2023

جنوری ۲۰۲۳ء

’’فرد “ اور ’’حق “ کے سیاسی تصور کا تجزیہمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۶)ڈاکٹر محی الدین غازی 
صنف و جنس اور اس میں تغیر (۱)مولانا مشرف بيگ اشرف 
سودی نظام کے خاتمے کی جدوجہدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۲)ابو الاعلیٰ سید سبحانی 
علامہ یوسف قرضاویؒ کا سانحہ وفاتمفتی حبیب حسین 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۳)ڈاکٹر شیر علی ترین 

’’فرد “ اور ’’حق “ کے سیاسی تصور کا تجزیہ

محمد عمار خان ناصر

جدید دانش نے غالب تہذیب کی جارحیت کو اخلاقی اور فکری جواز دینے کے لیے ایک فریب کاری یہ اختیار کی ہے کہ ’’فرد “ اور ’’حق “ کے ایک خاص تصور کو آفاقی تصورات کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ مقدمہ یہ ہے کہ فرد، اجتماع سے مقدم ہے اور اس کے کچھ ’’حقوق’’ ہیں جو فرد کی حیثیت سے اس کو معاشرے سے پہلے حاصل ہیں۔ چنانچہ معاشرہ اور اجتماع پابند ہے کہ ’’فرد “ کے ان ’’حقوق “ کو لازمی طور پر تسلیم کرے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

یہ فلسفہ تاریخی اور منطقی، دونوں اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ تاریخی اعتبار سے تو واضح ہے کہ تاریخ کا کوئی ایسا مرحلہ ہمارے علم یا تخیل کی رسائی میں نہیں جب انسان الگ الگ، افراد کے طور پر رہ رہے ہوں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس وقت ان کو فلاں اور فلاں ’’حقوق “ حاصل تھے۔ پھر اس کے بعد وہ مل جل کر رہنے لگے جس سے اجتماع وجود میں آیا۔ یوں اجتماع چونکہ فرد سے موخر تھا، اس لیے اجتماع سے پہلے ہی فرد اور اس کے حقوق کا کوئی تصور تاریخی طور پر پایا جاتا تھا۔

منطقی طور پر اس لیے کہ ’’فرد’’ یا ’’حق “ کی کوئی تعریف یا تصور ہی اجتماع سے الگ کر کے اور اس کا حوالہ دیے بغیر ممکن نہیں۔ کسی انسان کو فرد کہنا تبھی بامعنی ہے جب وہ دوسرے افراد کے تقابل میں ہو۔ فرض کریں، مختلف انسان دور دراز فاصلوں پر بالکل الگ الگ رہ رہے ہوں اور ان کا آپس میں کسی قسم کا کوئی تعلق یا رابطہ نہ ہو تو ایسی صورت میں ان میں سے ہر ایک کو ’’فرد “ کے طور پر متصور کرنا لایعنی بات ہوگی۔ فرد وہی ہوتا ہے جو دوسرے افراد کے ساتھ تعلق میں ہو اور امور زندگی میں ان کے ساتھ شریک ہو۔

یہی صورت حال ’’حق “ کی ہے۔ ایک دوسرے سے مکمل انقطاع میں رہنے والے انسانوں کے لیے ’’حق “ کا تصور ہی قابل تشکیل نہیں۔ ایک انسان جو اکیلا کسی جنگل میں رہ رہا ہے اور اس پر کسی قسم کی کوئی قدغن یا ذمہ داری نہیں ہے، آپ ذرا اس کے حوالے سے ’’حق “ کے تصور کو ذہن میں لانے کی کوشش کریں۔ یہ بے معنی بات ہوگی۔ ’’حق “ تبھی قابل تصور ہے جب ایک سے زیادہ انسان باہمی تعلق میں آئیں اور ایک دوسرے کی نسبت سے کسی ذمہ داری یا قدغن کا تعین کرنے کی ضرورت محسوس کریں۔

ان دونوں پیمانوں پر فرد یا حق کا کوئی تصور، اجتماع سے الگ کر کے یا اس سے پہلے قائم کرنا ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ کہنا کہ یہاں فرد کا یا حق کا کوئی آفاقی تصور پایا جاتا ہے جس کو تسلیم کرنا، فلسفیانہ سطح پر، ہر انسانی اجتماع پر لازم قرار دیا جا سکتا ہے، ایک لایعنی  بات ہے۔ فرد اور حق کے تصورات اجتماع کے وضع کردہ ہیں اور اجتماع کی ضرورتوں اور ترجیحات کے لحاظ سے ہی ان کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ تاریخ میں ہر اجتماع اپنے تمدنی وتاریخی احوال کے لحاظ سے یہ طے کرتا رہا ہے کہ معاشرے کا اپنے افراد کے ساتھ کیا تعلق ہے اور کون سے حقوق ہیں جو معاشرہ، افراد کے لیے تسلیم کرتا ہے۔ یہ حقوق اجتماع کے ’’وضع کردہ“ اور اس کے ’’دیے ہوئے“ ہوتے ہیں، اجتماع ان کو خود سے پہلے موجود متصور کر کے ان کی پابندی قبول نہیں کرتا۔

موجودہ غالب تہذیب میں بھی ’’فرد “ اور ’’حق “ کا تصور تاریخ کے ایک خاص مرحلے پر ایک خاص سماجی سیاق میں وضع کیا گیا ہے جبکہ پوری انسانی تاریخ اور دنیا کے دوسرے معاشرے اس تصور سے ناواقف رہے ہیں۔ البتہ اس میں فریب کاری یہ کی گئی ہے کہ مغربی اجتماع نے فرد اور اس کے حقوق کا جو تصور خود وضع کیا ہے، اس کو دنیا کے باقی اجتماعوں پر مسلط کرنے کے لیے یہ فلسفہ گھڑ لیا گیا ہے کہ یہ کوئی آفاقی تصور ہے جس کی پابندی کسی خاص اجتماع یا تہذیب پر نہیں، بلکہ تمام انسانی معاشروں پر لازم ہے۔

--------------------

امریکا میں ٹرانس جینڈرز کے "حقوق" کے حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے سے ایک قانونی، سیاسی اور سماجی بحث جاری ہے۔  یہ اس سوال کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے مددگار ہے۔

ایک معاشرے میں کسی فرد کا "حق" کیا ہے اور یہ کیسے طے ہوتا ہے؟ یہ عرض کیا گیا کہ اس کا تعین معاشرہ ہی کرتا ہے اور معاشرہ مجموعی طور پر جن اقدار اور اخلاقی تصورات کو تسلیم کرتا ہے، انھی کے تحت فرد کے حقوق کا بھی تعین کرتا ہے۔ معاشرے میں ایک یا دوسرے مجموعہ اقدار کے مابین کشمکش بھی ہو سکتی ہے اور اسی کے نتیجے میں معاشروں میں تبدیلی آتی رہتی ہے، لیکن کوئی بھی نئی قدر اسی وقت حقوق یا فرائض کی بنیاد بن سکتی ہے جب اسے معاشرے میں ایک عمومی قبولیت حاصل ہو جائے۔

مروج یا غالب اقدار میں تبدیلی کو قابل قبول بنانے کے لیے فکری وسائل عموما" معاشرے میں موجود مختلف روایتوں سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں اور انھی کی ایک نئی تشکیل کی گنجائش یا ضرورت واضح کرتے ہوئے تبدیلی کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پیچیدہ عمل سے صرف نظر کرتے ہوئے محض اس بنیاد پر فرد کے حقوق تسلیم نہیں کیے جاتے کہ وہ اصل ہے اور معاشرہ بس اس کے فائدے کے تحفظ کے لیے قائم ہوا ہے۔ یہ قطعی طور پر لایعنی بات ہے۔

اس بحث سے سیکولر ریاست کی غیر جانب داری کے مفروضے کی سادگی بھی نمایاں ہوتی ہے۔ اس پر اب کئی پہلوؤں سے بحثیں موجود ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ بالفعل ریاست کلی طور پر غیر جانب دار ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک سطح پر اسے لازما" کسی ایک یا دوسری تہذیبی قدر کو اختیار کرنا اور سیاسی طاقت سے اس کو نافذ کرنا ہوتا ہے، چاہے وہ بہت سے شہریوں کے مذہبی واخلاقی تصورات کے خلاف ہو۔

ٹرانس جینڈرز کے قضیے  میں، امریکی انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ جو افراد اپنی جنس تبدیل کرنا چاہیں، یہ ان کا غیر مشروط حق ہے، اس لیے امریکی اسپتالوں میں وہ بے شمار ڈاکٹر جو مسیحی اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور تبدیلی جنس کا آپریشن کرنا ان کے مذہبی عقیدے کے خلاف ہے، وہ اپنے عقیدے کو ایک طرف رکھتے ہوئے آپریشن کرنے کے پابند ہیں، کیونکہ وہ ٹرانس جینڈرز کے ایک "حق" کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں اور اس پر انھیں ملازمت سے ہاتھ بھی دھونے پڑ سکتے ہیں۔ تاہم امریکی سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو مذہبی آزادی کے اصول کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا اور یوں مسیحی اقدار کو ماننے والوں کے مذہبی حق کا تحفظ کیا۔

اب دیکھ لیجیے، یہاں نہ تو فرد کے حق کا تعین اور اس کی تنفیذ معاشرے میں موجود اور مسلم معیارات سے ماورا ہو کر ممکن ہے اور نہ ریاست اس معاملے میں کوئی ایسی نیوٹرل پوزیشن لے سکتی ہے جو سب کے سب شہریوں کے لیے قابل قبول ہو۔ ٹرانس جینڈرز کے نزدیک ڈاکٹرز کو پابند ہونا چاہیے کہ وہ ان کا آپریشن کریں چاہے یہ ان کے ذاتی عقیدے کو خلاف ہو، جبکہ مسیحی اقدار کے ماننے والوں کے نزدیک ان کا مذہبی عقیدہ ان کے لیے مقدم ہونا چاہیے اور انھیں اس کے خلاف کسی کام پر ریاست مجبور نہیں کر سکتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف بائیڈن انتظامیہ نے اپیل نہ کرنے کا فیصلہ کر کے کم سے کم اس مرحلے پر اس موقف کو تسلیم کر لیا ہے۔

اس مثال سے ان دونوں مفروضوں یعنی فرد کے ازخود کوئی معیار ہونے اور ریاست کے، کلی طور پر غیر جانب دار ہونے کی سادگی کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۶)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(383) لیل اور لیلة میں فرق

لیلة ایک رات کے لیے جب کہ لیل رات کے لیے آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں لَیْلًا ہے جس کا ترجمہ ایک رات نہیں بلکہ راتوں رات کیا جائے گا۔

سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَی الْمَسْجِدِ الْأَقْصَی الَّذِی بَارَکْنَا حَوْلَہُ۔ (الاسراء: 1)

”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو لے گئی ایک شب مسجد حرام سے اس دور والی مسجد تک جس کے ارد گرد کو ہم نے برکت بخشی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اُس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے“۔ (سید مودودی)

”وہ (ذات) پاک ہے جو ایک رات اپنے بندے کو مسجدالحرام یعنی (خانہ کعبہ) سے مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے بندے کو راتی رات ادب والی مسجد سے پرلی مسجد تک جس میں ہم نے خوبیاں رکھیں ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو، راتوں رات لے گیا مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی“۔ (احمد رضا خان)

آخری دونوں ترجموں میں لیلًا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔ دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ سبحان پاکی بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے، لیکن اصل میں عظمت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ پاکی عظمت کا لازمہ ہے۔ بطور خاص اس آیت میں تو عظمت کا محل معلوم ہوتا ہے۔ ترجمہ کریں گے: ’باعظمت ہے وہ ذات‘۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ درج ذیل آیت میں لیلا کا ترجمہ تقریبا سبھی نے راتوں رات کیا ہے۔  غالبا اس لیے کہ إِنَّکُمْ مُتَّبَعُونَ کہنے کی وجہ سے ایک رات کہنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ بہرحال لیلا کا دونوں جگہ یہی ترجمہ ہونا چاہیے۔

فَأَسْرِ بِعِبَادِی لَیْلًا إِنَّکُمْ مُتَّبَعُونَ۔ (الدخان: 23)

”(جواب دیا گیا) اچھا تو راتوں رات میرے بندوں کو لے کر چل پڑ، تم لوگوں کا پیچھا کیا جائے گا“۔ (سید مودودی)

”(خدا نے فرمایا کہ) میرے بندوں کو راتوں رات لے کر چلے جاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)

”(حکم ہوا کہ) میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ“۔(امین احسن اصلاحی)

(384)  وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ

درج ذیل جملے میں خود جھکنے کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ خاکساری کے بازو جھکانے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ بہت خوب صورت تعبیر ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ والدین کے ساتھ کمال درجے کی خاکساری کے ساتھ پیش آؤ۔ پر بچھانے اور جھک جانے میں فرق ہے۔ من الرحمۃ  کا مطلب ہے کہ یہ خاکساری رحمت کے جذبے کے ساتھ ہو۔ یعنی رحم دلی اور ہم دردی کے سارے تقاضے پورے کرو۔

وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ۔ (الاسراء: 24)

”اور عجزو نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا“۔ (اشرف علی تھانوی)

مذکورہ بالا یہ تینوں ترجمے درست نہیں ہیں، کیوں ان کے سامنے جھکنے کا حکم نہیں دیا جارہا ہے۔

”اور ان کے لیے رحم دلانہ اطاعت کے بازو جھکائے رکھو“۔ (امین احسن اصلاحی، الذل کا مطلب اطاعت نہیں ہوتا، پھر رحم دلانہ اطاعت بھی معنوی لحاظ سے مضبوط بات نہیں لگتی۔)

”اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا“۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں من الرحمۃ کا ترجمہ درست نہیں ہوسکا۔ رحمۃ کا مطلب عاجزی اور محبت نہیں ہوتا ہے)

”اور بچھا واسطے ان دونوں کے بازو ذلت کا مہربانی سے“۔(شاہ رفیع الدین، یہاں ذل کا ترجمہ تواضع و خاکساری ہوگا، ذلت نہیں)

”اور جھکا ان کے آگے کندھے عاجزی کرکر نیاز سے“۔ (شاہ عبدالقادر، جناح کا مطلب کندھے نہیں ہوتا، بازو ہوتا ہے۔اور رحمۃ کا مطلب نیاز نہیں ہوتا)

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اور ان کے لیے عاجزی کا بازو بچھا نرم دلی سے“۔ (احمد رضا خان)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”اور ان کے لیے رحمت کے جذبے سے خاکسارانہ بازو جھکائے رکھو“۔

(385) نہر کا مطلب

نھر کا معنی جھڑکنا ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں ہے کہ جھڑک کر جواب دیا جائے، ابتدا سے جھڑکنا بھی اس میں شامل ہے۔ اس لحاظ سے ذیل کے ترجموں میں دوسرا ترجمہ درست ہے۔

وَلَا تَنْہَرْہُمَا۔ (الاسراء: 23)

”نہ انہیں جھڑک کر جواب دو“۔ (سید مودودی)

”اور نہ ان کو جھڑکو“۔ (امین احسن اصلاحی)

(386)  ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّکَ تَرْجُوہَا

درج ذیل آیت کے ترجموں پر غور کریں:

وَإِمَّا تُعْرِضَنَّ عَنْہُمُ ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّکَ تَرْجُوہَا فَقُلْ لَہُمْ قَوْلًا مَیْسُورًا۔ (الاسراء: 28)

”اگر اُن سے (یعنی حاجت مند رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں سے) تمہیں کترانا ہو، اس بنا پر کہ ابھی تم اللہ کی اُس رحمت کو جس کے تم امیدوار ہو تلاش کر رہے ہو، تو انہیں نرم جواب دے دو“۔ (سید مودودی)

”اور اگر تمھیں اپنے رب کے فضل کے انتظار میں، جس کے تم متوقع ہو، ان سے اعراض کرنا پڑجائے تو تم ان سے نرمی کی بات کہہ دو“۔ (امین احسن اصلاحی)   

”اور اگر تو ان سے منہ پھیرے اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں جس کی تجھے امید ہے تو ان سے آسان بات کہہ“۔ (احمد رضا خان)

ان ترجموں سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ کہ انسان کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے اس لیے وہ حاجت مندوں سے کترا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کترانے والے کو اللہ کی طرف سے دولت آنے کا انتظار، توقع یا امید بھی ہے۔

لیکن اشکال یہ ہے کہ جب انسان کے پاس کچھ ہے نہیں تو اسے کترانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ صاف صاف کہہ سکتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ دوسرا اشکال یہ ہے کہ کیا ضروری ہے کہ تنگ حالی میں آدمی خوش حالی کا انتظار کرے۔ پھر خوش حالی کا انتظار صرف وہی کیوں کرے، حاجت مند بھی کیوں نہ کریں۔ غرض یہ کہ تعبیر کی معنویت واضح نہیں ہوپاتی ہے۔ اس پر مزید یہ کہ ابتغاء کا مطلب انتظار یا تلاش نہیں ہوتا ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ آیت اس کیفیت کو بتارہی ہے کہ آدمی کے پاس مال ہے، لیکن وہ اسے ان حاجت مندوں کو دینے کے بجائے کسی ایسی جگہ دینا چاہتا ہے جہاں اسے اللہ کی رحمت کی خاص امید ہے۔ یعنی موقع اللہ کے دین کی نصرت کے لیے خرچ کرنے کا ہو، اور اسی لیے مذکورہ حاجت مندوں سے اعراض کرکے وہ ان سے زیادہ اہم مد یعنی نصرتِ دین کی راہ میں خرچ کرنا چاہتا ہو اور اسے امید ہو کہ اس راہ میں خرچ کرکے وہ اللہ کی خاص رحمت کا سزاوار ہوگا۔ وہ ترجمہ کرتے ہیں:  

”اگر تم ان سے اعراض کرو اپنے رب کی رحمت کی طلب میں جس کی تم توقع رکھتے ہو۔“

(387)  نفور کا مطلب

عربی میں نفور کا اصل مطلب بدکنا ہے۔ اور اس کا اصل استعمال جانوروں کے لیے ہوتا ہے۔

فیروزآبادی لکھتے ہیں: نَفَرَتِ الدَّابَّةُ تَنْفِرُ وتَنْفُرُ نُفوراً ونِفاراً، فہی نافِرٌ ونَفورٌ: جَزِعَتْ، وتَباعَدَتْ، والظَّبْیُ نَفْراً ونَفَراناً، محرکةً: شَرَدَ،کاسْتَنْفَرَ.

اس کا اردو ترجمہ نفرت نہیں ہے۔ نفرت کے لیے عربی میں بغض آتا ہے۔ درج ذیل آیتوں میں بہت سے مترجمین نے نفور کا ترجمہ نفرت کیا ہے، جب کہ بیزار ہونا اور بدکنا درست ترجمہ ہے۔

(۱) وَإِذَا ذَکَرْتَ رَبَّکَ فِی الْقُرْآنِ وَحْدَہُ وَلَّوْا عَلَی أَدْبَارِہِمْ نُفُورًا۔  (الاسراء: 46)

”اور جب تم قرآن میں اپنے ایک ہی رب کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت سے منہ موڑ لیتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جب تم قرآن میں اپنے اکیلے رب کی یاد کرتے ہو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہیں نفرت کرتے“۔ (احمد رضا خان)

”اور جب تم قرآن میں تنہا اپنے رب ہی کا ذکر کرتے ہو تو وہ نفرت کے ساتھ پیٹھ پھیرلیتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، تنہا پہلے لانے سے شبہہ ہوتا ہے کہ رسول کا تنہائی میں ذکر کرنا مراد ہے، اس لیے تنہا کو بعد میں ذکر کرنا بہتر ہے، اپنے رب کا تن تنہا)

”اور جب تم قرآن میں اپنے پروردگار یکتا کا ذکر کرتے ہو تو وہ بدک جاتے اور پیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمے میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۲)  وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِی ہَذَا الْقُرْآنِ لِیَذَّکَّرُوا وَمَا یَزِیدُہُمْ إِلَّا نُفُورًا۔ (الاسراء: 41)

”اور بیشک ہم نے اس قرآن میں طرح طرح سے بیان فرمایا کہ وہ سمجھیں اور اس سے انھیں نہیں بڑھتی مگر نفرت“۔ (احمد رضا خان)

”ہم نے اِس قرآن میں طرح طرح سے لوگوں کو سمجھایا کہ ہوش میں آئیں، مگر وہ حق سے اور زیادہ دور ہی بھاگے جا رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے اس قرآن میں طرح طرح کی باتیں بیان کی ہیں تاکہ لوگ نصیحت پکڑیں گے۔ مگر وہ اس سے اور بدک جاتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری دونوں ترجموں میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۳) وَإِذَا قِیلَ لَہُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَہُمْ نُفُورًا۔  (الفرقان: 60)

”اِن لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ اس رحمان کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں ”رحمان کیا ہوتا ہے؟ کیا بس جسے تو کہہ دے اسی کو ہم سجدہ کرتے پھریں؟“ یہ دعوت ان کی نفرت میں الٹا اور اضافہ کر دیتی ہے“۔ (سید مودودی)

”اور اس (تبلیغ) نے ان کی نفرت میں مزید اضافہ کردیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہ چیز ان کی نفرت کو اور بڑھاتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس سے بدکتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اس حکم نے انہیں اور بدکنا بڑھایا“۔ (احمد رضا خان)

آخری دونوں ترجموں میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۴)  وَأَقْسَمُوا بِاللَّہِ جَہْدَ أَیْمَانِہِمْ لَئِنْ جَاءَہُمْ نَذِیرٌ لَیَکُونُنَّ أَہْدَی مِنْ إِحْدَی الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاءَہُمْ نَذِیرٌ مَا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُورًا۔  (فاطر: 42)

”اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی ہدایت کرنے والا آئے تو ہر ایک اُمت سے بڑھ کر ہدایت پر ہوں۔ مگر جب ان کے پاس ہدایت کرنے والا آیا تو اس سے ان کو نفرت ہی بڑھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پھر جب ان کے پاس ایک پیغمبر آ پہنچے تو بس ان کی نفرت ہی میں اضافہ ہوا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پھر جب ان کے پاس ڈر سنانے والا تشریف لایا تو اس نے انہیں نہ بڑھایا مگر نفرت کرنا“۔ (احمد رضا خان)

”مگر جب خبردار کرنے والا ان کے پاس آگیا تو اس کی آمد نے اِن کے اندر حق سے فرار کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کیا“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمے میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(۵)  أَمَّنْ ہَذَا الَّذِی یَرْزُقُکُمْ إِنْ أَمْسَکَ رِزْقَہُ بَلْ لَجُّوا فِی عُتُوٍّ وَنُفُورٍ۔ (الملک: 21)

”بھلا اگر وہ اپنا رزق بند کرلے تو کون ہے جو تم کو رزق دے؟ لیکن یہ سرکشی اور نفرت میں پھنسے ہوئے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”بلکہ وہ سرکشی اور نفرت میں ڈھیٹ بنے ہوئے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”بلکہ یہ لوگ سرکشی اور حق بیزاری پر اڑ گئے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”دراصل یہ لوگ سرکشی اور حق سے گریز پر اڑے ہوئے ہیں“۔ (سید مودودی)

”بلکہ (کافر) تو سرکشی اور بدکنے پر اڑگئے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری تینوں ترجموں میں نفورا کا درست ترجمہ کیا گیا ہے۔

(388)  حجابا مستورا

وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَۃِ حِجَابًا مَسْتُورًا۔  وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ أَکِنَّةً أَنْ یَفْقَہُوہُ وَفِی آذَانِہِمْ وَقْرًا۔ (الاسراء: 45، 46)

”اور جب قرآن پڑھا کرتے ہو تو ہم تم میں اور ان لوگوں میں جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے حجاب پر حجاب کر دیتے ہیں اور ان کے دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اسے سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کر دیتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری، حجاب پر حجاب نہیں بلکہ نظر نہ آنے والا حجاب، حجاب ایک ہی ہے مگر وہ پوشیدہ ہے)

”جب تم قرآن پڑھتے ہو تو ہم تمہارے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیتے ہیں۔ اور ان کے دلوں پر ایسا غلاف چڑھا دیتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں سمجھتے، اور ان کے کانوں میں گرانی پیدا کر دیتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جب تم قرآن سناتے ہو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے، ایک مخفی پردہ حائل کردیتے ہیں، اور ان کے دلوں پر حجاب اور ان کے کانوں میں ثقل پیدا کردیتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ صرف حجابا نہیں کہا گیا ہے بلکہ حجابا مستورا کہا گیا ہے۔ اس لیے ترجمے میں صرف حجاب یا پردہ کہنا کافی نہیں ہوگا، بلکہ پوشیدہ پردہ یا مخفی حجاب کہنے سے پورا مفہوم ادا ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ وَجَعَلْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ پچھلی آیت کے جواب شرط یعنی جعلنا پر عطف نہیں ہے، بلکہ مستقل جملہ ہے۔ یعنی پہلی آیت میں تو یہ کہا گیا کہ جب نبی ان کو قرآن سناتے ہیں تو پوشیدہ پردہ حائل کردیا جاتا ہے، جب کہ دوسری آیت میں بتایا گیا کہ مستقل طور پر ان کے دلوں میں حجاب اور کانوں میں ثقل پیدا کردیا گیا ہے۔ چوں کہ ان کی مستقل کیفیت یہ ہے، اس لیے جب انھیں قرآن سنایا جاتا ہے تو ایک پوشیدہ پردہ حائل ہوجاتا ہے۔ اس لحاظ سے دوسری آیت کا ترجمہ ماضی سے کیا جائے گا۔ ’پردے ڈال دیتے ہیں‘کی بجائے ’پردے ڈال دیے ہیں‘۔ اس سے پردے ڈالنے والی بات کی تکرار نہیں رہے گی اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ پردہ صرف اس خاص وقت میں نہیں ڈالا جاتا ہے بلکہ ان کے دلوں پر تو مستقل پردہ پڑا ہوا ہے، جس کی وجہ سے یہ نبی کی بات بھی نہیں سنتے۔

مذکورہ بالا دونوں پہلوؤں سے درج ذیل ترجمہ درست ہے۔

”تو جب قرآن پڑھتا ہے ہم تیرے اور ان لوگوں کے درمیان جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے ایک پوشیدہ حجاب ڈال دیتے ہیں۔ اور ان کے دلوں پر ہم نے پردے ڈال دیئے ہیں کہ وہ اسے سمجھیں اور ان کے کانوں میں بوجھ“۔ (محمد جوناگڑھی)

(389) تحویلا کا مطلب

قرآن کی درج ذیل آیت میں تبدیل اور تحویل دونوں تعبیریں ایک ساتھ آئی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں کے درمیان فرق ہے۔ اس فرق کو علامہ طاہر بن عاشور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ تبدیل کا مطلب ہے کسی چیز کو بدل دینا اور تحویل کا مطلب ہے کسی چیز کو اس کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردینا۔

والتبدیل: تغییر شیء... والتحویل: نقل الشیء من مکان إلی غیرہ، وکأنہ مشتق من الحول وہو الجانب. والمعنی: أنہ لا تقع الکرامة فی موقع العقاب، ولا یترک عقاب الجانی. وفی ہذا المعنی قول الحکماء: ما بالطبع لا یتخلف ولا یختلف. (التحریر والتنویر)

درج ذیل آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے کچھ مترجمین نے یہ فرق ملحوظ رکھا ہے کہ تبدیلا کا ترجمہ تو تبدیلی کیا ہے اور تحویلا کا ترجمہ ٹلنا کیا ہے۔

(۱) فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیلًا۔ (فاطر: 43)

”تو تم سنت الٰہی میں نہ کوئی تبدیلی پاؤ گے اور تم سنت الٰہی کو ٹلتے ہوئے ہی پاؤ گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”سو تو نہ پاوے گا اللہ کا دستور بدلنا اور نہ پاوے گا اللہ کا دستور ٹلنا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”سو آپ اللہ کے دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے، اور آپ اللہ کے دستور کو کبھی منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی، اردو محاورے کے لحاظ سے ’منتقل ہوتا ہوا‘ کے بجائے ’ٹلتا ہوا‘ کہنا چاہیے۔)

”یہی بات ہے تو تم اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پاؤ گے اور تم کبھی نہ دیکھو گے کہ اللہ کی سنت کو اس کے مقرر راستے سے کوئی طاقت پھیر سکتی ہے“۔(سید مودودی، ”کوئی طاقت پھیر سکتی ہے“ کہنے کا محل نہیں ہے، کہنا تو یہ ہے کہ خود اللہ کی طرف سے نہ کوئی تبدیلی ہوگی اور نہ اسے ٹالا جائے گا۔)

”سو تم خدا کی عادت میں ہرگز تبدل نہ پاؤ گے۔ اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمے میں تبدیل اور تحویل دونوں کا ایک ہی ترجمہ کردیا گیا۔

(۲)  قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِہِ فَلَا یَمْلِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنْکُمْ وَلَا تَحْوِیلًا۔ (الاسراء: 56)

”کہہ دو کہ ان کو پکار دیکھو جن کو تم نے اس کے سوا معبود گمان کر رکھا ہے، نہ وہ تم سے کسی مصیبت کو دفع ہی کر سکیں گے نہ اس کو ٹال ہی سکیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”کہہ دیجیے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انہیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کرسکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اِن سے کہو، پکار دیکھو اُن معبودوں کو جن کو تم خدا کے سوا (اپنا کارساز) سمجھتے ہو، وہ کسی تکلیف کو تم سے نہ ہٹا سکتے ہیں نہ بدل سکتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”کہو کہ (مشرکو) جن لوگوں کی نسبت تمہیں (معبود ہونے کا) گمان ہے ان کو بلا کر دیکھو۔ وہ تم سے تکلیف کے دور کرنے یا اس کے بدل دینے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری تینوں ترجموں میں تحویلا کا ترجمہ بدلنا کیا ہے، حالاں کہ ٹالنا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے پہلا ترجمہ بہتر ہے۔

(۳)  سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنْ رُسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا۔ (الإسراء: 77)

”یہ ہمارا مستقل طریق کار ہے جو اُن سب رسولوں کے معاملے میں ہم نے برتا ہے جہیں تم سے پہلے ہم نے بھیجا تھا، اور ہمارے طریق کار میں تم کوئی تغیر نہ پاؤ گے“۔ (سید مودودی)

”جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے تھے ان کا (اور ان کے بارے میں ہمارا یہی) طریق رہا ہے اور تم ہمارے طریق میں تغیروتبدل نہ پاؤ گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے، ان کے باب میں ہماری سنت کو یاد رکھو۔ اور تم ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پاؤ گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں عام طور سے تحویلا کا ترجمہ تبدیلی کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”ہم نے تم سے پہلے اپنے جو رسول بھیجے، ان کے باب میں یہ رویہ رہا ہے، اور تم یہ نہیں پاؤ گے کہ ہماری سنت ٹل جائے۔“

(390) فَاسْأَلْ بَنِی إِسْرَاءِیلَ إِذْ جَاءَہُمْ

وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَی تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِی إِسْرَاءِیلَ إِذْ جَاءَہُمْ فَقَالَ لَہُ فِرْعَوْنُ إِنِّی لَأَظُنُّکَ یَامُوسَی مَسْحُورًا۔ (الاسراء: 101)

”ہم نے موسیٰؑ کو تو نشانیاں عطا کی تھیں جو صریح طور پر دکھائی دے رہی تھیں اب یہ تم خود بنی اسرائیل سے پوچھ لو کہ جب وہ سامنے آئیں تو فرعون نے یہی کہا تھا نا کہ ”اے موسیٰؑ، میں سمجھتا ہوں کہ تو ضرور ایک سحر زدہ آدمی ہے“۔ (سید مودودی)

یہاں لگتا ہے مترجم سے سہو ہوگیا ہے اور جاء ھم کا فاعل آیات یعنی نشانیوں کو مان لیا ہے، اگر نشانیوں کے آنے کی بات ہوتی تو جاء تھم ہوتا۔ ظاہر ہے کہ جب جاء ھم مذکر کا صیغہ ہے تو فاعل نشانیاں نہیں بلکہ خود موسی علیہ السلام ہیں۔ درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(جاری)


صنف و جنس اور اس میں تغیر (۱)

مولانا مشرف بيگ اشرف


بسم الله الرحمن الرحيم!  یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

مفہوم: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے!

آپ فیروز اللغات کھول کے"جنس" کے مادے کے تحت دیے گئے معانی شمار کیجیے تو اس میں آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "ذات، نوع، صنف، جماعت" اور اگر آپ صفحے پلٹاتے ہوئے "صنف" کے مادے کے تحت مذکور الفاظ  تک پہنچیں تو آپ کو یہ الفاظ ملیں گے: "نوع، جنس، قسم"۔

جنس، نوع وصنف یہ سب الفاظ ہماری زبان میں ایک ہی معنے کے لیے برتے گئے ہیں۔ اس میں آپ کو کوئی ایسا فرق نہیں ملے گا کہ ان میں سے ایک انسانی کی جسمانی  خصائص کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا اس کے سماجی مظاہر کی طرف۔

اسی طرح، انگریزی زبان میں gender and sex دو نوں کلمات کو  ۱۹۵۰ تک ایک ہی شمار کیا جاتاتھا۔ لیکن اسی صدی میں جنسی انقلا ب آیا اور اس  کے جلو میں، ان دونوں میں فرق ہونا شروع ہوا۔اس فرق میں بنیادی عنصر یہ تھا کہ "جنس" انسان کے جسمانی خصائص سے وابستہ ہے جو  مختلف معاشروں کے لحاظ سے بدلتے نہیں جب کہ "صنف" اس جنس سے وابستہ سماجی رویوں، مفروضوں  واعراف سے عبارت ہے جو  مختلف سماجوں میں جدا جدا ہو سکتے ہیں۔ اس میں لباس، زبان کا استعمال، پیشوں کی تقسیم (کہ کون سے پیشے سے مرد وابستہ ہوتے ہیں اور کون سے پیشے زنانہ شمار ہوتے ہیں) وغیرہ شامل ہیں۔

ذیل میں ہم اس جاری بحث کو شریعت اسلامی کے قواعد ، کتاب، سنت ،عمل صحابہ اور امت کے اہل اجتہاد  کے تناظرمیں پیش کریں گے۔اور جنس وصنف کے حوالے سے شرعی قواعد واضح کیے جائیں گے۔ساتھ ساتھ ، علم جینیات ونفسیات میں موجود ان تصورات  کے ساتھ موازنہ کیا جائے گا۔

اس گفتگو میں مندرجہ ذیل سوالات زیر بحث ہوں گے:

۱: اسلام کا تصور  جنس کیا ہے؟ نیز اسلامی شریعت میں اس کی تعیین کا معیار کیا ہے؟

۲:اسلام اشیا اور کائناتی مظاہر سے معنویت کیسے وابستہ کرتا ہے؟ نیز کیا اشیا کی تعیین شریعت کا موضوع ہے؟

۳: خنثی  کسے کہتے ہیں؟نیز خنثی مرد ہے یا زن یا تیسری جنس؟خنثی اور Intersex میں کیا تعلق ہے؟

۴:  علم جینیات جنس  کو کیسے دیکھتا ہے؟

۵: نفسیات  کی بنیاد پر انسانی جنس ونوع کے تعلق کو کیسے دیکھا جاتا ہے؟نیز کیا انسانی نفسیات فقہ وقانون کی بنیاد بننے کے لیے کافی ہے؟

۶: خنثی کے تفصیلی احکام کیا ہے؟

۶: خنثی مشکل کسے کہتے ہیں؟ اور اس کے کیا احکام ہیں؟

۷: تبدیلی جنس کا کیا حکم ہے؟ کیا اعضا کی تبدیلی، یا شعور کے بدلنے یا ہارمونز کے تغیر سے جنس بدل جاتی ہے؟ کسی انسان کے مرد یا زن ثابت ہوجانے کے بعد، اس طرح کی تبدیلی کا کیا حکم ہے؟ نیز اس طرح کے اقدام کا شرعی حکم کیا ہے؟

۸: کیا جنس کے اصول کا اطلاق غیر مسلم اور ذمی پر بھی ہوگا؟

۹: ٹرانس جینڈرز کے ساتھ ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ سیرت طیبہ میں مسلمان ٹرانس جینڈرز کے لیے کیا رہنمائی موجود ہے؟

صنف وجنس  شرعی نقطہ نگاہ سے

قاعدہ : جنس دو ہی ہیں اور باہمی جدا جدا ہیں:

جنس سے متعلق اسلام جو پہلا قاعدہ طے کرتا ہے وہ یہ کہ جنس دو ہی ہیں اور یہ ایک دوئی پر مبنی تصور ہے جسے Sex/Gender Binary سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ کوئی رنگوں کی طرح نہیں کہ ایک رنگ کا جھکاؤ دوسری طرف ہو سکتا ہے۔ جیسے عنابی یعنی سیاہی مائل سرخ رنگ کہ نہ اسے پورے طرح سیاہ کہہ سکتے ہیں نہ سرخ۔ اس لیے، اسلامی شریعت کے ہاں جنس (اورصنف )دو ٹوک انداز سے دو ہی ہیں ، نیز ان میں نوع کا فرق ہے، درجات کا نہیں۔ اس امر پر امت کے علما کا اجماع ہے۔

قرآن مجید کی متفرق آیات میں اس امر کا تذکرہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو "نر ومادہ" (الذكر والأنثى) میں تقسیم کیا ہے۔ اس کی ایک مثال سورة النجم کی ہے۔ آیت پر غور کیجیے:

وَأَنَّهُۥ خَلَقَ ٱلزَّوجَينِ ٱلذَّكَرَ وَٱلأُنثَىٰ مِن نُّطفَةٍ إِذَا تُمنَىٰ [النجم: 45-46]

ترجمہ: (کیا انہیں موسی وابراہیم کے صحیفوں میں موجود باتوں کی خبر نہیں کہ جس میں سے یہ بھی ہے) کہ اس نے مرد وزن کو نطفے سے پیدا کیا جب وہ ٹپکتا ہے۔۱۲

مشہور حنفی مجتہد علامہ جصاص رازی اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

۱: اس آیت میں اللہ تعالی نے واضح فرما دیا کہ جنس دو ہی ہیں: نر ومادہ اور کوئی بھی انسان نر ہے یا مادہ۔

۲: جہاں تک خنثی مشکل کا تعلق ہے، اس کا معاملہ اگرچہ ہمارے اوپر واضح نہیں۔ تاہم وہ بھی ان دو میں سے ایک ہے۔

یہاں "خنثی مشکل" کی اصطلاح استعمال ہوئی اس سے مراد وہ خنثی (Intersex) ہے جس میں اعضائے تناسل دونوں ہوں اور اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے۔اس سے واضح ہوا کہ خنثی بھی شریعت کی نگاہ میں مرد ہے یا عورت۔ (اس پر مزید تفصیل آگے آئے گی)

۳: نیز احناف نے خاص طو ر سے، اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کسی کی جنس میں اشتباہ اس کے بچپن تک ہی رہتا ہے۔ بالغ ہونے کے بعد یہ دور ہو جاتا ہے۔ یہ خنثی برادری سےمتعلق ایک اہم اصول ہے۔ جس کی طرف اس گفتگو کے اخیر میں آئیں گے۔

علامہ فرماتے ہیں:

«لما كان قوله: {الذكر والأنثى} اسما للجنسين استوعب الجميع، وهذا يدل على أنه لا يخلو من أن يكون ذكرا أو أنثى، وأن ‌الخنثى وإن اشتبه علينا أمره لا يخلو من أحدهما; وقد قال محمد بن الحسن: إن ‌الخنثى المشكل إنما يكون ما دام صغيرا فإذا بلغ فلا بد من أن تظهر فيه علامة ذكر أو أنثى. وهذه الآية تدل على صحة قوله»«أحكام القرآن للجصاص ط العلمية» (3/ 551)

مفہوم: چونکہ اللہ تعالی کا فرمان: "نر ومادہ" دو جنسوں کے لیے ہے، اس لیے اس میں سب کے سب انسانی افراد آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ انسان نر یامادہ ، نیز خنثی کا معاملہ اگرچہ ہم پر واضح نہیں، تاہم وہ بھی نر یامادہ ہی ہے۔امام محمد کا کہنا ہے کہ خنثی مشکل صرف بچپن تک ہے۔ جو خنثی بالغ ہو جائے، تو نر یامادے کی کوئی نہ کوئی ایسی علامت ضرور نمودار ہوتی ہے(جس کی بنا پر فیصلہ ہو جاتا ہے)۔ یہ آیت ان کی اس رائے کی تائید کرتی ہے۔۱۲

اسی طرح، سورة النساء کی پہلی آیت بھی اس شرعی قاعدے کو واضح کرتی ہےجسے ہمارے ہاں نکاح خواں نکاح کے خطبے میں عام طور سے پڑھتے ہیں اور اس حقیقت کا اعلان ہر نکاح کے ساتھ کیا جاتا ہے:

یَآ أَيُّهَا ٱلنَّاسُ ٱتَّقُواْ رَبَّكُمُ ٱلَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفس وَٰحِدَة وَخَلَقَ مِنهَا زَوجَهَا وَبَثَّ مِنهُمَا رِجَالاً‌ كَثِيرً‌ا وَنِسَآءً‌ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ ٱلَّذِي تَسَآءَلُونَ بِهِۦ وَٱلأَرحَامَ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَيكُم رَقِيبا [النساء: 1]

ترجمہ: اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو (اور اس کا خیال اپنے دل میں رکھو) جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس ایک جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں (یعنی جوڑے ) سے کئی مرد وزن پھیلا دیے! ۱۲

مشہور مالکی مجتہد ومفسر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انسان جنس دو ہی ہیں۔ نیز "خنثی" کوئی جداگاہ جنس نہیں۔ بلکہ چونکہ وہ انسان ہے، اس لیے اسے مرد وزن میں سے کسی ایک ہی طرف لوٹایا جائے گا۔اور کسی ایک جنس سے جوڑنے میں اعضا کا اعتبار کیا جائے گا۔ وہ فرماتے ہیں:

حصر ذريتهما في نوعين، فاقتضى أن ‌الخنثى ليس بنوع، لكن له حقيقة ترده إلى هذين النوعين وهي الآدمية فيلحق بأحدهما«تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 2)

ترجمہ: اس آیت میں اللہ تعالی نے انسانی جنس کو دو میں بند کر دیا۔ پس اس کا تقاضا یہ ہے کہ خنثی کوئی مستقل نوع نہیں۔ بلکہ اس میں حقیقت آدمیت پائی جاتی ہے جو اسے کسی ایک جنس کی طرف پھیر دیتی ہے اور اس طرح، اس کا الحاق کسی ایک سے کیا جائے گا۔۱۲

ان آیات میں یہ قاعدہ کس طرح گندھا ہوا ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن عابدین شامی اس پر نقل کرتے ہیں :

«أن الله تعالى خلق بني آدم ذكورا وإناثا ... وقد بين حكم كل واحد منهما ولم يبين حكم من هو ذكر وأنثى، فدل على أنه لا يجتمع الوصفان في شخص واحد، وكيف وبينهما مضادة »«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: اللہ تعالی نے بنی انسان کو نر ومادہ پیدا کیا ہے ... اور ہر ایک کے حکم جداگانہ بیان کیے لیکن اس کا حکم نہیں بیا ن کیا جو نر ومادہ ہو۔ پس یہ دلیل ہے کہ کوئی ایک انسان ایک وقت میں نر ومادہ نہیں ہو سکتا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جب کہ ان کے بیچ میں تضاد ہے۔

خنثی وجودی سطح پر مرد یا عورت ہی ہے تاہم ہمارا علم اس کی دریافت سے ، وقتی طور سے، قاصر رہتا ہے۔ اور ایسا ہونا بھی دراصل اللہ تعالی کی قدرت کا اظہار ہے۔ انسان کو اللہ تعالی نے بہت محدود علم دیا جس سے وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے مرد وزن میں فرق کر لیتا ہے۔ تاہم چونکہ علم محدود ہے، اس لیے انسان کے سامنے چیلنجز آتے رہتے ہیں جہاں اس کا علم بے بسی محسوس کرتا ہےاور اگر اس کا عقیدہ درست ہو، تو وہ اللہ تعالی کے اس فرمان کی معنویت محسوس کرتا ہے جو اس موقع پر کہا گیا جب روح سے متعلق سوال ہوا:

وَمَآ أُوتِيتُم مِّنَ ٱلعِلمِ إِلَّا قَلِيلاً‌ [الإسراء: 85]

ترجمہ: تمہیں انتہائی کم علم دیا گیا ہے!

اس اصول سے ہمیں مزید دو قواعد ملے جن کا تذکرہ مناسب ہے۔

علامہ قرطبی نے فرمایا کہ انسان میں "آدمیت" کی وجہ سے وہ کسی ایک جنس ہی پر ہو گا۔اس سےیہ اندازہ ہوا کہ انسان جس طرح جانداروں میں اپنی نوع (Species)لے کر پیدا ہوتا ہے کہ وہ "انسان" ہے، "چڑیا " نہیں۔ اسی طرح، وہ اپنی "جنس" بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے اور "جنس" کوئی ایسا تصور نہیں جسے انسان اپنی خوائش اور اندرونی احساس کی بنا پر بدل ڈالے۔اگر کوئی انسان یہ کہے کہ وہ "انسان" نہیں بلکہ گھوڑا ہے یا اس کا "خاندان سگان" سے تعلق ہے، تو ظاہر ہے کہ معاشرہ اس پر سے انسان کے قانون کا اطلاق چھوڑ نہیں دے گا۔

اس سے ہمیں یہ قاعدہ ملا: قاعدہ: انسانی جنس ناقابل تغیر ہے۔اسے دریافت کرنے میں اشکال ہو سکتا ہےلیکن اسے دریافت کر کے بدلا نہیں جا سکتا۔

چونکہ مذکورہ بالا قاعدہ قانون شرعیت میں ایک "تسلیم شدہ حقیقت وامر واقعہ" ہے، اس لیے یہ اصول مسلمان معاشروں میں رہنے والے ذمیوں پر بھی ایسے ہی عائد ہو گا جیسے مسلمانوں پر ہوتا ہے۔ بلکہ میں آگے بڑھ کر یہ کہوں گا کہ جنگ کے دوران میں جن امور کا تعلق انسانی جنس کے ساتھ ہے اس کا فیصلہ بھی اسی اصول پر ہو گا۔ جیسے ان عورتوں کو قتل نہیں کیا جائے گا جو جنگجو نہیں۔ چناچہ مثلا اگر کوئی عیسائی مرد اپنے آپ کو عورت قرار دے، تو ایک مسلمان معاشرے کے لیے وہ مرد ہی رہے گا (قطع نظر اس بات سے کہ وہ اپنے ذاتی دینی معاملات میں کیا کرتا ہے)۔

قاعدہ: جنس کا قانون جس طرح مسلمان پر لاگو ہوتا ہے اسی طرح ذمی پر لاگو ہو تا ہے۔

اشیا اور ان میں قدر اسلامی شریعت کی روشنی میں

فقہا کے ہاں  جنس کا تعین انسان کی ظاہری ساخت واعضا اور زیادہ صحیح الفاظ میں، نظام تولید سے وابستہ اعضا سے کیا جاتا ہے۔اور اس پر اور خنثی پر ہم ایک ہی عنوان کے تحت گفتگو کریں گے۔لیکن اس سے پہلے اس امر پر روشنی ڈالنا ضروری ہے کہ شریعت  ایک قدر پر مبنی نظام ہے جبکہ سائنس اور طبعی علوم، قدر سے عاری، کم از کم، اپنےاعلان میں۔اس لیے، جنس کی تعیین   پر گفتگو سے پہلے شریعت کے اس پہلو گفتگو ضروری ہے۔

شریعت کا اشیا او روقائع کی حدبندی کرنا:

فقہ ایک مقاصد پر مبنی (Purpose Drive)انسانی سرگرمی ہے۔ وہ کچھ امور کو ایک واقع (فیکٹ)کے طور پر لیتی ہے اور اس پر حکم عائد کرتی ہے  اور وہی "حکم شرعی " ہی اصل میں "قانون" ہے۔

اس لیے، اسلامی شریعت  پہلے یہ طے کرتی ہے کہ "واقع"  کیا ہے اور پھر اس کا "حکم/قانون"۔ مثلا  یہ جملہ دیکھیے:

"عاقل بالغ پر نماز فرض ہے"۔

واقع: عاقل بالغ ہونا

حکم/قانون: نماز کی فرضیت

شریعت کا کام صرف یہ بتانا نہیں کہ نماز فرض ہے، بلکہ شریعت یہ بھی طے کرتی ہے کہ "عاقل بالغ" کون ہے۔اسے ہمیشہ انسانی اجتہاد پر نہیں چھوڑتی۔اسے ایک مثال سے سمجھیے:

 شریعت کے ہاں بلوغت کے کچھ معیار ہیں جنہیں ذیل میں دیا جاتا ہے:

۱: شریعت نے ایک کم از  کم عمر مقرر کی ہے کہ اس سے پہلے انسان کو بالغ تصور نہیں کیا جا سکتا۔(فقہ حنفی میں، لڑکے کے لیے بارہ اور لڑکی کے لیے نو سال ہے۔)

۲: شریعت نے زیادہ سے زیادہ عمر مقرر کی ہے کہ اس کے بعد، انسان کو نابالغ نہیں تصور کیا جا سکتا۔(جیسےحنفی فقہ میں امام ابو یوسف کے مطابق یہ عمر  مرد وعورت دونوں  میں پندرہ سال  ہے اور اس پرفتوی دیا جاتا ہے۔)

۳: ان دو حدود کے درمیان  میں، شریعت نے کچھ امور طے کیے ہیں کہ اگر وہ پائے جائیں تو انسان بالغ شمار ہو گا:

    1. احتلام ہونا،

    2. جاگتے میں انزال ہوجانا۔

    3. حیض آجانا(لڑکی کو)

    4. قرار حمل (فرض کریں کہ لڑکی کے ساتھ کسی نے تعلق قائم کیا، قطع نظر اس بات سے کہ وہ درست تھا یا نہیں، اور وہ امید سے ہوگئی، تو اس بندے کو سزا دیں یا نہ دیں، لیکن وہ بالغ شمار ہو گی۔)

    5. لڑکے کا کسی کو حامل کر دینا۔(احناف کے ہاں تفصیلات کے لیے دیکھیے، شرح الوقاية، كتاب الحجر، لصدر الشرعية الثاني)

واضح رہے کہ یہاں یہ مقصود نہیں ہے کہ کوئی رائے غلط ہو یا درست ہو کیونکہ یہ اجتہادی معاملات ہے اور ان میں ایک سے زیادہ رائے کا امکان ہے۔ مقصود یہ ہے کہ فقہا کی نگاہ میں شریعت یہ امور بھی طے کرتی ہے، ہمیشہ اسے لوگوں پر نہیں چھوڑ دیتی۔

اسی طرح، شریعت کے ہاں اسباب کی بحث دیکھ لیجیے۔مثلا:

"بیت اللہ کا حج مسلمان پر فرض ہے"

سبب: بیت اللہ

حکم/قانون: فرضیت

کعبہ شریف حج کی فرضیت کا سبب ہے۔ اور چونکہ وہ ایک ہی ہے اس لیے انسان پر زندگی میں ایک مرتبہ حج فرض ہوتاہے۔ لیکن اگر کوئی بندہ مثلا پاکستان میں کعبہ بنا لے اور فرض کریں کہ جم غفیر اسے کعبہ تسلیم کرنے لگے، تو یہ نہیں کہا جائے گاکہ شریعت کا اصل مقصود "حکم وقانون" بنانا ہے اور "سبب ومحل" وغیرہ میں اس نے معاملات کو لوگوں کے عرف پر چھوڑ دیا ہے، اس لیے اب لوگوں پر دو حج فرض ہوں گے یا انسان کو اختیار ہے کہ ان دونوں میں سے جس پر بھی قادر ہو اس کا حج  کرے (اس توجیہ کے ساتھ کہ اصلی کعبہ اور بعد والا کعبہ علی سبیل البدلیت سبب بن رہے ہیں جیسے اگر طواف میں کوئی جنایت ہو تواس پر اس کا اعادہ ہے۔تاہم اگر وہ دم دے دے، تو اعادہ نہیں کرنا پڑتا کہ دم اس کا بدل ہے)۔

اسی طرح، نماز کے لیے سورج کا ڈھلنا چڑھنا وغیرہ۔ اگر کسی علاقے میں لوگ چاند کو سورج ماننے لگیں اور سورج کو چاند ، تو یہ نہیں ہو گا کہ روزہ دن کے بجائے رات کو فرض ہو جائے گاکہ چلو لوگوں کے لیے بھی آسانی ہے کہ رات میں آرام سے روزہ رکھ کر سو جائیں۔دن کو اپنے کاروبار زندگی میں پوری طاقت سے مگن رہیں۔

آخری مثال، انسان کی خود ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو اس کائنات میں  اپنے تشریعی ارادے کی تنفیذ کے لیے بھیجا ہے۔ اسے باکرامت بنایا (وہ اس وقت بھی باکرامت ہے جب وہ خنثی ہے)۔مسجود ملائک بنایا۔ ابلیس نے جب سجدے سے انکار کیا، تو اسے مردود ٹھہرایا۔اوران شرعی احکام کا "مخاطب" انسان ہے (اور جنات بھی)۔ سوال یہ ہے کہ کیا "انسان" کی ماہیت طے کرنا شریعت کا موضوع ہے یا نہیں؟ فرض کر لیں کہ اگر کسی عرف میں پہاڑوں کو انسانوں کی طرح  تصور کیا جائےیا دریا کو، تو کیا اس علاقے کا فقیہ یہ کہے گا کہ چونکہ اس کے عرف میں"انسان" کی تعریف میں  پربت بھی شامل  ہیں اس لیے،  وہ بھی انسان ہے۔ (کسی خاص معاملے میں کسی کو کسی کے "حکم" میں کرنا ایک الگ معاملہ ہے۔ جیسے مرض الموت میں واقع زندہ شخص کو بعض تصرفات میں "مردے" کے حکم میں کیا جاتا ہے۔لیکن تحقیق مناط میں  اسے بالکل "مردہ" کی کیٹیگری میں شامل کرنا درست نہیں۔)

اسی طرح، "جنس" کا معاملہ ہے۔ شریعت نے اس حوالے سے انسانوں کو ان کے عرف ورواج پر نہیں چھوڑ دیا۔ ہم اس معاملے کا  تجزیہ کرتے ہیں۔ذیل میں دیے گئے شرعی قضایا (Propositions) پر غور کیجیے:

۱: انسانی نر کے لیے انسانی مادہ سے جنسی تعلق قائم کرنا ، رشتہ ازدواج  یا ملکیت میں، جائز ہے۔

۲: انسانی نر کے لیے انسانی نر سے جنسی تعلق قائم کرنا ناجائز ہے۔

۳: انسانی مادہ کے لیے وہ لباس پہننا جو اس کے سماج میں انسانی مادہ پہنتی ہو، ناجائز ہے۔

۴: انسانی نر کے لیے کسی ایسی انسانی مادہ کے ساتھ تنہا ہونا جو نہ کے ساتھ نسبی رشتہ رکھتی ہو، نہ رضاعی نہ  مصاہرتی نہ ازدواجی، ناجائز ہے۔

وغیرہ وغیرہ۔

ان سب قضایا میں شریعت نے ایک حکم یا قانون عائد کیا ہےاور ایک "محکوم علیہ "پر عائد ہوا۔ سوال یہ ہے کہ جس طرح اوپر کی مثالوں میں شریعت نے   محکوم علیہ یا اسباب کی خود حد بندی کی ہے، اسی طرح شریعت نے یہاں بھی اس کی حد بندی کی ہے یا نہیں؟ ہمارے فقہا کے اس حوالے سے نقطہ نگاہ کیا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا نے اس حوالے سے حد بندی کی ہے اورہم نے آغاز میں جو کہا کہ فقہا اس حوالے سےانسان کے تولیدی نظام سے وابستہ اعضا کو بنیاد بناتے ہیں، وہ ان کے نزدیک ایک ایسا معاملہ ہے جو زمانے کے لحاظ سے، عرف کے لحاظ سے بدلتا نہیں۔چونکہ اس حوالے سے گفتگو خنثی کے تحت ہوتی ہے، اس لیے ہم اس پر گفتگو کریں گے۔

اشیا ووقائع میں معنویت مقاصد سے آتی ہے:

اگلے بات یہ دیکھیے کہ سورج، چاند،مرد ہونا یا عورت ہونا یہ صرف اللہ تعالی کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ سورج چڑھتا ہے، ڈھلتا ہے۔ اور یہ سب اللہ تعالی کے تکوینی ارادے کا مظاہر ہیں۔ تاہم اسلامی شریعت میں اس کی معنویت یہ ہے کہ ان دونوں کائناتی مظاہر کے ساتھ مجھے اپنے رب کے تشریعی ارادہے کا علم ہوتا ہے کہ میں دنیا کے سارے مشاغل پس پشت ڈال کر اس کے سامنے سربسجود ہوں اور نماز پڑھوں۔ اسی طرح،ماہ وسال آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اور اپنے رب کے تکوینی ارادے کو نبھا جاتے ہیں۔ لیکن رمضان کے مہینے کی معنویت یہ ہے کہ یہ مجھے اپنے پروردگار کے تشریعی ارادے کا علم دیتا ہے کہ میں روزہ رکھو۔

اسی طرح، کسی کا "انسانی نر "  کے اعضا کا حامل ہونا یا "انسانی مادہ" کے اعضا کا اللہ تعالی کا ایک تکوینی فیصلہ ہے جو نہ اس نر کے ہاتھ میں ہے نہ مادہ کے ہاتھ میں۔لیکن اس تکوینی ارادے کے ساتھ اللہ تعالی کا تشریعی ارادہ جڑا ہوا ہےجو اس زنانہ ومردانہ مظہر کو معنویت دیتا ہے  کہ "نر" سے خاص مقاصد جڑے ہوئے ہیں اور "مادہ" سے مخصوص۔یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سائنس کا یہ طے کرلینا کہ وہ کسے "نر" اور کسی "مادہ" کہتی ہے یا علم نفسیات کا طے کرلینا کہ وہ کسے "زن" اور کسی "مرد" کہتا ہے، فقہی نقطہ نظر سے اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں رکھتا جب تک وثوق سے ثابت نہ ہوکہ شریعت نے اس معاملے کو انسانوں کے اپنے معیار پر چھوڑ دیا ہے۔ جیسے مثلا  بیع کے قانون میں ، عقد کے تقاضے کے خلاف شرط کو فاسد قرار دینے کو شریعت  نے عرف پر چھوڑ ہے کہ جو شرط اتنی عام ہو جائے کہ اس سے نزاع نہ رہے تو اس سے سودا فاسد نہیں ہوگا ورنہ فاسد ہو گا۔اس پیمانے کا تعلق انسان کے اپنے تجربے سے ہے۔اور یہاں بھی آپ غور کریں تو دراصل "نزاع کا ظن غالب" وہ علت وسبب ہے جو شرعیت نے طے کر دیا ہے۔ تاہم یہ تصور ایسا ہے کہ زماں ومکا ں سے بدلتا رہتا  ہے، اس لیے اس کی حد بندی ہو ہی نہیں سکتی اور شریعت نے انسان کے  دست تجربہ میں اسے دے دیا ہے۔

جنس ومقاصد:

اب ہم مزید اس پر روشی ڈالتے ہیں کہ فقہا "نر ومادہ" دونوں جنسوں کو کیسے دیکھتے ہیں اور ان کے ہاں "جنس" کی تعریف کیا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ علم منطق کے جلو میں "جنس" ، "نوع" اور "فصل" وغیرہ اصطلاحات اسلامی علوم میں در آئیں اور ان کے تناظر میں مختلف علوم   میں گفتگو ہونے لگی۔ تاہم  شرعی علوم کے ماہرین یہاں محض خاموش تماشائی نہیں تھے بلکہ متحرک ناقد تھے اور انہوں نے ا  ن اصطلاحات کو اسلامی بنایا اور اسلامی علمیت واصول معرفت (اپسٹیم) سے ہم آہنگ بنایا اور یہی ہر دور کے ماہرین کا کام ہے۔ چناچہ علم منطق میں چیزوں کی ماہیت وحقیقت اور جس طرح  کہ "وہ ہیں"(الشيء كما هو) اس پر گفتگو ہوتی ہے۔ بالفاظ دگر، وہ وجودی سطح(آنٹولوجی) کا سوال اٹھاتے ہیں۔ لیکن فقہا نے جب یہ اصطلاح برتی تو اس کی کایا پلٹ دی۔ چناچہ فقہا نے یہاں ماہیت کے بجائے مقاصد کو بنیاد بنایا جو قدر کا سوال ہے اور جنس کی تعریف یہ کی  اس کے تحت آنے والے افراد وہ ہیں جن کے اغراض ومقاصد جدا جدا ہوں۔ چناچہ انسان جنس ہے کہ اس کے تحت مرد وعورت ہیں اور شریعت کی نگاہ میں دونوں مختلف ہیں۔مرد کے مقاصد کچھ اور عورت کے مقاصد کچھ ہیں۔

اسی حقیقت کے حوالے سے، مشہور علمی شخصیت محمد بن علی صابر فاروقی تھانوی فرماتے ہیں:

«وعند الفقهاء والأصوليين عبارة عن كلي مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض دون الحقائق كما ذهب إليه المنطقيون، كالإنسان فإنه مقول على كثيرين مختلفين بالأغراض، فإن تحته رجلا وامرأة، والغرض من خلقة الرجل هو كونه نبيا وإماما وشاهدا في الحدود والقصاص ومقيما للجمع والأعياد ونحوه. والغرض من خلقة المرأة كونها مستفرشة آتية بالولد مدبرة لأمور البيت وغير ذلك. والرجل والمرأة عندهم من الأنواع، فإن النوع عندهم كلي مقول على كثيرين متفقين بالأغراض دون الحقائق كما هو رأي المنطقيين. »«كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم» (1/ 594 - 595)

ترجمہ: فقہا واصولی حضرات کے ہاں جنس اس کلی (کیٹیگری)کو کہتے ہیں جس کا اطلاق ایسے افراد پر ہو جن کے (شرعی)اغراض ومقاصد جدا ہوتے ہیں،  نہ کہ  ان کی ماہیت جیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔اس کی مثال انسان  کی کلی ہے جو مختلف اغراض  کے حامل افراد پر منطبق ہوتی ہے کہ اس کے  تحت زن ومرد ہیں اور مرد کی تخلیق سے مقصود نبوت، امامت، حدود وقصاص میں گواہی، جمعہ وعیدین کی نمازوں میں امامت وغیرہ ہے اور عورت کی تخلیق سے مقصود   جنم دینا، رشتہ ازدواج میں بندھ کر کسی ایک ہی مرد کی اولاد کو جنم دینا اور اس اولاد کا اس کی طرف منسوب ہونا  (عورت کے فراش ہونے کا فقہی تصور)، گھر گھرستی وغیرہ ہے۔اور مرد وزن فقہا کے ہاں انواع ہیں کہ نوع ان کے ہاں اس کلی سے عبارت ہے جو ہم غرض افراد پر لاگو ہو نہ کہ ہم ماہیت  پرجیسا کہ علم منطق کے ماہرین کے ہاں ہوتا ہے۔

یہاں مندرجہ ذیل امور پر غور کیجیے:

۱: فقہا مرد وزن اور نر ومادہ کو ہم معنی برتتے ہیں۔

۲: فقہا کے ہاں  کسی انسان کا مادہ کے نظام تولید کا حامل ہونا  مادہ کے اغراض میں شامل ہے۔اسی وجہ سے، فقہی نقطہ نظر سے، کسی "مادہ"  کی تحدید دراصل اس کے نظام تولید سے ہوتی ہے۔ اور منطقی طور سے، اس کے برعکس نظام تولید کا حامل "نر" ہے۔(اس پرتفصیل بعد میں آئے گی)

۳: اسی طرح، عورت کا ایک وقت میں ایک ہی مرد سے وابستہ ہونا اس کے اغراض میں سے ہے۔

[نوٹ: اصول فقہ کی کتابوں میں "خاص" کی اقسام ، خاص الفرد، خاص النوع وخاص الجنس، کے تحت یہ بحث مل جاتی ہے۔ منار کی شرح نور الانوار میں بھی اس پر تفصیل سے گفتگو موجود ہے۔]

فقہا کے ہاں جنس وصنف میں فرق:

چونکہ یہاں جنس وصنف  کے حوالے سے گفتگو ہوئی ہے۔ اس لیے اس پر لگے ہاتھ کچھ گفتگو کر لینا مناسب ہے۔

آغاز میں یہ بات گزری کہ بیسوی صدی کے جنسی انقلاب کے بعد، جنم لینے والی علمیت  کے مطابق جنس وصنف کے مابین فرق  کی بنیاد یہ  ہے کہ تولیدی نظام سے جنس طے ہوتی ہے اور صنف اس کے سماجی مظاہر سے عبارت ہے۔ نیز یہ علمیت مندرجہ ذیل امور کے مابین ڈور کاٹ دیتی ہے:

۱:جنس (Sex) ،

۲: جنسی رجحان(Sexual Orientation)،

۳: سماجی کردار (Gender Role)،

۴: اور سماجی مظاہر(Gender Expression)۔

چنانچہ ایسا نہیں کہ اگر آپ "جنس" کا جواب دے دیں تو باقی امور خود بخود طے ہو گئے۔

یہاں ہم نے دیکھا  کہ  فقہا   کے ہاں یہ تمام امور آپس میں اس طرح  ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں  کہ اگر پہلے کا جواب دیں تو  دوسرے کا جواب خود بخود آئے گا۔

تاہم، یہ واضح رہے کہ بعض سماجی مظاہر اور سماجی کردار ایسے ہیں جو عرف کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے، یہ ضروری نہیں کہ ایک عرف میں اگر کسی مظہر کو مرد وزن کے ساتھ خاص کیا گیا تو وہ ہر زماں ومکاں میں ایسا ہے۔ تاہم   یہاں بھی فقہا عرف کے احترام کی تلقین ، مقاصد شریعت کی حدود میں، کرتے ہیں۔

اس پوری گفتگو سے ہمیں مندرجہ ذیل قواعد حاصل ہوئے:

قاعدہ: شریعت ایک قدر پر مبنی نظام ہے جو اشیا کو اللہ تعالی کے ارادے کے تحت معنویت بخشتا ہے۔

قاعدہ: شریعت اشیا کی قدر طے کرتے ہوئے، اشیا کی تعیین وتحدید بھی کرتی ہے۔ تاہم جو امور زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلیں، وہاں شریعت انسانی تجربے پر معاملے کو چھوڑ دیتی ہے۔

قاعدہ: جنس کی تعیین وتحدید شریعت کا موضوع ہے  اور یہ زماں ومکاں کے لحاظ سے بدلتی نہیں۔

اسلام میں جنس کا معیار اور خنثی

یہاں تک  یہ طے ہو گیا کہ اسلامی نقطہ نظر سے جنس دو ہی ہیں  اور وہ دونوں جداگانہ ہیں اور انسان اپنے پیدائش کے ساتھ  جس طرح اپنی نوعی شناخت ( Identity of being a specific species)لاتا ہے اسی طرح اپنی صنفی شناخت بھی لے کر آتا ہے۔ یہ ناقابل تغیر عنصر ہے۔نیز جنس وصنف فقہا کے ہاں ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ تاہم بعض اوقات کسی انسان کی جنس کی دریافت میں الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور اسے "خنثی" کہا  جاتا ہے۔اب شریعت کے نقطہ نگاہ سے، یہاں بنیادی سوال خنثی کی تعریف ہے اور اسی کے تحت اسلام میں جنس کا معیار طے ہوگا۔

خنثی کی تعریف:

"خنثی " دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنے ایسے انسان کے ہیں جس میں مرد وزن دونوں کے اعضائے تناسل پائے جائیں۔

فقہا کے ہاں اس کی علمی تعریف بھی یہی ہے۔ البتہ وہ اس میں ایک مزید عنصر کا اضافہ کرتے ہیں۔وہ یہ کہ اگر کسی انسان کے دونوں اعضا سرے سے  نہ ہوں ، تو اس پر بھی "خنثی" ہی کا قانون نافذ ہو گا۔چناچہ مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی فرماتے ہیں:

«وهو ذو فرج وذكر أو من عرى عن الاثنين جميعا»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

[خنثی وہ ہے جس  میں مرد وزن دونوں کے آلہ تناسل ہوں یا ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو۔]

خنثی مرد ہے یا عورت ہے:

فقہا کے ہاں ، فنی نقطہ نگاہ سے، خنثی کوئی تیسری باقاعدہ جنس نہیں، بلکہ خنثی مرد ہے یا عورت۔اور اس کا فیصلہ صحابہ کے دور سے فقہا کے ہاں اس کے  اعضائے تناسل سے کیا جاتاہے۔

اس حوالے سے ابن عدی کے ایک روایت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے منسوب ہے لیکن اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ چناچہ مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ جمال الدین زیلعی نے ہدایہ کی تخریج میں  بھی اسے ضعیف گردانا ہے۔ تاہم اس حکم کا دارومدار اس پر نہیں ہے۔ بلکہ اس حوالے سے صحابہ سے روایا ت منقول ہیں۔

حضرت علی سے منقول ہےکہ:

«عن علي أنه ورث خنثى ذكرا من حيث يبول»«مصنف عبد الرزاق» (8/ 389 ط التأصيل الثانية)

مفہوم:حضرت علی سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک مرد خنثی کو اس کی جائے پیشاب کی بنیاد پر وراثت دی۔

دیگر صحابہ سے منقول ہے:

عن جابر بن زيد، والحسن، في الخنثى قالا: «يورث من مباله»، قال قتادة: فكتب في ذلك لسعيد بن المسيب فقال: نعم، وإن بال منهما جميعا فمن أيهما سبق«مصنف ابن أبي شيبة» (6/ 277 ت الحوت)

مفہوم:حضرت جابر وحسن رضی اللہ تعالی عنہما سے  منقول ہے کہ خنثی کو اس  کی جائے پیشاب کی بنیاد پر میراث دی جائے گی۔ قتادہ کہتے ہیں کہ  انہوں نے اس حوالے سے سعید بن المسیب کو خط لکھا۔ انہوں نے بھی اس کی تائید کی۔ نیز فرمایا کہ اگر دونوں اعضا سے پیشاب کرے، تو جہاں سے پہلے شروع کیا ہو (اس کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔)

عن الشعبي، في مولود ولد ليس له ما للذكر ولا ما للأنثى، يبول من سرته، قال: «له نصف حظ الأنثى ونصف حظ الذكر»

علامہ زیلعی نے یہ روایات نقل کی ہیں بغیر کسی تنقید ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ان کے ہاں قابل حجت ہیں۔

نیز یہاں  اصل استدلال اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول حدیث  نہیں جو کمزور ہے۔اور فقہی کتابوں میں منقول ہر حدیث یا ہر استدلال کا معتبر ہونا ضروری نہیں۔ بلکہ فقہا کی عادت ہے کہ وہ ایک مسئلے پر کئی استدلالات اکھٹے کر دیتے ہیں جن میں سے بعض کمزور بھی ہوتے ہیں اور ہر فقہی مذہب کے ماہرین وقت کے ساتھ ساتھ اسے نکھارتے آئے ہیں۔  بلکہ بنیادی استدلال تین ہیں:

۱: شریعت کی طرف سے تقریر:

زمانہ جاہلیت میں بھی  یہ معاملہ رائج تھا  کہ ایسی صورتوں میں لوگ عضو تناسل کی بنیاد پر فیصلہ کرتے تھے۔شریعت آئی اور اس نے اس حوالے سے کوئی  تبدیلی نہیں کی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ اسی یوں سمجھیے کہ "استصناع" کو (فنی باریکی برطرف، استصناع  آرڈر پر چیز بنوانے  سے عبارت ہے جب کہ میٹیریل بنانے والے کا ہو) احناف درست کہتے ہیں اور دوسرے فقہا نادرست کہ اس میں ایسی چیز کا سودا ہے جو موجود نہیں اور یہ "سلم" میں بھی شامل نہیں۔ احناف کے استدلالات میں سے ایک بنیادی استدلال یہ ہے کہ یہ معاملات رائج تھے۔ اس لیے، اگر ان میں تبدیلی مقصود ہوتی تو شریعت اس حوالے سے باقاعدہ رہنمائی فرماتی۔ اسی طرح، صحابہ  وتابعین کے دور میں یہ رائج  رہا پر اس پر نکیر نہ ہوئی۔پس ایسے امور میں ، شریعت کی یہ خاموشی اس کی طرف سے قانونی سازی  و"تقریر"ہے کہ یہ جائز ہے۔  یہی بات فقہا جنس  اور اس سے وابستہ احکام کے  حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ "حکم جاہلی "تھا اور شریعت نے اسے برقرار رکھا۔ اور صحابہ کا فیصلہ اس کی مزید توثیق ہوا۔اسے مختلف حنفی وغیر حنفی فقہا نے رقم کیا ہے۔ ہم علامہ سرخسی کی سنتے ہیں:

«وهذا حكم كان عليه العرب في الجاهلية على ما يحكى أن قاضيا فيهم رفعت إليه هذه الحادثة فجعل يقول هو رجل وامرأة فاستبعد قومه ذلك فتحير ودخل بيته في الاستراحة فجعل يتقلب على فراشه ولا يأخذه النوم لتحيره في هذه الحالة وكانت له بنية فغمزت رجليه فسألته عن تفكره فأخبرها بذلك وقالت دع الحال وابتغ المبال فخرج إلى قومه وحكم بذلك فاستحسنوا ذلك منه فعرفنا أن حكمه كان في الجاهلية قرره رسول الله - صلى الله عليه وسلم - وسيجيء من المعنى ما يدل عليه»«المبسوط للسرخسي» (30/ 103)

مفہوم: یہ معاملہ زمانہ جاہلیت میں بھی تھا جیسا کہ منقول ہے کہ ان کے ایک قاضی کے پاس یہ (خنثی کا )معاملہ لایا گیا۔ وہ کہنے لگا کہ یہ مرد وزن دونوں ہے۔ لوگوں  اس بات سے مطمئن نہ ہوئے۔ قاضی صاحب کشمکش کا شکار ہوگئے۔ وہ اپنے گھر آرام گاہ میں گئے۔ لیکن اس مسئلے کے ساتھ انہیں ایک پل چین نہ آئے،نیند نہ آئے۔اس کی ایک بٹیا تھی۔اس نے (جب با پ کر پریشان دیکھاتو)اس کے پاوں کو دبایا اور پریشانی کی وجہ جاننا چاہی۔ اس نے ماجرا کہہ ڈالا۔ بیٹی نے کہا کہ:"اس بات کو چھوڑیے اور پیشاب گاہ کو بنیاد بنائیے"۔ قاضی صاحب نے لوگوں میں جاکر اسی کے مطابق فیصلہ کیا، تو انہیں یہ پسند آئی۔ (اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ کہتے ہیں )اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ خنثی کا حکم زمانہ جاہلیت میں تھا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے برقرار رکھا۔ نیز آگے اس  حکم کی علت سے بھی اس کی مزید تائید ہوگی۔

۲: فقہا کا اجماع:

دوسرا یہ کہ اس معاملے پر فقہا کا اجماع ہے جو خود ایک مستقل دلیل ہے۔ اس حوالے سے ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی  نے بھی واضح فرمایا ہے کہ خنثی کا دارومدار پیشاب گاہ پر ہونا فقہا کے مابین ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور ابن المنذر سے انہوں نے اس پر فقہا کا اجماع نقل کر کےصحابہ کے آثار اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب  احادیث پیش کی ہیں۔ اس لیے، واضح رہے کہ یہاں مسئلے کی بنیادنبی   صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب خبر واحد پر نہیں۔ اور بلاشبہ، اس جیسے مسئلے کی بنا ایسے چیز پر نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ   رفع یدین جیسے مسئلے کی طرح اجتہادی مسئلہ بن جائے اور ساری بات زیادہ سے زیادہ "خلاف اولی" پر آجائے۔فقہا کے ہاں یہ ایک اتفاقی معاملہ ہے۔اور صحابہ کے دور سے فقہا نے اس کے حکم کی بنا اس زمانے کے عرف پر نہیں، بلکہ انسان کے ظاہری عضویاتی فطری پر رکھی ہے اور وہ معلوم تاریخ کے مطابق ابھی تک ارتقا کر کے  بدلی نہیں۔ نیز جینیاتی علم نے آ کر اسے بدلا نہیں بلکہ محض اس کی تفسیر کی ہے جیسا کہ تفصیل سے آگے آئے گا۔ انسانی فطرت وہیں کی وہیں ہے۔

اور یہی سے ہمیں واضح ہوتا ہے کہ ایک فقہا نے ضعیف روایت اس لیے نقل فرمائی کہ وہ مسئلے کی بنا نہیں  بلکہ حکم اور دلائل سے ثابت ہے۔اس لیے، اگر یہ روایت نہ ہو، تب بھی یہ حکم ثابت ہے۔

بہر کیف، علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت ملاحظہ ہو:

«الخنثى هو الذي له ذكر وفرج امرأة، أو ثقب في مكان الفرج يخرج منه البول ويعتبر بمباله في قول من بلغنا قوله من أهل العلم. قال ابن المنذر: أجمع كل من نحفظ عنه من أهل العلم على أن الخنثى يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل، فهو رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة، فهو امرأة. وممن روى عنه ذلك؛ على، ومعاوية، وسعيد بن المسيب، وجابر بن زيد، وأهل الكوفة، وسائر أهل العلم. »«المغني» لابن قدامة (9/ 108 ت التركي)

مفہوم: خنثی وہ ہے اس میں مرد وزن دونوں کی شرم گاہ ہو یا شرمگاہ کی جگہ پر سوراخ ہو جس سے پیشاب نکلے۔ ہم تک جن اہل علم کی رائے بھی پہنچی ہے ان کے مطابق اس کی جائے پیشاب کا اعتبار کیا جائے گا۔ابن المنذر کہتے ہیں کہ جن اہل علم سے ہم نے علم نقل کیا ان سب کا اتفاق ہے کہ خنثی کو میراث جائے پیشاب کی بنیاد پر دی جائے گی۔ اگر وہاں سے کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو  وہ مرد ہے  اور اگر وہاں سے کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو وہ عورت ہے۔ جن جن سے یہ بات منقول ہے ان میں حضرت علی، معاویہ، سعید بن المسیب، جابر بن زید  شامل ہیں۔ نیز اہل کوفہ اور باقی حضرات سے بھی یہی منقول ہے۔۱۲

مشہور مالکی فقیہ علامہ قرطبی نے بھی اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ خنثی میں اس کے اعضائے تناسل کا اعتبار ہے۔

أجمع العلماء على أنه يورث من حيث يبول، إن بال من حيث يبول الرجل ورث ميراث رجل، وإن بال من حيث تبول المرأة ورث ميراث المرأة. «تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن» (5/ 65)

مفہوم:علما کا اتفاق ہے کہ خنثی کو اس کی جائےپیشاب کی بنیادپر میراث د ی جائے گی: اب  وہ ضرورت وہاں سے پوری کرے جہاں سے مرد کرتے ہیں، تو اسے مرد کی میراث ملے گی اور اگر وہاں سے ضرورت پوری کرے جہاں سے عورت کرتی ہے، تو عورت کی میراث۔ ۱۲

۳: قول صحابی:

نیز جو فقہا قول صحابی کو حجت تسلیم کرتے ہیں ان کے ہاں صحابہ سے منقول اقوال بھی ایک مستقل دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور احناف کے ہاں بھی قول صحابی حجت ہے۔

واضح رہے کہ اگر ہم جنس کے معاملے کو عرف  یا طب پر چھوڑ دیں، تو ہمارے پاس اس کی کوئی اصولی بنیاد نہیں رہے گی کہ ہم محض نفسیات واحساسات کو غیر معتبر ٹھہرائیں۔اور اس کے بعد، ہمارا یہ کہنا کہ "متبدل صنف" (ٹرانس جینڈر)کا اعتبار نہیں  ،بے بنیاد ہو جائے گا۔

یہاں قاری اس الجھن کا شکار نہ ہو کہ "جنس وصنف " میں فرق ہے۔ ہم واضح کر چکے کہ شریعت کے ہاں یہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہیں اور "جنس" کو طے کرنا دراصل "صنف" (شریعت کے مختلف احکام)کے لیے ہے۔ ورنہ شریعت کو اس سے  کوئی سروکار نہیں کہ کسی چیز کی ماہیت کیا ہے۔ مثلا ماربل کی ماہیت کیا ہے، اینٹ کی کیا ہے؟

اس لیے، واضح رہے کہ اس ساری بحث میں کلیدی کردار اس بات ہے کہ "خنثی " کی تعریف کیا ہے۔ہم یہ طے کر آئے ہیں کہ شریعت   کے ہاں جنس غیر متبدل ہے اور یہ اللہ تعالی کی اٹل تقدیر ہے۔

پس شریعت کی نگاہ میں خنثی وہ ہے جس کے نظام تولید سے وابستہ اعضا  دونوں ہوں یا ان میں ابہام ہو۔اس کے علاوہ ،ثانوی جسمانی خصائص جیسےچہرے پر بال یا ہونا یا نہ ہونا،چھاتی کا ہونا نہ ہونا(جنہیں طب میں ثانوی خصائص Secondary Traits کہا جاتا ہے ) خنثی کی تعیین میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔ اور نفسیات کا تو کیا ہی کہنا کہ اس کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہوتا۔

اسی طرح، واضح رہے کہ کسی مرد یا عورت کا آپریشن کروا لینا اسے خنثی یا خنثی مشکل نہیں بناتا۔ جنس صرف اعضا ئے تناسل کا نام نہیں۔ بلکہ کسی بچے کا مخصوص اعضائے تناسل کے ساتھ پیدا ہونا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ اللہ تعالی کی تقدیر ازلی میں وہ نر ہے یا مادہ۔ اس لیے، اگر کوئی مرد اپنے اعضا بدلوا لے، تو وہ خنثی نہیں ہو گا بلکہ وہ  بدستور مرد ہی رہے گا۔

تاہم جب کسی کا خنثی ہونا ثابت ہو جائے، تو اس کے بعد، فقہا کے ہاں بہت گنجائش  ہے۔ لیکن اس پر روشنی ڈالنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم علم جینیات اور انسانی نفسیات کے پہلو سے اس موضوع پرغور کریں تا کہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ ہمارے فقہا کے علمیات ان کے لحاظ سے کہاں ہے۔

(جاری)


سودی نظام کے خاتمے کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(کراچی میں مرکز الاقتصاد الاسلامی اور وفاق ایوانہائے صنعت و تجارت پاکستان کے زیراہتمام قومی حرمتِ سود سیمینار سے خطاب)



بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ’’مرکز الاقتصاد الاسلامی‘‘ اور ’’وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت پاکستان‘‘ کا شکرگزار ہوں کہ ایک اہم ترین قومی و دینی مسئلہ پر تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام اور تاجر طبقہ کے راہنماؤں کے اس اجتماع کا اہتمام کیا، بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم اور ان کے رفقاء کا شکریہ ادا کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازیں۔

میں دو تین باتیں سودی نظام کے حوالے سے عرض کرنا چاہوں گا:

پہلی بات یہ کہ سودی نظام سے نجات پوری نسلِ انسانی کی ضرورت ہے، سودی نظام نے دنیا میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ آج کے ماہرینِ معیشت خود کہہ رہے ہیں کہ سود نے انسانی معیشت کو نقصان دیا ہے اور اس کا مجموعی ماحول ’’اثمہما اکبر من نفعہما‘‘ کی صورت میں دکھائی دے رہا ہے۔ پھر یہ نظام اکیلا ہی دنیا پر اجارہ داری قائم رکھے ہوئے ہے اور کوئی متبادل نظام میدانِ عمل میں نہیں ہے۔ جبکہ اصول یہ ہے کہ کوئی متبادل نظام سامنے ہو تاکہ دنیا دونوں کو دیکھ کر فیصلہ کر سکے کہ کون سا نظام اختیار کرنا ہے کیونکہ مقابلہ سے ہی کسی نظام کے بہتر ہونے کا علم ہو سکتا ہے۔

دوسرا دائرہ ہمارا قومی ہے جو اس حوالہ سے ہے کہ یہ ہمارا دینی فریضہ ہے اور قرآن و سنت کا صریح حکم ہے اور ہماری شرعی ذمہ داری ہے۔

اور اس حوالہ سے بھی کہ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قیامِ پاکستان کے مقاصد میں کہا تھا کہ ہم ملک میں مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق معاشی نظام چاہتے ہیں۔

پھر یہ پہلو بھی اہم ہے کہ دستورِ پاکستان میں صرف یہ وعدہ نہیں بلکہ ضمانت دی گئی ہے کہ ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے گا۔ اس لیے یہ دستوری تقاضا بھی ہے کہ سودی نظام سے ملک کو جلد از جلد نجات دلائی جائے۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری معاشی مشکلات اور بحران کی سب سے بڑی وجہ سودی نظام ہے۔ ہم معاشی بحران کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور بیرونی قرضوں نے ہمیں جکڑ رکھا ہے جس سے ہماری قومی خود مختاری سوالیہ نشان بن گئی ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔ یہ بھی ہماری قومی ضرورت ہے کہ قومی خود مختاری، معاشی استحکام اور ملکی استحکام کے لیے سودی نظام کی لعنت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کریں۔

ہمیں خوشی ہے کہ تمام دینی مکاتبِ فکر کی قیادتیں اور بزنس کمیونٹی کے قائدین آج سودی نظام سے نجات کے عزم کے ساتھ ایک فورم پر جمع ہیں۔ اس موضوع پر ملک کے مختلف حصوں میں متعدد فورم کام کر رہے ہیں اور میں بھی تحریکِ انسدادِ سود پاکستان کے نام سے ایک فورم کی نمائندگی کر رہا ہوں جو تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل ہے۔ اور میں یقین دلاتا ہوں کہ اس عنوان سے کام کرنے والے تمام حلقے اور فورم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن، حضرت مولانا پروفیسر ساجد میر، محترم جناب سراج الحق، اور دیگر قیادتیں آج جو فیصلہ بھی کریں گے، ہم سب ان کے ساتھ ہیں اور جو لائحہ عمل طے ہو گا اس پر عملدرآمد کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔


ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۲)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے علمی دنیا میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ ایک بھرپور اجتماعی زندگی بھی گزاری اور خاص طور پر ہندوستان کی اسلامی تحریک میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔  ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی کے سلسلہ میں نہ صرف فکرمند رہا کرتے تھے بلکہ ملت کو درپیش اہم مسائل اور چیلنجز پر بہت ہی واضح اور جرأتمندانہ موقف بھی رکھتے تھے۔  ڈاکٹر صدیقی ملت اسلامیہ ہند کی تعمیر وترقی سے متعلق ایک واضح پروگرام اور نقشہ کار رکھتے تھے، اور اس کا اظہار مختلف مواقع پر بہت ہی شدومد کے ساتھ کیا کرتے تھے۔

ڈاکٹر صدیقی کا مزاج شروع سے علمی اور فکری محاذ پر کام کرنے کی طرف مائل رہا، اور علمی وفکری محاذ پر وہ بہت ہی ڈائنامک انداز میں کام کرتے رہے، البتہ عملی قیادت اور نظم وانتظام کا کام ان کے مزاج سے بہت زیادہ ہم آہنگ نہیں تھا، چنانچہ وہ تحریک اسلامی میں بھی اور دوسرے ملی پلیٹ فارمس پر بھی زمینی قیادت کا حصہ کبھی نہیں بن سکے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی اپروچ عام تحریکی مفکرین اور مصنفین سے کافی مختلف ہوا کرتی تھی، عملی زندگی میں بھی وہ بہت کشادہ اور وسیع الظرف واقع ہوئے تھے اور فکری وعلمی محاذ پر بھی، اس کی ایک بڑی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے والد محترم بہت علم دوست بھی تھے اور بہت کشادہ ظرف بھی۔ ان کے یہاں ابوالکلام آزاد کے”البلاغ“اور”الہلال“بھی آتے تھے، اور مولانا اشرف علی تھانوی کا”التبلیغ“بھی آتا تھا، اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی کا”ترجمان القرآن“بھی آتا تھا۔ اس زمانے میں سیرت کمیٹی لاہور کا ترجمان”ایمان“کافی مقبول تھا، یہ مجلہ آپ کے یہاں بڑی تعداد میں آتا تھا اور شہر بھر میں تقسیم کیا جاتا تھا۔

ڈاکٹر صدیقی نے بہت کم عمری سے مختلف مکاتب فکر سے استفادہ کا جو مزاج پایا تھا وہ آخری عمر تک باقی رہا۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریروں اور خاص طور پر خطوط کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مختلف مکاتب فکر کے لوگوں سے نہ صرف استفادہ کرتے تھے بلکہ ان سے ایک گہرا تعلق بھی رکھتے تھے۔

جماعت اسلامی سے وابستگی سے قبل آپ کچھ دن مسلم لیگ کی طلبہ تنظیم”مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن“سے بھی وابستہ رہے اور کچھ دن علامہ عنایت اللہ مشرقی کی خاکسار تحریک کی طرف بھی میلان رہا۔

والد محترم کی ذاتی لائبریری میں ماہنامہ ترجمان القرآن سے مستقل استفادہ کے نتیجے میں مولانا مودودی کی تحریروں سے آپ پہلے سے واقف تھے اور ان سے مستقل استفادہ بھی جاری تھا، البتہ 1946 کے آس پاس آپ کچھ مقامی افراد کی کوششوں سے جماعت اسلامی کی مقامی یونٹ گورکھپور سے جڑ گئے اور پھر جماعت اسلامی کی فکر اور تحریک کے لیے مکمل طور پر یکسو ہوگئے۔ چند سال بعد 1950 میں رکن ہوئے، اور پھر تادم زیست جماعت اسلامی سے وابستہ رہے، البتہ عمر کے آخری مرحلہ میں امریکی شہریت کا حامل ہونے کی وجہ سے جماعت اسلامی ہند میں ان کی رکنیت برقرار نہ رہ سکی، جس کا انہیں آخر تک شدید صدمہ تھا۔

مولانا مودودی کے ساتھ خط وکتابت:

مولانا مودودی علیہ الرحمہ سے آپ کی خط وکتابت کا آغاز 1944 کے اواخر یا 1945 کی ابتدائی تاریخوں میں ہوا، اور مولانا مودودی کی وفات تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ موجود ریکارڈ کے مطابق آپ کے نام مولانا مودودی کا پہلا خط 28جنوری 1945 کا ہے، اور آخری خط 6 مئی 1979 کا ہے۔ ان خطوط سے مولانا مودودی علیہ الرحمہ اور ڈاکٹر صدیقی علیہ الرحمہ کی قربت کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا مودودی ڈاکٹر صدیقی کی بات کو کس قدر سنجیدگی سے سنتے تھے۔ ان خطوط میں فکر اسلامی اور تحریک اسلامی سے متعلق بہت سی اہم اور منفرد باتوں کی وضاحت ہے۔ مثلاً 4 جولائی 1962 کو ایک خط کے جواب میں مولانا مودودی تحریر فرماتے ہیں:

”آپ کے نقطہ نظر کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں اور جس حد تک اپنی اخروی ذمہ داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے لبرلزم برت سکتا ہوں برتتا بھی ہوں۔ لیکن پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ حالات کو جس رخ پر جاتے دیکھ رہا ہوں اس کی بنا پر کوئی ایسی بات کرتے ہوئے میری روح کانپ جاتی ہے جو بے لگام اجتہادات کا دروازہ کھولنے کی ذمہ داری میں مجھے شریک کردے۔ میرا خیال یہ ہے کہ میری اس احتیاط کی روِش سے جو نقصان ہوسکتا ہے اس سے بہت زیادہ نقصان یہ احتیاط ملحوظ نہ رکھنے سے ہو جائے گا۔ گاڑی بہت گہرے نشیب کی طرف جار ہی ہے۔ بر یک ڈھیلا کرتے ہی سیدھی کھڈ میں جاگرے گی۔“(اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 29)

مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی کئی کتابوں کو اشاعت سے قبل دیکھنے کے بعد ان پر تفصیلی نوٹس دیے اور بعض کے سلسلہ میں اصولی رہنمائی فرمائی، خطوط کا مطالعہ کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ”غیرسودی بینک کاری“،”شرکت ومضاربت کے شرعی اصول“اور”معاصر اسلامی فکر“مولانا مودودی نے اشاعت سے قبل دیکھی تھیں، اور ان کے تعلق سے کسی نہ کسی صورت میں اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا۔”شرکت ومضاربت کے شرعی اصول“نامی کتاب کے تعلق سے مولانا مودودی نے جو اصولی رائے دی تھی، وہ کچھ اس طرح تھی:

”اس مسئلہ میں قانون کا ڈھانچہ تو حنفی ہی رہنا چاہیے۔ البتہ جہاں حنفی مسلک سے کام نہ چلتا ہو وہاں ائمہ اربعہ میں سے کسی کے مسلک کو اختیار کرلیا جائے اور اسے اختیار کرنے کے حق میں مضبوط دلائل دے دیے جائیں۔ اگر چاروں مذاہب سے بھی کام نہ چلے تو پھر بدرجہ آخر دوسرے ائمہ مجتہدین کے جو اقوال کتابوں میں ملتے ہیں ان میں سے کسی کو اختیار کر لیا جائے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 45)

جمال عبدالناصر نے اخوان المسلمون پر آزمائشوں کے سخت پہاڑ توڑے تھے، اخوان پر پابندی، سید قطب اور ان کے ساتھیوں کو پھانسی اور نہ جانے کتنے دل دوز واقعات اس کے عہد حکمرانی سے جڑے ہوئے ہیں، جمال عبدالناصر کا انتقال ہوا تو اُس وقت بعض سیاسی مجبوریوں کے تحت مولانا مودودی نے بھی ایک تعزیتی پیغام جاری کردیا تھا، اس تعزیت کے سلسلہ میں فطری طور پر تحریک سے متعلق دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صدیقی کو بھی سخت اعتراض ہوا۔ چنانچہ ڈاکٹر صدیقی کے ایک خط کے جواب میں 10 اکتوبر 1970 کو مولانا مودودی اس مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہاں کے حالات اس کے مقتضی تھے کہ چند محتاط الفاظ میں صدر ناصر کی وفات پر تعزیت کا تار دے دیا جائے۔ یہاں جن گروہوں سے ہمیں سابقہ درپیش ہے وہ میری خاموشی کو ایک نئے مخالفانہ پروپیگنڈہ کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 48)

1972 میں ڈاکٹر صدیقی ایک پروگرام کے تحت امریکہ گئے، وہاں سے بھی مولانا مودودی کے ساتھ آپ کی ایک اہم خط وکتابت ہوئی، اس دوران مولانا مودودی نے ڈاکٹر صدیقی کے نام اپنے خط میں مغربی ممالک کے تناظر میں تحریک اسلامی کی کچھ اہم ضرورتوں اور وہاں موجود مسلمانوں سے متعلق کچھ اہم پہلووں کی نشاندہی کی، اورڈاکٹر صدیقی سے مطالبہ کیا کہ وہ وہاں موجود مسلم طلبہ ونوجوانوں کی اس سلسلہ میں ذہن سازی کی کوشش کریں، لکھتے ہیں:

”امر یکہ اور کینیڈا میں مسلمان نوجوانوں کی ایک بہت اچھی اور کارآمد طاقت جمع ہے۔ان لوگوں سے مل کر انہیں اس بات پر آمادہ کیجیے کہ ہندوستان وپاکستان اور فلسطین کے مسائل پر محض غم و غصے سے کام نہیں چل سکتا۔ اور نہ ہی ساری قوتیں اور وسائل انہی مسائل پر صرف کردینا مناسب ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اپنی قوتوں اور وسائل کو جمع کر کے ایک ایسا نظام بنائیں جو ایک طرف تحقیقی مواد (اسلام کے متعلق بھی اور مسلمان ملکوں کے مسائل کے متعلق بھی) مر تب کرے۔اور دوسری طرف ان چیزوں کی اشاعت کا بھی انتظام کرے۔جب تک خود اپنا کوئی دارالاشاعت نہ بنالیا جائے کام نہیں چل سکے گا۔ کیونکہ امریکہ اور کینیڈا کے اشاعتی وسائل ہمارے ساتھ تعاون تو در کنار تجارتی بنیاد پر بھی معاملہ کرنے کے لیے تیار نہ ہو سکیں گے۔ یہی حال یورپ کا بھی ہے، لندن میں ایک مستقل مرکز تحقیق و اشاعت قائم ہونا چاہیے جو یورپ میں اس کام کو انجام دے“۔(حوالہ سابق، صفحہ 50)

نئے ہندوستان میں نیا رخ اور نیا طریقہ کار:

تقسیم ہند کے بعد 1948 میں ہندوستان میں جماعت اسلامی ہند کے نام سے جماعت اسلامی کی تشکیل نو تو ہوگئی، نئی قیادت اور نیا سسٹم بھی وجود میں آگیا، لیکن ذہن وہی رہا جو تقسیم سے پہلے کے ماحول میں تیار ہوا تھا، اور لٹریچر بھی وہی رہا جو تقسیم سے پہلے وجود میں آیا تھا۔ یہ لٹریچر ایک قسم کی منفی ذہنیت اور موجود نظام حکومت کے بائیکاٹ کا مزاج فروغ دے رہا تھا، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی تحریروں میں اس لٹریچر اور اس مزاج کو شدید انداز میں رد کرنے اور ہندوستان کے تناظر میں ازسرنو اپنی پوزیشن طے کرنے پر خاصا زور دیا ہے۔ اس سلسلہ میں جہاں انہوں نے دیگر علماء اور مفکرین کے نام خطوط لکھے، ان کے ساتھ مختلف مواقع پر مباحثے کیے، وہیں انہوں نے اس سلسلہ میں ایک بہت دوٹوک خط مولانا مودودی کے نام بھی لکھا تھا، یہ خط قدرے طویل ہے، البتہ اس کا ابتدائی حصہ یہاں نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، ڈاکٹر صدیقی 14اکتوبر 1972 کو مولانا مودودی کے نام اپنے خط میں لکھتے ہیں:

”اپنے ملک کی نسبت سے تحریک اسلامی کے مفادات ومصالح ملک کے موجودہ نظام سے کنارہ کشی یا بے تعلقی کی بجائے ایک ایجابی رویہ اور شرکت کے متقاضی نظر آتے ہیں۔ ہندوستان میں ہمارا اصل کام دعوت کا کام ہے اور اس کی خاطر مسلمانوں کی اصلاح و تربیت مطلوب ہے۔ تحریک اسلامی کی علمبر دار مسلم اقلیت کاRole یہی ہو سکتا ہے کہ وہ برادران وطن کو اسلام سے روشناس کرائے۔ اپنے حسن عمل سے اسلام کی خوبیوں پر گواہ بن کر رہے اور ساتھ ہی ملک کی معاشرت، معیشت، سیاست سب کی تشکیل میں اسلامی قدروں کے قبول اور فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ یہ کام شرکت اور فعال طریقہ سے موجودہ نظام کو اپنے لیے قوت اور سماجی اثر حاصل کرنے کا ذریعہ بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ کنارہ کشی سے ربط عام اور موثر طریقہ پر ربط کے مواقع ختم ہوجاتے ہیں۔ پھر یہ ظاہر ہے کہ سارے مسلمان اجتناب وبے تعلقی کے طریقہ پر عمل کر ہی نہیں سکتے، چنانچہ تحریک کااس موقف پر اصرار مسلمانوں سے بھی علیحدگی کا سبب بنتا ہے۔ جس زمانہ میں ہمارے لٹریچر میں اس موقف کے حق میں لکھا گیا تھا اس وقت متحدہ ہندوستان کا سیاسی مستقبل زیر بحث تھا۔ اس بحث میں اسلامی نقطہ نظر کی ترجمانی اور اس سیاق میں اس وقت کے نظام کے سلسلہ میں رویہ کی وضاحت کی گئی تھی۔ اب وہ سیاسی مسئلہ ایک خاص طور پر طے پاچکا اور ہم تاریخ کے ایک مختلف مرحلہ میں داخل ہو چکے۔ اس مرحلہ میں دعوت اسلامی اور اس کے تقاضوں کو ہی نظام وقت کی طرف سے ہمارے رویہ کی تشکیل کرنا چاہیے نہ کہ ہمارے سابق موقف کو۔ میں اس مسئلہ میں آپ کی رائے اس لیے جاننا چاہتا ہوں کہ سابق موقف آپ ہی کا بیان کیا ہوا ہے۔ اور اکثر سند کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کیا آپ اس پوری بات کو ہر ملک ہر زمانہ ہر حالت کے لیے کی گئی بات کا درجہ دیتے ہیں یا نئے حالات میں از سر نو سو چنے کی ضرورت محسوس کریں گے۔ چونکہ دنیا کے بہت سے ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں تحریک اسلامی کی داغ بیل پڑ رہی ہے اس لیے اس مسئلہ پر رائے قائم کرنے کی ایک اصولی اہمیت بھی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر ہر جگہ ہمارے کارکن نظام وقت سے اجتناب کو اس معنی میں ضروری سمجھتے رہے جیسا کہ ہم نے ہندوستان میں سمجھا تو وہ وسائل سے محروم، بے اثر اور عام زندگی سے کٹ کر رہ جائیں گے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 51-52)

اس خط کے جواب میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے جہاں کئی اہم اصولی باتوں کی طرف رہنمائی کی ہے، وہیں ایک اہم اور اصولی بات یہ بھی کہی کہ

”ان تمام مختلف حالات میں چند بنیادی اصول تو یکساں رہیں گے لیکن ہر جگہ کے حالات کے لحاظ سے عملی طریقوں میں فرق کرنا پڑے گا۔ میں نے جو کچھ بھی لکھ دیا ہے اس کو تمام حالات کے لحاظ سے اگر حرف آخر سمجھ لیا گیا تو بے شمار مشکلات پیدا ہوں گی“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 55)

اسلامک ریسرچ سرکل اور اسلامک تھاٹ کا آغاز:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم ثانوی درسگاہ سے فارغ ہوئے تو ثانوی درسگاہ کے اپنے ساتھیوں اور کچھ دوسرے تحریکی  رفقاء کے ساتھ مل کر”اسلامک ریسرچ سرکل“کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس ادارے کے ڈائرکٹر مولانا صدر الدین اصلاحی مرحوم بنائے گئے اور اسسٹنٹ ڈائرکٹر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہوئے۔ اس ادارے کا ایک اہم مجلہ”اسلامک تھاٹ“کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے ایڈیٹر سید زین العابدین صاحب تھے اور معاونین میں ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم، ڈاکٹر عرفان احمد خان مرحوم (شکاگو) اور ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مرحوم تھے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم اس ادارے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

”ہمارا مقصد تحریک اسلامی ہند کے لیے افکار تازہ کی تلاش وجستجو تھا، ہم نے نئے انداز پر سوچنے کی دعوت دی، اور الحمدللہ یہ رسالہ کافی مقبول ہوا“۔ (ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012)

تقریباً پندرہ سال کی اشاعت کے بعد یہ رسالہ بھی بند ہوگیا اور یہ ادارہ بھی نہیں چل سکا۔ ڈاکٹر صدیقی کہتے تھے کہ اس کے بند ہونے کی وجہ ہم ساتھیوں کا یکے بعد دیگرے مختلف ممالک کی طرف منتقل ہوجانا تھا۔

اسلامک تھاٹ کی فائیلیں آج بھی بعض جگہوں پر موجود ہیں، ان کا اس پہلو سے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے کہ اُس زمانے میں تحریک کے ان تازہ دم نوجوانوں نے فکر اسلامی کے کن نئے پہلووں کو موضوع گفتگو بنایا تھا اور وہ کس قدر تحریک اسلامی ہند پر اثرانداز ہوسکے تھے۔

جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری میں:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم 1964 میں جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن منتخب ہوئے اور تقریباً 1980 تک یعنی سعودی عرب منتقل ہونے کے دوسال بعد تک رکن شوری رہے۔

شوری میں ڈاکٹر صدیقی کا انداز فکر بہت ہی جداگانہ تھا، وہ کہتے تھے کہ مولانا مودودی نے انگریزوں کے زیر تسلط غیرمنقسم ہندوستان میں جو انداز فکر دیا تھا تقسیم کے بعد ہمارے ملک کی نوعیت، یہاں پر ہماری پوزیشن اور عالمی سطح پر تبدیل ہوتے حالات میں اس کو من وعن تسلیم کرلینا کسی طور پر مناسب نہ ہوگا۔

امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوری میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے رول اور کردار پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تصنیفات کے ساتھ ساتھ، اس محاذ پر ان کا بڑا کنٹری بیوشن وہ کردار ہے جو وہ جماعت کی فیصلہ ساز مجالس میں ادا کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اُس دستور ساز مجلس نمائندگان کے رکن تھے جس نے ملک کی آزادی کے بعد جماعت اسلامی ہند کے پہلے دستور کو منظوری دی تھی۔ غالباً 1965سے بیرون ملک منتقلی تک وہ مسلسل مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ بیرون ملک منتقلی کے بعد بھی جماعت کی پالیسی سازی اور فیصلہ سازی میں وہ ممکنہ حد تک کنٹری بیوٹ کرتے رہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کی نشستوں میں ان کی شرکت بھرپور تیاری کے ساتھ ہوتی تھی۔ شوریٰ کی رودادوں میں ان کے جو مقالات اور تجویزیں ملتی ہیں ان کو دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تجاویز اور مباحث کبھی بھی برجستہ یا محض ذاتی وجدان اور تجربے کی بنیاد پر نہیں ہوتے بلکہ وہ موضوع سے متعلق سنجیدہ تحقیق اور گہرے مطالعے کے بعد ہی کوئی رائے قائم کرتے۔ ان کی تقاریر بھی اور شوریٰ ودیگر مشاورتی محفلوں کی پیشکش بھی، ہمیشہ مکمل تحریری صورت میں ہوتی۔ تربیتی پروگراموں میں بھی ان کی تقریروں کا ڈرافٹ مکمل طور پر لکھا ہوا اور محنت سے تیار کیا ہوا ہوتا۔قرآن وسنت اور اسلام کی اساسیات کے ساتھ ساتھ، تحریک کی پالیسی سازی کے لیے انہوں نے معاصر علوم، سماجیات، سیاسیات، عمرانیات وغیرہ سے بھرپور استفادہ کیا۔ معاشیات تو ان کا اصل میدان تھا ہی۔ ان سنجیدہ کوششوں سے ہندوستان کی اسلامی تحریک کے لیے بدلے ہوئے حالات میں قابل عمل اور مفید لائحہ عمل کی تشکیل میں انہوں نے اہم رول ادا کیا۔“

ڈاکٹر حسن رضا جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوری کے رکن ہیں، اور اسلامی اکیڈمی نئی دہلی کے چیئرمین ہیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ان سے میری پہلی تفصیلی ملاقات آج سے 45 برس پہلے بھوپال کے خصوصی اجتماع مئی1977 میں ہوئی تھی، جب انہوں نے اپنا قیمتی مقالہ”ہندوستان میں اقامت دین کی راہ“پیش کیا تھا، جس میں انہوں نے پہلی دفعہ اقامت دین کی تشریح و تعبیر میں معاشرے کی تعمیر کی اہم کڑیوں سے سرسری گزر کر ریاست کی تشکیل کو اقامت دین کا مصداق سمجھ لیا جاتا ہے اس پر نقد کیا تھا، نیز سماجی قوت اور سیاسی قوت میں کیا رشتہ ہے، اخلاقی قوت اور سماجی قوت میں کیا تعلق ہے، نظریاتی انقلاب اور سیاسی انقلاب کا سفر کیسے طے پاتا ہے، قوت کے ذیلی مراکز پر اثرانداز ہونے کی کیا تدبیریں ہیں۔ان سب پر سیر حاصل بحث کی تھی۔اس وقت یہ باتیں جماعت اسلامی کے داخلی حلقوں میں تازہ افکار کا ایک خوشگوار جھو نکا معلوم نہیں ہوتی تھیں بلکہ بحث کا موضوع بنی ہوئی تھیں۔کہا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے تحریک اسلامی کی آئیڈیالوجیکل بحث کی نشوونما میں کلیدی رول ادا کیا۔ مرکزی شوری کے اجلاس میں بھر پور تیاری سے وہ شریک ہوتے تھے۔ مولانا سید حامد علی مرحوم نے مجھ سے ایک دفعہ کہا تھا کہ ارکان شوری میں سب سے زیادہ مطالعہ اور ایجنڈے کے مطابق علمی تیاری کرکے نجات اللہ صدیقی آتے ہیں“۔

1977 میں ارکان جماعت سے ایک فکرانگیز خطاب:

1977 میں جماعت اسلامی ہند کے ارکان کے لیے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ایک بہت ہی فکرانگیز مقالہ لکھا تھا، یہ مقالہ پہلی بار عوامی استفادہ کے لیے ماہنامہ زندگی نو دسمبر 2022 کے شمارے میں شائع ہوا ہے۔ اس مقالہ کا عنوان ہے”ملک کا موجودہ نظام اور تحریک اقامت دین“، اس مقالہ میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہندوستان میں اقامت دین کی راہ میں درپیش تین رکاٹوں کو بیان کرنے کے بعد اس تناظر میں تین نکاتی دعوتی پروگرام پیش کرتے ہیں، اور پھر”موجودہ نظام کے سلسلہ میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟“اس پر تفصیلی گفتگو کرتے ہیں۔ اس مضمون کا آخری حصہ گرچہ کچھ طویل ہے، لیکن اس پوری بحث کا ایک اچھا خلاصہ کہا جاسکتا ہے، لکھتے ہیں:

”آخری بات یہ ہے کہ یہ محض خوش فہمی ہے کہ موجودہ نظام کے سلسلہ میں ہمارا رویہ آج بھی وہی ہے جو 1941 میں تاسیس جماعت کے وقت سوچا گیا تھا۔ حالات کے دباؤ، تحریک کے مصالح کے تقاضوں اور جزئی وقتی اجتہادات کے تحت لاتعداد جزئیات میں ہمارا رویہ بدل چکا ہے، جس سے اپنوں اور دوسروں کی نظر میں اب ہماری تصویر وہ نہیں رہ گئی ہے جو 1941 اور مابعد کے قریبی زمانہ میں تھی۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ صرف چند یہ ہیں:

ملازمت، جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، عدالتی چارہ جوئی، حکومت کے انتظامیہ سے اپنے کاموں میں مدد چاہنا، حکومت کے انتظامیہ کو اپنا تعاون پیش کرنا، بنکوں میں حساب رکھنا یا ارکان حکومت اور ممبران مجالس قانون ساز سے ربط رکھنا، انتخابات میں رائے دہی کی مخالفت نہ کرنا۔ یہ آٹھوں مثالیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جماعت بننے کے بعد ابتدائی چند برسوں تک ہمارا رویہ انتہائی شدید تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مجھے اطمینان ہے کہ ایسا کسی کم زوری یا مداہنت کی علامت نہیں بلکہ ٹھیک ہوا۔ یہ ہماری مخصوص نفسیات ہے کہ ہم جزئی اجتہاد کر گزرتے ہیں مگر کلی اجتہاد اور رویہ کی تبدیلی سے، جس کے حالات متقاضی ہیں جھجکتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ جھجک خوف خدا کی وجہ سے کم ہے انسانوں کے خوف اور لومۃ لائم کے اندیشہ سے زیادہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا جزئی تبدیلیوں نے ہماری جماعت کو بھی اور عامۃ المسلمین کو بھی اس کے لیے پوری طرح تیار کر دیا ہے کہ ہم موجودہ نظام کے سلسلے میں اپنا رویہ بدل دیں اور وہ رویہ اختیار کرلیں جو میں نے تجویز کیا ہے۔ اگر مناسب افہام وتفہیم کے ساتھ ایسا کیا جائے تو نہ اس سے جماعتی صفوں میں کسی انتشار کا اندیشہ ہے نہ دوسرے مسلمان طبقوں کی طرف سے کسی دیر پا ناخوش گوار رد عمل کا“۔

انتخابات میں شرکت منصوص علیہ مسئلہ ہے یا مجتہد فیہ:

جماعت اسلامی ہند کی تاریخ میں جو مسئلہ سب سے زیادہ زیر بحث رہا وہ انتخابات میں شرکت کا مسئلہ تھا، اس مسئلہ پر بہت سی بزرگ اور قدآور شخصیات نے جماعت سے علیحدگی اختیار کی۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس مسئلہ پر جماعت میں کھل کر گفتگو کرانا چاہتے تھے کہ اس مسئلہ کی نوعیت کو طے کرلیا جائے کہ یہ مسئلہ منصوص علیہ ہے یا مجتہد فیہ ہے۔ اپریل 1986 میں مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب ایک بار پھر امیر جماعت منتخب ہوئے، اس موقع پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے جدہ سعودی عرب سے مولانا ابواللیث صاحب کے نام ایک خط لکھا تھا، اس خط میں اس بات پر پورا زور دیا ہے کہ اس مسئلہ پر بحث ومباحثے کے بعد ایک نتیجہ تک پہنچنا اب بہت ضروری ہوگیا ہے، لکھتے ہیں:

