں جن کی کیفیت اور دنیا بالکل اور ہے اور وہ ہماری گرفت میں نہیں آ سکتے، ان کو سمجھانے کے لیے حسی دنیا سے کوئی مثال بیان کرنا، یہ تو معروف ہے اور احادیث میں بہت عام ہے۔ جیسے سورج کے بارے میں ہے کہ جب ڈوبتا ہے تو عرش کے نیچے جا کر اجازت مانگتا ہے، پھر جب اس کو اجازت ملتی ہے تو اگلے دن نکلتا ہے، اصل میں یہ بتانے کے لیے ایک تمثیل ہے کہ سورج کی جو ایک ایک حرکت ہے، وہ اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ جب اللہ کہے گا تو وہ پلٹ کر واپس آ جائے گا۔ تو بات کو سمجھانے کے لیے یہ ایک اچھی تمثیل ہے۔

مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس دور میں ہیں، اس دور میں بہت سی اساطیر بھی عام تھیں اور آج بھی ہیں، تو کیا یہ ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات سمجھانے کے لیے ان اساطیر کا بھی حوالہ دے دیں؟

عمار ناصر: شاہ ولی اللہؒ کا کہنا ہےکہ احادیث میں بعض دفعہ ایسے واقعات یا کہانیوں کا بھی ذکر کر دیا جاتا ہے جو عام لوگوں میں معروف تھیں۔ شاہ صاحب کے خیال میں ام زرع والی روایت جس میں گیارہ عورتیں اپنے اپنے شوہروں کا أحوال سناتی ہیں اور خرافۃ کا واقعہ جس میں خرافہ نام کے شخص کو جنات اٹھا کر لے جاتے ہیں، اسی نوعیت کے ہیں۔ تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کون سی بات آپ نے بطور تمثیل کہی ہے اور کہاں کسی معروف داستان کا ذکر کر دیا ہے۔

مطیع سید: اس حدیث میں ایک خاص پیغمبر کا نام لیا گیا ہے اور پورا ایک مکالمہ نقل کیا گیا ہے، اس سے کچھ عجیب سا لگتا ہے کہ شاید یہ واقعہ حقیقت میں ہوا ہو۔

عمار ناصر: ممکن ہے کہ شیطان سے اس نوعیت کی بحث ہوئی ہو، جیسے حضرت آدم اور ابلیس کی ہوئی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ طوفان کے بعد جب حضرت نوح علیہ السلام نے دوبارہ اپنی أولاد کو آباد کیا ہو اور انگور کی بیلیں چڑھائی ہوں تو حسی طور پر شیطان ان کے پاس آگیا ہو۔ انجیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ بھی شیطان کا مکالمہ منقول ہے اور روایات میں سیدنا اسماعیل کی قربانی کے موقع پر بھی حضرت ابراہیم کے ساتھ شیطان کا مباحثہ نقل ہوا ہے۔



حواشی

  1. کتاب الحج،باب العلۃ التی من اجلھاسعی النبیﷺ بالبیت،رقم:2951
  2. کتاب الحج، باب الخطبۃ قبل الترویۃ،رقم:2998
  3. کتاب الجہاد، باب غزوۃ الہند +باب غزوۃ ترک و حبشۃ۔ رقم:3178
  4. کتاب النکاح،باب کراھیۃ تزویج العقیم،رقم:3232
  5. کتاب النکاح ، باب تزويج الزانيۃ،رقم:3233
  6. کتاب المحاربۃ ،باب الحکم فی المرتد،رقم:4071
  7. کتاب المحاربۃ، باب قتال المسلم،رقم:4110
  8. کتاب المحاربۃ، باب تحریم القتل،رقم:4137
  9. کتاب كسب الفیئ ،رقم:4142
  10. کتاب البیوع، رقم:4638
  11. کتاب الاشربۃ،باب مایجوز شربہ من الطلاء وما لایجوز، رقم:5732
(مکمل)

حلال وحرام سے آگاہی اور علماء کرام کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۲ نومبر کو جامعہ اشرف  المدارس کراچی میں’’حلال آگاہی کونسل پاکستان ‘‘ کے زیر اہتمام علماء کرام کی نشست سے خطاب)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حلال آگہی کونسل پاکستان اور محترم جناب آفاق شمسی کا شکرگزار ہوں کہ میری کراچی حاضری کے موقع پر حضرات علماء کرام کے ساتھ علمی، تعلیمی اور روحانی مرکز جامعہ اشرف المدارس میں ملاقات کا اہتمام فرمایا۔ میری حضرت حکیم محمد اختر ؒ کے ساتھ نیاز مندی تھی، ان کی خدمت میں حاضری ہوتی رہتی تھی اور بعض بیرونی اسفار میں ان کے ساتھ شرکت رہی ، حکیم محمد مظہر صاحب کے ساتھ بھی نیاز مندی کا تعلق ہے، یہاں حاضری میرے لیے ویسے بھی سعادت کی بات ہے لیکن ایک کارِ خیر اور دینی و علمی کام کے لیے حاضری دوہری خوشی اور سعادت کا باعث ہے۔ حلال آگہی کونسل ایک عرصے سے پہلے کراچی اور اب پورے پاکستان میں ایک اہم دینی ، ملی اور قومی ضرورت پر کام کر رہی ہے۔ حلال و حرام کا فرق کرنا ہمارے دین کا تقاضہ ہے، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، اور ہماری اخروی ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ دنیوی ضرورت بھی ہے۔

حلال و حرام سے آگاہی ہماری اجتماعی معاشرتی ضرورت ہے جس پر عموماً عقیدہ اور تعلیم کے دائرے میں بات کی جاتی ہے۔ قرآن مجید میں حلال و حرام سے متعلق سینکڑوں آیات ہیں اور جناب نبی کریمؐ کی ہزاروں احادیث ہوں گی جن میں حلال و حرام کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں دینی تعلیم اور خطبات کے دائرے میں اس موضوع پر بات ہوتی ہے لیکن معاشرے کی عملی صورتحال کے ساتھ اس کی تطبیق کا ماحول نہیں ہے۔ لوگوں تک بات پہنچانا کہ معاملہ اس طریقے سے ہوگا تو حلال ہوگا اور یوں ہوگا تو حرام ہوگا، متعلقہ اداروں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کو سمجھانا اور عوام کو آگاہ کرنا علماء کرام کی ذمہ داری ہے، اور لوگوں پر یہ واضح کرنا بھی علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ فلاں معاملہ میں فلاں طریقہ اختیار کریں گے تو حرام سے بچ جائیں گے، اور ایسے طریقے بیان کرنا سنتِ نبویؐ ہے، اس پر بہت سی مثالیں ہیں، میں ایک مثال عرض کروں گا۔

بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اچھی قسم کی کھجوریں لے کر آئے ۔جناب نبی کریمؐ نے دریافت فرمایا کہ بلال! پہلے تو عام قسم کی کھجوریں آیا کرتی تھیں، یہ اچھی قسم کی کھجوریں کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے ان کا تبادلہ کر لیا ہے، دو صاع عام کھجوریں دے کر ایک صاع اچھی کھجوریں لے لی ہیں۔ اس پر حضور نبی کریمؐ نے فرمایا کہ یہ تو عین سود ہے۔ جنس کا جنس سے تبادلہ اور تفاضل سود ہے، یہ تم نے کیا کیا؟ حضرت بلالؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! اچھی کھجوریں اور عام کھجوریں برابر میں تو کوئی تبدیل نہیں کرتا، تو میں اس کے لیے کیا طریقہ اختیار کروں؟ آپؐ نے فرمایا کہ پہلے دراہم کے بدلے اپنی کھجوریں بیچ دو اور پھر ان درہموں سے اچھی کھجوریں خرید لو ۔ ایک کی بجائے دو سودے کر لو تو جائز ہو جائے گا۔ اس کو فقہی اصطلاح میں حیلہ کہا جاتا ہے جو خود جناب نبی کریمؐ نے حضرت بلالؓ کو سکھا یا۔

جناب نبی کریمؐ کے گھر کے معاملات کے انچارج حضرت بلالؓ تھے ،جسے امورِ امور خانہ داری کہتے ہیں کہ چیزیں خریدنا، بیچنا، مہمانوں کو سنبھالنا، گھر کا خرچہ چلانا وغیرہ۔ حضرت بلالؓ کے پاس خرچہ موجود ہوتا تو کرتے رہتے، ورنہ قرضہ لے کر ضرورت پوری کرتے، بعد میں حضورؐ کے پاس کوئی رقم آتی تو اس سے قرضہ ادا ہو جاتا تھا۔ حضرت بلالؓ اور جناب نبی کریمؐ کا آپس میں یہ معاملہ چلتا رہتا۔ مدینہ منورہ کا ایک یہودی تھا جس سے حضرت بلالؓ اکثر قرضہ لیتے تھے۔ ابوداؤد شریف میں ان کے قرضہ سے متعلق یہ واقعہ مذکور ہے کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت بلالؓ اس یہودی سے قرضہ لیتے رہے جو بڑھتے بڑھتے خاصا بڑھ گیا۔ اس یہودی نے حضرت بلالؓ سے مطالبہ کیا کہ قرضہ واپس کرو۔ ان کے پاس گنجائش نہیں تھی تو ٹال مٹول کرتے رہے۔ بالآخر قرض خواہ یہودی نے ایک دن دھمکی دے دی کہ تین دن کے اندر اندر میرا قرضہ واپس کر دو ورنہ تمہارے گلے میں رسی ڈال دوں گا۔ اس زمانے میں گلے میں رسی ڈالنے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ تمہیں غلام بنا کر بیچ دوں گا اور اپنا قرض پورا کروں گا۔ حضرت بلالؓ بہت پریشان ہوئے اور حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس قرض خواہ نے دھمکی دے دی ہے لہٰذا آپ کچھ کریں۔ آپؐ نے فرمایا اس وقت تو میرے پاس گنجائش نہیں ہے۔

اسی اثنا میں مہلت کا وقت گزر گیا، تیسرے دن اس یہودی نے حضرت بلالؓ سے کہا کہ اگر آج رات تک میرا قرضہ واپس نہ کیا تو میں تمہارے گلے میں رسی ڈال دوں گا۔ اب پھر حضرت بلالؓ حضورؐ کی خدمت میں آئے کہ آج قرضہ ادا نہ ہوا تو میرے گلے میں رسی پڑ جائے گی، میں ایک دفعہ غلامی بھگت چکا ہوں دوسری دفعہ غلام بننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ یارسول اللہ! کوئی راستہ نکالیے۔ آپؐ کے پاس کوئی گنجائش نہیں تھی، کیا کرتے۔ تو حضرت بلالؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر انتظام آپ کے پاس بھی نہیں ہے اور میرے پاس بھی نہیں ہے اور اس نے کل صبح مجھے غلام بنا لینا ہے اور بازار میں لے جا کر بیچ دینا ہے تو مجھے ایک بات کی اجازت دیجیے کہ میں چپکے سے رات کہیں کھسک جاؤں، جب کہیں سے گنجائش ہو جائے گی تو آجاؤں گا، حضورؐ نے اجازت عطا فرما دی۔ حضرت بلالؓ کہتے ہیں کہ رات میں نے سونے سے پہلے سواری تیار کی، سفر کا سامان تیار کیا اور عشاء کے بعد تیاری کر کے لیٹ گیا۔ پروگرام یہ تھا کہ آدھی رات کے بعد اٹھوں گا اور سفر شروع کر دوں گا، صبح ہوتے ہی میں دور کہیں پہنچ جاؤں گا ۔

