جنوری ۲۰۲۲ء
پرتشدد مذہبی بیانیے: خود احتسابی کا وقت
محمد عمار خان ناصر
(سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کے قتل کے پس منظر میں اس موضوع پر سوشل میڈیا پر پیش کی گئی معروضات)
توہین مذہب کے الزام پر کسی کو مار دینے کے واقعات میں وقفہ جتنا کم ہوا ہے، اس پر معاشرتی ردعمل اور اخلاقی مذمت کی قوت میں بجائے اضافے کے کمی ہوئی ہے۔ ایک معمول کا اظہار افسوس ہر واقعے پر دکھائی دیتا ہے، اور پھر اگلے کسی واقعے کا لاشعوری انتظار ہونے لگتا ہے۔ اگر یہ مشاہدہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے نے نفسیاتی طور پر اس عمل کو نارملائز کر لیا ہے۔
نارملائزیشن میں کسی نئے مظہر کے بار بار اعادے اور تکرار کی وجہ سے انسانی نفسیات اسے ایک طرح سے قبول کر لیتی اور اس پر کوئی غیر معمولی ردعمل دینے کا داعیہ کھو دیتی ہے۔ نارملائزیشن، ہمیشہ معاشرتی حساسیتوں کے ایک بنے ہوئے سانچے میں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سانچہ، انصاف کے ایک معاشرتی قدر نہ ہونے اور گروہی جانبداریوں کو عملا فیصلہ کن اصول کی حیثیت سے قبول کرنے سے بنا ہے۔ اس سانچے میں جب نارملائزیشن ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ معاشرتی ضمیر ایسے واقعات کو برا سمجھنا چھوڑ دیتا ہے، بلکہ اسے برا سمجھتے ہوئے یہ قبول کر لیتا ہے کہ جیسے اور سارے معاملات میں گروہی جانبداریاں عملا نتائج کو طے کر رہی ہیں، یہاں بھی کرتی ہیں۔ اگر طاقت کے زور پر ہر گروہ اپنے مجرموں کو بچا لے جاتا ہے تو توہین مذہب کے معاملے میں بھی گروہوں کی عصبیت جاگ اٹھتی ہے اور وہ مجرم کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہونے دیتے۔ ان کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے سو یہ کافی ہوتا ہے کہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، ہر معاملے میں یہی ہو رہا ہے۔
پھر کچھ گروہ اس سے آگے بڑھ کر یا تو ایسے اقدامات کو جواز یا کم سے کم حسن نیت اور مذہبی جذبے کی رعایت دینے لگتے ہیں۔ یوں ایسے گروہوں کی اصل قوت خود ان کی تعداد نہیں، بلکہ وہ عمومی سانچہ ہوتا ہے جس میں اکثریت ایسی چیزوں کو نفسیاتی طور پر نارملائز کیے بغیر کوئی چارہ نہیں پاتی۔ اس معاملے کی اصل سنگینی اس پہلو سے ہے جو ہماری نظر میں ہونی چاہیے۔
توہین رسالت پر داروگیر کا سوال قرآن میں بھی زیر بحث آیا ہے، تاہم اس کی صورت موجودہ مذہبی موقف سے بالکل مختلف ہے۔ سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس گروہ کو تفصیل سے موضوع بنایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کے اہل خانہ اور عام مسلمان خواتین کو مسلسل اسکینڈلائز کرنے کی مہم میں مصروف تھا اور مسلمان سماج کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ قرآن مجید نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دنیا وآخرت میں خدا کی لعنت کے سزوار ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنی روش سے باز آ جائیں، اور اگر اس تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو پھر اے پیغمبر، ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کے خلاف آپریشن کریں، اور پھر یہ لوگ مدینے میں رہنے نہیں پائیں گے، بلکہ جہاں ملیں گے، ان کو پکڑ کر قتل کر دیا جائے گا۔
اس ہدایت میں قرآن نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے شریعت کا یعنی فقہی اصطلاح میں "حدود" کا نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ کا معاملہ ہے۔ کوئی ایک یا چند افراد کیا، اگر پورا ایک گروہ بھی توہین رسالت کو باقاعدہ ایک مہم بنا کر مسلمانوں کے درپے آزار ہو تو اسے تنبیہ کی جائے گی، زجر وتوبیخ اور دوسرے تعزیری اقدامات سے اپنی روش بدلنے پر مجبور کیا جائے گا اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کے خلاف آخری اور انتہائی اقدام کر کے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
توہین رسالت کے جرم کو قذف کی طرح حدود کے زمرے میں شامل نہ کرنے اور اسے سیاست شرعیہ سے متعلق قرار دینے میں گہری دینی حکمتیں مضمر ہیں۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے اور عقلی ونفسي استدلالات کی بنیاد پر اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے۔ وہ قرآن اور پیغمبر، دونوں کی حقانیت کو عقل وفطرت کے دلائل پر پرکھنے کے لیے پیش کرتا ہے اور ہر طرح کے اشکالات واعتراضات کا انھی کی روشنی میں جواب دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کے مسلمہ موروثی عقائد کو چیلنج کرتا اور انھیں کفر وشرک قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان سے تائب ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید مخالفانہ ردعمل کا پیدا ہونا ایک فطری انسانی رویہ ہے اور اس ردعمل کو صبر وتحمل کے ساتھ گوارا کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعوت دین کو پیش کرتے رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو ایک دعوتی مذہب اختیار کر سکے۔ اگر اسلام اپنی پہلی ترجیح دعوت کے فروغ کے بجائے ناموس رسالت کے تحفظ کو بناتا اور مسلمان ہر گستاخ رسول کے ساتھ لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو اپنی اولین ایمانی ذمہ داری بناتے تو تاریخ میں اس کا ذکر مکے میں پیدا ہونے والے چند "شرپسندوں" کے الفاظ میں ملتا اور بس۔ یہ ترجیحات کا حکیمانہ تعین تھا جس نے اسلام کو ایک نہایت مخاصمانہ صورت حال سے، جس میں ہمہ وقت پورا معاشرہ توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا تھا، نبرد آزما ہونے کی طاقت بخشی اور پرامن طور پر دنیا میں پھیلنے والا عالمی مذہب بنا دیا۔
پس توہین رسالت سے متعلق قرآن کی ہدایت یہی ہے کہ جس معاشرے میں مسلمان اصلا غیر مسلموں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں، وہاں ایسے مخالفانہ رویوں پر صبر اور اعراض سے کام لیں اور اشتعال ظاہر کر کے دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ اور جہاں ان کے پاس سیاسی طاقت ہو اور کوئی بدنہاد گروہ اپنے خبث باطن کے اظہار سے مسلمان جماعت کے احساسات وجذبات کو مجروح کرنے پر تلا ہوا ہو، وہاں پہلے مرحلے میں تنبیہ وتوبیخ سے اسے باز رکھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی معقول طریقے سے اس میں کامیابی نہ ہو اور انتہائی اقدام کے بغیر اس فتنے سے گلوخلاصی ممکن نہ دکھائی دیتی ہو تو پھر ریاستی طاقت استعمال کر کے اس کی بیخ کنی کر دیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:
’’کفار کی گستاخیوں پر مسلمانوں کو بے حد غصہ آتا تھا۔ وہ نامعقول یہ کرتے تھے، اس سے بڑھ کر اور کیا گستاخی اور موجب غیظ ہوگا۔ خیال کیجیے ، مسلمانوں کو کس قدر ناگوار ہوتا ہوگا کہ جان لینے اور جان دینے کو تیار ہو جاتے ہوں گے، مگر اتنی بڑی گستاخی اور ایسے سخت موجب غیظ پر حق تعالیٰ کی تعلیم سنیے۔ فرماتے ہیں:
لتبلون فی اموالکم وانفسکم الی قولہ وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور۔
یعنی جان اور مال میں تمہاری آزمائشیں ہوں گی اور مشرکین اور اہل کتاب سے اذیت کی باتیں سنو گے۔
اس کی تفسیر میں مفسرین نے یہی واقعہ لکھا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں مسلمانوں کی بیویوں کا نام لے کر اظہار تعشق کرے تھے۔ اتنی بڑی غیظ وغضب کی بات سننے کے بعد فرماتے ہیں: ان تتقوا وتصبروا۔ الخ۔ اگر تم صبر کرو اور بچو (یعنی جہالت کی باتوں سے) تو یہ بڑی عزیمت کی بات ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: وقل لعبادی یقول التی ھی احسن۔ میرے بندوں سے فرما دیجیے کہ وہ نرم بات کہا کریں۔ ان الشیطان ینزغ بینہم۔ شیطان درمیان میں جھڑپ کرانا چاہتا ہے۔ جب جھڑپ اور لڑائی ہوگی تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں طرف سے عداوت بڑھ جائے گی۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔
یہ حق تعالیٰ کی تعلیم تھی۔ اب حدیث سنیے۔ کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کو بجائے محمد کے مذمم کہتے تھے۔ اب خود ہی اندازہ کر لیجیے کہ ایسے سخت الفاظ سن کے مسلمانوں کا کیا حال ہوتا ہوگا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی سخت بات کو مسلمانوں کے دلوں سے کیسا ہلکا کیا۔ فرماتے ہیں: انظروا کیف صرف اللہ عنی الخ۔ یعنی دیکھو، شتم قریش کو خدا نے مجھ سے کیسے ہٹا لیا۔ وہ شتم اور لعنت کرتے ہیں مذمم کو اور میں تو محمد ہوں (میرا نام محمد ہے، مذمم نہیں۔ وہ مذمم کو برا کہہ رہے ہیں نہ کہ محمد کو)۔
اگرچہ مذمم سے نیت ان کم بختوں کی حضور کی گستاخی کی تھی، مگر حضور ہمارے غیظ وغضب کو ہلکا کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ میاں، یوں دل کو سمجھا لیا کرو کہ ہمارے حضور مبارک کا نام ہے ہی نہیں۔
بہرحال وہ حق تعالیٰ کی تعلیم تھی اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ جب جہل کے مقابلے میں بھی خدا اور رسول کو خشونت پسند نہیں تو مناظرہ میں کب پسند ہوگی۔‘‘ (التبلیغ ج ۲۰ ص ۱۶۶۵)
مذہبی انتہاپسندی کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار عوامل کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک سے زیادہ بیانیے موجود ہیں جن پر واضح طور پر فکری ونظریاتی تقسیم کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے واقعات کو مختلف بیانیے اپنی اپنی پوزیشن اور اپنے مجوزہ حل کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثلا موجودہ صورت حال میں، ایک طبقے نے مذہب کو، دوسرے نے مذہبی طبقوں اور علماء کو، تیسرے نے مقتدر طبقوں کی پالیسیوں کو اور چوتھے نے قیام پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا اور، بالترتیب، ان چاروں مظاہر کے ’’بندوبست " کو مسئلے کا حل قرار دیا۔ مذہبی طبقے نے صورت حال کی ذمہ داری مغرب میں ہونے والے واقعات، عالمی سیاسی دباو، ہماری حکومتوں کے طرز عمل اور مقامی لبرل بیانیوں پر عائد کی۔ اس نکتے پر اشتراک کے باوجود خود مذہبی حلقوں میں بھی تین الگ الگ پوزیشنز اس موقع پر واضح طور پر سامنے آئی ہیں۔
ایک پوزیشن ان زیادہ تر غیر سیاسی اہل علم کی ہے جنھوں نے اس واقعے کو بنیادی طور پر ایک انسانی واخلاقی مسئلے کے طور پر دیکھا اور بالخصوص مذہب کے سوء استعمال کے پہلو سے یہ مناسب سمجھا کہ مذہبی نمائندوں کی حیثیت سے سری لنکا کے ہائی کمشنر سے مل کر تعزیت کریں اور یوم مذمت منانے کا اعلان کریں۔
دوسری پوزیشن اس مذہبی سیاسی طبقے کی ہے جس نے اس واقعے سے مذہبی طبقوں پر آنے والے دباؤ کو سیاسی زاویے سے دیکھا اور اس دباؤ میں مزید اضافے کی پیش بندی کرنا چاہی۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی نقطہ نظر سے واقعے کی مذمت کو بین الاقوامی حالات اور حکومتی پالیسی وغیرہ سے نتھی کر دیا، اور اسی حلقے کی طرف سے علماء کے ہائی کمشنر سے تعزیت کے عمل پر تحفظات بھی ظاہر کیے گئے۔
تیسری پوزیشن تحریک لبیک اور ان کے ہمدردوں کی ہے۔ اگرچہ سیالکوٹ کے واقعے سے ٹی ایل پی نے ایک بیان کے ذریعے سے لاتعلقی ظاہر کی ، لیکن وہ اپنے پھیلائے ہوئے "لبیک لبیک" اور "من سب نبیا فاقتلوہ" کی اس عوامی تعبیر سے خود کو اصولی طور پر اور دوٹوک انداز میں الگ کرنے کی سیاسی طور پر متحمل نہیں۔
واقعے سے پیدا ہونے والی دکھ اور رنج کی کیفیت مدھم ہونے کے بعد یہ تمام بیانیے اپنے اپنے استدلال کے ساتھ اسی طرح میدان میں موجود ہیں جیسے پہلے تھے۔ اگر اس خاصے واقعے میں مذہبی طبقے کو دفاعی پوزیشن لینا پڑی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیانیوں کی مساوات (equation) میں کوئی خاص تبدیلی آ گئی ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی اور واقعہ ایسا رونما ہو گیا جو مخالف بیانیوں کے لیے کسی پہلو سے ناسازگار ہو تو صورت حال الٹ ہو جائے گی اور مذہبی بیانیہ ایک مرتبہ پھر خود کو assert کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔
کیا یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہے گا اور کسی اجتماعی فکری یکسوئی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں؟ ہمارے خیال میں، ایسا نہیں ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ان مختلف بیانیوں کے استدلال کے معروضی تجزیے کا عمل زیادہ گہرائی کے ساتھ جاری رہے تا آنکہ اجتماعی قومی دانش ان سب بیانیوں میں موجود جزوی صداقتوں اور استدلال کے وزن کو جانچتے ہوئے بتدریج ایک ایسا متوازن بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے جسے قوم کی مجموعی تائید حاصل ہو اور مختلف انتہائیں، عملا اسی متوازن بیانیے کی پابندی پر مجبور ہو جائیں۔ ایک طویل عمل سے پیدا کیے گئے بگاڑ کو راتوں رات سدھارا نہیں جا سکتا۔ ایک متوازن اور متفقہ قومی بیانیے تک پہنچنے میں ابھی کئی صبرآزما مراحل پیش آنے والے ہیں، لیکن ان شاء اللہ آخر قوم اس تک پہنچ ہی جائے گی۔
نومبر کے آخر میں جامعہ محمدی شریف چنیوٹ اور اقبال عالمی مرکز برائے تحقیق ومکالمہ (IRD) کے زیر اہتمام "دینی نظام تعلیم اور جدید فکری مباحث" کے عنوان پر ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا تو جدید معاشرے میں مذہب اور اہل مذہب کو درپیش صورت حال کا ایک جائزہ پیش کیا گیا اور "مذہبی علمی روایت کو کیا کرنا چاہیے" کے علاوہ دو باتیں ایسی عرض کیں جو اہل مذہب کو نہیں کرنی چاہییں، یعنی اس حوالے سے موجودہ رویے اور حالت میں بہت سنجیدگی سے بہتری لانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ان دو باتوں کے ساتھ ایک اور بات بھی شامل کر لی جائے تو یہ تین اہم باتیں بن جاتی ہیں جو مذہب کی پوزیشن اور کردار کو الٹا کمزور کرنے اور نقصان دینے کا موجب بن رہی ہیں۔
پہلی یہ کہ جدید ذہن کے ساتھ گفتگو کے لیے اپنے عصری علم اور فہم کو اس سے بہت بہتر سطح پر لانے کی ضرورت ہے جو اس وقت ہے۔ جدید ذہن کے، مذہب سے عدم اطمینان کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی علم اور مذہبی فہم کے متعلق علمی پس ماندگی کا تاثر بہت مستحکم ہے جو کلیتاً تعصب پر مبنی نہیں، بلکہ مذہبی علم وفہم کے عمومی طور پر دستیاب نمونے اس کو کافی جواز مہیا کرتے ہیں۔ ناقص علم اور پس ماندہ ذہن کی بات کو قابل توجہ نہ سمجھنا انسان کا ایک فطری رویہ ہے۔ ناقص فہم اور غیر مستند علم کے ساتھ کسی موضوع پر مذہب کا دفاع کرنے سے کلی احتراز کی ضرورت ہے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی سردست ضبط سے کام لے اور صحیح معلومات اور بہتر استدلال کی جستجو میں لگ جائے۔
دوسری چیز مذہبی اخلاقیات کی صورت حال ہے۔ انسانوں کی اکثریت کے لیے مذہب، عقل اور استدلال کی راہ سے نہیں، بلکہ روحانی طلب کی تشفی اور عملی اخلاقیات کے راستے سے اپیل پیدا کرتا ہے۔ مذہب ایک سماجی ادارے کے طور پر اگر انھی اخلاقیات سے دوری کا مظہر بن جائے جن کا مذہبی تعلیم پرچار کرتی ہے تو یہ اولاً اہل مذہب سے لیکن مآلاً خود مذہب سے دوری کا سبب بن جاتا ہے۔ علمی اور فکری پچھڑے پن کی صورت حال میں اہل مذہب، معیاری اخلاقیات کا نمونہ ہی معاشرے میں زندہ رکھ سکیں تو یہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہوگی۔
تیسری چیز جس کا میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں، وہ پرتشدد مذہبیت ہے۔ یہ رویہ ایک ہاری ہوئی اور خود کو شدید خطرے میں محسوس کرنے والی نفسیات کا مظہر ہے۔ اس نفسیاتی حالت میں گروہ تشدد کو اپنی شناخت کی حفاظت یا درپیش خطرے کو ٹالنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ خود اپنی تباہی کے سفر کو تیز کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تیسری بات اس لحاظ سے پہلی دو باتوں سے بھی اہم ہے کہ پہلی دو کمزوریوں کی اصلاح کرنا یا نہ کرنا خود اہل مذہب کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس تیسری کمزوری کو ٹھیک کرنے کے لیے معاشرہ اہل مذہب کا انتظار نہیں کرے گا اور نہ مزید انھیں اس کا موقع دے گا کہ وہ خود اس کو ٹھیک کر لیں۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۴)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(291) استثناء منقطع کی ایک مثال:
سورۃ الشعراء کی درج ذیل آیتوں میں جن دو گروہوں کا ذکر ہوا ہے، انھیں عام طور سے شعرا کے دو گروہ مان کر تفسیر کی گئی ہے اور اسی کے مطابق ترجمہ کرتے ہوئے الّا کا ترجمہ استثناء متصل والا کیا گیا ہے۔اس ترجمہ و تفسیر کے مطابق ان آیتوں میں عام شعرا کی مذمت کی گئی ہے اور ایمان والے شعرا کو ان سے مستثنی کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ شعرا کے دو گروہوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ متبعین کے دو گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک گروہ شاعروں کے متبعین کا ہے اور دوسرا گروہ ایمان لانے والوں یعنی اللہ کے رسول کے متبعین کا ہے۔ اس طرح گویا دونوں کے متبعین کا کردار سامنے لاکر یہ واقعاتی شہادت پیش کی گئی ہے کہ رسول پر شاعر ہونے کا الزام غلط ہے کیوں کہ رسول کے متبعین قطعی طور پر اس سے بالکل مختلف کردار کے حامل ہیں جو شاعروں کے متبعین کا کردار ہوتا ہے۔ اس تفسیر کے بعد یہ بحث از خود ختم ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید میں بالاطلاق شعرا کی مذمت کی گئی ہے۔
اس تفسیر کی روشنی میں دیکھیں تو ان آیتوں میں شاعر بھی بس وہی مراد ہیں جنھیں لوگ اپنا مقتدا مانتے تھے۔ ان شاعروں کے پاس وحی کی ہدایت موجود نہیں تھی مگر وہ اپنے اوپر الہام ہونے کا دعوی کیا کرتے تھے۔ ابن عاشور کے بقول: وکان بین الکھانۃ والشعر جامع فی خیال المشرکین إذ کانوا یزعمون أن للشاعر شیطاناً یملی علیہ الشعر وربما سموہ الرَّءِیّ۔ مشرکوں کے تصور میں کہانت اور شاعری میں قدر مشترک یہ تھی کہ ان کے گمان کے مطابق شاعر کو شیطان کی طرف سے اشعار کا القا کیا جاتا تھا۔ چنانچہ جو گم راہی، بے راہ روی اور اخلاقی پستی ان شاعروں میں تھی، وہی ان کے متبعین میں بھی دیکھی جاسکتی تھی۔ غرض درج ذیل آیتوں میں ایسے شاعروں اور ان کے متبعین کی مذمت کی گئی ہے، نفس شاعری کی مذمت نہیں کی گئی ہے۔
اس وضاحت کے بعد درج ذیل آیتوں کے ترجمے اور خاص طور سے الّا کے ترجمے پر غور کریں:
وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُونَ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِی کُلِّ وَادٍ یَہِیمُونَ۔ وَأَنَّہُمْ یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَ۔ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوا اللَّہَ کَثِیرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُونَ۔ (الشعراء: 224تا 227)
”رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”بس وہ اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے“۔(امین احسن اصلاحی)
”سوائے ان کے جو ایمان لائے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”مگر جو لوگ ایمان لائے“۔ (فتح محمد جالندھری)
مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں: ”نہ کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور اور جنہوں نے نیک عمل کیے“۔۔۔الخ یعنی ایسے لوگ شعرا کی اتباع کرنے والے نہیں ہوتے ہیں۔
بالفاظ دیگر دوسرا گروہ پہلے گروہ سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ دونوں بالکل الگ الگ دو گروہ ہیں۔
(292) ذکری کا ترجمہ
مذکورہ ذیل لفظ ذکری کو عام طور سے لوگوں نے علت یا مفعول لہ مان کر ترجمہ کیا ہے:
وَمَا أَھلَکْنَا مِن قَرْیَۃٍ إِلَّا لَہَا مُنذِرُونَ۔ ذِکْرَیٰ وَمَا کُنَّا ظَالِمِینَ۔ (الشعراء: 208،209)
”(دیکھو) ہم نے کبھی کسی بستی کو اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے خبردار کرنے والے حق نصیحت ادا کرنے کو موجود تھے اور ہم ظالم نہ تھے“۔ (سید مودودی)
”ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ہے مگر اسی حال میں کہ اس کے لیے ڈرانے والے تھے نصیحت کے طور پر اور ہم ظلم کرنے والے نہیں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
ذکری کو منذرون کی علت بنانے سے مفہوم ٹھیک سے واضح نہیں ہوتا ہے، انذار کے اندر تو خود نصیحت کا مفہوم ہوتا ہے، پھر اس کے بعد ذکری لانے سے کیا فائدہ ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں ذکری، منذرون کی علت نہیں ہے بلکہ ایک مستقل جملہ ہے، جس میں مبتدا محذوف ہے اور خبر مذکور ہے، یعنی ھذہ ذکری۔ ترجمہ ہوگا:
”ہم نے کبھی کسی بستی کو اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے خبردار کرنے والے موجود تھے، یہ ایک یاد دہانی ہے، اور ہم ظالم نہ تھے“۔
درج ذیل ترجمے میں بھی اسے مستقل جملہ مانا گیا ہے، البتہ ذکری کو مصدر منصوب اور اس کے فعل کو محذوف مانتے ہوئے:
”نصیحت دیتے ہیں ہم“۔ (شاہ رفیع الدین)
اسی طرح درج ذیل ترجمے میں بھی اسے مستقل جملہ مانا گیا ہے مگر ماضی کا ترجمہ کیا گیا ہے:
”اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے ڈرانے والے بھیج دیے تھے یہ ایک یاد دہانی تھی اور ہم ہرگز ظلم کرنے والے نہیں ہیں“۔ (ذیشان جوادی)
لیکن ماضی کا ترجمہ کرنے سے اس کی معنویت متأثر ہوتی ہے۔ کہنا تو یہ ہے کہ گذشتہ اقوام کے بارے میں ہم اپنی یہ جو سنت بتارہے ہیں یہ ایک یاد دہانی ہے۔
(293) یُلْقُونَ السَّمْعَ کا ترجمہ
یُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَکْثَرُہُمْ کَاذِبُونَ۔ (الشعراء: 223)
اس آیت کے دو طرح سے ترجمے کیے گئے ہیں:
”سُنی سُنائی باتیں کانوں میں پھونکتے ہیں، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں“۔ (سید مودودی)
”شیطان اپنی سنی ہوئی ان پر ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں“۔ (احمد رضا خان)
”جو کان لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
یعنی سنی ہوئی چیز پیش کرنا اور آرہی آواز پر کان دھرنا۔
قرآن مجید کے استعمال کی روشنی میں دیکھیں تو دوسرا مفہوم درست معلوم ہوتاہے، سورۃ ق میں آیا ہے:
إِنَّ فِی ذَٰلِکَ لَذِکْرَیٰ لِمَن کَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیدٌ۔ (ق: 37)
”اِس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، یا جو توجہ سے بات کو سنے“۔ (سید مودودی)
یہاں أَلْقَی السَّمْعَ ہے، جس کا مطلب بالاتفاق کان لگانا ہے، اسے نظیر مان کر مناسب ہوگا کہ یُلْقُونَ السَّمْعَ کا ترجمہ کیا جائے: وہ کان لگاتے ہیں۔ البتہ یہاں کان لگانے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کان لگانے کی اداکاری کرتے ہیں، گویا وہ سن رہے ہوں حالاں کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں کچھ سنتے نہیں ہیں۔
(294) مِنَ الْمُخْرَجِینَ کا ترجمہ
قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَہِ یَا لُوطُ لَتَکُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِینَ۔ (الشعراء: 167)
”انہوں نے کہا،”اے لوطؑ، اگر تو اِن باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں اُن میں تو بھی شامل ہو کر رہے گا“۔ (سید مودودی)
اس ترجمے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت لوط علیہ السلام سے پہلے بھی انھوں نے اپنی بستیوں سے لوگوں کو نکالا تھا جن میں انھیں شامل کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک اسلوب ہے جس کا مقصود سورت کے قافیوں کی رعایت ہے۔ کہنا بس یہ ہے کہ تمھیں نکال دیا جائے گا۔ درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:
”بولے اگر نہ چھوڑے گا تو اے لوط تو تو نکالا جاوے گا“۔ (شاہ عبدالقادر)
”وہ کہنے لگے کہ لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے“۔ (فتح محمد جالندھری)
(295) مِنَ الْمَرْجُومِینَ کا ترجمہ
اسی طرح سے درج ذیل آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ اور لوگوں کو سنگسار کیا گیا ہے یا پھٹکارا گیا ہے، جن میں حضرت نوح علیہ السلام کو شامل کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، بلکہ یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ تم باز نہ آئے تو تمھیں سنگ سار کردیا جائے گا:
قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَہِ یَا نُوحُ لَتَکُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِینَ۔ (الشعراء: 116)
”انہوں نے کہاکہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کردیا جائے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمے میں یہ خامی موجود ہے:
”انہوں نے کہا،اے نوحؑ، اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا“۔ (سید مودودی)
بہرحال یہ ایک اسلوب ہے، جو سورۃ الشعراء میں اور بعض دوسری صورتوں میں کثرت سے آیا ہے، اس اسلوب میں کسی پہلے سے موجود اس وصف کے گروہ میں شامل ہونے کی بات نہیں ہوتی ہے، بلکہ صرف اس وصف کو اختیار کرنے کی بات ہوتی ہے۔
(296) فَافْتَحْ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا کا ترجمہ
فَافْتَحْ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِی وَمَن مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ۔ (الشعراء: 118)
مذکورہ آیت میں فتحا کا دو طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے، ایک کھلا اور واضح فیصلہ اور ایک قطعی اور دو ٹوک فیصلہ۔
”اب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے“۔ (سید مودودی)
”پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”سو تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”تو میرے اور ان کے درمیان بالکل واضح فیصلہ فرمادے“۔ (امین احسن اصلاحی)
یہاں کھلا اور واضح کے لیے نہ تو لفظ میں دلالت ہے اور نہ ہی اس مفہوم کا یہاں محل معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے لفظ فتحا سے ذہن اس طرف گیا ہو۔ اصل میں لفظ فَتْحًا یہاں فَافْتَحْ کی تاکید کے لیے آیا ہے۔ فتح کا مطلب فیصلہ کرنا ہوتا ہے، ابن عاشور لکھتے ہیں:
الفَتح: الحُکم، وتأکیدہ ب فَتْحاً لإرادۃ حکم شدید۔ (التحریر والتنویر)
(297) من خلاف کا ترجمہ
درج ذیل آیتوں میں من خلاف کہہ کر جو بات کہی گئی ہے اس کے مفہوم و معنی تو سب پر واضح ہیں، تاہم اردو زبان میں اس کی ادائیگی میں ترجمہ کرنے والوں کو دقت پیش آئی اور انھوں نے مختلف انداز سے مفہوم کو ادا کیا۔ ملاحظہ فرمائیں:
(۱) لَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلَافٍ۔ (الشعراء: 49)
”میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواؤں گا“۔ (سید مودودی)
”بیشک میں تمہارے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا“۔ (احمد رضا خان)
”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں اطراف مخالف سے کٹوا دوں گا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دوں گا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹوں گا“۔ (امین احسن اصلاحی)
(۲) أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلَافٍ۔ (المائدۃ: 33)
”یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں“۔ (سید مودودی)
”یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
(۳) لَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلَافٍ۔ (الاعراف: 124)
”میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹوں گا“۔ (امین احسن اصلاحی)
”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے کاٹ دوں گا“۔ (ذیشان جوادی)
(۴) فَلَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلَافٍ (طہ: 71)
”سو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں (جانب) خلاف سے کٹوا دوں گا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”(سن لو) میں تمہارے پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر“۔ (محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ان تمام مقامات کے لیے ”ایک دوسرے کی مقابل سمت سے“ کی تعبیر تجویز کی ہے۔ توقع ہے کہ یہ تعبیر مفہوم کے لیے زیادہ مناسب ہوگی۔ ترجمہ ہوگا:
”میں تمہارے ہاتھ پاؤں ایک دوسرے کی مقابل سمت سے کاٹ ڈالوں گا“۔
مطالعہ سنن ابی داود (۱)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
محمد عمار خان ناصر / ڈاکٹر سید مطیع الرحمن
مطیع سید: رفع حاجت کے وقت استقبالِ قبلہ سے متعلق مختلف احادیث آتی ہیں۔بعض حدیثوں کے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ قضائے حاجت کے وقت قبلے کی طرف منہ ہو بھی جائے تو خیر ہے، بس کسی کھلے میدان میں قبلہ رخ ہونا منع ہے۔مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ وفات سے ایک سال قبل میں نے نبی ﷺ کو دیکھاکہ آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے رفع حاجت کر رہے تھے۔(سنن ابی داود، کتاب الطہارۃ، باب الرخصۃ فی ذلک، حدیث نمبر ۱۲) یہ کیا مسئلہ ہے؟
عمارناصر: آپ نے دونوں طرح کی حدیثیں دیکھی ہیں۔حدیثوں میں اختلاف ہے اور اسی لیے یہ ایک اجتہادی بحث ہے۔شوافع کے ہاں کھلی فضا میں اور ایک بند عمارت میں فرق کیا جاتا ہے۔لیکن احناف کھلی فضا پر یہ معارضہ کر دیتے ہیں کہ کھلی فضا میں کو ن سا قبلہ بالکل سامنے ہوتا ہے، وہاں بھی درمیان میں کئی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔تو بس ٹھیک ہے، جس رائے پر بھی اطمینان ہو، اس پر عمل کر لینا چاہیے۔
مطیع سید : اگر گھر بناتے ہوئے مستری یا نقشہ نویس کہتا ہے کہ آپ کے گھر میں واش روم کا رخ قبلہ کی طرف کر دیں تو جگہ کی تقسیم بہت مناسب ہو جائے گی تو کیا ہم اس طرح کی گنجائش نکال سکتے ہیں؟
عمارناصر:دیکھیں، ایک تو آپ کا اپنا فہم ہے، اس کے لحاظ سے آپ کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آپ کے علاوہ گھر میں دوسرے لوگ بھی ہیں اور مہمانوں نے بھی آنا ہے۔تو ان سب کے اطمینا ن کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔آپ شافعی تعبیر پر مطمئن ہو کر بیت الخلاء بنا لیں اور کوئی اس میں جائے ہی نا تو یہ بھی تو ٹھیک نہیں۔
مطیع سید: نبی ﷺ نے فرمایا کہ حاجت کے وقت نماز نہ پڑھے، اجازت کے بغیر امامت نہ کروائے اور اکیلے اپنے لیے دعا نہ کر ے۔یہ روایت لکھ کر امام ابو داؤد فرماتے ہیں: ھذا من سنن ِ اھل الشام لم یشرک فیھا احد۔ (کتاب الطہارۃ، باب ایصلی الرجل وہو حاقن، حدیث نمبر ۹۱) اس سے کیا مراد ہے ؟
عمارناصر: سنن سے یہاں مراد ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں اہل شام کے ساتھ کوئی شریک نہیں، یعنی یہ شامی راویوں نے ہی نقل کی ہے۔
مطیع سید:میرے ایک دوست ہیں جنہیں ایک ٹانگ کا پولیوہے۔وہ چلنے کے لیے بر یسز لگاتے ہیں جو ان کے جوتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔وہ وضو کے وقت جوتوں کے اوپر ہی مسح کر لیتے ہیں، کیونکہ انہیں دھو کر دوبارہ بریسز لگانے میں دقت بھی ہے اور وقت بھی کافی لگتا ہے۔تو کیا وہ بغیرپاؤں دھوئے ایسا کر سکتے ہیں ؟
عمارناصر:جی، صبح پہلی دفعہ وضو کرتے ہوئے وہ بریسز لگانے سے پہلے پاؤں کو دھو لیں۔پھر اگلے دن تک جوتوں پر ہی مسح کر تے رہیں۔موزوں یا جوتوں پر مسح اسی حالت میں درست ہے جب آپ نے وضو کر کے پاکی کی حالت میں پاؤں پر جرابیں یا جوتے پہنے ہوں۔
مطیع سید: شرم گاہ کو چھو نے سے وضوکا ٹوٹنا، اس حوالے سے بڑی مختلف روایات آتی ہیں۔(کتاب الطہارۃ، باب الوضوء من مس الذکر وباب الرخصۃ فی ذلک، حدیث نمبر ۱۸۱، ۱۸۲) بعد میں صحابہ کے ہاں بھی بحث چلتی رہی ہے اور دونوں اپنے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں۔
عمارناصر: اس حوالے سے علامہ انور شاہ نےسب سے معقول بات کہی ہے کہ اگر آپ اس کو فقہی مفہوم میں لیں کہ اس سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں توپھر روایتیں متعارض ہیں۔آپ کو کچھ چھوڑنی پڑتی ہیں، کچھ لینی پڑتی ہیں۔لیکن اگر آپ اس کو نقض ِ وضو کے پہلو سے نہیں، محض پاکیزگی کے احساس کے پہلوسے دیکھیں تو پھر دونوں ٹھیک ہیں۔فقہی طور پر یہ ناقضِ وضو نہیں ہے لیکن اگر آپ کا ہاتھ بغیر حائل کے شرم گاہ کو لگ جائے تو ظاہر ہے، ایک پاکیزہ آدمی اس پر ایک نفور سا محسوس کرتا ہے۔تو اس پہلو سے کہا گیا ہے کہ آدمی وضو کرلے۔
مطیع سید: کیا اس کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ وضو کے آداب کے خلاف ہے کہ آدمی باوضو ہونے کی حالت میں ایسا کرے؟
عمارناصر:اس طرح کہہ لیں۔حاصل یہی ہے کہ اگرچہ فقہی مفہوم میں تو وضو نہیں ٹوٹا، لیکن بہتر ہے کہ وضوکرلے۔یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس صورت میں وضو کرنا مستحب ہے۔
مطیع سید: اسی طرح آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کی روایات بھی مختلف ہیں۔(کتاب الطہارۃ، باب فی ترک الوضوء مما مست النار وباب التشدید فی ذلک، حدیث نمبر ۱۸۷ تا ۱۹۵) صحابہ بھی موافق و مخالف دلائل دیتے رہے ہیں۔
عمارناصر: وہ بھی ایسی ہی بات لگتی ہے۔بعض روایتوں سے ایسے لگتا ہے کہ اس وضو سے مراد شاید کلی وغیرہ کرنا ہے۔عربی میں وضو منہ دھونے اورکلی وغیرہ کرلینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔یا اگر وضو سے اصطلاحی وضو مراد ہے تو وہ استحباب کے درجے میں ہے۔یہ ساری چیزیں اصل میں استنباطی ہیں۔
مطیع سید: ام حبیبہ بنت جحش مستحاضہ تھیں اور ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔(کتاب الطہارۃ، باب من روی ان المستحاضۃ تغتسل لکل صلاۃ، حدیث نمبر ۲۸۹) یہ روایت بڑی کثرت سے آئی ہے ، لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تو آج کے سہولیات والے دور میں بھی ممکن نہیں کہ ہر نماز سے پہلے آدمی سر دیوں اور گرمیوں میں غسل کرے۔
عمارناصر: جی، معروف روایت ہے۔اصل میں راوی جب قصہ بیان کر تا ہے تو ایک سادہ سا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا وہ ان کے پورے سال کے معمولات نوٹ کر تا تھا؟ ظاہر ہے، نہیں۔تو مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ نے جب ان کو یہ طریقہ تجویز فرمایا تو وہ اس راوی کے مشاہدے یا معلومات کی حد تک عمومی طور پر یا حتی الامکان اس کے مطابق عمل کرتی ہوں گی۔
مطیع سید: ایک خاتون سے آپ ﷺ نے فرما یا کہ وہ ایک غسل کر کے دو نمازیں اکٹھی پڑھ لیا کریں۔(کتاب الطہارۃ، من قال تجمع بین الصلاتین وتغتسل لھما غسلا، حدیث نمبر ۲۹۴) کیا وہ یہی ام حبیبہ تھیں؟
عمارناصر: غالباً یہی تھیں، لیکن مجھے حتمی طور پر مستحضر نہیں۔ایک دو اور خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے جو مستحاضہ تھیں۔ممکن ہے، ان میں سے کسی کو کہا گیا تھا کہ ایک غسل کر کے دو نمازوں کو اکٹھا کر لیا کریں۔
مطیع سید:فقہا تو کہتے ہیں کہ حیض کے علاوہ عورت کو جو کچھ آتا ہے، اس پر غسل واجب نہیں ہوتا۔
عمارناصر: ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے وجوب کے معنی میں غسل کا حکم نہیں دیا، یہ استحباب ہی کے درجے میں ہے۔اصل میں تو وہ مریض ہے، اس کا پہلا کیا ہوا وضو ہی اصولی طور پر قائم ہے۔تاہم آپﷺ نے استحباب کے درجے میں فرمایا کہ اگر وہ غسل کرلے تو یہ بہتر ہے۔
مطیع سید:تیمم کے حوالے سے محدثین کا موقف ہے کہ ایک ہی ضرب کافی ہے، جبکہ احناف کہتے ہیں کہ دو ضربیں ہونی چاہییں۔
عمارناصر:روایتیں دونوں طرح کی ہیں اور وہ دونوں ہی ٹھیک ہیں۔ایک ضرب لگا کر تیمم کرلیں تو بھی ٹھیک ہے اور دو الگ الگ ضربیں لگا کر کرلیں تو بھی درست ہے۔
مطیع سید: حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا کہ اگر مجھ پر غسل واجب ہو جائے اور ایک ماہ تک پانی نہ ملے تو کیا میں پھر بھی تیمم نہ کروں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں، تیمم نہ کرو۔ان کو حضرت عمار بن یاسر کی روایت بتائی گئی تو انھوں نے کہا کہ حضرت عمر، عمار کی روایت پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔یعنی وہ بھی قائل نہیں تھے کہ غسل واجب ہونے پر تیمم کیا جا سکتا ہے۔(کتاب الطہارۃ، باب التیمم، حدیث نمبر ۳۲۱)
عمارناصر: حضرت ابن مسعود کا عام موقف تو یہی نقل ہوا ہے، لیکن روایات میں اس کی وضاحت ہے کہ وہ محض احتیاطاًیہ کہتے تھے۔صحیح بخاری میں یہ مکالمہ اس طرح منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کو اس کی رخصت دینے لگے تو لوگ تھوڑا سا پانی ٹھنڈا لگنے پر غسل چھوڑ کر تیمم کرنے لگ جائیں گے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جواز کے تو قائل تھے، لیکن کہیں لوگ بلاضرورت تیمم نہ لگیں، اس پہلو سے ذرا شدت اختیار کرتے تھے۔
مطیع سید: آپ ﷺ قضائے حاجت سے واپس آئے تو ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کو سلا م کیا، لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔آپ نے پہلے تیمم کیا اور پھر سلام کا جواب دیا۔(کتاب الطہارۃ، باب التیمم فی الحضر، حدیث نمبر ۳۳۰) یہ کس پہلو سے تھا؟
عمارناصر:یہ کوئی فقہی یا قانونی حکم نہیں ہے۔آپ ﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ پاکی کے بغیر جوا ب دیں۔اس میں دیکھیں، بعض دفعہ جو فوری کیفیت انسان پر طاری ہوتی ہے، اس کا بھی دخل ہوتا ہے۔آپ ﷺ ابھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آئے تھے اور ساتھ ہی کسی نے سلام کہہ دیا۔اگر آپ ویسے ہی بیٹھے ہوں اور فوری طورپر رفع حاجت سے فارغ ہو کر نہ آئے ہوں تو آپ کو احساس نہیں ہوگا کہ میں ناپاکی کی حالت میں ہوں، لیکن بیت الخلاء سے نکل کر آدمی کو تھوڑا سا احساس ہوتا ہے کہ میں ناپاکی کی حالت میں ہوں۔
مطیع سید: ظواہر نے تو اس سے مسئلہ بھی نکا ل لیا ہوگا کہ ناپاکی کی حالت میں سلام کا جواب نہ دیا جائے۔
عمارناصر:میرے ذہن میں نہیں۔میرے خیال میں اس حدتو نہیں گئے ہوں گے، لیکن اگر وہ جانا چاہیں تو اپنے اصول کے تحت جا سکتے ہیں۔
مطیع سید: شدید سردی میں جب گیس بھی نہ ہو تو صبح کے وقت اگر کسی کو غسل کی حاجت ہوتی ہے اور پانی برف کی طرح ٹھنڈا ہے تو کیا وہ تیمم کر سکتا ہے ؟
عمارناصر: ہاں، اگر فوری طورپر گرم پانی کاانتظام نہیں ہے تو تیمم کر کے نمازپڑھ سکتے ہیں۔
مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب پر بس چھینٹے مار لینا کافی ہے۔(کتاب الطہارۃ، باب بول الصبی یصیب الثوب، حدیث نمبر ۳۷۵، ۳۷۶) بچے اور بچی کے پیشاپ کو دھونے میں فر ق کیوں رکھا گیا ہے ؟
عمارناصر:حدیث میں تو کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی۔شارحین کی طرف سے ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ لڑکی کے پیشاب کی بدبو زیادہ ہوتی ہے یا وہ زیادہ گاڑھا ہوتا ہے، اس لیے اس کو دھوئے بغیر بدبو کا ازالہ نہیں ہوتا۔
مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبر ستا ن میں نماز پڑھنے سے اور بابل میں نماز پڑھنے سے منع کیا کیونکہ اس پر لعنت کی گئی تھی۔(کتاب الصلاۃ، باب فی المواضع التی لا تجوز فیہا الصلوۃ، حدیث نمبر ۴۹۰) قبرستان میں نماز کی ممانعت کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، لیکن بابل پر لعنت کیوں کی گئی؟
عمارناصر:گذشتہ قوموں میں سے کسی پر یہاں عذاب آیا تھا۔ایسی جگہ جو خداکے عذاب کے نزول کی جگہ ہو، وہاں پر ٹھہرنا یا عبادت کرنا پسندیدہ نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جب تبوک کے سفر میں قوم ثمود کے علاقے سے گزرے تو صحابہ سے فرمایا کہ یہاں سے تیزی سے گزرو۔البتہ یہاں فقہی مفہوم میں نماز کا ادا ہونا یا نا ہونا زیرِ بحث نہیں ہے۔اگر نماز پڑھ لی تو ادا ہو جائے گی۔
مطیع سید: لیکن آج اگر وہاں آبادی بن چکی ہے، شہر آباد ہو چکا ہے تو وہاں تویہ مسئلہ نہیں ہوناچاہیے۔
عمارناصر: اب وہ مخصوص علاقہ اگر جانا پہچانا نہیں رہا تو ظاہر ہے، نماز کی ادائیگی میں بھی فرق ملحوظ نہیں رکھا جا سکتا۔لیکن اگر معلوم ہو کہ کو ن سا علاقہ ہے جہاں پر عذاب اتراتھا تو پھر اس کا علم ہونا انسان کے اندر ایک کیفیت پیدا کرتا ہےکہ یہ علاقہ تو خدا کے عذاب کی جگہ ہے، مجھے تو یہاں رکنا ہی نہیں چا ہیے چہ جائیکہ وہاں نماز ادا کی جائے۔
مطیع سید: اذان اور اقامت کے الفاظ میں فر ق ہے اور اختلافات بھی ہیں۔ان کلمات کا اختلاف کیسے پیداہوا؟
عمارناصر: اصل میں نبی ﷺ سے مختلف طریقے ثابت ہیں۔ہوایہ کہ جب صحابہ مختلف علاقوں میں پھیلے ہیں تو جس علاقے میں کچھ صحابہ چلے گئے، وہاں ان کا عمل جاری ہو گیا۔دوسرےعلاقے میں دوسرے صحابہ کا عمل اختیار کر لیا گیا۔اس دور میں ابھی روایتیں اس طرح مدون نہیں تھیں۔بعد میں جب روایتیں جمع ہوگئیں تو اس سے واضح ہو گیاکہ یہ سارے طریقے رسو ل اللہ ﷺ سے ہی ثابت ہیں۔
مطیع سید: تشبیک (ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسانے) سے کیوں منع فرمایا گیا ؟ (کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فی الہدی فی المشی الی الصلاۃ، حدیث نمبر ۵۶۲)
عمارناصر: بس یہ کیفیت پسند نہیں کی گئی۔بعض جسمانی ہیئتیں نماز کی حالت میں پسند نہیں کی گئیں اور اس میں پیغمبر کا ذوق بڑا اہم ہے۔
مطیع سید: کیا یہ ذوق بدل بھی سکتا ہے ؟
عمارناصر:وہ تو اس وقت بھی ہو سکتا ہے، بد ل گیا ہو، لیکن ذوق سے پھوٹی ایک چیز ہے تو اس میں آپ کو ذوق ہی کی پیروی کرنی چاہیے۔یعنی اس کا تعلق علت سے نہیں، علت ایک اور چیز ہے۔قانونی طور پر اس کو متعین کرنا آسان ہوتا ہےکہ اب حکم کی علت بدل گئی ہے۔لیکن یہ جو ذوق کی چیزیں ہوتی ہیں، اس میں تو آپ کو اتباع ہی کرنی چا ہیے۔
مطیع سید: اس میں ہم کیا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اپنے دور کے لحاظ سے کچھ اور چیزیں بھی اس میں شامل کر لیں ؟
عمارناصر: آپ اور چیزیں جو آپ کے عرف میں ہیں یا آپ کے ذوق یا ذاتی احساس کے لحاظ سے لگے کہ بری ہیں یا حالت نماز کے کے منافی ہیں تو آپ ان کو شامل کر سکتے ہیں۔بعض روایتوں میں ہے کہ آدمی جب بیٹھتا ہے تو فرشتے اس کے سامنے آ کر اس دیوار کی طرف جدھر قبلہ ہے، کھڑے ہو جاتے ہیں۔تو عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فجر کے وقت مسجد میں آتے تھے تو اگر ان کے سامنے کوئی شخص دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھنا چاہتا تو وہ اس کو ہٹا دیتےتھے۔یہ چیزیں اس طرح کے روحانی احساس سے پیداہوتی ہیں۔
مطیع سید: نمازی کے سامنے سے گدھے یا کتے کے گزرنے سے نماز کے ٹوٹ جانے کی جو روایت ہے، (کتاب الصلوۃ، باب ما یقطع الصلوۃ، حدیث نمبر ۷۰۲) اس کا کیا مطلب ہے؟
عمارناصر: مطلب یہ ہے کہ نماز کا ایک روحانی ماحول ہوتا ہے، وہ اس سے ٹوٹ جاتا ہے۔قطع اسی مفہوم میں ہے۔علامہ انورشاہ صاحب نے اس اصول کو باربار اور بڑی تاکید سے بیان کیا ہے کہ پیغمبر کی حدیثوں کو ہم ایک فقیہ کے بیانات نہ سمجھیں۔پیغمبر بہت مختلف جگہ سے، بڑی اعلیٰ جگہ سے بات کرتا ہے۔بہت سے مسئلے فقہا کے ہاں اس لیے پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ ہر بات کو فقہی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔
مطیع سید:ایک معذور شخص نے بتایا کہ جب وہ لڑکا تھاتو ایک جگہ آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔وہ سامنے سے گزرا تو آپ نے اس کو بد دعا دی اور وہ پاؤں سے معذور ہوگیا۔(کتاب الصلوۃ، باب ما یقطع الصلوۃ، حدیث نمبر ۷۰۷) روایت بڑی عجیب لگی کہ آپ ﷺ تو بڑے شفیق تھے۔سامنے گزرنے پر اتنی سخت بددعا دے دی؟
عمارناصر: وہ شخص اس وجہ سے معذور ہوا، یہ اس کا اپنا قیاس بھی ہو سکتا ہے۔لیکن اگر ایسا ہوا ہو تو آپ ﷺ کا شفیق ہونا بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس کا اس طرح بے پرواہی سے آگے سے گزرنا ایک روحانی احساس کے تحت ناگوار گزرا ہو او راس پر آپ نے بد دعا کر دی ہو۔ایسی چیزوں میں ظاہری عمل سے زیادہ وہ رویہ اہم ہوتا ہے جس سے وہ عمل وجود میں آیا۔ایک اور واقعے میں آپ نے ایک آدمی کو دائیں ہاتھ سے کھانے کے لیے کہا تو اس نے برا مانتے ہوئے کہا کہ جی، میں بائیں سے نہیں کھا سکتا۔آپ نے کہا کہ اچھا، اللہ کرے نہ ہی کھا سکو اور اس کا ہاتھ پھر بعد میں مفلوج ہو گیا۔ایسا لگتا ہے کہ آگے سے گزرنے والے نے بھی ایسا ہی کوئی رویہ ظاہر کیا ہو۔
مطیع سید: کیا یہ روایت ٹھیک ہے ؟
عمارناصر: مجھے تحقیق نہیں، لیکن اگر ایسے ہوا ہو تو ایسی ناقا بل ِ فہم نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راوی کا قیاس ہو۔
مطیع سید: آج کا ذہن اور خاص طورپر مغربی لوگ اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ کیسے آپ کے نبی تھے۔ایک بچہ تھا اور اس کی غلطی پر اتنی سخت بددعا دے دی۔
عمارناصر: بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو دیکھنے کا زاویہ بہت ہی مختلف ہو سکتا ہے۔آپ ایک زاویے سے اسے بہت غلط سمجھ سکتے ہیں، لیکن ایک دوسرے زاویے سے وہ بالکل مختلف دکھائی دے گی۔چیزوں کی تفہیم میں زاویہ بڑا اہم ہوتا ہے۔اسی طرح بعض باتیں کچھ ذہنی سانچوں میں قابل فہم بنتی ہیں، کچھ میں نہیں بنتیں۔تو اگر اعتراض پیداہو تو جواب میں زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کی ایسی توجیہ کریں کہ وہ مخاطب کے ذہن کےلحاظ سے قابل فہم ہو تاکہ وہ تشویش میں مبتلا نہ ہو۔مثلاً آپ اس طر ح کی توجیہ کر سکتے ہیں کہ یہ راوی کا قیاس ہے، اس لیے کہ بعض اوقات بات اتنی لطیف ہوتی ہے کہ اس کو سمجھانا بڑ امشکل ہو جاتا ہے۔
مطیع سید: فاتحہ خلف الامام کے بارے میں احناف یہ دلیل دیتے ہیں کہ سورہ اعراف میں کہا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو اس کو سنو اور خاموش رہو۔یہ جہری نمازو ں میں تو چل سکتی ہے، لیکن سری نمازوں کے لیے یہ دلیل کیسے بنے گی ؟
عمارصاحب: جی، سری میں تو یہ دلیل نہیں بنتی۔احناف براہ راست اس سے جہری میں ہی استدلا ل کرتے ہیں، اگرچہ بعض حضرات کھینچ تان کر اسے سری پر بھی منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اصل میں اس آیت کا براہ راست نماز سے تعلق نہیں اور وہ اس تناظر میں نہیں آئی۔اس میں تو یہ ادب بیان کیا گیا ہے کہ قرآن جب پڑھاجا رہا ہو تو اس وقت شور شرابہ نہ کرو اور اس سے بے توجہی نہ برتو۔اس کا نمازسے، یعنی جہری نماز سے بھی کوئی تعلق نہیں۔نماز میں اگر مقتدی قرآن پڑھتا ہے تو اس کی وجہ قرآن سے بے توجہی یا اس کا معارضہ نہیں ہوتا۔وہ چیز ہی بالکل اور ہے۔بہرحال ظاہری الفاظ کی حد تک آپ اس سے جہری نماز کے لیے بھی استدلال کرسکتے ہیں۔بعض آثار میں اس سے خطبہ جمعہ کے وقت خاموش رہنے کا حکم بھی اخذ کیا گیا ہے۔
مطیع سید: اس حوالے سے آپ کے خیال میں کون سا موقف زیادہ بہتر ہے ؟ امام مالک کا، امام شافعی کا یا امام ابوحنیفہ کا ؟
عمارناصر: مجھے امام مالک کا موقف زیادہ معقول لگتا ہے کہ سری نمازوں میں قراءت کی جا سکتی ہے۔اسی طرح جہری نمازوں کی آخری دو رکعتوں میں بھی کی جا سکتی ہے۔
مطیع سید: کیاانور شاہ صاحب بھی اس کے قائل تھے ؟
عمارناصر: وہ بھی امام مالک کے موقف کے قائل تھے، اگر چہ انھوں نے اس کا جواز فقہ حنفی کے اندر سے ہی نکالنے کی کوشش کی ہے۔احناف کے ہاں ایک کمزور سی روایت ہے جو صاحب ہدایہ نقل کرتے ہیں کہ امام محمد سری نمازوں میں قراءت کے قائل تھے۔مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا تقی عثمانی کا بھی یہی رجحان ہے۔
مطیع سید: یہ ذراموضوع سے ہٹ کر سوال ہے کہ عمر احمد عثمانی صاحب کی فقہ القرآن کیسی کتاب ہے ؟
عمارناصر: اچھی علمی کتا ب ہے۔فقہی ذخیرے کی جو اہم بحثیں ہیں، ان کا انہوں نے محاکمہ کیا ہے۔ان کے بعض نتائج ِفکرسے اتفاق ہے، بعض سے نہیں ہے۔لیکن ان کا جو طرزِ استدلال ہے، اس میں کافی کمزوری ہے۔چیزیں سامنے ہو ں تو آدمی کمزوری سمجھ جاتاہے۔ان کا طرز استدلال اور نصوص کو دیکھنے کا انداز مجھے زیادہ متاثر کن نہیں لگا۔
مطیع سید :حدیث میں ہے کہ بیٹھے ہوئے امام کی اقتدا مقتدی بھی بیٹھ کر کریں۔(کتاب الصلوۃ، باب الامام یصلی من قعود، حدیث نمبر ۶۰۱) آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ انور شاہ صاحب اس کے قائل تھے۔
عمارناصر: جمہور تو قائل ہیں کہ یہ ہدایت منسوخ ہو گئی ہے، لیکن حنابلہ جواز کے قائل ہیں۔شاید علامہ انور شاہ صاحب کا رجحان بھی حنابلہ کی طرف ہے، لیکن مجھے مستحضرنہیں ہے۔
مطیع سید: امام ابوداود نے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنے کی روایتیں نقل کی ہیں اور ان کو ضعیف بتایا ہے۔(کتاب الصلوۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث نمبر ۷۴۸ تا ۷۵۲) اس کے علاوہ صحیح مسلم میں رفع یدین کرنے کو گھوڑوں کی دم سے تشبیہ دینے کی روایت کو احناف دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں، اسے آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟
عمارناصر: نہیں، اس کا رفع الیدین جو مشروع ہے، اس سے تعلق نہیں ہے۔رفع یدین ایک اصطلاح بھی ہے، اور رفع یدین کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے۔اس روایت میں تو ایسے لگتا ہے کہ لوگ قعدے میں بیٹھے ہوئے، بے توجہی سے ہاتھ اوپر نیچے کررہے تھے۔مثلاً کوئی ہاتھ سے کان پر خارش کر رہا ہے، کوئی ڈاڑھی کھجا رہا ہے، وغیرہ۔لغوی معنوں میں یہ بھی رفع یدین ہے جس کو آپ ﷺنے گھوڑے کی دم سے تشبیہ دی ہے۔گھوڑے کی دم بھی ایک جگہ ٹکی نہیں رہتی، کبھی ادھر اٹھتی ہے، کبھی ادھر اٹھتی ہے۔تو آپﷺ نے اس طرح بے ضرورت ہاتھوں کو حرکت دینے سے منع کیا ہے نہ کہ مشروع رفع یدین کو اس سے تعبیر کیا ہے۔
مطیع سید:یہ جو ذکر ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے نماز کی رکعتیں زیادہ یا کم پڑھا دیں، کیا وہ ایک ہی واقعہ ہے یا مختلف واقعات ہیں ؟
عمارناصر: ایسا مختلف واقعات میں ہوا۔
مطیع سید: ایک واقعے میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺنے سہواً سلام پھیر دیا اور پھر لوگوں سے باتیں کیں اور اس کے بعد باقی نماز پڑھا دی۔(کتاب الصلوۃ، باب السہو فی السجدتین، حدیث نمبر ۱۰۰۸) توہمارے فقہا کیوں کہتے ہیں کہ بات کی تو نماز ٹوٹ گئی، اب دوبارہ پڑھیں ؟
عمارناصر: یہ احناف کا موقف ہے۔احناف کہتے ہیں کہ بنیادی طورپر کلام کرنا تو نماز کے منافی ہے، تو بہتر یہ ہے کہ اس کو ہم اس زمانے پر محمول کریں جب پہلے پہل نماز میں کلا م کی اجازت تھی، پھر بعد میں منسوخ کر دی گئی۔لیکن مالکیہ اس کے قائل ہیں کہ اگر اس طرح کی صورت حال میں نماز کی اصلاح کے لیے کلام کیا گیا ہو تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔کلام کے بعد باقی ماندہ نماز مکمل کی جا سکتی ہے۔
مطیع سید: نماز کے فوراً بعد ایک صحابی کھڑے ہوکر نفل پڑھنے لگے تو حضرت عمر فاروق نے روک دیا اور کہا کہ یہود عبادت کے اندر فاصلہ نہیں رکھتے۔کیا محض یہود کی مشابہت کی وجہ سے انہوں نے اس سے منع فرمایا ؟
عمارناصر: نہیں، یہود سے مشابہت تو ضمنی وجہ ہے۔مقصد یہ ہے کہ فرض نماز اور نفل نماز کو بالکل الگ الگ نظر آنا چاہیے۔اس کے لیے عام طورپر کہتے ہیں کہ یا تو صفیں توڑ دیں جس سے باجماعت نماز کی ہیئت باقی نہ رہے یا یہ کہ جگہ بدل لیں تا کہ یہ نظر آئے کہ فرض نماز ہو گئی ہے، اب یہ الگ نفل نماز پڑھ رہا ہے۔
مطیع سید: یہود نے ایسا کیا کیاتھا ؟
عمارناصر: یہ پتہ نہیں یہود کے ہاں ایسا کیا تھا۔ممکن ہے عرب میں جو یہود تھے، ان کا ایسا کوئی عمل سامنے ہواور انہوں نے چیزیں گڈ مڈ کر دی ہوں۔مجھے اس کی تحقیق نہیں ہے، لیکن یہ تلاش کرنی چاہیے جس کی طرف وہ اشارہ کر رہے ہیں۔
مطیع سید: حضرت عبد اللہ بن زبیر کے دور میں ایک ہی دن جمعہ اور عید آگئی تو جمعہ اور عید کی نمازیں اکٹھی پڑھی گئیں۔(کتاب الصلوۃ، باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید، حدیث نمبر ۱۰۷۲)
عمارناصر: جی، صحابہ میں یہ عمل ملتا ہے کہ جمعہ اور عید اکٹھی آجائے تو عید کو تھوڑا موخر کر کے جمعہ کے ساتھ ادا کر لیا جائے تاکہ لوگوں کو بار بار گھر سے آنے کی دقت نہ ہو۔ابن ابی شیبہ میں تفصیلی روایات ہیں۔غالباً نبی ﷺ کے متعلق بھی اس طرح کی کوئی روایت منقول ہے۔یہ ذہن میں رکھیں کہ اس دور میں جمعہ اور عید کی نماز مرکزی مقامات پر ہی ہوتی تھی اور مضافات وغیرہ سے لوگوں کو خاص اہتمام کر کے مکہ یا مدینہ جانا پڑتا تھا تاکہ جمعہ یا عید کی نماز ادا کر سکیں۔اس لیے صحابہ نے جمع بین الصلوتین کی جو سہولت شریعت نے خاص حالات میں دی ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جمعہ اور عید کو اکٹھا اد ا کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔
مطیع سید: نبی ﷺ سے جوروایت آتی ہے، اس میں تو ایسے لگ رہا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جماعت ایک ہی کافی ہے۔ایک پڑھ کر چلے جائیں، دوسری گھروں میں جا کر پڑھ لیں۔(کتاب الصلوۃ، باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید، حدیث نمبر ۱۰۷۰)
عمار ناصر: وہ روایت الگ ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ نماز عید کے لیے آئے ہیں، وہ عید پڑھ کرچلے جائیں اور انہیں جمعے کے لیے دوبارہ آنا ضروری نہیں۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ دونوں نمازیں اکٹھی پڑھ لیں۔
مطیع سید: جمعے کی اذان جس کا حضرت عثمان غنی نے اضافہ فرمایا، یہ کون سی اذان تھی؟ پہلی ہے یا دوسری ؟ (کتاب الصلوۃ، باب النداء یوم الجمعۃ، حدیث نمبر ۱۰۸۷)
عمارناصر:جو مسجد میں ہوتی تھی، وہ تو رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے ہو رہی ہے۔اضافہ جو حضرت عثمان نے جو کیا، وہ مسجد سے باہر اذان کا تھا۔خطبے سے پہلے جو دی جاتی ہے، وہ اصل اذان ہے۔
مطیع سید:وہ اس وقت کی ایک مجبوری تھی۔کیا آج بھی وہ وجہ ہے؟ اگر نہیں تو اس کی کیا ضرورت ہے ؟
عمارناصر:جی، اسے چھوڑ سکتے ہیں۔امام شا فعی اس کے قائل نہیں ہیں۔کتاب الام میں کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک وہ پہلا طریقہ ہی پسندیدہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔
مطیع سید: تو اس اضافی اذان کو کیوں جاری رکھا گیا، چھوڑ کیوں نہیں دیا گیا ؟
عمار ناصر: اصل میں ایک روایت چلی آرہی ہو تو اس کی بھی اپنی ایک حیثیت بن جاتی ہے۔صحابہ سے چلی آرہی تھی، فقہا نے بھی اس کو اختیار کرلیا تو ٹھیک ہے۔بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہے جو شروع تو ایک خاص تناظر میں ہوتی ہیں، لیکن پھر تعامل کی وجہ سے ان کی اپنی اہمیت بن جاتی ہے۔
مطیع سید:سہل بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو منبر پر یا منبر کے علاوہ کبھی دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا۔(کتاب الصلوۃ، باب رفع الیدین علی المنبر، حدیث نمبر ۱۱۰۵)اس سے کیا مراد ہے ان کی ؟
عمارناصر: اصل میں وہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ بعض خطباء خطابت کرتے ہوئے ہاتھوں اور بازووں کو جو بہت زیادہ حرکت دیتے ہیں، یہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں تھا۔
مطیع سید: گویا یہاں دعا کی بات نہیں ہورہی، تقریرکی بات ہو رہی ہے ؟
عمارناصر: مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے کہ وہ اس تناظر میں ہے۔
مطیع سید: یہ باب رفع الیدین علی المنبر کے تحت روایت آئی ہے۔
عمارناصر: جی۔مراد یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ادھر ہاتھ چلا رہے ہیں، ادھر ہاتھ اٹھا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہاتھ سے اور ایک انگلی کے اشارے سے جو کہنا ہوتا، وہ کہہ دیتے تھے۔
مطیع سید: امام ابوداؤد گوٹھ ما ر کربیٹھنے سے متعلق آپ ﷺ کے منع فرمانے کی روایت لائے ہیں اور ساتھ ہی صحابہ کا عمل بھی نقل کرتے ہیں کہ وہ ایسے بیٹھا کرتے تھے۔(کتاب الصلوۃ، باب الاحتباء والامام یخطب، حدیث نمبر ۱۱۱۰، ۱۱۱۱)
عمارناصر: گوٹھ مار کر بیٹھنا اصولا ً تو منع نہیں ہے۔یہ کسی خاص پہلو سے اس سے منع کیا گیا ہوگا۔ہو سکتا ہے کہ گوٹھ مار کر بیٹھنے سے ستر کے کھلنے کا اندیشہ ہو یا اس لیے منع کیا گیا ہو کہ سستی اور نیند طاری نہ ہو اور آدمی توجہ سے خطبہ سنے۔
مطیع سید: امام جب خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو احناف تو کہتے ہیں کہ اس وقت نفل نماز ادا نہ کریں، بلکہ خطبہ سنیں۔لیکن ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ایک آدمی آکر بیٹھنے لگا تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کے لیے کہا۔(کتاب الصلوۃ، باب اذا دخل الرجل والامام یخطب، حدیث نمبر ۱۱۱۵)
عمارناصر: یہ سلیک غطفانی کا واقعہ ہے۔احناف یہ کہتے ہیں اور قرائن بھی یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت اصل مقصد اس کو نماز پڑھوانا نہیں تھا۔ورنہ تو ایک عمومی حکم بن جاتا کہ جو بھی آئے اور امام خطبہ دے بھی رہا ہو تو وہ نوافل پڑھے۔اصل حکم تو یہ ہے کہ امام جب آگیا تو خطبہ خود نماز کا ایک حصہ ہے۔مجھے اس میں احناف کی بات زیادہ وزنی لگتی ہے کہ اس صحابی کو ایک خاص مقصد کے لیے آپ ﷺ نے کھڑاکیا تھا۔وہ بیان بھی ہوئی ہے کہ اس پر مفلوک الحالی نمایاں تھی۔آپ نے اس کو کھڑا کر کے لوگوں کو صدقے کی ترغیب دی اور اس کے لیے کچھ سامان جمع ہو گیا۔
(جاری)
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۶)
مولانا سمیع اللہ سعدی
2۔ اساتذہ و تلامذہ کے بعد کتبِ رجال کا ایک اہم ترین مقصد راوی کا حدیثی مقام یعنی اس کے بارے میں ائمہ محدثین کی کی گئی جرح و تعدیل ذکر کرنا ہے، شیوخ و تلامذہ سے راوی کا زمانہ، طبقہ متعین ہوتا ہے اور جرح و تعدیل سے اس کی روایت کی حیثیت معلوم ہوتی ہے، اس سلسلے میں اہل سنت و اہل تشیع کے رجالی تراث کا ایک تقابلی مطالعہ پیشِ خدمت ہے:اہل سنت کتب ِ رجال اور جرح و تعدیل
اہل سنت کتب ِ رجال میں ہر راوی کے تذکرے میں خصوصیت کے ساتھ جرح و تعدیل کا ذکر ہوتا ہے، جرح و تعدیل کے یہ اقوال حفاظ محدثین اور جرح و تعدیل کے مستند ائمہ سے سند کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں، خواہ اقوالِ جرح ہوں، یا اقوال ِ تعدیل، ذیل میں اس حوالے سے چند تراجم کتب ِ رجال سے نقل کیے جاتے ہیں:
- ابن ابی حاتم رازی اپنی کتاب الجرح و التعدیل میں ایوب بن جابر یمامی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
ايوب بن جابر اليمامي وهو أخو محمد بن جابر الحنفي روى عن حماد بن أبي سليمان وأبي إسحاق وعبد الله بن عصم روى عنه أبو داود الطيالسي وخالد بن مرداس والحسين بن محمد المروزي ويوسف بن عدي، يعد في اليماميين سمعت أبي وأبا زرعة يقولان ذلك
حدثنا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد بن حنبل فيما كتب إلي قال قال أبي: أيوب بن جابر يشبه حديثه حديث أهل الصدق
حدثنا عبد الرحمن نا محمد بن إبراهيم عن عمرو بن علي ان ايوب ابن جابر صالح قد روى عنه.حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري قال قلت ليحيى بن معين: أيوب بن جابر كيف كان حديثه؟ قال هو ضعيف، قلت هو كان أمثل أو أخوه -محمد؟ قال [ولا واحد منها.