”نئی میقات میں جماعت اسلامی ہند کی امارت کے لیے آپ کے ازسرنو انتخاب سے اطمینان ہوا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ آپ کی سر پرستی اور رہنمائی میں جماعت کو متحد رکھے اور باوجود صحت کی کمزوری کے اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں آپ نے جس ذمہ داری کو قبول کیا ہے اس کی ادائیگی کی قوت و توفیق دے، وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

ڈاکٹر ضیاء الہدی صاحب اور مولانا یوسف صاحب کے آپ کے نام خطوط اور رودادِ شوری 1984-85 مجھے حال ہی میں ملے۔ان کے مطالعہ کے بعد مجھے اپنی اس سابقہ رائے اور تجویز کو دوبارہ آپ کے سامنے دوہرانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ مسئلہ مختلف فیہ کو ’رسالہ زندگی‘ میں کھل کر زیر بحث آنے کی نہ صرف اجازت دیجئے بلکہ اہتمام کیجئے۔ کیوں کہ مسئلہ کا ایک پہلو جو کسی وقت بھی جماعت کے اتحاد کے پارہ پارہ ہونے کا سبب بن سکتا ہے، خاص طور پر جب اسے جوڑے رکھنے کے لیے آپ جیسی شخصیت نہ موجود رہ جائے، یہ ہے کہ بعض لوگوں کو فیصلہ کے مقررہ طریقوں پر اعتماد باقی نہیں رہ گیا ہے۔ بلکہ وہ اس کو اس طریقہ سے فیصلہ کیے جانے سے بالا وبرتر منصوص کا درجہ دیتے ہیں۔ جو پہلو ’زندگی‘ میں تحریروں کے ذریعہ منقح ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ مسئلہ مختلف فیہ منصوص علیہ ہے یا مجہتد فیہ۔ میں سمجھتاہوں کہ اگر مولانا صدرالدین اصلاحی صاحب، مولانا عروج قادری صاحب وغیرہ کھل کر اس بحث میں حصہ لیں تو شاید یہ مسئلہ صاف ہو جائے اور اگر سب کو بشمول ڈاکٹر ضیاء الہدی صاحب، مولانا یوسف صاحب اور بعض ارکان جماعت اترپردیش، مسئلہ کی اجتہادی نوعیت پر اطمینان ہوجائے تو پھر ان کو اور سب کو اس اصل پر متحد رکھا جاسکتا ہے کہ وحی ورسالت کا دروازہ بند ہو جانے کے بعد ہم انسان یہی کر سکتے ہیں، کہ فیصلہ کرنے کے شرعی طریقوں کا جنھیں ہم نے اپنے دستور میں درج کر رکھا ہے التزام کرتے ہوئے جب جو فیصلہ ہو جائے اس کے تحت جماعت کو چلائیں اور اس سے وابستہ رہیں“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 80)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی انتخابات میں شرکت کے مسئلہ کو ایک اجتہادی مسئلہ قرار دیتے تھے، اور وہ کہتے تھے کہ اس مسئلہ کی نوعیت کا تعین بہت سے اختلافات کو ازخود ختم کردے گا۔

صحیح بات یہ ہے کہ بہت سی باتوں کو منصوص سمجھ کر لوگ ان سے اس طرح چمٹ جاتے ہیں کہ ان میں ذرا سی بھی تبدیلی گوارا نہیں کرتے۔ جماعت اسلامی کے نصب العین کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ حکومت الہیہ کے الفاظ کو تبدیل کرتے ہوئے اقامت دین کے الفاظ کو اختیار کیا گیا تو اس پر نہ جانے کتنے تنقیدی مضامین اور کتابیں لکھی گئیں اور یہ باور کرایا گیا کہ جماعت اپنے نصب العین سے انحراف کررہی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تحریک اسلامی اور سید مودودی کے یہاں اصل تصور دین ہے جو منصوص ہے۔ حکومت الہیہ یا اقامت دین کا لفظ اختیار کرنا ایک اجتہادی عمل ہے جو بہرحال تبدیلی کے امکانات رکھتا ہے۔

جماعت اسلامی ہند کی پالیسی اور رخ:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تحریک اسلامی ہند کے پالیسی وپروگرام، رخ، طریقہ کار اور مستقبل کے سلسلہ میں ہمیشہ فکرمند رہا کرتے تھے، مولانا سراج الحسن صاحب اپریل 1999 میں تیسری بار امیر جماعت منتخب ہوئے، اس وقت ڈاکٹر صدیقی جدہ سعودی عرب میں مقیم تھے، وہاں سے آپ نے مولانا سراج الحسن صاحب کو ایک بہت ہی فکرانگیز خط لکھا، اس خط کا درج ذیل حصہ تحریک اسلامی ہند سے متعلق ڈاکٹر صدیقی کی پوری فکر کو بیان کردیتا ہے، لکھتے ہیں:

”آپ نے گزشتہ آٹھ سالوں میں تحریک کو جو نیار خ دیا ہے اس میں زیادہ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اپنے مسائل اور خیالات میں الجھنے اور ڈوبے رہنے کی بجائے پورے ملک کے لیے سوچنے اور کچھ کرنے کی جو رسم آپ نے ڈالی ہے اس میں مزید وسعت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم اصلا تو سب میں خدا کی پہچان پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن اکثر اوقات ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جن افراد سے ہم مخاطب ہیں ان کو غربت و افلاس، مرض اور جہالت نے ایسا توڑ دیا ہے کہ سر اٹھانے، بات سننے اور سوچنے کا حوصلہ باقی نہ رہا۔ ایسی صورت میں ان کو صرف خطبے سنانا، اگر وہ پڑھ سکتے ہوں تو کتابیں دینا کارگر نہ ہوگا، ان کو حفظان صحت کی باتیں بتانا، علم سکھانا اور کوئی ہنر سکھا کر روزی کمانے کا راستہ دکھانا، دعوت کے تقاضوں میں سمجھا جانا چاہیے۔

میرا تاثر یہ ہے کہ جماعت کے بہت سے لوگ یہ بات سمجھتے تو ہیں مگر اس کو زبان پر لانا اپنی روایات کے خلاف سمجھتے ہیں، بہرحال اس پر بات چیت ہونی چاہیے تا کہ عقل کی رہنمائی روایات کی پابندی کے مقابلہ میں اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔“(اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 332)

 کل ہند طلبہ تنظیم سے متعلق واضح موقف:

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی جماعت اسلامی ہند کی دستوری سرپرستی میں کل ہند طلبہ تنظیم کے قیام کے حق میں نہیں تھے۔ ڈاکٹر صدیقی کہا کرتے تھے کہ

”سیمی کی سرپرستی چھوڑدینے کا نتیجہ اچھا نہیں رہا، وہ لوگ دوسروں کے بہکاوے میں آکر بھٹک گئے“۔ (ماہنامہ رفیق منزل، ستمبر 2011)

مرکزی مجلس شوری کی جانب سے جب ایس آئی او آف انڈیا کی تاسیس کا فیصلہ ہوگیا، اس وقت 18 اپریل 1982 کو نجات صاحب نے جدہ سعودی عرب سے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث اصلاحی کے نام ایک طویل خط لکھا، جس میں اس فیصلے سے متعلق اپنے تحفظات کو تفصیل سے مدلل طور پر بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”مذکورہ بالا عرضداشت کی روشنی میں میری تجویز ہے کہ مجوزہ تنظیم کے دستور میں جماعت کی سرپرستی کی وضاحت اور تعیین نہ کی جائے اور کسی لفظ سے بھی اس تنظیم کا رسمی طور پر جماعت سے منسلک ہونا نہ ظاہر ہو“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 76)

مسلم پرسنل لا کا مسئلہ

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کے تحفظ سے متعلق بہت ہی عملی اور حقیقت پسندانہ رائے رکھتے تھے، ڈاکٹر صدیقی کا ماننا تھا کہ مسلم پرسنل لا میں موجود کمزور پہلووں کی اصلاح کا کام ملت کو خود بڑھ کر کرلینا چاہیے، اس سلسلہ میں متعدد اہم نکات کی طرف”معاصر اسلامی فکر“میں بھی اشارے موجود ہیں۔ 1985 میں شاہ بانو کیس کے بعد جس وقت ملک بھر میں مسلم پرسنل لا کو لے کر تحریک چل رہی تھی، اسی دوران 8 اگست 1985 کو ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث اصلاحی کو ایک طویل خط لکھا تھا، جس میں واضح طور پر اپنے موقف کو پیش کیا تھا، لکھتے ہیں:

”اس وقت آئین کی دفعہ 44 اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے سلسلہ میں جو احتجاج کیا گیا اس سے اختلاف نہیں، مگر۔۔۔ ہر مسئلہ میں ہمیشہ صرف احتجاج سے کام نہیں چلے گا۔۔۔ طویل المیعاد طور پر مسلم پرسنل لا کے تحفظ کی موثر شکل یہی ہے کہ اس کے جن کمزور پہلووں کا ہمیں اعتراف ہے ان کمزوریوں کو دور کرلیا جائے“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 78)

1972 میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا، اس وقت ڈاکٹر صدیقی جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے رکن تھے، لیکن اتفاق سے جس مجلس شوری میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا اس میں آپ موجود نہیں تھے، غالبا اس وقت آپ امریکہ کے سفر پر تھے۔ اس موقع پر جماعت کی مرکزی مجلس شوری نے آپ کا نام مسلم پرسنل لا بورڈ کے تاسیسی ممبر کے طور پر تجویز کیا تھا، تاہم ڈاکٹر صدیقی نے مسلم پرسنل لا بورڈ کی ممبرشپ لینے سے صاف انکار کردیا تھا، انہیں مسلم پرسنل لا کے مسئلہ اور اس کے نتیجہ میں وجود میں آنے والے مسلم پرسنل لا بورڈ نامی ادارے سے بنیادی نوعیت کا اختلاف تھا۔ ڈاکٹر صدیقی اس قسم کی کسی بھی کوشش کو ملت کے حق میں ایک منفی اقدام تصور کرتے تھے۔ مسلم پرسنل لا سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بہت صاف طور پر ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ

”میں بورڈ کے حق میں نہ تھا، نہ ہوں اور نہ رہوں گا۔ ہم نے علی گڑھ میں پرسنل لا پر ایک بہت بڑا جلسہ کرایا تھا، اس میں مولانا علی میاں ندوی بھی شریک ہونے والے تھے، لیکن نہیں آ سکے، البتہ مولا نا منت اللہ رحمانی صاحب جو پرسنل لا کے روح رواں تھے، وہ آئے تھے۔ اس جلسہ میں ہم نے کہا تھا کہ ہم حکومت کو پرسنل لا میں دخل اندازی سے روک رہے ہیں، یہ ٹھیک ہے۔ تاہم بورڈ کی جانب سے اس سلسلہ میں ایسا قدم اٹھانا چاہیے کہ مسلم پرسنل لا آج کے مسلم معاشرہ کے لیے بامعنی بن جائے، لیکن ایک کام نہیں کیا گیا۔ جب جب حکومت کی جانب سے کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے، اس وقت یہ لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہیں، اور شور مچانے لگتے ہیں کہ تم کون ہو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کر نے والے۔ ظاہر ہے یہ انداز دنیا میں آگے بڑھنے کا نہیں ہے“۔ (ماہنامہ رفیق منزل، ستمبر2011)

مسلم پرسنل لا بورڈ نے اوّل روز سے خود کو احتجاج اور مظاہروں تک محدود رکھا، اور پھر 2014 میں ہندوستان کے سیاسی حالات تبدیل ہونے کے بعد رہی سہی آواز بھی دب کر رہ گئی، تین طلاق کے خلاف ایک جارحانہ قانون نافذ کیا گیا، کامن سول کوڈ پر پہلے ملک کی مختلف ریاستوں میں اور اب مرکزی سطح پر قانون سازی کی طرف پیش قدمی ہورہی ہے، جبکہ دوسری طرف مسلم پرسنل لا بورڈ اور دوسری مسلم جماعتیں اور ادارے اب اس پوزیشن میں بالکل بھی نہیں رہے کہ کوئی ملک گیر مہم چلاسکیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا میں موجود کمزور پہلووں کی اصلاح کا کام کرنے کی ضرورت جتنی پہلے تھی،اتنی ہی یا اس سے کہیں زیادہ، آج بھی ہے۔

مسلم مجلس مشاورت کی گولڈن جبلی

مسلم مجلس مشاورت کی تاسیس 8اگست 1964 میں ہوئی تھی، اس کے تاسیسی ممبران میں مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی، مولانا منظور نعمانی، مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا محمد مسلم، وغیرہ ملک کی نمائندہ شخصیات شامل تھیں، ایک زمانے میں یہ ادارہ ملت اسلامیہ ہند کا ایک نمائندہ ادارہ مانا جاتا تھا، ملک کی تقریبا تمام ہی تنظیمیں اور جماعتیں اس فیڈریشن کا حصہ تھیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم مسلم مجلس مشاورت کے ابتدائی ممبران میں سے تھے۔31 اگست 2015 میں مسلم مجلس مشاورت کا گولڈن جوبلی پروگرام رکھا گیا تھا، جس کا افتتاح نائب صدر جمہوریہ ہند جناب حامد انصاری صاحب نے کیا تھا، اس پروگرام میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ”حاصل زندگی“ کے نام سے ایک پیغام پیش کیا تھا، اس پیغام کے کچھ خاص نکات درج ذیل تھے:

٭    ہم سب بڑے چیلنجز سے دو چار ہیں۔ ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ صورتِ حال کو سنبھالنے کے لیے ماضی کی طرف لوٹنا چاہیے،سوچتے ہیں کاش! ہم اپنا شاندار ماضی پھر سے واپس لاسکتے!مگر میں اس سوچ سے اتفاق نہیں رکھتا۔ وجہ یہ ہے کہ آج ہم جس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں وہ ان مسائل سے بالکل مختلف ہیں جن سے ماضی میں سابقہ پیش آیا تھا۔نئے انداز سے سوچنا ضروری ہے۔

٭    تعجب اس بات پر ہے کہ اِس فضا میں بھی کچھ لوگ ساری دنیا کو اسلام کی طرف بلانے اور دعوتی کام کو اپنا مشن بنانے کا اعلان کرتے رہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس کا ردِّعمل کیا ہوتا ہے کہ آپ جس چیز کو اپنی مخصوص شناخت بنائے ہوئے ہیں اسی کی طرف ساری دنیا کو لانے پر مصر ہوں۔ مجھے تو یہ طریقہ موجودہ فضا میں اس حکمت کے خلاف معلوم ہوتا ہے جس کو اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔۔۔ خاکساری اور تواضع کے ساتھ ہم ان مشکلات کو دور کرنے میں انسانوں کا ہاتھ بٹائیں جن سے آج ہر کس و نا کس پریشان ہے۔ مسائل تو اَن گنت ہیں مگر میں خاص طور پر تین طرح کے مسائل کا ذکر کروں گا:(۱)بدلتی آب وہوااور ماحولیاتی عدم توازن(۲) نظامِ زر، بینک کاری اور فنانس (۳)خاندان اور سماجی رشتے۔زندگی کے ان دائروں میں تباہی اور انحطا ط کی رفتار اتنی تیز ہے، اتنی گہرائی تک جاپہنچی ہے اور ساری دنیا پر اس طرح چھا گئی ہے کہ جو بھی ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے آگے بڑھے اسے خوش آمدید کہا جائے گا۔ میرے خیال میں پرانے انداز کی جگہ خدمتِ انسانیت کے ان مواقع سے فائدہ اٹھانے کی روِش اختیار کرنا چاہیے۔ اسلام کی ان تعلیمات کا چرچا کرنے کی ضرورت ہے جو اختیار کی جائیں تو مشکل حل ہو سکتی ہے۔ ان قدروں اور رویوں کی بات ہونی چاہیے جو اپنائی جائیں تو ایسے سماجی ادارے جنم لے سکتے ہیں جو انسانوں کو اس مخمصے سے نجات دلا سکیں۔

٭    حالات آپ کی پیش قدمی کے منتظر ہیں بشرطیکہ آپ ہمت دکھائیں۔احتجاج،مطالبے،شکایتیں، سب کا اپنا وقت تھا جو گزر گیا۔ نصف صدی قبل ہمارے بزرگوں نے مسلم مجلسِ مشاورت خیر سگالی کی مہم چلانے کے لیے قائم کی تھی،سارے ملک میں وفود بھیجے تھے۔پھر وقت آگیاہے کہ ہم خدمتِ انسانیت اور تعمیرعالم میں شریک کار بن کر سامنے آئیں۔

(جاری)

علامہ یوسف قرضاویؒ کا سانحہ وفات

مفتی حبیب حسین

حقیقت یہ ہے کہ اس ناکارہ کا فکری ہیکل جن شخصیات کی کتب کے زیر اثر رہ کر پروان چڑھا ، اورجن کے علمی افکار، فقہی اتجاہات اور سماجی وادبی آراء ونزاعات نے اس کے دل ودماغ پر بے پناہ اثر ڈالا، ان میں علامہ یوسف القرضاویؒ نمایاں ہیں۔

سن 1997ء میں ان کی کتاب "فقه الزکاۃ" مطالعہ میں آئی تو عربی زبان وادب کے اس مبتدی طالب علم کو ان کی قوت استدلال، اسلوب استنتاج اور طرز تحریر نے اپنے سحر میں اس طرح جکڑے رکھا کہ اسباق کے رسمی دوانیے کے کئی دن اس کی ورق گردانی کی نذر ہوگئے۔اس کتاب کا ہر مبحث قاری کو فکر ونظر کی نئی جہات سے روشناس  کراتا ہے اور اسے یہ محسوس ہوتا ہےکہ اس کا مصنف گویادقت نظر اور حیرت انگیز اجتہادی بصیرت میں قرون اولی کے مجتہدین فقہ کے قافلے کا  پچھڑا ہوافرد ہو ۔اس بے مثال علمی وفقہی کتا ب کے بارے  میں ان کے بعض معاصرین نے کہا ہے کہ اگر علامہ قرضاوی اور کوئی بھی کاوش نہ کرتےتو ان کی علمی جلالت شان کے لئے یہی کارنامہ کافی تھا۔

ڈاکٹر یوسف قرضاوی ۹ ستمبر ۱۹۲۶ میں مصرکے ایک گاوں صف تراب میں پیدا ہوئے اور ۲۶ ستمبر ۲۰۲۲ کو زندگی کی ۹۶ بہاریں دیکھ کر قطر میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اس  دار فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔ان کی جائے پیدائش صف تراب میں رسول اللہ ﷺکے  اصحاب میں سب سے آخر میں  انتقال کرنے والے صحابی  عبداللہ بن حارث بن جزء زبیدی  مدفون ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایام شباب میں یہ شاعری کیا کرتے تھے اور یہی ان کی شخصیت کی شناخت تھی۔مگر دست قدرت  نے انہیں فقہ وحدیث کی خدمت اور دعوت دین کے نبوی مشن پر لگادیا۔ان کا ایک پیشہ ور شاعر سے فقیہ وداعی دین بننے تک کا سفر بھی دلچسپ ہے۔ یہ قید وبند کی عقوبتوں اور ہجر کی قہرماں آزمائشوں سے بھی گزرے۔ 1954ء میں جب انہیں قیدخانے میں ڈالا گیا تو انہوں نے شہرہ آفاق قصیدہ "الملحمة النونية" لکھا۔ اس کے چنداشعار ملاحظہ کیجئے:

يا سائلي عن قصتي اسمع
أمسك بقلبك أن يطير مفزعًا
فالهول عاتٍ والحقائق مرةٌ
والخطب ليس بخطب مصر وحدها
في كل شبر للعذاب مناظرٌ
فترى العساكر والكلاب معدة
هذي تعض بنابها وزميلها
ومضت علي دقائق وكأنها
يا ليت شعري ما دهانِ؟ وما جرى؟
عجبًا أسجن ذاك أم هو غابةٌ
أأرى بناء أم أرى شقي رحى
واهًا أفي حلم أنا أم يقظةً
لا لا أشك هي الحقيقة حية
هذي مقدمة الكتاب فكيف ما
إنها قصص من الأهوال ذات شجون
وتولّ عن دنياك حتى حين
تسمو على التصوير والتبيين
بل خطب هذا المشرق المسكين
يندى لها -والله - كل جبين
لنهش طوع القائد المفتون
يعدو عليك بسوطه المسنون
مما لقيت بهن بضع سنين
لا زلت حيًا أم لقيت منوني؟!
برزت كواسرها جياع بطون؟!
جبارة للمؤمنين طحونِ؟!
أم تلك دار خيالة وفتون؟!
أأشك في ذاتي وعين يقيني؟!
تحوي الفصول السود من مضمون؟
فقہ الزکاۃ کی طرح ان کی دوسری مقبول ترین کتاب "الحلال والحرام فی الاسلام "ہے۔عالم عرب میں اس سے زیادہ مقبولیت شاید کسی کتاب کوملی ہو۔مصطفی زرقاءکہا کرتے تھے کہ ہر مسلم گھرانے پر اس سے استفادہ کرنا واجب ہے۔مشہور ادیب علی طنطاوی مکہ مکرمہ میں کلیۃ التربیۃکے طلبہ کو یہ کتاب درسا اور سبقا پڑھایا کرتے تھے۔علامہ ناصر الدین البانی نے اس کی حدیثوں کی تخریج کی  جس سے اس کتاب کی وقعت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

 ان کی کتاب "دور القيم والأخلاق في الاقتصاد الاسلامي" بھی اپنے موضوع پر ایک منفرد اور البیلی کاوش ہے ۔ اقتصادیات کے طالب علم اس سے فکر ونظر کی نئی راہیں تلاش کرسکتے ہیں۔ تجارت پیشہ افراد کو اس کا اردو ترجمہ اپنے سرہانے رکھ کر روز کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنا چاہئے۔ دگنی قیمت پر اشیا فروخت کرنا ایک گھناونا اخلاقی جرم ہے۔ احادیث، آثار صحابہ اور سلف کے اقوال میں اس طرح کے سفاکانہ کاروباری رویوں پر شدید نکیریں کی گئی ہیں۔ اس پہلو پر اس کتاب کے ایک مستقل باب میں علامہ قرضاوی ؒنے  تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ ان کی مطالعاتی زندگی امام غزالیؒ کی کتاب "إحیاء علوم الدین" سے ہوئی،جو انہوں نے اپنے پڑوسی سے عاریتا لے کر مطالعہ کی۔کہتے تھے: "میرے علمی وفکری اعتدال کی وجہ یہی کتاب ہے۔میں نے ابن تیمیہؒ کو پڑھا مگر غزالی کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ "

ان کی تحریر میں علمی وادبی پختگی، گہرائی اور گیرائی تھی۔سلاست اور روانی تھی۔ موضوع کے تمام اطراف وجوانب کا احاطہ کرتے۔ حیرت انگیز حسن ترتیب سے مختلف ابواب اور فصول میں اس کی تقطیع کرتے۔ دلائل کا محاکمہ کرتے۔ کھل کر اپنی رائے دیتے۔ جو دلیل روایت ودرایت کی رو سے انہیں مطمئن کرتی، اس پر فتوی دیتے۔ کسی ایک امام کے مقلد نہ تھے۔ ائمہ اربعہ کے علاوہ دیگر ائمہ مجتہدین کی آراء پر عوام کی سہولت کی خاطر انہوں نے فتوی دیا۔ ان کی فقہی آرا   پر تیسیری پہلو غالب ہے۔  مشہور عربی اینکر احمد منصور نے الجزیرہ پر ان سے انٹریو لیا۔اس میں شیخ قرضاوی نےاپنے تیسیری مزاج پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے رُخَص اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کے شدائد معروف ہیں۔میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف زیادہ مائل ہوں۔ان کے الفاظ تھے"أنا أقرب إلي ابن عباس إلي من ابن عمر"۔کہا کرتے تھے افتاء میں تشدید اور تعسیر کے مقابلہ میں تیسیر اور تخفیف پر عمل کرنااولی اور افضل ہے۔ اپنی اس رائے کی تائید میں وہ قرآن کی آیات یُرِیدُ ٱللَّهُ بِكُمُ ٱلیُسرَ وَلَا یُرِیدُ بِكُمُ ٱلعُسرَ (البقرۃ ۱۸۵)، یُرِیدُ ٱللَّهُ أَن یُخَفِّفَ عَنكُم (النساء ۲۸ٔ)، مَا یُرِیدُ ٱللَّهُ لِیَجعَلَ عَلَیكُم مِّن حَرَج (المائدہ ۶) سے اور حدیثی روایات میں "خَيرُ دينِكم أَيْسرُه"  (رواه أحمد فی مسندہ، والبخاري في الأدب المفرد، والطبراني في الأوسط) "أحب الأديان إلى الله الحنيفية السَّمْحة"، "ما خُيِّرَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بين أمرين؛ إلاَّ أَخَذ أيسرهما ما لم يكن إثمًا، فإذا كان إثمًا كان أبعد الناس عنه" اور "إن الله يُحبُّ أن تُؤتَى رُخَصُه، كما يَكره أن تُؤْتَى معصيته" (رواه أحمد وابن حبان والبيهقي في الشعب، صحيح الجامع الصغير:  1886) سے استدلال کیا کرتے تھے۔ان کے پاس دنیا بھر سے ہزاروں استفتاء آتے تھے۔ان کے فتاوی کا مجموعہ "فتاوی معاصرہ" کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔اس کی پہلی جلد کے مقدمےمیں انہوں نے اپنے منہج افتاء پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔

  تحریر اور تصنیف وتالیف میں وہ کبھی جادہ اعتدال سے نہیں ہٹے۔مگر زبانی  گفتگو میں کبھی توازن برقرار نہ رکھ پاتے۔ غیرت وحمیت اور جہادی سپرٹ ان میں تھی، جس کے زیر اثر وہ معاصر حکمرانوں پر شدید تنقید کرتے۔اس رد عمل نے انہیں کرب آسا اذیتوں  سے گزارا۔

عصر حاضر کے مقتضیات وتحدیات پر ان کی گہری نظر تھی۔ جدید وسائلِ اعلام کی اہمیت وافادیت کے قائل تھے۔ جس زمانے میں عرب کے علمی حلقوں میں ٹی وی نشریات اور ویڈیو کے جواز وعدم جواز کی بحثیں گرم تھیں، قرضاوی نے اس دورانیے میں الیکٹرانک میڈیا کو دعوت وتبلیغ دین اور اپنی فکر کے ابلاغ کے لئے استعمال کیا۔

دوہزاریے(2000ء) کے آغاز میں الجزیرہ ٹیلویزن چینل کے پروگرام "الشريعة والحياة" میں انہوں نے مختلف علمی وفکری اور سماجی موضوعات پر اپنے طویل علمی مطالعے اور تجربے کی روشنی میں گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔  اس پروگرام کو شرق اوسط اور اس سے باہر کی دنیا میں بے پناہ مقبولیت ملی۔

ان کی پوری زندگی تصنیف وتالیف اور دعوت دین  میں گذری۔درجنوں کتابیں تالیف کیں۔بےشمار مقالے لکھے۔زندگی کا کوئی لمحہ بے کار نہیں گذرا۔ فضائی اسفارمیں بھی مطالعہ وتحریر کا سلسلہ نہیں ٹوٹا۔ زندگی کا آخری دورکلام اللہ کے زیر سایہ رہا کہ  ان ایام میں شیخ نےاپنی ساری توانائیاں تفسیر قرآن کی تکمیل پر مرکوز کی تھیں۔اتحاد بین المسلین کے عظیم داعی تھے۔دنیا بھر میں مسلم اقلیات کا دفاع کیا۔ حق بات کہتے اور لایخاف لومۃ لائم والی صفت سے معمور تھے۔مختلف مواقع پر انہوں نے وزرا و ملوک کے روبرو جرات سے کلمہ حق بلند کیااور انہیں مداہنت پر ٹوکا۔ایک سیمنار  میں فرمایا " ماضی میں ایسے بیسیوں مجتہدین ہو گذرے ہیں جو عوام یا سلاطین وقت کی خوشنودی کے لئے فتوے تراشاکرتےتھے،مگر الحمدللہ میرا مقصد عوام کی خوشنودی رہی، نہ سلاطین وقت کے تقرب کی خواہش، کسی کی پرواہ نہیں کی، دائم اللہ کی رضا مطمح نظر رہی"۔پھرفرمایا: ”اس باب میں صالحین کے ہاں متنبی کے یہ اشعار معمول  بہارہے ہیں ،جو اس نے سیف الدولہ کی مدح میں کہے تھے:

فليتك تحلو والحياة مريرة
وليتك ترضى والأنام غضاب
وليت الذي بيني وبينك عامر
وبيني وبين العالمين خراب
إذا صح منك الود فالكل هين
وكل الذي فوق التراب تراب

صلحاء کی نظر صرف اللہ کی  رضاجوئی پر رہی“۔ رجّاع الی الحق تھے، غلطی پر متنبہ کئے جاتے تو فورا رجوع کرتے ۔اپنے مکتب میں ہر طرح کے لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے۔کسی ایک مذہب کے متقید نہ تھے۔ مجدد فی الفقہ والملۃ تھے۔ معاندین وحاسدین نے ان پربے جاتنقیدیں کیں۔ مگر وہ جواب نہ دیتے  ما یقال لک الا ما قد قیل للرسل من قبلک۔ایک مرتبہ کسی نے عرض کیا آپ انہیں جوا ب کیوں نہیں دیتے؟ زیر لب مسکراتے ہوئے  کہا :

لو كلُّ كلبٍ عوى ألقمتُه حجرًا
لأصبح الصخرُ مثقالاً بدينارِ

(یعنی ہر بھونکتے کتے کو پتھر مارنا شروع کروں تو اس سے پتھر کی قیمت مثقال سے بڑھ کرایک دینار ہوجائے گی،اور تو کوئی فائدہ نہیں۔)

-------------------

عالم عرب اور یورپ ومغرب  میں شیخ یوسف قرضاوی کی علمی و فقہی آراء سے خوب استفادہ کیا گیا۔مگربرصغیر ہند وپاک میں ان کی علمی خدمات اور فقہی وحدیثی آراء کوخاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی ۔ یہاں بعض حلقے ان پر بے جا تساہل اور تجددپسندی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی تصنیفات سے استفادے کا دائرہ وسیع نہیں ہوسکا۔ ہمارے ہاں ایک سکہ بند طبقہ علماء کی اجارہ داری ہے۔ جب تک نوجوان طبقہ اس کے دائرہ اثر سے نکل کر عالم عربی کے معاصرعلماء ومشائخ کے علمی تراث سے  استفادہ نہیں کرےگا تب تک وہ ان علمی وفکری آفاق سے روشناس نہیں ہوپائے گا  جن سے آگاہ ہونا داعیان دین کے لئے ضروری ہے۔بعض مورخین نےاساطین اہل علم  کی اس طرح قدرناشناسی پر امام رازی کا واقعہ  لکھا ہے۔ ابو عبد الله الحسين الواسطی کہتے ہیں کہ میں نے امام فخرالدین رازی کو ہرات کی ایک جامع مسجد کے منبر پر مقامی لوگوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے اوریہ شعر کہتے سنا:

المرءُ ما دام حيًّا يُستهان به
ويعظم الرُّزءُ فيه حين يُفتقَدُ

(یعنی آدمی جب بقید حیات ہوتواس کی کوئی قدر نہیں کی جاتی۔اسے کھوجانے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس کی موت کتنا بڑا سانحہ ہے۔)

حقیقت یہ ہے کہ ایسے نوابغ اور بواقع صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلا کبھی پر نہیں ہوسکتا۔ان کی قدآور شخصیت کی بوقلموں علمی وفکری جہات پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ انہوں نے تقریبا سو کے لگ بھگ کتابوں کا جو متاع گراں مایہ چھوڑا ہے وہ ہمیشہ علم و تحقیق اور دعوت دین کے طالب علموں کے لئے مشعل راہ رہے گا۔ان کی دلاویز شخصیت سے عجب انس رہا۔ آج ۲۶ ستمبر۲۰۲۲کوجب ان کی رحلت کی دلفگار خبر پڑھی تو دل بیٹھ سا گیا۔ بخدا ایسا محسوس ہوا جیسے سر سے ایک سائبان چھن گیا ہو۔

و ما كان قيس هلكه هلك واحد
و لكنه بنيان قوم تهدّما

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۳)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)


اب میں بدعت اور اس کی حدود کی تعیین کے لیے چند کلیدی تعبیری پہلوؤں کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، لیکن جنوبی ایشیا کی طرف جانے سے پہلےمیں کچھ لمحات کے لیے الشاطبی کے ساتھ رکوں گا۔

بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول: بدعت بطور تقلیدی / جعلی مذہب

بدعت کی تعریف میں بنیادی نکتہ انسانی فرد کے لیے یہ گنجائش ماننا ہے کہ ایک حاکمِ مطلق ذات کی حیثیت سے اس کے الٰہی اقتدار کے مقابلے میں شریعت کے ایک متوازی نظام کو بڑھاوا دیا جائے۔دراصل  اختیار کا یہی وہ اساسی گناہ ہے جو بدعت کو وجود میں لاتا ہے: انسانی ارادے کو دین کی ایک جعلی عمارت کھڑی کرنے کے لیے استعمال کرنا ہی اسلام میں تکفیر وتضلیل کے شدید اشتعال انگیز مباحث میں سے ایک مبحث کی حیثیت سے بدعت کو علامتی شہرت عطا کرتا ہے۔

زیادہ واضح انداز میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بدعت کی اصطلاح فقہ اور عقیدے کے سنگم پر متحرک رہتی ہے؛ سنتِ نبوی کی موجودگی میں کسی نئی چیز کے ایجاد کی ممانعت کی بنیاد ایک ایسے وسیع تر اعتقادی تصور میں پیوست ہے جس کا مقصد خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی حفاظت ہے۔ مثلاً الشاطبی نے الاعتصام میں بدعت کی تعریف کچھ یوں کی ہے: "دین میں ایک ایسے عمل کو شامل کرنا جو شریعت کی طرح ہو" (طريقة في الدين مختارة تضاهي الشريعة) (23)۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں: "شریعت کی طرح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقت میں ایسا (شریعت جیسا) نہ ہو" (تشابه الشريعة من غير أن تكون في الحقيقة كذلك) (25)۔

شرعی نظام کی مماثلت کی خواہش میں کار فرما گہری حرکیات کو سامنے لانے کے لیے الشاطبی نے بدعتی کی نفسیات کا ایک دل چسپ مطالعہ پیش کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بدعتی سرتوڑ کوشش کرتا ہے کہ اپنی بدعات کو ثابت سنتوں کی طرح بنا کر پیش کرے، تاکہ بدعت اور سنت کے درمیان التباس پیدا ہو جائے (تلتبس عليه بالسنة)۔ یہ اس کی سب سے عمدہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو اس فکری الجھن میں مبتلا کرے کہ اس کی بدعتیں اصل میں سنتیں ہیں – یہ ایک ضروری کام ہوتا ہے، کیوں کہ کوئی شخص کسی عمل کی اتباع اس وقت تک نہیں کرتا جب تک وہ سنت نبوی کی روشنی میں جائز قرار نہ پائے" (25)۔ بالفاظ دیگر الشاطبی کے بیان کی تشریح کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ لوگوں کو اپنا پیروکار بنانے کے لیے انھیں اپنے دام میں لانا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنے پیش کردہ خیالات کو سنت کی شکل میں پیش کرنا ہوگا۔ جعل سازی کی یہی وہ طاقت اور دھوکے کا یہی امکان ہی وہ وصف ہے جو بدعتی اور بدعات کو بہت خطرناک بناتے ہیں۔

اس لیے الشاطبی اور دیگر متعدد علما کے نزدیک مماثلت کی یہ صفت اسلام میں ایک ایسے فکری خط فاصل کی حیثیت سے بدعت کے فعال کردار کی اہمیت واضح کرتا ہے جو عمل کے مسنون اور بدعتی طُرُق کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ سنت کی حدود اس وقت پامال ہو جاتی ہیں، جب کوئی شخص ایسے عمل کی بنیاد رکھتا ہے جسے 'جعلی مسنون' کہا جا سکتا ہے، ایک غیر منظور شدہ عمل کو پابندی سے کرنا، ایسے جوش وجذبے اور اہتمام کے ساتھ جو کسی شرعی عمل کے لیے درکار ہوتا ہے۔ ایک غیر مسنون عمل کے ساتھ اس قدر مذہبی وابستگی اس عمل کو تقدس فراہم کرتا ہے، جو خدا کی طرف سے منظور شدہ نہیں ہے۔

اس وجہ سے میں نے بدعت کا ترجمہ عام طور پر رائج innovation (ایجاد) کے بجاے heretical innovation  (مبنی بر انحراف ایجاد) سے کیا ہے۔بدعت کا ترجمہ صرف innovation  (ایجاد) سے کرنا قابلِ اشکال ہے، کیوں کہ یہ اس لگے بندھے مفروضے کو جنم دیتا ہے کہ قانون اور اصول قانون کے دائرے میں اسلام بحیثیتِ مذہب ایجاد اور تخلیقی سوچ کی تمام صورتوں کا مخالف ہے۔ بدعت کی اصطلاح سے متعلق فقہی مباحث اور سماجی تعاملات ناگزیر طور پر انسانوں کے ایجاد کردہ اور خدا کے منظور کردہ شریعت کے نظاموں کے درمیان ایک نہ ختم ہونے والی مخاصمت کی نفسیات کے ساتھ ناگریز طور پر بندھے ہوئے ہیں۔

یہ ایک اچھا موقع ہے کہ میں نے بدعت کا جو ترجمہ  heretical innovation (مبنی بر انحراف ایجاد) سے کیا ہے، اس کی مزید تشریح وتوضیح کروں۔ 'مبنی برانحراف ایجاد' میں 'انحراف' کا لفظ مذہب سے یا اہل ایمان سے اخراج کے مترادف نہیں۔ بدعت اور کفر یا ارتداد ایک جیسے نہیں۔ خدا کی حاکمیت سے انکار یا کفر کا قریبی تعلق خدائی حاکمیت کو چیلنج کرنے سے ہے جو بدعت کے تصور کو تقویت پہنچاتا ہے۔ لیکن اخروی نتیجے کے اعتبار سے بدعت کا وہ مقام نہیں جو کفر کا ہے۔ تاہم میں نے تسلسل کے ساتھ بدعت کا ترجمہ 'قابل تنقید ایجاد' یا 'قابلِ مذمت' الزام کے بجاے مبنی بر انحراف ایجاد کیا ہے، کیوں کہ مخالفت یا انتخاب کو بدعت کے فکری قالب سے جدا کرنا ناممکن ہے۔

بدعت کی مذمت اس بنا پر کی جاتی ہے کہ یہ وہ انسانی کوشش ہے جو ایک ایسے نظامِ حیات کے انتخاب کے لیے کیا جاتا ہے جسے خدا کی منظوری حاصل نہیں ہوتی، اور اس لیے وہ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کو چیلنج کرتی ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ خطرناک امر یہ ہے کہ یہ ایک ایسے منڈلاتے خطرے کی پیش بینی ہے جو کفر کی سرحد پر سرگرم رہتا ہے، اور ہمیشہ اس سرحد کو پار کرنے کی دھمکی دیتا ہے، لیکن اسے کھل کر پار نہیں کرتا۔ اس میں کفر کا امکان ہوتا ہے، اور یہی امکان اسے اعتقادیات اور سماجیات کی رو سے تخریبی بناتا ہے۔ بدعت میں موجود تجاوز کی آفت  اس نقالانہ سرکشی پر منحصر ہوتی ہے جو انسانی ارادے کو خدا کے حاکمانہ ارادے کی مماثلت پر آمادہ کرتی ہے۔ بغاوت یا خود ساختہ مسنون طریقے کا انتخاب ہی وہ گناہ ہے جو اعتقادی اور فرقہ وارانہ اعتبارات سے بدعت کو اس کا نامبارک کردار عطا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے میں بدعت کا ترجمہ 'مبنی بر انحراف ایجاد'  کرتا ہوں۔

انیسویں صدی میں شمالی ہندوستان کی مسلم اصلاحی فکر میں بدعت کے مباحث اپنی ذہنیت کے اعتبار سے بعینہ انسانی اور خدائی طور طریقوں کے درمیان ایک کش مکش کی طرح تھے۔ مثال کے طور بدعت پر اپنی بنیادی کتابوں میں شاہ محمد اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی نے بتایا کہ ہر وہ رسم بدعت ہے جو خدا کی قانون سازی کے اختیار مطلق کو للکار کر شروع ہوتی ہے، اور اسے اس طرح سے بیان کرنا گویا کہ وہ سنتِ نبوی ہے، جب اسے اس جذبے، اہتمام اور نظم سے ادا کیا جائے، جو صرف اور صرف شرعی اعمال جیسے نماز، روزہ سے مختص ہے، اور جس کا شریعت اہل ایمان سے مطالبہ کرتا ہے، اور جو خدا سے تقرب کا ذریعہ ہیں1۔

رسم عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی نقشہ بنانا، اثر چھوڑنا، خاکہ بنانا ہے۔ بدعت پر ہندوستانی مسلمانوں کی فکر میں یہ ایک اہم اصطلاح ہے۔ اپنے اردو قالب میں رسم کا سب سے اچھا معنی یہ ہو سکتا ہے کہ وہ عادات واطوار جو بار بار عمل میں لائے جانے اور دہرائے جانے کی وجہ سے کسی سماج کی بنیادی عادات کا جزو لاینفک بن جائے۔ بالفاظ دیگر رسم ایک اجماعی (doxic) صورت کی طرح ہو سکتی ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ ایک بدیہی اور مانی جانی حقیقت بن جاتی ہے، بجاے اس کے کہ وہ کئی متبادل اور ایک جیسے آزاد امکانات میں سے کوئی ایک ہو۔

رسوم: فکری تسلسلات اور تغیرات

اٹھارویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے اوائل اور اواخر تک جنوبی ایشیا کی مسلم فکر میں 'رسم' کی اصطلاح کا علمی مفہوم باریک لیکن نمایاں تبدیلیوں سے گزرا۔ اس تبدیلی  کو صحیح انداز میں تب سمجھا جا سکتا ہے، جب اس اصطلاح سے متعلق اٹھارویں صدی کے نامور عالم شاہ ولی اللہ کی عظیم شاہ کار حجة الله البالغة میں رسوم کی بحث پر کی جانے والی گفتگو کو مد نظر رکھا جائے۔  حجة الله البالغة ایک تہہ در تہہ، دقیق  اور پیچیدہ متن ہے۔ ان کے کلام کا اگر خلاصہ کیا جائے تو رسوم پر ان کی گفتگو کو ایک پاک اور اخلاقی طور پر مضبوط سیاسی نظام کی کونیاتی بنیادوں کے طور پر بیان کر سکتا ہے۔ اس کتاب کو تشکیل دینے والی ایک بنیادی اصطلاح وہ ہے جسے شاہ صاحب نے 'ارتفاقات'2 (اخلاقی اصلاح کے آلات وذرائع) کا نام دیا ہے، یا عام طور پر جس کا ترجمہ تہذیبی آسائشوں سے کیا جاتا ہے۔ اپنے فکری مواد کے اعتبار سے حجة الله البالغة بیسوی صدی کے جرمن ماہر سماجیات نوربرٹ ایلیاس (Norbert Elias) کی انتہائی مؤثر کتاب The Civilizing Process سے قریب تر ہے3۔ حیرت انگیز طور پر دونوں کتابوں کا موضوع تہذیب کا فروغ ہے، تاہم شاہ ولی اللہ کی کتاب منظم زندگی کے بارے میں ایک حریف تصور پیش کرکے ایلیاس کے یورپ مرکز (Eurocentric) بیانیے  کے لیے ایک تصحیح کنندہ کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔

حجة الله البالغة کے ایک باب میں، جس کا عنوان 'لوگوں میں رائج رسوم' (الرسوم السائرة في الناس) ہے، شاہ صاحب بتاتے ہیں: "رسوم ارتفاقات (یعنی تہذیبی ترقی) کے لیے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو حیثیت دل انسان کے بدن کے لیے رکھتا ہے۔ شریعت کا بنیادی اور ذاتی موضوع ومقصد ہی یہی رسوم ہیں" (الرسوم من الارتفاقات هي بمنزلة القلب من جسد الإنسان، وإياها قصدت الشريعة أولاً وبالذات)4۔ رسوم کے تصور کا شجرہ بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب نے ایسے متعدد ماخذات کی نشان دہی کی ہے، جو کسی سماج کی روزمرہ زندگی میں ان رسوم کے رائج ہونے کے لیے سبب بنتے ہیں۔ انبیا، اولیا اور بادشاہوں کے زور دینے کے ساتھ ساتھ رسوم وعادات وجدانی طور پر لوگوں کے دلوں میں پائے جاتے ہیں۔ شاہ صاحب نے بتایا کہ جب رائج رسوم سچائی سے ماخوذ ہوتے ہیں تو وہ سماج کی اخلاقی تشکیل کا تحفظ کرتے ہیں، اور لوگوں کو علمی اور عملی کمالات سے بہرہ ور کرتے ہیں۔ وہ آگے بیان کرتے ہیں کہ اگر یہ اقدار نہ ہوں تو لوگ جانوروں کے مانند بن جائیں (لولاها لالتحق الناس بالبهائم)۔ شاہ صاحب نے ایک دل چسپ استدلال یہ کیا کہ بہت سارے لوگوں کے لیے یہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ اخلاقی تربیت کے لیے منظم سرگرمیوں میں شرکت کے محرکات کی توضیح وتشریح کر سکیں۔ شاہ صاحب اسے یوں بیان کرتے ہیں:

غور کرو کتنے آدمی یہ کہتے ہیں کہ شادی کرو اور اسی طرح کے دیگر عمومی اور اقدار کو سدھارنے والے اعمال میں شرکت کرو۔ اگر تم کسی ایسے شخص سے پوچھو کہ ان جھمیلوں میں کیوں پڑ رہے ہو؟ تو اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی جواب نہیں ہوگا کہ میں لوگوں کی موافقت میں ایسا کر رہا ہوں (لم يَجِدْ جَواباً إلا موافقة القوم)۔ زیادہ سے زیادہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس کے پاس اپنے اعمال کے پیچھے محرکات کا ایک اجمالی علم ہے، اگر چہ اس درجے کی بات کو بھی وہ بیان کرنے سے قاصر ہوگا چہ جائیکہ وہ اپنے اعمال کو اخلاقی ترقی کی تمہید قرار دے (100)۔

بالفاظ دیگر شاہ صاحب کے نزدیک ایک منظم زندگی گزارنے کے محرکات پہلے سے بنے بنائے اور واضح نہیں ہوتے۔ جیسا کہ طلال اسد کہتے ہیں کہ زندگی 'بالذات ضروری' ہے5۔ مزید برآں شاہ صاحب کی اس بحث میں جو چیز سب سے زیادہ میری دل چسپی کی ہے وہ عوام کے افعال کو سنت کے ماخذ کے طور پر تسلیم کرنا ہے۔

انیسویں صدی کے پیش روؤں کے ساتھ ایک گہرے تقابل میں شاہ صاحب ایک پاک باز زندگی گزارنے کے لیے عوام کی وجدانی صلاحیتوں کے اعتراف میں زیادہ خود اعتماد نظر آتے ہیں۔  تاہم یہ کہنا مغالطہ آمیز ہوگا کہ وہ اپنے آس پاس رائج متعدد رسوم اور اعمال کے ناقد نہ تھے۔ وہ ایسی تعبیری وسعت کے قائلین سے بہت دور تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کسی سمائج میں رائج رسوم میں ہمیشہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس فساد کی سب سے بنیادی وجہ اخلاقی طور پر ایسے کمزور لوگوں کا حکومت کے منصب پر سرفراز ہونا ہے، جو کلی مصالح کو سمجھنے سے قاصر ہوں (100)۔ شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیش روؤں کی طرح شاہ صاحب بھی بالخصوص روزمرہ زندگی کے دائرے میں شاہانہ رسوم وعادات کے شدید ناقد تھے۔  ان میں لباس اور خوراک کی مسرفانہ عادتیں، فضول تفریحات جیسے شطرنج، شکار، کبوتر بازی اور موسیقی میں حد سے زیادہ وقت گزارنا وغیرہ شامل ہیں۔  ایسے رسوم کے لیے نہ صرف یہ کہ بے تحاشا دولت چاہیے ہوتی ہے (التعمُّقُ البالغُ في الأَكْسابِ)، بلکہ ان کی وجہ سے آدمی دنیا وآخرت کے معاملات سے غافل ہو جاتا ہے (إهمال أمر المعاش والمعاد) (101 – 102)۔ وہ اپنا بیانیہ جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب ان فاسد رسوم کے حامل لوگ طاقت واقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتے ہیں تو عوام، جن کے لیے ارباب حکومت کی مخالفت ناممکن ہوتی ہے، ان کی پست تقلید شروع کرنے لگتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پاک بازوں یا پاکیزہ اعمال کی طرف عوام اپنے قوی رجحان کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ وہ بس سیدھا انھی اعمال پر کاربند ہوتے ہیں جنھیں وہ اربابِ اقتدار کے درمیان رائج پاتے ہیں (101)۔ اور وہ لوگ جو ان کے اخلاقی معیارات کو قبول کرنے سے انکار کرکے پاک بازی پر ڈٹ جاتے ہیں، وہ ارباب اقتدار اور ان کے آس پاس کے لوگوں سے دوری اختیار کرکے ناراضگی سے کنارہ کش اور خاموش رہنے لگتے ہیں (ويبقىٰ قومٌ فطرتُـهم سويًّا في أُخْرَيات القوم لا يُخَالِطونهم ويسْكُتون على الغيظ) (101)۔ اس خاموشی کے ذریعے وہ اپنے اردگر اکثر لوگوں سے ناراضگی اور قطع تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح ایک بری عادت رائج اور پختہ ہو جاتی ہے (فتنعقدُ سنةٌ سيِّئةٌ وتَتأَكَّدُ) (101)۔ شاہ صاحب ایسے وسیع علم کے حامل اہل علم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ انھیں لاتعلقی اور ناامیدی پر مبنی ایسا رویہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ "انھیں چاہیے کہ سچائی کو پھیلائیں اور سماج میں اسے رائج کریں۔ انھیں چاہیے کہ وہ برائی کے سامنے ڈٹ جائیں اور اس کے خلاف حکمتِ عملی اپنائیں۔ اس میں سخت لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آ سکتی ہے (مـُخاصَماتٌ ومقاتَلاتٌ) (101)۔

اس گفتگو سے یہ واضح ہے کہ چند دہائیاں بعد پیدا ہونے والے اپنے پوتے شاہ اسماعیل کی طرح شاہ صاحب نے ایک واضح اصلاحی ایجنڈا اپنایا جو ان عادات اور رسوم کا شدید ناقد تھا، جو مغل اشرافیے میں رائج تھیں۔تاہم شاہ صاحب کی فکر میں رسوم کی  علمی حیثیت شاہ اسماعیل کے اصلاحی ایجنڈے سے کئی حوالوں سے مختلف تھی۔ رسوم میں فساد پیدا ہونے کا اندیشہ تھا، ایسا فساد جو کسی سماج کو چلانے والے سیاسی نظام اور قیادت میں پائی جانی والی اخلاقی دراڑوں سے پیدا ہوتا ہے۔ شاہ صاحب کی فکر کونیات، سیاسیات اور روزمرہ زندگی کی اخلاقی تشکیل کے تعامل پر مرتکز تھی۔ وہ نسبتاً اس بات سے لا تعلق تھے کہ عوام اپنی رسمی زندگی گزارنے کے دوران واجب اور غیر واجب اعمال کے درمیان فرق کر سکتے ہیں یا نہیں، یا یہ کہ وہ ان دونوں کو خلط کرتے ہیں یا نہیں۔

تاہم جیسا کہ میں اس حصے میں دکھاؤں گا، بدعت سے متعلق یہ فکر اور بے چینی شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی پیش رؤوں کے مباحثوں میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، بلکہ پوری انیسویں صدی میں رسوم کی اصطلاح بتدریج بدعت کے مترادف بنتی چلی گئی۔ اٹھارویں سے لے کر انیسویں صدی اور اس کے مابعد تک جنوبی ایشیا کی مسلم اصلاحی فکر میں رسوم کی اصطلاح کے استعمال سے متعلق یہ بنیادی فکری تبدیلیوں میں سے ایک ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک رسوم عارضی دنیا کے معاملات پر کونیاتی سانچے کا ٹھپہ لگاتے ہیں۔ اچھے رسوم وعادات کونیاتی دائرے میں ملا اعلی کے برکات وفیوضات کو سمیٹنے اور حظیرۃ القدس کے اطمینان کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے برعکس فاسد رسوم وعادات ان کی مخالفت اور ناراضگی کو دعوت دیتے ہیں (101)6۔

اب اگر چہ انیسویں صدی کے مصلحین جیسے شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی ہم نوا اپنے اصلاحی تصورات میں کار فرما وسیع تر کونیات پر  سوچتے تھے۔ تاہم ان کی فکر میں رسوم اور بدعت کے درمیان نسبتاً‌ زیادہ یک جائی پائی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ رسوم اور رسمی اعمال کے درمیان نسبتاً ایک زیادہ باریک فرق قائم کیا گیا ہے۔ میں اس فرق کو مزید سادگی اور وضاحت سے بیان کرنا چاہتا ہوں۔ شاہ صاحب کے برعکس، جن کے رسوم کی تفہیم کونیات پر مبنی تھی، انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کی مسلم اصلاحی فکر  میں رسوم نے بتدریج ایک منفی مفہوم اختیار کیا، اور سنتِ نبوی کے بالمقابل بدعات پر اس کا اطلاق ہونے لگا۔ بالفاظِ دیگر مسنون اعمال کی تحدید بدعات کی توسیع کا سبب بنی۔ روزمرہ کی رسوم و روایات کی ایک غیر معمولی تعداد کی شرعی حیثیت مشکوک اور نقد ونظر کا موضوع بن جاتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ باریک لیکن گہری تبدیلی نہ صرف یہ کہ رسم/رسوم کی اصطلاح میں پیدا ہوئی، بلکہ زیادہ وسیع تناظر میں اٹھارویں سے انیسویں صدی تک جنوبی ایشیا کے مسلم مفکرین کی علمی اور سماجی زندگی میں بھی پیدا ہوئی۔

اس تبدیلی کی ایک عمدہ مثال حجة الله البالغة کے ترجمے اور شرح میں ، جس کا نام رحمۃ اللہ الواسعۃ ہے، پائی جاتی ہے، جسے معاصر دیوبندی عالم مولانا سعید احمد پالن پوری نے تصنیف کیا ہے7۔ کتاب میں اس باب کی شرح لکھتے ہوئے، جسے میں نے ابھی موضوع بحث بنایا، مولانا پالن پوری نے 'رسوم اور بدعات' کو مرکبِ عطفی کے طور پر استعمال کیا ہے، گویا یہ دونوں ہم معنی ہیں۔

مثال کے طور پر شاہ صاحب کی درج ذیل عبارت لیجیے جس کے کچھ اقتباسات پر میں نے پہلے بحث کی ہے: "وسیع علم کے حامل اہل علم کو چاہیے کہ سچائی کو پھیلائیں اور اسے سماج میں رائج کریں، اور برائی کے سامنے ڈٹ کر اس کا رستہ روکیں۔ اس میں مخالفت اور جنگ وجدال تک نوبت جا سکتی ہے۔ یہ سب کچھ نیکی کے بہترین اعمال شمار کیے جائیں گے" (101)۔ اب اس بیان کا تقابل مولانا پالن پوری کے ترجمے اور تشریح سے کیجیے:"رسوم وبدعات کی اصلاح کرنا بہترین عمل ہے۔۔۔۔ بدعات ورسوم جب کسی قوم میں جڑ پکڑ لیتی ہیں تو ان کو اکھاڑنا سخت دشوار ہوتا ہے"8۔ پالن پوری خود اعتمادی سے اپنی پوری شرح میں بدعت کے لیے 'بدعات ورسوم' کی ترکیب استعمال کرتے ہیں، حالانکہ شاہ صاحب نے اس باب میں بدعت کا لفظ نہ تو آزادانہ طور پر اور نہ رسوم وعادات کی اصطلاح کے تعلق سے استعمال کیا ہے۔ اس کے باوجود بیسویں صدی میں پالن پوری جیسا عالم ان دونوں اصطلاحات کے ترادف کو تقریباً طے شدہ سمجھتا ہے۔ بدعات اور رسوم کے درمیان اس مفروضہ ترادف میں انیسویں صدی کے جنوبی ایشیا کے نامور مصلحین جیسے شاہ محمد اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی کے علمی وفکری اثرات کا نمایاں کردار ہے۔ اب میں بطور ایک نظریے اور تصور کے بدعت کی فکری عمارت کی تعمیر میں ان کے مباحثوں اور کردار کا تفصیلی جائزہ لیتا ہوں۔

بدعت کی تعریف

جنوبی ایشیائی اسلام میں بدعت کی حدود کے اردگرد کش مکش میں یہ سوال بنیادی نوعیت کا حامل ہے: کن حالات کے تحت رسوم شریعت، بالخصوص شرعی اعمال کے دائرے میں سنتِ نبوی کے پورے ڈھانچے، کی حاکمیت کے حریف یا ان کے لیے خطرہ بننے لگتے ہیں؟بالفاظِ دیگر ممکنہ طور پر وہ کون سا مقام ہے جس میں انسانوں کی ایجاد کردہ اقدار خدا کی منظور کردہ اقدار کی برتری کو للکارنے لگتی ہیں؟

مختلف علما نے اپنے مسلکی مزاج کے اعتبار سے اس مرکزی سوال کا جواب متعدد طریقوں سے دیا ہے۔ مزید برآں اس سوال کے جواب میں ایک مزید بڑے سوال کے لیے کلید بھی مل جاتی ہے کہ مذہبی اشرافیہ کے نمائندے کی حیثیت سے، جن کا کام مذہب کی شرعی حدود کو تحفظ فراہم کرنا ہے، وہ اپنے کردار کو کیسے خیال کرتے تھے۔

شاہ اسماعیل اور دیوبندی علما جیسے مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی اور ان کے پیروکار ایسے رسمی اعمال کے بارے میں شدید شک اور احتیاط میں مبتلا تھے جو آگے جا کر جعلی شریعت (یعنی شریعت کا ایسا مد مقابل جو خدائی حکم کے بجاے انسانی خواہش کا عکاس ہو-) میں بدل جائے۔ ان علما نے بتایا کہ مذہب کے معاملات میں عوام پر کوئی بھروسا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر ان کی سرگرمیوں پر ایک مضبوط پہرہ نہ بٹھایا جائے تو وہ غیر شرعی رسوم پر کار بند ہو کر شریعت کی اولیت کو یقینی طور پر تج دیں گے۔

دیوبند کے اصلاحی پروجیکٹ کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ بظاہر نیک اور روحانی اجر وثواب کے رسوم کے خلاف، جو باوجود یکہ مباح تھے لیکن واجب نہیں تھے، دینی واجبات وفرائض کی اولیت کا تحفظ کریں۔ دیوبند کے پیش روؤں کو یہ اندیشہ تھا کہ عوام بآسانی نیکی کے مباح/مستحب اعمال کو واجب اعمال کے ساتھ بدل دیں گے۔ مثال کے طور پر مولانا تھانوی نے مباح رسوم کو ایسے مٹھائیوں سے تشبیہ دی ہے، جسے کھانے سے چھوٹے بچوں کی رال بہنے لگتی ہے۔ اگر چہ کھانے کے دوران یہ متاثر کن طور پر فرحت بخش ہیں، تاہم بعد میں یہ نوجوانوں اور بچوں کی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

مولانا تھانوی والدین اور علماے دین کے درمیان ایک موازنہ کرکے اپنا قیاس جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے  بچوں کی تربیت کریں اور انھیں ایسی خوش ذائقہ لیکن نقصان دہ مٹھائیوں کی بری لت سے بچائیں۔ اسی طرح مسلمان علما کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ عوام کی دینی تربیت کریں، تاکہ وہ ایسے خوش کن رسوم سے بچاو حاصل کر سکیں، جو اس دنیا میں اگر چہ شدید اطمینان فراہم کرتے ہیں، لیکن آخرت میں صرف تکلیف اور عذاب کا سبب نتے ہیں۔ اس تشریح کے مطابق بدعت ایک ایسا ممنوع عمل ہے جس کا ارتکاب دوسروں کو غلط کام کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ فرائیڈ نے اپنے مشکل لیکن معنی خیز کلاسیک Totem and Taboo میں، جو حیران کن طور پر مولانا تھانوی کے افکار کی بازگشت ہے، لکھا ہے: "ایک فرد جو کسی ممنوع عمل کا ارتکاب کرتا ہے، وہ خود ممنوع (taboo) بن جاتا ہے، کیوں کہ اس میں یہ ترغیبی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے اس کی مثال پر عمل کرسکیں۔ اس لیے وہ واقعی 'متعدی' (contagious) ہے، کیوں کہ ہر مثال تقلید پر ابھارتا ہے، اس لیے اس سے احتراز برتنا چاہیے"9۔ بدعت کی بنیاد رکھنے والا یا مبتدع اسی طرح خطرناک ہے، کیوں کہ وہ تقلید پر ابھارنے کے ذریعے ترغیب کی وبا کا اور ممنوع عمل کو باضابطہ بنانے کے خطرے کا حامل ہے۔ ایسے وبائی عامل کو نہ صرف علمی اعتبار سے مغلوب کرنا چاہیے بلکہ اس سے سماجی فاصلہ بھی رکھنا چاہیے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں بدعت دیگر گناہوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ بدعت مذہب کا روپ دھار سکتی ہے۔ مولانا تھانوی نے دعوی کیا کہ بدعات کے مرتکبین ایسا اس مفروضے کی اساس پر کرتے ہیں کہ انھیں لگتا ہے گویا وہ پاکیزہ عبادات میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہی وہ وصف ہے جو بدعت کو دیگر گناہوں سے ممتاز کرتا ہے۔ دیگر بہت سے گناہوں میں گناہ گار کو کم از کم یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی خطا کا ارتکاب کر رہا ہے، جس سے وہ کبھی تو توبہ کر لے گا۔ تھانوی نوحہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے برعکس بدعت کے ساتھ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے مرتکبین کو کبھی توبہ کی توفیق نہیں ہوتی، کیوں کہ وہ اپنی بدعات کو دینی عمل سمجھتے ہیں10۔ علاوہ ازیں چوں کہ یہ اعمال مذہب کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں، اس لیے جو شخص ان میں شریک ہوتا ہے، لوگ اس کی تقوی وپارسائی کی تعریف کرتے ہیں، اور جو کوئی ان اعمال میں سے خود باز رکھتا ہے، سب لوگ اس پر لعنت ملامت کرتے ہیں، اور اسے گمراہ سمجھتے ہیں۔

دراصل بدعت یا جعلی مذہبی رسم کی سب سے بنیادی خاصیت یہی ہے۔ ایسے کسی عمل میں شرکت پر معاشرے کا اصرار اور ہم جولیوں کا دباو اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اگر کوئی رضاکارانہ طور پر اس میں شریک نہیں ہوتا تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی رسوم میں شرکت کی وجہ سماجی اخلاق واقدار کا غیر مرئی دباو ہوتا ہے، نہ کہ خدائی قانون کے تقاضوں کی اتباع۔ شاہ محمد اسماعیل نے بدعت کی جو تعریف کی ہے، اس سے یہ نکتہ بخوبی واضح ہوتا ہے۔ وہ رسم کی تعریف کچھ یوں کرتے ہیں: "ایک غیر واجب عمل جو کسی معاشرے میں اس گہرائی سے جڑ پکڑ لے کہ جو کوئی بھی اسے ترک کرتا ہے، اسے معاشرے کی طرف سے لعنت وملامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں آبا واجداد کے روایات کی تقلید یا دوستوں، عزیزوں اور معاشرے کے دیگر افراد کا اس مقبولیت میں اساسی کردار ہے، جو یہ رسوم حاصل کر لیتے ہیں"11۔اس لیے غیر واجب یا سیدھا سادہ مباح عمل اس جذبے اور پابندی سے انجام پانا شروع ہو جاتا ہے، گویا یہ واجب ہے۔ لیکن ایسا کیسے ہوتا ہے؟ وہ کون سا عمل طریقہ ہے جس کے ذریعے رسوم اس قدر جڑ پکڑ لیتے ہیں؟ کس طرح انفرادی اعمال کسی سماج کی زندگی میں اس قدر پختہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا چھوڑنا پھر ناقابل تصور بن جاتا ہے؟

قانون، تاریخ اور شریعت

اپنی ایک نسبتاً کم معروف لیکن دل چسپ اور عمدہ کتاب 'ایضاح الحق' میں، جو تقریباً پوری کی پوری بدعت کے موضوع کے لیے وقف ہے، شاہ محمد اسماعیل ان سوالات میں سے کچھ کو دل آویز تفصیلات کے ساتھ زیر بحث لائے ہیں12۔ غیر شرعی اعمال کا شرعی اعمال کا روپ دھار لینے کے متعلق ان کے بیانیے میں مرکزی سوال شریعت، سماج اور تاریخ کے درمیان تعلق کا تھا۔ انھوں نے واضح کیا کہ سماج کی زندگی میں تمام رسمیں مخصوص مصالح کے حصول کے لیے داخل ہوتی ہیں۔ علاوہ ازیں کسی سماج کا علمی اشرافیہ ان رسموں کو مخصوص صورت دے دیتا ہے، تاکہ ان سے جڑے مصالح زیادہ ہو جائیں، اور حتی الامکان بآسانی قابل حصول بن جائیں۔ رفتہ رفتہ یہ مخصوص صورتیں عوام کے درمیان رائج اور غالب ہو جاتی ہیں۔ تاہم جیسے یہ صورتیں کسی سماج کی روزمرہ زندگی کا جزو لاینفک بن جاتی ہیں، تو اصلاً جن بنیادی مقاصد ومصالح کے لیے انھیں تشکیل دیا گیا تھا، انھیں بھلا دیا جاتا ہے۔

 لوگوں کی نظر میں ان مخصوص رسموں میں کار فرما اصلی استدلال کھو جاتا ہے، جب ان رسموں کی مُروَّجہ صورت زیادہ شدت سے رائج ہو جاتی ہے13۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صورت اور مقصد میں مکمل تفریق واقع ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر عوام کا سارا جوش وخروش ان رسموں کی ظاہری صورتوں کو تحفظ فراہم کرنے تک محدود ہو جاتی ہے، اگر چہ یہ صورتیں اب ان مصالح کو نہ بھی پورا  کرتی ہوں، جن کے لیے اصلاً‌ انھیں نافذ کیا گیا تھا۔ اس لیے اگر چہ رسم کا مقصد دوسرے ذرائع سے حاصل کیا جا سکتا ہو، لیکن اس کی موجودہ صورت کو ترک نہیں کیا جاتا۔ اور جو بھی شخص موجودہ صورت پر اس کی جزئیات سمیت کاربند نہیں ہوتا، وہ سماج کے غیظ وغضب کا نشانہ بن جاتا ہے۔

شاہ اسماعیل نے میت کے 'ایصالِ ثواب' کے لیے خاندان اور معاشرے کے دیگر افراد کے درمیان طعام کی تقسیم کی مثال دی ہے۔ آج کے جنوبی ایشیا میں تقریباً متفقہ طور پر رائج اس رسم کو 'فاتحہ' کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، کیونکہ اس میں عزیز واقارب، دوست، مشہور اولیا اور علما کی ارواح کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانے پر قرآن مجید کی پہلی سورت الفاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ عام طور پر فاتحہ کسی میت کی وفات کے تیسرے یا چالیسویں دن پڑھی جاتی ہے۔ ان تقریبات کو آج کل علی الترتیب سوم یا چالیسواں کہتے ہیں۔ مشہور اولیا اور علما کے ایصال ثواب کی صورت میں فاتحہ کا انعقاد عام طور پر ان کے یوم پیدائش کے موقع پر کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات کا حجم اور کردار پڑوس کے چند خاندانوں کو جمع کرنے سے لے کر  بھاری بھر کم عوامی اجتماعات تک ہے جو  پورے کے پورے گاؤں اور قصبوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ فاتحہ کی عوامی مقبولیت کے باوجود شاہ اسماعیل اس عمل کو ایک ایسی بدعت سمجھتے ہیں کہ یہ جس طریقے اور مقصد کے لیے ادا کیا جاتا تھا، اس میں انتہائی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ اصل میں اس رسم کا بنیادی مقصد میت کے یتیم ورثا کو صدقے کے طور پر کھانا کھلانا تھا۔ اس صدقے کے ثواب کو میت کی روح کو بخش دیا جاتا تھا۔ چونکہ اسلام میں یتیم ورثا ہی ہر قسم کے صدقات وخیرات کے سب سے زیادہ مستحق ہیں، اس لیے اس موقع پر انھیں خوراک کے سب سے زیادہ مستحق کی حیثیت سے ترجیح دی جاتی تھی۔

شاہ  اسماعیل نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ اس کے دور کے ہندوستانی مسلمان اس رسم کی ایک مخصوص طرز کی ادائیگی سے ایسی شدت کے ساتھ چمٹ گئے ہیں کہ اس کا اصل مقصد اور فائدہ ان کی نظروں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ انھوں نے بتایا  کہ یہی وجہ ہے کہ اب جب میت کے عزیز واقارب کو خوراک دی جاتی ہے، تو کوئی بھی صراحتاً یہ نہیں کہتا: "یہ خوراک میت کے لیے صدقہ ہے" یا "یہ یتیموں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے"۔ اسماعیل نے پیشین گوئی کی  کہ اگر اس عمل کے اصل مقصد کو بیان کرنے کے لیے کوئی ایسی بات کی جائے  تو بہت سے رشتہ دار اور عزیز واقارب اس خوراک کو قبول بھی نہیں کریں گے،14 بلکہ سچ یہ ہے کہ وہ اسے ایک توہین سمجھیں گے۔

 مزید برآں اس رسم کے مجوزہ مقصد یعنی میت کے ایصالِ ثواب کی تکمیل کے لیے کسی دوسرے ذریعے کو مکمل ناقابل برداشت سمجھنا اس بات کو یقینی طور پر ثابت کرتا ہے کہ وہ اس مخصوص صورت کو واجب سمجھتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ اگر کوئی میت کی خاطر ہر قسم کا صدقہ وخیرات کرے تو  سماج اسے تسلیم نہیں کرتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ اس امر پر اصرار کرنے لگے ہیں کہ کھانا بعینہ رسم کے مطابق تقسیم ہونا چاہیے۔ اگر کھانا اس انداز میں تقسیم نہ کیا جائے تو رسم پورا کرنے والا شخص گالم گلوچ اور لعنت ملامت کا نشانہ بن جاتا ہے۔ تاہم اگر یہی شخص میت کی خاطر صدقے میں کچھ بھی خرچ نہ کرے، اور صرف رائج رسم کے مطابق کھانا تقسیم کرے تو اسے کسی قسم کی تنقید یا نفسیاتی دباو کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔شاہ اسماعیل نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ اس لیے میت کے ایصالِ ثواب کے لیے کھانا تقسیم کرنا اب عبادت کی سرگرمی نہیں رہی۔ اس کے بجاے اب یہ ایک رسم بن گئی ہے، جو اپنے اصل غرض اور مقصد سے ہٹ گئی ہے15۔

یہاں پر شاہ اسماعیل کے بیانیے میں شریعت کی تشکیل میں تاریخ کے کلیدی کردار کو نوٹ کرنا اہم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ تاریخ رسموں کو اس انداز میں جواز دیتی ہے کہ پھر ان کو ناجائز ٹھہرانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایصالِ ثواب کے طور پر کھانا دینے کا بنیادی مقصد زمان اور تاریخ میں دفن ہو گیا، بلکہ تاریخ نے رسم کو سنت بنا دیا، سماج کا ایک ایسا ناقابلِ اعتراض عمل، جس کے کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا۔

شاہ اسماعیل کے نزدیک اس رسم کا اصل مقصد اب غیر مرئی ہے جو تاریخ/زمان کی گرد میں دب گیا ہے، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مقصد کچھ وقت کے لیے موجود تھا۔ لیکن شاہ اسماعیل نے ہندوستان میں رائج اس رسم کا عدم جواز کیسے بتایا؟ ایسا انھوں نے تاریخ ہی کی طرف رجوع کرکے کیا۔ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال کی نیو اس بات پر اٹھائی کہ اس رسم کو "تاریخ میں لانے" کا ایک خاص مقصد تھا جو اب باقی نہیں رہا۔  تاریخیت (historicity) پر مبنی  اپنے انداز سے انھوں نے یہ کوشش کی کہ اس رسم کے وقتی جواز کو واضح کریں، تاکہ اس کی ناقابل اعتراض ضرورت کو تہہ وبالا کر سکیں۔ اس عمل میں لاینحل تضاد یہ تھا: تاریخ ہی کے ذریعے شاہ اسماعیل نے وہ ظاہر کیا جسے تاریخ نے اپنی گرد میں چھپا دیا تھا۔ تاریخ کی وجہ سے جائز بننے والے عمل کی طاقت سے نمٹنے کی کوشش میں شاہ اسماعیل نے مزید تاریخ سے کام لیا۔ شریعت اور تاریخ کی یک جائی کے خلاف احتجاج کے باوجود وہ تاریخ سے آگے نہ دیکھ سکے۔

شاہ  اسماعیل کی نظر میں اصلاحی کوشش کا تقاضا ہے کہ حال کے باسیوں کو ان کی ماضی کی ذمہ داری کی یاد دہانی کرائی جائے۔ تاہم انھوں نے اس امر کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ حال پر کوئی دعویٰ جتانے کے لیے ماضی دست یاب نہیں ہوتا اور زمنیت اس قدر غیر یقینی ہے کہ وہ زندگی کو ایک ایسے مسلسل اور بے جوڑ دھاگے کی شکل میں  جو ماضی، حال اور مستقبل کو جوڑتا ہو، تاریخ  میں تحقق  (historcizing) کے امکان کو ناممکن بنا دیتی ہے۔ تاریخ کی شہہ پر عملی زندگی میں انقلاب برپا کرنے کے لیے اپنے اصلاحی پروگرام میں جو نکتہ شاہ اسماعیل کی نظر سے اوجھل رہا وہ یہ تھا، جیسا کہ زاں  لوک نانسی (Jean-Luc Nancy) نے استنباط کیا ہے، کہ تاریخ مابعد الطبیعات کے بجاے سماج یا عوام کا نام ہے۔ نانسی نے یادگار انداز میں لکھا کہ " اگر ہم تاریخ کے  لفظ کو اس کی مابعد الطبیعاتی ، اور اس بنا پر تاریخی مفہوم سے الگ کر سکیں  تو تاریخ بنیادی طور پر نہ تو زمان کے ساتھ ہے، نہ ہی تسلسل اور علیت (causality) کے ساتھ، بلکہ سماج یا  اجتماعی وجود  (being-in-common) ہے16۔

نانسی کی تنبیہ کا مقصد تاریخ کو تاریخیت سے الگ کرنا (dehistoricizing) ہے۔ اس کا مقصد یہ بتانا ہے کہ کسی سماج کا اخلاقی حال (present) اس کے بیان کی جانے والی ماضی سے مربوط نہیں۔ بالفاظ دیگر کسی سماج کا ماضی سیدھے سادے انداز میں حال میں منتقل نہیں ہو سکتا۔ تاہم شاہ اسماعیل کے تاریخی تخیل میں ماضی ایک مطلق اہم اور سیدھا سادہ زمرہ ہے۔ ان کے تصور کی رو سے شریعت اور تاریخ کے درمیان تعلق میں کسی سماج کی اخلاقی زندگی اس کی ماضی کی تجربی تاریخ سے ماخوذ ہونی چاہیے۔ شاہ اسماعیل اس جستجو میں تھے کہ سماج کی ایک معروضی تاریخ کی تشکیل کریں اور پھر اسے بیان کریں۔ اس ماڈل کی بنیاد پر وہ سماج کی اصلاح کے خواہاں تھے۔

 لیکن اس عمل کے تسلسل میں انھوں نے سماج کو نظریاتی طور پر خود آگاہ کرداروں کے ایک گروہ کی صورت میں معروضی بنایا، جو پہلے عملی اعمال کے چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، تاکہ سماج کی مثالی تاریخ سے اپنی وفاداری کا مظاہرہ کریں۔ آج جنوبی ایشیا کے مسلمانوں میں ان رسموں کی مسلسل موجودگی یہ ثابت کرتی ہے کہ سماج اور تاریخ کے درمیان تعلق کا یہ تصور نامعقول ہے، کیونکہ زندگی کو تاریخ سے متعلق اپنی ذمہ داری یاد دلانے سے عملی زندگی میں یکسر تبدیلی کبھی ممکن نہ ہو سکی۔ یہ توقع کبھی پوری نہیں ہو سکتی، اور ایک نامعلوم مستقبل تک ناقابل تکمیل رہےگی17۔

عملی زندگی کو یکسر تبدیل کرنے کی کم وبیش یہی توقع بدعت پر مولانا اشرف علی تھانوی کی فکر کی اساس بنی۔ ہندوستانی مسلمان جن اخلاقی امراض میں مبتلا تھے، ان پر مولانا تھانوی شاہ اسماعیل کے تجزیے اور ان بیماریوں کے علاج کی حکمتِ عملی سے مکمل متفق تھے۔ شاہ اسماعیل کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ عوام میں رائج رسمیں، جو بظاہر عباداتی مقاصد کے لیے ہیں، درحقیقت اپنے مال ودولت کی نمائش اور سماج کے دباو کی وجہ سے ادا کی جاتی ہیں۔ اس استدلال کی وضاحت میں انھوں نے میت کے چالیسویں کی مثال دی ہے۔ اگر چہ بظاہر اس کا مقصد میت کی روح کے لیے ایصالِ ثواب ہے، تاہم اس تقریب پر خرچ کی جانے والی رقم، اساسی طور پر کھانا تیار کرنے اور تقسیم کرنے، کا بنیادی مقصد مال ودولت اور سماجی حیثیت کی عوامی نمائش ہے18۔ اس رسم کے انعقاد کے پیچھے منتظمین کا اصلی مقصد معلوم کرنے کے لیے مولانا تھانوی نے ایک دلچسپ طریقہ تجویز کیا۔

انھوں نے تجویز کیا کہ اس تقریب کے منتظمین کو ترغیب دیں کہ وہ اپنی برادری کے افراد کو برسر عام کھانا کھلانے کے بجاے اسے خفیہ طور پر  یتیموں کو دے دیں یا یہ رقم کسی مسجد یا مدرسے کو صدقہ کر دیں۔ کیونکہ یہ واضح ہے کہ صدقہ جس قدر ضرورت مند اور غریب لوگوں کو دیا جائے گا، اسی قدر وہ میت کے لیے زیادہ اجر وثواب کا موجب ہوگا۔ مولانا تھانوی نے پیش بینی کی کہ اگر یہ تجویز پیش کی جائے تو منتظمین جھٹ سے کہہ دیں گے: سبحان اللہ! کیا آپ ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم اپنا پیسہ خرچ کریں اور کسی کو پتا بھی نہ چلے؟ ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟19 تھانوی کے نزدیک ریا اور سماج کی طرف سے شرم دلانے کا خوف ہی ان تمام اجتماعات کے پیچھے بنیادی محرکات ہیں۔ ایصال ثواب کے لیے اس طریقے کو رد کرنا جس میں مال ودولت کی عوامی نمائش نہ ہو، اس امر کی تائید کرتا ہے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں اس صورتِ حال نے میت کے ایصالِ ثواب کی اصل روح کو مار دیا ہے۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ اس طریقے کا بنیادی مطمح نظر یہ تھا کہ چند زندہ لوگ صحیح نیت کے ساتھ نیک اعمال کرکے اجر وثواب حاصل  کریں  اور پھر اس حاصل کردہ اجر وثواب کو میت کی روح کو بخش دیں۔ لیکن موجودہ صورت میں ان رسموں میں کار فرما بنیادی نیت خراب ہو گئی ہے، اور اس کا مقصد دکھاوا بن گیا ہے۔ اس لیے زندہ لوگ کوئی اجر وثواب کما ہی نہیں رہے کہ اسے آگے میت کو بخش سکیں۔ انھوں نے طنزیہ پیرایے میں اسے یوں بیان کیا ہے: "جب یہاں ہی صفر ہے تو وہاں کیا بخشو گے؟"20۔

یہاں ایک اہم وضاحت کا اندراج ضروری ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی میت کے ایصال ثواب جیسی رسموں کے علی الاطلاق مخالف نہیں تھے۔ اس کے برعکس ان کی نظر میں یہ پاکیزہ اعمال تھے جو اپنی اصل میں قابلِ تعریف تھے۔ لیکن انھیں ان نیتوں پر تحفظات تھے جن سے عوام ان رسموں کو ادا کرتے ہیں۔ خراب رویوں کے شامل ہو جانے  کی وجہ سے یہ جائز اعمال ناجائز بن گئے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کے استدلال میں سماج کی شرعی حدود کی تشکیل میں تاریخ کے کردار کو بھی ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔

 ان علما کی نظر میں اخلاقی بگاڑ نے ان پاکیزہ اعمال پر ایک ایسی تہہ چڑھا دی ہے جسے عوام دیکھ نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام بنا سوچے سمجھے اس حد تک ان رسموں کی ان صورتوں سے جڑ گئے ہیں جو تاریخ کی پیداوار ہیں کہ وہ ان صورتوں کے اصلی مقاصد ان کے ذہن سے بالکل فراموش ہو گئے ہیں۔ نتیجتاً نیک اعمال کے ارتکاب کی روپ میں وہ ایک ایسی عوامی فضا تشکیل دے رہے ہیں جو اخلاقی بگاڑ کی کُشتہ ہے۔ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی کی نظر میں اصلاحی کاوشوں کا بنیادی مقصد عوام کو مذہب کی منظور کردہ شرعی حدود اور ان رائج رسموں کے درمیان، جو روزمرہ زندگی کی عادات سے پیدا ہوئے ہیں، بے جوڑ پن دکھا کر انھیں بیدار کرنا ہے۔ذرا  مختلف الفاظ  میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل اور مولانا تھانوی اپنے کردار کو اس طرح دیکھ رہے تھے کہ وہ تاریخ میں مداخلت کرکے اس کے دھارے کو بدل دیں۔ وہ ان رائج عادات کو روایت کی حدود سے تجاوز ثابت کرکے انھیں یکسر بدلنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کون سا فقہی تصور اور تعبیر وتشریح کا منہج تھا جس نے سماجی اور مذہبی اصلاح کے اس پروگرام کو سہارا فراہم کیا، اور اس کی رہ نمائی کی؟


حواشی

  1.  دیکھیے: اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ اشرفیہ، 1958) اور شاہ محمد اسماعیل، ایضاح الحق (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1976)۔
  2.  میں نے ارتفاقات کا ترجمہ "تہذیب کو سہارا فراہم کرنے والے" کے بجاے "اخلاقی اصلاح کے ذرائع" کا زیادہ بامحاورہ ترجمہ کیا، تاکہ شاہ ولی اللہ کی فکر کو مغرب کی نوآبادیاتی تواریخ اور ان کی تہذیب کی اصطلاح سے الگ کروں۔ دیکھیے: طلال اسد، Conscripts of Western Civillization?، مدون سی گیلے، Dialectical Anthropology: Essays in Honor of Stanley Diamond، جلد 1 (گینس ویلے: یونیورسٹی پریسز آف فلوریڈا، 1992)، 333 – 5۔ علاوہ ازیں میرے خیال میں اس کتاب میں شاہ صاحب کے مقاصد کے اعتبار سے اخلاقی اصلاح کے لیے کونیاتی، رسمیاتی، سماجی اور معاشی عمل مرکزی حیثیت رکھتا ہے، بالخصوص جس انداز میں وہ ارتفاقات کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر چہ اس بحث میں، میں نے حجۃ اللہ البالغہ کے تراجم خود کیے ہیں، اور اگر چہ مجھے ارتفاقات کی اصطلاح کے ترجمے پر مارسیا ہرمینسن کے ساتھ معمولی اختلاف بھی ہے، تاہم میں اس کتاب کے عمدہ انگریزی ترجمے کے لیے ان کا مرہونِ منت ہوں۔ دیکھیے: مارسیا ہرمانسن، The Conclusive Argument from God: Shah Wali Allah of Delhi’s Hujjat Allah Al-Balighah (لائیڈن: ای جے برِل، 1996)۔
  3.  نوربرٹ ایلیاس، The Civilizing Process: Sociogenetic and Psychogenetic Investigations (کیمبرج: ویلے بلیک ویل، 2000)۔
  4.  شاہ ولی اللہ، حجة الله البالغة، جلد 1 (بیروت: دار الجیل، 2005)، 100۔ آنے والے حوالے بھی اس اشاعت سے ہیں، جو متن میں بین القوسین دیے گئے ہیں۔
  5.  طلال اسد، Genealogies of Religion: Discipline and Reasons of Power in Christianity and Islam (بالٹی مور: جونز ہاپکنز یونیورسٹی پریس، 1993)، 290۔ جیسا کہ اسد نے یادگار انداز میں لکھا: "میرا بنیادی اشکال یہ ہے کہ سماجی زندگی آرٹ کی کسی کاوش کے مانند نہیں ہو سکتی، اس لیے کہ سماجی زندگی اپنی مجموعی حیثیت میں پہلے سے موجود مادے سے باہر تشکیل نہیں دی جا سکتی، جس طرح کہ آرٹ کے کام تشکیل دیے جا سکتے ہیں۔ زندگی ضروری بالذات ہے۔ صرف اس کا وہ جز جسے بیانیے میں بدل دیا گیا، اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ اسے ایک آرٹسٹ کی کہانی کی طرح 'بنایا' جا سکتا ہے"۔
  6.  ملاے اعلیٰ یا خدا کے مقرب ترین فرشتوں کی مجلس، حظیرۃ القدس یا وہ مقدس مقام جہاں فرشتوں کی مجلس میں سب سے بلند مقام والے فرشتے اور انفرادی ارواح روح اعظم (highest spirit) سے ملتے ہیں، ایسی اصطلاحات ہیں جنھیں شاہ ولی اللہ نے اپنی کتاب میں بار بار استعمال کیا ہے۔ یہ اصطلاحات خدا کے تشریعی نظام اور انسانوں کی اخروی نجات سے متعلق تدبیر کے کونیاتی امور پر دلالت کرتی ہیں۔ ان اصطلاحات کی مزید وضاحت کے لیے دیکھیے: ہرمانسن، Conclusive Argument from God، 46 – 47۔
  7.  سعید احمد پالن پوری، رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغہ، ج 1 (دیوبند، مکتبۂ حجاز، 2000)۔
  8.  ایضاً، 509۔
  9.  سگمنڈ فرائڈ، Totem and Taboo: Resemblances between the Psychic Lives of Savages and Neurotics (نیو یارک: بارنس اینڈ نوبل، 2005)، 32۔
  10.  اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، ج 9 (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1984)، 149۔
  11.   اسماعیل، ایضاح الحق، 94۔
  12.  یہ کتاب اصلاً فارسی زبان میں لکھی گئی ہے، اور غالباً شاہ اسماعیل نے اپنی زندگی کے آخری دور میں لکھی ہے، کیونکہ یہ نامکمل رہ گئی ہے۔ بعد میں اسے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ مجھے اصل فارسی نسخے کا سراغ نہیں مل سکا اور اس لیے میں نے معراج محمد بارق کے اردو ترجمے پر انحصار کیا ہے۔
  13.  اسماعیل، ایضاح الحق، 93 – 95۔
  14.   ایضاً۔
  15.  ایضاً۔
  16.  جین-لوک نانسی، Finite History، مُدَوِّن: ڈیوڈ کیرول، The States of “Theory: History, Art, and Critical Discourse (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 1990)، 149۔
  17.  یہاں پر میرا تجزیہ انندا ابیسیکارا سے متاثر اور اس کی فکر کے مرہونِ منت ہے۔ دیکھیے: انندا ابیسیکارا، The Politics of Postsecular Religions: Mourning Secular Futures (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2008، 33 – 83۔
  18.  اشرف علی تھانوی، وعظُ الدین الخالص (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2001)، 25۔
  19.   ایضاً۔
  20.  ایضاً۔


فروری ۲۰۲۳ء

ٹی ٹی پی کا بیانیہ اور افغان حکومت کی سرپرستیمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۷)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۳)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
صنف وجنس اور اس میں تغیر (۲)مولانا مشرف بيگ اشرف 
پیغامِ پاکستان اور میثاقِ وحدتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مولانا گیلانی اور شیخ اکبر ابن عربی (۱)مولانا طلحہ نعمت ندوی 
صاحبِ تعبیر کے تصور ِدین میں تذبذبحسنین خالد 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۴)ڈاکٹر شیر علی ترین 

ٹی ٹی پی کا بیانیہ اور افغان حکومت کی سرپرستی

محمد عمار خان ناصر

گذشتہ دنوں پاکستان کے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء نے ’’پیغام پاکستان’’ کے عنوان سے  تحریک طالبان پاکستان کے   ریاست مخالف موقف کو رد کرتے ہوئے  ایک متفقہ  اعلامیہ جاری کیا۔ اسی موقع پر ممتاز  عالم دین مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے   طالبان کے راہنما مفتی نور ولی صاحب کے ساتھ ہونے والی اپنی گفتگو کی تفصیلات بھی   بیان کیں اور  واضح کیا کہ    انھوں نے  افغانستان میں  امریکا کے خلاف جنگ  کے شرعی جواز کا جو فتویٰ دیا تھا، اس سے پاکستان میں  نفاذ شریعت کے لیے ہتھیار اٹھانے کا جواز  کیوں  اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

امریکی حملے کی مزاحمت کے لیے جناب مولانا تقی عثمانی صاحب اور دیگر دیوبندی علماء نے پاکستانی قبائلی علاقوں کی مختلف تنظیموں کی "جہاد" میں شرکت کو صرف جائز نہیں کہا بلکہ اس کی ترغیب دی تھی۔ اس فتوے سے کئی  قانونی، فقہی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا ہوئی تھیں اور  اسی سے تحریک طالبان پاکستان نے پاکستانی ریاست کے خلاف جہاد کا جواز بھی اخذ کیا تھا۔  اس سارے معاملے  پر ہم نے اس دور میں تفصیلی اظہار خیال کیا تھا۔  بہرحال موجودہ تناظر میں، ٹی ٹی پی کو "مسلمانوں کے خلاف جنگ میں کفار کا ساتھ دینے" کی بنیاد پر پاکستانی ریاست اور امریکا کا حکم ایک قرار دینے کا استدلال دستیاب نہیں ہے اور وہ دراصل فاٹا میں اپنا اقتدار قائم کرنا چاہتے ہیں جو ریاست پاکستان کے تابع نہ ہو۔ اس کے لیے وہ دوبارہ اسلام اور جمہوریت اور شریعت وغیرہ کا حوالہ دے کر پاکستانی مذہبی طبقات کی ہمدردی لینا چاہتے ہیں۔ اس سیاق میں تمام مکاتب فکر کے علماء کا ایک واضح اور دوٹوک موقف پیش کرنا اور مفتی صاحب کا نور ولی صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ پر لے آنا انتہائی قابل تحسین ہے۔ اس کی مکمل تائید کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ  ہمیں اس سوال پر بھی معروضی انداز میں  غور کرنے کی ضرورت ہے کہ افغان حکومت، تحریک طالبان پاکستان کی سرپرستی کیوں کر رہی ہے؟ اس پر مختلف تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔ مثلا" یہ کہ دونوں کا نظریہ مشترک ہے، دونوں نے امریکا کے خلاف جنگ اکٹھے لڑی ہے، تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں کافی منظم ہے، اور اس وقت أفغانستان کی حکومت داخلی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہے ۔ یہ سب تجزیے جزوی طور پر درست  اور  قابل فہم ہیں، لیکن اس کا ایک اور پہلو سب سے اہم ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

پاکستان اور افغانستان دو، قومی ریاستیں ہیں جن کے مابین، دنیا کی بیشتر قومی ریاستوں کی طرح، تاریخی طور پر کئی حوالوں سے کشمکش موجود ہے۔ ایسی صورت حال میں ہر ریاست کا دوسری ریاست میں اپنے مفاد کے مطابق مختلف سیاسی یا غیر سیاسی عناصر کو تقویت پہنچانا یا ان کی سرپرستی کرنا ایک واضح سی بات ہے۔ چنانچہ جیسے پاکستانی ریاست کی یا یہاں کے مختلف طبقات کی خواہش اور کوشش رہی ہے اور اب بھی ہے کہ افغانستان میں طالبان یا ان کی مخالف سیاسی قوتیں غالب ہوں، اسی طرح طالبان کی بھی فطری طور پر خواہش ہوگی کہ افغانستان سے متصل علاقوں میں ان کے ہم نظریہ عناصر طاقت میں ہوں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک وقتی مسئلہ نہیں ہے جس کو کسی فوری نوعیت کی حسن تدبیر سے حل کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جو موجود رہے گا اور اس کو اسی طرح طویل مدتی پالیسی کا موضوع بنانا پڑے گا جیسے پاک بھارت تعلقات کو بنایا جاتا ہے۔ تقسیم ہند سے ایک تاریخی مسئلے کے سلجھ جانے کی جو خوش فہمی ہمارے قائدین کو تھی، اس کو تو اب واضح کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ افغانستان کا مسئلہ بھی اپنی نوعیت میں ویسا ہی ہے، بلکہ کئی حوالوں سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ مثلا" بھارت کے ساتھ ہمدردانہ رشتہ رکھنے والے عناصر پاکستان میں نہ ہونے کے برابر ہیں، لیکن افغانستان کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے علاوہ بھی جو پیچیدگیاں ہیں، ان کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

ہمارے جس طرح کے جغرافیائی اور سیاسی چیلنجز ہیں، افسوس کہ سیاسی فہم اور دیرپا نبردآزمائی کی صلاحیت اس سے بہت ہی کم ہے اور اس فاصلے  میں مسلسل قومی حماقتوں کی وجہ سے اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۷)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(391) استمع بہ

استمع کا معنی کان لگا کر غور سے سننا ہے۔یہ عام طور سے کسی صلے کے بغیر راست مفعول بہ کے ساتھ آتاہے۔ جیسے: یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ (الاحقاف: 29)یا پھر کبھی لام آتا ہے، جیسے: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَہُ (الاعراف: 204) یہ لام تاکید کے لیے آتا ہے۔ درج ذیل آیت میں یستمعون کے ساتھ بہ آیا ہے۔ اس لیے یہاں سننے کی غرض مراد ہے۔ معنوی لحاظ سے بھی یہ بات تو قابل ذکر نہیں ہے کہ وہ کیا سنتے ہیں، ظاہر ہے جو کلام سنایا جارہا ہے وہی سنتے ہیں، اس لیے بھی کہ وہ خود کان لگاکر توجہ سے سنتے ہیں۔ قابل ذکر بات دراصل یہ ہے کہ وہ کس غرض سے سنتے ہیں۔  بتایا جارہا ہے کہ وہ یہ نہ سمجھیں کہ ان کی خفیہ غرض اللہ کے علم میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ غرض اللہ کے علم میں  اچھی طرح سے ہے۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا یَسْتَمِعُونَ بِہِ إِذْ یَسْتَمِعُونَ إِلَیْکَ۔ (الاسراء: 47)

”ہم خوب جانتے ہیں جیسا وہ سنتے ہیں جس وقت کان رکھتے ہیں تیری طرف“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ہم خوب جانتے ہیں کہ وہ غور سے کیا سنتے ہیں؟ جب یہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”ہمیں معلوم ہے کہ جب وہ کان لگا کر تمہاری بات سنتے ہیں تو دراصل کیا سنتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ لوگ آپ کی طرف کان لگا کر سنتے ہیں تو کیا سنتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

مذکورہ بالا ترجموں میں (ب) کا حق ادا نہیں کیا گیا، جب کہ درج ذیل ترجموں میں کیا گیا ہے:

”ہم خوب جانتے ہیں جس لیے وہ سنتے ہیں جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس نیت سے یہ سنتے ہیں ہم اسے خوب جانتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جس غرض سے وہ لوگ اسے سنتے ہیں ان (کی نیتوں) سے ہم خوب آگاہ ہیں، جب یہ آپ کی طرف کان لگائے ہوئے ہوتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(392) مُبْصِرَۃً

مبصرۃ کا مطلب روشن اور واضح ہے۔ درج ذیل آیت میں عام طور سے یہی ترجمہ کیا گیا ہے:

وَجَعَلْنَا اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ آیَتَیْنِ فَمَحَوْنَا آیَةَ اللَّیْلِ وَجَعَلْنَا آیَةَ النَّہَارِ مُبْصِرَۃً۔ (الاسراء: 12)

”دیکھو، ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو ہم نے بے نور بنایا، اور دن کی نشانی کو روشن کر دیا“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے دن اور رات کو دو نشانیاں بنایا ہے رات کی نشانی کو تاریک بنایا اور دن کی نشانی کو روشن“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے رات اور دن کو اپنی قدرت کی نشانیاں بنائی ہیں، رات کی نشانی کو تو ہم نے بے نور کردیا ہے اور دن کی نشانی کو روشن بنایا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے رات اور دن کو دو نشانیاں بنایا، سو ہم نے رات کی نشانی تو دھندلی کردی اور ہم نے دن کی نشانی کو روشن بنایا“۔ (امین احسن اصلاحی، دھندلی کے بجائے بے نور ہونا چاہیے۔)

درج ذیل آیت میں بھی مبصرۃ کا ترجمہ کھلی ہوئی نشانی یا روشن نشانی کرنا مناسب تھا، لیکن بہت سے مترجمین نے اس سے مختلف اور پرتکلف راہیں اختیار کیں۔

وَآتَیْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَۃً فَظَلَمُوا بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالْآیَاتِ إِلَّا تَخْوِیفًا۔ (الاسراء: 59)

”ثمود کو ہم نے علانیہ اونٹنی لا کر دی اور اُنہوں نے اس پر ظلم کیا، ہم نشانیاں اسی لیے تو بھیجتے ہیں کہ لوگ انہیں دیکھ کر ڈریں“۔ (سید مودودی، مبصرۃ کا مطلب علانیہ نہیں ہوتا ہے)

”اور ہم نے ثمود کو ناقہ دیا آنکھیں کھولنے کو تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم ایسی نشانیاں نہیں بھیجتے مگر ڈرانے کو“۔ (احمد رضا خان، یہ بھی پرتکلف مفہوم ہے۔)

”ہم نے ثمودیوں کو بطور بصیرت کے اونٹنی دی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا ہم تو لوگوں کو دھمکانے کے لیے ہی نشانیاں بھیجتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی، اونٹنی کا بطور بصیرت ہونا پرتکلف بات ہے)

”اور ہم نے قوم ثمود کو ان کی خواہش کے مطابق اونٹنی دے دی جو ہماری قدرت کو روشن کرنے والی تھی لیکن ان لوگوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم تو نشانیوں کو صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی، قدرت کو روشن کرنے کی بات بھی پرتکلف ہے۔)

”اور ہم نے قومِ ثمود کو ایک (خاص) اونٹنی دی جوکہ روشن نشانی تھی۔ تو انہوں نے اس پر ظلم کیا اور ہم نشانیاں صرف ڈرانے کے لیے بھیجتے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی، یہ ترجمہ موزوں ہے۔)

(393) صدق جب اضافت کے ساتھ ہو

صدق، کذب کی ضد ہے اور اس کا معنی سچ ہے۔ صدق، سوء کی ضد بھی ہے یعنی اچھائی کے معنی میں۔ کہا جاتا ہے، رجل صدق ورجل سوء۔ اسی طرح صدق خوبی اور کمال کے معنی میں بھی ہوتا ہے۔ خاص طور سے لفظ صدق جب اضافت کے ساتھ آتا ہے تو اس موقع پر اس چیز کی خوبی بیان کرنا عام طور سے مقصود ہوتا ہے۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ ہر اچھے کام کو خواہ وہ خوبی ظاہری ہو یا باطنی، صدق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ویعبر عن کل فعل فاضل ظاہرا وباطنا بالصدق۔ (المفردات)

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: ویضاف شیء إلی (صدق) بمعنی مصادفتہ للمأمول منہ المرضی وأنہ لا یخیب ظن آمل۔کسی چیز کی اضافت صدق کی طرف کی جاتی ہے، یہ بتانے کے لیے کہ وہ خواہش و امید کے عین مطابق ہے، وہ امید پر پانی پھیرنے والی نہیں ہے۔ (التحریر والتنویر)

زبیدی نے صدق کی بہت اچھی وضاحت کی ہے کہ ہر وہ چیز جس کی نسبت صلاح اور خیر کی طرف ہو اس کی اضافت صدق کی طرف کی جاسکتی ہے۔

وَمن الْمجَاز: الصِّدقُ، بالکَسْر: الشِّدّۃ۔ وَفِی العُباب: کُلُّ مَا نُسِبَ الی الصّلاح والخَیْر أُضیف الی الصِّدْق۔ فَقیل: هوَ رَجُلُ صِدْقٍ، وصَدیقُ صِدْق، مُضافَیْن، ومَعْناہ: نِعْمَ الرّجُلُ هُوَ، وَکَذَا امرأۃُ صِدْقٍ فَإِن جعلتہ نَعْتاً قلت: الرجل الصَّدْق بفَتْح الصّاد وَہِی صَدْقة کَمَا سَیَأْتِی، وَکَذَلِکَ ثوبٌ صَدْقٌ۔ وخِمارُ صِدْق حَکَاہُ سیبَوَیْہ۔ (تاج العروس)

اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل آیتوں میں صدق کا ترجمہ خوبی اور کمال سے کرنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا، اور اگر وہاں سچ اور راستی کا محل نہ ہو سچ اور راستی سے ترجمہ کرنا پرتکلف معلوم ہوتا ہے۔

(394)  مبوأ صدق کا ترجمہ

وَلَقَدْ بَوَّأْنَا بَنِی إِسْرَاءِیلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ۔ (یونس: 93)

”اور جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو پوری جگہ دینا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”ہم نے بنی اسرائیل کو بہت اچھا ٹھکانا دیا“۔ (سید مودودی)

”اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو عزت کی جگہ دی“۔ (احمد رضا خان)

اس آیت میں عام طور سے لوگوں نے اچھا ٹھکانا اور عزت کی جگہ جیسا ترجمہ کیا ہے۔ یہی اس تعبیر کا حق ہے۔

بہت کم لوگوں نے یہاں صدق کا ترجمہ سچ یا راستی کیا ہے، جیسے:

”اور البتہ تحقیق جگہ دی ہم نے بنی اسرائیل کو جگہ دینا راستی کا“۔ (شاہ رفیع الدین)

البتہ قرآن کے دیگر مقامات پر بہت سے مترجمین سے اس کی رعایت نہیں ہوسکی اور انھوں نے سچ اور راستی ترجمہ کیا۔

(395) قدم صدق کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں قدم صدق سے مراد اچھا اور انچا مقام و مرتبہ ہے۔

وَبَشِّرِ الَّذِینَ آمَنُوا أَنَّ لَہُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۔ (یونس: 2)

”اور اہل ایمان کو بشارت پہنچادو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا مرتبہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو۔ کہ ان کے لیے ان کے پروردگار کے ہاں اچھا مقام و مرتبہ ہے“۔ (محمد حسین نجفی)

مذکورہ بالا ترجمے بہتر ہیں۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں صدق کا ترجمہ سچ کیا گیا ہے، جس سے مفہوم واضح نہیں ہوپاتا ہے اور پر تکلف تاویل کی ضرورت پڑتی ہے۔

”اور خوش خبری سنادے جو کوئی یقین لاوے کہ ان کو ہے پایہ سچا اپنے رب کے یہاں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور ایمان والوں کو خوشخبری دو کہ ان کے لیے ان کے رب کے پاس سچ کا مقام ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں ان کا سچا درجہ ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو مان لیں ان کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اُن کے رب کے پاس سچی عزت و سرفرازی ہے؟“۔ (سید مودودی، سچی کی ضرورت نہیں، عزت و سرفرازی سے پورا مفہوم ادا ہورہا ہے۔)

زمخشری لکھتے ہیں: وإضافتہ إلی صدق دلالة علی زیادۃ فضل، وأنه من السوابق العظیمة۔

(396) مدخل صدق اور مخرج صدق کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں مدخل صدق اور مخرج صدق سے مراد خوش اسلوبی سے داخل ہونا اور خوش اسلوبی سے نکلنا مراد ہے۔

وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِی مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِی مُخْرَجَ صِدْقٍ۔ (الاسراء: 80)

”اور کہو کہ اے پروردگار مجھے (مدینے میں) اچھی طرح داخل کیجیو اور (مکے سے) اچھی طرح نکالیو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور دعا کیا کریں کہ اے میرے پروردگار مجھے جہاں لے جا اچھی طرح لے جا اور جہاں سے نکال اچھی طرح نکال“۔ (محمد جوناگڑھی)

بعض لوگوں نے سچائی کے ساتھ داخل کرنا اور سچائی کے ساتھ نکالنا ترجمہ کیا ہے، جو زیادہ موزوں نہیں ہے:

 ”اور کہہ اے رب پیٹہا مجھ کو سچا پیٹہانا اور نکال مجھ کو سچا نکالنا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور دعا کرو کہ پروردگار، مجھ کو جہاں بھی تو لے جا سچائی کے ساتھ لے جا اور جہاں سے بھی نکال سچائی کے ساتھ نکال“۔ (سید مودودی)

”اور یوں عرض کرو کہ اے میرے رب مجھے سچی طرح داخل کر اور سچی طرح باہر لے جا“۔ (احمد رضا خان)

”اور کہیے اے میرے پروردگار! مجھے (ہر جگہ) سچائی کے ساتھ داخل کر اور نکال بھی سچائی کے ساتھ“۔ (محمد حسین نجفی)

(396) مقعد صدق کا ترجمہ

إِنَّ الْمُتَّقِینَ فِی جَنَّاتٍ وَنَہَرٍ.  فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِیکٍ مُقْتَدِرٍ۔ (القمر: 54، 55)

”نافرمانی سے پرہیز کرنے والے یقینا ً باغوں اور نہروں میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ، بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب“۔ (سید مودودی)

”سچ کی مجلس میں عظیم قدرت والے بادشاہ کے حضور“۔ (احمد رضا خان)

”(یعنی) پاک مقام میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بارگاہ میں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”راستی اور عزت کی بیٹھک میں قدرت والے بادشاہ کے پاس“۔ (محمد جوناگڑھی)

”صداقت و سچائی کے محل میں بڑی عظیم قدرت والے بادشاہ (خدا) کے حضور میں (مقرب ہوں گے)“۔ (محمد حسین نجفی)

”سچی بیٹھک میں نزدیک پادشاہ کے جس کا سب پر قبضہ“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”ایک عمدہ مقام میں قدرت والے بادشاہ کے پاس“۔ (اشرف علی تھانوی)

تفسیر بیضاوی میں ہے: فِی مَقْعَدِ صِدْقٍ: فی مکان مرضی۔

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: فمقعد صدق، أی مقعد کامل فی جنسہ مرضی للمستقر فیہ فلا یکون فیہ استفزاز ولا زوال. (التحریر والتنویر)

(397) لسان صدق کا ترجمہ

وَجَعَلْنَا لَہُمْ لِسَانَ صِدْقٍ عَلِیًّا۔ (مریم: 50)

”اور ان کو سچی ناموری عطا کی“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے لیے سچی بلند ناموری رکھی“۔ (احمد رضا خان)

یہاں سچی نام وری سے زیادہ مناسب ذکر جمیل ہے، جیسا کہ درج ذیل ترجموں میں ہے:

 ”اور ان کا ذکر جمیل بلند کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے ان کے ذکر جمیل کو بلند درجے کا کر دیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

طاہر بن عاشور لکھتے ہیں: الصدق: بلوغ کمال نوعہ، کما تقدم آنفا، فلسان الصدق ثناء الخیر والتبجیل۔ (التحریر والتنویر)

وَاجْعَلْ لِی لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْآخِرِینَ۔ (الشعراء: 84)

”اور بعد کے آنے والوں میں مجھ کو سچی ناموری عطا کر“۔ (سید مودودی)

”اور میری سچی ناموری رکھ پچھلوں میں“۔ (احمد رضا خان)

”اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور پچھلے لوگوں میں میرا ذکر نیک (جاری) کر“۔ (فتح محمد جالندھری)

تفسیر جلالین میں ہے: (وَاجْعَلْ لِی لِسَان صِدْق) ثَنَاء حَسَنًا۔

(جاری)


مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۳)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: ایک روایت میں آیا ہے کہ کھیتی کا آلہ دیکھ کر آپﷺ نے فرمایاکہ جس گھر میں یہ آجائے، وہ ذلیل ہو جاتاہے۔1

عمارناصر: اس کا ایک خاص تناظر ہے جو بعض دوسری روایتوں میں زیادہ وضاحت سے آیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ صحابہ کی جماعت پر جو جہاد کی ایک ذمہ داری ڈالی گئی تھی، اس میں یہ کھیتی باڑی سے اشتغال خاص طورپر رکاوٹ بن سکتا تھا۔ تبوک میں آپ نے دیکھا کہ نکلنا کتنا دشوار تھا اور منافقین نے تو حیلے بہانے سے جان ہی چھڑا لی۔ اس تناظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپﷺ نے یہ کہا کہ میرے بعد جب تک تم جہاد کرتے رہوگے، غلبہ پاؤ گے اور جب تم گایوں کی دم پکڑ لو گے اور کھیتی باڑی میں مشغول ہو جاو گے یعنی جہاد ترک کر دو گے تو عزت اور سرفرازی سے محروم ہو جاو گے۔ تو یہ اس کا اصل تناظر ہے، ایسا نہیں کہ اس میں فی نفسہ کاشت کاری کی کوئی مذمت کی گئی ہے۔

مطیع سید: مزارعت کے بارے میں صحیح بخاری میں دونوں طرح کی روایات ہیں 2۔ 3یہ دونوں باہم مخالف ہونے کے باوجود کیسے صحیح ہو سکتی ہیں؟

عمار ناصر: صحیح ہونے کا مطلب تو محدثین کے نزدیک یہ ہے کہ سند کے اعتبار سے دونوں ثابت ہیں۔ جہاں تک مضمون میں کسی ظاہری ٹکراو کا تعلق ہے تو اس سے روایت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ وہ سوال پھر روایت کی تشریح اور تطبیق سے متعلق ہو جاتا ہے۔ جمہور اہل علم کا کہنا ہے کہ مزارعت میں فی نفسہ قباحت نہیں ہے۔ ممانعت یا تو بعض خاص شکلوں کی، کی گئی تھی جن میں خرابی پائی جاتی تھی۔ مثلاً‌ یا تو آپﷺ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس طرح کے معاملوں پر بعد میں جھگڑا ہو جاتاہے، اس پہلو سے ممانعت فرمائی، یا یہ کہ آپﷺ نے اس بات کو زیادہ ترجیح دی کہ مالک اگر خود زمین کو کاشت نہیں کرناچاہ رہا تو پھر اپنے کسی بھائی کو دےدے تاکہ وہ کاشت کر لے اور پھر اس سے فصل میں حصہ وصول نہ کرے۔ یہ دو تین توجیہات ہیں۔ البتہ اس میں امام ابو حنیفہ کی رائے مختلف ہے، وہ اس کو فی نفسہ درست نہیں سمجھتے۔

مطیع سید: امام صاحب کس بنیاد پر اس کو فی نفسہ درست نہیں سمجھتے؟

عمار ناصر: ان کا استدلال یہ ہے کہ اس میں چونکہ زمین کی فصل کا ہی ایک حصہ بطور کرایہ طے کیا جاتا ہے اور اس کی مقدار معلوم نہیں تو اس طرح ایک طرح کا غرر کا پہلو آ جاتا ہے۔ بعض روایات میں اس طرح کے معاملے کے لیے ربا کی تعبیر بھی آئی ہے۔

مطیع سید: زمین کرایے پر دینے پر اختلاف ہے۔ صحابی فرماتے ہیں کہ حضرت ابو بکر اور امیر معاویہ کے دور تک ہم کرایے پر دیتے رہے ہیں۔ جب حضرت معاویہ نے منع کر دیا تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے اعتراض کیا کہ اگر چہ وہ اس بات کا برامانیں لیکن یہ ایسا ہی ہے کہ ہم کرایے پر دیتے آئے ہیں۔4 اس کی ممانعت کیا کسی انتظامی بنیادپر کی گئی؟

عمارناصر: شاید وہ روایتیں جن میں مزارعت سے منع کیا گیاہے، ان کے سامنے وہ ہوں گی۔

مطیع سید: زمین کرایے پر نہیں دی جاسکتی، لیکن سونے چاندی کے عوض دی جاسکتی ہے۔ بات تو ایک ہی بن جاتی ہے۔

عمارناصر: نہیں، کرایے میں تھوڑی سی نوعیت بدل جاتی ہے۔ آ پ زمین کسی کو دیں دیں اور اس کی فصل ہی کا ایک حصہ بطور کرایہ لیں تو اس کو مزارعت کہتے ہیں۔ آپ فصل نہ لیں، بلکہ الگ سے سونا یا چاندی کی صورت میں کرایہ وصول کر لیں تو یہ مزارعت نہیں ہے۔ ان دونوں میں فرق ہے۔ پہلی صورت میں تو آپ کو پتہ نہیں کہ آپ نے کتنا کرایہ وصول کرنا ہے، یعنی فصل کی مقدار معلوم نہیں جو آپ کو کرایے کے طور پر ملے گی۔ جو فصل ہوگی، اسی میں آپ تناسب طے کر سکتے ہیں۔ جبکہ سونے چاندی کی صورت میں آپ کو ملنے والی رقم پہلے سے متعین ہوتی ہے۔

مطیع سید: جیسے ہمارے ہاں ایک ایکڑ چالیس پچاس ہزار سالانہ کرایے پر دیتے ہیں۔

عمارناصر: جی، اس کے جواز کے سب قائل ہیں۔

مطیع سید: حمیٰ کون سا علاقہ ہےجسے کہا گیاکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے؟5

عمارناصر: حمیٰ کا مطلب ممنوعہ علاقہ ہو تا ہے، یعنی جس کو کسی مقصد کے لیے مخصوص کر لیا جائے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کسی علاقے کو اس طرح کسی شخص یا کسی مقصد کے لیے مخصوص قرار دینے کا اختیار صرف اللہ اور رسول کو ہے، لوگ اپنے طور پر یہ تخصیص نہیں کر سکتے۔ عرب میں یہ ہوتاتھا کہ یہ حق سر دار کو دیاجاتا تھا کہ وہ کسی خاص جگہ کے متعلق کہہ دیتا تھا کہ یہ میری ہے، اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوگا۔ جب ریاست بن گئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ اب یہ حق صرف ریاست کے پاس ہوگا۔ یعنی مقامی سرداروں کو جو حق تھا، وہ اب ریاست کو منتقل ہو گیا ہے۔

مطیع سید: اسے وقف کہہ سکتے ہیں؟

عمارناصر: نہیں، یہ وقف نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے انتظامی طور پر کسی مقصد کے لیے علاقے کو خاص کر دینا۔ اس کو بعد میں بدلا بھی جا سکتا ہے۔ وقف کی نوعیت مستقل ہوتی ہے، اس کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

مطیع سید: خیاِرِ بیع میں حدیث تو اختیار دیتی ہے کہ جب تک مجلس بر خاست نہیں ہوجاتی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے یہ سودا منظور نہیں ہے۔6 لیکن احناف کہتے ہیں کہ جب عقد ہو گیا اور آپ نے کہہ دیا کہ میں نے یہ چیز لے لی توپھر آپ کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

عمارناصر: بعض احناف تو اس اختیار کو بالکل رد کر دیتے ہیں لیکن امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ اصل میں قانون کا بیان نہیں ہے۔ یہ اچھے برتاؤ کی ترغیب ہے۔ یعنی اگر چہ عقد ہو چکا ہے، لیکن شریعت آپ کو ترغیب دیتی ہے کہ اسی مجلس میں اگر دونوں میں کوئی فرق چاہے تو معاملے کو ختم کر سکتا ہے۔

مطیع سید: انہی پہلوؤں سے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ بعض اوقات حدیث کے ظاہرپر عمل کرنے میں آسانی ہوتی ہے لیکن فقہا خوامخواہ اس کی گہرائی میں جاکر بات کو الجھا دیتے ہیں۔

عمارناصر: جی، بعض جگہ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نے تر اور خشک کھجور کا آپس میں تبادلہ کرنے سے منع فرمایا اور صرف عرایا میں اس کی اجازت دی۔7 یہ عرایا کیا چیز ہے؟

عمارناصر: عرایا کی تشریح میں فقہا کی مختلف تشریحات ہیں۔ امام مالک اس صورت یہ متعین کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے باغ کا کوئی درخت کسی شخص کو بیچا ہو، لیکن پھر اس کے وقت بے وقت باغ میں آ کر پھل اتارنے سے دقت محسوس کرے اور اس سے بچنے کے لیے اسے پیش کش کرے کہ پھل کٹنے تک درخت پر جتنا پھل لگے گا، اس کا اندازہ کر کے تم مجھ سے وصول کر لو اور باغ میں نہ آیا کرو۔ امام مالک کے نزدیک ایسا کرنا درست ہے اور وہ حدیث میں بیان ہونے والی رخصت کو عام قانون سے ایک استثنا قرار دیتے ہیں۔ احناف کی تشریح اس سے کچھ مختلف ہے۔

مطیع سید: احناف کی کیا تشریح ہے؟

عمارناصر: وہ یہ ہے کہ باغ کا مالک اپنے باغ کے کچھ درخت کسی غریب خاندان کو دے دیتا تھا کہ یہ تمھارے استعمال کے لیے ہیں۔ اب پھل تو درخت پر لگا ہوا ہے، اس لیے وہ اپنی ضرورت کے تحت کبھی دن کو کبھی شام کو کھجور اتارنے کے لیے آ جاتے ہیں جس سے مالک کو تنگی ہوتی ہے۔ اس میں آپﷺ نے رخصت دی کہ اگر درخت کا مالک درخت پر لگے ہوئے پھل کے بدلے میں انھیں اندازے سے اتاری ہوئی کھجوریں دے دے تاکہ وہ بار بار نہ آئیں تو یہ درست ہے۔ اس میں چونکہ کوئی کاروباری لین دین نہیں ہو رہا جس میں مقدار کی کمی بیشی سے کسی کا حق مارا جائے، اس لیے اس کا جواز ہے۔

مطیع سید: اگر کوئی آدمی مفلس ہو جائے اور بائع اس کے پاس اپنا مال دیکھے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔8 یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

عمارناصر: اس کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی ہے، اس کے ذمے لوگوں کے بہت سے واجبات ہیں، لیکن وہ دیوالیہ ہوگیا۔ اس کا سامان تجارت ڈوب گیا یا بر باد ہوگیا اور وہ دیوالیہ ہوگیا۔ اب حق دار آئیں گے اور جو کچھ بھی اس کے پاس پڑا ہوا ہے، اس میں سے اپنا حق وصول کریں گے۔ ان حق داروں میں سے وہ ایک دکاندار بھی ہے جس نے اس کوکوئی چیز بیچی تھی، لیکن ابھی رقم وصول نہیں کی تھی۔ اگر اس کی و ہ چیز بعینہ ویسے ہی موجود ہے تو حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس پر بیچنے والے کا پہلا حق ہے، وہ اپنی چیز واپس لے سکتا ہے۔ اس چیز کو سارے حق داروں میں مشترک نہیں سمجھا جائے گا۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے پچھنے لگانے والی کی کمائی کو برا کہا، لیکن خود لگوائے تو اس کی اجرت بھی ادا کی بلکہ جو طے ہوئی تھی اس سے زیادہ دی۔9 اس کا کیا مطلب ہے؟

عمارناصر: اصل میں پچھنے لگاتے ہوئے منہ سے خون چوسنے کا جو کام کرنا پڑتاتھا، اس سے گھن محسوس ہوتی ہے۔ اس کو آپﷺ نے طبعاً‌ ناپسند فرمایا کہ یہ کام کرکے کوئی پیسے کمائے، لیکن بہرحال ایک پیشےکے طور پر یہ جائز تو ہے اور اگر آپ نے کسی سے پچھنے لگوائے ہیں تو اس کی اجرت تو دینی ہے۔

مطیع سید: بلی کی تجا رت آپﷺ نے کیوں منع فرمائی؟10 اسی طرح ایک موقع پر کتوں کو مارنے کا حکم بھی دیا۔11 صحابہ نے کہا کہ پھر ہم نے کوئی کتا نہیں چھوڑا سوائے چند ایک کے۔

عمارناصر: پیغمبر کی جو نفیس طبیعت ہوتی ہے، اس کے لحاظ سے کچھ چیزیں اس کو ناگوار گزرتی ہیں۔ اس پہلو سے بعض اوقات وہ لوگوں سے بھی کہہ دیتا ہے کہ ایسا نہ کرو، لیکن اس کو شریعت کا عام حکم نہیں بنا یاجاسکتا۔

مطیع سید: لیکن جو کتوں کو مارنے کا حکم فرمایا، اس کی کیا وجہ تھی؟ کیا ان کے کلچر میں یہ با ت عام ہو گئی تھی کہ وہ کتوں کو بہت زیادہ پسند کر نے لگے تھےجیسے آج کل یورپ میں ہے؟

عمارناصر: اس کے تو مختلف پس منظر قیاس کیے جا سکتے ہیں۔ البتہ اصولی بات یہ ہے کہ یہ حکم کوئی عمومی حکم نہیں ہے کہ آپ ہر جگہ اس کو لاگو کر دیں۔ یعنی انسانوں کے ماحول میں کتے نہ ہوں اور آپ کو نظر نہ آئیں، یہ شریعت کا منشا نہیں ہے۔ کوئی خاص وجہ تھی جس کے تحت آپﷺ نے کتے رکھنے سے منع کیا اور عبوری طور پر ان کو مار دینے کا بھی حکم دیا، پھر اس میں آہستہ آہستہ تخفیف کردی۔ اب وہ وجہ کیاتھی، یہ ہمارے قیاسات ہیں۔ بعض شارحین کہتے ہیں کہ کتے تعداد میں بہت زیادہ ہوگئے تھے۔ تو ایسی صورت میں ہم بھی یہی کرتے ہیں۔ جب آوارہ کتے زیادہ ہوجاتے ہیں تو ان کو مار دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ جانور کسی وبا کو پھیلانے کا سبب بن جاتے ہیں، جیسے چوہوں سے طاعون پھیل جاتا تھا۔ ممکن ہے، ایسی کوئی بات ہو۔ تو مختلف قیاسات ہو سکتے ہیں۔

مطیع سید: سیاہ کتے کے بارےمیں نبیﷺ نے خصوصی تاکید فرمائی کہ اس کو ضرور قتل کرو، یہ شیطان ہے۔12 سیاہ رنگ کے کتے سے شیطان کا کیا تعلق ہے؟

عمارناصر: بعض جانوروں کے ساتھ جنات اور شیاطین کی خاص مناسبت بھی ہوتی ہے۔ تو اگرا س طرح کا ماحول ہے کہ کتے گھر کے اندر اور باہر ہر جگہ آجا رہے ہیں تو اس تناظر میں آپﷺ نے اگر یہ فرمایا کہ ان کے ساتھ شیاطین کا بھی آنا جانا ہے، اس لیے ان کو خاص طور پر مار دو تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔

مطیع سید: حضرت جابر فرماتےہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر سے واپس آ رہا تھا۔ میرا اونٹ تیز نہیں چل رہاتھا۔ آپﷺ نے وہ اونٹ مجھ سے خرید لیا، لیکن مدینہ پہنچ کر وہ مجھے واپس دےد یا اور اس کی قیمت کے پیسے بھی دے دیے، بلکہ کچھ رقم عطا فرمائی جو میں نے برکت اور نشانی کے طور پر سنبھال کر رکھ لی۔ پھر وہ رقم واقعہ حرۃ میں کوئی چھین کر لے گیا۔13 اس سے تو لگتا ہے کہ واقعہ حرہ میں نہ صرف مدینے میں قتل وغارت ہوئی بلکہ لوٹ مار بھی خوب ہوئی کہ عموماً‌ َایسی قیمتی چیزوں کو گھر کےاندر ہی کہیں چھپا کر رکھا جاتا ہے۔

عمارناصر: جی، ایسا ہی ہوا۔ چونکہ مدینہ کے لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ دی تھی، اس لیے ان کو باغی قرار دیا گیا۔ پھر فوج آکر باغیوں کی جان ومال کو بھی مباح کر لیتی ہے اور سب کچھ تہس نہس کر دیتی ہے۔ اسی طرح اس موقع پر بھی ہوا۔ نمازیں بھی لوگ کئی دن تک چھپ کر اور انفرادی طور پر پڑھتے رہے۔

مطیع سید؛ جانور ادھار لے کر اس کے بدلے میں بعد میں دوسرا جانور دے دیا جائے، اس کا حدیث میں جواز آتا ہے14 لیکن احناف اسے جائزقرا ر نہیں دیتے۔

عمارناصر: اس مضمون کی بعض احادیث بھی ہیں جن کی صحت مختلف فیہ ہے۔ احناف ان پر بنیاد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ احناف یہ نکتہ بھی پیش کر سکتے ہیں کہ جو آپ نے جانور لیا ہے، اس کے بدلے میں بعد میں جو جانور واپس کریں گے، وہ ظاہر ہے مقدار میں بعینہ ویسا تو نہیں ہوگا۔ اس لیے اس میں ربا کا شبہ پیدا ہو جاتا ہے۔

مطیع سید: جو عصر کے بعد کوئی چیز بیچے یا جھوٹی قسم کھائے، اس کے لیے وعید وارد ہوئی ہے۔15 جھوٹی قسم تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن یہ عصر کے بعد قسم کھانے کا کیا مطلب ہے؟

عمارناصر: بعض دفعہ عملی صورت حال کوسامنے رکھتے ہوئے کوئی بات کہہ دی جاتی ہے، یہ کوئی قید نہیں ہوتی۔ عام طورپر عصرکے بعد لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ کام سمیٹیں اور نمٹا کر گھر نکلیں۔ تو دن کے وقت ایمانداری سے کام کر لیا، لیکن عصرکے وقت سامان وغیرہ سمیٹنا ہے تو کچھ غلط بیانی سے کام لے کر یا قسم وغیرہ کھا کر سامان بیچنے کا داعیہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر حدیث میں وعید بیان کی گئی ہے۔


حواشی

  1. صحیح البخاری، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب من ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع او مجاوزۃ الحد الذی امر بہ، رقم الحدیث: 2321، ص: 599
  2. صحیح البخاری، کتاب الحرث والمزارعۃ، باب فضل الزرع والغرس اذا اكل منہ، رقم الحدیث: 2320، ص: 599
  3.  صحیح البخاری، کتاب الحرث و المزارعۃ، باب من ما یحذر من عواقب الاشتغال بآلۃ الزرع او مجاوزۃ الحد الذی امر بہ، رقم الحدیث: 2321، ص: 599
  4. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الحرث والمزارعۃ، باب ما كان من اصحاب النبی صلى الله عليہ وسلم يواسی بعضہم بعضا فی الزراعۃ والثمرة، رقم الحدیث: 2343، ص: 604
  5. صحیح البخاری، کتاب الشرب والمساقاۃ، ‌‌باب لا حمى الا لله ولرسولہ صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 2370، ص: 611
  6. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب البیوع، باب البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، رقم الحدیث: 2111، ص: 550
  7. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب البیوع، باب تفسير العرايا، رقم الحدیث: 2192، ص: 565
  8. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب فی الاستقراض، باب اذا وجد مالہ عند مفلس، رقم الحدیث: 2402، ص: 618# صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب فی الاستقراض، باب من اجرى امر الامصار على ما يتعارفون بینہم فی البيوع والاجارة، رقم الحدیث: 2210، ص: 568

  9. صحیح مسلم، كتاب المساقاۃ، باب تحريم ثمن الكلب وحلوان الكاہن ومہر البغی والنہی عن بيع السنور، رقم الحدیث: 1569، جلد: 3، ص: 1199
  10. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب بدء الخلق، ‌‌باب اذا وقع الذباب فی شراب احدكم فليغمسہ، رقم الحدیث: 3323، ص: 845
  11. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الصلاۃ، باب قدر ما يستر المصلی، رقم الحدیث: 510، جلد: 1، ص: 365
  12. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب المساقاۃ، باب بيع البعير واستثناء ركوبہ، رقم الحدیث: 1599، جلد: 3، ص: 1222
  13. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب المساقاۃ، باب من استلف شيئا فقضى خيرا منہ، رقم الحدیث: 1600، جلد: 3، ص: 1224
  14. صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب الشرب والمساقاۃ، ‌‌باب من رأى ان صاحب الحوض والقربۃ احق بمائہ، رقم الحدیث: 2369، ص: 610


(جاری)


صنف وجنس اور اس میں تغیر (۲)

مولانا مشرف بيگ اشرف

جنس کی تعیین کا پیمانہ: علم جینیات کی روشنی میں

ہماری موجود ہ گفتگو میں کلیدی کردار اس بحث کا ہے کہ کسی جنس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ظاہر ہے کہ ہم یہاں شرعی نقطہ نگاہ سے بات کر رہے ہیں، اس لیے ہمیں کتاب وسنت اور فقہا کے اجتہاد کی روشنی میں چیزوں کو دیکھنا ہے۔ تاہم اس سارے عمل میں موجودہ انسانی علم کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جنس کے تعین کے حوالے سےچار  امکانات ہیں:

۱: جنسی اعضا ووظائف،

۲: کروموسومز اور

۳: ہارمونز

۴: نفسیاتی کیفیت

یہاں پہلے تینوں امور کا تعلق انسان کی عضویاتی ووظائفی جہت (فیزیولوجی اورآنٹولوجی)سے ہے اور آخری کا تعلق نفسیاتی جہت سے۔

سر دست ہم پہلے تین امور پر غور کریں گے!