حضرت بلالؓ کہتے ہیں کہ میں سارا بندوبست کر کے ابھی لیٹا ہی تھا کہ کسی نے آواز دی بلال! رسول اللہ بلا رہے ہیں۔ میں اٹھا اور حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپؐ مسجد کے باہر تشریف فرما تھے اور آپ کے سامنے چار اونٹ سازوسامان سمیت کھڑے تھے۔ سازوسامان میں غلہ، کپڑے اور دیگر ضروریات کی چیزیں ہوتی تھیں۔ حضورؐ نے فرمایا بلال! دیکھو اس سے قرضہ پورا ہو جائے گا؟ میں نے اندازہ کیا اور کہا یارسول اللہ! قرضہ بھی ادا ہو جائے گا اور کچھ بچ بھی جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا، یہ فلاں قبیلے کے سردار نے مجھے ہدیہ بھیجے ہیں، ان سے قرضہ ادا کر دو، اگر ان میں سے کچھ بچ گیا تو وہ میرے گھر نہیں لانا بلکہ صدقہ کر دینا۔

میں یہ بات کر رہا ہوں کہ حلال و حرام کا فرق واضح کرنا اور حلال کا طریقہ بتانا سنتِ نبویؐ ہے ۔ علماء کرام دراصل انبیاء کرام کی نمائندگی کرتے ہیں ’’العلماء ورثة الانبیاء‘‘ تو علماء کرام کی ذمہ داری یہ ہے کہ حلال و حرام کا فرق لوگوں کو بتائیں، صرف زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر متعلقہ لوگوں تک رسائی حاصل کریں اور ان کو حلال و حرام کا فرق عملاً بتائیں ۔ میں اس پر اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا کرتا ہوں۔

کافی عرصہ پہلے کی بات ہے مجھے مرغی کا گوشت لینا تھا تو میں اپنے محلے کی ایک دکان پر گیا، دکاندار میرے سامنے مرغیاں ذبح کر رہا تھا، اس کے ساتھ ڈرم پڑا تھا، وہ مرغیوں پر چھری پھیر کر اس ڈرم میں پھینکتا جا رہا تھا۔ اس نے میرے سامنے دو منٹ میں دس گیارہ مرغیاں ذبح کر کے ڈرم میں پھینکیں۔ میں نے دیکھا کہ ذبح کرتے ہوئے اس دکاندار کا منہ بند تھا۔ میں تھوڑی دیر اسے دیکھتا رہا اور بالآخر اس سے پوچھ لیا کہ آپ ذبح کرتے ہوئے کچھ پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟ وہ کہنے لگا کہ استاد جی! صبح ایک دفعہ بسم اللہ پڑھ لی تھی۔ یہ سن کر میں سناٹے میں آگیا کہ یہ میرا مقتدی ہے، نمازیں اور جمعہ میرے پیچھے پڑھتا ہے، اس کا یہ حال ہے تو باقی شہر کا کیا حال ہوگا؟ میں نے اسے ذبح کے دو چار مسائل سمجھائے ۔ لوگوں کو ان مسائل کا علم نہیں ہوتا اور ہماری اس طرف توجہ نہیں ہوتی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسئلہ بیان کر دیا تو ہمارا فرض ادا ہو گیا، حالانکہ ایسی بات نہیں ہے بلکہ لوگوں کے کام پر نظر رکھنا اور جہاں خرابی نظر آئے اس کی اصلاح کرنا محلے کے امام صاحب کی ذمہ داری ہے۔

اسی حوالے سے ایک اور واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ ایک دفعہ میں لندن میں ایک جگہ ٹھہرا ہوا تھا، ہمارے ایک دوست وہاں خطیب تھے ۔ ایک دن انہوں نے کہا کہ چلیں مارکیٹ کا چکر لگاتے ہیں، انہوں نے گوشت خریدنا تھا تو ہم ایک دکان پر گئے۔ وہاں جا کر میں نے محسوس کیا کہ دکاندار نے انہیں آنکھ سے کوئی اشارہ کیا۔ آنکھوں کا اشارہ سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے خطرناک قرار دیا ہے ’’یعلم خائنة الاعین وما تخفی الصدور‘‘ جب دکاندار نے اشارہ کیا تو مولانا نے مجھے کہا کہ واپس چلیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ تو گوشت خریدنے آئے تھے تو بغیر خریدے واپس کیوں جا رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ دکاندار نے مجھے اشارہ کر کے بتایا ہے کہ آج آپ والا گوشت نہیں ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ سمجھ کر مطمئن ہیں کہ میں تو حرام سے بچ گیا ہوں، مگر باقی عوام کا کیا بنے گا؟ آپ کے مقتدیوں میں سے کتنے لوگوں نے وہ گوشت خریدا ہوگا، ان کی ذمہ داری کس پر ہے؟ اور دکاندار بھی صرف آپ کو اشارہ کر کے مطمئن ہو گیا کہ میں نے مولانا صاحب کو بتا دیا ہے۔ اتفاق سے اس دن جمعہ تھا، میں وہاں مہمان تھا تو انہوں نے مجھے کہا کہ آپ جمعہ پڑھائیں، چنانچہ میں نے اسی موضوع پر گفتگو کی۔

حلال و حرام کا فرق ہماری دینی ضرورت تو ہے ہی، ہماری دنیوی ضرورت بھی ہے، اس پر بھی ایک حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ عشرہ مبشرہ اور اکابر صحابہ میں سے ہیں، ان کے بارے میں ایک بات مشہور ہو گئی تھی جس کا مشاہدہ بھی تھا کہ آپؓ مستجاب الدعوات ہیں۔ اس طرح کی خصوصی فضیلت اللہ تعالیٰ کسی کو عطا فرما دیتے ہیں جیسا کہ ایک حدیث مبارکہ میں ہے ’’لو اقسم علی اللہ لابرہ‘‘ جناب نبی کریم ؐنے فرمایا کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ دیکھنے میں کچھ بھی نہیں لگتے لیکن اگر وہ اللہ کا نام لے کر کوئی بات کہہ دیں تو اللہ ان کی لاج رکھ لیتا ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے بارے میں بھی یہ شہرت ہو گئی تھی کہ جو بات زبان سے کہہ دیتے وہ پوری ہو جاتی ۔ ایک آدمی نے حضرت سعدؓ سے پوچھا کہ حضرت! آپ کی شہرت بھی ہے اور مشاہدہ اور تجربہ بھی کہ آپ مستجاب الدعوات ہیں، اس کی وجہ کیا ہے کہ اللہ تعالی آپ کی کوئی بات رد نہیں کرتے؟

آدمی کو کوئی اعزاز اور کمال ملتا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت بلال ؓ سے خود جناب نبی کریمؐ نے پوچھ لیا تھا کہ بلال !جنت میں تمہارے قدموں کی چاپ سنی ہے، تم کون سا عمل کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! جو باقی مسلمان کرتے ہیں میں بھی وہی کچھ کرتا ہوں، ہاں ایک بات ہے کہ میں تحیۃ الوضو کا ناغہ نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا اسی وجہ سے تمہیں یہ اعزاز ملا ہے۔ تو ہر اعزاز اور کمال کے پیچھے کوئی عمل ہوتا ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے ان کے مستجاب الدعوات ہونے کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ میں اور تو کوئی خاص کام نہیں کرتا، جو باقی لوگ کرتے ہیں وہی کچھ کرتا ہوں، ہاں یہ بات ہے کہ میں نے جب سے کلمہ پڑھا ہے اس وقت سے لے کر آج تک میرے حلق سے کوئی ایک لقمہ بھی ایسا نہیں اترا جس کے بارے میں تسلی نہ ہو کہ یہ کہاں سے آیا اور کیسے آیا ہے۔ یہ حضرت عمر ؓکے زمانہ تھا جب حضرت سعدؓ میں یہ بات بتا رہے تھے۔ اتنے عرصے کے متعلق اتنے یقین سے حضرت سعدؓ ہی بات کہہ سکتے ہیں ،ہم تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہی لقمۂ حلال ان کے مستجاب الدعوات ہونے کی وجہ تھی کیونکہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے نبی کریم ؐ سے عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرما دیں تو آنحضرتؐ نے فرمایا کہ اے سعد! اپنا کھانا پاکیزہ اور حلال رکھو، تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدؐ کی جان ہے، جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کے اعمال قبول نہیں ہوتے، جس بندے کی نشوونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو، تو جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔

جبکہ حرام کھانے کی وجہ سے دعا کی قبولیت میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے، چنانچہ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں، جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے، جناب نبی کریم ؐ نے مالِ حرام کی قباحت و شناعت کو اس انداز میں ذکر فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہیں اور پاکیزہ مال ہی قبول فرماتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتے ہیں جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ پھر آپؐ نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں ’’یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا‘‘ اے رسولو! پاکیزہ اور حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ ’’یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقناکم‘‘ اے اہل ایمان! جو رزق ہم نے تمہیں دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاؤ۔ اس کے بعد رسول اللہ ؐ نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، پریشان حال اور غبار آلود ہے، آسمان کی طرف ہاتھ پھیلا کر دعائیں مانگتا ہے، اے میرے رب! اے میرے رب! اور حال یہ ہے ’’مطعمہ حرام مشربہ حرام ملبسہ حرام فانی یستجاب لہ‘‘ کہ اس کا کھانا حرام کا ہے، اس پینا حرام ہے، اس کا پہننا حرام کا ہے، اور اس کی پرورش ہی حرام سے ہوئی ہے، تو اس کی دعا کیونکر قبول ہو سکتی ہے۔ یہ آج ہمارا بڑا معاشرتی اور ملی مسئلہ ہے کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ’’مطعمنا حرام، مشربنا حرام، ملبسنا حرام، فانی یستجاب لنا‘‘ ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے کہ ہمارا کھانا پینا حلال ہے یا حرام ہے تو دعائیں کہاں سے قبول ہوں گی۔ اس لیے حلال و حرام کا فرق ہماری دنیوی ضرورت بھی ہے۔