حدثنا عبد الرحمن نا أحمد بن عصام قال كان علي بن المديني يضعف حديث أيوب بن جابر.سمعت أبي يقول: أيوب بن جابر ضعيف الحديث
قال وسئل أبو زرعة عن أيوب بن جابر فقالواهي الحديث ضعيف وهو أشبه من اخيه1
اس ترجمہ میں ابن ابی حاتم رازی نے امام احمد بن حنبل سے سند کے ساتھ ایسا قول نقل کیا، جو اس کی تعدیل کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جبکہ امام یحیی بن معین، علی ابن مدینی، اپنے والد امام ابو حاتم رازی اور امام ابو زرعہ سے اس راوی کی تضعیف نقل کی ہے، یہ سب اقوال مصنف نے ان ائمہ سے سند متصل کے ساتھ نقل کیے ہیں ۔
- امام بخاری رحمہ اللہ الضعفاء الصغیر میں ابان ابی عیاش کے ترجمہ میں رقم طراز ہیں:
أبان بن أبي عياش: وهو أبان بن فيروز أبو إسماعيل البصري، عن أنس، كان شعبة سيئ الرأي فيه، حدثنا محمد، ثنا يحيى بن معين، عن عفان عن أبي عوانة، قال: لما مات الحسن اشتهيت كلامه، فجمعته من أصحاب الحسن، فأتيت أبان بن أبي عياش، فقرأه علي عن الحسن، ما أستحل أن أروي عنه شيئا2
اس ترجمہ میں امام بخاری رحمہ اللہ نے امام شعبہ اور امام ابو عوانہ سے اس راوی کی تضعیف نقل کی ہے۔
- حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تہذیب التہذیب میں اسماعیل بن ابا ن الوراق کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:
إسماعيل" بن أبان الوراق الأزدي أبو إسحاق ويقال أبو إبراهيم الكوفي. روى عن عبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل وإسرائيل ومسعر وعبد الحميد بن بهرام وأبي الأحوص وعيسى بن يونس وعبد الله بن إدريس وابن المبارك وخلق. وعنه البخاري وروى له أبو داود1 والترمذي بواسطة وأحمد بن حنبل ويحيى بن معين وأبو خيثمة وعثمان بن أبي شيبة والقاسم بن زكريا بن دينار والدارمي وأبو زرعة وأبو حاتم والذهبي ويعقوب بن شيبة وجماعة من آخرهم إسماعيل سمويه وأبو إسماعيل الترمذي. قال أحمد بن حنبل وأحمد بن منصور الرمادي وأبو داود ومطين: "ثقة" وقال البخاري: "صدوق" وقال النسائي: "ليس به بأس" وقال ابن معين: إسماعيل بن أبان الوراق ثقة وإسماعيل بن أبان الغنوي كذاب" وقال الجوزجاني: "إسماعيل الوراق كان مائلا عن الحق ولم يكن يكذب في الحديث" قال ابن عدي: "يعني ما عليه الكوفيون من التشيع وأما الصدق فهو صدوق في الرواية" قال محمد بن عبد الله الحضرمي مات سنة "216". قلت: وقال البزار: "وإنما كان عيبه شدة تشيعه لا على أنه عير عليه في السماع" وقال الدارقطني: "ثقة مأمون" وقال في سؤالات الحاكم عنه: "أثنى عليه أحمد وليس هو عندي بالقوي" وقال ابن شاهين في الثقات: "قال عثمان بن أبي شيبة إسماعيل بن أبان الوراق ثقة صحيح الحديث" قيل له فإن إسماعيل بن أبان عندنا غير محمود فقال: "كان ها هنا إسماعيل آخر يقال له بن أبان غير الوراق وكان كذابا" وقال أبو أحمد الحاكم: "ثقة" وذكره ابن حبان في الثقات وقال ابن المديني: "لا بأس به وأما الغنوي فكتبت عنه وتركته" وضعفه جدا وقال جعفر بن محمد بن شاكر الصائغ ثنا إسماعيل بن أبان الوراق أبو إسحاق الكوفي: "وكان ثقة"3
اس ترجمہ میں حافظ ابن حجر نے ایک راوی سے متعلق درجہ ذیل 16 کبار ائمہ و حفاظ کے اقوال نقل کئے ہیں:
امام احمد بن حنبل، امام احمد بن منصور رمادی، امام ابو داود، امام محمد بن عبد اللہ حضرمی مطین، امام بخاری، امام نسائی، امام یحیی ابن معین، امام جوزجانی، امام ابن عدی، امام بزار، امام دار قطنی، امام ابن شاہین، امام عثمان ابن ابی شیبہ، امام ابو احمد الحاکم، امام ابن حبا ن، امام ابن المدینی،
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کتب میں راوی کے حدیثی مقام سے متعلق کتنا تفصیلی مواد موجود ہے ۔
اہل تشیع کتبِ رجال اور جرح و تعدیل
اہل تشیع کے اولین مصادر ِ رجال، رواۃ کے بارے میں ائمہ محدثین یا ائمہ (معصومین ) کی توثیق و تضعیف کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں، قلیل رواۃ کے بارے میں ایک آدھ قول توثیق یا تضعیف کا مل جاتا ہے، ہر راوی کی تعدیل یا تجریح اور وہ بھی متعدد ائمہ و اہل علم سے، جیسا کہ اہل سنت کے مصادر ِ رجال کا عام طرز ہے، اہل تشیع کی اولین کتب اس وصف سے خالی ہیں، شیعہ محققین کو بھی اس بات کا ادراک ہے، ذیل میں اولا شیعہ محققین کی اس بابت رائے نقل کی جاتی ہے، اس کے بعد بطورِ نمونہ ان کتب سے چند تراجم نقل کئے جائیں گے:
عراق کے معروف شیعہ مجتہد و محقق، جن کی بعض کتب نجف کے حوزہ علمیہ میں درسا پڑھائی جاتی ہیں، شیخ محیی الدین موسوی غریفی اپنی ضخیم کتاب "قواعد الحدیث" میں رجال کے اولین مصادرِ ستہ (رجال نجاشی، فہرست طوسی، رجال طوسی، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، رجال ابن الغضائری اور رجال البرقی ) کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ولیس فی تلک الاصول الرجالیہ الستۃ کتاب شامل لجمیع رواۃ احادیثنابحیث یکشف عن حالھم توثیقا و تضعیفا و مدحا و جرحا"4
یعنی ان چھ کتب رجالیہ میں کوئی ایسی کتب نہیں ہے، جو ہماری احادیث کے جمیع رواۃ کے احوال باعتبار ِ توثیق، تضعیف اور جرح و مدح کے واضح کرتے ہوں ۔
اس کے بعد شیخ غریفی نے اصولِ ستہ میں سے ہر ایک کے بارے میں مزید اپنی تحقیقی رائے دی ہے، چنانچہ رجال ِ کشی کے بارے میں رقم طراز ہیں:
"فالشیخ الکشی اقتصر فی کتاب رجالہ علی الرواۃ الذین ورد فیھم احادیث مدحا او ذما و اہمل الباقین جمیعا، وبتعبیر آخرانہ اقتصر علی ذکر الروایات فی حق الرواۃ علی ان کتابہ قد رماہ النجاشی بکثرۃ الاغلاط"5
یعنی شیخ کشی نے اپنی کتاب میں صرف ان رواۃ کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے، جن کے بارے میں کوئی مدح یا ذم کی حدیث منقول ہے اور باقی سب کو چھوڑ دیا ہے، دوسرے لفظوں میں شیخ کشی نے صرف رواۃ کے حق میں منقول روایات ذکر کی ہیں، نیز شیخ نجاشی نے اس کتاب کے بارے میں کثرت ِ اغلاط کا دعوی کیا ہے ۔
شیخ طوسی کی رجال ِ طوسی کے بارے میں شیخ غریفی لکھتے ہیں:
"لم یلتزم بالتصریح بالتوثیق فی کل مورد یقتضیہ فکان غرضہ استقصاء الرواۃ فحسب، وان صرح بتوثیق کثیرمنھم بالعرض، وعلیہ فلا یکون ترکہ لتوثیق راو دالا علی عدم وثاقتہ عندہ ولذا اہمل النص علی توثیق کثیر من وجوہ الرواۃ وثاقتھم"6
یعنی شیخ طوسی نے ہر راوی سے متعلق توثیق کی صراحت نہیں کی ہے، ان کا مقصد صرف رواۃ کا احاطہ تھا، اگرچہ شیخ طوسی نے بہت سے رواۃ کی توثیق بالتبع ذکر کی ہے، لہذا کسی راوی کی توثیق کا ترک کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ راوی ان کے نزدیک ثقہ نہیں ہے، اسی وجہ سے انہوں نے کئی اہم رواۃ کی توثیق ذکر نہیں کی ہے ۔
یہاں اس بات کا اعادہ مناسب ہوگا کہ شیخ طوسی کی کتاب ِ رجال اولین مصادر رجال میں سے عدد رجال کے اعتبار سے سب سے زیادہ ضخیم کتاب ہے، اس کتاب میں تقریبا ساڑھے چھ ہزار رواۃ کا ذکر ہے، اب ان چھ ہزار رواۃ میں سے کتنے رواۃ کی توثیق و تضعیف شیخ طوسی نے ذکر کی ہے، تو معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ اس حوالے سے اپنی کتاب "دروس تمیدیۃ فی تاریخ علم الرجال " میں رقم طراز ہیں:
"ان الطوسی لم یتعہد بتقویم من یورد اسماءھم من الرجال الرواۃ، الا انہ وثق 157 رجلا وضعف 72 رجلا ووصف 50 منھم بالمجاہیل و الباقی سکت عنھم، فلم یصفھم لا بالسلب و الا با لایجاب"7
یعنی شیخ طوسی نے اس کتاب میں رواۃ کی حدیثی درجہ بندی نہیں کی ہے، سوائے اس کے کہ 157 افراد کی توثیق، 72 افراد کی تضعیف کی ہے ، جبکہ 50 افراد کو مجاہیل میں شمار کیا ہے، باقی سے سکوت اختیار کیا ہے، ان کی نہ سلبی اور نہ ایجابی کوئی صفت بیان کی ہے ۔
ساڑھے چھ ہزار رواۃ میں سے صرف 280 رواۃ کے بارے میں جرح و تعدیل کا ذکر کرنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعہ اولین مصادر رجال اس حوالے سے کتنی تہی دامن ہیں ۔
شیخ غریفی اس کے بعد فہرست طوسی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ولم یجر الشیخ الطوسی فی فہرستہ علی ما وعد فی المقدمۃ من الاشارۃ الی ما قیل فیھم من التعدیل و التجریح حیث اہمل توثیق کثیر من وجوہ الرواۃ"8
شیخ طوسی نے مقدمے میں جو وعدہ کیا تھا کہ رواۃ کے بارے میں منقول جرح و تعدیل کا ذکر کیا جائے گا، اس بات پر شیخ قائم نہ رہ سکے، چنانچہ بہت سے نامی گرامی رواۃ کی توثیق ذکر نہیں کی ۔
اب شیخ نے کتنے رواۃ کی تقویم ذکر کی ہے، تو محقق حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
وثق الطوسی ھھنا 92 شخصا فقط ممن ذکرھم و ضعف 21 فقط منھم9
یعنی شیخ طوسی نے فہرست میں صرف 92 اشخاص کی توثیق اور 21 افراد کی تضعیف ذکر کی ہے ۔جبکہ حیدر حب اللہ کے بقول 912 اشخاص و رواۃ کا ذکر ہے، تو ان میں سے صرف 123 افراد کی توثیق یا تضعیف ذکر کی ہے، اس سے ان کتب رجالیہ میں رواۃ کی جرح و تعدیل پر مشتمل مواد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
شیخ غریفی رجال نجاشی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"وقد جرح و ضعف کثیر امن اولئک الرواۃ المولفین کما لم یوثق کثیر منھم"10
یعنی شیخ نجاشی نے کثیر مولفین رواۃ کی تضعیف کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بہت سے رواۃ کی توثیق بھی ترک کی ہے ۔
اگر قارئین کو شیخ غریفی کا رجال طوسی کے بارے میں "صرح بتوثیق کثیر منھم بالعرض " والا تبصرہ یاد ہے، کہ شیخ غریفی سارھے چھ ہزار میں سے 157 افراد کی توثیق کو کثیر من الرواۃ کہہ رہے تھے ، تو اس "وضعف کثیرا من اولئک الرواۃ" کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے رواۃ کی تضعیف کی ہوگی؟
شیخ حیدر حب اللہ نے بھی رجال نجاشی کے بارے میں اس جیسا تبصرہ کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
"لم یکن غرض النجاشی کما بینا حیت تالیفہ لکتابہ تقویم رواۃ الحدیث والرجال الذین یذکرھم فیہ الا انہ مع ذلک قیم جمعا ممن ذکرھم علی انحاء"11
یعنی نجاشی کا مقصد اس کتاب کی تالیف سے شیخ نجاشی کا مقصد رواۃ و رجال کی درجہ بندی کرنا نہیں تھا، اس کے باوجود شیخ نجاشی نے کئی طریقوں سے متعدد رواۃ کی تقویم ذکر کی ہے ۔
آخر میں شیخ غریفی رجال برقی کے بارے میں لکھتے ہیں:
"والبرقی لم یذکر فی کتابہ جرحا و لا تعدیلا للرواۃ و انما عد طبقاتھم بدون استیفاء"12
یعنی شیخ برقی نے اپنی کتاب میں رواۃ کی جرح و تعدیل زکر نہیں کی ہے، آپ نے بغیر احاطہ کئے رواۃ کے طبقات کا ذکر کیا ہے ۔
ان مصادر ِ رجالیہ میں سے صرف کتاب الضعفاء المعروف رجال ابن الغضائری وہ واحد کتاب ہے، جس کا مقصد ضعیف رواۃ کا ذکر ہے، لیکن اس کتاب کے بارے میں شیعہ اہل علم کے متعدد اختلافی ابحاث منقول ہیں، جیسے کہ اس کا ا صل مصنف کون ہیں ؟ کتاب کی استنادی حیثیت کیا ہے ؟ اس کتاب کی تضعیفات کا کیا مقام ہے؟اس کتاب کے بارے میں بعض مستند رواۃ کی تضعیف کی کیا تاویلات ہیں، یہ سب مباحث شیخ حیدر حب اللہ نے اپنی کتاب دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ (ص 132 تا ص142 ) بیان کئے ہیں، ان سب اختلافی مباحث کے باوجود یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کتاب میں کل 225 کے قریب رواۃ کا ذکر ہے ۔
ان چھ کتب رجال کے ساتھ اس دور کی دو اور کتب بھی قابلِ ذکر ہیں، ایک معروف شیعہ عالم و مورخ ابن شہر آشوب مازندرانی کی "معالم العلماء فی فہرسۃکتب الشیعۃ واسماء المصنفین قدیما و حدیثا " ہے، جبکہ دوسری کتاب چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم شیخ منتجب الدین رازی کی "فہرسۃ منتجب الدین " ہے، یہ دو کتب بھی شیعہ علم رجال کی اولین مصادر میں شمار کی جاتی ہیں، اگرچہ انہیں اصول اربعہ یا اصول خمسہ میں نہیں گنا جاتا، لیکن اصولِ رجالیہ کے زمانے کی کتب ہونے کی بنا پر ان کی بھی خاصی اہمیت ہے، یہ دونوں کتب بھی جرح و تعدیل کے اعتبار سے دیگر اصولِ رجالیہ کی طرح تہی دامن ہیں، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ معالم العلماء کے بارے میں لکھتے ہیں:
"نص المازندرانی علی وثاقۃ 44 شخصا و علی ضعف خمسۃ اشخاص آخرین"13
یعنی مازندرانی سے صرف 44 اشخاص کی توثیق اور صرف 5 اشخاص کی تضعیف بیان کی ہے، حالانکہ شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس میں کل 1021 اشخاص کے تراجم بیان ہوئے ہیں، یوں ہزار اشخاص میں سے صرف پچاس رواۃ کے بارے میں توثیق یا تضعیف ملتی ہے ۔ جبکہ فہرسۃ منتجب الدین میں دیگر کتب کی بنسبت اشخاص کی تعریف، توثیق زیادہ ملتی ہے، اگرچہ یہ کتاب بھی اصلا فہرسۃ الطوسی کی طرح شیعہ مصنفین کی ببلوگرافی ہے، اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ اس کی توثیق و تضعیف کو اہمیت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وفائدۃ الکتاب فی مجال التراجم اکثر منھا فی مجال التوثیق و التضعیف"14
لیکن اس کتاب میں ساڑھے پانچ سو کے قریب مصنفین کاذکر ہے، اگر ہم اس کا نصف بھی توثیق پر مشتمل مان لیں، تو پونے تین سو کے قریب رواۃ کی توثیق ثابت ہوتی ہے، جو ظاہر ہے شیعہ رواۃ کی کل تعداد کے اعتبار سے نہایت قلیل تعدادہے، اس کتاب سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں، تاکہ اس کتاب کی توثیق کا انداز واضح ہوسکے:
"السيد الاشرف بن الحسين بن محمد الجعفري.ثقة، فاضل
السيد مصباح الدين أبو ليلى احمد بن محمد بن احمد الحسينى عدل ثقة
الشيخ وجيه الدين أبو طاهر احمد بن (محمد بن احمد بن) ابى المعالى.فاضل، فقيه، ثقة15"
ان تین تراجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان تراجم میں راوی کے ساتھ صرف ثقہ یا فاضل کا لفظ ہے، اہل سنت کتب کی طرح(جن سے تراجم ما قبل میں ہم نقل کر چکے ہیں) متعدد ائمہ جرح و تعدیل سے سند متصل کے ساتھ راوی کی توثیق یا تضعیف کے بارے میں تفصیلی اقوال بالکل نہیں ہیں ۔
یوں اہل تشیع کے اولین مصادر رجال ، جن میں خصوصیت کے ساتھ رجال کے مصادر خمسہ (رجال نجاشی، فہرست طوسی، رجال طوسی، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، رجال ابن الغضائری )بھی شامل ہیں، جو شیعہ علم رجال کا منبع شمار ہوتی ہیں، ان کتب میں رواۃ کی توثیق یا تضعیف کا مواد نہ ہونے کے برابر ہیں، جن کا اقرار خود شیعہ محققین کو بھی ہے، کما مر
حواشی
- الجرح و التعدیل، ابن ابی حاتم رازی، ج2، ص 242، رقم الترجمہ:862
- الضعفاء الصغیر، امام بخاری ص29، رقم الترجمہ:33
- تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ج2، ص269، رقم الترجمہ:506
- قواعد الحدیث، الغریفی، ج1، ص191
- ایضا:ج1، ص192
- ایضا:ج1، ص 196
- دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص 144
- قواعد الحدیث، ج1، ص 194
- دروس تمہیدیۃ ص 158
- قواعد الحدیث، ج1، ص 192
- دروس تمہیدیہ:ص 125
- قواعد الحدیث:ج1، ص 196
- ایضا:ص167
- دروس تمہیدیۃ، ص 165
- فہرست شیخ منتجب الدین، منتجب الدین رازی، ص36
(جاری)
خاندانی نظام اور سیڈا معاہدہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سعودی وزیر خارجہ محترم عادل الجبیر نے ایک اعلامیے میں خاندانی نظام کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدہ سیڈا (CEDAW) کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے منظور کیا جانے والا قانون بھی سیڈا کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے جسے دینی حلقوں نے خلافِ شریعت قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ اس تناظر میں مولانا حافظ فضل الہادی (نائب خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ) نے مذکورہ اعلامیہ کا ترجمہ کیا ہے جو پیشِ خدمت ہے۔
’’سعودی عرب نے (سیڈا) CEDAW سے متعلق اقوام متحدہ کی دستاویز کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جسے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا ہے۔ سعودی عرب اسلامی شریعت کی دفعات کو کافی سمجھتے ہوئے سیڈا کے عدمِ تعمیل کا اعلان کرتا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ عرب ممالک نے سیڈا سے اتفاق کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو سیڈا معاہدے سے لاعلم ہیں، اس کی وضاحت یہ ہے:
- سیڈا کہتا ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اور قرآن کہتا ہے ’’وليس الذكر کالانثٰی‘‘ (اور مرد عورت کی طرح نہیں ہے۔)
- سیڈا کا فیصلہ ہے کہ مرد کو تعدد ازدواج کی اجازت نہیں ہے۔ اور قرآن کا اعلان ہے ’’فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنٰی وثلاث ورباع‘‘ (تو پھر جتنی عورتوں سے چاہو نکاح کر لو، دو دو، تین تین اور چار چار۔)
- سیڈا کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ بچوں کے نام ان کی ماؤں کے نام پر رکھے جائیں۔ اور قرآن کہتا ہے ’’ادعوھم لآباءھم‘‘ (تم ان کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو۔)
- سیڈا کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورت کی عدت نہیں۔ اور قرآن واضح کرتا ہے ’’والمطلقات يتربصن بانفسھن ثلاثة قروء‘‘ (طلاق شدہ عورتیں خود تین حیض آنے تک انتظار کرتی رہیں۔)
- سیڈا کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ مرد کو عورت پر سرپرستی حاصل نہیں ہے اور باپ کو اپنی بیٹیوں کی سرپرستی نہیں۔ اور قرآن کہتا ہے ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ (مرد عورتوں کے نگران ہیں۔)
- سیڈا کا کہنا ہے کہ مرد اور عورت کی میراث ایک ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’للذكر مثل حظ الانثيين‘‘ (مرد کا دو عورتوں کے برابر حصہ ہوگا۔)
- سیڈا کا کہنا ہے کہ ایک مرد اپنے جیسے مرد سے شادی کر سکتا ہے، ایک عورت اپنے جیسی عورت سے شادی کر سکتی ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’اتاتون الذكران من العالمين‘‘ (جہان کے سارے لوگوں میں سے تم ہو جو مردوں کے پاس جاتے ہو۔)
- سیڈا خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق دیتا ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’ولا تقتلوا اولادكم‘‘ (اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو)۔
- سیڈا میاں بیوی دونوں کے لیے شادی سے باہر جنسی تعلقات کو جرم نہیں قرار دیتا۔ اور قرآن کہتا ہے ’’ولا تقربوا الزنا انہ كان فاحشۃ وساء سبيلا‘‘ (زنا کے قریب نہ جاؤ، کیونکہ یہ بے حیائی اور برا راستہ ہے)۔
- سیڈا کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورت جس سے چاہے پابند، جب چاہے جدا، اور جب چاہے دوبارہ جڑ جائے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’محصنات غير مسافحات ولا متخذات أخدان‘‘ (باقاعدہ شادی کرنے والیاں ہوں، نہ علانیہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں۔)
- سیڈا کہتا ہے کہ شادی کی عمر اٹھارہ سال کے بعد ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’وابتلوا اليتامٰی حتٰی اذا بلغوا النكاح‘‘ (اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائیں)
جو شخص سیڈا (CEDAW) کے ساتھ کھڑا ہونا اور اس کا دفاع کرنا چاہتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالٰی کا نافرمان ہے اور اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کا انکار کرتا ہے۔ اس کی سرگرمی دراصل قدامت پسند معاشرے کو تحلیل کرنے کے لیے تندہی سے کام کرنا ہے اور اسے ہوس و بگاڑ کی طرف دھکیلنے کے لیے کام کرنا ہے۔‘‘
افغانستان کا بحران اور ہمارا افسوسناک طرزعمل
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
روزنامہ اسلام لاہور ۲۷ نومبر ۲۰۲۱ء کی خبر کے مطابق امارتِ اسلامی افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی محمد امیر خان متقی اپنے وفد کے ہمراہ دوحہ پہنچ گئے ہیں جہاں وہ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے حوالہ سے امریکی حکمرانوں سے مذاکرات کریں گے۔ جبکہ اخبار کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چوھدری نے اسلام آباد میں اے پی پی کے ملازمین کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلحہ کی جنگ تو ختم ہو گئی اب باتوں کی جنگ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جنگ ساڑھے تین گھنٹے میں ختم ہو گئی تھی جب کابل کے حکمران بھاگ گئے تھے اور امریکہ جنگ ہار گیا تھا مگر اب باتوں اور بیانیہ کی جنگ جاری ہے۔
ہمارے خیال میں فواد چوہدری نے موجودہ صورتحال کے حوالہ سے ایک اہم سوال کا جواب دیا ہے کہ جب تمہاری جنگ ختم ہو گئی ہے تو اب کیا ہو رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نئے مرحلہ کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے جس کے لیے دوحہ میں مذاکرات کے ایک اور دور کا آغاز ہو گیا ہے؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس کی وجہ باتوں اور بیانیہ کی جنگ کو قرار دیا ہے اور ہمیں اس حد تک ان کی بات سے اتفاق ہے کہ اب جنگ باتوں اور بیانیہ کی ہے، مگر اس سے اگلی بات بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف باتوں کی جنگ نہیں بلکہ نظریات اور تہذیب و ثقافت کی جنگ ہے جس کے ذریعے میدانِ جنگ میں افغان طالبان کے ہاتھوں واضح شکست سے دوچار ہونے والی قوتیں اس جنگ کے مقاصد کو معاشی دباؤ اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے حاصل کرنے کے درپے ہیں، اور امریکی اتحاد اس کوشش میں ہے کہ فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کے غلبہ کا جو ایجنڈا وہ ہتھیاروں کی جنگ میں پورا نہیں کر سکا اس کی تکمیل کے لیے سیاسی، معاشی اور نفسیاتی ہتھیاروں کو بروئے کار لا کر اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کر لیا جائے۔
ہمارے نزدیک اس وقت افغان قوم تین بحرانوں سے دوچار ہے جو زیادہ تر مصنوعی ہیں اور امریکہ اور اس کے حواریوں کی پیدا کردہ ہیں:
- افغانستان کی آزادی اور خود مختاری کو افغان قوم کے کسی فیصلہ کے علی الرغم بین الاقوامی معاہدات اور مغرب کے سیاسی شکنجے میں جکڑ لیا جائے تاکہ وہ ان بین الاقوامی معاملات کے بارے میں آزادی کے ساتھ خود کوئی فیصلہ نہ کر سکیں۔
- امارتِ اسلامی افغانستان کو ملک میں اسلامی شریعت کے نفاذ اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے مطابق کوئی نظام قائم کرنے سے ہر قیمت پر روکا جائے۔
- افغانستان کو معاشی ناکہ بندی اور بائیکاٹ کے ذریعے ایسے حالات سے دوچار کر دیا جائے کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پر کوئی نظم قائم نہ کر سکے اور سنگین ترین معاشی بحران کو حل کرنے کی بجائے مسلسل بڑھاتے ہوئے افغان قوم کو مغربی فلسفہ و ثقافت کو بہرحال اختیار کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔
اس مقصد کے لیے نہ صرف یہ کہ امارتِ اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے بلکہ دنیا کو ان کی معاشی امداد سے دور رکھنے کے لیے ہر قسم کے دباؤ اور حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ حتٰی کہ امارت اسلامی افغانستان کے اس تقاضے کو بھی بے رحمانہ انداز میں نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ اگر خود افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کر دیے جائیں تو وہ کسی اور بیرونی مدد کے متقاضی نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ مسلسل ہو رہا ہے، ساری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جس میں مغربی ملکوں اور استعماری قوتوں کا کردار تو سمجھ میں آتا ہے مگر مسلّمہ مسلم ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کا طرز عمل کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’المسلم اخو المسلم لا یَظلمہ ولا یُسلمہ‘‘ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو ظلم کے لیے کسی اور کے حوالے کرتا ہے۔ جبکہ امت مسلمہ اس وقت خاموش تماشائی دکھائی دے رہی ہے بلکہ جب بھی کسی عملی کردار کا موقع آتا ہے تو اس کا وزن اور جھکاؤ منفی نظر آنے لگتا ہے۔ ان حالات میں مسلم حکومتوں سے کسی خیر کی توقع تو اب نظر نہیں آتی مگر علم و دانش اور رائے عامہ کا وہ میدان ضرور موجود ہے جس میں اربابِ فکر و دانش اگر کچھ کرنا چاہیں تو اس کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔
اس لیے ہم اربابِ علم و دانش سے گزارش کریں گے کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہنے کی بجائے اپنے کردار کو مؤثر طریقہ سے ادا کرنے کی کوئی صورت پیدا کریں۔ جبکہ اصحابِ ثروت سے بھی یہی گزارش ہے کہ اس سنگین معاشی بحران میں اپنے افغان بھائیوں کی امداد پر سنجیدہ توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
سیالکوٹ کے واقعے پر علماء کرام کا متفقہ اعلامیہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
سات دسمبر منگل کا دن اسلام آباد میں خاصا مصروف گزرا، اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سیالکوٹ کے سانحہ کے حوالہ سے سرکردہ علماء کرام کی باہمی مشاورت اور سری لنکا کے ہائی کمیشن میں تعزیت اور اظہار یکجہتی کے لیے حاضری کے پروگرام میں شرکت کا پیغام ملا تو اطمینان ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قسم کے اہم مسائل پر کردار ادا کرنے کا عزم کیا ہے۔ دونوں پروگراموں میں حاضری ہوئی اور اس موقع پر دیگر بعض سرکردہ حضرات کی طرح میں نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ کونسل اس قسم کے اہم قومی و ملی معاملات میں اس نوعیت کے کردار کا تسلسل قائم رکھے گی۔ اس سلسلہ میں کونسل کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ درج ذیل ہے:
’’سیالکوٹ کے دلخراش و افسوسناک واقعہ پر پاکستان بھر کے جید علماء کرام و اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی سربراہی میں سری لنکن سفیر سے ملاقات و اظہار افسوس اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، مفتیان، عظام و مشائخ کی پریس کانفرنس:
شرکاء پریس کانفرنس: (۱) ڈاکٹر قبلہ ایاز ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل (۲) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان (۳) مولانا انوار الحق حقانی، نائب صدر وفاق المدارس العربیہ(۴) مولانا زاہد الراشدی، سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل (۵) قاری محمد حنیف جالندھری، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ (۶) مولانا عبد الخبیر آزاد، چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی (۷) مولانا عبد الخیر زبیر (۸) مولانا پیر نقیب الرحمن (۹) پیر علی رضا بخاری (۱۰) علامہ حامد سعید کاظمی (۱۱) صاحبزادہ حسان حسیب الرحمن (۱۲) حافظ طاہر محمود اشرفی (۱۳) مولانا مفتی عبد الرحیم، جامعۃ الرشید کراچی (۱۴) ڈاکٹر حبیب الرحمن (۱۵) مولانا محمد طیب طاہری (۱۶) علامہ امین شہیدی (۱۷) علامہ عارف واحدی (۱۸) سینٹر پروفیسر ساجد میر (۱۹) مولانا یوسف کشمیری (۲۰) پیر حبیب الحق (۲۱) پیر حبیب عرفانی (۲۲) پیر خالد سلطان اور دیگر سرکردہ حضرات۔
مشترکہ اعلامیہ:
ہم آج سری لنکن سفارت خانے میں ۳ دسمبر کے اندوہناک واقعہ پر اظہارِ تعزیت اور اظہارِ یکجہتی کرنے آئے ہیں۔ سیالکوٹ کا حالیہ سانحہ ایک المیہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں غم و غصہ پھیل گیا ہے۔ ہجوم کی صورت میں بے رحمانہ انداز میں ایک انسان کو مارا پیٹا گیا اور بالآخر موت کے گھاٹ اتار کر اس کی لاش جلائی گئی۔ ماورائے عدالت قتل کا یہ ایک بھیانک واقعہ ہے، بغیر ثبوت کے توہین مذہب کا الزام لگانا غیر شرعی حرکت ہے۔ یہ پوری صورتحال قرآن و سنت، آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ملک میں رائج جرم و سزا کے قوانین کے سراسر خلاف ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سمیت پاکستان بھر کے مستند علماء نے بھر پور طریقے سے اس کی مذمت کی ہے۔
عاقبت نا اندیش عناصر کا یہ اقدام ملک و قوم، اسلام اور مسلمانوں کی سبکی کا باعث بنا ہے۔ علاوہ ازیں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی قومی دستاویز جس میں ایسے ہر قسم کے مسلح اقدام کی نفی کی گئی، یہ اقدام اس سے سراسر انحراف ہے۔ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کو پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور مدارس بورڈز کی تائید حاصل ہے۔ ان شر پسند افراد کے خلاف رائج ملکی قوانین کے مطابق سخت سے سخت قانونی اقدامات کئے جائیں۔ اس تکلیف دہ واقعہ میں امید کی ایک کرن یہ تھی کہ ایک نوجوان ملک عدنان نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر اس قتل ہونے والے بے گناہ شخص کو بچانے کی بھر پور کوشش کی، اس نو جوان کا یہ اقدام قابل تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کے لیے ’’تمغۂ شجاعت‘‘ دینے کا اعلان کر کے ایک بہت مستحسن اقدام کیا ہے۔
آج کا نمائندہ اجتماع قرار دیتا ہے کہ اسلام میں تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے، لہذا علماء کرام اعتدال پسندی کو فروغ دیں، انتہا پسندی کو روکنے کے لیے معاشرے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ ملک پاکستان امن اور آشتی کا گہوارہ بن جائے۔‘‘
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱)
ڈاکٹر شیر علی ترین
اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا مقدمہ)
تعارف
ستمبر 2006 میں عابد علی نے، جس کا تعلق شمالی ہندوستان کے شہر مراد آباد سے تقریبًا بارہ میل کے فاصلے پر واقع گاؤں احرار اللہ سے ہے، کئی دہائیوں سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے باوجود اپنی پچھتر سالہ بیوی اصغری علی کے ساتھ تجدیدِ نکاح کی۔ ۔ چند ہفتے پہلے ان نکاح ٹوٹ گیا تھا، کیوں کہ انھیں ایک مقامی مسلمان مولوی عبد المنان کریمی نے دیگر دو سو افراد سمیت کافر قرار دیا تھا۔ کریمی نے یہ انتہا پسندانہ فتوی اس وقت صادر کیا جب اسے پتا چلا کہ حال ہی میں اس کے گاؤں میں وفات پانے والے ایک بزرگ شخص کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ نماز جنازہ میں شرکت کوئی قابل اعتراض امر نہیں تھا۔ تا ہم کریمی کے خیال میں گاؤں کے لوگوں نے مخالف مسلک کے امام کے پیچھے نمازِ جنازہ ادا کرکے ایک سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا1۔
کریمی اور وہ دو سو لوگ جنھیں اس نے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا، دونوں کا تعلق سنی اسلام کے معروف بریلوی مسلک سے تھا۔ جنازے کی امامت کرنے والے مولوی ابو حفیظ محمد کا تعلق تاریخی مسلکِ دیوبند سے تھا۔ جنازے کے دن چونکہ مقامی مولوی موجود نہیں تھا، اس لیے ابوحفیظ نے قائم مقام امام کی حیثیت سے نماز جنازہ پڑھا دی۔ کریمی کے نزدیک ایک دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کا عقیدہ باطل ہو گیا تھا اور اسی وجہ سے ان میں سے شادی شدہ افراد نکاح ٹوٹ گیا تھا۔کریمی کا پرزور اصرار تھا کہ دائرہ اسلام میں واپسی کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ توبہ کریں، از سرِنو کلمہ پڑھیں، اور عقدِ نکاح کی تجدید کریں۔ اس کے الفاظ یہ تھے: "توبہ کرو، کلمہ پڑھو اور نکاح پڑھواؤ"۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک عوامی تقریب میں سو سے زیادہ جوڑوں نے نکاح کی تجدید کی۔ فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے کریمی نے بڑے پرجوش انداز میں کہا: "یہ شادیاں ہر قسم کی نمود ونمائش سے پاک ہیں۔ صرف دوگواہوں کی موجودگی کی شرط پوری کی گئی ہے"2۔
شمالی ہندوستان میں رونما ہونے والے اس عجیب وغریب واقعے کے چند سال بعد، سرحد پار پاکستان میں واقعات کے ایک غیر مربوط سلسلے نے دیوبندی بریلوی مخاصمت کو غیر معمولی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ اگلا قصہ اس جاری کش مکش کے فریقوں اور علم برداروں کی مزید وضاحت کرتا ہے۔
10جنوری 2011 کو پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مظفر گڑھ کے ایک مقامی امامِ مسجد محمد شریف اور اس کے بیٹے محمد اسلم کو توہینِ رسالت کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔ دراصل انھیں 2010 میں اپنے خاندان کے ایک کریانہ سٹور پر عید میلاد النبیؐ کی تقریب سے متعلق اشتہاری پوسٹر کو ہٹانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
اس تقریب کے منتظمین کے مطابق، جنھوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا، شفیع اور اسلم نے پوسٹر کو پھاڑا تھا اور اسے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ باپ اور بیٹے دونوں پر پاکستان کے متنازعہ قانونِ توہینِ رسالت کے تحت مقدمہ بنایا گیا۔ نظری اعتبار سے یہ قانون کسی بھی معروف مذہب کی توہین کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ تاہم عملاً اس کا اطلاق اکثر وبیتر ان افراد پر ہوتا ہے جو توہینِ رسالت کے جرم میں ملوث پائے گئے ہوں۔ جرم کی سزا تعزیری جرمانوں سے لے کر سزائے موت تک ہے۔
شفیع اور اسلم کے خلاف عدالتی فیصلہ پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کے ہیجان انگیز قتل کے چھ دن بعد صادر ہوا۔ سلمان تاثیر کو اس کے ذاتی محافظ ممتاز قادری نے گولی مار دی تھی جس کے خیال میں گورنر نے قانونِ توہینِ رسالت کی مخالفت کرکے سنگین گناہ کا ارتکاب کیا تھا3۔اس سنسنی خیز واقعے کے بعد پاکستان میں متعدد سیاستدانوں، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے توہینِ رسالت کے قانون کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت میں کہا کہ یہ فرقہ وارانہ تشدد کو ابھارتا ہے، اور اسے ذاتی انتقام کی تسکین کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان احتجاجی جلسوں میں شفیع اور اسلم کے وکیل صفائی عارف گورمانی بھی شریک تھے۔
گورمانی کا دعویٰ تھا کہ اس کے موکلوں کو سزا دیتے وقت عدل وانصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ اس کے خیال میں اس کے موکل سنیوں کے درمیان موجود بین المسالک چپقلش کی زد میں آ گئے ہیں۔ گورمانی نے کہا: "دونوں (مدعی اور مدعیٰ علیہ) مسلمان ہیں۔ یہ کیس سنی مسلمانوں کے درمیان دیوبندی بریلوی اختلاف کا شاخسانہ ہے۔ میں ان کی وکالت اس لیے کر رہا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ توہینِ رسالت کے جرم میں ملوث نہیں ہیں"4۔ اس کے موکلوں کا تعلق دیوبندی مکتبِ فکر سے تھا۔
سنی اسلام کے دیوبندی اور بریلوی مسالک میں فرقہ وارانہ چپقلش، جس کی طرف گورمانی نے اشارہ کیا، مسلمان علما کے درمیان مناظرانہ بحثوں کے اضطراب انگیز لیکن اہم سلسلے سے تعلق رکھتی ہے جس کا آغاز انیسویں صدی کے شمالی ہندوستان میں ہوا۔ شفیع کی طرف سے عید میلاد النبیؐ کے اشتہار کی بے حرمتی سے جنم لینے والے تنازع کی طرح انیسویں صدی کے اس مباحثے نے جنوبی ایشیائی اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی مقام اور حیثیت کے حوالے سے متصادم تصورات کو جنم دیا تھا۔ اس نے ایک ایسے پیچیدہ شرعی مسئلے کو موضوعِ فکر بنایا جو کئی صدیوں تک مسلمانوں کے دماغوں پر حاوی رہا، یعنی یہ کہ مسلمان معاشرہ کس طریقے سے حضور ﷺ کی یاد کو تازہ رکھے اور آپ کے اسوہ پر عمل کرے؟
زیر نظر کتاب بریلوی دیوبندی اختلاف کا پہلا جامع مطالعہ ہے۔ یہ ایک مناظرانہ جنگ ہے جس نے جنوبی ایشیا میں اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو انتہائی گہرے انداز میں تشکیل دیا ہے۔ اس مناظرانہ جنگ کو شروع ہوئے لگ بھگ دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے، تاہم اس کی گرفت مابعد استعمار دور میں بھی جنوبی ایشیا کے مقامی مسلمانوں اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تارکین وطن کی مذہبی حساسیتوں پر آج بھی قائم ہے5۔ اس تنازع کے استدلالات، تحریری سرمایے اور ماحول نے ناقابل تنسیخ طریقے سے اس نہایت اہم سوال کی تشکیل کی ہے کہ جدید دنیا میں، جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں کس چیز کو حقیقی اسلام کا اور ایک معیاری مسلم شناخت کا درجہ حاصل ہے۔
جیسا کہ ان دو واقعات سے، جن سے میں نے بات کا آغاز کیا ہے، معلوم ہوتا ہے، دیوبندی بریلوی اختلاف محض ایک علمی چپقلش کا معاملہ نہیں۔ اس مباحثے کے فریقوں اور علمبرداروں کے درمیان اختلاف کا سلسلہ اسلام کے روزمرہ معمولات کو محیط ہے اور توہینِ رسالت کی تعریف سے لے کر اس سوال تک پھیلا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اخلاقی اور روحانی زندگی کی تشکیل کس نمونے پر کی جائے۔ تاہم عموماً عوامی اور علمی مباحثوں میں بریلوی دیوبندی اختلاف کا مطالعہ ا بعض بظاہر بہت مضبوط لیکن درحقیقت سطحی موازنوں کے فریم ورک میں کیا جاتا ہے، مثلا فقہی اسلام اور صوفی اسلام، خالص اسلام اور عوامی اسلام، تحدید پسند اسلام اور شمولیت پسند اسلام، روایتی اسلام اور احیائی اسلام وغیرہ۔ ان باہم دگر جُڑے موازنوں میں بالعموم جس موازنے کو بریلوی دیوبندی اختلاف کی توضیح کے طور پر شاید سب سے زیادہ پیش کیا جاتا ہے، وہ فقہی/صوفی موازنہ ہے۔ اس اختلاف کو، جیسا کہ میں اس تعارف میں واضح کروں گا، بکثرت اسلام کی صوفی اور فقہی روایات یا فقہ وتصوف کے درمیان ایک دائمی اختلاف کا ایک مظہر سمجھا جاتا ہے۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کے داخلی استدلالات کی گہری تحقیق کی روشنی میں، زیر نظر کتاب ایسے تقابلی تشریحات وتوضیحات کی فکری کم مایگی اور کجی سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ تقابلی موازنے انسانی زندگی اور مذہب کے دائرۂ کار کی تحدید کے کے حوالے سے لبرل سیکولر ازم کے انداز فکر کی غمازی کرتے ہیں جس کی ناکامی طے شدہ ہے۔ سادہ فکری پر مبنی اور سیاسی طور پر نقصان دہ اور گمراہ کن ہیں۔
میں ایک ایسے متبادل فکری منہج کی وکالت کرتا ہوں جو مذہب کے حدود کی تعیین کے لیے پیش کیے گئے ان متصادم بیانیوں کو روایت اور تجدید ے دو حریف فکری سانچوں (competing rationalities)کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان سانچوں کو تشکیل دینے والے فریق یہ کوشش کرتے ہیں کہ خاص حکمت عملی کے ذریعے سے دینی روایت کی تعیین وتحدید کے اختیار پر اپنا استحقاق ثابت کر سکیں۔ وہ اپنے مد مقابل بیانیوں کی اہمیت کو گھٹانے کی جدوجہد کرتے ہیں تا کہ قطعیت سے یہ بتا نے کا اختیار صرف ان کے پاس ہو کہ کس چیز کو مذہب سمجھنا چاہیے اور کس کو نہیں۔ اس عمل میں حکمت عملی کے طور پر تکفیر وتضلیل (exclusion) کی کئی صورتیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر مخالفین کے دلائل کی داخلی بے ربطی کو واضح کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے ماضی کے مستند دلائل کے ساتھ ان کا تضاد دکھا کر ان عناصر کی ثقاہت کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے، جنھوں نے مخالف دلائل تشکیل دیے ہیں، اور سب سے اہم یہ کہ ان کے مقابلے میں معیاری اسلام (normative)کا ایک متبادل اور متوازی تصور پیش کیا جاتا ہے۔
بحث ونزاع کے اس ماحول کو، جس میں برتری حاصل کرنے کے لیے مختلف استدلالی حکمت عملیوں سے کام لیا جا رہا ہو، کبھی بھی تقابلی خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ اس کے بجاے یہ فکر ونظر کے ایک انداز کا تقاضا کرتا ہے، جو بہت قریب سے ان متقابل استدلالات کو جانچے جن کے ذریعے سے ایک علمی واستدلالی روایت کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعینہ یہی منہج ہے جس کو اس کتاب میں برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ روایت اور تجدید کے حوالے سے انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمانوں کے مابین زیر بحث فکری سانچوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کتاب ان مناہج کو سامنے لاتی ہے جن کے ذریعے سے جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کی حدود کا تعین کیا گیا، ان کو توجہ کا مرکز بنایا گیا، اور ان پر بحث ومباحثہ کیا گیا6۔
معاشرتی تشکیل کا مذہبی نظام فکر (Political Theology)
یہ کتاب خاص طور پر یہ نقطہ نظر پیش کرتی ہے کہ بریلوی دیوبندی تنازع کی اساس معاشرتی تشکیل کے مذہبی نظام فکر کا سوال ہے۔ معاشرتی تشکیل کے مذہبی نظام فکر سے میری مراد مذہبی مباحثوں اور سیاسی و سماجی تصورات کا گہرے طورپر باہم وابستہ (interlocking) ہونا ہے۔ان تنازعات کا مرکزی سوال یہ تھا کہ نوآبادیاتی دور میں، جب مسلمان اپنی سیاسی حاکمیت کھو بیٹھے تھے، خدائی حاکمیت اور حضرت محمد ﷺ کے مقام ومرتبہ کے مابین تعلق کو کس طرح سمجھا جائے؟7 خدا اور پیغمبر کے درمیان تعلق کی متخالف تفہیمات نے مذہبی رسوم اور عوام کی روزمرہ زندگی کی شکل وصورت کے بارے میں متوازی تصورات کو جنم دیا۔ بالفاظ دیگر بریلوی دیوبندی تنازع نے خدائی حاکمیت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی مقام اور حیثیت اور روزمرہ کی مذہبی رسوم کے درمیان شرعی تعلق کے حوالے سے متوازی تصورات پیش کیے۔ اس تنازع میں زیرِ بحث سوال یہ تھا کہ ایک غیر معمولی اخلاقی اور سیاسی بے چینی کے دور میں خدا، پیغمبر اور معاشرے کے درمیان تعلق کو کیسے سمجھا جائے۔ علم کلام، فقہ اور روزمرہ کے اعمال کے درمیان تعلق وہ فکری دھاگا ہے جو اس کتاب کے مباحث کی شیرازہ بندی کرتا ہے، اور میں اسے مسلمانوں کے مابین داخلی مناقشے اور استدلال کی روایات کی تحقیق کے لیے ایک منہج کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس کتاب کا ایک مرکزی موضوع یہ سوال ہے کہ کس طرح سیاسی اقتدار کا خاتمہ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور کسی گروہ کی روزمرہ معاشرتی زندگی کے ساتھ اس کے تعلق پر مناقشوں میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ جب برطانوی نوآبادیاتی نظام کے آغاز سے برصغیر پاک وہند کے اکثر حصوں پر مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، تو اکابر مسلمان علما کے لیے اس سے زیادہ فوری نوعیت کا مسئلہ اور کوئی نہیں تھا کہ وہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے دینی سرحدات کو محفوظ کریں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کس طرح دو متخاصم گروہ، جن میں انیسویں صدی کے سب سے زیادہ نامور اور کثیر التصانیف علما شامل تھے، اس فوری مسئلے سے نبرد آزما ہوئے۔ یہ کتاب بریلوی دیوبندی چپقلش کی مابعد استعمار باقیات سے زیادہ اس کے دور استعمار کے تناظر سے بحث کرتی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ نئی پیش رفت کی اہمیت کو گھٹانا نہیں، اور نہ ہی اس کا مقصد اس مسئلے کی تاریخی جڑوں کی تلاش ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد یہ تیقن ہے کہ صرف نوآبادیاتی تناظر کے ایک مسلسل اور محتاط مطالعے سے ہی مابعد استعمار دور میں اس کش مکش کی باقیات کو ٹھیک طرح سے سمجھا جا سکتا اور ان کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے8۔ ان متون، کرداروں اور بیانیوں کی ایک گہری تحقیق سے، جو اس مباحثے کے دور آغاز میں موجود تھے، میں اس بات کی تفصیلی تصویر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ استعماری جدیدیت کے دور میں کس طرح ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی حدود بحث ومناقشہ کا موضوع بنیں۔
بڑی تصویر
اس کتاب کا ارتکاز جنوبی ایشیا میں اسلام کی دو متوازی تحریکوں اور مذہبی تصورات پر ہے جن کی ابتدا انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی۔ ان حریف تجدیدی سلسلوں کے کرتا دھرتا وہ ممتاز علما تھے، جن کی حیات اور علمی مساعی نے جنوبی ایشیا کے مسلم ورثے پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ باوجود شدید اختلافات کے، ان میں بہت سے مشترکات بھی موجود تھے۔ وہ بالعموم مشترکہ علمی شجروں، حوالہ جاتی مصادر، مطالعہ وتشریح کے طور طریقوں اور یکساں جغرافیوں (یعنی دہلی اور شمالی ہندوستان) سے وابستہ تھے۔ علوم اسلامیہ کے ماہر یہ علما ایک جیسے ادارتی مراکز یعنی مدارس میں بیٹھتے تھے جہاں اعتقادی علومِ، اخلاقیات اور خدا پرستی کی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے۔
جنوبی ایشیا میں بہت سے مسلمان علما بشمول انیسویں صدی کے ان کرداروں کے جن کی فکر سے اس کتاب میں بحث کی جائے گی، درس نظامی کے تعلیم وتربیت یافتہ تھے۔ یہ بھاری بھرکم (عموما چھ سالہ) نصاب علوم اسلامیہ کے مختلف پہلؤوں (تفسیرِ قرآن، علومِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور منطق) پر مشتمل ہے، البتہ کسی مدرسے کے مخصوص رجحانات کے لحاظ سے مختلف مضامین کو مختلف سطح کی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ درسِ نظامی سترھویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مشہور عالم ملا نظام الدین (م 1677) کے نام نامی سے منسوب ہے۔
مسلمانوں کے جن حریف فکری دھاروں کو اس کتاب میں زیرِ بحث لایا گیا ہے، اگر انھیں آج کے رائج نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ اس اعتبار سے بھی ایک جیسے ہیں کہ دونوں کو باہر سے ایک ہی طرح کے دقیانوسی انداز میں دیکھا جارہا ہے۔ مغربی، مسلم اکثریتی، اور غیر مغربی اور مسلم اقلیتی تناظر میں یکساں طور پر مدارس اور ان کے کارپرداز علما کو عام طور سے ایک پُراسرار روایت کے ماہرین کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو عہد جدید سے بالکل لاتعلق ہے۔ سب سے بدتر یہ کہ انھیں انتہا پسند علم دشمنی کے نمائندوں کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کی آگ بھڑکاتے ہیں9۔ مدرسہ کا خوف اب ایک ایسا عالمگیر مظہر ہے جس میں مختلف اور باہم متضاد نظریاتی وابستگیاں اور دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے گروہ مشترک طور پر مبتلا ہیں۔ ان میں طاقتور نوسامراجی تھنک ٹینکس سے لے کر صہیونی اور مسیحی قوم پرست، بہت سے لبرلز، تجدد پسند اور حتی کہ بعض صورتوں میں مسلم اکثریتی ممالک کے اسلام پسند بھی شامل ہیں۔ اگر چہ مدارس اور علما کی بھونڈی تصویر کشی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، تاہم نائن الیون کے بعد ان میں ایک غیرمعمولی شدت اور اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب مدارس کو تقریبا طالبان اور دہشت گردی کے ہم معنی قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے ایک سرگرم صنعت معرض وجود میں آ گئی ہے، جس میں خود ساختہ ماہرین براجمان ہیں جنھوں نے مدارس اور علما کی تحقیر اور بدنامی کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے۔
ہر چند کہ یہ ایک نسبتاً پرپیچ بین المسلکی تنازع پر ایک اختصاصی علمی کتاب ہے، تاہم جنوبی ایشیا کے مسلمان علما اور ان کے علمی مباحثوں کے بارے میں اس مریضانہ بیانیے کی تصحیح اس کتاب کے نمایاں اہداف میں سے ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس کا مقصد مدارس کی تقدیس یا اس سے کوئی رومان وابستہ کرنا نہیں۔ جیسا کہ مدارس سے وابستہ بہت سے اہل علم کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ تسلیم کریں گے کہ ایک شخص مدرسے کی علمی روایات کے بہت سے پہوں بالخصوص صنفی انصاف کے سوالات اور غیر مسلم اقلیتوں سے متعلق رویے کا ناقد ہو سکتا ہے10۔ تاہم جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی روایات کی ایک پیچیدہ اور پُرکار تصویر پیش کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے داخلی تنازعات کی گہرائیوں، تفصیلات اور ابہامات کو زیرِ غور لایا جائے۔ یہ کتاب اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے اور جدید جنوبی ایشیائی اسلام میں علما کے درمیان جنم لینے والے غالبا سب سے طویل المدت اور علمی اعتبار سے عمیق ترین مناظرانہ معرکہ آرائی یعنی بریلوی دیوبندی اختلاف کی بہت قریب سے جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس اختلاف کے گہرے مطالعے سے میرا مقصد جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کے علمی پس منظر کے ایک اہم اور معتد بہ حصے (fragment) کی تفصیلی تصویر کشی ہے۔ سو اصل میں یہ مناقشہ کس چیز کے بارے میں ہے، اور کن مرکزی کرداروں نے اس کی صورت گری کی ہے؟ میں اگلے مرحلے میں ان سوالات کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، تاکہ اس پروجیکٹ کے مقصد اور بنیادی استدلال کی توضیح وتشریح کر سکوں۔
روایت اور اصلاح کی متقابل عقلیات
اس پوری کتاب میں، میں ہندوستانی مسلمانوں کی علمی اشرافیہ کے دو مدمقابل دھڑوں کی طرف سے پیش کی جانے والی روایت اور اصلاح کی حریف عقلیات توضیح کروں گا۔ ان میں سے ایک گروہ ان علما کا تھا، جن کے تصور دین کا دار ومدار اس پر تھا کہ خدا کی مطلق طور پر امتیازی حاکمیتِ اعلیٰ کا اثبات کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے حضرت محمد ﷺ کی ایک ایسی تصویر پیش کی جس میں آپ کی بشریت پر اور مختار کل وحاکم مطلق خدا کے حضور آپ کی عبدیت پر بہت زیادہ زور تھا۔ انھوں نے ان رسوم ورواج اور روزمرہ کی عادات واطوار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی اہمیت کو گھٹا رہے تھے، یا حضور ﷺ کی تقدیس ایسے انداز میں کررہے تھے جس سے آپ کی بشریت میں شک پیدا ہو۔ اس اصلاحی منصوبے کے بڑے کرداروں میں سے ایک، انیسویں صدی کے ابتدائی عہد کے ہندوستانی مسلمان مفکر شاہ اسماعیل شہید (م 1831) تھے۔ ان کے اس اصلاحی ایجنڈے کو انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں دیوبند کے پیش رووں نے آگے بڑھایاجو ایک دینی مدرسہ اور مسلک تھا جو شمالی ہندوستان کے شہر دیوبند میں 1866 میں قائم کیا گیا ۔
شمالی ہندوستان میں مسلمان علما کے ایک دوسرے گروہ نے اس اصلاحی تحریک کو شدت سے چیلنج کیا۔ انھوں نے اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کیا کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو پیغمبر علیہ السلام کے دائرۂ اختیار سے الگ نہیں کیا جا سکتا، جو مخلوقِ خدا میں سب سے زیادہ کرشماتی اور خدا کی محبوب ترین ہستی ہیں۔ ان کی نظر میں خدا اور پیغمبر کے خصوصی مقام اور اختیار میں باہم کوئی تضاد نہیں، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تائید وتوثیق کرتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے استدلال کیا کہ نبی کو، جن پر وحی الہی کا نزول ہوا، محض ایک انسان کی حیثیت سے پیش کر کے ان کی امتیازی حیثیت کو گھٹانا ہے انتہائی قابل اعتراض ہے۔ نتیجتاً ان علما نے ان مذہبی رسوم اور روزمرہ کے اعمال کا دفاع کیا جن کا مقصد حضور ﷺ کی یاد اور کرشماتی شخصیت کی تعظیم تھا۔ شش جہت مفکر مولانا احمد رضا خان اس اصلاح مخالف تحریک کے سرخیل تھے۔ وہ بریلوی مسلک کے بانی تھے، جو ایک دوسرا مسلکی گروہ تھا جو شمالی ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کی طرف منسوب ہے جہاں مولانا احمد رضا خان کی ولادت ہوئی تھی۔ بریلوی مسلک کئی معنوں میں انیسویں صدی کے عالم فضل حق خیر آبادی (م 1861) کا جانشین تھا، جنھوں نے پرزور انداز میں شاہ محمد اسماعیل کی مخالفت کی تھی۔
اس کتاب کے بڑے مقاصد میں سے ایک مقصد ان مسلکی رجحانات اور تنازعات کا بیان ہے جنھوں نے ان علما کی فکری زندگی کی تشکیل کی، جو بیک وقت عربی، فارسی اور اردو میں قادر الکلام اورتحریر کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ جیسے جیسے ہم اس کتاب میں ہم آگے بڑھیں گے، میں موقع بموقع ان علما کا تعارف تفصیل سے پیش کروں گا۔ سردست اتنی بات کافی ہے کہ یہ جدید جنوبی ایشیائی اسلام میں سب سے زیادہ کثیر التصانیف، بڑے پیمانے پر پیشوا مانے جانے والی اور متنازع شخصیات تھیں، جو بیک وقت نامور فقیہ اور صوفی شیوخ تھے۔ ان کے متضاد اصلاحی پروگراموں نے جدید اسلام کے بیانیے میں سب سے زیادہ تیز وتند اور شدت سے لڑی جانے والی مناظرانہ جنگوں کے ابھارنے میں کردار ادا کیا۔ ان کے تنازعات سے کئی زبانی اور تحریری مناظروں، تردیدات اور جوابی تردیدات، فقہی واعتقادی فتاوی ہائے تکفیر اور حکایت گوئی کی ایسی روایات نے جنم لیا جو بعض علما کی تعظیم کرتی ہیں، اور بعض کا تمسخر اڑاتی ہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں اپنے "دیوبندی بریلوی مناظرے" کی اصطلاح کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں جو اس کتاب میں تسلسل سے استعمال کی جائے گی۔ یہ کتاب اٹھارویں صدی کے اواخر سمیت انیسویں صدی کے اوائل واواخر چند اہم تاریخی گوشوں سے بحث کرتی ہے۔ اس لیے جب میں بریلوی دیوبندی مناظرے کی بات کرتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ وسیع تر تناظر ہوتا ہے، اگر چہ بریلوی ودیوبندی مسالک انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں پیدا ہوئے۔ میرا مُدَّعا کسی غائی (Teleological)بیانیے کی تائید نہیں، جس کی رو سے ان گروہوں کا ظہور ناگزیر تھا۔ اس کی بجائے میں اس اصطلاح کو ایک جامع تعبیر کے طور پر استعمال کر رہا ہوں تاکہ خدائی حاکمیتِ اعلی، نبوی اختیار اور رسومیاتی اعمال کے درمیان تعلق پر انیسویں صدی کے اوائل میں جنم لینے والے اور اس صدی کے نصف آخر میں مسلکی اور گروہی شکل اختیار کر لینے والے مناقشے وضاحت کر سکوں۔
اس مناقشے کی استدلالی فضا بے شمار باہم دگر جُڑے متعدد سوالات سے معمور ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مذہبی گروہ کو کن خطوط پر اپنی زندگی کو استوار کرنا چاہیے جس سے خداے مطلق کے سامنے اس کی اطاعت کا اظہار ہو؟ خدا اور انسانوں کے درمیان واسطہ ہونے اور روز قیامت شفیع ہونے کی حیثیت سے پیغمبر کے اختیار کی نوعیت کیا ہے؟ پیغمبر کو کس قسم کا علم حاصل تھا؛ کیا ان کے پاس علمِ غیب تھا؟ ایسے مذہبی رسوم، عقیدت مندانہ اعمال اور روز مرہ کے معمولات کی شرعی حیثیت کیا ہے جن کی نظیر رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کے عمل میں موجود نہ ہو؟ کن حالات میں ایسے اعمال بدعت قرار پاتے ہیں؟ ایک اور نزعی سوال جو اس اختلاف کا سبب بنا، خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان (امکانِ کذب) اور پیغمبر علیہ السلام کی طرح کے کسی دوسرے شخص کی تخلیق کے امکان (امکانِ نظیر) کا سوال ہے۔ یہ سوالات فقہ، علم کلام اور روزمرہ کے دینی اعمال کے ساتھ مشترک طور پر تعلق رکھتے ہیں۔ میں اپنے موقف کا اعادہ کروں گا کہ بریلوی دیوبندی اختلاف، مذہبی شناخت کی تشکیل کے دو متصادم بیانیوں کا اظہار تھاجن میں سے ہر ایک فقہ اور رسومیاتی اعمال کے حدود وقیود کے متعلق متوازی تصورات پیش کیے۔
اس کتاب کا نام Defending Muhammad in Modernity رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ جس مسلکی کش مکش کی تفصیل پیش کرتی ہے، وہ حضرت محمد ﷺ سے متعلق متقابل تصورات پر مرکوز ہے۔ نبی ﷺ کا کون سے تصور کو ایک مسلمان کی معیاری دینی وابستگی اور روزمرہ زندگی کی بنیاد بننا چاہیے؟ بریلوی دیوبندی نزاع کا مغز یہ سوال ہے، جس نے جدید استعماری دور میں غیر معمولی اہمیت حاصل کر ل۔ استعماری حالات نے جہاں شدید بے چینی پیدا کی، وہیں مثالی مسلمان عوام کی تشکیل کی توقع اور ارادے کو بھی جنم دیا۔ دیوبندی بریلوی اختلاف میں نمایاں ہونے والے حضرت محمد ﷺ کے متوازی تصورات مثالی مسلمان فرد اور مثالی معاشرہ، دونوں کو محیط ہیں جو (ایک لحاظ سے) دو الگ الگ دائرے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کی شخصیت وہ مرکزی حوالہ تھا جس کے ذریعے سے اصلاح کا تصور تشکیل دیا گیا ۔ یہ سارا مباحثہ حضرت محمد ﷺ ہی پر مرکوز تھا۔
وہ تمام اختلافی نکات جن سے اس کتاب میں بحث کی گئی ہے، حضرت محمد ﷺ پر مرکوز ہیں: (قیامت کے دن) آپ کا شفاعت کرنے کا اختیار، بدعات کی صورت میں ان کے اُسوۂ حسنہ سے انحراف، آپ کے علمِ غیب کی نوعیت وحیثیت اور خدا کے لیے ایک دوسرے محمد کو پیدا کرن۔ ایک خاص مفہوم میں یہ کتاب اس داستان کو بیان کرتی ہے کہ کیسے جدید جنوبی ایشیا کے اکابر علما نے حضرت محمد ﷺ کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کی کوشش کی، اور معیاری اسلامی تصورات کے دائرے میں آپ کی شخصیت اور اوصاف وخصائص کے متعلق متوازی تصورات پیش کیے۔ اگرچہ ان کے مابین شدید ترین اختلاف موجود تھا، لیکن یہ تمام ہندوستانی علما جن کی داستان اس کتاب میں بیان کی گئی ہے، دینی اصلاح کے لیے حضرت محمد ﷺ سے متعلق اپنے پیش کردہ معیاری اور درست دینی تصور کو بیان اور رائج کرنے اور اس کا دفاع کرنے پر قطعی طور پر متفق تھے۔ جدیدیت میں حضرت محمد ﷺ کا مقام اور حیثیت کیسے سمجھی جائے، اس حوالے سے پرجوش تنازعات میں صرف دیوبندی اور بریلوی تحریکوں کے قائدین ہی شریک نہیں تھے، بلکہ، جیسا کہ کیشیا علی نے ایک اہم استدلال کیا ہے، انیسویں صدی میں حضرت محمد ﷺ کی زندگی سے متعلق مغربی انداز فکر پر بھی مستند اور تاریخی طور پر قابل تصدیق محمد کی تلاش کا پہلو غالب ہے۔ کیشیا علی مزید کہتی ہیں کہ ان کی (یعنی مغربی مصنفین کی) دلچسپی اور جستجو میں اور مسلمان مذہبی مفکرین، روایتی علما اور مغربی تعلیم یافتہ مسلم مصلحین کی جستجو میں ایک اشتراک پایا جاتا ہے11۔
بریلوی دیوبندی مناقشے کا آغاز کرنے والے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ سوالات اور اختلافات جو انیسویں صدی کی ان شخصیات کے دل ودماغ پر حاوی رہے، تقریبا دو سو سال بعد آج بھی پرجوش بحث ومباحثہ کا موجب ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں اس مناظرانہ کش مکش کے موضوعات اور دلائل
نہ صرف دینی تعلیم گاہوں میں، جیسا کہ ارشد عالم کی تحقیق سے واضح ہوتا ہے، بلکہ عام میل جول کے ماحول، مساجد اور عوامی کتب خانوں جیسے روزمرہ کے مقامات میں بھی سرایت کیے ہوئے ہیں، جیسا کہ نویدہ خان نے اس کی تفصیلات جمع کی ہیں12۔ ڈیجیٹل دور کے آغاز نے اس تنازع کی شدت اور جغرافیائی وسعت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کئی ویب سائٹس پر اور مختلف مناظرانہ چیٹ رومز میں - جو جنوبی ایشیا کے مقامی اور اسی طرح امریکا، برطانیہ اور جنوبی افریقا جیسے ممالک میں رہنے والے مہاجر مسلمانوں سے آباد ہیں – حریف نظریات اور آرا مستقلاً بحث ومناقشہ، ، تنقید وتجزیہ اور انکار وتردید کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں13۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ اختلاف دھندلانے کی بجائے مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔
یہ کتاب بریلوی دیوبندی مباحثے یعنی اس کے کلیدی ادوار، استدلالات، بیانیوں اور ابہامات کی پہلی باضابطہ تحقیق ہے جو اٹھارویں صدی کی اہم نظیروں کے ساتھ ساتھ انیسویں صدی کے پورے منظرنامے کو غور وفکر کا موضوع بناتی ہے۔ میرے مصادر میں عربی، فارسی اور اردو کے ایسے مخطوطات جنھیں اس سے پہلے مطالعہ وتحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا، نیز مطبوعہ مآخذ شامل ہیں جن کا دائرہ مناظرانہ متون سے لے کر اصلاحی ادب، خطبات ومکاتیب کے مجموعے، بیانیہ (narrative)تاریخیں، فقہی و کلامی متون، فتاوی جات کے مجموعے اور سوانحی تذکروں تک وسیع ہے۔ فقہی اور کلامی دلائل کی گہری تفہیم پیش کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے جنوبی ایشیا کے نامور علما کی شخصیت کا بھی واضح خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ان حساسیتوں، اضطرابات اور باہمی کشمکش کو دل چسپ بنا سکوں، جو ان علما کی فکری زندگی اور سفر میں جاری وساری تھے۔ یہ پروجیکٹ متعدد مربوط لیکن کسی حد تک مختلف النوع فکری موضوعات ومسائل سے بحث کرتا ہے۔ چنانچہ میں نے نسبتًا مختلف النوع نظری آلات کے مجموعے سے کام لیا ہے، جس کا سلسلہ سیاسی کلامیات کی تحقیقات سے لے کر سیکولر ازم کے مطالعات، عباداتی رسوم کی تحقیقات، قانونی تعبیر وتشریح کے اصولوں، اور نیریٹو تھیوری تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پوری کتاب میں، میں نے کوشش کی ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کی فکر کو مغربی فلسفیانہ اور ادبی مناقشوں کے ساتھ تقابلی انداز میں پیش کروں۔ میں نے یہ کوشش ایسے انداز میں کی ہے جس سے اول الذکر کی گہرائی، علمی ودینی اہمیت اور خصوصیات واضح ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی متون اور تناظرات کو مطالعات مذہب اور وسیع تر علوم انسانی (ہیومینیٹیز) کے مسائل ومباحث سے مربوط کیا جا سکے۔ ایک مخصوص معنی میں یہ کتاب علوم اسلامیہ اور مغربی علوم انسانی (ہیومینیٹیز) کے مخصوص اجزا میں باہمی مکالمے کی نمائندگی کرتی ہے ایک ایسا مکالمہ جس سے دونوں کی تعمیر وترقی ممکن ہو سکے۔
فکری منہج
فکری اعتبار سے یہ کاوش ان مبنی بر استناد مباحثوں (authoritative discourses) کی تحقیق کرتی ہے جن کا مقصد خاص حکمت عملی کے ساتھ مذہب کے حدود پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ طلال اسد نے واضح کیا ہے، مبنی بر استناد مباحثے سے مراد وہ "مباحثہ ہے جو تسلسل کے ساتھ اپنے یکسر مخالف مواقف کی پیش بندی کرنا چاہتا ہے، اور اس طرح ان مواقف کے اظہار کو روکنے کی کوشش کرتا ہے "14۔ یہ کتاب ان اقدامات اور حکمت عملیوں کو نمایاں کرتی ہے جن کے ذریعے دینی روایت کے باہم حریف پاسبانوں نے ایک دوسرے کی مذہبی حیثیت اور مستند ترجمانی کی اہلیت کی نفی کرتے ہوئے اپنے مذہبی استناد کو تقویت فراہم کی ۔ ان کا مذہبی اقتدار – یعنی ان کا یہ دعوی کہ و ہی مستند راے کی نمائندگی کرتے ہیں –ان کی مناظرانہ چپقلش کی موجودگی اور حالات پر منحصر تھا۔ خاص تاریخی حالات میں رونما ہونے والی اس چپقلش میں ، جس کے نتائج کی پیش بینی ناممکن تھی، باہم فریق بننے نے دونوں کے لیے اس کا موقع پیدا کیا کہ وہ روایت اور اس کی حدود کی تعیین وتحدید کے سوال پر مستند حیثیت کا حامل ہونے کے دعوے کے ساتھ کلام کریں۔ طلال اسد نے بہت عمدہ طریقے سے اسے یوں بیان کیا ہے: " استناد کے دعووں میں مخاصمت کو، نہ کہ باہمی افہام وتفہیم کو، مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے"15۔
مبنی بر استناد مباحثے کے حوالے سے طلال اسد کے پیش کردہ تصور کا گہرا تعلق ان کی اس مشہور رائے سے ہے کہ اسلام کا مطالعہ ایک "استدلالی روایت" (discursive tradition) کی حیثیت سے کیا جائے، جو کہ مغرب میں اسلام کے علمی مطالعے میں سب سے زیادہ مستعمل تصورات میں سے ہے16۔ استدلالی روایت کا تصور اسلام جیسی معیاری روایت میں مذہبی متون، زمان اور روزمرہ زندگی کے باہمی تعامل کے تعقل وتفہیم کے لیے بارآور مواقع فراہم کرتا ہے۔ استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کے مطالعے سے مراد یہ ہے کہ استدلال، دلیل اور حوالے کے طریق کار کی ان مختلف صورتوں پر غور کیا جائے جن کے ذریعے اس سوال پر مبنی بر استناد بحث ومناقشہ کیا جاتا ہے کہ ایک سماجی گروہ کی عملی زندگی کیسی ہونی چاہیے ۔۔ ماضی کی کون سی روایات اور نظائر کو حال اور مستقبل میں ایک سماجی گروہ کی منظم زندگی کو تشکیل دینا چاہیے؟ استدلالی روایت کے تصور میں یہ سوال بنیاد کا پتھر ہے۔ اور چونکہ اس سوال کے مختلف اور عموما متضاد جوابات ہو سکتے ہیں، اس لیے ایک استدلالی روایت اپنی فطرت میں تنازع اور کشمکش کا مظہر ہوتی ہے۔
طلال اسد نے حال ہی میں چند نکات کی صورت میں، جو بیک وقت فکر انگیز اور مسحور کن ہیں، استدلالی روایت کے حوالے سے اپنے موقف کے اس نہایت اہم پہلو کی توضیح ہے۔ وہ لکھتے ہیں : "روایت، واحد بھی ہے اور جمع بھی۔ کے فعال کرداروں کے لیے روایت میں نہ صرف تسلسلات ہوتے ہیں، بلکہ دخول وخروج کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں۔ روایت غلطیوں کے ساتھ ساتھ بے وفائی کو بھی برداشت کرتی ہے؛ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ (انگریزی میں) روایت (tradition) اور غداری (treason) دونوں کا ماخذ اشتقاق ایک ہے"17۔ اس کتاب اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے طلال اسد کی اس دعوت کا عملی انطباق ہے کہ اسلام کا مطالعہ استدلالی روایت کی حیثیت سے کیا جائے۔ یہ ان مناہج کی تحقیق کرتی ہے جن میں ایک استدلال روایت یعنی جدید جنوبی ایشیا میں اسلام
مبنی بر استناد مباحثوں کے ایک مخصوص ماحول میں حریف افکار اور نظریاتی منصوبوں سے نبرد آزما ہوئی۔ یہ اس ماحول کا جائزہ لیتی ہے جس میں متخاصم نظریات، عقیدہ اور عمل کی معیاری اور مستند مآخذ سے جواز یافتہ صورتوں کے دائرے سے ایک دوسرے کو نکال باہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب جنوبی ایشیا میں اسلام کی تاریخ کے ان نازک لمحات کا جائزہ لیتی ہے، جن میں اس کی حدود کی تعیین کے حوالے سے نہایت نمایاں انداز میں بحث ومباحثہ ہو رہا تھا۔
آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حالیہ عرصے میں استدلالی روایت کے بارے میں اسد کا نظریہ بد قسمتی سے بعض انتہائی غلط تعبیرات کی زد میں ہے۔ اس کی متعدد مثالوں میں سے ایک مثال شہاب احمد کی شاندار کتاب: What is Islam: The Importance of Being Islamic (پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2015) ہے۔ شہاب احمد استدلالی روایت کو بالکل غلط طور پر ایک واجب الاتباع (prescriptive) اور طبقاتی تصور سمجھتے ہیں، جس كا مقصد ایک مستند راسخ الاعتقادی کو محکم کرنا ہے۔ شہاب احمد کے الفاظ میں: "اسد کے، اسلام کو ایک 'استدلالی روایت' کی حیثیت سے پیش کرنے میں ایک دقیق لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک استدلالی روایت کی قطعی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صحیح (correct) بات کو دعوائے استناد کے ساتھ بیان کرنے کی حرکیات کام کر رہی ہوتی ہیں۔"(272)۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ روایت کا ایسا واجب الاتباع اور دعوائے استناد پر مبنی تصور روایت کے اندر ایسے مباحث اور اعمال کے شامل ہونے کی توضیح نہیں کرتا جو واجب الاتباع یا مبنی بر استناد ہونے کا دعوی ٰ نہیں کرتے یا، شہاب کے الفاظ میں، تفتیش ودریافت کا انداز لیے ہوتے ہیں۔ شہاب احمد اس سے یہ اہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسد کی استدلالی روایت کے تصور سے " راسخ الاعتقادی اور غیر راسخ الاعتقادی/تجدد پسندی کی ایک نئی ثنویت (binary)" جنم لیتی ہے جو اسلام کے طاقتور بیانات کو راسخ العقیدہ اور نسبتا کم طاقتور بیانات کو تجدد پسند قرار دیتی ہے(274)۔
یہ طلال اسد کی فکر کی ایک نادرست تفہیم ہے۔ اس میں کئی الجھنیں ہیں۔ میں ان میں سے کچھ کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔
اول یہ کہ زیادہ طاقتور یا بااختیار ہونا راسخ الاعتقادی کو یا کم طاقتور ہونا تجدد پسندی کو مستلزم نہیں۔ اسد کے نزدیک راسخ الاعتقادی کوئی ایسی شے یا حالت نہیں، جو تجرباتی معیار پر اور بڑے واضح انداز میں موجود ہو۔ جیسا کہ اسد نے واضح کیا ہے، کہ ستدلالی روایت میں سرگرم افراد راسخ الاعتقادی اور ربط وتوازن کے حصول کی شدید خواہش رکھتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اسے حاصل بھی کرلیں۔ مباحثے ومناقشے کے ذریعے سے ربط وتوازن کے حصول کی یہی خواہش وامنگ ایک سماجی گروہ کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کو ممکن بناتی ہے۔ایک استدلالی روایت نہ ختم ہونے والے تنازعات کا اکھاڑہ ہوتی ہے، جنھیں تجرباتی معیارات پر یا تنظیمی انداز میں، سرکاری طور پر مستند درجہ دینا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ راسخ الاعتقادی کا تجرباتی سطح پر قابل پیمائش تصور، جس کے ذریعے زیادہ طاقت زیادہ راسخ الاعتقادی کو جنم دیتی ہے اور کم طاقت، کم راسخ الاعتقادی کو، یہ ایک ایسا اضافہ ہے جو شہاب احمد نے اسد کے نظریاتی منہج پر اپنی طرف سے شامل کیا ہے۔
دوسرا یہ کہ اسد کا استدلالی روایت کے تصور میں قطعیت یا عمودی تسلسل شامل نہیں۔ استدلالی روایت کے تصور کو راسخ الاعتقادی کے فروغ کا ایک آلاتی وسیلہ قرار دینا اس نظریے کو اس کی اہم ترین بصیرت سے محروم کر دینا ہے۔ ایک استدلالی روایت طاقت کے ان رشتوں کو اپنے اندر سموتی ہے، جن کے ذریعے ایک سماجی گروہ عملی زندگی بسر کرتا اور اس پر بحث ومناقشہ کو جاری رکھتا ہے۔ یہ ایک، عملی زندگی میں پیوست اخلاقی استدلال ہوتا ہے "جس میں طاقت کی پشت پناہی کے ساتھ، کچھ منفرد نظریات نہ صرف تصورات کے مربوط مجموعے اور ان کے مفاہیم میں تبدیلیاں لاتے ہیں، بلکہ ایسی منفرد حساسیتیں، جذبات اور رجحانات بھی پیدا کرتے ہیں جن کی رو سے ایک شخص کچھ مخصوص طریقوں پر عمل کرتا اور ان کے علاوہ دیگر طریقوں پر عمل نہیں کرتا "18۔ استدلالی روایت کو تشکیل دینے والے دلائل میں معیاری اور واجب الاتباع طریقوں کو تحقیق وتفتیش کی نوعیت رکھنے والے عمل سے الگ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسد کی فکر میں صحیح ہونے کا تصور ایک متعین اور مشخص راسخ الاعتقادی کو واجب الاتباع قرار دینے کو مستلزم نہیں ۔ اور اسی خاص وجہ سے استدلالی روایت تو عمودی تسلسل پر مبنتی ہوتی ہے اور نہ وہ طبقاتی ہوتی ہے، کیوں کہ کسی روایت کے زمان کے ساتھ وابستہ اور بحث ونزاع کی خصوصیت سے متصف ہونے کے باعث اس کو کبھی بھی معروضی تسلسل یا استحکام کے سانچے میں سکیڑا نہیں جا سکتا۔ آخری بات یہ کہ طلال اسد کے تصور کی تفہیم میں شہاب احمد کی بنیادی غلط فہمی کا باعث روایت اور طاقت کا نسبتاً ایک سادہ تصور ہے۔ جیسا کہ میشل فوکو نے بہ تکرار واضح کیا ہے، طاقت اور فکری بحث ومباحثہ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لیے بحث ومباحثہ کی کوئی بھی صورت، چاہے وہ تحقیق وتفتیش کی نوعیت رکھتی ہو یا نفی وتضاد کی یا کوئی اور، طاقت سے یا اختیار کے ساتھ تعامل سے دامن نہیں بچا نہیں سکتی۔ شہاب احمد غلط طور پر یہ فرض کرتے ہیں کہ تحقیق وتفتیش کی نوعیت کا بحث ومباحثہ طاقت سے مقدم ہوتا ہے، بلکہ کسی بھی قسم کی تحقیق وتفتیش جیسے ہی معرض اظہار میں آتی ہے، فورا طاقت میں پیوست ہو جاتی ہے، اور ہمیشہ اسے ایک منفرد استطاعت اور حساسیت کا درجہ پہلے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ در اصل غیر مبنی بر استناد بحث نزاع کا تصور ہی یہ فرض کرتا ہے کہ ایک مبنی بر استناد بحث ومباحثہ کا سلسلہ پہلے سے موجود ہے۔
اسد کے استدلالی روایت کے تصور کے ساتھ ساتھ ایک اور فکری کلید جو اس کتاب کے مقاصد میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، "مباحثہ کے عارضی ظروف وحالات" ہیں۔ میں نے یہ تصوّر بدھ مت کے عالم اَنَندا اَبِیسیکارا (Ananda Abesekara) سے اخذ کیا ہے۔ چند سال پہلے سری لنکا کے معاصر بدھ مت پر اپنی شاندار تحقیق میں ابیسیکارا نے مذہب، روایت اور اصلاح کے پہلے سے بنے ہوئے (a priori) تصورات کو ان اشخاص پر تھوپنے کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کیا جو کسی دینی روایت کے حدود کو کنٹرول کرنے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس کے بجائے ان ہنگامی اور عارضی حالات کی تحقیق کرنی چاہیے، جن میں مخصوص مادی، اداراتی اور علمیاتی حالات مل کر یہ طے کرتے ہیں کہ کون سی چیز مذہب ہے اور کون سی نہیں۔19
باَلفاظِ دیگر بین المسالک (یا بین المذاہب) مذہبی تنازعات میں ظاہر ہونے والی مذہب کی مختلف صورتوں کو واضح طور پر موجود کچھ خانوں میں بانٹ کر، ایک معیار کی حیثیت نہیں دی جا سکتی، بلکہ ان عارضی حالات کی تحقیق کی جانی چاہیے، جو ان تنازعات کو ممکن بناتے ہیں، اور جن میں وہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس پراسس کو محیط عارضی احوال کو نمایاں کرنے سے جس میں کسی مذہب کے حدود کے بارے میں بحث ونزاع کی جا رہی ہوتی ہے، یہ طریق فکر کا نتیجہ مآل کار یہ سامنے آتا ہے کہ مذہب کو قطعی ممتاز اور واضح خانوں میں بانٹنا ناممکن ہے۔ مجھے مذہب اور مذہبی زندگی کی تحقیق کے لیے ابیسیکارا کا یہ، احوال وظروف کو اہمیت دینے والا منہج بے انتہا دل کش معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک استدلالی روایت کی منطق اور تنازعات کی تحقیق کے لیے ایک ایسا طریق کار فراہم کرتا ہے، جو مذہب کی تعریف وتحدید کی لبرل سیکولر خواہش کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا۔ ابیسیکارا بالکل طلال اسد کی طرح (جن کے افکار سے وہ بے انتہا مستفید ہوئے ہیں) اصرار کرتے ہیں کہ مذہب، بالکل زندگی کی طرح، ہمیشہ تعریف وتحدید کی گرفت سے آزاد رہتا ہے۔
اس کتاب میں، میں نو آبادیاتی جنوبی ایشیا میں اسلام کی کہانی میں بحث واختلاف کے بہت اہم احوال وظروف کی تحقیق پیش کروں گا۔ میں روایت اور اصلاح کی ان حریف عقلیات کی تفصیل سامنے لاؤں گا جو ان مخصوص حالات میں نمایاں ہوئیں، اور جن میں اس سوال پر مبنی براستناد مجادلہ کیا گیا کہ کون سی چیز اسلام ہے اور کون سی نہیں۔ اس کاوش کے ذریعے میری کوشش ہوگی کہ یہ واضح کر سکوں کہ ان عقلیات کو اصلاح پسند/غیر اصلاح پسند، فقہی/صوفی اور روایتی/جدید جیسی محدود دوگانہ تقسیمات کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ متبادل منہج کے طور پر میں تجویز کروں گا اور دکھاوں گا کہ مسلمانوں کے درمیان بریلوی-دیوبندی جیسے بین المسالک تنازعات کے سلسلے کو، جو حاکمیتِ اعلیٰ کے بدلتے تصورات اور حالات سے اثر پذیر تھے، تشکیل معاشرہ کے حریف بیانیوں کی ایک مثال کی حیثیت سے سمجھا جائے۔ یہ حریف بیانیے فقہ، عقائد اور روزمرہ اعمال کے باہمی تعامل کی باہم متضاد تفہیمات کی عکاسی اور اظہار کرتے ہیں۔ ان کی بنیاد خدا، پیغمبر اور سماج کے درمیان تعلق کے متخالف تصورات پر ہے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ یہ اس کتاب کا مرکزی استدلال ہے۔
حواشی
- ایک فتوے کے بعد اترپردیش میں 200 شادیاں دوبارہ ہوئیں۔ ٹائمز آف انڈیا، 5ستمبر، 2006۔
- ایضًا۔
- ممتاز قادری کو حکومتِ پاکستان نے فروری 2016 میں سزا دی۔ لیکن وہ توہینِ رسالت اور انتہا پسندی کے سے متعلق بحث مباحثے میں اب تک ایک انتہائی متنازعا شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ انھیں عدم برداشت اور انتہا پسندانہ تشدد کی علامت سمجھتے ہیں، جب کہ کئی لوگوں کی نظر میں، بالخصوص شہروں، میں وہ شہیدِ ناموس رسالت ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی نے سیاسی تنظیم تحریکِ لبیک یا رسول اللہ (اے اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں) کی شہرت اور اٹھان میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ کیا، جس کی قیادت اس وقت شعلہ انگیز خطیب مولوی خادم رضوی کر رہے ہیں۔ تحریک لبیک 2018 کے عام انتخابات میں پانچویں بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی، اور زیادہ تر قانونِ توہینِ رسالت کے تحفظ کے نام پر بیس لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ (مولانا خادم حسین رضوی 19 نومبر 2020 کو وفات پا گئے۔ تحریکِ لبیک کے موجودہ امیر مولانا سعد حسین رضوی ہیں۔ از مترجم )
- عدالت نے امام اور اس کے بیٹے کو توہین رسالت کے جرم میں سزا سنائی۔ ڈان، 11 جنوری، 2011۔
- مہاجر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے مناظروں کے سیاق -جیسے جنوبی افریقا- کے لیے ملاحظہ کریں برانن انگرام کی عمدہ تحقیق: Revival from Below: The Deoband Movement and Global Islam (برکلے: یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس، 2018)۔
- اس کتاب میں ذکر کیے گئے کرداروں کا تصورِ اصلاح ہمیشہ بنیادی انقلاب کے ہم معنی نہیں۔ اس کے بجاے ان کے نزدیک اصلاح ایک طرح کی رفوگری و پیوند کاری کا عمل ہے، اور عقائد وطرزِ حیات کے غلط رویوں کو راہ راست پر لانا ہے۔اصلاح کے عمل میں دین کی حفاظت اور تقویت دونوں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے علمی افکار اور تاریخ میں اصلاح کے اس تصور کی مزید وضاحت کے لیے Islamic Political Thought میں ملاحظہ ہو: ابراہیم موسیٰ اور شیر علی ترین، Revival and Reform in Islam، تدوین گرہارڈ باورنگ (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس)، 202-219۔
- اس پوری کتاب میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (Divine Sovereignty) کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے، جن میں اس کتاب میں مذکور شخصیات نے اسے استعمال کیا ہے، یعنی یہ کہ یہ صرف خدا کی قدرتِ مطلقہ اور اختیارِ کامل ہے جس پر اس کی توحید اور یکتائی قائم ہے۔ اس پروجیکٹ کے سیاق میں توحید کے علاوہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے قدرۃ (اردو اور فارسی میں قدرت) یا قدرتِ الہٰی اور اختیار کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ماقبل جدید اور جدید اسلامی فکر میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے تصور کو جن متنوع اور عموما مختلف مفاہیم میں بیان کیا جاتا ہے، ان کی ایک مختلف زاویے سے عمدہ تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: محمد زمان، The Sovereignty of God in Modern Islamic Thought ، جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی 25، نمبر 3 (جولائی 2015)، 389-418؛ اینڈریو مارچ، Genealogies of Sovereignty in Islamic Political Theology، سوشل ریسرچ 80، نمبر 1 (بہار: 2013): 293-320؛ احمد عبد المجید، Reserving Schmitt: The Sovereign as a Guardian of Rational Pluralism and the Peculiarity of the Islamic State of Exception in al-Juwayni’s Dialectical Theology، یورپین جرنل آف پولیٹیکل تھیالوجی، جس کی اشاعت 12 ستمبر 2017 کو آن لائن ہوئی۔
http://doi.org/10.1177%2F147885117730672
اس کتاب میں جن علما کی فکر زیرِ بحث ہے، بنیادی طور ان کا تعلق پر دہلی/ہندوستان کے شمالی خطے میدانِ گنگا سے ہے۔ 'ہندوستانی مسلمانوں' کی اصطلاح محدود بھی ہے اور تاریخی اعتبار سے نا مناسب بھی، تاہم اسے میں سہولت اسلوب کی خاطر استعمال کر رہا ہوں، کیوں کہ 'ہندوستانی بولنے والے مسلمان' اور 'شمالی ہندوستان کے مسلمان' زیادہ ثقیل لگتا ہے، یا ان علما کے تصور کردہ مخاطبین کے اعتبار سے کافی محدود ہے۔ میں تعبیری تنوع کی خاطر 'ہندوستانی مسلمانوں' اور 'جنوبی ایشیائی مسلمانوں' کی تعبیرات بھی ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال کروں گا۔ - پاکستان میں بریلوی دیوبندی تنازع کی مفید تحقیق وتجزیے کے لیے ملاحظہ ہو: محمد وقاص سجاد، For the Love of Prophet: Deobandi-Barelvi Polemics and the Ulama in Pakistan (پی ایچ ڈی کا مقالہ، گریجویت تھیالوجیکل یونین، 2018)۔
- جنوبی ایشیا میں مدارس کی علمی روایت اور تاریخ کے لیے ملاحظہ کریں: ابراہیم موسی، What is a Madrasa? (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2015)۔ مزید دیکھیں: رابرٹ ہیفنر اور محمد قاسم زمان، مدونین، Schooling Islam: The Culture and Politics of Modern Muslim Education (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2007)۔
- جنوبی ایشیا اور اس سے ہٹ کر داخلی تنقید کے ان چند ادوار کے ایک عمدہ تجزیے کے لیے دیکھیے: محمد قاسم زمان، Modern Islamic Thought in a Radical Age: Religious Authority and Internal Criticism (نیو یارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)۔
- کیشیا علی، The Lives of Muhammad (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2014)، 43۔
- ارشد عالم، Inside a Madrasa: Knowledge, Power, and Islamic Identity in India (نیو دلی، روٹلیج، 2011)؛ نویدہ خان، Muslim Becoming: Aspiration and Skepticism in Pakistan (ڈرہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2012)۔
- مثال کے طور پر دیکھیے: سنی فورٹ (www.Sunniport.com)، فلاح ریسرچ فاؤنڈیشن (www.falaah.co.uk) اور اہل السنہ فورم (http://ahlussunnah.boards.net)۔
- طلال اسد، Anthropology and the Analysis of Ideology، مین، این ایس، 14 (1979): 607-627۔
- ڈیوڈ سکاٹ اور چارلس ہرش کائنڈ، مدونین، Powers of the Secular Modern: Talal Asad and His Interlocuters ميں ديكهيے: طلال اسد، Responses (سٹينفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 212۔
- طلال اسد، The Idea of an Anthropology of Islam (واشنگٹن، ڈی: سنٹر فار کانٹیمپرری عرب سٹڈیز، جارج ٹاؤن یونیورسٹی، 1986)۔
- طلال اسد، Thinking about Tradition, Religion and Politics in Egypt Today، کریٹیکل انکوائری 42، شمارہ 1 (خزاں 2015): 169۔
- انندا ابیسیکارا، Thervada Buddhist Encounters with Modernity: A Review Essay، جرنل آف بدھسٹ ایتھکس 25 (2018): 333-371۔
- انندا ابیسیکارا، Colors of the Robe: Religion, Identity, and Difference (کولمبیا: یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا پریس، 2003)۔
(جاری)
فروری ۲۰۲۲ء
غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مساجد کا حکم
محمد عمار خان ناصر
گذشتہ دنوں کراچی میں ایک مسجد کے انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم قومی سطح پر زیربحث رہا اور اس کی موزونیت یا غیر موزونیت پر مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ اس ضمن میں کسی خاص مقدمے کے اطلاقی پہلووں سے قطع نظر کرتے ہوئے، اصولی طور پر یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی مساجد کا فقہی حکم کیا ہے ۔ چونکہ عموماً اس حوالے سے جو فقہی موقف اور استدلال سامنے آ رہا ہے، وہ ادھورا اور فقہ وشریعت کی درست اور مکمل ترجمانی نہیں کرتا، اس لیے کچھ اہم توضیحات یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔پہلی بات جو اس بحث میں بہت عام کہی گئی، وہ یہ تھی کہ مسجد اگر کسی کی زمین غصب کر کے بھی تعمیر کی گئی ہو تو تعمیر ہو جانے کے بعد اسے گرانا جائز نہیں، بلکہ اس کی تلافی مالک کو زمین کی قیمت اور تاوان وغیرہ ادا کر کے کی جا ئے گی۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے اور نہ صرف دین وشریعت کا ابتدائی فہم رکھنے والا شخص اس کی غلطی کو واضح طور پر سمجھ سکتا ہے، بلکہ اس پر مستند اداروں کے فتاویٰ بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جامعہ الازہر کے فتوے کے مطابق ایسی زمین پر مسجد کی تعمیر جائز نہیں بلکہ حرام ہے اور اگر مسجد بنا لی جائے تو بھی اس کو مسجد نہیں سمجھا جائے گا اور زمین کے مالک کو اسے گرا دینے کا حق حاصل ہے۔
اسی طرح جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون کراچی کے فتوی نمبر 144202200526 میں کہا گیا ہے کہ
’’شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کے لیے وقف جگہ ہوتی ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ غاصب زمین کا مالک نہیں ہوتا، لہذا غصب شدہ زمین میں مسجد بنانے سے وہ مسجد شرعی مسجد نہیں کہلائے گی۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد بنانا گناہ ہے۔"
غصب شدہ زمین پر بنائی گئی مسجد کو شرعی تحفظ دینے کے موقف سے جو عمومی تاثر بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ بس جہاں مسجد کا نام آ جائے، سب اخلاقی اور قانونی ضابطے معطل ہو جاتے ہیں اور جہاں بھی جیسے بھی ایک دفعہ مسجد بن جائے، اس کو شرعی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ نوعیت کے لحاظ سے ویسا ہی ایک تاثر ہے جیسا توہین مذہب کے معاملے میں عام ہو گیا ہے کہ جہاں گستاخی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو پھر مذہبی جذبات ہی بنیادی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں، اور قانون ضابطوں کو ان کے تابع ہو جانا چاہیے۔ ہمارے نزدیک اس تاثر کا ازالہ اور ان کے پیچھے کارفرما انداز فکر کی غلطی واضح کرنا بھی دینی نقطہ نظر سے اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی انتظامی یا عدالتی فیصلے کی ناموزونیت پر سوالات اٹھانا۔
دوسری اہم بات جو اس حوالے سے کہی گئی، یہ ہے کہ سرکاری املاک کا حکم انفرادی ملکیت سے مختلف ہے اور سرکاری زمین پر اگر لوگوں نے اپنی ضرورت کے تحت حکومتی اجازت کے بغیر بھی مسجد تعمیر کر لی ہو تو اس کو گرایا نہیں جا سکتا، بلکہ حکومت پر اس کی قانونی منظوری دینا لازم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات علی الاطلاق اور اس عموم کے ساتھ درست نہیں جس طرح پیش کی جا رہی ہے۔ حنفی فقہ کی کتب میں اس مفہوم کی جزئیات یقیناً موجود ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جو زمینیں ملکیت عامہ کی نوعیت رکھتی ہوں، یعنی کسی کی انفرادی ملکیت میں یا کسی خاص مقصد کے لیے وقف شدہ نہ ہوں، وہاں اگر علاقے کے مسلمان دینی ضرورت کے تحت مسجد تعمیر کر لیں تو یہ درست ہے اور اسے بھی شرعی مسجد کا درجہ حاصل ہوگا اور وہ تمام احکام اس پر جاری ہوں گے جو ایک مسجد پر ہوتے ہیں۔ ان فقہی جزئیات کی بنیاد دراصل اس قانونی مفروضے پر ہے کہ ایسی جگہیں مفاد عامہ کے لیے ہوتی ہیں اور حکومت کی طرف سے عوام کو ایک طرح کی خاموش اجازت حاصل ہے کہ وہ حسب ضرورت انھیں مسجد کے لیے خاص کر لیں۔ فقہاء کی مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حکام وقت کی طرف سے لوگوں کویہ اجازت عمومی طور پر اور ہمیشہ کے لیے حاصل رہنا کوئی شرعی تقاضا ہے اور وہ اس کو حکومت کی پیشگی اجازت سے مشروط نہیں کر سکتے۔
پس ان فقہی تصریحات سے استشہاد اسی صورت میں پر درست ہو سکتا ہے جب حکومت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی قانون سازی موجود نہ ہو۔ اس صورت میں اسے اجازت سکوتی پر محمول کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو لوگوں کے ایک فیصلے یا اقدام پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسی کو فقہ میں دلالتاً اجازت دینا کہا جاتا ہے۔ تاہم اگر حکومت نے باقاعدہ سرکاری املاک کے متعلق ایک قانون سازی کر دی ہو اور بغیر سرکاری اجازت کے کسی بھی جگہ کو تصرف میں لانا ممنوع قرار دیا ہو تو پھر مذکورہ فقہی جزئیات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔ ہمارے دور میں، یہ معلوم ہے کہ حکومتوں کی طرف سے سرکاری املاک کے متعلق ، بالخصوص شہری آبادیوں میں، ایسی کوئی خاموش اجازت لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی، بلکہ ایسا کرنے کو خلاف قانون اور جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان جزئیات کو آج کے حالات پر منطبق کرنا اور یہ نتیجہ نکالنا کہ سرکاری املاک پر مسجد بنانے کے لیے کسی حکومتی اجازت کی ضرورت نہیں اور ایسی جو بھی مسجد بنا لی جائے، وہ حکومتی اجازت کے بغیر بھی شرعی مسجد ہوتی ہے جسے گرانا خود حکومت کے لیے بھی جائز نہیں، قطعی طور پر فقہاء کے موقف کی درست ترجمانی نہیں ہے۔
اس تناظر میں، دار العلوم دیوبند کے مختلف فتاویٰ جات میں تمام ضروری فقہی وشرعی قیود کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مسئلے کی جو نوعیت واضح کی گئی ہے، ہمارے نزدیک وہ زیادہ مستند اور درست تعبیر ہے اور اسی حوالے سے ان فتاویٰ جات کا ایک انتخاب ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
- ’’سرکاری زمین پر سرکاری اجازت کے بغیر مسجد کی تعمیر درست نہیں، تاہم اگر مسجد بنائی گئی تو کوشش کرکے سرکار سے اجازت بھی لے لی جائے، اس مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا مگر مسجد شرعی میں نماز ادا کرنے کی طرح ثواب نہ ملے گا الا یہ کہ حکومت کی طرف سے اجازت مل جائے۔” (فتویٰ نمبر 67272)
- ’’سرکاری زمین میں سرکار کی اجازت سے مسجد تعمیر کرنی چاہیے، سرکاری زمین میں بغیر سرکار کی اجازت سے مسجد تعمیر کرنا صحیح نہیں، اگر کسی جگہ سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کرلی گئی ہے تو کوشش کرکے حکومت سے اجازت لے لینی چاہیے تاکہ وہ شرعی مسجد بن جائے۔ (۲) راستہ کی زمین پر مسجد تعمیر کرنا یا مسجد کے کسی کام میں لانا درست نہیں۔” (فتویٰ نمبر 58857)
- ’’جو راستہ شارع عام ہے، اس کو مسجد کی توسیع میں شامل کرلینے کے لیے حکومت سے اجازت ضروری ہے۔” (فتوی نمبر 145278)
- ’’سرکاری زمین پر سرکار کی اجازت کے بغیر مسجد کا وضو خانہ، حمام و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے ، لہذا صورت مسئولہ میں مسجد سے ملی ہوئی سرکاری زمین پر وضو خانہ، حمام و غیرہ بنانا جائز نہیں ہے۔ ” (فتویٰ نمبر 63790)
- ’’جہاں سے ہائی ٹینشن بجلی کے تار گذرے ہوں، جب اس کے نیچے بلڈنگ بنانا غیر قانونی ہے تو مسجد بنانا بھی غیر قانونی ہوگا، پس ایسی صورت میں مالک زمین کو چاہیے کہ پہلے وہ متعلقہ محکمہ سے رابطہ کرکے تار ہٹوائے یا ان کی منظوری ختم کرائے ، اس کے بعد مسجد کی تعمیر کا کام شروع کرائے ؛ تاکہ مسجد کو کسی طرح کا خطرہ نہ ہو اور لوگ بلا خوف وخطر مسجد آکر نماز باجماعت ادا کرسکیں۔” (فتویٰ نمبر 159187)
- "وہ مصلیٰ مسجد شرعی نہ ہوگا یعنی وہاں نماز پڑھنے سے مسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔” (فتویٰ نمبر 169425)
- ’’مسجد کے ایسے حصے میں نماز ادا ہوجائے گی، البتہ غیر قانونی جگہ کو حکومت سے منظوری لیے بغیر مسجد میں شامل کرنا جائز نہیں، وہ جگہ مسجد شرعی نہیں کہلائے گی، اس لیے اس جگہ کو مسجد میں شامل کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ سرکار سے کسی طرح اجازت حاصل کی جائے خواہ قیمتاً ہی سہی، سرکار سے اجازت لیے بغیر اس جگہ کو مسجد میں شامل نہ کیا جائے۔” (فتویٰ نمبر 9092)
- ’’مسجد کی تاریخ ساٹھ سال پرانی ہے تو اس کو آپ حضرات باقی رکھیں، اگر اس کی زمین اب بھی حکومت کی ملکیت ہے تو اب باضابطہ طور پر حکومت سے اجازت حاصل کرلی جائے، اجازت مل جانے پر وہ مسجد، مسجدِ شرعی کہلائے گی۔” (فتوی نمبر 17357)
- "ماضی میں کبھی، سڑک کا کوئی حصہ مسجد میں شامل کرلیا گیا گیا تھا، اب جب مسجد کی تعمیر نو ہورہی ہے تو سڑک کا وہ حصہ خارج کردیا جائے، تعمیر میں نہ لیا جائے اور مسجد صرف اپنی اصل جگہ پر تعمیر کی جائے، اور اگر سرکار کا متعلقہ محکمہ سڑک کا وہ حصہ مسجد کے نام منظور کردے تو اُس حصے کو مسجد میں شامل کرنے میں کچھ مضائقہ نہ ہوگا، سرکار کی اجازت ومنظوری کے بعد وہ حصہ شرعاً وقانوناً مسجد کا ہوجائے گا۔” (فتویٰ نمبر 603728 )
- ’’اگر حکومت سے باقاعدہ مسجد کے نام زمین الاٹ کراکے سرکاری زمین پر مسجد بنائی جائے یا روڈ کا کچھ حصہ مسجد میں شامل کرلیا جائے بشرطیکہ مسجد کی توسیع میں اس کی ضرورت ہو اور اس کی وجہ سے راستہ بہت تنگ ہوکر لوگوں کے لیے زحمت ودشواری کا باعث نہ ہوجائے تو اس میں کچھ حرج نہیں، جائز ہے۔ ” (فتوی نمبر 58336)
- ’’اگر واقعی وہ زمین قبرستان کی ہے تو چونکہ وقف کی بیع باطل ہے ؛اس میں بیع کا نفاذ نہیں ہوتا ؛اس لیے اس زمین پر دوکان یا مکان بناکر بیچنا درست نہیں،آپ اس بیع کو ختم کرکے رقم واپس لے لیں اور جو کچھ تعمیر کرا رکھا ہے اس کو منہدم کرکے ملبہ کو اپنے استعمال میں لائیں،یہ آپ سے غلطی ہوئی کہ آپ نے بلا تحقیق زمین خرید لی ،اور بائع پر ضروری ہے کہ اس زمین کو قبرستان کی کمیٹی کے حوالہ کردے ،اس کے لیے اس زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں۔” (فتوی نمبر 165214)
- ’’صورت مسئولہ میں جس زمین پر مسجد بنائی گئی ہے اگر وہ زمین ننانوے سال کے لیے پٹہ پر لی گئی ہے ، تو ایسی زمین پر مسجد شرعی نہیں بن سکتی، کسی زمین کے مسجد شرعی بننے کے لیے ضروری ہے کہ مالک زمین نے اس کو مسجد کے لیے وقف کیا ہو، پٹہ کی زمین پر ملکیت ثابت نہیں ہوتی، لہذا ایسی زمین میں شرعا وقف کا تحقق نہیں ہوتا؛ ہاں ضرورت کے وقت ایسی زمین میں جماعت خانہ بنایا جاسکتا ، جس میں پنج وقتہ فرض نمازیں جماعت کے ساتھ اداء کی جاسکتی ہیں ، اس میں انشاء اللہ جماعت کا ثواب ملے گا، صورت مسئولہ میں جبکہ الگ سے کسی مسجد کا نظم مشکل ہے ، تو متعلقہ شخص کے ساتھ حکمت اور حسن تدبیر سے بات کر لی جائے ، تاکہ جماعت خانہ میں نماز جاری رہے ۔” (فتویٰ نمبر 146164)”
مذکورہ فتاویٰ سے متعلق مکمل سوال وجواب دیکھنے کے لیے دار العلوم کے دار الافتاء کی ویب سائٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
https://darulifta-deoband.com/
دار العلوم کے ان فتاویٰ جات سے درج ذیل نکات واضح ہوتے ہیں:
۱۔ سرکاری زمین پر حکومتی اجازت کے بغیر مسجد کی تعمیر جائز نہیں۔ اسی طرح مسجد کی توسیع کے لیے بلا اجازت سرکاری زمین کو مسجد کا حصہ بنانا بھی جائز نہیں۔ مسجد کے متعلقات مثلاً وضو خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ کے لیے بھی سرکاری زمین بلا اجازت استعمال کرنا جائز نہیں۔ (فتویٰ نمبر 67272 ، فتویٰ نمبر 58857، فتوی نمبر 145278، فتویٰ نمبر 63790)