اس وقت انسان کی جنس وظاہری اعضا سے متعلق معیاری علم جینیات کا ہے۔ اس علم کے مطابق انسان خلیوں سے بنا ہوا ہے اور ہر خلیے میں کروموسومز ہیں جو کسی بھی انسان کے جسمانی خصائص کی ہدایات کے حامل ہیں۔

ہر انسانی خلیے میں کروموسومز کے تئیس جوڑے ہوتے ہیں، یعنی چھیالیس کروموسومز۔ ان میں سے  پہلے بائیس جوڑے عضوی غیر جنسی کروموسومز کہلاتے ہیں. انہیں ایک سے بائیس تک نمبر دیے جاتے ہیں۔ جبکہ تئیسواں جوڑا انسانی جنس سے متعلق ہدایت کا حامل ہے ۔ عام طور سے، عورت  میں یہ جوڑا ایکس ایکس (XX) سے مل کر بنتا ہے جبکہ مرد میں ایکس وائے (XY) سے۔ عورت کے بیضے سے ہمیشہ ایکس آتا ہے جبکہ مرد کی منی سے ایکس بھی آ سکتا ہے اور وائے بھی۔ اس لیے، کہا جاتا ہے کہ جنسی ساخت  کا تعین باپ کی طرف سے ہوتا ہے۔

 یہ کروموسومز دراصل ایک دھاگے کی ہیئت میں ہوتے ہیں جن میں  انسان کا ڈی این اےگندھا ہوا ہوتا ہے  ۔ جینز پر مبنی نظریے کے مطابق انسان کے جسمانی اعضا دراصل اسی "ڈی این کے "کے مطابق تشکیل پاتے اور وظائف ادا کرتے  ہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے دو اصطلاحات پر غور کرتے ہیں:

جینوٹائپ(Genotype): جینز کا یہ سارا مجموعہ جو انسان کی ساخت سے متعلق ہدایات کا حامل ہے، اسے جینوٹائپ یا جینوم کہتے ہیں۔

فینوٹائپ(Phenotype): اس کے برعکس وہ ساخت واعضا جو اس جینوم سے وجود میں آتی ہے اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔یہاں لفظ "فینو" دراصل یونانی لفظ ہے جس کا مطلب چمکنا، آشکار ہونا، ظاہر ہونا ہے۔اور اسی لیے جینز کے نتیجے میں جس طرح انسان کی عضویاتی تشکیل ہوتی ہے اور اس کے اعضا نمو دار ہوتے ہیں اور عمل کرتے ہیں، اسے فینوٹائپ کہتے ہیں۔چناچہ کسی انسان کی آنکھ کا رنگ جو ہمیں نظر آتا ہے وہ حقیقت میں فینوٹائپ ہے جبکہ اس کے متوازی ہدایت جو انسان کے جینز میں موجود ہے وہ جینوٹائپ ہے۔یہ انسانوں کا معاملہ ہے جبکہ تتلی وغیرہ بعض پرندو ں میں  اور چھپکلی (ریپٹائل)کی نسل سے وابستہ بعض اقسام میں معاملہ برعکس ہے۔ نر میں یکساں جنسی کروموسومز ہوتے ہیں جنہیں زیڈ زیڈ (ZZ) سے ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ مادہ میں مختلف ہوتے ہیں جنہیں زیڈ ڈبلیو (ZW) سے ظاہر کیا جاتاہے۔

یونانی زبان میں گٹھلی،خلیے کو  کیرنیو (karyon ) کہتے ہیں۔ وہی سے انسان کے کروموسومز کی مکمل تصویر سازی کو Karyotype کہا جاتا ہے۔

بہر حال، اس نظریے کے مطابق انسان کے فینوٹائپ  اور جینوٹائپ میں باہمی رشتہ ہے (وہ سببیت کا ہے یا محض زمانی ہم آہنگی  کا یہ فلسفہ سائنس کا موضوع ہے)۔ اس لیے، انسان کی عضویاتی تشکیل، اس میں کسی قسم کی کمی یا زیادتی یا بعض لوگوں میں پائے جانے والی استثنائی حالتوں (سنڈروم) کی تفسیر جینوٹائپ سے ہو گی۔اور خاص طور پر، جنسی کروموسوم سے انسانی اعضا میں  تفاوت رونما ہوتا ہے(Sex-linked)

جنیز کے علم میں جنس (سیکس) دراصل جنسی  فینوٹائپ کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ چناچہ مشہورجینیات کے استاد " بینجمن اے پیئرس "  اپنے کتاب  " Genetics: A Conceptual Approach"میں رقم طراز ہیں:

The term sex refers to sexual phenotype. Most organisms have two sexual phenotypes: male and female. The fundamental difference between males and females is gamete size: males produce small gametes, and females produce relatively large gametes Sex: Sexual phenotype: male or female.
….
We define the sex of an individual organism in reference to its phenotype

مفہوم: جنس   کی اصطلاح جنسی  جسمانی خصائص  اور ان کے وظائف کے  لیے برتی جاتی ہے۔ اکثر زندہ کائنات میں دو  طرح کے خصائص ہوتے ہیں: نر ومادہ۔ نرومادہ میں بنیادی فرق جرثومی خلیے کے حجم کا ہے: نر میں یہ چھوٹے ہوتے ہیں جب کہ  مادہ میں قدرے بڑے۔

جنس =جنسی ظاہری ساخت  ووظیفہ(فینو ٹائپ) = نر + مادہ

ہم(علم جینیات میں) کسی جاندار کی جنس اس کے ظاہری ساخت واعضا ووظائف سےطے کرتے ہیں۔

بینجمن مزید واضح کرتے ہیں کہ جنس کی اصطلاح اس فن میں انسانی ساخت (Anatomy) کے لیے کہی جاتی ہے۔ چناچہ عام طور سے، مردانہ ساخت کے پیچھے ایکس وائے(XY) ہوتے ہیں اور زنانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس(XX)۔ لیکن بعض شاذ ونادر حالات میں مردانہ ساخت کے پس پشت ایکس ایکس ہوتے ہیں۔اس لحاظ سے، ایسا جاندار جینیاتی طور پر اگرچہ "مادہ "ہے لیکن ساخت کے لحاظ سے "نر" ۔تاہم ان شاذ ونادر حالات میں بھی (ایکس ایکس نر)وائے کروموسومز کا ایک ذرہ کسی دوسرے کروموسومز سے نتھی ہوتا ہے۔بینجمن کی سنیں:

For instance, the cells of human females normally have two X chromosomes, and the cells of males have one X chromosome and one Y chromosome. A few rare individuals have male anatomy although their cells each contain two X chromosomes. Even though these people are genetically female, we refer to them as male because their sexual phenotype is male. (As we see later in the chapter, these XX males usually have a small piece of the Y chromosome that is attached to another chromosome.)

مفہوم: مثلا انسانی مادہ کے خلیے میں عام طور سے دو ایکس کروموسومز ہوتے ہیں جبکہ نر میں ایک ایکس اور ایک وائے۔ کچھ شاذ ونادر صورتوں میں انسان کی ساخت نر کی ہوتی ہے لیکن اس کے خلیوں میں دونوں کروموسومز ایکس ہی ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ جینیاتی طور سے مادہ ہیں، لیکن ہم انہیں نر ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ ان کی جنسی ساخت واعضا ووظائف  نر کے ہیں۔(آگے اسی باب میں ہم دیکھیں گے  کہ ان "ایکس ایکس" نر میں عام طور سے وائے کروموسومز کا ایک ٹکڑا کسی دوسرے کروموسوم سےلٹکا ہوا ہوتا ہے)۔

نیز  مصنف کے مطابق  ایسا بہر کیف ہوتا ہے کہ انسانی جینیاتی کروموسومز میں وائے نہ ہو، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اس میں ایکس نہ ہو۔ اور ان کا کہنا ہے کہ غالبا اس طرح کے جنین گر جاتے ہیں۔

اس کے بعد، مصنف جنس اور صنف کا فرق واضح کرتے ہیں کہ جنس دراصل کسی شخص  کی ساختیاتی وعضویاتی   ووظائفی جہت ہے جبکہ صنف کسی انسان کی سماجی جہت کی عکاس ہے۔  مثلا ایک انسان ساختیاتی وعضویاتی طور سے مرد ہے لیکن وہ ساڑھی پہننا ، مہندی لگانا، سینڈل پہننا پسند کرتا ہے۔ان کی دوبارہ سنتے ہیں:

Gender is not the same as sex. Biological sex refers to the anatomical and physiological phenotype of an individual. Gender is a category assigned by the individual or others based on behavior and cultural practices. One’s gender need not coincide with one’s biological sex.

مفہوم: صنف جنس سے الگ ہے۔ حیاتیاتی جنس کسی جاندار فرد کی ساختیاتی ووظائفی جہت کی طرف اشارہ ہے۔ کسی فرد ووغیرہ کی طرف سے رویے اور سماجی مظاہر  کی بنیاد پر جو عنوان اختیار کیا جاتا ہے، اسے صنف کہتے ہیں۔ ایک جاندار کی صنف کا اس کی حیاتیاتی جنس سے ہم آہنگ ہونا ضروری نہیں۔

اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنسی کروموسومز انسانی جنس کی تشکیل کے ذمے دار ہیں تاہم غیر جنسی کروموسومز بھی اس میں ذیلی کردار ادا کرتے ہیں۔اسی طرح، انسان میں جنس کی تشکیل کے لیے جو جین ذمے دار ہے اسے "ایس آر وائے"(SRY) کہا جاتا ہے جو عام طور سے، وائے کروموسوم پر پایا جاتا ہے۔اسی لیے، انسانی جنس کی تشکیل میں وائے کروموسوم کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور جینیاتی استثنائی مظاہر(سنڈرومز) سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے۔ہم ذیل میں ان مظاہر کو سرسری طور سے دیکھتے ہیں۔ اور یہ ساری تفصیل بینجمن سے لی گئی ہے:

ٹرنر استثنائی مظہر (Turner Syndrome):

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں) صرف ایک ایکس ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایکس غیر موجود ہوتا ہے۔ اسے، "ایکس او"(XO)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔نیز مندرجہ ذیل مخفف بھی اس کے لیے استعمال ہوتے ہیں:

45, X

45, XO

 "او" سے مقصود صرف کروموسوم کی عدم موجودگی کا اظہار ہے۔اس کا نام ڈاکٹر ہنری ٹرنر کے نام پر رکھا گیا جنہوں نے ۱۹۳۸ ءمیں پہلی مرتبہ طبی ادب میں اس کا تذکرہ کیا۔یہ مظہر تین ہزار میں سے ایک انسانی مادہ میں پایا جاتا ہے۔(واضح رہے کہ یہ مقدار دراصل ان لوگوں کے لحاظ سے ہے جن کا ریکارڈ محفوظ ہوا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ ہر بندے کی یہ تفصیل محفوظ ہونا ضروری نہیں)۔ان کا قد عام طور سے، میانہ،بال پیشانی کی طرف معمول سے زیادہ بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ عام طور سے بانجھ ہوتی ہیں تاہم عقلی صلاحیتیں ان میں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔اسی مظہر کے تحت، بعض حالات ایسے بھی پائے گئے ہیں جن میں انسانی مادہ کے "کچھ "خلیے معمول کے مطابق ایکس ایکس کے حامل ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال، جہاں مختلف خلیوں کے جنسی کروموسومز میں  اختلاف ہو"جینیاتی پچی کاری" (Genetic mosaicism)کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔

کلائن فیلٹر  استثنائی مظہر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک سے زیادہ ایکس کروموسوم ہوتا ہے۔ ہزار لڑکوں میں سے ایک میں یہ مظہر پایا جاتاہے۔ اس کا نام مشہور امریکی ماہر ہارمونیات پر ہے جنہوں نے ۱۹۴۰ء کی دہائی میں اسے دریافت کیا۔ اسے (XXY 47)سے ظاہر کیا جاتا ہے۔تاہم یہ اس کی ایک مشہور صورت ہے۔ ورنہ  بعض حالات میں تین بلکہ چار تک ایکس بھی ہوتی ہیں۔ نیز بعض اوقات دو وائے بھی پائے جاتے ہیں۔ انہیں ذیل میں ظاہر کیا جا رہا ہے:

XXXY, XXXXY, XXYY

یہ عام طورسے بانجھ ، لمبوتڑے ، ان کے خصیے چھوٹے  جبکہ چہرے اور زیر ناف بال  کم ہوتے ہیں۔ان کی عقلی صلاحیتیں معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔

تین ایکس  یا متعدد ایکس استثنائی مظہر:

بعض اوقات زنانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم مادہ یا عورت کہتے ہیں)  تین ایکس کروموسومز ہوتے ہیں۔اس کے لیے کوڈ  " 47XXX" استعمال ہوتا ہے۔  ان میں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا۔بس یہ ذرا چھریرے بدن کی حامل ہوتی ہیں۔ ان میں کچھ بانجھ بھی ہوتی ہیں لیکن اکثر کو حیض معمول سے آتا ہے۔اسی طرح، ذہنی صلاحیتیں بھی معمول کے مطابق ہوتی ہیں۔ تاہم انتہائی شاذ ونادر حالات میں بعض خواتین میں تین سے بھی زیادہ ایکس ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اسے "متعدد ایکس" کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے۔ایسی عورتیں ذہنی طور سے معذور اور ان میں دیگر مسائل بھی ہوتے ہیں۔ ایکس جوں جوں تین سے زیادہ ہوتے ہیں، ذہنی وجسمانی مسائل ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔

ایکس وائے وائے نر:

بعض اوقات مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان  میں (جسے ہم نر یا مرد کہتے ہیں) ایک اضافی وائے کروموسوم ہوتا ہے۔یہ ہزار میں سے ایک مرد میں ہوتا ہے۔ان کا قد قدرے لمبا ہوتا ہے۔ تاہم ان میں کوئی اور مسئلہ نہیں۔ بعض تحقیقات کا اس طرف اشارہ ہے کہ ان میں سیکھنے کی صلاحیت   ذرا کمزور ہوتی ہے۔

ایکس ایکس نر:

طبی تاریخ میں ایک دلچسپ صورت حال یہ پیش آئی کہ ایک مردانہ ساخت واعضا کے حامل انسان میں ایکس ایکس کروموسومز ہیں۔ یہ ماہرین کے لیے ایک معمہ بنا رہا۔کئی عرصے کی تحقیق کے بعد، یہ آشکار ہوا کہ ان لوگوں میں وائے کروموسومز کا ذرہ ایک دوسرے کروموسوم سے ٹنگا ہوا ہوتاہے۔اور اسی تحقیق سے جینز سے متعلق ہمارا تصور مزید نکھارا کہ "نر" ہونے میں بنیادی کردار پورے وائے کروموسوم کا نہیں بلکہ اس کروموسوم میں ایک "جین "کا  ہے جو اگر مثلا وائے کروموسوم میں بھی پائی جائے، تو ایک "نر" کو جنم دیتی ہے۔

جنسی کروموسومز کی فعالیت وکردار:

اس ساری گفتگو سے ہمیں ،مندرجہ ذیل امور کا علم ہوتا ہے:

۱: انسانی نشو ونما کے لیے ایک ایکس ضروری ہے۔ اس لیے، یہ مرد وزن دونوں کا مشترک اثاثہ ہے۔

۲: وہ جین جو مرد کو تشکیل دیتا ہے اس کاٹھکانا وائے کروموسوم ہے۔

۳: اگر ایک بھی وائے (Y)ہو، تو اس سے ایک انسانی نر کی ساخت واعضا وجود میں آتے ہیں۔

۴: وائے (Y)کی عدم موجودگی، انسانی مادی کی ساخت واعضا کو ظہور پذیر کرتی ہے۔

۵: انسان کے تناسل کی صلاحیت سے متعلق جینز  ایکس اور وائے دونوں پر پائی جاتی ہیں۔ مادہ کو عام طور سے، دو ایکس کروموسومز درکار ہیں قرار حمل کے لیے۔

۵: ایکس کروموسومز جوں جوں بڑھتے ہیں، ذہنی  اور جسمانی نقائص پیدا ہونا شروع ہوتے ہیں۔

قرار حمل سے "جنس" بننے تک:

قرار حمل کے بعد، انسانی جنین میں جب تناسلی غدے بنتے ہیں، وہ نر یا مادہ کے ساتھ خاص نہیں ہوتے اور ان میں دونوں میں سے کسی ایک کی طرف جانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس طرح، اس میں نر ومادہ دنوں کی نالیاں وجود میں آتی ہیں۔تقریبا چھ ماہ کے بعد، وائے کروموسوم میں سویا ہوا ایک "جین" جاگتا ہے اور ان غدوں کو خصیوں میں بدلنے کا عمل شروع کرتا ہے۔اور ان خصیوں سے دو قسم کے ہارمونز نکلتے ہیں  جو مادہ  والی نالی کو ختم کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ  جنین "نر" بننا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر یہ "جین" موجود ہی نہ ہو، تو پھر مادہ وجود میں آتی ہے۔اسی اہم ترین جین کو "ایس آر وائے جین" (SRY) کہتے ہیں جیسا کہ  اس  کی طرف اشارہ کلام کے آغاز میں ہوا۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسانی جنس کے تعین میں اس کے علاوہ کوئی دوسری جین کردار ادا نہیں کرتی۔

اس پوری گفتگو سے جو بات واضح ہوئی ہے وہ یہ   کہ:

۱:جینیاتی علم میں انسانی جنس کے تعین میں اس کی ساخت واعضا  ووظائف (Phenotypical Aspects) بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔

۲: نیز  انسانی فینوٹائپ ان کے جینو ٹائپ پرفیصل وحکم ہے۔

۳: تاہم اگرچہ ایک عام مرد میں ایکس وائے اور ایک عام عورت میں ایکس ایکس جنسی کروموسومز ہوتے ہیں، لیکن بعض حالات میں اس کے برعکس بھی ہوتا ہے جیساکہ ہم نے جینیاتی استثنائی مظاہر (سینڈرومز) میں ملاحظہ کیا۔ ہم نے دیکھا کہ نر یا مادہ ہونے کا فیصلہ ظاہری اعضا نے کیا ۔  "ایکس ایکس نر" کی صورت میں ہم نے دیکھا کہ بعض اوقات ظاہری خصائص (فینوٹائپ) اگرچہ جینوٹائپ سے ہم آہنگ نہیں دکھتے، مگر جینوم میں کچھ ایسا موجود ہوتا ہے جو اس عضو کی تشکیل کی تفسیر کرتا ہے اگرچہ ماہرین کو اس کی دریافت میں وقت لگے۔ اس لیے، صرف جینیاتی ڈھانچہ دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی نر ہے یا مادہ۔ بلکہ اصل فیصلہ اعضائے تناسل سے کیا جائے گا۔اور یہی وہی امر ہےجس کی بنیاد پر صدیوں سے لوگ نومولود کی جنس کا فیصلہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی اس کا فیصلہ اسی پرہوتا ہے کیونکہ انسان وہی ہے، اس کی ساخت وہی ہے۔ اس میں کوئی ارتقا، کم از کم، معلوم تاریخ میں نہیں ہوا۔

اس آخری نقطے کے لیے ہم  دومثالیں پیش کر کے بات ختم کریں گے۔

۱: انڈیپنڈنٹ میں ایک خبر چھپی جس کی سرخی تھی: "جینیاتی طور سے پچانوے فیصد مرد، عورت نے جڑواں بچوں کو جنم دیا۔"

ان خاتون کی صورت حال یہ تھی کہ ان میں پچانوے فیصد مردانہ کروموسومز تھے۔لیکن ان کی ساخت واعضا بالکل زنانہ تھے۔ خاتون نے ایک مرد سے شادی بھی کی۔ان میں بیضہ دان(ovary) تھا، نہ کبھی حیض آیا۔

اطبا نےاس کے رحم کا علاج معالجہ کر کے  کسی دوسری عوت کا بیضۃ  ان میں رکھا۔ خاتوں کے ہاں، جڑواں پیدا ہوئے۔اور اطبا کو عمل جراحی کرنا پڑا۔

۲: اسی طرح، سپین کی ایک خاتون ماہر ریاضیات جو اولمپکس میں بھی شریک رہیں، اپنے آپ کو عورت سمجھتی تھیں، ساخت واعضا سب کچھ زنانہ ۔ لیکن ایک مرتبہ ایک کھیل میں شرکت کے لیے جب ان کی جانچ ہوئی تو معلوم ہوا کہ ان میں ایکس وائے کروموسومز ہیں۔اس پر انہیں نا اہل کر دیا گیا کہ  عورت نہیں ہیں ۔اس پر معاشرے میں انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا گیا کہ ایک مرد عورت کا روپ دھار کر اس کھیل میں شریک ہوا۔ تاہم خاتون نے مقدمہ کیا کہ صرف کروموسومز سے جنس کا تعین نہیں ہوتا اور وہ مقدمہ جیت گئیں۔ یہ مثال، بعض نسوی تحریک  والے جنس کی تعیین  کے لیے کوئی واقعی پیمانہ نہ ہونے کے لیے پیش کرتے ہیں۔ سٹینفرڈ کے انسائیکلوپیڈا میں، "جنس وصنف سے متعلق نسوی تحریک کے نقطہ نظر" پر  موجود مقالے میں اس  پر موجود تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

To illustrate further the idea-construction of sex, consider the case of the athlete Maria Patiño. Patiño has female genitalia, has always considered herself to be female and was considered so by others. However, she was discovered to have XY chromosomes and was barred from competing in women's sports (Fausto-Sterling 2000b, 1–3). Patiño's genitalia were at odds with her chromosomes and the latter were taken to determine her sex. Patiño successfully fought to be recognised as a female athlete arguing that her chromosomes alone were not sufficient to not make her female.

مفہوم: جنس کی تصور سازی کیسے ہوتی ہے، اس کی مزید وضاحت کے لیے ماریہ  کی صورت حال ملاحظہ کیجیے جو ایک ایتھلیٹ تھی۔ ماریہ کے اعضائے تناسل زنانہ تھے، اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو مادہ سمجھا۔ اسی طرح دوسروں نے بھی۔تاہم بعد میں انکشاف ہوا کہ اس  کے خلیوں میں ایکس وائے کروموسومز ہیں اور اسے زنانہ کھیلوں میں شرکت سے روک دیا گیا۔ماریہ کے کروموسومز اس کے اعضائے تناسل سے ہم آہنگ نہ تھے اور بنیاد کروموسومز کو بنایا گیا۔پر ماریہ نے اس پابندی کے خلاف مقدمہ اس بنیاد پر جیتا کہ کروموسومز اسے "مادہ" بنانے کے لیے کافی نہیں۔

"سویر ا استثنائی مظہر" (Swyer syndrome):

اسے دراصل " سویر ااستثنائی مظہر "کہتے ہیں۔ابھی ہم نے اوپر دیکھا کہ وائے کروموسومز میں "ایس  آر وائے"جین" موجود ہے جس کا ہونا یا نہ ہونا مرد یا زن ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔چناچہ اس طرح کی صورتوں کا ماہرین نے تجزیہ کیا اور ان کا کہنا تھا کہ پندرہ فیصد لوگوں میں وہ جین موجود تھا تاہم ان کا وائے کروموسوم بالکل ناکارہ تھا جس کہ وجہ سے صرف "ایکس" نے اپنا کام کیا ، وائے نے اپنا کردار ادا  نہیں کیا اور اس طرح، جنین "مادہ" بن گیا۔تاہم یہ بات اوپر گزری کہ اگرچہ جین میں "ایس آر وائے" کا مرکزی کردار ہے لیکن اس میں دوسرے جینز کا بھی حصہ ہے۔ اس لیے، اس مادہ میں نقائص رہ جاتے ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جینز پر مبنی نظریے کی روشنی میں ، یہاں بھی فیصلہ ظاہری اعضا پر ہوا اور تحقیق سے اندازہ ہوا کہ اگرچہ مردانہ کروموسومز موجود ہیں لیکن کالعدم ہیں۔ اور ویسے بھی جب نظریے نے یہ تسلیم کر لیا کہ ظاہری ساخت واعضا  ووظائف (فینو ٹائپ) دراصل جینوٹائپ کے مظاہر ہیں، تو اس کے بعد، اگر کوئی ایسی صورت آتی ہے جس میں یہ ہم آہنگی محسوس نہ ہو، تو آیا نظریہ بدلے گا یا اس کی تفسیر اس چوکھٹے میں ہوگی اور یہ علم ومنہج کے بنیادی مسلمات میں سے ہے۔

اس ساری گفتگو کا نچوڑ یہ ہے کہ جینیاتی طور سے بھی اصل بنیاد انسان کے اعضائے تناسل ہیں اور جنس کا فیصلہ اسی کی بنیاد پر ہو گا۔ اور اگر کسی صورت میں ایک انسان کے جینوم کا ڈھانچہ ایسا آتا ہے جو اس کے ظاہری اعضا وساخت سے بے جوڑ ہو،  تو فیصلہ کن کردار ظاہری اعضا وساخت ہی  ادا کریں گے اور بچے کو نر، مادہ یا خنثی اسی کی بنیاد پرقرار دیا جائے گا۔

اب ہم ، تعیین جنس کے پہلے تین امکانات کی طرف آتے ہیں۔

۱: ظاہری اعضا اور کروموسومز: اس پوری گفتگو میں واضح ہوا کہ انسانی ساخت واعضا ووظائف(فینوٹائپ) اور جینوٹائپ دراصل ایک تصویر کے دو  رخ ہیں۔اسی لیے، ہم نے انہیں اکھٹا ایک عنوان کے تحت کر دیا۔ جینیاتی نظریے کے مطابق ، ہر ظاہری خصوصیت کسی جینیاتی  ہدایت کی عکاس ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ کسی خاص حالت میں  ہم اسے دریافت نہ کر سکیں۔ تاہم کسی انسان میں صرف نر یا صرف مادے کے اعضائے تناسل کا وجود میں آجانا ہی اس بات کی کافی علامت ہے کہ وہ نریا مادہ ہے اگرچہ ہمیں اس کے جینوم میں کوئی استثنائی کیفیت نظر آئے۔اور اگر کسی میں دونوں اعضا کی افرائش ہو  یا ابہام ہو، تو وہ خنثی ہے۔

۲: ہارمونز: اسی گفتگو سے، یہ بھی واضح ہو گیا کہ ہارمونز خود ایک ثانوی امر ہے۔ جینوٹائپ سے فینوٹائپ کی تشکیل میں یہ ایک کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان کی بنیاد پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

اس لیے، جینیات کی روشنی میں بھی انسان کی جنس کا تعین اور اس کے خنثی ہونے یا نہ ہونے کی فیصلہ اس کے ظاہری جنسی اعضا اور ان کے وظائف سے وابستہ ہے۔اور اس فن کی علمیت نے بھی کچھ ایسا فراہم نہیں کیا جس کی بنیاد پر جنس کی تعیین کا روایتی پیمانہ متاثر ہو۔بس اس نے انسان  کے ظاہری اعضا ووظائف کے لیے ایک جدید تفسیر فراہم کی۔

اس کے بعد، ہم نفسیات کی بنیاد پر جنس وصنف  کو دیکھنے کی کوشش کریں گے۔

 جنس کی تعیین : انسانی نفسیات کی روشنی میں

دراصل یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہمارے اس ماحول میں بحث ہو رہی ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ انسانی جنس ، صنف ، جنسی رجحان اور سماجی مظاہر، وسماجی کردار کی، جنہیں روایتی تہذیب نے ایک  ڈور سے باندھ دیا ہے ، گرہ کھول دی جائے۔اس لیے، ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ  جینز، ظاہری اعضا وغیرہ میں سے  ہر ایک پر کچھ سوال اٹھا کر انہیں غیر معتبر شمار کیا جائے اور اس حوالے سے وہ مختلف شاذ واقعات کا بھی حوالہ دیتے ہیں۔ اب جب ان سے یہ سوال ہوتا کہ یہ سب معیارات کالعد م ٹھہرے ،تو جنس آخر طے کیسے ہو گی؟

ان کا دو ٹوک جواب یہ ہوتا ہے کہ جنس  کے طے کرنے سے مقصود جنسی رجحان (Sexual Orientation)، سماجی مظاہر  (Gender Expression)اور سماجی کردار (Gender Role)کو طے کرنا ہے کہ مثلا ایک مرد اپنا جنسی تعلق کس سے قائم کرنا پسند کرتا ہے(جنسی رجحان)، ایک مرد اپنے لیے زنانہ نام پسند کرتا ہے یا مردانہ (سماجی مظہر)، ایک عورت گھر یلو خاتون بننا پسند کرتی ہیں یا  کسی ادارے میں نوکری(سماجی کردار)۔ ان سب امور میں اصل انسان کا اپنا رجحان ہے۔ وہ جس طرف جانا چاہے جائے۔ اس کے بعد، تم کسی کی جنس کو جو بھی سمجھو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔اور یہی اندر کے احساس پر مبنی تصور ہے جسے "صنفی شناخت" (Gender Identity)  کہا جاتاہے۔اسی سے "متبدل صنف " کا تصور وابستہ ہے  جسے ٹرانس جینڈر کہا جاتا ہے (Transgender)۔ یعنی ایک انسان کے ساتھ اس کی پیدائش سے جو صنف جوڑ دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں، بلکہ اپنے آپ کو دوسری صنف سے وابستہ سمجھتا ہے۔

متبدل صنف (ٹرانس جینڈر) اور "شناخت":

لگے ہاتھ، ہم صنفی شناخت پر بھی تفصیل سے گفتگو کر لیں۔

شناخت دراصل انسان  کا اپنی ذات کے بارے میں تصورو خیال ہے کہ اس کا کس صنف سے تعلق ہے، وہ مرد ہے یا عورت، قطع نظر اس سے کہ وہ اپنے اعضا کے لحاظ سے نر ہے یا مادہ۔جدید مغربی ادییات  میں شناخت کا جنسی رجحان یا سماجی مظاہر سے کوئی لازمی تعلق نہیں ۔ یہ بس کسی انسان کے احساس کا نام ہے۔اس لیے،عمرانیات میں شناخت کو باقی دو سے الگ رکھا جاتا ہے۔

یہی سے علم عمرانیات کے شعبہ جنسیات وصنفیات میں  "متبدل صنف " کا تصور ہے جسے Transgender کہا جاتا ہے۔ یہاں تبدیلی سے مقصود صرف یہ ہے کہ کسی انسان کو بوقت پیدائش میں جو صنف دی گئی، وہ اس سے مطئمن نہیں ۔ لیکن اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وہ  اپنے جنسی رجحانات بھی بدل دے۔ اسی طرح، یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سماجی مظاہر کو بدلے۔ زیادہ تر ایسا ہوتا ہے کہ ایسا انسان اپنا لباس تبدیل کر لے۔ مثلا مرد زنانہ لباس پہننے لگے۔ (لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری  ہے ہر لباس تبدیل کرنے والا “متغیر صنف” نہیں ہوتا۔ ایک مرد اپنے آپ کو مرد سمجھتے ہوئے بھی زنانہ لباس اختیارکر سکتا ہے۔  بس اہم بات اس  "دستور "میں  یہ ہے کہ کسی  کے جنسی رجحان  اور صنفی شناخت کے حوالے سے کوئی مفروضہ نہیں قائم کیا جا سکتا ۔ یہ ہر انسان کا ذاتی حق ہے اور وہ اسے کسی بھی وقت بدل سکتا ہے۔)

 چنانچہ   مندرجہ ذیل مثال پر غور کیجیے:

۱: ٹونی پیدائشی طور سے نر ہے۔ لیکن جب وہ بالغ ہوا تو اسے یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے۔ لیکن اس کا جنسی جھکاو  بھی عورتوں ہی کی طرف ہے۔ اسی طرح، وہ اپنا نام بھی نہیں بدلتا، یہ مطالبہ بھی نہیں کرتا کہ گفتگو میں اس کے لیے تانیث کی ضمائر برتی جائیں وغیرہ۔ بس اس کے اندر کا احساس ہے۔

۲: نومی پیدائشی طور سے مرد ہے۔ اسے بھی یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ  عورت ہے۔ اس کا بھی جنسی جھکاو عورتوں ہی کی طرف رہتا ہے۔ تاہم  وہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ سماجی مظاہر میں اس کے ساتھ عورتوں کا سلوک کیا جائے۔ وہ اپنا نام نومی سے عینی کردیتا ہے۔ اپنے لیے، مونث کی ضمائر استعمال کروانا پسند کرتا ہے۔اب روایتی نقطہ نظر سے یہ مخالف جنس رجحان کا حامل ہے (Heterosexual)  لیکن اپنے احساس کے تحت وہ موافق جنس رجحان (Homosexual) والا ہے۔ اس کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ خنثی (Intersex)اور متغیر جنس (Transgender) متبادل اصطلاحات نہیں۔

خنثی اور متغیر صنف میں فرق:

خنثی سے مقصودطبی اصطلاح میں  وہ لوگ ہیں جن کے جنسی خصائص، نظام تولید، ہورمونز، یا کروموسومز نہ خالص مردانہ ہوتے ہیں نہ خالص زنانہ، روایتی تناظر میں۔[روایتی تناظر اس وجہ سے کہا کہ ٹرانس سے متعلقات تحریکات اسے ہی ختم کرنا چاہتی ہیں کہ کسی کو معیار بنا کر دوسرے کو اس پر پرکھا جائے۔]

چنانچہ کئی متغیر جنس لوگ ایسے ہیں جو خنثی نہیں ہوتے۔ اور کئی خنثی اپنے آپ کو  متغیر جنس (Transgender)شمار نہیں کرتے۔اسی طرح، اسی حوالے سے بھی اختلاف ہے کہ آیا خنثی کو ایل جی بی ٹی (LGBT)  میں شمولیت کرنی چاہیے یا نہیں۔چناچہ عمرانیات کی ایک مشہور نصابی کتاب میں آتا ہے جسے  اوپن سٹیک نے متعدد اساتذہ  فن کے اشتراک سے شائع کیا:

Intersex and transgender are not interchangeable terms; many transgender people have no intersex traits, and many intersex people do not consider themselves transgender. Some intersex people believe that intersex people should be included within the LGBTQ community, while others do not.

ترجمہ:خنثی اور متبدل صنف دو الگ الگ اصطلاحات ہیں، ہر موقع پر ، ایک دوسرے کی جگی نہیں لے سکتی۔ کئی ٹرانس لوگوں میں خنثی کی خصوصیات نہیں ہوتیں اور کئی خنثی اپنے آپ کو ٹرانس نہیں گردانتے۔ نیز خنثی برادری کے کچھ لوگوں کاخیا ل ہے کہ انہیں   ایل جی بی ٹی کیو(LGBTQ) میں شامل کیا جانا چاہیے جبکہ دوسرے ایسا نہیں سمجھتے۔۱۲

ایل جی بی ٹی کیو دراصل جنسی رجحانات (Sexual Orientation)کے حوالے سے استعمال کیا جانے والا مخفف ہے جو مخصوص جنسی رجحانات کے حامل لوگوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے استعمال کرتے ہیں:

۱: ایل(L): وہ عورت  جو عورت کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۲: جی(G): وہ مرد جو مرد کی طرف جنسی جھکاو رکھے۔

۳: بی (B): وہ انسان جو دونوں جنسوں کی طرف جھکاو رکھے

۴: ٹی(T): متبدل صنف یعنی ٹرانس جینڈر

۵: کیو (Q): یہ ایک عام لفظ ہے جس سے مقصود "سماج کے مارےہوئے "  ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے  جو روایتی صنفی وجنسی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں تاہم وہ اوپر کے چاروں میں بھی نہیں سماتے۔ اس لیے، اس سے اشارہ عجیب وغریب (Queer)کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور "پوچھنے" (Questioning) کی طرف بھی کہ خود سے کچھ فرض کرنے کے بجائے پوچھ لیا جائے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں جنسی شناخت کے حوالے سے آتا ہے:

gender identity, an individual’s self-conception as a man or woman or as a boy or girl or as some combination of man/boy and woman/girl or as someone fluctuating between man/boy and woman/girl or as someone outside those categories altogether. It is distinguished from actual biological sex—i.e., male or female. For most persons, gender identity and biological sex correspond in the conventional way. Some individuals, however, experience little or no connection between sex and gender; among transgender persons, for example, biological sexual characteristics are distinct and unambiguous, but the affected person identifies with the gender conventionally associated with the opposite sex.

ترجمہ:صنفی شناخت ایک انسان کا اپنے حوالےسے ذاتی تصور ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ، مرد ہے یا عورت، یا انکے بیچ میں کہیں یا وہ بالکل ان تصورات میں آتا ہی نہیں۔ صنفی شناخت حیاتیاتی جنس  نر ومادہ سےجداگانہ تصور ہے۔ عام طور سے، صنفی شناخت اور جنس  ہم آہنگ ہوتے ہیں۔تاہم کچھ افراد کو اپنی صنفی شناخت اور جنسی شناخت    کے درمیان  تعلق بالکل یا بڑی حد تک اپرا اور اجنبی لگتا ہے۔مثلا ٹرانس اشخاص میں حیاتیاتی جنسی خصائص بالکل واضح اور غیر مبہم ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود متاثرہ شخص اپنے آپ کو جنس مخالف سے وابستہ صنف سے وابستہ کرتا ہے۔

بریٹینکا کا یہ اقتباس بہت حد تک واضح کر دیتا ہے کہ کیسے صنف کو جدید ادبیات میں ایک مسلسل اور مائل بہ سیلان (Fluid)  تصور ہے۔ اور اسی طرح، جنس کو بھی قرار دیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے، اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں کہا گیا تھا کہ جنس وصنف کا روایتی تصور دوٹوک دوئی پر مبنی ہے۔

متغیر صنف کے آثار:

تاہم "متغیر صنف" کے لیے اگرچہ یہ ضروری نہیں کہ وہ اپنی جنس،  سماجی مظاہر میں تبدیلی کروائے کہ یہ محض ایک احساس کا نام ہے، لیکن ان میں کئی ایسے ہیں جو یہ تبدیلی کرواتے ہیں۔اور ان تبدیلیوں کو تین  حصوں میں بانٹا جا سکتا ہے:

۱: طبی: اس میں ظاہری اعضا کی تبدیلی، اسی طرح جنسی خصائص کی تبدیلی شامل ہے۔ مثلا بعض مرد اپنا عضو تناسل کٹوا کر اندام نہانی بنوا لیتے ہیں۔(Neovagina Creation)

۲: قانونی تبدیلی۔

۳: سماجی:اس میں نام، ضمائر کا استعمال ،رشتے خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ رشتے  سے مقصود یہ ہے کہ ایک شادی شدہ مرد کو  یہ احساس دامن گیر ہوا کہ وہ عورت ہے اور اس نے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کر کے خود کسی دوسرے کی بیوی بننا پسند کیا۔

چونکہ یہاں بنیاد انسانی احساس وشعور ہے، اس لیے یہ بحث "علم نفسیات" سے جڑتی ہے جو سماجی علوم کی ایک شاخ ہے۔ سماجی علوم میں منہج کے حوالے سے بحث  معروف ہے کہ کیا انسان کے مطالعے کے لیے وہی منہج برتا جا سکتا ہے جو ارادے سے عاری مادے کے مطالعے کے لیے برتا جاتا ہے ؟ تاہم اس وقت جن تحقیقات پر پیسہ صرف ہوتا ہے و ہ اسی منہج کو استعمال کرتی ہیں۔

متغیر صنف کے احساس کی سماجی وقانونی معنویت:

ہم بات آگے بڑھانے سے پہلے، ایک مرتبہ پھر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کسی ایک انسان کا دوسرے انسان کی "جنس یا صنف" کا تعین، ایک معاشرے کا یا قانون کا ایسا کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

ظاہر ہے کہ اگر کوئی انسان اپنے اندر کوئی احساس رکھتا ہے، تو دوسرا انسان، سماج یا قانون اسےکچھ نہیں کہتا؟ یہ اس کا اور اس کے رب کا معاملہ ہے۔ اسی وجہ سے اب تک ہم جنس، صنف، جنسی رجحان، سماجی مظاہر اور سماجی کردار کی بات کرتے آئے ہیں لیکن "صنفی شناخت " کو اس فہرست میں نہیں لائے کیونکہ انسان میں ابھرنے والا نرا احساس ایسا نہیں کہ اس پر شریعت کوئی حکم لگائے جب کہ انسان خود اس کی آبیاری نہ کر رہا ہو۔اسی طرح، جہاں انسان کسی احساس کو پکا رہا ہے، وہاں بھی فرد  کی ذات سے متعلق یہ سوال  کسی دوسرے کے لیے اس  وقت معنی خیز ہوتا ہے جب وہ سماجی مظہر بنتا ہے، اس کا ظہور کسی عمل  سے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے، ایک انسان کی جنس وصنف کا سوال  غیر کے لیے ، مندرجہ ذیل وجوہ سے اہمیت اختیار کرتا ہے: جنسی تعلق قائم کرنا، شادی بیاہ میں بندھنا، معاشرتی کردار ادا کرنا، معاشرتی مظاہر وغیرہ۔اور سوال کچھ یوں بنتا ہے کہ کیا انسانی جذبات واحساسات اور اس کے جبلی رجحانات ان افعال کو جواز بخشنے کے لیے کافی ہیں؟ کیا کسی مرد کا مرد کی طرف رجحان یا زن کا زن کی طرف صرف اس وجہ سے سند جواز یافتہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ذہن میں ایسے کیمیائی تفاعلات جنم لے رہے ہیں، جو اسے ان چیزوں پر ابھار رہے ہیں؟

انسانی نفسیات اور اخلاقی ذمے داری:

 اس کے لیے، آپ اس پر غور کیجیے کہ بچے سے زیادتی کرنے کا عادی اور سلسلاتی قاتل (سیریل کلر) کی ذہنی حالت ایسی ہوتی ہے کہ اگر پہلا کسی سے بھی جنسی تعلق قائم کر لیے اسے قرار نہیں آتا جب تک کسی بچے کا شکار نہ کرے اوردوسراجسے بھی قتل کر لے جب تک وہ اپنے طے کیے ہوئے پیمانے کے مطابق قتل نہیں کرتا، تو بے چین رہتا ہے۔ اب طبی آلات کی ترقی کے بعد، ہم کسی بھی انسان کی ایم آر آئی(MRI)  کر کے اس کے ذہن کی ساخت کی تصویر کشی کر سکتے ہیں اور "ایف ایم آر آئی "(FMRI) کے ذریعے  سے، اس کے ذہن کے مختلف حصوں میں جاری  کیمیائی تفاعلات اور توانائی بننے کا عمل (میٹابولزم) دیکھا جا سکتاہے۔ بلاشبہ، اگر ان دونوں کے دماغوں کی تصویریں لی جائیں، تو وہ ایک نامرد سے اور اس مسکین سے جس کے دل  میں مرغی کو ذبح کرنے کے تصور سے ہول اٹھتے ہیں، بہت مختلف ہوگا۔ اور سائنسی مجلا ت میں اس طرح کی مختلف تحقیقات چھپتی رہتی ہیں.مثلا "سائنٹفک امریکا"  میں ایک مضمون اس  موضوع پر چھپا کہ  آیا "ایم آر ائی "کے ذریعے سے کسی انسان کی بابت یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اندر (دو سے دس سال تک کے )بچوں کی طرف جنسی رجحان ہے تا کہ بچوں کو اس کی پہنچ سے دور رکھاجا سکے؟  یہ ایک بالکل ابتدائی  ناپختہ تحقیق ہے اور اس پر اخلاقی وقانونی سوالات بھی ہیں۔ تاہم یہاں اس کا حوالہ دینے کی وجہ مضمون نگارکا، جس کی تحقیق کا میدان بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے  ہیں، مندرجہ ذیل تبصرہ ہے:

Despite the fact that sexual interest in children was once believed to be the result of sexual abuse in childhood, current research suggests that pedophilia is biological as opposed to learned, and apparently immutable due to associated differences in brain structure and function. Furthermore, a recent fMRI study showed that non-offending pedophiles have greater inhibitory control than pedophiles who have offended, which likely explains why some are more successful in avoiding abusing a child.

ترجمہ:اگرچہ یہ سمجھا جاتا تھا کہ بچوں کی طرف  جنسی رجحان رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے رجحان کے حامل  انسان کے ساتھ خود بچپن میں یہ سانحہ پیش آیا،  تاہم جدید تحقیق سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان رجحانات  کی بنیاد حیاتیاتی وعضویاتی ہے، نہ کہ تجربہ جس سے وہ گزرتا ہے۔ نیز  ذہنی ساخت اور اس کے عمل میں جو فرق ہے ان کی وجہ سے، بظاہر یہ میلان بدلا نہیں جا سکتا ۔مزید بر آں، ایک قریب کی "ایف ایم آر ائی "پر مبنی تحقیق سے یہ سامنے آیا کہ ان جذبات کے حامل غیر جارحانہ   لوگوں کو اپنے آپ پر قابو ان سے زیادہ ہوتا ہے جن کی طبیعت میں جارحیت ہو، اور غالبا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیوں بعض ایسے رجحان مند لوگ (اس کے تقاضے پر عمل کر کے) بچے سے زیادتی سے باز رہتے ہیں۔

اسی طرح، علم اعصاب وعلم جرمیات کے امتزاج سے  پھوٹنے والی شاخ "عصبی جرمیات" (نیوروکرائمولوجی) میں جرم اور مجرم کی ذہنی ساخت پر بہت تحقیق ہو رہی ہے۔نیز ان تحقیقات کی بنیاد پر عدالتی فیصلوں پر بھی تنقید ہو رہی ہے، عدالتوں پر دباو  پڑ رہا ہے۔ ہم اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتے۔ مقصود صرف اشارہ ہے۔

ا ب سوال یہ ہے کہ کیا انسانی ذہن اور اس میں جاری کیمیائی عمل  کسی فعل  کے جواز کے لیے کافی ہے؟

یہاں واضح رہے کہ ہمارا مقصود یہ نہیں کہ انسان کی "اہلیت ادا "کا فقہی وقانونی فیصلے پر اثر نہیں پڑتا۔ بلاشبہ پڑتا ہے۔ چنانچہ مجنوں کے فعل کے احکام الگ ہیں۔ اسی طرح، اگر کسی نے اتنے شدید غصے میں طلاق دی کہ اس حالت کے ڈانڈے جنون سے جا ملتے ہوں، تو اس طلاق کا حکم الگ ہے۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا صرف یہ ثابت ہوجانا کہ بعض لوگوں کے دماغ  کا کسی فعل سے ہم آہنگ ہے اور ان کا رجحان اس طرف پایا جاتا ہے، اس فعل کو "جرم" کی فہرست ہی سے نکال دے گا؟ظاہر ہے شاید ہی کوئی اس کا جواب اثبات میں دے۔ اب اس پر سوال یہ اٹھے گا کہ پھر کس "فعل "  کو جرم مانا جائے اور کسے نہیں؟ ہمارا جواب واضح ہے کہ یہ "تہذیبی قدر " کا سوال ہے۔یہ سائنس کا سوال ہی نہیں جس کا دعوی ہے کہ وہ صرف بیان پر اکتفا کرتی ہے، معیار ی حکم نہیں لگاتی۔

انسانی نفسیات اور انسانی ارادہ:

یہاں پڑھنے والوں کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ یہ بحث دراصل "انسانی ارادے" سے جا ملتی ہے کہ کیا واقعی انسان میں کوئی ارادہ بھی ہے یا نہیں۔ اور پھر اخلاق وقانون کے وجود ہی پر سوال اٹھے گا۔ اس حوالے سے، سماجی علوم میں تحقیق جاری ہے اور جرگہ ابھی بھی بیٹھا ہوا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ یہ علوم کچھ بھی ثابت کر دیں اور خواہ کتنے ہی تجرباتی ثبوت لے آئیں، جب وہ "چاہیے" کا جملہ تشکیل دیں گے اور "قدر" کا سوال اٹھائیں گے، تو اس وقت وہ کچھ بھی کر رہے ہوں، پر "سائنس " کی حدود سے نکل چکے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نوم چومسکی نے ، اپنے مخصوص  انداز میں، اس طرح کی تحقیقات پر بڑا دلچسپ تبصرہ کیا  جب ان سے کسی نے یہی سوال پوچھا کہ جدید اعصاب وغیرہ کی تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے ذہن میں اس کا عمل غیر شعوری طور سے طے ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کا یہ سوچنا کہ وہ باارادہ ہے ایک دھوکا ہے۔ چومسکی کا کہنا تھا کہ یہ سب تحقیقات بہت اچھی ہے لیکن یہ ہمیں اس موضوع سے متعلق کچھ نہیں بتاتیں۔ ہم میں ارادہ ہے اور ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے۔ لیکن اسے ثابت کرنے کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں۔چومسکی نے ولیم جیمز کی طرف سے نقل کیا کہ جو لوگ انسانی ارادے کو مانتے ہی نہیں، تو یہ دلائل کیوں دے رہے ہیں؟! ان کے نظریے کے مطابق ماننے والے ماننے پر مجبور ہیں۔ ان کے مخالفین بھی نہ ماننے پر مجبور ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ وہ بیٹھ کر کوئی تفریحی پروگرام دیکھ لیں۔ (یہ محض ایک مزاح تھا۔ جس میں اصل بنیاد یہ تھی کہ اگر واقعی انسان میں اپنا ارادہ نہیں، تو کسی انسان کو دلائل کی بنیاد پر قائل کرنا ایک بے معنی عمل ہے کیونکہ دلائل کی بنیاد پر دوسرے کو قائل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسرے کو ذی ارادہ مانتے ہیں)

یہاں پھر واضح کرتا چلوں کہ مقصود یہ نہیں کہ ارادہ ہے یا نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ جب انسانی ارادے کا فیصلہ یہ فنون نہیں کر سکتے اور ہم کسی بنیاد پر اسے مانتے ہیں، تو ان علوم سے جو بھی تحقیقات یا ، صحیح الفاظ میں  ، تخمینیں سامنے آتے ہیں، وہ ہماری اقدار کے حوالے سے کوئی خاص رہنمائی نہیں کر سکتے۔

اس لیے، جرگہ اگرچہ بیٹھا ہوا ہے، لیکن کیا اسے حق سماعت بھی ہے؟! ہمارا جواب نفی میں ہے۔ انسانی صنف اور سماجی کردار کا فیصلہ نفسیات اور ذاتی رجحان پر نہیں چھوڑا جا سکتا!

(جاری)


پیغامِ پاکستان اور میثاقِ وحدت

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

گزشتہ روز ادارہ تحقیقاتِ اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے زیراہتمام ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے حوالے سے منعقد ہونے والے قومی سیمینار میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی اور مختلف مکاتبِ فکر کے بزرگوں اور دوستوں کے ساتھ ملاقات کے علاوہ ایک قومی فریضہ کی ادائیگی میں شریک ہونے کا موقع بھی مل گیا، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

قیامِ پاکستان کے بعد سے ملک کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور دینی راہنماؤں کا اس پر اجماع چلا آ رہا ہے کہ پاکستان میں اس کے مقصدِ قیام کے مطابق شریعتِ اسلامیہ کا مکمل اور عملی نفاذ ناگزیر مِلّی تقاضہ اور ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جس کی دستورِ پاکستان میں بھی صراحت موجود ہے، مگر اس کے لیے کسی مسلح جدوجہد کی بجائے پُرامن سیاسی جدوجہد اور جمہوری عمل ہی واحد راستہ ہے جس پر اب تک مجموعی طور پر عمل ہو رہا ہے۔ جہادِ افغانستان کے نتیجے میں افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی کے بعد پاکستان کے کچھ حلقوں میں یہ تصور ابھرا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے بھی مسلح راستہ اختیار کرنا چاہیے مگر ملک کے جمہور علماء نے اسے قبول نہیں کیا اور اس عمل کو خروج اور بغاوت قرار دیتے ہوئے ایسا کرنے والوں سے دوٹوک طور پر کہا کہ نفاذِ شریعت کے لیے ان کا جذبہ، قربانی اور محنت قابلِ قدر ہے مگر مسلح جدوجہد کا طریق کار قطعی طور پر غلط اور غیر شرعی ہے، جس کا اظہار چند سال قبل ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کے عنوان سے ایک متفقہ قومی دستاویز کی صورت میں کر دیا گیا۔ مگر اس کے بعد بھی مختلف اطراف سے اس کے بارے میں شکوک و شبہات اور تحفظات ابھی تک سامنے لائے جا رہے ہیں اس لیے اس امر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس ’’قومی موقف‘‘ کا ایک بار پھر اظہار کیا جائے۔ چنانچہ ادارہ تحقیقاتِ اسلامی نے ۲۳ جنوری کو فیصل مسجد اسلام آباد کے علامہ اقبال آڈیٹوریم میں اس کا اہتمام کیا جس کی کاروائی اور تفصیلات مختلف اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ چکی ہیں۔ اس بروقت اقدام پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بالخصوص ادارہ تحقیقاتِ اسلامی اور اس کے سربراہ ڈاکٹر ضیاء الحق شکریہ اور تبریک کے مستحق ہیں۔

کانفرنس میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کا خطاب اس اجتماع کا حاصل اور علماء پاکستان کے دوٹوک موقف کا اظہار تھا، جبکہ اس کے ساتھ مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا مفتی عبد الرحیم، مولانا پروفیسر ساجد میر، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اور مولانا قاضی نیاز حسین نقوی کے خطابات اس مسئلہ پر امت کی وحدت او رہم آہنگی کی واضح علامت تھے۔ راقم الحروف نے بھی چند گزارشات پیش کیں اور آج کے اہم ترین قومی و مِلی تقاضے کی بروقت تکمیل پر اطمینان کا اظہار کیا۔

اس موقع پر اس موقف کے بارے میں تحفظات و اشکالات کا اظہار کرنے والے دوستوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ موقف آج کا نہیں بلکہ یہ ہمارے ماضی اور دینی جدوجہد کے تسلسل کا ایک اہم باب ہے جس کے لیے اس تاریخی حقیقت کو ہر وقت پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ مسلم حکمرانوں سے مختلف ادوار میں علماء امت کو شکایات رہی ہیں جن کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا ہے، احتجاج و اضطراب کی مختلف صورتیں اختیار کی گئی ہیں، اور مسلم حکمرانوں کو اپنے غلط فیصلوں اور طرزِ عمل سے رجوع بھی کرنا پڑا ہے، مگر ہمارے اسلاف و اکابر نے یہ سارے کام ہتھیار اٹھائے بغیر کیے ہیں اور پُرامن جدوجہد کے ذریعے منکرات و فواحش کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ اکبر بادشاہ کے نام نہاد دینِ الٰہی اور شریعت میں اس کی تحریفات سے بڑے ’’منکر‘‘ کا سامنا شاید کسی اور دور میں امت کو نہ کرنا پڑا ہو، اس کا مقابلہ علماء امت نے حضرت مجدد الف ثانیؒ کی قیادت میں پوری جرات کے ساتھ کیا اور مغل بادشاہت کو بالآخر اس نام نہاد ’’دینِ الٰہی‘‘ سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی۔ حضرت مجدد الف ثانیؒ نے اس دور میں شریعت کی عملداری کو وقت کی سب سے بڑی دینی ضرورت قرار دیا اور اسے سب سے بڑی عبادت بتایا مگر ہتھیار اٹھائے بغیر اس مہم کو سر کیا اور اس کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں۔

ہمارے اکابر نے جہاد اور بغاوت کا فتوٰی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد غیر ملکی حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے دیا تھا جیسا کہ افغانستان میں روسی فوجوں کے تسلط اور پھر امریکی فوجوں کی یلغار کے موقع پر علماء افغانستان نے جہاد کا فتوٰی دیا اور مسلح جنگ لڑی جو بلاشبہ جہاد تھی۔ پاکستان کے علماء کرام نے بھی اس کی تائید کی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح ہزاروں پاکستانیوں نے عملاً اس جہاد میں شریک ہو کر یہ مقدس فریضہ سرانجام دیا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر عرض کروں گا کہ میں نے خود اس جہاد میں مختلف حوالوں سے شرکت کی ہے اور جہادی مراکز کے علاوہ مورچوں میں بھی وقت گزارا ہے جسے اپنے لیے باعثِ نجات سمجھتا ہوں، مگر غیرملکی قوتوں کے خلاف جہاد پر کسی مسلم ریاست کے اندر مسلم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی یہ ہمارے اکابر و اسلاف کی روایت رہی ہے۔

اس لیے تمام متعلقہ دوستوں سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ وہ اپنے موقف اور طرزعمل پر نظرثانی کریں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’علماء پاکستان‘‘ کے اس اجماع و اتفاق کا احترام کرتے ہوئے اپنی جدوجہد کو دستورِ پاکستان کے دائرے میں لے آئیں، یہی آج کے دور کا شرعی اور دینی تقاضہ ہے جو پاکستان کے تمام اہلِ دین کی ذمہ داری بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی وحدت، سلامتی، استحکام، اسلامی تشخص، اور شریعتِ اسلامیہ کے نفاذ و ترویج کے لیے صحیح رخ پر محنت کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

پیغامِ پاکستان میثاقِ وحدت

آج کے اس اجتماع میں پاکستان بھر سے ان جید اور مستند علماء کرام اور مشائخ عظام نے شرکت کی جن کی اکثریت نے ”پیغام پاکستان“ کے قومی بیانیے کو جاری کیا تھا۔ دینی قیادت کے اس اجتماع نے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے، قومی وحدت اور وطن عزیز کی سالمیت کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی جیسے چیلنجز کو مد نظر رکھتے ہوئے، 16 جنوری،2018ء کو جاری کردہ قومی بیانیہ اور فتوی ”پیغام پاکستان“ کے تسلسل میں حسب ذیل اعلامیہ جاری کیا۔

  1. پاکستان بھر کے تمام مسالک کے نمائندہ علماء و مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ ”پیغام پاکستان“ جو کہ 16جنوری،2018ء کو ایوان صدر سے جو قومی بیانیہ جاری ہو ا تھا وہ قرآن و سنت، دستور پاکستان اور پاکستان قوم کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، یہ بیانیہ ہمارے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسا عملی لائحہ عمل پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے نہ صرف قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ پاکستان میں ایک ایسا مضبوط، متحد اسلامی اور جمہوری معاشرہ قیام کیا جاسکتا ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کی روحانیت، عدل و انصاف، مساوات، اخوت، باہمی رواداری و برداشت اور حقوق و فرائض میں توازن جیسی خصوصیت سے ہی مزین ہو۔ اس بیانیہ پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے قومی اسمبلی اور سینٹ سے پاس کروایاجائے اور پورے ملک میں بطور پالیسی نافذ کیا جائے۔
  2. علماء کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ کسی بھی نام نہاد دلیل کی بنا پر اسلامی جمہوری پاکستان کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار درست نہیں۔ لہذا اس کی بنا پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی شریعت و قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔
  3. علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع سمجھتا ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں، جن کا ہمارے ملک کو سامنارہاہے،قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔یہ ریاست ملک و قوم اور وطن عزیز کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے جو آپریشن کیے تھے اورقومی اتفاق رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا تھا وہ درست ہے اور اس پر عمل درآمد جاری رکھنا چاہیے، مزید یہ کہ اگر دہشت گردی ختم کرنے کے لیے مزید اس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہو تو وہ بھی کیے جائیں۔
  4. دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علماء کرام اور مشائخ عظام سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست، مسلح افواج، پولیس، امن و امان قائم کرنے والے تمام اداروں اور عوام الناس کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم قومی بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگر سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔
  5. یہ اجتماع پیغام پاکستان کی تجدید کرتے ہوئے یہ عہد دہراتا ہے کہ لسانی، علاقائی، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروف عمل ہیں، یہ سب شرعی احکامات کی مخالفت کر رہےہیں ، لہذار یاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کے خلاف ایسی بھرپور کارروائی کی جائےجس کے بعد یہ لوگ پھر سے سر نہ اٹھا سکیں، نیز ان گروہوں کے سدباب کے لیے فوری، دیرپا،پائیدار اور سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہییں۔
  6. علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک سنگین جرم ہے لہذا اس قسم کے رویوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جانا چاہیے اور ان کا سد باب کرنے کے لیے تزویراتی، اقدامی، دفاعی، سماجی اور اقتصادی اقدامات کیے جانے چاہییں۔
  7. علمائے مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ دہشت گرد اور فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے نام نہاد جہاد کےنام پر بھتہ خوری شریعت و قانون کی شدید خلاف ورزی اور سنگین جرم ہے جس سے ہمارے معاشرے میں کاروباری سرگرمی متاثر ہو رہی ہیں، اس لیے امن و امان قائم کرنے والے اداروں کو ان جرائم کے خلاف سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
  8. وطن عزیز میں قائم تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے۔ ملک کی تمام سرکاری ونجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت (militancy)، نفرت انگیزی (hatred)، انتہا پسند کی (extremism)، تشدد پسندی (violence) اور علاقائیت پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ پیغام پاکستان جاری کرنے کے بعد اس ضمن میں نمایاں بہتری آئی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں نسبتاً امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔ یہ اجتماع سفارش کرتا ہے کہ اس قسم کے مضر اثرات سے نوجوانوں کو بچانے کے لیے پیغام پاکستان کی روشنی میں بھر پور کوششیں جاری رکھی جانی چاہییں۔
  9. دہشت گردی اور نفرت انگیزی کا فکری رحجان(Mindset)ہماری معاشرتی امن کا دشمن ہے۔ اس رجحان کے خلاف فکری جد وجہد تمام اداروں اور افراد کی قومی ذمہ داری ہے۔
  10. اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص، مسلک یا ادارے کے خلاف اہانت ، نفرت انگیزی اور اتہام بازی پر مبنی تحریر و تقریر غیر اسلامی اور غیر قانونی عمل ہے اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرناضروری ہے۔
  11. مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اولی سے چلے آرہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گے ،یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں ان کو عوام الناس میں انتشار اور تفرقہ بازی کے لیے استعمال کرنادینی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
  12. پاکستان علماء و مشائخ کا یہ اجتماع محسوس کرتا ہے کہ دوسرے ممالک میں موجود کچھ نام نہاد علماء کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل دہشت گرد تنظیموں کے بیانیے اور اقدامات کی حمایت میں اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے خلاف ایسے بیانات دیے گئے ہیں جو شرعی احکام اور بین الا قوامی قانون کے صریحاً خلاف ورزی ہیں، چنانچہ پاکستانی علماء و مشائخ کا یہ نمائندہ اجتماع اس غیر ذمہ دارانہ عمل کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس قسم کے غیر شرعی اور غیر قانونی عمل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
  13. چند روز قبل سویڈن میں ایک انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھناؤنے اور شرمناک فعل سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں، جس کی مذمت کے لیےالفاظ ناکافی ہیں۔ آزادی اظہار کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی آزادی نہیں دی جاسکتی۔ حکومت پاکستان اور انسانی حقوق کے علمبردار ایسے نفرت انگیز عمل کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔
  14. سوشل میڈیا کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی استعمال کی وجہ سے ہماری سماجی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں، اس لیے سوشل میڈیا کو وطن دشمنی، فرقہ پرستی، تشدد، نفرت انگیزی اور دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جانے چاہیے۔ پیغام پاکستان سے متعلقہ سر گرمیوں کے ذریعے عوام الناس خاص طور پر نوجوانوں کی ذمہ داری کے ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت کی جانی چاہیے۔

(مؤرخہ 23 جنوری، 2023ء، ادارہ تحقیقات اسلامی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، فیصل مسجد، اسلام آباد)

مولانا گیلانی اور شیخ اکبر ابن عربی (۱)

مولانا طلحہ نعمت ندوی

یہ عنوان مختصر ہے لیکن تہ دار اور وسیع المعانی، ایک طرف شیخ اکبر ابن عربی کی جامع ومعرکہ آرا شخصیت، ایک طرف بر صغیر کے نامور عالم دین مولانا مناظر احسن گیلانی، جنہیں خود ان کے رفیق دیرینہ مولانا عبدالباری ندوی نے وقت کاابن عربی قرار دیا تھا، وہ ابن عربی کے عاشق تھے بلکہ عاشق زار، ان کے ذکر پر بے اختیار ہوجاتے، جب جب نام سنتے یا ان کے انتساب سے کسی کا نام ان کے کانوں میں پڑتا تو پھڑک اٹھتے، کاش کہ ان کے سدا بہار وپرفیض قلم سے ابن عربی کے احوال وافکار اور ان کے خیالات وآراء کی توضیح مرتب شکل میں ہوگئی ہوتی، ابن عربی پر اس دور میں برصغیر میں جیسا مطالعہ مولانا کا تھا شاید ہی کسی کا رہا ہوگا۔

اگرچہ ابن عربی کے حوالہ سے ہندوستان بالکل تہی مایہ نہیں رہا ہے، ان کے ابتدائی دور ہی سے ان کے افکارکی خوشبو اس ملک میں آنے لگی تھی، چشتیہ اور قادریہ سلاسل کے اولین بزرگوں میں تو نہیں لیکن اس کے معاً بعد آٹھویں، نویں صدی ہجری میں ان کے افکار یہاں کے صوفیہ کا موضوع بحث بننے لگے تھے، حضرت سید علی ہمدانی اور مخدوم جہانگیر اشرف سمنانی، شیخ ابوالمحاسن شرف الدین دہلوی اور سید محمد گیسو دراز نے ان کو باضابطہ یہاں متعارف کرایا، ان کے آراحضرت مخدوم الملک شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری کے یہاں تو ان کا ذکر نہیں ملتا لیکن ان کے سلسلہ کے تیسرے بزرگ اور خلیفۃ الخلیفہ حضرت حسین بن معز بلخی معروف بہ حسین نوشہ توحید نے اپنی تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ گرچہ نام نہیں لیتے لیکن ان کے افکار حضرت ابن عربی ہی کے خیالات کا عکس نظر آتے ہیں، بالخصوص جو کچھ انہوں نے اپنی کتاب حضرات خمس میں لکھا ہے، وہ اس باب میں قابل ذکرہے۔ البتہ یہ بات قابل ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے شیخ حضرت مظفر شمس بلخی کے ساتھ حجاز میں بھی ایک عرصہ گذارا تھا، لیکن ان کی تحریروں میں ابن عربی کا نام کہیں نظر نہیں آتا۔1

ان کے بعد شیخ محب اللہ الہ آبادی اس ملک میں ابن عربی کے سب سے بڑے ترجمان تھے، پھر تو ایک بڑی تعداد نظرآتی ہے جس نے فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کی شرح وتوضیح میں اپنا زور قلم اور قوت ذہن صرف کی ہے۔2

مولانا گیلانی کو ابن عربی سے ان کے دور آغاز ہی سے دلچسپی ہوگئی تھی اور وہ ان کی کتابوں اور تحریروں کا مطالعہ کرنے لگے تھے، اس مطالعہ کا محرک کیا ہوا، اس کا پتہ تو نہیں چلتا نہ مولانا کی کسی تحریرمیں اس کا اشارہ ملتا ہے، ا لبتہ ایسا لگتا ہے کہ ان کے محبوب استاد علامہ انور شاہ کشمیری جن کی نظر دیگر مصنفین اسلام کے ساتھ ابن عربی پر بھی بہت گہری تھی، ان کی صحبت اور علمی استفادہ اور ابن عربی کے تذکرہ نے ان میں یہ ذوق پیدا کیا ہو، مولانا لکھتے ہیں:

’’بہ ظاہر تصوف اور صوفیا کے متعلق خیال ہوتا تھا کہ اس طبقہ اوران کے علوم ومعارف سے شاہ صاحب کو شاید چنداں دلچسپی نہیں، لیکن وہی بھولے بسرے خیالات جو دماغ میں رہ گئے ہیں ان ہی میں سےدو باتیں میرے اندراس طرح جاگزیں ہوگئی ہیں، کہ تصوف کے نظری وعملی دونوں حصوں کے متعلق بعد کو جو کچھ بھی اس فقیر نے سوچا یا سمجھا زیادہ تر ان ہی دونوں کی روشنی میں سمجھا اور سوچا‘‘۔

پھر وحدت الوجود کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں:

’’حادث (یعنی کائنات ومخلوقات ) کا قدیم (یعنی خالق جل مجدہ )سے کیا تعلق ہے، شاہ صاحب کے الفاظ میں ربط الحادث بالقدیم، یہی عنوان قائم کرکے اس سلسلہ میں کچھ فرماتے تھے، یہی تصوف کے نظری حصہ کا بنیادی واساسی مسئلہ تھا، پہلی دفعہ شاہ صاحب نے اس مغالطہ کا ازالہ فرمایا کہ عوام الناس خالق ومخلوق کے تعلقات کو صانع ومصنوع یا معمار ومکان کی مثال سے سمجھنا چاہتے ہیں، مصنوع اپنے باقی رہنے میں چوں کہ صانع کا محتاج نہیں رہتا، یعنی مکان کو مثلا بن جانے کے بعد معمار کی ضرورت باقی نہیں رہتی، عوام کی سمجھ میں صحیح طور پر اس لئے نہیں آتا کہ پیدائش میں تو عالم خدا کا محتاج ہےلیکن پیدا ہوجانے کے بعد عالم کو اپنی بقا میں خدا کی کیا ضرورت ہے، صوفیہ اسی وسوسہ کا ازالہ اپنے اس نظریہ سے کرتے ہیں، جو وحدت الوجود وغیرہ ناموں سے مشہور ہے، اور نہ جاننے والوں نے مشہور کررکھا ہے کہ صوفیہ وحدت الوجود کے جو قائل ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا ایمان وحدت الوجود پر ہے، یعنی سارے موجودات ایک ہیں، حالاں کہ’’الوجود ‘‘ کی وحدت کو ’’الموجود‘‘ کی وحدت سےکیا تعلق؟

خاکسار نے اپنی کتاب الدین القیم میں اس وحدت الوجود کے مسئلہ کی جو تشریح وتفصیل کی ہے، سچی بات یہ ہے کہ بنیادی امور اس کے شاہ صاحب کی تقریر ہی سے ماخوذ ہیں‘‘۔3

نیز تصوف کا ذوق جو ان کے خمیر میں ابتدا ہی سےودیعت کردیا گیا تھا، اس نے بھی شیخ کی ذات وافکار سے انہیں قریب کیا تھا، بقول مولانا غلام محمد شاگرد حضرت گیلانی حضرت والا جذب کی دولت اپنے ساتھ ہی لیتے آئے تھے، اوروہ ’’مجذوب سالک‘‘ تھے۔4 ٹونک کے دور قیام میں ہی ان کو صوفیا کی کتابوں سے دلچسپی ہوگئی تھی، بالخصوص امام غزالی کی احیاء العلوم کے مطالعہ کا آغاز ہوگیا تھا جیسا مولانا کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے لیکن ابن عربی سے اس دور میں ہی انہیں دلچسپی ہوگئی ہو اس کا کوئی ذکر نہ ان کی تحریر میں کہیں ملتا ہے نہ کسی اور تحریر سے اس کا علم ہوسکا۔

چنانچہ انہوں نے جب دارالعلوم دیوبند سے تکمیل تعلیم کے بعد وہاں کے ترجمان القاسم کی ادارت سنبھالی تو اس وقت اس میں انہوں نے ابن عربی پر کئی مضامین لکھے تھے، اور ان کی شخصیت سے اردو کے علمی حلقوں کو متعارف کرایاتھا۔5

القاسم میں اس سلسلہ سب سے پہلا مضمون اتحاد وحلول کی تشریح میں ملتاہے، جس کی تمہید میں علامہ شعرانی اور دیگر بزرگوں کے حوالہ سے ابن عربی کی کتابوں میں الحاقات کے اجمالی تذکرہ کے بعد ان کے نظریہ ٔ حلول اور وحدت وجود کی تشریح کی گئی ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے قول کا مطلب بس اتنا ہے کہ ہے جس طرح روح کے بارے میں علماء امت کا یہ اختلاف رہا ہے کہ روح جسم میں ہے یا جسم سے باہر ہی رہ کر جسم کو کنٹرول کرتی ہے، شیخ ابن عربی کے بقول ’’روح کو جو تعلق عالم اصغر کے ساتھ وہی تعلق عالم اکبر کے ساتھ خدا کو ہے‘‘۔6

ان کے بقول عام متکلمین روح کے حلول وتجسم کے قائل ہیں لیکن شیخ ابن عربی روح کے تجرد کے قائل ہیں، اسی بنیاد پر انہوں نے خدا کی بھی مثال دی تھی کہ جس طرح روح کا تعلق جسم کے ساتھ ہے اسی طرح خدا کا تعلق اس عالم یعنی عالم اکبر کے ساتھ ہے۔ مولانا نے بھی بتایا ہے کہ روح کے جسم کے تعلق وتجرد پر مسلم ویونانی اور ایرانی فلاسفہ کے سیکڑوں مذاہب ہیں، ’’اور فلاسفہ مغرب نے اپنے اضافوں سے اسے دو چند بنا دیا ہے، افلاطون، ارسطاطالیس، امام غزالی، رازی وغیرہ روح کے تجرد کے قائل ہیں‘‘۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم وغیرہ روح کے تجسم کے قائل ہیں۔7

مولانا مزیدلکھتے ہیں:

’’مسئلہ وحدت الوجود میں جو آئے دن غلط فہمیاں ہوتی رہتی ہیں، وہ زیادہ تر اسی قسم کی دجالانہ ریشہ دوانیوں، حاسدانہ عدواتوں کے نتائج ہیں۔ وحدت الوجود ایک صحیح مسئلہ تھا، عہد تصوف کی ابتدا سے اس کی بنا پڑ گئی تھی، لیکن چرچا اس قدر نہیں ہوا تھا، شیخ محی الدین عربیؒ آئے تو انہوں نے نہایت شاندار، پُر شوکت بیانوں میں اس پر روشنی ڈالی، اپنی مؤلفات کا بیشتر حصہ اسی مسئلے کی نذر کردیا۔ کائنات کے تمام اصول، قوانین کو زیادہ تر اسی پر مبنی کرنے لگے، الغرض مدارج سلوک کے اعتبار سے صوفیا پر جو احوال طاری ہوتے ہیں، شیخ نے بھی اپنی مختلف حالتوں میں اس مسئلہ کی مختلف حیثیتوں سے شرح کی، اور چونکہ اپنے زمانے میں اور بعد میں بھی عام اہل ملت پر پورا اثر تھا، ان کے اعتراف ولایت سے اکثروں کے دل لبریز تھے، ان کے ہر قول و فعل نے وہ رتبہ حاصل کیا تھا کہ بڑے بڑے اکابر علماء بھی بجز تسلیم کے اور کوئی چارہ نہیں پاتے تھے، یہی وہ موقعہ تھا کہ جہاں ان دجالوں کو کھیل کھیلنے کی گنجائش مل گئی۔ وحدت الوجود کا مسئلہ، صوفی کا کلام، ولایت کی دھاک، یہ تین چیزیں ایسی جمع ہو گئیں کہ ان متمردوں سے جو کچھ بھی ہو سکا کر گذرے، حتی کہ آج سمجھا جاتا ہے کہ اتحاد و حلول، وحدت الوجود دونوں ایک چیز ہے، اور یہ بالکل صحیح ہے کہ شیخ قدس سرہ کے بعض کلمات سے اس کا وسوسہ پیدا ضرور ہوتا ہے، حتیٰ کہ ان کی کتابوں میں کبھی ایسے الفاظ بھی ملتے ہیں جو ایک حد تک اتحاد و حلول پر المطابقہ دال ہیں‘‘۔8

مولانا نے ثابت کیا ہے کہ شیخ خود حلول کے سخت منکر ہیں اور ایسا کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں اور اخیر میں علامہ شعرانی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حلول کے قائل تو بہت سے مشرکین بھی نہیں چہ جائے کہ شیخ اکبر۔ ان کی طرف اس طرح کی باتیں غلط منسوب کی گئی ہیں۔

انہوں نے القاسم والرشید ہی میں ابن عربی کے بعض نصائح کے ترجمےبھی شائع کیے تھے۔9

کرامت اولیاء کے سلسلہ میں بھی شیخ ابن عربی کے کلام کی تشریح کی ہے، اور اس سے قبل چند سوالات قائم کرکے لکھا ہے کہ معاصر دور کے ان کلامی سوالات کے جوابات شیخ کی اس تحریر میں مل سکتے ہیں۔10

شیخ کے نزدیک کرامت کی دو قسمیں ہیں کرامت حسیہ اور کرامت معنویہ۔ انہوں نے اس کے بعد بتایا ہے کہ شیخ کے نزدیک کرامت معنویہ اصل ہیں، کرامت حسیہ کی بہت زیادہ اہمیت نہیں ہے۔

یہ تمام مضامیں مولانا کے بالکل ابتدائی دور کے ہیں، اس کے بعد چالیس کی دہائی میں انہوں نے ابن عربی پر اپنے معمول کے خلاف عربی میں تقریباً‌ چالیس صفحات کا مفصل مضمون لکھا اور اس میں شیخ کے منہج اور ان کے طریقۂ کار کو پورے تاریخی پس منظر کی تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی، اس میں انہوں نے اپنے اب تک کے مطالعہ کا نچوڑ پیش کردیا ہے، اس کی تفصیل آگے ذکر کی جارہی ہے۔

سوانح اویس قرنی جو ان کی بالکل ابتدائی دور کی کتابوں میں ہے، اور فراغت کے چند سال بعد ہی لکھی گئی ہے، اور القاسم ہی میں شائع ہوئی تھی، اس میں بھی ابن عربی کی فتوحات کے حوالےا وراقتباسات ملتے ہیں، نیز مولانا کی اکثر کتابوں میں کہیں نہ کہیں ابن عربی کا ذکر عام طور پرملتا ہے، مقدمہ تدوین فقہ ہو یا الدین القیم ان سب میں اس کے حوالے موجود ہیں۔

الدین القیم کے بارے میں علامہ سیدسلیمان ندوی علیہ الرحمۃ کے ایک تبصرے پر ان کو ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’الدین القیم پر جناب والا کی رائے معارف والی پڑھی، ‘‘صوفیانہ علم کلام’’نام آپ نے خوب رکھا، مجھے اس کا خوف ہے کہ اپنے فطری اسہالی رنگ کے خوف سے پنسل برداشتہ والے اس مسودہ کو اسی اجمال واختصار کی حالت میں شائع کرنا پڑا، اہل بصیرت تو اندازہ کرلیتے ہیں، لیکن عوام بیچارہ کو اس کا صحیح اندازہ لگانا کہ کن کن مسائل میں نئی راہیں اختیار کی گئی ہیں ذرا مشکل ہے، گو بعضوں نے اعتراف کیا ہے کہ تقریبا کتاب کے دو ثلث مسائل ایسے ہیں جن کے دعاوی تو ٹھیٹ قرآن وحدیث سے ماخوذ ہیں۔ لیکن استدلال میں کسی کی تقلید نہیں کی گئی ہے۔ لیکن یہ بات آپ نے صحیح لکھی کہ متکلمین سے ہٹ کر در حقیقت حضرات صوفیہ کی زلہ ربائی کا یہ نتیجہ ہے، میرے پیش رو اس راہ میں شیخ اکبر اور مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ ہیں‘‘۔11

لیکن اس ذوق کو جلا اس وقت ملی اور یہ دوآتشہ بن گیا جب مولانا حیدرآباد پہنچے اور وہاں مولانا انوار اللہ خاں صاحب کےدرس میں شریک ہوئے اور ان سے استفادہ کیا، مولانا خود لکھتے ہیں:

’’مولانا انواراللہ خاں مرحوم کے یہاں رات کو فتوحات مکیہ کا سبق ہوتا تھا، حیدر آباد کےمشاہیر علماء اصحاب جبہ وعمامہ بڑ ی بڑی داڑھیوں کے ساتھ اس حلقۂ درس میں شریک ہوتے تھے، فقیر تو اسی مکان میں رہتا تھا، حلقہ درس کا ایک رکن میں بھی بن گیا ‘‘۔12

اور پھر بعد میں شیخ ابن عربی کے حالاً وقالاً ترجمان شیخ محمد حسین کی صحبتوں میں مستقل حاضرہوکر استفادہ کرنے لگے یہاں تک کہ ان کے خلیفہ مجاز ہوئے، مولانا منت اللہ صاحب رحمانی نےمکاتیب گیلانی میں ایک جگہ ان کاتعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:

’’حضرت مولانا محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ حیدرآباد کے ایک بڑے صاحب حال وقال بزرگ تھے، دوام حضور کا حال مقام بن گیا تھا، حیدرآباد میں گمراہ کن وجودیت کا بہت دور دورہ تھا، لیکن حضرت ممدوح کو جس سلسلہ سے تعلق تھا اس نے اس کی ایک خاص تعبیر وتعلیم اختیار کرکے گمراہیوں کی بڑی اصلاح کردی تھی، اسی کی تعبیر وتعلیم حضرت کا دن رات کاقال ہی نہیں حال تھا، اس کی دوسروں کو تفہیم وتلقین فرماتے رہتے ہیں، اور طریق صوفیا کی عام اذکاری واشغالی تعلیمات کو اس اطلاقی طریقہ کے مقابلہ میں اشغالی عقیدہ فرماتے اور اہل علم کے لئے خصوصاً پسند نہ فرماتے، در اصل یہ حضرت ابن عربی کے خاص فلسفیانہ تصوف وتوحید کا مسلک تھا، اور حضرت گیلانی کوحضرت شیخ سے اتنی خلقی وفطری مناسبت تھی کہ حضرت مولانا عبدالباری صاحب ندوی تو انہیں وقت کا ابن عربی ہی کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ تحریری رنگ میں بھی مولانا کو فتوحات کی جھلک دکھائی دیتی تھی‘‘۔13

مولانا عبدالباری ہی کے نام ایک مکتوب میں مولانا گیلانی کے ذوق وجودیت کا اظہار بھی ہوا ہے، لکھتے ہیں:

’’آج کل نہ معلوم کیوں رب العالمین اور ربی الاعلیٰ پر دماغ متوجہ ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طبیعت، نیچر، فطرت، مادہ یہ شیر کے منہ کے پتھر تھے، ان کو حذف کردینے کے بعد رب اور مربوب میں کیا پردہ رہ جاتا ہے، اورمربوب سے رب کیا جدا ہوسکتا ہے، کیا درخت سے اس کی طبیعت، اس کا مزاج، اس کی صورت نوعیہ جدا ہوسکتی ہے، پرو رش کرنے والی قوت کو جب ’’ربی الاعلیٰ‘‘ کی تعبیر واضافت کےساتھ سونچتا ہوں توپستی میں بڑی بلندی محسوس ہوتی ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب میں صرف اپنی قوت کا پرستار ہوں، عجب حال ہے اس خودپرستی کا، مربوب اسی قوت مربیہ کا اثر معلوم ہوتا ہے ‘‘۔14

اس پر مولانا عبدالباری صاحب نے حاشیہ میں لکھا ہے ’’مولانا کے خاص مذاق توحیدی کے اشارات‘‘۔

ابن عربی سے ان کی عقیدت کا جو عالم تھا اس کا تذکرہ ان کے شاگرد مولانا غلام محمد نے ان الفاظ میں کیا ہے۔

’’قادری چشتی ہونے کی وجہ سے اپنے اکابر سلسلہ سے حضرت گیلانی کو جو تعلق تھا وہ تو تھا ہی، مگر شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہ کے تو وہ بالکل شیدائی تھے، حالت یہ تھی کہ مولانا ابوالحسن علی ندوی مدظلہ کا سفرنامہ مشرق وسطی جب جریدۂ صدق (لکھنؤ )میں چھپا مگر شہر دمشق کے تذکرہ میں شیخ اکبر ؒ کا کوئی ذکر نہ تھا، اس پر حضرت گیلانی نےفوراًایک خط میں بڑے سوز وحسرت سے اس مفہوم کا جملہ فرمایا تھا کہ، ’’یہ بھی تو مولانا نے لکھا ہوتا کہ ہمارے شیخ اکبر کےنام لیوابھی ابھی وہاں کچھ باقی ہیں یا نہیں‘‘۔15

مولانا کو ابن عربی سے جس قدر دلچسپی تھی اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہیں اپنے مشہور ہم وطن بزرگ مخدوم الملک حضرت شیخ شرف الدین احمد بن یحییٰ منیری کی ذات سے بھی عقیدت تھی، اور ان کے علوم پر عالمانہ نظر بھی، انہوں نے اس علاقہ سے نکلنے والے ایک ماہنامہ رسالہ فطرت (راجگیر، بہارشریف )کے پہلے شمارہ کے لئے مدیر مجلہ کی طلب پر فتوحات مکیہ کی طرح ’’فتوحات مخدومیہ‘‘ کے عنوان سے ایک اہم مضمون لکھا جو اس کے پہلے اور دوسرے شمارہ میں شائع ہوا، پہلاشمارہ جو ۱۹۳۳ء کے کسی مہینہ میں شائع ہوا تھا مجھے نہیں مل سکا، اس میں مولانا نے اپنے نام کی صراحت کے بجائے رمز استعمال کیا تھا، لیکن اس مضمون کی دوسری قسط راقم کی نظر سے گذری ہے، وہ حضرت مخدوم کے ایک اہم مجموعۂ ملفوظات’’معدن المعانی‘‘ کے اہم مباحث کی تشریح پر مشتمل ہے۔

تصوف واحسان کے مباحث پر مولانا کی معرکہ آرا کتاب’’مقالات احسانی‘‘ جس میں وہ صوفیہ کے زبردست وکیل نظر آتے ہیں، اس کا بیشتر حصہ بھی ابن عربی ہی کے افکار وعلوم کی شرح وتوضیح پر مشتمل ہے۔ وہ ابن عربی پر ایک مستقل تصنیف کا عزم کرچکے تھے، اور ان کی بڑی تمنا تھی کے ان کے حالات وافکار کی تشریح کرتے، لیکن افسوس کہ یہ ارادہ پورا نہ ہوسکا، ایک جگہ بہت حسرت سے لکھتے ہیں:

’’بجائے خود یہ ایک مستقل مضمون ہے، تفصیلات کے لئے دعا فرمائیے کہ شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کے علوم اور ان کے حالات پر عنفوان شباب سے ایک کتاب ہی کے لکھنے کی نیت کرچکا ہوں، لیکن خدا ہی جانتا ہے، اس پرانی آرزو کی تکمیل کا موقع ملتا بھی ہے یا نہیں۔ شیخ اکبر رضی اللہ عنہ جیسا کہ معلوم ہے، خاص اندلس (یورپ )سے وطنی تعلق رکھتے تھے، اندلس کے مشرقی ساحل پر اب بھی مرسیہ نامی شہر پایا جاتا ہے، جو خاص مسلمانوں کا آباد کیا ہوا شہر ہے، عربوں نے صحرائے عرب کی مشہور راجدھانی تدمیر کے پر اس یورپین شہر کانام بھی تدمیر ہی رکھا تھا، لیکن چلا نہیں، مرسیہ ہی کے نام سے مشہور ہوا، یہ علاقہ اندلس کا باغ سمجھا جاتا تھا، شیخ رحمۃ اللہ علیہ جس زمانہ میں پیدا ہوئے یہی وہ وقت ہے جب مسلمانوں کی سیاسی قوت کا یہ انتشار عیسائیوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا، بے حمیت امراء اندلس کی عیسائی حکومتوں سالانہ خراج ادا کرتے تھے، ان ہی میں مرسیہ کا نواب مرونیش بھی تھا، شیخ اسی خاندان کے عہد حکومت میں مرسیہ کے ایک علمی گھرانے میں رورنق افروز ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد اشبیلیہ اندلس کے مغربی علاقے میں چلے گئے، وہاں کے تعلیمی مرکزوں سے مستفید ہوتے رہے، اندلس سے مسلمان اس زمانے میں مسلسل ہجرت کرکر کے افریقہ اور ایشیا یعنی مشرقی ممالک کی اسلامی حکومتوں میں پناہ لے رہے تھے، بارادۂ حج اندلس کو خیر باد کیا، اور مشرقی ممالک ہی میں گھومتے رہے، تاایں کہ دمشق میں وفات ہوئی‘‘۔16

افسوس کہ ان کے قلم سے اس کی شرح وتوضیح نہیں ہوسکی جس کا آغاز باضابطہ انہوں نے کردیا تھا۔ لیکن اس سے قبل بھی وہ بہت سے مضامین ابن عربی پر لکھ چکے تھےجن میں سے کچھ کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا کی کوئی تحریر عربی میں سوائے ابن عربی کے خیالات وافکار کی تشریح وترجمانی کے نہیں ملتی، اسی سے ان کی عربی انشانگاری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے، تقریباً‌ چالیس صفحات کا یہ مفصل مضمون بجائےخود ایک رسالہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں پورے پس منظر کا جائزہ لینے کےبعد مولانا نے تفصیل سے بتایا ہے کہ ایسی صورت میں شیخ کے لئے اس کے علاوہ کوئی گنجائش نہیں تھی کہ وہ ظاہریت اختیار کریں اور ساتھ ہی وحدت قیومیت کی صدا لگائیں، شیخ نے اپنی تحریروں میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس پورے ماحول کو سامنے رکھ کر اور اسلام کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی خاطر لکھا ہے، انہوں نے بتایا ہے کہ ابن رشد کی وجہ سے اس ثنوی فکر کی ترویج ہورہی تھی، جو مسلمانوں کے درمیان رائج ہونے والے مشائی فلسفہ کی بنیاد تھی، اس لئے ضرورت تھی کہ وحدت قیومیت کی با ت کی جائے۔ یہ شیخ کا اساسی منہج ہے جو ان کی کتابوں میں نظر آتا ہے۔

مولانا نے شیخ کی پوری فکر کا خلاصہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:

  1. پہلا مسئلہ جو شیخ اپنی تصانیف میں با بار ذکر کرتے ہیں، اور اس کی توضیح کرتے ہیں، وہ عقل فکری کی انتہاء اور نظر انسانی کی حد پروازسے متعلق ہے۔
  2. دوسرا مسئلہ رد ثنویت و بت پرستی سےمتعلق ہے، یہی مسئلہ لوگوں کے درمیان وحدت الوجود کے نام سے مشہور ہو گیا ہے۔
  3. تیسرا مسئلہ قرآنی جنت و آخرت کی وہ تصویر کشی ہے جیسی قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
  4. چوتھا مسئلہ اسرار تقدیر سے متعلق ہے، بالفاظ دیگر جسے مسئلہ خیر و شر سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
  5. پانچواں مسئلہ ذات و صفات کے سلسلہ میں وارد نصوص کو تشبیہ و تنزیہ کے درمیان کی راہ متعین کرنے سے متعلق ہے، اور اس سلسلہ میں فرق ضالہ نے جو دسیسہ کاریاں کی ہیں ان کا ازالہ ہے۔

مولانا کے بقول ’’جاننے والے جانتے ہیں کہ ان میں اکثر مسائل کی اصل مشائی فلسفہ اور اس کے شکوک و شبہات کے دین پر غلط زہریلے اثرات اور باطل نتائج سے بچانے اور اس سےاٹھنے والے فتنہ کو ختم کرنا ہے ‘‘۔17

پھر اس کی توضیح کی ہے، کاش وہ اس پر مزید لکھتے اورانہیں پوری کتاب لکھ کر اس پر تفصیل سے روشنی ڈالنے کا موقع ملتا۔18

انہوں نے اس میں ایک اہم بات کا انکشاف کیا ہے وہ یہ کہ کا نٹ کا فلسفہ حضرت شیخ اکبر ہی سے ماخوذ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’جس چیز کو دیکھ کرحیرت ہوتی ہے، اورآدمی مبہوت ہو کر رہ جاتاہے، وہ یہ ہے کہ یورپ والےاورجوان یورپ والوں کےطفیلی یاان کی ہاں میں ہاںملانےوالےہیں، ان سبھوں نےاس مسئلہ کی ایجادوتنقیح کاسہراجرمنی کےحکیم کانٹ کےسرباندھتے ہیں، اپنی قوم کےلئےاس چیزکویہ مایۂ فخروفضل بنائےہوئےہیں، لیکن جو لوگ دونوں سے واقف ہیں، اور دونوں پران کی نظر ہے، انہیں یہ کہنے میں تردد نہیں ہوگا، کہ جرمن فلسفی نے اس سلسلہ میں جو حقائق و نکات ذکر کئے ہیں، وہ شیخ کے لطائف و دلچسپ مباحث و نکات کے سامنے ایک سمندرکے قطرہ سے زیادہ نہیں معلوم ہوتے۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ امام غزالی کی کتابیں اور شیخ ابن عربی کی تصانیف ہی ہیں جنہوں نے اہل یورپ کی اس طرف رہنمائی کی، جس کو انہوں نے معاصر اسلوب اور عصر ی قالب میں ڈھال کر پیش کر دیا۔ اس طرح کے مسائل میں انہوں نے کتنا سرقہ کیا ہے، اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں، اگر موقع ملا تو اصل کتاب میں اس کی تفصیل و توضیح ذکر کی جائے گی، اور ان کا جائزہ لیا جائے گا، ان شاء اللہ‘‘۔19

جب مولانا کا یہ مقالہ شائع ہوا تو ان سے اس موضوع پر مزید روشنی ڈالنے کی گذارش کی گئی، چنانچہ انہوں نے اردو میں اس پر تفصیل سے لکھا’’شیخ اکبر ابن عربی کا نظریۂ علم‘‘ کے عنوان سے معارف کی دو قسطوں میں شائع ہوا۔ اس میں مولانا نے شیخ کے اقتباسات کے ذریعہ عقل انسانی کی حد پرواز اور دیگر مباحث پر روشنی ڈالی ہے۔

(جاری)