ہمارے ہاں ذبیحہ کو حلال و حرام کے حوالے سے دیکھا جاتا ہے کہ ذبیحہ حلال ہے اور میتہ حرام ہے۔ حلال جانور اگر ذبح نہیں ہوا تو وہ حرام ہے۔ جانور میں سے خون بہتا ہوا نکل جائے تو وہ حلال ہوتا ہے، لیکن اگر دمِ مسفوح نہ نکلا ہو اور اندر ہی جذب ہو جائے تو جانور حرام ہوتا ہے۔ آج کی میڈیکل سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جانور کے جسم سے دمِ مسفوح نکل جائے تو باقی گوشت صاف ہو جاتا ہے اور اگر خون اندر جذب ہو جائے تو اس کا زہر گوشت میں سرایت کر جاتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ امریکہ ، یورپ اور فارایسٹ میں حلال میٹ کے نام سے ذبیحہ کی طلب بڑھتی جا رہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ذبیحہ کا گوشت صاف ہو جاتا ہے اور جو غیر ذبیح ہو وہ جسم میں خرابی پیدا کرتا ہے۔ فطری طور پر ان کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کہ حلال طریقے سے ذبح کیا ہوا ذبیحہ اور حلال اشیا جسم کے لیے مفید ہیں۔ یہ ماحول بن گیا ہے اور اس پس منظر میں اب وہ حلال مانگتے ہیں۔

جب انٹرنیشنل مارکیٹ میں حلال میٹ کی طلب بڑھے گی تو گارنٹی کی ضرورت ہوگی کہ یہ ذبیحہ ہے یا نہیں، اور گارنٹی کے لیے سٹیمپ درکار ہوتی ہے۔ لہٰذا بین الاقوامی مارکیٹ کے ہم سے تقاضے ہیں کہ حلال میٹ کی کوئی سٹیمپ متعارف کرواؤ تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ یہ گارنٹیڈ ہے۔ اب انٹرنیشنل مارکیٹ میں کوئی چیز لے جانے کی گارنٹی تو ریاست ہی دے سکتی ہے، عام آدمی نہیں دے سکتا۔ یہودیوں کی اپنی مہر ہے جس سے ان کے ہاں حلال ہونے کی تسلی ہو جاتی ہے۔ مگر مسلمانوں کی عالمی سطح پر حلال فوڈز سٹیمپ اور حلال فوڈز اتھارٹی نہیں ہے۔ مختلف ممالک میں اپنی اپنی ہیں جیسے ملائیشیا، جنوبی افریقہ اور ہائی لینڈ وغیرہ میں مسلمانوں نے اپنی حلال فوڈز اتھارٹیز بنائی ہوئی ہیں، جو علاقائی سطح پر کام کرتی ہیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر حلال فوڈز اتھارٹی اور حلال فوڈز سٹیمپ نہیں ہے اور اس کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے۔

پاکستان دنیا میں مانا ہوا مسلم ملک ہے اور ہمارے اندر کا حال جو بھی ہے مگر دنیا ہمیں اسلام کا نمائندہ سمجھتی ہے۔ غیر مسلم بھی یہی سمجھتے ہیں کہ اور دنیا کے مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں۔ اس لیے بین الاقوامی مارکیٹ میں طلب ہے کہ پاکستان میں حلال فوڈز اتھارٹی بنے اور پاکستان کی سٹیمپ بین الاقوامی مارکیٹ میں جاری ہو۔ چونکہ یہ تقاضہ ہے تو اس پر گورنمنٹ نے ایک اتھارٹی پنجاب حلال فوڈز اتھارٹی کے نام سے بنائی ہے۔ شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس جناب خلیل الرحمٰن خان اس کے چیئرمین رہے ہیں اور اس پر کام کرتے رہے ، لیکن ابھی تک پاکستان میں ایسی سٹیمپ نہیں ہے جو دنیا میں متعارف ہو سکے۔

حلال فوڈز سٹیمپ اور حلال فوڈز اتھارٹی ایک بڑا مسئلہ ہے، میں اس پر ایک واقعہ عرض کر دیتا ہوں۔ آج سے دس بارہ سال پہلے حلال فوڈز کے مسئلے پر لاہور پی سی میں ایک دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، انڈیا، ملائشیا، جنوبی افریقہ، لندن اور پاکستان سمیت آٹھ دس ملکوں کے حلال فوڈز پر کام کرنے والے حضرات شریک تھے۔ مفتیان کرام اور دیگر ماہرین بھی تھے۔ مجھے بھی اس میں دعوت دی گئی تھی اور تقریباً بیس منٹ گفتگو کا موقع ملا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جس نشست میں مجھے گفتگو کی دعوت دی گئی اس کی صدارت اس وقت پاکستان میں جو انڈونیشیا کے سفیر محترم تھے وہ کر رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ بہت اچھی بات ہے کہ دنیا میں حلال فوڈ متعارف ہو رہا ہے، اس کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے، بین الاقوامی مارکیٹ حلال میٹ کی گارنٹی اور سٹیمپ مانگ رہی ہے، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ رب العزت نے جو احکامات دیے ہیں وہ سائنٹیفک بنیادوں پر بھی درست ہیں، اور یہ اسلام کا اعجاز ہے کہ جس میتہ کو قرآن مجید نے حرام قرار دیا تھا اس کو آج کی میڈیکل سائنس بھی نقصان دہ قرار دے رہی ہے۔ لیکن علماء کرام کے لیے یہ بات قابلِ غور ہے کہ حلال و حرام کا فرق کرتے ہوئے اور حلال فوڈز اتھارٹی قائم کرتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم آپس کے اختلافی معاملات کے لیے کوئی فارمولہ طے کریں۔ کیونکہ حلال و حرام کا ایک دائرہ اجتہادی اور استنباطی ہے جس میں احناف اور شوافع کا اختلاف ہے۔

میں نے کہا کہ اس نشست کے صدر محترم انڈونیشیا کے سفیر محترم شافعی ہیں۔ انڈونیشیا، ملائیشیا اور تھائی لینڈ میں اکثریت شوافع کی ہے، بمبئی سے آگے بنگلہ دیش کو چھوڑ کر فار ایسٹ سب شوافع ہی شوافع ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ سی فوڈ کا زمانہ ہے، شوافع کے ہاں پانی کی ہر چیز حلال ہے، جبکہ احناف کے نزدیک اگر مچھلی کی جنس سے کوئی جانور ہے تو حلال ہے ورنہ نہیں ۔ دنیا کو گارنٹی فراہم کرنے سے پہلے ہمیں حلال و حرام کا آپس میں کوئی فارمولہ طے کر لینا چاہیے تاکہ دنیا کی مارکیٹ میں یہ تماشہ نہ لگ جائے کہ یہ انڈونیشیا کا حلال ہے اور یہ پاکستان کا حلال ہے۔ اس لیے حلال و حرام کا آپس میں کوئی ضابطہ طے کر کے پھر دنیا کے سامنے بات کریں ۔ صدر محترم میری اردو تقریر کا ترجمہ اپنی زبان سن رہے تھے۔ جب میں نے یہ بات کی کہ ان کا حلال اور ہے اور ہمارا حلال اور ہے تو وہ مسکرائے۔ بعد میں اپنی صدارتی تقریر میں انہوں نے میری تائید کی کہ یہ مولانا ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ پہلے آپس میں حلال و حرام کا فارمولہ طے ہونا چاہیے۔ یہ میں نے اس پر حوالہ دیا کہ آج کل کے حلال و حرام کے مسائل کیا ہیں۔

میں آپ حضرات کی جدوجہد کے حوالے سے عرض کر رہا ہوں کہ یہ بات بہت خوشی اور اطمینان کی ہے کہ کچھ حضرات اس کام کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے مجھے فرداً‌ فرداً‌ اطلاعات ملتی رہتی تھیں مگر جب محترم آفاق شمسی صاحب نے ساری صورتحال بتائی اور اپنی جدوجہد سے آگاہ کیا تو بہت خوشی ہوئی کہ کراچی کے سرکردہ حضرات جن میں علماء کرام بھی شامل ہیں حلال اور حرام سے آگاہی کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ یہ آگاہی علماء کرام کی ذمہ داری ہے اور صرف خود بچنا کافی نہیں ہے بلکہ اپنے ماحول میں دوسرے لوگوں کو بچانا بھی ضروری ہے۔ آج کل جوں جوں حلال کی طلب بڑھتی جا رہی ہے تو کنفیوژن بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ میں تقریباً پچیس تیس سال بیرون ملک بہت جاتا رہا ہوں، ایک زمانہ تھا کہ حلال میٹ یعنی ذبیحہ تلاش کرنا مسئلہ ہوتا تھا، ہم کئی کئی دن گوشت نہیں کھاتے تھے کیونکہ شک ہوتا تھا کہ یہ ذبیحہ ہے یا نہیں۔

اللہ تعالیٰ محترم آفاق شمسی صاحب اور ان کے رفقاء کو جزائے خیر عطا فرمائیں کہ جنہوں نے علماء کرام کی سرپرستی میں ، دار العلوم، جامعہ فاروقیہ اور بنوری ٹاؤن کے مفتیان کرام کی نگرانی میں کراچی میں اس حوالے سے محنت کا ماحول بنایا ہے اور فقہی طور پر آگاہی پیدا کرنے کے لیے انہوں نے یہ کام سنبھالا ہے۔ میں ان کے ساتھ پشاور بھی گیا ہوں، وہاں الحمد للہ بہت منظم کام دیکھا ہے، اسلام آباد اور لاہور میں بھی منظم کام ہو رہا ہے۔ اور یہ ذمہ داری علماء کرام ہی کی ہے کہ وہ حلال و حرام کا ماحول قائم رکھیں، اس پر ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دوں گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید پر عمل کا معیار اور علامت یہ قرار دی ’’من تعلم القرآن و حفظہ و عمل بہ‘‘ کہ جس نے قرآن مجید یاد کیا، یاد رکھا ، اس پر عمل کیا ’’فاحل حلالہ وحرم حرامہ‘‘ اور اس کے حلال کو حلال اور اس کے حرام کو حرام سمجھا۔ حضور ؐ نے قرآن مجید پر عمل کی ظاہری علامت یہ قرار دی ہے کہ وہ حلال و حرام کا فرق کرتا ہو۔ اس لیے حلال و حرام سے آگاہی کا ماحول اور اس پر عملی مسائل کو فیس کرنے کے حوالے سے جو کمپین چل رہی ہے یہ خوش آئند ہے ۔جیسا کہ شمسی صاحب نے ایک مجلس میں بیان کیا کہ ہم اپنے محلے میں چیک کریں کہ جو لوگ مرغیاں بیچ رہے ہیں کیا وہ صحیح طریقے سے ذبح کرتے ہیں۔ یہ جو عملی صورتیں ہیں ان پر علماء کرام کو سب سے زیادہ توجہ دینی چاہیے ،عوام کو آگاہ رکھنا، بیدار کرنا اور حلال اختیار کرنے اور حرام سے بچنے کے عملی طریقے بتانا علماء کرام کی اہم ذمہ داری ہے، ہمیں اس کام میں اپنی حیثیت کے مطابق شریک ہونا چاہیے۔