۲۔ جس جگہ پر قانون کے مطابق کوئی بھی عمارت بنانا، ناجائز ہو، وہاں مسجد بنانا بھی ناجائز ہے۔ مسجد کو اس حوالے سے کوئی استثنا یا خصوصیت حاصل نہیں۔ (فتویٰ نمبر 159187)
۳۔ اگر کسی جگہ بغیر اجازت مسجد بنا لی گئی ہو یا کسی حصے کو مسجد میں شامل کر لیا گیا ہو تو اس کی حیثیت جائے نماز یا مصلیٰ کی ہے جس پر مسجد کے احکام لاگو نہیں ہوتے اور اس میں نماز کی ادائیگی پر مسجد کی نماز کا ثواب بھی نہیں ملتا۔ (فتویٰ نمبر 169425، فتویٰ نمبر 9092)
۴۔ اجازت وہی معتبر ہے جسے قانونی طور پر اجازت شمار کیا جاتا ہو۔ اگر کسی سرکاری جگہ پر نماز باجماعت کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہو اور سرکاری افسران نے بھی اس پر اعتراض نہ کیا ہو تو اس کے باوجود قانونی طور پر حکومتی اجازت ملنے تک وہ مسجد شرعی نہیں بنے گی، یعنی افسران کی رضامندی یا خاموشی کو سرکاری اجازت شمار نہیں کیا جا سکتا۔ (فتوی نمبر 17357)
۵۔ اگر ماضی میں سرکاری زمین کا کوئی حصہ بلا اجازت مسجد میں شامل کر لیا گیا ہو تو اسے سرکاری اجازت سے ہی مسجد میں شامل رکھا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس کی اجازت نہ دے تو نئی تعمیر میں اس کو مسجد سے خارج کر دینا ضروری ہے۔ (فتویٰ نمبر 603728 )
۶۔ اگر مسجد کی توسیع سے گزرگاہ تنگ ہوتی ہو اور لوگوں کی آمد ورفت متاثر ہوتی ہو تو سرکاری اجازت کے باوجود مسجد کی توسیع کرنا درست نہیں ہے۔ (فتوی نمبر 58336)
۷۔ اگر غلطی یا لاعلمی سے کسی دوسرے مقصد مثلاً قبرستان کے لیے وقف کی گئی جگہ پر مسجد بنا لی گئی ہو تو علم میں آنے پر اس کو منہدم کرنا اور قبرستان کو جگہ واپس کرنا شرعاً ضروری ہے۔ (فتوی نمبر 165214)
۸۔ کرایے کی جگہ پر یا عارضی اور محدود مدت کے لیے حاصل کی گئی جگہ پر قائم کی گئی مسجد کی حیثیت بھی مصلیٰ کی ہے، اس پر مسجد شرعی کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ (یہی حکم مختلف اداروں میں نماز کے لیے خاص کی گئی جگہ کا ہے جنھیں باقاعدہ مسجد کے طور پر وقف نہ کیا گیا ہو)۔ (فتویٰ نمبر 146164)
ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم
حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفات
محمد عمار خان ناصر
ممتاز اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ کئی سال کی علالت کے بعد گذشتہ دنوں انتقال فرما گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون
حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ سے پہلا تعارف غالباً نوے کی دہائی میں ان کی تصنیف ’’واقعہ کربلا“ کے حوالے سے ہوا تھا۔ رسمی طالب علمی کا دور تھا۔ کتاب انڈیا سے چھپی تھی، لیکن متنازعہ موضوع کی وجہ سے اس کا غیر قانونی ایڈیشن پاکستان سے بھی چھپا اور بڑے پیمانے پر فروخت ہوا۔ عم مکرم مولانا عبد الحق خان بشیر نے اس پر ایک تفصیلی تنقید ماہنامہ ’’حق چاریار’’ میں شائع کی جس میں بنیادی طور پر کتاب کے قابل نقد اقتباسات اور اکابر دیوبند کی آرا سے ان کا اختلاف نمایاں کیا گیا تھا۔ والد گرامی ان دنوں برطانیہ میں تھے اور اس حوالے سے انھوں نے عم مکرم کو ایک خط بھی لکھا جس کی نقل ریکارڈ میں کہیں محفوظ ہوگی۔
۲۰۰۱ء کے بعد الشریعہ کی ادارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تو اس میں مباحثہ ومکالمہ کا ایک مستقل سلسلہ شروع کیا گیا جو روایتی مذہبی حلقوں کے لیے بہت تعجب انگیز اور باعث اضطراب تھا۔ نہ صرف دیوبندی حلقے بلکہ دیگر مکاتب فکر کے ذمہ دار حضرات نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی، کیونکہ اس میں بہت سے نازک مسائل پر مختلف نقطہ ہائے نظر ادارے کی طرف سے صحیح یا غلط کا کوئی حکم لگائے بغیر پیش کیے جا رہے تھے جس سے، ناقدین کے خیال میں، مستند مسلکی یا مذہبی موقف کے قابل بحث اور قابل اختلاف ہونے کا تاثر پیدا ہوتا تھا۔ مباحثہ ومکالمہ کے اس سلسلے کی جن اہل علم نے واضح طور پر تائید اور سرپرستی فرمائی، ان میں حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ بھی تھے۔ ان کا خط الشریعہ میں شائع شدہ ہے جس میں انھوں نے لکھا کہ یہ نیا طرز باعث دلچسپی ہے اور خاص طور پر برادرم میاں انعام الرحمن کی تحریروں کی خصوصی توصیف کی جو ان دنوں الشریعہ میں سنجیدہ موضوعات پر مستقل لکھا کرتے تھے۔
مولانا سنبھلیؒ، اس کے بعد سے، علالت کے آخری چند سال نکال کر، نہ صرف مجلے کے مستقل قاری رہے، بلکہ اپنے خطوط، تبصروں اور کئی اہم موضوعات پر اپنی تحریروں کے ذریعے سے مجلے کی علمی سرپرستی بھی فرماتے رہے۔ ۲۰۰۳ء میں مسجد اقصیٰ کی تولیت پر راقم کا تفصیلی موقف شائع ہوا تو جن بڑے اہل علم کی طرف سے اس پر حوصلہ افزائی موصول ہوئی، ان میں بھی مولانا سنبھلیؒ کا نام نمایاں تھا۔ مولانا کا یہ خط بھی الشریعہ میں شائع شدہ ہے۔ طالبان کی حکومت کے سقوط کے کچھ سال کے بعد مولانا نے ’’خواب جو بکھر گیا“ کے عنوان سے طالبان کی پالیسیوں کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا جو الشریعہ میں شائع ہوا اور کافی بحث ونقد کا موضوع بنا۔
الشریعہ اور والد گرامی کے توسط سے مولانا علیہ الرحمہ کے ساتھ ناچیز کا ایک خاص ذاتی تعلق بھی استوار ہو گیا اور وہ بزرگانہ شفقت کے ساتھ کئی مسائل میں اپنے ذاتی ملاحظات سے بھی نوازتے رہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے حلقے سے متعلق ان کی رائے کافی منفی تھی جس کا وہ کھلا اظہار بھی فرماتے تھے۔ ۲۰۰۱ء میں والد گرامی اور المورد کے اہل قلم کے مابین تین چار اہم موضوعات پر ایک تفصیلی مباحثہ ہوا جو الشریعہ اور اشراق کے علاوہ بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ مولانا نے اس پر والد گرامی کو تفصیلی خط لکھا جس میں فرمایا کہ غامدی صاحب کو فکری طور پر مولانا اصلاحی کی طرف منسوب کرنا درست نہیں اور وہ دراصل مولانا مودودی کے حلقے کے آدمی ہیں۔ راقم کا المورد اور غامدی صاحب کے ساتھ تعلق بھی مولانا کے علم میں تھا اور کافی سال کے بعد انھوں نے ایک خط میں راقم کو لکھا کہ علمی استفادہ تو خود انھوں نے بھی مولانا اصلاحی سے بہت کیا ہے، لیکن اس کے لیے باقاعدہ غامدی صاحب کے ادارے سے میری وابستگی کیوں ضروری تھی؟
زندگی اور صحت کے آخری سالوں میں مولاناؒ نے اپنی ساری توجہ ’’محفل قرآن“ پر مرکوز کر دی تھی جس کی متعدد جلدیں، الفرقان میں قسط وار اشاعت کے بعد، شائع ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک جلد جو سورۃ البقرۃ اور آل عمران پر مشتمل ہے، مولانا علیہ الرحمہ نے خاص طور پر بھجوائی اور اس پر تبصرے کا حکم دیا۔ افسوس، اس مقصد سے کتاب کے تفصیلی مطالعے اور نوٹس وغیرہ لینے کے باوجود تبصرہ لکھنے کی نوبت نہیں آ سکی اور مولانا کی تعمیل ارشاد نہ ہو سکی جس پر بہت شرمندگی ہے۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو بلند درجات عطا فرمائے، ان کو اپنے سلف صالح کے ساتھ جوار رحمت میں جگہ دے، اور ان کی علمی ودینی خدمات کے سلسلے کو ان کے اخلاف کے ذریعے سے جاری رکھے۔ اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ، آمین۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۵)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(298) ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ
تذکیر کا مطلب یاد دلانا ہوتا ہے، یہ یاد دہانی سمع اور بصر دونوں راستوں سے ہوسکتی ہے، کتابِ وحی کی آیتوں کو سنا کر بھی اور کتابِ کائنات کی نشانیوں کو دکھا کر بھی۔
درج ذیل آیت میں تذکیر اپنے اسی وسیع مفہوم میں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے صُمًّا وَعُمْیَانًا آیا ہے۔ صم کا مطلب بہرے اور عمیان کا مطلب اندھے ہے۔ سنائی جانے والی تذکیر یعنی آیاتِ وحی کی تکذیب کرنے پر بہرے کہا گیا اور دکھائی جانے والی تذکیر یعنی کائنات کی نشانیوں کا انکار کرنے پر اندھا کہا گیا۔
بعض لوگوں نے تذکیر کا ترجمہ سنانا کیا ہے جو موزوں نہیں ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:
وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمًّا وَعُمْیَانًا۔ (الفرقان: 73)
”جنہیں اگر اُن کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے“۔ (سید مودودی)
”اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے“۔ (احمد رضا خان)
”اور وہ کہ جب ان کو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں)“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو ان کے رب کی آیات کے ذریعہ سے یاددہانی کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرتے“۔ (امین احسن اصلاحی، البتہ تفسیر میں قرآن کے ذریعہ سے تعلیم وتذکیر لکھا ہے، جو درست نہیں ہے۔ مرئی اور مسموع دونوں طرح کی آیات یہاں مراد ہیں۔)
(299) مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا
وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ھُزُوًا أَہَٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللَّہُ رَسُولًا۔ إِن کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا۔ (الفرقان: 41، 42)
”یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں (کہتے ہیں) ”کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اِس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کر دیا ہوتا اگر ہم اُن کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے“ اچھا، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر اِنہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا تھا“۔ (سید مودودی)
یہاں مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا کا ترجمہ مختلف طرح سے کیا گیا ہے:
کچھ لوگوں نے تفضیل کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:
”کون زیادہ گمراہ تھا“۔ (طاہر القادری)
”زیادہ بہکا ہوا کون ہے“۔ (ذیشان جوادی)
”راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟“۔ (محمد حسین نجفی)
”سب سے زیادہ بے راہ کون ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
سیاق کلام کو دیکھیں تو تفضیل کا ترجمہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہاں مختلف گم راہوں کے درمیان موازنے کا محل نہیں ہے بلکہ رسول کا مذاق اڑانے والوں کے گم راہ ثابت ہونے کی بات ہے۔
درج ذیل ترجمے درست ہیں:
”سیدھے رستے سے کون بھٹکا ہوا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”کون شخص بہت گم راہ ہوا ہے راہ سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”کون بہت بچلا ہے راہ سے“۔ (شاہ عبدالقادر)
”پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟“۔ (محمد جوناگڑھی)
(300) وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا
ترتیل رتل سے ہے، جس کے معنی حسنِ ترکیب کے ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے: الرَّتَلُ: حُسْن تَناسُق الشَّیء، وثَغْرٌ رَتَلٌ ورَتِلٌ: حَسَن التَّنْضِیدِ مُستوی النباتِ، وَقِیلَ المُفَلَّج، وَقِیلَ بَیْنَ أَسنانہ فُروج لَا یَرْکَبُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔
ترتیل کی نسبت اگر متکلم یا مصنف کی طرف کی جائے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلام کو عمدہ ترتیب وترکیب کے ساتھ پیش کیا اور اگر اس کی نسبت قاری کی طرف کی جائے تو مطلب ہوتا ہے کہ زبان سے کلام کو خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ لسان العرب میں ہے: ورَتَّلَ الکلامَ: أَحسن تأْلیفہ وأَبانَہ وتمَہَّلَ فِیہِ. والتَّرْتِیلُ فِی الْقِرَاءَ ۃِ: التَّرَسُّلُ فِیہَا وَالتَّبْیِینُ مِنْ غَیْرِ بَغْیٍ۔
وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا۔ (الفرقان: 32)
اس آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
”منکرین کہتے ہیں ”اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا؟“ ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے“۔ (سید مودودی)
”اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا“۔(احمد رضا خان)
”اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ہم نے اس کو تدریج واہتمام کے ساتھ اتارا“۔ (امین احسن اصلاحی)
وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا کا عام طور سے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ٹھہر ٹھہر کر یا تدریج کے ساتھ اتارا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے کیا نئی بات معلوم ہوئی؟ ٹھہر ٹھہر کر نازل ہونا تو ایک عیاں حقیقت تھی جس پر کافروں کو اعتراض تھا۔ اسی بات کو دوبارہ کہنے کا کیا فائدہ ہے۔
دراصل اس آیت میں مذکور کفار کا اعتراض ہی یہی تھا کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہونے کے بجائے ایک ہی بار میں کیوں نہ اتار دیا گیا۔ اس کے جواب میں دو باتیں کہی گئیں، ایک بات تو یہ کہ اس طرح نبیﷺ (اور آپ کے مومن ساتھیوں)کے دل کی تقویت کا مسلسل سامان ہوتا رہے گا۔ یہ گویا تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی حکمت بیان کردی گئی۔ اس کے بعد دوسری بات یہ کہی گئی کہ تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے باوجود یہ بہترین ترتیب میں ہے۔ اس کے حسنِ ترتیب میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ یہ گویا قرآن کی معجزاتی خوبی بیان کی گئی کہ طویل عرصے تک تھوڑا تھوڑا نازل ہونے والا کلام آخر کار کتنی عمدہ ترتیب میں ہے۔ اسے علامہ طاہر بن عاشور یوں بیان کرتے ہیں:
والترتیل یوصف به الکلام إذا کان حسن التألیف بین الدلالة. واتفقت أقوال أئمة اللغة علی أن هذا الترتیل مأخوذ من قولہم: ثغر مرتل، ورتل، إذا کانت أسنانه مفلجة تشبه نور الأقحوان. ولم یوردوا شاہدا علیه من کلام العرب. والترتیل یجوز أن یکون حالة لنزول القرآن، أی نزلناہ مفرقا منسقا فی ألفاظه ومعانیه غیر متراکم فہو مفرق فی الزمان فإذا کمل إنزال سورة جاءت آیاتہا مرتبة متناسبة کأنہا أنزلت جملة واحدة، ومفرق فی التألیف بأنه مفصل واضح. وفی هذا إشارة إلی أن ذلک من دلائل أنه من عند اللہ لأن شأن کلام الناس إذا فرق تألیفه علی أزمنة متباعدة أن یعتوره التفکک وعدم تشابه الجمل۔ (التحریر والتنویر)
مولانا امانت اللہ اصلاحی وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”اور ہم نے اسے بہترین ترتیب دی“۔
(301) لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ
مذکورہ بالا آیت (الفرقان: 32) میں لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ کا ترجمہ عام طور سے حسب ذیل کیا گیا ہے:
”تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
حسب ذیل ترجمہ عام ترجموں سے مختلف ہے:
”کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں“۔ (سید مودودی)
عبارت کے لحاظ سے یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ تو یہی ہے کہ ”تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں“ البتہ تفسیر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دل کو مضبوط کرنے سے مراد اسے یاد کرلینے اور سمجھ لینے کی مضبوطی ہے۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں ہے: لنقوی بتفریقہ فؤادک علی حفظہ وفہمہ۔ تاہم یہ تفسیر کم زور معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ قرآن تو دل پر نازل ہورہا تھا، ایک ساتھ نازل ہوتا تو وہ بھی محفوظ ہوجاتا۔ یہاں تو عمومی معنوں میں دل کا ثبات مراد لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔
(302) اتَّخَذُوا ہَٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا
درج ذیل آیت میں مَہْجُورًا کی تین طرح سے تفسیر کی گئی ہے، مارودی لکھتے ہیں: فیه ثلاثة أوجه: أحدها: أنہم ہجروه بإعراضہم عنه فصار مہجوراً، قاله ابن زید. الثانی: أنہم قالوا فیه هجراً أی قبیحا، قاله مجاهد. الثالث: أنہم جعلوہ هجراً من الکلام وہو ما لا نفع فیه من العبث والہذیان، قاله ابن قتیبة۔ (النکت والعیون) یعنی قرآن کو چھوڑ دینا، قرآن کے سلسلے میں بد کلامی کرنا اور قرآن کو بے سود کلام قرار دینا۔ اردو میں اس کا ترجمہ بھی تینوں طرح سے کیا گیا ہے:
وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا۔ (الفرقان: 30)
”اور کہا رسول نے اے رب میرے قوم میری نے ٹھہرایا ہے اس قرآن کو جھک جھک“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا“۔ (سید مودودی)
”اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرایا“۔(احمد رضا خان)
”اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا“۔ (امین احسن اصلاحی)
یہاں مھجورا کے ساتھ اتخذوا آیا ہے۔ لفظ اتخذ کا اصل مطلب پکڑنا ہے، لفظ میں وسعت کی وجہ سے بنانا، اختیار کرنا اور اپنے کسی عمل کا ہدف بنانا بھی اس کے وسیع مفہوم میں شامل ہوا۔ قرآن مجید میں اتخذ بہت زیادہ بار ذکر ہوا ہے، اور ہر جگہ اس کا یہی مفہوم ہے۔ اگر ہم مہجور کا مطلب چھوڑا ہوا لیں تو اتخذ کے ساتھ یہ لفظ بے میل معلوم ہوتا ہے۔ درج ذیل لفظی ترجمے میں یہ چیز ظاہر ہورہی ہے:
”قوم میری نے پکڑا ہے اس قرآن کو چھوڑا ہوا“۔ (شاہ رفیع الدین)
اوپر کی گفتگو کی روشنی میں پہلے دونوں ترجمے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ تجویز کرتے ہیں: ”میری قوم اس قرآن کے بارے میں بکواس کرتی رہی“ اس مفہوم کو دیگر کئی مقامات پر ھزوا سے بھی تعبیر کیا گیا، جیسے ”وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَمَا أُنْذِرُوا ہُزُوًا“۔(الکہف: 56)
(303) اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا
وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَیٰ یَدَیْهِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا۔ (الفرقان: 27)
”اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا“۔ (فتح محمد جالندھری، کھائے گا کہنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کہے گا)
”اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راہ اختیار کی ہوتی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا،کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا“۔ (سید مودودی)
اس آخری ترجمہ میں تین باتیں قابل غور ہیں، ایک یہ کہ ویوم کا ترجمہ (اور اس دن) چھوٹ گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یدیہ مثنی ہے اس کا ترجمہ اپنا ہاتھ نہیں اپنے ہاتھ ہوگا۔ اور تیسری بات یہ کہ یہاں رسول کا ساتھ دینا مراد نہیں بلکہ رسول کے راستے پر چلنا مراد ہے۔ کیوں کہ لفظ سبیل آیا ہے۔ رسول کے اختیار کیے ہوئے راستے کو اختیار کرنے میں معیت کی معنویت بھی واضح ہوجاتی ہے۔
(304) أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ
لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاء نِی۔ (الفرقان: 29)
”اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”بیشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے“۔ (احمد رضا خان)
”اس نے مجھے گم راہ کرکے اس یاددہانی سے برگشتہ کیا، بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی“۔ (امین احسن اصلاحی، یاد دہانی سے برگشتہ کرکے مجھے گم راہ کیا)
”اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی“۔ (سید مودودی، نصیحت نہ ماننے کی وجہ سے اس کے بہکاوے میں آیا)
مذکورہ بالا جملے میں لَّقَدْ أَضَلَّنِی کا ترجمہ تو بالکل واضح ہے کہ اس نے مجھے گم راہ کیا۔ گم راہ راستے سے کیا جاتا ہے یاد دہانی سے نہیں، اس لیے لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ کا ترجمہ یاددہانی یا نصیحت سے گم راہ کرنا موزوں نہیں معلوم ہوتا ہے۔ یہاں عن سے پہلے فعل محذوف ہے، جس کا مطلب ہے یاد دہانی سے غافل و برگشتہ کرکے۔
صحیح ترجمہ یوں ہے:
”اس نے مجھے گم راہ کردیا اس یاددہانی سے برگشتہ کرکے بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)
(305) فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ
وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا۔ (سورۃ الفرقان: 5)
”اور کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کے فسانے ہیں جو اس نے لکھوائے ہیں تو وہ اس کو صبح شام لکھ کر تعلیم کیے جاتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”وہی لکھوائے جاتے ہیں اس پاس صبح اور شام“۔ (شاہ عبدالقادر)
ان دونوں ترجموں میں املاء کا ترجمہ لکھ کر تعلیم کرنا اور لکھوانا کیا گیا ہے۔ اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو وحی لکھی ہوئی شکل میں تو دی نہیں جاتی تھی اور نہ ہی آپ لکھی ہوئی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے۔ اصل میں لفظ املاء کا مطلب لازمی طور پر لکھوانا نہیں ہے، بلکہ القا کرنا ہے۔ جس پر القا کیا جارہا ہے وہ اسے لکھ بھی سکتا ہے اور سن کر ذہن میں محفوظ بھی کرسکتا ہے۔
تفسیر جلالین میں تملی کا ترجمہ تُقرَأ کیا گیا ہے، جو مناسب ہے۔
علامہ ابن عاشور املاء کا مفہوم بتاتے ہیں: والإملاء: ہو الإملال وہو إلقاء الکلام لمن یکتب ألفاظہ أو یرویہا أو یحفظہا۔ (التحریر والتنویر)
اس پہلو کو سامنے رکھیں تو درج ذیل دونوں ترجمے موزوں تر معلوم ہوتے ہیں:
”اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں“۔ (سید مودودی)
”پس وہ پڑھے جاتے ہیں اوپر اس کے صبح وشام“۔ (شاہ رفیع الدین)
مطالعہ سنن ابی داود (۲)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
مطیع سید: مغرب کی دو رکعتیں چھوٹ جائیں تو ہم ان دونوں میں قعدے کا اہتما م کر تے ہیں۔کیا یہ حدیث میں آیا ہے یا استنباطی چیز ہے؟
عمار ناصر: یہ استنباطی چیز ہے۔
مطیع سید: اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی دونوں میں سے پہلی رکعت میں قعدے میں نہیں بیٹھتا تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا؟
عمار ناصر: جی، سجدہ سہو نہیں آئے گا۔ امام کے ساتھ اگر آپ کی ایک رکعت چھوٹ گئی ہے تو جس رکعت میں آپ شامل ہوئے ہیں، آپ اس کو چاہے اپنی پہلی اور جو امام کے بعد پڑھیں گے، اس کو دوسری اور تیسری شمار کرلیں یا اس کے برعکس امام کے ساتھ جو رکعات پڑھ رہے ہیں، ان کو دوسری اور تیسری شمار کرلیں جبکہ چھوٹی ہوئی رکعت کو پہلی شمار کرلیں۔ یہ آپ کی نیت پر منحصر ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ان دونوں طریقوں کی تصویب منقول ہے۔
مطیع سید: مروان بن حکم نے خطبہ پہلے اور نماز عید بعد میں پڑھنے کا طریقہ نکالا۔ایک صحابی نے فرمایا کہ تونے یہ بدعت نکالی ہے۔(کتاب الصلوۃ، باب الخطبۃ یوم العید، حدیث نمبر ۱۱۴۰) بعض کہتے ہیں کہ وہ اصل میں حضرت علی پر تبرا کرتا تھا اور صحابہ نماز کے بعد اٹھ کر چلے جاتے تھے، اس لیے اس نے خطبہ پہلے رکھ دیا۔کیا یہ ایسے ہی تھا؟
عمار ناصر: اموی عمال کی یہ روش تو روایات میں بیان ہوئی ہے۔ لیکن اس وقت میرے ذہن میں نہیں کہ مروان نے جو خطبے کو مقدم کرنے کا طریقہ اختیار کیا، اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ بعض دیگر روایات میں ہے کہ خطبے کو نماز سے مقدم کرنے کا طریقہ اس سےپہلے حضرت معاویہ نے بھی اختیار کیا تھا۔ وجہ یہی بیان ہوئی ہے کہ نماز کے بعد لوگ خطبہ سننے کے لیے نہیں ٹھہرتے تھے تو انھوں نے ترتیب بدل دی۔
مطیع سید: حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں بلاخوف ومطر نمازیں اکٹھی پڑھنے کا ذکر آتا ہے۔ (کتاب صلاۃ السفر، باب الجمع بین الصلاتین، حدیث نمبر ۱۲۱۰) ایک شیعہ دوست کہتے ہیں کہ آپ لوگ کبھی بھی اکٹھی نہیں پڑھتے۔ کیا شیعہ نے مستقل نمازیں اکٹھی کرلیں تو اہل سنت نے رد عمل میں کبھی کبھار بھی ایسا کرنا چھوڑ دیا؟
عمار ناصر: نہیں، رد عمل میں ایسا نہیں ہوا۔ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ نمازیں اصل میں اپنے الگ الگ اوقات میں مشروع کی گئی ہیں تو انھیں اپنے وقت میں ہی پڑھنا چاہیے اور کوئی وجہ ہو، کوئی جواز ہو توپھر ان کو جمع کرنا چاہیے۔یہ جمہور فقہاء کے نزدیک ہے، احناف تو جمع کے قائل ہی نہیں، ،یعنی سفر میں بھی قائل نہیں۔ خوف اور بارش کے بغیر جمع سے متعلق ابن عباس کی جو روایت ہے، چونکہ وہ ایک ہی روایت ہے تو اس سے واضح نہیں ہوتا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔یہ روایت مختلف تعبیرات قبول کرلیتی ہے۔ وہ احناف کی تعبیر بھی قبول کرلیتی ہے جو کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اگر مدینے میں نمازیں جمع کی ہیں تو یہ جمع ِ صوری تھی، یعنی بظاہر اکٹھی پڑھی جا رہی تھیں،لیکن حقیقت میں ایک نماز کو آخری وقت تک موخر کر کے دوسری نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھا جا رہا تھا۔وہ شیعہ حضرات کی تعبیر کو بھی قبول کرلیتی ہے کہ کوئی عذر نہیں تھا، محض لوگوں کو یہ بتا نے کے لیے نمازیں جمع کی گئیں کہ اس کی بھی سہولت ہے۔ ایک تیسری تعبیر بھی ہو سکتی ہے کہ ابن عباس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نمازوں کو جمع کرنے کی وجہ محض خوف یا بارش نہیں ہے،عذر کی کئی اور بھی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بعض دفعہ کسی کام میں مصروفیت ہوتی ہے یا کوئی اور ایسی وجہ ہو سکتی ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا ایک مجبوری بن جاتی ہے۔ اس کو بارش یا خوف کی حالت میں محصور نہ سمجھو۔تو وہ دو تین طرح کی تعبیرات قبول کرلیتی ہے۔
مطیع سید: کیا تہجد پہلے تمام مسلمانوں پر فرض تھی یا شروع سے ہی بس آپﷺ پر فرض تھی اور مسلمان تطوعاً پڑھتے تھے؟ عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت میں بیان ہوا ہے کہ یہ پہلے لوگوں پر فرض تھی، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا۔ (کتاب التطوع، باب نسخ قیام اللیل والتیسیر فیہ، حدیث نمبر ۱۳۰۴)
عمار ناصر: مفسرین عام طورپر یہ کہتے ہیں کہ شروع میں اصل میں یہی نماز تھی جو فرض کی گئی تھی، پھر بعد میں اس کو نفل کا درجہ دے دیا گیا۔ البتہ مجھے ایسے یاد پڑتا ہے کہ شاید علامہ انور شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ ایسا نہیں ہے۔ یہ عام لوگوں پر فرض نہیں تھی۔
مطیع سید: سبعۃ احرف کی کافی روایات ہیں۔ (کتاب الوتر، باب انزل القرآن علیٰ سبعۃ احرف، حدیث نمبر ۱۴۷۵ تا ۱۴۷۸) ان کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔
عمار ناصر: یہ بڑامشکل مسئلہ ہے۔ سبعہ احرف والی روایت میں کئی طر ح کے سوالات ہیں۔خاص طور پر سبعہ کی تعیین کرنا کہ قراءتیں کس لحاظ سےسات ہیں، بڑاہی مشکل ہے۔ اس کی کوئی ایسی توجیہ یا تعبیر جو پوری طرح سمجھ میں آتی ہو، میرے علم میں نہیں ہے۔ علامہ سیوطی نےتو کہہ دیا کہ یہ متشابہات میں سے ہے۔
مطیع سید: علامہ انور شاہ صاحب نے اس کے بارے میں کوئی رائے دی ہے؟
عمار ناصر: اس وقت ذہن میں نہیں ہے۔
مطیع سید: اگر ہم اس سے لہجے مراد لیں تو وہ توسات سے زیادہ ہیں۔
عمار ناصر: لہجوں پر یہ منطبق نہیں ہوتی۔
مطیع سید: غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں بعد میں عجم کی شامل کی ہوئی ہیں۔
عمار ناصر: یہ بات بنیادی طورپر تمناعمادی وغیرہ نے کہی ہے۔غامدی صاحب اس طرح سے نہیں کہتے، ان کی بات مختلف ہے۔
مطیع سید: امام ابو داؤد نے باب فی تعجیل الزکوٰۃ کا عنوان باندھا ہے، ،یعنی زکوٰۃ وجوب سے پہلے ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (کتاب الزکوٰۃ، باب فی تعجیل الزکوۃ، حدیث نمبر ۱۶۲۳) تو کیا ہم اسے پر دوسری عبادات کو قیاس کر سکتے ہیں؟
عمار ناصر: نہیں۔عبادات میں نوعیت کے لحاظ سے فرق ہے۔ نماز کے اوقات بتائے گئے ہیں تو اسے اوقات کے لحاظ سے متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ اس خاص وقت میں ہی مطلوب ہے۔اس میں بھی خاص حالات میں پہلے پڑھ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔روزے اور حج کا بھی یہی معاملہ ہے۔ لیکن زکوۃ میں ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی خاص وقت رکھا گیا ہے جس میں سب نے زکوۃ ادا کرنی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ سال گزرنے پر وہ آپ پر لازم ہوگی۔ ظاہر ہے، ہر آدمی کا سال الگ ہوگا۔ تو یہ نوعیت کا فرق ہے کہ زکوۃ فر ض سال کے بعد ہوتی ہے، لیکن یہ مطلب نہیں کہ آپ پہلے نہیں دے سکتے۔ اگر آپ نے دینی ہے اور لوگوں کی ضرورت موجود ہے تو آپ پہلے بھی دے سکتےہیں۔
مطیع سید: حضرت ابن عباس فرماتےہیں کہ ان کے والد حضرت عباس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ دیے۔ (کتاب الزکوٰۃ، باب الصدقۃ علیٰ بنی ہاشم، حدیث نمبر ۱۶۵۳) حضرت عباس تو بنو ہاشم میں سے تھے، کیا زکوٰۃ ان کے لیے جائز تھی؟
عمار ناصر: احادیث میں صدقہ کی تعبیر کافی وسیع معنی میں آتی ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ بیت المال میں آنے والے دیگر محصولات پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے، حضرت عباس کو یہ مال فے میں سے دیے گئے ہوں۔ مال فے میں خمس رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اقربا کے لیے خاص کیا گیا تھا۔ ممکن ہے، اس میں سے ان کو اونٹ دیے گئے ہوں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی حصے میں سے دیے ہوں۔
مطیع سید: حج کا احرام باندھنے کے بعد صحابہ نے اس کو عمرے میں تبدیل کر لیا۔آگے لکھا ہے کہ یہ بات صحابہ کے ساتھ خاص تھی۔ (کتاب المناسک، باب الرجل یہل بالحج ثم یجعلہا عمرۃ، حدیث نمبر ۱۸۰۸) ان کے ساتھ خاص ہونے کی کیا وجہ تھی؟
عمار ناصر: اصل تو یہی ہے کہ آپ جس عبادت کے لیے احرام باندھ کر نکلے ہیں، اسی کو پورا کریں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول سے ہٹ کر صحابہ کو احرام تبدیل کرنے کا حکم دیا تو اس کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک خاص مصلحت کے تحت کیا گیا تھا۔ آپﷺ اور صحابہ روانہ تو حج کا احرام باندھ کر ہوئے تھے،لیکن راستے میں آپ کو خیال آیا کہ ایک بڑا غلط تصور چلا آرہا ہے جس کی اس موقع پر اصلاح ضروری ہے۔ وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حج کے سفر میں عمرہ کر نا گناہ ہے۔تو آپ ﷺ نے عام قاعدے کے خلاف صحابہ سے کہا کہ وہ اسی احرام میں عمرے کی نیت کر لیں اور عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں۔یہ ایک خاص صورت حال میں کیا گیا تھا۔ عام ضابطہ یہی ہے کہ جس عبادت کی نیت سے احرام باندھا ہو، اسی کو مکمل کریں۔
مطیع سید: حدیث میں دوسرے کی طرف سے حج کرنے کی اجازت آئی ہے۔ (کتاب المناسک، باب الرجل یحج عن غیرہ، حدیث نمبر ۱۸۰۹) کیا کسی دوسرے کی طرف سے حج وہی شخص کر سکتا ہے جس نے پہلے حج کیا ہوا ہو؟ کیا یہ ضروری ہے؟
عمار ناصر: کوئی نص تو میرے علم نہیں ہے، لیکن یہ عقلی اور قیاسی طورپر سمجھ میں آتی ہے۔ آدمی کے ذمے پہلے اس کا اپنا حج ہے،وہ ادا کرے، پھر کسی دوسرے کی طرف سے فریضہ ادا کرے۔ یہ معقول بات ہے۔
مطیع سید: ایک آدمی غریب ہے، اس پر حج فر ض ہی نہیں۔ اس کو کسی نے کہا کہ آپ کو میں خرچ دیتا ہوں، آپ میرے والدین کی طرف سے حج کر آئیں۔ تو کیا یہ درست نہیں ہوگا؟
عمار ناصر: اس رائے کے مطابق درست نہیں ہوگا۔ نیابتاً حج کے لیے ایسے آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے جو پہلے اپنا فریضہ ادا کر چکا ہو۔بہرحال چونکہ استنباطی مسئلہ ہے، اس لیے آپ چاہیں تو اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔
مطیع سید: غریب آدمی پر تو فرض تھا ہی نہیں، اس پر اپنا فریضہ ادا کرنے کی شرط کیسے لگائی جا سکتی ہے؟
عمار ناصر: یہاں دوسرے کی طرف سے ادا کرنے کی اہلیت کی بات ہو رہی ہے۔ اس پر فرض نہیں تھا، یہ ٹھیک ہے۔ جب اس نے اپنا حج نہیں اداکیا تو فقہا یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے ادا کرنے کااہل نہیں ہے۔
مطیع سید: احرام کی حالت میں عورت دستانے اور نقاب نہ پہنے۔ (کتاب المناسک، باب ما یلبس المحرم، حدیث نمبر ۱۸۲۶) متقدمین تو چہرے کے پردے کے قائل نہیں تھے تو کیا یہ دستا نے بھی اس دور میں چلتے تھے؟
عمار ناصر: متقدمین چہرے کے پر دے کے وجوب کے قائل نہیں تھے، جواز کے تو قائل تھے۔بہت سی خواتین کر تی بھی تھیں، احرام کی حالت میں چہرے کو ڈھانپنا ممنو ع ہے۔
مطیع سید : دستا نے بھی اس دور میں تھے کہ جس کا ذاتی ذوق ہو، پہن لے؟
عمار ناصر: دستانے تو ضروری نہیں، پردے کی نیت سے ہی پہنے جاتے ہیں۔ سردیوں میں موسم کے لحاظ سے بھی پہنے جاتے تھے۔
مطیع سید: کب یہ کہا گیا کہ چہرے کا پر دہ بھی نا لازمی ہے؟
عمار ناصر: کافی بعد میں متاخرین کے ہاں یہ رجحان پیدا ہوا۔ائمہ اربعہ کے ہاں تو نہیں ملتا۔
مطیع سید: آپ نے اپنے دادا جان کے بارے میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ اس کے وجوب کے قا ئل نہیں تھے۔
عمار ناصر: احناف کے ہاں تو یہی ہے۔البتہ متاخرین حنابلہ اور امام ابن تیمیہ وغیرہ کے ہاں وجوب ہے۔سعودیہ میں ابن تیمیہ کی رائے کی بنیادپر اس کو قانوناً بھی لازم کر دیا گیا تھا۔احناف کے ہاں ہندوستان میں بعض لوگوں نے کچھ شدت اختیار کی ہے۔
مطیع سید: احرام کی حالت میں نکاح کی ایک طرف ممانعت کی روایات آتی ہیں، (کتاب الحج، باب المحرم یتزوج، حدیث نمبر ۱۸۴۱) دوسری طرف یہ بھی آتا ہے کہ آپ ﷺنے حضرت میمونہ سے احرام کی حالت میں نکا ح فرمایا۔ (کتاب المناسک، باب المحرم یتزوج، حدیث نمبر ۱۸۴۴)
عمار ناصر: اس نکاح کے بارے میں روایتیں متعارض ہیں۔ایک میں ہے کہ آپ ﷺنے احرام میں کیا اور دوسری میں ہے کہ آپﷺ احرام سے نکل چکے تھے۔محدثین کے ہاں احرام سے نکل جانے والی روایت کو عام طورپر قبول کیا جاتا ہے۔
مطیع سید: امام داؤود لکھتے ہیں کہ ابن عباس کو وہم ہواہے، حالتِ احرام میں آپ ﷺ نے نکاح نہیں کیا۔
عمار ناصر: جی محدثین یہی کہتے ہیں کہ ابن عباس کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
مطیع سید: لاینکح ولا یُنکح میں نکاح سے مرا دیہ بھی لے سکتے ہیں کہ عقد نکاح نہیں، بلکہ نکاح کے بعد خلوت کرنا مراد ہے؟
عمار ناصر: احناف یہ تاویل کر تےہیں، لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ عقد نکاح ہی مراد ہے۔ لاینکح ولا یُنکح ۔ یعنی خود بھی نکاح نہ کرے اور دوسرے کا بھی نہ کروائے۔
مطیع سید: احرام باندھنے میں کندھے کو ننگا رکھنا (کتاب المناسک، باب الاضطباع فی الطواف، حدیث نمبر ۱۸۸۴) یہ بھی رمل جیسی وقتی کوئی چیز تھی یا مستقل حکم ہے؟ حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے ان دونوں چیزوں کا یعنی رمل اور اضطباع کا پس منظر ایک ہی بیان کیا۔ (کتاب المناسک، باب الاضطباع فی الطواف، حدیث نمبر ۱۸۸۷)
عمار ناصر: حضرت عمر کی رائے یہی تھی کہ اگرچہ یہ طریقہ ایک خاص موقع پر مشرکین کو مسلمانوں کی ہمت اور حوصلہ دکھانے کے لیے اختیار کیا گیا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں، لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل کیا جاتا رہا، اس لیے اس کو جاری رکھنا چاہیے۔
مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حرمت والے مہینوں کے اپنی جگہ پر واپس آ جانے کاذکر فرمایا۔ (کتاب المناسک، باب الاشہر الحرم، حدیث نمبر ۱۹۴۷) یہ حرمت کے مہینے کیا پچھلی شریعتوں سے چلے آرہے تھےیا اہل عرب نے خود طے کرلیے تھے؟
عمار ناصر: قرآن ِ مجید سے یہی پتہ چلتا ہے کہ عرب کے ماحول میں حج اور عمرے کی عبادت کو محفوظ کرنے کے لیے یہ مہینے باقاعدہ مقرر کیے گئے تھے۔ حرمت کے مہینوں کا حج اور عمرہ کے ساتھ باقاعدہ تعلق ہے اور ان کی حکمت یہی ہے۔ اسی لیے حج کے لیے تین مہینے اکٹھے اور عمرے کے لیے ایک مہینہ الگ رکھا گیا ہے تاکہ لوگ آسانی سے آکر حج ادا کر سکیں اور واپس بھی جا سکیں۔قاضی ابوبکر ابن العربی نے احکام القرآن میں ان کی مشروعیت کے پس منظر اور حکمت پر تفصیلی بات کی ہے۔
مطیع سید: چونکہ وہ حج اور عمرے کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے خود یہ طے کر لیا کہ ان مہینوں میں جنگ نہیں کریں گے؟
عمار ناصر: نہیں، خود نہیں طے کیا۔یہ دینِ ابراہیمی کی روایت کا حصہ تھا۔
مطیع سید: اب ان حرام مہینوں کی کیا حیثیت ہے؟
عمار ناصر: فقہاء میں یہ بحث ہے کہ کیا یہ حرمت قائم ہے یا ختم ہو گئی ہے۔ جمہور فقہاء اس کو برقرار مانتے ہیں، جبکہ احناف کا کہنا ہے کہ یہ حرمت منسوخ ہو چکی ہے۔ اب یہ نسخ والی بات تو دلیل کے اعتبار سے کمزور معلوم ہوتی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ان مہینوں کی حرمت کا ضابطہ بیان فرمایا جو آپ کی وفات سے تین مہینے پہلے کی بات ہے۔ لیکن امت کے تعامل کو دیکھیں تو وہ بظاہر احناف کا موید ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد صحابہ کے دور میں اس کا ذکر نہیں ملتا کہ صحابہ ان مہینوں میں جنگ سے گریز کرتے ہوں۔ قیاسی طور پر بھی بعض استنباطات کی گنجائش نکلتی ہے۔ مثلاً اگر حج اور عمرے کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ان مہینوں میں لڑائی ممنوع کی گئی تھی تو پھر یہ حکم جزیرہ عرب تک محدود ہونا چاہیے، یعنی باقی دنیامیں آپ لڑ سکتے ہیں۔پھر یہ کہ عرب میں بھی صورتحال اس طرح سے نہیں رہی۔ تو یہ ایک اجتہادی بحث بن جاتی ہے۔
مطیع سید: منیٰ میں قیام کے دوران قصر نماز پڑھنا یہ کیا حج کے احکام کا حصہ ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی وجہ سے نماز قصر کی تھی؟ (کتاب المناسک، باب الصلاۃ بمنی، حدیث نمبر ۱۹۶۰)
عمار ناصر: یہ بھی استنباطی بحث ہے کہ کیا قصر، حج کے عمل کا حصہ ہے یا حاجی، مسافر ہونے کی وجہ سے قصر کرتے ہیں۔ فقہا میں یہ بحث چلتی ہے۔
مطیع سید: آپ ﷺ نے حلق کروایا۔ہزاروں کے مجمع کےسامنے کروایا، ،(کتاب المناسک، باب الحلق والتقصیر، حدیث نمبر ۱۹۸۱) پھر اس کی مقدار کے بارے میں اختلاف کیوں ہے؟جیسے امام شافعی کہتے ہیں کہ تین بال بھی کٹوالے تو بھی ٹھیک ہے، لیکن احناف کا موقف اور ہے۔ وہ پورے سر کے بال کٹوانے کا کہتے ہیں۔
عمار ناصر: نہیں، اس اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حضورﷺ نے حلق پورا کروایا تھا یا نہیں۔ وہ تو معلوم ہے، ،لیکن سر منڈوانا لازم نہیں۔ اگر کسی نے سر منڈوانا ہے تو ظاہر ہے پورے سرکو ہی منڈوانا ہے۔بحث، بالوں کے قصر میں ہوتی ہے کہ اگر بال چھوٹےکروانے ہیں تووہ کتنے کفایت کر جائیں گے۔چونکہ بنیادی طور پر اس کی حیثیت ایک علامت کی ہے تو شوافع کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، علامتاً دو تین بال کٹوالیےتو بھی کافی ہے۔
مطیع سید: آپﷺ جب خانہ کعبہ میں بت گرا رہے تھے تو کہا جاتا ہے کہ وہاں سے اس مینڈھے کے سینگ بھی ملے جو حضرت ابراہیم ؑ نے قربان کیا تھا۔آپ ﷺنے غالباً ان پر پردہ ڈال دینے کا حکم دیا۔کیا یہ واقعی اسی مینڈھے کے سینگ تھے؟
عمار ناصر: عرب میں زبانی روایت تو چلی آ رہی تھی کہ یہ اسی مینڈھے کے سینگ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصویب یا تغلیط کے متعلق کوئی بات منقول نہیں، البتہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے کعبہ کے کلیدبردار سے کہا کہ وہ ان سینگوں کو ڈھانپ دے تاکہ کعبے میں نماز ادا کرنے والوں کی توجہ ان کی طرف مبذول نہ ہو۔ اب حقیقت حال کیا تھی، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس وقت میری روح میرے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔(کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، حدیث نمبر ۲۰۴۱) کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟
عمار ناصر: ابو داؤد کی روایت کےاس جملے پر محدثین کو تحفظات ہیں کہ یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے۔
مطیع سید : آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟
عمار ناصر: اس روایت کی یہی سند ہے اور محدثین اس پر مطمئن نہیں ہیں۔سلام کا جواب دینے کی اور بھی روایتیں ہیں، لیکن یہ جملہ جو اس روایت میں ہے، اس پر محدثین مطمئن نہیں ہیں۔
مطیع سید: مصاہرت کے حوالے سے جو احناف کہتے ہیں کہ شہوت سے کسی عورت کو چھونے سے مصاہرت کا رشتہ ثابت ہو جاتا ہے تو کیا کوئی کسی غیر عورت کو غلطی سے یہ سمجھ کر شہوت سے چھو لے کہ یہ میری بیوی ہے، ،تب بھی حرمت ثابت ہو جاتی ہے؟
عمار ناصر: نہیں غلطی سے نہیں، ارادے سے کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا تو رشتے کی حرمت قائم ہوجائے گی۔ جس عورت کو آدمی نے شہوت کے ساتھ چھو لیا، اس کی ماں کے ساتھ نکاح اس پر حرام ہو جائے گا، کیونکہ اس کو ایک طرح سے اس کی ساس کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔قرآن نے تو اصل میں نکاح کی صورت میں یہ حکم بیان کیا ہے۔ احناف نے اس میں ایک لطیف استدلا ل کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھو لینے کی نوعیت بھی یہی بن جاتی ہے۔
مطیع سید: ذوالکفل کا نام قرآن مجید میں آتا ہے لیکن اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔صحابہ کی طرف سے بھی کوئی سوال نہیں اٹھا۔
عمار ناصر: ذوالکفل نام سے زیادہ ایک لقب لگتا ہے۔قرآن نے بہت سی شخصیات کا یا واقعات کاذکر مخاطبین کے ہاں جو تصور عام تھا یا جو معلومات موجود تھیں، ان پر انحصار کرتے ہوئے کیا ہے۔
مطیع سید: تو کیا وہ تصورات یا معلومات بھی ہمیں کچھ ملتی ہیں؟
عمار ناصر: بعض میں مل جاتی ہیں، بعض میں نہیں ملتی۔
مطیع سید: ایک غیر مسلم کا قرآن پر یہ اعتراض بن سکتا ہے کہ ایسی ایک شخصیت کا ذکر دیا جس کا کچھ اتا پتہ نہیں۔
عمار ناصر: یہ قرآن پر تو اعتراض نہیں بنتا۔قرآن نے ایک شخصیت کا ذکر کیا ہے جو اس کے مخاطبین کومعلوم تھی۔ اب اگر وہ معلومات جو ان کو معلوم تھیں، ہمیں نہیں پہنچیں تو یہ تاریخ کا مسئلہ ہے، اس میں قرآن پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟
مطیع سید : بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذوالکفل اصل میں کپل سے معرب ہوا اور یہ اشارہ ہے کپل دسو کی طرف جو مہاتما گوتم بد ھ کا علاقہ تھا۔یعنی یہاں گوتم بدھ مراد ہیں۔
عمار ناصر: یہ سارے قیاسات ہیں۔
مطیع سید: ایک شخص نے اپنی بیوی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت کی کہ وہ جو بھی ہاتھ لگانا چاہے، اس کو روکتی نہیں لیکن میں اس کے بغیر رہ نہیں سکوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے رہو۔(کتاب النکاح، باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء، حدیث نمبر ۲۰۴۹) ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے، ،حالانکہ رواۃ اس کے سارے ثقہ ہیں۔
عمار ناصر: ابن جوزی درایتاً اس روایت کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اشکال یہ ہے کہ وہ آدمی کہہ رہا ہے کہ بد کر دار و بدکار عورت ہے اور رسول اللہ ﷺ اس کو ساتھ رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اس پہلو سے وہ درایتاً اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔
مطیع سید: یہ صلوٰۃ اور سلام میں فرق کیا ہے، جو ہم درود میں پڑھتے ہیں؟
عمار ناصر: صلوٰۃ کا لفظ رحمت کے لیے اور سلام سلامتی کے لیے آتا ہے۔ رحمت کی تعبیر بہت عام ہے، سلامتی اللہ کی رحمت اور عنایت کی ایک خاص صورت ہے۔
(جاری)
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۷)
مولانا سمیع اللہ سعدی
اہل تشیع کے دیگر مصادر رجال اور جرح و تعدیل
اہل تشیع کے اولین مصادر رجال کا اقوال جرح و تعدیل کے اعتبار سے ایک جائزہ سامنے آچکا ہے،کہ ان کتب میں رواۃ کی تقویم نہ ہونے کے برابر ہے،اس کے بعد اہل تشیع کی بعد کے زمانوں میں لکھے جانے والی کتب ِ رجال کا فردا فردا ایک جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کتب میں جرح و تعدیل کا مواد کم اور کیف کے اعتبار سے کس درجہ کا حامل ہے؟ان کتب میں سے متعدد کتب ایسی ہیں،جو ان اولین مصادر رجال کی جمع و ترتیب یا ان پر شروح و حواشی کی صورت میں ہے جیسا کہ احمد ابن طاووس کی التحریر الطاووسی (یہ کتاب حسن بن زین الدین العاملی کی تیار کردہ ہے،جو انہوں نے ابن طاووس کی کتاب حل الاشکال فی معرفۃ الرجال سے تیا رکی ہے )،جو رجال کے اولین مصادرِ خمسہ (رجال الکشی،رجال الطوسی،فہرسۃ الطوسی،رجال النجاشی اور رجال ابن الغضائری ) کا مجموعہ ہے،اس لئے ان جیسی کتب کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ ان سب کتب پر فردا فردا بحث ما قبل میں آچکی ہے،البتہ ان کتب پر بحث ہوگی،جو مستقل تالیفات شمار ہوتی ہیں:
1۔رجال ابن داود الحلی
ان کتب میں سے سب سے پہلی اور اہم کتاب "رجال ابن داود " ہے،جو ساتویں صدی ہجری کے شیعہ محقق ابن داود الحلی کی تصنیف ہے،شیعہ کتب رجال میں یہ سب سے اولین تصنیف ہے،جو جرح و تعدیل کی اساس پر لکھی گئی ہے،چنانچہ محقق حیدر حب اللہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:
"ظہر فی ھذا لکتاب ابداع جدید فی تقسیم مادۃ الرجالیہ لم یسبقہ الیہ غیرہ من الرجالیین فیما نعلم،حتی ان الشہید الثانی قال فی حقہ "سلک فیہ مسلکا لم یسبق بہ احد من الاصحاب"1
یعنی "اس کتاب میں رجالی مواد کی تقسیم میں نئی صورت گری کی گئی ہے،جو ہمارے علم کے مطابق سابق رجالیین میں سے کسی نے نہیں کی،یہاں تک شہید ثانی نے بھی اس کتاب کے بارے میں فرمایا کہ مصنف نے ایسا اسلوب اختیار کیا ہے،جس کی طرف کسی نے اس سے پہلے سبقت نہ کی "
چنانچہ آگے اس ابداع کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ حیدر حب اللہ نےلکھا ہے کہ اس کتاب میں پہلی بار رجال کو جرح و تعدیل کے اعتبار سے ممدوحین اور مجروحین و مجہولین میں تقسیم کر کے ذکر کیا گیا ہے، اس کتاب میں سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں تاکہ اس کا منہج و اسلوب سامنے آسکے:
"زكريا بن يحيى الواسطي ق (جخ، جش) ذكر ابن نوح ثقة.2
زياد بن سابور أخو بسطام الواسطي ق (جخ) ثقة.3
هاشم بن أبي هاشم قر (جخ) مجهول.4
المنهال بن عمرو الأسدي سين (جخ) مهمل5
رجال ابن داود سے چند تراجم کا نمونہ سامنے آچکا ہے،ان تراجم کو تراجم کی بجائے فہارس کہنا زیادہ انسب ہوگا،کہ راوی کا نام ہے اور اس کی توثیق یا تضعیف کے بارے میں صرف ثقہ یا مجہول و مہمل کا لفظ ہے فقط، رواۃ کی ان تقویمات میں ایک اساسی سقم یہ ہے کہ شیخ ابن داود رواۃ اور کتب ِ حدیث کے مصادر اساسیہ کے مصنفین کے ہم عصر نہیں ہیں،قریب تین صدیوں کے بعد کی شخصیت ہیں،تو آپ نے ان تقویمات کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ تقویمات متقدمین اہل علم سے مروی ہیں، ائمہ (معصومین ) سے منقول ہیں؟یا اگر ابن داود کی اپنی توثیقات ہیں تو کس بنیاد پر اور کن اصولوں کے تحت وہ رواۃ کی توثیق یا تجریح کا فیصلہ کرتے ہیں؟ شیخ ابن داود نے مقدمہ میں بھی ان امور مہمہ میں سے کسی امر کی وضاحت نہیں کی،جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کتب رجال سے جو تراجم ہم نے نقل کئے،ان میں خصوصیت کے ساتھ رواۃ کی تجریح یا تعدیل کے بارے میں متقدمین اہل علم کے اقوال سند کے ساتھ منقول تھے،جیسا کہ تہذیب التہذیب سے جو ترجمہ نقل کیا گیا،اس میں صرف ایک راوی کے بارے میں سولہ کبار محدثین کے اقوال منقول تھے۔
ان اہم ابحاث کے معدوم ہونے کے ساتھ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ یہ کتاب ایک مجلد پر مشتمل ایک مختصر کتاب ہے،شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس کتاب میں 1744 رواۃ کو ممدوح اور 565 رواۃ کو مجہولین کی درجہ بندی میں ذکر کیا گیا ہے،یوں کل 2300 کے قریب رواۃ کا ذکر ہے،جو اہل تشیع کے کل رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے۔ اس کے ساتھ مزید بات یہ ہے کہ اس کتاب کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں علمائے شیعہ میں بڑے پیمانے پر اختلاف ہوا ہے،کیونکہ اس میں متعدد جہات سے اغلاط پائی جاتی ہیں،جن کی تفصیل حیدر حب اللہ نے مکمل تفصیل دی ہے،چنانچہ شیخ لکھتے ہیں:
لاحظ المتتبعون من الرجالیین وجود مشاکل فی ھذا الکتاب،کالاخطاء الواردۃ فی ضبط الاسماء،وفی النقل من المصادر وفی مقدمتھم السید مصطفی التفرشی فی کتابہ نقد الرجال الذی رصد فیہ بشکل مکثف اھم الملاحظات علی الکتاب"6
یعنی بعد میں آنے والے علمائے رجال نے اس کتاب میں کئی مشاکل پائے ہیں،جیسا کہ اسماء کو ضبط کرنے میں ہونے والی اغلاط،مصادر سے نقل میں غلطیاں،ان میں سب سے قابل ذکر سید مصطفی تفرشی ہیں،جنہوں نے اپنی کتاب نقد الرجال میں مفصل انداز میں کتاب کے بارے میں اپنے ملاحظات بیان کئے ہیں۔ اس کے بعد تفرشی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کتابہ ھذا مشتمل علی اغالیط لا تحصی واشتباہات لا تستقصی،یعرفھا من تامل فیہ و نظر فی ظاہرہ و خافیہ"
یعنی ان کی یہ کتاب لا تعداد اغلاط اور بے شمار التباسات پر مشتمل ہے،ہر وہ آدمی ان کو جان سکتا ہے جو،اس کے ظاہر و مخفی مقامات میں دقت ِ نظر سے دیکھے۔
اس کے بعد شیخ حیدر حب اللہ نے اس کتاب کے معتمد ہونے اور اسے بطور ِ مصدر لینے یا نہ لینے کے بارے میں علمائے شیعہ کے تین مواقف بیان کئے ہیں،الرفض التام،القبول التام اور القبول المعتدل یعنی اسے مکمل لے لینا،مکمل ترک کر دینا،یا اس کے ساتھ اعتدال کا رویہ اپنانا،کہ اغلاط کے ملاحظہ کے ساتھ اس کو لیا جائے۔
2۔خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال
جرح و تعدیل کے نکتہ نظر سے لکھی گئی اس دور کی دوسری اہم ترین کتاب معروف شیعہ محدث اور امام ابن تیمیہ کے ہم عصر ابو منصور حسن بن مطہر حلی،جنہیں عام طور پر علامہ حلی کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے،کی تصنیف ہے،علامہ حلی کا اہل تشیع میں جو مقام ہے،وہ کسی پر مخفی نہیں،علامہ حلی کی شہرت کی وجہ سے اس کتاب کو بھی خاصی مقبولیت ملی،بعد کے اہل علم نے اس پر شروح و حواشی کثرت سے لکھے،علامہ حلی مقدمہ میں کتاب کی تالیف کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"فان العلم بحال الرواة من أساس الأحكام الشرعية، وعليه تبتني القواعد السمعية، يجب على كل مجتهد معرفته وعلمه،ولا يسوغ له تركه وجهله، إذ أكثر الاحكام تستفاد من الاخبار النبويةوالروايات عن الأئمة المهدية، عليهم أفضل الصلوات وأكرم التحيات،فلا بد من معرفة الطريق إليهم، حيث روى مشايخنا رحمهم الله عن الثقةوغيره، ومن يعمل بروايته ومن لا يجوز الاعتماد على نقله.فدعانا ذلك إلى تصنيف مختصر في بيان حال رواة ومن يعتمد عليه،ومن تترك روايته، مع أن مشايخنا السابقين رضوان الله عليهم أجمعين صنفوا كتبا متعددة في هذا الفن، الا ان بعضهم طول غاية التطويل مع اجمال الحال فيما نقله، وبعضهم اختصر غاية الاختصار، ولم يسلك أحد النهج الذي سلكناه في هذا الكتاب، ومن وقف عليه عرف منزلته وقدره وتميزه عما صنفه المتقدمون.7
یعنی احوال رواۃ کا علم احکام شرعیہ کی بنیاد ہے اور اسی پر قواعد کی بنا ہے،لھذا ہر مجتہد پر اس علم کی معرفت واجب ہے اور اس کے بارے میں بے خبری کا ترک ضروری ہے،کیونکہ اکثر احکام نبی ﷺ کی احادیث اور ائمہ (علیھم السلام ) کی روایات سے ماخوذ ہیں،تو ان ائمہ تک خبر کی طریق کی معرفت ضروری ہے،کہ ہمارے مشائخ نے ثقہ سے روایت لی ہے یا کسی اور سے،اور کن رواۃ کی روایت پر عمل جا ئزہے اور کن رواۃ کی روایت پر عمل ناجائز؟اس وجہ سے ہم احوال رواۃ میں ایک مختصر تصنیف کی طرف متوجہ ہوئے جو معتمد و غیر معتمد رواۃ کے احوال پر مشتمل ہو،باوجودیکہ ہمارے مشائخ نے اس فن میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں،مگر بعض بظاہر تو لمبی کتب ہیں مگر احوال کے اعتبار سے مجمل ہیں،جبکہ بعض انتہائی اختصار کی حامل ہیں،لھذا کسی نے ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا،جو ہم نے اس کتاب میں اپنایا ہے،جو اس کتاب سے واقف ہوگا،تو اس کتاب کی متقدمین کی کتب کی بنسبت قدر و منزلت اور اس کا امتیاز جان سکے گا۔
علامہ حلی کے اس اقتباس میں ایک تو اس بات کا اعتراف نظر آتا ہے کہ خاص جرح و تعدیل کے اعتبار سے متقدمین کی کتب ناکافی ہیں،اسی وجہ سے وہ اپنی کتاب کو متقدمین کی کتب سے عالی و ممتاز قرار دے رہے ہیں اور اسے اسلوب و منہج میں یکتا کہہ رہے ہیں،اب اس کتاب سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں،تاکہ کتاب کا منہج و اسلوب واضح ہوسکے:
- الحسن بن الحسين اللؤلؤي، كوفي، روى عنه محمد بن أحمد بن يحيى.قال النجاشي: انه ثقة كثير الرواية له كتاب، وقال الشيخ الطوسي رحمه الله: ان ابن بابويه ضعفه.وقال النجاشي: كان محمد بن الحسن بن الوليد يستثني من روايةمحمد بن أحمد بن يحيى ما رواه عن جماعة، وعد في جملتهم ما تفرد به الحسن بن الحسين اللؤلؤي، وتبعه أبو جعفر بن بابويه رحمه الله علی ذلك8
- حفص بن سالم، يكنى أبا ولاد، الحناط - بتشديد اللام، وتشديد النون بعد الحاء المهملة - ثقة، كوفي، مولى، جعفي، له أصل.وقال ابن فضال: انه حفص بن يونس المخزومي، روى عن أبي عبد الله(عليه السلام)، ثقة لا بأس به.وقال ابن عقدة: حفص بن سالم خرج مع زيد بن علي، وظهر من الصادق (عليه السلام) تصويبه لذلك.9
ان دو تراجم سے اتنی بات تو واضح ہوتی ہے کہ علامہ حلی کی کتاب واقعی متقدمین کی کتب سے ممتاز اور منہج و اسلوب میں انفرادیت کی حامل ہے،کہ اس کتاب میں راوی کے بارے میں علمائے جرح و تعدیل کے اقوال نقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اس کتاب کا اسلوب اہل سنت کی کتب رجال کے اسلوب کے مماثل ہے،یاد ش بخیر!علامہ حلی کی اس کتاب کا پس منظر عموما یہ بیان کیا جاتا ہے کہ علامہ حلی نے یہ کتاب امام ابن تیمیہ کے اس اعتراض کے جواب میں لکھی ہے،کہ اہل تشیع کے ہاں علم رجال و جرح و تعدیل کا کوئی وجود نہیں ہے،اس پس منظر کی طرف شیخ حیدر حب اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے اور اپنے تئیں اس بات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے،اس کے واقع میں ثبوت و عدم ثبوت سے قطع نظر، علامہ حلی نے اس کتاب میں اہل سنت کی کتب رجال کا اسلوب و منہج اپنانے کی جو کاوش کی ہے،اس سے اس پس منظر کو تقویت ملتی ہے،واللہ اعلم
لیکن کتاب کے اس امتیاز کے باوصف یہ کتاب انتہائی مختصر کتاب ہے،ساڑھے پانچ سو کے قریب صفحات پر مشتمل ایک متوسط حجم کی جلد میں چھپی ہے،شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس کتاب میں معتمد رواۃ میں 1227 رواۃ اور غیر معتمد رواۃ میں 510 رجال کا ذکر کیا گیا ہے،یوں کل ملا کے اس کتاب میں صرف ساڑھے سترہ سو رواۃ کا ذکر ہے 10حالانکہ شیعہ رواۃ کی کل تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس ہزار کے لگ بھگ ہے،کیونکہ شیخ خوئی کی معجم رجال الحدیث میں پندرہ ہزار کے قریب رواۃ ہیں،جبکہ شیخ علی نماز ی کی مستدرکات علم الرجال،جس میں ایسے رواۃ کا ذکر ہے،جو جملہ کتب رجالیہ میں مذکور نہیں ہیں،اس میں اٹھارہ ہزار سے زائد رواۃ کا ذکر ہے،یوں 33 ہزار رواۃ بنتے ہیں، تو ایک محتاط اندازہ بھی لگا لیں تو تیس ہزار رواۃ بن جاتے ہیں،جبکہ علامہ حلی کی کتاب میں صرف ساڑھے سترہ سو رواۃ کا ذکر ہے،جو رواۃ کی کل تعداد کا بمشکل پانچ فیصد بنتا ہے،یوں علامہ حلی کی کتاب اہل تشیع کے علم رجال کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے بلا شبہ ایک اچھی کاوش ہے،لیکن اس میں کل رواۃ کے صرف پانچ فیصد کا احاطہ کیا گیا ہے،جو ظاہر ہے،علمی لحاظ سے بالکل ناکافی تعداد ہے۔
اب یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ علامہ حلی نے اتنے کم رواۃ کا ذکر کیوں کیا؟علامہ حلی کے منہج و اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ توجیہ کی جاسکتی ہے کہ چونکہ علامہ حلی نے اس کتاب میں رواۃ کے بارے میں جرح و تعدیل کے اقوال ذکر کرنے کا التزام کیا ہے،اور متقدمین کے پورے ذخیرے میں صرف یہی رواۃ ہی علامہ حلی کو ملے،جن کے بارے میں کسی نہ کسی کتاب اور کسی نہ کسی عالم کا قول ِ جرح و تعدیل مل جاتا ہے،جبکہ متقدمین کے تراث میں باقی تمام رواۃ جرح و تعدیل کے ابحاث سے مسکوت عنہ ہیں،پچھلے صفحات میں متقدمین کے اولین مصادر رجالیہ خمسہ کا رواۃ کے جرح و تعدیل کے اعتبار سے ایک مفصل تجزیہ سامنے آچکا ہے،اس تفصیل کی روشنی میں یہ توجیہ بعید نہیں ہے،واللہ اعلم
یہ بات یاد رہے کہ اہل تشیع کے علمی تراث کے بارے میں عموما مخالفین کا نظریہ یہ ہے کہ اہل تشیع کے تراث میں خواہ حدیثی تراث ہو یا رجالی،اس تراث میں دورِ صفوی میں مصنوعی اضافہ کیا گیا ہے، اس نظریے کے مطابق اہل تشیع کا رجالی تراث ہی اتنے رواۃ پر مشتمل تھا،اس لئے علامہ حلی نے اتنے رواۃ کا ذکر کیا ہے،لیکن مضامین کے اس سلسلے میں ہم نے چونکہ مخالفانہ و مخاصمانہ الزامات و دعاوی سے صرف نظر کیا ہے،بلکہ اہل تشیع و اہل سنت ہر دو فریقوں کے ہاں موجود تراث کا تقابل کیا گیا ہے،اس لئے اس دعوی اور اس کی تاریخی ثبوت یا عدم ثبوت کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔
3۔حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال
یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ محقق شیخ عبد النبی جزائری کی ہے،اسے رجال الشیخ عبد النبی الجزائری بھی کہہ دیا جاتا ہے،یہ کتاب بھی اصلا متقدمین کے تراث کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے،لیکن مصنف نے اس میں ابداع سے کام لیتے ہوئے متقدمین کی کتب میں موجود رواۃ کو چار اقسام میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے:
رجال الحدیث الصحیح
رجال الحدیث الحسن
رجال الحدیث الموثق
رجال الحدیث الضعیف
اس میں پہلی قسم کے تحت 1045 رواۃ،دوسری قسم میں 83 رواۃ، تیسری قسم میں 59 رواۃ اور آخری قسم میں 1171 رواۃ کو بیان کیا ہے،یوں کل ملا کے 2360کے قریب رواۃ کو بیان کیا ہے،جو ظاہر ہے کہ کل شیعہ رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے اور کل رواۃ ِشیعہ کا بمشکل 7 فیصد حصہ بنتا ہے،اس کتاب میں مصنف نے اپنی طرف سے سوائے مقدمہ و خاتمہ کے کچھ نہیں لکھا،بلکہ متقدمین کا تراث ہی نقل کیا ہے،چنانچہ مقدمہ میں اپنی کتاب کا منہج بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اعلم ان کل رجل ذکرہ النجاشی فی کتابہ ذکرتہ اولا بعبارتہ من غیر تغیر۔۔ثم اتبعتہ بکلام العلامہ فی الخلاصہ من غیر تغییر ایضا۔۔ثم اتبعتہ کلام الخلاصۃ بالحواشی المنسوبۃ الی الشہید الثانی ان وجدتھا،ثم اتبع بکلام الشیخ فی کتاب الرجال و الفہرست محافظا علی اللفظ ما امکن۔۔۔ھذا کلہ فی الفصول الثلاثۃ الاول،و اما فی الفصل الرابع فانی قد اقتصرت علی ما ذکرہ النجاشی و العلامہ فی الخلاصہ،سواء کان فی بابہ او فی غیرہ،و اتبعت کلاھما بباقی الکلام علی النہج المذکور فی الفصول الثلاثۃ11
یعنی میں ہر اس راوی کا پہلے ذکر کروں گا،جس کو نجاشی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،نجاشی کی عبارت میں بغیر کسی تبدیلی کیے، اس کے بعد علامہ حلی کا خلاصہ سے کلام بلا تغییر نقل کروں گا،،پھر اس کے بعد میں شہید ثانی کے حواشی کی عبارت بغیر تبدیلی کے لاوں گا م،اگر مجھے ملی،پھر اس کے بعد شیخ طوسی کی رجال و فہرست کی عبارت لاوں گا،حتی الامکان الفاظ کی رعایت کرتے ہوئے،یہ ترتیب پہلی تین فصلوں (یعنی پہلی تین اقسام ) میں ہوگی،جبکہ فصل رابع میں میں نجاشی و علامہ حلی کے کلام پر اکتفاء کروں گا،خواہ اسی جگہ انہوں نے کلام کیا ہو یا کسی اور جگہ،پھر ان کے کلام کے بعد میں باقی کلام فصول ثلاثۃ کی ترتیب کے مطابق نقل کروں گا۔
یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ مصنف گیارہویں صدی (المتوفی 1021ھ)سے تعلق رکھتے ہیں،تو انہوں نے رواۃ پر متقدمین کے کلام کو استقصاء کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کی ہے،یوں ماضی کے سات سو سالہ تراثِ رجال میں شیخ جزائری کو دو ہزار سے کچھ اوپر رواۃ ملے،جن پر ماضی کے اہل علم نے جرحا و تعدیلا گفتگو کی ہے،اس سے اہل سنت کتب رجال اور اہل تشیع کے تراث ِ رجال کا تقابل بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کے صرف ایک محدث امام ابن ابی حاتم رازی نے علم رجال کے تدوین کے زمانے میں ہی الجرح و التعدیل لکھ کر اٹھارہ ہزار رواۃ کے بارے میں اہل علم کے اقوال و جرح و تعدیل بیان کردئیے،جبکہ شیخ عبد النبی جزائری سات صدیوں کے رجالی تراث کو کھنگالنے کے بعد بھی صرف ڈھائی ہزار کے قریب رواۃ کے بارے میں شیعہ محدثین کے کلام ِ جرح و تعدیل کو نقل کر سکے۔
حواشی
- دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال،ص 188
- رجال ابن داود،رقم الترجمہ:643
- ایضا:رقم الترجمہ:651
- رقم الترجمہ:1670
- رقم الترجمہ:1606
- دروس تمہیدیۃ:ص 191
- خلاصہ الاقوا فی معرفۃ الرجال،ابن مطہر حلی،ص43
- خلاصۃ الاقوال: ص102
- ایضا:ص127
- دروس تمہیدیۃ:ص 204-205
- حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال،عبد النبی الجزائری،ص95۔96
(جاری)
امارت اسلامی أفغانستان کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں ۱۲ جنوری کو پاکستان شریعت کونسل فیصل آباد کی ایک نشست میں گفتگو)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کو اپنی ناکامی کے اعتراف کے ساتھ وہاں سے واپسی کو کچھ عرصہ گزر چکا ہے، امارتِ اسلامی افغانستان نے اپنی حکومت قائم کر لی ہے جسے پورے افغانستان میں کنٹرول حاصل ہے ،امن و امان کی صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے، اور نئے حکمران بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہیں موقع دیا جائے وہ دنیا اور عالمی ماحول کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں وقت دیا جائے تاکہ وہ افغان قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر اپنا نظام طے کر سکیں اور چار عشروں کی طویل اور خوفناک جنگ کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے افغان عوام کے عقیدہ و ثقافت کی بنیاد پر مستقبل کی نقشہ بندی کر سکیں۔
مگر دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا بلکہ معاشی بحران اور سیاسی دباؤ کے ذریعے پیشگی شرائط کے ساتھ انہیں شکست خوردہ قوتوں کے ایجنڈے کے مطابق افغانستان کے مستقبل کا نظام تشکیل دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم حکومتیں بھی اس معاملہ میں افغان بھائیوں کا ساتھ دینے کی بجائے مغربی قوتوں کے لیے سہولت کاری کا ماحول قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اس معاملہ میں یہ پہلو بطور خاص قابل توجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغان اسٹیبلشمنٹ کی اپنے دور کی آٹھ ماہ کی تنخواہیں نئی حکومت کے ذمہ واجب الادا چھوڑ کر گئے ہیں، افغانستان کے اثاثے بہت سےمغربی ملکوں میں منجمد کر دیے گئے ہیں، اور افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہ کر کے دنیا بھر میں ان کے ہمدردوں اور بہی خواہوں پر ان کی امداد و تعاون کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ جسے میں یوں تعبیر کیا کرتا ہوں کہ افغان قوم اس وقت شعب ابی طالب میں محصور ہے اور ان کی مخالف اقوام و ممالک نے ان کے معاشی بائیکاٹ کا غیر اعلانیہ معاہدہ کر رکھا ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے، حتٰی کہ جو تھوڑی بہت مدد وہاں جا رہی ہے وہ بھی محاصرہ کرنے والوں کی مرضی اور طریق کار پر موقوف ہے۔
بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اور خاص طور پر مسلمان ممالک ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اس سوال کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے اور اس کا حقیقت پسندانہ جواب تلاش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں اصل بات یہ ہے کہ سیکولر عالمی قوتوں نے یہ دیکھ کر کہ امت مسلمہ اسلام سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح مذہب کو ذاتی اور اختیاری دائرے میں شامل کر لینے پر آمادہ نہیں ہے، انہوں نے یہ بات حتمی طور پر طے کر لی ہے کہ مسلمانوں کا اسلام ’’شریعت لیس‘‘ ہونا چاہیے یعنی وہ قرآن و سنت کے شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کو اپنے ممالک میں ضروری نہ سمجھیں بلکہ اس حوالہ سے باقی دنیا کے سیکولر ایجنڈے سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ جس پر مسلم دنیا کے مقتدر حلقے تو شریعت کے بغیر اسلام کو عملاً قبول کر چکے ہیں مگر عالمِ اسلام بحیثیت امت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ شریعت کے احکام و قوانین پر عمل نہ کر سکنا الگ بات ہے اور احکامِ شریعت سے دستبرداری اس سے مختلف چیز ہے۔ یہ اصل کشمکش ہے جس میں عالمی سیکولر طاقتیں ایک طرف ہیں عالمِ اسلام کی رائے عامہ دوسری طرف ہے۔ جبکہ مسلم دنیا کے برسر اقتدار حلقے اپنی پالیسیوں اور طریق کار کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے کیمپ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ چنانچہ دنیائے اسلام کے دینی حلقے اور دینی مدارس و مراکز بھی سیکولر حلقوں کی طعنہ زنی اور کردارکشی کا ہر سطح پر صرف اس لیے مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ ان کے خیال میں عام مسلمانوں کی شرعی احکام کے ساتھ کمٹمنٹ اور وابستگی کا باعث یہ دینی حلقے اور مدارس و مراکز ہیں۔
اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان اور افغان عوام بھی اسی منفی طرز عمل کا نشانہ بنے ہوئے ہیں حتٰی کہ چار عشروں کی طویل جنگ سے تباہ شدہ افغان معاشرہ اور قحط و افلاس کا شکار افغان قوم کو موجودہ معاشی بحران میں انسانی بنیادوں پر غیر مشروط امداد و تعاون کےحق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے جو بلیک میلنگ کی بدترین شکل ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے تمام طبقات بالخصوص علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی ذمہ داری اور قبر و حشر میں جوابدہی کو سامنے رکھتے ہوئے مظلوم افغان بھائیوں کی جو کچھ بھی ہو سکے امداد کریں جس کی معروضی صورتحال میں عملی صورت یہ ہے کہ:
- امارت اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے مطالبہ کو زیادہ سے زیادہ منظم کیا جائے اور ہر سطح پر آواز بلند کی جائے۔
- قانونی اور اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے ان کی ہر ممکن مالی مدد اور معاشی تعاون کا اہتمام کیا جائے۔
- دنیا پر واضح کیا جائے کہ مغربی ممالک میں افغانستان کے منجمد اثاثوں کی فوری بحالی اور موجودہ معاشی بحران میں افغان قوم کی مدد کا غیر مشروط ہونا بھی انسانیت کا تقاضہ ہے۔
- اور اپنے افغان بھائیوں کے لیے بارگاہِ ایزدی میں دعاؤں کا التزام کیا جائے کہ اللہ رب العزت انہیں اس آزمائش اور امتحان میں بھی سرخروئی سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مولاناعتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفات
ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
چنددن قبل معروف عالم دین، مفسرِقرآن اوردانشورومحقق مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نوے سال سے زیادہ کی عمرمیں وفات پاگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
وہ عرصہ درازسے علیل چل رہے تھے۔موصوف دارالعلوم دیوبندکے فارغ التحصیل اورمولانامحمدمنظورنعمانی رحمہ اللہ کے فرزنداکبرتھے۔قلم کے دھنی اوراپنی بات آزادانہ طورپر کہنے والے مصنف تھے۔صاحب اسلوب اورصاحب فکرانسان تھے۔تقریباً تین دہائی قبل سے وہ لندن میں مقیم تھے اوراس لیے شاعرکی زبان میں کہہ سکتے تھے کہ ؎
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے مے خانے
جب وہ ہندوستان میں تھے توبرسوں تک پہلے ندائے ملت اورپھرمشہوراصلاحی مجلہ الفرقان (بانی: مولانا محمد منظور نعمانیؒ) کی ادارت کرتے رہے جن میں انہوں نے اپنے پختہ سیاسی نظریات کے ساتھ ملت کی اصلاح اورتربیت شعور کا کام انجام دیا۔وہ علم وتحقیق کی آبروتھے۔ بہت سلجھاہودماغ ااوررواں قلم پایاتھا۔جس موضوع پر قلم اٹھاتے، بڑے اعتمادکے ساتھ تجزیاتی اسلوب میں گفتگوکرتے۔طالبان اورامریکہ کی پہلی جنگ میں انہوں نے طالبان کی شکست کے اسباب کا جائزہ لیا۔ اسی طرح مسلمانوں میں اہانت رسول کو لے کریاحجاب کے مسئلہ میں جوغیرضروری حساسیت پائی جاتی ہے، اس کی نشان دہی کی۔افغانستان پر لکھے ان کے مقالہ پر بھی ردعمل ہوااورندوۃ العلما کے ایک دوسرے سنبھلی استادمولانابرہان الدین سنبھلی مرحوم نے اس کا جواب لکھااورطالبان کے موقف کی ستائش کی۔پھر غالباً ترجمان (جدید)دارالعلوم دیوبندمیں جواب الجواب بھی آیا۔
ہندوستانی مسلمانوں کا موجودہ حالات میں سیاسی، تعلیمی کیالائحہ عمل ہوناچاہیے، اس کی برابررہنمائی کرتے رہے۔لندن چلے جانے کے بعدان کی تحریریں زیادہ ترمعروف علمی وفکری مجلہ الشریعہ(گوجرانوالہ پاکستان) اور الفرقان اورترجمان (جدید)دارالعلوم دیوبندمیں شائع ہوتی تھیں جس کے مدیر مولانا ڈاکٹروارث مظہری صاحب ہیں۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پرانہوں نے علامہ ابن القیم کی بحث کی خاصی گرفت کی ہے اوراس مسئلہ پر حنفی نقطہ نظرکی وکالت کی ہے۔مغرب میں رہنے والے مسلمان کس اندازمیں اپنی دینی شناخت کوبرقراررکھتے ہوئے وہاں کے معاشروں سے ایڈجسٹ کریں اوران کے لیے فائدہ مندثابت ہوں، اس پر بھی ان کے مضامین میں روشنی ڈالی گئی ہے۔
مشاجرات صحابہ کے نازک باب میں انہوں نے انقلاب ِایران کے سیاق میں گفتگوکرتے ہوئے اپناموقف پیش کیاہے جومدلل اورتجزیاتی ہے اورکسی قسم کی عقیدت سے مبراہوکراختیارکیاگیاہے۔بہتوں کواس سے اختلاف ہے اور ہوناچاہیے، مگروہ ناصبی ہرگزنہ تھے جیساکہ بعض فیس بکی لکھاریوں نے ظاہرکرنے کی کوشش کی ہے۔سیدناعثمان بن عفان ذی النورین سیدناامیرمعاویہ، سیدناعمروبن العاص سیدناحضرت مغیرہ رضی اللہ عنہم کادفاع اوران پر لگائے گئے تاریخ کے الزامات کی تحقیق وصفائی لاریب ”نصب“نہیں ہوسکتی وہ ان جلیل الشان لوگوں کا حق ہے۔انہوں نے سیدناحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کا پوراپاس ِادب رکھاہے۔یزیداوراس کے عمال کے اقدامات کی توجیہ کی ہے۔یزیدپر لگے گھنونے الزامات کا دفاع کیاجوان سے پہلے بہت سے ائمہ کباربھی کرچکے ہیں۔ تاہم لوگ اس بات کوبالکل نظراندازکردیتے ہیں کہ مولانانے اپنی تحقیق میں سیدنامعاویہ کے یزیدکواپناجانشین بنانے کی حمایت نہیں کی بلکہ نتائج کے لحاظ سے اس کوغلط ہی قراردیاہے۔اتفاق واختلاف کی بات الگ، یہ کتاب ”واقعہ کربلاکا حقیقی پس منظر“ایک معرکۃ الآراکتاب ثابت ہوئی اوراس پر برصغیرمیں خوب لے دے بھی مچی۔
اس کے بعدمولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے حیات نعمانی لکھی جس میں انہوں نے اپنے والدبزگوارکا نقش جمیل کچھ اس طرح پیش کیاکہ اس عہدکی پیچیدہ ملی صورت حال بھی قاری کے سامنے آجاتی ہے اورموجودہ زمانہ میں ملی کاموں کا طریقہ بھی سمجھ میں آتاہے۔
مولاناسنبھلی کا تیسرابڑاکارنامہ ان کی تفسیر”محفل قرآن“ہے۔جووہ عرصہ درازتک ایک کالمی درس قرآن کی صورت میں الفرقان میں لکھاکرتے تھے۔اسی تاریخی مناسبت کوباقی رکھتے ہوئے اس کانام محفل ِقرآن ہی رکھا گیا ہے۔راقم سطورنے اس تفسیرکی ابتدائی دوجلدیں حرفاً حرفاً پڑھی ہیں اوروہ گواہی دیتاہے کہ اس نے اس مختصر تفسیرکو عصرحاضرکی دوسری بہت سی معروف ومتداول تفسیروں سے کہیں بڑھ کربہترومفیدترپایاکیونکہ وہ غیرضروری مباحث وتفصیلات سے مکمل گریز کرکے صرف قرآن کی آیات کے مفہوم ومدعاپر فوکس کرتے ہیں۔اکثرمقامات پر سلف کے فہم ہی کوترجیح دی ہے، بہت کم اپنی الگ رائے بیان کی ہے۔حدیث وسیرت اورفقہ کوبھی سامنے رکھا ہے۔ طرزبیان عقلی ومنطقی ہے۔
راقم خاکساربرسوں تک ماہنامہ افکارملی دہلی کا مدیر رہا۔ مولانالندن میں اس کے خریدارتھے اورانہوں نے اپنی کئی کتابیں تبصرے کے لیے گاہے بگاہے بھجوائیں۔چنانچہ راقم کے کی تبصرے ان کی کتاب واقعہ کربلاکا حقیقی پس منظر (انگریزی ایڈیشن پر) حیات نعمانی اورتفسیرکی دوجلدوں پر شائع ہوئے۔واقعہ کربلاوالی کتاب پر تبصرہ الشریعہ کے علاوہ عالمی اسلامی یونورسٹی اسلام آبادکے شائع ہونے والے مجلہ فکرونظرمیں بھی چھپااورمولانانے شکریہ کا ایک خط بھی راقم خاکسارکے نام لکھا۔یہاں یہ کہنابھی غالباً ضروری ہوگاکہ جدیدتفاسیرمیں انہوں نے تدبرقرآن کی بڑی تعریف کی ہے۔ نمازکی اہمیت پر جابجاروشنی ڈالنے کی بنیادپر دوسرے قرآنی نظم اورعربی لغت کی رعایت کی بنیادپر اگرچہ اس کا اظہاربھی کھل کرکردیاہے کہ صاحب ِتدبرنے بعض صحابہ کی شان میں نازیباالفاظ استعمال کیے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔(اشارہ سزائے رجم کے سلسلہ میں حضرت ماعزؓکے بارے میں مولانااصلاحیؒ کے ریمارک کی طرف ہے)۔
پروفیسرفریدہ خانم (صاحب زادی مولاناوحیدالدین خاں رحمہ اللہ)کی کتاب مولانامودودی کی تعبیردین پر نقدکے سلسلہ میں شائع ہوئی۔اِس کتاب پر راقم نے افکارملی میں ایک مثبت تبصرہ کیاکردیاکہ ایک مخصوص حلقہ کی باسی کڑھی میں ابال آگیا اور اس تبصرے کی تردیدمیں کئی مضامین افکارمیں شائع ہوئے۔میرے تبصرہ کے بعد مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا مکتوب آیا۔ انہوں نے پروفیسرموصوفہ کی کتاب منگوا کرپڑھی اوراپنے والدگرامی کے حوالہ سے واقع ہوئی حوالہ کی ایک بڑی فروگزشات کی طرف توجہ دلائی۔اسی موقع سے مولانانے راقم کولکھاتھاکہ جب مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی کتاب ”قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں“منظرعام پر آئی توغالباً سب سے پہلے انہوں نے الفرقان میں اس تعبیرِدین پر پہلانقدکیاتھا۔خاکسارنے ان سے گزارش کی کہ وہ مقالہ فراہم کرایاجائے۔انہوں نے بھی تلاش کروایا، لیکن تاحال ان کا ناقدانہ تبصرہ کہیں ملانہیں۔ممکن ہے کہ کہیں الفرقان کی فائلوں میں دباہو۔تاہم اِس سے یہ پتہ چلاکہ مولاناموصوف بھی مولانامودودی کی تعبیردین سے اختلاف رکھتے تھے۔
مولاناسنبھلی کثرت سے مطالعہ کرتے اورعلماء کے حلقہ میں راقم کی رائے میں اِس لیے ممتازتھے کہ مشرق ومغرب دونوں کوبہت قریب سے دیکھنے اوربرتنے کی بناپر ان کی تحریروں میں حقیقت پسندی معروضیت ا ورعدم جذباتیت اورانصاف پسندی پائی جاتی ہے، یک رخاپن نہیں ہے۔اوراس لیے مغربی فکرکے نقدکے ساتھ مغرب والوں کی بعض اخلاقی قدروں کی ستائش انہوں نے کی جوکہ علما کے حلقہ میں یکسرناپیدہے۔ساتھ ہی وہ موجودہ زمانے کے چیلنجوں اورمطالبات پر بھی گہری نظررکھتے تھے۔اسلام کے تعلق سے مغرب میں کیاکچھ لکھاپڑھاجارہاہے، اس کی انگریزی سے اپنی واقفیت کی بناکرفرسٹ ہینڈمعلومات رکھتے۔ملی ضرورتوں کے ادراک کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام پر بھی انہوں نے لکھاہے۔الفرقان کے اداریوں پر مشتمل ان کے کچھ مضامین کا مجموعہ ”مجھے ہے حکم اذاں“کے عنوان سے چھپ چکاہے۔ضرورت ہے کہ ان کے منتخب علمی فکری اورتنقیدی مضامین بھی شائع کیے جائیں۔
بعض مباحث پر انہوں نے مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ اوردوسرے اکابرسے اختلا ف بھی کیامگران کے پورے احترام کومدنظررکھتے ہوئے۔مولاناابوالحسن علی ندوی کی کتاب المرتضی ٰ کا بھی انہوں نے ناقدانہ جائزہ لیاتھاجس کودوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کی زبان وبیان مولویانہ وواعظانہ نہیں بلکہ سنجیدہ، دانشورانہ، شگفتہ اورمنطقی اوراستدلالی اسلوب کے حامل ہیں۔مولانامرحوم کے اخلاف میں جہاں تک راقم کی واقفیت ہے، بھائیوں، پوتوں، نواسوں اوربھانجوں میں بھی یہی صفات عالیہ منتقل ہوئی ہیں اوربلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ:
این خانہ ہمہ آفتاب است
مولاناسنبھلی اِس سے قبل بھی کئی بارسخت بیمارپڑے تھے مگرشایدقدرت ان سے ترجمہ وتفسیرکا کام مکمل کراناچاہتی تھی چنانچہ وہ ہرباربسترسے اٹھ کرپھرجانفشانی سے اِس کام میں لگ جاتے گویاشبلی وعتیق میں یک گونہ مشابہت یوں ظاہرہوئی کہ شبلی رحمہ اللہ نے اپنے اخیرایام سیرت نبوی علی صاحبہا الف الف تحیہ وسلام میں بسرکیے تومولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے اپنی حیات مستعارکے آخری لمحات کتاب اللہ کے فہم وتفسیرمیں گزارے۔
خداکاشکرہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا۔ اللہم انزل علیہ شآبیب رحمتک
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲)
ڈاکٹر شیر علی ترین
اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا مقدمہ)
آگے بڑھنے سے پہلے اس کاوش کے بنیادی اشکالیے کو واضح کرنے کے لیے، میں ان وسیع تر نظری اور سیاسی اہداف کو واضح کرنا چاہوں جو اس سے مقصود ہیں۔ آئندہ سطور میں، میری خصوصی دلچسپی یہ واضح کرنے سے ہوگی کہ مسلمانوں کے مابین بریلوی دیوبندی جیسے اندرونی اختلافات کو کیسے مذہب سے متعلق نئی عالمی سیاسی حکمت عملی کا جزو بنایا جاتا اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اچھے مسلمانوں اور برے مسلمانوں کی تقسیم کا تنقیدی جائزہ
عہد حاضر میں علمی اور غیر علمی دونوں حلقوں میں بریلوی دیوبندی اختلاف کو عموماً اسلام کی فقہی اور صوفی روایتوں یا فقہ اسلامی اور تصوف کے درمیان ایک دائمی کش مکش کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ علما جو عید میلاد النبی منانے کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں شریعت، اصلاح اور خالص اسلام کے علمبرداروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لگے بندھے مفروضے کی نسبت عموماً دیوبندیوں کی طرف کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو ان اعمال کا دفاع کرتے ہیں، انھیں تصوف، عوامی اسلام اور اسلام کے ایک نرم تصور کے حامیوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔
اس تقسیم میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بریلوی اور دیوبندی دونوں بیک وقت صوفی شیوخ اور فقہ کے نامور علما تھے۔ بریلوی مسلک کبھی بھی صرف اولیا کی پرستش تک محدود نہیں رہا۔ وہ ہمیشہ معاشرتی تشکیل کے ایک ایسے بیانیے کا نمائندہ رہا ہے جس کی بنیاد ایک اعلیٰ علمی اور تصنیفی روایت پر ہے۔ اسی طرح دیوبندی روایت صوفیانہ پہلوؤں سے تہی دامن نہیں۔
مزید برآں، بریلوی دیوبندی مشائخ نے اپنے پیش روؤں کی طرح اپنے آپ کو ان خانوں میں تقسیم نہیں کیا ، اور نہ ہی فقہی/صوفی جیسے سادہ موازنوں میں خود کو محدود کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صبح جاگتے ہوئے وہ صوفیانہ اعمال کے لیے کمر کس لیتے ہیں، اور شام ہوتے ہی فقہی روپ اختیار کر لیتے ہیں۔ مثلاً جب معروف ومشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی (جن کے بارے میں ہم اس کتاب میں آگے مزید بہت کچھ پڑھیں گے) سے پوچھا گیا کہ فقہ اور تصوف کے درمیان کیا تعلق ہے، تو انھوں نے جواب دیا: "میں اخلاقی اعمال کے سلسلے میں فقہا کے فیصلوں پر زیادہ اعتماد کرتا ہوں، لیکن میرا یہ فیصلہ خالص عقل پر مبنی ہے، کیوں کہ طبعی طور پر مجھے صوفیہ کے طور طریقوں سے محبت ہے"1۔
اسی طرح، مقبول عام تصویر کے برعکس، بریلوی مکتب فکر کے بانی اور اس کتاب کے بنیادی کردار مولانا احمد رضا خان محض صوفی نہیں تھے۔ درحقیقت وہ فقہاے مجتہدین کی رائے کو صوفیائے کرام کی رائے کے مقابلے میں ثانوی یا کم اہم سمجھ کر رد کرنے کے رجحان کے شدید ناقد تھے۔ اپنی قابل ذکر کتاب "مقال العرفاء فی اعزاز الشرع والعلماء" میں انھوں نے ما قبل جدید دور کے صوفی بزرگوں کے کئی حوالے جمع کیے ہیں (جن میں زیادہ قابل ذکر مشہور صوفی شیخ عبد القادر جیلانی متوفی 1166ء ہیں)، جو اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ فقہی تعلیمات کی مضبوط اساس کے بغیر تصوف کی حقیقت تک رسائی ہو سکتی ہے2۔ اس لیے اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اعلیٰ حضرت اور مولانا تھانوی دونوں کے لیے فقہ اور تصوف ایک مشترک دینی سوچ کا حصہ ہیں، جنھیں ایک دوسرے کے مقابل خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔
اس کتاب میں فقہی/صوفی موازنے کے خلاف میرا یہ دعویٰ ہے کہ علمی اور تاریخی دونوں اعتبار سے یہ ناقص ہے۔ یہ مسلمانوں کے درمیان استدلال ومناقشے کی روایات اور اختلافات کی پیچیدگیوں کو ایک آسان فہم لیکن مسخ شدہ بیانیے کے ذریعے مستور کر دیتا ہے۔ اگر چہ دیوبند کے پیش رو علما بھی اپنے ارد گرد رائج صوفیانہ اعمال کے متعدد مظاہر کے شدید ناقد ہو سکتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے درمیان بریلوی دیوبندی اختلاف وتنازع کو فقہی غُلو یا صوفیانہ تساہل کے درمیان نزاع تک محدود کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ فقہی/صوفی موازنے کااچھے/برے مسلمان کے نسبتاً ایک وسیع تر، زیادہ طاقت ور اور نتیجتاً زیادہ نقصان دہ بیانیے کے ساتھ گہرا تعلق ہے3، جس میں "اچھائی" کا پیمانہ اچھے مذہب کے سیکولر لبرل تصور سے ہم آہنگی ہے۔ اچھے مذہب کا یہ تصور بالعموم ایک مخصوص انداز میں امریکا کے سامراجی مفادات وخواہشات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔
اچھے/برے مسلمان کے موازنے کو، جیسا کہ الزبتھ ہرڈ (Elizabeth Hurd) کی حالیہ کاوش سے ظاہر ہوتا ہے، "عقیدے کے دو چہروں" کے ایک وسیع تر عالمی بیانیے میں سمویا گیا ہے، جو بین الاقوامی تعلقات اور پبلک پالیسی کے حلقوں میں جاری بیش تر گفتگو پر حاوی رہتا ہے۔ اس تقسیم میں اچھا مذہب وہی ہے جو آسانی سے قابو میں آئے اور جو امدادی سرگرمیوں اور انسانی حقوق کی مہمات جیسے نولبرل (neo-liberal) مفادات ومقاصد کے لیے کارگر ہو۔ اس کے برعکس برا مذہب وہ ہے جسے نگرانی اور تادیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جو آسانی سے تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے اسے مسلسل سدھائے رکھنا ضروری ہے۔ ہرڈ بتاتی ہیں کہ اچھے اور برے مذہب کے درمیان امتیاز قائم کرنے کی اس کوشش میں مصنوعی طور پر مذہب اور مذہبی پیروکار کے ایک نئے تصور کی تشکیل شامل ہے جو سیاست سے الگ ہو۔ پالیسیوں کی تنفیذ کی ضرورت کا یہ بیانیہ جو اچھے اور برداشت والے ایسے مذہب کو مضبوط بنائے جو تاریخی پیچیدگیوں، مقامی سیاقات، اندرونی اختلافات اور روزمرہ عملی زندگی کی حرکیات سے سروکار نہ رکھے۔ لیکن فکری اِفلاس کے باوجود -یا شاید اس کی وجہ سے- "مذہبی آزادی" کے لیے وسیلے کے طور پر اچھے مذہب کا تصور ایک انتہائی منافع بخش صنعت کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس نئے مذہب کے بزعم خویش ماہرین بشمول محققین، سرکاری ملازمین، صحافیوں اور سفارت کاروں پر دولت وطاقت کی بڑی نوازشات ہیں۔ ان لوگوں سے تھنک ٹینکس، ادارے، حکومتی محکمہ جات جیسے امریکی محکمۂ داخلہ کا دفتر براے مذہب وعالمی معاملات (US State Department Office of Religion and Global Affairs)، جس کا آغاز 2013 میں ہوا، آباد ہیں4۔
جنوبی ایشیا میں اسلام کے قضیے کے حوالے سے "عقیدے کے دو رخ" والے بیانیے نے تصوف کی، جسے آخر کار بریلوی مسلک کے مساوی قرار دیا گیا ہے، پرزور حمایت کی شکل اختیار کر لی ہے، تاکہ شریعت پر مُصِر دیوبندی مسلک کے مزعومہ خطرے کو روکا اور کم کیا جا سکے۔ اس استدلال کی بطور خاص ایک مکروہ مثال واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) کی وہ رپورٹ ہے جو 2003 میں Civil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategies کے عنوان سے وسیع پیمانے پر شائع ہوئی۔ تین خود ساختہ "ماہرین اسلام" جن میں اس منصوبے کا نگران ناول نگار چیرائل بينارڈ (Cheryl Benard) بھی شامل ہے، کے تصنیف کردہ 70 صفحات کے اس رسالے کا مطمح نظر یہ ہے کہ "اسلام کے ارتقائی عمل میں تعمیری معاونت فراہم کرکے" جمہوریت کو فروغ دیا جائے5۔ من جملہ دیگر امور کے، اس رپورٹ کا مطمح نظر یہ ہے کہ "اسلامی بنیاد پرستی" کے مسئلے سے "نبٹنے" اور "متمدن وجمہوری اسلام کے فروغ" کی خاطر "ممکنہ ہم خیالوں" کی حیثیت سے مختلف قسم کے مسلمانوں کی خوبیوں اور نقائص کی نشان دہی کرے6۔
یہ دستاویز مسلمانوں کی مختلف اقسام کی طرف سے، جنھیں سادگی سے "سیکولرز"، "بنیاد پرستوں"، "روایت پسندوں" اور "جدیدیت پسندوں" کے خانوں میں بانٹا گیا ہے، متوقع تعاون کا جائزہ لیتا ہے۔ جس طرح کسی میلہ مویشیاں میں جانوروں کی مردانگی کو جانچا جاتا ہے، اسی طرح اس کتابچے کے مصنفین جدیدیت پسندوں کو "جدید امریکی جمہوریت کی اقدار اور روح سے سب سے زیادہ ہم مزاج پاتے ہیں"7۔ سیکولر مسلمان بظاہر فطری اتحادی ہوتے، اگر وہ "بائیں بازو کے نظریات" اور "امریکا مخالف سوچ" کے حامل نہ ہوتے8۔ اس ملغوبے میں تصوف کو بالاتفاق کسی خانے میں نہیں بٹھایا جا سکتا تھا، اس لیے بینارڈ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں: "صوفی ان خانوں میں کسی بھی خانے میں ٹھیک طرح سے نہیں بیٹھتے، لیکن ہم انھیں جدیدیت پسندوں میں شامل کرتے ہیں"۔ اس موقف کے حق میں کوئی وضاحت دیے بغیر وہ صوفی ازم کو کچھ یوں پیش کرتے ہیں: "اسلام کی ایک وسیع اور علمی تشریح۔۔۔ اپنی شاعری، موسیقی اور فلسفے کے ذریعے تصوف مذہبی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پل کا کردار ادا کرتا ہے"۔ من جملہ دیگر پالیسی سفارشات کے، یہ دستاویز کہتی ہے کہ: "ان ممالک میں جن میں صوفیانہ روایات موجود ہیں، سکول کے نصاب، اقدار اور ثقافتی زندگی میں صوفیانہ اثر ورسوخ کی پرزور حوصلہ افزائی کی جائے۔"9
اسی طرح کا ایک موقف واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورڈ (World Organization for Resource Development and Education - WORDE) کی 2010 میں Traditional Muslim Networks: Pakistan’s Untapped Resource in the Fight Against Terrorism کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے10۔ایک دل چسپ سادگی کے ساتھ یہ رپورٹ "بین الاقوامی امدادی برادری" سے مطالبہ کرتی ہے کہ "انتہا پسند نظریات کی حامل قیادت کے مقابلے میں معتدل مذہبی قائدین کی سرگرمیوں کے وسیع سلسلوں کو مالی معاونت فراہم کرکے ان کو تقویت فراہم کی جائے"11۔
رینڈ دستاویز کی طرح اس رپورٹ میں بھی معتدل اتحادی اور انتہا پسند دشمن واضح طور پر متعین اور جانے پہچانے ہیں۔ بریلوی مرکزی دھارے کے معتدل صوفی ہیں، جب کہ دیوبندی (جنھیں اس پوری رپورٹ میں دیوبندی وہابی12 نام سے پکارا گیا ہے) شریعت پرست انتہا پسند ہیں، جن کے تعلیمی ادارے "انتہا پسندی کے مراکز" ہیں13۔ رپورٹ کا اختتامی نتیجہ یہ ہے کہ بریلویوں سے تعلقات استوار کرنے اور ان کی (مالی یا دیگر طریقوں سے) معاونت کرنے سے دیوبندیوں کا خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک سفارش ایک اور با اثر تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن (Heritage Foundation) کی رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے14۔ ان رپورٹوں کا نتیجہ اس اندرونی دباؤ میں اضافہ ہے کہ پاکستان میں بریلوی اداروں کو تائید وتقویت پہنچائی جائے، جب کہ ملک کے مختلف حصوں میں نئی "صوفی یونیورسٹیاں" بنائی جائیں۔
نہ صرف مغربی ریاستی اور غیر ریاستی طاقتیں صوفی ازم کو اسلام کے ایک معتدل، غیر سیاسی اور نرم رخ کی حیثیت سے فروغ دے رہے ہیں بلکہ، جیسا کہ فیٹ میوڈینی (Fait Muedini) نے واضح کیا ہے، بہت سے مسلم اکثریتی ممالک (جیسے الجیریا، مراکش اور پاکستان) کی حکومتیں بھی اس دوڑ میں پیش پیش ہیں15۔ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں صوفی ازم سیاسی لحاظ سے بے ضرر ہے، اور اس لیے ریاست کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ مزید برآں، کسی صوفی سلسلے کی تائید ایک سیاسی لیڈر کو "مذہبی استناد" دلا سکتی ہے۔ اثر رسوخ میں فرق کے باوجود، یہ ایک یک طرفہ عمل نہیں، کیوں کہ صوفی گروہ بھی وسائل تک نسبتاً زیادہ رسائی رکھتے اور حلقۂ ارادت میں توسیع کے ذریعے ریاستی سرپرستی سے فائدہ اٹھاتے ہیں16۔ صوفیوں اور سیاسی اشرافیہ کے درمیان تعاون کی یہ روایت کوئی نئی ایجاد نہیں۔
قرونِ وُسطیٰ اور عہدِ جدید کے اوائل میں مسلم ممالک کے بادشاہوں میں یہ دستور بالکل عام تھا کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار کو تقویت پہنچانے کی خاطر صوفی شیوخ کے اثر ورسوخ سے استفادہ کرتے تھے، اور اس کے بدلے میں صوفیا بھی سرکاری سرپرستی کے فوائد وثمرات سمیٹتے17۔ در حقیقت یہ دو طرفہ مفید بند وبست تصوف کے بنیادی مخمصوں میں سے ہے: ایک طرف دنیوی آسائشوں کو ترک کرنے پر زور دینا، جب کہ دوسری طرف دنیوی حلقۂ ارادت اور سرپرستی کے اداروں پر انحصار کرنا18۔ لیکن ماقبل جدید سیاقات سے تمام تر مشابہتوں کے باوجود جدید دور میں صوفی ازم کا ریاستی فروغ یک سر مختلف اور غیر متوقع ہے۔ آج صوفی ازم کی تمام تر تعظیم کا بنیادی مقصد اسے "خالص شرعی اسلام" کے مقابلے میں حریف کے طور پر فروغ دینا ہے۔ صوفی ازم کو اس بنیاد پر معتدل یا اچھے اسلام کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اصلاً اس شریعت یا برے اسلام کا حریف ہے جو ہمیشہ سے انتہا پسندی کے خطرے کا حامل رہا ہے۔
صوفی ازم کو اسلام کے ایسے پر امن تصور کی حیثیت سے پیش کرنا جو اسلام کی قانونی روایت کا مد مقابل ہو، اسلامی شریعت اور تصوف دونوں کا ایک بے سر وپا تصور ہے۔ یہ لگا بندھا مفروضہ اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ راہ سلوک پر چلنے کے لیے شرعی احکام پر عمل درآمد ایک بنیادی تقاضا ہے۔ صوفیا شریعت کو مسترد نہیں کرتے۔ اس کے بجاے وہ اسے بلند تر روحانی تزکیے کی پہلی سیڑھی سمجھتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں صوفی فکر میں شریعت و تصوف کے درمیان تعلق کو متحارب سلسلوں کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس کے برعکس خدائی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ پہلی سیڑھی کا درجہ رکھتا ہے۔ درجہ بندی کے اس نظام کی بہتر وضاحت ان تین ہم قافیہ الفاظ سے ہوتی ہے: شریعت (الٰہی قانون)، طریقت (راہ سلوک)، حقیقت (اللہ تعالیٰ تک رسائی)19۔ درجہ بندی اور تقابل ایک چیز نہیں۔
تصوف کو امن اور "اچھے مسلمانوں" کے ہم معنی اور اسلامی شریعت کو تشدد کے خطرے اور "برے مسلمانوں" کے برابر قرار دینا مغربی مستشرقین کی ذہنی اختراع ہے جو تا حال یورپی وامریکی اور بہت سے غیر مغربی (بشمول مسلم اکثریتی) حلقوں میں راسخ ہے۔ جیسا کہ ماہر بشریات کیتھرائن ایونگ (Katherine Ewing) نے اسے اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے: "تصوف اور اسلام یا تصوف اور عوامی رسموں کے درمیان اختلافات کو انیسویں صدی کے متعدد محققین نے اس انداز میں نمایاں کیا ہے جس میں تصوف اپنی نفیس باطنی واردات کی وجہ سے 'اچھا' ہے، یا اس کے برعکس جہاں تصوف توہم پرستانہ رسومات کی وجہ سے 'برا' ہے، وہاں اسلام اپنی عقلیت پسندی اور خالص توحید کی وجہ سے 'اچھا' ہے۔ تاہم اس الٹ پھیر سے قطع نظر، جسے انیسویں صدی کے متعدد لکھاریوں نے پیش کیا ہے، نو آبادیاتی ماحول میں یہی اختلاف بذاتِ خود اور اس کی سیاسی اور مؤثر طاقت تصوف کے مابعد ارتقا کے لیے فیصلہ کن اہمیت کی حامل رہی"20۔
شرعی بمقابلہ صوفی کا بھدا اور شرانگیز مفروضہ جہاں نو سامراجی امریکی تھنک ٹینکس کی پالیسی دستاویزات میں پایا جاتا ہے، وہیں اس طرح کے کئی دیگر سطحی موازنوں کی مثالیں جنوبی ایشیائی اسلام سے متعلق سنجیدہ تحقیقی کاوشوں میں بھی ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر پنینا وربر (Pnina Werber) کا مضمون The Making of Muslim Dissent: Hybridized Discourses, Lay Preachers, and Radical Rhetoric Among British Pakistanis لیجیے21۔ اس مضمون میں، جس کا بنیادی موضوع برطانیہ میں مقیم جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی مسلکی شناخت کا تصور ہے، وربنر دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان موازنہ کچھ اس طرح کرتا ہے:
"دیوبندیوں کے ہاں انفرادی تربیت کی حیثیت سے انفرادی عقلیت پر زور کے ساتھ شرعی استدلال (صوفیوں کے صوفیانہ علم کے بالمقابل) کو بھی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اولیا کے مزارات کے احاطے میں جاری رسم ورواج کے دفاع میں ]دیوبند کی[ اصلاحی تحریک کی بھرپور اور منظم مخالفت کی گئی۔ یہ اصلاح مخالف تحریک بریلویت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں "فاضل علما" کے دو طبقے ابھر کر سامنے آئے۔ مصلح فقہا اور صوفی فقہا، جو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف مذہبی کش مکش میں برسرِ پیکار ہیں"22۔