حواشی

  1. از افادات مولانا شاہ شمیم الدین احمد منعمی عظیم آبادی۔
  2. مولانا سید عبدالحي حسنی نے تاریخ الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند میں فصوص الحکم کی شروح کا ذکر کیا ہے، جو حسب ذیل ہیں، شرح الفصوص شیخ علی ہمدانی کشمیری، فارسی، شرح حضرت گیسو دراز، مشروع الخصوص شرح الفصوص، شخ علی مہائمی، عین الفصوص شیخ شرف الدین دہلوی، عربی، نقش الفصوص شیخ شمس الدین دہلوی، شرح الفصوص حضرت جہانگیر اشرف کچھوچھوی، شرح الفصوص شیخ عبدالنبی شطاری، شرح ترجمۃ الفصوص شیخ عبدالنبی مذکور، شرح الفصوص شیخ محب اللہ الہ آبادی، عربی، انہیں کی دوسری فارسی شرح، شرح عبدالکریم سلطان پوری، شرح شیخ عبدالنبی نقشبندی سیام چوراسی، شخوص الحکم شیخ غلام مصطفیٰ تھانیسری دہلوی فارسی، شرح الفصوص علی وفق النصوص شیخ محمد افضل الہ آبادی، الطریق الامم شرح فصوص الحکم شیخ نورالدین گجراتی، شرح الفصوص شیخ علی اصغر قنوجی صدیقی، شرح شیخ طاہر بن یحییٰ عباسی الہ آبادی، تاویل المحکم شیخ محمد حسن امروہوی، شرح شیخ جمال الدین گجراتی، تایید الہمم فی شرح اربع کلما ت من فصوص الحکم شیخ محمد افضل الہ آبادی۔ (الثقافۃ الاسلامیہ فی الہند، ص۱۶۸، موسسۃ ہنداوی مصر ۲۰۱۲)، ان کے علاوہ شرح شیخ عبدالقدوس گنگوہی، سید عبدالاول دولت آبادی کی شرح، ملا عبدالعلی بحرالعلوم کی شرح، ان کے علاوہ شیخ عبدالکریم لاہوری اور مولانا احمد حسن کانپوری کی فارسی شرحیں قابل ذکر ہیں، اردو میں سب سے پہلے اس موضوع پر کس نے کام کیا اس کا صحیح علم نہیں، مولوی عبدالغفور دوستی بہاری، مولوی سید مبارک علی اور مولوی عبدالقدیر حیدرآبادی کے فصوص الحکم کے اردو ترجمےاس سلسلہ کی اولین کوشش کہے جاسکتے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے خلیق احمد نظامی کا مضمون ابن عربی اور ہندوستان، شائع شدہ ماہنامہ برہان دہلی جنوری ۱۹۵۰ء۔ موصوف نے اس میں مذکورہ بالا شرحوں میں سے اکثر کا ذکر کیا ہے، اور شیخ علی ہمدانی کشمیری کی کوشش کو اس سلسلہ کی اولین کوشش قرار دیا ہے، گرچہ ان کے بقول ان سے قبل شیخ شمس الدین عارف کے یہاں سب سے پہلے شیخ ابن عربی کی تصانیف کا حوالہ ملتا جو حضرت شیخ بہاء الدین زکریا ملتانی کے متوسلین میں تھے۔ مولانا عبدالحی کی ذکر کردہ شروح کے علاوہ جو نام ہیں وہ اسی مذکورہ بالا مضمون سے ماخوذ ہیں۔ مزید جن کتابوں کا علم ہوا ان میں حاشیہ فصوص الحکم از شاہ عاشق علی عظیم آبادی، فارسی میں ہے، اور خانقاہ شاہ ارزاں میں موجود ہے۔ (نعمت ارزاں مقدمہ از شاہ حسین احمد، مطبوعہ خانقاہ شاہ ارزانی پٹنہ ۲۰۲۱ء)۔ شرح فصوص عربی از علیم اللہ بدایونی خلیفہ مولانا محمد اسلم جعفری کاکوی، دست خاص کا نسخہ کتب خانہ خانقاہ مجیبیہ پٹنہ میں موجود ہے۔ ان کاموں کے علاوہ ابن عربی کے فلسفہ بالخصوص فلسفہ وحدت الوجود پر یہاں بہت کام ہوا ہے۔ اس کے لئے خلیق احمد نظامی کامحولہ بالا مضمون ملاحظہ فرمائیے۔ خانقاہ مجیبیہ پٹنہ کے بزرگوں میں اس موضوع پر دو کام قابل ذکر ہیں ایک مواطن التنزیل از مولانا عبدالغنی منعمی اور ملا امر اللہ جعفری کی تحلیل المعضلات لابن عربی۔ الفیض التقی فی حل مشکلات ابن عربی، شاہ انور قلندر کاکوروی، فارسی مطبوعہ مطبع سرکاری رامپور ۱۹۱۲ء۔ اس کا اردو ترجمہ ڈاکٹر مسعود انور علوی کاکوروی کے قلم سے ۱۹۹۹ میں شائع ہوا۔ چودہویں صدی کے مشہور بزرگ شاہ پیر مہر علی گرلڑوی نے بھی فصوص الحکم کی شرح لکھی تھی۔
  3. احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چند دن، ص ۹۳ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان، ۱۴۱۸ھ۔
  4. مقالات احسانی، ص، ۱۷، مکتبہ الحق بمبئی ۲۰۰۶ء
  5. ابن عربی پر سب سے پہلے اردو میں کب لکھا گیا اس سلسلہ میں کچھ کہنا مشکل ہے، تمام قدیم مجلات ورسائل کی مراجعت کے بعد ہی کوئی بات کہی جاسکتی ہے، جو آسان نہیں، البتہ دستیاب شواہد کے مطابق انیسویں صدی کے وسط سے اردو میں ابن عربی کے تعارف وتوضیح کا علم ہوتا ہے۔ البتہ جو قدیم تحریریں ملتی ہیں ان میں حسب ذیل قابل ذکر ہیں ۱۸۵۰ میں حیدر آباددکن کے مطبع محبوب شاہی سے شائع شدہ ترجمہ فصوص الحکم از ابن اولاد علی۔ سوانح حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی، مطبع کلاں ساڈھورہ پنجاب، ترجمہ فصوص الحکم محمد برکت اللہ لکھنوی مطبع مجتبائی، لکھنؤ، ٍ۱۹۰۹ء، ترجمہ فصوص الحکم از عبدالغفور دوستی بہار۔ فلسفہ ا بن عربی عبداللہ عمادی، تقریبا بیس صفحا ت کا رسالہ، تقریبا بیسویں صدی کے اوائل میں شائع ہوا۔ ترجمہ فتوحات مکیہ شائع از راولپنڈی، راجہ غلام قادر وفضل خاں، اسٹیم پریس لاہور سے ۱۹۲۷ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد تو مختلف کتابیں، تراجم اور فلسفہ وحدت الوجود پر مضامین شائع ہوئے، جن کا استقصاء دشوار ہے۔
  6. مسئلہ اتحاد وحلول اور ابن عربی، ماہنامہ القاسم دیوبند، ذی الحجہ، ۱۳۳۴ھ ومحرم ۱۳۳۵ھ۔
  7. حوالہ سابق۔ محرم ۱۳۳۵ھ
  8. حوالہ سابق۔
  9. دیکھئے ماہنامہ القاسم دیوبند، ذی القعدہ وذی الحجہ ۱۳۳۴ھ۔
  10. یہ مضمون ماہنامہ الرشید ردیوبند کے شمارہ بیع الثانی ۱۳۳۵ھ میں شائع ہوا ہے۔
  11. مکاتیب گیلانی، مرتبہ مولانا منت اللہ رحمانی، مطبوعہ خانقاہ رحمانی مونگیر۔ ۱۹۷۲ء۔ ص۳۶۲
  12. احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے چند دن۔ ص۲۴۹۔ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان، ۱۴۱۸ھ۔
  13. مکاتیب گیلانی، محولہ بالا، ص ۱۲۵
  14. حوالہ سابق، ص ۲۱۳
  15. مقالات احسانی، ص ۱۹، مکتبہ الحق بمبئی ۲۰۰۶ء۔ ۔ یہ خط پرانے چراغ میں موجود ہے، (ص۷۹)، مطبوعہ لکھنؤ، ۲۰۱۰ء
  16. مقالات احسانی، ص ۲۹۷
  17. الشیخ الاکبر وطریقتہ مندرجہ المقالات السنیہ مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن، ۱۹۳۱ء۔
  18. راقم نے اس عربی مضمون کا اردوترجمہ کیا ہے، اور مولاناکی کسی تحریر کے اردو کا ترجمہ کا یہ پہلا اتفاق ہے جس میں ان کےب اسلوب کو اپنانے کی کوشش کی گئی ہے، نہیں معلوم کس حد تک کامیابی ہوسکی۔ اس مضمون میں جابجا انہوں نے اپنی مجوزہ تصنیف کا حوالہ دے کر بحث کو نامکمل چھوڑ دیا ہے، جیسے وہ اس کا پختہ عزم کرچکے تھے، لیکن لگتا ہے کہ مولانا کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ کام مکمل نہیں ہوسکے گا۔ ان شاء اللہ یہ مضمون اور ابن عربی پر ان کے سارے مضامین جلد ہی ایک مجموعہ کی شکل میں شائع ہوں گے۔
  19. مقالہ الشیخ الاکبر، محولہ بالا۔ ص ۳۱


صاحبِ تعبیر کے تصور ِدین میں تذبذب

حسنین خالد

مولانا مودودیؒ نے اپنے زمانے کے اسلوب میں جدید دور کے اذہان کے سامنے اسلام کی حقیقی روح اور اس کے مطالبات کو رکھا جس کے نتیجے میں عالم اسلام کی اکثریت نے ان کی اذان پر لبیک کہہ کر کام کا آغاز کیا۔ یہ کوئی قومیت یا مخلوقی کبریائی کی طرف اذان نہیں تھی، بلکہ توحید کامل کی صدا تھی، جس کو پہلے سے لوگ محسوس تو کر رہے تھے لیکن واضح اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کرنے سے قاصرتھے۔ مسلمانوں کے لئے درپیش چیلنج یہ تھا کہ وہ دور جدید سے جنم شدہ مسائل اور سوالات کا اسلام کی روشنی میں جواب تلاش کرسکیں۔ لیکن گلوبلائزیشن کے دور میں اس کی تشریح اور اس کا دفاع ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ بظاہر لوگ مخلوق کی خدائی میں خدائے واحد کی بندگی سے محروم تو نہیں تھے، لیکن صرف خدائے واحد کی جزی، کلی اور "الا لہ الخلق و الأمر" والی بندگی سے محروم ضرور تھے۔ اسی اثنا میں تنقید و تائید سے ماوراء مولانا مودودی ؒ صحابہ کرام والے بیانیہ کو لےکر  آئے تاکہ "لنخرج العباد من عبادۃ العباد الی عبادۃ رب العباد" بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف لا سکیں۔

ملوکیت سے لے کر دور ِجدید تک دینِ اسلام کا تصور دو حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک تصور بادشاہ کا اور دوسرا مذہب کا۔ ان دو خود ساختہ تصوروں نے وقت گزرنے کےساتھ ایسا رنگ پکڑا کہ کئی صدیوں تک یہ دین کا رنگ اختیار کر گئے تھے۔ دین اسلام کے حقیقی تصور کو دوبارہ سامنے لانے کے لیے ائمہ اربعہ اور محدثین کے ساتھ دیگر علماء نے بھی کوششیں کیں، جن میں نمایاں طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ، امام غزالیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒوغیرہ نے اپنے حصے کی شمع جلائی۔ انہی حضرات کے بعد مولانا مودودیؒ جدید دور میں عالم کفر کے فتنہ انگیز زہریلے تیروں کے سامنے جواب کی صلاحیت کے ساتھ سینہ تان کر دین کی خدمت کے لیے کھڑے ہوئے۔ انہوں نے وہ فریضہ انجام دیا جو وقت کی شدید ضرورت تھا۔ اُس وقت ملوکی تصور ِدین کے غلبے میں جو تصور دین مولانا مودودی ؒنے پیش کیا، وہ وہی چودہ سو سال قبل اسلام کا حقیقی تصور تھا جس کے سامنے اور جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے عالم کفر اس وقت بھی کھڑا تھا اور آج بھی۔ اس تصور کو ہم زیادہ زیر ِبحث نہیں لاتے، اس لیے کہ اس کی توضیح و تشریح مولانا مودودی کی کتابوں اور لٹریچر میں شرح موجود ہے۔ ہم یہاں مولانا مودودیؒ کے تصور دین پر تنقید کے نتیجے میں قائم ہونے والے تصورات اور اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اعتراضات کے جائزے سے پہلے مولانا مودودیؒ کے تصور دین کے بارے میں چند سطریں ملاحظہ کیجئے، تاکہ وہ بنیادی بات جس پر بحث ہو گی سامنے موجود ہو۔ لکھتے ہیں:

" حقیقت میں دین وہ ہے جو زندگی کا ایک جز نہیں بلکہ تمام زندگی ہو، زندگی کی روح اور اس کی قوت محرکہ ہو، فہم و شعور اور فکر و نظر ہو، صحیح و غلط میں امتیاز کرنے والی کسوٹی ہو، زندگی کے ہر میدان میں ہر ہر قدم پر راہ راست وراہ حق اور راہ کج کے درمیان فرق کر کے دکھائے، اور راہ کج سے بچائے، راہ راست پر استقامت اور پیش قدمی کی طاقت بخشے، اور زندگی کے اس لامتناہی سفر میں جو دنیا سے لے کر آخرت تک مسلسل چلا جا رہا ہے، انسان کو ہر مرحلے سے کامیابی و سعادت کے ساتھ گزارے۔ " (1)

دین کے اسی مذکورہ جامع تصور کو پھر مولانا مودودی نے قرآن کی عملی تفسیر (یعنی اسوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ) سے پیش کیا اور اسی دین کے قیام کے لیے اپنے بیشتر لٹریچر کے ساتھ، خاص طور پر سورہ شوریٰ کی آیت ٣٣ سے اپنی تفسیر میں استدلال کیا۔ (2)

مولانا مودودیؒ کے تصور دین پر معترض حضرات میں مولانا وحید الدین خان ؒ، مولانا ابو الحسن علی ندویؒ اور جاوید احمد غامدی شامل ہیں۔

خان صاحبؒ مولانا مودودیؒ کے تصور دین کے دس سال حامی اور مبلغ رہنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ مولانا مودودیؒ کا تصور دین صحیح نہیں تھا۔ دین کی اقامت، دین کا غلبہ یہ سب مولانا مودودیؒ کے اپنی طرف سے خود ساختہ تصورات ہیں۔ اس کے مقابل انہوں نے "تعبیر کی غلطی" لکھی، جس میں انہوں نے خود کو ایک کامل اور آخری سطح پر فائز سمجھ کر اسے اسلاف کا دفاع قرار دیا ہے۔ اس کتاب میں مولانا وحید الدین خان نے مولانا مودودیؒ کی فکر پر تنقید کرنے کے بعد ایک عنوان "صحیح تصور دین" لکھا ہے  جس میں انہوں نے اسلام کو جزوی طور پر سمجھنے کی سعی کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ یہ مولانا مودودی ؒکے تصور دین کے مقابلے میں درست تصور دین ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:

"دین کی آخری حقیقت ایک باطنی ادراک ہے۔ دنیا کی زندگی میں ہمیں بس آخری مقام تک پہنچناہے۔ وہ یہ ہے کہ ہم خداکو اپنے حقیقی الہ و معبود کی حیثیت سے پالیں۔ ہم اس سے حیاتی طور پر جڑ گئے ہوں، نہ کہ ہم کوئی سماجی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے ہوں یا اس کو کھڑا کرنے کے لئے ہم نے جدوجہد کرڈالی ہو۔ اگر چہ حالات کا تقاضا ہو تو یہ کام بھی لازماً اہل ایمان کو کرنے ہوتے ہیں۔ مگر اس کی حیثیت اضافی ہے نہ کہ حقیقی۔ "(3)

مولانا وحید الدین خان صاحب ؒ جاوید احمد غامدی صاحب کو اپنا استاد مانتے تھے۔ کہتے ہیں " اگر چہ یہ مجھ سے عمر میں چھوٹے ہیں لیکن علم میں مجھ سے بڑےہیں"۔ (4) خان صاحب نے جاوید احمد غامدی صاحب کے علاوہ عصر حاضر کے علماء کے ساتھ ساتھ اسلاف میں سے  بھی کسی پر نقد نہیں چھوڑا، جس پر ہم " علماء پر تنقیدی جائزہ" انشاءاللہ جلد ہی پیش کریں گے۔ خان صاحب کا تصور دین صحیح تھا یا نہیں، اس پر بات کرنے سے پہلے ہم آپ کے سامنے وہ واقعہ پیش کریں گے جومحمد احسن تہامی دار التذكير لاہور (5) نے خان صاحب کی وفات پر ایک مضمون میں، جو الرسالہ خصوصی شمارہ داعی اسلام مولانا وحید الدین خان صاحب اگست، ستمبر ٢٠٢١ءمیں شائع ہوا، زیر بحث لایا ہے۔ اس میں انہوں نے خان صاحب کے پاکستانی سفر کی ایک تاریخی روداد کوحصۂ تاریخ بنا دیا ہے۔ جس کے بعد وہ خان صاحب سے اور بھی متاثر ہوئے تھے۔ لکھتے ہیں:

"١٩٩١ء میں جناب نعیم بلوچ اور دیگر دوستوں کے ساتھ مل کر مولانا محترم کو پاکستان آنے کی دعوت دی۔ مولانا ایک ہفتے کے لیے تشریف لائے۔ ان کی رہائش کا بندوبست گارڈن ٹاون، لاہور میں جناب کرامت شیخ کے ہاں کیا گیا۔ یہاں فجر کی نماز کے بعد مولانا محترم سے استاد گرامی جاوید احمد غامدی کی معیت میں خصوصی نشستیں ہوئیں۔ ان مجلسوں میں استاد نے مولانا کے تصور دین پر چند سوالات اٹھائے۔ ان مجالس کے دیگر شرکا میں ڈاکٹر منیر احمد، طالب محسن، رفیع مفتی اور نعیم بلوچ شمال ہیں۔ میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب مغرب کی نماز کے بعد مسجد سے نکلتے وقت مولانا نے غامدی صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ میری فکر پر پہلی مرتبہ آپ نے سنجیدہ علمی تنقید کی ہے۔ آپ کے نقد کی روشنی میں اپنی فکر کا اب مجھے از سر نو مطالعہ کر کے جائزہ لینا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں۔ "(6)

مذکورہ واقعہ اس نکتے کی نشان دہی کر رہا ہے کہ خان صاحب جس تصور دین کو درست سمجھتے تھے، اس کو انہوں نے غامدی صاحب کے نقد پر تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس کی تھی، مگر تبدیل کیوں نہیں کیا؟ اس کو خان صاحب نے عمر کی طوالت کا تقاضا بتایا ہے۔ اب یہ بات ثابت ہوئی کہ خان صاحب کے تصور دین کو مولانا مودودیؒ کے بیان کردہ تصور دین کے مقابلے میں پیش کرنا ذہنی طفولیت کے جذبات ہی شمار کیا جائے گا۔ مولانا مودودیؒ پر دو ٹکوں کے مصنفین کی تنقیدی بارش ابھی تک برس رہی ہے، لیکن اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس تنقید سے ان کے احباب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تصور دین کے حوالے سے مولانا کا جو موقف ہے وہ دو جمع دو مساوی چار کی طرح واضح ہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ کی تنقیدی کتاب "عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح" پر مولانا مودودی ؒنے اپنے خط میں کچھ یوں لکھا تھا کہ:

" عنایت نامہ مؤرخہ ٥ / صفر ٩٩ ھ ملا، اور اس کے ساتھ آپ کی تازہ کتاب "عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح " کا ایک نسخہ بھی موصول ہوا۔ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ میری جس چیز کو آپ نے خدشات کا موجب سمجھا اس پر تنقید فرمائی۔ مزید میری جن چیزوں کو آپ دین اور اہلِ دین کے لیے مضرت رساں یا موجبِ خطر سمجھتے ہوں ان پر بھی آپ بلا تکلف تنقید فرمائیں۔ میں نے کبھی اپنے کو تنقید سے بالاتر نہیں سمجھا، نہ میں اس پر بُرا مانتا ہوں۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ میں ہر تنقید کو برحق مان لوں، اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کرلوں۔ " (7)

مولانا مودودی ؒپر تنقیدی کتاب میں اگر چہ انھوں نے خود کو تنقید سے مبرا نہیں سمجھا ہے لیکن اپنے تصور دین، اپنی فکر اور اپنی تحریک کے حوالے سے ان کے یہ دو ٹوک الفاظ کافی ہیں کہ: "البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ میں ہر تنقید کو برحق مان لوں، اور ناقدین کے بیان کردہ خدشات اور اندیشوں کو صحیح تسلیم کرلوں۔ "

مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں اپنے موقف کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ کسی پر تنقید اور کسی کی تائید سے بالاتر ہو کر دنیا سے مخاطب ہوئے۔ جس کو خان صاحب ؒاور غامدی صاحب تعبیر کہتے ہیں اور اس کے مقابل میں بغیر کسی قوی برہان کے تنقیدی اسلوب میں اپنے موقف کو پیش کرنے کی کوشش کی۔

خان صاحب کی کتاب "تعبیر کی غلطی" پر مولانا مودودی کا آخری کمنٹ یہ تھا، جو کہ ہر ایک ذو علم قاری کو ان کی کتاب پڑھنے کے بعد نظر آتا ہے کہ:

"میرا خیال یہ ہے کہ آپ کا مطالعہ نہایت ناقص ہے، آپ نے غلط نتائج نکالے ہیں اور میرے مسلک کو بھی آپ پوری طرح نہیں سمجھے ہیں، بلکہ اس کی ایک غلط تعبیر آ پ نے کرلی ہے۔ لیکن غضب یہ ہے کہ اس مضمون میں آپ اپنے آپ کو ایک بہت اونچے مقام پر فائز بیٹھ کر کلام فرمارہے ہیں اور آپ کا انداز ِکلام یہ ہے کہ جو شخص بھی آپ کے نقطہ نظر کوقبول نہیں کرتا وہ جاہل و نادان بھی ہے اور ضال ومضل بھی۔ اب میری مشکل یہ ہے کہ علم کی کمی کے ساتھ جو اس طرح کے زعم میں مبتلا ہو اس سے مخاطب ہونے کی مجھے عادت نہیں ہے۔ "(8)

اس کے بعد تو کوئی بات نہیں بنتی جس پر کوئی بحث کریں۔ اس لیے کہ مولانا مودودی ؒنے انہیں دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا ہے" آپ نے غلط نتائج نکالے ہیں اور میرے مسلک کو بھی آپ پوری طرح نہیں سمجھے ہیں بلکہ اس کی ایک غلط تعبیر آ پ نے کرلی ہے" یعنی جو بات خان صاحب بتا رہے ہیں یہ سرے سے مولانا مودودی کی تصور کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتی، جس پر عامر عثمانی صاحب نے خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:

"مولانا مودودی کا یہ (مذکورہ) ریمارک پڑھ کر ہمیں ان پر غصہ آیا تھا، ہم واقعی اس کتاب کو پڑھنے سے قبل خان صاحب کی استعداد کے بارے میں کافی حسن ظن رکھتے تھے، کم سے کم انہیں عربی کا فارغ التحصیل تو سمجھتے ہی تھے۔ لیکن جوں جوں کتاب کو پڑھا، حسن ظن کے شیش محل کی ایک ایک دیوار پاش پاش ہوتی چلی گئی اور ماننا پڑا کہ مولانا مودودی کا بحث سے اجتناب غلط نہیں تھا۔ آخر ایسے شخص سے کوئی سنجیدہ اور علمی انسان مباحثے میں وقت کیوں برباد کرے گا جو  چند سال ریل کی ڈرائیووری کر لینے کے بعد، اس نے سمجھا کہ اب وہ پیچیدہ سے پیچیدہ مشین کے میکنزم اور تکنیک کا  ماہرانہ کام کر سکتا ہے۔" (9)

میں حیران ہوں کہ اگر مولانا مودودیؒ کا تصور دین درست نہ ہوتا تو مدرسۃ الاصلاح، مدرسہ دیوبند، مولانا مودودی کے معاصرین وغیرہ میں اتنا کوئی رجل رشید نہیں تھا کہ مولانا مودودی ؒکے تصور دین پر تنقید کر کے بتا دیتا کہ یہ تصور قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ اور ان کے معاصر مدرسہ دیوبند کے اکابر مولانا اشرف علی تھانویؒ کو جب مولانا منظور نعمانیؒ نے جماعت اسلامی کا دستور بھیج کر اس پر کمنٹ چاہا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یہ خلافِ اسلام نہیں ہے لیکن بس میرا دل اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ (10)

کیا صاحبِ تدبر قرآن امین احسن اصلاحیؒ کوئی طفل مکتب میں سے تھے کہ دار الاصلاح چھوڑ کر مولانا مودودی کی رفاقت میں ایک غلط تصور دین کے تحت دارالاسلام میں شامل ہوئے تھے۔ جو جاوید احمد غامدی اور خان صاحب دونوں کے استاد تھے۔ اگر مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے مولانا مودودی ؒکے تصور دین پر تنقیدی قلم نہیں اٹھایا، جس نے اپنے عمر کا کم و بیشتر سارا حصہ قرآن مجید کے سوچ و تدبر میں گزارا تھا تو ان کے شاگردوں کی بے جا کنفیوژن پیدا کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

مولانا مودودیؒ نے اپنا تصور دین "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں" میں خالص قرآنی آیات اور عربی لغت کے مصادر سے پیش کیا ہے۔ اب اگر کوئی ان کے سامنے اس تصور دین کے خلاف علمی میدان میں کھڑے ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بھی قرآن ہی کو برہان بنا کر لے آئے، نہ کہ زَمن ملوکی سے مغلوب و متاثر علماء کے اقوال و آراء کو۔ اس لیے کہ مولانا مودودی ؒکا تصور دین رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کے دور ہی کا اول ایڈیشن ہے جس میں زَمن ملوکی کے درباری علماء کے اقوال و آثار کی امیزش شامل نہیں ہے۔


حوالہ جات

  1.  (اسلامی ریاست مولانا مودودی، صفحہ 32، اسلامک پبلیکیشنز لاہور، اشاعت 2018ء)
  2.  (تفہیم القرآن: جلد 4 صفحہ، 486، 87، 88، 89 ا، دارہ ترجمان القرآن پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور؛ اشاعت ستمبر 2011ء)
  3.  (تعبیر کی غلطی ص: 301 گڈ ورڈ بک انڈیا )
  4.  لنک https: //youtu.be/aCrzV21qQ2Y
  5.  (محمد احسن تہامی صاحب، خان صاحب کا الرسالہ کے پاکستانی ایڈیشن شائع کرنے والے CPS کے اولین ارکان میں سے تھے۔ پاکستان سے دار التذكير کے نام سے خان صاحب کی کتب کی اشاعت بھی انہوں نے شروع کی تھیں)
  6.  (الرسالہ خاص شمارہ اگست ستمبر 2021ء، صفحہ 91، گڈ ورڈ بک انڈیا )
  7.  (پرانے چراغ حصہ دوم ص: 279، 280، مکتبہ شباب العلمیہ، ندوہ روڈ لکھنؤ اشاعت شسشم 2010ء۔ (اسی طرح اس کا ذکر "عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح" میں بھی موجود ہے۔ صفحہ)
  8.  (تعبیر کی غلطی: صفحہ 118، گڈ ورڈ بک انڈیا )
  9.  ( ماہنامہ تجلی دیوبند، تنقید نمبر، فروری مارچ 1965ء)
  10.  (مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف، صفحہ: 138، مجلس نشریات اسلام کراچی، اشاعت مارچ 1980ء بار اول)

دل کا قبول نہ کرنا کسی شے کے غلط ہونے کا دلیل نہیں بن سکتا۔ ویسے مولانا اشرف علی تھانوی صاحب اپنے عمر کے آخری مرحلے میں تھے۔ 1941ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی گئی اور 1943ء میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب فوت ہوئے تھے۔ عمر کے اس حصے میں ان کا کیسے اپنے طرز پر کام کرنے کے بجائے ایک نئے طرز کے ساتھ اتفاق پیدا ہو جاتا؟


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۴)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)



ایجاد کب بدعت بن جاتی ہے؟ بدعت کی تعبیر وتشریح کے اصول

شاہ محمد اسماعیل اور دیوبند کے پیش روؤں کے لیے نہ صرف نبی اکرم ﷺ کا عمل اور عہد مقدس ہے، بلکہ اس کے ساتھ سلف صالحین، یعنی تمام صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین واجب الاتباع اور تنقید سے ماورا ہیں1۔ اگر چہ سنت کا معنی رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے، لیکن جب اسے بدعت کے مقابلے میں استعمال کیا جائے تو اس کا حقیقی معنی وہ تمام اعمال واقدار ہیں جو اسلام کی ابتدائی تین نسلوں (قرونِ ثلاثہ) کی پیدا کردہ اور منظور کردہ ہیں۔ دیوبند کے پیش روؤں نے بتایا کہ نبی اکرم ﷺ، ان کے صحابہ کرام، ان کے تابعین اور تبع تابعین کا تعلق ایک ہی زمانی عمارت سے ہے۔ 

ان کا کہنا یہ تھا کہ کوئی بھی عمل یا رواج جو عہد صحابہ یا تابعین وتبع تابعین کے دور میں رائج اور عام تھا، یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کے پیچھے رسول اللہ ﷺ کے قول، فعل اور تقریر کی صراحت یا استدلال نہ ہو2۔ اس لیے عربی زبان کے قواعد اور لغت کی تدوین، قرآن کریم کے اعجاز کا اثبات، اصول فقہ اور قواعد فقہیہ کی تشکیل؛ بظاہر یہ تمام وہ نئی چیزیں ہیں جن کا اضافہ رسول اللہ ﷺ کی دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد دین میں کیا گیا، لیکن سنت کی مخالفت کرنے کے بجاے ان مابعد کی ایجادات نے درحقیقت اس کی شرعی قدر وقیمت میں اضافہ کیا، یا اس کی تشریح وتوضیح کی، اس لیے انھیں بدعات نہیں کہا جا سکتا۔

دیوبند کے پیش روؤں نے بتایا کہ بدعتِ حسنہ اور بدعتِ سیئہ کی اصطلاحوں کے درمیان عام طور پر جو فرق کیا جاتا ہے، وہ غیرضروری ہے۔ ان کی نظر میں بدعت ہمیشہ سے ان ناجائز اعمال پر دلالت کرتی آئی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے مد مقابل ہیں۔انھوں نے کہا کہ غلط طور پر موسوم کی گئی بدعتِ حسنہ کے لیے سنت کا الحاق (ملحق بالسنۃ) کی اصطلاح دی استعمال کرنی چاہیے۔ ایسا اس لیے ہونا چاہیے کہ یہ اضافہ جات کوئی نئی شرعی نظیر قائم نہیں کرتے، بلکہ پہلے سے موجود ایک نظیر کی تشریح وتوضیح کرتے ہیں3۔ آئیے، اس نکتے کو  مزید واضح کرتے ہیں۔

علماے دیوبند کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ ان عقائد واعمال اور عادات واطوار سے عبارت تھا جو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں بغیر کسی اختلاف کے رائج (شائع بلا نکیر) تھے۔ ایسا نہیں کہ تاریخ کے اس مثالی دور میں برے اعمال سرے سے موجود نہیں تھے۔ اس دور میں لوگ جھوٹ بولتے، دھوکا دیتے اور تمام قسم کے جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ تاہم ان گناہوں کا دائرہ محدود تھا اور ان پر تنقید کی جاتی تھی۔ دیوبندیوں کے فقہی تخیل میں اس لیے بدعت کا تصور ہر اس نئی چیز پر دلالت نہیں کرتا جو مادی طور پر ابتدائی تین صدیوں میں موجود تھی۔ اس کے بجاے اس کا مطلب ان سنتوں کی روح سے انحراف یا مخالفت ہے جو اس بابرکت دور میں رائج تھیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے بہت عمدہ طریقے سے اس اصول کی وضاحت بیان کی ہے۔

تھانوی کی نظر میں اسلام کی ابتدائی تین صدیوں کے بعد دو قسم کی نئی چیزیں سامنے آئیں4۔ پہلی قسم کی نئی چیزیں وہ تھیں جو اپنی شکل وصورت اور اپنے وجود کے بنیادی مقصد (سببِ داعی) دونوں کے اعتبار سے نئی تھیں۔ مزید برآں یہ نئی چیزیں واجب دینی اعمال کی تکمیل کے لیے ضروری تھیں۔ مثلاً‌ دینی کتابوں کی لکھائی اور ان کی فہرست سازی، دینی مدارس اور خانقاہوں کی تعمیر اور عربی قواعد کی تشکیل وہ تمام نئی چیزیں تھیں جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں موجود نہیں تھیں، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ ان کی موجودگی کی ضرورت بھی اس دور میں نہ تھی۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ نئی چیزیں دینی فرائض کی تکمیل کے لیے ضروری بن گئیں۔ کیوں؟ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لیے تھانوی نے ایک کہانی بیان کی کہ کس طرح دین کی ترویج وحفاظت کے لیے انسانی صلاحیتوں میں عمومی زوال پیدا ہوا، جس کی وجہ سے دین اپنے ابتدائی دور کی شکل سے زیادہ دور چلا گیا، اور جس نے ایسے آلات اور ایجادات کی پیداوار کی ضرورت پیدا کی جو اس عمل میں معاونت فراہم کر سکیں۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ اسلام کی پہلی تین صدیوں میں ابتدائی معاشرہ دین کو تمام نقصانات سے تحفظ فراہم کرنے میں اتنا آگے اور ماہر تھا کہ اس کام میں انھیں کسی بیرونی وسیلے یا طریق کار کی ضرورت ہی نہ تھی۔ مثلاً اس زمانے کے لوگوں کا حافظہ غلطی سے پاک تھا۔ وہ ہر وہ چیز یاد کر لیتے تھے جو وہ سن لیتے۔ وہ مذہب اور اس کی باریکیوں کو اس قدر گہرائی سے سمجھتے تھے کہ انھیں ایسے نکات سمجھانے یا سکھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح احادیث نبویہ اور علوم سیرت کے حفظ وتدوین کا ایک پورا ماحول عروج پر تھا5۔

مولانا تھانوی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ تین نسلوں تک اغلاط سے مبرا یہ ابتدائی عہد باقی رہنے کے بعد ایک دوسرا مرحلہ شروع ہوا جس میں کئی محاذوں پر تدریجی لیکن گہرے زوال کا مشاہدہ ہونے لگا۔ لوگ دین کی حفاظت میں اس طرح پرجوش نہیں رہے جس طرح وہ پہلے تھے۔ ایک عمومی بےپروائی روزمرہ کا معمول بن گئی۔ اہل بدعت اور ایسے لوگوں کے پاس طاقت واقتدار آگیا جو عقل کو دینی حقائق پر ترجیح دیتے تھے6۔ اس موقع پر مسلمان علما نے یہ جان لیا کہ ان کا دین خطرے کی زد میں ہے، اور اگر وہ اس کا فوری علاج نہ کر سکے تو دین آہستہ آہستہ فنا ہو جائے گا۔ اس لیے انھوں نے ایک شدید بحران کے دور میں دین کی حفاظت کے لیے مخصوص آلات اور طریق ہاے کار ایجاد کیے۔  ان ایجادات میں دینی کتابوں کی اشاعت، علم فقہ، اصول فقہ اور حدیث (جس کی سند اور متن کی کتابی تدوین حضور ﷺ کی وفات کے کافی عرصے بعد کی گئی)  جیسے علوم کی باضابطہ تدوین عمل میں لائی گئی۔ ممتاز اہل علم نے دینی مدارس تعمیر کیے جہاں ان نئے مضامین کی تعلیم وتبلیغ کی جانے لگی۔ اسی طرح اس زمانے کے نامور صوفیا نے خانقاہیں اور تربیتی مراکز بنائے، تاکہ دینی علوم اور استناد کے تسلسل کو قائم رکھ سکیں۔

مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا کہ ان پیش رفتوں اور سرگرمیوں کے پیچھے جو بنیادی محرک کار فرما تھا، وہ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے دور میں موجود نہیں تھا۔ یہ تمام نئی پیش رفتیں بظاہر بدعات دکھائی دیتی ہیں، تاہم حقیقت میں یہ وہ ضروری آلات ووسائل ہیں، جو واجبات دین کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں۔ تھانوی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: اس لیے  فقہی قاعدے کی رو سے کہ واجب کا مقدمہ بھی واجب ہوتا ہے (مقدمة الواجب واجبة)، ان ایجادات کو بھی واجب سمجھنا چاہیے۔

علم کے ان نئے اعمال اور طور طریقوں نے دین کے تسلسل میں کوئی خلل پیدا نہیں کیا۔ اس کے بجاے وہ دین کی بقا کے لیے ناگزیر تھے۔ بالفاظ دیگر یہ بظاہر نئی ایجادات سنت نبوی کے اندر مضمر تھیں جن کا ظہور بعد کے دور میں ہوا۔ اگر چہ وہ اپنے ظاہر کے اعتبار سے نئی تھیں، لیکن اپنے اصلی جوہر کے اعتبار سے وہ براہ راست سنتِ نبوی کی روح سے جڑی ہوئی تھیں۔ یہ ایجادات وہ بنیادی وسائل ہیں جو ایک ایسی دنیا میں جہاں سنت نبوی پر عمل زوال پذیر ہو، اسی سنت کے اندر مضمر  امکانات کو مادی صورت عطا کرتے ہیں7۔

ایجادات کی دوسری قسم وہ ہے جو ان اعمال پر مشتمل ہے جو اپنی صورت میں تو نئی ہیں، لیکن اپنی ابتدا میں کار فرما "بنیادی محرک" کے اعتبار سے نئی نہیں ہوتیں۔ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے یومِ ولادت کو منانے کا "بنیادی مُحَرِّک" آپ کے یومِ پیدائش پر خوشی ومسرت کا اظہار ہے۔ یہ بنیادی محرک رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کے عہد میں موجود رہا۔ اگر وہ چاہتے تو وہ بھی حضور ﷺ کے یوم پیدائش کو منا سکتے تھے۔ مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا  کہ ایسا نہیں تھا کہ اس رسم کا آغاز رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے لیے ناقابلِ تصور تھا۔ اس کے باوجود انھوں نے نہ کوئی ایسی محفل منعقد کی نہ اس میں شریک ہوئے۔

مولانا تھانوی کی نظر میں اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں کسی عمل کی غیر موجودگی، باوجود یکہ اس کا محرک اور مُقتَضِی اس دور میں موجود ہو، اس بات کی واضح علامت ہے کہ سنتِ نبوی کی رو سے اس کی اجازت نہیں۔ زیادہ آسان لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کسی عمل کو ایجاد نہ کریں، باوجود یکہ اس کی ایجاد کی وجہ ان کے پاس ہو تو یہ واضح ہے کہ ان کے طرزِ عمل کی رو سے اس عمل کی تائید نہیں ہو سکتی۔ مولانا تھانوی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا، اس لیے مؤخر الذکر ایجادات بدعت ہیں، کیونکہ یہ دین میں ایک ایسی نئی چیز کو شامل کرتی ہیں جو رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ نے شامل نہیں کی، باوجود یکہ وہ ایسا کر سکتے تھے۔ تھانوی نے نتیجہ نکالتے ہوئے ہوئے کہا کہ ایسی ایجادات نہ صرف یہ کہ اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ یہ اپنے اصلی جوہر کے اعتبار سے نئی ہیں۔ سنت نبوی سے یہ جوہری علیحدگی سنت کی کاملیت اور حتمیت میں شبہ میں پیدا کرتی ہے۔ یہ سنتِ نبوی کی کاملیت اور حتمیت پر سوال اٹھا کر اس کا حریف بنتی ہے8۔

مولانا تھانوی کے لیے اسلام میں بدعت کی حدود پر اس سارے مناقشے میں اساسی موضوع سنتِ نبوی اور اس کی توسیع کے طور پر قانونِ الہی کی مطلق حاکمیت ہے۔ وہ بتاتے ہیں: "بدعت کا مرتکب درپردہ مدعیِ نبوت ہے"۔ شریعت میں کسی نئی چیز کو شامل کرکے ایسا شخص بالواسطہ شریعت کو ناقص اور نامکمل ہونے کا دوش دیتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ بالواسطہ اس بات پر اتراتا ہے کہ وہ نئی چیزوں کا اضافہ کرکے شریعت کے نقائص کو دور کرنے کے لیے حاکمیتِ مطلقہ رکھتا ہے"9۔ مولانا تھانوی نے جو اگلا قیاس پیش کیا ہے، وہ اس نکتے کو زیادہ صراحت کے ساتھ واضح کرتا ہے۔ "مثلاً کسی شخص نے گورنمنٹ (تھانوی نے یہاں انگریزی زبان کا لفظ استعمال کیا ہے) کے آئین کی نقل شائع کی، اور اس دستاویز کے آخر  میں اپنی طرف سے کسی شق کا اضافہ کیا۔ اگر چہ یہ اضافی شق ملک اور حکومت کے لیے کتنی مفید کیوں نہ ہو، لیکن آئین پر ایسی غیر منظور شدہ دست درازی جرم کہلائے گی، اور اس کے مرتکب کو سخت سزا دی جائے گی"۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: "اس لیے اس دنیا کے قانون میں ایک غیر منظور شدہ شق کو شامل کرنا جرم ہے، تو قانون الہی میں اس طرح کے اضافے سے کیسے چشم پوشی کی جا سکتی ہے؟"10

مولانا تھانوی نے مزید وضاحت کی کہ ایجادات کی ان دونوں قسموں میں بنیادی فرق  زیادہ صراحت کے ساتھ اس ارشاد نبوی سے سمجھ میں آتا ہے: "جو ہمارے اس امر میں کوئی ایسی ایجاد کرتا ہے، جو اس میں سے نہ ہو تو وہ مسترد ہے" (من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردٌّ)11۔ بدعات کی پہلی قسم جو فرائض دینیہ کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں، ان کا تعلق حدیث کے اس حصے سے ہے جو دین میں شامل (منه) ہے۔ اس کے برعکس ایجادات کی دوسری قسم وہ ہے جو نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کی سنتوں کے مخالف ہے، تو ان کا تعلق حدیث کی رو سے اس حصے سے ہے جو دین میں شامل نہیں (ما ليس منه) ہے۔

مولانا تھانوی نے تجویز کیا کہ اس فرق کو یاد رکھنے کے لیے دین کے لیے ایجاد (احداث للدین) اور دین میں ایجاد (احداث فی الدین) کو یاد رکھیں12۔ احداث فی الدین بظاہر ایجاد ہو جاتی ہے لیکن معنی کے اعتبار سے وہ سنت نبوی ہی کی اتباع ہے۔ اس کے برعکس احداث فی الدین نہ صرف یہ کہ اپنی ظاہری ہیئت میں ایجاد ہوتی ہے، بلکہ وہ رسول اللہ کے اسوۂ حسنہ کے بنیادی مقصد میں تغیر پیدا کرتی ہے۔ نتیجتاً جہاں احداث للدین  شریعت کے بنیادی ماخذ اور اسوۂ کاملہ کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو مزید مضبوطی عطا کرتی ہے، وہیں احداث فی الدین اخروی نجات کے پروگرام کی کاملیت اور حتمیت کو للکار کر نبی اکرم ﷺ کے شرعی مقام کو گھٹاتی ہے۔

بدعت بحیثیت تجاوز اور بدنظمی

مولانا اشرف علی تھانوی کے نزدیک بدعت بدنظمی کا دوسرا نام تھا۔ انھوں نے بدنظمی کا مطلب ضابطے کی خلاف ورزی لیا۔ انھوں نے اس کو ایک مثال سے واضح کیا ہے: فرض کرو ایک شخص ظہر کی فرض نماز چار رکعات کے بجاے پانچ رکعات پڑھے۔ اس صورت میں چونکہ اس نے ایک عبادتی سرگرمی کے پہلے سے چلے والے نظم میں اضافہ اور اس طرح سے اس نظم میں خلل پیدا کیا، اس لیے اس کی پوری نماز فاسد ہوئی؛ اور اسے اپنی پہلی چار رکعتوں پر بھی کوئی اجر وثواب نہیں ملے گا۔ اب ہو سکتا ہے کہ ایسے شخص کو اس تجاوز میں کسی قسم کی بدعت نظر نہ آئے؛ کیونکہ وہ  کہہ سکتا ہے کہ نماز جیسی پاکیزہ عبادت میں تجاوز کا اظہار کیسے غلط ہو سکتا ہے؟ مولانا تھانوی نے بتایا کہ اس سلسلے میں جس بنیادی گناہ کا ارتکاب کیا گیا، وہ پہلے سے شریعت کے ایک قائم نظم کی خلاف ورزی ہے۔ تھانوی نے نظم اور تجاوز کے درمیان فطری تضاد کو واضح کرنے کے لیے ایک دقیق قیاس کیا جو ایک بار پھر جدید استعمار کے ٹیکنالوجیکل تناظر کی اساس پر تھا: "اگر کوئی شخص کسی ایسے لفافے پر ایک روپے کی ٹکٹ لگائے جس کےلیے 80 پیسے کی ٹکٹ درکار ہے (سو پیسے = ایک روپے)، تو ڈاک والے اس لفافےکو آگے نہیں بھیجیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ بھیجنے والے نے غلط ٹکٹ چسپاں کرکے  ضابطے کی خلاف ورزی کی"13۔

مولانا تھانوی کے نزدیک روزمرہ کی زندگی گزارنے کے لیے نظم برقرار رکھنا بنیادی اہمیت کا حامل ہے، حتی کہ نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں بھی یہ ضروری ہے۔ انھوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذاتی زندگی کی تمام تفصیلات پر عمل کرنا بھی اس وقت تک قابل تعریف ہے، جب تک یہ فرائض دینیہ کی تکمیل میں نہ خلل پیدا نہ کرے اور  نہ انھیں کمزور کرے۔ انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ کے دو پہلو ہیں: فعلی اور قولی۔ فعلی پہلو آپ کی روزمرہ زندگی کی مخصوص عادات سے عبارت ہے۔ مثلاً آپ کیا کھاتے تھے، پگڑی کیسے باندھتے تھے، چھڑی کیسے پکڑتے تھے، اپنا گھر کیسے رکھتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ بالفاظِ دیگر یہ پہلو ذاتی عادات پر مشتمل ہے۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ آپ کے بعد مسلمانوں پر یہ فرض نہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی تمام عادات کو جزئیات سمیت اپنی زندگی میں روبعمل کریں۔ دوسری طرف ان کے اسوہ کے قولی پہلو میں وہ اعمال شامل ہیں جو واضح طور پر اہم عبادات ہیں۔ ان کے اسوۂ حسنہ کے فعلی پہلو کے برعکس، ان احکام پر عمل لازمی ہے جو آپ کے اقوال کی رو سے لازم قرار دیے گئے ہیں، اگر چہ انسانوں کو ایک قابل ذکر حد تک آزادی دی گئی ہے کہ وہ ان حدود کے اندر اپنے مزاج کے مطابق انتخاب کریں۔

مولانا تھانوی نے ان لوگوں کو نبی اکرم ﷺ کے عُشّاق قرار دیا جو باوجود لازم نہ ہونے کے رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے ہر لمحے کی پیروی کی دوہری مشقت اٹھاتے ہیں۔ تھانوی کے نزدیک عام لوگ ایسے عشاق کی راہ پر نہیں چل سکتے۔ جیسا کہ ان کا کہنا ہے: "رسول اللہ ﷺ کے ہر عمل کی اتباع کا منشا محبت ہے۔ان عشاق میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو رسول اللہ ﷺ کے اسوۂ حسنہ پر تشکیل دیتے ہیں؛ وہ ٹھیک اسی طریقے سے کھاتے، پیتے اور پہنتے ہیں، جس طریقے سے رسول اللہ ﷺ نے یہ اعمال کیے۔ لیکن ہم جیسے عام لوگوں کے لیے یہ پابندیاں لازمی نہیں، تاکہ ہم نبی اکرم ﷺ کے اسوۂ حسنہ کی عمومی قولی حدود کے اندر رہیں"14۔ وہ بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں: "تمام معاملات میں پوری  چابک دستی سے شریعت کی حدود کی پاس داری کرنی چاہیے۔ ہر شے کو اپنی حد پر رہنا چاہیے"15۔

مولانا تھانوی نے متنبہ کیا کہ سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ ﷺ کی عادات کی اتباع میں اس قدر غلو نہ کرے جس سے فرائضِ دینیہ پر کوئی سمجھوتا ہوتا ہو۔ بلکہ ایسی اتباع کو مسترد کرنا چاہیے جو کسی فرض عمل کی تکمیل کے رستے میں کاوٹ بن جائے۔ مثال کے طور پر تھانوی نے واضح کیا کہ  رسول اللہ ﷺ ہر رات تہجد کی آٹھ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ اس غیر واجب عمل کی اتباع قابل تعریف ہے، اگر کسی شخص میں اس کے لیے مطلوبہ استعداد اور شوق ہو۔ لیکن ایک ایسی صورت فرض کریں جس میں ایک شخص ساری رات تہجد کے نوافل پڑھے، اور نتیجتاً فجر کے وقت فرض نماز کے لیے اٹھنے سے قاصر ہو جائے تو یہ غلط ہوگا۔ ایسی صورت میں اس شخص پر لازم تھا کہ وہ تہجد کی نماز کو ایک طرف رکھ دے، بروقت سوئے، اور فجر کی فرض نماز کی ادائیگی کے لیے صبح بروقت جاگ جائے۔ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کے ہر ہر لمحے کی اتباع صرف اس صورت میں قابل تعریف ہے جب وہ فرض عبادات کی اولیت کے لیے خطرہ نہ بنے۔ جب دینی جذبہ فرائض کے لیے خطرہ بن جائے تو  پھر اس جذبے کو اعتدال میں لانا چاہیے یا اسے فنا کرنا چاہیے۔ مولانا تھانوی امت کے بعض افراد میں پائے جانے والے غلبۂ عشق کو تسلیم کرتے ہیں، اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ تاہم رسول اللہ ﷺ سے محبت کے اظہار میں  ایسے عاشقانہ تجاوز کو جو نظم کی کمزوری کا سبب بنے، ناقابل برداشت سمجھتے ہیں۔

فرائض کے تقدس کا تحفظ

مولانا تھانوی کے تعبیری منہج کی بنیاد وہ فقہی اصول ہے جو غیر واجب اعمال کو واجب میں بدلنے کو حرام قرار دیتا ہے۔ تھانوی کے نزدیک مباحات بھی ناجائز قرار پاتے ہیں، اگر عوام ان اعمال کو واجباتِ دین فرض کرنے لگیں، بلکہ اگر کسی مستحب عمل کو واجب کا درجہ دیا جائے تو اس کا چھوڑنا لازم ہو جاتا ہے۔ تھانوی نے بتایا کہ یہ فقہ حنفی کا معیاری اصول ہے۔

اس بحث میں مولانا تھانوی نے بہ تکرار انیسویں صدی کے بااثر حنفی عالم محمد امین ابن عابدین شامی (م 1836) کا حوالہ دیا ہے، جنھوں نے وسیع پیمانے پر اپنی مقبولِ عام کتاب 'رد المحتار' میں علی الترتیب غیر واجب اعمال کو واجب اعمال کا رتبہ دینے کے خلاف تنبیہات کی ہیں۔ مثلاً ابن عابدین نے واضح کیا کہ وترکی نماز میں تین قرآنی سورتوں یعنی سورۃ الاعلی، سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص کا پڑھنا رسول اللہ ﷺ کی سنتوں میں سے ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص وتر کی نماز میں قرآن کی دیگر سورتوں کو چھوڑ کر صرف ان تین سورتوں کے پڑھنے پر اصرار کرے تو یہ اصرار اس مستحب عمل کو ناجائز عمل میں بدل دے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس طرح کی تخصیص کسی غیر واجب عمل کو واجب عمل کی حیثیت دے دیتا ہے۔ اس لیے ابن عابدین کے نزدیک کسی کو نمازوں کے دوران رکعتوں میں سورتوں کے انتخاب کے لیے کسی قسم کے تعین سے گریز کرنا چاہیے16۔

اسی طرح تھانوی کی نظر میں صحابہ کرام نے بالتصریح مباح اور مستحب اعمال  کو اس اہتمام سے ادا کرنے پر تنبیہ کی ہے جس سے ان اعمال کا واجب ہونا ظاہر ہو۔ اس سلسلے میں مولانا تھانوی نے بطور خاص رسول اللہ ﷺ کے صحابی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک بیان نقل کیا ہے: "نماز ختم کرنے کے بعد دائیں طرف مُڑنے کو ضروری جان کر اپنی نماز کا ایک حصہ شیطان کو مت دو، کیوں کہ میں نے دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بائیں طرف بھی پھر جایا کرتے تھے"17۔ اس سنتِ نبوی کے مطابق نماز کے بعد دائیں طرف مڑنا ایک مستحب امر تھا۔ تاہم جب لوگوں نے اس عمل کو واجب سمجھنا شروع کیا تو حضرت ابن مسعود نے اس پر روک ٹوک کی اور انھیں یاد دلایا کہ بائیں جانب مڑنے میں کوئی خرابی نہیں۔ دراصل انھوں نے دائیں جانب مڑنے پر اصرار کو "نماز کا ایک حصہ شیطان کو دینا" قرار دیا۔ اس روایت کی شرح کرتے ہوئے علوم حدیث اور فقہ شافعی کے نامور عالم علامہ ابن حجر عسقلانی (م 1448) نے واضح کیا: "مستحب اعمال مکروہ بن جاتے ہیں، اگر انھیں ان کے متعین درجے سے اوپر اٹھایا جائے"18۔

ان مثالوں میں کار فرما بنیادی منطق یہ تھی کہ غیر واجب اعمال، باوجودیکہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اجازت بھی دی  ہو، انھیں کبھی بھی واجب اعمال کی حیثیت نہیں دینی چاہیے۔ تھانوی نے باصرار بتایا کہ یہ وہ بنیادی اصول ہے جس کا لوگ خیال نہیں رکھتے اور الٹا  دیوبندی علما پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ مباح اعمال سے منع کرتے ہیں۔ انھوں  نے پرزور اصرار کرتے ہوئے کہا کہ دیوبندی علما کے خلاف یہ الزام بے انصافی پر مبنی ہے۔ وہ صرف ان اعمال سے منع کرتے ہیں جو ناجائز اعمال کا مقدمہ بنتے ہیں۔ جس طرح واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے، اسی طرح حرام کا مقدمہ بھی حرام ہوتا ہے (مقدمة الحرام حرام)۔ تھانوی نے تاکید کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں جو اہم نکتہ یاد رہنا چاہیے، وہ یہ تھا کہ جب ایک معروف مباح عمل حرام کی طرف لے جانے کا ذریعہ بن جائے تو ایک مباح عمل کی حیثیت سے اس کی رکنیت معطل ہو جاتی ہے، اور یہ بذات خود ایک ناجائز عمل بن جاتا ہے19۔

مولانا تھانوی کے مطابق کسی مخصوص عمل کی اخلاقی اور دینی قدر وقیمت کا انحصار ان حالات پر ہے جن میں یہ عمل وقوع پذیر ہوتا ہے۔حتی کہ  نیکی کا ایک عمل غیر مطلوب بن جاتا ہے، اگر اسے درست شرائط کے ساتھ سرانجام نہ دیا جائے۔ تھانوی نے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ مثال کے طور پر،  نماز پڑھنا ایک ایسا عمل ہے جس کی اچھائی پر سب لوگ متفق ہیں۔ تاہم اگر پاخانہ کا تقاضا ہو تو اس وقت نماز مکروہ ہو جاتی ہے20۔ یہی وہ 'راز' ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات مباح اعمال بھی حرام ٹھہرتے ہیں۔ لیکن، انھوں نے دل گرفتگی سے کہا کہ، یہ نکتہ عوام کو سمجھ نہیں آتا۔ تھانوی نے  مزاح آمیز نصیحت میں واضح کیا:

جب کبھی میں ان (عوام) کو عید میلاد النبی جیسی رسموں سے روکتا ہوں تو وہ شکایت کرتے ہیں کہ میں انھیں نیکی کے کاموں میں شرکت سے روک رہا ہوں۔ مجھے اس سے اتفاق ہے کہ یہ کام بلا شبہ نیکی کے ہیں۔ اپنے اصل جوہر کے اعتبار سے ان میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تاہم جس امر کی وجہ سے یہ بدعت کے زمرے میں شامل ہو جاتے ہیں، وہ اجر وثواب کے حصول کے لیے مخصوص پابندیوں کو ضروری جاننا ہے۔ ایسی پابندیوں کو لازمی سمجھنے کی کوئی گنجائش شریعت میں نہیں۔ لیکن اس باریک دلیل کو عوام کیوں کر سمجھیں؟ اس لیے جب میں ان سے بات کرتا ہوں تو میں اپنے دلیل کی تفصیلات بیان نہیں کرتا، بلکہ سیدھا سادہ سختی سے انھیں ان کاموں سے روک لیتا ہوں، جو انھیں نہیں کرنے چاہییں۔ مثلاً‌ ایک بار ایک دیہاتی نے احتجاج کیا: "جمعے کی نماز دیہاتوں میں کیوں نہیں پڑھی جاتی؟" میں نے اسے یہ جواب دے کر خاموش کیا: "پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ حج بمبئ میں کیوں نہیں ادا کیا جاتا؟21"

برائی کے سد باب کے لیے اچھائی کی ممانعت: کس کا اختیار ہے اور کیسے؟

مولانا تھانوی نے تاکید سے بتایا کہ ایک مباح عمل کو اس بنیاد پر حرام قرار دینے کا فیصلہ کہ وہ فساد کا سبب بنتا ہے، ہر کسی کا کام نہیں۔ یہ ماہر علما کا کام ہے جن میں یہ جاننے کی صلاحیت ہوتی ہے کہ کیا کسی مباح عمل میں کسی خاص قسم کا فساد اس حد تک سنگین ہو گیا ہے، جو اس عمل کی حرمت کا تقاضا کرتا ہے؟22 لیکن یہ فیصلہ ہوگا کیسے؟ وہ معیار کیا ہے جس کی اساس پر کسی مباح عمل کو احتیاطی بنیادوں پر حرام قرار دیا جائے؟ ان اہم سوالات کو موضوع بحث بناتے ہوئے مولانا تھانوی نے اپنے قارئین کے سامنے غور وفکر کے لیے ایک دلچسپ صورتِ حال رکھ دی ہے۔ انھوں نے درج ذیل فکری تجربہ تجویز کیا ہے۔

 فرض کرو ایک عمل بالذات اچھا اور نیک ہے، لیکن عوام اسے مکروہ اور قابل نفرت سمجھتے ہیں۔ اس لیے اس صورت میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ جو کوئی بھی اس عمل کا ارتکاب کرے گا، اسے سماج کی طرف سے لعنت ملامت کا سامنا کرنا ہوگا۔ ایسی صورت میں اس عمل کے متعلق کون سا حکم ہونا چاہیے؟ کیا فقیہ اس عمل کو مباح قرار دے، اور اس تنازع سے صرف نظر کرے، جو اس عمل کے ارتکاب کی وجہ سے پیدا ہوسکتا ہے؟ یا وہ اس عمل کے ترک کرنے کی دعوت دے، تاکہ سماجی سطح پر اس کے ممکنہ نقصان دہ نتائج کا تدارک ہو سکے؟23

مولانا تھانوی نے بتایا کہ اس قسم کے عمل کو نہ تو مطلقاً حرام قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی علی الاطلاق مباح۔ یہ  سوال ایک سیدھے سادے جواب کے بجاے شریعت کے مصادر کی روشنی میں ایک پیچیدہ حل کا تقاضا کرتا ہے جو ان فقہا کا کام ہے جو یہ فریضہ سر انجام دے سکتے ہیں۔ تھانوی نے اپنے استدلال کو رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے دو واقعات پر بحث کے دوران واضح کیا جو ان کی راے میں ایسی صورتِ حال میں کسی فقیہ کے لیے دست یاب متعدد امکانات کو بہترین انداز میں بیان کرتا ہے۔ ان دونوں واقعات میں اس مباح عمل کا حکم بھی زیر بحث لایا گیا ہے، جو سماج کی طرف سے شدید تنقید کا سبب بنتا ہے۔ ان صورتوں میں سے ایک صورت میں نبی اکرم ﷺ نے ایک عمل کو چھوڑ دیا تاکہ یہ سماجی تشویش کا سبب نہ بنے۔ تاہم دوسری صورت میں انھوں نے باوجود ممکنہ خطرات کے ایک عمل کا ارتکاب کیا۔ یہی نظریاتی صورت دو مختلف نتائج فراہم کرتی ہے24۔

پہلا واقعہ حطیم کی دیوار کا مشہور مقدمہ ہے  جو مکہ میں خانہ کعبہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ جب مسلمانوں نے 628 عیسوی میں مکہ کو فتح کیا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک عمدہ موقع ملا کہ آپ اس دیوار کو خانہ کعبہ کی حدود میں شامل کر دیں۔اس وقت تک یہ دیوار کعبہ کی حدود سے باہر تھی۔ لیکن اس کام میں تعمیرِ نو سے پہلے خانہ کعبہ کو گرانا ضروری تھا۔ باوجود یہ کہ یہ عمل بظاہر اچھا تھا، لیکن نبی اکرم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ تعمیرِ نو کے منصوبے کو ملتوی کر دیں۔ انھوں نے دلیل میں فرمایا کہ کعبہ کو گرانا مکہ مکرمہ کے مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں کو برہم کر سکتا ہے، جن کے لیے کعبہ بہت محترم ہے۔ بالفاظِ دیگر نبی اکرم ﷺ کو احساس تھا کہ اس مقام پر اسلام کی نوزائیدگی اور کمزوری کے باعث ممکنہ طور پر ایسے اشتعال انگیز عمل کو شروع کرنا حکمت کا تقاضا نہیں۔ اس لیے اگر چہ کعبے کی تعمیر نو اور اس کے اندر حطیم کی شمولیت درست اور جائز تھی، لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس منصوبے کو ترک کرنا پسند کیا، کیوں کہ اس سے دشمنی اور افراتفری پیدا ہونے کا اندیشہ تھا۔

نبوی فیصلے اور خواہشات: اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری

دوسرا واقعہ حضور ﷺ کے حضرت زینب بنت جحش (م 633) سے نکاح کا ہے جنھیں رسول اللہ ﷺ کے منہ بولے بیٹے اور اولین دور میں اسلام قبول کرنے والے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (م 629)  نے طلاق دی تھی25۔ یہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں ایک انتہائی قابل ذکر واقعہ ہے جو بیک وقت نبوت اور انسانی رشتوں کی قربت کے ایک باریک جال میں الجھا میں ہوا ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے ایک سابقہ غلام ( جسے بعد میں آپ نے اپنا منہ بولا بیٹا بنایا) کی بیوی سے نکاح کی خواہش کی ایک کہانی ہے۔  اس واقعے  کے دوران ان کے منہ بولا بیٹا ہونے کی نفی کی گئی اور وہ بیٹے سے ایک عام صحابی میں تبدیل ہوگئے (باوجود یہ کہ وہ  رسول اللہ ﷺ کے مقربین میں رہے)۔ جیسا کہ ڈیوڈ پاورز نے بتایا ہے کہ یہ کہانی اسلام میں نبوت کے تصور کے لیے گہرے مضمرات رکھتی ہے، اس لیے کہ اگر محمد (ﷺ) نے زید کے منہ بولے بیٹے ہونے کی نفی نہ کی ہوتی اور زید آپ ﷺ کے بعد زندہ رہتے تو اس کے نتیجےمیں خاندانِ نبوت کےاندر نبوت  جاری رہنے کا امکان ہوتا26۔ مولانا تھانوی نے حضرت محمد ﷺ، حضرت زینب اور حضرت زید رضی اللہ عنہما کے واقعے کو جس طرح دیکھا ہے، میں پہلے اس کی طرف توجہ کرتا ہوں، اور پھر کہانی کے ان پہلوؤں کو سامنے لاؤں گا جو انھوں نے چھوڑ دیے ہیں، تاکہ اس کے تعبیری منہج میں موجود کچھ ممکنہ ابہامات کو نمایاں کر سکوں۔

مولانا تھانوی نے اپنی بحث کو اس نکتے پر مرکوز رکھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ سے طلاق ملنے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے زینب سے شادی کی (تھانوی ان وجوہات کے بارے میں  بات نہیں کرتے  جو اس طلاق کا سبب بنیں)۔ یہ عمل بدنامی کے اسباب سے بھرپور تھا کیونکہ اس دور کے 'جاہل عوام' اسے یوں خیال کر سکتے تھے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی بہو کے ساتھ نکاح کرنے جا رہے ہیں۔ایک بار پھر رسول اللہ ﷺ کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا تھا جس میں ایک جائز عمل عوامی تنقید اور تشویش کا سبب بن رہا تھا۔ تاہم حطیم کے واقعے کے برعکس اس صورت میں اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو ہدایت کی کہ اس عمل کو سرانجام دیں، باوجودیکہ اس کے غیر یقینی نتائج ہو سکتے تھے27۔ اس لیے آپ ﷺ نے زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کے ایک جائز لیکن ممکنہ طور پر متنازع فعل کو انجام دیا۔

مولانا تھانوی واضح کرتے ہیں کہ ان دونوں صورتوں کی حرکیات تقریباً‌ یکساں ہیں ۔ دونوں صورتوں میں ایک جائز عمل کی وجہ سے سماج کی طرف سے لعنت وملامت کا امکان تھا۔ تاہم ان دونوں صورتوں میں جو فیصلے تھے، وہ یکسر مختلف تھے۔ ایک صورت میں ایک عمل کے انجام دینے پر تنازع کا امکان اس قدر قوی سمجھا گیا کہ اس کی وجہ سے اس عمل کو بالکل ترک کر دیا گیا، جب کہ دوسری صورت میں عمل کو انجام دے دیا گیا۔ مولانا تھانوی نے بتایا کہ یہاں جو اہم نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ یہ فیصلہ کرنا کہ کسی جائز عمل کو صرف اس امکان کی بنیاد پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ وہ سماج میں تشویش اور بے چینی کا سبب بنے گا، صرف ممتاز اہل علم کا کام ہے۔ بالفاظِ دیگر ایسے عمل سے جڑے ظاہری مصالح کے حصول سے پہلے ممکنہ طور پر کسی سماج میں اس سے پیدا ہونے والے انتشار پر غور وفکر کا سوال ایسا ہے جس کا جواب صرف اور صرف کامل ترین علما دے سکتے ہیں28۔ ایسا اس لیے ہے کہ ان معاملات میں حتمی یا تخمینی رائے موجود نہیں ہوتی، جیسا کہ اپنی اصل میں ان ایک جیسے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کے مختلف فیصلوں سے ثابت ہوتا ہے۔

تاہم مولانا تھانوی نے صرف اس تشریح پر اکتفا نہیں کی۔  اپنے منفرد تحقیقی اسلوب میں وہ ایک قدم آگے بڑھ کر یہ قیاس آرائی کرتے ہیں کہ اللہ نے نبی اکرم ﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے شادی کا حکم دیا، جب کہ انھیں کعبہ کے اندر حطیم شامل کرنے سے منع کر دیا۔ دیکھا جائے تو یہ دونوں ایک جیسے جائز اعمال ہیں جن پر سماج کی طرف سے ناراضگی اور دشمنی کا خطرہ ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے پہلے مولانا تھانوی نے خود کو مبارک باد دی کہ اس نے اس مسئلے کا حل تلاش کر لیا ہے۔ انھوں نے لکھا "الحمد للہ ان دونوں صورتوں کے درمیان فرق میرے سامنے واضح ہو گیا ہے"29۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ یہاں یہ سوال پوچھنا بے حد اہم ہے کہ کسی جائز عمل کو اس بنیاد پر ممنوع قرار دینے کا فیصلہ کہ وہ بدنامی اور لعن وطعن کا سبب بن جائے گا، اس بنیاد پر ہونا چاہیے کہ کیا وہ واجبات یا ضروریاتِ دین میں کسی شے کی تکمیل میں معاونت فراہم کرتا ہے یا نہیں۔ اگر  کرتا ہے تو پھر ان سے جڑے منفی نتائج کی پروا کیے بغیر انھیں ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس اگر کوئی عمل واجب نہیں، نہ ہی وہ دین کے ضروری واجبات کو پورا کرنے کا وسیلہ ہے، تو پھر سماج کی طرف سے طنز وتنقید کی روک تھام کو ترجیح ملنی چاہیے اور اس عمل کو ترک کر دینا چاہیے۔

مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نبی اکرم ﷺ کا نکاح دینی اصلاح کا ایک اہم عمل تھا، جبکہ حطیم کو کعبہ میں شامل کرنا ایسا عمل نہ تھا۔ انھوں نے تاریخیت پر مبنی موقف اپناتے ہوئے کہا کہ اس زمانے میں  کسی کا اپنے منہ بولے بیٹے کی بیوی سے شادی کرنا ناجائز اور حرام سمجھا جاتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ بد رسم اس قدر عام اور پختہ تھی جس کی بیخ کنی محض زبانی تنبیہ سے ممکن نہ تھی۔ اس کے لیے عملی اقدام ضروری تھا۔ اصلاحی مقاصد کے حصول کے لیے محض یہ کافی نہ تھا کہ نبی ﷺ زبانی اپنے پیغام کی تبلیغ کریں؛ انھیں اپنی تبلیغ کا عملی نمونہ بھی دکھانے کی ضرورت تھی۔ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی شادی اسی طرح کا ایک اقدام ہے۔

 اس نکاح کی وجہ سے ایک فاسد رسم کی اصلاح کے لیے عملی نمونہ پیش کرنے سے دین کا ایک بنیادی مقصد پورا ہوا۔ اس لیے تھانوی کی نظر میں نبی ﷺ کو حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کی بنیاد پر ممکنہ تنقید کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اس عمل سے جڑا اصلاح کا امکان تنقید کے پنہاں خطرے پر بھاری تھا۔ مولانا تھانوی نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حطیم کو کعبہ میں شامل کرنے سے دین کا کوئی بنیادی مقصد پورا نہیں ہوتا تھا۔ اگرچہ یہ ایک جائز عمل تھا لیکن دین کے تحفظ یا اصلاح کے لیے یہ کسی بھی صورت میں اساسی نہ تھا۔ اس لیے اس صورت میں ایسے اقدام سے اشتعال پیدا ہونے کا جو شدید اندیشہ تھا، وہ اندیشہ ممکنہ فوائد کی بہ نسبت بڑھا ہوا تھا، اور اسی وجہ سے اس عمل کا ترک یا التوا جائز ٹھہرا30۔

مولانا تھانوی نے رسول اللہ ﷺ کی زندگی ایسے کئی دیگر واقعات پیش کیے ہیں جن میں آپ نے کسی عمل کو اس لیے ترک نہیں کیا کہ اس پر سماج کی طرف سے دباو کا سامنا ہو سکتا تھا۔ اس سلسلے میں سب سے جوہری مثال توحید کی طرف رسول اللہ ﷺ کی دعوت تھی۔ آپ کی برادری نے توحید خالص کے پیغام کا جواب شدید اور بے لاگ تردید کے ساتھ دیا، لیکن اس کی وجہ سے آپ نے اپنا پیغام نہیں چھوڑا۔ اسی طرح جب نبی اکرم ﷺ معراج سے واپس آئے تو آپ کی چچا زاد بہن ام ہانی نے، جن کے گھر سے آپ اس سفر پر روانہ ہوئے تھے، آپ سے تقاضا کیا کہ آپ اس واقعے کو اپنی قوم کے سامنے بیان نہ کریں، وگرنہ وہ آپ پر جھوٹ کا الزام لگائیں گے۔ لیکن آپ ﷺ نے ان کے مشورے کو قبول کرنے سے انکار کیا، کیونکہ پیغام نبوت کی تبلیغ کے لیے واقعۂ معراج کی اشاعت ضروری تھی۔ اس لیے جھوٹ کی تہمت اور الزامات کے باوجود، جو اس واقعے کو عوام میں بیان کرنے سے آپ پر لگنے تھے، آپ نے یہ واقعہ بیان کیا، کیونکہ اس سے دین کے ضروری مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی اور اس وجہ سے اسے ترک نہیں کیا جا سکتا تھا31۔


حواشی

  1. اسماعیل، ایضاح الحق، 5 – 35۔
  2. خلیل احمد سہارن پوری، البراہین القاطعۃ علی ظلام الانوار الساطعۃ (کراچی: دار الاشاعت، 1987)، 30 – 170۔
  3. اسماعیل، ایضاح الحق، 5 – 35۔
  4. محمد زید ندوی، فقہ حنفی کے اصول وضوابط (کراچی: زم زم، 2003)، 125 – 26۔
  5. ایضاً۔
  6. یہاں پر تھانوی کا اشارہ معتزلہ کی طرف ہے۔
  7. ندوی، فقہ حنفی کے اصول، 125 – 26۔
  8. ایضاً۔
  9. اشرف علی تھانوی، بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام ومسائل (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2001)، 62 – 63۔
  10. ایضاً، 43۔
  11. النووی، الاربعین، 5 – 7۔
  12.  اشرف علی تھانوی، بدعت کی حقیقت، 43۔
  13. اشرف علی تھانوی، مقالاتِ حکمت (لاہور: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1977)، 136۔
  14. ندوی، فقہ حنفی کے اصول، 135۔
  15. اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، 9 : 98۔
  16. محمد بن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج 2، باب الوتر والنوافل (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1994)، 6۔
  17. احمد بن علی بن حجر العسقلانی، فتح الباري شرح صحیح البخاري (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 2003)، 2 : 437۔
  18. ایضاً۔
  19. اشرف علی تھانوی، التبلیغ (دیوبند: ادارۂ تالیفاتِ اولیا، 1901)، 23۔
  20. ایضاً۔
  21. تھانوی، بدعت کی حقیقت، 62۔
  22. التبلیغ، 11 – 15۔
  23. الافاضات الیومیۃ، 9 : 48۔
  24. ایضاً۔
  25. زید کی زندگی اور رسول اللہ ﷺ سے ان کے تعلق کے بارے میں مسلمانوں کے بدلتے روایتی اظہارات کے ایک دلچسپ مطالعے کے لیے دیکھیے: ڈیوڈ پاورز، Zayd: The Little-Known Story of Muhammad’s Adopted Son (فلاڈلفیا: یونیورسٹی آف پینسلوینیا پریس، 2014)۔
  26. ایضاً، 95 – 123۔
  27. یہ قرآن کی آیت 33 : 37 کی طرف اشارہ ہے (سورۃ الاحزاب میں)، جس کے متعلقہ حصے کا ترجمہ کچھ یوں ہے: "پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اس (زینب) کا نکاح کر دیا، تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو، جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر لیں"۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو حضرت زینب سے شادی کا اشارہ دے دیا ہے، اور یہ آیت ان نایاب مواقع میں سے ہے، جہاں مسلمانوں کے ابتدائی معاشرے کے ایک فرد یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو نام سے یاد کیا گیا۔
  28. تھانوی، الافاضات الیومیۃ، 48۔
  29. ایضاً۔
  30. ایضاً۔
  31. ایضاً۔


مارچ ۲۰۲۳ء

ریاستی نظام کی تنقید کے مروجہ رجحاناتمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۸)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۴)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
صنف وجنس اور اس میں تغیر (۳)مولانا مشرف بيگ اشرف 
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے ساتھ معاشرتی رویہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۳)ابو الاعلیٰ سید سبحانی 
مولانا گیلانی اورشیخ اکبر ابن عربی (۳)مولانا طلحہ نعمت ندوی 

ریاستی نظام کی تنقید کے مروجہ رجحانات

محمد عمار خان ناصر

نظام حکمرانی کی تنقید کے حوالے سے  ہمارے ہاں مختلف زاویے اور بیانیے موجود ہیں۔ ہمارا  مجموعی تاثر یہ ہے کہ ہمارا، سیاسی تنقید کا غالب پیرایہ زمینی سیاسی حقیقتوں سے قطعی طور پر غیر متعلق ہے اور اس کی وجہ تنقید کے صحیح اور متعلق (relevant) فکری وسائل کی کم یابی یا نایابی ہے۔

اس وقت سیاسی تنقید کے جو اسالیب کسی نہ کسی سطح پر ذرائع ابلاغ میں دستیاب ہیں، انھیں ہم حسب ذیل مختلف درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

۱۔ غالب ترین پیرایہ تنقید شخصی حکمرانی، یعنی بادشاہت یا خلافت کے دور سے چلے آنے والے معیارات پر مبنی ہے۔ اس میں حکمران کے اچھے یا برے ہونے یعنی مختلف طرح کے شخصی اوصاف سے یہ طے کیا جاتا ہے کہ نظام حکمرانی کیسا ہے یا کیسا ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر مذہبی ذہن تو ابھی تک حضرت عمر اور حضرت عمر بن عبد العزیز کا حوالہ دیتا ہے کہ اگر ان جیسے اوصاف کے حامل حکمران ہمیں مل جائیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔ اسی انداز فکر کے تحت بہت سے مذہبی سیاسی ’’مفکرین “ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مختلف طریقوں سے اچھے اور نظریاتی لوگ ریاستی نظام کے مختلف مناصب تک پہنچا دیے جائیں تو ملک میں اسلامی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔

اب زمینی صورت حال یہ ہے کہ جدید ریاست قطعی طور پر ایک غیر شخصی اور انتہائی پیچیدہ ادارہ ہے۔ اس میں کسی طاقتور سے طاقتور فرد کو اس اختیار کا سوواں حصہ بھی حاصل نہیں جو بادشاہی نظام میں بادشاہ کو حاصل ہوتا ہے۔ (اگرچہ یہ مفروضہ اپنی جگہ قابل اصلاح ہے کہ بادشاہ کے پاس اختیار یا طاقت کی کوئی جادو کی چھڑی ہوتی تھی جس کے آگے کوئی اور قوت مزاحم نہیں ہو سکتی تھی)۔ بہرحال، ہمارا عمومی سیاسی شعور ابھی اسی سطح پر سوچتا ہے۔

۲۔ سیاسی تنقید کا اس سے اگلا درجہ جدید ریاستی نظام میں اداروں کے کردار اور ادارہ جاتی کارکردگی پر ارتکاز کرتا ہے۔ یہ تنقید آپ کو کئی سیاسی راہ نماوں اور اہل صحافت کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ اس سطح پر کم سے کم اتنا ادراک حقیقت ضرور پایا جاتا ہے کہ شخصی حکومت کے معیارات اس نظام پر منطبق نہیں ہوتے اور ادارہ جاتی کارکردگی زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

۳۔ سیاسی تنقید کی اس سے اگلی سطح یہ ہے کہ ادارہ جاتی نظام کو چلانے والی اصل طاقتوں اور حرکیات کی نشان دہی کی جائے، ان پر نظر رکھی جائے اور دیکھا جائے کہ بظاہر ایک قانونی وآئینی ڈھانچے کے ذریعے سے آگے بڑھنے والا سیاسی عمل حقیقت میں ریاستی ذمہ داریوں کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔ کیا اس بندوبست سے صرف بالادست اور مراعات یافتہ یا حصول مراعات کی مسابقت میں شریک مختلف طبقات کے مفاد کی حفاظت ہو رہی ہے یا معاشرے کے عام طبقوں کے مسائل ومشکلات کو بھی کوئی اہمیت دی جا رہی ہے۔ یہ تنقید آپ کو تقریباً‌ نہ ہونے کے برابر ملے گی۔ بہت کم اہل صحافت (مثلاً‌ آصف محمود ایڈووکیٹ) ان موضوعات پر بات کرتے ہوئے دکھائی دیں گے۔

۴۔ سیاسی تنقید کی اس سے بھی اگلی سطح یہ ہے کہ ہماری ریاست جس بین الاقوامی نظام کا حصہ ہے، اس کے بھی اپنے خاص مطالبات اور ترجیحات ہیں اور یہ نظام بھی ان گنت طریقوں سے آئینی، قانونی اور جمہوری عمل پر اور حکومتی طبقات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ ایک بڑی سطح پر ہمارے جیسی سیاسی طور پر کمزور اور اسٹریٹجک پہلو سے بہت غیر محفوظ ریاستیں اس عالمی نظام اور اس کے طاقت ور اسٹیک ہولڈرز کے ہاتھوں میں ایک کھلونے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور ضروری نہیں کہ اس نظام کی اصل قوتیں عالمی حکومتوں یا اداروں کی صورت میں ہمیشہ نمایاں اور سامنے ہوں۔ عالمی سرمایہ داری نظام کی قوت اور اثر ورسوخ کے بہت سے غیر مرئی اور پس پردہ پہلو بھی ہیں جن کو سمجھنے کے لیے بھی ایک غیر معمولی ذہنی کاوش اور محنت درکار ہے۔ سیاسی تنقید کا یہ پہلو تو شاید ہمارے ہاں بالکل اجنبی ہے۔ محمد دین جوہر صاحب یا ڈاکٹر اختر علی سید کی بعض تحریروں میں البتہ اس کی طرف ضرور اشارات ملتے ہیں۔

(یہ واضح رہے کہ ہمارے ہاں عام مروج ’’سازشی بیانیے“ کا اس پہلو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس بیانیے کے لیے کسی تفہیم یا تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی، بس ہر چیز کو ’’سازش “ کا نام دے دینا کافی ہوتا ہے)۔

۵۔ جدید ریاست کی ساخت پر ایک اور تنقید مغربی اہل علم مثلاً‌ مشل فوکو، کارل شمت اور اگیمبن وغیرہ نے پیش کی ہے اور وائل حلاق جیسے اہل علم کی تنقیدات ان کا حوالہ دیتی ہیں۔ یہ تنقید کافی پیچیدہ ہے، بہت تجریدی نوعیت کی ہے اور کافی  جاروبی قسم کے بیانات پر مشتمل ہے۔ ہماری ناقص رائے میں کم سے کم موجودہ مرحلے میں ہماری ریاست کے مسائل کو سمجھنے میں یہ تنقید بہت زیادہ مدد نہیں کرتی اور شاید سردست ہم اس سے صرف نظر کر سکتے ہیں۔

پس  یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی صورت حال حقیقت میں کیا ہے، وہ کس سطح کی ذہنی وفکری محنت مانگتی ہے اور ہم نے خود کو سیاسی تنقید کی کس سطح پر الجھا کر رکھا ہوا ہے۔

عمران خان کی سیاسی مقبولیت

عمران خان کی مقبولیت کے اسباب کیا ہیں؟ وہ طبقے جو خود پی ٹی آئی کے سیاسی بیانیے سے اتفاق نہیں رکھتے، ان کی طرف سے اس کے مختلف نفسیاتی وسیاسی تجزیے پیش کیے گئے ہیں اور سب میں جزوی طور پر وزن محسوس ہوتا ہے۔ مثلاً‌ یہ کہ

1۔ خاندانی یا موروثی سیاست دان نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ خصوصاً‌ نوجوان اس کو زیادہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔

2۔ بڑی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی اور سیاسی قائدین کے ساتھ وابستہ بدعنوانی وغیرہ کے الزامات کی وجہ سے ایک متبادل سیاسی قیادت کی خواہش معاشرے میں موجود ہے جو موجودہ حالات میں عمران خان ہی ہے۔

3۔ پوری دنیا میں پاپولسٹ سیاست دانوں کی مقبولیت کا ایک عمومی چلن ہے۔ حالات کی پیچیدگی، مشکلات اور چیلنجز کے سامنے ایک عام آدمی کو جو حوصلہ، اعتماد اور امید چاہیے ہوتی ہے، وہ ایسے لیڈر فراہم کرتے ہیں اور خود کو حتمی حل کے طور پر اس طرح پیش کرتے ہیں جو عام آدمی کو اپیل کرتا ہے۔

4۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کو بیرونی سازش سے جوڑنے اور اس کے قرائن وشواہد اجاگر کرنے کا بیانیہ کامیابی سے تشکیل دیا جس کو پذیرائی ملی اور گویا قومی حمیت کے جذبے کو خان صاحب نے مہارت سے استعمال کر کے سیاسی قوت حاصل کی۔

ان سب تجزیوں میں یقیناً‌ وزن ہے اور یہ سارے پہلو اہمیت رکھتے ہیں۔ البتہ ایک پہلو میرے خیال میں سب سے اہم ہے جس پر عام طور پر تجزیوں میں توجہ نہیں دی گئی۔

یہ پہلو ’’مفاد پرستی کی وجہ سے بے وفائی“ کے احساس کا ہے جس کا رخ مقتدرہ کی طرف ہے۔ یہ ویسے تو واضح ہے، لیکن اس کو درست طور پر سمجھنے کے لیے کچھ تشریح کی ضرورت ہے۔

مقتدرہ کے ساتھ سیاسی قوتوں کی معاملہ بندی کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ سیاست کا ایک معمول ہے، لیکن عمران خان کے معاملے میں ایک فرق پایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے جتنی بھی سیاسی قوتوں کے ساتھ معاملہ کیا گیا، وہ خالصتاً‌ اشتراک مفاد کی بنیاد پر یعنی قطعی طور پر سیاسی معاملہ تھا۔ اس میں فریقین پر ابتدا سے یہ واضح تھا کہ یہ ایک لین دین ہے، اس کی بنیاد کسی اخلاقی مقصد پر نہیں ہے۔ عمران خان کے ساتھ معاملہ اس اصول پر نہیں کیا گیا۔ عمران خان کے ساتھ معاملہ مخالف سیاسی قوتوں کے خلاف ایک اخلاقی مقدمے کی بنیاد پر کیا گیا اور نہ صرف عمران خان کو بلکہ ان کے لیے عدلیہ اور میڈیا میں زمین ہموار کرنے والوں کو بھی یہی باور کرایا گیا کہ مقتدرہ اخلاقی بنیادوں پر بدعنوان سیاستدانوں سے نالاں ہے اور قوم کو ان سے چھٹکارا دلانا چاہتی ہے۔

اگر اس زاویے سے دیکھیں تو سمجھ میں آئے گا کہ کیوں سفر کے درمیان میں مقتدرہ کا ان کی حمایت سے اچانک دستکش ہو جانا عمران خان کے لیے قابل فہم نہیں تھا اور کیوں وہ اس پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کے نقطہ نظر سے یہ تعلق کسی مفاد یا باہمی لین دین کے اصول پر قائم ہی نہیں ہوا تھا۔ یہ ایک اخلاقی معاہدہ تھا جس میں فریقین نے مل کر ہر طرح کا بوجھ اٹھانا اور ہر طرح کے دباو کا سامنا کرنا تھا۔ اگر عمران خان کی فوری کارکردگی متاثر کن نہیں تھا تو معاہدے کی اخلاقیات کی رو سے اس کا جواز نہیں بنتا تھا کہ مقتدرہ اپنے کپڑے جھاڑ کر ایک طرف ہو جائے۔

اس سیاق میں مقتدرہ نے جن اسباب سے بھی اور جس دباو کے تحت بھی حمایت سے دستبرداری کا فیصلہ کیا ہو، عمران خان کے لیے قطعی طور پر ناقابل فہم تھا۔ وہ اس کو سیاسی زاویے سے دیکھ ہی نہیں سکتے تھے، کیونکہ ان کے لیے یہ ایک اخلاقی کمٹمنٹ کو توڑنے کا اور گویا ذاتی نوعیت کی بے وفائی کا معاملہ تھا۔ اسی سے ان کے شدید ردعمل اور مقتدرہ کے خلاف جارحانہ سیاسی بیانیے کی اصل وجہ کو سمجھا جا سکتا ہے۔

یہی ’’صدمہ “ صحافت میں ان لوگوں کو بھی پہنچا جو مقتدرہ کی اخلاقی کمٹمنٹ کے گواہ تھے اور عمران خان نے جب اس کو سیاسی بیانیے کی شکل دی تو صرف ان کے سابق حمایتیوں کو نہیں، بلکہ بڑی تعداد میں دوسرے لوگوں کو بھی اس میں مقتدرہ کی مفاد پرستی اور اخلاقی بدعہدی اتنے نمایاں طور پر دکھائی دی کہ ان کے پاس عمران خان کے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونے یا کم سے کم اس کے لیے ہمدردی محسوس کرنے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھا۔

غور کیا جائے تو اس معاملے میں مقتدرہ نے وہی حرکت کی جو روس کے خلاف جذبہ جہاد سے تیار کی گئی نسل کے ساتھ کی تھی۔ مقتدرہ کے نقطہ نظر سے یہ ایک اسٹریٹجک معاملہ تھا، لیکن جو نسل تیار کی گئی، اس کو یہ باور کرایا گیا کہ یہاں اسلام کے عالمی غلبے کا لانچنگ پیڈ بنایا جا رہا ہے اور آج روس کے گرنے کے بعد کل ہندوستان اور امریکا کی باری ہوگی۔ یہ قول وقرار کرنے کے بعد جب آپ ایک فون کال پر امریکا کا جنگی حلیف بننے کا فیصلہ کر لیں اور طاقت کے نشے میں جامعہ حفصہ جیسے سانحے کو جنم دے دیں جس سے قطعی طور پر گریز ممکن تھا تو پھر انسانی ردعمل وہی ہو سکتا تھا جو اس کے بعد ہوا۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۸)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(398)  تنزیلا کا ترجمہ

قرآن مجید میں کتابیں نازل کرنے کے لیے باب تفعیل سے تنزیل اور باب افعال سے انزال، دونوں ہی تعبیریں آئی ہیں۔ کیا ان دونوں میں فرق ہے یا یہ مترادف اور ہم معنی ہیں؟ زمخشری نے ان دونوں کے درمیان فرق یہ کیا ہے کہ تنزیل تھوڑا تھوڑا کرکے قسطوں میں نازل کرنے کے لیے ہے جب کہ انزال یک بارگی نازل کرنے کے لیے ہے۔ درج ذیل دونوں آیتوں کے تحت وہ اس فرق پر زور دیتے ہیں:

نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَیْنَ یَدَیْہِ وَأَنْزَلَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِیلَ۔ (آل عمران: 3)

”اس نے (اے محمدﷺ) تم پر سچی کتاب نازل کی جو پہلی (آسمانی) کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور اسی نے تورات اور انجیل نازل کی“۔ (فتح محمد جالندھری)

زمخشری لکھتے ہیں کہ یہاں قرآن کے لیے نزّل اور تورات و انجیل کے لیے أنزل اس لیے آیا ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا اور تورات و انجیل کو یک بارگی اتارا گیا: فإن قلت: لم قیل (نَزَّلَ عَلَیْکَ الْکِتابَ) (وَأَنْزَلَ التَّوْراةَ وَالْإِنْجِیلَ)؟ قلت: لأن القرآن نزل منجماً، ونزل الکتابان جملة۔ (الکشاف)

یہی بات زمخشری نے درج ذیل آیت میں بھی کہی ہے:

یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی نَزَّلَ عَلَی رَسُولِہِ وَالْکِتَابِ الَّذِی أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ۔  (النساء: 136)

”مومنو! خدا پر اور اس کے رسول پر اور جو کتاب اس نے اپنے پیغمبر (آخرالزماں) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں سب پر ایمان لاؤ“۔(فتح محمد جالندھری)

زمخشری کہتے ہیں: فإن قلت: لم قیل (نَزَّلَ عَلی رَسُولِہِ) و (أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ)؟ قلت: لأن القرآن نزل مفرّقا منجما فی عشرین سنة، بخلاف الکتب قبلہ۔ (الکشاف)

بعض مفسرین جیسے ابوحیان نے زمخشری کی اس توجیہ کو سختی سے رد کیاہے۔ ابوحیان کا یہ کہنا ہے کہ باب تفعیل میں کثرت اور تکرار یا تنجیم (قسط واریت) کا مفہوم اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی متعدی فعل ثلاثی مجرد سے باب تفعیل میں جائے، جیسے کسر، جرح، قطع وغیرہ، لیکن اگر کوئی فعل ثلاثی مجرد لازم ہو اور باب تفعیل میں آئے تو اس میں صرف تعدیہ کا مفہوم ہوتا ہے جیسے فرح اور فرّح۔

ابوحیان کی تنقید کے علاوہ بھی زمخشری کی اس توجیہ پرخود قرآنی استعمالات کی روشنی میں شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ ایک اعتراض تو یہ ہے کہ اگلی ہی آیت میں اور اسی جملے کا حصہ بن کر وَأَنْزَلَ الْفُرْقَان آیا ہے، اگر قرآن اور دیگر کتابوں میں مذکورہ فرق ہے تو فرقان کے ساتھ  نزّل آنا چاہیے تھا۔

زمخشری کی بات کو غلط ثابت کرنے کے لیے یہ بات بھی کافی ہے کہ خود تورات کے لیے نزّل آیا ہے، درج ذیل آیت ملاحظہ کریں:

کُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِبَنِی إِسْرَائِیلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلَی نَفْسِہِ مِنْ قَبْلِ أَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوہَا إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ۔ (آل عمران: 93)

”سب کھانے بنی اسرائیل کو حلال تھے مگر وہ جو یعقوبؑ نے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا توریت اترنے سے پہلے تم فرماؤ توریت لاکر پڑھو اگر سچے ہو“۔ (احمد رضا خان)

اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ چوں کہ تورات یک بارگی نازل ہوئی اس لیے اس کے ساتھ أنزل  آیا ہے۔ خود یہ بات بھی ثابت نہیں ہے کہ تورات اور انجیل ایک بار میں نازل کی گئی تھیں۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ خود قرآن نے صراحت کے ساتھ ایک بار اتارنے کے لیے نزّل کا استعمال کیا ہے، فرمایا:

وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَۃً۔ (الفرقان: 32)

”اور کافروں نے کہا کہ اس پر قرآن سارا کا سارا ایک ساتھ ہی کیوں نہ اتارا گیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

دوسرے مقام پر کہا گیا:

 وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَابًا فِی قِرْطَاسٍ۔ (الانعام: 7)

”اور اگر ہم تم پر کاغذوں پر لکھی ہوئی کتاب نازل کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری) یہاں بھی ایک کتاب کی صورت میں اتارنے کے لیے نزّل آیا ہے۔

ایک اور نکتہ یہ بھی ہے کہ قرآن میں بعض جگہ نزّل اور أنزل ایک ہی چیز کے لیے آئے ہیں، فرمایا:

وَأَنْزَلْنَا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ۔ (النحل: 44)

”یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں، شاید کہ وہ غور وفکر کریں“۔ (محمد جوناگڑھی) یہاں قرآن کے لیے أنزل اور نزّل دونوں ایک ہی آیت میں آئے ہیں۔

دوسری جگہ فرمایا:

 وَیَقُولُ الَّذِینَ آمَنُوا لَوْلَا نُزِّلَتْ سُورَةٌ فَإِذَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مُحْکَمَةٌ وَذُکِرَ فِیہَا الْقِتَالُ رَأَیْتَ الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ یَنْظُرُونَ إِلَیْکَ نَظَرَ الْمَغْشِیِّ عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَأَوْلَی لَہُمْ۔ (محمد: 20)

”اور جو لوگ ایمان لائے وہ کہتے ہیں کوئی سورت کیوں نازل نہیں کی گئی؟ پھر جب کوئی صاف مطلب والی سورت نازل کی جاتی ہے اور اس میں قتال کا ذکر کیا جاتا ہے تو آپ دیکھتے ہیں کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ آپ کی طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے اس شخص کی نظر ہوتی ہے جس پر موت کی بیہوشی طاری ہو، پس بہت بہتر تھا ان کے لیے“۔ (محمد جوناگڑھی) یہاں ایک سورت کے لیے نزّل اور أنزل دونوں آیا ہے۔

آخری نکتہ یہ ہے کہ قرآن میں کئی جگہ فرد واحد کے لیے نزّل آیا ہے، ظاہر ہے اس سے مراد قسط وار نازل کرنا نہیں لے سکتے، جیسے:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آیَاتِ اللَّہِ یُکْفَرُ بِہَا وَیُسْتَہْزَأُ بِہَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَہُمْ حَتَّی یَخُوضُوا فِی حَدِیثٍ غَیْرِہِ إِنَّکُمْ إِذًا مِثْلُہُمْ إِنَّ اللَّہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِینَ وَالْکَافِرِینَ فِی جَہَنَّمَ جَمِیعًا۔ (النساء: 140)

”اور خدا نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہورہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں (نہ) کرنے لگیں۔ ان کے پاس مت بیٹھو۔ ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہوجاؤ گے۔ کچھ شک نہیں کہ خدا منافقوں اور کافروں سب کو دوزخ میں اکھٹا کرنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

نیز:

 قُلْ لَوْ کَانَ فِی الْأَرْضِ مَلَائِکَةٌ یَمْشُونَ مُطْمَئِنِّینَ لَنَزَّلْنَا عَلَیْہِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَکًا رَسُولًا۔ (الإسراء: 95)

”کہہ دو کہ اگر زمین میں فرشتے ہوتے (کہ اس میں) چلتے پھرتے (اور) آرام کرتے (یعنی بستے) تو ہم اُن کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے“۔ (جالندھری) پہلی آیت میں ایک حکم نازل کرنے اور دوسری آیت میں ایک فرشتہ نازل کرنے کی بات ہے، لیکن لفظ نزّل استعمال ہوا ہے۔

غرض یہ کہ اگرچہ مفسر زمخشری اور ان کے بعد مفسر رازی نے نزّل کو بتدریج نازل کرنے کے معنی میں لیا ہے، لیکن یہ بات بہت کم زور ہے، قرآن کے استعمالات اس رائے کو مسترد کرنے کے لیے کافی ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ دونوں مترادف ہیں اور لفظی تنوع کے لیے دونوں کا استعمال ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن آیتوں میں زمخشری نے زور دے کر کہا ہے کہ یہاں نزّل تدریج کا مفہوم رکھتا ہے، جیسے مذکورہ بالا دونوں آیتیں ہیں، وہاں مترجمین نے ترجمے میں تدریج کا ذکر نہیں کیا، البتہ بعض دوسری آیتوں میں تدریج کا ذکر کیا ہے۔

اس تفصیل کے بعد ہم کچھ آیتوں کے ترجموں کو پیش کرتے ہیں:

(۱) وَقُرْآنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیلًا۔ (الاسراء: 106)

”قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا ہے کہ آپ اسے بہ مہلت لوگوں کو سنائیں اور ہم نے خود بھی اسے بتدریج نازل فرمایا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اس قرآن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم ٹھیر ٹھیر کر اسے لوگوں کو سناؤ، اور اسے ہم نے (موقع موقع سے) بتدریج اتارا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور قرآن ہم نے جدا جدا کرکے اتارا کہ تم اسے لوگوں پر ٹھہر ٹھہر کر پڑھو اور ہم نے اسے بتدریج رہ رہ کر اتارا“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کرکے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھیر ٹھیر کر پڑھ کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اُتارا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آیت کے ترجمے میں تدریج کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ فرقناہ (ہم نے اسے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا) تو پہلے کہہ ہی دیا گیا، پھر اس مضمون کوآخر کیوں دوہرایا جائے گا؟؟

درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”اور قرآن کو تو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا ہے کہ تم اس کو لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر سناؤ، اور ہم نے اس کو نہایت اہتمام سے اتارا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲)  إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ تَنْزِیلًا۔ (الانسان: 23)

”ہم نے اتارا تجھ پر قرآن سہج سہج اتارنا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے محمد (ﷺ) ہم نے تم پر قرآن آہستہ آہستہ نازل کیا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اے نبیؐ، ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے“۔ (سید مودودی)

”بیشک ہم نے تم پر قرآن بتدریج اتارا“۔ (احمد رضا خان)

”بیشک ہم نے تجھ پر بتدریج قرآن نازل کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں تدریج کا ذکر کرنے کا کوئی محل بھی نہیں ہے۔ قرآن نازل کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔ درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”ہم ہی نے تم پر قرآن نہایت اہتمام سے اتارا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۳) قُلْ نَزَّلَہُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِینَ آمَنُوا وَہُدًی وَبُشْرَی لِلْمُسْلِمِینَ۔ (النحل: 102)

”اِن سے کہو کہ اِسے تو روح القدس نے ٹھیک ٹھیک میرے رب کی طرف سے بتدریج نازل کیا ہے تاکہ ایمان لانے والوں کے ایمان کو پختہ کرے اور فرماں برداروں کو زندگی کے معاملات میں سیدھی راہ بتائے اور اُنہیں فلاح و سعادت کی خوش خبری دے“۔ (سید مودودی)

”کہہ دیجئے کہ اسے آپ کے رب کی طرف سے جبرئیل حق کے ساتھ لے کر آئے ہیں تاکہ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ استقامت عطا فرمائے اور مسلمانوں کی رہنمائی اور بشارت ہو جائے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کہہ دو کہ اس کو روح القدس تمہارے پروردگار کی طرف سے سچائی کے ساتھ لے کر نازل ہوئے ہیں تاکہ یہ (قرآن) مومنوں کو ثابت قدم رکھے اور حکم ماننے والوں کے لیے تو (یہ) ہدایت اور بشارت ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

پہلی بات تو یہی ہے کہ ترجمے میں تدریج کا اضافہ غیر ضروری ہے۔ قرآن نازل کرنے کا ایک مقصد یہ بتایا گیا اس سے اہل ایمان کو ثبات حاصل ہوگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ھدی اور بشری کا عطف لیثبت پر کرنے سے بہتر ہے کہ دونوں کو حال مانا جائے۔ یعنی یہ کتاب سیدھی راہ بتاتی ہے اور اسلام والوں کو بشارت دیتی ہے۔ اس دوسرے پہلو کی آخر الذکر ترجمے میں رعایت کی گئی ہے۔

مذکورہ بالا تینوں آیتوں کے ترجمے کے حوالے سے ایک قابل غور بات یہ ہے کہ جو حضرات نزّل یا تنزیلا کا ترجمہ تدریج کے ساتھ نازل کرنا کرتے ہیں، وہ کچھ آیتوں ہی میں ایسا ترجمہ کرتے ہیں، بقیہ آیتوں میں وہ بھی صرف نازل کرنا ہی ترجمہ کرتے ہیں۔ قرآن میں کئی جگہ تنزیل (حالت رفع میں) کا لفظ آیا ہے، وہاں بھی سب لوگ نازل کرنا ترجمہ کرتے ہیں، تدریج کے ساتھ نازل کرنا نہیں کرتے ہیں۔ مناسب بات یہ ہے کہ سب جگہ نازل کرنا ترجمہ کرنا چاہیے، تدریج کا مفہوم اس لفظ کے اندر شامل ہونے کی کوئی دلیل یا بنیاد نہیں ہے۔

(399) وَعَلَی اللَّہِ قَصْدُ السَّبِیلِ

وَعَلَی اللَّہِ قَصْدُ السَّبِیلِ وَمِنْہَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَہَدَاکُمْ أَجْمَعِینَ۔ (النحل: 9)

”اور اللہ ہی کے ذمہ ہے سیدھا راستہ بتانا جب کہ راستے ٹیڑھے بھی موجود ہیں اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“۔ (سید مودودی)

”اور اللہ پر سیدھی راہ کا بتا دینا ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں، اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگا دیتا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی کرنا اللہ کی ذمہ داری ہے اور ان میں کچھ راستے کج بھی ہوتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ (زبردستی) چاہتا تو تم سب کو ہدایت دے دیتا“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور اللہ پر پہنچتی ہے سیدھی راہ اور کوئی راہ کج بھی ہے اور وہ چاہے تو راہ دے تم سب کو“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور سیدھا رستہ تو خدا تک جا پہنچتا ہے۔ اور بعض رستے ٹیڑھے ہیں (وہ اس تک نہیں پہنچتے) اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو سیدھے رستے پر چلا دیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اللہ تک سیدھی راہ پہنچاتی ہے اور بعض راہیں کج ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو ہدایت پر کردیتا“۔ (امین احسن اصلاحی)

قصد السبیل کا مطلب تو سیدھا راستہ ہے، یعنی الطریق القاصد۔  اختلاف اس میں ہے کہ علی اللہ کا کیا مفہوم ہے۔ بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا کہ اللہ کی ذمے داری ہے کہ وہ سیدھا راستہ بتائے۔ لیکن اس صورت میں دو اشکال ہیں، ایک یہ کہ جملے میں بیان کو محذوف ماننا پڑے گا۔ یعنی وعلی اللہ بیان قصد السبیل، دوسرا اشکال یہ ہے کہ اس ترجمے میں ومنھا جائر (کچھ راستے ٹیڑے ہیں) کی پہلے جملے سے مطابقت نہیں ظاہر ہوتی۔ اس توجیہ کے ماننے والوں نے دونوں اشکالات کے جواب دیے ہیں، لیکن اس تکلف کی ضرورت نہیں رہتی ہے اگر جملے کا مطلب یہ لیا جائے کہ سیدھا راستہ اللہ تک پہنچاتا ہے۔ یہاں کوئی پوچھ سکتا ہے کہ پھر الی آنا چاہیے تھا علی کیوں آیا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں علی الی کے مفہوم میں ہے۔ قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ فرمایا:

قَالَ ہَذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیمٌ۔ (الحجر: 41)

”ارشاد ہوا کہ ہاں یہی مجھ تک پہنچنے کی سیدھی راہ ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)، گو کہ بعض مفسرین نے اس آیت کا بھی یہ مفہوم لیا ہے کہ سیدھے راستے کو دکھانا میری ذمے داری ہے، لیکن یہ اور بھی زیادہ پرتکلف توجیہ ہے۔ تکلف سے خالی مفہوم یہی ہے کہ یہ سیدھا راستہ مجھ تک پہنچتا ہے۔ یہ بات کہ سیدھا راستہ اللہ تک پہنچاتا ہے، درج ذیل آیت میں بھی کہی گئی ہے:

 إِنَّ رَبِّی عَلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ۔ (ہود: 56)

”بیشک میرا پروردگار سیدھے رستے پر ہے“۔(فتح محمد جالندھری)

زیر بحث آیت کا یہ دوسرا مفہوم آیت کے تینوں ٹکڑوں کو عمدہ طریقے سے جوڑتا ہے۔ آیت کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ ایک سیدھا راستہ ہے جو اللہ تک پہنچاتا ہے، اور کچھ ٹیڑھے راستے ہیں، بہت سے لوگ ٹیڑھے راستوں پر چل رہے ہیں، اگر اللہ چاہتا تو سب کو سیدھے راستے پر چلادیتا۔

(جاری)


مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۴)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: ایک پیشین گوئی ہے کہ اسلام غریب ہو جائے گا اور غریبوں کے لئے خوشخبری ہے۔1 غریبی کا اسلام سے کیا تعلق؟

عمار ناصر: غریب کا لفظ اجنبی کے معنوں میں ہے۔ جو لوگ اپنے ماحول میں صحیح اسلام پر عمل کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں اجنبی بن جائیں اور ماحول کے رنگ میں نہ رنگے جائیں، وہ مراد ہیں۔

مطیع سید: لوگوں سے قتال کروجب تک وہ لا الہ نہ کہہ دیں۔2 یہ کیا کوئی خاص مشرکین کے لیے حکم تھا؟کیونکہ دین میں تو جبر نہیں ہے۔

عمار ناصر: یہ دو الگ چیزیں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اگر کوئی قوم ایمان نہیں لاتی تو اللہ تعالیٰ اسے سزادیتے ہیں۔ یہ جبر ہی ہےکہ اللہ تعالیٰ کہہ رہے ہیں کہ ایمان لاو، اگر نہیں لاتے تو سزا ملے گی۔ اسی طریقے پر حضرت موسیؑ کی قوم کو شرک اختیار کرنے پر قتل کی سزا دی گئی۔ تو اللہ کا ضابطہ ہے کہ جب وہ کسی قوم کا مواخذہ کر نا چاہے تو کر لیتا ہے، یعنی اللہ چاہے تو جبرکر سکتاہے۔ ایمان نہ لانے کی آزادی بھی اس نے دی ہے، تو وہ جب چاہے، اپنی حکمت کے تحت یہ آزادی سلب بھی کر سکتا ہے۔ لیکن یہ حق انسانوں کو حاصل نہیں ہے، مجھے اور آپ کو اللہ نے یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم لوگوں سے جبراً‌ ایمان کا مطالبہ کریں۔

اسی ضابطے کے مطابق قرآن مجید میں عرب کے مشرکین کو حجۃ الوداع کے موقع پر ایک مہلت دی گئی اور اس سے پہلے بھی اعلان کیا گیا کہ وہ اگر شرک چھوڑ کر ایمان نہیں لاتے تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ یہ حدیث بھی اسی سے متعلق ہے۔ البتہ فقہا کے ہاں اس میں کئی بحثیں ہیں۔ بعض اس حدیث کو اسی آیت کےتحت سمجھتے ہیں اور مشرکین عرب کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عمومی طور پر جہاد اور قتال کا حکم ہے جو کسی کے خلاف بھی ہوسکتا ہے۔ مقصود اس کا یہ بیان کیا گیا ہے کہ لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں۔ پھر اس میں بعض گروہوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ گنجائش بھی دے دی کہ وہ اگر جزیہ دے کر اپنے دین پر قائم رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔

مطیع سید: ایک آدمی کو پھوڑا نکلا۔ اس نے اسے پھاڑدیا اور اسی کے باعث مر گیا توآپ ﷺ نے فرمایا کہ اس پر جنت حرام ہو گئی۔3 آپ ﷺ نے اسے خودکشی کے زمرے میں لیا حالانکہ پھوڑے کو پھاڑنا تو ٹھیک ہی ہوتا ہے؟

عمار ناصر: نہیں، اس میں نیت کو دیکھنا اہم ہے۔ اگر تو اس نے علاج کے لیے پھاڑا ہے یا غلطی سے پھٹ گیا تو وہ اور بات ہے۔ یہ وعید اس وقت صادق ہوگی جب اس نے مرنے یعنی خود کشی کی نیت سے ہی پھاڑا ہو۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے انصار کو فرمایا کہ ایک وقت آئے گا کہ تم پر دوسرے لوگوں کو ترجیح دی جائے گی۔4 تو کیا اس بات کو ہم خلافت کی تقسیم کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں؟

عمار ناصر: نہیں، خلافت کے حوالے سے تو آپ ﷺ نے انصار کو واضح طور پر منع کر دیا تھا کہ تم اس کشمکش میں شریک نہ ہونا۔ یہاں قومی خزانے سے دی جانے والی مراعات میں ترجیح کی بات ہو رہی ہے کہ جب خزانے آئیں گے، اموال آئیں گے تو ان کی تقسیم میں تمہیں نظر انداز کیا جا ئے گا اور باقی لوگوں کو دیا جا ئےگا تو تم اس پر صبر کرنا۔

مطیع سید: آپ کہیں مہمان بن کر جائیں اور کوئی آپ کی مہمان نوازی نہ کرےتو اپنی مہمان نوازی کا حق اس سے لے لو۔5 یہ کس تناظرمیں نبی ﷺ نے فرمایا تھا؟

عمار ناصر: یہ آپ ﷺ نے لشکروں سے کہا تھا کہ جب تم کسی علاقے میں جاؤ اور وہ تمہاری مہمان نوازی نہ کریں یعنی قیام وطعام کے ضروری بندوبست میں تعاون نہ کریں تو تم جبراً‌ اپنا حق لے سکتے ہو۔

مطیع سید: اسلامی علاقوں میں یا کسی بھی علاقے میں؟

عمار ناصر: نہیں، کسی بھی علاقے میں۔

مطیع سید: مسافر کی حیثیت سے؟

عمار صاحب: مسافر کی حیثیت سے بھی لے سکتے تھے اور خاص طور پر بہت سے علاقے تھے جیسے نجران وغیرہ جن کے ساتھ باقاعدہ معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ اسلامی لشکر آئیں گے تو تم پابند ہو گے کہ مقامی طور پر ان کی مہمان نوازی کرو۔ اس تناظر میں فرمایا کہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو جتنا تمہار ا حق بنتا ہے کہ تم جبراً‌ لے سکتے ہو۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ غلام اپنے مالک کے لیے رب کا لفظ نہ بولے۔6

عمار ناصر: جی، یہ مناسب نہیں ہے۔ رب کے لفظ میں پالنے پوسنے کا مفہوم ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے لیے بولا جاتا ہے۔

مطیع سید: لیکن نبی ﷺ نے خود بھی قیامت کی پیشین گوئی میں باندی کی مالکہ کے لیے ربتھا کا لفظ بولا۔7 حضرت یوسف بھی قرآن میں ایک جگہ عزیز مصر کو اسی لفظ سے یاد کرتے ہیں۔

عمار ناصر: درست ہے، نبی ﷺ نے بعض جگہ یہ لفظ بولابھی ہے۔ اس میں یوں ہوتا ہے کہ زبان میں اگر ایک لفظ رائج ہے تو عرف کے لحاظ سے آپ اس کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں محسوس کرتے، لیکن بعض موقعوں پر آپ محسوس کرتےہیں کہ اس لفظ کے استعمال سے ایک خاص طرح کا رویہ پیداہوتا ہے تو اس تناظر میں آپ کو کچھ تردد بھی محسوس ہوتا ہے۔ اسی پہلو سے آپ ﷺ بھی اس لفظ سے گریز کی تلقین فرما رہے ہیں۔

مطیع سید: کسی صحابی نے تلاوت فرمائی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم نے مجھے یہ آیات یاد دلادیں، میں ان کو بھول چکا تھا۔8 جبکہ قرآن کہتا ہے کہ ہم آپ کو پڑھائیں گے اور آپ بھولیں گے نہیں۔

عمار ناصر: نہیں، وہ سنقرک فلاتنسیٰ میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اور مفہوم میں ہے۔ وقتی طور پر بھول جانے کی نفی یہاں مراد نہیں ہے۔ نبی ﷺ اپنی ذاتی اور انفرادی حیثیت میں کوئی چیز بھول بھی سکتے تھے، قرآن کی کوئی آیت بھی بھول سکتے تھے۔ اس آیت میں دراصل قرآن کے نزول اور حفاظت کے دو مرحلوں کا ذکر ہے۔ ایک جب قرآن نازل ہو رہا تھا تو اس میں کمی بیشی اور نسخ کا معاملہ بھی جاری تھا۔ اس مرحلے پر آپ پر نازل کیے جانے والے کئی حصوں کو مستقلاً‌ محفوظ کرنا اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں تھا۔ اللہ کی حکمت کے تحت یہ حصے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یادداشت میں بھی محفوظ نہ رہے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اسی حوالے سے اس آیت میں کہا گیا کہ آپ اس کے متعلق فکرمند نہ ہوں، کیونکہ دوبارہ جب ہم آپ کو اس کی قراءت پڑھائیں گے جو حتمی ہوگی تو پھر آپ اس کو نہیں بھولیں گے۔

مطیع سید: یعنی یہ آیات وقتی طور پر آپ کو مستحضر نہیں تھیں؟

عمار ناصر: جی، مستحضر نہیں تھیں۔

مطیع سید: رھط، یہ لفظ آدمی کے معنی بھی آتا ہے؟

عمار ناصر: آدمی کے معنوں میں نہیں، عام طور پر چھوٹی جماعت کے معنوں میں آتا ہے۔

مطیع سید: میں نے کہیں اس کے معنی آدمی کے دیکھے تو مناسب نہیں لگا۔

عمار ناصر: قافلہ، جماعت، چھوٹا گروہ، ان معنوں میں آتا ہے۔ مفردکے لیے استعمال کی کوئی نظیر میری نظر میں نہیں ہے۔ ممکن ہے اصل لغت میں اس کی گنجائش ہو۔

مطیع سید: بنو نضیر کی جلا وطنی کے بعد ان کی زمینیں مسلمانوں کو مل گئی تھیں اور ان کی پیداوار سے سال بھر کا خرچ آپ ﷺ کے گھر بھی آجاتا تھا۔ تو یہ جو کہا جاتا تھا کہ دو دو ماہ تک چولہا نہیں جلتا تھا، یہ کس دور کی بات ہے؟

عمار ناصر: روایت میں تو تصریح نہیں ہے کہ یہ کب کی بات ہے۔ دیکھنا پڑے گا کہ پہلے کی بات ہے یا بعد کی۔