اس حوالے سے آپ کا کام پہلے بھی میرے علم میں تھا، لیکن شمسی صاحب نے تفصیلات سے آگاہ کیا اور کہا کہ آپ ہمارے ساتھ شریک ہوں تو میں نے عرض کیا کہ میں کوشش تو یہی کر رہا ہوں کہ کسی کام سے پیچھے نہ رہوں لیکن میں کون کون سے کام میں شریک ہو سکوں گا؟ میں ایک شرط کے ساتھ ان سے وعدہ کرتا ہوں جس کا ذکر حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب ایک صحابیؓ نے حضور نبی کریمؐ سے بیعت کی تو عرض کیا یا رسول اللہ! جو آپ فرمائیں گے میں کروں گا۔ اس پر جناب نبی کریمؐ نے فرمایا ’’فیما استطعت‘‘ بھی کہو کہ جو میرے بس میں ہوگا میں وہ کروں گا۔ میں نے بھی ان سے یہی وعدہ کیا کہ جہاں تک میرے بس میں ہوگا اس کام میں شریک رہوں گا۔ آپ حضرات سے بھی یہ گزارش ہے کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں اسے اپنی ذمہ داری سمجھ کر کرنا چاہیے، اس پر ثواب و اجر بھی ملے گا، اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت بھی ہوگی اور ہمارا ایک فریضہ بھی ادا ہوگا۔ اللہ رب العزت اس کار خیر میں برکات نصیب فرمائیں اور ہمیں اپنا اپنا کام کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔



درسِ نظامی کی بعض کتب کے ناموں اور نسبتوں کی تحقیق

مولانا احمد شہزاد قصوری

بحیثیتِ فن کسی بھی کتاب کے مطالعہ سے پہلے اُس کا درست اور مکمل نام معلوم ہونا ضروری ہے کہ اس سے ایک تو مؤلف کے وضع کردہ اصل نام کا پتا چل جاتا ہے اور دوسرا یہ چیز اُس کتاب کے ا بتدائی تعارُف،کتاب کے مو ضوع اورمنہجِ مؤلف کو سمجھنے میں ممد ومُعاوِن ثابت ہوتی ہے۔ درسِ نظامی کی کتب میں سے بخاری، مسلم، ترمذی،شمائلِ ترمذی، نَسائی، طحاوی،بیضاوی،سِراجی،حُسامی،قُطبی اورقدوری وغیرہ کے اصل اور درست ناموں سے متعلق  ذیل میں بعض تفصیلات  ذکر کی جاتی ہیں۔

 صحیح بخاری:

یہ امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری(متوفی ۶۵۲ھ) رحمہ اللہ کی مایہ نازتصنیف ہے،جس کااصل نام ”الجامعُ المُسنَدُ الصحیحُ المختصَرُ من أُمُور رسول اللہ ﷺ وسُننِہ وأیَّامِہ“ہے، جیساکہ ابن خیرالاِشبیلی (متوفی۵۷۵ھ)رحمہ اللہ، حافظ ابن الصلاح(متوفی۳۴۶ھ)رحمہ اللہ،امام نووی(متوفی۶۷۶ھ)رحمہ اللہ اورعلامہ بدر الدین عینی(متوفی ۵۵۸ھ)رحمہ اللہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے، چنانچہ ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“ میں ہے:

”مُصنَّفُ الإمامِ أبی عبد اللہ محمد بن إسماعیل البُخاریِّ، وہو: ”الجامعُ المسنَدُ الصحیحُ المُخْتصَرُ من أُمورِ رسولِ اللہ ﷺ وسُنَنِہ وأیامہ“(۱).

اسی طرح حافظ ابن الصلاح(متوفی۳۴۶ھ)رحمہ اللہ اپنی کتاب”معرفۃُ أنواعِ علم الحدیث“میں تحریر فرماتے ہیں:

”کتاب البخاریِّ....اسمُہ الذی سمَّاہ بہ، وہو: ”الجامعُ المُسنَدُ الصحیحُ المُختصَرُ من أمور رسول اللہ ﷺ وسننہ وأیامہ“(۲).

اسی طرح امام نووی(متوفی۶۷۶ھ)رحمہ اللہ اپنی کتاب ”تہذیب الأسماء واللغات“میں رقم فرماتے ہیں:

”أما اسمُہ: سمَّاہ مؤَلِّفُہ البخاریُّ رحمہ اللہ، وہو:”الجامعُ المسندُ الصحیحُ المُختصَرُ من أمور رسولِ اللہ ﷺ وسننِہ وأیامہ“(۳).

اسی طرح علامہ عینی(متوفی۵۵۸ھ)رحمہ اللہ ”عُمدۃ القاری بشرح صحیح البخاری“میں رقم طراز ہیں:

”سمَّی البخاریُّ رحمہ اللہ  کتابَہ ب”الجامع المسنَد الصحیح المُختصَر من أمورِ رسولِ اللہ ﷺ وسننِہ وأیامہ“(۴).

صحیح بخاری کے اس مکمل نام میں گویا چار قیود ات آئی ہیں:  (۱) ”الجامعُ“.  (۲) ”المُسنَدُ“. (۳) ”الصحیحُ“.   (۴) ”المُختصَرُ من أمورِ رسولِ اللہ ﷺ وسننِہ وأیامہ“.

یہ تمام قیودات کتاب کے مضمون اوراس کے مو ادکی نوعیت کی نشان دہی کررہی ہیں،اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ''صحیح بخاری''کی شرائط ومنہج کوپرکھنے میں حضراتِ محدثین کے ہا ں اس کے مکمل نام کو بہت بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔

صحیح مسلم:

یہ امام ابو الحسین مسلم بن حجاج قُشیری(متوفی ۱۶۲ھ)رحمہ اللہ کی مایہ ناز کتاب ہے،جس کا اصل نام”المُسنَدُ الصحیحُ المُختصَرُ من السُّننِ بِنَقْلِ العَدْل عن العدْل عن رسولِ اللہﷺ“ ہے، چنانچہ ابن خیرالاِشبیلی (متوفی۵۷۵ھ)رحمہ اللہ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

”مُصَنَّف الإمام أبی الحسین مُسلم بن الحجَّاج بن مُسلم القُشیرِیِّ النَّیْسَابوریِّ، وہو: ”المسندُ الصَّحیحُ المُخْتَصرُ من السّنَن بِنَقْل العدْل عن العدْل عن رسولِ اللہ ﷺ“ (۵).

اسی طرح قاضی عیاض(متوفی۴۴۵ھ)رحمہ اللہ اوردیگرعلماء ِکرام نے بھی''صحیح مسلم''کے اصل اورمکمل نام کی تصریح فرمائی ہے، البتہ! قاضی عیاض رحمہ اللہ نے''صحیح مسلم'' کااصل نام ذکر کرتے ہوئے ”المُخْتَصر“ کے بعد”من السُّنَن“کے الفاظ ذکرنہیں فرمائے،جبکہ وہ اس کا لازمی حصہ ہیں، زمانہ قریب کے مشہورمحقِّق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ (متوفی۷۱۴۱ھ)رحمہ اللہ نے ا پنی کتاب”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“ میں قاضی عیاض رحمہ اللہ کے اس صنیع پرتبصرہ کرتے ہوئے فرمایاہے کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ کی عبارت میں اختصارہے اوراصل نام میں ”من السّنَن“ کے الفاظ موجود ہیں،چنانچہ وہ رقم طراز ہیں:

”وسمَّی الإمامُ القاضی عیاض رحمہ اللہ ”صحیح مسلم“  فی کتابِہ ”مشارق الأنوار علی صِحاح الآثار“، و”الغُنیَۃ“: ”المسندُ الصَّحیحُ المُخْتَصرُ بِنَقْل العدْل عن العدْل عن رسولِ اللہ ﷺ“، وفی ہذا العُنوان اختصارٌ أیضًا، وہو لفظُ”من السنن“(۶).

شیخ عبدالفتاح ابو غُدہ رحمہ اللہ کی تاکید:

شیخ عبدالفتاح ابوغُدہ(متوفی۷۱۴۱ھ)رحمہ اللہ نے”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین“میں مزیدتحریرفرمایا ہے کہ ''صحیح بخاری''اور''جامع ترمذی''کی طرح''صحیح مسلم''کی طبعات بھی اصل نام سے خالی ہیں،جبکہ یہ بہت بڑا عیب اور نقص ہے ا وریہ بات کتاب کی حقیقت کوسمجھنے میں ایک بڑی رُکاوٹ ہوتی ہے،لہذااس کی کمی کاازالہ ہوجاناچاہیے اور آئندہ کی طبعات میں کتاب کااصل اوردرست نام ٹائیٹل پرچسپاں کرنا چاہیے،چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”تعدَّدتْ طبعاتُ ”صحیح مُسلم“ تعدُّدًا کثیرًا فی بِلاد مصرَ، والشّام، والہند، وترکیا، والمغرب وغیرِها، ولم یُثبَتْ علی طبعةٍ منہا اسمُہ العَلَمِیُّ، الذی سمَّاہ بہ مؤلِّفُہ الإمامُ مسلمُ بنُ حجاج القُشَیریُّ النَّیسابُوریُّ شأنَ ”صحیح البخاری“، وشأنَ”جامع التِّرمَذی“.
”وہذا خلَلٌ شدیدٌ ونقْصٌ ظاہرٌ فی تشْخِیصِ الکتاب، والتعریف بمضْمُونہ وما بُنِی علیہ، فیَنبغِی تدارُکُہ فی طبعاتہ اللاحقة“(۷).

 جامع ترمذی:

یہ امام ابوعیسی محمد بن عیسی ترمذی(متوفی۹۷۲ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ احکامِ فقہیہ پرمشتمل بہت ہی اہم کتاب ہے،جس کااصل نام ”الجامعُ المختصَرُ من السننِ عن رسول اللہ ﷺ، ومعرفةُ الصحیحِ والمَعلُولِ، وما علیہ العمَل“ ہے، جوکہ کتاب کے مضمون کی بخوبی وضاحت کررہا ہے، چنانچہ ابن خیر الاِشبیلی(متوفی۷۵۷ھ)رحمہ اللہ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

”مُصنَّفُ الإمامِ أبی عیسی محمد بن عیسی بن سَورۃ التِّرمذیِّ الحافظ، وہو: ”الجامعُ المُختصَرُ مِن السُّنن عن رسولِ اللہ ﷺ، ومعرفةُ الصحیح، والمعلول، وما علیہ العمل“(۸).