ان بیانات کے بارے میں کم از کم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ محلِّ نظر ہیں۔ وربنر الفاظ کے نوآبادیاتی ورثے کو مثلاً "اولیاء کے احاطے میں جاری رسم ورواج"، جسے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے استعمال کرتا ہے، نظر انداز کرتا ہے۔ حقائق کے لحاظ سے اس کا تجزیہ بھی درست نہیں، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی علما دونوں نامور فقہا اور صوفیا تھے۔ لیکن یہاں پر سب سے زیادہ قابل توجہ امر وہ انداز ہے جس میں بریلوی دیوبندی کش مکش کو اس مفروضے پر مبنی قرار دیا گیا ہے کہ شریعت وطریقت پہلے سے جانے پہچانے اور الگ تھلگ استدلالی دائرے ہیں "جو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف مذہبی کش مکش میں برسرِ پیکار ہیں"۔ یوں اصلاح کی پھبتی اور اس کے نتیجے میں "مصلح" کا لیبل ان علما پر چسپاں کیا گیا ہے جو "تصوف کے مقابلے میں شرعی استدلال کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں"، جبکہ ان کے مخالفین کو آرام سے "صوفی فقہا" کے خانے میں محصور کیا گیا ہے۔ صوفی فقہا اور مصلح فقہا کی تقسیم سے اس طرف اشارہ ہے کہ جو فقہا تصوف کو کم توجہ دیتے ہیں، وہ زیادہ اصلاح پسند ہوتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ بے سر وپا مفروضہ ہے کہ جو شریعت کو جتنا زیادہ سنجیدہ لے گا، اس کے مذہبی رویے اور عمل میں شدت کا رجحان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ زیادہ وسیع تناظر میں ایسی تقسیم حریف مذہبی روایات کو اصلاحی/صوفی اور شرعی/صوفی جیسے بنے بنائے موازنوں میں محصور کر دیتی ہے، جبکہ ان حالات وواقعات کو ملحوظ نہیں رکھتی جن میں یہ روایات دعوائے استناد کے ساتھ ان دائروں کے حدود طے کرنے کے لیے باہم برسرپیکار ہوتی ہیں۔
اس رجحان کی ایک دوسری مثال جنوبی ایشیائی اسلام کے نامور فرانسیسی مؤرخ مارک گیبوریو (Marc Gaborieau) کے کام میں پائی جاتی ہے۔ اپنی کتاب Un autre Islam: Inde, Pakistan, Bangladesh میں گیبوریو استدلال کرتے ہیں کہ جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کی فکری تشکیل علما کے دو الگ اور متوازی گروہوں نے کی ہے۔ ان کی راے میں ایک طرف "مُصلحین" ہیں۔ گیبوریو کی راے میں اصلاح پسند لہر کا آغاز 1740 میں اٹھارویں صدی کے مشہور عالم شاہ ولی اللہ (م 1762ء) سے ہوتا ہے، جو انیسویں صدی کے اواخر تک اور اس کے بعد بھی جدیدیت پسند مصلحین مثلاً چراغ علی (م 1895)، دیوبند کے پیش روؤں اور اہل حدیث علما کی صورت میں جاری ہے۔ جب کہ اس سلسلے کی دوسری طرف ایک علمی روایت ہے جس کو ان علما نے تشکیل دیا ہے جنھیں گیبوریو غیر اصلاحی یا غیر اصلاح شدہ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس غیر اصلاحی تحریک کا آغاز شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبد العزیز (م 1823) سے شروع ہوتا ہے، اور انیسویں صدی میں بریلوی مکتب فکر سے وابستہ علما نے اسے آگے بڑھایا ہے۔23
دو صدیوں میں پھیلے متعدد کرداروں اور روایات کو ایسے عمومی خانوں میں تقسیم کرنے کے اس تاریخی انداز نظر کی بے اعتدالی ایک طرف، یہ موقف انتہائی بے باکی سے جنوبی ایشیائی اسلام کی متناقض تصویر کشی کے ذریعے سے مقامی مذہبی روایات پر اصلاح کی ایک خود ساختہ تعریف بھی مسلط کرتے ہیں۔ گیبوریو کی تصویر کشی کے برعکس، جیسا کہ میں باب نہم میں بتاؤں گا، بریلوی علما نے بھی اپنے کردار کو مصلحین کے روپ میں دیکھا جن کو طویل عرصے سے رائج رسوم واعمال کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ دیوبند کے پیش روؤں کے ساتھ ان کے شدید اختلاف کی بنیاد کم یا زیادہ اصلاح نہیں، بلکہ اصلاح کے تقاضوں اور ضروریات کے مختلف اور متوازی تصورات تھے۔
جنوبی ایشیائی اسلام کی ایسی متضاد تصویر ذرا نسبتاً واضح انداز میں پاکستان میں مذہب اور عوامی ثقافت پر ڈیوڈ پینالٹ (David Pinault) کی کتاب Notes from a Fortune-Telling Parrot: Islam and the Struggle for Religious Pluralism in Pakistan میں ملتی ہے24۔ جس انداز میں وہ بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان تقابل کرتا ہے، وہ کافی اچھے طریقے سے بریلوی دیوبندی کش مکش کے بارے میں عوام اور اہل علم کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ پینالٹ دیوبندیوں کی تعریف "خالص اسلام کے پیروکار جس سے طالبان نے جنم لیا" سے کرتے ہیں25۔ آگے چل کر وہ ہمیں بتاتے ہیں: "بریلوی کی اصطلاح ان سنیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو قدیم صوفیانہ اعمال پر عمل پیرا ہیں"26۔ پینالٹ کی مختصر لیکن معنی خیز تعریفات کے مطابق بریلوی دیوبندی اختلاف تصوف کے غالی مخالفین، "جن کی کوکھ سے بالآخر طالبان نے جنم لیا"، اور "قدیم صوفیانہ اعمال" کا دفاع کرنے والوں کے درمیان ایک کش مکش سے عبارت ہے۔
اس بیانیے میں کار فرما مفروضہ تصور یہ ہے کہ اسلام مختلف نظریات کا ایک منظرنامہ ہے جس میں سخت گیر مذہبیت اور تصوف جیسے متوازی اور الگ الگ دھارے پائے جاتے ہیں۔ اس منطق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عوام اور علما دونوں کو ان متضاد اور حریف تصورات سے انتساب کی بنیاد پر پہلے سے بنے بنائے خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ یہاں پر یہ اضافہ ضروری ہے کہ اسلام کی ایسی بکھری تفہیم کا مُحرک وہ نو استعماری (neo-colonial) کاوشیں ہیں، جو تصوف کو اسلام کے ایک ایسے "پرامن/غیر سیاسی" تصور کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہیں، جو مذہب کی زیادہ "متشدد/سیاسی" تشریحات کا حریف ہے27۔
شریعت/طریقت والے موازنے کی نسبتاً کم اشتعال انگیز مگر محلِّ نظر ایک آخری مثال عامر مفتی کی پیچیدہ کتاب Enlightenment in the Colony ہے۔ بیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان دانشور اور اردو کے ادبی نقاد محمد حسن عسکری (جو مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید بھی رہے) کی فکر اور کاوش پر بحث کرتے ہوئے عامر مفتی لکھتے ہیں:
"اس مقام پر عسکری کا وسیع تر پروجیکٹ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ جدید عوامی دائرے کو روایتی مناظرہ بازی کے دائرے میں مکمل طور پر بدل دے۔ تاہم ہمیں اسے اسلامی بنیاد پرستی کے منصوبے کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ ان کے کم محتاط ناقدین حسب معمول کرتے آئے ہیں؛ کیوں کہ ان کی منتشر کاوشیں اپنی کلیت میں فی نفسہ شرعی یا فقہی کے بجاے قرونِ وسطیٰ کے اس صوفی نقطۂ نظر کی تشکیل نو کرتی ہیں، جس کی تعبیر وتشریح بیسویں صدی کے مفسر مولانا اشرف علی تھانوی نے کی، اور جو اپنی اصل میں اس شدید عقلیت پسند اور شدید حرفیت پسند عملی اسلام پسندی سے بالکل ایک الگ تصور ہے جو اب پوری دنیا کی خبروں کی شہ سرخیوں کی زینت بن رہی ہے"28۔
اگر چہ عامر مفتی کی حسن عسکری کو بنیاد پرستی کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش ایک لحاظ سے قابل تعریف ہے (باوجودیکہ وہ بنیاد پرستی کو بالکل عمومی معنی میں لے رہے ہیں)، لیکن انھوں نے 'شریعت یا اسلامی قانون' اور 'قرون وسطیٰ کے صوفی نقطۂ نظر' کے درمیان جو تقابل قائم کیا ہے، میں اس کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اس موقف میں دو بنیادی مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ فقہ و تصوف کے درمیان بذات خود یہ موازنہ ہے۔ یہ مفروضہ کہ تصوف، چاہے قرونِ وسطیٰ کا ہو یا عہد جدید کا، شریعت یا اسلامی قانون کو نکال باہر کرکے چل سکتا ہے، مولانا تھانوی جیسے عالم کی نظر میں بالکل بے معنی ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات مفتی کی اس کوشش پر دھیان دینا ہے کہ انھوں نے حسن عسکری کو 'شدید عقلیت پسند اور شدید حرفیت پسند عملی اسلام ازم' کے گناہ سے پاک ثابت کرنے کے لیے یہ وضاحت کی کہ ان کی بنیاد 'قرونِ وسطی کے تصوف' میں تھی29۔ اس سکیم کے مطابق قرونِ وسطیٰ کا تصوف جدید بنیاد پرستی سے جنم لینے والے تشدد کے لیے ایک اعتدالی قوت کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ 'شریعت یا اسلامی قانون نہیں بلکہ صوفی نقطۂ نظر' کے جملے سے پتا چلتا ہے کہ بنیاد پرستی کے تریاق کی حیثیت سے تصوف کی طرف رجوع اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ایک شخص جتنا زیادہ شریعت پر کاربند رہتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ بنیاد پرستی کا شکار بنتا ہے۔ یہ بعینہ وہی مفروضہ ہے جو معاصر نولبرل کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ صوفی ازم کو 'اچھے اسلام' کی حیثیت سے بیچا جائے، جو 'برے' بنیاد پرست اسلام کے خوف سے چھٹکارا دلانے کا ضامن ہے۔ عامر مفتی کا تصوف کو شریعت اور بنیاد پرستی سے 'الگ' بتانا ناقابل دفاع اور کئی مسائل سے بھرپور چیستاں ہے۔
یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تنقید سے میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں ان دانشوروں کی کاوشوں کو سامراج کے نو لبرل گماشتوں سے جڑی مذموم سیاسیات کی طرح قرار دے رہا ہوں۔ اس کے بجاے، جیسا کہ صبا محمود نے ایک الگ تناظر میں استدلال کیا ہے، انداز نظر کی یہ غیر متوقع یکسانی دراصل اچھے مذہب کے ایک سیکولر تصور سے باضابطہ وابستگی کی دل کشی اور پھیلاو کو ظاہر کرتی ہے30۔
میرا نقطۂ نظر یہ ہے: جنوبی ایشیائی اسلام (یا کسی بھی استدلالی روایت) کے اختلافی ماحول کی توضیح مصلح/غیر مصلح، احیا پسند/روایت پسند، تصوف مخالف/صوفیانہ اور آزاد خیال/قدامت پسند جیسے موازنوں سے کرنا ان اعتقادی آرا کو واضح کرنے کے بجاے دھندلا دیتا ہے جو اس روایت کی تعمیر کرتی ہیں۔ یہ کتاب ایسے تشریحی موازنوں کی افادیت کو مسترد کرتی ہے۔
اچھے مسلمان/برے مسلمان کے بیانیے سے آگے جانے کے لیے راہ عمل کے طور پر یہ کتاب کسی روایت کے ان داخلی استدلالات اور حکمت ہاے عملی کی تفصیلی جانچ کی کوشش کرتی ہے، جن کے ذریعے اس کی حدود پر بحث ومناقشہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کا اساسی مفروضہ یہ ہے کہ سطحی تعمیمات اور تقابلی تشریحات کو از کار رفتہ ثابت کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ان لوگوں کی آواز سامنے لائی جائے جن کے متعلق یہ تعمیمات کی جا رہی ہیں۔ ان متون، سیاقات اور مسلکی دل چسپیوں کے گہرے مطالعے کے ذریعے، جنھوں نے دیوبندی بریلوی اختلاف کی تشکیل کی، میں یہ بتاؤں گا کہ اس مناقشے کو شرعی مصلحین اور مدہوش متصوفین کے درمیان تنازع تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام، مذہب اور جنوبی ایشیا کے مطالعے میں اس کتاب کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے میں اس استدلال کے مختلف حصوں کی مزید توضیح کرنا چاہتا ہوں۔
کتاب کا مرکزی نکتہ
نو آبادیاتی ہندوستان کی مسلم اصلاحی تحریکوں پر متعدد عمدہ تحقیقات سامنے آنے کے باوجود، نامور مسلمان علما کی دینی فکر مزید تفصیلی اور گہری تحقیق کا بهرپور تقاضا کرتی ہے31۔ موجودہ تحقیقات میں جنوبی ایشیائی اسلام کی فکری/تصنیفی روایات کے بجاے سماجی، ادارتی اور سیاسی تاریخ پر نسبتاً کافی زیادہ توجہ دی جاتی ہے32۔ چند استثناآت کو چھوڑ کر، جنوبی ایشیائی اسلام کے بہت سے مؤرخین بظاہر ان تشریحی استدلالات اور واقعات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے جن سے جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کی فکری تشکیل ہوئی ہے۔ یہ ایک قابل افسوس فروگزاشت ہے، کیوں کہ ان اکابر علما کے مذہبی مباحثے اور مناقشے، جنھوں نے جنوبی ایشیا کی استدلالی روایت کی تشکیل کی ہے، ان کی حیات وکردار کے مرکزی اجزاء ہیں۔ یہ صرف اشاعت کا مسئلہ نہیں، نہ ہی ایک تاریخی خلا کو پُر کیے بغیر چھوڑ دینا ہے۔ مذہبی متون کی تفصیلات اور تہہ در تہہ نزاکتوں کی طرف عدم توجہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی احیائی فکر کے متعلق مفروضاتی یا دقیانوسی تاثرات کو جنم دیتی ہے۔ اصلاح کی حدود اور معانی کا واضح بیان – بیانیے اور داخلی اختلافات – کے بارے میں ہماری تفہیم ناقص اور غیر مفید تعمیمات سے ماخوذ ہوتی ہے۔
عام طور پر مشہور ہے کہ علماے دیوبند نے عید میلاد النبی جیسی رسومات پر تنقید کی، جب کہ بریلویوں نے ایسے اعمال کا دفاع کیا۔ لیکن ان کے استدلالات کے انداز کے سوال نے ابھی تک قابل ذکر توجہ نہیں حاصل کی ۔ میلاد نبوی منانے یا نہ منانے میں ان باہم مخالف علما کے لیے کون سا امر زیرِ غور تھا؟ کن استدلالی طریقوں سے انھوں نے اپنے اعتقادی مسلک کو استناد بہم پہنچایا اور اپنی روایت کے مد مقابل بیانیوں کو کیسے غیر مستند ٹھہرایا؟ ان کے سماجی اور مذہبی تصورات کی تشکیل میں قانون، تاریخ اور زمان کے کن تصورات نے اپنا کردار ادا کیا؟ ان کے افکار میں کہاں پر ابہام اور عدم استحکام پایا جاتا ہے؟
ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں کی اصلاحی تحریکات کا مفید بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اس طرح کے سوالات انتہائی اہم ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ علما کے درمیان عقائد، شریعت اور رسومات کے غیر اہم مسائل پر بظاہر پراسرار اور معمولی تکرار درحقیقت حاکمیت اعلیٰ، سیاسیات اور سماجی نظم کے گہرے سوالات کا تشکیل کنندہ اور ان سے مربوط ہے۔ ان بنیادی کرداروں نے، جن کی فکر کو اس کتاب کے صفحات میں زیرِ بحث لایا گیا ہے، انتخابی سیاست اور جمہوری اداروں یا نظاموں میں بالکل شمولیت اختیار نہیں کی۔ تاہم جیسا کہ صبا محمود نے نہایت عمدگی سے استدلال کیا ہے، ان اصلاحی تحریکوں کی جو باقاعدگی سے روحانی تزکیے اور نجات کے معاملات میں لگی ہوتی ہیں، سیاسی طاقت انفرادی اور سماجی تبدیلی کے لیے ان کی صلاحیت میں پوشیدہ ہوتی ہے33۔ صبا محمود کے اشارے سے رہ نمائی لیتے ہوئے یہ کتاب کچھ تفصیل کے ساتھ ان استدلالات، مباحثات اور تنازعات کو قلم بند کرتی ہے جس نے دین دار افراد اور عوام کے بارے میں علما کے مابین متقابل تصورات کی تشکیل کی۔ روایت و اصلاح کی حریف عقلیات جنھوں نے ان کے سیاسی کردار اور امکانات کی تشکیل کی، ان کا ایک دقیق جائزہ دیوبند جیسے اصلاحی منصوبے کو 'غیر سیاسی' قرار دینے کو ناقص ثابت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں اپنے مقام پر بتاؤں گا کہ یہ موقف سیاست کے ایک نمایاں طور پر محدود اور لبرل تصور پر مبنی اور اسے بڑھاوا دینے کے لیے ہے۔
ایک بار پھر کہتا ہوں کہ بڑے پیمانے پر ایسی فکری لغزشیں ہندوستان کے نمایاں جدید مسلم مصلحین کے افکار وآرا پر ناکافی توجہ سے جنم لیتی ہیں۔ انیسویں صدی کے علما جیسے شاہ محمد اسماعیل شہید اور علامہ فضل حق خیر آبادی، جن کا تعارف اوپر ہوا، مناسب توضیحی مثالیں ہیں۔ جیسا کہ میں اس کتاب کے پہلے حصے میں بتاؤں گا، شفاعت نبوی کے حدود پر شاہ اسماعیل شہید اور علامہ خیر آبادی کے درمیان ایک گرما گرم مباحثہ نوآبادیاتی ہندوستان میں بین المسالک اختلافات کی کہانی میں ایک بنیادی صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔
شاہ اسماعیل آج تک ایک انتہائی متنازعہ شخصیت اور بے شمار تنقیدوں اور جوابی تنقیدوں کا موضوع رہے ہیں۔ تاہم ہندوستان مسلمانوں کی احیائی روایت میں اس اہمیت کے باوجود، ان کی مذہبی اور سیاسی فکر پر بنیادی مغربی ماخذ سابق مؤرخ ہارلن پیئرسن (Harlan Pearson) کا مقالہ: Islamic Reform and Revival in Nineteenth-Century India: The Tariqah-i-Muhammadiyah ہے34۔ باوجود ایک متاثر کن کاوش ہونے کے، پارسن کا تجزیہ بڑی حد تک برطانیہ کی سرکاری دستاویزات پر مبنی ہے، جبکہ مقامی زبانوں کے مصادر کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس لیے گاہ بگاہ اندرونی مذہبی مباحثوں کے متعلق چند مباحث کے باوجود وہ ان کے اندرونی استدلالات، توقعات اور ابہامات کی ایک تفصیلی اور دقیق تصویر کھینچنے میں ناکام رہے ہیں۔
زیادہ عموم کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیائی مطالعات کے میدان میں مسلمانوں کی علمی روایات کی تحقیق نسبتاً ایک نوزائیدہ مرحلے میں ہے۔ ابراہیم موسیٰ نے اس صورت حال کی تلخیص مناسب انداز میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
نوآبادیاتی ہندوستان میں اسلام کے مؤرخین کو پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ خطے میں 'علما' کی روایت کا گہرا علم رکھنے کا دعوی کریں گے تو یہ دعویٰ حقیقت کا عکاس نہیں ہوگا۔ مؤرخین تا حال تقریباً مستقل طور پر نوآبادیاتی یا قومی سیاسیات سے جڑی بین الاقوامی شخصیات جیسے علی گڑھ کے بانی سرسید احمد خان، لاہور میں مدفون فلسفی شاعر علامہ اقبال، انڈین نیشنل کانگریس کی نامور شخصیت مولانا ابو الکلام آزاد یا پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کوئی پانچ دہائیاں قبل جنوبی ایشیا میں دینی فکر کے فروغ میں روایتی علماے دین کے کردار پر کسی قابل ذکر تحقیق کی تلاش بے سود تھی۔ اگر چہ کچھ علما 1857 کے ہنگامے میں ملوث تھے، اوران میں علامہ فضل حق خیر آبادی کا نام نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے، پھر بھی ان کے حالات زندگی، علمی کاوشوں اور جس طرح سے انھوں نے بیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں کلامی پیش رفت کو متاثر کیا، اس کے بارے میں بہت کم کچھ کہا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا میں استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی ایک جامع تصویر سامنے لانے کے لیے روایتی علما کی کاوشیں تلاش وتحقیق کی مستحق ہیں35۔
اگر چہ ڈاکٹر موسی کی بات ایک دہائی سے زیادہ پرانی ہے، لیکن یہ اب بھی کافی حد تک درست ہے۔ میری یہ کتاب نوآبادیاتی جنوبی ایشیا میں اہم ترین علمی شخصیات کے مذہبی خیالات کو توجہ کا مرکز بنا کر مسلمانوں کی علمی روایات کی ایک باریک بین تصویر پیش کرتے ہوئے ان خلاؤں کو پر کرتی ہے۔ میں اپنے قارئین کو جنوبی ایشیا کی جدید مسلم علمی روایات کے استدلالات، تنازعات اور تفسیری مناہج کی ایک تفصیلی اور کثیر الجہت سیر کراؤں گا۔ نوآبادیاتی جنوبی ایشیا میں بین المسالک مناقشوں کا جائزہ لیتے ہوئے میں کئی مواقع پر ما قبل جدید اسلامی مصادر پر بھی ڈیرے ڈالوں گا، تاکہ جنوبی ایشیا سے آگے ان مناقشوں کے فکری شجروں کو نمایاں کر سکوں۔ اس حوالے سے بھی یہ کتاب جنوبی ایشیا کی مسلم احیائی فکر پر موجودہ اکثر کاوشوں سے مختلف ہے جن میں بیک وقت عربی، فارسی اور اردو کے مصادر سے اعتنا کرنے کا اہتمام شاذ ونادر ہی کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے یہ کتاب جنوبی ایشیائی مطالعات، علوم اسلامیہ اور زیادہ وسیع انداز میں مطالعۂ مذہب جیسے مضامین کو یکجا کرتے ہوئے ان کے اندر نتائج تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علما کی علمی روایت کے استدلالی تناظر سے جنم لینے والے عربی، فارسی اور اردو مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ عموماً حاشیے میں دھکیلے گئے جنوبی ایشیا کے اہم ترين علمی ذخیرے کی بازیافت کرکے اسے سامنے لاؤں۔
ابواب کی ترتیب (The Arc of the Book)
اس کتاب کے ابواب کی ترتیب تاریخی کے بجاے موضوعی ہے، اگر چہ ایک طرح سے وہ تاریخی ترتیب کے مطابق ہیں، کیوں کہ وہ انیسویں صدی کے آگے پیچھے ترتیب دیے گئے ہیں۔ تاہم یہ کتاب تاریخی ترتیب پر علمی تاریخ نہیں ہے۔ اس کے بجاے یہ ان اسنادی اور بہت سے مواقع پر مخالف بیانیوں کے ان مخصوص حالات کا جائزہ لیتی ہے، جن کا مقصد اسلام کے حدود کی تعیین تھی۔
حصۂ اول ودوم کا آغاز واختتام مختصر تعارفی ابواب کے ساتھ کیا گیا ہے، جو آنے والے ابواب میں شامل سیاسی تناظر اور فکری ماحول کو زیر بحث لاتے ہیں۔ حصۂ اول: 'معاشرتی تشکیل کے حریف بیانیے' کا موضوعِ بحث انیسویں صدی کے اوائل ہیں، جس میں گاہے گاہے اٹھارھویں صدی کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ ان مناظرانہ مباحث پر مشتمل ہے جو شاہ اسماعیل شہید اور ان کے ناقدی کے درمیان، جن میں فضل حق خیر آبادی سرِ فہرست ہیں، اہم ترین دینی مسائل جیسے اسلام میں شفاعتِ نبوی کے حدود پر سامنے آئے۔ ان دو (بشمول کچھ دیگر) علما کے، معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں پر توجہ دیتے ہوئے میں نے جنوبی ایشیا کی مسلم احیائی فکر کے ان دو حریف دھاروں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے جنھوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں مضبوط مسلکی شناخت کی حیثیت اختیار کر لی۔ معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں کا تصور ان متوازی مناہج کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت سے برطانوی نوآبادیات کی طرف انتقال کے عبوری دور میں، جو سیاسی بے یقینی کے حالات سے عبارت تھا، خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور نبوی دائرۂ اختیار کے درمیان تعلق کو سمجھا گیا۔ سیاسیات کی کون سی اصطلاحات اور تصورات خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر دینی مناقشوں کی بنیاد بنے؟ کس طرح سیاسیات اور کلامیات بغل گیر ہو کر ایک دوسرے کو بارآور بناتے ہیں؟ روایت کی وہ کون سی حریف عقلیات ہیں جو معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں کی وجہ سے ابھر کر سامنے آئیں؟ یہ وہ اساسی فکری سوالات ہیں جو اس کتاب کے حصۂ اول کے پانچ ابواب کی تشکیل کرتے ہیں۔
باب اول: " ہندوستان کے نوآبادیاتی عہد کی ابتدا میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر غور وفکر" اس تاریخی اور اعتقادی ماحول کا پس منظر پیش کرتا ہے، جس پر آنے والے ابواب میں بحث کی گئی ہے۔ معاشرتی تشکیل کے مذہبی بیانیوں (Political Theology) کی اصطلاح کو جس طرح اس کتاب میں برتا گیا ہے، اسی کے تناظر میں مغل حکمرانوں سے برطانیہ کی طرف حاکمیتِ اعلیٰ کے انتقال کے عبوری دور میں فکری اور سماجیاتی ماحول میں جنم لینے والے چند کلیدی تغیرات اور تسلسلات پر بحث کی گئی ہے۔ آئندہ دو ابواب: "اخلاقی اصلاح کی توقعات اور خدشات" اور "حاکمیتِ اعلیٰ کی از سرنو تقویت" (Re-energizing Sovereignty) شاه اسماعیل شہید کی اصلاحی فکر اور کاوشوں سے بحث کرتے ہیں، جس میں خدائی حاکمیت کی بحالی، یعنی شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں رائج رسم رواج کے منفی اثرات سے خدائی حاکمیت کے عقیدے کو بچانے کے لیے ان کی کاوشوں سے خصوصی اعتنا کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ابواب ان کی مشہور اور متنازع فیہ اردو کتاب "تقویۃ الایمان" اور ان کے نسبتاً کم معروف لیکن تقویۃ الایمان ہی کی طرح متنازع فیہ فارسی رسالہ "یک روزہ" کا عمیق مطالعہ ہے۔ اس کے ساتھ ان ابواب میں ان کی عوامی اصلاح کی کوششوں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ چوتھا باب: "دینی سیاسیات" ان کی اہم لیکن نسبتًا کم معروف فارسی کتاب "منصبِ اِمامت" پر تفصیلی بحث کے ساتھ سیاسیات اور سیاسی قائدین کی مثالی صورتوں سے متعلق ان کے تصور اور نظریے کو کچھ تفصیل کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔ پانچواں باب: "نظریۂ شفاعت" میں شفاعتِ نبوی کے سوال اور علامہ فضل حق خیر آبادی کی طرف سے شاہ اسماعیل شہید کی تردید پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ باب قارئین کو ایک صاحبِ علم کی حیثیت سے علامہ خیر آبادی اور خیر آبادی مکتبِ فکر کا تعارف بھی کراتا ہے۔
اور آخر میں کتاب کے اس حصے کے ایک مختصر نتیجۂ بحث میں، میں نے استعماری حکومت اور سابقہ ابواب میں مذکور مقامی اصلاحی فکر کے درمیان تعامل کے نظریے کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں نے خاص طور پر اس سوال پر غور وفکر کیا ہے کہ کیا شاہ اسماعیل جیسے مصلح، مفکر اور کارکن کی فکر وکاوش کو جنوبی ایشیا میں ابھرنے والے ایک اسلامی اصلاحی رجحان (protestant sensibility) کی ایک مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اس امکان کے چند پہلوؤں سے اتفاق کے باوجود میں نے ایسی کسی نظریہ سازی میں پائے جانے والے اہم مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ میری راے یہ بھی ہے کہ استعماری طاقت اور مقامی فکر کے درمیان تعامل کی نوعیت کے حوالے سے (ماضی کے) تسلسل یا انقطاع کی بحث کا پورا ڈھانچہ (problem space)، جو جنوبی ایشیا اور جنوبی ایشیائی مذاہب سے متعلق تحقیقات میں غالب رہتا ہے، اب شاید اس افادیت کا حامل نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا، اور اس تناظر میں، میں " معاشرتی تشکیل کے متوازی مذہبی بیانیوں " جیسے نئے نظری سانچوں کی ضرورت واضح کرنا چاہتا ہوں۔
دوسرا حصہ: "حریف مسالک" انیسویں صدی کے اواخر میں بریلوی دیوبندی تنازع کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔ ایک تعارفی باب (چھٹا باب) بعنوان: "نوآبادیاتی حکومت کے سایے میں اصلاحِ مذہب" ایک بار پھر اگلے تجزیے کے لیے میدان ہموار کرتا ہے۔ یہ قانون، مذہب اور سیاسیات کے حوالے سے نوآبادیاتی تشکیلِ نو کے بنیادی خد وخال بیان کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے سنی علمامیں ابھرنے والے مسالک کو زیرِ غور لاتا ہے۔ اگلے چند ابواب دیوبندی اور بریلوی مسلک کے پیش روؤں کے ان مباحثوں کا جائزہ لیتے ہیں جو فقہ وشریعت کے کانٹے دار مسائل پر ان کے اختلاف کا سبب بنے: اسلام میں بدعت کی تعریف وحدود۔ بدعت سے مراد وہ اعمال اور طرز حیات ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کی مخالف ہو۔ لیکن وہ کون سے اعمال ہیں اور ان کی تعیین کیسے ہو، ایسے سوالات ہیں جو ہمیشہ شدید تنازع اور اختلاف کو ہوا دیتے ہیں، جیسا کہ انیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں ہوا۔ ساتواں باب: "قانون، حاکمیت اور شرعی عمل کے حدود" ان استدلالات کو سامنے لانے کے ساتھ جن کے ذریعے دیوبند کے پیش روؤں نے بدعت کی حدود کا تصور واضح کیا اور اس پر بحث ومناقشہ کیا، دیوبند کے اصلاحی پروگرام کے بنیادی عناصر کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔
فکری طور پر میں خدائی حاکمیت کی برتری کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل مذہبی بیانیے اور روزمرہ زندگی میں شرعی اعمال کے حدود کی تحدید کے لیے فکرمند شرعی تصور کے درمیان ممکنہ روابط کی تفتیش بھی کر رہا ہوں۔ میں بتاؤں گا کہ دیوبندی فکر کے مطابق فقہ وکلام کا مرکزی سوال یہ ہے کہ ایک نیا عمل بدعت کی حدود میں کب داخل ہوتا ہے۔ اپنے پیش رو شاہ اسماعیل شہید کی طرح (جن کی انھوں نے بھرپور تائید کی) اُن کے اصلاحی منصوبے کا مرکزی نکتہ روزمرہ زندگی کو اس طرز پر از سرِ نو مرتب کرنا ہے جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی یکتائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے۔ اگر کوئی مُستحب رسم ورواج جیسے میلاد منانے سے خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو خطرہ لاحق ہو، یا وہ اسے کم زور کرے تو وہ بدعت کے زمرے میں آئیں گے اور اس وجہ سے انھیں چھوڑنا ہوگا۔ شاہ اسماعیل اور دیوبند کے پیش روؤں کے لیے اصلاحی عمل رائج عادات، رسوم ورواجات اور سماجی تقریبات میں مکمل انقلاب برپا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے کردار کو ان مداخلت کاروں کی حیثیت سے تصور کیا جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے اصلاح کے لیے تجدید کے اس ماڈل کو زمان اور تاریخ کی ایک ایسی تصور سازی کے ذریعے استناد بہم پہنچایا جس کا محوری نکتہ یہ ہے کہ مسلمان ایک معیاری عہد (یعنی دور رسالت وصحابہ) سے مسلسل دوری اور انقطاع کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ آٹھواں باب: "حاکمیت کی بحالی کے لیے نیک کاموں کا سد باب: میلاد اور اس کے اضطرابات" (Forbidding Piety to Restore Sovereignty: Mawlid and its Discontents) میلاد النبی ﷺ منانے پر معروف دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے استدلالات کو سامنے رکھ کر بدعت کے متعلق دیوبندی نظریات کی تطبیق کی ایک مخصوص مثال پیش کرتا ہے جو جنوبی ایشیا میں ابھی تک سب سے زیادہ متنازع رسم ہے۔
نواں باب: "حصولِ خیر: اصل مفاہیم کی بحالی کی حیثیت سے اصلاح" اسلام میں بدعت وروایت کی حدود کا ایک حریف بیانیہ سامنے لاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح بریلوی مسلک کے بانی اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان نے بدعت کے موضوع پر دیوبندی نظریات کی تردید کی۔ خان صاحب نے اپنے دیوبندی حریفوں کی سخت سرزنش کی کہ ان کی نظر میں انھوں نے بدعات کی مخالفت کی آڑ میں طویل المیعاد رسوم وعبادات کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا۔ خان صاحب کے نزدیک اصلاح ایسے شرعی خیر کے حصول سے عبارت ہے جو ہر آنے والے والے لمحے میں پہلے سے رائج اعمال کی شکل میں نمایاں ہے، نہ کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے تحفظ کی خاطر احتیاطی بنیادوں پر ایسے اعمال کو نکال باہر کرنا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی یاد اور احترام میں منائے جانے والے رسومات کو ناجائز قرار دینے کی کسی بھی کوشش کی تردید میں خاص طور پر متشدد واقع ہوئے تھے۔ خان صاحب اور ان کے بریلوی پیروکاروں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی کائناتی مرکزیت پر سوال اٹھانا اور ان کے روحانی رتبے کی استثنائی حیثیت کی تحقیر کرنا دین کی پوری عمارت کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ دیوبند کے پیش رو خدائی حاکمیت کی بحالی کے لیے اپنے گمراہ کن اور جاہلانہ جوش وجذبے میں اس قسم کی استدلالی بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
یہ باب اس استدلال کے بنیادی خد وخال کو واضح کرتا ہے۔ لیکن ان تمام تر تلخ اختلافات اور تنازعات کے باوجود خان صاحب اور ان کے دیوبندی حریفوں کے اصلاحی ایجنڈوں کے درمیان چند واضح مقامات پر مماثلت اور یکسانیت بھی ہے۔ اگلا باب (دسواں): "مماثلتیں" روزمرہ کی دینی زندگی کی تنقید واصلاح کے متعلق بریلوی سوچ اور فکر کو نمایاں کرنے کے برتر مقصد کے لیے اِن اتفاقی نکات کا جائزہ لیتا ہے، تاکہ اس مشہور غلط فہمی کا ازالہ کیا جا سکے کہ دیوبندی مکتب فکر رسوم ورواجات کے بارے میں عوامی چال چلن کے ناقد جب کہ بریلوی اس کے حامی ہیں۔ جیسا کہ میں اس باب میں بتاؤں گا، احمد رضا خان عوام کے عادات واعمال، بالخصوص عورتوں کی عادات ورواجات کی تنقید میں اپنے دیوبندی حریفوں سے اگر آگے نہیں، تو ان سے پیچھے بھی نہیں ہیں۔
گیارھواں باب: "علم غیب: علم عطائی پر بحث ومناقشہ" رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے سوال پر مرکوز ہے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود، صرف اسی مخصوص سوال کے تناظر میں مولانا احمد رضا خان نے دیوبند کے پیش روؤں کی تکفیر کی (انھیں دائرہ اسلام سے خارج کافر قرار دے دیا)۔ یہ باب علم، حاکمیت اور نبوی معجزے کے درمیان تعلق کے ان متقابل تصورات کا تجزیہ کرتا ہے جو خان صاحب کے اس عجیب وغریب فتوے کا سبب بنے۔ میری راے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علم کی حیثیت ووسعت کے متعلق اس مناقشے میں اصلاً زیر بحث علم اور مذہب کی تعریف ہے۔
اس کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ ایک ہی باب "داخلی اختلافات" (بارھواں باب) پر مشتمل ہے۔ یہ متنازع مذہبی سوالات پر دیوبندیوں کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو زیر بحث لاتا ہے۔ بطورِ خاص یہ دیوبند کے پیش روؤں اور ان کے صوفی شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (م 1899) کے درمیان اختلافات پر بحث کرتا ہے۔ حاجی امداد اللہ ایک ممتاز صوفی شیخ تھے جو ہندوستان اور دیگر مقامات میں اپنے دیوبندی مریدوں، دیگر بہت سے علما اور عوام کی نظر میں محترم تھے۔ وہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان سے مکہ ہجرت کر گئے، جب انگریزوں نے انھیں اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے پر گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ وہ 1899 میں اپنی وفات تک مکہ میں رہے۔ اپنے دیوبندی مریدوں کی انتہائی عزت کرنے کے باوجود انھوں نے ذرا دھیمے لیکن قابل توجہ انداز میں متنازع دینی سوالات پر ان سے اختلاف کیا۔ یہ باب ان کے درمیان سمجھوتے اور ان باریک اختلافات کی تحقیق کے لیے وقف ہے۔ ایک نامور صوفی شیخ اور ان کے مریدوں کے درمیان اختلاف کی اس مثال سے میں ثابت کروں گا کہ وہ اختلافات کے جن داخلی استدلالات کو سامنے لائے ہیں، انھیں شرعی/صوفی تقابل کے خانوں میں کیوں نہیں بانٹا جا سکتا۔ میں اس یادگار بیانیے کو بھی نمایاں کروں گا کہ کس طرح دیوبند کے پیش روؤں نے محبت، عقیدت اور اختلاف کے درمیان تطبیق پیدا کی۔
تتمہ میں میں علومِ دینیہ اور جنوبی ایشیائی مطالعات میں اس کتاب کے اہم فکری مضمرات اور کردار پر بحث کروں گا۔ میں خاص طور پر ان مناہج پر غور کروں گا جن سے ایک دینی روایت کے اخلاقی استدلالات کا ایک محتاط جائزہ، جیسا کہ اس کتاب میں برتا گیا ہے، مذہب کی ان حالیہ تحقیقات میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے، اور اس کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے، جنھوں نے مذہبی/سیکولر تقابل پر سوال اٹھایا ہے۔ میری راے ہے کہ زندگی سے متعلق متبادل افکار سے پردہ اٹھانا، جیسا کہ کسی روایت کی داخلی کاوشوں میں دکھایا جاتا ہے، لبرل سیکولرزم کی آفاقیت کے عمومی مفروضے پر سوال اٹھانے کے پروجیکٹ کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آخر میں ایک مختصر پس نوشت بعنوان: "داخلی 'غیر' کو توجہ سے سننا" میں، میں معاصر جنوبی ایشیا میں اپنے اس کام کی سیاسی مداخلت (یعنی ممکنہ یا متوقع فکری اثرات) پر سوچ بچار کروں گا، اور ساتھ اپنے ذاتی موقف کے حوالے سے چند افکار پیش کروں گا۔
لیکن پہلے چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ چونکہ اس کتاب کا تعلق ایک ایسی رواں بحث سے ہے،جو ہمیشہ تنازعات کا سبب بنتی اورغیر معمولی توجہ حاصل کرتی ہے، اس لیے مناسب ہے کہ میں اس حوالے سے اپنا موقف واضح کروں۔ میں نے یہ تحقیق مذہب کے علمی مطالعے کی روایت میں سر انجام دی ہے۔ اگر چہ میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق جنوبی ایشیا (پاکستان) سے ہے، لیکن میں اس مناقشے کا نہ تو شراکت دار ہوں اور نہ ہی اس کے شراکت دار افراد اور جماعتوں سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اس تحقیق کا مقصد یہ نہیں کہ کسی موقف یا مسلک کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلہ کیا جائے نہ ہی یہ اس اختلاف کا کوئی حل ہے۔ اس کے بجاے میں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس کے استدلالات، شراکت داری اور ابہامات کا بیان اور تحقیق اس انداز سے کروں کہ جنوبی ایشیا کے تناظر میں مسلم علمی روایات کی تفہیم کی گہرائی اور نزاکتوں میں اضافہ کر سکوں۔
تاہم مجھے "غیر جانب دار"، "جذبات سے عاری" محقق کے طور پر نہ دیکھا جائے جو اُن شخصیات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا جن پر وہ تحقیق کرتا ہے۔ ان کے مسلکی مواقف کے متعلق غیر جانب دار ہونے کے باوجود میں نے ان کی فکر کی تفہیم وترسیل کی بھرپور کوشش میں گزشتہ کئی سال صرف کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ اس کتاب میں پیش کیے جانے والے علما اور ان کی کتابوں سے میں نے ایک قریبی رشتہ استوار کیا ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، اور میں علمی حوالے سے ان کا مرہونِ منت ہوں۔ آنے والے صفحات میں سوانحی تذکروں سے نہیں، بلکہ مذہب کے علمی مطالعے کے طریق ہاے کار اور اصولوں کی روشنی میں، میں ان کی تذکرہ کروں گا ۔ اس منہج میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ روایت کی تہہ در تہہ باریکیوں اور تنازعات سے پردہ اٹھایا جائے، جب کہ لبرل سیکولر فکریت کے اعتدالی دعووں اور مفروضوں کا بھی قلع قمع کیا جائے۔ یہ دہری توقع اس کتاب کا مغز ہے۔ میں تتمّے میں اس مسئلے پر مزید بات کروں گا۔
ایک دوسری وضاحت بھی ضروری ہے۔ اس کتاب میں بہت سے مقامات پر میں نے حکایات اور حکایات کے زیر اثر تاریخوں اور سوانحی تذکروں کے مقامی ذخیروں سے حوالے دیے ہیں۔ یہ توضیحی اور تجزیاتی سے لے کر وقائع نگاری اور عقیدت پر مبنی مصادر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ میری طرف سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں ان مصادر سے استفادہ صرف ان کی ظاہری حیثیت کی بنیاد پر نہیں کرتا، نہ ہی میں انھیں تجربی حقائق کے ذخائر کے طور پر لیتا ہوں جو پیش آنے والے واقعات کے متعلق سوالات کا یقینی جواب فراہم کرتے ہیں۔ مجھے بہ نسبت اس سوال کے ان سیاسی اور مسلکی کاوشوں میں زیادہ دل چسپی ہے جو یہ حکایات کسی استدلالی روایت کی اخلاقی تشکیل اور تزویراتی عمل کے لیے سرانجام دیتی ہیں۔ مزید برآں انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مسلم احیائی ورثے میں حکایات ایک بنیادی و مؤثر آلے اور طرز استدلال کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس روایت کی خصوصیت ہی حکایات پر مبنی تحریری سرمایے کی فراوانی ہے۔ اس لیے ان حکایات سے استفادے سے میرا مقصد یہی ہے کہ اس پورے ذخیرے کی بنت میں جو استدلالی تصورات کارفرما ہیں، ان کو سمجھا اور علمی گفتگو کا حصہ بنایا جائے۔
میں نے، جہاں کہیں ممکن تھا اور جہاں پر معلومات دست یاب تھیں، کسی تحریر کی تصنیف کے متعلق موجود سلسلۂ سند/تحریری ثبوت یا مناقشوں پر بھی مختصر نوٹس کا اضافہ کیا ہے، اگر چہ اس پوری کتاب میں میری توجہ تحریری سرمایے کی مادی تاریخ کے بجاے استدلالی مواد پر مرکوز ہے۔ ان اکثر کتابوں کے اصل قلمی نسخے دستیاب نہیں جن کا تجزیہ اس کتاب میں کیا گیا ہے، اور متعدد سوانحی، بالخصوص بیسویں صدی کے اواخر کی حکایات کا دار ومدار زبانی روایت پر ہے، یا وہ عقیدت پر مبنی تاریخ کے انداز میں سامنے آئے ہیں۔ اس لیے اس بات پر زور دینا مفید ہے کہ اس کتاب میں جن مرکزی شخصیات کی زندگیوں اور افکار سے بحث کی گئی ہے، ان کے بارے میں ہم تک معلومات مختلف شارحین کے دستاویزات کے توسط سے پہنچی ہیں، اور ان کی مسلکی وابستگیوں اور افکار کی خصوصیات سے متاثر ہیں۔ مزید برآں جن متون کے ذریعے ہم ان شخصیات سے متعارف ہوتے ہیں، بالخصوص وہ جو بعد میں عربی سے فارسی اور اردو میں یا فارسی سے اردو میں ترجمہ ہوئے، عام طور پر ایسی کئی شخصیات کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہوتے ہیں جن کا تعلق ایک مخصوص زمانی عرصے سے ہوتا ہے۔36 ایسے متون کے معاملے میں جہاں کہیں ممکن ہوا، میں نے اپنے تجزیے کی بنیاد اصل زبان پر رکھی ہے، جب کہ اس کے ترجمے کو بھی بعد میں کسی مخصوص اعتقادی نقطۂ نظر کے لیے حک واضافے کی تحقیق کے خاطر غور وفکر کا موضوع بنایا ہے۔
ان تنقیحات اور ضروری وضاحتوں کے ساتھ میں یہ عرض داشت بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کسی کو یہ زحمت بھی کرنی چاہیے کہ وہ اس ترتیب کو توڑے جس میں ان یورپی وامریکی ثانوی مصادر کے مقابلے میں ہمیشہ مشکوک ٹھہرنے والے مقامی مصادر کی تحقیر کی جاتی ہے، جن کو یہ اختیار سونپا گیا ہے کہ وہ ان کی تاریخی ثقاہت کی تحقیق، تجزیہ اور تعیین کریں۔ میں ایسی سرپرستی کو نخوت زدگی سمجھتا ہوں۔ تمام تحریریں (بشمول زیر نظر تحریر کے) ذاتی آرا اور حساسیتوں پر اگر مبنی نہیں تو متاثر ضرور ہوتی ہیں، اور ان میں مختلف قسم کے فوائد اور گہرائیاں یا نقائص اور خطرات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام تر تعصبات اور صریح جانبدارانہ مواقف کے باوجود جنوبی ایشیائی اسلام سے متعلق یہاں کی مقامی مسلم وقائع نگاری اپنی تفصیلات، گہرائی اور جزئیات تک میں بہت سے مواقع پر یورپی اور امریکی دانش سے کافی بلند ہے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے میں نے تشکیک اور تسلیم کے علمی مناہج کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس توازن کو ملحوظ رکھنے کی کوشش سے، امید ہے کہ ان تہہ بر تہہ استدلالات اور مقاصد کے ساتھ جو کسی استدلالی روایت کی تشکیل کرنے والوں کے پیش نظر ہوتے ہیں، ایک زیادہ گہرا اور زیادہ ہمدردانہ تعامل کیا جا سکتا ہے۔
حواشی
- اشرف علی تھانوی، ملفوظاتِ اشرفیہ (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1981)، 132۔
- احمد رضا خان، مقال عرفاء فی اعزاز شرع و علماے شریعت و طریقت (کراچی: ادارۂ تصنیفاتِ امام احمد رضا خان، تاریخ اشاعت ندارد)۔
- محمود ممدانی، Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War , and the Roots of Terror (نیو یارک: پینگوئن رینڈم ہاؤس، 2005)۔
- الزبتھ ہرڈ، Beyond Religious Freedom: The New Global Politics of Religion (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2015)۔
- چیرائل بینارڈ، اینڈریو رِڈِل اور پیٹر ولسن، Civil Democratic Islam: Partners, Resources, and Strategies (سانٹا مانیکا، سی اے: رینڈ، 2003)، 25۔
- ایضاً، 47۔
- ایضاً، 37۔
- ایضاً، 25۔
- ایضاً، 29۔
- ہدیہ میراحمدی، مہرین فاروق اور ولید زیاد، Traditional Muslim Networks: Pakistan’s Untapped Resource in the Fight Against Terrorism (واشنگٹن، ڈی سی: WORDE، 2010)۔
- ایضاً، 2۔
- وہابی کی اصطلاح عالمِ عرب کی اٹھارھویں صدی کی مسلم اصلاحی تحریک، جس کی بنیاد شیخ محمد بن عبد الوہاب (م 1798) نے رکھی، کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ باوجود اعتقادی مماثلتوں کے، معمولی ثبوت کی بنیاد پر دیوبندیوں کو وہابیوں کی طرح قرار دینا نوآبادیاتی دور کا الزام ہے۔ حقیقت میں اصلاح کے یہ دو دھارے اساسی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وہابی چاروں سنی مسالک کی تقلید کو اگر مسترد نہیں کرتے تو اسے قرار واقعی اہمیت بھی نہیں دیتے، جب کہ دیوبندیوں کے نزدیک فقہی مسلک سے وابستگی بنیادی قدر ہے۔ برطانوی مستشرق ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر (م 1900) نے ہندوستانی وہابی کی اصطلاح کو مقبولِ عام بنایا۔ مسلکِ دیوبند کے مخالفین مثلاً بریلوی، دیوبندیوں کو مسلسل اس مقصد سے وہابی کہتے آئے ہیں کہ ان کی استنادی حیثیت کو کم زور کریں، اور انھیں انتہا پسند بنیاد پرستوں کی حیثیت سے پیش کریں۔ دیوبندی وہابی اصطلاح کو بغیر کسی جھجھک یا غور وفکر کے اختیار کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ WORDE کے مصنفین کو نوآبادیاتی دور کی ان مناظرانہ باقیات کا علم نہیں۔
- میراحمدی، فاروق اور زیاد، Traditional Muslim Network، 13۔
- دیکھیے: لیزا کرٹس اور حیدر ملک، Reviving Pakistan’s Pluralist Traditions to Fight Extremism (واشنگٹن، ڈی سی: ہیریٹیج فاؤنڈیشن، 2009)۔
- فیٹ میوڈینی، Sponsoring Sufism: How Governments Promote “Mystical Islam” in Their Domestic and Foreign Policies (نیو یارک: پالگریو میکملن، 2015)، 2۔
- ایضاً
- دیکھیے: اظفر معین، The Millennial Sovereign: Sacred Kingship and Sainthood in Islam (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2010)۔
- دیکھیے: نائل گرین، Sufism: A Global History (چیچِسٹر: وِلی بلیک وِل، 2012)۔
- کارل ارنسٹ، The Shambala Guide to Sufism (بوسٹن: شمبالا پبلیکیشنز، 1997)، 18-32۔
- مدونین: کیتھرین ایونگ اور روزمیری Introduction to Sufi Politics: Rethinking Islam, Scholarship, and the State in South Asia and Beyond کے لیے کیتھرین ایونگ کا لکھا گیا تعارف (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، زیرِ طباعت)۔ اس استدلال کی مکمل توضیح اور پاکستان میں صوفی ازم کے لیے اس کے مضمرات پر ایونگ کا کچھ عرصہ پہلے لکھا گیا مقالہ: Arguing Sainthood: Modernity, Psychoanalysis, and Islam (ڈرہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 1997) ملاحظہ کریں۔
- پنینا وربنر، The Making of Muslim Dissent: Hybridized Discourses, Lay Preachers, and Radical Rhetoric among British Pakistanis، امیریکن ایتھنالوجسٹ 23، شمارہ 1 (فروری 1996): 102-129۔
- ایضاً، 106-111۔
- مارک گیبوریو، Un autre Islam: Inde, Pakistan, Bangladesh (پریس، البن میشل، 2007)، 142۔
- ڈیوڈ پینالٹ، Notes from the Fortune-Telling Parrot: Islam and the Struggle for Religious Pluralism in Pakistan، (لندن: ایکوینوکس، 2008)۔
- ایضاً، 9۔
- ایضاً، 42۔
- اس استدلال سے جڑے مزید فکری مسائل اور جن مہلک سیاسی ایجنڈوں کو یہ بڑھاوا دیتا ہے، ان کی تفہیم کے لیے دیکھیے: گریگری اے لپٹن، Secular Sufis: Neoliberalism, Ethnoracism, and the Reformation of the Muslim Other، مسلم ورلڈ 101، شماره 3 (2011): 427-440 اور Frequencies: A Genealogy of Spiritualityمیں شیر علی ترین کا مضمون: Park 51۔ یہ ایک آن لائن پروجیکٹ ہے، جسے جان ماڈرن اور کیتھرائن لوفٹن نے شروع کیا ہے، سوشل سائنس ریسرچ کونسل، دسمبر 2011، http://frequencies.ssrc.org/2011/12/13/park-51
- عامر مفتی، Enlightenment in the Colony: The Jewish Question and the Crisis of Postcolonial Culture (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2007)، 19۔
- "انتہائی عقلیت پسند اور انتہائی حرفیت پسند عملی اسلام ازم" بھی سرسری نظر میں بیک وقت بے تکی اور مبہم ہے۔ اسلام ازم کی تحقیق میں اس طرح کے انتہائی سیکولرسٹ مناہج کے مطالعے کے لیے عرفان احمد کی عمدہ تحقیق ملاحظہ کریں: Religion as Critique: Islamic Critical Thinking from Mecca to Marketplace (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2017)۔
- صبا محمود، Secularism, Hermeneutics, Empire: The Politics of Islamic Reformation، پبلک کلچر 19، شمارہ 2 (2006): 323-347۔
- ہندوستان کی اصلاحی تحریکوں پر ہونے والی چند تحقیقات میں شامل ہے: باربرا مٹکاف، Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1982)؛ فرانسس روبنسن، The Ulama of Farangi Mahall and Islamic Culture in South Asia (نیو دلی: اورینٹ لانگ مین، 2001)؛ محمد قاسم زمان، Custodians of Change: The Ulama in Contemporary Islam (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2006)؛ ڈیٹرک ریٹز،Islam in the Public Sphere: Religious Groups in India, 1900-1947 (نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2006)؛ اوشا سانیال، Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Raza Khan Barelwi and His Movement, 1870-1920 (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1996)؛ اور ہارلن اوٹو پیئرسن، Islamic Reform and Revival in Nineteenth-Century India: The Tariqah-Muhammadiya، (دلی، یودا پریس، 2008)۔
- اسد زمان کی عمدہ کاوش Custodians of Change اس عمومی چلن سے ایک اہم استثنا ہے۔ اردو اور عربی دونوں طرح کے مصادر کا احاطہ کرتے ہوئے یہ کتاب جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی علمی روایت کی پیچیدگیوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ تاہم اس کی زیادہ تر توجہ پاکستان میں روایتی علما کے مابعد نوآبادیاتی تناظر پر ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے دیوبندی مفکر مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں زمان کی نسبتاً حالیہ تحقیق: Asharf Ali Thanawi: Islam in Modern South Asia (آکسفرڈ: ون ورلڈ پبلیکیشنز، 2008) اسلام اور نوآبادیاتی ہندوستان کو زیادہ براہ راست موضوع بحث بناتی ہے۔ تھانوی کی فکر کے ان گوشوں کو مزید کچھ گہرائی کے ساتھ جن کو ابھی تک موضوع بحث نہیں بنایا گیا، جائزہ لینے کے لیے میں نے اس کتاب پر انحصار کیا ہے۔ (دیکھیے: ساتواں اور آٹھواں باب)۔
- صبا محمود، Politics of Piety: The Islamic Revival in and the Feminist Subject (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2005)، 35۔
- ڈیوک یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ سے اپنی پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد پیئرسن علمی دنیا کو خیرباد کہہ کر نجی شعبے میں کام کرنے چلے گئے۔
- ابراہیم موسیٰ، The Deoband Madrasa، تدوین: ابراہیم موسیٰ، خصوصی اشاعت، مسلم ورلڈ 99، شمارہ 3 (جولائی 2009): 427۔
- میں اس نکتے کی وضاحت میں مارگرٹ پرناو کی ترغیب کے لیے شکر گزار ہوں۔
(جاری)
اہم قومی مسائل پر ملی مجلس شرعی کا موقف
ادارہ
۱۳ جنوری ۲۰۲۲ء کو لاہور پریس کلب میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے صدر مولانا زاہد الراشدی، مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا حافظ محمد عمران طحاوی کی گفتگو کا خلاصہ
- سانحۂ سیالکوٹ کے حوالے سے ناموسِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا قانون ایک بار پھر زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ایک طرف قانون پر صحیح طور پر عمل نہ ہونے سے لاقانونیت کے رجحان کو تقویت مل رہی ہے اور دوسری طرف اس قانون کا فرقہ وارانہ حلقوں میں غلط استعمال اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا باعث بن رہا ہے۔ دونوں پہلوؤں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص مجلس تمام علماء کرام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ عوام کو اپنے خطبات اور دروس کے ذریعے تحمل و بردباری کا درس دیں کہ کوئی بھی ذاتی عناد کی بنا پر محض الزام تراشی کرتے ہوئے بلا دلیل ہر کسی کو کافر و گستاخ کہہ کر ناحق قتل نہ کرے کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔ اس سلسلہ میں ملی مجلس شرعی پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد عمران طحاوی نے سیالکوٹ کے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام کے ساتھ میٹنگ کے حوالہ سے جو رپورٹ اور تجاویز پیش کی ہیں وہ اخبار نویس دوستوں کے حوالے کی جا رہی ہیں۔
- حکومتِ پاکستان کا افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے مسلسل گریز شدید معاشی و غذائی بحران سے دوچار افغان عوام کی مدد میں رکاوٹ ہے۔ اس لیے حکومتِ پاکستان اور دیگر حکومتوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ افغان حکومت کو فی الفور تسلیم کر کے افغان عوام کی غیر مشروط امداد کی راہ ہموار کی جائے اور تمام متعلقہ معاملات معاشی حصار کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کیے جائیں۔ اگر موجودہ صورتِ حال مذاکرات کے نتیجے میں سامنے آئی ہے تو باقی مسائل بھی مذاکرات کے ذریعے ہی طے پانے چاہئیں۔
- ملک میں کچھ لبرل عناصر کے ذریعے قومی نصابِ تعلیم سے تیزی کے ساتھ اسلامی روایات و تعلیمات نکال کر سیکولر نصاب بنایا جا رہا ہے جو لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے بارے میں ایک رپورٹ ملی مجلس شرعی نے جاری کی ہے۔ جس کی بنیاد پر ہم حکومت سے تعلیمی پالیسی پر فوری نظرثانی کے مطالبے کے ساتھ تمام محب وطن سیاسی و دینی حلقوں اور جماعتوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ دستورِ پاکستان کے مطابق ملک کے تعلیمی ماحول کو اسلام اور نظریہ پاکستان کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کے لیے مؤثر اقدامات کریں۔
- یہ بات ملک اور بیرون ملک کے تمام سیکولر حلقوں کو یاد رکھنی چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے علماء کرام، دینی حلقے اور عوام پاکستان کو اس کی تہذیبی شناخت اور نظریاتی اہداف سے الگ کرنے کی کسی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
- مدینہ مسجد کراچی کے حوالہ سے ہم کراچی کے عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہیں اور سپریم کورٹ سے اپیل کرتے ہیں کہ مسجد کو شہید کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے ورنہ اس سے نقصِ امن کا خطرہ پیش آئے گا۔ نیز اس سلسلہ سلسلہ میں علمی و دینی قیادت کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔
- سانحۂ مری ایک قومی المیہ ہے جو ہماری معاشرتی اور انتظامی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ تمام مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ ہم ان کے خاندانوں کے ساتھ گہری ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس سانحہ اور المیہ کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کر کے ذمہ دار افراد کے خلاف کاروائی کی جائے اور آئندہ ایسے المناک واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
مارچ ۲۰۲۲ء
ایمان اور الحاد: چند اہم سوالات کا جائزہ
محمد عمار خان ناصر
انیسویں صدی کے ڈنمارک کے فلسفی سورن کیرکیگارڈ نے مسیحی علم کلام کی تنقید کرتے ہوئے ایمان کی درست نوعیت کو واضح کرنے کے لیے "یقین کی جست (leap of faith) " کی تعبیر اختیار کی تھی۔ کیرکیگارڈ نے کہا کہ ایمان محض عقلی استدلال کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں انسان کی پوری شخصیت شامل ہوتی ہے اور انسان کے جذبات، فکرمندی اور اضطرابات کے مجموعے سے وہ کیفیت وجود میں آتی ہے جب انسان میسر شواہد کی روشنی میں ایمان کی جست لینے پر تیار ہو جاتا ہے۔
Kierkegaard affirms a leap, not because the would-be believer doesn’t have sufficient evidence to leap, but simply because faith cannot be reduced to an intellectual test one passes via assent. No, faith is rooted in passion, in one’s cares and concerns. In entrusting one’s life to God, faith’s movement forward requires a decision each individual must make for him or herself.
انسان کے کسی بھی بڑے اور غیر معمولی فیصلے میں یہ جست شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کوئی قدم اٹھانا چاہتا ہے تو اس کو میسر معلومات یہ ثابت کرنے کے لیے کبھی کافی نہیں ہوتیں کہ نتائج یقینی طور پر حسب منشا ہوں گے۔ سو قدم اٹھانے کے لیے ایک یقین خود میں پیدا کرنا پڑتا ہے جس کی حیثیت ایک جست کی ہوتی ہے۔
ابراہیمی مذاہب کے علم کلام میں قابل فہم طور پر ایمان کے عقلی پہلو زیادہ نمایاں کیے جاتے ہیں اور خاص طور پر وجود باری اور توحید پر ایمان کو تقریباً ایک بدیہی قضیے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا ہے۔ یقیناً انفس، آفاق اور تاریخ میں ایسے غیر معمولی شواہد موجود ہیں جو ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کو سلیم الفطرت انسانوں کے لیے ایک معقول اور قابل قبول انتخاب بناتے ہیں، لیکن آخری تجزیے میں یقین کی جست کے بغیر انسان ایمان تک نہیں پہنچ سکتا۔ دراصل یہ جست ہی ہے جس کی خدا کی نظر میں قدر ہے۔ ایمان بالغیب کی ساری قدروقیمت اسی میں مضمر ہے۔
ابراہیمی مذاہب کے ذریعے سے غیر معمولی تاریخی معاونات نے ایمان کو وہ حیثیت دیے رکھی ہے جو علم کلام میں بیان کی جاتی ہے۔ کلامی روایت کا یہ اعتماد دراصل اس تاریخی صورت حال کا عکاس ہے جس میں یہ روایت پروان چڑھی۔ تاہم قرب قیامت کے دور میں ایمان کے مددگار عوامل واسباب کا محدود اور کمزور ہوتے چلے جانا آزمائش کی اسکیم کا ایک حصہ ہے۔ صورت حال کا تدریجاً وہاں پہنچنا لازم ہے جب ایمان کے ظاہری اور محسوس مویدات کالمعدوم ہو جائیں اور صرف چند لوگ رہ جائیں جو قرآن کی اس آیت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق بننے کے اہل ہوں:
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعنَا مُنَادِیًا یُّنَادِی لِلاِیمَانِ اَن اٰمِنُوا بِرَبِّکُم فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغفِر لَنَا ذُنُوبَنَا وَ کَفِّر عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الاَبرَارِ (آل عمران، آیت ۱۹۳)
"اے پروردگار ہم نے ایک پکار کرنے والے کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے۔ سو اے پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھائیو۔"
إن سيداً بنى داراً واتخذ مأدبة وبعث داعياً، فمن أجاب الداعي دخل الدار وأكل من المأدبة ورضي عنه السيد، ألا وإن السيد الله، والدار الإِسلام، والمأدبة الجنة، والداعي محمد صلى الله عليه وسلم
"ایک بادشاہ نے محل بنایا اور اس میں ضیافت کا اہتمام کیا ہے۔ اس نے لوگوں کو بلانے کے لیے ایک پکارنے والے کو بھیجا ہے۔ تو جو اس پکارنے والے کی بات سنے گا، وہ محل میں جائے گا اور ضیافت سے لطف اندوز ہوگا اور بادشاہ بھی اس سے خوش ہوگا۔ (اور جو نہیں سنے گا، وہ ضیافت سے بھی محروم رہے گا اور بادشاہ کی ناراضی بھی مول لے گا)۔ سنو، اس تمثیل میں بادشاہ اللہ ہے، محل اسلام ہے، ضیافت جنت ہے اور لوگوں کو پکارنے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔"
پوسٹ ماڈرنسٹ فلسفی اور ناول نگار البرٹ کیمیو نے اپنے ناول کے بنیادی کردار کی زبانی وجودیت کے فلسفے کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیمیو نے اور ایک پادری کے مابین ایک فرضی مکالمہ قلم بند کیا ہے اور اسے اس طرح سے مرتب کیا ہے کہ زندگی کی معنویت یا مقصد سے متعلق کی عدم دلچسپی اور اس دلچسپی پر پادری کی ’’جھنجھلاہٹ’’ کو نمایاں کیا جائے۔ بہرحال یہ مکالمہ اس کی تفہیم میں مددگار ہے کہ وجودی نقطہ نظر، مذہبی انداز فکر کو کیسے دیکھتا ہے۔ البتہ اس مکالمے سے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ وجودیت پسند، جن اسباب سے بھی خدا کے وجود یا زندگی کی معنویت میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں، یہ کیونکر فرض کر سکتے ہیں کہ یہ سوال فی نفسہ بھی بے معنی ہے یا سارے انسانوں کے لیے وجودیت پسند ہونا ہی واحد عقلی انتخاب ہے؟
مثلاً کوئی شخص یا گروہ اگر کچھ اسباب سے شادی میں دلچسپی کھو بیٹھے تو یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کے وہ کچھ فلسفیانہ یا عقلی دلائل بھی دے سکتا ہے اور نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی اس کیفیت کو سمجھنا ممکن ہے، اور اسی طرح کا ایک مکالمہ کسی میرج بیورو کے نمائندے اور تجرد پسند کے مابین بھی سپرد قلم کیا جا سکتا ہے، لیکن کیا ان کی اس کیفیت کو بنیاد بنا کر یہ فرض کرنے کا بھی جواز ہے کہ شادی سے دلچسپی ہی بے مقصد بات ہے اور سارے انسان ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ بالفاظ دیگر ’’مجھے فلاں سوال میں دلچسپی نہیں’’ کے بیان کو ’’یہ سوال ہی کوئی حقیقت نہیں رکھتا’’ کے مساوی کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟
منطق کی اصطلاح میں یہ طرز استدلال مصادرہ علی المطلوب (begging the question ) کی مثال ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو نکتہ اصل میں محل نزاع ہے، اسی کو دلیل بنا کر پیش کر دیا جائے۔ وجودی پوزیشن میں معنویت کے سوال سے دلچسپی نہ ہونا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ وجود ہے ہی بے معنی، اس لیے معنویت میں دلچسپی کیسی؟ لیکن مکالمے میں اصل مقدمے پر بات کیے بغیر اس پر مبنی وجودی پوزیشن کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے کہ جب ایک وجودیت پسند کو خدا سے دلچسپی ہی نہیں تو اس سے خدا کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟
کارل شمت نے تو جدید سیاسی تصورات کے متعلق نشان دہی کی ہے کہ وہ روایتی مذہبی تصورات ہی کی ایک سیکولر تشکیل ہیں۔ مطلب یہ کہ جدیدیت میں انسانی شعور کی اس تاریخی تشکیل سے جس میں مذہب کا کردار بہت گہرا رہا ہے، ابھی خلاصی حاصل نہیں کی جا سکی۔ نیٹشے یہی بات اخلاقیات کے باب میں کہتا ہے۔ تاہم یہ بات سب سے زیادہ جس سوال سے متعلق درست ہے، وہ زندگی کی معنویت اور اس کی غیر مادی نسبتوں کا سوال ہے۔ الحاد یا اس سے ملتی جلتی پوزیشنوں میں یہ قضیہ بنا لینا تو آسان ہے کہ زندگی بس اپنے مادی ظہور اور اختتام تک محدود ہے اور اس سے ماورا کوئی حقیقت نہیں رکھتی، لیکن انسانی شعور سے اس احساس اور اس خواہش کو کھرچنا ممکن نہیں کہ زندگی کو دوام ہونا چاہیے، انسان کو اس زندگی سے بہتر زندگی ملنی چاہیے اور اس زندگی کا انسان کی ultimate کامیابی اور فلاح سے تعلق ہونا چاہیے۔ چنانچہ کسی پسندیدہ انسان کے مرنے پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ اچھا ہے، ایک بے مقصد زندگی کے کرب سے اسے نجات ملی۔ آخرت اور حیات بعد الموت کے مذہبی عقیدوں کی نفی کرنے یا ان کے متعلق تشکیک رکھنے والے یا ان سوالات کو غیر اہم سمجھنے والے، سب کسی نہ کسی انداز میں اس کے لیے ایک بہتر زندگی کی تمنا یا دعا کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مشہور شخصیات کے مرنے کے بعد ان کو جنت یا دوزخ میں بھیجنے کی بحثوں کا زیادہ اہم اور قابل توجہ پہلو یہ ہے۔ اور دوسروں کے انجام کے فیصلے کرنے سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے انجام سے غافل نہ ہوں، بلکہ ملی ہوئی مہلت میں اسے اچھا بنانے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں۔ حدیث میں کیا ہی اعلی دعا آئی ہے۔
اللھم اجعل الحیاة زيادة لنا فى كل خير واجعل الموت راحة لنا من كل شر. آمین
’’اے اللہ، زندگی کو ہمارے لیے ہر خیر میں اضافے کا اور موت کو ہمارے لیے ہر دکھ سے راحت پا لینے کا ذریعہ بنا دے۔‘‘
انسانوں کے مابین مطلق مساوات کا عقیدہ ایک تہذیبی شعار کے طور پر اگرچہ قبول عام حاصل کر چکا ہے، لیکن یہ قبولیت شعور عامہ کی سطح پر بعض بنیادی فلسفیانہ سوالات سے نظریں چرانے کی قیمت پر ہے۔
ایک بنیادی سوال تو اس قدر کے ماخذ سے متعلق ہے۔ اگر قدر کا ماورائے انسان کوئی ماخذ نہیں اور یہ محض انسانی تشکیل کا نتیجہ ہوتی ہے تو ہر قدر کی طرح مساوات کی قدر بھی کوئی ٹھوس اور پائیدار فلسفیانہ بنیاد نہیں رکھتی۔ کم سے کم علم حیاتیات تو اس کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کی نفی کرتا ہے۔ اسرائیلی تاریخ دان یووال حراری کی کتاب "سیپئنز" میں بھی یہ سوال بڑی وضاحت اور صاف گوئی سے اٹھایا گیا ہے۔
حیاتیاتی عدم مساوات کی صورت حال کے جو نفسیاتی اثرات انسانی ذہن پر پڑتے ہیں، ان کا علاج یہ سوچا جا رہا ہے کہ مثلاً جسمانی معذوری وغیرہ کے معاملات کو سرے سے "غیر معمولی صورت حال" کے طور پر دیکھنا ہی چھوڑ دیا جائے اور معذوری کو ایسے ہی ایک معمول کا فرق اور امتیاز سمجھا جائے جیسے مختلف نارمل انسانوں میں ہوتا ہے۔ اسی قسم کا زاویہ نظر اپنا کر خواتین کو درپیش حیاتیاتی عدم مساوات (مثلا ماہواری اور حمل وغیرہ) کے نفسیاتی اثرات کا ازالہ کرنے (اور درحقیقت اس سے نظریں چرانے) کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جسمانی یا ذہنی معذوری وغیرہ سرے سے کوئی غیر معیاری صورت حال ہی نہیں تو پھر جینیٹکس کے علم اور دیگر طبی وسائل سے ان معذوریوں کو قبل از پیدائش روکنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان کا بھی کوئی جواز اور ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اسی وقت با معنی بنتی ہیں جب یہ قبول کیا جائے کہ معذوروں کو ’معیاری’ انسانی زندگی حاصل نہیں۔ معلوم نہیں کہ مذکورہ طرز فکر کے علمبردار اس الجھن سے کیسے نمٹتے ہیں اور انسانی زندگی کی بہتری کے لیے جاری طبی تحقیقات کے متعلق ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟
نیٹشے اس مفہوم میں بیسویں صدی کا پہلا عظیم فلسفی تھا کہ اس نے بالکل درست طور پر پیش بینی کی کہ مغربی تہذیب میں "خدا مر چکا ہے" اور پھر اس اہم ترین سوال پر توجہ مرکوز کی کہ خدا کے بعد، اب "اقدار" کیا ہوں گی اور کس بنیاد پر طے ہوں گی؟روشن خیالی کے عہد میں جہاں مغرب کی فلسفیانہ روایت عمومی طور پر، مذہب کو نظر انداز کر کے، اخلاقیات کو ایسی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے سارے انسانوں کے لیے ایک مشترک اور آفاقی اخلاقیات تشکیل دی جا سکے، نیٹشے نے "آفاقی" اخلاقیات کے تصور پر ہی سوال اٹھا دیا اور کہا کہ تاریخی طور پر (جس کا آغاز وہ مغرب میں یونانی اور رومی عہد سے کرتا ہے) اخلاقیات کی ابتدا طاقتور طبقات اور کمزور ومحکوم طبقات کی باہمی تقسیم سے ہوئی تھی، اور طاقتور جو طرز عمل اختیار کرتے تھے، وہ ان کی اس حیثیت کی وجہ سے بطور امر واقعہ اعلی اور برتر، جبکہ محکوموں کا طرز عمل پست اور ادنی سمجھا جاتا تھا۔
نیٹشے کی رائے میں یہی فطری اخلاقیات ہے اور طاقتور ہی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنے ہم سروں کے ساتھ معاملہ کرنے کے بھی اور طاقت کی پوزیشن سے کمزوروں اور کم تروں کے ساتھ برتاو کرنے کے اصول بھی طے کرے۔ انسانی ہمدردی اور رحم دلی وغیرہ کو اخلاقیات کی بنیاد بنانا اس کے خیال میں کمزور طبقات کا ایک ہتھیار ہے جو انھوں نے طاقتوروں کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور عملاً ان پر فتح حاصل کر لی۔ نطشے یہودی اور مسیحی اخلاقیات کو اسی وجہ سے "غلامانہ اخلاقیات" قرار دیتا ہے جس نے پوری مغربی تہذیب کو "آلودہ" کر کے جدید دور میں جمہوری تصورات، مساوات اور آفاقی اخلاقیات جیسے فلسفوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اخلاقی اقدار کا انسان سے ماورا کوئی ماخذ نہیں تو پھر انصاف سے محروم اس کائنات میں انصاف کو قدر بنانے کی کوشش سے کہیں زیادہ معقول پوزیشن نیٹشے کی ہے جو نیٹشے انسان کا اخلاقی جوہر ہمدردی اور رحم کے بجائے قوت کو قرار دیتا ہے۔ کائنات میں جاری وساری قدر صرف طاقت ہے۔ انصاف بھی وہم ہے اور انصاف کی محنت بھی محض خود فریبی ہے۔ اگر انصاف کی قدر انسان کی خود ساختہ ہے تو وہ بے بنیاد ہے۔ کائنات کی مادی تفہیم میں فلسفیانہ طور پر یہی بات درست ہے۔ رحم اور انصاف ویسے ہی دکھ درد کے روبرو انسان کی ایک ذہنی اختراع ہے جیسے، تنویری موقف کے مطابق، انسان نے مذہبی عقیدے گھڑ لیے ہیں۔
اقدار اور اخلاقیات کو انسان کی تخلیق ماننے ہی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان عالم طبیعی کی جتنی تسخیر کرتا جا رہا ہے، اتنا ہی اس کے تکبر، سنگ دلی اور حرص میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ طاقت اور اس پر مبنی اقتدار کے احساس میں مسلسل اضافے کو ’’ترقی’’ کا عنوان دے دیا گیا ہے۔ اخلاقیات اور اقدار کو مذہبی ایمان سے آزاد کر دینے کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ انسان کو humbleness کا درس دیتا ہے جو لامحدود طاقت کے حریص انسان کو پسند نہیں۔ جدید مغربی تہذیب اگر مسیحی اقدار پر قائم رہ کر مادی ترقی کرتی تو اس کا امکان بہت کم تھا کہ انسان اپنے وسائل اور محنت کو افلاس زدہ انسانیت سے چشم پوشی کر کے WMD جیسا سامان تباہی ایجاد کرنے پر صرف کرتا۔ سرمایہ دارانہ تہذیب میں انسان دوستی، مساوات اور انسانی حقوق جیسے اخلاقی آئیڈیلز اور لامحدود طاقت اور حرص کی جبلتیں مسلسل باہم برسرپیکار ہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اخلاق اور رحم دلی جیسے نازک احساسات کب تک طاقت اور حرص جیسی درشت جبلتوں کی مزاحمت کر سکیں گے۔ طاقتور انسان، کمزور انسان سے اخلاقیات کا درس نہیں لیتا۔ اخلاقیات کے لیے انسان کو دوبارہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکنے کی ضرورت ہے۔
دست ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند
اللہ اگر رحمن و رحیم، قادر مطلق اور علیم کل ہے تو پھر شر (evil) کا وجود کیوں ہے؟ یہ الٰہیات کے مشکل سوالات میں سے ہے جن کا ہمیشہ سے مذہبی فکر کو سامنا ہے۔ جدید دور میں خدا کے مذہبی تصور پر بے اطمینانی یا اس سے تنفر کے اہم اسباب میں سے ایک سبب یہ سوال بھی ہے۔ بہرحال، مذہبی علم کی رو سے انسان کو وجود اور احوال وجود کو سمجھنے کی جتنی صلاحیت اس دنیا میں دی گئی ہے، وہ اس سوال کا کوئی ایسا تشفی بخش جواب دینے پر جو ہر الجھن کو دور کر دے، قادر نہیں۔ فرشتوں کے سوال پر اللہ تعالٰی نے انسان کے ہاتھوں شر کے ظہور کا امکان پیدا کرنے کی ایک جزوی حکمت بتانے کے بعد آخری بات یہی کہی ہے کہ انی اعلم ما لا تعلمون، یعنی جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ ممکن ہے، کسی اور جہان میں انسان کو ادراک حقیقت کی اس سے بہتر صلاحیت مل جائے جس سے وہ اس کو سمجھ سکے۔
صوفیہ کی اصطلاح میں اس سے جو ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہ "حیرت" یعنی bewilderment ہے جو ایمان کے منافی نہیں، بلکہ احوال وجود کی پیچیدگی کے سامنے انسانی ادراک کے عجز وقصور کا اعتراف ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہی متوازن اور مطلوب پوزیشن ہے۔ اگر انسانی ادراک کی کم مایگی کے شعور کے بجائے انسان پر ادراکی صلاحیت کے کامل ہونے کا زعم طاری ہو جائے تو یہی حیرت الحاد میں بدل جاتی ہے۔
بعض لوگ اس پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر انسان کو عقل واقعی خدا نے دی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس نے عقل سے بڑا سوال عقل میں رکھ دیا ہو یا یہ کہ عقل میں سوال رکھنے کے بعد عقل سے اس سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر دیا جائے؟ تاہم یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لیے کہ مذہبی فکر میں سوال سے دستبردار ہونے یا اس کو بے معنی سمجھنے کی بات نہیں کہی جا تی، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ اپنے موجودہ علمی وسائل کے ساتھ انسانی عقل اس سوال کی تمام جہات کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ جہاں تک عقل سے بڑا سوال عقل میں رکھے جانے کا تعلق ہے تو اس میں کوئی عقلی مانع نہیں۔ عقل میں سوال رکھے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے صحیح جواب تک ازخود پہنچنے کی صلاحیت بھی عقل میں رکھی گئی ہو۔
عقل کے ہر سوال کے حتمی جواب تک پہنچنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونے کا دعویٰ تو جدید تنویری فکر بھی نہیں کر سکتی یا اگر کرتی ہے تو اس کا عقلی جواز نہیں بتا سکتی۔ ہاں، خود کو اس کا پابند بنا سکتی ہے کہ عقل سے ماورا کسی جواب کو قبول نہیں کرے گی، چاہے خود عقل درست جواب تک کبھی نہ پہنچ سکے۔ یہیں سے تنویری فکر اور مذہبی ایمان میں بنیادی اختلاف واقع ہوتا ہے۔ تنویری فکر اپنے مخصوص تصور انسان کے تحت ماورائے عقل کسی جواب کو قابل توجہ نہ سمجھنے کی پابندی خود پر عائد کر لیتی ہے، جبکہ مذہبی ایمان وحی کے ذریعے سے انسان کو میسر کی جانے والی راہنمائی کو قابل قدر مانتا اور اس سے اطمینان حاصل کر لیتا ہے۔
اسلام میں انسانوں کی آزمائش اور جزا وسزا کے حوالے سے جو الہی ضابطے بیان کیے گئے ہیں، یک نگر انسان پرستی (Exclusive Humanism) کا ان پر معترض ہونا قابل فہم ہے۔ انسان پرستی کے مذہب کا بنیادی مسئلہ جزا وسزا کا کسی اصول اور ضابطے پر مبنی ہونا یا نہ ہونا نہیں، بلکہ انسان کو انسان سے بالاتر کسی ہستی کے سامنے جواب دہ ماننا ہے۔ وہ الوہیت کا مرتبہ بطور نوع انسان ہی کو دیتا ہے جو خود تو اپنا محاسبہ کر سکتی ہے، لیکن اپنے اوپر کسی خدا کو حاکم نہیں مانتی۔ اس لیے اس کے ساتھ یہ بحث کہ جنت کن کے لیے ہے اور جہنم کن کے لیے، اور کن اصولوں پر کسی کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا، اصول کو چھوڑ کر فروع کا تصفیہ کرنے کے ہم معنی ہے۔ چنانچہ ہیومن ازم کے ساتھ یہ گفتگو غیر منطقی ہے۔
اسی طرح ہیومنسٹک موقف کی طرف سے مذہبی عقیدے پر کیے جانے والے اعتراضات بھی خود کلامی کی نوعیت کے ہیں، مذہبی موقف کے ساتھ کسی مشترک بنیاد پر مجادلہ نہیں ہیں۔ مثلاً یہ کیسا خدا ہے جو انتقام لیتا ہے؟ یہ کیسا خدا ہے جس کا چہیتا ایک خاص گروہ ہے اور باقی سب کو وہ جہنم میں پھینک دے گا؟ یہ کیسا خدا ہے جس کے نزدیک انسانوں کے اچھے عملوں کی کوئی قدر نہیں اور وہ ایک خاص عقیدہ نہ رکھنے پر انھیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دیتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس اسلوب کے سارے اعتراضات محض rhetoric ہیں، ان کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہے اور خاص طور پر مذہبی آدمی کے لیے وہ اپنے اندر کوئی استدلالی قوت نہیں رکھتے۔
اگر یہ خدا ہے جو انسان سمیت پوری کائنات کا حاکم ہے اور اس کا صحیح تعارف وہ ہے جو وحی میں انسان کو دیا گیا ہے تو پھر وہ جیسا ہے، ویسا ہی ہے۔ اس کے نزدیک ایمان کی زیادہ اہمیت ہے تو پھر ہے۔ وہ رحیم ہونے کے ساتھ اپنی نافرمانی پر انتقام بھی لیتا ہے تو پھر لیتا ہے۔ اس کو اگر اس کی کوئی پروا نہیں کہ منکر اور نافرمان انسانوں سے جہنم کو بھر دے تو پھر نہیں ہے۔ انسان سرکش ہو کر اور جواب دہی سے اپنے تئیں جان چھڑانے کے لیے خدا کے فیصلوں کو اپنے احساسات اور اغراض کے تابع بنانا چاہے تو اس ہوا پرستی کی خدا کی نظر میں یا مذہبی آدمی کی نظر میں کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ اور کل اس کے سامنے حاضر ہونے پر یہ فلسفے کتنا بار پا سکیں گے؟
تاہم اس باب میں اسلامی عقیدے کی درست تفہیم بھی ضروری ہے، کیونکہ اس باب میں غیر محتاط "عوامی تعبیرات" میں بات کی نوعیت بہت بدل جاتی ہے۔ قرآن نے جو بات بہت واضح انداز میں کہی ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت کا اجر کسی بھی گروہ کے لیے خاص نہیں ہے۔ اسلامی عقیدہ نجات کو کسی "گروہ" کی نسبت سے بیان نہیں کرتا، بلکہ نجات کی شرائط کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔ اللہ نے کسی "مذہبی گروہ" کے ساتھ یہ عہد وپیمان نہیں کیا کہ جنت خاص اسی کو دے گا۔ پچھلے گروہوں میں سے جن میں یہ زعم پیدا ہو گیا تھا، قرآن نے ان کی گوشمالی کی ہے اور بتایا ہے کہ یہودی ہوں یا مسیحی، صابی ہوں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے، سب کی نجات ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے۔ (البقرۃ)
سورہ بقرہ کی آیت 112 میں بھی یہود اور نصاری کے اس دعوے کے جواب میں کہ جنت میں صرف یہودی یا مسیحی جائیں گے، فرمایا گیا ہے کہ
بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَه لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَه اَجْرُه عِنْدَ رَبِّه وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۱۱۲)
"ہاں کیوں نہیں؟ جس نے بھی اپنا چہرہ اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والا بھی ہو تو اس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے"
جن حالات میں ایمان باللہ اور عمل صالح کے جو تقاضے تھے، اگر ان میں سے کسی گروہ نے بھی وہ پورے کیے ہیں تو وہ جنت کا حق دار ہے۔ خدا کے سامنے چہرہ جھکا دینے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ کے نبیوں کی دعوت سے واقف ہونے پر اس سے بے توجہی نہ برتے، بلکہ اس پر لبیک کہے۔ اگر کوئی انسان بات سامنے آنے کے باوجود غفلت یا تعصب میں پڑا رہتا ہے تو وہ مجرم ہے۔ محمد رسول اللہ کی بعثت کے بعد اگر آپ پر ایمان لانے اور اس کے عملی تقاضے پورے کرنے والے جنت کے مستحق ہیں تو اس معیار پر پورا اترنے کی وجہ سے ہیں نہ کہ ایک خاص گروہ میں شامل ہو جانے کی وجہ سے۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنے تعصب کی وجہ سے آپ کی دعوت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اس کا انکار کیا ہے تو وہ بھی اس "جرم" کی وجہ سے جہنم کا سزاوار ہوگا، نہ کہ کسی خاص گروہ سے باہر ہونے کی وجہ سے۔ مشرک بھی اگر دائرہ نجات سے باہر ہیں تو ایک ٹھہرائے گئے معیار کی وجہ سے باہر ہیں۔
جن انسانوں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس انداز سے نہیں پہنچی کہ ان کے لیے قابل توجہ بن سکے، ان کے متعلق پوری توقع ہے کہ اللہ کے ہاں ان کا عذر مسموع ہوگا۔ تاہم اس کی صحیح حقیقت خدا ہی کے علم میں ہے اور ہم انسان یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ کون دنیا سے کیا انجام لے کر گیا ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری اتنی ہے کہ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر کی وساطت سے جو "الحق" یعنی واضح اور حتمی ہدایت موجود ہے، وہ خود بھی اسی یقین کے ساتھ اس پر کاربند رہیں اور دوسرے انسانوں کو بھی اس سے روشناس کرواتے رہیں۔
اتنی اصولی اور اجمالی بات قانون خداوندی کے مبنی بر عدل وانصاف ہونے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور علم کلام میں بھی اتنی ہی کہی جاتی ہے۔ عوامی سطح پر عام یہ تعبیر کہ صرف مسلمان جنت میں جائیں گے اور باقی سب جہنم میں، غیر محتاط بات ہے۔ بظاہر اس کا محرک لوگوں کے دلوں میں اسلام کی قدروقیمت بٹھانا ہوتا ہے، لیکن یہ ایک طرف بدعملی اور تساہل کو جنم دیتی ہے اور دوسری طرف خدا کے عدل وانصاف اور حکمت پر بھی سنگین عقلی واخلاقی سوالات پیدا کرتی ہے۔ اسلامی عقیدے کی درست تعبیر وہی ہے جو عرض کی گئی ہے اور اسے ہمیشہ اسی طرح بیان کرنا چاہیے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۶)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(306) فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاءِ
درج ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
لَّوْلَا جَاءُ وا عَلَیْهِ بِأَرْبَعةِ شُہَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاءِ فَأُولَٰئِکَ عِندَ اللَّہِ ہُمُ الْکَاذِبُونَ۔ (النور: 13)
”آخر یہ لوگ اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ کیوں نہ لائے؟ تو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو لازما اللہ کے نزدیک یہی لوگ جھوٹے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں“۔ (احمد رضا خان)
ان ترجموں سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ کے نزدیک ان کے جھوٹے ہونے کی وجہ ان کا چار گواہ پیش نہ کرنا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو ہر حال میں اللہ کے نزدیک جھوٹے تھے، خواہ وہ چار گواہ پیش کردیتے۔
اس نکتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی فَإِذْ کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں ’تو جب کہ‘، ایسی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ چار گواہ پیش کرکے دنیا کے سامنے سچے بن سکتے تھے، لیکن جب کہ وہ چار گواہ نہیں پیش کرسکے ہیں تو دنیا کے سامنے سچے ثابت نہیں ہوسکے اور اللہ کے یہاں تو وہ جھوٹے ہیں ہی۔
ترجمہ ہوگا: ”آخر یہ لوگ اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ کیوں نہ لائے؟ تو جب کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں، تو اللہ کے نزدیک بھی یہ لوگ جھوٹے ہی ہیں۔“
(307) الْحَقُّ الْمُبِینُ
درج ذیل آیتوں میں الْحَقُّ الْمُبِینُ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیہِمُ اللَّہُ دِینَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّہَ ہُوَ الْحَقُّ الْمُبِینُ۔ (النور: 25)
”اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا“۔ (سید مودودی)
”اس دن اللہ ان کا واجبی بدلہ پورا کردے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق اور واضح کردینے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
”اس دن خدا ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا (اور) ٹھیک بدلہ دے گا اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ خدا برحق (اور حق کو) ظاہر کرنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
ان ترجموں میں مبین کا ترجمہ واضح کرنے والا کیا گیا ہے۔ عربی لغت کے مطابق مبین عام طور سے لازم یعنی خود واضح ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ لسان العرب میں ہے: وَقَالَ الزَّجَّاجُ: بانَ الشیءُ وأَبانَ بِمَعْنًی وَاحِدٍ، خاص طور سے اگر وہ مفعول کی ضمیر کے بغیر آئے۔
قرآن مجید میں المبین بہت سے مقامات پر آیا ہے، اکثر مقامات پر اس کا معنی متعین طور پر واضح اور صریح کے معنی میں ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں بھی یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، اس لحاظ سے درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:
”اس دن اللہ انہیں ان کی سچی سزا پوری دے گا اور جان لیں گے کہ اللہ ہی صریح حق ہے“۔(احمد رضا خان)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ درج ذیل آیت میں الحق المبین کا ترجمہ عام طور سے صریح حق کیا گیا ہے۔
فَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ إِنَّکَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِینِ۔ (النمل: 79)
”پس اے نبیؐ، اللہ پر بھروسا رکھو، یقینا تم صریح حق پر ہو“۔ (سید مودودی)
”تو خدا پر بھروسہ رکھو تم تو حق صریح پر ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
(308) تَسْتَأْنِسُوا
درج ذیل آیت میں تَسْتَأْنِسُوا کا ترجمہ عام طور سے اجازت لینا کیا گیا ہے۔ لیکن لغت میں اس لفظ کے استعمالات سے اجازت لینے کا مفہوم کہیں نہیں ملتا۔ بعض لوگوں نے رضا لینا اور تعارف پیدا کرنا بھی ترجمہ کیا ہے، لیکن وہ بھی اس لفظ کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّیٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَیٰ أَہْلِہَا۔ (النور: 27)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو“۔ (سید مودودی)
”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تعارف نہ پیدا کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو“۔(محمد جوناگڑھی)
مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ترجمہ تجویز کیا ہے:
”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک گھر والوں کو احساس نہ دلا دو (انھیں تمہاری آہٹ نہ مل جائے) اور انھیں سلام نہ کرلو۔“
گویا استیناس کا مطلب ہے اپنی موجودگی کا احساس دلانا۔ اس قول کو طبری نے ذکر کیا ہے:
وقال آخرون: معنی ذلک: حتی تؤنسوا أہل البیت بالتنحنح والتنخم وما أشبہہ، حتی یعلموا أنکم تریدون الدخول علیہم. (تفسیر طبری)۔ یہ مفہوم اس لفظ کے لغوی مفہوم کے مطابق ہے۔
(309) یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ
غض البصر کا مطلب نگاہیں نیچی رکھنا ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں ابصار کا ترجمہ آنکھیں کیا ہے، نگاہیں زیادہ مناسب ہے۔ اسی طرح بعض نے غض کا ترجمہ بند کرنا کیا ہے، جب کہ نیچی رکھنا زیادہ مناسب ہے، غَضَّ طرفہ، أی خَفضه وغض من صوته۔ (الصحاح للجوھری)
قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ۔ (النور: 30)
”کہہ واسطے مسلمان مردوں کے کہ بند کریں آنکھیں اپنی“۔ (شاہ رفیع الدین)
”کہہ دے ایمان والوں کو نیچی رکھیں ٹک اپنی آنکھیں“۔(شاہ عبدالقادر)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
”مومنوں کو ہدایت کرو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“۔ (امین احسن اصلاحی)
(310) یَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ
وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ (النور: 30)
آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ عام طور سے شرم گاہوں کی حفاظت کرنا کیا گیا ہے۔ جیسے:
”اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“۔ (سید مودودی)
لیکن بعض لوگوں نے شرم گاہوں کو چھپانا ترجمہ کیا ہے، جیسے:
”اور تھامتے رہیں اپنے ستر“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اور اپنی شرم گاہوں کی پردہ پوشی کریں“۔ (امین احسن اصلاحی)
یہ ترجمہ آیت کے مفہوم کو محدود کردیتا ہے۔ قرآن میں دو مقامات (المومنون: 5 اور المعارج: 29) پر وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ آیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ محض ستر کا خیال رکھنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ شرم گاہ کی حفاظت کے وسیع تر مفہوم میں ہے۔
(311) وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ
درج ذیل آیت میں وَلَا یُبْدِینَ کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’نہ دکھائیں‘ کیا ہے۔ ظاہر نہ کرنا یا ظاہر نہ ہونے دینا زیادہ مناسب ہے۔ ایک تو لفظ ابداء کا یہی تقاضا ہے دوسرے یہ کہ زینت کو چھپانے اور ظاہر کرنے کے سلسلے میں ہدایات دی جارہی ہیں، سیاق کلام کے لحاظ سے دکھانے کا یہاں محل نہیں ہے۔
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا۔ (النور: 31)
”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے“۔ (سید مودودی، بچاکر رکھنے کے بجائے نیچی رکھنا زیادہ موزوں ہے)
”اور کہہ دے ایمان والیوں کو نیچے رکھیں ٹک اپنی آنکھیں اور تھامتے رہیں اپنے ستر اور نہ دکھاویں اپنا سنگار مگر جو کھلی چیز ہے اس میں سے“۔ (شاہ عبدالقادر، یہاں بھی ستر کا خیال رکھنا مراد نہیں ہے۔)
”اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)
”مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اوپر ’نہ دکھائیں‘ ترجمہ کیا ہے، انھوں نے اسی آیت میں اسی طرح کے دوبارہ آنے والے جملے کا ترجمہ ’نہ ظاہر کریں‘ کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ
”اور نہ کھولیں اپنا سنگار“۔ (شاہ عبدالقادر)
”وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں“۔ (سید مودودی)
”اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں“۔ (احمد رضا خان)
(312) وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا
جمیعا کا لفظ قرآن مجید میں عام طور سے ’سب‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، صرف سورۃ الحشر آیت نمبر 14 میں دو مرتبہ ’مجتمع ہو کر‘ کے معنی میں آیا ہے۔ درج ذیل آیت میں دو طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے، ’سب مل کر‘ اور ’سب‘۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی طرف مجتمع ہو کر رجوع کرنے کا حکم نہیں دیا جارہا ہے، بلکہ اس کا حکم دیا جارہا ہے کہ تمام مومن اللہ کی طرف رجوع کریں۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ (النور: 31)
”اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو شاید تم بھلائی پاؤ“۔ (شاہ عبدالقادر)
”اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے“۔ (سید مودودی)
”اور اے ایمان والو! سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج بالا ترجموں میں ’سب مل کر‘ اور درج ذیل ترجموں میں ’سب‘ یعنی جمع کی تاکیدہے، اور یہی اس آیت میں موزوں ہے:
”اور توبہ کرو طرف اللہ کے سب اے مسلمانو تاکہ تم فلاح پاؤ“۔ (شاہ رفیع الدین)
”اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ“۔ (محمد جوناگڑھی، تُفْلِحُون کا ترجمہ نجات پانانہیں،فوز و کامرانی پانا ہے، جس میں نجات کا مفہوم بھی شامل ہے)
”اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)
(313) وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِکُمْ
درج ذیل آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ آیَاتٍ مُّبَیِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِکُمْ وَمَوْعِظةً لِّلْمُتَّقِینَ۔ (النور: 34)
”ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں، اور ان قوموں کی عبر ت ناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں، اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں“۔ (سید مودودی، قوموں تک محدود کرنا مناسب نہیں ہے، الذین میں افراد اور قومیں سب شامل ہیں۔ عبرت ناک مثالوں تک محدود رکھنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔)
”اور ان لوگوں کی تمثیل بھی سنادی ہے جو تم سے پہلے گزرے“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں تمثیل کی بات نہیں ہے، ان لوگوں کے سبق آموز تذکروں کی بات ہے)
”اور ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی، کہاوتوں کی بات نہیں ہے)
درج ذیل ترجمہ زیادہ موزوں ہے:
”اور جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کی خبریں“۔ (فتح محمد جالندھری)
(314) نُّورٌ عَلَیٰ نُورٍ
نُّورٌ عَلَیٰ نُورٍ (النور: 35)
عام طور سے اس کا لفظی ترجمہ کیا گیا ہے، جیسے:
”نور پر نور ہے“۔ (احمد رضا خان)
”روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے)“۔ (فتح محمد جالندھری)
”روشنی کے اوپر روشنی“۔ (امین احسن اصلاحی)
’نور علی نور‘ عربی کا محاورہ ہے جس کا مطلب بہت زیادہ روشنی ہے۔ اردو محاورے کی رعایت کرتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”روشنی در روشنی“۔
(315) ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ
ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ (النور: 40)
اس جملے کا عام طور سے لفظی ترجمہ کیا گیا، جیسے:
”غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، ایک پر ایک (چھایا ہوا)“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اندھیرے ہیں ایک پر ایک“۔ (احمد رضا خان)
”تاریکیوں پر تاریکیاں چھائی ہوئی ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)
’نور علی نور‘ کی طرح ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ بھی تاریکیوں کی شدت بتانے کے لیے ہے، اردو محاورے کی رعایت کرتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”تاریکی در تاریکی“۔
(316) یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ
فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیبَہُمْ فِتْنةٌ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ۔ (النور: 63)
”پس وہ لوگ جو اس کے حکم سے گریز کرتے رہے ہیں اس بات سے ڈریں کہ ان پر کوئی آزمائش آجائے یا ان کو ایک دردناک عذاب آ پکڑے“۔ (امین احسن اصلاحی)
یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ کا ترجمہ ’گریز کرتے رہے ہیں‘ کرنا درست نہیں ہے۔ خلاف ورزی کرنا درست مفہوم ہے، جیسا کہ دیگر لوگوں نے ترجمہ کیا ہے:
”رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے“۔ (سید مودودی)
”پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ کہ جو مخالفت کرتے ہیں حکم اس کے سے“۔ (شاہ رفیع الدین)
”سو ڈرتے ہیں جو لوگ خلاف کرتے ہیں اس کے حکم کا“۔ (شاہ عبدالقادر، فلیحذر تو امر کا صیغہ ہے، اس کا ترجمہ ’ڈرتے ہیں‘ درست نہیں ہے۔)
(317) سورۃ النور، آیت (43) کا ترجمہ
درج ذیل آیت کے ترجمے میں مختلف لوگوں سے الگ الگ تسامح ہوا ہے۔
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یُزْجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهُ ثُمَّ یَجْعَلُهُ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِیہَا مِن بَرَدٍ۔ (النور: 43)
”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے، اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے“۔ (سید مودودی)
اس میں مِنْ خِلَالِہِ کا ترجمہ ’اس کے خول میں سے‘ کیا ہے۔ خلال کا لفظ خول کے لیے نہیں آتا ہے۔ یہ خلل کی جمع ہے، جس کے معنی کسی چیز یا کچھ چیزوں کے درمیان کی جگہ کے بھی ہوتے ہیں اور کسی چیز میں موجود رخنوں کے بھی ہوتے ہیں۔ دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ من جبال میں من کو سبب کا مانا گیا ہے، اور ’پہاڑوں کی بدولت‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ من جبال دراصل من السماء کا بدل ہے۔جس کا مطلب ہے آسمان سے یعنی اس میں موجود پہاڑوں سے نازل کرتا ہے۔
”پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان میں سے مینہ برستا ہے۔ وہی آسمان کی جانب سے اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
’پہاڑوں میں سے اولے برساتا ہے‘، نہ کہ ’اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے‘۔
”تو تُو دیکھے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو برف کے پہاڑ ہیں ان میں سے کچھ اولے“۔ (احمد رضا خان)
’برف کے پہاڑ‘ کہنا درست نہیں ہے، پہاڑوں سے مراد بڑے بڑے پہاڑ نما بادل ہیں۔ اسی طرح ’کچھ اولے‘ بھی کم زور ترجمہ ہے، ’اولے‘ کہنا کافی ہے۔ من کو تبعیض کا مان کر بھی ’کچھ‘ کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔
”پس دیکھتا ہے تو مینہ کو نکلتا ہے درمیان اس کے سے اور اتارتا ہے آسمان کی طرف سے پہاڑوں سے کہ بیچ ان کے ہے سردی اولوں کی“۔ (شاہ رفیع الدین)
’کہ بیچ ان کے ہے سردی اولوں کی‘ یہ ترجمہ عجیب سا ہے۔ برد کا ترجمہ اولے ہوگا نہ کہ اولوں کی سردی۔ مزید یہ کہ اگر من برد کو ینزل کا مفعول نہیں بنائیں گے تو مفعول کسے بنائیں گے!