مطیع سید: حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے پتلی روٹی اور بھنی ہوئی بکری کبھی نہیں کھائی۔9 جبکہ مختلف روایات موجود ہیں کہ آپ ﷺ کو دستی کا گو شت بہت پسند تھا10 اور حضرت انس تو حضور ﷺ کے پاس مسلسل دس سال رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتاہے؟ یہ کب کی روایت ہے؟

عمار ناصر: اس طرح کی روایتیں غالباً‌ عموم کے لحاظ سے صورت حال کو بیان کر دیتی ہیں۔ دیگر تفصیلات کو سامنے رکھیں تو صورت حال اس سے تھوڑی مختلف دکھائی دیتی ہے۔

مطیع سید: کیا یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ ﷺ کی ازواج میں سے ایک زوجہ محترمہ نے فرمایاکہ میں نے حضور ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا؟11

عمار ناصر: چاشت کی نماز معمولاً‌ پڑھنے کا تو واقعی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ کسی موقع پر آپ ﷺ سفر سے آئے تو دو رکعتیں ادا فرما لیں یا فتح مکہ کے موقع پر آٹھ رکعات ادا کیں۔ عموم میں آپ کا یہ معمول نہیں تھا۔ البتہ آپ کی معیشت سے متعلق اس طرح کی روایتیں محلِ غور ہیں۔ ڈاکٹر یٰسین مظہر صدیقی صاحب کی ایک اچھی تحقیق مدنی عہدِ میں نبی ﷺ کی معیشت کے موضوع پر انڈیا کے کسی علمی مجلے میں اور یہاں ماہنامہ اشراق میں بھی شائع ہوئی تھی۔ مجھے اس کی تفصیل مستحضر نہیں، لیکن اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے، انہوں نے اس پر کوئی روشنی ڈالی ہو ۔

مطیع سید: عجوہ کھجور کے بارےمیں بخاری کی جو روایت ہے کہ اس کے کھانے سے جادو اثر نہیں کرتا،12 کیا لوگوں نے اس کا تجربہ کیا ہے؟ کیونکہ یہ تو تجربے سے تعلق رکھنے والی چیزہے۔ کیا کسی نے کہیں اس کاتجربہ لکھا بھی ہے؟

عمار ناصر: ابن قیم نے زاد المعاد میں اس پر بات کی ہے۔ وہ اس میں کئی تحدیدات بیان کرتے ہیں کہ کیا مطلق عجوہ میں شفا ہے یا یہ عجوۃ العالیہ یعنی مدینے کے بالائی حصے میں اگنے والی کھجور کی خاصیت ہے، کیونکہ حدیث میں مدینے کی بالائی بستی کے بار ے میں شفا کا ذکر آیا ہے۔ تو بعض اہل علم یہ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ساتھ خاص ہے۔

مطیع سید: راویوں کی جانچ پرکھ کے تو بہت سے اصول ہیں۔ اس پر کتابیں بھی ہیں، بہت کام ہواہے۔ کیا متن پر تنقیدکے حوالےسے بھی اتنا کام ہوا ہے؟

عمار ناصر: کچھ نہ کچھ ہواہے۔ درایتاً‌ نقد کرنے کے اصولوں کی مثالیں تو بہت ملتی ہیں لیکن ان کو اصولی قالب میں ڈھالنے کا کام زیادہ نہیں ہوا۔ احناف کے ہاں کچھ تھوڑی سی بحث ملتی ہے، لیکن وہ زیادہ جامع نہیں۔ حنفی اصول ِ فقہ کی کتابوں میں اس بحث کو روایت کے معنوی انقطاع کا عنوان دیتے ہیں۔ اس میں کچھ اصولوں کا ذکر کرتے ہیں جن کا تعلق زیادہ تر فقہی مسائل سے ہوتا ہے۔ لیکن عمومی طورپر ہر طرح کی روایات کو درایتاً‌ دیکھنے کے اصول کیا ہیں، اس پر یکجا اور مربوط شکل میں کام نہیں ہے، بکھراہو کام ہے۔ تاہم انفرادی مثالیں بہت ملتی ہیں۔

مطیع سید: گھوڑا اور گدھا دیکھنے میں ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، پھر کس اصول کے تحت گدھا حرام ہے اور گھوڑا حلال ہے؟ درندہ صفت ہونے کی جو علامات ہیں، وہ تو ان دونوں میں نہیں ہیں۔

عمار ناصر: اصل میں یہ تین اصناف بنتی ہیں۔ اصول تو یہ ہے کہ خبائث ممنوع ہیں اور طیبات حلال ہیں۔ خبائث میں ایک کیٹیگری بالکل واضح ہے، جیسے طیبات میں بھی ایک کیٹیگری ہے جو بالکل واضح ہے۔ درمیان میں کچھ اشتباہ والی چیزیں بھی ہیں۔ تو اس میں ہم خود اپنے اصول سے کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس میں دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ کہیں پیغمبر کے ذوق اور پیغمبر کی فطرت سلیمہ نے ایک فیصلہ کیا ہے تو اس کو ہم قبول کر لیں گے۔ یا اگر پیغمبر کی طرف سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی اور وہ چیز اس درمیان کی کیٹیگری میں ہے تو اس میں اجتہادی اختلاف پیدا ہو جائے گا۔

مطیع سید: تو کیا مذکورہ مسئلے میں کوئی اجتہادی اختلاف نہیں ہے؟

عمار ناصر: گدھے کے بارے میں یہ بحث رہی ہے، لیکن وہ بحث نص سے استدلال پر ہے۔ عبد اللہ بن عباس اور کوئی دوسرے صحابہ کا خیال یہ تھا کہ گدھےاصولاً‌ حرام نہیں ہیں۔ نبی ﷺ نے کسی اور عارضی وجہ سے ان کا گوشت کھانے کی ممانعت کی تھی۔ لیکن اس کے پیچھے ان کا جو استدلال ہے، وہ نص سے ہے۔ یعنی جو حرام جانور ہیں، وہ اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر بیان کر دیے ہیں اور گدھا اس میں شامل نہیں ہے۔

مطیع سید: اور گھوڑے کے بارے میں کیا اختلاف ہے؟

عمار ناصر: گھوڑے کے بارے میں حنفی فقہا کی رائے کراہت کی ہے۔ امام ابو حنیفہ سے منسوب ایک روایت ہے کہ وہ اسے حرام تو نہیں کہتے لیکن ناپسند کرتے ہیں۔

مطیع سید: مزفت ایک برتن ہے۔ اس کے علاوہ آپ ﷺ نے سارے برتنوں میں کھانے پینے کی اجازت دے دی تھی۔13 یہ کس قسم کا برتن تھا؟ کیا خاص وجہ تھی کہ اسے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی؟

عمار ناصر: اصل میں جن برتنوں کے استعمال سے منع کیا گیا، وہ بنیادی طور پر بنائے ہی اس لیے جاتے تھے کہ ان میں شراب پی جائے یا محفوظ کی جائے۔ ان میں نبیذ وغیرہ ڈال کر رکھنے سے وہ جلدی نشہ آور ہو جاتی تھی۔ مزفت میں شاید یہ تھا کہ باقی برتنوں میں اگر آپ احتیاط سے کام لیں تو تو نشہ آور ہونے سے پہلے اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ مزفت میں برتن کے مسام وغیرہ اس طرح بند کر دیے جاتے تھے کہ تھوڑی تاخیر سے بھی اس میں نشہ پیدا ہو جاتا تھا۔ تو یہ سدِ ذریعہ کے طور پر ممانعت کی گئی تھی۔

مطیع سید: ہاتھی، زیبرا اور زرافہ جیسے جانوروں کے بارے میں کیا حکم ہے، یہ حلال ہیں یا حرام؟

عمار ناصر: اصل میں حرمت کی واضح علامت تو جانور کا چیر پھاڑ کرناہے۔ قرآن نے جانوروں کی حلت بیا ن کرتے ہوئے بہیمۃٰ الانعام کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اس سے حلت کا جو معیار بنتاہے، وہ یہ ہے کہ انعامِ کی نوعیت کے چوپایے ہونے چاہییں، یعنی درندے نہ ہوں۔ ہاتھی کو فقہاء حرام ہی شمار کرتے ہیں، کیونکہ وہ اگرچہ چیر پھاڑ نہیں کرتا اور شکار بھی نہیں کرتا، لیکن اس کے دانتوں کی وجہ سے اس کی ظاہری ہیئت درندے کی سی ہے۔ البتہ زرافے اور زیبرے میں درندگی کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ ان کا گوشت حلال سمجھا جاتا ہے۔

مطیع سید: گھوڑے کے حوالےسے نبی ﷺ نے حرمت کا حکم نہیں فرمایا بلکہ اجازت دی، جبکہ احناف کہتے ہیں کہ ابوداؤد کی روایت میں اس سے منع کیا گیا ہے۔14 آپ کس کو ترجیح دیں گے؟

عمار ناصر: احناف کے اندر بھی کئی رجحانات ہیں۔ بعض یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں بس کراہت ہے، ورنہ اصولاً‌ گھوڑا حلال ہے۔ بعض حرام کی طرح کی چیز سمجھتے ہیں اور وہ اسی ابو داؤود والی روایت سے استدلال کرتے ہیں۔ مالکیہ کے ہاں بھی شاید اسی طرح کا رجحان ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن نے اصل میں ان کو کھانے پینے کے جانوروں سے الگ ذکر کیاہے۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ اللہ نے تمہارے لیے انعام پیداکیے، اور اس کے بعد کہا ہے کہ اللہ نے گھوڑے گدھے اور خچر بھی سواری کے لیے پیداکیے ہیں۔ یعنی ان کو الگ ذکر کیا ہے۔ اسی طرح خالد بن ولید کی روایت میں بھی ممانعت کا ذکر ہے، لیکن محدثین کہتے ہیں کہ کہ وہ ٹھیک نہیں ہے۔ محدثین کے معیار کے مطابق وہ ایک کمزور روایت ہے۔ مستند روایات محدثین کے نزدیک وہی ہیں جس میں گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت ہے۔

مطیع سید: گوہ کے بارے میں ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایاکہ یہ میرے علاقے میں نہیں ہوتی، اس لیے مجھے اس کا گوشت پسند نہیں۔15 لیکن دوسری جگہ پر یہ فرمایاکہ کچھ قوموں کو مسخ کر کے جانور بنا دیا گیا تھا، شاید یہ گوہ انھی کی نسل سے ہو۔16 پھر ایک دوسری حدیث میں بندروں کے بارے میں فرمایا کہ جو قومیں مسخ ہوئیں، ان کی آگے کوئی نسل نہیں چلی۔ لیکن گوہ کے بارے میں آپ ﷺ فرمارہے ہیں کہ قومیں مسخ ہوئیں ہیں۔

عمار ناصر: جی، یہ ایک مسئلے کے بارے میں دو متضاد روایتیں آگئیں جن میں ترجیح قائم کرنی پڑ ے گی۔ احناف حرمت والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں، دوسرے فقہاء کے نزدیک حلت کی روایت کو ترجیح حاصل ہے۔ جہاں تک کسی مسخ شدہ گروہ کی نسل سے ہونے کا تعلق ہے تو محدثین کہتے ہیں کہ شاید آپ نے پہلے اپنے قیاس اور ظن سے یہ بات فرمائی ہوگی، لیکن پھر آپ کو وحی سے بتا دیا گیا ہوگا کہ کسی مسخ شدہ گروہ کی نسل آگے نہیں چلی۔ جیسے دجال کے بارے میں آپ ﷺ کےبعض تبصروں سے لگتاہے کہ پوری طرح تفصیلات آپ ﷺ کو نہیں بتائی گئی تھیں اور آپ کچھ قیاسات سے بھی مدد لیتے تھے۔ ظاہر ہے، یہ کوئی شریعت کا مسئلہ نہیں تھا۔

مطیع سید: آپ ﷺ کو دو پیالےپیش کیے گئے، ایک دودھ کا اوردوسرا شراب کا۔ پھر جب آپ نے دودھ کا پیالہ لے لیا تو کہا گیا کہ اگر آپ شراب کا پیالہ لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔17 یہ آپ کی کیسی عجیب آزمائش کی گئی اور آپ کے پیالہ لینے سے آپ کی امت کی ہدایت یا گمراہی کا فیصلہ کیسے ہوا؟

عمار ناصر: یہ تمثیلی نوعیت کی ایک تعلیم تھی۔ مقصد آپ کو یہ بتانا تھا کہ جیسے آپ راہ راست پر ہیں اور آپ نے درست انتخاب کیا ہے، اسی طرح آپ کی امت بھی مجموعی طور پر راہ راست پر قائم رہے گی۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا، لیکن خود کھڑے ہو کر پیا بھی۔18 حضرت علی کھڑے ہو کر پانی پیتے تھے اور فرماتے تھے کہ نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر بھی پیا ہے۔19

عمار ناصر: اس کے متعلق دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ بعض لوگ اس میں بہت شدت کرتے ہیں، لیکن عام فقہا ءکا عمومی رجحان یہ ہے کہ کھڑے ہوکر پانی پینے میں کوئی شرعی یا اخلاقی کراہت نہیں۔ ہاں، طبی پہلو سے یہ بہتر ہے کہ کھڑے ہوکر پینے سے احتیاط کی جائے اور بیٹھ کر سکون اور اطمینان سے پیا جائے تاکہ کوئی نقصان نہ ہو۔ اسی طرح استحباب یا ادب کے لحاظ سے بھی یہی مناسب ہے کہ بیٹھ کر پانی پیا جائے۔

مطیع سید: میں نے کئی جگہ یہ محسوس کیاہے کہ جب کوئی حدیث سامنے آتی ہے تو ایسا لگتا ہے کہ احناف نے جو بات پہلے طے کرلی ہے، حدیث سامنے آنے پر بجائے اس کو تسلیم کرنے کے ایسی تاویل کرتے ہیں کہ وہ ان کے موقف کے مطابق ہوجائے۔

عمار ناصر: دیکھیں، سبھی ایسے کرتے ہیں۔ اس میں بعض دفعہ تعصب بھی ہوتا ہے۔ جب کچھ آراء مقبول اور رائج ہوگئی ہوں اور فقہی پہچان بن گئی ہوں تو اس میں تعصب پیدا ہو جانا ایک قابل فہم بات ہے۔ لیکن ضروری نہیں کہ لازماً‌ تعصب ہی وجہ ہو۔ کئی مواقع پر مجموعی دلائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی روشنی میں کسی ایک حدیث کو ظاہری مفہوم میں لینے کے بجائے یہ بہتر محسوس ہوتا ہے کہ حدیث کو کسی ایسے مفہوم پر محمول کر لیا جائے جو مجموعی دلائل کے مطابق ہو۔

مطیع سید: حدیث کے شارحین میں آپ کی پسندیدہ ترین شخصیت کون سی ہے؟

عمار ناصر: حدیث کے شارحین میں میری پسندیدہ شخصیت علامہ انور شاہ کشمیری ہیں۔

مطیع سید: ان کی فیض الباری کی وجہ سے؟

عمار ناصر: جی، حدیث کی باقی جتنی بھی شروحات ہیں، ان کے اہم مباحث بھی فیض الباری میں آ جاتے ہیں اور ان کا یک بہت اچھا محاکمہ بھی مل جاتا ہے۔ شاہ صاحب کی جو باقی تحریریں ہیں جن میں وہ اصل میں کسی خاص فقہی مسئلے پر کلام کررہے ہوتے ہیں، وہاں تو کچھ ان کا رنگ مختلف ہے۔ لیکن فیض الباری میں یہ ہے کہ متن کے، سند کے بھی، فقہ کے، اصول فقہ اور اصول حدیث کے، ہر طرح کے مباحث آپ کو ساتھ ساتھ ملتے ہیں۔ اس میں آپ کو ان کے علم کا بہت وسیع کینوس نظر آتاہے۔ حدیث کے فہم میں جو ان کا زاویہ ہے، اس سے آپ صحیح فائدہ تب اٹھاسکتے ہیں یا صحیح قدر وقیمت کااندازہ تب کر سکتے ہیں جب پوری دینی روایت کی نمائندہ چیزیں آپ کے سامنے ہوں۔ اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ شاہ صاحب ان بحثوں میں کیا اضافہ کر تے ہیں۔

مطیع سید: فقہا میں آپ کی پسندیدہ شخصیت؟

عمار ناصر: آپ اگر علمی صلاحیت کے لحاظ سے پوچھ رہے ہیں تو کچھ کہنا بہت مشکل ہے اور میری تو بالکل یہ حیثیت نہیں۔ ذہانت وذکاوت یا علمی سطح کے لحاظ سے تو شاید آپ کوئی خاص فرق نہیں کر سکتے۔ البتہ فقہی اپروچ کے متعلق اگر آپ پوچھنا چاہ رہے ہیں تو وہ حضرت عمر ہیں۔ اصل میں فقیہ الامت وہی ہیں۔

مطیع سید: تمام فقہا میں سے آپ کن کو دیکھتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر فاروق کی زیادہ پیروی کی ہو؟

عمار ناصر: مجموعی طور پر کچھ کہنامشکل ہے۔ ان کے ہاں جو اجتہاد کی اسپرٹ ہے، اس کے کچھ نہ کچھ نمونے سبھی فقہا کے ہاں ملتے ہیں۔ اسپرٹ سے مرا د یہ ہے کہ وہ حکم کو بالکل ظاہر پر لینے کی بجائے اس کے مقصد و منشا کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، اس کی روح اور مقصد کو متعین کرنے کے لیے عقل اور قیاس سے اور شریعت کے مقاصد اور پیش نظر مصالح سے مدد لیتے ہیں، اور دیگر تمام نصوص کو بھی سامنے رکھتے ہوئے یہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شارع اصل میں کہنا کیاچاہتاہے۔ اس کے لحاظ سے حکم کی ظاہری شکل کو چھوڑ کر وہ کئی دفعہ ایک دوسری شکل بھی اختیارکر لیتے ہیں۔ یہ ان کے اجتہاد کی سپرٹ ہے۔ اب اس کے نسبتا ً‌ زیادہ نمونے آپ کو مالکیہ اور احناف کے ہاں ملیں گے اور حنابلہ کے ہاں بھی اس کی بہت اچھی مثالیں۔ ایسا نہیں کہ شوافع کے ہاں اس کی مثالیں بالکل نہیں ملتیں، لیکن اطلاقی سطح پر آپ کو اس کے زیادہ نمونے مالکیہ اور احناف کے ہاں اور پھر حنابلہ کے ہاں ملیں گے۔


حواشی

  1. صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الایمان، باب بيان ان الاسلام بدا غريبا وسيعود غريبا، رقم الحدیث: 145، جلد: 1، ص: 130
  2. صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب الایمان، ‌‌باب فان تابوا واقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فخلوا سبيلهم، رقم الحدیث: 25، ص: 76
  3.  صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب احادیث الانبیاء، ‌‌باب ما ذكر عن بنی اسرائيل، رقم الحدیث: 3463، ص: 888
  4.  صحیح البخاری، کتاب الشرب والمساقاۃ، باب القطائع، رقم الحدیث: 2376، ص: 612
  5.  صحیح البخاری، کتاب الادب، باب اكرام الضيف وخدمتہ ایاه بنفسہ‌‌، رقم الحدیث: 6137، ص: 1523
  6.  صحیح البخاری، کتاب العتق، باب كراہیۃ التطاول على الرقيق، رقم الحدیث: 2552، ص: 655
  7.  صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن، ‌باب ان الله عنده علم الساعۃ ، رقم الحدیث: 4777، ص: 1214
  8.  صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، ‌باب نسيان القرآن ‌‌ ، رقم الحدیث: 5037، ص: 1301
  9.  صحیح البخاری، کتاب الاطعمۃ، ‌‌باب الخبز المرقق والاكل على الخوان والسفرة ، رقم الحدیث: 5385، ص: 1380
  10.  صحیح البخاری، ‌‌كتاب الهبۃ وفضلها، ‌‌باب القليل من الھبۃ، رقم الحدیث: 2568، ص: 661
  11.  صحیح البخاری، ‌‌ابواب التہجد، ‌‌باب من لم يصل الضحى ورآه واسعا، رقم الحدیث: 1177، ص: 338
  12.  صحیح البخاری، ‌‌ابواب الاطعمۃ، ‌‌باب العجوۃ ، رقم الحدیث: 5445، ص: 1391
  13.  صحیح البخاری، ‌‌کتاب الاشربۃ، ‌‌‌‌باب ترخيص النبی صلى الله عليہ وسلم فی الاوعيۃ والظروف بعد النہی، رقم الحدیث: 5593، ص: 1411
  14.  سنن ابی داؤد، کتاب الاطعمۃ، ‌‌باب فی اكل لحوم الخيل، رقم الحدیث: 3790، جلد: 3، ص: 352
  15.  صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح وما يؤكل من الحيوان، باب اباحۃ الضب، رقم الحدیث: 1945، جلد: 3، ص: 1543
  16.  صحیح مسلم، کتاب الصيد والذبائح وما يؤكل من الحيوان، باب اباحۃ الضب، رقم الحدیث: 1949، جلد: 3، ص: 1545
  17.  صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، باب جواز شرب اللبن، رقم الحدیث: 2009، جلد: 3، ص: 1592
  18.  صحیح مسلم، کتاب الاشربۃ، باب كراہیۃ الشرب قائما، رقم الحدیث: 2024، جلد: 3، ص: 1600
  19.  صحیح البخاری، ‌‌ابواب الاشربۃ، باب الشرب قائما، رقم الحدیث: 5615، ص: 1426

(جاری)

صنف وجنس اور اس میں تغیر (۳)

مولانا مشرف بيگ اشرف

خنثی  ، خصی خنثی مشکل وغیرہ سے متعلق شرعی احکام

اب تک کی گفتگو سے یہ واضح ہو گیا کہ اسلامی شریعت کا تصور جنس وصنف  کیا ہے۔ نیز علم جینیات میں ان تصورات کو کیسے دیکھا جاتا ہے۔ نیز نفسیات کی بنیاد پر اس قضیے کی کیا حیثیت ہے۔

نیز فقہا نے جس علمیت پر جنس کا تصور کھڑا کیا تھا، وہ آج بھی بالکل متعلق اور زندہ ہے۔ جینیات کے علم نے کچھ ایسا ثابت نہیں کیا کہ وہ بدل جائے۔ بس اس نے ظاہری اعضا کے پیچھے جینز کا تصور کھڑا کیا ہے۔ بلاشبہ، یہ ایک بہت بڑی کاوش ہے اور اس سے کئی بیماریوں  کے علاج میں مدد ملی۔ لیکن انسان اب بھی وہی ہے۔

اس لیے، ہم اب ہم  خنثی سے متعلق شرعی احکام کی طرف لوٹتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ کہ فقہا کے ہاں دو امورمیں واضح فرق دکھائی دیتا ہے:

۱: فقہا "خنثی" کے لیے دو ٹوک معیار مقرر کرتے ہیں۔

۲: تاہم اگر کسی کا "خنثی" ہونا ثابت ہو جائے، تو اس کے بعد، ان کے ہاں بہت گنجائش اور نرمی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی انسان میں اصل یہ ہے کہ وہ مرد ہے یا زن اور اس میں دونوں اعضا نہ ہوں۔اور یہی انسانی تاریخ کا غالب مشاہدہ بھی ہے۔ اس لیے، اس حوالے سےتعین کو مشکوک نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن جب ایک مرتبہ شک کی دراڑ پڑ گئی، تو اس کے بعد، گنجائش زیادہ ہوتی ہے۔

خنثی: فقہا کے ہاں خنثی وہ ہے جس میں  دونوں اعضائے تناسل ہوں۔ اس لیے، فقہا کے ہاں، معیار تولیدی نظام سے وابستہ اعضا ہیں۔ اس سے ہمیں مندرجہ ذیل امور واضح ہوئے:

۱: جس انسان کا جینیاتی ڈھانچہ اس کے نظام تولید سے ہم آہنگ نہیں لیکن اس میں اعضا صرف ایک ہی جنس کے ہیں، تو وہ خنثی نہیں۔ اگرچہ ہم پیچھے یہ واضح کر چکے ہیں کہ یہ ہم آہنگی صرف ہماری کم علمی ہوتی ہے ورنہ اصل میں ہر ساختیاتی تبدیلی کے پیچھے جینیاتی تفسیر کھڑی ہوتی ہے۔ اس لیے، یہ لوگ خنثی نہیں۔

۲: اگر کسی عورت میں مردانہ ہارمونز زیادہ ہوں جس کی وجہ سے اس کے جسم پر بال آر ہے ہیں تو خنثی نہیں۔ بلکہ وہ "مادہ" ہی ہے۔

۳: "خصی" بھی خنثی نہیں بلکہ نر ہے۔ خصی (eunuch)اسے کہتے ہیں جس کے خصیے وغیرہ کاٹ دیے گئے ہوں۔اس لیے، اس پر "نر" کے احکام لاگو ہوں گے۔

۴: جس پیدائشی نر کو نفسیاتی طور سے یہ لگے کہ وہ  عورت ہے، تو وہ مرد ہی ہے اور اسی طرح پیدائشی مادہ۔ بالفاظ دگر، "متبدل صنف" خنثی نہیں، وہ نر یا مادہ ہی ہے۔

۵: جس متبدل جنس نے اپنے اعضا کو تبدیل کر لیا جبکہ اس کے اعضائے تناسل واضح طور سے نر یا مادہ کے تھے، تو وہ بھی خنثی یا خنثی مشکل نہیں۔ بلکہ اس عمل جراحی سے پہلے اس کی جو جنس تھی ، وہی اب بھی ہے۔ جنس ناقابل تغیر ہے۔

تاہم، یہ ہو سکتا ہے کہ کسی انسان کے ظاہری اعضا کسی ایک جنس کے ہوں لیکن اس کے اندر دوسرے جنس کے اعضا ابتدا میں نشو ونما نہ پا سکیں لیکن بعد میں وہ زندگی کے کسی موڑ پر اچانک ظاہر ہو جائیں۔ اگر سکین کے ذریعے وہ اعضا نظر آ جائیں، تو یہ خنثی ہے۔پر یہاں بھی حقیقت میں ظاہری اعضا ہی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

خنثی کا تعین بین الاقوامی عرف میں:

اقوام متحدہ کے اعلی کمیشنر برائے انسانی حقوق نے جولائی ۲۰۱۳ میں جی بی ٹی آئی (LGBTI) کے لیے ایک مہم کا اجرا کیا جس کا عنوان ہے: "اقوام متحدہ: آزاد ویکساں"۔ یہ دراصل حقوق انسانی کے عالمی منشور کی پہلی شق سے مستعار ہے کہ:

"تمام انسان آزاد اور کرامت و حقوق میں  یکساں پیدا ہوتے ہیں۔ انہیں (فطرت نے) عقل  وشعور کے تحفے سے نوازا ہے ۔ اس لیے، انہیں چاہیے کہ ایک دوسرے کے ساتھ  اخوت اور بھائی چارےسے پیش آئیں۔" 

اس مہم نے خنثی کے حقوق کے حوالے سے ایک معلوماتی دستاویز شائع کی جس کے مقدمے میں خنثی کی تعریف ان الفاظ سے کی گئی:

Intersex people are born with sex characteristics (including genitals, gonads and chromosome patterns) that do not fit typical binary notions of male or female bodies. Intersex is an umbrella term used to describe a wide range of natural bodily variations. In some cases, intersex traits are visible at birth while in others, they are not apparent until puberty. Some chromosomal intersex variations may not be physically apparent at all. According to experts, between 0.05% and 1.7% of the population is born with intersex traits – the upper estimate is similar to the number of red haired people. Being intersex relates to biological sex characteristics, and is distinct from a person's sexual orientation or gender identity. An intersex person may be straight, gay, lesbian, bisexual or asexual, and may identify as female, male, both or neither.

مفہوم:  خنثی  برادری میں دونوں جنس کی خصوصیات ہوتی ہیں جو روایتی دوئی پرمبنی جسمانی تصور نر ومادہ سے ہم آہنگ نہیں۔ (ان خصوصیات میں اعضائے تناسل، تناسلے غدے، کروموسومز کی ہیئت شامل ہے)۔ خنثی   کی اصطلاح تلے کئی مختلف جسمانی تنوعات   آتے ہیں۔ بعض اوقات، خنثی کی خصوصیات بوقت پیدائش ہی ظاہر ہوجاتی ہیں اور بعض اوقات بلوغ پر ظاہر ہوتی ہیں۔نیز یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض کروموسومز پر مبنی تنوع    بالکل جسمانی طور سے ظاہر ہی نہ ہو۔ماہرین کے مطابق  0.05 سے 1.7 فیصد لوگ خنثی ہوتے ہیں جیسا کہ سرخ بالوں والوں کی زیادہ سے زیادہ شرح بھی یہی ہے۔خنثی ہونے کا تعلق انسان کی حیاتیاتی جنسی خصوصیات سے ہے جو جنسی رجحان اور صنفی شناخت سے جداگانہ تصور ہے۔  ایک خنثی کا جنسی رجحان  "انسانی نر "کی طرف بھی ہو سکتا ہے،  انسانی مادہ کی طرف بھی، دونوں کی طرف بھی اور سرے سے اس رجحان سے عاری بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح، خنثی اپنی شناخت مردانہ، زنانہ یا دونوں قرار دے سکتا ہے یا سرے سے کوئی شناخت قرار ہی نہ دے۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں اس کی تعریف یہ ہے:

intersex, in biology, an organism having physical characteristics intermediate between a true male and a true female of its species. The condition usually results from extra chromosomes or a hormonal abnormality during embryological development.

مفہوم:  علم احیا میں، خنثی اس زندہ کائنات کو کہتے ہیں جس کی جسمانی خصوصیات  اپنے نوع کے ٹھیٹ نر اور ٹھیٹ مادہ کے بیچ میں ہو۔ یہ صورت حال عام طور سے، اضافی کروموسومز سے جنم لیتی ہے یا رحم ماد میں جنین کی نشو ونما  کے وقت  ہارمونز  میں انحراف سے۔

اس تفصیل سے واضح ہے کہ  خنثی میں ان لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جو جنسی ساخت کے حوالے سے بالکل واضح اور دوٹوک ہیں لیکن ان کے کروموسوز کا ڈھانچہ اس سے جوڑ نہیں کھاتا۔ اور ہم واضح کر چکے ہیں کہ شرعی نقطہ نگاہ سے یہ خنثی نہیں، بلکہ نر یا مادہ ہیں اور اسی کے مطابق انہیں حقوق ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے تناظر میں صرف اتنی بات کافی نہیں کہ طبی دستاویز کی بنیاد پر  جنسی اعضا کی عمل جراحی کی اجازت دے  کر قانون میں جنس کو بدل دیا جائے۔ ہم واضح کر چکے ہیں کہ فقہ دراصل قدر کا سوال ہےاور طب ، سائنس وغیرہ اس سے کوسوں دور ہیں یا ہونا چاہیے اصولی طور سے۔ اب کسی طبیب کی کیا قدر ہے، وہ اس کے مطابق فیصلہ کر ے گا اور عنوان یہ دیا جائے گاکہ "سائنس کی بنیاد پر فیصلہ ہوا" اوراس دھرتی کے لوگ جو سائنس کے حوالے سے احساس کمتری کا شکار ہیں، اس پر خوشی محسوس کریں گے کہ ہم نے جدید ہونے کا ثبوت دیا جب کہ  حقیقت میں ہم نے سائنس کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا، بلکہ ایک طبیب کے عقیدے اور اس کی قدر کو مان لیا۔اور اس سے بڑھ کر  ہماری تہذیبی اقدار کا اور کیا خون ہو گا۔

اس لیے واضح رہے کہ "کئی ڈاکٹرز اس مسئلے کا حصہ  ہیں   حل نہیں۔"

ڈاکٹرز اس مسئلے کا حصہ ہیں حل نہیں:

ڈاکٹرز ہماری زندگی کا حصہ ہیں۔ یہ ہمارے بھائی، بہن ، بیٹے بیٹی ہی ہیں اور جس طرح، ہر شعبے میں بھانت بھانت کے افکار رکھنے والے ہیں، اس پیشے میں بھی ہے۔ اور جس طرح، ہر میدان میں اچھے برے ہیں، اس میدان میں بھی ہیں۔ میرا اپنا جتنے اطبا سے واسطہ پڑا، ان میں سے کئی دین کو پسند کرنے والے اور خوب صورت اخلاق کے مالک تھے اور اس شعبے کو واقعی خدمت خلق سمجھ کر نبھانے والے تھے۔

تاہم افسوس کے ساتھ ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو انسانوں کی صحت پر اپنی جاگیریں کھڑی کرتے ہیں۔ دواساز ادارےمیڈیکل نمائندوں کے ذریعے سے کئی اطبا کو  بڑی بڑی مراعات (فریج، اے سی، بیرون ملک سیر وسیاحت کی سہولت وغیرہ)دے کر اپنی ادویہ دینے پر راضی کرتے ہیں ۔ اب بازار میں ایک بیماری کے لیے سستی دوا موجود ہے لیکن میڈیکل نمائندے نے چونکہ  اپنا ہدف(ٹارگٹ) پورا کرنا ہوتا ہے اس لیے ڈاکٹر اسی کمپنی کی دوا لکھ کر دے گا جس کے نمائندے نے اسے مراعات سے نوازا۔ اسی طرح، بعض ڈاکٹرز خاص مختلف عنوان سے ادویہ بناتے ہیں جو صرف ان کی اپنی  فارمیسی سے ان کے اپنے نرخ پر ملتی ہیں جبکہ وہی تاثیر رکھنے والی سستی دوا بازار میں موجود ہوتی ہیں اور نسخے پر لکھے ہوئے عنوان کو اس فارمیسی کے علاوہ کوئی دوسری فارمیسی والے پہچانتے بھی نہیں۔

ہمارے زیر بحث مسئلے میں کہ جنس کا پیمانہ کیا اور کسے خنثی مان کر اس عمل جراحی کی اجازت دی جائے، کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ اس حوالے سے دو پہلوؤں کو دیکھنا ہے:

۱: اس وقت جنس وصنف سے متعلق مسائل کے پشت پر ایک مکمل عقیدہ کھڑا ہے جو مابعد جدیدیت اور وجودیت کے نظریات سے متاثر ہے۔ اس کے خیال میں : "وجود ماہیت پر مقد م ہے"۔ انسان کے ساتھ پیدائشی طور سے مختلف ماہتیں اور نسبتیں جڑ جاتی ہیں، وہ اپنے ساتھ نہیں لاتا بلکہ معاشرہ انہیں بچے کو پہناتا ہے۔ اس لیے، وجود ہر ماہیت پر مقدم ہے اور کس انسان نے اپنے لیے کس ماہیت کا لباس اوڑھنا ہے، یہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔اسی طرح، مرد وعورت ہونا کوئی بچہ اپنے ساتھ نہیں لاتا، بلکہ ڈاکٹر جب پہلی مرتبہ یہ کہتا ہے کہ: "آپ کا بیٹا ہوا"یا "آپ کی بیٹی ہوئی"، تو وہ اپنے انشائی بول (illocutionary speech act) سے "مرد" یا "عورت" کو جنم دیتا ہے، وہ کسی حقیقت کی خبر نہیں دیتا، بلکہ ایک حقیقت کو خود وجود دے رہا ہوتا ہے۔نیز بعض لوگ اس کی تائید اس سے بھی کر نے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ٹرانس لوگوں کے جینز دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں جو ان کے ذہن کو ان کی جسمانی جنس سے مختلف کر دیتے ہیں۔ اس کا ہمیں خود بھی  تجربہ ہے کہ ہمارے ایک عزیز کی بچی اس نفسیاتی الجھ میں ہے اور ایک ڈاکٹر سے رہنمائی لی۔ اس نے کہا کہ یہ فطری ہے کہ بعض لوگوں میں خاص جینز ہوتے ہیں ۔والدین جو پہلے ہی بچی کی صورت حال سے پریشان تھے، ان کے لیے مزید معاملہ گھمبیر ہوگیا۔اور ہم نفسیات کے تحت واضح کر چکے ہیں کہ انسانی نفسیات ودماغ  کی بنیاد پر یہ فیصلہ نہیں ہو سکتا۔

۲ : دوسرا پہلو سرمایہ دارانہ ہے۔ شاید آپ کو معلوم ہو کہ جنس اور باقی اعضا تبدیل کروانا ، جیسے مرد کا  عورت جیسا بننے کے لیے اپنی چھاتی بنوانا اور اندام نہانی کی تنصیب وغیرہ، یہ دنیا کی مہنگی ترین سرجری میں آتا ہے۔جب کوئی انسان اپنے اعضا کو بدلواتا ہے تو عام طور سے اس کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جس جنس کا خواہاں ہے، اپنے جسم کو پوری  طرح ویسے کروائے اور یہ کاسمیٹک سرجری بہت مال طلب ہے۔اس لیے، اس کے ساتھ بہت سا سرمایہ جڑا ہوا ہے۔پھر ان لوگوں کو مستقل کسی معاینہ کروانا پڑتا ہے۔ اسی طرح، کئی لوگ جو اپنے اعضا بدلوا لیتے ہیں، وہ نفسیاتی الجھنوں کا شکار  ہو کر، مستقل کسی ماہر نفسیات کے در پر آج جاتے ہیں۔ اگر ایک سے اطمینان نہ ہوا، تو دوسرے کی طرف۔ اس طرح، ان کے کلینک آباد اور اکاونٹس بھرے ہوئے رہتے ہیں۔ بعض علاقوں میں خنثی بچوں کی ولادت پر اس کی جراحی کر کے اسے کسی ایک جنس کی پھیر دیا جاتا ہے۔ اب اس پر بین الاقوامی برادری کی طرف سے مہم چلائی جاتی ہے کہ اس عمل کو روکا جائے ۔ ایسے بچے بڑے ہو کر پیچیدگیوں کا شکار رہتے ہیں۔ اور نوبت خودکشی تک آجاتی ہے۔

ان وجوہ سے، صرف یہ کافی نہیں کہ ڈاکٹر کی رپٹ پر کسی کے خنثی ہونے کا فیصلہ کر دیا جائے۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ دین دار اور اسلامی اقدار کے حوالے سے پختہ  اطبا بیٹھ کر ایک معیار طے کریں  کہ جو اس پر پورا اترے اسے خنثی قرار دیا جائے اور اس کے بعد، اسے عمل جراحی وغیرہ کی اجازت ہو اور اس کی شناخت کی تعیین کے حوالے سے  نادرا  سے رجوع کرنے کی اجازت ہو۔ ورنہ، اگر ان اصطلاحات کو جدید  طب کی روشنی میں واضح اور ان کے لیے کوئی واضح معیار (بنچ مارک) مقرر  نہ کیا گیا، تو وہی نتائج  ان اصطلاحات سے ایک ڈاکٹر باآسانی حاصل کر لے گاجس کے خدشے سے اس وقت  ساری محنت کی جاری ہے جیسے ایک ماہر قانون ایک قانونی متن کو مختلف طرح سے پڑھ لیتا ہے۔

اس امر کے لیےشرعی  اصول، بیمار کے لیے روزہ چھوڑنے کی رخصت ہے کہ اگر طبیب اسے کہے کہ روزہ اس کے لیے نقصان دہ ہے، تو وہ چھوڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ طبیب مسلمان ہو اور اسلامی اقدار  کو وہ اہم سمجھتا ہو۔شریعت اس زبان زد عام تصور کو تسلیم نہیں کرتی کہ "بس ماہر کی بات کو تسلیم کیا جائے۔" بلکہ ماہر بھی انسان ہے او ر وہ بھی اپنی مہارت کو غلط استعمال کر سکتا ہے۔ نیز اس کی تحقیق اس کے کسی عقیدے کا اثر بھی ہو سکتی ہے۔ اس لیے، صرف سائنس کا نام سے مرعوب ہونے کے بجائے، شرعی اصولوں پر فیصلہ کرنے والے کو ایک متحرک ناقد کی حیثیت سے دیکھنا چاہیے خواہ اس پر کتنا ہی استہزا کا سامنا کرنا پڑے کہ اللہ تعالی کے سامنے جواب دہی زیادہ شدید ہے اس استہزا سے۔

خنثی کے دو مختلف حالات:

اوپر یہ قاعدہ گزرا کہ اسلام صرف دو جنسوں کو تسلیم کرتا ہے۔ تاہم چونکہ انسان کا علم ناقص ہے، اس لیے بعض محدود صورتوں میں انسان کے لیے یہ دریافت مشکل ہوجاتی ہے۔

دوسری طرف، انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات بنایا ، فرشتوں سے سجدہ کروایا اور اس زمین کی خلافت سے نوازا۔ اس شرف وبلندی کا مظہر یا اس کا ایک سبب اس کا اپنے افعال کا ذمے دار ہونا ہے۔اور چونکہ عقل  کے قاضی  کا فیصلہ ہے کہ بغیر اختیار کے کسی چیز کی ذمے داری غیر حکیمانہ  امر ہے، اس لیے اللہ تعالی نے جس نے یہ عقل  اور  اس کا ڈھانچہ خود بنایا، انسان کو اختیار دے دیا ۔چناچہ اب اس کا فعل بے زبان چوپایوں اور بے جان در ودیوار کی طرح نہ رہا۔بلکہ اس کا فعل اس کے اختیار سے پھوٹتا ہے اور انسان کی اپنی نفسیاتی حالت اسے یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ اس نے جو فعل کیا وہ اس کا ذمے دار ہے کہ اس کے اپنی اختیار سے بہہ کر آیا ہے۔وہ چاہتے ہوئے بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ وہ سائے کی طرف پوری زندگی اس کے ساتھ رہتا ہے۔

تیسری طرف، انسان کے ساتھ ایسے عوارض جڑے ہوئے ہیں، جو اس کے اختیار کو کبھی ماؤُف اور کبھی محدود کر دیتے ہیں۔ ان ہی عوارض میں سے ایک بچپن ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو شاید اسے اپنے وجود ہی کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس کی عقل کا بیج اپنی ابتدائی حالت میں ہوتا ہے کہ اگر سازگار حالات رہے تو بلوغ تک وہ ایک  ہرا بھرا درخت بن جائے۔ اوراسی وجہ سے ، اخلاق اور اس پر مرتب ہونے والے قانون میں ،اس بچے کے جان مال کو وہی حرمت ملتی ہے جو ایک باشعور وباعقل انسان کو دی جاتی ہے کہ اس نے اپنے مآل ونتیجے میں ایک ذی شعور وذی  عقل  مخلوق بننا ہے۔

اسی وجہ سے، فقہ جو مقاصد پر مبنی (Purpose-Driven)انسانی سرگرمی ہے،بچے کے معاملات کو اس کے ارد گرد میں موجود لوگوں کے سپرد کرتی ہے کہ وہ اس بیچ کی نگہداشت وآبیاری کر کے اسے ایک تناور درخت بنائیں۔ اور ان لوگوں میں بچے کے والدین اور پھر دیگر رشتے دار، درجہ بہ درجہ، آتے ہیں جن کی بابت انسانی تاریخ، انسانی فطرت اور ادیان یہ گواہی دیتے ہیں کہ یہ اس بچے کے  خیر خواہ ترین ہیں۔اور بچے کے جانی ، جسمانی ومالی معاملات کا فیصلہ وہ والدین کرتے ہیں تا کہ وہ بچہ ان کی چھاؤں میں جوان ہو اور ایک صحت مند فرد بنے۔ اس کے بعد، وہ اپنے معاملات کا فیصلہ خود کر سکے۔

ان سب باتوں کے پیش نظر فقہا ، خنثی کے احکام کو دو مراحل میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا مرحلہ پیدائش سے بلوغ سے پہلے کا  اوردوسرا مرحلہ بلوغ سے بعد ہے۔ 

خنثی بچپن میں:

اب چونکہ خنثی ایک انسان ہے جسے  وہ تمام حقوق ملیں گے جو ایک انسان کو ملتے ہیں  اور انسان  "نر" یا "مادہ" ہوتا ہے،اس لیےفقہا کے ہاں بنیادی سوال  اس کی جنس کی تعین ہے تاکہ اس کے ساتھ کچھ مقاصد واحکام وابستہ کر سکیں۔ جب تک بچہ بالغ نہیں ہوتا، تو بنیادی ترین حکم میراث کا ہے کہ اگر اس کا مورث مر گیا تو اسے کتنی میراث ملے، نیز اس کے حق پرورش کا ہے کہ اگر ماں باپ میں جدائی ہو گئی، تو اگرچہ اصولی  طور سے، حق پرورش نومولود کا ماں کے پاس  ہے،تاہم ایک خاص عمر میں پہنچ کر یہ باپ کو منتقل ہوتا ہے: لڑکے میں یہ جلدی ہوجاتا ہے کہ جیسے ہی اسے ہوش آئے اورروزمرہ کی بنیادی ضرورتوں میں وہ خود کفیل ہو توباپ کو حق ملتا ہے کہ اسے مردانہ اخلاق وعادات کا عادی بنائے  اور معاشرے میں اپنا کردار (Gender Role)ا دا کرنے کا لیے پوری طرح سے تیار ہو(جی ہاں، شریعت کا مقصود ہے کہ معاشرے لڑکے اورلڑکیوں کو سماجی کردار کے لیے تیار کریں۔) اور لڑکی میں یہ کچھ دیر سےملتا ہے   کہ اسے اس کے سماجی کردار کے لیے آمادہ اس کی ماں کر سکتی ہے۔ اس لیے، جب اس کی شادی کی عمر ہو، تو یہ حق باپ کو منتقل کیا جاتا ہے کہ "پدر قوّامی"(واو کی تشدید کے ساتھ)معاشرے میں ، جوعین    فطرت ہے،بیٹی  کی حفاظت ،اسے معاشرے کے تاریک گوشوں سے بچانے اور عمر کے ساتھ پنپتے ہوئے احساسات وجذبات  کی بیل کو منڈھے چڑھانے کی ذمے داری باپ پر ہے۔اور جب وہ بالغ ہوتا ہے تو قانونی وفقہی احکام کا ایک جہاں وا ہو جاتا ہے۔ اس لیے، اس وقت  اس کی جنس کا فیصلہ دوبارہ کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ ایک بالکل فطری معاملہ ہے کہ بلوغ کے وقت انسان بالکل ایک نیا روپ دھار لیتا ہے۔ اس کی جسمانی و نفسیاتی  کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔

بہر کیف، بلوغ سے پہلے خنثی کا فیصلہ اس  کے پیشاب کی جگہ پر کیا جاتا ہے۔ چناچہ اگر  اس کا جسم مردانہ عضو سے ہو کر آتا ہے، تو اسے نرقرار دیا جائے گا او رزنانہ عضو سے کرتا ہے، تو مادہ۔ اور اگر دونوں ہی اعضا استعمال کرتا ہو، تو اب یہ "خنثی مشکل" ہے۔ اس کے جنسی فیصلے کو اس کی جوانی تک روک دیاجائے گا۔ اور میراث وغیرہ کے احکام میں فقہا کچھ فقہی اصولوں کی روشنی میں اس کا حل پیش کرتے ہیں جن کی تفصیل یہاں پیش نظر نہیں۔اوپر جو فقہا کی عبارات دی گئیں ان کے ضمن میں یہ تفصیالات موجود ہیں۔ تاہم علامہ حصکفی کی عبارت ملاحظہ ہو:

«فإن بال من الذكر فغلام، وإن بال من الفرج فأنثى وإن بال منهما فالحكم للأسبق، وإن استويا فمشكل»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: اگر خنثی مردانہ عضو سے پیشاب کرے، تو لڑکا، اور اگر زنانہ سے کرے تو لڑکی اور دونوں سے کرے، تو جس سے آغاز ہوا اس پر فیصلہ ہوگا۔ اور اگر دونوں ہی ہر لحاظ سے برابر ہوں، تو یہ خنثی مشکل ہے۔۱۲

اس پر علامہ شامی فرماتے ہیں:

«(قوله فالحكم للأسبق) لأنه دليل على أنه هو العضو الأصلي ولأنه كما خرج البول حكم بموجبه لأنه علامة تامة فلا يتغير بعد ذلك بخروج البول من الآلة الأخرى»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727):

مفہوم: (علامہ حصکفی کا فرمانا کہ جو پہلے ہے اس پر فیصلہ ہو گا) اس لیے کہ وہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اصلی  کارآمد عضو ہے، نیز اس لیے کہ جوں ہی وہ پیشاب کرے گا، وہ اس کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا کہ پیشاب کرنا ، جنس کی تعیین میں، ایک مکمل علامت ہے۔ اس کے بعد، دوسرے آلے سے پیشاب خواہ کرے، پر حکم نہیں بدلا جائے گا۔

یہاں یہ بات نوٹ کیجیے کہ فقہا اس حوالے سے کتنی واضح ہے کہ چونکہ جنس ایک امر ربی ہے ، وہ بدلنے سے نہیں بدلتی اور ہمیں اس کا اندازہ علامات سے ہوتا ہے(جیسے نماز کی فرضیت کا اندازہ سورج کے چڑھنے ڈھلنے سے)، اس لیے جب ایک بار حکم ثابت ہو گیا تو اسے وہ بدلنے نہیں دیتے۔ (آگے اس پہلو پر کچھ تفصیل اور تقیید آئے گی۔)

اہم بات یہ ہے کہ فقہا کے نظام میں اس بچے کو عمل جراحی سے گزارنا اور اسے کسی ایک جنس کی طرف موڑ دینا ضروری نہیں۔  بالکل اگر میں یہ کہنے کی جرات کروں کہ ناپسندیدہ ہے، تو بعید نہیں  کیونکہ بغیر کسی ضرورت کے اس بچے کا جسم کی ہیئت کا فیصلہ کرنا  جو ساری زندگی اس کے ساتھ رہی گی مناسب نہیں۔البتہ اگر بچے کی حالت ایسی ہوئی کہ جان پر بن رہی ،مثلا پیشاب میں دشواری ہو اور اطبا کا خیال ہو کہ عمل جراحی ضروری ہے، تو وہ ایک جائز عمل ہے۔

 بس وہ بچہ دوسرے بچوں ہی  کی طرح اپنی زندگی گزارے اور جب وہ شعور وبلوغ کی دہلیز پر قدم رکھے، تو اس کا فیصلہ کیا جائے۔

اس وقت بین الاقوامی عرف بھی اس پر زور دے رہا ہے  کہ خنثی کو عمل جراحی کے ذریعے کسی ایک جنس کی طرف بچپن ہی میں نہ موڑا جائے، اور یہ بات اسلامی اخلاق سے بھی ہم آہنگ ہے کیونکہ بلوغ کے بعد، خنثی کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے اور اس وقت حتمی رائے سامنے آتی ہے کہ اس کی وہ جنس کیا ہے جس کے ساتھ اس نے زندگی بسر کرنی ہے۔

خنثی کا فیصلہ جوانی میں:

خنثی جب جوان ہوتا ہے، تو وہ ایک بالکل نئے مرحلے میں داخل ہوتا ہے جو بچپن سے بہت مختلف ہے۔ اس کی نفسیات واحساسات، ترجیحات  ومعیارات، جسم، عقل، شعور، تحت الشعور سب کچھ بدل جاتا ہے۔ اس لیے، بالغ ہونے کے بعد، فقہا خنثی کا فیصلہ دوبارہ کرنے کا کہتے ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے، میں دوبارہ یاددہانی کرنا چاہوں گا کہ یہاں گفتگو اس کی بابت ہو رہی ہے جس کا "خنثی" ہونا ثابت ہوگیا، فقہا کےطے کیے ہوئے کڑے معیار پر پورا اتر گیا۔

چناچہ فقہا کے کلام میں مندرجہ ذیل پیمانے ملتے ہیں:

حیض آنا، قرار حمل، کسی خنثی کا اس قابل ہونا کہ کوئی مرد اس سے زن وشو کا تعلق قائم کر لے یا کسی خنثی کا کسی عورت سے یہ تعلق باآسانی قائم کر لینا، عورتوں کی طرح چھاتی نکلنا، یا دودھ اترنا وغیرہ۔

حتی کہ اگر کسی خنثی کا کہنا ہے کہ وہ "مرد" کی طرف جنسی جھکاؤ رکھتا ہے، تو وہ عورت شمار ہو گا اور اگر اس کا جنسی جھکاؤ عورت کی طرف ہو، تو وہ مرد شمار ہو گی۔ یہاں سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ فقہا کے ہاں جنس جنسی رجحان کے ساتھ گتھم گتھا ہے۔

یہاں جو پیمانے دیے گئے ہیں اس میں ایک ایسے قاری کو اشکال ہوسکتا ہے جو فقہی جزئیات پڑھنے سے آشنا نہ ہو۔ مثلا،ہماری گفتگو اس بابت ہے کہ خنثی کو مرد مانا جائے یا عورت تا کہ اسے نکاح، معاشرتی کردار  بھرپور طریقے سے ادا کرنے  کا موقع ملے۔تو یہ کیا بات ہوئی کہ اگر کسی خنثی نے کسی عورت سے تعلق قائم کر لیا، تو سے "نر "اور کسی مرد نے اس سے تعلق قائم کر لیا تو اسے "مادہ" تصور کیا جائے گا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ فقہا یہ نہیں کہہ رہے کہ وہ ایسا کرے ان کا مقصود یہ ہے کہ اگر ایسا ہوگیا ، تو یہ حکم عائد کیا جائے گا۔اس کی دو صورتیں سمجھیے:

۱: ایک خنثی  بالغ ہوا ور اس نے کسی مرد کو برضا ورغبت اپنے پاس آنے دیا۔ عدالت میں زنا کا جرم ثابت ہوا اور انہیں سزا ملے۔ لیکن اس سزا کے ضمن ہی میں یہ فیصلہ بھی ہو جائے گا کہ وہ خنثی "مادہ" ہے اور آئندہ اس پر مادہ ہونے کا حکم عائد ہو گا۔

۲: نیز فقہا جو قانون مرتب کر رہے تھے اس وقت غلام اور باندی سماج کا اٹوٹ انگ تھے۔ چناچہ  ایک خنثی کسی مرد کا غلام ہے۔ جب وہ بالغ ہوا، تو اس کے آقا نے اس سے تعلق قائم کر لیا اور اس خنثی میں جسمانی صلاحیت تھی، اس سے ثابت ہو جائے گا کہ وہ خنثی عورت تھا۔اور یہ تعلق گناہ اس وجہ سے نہیں شمار ہو گا کہ انسان اپنی جنس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے، اس تعلق سے صرف یہ "تبیین" ہو گئی کہ وہ پہلے ہی سے عورت تھا۔(اسلامی فقہ فیصلے کے ثابت ہونے کے چار طریقوں کو تسلیم کرتی ہے: الانقلاب، والاقتصار، والاستناد، والتبيين۔  اس پر تفصیل کا یہ موقع نہیں)۔

علامہ شامی فرماتے ہیں:

«هذا قبل البلوغ (فإن بلغ وخرجت لحيته أو وصل إلى امرأة أو احتلم) كما يحتلم الرجل (فرجل، وإن ظهر له ثدي أو لبن أو حاض أو حبل أو أمكن وطؤه فامرأة»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 727)

مفہوم: یہ بلوغت سے پہلے ہے۔ (پس اگر وہ بالغ ہو اور باریش ہو جائے یا کسی عورت سے تعلق قائم کر لے یا اسے اس طرح احتلام ہو ) جیسے  مرد کو ہوتا ہے (تو وہ مرد ہے۔ اور اگر اس کے پستان ظاہر ہو جائیں یا دودھ اتر آئے یا حیض آ جائے یا قرار حمل ہو یا جنسی تعلق میں فطری طریقے سے اسے مفعول بنانا ممکن ہو تو وہ عورت ہے)۔

«السيد قدس سره ... قال وإذا أخبر الخنثى بحيض أو مني أو ميل إلى الرجال أو النساء يقبل قوله ولا يقبل رجوعه بعد ذلك إلا أن يظهر كذبه يقينا مثل أن يخبر بأنه رجل ثم يلد فإنه يترك العمل بقوله السابق اهـ»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 729)

مفہوم:۔۔۔ سید شریف رحمہ اللہ تعالی ... فرماتے ہیں کہ اگر کوئی خنثی حیض یا منی یا مرد یا زن کی طرف جھکاؤکی خبر دے تو اس کی بات قبول کی جائے گی۔تاہم اگر وہ اس سے پھرے تو اسے اس وقت تک نہیں تسلیم کیا جائے گا جب تک اس کا جھوٹ یقینی طور سے ثابت نہ ہو، مثلا وہ یہ کہے کہ وہ مرد ہے ،پھر اس کے ہاں ولادت ہو جائے، تو اس کے سابقہ قول پر عمل کو چھوڑ دیا جائے۔

اس گفتگو سے بلوغت کے بعد، خنثی کے حوالے سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں:

جنس کے ناقابل تغیر ہونے کا مطلب:

اب یہ ضروری ہے کہ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالی جائے کہ جنس کے نہ بدلنے سے مقصود کیا ہے؟ جب ہم کہتے ہیں کہ جنس نہیں بدلتی، اور جو بندہ اس کا اقدام کرتا ہے، تو وہ گناہگار ہے، تو فقہ وقانون میں اس سے مقصود کیا ہے؟

کیا اس سے یہ مقصود ہے کہ اگر کسی نےعمل جراحی کے ذریعے اپنے اعضا بدلوا لیے، تو اگرچہ وہ گناہگار ہو گا تاہم اس کی جنس بدل جائے گی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ جنس نہیں بدلے سکتی اور فاعل کا یہ عمل شرعی قانون میں کالعدم ہے۔ جو بندہ "خنثی" نہیں یا ایسا "خنثی" ہے کہ حتمی علامات سے اس کی جنس طے ہو جائے، تو اب اگر وہ عمل جراحی کے ذریعے اپنے اعضا بدلواتا ہے، تو اس کا کوئی قانونی اثر نہیں۔یہ بیع باطل کی طرح ہے کہ جو سودا ہو رہا ہے، وہ بائع سے مشتری کی ملکیت میں منتقل ہی نہیں ہوتا اگرچہ مشتری اس پر قبضہ کر لے۔یہ ایک تین سالہ بچے کے ہبہ (گفٹ) کی طرح ہے کہ اگرچہ بچہ اپنی مرضی سے کسی کو اپنی چیز دے دے (اور قبضہ بھی ہو جائے)، وہ بدستور اس بچے ہی کی ملکیت ہے۔

یہ جمہور کے ہاں ایک مجلس میں تین طلاق کی طرح نہیں کہ اگر کسی نے تین طلاقیں دیں، تو اگرچہ اس نے برا کیا، لیکن اس طلاق کو قانون تسلیم کرتا ہے۔ اعضا کی تبدیلی ایسا معاملہ نہیں ۔ بلکہ اعضا کی تبدیلی سے پہلے جو حالت انسان کی تھی، وہ اس کے بعد ہے۔

۱: چناچہ اگر وہ  نر تھا  اور اس نے زنانہ اعضا بنوا لیے، تو وہ مرد ہی رہے گا۔

۲: اگر وہ  مادہ تھی  اور اس نے مردانہ اعضا بنوا لیے، تو وہ عورت ہی رہے گا۔

۳: اگر وہ خنثی تھا لیکن کسی قطعی علامت سے نر یا مادہ ہونے کا فیصلہ ہو چکا، تو  جس علامت کی بنیاد پر فیصلہ ہوچکا، وہ خنثی وہی رہے گا۔

۴: اگر وہ خنثی ہےپر کوئی قطعی علامت نہیں، تو چونکہ اس کے جنسی رجحان پر فیصلہ ہو گا، تو اب اگر اس نے کسی جنس کی طرف اپنے آپ کو موڑ دیا اور عمل جراحی کروائے، تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔ تاہم یہاں بھی مفروضہ یہی ہے کہ عمل جراحی سے پہلے اس کی جنس کے جنسی رجحان سے طے ہو گئی اور عمل جراحی سے کچھ بدلا نہیں۔اسی سے واضح ہوا کہ  عمل جراحی کروا نے کے بعد وہ خنثی مشکل نہیں رہے گا بلکہ کسی ایک جنس کی طرف پھر جائے گا(آگے یہ بات آنے کو ہے کہ بلوغ کے بعد، عام طور سے اشکال نہیں رہتا۔)

خصی:

«"والخصي في النظر إلى الأجنبية كالفحل" لقول عائشة رضي الله عنها: الخصاء مثلة فلا يبيح ما كان حراما قبله ولأنه فحل يجامع»«الهداية في شرح بداية المبتدي» (4/ 372):

مفہوم: اجنبی عورت کو دیکھنے میں خصی کام مرد کی طرح ہے ۔ ا س کی دلیل بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کا فرمان ہے کہ  خصی کرنا مثلہ ہے۔ پس جو امر خصی ہونے سے پہلے حرام تھا وہ حرام نہیں ہو گا، نیز اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ ایک کامل مرد ہے جو زن وشو کا تعلق قائم کر سکتا ہے۔۱۲

یہاں واضح رہے کہ فقہا کے ہاں خصی کا اصطلاح صرف اس کے لیے استعمال ہوتی ہے جسے کے خصیے نہ ہوں لیکن آلہ تناسل ہو  اور جس کا آلہ تناسل نہ ہو، اسے "مجبوب" کہتے ہیں۔

اس وضاحت کے بعد، یہ غور کیجیے کہ جنسی اعضا میں تبدیلی  سے جنس نہیں بدلتی۔ بلکہ وہ مرد ہی ہے اور اسی کے احکام لاگو ہوں گے۔مشہور حنفی فقیہ ومحدث علامہ عینی نے اس پر اس حوالےسے کلام کیا ہے کہ یہ آیا اس اثر سے استدلال درست ہے یا نہیں اور اس مدعی کو ثابت کرتا ہے یا نہیں، لیکن کس مقصد کے لیے ہم نے یہ بات نقل کی ہے کہ وہ شرعی احکام میں مرد ہی ہے،وہ بہر حال اس سے واضح ہے۔

نیز  خصی کرنا اللہ تعالی کی خلقت میں تبدیلی ہے۔صحیح بخاری کی  مندجہ ذیل روایت  ملاحظہ ہو:

« عبد الله رضي الله عنه، قال: " كنا نغزو مع النبي صلى الله عليه وسلم وليس معنا نساء، فقلنا: ألا ‌نختصي؟ فنهانا عن ذلك»«صحيح البخاري» (6/ 53 ط السلطانية)

مفہوم:  عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کا یہ قول منقول ہے کہ : ہم اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں تھی اور گھر والیاں ساتھ نہ تھیں۔ ہم نے عرض کیا کہ کیا ہم خصی نہ ہو جائیں؟ اللہ کے نبی  نے اس سے منع فرمایا۔

اس پر علامہ عینی  ہی فرماتے ہیں کہ:

«وفيه تحريم الاختصاء لما فيه من ‌تغيير ‌خلق ‌الله تعالى، ولما فيه من قطع النسل وتعذيب الحيوان»«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» (18/ 208)

مفہوم:   اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خصی ہونا حرام ہے کہ اس میں اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنا ہے، نیز اس میں نسل کو بڑھنے سے روکنا اور جاندار کو عذاب سے دوچار کرنا ہے۔

اور یہی سے ہماری گفتگو تغییر فی خلق اللہ کی طرف مڑ جاتی ہے۔

عمل جراحی کی اجازت اور تغییر فی خلق اللہ:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مشہور حدیث منقول ہے کہ انہوں نے جسم گدنے (ٹیٹوز بنوانے) پر لعنت کی۔ اسی طرح، دانتوں میں زیب وزینت کے لیے فاصلہ  پیدا کرنے پر بھی لعنت کی۔ اس پر علامہ عینی فرماتے ہیں کہ:

«أما إذا احتيج إليه لعلاج أو عيب في السن ونحوه فلا بأس به»«عمدة القاري شرح صحيح البخاري» (19/ 225)

مفہوم:اگر علاج معالجے یا دانتوں کی بیماری کی وجہ سے ہو، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔۱۲

اسی طرح، حدیث کے مطابق، اگر کسی کا ناک کٹ گیا اور اس نے چاندی کا ناک لگوا لیا، تو یہ جائز ہے۔ امام محمد کے ہاں سونے اور چاندی دونوں کے ناک کی گنجائش ہے۔اور اسے بھی تغییر فی خلق اللہ میں شمار نہیں کیا گیا۔«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 362)

اس لیے، جسم میں ہر تبدیلی تغییر فی خلق اللہ کے تحت ممنوع نہیں۔بلکہ اگر عام لوگوں میں جو ہیئت فطرت شمار ہوتی ہے اگر کوئی چیز اس سے ہٹی ہوئی ہو، تو اس کی اصلاح درست ہے۔

بالفاظ دگر، شریعت ایک چیز کو معیار تسلیم کرتی ہے اور جو اس سے ہٹی ہوئی ہو، اسے وہ عیب قرار دے کر اس کی اصلاح دیتی ہے۔ اور ہم پھر یاد کروانا چاہیں گے کہ شریعت ایک معیار پر مبنی نظام ہے۔

خنثی کی حالت کو شریعت فطرت صحیحہ سے ہٹا ہوا گردانتی ہے،اس لیے اس کے لیے عمل جراحی درست ہو گی اس شرط کے ساتھ کہ وہ  ان اعضا کو ختم کروائے جو اس کی طے شدہ جنس سے ہم آہنگ نہیں اور یہ اللہ تعالی کی خلقت کو بدلنے کے زمرے میں نہیں آئے گا۔(یعنی یہ نہیں ہو سکتا ہے کہ وہ مادہ ہو اور اپنے نرینہ اعضا کو  برقرار رکھ لے اور یہ کہے کہ اس کا جنسی جھکاو عورتوں کی طرف ہے۔)

مخنث:

ایک اصطلاح مخنث کی بھی ہمارے فقہی ادب میں نظر سے گزرتی ہے۔ یہ محض ایسے مرد کو کہتے ہیں جس کی چال ڈھال، ادا وانداز میں نزاکت،تکسر ہو۔

یہ مرد ہی ہےتمام احکام میں۔ تاہم اگر یہ اس میں فطری ہو، تو گناہ نہیں۔ البتہ اگر جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کرے، تو یہ گناہ ہے۔

خنثی مشکل:

یہاں سرسری طور سے، ہم خنثی مشکل کے تصور اور اسے وابستہ احکام پر بھی نظر ڈال لیں۔

جب تک خنثی  کی جنس طے نہیں ہو جاتی، اسے خنثی مشکل کہتے ہیں۔ چونکہ یہ انسان ہے اور اسی طرح کرامت ہے جس طرح دوسرے انسان، اس لیے یہ شرعی احکام کا پابند ہے۔ اس لیے، فقہا خنثی کے باب میں ، نماز جنازہ، نظر، ستر ، باجماعت نماز میں  صف بندی وغیرہ کے معاملات میں تجزیہ کرتے ہیں کہ اگر اسے مرد مانا جائے، تو کیا معاملہ ہو گا اور عورت مانا جائے تو کیا۔ اور اس کے موازنے سے فیصلہ کرتے ہیں۔

لیکن سماجی لحاظ سے، سب سے اہم معاملہ نکاح کا ہے۔ خنثی مشکل نکاح نہیں کر سکتا۔ جب تک اس کی جنس کی حتمی فیصلہ نہ ہو، وہ اس انتظار کرے گا۔ اور یہی سے ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ کیوں فقہا اس پر زور دیتے ہیں کہ جلد جلد اس کی جنس کا فیصلہ کیا جائے کہ اس کی کرامت انسانی کے خلاف ہے کہ اسے بیچ میں لٹکایا جائے اور اسے سماجی کردار ادا کرنے کا بھرپور موقع دیا جائے۔

علامہ شامی خنثی مشکل کے ختنے کے حوالے سے ایک جزئیے کے تحت فرماتے ہیں کہ:

«وقد يجاب بأن كونه موقوفا إنما هو من حيث الظاهر، وإلا فالنكاح في نفس الأمر إما صحيح إن كان ذكرا فيحل النظر وإما باطل إن كان أنثى»«حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي» (6/ 729)

مفہوم: اس کا یہ جواب دیا جا سکتا ہے کہ خنثی مشکل کا (کسی باندی سے) نکاح کا موقف ہونا ظاہر کے لحاظ سے ہے۔ ورنہ اگر وہ مرد ہے تو نکاح درست ہے اور اس کا دیکھنا درست ہے، اور اگر خود عورت ہے تو نکاح کالعدم ہے۔

یہاں سے اس بات کی بھی تائید ہو گئی جو اس سے پہلے ایک آدمی کا اپنے خنثی سے تعلق قائم کرنے کے حوالے سی گزری کہ وہ "تبیین" کے قبیل سے ہے۔ اس لیے، اس کے تعلق سے یہ ثابت ہو گا کہ اس کا خنثی غلام دراصل باندی تھا اور وہ گناہ گار بھی نہیں ہو گا۔

بلوغت کے بعد، عام طور سے اشکال باقی نہیں رہتا:

اس سلسلہ تحریر کے آغاز میں، علامہ جصاص رازی رحمہ اللہ تعالی کا حوالہ گزرا کہ امام محمد رحمہ اللہ تعالی فرماتے تھے کہ بلوغت کے بعد، عام  طور سے اشکال باقی نہیں رہتا۔ علامہ سرخسی اس حوالے سے رقم طراز ہیں:

«قلنا لا يبقى الإشكال فيه بعد البلوغ وإنما يكون ذلك في صغره إذا مات قبل أن يبلغ وقد بينا اختلاف العلماء في ميراثه قبل أن يستبين أمره فيما سبق»«المبسوط للسرخسي» (30/ 105)

مفہوم: ہمارا کہنا ہے کہ بلوغت کے بعد، اشکال باقی نہیں رہتا۔ یہ صرف بچپن میں ہوتا ہے جو وہ بالغ ہونے سے پہلے مر جائے۔ اور نابالغ خنثی مشکل کی میراث کے حوالے سے علما کا اختلاف ہم بیان کر چکے۔

اسی طرح، خنثی مشکل کے حوالے سے علامہ شامی فرماتے ہیں:

والتقييد بالمراهق لكونه بعد البلوغ لا يبقى مشكلا غالبا»«حاشية ابن عابدين ط الحلبي» (6/ 730)

مفہوم: قریب البلوغ ہونے کی قید اس لیے لگائی ہے کہ بلوغ کے بعد عام طور سے، اشکال باقی نہیں رہتا۔

احناف کے ہاں، یہ پہلو بہت واضح طور سے ملتا ہے کہ بالغ ہونے کے بعد، معاشرے میں کسی بھی انسان کی جنسی شناخت کو لٹکایا نہیں جائے گا اور اسے فوری طور سے حل کیا جائے گا تا کہ وہ معاشرے کا ایک موثر فرد بن سکے۔وہ کسی سے نکاح کر کے اپنے وجودی احساسات کی تسکین کر سکے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے باعث سکون ہیں، نیز کوئی اس کے لیے وقار کا لباس بن سکے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کاپیرہن ہیں۔ یہ ان  لوگوں کے لیے بھی عبرت کا مقام ہے جو اس طرح کے لوگوں کو ایک اچھوت سمجھ کر ان سے معاملہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے انہیں انسان بنا کر مکرم ومعظم کیا۔اور ان کی جنس  کا مسئلہ اللہ کی تقدیر ہے۔ اس کی بنا پر ان  کو حقیر سمجھنا، اللہ کی تقدیر پر اعتراض ہے۔

ٹرانس کے لیے  سیرت سے رہنمائی:

نیز ایسے خواجہ سرا لوگوں کے لیے بھی اللہ تعالی کی طرف سے خاص فضیلت کی امید ہے جب معاشرہ ان کے ساتھ ایسا سلوک کرتاہے اور وہ صبر کرتے ہیں۔ اور اسلام کی نگاہ میں اصل زندگی آخرت ہی کی ہے: إن الدار الآخرة لهي الحيوان.  یہ دنیا کی زندگی چند دنوں کی ہے اور ہمیشہ رہنے والے زندگی ہی اصل ہے اور وہاں کسی کی جنس ،  رنگ یا نسل کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ اس دن معزز ومکرم وہ ہے جو متقی ہے اور ایک خنثی بھی ایسے ہی متقی ہو سکتا ہے جیسے ایک صحیح الجنس  متقی ہوسکتاہے۔

اسی طرح، متبدل صنف (ٹرانس) پر بھی اس  وجہ سے کوئی دوش نہیں کہ ان کے اندر یہ احساس جنم لے رہا ہےکہ ان کی صنفی شناخت  ان کی جنسی شناخت سے ہم آہنگ نہیں۔ دل میں خیال آنا اور نفس میں خواہش ابھرنا ایمان ودین کے خلاف نہیں جب تک اس پر عمل نہ کیا جائے۔ ایسے ٹرانس لوگ جو ہمارے بھائی ہیں ان کو میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ خوشخبری سنانا چاہتا ہوں جو ان کے لیے ایک روحانی ونفسیاتی سکون واطمینان کا باعث بنے:

عن أبي هريرة، قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به، قال: «وقد وجدتموه؟» قالوا: نعم، قال: «ذاك صريح الإيمان»«صحيح مسلم» (1/ 119 ت عبد الباقي)

مفہوم: حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول ہے کہ کچھ لوگوں نے  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ: "ہمارے جی میں ایسی باتیں آتی ہیں کہ ہم میں سے کسی کا اسے زبان پر لانا بہت شاق ہے۔"اللہ کے نبی نے دوبارہ پوچھا: "کیا واقعی یہ بات تم اپنے اندر پاتے ہو؟"(یعنی شیطان کا وسوسہ ڈالنا اور اسے زبان پر لانے کا شاق ہونا)۔ انہوں کے کہا: جی۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "یہ خالص ایمان ہے"

اس لیے، ان لوگوں سے میرے گزارش ہے کہ ان احساسات سے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ بس ان احساسات کو  یہی سمجھیں کہ یہ صحتمندانہ نہیں۔ اور جب تک وہ یہ سمجھتے رہیں گے، ان کے ایمان کا پیمانہ بلند رہے گا۔ نیز ہمارے ان ساتھیوں کو یہ بھی معلوم ہو کہ ان کی اس طرح کی کیفیت میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے  انہیں ایک حل بھی بتایا کہ جب انسان کو ایسے وسوسے آئیں، تو یہ یاد کرے کہ وہ اللہ تعالی پر ایمان لاتا ہے  ۔ حدیث میں آتا ہے کہ:

«فمن وجد من ذلك شيئا، فليقل: آمنت بالله»«صحيح مسلم» (1/ 119 ت عبد الباقي)

مفہوم: ۔۔۔ پس جو یہ کیفیت محسوس کرے، تو یہ کہے اور یاد کرے کہ: "میں اللہ تعالی پر ایمان لایا۔"

وہ یا دکرے کہ اس کا خالق ،اس کا  مالک اللہ تعالی کی ذات ہے۔ اورنفس وشیطان جو ان خیالات کو لاتے ہیں ان کا خالق بھی اللہ ہے۔ وہ اللہ کی قدرت سے باہر نہیں۔اور اس کا بھروسا اللہ تعالی پر ہے جو نفس وشیطان کا بھی خالق ومالک ہے۔وہ اپنے اس گہرے ایمان کو یاد کرےاور اپنے رب سے لو لگائے تا کہ یہ خیالات ختم ہو جائیں یا وہ اتنی شدت نہ اختیار کریں کہ انسان ان کے تقاضے پر عمل کرنے لگے۔

ٹرانس کے حوالے سے مسلمان سماج کی ذمے داری:

اس حوالے سے، میں اپنے آپ کو سب سے پہلے اورباقی سماج کو اس کے بعد، یہ کہوں گا کہ ایسے لوگ ہمارے ارد گرد ہیں۔ یہ ہمارے رشتے داروں میں ہو سکتے ہیں اور دوستوں میں بھی۔ٹرانس کسی کا بیٹا ہے کسی کی بیٹی، کسی کا بھائی، کسی کی بہن۔ ایسا ہمیشہ نہیں ہوتا کہ یہ لوگ دنیاوی اغراض کے لیے ایسا کریں بلکہ واقعی یہ لوگ نفسیاتی  طور سے، اس مشکل سے گزرتے ہیں۔ اس لیے، ان کی بات سننے کی ضرورت ہے،اور کسی بدگمانی کے بغیر ان سے مکالمہ  ہونا چاہیے۔ اللہ سے امید ہے کہ ایسا انسان اس مشکل سے نکل آئے اور اس کا ساتھ دینے والا اپنی دنیا وآخرت سدھار جائے!

ٹرانس کے حوالے سے تبلیغی جماعت کا کردار بہت اچھا ہے کہ وہ ان لوگوں کو ساتھ ملاتے اور معاشرے کا ایک صحت مند فرد بنانے کی تگ ودو کرتے ہیں۔ کئی لوگ اس مخمصے سے نکلے اور ایک صحتمندانہ زندگی گزارنے لگے۔

ہماری تہذیب کا ایک اہم ترین ادارہ تصوف ہے جس کے بغیر دین محض ایک قانونی ڈھانچہ ہے جو انسان کے عمیق ایمان سے نہیں ابھرتا۔ صوفیہ کا وجود معاشرے میں پھیلی ہوئی نفسیاتی الجھنوں کے حوالے سے ہمیشہ سے ایک نعمت رہا ہے اور وہ اس کا علاج کرتے رہے ہیں۔ اس وقت ماہر نفسیات کے کلینکس کھلے ہوئے ہیں جو اچھی خاصی اجرت پر کچھ لمحات عنایت کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے صوفیہ ایسے لوگوں کو بغیر کسی معاوضے کے گلے سے لگاتے، ان کے درد کا درماں کرتے رہے ہیں۔ اب بھی یہ جاری ہے۔ لیکن یہ ادارہ کمزور پڑ گیا ہے۔ اس میں موجود خرابیوں کی اصلاح ہونی چاہیے لیکن ان خرابیوں کی وجہ سے بالکل ہی اسے لپیٹنا سماجی خودکشی ہے۔ اسے نام تصوف کا دیں یا نہ دیں، لیکن اس کے بنا ہمارے سماج میں آنے والا نفسیاتی کہرام، صرف قانون میں تبدیلی کر لینے سے حل نہیں ہونے کا۔ بلکہ یہ قانون صرف یہ خبر دیتا ہے کہ معاشرے میں یہ نفسیاتی الجھنیں کتنی شدت اختیار کر چکی ہیں اور کتنی گہری ہیں۔ اگر اصلاحی سماجی اداروں نے جن میں صوفیہ، مدارس، مساجد کے منبر سر فہرست ہیں، عوامی سطح پر، انفرادی سطح پر، اس کا حل نہ کیا، تو ہماری اگلی نسل اس جنسی انقلاب کی زد میں پوری طرح سے آ جائے گی اور شاید آنا شروع ہو چکی ہے۔ ایک عالم دین، ایک امام مسجد کی اولاد بھی اب عصری اداروں میں پڑھتی ہے اور اس کی ذہن سازی وہیں ہوتی ہے۔ اس کے بچوں کے ذہنوں میں، کیا نظریات پکے ہو چکے ہیں، وہ شاید بچپن میں معلوم نہ ہو کہ اسے مخالفت کا ڈر ہو، لیکن بڑے ہو کر وہ بھرپور طریقے سے اس پر عمل کرے گا اور اپنی نسل کی بھی اسی پر تربیت کرے گا۔ اس لیے، ہم کم از کم، یہ کر سکتے ہیں کہ ان مسائل پر زجر، تجہیل وتضحیح کا رویہ نہ اپنائیں جو سیاسی حلقوں میں تو ہے ہی، لیکن ہمارے دینی حلقے میں بھی دینی اختلافات کے معاملے میں دوسروں سے کم نہیں اور اس وقت بھی ٹرانس پر گفتگو میں یہ رویہ بھی نمایاں رہا ہے۔

بلکہ ان سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے، ان کے سوالات کو سمجھنے اور صبر سے جوابات سوچنے اور دینے کی حاجت ہے۔ اگر کسی میں اس کی سکت نہ ہو، تو کم از کم، وہ نئی نسل کو متنفر کرنے میں اپنا کردار ادا نہ کرے کہ یہ آخری درجہ ہے۔

كُفَّ أَذَاكَ عَنِ الناس فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ تَصَدَّقُ بها عن نَفْسِكَ (مسند أحمد)

(مکمل)


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کفار کے ساتھ معاشرتی رویہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(اکتوبر ۲۰۱۶ء کے دوران مجلسِ احرارِ اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر لاہور میں ایک تربیتی نشست سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جناب سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کے اس پہلو پر آج کی محفل میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپؐ نے کافروں کے ساتھ معاشرتی زندگی میں کیا معاملہ کیا ہے اور ان کے ساتھ زندگی کیسے گزاری ہے؟ اس حوالے سے جناب سرور کائناتؐ کی حیاتِ مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

پہلا حصہ اس چالیس سالہ دور کا ہے جو نبوت سے پہلے مکہ مکرمہ میں گزرا۔ نبی اکرمؐ چونکہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے اس لیے کفر و شرک، بت پرستی اور جاہلانہ رسوم سے آپؐ کی نفرت طبعی تھی۔ حضورؐ ان امور میں معاشرے کے ساتھ شریک نہیں تھے اور ایسی تمام باتوں سے الگ تھلگ رہتے تھے، لیکن عمومی معاشرت میں باقی لوگوں کے ساتھ آپؐ بھی اسی معاشرے کا حصہ تھے، سوسائٹی کے معاملات میں شریک ہوتے تھے، رشتہ داریاں قائم تھیں اور لین دین کے معاملات بھی جاری رہتے تھے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کا دوسرا حصہ نبوت ملنے کے بعد کا ہے۔ جب نبوت ملی اور آنحضرتؐ نے توحید کی دعوت کا آغاز کیا تو صورتحال مختلف ہو گئی۔ اس سے قبل اخلاقِ حسنہ اور خدمتِ خلق کے باعث آپؐ کو سوسائٹی کی پسندیدہ ترین شخصیت کی حیثیت حاصل تھی، صادق و امین کے لقب سے پکارا جاتا تھا اور مختلف امور میں آپ سے راہنمائی لی جاتی تھی۔ لیکن توحید کے اعلان اور عام محفلوں میں قرآن کریم کی تلاوت کو ناپسند کیا گیا اور مخالفت کا دور شروع ہو گیا جو تیرہ سال جاری رہا۔ یہ تیرہ سالہ دور مخالفت کا دور تھا، آزمائش و ابتلا کا دور تھا اور اذیت و تکلیف کا دور تھا۔ اس دور میں جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت کا سلسلہ جاری رکھا، اپنی جماعت کی توسیع کی محنت کرتے رہے، ساتھ دینے والے حضرات کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور صبر و حوصلہ کے ساتھ اپنے مشن کو مسلسل آگے بڑھاتے رہے، وہاں مکہ مکرمہ کی عمومی معاشرت کا حصہ رہے اور معاشرتی معاملات میں برابر شریک ہوتے رہے۔ حتٰی کہ ایک موقع پر قریش کے مختلف خاندانوں نے اجتماعی فیصلہ کر کے آنحضرتؐ اور ان کے ساتھیوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جو تین سال جاری رہا۔ اس دوران شعبِ ابی طالب میں انہیں محصور کر دیا گیا اور بائیکاٹ کی نگرانی کے لیے ناکہ بندی کا اہتمام بھی کیا گیا لیکن یہ بائیکاٹ یکطرفہ تھا۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دور میں بھی دعوت و تبلیغ کے تقاضوں کی تکمیل کی اور بائیکاٹ کی پروا نہ کرتے ہوئے تعلقات اور دعوت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس دور میں کافروں کا غلبہ تھا اور مسلمان اقلیت میں تھے بلکہ وہ اکثریت کے مظالم اور اذیتوں کا نشانہ تھے، لیکن آنحضرتؐ نے مزاحمت کا راستہ اختیار نہ کیا، نہ اجتماعی مزاحمت کی اور نہ ہی انفرادی طور پر کسی ساتھی کو اس کی اجازت دی، بلکہ حوصلہ اور صبر کے ساتھ مظالم برداشت کرتے ہوئے دعوتِ تبلیغ اور تعلیم و تربیت کا سلسلہ قائم رکھا۔ البتہ اس دوران مکہ مکرمہ کی آبادی سے ہٹ کر مختلف اطراف سے دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کافر قبائل میں اپنی حمایت و حفاظت کے مواقع بھی تلاش کرتے رہے۔

طائف کا سفر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے کیا تھا کہ بنو ثقیف کے سرداروں کو قریش کے مظالم کے خلاف اپنی حمایت کے لیے آمادہ کر سکیں۔ حبشہ کی طرف صحابہ کرامؓ کی ہجرت کا بھی ایک اہم مقصد مسلمانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ مہیا کرنا تھا جو حاصل ہو گئی۔ جبکہ حج کے لیے یثرب (مدینہ) سے آنے والے قافلوں کے خیموں میں حضورؐ کا بار بار جانا اور انہیں دعوت دینا بھی اسی لیے تھا کہ وہ مسلمان ہو کر مکہ مکرمہ کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھی بنیں اور انہیں محفوظ ٹھکانہ مہیا کریں جیسا کہ عملاً ہو بھی گیا۔ یثرب سے آنے والے لوگوں کے ساتھ بیعتِ عقبہ ثانیہ کے بعد نبی اکرمؐ کی ہجرت کی راہ ہموار ہوئی اور اس ہجرت پر مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ مظلومانہ دور کا اختتام ہوا۔

اس کے بعد جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی زندگی کا تیسرا دور شروع ہوا جو دس سال جاری رہا اور یہ سب سے زیادہ ہنگامہ خیز دور تھا۔ بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق آنحضرت کی ہجرت سے پہلے یثرب اور اردگرد کے قبائل ایک علاقائی حکومت کے قیام پر متفق ہو چکے تھے اور بادشاہ کے طور پر عبد اللہ بن اُبی کے نام کا فیصلہ بھی ہو گیا تھا، صرف تاج پوشی کی رسم باقی تھی کہ حضورؐ کی تشریف آوری سے ساری صورتحال بدل گئی۔ وہ حکومت جو عبد اللہ بن اُبی کی سربراہی میں قائم ہونا تھی وہ آپؐ کی قیادت میں تشکیل پا گئی۔ میری طالب علمانہ رائے میں اس ریاست و حکومت کے خدوخال طے کرنے کے لیے قبائل کے درمیان جو مذاکرات ہو چکے تھے وہی ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کا ہوم ورک اور اساس بنے جس میں حضورؐ نے بنیادی تبدیلی یہ کی کہ اسے ایک نظریاتی ریاست کی شکل دے دی جو آگے چل کر خلافتِ راشدہ اور عالمی اسلامی خلافت کی صورت میں دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔

ابتدا میں اس حکومت و ریاست میں مسلمان بھی شامل تھے، یہودی قبائل بھی اس کا حصہ تھے، اور اردگرد کے دیگر قبائل بھی اس میں شریک تھے۔ جبکہ اس نظم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حاکمِ اعلیٰ جبکہ ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کو دستور کی حیثیت حاصل تھی۔ بعد میں یہودی قبائل میثاق کی خلاف ورزی کے باعث یکے بعد دیگرے مدینہ منورہ سے جلاوطن ہوتے گئے اور بنو قریظہ کی جلاوطنی کے بعد مدینہ منورہ مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکالنے میں مسلمانوں نے پہل نہیں کی تھی بلکہ خود یہودیوں نے اپنی فطرت کے مطابق مسلسل بدعہدی کے ذریعے یہ ماحول پیدا کر لیا تھا اور ان کی جلاوطنی کے فیصلے اس وقت کے عام عرف کے مطابق جرگوں اور ثالثوں کے ذریعے ہوئے اور یہودیوں نے ان فیصلوں کو تسلیم کیا۔

مدینہ منورہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک اور طبقہ سے بھی سابقہ درپیش رہا جس کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے کہ وہ ایمان کا دعوٰی تو کرتے ہیں مگر ’’وما ھم بمومنین‘‘ وہ مومن نہیں ہیں۔ یہ منافقین تھے جن کی قیادت عبد اللہ بن اُبی کر رہا تھا۔ میری طالب علمانہ رائے میں عبد اللہ بن اُبی کو حکومت کا چانس ختم ہو جانے پر جو غصہ تھا وہ باقی ساری زندگی اس کا بدلہ ہی لیتا رہا۔ اس نے مدینہ منورہ میں بڑے بڑے فتنے کھڑے کیے اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ احد کی جنگ میں وہ اپنے ساتھیوں کو لے کر میدان سے نکل گیا، اس وقت جنگ کے لیے احد تک جانے والے لشکر کی تعداد ایک ہزار تھی جن میں سے تین سو افراد عبد اللہ بن اُبی کی قیادت میں میدان چھوڑ کر واپس آ گئے تھے۔ اس سے ان کا تناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کم و بیش تیس فیصد تھے۔

غزوہ احد کے بعد مسلمانوں میں ان منافقین کے بارے میں اختلاف پیدا ہو گیا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہیے؟ بعض کی رائے تھی کہ ان کے خلاف کاروائی کی جائے جبکہ دوسرے حضرات کا خیال تھا کہ انہیں اسی طرح ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کا ذکر قرآن کریم نے ’’فما لکم فی المنافقین فئتین۔۔‘‘ کی آیتِ کریمہ میں کیا ہے۔ ان منافقین نے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر جھوٹی تہمت کا بازار گرم کیا، انہوں نے مدینہ منورہ سے مہاجرین کو نکال دینے کی سازش بھی کی جس کا تذکرہ قرآن کریم کی سورۃ المنافقون میں ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود حضورؐ نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی بلکہ وہ معاشرتی زندگی حتٰی کہ مذہبی معاملات میں بھی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل شریک رہے۔ ان کے خلاف نہ کوئی احتجاجی کاروائی ہوئی اور نہ ہی انفرادی طور پر ان میں سے کسی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی کسی کو اجازت ملی۔ عبد اللہ بن اُبی کو قتل کرنے کی اجازت حضرت عمرؓ اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے علاوہ حضرت سعد بن معاذؓ نے بھی مانگی تھی مگر آپؐ نے کسی کو اجازت نہیں دی اور یہ فرمایا کہ اس سے دنیا کے دوسرے لوگوں کو یہ تاثر ملے گا کہ حضرت محمدؐ تو اپنے کلمہ گو ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔

یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال حکمتِ عملی تھی کہ ان منافقین کی الگ گروہی شناخت قائم نہ ہونے دی جائے اور انہیں مدینہ منورہ کے اندر کوئی داخلی محاذ بنانے کا موقع نہ دیا جائے۔ حتٰی کہ جن چودہ منافقین نے نبی اکرمؐ کو راستے میں گھیر کر قتل کرنے کی ناکام کاروائی کی تھی، آپؐ نے ان کے نام تک حضرت حذیفہؓ کے علاوہ کسی کو نہیں بتائے اور انہیں بھی سختی کے ساتھ تاکید کی کہ ان میں سے کسی کا نام ظاہر نہ ہونے پائے۔ اور یہ بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ تھا کہ انہیں مسجد کے نام پر الگ مرکز بنانے کی اجازت نہ دی گئی بلکہ ان کی بنائی ہوئی مسجد کو ’’مسجدِ ضرار‘‘ قرار دے کر منہدم کرا دیا گیا۔ ان منافقین کے بارے میں جنہیں قرآن کریم نے ’’وما ھم بمومنین‘‘ کہہ کر کافر قرار دینے کا اعلان کر دیا تھا، آنحضرتؐ کی حکمتِ عملی یہ سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں معاشرتی طور پر الگ کر کے اپنا تشخص قائم کرنے کا موقع نہ دیا جائے، اور داخلی طور پر اپنے لیے کوئی محاذ کھڑا نہ ہونے دیا جائے، اس کامیاب حکمتِ عملی کا یہ نتیجہ سامنے آیا کہ وہ لوگ جو غزوۂ احد کے وقت کم و بیش تیس فیصد دکھائی دے رہے تھے، حضرت حذیفہؓ والے واقعہ تک ان کی تعداد درجن بھر رہ گئی تھی اور اس کے بعد تاریخ میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا کہ وہ کدھر گئے۔ ظاہر بات ہے کہ سارے مر کھپ تو نہیں گئے تھے بلکہ آہستہ آہستہ توبہ تائب ہو کر مسلمانوں کے عمومی معاشرے میں تحلیل ہو کر رہ گئے تھے جو جناب رسول اللہ کی کمال حکمتِ عملی کا نتیجہ تھا۔

اس دس سالہ مدنی دور میں کفار کے ساتھ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معاشرتی حکمتِ عملی کا جائزہ لیا جائے تو اس میں جہاں کافر قوموں کے ساتھ دو درجن سے زیادہ جنگیں موجود ہیں وہاں معاہدات بھی تاریخ کا حصہ ہیں، مل جل کر رہنے کی روایت بھی میثاقِ مدینہ کی صورت میں واضح دکھائی دیتی ہے، اور داخلی دشمنوں کو صف آرائی کا موقع نہ دیتے ہوئے آہستہ آہستہ انہیں بے اثر کر دینے کی کامیاب حکمتِ عملی کے ثمرات بھی نظر آتے ہیں۔


ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۳)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے فکر کی ایک امتیازی خصوصیت فکری گہرائی اور فکری وسعت کے ساتھ ساتھ فکر میں موجود کلیئرٹی، وضاحت اور عصری معنویت ہے۔ ڈاکٹر صدیقی زمینی حقائق پر نصوص کی روشنی میں آزادانہ غوروفکر کرتے تھے اور آزادانہ رائے قائم کرتے تھے۔ وہ تحریک اسلامی کے ایک قدآور فکری رہنما تھے لیکن انہوں نے مولانا مودودی یا ابتدائی تحریکی مفکرین کی کھینچی ہوئی لائن کا خود کو کبھی اسیر نہیں بنایا، اس سلسلہ میں ان کے اندر زبردست خوداعتمادی اور جرأت مندی دیکھنے کو ملتی ہے۔

جماعت اسلامی پاکستان کا رخ اور مستقبل

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا احساس تھا کہ جماعت اسلامی پاکستان کا سیاسی محاذ پر غیرضروری جھکاؤ تحریک کے مستقبل اور تحریک کے بنیادی مشن اور بنیادی فکر کو متأثر کردے گا، چنانچہ مولانا مودودی کے نام شکاگو سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں ڈاکٹر صدیقی نے جماعت اسلامی پاکستان کی موجودہ صورتحال کا بہت ہی بے لاگ تجزیہ کیا ہے اور کچھ عملی قسم کے مشورے دیے ہیں، یہ خط اکتوبر 1972 کا ہے، اس کے درج ذیل اقتباسات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں:

”دوسرا مسئلہ آپ کے ملک میں تحریک اسلامی سے متعلق ہے۔ روزمرہ سیاست سے تعلق اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ عام خاص سب کی نظر میں وہ طویل المیعاد اصولی حیثیت باقی نہیں رہی جو تحریک کا مابہ الامتیاز بھی تھی اور جس سے اونچے نتائج کی توقعات وابستہ کی گئی تھیں۔ جو بنیادی کام صبر کے ساتھ مسلسل کیے چلے جانا چاہیے تھا ان پر بھی اتنی متلاطم سیاست میں الجھنے سے اثر پڑنا لازم ہے۔ گزشتہ دو سال کے واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عوام ابھی بہت بنیادی قسم کی اصلاح وتربیت کے محتاج ہیں۔ عام افراد معاشرہ کو تقلید جامداور لیڈروں کے اندھے اتباع سے نکال کر خود سوچنے سمجھنے پر آمادہ کرنے اور جذباتی رسمی اسلام کی جگہ شعوری اسلام سے آراستہ کیے بغیرہم ان کی طرف سے اس سے مختلف رویے کی توقع نہیں کرسکتے جو انتخابات اور پھر حالیہ بحران میں سامنے آیا۔ اسلامی صفات حسنہ سے پہلے اور ان کی ضروری بنیادکے طور پر خود انسانی صفات پر زور دینے کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ یہ کام تعلیم، حفظان صحت، اور معاش سے متعلق دوسرے ضروری کاموں کے ساتھ اگر گاؤں اور محلہ کی سطح پر آپ کے کارکنوں کے ذریعہ انجام پائے تب شائد وہ ٹھوس عوامی base بن سکتا ہے جو کسی بڑی اور گہری تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکے۔“

آگے جماعت اسلامی پاکستان کی صورتحال اور اس کے تبدیل ہوتے رخ پر اپنا احساس درج کراتے ہوئے دنیا بھر کی اسلامی تحریکات پر ایک مختصر لیکن بہت ہی گہرا اور معنی خیز تبصرہ کرتے ہیں، اور پھر فکری محاذ پر توجہ دینے کا مشورہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مجھے یہاں (شکاگو) پاکستان کی تحریک سے وابستہ دوستوں کی اکثریت پر اب بھی سیاست ہی غالب نظر آئی، اس سے اور زیادہ توجہ اس بات کی طرف ہوئی کہ اپنی اسٹریٹجی میں بنیادی ترمیم کی ضرورت ہے، مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں پوری اسلامی دنیا میں اب کسی مشاہد کو تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں وہ امنگیں نہیں محسوس ہوتیں جو پندرہ برس پہلے تھیں۔ اپنے معاشرے کی کمزوریوں کا نئے سرے سے جائزہ لے کر مرض کی دوبارہ تشخیص کرنے اور علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے چند ماہ ہوئے ایک علمی ضرورت کے تحت آپ کی بعض بنیادی تصانیف بالخصوص سیاسی کشمکش حصہ سوم، تجدید واحیائے دین، اور تعلیمات وغیرہ کا مطالعہ پھر سے کیا تھا، میرا خیال ہے کہ وہ تجزیہ بڑی حد تک صحیح سمت میں تھا اور اسی سے میں یہ رائے اخذ کرتا ہوں کہ آج پاکستان میں تحریک کو یک گونہ کم سیاسی بناکر زیادہ مفید کام ہوسکتا ہے“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 54)

سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سید منور حسین کے نام

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے مجموعہ خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1987کے آس پا س کے زمانے میں جدہ قیام کے دوران آپ کی سید منور حسین صاحب سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان سے متعدد ملاقاتیں اور گفتگوئیں رہیں، ایک ملاقات میں ہوئی گفتگو کے حوالے سے ڈاکٹر صدیقی منور حسین صاحب کے نام اپنے مکتوب میں اسلامی انقلاب کے لیے سیاسی محاذ پر تبدیلی کی ضرورت سے متعلق ان کے موقف پر اپنے کچھ سوالات پیش کرتے ہیں، اس مکتوب سے جہاں منور حسین صاحب اور جماعت اسلامی پاکستان کے سیاسی رجحان اور اپروچ کا اندازہ ہوتا ہے وہیں ڈاکٹر صدیقی کی فکری اپروچ اور ان کے رجحان کا بھی پتہ چلتا ہے، لکھتے ہیں:

”آپ کی بعض باتوں نے سوچنے کی راہیں کھولی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ مراسلت کے ذریعہ تبادلہ خیال جاری رہے، جیسا کہ عرض کیا تھا کہ ہماری سوچ یہ رہی ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے دو محاذوں پر گہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے، فکری (ملاحظہ ہو تنقیحات کا مضمون نشان راہ اور رسالہ تعلیمات) اور اخلاقی (ملاحظہ ہو تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں نیز بناؤ بگاڑ)، آپ کی بات نے مجھے اس طرف متوجہ کیا کہ ایک محاذ سیاسی بھی ہے۔ دو سوال پیدا ہوتے ہیں، سیاسی محاذ سے ہمارا مفہوم کیا ہے، اور یہ کہ اس محاذ کی اہمیت مذکورہ بالا دو محاذوں کی نسبت سے کیا ہے۔ یہ کس درجہ پر ہے۔ ان دونوں کے ہم پلہ ہے یا ان کے مقابلے میں ثانوی، دوسرے درجہ کا محاذ۔ان سوالوں کے جواب دینے کے ساتھ ہمیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ انبیاء کے طریقہ انقلاب میں سیاست یا سیاسی محاذ پر کام کو کوئی مقام حاصل رہا ہے تو وہ کیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں اس کے نظائر کیا ہیں وغیرہ۔

ہماری آپ کی گفتگو تو کراچی کے فسادات یا پاکستان کے حالیہ واقعات کے محدود سیاق میں ہوئی تھی، لیکن مذکورہ بالا سوال ایک اور وجہ سے اہم ہوگیا ہے۔ اسلامی تحریکوں کی صفوں میں ایرانی انقلاب کے بعد مولانا مودودی کے فکر (بالخصوص طریقہ انقلاب کی نسبت سے) پر تنقیدیں بھی کی گئی ہیں اور اسے غیرحقیقت پسندانہ، غیرتاریخی اور خیالی قرار دیا گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا سوال کے جواب میں اس بحث میں بھی مدد ملے گی، اگرچہ اصلاً اس کے اٹھانے والوں کا منشا اسلامی طریقہ انقلاب میں طاقت کے استعمال کا مقام متعین کرنا ہے۔ عام طور پر سیاسی عمل حصول اقتدار کی کوشش pursuit of power ہے۔ اس تعریف کو سامنے رکھتے ہوئے اوپر کے سوالات کا جواب ضروری دیں۔ مولانا مودودی نے پاکستان آکر جو طریقے اختیار کیے یا جو ان کی مرضی سے جماعت اسلامی نے اختیار کیے، اسے اسلامی حکمت عملی کا نام دیا گیا، جو یقینا فکری اور اخلاقی محاذوں پر ایک اضافہ ہے۔ ہماری آپ کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ سیاسی محاذ یا سیاسی عمل اور اس حکمت عملی میں اگر فرق ہو تو واضح کریں، نہ ہو تو دونوں کو ایک قرار دینے کی دلیل دیں۔“(حوالہ سابق، صفحہ: 215-216)

 مسلم تاریخ کا مطالعہ اور اسلامی موقف کی تعیین

عموماً اسلامیات اور مسلم تاریخ کا مطالعہ کرنے والے یا اس پر لکھنے والے مصنفین مسلم تاریخ اور اسلامی موقف کے درمیان فرق نہیں کرپاتے، چنانچہ تاریخی غلطیوں کی تاویل کا ایک سلسلہ چل پڑتا ہے اور اسے اسلامی موقف ثابت کرنے یا کم از کم اسلامی موقف سے غیرمتصادم ثابت کرنے پر سارا زور لگادیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس سلسلہ میں بہت ہی واضح موقف رکھتے تھے، وہ اسلامی موقف کی تعیین یا اسلام کے فہم کے سلسلہ میں تاریخ کو حوالہ بنانے کے بالکل بھی روادار نہ تھے، چنانچہ ابونصر محمد خالدی کے ایک خط کے جواب میں بہت صاف طور پر لکھتے ہیں:

”آپ کے یہاں ایک خاص بات نظرآتی ہے جس سے اتفاق مشکل ہے، مسلمانوں کی تاریخ کو اسلام کے فہم کا ذریعہ بنانا، بلکہ اس پر قاضی اور حاکم بنانا، کس طرح صحیح ہوسکتا ہے۔ ملوکی ہو یا جمہوری، آمری ہو یا متغلبانہ، ہر حکومت مرضی ئ الٰہی کے مطابق ہرگز نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ وہ حکومت مرضی ئ الٰہی کے مطابق ہے جو (۱) امرہم شوری بینہم (۲)اذا تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ ورسولہ (۳) ما آتاکم منہ فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا، نیز ماکان لمومن ولا لمومنة اذا قضی اللہ ورسولہ امرا أن یکون لہم الخیرۃ من أمرہم، کے مطابق قائم ہو، اور اس کے مطابق حکمرانی کرے۔ خلافت کا انعقاد بھی شورائی ہو اور وہ چلے بھی انہی بنیادوں پر۔ اللہ کی کتاب اور رسول خدا کی سنت تاریخ پر قاضی ہے۔ اسی کی روشنی میں مسلمانوں کی تاریخ کو evaluate کرنا اور اس میں اسلامی اور غیراسلامی رجحانات واعمال اور اداروں کی نشاندہی کی جانی چاہیے، نہ کہ اس کے برعکس۔ میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ تاریخ کے مطالعہ کا ایک بڑا حاصل حقیقت پسندی realismکا پیدا ہونا ہے، جو idealism میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اس سے آگے بڑھنے کو قرآن وسنت سے کوئی ”سلطان“ نہیں حاصل ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 82)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ابونصر محمد خالدی کے نام ایک دوسرے مکتوب میں مطالعہ تاریخ سے متعلق اپنا ذاتی موقف کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

”تاریخ اسلام سے میری دلچسپی سراسر حال کے لیے سبق حاصل کرنے اور درپیش مسائل میں رہنمائی حاصل کرنے کی حد تک ہے، علمی اور اکیڈمک دلچسپی بالکل نہیں ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 93)

اجتہاد اور  ازسرنو غوروفکر کی ضرورت

اسلامی تاریخ کے مطالعہ پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں بنیادی اور کلی ہدایات کو سامنے رکھتے ہوئے دورجدید کے پیداکردہ مسائل پر ازسرنو غوروفکر کے عمل کو آگے بڑھانا ہے، قانون کے میدان میں کام کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے بھی اجتہاد اور مختلف علوم اور مختلف مسائل پر ازسرنو غوروفکر کی طرف توجہ دلاتے ہیں، میکانکل ریسرچ یا محض تشریح، تفسیر اور تہذیب وتنقیح کے کام کے بجائے بامقصد ریسرچ پر زور دیتے ہیں۔ خاص طور پر موجودہ حالات کے تناظر میں ڈاکٹر صدیقی کے اس موقف کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے جبکہ ہماری یونیورسٹیز میں میکانکل ریسرچ کا رواج بڑھتا جارہا ہے، ڈاکٹر صدیقی کا ذیل کا اقتباس پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:

”اسلامی تاریخ کا ان شاء اللہ تفصیلی مطالعہ ہوگا، اور واقعہ یہ ہے کہ جاری ہے۔ معاشی امور اور عام اجتماعی مسائل کے سلسلہ میں خاص توجہ رہے گی، لیکن دور جدید نے ہمارے لیے جو مسائل پیدا کردیے ہیں ان کے ضمن میں مجھے اس طرف سے بہت زیادہ رہنمائی یا inspiration کی امید نہیں ہے۔ حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ بنیادی اور کلی ہدایات کو سامنے رکھ کر ایک دم نئے سرے سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ مجھے قانون کے میدان میں کام کی اہمیت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ یہ بات وسیع معنی میں کہہ رہا ہوں، جس کے تحت معاشی وسیاسی زندگی کے مروجہ اداروں اور ہیئتوں کی اسلامی تشکیل نو کا کام آجاتا ہے۔ جن لوگوں کو ہم متجددین یا اسلام کو حالات کے مطابق ڈھالنے والے کہہ کر رد کردیتے ہیں وہ دراصل ایک حقیقی دباؤ اور ایک واقعی challengeکا جواب ہیں۔ ان کو رد کرکے ہم اس دباؤ اور چیلنج کو نہیں دفن کرسکتے۔ وہ اپنی جگہ پر ہے۔ اس کا ہماری طرف سے صحیح اقدام اور جواب کی شکل میں ردعمل نہ ہوا تو نتائج اسلام کے لیے بہت تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے میں mechanical research، اپنے مآخذ کی تشریح وتفسیر اور تہذیب وتنقیح سے زیادہ اہم، ہر اس کام کو سمجھتا ہوں جس کا اس اجتہاد سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہو، جس کے ذریعہ ہی اس وقت اسلام کا واقعی احیاء ونفاذ ممکن ہے، البتہ یہ کام بھی جاری رہنے چاہئیں“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 83)

انتہاپسندانہ رجحانات اور اسلامی تحریکات

جدید دور کی اسلامی تحریکات کے سامنے ایک بڑا چیلنج انتہاپسندانہ رجحانات کا بھی ہے، یہ رجحانات کس طرح فروغ پاتے ہیں، ان کا پس منظر کیا ہے اور ان کی بنیاد کیا ہوتی ہے، اسلامی تحریکات کا عموماً ان کے تعلق سے کیا رویہ ہوتا ہے، اور نئے عالمی نظام میں ان رجحانات کے لیے عملاً کہاں تک گنجائش موجود ہے، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس پر بہت ہی مختصر لیکن فکرانگیز گفتگو کی ہے۔

ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی امریکہ میں مقیم ایک بڑے اسلامی اسکالر ہیں، اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا کے تاسیسی صدر رہے، لیکن 1981میں امریکہ منتقل ہونے کے بعد ان کا اس تنظیم سے کوئی تعلق باقی نہیں رہ گیا۔ آپ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے بھتیجے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی مرحوم احمداللہ صاحب کے نام اپنے خط مورخہ 12 اپریل 1995 میں لکھتے ہیں: 

”بہت سی باتیں سوچنے کی ہیں۔ اس وقت دو اشوز پر loud thinking کرنا چاہتا ہوں۔ اسلامک موومنٹس جو1930سے 1940 میں شروع ہوئیں (اخوان، جماعت اور ان جیسی دوسری تحریکیں جو بالآخر اقتدار اسلامیین کے ہاتھوں میں لانے کو اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ضروری سمجھتے تھے) ایک ایسے حال میں ہیں کہ کسی progress کی امید نہیں رہی۔ اس کی تفصیل بعد میں۔ دوسری بات یہ کہ ان کے بطن سے بعض ایسے گروہ پیدا ہوگئے جو اسلام اور مسلمانوں کے لیے liability بن چکے ہیں۔ یہ کھل کر ان کو condemnنہیں کرتے، بلکہ ان کے فالوورس میں ان گروہوں کے لیے کافی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ یہ گروہ طاقت کے استعمال کے ذریعہ مقاصد حاصل کرنے کے قائل ہیں۔ دوسروں کے لیے ان میں کوئی tolerance نہیں۔ زیادہ تر ہر مسئلہ میں شدت والی راہ اختیار کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے صدی کی ابتدا میں اٹھنے والی تحریکیں اس مفروضے پر چلی تھیں کہ اپنے ملک کی غالب اکثریت کو ساتھ لے لیا جائے تو مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔ گلوبلائزیشن نے اس مفروضے کو ختم کردیا، جب تک world opinion کو ساتھ نہ لیا جاسکے کسی جگہ مقصد نہیں حاصل ہوسکتا۔ خاص کر dependent ملکوں میں کوئی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں بناسکتا، نہ economically نہ culturally۔ اپنے مقاصد کے ایسے interpretationکی ضرورت ہے جو اتصالات اور معلومات میں انقلاب کو اور انسانوں کے بدلے ہوئے حوصلوں کو سمجھ کر کیا گیا ہو۔ possiblities کی طرف سے غافل ہوکر priorities مقرر کرنا لاحاصل ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 289)

جہاد وقتال سے متعلق غیرمعتدل رویوں کی نشاندہی

برصغیر کی تحریکات اسلامی میں جہاد سے متعلق عموماً تین نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں، ایک مولانا مودودی کا، دوسرا ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کا اور تیسرا مولانا عبدالعلیم اصلاحی کا۔

ڈاکٹر صدیقی مولانا مودودی علیہ الرحمہ اور مولانا عبدالعلیم اصلاحی علیہ الرحمہ کی تعبیراتِ جہاد سے بالکل بھی متفق نہ تھے۔ ڈاکٹرصدیقی کا موقف تقریباً وہی تھا جو ڈاکٹر محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی ”جہاد اور روح جہاد“ اور ”جہاد اور آیات جہاد“ میں بیان کیا گیا ہے، اور علامہ یوسف القرضاوی نے بہت ہی تفسیل کے ساتھ ”فقہ الجہاد“ میں پیش کیا ہے، چنانچہ آپ اس موضوع پر ڈاکٹر سبحانی اور علامہ قرضاوی کی کتابوں کوبہت ہی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

مولانا عبدالعلیم اصلاحی صاحب مرحوم ایک عرصہ تک جماعت اسلامی ہند کے رکن اور جماعت کی مرکزی مجلس نمائندگان کے ممبر رہے، مولانا اصلاحی جہاد کے سلسلہ میں بہت سخت موقف رکھتے تھے، اور کئی پہلووں سے جہاد پر آپ کا موقف مولانا مودودی کے موقف کے مقابلے میں بہت سخت اور آگے کا تھا، آپ نے اس موضوع پر متعدد کتابیں تصنیف فرمائیں جو طلبہ اور نوجوانوں کے ایک مخصوص گروہ کے درمیان ایک زمانے میں کافی مقبول بھی ہوئیں، ڈاکٹر صدیقی اپنے ایک مکتوب میں مولانا عبدالعلیم اصلاحی مرحوم کی جہاد سے متعلق کتاب کے سلسلہ میں کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

”مولانا عبدالعلیم اصلاحی نے اپنی ایک تازہ کتاب بھجوائی ہے، جہاد پر۔ پوری دنیا میں کسی کافر حکومت کا وجود برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ان پر حملہ کرکے ان کو ہٹانا ہے۔ جہاد کے لیے امیرالمومنین کا ہونا ضروری نہیں کہ اسٹیٹ ہی فیصلہ کرے، چھوٹے مسلمان گروہ ایسے حالات میں جیسے کہ آج کل ہیں، اپنے کو جہاد کے لیے آرگنائز کرسکتے ہیں، بلکہ واجب ہے کہ کریں۔ مکی دور اب irrelivant ہے۔“

آگے اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”سوچنے کی دوباتیں ہیں: (۱) جدید دنیا میں طاقت کے استعمال کی جو limitationsہیں، خاص طور پر چھوٹے گروہوں کے لیے، اور اس پروسیس کو خفیہ طور پر ملکی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کرنے کے جو implications ہیں ان سے ہمارے یہ لکھنے والے کیوں اتنے غافل ہیں۔ (۲) دین کے تقاضوں، واجبات کو کتابوں اور زیادہ تر individual historical precedents کی اپنی مخصوص تعبیر کی بنیاد پر متعین کرنا، اس کے علی الرغم کہ اس کے عملی زندگی میں کیا نتائج مرتب ہوں گے، یہ طریقہ فکر ہمیں کہاں لے جارہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان باتوں سے چشم پوشی کرتے رہنے نے ہمیں brinkپر پہنچا دیا ہے، we must do something۔“ (حوالہ سابق، صفحہ 290)