اب دیکھیے''صحیح بخاری'' کی طرح ''صحیح مسلم''اور''جامع ترمذی'' کا اصل نام بھی کتاب کے مضمون اور مواد کی نوعیت کی بھر پور وضاحت کر رہا ہے، جس سے اس اصل نام سے واقفیت کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔

جامع ترمذی کے اصل نام سے واقفیت کی اہمیت وضرورت:

شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمہ اللہ ”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین“میں ''جامع ترمذی'' کااصل نام ذکر کرنے بعدکے خاص اس کے متعلق تحریرفرماتے ہیں کہ''جامع ترمذی'' کااصل نام اس کے ٹائیٹل پر درج کرنا''صحیح بخاری'' اور''صحیح مسلم''کے اصل ناموں کی بنسبت زیادہ ضروری ہے؛کیونکہ ''صحیحین''تو احادیثِ صحیحہ پرہی مشتمل ہیں،جبکہ ''جامع ترمذی''میں صحیح ومعلول ہرطرح کی احادیث درج ہیں،جس کی صراحت کتاب کے نام میں موجود ہے، اس لیے ''صحیحین''کے اصل ناموں کو کتاب کے ٹائیٹل پر ذکر نہ کرنا اتنا خطرناک نہیں ہے،جتنا''جامع ترمذی''کے اصل نام کو ترک کرنانقصان دہ ہے(۹)۔

پھر فرماتے ہیں:  ہمارے یہاں صورتِ حال یہ ہے کہ بہت سے کبارمشایخ اورمحققین حضرات نے''جامع ترمذی''پرخدمات سرانجام دی ہیں، لیکن افسوس کہ ان حضرات میں سے کسی نے بھی''جامع ترمذی'' کادرست اور اصل نام ذکر نہیں کیا،گویا ان حضرات نے اصل نام کی تصحیح کی طرف توجہ ہی نہیں کی، حالانکہ کتاب کے نام کی تصحیح تو سب سے مقدم چیز ہے(۱۰)۔

شمائلِ محمدیہ:

ہمارے ہا ں شمائلِ ترمذی کے نا م سے جو کتاب مشہورہے،اس میں امام ترمذ ی رحمہ اللہ کے شمائل نہیں،بلکہ حضورِ اقدس  ﷺکے اوصاف وشمائل مذکور ہیں اوراس مشہورترکیب میں لفظِ”شمائل“کی ”ترمذی“کی طرف نسبت ہی خلافِ ظاہرہے،یہ کتاب بھی امام ابوعیسی محمدبن عیسیٰ ترمذی(متوفی ۹۷۲ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،اس کا اصل اوردرست نام”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخصائلُ المُصْطَفَوِیةَّ“ہے،جیساکہ مشہورمُفہرِس حاجی خلیفہ(متوفی ۷۶۰۱ھ)رحمہ اللہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے،چنانچہ وہ اپنی مشہورِ زمانہ کتاب”کشْف الظُّنُون عن أسامی الکتُب والفُنون“میں تحریرفرماتے ہیں:

”شَمائلُ النبی ﷺ: ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخَصائلُ المُصْطَفَوِیَّة“ لأبی عیسی محمد بن سَورۃ، الإمام، التِّرمَذیِّ“(۱۱).

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی(متوفی۱۱۹ھ)رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”زہْرُ الخَمائل علی الشَّمائل“میں اس کے اصل نام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

”أما الأصل فہو ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ“ للإمام أبی عیسیٰ محمد بن سَورۃ التِّرمَذیِّ“(۱۲).

اسی طرح معاصرمحقِّق سیدابنِ عباس جلیمی نے''شمائل محمدیہ''کے مقدمہ تحقیق میں آپ  ﷺکی سیرت وصفات کے مصادرکا ذکر کرتے ہو ئے اس کے اصل نام کی تصریح فرمائی ہے، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”المُؤلَّفات فی الشَّمائل: لقد أُلِّف، وصُنِّف فی ہذا البابِ العدیدُ من الکُتُب ما بینَ مَطبُوعٍ، ومَخْطُوطٍ، ومفْقُودٍ، نذْکُرمنہا: ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخَصائلُ المُصْطَفَوِیَّة“، وہو المعروفُ ب”شمائل التِّرمذی“(۱۳).

اسی طرح معاصرمحقق شیخ محمدعجاج الخطیب نے اپنی کتاب”لمحات فی المکتبۃِ والبحْثِ والمصادر“میں اس کے اصل نام کی تصریح فرمائی ہے، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّةُ والخصائلُ المُصْطَفَوِیَّة“ لأبی عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سَورۃ التِّرمذیِّ مِن أجمَعِ ما صُنِّفَ فی صِفاتِہ ﷺ، وہَدْیِہ“(۱۴).

سننِ نَسائی:

یہ امام ابو عبدالرحمن احمد بن شُعیب نَسائی(متوفی ۳۰۳ھ)رحمہ اللہ کی کتاب ہے،جس کااصل نام”المُجْتبی“ ہے،اس کو ”السُّنن الصُغریٰ“ بھی کہا جاتا ہے، جوکہ دراصل مؤ لف رحمہ اللہ کی دوسری کتاب ”السنن الکبریٰ“کا اختصارہے،اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ امام نَسائی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ”السنن الکبریٰ“تصنیف فرمائی اوراسے امیررملہ کے سامنے پیش کیا،توامیررملہ نے پوچھاکہ کیا اس میں موجودتمام احادیث صحیح ہیں؟،امام نَسائی رحمہ اللہ نے جو اب میں فرمایا کہ''نہیں ''،تواس پرامیررملہ نے ”السنن الکبریٰ“کے اختصارکامطالبہ کیا،چنانچہ امام نسائی رحمہ اللہ نے ”السنن الکبریٰ“ کااختصار کرکے صرف صحیح احادیث کوباقی رکھا اوراپنی اس مختصرکتاب کا نام انہوں نے ”المُجْتبیٰ“ تجویزفرمایا،گویا اپنی معنویت کے اعتبارسے یہ”المُجْتبی“ من ”السُّنن الکُبریٰ“ہے،چنانچہ اس کے متعلق ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“ میں درج ہے:

”المجتبیٰ...فی السنن المسندۃ لأبی عبد الرحمن النَسائی، اختَصَرَہ من کتابہ الکبیر المصنف، وذلک أن بعضَ الأُمَراء سألہ عن کتابہ فی السنن، أکُلُّہ صحیحٌ؟ فقال: لا، قال: فاکْتُب لنا الصحیحَ منہ مجرَّدًا، فصَنَعَ ”المجتبی“(۱۵).

اسی طرح حافظ ابن الاثیر جزری(متوفی ۶۰۶ھ)رحمہ اللہ”جامع الأصول فی أحادیث الرسولﷺ“کے مقدمہ میں اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

”وسأل بعضُ الأمراء أبا عبد الرحمن عن کتابہ ”السُّنن“، أکُلُّہ صحیحٌ؟ فقال: لا، قال: فَاکْتُب لنا الصَّحیحَ منہ مُجرَّدًا، فصَنَعَ ”المُجْتَبیٰ“، فہو: ”المُجتبیٰ من السنن“، ترَک کلَّ حدیثٍ أوردہ فی ”السنن“ مِمَّا تُکُلِّم فی إسنادہ بالتعلیل“(۱۶).

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی(متوفی۱۱۹ھ)رحمہ اللہ نے''سننِ نسائی'' کی شرح”زہْرُ الرُّبی علی المُجتبیٰ“کے مقدمہ میں اس حوالے سے تحریر فرمایاہے:

”قال محمدُ بنُ معاویةَ الأحمر الراوی عن النَّسائی، قال النَّسائیُّ: کتابُ ”السُّنن“ کلُّہ صحیحٌ، وبعضُہ معلُولٌ إلا أنہ لمْ یُبیِّن عِلّتَہ، والمُنتخَب المُسَمَّی ب”المُجْتَبیٰ“ صَحیحٌ کلُّہ“.
وذکَر بعضُہم: أن النَّسائیَّ لما صَنَّف  ”السنن الکُبریٰ“، أہداہ إلی أمیر الرملة، فقال لہ الأمیرُ: أَکُلُّ ما فی ہذا صحیحٌ؟، قال: لا، قال: فجَرِّد الصحیحَ منہ، فصَنَّف ”المُجْتبیٰ“(۱۷).

نوٹ:  راوی کتاب کی طرف نسبت کرتے ہوئے''سنن کبریٰ'' کو ''روایتِ ابن الاحمر'' اور''سنن صغریٰ'' (یعنی ”المُجْتبیٰ“)کو ''روایتِ ابنُ السُنی'' بھی کہاجاتاہے،” سننِ نَسائی“ کے مشہور شارح شیخ محمد بن علی بن آدم الاِثیوبی (متوفی۲۴۴۱ھ)رحمہ اللہ نے”ذخِیرۃالعُقبیٰ فی شرح المُجتبیٰ“   کے مقدمہ میں تاج الدین سُبکی(متوفی۱۷۷ھ)رحمہ اللہ کا یہ قول نقل فرمایاہے کہ ان دونوں میں سے کتبِ ستہ میں ”سنن نَسائی صُغریٰ“ (یعنی ”المُجْتبیٰ“) د اخل ہے، نہ کہ” سننِ نسائی کُبریٰ“، چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”وقال القاضی تاج الدین السُبْکی: ”سُنن النَّسائی“ التی هی إحْدَی الکتب الستة، هی ”الصُغْریٰ“، لا ”الکُبْریٰ“(۱۸).

حضراتِ محدثین جب مطلقًا ''سُننِ نَسائی'' کہتے ہیں،تواس سے”المُجتبیٰ“ اور ”السُّنن الصُّغْریٰ“ہی مراد ہوتی ہے،جوکہ ہمارے ہاں مشہور  ومعروف ہے اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نصاب میں داخل  ہے۔

شرح معانی الٓاثار:

یہ امام ابو جعفراحمدبن محمدبن سلامہ الطحاوی(متوفی۱۲۳ھ)رحمہ اللہ کی کتاب ہے،جوکہ احکامِ فقہ سے متعلق متعارض احادیث کے حل پرمشتمل ہے،اس کامکمل نام”شرْح معانی الآثار المُختلفةِ المرویةِ عن رسول اللہ ﷺ فی الأحکام“ہے اوریہ اصل نام کتاب کے مضمون اورمندرجات کی طرف مشعرہے،یہ مکمل نام خود مصنفِ کتاب رحمہ اللہ کی عبارت میں بھی موجود ہے،چنانچہ وہ”شرح معانی الآثار“میں ”کتاب الحجۃ فی فتح رسول اللہ ﷺ مکۃَ عَنْوۃً“کے تحت تحریرفرماتے ہیں:

”وقد ذکرْنا فی ہذا الباب الآثارَ التی رواہا کلُّ فریقٍ مِمَّن ذہَب إلی ما ذہَبَ إلیہ أبو حنیفةَ، وأبو یوسفَ رحمہما اللہ فی کتاب البیوع من”شرْح معانی الآثار المُخْتلِفَة المرْوِیة عن رسولِ اللہ ﷺ فی الأحکام“(۱۹).