”پھر تو دیکھے مینہ نکلتا ہے اس کے بیچ سے اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو پہاڑ ہیں اولوں کے“۔ (شاہ عبدالقادر)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اولوں کے پہاڑ نازل کرتا ہے، حالاں کہ نازل تو اولے کرتا ہے۔
”پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے نکلتی ہے اور اسی بادل سے یعنی اس کے بڑے بڑے حصوں میں سے اولے برساتا ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)
السماء کا ترجمہ بادل کیا ہے، جبال کا ترجمہ بڑے بڑے حصے کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں محل نظر ہیں۔
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
”پھر دیکھتے ہو کہ ان کے بیچ سے مینہ نکلتا ہے اور آسمان سے -اس کے اندر کے پہاڑوں سے- اولے برساتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
(جاری)
مطالعہ سنن ابی داود (۳)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
مطیع سید: بڑی عمر کے آدمی کے لیے رضاعت کے مسئلے میں اختلاف رہا ہے۔ (کتاب النکاح، باب فی من حرم بہ، حدیث نمبر ۲۰۶۱) ایسے لگتا ہے کہ بہت کم فقہاء اس کے قائل ہیں کہ بڑی عمر میں بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ اکثریت کی رائے تو یہ نہیں تھی، لیکن امام ابن حزم اس کے قائل تھے۔
عمار ناصر: صحابہ میں سے ام المومنین حضرت عائشہ کا ہی ذکر ملتا ہے جو اس کی قائل تھیں۔ بعد میں شاید کچھ تابعین بھی قائل ہوں۔ جمہور کا موقف تو دو سال کی عمر تک رضاعت ثابت ہونے کا ہے، اس کے بعد نہیں۔
مطیع سید: اپنی بیوی کا اگر کوئی دودھ پی لیتا ہے تو کیا اس سے رضاعت کا کوئی تعلق بنتا ہے؟
عمار ناصر: حرمت تو نہیں ثابت ہوتی، لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے۔
مطیع سید: ابن حزم کے نقطہ نظر سے درست نہیں یا ویسے ہی درست نہیں؟
عمار ناصر: فقہا کہتے ہیں کہ بیوی کا دودھ پینا درست نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو جائےتو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
مطیع سید: جب اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی تو پھر کس حوالےسے فقہا منع کر تے ہیں؟
عمار ناصر: دودھ اصل میں تو غذا ہے اور اس کی اگر چہ قانونی تحدید کر دی گئی ہے کہ اس مدت کے اندر عورت کا دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے، لیکن بہر حال اس عمل سے حرمت کے رشتے کی ایک مناسبت تو ہے۔ اس پہلو سے فقہاء اس کو خلاف احتیاط قرار دیتے ہیں۔
مطیع سید: گویا اس کے پینے سے حرمت بھی نہیں اور گنا ہ بھی نہیں۔
عمار ناصر: کچھ گنا ہ تو ہوگا، لیکن اس کے نکاح پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔
مطیع سید: کچھ قیدی آئے جن میں کچھ حاملہ عورتیں بھی تھیں تو آپﷺ نے ان کے مالکوں کو ان کے ساتھ مباشرت سے منع فرمایا۔ (کتاب النکاح، باب فی وطئ السبایا، حدیث نمبر ۲۱۵۵) اس ممانعت کی کیا وجہ تھی؟ عورت جب حاملہ ہو جاتی ہے تو پھر اس کے بچے کے نسب کا مسئلہ تو باقی نہیں رہتا۔ حمل تو ٹھہر چکا ہوتا ہے۔
عمار ناصر: نہیں، اس میں یہ پہلو نہیں ہے۔ یہاں اس کی رعایت کی گئی ہے کہ جب تک کسی کا بچہ عورت کے پیٹ میں ہے، اس وقت تک وہ عورت گویا اسی کی ملکیت میں ہے۔ اس لیے قیدی خواتین کا استبراء رحم کیے بغیر ان سے ہم بستری کو نبی ﷺ نے ممنوع قرار دیا۔ اس میں نسب کے اشتباہ کا مسئلہ بنیادی نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کی بیوی حاملہ ہے اور وہ اسے طلاق دے دے تو عورت بچے کو جنم دینے کے بعد ہی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔
مطیع سید: ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’غلاق’ کی حالت میں طلاق کا اعتبار نہیں۔ (کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علی غلط، حدیث نمبر ۲۱۹۳) یہاں غلاق کیا مطلب ہے؟
عمار ناصر: محدثین اس کی دو طرح سے تشریح کرتے ہیں۔ بعض اس سے مراد غصے کی ایک ایسی کیفیت لیتے ہیں جس میں آدمی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو جائے۔ بعض دیگر حضرات اس کو جبر واکراہ کے معنی میں لیتے ہیں۔
مطیع سید: کیا زبر دستی لی جانے والی طلاق احناف کے نزدیک واقع ہو جاتی ہے؟
عمار ناصر: زیادہ تر احناف تو اسی کے قائل ہیں۔
مطیع سید: جو قائل ہیں، وہ کس بنیاد پر قائل ہیں؟
عمار ناصر: وہ کہتے ہیں کہ اس نے ہوش وحواس میں طلاق دی ہے، اس لیے نافذ ہونی چاہیے۔
مطیع سید: یہاں اضطرار کا اصول لاگو نہیں ہوتا کہ اس نے کسی نقصان سے بچنے کے لیے یہ الفاظ کہے ہیں؟
عمار ناصر: اصولاً لاگو ہونا چاہیے، لیکن بعض دفعہ احناف بھی ذرا ظاہر پرست ہو جاتے ہیں۔
مطیع سید: اگر آپ سے کوئی پوچھے تو آپ کیا فرمائیں گے؟
عمار ناصر: میری رائے میں ایسی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے۔
مطیع سید: ہنسی مزاح میں بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علی الہزل، حدیث نمبر ۲۱۹۴) آپ نے کئی دفعہ فرمایا کہ فقہا بعض چیزوں کو قانونی پیراڈائم میں لےجاتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ اس تناظر میں بات نہیں فر ما رہے ہوتے۔ بس احتیاط کا ایک پہلو ملحوظ ہوتا ہے۔ تو کیا اس روایت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے؟
عمار ناصر: اس مسئلے میں ایک رجحان تو یہی بنتا ہے کہ اس طرح کی چیزوں، ہنسی مزاح میں نکاح و طلاق وغیرہ کو قانونی طور پر نافذ نہیں ماننا چاہیے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شریعت اصل میں رشتہ نکا ح کے معاملے میں ذرا مختلف جگہ سے بات کرتی ہے۔ وہ اس معاملے میں لوگوں کو Sensitive رکھنا چاہتی ہے۔ دیکھیں، ظہار سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ ظہار میں آدمی نے بیوی سے یہ کہہ دیا کہ تم میری ماں کی طرح ہو تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ اب دومہینے کے روزے رکھ کر اس کی سزا بھگتو۔ اس سے لگتا ہے کہ شریعت اس معاملے میں انسان کو Sensitive کرنا چاہتی ہے۔ نکاح کا رشتہ قائم کرنا یا توڑنا ایسی چیز نہیں ہے کہ آپ اسے ہنسی مزاح کا موضوع بنا لیں۔ اس لحاظ سے یہ بات کہی گئی کہ مزاح میں بھی اگر کسی نے ایسا کہا تو اس کے نتائج قانونی صورت میں اس پر لازم ہوں گے۔ لیکن بہر حال چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، اس لیے اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ کہاں اس کا اطلاق کریں اور کہاں نہ کریں۔
مطیع سید: عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ تین طلاقیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ حضرت ابو بکر کے دور میں بھی یہی رہا اورپھر حضرت عمر نے آکر انہیں تین ہی شمار کرنے کا حکم جاری کیا۔ (کتاب الطلاق، باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث، حدیث نمبر ۲۲۰۰) لیکن جو ابو رکانہ کی روایت آتی ہے، اس میں ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا تین سے کیا ارادہ تھا؟ اگر تین کو ہر حال میں ایک ہی مانا جاتا تھا تو نبی ﷺ نے اس سے ایسا کیوں پوچھا؟ اس سے تو لگتا ہے کہ اگر وہ کہتے کہ میری نیت تین ہی کی تھی تو آپ تین ہی شمار فرماتے۔
عمار ناصر: ابن عباس کی روایت اور ابو رکانہ کی روایت، دونوں میں کافی بحث ہے۔ دونوں کے مختلف طرق ہیں جن میں صورت حال کی تفصیلات مختلف بیان ہوئی ہیں۔ ابن عباس کی روایت کے معروف طریق میں تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کی بات مطلقاً بیان ہوئی ہے، کوئی قید نہیں ہے۔ لیکن ابوداود نے جو طریق نقل کیا ہے، اس کے مطابق ابن عباس نے یہ بات اس عورت سے متعلق کہی جس کو رخصتی یعنی ہم بستری سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو۔ اسی طرح ابو رکانہ کی روایت کے بھی مختلف طرق ہیں۔ بعض میں ہے کہ آپ نے ان سے ان کی نیت پوچھی، اور بعض میں ہے کہ آپ نے ان سے کہا کہ بیوی سے رجوع کر لیں۔ اس پر جب ابورکانہ نے کہا کہ میں نے تو تین طلاقیں دی تھیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن پھر بھی تم رجوع کر لو۔ یوں مجتہدین کے لیے کافی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ان میں سے ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دے سکیں۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم جو ابن عباس کی اس روایت کو درست سمجھتے ہیں کہ عہد نبوی میں تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، وہ ابو رکانہ کی روایت کو مضطرب قرار دیتے ہیں اور اس سے استدلال نہیں کرتے۔
مطیع سید: ایک بادشاہ کے علاقے سے گزرتے ہوئے حضرت ابرہیم ؑ کو اپنی بیوی سارہ کے متعلق کہنا پڑا کہ یہ میری بہن ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی الرجل یقول لامراتہ یا اختی، حدیث نمبر ۲۲۱۲) اس کی کیا وجہ تھی؟
عمار ناصر: دیگر تفصیلی روایات میں یہ آیا ہے کہ وہ بادشاہ اپنے علاقے سے گزرنے والی ہر خوب صورت عورت کو چھین لیتا تھا اور اس کے شوہر کو قتل کروا دیتا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم نے اس کے پوچھنے پر توریہ سے کام لیا اور کہا کہ میرے ساتھ میری بہن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی کے ساتھ اس کی بیوی ہوتی تو وہ آدمی کو مروا دیتا تھا اور عورت پر قبضہ کر لیتا تھا، کیونکہ اگر شوہر ہے تو بیوی چھینے جانے پر اس میں نفرت اور انتقام کے جذبات پیدا ہوں گے۔ لیکن اگر بہن ہوتی تو پھر وہ آدمی کو قتل نہیں کرواتا تھا۔
مطیع سید: جب حضرت ابراہیم نے سارہ کو اپنی بہن بتایا تو پھر تو وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ اس کانکاح میرے ساتھ کر دو۔ حضرت ابراہیم کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا؟
عمار ناصر: نہیں، یہ نکاح کی بات نہیں تھی۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نکاح کے لیےنہیں، بلکہ ویسے ہی عورتوں کو چھین لیتا تھا اور شوہر کو قتل کروا دیتا تھا۔ تو حضرت ابراہیم نے فوری طور پر جو تدبیر سوچی، وہ یہ تھی کہ قتل سے بچنے کے لیے سارہ کو بہن کہہ دیا جائے اور بیوی کو بادشاہ کی دست درازی سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے۔ چنانچہ روایت میں یہی ہے کہ جب بادشاہ نے دست درازی کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کی وجہ سے وہ وقتی طور پر مفلوج ہو گیا اور اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور بادشاہ نے خوف زدہ ہو کر دونوں کو جانے کی اجازت دے دی۔
مطیع سید: حضرت زینب اور ابو العاص کو کئی سال کے وقفے کے بعد دوبارہ اکٹھا کر دیا گیا۔ (کتاب الطلاق، باب الی متی ترد علیہ امراتہ اذا اسلم بعدہا، حدیث نمبر ۲۲۴۰) کیا اس سارے عرصے میں ان کا نکاح ختم نہیں ہو گیا تھا؟
عمار ناصر: اس میں دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کو سابقہ نکاح کے ساتھ ہی جمع کر دیا گیا اور دوسری میں ہے کہ نیا نکاح کروایا گیا تھا۔ احناف نئے نکاح والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔
مطیع سید: والدین میں سے ایک مسلمان ہو گیا تو حضورﷺ کے سامنے ان کا مسئلہ آیا کہ بچی کس کے پاس رہے گی۔ آپﷺ نے بچی کو درمیان میں بٹھا دیا اور فرمایا کہ جس طرف بچی مائل ہو گی، اسی کو دے دی جائے گی۔ بچی ماں کی طرف مائل ہونے لگی تھی تو آپ ﷺنےدعا فرمائی کہ وہ باپ کی طرف مائل ہو۔ (کتاب الطلاق، باب اذا اسلم احد الابوین مع من یکون الولد، حدیث نمبر ۲۲۴۴) وہ تو نبی ﷺتھے، ان کی دعا قبول ہوگئی۔ ہمارے لیے ایسی صورت میں کیا قانون ہے؟
عمار ناصر: وہ تو آپ ﷺنے بتا دیا کہ قانون یہ ہے کہ اس موقع پر بچے کا اختیار ہے۔
مطیع سید: لیکن یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ آپﷺنے اپنا اختیار بھی استعمال فر مایا۔
عمار ناصر: نہیں، آپ نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔ آپﷺنے دعا کی تو اللہ نے بچی کے دل میں بات ڈال دی۔
مطیع سید: لعان کے بعد طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی یا دی جائے گی؟
عمار ناصر: یہ استنباطی بحث ہے۔ احناف غالباً اس کے قائل ہیں کہ باقاعدہ طلاق دلوائی جائےگی۔
مطیع سید: آپﷺ سے اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی کہ آپ نے جدائی کروائی یا نہیں؟
عمار ناصر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں میں تفریق کروانا ثابت ہے۔ عویمر عجلانی کے واقعے میں ایک روایت یہ ہےکہ انھوں نے لعان کے بعد فوراً خود ہی بیوی کو طلاق دے دی۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کر دی۔
مطیع سید: ہلال ابن امیہ کے واقعے میں میاں بیوی کے مابین لعان کے بعد آپ نے فرمایا کہ اگر بچے کی شباہت اس آدمی جیسی ہوئی جس پر شوہر نے الزام لگایا ہے تو پھر شوہر اپنے الزام میں سچا ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی اللعان، حدیث نمبر ۲۲۵۶) یعنی آپ نے بچے کی شکل و صورت سے الزام کی تحقیق میں مدد لی۔ کیا آج ہم اس کی بجائے ڈی این اے وغیرہ سے اس سلسلے میں مدد لے سکتے ہیں؟
عمار ناصر: نہیں، آپ نے یہ نہیں کہا کہ اگر بچے کی شباہت ایسی ہوئی تو اس کا نسب اس سے ثابت ہوگا۔ لعان کے بعد بچے کا نسب تو کسی سے ثابت نہیں ہوتا، صرف ماں کی طرف اسے منسوب کیا جاتا ہے۔ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ بچے کی شباہت سے یہ پتہ چل جائے گا کہ شوہر نے جو الزام لگایا، وہ ٹھیک تھا یا نہیں۔ اس کا بچے کے نسب پر کوئی قانونی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ ڈی این اے ٹیسٹ بھی اگر اس حوالے سے کوئی قابل وثوق مدد دے سکتا ہو تو لعان کی صورت مین اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ اگر بیوی الزام قبول نہ کرنے کی صورت میں لعان کے بجائے یہ مطالبہ کرے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ بچہ کس کا ہے تو میری رائے میں بیوی کو یہ حق ملنا چاہیے۔ مقاصد شریعت کی رو سے خود کو بدکاری کے الزام سے بری ثابت کرنا بیوی کا بھی حق ہے اور اگر نسب کی تحقیق ممکن ہو تو پیدا ہونے والے بچے کا بھی یہ حق ہے۔ ہاں، اگر طبی ذرائع سے تحقیق ممکن نہ ہو تو پھر لعان کا طریقہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔
مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بچے کی ولدیت ثابت کرنے کے لیے تین آدمیوں کے درمیان قرعہ ڈلوایا۔ (کتاب الطلاق، باب من قال بالقرعۃ اذا تنازعوا فی الولد، حدیث نمبر ۲۲۶۹) حضرت علی قیافہ شناس کو بھی بلا سکتےتھے یا اور کوئی ذریعہ استعمال کر سکتے تھے مگر انہوں نے قرعہ پر فیصلہ کیا جو بالکل تخمینی طریقہ ہے۔
عما رناصر: معروضی حالات جیسے ہوتے ہیں، اسی کے لحاظ سے آپ نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس دور میں آج کے دور کی طرح تحقیق نسب کے زیادہ قابل وثوق ذرائع دستیاب نہیں تھے۔ حضرت علی کو بچے کی ولدیت کا جھگڑا نمٹانا تھا تاکہ قانونی ذمہ داریوں کا تعین کیا جا سکے تو اس مقدمے میں انھیں یہی ممکن نظر آیا کہ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ کر دیا جائے۔
مطیع سید: ہو سکتاہے کہ قیافہ شناس بھی اس وقت میسر نہ ہو۔
عمار ناصر: جی، ممکن ہے وہ بھی میسر نہ ہو یا قیافہ پر ان کا اتنا اعتماد نہ ہو۔ ایسے میں معاملے کو نمٹانا ہوتا ہے، جیسے بھی نمٹایا جا سکے۔
مطیع سید: روایت میں یہ بھی وضاحت نہیں کہ جو دوسرے دو آدمی تھے، کیا انھوں نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی تھی؟ ان کو آپ نے پکڑا یا نہیں؟
عمار ناصر: دیگر روایات میں اس کی تفصیل موجود ہےکہ انھوں نے غلط اجتہاد کرتے ہوئے ایک ہی طہر میں اس باندی سے مجامعت کو جائز سمجھتے ہوئے مجامعت کی تھی جس کی وجہ سے ان پر حد جاری نہیں کی گئی۔
مطیع سید: حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حاملہ عورت چھوڑے ہوئے روزوں کا فدیہ دے سکتی ہے۔ (کتاب الصوم، باب من قال ہی مثبتۃ للشیخ والحبلی، حدیث نمبر ۲۳۱۷) کیا اس کے لیے روزوں کی قضا ضروری نہیں؟
عمار ناصر: یہ قابل بحث مسئلہ ہے۔ عام طور پر فقہاء یہی کہتے ہیں کہ چونکہ وہ بعد میں روزے رکھ سکتی ہے، اس لیے قضا کرے۔ لیکن ابن عباس کی اور متعدد تابعین کی رائے یہ ہے کہ چونکہ وہ اس وقت روزے نہیں رکھ پارہی اور اس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں تو اس کے لیے فدیہ دے دینے کی گنجائش موجود ہے۔ بظاہر ذوالوجہین مسئلہ ہے اور اجتہادی ہے۔ پہلے قیاس کو دیکھیں تو یہ بات درست لگتی ہے کہ بعد میں اس کو روزے قضا کرنے چاہییں۔ دوسرے قیاس کو دیکھیں تو فدیے کی گنجائش نکلتی ہے۔
مطیع سید: کیا اس مسئلے کو Case to Case دیکھا جا سکتا ہے؟
عمار ناصر: بالکل، یہ بھی ہو سکتاہے کہ ایسے ہر معاملے کو صورت حال کے لحاظ سے الگ الگ دیکھا جائے۔ قرآن سے تو ترجیح یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان تصوموا خير الكم۔ روزے کی جگہ روزہ ہی رکھا جائےتو بہترہے۔
مطیع سید: عاشورا کا روزہ کیا پہلے فرض تھا؟
عمار ناصر: روایات میں ایسے ہی منقول ہے کہ وہ لازم تھا۔ پھر رمضان کے روزے فرض ہو جانے کے بعد اس کو اختیاری قرار دے دیا گیا۔
مطیع سید: تو کیا یہ اسی نسبت سے رکھوایا جا تا تھا جس نسبت سے یہود رکھتےتھے یا مسلمانوں کے رکھنے کی کوئی اور وجہ تھی؟
عمار ناصر: اس کی ابتدا سے متعلق روایات مختلف ہیں۔ بعض میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش یہ روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس وقت سے یہ معمول تھا۔ بعض میں ہے کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو فرعون سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی نجات کے شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھتے دیکھا تو فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی خوشی منانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ ممکن ہے، دونوں باتیں درست ہوں۔ اس کا رواج قریش میں بھی ہو اور نبی ﷺ نے دیکھتے ہوئے کہ کوئی نہ کوئی روزہ تو رکھنا چاہیے، مسلمانوں پر بھی اس کو لازم کر دیا ہو۔ مدینہ میں آنے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے میں اور بھی کئی مصلحتیں تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی نسبت ہوگئی، اور یہودیوں کے ساتھ بھی کچھ موافقت اور ان کی تالیف قلب ہوگئی جس کی آپ ﷺ نے ابتدائی دور میں کافی کوشش بھی کی تھی۔
مطیع سید: شام کے علاقے کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بیان ہوئی ہیں، (کتاب الجہاد، باب فی سکنی الشام، حدیث نمبر ۲۴۸۳) ان کا تعلق کس زمانے سے ہے؟ آپ ﷺ نے عرب قوم کے دور اقتدار کے اختتام کی باتیں بھی بیان فرمائی ہیں اور قیامت کے قریب رونما ہونے والے واقعات کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ شام کے حوالےسے پیشین گوئیاں کس صورت حال سے متعلق ہیں؟
عمار ناصر: اس کو کافی تحقیق سے دیکھنا پڑے گا۔ پیشن گوئیوں سے متعلق روایتوں میں کافی پیچیدگیاں ہیں اور راویوں نے ایک دور سے متعلق واقعات کو دوسرے دور سے متعلق کافی گڈمڈ بھی کر دیا ہے۔
مطیع سید: ایک صحابی نے نبی ﷺ سے سیاحت کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی سیاحت جہاد میں ہے۔ (کتاب الجہاد، باب فی النہی عن السیاحۃ، حدیث نمبر ۲۴۸۶) اس کا کیا مطلب ہے؟
عمار ناصر: اردو میں جس کو سیر وسیاحت کہتے ہیں، یہاں وہ مفہوم مراد نہیں ہے۔ عہد نبوی کی عربی میں سیاحت ایک مذہبی اصطلاح کے طور پر مستعمل تھی۔ سیاحت ترکِ دنیا کا ایک خاص طریقہ تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آدمی گھر بار چھوڑ دے اور ساری زندگی مسافروں اور خانہ بدوشوں کی طرح خدا کی زمین میں پھر تا رہے۔ اسی مفہوم میں اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں عبادت کے طور پر گھربار چھوڑنے اور خدا کی زمین میں گھومتے رہنے کی کوئی شکل اگر ہے تو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ آدمی جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑا ہو۔ محض گھر سے نکل جانا اور سیر وتفریح کے لیے دنیا میں گھومتے رہنا، یہ یہاں مراد نہیں ہے۔
مطیع سید: آپ ﷺ کو ایسا گھوڑا پسند نہیں تھا جس کا ایک اگلے اور ایک پچھلے پاؤں میں سفیدی ہو۔ (کتاب الجہاد، باب ما یکرہ من الخیل، حدیث نمبر ۲۵۴۷) یہ کیا نبی ﷺ کا کوئی ذاتی ذوق تھا یاکوئی اور وجہ تھی؟
عمار ناصر: بظاہر تو یہ ذوقی بات ہی لگتی ہے۔
مطیع سید: آپ نے اسی طرح کی ایک روایت کے حوالےسے فرمایاتھا کہ نبی ﷺ کے ذوق کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ تو اس روایت میں ہم کیسے اس ذوق کی پیروی کریں؟
عمار ناصر: ذوق کاتعلق اگر کسی عباداتی یا تعبدی پہلو سے ہے تو اس کے متعلق یہ عرض کیا تھا۔ یہ کسی جانور کی پسند یا ناپسند کا معاملہ تو مختلف ہے۔ یہ بالکل طبعی سا ذوق ہے جس کا کسی دینی پہلو بظاہر نہیں ہے۔ اس میں بھی آپ اگر پیروی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے۔
مطیع سید: یہ جو جانوروں کے گلے میں گھنٹی باندھنے یا سفر میں قافلے کے ساتھ کتا رکھنے کی ممانعت آئی ہے، (کتاب الجہاد، باب فی تعلیق الاجراس، حدیث نمبر ۲۵۵۵) کیا یہ بھی شخصی ذوق ہی تھا؟
عمار ناصر: اس میں ایک روحانی پہلو بھی ہے۔ بعض چیزوں کی مناسبتیں عالمِ غیب سے ہیں تو نبی ﷺ کے سامنے وہ بھی ہوتی ہیں۔ ان کے لحاظ سے یہ فرمایا۔ مثلاً گھنٹی سے فرشتوں کو مناسبت نہیں ہے، شیاطین و جنات کو اس سے مناسبت ہے۔ اسی طرح کتا ہےکہ کتے کے ساتھ جنات و شیاطین کو مناسبت ہے۔ اس وجہ سے آپ کو بھی ان کو ساتھ رکھنا پسند نہیں تھا۔
مطیع سید: کسی اور چیز میں مقابلہ کرنا جائز نہیں، سوائے اونٹ اور گھوڑے کی دوڑ اور تیز اندازی کے مقابلے کے۔ (کتاب الجہاد، باب فی السبق، حدیث نمبر ۲۵۷۴) اس کا کیا مطلب ہے؟
عمار ناصر: مراد یہ ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اور بلامقصد جانوروں میں جو مقابلے کروائے جاتے ہیں، وہ نہیں کروانے چاہییں۔ خاص طور پر ایسے مقابلے جن میں کوئی غیر اخلاقی پہلو بھی ہو، مثلاً جانور ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہوں۔ مقابلے ایسے ہونے چاہییں جن سے انسان کسی ہنر میں مہارت پیدا کرے اور اس کا اظہار کرے، جیسے گھڑ سواری یا تیز اندازی کے مقابلے۔
مطیع سید: آج کے دور میں کھیل میں جو شرطیں لگا ئی جاتی ہیں، کیا وہ درست ہیں؟
عمار ناصر: اس میں فقہا تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اگر کوئی تیسرا فریق کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام مقرر کر تا ہے اور لوگ کھیل کر انعام جیتتے ہیں تو یہ درست ہے۔ لیکن اگر کھیلنے والے آپس میں ہی ایسی شرط طے کریں تو اس میں جوے کی شکل بن جاتی ہے جو درست نہیں۔
مطیع سید: یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی مقابلے میں شریک سب کھلاڑیوں سے رقم جمع کی جاتی ہے۔ اس رقم سے انعام خریدا جاتا ہے اور جو جیتے، اس کو انعام دے دیا جاتا ہے۔
عمار ناصر: اس میں اس طرح سے صریح جوئے کی صورت تو نہیں ہے لیکن ایک مشابہت پائی جاتی ہے، اس لیے عام طورپر فقہا اس سے منع کرتے ہیں۔
(جاری)
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۸)
مولانا سمیع اللہ سعدی
(اہل تشیع کی اہم کتبِ رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے فرد ا فردا تجزیہ جاری ہے، پچھلی قسط میں چند کتب کا ذکر آگیا تھا، اس قسط میں یہی سلسلہ آگے بڑھایاگیا ہے۔ )
4۔ منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال
یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ محدث محمد بن علی الاسترابادی (1028ھ) کی تصنیف ہے، یہ معروف اخباری عالم میرزا محمد امین الاسترابادی کے استاذ ہیں اور حاوی الاقوال کے مصنف شیخ عبد النبی الجزائری کے ہم عصر ہیں، محقق استرابادی کی یہ کتاب شیعہ حلقوں میں الرجال الکبیر کے نام سے معروف ہے، شیخ حیدر حب اللہ نے اس کتاب کو رجالی موسوعات کی پہلی کوشش قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:
"وھو عہد التالیف الموسوعی فی الرجال الشیعی الذی لم یعہد ھذہ الموسوعیۃ من قبل"1
کہ محقق استرابادی کی یہ کتاب رجال شیعہ کے اس موسوعاتی دور سے ہے، کہ اس قسم کا موسوعاتی مواد اس سے پہلے معروف نہ تھا۔
کتاب کے مقدمہ میں مصنف کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
حاولت فیہ ذکر ما وصل الی من کلام علماءنا المتقدمین والمتاخرین وما وقفت علیہ من المقال فی شان بعض اصحابنا من علماءنا المخالفین2
یعنی اس کتاب میں، میں نے اپنے متقدمین و متاخرین علماء کے کلام کو ذکر کرنے کا ارادہ کیا ہے، اور اس کے ساتھ ہمارے مخالفین کی کتب میں ہمارے بعض اصحاب کے بارے میں جن باتوں پر میں مطلع ہوا ہوں، ان کو بھی ذکر کرنے کا ارادہ ہے۔
اس کے بعد مصنف نے شیعہ رجالی تراث میں سے بارہ مصادر اور اہل سنت کے دو مصادر (حافظ بن حجر کی تقریب اور امام ذہبی کا ایک اختصار ) کا نام لیا ہے، اس طرح شیعہ کتب رجال کے ساتھ ساتھ اہل سنت کتب سے بھی شیعہ رجال کے بارے میں معلومات ڈھونڈنے کی کو شش کی ہے، یوں کتاب کے مقدمے سے اس بات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے کہ مصنف نے متقدمین و متاخرین کا پورا علم رجال جمع کرنے کی تگ و دو کی ہے، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ کتاب کی ضخامت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
"ان الکتاب یعد موسوعۃ رجالیۃ کبیرۃ بل من اوسع ما کتب فی الرجال الشیعی حتی عصرہ۔
یعنی یہ کتاب ایک وسیع رجالی موسوعۃ شمار ہوتی ہے ، بلکہ اپنے زمانے تک رجال شیعہ کی سب سے بڑی کتاب ہے۔ کتاب کی طوالت و وسعت کے بارے میں شیخ حیدر حب اللہ کے ان کلمات کے بعد اور خود مصنف کے اس اقرار کے بعد، کہ اس میں متقدمین و متاخرین کا علم رجال سمویا گیا ہے اورمصنف نے مقدمے میں ایک درجن متقدمین کی رجالی کتب کی فہرست بھی دی ہے، جن کے رواۃ کا اس میں استقصاء کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان سب کے بعد کتاب میں کل 4026 رواۃ کا ذکر ہے، جو رجال ِ شیعہ کی کل تعداد (تقریبا تیس ہزار رواۃ ) کا بمشکل تیرہ فیصد بنتا ہے، جو ظاہر ہے کہ نہایت قلیل تعداد ہے، مصنف نے اتنے تگ و دو کے بعد اپنے پیش رو شیخ عبد النبی الجزائری کی کتاب حاوی الاقوال پر مزید دو ہزار رواۃ کا اضافہ کیا ہے، یہ کتاب بھی حاوی الااقوال کی طرح متقدمین کے کی کتب سے محض مواد کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، چنانچہ کتاب سے ایک ترجمہ نقل کیا جاتا ہے تاکہ کتاب کا اسلوب کچھ واضح ہوسکے:
ابراہیم بن عبد الحمید الاسدی مولا ھم البزاز الکوفی ق، ثم ظم: ابن عبد الحمید لہ کتاب وفیہ ایضا ابن عبد الحمید واقفی، ثم ضا، ابن عبد الحمید من اصحاب ابی عبد اللہ علیہ السلام۔ ۔ ۔ و فی ست: ابن عبد الحمید، ثقۃ لہ اصل۔ ۔ ۔ وفی جش: ابن عبد الحمید الاسدی مولاھم کوفی، وفی صہ: ابن عبد الحمید وثقۃ الشیخ فی الفہرست۔ ۔ ۔ وفی کش ابراہیم بن عبد الحمید الصنعانی۔ 3
اس ترجمے سے کتاب کا اسلوب بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مصنف مختلف رجالی کتب کے لئے ق، ظم، ضا، ست، کش وغیرہ کے رموز لگا (ان رموز کی وضاحت مصنف نے مقدمہ میں کی ہے ) کر ان کی عبارات بغیر کسی تبصرے، تنقیح و تہذیب کے، بعینہ نقل کرتے جاتے ہیں، یوں اگر جرح و تعدیل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کتاب اس حوالے سے بے فائدہ ہے، کیونکہ اس میں نہ تو علامہ حلی کی طرح ہر راوی کے بارے میں اقوال جرح و تعدیل جمع کرنے کی مرتب کوشش کی گئی ہے نہ شیخ عبد النبی الجزائری کی طرح رواۃ کو ضعف وثقاہت کے اعتبار سے تقسیم کر کے ذکر کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ اس کتاب کو منہج کے اعتبار سے ایک مبہم کتاب قرار دیتے ہیں، چنانچہ کتاب کے منہج و اسلوب سے متعلق لکھتے ہیں:
" مع ھذا کانت مقدمۃ الکتاب مقتضبۃ جدا، فلم یبین المیرزا منہجہ و طریقتہ فی الکتاب و الغایۃ من تالیفہ کما ھو داب المولفین قبلہ"4
یعنی اس ضخامت کے باوجود کتاب کا مقدمہ نہایت مختصر ہے، اس میں مصنف نے کتاب کا منہج، اسلوب اور کتاب کی تالیف کی غرض و غایت بیان نہیں کی، جیسا کہ اس سے پہلے مصنفین کا وطیرہ تھا۔
بغیر کسی خاص ترتیب جدید ، تدوین اور اسلوب کے محض متقدمین کے رجالی تراث کو بعینہ نقل کرنا جمع و ترتیب تو کہلائی جاسکتی ہے، اسے باقاعدہ رجالی کتاب کہنا مشکل ہے، ضخامت کی وجہ سے اس کا ذکر یہاں کیا گیا، ورنہ متقدمین کی کتب کے محض مجموعات کو ذکر کرنا تطویل لا طائل ہے، کیونکہ جن رجالی کتب کو اس کتاب میں جمع کیا گیا ہے، ان پر رواۃ کی جرح وتعدیل کے اعتبار سے فردا فردا پچھلے صفحات میں بحث ہوچکی ہے۔
5۔ نقد الرجال
یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم سید مصطفی بن حسین التفرشی کی ہے، جنہیں مختصرا لتفرشی کہہ دیا جاتا ہے، سید تفرشی مرزا محمد الاسترابادی کے ہم عصر ہیں۔ اس کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
"ولما نظرت في كتب الرجال رأيت بعضها لم يرتب ترتيبا يسهل منه فهم المراد ومع هذا لا يخلو من تكرار وسهو، وبعضها وان كان حسن الترتيب الا ان فيه أغلاطا كثيرة، مع أن كل واحد منها لا يشتمل على جميع أسماء الرجال أردت أن اكتب كتابا يشتمل على جميع الرجال من الممدوحين والمذمومين والمهملين، يخلو من تكرار وغلط، ينطوي على حسن الترتيب ويحتوي على جميع أقوال القوم قدس الله أرواحهم من المدح والذم"5
جب میں نے کتب رجال کو دیکھاتو بعض کتب ایسی ہیں جو ایسی ترتیب کی حامل نہیں ہیں ، جو تسہیل فہم میں معاون ہو، اس کے ساتھ ان کتب میں تکرار و تسامحات بھی ہیں، جبکہ بعض کتب باعتبارِ ترتیب بہترین کتب ہیں، لیکن ان میں کثرت سے غلطیاں موجود ہیں، نیز ہر دو قسم کی کتب تمام رجال کے تذکرے پر مشتمل نہیں ہیں، تو میں نے ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تیار کروں، جو جمیع ممدوحین، مذمومین اور مھمل رواۃ کے ذکر پر مشتمل ہو اور تکرار و اغلاط سے بھی پاک ہو، حسنِ ترتیب کی حامل ہو اور رواۃ کے بارے میں قوم(اہل علم ) کے مدح و ذم کے تمام اقوال کا احاطہ کرے۔
اس کے بعد مصنف نے درجہ ذیل نو کتب کو مصادر قرار دیتے ہوئے ان کے رموز بیان کئے:
رجال کشی، رجال نجاشی، رجال طوسی، فہرس الطوسی، رجال ابن الغضائری، رجال ابن شہر آشوب، علامہ حلی کی خلاصۃ الاقوال اور ایضاح الاشتباہ اور رجال ابن داود الحلی،
اس کے ساتھ مصنف نے تصریح کی ہے کہ میری کوشش ہوگی کہ ان مصادر کی عبارت بعینہ نقل کروں، البتہ کبھی کبھا ر ضرورتا تبدیلی کروں گا۔
یہ کتاب موسسۃ آل البیت سے پانچ ضخیم جلدوں میں چھپی ہے، اس کتاب میں شیخ حیدرحب اللہ کے بقول 6604 رواۃ 6 کا ذکر ہے، یوں یہ کتاب استرابادی کی منہج المقال سے دو ہزار زیادہ رواۃ پر مشتمل ہے، یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ شیخ عبد النبی جزائری کی رجال الجزائری میں دو ہزار رواۃ، مرزا محمد استرابادی کی منہج المقال میں چار ہزار رواۃ اور تفرشی کی نقد الرجال میں چھ ہزار رواۃ ہیں، حالانکہ تینوں کے مصادر تقریبا یکساں ہیں، جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم ان کتب کے تذکرے میں نقل کرچکے ہیں، یہاں بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے، کہ ان تینوں مصنفین نے متقدمین کے رجالی تراث کا مکمل احاطہ کرنے کے لئے کتاب لکھی تھی اور تینوں کے مصادر بالکل یکساں تھے، تو رواۃ کی تعداد میں اتنا عظیم فرق کیونکر پیدا ہوا ؟پھر خاص طور پر علامہ محمد استرابادی نے مجمع الرجال میں بارہ شیعہ مصادر کو سمونے کے بعدچار ہزار رواۃ پر مشتمل مجموعہ تیار کیا اور اسے حیدر حب اللہ نے اپنے دور کی سب سے وسیع کتاب قرار دیا، جبکہ سید تفرشی نے ان بارہ مصادر میں سے نو کو نقد الرجال میں جمع کرنے کی کوشش کی، تو چھ ہزار رواۃ کا مجموعہ تیار کیا، شیعہ کتب رجال کا جب زمانی اعتبار سے جائزہ لیاجائے تو ایک خاص ترتیب کے ساتھ رواۃ و رجال کا ہر آنے والی کتب میں اضافہ نظر آتا ہے، بالخصوص یہ اضافہ ان کتب میں زیادہ حیرت کا باعث ہے، جو متقدمین کے ایک جیسے تراث کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، لیکن رواۃ کی تعداد میں پھر بھی ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے، جیسا کہ منہج المقال اور اس کتاب نقد الرجال میں آپ ملاحظہ کرچکے ہیں، اسے تکرار کا نتیجہ کہیں یا آنے والے زمانوں میں رواۃ و رجال کی دریافت کا نتیجہ ؟رواۃ کی تعداد میں یہ اضافہ ہر زمانہ کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ امام خوئی کی کتاب معجم رجال الحدیث میں پندرہ ہزار تک پہنچ جاتا ہے اور شیخ علی نمازی کی مستدرکات علم الرجال میں اٹھارہ ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔
رواۃ کی تعداد میں اس حیران کن ارتقائی اضافہ سے قطع نظرسید تفرشی نے اپنی اس کتاب میں مذکورہ ساڑھے چھ ہزار رواۃ میں سے نہایت قلیل تعداد کے بارے میں جرح و تعدیل کا تذکرہ کیا ہے، مقالہ نگار نے موسسہ آل البیت سے طبع شدہ نقد الرجال کی پانچ جلدوں میں سے پہلی دو جلدوں کو صفحہ بہ صفحہ دیکھا، کہ کتنے رواۃ کے بارے میں مصنف نے جرح یا تعدیل کا ذکر کیا ہے، تو یہ اعداد و شمار سامنے آئے:
- نقد الرجال کی پہلی جلد میں 1219 (بارہ سو انیس )رواۃ کا ذکر ہے، جس میں سے کل 155 رواۃ کے بارے میں تعدیل (ثقہ، ثقہ ثقہ وغیرہ کے الفاظ ) مذکور ہیں، جبکہ 36 رواۃ کی تضعیف(کذاب، مجہول، ضعیف، فی روایتہ ضعف وغیرہ کے الفاظ ) نقل کی ہے۔
- نقد الرجال کی دوسری جلد میں ( چودہ سو اکہتر )1471 رواۃ کاذکر کیا گیا ہے، جس میں سے 205 رواۃ کی تعدیل اور 43 رواۃ کی تضعیف نقل کی گئی ہے۔
- یوں دونوں جلدوں میں مذکورہ 2690 رواۃ میں سے 360 رواۃ کی تعدیل اور 79 رواۃ کی تضعیف نقل کی گئی ہے، اس طرح کل ملا کے 439 رواۃ کی تقویم مذکور ہے، اگر ہم اس تعداد میں مقالہ نگار کی گنتی میں غلطی کے احتمال کے پیش نظر 100 مزید رواۃ احتیاطا شامل کریں، تو کل 540 کے قریب رواۃ بنتے ہیں، جو دونوں جلدوں کے کل رواۃ 2690 کا محض بیس فیصد بنتا ہے۔ اس تعداد سے بقیہ تین جلدوں کے رواۃ کی تقویم کا سرسری اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یوں یہ کتاب باوجود اپنی ضخامت کے، رواۃ کی تقویم اور توثیق و تضعیف کے بارے میں یکسر ناکافی ہے، حالانکہ نقد الرجال کے نام سے بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کتاب میں موجود ہر راوی کی تقویم پر بحث کی گئی ہوگی۔
6۔ الوجیزۃ فی علم الرجال
یہ کتاب بارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ محدث محمد باقر مجلسی کی ہے، جنہیں شیعہ حلقوں میں علامہ مجلسی کے نام سےذکر کیا جاتا ہے، علامہ مجلسی شیعہ علم حدیث کے اہم ترین ستون سمجھے جاتے ہیں، الکافی کی مفصل شرح مراۃ العقول کے نام سے لکھی ہے، جو الکافی کی سب سے متداول شرح ہے، اس کے علاوہ ایک سو دس جلدوں پر محیط شیعہ روایات کا ایک انسائیکلوپیڈیا بحار الانوار کے نام سے ترتیب دیا ہے، علامہ مجلسی شیعہ علم حدیث کے مرکزی اہل علم میں جانے جاتے ہیں، علامہ مجلسی نے علم الرجال پر ایک جلد پر مشتمل کتاب "الوجیزۃ فی علم الرجال " لکھی ہے، کتاب کے مقدمہ میں شیخ مجلسی لکھتے ہیں:
“التمس منّي جماعة من طالبي علوم أئمّة الدين (صلوات اللّه عليهم أجمعين)، أن أكتب لهم في تحقيق أحوال رجال أسانيد الأخبار، رسالة وجيزة أقتصر فيها على بيان ما اتضح لي من أحوالهم، و اشتهر عند أصحابنا- رضي اللّه عنهم- من أقوالهم، من غير تعرض لخصوص الأقوال و قائليها، و ترك المجاهيل لعدم الفائدة للتعرّض لها، على غاية الإيجاز و الاختصار، ليسهل على الطالبين تحصيلها”7
یعنی مجھ سے طلبہ کی ایک جماعت نے درخواست کی کہ میں حدیث کے رواۃ کی تحقیق کے بارے میں ایک ایسا رسالہ ترتیب دوں، جس میں صرف ان رجال کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا ہو، جن کے احوال میرے سامنے واضح ہوچکے ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے اصحاب علم کے اقوال معروف و مشہور ہیں ، نیز اس میں قائلین اور ان کے اقوال کا تفصیلی ذکر نہ کیا گیا ہو، اور اس کے ساتھ مجاہیل رواۃ کا ذکر بھی چھوڑ دیا گیا ہو، کیونکہ ان کےذکر کیا کوئی فائدہ نہیں اور اس رسالہ میں نہایت اختصار سے کام لیا گیا ہو تاکہ طلبہ علم کے لئے اس سے استفادہ آسان ہو۔
اس کے بعد مصنف نے رواۃ کو پانچ اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کتاب میں ثقہ غیر امامی کے لئے (ق)، ثقہ امام کے لئے (ثقہ )ممدوح کے لئے (م)ضعیف کے لئے (ض) اور مجہول کے لئے (م) کا رمز استعمال کریں گے۔ اس کتاب میں مصنف صر ف راوی کا نام ذکر کرتے ہیں اور اس کے آگے اوپر ذکر کردہ رموزِ خمسہ میں سے کوئی رمز (ق، م، ض وغیرہ) ذکر کر دیتے ہیں، بطوِ نمونہ چند تراجم ملاحظہ ہوں:
- آدم بن إسحاق، ثقة
- آدم بن الحسين النخاس، ثقة
- آدم بن المتوكّل، ثقة
- آدم بن محمد القلانسي، ض، و غيرهم، م8
اس کتاب کو ہم اہل سنت کتب میں سے تقریب التہذیب سے تشبیہ دے سکتے ہیں، لیکن تقریب التہذیب کے منابع تو تہذیب التہذیب، تہذیب الکمال ، الکمال فی اسماء الرجال وغیرہ جیسی مبسوط کتب ہیں اور تقریب ان سب کا ایک جامع اختصار ہے، اس لئے تقریب کے رموز کو ان مفصل کتب سے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے، لیکن الوجیزہ کے منابع و مصاد رمتعین و معلوم ہی نہیں ہیں، اور نہ علامہ مجلسی نے مقدمہ میں کسی خاص مصدر کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ کن کتب سے علامہ مجلسی نے رواۃ کے بارے میں یہ اقوال نقل کئے ہیں، لیکن علامہ مجلسی چونکہ ایک منجھے ہوئے محدث ہیں، اس لئے قوی امید ہے کہ علامہ مجلسی نے معتبر مصادر سے رواۃ کی توثیق و تضعیف نقل کی ہوگی، یہ کتاب مصنف کے علم حدیث میں ایک نمایاں مقام ہونےکی بنا پر یقینا شیعہ علم رجال کی تقویم کے حوالے سے ایک بلند پایہ کتاب ہے، لیکن متقدمین کی کتب کی طرح اس کتاب کی بھی اساسی خامی رواۃ و رجال کا عدم استقصاء ہے، اس کتاب میں مکررات سمیت محض 2345 رواۃ کا ذکر ہے، جو کل شیعہ رواۃ کا بمشکل دس فیصد بنتا ہے، یوں ابن داود حلی سے لیکر علامہ حلی تک اور علامہ حلی سے لیکر شیخ مجلسی تک جس جس نے بھی شیعہ رواۃ و رجال کو تقویم یعنی توثیق و تضعیف کے اعتبار سے جمع کرنے کی کوشش کی، تو وہ دو ڈھائی ہزار سے آگے نہ بڑھ سکے، کیونکہ شیعہ کے قدیم رجالی تراث میں رواۃ کی جرح و تعدیل نہ ہونےکے برابر ہے، جیسا کہ ما قبل میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ آچکی ہے، شیعہ تاریخ کے پہلے بارہ سو سال میں علامہ مجلسی سے زیادہ وسعتِ نظر کا حامل محدث نہیں گزرا، جب شیخ مجلسی اپنے وسیع نظر کے باوجودمحض ڈھائی ہزار کے قریب رواۃ کی تقویم جمع کرسکے، تو اس سے شیعہ کتب رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے تہی دامن ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
7۔ منتہی المقال فی احوال الرجال
یہ کتاب تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ محدث محمد بن اسماعیل مازندرانی کی ہے، جو ابو علی الحائری کے نام سے معروف ہے، اس کتاب میں مصنف نے اپنے زمانے تک تمام موجود رجالی تراث کو سمونے کی کوشش کی ہے، چنانچہ شیخ حیدرحب اللہ نے بائیس رجالی کتب کا ذکر کیا ہے، جن کا مواد حائری نے اپنی کتاب میں جمع کیا ہے اور ہر کتاب کے لئے خاص رمز استعمال کیا ہے، ان رموز کی تفصیل کتاب کے محققین ( محققین موسسۃ آل البیت ) نے کتاب کی پہلی جلد میں دی ہے، 9 چونکہ یہ کتاب متقدمین کی کتب کےمواد کا محض مجموعہ ہے، اس لئے اس کا الگ سے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی، لیکن مفصل ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر کیا گیا ہے، یہ کتاب استرابادی کی منہج المقال کے ہو بہو مشابہ ہے، بلکہ دقت نظر سے اسی کا چربہ اور نقل معلوم ہوتی ہے، استرابادی کی کتاب کا ذکر ما قبل میں آچکا ہے، اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
"ویظہر الحائری فی ھذا الکتاب متاثرا باستاذہ الوحیدالبھبانی ، بل یذہب المحدث النوری الی ان الکتاب احتوی اتمام تعلیقہ استاذہ، وھذہ احدی اھم اسباب شہرۃھذا الکتاب، ھذا ھو التاثر الاول لہ، کما تاثر ایضابالاسترابادی صاحب منہج المقال، وسیظہر ھذا واضحا فی معالم الکتاب10
یعنی بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس کتاب میں شیخ حائری اپنے استاذ وحید بھبانی سے متاثر ہے، ( وحید بھبانی نے منہج المقال پہ ہی تعلیق لکھی ہے، جسے عموما تعلیقہ الوحید البھبھانی کہا جاتا ہے ۔ )بلکہ محدث نوری تو اس طرف گئے ہیں، کہ یہ کتاب استاذ کی تعلیق کا ہی اتمام ہے، یہ وجہ اس کتاب کی شہرت کے اسباب میں سے اہم سبب ہے، اس تاثر کے ساتھ مصنف استربادی منہج المقال کے مصنف سے بھی متاثر ہیں، جیسا کہ کتاب کی خصوصیات کے بیان میں یہ بات عنقریب واضح ہوجائے گی۔
اس کتاب میں شیخ حیدر حب اللہ کے بقول چار ہزار چار سو انانوے (4479) رواۃ کا ذکر ہے، جبکہ استرابادی کی کتاب میں چار ہزار چھبیس (4026) رواۃ تھے، کما مر۔ اسی طرح یہ کتاب شیخ استرابادی کی کتاب کی طرح رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے کسی خاص تقسیم کے بغیر محض مواد کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، اس لئے جرح و تعدیل کے اعتبار سے چنداں مفید نہیں ہے، رجالی تراث میں جس جس راوی کے بارے میں کوئی قول جرح یا تعدیل منقول ہے، تو مصنف نے بھی اسے نقل کیا ہے، ورنہ صرفِ نظر کیا ہے، مقالہ نگار نے اس کی پہلی جلد کا جرح و تعدیل کے اعتبار سے صفحہ بہ صفحہ جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ پہلی جلد میں کل 282 راوی ذکر ہیں، جن میں 140 کے قریب رواۃ کے بارے میں توثیق یا تضعیف کا قول نقل کیا گیا ہے، اس سے باقی جلدوں کے رواۃ کی تقویم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ اس کتاب کی پہلی جلدوں میں رواۃ کا تذکرہ رجالی تراث سے جمع کرنے میں زیادہ بسط سے کام لیا گیا ہے، لیکن جوں جوں کتاب آگے بڑھتی ہے، رواۃ کے احوال اختصار میں تبدیل ہوتے گئے، یہاں تک کہ کتاب صرف فہرست میں تبدیل ہوئی ہے، چنانچہ پہلی جلد میں محض 282 رواۃ کا ذکر ہے، جبکہ آخری ساتویں جلد میں بارہ سو بیاسی (1282) رواۃ کا ذکر ہے، حالانکہ آخری جلد کے سو صفحات خاتمہ پر بھی مشتمل ہیں، جس میں بعض رجالی قواعدو مباحث ذکر کئے گئے ہیں۔
حواشی
- دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال، ص 272
- منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، استرابادی، ج1، ص179
- منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، ج1ص304، رقم الترجمہ: 106
- دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 272
- نقد الرجال، سید تفرشی، ج1، ص 34
- دروس فی تاریخ علم الرجال، ص288
- الوجیزہ فی علم الرجال، محمد باقر مجلسی، ص 140
- الوجیزۃ: ص141
- منتہی المقال، ابو علی الحائری، ص19 تا 33، ج1
- دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 245-246
(جاری)
فکری شبہات کی دلدل اور اہل علم کی ذمہ داری
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس کے فضلاء جوں جوں اپنی تعلیم کی تکمیل کے مرحلہ کی طرف بڑھتے ہیں ان کے ذہن میں تذبذب اور شک کی کیفیت ابھرنے لگ جاتی ہے کہ اب آگے کرنا کیا ہے اور اپنے مستقبل کو کس شعبے سے وابستہ کرنا ہے؟ یہ بات بالکل درست ہے اور اس سلسلہ میں میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ اساتذہ کو اپنے شاگردوں پر نظر رکھنی چاہیے اور جس شاگرد کو دینی و معاشرتی ماحول کے جس دائرے کے لیے زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اس ماحول میں اسے ایڈجسٹ کرنے کے لیے اس کی راہنمائی کرنی چاہیے۔
مگر میں شک اور تذبذب کے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا جس نے ہماری نئی نسل کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اور یہ فکری شکوک و شبہات کا فتنہ ہے اور مغربی تہذیب و فلسفہ کی یلغار کا فتنہ ہے جس کے اثرات نئی نسل کے ذہنوں میں مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ہم اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ کسی بھی قوم اور ملت میں باہر سے آنے والے فلسفے اور افکار ہمیشہ فکری خلفشار کا باعث بنتے ہیں، ان کا ہوش مندی کے ساتھ سامنا کر لیا جائے تو قومی روایات اور ملی اقدار کو بچایا جا سکتا ہے، جبکہ نظر انداز کر دینے یا بغیر سوچے سمجھے نمٹنے کے باعث قوم اپنی تہذیب و روایات سے محروم ہو جاتی ہے۔
ہمیں اپنے عقائد اور ایمانیات کے حوالہ سے پہلے بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کے ادوار کے بعد یونانی فلسفہ ہماری طرف منتقل ہونا شروع ہوا تھا اور اس نے ہمارے عقائد اور ایمانیات کے ماحول میں خلفشار پیدا کر دیا تھا۔ معتزلہ اور دیگر عقل پرست طبقوں نے شکوک و شبہات اور بے یقینی کا طوفان کھڑا کر رکھا تھا اور اس مہم کو عباسی دور میں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو گئی تھی۔ اس دور کے کلامی مسائل اور اعتقادی اختلافات پر ایک نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ وہ کم و بیش سب ہی یونانی فلسفہ کی پیداوار تھے جن کا اس دور کے علماء کرام نے سامنا کیا اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد و روایات کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔ مگر اس کے دو الگ الگ دائرے تھے۔
معتزلہ وغیرہ کی فکری حشرسامانیوں کے مقابلہ میں روایت کے دائرہ میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ سامنے آئے اور خلقِ قرآن کے مسئلہ پر عقل پرستوں کے موقف کو تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لاؤ گے تو تمہاری بات سنوں گا، اس کے بغیر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اس انکار پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کوڑے بھی کھائے مگر پوری استقامت اور عزیمت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹ گئے۔ جس سے اس محاذ پر اہل سنت کو سرخروئی حاصل ہوئی۔
جبکہ اس کے ساتھ دوسرا دائرہ امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ کا بھی تھا جنہوں نے ان فکری فتنوں کا مقابلہ عقل اور درایت کے ہتھیاروں سے کیا۔ انہوں نے خود یونانی فلسفہ پر عبور حاصل کیا اور یونانی فلسفہ کی نفسیات اور زبان میں انہی کے دلائل سے عقل پرستوں کو لگام دی۔ چنانچہ یہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے کہ یونانی فلسفہ کی یلغار سے اہل سنت کے عقائد و روایات کو شکوک و شبہات کے جس طوفان کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کا رخ موڑنے کے لیے روایت کے ماحول میں امام احمد بن حنبلؒ جبکہ درایت کی دنیا میں امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابومنصوری ماتریدیؒ نے علماء اہل سنت کی قیادت فرمائی۔
میں نے یہ صورتحال اس لیے عرض کی ہے کہ آج ہمیں بھی اسی قسم کی فکری یلغار کا سامنا مغربی فکر و فلسفہ کی طرف سے کرنا پڑ رہا ہے اور ہماری نئی نسل مغربی فلسفہ و تہذیب کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ میری اہل علم و دانش سے گزارش ہے کہ اس طرف اسی طرح کی سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے جس طرح یونانی فلسفہ کی دخل اندازی کے جواب میں امام احمد بن حنبلؒ، امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ نے جدوجہد کی تھی۔ جبکہ ہماری معروضی صورتحال یہ ہے کہ روایت کے ماحول میں تو بحمد اللہ کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے اور ہمارے دینی مدارس قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ و ارشادات کے ذریعے روایت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں مسلسل مصروف ہیں مگر درایت کے ماحول میں وہ صورتحال ابھی تک سامنے نہیں آئی جس کی ضرورت ہے۔ جبکہ امت مسلمہ کی نئی نسل کو شکوک و شبہات کی دلدل سے نجات دلا کر ایمان و یقین کے ماحول میں واپس لانے کے سلسلہ میں یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔
اس کے لیے میں ایک عرصہ سے یہ آواز لگا رہا ہوں کہ امام احمد بن حنبلؒ کے ساتھ ساتھ ابو الحسن اشعریؒ اور ابو منصور ماتریدیؒ کی جدوجہد کو زندہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم مغربی فلسفہ و نظام کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے اسی کی فریکونسی، طرز استدلال، نفسیات اور زبان میں اس کا جرأت و حوصلہ کے ساتھ سامنا کریں اور اپنے عقائد و روایات کا تحفظ کریں۔ ہمارے ماحول کے طلبہ اور نوجوان اساتذہ خود اس کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس لیے شکوک و شبہات کے ماحول سے نمٹنے کے لیے نئی نسل بالخصوص طلبہ و اساتذہ کی راہنمائی آج کے دور کا سب سے اہم علمی و فکری تقاضہ ہے جس کی طرف ارباب علم و دانش کی سنجیدہ توجہ درکار ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
مسجد کا ادارہ اور امام وخطیب کا کردار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کی سیرت چیئر کے زیراہتمام ۱۸ و ۱۹ جنوری ۲۰۲۲ء کو ائمہ و خطباء کے لیے دو روزہ تربیتی ورکشاپ کی افتتاحی نشست منعقدہ ۱۸ جنوری میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عزت مآب وائس چانسلر صاحب! قابل صد احترام مہمان خصوصی اور معزز شرکاءِ محفل!
اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے اس پروگرام میں شرکت میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور اس سے اس عظیم ادارہ کے ساتھ پرانی نسبتیں بھی تازہ ہو رہی ہیں۔ اس کا پہلا دور جامعہ عباسیہ کے عنوان سے ہماری تاریخ کا حصہ ہے جس کی علمی و دینی خدمات ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، بالخصوص حضرت علامہ غلام محمد گھوٹویؒ کا نام سامنے آتا ہے اور ختمِ نبوت کے تاریخی مقدمہ بہاولپور کے حوالہ سے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت علامہ گھوٹویؒ کا تذکرہ نظر سے گزرتا ہے تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ اس کے بعد اس عظیم تعلیمی مرکز کا وہ دور بھی ہمارے سامنے ہے، جب اسے دینی و عصری تعلیمات کے امتزاج کا مرکز بنایا گیا اور اس نے جامعہ عباسیہ سے جامعہ اسلامیہ کا سفر طے کیا، جس میں ملک بڑی بڑی علمی شخصیات نے اسے اپنی جولانگاہ بنایا اور میرے جیسے کارکنوں کو یہ امید لگ گئی کہ دینی و عصری تعلیم کے درمیان جو تفریق برطانوی استعمار کے دور میں پیدا کر دی گئی تھی اسے ختم کر کے اس سے پہلے دور کی طرح دینی و عصری علوم کی یکساں تعلیم کا ماحول دوبارہ دیکھنے کو مل جائے گا، مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا اور ہم آج اسی تعلیمی ادارہ میں اس سے مختلف ماحول میں کھڑے ہیں۔
میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور اس کے حوالہ سے محترم وائس چانسلر صاحب کی موجودگی میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ میں آج بھی خود کو ذہنی طور پر اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے اسی دور میں کھڑا دیکھتا ہوں جو جامعہ عباسیہ اور جامعہ اسلامیہ کے ملاپ کا دور تھا اور دینی و عصری تعلیمات کے امتزاج کا دور تھا۔ کیونکہ ہماری قومی تعلیم کی اصل ضرورت تعلیم کا وہی دور ہے، ہمیں آج پھر اس طرف واپس لوٹنا ہو گا، ورنہ ہم اس تفریق کو ختم نہیں کر پائیں گے جس نے ہمیں تقسیم کر رکھا ہے۔ میں اپنے موضوع کی طرف آنے سے قبل محترم وائس چانسلر صاحب سے یہ درخواست کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دور کی طرف واپسی کا راستہ نکالیے، ہم اس میں آپ کے ساتھ ہیں اور اس کو موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی تعلیمی ضروریات کا اصل حل سمجھتے ہیں۔
پہلے تو مسجد کی بات کر لیں کہ ہمارے معاشرے میں مسجد کی حیثیت کیا ہے؟ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ مسجد مسلم معاشرہ میں دل کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ مدرسہ کو دماغ کا مقام حاصل ہے۔ مسجد مسلم سوسائٹی کا اعصابی مرکز ہے اور مسلم آبادی کا زیرو پوائنٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں انسان کی آبادی کا آغاز بیت اللہ کے قیام سے کیا تھا ’’ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا‘‘ میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ کے جبر کے ماحول سے نکل کر آزاد ماحول میں قدم رکھا تو قبا کے چند روزہ قیام میں بھی پہلے مسجد بنائی۔ اور پھر مدینہ منورہ میں قیام کیا تو وہاں بھی اپنے گھروں سے پہلے مسجد کی تعمیر کا اہتمام فرمایا۔ اس لیے مسجد مسلم آبادی میں زیرو پوائنٹ ہے اور اعصابی مرکز ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز مسجد ہی ہے اور اسی سے مسلم آبادی کا آغاز ہوتا ہے۔
مسجد کے اعمال کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں سے عبادت، وعظ و نصیحت، اور تعلیم و تدریس کا ماحول تو آج بھی قائم ہے۔ مگر مسجد کے بہت سے اعمال آج متروک ہو چکے ہیں جنہیں دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے دو کی طرف آج کی محفل میں توجہ دلانا چاہوں گا۔
- مسجد کا ایک کردار یہ رہا ہے کہ اس سے متعلقہ ماحول میں اگر کوئی جھگڑا یا تنازعہ پیدا ہوا تو مسجد نے مصالحت کنندہ کا کا کردار ادا کیا، آج کے دور میں اسے کونسلنگ کہا جاتا ہے جو ہماری بہت بڑی معاشرتی ضرورت ہے کہ عدالتوں میں مقدمات کی بھرمار عدل و انصاف کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ میرے خیال میں مسجد کا امام و خطیب اور انتظامی کمیٹی اگر اپنے ماحول میں کونسلنگ کا یہ کردار سنبھال لیں تو ہمارے بے شمار مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد عدالتوں کے اخراجات اور تنازعات میں وسعت کے چکر سے بچ جائے گی اور یہ قوم کے ساتھ بہت بڑی نیکی شمار ہو گی۔
- جبکہ دوسری بات جس کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں وہ رفاہی اور سماجی خدمت کا میدان ہے۔ قرونِ اولیٰ میں مسجد کا یہ کردار بھی تھا کہ اپنے ماحول میں ضرورت مندوں، معذوروں اور محتاجوں کی ضروریات کا مسجد میں خودبخود اہتمام ہو جایا کرتا تھا۔ یہ بھی مسجد کے امام اور کمیٹی کی توجہ کا کام ہے، اگر وہ اس میں سنجیدہ ہو جائیں تو ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا ماحول ریاستی سطح پر نہ سہی مگر پرائیویٹ سطح پر کسی نہ کسی حد تک ضرور بنایا جا سکتا ہے۔
جہاں تک فقہی اختلافات اور ائمہ مساجد کے رویہ کا معاملہ ہے تو اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ زیادہ تر اختلافات فقہی دائرہ کے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ بات مسلّمہ ہے کہ فقہی اختلاف اسلام اور کفر یا حق و باطل کے دائرہ کا نہیں ہوتا بلکہ اس کا دائرہ خطا اور صواب کا ہوتا ہے۔ فقہی مسائل میں اگر ہم ایک امام کے قول پر عمل کرتے ہیں تو ’’صواب یحتمل الخطاء‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ اور کسی امام کے قول پر عمل نہیں کرتے تو ’’خطاء یحتمل الصواب‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ فقہی اختلاف حق و باطل کا نہیں بلکہ صواب و خطا کا اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ہم اس اصول کو سمجھ لیں اور اس کی پاسداری کا اہتمام کر لیں تو بہت سے جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں۔
اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل میں دینی تعلیمات سے بے خبری اور مغربی میڈیا کی فکری یلغار کی وجہ سے جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، ان کی طرف سنجیدہ توجہ دینا امام و خطیب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اپنے ماحول کے نوجوانوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو محبت و پیار اور دلیل اور استدلال کے ساتھ صاف کرنے کی ضرورت ہے اور مساجد کے ائمہ و خطباء کو اس کی تیاری اور اہتمام کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
بانجھ مزرعۃ الآخرہ سے مولانا سنبھلی کی رحلت
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
ہزار سالہ تہذیب اسلامی کے بوجھ تلے دبی، سسکتی اور نالہ کناں دلی نے 23 جنوری2022 کوایک اور تناور اور شجر سایہ دار اپنی خمیدہ کمر سے اتار کر حوالہ مرقد کردیا۔ نہ ہوئے اپنے ملا واحدی کہ زوجات ثلاثہ کے شوہر نامدار ہو کر بھی عاشق صادق جیسی تہمت حسنہ کے سزاوار ہوئے بھی تو اس عروس البلاد دلی کے جو بقیۃ السلف کو لپڑ لپڑ کھا رہی ہے کہ اس کی جوع البقر ہل من مزید کے وظیفے پڑھے جا رہی ہے۔ اب کھانے کو رہ ہی کیا گیا ہے؟ ادب آداب سے کچھ استثناء مانگ کر ورنہ اپنے قبلہ گاہی ملا واحدی سے میں ضرور پوچھتا کہ اپ خود تو یہاں کراچی میں ایک دو نہیں، نو ادبی جرائد کی جولان گاہ آباد کر کے ٹھسے سے بیٹھ گئے ہو اور ہم واہگہ سے ادھر کے بھولے بھالے ناشناسان دلی کو زندگی بھر سیر بھی کرائی آپ نے تو سبز باغوں کی۔ دوسرے بھلے مانس اشرف صبوحی لاہور میں دم سادھے بیٹھ گئے. عاشق صادق تو وہ بھی مرتے دم تک اسی عروس البلاد ہی کے رہے، پر انہوں نے ملا واحدی جیسا غل نہیں مچایا۔ رہے تیسرے امیدوار دلی خواجہ حسن نظامی ! تو تقسیم ہند سے پیدا شدہ وامق و عذرا کی اس عاشقی معشوقی کے جڑ پکڑنے سے پہلے ہی وہ 1955 میں چرخ نیلی فام کے ادھر کہیں محمل نشیں ہو کر رہ گئے۔مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بھی گئے، نور اللہ مرقدہٗ۔ میری نہ تو ان سے کبھی کوئی ملاقات ہوئی, نہ مجھے ان سے خط و کتابت کا اعزاز ملا۔ بس ان کی تحریروں کی اسیری کا اعزازی طوق گلے میں لٹکائے یوں پھر رہا ہوں کہ رازداران اساطیری ادب کہتے ہیں کہ زنگ آلود لوہا سنگ پارس سے مس ہو جائے تو سونا بن جاتا ہے۔ پس لکھوں تو کیا؟ لیکن میلان سہل پسند ہو اور ہو بھی بصورت شکرخورہ ہو تو شکر ادھر ادھر کہیں سے مل ہی جاتی ہے۔ عرب کہتے ہیں، تعرف الاشیاء باضدادہا، "چیزیں اپنی شناخت اپنی ضد سے کراتی ہیں۔" چیزوں کو علی الاطلاق لوگے تو ان میں مولانا محترم جیسے انفس متبرکہ بھی آ جاتے ہیں۔ اتنا کہے دیتا ہوں کہ لگ بھگ اڑھائی عشرے تک مولانا محترم اور میرے چچا مرحوم، ملک خداداد ہم جلیس، ہم نوالہ و ہم پیالہ و ہم دوش رہے۔ 25 سالہ باہمی برطانوی قربت کے بعد اگلے تیس سال چچا نے تو پاکستان میں گزارے۔مولانا البتہ اس آخری حصے میں برطانیہ میں تو رہے لیکن سال میں تین چار ماہ کے لیے ہندوستان آتے جاتے رہے۔ عمر کے آخری حصے میں یہ سلسلہ موقوف کرکے وہ مستقلاً ہندوستان ہی میں رہے۔ یوں یہ دونوں اللہ والے پچاس پچپن سال تک یک جان و دو قالب رہے پچھتر سال سے صبح شام باہم خوخیاتے ان کے دو متحارب ملکوں --- ہندوستان ، پاکستان--- کی ایٹمی توانائی بھی اس تعلق خاطر میں ہلکا سا ضعف نہ پیدا کر سکی۔ تو عرصہ رفاقت کتنا رہا؟ دو چار برس کی بات نہیں، یہ نصف صدی سے بھی متجاوز ہے, ہاں جی ! مجھے تو ہمیشہ کچھ یوں لگتا رہا کہ میرا ایک اور چچا، یا شاید تایا،ادھر کہیں دلی لکھنؤ میں بھی موجود ہے۔
یادش بخیر ! مدت مدید کی رفاقت کے بعد ایک دن رواروی میں اپنے یہاں کے مولانا زاہدالراشدی محترم کو بتا بیٹھا: "حضور ! آپ سے ایک تعارف اور بھی نکلتا پڑتا ہے"۔مستفسرانہ سکوت مولانا موصوف کا بجائے خود ایک تعارف ہے۔عرض کیا: "آپ سے گاہے ماہے ملک خداداد صاحب کا ذکر اذکار سنتا رہتا ہوں اور ایسا ہی کچھ ان سے آپ کی بابت بھی ملتا رہتا ہے۔" مولانا مسکرائے، پھر بولے: "تو پھر؟ آگے چلو!" عرض کیا: " ملک صاحب میرے حقیقی چچا ہیں۔" مولانا راشدی ذرا دیر صامت رہے، پھر بولے بھی تو یوں : "تو گویا اب مجھے آپ سے بھی ڈرنا پڑا کرے گا۔ صاحب ! آپ کے چچا تو بڑے خوفناک شخص ہیں. بابا ! ہم تو ان سے بہت ڈرتے ہیں." قارئین کرام ! منجملہ دیگر اضداد کے، مولانا مرحوم کی اسی ایک ضد الموسوم بہ، ملک خداداد ہی سے اندازہ کر لیجئے کہ وہ لگ بھگ اڑھائی عشرے ہمدم دیرینہ رہے بھی تو کیسے خوفناک شخص کے۔ کیوں؟ وجہ؟
وجہ کا ذکر تو آگے چل کر ہوگا۔ لیکن بروایت عبدالسلام اتنا ضرور بتائے دیتا ہوں کہ مولانا مرحوم خود بھی کچھ کم "خوفناک" نہیں تھے. نوے کی دہائی میں دونوں کے ایک اور ہمدم دیرینہ کے ساتھ چچا کی کچھ شکر رنجی سی ہوئی۔معاملے کو سلجھانے کے لیے چچا نے اس دوست کو خط لکھ کر عبدالسلام کے حوالے کیا کہ جاؤ مولانا کو دے آؤ تا کہ وہ اسے پہنچا دیں۔ خط کھلا ہوا تھا کہ دینے سے پہلے مولانا خود پڑھ لیں۔ تحریر کی شدت چچا کی افتاد طبع کی شاہکار تھی، پڑھتے ہی مولانا برافروختہ ہو گئے۔ ہاتھ نچا کر ان الفاظ کے ساتھ خط واپس عبدالسلام کے حوالے کردیا۔ " ابا سے کہہ دو، میں تمہارا ڈاکیا نہیں ہوں". عبدالسلام ہی سے مروی ہے کہ مولانا کے اس عادلانہ جواب کے باعث ڈیڈی خفا ہونے کی بجائے ان کا زیادہ احترام کرنے لگ گئے۔
کسی بزرگ نے اپنے ملفوظات میں لکھا ہے کہ مسجد کے باہر لنگڑے فقیر کے پاس بیٹھے کوے کو دیکھ کر میرا استعجاب دو چند ہو گیا۔ ٹوہ لگانے کو قریب جانے کی کوشش کی تو بزرگوارم پر واضح ہوا کہ کوے کی ایک ہی ٹانگ تھی اور یہی لنگڑے فقیر اور ایک ٹانگ والے کوے کا اشتراک زیست تھا۔
مولانا فاضل دیوبند اور ایک از قسم منارہ نور علمی خانوادے میں سے تھے۔ ادھر چچا خدا داد راولپنڈی کی چٹیل اور سنگلاخ زمین میں رہ کر کچھ کر سکے تو ایک مشہور زمانہ شعر کے مصرعے کے مصداق بس بی اے ہی کیا۔ (بد) گمان غالب ہے کہ پھر کہیں سے اکبر الہ آبادی کا وہ والا شعر پورا سنا پڑھا ہوگا۔ چنانچہ خفا ہو کر، تہیہ کر کے نہ تو نوکر ہوئے، نہ پینشن پائی:
ہم کیا کہیں، احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے
قرآن وسنت کی الہامی راہنمائی کو عام کرنے کی خاطر ادھر کا وہ فاضل دیوبند فقیر اور ادھر کا یہ محض گریجویٹ کوا، دونوں مسجد کے باہر بیٹھے ہیجان کا شکار رہتے تھے۔ اضداد کو تو رکھئے ایک طرف ،یہی دونوں کا نقطہ اتصال تھا، یہی ان کی قدر مشترک تھی۔مولانا مرحوم 1967 میں برطانیہ پہنچے تو چچا کو وہاں لگ بھگ سات سال ہو چکے تھے، چچا نے برطانیہ میں اور کچھ کیا یا نہیں ، اپنے گھر کو انہوں نے پاک و ہند کا ایک ننھا سا مرکز اسلامی ضرور بنا ڈالا۔ وہیں مولانا محترم اور مرحوم چچا طویل عرصہ تک دعوت اسلامی کے نت نئے منصوبے بناتے رہے تھے۔ الحمدللہ، آج برطانیہ کے طول و عرض میں قائم مساجد اور مراکز اسلامی گننے میں ختم نہیں ہوتے لیکن ساٹھ کی دہائی میں کسی چھوٹے سے مصلے کے لیے مؤذن تک نہیں ملتا تھا۔ اس عالم میں بھی چچا نے میرے عم زاد عبدالسلام کو قرآن حفظ کرایا۔
اب یہ سمجھنا میرے لیے خاصا مشکل ہے کہ وہ کثیر العیال شخص برطانیہ کے ناپے تولے محدود سے وقت میں یہ سب کچھ کیسے کرتا رہا۔ ابھی پار سال 2020 میں ان کی رحلت سے ذرا قبل ملاقات ہوئی تو کمر پکڑے اذیت گزیدگی کی حالت میں بھی حسب معمول وہ کمپیوٹر پر بیٹھے معاون کو ہدایات دے رہے تھے کہ یہ اسلامی خط و کتابت کورس ان خطوط پر شروع کرو، اسے یوں لکھو، یہ کتاب فلاں کو بھیجو۔ میرے پاس ثبوت تو نہیں، پر گمان یہی ہے کہ محض گریجویٹ چچا کی اس اسلامی بیٹری کو انگیخت کرنے میں مولانا محترم کا بھی بڑا حصہ رہا ہو گا۔ میرے لیے یہ جاننا خوشی اور سعادت کا باعث ہے کہ برطانیہ سے چچا کے پاکستان آ جانے پر عبدالسلام اور ان کی نصف بہتر، میری سب سے چھوٹی بہن دونوں کا مولانا محترم سے تعلق، مولانا زاہد الراشدی والے "خوفناک" تعلق سے دھندلا کر نیاز مندانہ پیرائے میں ڈھل گیا۔ یہ تعلق مولانا کے تادمِ رحلت، پہلے سے بہتر خطوط پر قائم رہا۔
مرحوم مولانا محترم کے مالی اثاثہ جات کا تو مجھے کچھ علم نہیں، لیکن ان کے علمی اثاثہ جات لپیٹ کر ایک طرف رکھ دوں تو بھی امید مستحکم ہے کہ چھ مجلدات کی محفل قرآن ہی ان کی نجات کے لئے کافی ہے۔ باقی رہیں دیگر تحریریں اور الفرقان وغیرہ، تو ممکن ہے، یہ کچھ انہیں وہاں، ادھر جنت میں، محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب دلانے میں معاون ثابت ہو، آپ یقیناً اتفاق کریں گے؟ پرسوں پرلے سال علی گڑھ سے برادر بزرگ ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی، ہائے ہائے ! اب مرحوم، ادھر پاکستان آئے تو میں نے انہیں برصغیر کی چھ آٹھ معروف تفاسیر اور مفسرین کے نام سنا کر استفسار کیا: "ڈاکٹر صاحب پاک و ہند میں ان کے بعد اردو میں کیا کوئی نئی تفسیر لکھی جا رہی ہے؟ اگر ہاں تو کون کون لوگ لکھ رہے ہیں اور ان کی جہت کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب ڈبڈباتی آنکھوں سے مجھے تھوڑی دیر تکتے رہے, پھر بات کا رخ بدل دیا۔ صاحبو ! مولانا محترم ہمارے حصے کا فرض کفایہ ادا کر کے رخصت ہوگئے۔ وہ تاریخ انسانی کے اس زوال ناک عہد میں رخصت ہوئے کہ جب ہماری یہ مزرعۃ الآخرہ بانجھ ہو چکی ہے ( الدنیا مزرعۃ الآخرۃ، حدیث ہے جس کا ترجمہ ہے، دنیا آخرت کی کھیتی ہے)۔
تفسیر، حدیث، ادب، افسانہ، ڈراما، اصول تاریخ، موسیقی، ریاضی، فلسفہ، کسی شعبے میں کوئی جدت، کوئی تخلیق، کوئی ندرت، کوئی صدائے حرف کاف و نون، بدر کامل نہ سہی ادھورا سا ماہ نخشب ہی سہی، یا کوئی ظہور برج طالع ولادت دیکھنے، سننے، پڑھنے کو ملتا تو میں آخرت کی اس بانجھ کھیتی کو نخلستان و گلستان کہہ گزرتا۔ مولانا محترم تو اس حیات ناپائیدار میں ہمیں اتنا کچھ دے کر، اور خود وتنا کچھ سمیٹ کر رخصت ہوئے کہ جنت کے کسی مفروضہ یا موہومہ جاڑے میں در بند ہو کر بھی اصحاب کہف کے مثل، لیکن کھلی آنکھوں، مدت گزار سکتے ہیں۔ رنجیدگی، حزن ، ملال، تاسف، افسوس، آزردگی اور دیگر مماثل جذبے خالق کائنات نے انسان کی نیو میں ڈال رکھے ہیں۔ ان سے برات نہ تو مولانا کے اپنے اہل خانہ کو مل سکتی ہے اور نہ ہم جیسے دیگر متعلقین ان سے پنڈ چھڑا سکتے ہیں۔ میرے اپنے لئے تو یہ حزن یوں دو چند ہے کہ اتنی فکری ہم آہنگی کے باوجود ان سے کوئی ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ رہی مولانا کی رحلت تو پیغمبروں سے زیادہ اللہ میاں کا کوئی چہیتا نہیں ہوتا۔ چنانچہ آئیے !مولانا کی رحلت کو ہم سب مل کر بزبان امیر مینائی یوں بیان کرتے ہیں:
فنا کیسی، بقا کیسی جب اس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آ نکلے، کبھی اس گھر میں جا ٹھہرے
قید حلقہ ہائے زنجیر صبح و شام سے نجات پانے والا وہ ہم سب کا چہیتا, وہ ہمارا مولانا محترم, جب وہ اس اسیری سے اپنا بند قبا چھڑا کر اور ارضی زندان سے نکل کر اپنے آشنا کے بے ثغور و بےکراں آسمانی چوبارے میں جا بیٹھا تو صاحب ! مجھے تو حزن کے پہلو بہ پہلو کچھ رشک سا بھی ہو رہا ہے۔خدا لگتی کہیے ! کسی جدت, کسی تخلیق, کسی ندرت, کسی صدائے حرف کاف و نون سے خالی یہ مزرعۃ الاخرہ کیا ہمارے آپ کے رہنے کے لائق رہ گئی ہے؟ بہر زمین کہ رسیدم آسمان پیدا است۔ اتنی صحرا نوردی کے بعد وسیع تاکستان نہ سہی، کہیں ننھا سا تمرھندی ہی نظر آ جاتا۔ ان معنوں میں تو مولانا واقعی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ الا ! اس بانجھ مزرعۃ الآخرہ سے خالق کائنات اپنے تمام چہیتے احسن تقویم تیزی سے سمیٹ رہا ہے۔ و اخرجت الارض اثقالہا، صاحبو ! مجھ میں تو مالہا کہنے کا بھی یارا نہیں ہے۔
بچے کو گود دینا، مادہ تولید کی سپردگی اور کرایے کی کوکھ (Surrogacy)
ڈاکٹر عرفان شہزاد
اپنے والدین سے پرورش پانا، بچے کابنیادی اور فطری حق ہے۔والدین کا اپنی اولاد کسی دوسرے کی گود بھرنے کے لیے اس کے سپرد کر دینا بچے کے بنیادی حقوق کے خلاف مجرمانہ اور سنگدلانہ اقدام ہے۔ انھیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ بچے کو اپنی ممتا اور شفقتِ پدری سے محروم کر دیں۔ بچہ اوّل و آخر اُنھیں کی ذمہ داری ہے۔ بچے کو دنیا میں لانے کا فیصلہ انھیں اسی وقت کرنا چاہیے جب وہ اس کی ذمہ داری کو خود نبھانے کا ارادہ اور استطاعت رکھتے ہوں۔بچے کو کسی دوسرے کے حوالے سوائے اس مجبوری کے نہیں کیا جا سکتا کہ والدین دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، یا وہ بچےکو پالنے کے قابل نہیں رہے۔
اس کے باوجود بچے سے اس کے حقیقی والدین کی شناخت چھینی نہیں جا سکتی۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ اس سے اس کا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ یہی دین کا حکم ہے۔
وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (القرآن، 33: 4-5)
اور (خدانے) نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا بیٹا بنادیا ہے۔ یہ سب تمھارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، مگر اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ تم منہ بولے بیٹوں کو اُن کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ پھر اگر اُن کے باپوں کا تم کو پتا نہ ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے حلیف ہیں۔ تم سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے، اُس کے لیے تو تم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔
والدین، بچے کی شخصیت اور پرداخت میں صرف اتنا ہی تصرُّف کر سکتے ہیں جو بچے کے حق میں ہو، اس کے خلاف کسی تصرُّف کا انھیں کوئی حق نہیں۔ جس طرح وہ بچےکو قتل نہیں کر سکتے، اسے بیچ نہیں سکتے، اسی طرح وہ اسے اپنی ممتا اور شفقت سے محروم کر کے کسی دوسرے کے حوالے بھی نہیں کر سکتے۔
یہ کوئی ایثار نہیں کہ اپنے کسی عزیز کی خالی گود بھرنے کے لیے اپنے جگر کا ٹکڑا اسکے حوالے کر دیا جائے۔ ایثار اپنی ذات کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اپنا حق چھوڑا جاتا ہے، کسی دوسرے کا حق تلف کرکے کسی کا بھلا نہیں کیا جاتا۔
لے پالک بچے کو جب یہ علم ہوتا ہے کہ جن کو وہ اپنے حقیقی والدین سمجھتا رہا ہے وہ اس کے حقیقی والدین نہیں، اس کے حقیقی والدین کوئی اور ہیں، تو اس کی دنیا اُتھل پُتھل ہو جاتی ہے۔ پھر جب وہ یہ باور کرتا ہے کہ اسے گویا ایک "زائد شے" سمجھ کر کسی کا دل بہلانے یا اس کی تنہائی دور کرنے کے لیے اس کے سپرد کر دیا گیا تھا، تو اسے اپنی توہین کا احساس ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کو دیمک کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔
یہاں مریم علیھا السلام کی والدہ کا مریم علیھا السلام کی پیدایش سے پہلے انھیں خدا کے نام پروقف کردینے کے واقعے1 سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو بچوں کے کیرئیر کے انتخاب اور انھیں کسی دوسرے کے سپرد کر دینے کا حق حاصل ہے۔ درحقیقت، یہ مادرِ مریم کی طرف سے اپنی خواہش کا اظہار تھا کہ وہ انھیں دین کی خدمت اور خداکے نام پر وقف کرنا چاہتی تھیں۔ مگر مریم علیھا السلام پر لازم نہ تھا کہ شعور کی عمر کو پہنچ کر وہ اس کی پابند رہتیں، ایسے ہی جیسے بچپن کے نکاح کی پابندی شعور اور بلوغت کے بعد واجب نہیں ہوتی۔ یہ اور بات ہے کہ مریم علیھا السلام کی اپنی طبیعت بھی اسی طرف مائل رہی اور والدہ کی خواہش پوری ہوئی۔
پھر یوں نہیں ہوا کہ ان کے پیدا ہوتے ہی انھیں دین کے خدّام کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ یقیناًیہ اقدام ان کی شعوری عمر کے بعد ہی کیا گیا ہوگا۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں، مگر اصولی طور پر اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو خدا کے لیے ذبح کر رہے ہیں تو انھوں نے اس پر، بلا کسی تاویل کے، عمل کرنے سے پہلے اپنے بیٹے کی راے لی تھی، اور بیٹے کی رضامندی کے بعد ہی اقدام کیا تھا۔
اللہ تعالی نے اپنی حکمت اور رحمت کی بنا پر مریم علیھا السلام کی والدہ کی اس خواہش کو قبول کیا، مگر یہ کوئی قاعدہ نہ تھا جس کا التزام ضروری تھا۔ چنانچہ اس واقعہ سے کوئی عمومی اصول وضع نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو بچوں کے کیرئیر یا انھیں دوسروں کے حوالے کردینے کا اختیار ہے۔ تاہم، بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایسا کوئی فیصلہ اگر کرنا ہی پڑے تو یہ تب ہی کیا جا سکتا ہے جب بچے باشعور ہوں اور ان کی رضامندی اس میں شامل ہو۔
بے سہارا بچوں کا معاملہ الگ ہے، انھیں گود لینا ایک نیکی کا کام ہے، مگر اس میں بھی انسانی نفسیات اور جذبات کے مذکورہ بالا پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے، خداوندِ عالم نے یہ لازم قرار دیا ہے کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپ کے نام سے، ان کی اصل شناخت ہی سے پکارا جائے۔ باپ اگر نامعلوم ہو، تو انھیں دینی بھائی قرار دیا گیا ہے، لیکن ان کی ولدیت کسی صورت تبدیل نہیں کی جا سکتی2، یہ ایک جھوٹ ہے، جسے گورار نہیں کیا جا سکتا۔
بچے کی جینیاتی شناخت کی حفاظت اور بچے کی نگہداشت میں والدین کی مکمل توجہ میں خلل اندازی سے بچانے کے لیے شریعت میں زنا کو حرام ٹھہرایا گیا ہے، تاکہ والدین کی توجہ اپنے گھرانے باہر نہ بھٹکے۔
جنسی تعلق کی حرمت محض اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس سے میاں اور بیوی کا حق تلف ہوتا ہے، بلکہ اصلاً اس لیے ہے کہ اس سے بچوں کا حق تلف ہوتا ہے: ان بچوں کا حق بھی تلف ہوتا ہے جو جائز تعلق سے وجود میں آئے اور ان کا باپ یا ماں یا دونوں اپنی جنسی آزاد روی کی وجہ سے گھرپر توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے، اور ان بچوں کا حق بھی تلف ہوتا ہے جو زنا کے تعلق سے وجود میں آئے اور انھیں والدین کی مکمل اور مستقل توجہ اور احساس ذمہ داری میسر نہیں، کیونکہ اس ماں اور باپ کے درمیان مستقل رفاقت کے ارادے سے باندھا گیا معاہدہ (نکاح) نہیں ہے۔
اسی بنا پر مستقل رفاقت کے ارادے کی شق کے بغیر کوئی نکاح، درحقیقت نکاح ہی نہیں، کیونکہ اس میں ممکنہ طورپر وجود پذیر ہونے والے بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی باہمی پرورش میسر نہیں ہوتی۔ نکاحِ متعہ کی حرمت کی حقیقت یہی ہے۔
تاہم، بچوں کی پیدائش کے امکان کو اگر معدوم کر لیا گیا ہو تو بھی ایسا نکاح جائز نہیں، اس لیے کہ اِنھیں مرد و و عورت نے کبھی نہ کبھی کسی مستقل رفاقت کے ارادے سے نکاح کرنا اور اولاد پیدا کرنی ہے۔اس لیے اس سے پہلے اس آزاد روی کی اجازت نہیں دی جاسکتی جسے بعد میں بدلنا مشکل ہو جائے یا میاں اور بیوی کے خالص تعلق پر وہ کسی بھی پہلو سے اثر انداز ہو سکے۔
خاندان اور اولاد کی فطری ضرورت اور خواہش سے لوگ عام طور پر عاری نہیں ہوسکتے۔ مستثنیات، جو عیال داری سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، زیرِ بحث نہیں۔ عمومی قوانین مستنثیات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنائے جاتے، مگر ان پر بھی عمومی قوانین کی پابندی کرنا لازم ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی طے نہیں کہ ایک شخص جو اس وقت بچوں کی خواہش نہیں رکھتا، جانے کب اپنا ارادہ تبدیل کر لے۔
اسی لیے شادی کے بعد جو جنسی تعلق مستقل رفاقت کے ارادے سے اپنائے گئے شریک حیات سے ماورا ممنوع ہے، وہ شادی سے پہلے بھی ممنوع رہناضروری ہے۔
اسی اصول پر مادہ تولید کا عطیہ یا سپردگی (سپرم اور ایگ ڈونیشن) کا مسئلہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نکاح کا مطلب محض جنسی تعلق کو جواز فراہم کرنا نہیں ہے، یہ عقدِ نکاح اس تعلق کے نتیجے میں وجود میں آنے والے بچوں کی پرورش اور اس سے پیدا ہونے والے جذباتی تعلق کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے باندھا جاتا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان اگر مستقل رفاقت کے ارادے سے باندھا گیا رشتہءِ نکاح نہیں ہے، تو ان کے مادہ تولید کے امتزاج سے بچہ حاصل کر کے ان میں سے کسی ایک یا کسی تیسرےکے حوالے کرنا، بچے کو اس کے حقیقی والد یا والدہ یا دونوں سے محروم کرنا ہے۔
یہی صورتحال زنا میں پیش آتی ہے کہ اس تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو باپ یا ماں اور باپ دونوں کی مستقل اور مکمل توجہ اور ذمہ داری میسر نہیں آسکتی۔ اس سے بچے کی حق تلفی ہوتی ہے، جس کا اختیار کسی کو نہیں۔ ایسے بچوں کی ادارہ جاتی یا سرکاری سرپرستی والدین کی پرورش کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جس سبب سے زنا حرام ہے، مادہ تولید کی سپردگی بھی حرام قرارپاتی ہے۔
نطفے اور بیضے کا عطیہ اعضا کے عطیے جیسا نہیں۔ نطفہ اور بیضہ انسانی وجود کے تشکیلی عناصر ہیں۔ ان سے پورا انسان وجود میں آتا ہے۔ یہ درحقیقت ایک انسان کو عطیہ کرنے کا معاملہ ہے، جس نے باشعور ہونا ہے۔ ایک انسان کو عطیہ کرنے کا اختیار کسی دوسرے انسان کو نہیں ہے، خواہ وہ اس کا والد یاوالدہ ہی ہو۔
اسی بنا پر اسقاطِ حمل کا مطلق اور مکمل اختیار بھی والدین کو ہے، نہ حاملہ کو کہ وہ جب چاہے حمل ختم کر سکے۔ حمل نے اگر انسانی وجود اختیار کر لیا ہے تو اب بلا کسی معقول عذر3 کے اس کا خاتمہ، انسان کا قتل ہے۔ اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ قرآن مجید میں بتایا گیا ہےکہ جنین میں انسانی شخصیت کے ظہور کا مرحلہ مذکور ہوا ہے جو جنین کی نشوونما کے دوران میں کچھ وقت کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (القرآن، 23: 12-15)
ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا تھا۔ پھر اُس کو (آگے کے لیے) ہم نے پانی کی ایک (ٹپکی ہوئی) بوند بنا کر ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھ دیا۔ پھر پانی کی اُس بوند کو ہم نے ایک لوتھڑے کی صورت دی اور لوتھڑے کو گوشت کی ایک بندھی ہوئی بوٹی بنایا اور اُس بوٹی کی ہڈیاں پیدا کیں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اُس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ سو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس کے بعد تم کو لازماً مرنا ہے۔ پھر یہ کہ قیامت کے دن تم لازماً اٹھائے بھی جاؤ گے۔
"أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ" سے یہی مرحلہ مراد ہے جب جنین کا حیوانی وجود انسانی شخصیت حاصل کرتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ یہ مرحلہ رحم مادر میں نطفے کے تقرر سے 120 دن کے بعد آتا ہے4۔
اس حیوانی وجود کا اسقاط بھی کسی عذر کی بنا ہی پر جائز ہو سکتا ہے، مگر انسانی شخصیت اختیار کر لینے کے بعد اس کی حرمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسقاطِ حمل کا فیصلہ والدین کو پوری دیانت داری، خدا خوفی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ کرنا چاہیے۔
میاں اور بیوی کے مادہ تولید سے زائی گوٹ بنا کر، ادھار کی کوکھ (سروگیسی) میں رکھ کر بچہ حاصل کرنا، جسے اس کے حقیقی ماں باپ کا نام اور گود ملے گی، اسے رضاعت پر قیاس کرتے ہوئے درست قرار دیا جا سکتا ہے: جس طرح رضاعی ماں کے دودھ سے بچے کی پرورش ہوتی ہے، اس معاملے میں یہ پرورش اس کے خون سے ہوتی ہے۔ رضاعی ماں ہی کی طرح سروگیٹ ماں اور اس کے خونی رشتے، بچے کے لیے رضاعی محرم ہو جائیں گے۔ رہا معاملہ سروگیٹ ماں کے بچے کے ساتھ جذباتی تعلق کا، تو وہ تعلق رضاعت میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل انسان کو نکالنا ہے۔ اسی پر مزید قیاس کرتے ہوئے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ رضاعت کی اجرت کی طرح سروگیسی کی اجرت لینا بھی درست ہے۔
تاہم یہ کرنا چاہیے یا نہیں، اس کا فیصلہ فرد اور سماج کو کرنا ہے۔
حواشی
(1) إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا (القرآن، 3: 35-36)
اِنھیں یاددلاؤ وہ واقعہ جب عمران کی بیوی نے دعا کی کہ پروردگار، یہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے، اُس کو میں نے ہرذمہ داری سے آزاد کرکے تیری نذر کردیا ہے۔سوتو میری طرف سے اِس کو قبول فرما، بے شک توہی سمیع و علیم ہے۔ پھر جب اُس نے اُس کو جنا تو بولی کہ پروردگار، یہ تو میں نے لڑکی جن دی ہے ـــــ اور جو کچھ اُس نے جنا تھا، اللہ کو اُس کا خوب پتا تھا ـــــــــــــــــ اور (بولی کہ ) وہ لڑکا اِس لڑکی کی طرح نہ [814] ہوتا۔ (خیر اب یہی ہے ) اور میں نے اِس کا نام مریم رکھ دیا ہے اوراِس کو اور اِس کی اولاد کو میں شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (اُس کے احساسات یہی تھے)، تاہم اُس کے پروردگارنے اُس لڑکی کو بڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمایا اور نہایت عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور زکریا کو اُس کا سرپرست بنادیا۔
(2)
القرآن، 33: 4-5
(3) مثلا حاملہ کی جان کو اس سے شدید خطرہ لاحق ہو۔
(4) عَنْ عَبْدِ الله، قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ: «إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً ۲مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ (صحیح بخاری،رقم :6133)
عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا ــــــ اور آپ صادق بھی تھے اور مصدوق بھی ــــــ آپ نے فرمایا:یہ حقیقت ہے کہ تم میں سے ہر آدمی کی خِلقت اُس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی صورت میں جمع رہتی ہے۔ پھر اتنی ہی مدت میں لہو کی پھٹکی ہو جاتی ہے، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کی بوٹی بن جاتی ہے۔ اِس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور وہ اُس میں روح پھونکتا ہے۔
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۳)
ڈاکٹر شیر علی ترین
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا پہلا باب)
پہلا باب: نوآبادیاتی ہندوستان کے ابتدائی عہد میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر غور وفکر
انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ایک موقع پر شمالی ہندوستان کے نامور مسلمان مُصلح شاہ محمد اسماعیل دہلی کی مشہور جامع مسجد کے صحن میں بیٹھے درسِ حدیث دے رہے تھے۔ لوگوں کا ایک مجمع تبرکاتِ نبوی کو اٹھائے مسجد میں داخل ہوا اور مسجد کھچا کھچ بھر گئی۔ یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کی شان میں بآوازِ بلند درود وسلام پڑھ رہے تھے۔ شاہ اسماعیل اس منظر سے بالکل متاثر نہ ہوئے اور انھوں نے اپنا درس جاری رکھا۔ ان کی طرف سے کسی قسم کا رد عمل نہ پا کر جلوس میں شریک لوگوں کو بڑی ناگواری ہوئی۔ "مولانا! یہ کس طرح کا رویہ ہے؟" ان میں سے ایک نے اسماعیل کو طنزیہ انداز میں کہا۔ "از راہِ کرم کھڑے ہو جائیے اور تبرکاتِ نبوی کے سامنے تعظیم بجا لائیے"1۔
تاہم شاہ اسماعیل پھر بھی بے توجہی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ان کی مسلسل بے توجہی نے جلوس کو مزید برافروختہ کیا۔ اب انھوں نے ذرا سخت لہجے میں اپنا مطالبہ دہرایا۔ آخر کار شاہ اسماعیل نے جواب دیتے ہوئے کہا: "پہلی بات یہ ہے کہ یہ تبرکات مصنوعی ہیں، حقیقی نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ اس لمحے میں رسول اللہ ﷺ کے نائب کی حیثیت سے ان کے پیغام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوں، اس لیے میں کھڑا نہیں ہو سکتا"۔ اس تلخ جواب نے پہلے سے مشتعل مجمع کو مزید بھڑکایا۔ نوبت شدید جھگڑے تک نہ پہنچنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ مسجد میں شاہ اسماعیل کے پیروکاروں کی تعداد بھی اتنی ہی تھی جتنی کہ ان کے مخالفین کی۔ اس لیے یہ لڑائی صرف زبانی تلخ کلامی اور تو تو میں میں تک محدود رہی2۔
شاہ اسماعیل کے رویے پر شدید برہم ہو کر جلوس نے ان کے خلاف اس وقت دہلی میں مسند نشیں مغل بادشاہ اکبر شاہ (م 1837) کے پاس باضابطہ مقدمہ دائر کیا۔ انھوں نے شاہ اسماعیل پر گستاخئ رسول کا الزام لگایا اور اکبر شاہ سے مطالبہ کیا کہ انھیں اس گستاخانہ رویے کی سزا دے۔ بادشاہ نے اسماعیل کو دربار میں طلب کیا اور اس واقعے کے دن ان کی طرف سے جامع مسجد میں اختیار کیے کیے گئے طرز عمل کی وضاحت مانگی3۔ دربار میں شاہ اسماعیل نے تسلیم کیا کہ انھوں نے تبرکات کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ مصنوعی ہیں اور یہ کہ انھیں ان کی تعظیم بجا لانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اکبر شاہ نے انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا: "یہ کس قدر نامناسب ہے کہ آپ ان تبرکات کو مصنوعی کہہ رہے ہیں"۔ اسماعیل مسکرائے اور نرمی سے جواب دیا: "جناب، میں نے تو انھیں صرف زبان سے مصنوعی کہا ہے، لیکن آپ تو حقیقت میں انھیں مصنوعی سمجھتے ہیں"۔ اکبر شاہ نے حیرت کے عالم میں پوچھا: "وہ کیسے؟" اسماعیل نے واضح انداز میں کہا: "جناب، سال بھر میں یہ تبرکات دو دفعہ آپ کو زیارت کروانے کے لیے آپ کے پاس دربار میں لائے جاتے ہیں، لیکن آپ خود کبھی ان تبرکات کی زیارت کے لیے دربار چھوڑ کر نہیں جاتے"۔ یہ سن کر بادشاہ لاجواب ہو گیا۔
شاہ اسماعیل نے دربار میں ایک وزیر سے مطالبہ کیا کہ وہ قرآنِ کریم اور بخاری شریف لے کر آئے۔ جب یہ دو کتابیں ان کے پاس لائی گئیں تو انھوں نے انھیں کچھ وقت کے لیے ہاتھوں میں لیا اور پھر انھیں واپس کر دیا۔ پھر وہ دربار میں جمع لوگوں کے سامنے تقریر کے لیے آگے بڑھے۔ اس تقریر میں شاہ اسماعیل نے اس بات کا پرزور اعادہ کیا کہ تبرکات کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ حقیقی ہیں یا مصنوعی۔ "لیکن اگر ہم ان کے مستند ہونے کو تسلیم کر لیں، تب بھی جو تقدس رسول اللہ ﷺ کے پہنے ہوئے جوتے یا لباس کے ایک ٹکڑے کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے، وہ کسی ذاتی شرف کا حامل نہیں۔ اس کے برعکس قرآن کے کلامِ الہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اسی طرح بخاری شریف یقینی طور پر رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں، اور دین میں قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا اور رسول ﷺ کا کلام رسول اللہ ﷺ کے پہنے ہوئے لباس سے زیادہ مقدس ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود جب قرآن اور صحیح بخاری کا نسخہ آپ کے سامنے لایا جاتا ہے تو کوئی تعظیم کے لیے کھڑا نہیں ہوتا۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ لوگ تبرکاتِ نبوی کی تعظیم ان کے تقدس کی وجہ سے نہیں بلکہ رسم پرستی کی بنیاد پر کرتے ہیں"4۔
جیسا کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے، انیسویں صدی کے اوائل میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی روشنی میں رسم ورواج کی شرعی حیثیت نے شمالی ہندوستان کے عوامی حلقوں میں بین المسالک اختلافات میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ شاہ اسماعیل، جو اس کہانی کے اصل کردار ہیں، ایک نئی ابھرنے والی اصلاحی تحریک کی شکل میں سامنے آئے جس نے عرصہ دراز سے چلے آنے والے رسم رواج کو اگر مذہب کے لیے مکمل طور پر نقصان دہ قرار نہیں دیا تو بھی انھیں غیر ضروری کہہ کر شد ومد سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر ان کے نزدیک تبرکاتِ نبوی کی تعظیم ایک غیر ضروری انحراف ہے جس نے دین کی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ مادی تبرکات کا نبی کی ذات سے کوئی خاص تعلق نہیں؛ وہ صرف اشیا ہیں جو کسی بھی قسم کے پیغمبرانہ تقدس سے خالی ہیں۔ ان میں وہ چیز نہیں پائی جاتی جو مذہبی دانشور رابرٹ اورسی (Robert Orsi) کے الفاظ میں، پیغمبر کی "حقیقی موجودگی" میں ہوتی ہے5۔ پُرجوش انداز میں حقیقی اور مادی اشیاء کے درمیان فرق کرنے کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل جیسے مصلحین نے شاہانہ طرزِ زندگی اور سیاست کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کیا جو ان کی نظر میں دینی اعتبار سے کمزور لوگوں کی افزائش کا سبب تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اشرافیہ کی طرزِ سیاست نے ایسے مذہبی رویے کو پروان چڑھایا ہے جس نے عام لوگوں میں توہم پرستی کو پختہ اور خدائی حاکمیتِ اَعلیٰ کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ اشرافیہ مخالف سوچ مذکورہ بالا واقعے سے واضح ہے جس سے عوام کے لگی بندھی رسموں کے "نشے" میں مبتلا ہونے اور اس وقت کے مغل بادشاہ کی دینی کمزوری کے درمیان ایک ربط نمایاں ہوتا ہے۔
تاہم تبرکاتِ نبوی کے احترام سے شاہ اسماعیل کے انکار پر جلوس کی مخالفت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصلاحی تحریک کے علم برداروں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حریف علما کے ایک گروہ نے پوری قوت سے ان کے استناد کو للکارا اور ان روایات کا دفاع کیا جنھیں شاہ اسماعیل تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس مخالف گروہ کے لیے تبرکاتِ نبوی کا احترام نبی کی عزت وتعظیم کا ایک مثالی راستہ تھا۔ اس لیے جو بھی ان رسموں کی شرعی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت اور خصوصی مقام کی تحقیر کا مجرم ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں روایت اور نبوی دائرۂ اختیار کے حدود پر یہ مناقشے ایک ایسی صورتِ حال سے ابھرے جس کی خاصیت حاکمیتِ اعلیٰ کا بحران ہے۔ 1707ء میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد آنے والی دہائیوں میں مسلمانوں کی سیاسی تقدیر تیزی سے انحطاط پذیر تھی۔مغلیہ سلطنت کے دو سو سال سے زائد عرصہ حکومت کے بعد 1757 میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں ایک نئی سامراجی طاقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھا رہی تھی۔ درج بالا قصے میں مذکور اکبر شاہ صرف براے نام بادشاہ تھا جس کی مؤثر عمل داری محض دہلی کے دارالخلافہ تک محدود تھی۔ وہ اورنگزیب کے جانشینوں کے اس سلسلے سے تعلق رکھتا تھا جو ایک ایسے ہندوستان پر حکمران تھے جس میں حاکمیتِ اعلیٰ بتدریج لیکن فیصلہ کن انداز میں برطانیہ کو منتقل ہو رہی تھی6۔
سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ میں اس تبدیلی نے اعتقادی دائرے میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر گرما گرم مباحث کے لیے ماحول کو ساز گار بنا دیا۔ ان اختلافات کے پیچھے یہ سوال کار فرما تھا کہ: خدا، پیغمبر اور عام مسلمانوں کے درمیان تعلق کو ایک نظریے کی شکل دینے کے لیے کس سیاسی تصور کو بنیاد بنایا جائے؟ کیا یہ سہ گانہ تعلق نظام مراتب کی صورت میں ترتیب دیا جائے جس میں حاکمِ اعلیٰ یعنی خدا تک رسائی صرف پیغمبر ﷺ کے وسیلے سے ممکن ہے؟ یا خدا اور بندے کے درمیان تعلق ایک یکسر مختلف جمہوریت پر مبنی ہے جو نظام مراتب کے کسی بھی تصور کو مسترد کرتی ہے؟ مذہبی معاشرت کی تشکیل کے یہ متوازی تصورات روزمرہ زندگی اور اعمال کے کون سے تصورات کا تقاضا کرتے ہیں؟
سیاسی تبدیلی کے اس دور میں انھی سوالات نے ہندوستان کے مسلمان اہل علم کے درمیان کئی مناظروں اور مباحثوں کو جنم دیا۔ زیرنظر کتاب کا یہ حصہ انیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں ہونے والی انھی مناظرانہ سرگرمیوں کا تجزیہ کرتا ہے جن کی وجہ سے اسلام میں خدائی حاکمیت اور نبوی تقدس کے درمیان تعلق کی متوازی تفہیمات سامنے آئیں۔ جن کرداروں نے ان مناظروں میں شرکت کی، وہ دہلی کے دو نامور مسلمان سنی علماء: شاہ محمد اسماعیل (جن کا ذکر درج بالا قصے میں ہوا) اور فضل حق خیر آبادی تھے۔
ان کے مناظروں کا مرکزی نکتہ اسلام میں شفاعتِ نبوی کے شرعی حدود اور امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان) اور امکان نظیر (خدا کی حضرت محمد ﷺ کی طرح کا ایک اور نبی پیدا کرنے پر قدرت) کے بیک وقت جنم لینے والے دو اعتقادی مسائل تھے۔ شفاعت نبوی سے مراد قیامت کے دن خدا اور اس کے گناہ گار بندوں کے درمیان سفارشی کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کا کردار ہے جس کی رو سے حضور ﷺ گناہ گاروں کی طرف سے خدا کے دربار میں پیش ہو کر ان کے گناہ بخشوائیں گے اور انھیں جنت میں جگہ دلوائیں گے۔ نبی اکرم ﷺ کے منصب شفاعت کے متعلق اسلامی شریعت کے مصادر یعنی قرآن وسنت میں تفصیلی بحث موجود ہے۔ تاہم اس سفارش کا دائرہ اور خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے حوالے سے اس کے مضمرات شدید بحث ومباحثے کا موضوع رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ماقبل جدید اسلامی روایت میں معتزلہ کے کلامی مکتب سے وابستہ علماء نے شفاعت کے عقیدے کو رد کیا۔ معتزلہ نے عقیدۂ شفاعت کو خدائی حاکمیت کے لیے براہ راست خطرہ قرار دے دیا7۔ جیسا کہ شون مارمن (Shaun Mormon) نے بتایا ہے، قرون وسطیٰ میں، مثلا ً مملوکوں کے زیر حکومت مصر میں بالکل اسی طرح اس سوال پر دقیق بحث ومباحثہ ہوا تھا کہ دنیوی یا شاہی سفارش میں اور اخروی شفاعت کے درمیان خطِ امتیاز کیا کھینچا جائے8۔
نسبتاً قریبی زمانے میں عالم عرب میں وہابی مکتب فکر کے حامیوں نے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ شفاعتِ نبوی کے عقیدے کی تردید ہے۔ اس کی سب سے حیران کن مثال 1925 میں اس وقت سامنے آئی جب سعودی اداروں نے رسول اللہ ﷺ، ان کے خاندان اور ان کے قریب ترین صحابہ کرام کی قبروں کو اس بنیاد پر مسمار کیا کہ وہ پوجا پاٹ کے مراکز بن گئے ہیں اور اس طرح خدائی حاکمیت اعلیٰ (توحید) کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس باب میں شاہ اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی کے درمیان جس سوال پر نزاع اور بحث رہی، وہ سعودی حکومت کے آنحضرت ﷺ کے خاندان کی قبروں کو مسمار کرنے سے ایک صدی پہلے پیش آیا۔ اس لیے بہت سے حوالوں سے ان کا مناظرہ اس اعتقادی کشمکش کی نمائندگی کرتا ہے جو آنے والی دہائیوں میں مباحثوں اور مناظروں کے ایک زبردست طوفان میں بدلنے والی تھی ، اور جس کے نتائج بڑے واضح انداز میں مزارات اور قبروں کی مسماری جیسے واقعات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اگر چہ شاہ اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی کی وجہ سے کوئی اینٹ نہیں گری، لیکن اس تنازع کے نتائج اتنے ہی حیران کن ہیں۔
فضل حق خیرآبادی نے توہینِ رسالت کے الزام کی بنیاد پر شاہ اسماعیل پر کفر اور واجب القتل ہونے کا فتوی لگایا۔ اس کے جواب میں شاہ اسماعیل نے خیر آبادی پر ایک ایسی دینی فکر کو پروان چڑھانے کا الزام لگایا جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کی خصوصی حیثیت کو کمزور کرتا اور عوام میں بدعات وخرافات کے ارتکاب کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جیسا کہ اس کتاب کے آئندہ حصوں میں بتایا جائے گا، ان کے درمیان اس اختلاف نے انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں شمالی ہندوستان کے حریف علما کے درمیان ایک خوف ناک اعتقادی معرکہ آرائی کی صورت اختیار کر لی۔ پہلے حصے کے اس تعارف میں ان شخصیات کے علمی کردار، ان کے مناقشے کی بُنت اور ان کے اختلاف کی اہمیت پر مزید بحث کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اس سیاسی اور فکری ماحول کے نمایاں خد وخال کو واضح کروں جس میں شاہ اسماعیل اور مولانا خیرآبادی کے درمیان بحث ومباحثہ کا ظہور ہوا۔ اس مقصد کے لیے میں وہ مختلف طریقے دریافت کرنے کی کوشش کروں گا جن سے سیاسی کلامیات کا تصور فریقین کے موقف اور کشمکش کے سیاق سباق پر روشنی ڈالنے میں ممکنہ طور پر ممد ومعاون ہو ۔ اس کے بعد میں حاکمیت اعلی ٰ کے تصور میں ان بنیادی تبدیلیوں کا ایک مختصر شجرہ پیش کروں گا جو مغل اقتدار سے برطانوی اقتدار کی طرف انتقال کے دوران میں رونما ہوئیں اور یہ بحث آئندہ ابواب کے لیے ایک پس منظر فراہم کرے گی۔
سیاسی قالب میں مذہبی تصورات: عالمی شمال اور جنوبی ایشیا
حال ہی میں سیاسی قالب میں مذہبی تصورات کی بحث نے یورپ اور امریکا کے علمی حلقوں میں کافی ہلچل مچائی ہے۔ اس تصور میں زیادہ تر موضوع بحث جدید سیکولر سیاسیات بالخصوص جدید قومی ریاست کی مذہبی بنیادوں کی نشاندہی ہے۔ اس تصور کو عموماً جرمن مفکر کارل شمٹ (Carl Schmitt) کی 1922 میں چھپنے والی مؤثر کتاب "سیاسی قالب میں مذہبی تصورات" (Political Theology) سے جوڑا جاتا ہے۔
اس کاوش میں شمٹ نے نہایت عمدگی سے یہ استدلال کیا ہے کہ: "ریاست کے جدید نظریے سے متعلق تمام نمایاں تصورات سیکولر ازم کے قالب میں ڈھالے گئے مذہبی تصورات ہیں"9۔ جدید ریاست مذہب پر قابو پانے اور اس کی جگہ لینے کے باوجود اپنی حاکمیت کی تشکیل میں گہرے طور پر مذہبی ہے۔ شمٹ کی فکر کے ایک تحقیقی مطالعے میں پال کاہن (Paul Kahn) شمٹ کے استدلال کا خلاصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں: "ریاست ایک سیکولر تنظیم نہیں، جیسا کہ یہ دعوی کرتی ہے"10۔ اس کے بجاے مفروضہ سیکولر ریاست کی حاکمیتِ اعلیٰ قادر مطلق خدا کی طرح ہے جس کا دار ومدار عمومی قاعدے کے برخلاف استثنائی قانون کی تنفیذ کی صلاحیت پر ہے۔ اس رائے نے ایسے کئی اہل علم کی توجہ حاصل کی ہے جنھوں نے مختلف انداز میں شمٹ کے نظریے کو توسیع دی ہے، اس پر نظرثانی کی ہے اور اسے نقد ونظر کا موضوع بنایا ہے، تاکہ جدید سیکولر سیاسیات کے مذہب پر مبنی سیاسی نظاموں سے کلی انقطاع کے پُرفریب دعوے پر سوال اٹھا سکیں۔ تحقیق کا یہ انداز، جس کا مقصد لبرل سیکولر سیاسیات کی مفروضہ خصوصی اور استثنائی حیثیت کا ابطال ہے، علم اور انسانی زندگی کے متعدد شعبہ جات میں سرانجام دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہامل گراہم (Graham Hammil) اور جولیا لَپٹن (Julia Lupton) جس انداز میں سیاسی کلامیات کے تصور کو زیرِ غور لاتے ہیں، اس کی وسعت کو دیکھیں: "وہ باہمی معاملات، معاہدے اور مقابلے جو سیاسی اور مذہبی زندگی کے درمیان وقوع پذیر ہوتے ہیں، بالخصوص مقدس حکایات، بنیادی نظریات اور رسومیاتی اشکال کا اس مقصد کے لیے استعمال کرنا کہ بادشاہوں، کارپوریشنز اور پارلیمانوں کی حاکمیت قائم ہو، اسے جواز فراہم ہو، اور اس پر غور وفکر کیا جائے"11۔
اس اعتبار سے ایک نظریے کی حیثیت سے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات کا تعلق صرف مذہب تک محدود نہیں۔ ہامل اور لپٹن اپنی کتاب کے آغاز میں پرزور انداز میں بتاتے ہیں: "مذہب اور سیاسی قالب میں مذہبی تصورات ایک چیز نہیں"12۔ اس کے بجاے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات ایک اہم فکری کلید فراہم کرتا ہے جس سے سیکولر طاقت کے اندازِ کار کو مذہب، قانون، ادب، سیاسیات، سائنس اور اقتصادیات جیسے متنوع لیکن باہم دگر جڑے ہوئے میدانوں میں کھولا جا سکتا ہے۔ میں ان علمی کاوشوں کے زیرِ بار ہوں جنھوں نے سیکولر حکومت کے اختلافات، تناقضات اور کلامیات کو نمایاں کرنے کے لیے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات کی فکر سے کام لیا ہے، اگرچہ میں اس کاوش میں ذرا الگ انداز سے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات سے تعرض کروں گا۔
مجھے سیاست کی اعتقادی بنیادوں کے بجاے ان سیاسی تصوّرات، مفروضات اور توقعات میں زیادہ دلچسپی ہے جن کی جھلک بظاہر اعتقادی مباحثوں اور مناقشوں میں نظر آتی ہے۔ میری توجہ کا مرکز مذہبی تصورات اور سیاسیات کا سنگم ہے، جیسا کہ وه خدائی حاکمیتِ اعلیٰ پر مباحثوں اور مناقشوں میں ظاہر ہوئے۔ وہ کون سے مناہج ہیں جن میں خدا اور انسانوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مناقشات اور استدلالات سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کی بدلتی تفہیمات اور مظاہر کے عکاس اور ان پر مبنی ہیں؟13 مختصر یہ کہ آنے والے ابواب میں میں اسی سوال کو پیش نظر رکھ کر بات کروں گا۔
اس سوال نے جس حل طلب مسئلے (problem space) کا کئی پہلؤوں سے احاطہ کیا ہے، وہ کارل شمٹ کی کتاب Political Theology میں موجود ایک اور اہم رائے سے ماخوذ ہے جس کی رو سے "وہ مابعد الطبیعی تصویر جو ایک مخصوص عہد دنیا کے متعلق بناتا ہے، اس کی ساخت بعینہ وہی ہوتی ہے جسے وہ عہد فوری طور پر اپنے سیاسی نظم کی ہیئت کے لیے بھی مناسب سمجھتا ہے"14۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ ماورائیت سے انسانی خود انحصاری تک کا سفر عہدِ جدید کی ابتدا سے یورپ کے سیاسی کلامیات میں بنیادی پیش رفت کی نمائندگی کرتی ہے۔ ]حکومت کے[ جواز (legitimacy) کے جمہوری تصور نے اپنی حکمرانی کے لیے ایک واحد شارع کی حیثیت سے حاکمِ اعلیٰ کو انتہا پسندانہ انداز میں "نکال باہر کرکے" سابقہ شاہی تصور کی جگہ لے لی۔ مسلمانوں کی بادشاہت کا عہد آخر کار اختتام پذیر ہوا، اس لیے کہ روایتی معنوں میں جواز (legitimacy) کا وجود باقی نہ رہا۔ شمٹ نے اپنے استدلال میں بتایا کہ سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں کلامیات اور سیاسیات دونوں شعبوں میں مطلق العنان حاکمِ اعلیٰ کا تصور رائج تھا۔ نتیجتاً شمٹ نے دعویٰ کیا کہ کسی خاص عہد میں ترتیب دی گئی دنیا کی فکری تصویر کا خاکہ بعینہ اس دور میں رائج سیاسی نظم کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے انیسویں صدی میں جیسے جیسے سیاسی تصورات اور ریاست سے متعلقہ نظریات روز افزوں انسانی خود انحصاری (immanence) کے زیر اثر آتے رہے، وہ شاہی طاقت کو کمزور کرتے گئے جس کی جگہ آخر کار ایک یکسر مختلف جمہوریت نے لے لی15۔
جمہوریت کے اس نئے شعور کی وہ فیصلہ کن خاصیت جو اسے اس کے شاہی مد مقابل سے ممتاز کرتی ہے، حالت استثنا کا مکمل استرداد ہے۔ حالت استثنا کلامی معنوں میں ان کرامات وعقائد کی نمائندگی کرتی ہے جو انسانی سمجھ اور تنقیدی شک سے بالا ہوتے ہیں۔ شمٹ نے اسے یوں بیان کیا ہے: "جمہوریت سیاسی اضافیت کی ایک ایسی تعبیر ہے جو معجزات اور تحکمانہ عقائد سے آزاد ہے"16۔
جیسا کہ مؤرِّخ ڈیوڈ گلمارٹن (David Gilmartin) نے بہت عمدہ انداز میں واضح کیا ہے، حاکمیتِ اعلیٰ کا کوئی تصور، چاہے وہ خدائی ہو یا ریاستی، طاقت کی ایک ایسی صورت کی نمائندگی کرنے کی اَن بوجھی پہیلی سے نہیں بچ سکتا، جو سیاسیات اور روزمرہ زندگی کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ الجھا ہوتا ہے۔ حاکمِ اعلیٰ کی طاقت بیک وقت اپنے دائرۂ عمل کے اندر اور باہر موجود ہوتی ہے۔ گلمارٹن اس پہیلی کو بوجھنے کے لیے "]حکومت کے[ جواز" (legitimation)، "طاقت (authority) کا ایسا دعوی جو معمول سے ماورا ہو" اور "حکومت (governance): فی الواقع سماج میں نظم کو بروے کار لانے اور برقرار رکھنے کی خاطر معمول کی کارروائیوں" کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے17۔ موضوع بحث سے قدرے باہر نکلنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہاں پر حاکمِ اعلیٰ کی طاقت سے متعلق گلمارٹن کے تجزیے کو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے تحفظ کے لیے مذہبی اصلاح کے تصور میں کار فرما داخلی کشاکش پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو روزمرہ رسم ورواج کے بگاڑ سے تحفظ فراہم کرنے کا معنی خیز اشارہ اس بنیادی تضاد میں مقید رہتا ہے جسے گلمارٹن نے زیرِ غور لایا ہے کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ معمول کی زندگی سے باہر رہتی ہے، لیکن اس کے الٹ پھیر سے اسے خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے؛ وہ فانی وجود سے ماورا ہوتی ہے، تاہم وہ اس کا سب سے زیادہ قریبی معمار بھی ہے۔
یہ نکتہ کہ حاکمیتِ اعلیٰ کی یہ کشمکش کوئی مجرّد نظریاتی اور سادہ معاملہ نہیں، اس کی بہت مفید وضاحت ہندوستان میں برطانوی استعمار کی حکومت کے بارے میں دو متنازع لیکن باہم معاون ڈسکورسز: "استعمار(Colonialism)" اور "سامراجیت (Imperialism)" سے متعلق متھی مکھرجی (Mithi Mukherjee) کے تجزیے میں کی گئی ہے۔ مکھر جی نے استعمار کے لفظ کو جس طرح استعمال کیا ہے، اس سے مراد حکمرانی کے وہ معاملات ہیں جو "زمینی فتوحات، طاقت، تشدد، غلبہ اور مفتوح اقوام کو مطیع بنانے سے عبارت ہیں"18۔ اس کے برعکس "سامراجیت نیچرل لا (Natural Law) کے تحت انصاف کے ایک ماورائے قومیت اور بالائے جغرافیہ تصور پر مبنی ہے"، جو استعماری طاقت و حکومت کی ناانصافیوں کو لگام دینے اور ان پر نکتہ چینی کی کوشش کرتی ہے19۔ استعماری طاقت اور سامراجی انصاف کے یہ متوازی ڈسکورسز باہم مل کر کام کرتے تھے، جن میں اول الذکر سماج میں جارحانہ انداز میں سرگرم عمل رہتا ، جب کہ مؤخر الذکر بالکل الگ تھلگ رہ کر باہر سے اول الذکر کی نگرانی کرتا تھا۔ اس کا مجموعی اثر یہ تھا کہ استعماری ریاست اور مقامی سماج کے درمیان سپریم کورٹ کے ادارے اور وکیل کی شخصیت کو سب سے طاقتور ثالث کے مقام پر فائز کیا گیا۔ استعماری حاکمیت کی ترقی اور استحکام کا حصول ان دو عوامل کے باہمی تناو اور کشمکش کے ذریعے سے کیا جاتاتھا، یعنی ایک طرف طاقت کے بل بوتے پر حکومت اور دخل اندازی اور دوسری طرف نیچرل لا کی ماورائےجغرافیہ چھتری کے نیچے انصاف کی فراہمی۔
میں چاہتا ہوں کہ ذیل میں حاکمیتِ اعلی سے متعلق ان تاریخی افکار کی روشنی میں اس سوال کا جواب دوں کہ: سیاسی نظریات اور افکار کے بدلتے تصورات کس طرح ان مناہج کی تشکیل کرتے ہیں جن میں بظاہر خدائی حاکمیت اور خدا و انسان کے درمیان تعلق جیسے کلامی تصورات کو مخصوص سیاسی تناظرات میں غور وفکر کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ میری توجہ کا محور ریاست، سیاست اور حکمرانی سے متعلق مسلمانوں کے علمی افکار کا مطالعہ نہیں جو روایتی طور پر سیاسیات سے وابستہ ہیں، (اگر چہ میں گاہے گاہے اس موضوع پر بھی کچھ عرض کروں گا)۔ اس کے بجاے میں چاہتا ہوں کہ سیاسیات اور مثالی حکومت کے ان تصورات پر غور کروں جو بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور سماج کی روزمرہ زندگی کے بارے میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے کردار کے تعلق سے بین المسالک مناقشوں میں نمایاں ہیں۔خدائی حاکمیت اور نبوی اقتدار کے حریف تصورات کس طرح ایک مثالی ریاست کے متوازی رجحانات میں ایک دوسرے سے محو گفتگو ہیں، یہ سوال اس حصے میں کلامیات اور سیاسیات کے باہمی الجھاو اور اس کتاب کے وسیع تر تناظر کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سیاسی اور کلامی مسائل کے آمیزے کی تحقیق اُس تاریخی تناظر میں خاص طور پر ثمر آور ہو سکتی ہے جسے عبوری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جب ایک طویل المیعاد سیاسی نظم نابود ہونے کے قریب ہو، اور اس کی جگہ ایک اور نظام لے رہا ہو، مثلاً شاہی نظام سے استعماری نظام میں داخل ہونے کا دور۔ اس قسم کے اشکالیے (problem space) کا خاص طور پر جنوبی ایشیائی اسلام اور مغلیہ سلطنت سے برطانوی نوآبادیاتی نظام کی طرف منتقلی سے بڑا خاص تعلق ہے۔ یہ طاقت کی بدلتی حرکیات کا ایک تدریجی عمل تھا جو سترھویں اور اٹھارویں صدی کے درمیان وقوع پذیر ہوا اور یہ قریب قریب وہی زمانہ جو شمٹ کی تحقیق کا موضوع ہے۔
حاکمیت اعلیٰ سے متعلق بدلتے ہوئے سماجی نظریات
جیسا کہ مؤرخ کرسٹوفر بیلی (Christopher Baly) نے استدلال کیا ہے، ہندوستان کے ابلاغی اور سیاسی نیٹ ورکس میں وسیع تر تبدیلیاں اور انقلابات، جنھوں نے بالآخر برطانوی راج کو ممکن بنایا، اٹھارویں صدی کے آغاز سے ہی رونما ہو رہے تھے۔ بیلے کے مطابق اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان کے مغلیہ سلطنت سے برطانوی راج میں بدلنے کے وقت تین بنیادی سیاسی اور معاشی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں: (1) مرکزی حکومت کا بکھر کر چھوٹی اور منتشر ریاستوں میں تبدیل ہو جانا، (2) دہقان طبقے کی یک جائی اور اس کے نتیجے میں اقتصادیات کے زرعی شعبے میں نمو وترقی، اور (3) متعدد استعماری اور مقامی ایجنٹوں کے درمیان ابلاغ اور جاسوسی کے رسمی وغیر رسمی ہر دو دائروں میں غیر معمولی ترقی اور تحرک۔ اس آخری رجحان نے قدیم شاہی طبقے اور امرا واشرافیہ کی سیاسی طاقت اور ثقافتی اثاثے کو فیصلہ کن طور پر گھٹا دیا20۔
استعماری راج کی طرف انتقال کے حاکمیتِ اعلیٰ سے تعلق کی نظریاتی اہمیت کا ادراک سیاسی نظریہ ساز سودپتا کاویراج (Sudipta Kaviraj)نے اس طرح سے کیا ہے کہ انھوں نے اس کی زمرہ بندی ماتحتیت سے حاکمیتِ اعلیٰ کی طرف تبدیلی کی حیثیت سے کی ہے۔ کاویراج کا دعوی ہے کہ "استعماری جدیدیت کی آمد سے قبل ہندوستان کی تمام ریاستیں شمولیت/ماتحتیت کے تصور پر پوراا ترتی ہیں: وہ سماج پر حکمرانوں کے ایک گروہ کی حیثیت سے حکومت کرتی تھیں، جو اپنے ماتحت سماج سے الگ تھلگ رہتے، اور اپنی رعیت کے ساتھ جدید قوم پرستی کی طرح کسی مضبوط جذباتی یا ادارہ جاتی بندھن میں بندھے ہوئے نہیں تھے۔ اس طرح سے ان کی، اپنے سماج کی روزمرہ زندگی کی بنیادی ساخت کو متاثر کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود تھی21۔ کاویراج کے مطابق رفتہ رفتہ اور بالخصوص 1857 کی بغاوت کے نتیجے میں ماتحتیت کے اس سیاسی نظام کا تختہ بااختیار استعماری ریاست نے الٹ دیا۔ استعماری ریاست نظریاتی اعتبار سے اپنے پیش روؤں سے نہ صرف اس اعتبار سے ممتاز تھی کہ وہ اُن سے زیادہ طاقت ور تھی، بلکہ زیادہ اہم اس کا وہ ارادی اور براہ راست انداز تھا جس میں وہ رعایا کو اپنی حاکمیتِ اعلیٰ کے تابع بناتا تھا۔ کاویراج کے نزدیک ماقبل استعماری دور سے استعماری دور میں داخل ہونے سے متعلق گفتگو اس بے جا مفروضے پر مشتمل ہوتی ہے کہ ہم تاریخی طور پر ایک ہی شے کے دو مختلف رخوں کے متعلق بات کر رہے ہیں۔ جب وہ اپنی گفتگو میں ریاستی طاقت کے جدید استعماری اور قدیم اسلامی و ہندوانہ تصورات کا تقابل کرتے ہیں تو آدمی اساسی طور پر "سیاسی طاقت کے دو مختلف اداروں کا سامنا کرتا ہے"22۔ ایک بااختیار ریاست کا تصور جس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنے رعایا کو براہ راست اپنے احکام کا پابند بنائے اور ان پر اپنا حق جتائے، مکمل طور پر جدید ہے۔ کاویراج آگے جاکر زیادہ فکر انگیز طریقے سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہندوستانی تناظر میں ریاست کا تصور ہی "جدیدیت کا بنیادی ماخذ ہے"23۔
حاکمیتِ اعلیٰ کے حوالے سے مؤرخ اور ماہر بشریات برنارڈ کوہن (Bernard Cohn) کی کلیدی کاوش کاویراج کے استدلال کو مزید واضح کرتی ہے، جب کہ اسے اس کتاب میں ہمارے موضوع سے زیادہ براہ راست جوڑتی بھی ہے۔ ان کی کاوش مغلیہ سلطنت سے برطانوی راج میں منتقلی کے عبوری دور کے ثقافتی اثرات کے حوالے سے دلچسپ نکات فراہم کرتی ہے۔ کوہن کے مطابق انیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ نے ہندوستانی سماج میں اپنی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کے قیام کے لیے اپنے مغل پیش روؤں کی رسمی اصطلاحات کو باقی رکھا، تاہم انھوں نے ان اصطلاحات کو ایسے معنی پہنائے جو سابقہ معانی سے یکسر مختلف تھے۔ برطانوی راج کا مغلوں کی اصطلاحات کا استعمال ایک طرح سے سامراجی حاکمیتِ اعلیٰ کے دو مختلف نظاموں کے درمیان ترجمے کا عمل تھا۔ سب سے نمایاں مقام جہاں پر ترجمے کا یہ عمل وقوع پذیر ہوا، شاہی دربار تھا۔
پوری مغلیہ تاریخ میں شاہی دربار نے مغل حکمرانوں اور ان کی رعایا کے درمیان تعلق وتبادلے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ خاص طور پر مغل دربار میں ادا کی جانے والی تقریباتی رسموں نے مقامی رعایا کو وسیع تر سلطنت کے دائرے میں شامل کرنے کا کردار نبھایا۔ مثلاً ایک رسم جو دربار میں ادا کی جاتی تھی، مقامی اشرافیہ کی طرف سے مغل بادشاہ کو تحفے تحائف اور سونے کے سکوں، ہاتھیوں، گھوڑوں اور زیورات کی شکل میں قیمتی اشیاء کا نذرانہ پیش کرنا تھی۔ یہ نذرانہ یا پیش کش سلطنت سے وفاداری کی ایک علامتی شکل تھی۔ ایسی کسی پیش کش کی قدر وقیمت کا تعین اس شخص کے مقام اور مرتبے کے مطابق پوری باریک بینی سے کیا جاتا تھا جو اسے پیش کرتا۔ بدلے میں مغل بادشاہ اس شخص کو خلعت پیش کرتا، جو یا تو کپڑے کی بنی کوئی چیز یا کئی کپڑے ہوتے تھے، جو عام طور پر چوغے، پگڑی اور شال پر مشتمل ہوتے تھے۔ باہمی تبادلے کا یہ عمل علامتی اہمیت کا حامل تھا: خلعت تسلسل یا وراثت کی علامت تھی، اور اس تسلسل کا انحصار طبعی بنیاد پر تھا جس میں خلعت کو وصول کرنے والے اور عطیہ کرنے والے، دونوں کے جسم کپڑوں کے واسطے سے ایک دوسرے سے تعلق قائم کر لیتے تھے24۔
بالفاظِ دیگر اشیا کے سیدھے سادے تبادلے کے بجاے نذرانہ پیش کرنا اور خلعت وصول کرنا "اطاعت، بیعت اور خلعت عطا کرنے والوں کی برتری کے اقرار کے اعمال تھے"۔ مزید برآں حاکمیتِ اعلیٰ اور شاہی نظام کے اس رسمی اظہار نے مقامی سماج کے مخصوص طبقات کو شاہی حکومت کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کرنے کا کردار ادا کیا۔ جیسا کہ کوہن نے واضح کیا ہے: "ہندوستان میں حکمرانی کا مقامی نظریہ انضمام کے تصورات اور 'نظام مراتب کے نظریے' پر مبنی تھا، جس میں نہ صرف ہر کسی کو دوسرے سے الگ رتبہ دیا جاتا، بلکہ جن پر حکومت کی جا رہی تھی، ان کا انضمام بھی کیا جاتا تھا"25۔
تاہم اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں اگر چہ برطانویوں نے نئے ہندوستانی حکمرانوں کی حیثیت سے نذرانوں اور پیش کشوں کی رسم کو برقرار رکھا، لیکن انھوں نے تبادلے کے اس عمل کو جو معنی دیا، وہ قطعی مختلف تھا۔ مغلوں کے برعکس برطانویوں نے ان رسموں کو مادی معنوں میں لیا۔ نذرانوں اور پیش کشوں کو سفارش کی حیثیت سے دیکھا گیا، جسے برطانیہ نے اپنی تجارتی سرگرمیوں سے متعلقہ حقوق کی حیثیت سے پیش کیا۔ انھوں نے "اپنے ثقافتی طور طریقوں کی اتباع میں نذرانوں کو رشوت سے اور پیش کشوں کو خراج سے تعبیر کیا، اور اسے ادلے بدلے کا لین دین تصور کیا "26۔
درباری رسموں کے برطانوی وارثوں نے ایک محتاط انداز میں تشکیل دی گئی شاہی حاکمیتِ اعلیٰ کی صورت گری کو لین دین کی ایک مادی صورت کا معنی دیا۔ جیسا کہ کوہن نے وضاحت کی ہے: "بظاہر مغلیہ رسم ورواج کو برقرار رکھا گیا، لیکن ان کے معانی بدل گئے تھے۔ ہندوستانی حکمرانوں کے سایے میں جو چیز (مقامی آبادی کی سلطنت میں) شمولیت تھی، اب وہ رسم ماتحتیت کی علامت بن گئی، جس میں شاہی شخصیت اور اس کے منتخب کردہ دوست اور خادم کے درمیان، جو حکمرانی کا حصہ بننے والا تھا، کوئی روحانی تعلق باقی نہ رہا27۔
برطانیہ کے استعماری نظام میں 1857 کی بغاوت تک یہ عقدہ لاینحل رہا، جس میں بغاوت کو وحشیانہ طریقے سے کچلا گیا، اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر پر آخر کار مقدمہ چلا کر انھیں جلا وطن کیا گیا۔ اس اہم معرکے کو سر کرنے کے بعد برطانیہ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 کے ذریعے ہندوستان کی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کو اپنی بادشاہت میں ضم کر دیا۔
زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ علامتی ورثہ جو مغل بادشاہ کی شخصیت سے متعلق تھا، اس کے تقدس کا خاتمہ کیا گیا۔ اپنی رعایا پر حاکمیت کو جواز بخشنے کے لیے رائج سابقہ پیچیدہ مقامی طریقوں کی جگہ استعماری طاقت کے وحشیانہ اظہار نے لے لی۔ جیسا کہ کوہن نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے: "بادشاہ پر مقدمے کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 سے ملا کر دیکھنا چاہیے۔ مغل بادشاہ پر مقدمہ، ان کی جلاوطنی اور مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ایک ایسے انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا جس نے مکمل طور پر سماج کے سابقہ سیاسی نظم کے تَقدُّس کا خاتمہ کر دیا"28۔
کاویراج کے استدلال سے بہت مماثل کوہن کا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان میں استعمار کی آمد سے حاکمیتِ اعلیٰ کا فکری سرمایہ بھی خاطر خواہ تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ حاکمیتِ اعلیٰ کے سابقہ تصور کی جگہ، جو مراعات، نظامِ مراتب اور مقامی سماج کے ساتھ جسمانی علائق میں بندھا ہوا تھا، واضح طور پر قوتِ مقتدرہ کی ایک مادی تفہیم نے لے لی۔ کوہن کا تجزیہ خاص طور پر جس چیز کو نمایاں کرتا ہے، وہ ان دو مثالی تصورات کے درمیان کش مکش ہے کہ قوتِ مقتدرہ کو کیسے کام کرنا چاہیے، اور فی الواقع یہ کس طرح کام کرتی ہے ۔ کیوں کہ زیادہ سنجیدہ پہلوؤں کو دیکھا جائے تو برطانوی راج کا سیاسی ڈھانچا کسی حوالے سے بھی مغلیہ سلطنت کے اس پہلے ڈھانچے کو اکھاڑ نہیں پھینکتا، جو حسب ونسب اور وساطت وشفاعت سے عبارت تھی۔ حتّیٰ کہ برطانوی راج کے زیرِ سایہ وساطت کا عمل اس بات کی تشکیل میں انتہائی اہم رہا کہ سیاسی اقتدار تک رسائی حقیقت میں کیسے ہوتی ہے،اور سماج کی تشکیل کس طرح سے کی گئی۔ تاہم اس ساختیاتی تسلسل کے باوجود وہ مآخذ، تصورات اور مفاہیم جس نے قوتِ مقتدرہ کی تنظیم کی، مستقل طور پر بدل گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغلیہ سلطنت میں حاکمیتِ اعلیٰ پر بحث ومناقشہ نہیں ہوا، بلکہ مقصود ایک نظام سے دوسرے نظام کی طرف، جو شاہی حکومت سے بہت الگ ہے، انتقال کے عبوری دور میں حاکمیتِ اعلیٰ کی سماجیات میں برپا ہونے والی فکری اور سیاسی تبدیلیوں کو واضح کرنا ہے29۔
حاکمیتِ اعلیٰ کی فکری فضا اور سیاسی صورت گری میں برپا ہونے والی یہ بنیادی تبدیلیاں سماجی نظم اور نظام مراتب کے لیے گہرے مضمرات کی حامل ہیں۔ اپنی تحقیقی کتاب Ashraf into Middle Classes میں مؤرخ مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) نے بتایا ہے کہ انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں برطانوی راج کے استحکام نے شمالی ہندوستان میں سماجی شرف وعزت کے حوالے سے مسلمانوں کے تصورات پر گہرے اثرات مرتب کیے30۔ 1830 کی دہائیوں کے بعد جوں ہی برطانیہ نے زیادہ فیصلہ کن انداز میں سیاسی اقتدار حاصل کیا، اور جوں ہی نوآبادکاروں اور ان کے ماتحت لوگوں کے درمیان سیاسی، ثقافتی، سماجی اور نسلی فاصلے واضح ہونے لگے، سماجی عزت وشرف کے مفاہیم اور عناصر بھی بدلنے لگے31۔ اس وقت تک شرف وعزت کا دائرہ صرف جاگیرداروں اور علما تک محدود تھا، جب کہ سوداگر، تاجر اور دست کار بالکل عام لوگ سمجھے جاتے تھے۔ مزید برآں اسلام کے مرکزی مقامات سے نام ونسب کا تعلق ہونا شرف وعزت کی امتیازی علامت تھی، جو اشراف کو مقامی نومسلموں (اجلاف) سے الگ کرتی تھی، اگر چہ شرافتِ نسب کا دعویٰ سماجی شناخت کے حصول کی ایک تدبیر تھی۔
لیکن 1857 کے نتیجے میں انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمانوں کی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کی بحالی کے امکان کے خاتمے، ایک ایسے عوامی دائرے کے ظہور جو نوآبادیاتی تعلیمی اداروں سے معمور تھا، اور علمِ دین سے صرف اور صرف علماے کرام کی روز افزوں وابستگی جیسی پیش رفتوں نے شرف وعزت کے ان تصورات کو یکسر بدل دیا۔ خاندان کی اہمیت برقرار رہی، لیکن شرف وعزت بتدریج انفرادی پاک بازی سے جُڑ گئی۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جسے پرناو نے "موروثی اقدار سے زندہ اقدار میں تبدیلی" سے تعبیر کیا ہے32۔ یہ تبدیلی ایک دوسری تبدیلی کے پہلو بہ پہلو پیش آئی اور اسے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک ایسے متوسط طبقے کے ظہور نے سہولت بہم پہنچائی جو خود کو سماج کے بالائی اور نچلے طبقے سے ممتاز تصور کرتا تھا۔ اگر چہ اس میں بھی کسی طرح سے یکسانی نہیں تھی، تاہم اس متوسط طبقے، جس نے شرف وعزت کی چادر اوڑھ لی تھی، کی نمایاں خصوصیت شاہانہ طرزِ زندگی اور فضول خرچی کی شدید مخالفت اور دینی اصلاح کی تحریک سے اس کی قربت ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں تقویٰ اور سماجی عزوشرف کے ملاپ نے اہلِ علم اشرافیہ یعنی علماء اور سوداگروں، تاجروں اور دیگر پیشہ ور گروہوں (یعنی متوسط طبقے) کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ سماجی نظم میں یہ اساسی تبدیلی اس بین المسالک مناقشے کے لیے ایک اہم پس منظر مہیا کرتی ہے جس سے اس کتاب میں بحث کی گئی ہے، اور جس کا موضوع پرناو کے پروجیکٹ کے بالکل متوازی ہے۔
اور آخر میں ابتدائی جدید اور جدید جنوبی ایشیا میں حاکمیتِ اعلیٰ کے اشکالیے کی توضیح کے لیے اَظفَر مُعین (Azfar Moin) کی کتاب The Millenial Sovereign ناگزیر طور پر متعلق ہے۔ اس کاوش میں معین نے استدلال کیا ہے کہ سیاسی حاکمیت کی مغلیہ تفہیمات کا دار ومدار بادشاہت وولایت کے باہمی ربط پر تھا۔ بادشاہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو صوفی ولی کی کرامت کے اصول اور انداز پر منظم کیا جاتا اور سرانجام دیا جاتا تھا جومذہبی اقتدار اور توقعات سے بھرپور ہوتا تھا۔ بادشاہت و ولایت ایک دوسرے کے ساتھ "بغل گیر ہو کر" مربوط تھے33۔ مُعین کے مطابق حاکمیتِ اعلیٰ کے ایسے مقدس تصور کی اٹھان اور اساس ولی کی کرامت پر تھی، اور یہ تصور عہد جدید سے قبل مسلم سلطنتوں بشمول ہندوستان کی مغلیہ اور ایران کی صفوی سلطنت میں غالب رہا، تاآنکہ استعماری جدیدیت کی تاخت نے اس کو اکھاڑ پھینکا34۔ اس کتاب کا کام وہیں شروع ہوتا ہے جہاں معین نے اپنا کام ختم کیا ہے۔ مجھے اس سوال میں دلچسپی ہے کہ جب اس عہد کے تقریباً اختتامی دور میں جس کا مطالعہ اظفر معین نے کیا ہے، ایک تصور کی حیثیت سے حاکمیتِ اعلیٰ کے مسئلے کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا۔
میں بطورِ خاص اس سوال کو زیرِ غور لاؤں گا کہ ہندوستان میں مغل بادشاہت سے برطانوی استعمار کی طرف انتقال کا یہ عبوری دور کس طرح ان مباحثوں اور مناقشوں کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے جو علما کے مابین اور ان کے ہم عصر معاشروں میں حاکمیتِ اعلی کے تصور پر وقوع پذیر ہوئے؟ میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور انسانی شخصیت کے درمیان اس شرعی رشتے کے متعلق سوالات پر توجہ دوں گا جو انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان اہل علم کے درمیان شدید علمی ہیجان اور کشمکش کے مظاہر کے طور پر سامنے آئے۔
مثلاً ایک ایسے دور میں جب سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ روز افزوں انحطاط پذیر تھی، خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے بارے میں کس طرح کے تصورات پیش کیے گئے؟ مسلمان کس طرح اپنی روزمرہ زندگی اس نہج پر گزاریں جس میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی مکمل خصوصی اور امتیازی حیثیت کا اقرار ہو؟ حاکمیتِ اعلیٰ کا انحصار کس بات پر ہے؟ کیا خدائی حاکمیتِ اَعلیٰ کا دار ومدار مُعجِزات جیسے استثنائی قانون کی تنفیذ پر ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی شفاعت والے کردار کو کیسے سمجھا جائے، جب ان کی برکت ورحمت سے گناہ گاروں کو بخشش کی استثنا دی جائے گی؟ استثنا دینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ کیا استثنائیت کے خدائی یا پیغمبری دعووں میں کوئی تضاد ہے؟ جیسا کہ میں بتانے کی کوشش کروں گا، یہ بظاہر کلامی سوالات اس بات سے انتہائی گہرا تعلق رکھتے تھے کہ کس طرح سیاست کے شرعی حدود کے بارے میں تصورات قائم کیے گئے۔ آنے والے صفحات میں، میں شاہ محمد اسماعیل اور علامہ فضل حق خیر آبادی کے درمیان شفاعتِ نبوی کے حدود پر برپا ہونے والے پرجوش مناظروں کے گہرے مطالعے سے کلامی اور سیاسی تصورات کے باہمی تعامل کی تحقیق کروں گا35۔ میں امکانِ کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان) اور امکانِ نظیر (یعنی اللہ تعالی کا حضرت محمد ﷺ کی طرح کی ایک اور شخصیت کو پیدا کرنے کا امکان) کے متنازع مسائل میں ان کے حریف مواقف کا تفصیلی تجزیہ بھی پیش کروں گا۔
میں اپنے استدلال میں بتاؤں گا کہ شاہ اسماعیل اور علامہ خیر آبادی کے متقابل کلامی افکار کی اساس سیاسی عوامل کے وہ حریف بیانیے تھے، جس نے انسانی فرد اور خدائی حاکمیتِ اعلی کے درمیان شرعی تعلق کو استوار کیا۔ میں بتاؤں گا کہ بظاہر ان کلامی مناقشوں کے پیچھے یہ بڑا سیاسی سوال کار فرما تھا کہ سیاسی تغیّر وتبدیلی کے حالات میں حاکمیتِ اعلیٰ کو کس طرح سمجھنا چاہیے۔ اس لیے میرا تجزیہ الہیاتی اور سیاسی تصورات کے باہمی تعامل اور یک جائی سے متعلق ہے۔ میری تحقیق کا مرکزی موضوع وہ مناہج ہیں جن کے ذریعے مسلمانوں کے کلامی مباحث تشکیل دیے گئے اور جن کی بنیاد سیاسی تصورات کی متوازی تفہیمات تھیں۔
اس بحث کی تمہید کے طور پر، میں اس کتاب کے پہلے حصے میں انیسویں صدی کے اوئل کی ایک سنسنی خیز شخصیت شاہ محمد اسماعیل کی حیات اور علمی خدمات کو غور وفکر کا موضوع بناؤں گا جن کی تحریروں اور سرگرمیوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طوفان بپا کر دیا۔ جنوبی ایشیائی اسلام کی علمی اور سماجی تاریخ پر شاہ اسماعیل نے انمٹ نقوش ثبت کیے، اگر چہ ان کی مذہبی فکر کی پرتیں اور تضادات بہت کم زیر بحث لائے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے صفحات میں اس خلا کو پر کرنے کے لیے کچھ پیش رفت ہوگی۔ لیکن شاہ اسماعیل کون تھے، اور وہ اس قدر متنازع کیوں ہیں؟ میں اس سوال کے جواب سے ابتدا کرتا ہوں۔
حواشی
- اشرف علی تھانوی، ارواحِ ثلاثہ (کراچی: دار الاشاعت، 2001)، 49۔
- ایضا، 49-50۔
- مرینالانی راجاگوپالن (Mrinalani Rajagopalan) نے اپنی معلوماتی تحقیق Building Histories: The Archival and Affective Lives of Five Monuments in Modern Delhi (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2016) میں بتایا ہے کہ جامع مسجد، جو دلی کی سب سے بڑی مسجد ہے، جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے سترھویں صدی میں تعمیر کیا، بیسویں صدی میں استعمار مخالف اور سیکولر قوم پرست تحریک کا زبردست مرکز رہی، جو استعماری طاقت کے حدود اور خالص مذہبی مقام کی حیثیت سے مسجد کی روایتی تعریف کا پول کھولتی ہے۔ راج گوپالن کے تجزیے میں اس نکتے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک صدی قبل بھی، جیسا کہ درج بالا واقعے میں بتایا گیا، جامع مسجد وہ مقام تھا، جہاں پر استعماری راج میں انتقال کے عبوری دور میں سماج کی شرعی زندگی کے متعلق سنسنی خیز بین المسالک اختلافات اور حریف تصورات زیادہ واضح طور پر سامنے آئے۔ بین المسالک مناقشے کے لیے ظاہری مقام وعلامت اور استعماری حکومت کے رینگتے ساے کی ایک واضح نشانی کی حیثیت سے جامع مسجد کی نمایاں اہمیت کا سب سے حیران کن مظاہرہ شاہ اسماعیل کی خطیبانہ اور تدریسی سرگرمیوں پر برطانوی ریزیڈنٹ افسر کی طرف سے پابندی ہے، جسے میں اس حصے میں بعد میں بیان کروں گا۔
- اشرف تھانوی، ارواحِ ثلاثہ، 49-50۔
- رابرٹ اورسی، History and Presence (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 10۔
- کرسٹوفر بیلی، Indian Society and the Making of the British Empire (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1988)۔
- Cambridge Companion to Classical Islamic Theology، تدوین: ٹِم وِنٹر (کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2010) میں مارسیا ہرمینسن کا مضمون، Eschatology، 308- 324۔
- سٹڈیا اسلامیکا 87 (1998): 125- 139میں شون مارمن کا مضمون: The Quality of Mercy: Intercession in Mamluk Society۔
- کارل سیاسی کلامیات کے بڑے نظریہ سازوں میں سے تھے، جو 1888 سے لے کر 1985 تک حیات رہے۔ وہ اپنے اس نظریے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہیں کہ حاکمیتِ اعلیٰ کا حامل وہ ہے، جو استثنا لاگو کر سکتا ہو۔ کارل شمٹ، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty (کیمبرج، ایم اے: ایم آئی ٹی پریس، 1986)، 36۔
- پال کاہن، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty (نیو یارک: کولمبیا پریس، 2012)، 18۔
- گراہم ہامل اور جولیا لپٹن،Political Theology and Early Modernityکا تعارف، تدوین: گراہم ہامل اور جولیا لپٹن (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2012)، 1۔
- ایضا۔
- کلامی مباحثوں اور مناقشوں کی اساس اور ان میں کار فرما مباحثوں و مناقشوں کی تحقیق میں میں خود کو عُوَیمر انجُم کے اس فکر انگیز نکتے سے شدید متفق پاتا ہوں کہ: "کسی بھی فکری دنیا میں فکر ونظر کے سیاسی دائرے کی بنیاد اساسی عقائد اور عموماً ساکت اور پیشگی مفروضے ہوتے ہیں۔ جدید اہل علم نے اسلام کی سیاسی فکر کو عموماً خلافت پر روایتی مصادر سے سمجھا ہے، لیکن انھوں نے بڑی حد تک علمیات، کلامیات اور قانونی نظریے کو نظر انداز کیا ہے"۔عُویمِر انجم، Politics, Law, and Community in Islamic Thought: The Tamiyyan Moment (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)، 9۔
- شمٹ، Political Theology ، 46۔
- ایضا، 1-55۔
- ایضا، 43۔
- ڈیوڈ گلمارٹن، Rethinking the Public through the Lens of Sovereignty، جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈیز 38، نمبر 3 (ستمبر 2015): 371- 386۔
- میتھی مکھرجی،India in the Shadows of Empire: A Legal and Political History, 1774-1950 (نیو دلی، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2010)، xv ۔
- ایضا، xvi۔
- کرسٹوفر بیلی، Empire and Information: Intelligence Gathering and Social Communication in India, 1780-1870، (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1999) اور Indian Society (؟)۔
- سودِپتا کاویراج، The Trajectories of the Indian State (رانیکھٹ: پرمننٹ بلیک، 2010)، 51۔
- ایضا۔
- ایضا، 40۔
- The Prevention of Tradition، تدوین: ایرک ہوبزباون اور ٹیرنس رینجر (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1992)، 73،میں برنارڈ کوہن کا مضمون، Representing Authority in Victorian India۔
- ایضا۔
- ایضا، 169 – 170۔
- ایضا، 172۔
- ایضا، 178۔
- اس مسئلے میں میری سوچ ڈیوڈ گلمارٹن کے ساتھ کی جانے والی گفتگو سے متاثر ہے۔
- مارگریٹ پرناو، Ashraf into Middle Classes: Muslims in Nineteenth-Century Delhi(نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2013)۔
- ایضا، 1- 157 اور 179 – 297۔
- ایضاً، 423۔
- اَظفَر مُعین، The Millennial Sovereign: Sacred Kingship and Sainthood in Islam (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2010)، 5۔
- ایضا، 2 – 22۔
- میں یہ بات ایک بار پھر کہتا ہوں کہ جس مناظرانہ کش مکش کو یہاں زیر بحث لایا گیا ہے، وہ کہیں 1826 میں وقوع پذیر ہوئی ہے، ہندوستانی تاریخ کاا یک ایسا دور جب برطانوی استعمارپہلے سے قابض ہو گیا تھا، لیکن اس نے مکمل طور پر مغلیہ سلطنت کو برطرف نہیں کیا تھا، وہی پیش رفت جو بعد میں 1857 میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے کئی حوالوں سے اس تاریخی دور کو مغلیہ سلطنت سے برطانوی استعماری راج میں تبدیلی کے آہستہ لیکن حتمی عبوری دور کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔
اپریل ۲۰۲۲ء
مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین سے متعلق ہمارا موقف
محمد عمار خان ناصر
مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے متبعین کے متعلق اپنے نقطہ نظر کے مختلف پہلو میں وقتاً فوقتاً اپنی تحریروں میں بیان کرتا رہا ہوں۔ آج کل یہ سوال پھر زیربحث ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے موقف کی ایک جامع اور مختصر وضاحت یکجا پیش کر دی جائے۔
1۔ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے اور ایک مستقل امت کے طور پر مسلمانوں کی شناخت کی بنیاد ہے۔ اس عقیدے کی بالکل الگ اور مبتدعانہ تشریح کرتے ہوئے مرزا صاحب کو نبی ماننے کی بنیاد پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا آئینی فیصلہ بالکل درست ہے۔
2۔ آئینی فیصلے کے بعد قادیانیوں کو پاکستان کے دوسرے غیر مسلم شہریوں کی طرح وہ تمام حقوق اور تحفظات حاصل ہیں جو آئین اور قانون غیر مسلموں کو دیتے ہیں۔ اس میں قادیانیوں اور دوسرے غیر مسلموں میں کوئی فرق آئین وقانون کی رو سے درست نہیں اور یہ آئینی حیثیت اس کے ساتھ بھی مشروط نہیں کہ قادیانی خود کو غیر مسلم تسلیم کر لیں۔ البتہ دلیل اور منطق کے ساتھ دنیا پر اور خود قادیانیوں پر بھی اس فیصلے کی دینی بنیاد اور عملی ضرورت کو واضح کرتے رہنا چاہیے۔
3۔ قادیانیوں کے عمومی مقاطعہ کو دینی حکم قرار دینا درست نہیں۔ انفرادی طور پر حسب مصلحت کسی کو میل جول سے روکا جا سکتا ہے، لیکن بحیثیت گروہ سماجی معاملات میں ان سے تعلقات نہ رکھنا نہ دین کا حکم ہے اور نہ اس امتیاز کی آئین وقانون اجازت دیتے ہیں۔
4۔ قادیانی ایک منحرف گروہ کے طور پر امت مسلمہ کے مدعو ہیں۔ ان کی غلطی سمجھانے کے لیے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اور تنقید کا سوقیانہ انداز اختیار کرنا دینی اخلاقیات کے خلاف ہے جس پر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا حیات خان جیسے اکابر کی تنبیہات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں آئین وقانون بھی اس کو قابل تعزیر قرار دیتا ہے جس کی وضاحت پاکستان کے ضابطہ تعزیرات کی شق 295-Aمیں موجود ہے۔ یہ قانون بتاتا ہے کہ پاکستان کے شہریوں میں سے کسی بھی گروہ کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے یا اس کے مذہبی مقدسات کی توہین کرنے پر دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔
295-A. Deliberate and malicious acts intended to outrage religious feelings of any class by insulting Its religion or religious beliefs:
Whoever, with deliberate and malicious intention of outraging the 'religious feelings of any class of the citizens of Pakistan, by words, either spoken or written, or by visible representations insults the religion or the religious beliefs of that class, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to ten years, or with fine, or with both.