ڈاکٹر احمد اللہ صدیقی کے نام ایک اور خط میں اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہ بات کہ اس وقت تک جہاد، قتال کرنا ہے جب تک کافر حکومت کہیں بھی ہو اور اسے نص قرآنی ”حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ“سے مستنبط کرنا غور طلب ہے۔ جن ملکوں میں ڈیموکریسی اور آزادیئ مذہب ہے (پوری مغربی دنیا) ان پر منطبق کیجیے، تو ہماری اب تک کی تعبیر absurdمعلوم ہوتی ہے۔ یہاں کوئی بادشاہ یا سردار قبیلہ نہیں، جو انکار کردے تو اس کو لڑکر ہٹادینا عام لوگوں کو دعوت یا ان کو قبول دعوت کا موقع فراہم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ عوام کو دعوت کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ عوام دعوت قبول کرلیں تو حکومت بدلنے کا راستہ کھلا ہوا ہے، پھر لڑائی کیوں اور کس سے؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں، ہماری زندگیاں اور ہمارے بہت سے interpretationلوگوں کے قبول اسلام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ رہی یہ بات کہ اگر عوام کسی ملک کے دعوت نہ قبول کریں تو پھر لڑ کر وہاں اسلامی حکومت قائم کرنی ضروری ہے، تو یہ بھی صحیح نہیں ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 290-291)

عصر حاضر میں دین کی دعوت

جدید دنیا میں دعوت دین کا طریقہ کار اور منہاج کیا ہوگا، اور اس سلسلہ میں کون کون سے اسلوب اختیار کیے جاسکتے ہیں، یہ ایک تفصیلی بحث ہے، جس پر مختلف مصنفین اور داعیوں نے اپنے اپنے تجربات، مطالعات اور مشاہدات کی روشنی میں مختلف پہلووں سے گفتگو کی ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے جماعت اسلامی کیرلا کے سابق امیرمرحوم کے سی عبداللہ صاحب کے ایک مقالہ بعنوان ”غیرمسلموں میں براہ راست دعوت“ پر تبصرہ کرتے ہوئے اس سلسلہ میں دونکات پیش کیے ہیں، پہلا نکتہ اسلوب دعوت سے متعلق ہے اور دوسرا نکتہ دعوت اوراس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں سے متعلق ہے، اسلوب دعوت سے متعلق لکھتے ہیں:

”عصر حاضر کے مزاج کو سمجھ کر ہم نے دنیوی مسائل کے حل کو بھی آخرت کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بنایا اور اس میں کوئی قباحت نہیں معلوم ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ”میری اطاعت کرو“ صرف نبی مرسل کی دعوت کی شان ہوتی ہے، ہم اس کی نقل نہیں کرسکتے۔ اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ’دعوت کیسے دی جائے‘ کے جواب صرف کتابوں میں تلاش کرنے کے بجائے مخاطب فرد اور قوم اور دنیا کو دیکھ سمجھ کر طے کرنا چاہیے اور ماضی کے دعوتی تجربوں سے بھی سیکھنا چاہیے۔“ 

 آگے دعوت دین اور اس کے ردعمل میں ممکنہ آزمائشوں کے سلسلہ میں لکھتے ہیں:

”واقعہ یہ ہے کہ نہ تو مخالفت کی شدت اس بات کی دلیل ہے کہ دعوت ٹھیک طرح دی جارہی ہے، نہ مخالفت نہ ہونے سے لازماً یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ دعوت ٹھیک طرح نہیں دی جارہی ہے۔ حق وباطل اور حکمت اور خلاف حکمت انداز کے معیار قرآن وسنت، تاریخ اور آج کے عملی تجربے سے اخذ کیے جانے چاہئیں۔ میرے خیال میں ان میں سے کوئی بات شدت مخالفت کو معیار حق اور حکمت دعوت کی کسوٹی بنانے کی تائید نہیں کرتی“۔ (حوالہ سابق، صفحہ 286-287)

حقیقت پسندی کی طرف دعوت

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مرحوم ڈاکٹر صدیقی کے دیرینہ رفیق تھے، آپ ثانوی درسگاہ رام پور کے مایہ ناز فارغین میں شمار ہوتے تھے،آپ جماعت اسلامی ہند کی مرکزی مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوری کے ایک مؤثر رکن تھے، ڈاکٹر فریدی ایک عرصے تک ماہنامہ زندگی نو کے مدیر رہے، اس دوران ڈاکٹر صدیقی سے وہ مختلف فکری اور نظریاتی امور ومسائل پر رائے مشورہ لیتے رہا کرتے تھے۔

ڈاکٹرفریدی مرحوم کے نام ایک خط میں بدلتے ملکی وعالمی منظرنامے کے تناظر میں جماعت اسلامی ہند کی پالیسی وپروگرام میں ترجیحات کے تعین کے مسئلہ پر دوٹوک الفاظ میں لکھتے ہیں:

”میں سمجھتا ہوں کہ حالات اتنی تیزی سے بدل رہے ہیں کہ اگر تحریک نے بھی اپنے اولویات (priorities) درست نہ کیں اور اہم تر کاموں کو مرکز توجہ نہ بنایا تو بالکل ناقابل اعتناء اور Irrelevent ہوکر رہ جائے گی“۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جذباتی اپروچ اور جذباتی اپیل والے اسلوب کے سخت ناقد تھے، چنانچہ ڈاکٹر فریدی کے نام ایک خط میں جذباتی اپیل کے بعض مروجہ طریقوں کی نشاندہی کرتے ہوئے حقیقت پسندی اور موجود کے سچے اعتراف والی اپروچ اختیار کرنے کی دعوت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”بعض جذباتی اپیل کے طریقے اس صدی کے شروع سے ایسے استعمال کیے جارہے ہیں کہ جن کا شروع میں فائدہ تھا، مگر اب منفی اثر ہوتا ہے، وہ آپ کی تحریر میں اب بھی پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں اپنی بڑائی اور بہتری دوسروں سے زیادہ صالح، لائق، ہوش مند، دردمند ہونے کا احساس، اس کی توثیق اور اس احساس برتری کو مزید راسخ کرکے اس کی بنیاد پر اپیل، لہٰذا تم ہی انسانیت کو بربادی سے بچاسکتے ہو، مہربانی کرکے آگے بڑھو۔ عملاً اس طرح سے آگے تو کوئی نہیں بڑھتا، البتہ نفس موٹا ہوتا ہے، احساس برتری کی افیون عملی دنیا کی ذلت، کمزوری، لاچاری، خودکردار کی کمزوری اور اخلاقی زوال سے چشم پوشی میں مددگار ہوتی ہے اور بس۔

اس کے بجائے حقیقت واقع کی بنیاد پر مسلمانوں کو ان کی موجودہ صورتحال، مادی اور اخلاقی پستی کا خطرناک سطح تک پہنچ جانا، دکھلانے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھانے کی کہ اسلام کی دعوت اور خود اسلامی زندگی گزارنے والوں کے لیے اس حالت کو بدلنا ضروری ہے۔

دوسروں کی مظلومیت، کرپشن، اخلاقی زوال وغیرہ پر بھی بعض اوقات تبصرہ اس طرح آتا ہے کہ پڑھنے والا یہ بھول جاتا ہے کہ اپنوں میں بھی یہ مرض عام ہے، اس سے بھی بالواسطہ صرف مسلمانوں کی اَنا کی تشفی ہوتی ہے، قوت عمل میں اضافہ نہیں ہوتا۔“  (حوالہ سابق، صفحہ: 278-279)

علم وتحقیق کے کام میں معروضیت

علمی اور تحقیقی کاموں میں بھی ڈاکٹر صدیقی معروضیت، حقیقت پسندی اور موجود کے صحیح صحیح اعتراف پر زور دیا کرتے تھے، ڈاکٹر طاہر بیگ صاحب سابق اسسٹنٹ پروفیسر ملیشیا یونیورسٹی نے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خدمت میں مسلمان ملکوں کے درمیان تجارتی تعاون کے موضوع پر ایک مقالہ بغرض اصلاح ارسال کیا تھا، ڈاکٹر صدیقی اس مقالے پر قدرے تفصیلی نوٹس چڑھانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”آخر میں میرا اجمالی تأثر یہ ہے کہ یہ پورا مقالہ ایک ایسے جذباتی ریسرچ کی عکاسی کرتا ہے (اور اس موضوع پر شائع شدہ دوسرے مقالے اور کتابیں بھی اس میں شریک ہیں) جو انیسویں صدی کے آخر، بیسیوں صدی کے ابتدائی نصف کی اسلامی اور Pan Islamic تحریکوں کی پیداوار تھا، جس کے قدم حقائق وواقعات میں کم، خواہشات اور تمناؤں میں زیادہ راسخ تھے۔ گزشتہ چند برسوں میں نہ صرف دنیا کی بلکہ اسلامی حلقوں کی حالت کافی بدل چکی ہے، اور گزشتہ رجحانات وخیالات پر نظرثانی کی ضرورت ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 241-242)

ہندوستانی مصنف حفظ الرب صاحب کی کتاب ”نظام سرمایہ داری اور اسلامی معاشیات“ کے حوالے سے مصنف کے نام ڈاکٹر صدیقی کے مکتوب میں بھی یہ اپروچ بہت واضح طور پر نظر آتی ہے، کئی پہلووں پر توجہ دلانے کے بعد آخر میں لکھتے ہیں:

”آپ کا یہ دعوی کہ صرف سود کے خاتمہ اور زکوۃ کے نفاذ سے ہمارے معاشی مسائل حل ہوکر عدل وانصاف ہی نہیں ترقی وخوش حالی کی ضمانت حاصل ہوجائے گی، درست نہیں ہے۔ افسوس کہ آپ نے دورجدید میں ان مسائل پر اسلامی معاشیات دانوں کی تحریریں بھی نہیں دیکھی ہیں کہ معتدل رائے قائم کرسکیں۔ موجودہ دنیا کے معاشی اور مالی مسائل بہت پیچیدہ ہیں، ان کا تفصیلی تجزیہ درکار ہے۔ بے شک سود کا خاتمہ اور زکوۃ کا نفاذ ان مسائل کے حل کے لازمی ارکان ہیں لیکن یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اور کیا کرنا ہے۔ رہے ہندوستانی مسلمان، اور مسلمان ممالک کے مسلمان تو ان کا اصل مسئلہ پسماندگی ہے۔ ان کے کرنے کا پہلا کام ہنر سیکھنا، محنت کرنا، ایجاد واختراع، ترقی اور معاشی قوت کا حصول، اور بالآخر دنیا میں اپنی موجودہ کمزوری، لاچاری اور کسمپرسی کی حالت جو ان کو بھیک مانگنے اور دوسروں کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور کرتی رہتی ہے، سے نکل کر عزت نفس کے ساتھ خودکفیل بلکہ دوسروں کو دینے والے بننے کی کوشش کرنا ہے“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 139-140)

خواتین سے متعلق صحیح علمی اپروچ

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے خطوط میں ایک خط مولانا سلطان احمد اصلاحی مرحوم کے نام بھی ملتا ہے۔ مولانا سلطان احمد اصلاحی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ایک عرصے تک ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی علی گڑھ سے وابستہ رہے، ’اسلام کا نظریہ جنس‘ سلطان اصلاحی مرحوم کی معروف تصنیف ہے۔ مولانا سلطان اصلاحی کے نام اپنے ایک مکتوب میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم اس کتاب پر اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے متعدد اہم امور کی طرف توجہ دلاتے ہیں، جس میں ایک اہم مسئلہ خواتین سے متعلق موقف اور اپروچ کا بھی ہے، لکھتے ہیں:

”کتاب کا لہجہ بدلنا ضروری ہے۔ ہمارے مصنفین نے ابھی تک جو ادب اسلام اور عورت کے عنوان سے پیش کیا ہے اس سے پڑھنے والا یہ تأثر قائم کرتا ہے کہ خدائے تعالی نے دنیا مردوں کے لیے بنائی ہے۔ رہیں عورتیں تو وہ بھی مردوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ مگر کتاب اللہ صاف کہتی ہے کہ تکلیف شرعی مرد کی طرح عورت کے لیے بھی ہے۔ قیامت میں وہ اکیلی مستقل بالذات جواب دہ ہوگی اور وہ خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم أحسن عملاً میں مرد کی طرح برابر کی مخاطب ہے۔

افسوس یہ ہے کہ آپ کی تحریر اس تأثر کو کم نہیں کرتی بلکہ اسی مزاج میں بہتی نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مخاطب مرد ہیں۔ رہی مسلمان عورت تو اس کا ذکر اس طور پر تو آتا ہے کہ اس سے کس طرح مسلمان مرد لطف اندوز ہو مگر اس کے آگے اس سے تخاطب مفقود ہے، کیوں؟ اللہ تعالی نے تو ”وانتم لباس لہن“ کہہ کر بات پوری کی ہے۔

صفحہ 74 پر ایک آدھ جگہ انسان کا لفظ استعمال ہوا، مگر یہاں بھی سیاق سے انسان کے معنی مرد ہی کے بنتے ہیں۔ ضرورت اس کی تھی کہ آپ مسلمان عورت سے مخاطب ہوتے اور بتاتے کہ وہ اس مودۃ اور رحمۃ کو کیسے حاصل کرسکتی ہے اور کیسے دے سکتی ہے، جس کا قرآن سورہ 30 آیت 21 میں ذکر ہے۔

سچی بات یہ ہے کہ پچھلی صدی یا اس صدی کے شروع تک مسلما ن علماء جب کتاب لکھتے تھے تو غیرشعوری مفروضہ یہ ہوتا تھا کہ اسے پڑھنے والے صرف مرد ہوں گے۔ مسلمان عورتیں یا تو ناخواندہ ہوتی تھیں یا علمی کتب ان کی دسترس سے باہر تھیں۔ بیسویں صدی کے آخر میں یہ صورتحال نہیں رہی۔ مزیدبرآں اب آپ کی کتاب مغرب کی وہ خواتین بھی پڑھیں گی جن کو اپنی اس رائے کے حق میں دلیل چاہیے کہ اسلام عورت کو برابر کے انسان کا درجہ نہیں دیتا“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 157-158)

مغربی معاشرت پر تنقید میں توازن

امریکہ، یوروپ اور مغربی تہذیب ومعاشرت پر تنقید اردو مصنفین کا پسندیدہ موضوع رہا ہے، اس موضوع پر قلم اٹھانے والے اکثر افراد یا تو ثانوی حوالوں پر اعتماد کرتے ہیں یا پھر سنی سنائی باتوں کو اپنی تحریروں کا حصہ بنالیتے ہیں، چنانچہ یہ تنقیدیں اپنے اندر کئی قسم کی کمزوریاں رکھتی ہیں، ان تحریروں میں حقیقت پسندانہ تجزیہ نہیں ہوتا، معروضیت نہیں پائی جاتی، اکیڈمک معیارات پر پوری نہیں اترتیں اور پھر ان سے ایک قسم کا منفی رجحان پروان چڑھتا ہے جو بہرحال کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہوتا۔ مولانا سلطان اصلاحی مرحوم کے نام مذکور بالا مکتوب کے آخر میں ڈاکٹر صدیقی امریکہ اور مغربی دنیا کے طرز معاشرت پر تنقید کے سلسلہ میں توازن اور معروضیت اختیار کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”آپ کا پورا باب اوّل غیرمتوازن ہے۔ اس باب کی سرے سے ضرورت ہی نہیں۔ اسلام کی تعلیمات متعلقہ جنس کے بیان کے لیے مغرب اور امریکہ کی بے راہ روی سے آغاز کیوں ضروری ہے؟ جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا اس سے امریکہ کی زندگی کا یک طرفہ غیرمتوازن نقشہ سامنے آتا ہے جس سے ان لوگوں کی نظر میں تحریر کا وقار گرتا ہے جو توازن کے ساتھ رائے قائم کرتے ہیں۔ اس طرح کی تحریروں کا گزشتہ دنوں زوال کے شکار مسلمانوں کی اَنا کی تسکین مقصد رہا ہے۔ اس سے وہ اپنی خرابیاں اور کمزوریاں بھول جاتے ہیں اور جن کے قدموں کے نیچے پامال ہورہے ہیں ان کو گمراہ اور تباہی کے گڈھے کی طرف تیزی سے بڑھنے والا یقین کرکے تھوڑی تسلی ہوجاتی ہے۔ اس طرح کی تحریروں کا کوئی ایجابی عمل موضوع زیربحث میں سمجھ میں نہیں آتا“۔ (حوالہ سابق، صفحہ: 159)

(جاری)


مولانا گیلانی اورشیخ اکبر ابن عربی (۳)

مولانا طلحہ نعمت ندوی

مولانا کے بقول شیخ نے اپنی کتابوں میں جن کلی امور پرسیر حاصل بحثیں فرمائی ہیں، ان میں علم کا مسئلہ بھی ہے، جس کی تعبیر موجودہ اصطلاح میں تھیوری آف نالج (Theory of Knowledge) کے الفاظ سے کی جاتی ہے، یعنی دین سے بغاوت کا وہ حصہ جو علم کے جھوٹے دعویٰ پر مبنی ہے، شیخ لوگوں کو یہ بتاناچاہتے ہیں کہ خود اس علم اور دانش کی کیاحقیقت ہے، ہم یہ جانتے ہیں، وہ جانتے ہیں، اور اپنے اسی جاننے کی بنیاد پر نہ سوچنے والوں کے قلوب میں دین کا جو احتقار پیدا ہوتا ہے، شیخ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم نے کبھی اس پر بھی غور کیا کہ خود یہ جاننا کیا چیز ہے، اور تمہارے اس جاننے کی رسائی کا آخری نقطہ کیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ آدمی پر جب’’ اپنی دانش‘‘کی اصلی حقیقت کھل جاتی ہے تو وہ سارا نشہ کرکرا ہو جاتا ہے، جس کے شکار عموماً وہی لوگ ہو جاتے ہیں، جو تھوڑا بہت لکھنے پڑھنے کے بعد ہر چیز کی تنقید اپنے علم کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں، لیکن علم و جہل کے سلسلہ میں آدمی کا جو صحیح مقام ہے، جب وہ اس پر واضح ہو جاتا ہے، تب سمجھ میں آتا ہے کہ:

معلومم شد کہ ہیچ معلوم نہ شد

اس مسئلہ کو شیخ نے فتوحات مکیہ وفصوص الحکم وغیرہ میں مختلف اسالیب میں ادا کیا ہے، سب کو اگر جمع کیا جائے، تو محض اس ایک مسئلہ کے متعلق ان کے خیالات و نظریات ہزار ڈیڑھ ہزار صفحات کی گنجائش سے کم میں نہ آئیں گے، ’’ خصوصاً شیخ کا ایک خاص طریقہ ہے، وہ اپنے مسودہ پر نظر ثانی نہیں کرتے، اور قلم اٹھا کر لکھتے چلے جاتے ہیں، اس لئے کہیں کہیں اس کا شبہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے کلام میں تضاد ہے ‘‘، ضرورت ہے کہ تسلسل کے ساتھ ان کے کلام کے مختلف اجزاء کو ایک خاص ترتیب کی شکل میں ترتیب دیا جائے، مولانا اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ ’’اس تدبیر سے ان کے کلام میں بہ ظاہر جوتضاد محسوس ہوتا ہےعموماً وہ دور ہوجاتا ہے‘‘۔ 1

انہوں نے شیخ کےکلام کی تفہیم کے اور بھی طریقے بتا ئے ہیں، اور پھر فصوص الحکم کی عبارات واقتباسات کی روشنی میں شیخ کے اس نظریہ پر روشنی ڈالی ہے۔ اور اخیر میں ثابت کیا ہے کہ عام طور پر اہل مغرب نے حواس ہی کو ذریعۂ علم تسلیم کیا ہے، لیکن شیخ نے وضاحت کی ہے کہ ان حواس کے علاوہ بھی وحی کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعہ علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ شیخ کا خیال ہے کہ ان صفات کے پیچھے محض حواس اور عقل کے زور سے کسی ذات کا ثابت کرنا قطعاً نا ممکن ہے، وہ مدعی ہیں کہ مادہ ہی نہیں، بلکہ ان صفات کے پیچھے جن کا مشاہدہ ہمارے حواس اس عالم کی شکل میں کر رہے ہیں، کسی خدا کی ذات کو بھی محض حواس و عقل کے زور سے ثابت کرنے کی کوشش ایک ایسی کوشش ہے جو کبھی کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکتی، ان کا مشہور فقرہ ہے کہ: ’’ خدا کو عقل یعنی فکر ونظر کی راہ سے جس نے ڈھونڈھا وہ سر گشتہ اور سر ا سیمہ ہو کر رہ گیا‘‘۔ دوسرے الفاظ میں اسی خیال کو یوں ادا کرتے ہیں: ’’عقل اس حیثیت سے کہ وہ نظر و فکر، بحث و تلاش کا کام کرتی ہے، خدا کو جان نہیں سکتی‘‘۔ 2 انہوں نے اخیر میں اپنی کتاب الدین القیم کا حوالہ دیا ہے، الدین القیم میں انہوں اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اور ابن عربی کے حوالہ سے تفصیل سے لکھا ہے۔

انہوں نے ایسے وقت میں ابن عربی پر کام کا آغاز کیا جب وہ ضعیفی کے مرحلہ میں پہنچ کر اپنے وطن میں گوشہ گیر ہوچکے تھے، اس کا ایک حصہ لکھنے کے دوران ہی بیماری نے طول پکڑا، انہوں نے ابن عربی کے علمی پس منظر کے طور پر ان کے مولد ومنشا اندلس کے حالات تفصیل سے لکھے، دارالمصنفین سے ان انہوں نے اس کے لئے کتابیں بھی منگوائی تھیں جو افسوس کہ رکھی رہ گئیں، اورسید صباح الدین عبدالرحمن صاحب کے ہاتھ واپس کردی گئیں، صباح الدین صاحب نے لکھا ہےکہ جب مولانانے ریٹائر ہوکر گیلا نی میں آ کر قیام فرمایا تو ان کا قلم اور بھی جوان ہو گیاتھا، وہ حضرت شیخ محی الدین بن عربی سے بہت متاثر تھے اور ان کے کارناموں کو تفصیل کے ساتھ لکھنا چاہتے تھے۔ مولانا نے لکھاہے:

’’سچی بات تو یہ ہے کہ ان کے کلام کے سمجھنے اور اس سے استفادہ کے لیے ایمان قوی اور نظر سلیم کے ساتھ ضرورت ہے کہ علم میں وسعت ہو، محدود معلومات والے تنگ نظر لوگوں کے لیے بسا اوقات ان کی باتیں نقصان رساں ہو جاتی ہیں لیکن یہ ان کے کلام کا نہیں بلکہ پڑھنے والوں کا نقصان ہے‘‘۔ 3

ان میں یہ تمام شرائط موجود تھے، اس لیے شیخ اکبر کو ان سے بہتراور کون سمجھ سکتا تھا، لیکن اس کام کو شروع کرنے سے پہلے وہ دوسرے کاموں میں مشغول ہوگئے۔ 4

   صباح الدین صاحب نے لکھا ہے کہ ایک بار وطن گیا تو ان کے یہاں جاکر ملاقات کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ ان کا خط ملا:

’’عزیر محترم..................5 السلام علیکم ورحمة الله و برکاتہ، اتنے طویل المدت مریض کے متعلق یہ واقعہ ہے کہ مر جانے یا تندرست ہوجانے کا فیصلہ قدرتی ہے، لیکن کیا کیجئے، آپ کا یہ درویش اسمی بہ مناظر احسن گیلانی نہ اب تک مرا ہے اور نہ اچھے ہونے کی بشارت سنا سکتا ہے، اسی حال میں مگن ہے جس میں رکھا گیا ہے، کل شاہ صاحب6 قبلہ کا نوازش نامہ ملا، جس میں آپ کے دیسنہ پہنچنے کی خبر درج تھی، دارالمصنفین کی جو امانت ہمارے پاس محفوظ ہے اس کو آپ کے حوالہ کردینا چاہتا ہوں، کیونکہ اب شیخ ابن عربی پر کچھ لکھوں تو ضرورت ہے کہ دوسری دفعہ پیدا کیا جاؤں، اب فرمایئے کہ اس کے لیے کیا کروں؟ کیا دیسنہ ان کتابوں کو کسی کی معرفت بھیج دوں مگر آپ کی ملاقات سے محروی معمولی محرومی نہ ہوگی، بہر حال جورائے عالی7 ہو، اس سے مطلع فرمائیں، ڈاک سے اس لیے بھیج رہا ہوں کہ زمینداری ختم ہونے کے بعداب چھٹی چپاتی کی کوئی راه ڈاک کے سوا باقی نہیں رہتی ............ ‘‘۔ 8

مولانا نے کتاب کا آغاز جس مضمون سے کیا وہ شیخ اکبر کے وطن اندلس کے بارے میں تھا، تین قسطوں میں معارف میں ان کا یہ مضمون ’’مسلمانوں کا اندلس خود ان کی نگاہ میں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ 9 اس کی تمہید میں وہ لکھتے ہیں:

’’مشہور اندلسی کہئے یایورپین صوفی شیخ محی الدین عربی پڑھے لکھے مسلمانوں میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں، کافی سر گرانیوں کے باوجود ان کے مخالفین بھی شیخ کی علمی وسعت، نظر کی دقت کے بہر حال معترف ہیں۔ ہمارے مخدوم و محترم مولانا شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی ناظم علمی دار المصنفین(اعظم گڑھ) و مدیر معارف کا اصرار ہے کہ شیخ ابن عربی کے متعلق معارف میں مقالات کا سلسلہ خاکسار شروع کرے، اپنے اصرار کو تیز سے تیز تر کرتے ہوئے آخر میں تو شاہ صاحب نے یہاں تک ارقام فرمادیا کہ تونے لکھا تو لکھا، ورنہ پھر کوئی دوسرا اس موضوع پر لکھنے والا نظر نہیں آتا، 10 ایک حوصلہ افزا حسن ظن کے سوا ظاہر ہے کہ اس کو اور کیا قرار دیا جا سکتا ہے، فوق کل ذی علمٍ علیم کی قرآنی حقیقت کا اقتضا بھی یہی ہے، اور سچی بات بھی یہی ہے کہ لکھنا چاہیں تو اب بھی اس فقیر سے کہیں بہتر طریقہ سے اس مضمون کو مرتب کر کے پیش کرنے والے پیش کر سکتے ہیں۔ مگر ایک’’صابری چشتی‘‘ فقیر کے لئے یہ بھی تو آسان نہ تھا کہ اپنے مخدوم ہی نہیں، بلکہ جو جانتے ہیں کہ ہندوستا ن کے طریقۂ چشتیہ صابریہ کے ایک رکن رکین صاحب ردولی شریف سیّدنا شیخ احمد عبد الحق قدس اللہ سرّہ العزیز بھی ہیں، اور ہمارے شاہ معین الدین صاحب کو اسی آستانہ ردولی شریف کی صاحبزادہ گی کا بجا فخر حاصل ہے، اس لحاظ سے مخدوم ہونے کے ساتھ ہی وہ ہمارے مخدوم زادے بھی تو ہیں، اپنے مخدوم زادے کے حکم سے سرتابی کی کوئی شکل نظر نہ آئی، اللہ کے نام سے قلم کو ہاتھ میں لیتا ہوں، شاید بزرگوں کی روحانیت سے تائید کی راہ میری یہی نیت مجھ پر کھول دے، واللہ وَلی الامر والتوفیق۔ شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے مناسب معلوم ہوا کہ ان کے مولد و منشا اندلس کی تاریخ کا وہ رُخ پیش کر دیا جائے، جس سے میرا خیال یہی ہے کہ شیخ اور شیخ کے خصوصیات کے سمجھنے میں کافی مدد پڑھنے والوں کو ان شاءاللہ ملے گی، اسی لیے پہلا مقاملہ ’’اندلس‘‘ پر لکھ کر حاضر کیا جاتا ہے، والامر بیدہ سبحانہ تعالی۔ ‘‘

مولانا کایہ مضمون کئی زاویے سے قابل اشکال بھی ہے، اور قابل غور بھی، انہوں نے اندلس کا تذکرہ اس لئے کیا تھا کہ ابن عربی کے ماحول کو سمجھنے میں مدد ملے گی لیکن انہوں نے اس کا آغاز اس بحث سے کیا ہے کہ مسلمانوں کو آخر اندلس کی بربادی کی داستان باربار کیوں سنائی جاتی ہے، وہی یورپ جو اپنے ہر ظلم پر پردہ ڈالتا ہے وہی یورپ اندلس میں اپنے مظالم کو اس قدر علانیہ کیوں بیان کرتا ہے۔ مولانا نے اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیا ہے، ممکن ہے وہ مزید کچھ لکھنے کا ارادہ رکھتے ہوں جس کا موقع انہیں نہیں مل سکا۔ اس کے بعد انہوں نے بتایا ہے کہ ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوئی، پھر بنوامیہ کے مظالم اور بے اعتدالی کو اس کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور بہت تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے۔ اس میں زیادہ تر انہوں نے کامل ابن الاثیر اور تاریخ ابن خلدون پر اعتماد کیا ہے، یہ حصہ مزید نقد ونظر کا محتاج ہے، مولانا شروع سے بنو امیہ کے سخت ناقد تھے، ’’امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘ میں بھی انہوں نے یہی موقف اختیار کیا ہے، اور بنوامیہ پر سخت تنقید کی ہے، مولانا اس سلسلہ میں عام طور پر کمزور واقعات پر بھی اعتماد کرلیتے ہیں۔ پھر اخیر میں مولانا نے یہ لکھا ہے کہ مجھے ایسے واقعات تاریخ میں نظر سے گذرے جن کو پڑھ کر میں مزید پر امید ہوگیا ہوں۔ شاید پہلے سوال کے جواب میں ان واقعات کے ذریعہ وہ اس کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہوں کہ اہل یورپ مسلمانوں کے سامنے اپنی کمزوریوں کو چھپا نا چاہتے ہیں۔

مولانا کے بقول

’’اس زمانہ مین اندلس کے لفظ کو خوف و ہراس، دہشت و وحشت کے بھیانک خطرات کا جو مجسمہ مسلمانان عالم کے لئے بنا دیا گیا تھا، بالکل اس کے برعکس اندلس کا یہی لفظ مجھے تو رجائیت اور امید کا مطلع نظر آتا ہے اور اندلس کی تاریخ کے اس رخ کو مسلمانوں میں مردنی اور افسردگی پیدا کرنے کے بجائے امید و شگفتگی اور زندگی پیدا کرنا چاہیے‘‘۔ 11

بنوامیہ پر انہوں نے تنقید کی اس کے بعد خود ہی اخیر میں ان کے ایک مثبت پہلو کو بھی پیش کیاہے، اس کے ذریعہ اس سے متعلق خود مولانا کے دو متضاد نظریات سامنے آتے ہیں، گویا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں، جس کی صراحت نہیں کرتے کہ، بنو امیہ نے عصبیت عربیہ کو فروغ دیا، دین کی دعوت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، اور وہاں کی آبادی کو لوٹا جس کا یہ انجام انہیں دیکھنا پڑا، لیکن انہوں نے شیخ ابن عربی کے معاصر حالات بالکل نہیں ذکر کئے، اس وقت تک تو بنو امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہوچکا تھا، شاید اشارہ میں وہ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ بعد میں جو کچھ ہوتا رہا اس کی بنیاد بنوامیہ ہی نے رکھی تھی، پھر شیخ ابن عربی کے متعلق صراحت سے کچھ نہیں لکھتے، ممکن ہے اگلی قسط میں وہ اس پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتے ہوں جس کا موقع نہیں مل سکا۔ ویسے موجودہ مواد سے جو کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ شاید ان حالات نے شیخ ابن عربی کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہو، وہ وہاں کی آبادی کو قانع ومطمئن کرنا چاہتے ہوں، اورعربوں کے تئیں حکومت کے رویہ سے ان میں جو نفرت پیدا ہوگئی تھی اپنے ان افکار کے ذریعہ ان کو دور کرنا چاہتے ہوں۔ مولانا نے اپنے عربی مضمون میں جس پس منظر کی طرف اشارہ کیا ہے، اس میں فقہی ومسلکی اور عربی تعصب اور فلسفہ مشائیہ اور اس کے ذریعہ ثنویت کی تقدیس کو خاص طور سے بیان کیا ہے جس کی وجہ سے شیخ کو ظاہریت اور وحدت قیومیت کا نظریہ اختیار کرنا پڑا، اور انہوں نے وحدت الوجود کی رائے پیش کی۔

خوش قسمتی سے فتوحات مکیہ کے اس نسخہ کا بھی سراغ مل گیا ہے جو مولانا کے مطالعہ میں تھا اور وہ گویا وہ اس کی تلاوت کیا کرتےتھے، اس کے حواشی پر جابجا پنسل سے بعض الفاظ کے اردو ترجمے اورکہیں کہیں مختصر توضیح ہے لیکن یہ بہت زیادہ نہیں ہے، البتہ آگے پیچھے کے سادہ اوراق ان کی تحریروں سے بھرے ہوئے ہیں، اگرچہ ان میں بیشتر یادداشتیں ہیں، اور اہم قابل ذکر مباحث کے صفحات نمبر درج کرکے ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ ضخیم جلد کا قدیم مصری ایڈیشن ہے۔ مولانا کی بعض توضیحات جو اہم ہیں یہاں درج کی جاتی ہیں۔

ص ۳۵۵پر بعض الفاظ کے ترجمے بھی ہیں، اور دو جگہ حسب ذیل توضیحات بھی۔

’’فان السراب لم یکن عین ذلک المحل الذی جاء الیہ محل السراب‘‘۔ اس پر مولانا حاشیہ میں لکھتے ہیں: ’’بل کان محله فی عین الرائی‘‘۔ اسی کی دو سطر کے بعد فھو المعبر عنه بالماء ہے۔ اس پر مولانا کا نوٹ ہے، ’’اطفا اللہ حرارۃ العطش باذنه تعالیٰ‘‘۔ ص۳۳۷ پر ایک شعر میں سورۃ القلب لکھا ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئےمولانا نے لکھا ہے ’’ اي سورۃ یسین‘‘۔

شروع کے اوراق میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ما معنی الاسباب والاعتماد علیھا، جاء ھھنا بیان کاف استنبطه من الآیة الکریمة ونبّه علی معنی الرجولیة، ویمکن ان ینتقد علی الشیخ قوله فی تفسیر خائنة الاعین فانه رضی اللہ عنه قد بعد، والظاهر أنه كان مأموناً عند نفسه فالإشارة ردّها بالعين كأنه كانت خيانة‘‘.

ایک جگہ لکھتے ہیں

’’تمام اجسام میں بلوریت کی پیدائش کا امکان۔ ۔ ص ۲۹۵۔ ۔ شیخ نے اسی پرمکاشفہ، اور طی الارض اور عذاب قبر کی تصحیح کی ہے‘‘۔

ص ۲۹۵ کے آغاز میں ایک عبارت ہے:

’’وكان الإمام عبدالقادر على انتقل إلينا من أحواله حال الصدق لا مقامه، وصاحب الحال له الشطح، وكذلك كان رضي الله عنه، وكان للإمام أبي السعود بن الشبلي تلميذ عبدالقادرمقام الصدق‘‘۔

اس پر مولانا نوٹ لکھتے ہیں، ’’وجہ یہ ہے کہ ان سے تبلیغ احکام متعلق نہیں تھی، اور حضرت سے تبلیغ متعلق تھی، اس لئے حال صدق دیا گیا اور ان کے شاگرد کو مقام صدق دیا گیا‘‘۔

صفحہ ۲۳۳ پر عبارت ہے: مضاف إليها مشيئته

مولانا اس کے متعلق حاشیہ میں لکھتے ہیں: مثلاً لو شاء الله لهداكم

اس کے نیچے ہے: فإذا علمت هذا أقمت عذر العالم عندالله.

اس پر مولانا کا حاشیہ ہے ’’كما قال الله تعالى فالعذر يمكن بأن يقول لا تهدينا‘‘۔ یہ تشریح اپنی معنویت میں بہت اہم ہے کیوں کہ اسی طرح کے جملے سے شیخ سے لوگ زیادہ متنفر ہوتے ہیں۔

صفحہ ۳۷۵ پر ایک عبارت ہے فيسلب هذا العالم المستحق دارالشفاعة علمه حتى كأنه ما علمه أو لم يعلم شيئاً فيتعذب بجهله۔ اس پر مولانا لکھتے ہیں ’’کیوں کہ جہنم میں کوئی کار خیر نہیں ہوتا، اور علم کار خیر ہے۔ ‘‘

اسی صفحہ پر ایک عبارت ہے: لأن الواحد شيخ فخاطبه باللطف.

اس کی توضیح میں مولانا لکھتے ہیں، ’’یعنی نوح علیہ السلام‘‘۔

اس کے بعدہے: والآخر شابّ فخاطبه بالشدة.

مولانا لکھتے ہیں’’یعنی سرور عالم ﷺ جوان تھے‘‘۔

ص ۳۲۴ پر عبارت ہے:

’’وهم فيه أي في العذاب مبلسون أي مبعدون من السعادة العرضية لأن السعادة الدائمة من حيث الوجود موجودة ولكنّ السعادة العرضية غير موجودة. ‘‘

یہ تشریحات کہیں باریک سیاہ روشنائی سے ہیں، کہیں پنسل سے ہیں، بہت سی جگہوں پر صرف اشارات ہیں۔ بہرحال جہاں تک ممکن ہوسکا اہم توضیحات کو اخذ کرکے یہاں درج کردیا گیا ہے، ممکن ہے کچھ چھوٹ گئی ہوں، جس ایڈیشن پر یہ حواشی ونوٹس وہ استنول کا شائع شدہ قدیم ایڈیشن ہے، اور دارالعلوم وقف دیوبند کے کتب خانہ میں حضرت قاری طیب صاحب کے ذخیرہ میں محفوظ ہے۔

حضرت قاری صاحب حضرت گیلانی کی عمر کے آخری دور میں وفات سے کچھ ماہ یا ایک دو سال قبل ان کی عیادت کے لئےمولانا کے وطن تشریف لے گئے تھے، اس وقت سوانح قاسمی کی ترتیب کا بھی ذکر آیا تھا اور اسی موقع پر مولانا قاری صاحب کو اپنی کتابوں کا جو ذخیرہ عنایت کیا تھا اس میں یہ نسخہ بھی تھا، جس کی وہ گویا تلاوت کیا کرتے تھے، اور ابن عربی پر اپنی مجوزہ تصنیف کے لئے بھی اس میں انہوں نے جا بجا نوٹس تحریر فرمائے تھے، حضرت گیلانی کی تحریر جس نے دیکھی ہے اور ان کے زیر مطالعہ کتابوں پر ان کے حواشی وتعلیقات جس کی نظر سے گذرے ہیں اسے ان عبارتوں کو حضرت گیلانی کی تحریر تسلیم کرنے میں شبہ نہیں ہوسکتا۔

ایک دوسرا حسن اتفا ق یہ بھی ہے کہ مولانا کی وہ بیاض بھی شائع ہوگئی ہے جو خدا بخش لائبریری میں محفوظ تھی۔ پنجاب یونیورسٹی لاہو ر سے جناب عثمان احمد صاحب کی تحقیق وتعلیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے، اس میں بھی ابن عربی کے اقتباسات اور جابجا اشارات موجود ہیں جو مولانا کے ان سے شدت تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کچھ اقتباسات ان زیر تجویز تصنیفی کتاب کے لئے قلمبند کیے گئے ہوں۔ ایک جگہ صرف عنوان لکھا ہے، لقاء الشیخ الاکبر۔

ایک جگہ ’’حیوانی شکل کے دیوتا ‘‘ کا عنوان قائم کرکےمولانا اشعار اور ایک روایت کے ذریعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقوام قدیم میں بت پرستی اس خیال پر مبنی ہے کہ ملائکہ کے چہرے حیوانوں کی مانند ہیں، پھر روایت کے بعد شیخ اکبر کا اقتباس نقل کیا ہے، قال الشیخ الاکبر فی فتوحاتہ، الواحد من حملة العرش علی صورۃ الانسان والثانی علی صورۃ الاسد فتخیل انہ الہ موسیٰ فصنع لقولہ العجل وقال هذا إلهكم وإله موسى...القصة

 117 صفحہ پر فتوحات مکیہ سے حضرت رابعہ بصریہ کا ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے۔

اس کے بعد صفحہ ۱۲۱ پر ’’وصیہ اکبریہ‘‘ کے عنوان سے حسب ذیل عبارت ہے:

فليجتهدأن يكون عند الموت عبداً مخلصاً ليس فيه شيئ من السيادة على أحد من المخلوقين ويرى نفسه فقيرة إلى كلّ شيئ من العالم من حيث أنه عين الحق من خلف حجاب الاسم الذي قال الله فيه.ص540 ت 32

پھر صفحہ ۱۲۷ پر ایک مسئلہ ہے جس کا عنوان ہے:

’’ تمام ارواح طیبہ وملائکہ وانبیاء ورسل سے حصول دعا کا طریقہ ‘‘۔

اس کے نیچے حسب ذیل عربی عبارت ہے:

قال شيخ الأكبر[كذا] في فتوحاته منسوباً إلى بعض أولياء الله أنه قال له، إذا قلت "السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين"أو قلت "السلام عليكم" إذا سلمت في طريقك على أحد فأحضر قلبك كلّ صالح لله من عباده في الأرض والسماء وميّت حيّ، فإنه من ذلك المقام يرد عليك فلا يبقى ملك مقرب ولا روح مطهر يبلغه سلامك إلاّ ويرد عليك وهو دعاء مستجاب فيستجاب فيك فتفلح، ومن لم يبلغه سلامك من عباد الله المهيمين في جلاله المشتغلين به المستفرغين فيه، وأنت قد سلمت عليهم بهذا الشمول فإن الله ينوب عنهم في الردّ عليك.

اس کے بعد لکھتے ہیں:

’’در اصل درود شریف کی ایک شرح فقیر یہ کرتا ہے، اور اسی کو مسلمانوں کے رواج فاتحہ کی بنیاد قرار دیتا ہے۔ اسی کی یہ تائید ہے، فللہ الحمد۔ ‘‘

   صفحہ نمبر ۱۴۰پر لکھتے ہیں:

نکتہ عملیہ

الإنسان لا يخلو عن طلب نفساواحداً يقوم به الأمر ما. یعنی آدمی کسی نہ کسی قسم کی طلب اپنے اندر رکھتا ہے، چاہے اس طلب کو مجہول بنالے۔ إلا من جهة واحدة وهو أن يكون متعلق طلبه ما يحدثه الله في العالم في نفسه أو في غيره، فما وقعت عليه عينه أو تعلق به سمعه أو وجده في نفسه أو عامله به أحد فليكن ذلك عين مطلوبه المجهول، قد عيّنه له الوقوع فيكون قدوفى حقيقة كونه طالباً وتحصل له اللذة بكلّ واقع منه أو فيه أو من غيره أو في غيره. کبھی کبھی حس وحرکت پیدا نہ ہوگی فإن اقتضى ذلك الواقع التغيير له تغير لطلب الحق منه التغير وهو طالب الواقع، والتغير هو الواقع، وليس بمقهور فيه، بل هو ملتذ ّ في تغييره كما هو ملتذ في الموت للتغير وما ثمّ طريق إلى تحصيل هذا المقام إلاّ ما ذكرناه فلا تقل كما قال من جهل الأمر فطلب المحال فقال أريدفقال أريد أن لا أريد، وإنما الطلب الذي تعطيه حقيقة الإنسان لا أن يقول أريد ما تريد.

اس کے بعد کے صفحات میں ابن عربی کے متعدد اشعار بھی نقل کئےگئے ہیں۔

   صفحہ ۱۵۷ پر ابن عربی کا قول نقل کرتے ہیں:

’’وعظ سے اگر کسی کو فائدہ نہ ہو فعلیہ ان یتہم نفسہ فان اللہ تعالیٰ قال وامر فذکر فان الذکریٰ تنفع المومنین‘‘۔

مفصل عبارت یہ ہے:

فإن كنت مومنا فإن الذكرى تنفع المؤمنين، فإني قد امتثلت أمر الله بما ذكر تك به وانتفاعك بالذكرى شاهد لك بالإيمان بالله، قال الله عزوجلّ في حقي، وفي حقك، وذكّر فإن الذكرى تنفع المومنين، فإن لم تنفعك الذكرى فإتهم نفسك في إيمانك فإن الله صادق، وقد أخبربأن الذكرى تنفع المومنين.

مولانا کی مندرجہ بالا تحریروں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت گیلانی شیخ ابن عربی کے علوم پر کیسی نظر رکھتے تھے، اور ان سے انہیں کیسا والہانہ عشق تھا، اور کس طرح وہ ان کے افکار کی شرح وتوضیح کے سب سے زیادہ حق دار تھے، ؛لیکن

            اے بسا آرزو کہ خاک شدہ


حواشی

  1. معارف، فروری، ۱۹۴۵ء
  2. حوالہ سابق، مارچ ۱۹۴۵ء
  3.  یہ عبارت ان کے مضمون شیخ اکبر کا نظریہ علم کی ہے۔
  4. حضرت مولانا سید مناظر احسن گیلانی، [کتابچہ]، از سید صباح الدین عبدالرحمن، مطبوعہ استھاواں، بہارشریف، ۲۰۱۶ء۔ ص۲۸
  5. مولانا اپنے اخلاص و شفقت میں چھوڑوں کے لیے بھی ایسے القاب لکھ دیتے جن کے وہ مستحق نہ ہوتے، اس لیے کچھ الفاظ حذف کردئے گئے۔ (اصل)
  6. جناب شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی مراد ہیں۔ (اصل)
  7. یہ الفاظ ان کےظرف عالی کا ثبوت ہیں۔ (اصل)
  8. سید صباح الدین عبدالرحمن، حوالہ سابق، ص۴۷
  9. یہ مضمون ماہنامہ معارف اعظم گڑھ کے نومبر، دسمبر ۱۹۵۳ ور جنوری ۱۹۵۴ میں تین قسطوں میں شائع ہوا۔
  10. مولانا کی یہ پیشین گوئی درست نکلی، اس کے بعد معارف جومسلمانوں کی علمی تاریخ وشخصیات کاا نسائیکلوپیڈیا کہاجاسکتا ہے اس میں ابن عربی پر کوئی قابل ذکر مضمون نہیں ملتا، ضمنی طور پرکچھ بحثیں ہوں تو الگ بات ہے۔ (طلحہ)
  11. معارف، جنوری ۱۹۵۴۔


اپریل ۲۰۲۳ء

مشرقی معاشرے اور عورت کی تقدیس وتکریممحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۹)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مدرسہ اور یونیورسٹی کا تاریخی تعلقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۴)ابو الاعلیٰ سید سبحانی 
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۱)مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۵)ڈاکٹر شیر علی ترین 
فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثر و نفوذڈاکٹر سید متین احمد شاہ 
مولانا محمد یوسف رشیدیؒ اور مولانا قاری جمیل الرحمان اختر ؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 

مشرقی معاشرے اور عورت کی تقدیس وتکریم

محمد عمار خان ناصر

مشرقی معاشروں میں عورت کی تقدیس اگر ایک قدر کے طور پر مانی جاتی ہے تو خواتین کو عدم تحفظ کی اس عمومی صورت حال کا سامنا کیوں ہے جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں؟

اس سوال کا ایک جواب تو ساحر لدھیانوی کی مشہور نظم سے ملتا ہے جس میں طوائف کلچر کے تناظر میں ثنا خوانان تقدیس مشرق سے کافی چبھتے ہوئے سوال پوچھے گئے ہیں۔ یہ تنقید ایک خاص پہلو سے معاشرت میں پائے جانے والے تضاد اور منافقت کی نشان دہی کرتی ہے۔ تقدیس کی جگہ آزادی کو قدر قرار دینے والا جدید لبرل بیانیہ اس سے آگے بڑھ کر اس مفروضے پر ہی سوال اٹھا دیتا ہے کہ مشرقی معاشرت واقعتاً‌ عورت کو تکریم دیتی ہے۔ اس بیانیے کی رو سے مشرقی معاشرت اصلا عورت پر جبر اور استحصال کی عکاس ہے جس کو جواز دینے کے لیے عزت اور تکریم کے تصورات کا لبادہ اوڑھا دیا گیا ہے۔ تکریم کا اصل معیار انفرادی خود مختاری اور آزادی ہے جس کی عملی صورت مغربی معاشرت میں ہم دیکھتے ہیں۔ گویا اس نقطہ نظر کے مطابق یہ سوال کسی نئی وضاحت کا متقاضی ہی نہیں کہ عورت کو آج عدم تحفظ کی صورت حال سے کیوں واسطہ ہے۔ عورت کا جو مقام مشرقی معاشرت میں مانا گیا ہے، یہ اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے اور تہذیبی قدروں میں ایک پیراڈائم شفٹ کو قبول کیے بغیر اس صورت حال سے نہیں نکلا جا سکتا۔

سوال کا دوسرا جواب اس نقطہ نظر میں سامنے آتا ہے جو اس صورت حال کی بنیادی ذمہ داری صنفی اظہارات کو فروغ دینے اور اس بے حجابی کو آزادی کا ایک پیمانہ قرار دینے والے جدید تصور معاشرت پر عائد کرتا ہے۔ اس موقف کی رو سے عورت کی تکریم حیا اور ستر وحجاب کے تصورات کے ساتھ وابستہ ہے۔ جدید معاشرت ان قدروں کی پامالی کو آئیڈیلائز کرتے ہوئے نوجوان نسل کو گمراہ کر رہی ہے جس کی بدولت عورت کو تلذذ اور جنسی لطف اندوزی کی نظر سے دیکھنے کی نفسیات غالب ہوتی جا رہی ہے۔ خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال اسی کا براہ راست نتیجہ ہے۔

کیا ان دونوں جوابات میں سے کوئی ایک کلی طور پر درست اور دوسرا کلی طور پر غلط ہے؟ یا دونوں میں جزوی صداقتیں موجود ہیں جن کو تسلیم کرنے سے صورت حال کی بہتر تفہیم سامنے لائی جا سکتی ہے؟

اہل دانش کی کافی بڑی تعداد کا رجحان اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ دیکھتے ہیں کہ روایتی مشرقی معاشرت میں عورت کی تکریم ایک قدر کے طور پر موجود ہوتے ہوئے عورت کی سماجی آزادی اور اختیار کے جو حدود طے کیے گئے ہیں، وہ متوازن نہیں ہیں اور جبر اور استحصال کی بہت سی صورتوں کو متضمن ہیں۔ ان اہل دانش کے تجزیے کی رو سے، دور جدید کی متعارف کردہ سماجی تبدیلیوں سے عورتوں کے لیے سماجی کردار کے مواقع اور آزادیاں بڑھی ہیں اور روایتی طور پر خواتین کا میل جول اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہونے کا رواج متاثر ہوا ہے جسے ہماری مجموعی پدرسرانہ نفسیات قبول نہیں کر رہی۔ یوں گھر کے ماحول سے باہر متحرک ایسی خواتین کے لیے جنھیں عہدے یا منصب وغیرہ کا تحفظ حاصل نہ ہو، تکریم کا زاویہ نظر مفقود ہے جس کا نتیجہ عمومی عدم تحفظ کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

یہ موجودہ صورت حال کے تجزیے کے تین بنیادی زاویے ہیں اور تینوں کا استدلال کافی حد تک واضح ہے۔ ان تینوں تجزیوں میں ایک خاص طرز معاشرت کی وکالت بھی موجود ہے۔ چنانچہ پہلے نقطہ نظر کے مطابق خواتین کو اپنے اسی دائرہ کار تک محدود رہنا چاہیے جو روایتی معاشرت میں قرار دیا گیا ہے اور جس کو مذہبی تشریحات کی تائید بھی حاصل ہے۔ دوسرے نقطہ نظر کی مجوزہ معاشرت وہی ہے جو مغربی انفرادیت پسندی کے معیارات پر پوری اترتی ہو۔ اور تیسرے نقطہ نظر میں مشرقی معاشروں کے لیے متوازن طرز معاشرت وہ ہے جس میں تکریم وتقدیس اور خاندانی تحفظ کی روایتی قدروں کے ساتھ ساتھ خواتین کے متحرک سماجی کردار کو بھی پوری اہمیت دی جائے اور گھر سے باہر کے ماحول میں بھی ان کے لیے تکریم واحترام کے رویے اور مکمل تحفظ کو نئی معاشرتی تشکیل کا حصہ بنایا جائے۔

یہ تینوں زاویے، ایک بڑے فکری اور تہذیبی اختلاف کے مظاہر ہیں جن کا تصفیہ یا محاکمہ یہاں مقصود نہیں۔ تاہم ہمارے نقطہ نظر سے ایک خاص پہلو پر جو موجودہ حالات میں بہت بنیادی اور اہم پہلو ہے، ان تینوں کے مابین مفید اور تعمیری مکالمے کی گنجائش بلکہ ضرورت موجود ہے۔ یہ پہلو خواتین کو درپیش عدم تحفظ کی صورت حال ہے جس کی اہمیت یا نزاکت سے کوئی بھی فریق انکار نہیں کر سکتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اگر ایسے معاشرے کی تشکیل ایک مسلمہ مقصد ہے جس میں خواتین محفوظ ہوں تو کیا مذکورہ مختلف الخیال طبقے اس کی ناگزیر ضروريات اور درکار اقدامات پر باہم اتفاق کر سکتے ہیں؟

ہمارے نزدیک اس بحث میں دونوں فریق کچھ اہم پہلووں کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مثلاً‌ لبرل نقطہ نظر اس چیز کو عموماً‌ پیش نظر نہیں رکھتا کہ عورت کو عدم تحفظ کی صورت حال کا سامنا اپنی خلقی اور حیاتیاتی خصوصیات کی وجہ سے ہوتا ہے اور آج سے نہیں، ہمیشہ سے ہے۔ دوسرے لفظوں میں، عورت کا غیر محفوظ یا مردانہ جارحیت کا ہدف ہونا ایک فطری صورت حال ہے، انسانی معاشروں کی پیدا کردہ نہیں۔ انسانی معاشروں کی تگ ودو تو اس state of nature کو اپنی نوعی وسماجی ضروریات کے تحت بدلنے اور اخلاقی ضابطوں کے تحت لانے کی رہی ہے۔ جدیدیت کے علمی ڈسکورسز کے زیر اثر آج ہمارے لیے ماقبل جدید معاشروں پر مختلف قسم کے تاریخی اور اخلاقی حکم لگانا آسان ہے، لیکن اس سے یہ حقیقت بدل نہیں جاتی کہ تمدنی ارتقا کی مختلف سطحوں پر تمام انسانی معاشرے عورت کے، جارحیت یا objectification کا ہدف بننے کے امکانات کو محدود کرنے اور اسے کسی نہ کسی انداز میں تحفظ دینے کی سعی کرتے رہے ہیں۔ آج انفرادی آزادی کے مواقع پیدا ہو جانے کے تناظر میں عورت کو فراہم کیے گئے یہ تحفظات ہمیں جبر دکھائی دیتے ہیں ، لیکن ہم یہ نظر انداز کر دیتے ہیں کہ یہ "جبر" ایک دوسری قسم کے عدم تحفظ اور استحصال کے سدباب کے لیے روایتی معاشروں نے اجتماعی ضرورتوں کے تحت اختیار کیا تھا۔

روایتی معاشرت میں ایسی تبدیلیاں جن سے انفرادی آزادیوں کی بہت زیادہ گنجائش پیدا ہو جاتی ہے، بنیادی طور پر مغربی معاشروں کا تاریخی تجربہ ہے جس کے ساتھ وابستہ نتائج اور مسائل سے نمٹنے کے لیے نئے سماجی میکنزم بنانے کا موقع بھی اہل مغرب کو میسر رہا ہے۔ ان میں اہم ترین میکنزم جدید ریاست کا نظام ہے جس کی نئے خطوط پر تشکیل اس دور کے بالکل آغاز میں شروع ہو چکی تھی جسے اب ہم جدید دور کہتے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روایتی معاشرت کے سٹرکچرز ٹوٹنے سے پہلے مغربی معاشرے ریاست کی صورت میں تنظیم معاشرت کا ایسا میکنزم وجود میں لا چکے تھے جس نے انارکی یا لاقانونیت کے لیے جگہ خالی نہیں چھوڑی، بلکہ نئے اسٹرکچرز کو کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

مشرقی معاشروں کی صورت حال اس سے مختلف رہی ہے۔ یہاں ماڈرنائزیشن کا عمل اصلاً‌ مغربی اثرات کے تحت شروع ہوا ہے اور اپنی ساخت میں مقامی معاشرت کے لیے اجنبی ہونے کی وجہ سے ابھی تک کسی ٹھکانے پر نہیں پہنچا۔ اس پر مزید پیچیدگی ان اقداری تبدیلیوں نے پیدا کر دی ہے جن کو ہم جدیدیت کا عمومی عنوان دیتے ہیں۔ خواتین کو ملنے والی آزادیوں اور مواقع کے ساتھ ایک طرف تہذیبی اضطراب اور دوسری طرف عدم تحفظ کے مسئلے کا پیدا ہو جانا اسی صورت حال کا ایک جزو ہے۔ یعنی مجموعی معاشرتی نفسیات اس تبدیلی کے ساتھ معاملہ کرنے کا کوئی مسلمہ اخلاقی فریم ورک نہیں رکھتی اور ریاست، اپنی ادھوری اور ناتمام تشکیل کی وجہ سے اس پراسیس کو مطلوبہ رخ دینے اور ضروری عملی اقدامات کی صلاحیت سے محروم ہے۔

روایتی مذہبی موقف اس بحث میں اس بات کی اہمیت کو عموماً‌ نظرانداز کر دیتا ہے کہ مذہبی اخلاقیات اور قانون میں مرد وعورت کے حقوق وفرائض کے حوالے سے ’’عدل “ کا جو فریم ورک دیا گیا ہے، اس کا تصور کی سطح پر موجود ہونا کافی نہیں۔ اس کے رو بہ عمل ہونے کے لیے خاص معاشرتی حالات اور شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔ ان میں سے اہم ترین شرط یہ ہے کہ خواتین کو اپنے حقوق اور مسائل پر بات کرنے کی آزادی اور داد رسی کے ذرائع تک رسائی حاصل ہو۔ قرآن اور حدیث اور آثار صحابہ سے مثالیں اور شواہد بیان کرتے ہوئے یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اس ماحول میں اس بنیادی شرط کے پائے جانے کی وجہ سے ہی یہ ممکن تھا کہ شریعت کا بیان کردہ ’’عدل “ عملاً‌ تحقق پذیر ہو۔ مثلاً‌

پس خواتین کےساتھ عدل وانصاف کے حوالے سے اسلامی معاشرت کے امتیاز کو واضح کرنے کے لیے صرف اصولی تعلیمات کا حوالہ دینا کافی نہیں، اس کو یقینی بنانا زیادہ ضروری ہے کہ ان معاشرتی أصول واقدار کے مطابق خواتین کو عملاً‌ بھی سماجی آزادیاں اور حقوق دستیاب ہوں۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۹)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(400) لَنُبَوِّئَنَّہُمْ کا ترجمہ

درج ذیل دو آیتوں کے ترجموں میں کچھ قابل توجہ امور ہیں۔

وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا فِی اللَّہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَلَأَجْرُ الْآخِرَۃِ أَکْبَرُ لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ۔ الَّذِینَ صَبَرُوا وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ۔ (النحل:41-42)

پہلا ترجمہ:

”اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی بعد اس کے کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے، ہم ان کو دنیا میں بھی اچھی طرح متمکن کردیں گے اور آخرت کا اجر تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ کاش وہ جانیں۔ (یہ ان مہاجرین کے لیے ہے) جنھوں نے استقامت دکھائی اور اپنے رب پر بھروسہ رکھتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

قابل توجہ امور:

پہلی بات: بوّء کا معنی ٹھکانہ دینا اور بسانا ہوتا ہے نہ کہ متمکن کرنا اور اقتدار دینا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے اور سب جگہ ٹھکانے اور بسیرے کے معنی میں ہی ہے۔ اور یہاں اسی مفہوم کا محل بھی ہے،کہ جن لوگوں نے اللہ کے راستے میں اپنا گھر بار چھوڑا، اللہ تعالی انھیں بہترین ٹھکانہ نصیب فرمائے گا۔

دوسری بات: (یہ ان مہاجرین کے لیے ہے) قوسین میں اس اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتنا کافی ہے کہ ”وہ جنھوں نے استقامت دکھائی۔“

تیسری بات: لو کا ترجمہ کاش کرنا اللہ کی شان کے پہلو سے مناسب نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا: اگر کہیں وہ جانتے ہوتے۔ (یعنی منکرین)

دوسرا ترجمہ:

”جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)“۔ (سید مودودی)

قابل توجہ امور:

پہلی بات: لو کانوا یعلمون کا ترجمہ ”کاش جان لیں“ مناسب نہیں ہے، بہتر ترجمہ یہ ہے: ”اگر کہیں وہ جانتے ہوتے“۔

دوسری بات: لو کانوا یعلمون کا ترجمہ کرنے کے بعد فل اسٹاپ (ختمہ) لگنا چاہیے۔ کیوں کہ الذین صبروا  یعلمون کا فاعل نہیں ہے، اس کا فاعل تو وہ منکرین ہیں جن کا ذکر گزشتہ آیتوں میں بھی ہے۔ صبر و توکل والے تو بخوبی جانتے ہی ہیں بلکہ ایمان رکھتے ہیں، ان کے بارے میں یہ کیوں کہا جائے گا کہ ”کاش جان لیں وہ مظلوم جنہوں نے صبر کیا ہے اور جو اپنے رب کے بھروسے پر کام کر رہے ہیں (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے)“۔

تیسری بات: الذین صبروا کا ترجمہ وہ مظلوم جنھوں نے صبر کیا موزوں نہیں ہے۔ بہتر ترجمہ ہوگا: وہ لوگ جنھوں نے صبر کیا۔

چوتھی بات: وَعَلَی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُونَ کا ترجمہ ہوگا: اور جو اپنے رب کے اوپر بھروسہ رکھتے ہیں۔

پانچویں بات: (کہ کیسا اچھا انجام اُن کا منتظر ہے) قوسین میں اسے ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ جملہ اس کے بغیر مکمل ہے۔

تیسرا ترجمہ:

”جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

 ظُلِمُوا کا مطلب ظلم کا نشانہ بننا ہے نہ کہ ظلم کو برداشت کرنا۔

درج ذیل ترجمے میں مذکورہ بالا خامیاں نہیں ہیں:

”اور جنھوں نے گھر چھوڑا اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ظلم اٹھایا، البتہ ان کو ہم ٹھکانہ دیں گے دنیا میں اچھا اور ثواب آخرت کا تو بہت بڑا ہے، اگر ان کو معلوم ہوتا۔ جو ثابت رہے اور اپنے رب پر بھروسہ کیا“۔ (شاہ عبدالقادر)

(401) إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں الھین کے ساتھ اثنین بھی آیا ہے، اس لیے ترجمہ دو معبود کرنے کے بجائے دو دو معبود کرنا چاہیے۔

وَقَالَ اللَّہُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَہَیْنِ اثْنَیْنِ إِنَّمَا هُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ۔(النحل: 51)

”اور اللہ نے فرمادیا دو خدا نہ ٹھہراؤ وہ تو ایک ہی معبود ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور خدا نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

إِنَّمَا هُوَ إِلَہٌ وَاحِدٌ کا ترجمہ عام طور سے کیا گیا ہے، ”معبود وہی ایک ہے“۔ ھو ضمیر کا مرجع اللہ کو مانا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں ھو ضمیر شان ہے، یعنی: معبود ایک ہی ہے۔

 اس طرح آیت کا ترجمہ ہوگا:

”اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو دو معبود نہ بناؤ۔ معبود ایک ہی ہے۔“

(402)  کَمَنْ لَا یَخْلُقُ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں کَمَنْ لَا یَخْلُقُ کا مفعول بہ مذکور نہیں ہے۔ ترجمے میں اس کا لحاظ کرنا چاہیے۔

أَفَمَنْ یَخْلُقُ کَمَنْ لَا یَخْلُقُ۔ (النحل: 17)

”پھر کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور وہ جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے، دونوں یکساں ہیں؟“۔ (سید مودودی)

یہاں ”کچھ بھی“ زائد ہے۔

”تو جو (اتنی مخلوقات) پیدا کرے۔ کیا وہ ویسا ہے جو کچھ بھی پیدا نہ کرسکے“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں ”اتنی مخلوقات“ اور ”کچھ بھی“ زائد ہے۔

”تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا؟“۔ (محمد جونا گڑھی)

یہاں ”کرسکتا“ کی ضرورت نہیں ہے۔

”تو کیا جو بنائے وہ ایسا ہوجائے گا جو نہ بنائے“۔ (احمد رضا خان)

یہ مناسب ترجمہ ہے، اس میں کوئی زائد از لفظ اضافہ نہیں ہے۔ دراصل یہاں موازنہ ہے اس میں جو خالق ہے اور اس میں جو خالق نہیں ہے۔

(403) مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ کا ترجمہ

اسرار کا مطلب چھپانا اور اعلان کا مطلب ظاہر کرنا ہوتا ہے۔ یہی اس کا صحیح ترجمہ ہے۔ کھلا اور چھپا یا ظاہر وباطن ان الفاظ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اسرار کا لفظ بتاتا ہے آدمی نے کسی خاص نیت سے کسی بات کو پوشیدہ رکھا ہے۔ کسی چیز کے باطن یا پوشیدہ ہونے کے لیے اسرار ضروری نہیں ہے۔ انسان کے ارادے کے بغیر اس کی بہت سی چیزیں دوسروں سے پوشیدہ رہ سکتی ہیں۔ یہاں انسانوں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ ا ن چیزوں کو بھی جانتا ہے جن کو وہ چھپاکر سمجھتے ہیں کہ کوئی جان نہیں سکے گا۔

(۱) وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (النحل: 19)

”اور اللہ ہی تمہارے باطن و ظاہر دونوں سے باخبر ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”حالانکہ وہ تمہارے کھلے سے بھی واقف ہے اور چھپے سے بھی“۔ (سید مودودی)

”اور جو کچھ تم چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو سب سے خدا واقف ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۲)  وَیَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (النمل: 25)

”اور تمہارے پوشیدہ اور ظاہر اعمال کو جانتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو“۔ (سید مودودی)

(۳)  وَیَعْلَمُ مَا تُسِرُّونَ وَمَا تُعْلِنُونَ۔ (التغابن: 4)

”اور جو کچھ تم چھپا کر کرتے ہو اور جو کھلم کھلا کرتے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری) چھپاکر کرنا ہی نہیں بلکہ کسی بھی چیز کو چھپانا مراد ہے۔

”اور ان تمام چیزوں کو جانتا ہے جن کا تم اظہار کرتے ہو یا جنہیں تم چھپاتے ہو“۔ (ذیشان جوادی) ترتیب الٹ گئی ہے۔ چھپانے کا ذکر پہلے ہے۔

”جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو سب اس کو معلوم ہے“۔ (سید مودودی)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۴) أَوَلَا یَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (البقرۃ: 77)

”کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ ان کی پوشیدگی اور ظاہرداری سب کو جانتا ہے؟“۔ (محمد جوناگڑھی) پوشیدگی اور ظاہر داری سے دونوں لفظوں کا مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے۔ پوشیدگی کا مطلب چھپانا نہیں بلکہ چھپنا ہوتا ہے اور ظاہر داری کا مطلب بھی ظاہر کرنا نہیں ہوتا ہے۔

”کیا یہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، خدا کو (سب) معلوم ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۵) أَلَا حِینَ یَسْتَغْشُونَ ثِیَابَہُمْ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (ہود: 5)

”سن رکھو جس وقت یہ کپڑوں میں لپٹ کر پڑتے ہیں (تب بھی) وہ ان کی چھپی اور کھلی باتوں کو جانتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”سنو جس وقت وہ اپنے کپڑوں سے سارا بدن ڈھانپ لیتے ہیں اس وقت بھی اللہ ان کا چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”تو آگاہ رہیں کہ یہ جب اپنے کپڑوں کو خوب لپیٹ لیتے ہیں تو اس وقت بھی وہ ان کے ظاہر و باطن دونوں کو جانتا ہے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں بھی ترتیب الٹ گئی ہے، اسرار پہلے اور اعلان بعد میں ہے۔)

”خبردار! جب یہ کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانپتے ہیں، اللہ ان کے چھپے کو بھی جانتا ہے اور کھلے کو بھی“۔ (سید مودودی)

”آگاہ ہو یہ (اس وقت بھی اس کی نظر میں ہوتے ہیں) جب اپنے اوپر کپڑے لپیٹتے ہیں۔ وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری ترجمہ درست ہے۔ البتہ اس میں قوسین والے جملے کی ضرورت نہیں ہے۔ کپڑے لپیٹتے ہیں کے بعد فل اسٹاپ (ختمہ) نہیں رہے گا۔ ترجمہ اس طرح ہوگا:

 ”آگاہ ہو یہ جب اپنے اوپر کپڑے لپیٹتے ہیں وہ جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں اور جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔“

(۶) لَا جَرَمَ أَنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (النحل: 23)

”اللہ یقینا اِن کے سب کرتوت جانتا ہے چھپے ہوئے بھی اور کھلے ہوئے بھی“۔ (سید مودودی)

”فی الحقیقت اللہ جانتا ہے جو چھپاتے اور جو ظاہر کرتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(۷) إِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّونَ وَمَا یُعْلِنُونَ۔ (یس: 76)

”اِن کی چھپی اور کھلی سب باتوں کو ہم جانتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”ہم ان کی پوشیدہ اور علانیہ سب باتوں کو (بخوبی) جانتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یہ جو کچھ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ہمیں سب معلوم ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمہ درست ہے۔

(404)  کفیلا کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں کفیلا کے عام طور سے دو ترجمے کیے گئے ہیں۔ ایک گواہ اور دوسرا ضامن۔

وَأَوْفُوا بِعَہْدِ اللَّہِ إِذَا عَاہَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّہَ عَلَیْکُمْ کَفِیلًا إِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ۔ (النحل: 91)

”اللہ کے عہد کو پورا کرو جبکہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو، اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب افعال سے باخبر ہے“۔ (سید مودودی)

”اور تم اللہ کو گواہ بھی بناچکے ہو“۔ (اشرف علی تھانوی)

”درآنحالیکہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ ٹھہراچکے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کرکے اللہ کو اپنا ضامن“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور تم اللہ کو اپنے اوپر ضامن کرچکے ہو“۔ (احمد رضا خان)

”کہ تم خدا کو اپنا ضامن مقرر کرچکے ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”حالانکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)

دونوں ہی ترجمے کچھ اشکال رکھتے ہیں۔ کفیل کا ترجمہ گواہ تو لغت کے لحاظ سے ثابت نہیں ہے۔ اور جہاں تک ضامن کی بات ہے تو انسان اللہ کے نام سے جب عہد کرتا ہے یا قسم کھاتا ہے تو وہ اللہ کو ضامن نہیں بناتا ہے۔ اگر وہ عہد پورا نہ کرے تو اللہ کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ہے،  وہ خود اپنی عہد شکنی کا پورے طور سے ذمے دار ہوتا ہے۔ کفیل بمعنی ضامن کا مطلب تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے عہد پورا نہ کرنے کی ذمے داری ضامن پر ہوگی، اور ظاہر ہے یہ مراد نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ یہاں اس لفظ کا ترجمہ سرپرست اور نگہبان ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ک ف ل کے دیگر کچھ مشتقات آئے ہیں، ان مقامات پر سرپرستی کا مفہوم ہے۔ جیسے:

وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ إِذْ یُلْقُونَ أَقْلَامَہُمْ أَیُّہُمْ یَکْفُلُ مَرْیَمَ۔ (آل عمران: 44)

 اور: وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا۔ (آل عمران: 37)

 نیز: فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّکُمْ عَلَی مَنْ یَکْفُلُہُ۔ (طہ: 40)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”جب کہ تم اللہ کو اپنا سر پرست و نگہبان بنا چکے ہو۔“

غالبا شاہ ولی اللہ بھی یہی رائے رکھتے ہیں، ان کا ترجمہ ہے:

”وہر آئینہ ساختہ اید خدارا بر خویش نگاہ بانندہ“۔

امام طبری کی رائے یہی ہے۔

یَقُولُ: وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّہَ بِالْوَفَاءِ بِمَا تَعَاقَدْتُمْ عَلَیْہِ عَلَی أَنْفُسِکُمْ رَاعِیًا یَرْعَی الْمُوفِی مِنْکُمْ۔ (تفسیر طبری)

مطلب یہ ہوا کہ جب اللہ سے تم نے عہد کیا ہے اور اسی کے حضور پختہ قسمیں کھائی ہیں اور تم یہ بھی مانتے ہو کہ وہی تمہارا نگہبان و سرپرست ہے، تو پھر تمہارے دل میں عہد شکنی اور قسم توڑنے کا خیال نہیں آنا چاہیے۔ تمھیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تمہارا سرپرست و نگہبان ہے وہ تمہارے عہد وپیمان کی تکمیل میں تمہاری مدد کرے گا۔

(جاری)


مدرسہ اور یونیورسٹی کا تاریخی تعلق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

۵ مارچ کو جامعۃ الرشید کراچی کے سالانہ کانووکیشن اور الغزالی یونیورسٹی کی تعارفی تقریب میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ پہلی نشست کی صدارت کا شرف ملا جبکہ تیسری نشست میں کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم صاحب، تمام معززین مہمانانِ خصوصی، شرکاء محفل اور وہ طلباء کرام جو آج مختلف شعبوں میں کامیابی حاصل کر کے اسناد لے کر جا رہے ہیں! جامعۃ الرشید کے سالانہ کانووکیشن میں حاضری اور الغزالی یونیورسٹی کی تعارفی تقریب میں شرکت میرے لیے سعادت کی بات ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں۔

جامعۃ الرشید کے ساتھ میری بہت سی نسبتیں ہیں، ان میں سے ایک نسبت کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نور اللہ مرقدہٗ اور میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر قدس اللہ سرہ العزیز دورہ حدیث کے ساتھی تھے، انہوں نے اکٹھے شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے دورہ حدیث پڑھا تھا۔ اس نسبت کے اظہار کے بعد عرض کرنا چاہوں گا کہ ’’الغزالی یونیورسٹی‘‘ میری زندگی بھر کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ میں اس وقت جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کے سنگم پر کھڑا ہوں تو تھوڑی سی تاریخ بیان کرنا چاہوں گا اور مدرسہ اور کالج کے تعلقات کے دو چار مراحل ذکر کرنا چاہوں گا۔ مدرسہ اور کالج کی لڑائی کا تو ہم ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے تعلقات کی تاریخ پر بھی ہماری نظر رہنی چاہیے۔

(۱) دیوبند میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے مدرسہ عربیہ بنایا تھا اور سر سید احمد خان مرحوم نے علی گڑھ میں کالج بنایا تھا۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ علی گڑھ کالج میں دینیات کے شعبے کے سربراہ حضرت مولانا عبد اللہ انصاریؒ تھے جو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے داماد تھے اور سر سید احمد خان مرحوم کی طلب پر وہاں بھیجے گئے تھے۔ یہ مدرسہ اور یونیورسٹی کا پہلا تعلق تھا۔

(۲) پھر ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ تاریخ کا طالب علم ہوں، میرا یہ سوال ہے کہ ہماری تین بڑی تحریکات (۱) تحریکِ خلافت (۲) تحریکِ آزادی (۳) تحریکِ پاکستان جن میں دونوں اداروں کے تربیت یافتہ حضرات نے مشترک کردار ادا کیا تھا۔ تحریکِ خلافت میں بھی علماء اور سیاستدان اکٹھے تھے، تحریکِ آزادی میں بھی اور تحریکِ پاکستان میں بھی۔ ان میں یہ ملاپ کہاں سے آیا تھا؟ دونوں کو لیڈرشپ کے میدان میں کس نے اکٹھا کیا تھا؟ اس کا نقطہ آغاز شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ ہیں جو دونوں کا خلا پر کرنے کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے تھے۔ جس کے نتیجے میں ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ تشکیل پائی تھی جو آج بھی ’’جامعہ ملیہ‘‘ کے نام سے دہلی میں کام کر رہی ہے۔ تحریکِ خلافت، تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان میں دونوں طبقوں کی مشترک قیادت اس سوچ کا نتیجہ ہے جو نیشنل مسلم یونیورسٹی نے دی تھی۔

(۳) تیسرے نمبر پر یہ ذکر کروں گا کہ پاکستان بننے کے بعد ایک مرحلہ بہاولپور کی اسلامی یونیورسٹی ہے جو پہلے جامعہ عباسیہ تھا، اسے یونیورسٹی کا ٹائٹل دے کر ہم نے ملاپ کا مرکز بنایا تھا۔ علامہ شمس الحق افغانیؒ، علامہ سعید احمد کاظمیؒ، مولانا عبد الغفار حسنؒ اور دیگر اکابر نے آج کی جدید تعلیم یافتہ قیادت کے ساتھ مل کر ایک مشترک ادارہ بنایا تھا جو ریاستی سطح پر تھا۔ اگرچہ وہ اپنے ہدف پر قائم نہیں رہ سکا، یہ بات اپنی جگہ پر ہے، لیکن بہرحال یہ مدرسہ اور کالج کے تعلق کا تیسرا مرحلہ ہے۔

درمیان میں ایک کوشش ہم نے بھی کی تھی، جسے ریکارڈ پر لانا چاہوں گا کہ ۱۹۹۲ء میں گوجرانوالہ میں ہم نے اٹھائیس ایکڑ جگہ خرید کر عمارت تعمیر کر کے ’’شاہ ولی اللہ یونیورسٹی‘‘ کے نام سے ایک ادارے کا آغاز کیا تھا جس کا پہلا نام ’’نصرۃ العلوم اسلامی یونیورسٹی‘‘ رکھا گیا تھا۔ ہمارے دونوں بزرگ حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ اس کے سرپرستِ اعلیٰ، اس کے ٹرسٹی اور اس کے نیٹ ورک کا حصہ تھے۔ ان کی سرپرستی میں ہم نے وہ ادارہ بنایا تھا جو کہ اب جامعۃ الرشید کے ایک شعبے کے طور پر ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔

ان مراحل کے بعد آج جب میں جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کو دیکھ رہا ہوں تو ماضی کی ان ناکامیوں کو محمود غزنویؒ کے پہلے سولہ حملے شمار کرتے ہوئے جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی کو سترہواں حملہ سمجھ رہا ہوں جو کامیابی کی طرف گیا ہے۔ اور میں حضرت مولانا مفتی عبد الرحیم اور ان کے تمام معاونین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے ہمارا وہ خواب شرمندہ تعبیر کیا جو ہم نے ۱۹۹۲ء میں گوجرانوالہ میں بیٹھ کر دیکھا کرتے تھے۔ میں آج اس خواب کی تعبیر صرف دیکھ نہیں رہا بلکہ اس خواب کی تعبیر کے عملی مرحلے میں شریک بھی ہوں، اللہ تعالیٰ برکتیں، رحمتیں، کامیابیاں، ثمرات اور قبولیت و رضا سے بہرہ ور فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

ایک اور بات کہہ کر بات سمیٹوں گا۔ تاریخ اور سماجیات کا طالب علم ہوں۔ میں خود کو اس وقت سو سال پہلے کے ماحول میں دیکھ رہا ہوں کہ ’’نیشنل مسلم یونیورسٹی‘‘ بنی تھی جس نے ’’جامعہ ملیہ‘‘ کی شکل اختیار کی۔ اس نے متحدہ ہندوستان کو تحریکِ خلافت کی قیادت فراہم کی تھی، تحریکِ پاکستان اور تحریکِ آزادی کی مشترک قیادت فراہم کی۔ آج میں پھر سے تاریخ کو خود کو دہراتے ہوئے دیکھ رہا ہوں اور دعا گو ہوں کہ جامعۃ الرشید اور الغزالی یونیورسٹی مستقبل میں ہماری ایسی تحریکات کی نرسری بنے اور میں اس حوالے سے مستقبل کو روشن دیکھ رہا ہوں کہ ہمیں مشترک دیانت دار قیادت ملے گی جس کی راہنمائی میں پاکستان بحران سے نکلے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اور صرف خود نہیں نکلے گا بلکہ عالمِ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کو بحران کی دلدل سے نکالنے میں ہراول دستہ ثابت ہو گا۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔


ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۴)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

فکر اسلامی کی ازسر نو تشریح کی ضرورت

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم مولانا مودودیؒ کے نام اپنے ایک خط میں اپنی تحریر ”معاصر اسلامی فکر“ کے حوالہ سے بدلتے ہوئے حالات میں فکر اسلامی سے متعلق مختلف امور ومسائل کی از سر نو تعبیر وتشریح پر بھی زور دیتے ہیں:

”ڈیڑھ دو سال پہلے آپ کی خدمت میں ”معاصراسلامی فکرکے چند توجہ طلب پہلو“ کے عنوان سے ایک مقالہ بھیجا تھا، جس کے ذریعہ آپ کے سامنے یہ احساس پیش کرنا مقصود تھا کہ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کی تشریح وتعبیر کے ذیل میں بہت سے امور پر تحریک کا موقف ازسرنو تعیین وتشریح کا طالب ہے، جب تک یہ کام نہیں انجام پاتا جدید انسان ہماری قیادت پر اعتماد نہیں کرسکتا۔ کم سے کم اسے یہ اطمینان تو ہو کہ ہم نے ان امور کے سلسلہ میں غوروفکر کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور رائے بدلنے کی پوری گنجائش ہے! صورت حال یہ ہے کہ ہماری پچھلی بہت سی باتوں پر اب اپنوں کو بھروسہ نہیں رہا۔ خاص طور پر جن لوگوں کو علم حاصل کرنے اور خود سوچنے سمجھنے کا موقع ملا وہ مسائل کے اس پورے باب میں دوسری رائیں رکھتے ہیں جس باب کا ذکر میں نے مقالہ میں کیا ہے۔ دوسروں کو مطمئن کرنے یا اپنی طرف بلانے میں جب ان مسائل سے متعلق وہ مخصوص رائیں پیش نظر رہتی ہیں جو تحریکی حلقوں کی طرف منسوب ہوچکی ہیں تو خود یہ بات تحریک کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آئندہ اس بات کی اہمیت بڑھتی چلی جائے گی اور اس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ جب سے مغربی ممالک میں اسلامی تحریک کا کام بڑھا ہے اس طرح کے مسائل کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ اور اب ضرورت اوپر اوپر سے صرف بعض عملی مسائل پر اظہار رائے میں لچک اختیار کرنے کی نہیں بلکہ اصولی طور پر ان مسائل کے حل کے طریقے، انفرادی آزادی کے حدود، اجتہاد واختلاف کی گنجائش اور قرآن کریم اور سنت ثابتہ کے متعلقہ نصوص کی تعبیرنو کی ہے“۔ (اسلام، معاشیات اور ادب)

”معاصر اسلامی فکر“ پر مولانا مودودی کے خدشات:

مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ نے ڈاکٹر صدیقی کی تحریر ”معاصر اسلامی فکر“ سے متعلق الگ الگ تین خطوط میں اپنے کچھ احساسات اور کچھ خدشات کو بیان کیا ہے، ذیل میں ان خطوط سے متعلقہ اقتباسات درج کیے جارہے ہیں:

پہلا مکتوب (6ستمبر 1970):

”اس وقت ہم خصوصاً یہاں جن نازک حالات سے گزر رہے ہیں ان میں پہلے ہی ہمارے راستے میں بے شمار کانٹے ہیں، کجا کہ آپ چند اور کانٹوں کی نشاندہی کرکے یہاں نئی بحثیں چھڑوادیں۔ ہندوستان کی حد تک تو یہ صرف علمی بحثیں ہوں گی، لیکن ہمارے لیے یہ عملی پیچیدگیاں بن جائیں گی۔ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن سے صرف اس وقت تعرض کرنا چاہیے جب کسی جگہ عملاً اسلامی نظام قائم ہوجائے اور ہم اس پوزیشن میں ہوں کہ ان مسائل پر جو رائے بھی قائم کریں اس کو نافذ کرنے کی طاقت ہمیں حاصل ہو۔ اس سے پہلے ان پر تفصیلی بحثیں کرنا اپنی راہ کی مشکلات کو بڑھانے کا موجب بن جائے گا۔ اس لیے بعض بحثوں سے ہم قصداً احتراز کررہے ہیں“۔

دوسرا مکتوب (10نومبر1970):

”آپ کا مقالہ میں نے دیکھ لیا ہے، اس میں بہت سے ایسے مسائل چھیڑدیے گئے ہیں جنہیں اس وقت پاکستان میں چھیڑدینا ہمارے لیے مزید مشکلات کا موجب ہوجائے گا۔ اس لیے یہاں تو اس کی اشاعت ممکن نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو ہندوستان میں اسے شائع کردیں، کیونکہ وہاں اس کی حیثیت محض علمی بحث کی سی ہوگی“۔

تیسرا مکتوب (26نومبر1970):

”میرا خیال یہ ہے کہ جن مسائل پر آپ نے بحث کی ضرورت ظاہر کی ہے ان کو مسائل کی شکل میں چھیڑنے اور شائع کرنے کے بجائے ان میں سے کسی ایک یا چند مسائل پر خود تحقیقی بحث کریں۔ اور دوسرے ان رفقاء کو جو اس قسم کے تحقیقی کام کرنے کے اہل ہیں دوسرے مسائل کی طرف توجہ دلائیں، یہ ایک مثبت طریقہ ہوگا جس سے زیادہ بہتر نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے“۔

معاصر اسلامی فکر اور مولانا علی میاں ندویؒ کا اعتراف

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے ”معاصر اسلامی فکر“ کا مسودہ اشاعت سے قبل وقت کے بڑے اہل فکر ونظر کی خدمت میں ارسال کیا تھا، یہ مسودہ مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی کی خدمت میں بھی ارسال کیا گیا تھا، مولانا علی میاں ندوی علیہ الرحمہ نے مسودہ دیکھنے کے بعد ڈاکٹر صدیقی کے نام اپنے دو خطوط میں اس مقالہ کا تذکرہ کیا ہے، ان خطوط کے ذریعہ نہ صرف مولانا ندوی مرحوم نے تائید نوٹ کرائی، بلکہ اس کام کی اہمیت کا کھل کر اعتراف بھی کیا، اور اس سلسلہ میں کچھ حد تک عملی رہنمائی بھی فرمائی، یہ دونوں مکتوب ذیل میں درج کیے جارہے ہیں:

پہلا مکتوب (19اپریل 1970):

”مضمون فکرانگیز اور پرمغز ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس طریق فکر سے سو فیصدی اتفاق ہو۔ آپ نے جن مسائل کو اٹھایا ہے اور جن کمزوریوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان سے انکار نہیں، لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ آپ قرآن مجید اور سیرت نبوی سے براہ راست ان کا حل طلب کریں اور ان کے قلب وجگر میں اترنے کی کوشش کریں، جہاں تک میرے سوچنے کے طریقے کا تعلق ہے میری عربی کتاب النبوۃ والانبیاء فی ضوء القرآن اور الارکان الاربعۃ میں وہ ذہن بہت حد تک سامنے آگیا ہے، پھر بھی میں نے آپ کی تحریر سے استفادہ کیا اور اس کے بہت سے حصوں سے اتفاق ہے“۔

دوسرا مکتوب(17 مئی 1970):

”آپ کا مقالہ ”معاصر اسلامی فکر“ آپ کے پاس بھیج رہا ہوں، جیسا کہ میں نے پہلے لکھا تھا کہ یہ ایک پرمغز اور فکرانگیز رسالہ ہے۔ آپ نے بڑے اہم سوالات اٹھائے ہیں جن کو زیادہ دنوں تک نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور ان کو نظرانداز کرنے کی اس عالم اسباب میں اکثر وہی سزا ملتی ہے جو متعدد آزاد ہونے والے ممالک اور مسلم معاشرہ میں اِس دور میں ملی ہے اور وہ زیادہ تر اسلامی تحریکوں اور ان کے قائدین کے حصہ میں آئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان مسائل پر کون غور کرے یا وہ لوگ ہیں جو اس کے اہل نہیں ہیں اور جو اہل ہیں ان کو ترکی کے پچھلے دور کے علماء کی طرح اپنی دوسری مصروفیتوں سے فرصت نہیں۔ مجلس تحقیقات شرعیہ کا قیام اسی سلسلہ کی ایک ناچیز کوشش تھی مگر اس کو ابھی تک کوئی موزوں آدمی نہ ملا۔ ہمارے صاحب ثروت طبقہ کو نہ اس کی سمجھ ہے نہ توفیق کہ جو نوجوان فاضل اس کی اہلیت رکھتے ہیں اور قدیم وجدید پر ان کی ایک حد تک نظر ہے ان کو معاشی حیثیت سے بے فکر اور اس کام کے لیے فارغ کردیں۔ میں پہلے بھی اس کام کے لیے زیادہ موزوں نہ تھا اور اب تو نظر کی کمزوری نے بالکل ہی معذور کردیا ہے۔ اگر کبھی امنگ پیدا ہوتی ہے تو ”تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے“ کا مصرعہ پڑھ کر خاموش ہوجاتا ہوں۔ آپ ان سوالات میں سے ایک ایک کو لے کر خود ہی جواب دینے کی کوشش کریں اور اپنا فکرومطالعہ پوری احتیاط وتوازن کے ساتھ پیش کریں، تو شائد یہ بات دوسروں کے لیے تحریک بن جائے اور اس کا کوئی اچھا نتیجہ نکلے۔ بہرحال میں نے اس تحریر سے استفادہ کیااور اب شکریہ کے ساتھ آپ کو واپس کررہا ہوں۔“ (حوالہ سابق، صفحہ 59)

معاصر اسلامی فکر، مولانا عبدالماجد دریابادی کا احساس:

مولانا عبدالماجد دریابادی علیہ الرحمہ معاصر اسلامی فکر میں مذکور امور ومسائل سے متعلق اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:

”یہ سارے مسائل ہیں واقعی نازک اور جب تک خود مخاطبین کی ہی ذہنیت بدل نہ جائے پوری کامیابی کی توقع بھی نہیں“۔ (حوالہ سابق)

معاصر اسلامی فکر پر نظرثانی کا کام

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کا یہ مقالہ پہلی بار مجموعہ خطوط ”اسلام، معاشیات اور ادب“ میں ضمیمہ کے طورپر شائع ہوا۔ اس کے بعد ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمیں شائع ہوا، اور پھر ترجمان القرآن کے شکریہ کے ساتھ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ نے اس مقالہ کو ”عصر حاضر میں اسلامی فکر۔ چند توجہ طلب مسائل“ کے عنوان سے اپنے یہاں اس نوٹ کے ساتھ شائع کیا کہ ”ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا شمار عالم اسلام کے نامور اصحاب علم اور ماہرین معاشیات میں ہوتا ہے۔ زیرنظر تحریر میں انہوں نے نہایت بالغ نظری کے ساتھ ان مباحث کی نشاندہی کی ہے جو دین وشریعت کی تعبیر وتشریح اور امت مسلمہ کو درپیش فکری چیلنجوں کے حوالے سے عالم اسلام کے علمی حلقوں میں زیربحث ہیں“۔ (جولائی 2002ء، صفحہ20)

2006ء میں مولانا امین عثمانی ندوی مرحوم، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی گزارش پرڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس مقالہ پر نظرثانی فرمائی، مولانا امین عثمانی کی خواہش تھی کہ مقالہ پر چونکہ ایک عرصہ گزر چکا ہے اور اس دوران ڈاکٹر صدیقی نے دنیا بھر کے اسفار بھی کیے ہیں اور دنیا بھر کے مفکرین کے ساتھ تعامل بھی رہا ہے، چنانچہ ان کی روشنی میں بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں اس پر نظرثانی کردی جائے۔ چنانچہ ڈاکٹر صدیقی مرحوم نے اس مقالے میں حواشی کے تحت متعدد اہم اضافی نوٹس درج کرائے، اور متعدد جگہوں پر اپنی رائے میں تبدیلی بھی ظاہر کی ہے۔ اس طرح یہ مقالہ پہلی بار کتابی صورت میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا سے شائع ہوا۔ اس کے مقدمہ میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم لکھتے ہیں:

”2006ء کے اواخر میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا نے اس میں اٹھائے گئے سوالات پر مزید غوروبحث کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے مجھ سے فرمائش کی کہ، اس حقیقت کے پیش نظر کہ مقالہ لکھے کافی وقت گزرا اور اس عرصے میں دنیا کچھ سے کچھ ہوگئی، اس میں اضافہ کروں تاکہ اسے اہل فکرونظر کے سامنے تبادلہئ خیالات کے لیے پیش کیا جائے۔ میں نے یہ اضافے متن مقالہ میں کرنے کی بجائے حاشیہ میں کیے ہیں تاکہ ایک تاریخی امانت میں کسی تصرف کے بغیر تازہ افکار سامنے رکھ سکوں۔ واضح رہے کہ یہ مقالہ، یا اس پر تازہ اضافے، کسی معروضی بحث کا نتیجہ نہیں۔ یہ ایک طالب علم کے مطالعہ، مشاہدات اور تأثرات کا نتیجہ ہیں جو تبادلہ آراء کی غرض سے پیش کیے جارہے ہیں۔ میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کا شکرگزار ہوں کہ اس نے یہ موقع فراہم کیا۔“ (مقدمہ)

معاصر اسلامی فکر کا دوسرا ایڈیشن

2016ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن ہدایت پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس، نئی دہلی سے شائع کیا گیا، یہ وہی ایڈیشن ہے جو 2006ء میں فقہ اکیڈمی سے شائع ہوا تھا، البتہ اس ایڈیشن میں مولانا امین عثمانی ندوی مرحوم کے مختصر مقدمہ بعنوان ”اشارہ“ کا اضافہ ہے۔ مولانا عثمانی مرحوم مقدمہ میں لکھتے ہیں:

”مایہ ناز مفکر محترم ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے حکمت و دانائی سے احیاء و تجدید کے مضامین کو سامنے رکھتے ہوئے معاصر فکر اسلامی کے ان نئے سوالات کو اپنا موضوع سخن بنایا جن کاتعلق عملاً مستقبل میں کام کرنے اور مستقبل کی فکری منصوبہ بندی سے تھا،ان کا یہ فکر انگیز مضمون ہند و پاک کے جرائد میں کافی پہلے شائع ہوا، ایک مدت کے بعد اندازہ ہوا کہ ان بیش قیمت موتیوں کو دوبارہ منظر عام پر لانا مناسب ہوگا، چنانچہ صاحب مقالہ سے گزارش کی گئی کہ وہ اس میں ضروری اضافات فرمادیں۔ انھوں نے علمی دیانت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضروری حاشیوں کا اضافہ کیا اور ان حواشی میں اہم اشارات درج کیے، حالانکہ یہ اشارات بذات خود مستقل مضامین کے نکات ہیں۔“ (صفحہ6)

مولانا امین عثمانی مرحوم کی خواہش تھی کہ 2016ء کے ایڈیشن میں بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم کی جانب سے نظرثانی کا کام ہوجائے، جس کی جانب ایک ہلکا سا اشارہ مذکورہ اقتباس میں بھی موجود ہے، اس سلسلہ میں مولانا امین عثمانی مرحوم نے 19 اپریل 2016کو ڈاکٹر صدیقی کے نام ایک مکتوب بھی ارسال کیا تھا، اس کے مشمولات اس طرح تھے:

”معظمی ومحترمی! السلام علیکم۔ میں خود حاضر ہوکر ایک بات کہنا چاہ رہا تھا لیکن ای میل کے ذریعہ ہی گزارش کرتا ہوں کہ آپ کی ایک قیمتی تحریر ’معاصر اسلامی فکر‘ جو ہم نے شائع کی تھی، اس کے نسخے ہمارے یہاں کافی پہلے ختم ہوچکے اور دوبارہ وہ اب تک چھپ نہیں سکی۔ برادر ابوالاعلی صاحب چاہتے ہیں کہ اسے شائع کریں، البتہ ساتھ میں ہماری بھی اور ان کی بھی یہ خواہش ہے کہ اگر روزانہ تھوڑا تھوڑا سا وقت آپ دے دیں اور اس میں ضروری اضافات کرادیں تو ایک بہت قیمتی چیز اہل علم کے ہاتھوں تک جلد سے جلد پہنچ جائے گی۔ اگر روزانہ پندرہ منٹ بھی آپ کا قیمتی وقت مل جائے تو ابوالاعلی صاحب آپ کے پاس بیٹھ کر ضروری نکات بشکل اضافات نوٹ کرلیں گے اور پھر آپ کو دکھا بھی دیں گے۔ والسلام، امین عثمانی“۔

لیکن اس وقت تک ڈاکٹر صدیقی مرحوم صحت کے اعتبار سے کافی کمزور ہوگئے تھے، استحضار بھی پہلے جیسا نہیں تھا، کچھ وقت دہلی میں رہتے تھے اور زیادہ وقت بچوں کے ساتھ امریکہ میں گزرتا تھا، چنانچہ یہ ایڈیشن بغیر کسی اضافے کے جوں کا توں شائع کردیا گیا۔

آئندہ سطور میں ”معاصر اسلامی فکر“ میں موجود کچھ اہم نکات کو پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی:

نفاذ اسلام اور عوامی تائید کا حصول

اسلامی تبدیلی ایک ہمہ گیر تبدیلی کا نام ہے، ذہنی اور فکری تبدیلی کا پہلو اس کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہے، معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور نظم وانصرام کا پہلو اس تبدیلی کے اہم ترین عناصر میں شمار کیا جاسکتا ہے، عوامی تائید اور قیادت کی منتقلی اس تبدیلی کے لیے بہت ضروری ہے، لیکن محض عوامی تائید کا حصول اور قیادت کی منتقلی سے بات پوری نہیں ہوتی ہے، اس تناظر میں ڈاکٹر صدیقی مرحوم کے درج ذیل پیراگراف پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں، پہلا پیراگراف 1970 کے متن کا ہے، جبکہ دوسرا پیراگراف 2006 کے ایڈیشن سے ہے، اس پیراگراف میں گزشتہ موقف پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ 1970 کی عبارت یہ ہے:

”آج مسلمان دانشوروں میں ایک معتد بہ عنصر موجود ہے جو پورے اسلام کو اختیار کرنے کا عزم رکھتا ہے، اور شریعت کو نہ صرف واجب العمل سمجھتا ہے بلکہ قابل عمل سمجھتا ہے، اور دور جدید میں اسے نافذ کرنے کا عزم بھی رکھتا ہے۔ یہ عنصر متحرک اور فعال ہے اور متعدد مسلمان معاشروں میں اس نے عوام کے ایک بڑے طبقے کا اعتماد حاصل کرکے ان کی قیادت شک وریب میں مبتلا یا کمزور ایمان رکھنے والے اور دین ودنیا کے درمیان تفریق کرنے والے دانشوروں سے بڑی حد تک چھین بھی لی ہے۔ لیکن ابھی عوام کی غالب اکثریت کی اس نئی اسلامی قیادت کے ساتھ وابستگی زیادہ تر جذباتی ہے جس کے سبب وہ غیر اسلامی قیادت کے تسلط کے خلاف کوئی عملی اقدام کرنے او راس راہ میں قربانیاں دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے، نہ اس بگڑے ہوئے ”مذہبی مزاج“ کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علماء اور اسلامی قیادت کے پیچھے لاکھڑا کرتا ہے، مگر معاشی ترقی، سیاسی استحکام اور امور مملکت کے نظم وانصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتا ہے۔“ (صفحہ 13-15)

اس متن پر 2006 کا تنقیدی حاشیہ درج ذیل ہے:

”نفاذ اسلام کے داعیہ او راس سلسلہ میں عوامی تائید کے حصول کے تعلق سے متن میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے گزشتہ بیس برسوں کی تاریخ کی روشنی میں، پڑھ کر آج منھ بدمزہ ہوجاتا ہے۔ خواہی نہ خواہی، دور جدید میں شریعت کو ’نافذ کرنے کے عزم‘ کی مثال طالبان قرار پاتے ہیں مگر اس مثال کو اسلامی قبول کرنے سے عقل عام اور فطرت سلیم اِبا کرتی ہے۔ آنکھیں بند کرکے چند حدود کے نفاذ کو اسلامی نظام کا قیام نہیں کہا جاسکتا۔ رہیں وہ کوششیں جو پاکستان، ایران اور سوڈان میں کی جاتی رہیں تو وہ سیاست، دکھاوے اور لیپاپوتی کے کثیف غلافوں میں ملفوف ہونے کے سبب ابھی طبع مسلم پر کوئی ایجابی تأثر چھوڑنے میں ناکام ہیں۔متن مقالہ میں قیادت کی تبدیلی پر بڑازور ہے، جیسے کہ یہی فتح مبین کی کنجی ہو۔ آج یہ بھولے پن کی بات Naive معلوم ہوتی ہے۔ عصر حاضر میں اسلامی زندگی کا انحصار مسلم معاشرہ کے کسی گوشے میں موجود نئے لیڈروں کی قیادت وسیادت بروئے کار آنے میں نہیں۔ اس کے لیے فرد مسلم کی سرچشمہ ہدایت سے راست وابستگی، اسی سے کسب شعور Inspiration اور دور جدید کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ اسلامی زندگی کے ایک ایسے تصور Vision کی ضرورت ہے جس میں مقاصد کو ذرائع پر اور اصل دین کو شرائع پر فوقیت حاصل ہو۔“(صفحہ 15)

سنت کے حوالے سے مطلوبہ موقف

”سنت“ کے حوالے سے جدید اسلامی لٹریچر میں کافی جدید بحثیں موجود ہیں، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے بھی اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے، ڈاکٹر صدیقی اوّل تو ذخیرہ حدیث پر مزید بحث وتحقیق پر زور دیتے ہیں، ڈاکٹر صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک اسلامی کے بڑے رہنماؤں کا یہی موقف تھا، تیسرا نکتہ یہ کہ جدید دنیا کے مسائل کے تناظر میں بحث وتحقیق کا یہ کام بہت ضروری ہوگیا ہے، اور آخری اوربہت ہی اہم نکتہ سنت میں مصالح اور مقاصد کے اعتبارپر تحقیق کا کام ہے، چنانچہ”سنت“ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

”اصولی طور پر اس ذخیرہ سے استفادے میں ماضی کی بحث وتحقیق کو حرف آخر سمجھنے کے بجائے مزید تحقیق وتدبیر کی ضرورت ہمیشہ باقی رہے گی۔ یہ بات روایت ودرایت یا تاریخی تحقیق اور قرآن کریم کی رہنمائی میں عقلی جانچ پرکھ دونوں کے بارے میں صحیح ہے۔ چند مجموعوں میں درج ہر روایت کو لفظاً ومعناً رسو ل کریمؐ کی طرف منسوب کرنے اور مستشرقین کی اتباع میں احادیث کے پورے ذخیرہ کی صحت کو مشکوک سمجھنے کے دو انتہا پسندانہ رویوں کے درمیان یہی وہ مسلک اعتدال ہے جو تحریک اسلامی کے رہنماؤں نے اختیار کیا ہے۔ اصل مسئلہ زیر غور مسائل میں اس موقف کو عملاً برت کر دکھانے اورانتہا پسندانہ موقفوں پر علمی تنفید کا ہے۔ یہ کام بھی از حد تشنہ ہے۔

روایت ودرایت کے اعتبار سے احادیث کی از سر نو تحقیق اور جدید مسائل کی نسبت سے سنت کی تنقیح کی سب سے زیادہ اہمیت ان دستوری، سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل میں ہے، جن میں دور جدید میں اسلامی موقف کی از سر نو تعیین اس لیے ضروری ہوگئی ہے کہ متعلقہ احوال وظروف یکسر بدل گئے ہیں۔ اس دائرہ میں متعدد مسائل کے ضمن میں یہ سوال بہت اہم ہوگیا ہے کہ سنت ان مقاصد ومصالح کے اعتبار سے اور ان کے حصول کے لیے مزاج شریعت سے مناسبت رکھنے والے طریقے اختیار کرنے کا نام ہے، جن کا اعتبار نبیؐ نے اپنے زمانے کی دستوری سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کی تطہیر وتنظیم میں کیا تھا، یا خود ان متعین قواعد وضوابط کا نام ہے جو آپؐ نے وضع کیے تھے۔“ (صفحہ:23-24)

2006 کے ایڈیشن میں اس پر نوٹ چڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”گزشتہ تین دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں اس فقرہ کی آخری چار سطروں کی طرف از سر نو دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں سنت کی تشخیص، فہم اور تطبیق کا مسئلہ مسلکی تصلب، بسا اوقات تعصب، کاشکاررہا جس کے سبب اس پر عالمانہ بحث وتحقیق کا حق نہ ادا ہوسکا۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ دستوری، سیاسی اور سماجی مسائل میں، اپنے اپنے فہم کے مطابق ’سنت‘ کی تطبیق نے گزشتہ دنوں جو شکلیں اختیار کیں ان پر اکثر اسلامیانِ عالم کا منھ بدمزہ ہے۔ مسئلہ کی از سر نو تنقیح او رتحقیق ناگزیر ہے۔

سنت کے فہم کے لیے، خاص طور پر اگر اس کا تعلق دستوری، سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل سے ہو، پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ جس مسئلہ سے زیر غور سنت کا تعلق ہے اس میں ساتویں صدی عیسوی میں عرب کے زمینی حقائق کیا تھے۔ لوگوں کی عادات کیا تھیں، ان کے درمیان عرف کیا تھا۔ نبیؐ نے جو حکم دیا اس کے نتیجہ میں صورت واقعہ میں کیا تبدیلی درکار تھی۔ نبی کے اس تصرف (Intervention) کا مقصود کیا تھا۔ اگلا قدم یہ ہے کہ ہم اسی مسئلہ سے متعلق اپنے زمانہ کے ارضی حقائق (Ground Realities) کو سمجھیں، آج کے عادات واعراف کو نوٹ کریں، پھر دیکھیں کہ اس مقصود نبوی کی تکمیل کے لیے صورت واقعہ میں کیا تبدیلی درکار ہے اور اسے بروئے کار لانے کے لیے کیا پالیسی اختیار کرنا مناسب ہے۔

ظاہر ہے کہ اس پورے عمل، سنت نبوی کی روایت اور درایت کے معیاروں پرتشخیص، ساتویں صدی میں اہل عرب کے حالات کی تحقیق، حکم نبوی کے مقصود کی تعیین، پھر عصر حاضر کے احوال کو سمجھنا اور ان حالات میں مقاصد شریعت کی تحصیل کے لیے موزوں پالیسی تک پہنچنا، اس کا م میں قدم قدم پر رائیں مختلف ہوں گی۔ اس اختلاف آراء سے اسلام کے بتائے ہوئے شورائی طریقہ سے عہدہ برآہونا ہوگا۔ اس کے لیے اختلافی مسائل میں اظہار خیالات اور تبادلہ آراء کی وہ فضا بحال کرنا ہوگی جو اسلام کے دور زرّیں میں پائی جاتی تھی مگر اب بوجوہ مفقود ہے۔ رواداری اور علمی بحث ومناقشہ میں مختلف یہاں تک کہ متضاد آراء کو سننے اور دلیل کا جواب اینٹ پتھر کی بجائے دلیل سے دینے کی روایت کو پھر سے زندہ کرنا ضروری ہے۔“

اسلامی حدود اور تعزیرات پر ایک اضافی نوٹ:

حدود وتعزیرات کے سلسلہ میں بھی ڈاکٹر صدیقی مرحوم جدید سوالات کو پیش کرتے ہیں، اور پھر اس باب میں بھی مقاصد شریعت کی روشنی میں غوروفکر پر زور دیتے ہیں، لکھتے ہیں:

”متن میں اٹھائی گئی بحثیں اب کافی آگے بڑھ چکی ہیں۔ خاص طور پر آزادئ ضمیر اور اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے یا ناپسندی کی صورت میں مذہب چھوڑنے کا مسئلہ بڑی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ آج دنیا کے ہر ملک میں مسلمان موجود ہیں۔ شاذ ونادر کو چھوڑ کر ان تمام ملکوں میں انہیں اپنے مذہبی آداب ورسوم کے ساتھ رہنے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ مغربی ممالک سے مسلسل نئے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو آزادیاں مسلمان غیر مسلم اکثریت کے ممالک میں عزیز رکھتے ہوں ان سے مسلم اکثریت والے ممالک کے غیر مسلموں کو محروم رکھا جائے۔ عدل وانصاف کا تقاضا ہے کہ دوہرے معیار نہ اختیار کیے جائیں۔جہاں تک دوسرے حدود کا سوال ہے، ان کے نفاذ کو ’شبہات‘ کی بنا پر معطل یا مؤخر کرسکنے پر اتفاق ہے۔ نفسیات، جنینیات(Genetics) اور جرم وسزا سے تعلق رکھنے والے دوسرے علوم کے اضافات اورانکشافات نے نئے شبہات کو جنم دیا ہے جن سے صرف اس بنا پر صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ قدیم فقہی لٹریچر میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔ سزائیں مقصود نہیں ہوا کرتیں بلکہ اعلی مقاصد کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ اس باب میں مقاصد شریعت کی روشنی میں غوروفکر کی ضرورت ہے۔“ (صفحہ31-32)

عائلی قوانین میں اصلاح

گزشتہ ایک صدی میں اسلامی عائلی قوانین کی اصلاح اور اس پر بحث وتحقیق کا کافی کچھ کام ہوا۔ عرب دنیا کے ممالک میں خاص طور پر اس موضوع پر مختلف پہلووں سے کام کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر صدیقی نے عائلی قوانین میں اصلاح کو بھی معاصر فکر اسلامی کو درپیش ایک بڑا چیلنج قرار دیا ہے، خاص طور پر غیرمسلم ممالک کے مسلمانوں کے تناظر میں اس مسئلہ پر خصوصی غوروفکر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”چونکہ یہ مسئلہ غیر مسلم ممالک کے مسلمانوں کے لیے بھی غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے اس کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ تعدد ازدواج کے حق کی تحدید اور ضابطہ بندی، طلاق کے اختیار کو بعض آداب کا پابند بنانا، حق خلع کی تجدید، مطلقہ کے حقوق، ایک ساتھ تین طلاقوں کا مسئلہ، صغیرہ کے نکاح، ولایت اجبار اور خیار بلوغ کے مسائل، نیز یتیم پوتے کی وراثت کے ضمن میں جبری وصیت کا مسئلہ اس دائرے کے چند ایسے مسائل ہیں جن پر غور وفکر ضروری ہے۔“ (صفحہ38-39)

2006 میں اس پر لگائے گئے اضافی نوٹ میں ہندوستان میں مسلم پرسنل لا کو لے کر چل رہی سیاست اور مسلم قیادت کی سردمہری پر بہت ہی معنی خیز تبصرہ کرتے ہیں، نیز بدلتے ہوئے حالات میں ان مسائل پر بھی مقاصد شریعت کی رعایت کرتے ہوئے ایک متوازن رائے تک پہنچنے پر زور دیتے ہیں:

”مسلم پرسنل لاز کا مسئلہ ہنوز سیاست اور سیادت کی چکی کے دوپاٹ کے درمیان بربادی کا شکار ہے۔ متن مقالہ میں مذکور حساس اختلافی مسائل پر نئے غور وفکر کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ تکنیکی ترقی، عام خوش حالی، معلومات کی فراوانی، خواندگی اور تعلیم میں اضافہ وغیرہ نے انسانی سماج میں عورت اور مرد کے باہم تعلق اور خاندان کی تنظیم پر جو اثرات ڈالے ہیں ان کو سمجھ کر اس باب میں مقاصد شریعت کی تحصیل اور ایک نئے توازن کی بحالی کی کوشش کی جائے۔“

مسلمان اقلیتوں کا سیاسی مسلک

غیرمسلم ممالک میں موجود مسلم اقلیتوں کا سیاسی موقف کیا ہونا چاہیے اور ان ممالک کی سیاست میں مسلم اقلیتوں کا کیا رول اور کردار ہونا چاہیے، اس پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی تحریروں میں کافی زور دیا ہے، معاصر اسلامی فکر میں بھی اس پر توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اب تک یہ سمجھا گیا ہے کہ انسانوں کو حاکمیت الٰہ کی طرف دعوت دینا اس بات کو  مستلزم ہے کہ جس ملک میں حاکم اعلیٰ جمہور کو قرار دیا گیا ہو اس کے سیاسی نظام سے کنارہ کش رہا جائے۔ یہ موقف نظر ثانی کا محتاج ہے۔ قانون سازی، تشکیل حکومت اور انتظام ملکی میں فعال حصہ لے کر اپنی سیاسی قوت میں اضافہ اور تعلیمی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے علاوہ خود ملک کی رائے عامہ پر اثر انداز ہونا زیادہ آسانی سے ممکن ہوگا۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حاکمیت الٰہ کا عقیدہ اور اس کی طرف دعوت اصولی طور پر ایسا کرنے میں مانع ہے۔ اس مسئلے پر کھل کر بحث ومذاکرہ ہونا چاہیے اور کوئی وجہ نہیں کہ یہ بحث مسلم ممالک کے اسلامی مفکرین کی شرکت سے محروم رہے۔ اگر مستقبل میں اسلامی تحریکوں کا منتہائے نظر صرف مسلم ممالک میں اسلامی نظام کا قیام نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسلامی انقلاب ہے تو اس مسئلے کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔“ (صفحہ41)