شیخ عبدالفتاح ابوغُدہ(متوفی۷۱۴۱ھ)رحمہ اللہ نے”ظفَر الأمانی“کے حاشیہ میں ”شرح معانی الآثار“کے اصل نام کے حوا لے سے مفصل کلام فرمایا ہے اوراس بات کی پُرزورتاکیدکی ہے کہ جدیدطباعت میں مکمل نام ٹائیٹل پر چسپاں کرنا چاہیے،چنانچہ وہ تحریر فرماتے ہیں:

”ہکذا شاع اسمُ ہذا الکتاب للإمام الطحاویِّ رحمہ اللہ ”شرح معانی الآثار“، وہو الاسمُ المُثبَتُ علی النُّسْخةِ المطبوعةِ بالہِندِ، ثم بمِصرَ عنہا، وفیہ اختصارٌ غَیَّبَ ذکْرَ مزیَّةِ ہذا الکتابِ فی مضمُونہ، ومُحتواہ، وقد رأیتُ اسمَہ تامًّا مشکولًا ہکذا:”شرْحُ معانی الآثار المُخْتلِفَةِ المأثُورۃِ“،رأیتُہ عامَ ۳۸۳۱ھ فی الجزء الثانی من النسخة ذات الجزأین، المحفوظة فی المکتبة المحمودیة بالمدینة المنورۃ، ورَقْمُہا فیہا۳۱۴۱... والنسخةُ المَخطوطةُ المذکورۃُ قرَأَہا طائفةٌ من العُلماء الأجِلَّة، مِنہم: أبو حامد أحمد بن الضیاء الحنَفِیُّ المکِّیُّ...
وہی نُسْخةٌ نظِیفةُ الخَطِّ، واضِحةُ الضَّبْطِ لَعلَّہا کُتِبتْ فی القرْن السادِسِ أو قبْلَہ.وقد أفادَت فائدۃً جُلیَّ، وہی تحْدیدُ مَوضوعِ ہذا الکتاب من اسمِہِ وعُنوانِہ، فإنَّ اسمَہ المُثبَتَ علی طبعة الہِند، وما بعدَہا من الطبعات لا یُشَخِّصُ مضمُونَہ، ولا یَدُّل علی مزِیَّتِہ الغالیَةِ، أمَّا الاسمُ المذکورُ فہو کاشِفٌ لِما أُلِّف الکتابُ من أجلِہ، فیُستفادُ ذلک ویُنشَر، وجاء اسمُ الکتابِ فی داخلِہ... فی ”کتاب الحجة فی فتح رسول اللہ ﷺ مکةَ عَنوۃً“: ہکذا من کلامِ مُؤلِّفِہ: ”شرحُ معانی الآثار المُختَلِفِةِ المَروِیَّة عن رسول اللہ ﷺ فی الأحکام“، وہو أتمُّ، ففیہ زیادۃٌ ”فی الأحکام“ فیَنبَغِی إثباتُہ علی وجْہِ الکتاب عند طبْعِہ مِن جدید“(۲۱).

واضح رہے کہ مختصرنام کے طور پران کتب کو صحیح بخاری،صحیح مسلم،سننِ نَسائی،جامع ترمذی،شمائلِ محمدیہ اور شرح معانی الآثار،یا شرح طحاوی کہنا چاہیے اوران کو بغیر تاویل کے بخاری،مسلم،نَسائی،ترمذی اورطحاوی وغیرہ کہناایسے ہے،جیسے کوئی ملتان میں رہنے والاشخص کتاب تصنیف کرے اوراس کی کتاب کو ملتانی کہا جانے لگے،جبکہ ملتانی شخص (مؤلفِ کتاب) کی نسبت ہے، کتاب کا نام نہیں ہے۔

اسی طرح ہمارے ہاں درسِ نظامی کے عُرف میں بیضاوی،جلالین، سِراجی،حُسامی،قُطبی،جامی،شاشی اورقدوری وغیرہ کے عُنوان سے بھی کتابیں مشہور ہیں، جبکہ یہ مؤلفین کی نسبتیں ہیں،کتابوں کے نام نہیں۔

 تفسیر بیضاوی:

اس کااصل نام”أنوار التنزیل وأسرار التأویل“ہے(۲۲)،جوکہ علامہ ناصرالدین ابوسعید عبداللہ بن عمر البَیضاوی(متوفی۵۸۶ھ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،مصنف رحمہ اللہ کی نسبت(البَیضاوی) کی وجہ سے کسی نے اسے''بیضاوی'' کہہ دیا،تویہ مشہور ہوگیا،جوکہ اپنی اصل کے اعتبار سے بغیر تاویل کے درست نہیں،مختصر نام کے طور پر اسے''تفسیرِ بَیضاوی'' کہنا چاہیے، نہ کہ صرف''بیضاوی''،جوکہ ملکِ فارس کے شہر''بَیضاء'' کی طرف مؤلف  رحمہ اللہ کی نسبت ہے، کتاب کا نام نہیں۔

جلالین کی درست تعبیر:

اسی طرح درجہ سادسہ میں تفسیر کے موضوع پر داخلِ نصاب کتاب کو ''تفسیرِجلالَین'' کہنا چاہیے، نہ کہ صرف ''جلالَین''، جو کہ اس کے دو مصنفین (جلال الدین محلی متوفی۴۶۸ھ رحمہ اللہ اور جلال الدین سیوطی متوفی ۱۱۹ھ رحمہ اللہ) کے لقب (جلال الدین) کا مُخفف اور اختصار ہے،کتاب کا نام نہیں۔

سِراجی:

درسِ نظامی میں میراث کے موضوع پرداخلِ  نصاب کتاب کا درست نام”المُخْتصَر فی الفرائض“ہے(۲۳)، جوکہ سراج الدین محمدبن عبدالرشید السجاوندی(متوفی۰۰۶ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،مصنف رحمہ اللہ کے لقب(سراج الدین)کی وجہ سے کسی نے اسے''سراجی'' کہہ دیا، تویہ روایت چل پڑی،حتی کہ طابعین نے بھی اس کے اصل نام کی تحقیق کی زحمت نہیں اٹھائی اور اسے ”السراجی فی المیراث“ کے نام سے شائع کرنا شروع کردیا، جبکہ تحقیق کی رُو سے یہ درست نہیں ہے،بلکہ اسے اصل نام سے ہی شائع کرنا چاہیے۔

حُسامی:

اس کادرست نام”المُنتَخَب فی أُصول المَذہب“ہے(۲۴)،یہ حسام الدین محمد بن محمد بن عمر الاخسیکثی (متوفی۴۴۶ھ) رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، اسے بھی کسی نے مصنف رحمہ اللہ کے لقب(حسام الدین) کی وجہ سے''حسامی''کہہ دیا،تو یہ روایت چل پڑی، جبکہ اس کادرست نام یہ نہیں ہے،بلکہ اس کادرست نام وہی ہے، جو اوپرذکر کیا گیا ہے۔

 قُطبی:

یہ علمِ منطق کی مشہورکتاب”الرسالۃ الشمسیۃ“کی شرح ہے اوراس کا اصل نام ”تحْریرُ القواعد المَنطقِیَّة فی شرح الرسالة الشمسیة“، جیسا کہ خود مصنفِ کتاب شیخ قُطب الدین محمود بن محمد الرازی (متوفی۶۷۵ھ)رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب کے مقدمہ میں اس کی تصریح فرمائی ہے(۲۵)۔

اس کتاب کوبھی مصنف رحمہ اللہ کے لقب(قطب الدین) کی وجہ سے کسی نے''قطبی''کہہ دیا،تو یہ مشہور ہوگیا،جبکہ یہ اس کااصل نام نہیں ہے۔

شرح مُلاجامی:

اس کادرست نام”الفوائدُ الضِّیائِیةُ علی متن الکافیة“ہے(۲۶)،جوکہ مشہورنحوی ابن الحاجب (متوفی۶۴۶ھ)رحمہ اللہ کی کتاب ”الکافیۃ“کی شرح ہے اوریہ شرح مُلا نورالدین عبدالرحمن بن احمدالجامی(متوفی ۸۹۸ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ ہے، اس کتاب کومصنف رحمہ اللہ کی نسبت (الجامی) کی وجہ سے''جامی'' کہہ دیا جاتا ہے،مگر یہ درست نہیں ہے،البتہ! اس کتاب کو مختصر نام کے طورپر''شرح مُلا جامی'' کہا جا سکتا ہے۔

اصولِ شاشی:

اس کااصل نام”الخمْسین فی أصول الفقہ“ہے(۲۷) اور یہ نظام الدین الشاشی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے جوکہ غالب رجحان کے مطابق چھٹی یا  ساتویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھے، بالتعیین ان کی تاریخِ وفات معلوم نہیں ہوسکی، باقی ان کی وفات کے بارے میں ۳۴۴ھ کا مشہور قول اس وجہ سے درست نہیں ہے کہ اس کتاب میں ایسے علماء کے حوالہ جات موجود ہیں کہ جو ۳۴۴ھ سے بعد کے ہیں اوراس کتاب کے مذکورہ نام رکھنے کی وجہ یہ بتلائی جاتی ہے کہ مصنف رحمہ اللہ نے اس میں پچاس اُصولِ فقْہ درج فرمائے ہیں،یا مصنف رحمہ اللہ نے پچاس سال کی عمر میں یہ کتاب تصنیف فرمائی تھی،اسے مختصر نام کے طور پر''اُصولِ شاشی''کہنا چاہیے،اسے ''شاشی'' کہنا درست نہیں۔

مختصرالقدوری:

یہ ابوالحسین احمدبن محمدالقدوری(متوفی۴۲۸ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف ہے،مشہورمفہرس حاجی خلیفہ(متوفی ۱۰۶۷)رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”کشْف الظُّنُون عن أسامی الکتُب والفُنون“ میں اس کا نام”المُختصر فی فروع الحنفیة“لکھا ہے، چنانچہ وہ فرماتے ہیں:

”المُختصر فی فروع الحنفیة“ للإمام أبی الحسین أحمد بن محمد القدوری، البغدادی، الحنفی“(۲۸).

شیخ علاء الدین محمدبن احمدسمرقندی(متوفی۵۴۰ھ)رحمہ اللہ نے اپنی کتاب”تحفۃ الفقہاء“میں اورشیخ برہان الدین علی بن ابی بکرالمرغینانی(متوفی ۳۹۵ھ)رحمہ اللہ نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”الہِدایۃ فی شرح بِدایۃ المُبتدی“ میں اس کا نام صرف”المُختصر“ذکر فرمایا ہے(۲۹)۔

نیزامام قدوری رحمہ اللہ کی”المُختصر“چونکہ اُمہات المسائل پرمشتمل ہے،اس وجہ سے یہ اہلِ علم کے ہاں ”الکتاب“کے نام سے بھی مشہور ہے، چنانچہ شیخ ابوسعدالیزدی(متوفی۵۹۱ھ)رحمہ اللہ اورشیخ عبدالغنی المیدانی(متوفی ۱۲۹۸ھ)رحمہ اللہ نے اسی اعتبار سے''مختصر القدوری''پراپنی شرح کا نام ”اللُّبَاب فی شرْحِ الکتاب“ رکھاہے اور بعض مرتبہ اسے”المُختصَر فی الفقہ الحنفی“ بھی کہہ دیا جاتا ہے۔

مختصر نام کے طور پراسے''مختصر القدوری''کہنا چاہیے، نہ کہ صرف''قدوری''کہ اس سے مؤلف کی ذات مراد ہے۔

اسی طرح درسِ نظامی کی بعض کتب کی نسبت میں بھی تسامح پایاجاتا ہے کہ ان کے متعلق طلبہ درسِ نظامی کے عمومی حلقوں میں حقیقت سے ہٹ کرتاثر قائم ہے، چنانچہ:

     ۱)    درجہ سابعہ کی نصابی کتب کے حوالے سے یہ بات تواتر کی حد تک مشہور ہے کہ اس کلاس میں اُصولِ حدیث کے مو ضوع پر”نُخْبَۃ الفِکَر“داخلِ نصاب ہے،حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ درجہ سابعہ میں اُصولِ حدیث کو موضوع پر داخلِ نصاب کتاب کا نام”نُزْہَۃ النَّظَر“ہے،جوکہ”نُخْبَۃ الفِکَر“کی شرح ہے ا ور”نُخْبَۃ الفِکَر“خودتو دو تین اوراق پر مشتمل ایک مختصر سا متن ہے۔