5۔ مسلمانوں اور قادیانیوں کے باہمی معاملات میں ان پر غیر مسلم کے احکام جاری ہوں گے، تاہم اگر امت مسلمہ اور کفار کے مابین کسی تنازع یا کشمکش میں سیاسی سطح پر قادیانی مسلمانوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہیں اور مسلمانوں کی اجتماعی قیادت اسے اسلام اور مسلمانوں کے نقطہ نظر سے قرین مصلحت دیکھے تو ایسا کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ تحریک پاکستان کے موقع پر مسلم لیگ نے کیا اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع جیسے جید علماء نے اس کی تصویب کی۔
ہذا ما عندی واللہ اعلم
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۷)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(318) ایواء کا مطلب
آوی یؤوی ایواء کا اصل مطلب ٹھکانا فراہم کرنا ہوتا ہے۔ البتہ جب کسی دشمن یا کسی خطرے سے بچاؤ کا موقع ہو تو پناہ دینا بھی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہوجاتاہے۔ اس لیے اگر موقع پناہ کا نہیں ہو تو ایواء کا ترجمہ ’ٹھکانا دینا‘ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:
(۱) وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ آیة وَآوَیْنَاہُمَا إِلَیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ۔ (المومنون: 50)
اس آیت میں آوَیْنَاہُمَا کہہ کر ٹھکانا فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ پناہ دینے کی۔ اس آیت میں اس انتظام کی طرف اشارہ ہے، جو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اللہ تعالی نے حضرت مریم علیہا السلام کے لیے کیا تھا۔جس کا ذکر سورہ مریم میں ہے۔ اللہ تعالی نے اس عمدہ انتظام کو بھی اپنی نشانی کے طور پر بیان کیا ہے۔ درج ذیل آیت میں معین سے مراد ایک چشمہ ہے نہ کہ بہت سے چشمے۔ آیت کے ترجمے ملاحظہ کریں:
”اور بنایا ہم نے مریم کے بیٹے اور اس کی ماں کو ایک نشانی اور ان کو ٹھکانا دیا ایک ٹیلے پرجہاں ٹھیراؤ تھا اور پانی نتھرا“۔ (شاہ عبدالقادر، یہ مناسب ترجمہ ہے)
”اور ابن مریم اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا اور ان کو ایک سطحِ مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے“۔ (سید مودودی، غالباً کاتب کی غلطی سے نشانی کی جگہ نشان ہوگیا۔ ’چشمے جاری تھے‘ کے بجائے ’چشمہ جاری تھا‘ ہونا چاہیے۔)
درج ذیل ترجموں میں پناہ دینا ہے، جو مناسب نہیں ہے:
”اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسیٰ) اور ان کی ماں کو (اپنی) نشانی بنایا تھا اور ان کو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں (نتھرا ہوا) پانی جاری تھا، پناہ دی تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)
”ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسی علیہ السلام) کو اور ان کی ماں (حضرت مریم) کو بڑی نشانی بنایا اور ہم نے ان کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جاکر پناہ دی جو (بوجہ غلات اور میوہ جات پیدا ہونے کے) ٹھہرنے کے قابل اور شاداب جگہ تھی“۔ (اشرف علی تھانوی)
(۲) أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَیٰ۔ (الضحی: 6)
اس آیت میں بھی پناہ دینے کا محل نہیں ہے، بلکہ ٹھکانا دینے ہی کا محل ہے۔
”بھلا نہ پایا تجھ کو یتیم پھر جگہ دی“۔ (شاہ عبدالقادر)
”کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟“۔ (سید مودودی)
”کیا خدا نے آپ(ص) کو یتیم نہیں پایا؟ تو پناہ کی جگہ دی؟“۔ (محمد حسین نجفی)
”کیا اس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے“۔ (ذیشان جوادی)
(۳) وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیٰ یُوسُفَ آوَیٰ إِلَیْہِ أَخَاہُ۔ (یوسف: 69)
اس آیت میں بھی پناہ دینے کی بجائے اپنے نزدیک کرلینا درست ترجمہ ہے۔
”اور جب وہ لوگ یوسف کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس پناہ دی“۔ (ذیشان جوادی)
”یہ لوگ یوسفؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا“۔ (سید مودودی)
(۴) تُرْجِی مَن تَشَاءُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إِلَیْکَ مَن تَشَاءُ۔ (الاحزاب: 51)
اس آیت میں پناہ دینا نہیں بلکہ اپنے پاس رکھ لینا درست ترجمہ ہے۔
”ان میں سے جس کو آپ چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں“۔ (ذیشان جوادی)
”ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے“۔ (محمد جوناگڑھی)
(319) وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِینَ
غفلت کا مطلب لاپرواہی برتنا ہوتا ہے، نہ کہ کسی کام سے نا بلد ہونا۔ درج ذیل آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ مخلوق سے غافل و بے پروا نہیں ہے۔ طرائق طریقة کی جمع ہے جس کے معنی راستے کے ہیں۔ درج ذیل آیت میں طرائق کا ترجمہ راستے ہونا چاہیے، البتہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے نزدیک طرائق سے آسمان مراد ہیں۔
وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِینَ۔ (المومنون: 17)
”اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے“۔ (سید مودودی)
”اورہم ہی نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم بنانے میں بے خبر نہ تھے“۔ (احمد علی)
”ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور ہم نے تمہارے اوپر (کی جانب) سات آسمان پیدا کئے۔ اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہ بہ تہ آسمان بنائے اور ہم مخلوق سے بے پروا نہیں ہوئے“۔ (امین احسن اصلاحی، ’بے پروا نہیں تھے‘ ہونا چاہیے۔)
”اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، اور ہم مخلوق سے بے پروا نہیں تھے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(320) أَنزِلْنِی مُنزَلًا مُّبَارَکًا
وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِی مُنزَلًا مُّبَارَکًا وَأَنتَ خَیْرُ الْمُنزِلِینَ۔ (المومنون: 29)
”اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔(سید مودودی)
”اور عرض کر کہ اے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے“۔ (احمد رضا خان)
”اور (یہ بھی) دعا کرنا کہ اے پروردگار ہم کو مبارک جگہ اُتاریو اور تو سب سے بہتر اُتارنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور کہنا کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں میں“۔ (محمد جوناگڑھی)
”اور دعا کیجیو کہ اے رب! تو مجھے اتار مبارک اتارنا اور تو بہترین اتارنے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
بعض لوگوں نے مبارک جگہ ترجمہ کیا ہے اور بعض لوگوں نے مبارک اتارنا ترجمہ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہاں منزلا ظرف نہیں بلکہ مصدر میمی ہے۔ وہ حسب ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”اور کہو کہ اے رب! تو مجھے اپنی برکتوں کے ساتھ اتار اور تو بہترین اتارنے والا ہے“۔
اس سے ترجمے میں شگفتگی بھی آجاتی ہے اور اس میں معنویت بھی بھرپور ہے۔
(321) ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ
درج ذیل آیت میں کس چیز کو بعید کہا جارہا ہے، وعدے کو، یا اس چیز کے واقع ہونے کو جس کی خبر دی جارہی ہے۔ ظاہر ہے وعدہ یا خبر تو دے دی گئی ہے، اس کے بعید ہونے کا سوال نہیں ہے، یہاں اس چیز کے بعید ہونے کی بات ہے جس کے واقع ہونے کی خبر دی جارہی ہے۔
ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ۔ (المومنون: 36)
”بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے“۔ (سید مودودی)
”بہت ہی بعید اور نہایت ہی مستبعد ہے یہ ڈراوا جو تمھیں سنایا جارہا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)
درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:
”جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (بہت) بعید اور (بہت) بعید ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
(322) فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ
فَأَخَذَتْہُمُ الصَّیْحةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ۔ (المومنون: 41)
”پس پکڑا ان کو آواز تند نے ساتھ حق کے، پس کردیا ہم نے ان کو ریزہ ریزہ پس لعنت ہے واسطے قوم ظالموں کے“۔ (شاہ رفیع الدین، غثاء کا ترجمہ ریزہ ریزہ کرنا درست نہیں ہے، اس کا مطلب کوڑا کرکٹ ہوتا ہے)
”پھر کردیا ہم نے ان کو کوڑا سو دور ہوجاویں گے گناہ گار لوگ“۔ (شاہ عبدالقادر، ظالمین کا ترجمہ گناہ گار لوگ کرنا درست نہیں ہے)
”تو ہم نے ان کو کوڑا کرڈالا۔ پس ظالم لوگوں پر لعنت ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
”اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا دُور ہو ظالم قوم!“۔ (سید مودودی، کچرا بنادیا درست ہے، بناکر پھینک دیا درست نہیں ہے۔)
”تو ہم نے انہیں گھاس کوڑا کردیا تو دور ہوں ظالم لوگ“۔ (احمد رضا خان)
”اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ کر ڈالا، پس ظالموں کے لیے دوری ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)
”تو ہم نے ان کو خس و خاشاک کردیا۔ تو خدا کی پھٹکار ہو ایسے بدبختوں پر“۔ (امین احسن اصلاحی، ظالمون کا ترجمہ بدبختوں درست نہیں ہے۔)
(323) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ
درج ذیل آیت دو مقام پر آئی ہے، دونوں جگہ مضارع کے صیغے میں ہے، لیکن دونوں جگہ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ ماضی کا کیا ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ۔ (المومنون: 43)
”نہ تو کوئی امت اپنے وقت مقررہ سے آگے بڑھی اور نہ پیچھے رہی“۔ (محمد جوناگڑھی)
”کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھیر سکی“۔ (سید مودودی)
اوپر کے دونوں ترجموں میں یہ غلطی ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:
”نہ کوئی قوم اپنی اجل معین سے پہل ہی کرتی اور نہ وہ اس سے پیچھے ہی ہٹتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی) آگے بڑھ سکتی ہے نہ اس سے پیچھے رہ سکتی ہے۔
”کوئی جماعت اپنے وقت سے نہ آگے جاسکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)
مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ۔ (الحجر: 5)
”کوئی گروہ اپنے وعدہ سے آگے نہ بڑھے نہ پیچھے ہٹے“۔ (احمد رضا خان)
”کوئی قوم اپنے وقت مقرر سے نہ پہلے ہلاک ہوئی ہے نہ پیچھے رہی ہے“۔ (احمد علی)
اوپر کے دونوں ترجموں میں یہ غلطی ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:
”کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے، نہ اُس کے بعد چھوٹ سکتی ہے“۔ (سید مودودی)
”کوئی گروہ اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے رہتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
مطالعہ سنن ابی داود (۴)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
مطیع سید: ایک موقع پر ایک بدوی آپﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نے اسے دین کی تعلیم دیتے ہوئے صرف ارکان دین یعنی عبادات کے متعلق بتایا۔ (کتاب الصلاۃ، باب فرض الصلاۃ، حدیث نمبر ۳۹۱) معاملات کی بات نہیں فرمائی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
عمار ناصر: ایسے موقع پر سائل کے مقصد کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے۔ سائل کا مقصد سمجھ کر کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے، اس کے لحاظ سے جواب دے دیا جاتا ہے۔ باقی چیزوں کی نفی مقصود نہیں ہوتی۔ یہاں سائل دین کی کوئی ایسی وضاحت طلب ہی نہیں کر رہا جو پوری انسانی زندگی پر محیط ہو۔ بنیادی انسانی اخلاقیات کی جو باتیں معروف ہیں، وہ ان سے واقف ہے، اور وہ چاہ رہاہے کہ دین مجھ پر اس کے علاوہ کیا ذمہ داری عائدکر تا ہے جسے اداکرنے کے بعد میں سرخروہوجاؤں گا۔ ظاہرہے، اس کے جواب میں آپ ﷺ کو پورے دین کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔
مطیع سید: عورتیں جو بالوں کی مینڈھیاں بناتی تھیں، آپﷺنے انہیں غسل کے لیے کھولنے کا حکم نہیں فرمایا۔ (کتاب الطہارۃ، باب فی المراۃ ہل تنقض شعرہا عند الغسل، حدیث نمبر ۲۵۱) تو کیا اس سے نیل پالش کا جواز نکال سکتے ہیں کہ وضو یا غسل کے لیے اسے اتارنے کی ضرورت نہیں؟
عمار ناصر: مینڈھیوں پر قیاس نہ کیا جائے تو بھی میری رائے میں تو ایسا کرنا درست ہے۔
مطیع سید: یعنی جب وضو کر کے نیل پالش لگائی ہو یا پھر اس کے لیے وضو کی شرط بھی نہیں؟
عمار ناصر: غامدی صاحب نے اس کو موزوں کے مسح پر قیاس کرتے ہوئے یہ رائے دی ہے کہ اگر وضو کر کے نیل پالش لگائی ہو تو پھر اس کے اوپر سے پانی بہا دینا کافی ہے۔ میرے خیال میں تو وضو کر کے لگانا ضروری نہیں۔ اگر ویسے بھی لگا لی ہو تو اس کے ساتھ ہی وضو کیا جا سکتا ہے۔ اس کو یوں سمجھا جائے گا کہ جب تک نیل پالش لگی ہوئی ہے، وہ چمڑے کا یا ناخن کا حصہ ہی ہے۔ میرے نزدیک جو لوگ رنگ روغن کا کام کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پر پینٹ لگ جاتا ہے جسے کافی کوشش سے ہی اتارا جا سکتا ہے، ان کا حکم بھی یہی ہے۔ جب تک وہ پینٹ جسم پر لگا ہوا ہے، وہ جسم کی جلد کی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ میرے خیال میں شریعت کے اصول تیسیر کا تقاضا ہے۔
مطیع سید: صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین کے کچھ غلام مسلمان ہو کر آگئے تو آپﷺ نے انھیں واپس بھیجنے سے انکار فرما دیا۔ (کتاب الجہاد، باب فی عبید المشرکین یلحقون بالمسلمین فیسلمون، حدیث نمبر ۲۷۰۰) کیا یہ صلح حدیبیہ کے بعد کا واقعہ ہے؟ اس معاہدے میں تو طے کیا گیا تھاکہ مشرکین میں سے جو مسلمانوں کے پاس جائے گا، اسے واپس بھیج دیا جائے گا۔
عمار ناصر: نہیں، روایت میں تصریح ہے کہ یہ معاہدہ طے پانے سے پہلے کا واقعہ تھا۔ ابھی چونکہ معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں واپس نہیں بھیجا۔
مطیع سید: آپ ﷺنے نجد کی جانب ابان ابن سعید کو سردار بنا کر بھیجا۔ ان کی واپسی پر خیبر فتح ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں حصہ نہیں دیا، لیکن ابو موسی اشعری اور جعفر بن ابی طالب کو حصہ عطا فرمایا۔ (کتاب الجہاد، باب فی من جاء بعد الغنیمۃ لا سہم لہ، حدیث نمبر ۲۷۲۳، ۲۷۲۵) آپﷺ نے یہ فرق کیوں رکھا؟
عمار ناصر: مال غنیمت کی تقسیم میں حکمران کی صوابدید کا بھی کافی دخل ہوتا ہے۔ بعض دوسرے مواقع پر بھی آپ نے اپنا یہ صواب دیدی اختیار استعمال فرمایا اور سیاسی یا انفرادی مصلحت کے تحت فیصلہ کیا کہ کس کو کتنا حصہ دینا چاہیے اور کس کو نہیں۔
مطیع سید: مال غنیمت کی تقسیم موجود دور میں بھی اسی طرح ہوگی؟
عمار ناصر: نہیں، اب تو صورتحا ل بہت ہی مختلف ہو گئی ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں مجاہدین ذاتی حیثیت میں ہتھیار اور سواری وغیرہ کا بندوبست کر کے جنگ میں شریک ہوتے تھے۔ بعد کے دور میں باقاعدہ تنخواہ دار فوجیں منظم کر لی گئیں تو مال غنیمت براہ راست فوجیوں میں تقسیم کر دینا ممکن نہیں رہا۔ اگر یہی طریقہ جاری رکھا جاتا تو سرکاری خزانے سے فوجوں کے اخراجات کی رقم کہاں سے لائی جاتی؟ آج کل کے بین الاقوامی معاہداتی نظام میں تو مال غنیمت پر فاتحین کے حق کو بھی کافی محدود کر دیا گیا ہے۔ غالباً دشمن کے جنگی سازوسامان پر قبضہ کر لینا تو فاتح کا حق مانا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ عام لوگوں کے اموال پر قبضہ درست نہیں مانا جاتا۔ مال غنیمت کا قدیم تصور اس سے مختلف تھا۔
مطیع سید: حدیبیہ کے معاہدے کے بعد ایک صحابی ابو بصیر مکے سے بھاگ کر مدینہ آ گئے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے مطابق انھیں واپس بھیج دیا۔ راستے میں انھوں نے گرفتار کر کے لے جانے والے مشرکوں کو قتل کر دیا اور پھر اپنی طرح مکے سے بھاگ کر نکلنے والے بہت سے افراد کا ایک جتھہ بنا کر مشرکین پر حملے کرنے لگے۔ (کتاب الجہاد، باب فی صلح العدو، حدیث نمبر ۲۷۶۵) کیا ابو بصیر کا یہ اقدام غیر شرعی تھا؟
عمار ناصر: نہیں، اس میں کسی شرعی اصول کی خلاف ورزی تو انھوں نے نہیں کی تھی۔ معاہدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا تھا اور آپ نے معاہدے کے مطابق انھیں واپس بھیج دیا۔ مکے کے مسلمان جنھیں جبراً مکے والوں نے قید بنا کر رکھا ہوا تھا، وہ تو اس معاہدے کا فریق ہی نہیں تھے۔ ان کو پورا حق حاصل تھا کہ وہاں سے آزادی حاصل کریں اور اگر مجتمع ہو کر ظالموں کے خلاف لڑ سکتے ہوں تو لڑیں۔ ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں نے یہی کیا۔
مطیع سید: آپﷺ نے ابو بصیر کو کوئی پیغام کیوں نہیں بھجوایا کہ یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے؟
عمار ناصر: نہیں، اس کی ضرورت کیا تھی؟ اس کے کام میں کوئی شرعی خرابی تو تھی نہیں تو کیوں آپ ﷺ پیغام بھیجتے؟ ہاں، یہ آپ نے ضرور واضح کر دیا تھا کہ آپ ان کو مدینہ میں پناہ نہیں دے سکتے، کیونکہ اس سے قریش کے ساتھ جنگ کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھے گی۔ مدینہ کے علاوہ وہ اپنے طور پر جہاں بھی جاتے اور جو بھی کرتے، ا س کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں آتی تھی۔
مطیع سید: آپ ﷺ خود قریش سے نہیں لڑ رہے تھے اور جو لڑائی چھیڑ رہا تھا، اسے منع بھی نہیں کررہے تھے؟
عمار ناصر: آپﷺ تو اس لیے لڑائی نہیں کر رہے تھے کہ ان سے معاہدہ کر چکےتھے اور معاہدے کے پابند تھے۔ ابوبصیر کو کیوں منع کرتے؟ ان کا تو کوئی معاہدہ نہیں تھا اور وہ قریش کے مظلوم بھی تھے۔
مطیع سید: حضورﷺ نے ایک معاہدہ کیا اور ابو بصیر آپﷺ کے ایک ماننے والا تھے۔ کیااس معاہدے کی پابندی ان پر لاگو نہیں ہوتی تھی؟
عمار ناصر: بالکل نہیں ہوتی تھی۔ وہ معاہدہ آپ نے اس حیثیت سے نہیں کیا تھا کہ میں پیغمبر ہوں اور میرے سب ماننے والے اس کے پابند ہوں گے۔ وہ اس حیثیت سے تھا کہ مدینے میں جو ہماری حکومت قائم ہے اور مدینے میں جو لوگ آپﷺ کی حکومت کے تحت رہ رہے ہیں، وہ اس کے پابند ہیں۔ مکے کے مسلمان تو نہ اس معاہدے میں شریک ہوئے تھے اور نہ اس کے پابند تھے۔ یہ مدینے کی حکومت اور مکے کے سرداروں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔
مطیع سید: آج جو فاٹا کے لوگ ہیں، کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ریاستِ پاکستان کی عمل داری میں نہیں آتے، ہم تو الگ ہیں، اس لیے ہم ریاست پاکستان کی پالیسیوں کے پابند نہیں؟
عمار ناصر: ا گر ان کی یہ بات درست ہے کہ ان پر ریاست پاکستان کی پالیسیوں کی پابندی لازم نہیں تو ان کا نتیجہ بھی ٹھیک ہے۔ ریاست پاکستان کی ان علاقوں کے ساتھ معاہدے کی کیا نوعیت ہے، یہ دیکھنا پڑے گا۔ اگر تو اس معاہدے کے مطابق وہ پاکستان کی سیاسی پالیسی کے اور پاکستانی آئین کے پابند ہیں توان کی بات ٹھیک نہیں ہے۔ اگر وہ ریاست کا حصہ ہیں تو ریاست کی رٹ وہاں پر قائم ہوگی۔ ریاست کا حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی خارجہ پالیسی ریاست سے الگ نہیں بنا سکتے۔ ان کے لیے قانونی نظام کے لحاظ سے اگر کوئی الگ بندوبست کیا گیا ہے تو وہ بھی آئین کی کسی Provision کے تحت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصل میں توریاست پاکستان کا حصہ ہیں۔ میرے علم کی حد تک وہاں وہ عسکریت پسند گروہ تھے، ان کی مرکزی قیادت نے بھی ایسی کوئی دلیل نہیں دی۔ وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اس لیے ریاست پاکستان کے پابند نہیں ہیں کہ یہ جمہوریت پر قائم ہے جس کو ہم کفر سمجھتے ہیں۔ گویا آئینی طور پر اور معاہدے کے مطابق ریاست کا حصہ ہونے کے بعد وہ نظریاتی بنیادوں پر اس کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے۔ یہ تو بغاوت ہوتی ہے۔
مطیع سید: آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ جلد تم اہل روم کے ساتھ صلح کروگے اور ان کے ساتھ مل کر ایک دوسرے دشمن کے ساتھ جنگ کرو گے۔ (کتاب الجہاد، باب فی صلح العدو، حدیث نمبر ۲۷۶۷)ایسا کب ہوا؟یا ابھی یہ واقعہ ہوگا؟
عمار ناصر: بظاہر جس طرح سے یہ بات بیان ہوئی ہے، تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے آگے چل کر کبھی ایسا ہو۔ لیکن بظاہر روایت کے انداز سے لگتا ہے کہ آپﷺ فوراً مابعد کے جو حالات ہیں، اس کے حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ پیشین گوئیوں سے متعلق بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ میں بعض دفعہ بڑی نمایاں ہوکرواقعات کی صورت میں آجاتی ہیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ کسی چھوٹی سطح پر ہواہواور تاریخ میں اتنا نمایاں نہ ہوا ہو۔
مطیع سید: یا ممکن ہے کہ رومیوں کے کسی گروہ سے صلح ہوئی ہو؟
عمار ناصر: ہاں جی، پیشین گوئیوں کا مصداق متعین کرنے میں بہت زیادہ احتمالات اور امکانات ہوتے ہیں۔
مطیع سید: ذی الخلصہ ایک بت خانہ تھا۔ آپ ﷺنے حضرت جریر سے فرمایا کہ کیا تم مجھے اس سے راحت کیوں نہیں دلا دیتے؟تو انھوں نے جا کر اس کو جلادیا۔ (کتاب الجہاد، باب فی بعثۃ البشراء، حدیث نمبر ۲۷۷۲)اس کو کیوں جلوایا گیا اوریہ کس دور کا واقعہ ہے؟
عمار ناصر: بت خانے منہدم کروانے کے جتنے واقعات ہیں، وہ عام طورپر فتح مکہ کے بعد کے ہیں۔ اسی موقع پر آپﷺ نے مہمیں بھیجیں۔ ذو الخلصہ کو گرانے کے لیے آپ نے جریربن عبد اللہ کو مبعوث کیا۔ سرزمین عرب کو شرک اور بت پرستی سے پاک کرنے کی جو ذمہ داری آپ کو دی گئی تھی، یہ اسی کا حصہ تھا۔
مطیع سید: اہل کتاب کا ذبیحہ جائز ہے (کتاب الضحایا، باب فی ذبائح اہل الکتاب، حدیث نمبر ۲۸۱۷) تو کیا وہ بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں گے تب جائز ہوگا یا اپنے طریقے سے بھی ذبح کر لیں تو وہ حلال ہے؟
عمار ناصر: نہیں، جس طریقے سے بھی انہوں نے اللہ کا نام لے لیا، اپنے مذہب کے مطابق جو بھی ان کے ہاں کلمات ہیں، وہ پڑھ لیے تو جانور حلال ہوگا۔
مطیع سید: جانور ذبح کیا اور اس کے پیٹ میں سے مردہ بچہ نکل آیا تو حدیث میں واضح طورپر آیا ہے کہ اس کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین، حدیث نمبر ۲۸۲۷) لیکن احناف کہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ نکلا ہو تو اس کو ذبح کیا جائے گا، ورنہ وہ مردار سمجھا جائے گا۔
عمار ناصر: ظاہری قیاس کے لحاظ سے احناف کی بات میں وزن ہے۔ پیٹ میں جو بچہ ہے، وہ ایک الگ وجود ہے، اس لیے اس کو الگ سے ذبح ہونا چاہیے۔ اس کی ماں کا ذبح کیا جانا اس کے لیے کافی نہیں۔
مطیع سید: لیکن احناف کے پاس دلیل کیا ہے؟
عمار ناصر: یہی کہ اس کا الگ وجود ہے۔
مطیع سید: اسی لیے محدثین اور احناف کی آپس میں بڑی لگتی رہی ہے۔ لیکن مجھے ذاتی طورپہ یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جب نبیﷺ کی بات سامنے آگئی تو پھر قیاس کو کیوں اہمیت دی جا رہی ہے؟
عمار ناصر: اصل میں ائمہ احنا ف بھی اگر حدیث یا روایت کی صحت پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو وہ بھی ایسے سوال نہیں اٹھاتے۔ ان کے سامنے یا تو اس وقت تک بہت سی روایتیں پہنچی نہیں تھیں یا پہنچی تھیں تو اتنے مخدوش طریقے سے کہ اس پر انہیں اطمینا ن نہیں ہوا۔ یا وہ سمجھ رہے ہیں کہ قیاس چونکہ ایک بالکل مختلف بات بتا رہا ہے تو روایت کے ظاہری مفہوم میں تاویل کر لینی چاہیے۔ تو وہ اس حدیث کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماں کا ذبح کیا جانا بچے کے لیے بھی کافی ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے ماں کو ذبح کیا گیا، اسی طرح بچے کو بھی ذبح کیا جائے۔
مطیع سید: کیا اس بات کا بھی امکان ہے کہ احناف کے ہاں یہ رائے پہلے قیاس کی بنیاد پر قائم کر لی گئی ہو، اور بعد میں جب انہیں حدیث ملی تو انہوں نے حدیث کی تاویل کرلی؟
عمار ناصر: جی، یہ ممکن ہے۔ بہت سی مثالوں میں ایسے ہی ہواہے کہ روایت ائمہ کے سامنے نہیں آئی، انہوں نے ایک رائے قائم کرلی۔ بعد کے آنے والوں نے رائے نہیں بدلی اور حدیث میں تاویل کا طریقہ اختیار کر لیا۔ امام طحاوی نے تو کئی جگہ امام ابوحنیفہ کی آرا کی یہی توجیہ کی ہے کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی تھی۔
مطیع سید: حدیث میں جب ہم الفاظ کی بحث کررہے ہوتے ہیں تو کئی دفعہ الفاظ پر بڑا انحصار کررہے ہوتےہیں۔ ہمیں کیسے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ یہ الفاظ بعینہ حضورﷺ کے ہی ہیں؟
عمار ناصر: زیادہ سے زیادہ آپ ظنِ غالب تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس روایت کے کئی طرق ہوں اور کچھ الفا ظ سب طرق میں مشترک آرہے ہیں تو اس سے آپ انداز ہ کر سکتے ہیں کہ یہ الفاظ آپﷺ کے ہیں۔ ورنہ عموماً احادیث کی روایت بالمعنیٰ ہی ہوتی ہے۔
مطیع سید: مسلمان اور کافر آپس میں وارث نہیں ہو سکتے۔ (کتاب الفرائض، باب ہل یرث المسلم الکافر، حدیث نمبر ۲۹۱۰) لیکن حضرت معاذ کے پاس ایک معاملہ لایا گیا جس میں ایک یہودی کا وارث ایک مسلمان بن رہا تھا تو انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دے کر اسے وارث بنادیا کہ الاسلام یزید ولا ینقص، اسلام بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔ (کتاب الفرائض، باب ہل یرث المسلم الکافر، حدیث نمبر ۲۹۱۳)
عمار ناصر: انہوں نے حدیث کی مراد کے متعلق گویا یہ اجتہادی سوال اٹھایا کہ مسلمان اور کافر آپس میں وارث نہیں ہو سکتے، کیا اس کا تعلق اہل کتاب سے بھی ہے یا یہ مشرکین کے بارے میں ہے؟ یہ بات کہی تو آپﷺ نے مشرکین کے تناظر میں ہی تھی۔ جس موقع پر آپﷺ نے یہ بات کہی، وہاں مکے کے مشرکین سے مسلمانوں کو وراثت ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ زیر بحث تھا۔ تو اس سے ایک گنجائش نکل آتی ہے کہ اہل کتاب کے احکام مختلف ہیں۔ تو اس سے بعض صحابہ اور تابعین نے یہ قیاس کیا کہ جیسے ہم ان کی عورتوں سے نکاح کر سکتےہیں، لیکن وہ ہماری خواتین سے نکاح نہیں کر سکتے، اسی طریقے سے ان کا مال تو مسلمانوں کو بطور وراثت مل جائے گا، لیکن مسلمان کی وراثت غیر مسلم کو نہیں ملے گی۔ حضرت معاذ کے یہاں الاسلام یزید ولا ینقص کی حدیث کا حوالہ دینے کا یہی مطلب ہے۔
مطیع سید: غزوہ ہند کی جو روایات ہیں، ان کو کیسے سمجھیں؟ کیا یہ روایات درست بھی ہیں یا نہیں؟
عمار ناصر: دو تین طرح کی روایتیں ہیں۔ محدثین ان پر بحث بھی کرتے ہیں۔ بعض کی سند پر جرح بھی ہے، لیکن کچھ صحیح بھی مانی گئی ہیں۔
مطیع سید: محمد بن قاسم جو ہندوستان میں وارد ہوا، یہ اس سے متعلق سمجھی جائیں یا مستقبل کے کسی واقعہ سے متعلق؟
عمار ناصر: فطری طور پر تو جو پہلا غزوہ تاریخ میں ہوا، اس پر اس کو منطبق کرنا چاہیے۔ شارحین کے ہاں یہ رجحان ہے کہ وہ کسی ایک خاص حملے کو متعین کرنے کے بجائے مختلف نمایاں واقعات کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ مثلاً ابن کثیر نے محمد بن قاسم اور اس کے بعد محمود غزنوی وغیرہ کےحملوں کو بھی اس کا مصداق کہا ہے۔ لیکن شارحین اس کے متعلق واضح ہیں کہ اس کا مصداق تاریخ میں رونما ہو چکا ہے، یعنی یہ کوئی ایسی پیشین گوئی نہیں ہے جس کے ظہور کا ابھی انتظار ہے۔
مطیع سید: حضرت صفیہ بنت حیی کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور خیبر سے واپسی پر راستے میں ہی صحبت بھی فرمائی۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی سہم الصفی، حدیث نمبر ۲۹۹۱) اس سے ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے کوئی عدت نہیں گذاری۔ لیکن اگلی روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺنے انہیں ام سلیم کے گھر عدت کے لیے بھیج دیا۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی سہم الصفی، حدیث نمبر ۲۹۹۷)
عمار ناصر: عدت گذارے بغیر تو ظاہر ہے، زن وشو کا تعلق ممکن نہیں۔ البتہ جو عورتیں جنگ میں قیدی بن کر آتی ہیں، ان کی عدت تین ماہواریوں والی عدت نہیں ہوتی۔ ان کے لیے ایک ماہواری کافی ہوتی ہے جس سے پتہ چل جائے کہ پیٹ میں کوئی چیز نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ام سلیم بھی خیبر میں ساتھ تھیں اور سیدہ صفیہ کو عدت مکمل ہونے تک ان کے پاس ہی رکھا گیا۔ پھر راستے میں جب ان کی عدت مکمل ہو گئی تو رخصتی بھی کر دی گئی۔
مطیع سید: بنو ثقیف کے لوگ فتح مکہ کے موقع پر زکوۃ اور جہاد سے استثنا کی شرط رکھتے ہیں اور آپﷺ قبول فرما لیتے ہیں۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی خبر الطائف، حدیث نمبر ۳۰۲۵) تو حضرت ابو بکر صدیق نے اس پر قیاس کر تے ہوئے کیوں مانعین زکوۃ کو رخصت نہیں دی؟
عمار ناصر: دونوں جگہ اصول مختلف ہیں۔ بنو ثقیف زکوٰۃ اور جہاد سے استثنا چاہتے تھے اور آپ نےاس کو اس مصلحت کے تحت عارضی طور پر قبول فرمایا کہ یہ لوگ اسلام کی طرف آجائیں تو بعد میں خود بخود یہ پابندیاں بھی قبول کر لیں گے۔ جبکہ جو مانعین زکوٰۃ تھے، وہ پہلے اسلام قبول کر چکے تھے جس میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط شامل تھی اور اب انکار کر کے اس پابندی سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ یعنی وہ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے تھے اور ان کی صورت حال مختلف تھی۔
مطیع سید: مجوس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی محرم خواتین کے ساتھ نکاح کر تے تھے اور حضرت عمر کے حکم پر ان کے ایسے نکاح ختم کر دیے گئے۔ (کتاب الخراج، باب فی اخذ الجزیۃ من المجوس، حدیث نمبر ۳۰۴۳) ان کے درمیان کیوں تفریق کی گئی حالانکہ اسلام دیگر مذاہب کو مذہبی آزادی دیتا ہے کہ ان کے مذہب کے مطابق جو درست ہو، اس پر عمل کریں؟
عمار ناصر: حضرت عمر کے بارے میں یہ روایت تو موجود ہے کہ انہوں نے ایسے نکاح ختم کروانے کا حکم دیا، لیکن یہ ایک شاذ روایت ہے۔ اس پر اسلامی تاریخ میں عمومًا عمل نہیں ہوا۔ تابعین یہی بتا تے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے ہی چلا آرہا ہے کہ مجوس اپنی محارم سے نکاح کرتے ہیں اور ہمارے علما نے کبھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ حضرت عمر نے ممکن ہے کسی موقع پر شان ِجلالی میں ایسی کوئی بات کہہ دی ہو۔ عام طورپر اس پر عمل نہیں ملتا۔ فقہا کے ہاں بھی ایسے ہی ہے کہ وہ اس سے نہیں روکتے بلکہ ایسے نکاحوں کو قانونی طور پر جائز نکاح مانتے ہیں۔
مطیع سید: ایک جگہ میں پڑھ رہا تھا کہ ہندوستا ن کی جو زمین ہے، یہ ِ زمینداری کے خاتمے کے بعد عشری نہیں رہی اور یہاں پر عشر واجب نہیں رہا، لیکن تبر ک کے طور پر زمین کی پیداوار میں سے کچھ صدقہ کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ کیا ہندوستان اور پاکستان کی ساری زمینوں پر یہ حکم لگتا ہے؟
عمار ناصر: یہ بحث اٹھتی رہی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور دوسرے لوگ اس کو اٹھاتے رہے ہیں کہ ہندوستان کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی۔ عشر تو اصل میں زکٰوۃ ہے جو مسلمانوں سے لی جاتی ہے۔ غیر مسلموں کی زمینیں فتح کی گئیں تو ان سے ظاہر ہے زکوۃ نہیں لی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ مسلمانوں کی اپنی خاص عبادت ہے۔ اس کی جگہ ان سے خراج لیا گیا۔ یعنی خراجی زمینیں دراصل مفتوحہ زمینیں ہوتی تھیں جو غیر مسلموں کے تصرف میں ہوں۔ اب اس میں کئی فقہی بحثیں پیدا ہوگئیں کہ عشری زمین کون سی ہوتی ہے اور خراجی زمین کون سی ہوتی ہے۔ کیا خراجی زمین عشری میں بدل سکتی ہے یا نہیں۔ یہ ساری اس تناظرمیں پیداہونے والی بحثیں ہیں۔ ہندوستا ن میں مسلمان جب یہاں آئے تو کسی نے ہو بہو ان احکام کی پابندی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ خلفا اور بادشاہ اپنے طریقے پر محصولات عائد کرتے رہے۔ عشری اور خراجی کے علاوہ بھی زمینوں کی مختلف کیٹیگریز بن سکتی ہیں۔ اس سے آپ کوئی کلیہ اخذ کریں کہ اگر کوئی عشری زمین نہیں ہے تو لازماً وہ خراجی ہوگی اور لازما ً ریاست ہی کی ملکیت میں ہو گی، یہ ضروری نہیں۔ خراج وغیرہ سے متعلق اسلامی فتوحات کے دور میں جو قوانین بنائے گئے، وہ اجتہادی ہیں اور اس دور کے عرف سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ ان سے اگر آپ کلی قانون اخذ کریں اور دنیا کے سارے علاقوں پر ان کو لاگو کریں تو یہ عجیب سی بات ہوگی۔
مطیع سید: تو پھر کیا حل نکلا کہ ہم آج کی زمینوں کو عشری کہیں گے یا خراجی؟
عمار ناصر: خراج کی تو آج کل بحث ہی نہیں ہے، کیونکہ آج کی جو قومی ریاستیں ہیں، ان کی زمینیں مفتوحہ زمینیں نہیں ہیں۔ اب جن مسلمانوں کے پاس زمینیں ہیں، وہ ان کی ملکیت ہیں اور وہ فصل اگاتے ہیں تو ان سے عشر وصول کیا جائے گا، اس طرح ان کو آپ عشری کہہ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی اراضی، چاہے وہ غیر مسلموں کی ملکیت ہوں یا سرکاری اراضی ہوں، ان کا سارا معاملہ اجتہادی ہے۔ ایسے لوگ جن کے پاس بہت سی زمینیں ہیں اور وہ انہیں کاشت نہیں کررہے، حکومت ان کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کو کسی دور میں زمینیں الاٹ کی گئی تھیں تو حکومت ان سے واپس بھی لے سکتی ہے جیساکہ حضرت عمر نے نبی ﷺ کی الاٹ کی ہوئی زمینیں واپس لے لیں کہ لوگ انھیں کاشت نہیں کر رہے تھے۔ یا حکومت ان کو پابند کر سکتی ہے کہ ان زمینوں کو کاشت کرو۔ یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ملکیت انھی کی رہے، مگر ان کا انتظام حکومت سنبھال لےکہ ٹھیک ہے کہ تمہاری ملکیت میں ہی رہے گی، لیکن ان پر کاشت کاری کا عمل ہم اپنی نگرانی میں کروائیں گے۔ اصل چیز ہے کہ عمومی مصلحت کیا کہتی ہے۔ حکومت اس کو سامنے رکھ کر ان زمینوں کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔
مطیع سید: آ ج کے دور میں حکومت اس میں کچھ دخل نہیں دے رہی۔
عمار ناصر: جی نہیں دے رہی، جبکہ اسے دخل دینا چاہیے۔
مطیع سید: تو کیا اگر یہ اجتہادی چیز ہے تو لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ وہ عشر دے دیتے ہیں تو ٹھیک، نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں؟
عمار ناصر: نہیں، اگر مسلمان کے پاس زمین ہے اور فصل اس مقدار کو پہنچتی ہے جس پر عشر واجب ہوتا ہے تو پھر زکوٰۃ دینی پڑے گی۔
مطیع سید: امام ابو داؤد نے ایک باب باندھا ہے کہ امام مشرکین کے ہدایا قبو ل کر سکتا ہے۔ اس میں ایک روایت کے مطابق آپ نے فدک کے سردار کا بھیجا ہوا تحفہ قبول فرمایا، لیکن دوسری روایت میں ہے کہ عیاض بن حمار کہتے ہیں کہ میں ایک اوٹنی تحفتا ًلے کر آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اسلام قبول کر چکے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں تو فرمایا کہ مجھے مشرکین سے تحفہ لینے کی ممانعت ہے۔ (کتاب الخراج، باب فی الامام یقبل ہدایا المشرکین، حدیث نمبر ۳۰۵۵، ۳۰۵۷)
عمار ناصر: اس کا تعلق حکمت اور مصلحت سے ہے۔ کلی طور پر نہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنے کی ممانعت ہے اور نہ قبول کرنا لازم ہے۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس طرح کے مشرکوں سے اور کس طر ح کی صورت حال میں ہدیہ قبول کیا جا سکتا ہے اور کب نہیں کیا جا سکتا۔ عیاض بن حمار کے واقعے میں شارحین لکھتے ہیں کہ غالباً اس کا مقصد انھیں اسلام کی طرف راغب کرنا تھا۔ آپ نے محسوس کیا کہ ان کو محبت تو ہے، لیکن کسی تساہل کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کر رہے تو مناسب سمجھا کہ ان کو ذرا متنبہ کر دیں تاکہ وہ اسلام قبول کر لیں۔
(جاری)
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۹)
مولانا سمیع اللہ سعدی
(اہل تشیع کی اہم کتبِ رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے فرد ا فردا تجزیہ جاری ہے، پچھلی قسط میں چند کتب کا ذکر آگیا تھا، اس قسط میں یہی سلسلہ آگے بڑھایاگیا ہے۔)
8۔ شعب المقال فی درجات الرجال
یہ کتاب معروف ایرانی عالم و محقق مہدی نراقی کے بیٹے نجم الدین ابو القاسم نراقی کی ہے، اس کتاب میں مصنف نے رجال کو تین درجات ا قسام میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے:
پہلی قسم ان رواۃ کی ہے، جن کی ثقاہت پر کتب رجال کا مکمل اتفاق ہے، اس قسم میں مصنف نے 898 رواۃ کا ذکر کیا ہے۔
دوسری قسم ان رواۃ کی ہے، جن کی ثقاہت کے بارے میں کتب رجال میں متضاد اقوال منقول ہیں، اس قسم میں 193 رواۃ کا ذکر ہے۔
تیسری قسم ان رواۃ کی ہے، جن کی کتب رجال میں حدیث میں ثقاہت کی بجائے صرف مدح منقول ہے، جیسے انہیں شیخ، الامام یا الفقیہ کے لقب سے ذکر کیا گیا ہو، اس قسم میں 479 رواۃ کا ذکر ہے۔ یوں کل ملا کے تقریبا 1570 رواۃ کا ذکر ہے، جو ظاہر ہے کہ کل شیعہ رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے، یہ کتاب ساڑھے تین سو صفحات کی متوسط ضخامت والی ایک جلد میں چھپی ہے۔
9۔ اتقان المقال فی احوال الرجال
یہ کتاب چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم و مجتہد محمد طہ نجف کی ہے، یہ کتاب بھی نراقی کی شعب المقال کی طرح یک متوسط جلد میں چھپی ہے، اس کتاب میں مصنف نے رواۃ کو ثقات، حسان اور ضعفاء تین اقسام میں بیان کیا ہے، رواۃ کی ترقیم نہیں کی گئی ہے، لیکن ایک جلد میں پندرہ سو دو ہزار سے زائد رواۃ نہیں سما سکتے، یوں یہ کتاب بھی استیعاب ِ رواۃ کے اعتبار سے پچھلی کتاب کی طرح بالکل غیر مفید کتاب ہے۔
10۔ تنقیح المقال فی علم الرجال
یہ کتاب معروف عراقی مجتہد و محقق شیخ عبد اللہ مامقانی (المتوفی 1933ھ)کی ہے، شیعہ علم رجال کی تاریخ میں اولین مفصل کتاب ہے، مقدمات و خاتمہ و فہارس سمیت یہ کتاب چالیس جلدوں میں چھپی ہے، اس کتاب میں مصنف نے اپنے زمانہ تک کا سارا کا سارا علم رجال سمونے کی کوشش کی ہے، کتاب پر ایک تحقیقی نظر ڈالنے والے محمد رضا مامقانی نے اپنی کتاب "مسرد تنقیح المقال" میں کتاب کے مصادر و ماخذ میں تیس کے قریب شیعہ کتب رجال کا ذکر کیا ہے ، ان کے علاوہ اہم سنی کتب رجال اور دیگر شیعہ کتب اخبار و روایات کو بھی کتاب کے مصادر میں شامل کیا ہے۔ یوں یہ کتاب شیعہ علم رجا ل کے تقریبا سب موجود مصادر کا مجموعہ ہے، اس کتاب میں مصنف راوی کا نام ذکر کرتے ہیں، اس کے بعد جن جن مصادر و ماخذ میں اس کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، مصنف اس کتاب کے رمز کے ساتھ اسے ذکر کرتے ہیں، مصنف نے کتاب کی فراغت کے بعد "نتائج التنقیح " کے نام سے اپنی کتاب میں مذکور رجال کی فہرست دی ہے اور اس کے ساتھ جن جن رجال پر ثقاہت یا ضعف کا حکم لگایا ہے، اس کا بھی ذکر کیا ہے، شیخ رضا مامقانی کے نزدیک نتائج التنقیح میں رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے تعداد یوں بنتی ہے:
ثقات: 1328
حسان: 1665
موثق: 46
یوں کل ملا کے 3039 رواۃ کی توثیق کی گئی ہے، جبکہ 10326 رواۃ ایسے ہیں، جن کے بارے میں ضعف، مجہول یا مہمل کا لفظ ذکر کیا گیا ہے، یوں نتائج التنقیح کے مطابق کل رواۃ 13365 بن جاتے ہیں۔ جن کے بارے میں مصنف نے کوئی نہ کوئی جرح یا تعدیل کا تبصرہ کیا ہے۔
یہ بلا شبہ ایک ضخیم تعداد ہے، یہ تعداد کل شیعہ رجال (30000) کا 45 فیصد بنتا ہے، جو پچھلی کتب کی بنسبت کافی زیادہ تعداد ہے، لیکن یہاں دو باتیں قابلِ ذکر ہیں:
1۔اس کتاب میں مصنف نے اپنے زمانے تک موجود سارا کا سارا شیعہ علم رجال سمویا ہے، تو نتیجہ میں ثقہ رواۃ صرف تین ہزار جبکہ ضعیف، مھمل و مجہول رواۃ دس ہزار بنے، ، یوں گویا شیعہ کے کل رجالی تراث میں تقریبا 25 فیصد رواۃ ثقہ جبکہ 75 فیصد رواۃ ضعیف و مجہول ہیں۔ لھذا یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ علامہ مامقانی تک رجال کا جتنا شیعہ رجال کا جتنا تراث تیار ہوا تھا، اس میں 75 فیصد رواۃ خود شیعہ محققین کے نزدیک ضعیف، مجہول اور مھمل ہیں، جبکہ محض 25 فیصد رواۃ ایسے ہیں، جن کے بارے میں توثیق و تعدیل کا کئی نہ کوئی قول مل جاتا ہے۔
2۔اس کتاب میں مصنف نے دس ہزار سے زائد ر واۃ کے بارے میں مجہول یا مھمل کی جو اصطلاح استعمال کی ہے، شیخ حیدر حب اللہ اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
احدی اہم الملاحظات علی الکتاب ھی ان المامقانی استعمل مصطلح المجہول اعم مماھو مصطلح علیہ عند الرجالیین لیعم المجہول وھو من صرح الرجالیون بجہالتہ و المھمل وھو من ہل یذکر ہ الرجالیون لا بمدح ولا قدح“1
اس کتاب کے بارے میں ایک اہم بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ علامہ مامقانی نے مجہول کی اصطلاح علمائے رجال کی اصطلاح مجہول سے عام معنی میں استعمال ہے، علامہ مامقانی کے اصطلاح مجہول میں اصطلاحی مجہول بھی شامل ہے یعنی وہ راوی جس کی جہالت کی صراحت علمائے رجال نے کی ہو اور مھمل بھی شامل ہے، یعنی وہ راوی جس کا ذکر کتب رجال میں سرے سے ہی نہ ہو، نہ مدحا ً اور نہ قدحاً۔
یوں گویا دس ہزار سے زائد جو رواۃ علامہ مامقانی نے مجہول و ضعیف قرار دئیے، ان میں ایسے رواۃ بھی شامل ہیں جن کا ذکر ہی علمائے رجال کے ہاں مفقود ہے۔ مجہول کی یہ اصطلاح علامہ خوئی کی معجم رجا ل الحدیث میں بھی بکثرت ملتی ہے، جس پر تبصرہ آگے آئے گا، دراصل اہل تشیع کے علم رجال کا اولین جو سرمایہ تیار ہوا، وہ کل ملا کے سات آٹھ ہزار رواۃ سے زیادہ نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں مکررات نہ مانیں، جیسا کہ اس سلسلے کی اولین اقساط میں یہ بات تفصیل کے ساتھ آچکی ہے، جہاں فریقین کے اولین سرمایہ رجال کا ایک تقابل پیش کیا گیا، بعد کی صدیوں کی کتب چونکہ انہی اولین سرمایے کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، اس لئے ایسے رواۃ، جن پر مدحا یا قدحا بحث کی گئی ہیں، بہت کم ہیں، اس لئے زمانہ حال کے جن مصنفین (جیسے علامہ مامقانی و علامہ خوئی غیرہ) نے اس اولین سرمایے سے ہٹ کر احادیث کی اسناد میں موجود رواۃ کو بھی جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا، تو انہیں یہ مشکل پیش آئی کہ بہت سے رواۃ پر تو علمائے رجال نے کسی قسم کا کلا م ہی نہیں کیا، تو انہیں مجہول و مہمل کی درجہ بندی میں شامل کرنا پڑا۔
یوں اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو علامہ مامقانی نے جن ہزارہا رواۃکو مجہول کی درجہ بندی میں شامل کیا، وہ اصلا جرح و قدح کی کوئی قسم نہیں ہے، بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ان رواۃ کے بارے میں علمائے رجال کا اثباتاً یا نفیاً کسی قسم کا کوئی تبصرہ ہی موجود نہیں ہے۔ اس لئے علامہ مامقانی کی تنقیح المقال چالیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہونے کے باوجود رجال کی تعدیل و تجریح کے اعتبار سے پچھلی کتب سے کسی طور بھی مختلف نہیں ہے، قابل تبصرہ رواۃ اس میں بھی زیادہ سے زیادہ وہی چار سے پانچ ہزار کے آس پاس ہیں، جن کا ذکر متقدمین کی کتب میں بھی موجود ہے، باقی آٹھ سے نو ہزار کے قریب رواۃ کا ذکر و عدم ذکر برابر ہے، کیونکہ وہ مھمل و مجہول ہیں، یعنی کتب رجال ان کی مدح و قدح سے خاموش ہیں۔ مجہول و مھمل کی یہ بحث نہایت دلچسپ ہے، اگر اس کا تقابل اہل سنت کی الجہالۃ فی الراوی والی اصطلاح کے ساتھ کیا جائے، آنے والی اقساط میں ان شا اللہ اس بحث کو الگ عنوان کے ساتھ بیان کیا جائے گا، جس سے آخری زمانے میں لکھی گئی اہل تشیع کی ضخیم کتب رجال کی ضخامت کے باوجود رواۃ کی تقویم میں غیر مفید ہونا مزید واضح ہوسکے گا۔
11۔ قاموس الرجال
یہ کتاب معروف شیعہ محقق و مجتہد محمد تقی تستری کی ہے، بارہ جلدوں پر مشتمل ہے، یہ کتاب دراصل علامہ مامقانی کی کتاب تنقیح المقال پر ایک تنقیدی و توضیحی حاشیہ ہے، اور تنقیح المقال کی تہذیب اور اس کا اختصار ہے، مصنف نے مقدمہ میں تنقیح المقال کے ان نقائص کو تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کی وجہ سے قاموس الرجال کی صورت میں اس کی تہذیب کی ضرورت پیش آئی، چونکہ یہ مستقل کتاب نہیں، بلکہ تنقیح المقال کا ہی ایک مہذب ایڈیشن ہے، اس لئے اس پر مستقل تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
12۔ معجم رجال الحدیث
شیعہ رجالی تراث کی جو پہلی اینٹ شیخ کشی و نجاشی و امام طوسی نے رکھی تھی، اس کی آخری اینٹ معروف معاصر عراقی شیعہ محقق و مجتہد ابو القاسم خوئی نے معجم رجال الحدیث کی صورت میں رکھی، شیعہ علم رجال کی ہزار سالہ تاریخ میں معجم رجال الحدیث سے زیادہ معیاری اور تمام رجالی تراث کو دقت سے کھنگالنے کا کام نہیں ہوا، شیخ خوئی شیعہ حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، شیعہ مکتب میں مرجعیت کے مقام پر فائز تھے، تفسیر و حدیث میں خاص طور پر مہارت رکھتے تھے، تفسیر میں البیان فی تفسیر القرآن لکھی، تو حدیث میں معجم رجال الحدیث لکھی، جو چوبیس جلدوں پر مشتمل ہے، معجم رجال الحدیث کا ایک مختصر لیکن شیعہ علم رجال کے حوالے سے نہایت وقیع مقدمہ لکھا، جس میں کتب اربعہ کی صحت و قطعیت کے حوالے سے اخباری مکتب کا علمی و تحقیقی رد، علمائے رجال کی توثیقات کی حیثیت اور کتب رجال کے تسامحات وغیرہ جیسے اہم مباحث بیان کئے، کتاب کا منہج و اسلوب شیخ خوئی نے "مزایا الکتاب " کے عنوان سے بارہ نکات میں بیان کیا ہے، 2 ان بارہ نکات میں دو باتیں بڑی اہم ہیں، شیخ خوئی کے الفاظ میں اسے نقل کرتے ہیں:
"ثم انا ذکرنا فی الکتاب کل من لہ روایۃ فی الکتب الاربعۃ سواء اکان مذکور فی کتب الرجال ام لم یکن، وذکرنا موارد الاختلاف بین الکتب الاربعۃ فی السند، و کثیرا ما نبین مو ھو الصحیح منھا وما فیہ تحریف او سقط"
یعنی ہم نے کتاب ہر اس راوی کا ذکر کیا ہے، جس کی کتب اربعہ میں کوئی روایت ہے، خواہ وہ کتب رجال میں مذکور ہو یا نہ ہو، اور اہم نے کتب اربعہ کے اسناد میں اختلافی مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے، اور زیادہ تر ان اختلافات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان میں سے کونسا طریق صحیح ہے، اور کس میں تحریف ہوئی ہے یا کوئی راوی سقط ہوا ہے۔
یوں یہ شیعہ علم رجال کی تاریخ میں یہ پہلی کتاب ہے، جس میں کتب اربعہ کے تمام رواۃ کا اہتمام کے ساتھ استقصاء کیا گیا ہے، اس سلسلہ مضامین میں اب تک جتنی شیعی کتب رجال کا ذکر آچکا ہے، ان میں زیادہ تر کتب سابقہ تراثِ رجال کی جمع و ترتیب اور ان کی شرح و توضیح پر مشتمل ہیں، کتب اربعہ کی مجموعی یا ان میں سے کسی ایک دو کے رواۃ کے احوال پر مشتمل کتب نہ ہونے کے برابر ہیں، شیخ خوئی پہلی شخصیت ہیں، جنہوں نے کتب اربعہ کے تمام تر رواۃ کو معجم میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:
التزم السید الخوئی فی الموسوعہ ان یذکر کل الرواۃ الواردۃ اسمائھم فی الکتب الاربعۃ او فی المصادر الرجالیہ القدیمۃ، فاذا بحثنا عن اسم ما ولم نجدہ مذکورا فی کتاب السید الخوئی، فھذا معناہ ان ھذا الاسم لم یرد فی ای من الکتب الاربعۃ و لم یتعرض لہ الرجالیون القدمی"3
یعنی سید خوئی نے اس موسوعہ میں ان تمام رواۃ کو ذکر کرنے کا التزام کیا ہے، جن کے نام کتب اربعہ یا قدیم رجالی مصادر میں آئے ہیں، لھذا جب ہم کسی راوی کا نام تلاش کرنا چاہیں اور اسے سید خوئی کی کتاب میں نہ پائیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نام کتب اربعہ میں بھی نہیں آیا ہے اور نہ ہی اولین علمائے رجال اس کا ذکر کرچکے ہیں۔
اب اگر اس جہت سے اہل سنت کے ساتھ تقابل کیا جائے کہ اہل سنت کے صحاح ستہ کے تمام رواۃ پر مشتمل پہلی کتاب کب لکھی گئی تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اہل سنت کے صحاح ستہ کے تما م رواۃ کے احوال پر لکھی گئی پہلی اہم اور اساسی کتاب امام عبد الغنی مقدسی ( المتوفی 600ھ) کی کتاب الکمال فی اسماء الرجال ہے، جس سے آگے تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب، تقریب التہذیب اور الکاشف فی من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ جیسی کتب تیار ہوئیں، شیخ عبد الغنی مقدسی اور صحاح ستہ میں تین صدیوں کا فاصلہ ہے، جبکہ ابو القاسم خوئی اور کتب اربعہ میں پورے ہزار سال کا فاصلہ ہے، اس کے علاوہ صحاح ستہ کے رجال پر(انفرادا و اجتماعا ) مجموعی طور پر سو کے قریب کتب لکھی گئیں ہیں، جن میں سے چالیس کے قریب مطبوعہ کتب ہیں (ملاحظہ ہو رواۃ الحدیث، النشاۃ، المصطلحات،المصنفات ص678 تا 696) جبکہ کتب اربعہ کے تمام رجال پر معجم رجال الحدیث کے علاوہ کوئی قابل ذکر کتاب نہیں، البتہ کتب اربعہ کے رجال پر انفرادی کتب شاید لکھی گئی ہوں، لیکن ان کی تعداد کتنی ہیں اور کتنی مطبوعہ ہیں؟ شیعہ علم رجال کی تاریخ پر لکھی کتب بالخصوص شیخ حیدر حب اللہ کی کتاب دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ میں اس حوالے سے قابل ِ ذکر مواد موجود نہیں ہے، حالانکہ شیخ حیدر حب اللہ نے نہایت استقصاء کے ساتھ علم رجال کی تاریخ لکھی ہے، اس سے شیعہ کے کتب اربعہ اور اہل سنت کے صحاح ستہ کے رجال پر مواد کا آسانی سے تقابل ہوجاتا ہے۔
- کتاب کی ایک اور خصوصیت بیان کرتے ہوئے شیخ خوئی لکھتے ہیں:
"السابعۃ التدقیق فی احوال الرواۃ والبحث عن وثاقتھم او حسنھم علی وجہ علمی"4
یعنی اس کتاب کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رواۃ کے احوال ثقاہت یا حسن ہونے کے اعتبار سے بڑی باریک بینی سے بیان کئے گئے ہیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ خوئی نے رواۃ کی جرح و تعدیل پر خصوصی توجہ دی ہے، اب سوال یہ ہے کہ معجم رجال الحدیث میں رواۃ کی تقویم کس طرح کی گئی ہے، تو اس پہلو سے کتاب کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کتاب میں بھی علامہ مقانی کی تنقیح المقال کی طرح مجہول و مہمل رواۃ نہایت بکثرت ملتے ہیں، اس بات کا اثبا ت معجم رجال الحدیث کی تلخیصات کا جائزہ لینے سے ہوتا ہے، چنانچہ ذیل میں دو تلخیصات کا ذکر کیا جاتا ہے:
1۔سید جواد حسینی نے معجم رجال الحدیث سے کتب اربعہ کے تمام رواۃ الگ کئے ہیں اور ان رواۃ پر سید خوئی نے جو حکم لگایا ہے، اس کا بھی ذکر کیا ہے، یہ کتاب "المعین علی معجم رجال الحدیث " کے نام سے چھپی ہے، اس کتاب میں کتب اربعہ کے رواۃ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:
"تم بالمعین و لاول مرۃ معرفۃ عدد رواۃ الکتب الاربعۃ فبلغ ثلاثۃ آلاف وسبعمائۃ راوہ تقریبا"5
یعنی اس کتاب معین کی مدد سے کتب اربعہ کے رواۃ نکی تعداد معلوم ہوئی، جو 3700 کے قریب رواۃ بنتے ہیں۔
مصنف نے المعین میں ان تمام رواۃ کے تراجم معجم رجال الحدیث سے نقل کئے اور آخر میں ان رواۃ کی ایک فہرست بھی دی ہے اور اس کے سامنے سید خوئی کا لگایا گیا حکم بھی لکھ دیا ہے کہ سید خوئی نے اس راوی، ثقہ، مجہول، ضعیف، کذاب کیا کیا لکھا ہے، مقالہ نگا ر نے اس پوری فہرست میں سے مجہول و مہمل رواۃ الگ کئے تو کل 2800 کے قریب رواۃ ایسے نکلے، جن کے بارے میں سید خوئی نے مجہول یا مہمل کا لفظ لگایا ہے، گویا 3700 رواۃ کا 75 فیصد حصہ (2800 ) رواۃ مجاہیل بنتے ہیں، جب کتب اربعہ کے رواۃ میں سے مجاہیل دو تہائی سے زیادہ ہیں، تو باقی رواۃ میں کتنے مجاہیل ہوں گے، مخفی نہیں۔
2۔ محقق محمد الجواہری نے نے معجم رجال الحدیث کی ایک بہترین تلخیص 'المفید من معجم رجال الحدیث " کے نام سے ایک ضخیم جلد میں تیار کی ہے، اس کتاب میں مصنف نے معجم رجال الحدیث کے تمام رواۃ کو فہرست کے انداز میں ذکر کرتے ہوئے ہر راوی کے بارے میں شیخ خوئی کا تبصرہ بھی ساتھ نقل کیا ہے، معروف ویب سائٹ موقع فیصل نور کے ایک تحقیقی آرٹیکل میں المفید من معجم رجال الحدیث میں مجاہیل، ثقہ، ضعیف رواۃ کی تعداد نقل کی گئی ہے، تو اس آرٹیکل کے مطابق معجم رجال الحدیث میں رجال کی تقویم کے اعتبار سے تعداد یوں بنتی ہے:
- مجاہیل و مہمل رواۃ: 7982
- ثقہ رواۃ6: 2886
یاد رہے معجم رجال الحدیث میں کل رواۃ ساڑے پندرہ ہزار کے لگ بھگ ہے، جس میں آٹھ ہزار کے قریب رواۃ یعنی آدھے کے قریب رواۃ مجاہیل ہیں، یوں معجم رجال الحدیث اپنی ضخامت اور بعض رجالی مباحث کی وقعت کے باوجود رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے متقدمین کے رجالی تراث سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔
حواشی
- دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 388
- معجم رجال الحدیث، شیخ خوئی، ج1،ص 15
- دروس فی تاریخ علم الرجال، حیدر حب اللہ، ص 404
- معجم رجال الحدیث، خوئی، ج1،ص 13
- المعین علی معجم رجال الحدیث ص 5
- https://www.fnoor.com/main/articles.aspx?article_no=15744#.YiYrb-hBw2w
(جاری)
کم عمری کا نکاح: اسلام آباد ہائیکورٹ کا متنازعہ فیصلہ
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مغرب نے جب سے معاشرتی معاملات سے مذہب اور آسمانی تعلیمات کو بے دخل اور لاتعلق کیا ہے، خاندانی نظام مسلسل بحران کا شکار ہے۔ اور خود مغرب کے میخائل گورباچوف، جان میجر اور ہیلری کلنٹن جیسے سرکردہ دانشور اور سیاستدان شکوہ کناں ہیں کہ خاندانی نظام بکھر رہا ہے اور خاندانی رشتوں اور روایات کا معاملہ قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب معاشرتی قوانین کو آسمانی تعلیمات کی پابندی سے آزاد کر کے خود سوسائٹی کی سوچ اور خواہش کو ان کی بنیاد بنایا جائے گا تو وہ ہر دم بدلتی ہوئی سوچ اور خواہشات کے سمندر میں ہی ہچکولے کھاتے رہیں گے اور انہیں کہیں قرار اور استحکام نہیں ہو پائے گا۔ جبکہ مغربی دانشور اس صورتحال کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی ؎
خود تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے
کے مصداق باقی دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کو بھی اسی دلدل میں اپنے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اور اس مغربی تہذیب و فلسفہ کو دنیا بھر سے منوانے کے لیے مغربی قوتیں تحریص، ترغیب اور تخویف کے تمام حربے استعمال کرتے جا رہے ہیں جس سے عالمی سطح پر تہذیبی خلفشار اور فکری دھماچوکڑی کا عجیب سا منظر دکھائی دے رہا ہے۔
دوسری طرف عالمِ اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے کم و بیش سبھی طبقات اپنے معاشرتی اور خاندانی قوانین میں آسمانی تعلیمات یعنی قرآن و سنت کے پابند رہنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم امہ کا خاندانی نظام آج بھی بحمد اللہ تعالیٰ مضبوط نظر آ رہا ہے۔ البتہ مغرب کے فکر و فلسفہ سے متاثر دانشور اور حکمران اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی احکام و قوانین اور مسلمانوں کی خاندانی و معاشرتی روایات و اقدار کو کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر مغربی فکر و فلسفہ کے سانچے میں فٹ کر دیا جائے، جس کے لیے خاندانی قوانین میں مسلسل ترامیم اور عدالتی فیصلوں کا ایک طویل سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
اس تناظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ دینی حلقوں میں ان دنوں زیربحث ہے جس کا ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے بھی نوٹس لیا ہے اور اس کی رپورٹ مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کے قلم سے قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے:
’’ملی مجلسِ شرعی نے، جو مختلف مکاتب فکر کا مشترکہ علمی پلیٹ فارم ہے، عائلی قانون میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کو خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس بابر ستار نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ زیربحث مقدمہ میں لڑکی کا نکاح ۱۸ سال سے کم عمر میں ہوا ہے لہٰذا نکاح قابلِ فسخ ہے اور زنا بالرضا کے مصداق ہے۔ ان کے اس خلافِ شریعت فیصلے نے دینی حلقوں میں اضطراب پیدا کیا، چنانچہ ملی مجلسِ شرعی کے صدر مولانا زاہد الراشدی نے تین رکنی علماء کمیٹی بنانے کی ہدایت کی جو اس موضوع پر غور کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔ انہوں نے سیدہ عظمٰی گیلانی ایڈووکیٹ (لاہور ہائیکورٹ) سے بھی مذکورہ کمیٹی سے تعاون کی درخواست کی۔
مذکورہ کمیٹی، مشتمل بر مولانا مفتی شاہد عبید (جامعہ اشرفیہ)، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی (جامعہ رحمانیہ)، مولانا محمد عمران رضا طحاوی اور سیدہ عظمٰی گیلانی ایڈوکیٹ کا اجلاس ۱۴ مارچ ۲۰۲۲ء کو راقم کے دفتر میں ہوا۔ تفصیلی بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل موقف پر (تلخیصاً) اتفاق ہوا:
(۱) جسٹس بابر ستار صاحب کا فیصلہ خلافِ شریعت ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل لاء کے حوالے تو دیئے ہیں لیکن قرآن و سنت، فقہاء اور یہاں تک کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں سے بھی استفادہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ لڑکی کی عمر ۱۴ سال دو ماہ ہے، وہ بہت صحت مند نہیں، ایک شادی شدہ بال بچے دار مرد نے جھوٹ بول کر اسے بہلایا پھسلایا اور اس نے ماں باپ کی مرضی کے بغیر اس سے نکاح کر لیا۔ ماں کی شکایت پر جسٹس صاحب نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔
(۲) شرعِ اسلامی کی رو سے جسٹس صاحب کے پاس کئی حل تھے۔ مثلاً وہ رخصتی کو مؤخر کر سکتے تھے، مرد کو طلاق کا حکم دے سکتے تھے اور تحکیم کے لیے کمیٹی قائم کر سکتے تھے۔
(۳) اس طرح کا فیصلہ ہر کیس کی بنیاد پر الگ ہونا چاہیے۔ ایک عمومی فیصلہ کر دینا کہ ۱۸ سال سے کم عمر کی بچی کا نکاح جائز نہیں ہوتا، غلط اور خلافِ شریعت فیصلہ ہے۔
(۴) اس طرح کے معاملے میں کورٹ میرج کا استعمال اور ولی کی غیر موجودگی بہت سے مفاسد کو جنم دیتی ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔
(۵) ملک بھر خصوصاً اسلام آباد کے دینی حلقوں کو چاہیے کہ سنگل بنچ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف ڈویژن بنچ میں ریویو پٹیشن (نظرثانی کی درخواست) دائر کریں اور ایسے وکیل عدالت میں پیش ہوں جو صحیح اسلامی نقطۂ نظر کو موثر طریقے سے عدالت میں پیش کر سکیں۔
ملی مجلس شرعی کے جن زعماء نے اس نقطۂ نظر کی حمایت کی ان میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا ملک عبد الرؤف، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا عبد المالک، مولانا مفتی شاہد عبید، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری زوار بہادر، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، قاری جمیل الرحمن اختر، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، حافظ محمد عمران طحاوی، حاجی عبد اللطیف چیمہ، حافظ محمد نعمان حامد، مولانا محمد اسلم نقشبندی، مولانا فاروق قادری، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، حافظ ڈاکٹر محمد سلیم اور دیگر علماء شامل ہیں۔‘‘
قادیانیوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں میں فرق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عزیزم ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے قادیانیوں سے متعلق اپنے موقف میں دو باتیں عام ماحول سے مختلف کہی ہیں۔
ایک یہ کہ قادیانیوں کے خلاف بات کرتے ہوئے اس حد تک سخت اور تلخ لہجہ نہ اختیار کیا جائے جسے بد اخلاقی وبدزبانی سے تعبیر کیا جا سکے۔ یہ بات میں بھی عرصہ سے قدرے دھیمے لہجے میں مسلسل کہتا آ رہا ہوں، بلکہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ اور فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ کی ڈانٹ بھی پڑ چکی ہے۔ ان دونوں بزرگوں کی تلقین ہوتی تھی کہ مناسب اور مہذب انداز میں تنقید کی جائے اور بداخلاقی سے گریز کیا جائے۔
دوسری بات یہ کہ قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد وہ ملک کی دوسری غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ برابر حقوق اور رویہ کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس میں مجھے تردد ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ امت مسلمہ اور دستور کا فیصلہ تسلیم کر کے اس کے مطابق چلیں تو انھیں دوسری غیر مسلم آبادیوں کی طرح برابر کے حقوق اور رویہ کا پورا حق حاصل ہے، لیکن وہ اس فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے بلکہ دنیا بھر میں اس قومی اور دینی فیصلے کے خلاف مورچہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ماحول میں ان کا برابر کے حقوق اور رویہ کا تقاضا محل نظر ہے، کیونکہ اس طرح ان کی حیثیت دوسری غیر مسلم اقلیتوں سے مختلف ہو جاتی ہے جو الگ موقف کی متقاضی ہے، جبکہ ان کے معاشرتی بائیکاٹ کی بات بھی میرے نزدیک اسی دائرے سے تعلق رکھتی ہے اور میں اس کے حق میں ہوں۔
قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق اور توہینِ قرآن و توہینِ رسالت کے الزامات
ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
دستوری اور قانونی پس منظر
1974ء میں ایک دستوری ترمیم کے ذریعے دستورِ پاکستان میں مسلمان کی تعریف شامل کی گئی جس کی رو سے قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا۔ تاہم ان کی جانب سے اس کے بعد بھی خود کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے بعض اوقات امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہوتے گئے۔ اس پس منظر میں 1984ء میں ایک خصوصی امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کے ذریعے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں دفعات 298-بی اور 298-سی کا اضافہ کیا گیا اور ان کے ایسے تمام افعال پر پابندی لگا کر ان کو قابلِ سزا جرم بنا دیا گیا۔ اس قانون کو اکثر اس بنیاد پر اعتراض کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس نے قادیانیوں اور لاہوریوں کی مذہبی آزادی ختم کردی ہے۔
اس موضوع پر اعلی عدلیہ کی جانب سے کئی فیصلے آئے ہیں لیکن دو کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ایک 1985ء میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ہے (مجیب الرحمان بنام وفاقی حکومت، پی ایل ڈی 1985 وفاقی شرعی عدالت 8)؛ اور دوسرا 1993ء میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ ہے (ظہیر الدین بنام ریاست، 1993 ایس سی ایم آر 1718)۔ پہلے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ یہ قانون اسلامی احکام سے متصادم نہیں ہے اور دوسرے میں یہ قرار دیا گیا کہ یہ قانون دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے بھی متصادم نہیں ہے۔ ان فیصلوں کی بنیاد دو بنیادی امور ہیں: ایک یہ کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دوسروں کو دھوکا دے اور اسی لیے کسی غیر مسلم کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ خود کو مسلمان کے طور پر دوسروں کو پیش کرے؛ اور دوسرا یہ کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کے ایسے افعال سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جس کی روک تھام کےلیے حکومت قانون کے ذریعے حقوق پر مناسب قیود عائد کرسکتی ہے۔
پہلے فیصلے کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی حیثیت اختیار کرلے، تو اس کی پابندی سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوتی ہے، یعنی جب وفاقی شرعی عدالت نے کسی امر کے متعلق یہ قرار دیا کہ وہ اسلامی احکام سے متصادم ہے یا نہیں ہے، تو سپریم کورٹ اس کے برعکس فیصلہ نہیں دے سکتی۔ یہ وفاقی شرعی عدالت کا ایک بہت اہم اختیار ہے جس کا ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو ادراک ہے۔ دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے دیا ہے جس میں پانچ ججز شامل تھے اور اس بنچ نے یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے دیا ہے۔ چنانچہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار صرف اس بنچ کو حاصل ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد ججز ہوں اور ان میں کم از کم پانچ ججز اس کے خلاف فیصلہ دیں، اور یہ امر بظاہر – کم از کم تا حال – ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے یہ امر طے شدہ ہے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 298-بی اور 298-سی نہ تو اسلامی احکام سے اور نہ ہی دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم ہیں ۔
یہاں تک تو بات طے شدہ ہے لیکن ہمارے ہاں کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قادیانیوں کی مخصوص عبادت گاہوں میں قرآن مجید کے نسخے کی موجودگی یا کلمۂ طیبہ لکھے جانے کو، یا اس طرح کے بعض دیگر افعال کو، بھی نہ صرف دفعات 298-بی اور 298-سی کی خلاف ورزی سمجھا گیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھیں توہینِ قرآن (دفعہ 295-بی) اور توہینِ رسالت (دفعہ 295-سی) بھی قرار دیا گیا۔ یہ مسئلہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے سامنے ایک مقدمے میں سامنے آیا جس پر سپریم کورٹ نے 24 مارچ کو فیصلہ سنایا ہے:
Crl.P.916.L/2021، طاہر نقاش بنام ریاست۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:
کئی پہلوؤں سے یہ فیصلہ نہایت اہم ہے اور اس وجہ سے اس بحث بہت ضروری ہے۔ اس لیے یہاں اس فیصلے کے اہم نکات پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔
مقدمے کے حقائق اور فریقین کے دلائل
اس مقدمے کے حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ درخواست گزاروں (اور ایک اور شخص) کے خلاف 3 مئی 2020ء کو اس الزام پر ایف آئی آر کٹوائی گئیں کہ انھوں نے قادیانی ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طرز پر بنایا ہے اور اس کے اندر دیواروں پر شعائرِ اسلام (کلمۂ طیبہ، بسم اللہ الرحمان الرحیم، یا حیّ یا قیّوم) لکھے ہوئے ہیں اور قرآن مجید کے نسخے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ نیز بجلی کے بل میں بھی اس عبادت گاہ کو مسجد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں دفعات 298-بی اور 298-سی ہی درج کی گئیں جو قادیانیوں سے متعلق ہیں۔ان دفعات کے تحت ان الزامات پر ان کے خلاف ٹرائل کورٹ میں مقدمہ شروع ہوا۔ تاہم اس کے بعد شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات بھی شامل کرنے کےلیے درخواست دی جو ٹرائل کورٹ نے منظور کرلی۔ ملزمان نے اس کے خلاف پہلے ایڈیشنل سیشنز جج کی عدالت میں اور پھر ہائی کورٹ میں درخواستیں دیں لیکن دونوں عدالتوں سے وہ درخواستیں خارج ہوگئیں، اور نتیجتاً ان کے خلاف توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات بھی ایف آئی آر میں شامل رہیں۔ اس وجہ سے ملزمان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ انھیں اس کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت دی جائے۔ (ایک ہی فیصلے کے خلاف دو درخواستیں مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل نہیں ہوسکتی تھی، لیکن سپریم کورٹ کو درخواست کی جاسکتی تھی کہ چونکہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے تو سپریم کورٹ اپیل دائر کرنے کی اجازت دے۔ پھر سپریم کورٹ مناسب سمجھے تو اجازت دے سکتی ہے یا ہائی کورٹ کے فیصلے میں غلطی نہ ہو تو وہ معاملہ نمٹا دیتی ہے۔)
جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی اور فیصلہ جسٹس شاہ نے لکھا جس سے جسٹس خان نے اتفاق کیا۔
درخواست گزاروں کا (جو اصل مقدمے میں ملزمان تھے) موقف یہ تھا کہ ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کی بنا پر دفعات 298-بی اور 298-سی (امتناعِ قادیانیت) کا مقدمہ بنتا ہے، نہ کہ دفعات 295-بی (توہینِ قرآن) یا 295-سی (توہینِ رسالت) کا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی نجی عبادت گاہ میں شعائرِ اسلام کی موجودگی یا قرآن کے نسخے کی موجودگی سے توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کا مسئلہ نہیں بنتا کیونکہ وہ قرآن کو کلام الٰہی اور حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور اس وجہ سے وہ توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
دوسری جانب سرکاری استغاثہ کی جانب سے بھی اور ان ملزمان کے خلاف شکایت کنندہ نے بھی بنیادی طور پر یہ دلیل دی کہ ان کی مذکورہ عبادت گاہ نجی مکان نہیں بلکہ عوامی مقام ہے اور یہ کہ قادیانیوں کی جانب سے کلمۂ طیبہ پڑھنے یا قرآن پڑھنے سے ہی توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن ثابت ہوتی ہیں۔
عدالت کے سامنے اس مقدمے میں تنقیح طلب امر یہی تھا کہ کیا ان افعال سے توہینِ رسالت یا توہینِ قرآن کے جرائم ثابت ہوتے ہیں؟
قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق
جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے ان دو اہم نظائر پر بات کی ہے جو اس موضوع پر سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور جن کی پابندی خود اس دو رکنی بنچ پر لازم تھی: ایک مجیب الرحمان کیس میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ، اور دوسرا ظہیر الدین کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ۔ جسٹس شاہ نے واضح کیا ہے کہ ظہیر الدین کیس میں اگرچہ دفعات 298-بی اور 298-سی کے متعلق قرار دیا گیا تھا کہ یہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہیں لیکن اسی فیصلے میں یہ بھی تصریح کی گئی تھی کہ قادیانیوں پر پابندی صرف عوامی سطح پر اظہار تک ہی محدود ہے اور نجی سطح پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح مجیب الرحمان کیس میں شریعت کورٹ نے تصریح کی تھی کہ اس پابندی کا اطلاق قادیانیوں کے مرزا صاحب پر ایمان پر نہیں ہوتا، نہ ہی اس کی بنا پر انھیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے، یا اپنی عبادت گاہوں میں اپنے طریقے سےعبادت کرنے سے روکا جاسکتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت نے مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی ہوئی ہے۔
اس بنیاد پر بات آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس شاہ نے پاکستان کے دستور کی ان دفعات کا جائزہ پیش کیا ہے جن کی رو سے تمام شہریوں کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مذہبی آزادی کا حق بھی حاصل ہے اور بہ حیثیتِ انسان تکریم اور عزت کا بھی۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دفعہ 14 (انسانی تکریم کا حق) کا حوالہ دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ کسی غیر مسلم کو اس کے مذہب پر عمل کرنے سے روکنے، یا اپنی عبادت گاہ کی حدود میں عبادت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے سے دستور کی جمہوری اقدار کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کی اسلامی روح بھی پامال ہوتی ہے۔
اسی طرح انھوں نے دفعہ 20 کا حوالہ دیا ہے جو ہر مذہب کے ماننے والوں کو، قانون کی حدود کے اندر، اپنے مذہب پر عمل اور اس کی ترویج کی اجازت دیتی ہے اور اسی طرح انھیں اپنی عبادت گاہیں قائم کرنے کا حق بھی دیتی ہے۔ جسٹس شاہ نے اس پر بحث نہیں کی کہ کیا اس دفعہ کے تحت قادیانیوں یا کسی دوسری غیر مسلم اقلیت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی طرف بلائیں، لیکن ان کی پچھلی بحث سے اس سوال کا جواب نفی میں ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی قرار دے چکے ہیں (اور یہ قرار دینے کے سوا کوئی راستہ تھا بھی نہیں کیونکہ ان سے قبل وفاقی شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے یہی قرار دیا تھا) قادیانیوں کو عوامی سطح پر ان افعال کی اجازت نہیں جن سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ اس کے بعد انھوں نے دفعہ 22 کا حوالہ دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے مذہب کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی عبادت یا رسم میں شریک ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی کسی دوسرے مذہب کی تعلیمات سیکھنا اس پر لازم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس دفعہ کے تحت ہر مذہبی گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مخصوص اداروں میں شاگردوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے دفعہ 25 کا حوالہ دیا ہے جس نے تمام شہریوں قانون کا یکساں تحفظ دیا ہے۔
اس کے بعد انھوں نے واضح کیا ہے کہ دفعہ 260 کی ذیلی دفعہ 3 کی رو سے قادیانی غیر مسلم ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ملک کے شہری نہیں رہے یا انھیں وہ بنیادی حقوق حاصل نہیں رہے جو ملک کے تمام شہریوں کو دستور کی رو سے حاصل ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دستور کی دفعہ 4 کا حوالہ دیا ہے جس میں تصریح کی گئی ہے کہ اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کا یہ ناقابلِ تنسیخ حق ہے کہ انھیں قانون کا یکساں تحفظ حاصل رہے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو۔
توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے قانون کا اطلاق؟
ان دستوری اصولوں کی توضیح کے بعد جسٹس شاہ نے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا جائزہ لیا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ اس مقدمے کے مخصوص حقائق میں ان دفعات کا اطلاق ملزمان پر ہوتا ہے یا نہیں؟
دفعہ 295-بی میں قرآن کریم یا اس کے کسی حصے کی بالارادہ توہین پر عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے، جبکہ دفعہ 295-سی میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں صراحتاً یا اشارتاً یا کنایتاً گستاخی پر موت کی سزا اور اس کے ساتھ جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ (1986ء میں جب پارلیمان نے دفعہ 295-سی وضع کی تو اس میں موت کی سزا یا عمر قید کی سزا کے درمیان عدالت کو اختیار دیا تھا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں اسماعیل قریشی کیس میں قرار دیا تھا کہ "یا عمر قید" کے الفاظ اسلامی احکام سے متصادم ہیں۔ چنانچہ اس فیصلے کے نافذ العمل ہونے کے بعد سے یہ الفاظ غیر مؤثر ہوگئے ہیں اور اب عدالت اس جرم پر سزاے موت ہی دے سکتی ہے، اور اس کے ساتھ جرمانے کی سزا بھی، لیکن عمر قید کی سزا نہیں دے سکتی۔)
جسٹس شاہ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دفعہ 295-بی میں جرم کےلیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم یا اس کے کسی حصے کو بالارادہ خراب کیا گیا ہو، نقصان پہنچایا گیا ہو یا اس کی بے حرمتی کی گئی ہو، اور اسی طرح دفعہ 295-سی میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا ذکر ہے، جبکہ موجودہ مقدمے میں ملزمان پر ایسا کوئی الزام نہیں عائد کیا گیا، بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت گاہ میں قرآن مجید کے نسخے موجود تھے اور کلمۂ طیبہ لکھا ہوا تھا۔ ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں نے قرار دیا تھا کہ قادیانیوں کی جانب سے صرف کلمۂ طیبہ پڑھنا یا قرآن پڑھنا ہی توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کے جرم کےلیے کافی ہے، لیکن جسٹس شاہ نے قرار دیا ہے کہ یہ قانون کی غلط تعبیر ہے۔ اس غلطی کو واضح کرنے کےلیے انھوں نے تعبیرِ قانون کا بنیادی اصول ذکر کیا ہے کہ سزاؤں کے قانون کو اس کے سادہ مفہوم تک ہی محدود رکھا جائے گا اور اس پر کسی مفہوم کا اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ان دفعات میں جن امور کو جرم قرار دیا گیا ہے، صرف انھی پر سزا دی جاسکتی ہے اور ان پر قیاس کے ذریعے کسی اور چیز کا اضافہ کرکے اس پر بھی یہ سزائیں نہیں جاسکتیں۔ اسی طرح انھوں نے مقننہ کے ارادے کا اصول بھی ذکر کیا ہے کہ قانون وضع کرنے والوں کا مقصد بھی یہ نہیں تھا، اگرچہ اس کے ساتھ انھوں نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ مقننہ کے ارادے یا مقصد کی بنیاد پر بھی سزاؤں کے قانون کو اس کے سادہ مفہوم سے آگے کسی اور امر کی طرف توسیع نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس شاہ نے یہ بھی واضح کیا کہ محض اس گمان پر سزا نہیں دی جاسکتی کہ ان کے دل میں توہین کا خیال ہوگا، جب تک وہ خیال عمل کی صورت میں آشکارا نہ ہو۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ
ان امور کی بنا پر جسٹس شاہ نے قرار دیا کہ ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں سے قانون کے فہم میں غلطی ہوئی تھی اور یہ کہ ان درخواست گزاروں پر اصل مقدمے میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، ان پر توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ درخواست گزاروں کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھوں نے اسے اپیل میں تبدیل کیا اور اپیل منظور کرنے کے نتیجے میں حکم دیا کہ درخواست گزاروں کے خلاف توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے الزامات ختم کرکے صرف دفعات 298-بی اور 298-سی (امتناعِ قادیانیت) کے تحت ہی مقدمہ چلایا جائے۔
یہ فیصلہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور اس سے پاکستان کے دستوری بندوبست میں قادیانیوں کی حیثیت اور ان کے حقوق اور ان حقوق پر عائد قیود کی درست تعبیر نافذ کرنے میں مدد ملے گی۔ یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کے مسئلے پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔ تاہم اس فیصلے نے پھر واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے چکنے کے بعد بہ حیثیت ِ غیر مسلم ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، خواہ قادیانی اپنے لیے غیر مسلم کی حیثیت قبول کریں یا نہ کریں۔
صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس بابر ستار نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ محض جسمانی بلوغت پر 18 سال سے کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کی اہل نہیں ہوجاتی۔ ایسا ہر نکاح فاسد اور فسخ کرنے کے لائق ہے۔ فاضل جج صاحب اگر اس مقدمے کے حقائق و واقعات کے مطابق اتنا ہی فیصلہ سنا تےجو صرف اس مقدمے تک محدود رہتا تو اضطراب نہ پیدا ہوتا لیکن فاضل جج صاحب کے فیصلے نے اسلام اور پورے قانون فطرت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فاضل جج صاحب نے حلف تو پاکستانی آئین کے تحت اٹھایا ہے جس کے مطابق کوئی قانون اور قانون کے تحت سنایا گیا فیصلہ قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس فیصلے میں وہ قانون بین الاقوام کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ پورے احترام کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جج صاحب کا فیصلہ رواروی میں اور باریک بینی سے خالی ذہنی کیفیت میں لکھا گیا ہے۔
یہ بات بھی نہیں ہے کہ اس نوعیت کا مقدمہ عدالت میں پہلی بار آیا ہے۔ عدالت میں تو کیا، کم سنی کی شادی کا مسئلہ پوری دنیا میں قانون فطرت کے مطابق وضع کردہ قوانین کے ذریعے نمٹایا جاتا ہے۔ لیکن فاضل جج صاحب نے مسئلے کا جائزہ مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ نہیں لیا۔ وہ اس فکری آسیب کا شکار نظر آتے ہیں جس کے تحت کم سنی کی ہر شادی غلط ہوتی ہے۔ اس زیر نظر مقدمے کی حد تک تو شاید فیصلہ قبول کر لیا جائے لیکن یہ کہنا کہ اٹھارہ سال سے کم عمری کی ہر شادی غلط اور زنا کے مماثل ہے، ایسا داعیہ ہے جس کی تائید نہ تو قانون فطرت کرتا ہے اور نہ جدید متمدن ممالک میں فیصلہ یوں سنایا جاتا ہے، نہ شریعت مطہرہ میں اس کی تائید ملتی ہے۔ متعدد متمدن ممالک میں کم سنی کی شادی کا تصور عام ہے۔ شریعت اسلامی بھی کم سنی کی شادی کی تائید کرتی ہے۔
آج کل انسانی حقوق پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ انہی کی روشنی میں اس مقدمے کو دیکھتے ہیں۔ کسی شخص کا جسمانی نظام غذا طلب کرتا ہے، اسے بھوک لگتی ہے تو بتائیے، دنیا کے کس حصے میں، کس مذہب میں، کس تمدن میں اسے کھانا کھانے سے روکا جا سکتا ہے۔ کسی شخص کا جسمانی نظام نو دس سال کی عمر میں فعال ہو کر صنف مخالف کا تقاضا کرے تو کون سے انسانی حقوق رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ میرے محدود مطالعے کے تحت سات ہزار سالہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ تمام انسان بلاامتیاز ملک و ملت و مذہب بلوغ کی علامتیں ظاہر ہوتے ہی ہر شخص کی صنفی ضروریات پوری کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق میں سے ہے۔ مجھے بھوک لگے تو آپ مجھے کھانا کھانے سے منع کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ مجھے زندگی گزارنے کے لیے صنف مخالف کی ضرورت ہے تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے باز رکھنے والے؟ یہ انسانی حقوق تو مجھے ہر سہولت دیتے ہیں. آج بھی دنیا بھر میں یہی چلن ہے۔
پاکستان میں کم سنی کی شادی کا مسئلہ متعدد دفعہ اٹھا۔ 2019 میں کم سنی کی شادی روکنے کی خاطر قومی اسمبلی میں بل پیش ہوا تو میں نے اخبارات میں ایک سلسلہ مضامین لکھا تھا۔ انہی مضامین کی بنیاد پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ عالی مقام جسٹس صاحب کے فیصلے کے عموم کو کسی طرح سے بھی اخلاق و قانون کی تائید حاصل نہیں ہے، شریعث تو ذرا اعلی مقام رکھتی ہے۔ اسے کسی اور موقع پر زیر بحث لایا جائے گا۔ آئیے ! کم سنی کی شادی کا جائزہ جج صاحب کے اپنے قانون بین الاقوام کی روشنی میں لیتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک اس قانون کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔
امریکہ پچاس ریاستوں کی یونین ہے جس کی ہر ریاست کو اپنا عائلی قانون بنانے کا اختیار ہے۔ ان ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر کیا ہے؟ کسی ریاست میں اٹھارہ سالہ عمر تو کیا، سولہ ریاستوں میں ایسی کوئی عمر ہی نہیں۔ ان تمام ریاستوں کا عائلی قانون ایک دوسرے سے معمولی فرق کے ساتھ بڑی حد تک قانونِ فطرت ہے۔
الاسکا اور نارتھ کیرولینا نامی دو ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر 14 سال ہے۔ میری لینڈ، کنساس، انڈیانا اورجزائر ہوائی نامی چار ریاستوں میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔ انیس امریکی ریاستیں وہ ہیں جن میں کم سے کم عمر سولہ سال ہے۔ وہ ریاستیں کنِکٹی کٹ، جارجیا، الباما، ایریزونا، الینو ئس، آئیوا، نارتھ ڈکوٹا، منی سوٹا، مِسوری، ہیمپشائر، ساؤتھ ڈکوٹا، ٹیکساس، اوٹاہ، ویرمونٹ، ورجینیا، وسکونسن، واشنگٹن ڈی سی، ساؤتھ کیرولینا اور مونٹینا ہیں۔ اسی طرح فلوریڈا، ارکنساس، نبراسکا، کنیٹکی، اوہائیو، نیویارک اور اوریگان نامی سات ریاستوں میں یہ عمر سترہ سال ہے۔ سولہ ریاستیں وہ ہیں جن میں شادی کی کم از کم کوئی عمر نہیں ہے جو یہ ہیں:وائیومنک، ویسٹ ورجینیا، واشنگٹن (ڈی سی نہیں) ساؤتھ کیرولینا (قانونی تضادات کے بعد اسے سولہ سال والی عمر میں بھی شمار کیا جاتا ہے) پنسلوینیا، اوکلاہاما، نیو میکسیکو، مسی سپی، نیویڈا، مشی گن، میسا چوسٹس، مینی، لوزیانا، کولاریڈو، اِڈاہو اور کیلی فورنیا۔
شادی کی قانونی عمر (اٹھارہ، انیس یا اکیس) سے کم عمر کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، ان میں کم سنی کی شادی چند شرائط سے منسلک ہے۔ درج ذیل میں سے بعض ریاستیں ایک شرط اور بعض زیادہ شرائط پوری ہونے پر قانونی عمر سے کم کسی بھی عمر میں شادی کی اجازت دیتی ہیں: کم سن لڑکی نے بچے کو جنم دیا ہو؛ کم سن بالکل آزاد (Emancipated)ہو جیسے ماں باپ مرگئے ہوں یا معلوم نہ ہوں؛ لڑکی حاملہ ہو گئی ہو؛ والدین یا قانونی سرپرست کی اجازت ہو؛ اور یہ عدالتی اطمینان ہو کہ اس کم سن کی شادی ممکن ہے۔
ان شرائط خمسہ میں سے بعض ریاستوں میں عدالتی اطمینان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ بلوغ کی قانونی عمر کی تکمیل پر حرکت میں آتا ہے۔ پورے امریکہ میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال ہے (نبراسکا اور مسی سپی میں یہ عمر بالترتیب انیس اور اکیس سال ہے). قانونی عمر کی تکمیل پر مرد و زن خود مختار ہیں کہ پسند کی شادی کریں۔
کیا آپ نے غور کیا کہ ان تمام ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال نہیں ہے۔دو امریکی ریاستوں میں کم سے کم مقررہ عمر اگر 14 سال ہے تو سولہ ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان حالات میں اگر ہمارا کوئی فاضل جج ہم پر ”یہ“ امریکی فکر مسلط کرنا چاہے تو ہم بسر و چشم دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھیں گے کہ آؤ کر گزرو یہ امریکی قانون ہمارے یہاں بھی نافذ۔ امید ہے کہ مسٹر و ملا اور راہروانِ مسجد و میخانہ دونوں کو اس امریکی مثال سے ہدایت مل جائے گی۔
دنیا کا کوئی قانون دیکھ لیں،میری مراد ترقی یافتہ دنیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس میں بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ انسانی فہم میں آنے والا بعید ترین امکان بھی قانونی دائرے میں لانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شادی بھی انہی امور میں سے ہے جس کے متعدد پہلو ہیں۔ ہر ایک پر بڑی سوچ بچار کے بعد اگر جامعیت سے بھرپور قانون بنایا جائے تو وہی قانون، قانونِ فطرت کہلاتا ہے۔
اپنے ملک میں آزاد خیال لوگوں اور خواتین کے حقوق والیوں نے بغیر جانے اور بغیر پڑھے یہ فرض کر رکھا ہے کہ چونکہ فلاں جگہ ایک اَسّی سالہ جاگیردار نے تیرہ سالہ لڑکی سے شادی کر لی ہے، لہٰذا یقینا سارے ملک میں ایسے ہی ہوتا ہو گا۔ اور یہ کہ ہر کم سنی والی شادی بوڑھے کے ساتھ ہی ہوتی ہے، اس لیے ریاستی نظام فوراً حرکت میں آ ئے۔ حالانکہ یہ لوگ شہروں سے نکل کر جی ٹی روڈ، موٹر وے سے چھ آٹھ کلومیٹر دور کی دنیا دیکھیں، وہاں چند سال گز اریں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ان دیہات کی دنیا یکسر مختلف نوعیت کی ہے۔
گویا کسی امریکی ریاست میں شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال کہیں نہیں۔ یہ کام امریکہ میں جائز ہو سکتا ہے تو یہاں پاکستان میں کیا رکاوٹ ہے؟ یہ وہ دلیل ہے جس کی بنا پر میں کہتاہوں کہ مذہب بیزار یا مذہب دشمن طبقہ کسی عقلی بنیاد پر اس کا مخالف نہیں ہے، اس کی مخالفت دین دشمنی پر ہے۔ یہاں آکر میں انسانوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتا۔ میرے نزدیک ایک طرف یزدان کے خیمے میں مقیم انسان ہیں جو قانونِ فطرت کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں تو دوسرے لوگ اہرمن کے پجاری ہیں۔ اوّل الذکر اللہ والے امریکی سپریم کورٹ میں اس خاتون رجسٹرار کی صورت میں مل جائیں گے جس نے ہم جنسوں کی شادی پر عدالتی فیصلے کی نقل اپنے دستخطوں سے یہ کہہ کردینے سے انکار کر دیا تھا کہ میرے مذہبی عقائد اس فیصلے کی تائید نہیں کرتے۔ وہ نیک بخت خاتون اپنی ملازمت داؤ پر لگا بیٹھی لیکن فیصلے کی نقل نہیں دی۔ رہے اہرمن کے راکھشش تو وہ آپ کو ہر ملک اور ہر معاشرے میں ملیں گے۔