یہ کچھ اہم فکری مباحث ہیں جو ڈاکٹر صدیقی مرحوم کے مقالہ ”معاصر اسلامی فکر“ سے بطور نمونہ پیش کیے گئے۔ صحیح بات یہ ہے یہ پورا ہی مقالہ بہت ہی سنجیدہ غوروفکر کا طالب ہے۔ فکر اسلامی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس کا مطالعہ بہت ہی مفید ہوگا۔

معاصر اسلامی فکر کے موجودہ ایڈیشن کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ:

1970 کے زمانے میں جبکہ برصغیر کی اسلامی تحریکات ابھی بالکل ابتدائی نوعیت کے مباحث میں الجھی ہوئی تھیں، اس زمانے میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم دنیا بھر کے افکار کا نہ صرف مطالعہ کررہے تھے، بلکہ تحریک اسلامی کو درپیش فکری وعملی چیلنجز پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

2006کے ایڈیشن میں موجود حواشی کا مطالعہ اس پہلو سے بہت اہم ہے کہ اسلامی مفکرین کے یہاں فکری ارتقاء کس طرح رونما ہوتا ہے، اور ان کے لیے اپنی چیزوں پر تنقیدی نظر رکھنا کس قدر ضروری ہوتا ہے، اور اس کے مثبت اور ایجابی نتائج کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک اہم پہلو ہے، اس لحاظ سے مولانا مودودی کے افکار کا بھی مطالعہ کیا جانا چا ہیے۔ 

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے معاصر اسلامی فکر میں جن فکری امور ومسائل کی نشاندہی کی ہے، آج نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی برصغیر کی اسلامی تحریکات کے یہاں ان کے سلسلہ میں کوئی واضح اور قابل ذکر فکری پیش رفت نظر نہیں آتی۔


شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۱)

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

اصحاب علم نے شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکر و شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے۔ لیکن متعدد ایسے پہلو ہیں جن پر تفصیلی وتحقیقی مطالعے کی ضرورت ہے۔ان میں سے ایک پہلو شاہ صاحب کے کلامی تفردات کا ہے۔ ان کا مطالعہ دو وجہوں سے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے: ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاہ صاحب، جیسا کہ شبلی نے لکھا ہے ،دور زوال  وانحطاط  کی سب سے عظیم و عالی دماغ شخصیت ہیں۔(۱) دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ برصغیر کی  اسلامی فکری روایت پر شاہ صاحب کی فکرونظر کے نقوش دوسری کسی شخصیت کے مقابلے میں زیادہ  گہرائی کے ساتھ مرتسم ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں شاہ صاحب سے قبل بر صغیر ہند کی تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلامی فکر وثقافت کی نمائندہ  متعدداہم شخصیات پیدا ہوئیں لیکن ان کی اپنی مساعی فکر کے امتیازات کے باوجود ان کا فکری سرمایہ شاہ صاحب کی طرح نسبتاً‌ ہمہ جہت اور دور رس نہیں ہے۔شاہ صاحب کا کمال وصف ان کی جامعیت ہے۔ وہ  اسلامی علوم میں بیک وقت معقولات ومنقولات :تفسیر، حدیث،فقہ،کلام،فلسفہ اور ان کی مختلف شاخوں پر ماہرانہ دسترس رکھتے تھے۔اس لیے ان کے یہاں فکر اسلامی کی روایت کے ساتھ تعامل کے حوالے سے عقل ونقل کے استعمال کا بہت ہی خوبصورت امتزاج نظر آتا ہےجس کا سب سے اہم مظہر ان کی کتاب" حجۃ اللہ البالغہ" ہے۔

تفرد پسندی اور اسلامی فکری روایت میں اس کے عملی نقوش

تفرد پسندی کی اصولی حیثیت کیا ہے؟ اسلام کی فقہی وتفسیری روایات میں اس پر بحثیں ہوتی رہی ہیں جو’ قول شاذ‘ کے عنوان سے ملتی ہیں۔امام غزالی   نےشاذ کی تعریف  یہ کی ہے: الشاذ عبارۃعن الخارج عن الاجماع بعد الدخول فیہ۔’’شاذوہ قول یاموقف ہے جواجماع کا حصہ ہونے کے بعد اس سے  علاحدہ  ہوگیاہو‘‘۔ (۲) آمدی  بھی اس سے ملتی جلتی تعریف کرتے  ہیں ۔ان  کے مطابق: الشاذ ھو المخالف بعد الموافقة، لا من خالف قبل الموافقة-’’شاذ ایسا مخالف قول یا موقف ہے جو موافقت کے بعد، نہ کہ موافقت سے پہلے ،اختیارکیا گیا ہے‘‘۔(۳)

 اصولی طور پر کسی مسئلے کی تائید میں آرا ومواقف کی کثرت اس کے صواب ودرست ہونے کا مضبوط قرینہ ہے۔ چاہے متعلقہ مسئلے کا تعلق دینی امور سے ہو یا دنیاوی امور سے۔ عقل انسانی اس معیار کو قبول کرتی  اور مختلف متنازعہ فیہ امور میں اس اصل سے کام لیتی ہے۔ اصول فقہ وحدیث میں اسے تقریبا مسلمہ امر تصور کیا جاتا ہے۔تاہم اہل اصول کے نزدیک یہ بھی مسلم ہے  کہ کسی رایے کو اختیار کرنے والوں کی کثرت اس کے صواب وبرحق ہونے کی قطعی اور شافی دلیل نہیں ہے۔ فقہائے عراق  وحجازکے استنباط کردہ مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جن میں وہ  اکثریت کےمقابلے میں مختلف آرا رکھتے ہیں۔ ابن حزم فرماتے ہیں کہ: ولقد اخرجنا علی ابی حنیفة والشافعی ومالک مئین کثیرۃ من المسائل قال فیھا کل واحد منھم بقول لا نعلم احدا من المسلمین قال قبله-’’ امام ابوحنیفہ ،شافعی اور مالک کے بہت سے ایسے مسائل ہمارے علم میں آئے  جن سے متعلق انہوں نے ایسی بات کہی جوبات ان سے پہلے کسی نے نہیں کہی تھی‘‘۔(۴) لیکن یہ معاملہ ائمہ مجتہدین اور علماء اسلاف واخلاف تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس روایت کا سرا صحابہ کرام سے ملتا ہے۔ اجلہ صحابہ مختلف مسائل میں نہایت شاذ اور جمہور صحابہ کے مواقف سے متصادم آرا رکھتے تھے۔ جماعت صحابہ میں عبد اللہ ابن عباس اور عبد اللہ ابن مسعود سر فہرست ہیں جن کی متفرد تفسیری وفقہی آرا پر  علمی حلقوں میں گفتگو رہی ہے ۔ مشہور ہے کہ عباسی خلیفہ منصورنے امام مالک سے کہا کہ ابن عباس کی رخصت،ابن عمر کی شدت پسندی اورعبد اللہ ابن مسعود کے شاذ اقوال سے بچتے ہوئے ایک کتاب لکھ دیں۔(۵) تابعین میں  نخعی ،شعبی،کعب احبار وغیرہ سے کثرت سے شاذ اقوال منقول ہیں۔

صحابہ وتابعین کی یہی روایت بعد کی نسلوں میں منتقل ہوئی۔چناں چہ  نص کو دانتوں سے پکڑنے اور قیاسات اور عقل وخرد کی موشگافیوں سے احتراز کرنے والی شخصیات کے یہاں بھی مخالف جمہور ایسی آرا مل جاتی ہیں جن پر   ہردور کےعلمی وفکری حلقوں میں ردوکد کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی روایت   اسی فکری ماحول میں پروان چڑھی ہے۔ان متفرد اقوال سے متعلق اصحاب علم کا مجموعی موقف یہ رہا ہے کہ ان کی اتباع محض رخصتوں کی جستجو اور ان پر عمل کے لیے نہ ہو۔ امام ذہبی کہتے ہیں:  من یتتبع رخص المذاھب وزلات المجتھدین فقد رق دینہ۔’’جومختلف مذاہب میں پائی جانےوالی رخصتوں  اور مجتہدین کی لغزشوں کی تلاش وجستجو میں رہتا ہے ،اس کا دین کمزور ہوجاتا ہے‘‘۔(۶)

یہاں یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ منفرد یا شاذ سے موسوم کی جانے والی بہت سی  آرا واقوال کی حیثیتیں تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ چناں چہ ایک نسل کے علما  ومجتہدین کے شاذ تصور کیے جانے والے اقوال  ان کی بعد کی نسلوں میں  قبولیت  اختیار کرلیتے ہیں۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔صرف خلافت کے مسئلے کو سامنے رکھ کر دیکھیں۔ جمہور   کے نزدیک نہ توغیرقریشی کی اور نہ ہی  بیک وقت دو لوگوں کی خلافت منعقد ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس رایے اہل بدعت کی تھی لیکن وہی رایے جمہور علما کا مسلک بن گئی۔تفرد کے حوالے سے اہل الرایے زیادہ مشہور ہیں لیکن اہل الحدیث کے یہاں بھی اس کی کم مثالیں نہیں ہیں ۔اوپر ابن حزم کا قول گزرا جس میں امام ابوحنیفہ کے ساتھ انہوں نے امام شافعی و امام مالک کو بھی شمار کیا ہے جن کے بہت سے اقوال اس معنی میں شاذ ہیں کہ ان سے قبل کوئ ان کا قائل نظر نہیں آتا  ۔خود یہی حال ابن حزم ،ابن تیمیہ اور ابن قیم جیسے  محتاط اکابر علما کا ہے جو امور شریعت میں قیاس و اجتہاد کے شدید مخالف ہیں لیکن ان کے یہاں بھی بہت سے (کلامی وفقہی)تفردات  پائے جاتے ہیں۔چناں چہ مثلا ابن تیمیہ عرش باری کے قدم  اور ابن قیم فنائے جہنم کے قائل تھے۔(۷) علمائے سلف کے درمیان پائے جانے والے تفردات کواگر جمع کیا جائے متعدد  جلدیں تیارہوجائیں گی۔

تفردپسندی کے اسباب اورشاہ صاحب کا موقف

دین کی تفہیم وتعبیر کے حوالے سے شاہ ولی اللہ نے بھی متعدد مسائل میں جمہور علمائے امت سے الگ ہٹ کر اپنی آرا قائم کی ہیں۔اس کا تعلق  فقہ واجتہاد اور کلام دونوں سے ہے۔ اس تحریر میں  ہم شاہ صاحب کے  صرف کلامی تفردات سے بحث کریں گے۔

 سب سے پہلے یہ دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ کلامی وفلسفیانہ مسائل میں شاہ ولی اللہ کی تفرد پسندی کے اسباب کیا ہیں؟  اس کے مختلف اسباب میں سے سب سے اہم سبب، جو مشترکہ طور پر دوسروں کے یہاں بھی پایا جاتا ہے، وہ شاہ صاحب کا  مجتہدانہ مزاج ہے۔قرون اولی کے اصحاب علم کے طرز پر دلائل و براہین کی روشنی میں جمہورکے مروجہ موقف سے ہٹ کر نیا موقف اختیار کرنے میں وہ کوئ تامل محسوس نہیں کرتے۔ تاہم فقہ میں ان کے یہاں اجتہاد کے مقابلے میں تقلید کا پہلوغالب ہے ۔لیکن کلام وفلسفہ میں ان کی مجتہدانہ طبیعت  با ضابطہ طور پرتقلیدکی پابند نہیں ہے،جس کا  اظہار شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ کے مقدمے میں کیا ہے۔

ان کی کلامی وفلسفیانہ  فکر کا سب سے اہم پہلو دین وشریعت کے درمیان عقلی ہم آہنگی پیدا کرنا ہے جس کےلیے وہ مختلف سطحوں پرفکری طورپرکوشاں رہے۔چناں چہ ایک طرف انہوں نے اسلامی فکرکے بنیادی ڈھانچے، الہیات کی تشکیل نوکواپنا موضوع بنایا اوراس حوالے سے متعدد تصانیف قلم بند کیں ۔دوسری طرف انہوں نے دین کی عملی بنیادوں کوجواحکام شریعت سے عبارت ہیں،عقلی تفہیم پراستوارکرنے کی کوشش کی۔ الہیات  سے متعلق انہوں نے اپنا ایک منفرد نظام فکر وضع کیا جس پر ابن عربی کے وجودی فلسفے کے اثرات غالب ہیں۔ ابن عربی  کے بعدبظاہر انہوں نے سب سے زیادہ غزالی کی فکرسے خوشہ چینی کی ہے جس کے  واضح اثرات  ان کی کلامی فکرپرنظر آتے ہیں۔

مختلف امور دونوں شخصیات میں مشترک نظر آتے ہیں جیسے:علوم معقولات ومنقولات دونوں پردست رس،اس فرق کے ساتھ کہ حدیث میں غزالی کمزور ہیں جب کہ روایت ودرایت دونوں میں  شاہ صاحب  کا پایہ  بہت بلند ہے،فلسفہ و کلام کے ساتھ تصوف کی بہم آمیزی اور فلسفہ وکلام میں اہل سنت واہل بدعت دونوں کے مختلف مکاتب فکر سے استفادے کا رجحان، چناں چہ غزالی کی طرح وہ بھی اخوان الصفاء اور دیگر مبتدع گروہوں کے فلسفیانہ افکار کے خوشہ چیں ہیں۔غزالی کی طرح  متعدد مابعد الطبیعاتی مسائل میں فلاسفہ کے طرز پر وہ  نصوص میں تاویل کا رجحان رکھتے ہیں۔ دونوں کے یہاں ان  فلسفیانہ اصطلاحات واسالیب کی چھاپ نظرآتی ہے جن کی تشکیل وفروغ میں اہل سنت سے باہرکے فرقوں نے اہم رول ادا کیا۔(۸) سطعات  اور بعض دیگر تحریروں میں شاہ صاحب کی مابعد الطبیعاتی فکرپراشراقی فلسفے کے اثرات کوصاف طور پرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔ علوم ولی اللہی کے شارحمولانا عبید اللہ سندھی  بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ شاہ صاحب کسی بھی صاحب علم کی بات کوخواہ وہ کسی بھی مذہب وملت سے تعلق رکھتا ہو،اس شرط کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں کہ وہ ان کی فکرکے  مطابق ہو۔(۹)

شاہ صاحب نے مختلف کتابوں میں بہت سے مسائل کے حوالے سے اپنے متفردانہ موقف کا برملا اظہار کیا ہے، لیکن عام طور پر اس کی توجیہ واستدلال سےگریز کیا ہے۔ البتہ حجۃ اللہ البالغہ میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ اس پر پیدا ہونے والے سوالات و اعتراضات سے بحث کی ہے ۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ کلامی مسائل دو طرح کے ہیں: منصوص مسائل جو آیات و احادیث اور صحابہ وتابعین کے اقوال ومواقف سے ثابت ہیں۔ ان مسائل کے بارے میں آگے چل کر امت میں دو رجحانات پیدا ہوئے۔ ایک گروہ نے ظاہر نصوص کو اختیار کیا جب کہ دوسرے گروہ نے ایسی نصوص میں تاویل کی روش اختیار کی۔ ان مسائل کے ذیل میں قبر کا سوال وعذاب، قیامت میں اعمال کا وزن، رؤیت باری اور کرامات اولیاء جیسے مسائل آتے ہیں۔ مسائل کی دوسری نوع وہ ہے جو  منصوص ہے۔ ان کے معانی و مفاہیم پر نہ قرآن وحدیث سے روشنی پڑتی ہے اور نہ صحابہ کے اقوال سے۔ شاہ صاحب کے بقول انہوں نے اس دوسری قسم کے مسائل میں متقدمین سے اختلاف کیا ہے اور انہیں اس کا حق حاصل ہے۔ ان مسائل میں غورو خوض کرکے اپنا موقف متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت سے مسائل کی توضیح ان کی تفہیم پر موقوف ہے۔(۱۰)

شاہ صاحب فرماتے ہیں ان مسائل میں تاویل کی راہ اختیار کرنے اور نہ کرنے والےدونوں ہی گروہ راہ حق پر ہیں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسرے پر اپنی برتری کا اظہار کرے۔(ھذا القسم لست استصح ترفع احدی الفرقتین علی صاحبتھابانھا علی السنة۔) (۱۱)  کیونکہ دونوں ہی فریق مختلف مسائل میں تاویل کو ضروری قرار دیتے ہیں ۔اس کے علاوہ دوسری شکل تو صرف یہ رہتی ہے کہ ان مسائل میں سرے سے غوروخوض نہ کیا جائے جس طرح سلف (صحابہ و تابعین) نے غور وخوض نہیں کیا ۔(وان ارید قح السنة فھو ترک الخوض فی ھذہ المسائل رأسا کما لم یخض فیھا السلف(۱۲) گویا اشاعرہ و ماتریدیہ کے مطابق شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ عقل سے بظاہر متعارض نصوص میں تاویل کی جا سکتی ہے۔ محدثین کے مسلک کے مطابق اس کا انکار صحیح نہیں ہے۔

شاہ صاحب کے کلامی تفردات پر ایک  نظر

اب ہم شاہ صاحب کے تفردات پرنظرڈالتے ہیں۔شاہ صاحب نے حجۃ اللہ البالغہ میں اپنے چند  کلامی تفردات کا ذکران الفاظ میں کیا ہے:

وستجدنی اذا غلب علیَّ شقشقة البیان وامعنت فی تمھید القواعد غایة الامعان، ربما اوجب المقام ان اقول بما لم یقل به جمھور المناظرین من اھل الکلام کتجلی اللہ تعالی فی مواطن المعاد با لصور والاشکال و کاثبات عالم لیس عنصریا یکون فیہ تجسد المعانی والاعمال باشباح مناسبة لھا فی الصفة وتخلق فیه الحوادث قبل ان تخلق فی الارض وارتباط الاعمال بھیئات نفسانیة وکون تلک الھیئات فی الحقیقة سببا للمجازاة فی الحیاة الدنیا وبعد الممات والقول بالقدرالملزم ونحوذلک۔

’’جب مجھ پربیان کا جوش غالب ہوگا اور  قاعدوں کی تمہید بیان کرنے میں مجھ کو نہایت غور کرنا پڑے گا تو  بمقتضائے کلام میرے قلم سے وہ باتیں نکلیں گی  جن کے مناظر متکلمین میں سے کم لوگ  قائل  رہے ہیں۔ مثلا اس  بات کا قائل ہونا کہ اللہ تعالی آخرت میں مختلف شکلوں  اور صورتوںمیں تجلی فرمائے گا اور ایک ایسے عالم کو ثابت کرنا جس کی ترکیب عنصری نہیں ہے ۔اس میں اعمال اور معانی ایسے قالبوں میں جو وصف میں ان اعمال وغیرہ کے مناسب ہوتے ہیں، مجسم ہو کر ظاہر ہوتے ہیں اور قبل اس کے کہ زمین پر واقعات کی شکل میں وہ ظہور پذیر ہوں ،وہ پہلے ہی سے اس عالم (عالم مثال ) میں ظاہر ہو جاتے ہیں ۔ نیز اس بات کا قائل ہونا کہ اعمال کو نفس کی حالتوں سے ایک خاص تعلق ہے اور دنیا و آخرت میں جزا پانے کا حقیقتاوہی باعث ہوتے ہیں اور تقدیر  ملزم (مبرم)کا قائل ہونا وغیرہ‘‘۔ (۱۳)

  لیکن دوسرے مقامات پرشاہ صاحب نے بہت سے دوسرےمسائل میں بھی تفرد کی روش اختیار کی ہے ۔ان  پر ایک نظر ڈالنے سے جو بڑے اور اہم تفردات سامنے آتے ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں، جن پر اس مقالے میں گفتگو کی  گئی ہے:

 عالم مثال کا قول، قدم عالم کا قول، معجزہ شق القمرکا’ انکار‘،واقعات انبیاء کی فلسفیانہ تاویل، قرآن کے الفاظ کی رسول اللہ کی طرف نسبت وغیرہ۔ ان تفردات میں سے چند کو علامہ زاہد الکوثری نے شدید طور پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شاہ صاحب کے اس نوع کے افکار و آراء کو انہوں نے فکری اضطراب (اضطراب فکری) سے موسوم کیا ہے (۱۴) اوراس کی ایک بنیادی وجہ یہ لکھی ہے کہ وہ  فلسفۂ وحدت والوجود کے قائلین میں سے ہیں۔ انہوں نے شیخ ابو طاہر کے والد ابراہیم کورانی شافعی کی کتب و رسائل سے خصوصی استفادہ کیا جن میں حشویہ، اتحاد وحلول کے قائلین اور فلاسفہ و متکلمین کے گرے پڑے اقوال کے درمیان جمع و تطبیق کی کوشش کی گئی ہے۔(۱۵) کلامی مسائل کے حوالے سے انہوں نے شاہ صاحب کے تین تفردات کا ذکر کیا ہے :معجزہ ٔ شق القمر کا’ انکار‘  یا اس کی جمہور کے نقطہ نظر کے خلاف تاویل ،عالم مثال  کا تصورقبول کرنا اورقدم عالم کا قائل ہونا۔ ہم سب سے پہلے ان مذکورہ تین تفردات پر گفتگو کریں گے۔

 عالم مثال کا تصور:

شاہ صاحب نے اپنی متعدد کتب ورسائل میں عالم مثال پر گفتگو کی ہے ۔حجۃ اللہ البالغہ، سطعات،لخیر الکثیر، التفہیمات الالہیہ وغیرہ۔ لیکن باضابطہ اور تفصیلی گفتگو ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ میں کی ہے ۔انہوں نےعالم المثال پر ایک مکمل باب قائم کیا ہے جو مبحث اول کا دوسرا باب ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں:

اعلم انہ دلت احادیث کثیرۃ علی ان فی الوجود عالما غیرعنصری تتمثل فیہ المعانی باجسام مناسبة لھا فی الصفة وتتحقق ھنالک الاشیاء قبل وجودھا فی الارض نحوا من التحقق۔

’’جاننا چاہیے کہ اکثر حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسا عالم موجود ہے جس کی ترکیب عناصر سے نہیں ہے۔اس میں ہرایک جسمانی چیز کی مناسب صفت اورحالت میں وہ چیزیں جومعنوی ہیں ،صورت پکڑتی ہیں اور قبل اس کے کہ یہ چیزیں زمین پرظاہرہوں،پہلے اس عالم میں موجود ہوجایا کرتی ہیں‘‘۔ (۱۶)

دلیل میں ان احادیث کو پیش کیا ہے جن میں اعراض و کیفیات کو مجسم انداز میں دکھایا گیا ہے ،جیسے قیامت کے دن    انسان کے اعمال :نماز،روزہ اورزکوۃ وغیرہ کا محسوس ومجسم شکل میں سامنے آنا۔(۱۷) موت کا مینڈھے کی شکل میں لایا جانا اور پھر اسے جنت و دوزخ کے درمیان ذبح کر دیا جانا (۱۸)   یا اسی طرح دنیا کا ایک بڑھیا کی شکل میں حاضرہونا۔وغیرہ۔(۱۹) ان جیسی احادیث کی بنیاد پرشاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے لیے تین میں سے کوئی ایک موقف اختیارکرنا ضروری ہے: یا توان احادیث کے ظاہر کی بنیاد پر عالم مثال کا اقرارکیا جائے، محدثین کا  منہج اسی کامتقاضی ہے،یایہ سمجھاجائے کہ دیکھنے والے کوایسا محسوس ہوتا ہے ،خارج میں ایسے واقعات  کا کوئی وجودنہیں ہوتا۔ یا یہ کہ ا سے محض تمثیل تصورکیا جائے لیکن  صرف تیسرے معنی پران کومحمول کرنا شاہ صاحب کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔(۲۰)

ڈاکٹر فضل الرحمن  کہتے ہیں  کہ عالم مثال کا خیال سب سے پہلے شہاب الدین سہروردی(مقتول، م،۱۱۹۱)نے پیش کیا، ابن عربی( م،۱۲۴۰) اور ملا صدرا نے اسے پروان چڑھایا۔ شاہ ولی اللہ کا رول اس حوالے سے یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مابعد الطبیعاتی فلسفےمیں اسے  وسعت کے ساتھ استعمال کیا۔ (۲۱)  لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس کا ابتدائی تصور ابن سینا نے’’ الشفاء ‘‘اور ’’الاشارات ‘‘میں معاد سے متعلق مباحث میں پیش کیا۔ سہروردی نے اسے ایک خیال کی شکل دی لیکن دونوں نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی۔ سہروردی کے شارح  شمس الدین الشہرزوری ( م،۱۲۸۸)نے  غالبا باضابطہ طور پر پہلی مرتبہ  اس اصطلاح کا استعمال کیا اور اسے آگے بڑھایا ۔ابن عربی  نے   عالم المثال کے بجائے ’عالم الخیال‘ کے ذریعے اس تصورکووسعت کے ساتھ استعمال کیا۔ا ن کے بعد ان کے شارحین کے ذریعے عالم المثال کی اصطلاح اور اس کے تصور کو فروغ حاصل ہوا اور ملا صدرا سے ہوتا ہوا شاہ ولی اللہ تک پہنچا۔ شاہ صاحب سے قبل  نہ صرف صوفیہ بلکہ فقہا ومحدثین کی ایک جماعت   بھی اس تصور کی حامل رہی ہے جس میں تاج الدین سبکی،سیوطی،ملا علی قاری وغیرہ شامل ہیں۔شاہ صاحب اس کو بظاہر  اپنے تفردات میں اس لیے شمار کرتے ہیں کہ یہ تصور اور اصطلاح اصلا صوفیہ کے یہاں مقبول رہی ہے،محدثین وفقہا نے بہت کم ہی اس سے اعتنا کیا ہے بلکہ زیادہ تر انہوں نےصوفیہ کے حوالے سے ہی اس کا ذکرکیا ہے۔

شاہ صاحب کی اس حوالے سے دو انفرادیتیں ہیں: ایک یہ کہ انہوں نے اپنے مابعدالطبعیاتی فلسفے میں  عالم مثال کے تصور کو اساسی اور مرکزی جگہ دی ۔ دوسرے یہ کہ انہوں نے نصوص کو اس کا ماخذ قرار دیا اور اس تصور کے بنیادی خدو خال کو تفصیل کے ساتھ ان پر منطبق کرنے کی کوشش کی ۔جیساکہ سطور بالا میں ان کی پیش کردہ عبارت سے واضح ہے  کہ ان کی نظر میں بہت سی احادیث اس پردلالت کرتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو عالم المثال کے تصور کو اختیار کرنا شاہ صاحب کا کوئی تفرد نہیں ہے ۔صرف اس معنی میں اس کو تفرد کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ پوری صراحت کے ساتھ اس تصور کو معقول کے بجائے منقول سے برآمد کرنے کی کوشش کی۔

شاہ صاحب کے عالم مثال کے تصور پر اعتراض کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ یہ افلاطونی فلسفے سے ماخوذ ہے۔زاہد الکوثری  نے بھی یہی اعتراض کیا ہے۔  جس کی ان کے بقول شریعت  اور عقل  دونوں لحاظ سے  کوئی اصل نہیں ہے۔(لم یثبت وجودہ فی الشرع ولا فی العقل) (۲۲) لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاہ صاحب کے تصورکا اصل ماخذ افلاطون کا تصورعالم المثل( world of ideas) یا عالم الاشکال (world of forms)نہیں ہے بلکہ جیسا کہ اوپر کی مثالوں اور حوالوں سے اندازہ کیا جاسکتا ہے، شاہ صاحب نے اسے خود اسلامی فلسفہ و تصوف کی روایت سے اخذ کیا ہے ۔خاص طورپر ابن عربی کے وجودی اور شہاب الدین سہروردی مقتول کے اشراقی فلسفے میں اس کے نقوش بہت واضح ہیں۔

 تاہم بظاہر یہ دعوی کرنا بہت مشکل ہے کہ افلاطون کے تصور عالم المثل   کا اسلامی( شیعی و سنی دونوں) روایتوں میں تشکیل اور فروغ پانے والے عالم المثال کے فلسفے میں کوئی دخل نہیں رہا ہے۔زیادہ صحیح بات یہ نظر آتی ہے  کہ وجودی اور اشراقی صوفیہ نے  نوافلاطونیت کے زیر اثر ابتدائی سطح پر اس تصور کوقبول کیا۔ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ اسلام کی کلامی  وفلسفیانہ روایت کا خمیر یونانی و ایرانی فلسفے کے آب و گل سے ہی تیار ہوا ہے اور نو افلاطونیت نے اس میں ایک اہم عنصر کا کردار ادا کیا ہے۔  وجود کی ماہیت کیا ہے  اورقدیم سے  حادث  کے صدور اور عالم ناسوت  سے عالم جبروت وملکوت کےتعلق کی کیا نوعیت ہے؛  اس نوع کی بحثیں یونانی فلسفے کے زیر اثر اسلامی فکر کا حصہ بنیں۔ عالم مثال کے تصور کواسی پرقیاس کرنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ اس کا ابتدائی تصور یونانی فلسفےسے اسلامی فکر کا حصہ بنا  اورشاہ صاحب نے اسے دراصل یونانی کے بجائے اسلامی فکرسے اخذ کیا۔

معجزہ شق القمر سے’ انکار‘: 

شاہ صاحب کا دوسرا تفرد معجزہ شق القمر سےایک نوع کا’ انکار ‘ہے۔ شاہ صاحب اسے  معروف معنی میں معجزے کے بجائے قرب قیامت کی پیشین گوئی قرار دیتے ہیں۔ ’التفھیمات الالھیۃ‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

 اما شق القمر، فعندنا لیس من المعجزات، انماھو من آیات القیامة کما قال اللہ تعالیٰ: اقتربت الساعة وانشق القمرولکنہ صلی اللہ علیہ وسلم اخبرعنہ قبل وجودہ فکان معجزة من ھذا السبیل ۔۔۔ ولم یذکر اللہ سبحانہ شیئا من ھذہ المعجزات فی کتابه ولم یشر الیھا قط۔

’’ جہاں تک شق قمر کے معجزے کی بات ہے تووہ ہمارے نزدیک  معجزات میں سے نہیں ہے، وہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: قیامت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس کے وقوع سے پہلے خبر دی ہے اس لحاظ سے یہ معجزہ ہے---اللہ سبحانہ نے ان معجزات میں سے کسی معجزہ کا ذکر اپنی کتاب ( یعنی قرآن) میں نہیں کیا ہے اور نہ مطلق اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔‘‘(۲۳)

اس کی مزید وضاحت انہوں نے دوسری جگہ  کی ہےجس کے مطابق، یہ ضروری نہیں ہے کہ عین قمر کا انشقاق ہوا ہو بلکہ بظاہر حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والوں کوایسا محسوس ہوا ہو۔ چناں چہ ’تاویل الاحادیث ‘میں لکھتے ہیں:

ولیس یجب ان یکون انشقاقه البتة انشقاقا لعین القمر بل یمکن ان یکون ذلک بمنزلة الدخان وانقضاض الکوکب والخسوف و الکسوف مما یظھر فی الجو لأعین الناس۔

’’یہ ضروری نہیں ہے کہ عین قمر کا انشقاق ہوا ہو بلکہ ممکن ہے اس کی شکل ایسی ہو جیسےآسمان میں دھوئیں یا ستاروں کے ٹوٹنے  اورکسوف وخسوف (سورج اورچاند گرہن)کی کیفیت دیکھنے والوں کومحسوس ہوتی ہے‘‘۔(۲۴)

یوم تأتی السماء بدخان مبین ( جس دان آسمان ایک کھلے ہوئے  دھوئیں کے ساتھ نمودار ہوگا۔: الدخان:۱۰) کی تفسیر میں عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت پرمحمول نہیں ہے بلکہ ایک بار مکے میں قحط آیا تو  اہل مکہ کو بھوک کی وجہ سے آسمان دھواں دھواں نظر آتا تھا  ۔اسی طرح ابن ماجشون مالکی کا قول ہے کہ  قیامت میں اللہ تعالی دیکھنے والوں کومختلف شکلوں میں نظر آئے گا۔ (۲۵) شاہ صاحب کے مطابق ،اس طرح کے حادثات و اقعات نبی کے لیے اس  طرح معجزات بن جاتے ہیں کہ  نبی ان کی خبر پہلے ہی دے دیتا ہے یا وہ خدا کے قانون مجازات کے مطابق ہوتے ہیں جیسے عاد وثمود کی ہلاکت ہود اورصالح علیہما السلام کے لیےبمنزلہ معجزہ تھی۔(۲۶) شاہ صاحب کا موقف یہ ہے کہ خوارق ومعجزات کے بارے میں یہ سارے امکانات موجود ہیں جن کے تناظر میں ان کی حقیقت کوسمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ عام معنوں میں جسے معجزہ کہا جاتا ہے بہرحال وہ خدا کی قدرت سے باہر نہیں ہے ۔چناں چہ انہوں نے اس معجزے کی جوتاویل کی ہے وہ  ان کے بقول بربنائے امکان واحتمال ہے نہ کہ بربنائے  یقین۔(۲۷) اسی تنا ظر میں شاہ صاحب کے اس نقطہ نظر کی حقیقت کوبھی سمجھاجاسکتا ہے کہ قرآن میں رسول اللہ کے کسی معجزےکا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔(۲۸)   بعض اصحاب علم  جن میں علامہ خطابی شامل ہیں کے  نزدیک  قرآن کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا کوئی معجزہ  تواتر کی حدتک نہیں پہنچتا۔(۲۹) لیکن یہ جہاں تک  شاہ صاحب  کا معاملہ ہے وہ رسول اللہ کے معجزات کے متواترا ثبوت کے توقائل  ہیں البتہ کسی معجزے کے قرآن میں مذکورہونے کے قائل نظرنہیں آتے۔

 انشقاق قمر کے حوالے سےشاہ صاحب کا موقف اور ان کی تشریح جمہور کے مسلک سے ہٹی ہوئی نظرآتی ہے۔تاہم  اس کے قائلین علمائے اسلاف میں موجود رہے ہیں ۔تفسیر قرطبی میں ہے :

قال قوم لم یقع انشقاق القمر بعد وھومنتظرای اقترب قیام الساعة و انشقاق القمر وان الساعة اذا قامت انشقت السماء بما فیھا من القمر وغیرہ وکذا قال القشیری وذکر الماوردی ان ھذا قول الجمھور وقال لانہ اذا انشق ما بقی احد الا راہ لانہ آیة والناس فی الآیات سواء۔ و قال الحسن اقتربت الساعة فاذا جاءت انشق القمربعد النفخة الثانیة و قیل وانشق القمر ای وضح الامر وظھر والعرب تضرب بالقمر مثالا فیما وضح ۔۔۔وقیل انشقاق القمروانشقاق الظلمة عنه بطلوعه فی اثنائھا۔

’’بعض لوگ اس کے قائل ہیں کہ انشقاق قمرکا واقعہ اب تک ظہورپذیر نہیں ہوا اوروہ ہواچاہتا ہے۔چناں چہ جب قیامت  واقع ہوگی تو آسمان سمیت اس کی تمام چیزیں جیسے چاند وغیرہ پھٹ جائیں گے۔قشیری کا قول  یہی ہے۔ اور ماوردی کہتے ہیں کہ جمہور کا یہی موقف ہے۔ان کے بقول اگرچاند شق ہوتا تو یہ واقعہ ہرکسی کے مشاہدے میں آتا۔ اس لیے کہ یہ خدا کی نشانی ہے اور وہ تمام لوگوں کے لیے ہوتی ہے۔حسن کہتے ہیں کہ قیامت قریب ہے لہذاجب وہ قائم ہوگی توچاند نفخہ ثانیہ کے بعد دوٹکڑے ہوجائے گا۔اورایک تاویل یہ کی گئی ہے کہ قرآن کا بیان کہ چاند پھٹ گیا،اس کا مطلب یہ ہے  کہ بات واضح ہوگئی۔عرب کسی چیز کونہایت واضح ہوجانے کے لیے چاند پھٹ جانے کا محاورہ استعمال کرتے تھے۔۔۔۔اسی طرح ایک قول یہ ہے کہ چاند پھٹ گیا کا مطلب ہے کہ اندھیرا  اس کے طوع ہونے سے دورہوگیا‘‘۔ (۳۰)

 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس موقف کے قائلین اسلاف میں قابل ذکر تعداد میں رہے ہیں۔ ورنہ ماوردی اسے قول جمہور قرار نہ دیتے اور حسن بصری جیسی شخصیت اسے  روز    قیامت پر محمول نہ کرتی۔ البتہ شاہ صاحب کا اس واقعہ کو قرب قیامت کی پیشین گوئی پر محمول کرتے ہوئے  رسول اللہ کا معجزہ قرار دینا محل نظر  محسوس ہوتا ہے ۔ کیو ں کہ اس طرح تو قرب قیامت کی تمام ہی پیشین گوئیاں معجزہ قرار پائیں گی۔ معجزہ کی تعریف میں یہ داخل ہے کہ وہ رسالت کی تصدیق اور منکرین پر اتمام حجت کے لئے   عطا کیا جاتاہے ۔

علامہ زاہد الکوثری نے معجزہ شق القمر کے تعلق سے شاہ صاحب کےموقف پر  تنقید کرتے ہوئے اس نکتے کا اظہارکیا ہے کہ: ولیس سحر الاعین من شان رسل اللہ ''اللہ کے رسولوں کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ شعبدہ بازی دکھائیں"۔(۳۱)  گویا علامہ کوثری کے نزدیک سحر اورمعجزے میں فرق یہ ہے کہ سحر میں  خارق عادت کے طورپرجوچیز نظر آتی ہے وہ نظر کا دھوکا ہوسکتا ہے جب کہ معجزے کے لیے لازم ہے کہ شے عادی میں تغیر کے لحاظ سے  دیکھنے والوں کوجوکچھ نظر آتا ہو وہ بعینہ حقیقت پرمحمول ہو۔ لیکن شاہ صاحب کا موقف اس کے بر خلاف نظر آتا ہے۔ وہ اس فرق کے ساتھ سحر اورمعجزے کےدرمیان تفریق کے قائل نظر نہیں آتے۔

معجزہ انشقاق قمر کی بحث کے تناظرمیں خود  نفس معجزات کے حوالے سے شاہ صاحب  کے موقف کوسامنے رکھنا ضروری ہے۔اس کے بغیرشاہ صاحب کے موقف کی  حقیقت  مکمل طور پرسامنے نہیں آسکتی۔ شاہ کاموقف یہ نظرآتا ہے کہ رسول اللہ کو کلی معجزے کی شکل میں تو اصلا قرآن دیا گیا تھا، باقی    بظاہر خوارق   کی شکل میں جوامور آپ   ﷺ سے صادر ہوئے جیسے، دعا سے مریض کا صحت مند ہو جانا یا کھانے پینے کی اشیاء میں برکت   کا ہونا؛   ان کی  حیثیت جزئی معجزات کی ہے۔(۳۲) جس کی تائید ان کی نظر میں اس سے بھی ہوتی ہے کہ یہ صفات صرف انبیا کے ساتھ خاص نہیں ہیں بلکہ مفہمین اور اولیا  میں بھی پائی جاتی ہیں۔ان کی کرامتیں اسی قبیل سے ہیں۔(۳۳) شاہ صاحب کے نزدیک انہیں خوارق بس اس لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ  قلیل الوقوع ہوتے ہیں۔شاہ صاحب لکھتے ہیں:

 والحق ان کل ما یسمی خرقا فانه من الامور العادیة لکن لما کان  اسبابھا قلیلة الوقوع لا یظھر الا قلیلا حیث کان العامة لا یتوقعونھا سمیت  خوارق۔ وربما کان للخارق نظیر مالوف عندھم او ما ھو اتم منه فی الخرق فلا یلتفت الیہ العامة۔

’’حقیقت یہ ہےکہ جن چیزوں پرخرق عادت کا اطلاق کیا جاتا ہے،وہ معمول کے امور  ہوتے ہیں لیکن چوں کہ ان کے اسباب کا وقوع بہت کم ہوتا ہے اس لیے ان کا ظہور بھی کم ہی ہوتا ہے۔اب چوں کہ عوام کوایسے واقعے کی توقع نہیں ہوتی، اس لیے انہیں خوارق سے موسوم کردیا جاتا ہے۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خرق عادت کے طورپرجوواقعہ سامنے آتا ہے اس جیسی یا اس سے بڑھ کرکوئی نظیرپہلے سے عوام کی نگاہ میں ہوتی ہے ایسے میں وہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے‘‘۔(۳۴)

معجزات کے حوالے سے شاہ صاحب کا تصور  ایک حد تک معتزلہ سے متاثر نظر آتا ہے جومعجزے  کے اقرار وقبول کے ساتھ اس کے قلیل الوقوع ہونے کے قائل ہیں۔ابومسلم اصفہانی کی طرح شاہ صاحب بھی قرآن میں مذکور مختلف انبیا کے معجزات کی تاویل کرتے نظرآتے ہیں۔(جس پرگفتگو آگے آرہی ہے)

حواشی وتعلیقات

(۱)  شبلی نعمانی،علم الکلام، اعظم گڑھ، دار المصنفین،۱۹۹۳ص،۱۰۵

(۲) ابوحامد الغزالی، المستصفی ، الریاض: دار المیمان للنشروالتوزیع، سال اشاعت غیرمذکور،ص،۲۷۷

(۳)سیف الدین الآمدی،  الاحکام  فی اصول الاحکام ،(ج،۱)الریاض، دار الصمیعی للنشروالتوزیع،۲۰۰۳، ۲۳۸

(۴) ابومحمد ابن حزم، الاحکام فی اصول الاحکام،ج،۳، بیروت:دار ابن حزم، ۲۰۱۶ص،۵۷۹

(۵) ابن خلدون، تاریخ ابن خلدون،۱؍۱۸ ،مکتبہ شاملہ

(۶) شمس الدین الذھبی،سیر اعلام النبلاء ج،۸ص،۹۰ مکتبہ شاملہ

(۷) ابن تیمیہ کے موقف کی تفصیل اور اس پررد کے لیے دیکھیے : رسالۃ فی الرد علی ابن تیمیہ فی مسئلۃ حوادث لا اول لھا،تحقیق:سعید عبد اللطیف فودہ،اردن: ناشر،محقق خود،۱۹۹۸،ص،۵۹ وما بعد، ابن حجر نے بھی فتح الباری میں ابن تیمیہ پراس تعلق سے شدید رد کیا ہے اور  مرقاۃ الطارم(ص،۶۱) اورفیض الباری (ج،۶،ص،۵۷۴) میں انورشاہ کشمیری نے بھی جابجا اس پررد کیا ہے۔ ابن قیم کے موقف اس کے حق میں دلائل کے لیے ملاحظہ کیجیے :حادی الارواح الی بلاد الارواح ،المکۃ المکرمۃ: دار عالم الفوائد للنشروالتوزیع،  ج،۲،ص،۷۱۸۔۷۹۲

(۸) مبتدع فرقوں کے غزالی کی فکر پراثرات  کے حوالے سے تنقید کے لیے دیکھیے: ذکی مبارک: الاخلاق عند الغزالی، قاہرہ: دارالشعب،  بدون سن ص ،۷۵

(۹) مولانا عبید اللہ سندھی کا مقالہ’’ امام ولی اللہ کی حکمت کا اجمالی تعارف‘‘ ،الفرقان،(بریلی)شاہ ولی اللہ نمبر،۱۳۵۹ھ،ص،۲۳۸

(۱۰)   شاہ ولی اللہ دہلوی ،حجۃ اللہ البالغۃ (تحقیق وتعلیق سعید احمد پالن پوری)ج،۱،الباب الثانی، ذکرعالم المثال، دیوبند: مکتبہ حجاز، ۲۰۱۰ ، ص،۶۰

(۱۱) ایضا،ص،۶۱

(۱۲) ایضا

(۱۳) حجۃ اللہ البالغہ ،ص،۵۷۔۵۸

(۱۴)محمد  زاہد الکوثری،حسن التقاضی فی سیرۃ الامام ابی یوسف القاضی، مصر:دار الانوار،۱۹۴۸،ص،۹۵

(۱۵)  ایضا،ص،۹۴

(۱۶)  حجۃ اللہ البالغہ ج،۱،ص،۷۰

(۱۷) مسند احمد ، حدیث نمبر،۸۷۲۷

(۱۸) ترمذی، حدیث نمبر،۲۵۵۸

(۱۹) اس طرح کی بہت سی احادیث کوشاہ صاحب نے عالم مثال کےثبوت  میں پیش کیا ہے۔ دیکھیے،حجۃ اللہ البالغۃ،ص،۷۲،۷۱

(۲۰)  ایضا،۷۵

(۲۱) دیکھیے:Fazlur Rahman: Revival and Reform in Islam, ed. Ebrahim Moosa, Noida: One World Publications, 2006, p.175

(۲۲) حسن التقاضی،ص،۹۷۔۹۸

(۲۳) شاہ ولی اللہ الدہلوی ، التفھیمات الالٰھیہ ،(ج،۲)  گجرات:المجلس العلمی ڈھابیل، ۱۹۳۶، ص: ۵۷۔۵۸

(۲۴)شاہ ولی اللہ الدہلوی  ،تاویل الاحادیث،(تحقیق وتقدمۃ، غلام مصطفی القاسمی) حیدرآباد،(پاکستان): اکادمیۃ الشاہ ولی اللہ الدھلوی:۱۳۸۵ھ ص،۱۰۲۔۱۰۳ 

(۲۵)  ایضا ،۱۰۳،یہی دونوں مثالیں شاہ صاحب نے عالم مثال کے  اثبات کے لیے بھی دی ہیں۔ حجۃ اللہ البالغۃ،ص،۷۴

(۲۶)   تاویل الاحادیث،ایضا،ص،۱۰۲

(۲۷) ایضا ،ص،۱۰۴

(۲۸) التفھیمات الالھیۃ ، ج،۲،ص،۵۸

(۲۹) انورشاہ کشمیری،  فیض الباری  علی صحیح البخاری مع حاشیۃ البدر الساری الی فیض الباری (ج،۴)حاشیہ،دیوبند: مکتبہ فیصل ،۲۰۱۷ص،۴۵۷۔۴۵۸

(۳۰) ابوعبد اللہ القرطبی، الجامع لاحکام القرآن،ج،۱۷، بیروت: دار الکتب العلمیہ،۱۹۸۸ ص،۸۳

(۳۱) حسن التقاضی،ص،۹۷

(۳۲)  التفھیمات الالھیۃ، ج،۲ص،۸۴

(۳۳) شاہ ولی اللہ الدہلوی، تاویل الاحادیث،ص،۱۰۱

(۳۴) ایضا،ص،۱۰۱

(جاری)


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۵)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا آٹھواں باب)



توحید کی احیا کے لیے نیکی کی ممانعت: مسئلۂ عید میلاد النبی

انیسویں صدی کے مسلمان اہل علم کے درمیان عید میلاد النبی پر جتنے پرجوش مناظرے ہوئے ہیں، اتنے کسی اور مسئلے پر نہیں ہوئے ہیں۔ استعماری دور میں مسئلۂ میلاد پر کش مکش دور حاضر میں اس عمل کے متعلق پائے جانے والے تنازعات کی ٹھوس بنیاد ہے۔ ابتداءً گیارھویں صدی میں مقبول ہونے والا میلاد آج تقریباً تمام مسلم معاشروں میں وسیع پیمانے پر رائج ہے۔ یہ اسلامی کیلنڈر کے تیسرے مہینے ربیع الاول کے بارھویں دن منایا جاتا ہے۔ یہ حضور ﷺ کا یوم ولادت ہے۔ اگر چہ عموماً یہ ایک تہوار کی شکل میں ہوتا ہے، تاہم یہ مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ البتہ میلاد کی سب سے بنیادی خاصیت یہ ہے کہ اس میں حضور ﷺ کی شان میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں، جن کا آغاز آپ ﷺ کی پیدائش کے ذکر سے ہوتا ہے، اور پھر آپ کی سیرت وفضائل بیان کیے جاتے ہیں1۔

میلاد پر مناقشہ اس کے مخالفین وموافقین دونوں کی طرف سے جذباتی ردعمل کو جنم دیتا ہے۔ برصغیر کے تناظر میں میلاد میں سب سے زیادہ متنازع عمل 'قیام' ہے۔ قیام سے مراد حضور ﷺ کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہونا اور انھیں سلام پیش کرنا ہے، اور اس کے نتیجے میں آپ کی طرف سے برکات کا حصول ہے۔ اس عمل کے دوران عام طور پر نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ اس عمل کی قدر وقیمت کا دار ومدار اس اعتقاد پر ہے کہ رسول اللہ ﷺ شرکاء پر برکات کے نزول کے لیے اس مجلس میں بذات خود حاضر ہوتے ہیں۔ قیام کے مخالفین کہتے ہیں کہ بیک وقت میلاد کے مختلف اجتماعات میں حضور ﷺ کے حاضر ہونے کے اعتقادمیں رسول اللہ ﷺ کو خدا کے مرتبے پر فائز کیے جانے کا خطرہ ہے ۔ کیوں؟ اس لیے کہ اس عمل میں خدا کے حاضر وناظر اور مختار کل ہونے کی صفات سے پیغمبر کو متصف کرنے کا خدشہ  ہے۔ مزید برآں حضور ﷺ کی تعظیم کی خاطر کھڑا ہونا ایک ایسا تعظیمی عمل ہے جو آپ کی بشری حیثیت کو کمزور کرتا ہے۔

اس کے برعکس، جیسا کہ میں اگلے دو ابواب میں تفصیل سے بتاؤں گا، قیام کے حامی اسے ایک انتہائی متبرک عمل سمجھتے ہیں کیونکہ یہ خدا کی محبوب ترین ہستی یعنی حضور ﷺ کی تعظیم کا عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ توحید کے لیے خطرہ ہونے کے بجائے قیام رسول اللہ ﷺ کے بے نظیر روحانی مقام ومرتبے کا عملی اقرار ہے۔ قیام سے متعلق مناقشے کے علاوہ میلاد متعدد اہم کلامی اور فقہی مسائل کو یکجا کرتا ہے، جو استعماری ہندوستان میں حریف مسلمان اہل علم کے اعتقادی اختلاف میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور ان مسائل میں غیر واجب اعمال کے لیے وقت کا تعین (توقیت الوقت)، غیرمسلموں کے مذہبی اعمال جیسے کرسمس کے ساتھ مشابہت (تشبہ)، ممکنہ طور پر گناہ کے اعمال جیسے گانا بجانا، محفل موسیقی جمانا، محفل میلاد کی سجاوٹ کے لیے چراغاں کرنا، اگربتیاں جلانا، خوشبو لگانا جیسے اعمال شامل ہیں۔

ان مسلکی اور ظاہری پہلوؤں کے ساتھ مولد ایک سنجیدہ اصولی مسئلہ اٹھاتا ہے اور وہ ان نئے اعمال اور رسوم کی شرعی حیثیت ہے جو شریعت نے صراحتاً نہ تو منع کیے ہیں، اور نہ انھیں جائز قرار دیا ہے۔ میلاد ایک ایسے رسم کی مثالی صورت ہے، جو حضور ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کے عمل سے ثابت نہیں، لیکن اسے حضور ﷺ کی یاد منانے کے نیک مقصد کے لیے برتا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ قرونِ وسطیٰ اور عہد جدید کے اوائل میں اسلام کی فقہی روایت میں کافی مختلف فیہ رہا ہے۔ کچھ اہل علم نے میلاد کو نیک ترین اعمال کی حیثیت سے سراہا ہے، جبکہ بعض نے اس کی شرعی حیثیت پر گہری تشکیک کا اظہار کیا ہے۔ میلاد سے متعلق امام ابن تیمیہ (م 1328) اور جلال الدین السیوطی (م 1505) رحمہما اللہ کی آرا ان متقابل رجحانات کی بھرپور نمائندگی کرتی ہیں۔ فقہ شافعی کے  نامور عالم علامہ سیوطی میلاد کے پرجوش وکیل تھے۔ سیوطی کے نزدیک اگر چہ میلاد کی ابتدا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے کافی عرصے بعد ہوئی، لیکن یہ بدعتِ حسنہ ہے کیونکہ اس کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی مدح اور ان کی یاد منانا ہے۔ اس رسم کے ذریعے مسلمان حضور ﷺ کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، اور آپ کی بعثت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہیں۔ سیوطی نتیجہ نکالتے ہوئے کہتے ہیں کہ چونکہ یہ مقاصد قطعاً نیک ہیں،  اس لیے میلاد کے شرعی جواز میں کوئی شک نہیں2۔

ابن تیمیہ، جو قرون وسطی کے ایک کثیر التصانیف عالم ہیں اور جو سیوطی سے کئی صدیاں پیش تر گزرے ہیں، اس بات میں سیوطی کی موافقت کرتے ہیں کہ میلاد منانا کئی نیک مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں: "جو شخص میلاد مناتا ہے، وہ اپنے نیک ارادے اور رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کی وجہ سے عظیم اجر کا مستحق ہو سکتا ہے"3۔ ابن تیمیہ نے اگر چہ مولد میں خیر کے ممکنہ پہلو کو تسلیم کیا، اس کے باوجود وہ اسے بدعت سمجھتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ میں اس کی کوئی نظیر نہیں۔ ابن تیمیہ نے نے اپنے استدلال میں بتایا کہ جب صحابہ کرام نے، جو رسول اللہ ﷺ کے عاشق زار تھے، اور نیکی کے کاموں میں سب سے آگے تھے، میلاد نہیں منایا، تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ میلاد نہیں منانا چاہیے4۔ میلاد کے بارے میں سیوطی اور ابن تیمیہ کی مخالف آرا اس عمل کی شرعی حیثیت سے متعلق ابہام کی ایک جھلک فراہم کرتے ہیں5۔ میلاد ایک ایسے رسم کی مثالی صورت ہے جو اگر چہ دینی مصالح کا حامل ہے، لیکن یہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ سے ثابت نہیں۔ پھر اس کو کیسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟

اپنے ماقبل جدید پیش روؤں کی طرح استعماری ہندوستان میں مسلمان اہل علم نے اس مسئلے کو زیادہ جوش وخروش کے ساتھ موضوع بحث بنایا۔ اس کے حامیوں اور مخالفوں دونوں نے اپنے مواقف کے دفاع میں تفصیل سے لکھا۔ دیوبند کے پیش رو نے ، جیسا کہ اس کہانی میں عکاسی کی گئی جس سے یہ حصہ شروع ہوا تھا، ہندوستان میں رائج میلاد کی پرزور مخالفت کی۔ یہاں بھی مولانا اشرف علی تھانوی وہ شخصیت ہیں جنھوں نے دیوبندی موقف کو اپنے ایک رسالے 'طریقۂ مولد شریف' میں سب سے زیادہ جامع انداز میں واضح کیا6۔ اس رسالے میں مولانا تھانوی نے ایک منظم فقہی استدلال ترتیب دیا جس کا مقصد میلاد کو ایک مذموم بدعت ثابت کرنا تھا۔ 

اس باب میں، میں میلاد کے مسئلے پر مولانا تھانوی کے فقہی فریم ورک کا ایک دقیق تجزیہ پیش کروں گا۔ اس تجزیے کے ذریعے میں چاہتا ہوں کہ بدعت کے موضوع پر دیوبندی آرا کے ان فکری دلائل کی ایک ٹھوس وضاحت پیش کروں جس کا ذکر پچھلے باب میں ہوا۔ وہ کون سے مخصوص طریقے ہیں جن کے ذریعے مولانا تھانوی نے مجالسِ میلاد کے عدم جواز کا دعوی کیا اور اس دعوے کے لیے عقلی ونقلی دلائل فراہم کیے۔ ان کے استدلال سے علم، زمان اور عبدیت/اطاعت کے درمیان تعلق کے حوالے سے ان کے تصور کے متعلق کیا منکشف ہوتا ہے؟  کس استدلالی حکمتِ عملی کے ذریعے وہ روایت اور اس کی حدود کے نگہبان کے طور پر اپنی حیثیت کو تسلیم کراتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جنھیں میں زیرِ بحث لاؤں گا۔

طریقۂ مولد شریف میں مولانا تھانوی نے میلاد جیسی رسم کی، جو شریعت کی رو سے نہ صراحتاً جائز ہو نہ ناجائز، لیکن اس کی نظیر آپ ﷺ اور صحابہ کرام کے اسوۂ حسنہ میں موجود نہ ہو، شرعی حیثیت کو متعین کرنے کے لیے پانچ اصول وضع کیے ہیں۔ مولانا تھانوی کے اصولی منہاج میں بنیادی اہمیت اس فقہی قاعدے کو حاصل ہے کہ جب کسی عمل میں حلال اور حرام دونوں پہلو جمع ہو جائیں، تو ترجیح حرام والے پہلو کو دی جاتی ہے۔ ان اصولوں میں سے ہر ایک اصول کا ایک دقیق جائزہ ہمیں اس کے فقہی تصورات اور اصولی حساسیت کی نسبتاً گہری تفہیم کا موقع فراہم کرے گا۔

اصول 1: "اگر کوئی غیر واجب عمل واجب عمل کی حیثیت اختیار کر لے، تو اسے ترک کرنا چاہیے" (46)۔

جیسا کہ میں نے اس پورے باب میں استدلال کیا ہے، تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ کا مرکزی نکتہ غیر واجب رسوم کے مقابلے میں واجبات دینیہ کی اولیت کا تحفظ ہے، جنھیں عوام بآسانی غیر واجب رسوم کے ساتھ خلط کر سکتے ہیں۔ بالذات جائز ہونے کے باوجود یہ رسوم بدعات کی صورت اختیار کر گئی ہیں، کیونکہ وہ ایسی خصوصیات کے مشابہ بن گئی ہیں، جو صرف دینی واجبات کے ساتھ مختص ہیں۔ یہ اصولی تجاوز اس وقت یقینی بن جاتا ہے جب ایک سماج ایسے شخص کو لعنت ملامت کرتا ہے اور اسے عذاب کا مستحق سمجھتا ہے، جو اپنی مرضی سے ان رسوم میں شرکت سے گریز کرتا ہے۔

مولانا تھانوی کے نزدیک میلاد ایک ایسی رسم کی مثالی صورت ہے۔ تھانوی اپنے قارئین کو بار بار یاد دہانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بالذات میلاد نہ صرف یہ کہ مباح ہے بلکہ مستحب ہے۔ تھانوی کی نظر میں محفلِ میلاد کا انعقاد اور اس میں شرکت دینی اعتبار سے مفید اعمال ہیں، لیکن یہ صرف اس صورت میں جب یہ مروجہ حدود وقیود سے آزاد ہوں۔ مثلاً‌ اگر کچھ لوگ بغیر دعوت دیے اتفاقا کہیں نشست کریں، یا وہ  میلاد کے علاوہ کسی  مقصد کے لیے جمع ہوں، اور اس مجلس میں وہ زبانی یا قرآن کی تلاوت سے رسول اللہ ﷺ کے کردار، ذاتی خصوصیات، معجزات اور فضائل کو ایسے انداز میں ذکر کریں، جو صحیح احادیث کے موافق ہوں، تو ایسی مجلس بغیر کسی تحفظ کے جائز ہے۔

تاہم مولانا تھانوی کہتے ہیں کہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب عوام میلاد کو اس کی اصل اور جائز حیثیت سے اوپر اٹھا کر واجب سمجھنے لگتے ہیں۔اس صورت میں میلاد مذموم بدعت بن جاتی ہے۔ مزید برآں اگر میلاد میں شرکت پر اصرار اس جوش وجذبے کے برابر یا اس سے متجاوز ہو جائے،  جس کے ساتھ واجب اعمال کی ادائیگی ہوتی ہے، تو ایسا اصرار شریعت کی برتر حیثیت پر سمجھوتے کے مترادف ہے۔ اور جیسا کہ تمام مباح اعمال کے متعلق حکم ہے کسی ایسے شخص کو ملامت کرنا جو میلاد میں اپنی رغبت سے شریک ہونے سے گریز کرتا ہے، حدود سے تجاوز کی کلیدی علامت ہے۔ تھانوی کے نزدیک جب اپنی مرضی سے میلاد میں شرکت سے گریز پر سماج کی طرف سے تنقید ہونے لگے تو اس میں کوئی شبہ نہیں رہتا کہ عوام اسے واجب سمجھنے لگے ہیں۔

اس بحث میں مولانا تھانوی نے بار بار التزام ما لا يلزم (یعنی ایسی چیز کی پابندی کرنا جو شرعاً لازم نہ ہو) کی تعبیر استعمال کی ہے۔ اگر کسی غیرواجب عمل پر اصرار اس حد تک پہنچ جائے کہ اس سے گریز کرنے والے شخص پر لعن طعن کی جائے، تو پھر وہ لوگ جنھوں نے ایسے اعمال پر اصرار کا ماحول تشکیل دیا ہے، ایک صحیح وثابت شدہ سنت کے مد مقابل عمل کے ایجاد کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ تھانوی کے نزدیک ایسے افراد بدعتی ہیں۔ ایسے لوگ اس لائق ہیں کہ انھیں سزا دی جائے، ان سے کنارہ کشی اختیار کی جائے، اور انھیں قابل نفرت بنایا جائے، تاکہ وہ اپنے معاشروں دوسرے عوام کے دین کو خراب کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جائیں۔

مولانا تھانوی کے نزدیک میلاد میں حرمت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی قیود ہیں جن کی کوئی اصل شریعت میں نہیں۔ مثال کے طور پر سال میں ایک دن کا تعین (ماہ ربیع الاول کی بارہ تاریخ) جس کو میلاد کا انعقاد کیا جاتا ہے، لوگوں کی اپنی طرف سے ایجاد کردہ ایک اضافی قید کی مثال ہے۔ تھانوی نے اپنے استدلال کو تقویت فراہم کرنے کے لیے ایک حدیث کا حوالہ دیا: "رات کی نماز اور دیگر عبادات کے لیے صرف جمعے کی رات کو خاص مت کرو، اور نہ ہی روزے کے لیے جمعے کے دن کی تخصیص کرو"(47)۔

اصول نمبر 2: "ہر جائز بلکہ مستحب عمل ناجائز اور حرام بن جاتا ہے، اگر اس میں کوئی ناجائز عمل یا شرط شامل ہو جائے" (47)۔

تھانوی نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کسی تقریب کی دعوت کو قبول کرنا مستحب ہے، بلکہ احادیث مبارکہ سے اس کی تائید ہوتی ہے۔تاہم اگر تقریب میں کوئی ناجائز عمل سرانجام پا رہا ہو تو پھر اس میں شرکت ناجائز قرار پائے گی (48)۔ یہ اصول دینی واجبات کے خالص پن کو برقرار رکھنے کے لیے مولانا تھانوی کی فکر مندی کی عکاسی کرتا ہے۔ مزید برآں یہ تشخیص پر مرتکز ایک ایسے سماجی تخیل کی بھی غمازی کرتا ہے، جو میلاد جیسے متنازعہ دینی اعمال کی شرعی حیثیت متعین کرنے کے پیچھے کار فرما ہے۔ تھانوی کی نظر میں شریعت ایک انسانی جسم کی طرح ہے، جسے تمام تخریبی اور فاسد اثرات سے تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اگر عید میلاد النبی جیسا نیک عمل بھی مفسدات کا شکار ہوجائے، تو اسے ترک کرنا چاہیے، تاکہ امت اجتماعی نقصان سے بچ جائے۔ تھانوی نے جو مفسدات گنوائی ہیں، وہ ان کی نظر میں عوامی دین داری کے تصور پر خوب روشنی ڈالتی ہیں۔ نوٹ کیجیے کہ ان رسموں کا سارا ارتکاز اور زور حواس کی جذباتی تربیت پر ہے:

دو بنیادی اخلاقی اصول جو میلاد میں شامل فاسد اثرات کی تنقید میں مولانا تھانوی کی فکر پر حاوی ہیں، سادگی اور سنجیدگی ہیں۔ دراصل سادگی اور سنجیدگی ان انتہائی اہم دینی اقدار میں سے ہیں جس پر دیوبندی مسلک استوار ہے۔ دیوبند کے پیش رو بشمول مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور مولانا تھانوی متفقہ طور پر دینی اعمال کی ایسی تمام صورتوں کے مخالف تھے جو مسلمانوں کے درمیان غیر ضروی جوش وجذبے اور خواہشات کو ابھارتی ہوں۔ ان کی نظر میں ایسا اخلاقی نظام جو جذباتی اسراف کو برداشت کرتا ہو، عوام میں سنت وبدعت کے درمیان امتیاز کی صلاحیت کوناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔

دیوبندیوں کے وسیع تر اصلاحی بیانیے سے ہم آہنگ ہو کر مولانا تھانوی نے ایسے نیک اعمال کی وکالت کی، جن میں مسلمان سادگی اور سنجیدگی پر کار بند رہیں، اور جو انھیں اس قابل بنائیں کہ وہ اسراف، شان وشوکت کے عوامی اظہار اور عیش پرستی کو عیب اور باعث عار سمجھنے لگیں7۔ اس لیے مولانا تھانوی جیسے مصلحین کی اخلاقی اصلاح کے پروجیکٹس کو 'نجی دائرے' کی طرف واپسی کے سفر کے طور پر سمجھنا، جس کا مقصد صرف اور صرف پاکیزہ بندوں کی تربیت ہے، غلط ہے۔ اس کے برعکس بدعت پر مولانا تھانوی کی فکر کی امتیازی خصوصیت فرد کی اخلاقی اصلاح اور سماج کے سیاسی نظام کے درمیان ربط ہے۔ اُن کی فکر میں نجی اور عوامی دائرے کے درمیان کسی امتیاز کا کوئی ذکر  نہیں۔ میں اس باب کے اختتام میں اس نکتے کی طرف واپس آؤں گا۔

اصول نمبر 3: "یہ علماے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ  عوام کے دین وایمان کی حفاظت کریں" (48)۔

مولانا تھانوی نے بتایا کہ چونکہ لوگ علما کے پیچھے چلتے ہیں، اس لیے علما کو عوامی دائرے میں دین پر عمل کے حوالے سے انتہائی حزم واحتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ مولانا تھانوی کی راے میں یہ علما کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی اخلاقی و دینی تربیت اور حفاظت کریں۔ اس لیے اگر کسی مباح عمل کو عوام کی طرف سے فرض سمجھنے کا خطرہ پیدا ہو جائے، تو علما پر لازم ہے کہ وہ اس عمل کو ترک کریں۔ دوسروں کے لیے مثال ہونے کی بنا پر علما سے تقاضا ہے کہ وہ اپنے ان اعمال کے حوالے سے محتاط رہیں، جو معاشرے میں عام لوگوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی تسلیم کرتے ہیں کہ علما اپنے وسیع علم کی بدولت واجب اور غیر واجب اعمال میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم چونکہ عوام ان کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے عوام کے دین وایمان کی حفاظت کی خاطر انھیں ایسے مستحب اعمال سے بھی دست بردار ہونا چاہیے، جنھیں عوام غلطی سے فرض سمجھ سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے زور دے کر کہا کہ علما کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام کو اعتقادی اور اخلاقی فساد سے تحفظ فراہم کریں۔

مولانا تھانوی نے اپنے استدلال کی وضاحت میں اپنی بنائی ہوئی دو اصطلاحات  پیش کیں۔ ان میں سے ایک اصطلاح کو وہ 'ضررِ لازمی' اور دوسرے کو 'ضررِ متعدّی' کہتے ہیں۔ مولانا تھانوی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لازمی ضرر سے مراد ایسی صورت ہے جہاں ایک ضرر رساں عمل میں شرکت کی وجہ سے صرف  اس میں شریک شخص کو نقصان پہنچتا ہو۔ اس کے برعکس متعدی ضرر سے مراد ایسا ضرر ہے جس کا نقصان صرف اس شخص تک خاص نہیں ہوتا، بلکہ دوسرے لوگ بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ تھانوی نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح کوئی جائز عمل انفرادی ضرر کا باعث بننے کی وجہ سے ممنوع قرار پاتا ہے، ، اسی طرح ایک عمل تب بھی ممنوع ٹھہرتا ہے، اگر وہ متعدی ضرر کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر "ایک شخص بیمار ہے، اور ڈاکٹر نے اسے اجازت دی کہ وہ روزہ توڑے۔ اس صورت میں اس کا کھانا پینا اصلاً جائز ہوگا۔ تاہم اگر اس اجازت سے یہ امکان ہو کہ کوئی دوسرا شخص اس کی صورتِ حال کو دیکھ کر روزہ توڑ دے گا، تو پھر یہ بظاہر جائز عمل بھی ناجائز قرار پائے گا (57)۔

اس لیے علما کو چاہیے کہ وہ ایسے غیر واجب اعمال پر کڑی نظر رکھیں، جو ایسی شرعی حدود کے ساتھ گھل ملنے کا امکان رکھتے ہوں، جو مباح اعمال کو واجب اعمال سے الگ کرتے ہیں، اور نتیجتاً لازمی یا متعدی ضرر کا سبب بنتے ہوں۔ مزید برآں علما کو چاہیے کہ ایسے اعمال کو لازماً ترک کریں، جو کسی بھی مرحلے پر اپنی شرعی حیثیت کو پھلانگ کر برتر حیثیت اختیار کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا تھانوی بتاتے ہیں کہ وفات کے دن میت کے خاندان سے تعزیت کرنا مسنون اعمال میں سے تھا۔ تاہم جب سے لوگوں نے اس رسم کو واجب عمل کی حیثیت دی ہے، علما نے اسے ممنوع اور واجب الترک قرار دیا۔ اسی طرح خدا کے سامنے شکر کی خاطر سجدہ ریز ہونا ایک روایت تھا اور رسول اللہ ﷺ کے عہد میں جائز تھا لیکن جب لوگوں نے اسے سنتِ مقصودہ سمجھنا شروع کیا، تو اسے ناجائز قرار دیا گیا۔

تاہم تھانوی نے اس اصول میں ایک اہم قید کا اضافہ کیا: اگر کوئی واجب شرعی عمل کئی غیرشرعی رسوم کی شمولیت سے فاسد ہو جائے، پھر اس عمل کو بالکلیہ ترک کرنے کے بجاے فاسد اعمال سے اس کی تطہیر اور اصلاح کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر کسی جنازہ میں نوحہ کرنے والی عورت شامل ہوجائے، تو جنازہ یا تدفین کے عمل کو ترک نہیں کرنا چاہیے، بلکہ نوحہ کرنے والی عورت کو خاموش کرنا چاہیے۔  لیکن جہاں تک غیر ضروری یا غیر واجب عمل کی بات ہے، جیسے کسی مجلس میں شرکت کی دعوت قبول کرنا، تو ایسی دعوت سے انکار لازم ہے، جس میں مکروہ یا فاسد سرگرمیاں ہو (49)۔ مولانا تھانوی کے نزدیک مباح اور واجب اعمال کے متعلق اصول میں یہ ایک اہم فرق ہے۔  جیسا کہ مجھے اگلے باب میں واضح کرنے کا موقع ملے گا، یہ بعینہ وہی نکتہ ہے، جس پر دیوبند کے پیش رو اپنے بریلوی مخالفین سے واضح اختلاف رکھتے ہیں۔

لیکن اس اصولی پہلو سے قطع نظر، یہ بحث عوام کے بالمقابل طبقۂ علما کے ایک فرد کی حیثیت سے مولانا تھانوی اپنے کردار کو جس طرح تصور کرتے تھے، اس سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ ان کے سماجی تخیل میں علما پر مسلسل یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خود کو ایک قابل تقلید نمونے کی حیثیت سے پیش کریں۔اگر علما عوام کے سامنے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں، تو اس سے عوام کے دینی رجحانات پر ضرر رساں اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر وہ اپنی اس صلاحیت کو کہ لوگ ان کے پیچھے چلتے ہیں، سنجیدگی سے لیں تو وہ اخلاقی طور پر ایک مضبوط اور صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

اس سیاق میں مولانا تھانوی اور دیگر متعدد ہندوستانی مسلمان مصلحین (دیوبندیوں اور بریلویوں دونوں) نے ایک خطیبانہ تعبیر استعمال کی ہے جس کی رو سے وہ عوام کو  مال مویشی کے ایک گلے کے برابر قرار دیتے ہیں۔ اس احساس کا اظہار وہ عربی کے ایک مشہور کہاوت 'العوام کالانعام' (یعنی عوام جانوروں کی طرح ہیں) سے کرتے ہیں، اور برصغیر کے مختلف الخیال علما یہ کہاوت بار بار استعمال کرتے ہیں۔ اس تناظر میں عوام سادہ اور کم فہم ہیں، اور انھیں مستقل طور پر  گلہ بانوں کی ایک جماعت کی ضرورت ہے، جو انھیں دینی رہ نمائی اور اخلاقی ہدایات فراہم کریں۔ لیکن یہ بڑا عجیب رویہ ہے کیونکہ مولانا تھانوی جیسے علما جس قسم کے انداز فکر کو فروغ دے رہے ہیں وہ تو کافی پیچیدہ اور لسانی اعتبار سے مشکل ہے۔ پھر حیرت ہےکہ یہ مباحث اور ان میں موجود پیچیدہ افکار ان 'عوام کالانعام'  کے لیے کیسے قابل فہم ہو سکتے ہیں، جن کی اصلاح اور اخلاقی تطہیر کے لیے وہ کوشاں ہیں۔ شاید اور کسی بھی چیز سے زیادہ عوام کو جانوروں کے برابر قرار دینا دراصل ان علما کے دینی استناد کو سہارا فراہم کرتا ہے، جنھوں نے اس کہاوت کا استعمال کیا۔ گلہ بان اور اس کے ریوڑ سے علما اور عوام کے درمیان تعلق کی تصویر کشی کرکے یہ کہاوت علما کے شرعی استناد اور عوام کے مزعومہ تقلیدی رجحان اور انحصار کو باہم جوڑتی ہے۔

اصول نمبر 4: "زمانی، مکانی اور تجربی مشاہدات ان معاملات میں مختلف نتائج پیدا کرتے ہیں، جو عارضی طور پر مکروہ (مکروہِ عارضی) ہوں" (49)۔

جیسے پہلے ذکر ہوا کہ قرون وسطی اور عہد جدید کے اوائل میں نامور مسلمان فقہا جیسے علامہ سیوطی نے میلاد کو مطلقا جائز اور مثالی رسم قرار دیا ہے۔ اس حقیقت نے مولانا تھانوی کے لیے ایک شرعی چیلنج پیدا کیا، کیونکہ میلاد کے حوالے سے ان کی مخالفت ان اکابر اہل علم کی مخالفت پر محمول کیا جا سکتا تھا۔ مولانا تھانوی نے اس چیلنج سے عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ اصول وضع کیا۔ مولانا تھانوی پوری قطعیت سے بتاتے ہیں کہ ان متقدمین علما نے میلاد کو اس لیے مستحب قرار دیا تھا، کیونکہ ان کی زندگی میں اس میں وہ مفسدات نہیں تھے جو بعد میں شامل ہو گئے۔  جیسا کہ وہ  لکھتے ہیں: "اگر ان فقہا کو آج میلاد کا حکم بتانا پڑے، تو وہ بھی اسے حرام قرار دیں" (49)۔ اس لیے تھانوی کے نزدیک کسی عمل کا حکم ہر زمان ومکان میں ایک جیسا یا ابدی نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہے کہ آج مکروہ قرار دیا جانے والا ایک عمل گزشتہ دور میں مباح قرار دیا گیا ہو۔

 مولانا تھانوی نے رسوم کے حوالے سے اسی انداز استدلال کو جغرافیائی اختلافات پر بھی منطبق کیا: یعنی کوئی عمل ایک علاقے میں (وہاں پر رائج حالات کی مناسبت سے) جائز ہو سکتا ہے، جب کہ وہی عمل کسی دوسرے علاقے میں ناجائز ہو سکتا ہے۔ اسی طرح دو ماہر فقہا  کسی ایک مسئلے کے متعلق اپنے تجربے اور مشاہدے میں اختلاف کی بنیاد پر دو مختلف مواقف اختیار کر سکتے ہیں۔ مولانا تھانوی نے اپنے استدلال میں بتایا کہ اگر کوئی فقیہ کسی مباح عمل کے ساتھ جڑے اخلاقی فسادات سے آگاہ نہیں ہے تو اسے اس عمل کو جائز بتانے میں کوئی اشکال نہیں ہوگا۔ تاہم ایک دوسرے فقیہ کا تجربہ اور مشاہدہ اسے اس عمل کو مکروہ قرار دینے پر آمادہ کر سکتا ہے، اور اس لیے وہ اس عمل کو ناجائز قرار دے سکتا ہے۔

مولانا تھانوی نے اپنے مخالفین کے اعتراضات کا قلع قمع کرتے ہوئے باصرار بتاتے ہیں کہ "یہ اختلاف محض ظاہری ہے نہ کہ حقیقی۔ یہ صرف صوری نہ کہ معنوی" (49)۔  اس طرح مولانا تھانوی میلاد کی حرمت والے موقف پر قائم رہنے میں کام یاب ہوگئے، اور اس کے ساتھ انھوں نے قرونِ وسطی کے نامور عالم علامہ سیوطی سے اپنی وفاداری بھی برقرار رکھی، جن کا موقف اس موضوع پر ان سے مختلف ہے۔ 

مولانا تھانوی کے تعبیری منہاج کے مطابق کسی عمل کی اخلاقی حیثیت ان حالات سے مشروط ہے، جن میں یہ سرانجام دیا جاتا ہے۔ آخر کار اضافیت پر مبنی اس منہاج نے ایک مصلح عالم کی حیثیت سے مولانا تھانوی کے استناد کو بڑھاوا دیا، اس طرح کہ کسی مخصوص زمان ومکان میں کسی عمل کی شرعی حیثیت کے تعین کا اختیار ان کے پاس رہا۔ کار اصلاح سرانجام دیتے ہوئے مولانا تھانوی نے ایک ایسے اخلاقی نظام کی سرپرستی کی کوشش کی، جو الٰہی شریعت کی توقعات اور حدود کا محافظ ہو۔ لیکن یہ توقعات اور حدود ہیں کیا؟ اس کے تعین کا دار ومدار مولانا تھانوی اور حال کے متعلق ان کے جائزے پر رہا۔ انھوں نے خدا کی مرضی کو معلوم کرنے کے لیے اپنی مرضی کا استعمال کیا۔ 

مزید برآں مولانا تھانوی کا تعبیری اسلوب پوری گہرائی کے ساتھ زمان کی ایک مبہم تفہیم اور اس تفہیم کا سماج کی اقدار کی تشکیل کے ساتھ تعلق سے جڑا تھا۔ ایک طرف مولانا تھانوی کا فقہی منہاج زمان کے ایک متحرک تصور میں پیوست  تھا۔اس متحرک تصور کی رو سے اختلافی رسوم واعمال کے شرعی احکام بدلتے زمانے اور سماجی حالات کے مطابق تبدیل ہوئے اور ہونے چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر چہ علامہ سیوطی جیسے بزرگ عالم نے میلاد کو مستحب قرار دیا تھا، لیکن جب وہ حالات تبدیل ہوئے جن میں میلاد سرانجام دیا جاتا تھا، اس لیے اس کی شرعی حیثیت بھی بدل گئی۔ کسی عمل کی شرعی حیثیت ان حالات کے مطابق متحرک اور تغیر پذیر رہتی ہے، جن کے تحت وہ سرانجام پاتا ہے۔

اس صورت میں شریعت ایک لچک دار استدلالی فضا ہے، جو ان بدلتے زمانی حالات سے خود کو ہم آہنگ کرتی ہے جن میں وہ فعال ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خواہش کہ حضور ﷺ کا اسوۂ حسنہ تمام ازمنہ وامکنہ میں قابل عمل رہے (یہ خواہش مولانا تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے)،  زمان کو غیر متغیر اور مستقل فرض کرتی ہے۔

تھانوی کی فکر میں زمان کے مسئلے پر ابہام کو ایک اور پہلو مزید واضح کرتا ہے۔مخصوص زمانی اداوار میں پائے گئے خارجی حالات کے مطابق فقہی آرا اختیار کرنے کی ضرورت کے بارے میں اپنے استدلال کی وضاحت کرتے ہوئے تھانوی بتاتے ہیں: "رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عورتوں کو مساجد میں جانے کی اجازت تھی، کیونکہ مرد وعورت کے درمیان کشش کا امکان نہ تھا۔ تاہم بعد میں بدلتے حالات کی بنیاد پر صحابہ کرام نے اس عمل کو ممنوع قرار دیا" (50)۔

اس مثال میں رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ایک بنیادی زمانی منہاج کا کام دیتا ہے، جس کے مطابق حال کو ڈھلنا چاہیے۔  اس احساس کی تہہ میں کار فرما زمنیت کے ماڈل میں تاریخ کا ایک ایسا الہامی اسلوب جان ڈالتا ہے، جس میں حال کی زندگی ساتویں صدی کے ایک الہام (عہد نبوی) کی تصویر میں منکشف ہوتی ہے۔ تاریخ کا ایسا الہامی تصور تبدیلی اور حرکیت کا مخالف ہے؛ یہ زمان کے ایک ایسے تصور کو فرض کرتا اور اس سے پرورش پاتا ہے، جو مستقل اور غیر متبدّل ہو۔ تاہم اگر چہ تھانوی تاریخ اور زمان کی ایک الہامی تفہیم کو قبول کرتے ہیں، لیکن زمان کے ایک متحرک تصور کو اختیار کرنے سے بھی انھیں کوئی مسئلہ نہیں۔صحابہ کرام کی طرف سے خواتین کی مسجد میں آنے کی ممانعت سے، جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے عمل سے ایک واضح تبدیلی اور انحراف ہے، یہ امر بالکل بدیہی طور پر ثابت ہوتا ہے۔ اس مثال میں مولانا تھانوی نے ایک طرف فقہی لچک کی حمایت کی، اور بدلتے سماجی حالات کے مطابق  احکام کی تبدیلی کی گنجائش کی تائید کی۔ الہامی ماڈل کے برعکس قانون کے بارے میں اس لچک دار اور متحرک رویے نے حال کو ایک ایسے زمانی تناظر کی حیثیت عطا کی، جو کسی سماج کے لیے شرعی و اخلاقی پروگرام کی تشکیل کے لیے سب سے زیادہ مناسب تھا۔ نتیجتاً قانون اور تاریخ کے الہامی تصور کے برعکس جو زمان کو مستقل ہونے پر مجبور کرتا ہے، یہ بعد والا رویہ زمان کی حرکیت کی تائید کرتا ہے۔ تب یہ امر واضح ہے کہ مولانا تھانوی نے بدعت کے حوالے سے اپنا پسندیدہ استدلال وضع کرنے کے لیے اپنے افکار میں زمان کے استقلال اور تحرک کو حکمتِ عملی سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ ان کی فکر میں مستقل اور متحرک زمان دونوں بیک وقت موجود اور باہم معاون ہیں، جو ایک لاینحل لیکن تعمیری ابہام کی غمازی کرتے ہیں۔ 

صحابہ کرام کے عہد میں مساجد کے اندر خواتین کی موجودگی کی ممانعت کی جو وضاحت مولانا تھانوی نے کی ہے، اس کے اندر ایک اور ابہام بھی پایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ وہ کون سے تاریخی اسباب ہیں، جن کی بنا پر وقت گزرنے کے ساتھ انسانی فطرت میں ایسی جوہری تبدیلیوں کو تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ مثلاً مولانا تھانوی کس بنیاد پر یہ استدلال کرتے ہیں کہ عہد نبوی میں مرد وزن کے درمیان کشش موجود نہ تھی، اور آپ علیہ السلام کی وفات کے فورًا بعد پیدا ہوئی؟ مولانا تھانوی ان ابہامات کو نہیں چھیڑتے۔ تاہم ان کے استدلال کے منطقی ربط سے زیادہ دل چسپ تاریخ اور زمان کا وہ تصور ہے جو یہ استدلال فرض کرتا اور تشکیل دیتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے دینی عروج وزوال کا جو بیانیہ مولانا تھانوی کے استدلال میں کار فرما ہے، اس یقین کے ساتھ نتھی ہے کہ ایک شخص تاریخ میں جتنا پیچھے کی طرف سفر کرتا ہے، اتنا ہی اسے اسلام اپنی خالص شکل میں ملے گا۔ اس میں عہد نبوی ایک غیر فاسد اخلاقی نظام کے ایک حتمی ماڈل کا کام دیتا ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنے حال میں زمان کے منفی تجزیےنے دین کی اخلاقی پاکیزگی کے نگہبان کی حیثیت سے مولانا تھانوی کی اپنی حیثیت کو استناد عطا کیا۔ حال کے ایک یاس انگیز تصور نے ایسے پیغمبری مصلحین کے استناد کی ضرورت پیدا کی، جو عوام کو بدعات سے ہٹا کر سنت کے رستے پر ڈال سکیں۔ حقیقت میں مولانا تھانوی کے دینی فرائض کی کڑی علمیاتی تحقیق کا پورا پروجیکٹ بالکل اہم نہ ہوتا، اگر یہ ایک عالم گیر اخلاقی زوال کے بیانے میں ملفوف نہ ہوتا۔

المختصر مولانا تھانوی نے ماضی کے ایک مثالی معاشرے کے تصور اور حال اور مستقبل کی ایک مکروہ تصویر کے درمیان تقابل پیدا کرکے اپنے دینی استناد کو تقویت پہنچائی۔ مولانا تھانوی کی فکر میں مثالی معاشرہ (نبی اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام کا عہد) ہمارے پیچھے ہے؛ یہ تاریخ کا ایک ایسا عہد ہے جسے سماج کی عادت (habitus) کو تبدیلی کے ایک جامع اور مسلسل پروگرام کے ذریعے واپس لایا جا سکتا ہے،اور اسی طرح سے ماضی کی گم شدہ میراث کو حال میں پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن واپسی کی یہ خواہش ہمیشہ ناآسودہ رہی۔ یہ عدم امکان کبھی بھی وقوع سے ہم کنار نہ ہوا۔

یہاں میں یہ اضافہ کرتا چلوں کہ عہد نبوی کو زمانۂ موجود میں واپس لانے کی ناآسودہ خواہش اخلاقی بحران کی اس الہامی ضرورت کو ایندھن فراہم کرتی ہے، جو 'فسادِ زمان' کے مقبولِ عام اصلاحی استدلال میں پایا جاتا ہے۔ یہ  ایک ایسا استدلال ہے جسے مولانا تھانوی نے بدعت سے متعلق اپنے افکار میں بار بار پیش کیا ہے۔ اس تصور میں زمان کی علامت مجازی طور پر عوام کے لیے استعمال ہوتی ہے، جو ایسی عادات واطوار کو بڑھاوا دیتے ہیں، جو ہر آنے والے عہد میں فساد کے شماریے (index) میں معتد بہ اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ مزید برآں مولانا تھانوی کے افکار میں بیک وقت مثالی اور مکروہ زمنیتوں کے لاینحل تناقض کی موجودگی ہی سنتِ نبوی کے ایک سرپرست اور احیا کے علم بردار کی حیثیت سے ان کے استناد کو تقویت فراہم کرتی ہے۔

اصول نمبر 5: "ایک ناجائز عمل اس بنیاد پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا کہ سماج کے لیے متعدد مصالح اور بہبود کا حامل ہے۔ اگر اس عمل کے ساتھ جڑے مصالح شریعت کی رو سے ضروری نہ ہوں، تو پھر وہ عمل ناجائز رہتا ہے" (50)۔

اس اصول کو وضع کرنے کا بنیادی مقصد میلاد کے حامیوں کے اس استدلال کا جواب دینا تھا کہ اس رسم میں موجود کچھ مفید مصالح  ہیں جیسے غریبوں کو کھانا کھلانا، غیرمسلموں میں اسلام کی تبلیغ اور دینی طبقے کا پھلنا پھولنا، جن کی وجہ سے اسے جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔ مولانا تھانوی نے اس کے جواب میں بتایا کہ میلاد سے پیدا ہونے والے اجتماعی مصالح اس سے جڑے  مضر اثرات کا ازالہ نہیں کرتے۔ مولانا تھانوی کے مطابق اگر میلاد کے ساتھ جڑے مجوزہ مصالح شرعاً ضروری نہیں، یا ان کے حصول کے لیے دیگر ذرائع موجود ہیں، تو پھر یہ مصالح میلاد کے لیے وجۂ جواز نہیں بن سکتے۔ مثلاً ایک شخص یہ استدلال کر سکتا ہے کہ میلاد جیسی رسم سماج کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے، جس کی وجہ سے سماج کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ مولانا تھانوی کی نظر میں یہ مصلحت میلاد کے جواز کے لیے کافی نہیں۔ اس کے سماجی تخیل میں ایک متحرک سماج کی تشکیل سے زیادہ اہم فوری اور قابل توجہ حکم شریعت کی مستقل حدود کا تحفظ ہے۔

قانون الٰہی کی سالمیت برقرار رکھنا دیگر تمام مصالح پر فوقیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ مولانا تھانوی نے تعلیق کی ہے: "اچھی نیت سے ایک مباح عمل عبادت کا درجہ حاصل کر سکتا ہے، لیکن ایک مکروہ عمل کبھی مباح نہیں بن سکتا، اگر چہ اس میں ہزار مصالح اور مفید مقاصد ہوں" (50)۔ 

وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں: "مثلا کوئی ظلم وناانصافی سے مال جمع کرتا ہے، اس نیت سےکہ  وہ اسے غریبوں میں بانٹے گا۔ اس صورت میں ظلم وناانصافی جائز نہیں قرار پائے گی، اگر چہ اس بظاہر نیک عمل سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ملنے کی امید ہو" (50)۔

مولانا تھانوی احکامِ الہی کے ایک وکیل کی حیثیت سے

یہ پانچ اصول وضع کرنے کے بعد مولانا تھانوی نے ان اصولوں کی روشنی میں میلاد کا جائزہ لیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے اس بات کی تعیین ضروری ہے کہ لوگ میلاد میں شرکت کو فرض سمجھتے ہیں یا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اس بات کا یقین حاصل کرنا چاہیے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر رائج میلاد مختلف فاسد رسوم کی وجہ سے بگڑ گیا ہے یا نہیں۔ مولانا تھانوی ان دونوں سوالوں کا جواب قطعی طور پر اثبات میں دیتے ہیں۔جیسا وہ لکھتے ہیں:

جس بات کا یقین ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ کیا ہمارے زمانے میں یہ مباح اعمال فساد کا سبب بن رہے ہیں؟ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ ان اعمال میں فساد ہے، تو پھر انھیں ناجائز ہونا چاہیے۔ بصورتِ دیگر یہ جائز رہیں گے۔ اور یہ یقین تجربے اور مشاہدے کی رو سے بآسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔میلاد کے بارے میں اپنے سالہا سال کے تجربے کی روشنی میں بلا جھجھک یہ کہہ سکتا ہوں کہ عوام کے اندر تقریباً ہر فرد اس رسم کو شرعی فریضہ سمجھتا ہے، اور ان تقریبات میں اس طرح شرکت کرتا ہے کہ گویا یہ شریعت کے فرائض یا مرتبے میں اس سے بھی برتر ہیں (51)۔

مولانا تھانوی نے میلاد کو علی الاطلاق یعنی اپنے جوہر کے اعتبار سے اور بالذات ناجائز قرار نہیں دیا۔  وہ اس بات پر قائم رہے کہ اصلاً میلاد جائز ہے۔ تاہم انھوں نے اس کے جواز کے لیے نہایت کڑی شرائط مقرر کیں۔ ان کے مطابق اگر اس محفل کے شرکا اپنے قول وفعل سے یہ ظاہر کریں کہ وہ میلاد کو ایک غیر واجب رسم سمجھتے ہیں، تو پھر یہ جائز رہے گا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ مولانا تھانوی تجویز کرتے ہیں کہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ محفل میلاد سے جڑی قیود میں کچھ تنوع پیدا کریں- ایسی قیود جن پر شدت کے ساتھ کاربند ہونے کی وجہ سے وہ شریعت کی طرح بن گئی ہیں۔ 

میں چاہتا ہوں کہ تھانوی کے اپنے الفاظ میں وہ طریق کار واضح کروں، جس کے ذریعے وہ میلاد کو ایک غیر واجب رسم بنانے کا طریقہ بتاتے ہیں:

اگر مٹھائیوں کی تقسیم محفل میلاد کا ایک مستقل جزو ہے، تب متعدد مواقع پر شرکا کو اس عمل میں تبدیلیاں کرنی چاہیے، مثلاً‌ انھیں چاہیے کہ وہ فقرا کو تنہائی میں نقدی یا کپڑے یا گندم دیں۔ اور بعض اوقات انھیں اس موقع پر صدقہ خیرات دینے مکمل گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح جب محفل میلاد میں رسول اللہ ﷺ کے ذاتی فضائل وخصوصیات کا بیان ہو، اور کوئی وفورِ جذبات کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہو، تو اس قیام کے لیے کسی وقت کی تخصیص بالکل معقول نہیں۔ جب کسی شخص پر وجد طاری ہو جائے تو وہ کھڑا ہو جائے، چاہے یہ ابتدا میں ہو یا درمیان یا محفل میلاد کے آخر میں۔ اس کے ساتھ بعض اوقات اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بیٹھے رہنا چاہیے۔ مزید برآں صرف محفل میلاد کے مقام پر جذبات سے مغلوب ہو کر قیام نہیں کرنا چاہیے۔ میلاد کے علاوہ ایسے دیگر مواقع پر بھی اس وجد اور قیام پر عمل کرنا چاہیے، جہاں نبی اکرم ﷺ کے فضائل وخصائص بیان ہوتے ہوں (52)۔

یہاں پر مولانا تھانوی کی بحث میں ایک نکتے کے حوالے سے دلچسپ تبدیلی سامنے آتی ہے جس کی طرف میں نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے کہ سادگی پر تمام زور کے باوجود ان کے مسلکی تصور میں پھر بھی جذبات کی کچھ گنجائش ہے۔ وہ جذبات کے بالکلیہ استیصال کے قائل نہیں،بلکہ ان کے درست استعمال اور تصرف کو اخلاقی اعتبار سے راست باز اور ثابت قدم بندے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ مولانا تھانوی یہ بتانے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ایسے کسی بندے کو تلاشنا تقریبا ناممکن ہے جو ان تمام شرائط پر پورا اترتا ہو، یعنی وہ شخص جو میلاد کو سرانجام دیتے وقت اسے ایک فرض عمل کے ساتھ گڈمڈ نہ کرے۔ وہ طنزیہ انداز میں بتاتے ہیں: "ایسا شخص عنقا سے بھی زیادہ نایاب ہے" (51)۔

مولانا تھانوی کے تعبیری منہاج کا دار ومدار ایک ایسے تصور پر جسے اخلاقیات کے اضافی اسلوب (relativistic mode of ethics) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ مولانا تھانوی کے مطابق کسی عمل کی شرعی حیثیت ان خارجی عوارض سے طے پاتی ہے جن کے تحت وہ سرانجام پاتا ہے۔ یہ تعبیری اسلوب بھی ان کے اپنے دینی استناد کو تقویت فراہم کرتا ہے۔ کسی عمل کے ذاتی اور جوہری حسن وقبح سے صرف نظر کرکے بحث کا رخ ان احوال وظروف کی طرف موڑ دینے سے جن کے تحت یہ عمل انجام پاتا ہے، تھانوی نے  ایک عالم کی حیثیت سے اپنی قانون سازی کے اختیار کو تقویت دی۔ یعنی آخر الامر وہ ہی ہیں جو اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ خارجی عوارض مثبت ہیں یا منفی، صالح ہیں یا فاسد۔

اپنی کتابJustice Miscarried: Ethics, Aesthetics and the Lawمیں قانونی مفکرین کوستاس دوزیناس (Costas Douzinas) اور رونی وارنگٹن (Ronnie Warrington) بتاتے ہیں کہ انسانوں کی قانون سازی کے اختیارات میں تدریجی توسیع جدیدیت میں قانونی پیش رفت کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جدیدیت کے زیر اثر "جدید شعور اور آزاد ارادہ قانون ساز بن گئے ہیں: ماتحت بذات خود قوانین کا جائزہ لیتے ہیں، اور انھیں رد کر سکتے ہیں، اور ان کو دوسرے قوانین سے بدل سکتے ہیں، اگر وہ ان معیارات پر پورا نہ اترتے ہوں، جو حالات اور عقائد کے مطابق تغیر پذیر ہوتے ہیں"8۔  بعینہ طریقۂ مولد شریف میں مولانا تھانوی نے مخصوص قانونی معیارات وضع کیے ہیں، جو دینی فرائض کو استدلال کے ایک انتہائی منظم طریقے سے بنیاد فراہم کرتے ہیں، اور جس کے وضع کرنے میں انسانی عقل نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جو اعمال صراحتاً جائز نہ ہوں نہ ہی قطعاً حرام ہوں، ان کی شرعی حیثیت کے تعین کو خارجی عوارض پر منحصر کرنے سے مولانا تھانوی نے خود کو مجتہد کے درجے پر فائز کر دیا۔ الٰہی منشا اور اختیار کے ترجمان کی حیثیت سے مولانا تھانوی نے خود کو ایک سادہ حقیقت کو معنی عطا کرنے والے کی حیثیت دی۔

دیوبند کو 'باطنی اصلاح' کی تحریک سمجھنے کی غلطی

خلاصہ یہ کہ آخری دو ابواب میں میں نے دکھایا کہ بدعت سے متعلق شاہ محمد اسماعیل اورمولانا اشرف علی تھانوی کے مباحث کو تقویت پہنچانے کے لیے شریعت کے تصور میں مرکزی نکتہ شریعت کی متعین کردہ علمیاتی حدود اور روزمرہ کی عادات واطور کی سمت متعین کرنے والے وجودیاتی نمونوں کے درمیان ہم آہنگی کے حصول کی خواہش تھی۔ ان علما کی نظر میں کوئی عمل اس وقت بدعت بنتا ہے جب یہ شریعت کی عطا کردہ 'حلال'، 'مباح'، 'واجب'، 'مکروہ' یا 'حرام' حیثیت سے تجاوز کر جاتا ہے، وہ حیثیت جو کسی عمل کو شریعت کی مخصوص تعبیر وتشریح کے نتیجے میں دی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں شریعت کی مستقل اقدار علم کا ایک جامع منہج ہیں، اور چاہیے کہ انفرادی عادات اور اعمال کو ان کے مطابق ڈھلیں اور ان سے ہم آہنگ ہوں۔ جب شریعت کے علم اور اکتسابی عادات کے درمیان یہ ہم آہنگی ٹوٹ جاتی ہے، تو بدعات رونما ہوتی ہیں۔ علمیاتی انتشار وجودیاتی اور سماجی پراگندگی کا سبب بنتا ہے۔ یہاں یہ ملاحظہ کرنا مفید ہوگا کہ علم وعمل کی یہ الجھن بوردیو کے نظریۂ عادت (habitus) میں مرکزی نکتے کی حیثیت رکھتی ہے، جیسا کہ مائیکل دی سرتیو (Michel De Certeau) نے واضح کیا ہے۔

دی سرتیو بتاتا ہے کہ بوردیو کے ماڈل میں کسی سماج کی عادات کو اس کے معروضی عقائد سے جوڑے رکھنے کے لیے کلیدی متغیر (variable) اکتسابی علم ہے۔ دی سرتیو کے مطابق بوردیو کا نظریہ "اعمال کا عقائد سے ان کی اصل کے ذریعے ہم آہنگی کی وضاحت کی کوشش کرتا ہے۔ 'اصل' سے مراد عقائد کو (اکتساب کے ذریعے) باطن کا حصہ بنانا اور اعمال کے حاصلات (جس کو بوردیو 'عادات' کہتا ہے) کو خارج کا حصہ بنانا ہے۔ اس طرح ایک زمانی پہلو سامنے آتا ہے: اعمال (جو تجربے کا اظہار ہیں) حالات (جو عقائد کا مظہر ہیں)سے  صرف اس صورت میں مکمل طور پر ہم آہنگ ہو سکتے ہیں، اگر عقائد باطن/خارج کا حصہ بننے کے عمل کے دوران مستحکم (stable) رہیں9۔

عقائد اور اعمال کے درمیان تعلق کی تقریباً یہی صورت مسلمانوں کے ان اصلاحی مباحث میں دیکھی جا سکتی ہے، جن کا مقصد شرعی احکام کی ایک بالادست ساخت کی حیثیت سے شریعت کی اولیت کا تحفظ ہے۔ شریعت کی طے کردہ علمیاتی حدود اور معیارات کی بقا اور استحکام کو صرف ان اکتسابی میلانات کو خارجی صورت عطا کرنے کے ذریعے یقینی بنایا جا سکتا ہے جو عوامی سطح پر ان حدود اور معیارات کی تنفیذ اور تصدیق کرتے ہیں، لیکن یہ حدود اور معیارات کبھی ایک طے شدہ امر نہیں رہے۔ 'شرعی میلانات' کے حوالے سے کس کا موقف سماج کی عادت (habitus) کا رخ متعین کرے، اس پر اختیار حاصل کرنےکی  کش مکش ہمیشہ سے ایک جاری رہنے والا عمل ہے، جس پر نہ ختم ہونے والے اختلافات رہے ہیںَ۔ بالفاظ دیگر ایک معیاری عقیدے پر اختلاف اس عقیدے کی عدم موجودگی پر دلالت کرتا ہے؛ کیونکہ ایسے عقیدے کی موجودگی میں متبادل ترجیحات ناقابلِ تصور اور شعور کے خانے سے محو ہو جاتے ہیں۔ میری رائے میں حریف عقائد پر یہ کش مکش  بدعت کے مفہوم اور دائرۂ کار پر بین المسالک اختلافات کے رزمیوں میں کار فرما بنیادی بیانی پلاٹ (narrative plot) کا کام دیتا ہے۔

ان آخری دو ابواب میں جو تجزیہ کیا گیا ہے اس سے باربرا مٹکاف (Barbara Metcalf) کے اس دعوے پر بھی سوال اٹھتا ہے کہ بانیانِ دیوبند نے دینی اصلاح کا ایک ایسا پروجیکٹ شروع کیا تھا جس کا بنیادی زور نجی دائرے میں شخصی پاکیزگی پر تھا۔ دیوبند مدرسے کے ابتدائی دور سے متعلق اپنی شان دار کتاب میں مٹکاف نے یہ موقف اپنایا کہ دیوبندی نظریے کی بنیادی خصوصیت 'داخلی تبدیلی' ہے، یعنی ایک مسلمان کی حیثیت سے فرد کی اصلاح پر از سرِ نو زور دینا ہے۔ ان کے اپنے الفاظ میں علماے دیوبند نے "ریاست اور سماج کی تشکیل کے مسائل سے اک گونہ پہلو تہی کرکے انفرادی مسلمانوں کی اخلاقی تربیت کی طرف اپنا رخ موڑ دیا"10۔

دیوبند سے متعلق اپنی بلند پایہ تحقیق میں محمد قاسم زمان نے مٹکاف کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ "بیسویں صدی میں علماے دیوبند کی سرگرمیوں کی عوامی اور سیاسی پہلو کی وضاحت نہیں کر سکتا"11۔  قاسم زمان کا نکتہ تسلیم ہے، لیکن یہاں پر میں یہ اضافہ کرنا چاہتا ہوں کہ باربرا مٹکاف کے موقف میں اس سے بھی زیادہ ایک بنیادی مشکل ہے اور وہ یہ مفروضہ ہے کہ عوامی یا نجی دائرہ  زندگی کے الگ میدانوں کی حیثیت سے بنے بنائے طور پر ایک دوسرے سے ممتاز ہیں۔ مٹکاف کا فکری دائرۂ کار ایسے کرداروں کے سر داخلی/خارجی اور اجتماعی/انفرادی جیسے لبرل سیکولر تقابلات منڈتی ہے جنھوں نے نہ تو اپنی زندگیاں ان تقابلات کی حدود کے تحت گزاریں، اور اپنے اصلاحی تصورات ان کی روشنی میں ترتیب دیے۔

جیسا کہ میں نے اس حصے میں بار بار بتایا ہے کہ بدعت کے حوالے سے دیوبندیوں کے مباحث بیک وقت فقہ، کلام اور روزمرہ کے اعمال کے سنگم پر واقع ہیں۔ ایک مسلمان کی اخروی نجات کا امکان ایک ایسے عوامی دائرے کی نگرانی پر منحصر ہے جو یک سر اور مطلق خدائی حاکمیت (توحید) کے عقیدے کا اعتراف کرے۔ کسی مسلمان کے انفرادی تزکیے کے لیے ایک ایسے سماج کی تعمیر کی ضرورت ہے، جو روزمرہ زندگی میں قانونِ الہی کی حدود کو عملی شکل دینے کے لیے ہمہ تن یک سو ہو۔ دیوبند کی اصلاحی تحریک کی بنیادی خصوصیت اسلام کو باطن کا حصہ بنانا یا 'سماج کی تنظیم سے رخ پیرنا نہیں' جیسا کہ مٹکاف نے موقف اپنایا ہے۔ اس کے برعکس دیوبند کے پیش رو سماج کو اس انداز میں بدلنا چاہتے تھے، جس سے ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی تخیل میں خدائی حاکمیت کی اولیت بحال ہو۔ فرد کی اصلاح کے ہدف کو سماج کی تنظیمِ نو کے مقصد سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

مولانا تھانوی جب شمالی ہندوستان میں رائج شادی بیاہ کے رسوم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تو اس سے ان کے علمی تراث میں ایک قابل ذکر اور واضح انداز میں فرد، سماج اور عقائد کا ربط معلوم ہوتا ہے۔ روزمرہ کے عوامی رسموں کی ایک جامع تنقید کے طور پر اپنی مقبول عام تصنیف 'اصلاح الرسوم' میں مولانا تھانوی نے ان رسموں کا ایک تفصیلی شجرہ بیان کیا ہے12۔ وہ شادی بیاہ سے متعلقہ رسموں کی مقررہ ترتیب اور سماجیاتی پہلؤوں کو موسوعی اور تصویری تفصیلات کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور ان سینکڑوں مراحل کو ترتیب وار بیان کرتے ہیں، جو صرف شادی میں پیش آتے ہیں۔ ان رسموں کی جزئی تفصیلات سے مولانا تھانوی کی واقفیت سے ایک آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شادی بیاہ کی رسموں کی تحقیق ان کا اگر مستقل پیشہ نہ بھی تھا، لیکن ایک پسندیدہ مشغلہ ضرور تھا۔ تاہم جہاں مولانا تھانوی ان رسموں کا شجرہ بیان کرنے میں باریک بین ہیں، وہیں وہ بمشکل اپنے پیروکاروں سے ہم دردی کا کوئی اظہار کرتے ہیں۔ بلکہ وہ تو شادی بیاہ جیسی تقریبات کو علی الترتیب 'قیامتِ صغری' اور 'قیامتِ کبری' جیسے اخروی نام دیتے ہیں۔ شادی میں سر انجام دیے جانے والے 'خوف ناک رسموں' کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا تھانوی نے پرزور لیکن دلچسپ اناز میں اپنا احتجاج ریکارڈ کیا ہے، جو یہاں پر میرا بنیادی نکتہ ہے۔ وہ طنز بھرے لہجے میں شکایت کرتے ہیں: "پہلے پہل ایک قبیلے کے مرد اکٹھے ہو جاتے اور ایک مقامی نائی کو شادی کی تاریخ طے کرنے کے لیے دلہن کے گھر والوں کے نام خط پہنچانے کے لیے دیتے۔ اب لوگوں میں یہ رسم اس قدر پختہ ہو گئی ہے کہ اگر شدید بارش ہو، سڑکیں سیلاب کی وجہ سے بند ہوں، اور نائی کے مستقل ڈوب جانے کا بھی خطرہ ہو، تو بھی وہ اس رسم سے باز نہیں آتے۔ آپ بتائیں کہ یہ ایک ایسی چیز کو خود پر لازم کرنا نہیں ہے، جسے خدا نے لازم نہیں کیا ؛ یہ سنت کے مخالف ایک نئے عمل کی بنیاد رکھنا نہیں، جو شریعت کو چیلنج کرتا ہے؟"13

مولانا تھانوی کےاگلے فقرے میرے لیے سب سے زیادہ دل چسپ ہیں: "یہ لوگ کس قدر احمق ہیں۔ وہ ایک شخص کو پیغام پہنچانے کے لیے ایک روپیہ اور چار آنے دیتے ہیں، حالانکہ یہی کام وہ پچاس پیسوں میں ایک لفافہ اور ڈاک ٹکٹ خرید کر کر سکتے ہیں۔ وہ یہ خط  سیدھا ڈاک سے کیوں نہیں بھیجتے؟ اور اگر وہ خواہ مخواہ خط کو ایک واسطے کے ذریعے بھیجنا چاہتے ہیں، تو پھر انھیں اس کے لیے مقامی نائی کے بجاے سماج کا کوئی زیادہ معزز فرد کیوں نہیں ملتا"14۔ یہ احساسات عمدگی سے کلام، قانون اور دین دار عوام کے درمیان ربط کی تصویر  کشی کرتے ہیں۔شادی بیاہ کی رسمیں شریعت کی حاکمیت کے لیے خطرہ ہونے سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔  یہ اس نظام اور مراتب ودرجات میں بھی خلل ڈالتا ہے، جو دین دار عوام کی تشکیل اور تحفظ کا کام کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ اخراجات اور وقت دونوں کی بچت کرنے والے ڈاک کے نظام کی افادیت پسندانہ حمایت سے مولانا تھانوی کے اصلاحی پروجیکٹ اور استعمار کے استدلالی اور ادارتی نظام کی فراہم کردہ ساز وسامان کے درمیان حیرت انگیز تعامل کا بھی پتا چلتا ہے۔ تاہم مولانا تھانوی کے افادیت پسندانہ اقدام کا وزن اس حد تک نہ بڑھایا جائے کہ اسے ان کے علمی مزاج کے لیے ایک تشکیلی عنصر کے طور پر مانا جائے۔ ان کے افادیت پسندانہ اقدام کو عوام کی روزمرہ زندگی اور اخروی نجات کے حوالے سے ان کی جذباتی اصلاحی فکر سے جدا نہیں کیا جا سکتا ۔ عوام کی دین داری سے جذباتی محبت اور عوام کی دینی وابستگی کو قائم رکھنے کی افادیت پسندانہ عقلیت ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں15۔ جذباتیت اور عقلیت دونوں باہم یک جا اور ناقابل علیحدگی تھے۔

اس مختصر بحث کو سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ علماے دیوبند کی دینی فکر کی تصور سازی کرتے وقت داخلی/خارجی، شخصی پاکیزگی/عوامی مذہب، فرد/سماج یا عقلی/جذباتی جیسی تقسیمات بنانا درست نہیں ہے۔ یہ تقسیمات روایت اور اس کی حدود کے تصورات کی حد بندی کرنا چاہتی ہیں، تاہم انھیں ان بنے بنائے خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ اگلے باب میں بالخصوص بدعت کے مسئلے پر دیوبندی مسلک کی ایک کاٹ دار تنقید کا جائزہ لیتے ہوئے میں روایت اور اصلاح کی ایک ایسے متقابل تفہیم سے بحث کروں گا، جس کی وکالت دیوبند کے بنیادی حریف مولانا احمد رضا خان بریلوی  نے کی۔ فاضل بریلوی نے سنتِ رسول کے معتمد نگہبانوں کی حیثیت سے دیوبند کے پیش رؤوں کی ثقاہت کو غیر مستند ثابت کرنے کی کوشش کی۔ مزید برآں انھوں نے ان کی اصلاحی تحریک کو بدعت قرار دیا، جو روایت کے سابقہ اور موجودہ مستند نمائندوں کی آرا کے برعکس ہے اور اس طرح انھوں نے ان کے تسلسل میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی۔ اگلا باب پوری وضاحت سے اس پر بحث کرتا ہے کہ فاضل بریلوی نے کس طرح اپنے دیوبندی مخالفین کو بدعتی قرار دیا، جو ہندوستان میں اسلام کے لیے ایک نیا خطرہ تھے۔