درجہ سابعہ میں داخلِ نصاب اس کتاب کا پورا نام ”نُزْہَۃ النَّظَرِ فی تَوضِیحِ نُخْبَۃ الفِکَر فی مُصْطلَحِ أہْل الأثَر“ہے،اسے''نخبۃُ الفکر'' یا ''نخبہ'' کہنا درست نہیں ہے، ہاں البتہ!   مختصر نام کے طور پر اگراسے ”شرْحُ النُّخبۃ“  کہاجائے،تو یہ کسی حد تک درست ہے۔

     ۲)    اسی طرح درجہ سادسہ میں حدیث کے موضوع پر داخلِ نصاب کتاب ''مسندِ امام اعظم ''کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ اسے امام اعظم ابوحنیفہ (متوفی ۱۵۰ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف سمجھا جاتا ہے،جبکہ یہ تاثر درست نہیں؛ اس لیے کہ''مسندِ امامِ اعظم ''نہ توخودامامِ اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اپنی تصنیف نہیں ہے اور نہ ہی بطورِ روایت آپ کے کسی شاگرد کی مرتب کردہ کتاب ہے،بلکہ یہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی وفات سے بہت بعد میں حافظ عبداللہ حارثی (متوفی۳۴۰ھ)رحمہ اللہ کی تصنیف کردہ''مسندِ اَبی حنیفہ''کے اختصار کی فقہی تبویب ہے کہ حافظ عبداللہ حارثی رحمہ اللہ کی ''مسندِاَبی حنیفہ'' کا قاضی صدرالدین حصکفی (متوفی۶۵۰ھ)رحمہ اللہ نے تقریبًاایک ثلث حَجْم میں اختصارلکھا،جسے تیرھویں صدی ہجری کے مشہورمحدث اورحنفی فقیہ مُلامحمدعابدسندھی (متوفی۱۲۵۷ھ) رحمہ اللہ نے فقہی ابواب پرمرتب کیاتھا اورآج یہی فقہی تبویب''درسِ نظامی'' میں داخلِ نصاب ہے اور ہمارے ہاں تمام مدارسِ دینیہ میں پڑھائی جاتی ہے۔

    ۳)    اسی طرح اُصول فقْہ کے موضوع پرمنتہی در جے کی کتاب''توضیح تلویح''ہے کہ اس نام کے مشہور سیاق سے تاثر ملتاہے کہ شاید یہ کتاب ''تلویح'' کی توضیح اور اس کی شرح ہے اور''تلویح'' اس کا متن ہے، حالانکہ ایسا نہیں اور کتاب کی تسمیہ کا یہ سیاق اپنی اصل کے اعتبار سے درست نہیں ہے۔

اس کی درست تسمیہ کا قصہ یہ ہے کہ مشہورحنفی فقیہ صدرالشریعہ الاَصغر(متوفی۷۴۷ھ)رحمہ اللہ نے اولًا ”تَنْقِیحُ الأصول“(۰۳)نامی کتاب تصنیف فرمائی،جس کی پھر خود ہی انہوں نے ”التَّوضِیحُ فی حلِّ غوامِض التَّنْقِیح“(۳۱)کے نا م سے شرح لکھی،پھراس شرح پرعلامہ سعدالدین تفتازانی (متوفی۷۹۳ھ)رحمہ اللہ نے”التَّلْوِیحُ إلی کَشْفِ حَقائقِ التنقیح“(۳۲)کے نام سے حاشیہ لکھااورمقاصدِ کتاب کوخوب منقح کرکے پیش کیا۔

اسے مختصر نام کے طور پر''التلویح علی التوضیح'' یا حرفِ جار کو حذف کر کے''تلویح توضیح'' کہا جاسکتاہے.......واللہ تعالی أعلم بالصواب



حوالہ جات

(۱) ”الفِہرِسَۃُ“ لأبی بکر محمد بن خیر الإشبیلی، ص: ۲۸، ت: محمد فؤاد منصور، ط:دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۲) ”معرفۃُ أنواع علم الحدیث“، معرفۃُ الصحیح من الحدیث، ص: ۴۹، ت: ماہر یاسین الفحل، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۳) ”تہذیب الأسماء واللغات“ للنَّوَوِیِّ: ۱/۳۷، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۴) ”عمدۃ القاری بشرح صحیح البخاری“ لبدر الدین العَینِیِّ: ۱/۵، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۵) ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“، ص: ۵۸، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۶) ”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“ للشیخ عبد الفتاح أبو غدۃ، ص: ۸۳، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب، شام.

(۷)  ”تحقیقُ اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“ للشیخ عبد الفتاح أبو غدۃ، ص: ۳۳، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب.

(۸) ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“، ص: ۸۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۹) دیکھیے: ”تحقیق اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“، ص:۳۵، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب، شام.

(۱۰) دیکھیے: ”تحقیق اسمَیِ الصحِیحَین واسمِ جامع التِّرمَذی“، ص: ۸۵، ط: مَکتب المطبوعات الإسلامیۃ، حلب.

(۱۱) ”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۲/۹۶۰۱، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۱۲) ”زہْرُ الخَمائل علی الشمائل“ لجلال الدین السُّیُوطیِّ، ص:4، ط: مکتبۃ القرآن، بیروت، لبنان.

(۱۳) ”الشَّمائلُ النَّبَوِیَّۃُ والخَصائلُ المُصْطَفَوِیَّۃ“، مقدمۃ التحقیق لابن عباس الجلیمی، ص: ۹، ط: مکتبۃ التجاریۃ، مکۃ المکرمۃ.

(۱۴) ”لمحات فی المکتبۃ والبحث والمصادر“ للدکتور محمد عجّاج الخطیب، ص: ۹۲۲، ط: مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان.

(۱۵) ”فِہرِسَۃُ ابن خیر الإشبیلی“، ص:۷۹، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان.

(۱۶) ”جامع الأصول فی أحادیث الرسولﷺ“ لابن الأثیر الجزری: ۱/۷۹۱، ت: عبد القادر الأرنؤوط، ط: دار الفکر، بیروت، لبنان.

(۱۷) ”زہْرُ الربی علی المجتبی“ للسیوطی: ۱/۵، ط: دار الفکر، بیروت، لبنان.

(۱۸) ”ذخِیرۃ العُقبیٰ فی شرْح المُجتبیٰ“ لمحمد بن آدم الإثیوبی: ۱/۷۲، ط: دار المعراج الدولیۃ للنشر، الریاض، السعودیۃ.

(۱۹) ”شرح معانی الآثار المُختلِفۃ المرویۃ عن رسول اللہ ﷺ فی الأحکام“ للطحاوی: ۳/۸۱۳، ت: یوسف المرعشلی، ط: عالم الکتب.

(۲۰) ”ظفر الأمانی بشرح مختصَر السید الشریف الجُرجانی“ للکنوی، ص: ۵۲، ت: عبد الفتاح أبو غدۃ، ط: مکتب المطبوعات الإسلامیۃ.

(۲۱) خُطبۃ المؤلِّف: ۱/۶، ت: محمد صحیی حسن حلَّاق، ط: دار الرشید، بیروت، و”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۱/۱۶۸، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۲۲) ”الجواہر المضیۃ فی طبقات الحنفیۃ“ لمحیی الدین عبد القادر القرشی: ۲/۹۱۱، ط: میر محمد کتب خانہ، کراتشی، و”طبقات الحنفیۃ“ لعلی الحنائی، ص: ۶۶۱، ط: مرکز العلماء للدراسات وتقنیۃ المعلومات.

(۲۳) ”مُعجَم المؤلفین“ لعمر رضا کَحالۃ الدِمَشقی: ۴/۸۲، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، و”المدخل إلی الفقہ الإسلامی وأصولہ“ للدکتور صلاح محمد أبو الحاج، ص: ۵۷۳، ط: جامعۃ آل البیت.

(۲۴) ”تحْریرُ القواعِدِ المَنطقِیَّۃِ فی شرح الرسالۃ الشمسیۃ“ لقطب الدین الرازی، ص: ۱۲، ط: البشری، کراتشی.

(۲۵) ”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۲/۰۷۳۱، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۲۶) ”المدخل إلی دراسۃ المذاہب الفقہیۃ“ لعلی جعمۃ محمد عبد الوہاب، ص: ۴۱۱، ط: دار السلام، القاہرۃ.

(۲۷) ”کشْف الظُّنون عن أسامی الکتُب والفُنون“ لحاجی خلیفۃ: ۲/۱۳۶۱ ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان.

(۲۸) ”تحفۃ الفقہاء“ للسمرقندی: ۱/۵، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، و”الہِدایۃ فی شرح البدایۃ“ للمرغینانی: ۱/۵۵، ط: دار إحیاء التراث العربی، بیروت.

(۲۹) ”التوضیح مع التلویح“، ص: ۶، ط: قدیمی کتب خانہ، کراتشی، باکستان.

(۳۰) ”التوضیح مع التلویح“، ص: ۸، ط: قدیمی کتب خانہ، کراتشی، باکستان.

(۳۱) ”التوضیح مع التلویح“، ص: ۳۱، ط: قدیمی کتب خانہ، کراتشی، باکستان.


امریکی جامعات میں فلسطین کے حق میں مظاہرے

مراد علی

فلسطین اور اسرائیل کی حالیہ جنگ میں اس بحث نے ایک بار پھر سر اٹھایا کہ  'یہوددشمنی'  (anti-Semitism) اور 'صہیونیت کی مخالفت' (anti-Zionism) ایک ہی چیز ہے یا دونوں میں فرق ہے؟  یہ بحث کافی عرصے سے چلی آرہی ہے۔

تاہم صہیونی ریاست کے ناقدین کا ماننا ہے کہ'صہیونیت کی مخالفت'اور  'یہود دشمنی' میں واضح فرق ہے۔ کم و بیش یہ پوزیشن حماس کی بھی ہے، مثال کے طور پر 2 مئی 2017ء کو حماس نے ایک دستاویز جاری کیا، جس میں اصل بحث 'دو ریاستی حل' پر تھی مگر ذیل میں اس قسم کی باتوں کی وضاحت بھی کی گئی تھی کہ

"حماس کی لڑائی 'صہیونی منصوبے' سے ہے، یہودی مذہب سے نہیں۔ دستاویز میں واضح کیا گیا: "ہم یہودیت پر یقین رکھنے والوں اور "فلسطینی سر زمین پر قابض صہیونیوں" کے درمیان فرق کرتے ہیں۔"