حواشی

  1. دیکھیے: ماریون کاٹز، The Birth of Prophet Muhammad: Devotional Piety in Sunni Islam (لندن: روٹلیج، 2007)۔
  2. جلال الدین السیوطی، حسن المقصد في عمل المولد، الحاوي للفتاوى کے اندر (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1975) 1: 192۔
  3. تقی الدین ابن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقيم في مخالفة أصحاب الجحيم (قاہرہ: المکتبۃ التوفیقیۃ، 2000)، 2 : 123۔
  4. ایضاً
  5. میلاد کے جواز پر ماقبل جدید مسلم اہل علم کے فقہی مباحث کے لیے دیکھیے: راکوئل یوکیلیس، Innovation or Deviation: Exploring the Boundaries of Islamic Devotional Law (پی ایچ ڈی مقالہ، ہاورڈ یونیورسٹی، 2006)، 200 – 239۔
  6. اشرف علی تھانوی، طریقۂ مولد شریف (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 1976)۔ آنے والے حوالہ جات اسی اشاعت سے ہیں، اور متن میں بین القوسین دیے گئے ہیں۔ یہ رسالہ اصلاً 1899 میں بدعت کے موضوع پر مولانا تھانوی کی مفصل کتاب 'اصلاح الرسوم' کے ایک باب کے طور پر چھپی۔  میلاد سے متعلق یہ حصہ بعد میں طریقۂ مولد شریف کے نام سے علاحدہ چھپا۔ میں نے بعد والی اشاعت سے اصلی متن کا تقابل کیا ہے، اور مجھے اس میں کوئی تغیر وتبدیلی نہیں دکھائی دی۔
  7. 'عیش پرستی' سے میری مراد چراغاں کرنا، حد سے زیادہ تزئین وآرائش کرنا، مرد وزن کے اختلاط کی اجازت دینا، خوش شکل لڑکوں کو گانے کی اجازت دینا جیسے اعمال ہیں، جس کی وجہ سے سماج ایسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتا ہے، جو اپنی بُنت میں ایک سادہ شخصیت کے فروغ اور بعد میں ایک ایسے سماج کی تربیت سے، جو روزمرہ کے اعمال میں سادگی کی مثالی صورت اپنائے، کے ضد میں ہے۔
  8.  کوستاس دوزیناس اور رونی وارنگٹن، Justice Miscarried: Ethic, Aesthetics and the Law (نیو یارک: ہارویسٹر ویٹشیف، 1999)، 83۔
  9. مایکل دی سرتیو، The Practice of Everyday Litfe (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1984)، 50۔
  10. باربرہ مٹکاف، Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1982)، 351۔
  11. محمد قاسم زمان، The ‘Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2002)، 13۔
  12. اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1958)، 10 – 40۔
  13. ایضاً، 48۔
  14. ایضاً۔
  15. مولانا تھانوی کی فکر میں جذباتی اور افادیت پسندانہ دونوں پہلؤوں کے یک جا اظہار کے بارے میں غور وفکر کے لیے میں نے کافی حد تک علی میاں اور مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) کی بات چیت سے استفادہ کیا ہے، جیسا کہ میں نے مولانا تھانوی کی فکر اور خدمات کے مختلف پہلؤوں پر ان کی ذاتی کاوشوں سے استفادہ کیا ہے۔

(جاری)

فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثر و نفوذ

ڈاکٹر سید متین احمد شاہ

مغربی دنیا اس وقت اسلام اور مسلمانوں کے احوال کے نئے مطالعات کے دور سے گزر ر ہی ہے۔ مغرب کی یہ فکری تحریک، جسے عرفِ عام میں استشراق (Orientalism) سے تعبیر کیا جاتا ہے، اپنا تاریخی پس منظر رکھتی ہے۔ آٹھویں صدی عیسوی سے پندرھویں صدی عیسوی تک کا پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں اسلام اور مغرب کا تعلق سیاسی اور حربی نوعیت کا ہے۔یہ عہد اسلام کے غلبے کا عہد ہے جس میں اسلام نے دنیا میں اپنی تہذیب کے جھنڈے گاڑے اور اسلامی علوم وافکار نے اس دور میں زندگیوں پر گہرے اثرات چھوڑے۔

دوسرا مرحلہ یورپ کی نشاتِ ثانیہ کا ہے جس میں تاریخ اپنا نیا سفر شروع کرتی ہے۔اس دور کے ظہور میں اساسی کردار میراثِ مشرق کا مغربی زبانوں میں ترجمے کا ہے جس کا اثر مغربی مفکرین نے قبول کیا۔ اسی دور میں مشرقی ادب ،کے بعض فن پارے مغربی زبانوں میں ڈھلے جیسے ’’ألف ليلة وليلة‘‘ جس کا فرانسیسی ترجمہ سترھویں صدی کے آخر میں ہوا اور پھر اسے دیگر زبانوں میں منتقل کیا گیا۔اسی دور میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کا مطالعہ مغرب میں کیا گیا اور اسلام اور اس کی تاریخ کے بارے میں اہلِ یورپ کی کتابیں اور قرآنِ کریم کے تراجم سامنے آنے لگے، یورپی اہلِ تحقیق نے علومِ شرقیہ کے مخطوطات کی کھوج لگائی اور انھیں منصۂ شہود پر لانا شروع کیا۔استشراقی مطالعات کی سلبیات سے قطعِ نظر اس بات کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں کہ آج بہت سے بنیادی علمی مصادر، جن کو پانے کی حسرت علامہ شبلی نعمانی جیسے محققین کی تحریروں میں ملتی ہے، کے ظہور میں ہم اس استشراقی تحریک کے انگریز، فرنچ، جرمن اور اٹلی کے اہلِ علم کے سپاس گزار ہیں جن کی محنت سے یہ مصادر ہم تک پہنچ سکے۔انیسویں صدی کے نصفِ ثانی میں ان استشراقی تحقیقات کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنسوں کا آغاز ہوا اور ان حضرات کے مشرقی اہلِ علم سے بھی روابط استوار ہوئے۔ اس طرح کی کانفرنسوں میں ہمیں عرب دنیا کے معروف شاعر استاد شوقی اپنا کلام اور عبداللہ باشا فکری اپنی تحقیقات پیش کرتے نظر آتے ہیں۔

استشراق کا تیسرا مرحلہ وہ ہے جس میں اہلِ مغرب کے مطالعات کی تگ وتاز اسلام کے کلاسیکی مصادر ، قرآن اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے مطالعے تک محدود نہیں رہتی ، بلکہ اس میں اسلامی دنیا میں احیا وتجدید کے رجحانات، اس کی شخصیات اور اصلاحی و تجدیدی تحریکوں اور ان کے سیاسی، عمرانی ، مذہبی اور دیگر اثرات کے مطالعے کی طرف توجہ زیادہ مبذول ہوئی ہے۔ اس دور میں اسلام کئی پہلوؤں سے مغرب کی یونی ورسٹیوں میں زیرِ مطالعہ بننے کا رجحان پروان چڑھا ہے۔ اس مرحلے میں واضح طور پر ’دینی‘ اور ’لادینی‘ کی تقسیم کے پیکار کے تحت مذاہب کے مطالعے کا رجحان بیدار ہوا ہے اور ان کے درمیان مشترکات کی تلاش کی سعی شروع ہوئی ہے، تہذیبوں کے تصادم کے نظریات وضع کیے گئے ہیں اور تاریخ کے خاتمے کے تصورات پیش کیے گئے ہیں۔ نائن الیون کے روایت شکن اور روایت ساز واقعے کی صراحی سے قطرے قطرہ نئے حوادث ٹپکے ہیں اور دینی تعبیرات ونظریات کی تسبیح کے نئے دانے شمار ہوئے ہیں۔

تحریک استشراق کے نتیجے میں علومِ شرقیہ کے مطالعے کا ایک چوتھا مرحلہ بھی شمار کیا جا سکتا ہے جس کے اثرات مسلم دنیا میں اس وقت نفوذ کر رہے ہیں اور وہ ہے Continental Philosophy کے تناظر میں خصوصاً نصوصِ شرعی کا مطالعہ؛ Continental Philosophy کی روایت کا آغاز مغربی فلسفے میں کانٹ(Kant) کے افکار سے ہوتا ہے (اگرچہ ہر علم وفن کی طرح اس کے جذور قدیم یونان میں بھی ملتے ہیں۔)۔ اس رجحانِ فکر نے مندرجہ ذیل فلسفیانہ رجحانات کو جنم دیا:

علومِ دینیہ اور نصوصِ سماوی کے مطالعات کے مستقل رجحانات مغربی دنیا میں اس Continental Philosophy کے وجود پذیر ہونے کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ اس میں اوپر ذکر کردہ رجحانات میں سے خاص طور پر آخری تین رجحانات کا سماوی نصوص کے فہم پر اثر اب نہ صرف مستقل تحریک کی شکل میں ڈھل چکے ہیں، بلکہ ان کا تنقیدی مطالعہ بھی علومِ اسلامیہ کے حامل اہلِ علم کے ذمے ایک فرضِ کفایہ بھی ہے جس کی طرف کوئی خاص توجہ ہمارے دینی حلقوں میں نظر نہیں آتی۔ دینی مدارس میں تو اس حوالے سے بیداری پیدا ہونے میں شاید وقت لگے گا، لیکن یونی ورسٹیوں میں علومِ اسلامیہ کے شعبہ جات میں بھی ان رجحانات کے سنجیدہ مطالعے اور پھر علومِ اسلامیہ سے ان کے تعلق اور ان کے تنقیدی مطالعے پر کوئی مطالعاتی مواد شاملِ درس ہوتا نظر نہیں آتا۔اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ استشراقی مطالعات کے تاریخی ارتقا کے اس رجحان میں شاید پہلی بار مغرب کی مضبوط ترین عقلی روایت نے حصہ ڈالا ہے۔اس سے پہلے مطالعاتِ علومِ دینی کے مناہج بالعموم مسلم روایت کے استوار کردہ مناہج کے زیادہ قریب تھے، لیکن تحلیلی فلسفے کے بعد مغرب میں پروان چڑھنے والےContinental Philosophy کے رجحان نے مطالعات کی اس نئی روش کو خالص عقلی اور فلسفیانہ پس منظر بخش دیا ہے اور ، جب کہ ہمارے یہاں علومِ اسلامیہ کا حامل اسکالر کی ان علوم میں کوئی خاص مضبوط بنیاد نہیں ہوتی۔

اس اعتبار سے یہ وقت کا ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کی طرف متوجہ ہونا ناگزیر ضروریات میں سے ہے۔ عرب دنیا اور ایران کے علمی حلقوں میں اس حوالے سے بیداری نسبتاً خوش آئند ہے جن کی تحقیقات وتصانیف سے اس سلسلے میں مدد لی جا سکتی ہے، لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ علومِ اسلامیہ کے طلبہ میں تدریس کے لیے فلسفہ(کانٹی نینٹل)، جدید لسانیات، خصوصاً Semantics اور Literary Theory کے ماہرین کے علم سے استفادہ کیا جائے۔اس کے ساتھ مسلم روایت کے علوم میں سے اصولِ فقہ، اصولِ تفسیر اور علمِ بلاغت کے ساتھ اعتنا ناگزیر ہوگا، تاکہ مسلم اور مغربی روایتوں کے ہرمینیاتی آلات کے مابہ الاشتراک اور مابہ الافتراق وجوہ کی بصیرت حاصل کی جا سکے۔

ہمارے ہاں اس طرف سب سے پہلے ایک بڑی شخصیت نے توجہ ضروری کی ہے، لیکن اس کا پس منظر دینیات کا نہیں، بلکہ ادب کا ہے۔ وہ شخصیت اردو ادب کے قدآور نقاد جناب حسن عسکری ہیں۔ الجزائر کے ایک معروف مصنف ومفکر محمد ارکون ہیں جن کی اکثر کتابیں فرانسیسی میں ہیں، تاہم عربی میں ان کا بڑا حصہ ترجمہ ہو چکا ہے۔ انھیں مسلم فکری مطالعات میں Deconstructionist شمار کیا جا سکتا ہے۔ محمد حسن عسکری نے انھیں 25 نومبر 1958ء میں خط لکھا کہ وہ جس طرزِ مطالعہ کو دینیات کے باب میں فروغ دینا چاہتے ہیں، وہ خطرناک ہے۔ اس حوالے سے جناب ڈاکٹر عزیز ابن الحسن ، ناصر بغدادی کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’چونکہ ساختیات بنیادی طور پر سیکولر تاویلات اور تصورات سے مشتق ہے، لہذا قرآنِ مجید اور اسلامی تعلیمات کے حوالے سے وہ اس نظریے کے مضرب رساں مضمرات سے کماحقہ واقف تھے۔ اس مضمون میں انھوں نے محمد ارکون جیسے اسلام کے مردِ آگاہ اور صاحبِ علم کو ان امکانی نقصانات سے باخبر کیا ہے جو قرآنِ مجید کی قراءت کو لسانیاتی، ساختیاتی، ثقافتی، بشریات اور دیگر علوم کے حوالے سے کی جانے (والی تعبیر) سے پہنچنے کا احتمال ہے۔ ‘‘(2)

یہ بات ذرا طوالت اختیار کی گئی، لیکن اس سے یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ استشراق کے جدید ترین رجحانات کا مطالعہ بھی ناگزیر ہے اور اس پر بھی علمی مواد کی تیاری کی ضرورت ہے۔

اس تحریکِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کے اثرات کے بھرپور مطالعے کی ناگزیر علمی ضرورت کو ڈاکٹر محمد شہباز منج کی زیرِ تبصرہ کتاب ’’فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثرونفوذ‘‘ نے خوب صورتی کے ساتھ پورا کیا ہے۔کتاب کے جملہ مندرجات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذکورہ بالا مراحل میں زیادہ تر پہلے دو مراحل کے مطالعے اور ان کے اثرات سے متعلق ہے۔ کتاب کے مرکزی عناوین حسبِ ذیل ہیں:

ان میں سے ہر ایک عنوان ذیلی طور پر کئی عناوین میں منقسم ہے۔

مصنف نے تاریخِ استشراق پر گفت گو کرتے ہوئے اسے عمومی طور پر پیغمبرِ اسلام ﷺ سے دشمنی کے نتیجے میں وجود پذیر ہونے والے رحجان کے طور پر پیش کیا ہے اور تاریخ کے مختلف ادوار میں اس سے نکلنے والے نتائج اور اثرات کو نمایاں کیا ہے؛ چناں چہ عہدِ رسالت ، قرونِ وسطیٰ اور عہدِ جدید ، تینوں ادوار میں اس دشمنی کے مختلف مظاہر کوعلمی انداز میں واضح کیا گیا ہے۔ اس تحریک کے اغراض واہداف میں سے دینی، سیاسی، معاشی اور علمی اہداف کو واضح کیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف استشراق، استعمار اور تنصیر وتبشیر کو ایک ہی تصویر کے مختلف رخ سمجھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ کتاب میں زیادہ تر استشراق کے مسلم معاشروں میں مختلف میدانوں پر مرتب ہونے والے سلبی اثرات کو زیادہ نمایاں کیا گیا ہے، تاہم مصنف کو’’مشرق سے ہو بے زار ، نہ مغرب سے حذر کر‘‘ کے مصداق اس بات کا اعتراف ہے کہ ’’کسی دوسرے کے علم وتہذیب کا اثرہر حال میں برا نہیں ہوتا، اس کی مذمت وتردید اور اس سے بچاؤ کی تدابیر پر زور تغلیباً ہوتا ہے، ورنہ اس میں کچھ خیر کے پہلو بھی ہوتے ہیں، اور ان پہلوؤں کا تعلق مذہب اور کلام سے بھی ہو سکتا ہے اور دنیا ومادیت سے بھی۔عقل مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی اپنے عقائد وایمانیات اور تصورِ زندگی کے بنیادی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے ان پہلوؤں کو نہ صرف نظر انداز نہ کرے، بلکہ جہاں مفید پائے، کام میں لانے سے ہرگز نہ چوکے۔‘‘(3) چناں چہ وہ مسلمانوں کو ’’خُذْ مَا صَفَا وَ دَعْ مَا كَدَر‘‘ کا رویہ اپنے کی تلقین کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اس رجحان پر نقد کرتے ہیں، جو تہذیبِ مغرب کو ایک ایسا پیکج قرار دیتے ہیں جس میں اخذ وترک(Pick and Choose) ممکن نہیں۔وہ لکھتے ہیں:”راسخ العقیدہ اسلامیت کے اس حلقے سے راقم کو ہمیشہ شکایت رہی ہے جو" خذ ما صفا ودع ما كدر" کے رویے کو غیر اسلامی قرار دینے پر اپنی صلاحیتیں صرف کرتا اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ مغربی فکروتہذیب ایک پیکج ہے ؛ آپ اس کے معاملے میں اخذ وترک (Pick and Chose) کا رویہ نہیں اپنا سکتے۔ آپ یا سب کچھ قبول کر دیں یا ہر چیز رد کر دیں۔ “(4)

تاہم استشراقی تحریک کے ایجابی فوائد پر یہ گفت گو نہایت تشنہ رہ گئی ہے(جو محض چند صفحات پر مشتمل ہے۔) اور کتاب سے اس کے بارے میں تاثر بالعموم سلبی نوعیت ہی کا سامنے آتا ہے۔ یہاں اگر ان پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا جاتا کہ مستشرقین نے اپنی ان علمی سرگرمیوں میں خود مسلم تراث کی کئی کتابوں کو پہلی بار منظرِ عام پر لایا، مخطوطات کی اشاعت کی، تراجم میں حصہ لیا تو مناسب ہوتا۔(5)

یہاں اس بات کو پیشِ نظررکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح مختلف علوم وفنون میں اپنے نشو وارتقا کے مراحل سے گزرنے کے بعد تقسیم در تقسیم اور اس کے نتیجے میں مستقل بالذات Science بنے کا عمل جاری رہتا ہے، تحریکِ استشراق کو بھی اس کلیے سے شاید استثنا دینا ممکن نہ ہو؛ چناں چہ یہ درست ہے کہ استشراق، استعمار اور تنصیر میں ایک گونہ توافق اور اہداف میں یکسانی رہی ہے، لیکن استشراق اب ایک خالص علمی تحریک کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔اسے اپنے دیگر مقاصد سے کلیتاً جدا کرنا اگر ممکن نہ بھی ہو، تب بھی اس طرح کے ’اہداف‘ کے بارے میں اس بات کی تنقیح کی ضرورت ہے کہ آیا وہ دانستہ حاصل کیے جاتے ہیں یا خود بخود ایک عمل کے نتیجے میں منطقی اور علمی طور پر حاصل ہوتے ہیں۔

استشراقی کام نے جن دینی مباحث کو جنم دیا، مصنف نے ان میں سے وحی الہی، معجزات وخوارق، قرآن اور اس کی حیثیت ، حدیث اور اس کا مقام، سیرتِ طیبہ، معاد، جہاد، تعدد ازواج، اسلامی قانون وعقوبات وغیرہ کے حوالے سے ان فکر کے پیدا کردہ مباحث اور ان کے نتائج پر گفت گو کی ہے۔ ان امور کے حوالے سے مستشرقین کے دعواے غیر جانب داری پر نقد کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:’’مستشرقین کے ہاں اسلام کے حوالے سے تعصب اور عدمِ معروضیت کا رویہ پایا جاتا ہے۔ چناں چہ وہ اپنے اسلامی مطالعات میں موضوعی اندازِ فکر ونظر کے حامل رہے ہیں۔ وہ اپنے مخصوص کے لیے اسلام کی غیر حقیقی اور مسخ شدہ تصویر پیش کرتے رہے ہیں۔ ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ اسلام کو لوگوں کے سامنے اس انداز سے پیش کیا جائے کہ وہ ان کو کوئی غیر معمولی اور خاص وقعت کی چیز محسوس نہ ہو، بلکہ اس کے برعکس انسانی ترقی وتمدن کی راہ میں مزاحم دکھائی دے۔‘‘(6)

مذکورہ بالا موضوعات پر استشراقی فکر پر گفت گو کرتے ہوئے اس فکر کے سلبی امور ہی سامنے آتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم سماج پر ان بحثوں کا اثر زیادہ تر منفی ہی رہا ہے اور تشکیک واضطراب کا باعث بنا ہے۔

عالمِ اسلام پر اس کے اثرات پر بحث کرتے ہوئے دو طبقوں پر گفت گو کی گئی ہے: اہلِ اقتدار اور اہلِ علم۔اہلِ اقتدار میں سے ترکی کے ضیاء گوک الپ ، مصطفیٰ کمال اور بعض دیگر افراد پر گفت گو کی گئی ہے۔ اہلِ علم میں سے چودہ افراد کی فکر زیرِ بحث لائی گئی ہے۔ ان میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن، ڈاکٹر طٰہٰ حسین، محمد عبدُہُ، رشید رضا، قاسم امین، علی عبدالرزاق، طنطاوی جوہری، سرسید، مولوی چراغ علی، ممتاز علی ، سید امیر علی، محمد علی لاہوری، غلام احمد پرویز اور مرزا غلام احمد قادیانی شامل ہیں۔ ان اہلِ علم کے افکار کو ان کی بنیادی کتابوں سے اخذ کر کے بھرپور انداز میں پیش کیا گیا ہے جس سے ان کے تجدد پسندانہ افکار واضح ہوتے ہیں۔

کتاب کے منہج کے بارے میں مصنف کہتے ہیں:" اس کتاب کے مطالعے میں یہ بات پیشِ نگاہ رہنی چاہیے کہ یہاں مستشرقین کے افکار ونظریات کا تجزیہ یا اسلامی عقائد وتصورات سے متعلق ان کے اعتراضات کے جوابات دینے کی کوشش نہیں کی گئی، نہ ہی مختلف حوالوں سے ان سے متاثر و مرعوب مسلم اہلِ فکروقلم کے افکار و نظریات کا تفصیلی نقد وتجزیہ پیش کیا گیا ہے۔اس کے لیے الگ بحث و تحقیق کا منصوبہ پیشِ نظر ہے۔ "(7)

مصنف نے کتاب میں اسی منہج کو پیشِ نظر رکھا ہے اور اپنی طرف سے نقد و تبصرہ سے گریز کیا ہے، تاہم بعض مقامات پر ان کی اپنی راے بھی شامل ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر ص 163 پر حاشیہ نمبر 178 میں وہ ڈارون کے نظریۂ ارتقا کے محرکات پر نقد کرتے ہیں۔ (8) اسی طرح ص 263 ، حاشیہ 182 میں سید امیر علی کی فکر پر نقد کرتے ہوئے کچھ تفصیل سے کلام کیا ہے۔ (9)

بعض مقامات پر مصنف دوسرے اہلِ علم کا نقدو تبصرہ بھی باحوالہ نقل کرتے ہیں، مثال کے طور پر ایک جگہ مولانا ابوالحسن علی ندوی ؒ اور ڈاکٹر محمد البہی کے تبصرے اور نقد کو شامل کتاب کیا ہے۔(10)

ایک مستقل عنوان ”استشراق، تجدد اور راسخ العقیدگی: چند تاثرات و معروضات“ کے الفاظ کے ساتھ ہے جس میں مصنف اپنا نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں۔

کتاب کے صفحہ 286 پر مرزا غلام احمد قادیانی کے افکار پر گفت گو کی گئی ہے۔ مرزا صاحب باتفاقِ اہل سنت اسلام سے خارج ہیں، اس لیے انھیں عالمِ اسلام کے دیگر اہلِ تجدد کے ساتھ شمار کرنا کچھ محل نظر معلوم ہوتا ہے۔ یہی حال محمد علی لاہوری کا ہے جو مرزا کو مجدد مانتے ہیں۔کتاب کے ص 272 پر محمد علی لاہوری کے افکار پر بحث کی گئی ہے۔ محمد علی لاہوری قادیانیوں کے لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جن کی اہلِ سنت بالعموم تکفیر کے قائل ہیں۔(11)

مصنف جہاں عالمِ اسلام میں تجدد کے پھیلنے پر گفت گو کرتے ہیں، وہاں اس کے اسباب میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کے طرزِ عمل کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں:

” اگر راسخ العقیدہ اسلامیت ان سائنسی و سماجی وغیرہ جدید امور کو بھی خواہ مخواہ اسلام کے لیے خطرہ نہ سجھ لیا کرے، جن کا اسلام سے اس حوالے سے کوئی تعلق نہیں تو سچ یہ ہے کہ تجدد کامیاب تو کیا ہو، پیدا ہی نہ ہو۔ تجدد کے پیدا ہونے کی وجہ اسلامی راسخ العقیدگی میں جدیدیت کی نفی ہے۔راقم الحروف اس تناظر میں دوستوں سے عرض کیا کرتا ہے کہ مستشرقین اور ان کے افکار کا تو ہے ہی، تجدد کے وجود میں مولویوں کے تشدد کا حصہ بھی کچھ کم نہیں۔ اسلام بلاشبہ ایک متحجر دین نہیں ہے۔وہ ان چیزوں کو جو اس کے بنیادی تصورات و نظریات سے نہیں ٹکراتیں، کھلے دل سے قبول کرلیتا ہے۔ لہٰذا چھوٹی چھوٹی چیزوں کو خواہ مخواہ خطرہ بنا کر راسخ العقیدہ تجدد کو راہ دیتے ہیں۔ “(12)

اسی طرح اہلِ تجدد کی ہر بات کو رد کرنے کے بجائے مصنف اس بات کے قائل ہیں کہ عقائد کے سوا بعض دیگر میادین میں ان کی آرا سے استفادہ کرنے میں حرج نہیں۔ ان کی ہر بات کو رد کرنے کے پیچھے پڑ جانا صحیح رویہ نہیں ہے۔یہی تبصرہ ان کا مغربی تہذیب کے حوالے سے بھی ہے۔(13)

زیرِ تبصرہ کتاب اردو میں اپنے موضوع پر بہت عمدہ اضافہ ہے۔ اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کی نظر اپنے موضوع پر بہت وسیع ہے۔ معلومات کو بہت سلیقے سے اخذ کر کے ایک منطقی ترتیب میں پرویا گیا ہے۔

کتاب میں مصادر ومراجع کی فہرست کے ساتھ ایک جامع اشاریہ بھی دیا گیا ہے جس سے کتاب سے استفادہ بہت آسان ہو جاتا ہے۔

حواشی

  1. Simon Critchley, Continental Philosophy: A Very Short Introduction (Oxford: Oxford University Press, 2001), 13.
  2. عزیز ابن الحسن، ’’ساختیاتی مباحث اور حسن عسکری‘‘ مشمولہ سہ ماہی جی(لاہور)، جولائی – اکتوبر 2012ء، ص 111، بحوالہ، ناصر بغدادی، ’’ساختیات اور عسکری صاحب‘‘،مشمولہ بادبان، شمارہ 1 ص 125، 126۔
  3. محمد شہباز منج، فکرِ استشراق اور عالمِ اسلام میں اس کا اثرونفوذ(لاہور: القمر پبلی کیشنز، 2016ء)، 310۔
  4. منج، نفسِ مصدر، 310، 311۔
  5. استشراق پر لکھنے والے مسلم مصنفین میں ایک معروف مصنف محمد خلیفہ حسن ہیں۔ ان کی عربی زبان میں ایک کتاب ، زیرِ تبصرہ کتاب کے موضوع سے ملتی جلتی ہے: آثار الفكر الاستشراقي في المجتمعات الإسلامية (مسلم معاشروں میں استشراقی فکر کے اثرات)۔ اس کتاب میں انھوں نے جہاں تحریکِ استشراق کے مسلم معاشروں پر سیاسی، معاشی ، دینی، علمی اور دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیا ہے، وہیں تحریکِ استشراق کے ایجابی پہلوؤں پر بھی مستقل فصل قائم کی ہے۔اس سے موضوع کا دوسرا رخ بھی نمایاں ہو جاتا ہے۔(دیکھیے: محمد خلیفہ حسن، آثار الفكر الاستشراقي في المجتمعات الإسلامية(ہرم:عين للدراسات والبحوث الإنسانية و الاجتماعية، 1997ء )، 129 تحت عنوان:الفصل السابع-الآثار الفكرية الإيجابية للاستشراق۔
  6. منج، مصدرِ سابق، 105۔
  7. منج، مصدرِ سابق، 28۔
  8. منج، مصدرِ سابق، 163، 164۔
  9. منج، مصدرِ سابق، 263۔
  10. دیکھیے: منج، مصدرِ سابق، 167 و مابعد۔
  11. لاہوری گروپ کی تکفیر کے حوالے سے دیکھیے: مولانا سرفراز خان صفدر، مودودی صاحب کا ایک غلط فتوی اور ان کے چند دیگر باطل نظریات(گوجرانوالہ: مکتبہ صفدریہ، 2004ء)۔
  12. منج، مصدرِ سابق، 305۔
  13. ایضا، 308 و مابعد۔

مولانا محمد یوسف رشیدیؒ اور مولانا قاری جمیل الرحمان اختر ؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا محمد یوسف رشیدی کی جدائی کا غم ابھی تازہ تھا کہ مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر بھی داغِ مفارقت دے گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ دونوں دینی و تعلیمی جدوجہد کے سرگرم راہنما اور میرے انتہائی معتمد ساتھی ہونے کے ساتھ ساتھ آپس میں بھی گہرے دوست تھے جو یکے بعد دیگرے ہم سے رخصت ہو گئے ہیں۔

مولانا محمد یوسف رشیدی کے والد گرامی امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف دہلویؒ کے تبلیغی رفقاء میں سے تھے جو قیامِ پاکستان کے وقت میوات سے ہجرت کر کے تحصیل ڈسکہ کے قصبہ میترانوالی میں آ بسے۔ ان پر تبلیغی جماعت اور حضرت امیر التبلیغؒ کی صحبت کا اثر نمایاں تھا اور انہوں نے ایک مسجد اور مدرسہ کی بنیاد رکھی جو آج مدرسہ تعلیم القرآن کے نام سے پورے علاقہ کی تبلیغی، دینی اور تعلیمی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ ان کے فرزند مولانا محمد یوسف رشیدی نے جامعہ رشیدیہ ساہیوال میں تعلیم پائی جبکہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا اور جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے ساتھ ان کا عمر بھر قریبی تعلق رہا۔ والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے گہرے عقیدت مندوں میں سے تھے، اور اس کے ساتھ حضرت مولانا محمد طارق جمیل دامت برکاتہم اور راقم الحروف کے ساتھ بھی قلبی عقیدت و تعلق رکھتے تھے۔

مولانا محمد یوسف رشیدی نے علاقہ بھر میں مسلکی، تعلیمی، تبلیغی اور تحریکی محاذوں پر سرگرم کردار ادا کیا، مختلف دیہات میں دینی مدارس کا قیام اور قرآن کریم کی تعلیم کا فروغ ان کا سب سے بڑا مشن تھا جس کے لیے وہ آخر عمر میں بھی شدید علالت کے باوجود متحرک رہے۔

مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر کے والد گرامی مفسر قرآن حضرت مولانا محمد اسحاق قادریؒ ہمارے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کے دورہ حدیث کے ساتھی تھے اور انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے اکٹھے شرفِ تلمذ حاصل کیا تھا۔ شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے خاص تربیت یافتہ علماء کرام میں سے تھے۔ انہوں نے باغبانپورہ لاہور میں مسجد امن اور اس کے ساتھ مسجد حنفیہ قادریہ کی بنیاد رکھی جس میں زندگی بھر دینی، علمی اور تحریکی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ایک عرصہ جمعیۃ علماء اسلام لاہور کے امیر رہے اور حضرت لاہوریؒ کے جانشین حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے رفیق کار کے طور پر شیرانوالہ میں سالانہ دورۂ تفسیرِ قرآن کریم پڑھاتے رہے، ان کا ترجمہ و حواشی شائع ہو چکے ہیں۔

مولانا قاری جمیل الرحمٰن اخترؒ ان کے فرزند و جانشین تھے اور ان کے قائم کردہ دینی اداروں کی نگرانی کرتے آ رہے تھے۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل اور والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا شاگرد ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں ان کے خلیفہ مجاز بھی تھے۔ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان اور عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ساتھ باضابطہ تعلق تھا اور دونوں کے ذمہ دار حضرات میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

مجھے جماعتی زندگی اور نصف صدی کے تحریکی ماحول میں جن بزرگوں اور دوستوں کا مسلسل اور بے لچک اعتماد حاصل رہا ہے ان میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، مولانا قاری سعید الرحمانؒ اور مولانا فداء الرحمان درخواستیؒ کے ساتھ مولانا قاری جمیل الرحمان اخترؒ کا نام بھی سرفہرست تھا۔ انہوں نے ہر موقع پر ساتھ دیا اور مشکل مواقع پر اعتماد اور حوصلہ سے نوازا، اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

اللہ تعالیٰ انہیں جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور ان کے خاندان و رفقاء کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔



مئی ۲۰۲۳ء

دینی روایت کی موجودہ صورت حالمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۰)ڈاکٹر محی الدین غازی 
عمومِ بلوٰی کی شرعی حیثیت، شرائط اور وضاحتی مثالیںمفتی سید انور شاہ 
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
شاہ ولی اللہ ؒکے کلامی تفردات :ایک تجزیاتی مطالعہ (۲)مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۶)ڈاکٹر شیر علی ترین 

دینی روایت کی موجودہ صورت حال

محمد عمار خان ناصر

روایتی مذہبی طبقہ ہمارے معاشرے کا ایک بہت اہم عنصر ہے اور اس کی کارکردگی اور کردار پر مختلف زاویوں سے بات ہوتی ہی رہتی ہے۔ کسی بھی شخص یا طبقے کے کردار اور اس کی کارکردگی میں Self-image بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جو فرد یا طبقہ اپنی صلاحیتوں اور محدودیتوں اور دائرۂ عمل کا زیادہ درست اور حقیقت پسندانہ تجزیہ کر لیتا ہے، وہ زیادہ با معنی اور موثر طریقے سے معاشرے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ جدید معاشرے میں روایتی مذہبی طبقہ اس وقت جو کردار ادا کر رہا ہے، ا س کی بنیاد اس سیلف امیج پر ہے جو اس وقت اس کے ذہن میں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے مختلف کسی کردار کی توقع اس سے کی جائے گی تو وہ صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ اس لیے اس طبقے کی ترجیحات میں اصلاح یا کسی مختلف کردار کی گفتگو سے پہلے اس پر سنجیدگی سے بات کرنے کی ضرورت ہے کہ موجودہ سیلف امیج کیا ہے اور اس میں کون سی چیزیں دوبارہ غور کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔

ذیل کی سطور میں اس حوالے سے چند معروضات پیش کی جا رہی ہیں۔


دینی طبقے کے سماجی کردار کا ایک بنیادی اور اہم پہلو یہ ہے کہ عام مسلمان دینی زندگی گزارنے کے لیے کچھ نفسیاتی اور معاشرتی سہاروں کا محتاج ہوتا ہے اور مختلف دینی گروہ اور ادارے اس کو یہ سہارا فراہم کر دیتے ہیں۔ یہ جدید معاشرے میں دینی طبقوں کی ایک بڑی خدمت ہے۔ اگرچہ دینی طبقے اس کی قیمت وہ معاشرے سے فرقہ بندی کی صورت میں وصول کرتے ہیں، تاہم اس قیمت کے ساتھ بھی عام مسلمان کو دین سے ظاہری وابستگی میں کافی سہارا مل جاتا ہے جس کی قدر کرنی چاہیے۔

سماج سے اور خصوصاً‌ سماج کے کمزور اور غریب طبقوں سے، جڑا ہوا ہونا مذہبی تنظیموں اور دینی مدارس کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اسی لیے ان کی خدمات کا دائرہ بھی بیشتر سماج کی یہی سطح ہوتی ہے۔ اس تعلق کی بدولت یہ طبقے ایک بہت بنیادی سطح پر معاشرے کو مذہبی شناخت اور رفاہی خدمات فراہم کرتے ہیں، اور اسی وجہ سے ہنگامی حالات میں سب سے پہلے وہی اپنے وسائل اور خدمات لے کر لوگوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ شہری ماحول میں مذہبی مراکز ایک بڑا اہم ذریعہ ہیں جو شہری طبقے کے وسائل کو مختلف صورتوں میں پس ماندہ علاقوں کے لوگوں تک پہنچانے کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ اس سے مذہبی طبقوں کو ایک طاقت بھی ملتی ہے جو کئی جگہوں پر غلط بھی استعمال ہوتی ہے، لیکن مجموعی طور پر یہ تعلق معاشرے کے لیے بلاشبہ ایک اثاثہ ہے۔

علمی سطح پر دیکھا جائے تو  جدید تعلیم یافتہ طبقے میں ایک  عمومی تاثر  یہ پایا جاتا ہے کہ مذہبی روایت نئے دور کے مسائل اور سوالات سے ہمیشہ پیچھے ہوتی ہے۔ یہ تاثر  کم سے کم فقہی اجتہاد کے دائرے میں درست نہیں۔ جدید فقہی اجتہادات سے اختلاف یا ان پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ جدید دور کا کوئی اہم سوال جو کسی فقہی جواب کا تقاضا کرتا ہے، اسے عالم اسلام میں مذہبی روایت کی نمائندگی کرنے والے بڑے اہل علم یا اداروں نے توجہ نہیں دی، اور اس ضمن میں کوئی بڑا خلا پایا جاتا ہے۔  ان مسائل پر عالمی فقہی ادارے بہت عرصے سے تفصیلی غور وخوض کر رہے ہیں اور سامنے آنے والے تمام اہم سوالات پر باقاعدہ فتاوی بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

یہ غلط تاثر اس وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ جو بات ٹی وی یا سوشل میڈیا پر زیر بحث نہیں آتی یا عوامی علماء کے ہاں موضوع نہیں بنتی، یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اعلی سطح کے علماء یا علمی ادارے بھی ان سے ناواقف ہوتے ہیں۔ مذہبی روایت کے اور بہت سے مسائل ہیں، لیکن فقہی مسائل ان کا کمزور پوائنٹ نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ کئی اہم اور ضروری مباحث سے صرف نظر کرنے کے باوجود علماء اور علمی اداروں کی حیثیت اور احترام تازہ ترین فقہی سوالات کو تسلسل کے ساتھ ایڈریس کرتے رہنے ہی کی بدولت قائم ہے۔


مذکورہ تمام مثبت اور قابل قدر  پہلووں کے ساتھ یہ بھی  اپنی جگہ حقیقت ہے کہ کسی بڑے تہذیبی سوال کو ایڈریس کرنے کے حوالے سے  موجودہ دینی روایت کی علمی اہلیت اور قابلیت کا معاملہ توجہ کا مستحق ہے۔ اس کی ناگفتہ بہ صورت حال ویسے تو کم وبیش ہر بڑے سوال کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے، لیکن مثال کے طور پر اس ایک بڑے اور بنیادی سوال کے حوالے سے اس کو دیکھ لیجیے کہ کسی گروہ کو دائرہ اسلام میں شامل سمجھنے یا نہ سمجھنے کا فیصلہ کیسے کیا جائے گا؟ یہاں تکفیر کے نظری اصولوں کی بات نہیں ہو رہی کہ اس پر تو دفتروں کے دفتر علمی روایت میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عملاً‌ کسی گروہ کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا ہو تو اس کا معیار اور طریقہ کیا ہوگا؟

ماضی میں اس حوالے سے حتمی اتھارٹی مذہبی علماء کے پاس تھی۔ فتوی اور قضاء کے منصب سے وہ جس فرد یا گروہ کے متعلق تکفیر کا فیصلہ کر دیتے، اس پر احکام نافذ ہو جاتے تھے۔ جدید دور میں دینی روایت کو پہلی دفعہ اس صورت حال سے سابقہ پیش آیا کہ انھیں کسی گروہ کی تکفیر اپنے علاوہ کسی دوسری اتھارٹی یعنی جدید ریاست اور قانون کے سامنے جسٹیفائی کرنی ہے۔ مسئلہ قادیانیوں کے حوالے سے اٹھا تھا اور مذہبی روایت کے نمائندوں کے سامنے سب سے مشکل سوال یہ تھا کہ تکفیر کے فتوے تو ہر معروف مذہبی گروہ نے ایک دوسرے کے متعلق دیے ہوئے ہیں تو قادیانیوں کے متعلق علماء کے فتوے کو کیسے عام تکفیری فتووں سے الگ سمجھا جائے اور سنجیدگی سے لیا جائے؟ اور اگر حقیقی تکفیر صرف قادیانیوں کی ہے تو مختلف گروہوں کی باہمی تکفیر کی حقیقت اور جواز کیا ہے؟

مقدمہ بہاولپور سے لے کر جسٹس منیر انکوائری کمیشن اور قومی اسمبلی کی کارروائی تک ساری بحث کا جائزہ لیں تو صاف نظر آئے گا کہ اس بنیادی سوال کا کوئی تشفی بخش جواب دینی روایت کے پاس نہیں ہے۔ دیوبندی وسلفی موحدین، بریلویوں کی تکفیر کرتے ہیں، بریلوی حضرات وہابی گستاخوں کو خارج از اسلام قرار دیتے ہیں، سنیوں کے نزدیک شیعہ کافر ہیں، لیکن پھر یہ سارے کافر مل کر قادیانیوں کی تکفیر کرنا چاہتے ہیں۔ جب ریاست اور قانون کے سامنے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے تو یہ کہہ کر خلاصی حاصل کر لی جاتی ہے کہ یہ فتوے متفقہ نہیں ہیں اور ان کی ذمہ داری پورا طبقہ نہیں اٹھاتا۔ گویا تکفیر کی عملی بنیاد یہ ہوئی کہ چونکہ ایک دوسرے کو کافر کہنے میں یہ سارے متفق نہیں، لیکن قادیانیوں کی تکفیر پر سب متفق ہیں، اس لیے ان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیا جائے۔ قومی اسمبلی میں تو اس سے بھی کمزور بنیاد پر معاملہ طے کیا گیا جو یہ تھا کہ چونکہ قادیانی عام مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں، اس لیے عام مسلمان بھی ان کی تکفیر کا حق رکھتے ہیں (جبکہ خوارج کے باب میں یہ اصول نہیں مانا گیا تھا)۔ پھر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے باوجود ان کو باقی اقلیتوں جیسے حقوق اور آزادیاں دینے کے حوالے سے مذہبی موقف کے تضادات اپنی جگہ لاینحل اور قانونی وفقہی دانش کا منہ چڑاتے رہتے ہیں۔

یہ ایک بڑے تہذیبی سوال یعنی امت کی بنیادی شناخت (عقیدہ ختم نبوت) کے تحفظ کے ضمن میں موجودہ دینی روایت کی اہلیت اور علمی قابلیت کی صورت حال ہے۔ اس پر آپ دوسرے بڑے سوالات کو بھی قیاس کر سکتے ہیں ۔


دینی روایت کا ایک اور قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ مدارس کے تعلیمی نظام کا مجموعی مطمح نظر اسلاف کے علمی ورثے کی حفاظت اور اس کے ساتھ علمی واقفیت کے تسلسل کو برقرار رکھنا نہیں رہا۔ یہ سارا نظام معاصر فکری اور سیاسی کشمکش کے تناظر میں پوری طرح حزبیت کا شکار ہو چکا ہے اور سلف کے ذخیرے کی صرف وہ باتیں اس کے لیے قابل قبول ہیں جو موجودہ فکری کشمکش کے تناظر میں ایک خاص  پوزیشن کی تائید کرتی ہوں۔  اس ضمن میں مستند دینی روایت کے بہت سے حصوں کی تنسیخ یا کتمان کو موجودہ دینی ماحول میں ایک دینی تقاضے کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

مثال کے طور پر  امام محمدؒ نے عورت کے چہرے کے پردے کے حوالے سے اپنا اور امام ابوحنیفہ کا نقطہ نظر بڑی  صراحت سے یوں بیان کیا ہے :

’’أما المرأة الحرة التي لا نكاح بينه وبينها ، ولا حرمة ، ممن يحل له نكاحها : فليس ينبغي له أن ينظر إلى شيء منها مكشوفا ؛ إلا الوجه والكف ، ولا بأس أن ينظر إلى وجهها وإلى كفها ، ولا ينظر إلى شيء غير ذلك منها .وهذا قول أبي حنيفة.
وقال الله تبارك وتعالى { وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا } ، ففسر المفسرون أن ما ظهر منها : الكحل والخاتم ، والكحل زينة الوجه ، والخاتم زينة الكف ، فرخص في هاتين الزينتين .ولا بأس بأن ينظر إلى وجهها وكفها ؛ إلا أن يكون إنما ينظر إلى ذلك اشتهاء منه لها. فإن كان ذلك ، فليس ينبغي له أن ينظر إليه‘‘ (كتاب الأصل ٢/ ٢٣٥-٢٣٦)

اس اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ آزاد اور غیر محرم عورت کے جسم کے کسی حصے کی طرف دیکھنا مرد کے لیے جائز نہیں، البتہ چہرے اور ہاتھ کی طرف دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ چہرے اور ہاتھ کی طرف دیکھنا بالکل جائز ہے، الا یہ کہ دیکھنے والا شہوت کی نظر سے دیکھے۔ ایسی صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا۔

مطلب یہ ہے کہ اصل حکم یہ نہیں کہ چہرہ چھپانا لازم ہے اور چہرہ دکھانا استثنائی ضرورت کے تحت جائز ہے۔ اس کے برعکس اصل حکم یہ ہے کہ عورت کا چہرہ اور ہاتھ حجاب کا حصہ نہیں اور ان کو دیکھنا مباح ہے۔ ہاں، استثنائی صورت جس میں دیکھنا ممنوع ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی بد نیتی سے اور شہوت کی حالت میں دیکھے۔ یہی تصریح فقہ حنفی کی تمام امہات کتب میں تفصیل سے ملتی ہے۔  تاہم موجودہ تناظر میں اگر یہ موقف بیان کیا جائے تو  خود حنفی  علماء کا ایک بڑا طبقہ اس پر چیں بجبیں ہوتا ہے اور  ایسی باتوں کے ذکر کو  فتنہ انگیزی سے کم نہیں سمجھتا۔

اسی طرح موسیقی سے متعلق مالکیہ کا موقف اہل مدینہ کے تعامل کی روشنی میں، حرمت کے عمومی موقف سے مختلف اور کافی توسع اور اعتدال پر مبنی ہے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربیؒ نے  جامع ترمذی کی شرح ’’عارضۃ الاحوذی‘‘ میں غنا اور آلات موسیقی کی حرمت کے استدلال پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سورہ لقمان کی آیت میں ’’لھو الحدیث‘‘ کا مصداق موسیقی کو قرار دینا ضعیف قول ہے اور  آیت کی مراد یہ نہیں ہے۔ اسی طرح  حدیث میں ’’گانے والی باندی‘‘ کی خرید وفروخت کی ممانعت کی وجہ بھی غناء کا حرام ہونا نہیں، بلکہ ایسی باندی کو اپنی ملکیت میں لانے سے جو دوسرے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں، ان سے گریز کرنا ہے۔ غنا اور موسیقی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں بھی سنی ہے اور گھر سے باہر بھی، اس لیے وہ حرام نہیں ہو سکتی۔

ابن العربی یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ اس اباحت کو دف وغیرہ تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔ کوئی بھی آلہ موسیقی ہو تو وہ اس اباحت میں داخل ہے جو حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ موسیقی سے انسان کے دل پر سے بوجھ کم ہوتا ہے اور نفس اس میں راحت محسوس کرتا ہے۔ اس لیے کسی آلہ موسیقی سے اگر کچھ لوگوں کو یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے تو شریعت کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس نوعیت کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں موجودہ دینی ماحول ماضی کی مستند علمی روایت کو نظرانداز کرنے بلکہ  اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے کا  عمومی رجحان رکھتا ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے ایک دلچسپ تبصرہ یہ کیا  ہے کہ ’’لعمری انھم لیسوون القواعد للنقیضین‘‘، یعنی علماء اپنی سہولت کے مطابق دو متضاد پوزیشنوں کو جواز دینے کے لیے قواعد بنا لیتے ہیں۔  موجودہ دینی ماحول میں اس رویے کا مظہر یہ ہے کہ اگر کسی طبقے کا موقف کچھ نصوص سے بظاہر ٹکرا رہا ہو لیکن کچھ دلائل اس کی تائید میں بھی ہوں تو یہ قاعدہ بیان کیا جاتا ہے کہ اجتہادی اختلاف میں قطعی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی، ظنی دلائل ہی کافی ہوتے ہیں یا یہ کہ کسی مسئلے میں معتبر علماء کا اختلاف خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ وہ اجتہادی مسئلہ ہے، اس لیے اس میں شدت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ لیکن ، اگر کسی مسئلے میں مخالف کو گنجائش نہ دینی ہو، لیکن مسئلہ اختلافی ہو تو یوں کہا جائے گا کہ نص صریح کے مقابلے میں کسی اجتہاد کا اعتبار نہیں، یعنی پھر نص کے صریح ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اس سے بالا ہی بالا نص، صریح اور قطعی ہو جاتی ہے۔

اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ ابنائے مدارس کے لیے جدید علوم سے ناواقفیت کا چیلنج ثانوی ہے۔ اصل چیلنج دینی روایت سے کماحقہ واقفیت نہ ہونا بلکہ ایسی واقفیت پیدا نہ ہونے دینے کا شعوری فیصلہ ہے۔ اس کا باعث یہ ہے کہ مدارس جدید تناظر میں روایتی مدرسے کا تسلسل نہیں ہیں جو مسلم سیاسی طاقت کی چھتری کے نیچے ایک تہذیبی عمل کو آگے بڑھا رہے تھے۔ جدید مدارس، سیاسی طاقت کے زوال سے پیدا ہونے والے تہذیبی خطرے کے عہد میں مختلف قسم کی مذہبی شناختیں قائم کرنے اور ان کو تحفظ دینے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ علمی روایت کے ساتھ تعلق اور تسلسل ان میں مطلوب ہے، لیکن ثانوی حیثیت میں اور اس شرط پر کہ وہ خاص گروہی شناخت کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ اس کے نتیجے میں دینی مدارس کا مجموعی ماحول فرقہ وارانہ ہو گیا ہے، اگرچہ انفرادی اور جزوی استثناءات بھی موجود ہیں۔


دینی اختلافات کی تحقیق میں دور اول کی طرف واپس جانا اس لیے ہمیشہ مفید ہوتا ہے کہ وہاں ابھی "آرتھوڈوکسی"  وجود میں نہیں آئی ہوتی اور اختلافات کی صحیح نوعیت سے متعلق اہل علم کے فطری احساسات سامنے آ جاتے ہیں۔ بعد کے ادوار میں جب کوئی ایک یا زیادہ مواقف مقبول ہو جاتے ہیں تو ایک تعصب بھی پیدا ہو جاتا ہے اور ہمارے دور میں جب مذہبی علماء کو کئی اسباب سے اپنی اتھارٹی خطرے میں نظر آتی ہے تو سب سے بڑا استدلال یہ بن جاتا ہے کہ طے شدہ مسئلے میں اختلاف کر کے انتشار کیوں پیدا کیا جا رہا ہے۔ اس سے ان کی مراد امت کے مختلف گروہوں میں بٹنے پر فکرمندی نہیں ہوتی کیونکہ اس کے تو وہ خود حصہ دار ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسی بات جو اس وقت علماء کے طبقے میں نہیں کہی جا رہی، وہ اگر کوئی کہے گا تو انتشار پیدا ہوگا، یعنی علماء کی اتھارٹی مزید کمزور ہوگی۔

پس مذہبی طبقوں کی سیاسی ضروریات جو بھی ہوں، علم دین کے طلبہ اور محققین کے لیے درست راستہ یہی ہے کہ وہ متاخرین "اکابر" کے ہاں طے شدہ سمجھے جانے والے موقف کو بنیاد بنانے کے بجائے ہمیشہ واپس ابتدائی دور میں جائیں اور دیکھیں کہ اہل علم چیزوں کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر بعض اہم فقہی اختلافات کے حوالے سے امام شافعی ؒ کا یہ تبصرہ ملاحظہ ہو:

والمستحل لنکاح المتعة والمفتی بها والعامل بها ممن لا ترد شهادته وکذلک لو کان موسرا فنکح امة مستحلا لنکاحها مسلمة او مشرکة لانا نجد من مفتی الناس واعلامهم من یستحل هذا وهکذا المستحل الدینار بالدینارین والدرهم بالدرهمین یدا بید والعامل به لانا نجد من اعلام الناس من یفتی به ویعمل به ویرویه وکذلک المستحل لاتیان النساء فی ادبارهن فهذا کله عندنا مکروہ محرم وان خالفنا الناس فیه فرغبنا عن قولهم ولم یدعنا هذا الی ان نجرحہم ونقول لهم انکم حللتم ما حرم اللہ واخطاتم لانہم یدعون علینا الخطا کما ندعیه علیهم وینسبون من قال قولنا الی انه حرم ما احل اللہ عز وجل (الام کتاب الاقضیۃ، شہادۃ اہل الاشربۃ ۶/۲۰۶)

’’جو شخص نکاح متعہ کو حلال سمجھتا ہو، ا س کے جواز کا فتویٰ دیتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو، اس کی گواہی کو رد نہیں کیا جائے گا۔ یہی حکم اس شخص کا ہے جو (مالی طور پر) صاحب حیثیت ہو، لیکن کسی مسلمان یا مشرک لونڈی سے نکاح کو حلال سمجھتے ہوئے اس سے نکاح کر لے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کو فتویٰ دینے والے بعض معروف اور ممتاز اہل علم اس کو حلال سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جو شخص نقد تبادلے میں ایک دینار کے بدلے میں دو دینار اور ایک درہم کے بدلے میں دو درہم لینے کو حلال سمجھتا ہو (اس کی بھی گواہی قبول کی جائے گی) کیونکہ ہم بعض ممتاز اہل علم کو دیکھتے ہیں کہ وہ اس کا فتویٰ دیتے، اس پر عمل کرتے اور اس مسلک کو (سلف سے) روایت کرتے ہیں۔ یہی معاملہ ان لوگوں کا ہے جو بیویوں سے دبر میں جماع کو حلال سمجھتے ہیں۔ یہ سب کام ہمارے نزدیک ناپسندیدہ اور حرام ہیں۔ اگرچہ اس میں ہم ان لوگوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان کی بات کو قبول نہیں کرتے، لیکن یہ چیز ہمارے لیے اس بات کا باعث نہیں بنتی کہ ہم ان کی ذات پر جرح کریں اور ان سے کہیں کہ تم لوگوں نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر دیا ہے اور خطا کے مرتکب ہوئے ہو کیونکہ جس طرح ہم ان کے خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بھی ہمارے متعلق خطا میں مبتلا ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں اور ہماری رائے کو اختیار کرنے والوں کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار دے دیا ہے۔‘‘

یعنی امام شافعی یہ فرما رہے ہیں کہ  آپ متعہ اور بیوی کے ساتھ وطی فی الدبر جیسے امور کے جواز کے قائلین پر بھی تنقید کر رہے ہیں تو انھیں یہ طعنہ نہیں دے سکتے کہ تم ’’حرام ‘‘ کو ’’حلال ‘‘ کر رہے ہو۔ کیونکہ ہمارے فہم کے مطابق اگرچہ یہ امور ازروئے دلائل حرام ہیں، لیکن اجتہادی معاملات میں ایسی زبان استعمال نہیں کی جاتی۔


روایتی دینی طبقہ، اپنی داخلی تقسیم سے قطع نظر، اس وقت ایک مشترک چیلنج کے روبرو ہے۔ توسعاً‌ ہم اس میں جماعت اسلامی کو بھی شمار کر سکتے ہیں، اگرچہ سکہ بند روایتی طبقوں کی نظر میں وہ کلی طور پر اس دائرے میں شامل نہیں سمجھی جاتی۔ دیوبندی طبقے کی صورت حال ہم براہ راست جانتے ہیں، جبکہ اہل حدیث، بریلوی اور جماعت اسلامی کے حلقوں کے متعلق بھی کافی معلومات ہمارے سامنے ہیں۔

چیلنج ایک ہی ہے جو یہ ہے کہ ان میں سے ہر طبقے نے دین کے فہم اور عمل کا اپنے تئیں جو ایک معیاری فریم ورک وضع کیا ہے، ہر طبقے کی نئی نسل میں ان کے اپنے تربیت یافتہ متعلقین کی ایک بڑی تعداد اس سے ذہنی طور پر مطمئن نہیں ہے اور طبقاتی دائرے سے باہر مسائل وامور کی متبادل تفہیم کی تلاش میں ہے، بلکہ بہت سے متعلقین کشمکش کے ذہنی مرحلے سے آگے بڑھ کر مختلف متبادل تعبیرات کے متعلق ہمدردانہ زاویہ نظر رکھتے ہیں، جبکہ بہت سے اپنے طبقے سے فکری عدم تعلق کے مرحلے تک جا چکے ہیں۔

ان تمام طبقوں کا چونکہ بنیادی بیانیہ "تحفظاتی" ہے جس میں اپنے متعلقین کو بیرونی دنیا سے ایک فاصلے پر رکھ کر ان کی دینی حفاظت کا انتظام بنیادی ترجیح ہے، اس لیے اس چیلنج پر کھلے ماحول میں غور وفکر یا تجزیہ اور تبادلہ خیال کا اہتمام نہیں ہو سکتا، بلکہ کسی نمائندہ فورم پر ایسی کوئی گفتگو چھیڑی بھی جائے تو اسے روک دیا جاتا ہے، کیونکہ اس سے داخلی کمزوری یا عدم تحفظ کا پیغام ملتا ہے جو تحفظاتی ماحول میں اضطراب کا موجب ہوتا ہے۔

البتہ بہت سے اہل قلم اپنی انفرادی حیثیت میں اس پر وقتاً‌فوقتاً‌ اظہار خیال کرتے رہتے ہیں۔ اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، کیونکہ چیزوں کو قالین کے نیچے چھپانے سے ان کا وجود ختم نہیں ہو جاتا۔ تاہم ابھی تک جو تجزیے دیکھنے میں آ رہے ہیں، ان کا رخ زیادہ تر اپنے "منحرفین" پر مختلف قسم کے اخلاقی حکم لگانے یعنی انھیں ڈس کریڈٹ کرنے کی طرف ہے، مثلاً‌ یہ کہ ان کا علم ناپختہ ہے، انھوں نے اساتذہ سے صحیح طرح سے فیض نہیں پایا، وہ ماحول سے باہر جا کر دنیا کی چکاچوند سے متاثر ہو گئے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔  طبقے کے سرکاری بیانیے میں کچھ مسائل ہیں یا ہو سکتے ہیں، اس کو فکری سطح پر تسلیم کرنے کی جرات فی الحال ان تجزیوں میں دکھائی نہیں دیتی۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۱۰۰)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(405) طیِّب کا ترجمہ

طیب اور خبیث ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ طیب کے معنی پاک کے بھی ہیں اور عمدہ و خوش گوار کے بھی ہیں۔ اہل لغت طاب کا معنی لذّوز کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی لذیذ اور پاکیزہ۔ اس لفظ میں وسعت پائی جاتی ہے۔

ابن منظور رقم طراز ہیں:

أَرضٌ طَیِّبة اس زمین کو کہتے ہیں جو زراعت کے لیے سازگار ہو۔ رِیحٌ طَیِّبَةٌ اس ہوا کو کہتے ہیں جو نرم ہو شدید نہ ہو۔ طُعْمة طَیِّبة حلال لقمے کو کہتے ہیں۔ امرأَةٌ طَیِّبة عفیف وپاک دامن خاتون کو کہتے ہیں۔ کلمةٌ طَیِّبة ایسی بات کو کہتے ہیں جس میں کوئی ناپسندیدہ امر نہ ہو۔ بَلْدَة طَیِّبة اس بستی کو کہتے ہیں جو خوش حال اور پر امن ہو۔ حِنْطة طَیِّبة اوسط درجے کے عمدہ گیہوں کو کہتے ہیں۔ تُرْبة طَیِّبة پاک مٹی کو کہتے ہیں۔ زَبُونٌ طَیِّبٌ اس گراہک کو کہتے ہیں جس سے خرید و فروخت کرنا آسان ہو۔ طعامٌ طَیِّب اس کھانے کو کہتے ہیں جس سے لذت حاصل ہو۔ وغیرہ۔ (لسان العرب)

درج ذیل آیت میں طیبات کا مطلب عمدہ چیزیں اور خبیث کا مطلب خراب چیز ہے۔

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیثَ مِنْہُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِیہِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِیہِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ غَنِیٌّ حَمِیدٌ۔ (البقرۃ: 267)

قرآن مجید میں مختلف مقامات پریہ لفظ آیا ہے۔ بیشتر مقامات پر پاک یا پاکیزہ سے اس کا پورا مفہوم ادا نہیں ہوتا ہے، لیکن عمدہ و خوش گوار جیسی تعبیرات مفہوم کو پورے طور پر ادا کرتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ عمدہ میں پاکیزہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے۔

درج ذیل مقامات پر اس پہلو سے غور کیا جاسکتا ہے:

(۱)  مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ أَوْ أُنْثَی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہُ حَیَاةً طَیِّبَةً۔ (النحل: 97)

”جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ (سید مودودی)

”جو کوئی نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، اور وہ ایمان پر ہے، تو ہم اس کو ایک پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جو شخص نیک اعمال کرے گا مرد ہو یا عورت وہ مومن بھی ہوگا تو ہم اس کو (دنیا میں) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”جو شخص نیک عمل کرے مرد ہو یا عورت، لیکن باایمان ہو تو ہم اسے یقیناً نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخری دو ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔یہاں عمدہ و خوش گوار زندگی سے حَیَاةً طَیِّبَةً کی بہتر ترجمانی ہوتی ہے۔

(۲)  وَعَدَ اللَّہُ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِینَ فِیہَا وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ۔ (التوبۃ: 72)

”ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انہیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ مکانوں“۔ (احمد رضا خان)

”صاف ستھرے پاکیزہ محلات“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پاکیزہ مکانوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”نفیس مکانات“۔ (فتح محمد جالندھری)

عمدہ و نفیس مکانات کہنے سے اس وعدے کی معنوی قوت بڑھ جاتی ہے۔ پاکیزہ کا مفہوم اس میں شامل ہوتا ہے۔

(۳)  حَتَّی إِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ وَجَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیحٍ طَیِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِہَا۔ (یونس: 22)

”جب تم کشتیوں میں سوار ہو کر بادِ موافق پر فرحاں و شاداں سفر کر رہے ہوتے ہو“۔ (سید مودودی)

”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہو اور وہ اچھی ہوا سے انھیں لے کر چلیں اور اس پر خوش ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”یہاں تک کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور وہ کشتیاں لوگوں کو موافق ہوا کے ذریعہ سے لے کر چلتی ہیں اور وہ لوگ ان سے خوش ہوتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں (سوار) ہوتے اور کشتیاں پاکیزہ ہوا (کے نرم نرم جھونکوں) سے سواروں کو لے کر چلنے لگتی ہیں اور وہ ان سے خوش ہوتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں پاکیزہ ہوا کا محل نہیں ہے بلکہ موافق و سازگار ہوا کا محل ہے۔

(۴)  أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَةٍ أَصْلُہَا ثَابِتٌ وَفَرْعُہَا فِی السَّمَاءِ۔ (ابراہیم: 24)

”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کو کس چیز سے مثال دی ہے؟ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک اچھی ذات کا درخت، جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ درخت“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ درخت“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پاکیزہ درخت“۔ (محمد جوناگڑھی)

مضبوط جڑ اور آسمان میں پھیلی شاخیں عمدہ قسم کے درخت کی صفات ہیں۔ یہاں پاکیزہ کہنے کا کوئی محل نہیں ہے۔

(۵)  لَقَدْ کَانَ لِسَبَإٍ فِی مَسْکَنِہِمْ آیَةٌ جَنَّتَانِ عَنْ یَمِینٍ وَشِمَالٍ کُلُوا مِنْ رِزْقِ رَبِّکُمْ وَاشْکُرُوا لَہُ بَلْدَةٌ طَیِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ۔ (سبا: 15)

”سبا کے لیے اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی، دو باغ دائیں اور بائیں، کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا“۔ (سید مودودی)

”پاکیزہ شہر“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ شہر ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”یہ عمدہ شہر“۔ (محمد جوناگڑھی)

”زمین شاداب و زرخیز“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخر کے دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔

(۶)  وَیُدْخِلْکُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ وَمَسَاکِنَ طَیِّبَةً فِی جَنَّاتِ عَدْنٍ۔ (الصف: 12)

”اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا“۔ (سید مودودی)

”عمدہ مکانوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”صاف ستھرے گھروں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پاکیزہ محلوں“۔ (احمد رضا خان)

”پاکیزہ مکانات“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں بھی پاکیزہ محلوں کی بات نہیں بلکہ عمدہ و شان دار محلوں کی بات زیادہ موزوں ہے۔

(۷)  وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہُ بِإِذْنِ رَبِّہِ وَالَّذِی خَبُثَ لَا یَخْرُجُ إِلَّا نَکِدًا۔ (الاعراف: 58)

”اور زرخیز زمین کی پیداوار تو خوب اپجتی ہے اس کے رب کے حکم سے، پر جو زمین ناقص ہوتی ہے اس کی پیداوار کم ہی ہوتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پھل پھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے ا س سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا“۔ (سید مودودی)

”اور جو اچھی زمین ہے اس کا سبزہ اللہ کے حکم سے نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں نہیں نکلتا مگر تھوڑا“۔ (احمد رضاخان)

”جو زمین پاکیزہ (ہے) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے (نفیس ہی) نکلتا ہے اور جو خراب ہے اس میں جو کچھ ہے ناقص ہوتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو ستھری سرزمین ہوتی ہے اس کی پیداوار تو اللہ کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار بہت کم نکلتی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آخر کے دونوں ترجمے موزوں نہیں ہیں۔ یہاں بات اچھی زمین اور خراب زمین کی ہے۔

(406) جُعِلَ السَّبْتُ کا مطلب

إِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِینَ اخْتَلَفُوا فِیہِ۔ (النحل: 124)

”رہا سبت، تو وہ ہم نے اُن لوگوں پر مسلط کیا تھا جنہوں نے اس کے احکام میں اختلاف کیا“۔ (سید مودودی)

درج بالا ترجمہ اس مفروضے پر کیا گیا ہے کہ سبت عذاب کی نوعیت کی ایک پابندی تھی۔ درحقیقت سبت بنی اسرائیل کی شریعت کا ایک فریضہ تھا۔ وہ کوئی عذاب نہیں تھا۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”ہفتے کا دن تو ان ہی لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ جنہوں نے اس میں اختلاف کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہ وہ فریضہ تھا جس کی انجام دہی کرنے والے سچے مومن قرار پاتے اور اس میں کوتاہی کرنے والے فاسق شمار ہوتے۔

(407)  وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ

إِنَّمَا سُلْطَانُہُ عَلَی الَّذِینَ یَتَوَلَّوْنَہُ وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ۔ (النحل: 100)

اس آیت میں وَالَّذِینَ ہُمْ بِہِ مُشْرِکُونَ کا تین طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے:

 ایک میں باء کو سببیہ مانا گیا ہے۔ یعنی شیطان کے سبب سے شرک کرتے ہیں۔ سبب کی تشریح وسوسے اور بہکاوے سے کی گئی۔ یہ پرتکلف تاویل ہے۔

دوسرے ترجمے میں بِہِ مُشْرِکُونَ کی ھاء ضمیر مجرور کا مرجع شیطان کو مانا گیا ہے۔ اس بنا پر ترجمہ کیا گیا: شیطان کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ یہ ترجمہ لغت کے قاعدے کی رو سے غلط ہے۔ کیوں کہ فعل أشرک میں جسے شریک کیا جاتا ہے وہ راست مفعول ہوتا ہے اور جس کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اس پر باء داخل ہوتی ہے۔ اس ترجمے میں بات الٹ جاتی ہے۔ جس کو شریک کیا گیا اس پر باء کا داخل ہونا لازم آتا ہے۔

 تیسرے ترجمے میں بِہِ مُشْرِکُونَ کی ھاء ضمیر مجرور کا مرجع اللہ کو مانا گیا ہے۔ اس بنا پر ترجمہ کیا گیا ہے: اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ اس میں کوئی سقم نہیں ہے۔ سوائے اس کے کہ ضمیر کا مرجع اس آیت میں مذکور نہیں ہے۔ لیکن یہ کوئی سقم نہیں ہے۔ قرآن مجید کا اسلوب یہ ہے کہ اگر قاری کے سامنے مرجع اچھی طرح واضح ہو تو اس کے ذکر کے بغیر بھی اس کی ضمیر ذکر کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پورے قرآن میں ہر جگہ أشرک بہ سے مراد اللہ تعالی کے ساتھ شرک کرنا مراد ہے، تو یہاں بھی ذہن فورًا ادھر ہی جائے گا خواہ آیت میں وہ مذکور ہو یا نہ ہو۔

ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

”اس کا زور ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو رفیق بناتے ہیں اور اس کے (وسوسے کے) سبب (خدا کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا سرپرست بناتے اور اس کے بہکانے سے شرک کرتے ہیں“۔ (سید مودودی)

ان دونوں ترجموں میں باء کو سببیہ مانا گیا ہے۔ اس توجیہ میں تکلف معلوم ہوتا ہے۔

”اس کا زور انھیں پر ہے جو اس کو رفیق سمجھتے ہیں اور جو اس کو شریک ٹھہراتے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس کا قابو تو انہیں پر ہے جو اس سے دوستی کرتے ہیں اور اسے شریک ٹھہراتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”ہاں اس کا غلبہ ان پر تو یقیناً ہے جو اسی سے رفاقت کریں اور اسے اللہ کا شریک ٹھہرائیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں وہ غلطی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

”اس کا زور بس انھی پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے ہیں اور جو اللہ کے شریک ٹھہرانے والے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بس اس کا قابو تو صرف ان ہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس سے تعلق رکھتے ہیں اور ان لوگوں پر جو کہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں“۔ (اشرف علی تھانوی)

یہ آخری دونوں ترجمے درست ہیں۔

(408) مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ کا مفہوم

قوت کا مطلب مضبوطی ہوتا ہے محنت نہیں ہوتا ہے۔ درج ذیل آیت کی تفسیر میں علامہ ابن عاشور لکھتے ہیں:

والقوۃ: إحکام الغزل۔ (التحریر والتنویر) یہاں قوت سے مراد مضبوطی سے کاتا ہوا ہے۔

بعض لوگوں نے قوۃ کا ترجمہ محنت کیا ہے، جو لغت کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔

وَلَا تَکُونُوا کَالَّتِی نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ أَنْکَاثًا۔ (النحل: 92)

”تمہاری حالت اُس عورت کی سی نہ ہو جائے جس نے آپ ہی محنت سے سوت کاتا اور پھر آپ ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا“۔ (سید مودودی)

”اور اُس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے محنت سے تو سوت کاتا۔ پھر اس کو توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور نہ ہو جیسے وہ عورت کہ توڑا اس نے اپنا سوت کاتا محنت کیے پیچھے ٹکڑے ٹکڑے“۔ (شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(جاری)


عمومِ بلوٰی کی شرعی حیثیت، شرائط اور وضاحتی مثالیں

مفتی سید انور شاہ

اسلام ایسا دینِ فطرت اور ضابطہ حیات ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوں پر حاوی ہے۔اس میں انسانی مزاج، خواہشات،ضرورت و حاجت،عذر ،کمزوریوں اور مشقتوں کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔حرج،تنگی،مشقت،پریشانی اور معتبر عذر کے وقت اجازت،سہولت،وسعت،گنجائش اور لچک سے کام لیا گیاہے۔تاکہ انسان اس کی روشنی میں اپنی زندگی اعتدال کے ساتھ خوشگواری کی حالت میں گزار سکے،اور شریعت پر عمل کرنےمیں کوئی دشواری،تنگی اور مشقت محسوس نہ کرے۔

فقہاء کرامؒ نےقرآن و سنت کی روشنی میں تخفیف و رخصت کے بنیادی طور پہ سات اسباب بیان فرمائے ہیں، جبکہ ماضی قریب کے بعض علماء نے مزید تفصیل و تشقیق سے کام لیتے ہوئے چودہ اسباب بیان فرمائے ہیں۔ان اسبابِ تخفیف میں ایک اہم سبب عموم بلوٰی ہے۔

عمومِ بلوٰی

   عمومِ بلوٰی دو لفظوں سے مرکب ہے۔(۱)عموم اور(۲)بلوٰی۔

لفطِ عموم باب نصر ینصر کا مصدر ہے اس کا لغوی معنی ہے:عام ہونا،پھیل جانا۔(مختار الصحاح:۴۶۷/بیروت)

( لسان العرب لابن منظور/مادۃ عم/۱۰/۲۸۷)

اور لفظِ بلوٰی بھی باب نصر ینصر   کامصدر ہے،جس کا لغوی معنی :آزمائش ،امتحان اور مشقت کے ہیں۔

(لسان العرب:۱۴/۱۰۳/فصل فی الباء الموحدۃ)(مختار الصحاح:۷۳)

عمومِ بلوٰی کی اصطلاحی تعریف

عمومِ بلوٰی سے مراد یہ ہے کہ کوئی ممنوع چیز اتنی عام اور اس قدر پھیل جائے کہ عام آدمی کے لیے اس سے بچنا واقعتًامشکل اور دشوار کن ہو جائے۔

ڈاکٹر شیخ عبد الکریم زیدان عمومِ بلوٰی کی تعریف کے متعلق لکھتے ہیں:

شیوع ما یتعرض لہ الانسان بحیث یصعب لہ التخلص منہ۔ (الوجیز فی شرح القواعدا لفقہیۃ،۶۱/بیروت)

ترجمہ: عمومِ بلوٰی کا مطلب ہے کسی  چیزکا اس طور پر پھیل جانا کہ جس سے بچنا انسان کے لیے مشکل ترہو جائے۔

ملک شام کے مشہور عالمِ دین شیخ ڈاکٹروھبہ زحیلی صاحبؒ نے عمومِ بلوٰی کی تعریف یوں بیان کی ہے:

شیوع البلاء بحیث یصعب علی المرء التخلص او الابتعاد منہ۔ (نظریۃ الضروریۃ الشرعیۃ:۱۲۳،بیروت)

 ترجمہ:یعنی مصیبت کا اس قدر عام ہونا کہ آدمی کیلئے اس سے چھٹکارا حاصل کرنا اور بچنا دشوارہو جائے۔

معجم الفقہاء میں اس کی تعریف یوں بیان ہوئی ہے:عموم البلوٰی:شیوع المحظور شیوعًا یعسر علی المکلّف معہ تحاشیہ۔یعنی کسی ممنوع چیز کا اس قدر پھیل جانا کہ آدمی کیلئےاس سے دوررہنا مشکل ہو جائے۔ (معجم لغۃ الفقہاء:۳۲۲)

عمومِ بلوٰی کاحکم

عمومِ بلوٰی کاحکم یہ ہے کہ جن امور میں نص قطعی اور نص صریح موجود نہ ہو وہاں عمومِ بلوٰی کی وجہ سے عدمِ جواز کا حکم ساقط ہوجاتا ہےیا مکروہات میں تخفیف آجاتی ہے۔جیساکہ ایک حدیث میں بلی کو درندہ قرار دیا گیا ہے،یعنی بلی کا حکم وہی ہے جو درندہ کا ہے،اور درندے کا گوشت،لعاب اور جھوٹا ناپاک و نجس اور حرام ہے،لہذا قیاس کا تقاضہ تو یہ ہے کہ  بلی کا جھوٹا بھی ناپاک ہو،مگر چونکہ بلی کےجھوٹے سے عام طور پر بچنا دشوار ہوتا ہے،اس لیے ابتلاء عام کی وجہ سے   بلی کے جھوٹےکی نجاست ساقط ہوگئی ہے،البتہ کراہت باقی ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ:وہ خود ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھیں انہوں نے گھر میں ہریسہ(ایک خاص قسم کا کھانا جو گوشت اور گندم سے تیار کیا جاتا تھا)ایک پیالے میں رکھا ہوا تھا۔اس دوران بلی آکر اس سے کھا گئی،جب حضرت عائشہ ؓ  نماز سے فارغ ہوئیں تو انہوں نے پڑوس کی خواتین کو اپنے گھر بلایا،تاکہ وہ ان کے ساتھ اس خاص کھانے میں شریک ہو جائیں، چنانچہ جب وہ خواتین کھانا کھانے کیلئےبیٹھ گئیں تو اس جگہ سے پرہیز کرنے لگیں جہاں بلی نے منہ مارا تھا،حضرت عائشہ ؓ نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسی جگہ سے تناول فرمایا جہاں سے بلی نے کھایا تھا،اور فرمایا کہ میں نے جناب نبی کریم ﷺسے سنا ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک نہیں ہے،کیونکہ وہ تمہارے گھر میں کثرت سے آتی رہتی ہے۔ (ابو داود:باب سورا لھرۃ)  

بہر حال حاصل یہ ہے کہ قیاس کا تقاضہ تو یہی ہے کہ بلی کا جھوٹا ناپاک ہو مگراس حدیث کی وجہ سے اس کی نجاست ساقط ہوگئی ہے،البتہ کراہت باقی ہے۔

علامہ ابن ہمامؒ فرماتے ہیں کہ:بلی کا جھوٹا اپنی اصل کے اعتبار سے نجس ہے،لیکن عمومِ بلوٰی کی وجہ سے اس کی اجازت دی گئی ہے،حدیث میں ذکر کردہ علتِ طواف خود کراہتِ تنزیہی پر دلالت کرتی ہے۔ (فتح القدیر: ۱/۱۱۶،DKI،بیروت)

لیکن جس چیزمیں ابتلاء عام نہ ہو اس کے متعلق کراہت میں تخفیف نہیں آئیگی،بلکہ اس کی ممانعت بحالہ باقی رہے گی۔جیسے گدھے کا گوشت کہ اس میں عمومِ بلو ی نہیں ہے اس لیے اس کی ممانعت اپنی جگہ بعینہ باقی رہے گی۔علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

إن کان الأصل فیہ الحرمة ،فإن سقطت لعموم البلوٰی فتنزیہ کسؤر الھرة وإلا فتحریم کلحم الحمار۔(رد المحتار:۹/۵۵/کتاب الحظر والاباحۃ/رشیدیہ)

یعنی اگر اصل کے اعتبا رسے اس میں حرمت موجود ہو لیکن عمومِ بلوٰی کی وجہ سےوہ حرمت ساقط ہوچکی ہوتوپھر  کراہت ِ تنزیہی کے درجہ میں آجاتی ہے۔(یعنی عمومِ بلوٰی کی وجہ سےوہ چیز مکروہِ تحریمی کے بجائےمکروہ تنزیہی شمار ہوگی)۔اور اگر عموم بلوٰی نہ ہو تو مکروہ تحریمی اپنی حالت پر باقی رہے گی،جیسا کہ گدھے کا گوشت۔مبسوط میں ہے: فللبلوٰی تأثیر فی تخفیف حکم النجاسة۔ (۲۱/۲۳)

ترجمہ:عمومِ بلوی کی وجہ سے نجاست کے حکم میں تخفیف ہوجاتی ہے۔

عمومِ بلوٰی کی حجیت قرآن کی روشنی میں

عمومِ بلوٰی کی مشروعیت اور جواز  قرآن و سنت دونوں سے ثابت ہے۔ قرآن مجید  میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

یا أیُّھا الّذین اٰمنوا لیستأذنکم الذین ملکت أیمانکم  والذین لم یبلغوا الحُلُمَ منکم ثلاٰث مرّاتط من قبل صلاۃ ا لفجر وحین تضَعُوْن ثیابکم  من الظھیرۃ  ومن بعد صلاۃ العشاءط ثلاث عورات لکم  طلیس علیکم ولا علیھم جناح بعدھنططوافون علیکم بعضکم علی بعضطکذلک یبین اللہ لکم الایاتطواللہ علیم حکیم۔(سورۃ النور:۵۸)

اس آیتِ کریمہ میں نابالغ بچوں ،غلاموں اور خدام  کے خلوت گاہ میں داخل ہوتے وقت اجازت کے احکام موجود ہیں۔چونکہ نابالغ بچےاور خدام وغیرہ عمومًا ساتھ ایک گھر میں  رہتے ہیں۔ہر وقت ان کا آنا جانا رہتا ہے۔ان سے عورتوں کا پردہ بھی نہیں ہوتا،اس لیے ان کے لیے حکم یہ ہے کہ تین اوقات میں ان کو بھی کمرہ میں داخل ہوتے وقت اجازت لینی چاہیے۔وہ تین  اوقات یہ ہیں فجر کی نماز سے پہلے، دوپہر کوآرام کرتے وقت  اور عشاء کی نماز کے بعد۔ان اوقات میں اقارب، محارم یہاں تک کہ نا بالغ بچوں اور غلام کو بھی  اجازت کا پابند کیا گیا ہےکہ ان تین اوقات میں کوئی بھی کسی کی خلوت گاہ میں بغیر اجازت کے نہ جائے،کیونکہ یہ اوقات خلوت اور استراحت کے ہیں۔ البتہ باقی اوقات میں اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے،وجہ اس کی یہ ہے کہ بچوں اور خدام وغیرہ کابکثرت  آنا جانا اور میل جول ہوتاہے اب اگر ہر وقت ان پر اجازت لینے کی پابندی لگائی جائے  تو اس سے دشواری اور تنگی پیدا ہوگی۔آیتِ کریمہ میں لفظِ ’’طوّافون‘‘ سے اسی طرف اشارہ ہے ۔اس لیے ابتلاء عام کی وجہ سے تنگی اور دشواری کو ختم کرتے ہوئے دیگر اوقات میں اجازت لینے کے حکم کو ساقط کردیا گیا ہے۔اسی کو فقہ اسلامی کی زبان میں عمومِ بلوٰی کہتے ہیں کہ ابتلاء عام کے وقت لوگوں کی مشکلات کو  سامنے رکھ کر شرعی حدود میں رہتےہوئے آسانی کا جائز راستہ تلاش کیا جائے۔

(۲) یرید اللہ أن یخفف عنکم وخلق الانسان ضعیفًا۔ (سورۃا لنساء:۲۸)

ترجمہ: اللہ چاہتا ہے کہ  تمہارے ساتھ آسانی کامعاملہ کرے اور  انسان کو کمزور پیدا کیا گیا ہے۔

یعنی اللہ تعالی نےانسان کی ضروریات اور مشکلات کا لحاظ کر کے آسان اور ہلکے احکام نازل فرمائے ہیں تاکہ ان آسان اور نرم احکام پر  سب بآسانی عمل پیرا ہوسکیں۔

(۳) وما جعل علیکم فی الدین من حرج۔(سورۃالحج:۷۸)

ترجمہ:اور تم پر دین کے معاملے میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔

حضراتِ مفسرین نے اس آیتِ کریمہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ شریعت  نے انسانوں پر ایسے معتدل  اور مناسب احکام لازم کیے ہیں،جن پر عام حالات میں عمل کرنے سے بہت زیادہ مشقت،تنگی اور پریشانی لاحق نہیں ہوتی،بلکہ شریعت میں کوئی ایساحکم نہیں ہے  جو انسان کی طاقت سے باہر ہو۔دوسری طرف شریعت نے غیرمعمولی اور ہنگامی صورتِ حال یعنی ضرورت و حاجت اور ابتلاء عام کے وقت لچک،وسعت،گنجائش،سہولت اور آسانیاں فراہم کی ہیں، جیسے سفر میں نماز کاقصر،بیماری میں تیمم وغیرہ۔

فقہاء کرامؒ نے اسی آیتِ کریمہ سے مندرجہ ذیل فقہی قواعد  کا استنباط کیا ہے،مثلاً: ’’أنّ المشقة تجلب التیسیر‘‘ و ’’الضرورات تبیح المحظورات‘‘ و ’’أن الضرر یزال‘‘ وغیرہ۔

 وفی تفسیر السعدی: وما جعل علیکم فی الدین من حرج :أی مشقة وعسر، بل یسرہ غایة التیسیر، وسھلہ بغایة السھولة، فأولا ما امرو ألزم  إلا بما ھو سھل علی النفوس، لا یثقلھا ولا یؤودھا، ثم إذ اعرض بعض الأسباب الموجبة للتخفیف، خفف ما اٰمر بہ، إما بإسقاطہ أو اسقاط بعضہ، ویؤخذ من ھذہ الاٰیة: قاعدۃ شرعیة وھی ’’أن المشقة تجلب التیسیر‘‘ و’’الضرورات تبیح المحضورات‘‘فیدخل فی ذالک من الأحکام الفرعیة شیءکثیر معروف فی کتب الحکام۔(تفسیر السعدی:سورۃ الحج:۷۸)
وفی تفسیر الوسیط الطنطاوی: ومن مظاھر رحمتہ بکم أیّھا  المؤمنون أنہ سبحانہ لم یشرع فی ھذا  الدین الذی یدینون بہ ما فیہ مشقة بکم، أو ضیق علیکم وِإنما جعل أمر ھذا الدین مبنی علی الیسر والتخفیف ورفع الحرج، ومن قواعدہ التی تدل علی ذلک: ’’أن الضرر یزال‘‘و’’أن المشقة تجلب التیسیر‘‘و’’أن الیقین لا یزول  بالشک‘‘(تفسیر الوجیز لطنطاوی، سورۃالحج:۷۸)


(۴) یرید اللہ بکم الیسر ولا ترید بکم العسر۔(سورۃا لبقرۃ:۱۸۵)

ترجمہ:اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتاہے اور تمہیں مشکل میں  اور تنگی میں نہیں ڈالنا چاہتا ۔

عمومِ  بلوٰی احادیثِ طیبہ کی روشنی میں

احادیث طیبہ کے عظیم ذخیرہ میں بہت سی احادیث  سے بھی یہ بات واضح طور پر ثابت  ہےکہ جناب نبی کریمﷺ  نے مشقتِ شدیدہ ،تنگی اور ابتلاء عام کے وقت تخفیف،وسعت اور آسانی کا حکم فرمایا ہے۔ذیل میں صرف چند احادیث پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

(۱) یسّروا ولا تعسّروا وبشروا ولا تنفروا۔ (بخاری:کتاب العلم/باب ما کان  النبی ﷺ ینخو لھم بالموعظۃ)

ترجمہ:لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کیا کرو،انہیں تنگی اور مشقت میں نہ ڈالو،لوگوں کو خوشخبری سناؤ،انہیں  نفرت نہ دلاؤ۔

(۲) إنما بعثتم میسّرین ولم تبعثوا  معسّرین۔ (بخاری/کتاب الوضوء/باب صب الماء علی البول)

          ترجمہ:تمہیں اس لیے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ تم آسانی اور سہولت کا معاملہ کرو نہ کہ تنگی اور پریشانی کا۔

(۳)بنو اشھل کی ایک خاتون حضوراقدسﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:یا رسول اللہ!ہمارے گھروں سے مسجد کی طرف جو راستہ نکلا ہوا ہے اس میں اکثر گندگی رہتی ہے خاص کر جب بارش ہوجائے تو گندگی پانی کے ساتھ مل جاتی ہےاور پھر اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ:اس کے بعد صاف راستہ شروع نہیں ہوتا؟،انہوں نے فرمایا :جی ہاں اس کے بعد صاف راستہ آتا ہے،آپ نے فرمایا:یہ صاف راستہ  اس گندگی کوصاف کردے گا،یعنی صاف جگہ کے رگڑنے سے وہ گندگی صاف ہوجائے گی۔(سنن ابی داؤد:کتاب الطھارۃ،باب فی الأذی،۱/۹)

اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر معلوم ہوئی  کہ جس چیز سے بچنا مشکل ہو  وہاں تخفیف اور آسانی آجاتی ہے۔

قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات کریمہ اور احادیثِ طیبہ سےمعلوم ہوا کہ اسلام  نے انسانوں کے مفادات و مصالح، تنگی وحرج،ضرورت و حاجت ، کمزوریوں اورمشقتوں کا پورا پورا لحاظ و پاس رکھاہے۔اس لیے مقاصد شریعت میں رفع ِحرج و تنگی ،دفع ضرر ومشقت اور ابتلاء عام کے معتبر ہونے کو نمایاں مقام حاصل ہے۔

عمومِ بلوٰی کے معتبر ہونے کی شرائط و حدود

واضح رہے کہ ان آیات واحادیث کا ہرگز یہ منشاء نہیں کہ عمومِ بلوٰی یعنی ابتلاءِ عام کے وقت وسعت وگنجائش اور سہولت و لچک کیلئے ہر انسان کو آزاد چھوڑ دیا جائےیا اس کی حدود کی تعیین کے لیے ہر ایک شخص  کو ترازو ہاتھ میں دیدیا جائے کہ وہ اپنی نفسانیت اور خواہش کے مطابق اس کو تولتا رہےکہ ایسا کرنا اباحیت کے دروازے کو کھولنے کے مترادف ہوگا۔اس لیے فقہاء کرام ؒنے  عمومِ بلوٰی کے معتبر ہونے کیلئے چند شرائط مقررکی ہیں جن کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

(۱) عمومِ بلوٰی کسی نص قطعی اورنص صریح سےمعارض نہ ہو:-

جن مسائل کےمتعلق قرآن کریم  یا سنت ِنبوی میں نص قطعی یا نص صریح موجود ہو  ان میں کسی  قسم کا اجتہاد نہیں ہوسکتا۔اس لیے ایسے معاملات میں عمومِ بلوٰی کی کوئی گنجائش نہیں۔عمومِ بلوٰی کا اعتبار وہیں ہوتا ہے  جہاں کوئی نص قطعی موجود نہ ہو ۔مثلاً سود کاحرام ہونا قرآن کریم کی واضح نصوص سے ثابت ہے۔کسی بھی طرح کے سود کو حلال بنانے کیلئے اجتہاد کرنا یا عمومِ بلوٰی یا ابتلاء عام کو سند بنانا شریعت سے انحراف کے مترادف ہے۔لہذا اگر  کسی  ملک یا ساری دنیا میں سودی کاروبار اور شراب نوشی عام ہوجائے ،اسی طرح سٹہ بازی یا ایسا کاروبار  جو اس کی تعریف میں آتا ہو رواج پذیر ہوجائے،یا عورتیں  پردہ بالکل ترک کردیں تو ان امور میں عمومِ بلوٰی کا اعتبار بالکل نہیں  کیاجائے گا،کیونکہ نص قطعی کے مقابلے میں عمومِ بلوٰی کا  اعتبار نہیں ہوتا ۔

عمومِ بلوٰی نص ظنی کے معارض ہو:-

اگر عمومِ بلوٰی نص ظنی کے معارض ہو تو ایسی صورت میں عمومِ بلوٰی پر عمل کیا جائے گا ؟ یا خبر واحد پر؟ چنانچہ اس سلسلے میں فقہاء کرام ؒکا اختلاف ہے۔امام سرخسیؒ اور علامہ ابن نجیمؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر نص ظنی اور عموم بلوٰی میں تعارض ہوجائے تو ایسی صورت میں نص ظنی (خبر واحد) پر عمل کیا جائے گا۔

امام سرخسیؒ فرماتے ہیں:

وإِنما تعتبر البلوٰی فیما لیس فیہ نص بخلافہ فأما مع وجود النص لا معتبر بہ.  (المبسوط:۴/۱۰، تبیین الحقائق:۲/۸۰)

ترجمہ:عمومِ بلوٰی کا اعتبار وہاں کیا جائے گا جہاں اس کے خلاف کوئی نص موجود نہ ہو۔جہاں نص موجود ہو وہاں عمومِ بلوٰی کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔

وقال ابن نجیمؒ: ولا اعتبار عندہ بالبلوٰی فی موضع النص، وقال الحمویؒ: المشقة والحرج  إنما یعتبران فی موضع لا نص فیہ، وأما مع النص بخلافہ فلا.(غمز عیون الأبصار شرح کتاب الأشباہ والنظائر،۱/۲۷۴/تحت القاعدۃ الرابعۃ:المشقۃ تجلب التیسیر/بیروت)

جبکہ علامہ ابن ہمام ؒاور بعض دیگر فقہاء کرامؒ کی رائے یہ ہے کہ اگر عمومِ بلوٰی اور نص ظنی میں ٹکراؤ آجائے تو خبرِ واحد کو چھوڑ کر عمومِ بلوٰی پر عمل کیا جائے گا۔

علامہ ابن ہمامؒ فتح القدیر میں لکھتے ہیں:

وما قیل إن البلوٰی لاتعتبر  فی موضع النص عنہ ،کبول الانسان  ممنوع، بل تعتبر إذا تحققت،  بالنص النافی للحرج وھو لیس معارضة للنص بالرأی۔(فتح القدیر:۱/۱۸۹)

یہ جو بات کہی جاتی ہے کہ عمومِ  بلوٰی اس مسئلے میں معتبر نہیں ہے جس میں نص موجود ہو،یہ بات ناقابل تسلیم ہے۔نص کی موجودگی میں بھی عموم کا اعتبار کیا جائیگابشرطیکہ عمومِ بلوٰی متحقق ہو،اس نص کی بناء پر جو حرج کی نفی کرتی ہے،اور یہ رائے کے ذریعے نص کا معارضہ نہیں ہے۔

اس  مسئلے کے متعلق امام سرخسی ؒ اور علامہ ابن نجیم ؒ کا قول راجح معلوم ہوتا ہے۔لیکن مجھے دیگر فقہی عبارات اور جزئیات کی  روشنی میں یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کہ عمومِ بلوٰی کی وجہ سے حدیث (خبرِ واحد) کو بالکلیۃ چھوڑنا تو درست نہیں ہے البتہ حدیث میں تخصیص کرکے یوں کہا جاسکتا ہے کہ جس صورت کے متعلق حدیث وارد ہوئی ہے وہ تو ناجائز ہے لیکن دیگر صورتیں عمومِ بلوٰی کی وجہ سے جائز ہیں۔جیسا کہ بلخ کے فقہاء کرامؒ نے قفیز الطحان سے ملتی جلتی صورتوں کو تعامل کی بنیاد پر اس لیے جائز کہا ہے کہ عرف و تعامل کی وجہ سے اگرچہ حدیث کو منسوخ تو نہیں کیا جاسکتا،البتہ اس میں تخصیص کی جاسکتی ہے۔علامہ ابن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں:

لو دفع إلی  حائک غزلاً لینسجه بالثلث فمشایخ بلخ کنصیر بن یحیی ومحمد بن سلمة وغیرھما کانوا یجیزون ھذہ الإجارۃ فی الثیاب لتعامل أھل بلدھم فی الثیاب، والتعامل حجة یترک بہ القیاس ویخص بہ الأثر  وتجوز ھذہ الإجارۃ فی الثیاب للتعامل بمعنی تخصیص النص الذی ورد فی قفیز الطحان، لأن النص ورد فی قفیز الطحان لا فی الحایک إلا أن الحایک نظیرہ  فیکون واردًا فیہ دلالة فمتی ترکناالعمل بدلالة ھذا النص فی الحایک  عملنا بالنص فی قفیز الطحان کان تخصیصًا لا ترکًا اصلاً وتخصیص النص بالتعامل جائز.(شرح عقود رسم المفتی:۱۴)

ترجمہ: اگر کسی نے کپڑا بننے والے کو کپڑا اس شرط پر دے دیا کہ اس کپڑے کی ایک تہائی مقدار کے بدلے میں اسے کپڑا بن دے گا تو بلخ کے مشائخ جیسے نظیر بن محمد یحییٰ،محمد بن سلمہ وغیرہ نے اس صورت کو جائز قرار دیا ہےکیونکہ ان کے شہر میں اس طرح معاملہ کرنے کا عام رواج تھااور تعامل ایک ایسی دلیل ہے جس کی وجہ سے قیاس کو ترک کیا جا سکتا ہے اور حدیث میں تخصیص کی جاسکتی ہے،لہذا تعامل کی  وجہ سے کپڑوں کے اجارہ میں اس صورت کو جائز قرار دینے کا  مطلب یہ  ہوگا کہ قفیز الطحان سے متعلق وارد حدیث کے اندر تخصیص کردی گئی ہے کیونکہ حدیث قفیز الطحان سے متعلق ہے،کپڑے بننے سے متعلق نہیں،البتہ کپڑابننے کی صورت اس کی نظیرہے،اس لیے وہ حدیث دلالۃً اس  کے بارے میں بھی ہوگی،لہذا ہم نے تعامل کی وجہ سے کپڑا بننے کے مسئلہ میں اس حدیث پر عمل نہیں کیا اور قفیز الطحان کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل کیا تو یہ حدیث میں تخصیص ہوئی،حدیث کوبالکلیہ ترک کرنا نہ ہوا اور تعامل کی وجہ سےحدیث میں تخصیص کی جا سکتی ہے۔

حاصل یہ ہے کہ  اگر قفیز الطحان  کا رواج ہوجائے تو تعامل کی وجہ سے اس کوجائز نہیں قرار دیا جاسکتا  کہ اس سے حدیث کو بالکلیہ چھوڑنا لازم آتا ہے جو کہ درست نہیں ہے،البتہ اس سے ملتی جلتی صورتوں کا تعامل ہوجائے تو تعامل کی وجہ سے حدیث میں تخصیص کرکےان کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے۔

(۲) دوسری شرط یہ ہے کہ عموم بلوٰی کی وجہ سے واقعۃً مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت متحقق ہو ،محض وہم اور تن آسانی  کی بنیادپر عموم بلوٰی کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

(۳) عموم بلوٰی پر مبنی احکام کی سہولت ابتلائےعام کےوقت تک محدود ہوگی۔ابتلائے عام ختم ہوتی ہی سہولت وتخفیف کا حکم ختم ہوجائے گا۔یہ شرط فقہ کے اس مشہور قاعدہ سےماخوذہے (ما جاز لعذرٍ بطل بزوالہ) جو چیز کسی عذر کی بناءپر جائز قراردیا گیا ہو تو عذر ختم ہوتے ہی جواز کا حکم بھی ختم ہوجاتاہے۔

(۴) عموم بلوٰی بالفعل موجود ہو،آئندہ اس کی وقوع کا اندیشہ معتبر نہیں۔

(۵)عموم بلوٰی کے تحقق کا فیصلہ ارباب اہل علم واہل فتوی حضرات کے رائے پر موقوف ہوگا۔عوام کا فیصلہ  اس سلسلے میں معتبر نہیں ہوگا۔نیز اس سلسلے میں مناسب یہ ہے کہ  کوئی ایک مفتی خود رائی  کے ساتھ فیصلہ نہ کرےبلکہ دیگر اہل فتوی حضرات سے مشورہ کرے اگر وہ بھی متفق ہوں تواتفاق رائے کے ساتھ ایسا فتوی دیاجائے۔

عموم بلوٰی کی وضاحتی مثالیں

جن مسائل میں فقہاءکرام ؒنے عموم بلوٰی کو بنیاد بناکر سہولت ،وسعت اور گنجائش کا حکم لگایا ہےان کی تعداد تو فقہی کتب میں کافی زیادہ ہے جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں مشکل ہے اس لیے ذیل میں عموم بلوٰی کو مزید واضح کرنے کے لیے صرف پانچ مثالوں پر اکتفاء کیا جاتا ہے۔

(۱) پیشاب کی باریک چھینٹیں

پیشاب کا ایک قطرہ قطرہ نجس و ناپاک ہے،لیکن  پیشاب کرتے وقت بدن اور کپڑے پرسوئی کی نوک کے برابر باریک چھینٹیں پڑ ہی جاتی ہیں۔عام طور پراس سے بچنا مشکل ہوتاہے،اس لیے شریعت نے عام لوگوں کے ابتلاء کی وجہ سے اس کو معاف قراردیاہے،لہذا پیشاب کے ایسی باریک چھینٹیں جوسوئی کی نوک کے برابر ہوں معاف ہے۔ان سے کپڑا اور بدن ناپاک نہیں ہوگا۔

وفی التنویر مع شرحہ: وبول انتضح کرأس إبرٍ، وفی الشامیة تحتہ: والحاصل أنّ فی المسألة قولین مبنیین علی الإختلاف فی المراد من قول محمّدؒ کرؤس الإبر، أحدھما:أنّہ قیّد بہ عن رأسھا من الجانب الآخر وعن رأوس المال...وثانیھما:أنّہ غیر قید وإنّما ھو تمثیل للتقلیل، فیعفی عنہ سواءً کان مقدار رأسھا من جانب الخرز أو من جانب الثقب، ومثلہ ما کان کرأس المسئلة، وعلمت أنّہ فی الکافی اختار القول الثانی ولکن ظاھر المتون والشروح اختار الأول لأنّ العلة الضرورۃ قیاساًعلی ما عمّت بہ البلوٰیٰ ممّا علی أرجل الذناب فإنّہ یقع علی النجاسة ثمّ یقع علی الثباب، قال فی النھایة ولا یستطاع الإحتراز عنہ۔ (۱/۳۲۳/باب الأنجاس)

(۲) بارش میں کیچڑ اور پانی کے چھینٹوں کا مسئلہ

بارش کی موسم میں راستوں پر موجودکیچڑ اور پانی کے چھینٹے اگر کپڑوں یا بدن پر لگ جائیں تو عموم بلوٰی کی وجہ سے فقہاء کرامؒ نے فرمایا ہے کہ ان چھینٹوں سے کپڑا اور بدن ناپاک نہیں ہوگا بشرطیکہ اس میں نجاست کا اثر محسوس نہ ہو۔

وفی ردالمحتار:طین الشوارع  عفو وإن ملأ الثوب للضرورۃ ولو مختلطاً بالعذرات وتجوز الصلاۃ معہ۔۔۔ والحاصل أن الذی ینبغی أنّہ حیث کان  العفو للضرورۃ۔۔۔ وإلّا فلا ضرورۃ۔ (۱/۳۲۴/باب الأنجاس وکذا فی حاشیۃ الطحطاوی: ۱/۱۶۱/باب الأنجاس)

(۳) تر نجاست سے جوتے کی پاکی کا مسئلہ

جوتے اور چمڑے کے موزے پراگر تر نجاست لگ جائے جیسے گوبر،پاخانہ اور خون وغیرہ اور خشک ہونے سے پہلے جوتے اورموزے کو زمین پر رگڑا جائے تو جمہور کے نزدیک  محض  زمین پر رگڑنے سے جوتا اور موزہ پاک نہیں ہوگا،کیونکہ تر نجاست زمین پر رگڑنے سے اور زیادی پھیل جاتی ہے،ظاہرہے کہ اس سے جوتا اور موزہ مزید  ملوث ہوگا نہ کہ پاک۔ لیکن امام ابویوسفؒ کے نزدیک اس صورت میں اگر جوتے اور موزے کو اچھی  طرح رگڑ دیا جائے یہاں تک کہ نجا ست کا اثر ختم ہوجائے تو عموم بلوٰی کی وجہ سے جوتا اور موزہ وغیرہ پاک ہوجائے گا،  دھونے کی ضرورت نہیں ۔

صاحب ہدایہ، علامہ ابن ہمامؒ اور علامہ ابن عابدین شامیؒ نے عموم بلوٰی یعنی ابتلائےعام کی وجہ سے حضرت امام ابویوسفؒ کے قول کو راجح قرار دیاہے۔

وفی الرطب لایجوز حتّی یغسلہ، لأنّ المسح بالأرض یکثرہ ولایطھرہ، وعن ابی یوسفؒ أنّہ إذا مسحه بالأرض  حتّی لم یبق اثرا لنجاسة یطھرلعموم البلوٰیٰ۔(فتح القدیر،کتاب الطھارۃ،۱/۹۴)
وفی ردّالمحتار:وعلی قول أبی یوسفؒ  أکثر المشائخ وھو الأصح، المختار وعلیہ الفتوی لعموم البلوٰیٰ۔ (۱/۳۱۰)

(۴) نماز میں قرأت کے دوران ایک  حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنے کا مسئلہ

نماز میں قرأت کے دوران اگر ایک حرف دوسرے حرف سے بدل جائے تو نماز کے فساد اور عدم فساد کےمتعلق متقدمین فقہاءکرامؒ کےنزدیک تفصیل یہ ہےکہ اگران دوحرفوں کامخرج ایک یامتقارب ہو،اور ایک حر ف کا دوسرےسےبدل لینا بقواعد عربیت جائزبھی ہو،یعنی بدلنے سےمعنیٰ مراد میں زیادہ تغیرفاحش نہ  پیدا ہوتا ہو تو ان کے باہمی تبدیلی سے نمازفاسد نہ ہوگی،خواہ کوئی  بھی حرف ہواور کسی طرح بھی بدلا جائے،مثلاً:قاف اور کاف، سین اور صاد وغیرہ اور جہاں یہ  صورت نہ ہو،بلکہ اس کے تبدیل سے معنی میں تغیر فاحش  پیدا ہوجائے وہاں نماز فاسد ہو جائےگی۔

چنانچہ متقدمین کے قول کے موافق جب کوئی شخص ضاد کو ظا خالص سےبدل دے،یا دال پڑھے،دونوں صورتوں میں معنی پر غور کیا جائےگا،اگر تغیر فاحش پیداہوگیا کہ مراد قرآن بالکل بدل گئی تو فساد نماز کا حکم کیا جائے گا ورنہ نہیں۔

’’شرح منیہ‘‘ میں ہے:

أمّا إذا قرأ مکان الذال المعجمة ظاءً معجمةً او قرأ الظاء المعجمة مکان الضاد المعجمة أو علی القلب۔۔۔فتفسد صلاتہ وعلیه اکثر الأئمة للغیر الفاحش البعید ومنھا خضرا بالدال المھملة مکان الضاد المعجمة تفسد للبعد الفاحش۔(کبیری شرح منیہ،۱/۴۴۸)

متاخرین فقہاء کرام نے جب اس مسئلےمیں عموم بلوٰیٰ کا مشاہدہ کیا کہ اول تو عرب میں بھی بوجہ اختلاط عجم  اب ان چیزوں کی رعایت  کما حقہ نہیں رہی،پھر عجم تو اس سے عمومًا ناواقف ہیں۔اس لیے متقدمین کے مذہب کے مطابق تو شائد صرف خاص خاص قراء حضرات کی نماز صحیح رہےگی۔اس لیے متاخرین فقہاء نے عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے یہ فتوی دیا کہ حروف کی باہمی تبدیلی  مطلقاً مفسد نماز نہیں،خواہ اتحاد وقرب مخرج ہو یا نہ ہو اور معنی میں تغیرفاحش ہو یا نہ ہو۔

الخطا إذا دخل فی الحروف لاتفسد لأنّ فیہ بلوٰی عامة الناس لأنھم لا یقیمون الحروف إلّا بمشقّةٍ وفیھا إذا لم یکن بین الحروفین اتحاد المخرج ولا قربة إلّا فیہ بلوٰی العامة کالذال  مع الضاد او الزاء المخلص مکان الذال والظاء مکان الضاد لاتفسد عند بعض المشائخ۔(شامیہ:۱/۵۹۲،با ب زلۃ القاری)

البتہ چونکہ متأخرین کے قول کے موافق عوام میں زیادہ بے پروائی ہونے کا احتمال تھا۔اس لیے بعض محققین متأخرین نے ایک بین بین اور درمیانی صورت اختیار فرمائی جس میں عوام پر تنگی بھی نہیں اور اصل حکم  سے زیادہ بُعدبھی نہیں۔وہ یہ ہے کہ  عوام جو مخارج اور صفات سے واقف نہیں،بوجہ عذر ناواقفیت یا عدم التمیزکے اگر ان کی زبان سے ایک حرف کے جگہ دوسرا حرف نکل جائے اور وہ سمجھے کہ میں نے وہی حرف نکالاہے جو قرآن مجید میں مذکور ہےتو عموم بلوٰی کی وجہ سےاس کی نماز فاسد نہ ہوگی۔اور جو شخص واقف ہےاورصحیح حرف نکالنے پر قادر ہے اور پھر بھی جان بوجھ کریا بے پروائی سے غلط حرف نکا لتا ہے تو جس جگہ معنی میں تغیر فاحش پیدا ہوجائے گا،تو متقدمین کے قول کے موافق اس کی نماز فاسد قرار دی جائے گی۔

حاصل یہ ہے کہ  عوام کے حق میں عموم بلوٰی کی وجہ سے متاخرین کے قول پر فتوی ہے،جبکہ مجودین  علماء اور مشاق قراء کے حق میں متقدمین کے قول پر فتوی ہے۔

کما فی الشامیة: والقاعدۃ عند المتقدمین أن ما غیر المعنی تغییرا فاحشاً یکون اعتقادہ کفراً یفسد فی جمیع ذلک۔۔۔فإن لم یکن مثله فی القرآن والمعنی بعید متغیر تغیراً فاحشاً یفسد۔۔۔وقال بعض المشائخ:لاتفسد لعموم البلوٰیٰ، وأمّاالمتأخرون ۔۔۔۔ فاتفقوا علی أنّ الخطأ فی الإعراب لایفسد مطلقاً ولو كان اعتقادہ کفراً لأنّ أکثر الناس لایمیّزون بین وجوہ الإعراب۔قال قاضی خاں:وما قال المتأخرون أوسع، وما قال المتقدمون أحوط، وإن کان الخطأ بابدال حرف بحرف، فإن أمکن الفصل بینھما بلا کلفةٍ کالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مکان الصالحات فاتفقوا علی أنّہ مفسد، وإن یمکن إلّا بمشقّة کا لظاء مع الضاد والصاد مع السین فأکثرھم علی عدم الفساد لعموم البلوٰیٰ (۱/۵۹۰، باب زلۃ القاری)
وفی شرح المنیة: أنّہ یفتی فی حقّ الفقہاء بإعادۃ الصلاۃ وفی حقّ العوام بالجواز۔ (کبیری:۱/۴۴۸، وکذا فی جواھر الفقہ،۳/۳۴)

(۵) درخت پر پھل چھوڑنے کی شرط لگانے کا مسئلہ

درخت پر موجود پھل اس شرط کے ساتھ خریدناکہ پھل کچھ مدت تک درخت پرلگا رہےگا تو یہ بیع فاسد ہے کیونکہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے۔البتہ امام محمدؒکے نزدیک اگر پھل پک چکا ہوتو درختوں پر چھوڑنےکی شرط لگانا اگر چہ مقتضائےکے  خلاف ہےمگر عموم بلوٰیٰ کی وجہ سے یہ شرط لگانا جائزہے۔

وفی الدرالمختار: وإن شرط ترکھا علی الأشجار فسد وقیل قائله محمدؒ لایفسد إذا تناھت الثمرۃ لتعارف وبه یفتی، وفی ردّالمحتار:قوله وبه یفتی، ویجوز عند محمدؒاستحساناً وھو قول الأئمة الثلاثة، واختارہ الطحاوی لعموم البلویٰ۔ (۴/۵۵۴/کتاب البیوع،مطلب فی  بیع الثمر والشجر)

عموم بلویٰ کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دینا

جس مسئلے میں واقعتا ابتلاءِ عام کی وجہ سے اپنے امام کے مذہب پر عمل کرنے میں شدید دشواری ہو ،تو ایسی صورت میں فقہاء کرامؒ نے مذہبِ غیر پر فتوی دینے کو جائز قرار دیا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں خاص طور پر دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔

پہلی بات یہ ہے: کہ کوئی ایک مفتی خود رائی کے ساتھ فیصلہ نہ کرے بلکہ اس سلسلے میں دوسرے اہلِ فتوی سے مشاورت کا اہتمام کرے ۔ دوسری بات یہ ہے: کہ ائمہ اربعہ سے خروج نہ کیا جائے ۔

چنانچہ فقہاء ِاحنافؒ نے ضرورت وحاجت اور ابتلاءِ عام کی وجہ سے کئی مسائل میں دوسرے مذہب پر فتوٰی  دیا ہے۔ مثلا:اگر کسی کا مال دوسرے شخص کے ذمہ لازم ہو اور وہ نہ دے رہاہو ،پھر مدیون کا کوئی مال جو مالِ واجب کی جنس سے نہ ہو اور دائن کے پاس کسی طریقے سے آجائے ،تو اصل حنفی مسلک کے مطابق دائن کےلئے اس مال کو بیچ کر اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے ۔لیکن متاخرین حنفیہؒ نے اس سلسلے میں امامِ شافعیؒ کے قول پر فتوٰی دیا ہے ۔ چنانچہ در مختار میں ہے :

لیس لذی الحق أن  یأخذ غیر جنس حقہ وجوّزہ الشافعیؒ وھو الأوسع۔

اس کے تحت علامہ شامیؒ لکھتےہیں:

قولہ:(وجوّزہ الشافعیؒ) قدمنا فی کتاب الحجر أن عدم الجواز کان فی زمانھم ۔أمّاالیوم فالفتوٰی علی الجواز ۔ قولہ:(وھو الأوسع) لتعینہ طریقا لإستیفاء حقہ فینقل حقہ من الصورۃ إلی المالیة ۔ (رد المحتار ،۶/۱۵۱،کتاب الحظر والإباحۃ ) ۔

اس سلسلے میں استاد محترم شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:

’’چونکہ چاروں مذاہب بلاشبہ برحق ہیں اورہر ایک کے پاس دلائل موجود ہیں اس لئے اگر مسلمانوں کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہو ،تو اس موقع پر کسی دوسرے مجتہد کے مسلک پر فتوی دینے میں کوئی مضائقہ نہیں ،حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت گنگوہی قدس سرہ نے حضرت تھانویؒ کو یہ وصیت کی تھی اور حضرت تھانویؒ نے ہم سے فرمایا کہ آجکل معاملات پیچیدہ ہوگئے ہیں اور اس کی وجہ سے دیندار مسلمان تنگی کا شکار ہیں ؛اس لئےخاص طور سے بیع وشرء اورشرکت وغیرہ کے معاملات میں جہاں  عام ہو وہاں ائمہ اربعہ میں سے جس امام کے مذہب میں عام لوگوں کے لئے گنجائش کا پہلو ہو اُس کو فتوی کے لئے اختیار کرلیا جائے ۔لیکن حضرت والد صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ کسی دوسرے امام کا قول اختیار کرنے کے لئے چند باتوں کا اطمینان کرلینا ضروری ہے ۔سب سے پہلے تو یہ کہ واقعۃً مسلمانوں کی اجتماعی ضرورت متحقق ہے یا نہیں،ایسا نہ ہو کہ محض تن آسانی کی