اس کے برعکس صیہونی ریاست کے حامی دونوں کو مساوی، بلکہ بعض اوقات 'صہیونیت کی مخالفت' کو زیادہ سنگین سمجھتے ہیں۔ اقوامِ متحد نے 1975ء کو' Elimination of Racism and Racial Discrimination 'کے عنوان سے ایک قرار داد منظور کی، جس میں صہیونیت کو نسل پرستی اور نسلی امتیاز کی ایک قسم قرار دیا گیا۔ کئی ریاستوں نے اس قرارداد کی شدید مذمت کی۔ نتیجتاً مخالفت کرنے والی ریاستوں نے اقوام متحدہ کی مالی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیے۔ بالآخر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1991ء میں قرارداد 46/86 کے ذریعے 1975ء کی قراداد کو منسوخ کر دیا۔ یاد رہے امریکا اس  قرار داد کی مخالفت میں بہت پیش پیش رہا۔

تاہم 1975ء کی قرار داد پر ابھی جنرل اسمبلی میں بحث جاری تھی، اسی دوران سابق اسرائیلی وزیر خارجہ آبا اِبن نے نیو یارک ٹائمز میں کالم لکھا، جس کے آغاز ہی میں انھوں نے اقوام متحدہ کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا:

"اقوام متحدہ  نازی مخالف اتحاد کے طور پر وجود میں آیا تھا۔ تیس برس بعد یہ یہود دشمنی کا عالمی مرکز بنتی جا رہی ہے۔"

 ماضی قریب میں اسرائیلی ریاست پر تنقید کی زد میں بھی کئی لوگ آچکے ہیں۔ مثال کے طور پر 23 مارچ 2016ء کو برطانیہ کی لیبر پارٹی نے بریڈ فورڈ کے ایک سابق لارڈ میئر خادم حسین کی رکنیت'یہود دشمنی'پر مبنی بیان کی وجہ سے معطل کردی تھی۔ خادم حسین نے فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی تھی جس میں انھوں نے لکھا تھا کہ:

" لاکھوں افریقیوں کا قتل عام سکولوں میں نہیں پڑھایا جاتا، یہاں کے تعلیمی نظام صرف این فرینک اور ساٹھ لاکھ صیہونیوں کے بارے میں بتاتا ہے جو ہٹلر کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔"

 اسرائیلی ریاست کا بیانیہ یہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو مغربی دنیا میں 'یہود دشمنی' کے نام سے روکنے کی کوششیں کی گئیں۔

غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف اولین احجاج امریکی یونی ورسٹیوں میں 8 اکتوبر کو ہاورڈ یونی ورسٹی کے طلبہ کی ایک دستختی مہم سے ہوا۔ طلبہ کا کہنا تھا کہ:

"ان پر تشدد واقعات کی مکمل ذمہ داری اسرائیلی ریاست پر عائد ہوتی ہے جو کہ ایک نسل پرست ریاست ہے۔"

اسرائیل کی حمایت کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس بیان میں اسرائیل کی مذمت کی گئی اور دوسری جانب حماس کی نہیں، اس لیے یہ 'یہود دشمنی' پر مبنی ہے۔  اس کے نتیجے میں ہاورڈ کے کئی سابق طلبہ نے احتیاج بھی ریکارڈ کرایا اور ان میں ایسے بھی تھے جو ہاروڈ یونی ورسٹی کے بڑے ڈونرز تھے، وہ یونی ورسٹی کی  مالی معاونٹ سے بھی دستبردار ہوگئے۔

اکتوبر کو نیو یارک ٹائمز نے خبر لگائی کہ وال سٹریٹ کے ارب پتیوں کی جانب سے یونی ورسٹیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ کیمپسوں کے اندر اسرائیل کے خلاف ہونے احتجاجی مظاہروں کی مذمت کے ساتھ ایسے تمام عناصر کو لگام دیں اور حماس کی مذمت بھی کریں۔ اسی دن یونی ورسٹی آف پنسلوینیا نے ایک بیان کے ذریعے حماس کے حملے کو دہشت گردی قرار دیا۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق ہاورڈ یونی ورسٹی کے ایک بڑے ڈونر سیٹاڈِل کمپنی کے سی ای او کینتھ گرفن، جو خود ہاورڈ گریجویٹ ہے، نے ابھی تک ہاورڈ کو نصف بلین سے زائد رقم ڈونیشن دی ہے اور رواں سال 300 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جب یونی ورسٹی میں اسرائیلی حملے کی خلاف مہم چلی تو اس نے یونی ورسٹی بورڈ کے سربراہ کوٹ کال کرکے اسرائیل کے حق میں بیان جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔

اسی طرح طلبہ کے اس احتجاجی مہم کے نتیجے میں کوانٹم پیسیفک گروپ کے مالک اسرائیلی ارب پتی ایڈان اوفر اور اس کی اہلیہ بٹیا ہاورڈ کے کینیڈی سکول آف گورنمنٹ کے ایگزیکٹو بورڈ میں اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئے۔ انہوں نے ملٹی ملین ڈالر کی ڈونیشن بھی واپس لے لی۔

اسی دوران بعض لوگوں کی طرف سے ایسے بیانات بھی سامنے آئے کہ اس مہم کا حصہ بننے والوں کو کہیں بھی ملازمت نہیں ملنی چاہیے۔ مثال کے طور پر ہیج فنڈ کے مینیجر بل اک مین نے ہاورڈ یونی ورسٹی کی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ اس مہم میں شریک ہونے والے طلبہ کے نام کی فہرست جاری کرے تاکہ کمپنیاں کہیں'نادانستہ ' انہیں نوکری نہ دیں۔ بل اک مین نے کہا کہ اگر یہ فہرست جاری ہوگئی تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ ان طلبہ کو یقینی طور پر کہیں بھی نوکری نہیں ملے گی۔

برا ازاں 11 اکتوبر کو ہاورڈ کے کیمپس سے ایک ٹرک گزرا،  جس میں ایک ڈیجیٹل بل بورڈ پر اس مہم میں شریک ہونے والے طلبہ کے نام اور تصویریں ظاہر کرنے کا دعویٰ کیا گیا، سکرین پر ان طلبہ کی تصویر نام کے ساتھ شو ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ اور ویب سائٹ نے بھی ان طلبہ کی نشان دہی کا دعویٰ کرکے فہرستیں جاری کیں۔

اس کے نتیجے میں ڈیوس پولک اینڈ وارڈ ویل نامی لا فرم نے 17 اکتوبر کو Insider  کو خبر دی کہ اس نے کولمبیا اور ہاورڈ یونی ورسٹی کے تین طلبہ کو اس مہم میں ملوث ہونے کی وجہ سے ملازمت کی پیشکش منسوخ کردی۔

اسی طرح بین الاقوامی قانون کے ایک فرم، ونسٹن اینڈ سٹران، نے نیو یارک لا سکول کے ایک طالب علم کی ملازمت کی پیشکش اس وجہ سے منسوخ کردی کہ اس نے سٹوڈنٹ بار ایسوسی ایشن کے نیوز لیٹر میں فلسطین کے حق اور اسرائیل کے خلاف ایک 'اشتعال انگیز' تبصرہ شائع کیا تھا۔

26 اکتوبر کو امریکی ریاست فلوریڈا کے ریبلیکن گورنر کی انتظامیہ نے پوری ریاست کی یونی ورسٹیوں  میں فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں پر پابندی لگانے کا حکم دیا، اس جنگ کے دوران یہ پہلی امریکی ریاست تھی جس نے ریاستی سطح پر یونی ورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں ہر قسم کے احتجاج پر پابندی لگائی۔

تاہم ابھی بھی کئی یونی ورسٹیوں میں سخت پابندیوں کے باوجود احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔  یونی ورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس کے جسٹس فار پلسٹائن چیپٹر کے درجنوں طلبہ نے جمعرات کو فلسطین کے حق میں ریلی نکالی، ان ہی طلبہ کو کئی دنوں سے ہراساں کیا گیا اور ان پر حملوں کی کوششیں کی گئیں۔

ان احتجاجی مظاہروں میں کولمبیا یونی ورسٹی بھی پیش پیش ہے۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبہ نے مختلف میڈیا فورم کو بتایا ہے کہ ان کے احتجاج کے نتیجے میں یونی ورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے سخت رد عمل کا سامنا ہے اور انھیں مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔

کئی یونی ورسٹیوں کو صرف اس وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے کہ ان کے ڈونرز کا کہنا ہے کہ حماس کے حملے کی 'خاطر خواہ' مذمت نہیں کی گئی۔ اس میں یونیورسٹی آف پنسلوینیا  بھی شامل ہے، جس کے کئی صف اول کے ڈونزر مالی مدد سے دستبردار ہوگئے ہیں۔

سٹینفورڈ یونی ورسٹی میں جنگ کے ابتدائی دنوں سے طلبہ مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان ہی دنوں یونی ورسٹی میں ایک عرب طالب علم کو ایک کار نے ٹکر ماری جس  سے وہ جان سے بھی جان سکتا تھا۔ ایک اور طالب علم نے میڈل ایسٹ آئیز کو بتایا کہ اس کو قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں ۔

ڈونرر کے دباؤ کے علاوہ بائڈن انتظامیہ اور امریکی سینیٹ خود ان مظاہروں کو روکنے کےلیے متحرک ہیں۔ 30  اکتوبر کو بائڈن انتظامیہ نے امریکی یونی ورسٹیوں میں 'یہود دشمنی' سے نمٹنے کےلیے محکمہ انصاف، محکمہ ہوم لینڈ سیکورٹی، اور محکمہ تعلیم کو تحقیقات کے لیے کیمپس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ معاونت کرنے کی ہدایت کی۔

امریکی سینیٹ نے 26 اکتوبر کو ایک قرارداد منظور کی، جس میں متعدد یونی ورسٹیوں کے نام لے کر بتایا گیا کہ وہ 'یہود دشمنی'کا ارتکاب کر رہی ہیں اور   یہودیوں کی نسل کشی اسرائیلی ریاست کے خلاف تشدد کو پروان چھڑا رہی ہیں، جس سے امریکی یہودیوں کو کئی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ سینیٹ نے 'یہود دشمنی' پر مبنی ان مظاہروں کی سخت مذمت بھی کی۔

فلسطین کے حق میں ہونے والے ان مظاہروں سے طلبہ کو کئی خطرات اور مشکلات کا سامنا ہے۔ یونی ورسٹیوں کے اندر انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے، ان کے کیرئیر کو ابھی سے خطرے میں ڈالا  جا رہا ہے۔ انھیں قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ ابھی دن 26 نومبر کو امریکی ریاست ورمونٹ میں تین فلسطینی طلبہ کو گولیاں ماریں گئیں، ان کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔ ان سب مشکلات اور پابندیوں کے باوجود فلسطین کے حق میں یونی ورسٹی طلبہ کی ایکٹیو ازم میں کمی نہیں بلکہ دن بہ دن بڑھ رہی ہیں۔ اسی وجہ سے اب طلبہ کو اسرائیل کے حق میں بولنے کےلیے طرح طرح کی پیشکشیں کی جارہی ہیں کہ جو اسرائیل کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں شریک ہوگا، اسے ایک احتجاج کے بدلے میں اتنے ڈالر ملیں گے۔ مختلف سکالر شپس آفر ہورہے ہیں تاکہ فلسطین کےلیے ہونے والے مظاہروں کا حجم کیا جاسکے۔