کچھ لوگوں یا اداروں نے ہمارے دینی طبقوں کو ان ہیولوں کے تعاقب میں لگا رکھا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں جن میں سے ایک کم سنی کی شادی ہے۔ میرے مخاطبین دینی طبقے کے میرے اپنے عزیز لوگ ہیں۔ ان عزیزان گرامی سے گزارش ہے کہ اپنے مسلک کے کسی بڑے کے ملفوظات کے ساتھ عہد حاضر کی فکر کا مطالعہ بھی کیا کریں۔ کلمة الحکمۃ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسی کو ”لوہا لوہے کو کاٹتا ہے“ کہا جاتاہے۔ اس مسئلے کو لے لیں،دین دشمن طبقات میں سے کون ہے جو آپ کے شرعی دلائل اور قرآن و سنت پر کان دھرے گا۔ کیا موسیٰ علیہ السلام فرعونی سانپوں کا سر لکڑی کی بوجھل الہامی الواح سے نہیں کچل سکتے تھے؟ تختیاں جن کی ایک ضرب سے ان کے قتلے بن جاتے، لیکن سنپولیوں کا مقابلہ اژدھے سے کیا گیا۔
کم سنی کی شادی کا معاملہ ایسا ہی ہے، یہ قانونِ فطرت ہے اور قانونِ فطرت کا تعلق کسی مذہب سے تلاش نہ کیا جائے۔ یہ ہر مذہب اور ہر معاشرت میں مل جاتا ہے۔جس قانونِ فطرت کا نام ہم نے یا اللہ کریم نے اسلام رکھا ہے، اس کے مظاہر ہمیں کُو بہ کُو اور قریہ بہ قریہ مل سکتے ہیں۔
کم سنی کی شادی کے متعلق انسانی رجحانات آج بھی وہی ہیں جو صنعتی انقلاب سے قبل کے معاشروں میں تھے۔ آج کم سنی کی شادی سے متعلق دو طرفہ بظاہر دلائل، لیکن حقیقتاً لوگوں کے اپنے نقطہ ہاےنظر، ملتے ہیں۔ ان دلائل میں کوئی چیز نہیں ملتی تو ”تلاشِ حق“ کی کیفیت نہیں ملتی۔ اور یہ کام جستجو، کھوج، پِتّہ ماری اور تحقیق کے بغیر نہیں ہوتا۔
کم سنی کی شادی پر مذہبی طبقہ دلائل دیتا ہے تو حضرت عائشہؓ سے ابتدا ہوتی ہے۔ غیر ضروری مدافعت اور اُکتا دینے والی گھسی پٹی گفتگو سے آگے لوگ جا تے ہی نہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جس کا ذہن مذہب کے خلاف اتنا زہر آلود ہے کہ انہیں کوئی اچھی چیز تو کیا ملے گی، وہ تو تلاشِ حق کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ان کی زندگی محض مذہب دشمنی اور مذہبی طبقے سے منافرت پر قائم ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس امریکی قانون کا ہلکا سا خلاصہ ذرا دوسرے انداز میں پیش کیا جائے جہاں صغر سنی کی شادیاں کم و بیش ویسے ہی ہوتی ہیں جیسے ہمارے دیہات میں بغیر کسی تقنین (Codification) کے ہو رہی ہیں۔
جن ریاستوں میں کم از کم عمر نہیں ہے ، وہاں پیدائش کے بعد بچے کی شادی عدالتی اطمینان کے بعد کسی بھی عمر میں ممکن ہے۔ لوگ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے ، ممکن ہی نہیں ہو بھی رہا ہے۔ جنوبی امریکی زندگی قبائلی نظام سے عبارت ہے۔ مثلاً ماں کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر کہا کہ بس دو ایک ماہ زندگی باقی ہے۔ ماں مچل گئی کہ میں نے اپنے دو ایک سالہ بچے کے سہرے کے پھول دیکھنا ہیں، وہ عدالت جا پہنچی، عدالت اجازت دے دے گی ،کیوں دے گی؟ کیونکہ وہاں کی عدالتوں پر این جی او کے تاریک آسیبی سائے نہیں ہیں۔ جج اپنے دماغ سے سوچتے ہیں جن میں انسانی جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔
ان امریکی ریاستی قوانین پر عمل کا جائزہ لیا جائے تو اپنے ہاں کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ حوالہ جات کے لیے عرض کروں کہ میں نے مشہور امریکی تھِنک ٹینک ، پیو (Pew) ریسرچ سینٹر کی تحقیق پر انحصار کیا ہے جس کے بیشتر اعدادوشمار امریکی بیورو آف اسٹیٹسکس سے لیے گئے ہیں، ماسوائے اس کے کہ ان کے اپنے سروے وغیرہ ہوں۔ پیو کے مطابق صرف 2014ءمیں 57,800 ایسے بچوں کی شادیاں ہوئیں جن کی عمریں 15 تا 17 سال تھیں۔
ان میں 31,644 کم سن بچیاں تھیں۔ ایک اور ادارہ اَن چینڈ ایٹ لاسٹ (Unchained at Last) ہے۔ اس کا مقصد جبری اور صغر سنی کی شادیاں روکنا ہے۔اس کے مطابق اکیسویں صدی کے ابتدائی 15 سالوں میں دو لاکھ بچوں کی شادیاں انہی قوانین کے مطابق ہوئیں۔ ضرب تقسیم خود کر لیں، ہر روز چھتیس شادیوں سے بھی قدرے زائد۔ این جی اوز اور ریاست کے اندھے وکیل ذرا صبر سے تفصیلات پڑھ لیں: صرف فلوریڈا میں سترہ سالوں میں 13 سالہ بچوں سمیت 16,400 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ ٹیکساس اس سے بھی آگے ہے جہاں 14 سالوں میں 40,000 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ نیویارک متجددین کا گڑھ ہونے کا باعث ذرا پیچھے رہا جہاں دس سالوں میں 3,800 شادیاں ہوئیں یعنی اوسط ہر روز ایک سے قدرے زائد ۔ اوہائیو میں پندرہ سالہ مدت میں 4,443 لڑکیوں کی شادیاں مختلف عمروں کے مردوں سے ہوئیں۔ ایک بچی کی شادی 48 سالہ مرد کے ساتھ ہوئی۔
مذکورہ دو لاکھ شادیوں کا ایک فی صد تقریباً دو ہزار، 14 سال سے کم عمری کی شادیاں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا گیا۔ ان میں 13 سالہ بچوں کی تعداد اکیاون ہے۔ 6 بچوں کی شادیاں 12 سالہ عمر میں ہوئیں۔ الباما میں ایک 74 سالہ شخص نے 14 سالہ لڑکی سے شادی کی۔ ایک اور ریاست میں 10 سالہ بچیوں کی شادیاں 24 تا31 سالہ مردوں سے ہوئیں۔ یہ سب کچھ متعلقہ ریاستی قوانین اور دستور کی چھتری کے نیچے ہو رہا ہے۔ اپنے متجددین اور دین بیزار طبقے سے امید ہے کہ یہ امریکی رویہ لینے میں اسے کوئی تامل نہ ہو گا۔
بچے کی شادی والدین کا مسئلہ ہے۔ وہ معاشرتی قدروں کے مطابق یہ کام کریں تو ٹھیک، ورنہ عدالتی اطمینان کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔ عدالتی اطمینان شادی روکنے کے لیے نہیں، شادی سے مفاسد دور کرنے کے لیے ہوگا۔ عبداللہ ؓ ابن مسعود سے منسوب حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ”جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے (ماراہ المسلمون حسناً فھو عنداللہ حسن) اسلامی معاشرت میں ریاست کا وجود بہت معدوم سا اور خبر گیری کی حد تک کا ہے۔ مارکس کا قول کس سے پنہاں ہے جو ریاست کو آلہ جبر قرار دیتا ہے۔ اثباتی انداز میں محرم راز خالقِ کائنات کا فرمان لاگو کریں ذرا، شخصی امور میں ریاست کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ والدین بگڑے ہوے ہوں تو اجتماعی معاشرت میں غیر متوازن کام ممکن نہیں ہوتا، پھر بھی بگاڑ کا امکان رہتا ہے۔ یہاں آ کر ریاست نگران (Watch Dog) کا کردار ادا کرتی ہے، نہ کہ مقنن (Legislator) کا۔ ریاستی نمائندوں ججوں وغیرہ سے گزارش ہے کہ اس بابت اسلامی قوانین وضع شدہ (Codified) شکل میں موجود ہیں، کسی نئی تقنین کی حاجت نہیں ہے۔
بلوغت کے ساتھ جب انسان کے جسمانی تقاضے بیدار ہوتے ہیں تو یہ مسئلہ قانون، ریاست، معاشرے سے زیادہ انسانی حقوق سے مربوط ہو جاتا ہے جن کا کام رکاوٹ پیدا کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے مجموعی میلانات کے اندر نئے جوڑے کا درست ترین مقام متعین کرنا ہوتا ہے۔ معمولی مقامی اختلافات کے ساتھ یہ مسئلہ دنیا بھر میں ایک ہی اصول سے منسلک ہے جس کا مذہب سے بہت کم تعلق ہے۔
پارلیمان، کابینہ اور سپریم کورٹ کورٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے کو خوب بحث و تمحیص کے بعد مناسب انداز میں نمٹایا جائے۔ ایسی قانون سازی کے ذریعے جو سات ہزار سالوں سے دنیا بھر میں معروف ہے اور متمدن دنیا میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ ججوں کے ذاتی میلانات کو عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے باز رکھنے کا کوئی مکینزم وضع کرے گی۔ کیا یہ امر باعث تعجب نہیں ہے کہ جج آئین کے تحت حلف اٹھائیں اور فیصلے لکھتے وقت آئینی شقوں کا خیال رکھنے کی بجائے قانون بین الاقوام کا سہارا لیں ؟
اللہ نے موقع دیا تو کم سنی کی شادی پر یورپی اور چند دیگر ممالک کے قوانین کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔
ماں باپ کی زیادہ عمر اور ڈاؤن سنڈروم کا تعلق
خطیب احمد
(اہل علم جانتے ہیں کہ صحت اور علاج کے معاملات میں شریعت نے انسان کے تجربے پر مدار رکھا ہے۔ جس چیز کا نقصان طبی تحقیق اور تجربے سے واضح ہو جائے، اس سے گریز کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق معلوم ہے کہ آپ نے توالد وتناسل سے متعلق بعض طریقوں سے اس بنیاد پر منع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ ان سے بچوں کی صحت پر زد پڑتی ہے، لیکن پھر معلومات کی اطمینان بخش تصدیق نہ ہونے پر ارادہ تبدیل فرما لیا۔
جدید طبی تحقیقات کی رو سے لڑکی کی شادی کم سے کم کس عمر میں ہونی چاہیے اور بچوں کی پیدائش زیادہ سے زیادہ کس عمر تک ہونی چاہیے، اس کے متعلق اس تحریر میں ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ مسلمان ثقافتوں میں بلوغت پر اور بعض حالات میں بلوغت سے پہلے جنسی خواہش پیدا ہو جانے کی عمر میں بھی شادی کا رواج رہا ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر طبی تحقیق ان زمانوں میں ان نتائج تک پہنچ چکی ہوتی جن تک آج پہنچی ہے تو فقہی روایت میں بھی جواز وعدم جواز کی صورت مختلف ہوتی۔ بہرحال، اصل چیز اصول ہے۔ اطلاقی فیصلے انسان کے علم کی حدود کے تابع ہوتے ہیں۔ علم میں بہتری اور وسعت آنے پر فقہی آرا کو بھی اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہماری فقہی روایت میں یہ صلاحیت بحمد اللہ ہمیشہ موجود رہی ہے۔ مدیر)
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک لڑکی جب ماں کی کوکھ میں موجود ہوتی ہے (fetal life) تو اسکے پاس 60 سے 70 لاکھ انڈے (oocytes) ہوتے ہیں۔ جو اپنی تخلیق کے اگلے لمحے سے ہی خودکار عمل کے ذریعے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور نو ماہ کے حمل میں بچی کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی 50 سے 60 لاکھ انڈے ختم ہوچکے ہوتے۔ ایک لڑکی ایورج 10 لاکھ بیضوں (Eggs) کے ساتھ اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے۔ جو اسکی دونوں اووریز میں موجود ہوتے ہیں۔
اب پیدائش کے بعد پہلے ماہ سے ہی ہر ماہ تقریباً 10 ہزار Immature انڈے خود ہی مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی سپیڈ انکی یوٹرس میں ہونے والی موت سے اب قدرے کم ہوگئی ہے۔ لڑکی کے 8 سے 15 سال کی عمر میں بالغ ہونے تک انکی ایورج تعداد 3 سے 4 لاکھ رہ چکی ہوتی۔
انڈے موجود ہیں تو مینسٹرل سائیکل پیدائش کے فوراً بعد کیوں نہیں شروع ہوتا؟
لڑکی جب بلوغت کی ایورج عمر 12 سال (جو کہ ہر لڑکی کی ایک دوسرے سے مختلف ہے) کو پہنچتی ہے تو اسکے برین میں موجود hypothalamus سب سے پہلے ایک gonadotropin-releasing hormone (GnRH) نامی ہارمون پیدا کرنے کا آرڈر جسم کو جاری کرتا ہے۔ حکم کی من و عن تعمیل میں GnRH متحرک کرتا ہے pituitary gland کو کہ اب آگے تم follicle-stimulating hormone (FSH) پرڈیوس کرو۔ یہ FSH ہارمون egg development کا پراسس شروع کرانے کے لیے فی میل ہارمون ایسٹروجن estrogen لیولز کو ہائی کرنا شروع کرتا ہے۔ اور لڑکی کا موڈ زندگی میں پہلی بار عجیب کچا پکا سا ہونے لگتا۔ پہلے پیریڈز ہوتے اور زندگی کے پہلے پیریڈز کے پہلے دن کو کاؤنٹ کرکے آگے تقریباً چودھویں دن ovulation کے بعد ایک انڈہ اووری سے باہر نکل کر فلاپئین ٹیوب میں محض 12 سے 24 گھنٹوں کی زندگی لے کر آجاتاہے۔ لڑکی ماں بننے کے لیے تیار ہے۔ جہاں پہلے سے موجود سپرم یا ان 12 سے 24 گھنٹوں کے اندر آکر fertilization کا پراسس مکمل کرکے زائگوٹ بن جاتے ہیں۔
بلوغت چاہے 10 سال میں کیوں نہ آجائے مگر 18 سال سے کم عمر لڑکی ہر گز ماں نہ بنے۔
موضوع پر واپس آتے ہیں کہ لڑکی کی پیدائش کے بعد چاہے اسکی سو سال زندگی ہو کوئی ایک انڈہ بھی نیا پیدا نہیں ہوتا۔ پیدائشی طور پر موجود انڈوں میں سے ہی ہر مینسٹرل سائیکل میں ایک انڈہ رلیز ہو کر حمل کے لیے فلاپئین ٹیوب میں آتا ہے۔ جہاں سپرم کے ساتھ ملکر زائگوٹ بنتا۔
اسکے برعکس پیدا ہونے والا لڑکا نطفوں (Sperms) کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اسکی بلوغت کی عمر میں 74 دن کے سائیکل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہماری وفات تک نان سٹاپ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی موت کے بعد جب دل دھڑکنا بند ہوجاتا ہے اسکے بعد بھی جسم میں موجود سپرم کچھ دیر زندہ رہتے ہیں۔ مگر 35 سال کی عمر کے بعد انکی کوالٹی اور صحت دن بدن کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکے بھی دس بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں۔ اور پیدا ہونے والے سپرم کی تعداد اور صحت کے بہترین سال 20 سے 30 تک ہی ہیں۔ ان سپرمز سے پیدا ہونے والے بچے کے چانسز ممکنہ طور پر والد کی طرف سے کسی معذوری یا بیماری میں جانے کے لیے کم ہوتے ہیں۔ نسبتاً ان بچوں کے جن کے والد کی عمر بچہ پیدا کرنے کے وقت 35 سال سے زیادہ ہو۔
ڈاؤن سنڈروم ایک کروموسومل ڈس آرڈر ہے۔ ایک سپرم میں 23 کروموسوم اور ایک بیضے میں بھی 23 کروموسوم ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مل کر 46 بن جاتے ہیں۔ جب کسی وجہ سے ٹرائی سومی یا کوئی بھی جوڑا 3 کروموسوم بن جائیں تو کوئی کروموسومل ڈس آرڈر ہوتا ہے۔ کروموسوم نمبر 21 دو کی بجائے تین بن جائیں تو بچی ڈاؤن سنڈروم ہوگا۔ مگر یہ تین کروموسوم آخر ہوتے کیوں ہیں؟ لڑکی کی عمر کا تعلق کیسے ہوا؟ آئیے دیکھتے ہیں
اس سے پہلے میں نے ڈاؤن سنڈروم پر دو بڑی ہی مفصل اور مدلل تحریریں لکھیں۔ جن سے میرے سرکل میں موجود تمام ڈاکٹرز نے کلی اتفاق کیا۔ مگر کچھ دوستوں نے بات کو مذہبی رنگ دے کر کہا کہ ماں کی ذیادہ عمر کا ڈاؤن سنڈروم سے کوئی تعلق نہیں۔ اور کہا کہ والد کو کلین چٹ نہ دیں اسکی عمر بھی وجہ بن سکتی ہے۔ آئیے اس تحریر میں اس بات کا سائنسی اور علمی جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جیسے ہی لڑکی بالغ ہوتی۔ پہلے جو ماہانہ 10 ہزار انڈے ضائع ہو رہے تھے۔ ان کے ضائع ہونے کی ماہانہ تعداد اب 1 ہزار ہو گئی ہے۔ یہ انڈے ہر روز مر رہے ہوتے یعنی ایورج 30 سے 35 انڈے ہر روز خود ہی ختم ہو رہے ہوتے۔ ایسا نہیں کہ ایک دم ایک ہزار مر جائیں گے۔ کیونکہ خدا نے رکھے ہی لاکھوں ہیں اور ان کا مرنا باقی بچنے والوں کے لیے ضروری ہے تو یہ خود کار پراسس جاری رہتا۔ ایک کچا انڈہ جو ایسٹروجن بڑھنے سے پک کر باہر خدا کے حکم سے باہر آیا وہ اب انسان بننے جا رہا ہے۔ اگر دو انڈے باہر آجائیں تو جڑواں بچے پیدا ہونگے۔ جتنے بھی پکے ہوئے انڈے اووری سے باہر نکلیں گے اتنے ہی بچے ہونگے۔ ایک انڈہ اگر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا تو جڑواں بچے ہم جنس و ہم شکل ہوتے ہیں۔۔دو الگ انڈوں سے پیدا ہونے والے بچے ہم جنس و ہم شکل نہیں ہوتے۔
جو انڈے لڑکی کی 20 سے 30 سال کی عمر میں رلیز ہوتے وہ صحت و سائز و کوالٹی کے اعتبار اسکی پوری زندگی میں رلیز ہونے والے انڈوں سے بہترین ہوتے ہیں۔ یہی دنیا بھر میں آئیڈیل عمر ہے بچے پیدا کرنے کی۔ جوانی اپنے عروج پر ہوتی اور ہر سال بارہ صحت مند بیضے قدرت عطا کر رہی ہوتی کہ اپنی فیملی مکمل کر لو۔
جیسے ہی لڑکی کی عمر 32 ہوتی فرٹیلیٹی گرنا شروع ہوجاتی ہے۔ انڈوں کی تعداد تو ہر دن کم ہو ہی رہی ہوتی۔ جو باقی بچتے وہ بھی دیکھیں 32 سال پرانے ہیں۔ جب آپ پیدا ہوئی تھیں وہ تب ہی آپکے ساتھ دنیا میں آئے تھے۔ وہ ہر ماہ نہیں بنتے بس سٹور سے باہر نکلتے ہیں۔
بات آئی اب سمجھ میں؟
ان انڈوں کی صحت و کوالٹی ان کی بائیو لاجیکل عمر کے ساتھ وہ نہیں رہی جو آپکی اور انکی اپنی 30 سال کی عمر تک تھی۔
لڑکی کی 32 سے 37 سال کی عمر کے دوران فرٹیلیٹی اس تیزی سے گرتی کہ نیچرل حمل کے چانس بہت کم رہ جاتے۔ 40 تک آکر فرٹیلیٹی خطرناک حد تک گر چکی ہوتی۔ آی وی ایف اور سروگیسی کے آپشنز پھر دنیا بھر میں اپنائے جاتے۔ اور اسی دوران پیدا ہونے والے بچوں میں سے اکثریت کروموسومل اناملی کے ساتھ پیدا ہوتی۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
دونوں اووریز میں لاکھوں انڈے پڑے ہیں۔ ایک انڈے میں 23 کروموسوم کے جوڑے ہیں۔ خدا کے حکم سے ان کی Division کو Pause کیا گیا ہوا ہے۔ جیسے ہی ہر مینسٹرل سائیکل میں ایسٹروجن ہارمون کا لیول بڑھتا ہے ovulation پراسس سٹارٹ ہوتا تو ان لاکھوں انڈوں میں سے صرف ایک صحت مند انڈے کی فرٹیلائزیشن سٹارٹ ہوجاتی۔ اور اسکے کروموسومز Divide ہونے لگتے ہیں۔ اور یہ Division سپرم سے ملکر مکمل ہوجاتی۔ ہر یعنی ہر ایک کروموسوم پہلے اپنے ہی ساتھی کروموسوم sister strands سے الگ ہوتا اور پھر مخالف جنس کے کروموسوم سے ملکر کرکے اپنا اپنا جوڑا بنا لیتا ہے۔ یہ 23 جوڑے 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ جن کے اندر DNA ہوتا ہے۔ یہ ایک خلیہ پھر تیزی سے تقسیم ہونے لگتا اور ہم پانی سے خون اور پھر گوشت پوست کا انسان بن جاتے۔ ہمارے ہر تقریباً ہر خلیے میں آج 46 کروموسوم موجود ہیں۔ جو ہمارے سٹیم سیل میں تھے۔
اب ایک لڑکی کی عمر ہے 32 سال۔ یعنی جس انڈے سے بچہ ہونے جا رہا وہ بھی 32 سال پرانا انڈہ ہے۔ ہر انڈے میں پروٹینز ہوتی ہیں۔ انسانی انڈے میں پروٹینز کے دو لیولز یہ ہیں cohesin and securin۔ یہ پروٹین کے لیول عمر بڑھنے کے ساتھ اووری میں پڑے لاکھوں انڈوں میں سے دن بدن کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیول کا کم ہونے کا مطلب ہے کہ کروموسوم جب اپنے ہی جوڑے سے الگ ہوگا تو کوئی ایک آدھ کروموسوم اپنے ہی جوڑے سے چپکا رہ جائے گا۔ یعنی uneven کروموسوم کی division ہوگی۔ لڑکی کے سب کروموسوم جوڑے کھل کر ایک ایک ہو گئے اور لڑکے کے بھی ہوگئے۔ ایک یہ آپس میں ملاپ کرتے ہیں۔ ایک نمبر سے لیکر 23 نمبر والا کروموسوم اپنے ہی پارٹنر سے ملتا ہے۔
جب لڑکی کی عمر زیادہ ہوتی تو انڈے میں پروٹینز کا لیول کم ہوتا۔ 21 نمبر کروموسوم کا جوڑا جو لڑکی کا اپنا ہے وہ جدا نہیں ہوتا۔ اور ایک مرد کا کروموسوم بھی اس کے ساتھ مل جاتا ہے۔ تو یہ تین کروموسوم ہو جاتے۔ اسے Trisomy 21 کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ کام تقریباً اسی وقت ہوجاتا جس لمحے انڈہ اور سپرم آپس میں ملتے ہیں۔ ایسا نا ہونے کے برابر یا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ مرد کے سپرم میں موجود 21 کروموسوم جدا نہ ہو سکا ہو۔ اور ٹرائی سومی 21 ہو کر بچہ ڈاؤن سنڈروم ہوجائے۔ ایسا لڑکی کی طرف سے ہی اکثریت میں ہوتا ہے۔ اور پوری دنیا میں یہ بچے بڑی عمر کی لڑکیوں کے ہاں زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ گو چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے ہاں بھی پیدا ہوتے ہیں مگر اکثریت میں ریشو بڑی عمر یعنی 32 سے 37 سال میں ماں بننا ہے۔
ڈاؤن سنڈروم کی سو فیصد وجہ یہ ایک ہی نہیں ہے۔ دیگر وجوہات آپ میرے دیگر مضامین میں پڑھ سکتے ہیں۔ اور نہ ہی ایسا ہے کہ زیادہ عمر کی لڑکی کے ہاں ڈاؤن سنڈروم بچہ ہی ہوگا۔ مگر عمر بڑھنے کے ساتھ رسک ضرور بڑھ جاتا ہے۔
یہ کوئی تھیوری نہیں ہے ناں کو ریسرچ ہے۔ جسکا آپ حوالہ مانگنے لگ جائیں۔ یہ وہ نیچرل پراسس ہے جو میرے آپ کے اور دنیا کے ہر مرد و عورت کے جسم میں اس دنیا کے پہلے انسان سے لیکر آخری انسان تک ایسے ہی ہوتا رہے گا۔
کوشش کریں آپ لڑکی ہیں یا لڑکا 30 سے پہلے اپنی فیملی دو تین بچوں کے ساتھ مکمل کر لیں۔ کیرئیر بنتا رہے گا یار۔ ایک بھی دائمی معذور بچہ پیدا ہوگیا تو بنا ہوا کیرئیر اور سب کچھ اندھیر ہوجائے گا۔ آپ اس صدمے کو نہیں سہہ سکیں گے۔ ڈاؤن سنڈروم ہو گیا تو ہو گیا یہ کنڈیشن ساری عمر ساتھ رہے گی۔ والدین کا سب سے بڑا مسئلہ ان بچوں کی معذوری کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ میرا بھی بچہ معذور ہو تو کیسے قبول کر لوں گا کہ یہ اب ایسے ہی رہے گا۔۔حالانکہ اسنے رہنا ویسے ہی ہوتا ہے۔
یورپ میں شادیاں بہت لیٹ ہوتی ہیں۔ وہ لوگ ڈاؤن سنڈروم کو اکثریت میں دوران حمل تشخیص ہوتے ہی ابارٹ کر دیتے ہیں۔ اور ایک بچہ نیچرل یا مصنوعی طریقہ حمل سے یا سرو گیسی سے پیدا کرکے ایک بچے کے ساتھ ہی فیملی مکمل کر لیتے ہیں۔
آپ نے معذور بچے بس دیکھے ہیں۔ میں بارہ سال سے دن رات ان کی تعلیم و تربیت سے منسلک ہوں۔ سپیشل بچوں کا استاد ہوں۔ انکے والدین سے روز ملتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کاش کوئی ہمیں وقت سے پہلے بتا دیتا۔ جنکو بتاتا ہوں روز لکھتا ہوں اور آپ بات سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
والدین سے کہوں گا اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی 25 کے اوپر نیچے کرنے کی کوشش کریں۔ سادہ شادی کر لیں۔ لڑکے اور لڑکی والے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ مادی معیارات کی من پسند تلاش میں اپنے پوتوں دوہتوں کو معذوری نہ دیں۔
آپ لڑکی ہیں۔ عمر زیادہ ہے۔ شادی لیٹ ہوئی یا بچہ لیٹ پیدا ہوا۔ 32 سے 37 میں ریڈ لائن پر ہیں۔ مالک نے ایک بچہ صحت مند دے دیا بس کریں۔ زیادہ بھی ہو تو دو بچے کر لیں۔ وہ بھی رسک ہی ہے۔ ڈاؤن سنڈروم ضروری نہیں پہلا ہی بچہ بچی ہو دوسرا تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا ساتواں آٹھواں بھی دیکھا ہے۔ جب بچہ سپیشل ہوتا تو بچوں کو عموماً بریک لگتی۔ اور کئی جگہوں پر تو وہ بھی نہیں لگتی دو تین چار تک بغیر کسی احتیاط کے سب کچھ اللہ کی سپرد کرکے اسباب سے منہ موڑ کر سپیشل بچے ایک ہی معذوری کے ساتھ پیدا کر لیے جاتے۔
دوران حمل اپنا اسکین کسی تجربہ کار ریڈیالوجسٹ سے کروایا کریں۔ ساری گائنی ڈاکٹرز پراپر الٹرا ساؤنڈ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اور ایک بچہ سپیشل ہو جائے تو دوسرے حمل سے پہلے کسی ماہر و پروفیسر ڈاکٹر گائناکالوجسٹ سے مشورہ کیا کریں۔ گو اسکی فیس زیادہ ہوگی مگر وہ آپکے بچے کی عمر بھر کی معذوری سے تو زیادہ نہیں۔
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۴)
ڈاکٹر شیر علی ترین
اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا دوسرا باب)
دوسرا باب: اخلاقی اصلاح کے امکانات اور درپیش خطرات
شاہ محمد اسماعیل کی بکھری یادیں
برصغیر کی اسلامی تاریخ میں بہت کم ایسے مفکرین ہوں گے جن کا فکری ورثہ شاہ محمد اسماعیل (جو شاہ اسماعیل شہید کے نام سے بھی معروف ہیں) کی طرح متنازع اور اختلافی ہے۔ شاہ اسماعیل نے 1779 میں دلی کے ایک ایسے ممتاز گھرانے میں آنکھیں کھولیں جسے جدید ہندوستان کے یکتاے روزگار اور بااثر مسلمان اہلِ علم کی جاے پیدائش ہونے پر ناز تھا۔ ان کے دادا شاہ ولی اللہ اٹھارھویں صدی کے نہایت مشہور ومقبول مفکر تھے۔ شاہ اسماعیل کے والد شاہ عبدالغنی، شاہ ولی اللہ کے صاحب زادوں میں سے نسبتاً کم معروف تھے۔ شاہ اسماعیل نے اپنی دینی تعلیم بشمول قرآن، حدیث، فقہ، منطق اور تصوف اپنے عظیم چچاؤں شاہ عبد العزیز اور شاہ رفیع الدین (م 1821) کی نگرانی میں مکمل کی۔
اہل علم کے اس روشن خاندان میں شاہ اسماعیل ایک انوکھی شخصیت کے مالک تھے۔ ان بہت ساری چیزوں میں سے جو بعض اوقات ان کے خاندان کے بڑوں بالخصوص شاہ عبد العزیز کے لیے حیرانی کے ساتھ پریشانی کا سبب بنتی تھیں، ایک چیز شاہ اسماعیل کا جنگی فنون بالخصوص عسکری نوعیت کی جسمانی ریاضت کے ساتھ والہانہ تعلق تھا۔ شاہ اسماعیل کے سوانح میں انھیں ایک بہادر جنگ جو عالم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو جوانی سے ہی نہ صرف علمی بلکہ جسمانی جہاد کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے۔ شاید انھیں پہلے سے اندازہ تھا کہ ان کی زندگی کیسے گزرے گی، اور یہ کہ ایک دن وہ میدان کارزار میں اتریں گے1۔ مثلاً ان کے سوانح میں آتا ہے کہ اکیس سال کی عمر میں انھوں نے گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی اور تیراکی پر دسترس حاصل کر لی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی مسلسل تین دن تک دریا میں تیراکی کرتے رہتے، اور اس دوران میں دریا کے کنارے صرف اپنے طلبہ کو سبق پڑھانے اور کھانا کھانے کی غرض سے وقفہ کرتے تھے۔[53] انھوں نے تھکاوٹ کے آثار ظاہر کیے بغیر ایک ہی سانس میں (دس سے گیارہ میل) طویل مسافت پیدل طے کرنے کی مہارت بھی بہم پہنچا لی تھی۔ اور نیند پر قابو پانے میں ان کی ریاضت اتنی کامل تھی کہ وہ بغیر کسی تکلیف کے آٹھ سے دس دن تک جاگتے رہتے، اور جب کبھی ان کا جی چاہتا، سو لیتے یا جاگ جاتے تھے۔2
مشقت کی عادی جسمانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے ذریعے سے شاہ اسماعیل نے خود کو نہ صرف مسلمان اہل علم اشرافیہ کی تن آسانی سے خود کو الگ رکھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کی مغل سیاسی اشرافیہ سے بھی خود کو ممتاز کیا جو ان کی نظر میں عیاش، بگڑی ہوئی اور ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی اور اخلاقی زوال کی ذمہ دار تھی۔ یہ ایک ایسی سوچ تھی جس نے بعد میں ان کی اصلاحی کاوشوں میں بنیادی حیثیت حاصل کی۔ شاہ اسماعیل کے سوانح نگاروں نے تمام جزئی تفصیلات کے ساتھ مغلوں کے سیاسی اشرافیہ کے خلاف ان کی للکار وتنقید کو پیش کیا ہے۔ ایک واقعہ حسب ذیل ہے:
شاہ اسماعیل کو شمشیر زنی سکھانے والے استاذ، جن کا نام مرزا رحمت اللہ بیگ تھا، دلی میں بہت سے مغل شہزادوں اور نواب زادوں کے استاذ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ایک بار شاہ اسماعیل اس اکھاڑے میں شمشیر زنی کی مشق کر رہے تھے جہاں پر مرزا بیگ اپنے شاگردوں کو تربیت دیتے تھے کہ دو شہزادوں نے انھیں دیکھ کر ان کا مذاق اڑایا کہ ایک "ملا" سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مخصوص فنون حرب کو سیکھنے کے لیے خواہ مخواہ خود کو مشقت میں ڈالے ہوئے ہے۔ اپنی مشق پوری کرنے کے بعد شاہ اسماعیل ان دو شہزادوں کی طرف متوجہ ہو کر گویا ہوئے:
"میں ان کی اولاد میں سے ہوں جنھوں نے ایسی ہی حالت سے دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت کی اور اسلامی سلطنتیں قائم کر دیں، اور آپ ان کی اولاد میں سے ہیں جنھوں نے آرام طلب فطرت کی بدولت میں مسلمانوں کی حاکمیت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہزادے نہ تھے۔ پانچ لاکھ عرب جو آپ کی ماتحتی میں کسریٰ وقیصر کی سلطنت میں کام کر رہے تھے، لال قلعہ کے رہنے والے اور شہزادے نہ تھے۔ جو کچھ انھوں نے کام کیا، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ، اور جو کچھ آپ کے بزرگوں کی آرام طلب روح نے کیا، وہ بھی زمانہ نہیں بھولا ہے"3۔
یہ فرد جرم سن کر دونوں شہزادے پشیماں ہوئے اور معذرت چاہی۔ تاہم شاہ اسماعیل نے انھیں شمشیر زنی کے مقابلے کی دعوت دی جسے انھوں نے کچھ پس وپیش کے بعد قبول کر لیا۔ پہلے ہی چند مرحلوں میں شاہ اسماعیل کی زبردست مہارت وتربیت کی دھاک بیٹھ گئی۔[54] خود سر شہزادوں نے اعتراف کیا کہ اشرافیہ سے منسوب فنون حرب میں یہ "ملا زادہ"، جس پر انھوں نے پھبتی کسی تھی، ان سے زیادہ ماہر ہے۔ یہ کہانی شجاعت وبہادری کی ٹوپی کو شاہی اشرافیہ کے سر سے اتار کر شاہ اسماعیل کے سر پر رکھتی ہے۔ مزید برآں یہ بتاتی ہے کہ مغلوں کی "عیش پرستانہ عادات" ہی ان کے زوال کا باعث تھیں۔ اس طرح یہ واقعہ کہانی کے انداز میں شجاعت وبہادری اور جسمانی مضبوطی کو سیاسی طاقت اور مقبولِ عام حاکمیتِ اعلیٰ سے جوڑ دیتا ہے۔
دراصل مضبوط جسم کو پروان چڑھانے کے لیے شاہ اسماعیل نے مذہبی اشرافیہ میں رائج عادات واطوار سے تعلق منقطع کر لیا۔ اگرچہ شاہ اسماعیل کے خاندان کے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا نہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا، تاہم ان کے والد اور چچا اکثر اس کی فوجی تربیت پر حیرت سے ہنستے تھے۔ اپنے خاندان کے ایک ایسے فرد کو دیکھ کر انھیں الجھن ہوتی تھی جس کی طرز زندگی مولویانہ معاشرت سے نہ صرف بہت دور بلکہ اس کے برعکس تھی4۔
شاہ اسماعیل کے طبعی میلانات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ اپنے خاندان کے ساتھ ان کے مضبوط علمی روابط تھے، تاہم سید احمد بریلوی (م 1831، اس کے بعد اس کتاب میں انھیں سید احمد5 کے نام سے پکارا جائے گا) ہی وہ شخصیت تھی جس نے اس کے اصلاحی کردار پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ سید احمد برصغیر میں اسلام کے علمی اور سیاسی نقشے پر ایک دل چسپ شخصیت ہیں۔ اگرچہ انھوں نے قرآن وحدیث کی تعلیم شاہ عبدالعزیز اور شاہ عبدالقادر سے حاصل کی تھی، پھر بھی وہ ایک روایتی عالم سے زیادہ ایک عسکری جنگ جو اور صوفی مُصلح تھے۔ تاہم سید احمد نے اپنے گرد اشرافیہ اور عوامی دونوں حلقوں کے پیروکار جمع کیے۔ شاہ اسماعیل کے علاوہ سید احمد کے بڑے مریدوں میں شاہ عبد العزیز کے داماد اور نامور حنفی عالم مولانا عبد الحی (م 1828) بھی شامل تھے۔ سید احمد کے ساتھ شاہ اسماعیل کی پہلی ملاقات 1819 میں ہوئی جب وہ ریاستِ ٹونک (جو آج راجستھان کے نام سے جانا جاتا ہے) سے واپس لوٹے۔ وہاں انھیں شاہ عبد العزیز نے بھیجا تھا تاکہ وہ امیر علی خان (م 1834) سے، جو بعد میں ٹونک کے نواب بنے، مکمل عسکری تربیت حاصل کریں۔ سید احمد سے ملاقات شاہ اسماعیل کی زندگی میں انقلاب کا نقطۂ آغاز ہے6۔
اس دور سے پہلے اپنی علمی پختگی کے باوجود شاہ اسماعیل اپنے اصلاحی مشن کے لیے کوئی مربوط ایجنڈا ترتیب نہیں دے سکے تھے۔ آزاد منش ہونے کی وجہ انھوں نے کوئی مستقل پیشہ بھی اختیار نہیں کیا تھا۔ اس بات کو بیسوی صدی کے سوانح نگار اور شاہ اسماعیل کے پرجوش حامی غلام رسول مہر (م 1971) نے کچھ یوں بیان کیا ہے: [55] "طبیعت میں ایک گونہ بے پروائی سی پائی جاتی تھی"7۔ لیکن سید احمد سے ملاقات وبیعت کے بعد شاہ اسماعیل کی زندگی میں ایک غیرمعمولی انقلاب برپا ہوا۔ ان کی سابقہ بے پروائی اور بد نظمی دینی اصلاح کے ایک منظم پروگرام میں تبدیل ہو گئی۔
جو خصوصیت شاہ اسماعیل کو اپنے خاندان کے اکثر افراد سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے علم وتحقیق کے ساتھ بھرپور انداز میں عوامی سرگرمیوں میں بھی شرکت کی۔ شاہ اسماعیل نے دلی کے مشہور اور مرکزی جامع مسجد کے سب سے زیادہ عوامی منبر تک اپنے اصلاحی مشن کو مدلل انداز میں پہنچایا۔ وہاں بیٹھ کر انھوں توحید کی تائید اور بدعات ورسومات کی تردید میں شعلہ انگیز خطباتِ جمعہ دیے۔ ان خطبوں کی بیک وقت پرجوش تائید یا تردید ہوئی۔ بعض لوگوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں راسخ اعتقادی خرابیوں کی تشخیص کرنے اور انھیں طشت از بام کرنے پر ان کی تعریف کی، جبکہ کچھ لوگوں نے طویل عرصے سے رائج رسم ورواج کی توہین اور اولیاے کرام پر تنقید سے پیدا ہونے والے معاشرتی انتشار کی بنا پر انھیں برا بھلا کہا۔ سچ یہ ہے کہ شاہ اسماعیل کے خطبوں نے ایسا غم وغصہ پیدا کر دیا تھا کہ ایک موقع پر ان کے مستقل حریف مولانا فضل حق خیر آبادی نے دلی کے انگریز حاکم کی عدالت میں شاہ اسماعیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ وہ شاہ اسماعیل کو جامع مسجد کے منبر پر تقریر سے روکے۔ یہ مقدمہ منظور ہوا اور شاہ اسماعیل کو اس بنیاد پر خطبہ دینے سے منع کر دیا گیا کہ اس سے امنِ عامہ متاثر ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پابندی اس وقت اٹھا لی گئی جب شاہ اسماعیل نے انگریز افسر کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے خطبات میں کوئی نئی بات نہیں، بلکہ اس کا مقصد توحید کا احیا ہے۔
عوامی اصلاح
1820 میں مشہور پریسبٹیرین مُصلِح چارلس فِنی (Charles Finney) نیو یارک کے شمال میں "گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر قریہ قریہ" اپنے اصلاحی پروگرام کی تبلیغ میں مصروف تھے، کیوں کہ وہ "دوسرے عظیم احیا" کے سرخیل تھے8۔ ہزاروں میل دور شاہ اسماعیل بھی دلی میں اور بالآخر پورے ہندوستان اور اس سے باہر بھی عوام کے سامنے اپنا اصلاحی منصوبہ پیش کر چکے تھے۔ جامع مسجد جیسے نمایاں مقامات میں رسمی تقریروں کے ساتھ ساتھ انھوں نے بازاروں اور گلیوں کوچوں جیسے عوامی مقامات میں پورے جوش وخروش سے اصلاحی مہم چلائی۔ [56] اپنے خاندان کے افراد کی جھنجھلاہٹ کے باوجود وہ دلی کے مشہور قحبہ خانوں تک گئے تاکہ طوائفوں اور ان کے سرپرستوں کو اس "عذابِ الٰہی" سے ڈرائیں جو ان کی تاک میں ہے۔ مثلاً ایک شام نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد شاہ اسماعیل نے موتی نام کی ایک مشہور طوائف کے قحبہ خانے کا رخ کیا۔ اس قحبہ خانے میں شہر کے دولت مند ترین لوگ بکثرت آتے تھے۔ شاہ اسماعیل نے خود کو بھکاری ظاہر کیا تو انھیں اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ جوں ہی وہ داخل ہوئے، انھوں نے صحن میں رومال بچھایا اور اس پر بیٹھ گئے اور زور زور سے ثم رددناہ اسفل سافلین تک سورۃ التین9 کی تلاوت کی۔ اس کے بعد مولانا نے اس قدر بلیغ اور مؤثر تقریر کی گویا جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کروا دیا۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ موتی اور اس کے سرپرستوں نے قحبہ خانے میں موجود ڈھولک، ستار اور دیگر آلاتِ موسیقی توڑنا شروع کر دیے۔ اسی رات کو جب شاہ اسماعیل جامع مسجد واپس پہنچے تو ان کے تایا زاد اور مشہور محدّث مولانا محمد یعقوب دہلوی نے انھیں سیڑھیوں پر روک لیا۔ مولانا یعقوب نے قحبہ خانہ جانے پر ان کی سرزنش کی۔ انھوں نے کہا: "اسماعیل میاں! تمھارے دادا ایسے تھے اور تمھارے چچا ایسے تھے، اور تم ایسے خاندان سے ہو جس کے سلامی بادشاہ رہے ہیں، مگر تم نے اپنے آپ کو بہت ذلیل کر لیا۔ اتنی ذلت ٹھیک نہیں"۔ اس پر اسماعیل نے پوری خود اعتمادی سے کہا: "مجھے آپ کی کہی ہوئی بات پر حیرت ہوتی ہے۔ میں تو اس روز سمجھوں گا کہ آج میری عزت ہوئی ہے جس روز دلی کے شہدے میرا منہ کالا کرکے اور گدھے پر سوار کرکے مجھے چاندنی چوک میں لے جائیں گے، اور میں یہ کہہ رہا ہوں گا کہ قال اللہ کذا وقال رسول اللہ کذا (یعنی اللہ نے یہ فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا)10۔
نکاحِ بیوگان
شاہ اسماعیل نے جن بنیادی امور کی اصلاح کا جوش وجذبے کے ساتھ بیڑہ اٹھایا، ان میں ایک نکاح بیوگان تھا۔ ہندو بیواؤں کے عقدِ ثانی سے متعلق اپنی کتاب میں تانیثی (feminist) مؤرخ تانیکا سرکار نے ثابت کیا ہے [57] کہ انیسویں صدی کے وسط میں نکاحِ بیوگان کا موضوع انتہائی حساس اور اشتعال انگیز تھا جس سے متعدد اور عموماً مخالف فرقوں کے ہندو اہل علم اور کارکن نبرد آزما تھے۔ مزید برآں سرکار کی نظر میں نکاحِ بیوگان کی مخالفت نے کم از کم مذہبی اتحاد کی حد تک "نہ صرف بہت سی ہندو ذاتوں کو متحد کیا، بلکہ اس نے ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان خط امتیاز بھی کھینچ دیا"11۔ چند دہائیوں کی کش مکش اور بحث کے بعد بالآخر ہندؤوں کا اصلاحی مشن قانون کے میدان میں فتح یاب ہوا۔ 1856 میں استعماری ریاست نے ایک قانون (ایکٹ نمبر XV، جولائی 1856) پاس کیا جس نے "ہندو بیواؤں کے عقدِ ثانی کے خلاف سابقہ قانونی اور جبری بندش" کو منسوخ کر دیا۔ اس سے ستائیس سال قبل 1829 میں ایک اور قانون پاس ہوا تھا جس کے ذریعے ستی (ہندو بیوہ کا اپنے مردہ شوہر کی چتا میں زندہ جلا دیا جانا) کی رسم پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ جیسا کہ سرکار نے تفصیل سے بیان کیا ہے: "ان کے درمیان ستی اور نکاحِ بیوگان (کی بندش) کو دو قوانین کے ذریعے جرم قرار دیا گیا جو کسی زمانے میں ایک مقدس رسمیں تھیں، اور جو طویل عرصے سے مذہب کی رو سے حیاتِ جاودانی کی ایک شکل سمجھی جاتی تھیں"12۔
انیسویں صدی میں برصغیر کے مذہبی، سیاسی اور قانونی دائروں میں نکاحِ بیوگان اور ستی کے الجھے ہوئے مسائل پر کافی عمدہ علمی تحقیقات سامنے آئی ہیں13۔ تاہم برصغیر سے متعلق تحقیقات کے میدان میں ان سوالات پر بحث ومباحثہ بنیادی طور پر انیسویں صدی کی ہندو فکر، کارکنوں اور استعماری ریاست کی بدلتی ترجیحات پر مرکوز ہوتا ہے۔ تاہم نکاح بیوگان کے حوالے سے یہ ناخوش گوار تنازعات صرف ہندؤوں اور ہندو مت میں پیدا نہیں ہوئے، بلکہ انیسویں صدی کے اوائل سے برصغیر کی مسلم اصلاحی فکر کے لیے بھی یہ ایک بنیادی مسئلہ تھا۔ متعدد ہندو روایات میں نکاحِ بیوگان سے ایک سماجی نفرت پائی جاتی ہے، تاہم اس مسئلے میں شاہ محمد اسماعیل جیسے مسلمان مصلحین کے لیے بھی دل چسپی کا کافی سامان تھا جن کی خواہش تھی کہ ہندوستانی اسلام کو "ہندو" اثرات سے پاک کیا جائے۔ جیسا کہ ہم آنے والے صفحات میں بیان کریں گے، جس طرح نکاح بیوگان کی مخالفت بہت سی ہندو ذاتوں کے لیے مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان خطِ امتیاز تھی، اسی طرح بہت سے مسلمان مصلحین کے لیے بھی نکاحِ بیوگان کی ممانعت کے خلاف جد وجہد (ہندووں اور مسلمانوں میں) اہم خطِ امتیاز کی حیثیت رکھتی تھی۔ یوں انیسویں صدی میں نکاح بیوگان کے حق میں مسلم مصلحین کی مہم کا مفاد ایک طرف ان ہندو اصلاحی آوازوں کے ساتھ مشترک تھا جو ہندو بیواؤں کی عقد ثانی کی بندش کے مخالف تھے، اور دوسری طرف ان ہندو اہل علم کے ساتھ جو پورے جوش سے اس بندش کا دفاع کر رہے تھے۔[58]
اول الذکر کے ساتھ، مسلم مصلحین نکاح بیوگان کے خلاف بندش کو ہٹانے کے نظریاتی حکم پر متفق تھے، جبکہ موخر الذکر کے ساتھ شاہ اسماعیل جیسے مسلمان مصلحین اس نکتے پر ایک پرجوش اعتقادی اور جذباتی اتفاق رکھتے تھے کہ ہندو اور مسلمان برادریوں کے درمیان خط امتیاز اور واضح حدود برقرار رکھی جانی چاہییں۔ ازدواجیت اور جنسیت کے انتہائی قریب لیکن متلون دائرے بطور خاص ایسا زرخیز میدان تھے جن میں یہ حدود نمایاں کیے گئے، ان پر بحث ہوئی، اور ان کی تحدید کی گئی۔ ذیل میں میری کوشش ہے کہ اس مناقشے میں مسلمان مصلحین کے کردار کے اہم اجزا کو زیر غور لا کر اس بحث کا ایک نقشہ پیش کروں۔ مقصد کے لیے میں اس مسئلے میں شاہ اسماعیل کے بنیادی کردار کا ایک بیانیہ (narrative) خاکہ پیش کروں گا۔
نکاح بیوگان کا موضوع شاہ اسماعیل کے لیے بہت ذاتی نوعیت کا تھا۔ ان کی بڑی ہمشیرہ بیوہ تھیں جن کا کئی سال تک عقد ثانی نہیں ہوا تھا۔ بعد میں شاہ اسماعیل نے خود اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس وقت شمالی ہندوستان میں نکاح بیوگان سے متعلق بندش کو ایک لحاظ سے معمول سمجھ کر قبول کیا تھا۔ ان کے اپنے الفاظ میں یہ واقعہ کچھ یوں ہے: "جب میں اپنی ہمشیرہ کو (محمد تبریزی، م 1340 کی) حدیث کی کتاب مشکاۃ پڑھایا کرتا تو میں ارادی طور نکاح بیوگان کے فضائل سے متعلق احادیث کو چھوڑ دیتا۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں وہ عقد ثانی کی خواہش نہ کر بیٹھے"14۔ جب شاہ اسماعیل سید احمد سے بیعت ہوئے تو یہ قابل اعتراض رویہ ایک دم بدل گیا۔
شاہ اسماعیل کے مطابق سید احمد ہی وہ شخصیت تھے جنھوں نے اس "حقیقت" کے بارے میں ان کی آنکھیں کھولیں کہ نکاح بیوگان کو برا سمجھنا دراصل "ایک ہندو رسم ہے جو سنت نبوی کے خلاف ہے"۔ بعد ازاں شاہ اسماعیل نے اپنی ہمشیرہ کا عقد ثانی اپنے ایک قریبی دوست سے کیا۔ اس عقد ثانی کا قصہ دل چسپی سے خالی نہیں۔
ایک دن شاہ اسماعیل جامع مسجد میں نکاح بیوگان کے موضوع پر وعظ کہہ رہے تھے۔ مجمع میں بیٹھے ایک شخص نے سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ اسماعیل کو فورًا محسوس ہوا کہ یہ آدمی ان کی اپنی بیوہ ہمشیرہ، جس کا تاحال عقد ثانی نہیں ہوا، کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے15۔ وہ بڑے پریشان ہوا اور پیشگی اقدام کے طور پر مجمع کو فوراً برخاست کرکے یہ کہا: "مجھے ایک اہم بات یاد آگئی۔ چلیں اگلے ہفتے پھر ملتے ہیں"۔ شاہ اسماعیل مسجد سے جلدی سے نکلے اور بھاگتے ہوئے اپنی بڑی ہمشیرہ کے گھر گئے۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا، شاہ اسماعیل اس کے پاؤں میں گر گئے اور زار وقطار روتے ہوئے کہنے لگے: "اے بہن! میری ساری تگ ودو آپ کے ہاتھوں میں ہے، میرے وعظ کی تاثیر کا انحصار آپ پر ہے"۔ مکمل حیرت کے عالم میں اس نے پوچھا: [59] "آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟" شاہ اسماعیل نے جواب میں کہا: "اگر تم شادی کر لو تو ایک اہم سنتِ نبوی کو زندہ کرنے میں میری مدد ہو جائے گی اور میں بغیر کسی جھجھک کے اپنا سلسلہ وعظ جاری رکھ سکوں گا"۔ بہن نے جواب میں کہا: "میرے پیارے بھائی! مجھے بھی سنت نبوی کا احیا اتنا ہی عزیز ہے، لیکن میں اتنی بوڑھی اور بیمار ہوں کہ عقد ثانی کر نہیں سکتی"۔ لیکن جب اسماعیل نے اپنا اصرار جاری رکھا تو آخر کار اس نے اپنے بھائی کی بات مان لی۔ ان کا نکاح شاہ اسماعیل کے ایک قریبی دوست کے ساتھ کر دیا گیا۔16
اس شخصی کام یابی سے حوصلہ پاتے ہوئے شاہ اسماعیل نے بڑے پیمانے پر شمالی ہندوستان کی مسلمان بیواوں کے عقد ثانی کی تحریک شروع کی۔ اس کام کے لیے انھیں معاونین کی ایک فوج ظفر موج دست یاب ہوئی جو قریہ قریہ جا کر عقد ثانی کے قابل بیوہ مسلمان خواتین کو ڈھونڈتے تھے۔ ایک شخص مولوی عبد الرحیم صاحب نکاح بیوگان کے سلسلے میں اتنے سرگرم تھے کہ وہ "رانڈوں کی شادی والے ملا" کے لقب سے مشہور ہو گئے17۔
شاہ اسماعیل کی اصلاحی بیداری پر سید احمد کے نقوش واثرات ان مٹ ہیں، اگر چہ علمی اعتبار سے شاہ اسماعیل ان سے زیادہ کامل اور پڑھے لکھے تھے۔ ایک خاص جذباتی موقع پر کسی نے شاہ اسماعیل سے پوچھا: "آپ کے تایا شاہ عبد العزیز اور شاہ عبد القادر دونوں آپ کو بے حد چاہتے ہیں، اور سید احمد ان کے شاگردوں میں ہیں۔ پھر آپ اپنے تایاؤں کے مقابلے میں ان سے اتنے قریب کیوں ہیں؟" شاہ اسماعیل نے اختصار کے ساتھ جواب دیا: "میں بس اتنا کہوں گا کہ جب میں اپنی (بیوہ) ہمشیرہ کو حدیث کی کتاب مشکاۃ پڑھایا کرتا تو میں قصداً نکاح بیوگان کی فضیلت میں وارد احادیث کو چھوڑ دیتا، اس خدشے کی بنا پر کہ وہ عقد ثانی کی خواہش نہ کر بیٹھے۔ لیکن جب سید احمد کے ساتھ میرا تعلق مضبوط ہوا تو میں نے خود اس کا عقد ثانی کرا دیا۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں ان کے اتنے قریب کیوں ہوں!"18
درج بالا واقعے کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں پہلے سے نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ مسلمان علما کے درمیان بھی "ہندوانہ رسومات" کی جڑوں کی گہرائی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اسماعیل کا اپنی ہمشیرہ کو درس حدیث دینے کے وقت نکاح بیوگان سے متعلق احادیث نبویہ کو چھوڑ دینے کا اعتراف بہت اہم ہے، کیوں کہ اس سے نکاح بیوگان کو رائج کرنے کے لیے ان کے مشن کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مقصد دوسروں کی اصلاح سے زیادہ اپنی اصلاح تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں میں رائج نکاح بیوگان کی بندش کو ہٹانے کی خواہش اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ رسوم ایک ایسے ہندوستانی ماحول میں پیچ درپیچ پیوست ہونے کی وجہ سے خاموش طور پر قبول کیے گئے تھے جس میں "ہندوؤں" اور "مسلمانوں" کی مذہبی وابستگیوں کے درمیان امتیاز اس قدر واضح نہیں تھا۔ [60] اگر چہ ہندو اور مسلمان مصلحین اپنی کوششوں کے تناظر اور مقاصد کے حوالے سے ایک دوسرے سے واضح طور پر مختلف تھے، تاہم یہ کہنا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ وہ نہ صرف نکاح بیوگان کی تائید میں بلکہ نکاح بیوگان کی بندش کو مذہبی تعلیمات کی مخالفت پر مبنی ایک غلط رسم قرار دینے میں بھی ایک دوسرے سے متفق ہیں- ایک ایسی جد وجہد جو تعبیر وتشریح کے اصولوں کے اعتبار سے مسلمانوں کے بجاے ہندؤوں کے لیے نسبتاً زیادہ بڑا چیلنج تھا۔ دونوں کا یہ نقطۂ نظر بھی ایک جیسا تھا کہ ایک بیوہ خاتون ہمیشہ جنسی آوارگی اور بداخلاقی کا بآسانی شکار ہو سکتی ہے، اگر اسے رشتۂ ازدواج کے اخلاقی بندھن میں نہ باندھا جائے19۔
یہ نکتہ غور طلب ہے کہ کہیں شاہ اسماعیل اور ان کے رفقاے کار نے اس صورت حال کے پیدا کرنے میں کوئی کردار تو ادا نہیں کیا جس کی بنیاد پر استعماری ریاست نے ہندو بیواؤں کے عقد ثانی کی قانونی اجازت فراہم کی۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی اس امکان کو کیسے دیکھتا ہے، جس طرح کہ گزشتہ بحث سے معلوم ہوتا ہے، یہ مفید ہوگا کہ روایتی طور پر "ہندو مذہب" یا ہندو کرداروں کے اصلاحی اقدامات میں برصغیر کے مسلمان مصلحین کے مداخلتی کردار کو کم از کم زیرِ غور ضرور لایا جائے۔ ان بالعموم نظر انداز شدہ نکات اتفاق کی نشان دہی اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے اصلاح پسندوں کی اس خوش گمانی کا پردہ چاک کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی شناخت میں امتیاز اور اختلاف کی کچھ ہمیشہ سے چلی آنے والی اور بہت ہی واضح حدود ہوتی ہیں (جن کے تحت کسی مذہبی روایت میں اصلاح کا عمل انجام دیا جاتا ہے)۔
غیر الوہی کرشماتی طاقت کی تسخیر
ایک اور دلچسپ واقعہ جس سے اسماعیل کی اصلاحی کاوشوں کی بنیاد میں کارفرما متعلق مختلف قسم کی تنقیدات یکجا سامنے آتی ہیں، ایک خلوت پسند لیکن مسحور کن صوفی پیر جلال شاہ کے ساتھ ان کی ملاقات ہے20۔ اسماعیل ایسے کئی مشہور اجتماعات وتقریبات میں از خود شریک ہوتے تھے جو صاحب کرامت صوفیا کی غیرمعمولی روحانی صلاحیتوں کا اظہار ہوتے، اور جس میں عام لوگوں اور شاہی خاندان کے افراد کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی تھی۔ اپنی شناخت کو چھپانے کے لیے وہ ایسے مقامات پر فوجی وردی میں جاتے تھے۔ شاہ جلال کی عمر 38 سال تھی، اور وہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور صاحب کشف وکرامت تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ کسی پر ایک نظر ڈالنے سے اسے اپنی مرضی کا تابع بنا سکتے ہیں۔ روحانی کشش کے ساتھ ساتھ شاہ جلال حیرت انگیز طور پر وجیہ تھے۔ وہ ہر سال ماہِ ربیع الاول میں میلاد النبی کے پہلے بارہ دنوں میں دہلی میں قدم شریف کی درگاہ پر روحانی اجتماعات کا انعقاد کیا کرتے تھے۔
ان اجتماعات میں شاہ جلال کے ساتھ سفر کرنے والے مصاحبین کے علاوہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے فقرا، تاجر برادری اور اشرافیہ کے تقریباً دو سو لوگ شریک ہوتے۔ اگر چہ شاہ ایک صوفی تھے، لیکن ان کا طرز زندگی پر تعیش تھا۔ ان کے ہاں ایرانی قالینوں اور زیورات جیسے سامانِ عیش کی فراوانی تھی۔ اس ٹھاٹھ باٹھ اور پرتعیش زندگی کے باوجود شاہ کی یہ بات قابل تعریف تھی کہ وہ غریبوں پر دل کھول کر خرچ کرتے تھے، اور ان میں پاک بازی کی علامات جھلکتی تھیں، ایسے جیسے اصلاح اور غفلت سے بیداری کا موقع ملنے کے منتظر ہوں۔ اپنے مصلح سے ان کی ملاقات بہت جلد ہونے والی تھی جب چھ ربیع الاول کی رات کو شاہ اسماعیل نے شاہ جلال کے مشہور اجتماع میں شرکت کی۔ وہ قدم شریف میں تقریباً رات کے دس بجے داخل ہوئے جب روحانی محفل عروج پر تھی۔ شاوہ اسماعیل کو حیرت ہوئی جب شاہ جلال نے انھیں اپنے پاس بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔ کچھ لمحوں کے لیے شاہ اسماعیل کو اجتماع کی سرگرمیوں میں کوئی قابل اعتراض بات معلوم نہ ہوئی21۔
تاہم یہ اطمینان اس وقت ختم ہو گیا جب تبرُّکاتِ نبوی کو لایا گیا۔ جلال شاہ اور دوسرے تمام لوگ سراپا احترام بن کر کھڑے ہو گئے۔ شاہ اسماعیل چپکے سے وہاں سے پیچھے ہٹ گئے تاکہ ایسی رسم کو بجا لانے سے احتراز کریں جس کی وہ پرزور انداز میں تردید کرتے تھے۔ اگر چہ کسی اور کو پتا نہیں چلا، لیکن شاہ جلال نے یہ بات نوٹ کی۔ تاہم انھوں نے کچھ نہ کہا، نہ ہی ناگواری یا ناراضگی کا کوئی تاثر ظاہر کیا۔ جب محفل دوبارہ جمی تو شاہ جلال نے دوبارہ شاہ اسماعیل کو اپنے پہلو میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر کے لیے وہ دونوں کچھ نہ بولے۔ قدم شریف پر ایک پرشکوہ سکوت طاری تھا۔ آخر کار جلال شاہ نے مہر سکوت توڑی اور آہستہ لیکن قابل سماعت آواز میں اسماعیل سے گویا ہوئے: "کیا آپ دہلی سے ہیں"؟ شاہ اسماعیل نے اثبات میں جواب دیا تو جلال شاہ نے کہا: "ہر سال ہم آپ کی وجہ سے دہلی آ جاتے ہیں تاکہ آپ جیسے اہل دہلی کی نیک صحبت سے فیض یاب ہوں"22۔ جب وہ کچھ مزید بے تکلف ہو گئے تو شاہ اسماعیل کی خوش کلامی اور ان کی حکیمانہ گفتگو کا شاہ جلال پر اس قدر اثر ہوا کہ انھوں نے فورًا محفل برخواست کر دی، اور اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ سب کچھ لپیٹ کر وہاں سے چلے جائیں۔ جو دوسروں کو مسحور کرتا تھا، وہ خود شاہ اسماعیل کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ جلد ہی اسماعیل اور شاہ دونوں تنہا رہ گئے۔ اگر چہ روحانی محفل جس میں ایک بھاری مجمع شریک تھا، قبل از وقت اختتام کو پہنچ گئی، تاہم اسماعیل کے اصلاحی کردار کی ابتدا ہوا چاہتی تھی۔
اس سے پہلے کہ شاہ اسماعیل اپنا جادو چلاتے، شاہ جلال نے کہا: "کیا آپ شاہ اسماعیل نہیں ہیں؟" اس نے ایک ایسے پراعتماد طالب علم کے انداز میں سوال کیا جس نے ابھی اپنا امتحان پاس کیا ہو۔23 پہلے شاہ اسماعیل تھوڑا ہچکچائے لیکن شاہ جلال کے اصرار پر انھوں نے آخر کار اپنی شناخت کی تصدیق کر دی۔ انھیں اس بات پر حیرت تھی کہ شاہ جلال کو کیسے پتا چلا کہ وہ کون ہیں۔ شاہ جلال نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کے مخالفین نے آپ کی تصویریں اور حلیے لکھ لکھ کے بھیجی ہیں اور استدعا کی ہے کہ میں اپنے روحانی تصرف کو بروے کار لاتے ہوئے آپ پر قابو پا کر قتل کر دوں۔ لیکن شاہ جلال نے شاہ اسماعیل کو یقین دہانی کرائی کہ وہ بغیر کسی وجہ کے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔24
اس کے بعد شاہ اسماعیل نے انھیں ایک شخصی اور فی البدیہہ تقریر کے ذریعے وعظ ونصیحت کی۔ انھوں نے ان غلطیوں سے پردہ اٹھایا جن میں شاہ جلال مبتلا تھے، اور جس نے ان کے پیروکاروں اور مریدوں کو غلط رستے پر ڈال دیا تھا۔ شاہ اسماعیل کی زبان سے قرآن وحدیث کا منشا غور سے سننے کے بعد شاہ جلال کانپ اٹھے۔ انھوں نے لجاجت بھری آواز میں کہا: "آپ کا ارشاد بجا ہے۔ حقیقت میں اب تک میں نے جو کچھ ثواب جان کر کیا ہے وہ سب اسلام کے خلاف ہیں۔ میں نے قبور کی زیارت کے لیے سفر کیے، مزارات پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور اس جیسے جو کام کیے، وہ سب درحقیقت شرک وبدعت ہیں۔ میں اپنے کیے گئے گناہوں کا جواب تو خدا کو دوں گا ہی، لیکن ان لوگوں کے جواب کا کیا کروں گا جو میری وجہ سے بہکاوے میں آ گئے"۔ یہ کہتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگے۔25 شاہ اسماعیل نے انھیں تسلی دی اور انھیں خدا سے فوراً معافی مانگنے کی تلقین کی۔ یہ رات دو بجے کا وقت تھا۔ دہلی میں ہو کا عالم تھا اور سوائے کوتوال کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
شاہ اسماعیل اور جلال شاہ نے آنکھیں بند کرکے پورے دل سے خدا کے حضور شاہ جلال کی توبہ کی قبولیت اور مغفرت کے لیے گڑگڑا کر دعا کی۔ ان کی دعا کی قبولیت اس طرح ہوئی کہ ایک گرجتی ہوئی لیکن تسکین بخش آواز آسمان سے سنائی دی: "اے جلال! ہم نے تیرے گناہ معاف کیے، اور آج سے تو ہمارے دوستوں میں سے ہے۔" یہ سنتے ہی شاہ جلال اور شاہ اسماعیل دونوں بے ہوش ہو گئے۔ گھنٹہ بھر بے ہوش رہنے کے بعد جب شاہ جلال اٹھے تو "انھوں نے اپنا دل ربانی جلووں سے معمور پایا"26۔ وہ بدعت سے سنت کی طرف آ گئے، اور اسلام کے سچے پیروکاروں کے قافلے میں شامل ہو گئے۔
اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد شاہ اسماعیل کے سوانح نگار مرزا حیرت دہلوی ایک دل چسپ حاشیہ چڑھاتے ہیں جس کا نشانہ واضح طور پر معقولات کے ساتھ اشتغال رکھنے والا خیرآبادی مکتب فکر ہے: "یوں آسمانی آواز کا آنا ایک فلسفی کے دماغ کو خلجان میں مبتلا کرے گا، مگر جب وہ دل اور قوتِ یقین کی پرزور حالت کو دیکھے گا تو اسے اس بات میں کوئی شک نہیں ہوگا کہ دل میں خدا کی آواز سننے کی صلاحیت ہے، جب وہ دنیوی تعلقات سے پاک وصاف ہو جائے"27۔
مرزا حیرت کے نزدیک جلال شاہ اپنے دل کی پاکیزگی کی وجہ سے خدائی آواز سننے کے قابل ہوئے۔ جو کوئی اس جیسے واقعے کو بے بنیاد سمجھتا ہے، وہ دل اور خدا کے درمیان قریب تعلق کو نہ سمجھ سکتا ہے نہ اس کی قدر کر سکتا ہے۔ ہر اصلاح شدہ پاک باز شخص کے دل کی آواز خدا کی آواز ہے۔ جلال شاہ کے انقلابِ حال کی کہانی شاہ اسماعیل کے اصلاحی منصوبے کے تمام مرکزی موضوعات کو سامنے لاتی ہے: پیری اور ولایت کی غیرشرعی اساسات پر تنقید، ایسی رسموں کا انکار جو اسی پیری اور ولایت سے جنم لیتی ہیں، اور ان دو بنیادی ذرائع سے جڑے اشرافی طرزِ حیات کی تردید۔ جلال شاہ کے انقلابِ حال کی اس عجیب حکایت میں برصغیر میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے اس تصور اور خواہش کو واضح طور پر پیش کیا گیا ہے جو صرف اور صرف خدا کی مطلق اور امتیازی حاکمیتِ اعلیٰ (خالص توحید) کے قیام کا خواہاں ہے۔
حواشی
- مرزا حیرت دہلوی، حیاتِ طیبہ (لاہور: اسلامی اکیڈمی ناشران کتب، 1984)، 41-51۔
- ایضاً، 47۔
- ایضاً، 44۔ یہ پیراگراف براہ راست اردو متن سے لیا گیا۔ مترجم
- ایضاً، 43۔
- کسی ابہام سے بچنے کے لیے میں اگلے صفحات میں ان کے نام کا 'بریلوی' لاحقہ ذکر کرنے کے بجاے سید احمد استعمال کروں گا۔
- سید احمد کی علمی اور سیاسی زندگی کے ایک عمدہ مطالعے کے لیے دیکھیے: جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی 21، نمبر 2، (اپریل 2011): 98-177 میں ثنا ہارون کا آرٹیکل بعنوان: Reformism and Orthodox Practice in Early Nineteenth-Century Muslim North India: Sayyed Ahmad Shaheed Reconsidered پڑھیں۔ اس آرٹیکل میں ثنا ہارون ہمیں بتاتی ہیں کہ ٹونک میں عسکری تربیت حاصل کرنے کے دوران سید احمد ایک صوفی شیخ کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے، جن سے لوگوں اور بسا اوقات جانوروں کی مادی وروحانی فوائد کی خاطر کرامات کا ظہور ہوتا تھا، اور وہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی بھی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر: "وہ بیمار لوگوں پر ہاتھ پھیر تے اور دعائیں پڑھ کر پانی پر دم کرتے، پھر اسے مریضوں کو پلاتے جس سے وہ شفایاب ہو جاتے۔ ان کے دم سے ایک ایک نابینا آدمی دوبارہ بینا ہو گیا، ایک بیمار بیل دوبارہ ریڑھی کھینچنے کے قابل ہو گیا، اور ایک سوکھی گائے دوبارہ دودھ دینے لگی (182)۔
- غلام رسول مہر، تقویۃ الایمان کا مقدمہ (کراچی: صدیقی ٹرسٹ، تاریخ اشاعت ندارد)، 37۔
- چارلس ہیمبرک-سٹوو، Charles Finney and the Spirit of American Evangelicalism (گرینڈ ریپڈز، ایم آئی: ولیم بی ایرڈمینز، 1996) 37۔
- انگریزی متن میں سورۃ التوبۃ ہے، جو درست نہیں، مترجم۔ اشرف علی تھانوی، ارواحِ ثلاثہ (کراچی: دارالاشاعت، 2001)، 56-58۔ چاندنی چوک پرانی دہلی میں قدیم ترین اور مصروف ترین تجارتی بازاروں میں سے ہیں، جو آج تک دہلی کے شمال مرکز میں واقع ہے۔ اسے اصل میں سترھویں صدی میں مغل بادشاہ شاہ جہان نے تعمیر کیا تھا، اور اس کا نقشہ اس کی بیٹی جہان آرا (م 1681) نے بنایا تھا۔
- تانیکا سرکار، Rebels, Wives, Saints: Designing Selves and Nations in Colonial Times (لندن: سیگل بکس، 2009)، 122۔
- ایضاً، 121۔
- ایضاً، 68۔
- مثلاً سرکار، Rebels, Wives, Saints: Designing Selves and Nations in Colonial Times (لندن: سیگل بکس، 2009)؛ تانیکا سرکار، Hindu Wife, Hindu Nation: Community, Relgion, and Cultural Nationalism (بلومنگٹن: انڈیانا یونیورسٹی پریس، 2001)؛ لتا مانی، Contentious Traditions: The Debated on Sati in Colonial India (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1998)؛ اشیس نندی، The Savage Freud and Other Essays on Possible and Retrievable Selves (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1995)۔
- تھانوی، ارواح ثلاثہ، 71۔
- اسماعیل کی ہم شیرہ (جس کا نام نہیں بتایا گیا) پہلے ان کے تایا زاد مولوی عبد الرحمان (شاہ رفیع الدین کے صاحب زادے) سے بیاہی گئی تھی، جو شادی کے چند دن بعد وفات پا گئے تھے۔
- تھانوی، اَرواح ثلاثہ، 68-78۔
- دل چسپ بات یہ ہے کہ دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی کے سوانح نگار مولانا مناظر احسن گیلانی کے مطابق چند دہائی بعد بعینہ یہی سلسلۂ واقعات نانوتوی صاحب کے ساتھ پیش آیا۔ واضح طور پر یہ مولانا گیلانی کی کوشش معلوم ہوتی ہے کہ بیانیے کے انداز میں شاہ اسماعیل اور مولانا نانوتوی (بلکہ اس کو دیوبندی تحریک تک وسعت دے کر) کے اصلاحی پروگراموں کو ملائیں۔ مناظر احسن گیلانی، سوانح قاسمی، جلد 2 (لاہور: مکتبہ رحمانیہ، 1976)، 10۔
- تھانوی، ارواحِ ثلاثہ، 71۔
- تانیکا سرکار کے مطابق: "اصلاح پسندوں نے قدامت پرستوں کا نکاح بیوگان کو مکمل غیر اخلاقی قرار دینے کے دعوے کے مقابلے میں یہ جواب دعوی پیش کیا کہ نکاح بیوگان کی عدم موجودگی اخلاق باختگی اور گناہ کا سبب ہے"۔ (Rebels, Wives, Saints, 144)
- مرزا دہلوی، حیاتِ طیبہ، 135-148۔
- ایضاً۔
- ایضاً، 140۔
- ایضا، 141
- ایضاً، 141-42۔
- ایضاً، 144-45۔
- ایضاً، 146۔
- ایضاً، 147۔
الشریعہ اکادمی کا سالانہ نقشبندی اجتماع
مولانا محمد اسامہ قاسم
علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ حضور تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں ایک مقصد تزکیہ نفس بھی ہے ۔ امت مسلمہ کی رہنمائی اور اصلاح معاشرہ کے لیے علماء کرام اور مشائخ عظام مساجد ،مدارس اور خانقاہوں میں مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ کے ولیوں کی محافل، مشائخ عظام کی مجالس اور علماء کرام کے اصلاحی بیانات دلی کیفیات کو درست اور ایمانی جذبات کو قوت دیتے ہیں۔اس مقصد کی تکمیل اور اکابرین کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ہر سال الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام علامہ زاہد الراشدی کی سرپرستی میں امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ علیہ کے مریدین ، متعلقین اور متوسلین کے لیےسالانہ نقشبندی اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کے مہمان خصوصی حضرت خواجہ خلیل احمد ہوتے ہیں۔
اس سال یہ دینی فکری اصلاحی نقشبندی اجتماع 14 مارچ بروز سوموار الشریعہ اکادمی کے کیپمس مدرسہ طیبہ گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ اس مبارک روحانی اجتماع میں حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب ،حضرت مولانا اشرف علی، حضرت مولانا عبد القدوس قارن ،مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا مفتی طاہر مسعود، مولانا عبد الواحد رسولنگری، مولانا عزیز الرحمن شاہد، مولانا جمیل الرحمٰن اختر، مولانا فضل الہادی اور مولانا عمر حیات صاحب نے شرکت کی، جبکہ نعت خوان حضرات میں سے سید سلمان گیلانی ،حافظ فیصل بلال حسان، یحییٰ زکریا اور قاری ارشد محمود صفدر نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ علماء اور دینی کارکنوں کو اجتماع کی اطلاع اور دعوت پہنچانے میں مولانا حافظ سمیع الحق نے خصوصی محنت کی اور ان کی دعوت اور رابطے پر بڑی تعداد میں احباب پروگرام میں شریک ہوئے۔
قاری احمد شہباز کی پرسوز تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ حافظ یحییٰ بن زکریا، ثناخوان مصطفی حافظ محمد عاصم اور حافظ فیصل بلال حسان نے بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔
نعتیہ کلام کے بعد پہلا بیان جامعہ محمودیہ سرگودھا کے مہتمم حضرت مولانا اشرف علی صاحب کا ہوا۔ مولانااشرف علی صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز مدح ربانی اور درود و سلام کے فضائل و احکام سے کیا اور اصلاح قلب، دینی مدارس اور خانقاہوں کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی ۔ فرمایا کہ ہمارے پاس مسجد اور مدرسے کی نسبت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، ہم خوش نصیب ہیں کہ دین سیکھنے اور سکھانے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ حضرت لاہوری علیہ الرحمہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہوتا ہے رنگ فروش اور ایک ہوتا ہے رنگ ساز۔ رنگ فروش رنگ بیچتا ہے لیکن رنگ ساز رنگ چڑھاتا ہے۔ مدارس اور خانقاہوں میں ادب واخلاق کا رنگ چڑھایا جاتا ہے۔ اہل دل علماء کی صحبت سے دل روشن اور منور ہوتا ہے اکابرین کی صحبت اور معیت غنیمت ہے۔
مولانا اشرف علی کے بعد مولانا عبد الواحد رسولنگری صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جہاں بزرگ اکابرین موجود ہوں، وہاں اللہ ربّ العزت کی طرف سے انتہائی سکون اور راحت کا سامان ہوتا ہے۔ اللہ والوں سے رشتے ناتے توڑکر لوگ سمجھتے تھے کہ ہم ان کے بغیرکہیں کامیابی،کامرانی اورخوشحالی کی منازل آسانی کے ساتھ طے کرلیں گے مگرحالات اورواقعات نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ سراسر بھول،نادانی اورخام خیالی ہے۔ہمارے پاس آج دنیاکی ہرنعمت اورسہولت موجودہے لیکن اس کے باوجودہماری زندگیوں میں چین ہے اورنہ سکون۔ اس کے مقابلے میں اگر اللہ کے دوستوں کی چند لمحوں کے لیے قربت اورصحبت اختیارکرلی جائے توپھر ہمارے جیسے گنہگاربھی لمحوں میں دنیا جہان کے سارے غم بھول جاتے ہیں۔
شاعر ختم نبوت سید سلمان گیلانی صاحب نے بھرپور انداز میں خوبصورت نئے کلام پڑھ کر محفل کو بارونق بنا یا۔
خطیب اسلام مولانا شاہ نواز فاروقی نے اصحاب رسول کی عظمت و رفعت اور منقبت پر گفتگو کی ، جبکہ مولانا مفتی طاہر مسعود صاحب نے اپنی گفتگو میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے حوالے سے بتایا کہ اس سلسلے کی نسبت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف ہے۔ یہ روحانی سلسلہ حضور صلَّی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینے سے نکلا ہوا مبارک سلسلہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دلوں کی صفائی اور تزکیہ نفس کے لیے یہ اجتماع رکھا گیا ہے ۔ یہ دل دو طرح سے صاف ہو سکتا ہے۔ ذکر اللہ کی کثرت اور اہل اللہ کی صحبت و معیت سے دلی کیفیات میں نکھار اور ایمانی جذبات میں قوت آتی ہے۔
مفتی طاہر مسعود صاحب کے بیان کے بعد نماز عصر مولانا عزیز الرحمن شاہد صاحب کی امامت میں ادا کی گئی۔ نماز کے بعد حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب نے ختم خواجگان کے ساتھ دعا فرمائی۔ اس کے بعد بیعت کا اعلان ہوا اور کثیر تعداد میں مریدین و معتقدین نے حضرت کے ہاتھ پر بیعت کی۔
ولی کامل نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ؒکی رحلت
مولانا ڈاکٹر غازی عبد الرحمن قاسمی
اس فانی اورعارضی دنیا میں روز ازل سے آمد وروانگی کے سلسلے جاری ہیں ہرچیز اپنی طے شدہ عمر کی ساعتیں گزار کربالآخر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے او ر ہر ذی روح نے موت کا جام لازمی پینا ہے جس سے کسی کو استثنی نہیں۔جوبھی اس دنیا میں آیا وہ جانے کے لیے ہی آیاہے۔ یہ قانون فطرت ہے جس سے کسی ذی روح کو مفر نہیں اور نہ اس کا کوئی منکر ہوسکتاہے البتہ بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی جدائی اورفراق کودل جلدی تسلیم نہیں کرتا اور نہ ان کی وفات کا غم بھولتا ہے۔ انہی میں سے ایک شخصیت میرے والد ماجد ،حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ؒ کی ہے۔آپ ؒ کی ولادت ۸ ربیع الاول 1357ھ مطابق 1937ءکو عارف باللہ حضرت مولانا فضل محمد ؒ کے گھر ہوئی۔ چار سال کی عمر میں قرآن مجید کاپہلا سبق اپنے والد محترم حضرت مولانا فضل محمد ؒ سے پڑھا (جو دارالعلوم دیو بند ہندوستان کے فاضل تھے اورانہوں نے بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ سے پڑھی تھی اور اس وقت دارلعلوم دیوبند کی مسند تدریس پر فائز دیگر اکابرین علماء سے بھی کسب فیض کیا تھا۔) حضرت مولانا منظور احمد نعمانی ؒ(مدیر الفرقان، ہندوستان) فقیروالی تشریف لائے توحضرت والد صاحب ؒ کو ان سے ابتدائی سبق پڑھنے کااعزاز حاصل ہوا۔
1947ء میں اپنے والد محتر م حضرت مولانافضل محمد ؒ کے ہمراہ دیو بند کا سفر کیا اور 10 دن حضرت شیخ الاسلام سیدحسین احمد مدنی ؒ کے مہمان رہے ۔
1955ء میں آپ نے دورہ حدیث جامعہ قاسم العلوم فقیرولی میں مکمل کیا اوربخاری شریف حضرت مولانامفتی فاروق احمد انصاری ؒ سے پڑھی جو حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھوی سہارنپوری ؒ صاحب بذل المجہود کے شاگردتھے۔ حضرت مولانا مفتی فاروق احمد انصاری ؒ فرماتے تھے کہ میں نے بچپن میں اپنے والدمکرم مولانا صدیق احمد ؒ کے ہمراہ قطب الاقطاب امام اکبر حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ کی زیارت کی تھی ۔چنانچہ اس لحاظ سے بھی حضرت والد صاحب کی علمی سند اورنسبت بڑی بلندپایہ ہوئی ۔
اسی طرح آپ کے ایک اوراستاد حضرت مولانا مفتی فقیراللہ رائے پوری ؒ اسیر مالٹاشیخ الھند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ کے براہ راست شاگرد تھے جس وقت وہ جامعہ قاسم العلو م فقیروالی پڑھانے تشریف لائے، وہ نا بینا ہوچکے تھے ۔اور آپ جامعہ رشید یہ ساہیوال کے بانی وسابقہ مہتمم د حضرت مولانا حبیب اللہ ؒ کے والد ہیں۔اس کے علاوہ آپ کے اوردیگر اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جس کی تفصیل کا یہ وقت نہیں ہے۔
جامعہ قاسم العلوم فقیروالی میں محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ نے 15 دن قیام فرمایا اور اسی طرح مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے 16 دن قیام کیا اوردرس وتدریس سے جامعہ کے درودیوار اورعلاقہ کو منور کیا اور حضرت والد صاحب ؒ نے بھی ان عظیم مجالس سے حظ وافر پایا۔
مارچ 1980ء میں دارالعلوم دیوبند کے سو سالہ اجلاس میں اپنے والد محترم حضرت مولانا فضل محمد ؒ کے ہمراہ 10 افراد کے قافلہ کےساتھ شرکت کی۔
1981ء میں دادا جان ولی کامل حضرت مولانا فضل محمد ؒ کی وفات کے بعد مجلس شوری ٰ نے آپ کو جامعہ قاسم العلوم فقیروالی کا مہتمم مقرر کیا چنانچہ آپ کے دور میں ادارہ نے مزید خوب علمی ترقی کی۔دو مرتبہ آپ نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی ۔دل کے بائی پاس اورگردوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود آپ کے دینی معمولات اورعبادت وریاضت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ صوم و صلوۃ کی پابندی تلاوت قرآن ،بعد از نماز فجر اذکار مسنونہ سمیت دیگر عبادات کا امتثال تا حیات جاری رہا ۔
آپ نہایت وسیع الظرف، حوصلہ وحلم کے کوہ گراں ، لوگوں کے عیوب پر بڑی سختی سے پردہ ڈالنے والے، چغلی وغیبت سے بہت دور، معذرت اور عذر کو فوری قبول کرنے والے،کبھی زبان کو گالی سے آلودہ نہیں کیا، اور بدلہ لینے یا کسی کی اذیت رسانی پر انتقامی کارروائیوں کے جذبات سے عاری، ہمیشہ لوگوں کے کام آئے، عاجزی وانکساری کے پیکر، نمودونمائش اور ریا کاری سے کوسوں فاصلے پر،اپنے ہاتھ سے اپنے کام کرنے والے، بہت سی ایسی خوبیوں اور خصوصیات کے مالک تھے جو آج ہمیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
28 جنوری 2022ء بروز جمعۃ المبارک عین نماز جمعہ کے وقت قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے نشتر ہسپتال ملتان انتقال ہوا اور 29 جنوری 2022ء بروز ہفتہ کو جامعہ قاسم العلوم فقیروالی میں بعد از نماز ظہر دوپہر2 بجے ، نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں پاکستان کے مختلف شہروں اوردور دراز علاقوں سے تشریف لائے ہزاروں علماء اور صلحاء نے شرکت کی اور نماز جنازہ آپ کے برادر نسبتی ابوالانوار حضرت علامہ عبدالحق مجاہد صدرانجمن انوارالاسلام ملتان نے پڑھائی اورجامعہ کے احاطہ میں تدفین ہوئی۔جنازہ سےقبل علماء اورمعززین علاقہ نے آپؒ کے صاحبزادے اور میرے بڑے بھائی مولانا پیر حافظ مسعود قاسم قاسمی مدظلہ کے سرپر آپ کی جانشینی کی پگڑی باندھی اور انہیں اپنے والد محترم ؒ کے مشن پر چلنے کی نصائح کیں ۔اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت فرمائےاور اعلی علیین میں جگہ عطافرمائے۔
مسلم وزرائے خارجہ سے توقعات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مسلم ممالک کے باہمی تعاون کے فورم
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا وجود تمام تر تحفظات کے باوجود اس لحاظ سے
بہرحال غنیمت اور حوصلہ افزا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران وقتاً فوقتاً مل
بیٹھ کر اپنے مسائل اور عالمِ اسلام کی مشکلات پر کچھ نہ کچھ غور کر لیتے
ہیں اور موقف کا بھی اظہار کرتے ہیں جس سے اس حد تک اطمینان ضرور ہو جاتا
ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی صف میں ان مسائل و مشکلات کا احساس موجود ہے اور
امید رہتی ہے کہ یہ احساس کبھی نہ کبھی ادراک اور عملی پیشرفت کی صورت بھی
اختیار کر سکتا ہے، ان شاء اللہ تعالٰی۔
اس حوالہ سے عالمِ اسلام کی
اصل ضرورت کیا ہے؟ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمیں پاکستان کی سابق
وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا وہ تاریخی تبصرہ یاد آ جاتا ہے جب
انہوں نے بوسنیا اور سربیا کی کشمکش کے دوران مسلمانوں کے قتل ِعام کا ذکر
کرتے ہوئے مسلمانوں کی بے بسی کا اظہار کیا تھا کہ
’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافتِ عثمانیہ) بھی نہیں ہے جس کے سامنے ہم اپنے دکھوں کا رونا رو سکیں۔‘‘
یہ
بے بسی آج بھی قائم ہے جس کی تازہ ترین صورت دیکھی جا سکتی ہے کہ شام کے
صدر نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے جو امریکہ بہادر کو پسند نہیں آیا
اور اس نے کھلم کھلا اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ گویا ایک مسلمان ملک
کے حکمران کے لیے دوسرے مسلمان ملک کا دورہ کرنے سے قبل امریکہ بہادر کی
رضا اور ناراضگی کو دیکھنا ضروری ہے۔
اور یہ بھی عالمِ اسلام کی اسی
بے بسی کی ایک واضح شکل ہے کہ افغانستان سے امریکی اتحاد کی افواج اپنی
شکست کا اعتراف کرتے ہوئے واپس جا چکی ہیں اور امارتِ اسلامی افغانستان نے
ملک میں امن و اتحاد کو برقرار رکھنے کی مثال قائم کر دی ہے، مگر پاکستان
سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنے کے لیے
امریکہ بہادر کی پیشانی کی سلوٹیں شمار کرنے میں مصروف ہیں اور اس کی طرف
سے ’’این او سی‘‘ جاری ہونے کے انتظار میں ہیں۔
مسلم ممالک کے قابل
صد احترام وزرائے خارجہ کی خدمت میں ہم اس موقع پر پہلی گزارش یہ کرنا
چاہتے ہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ عالمی دباؤ اور بیرونی مداخلت کے اس ماحول سے
نکلنا ہے اور اپنے فیصلے آزادانہ ماحول میں خود کرنے کا حوصلہ اور اختیار
حاصل کرنا ہے جس کے بغیر ہم عالمِ اسلام کے کسی مسئلہ کو حل کرنے کا کوئی
مؤثر راستہ اختیار نہیں کر سکیں گے۔
ہمارے خیال میں دوسرا اہم ترین
توجہ طلب مسئلہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی
حالیہ قابلِ تحسین قرارداد کو دیگر قراردادوں کی طرح ’’داخل دفتر‘‘ کر دینے
کی بجائے اس کی بنیاد پر ایک منظم اور مربوط مہم چلانے کا ہے۔ جس کا مقصد
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی قوتوں اور لابیوں کے پھیلائے ہوئے
گمراہ کن شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے خلافتِ راشدہ کی طرز پر اسلام کی
صحیح اور متوازن تعلیمات اور کردار کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ جو ظاہر
ہے کہ اس سلسلہ میں مصروفِ عمل اسلامی نظریاتی حلقوں اور مراکز کے ذریعے ہی
کیا جا سکتا ہے، کیونکہ روایتی سفارتی حلقوں، سیکولر لابیوں اور این جی
اوز وغیرہ کو اس مہم کا ذریعہ بنانے سے اسلاموفوبیا کی موجودہ صورتحال میں
بہتری آنے کی بجائے اس کے مزید بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
یہ خبر
ہمارے لیے اطمینان کا باعث بنی ہے کہ اس کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر
بھی شامل ہے جو کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والے مسلسل ظلم کے باعث ان کا
اپنا حق ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری بھی ہے، اور اس سے
مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر کرنے میں یقیناً مدد ملے
گی۔ اس کے علاوہ فلسطین، اراکان اور دیگر خطوں کے مسلمانوں کی مظلومیت اور
ان کے حقوق کی پامالی بھی مسلم وزرائے خارجہ کی توجہات کی منتظر ہے۔ جبکہ
معروضی صورتحال میں مسلم ممالک پر مغربی اداروں اور این جی اوز کی فکری اور
تہذیبی یلغار انتہائی فکر انگیز اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ عالمی اداروں، بین
الاقوامی لابیوں، مغربی حکومتوں اور سیکولر این جی اوز کی مسلسل کوشش یہ
ہے کہ مسلمانوں کو ان کے معاشرتی اور تہذیبی بالخصوص خاندانی نظام و ماحول
میں قرآن و سنت کے صریح احکام و قوانین سے دستبرداری کے لیے تیار کیا جائے،
جس کے لیے پوری مسلم دنیا میں چند مخصوص حلقوں کے سوا عالمِ اسلام کا کوئی
طبقہ تیار نہیں ہے، اور یہ کشمکش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔
مسلم
وزرائے خارجہ کو ان مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے قرآن و سنت کے ساتھ مسلمانوں
کی کمٹمنٹ کا ساتھ دینا چاہیے اور مغربی دنیا کی استعماری قوتوں کو واضح
پیغام دینا چاہیے کہ وہ ہمارے دینی، تہذیبی اور معاشرتی معاملات میں دخل
اندازی کے طرز عمل پر نظرثانی کریں۔ ان گزارشات کے ساتھ ہم مسلم وزرائے
خارجہ کی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں اور اپنے تمام معزز مہمانوں
کے لیے خیرسگالی اور محبت کے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں، آمین یا رب
العالمین۔
مئی ۲۰۲۲ء
عورت کی تکریم اور اہم سماجی وقانونی مسائل
محمد عمار خان ناصر
(خواتین سے متعلق معاشرتی رویوں اور مختلف قانونی وسماجی مسائل کے حوالے سے سوشل میڈیا کے لیے وقتاً فوقتاً جو توضیحات قلم بند کی گئیں، ان کا ایک انتخاب یہاں پیش کیا رہا ہے۔)
عورت کی تکریم کا تصور اور سماجی رویے
ہمارے سماجی تناظر میں عورت کا وجود، شناخت اور حیثیت تسلیم کیے جانے یا نہ کیے جانے کی کشمکش کی تین تکونیں ہیں، یعنی گھر، گھر سے باہر عمومی معاشرہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی منڈی۔ گھر اور منڈی دو متوازی قوتیں ہیں جو معاشرے کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان دونوں کے درمیان معاشرہ اپنے رویے، اخلاقیات اور حدود وضوابط متعین کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔
گھر روایتی سماجی اخلاقیات کے دائرے میں عورت کو تحفظ وتکریم اور کفالت فراہم کرنے کا بندوبست ہے جس کے ساتھ پابندیوں اور قدغنوں کا ایک ایسا مجموعہ وابستہ ہے جو عورت کو بڑی حد تک ایک ملکیتی شے بنا دیتی ہیں اور بہت سی صورتوں میں غیر انسانی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ تحفظ اور ملکیت کا یہ امتزاج جدید معاشی نظام سے وجود میں آنے والی معاشرت میں فٹ نہیں بیٹھتا اور دن بدن اپنی گرفت کھوتا جا رہا ہے۔
جدید معاشی نظام عورت کو ان قدغنوں سے آزادی کی ضمانت اور پابندیوں سے بغاوت کا حوصلہ اور وسائل دیتا ہے، تاہم ہمارے سیاق میں یہ نظام عورت کو اس بغاوت کا اور اپنی آزادی کو بروئے کار لانے کا سب سے قیمتی معاوضہ جس میدان میں دیتا ہے، وہ صنفی حسن اور صنفی تلذذ کا میدان ہے۔ اس نوعیت کی "آزادیاں" خریدنے کے لیے پوری منڈی اہلاً وسہلاً کا بورڈ آویزاں کیے ہوئے ہے۔
اس کشمکش میں عورت کے لیے انفرادی ملکیتی حیثیت سے آزادی حاصل کر کے بازار نمائش میں اجتماعی ملکیتی حیثیت قبول کرنے کا فیصلہ تو بہت آسان اور پرکشش ہے، لیکن ظاہر ہے، یہ ایک خاص طبقے کا ہی انتخاب ہو سکتا ہے۔ عورت بطور صنف اجتماعی طور پر یہ انتخاب کرنا بھی نہیں چاہتی اور بازار بھی اس کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔
معاشرہ اس وقت انھی دو ملکیتی نظاموں کے درمیان کشمکش سے گزر رہا ہے۔ معاشرے کا آئیڈیل یہ ہے کہ عورت کو فرد کے طور پر بھی اور صنف کے طور پر بھی تقدس اور احترام کے ساتھ آزادی اور اختیار سے بہرہ مند کیا جائے تاکہ جو تحفظ وتکریم اس کو گھر دیتا ہے، وہ ملکیتی شے بننے سے مشروط نہ رہے اور جو آزادی اس کو جدید معاشی نظام دیتا ہے، اس کے اظہار کا میدان صرف بازار حسن نہ ہو، بلکہ وہ اسی تکریم اور تحفظ کے ساتھ تمام معاشرتی سرگرمیوں کا حصہ بن سکے جو اسے گھر میں دی جاتی ہے۔
گھر کے رشتوں کو جو احترام دیا جاتا ہے، اسی احترام کو صنف کے حوالے سے معاشرتی قدر بنانے پر محنت کی ضرورت ہے۔ رشتوں کا احترام ان خاص افراد تک محدود ہوتا ہے جن سے رشتہ ہوتا ہے۔ صنف کا احترام ہوگا تو وہ جو بھی ہوگی اور جہاں بھی ہوگی، قابل احترام ہوگی۔ اس تناظر میں "آزادی" کا مغربی فلسفہ اور جسم اور مرضی جیسے سلوگن ہمارے سیاق میں مددگار نہیں، بلکہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کا پیغام اور تاثیر عورت کی تکریم نہیں جو ایک اخلاقی احساس ہے۔ ان کا پیغام ایک طرف انفرادیت کے نفسی احساس اور صنفین کے مابین بے گانگی اور منافرت کو فروغ دینا اور دوسری طرف نسوانی جسم کو جنس بازار بنانے میں سرمایہ دارانہ منڈی کو سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ اس کی خرید وفروخت کرنے والے کسی اخلاقی ججمنٹ کا موضوع نہ بنائے جا سکیں اور "آزادی" کی قدر کے تحت ان کو قانونی اور سماجی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
تکریم کو معاشرتی قدر بنانا انسانوں کے باہمی تعلق کو ایک اخلاقی اصول پر استوار کرنا اور سماج میں محاسبے کا ایک خودکار میکنزم تشکیل دینا ہے۔ آزادی کو نقطہ حوالہ بنانا اس کے برعکس صنفین میں ایک بے گانگی اور کشمکش پیدا کرنا ہے جس میں تحفظ کی بنیادی ضمانت ریاست کا ڈنڈا ہے۔ جہاں ریاست یہ تحفظ مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، وہاں عدم تحفظ کے مظاہر پر صرف لعن طعن ہو سکتا ہے یا کچھ قوانین بنوا کر حصول طاقت کا نفسیاتی احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دونوں طریقے نتیجے میں غیر موثر رہتے ہیں اور صرف فرسٹریشن کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
آئیے، اپنے معاشرے کو، اپنی اقدار کو، اپنی ریاست کو اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے وسائل کو خود اپنی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔ مستعار اور اجنبی تصورات کے سحر میں گرفتار ہو کر خود کو تباہ نہ کریں۔
بیوی کی تادیب کے حوالے سے شوہر کا اختیار
بعض دفعہ شان نزول، کسی قرآنی ہدایت کا صحیح تناظر سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے۔ شوہر کو بیویوں کی تادیب کا اختیار دینے اور ایک آپشن کے طور پر ان کی پٹائی کی اجازت بھی اسی نوع کی چیز ہے۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کی سرکشی پر اسے تھپڑ مار دیا تو وہ اپنے والد کے ساتھ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے شوہر سے قصاص لے سکتی ہے، یعنی بدلے میں اسے تھپڑ مار سکتی ہے۔ وہ یہ اجازت لے کر ابھی جا ہی رہی تھی کہ جبریل یہ آیت لے کر آ گئے اور آپ نے انھیں واپس بلا کر کہا کہ ہم نے کچھ اور ارادہ کیا تھا، لیکن اللہ کا ارادہ کچھ اور ہے اور اللہ ہی کا ارادہ بہتر ہے۔
اس پس منظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کا اصل مقصد گھر کے نظم میں شوہر کی حیثیت کو واضح کرنا ہے۔ اس کا اصل اثر نفسیاتی ہے اور گھر کے ڈسپلن کو قائم رکھنے میں یہ شوہروں کے اختیار کو واضح کرتی ہے تاکہ سرکش بیویاں متنبہ رہیں۔ تاہم دین کو جو اصل رویہ مطلوب ہے، وہ وہی ہے جو اسوہ حسنہ سے واضح ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی خود اپنی بیویوں یا خادموں کے خلاف یہ اختیار استعمال نہیں فرمایا، بلکہ بعض شوہروں کی طرف سے اختیار کے سوء استعمال کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر اس پر پابندی بھی لگا دی۔ لیکن اس کا الٹا نتیجہ نکلا اور شوہروں کے لیے انھیں سنبھالنا مشکل ہو گیا تو پھر دوبارہ اجازت دینی پڑی۔
اس تناظر میں ماضی قریب کے ممتاز تیونسی علامہ ابن عاشور نے واضح کیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی جو اجازت دی گئی، وہ ان لوگوں کے عرف کے لحاظ سے ہے جو اس کو معیوب نہ سمجھتے ہوں اور ان کے ہاں اسے شوہر کا ایک معمول کا اختیار مانا جاتا ہو۔ مزید یہ کہ یہ چونکہ محض ایک اجازت ہے جو کئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، مثلاً ناجائز تعدی نہ کرنا، اور اس میں معاشرتی عرف کا بھی لحاظ ہے، اس لیے حکومت اس اختیار پر پابندی لگا سکتی اور اسے قابل تعزیر عمل قرار دے سکتی ہے۔
اس بحث کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بیوی کی طرف سے سرکشی کے رویے پر اس کی تادیب کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہے، بلکہ اسلامی فقہ میں زوج ناشز یعنی سرکش شوہر کی تادیب کا بھی ایک پورا ضابطہ بیان ہوا ہے جو ہمارے ہاں کہیں زیر بحث نہیں آتا۔ جامعۃ الکویت کے کلیۃ الشریعہ کے أستاذ مسعود صبری نے اپنی ایک تحریر میں ان تعزیری وتادیبی اقدامات کی اچھی وضاحت کی گئی ہے جو سرکش شوہر کے خلاف کیے جا سکتے ہیں۔
ان فقہی احکام کا خلاصہ یہ ہے کہ
۱۔ اگر عورت، شوہر کی شکایت کرے تو قاضی ان کے ہمسایوں کو یہ ذمہ داری دے سکتا ہے کہ وہ ان کے احوال کی نگرانی کریں اور شوہر کو زیادتی سے روکیں۔ اگر ہمسایے ذمہ دار نہ ہوں تو قاضی شوہر کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ پر گھر لے کر بیوی کو رکھے جہاں ارد گرد کے لوگ ان پر نظر رکھ سکیں۔
۲۔ شوہر کے خلاف شکایت آنے پر قاضی اس کو بھی پہلے زبانی وعظ ونصیحت اور پھر سخت سرزنش کرنے اور آخر میں جسمانی سزا کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔
۳۔ اگر شوہر زیادتی سے باز نہ آئے اور بیوی تعزیر کی طالب ہو تو قاضی کو آخری چارے کے طور پر اس پر مناستب تعزیری سزا بھی نافذ کرنی چاہیے۔
۴۔ اگر شوہر، بیوی کے کسی بھی حق کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہا ہو تو قاضی جبرا اس کو اس کا حق دلوائے گا۔
۵۔ اگر بیوی کو زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لیے شوہر کو کچھ عرصے کے لیے بیوی سے الگ کر دینے کی ضرورت پیش آئے تو قاضی کو اس کا اختیار بھی حاصل ہے تاآنکہ شوہر اصلاح احوال کر لے۔
۶۔ اس کے علاوہ یہ بھی اس قانون کا حصہ ہے کہ شوہر کی طرف سے تشدد کے ارتکاب پر بیوی جسمانی طور پر مجروح ہو تو اس پر قصاص ودیت کا قانون جاری ہوگا۔
رشتہ نکاح میں زوجین کے باہمی حقوق واختیارات
سوالات
1۔ موجودہ زمانے میں شوہر کی طرح بیوی بھی کمائی کرتی ہے. دونوں مل کر گھر کے مالی معاملات دیکھتے ہیں۔ تو کیا بیوی پر یہ لازم ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی اپنی تمام تر کمائی شوہر کو دے یا اپنے خرچ کا حساب اس کو دے؟ کیونکہ وہ خدا کے بعد شوہر کے آگے جواب دہ ہے؟
2۔ اکثر یہ سنا ہے کہ بیوی نفل عبادت بھی شوہر کی مرضی سے کرنے کی پابند ہے، اس لئے اگر وہ اپنی تنخواہ یا اور مال میں کسی کی مدد کرتی ہے تو اسے شوہر سے اجازت لینی پڑے گی۔
3۔ مرد شریعت کی رو سے ہر بات کو عورت پر لازم کر دیتا ہے. کیا ان حقوق کی کوئی فہرست ہے جو شریعت نے مرد کو دیے ہیں تاکہ جہاں بات عورت کے کمپرومائزز کے باوجود نہ سنبھل سکے، وہاں یہ فہرست دکھائی جا سکے؟
4۔ کیا بیوی خاندانی رشتہ داریاں اور تعلقات بھی مرد کی مرضی کے تحت نبھائے گی مثلاً رحمی اور غیر رحمی رشتہ داری میں خوشی اور غمی میں شرکت یا پیشہ ورانہ تعلقات؟
جوابات
پہلے دونوں سوالوں کا جواب میرے نزدیک نفی میں ہے۔ اگر بیوی کماتی ہے تو گھر کی ذمہ داریوں میں شرکت کے حوالے سے باہمی مفاہمت سے جو بات طے ہو، بیوی اسی کی پابند ہے۔ ساری کمائی شوہر کو دے دینے کی پابند نہیں اور نہ اپنی کمائی میں اپنی صوابدید سے کوئی بھی تصرف کرنے میں وہ شوہر کو جواب دہ ہے۔ نفل عبادت میں بھی وہ وہاں شوہر کی اجازت کی پابند ہے جہاں عبادت سے گھر کی ذمہ داریوں یا شوہر کے حقوق پر کوئی زد پڑتی ہو۔ یہ کوئی مطلق اصول نہیں ہے۔
تیسرے سوال سے متعلق یہ کہنا ہے کہ حقوق کی ایسی کوئی متعین فہرست شریعت نے نہیں دی جو ہر ہر حالت میں کسی کمی بیشی کے بغیر حتمی قرار دی جا سکے۔ حقوق اور ذمہ داریوں میں عرف اور باہمی مفاہمت کا بہت دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے "ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف" کا اصول بیان کیا ہے۔ کسی معاشرے میں جو طریقہ معروف اور مروج ہو اور زوجین میں اس پر باہمی مفاہمت ہو گئی ہو تو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ تاہم معروف اور رواج چونکہ شریعت کا حکم نہیں، اس لیے اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے یعنی تنقید اور اصلاح کے عمل سے اس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
البتہ شوہر کو بیوی پر جو حق حاصل نہیں، وہ شاید گنوائے جا سکتے ہیں۔ انھی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بیوی کی ملکیت میں اس کی رضامندی اور باہمی مفاہمت کے بغیر کوئی حق نہیں جتا سکتا۔ شریعت نے اس کو ایسا کوئی اختیار نہیں دیا۔ اگر دونوں مل کر گھر کا خرچ چلاتے ہیں تو آمدن میں تصرف کے لیے ایک حد تک دونوں کی باہمی رضامندی کا نکتہ شامل ہو جاتا ہے جیسے باہمی مفاہمت کے اصول کے تحت طے کیا جا سکتا ہے۔ اگر دونوں کی کل آمدن کو جمع کرنا گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے ضروری ہے تو مفاہمت سے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اصولاً یہ واضح رہنا چاہیے کہ شوہر کا بطور شوہر کے یہ شرعی حق نہیں ہے کہ بیوی اپنے ذاتی مال میں بھی اس کی اجازت یا صواب دید کی پابند ہو۔
چوتھے سوال سے متعلق بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ رشتہ داری کے حقوق اور سماجی تعلقات کے باب میں بھی عرف ہی کا اصول بنیاد ہے، لیکن یہ صرف عورت کے لیے نہیں ہے، شوہر بھی عرفی اخلاقیات کا پابند ہے۔ رشتہ داروں کی خوشی غمی میں شرکت کے حوالے سے جو بھی عرف ہو، شوہر اور بیوی کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پیشہ ورانہ تعلقات مثلاً کولیگز کی خوشی غمی میں شرکت بھی عرفا ملازمت کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر عورت کے ملازمت وغیرہ کرنے پر باہمی مفاہمت ہے تو یہ چیزیں بھی خود بخود اس کا حصہ ہیں۔
خواتین کی گواہی کا مسئلہ
اسلامی قانون میں خواتین کی گواہی کا مسئلہ ان دنوں پھر زیربحث ہے جس کا پس منظر بنک کے ذریعے سے مالیاتی لین دین میں خواتین کو درپیش مشکلات ہیں۔ قانون شہادت مجریہ 1984 کے مطابق مالی معاملات سے متعلق کسی دستاویز پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو خواتین کے دستخط ہونے ضروری ہیں۔ اس تناظر میں بنک اپنے کام کو عملاً آسان بنانے کے لیے مالیاتی دستاویزات پر دو مردوں ہی کے دستخط قبول کرتے ہیں تاکہ تین یا چار افراد کا ڈیٹا جمع نہ کرنا پڑے اور فارم پر بھی دو ہی افراد کے دستخطوں کی جگہ رکھی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں خواتین کو، جو اب معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے شریک ہو رہی ہیں، مختلف قسم کی دقتوں کا سامنا ہے جس کی تفصیل ۳ اپریل کو ٹربیون میں شائع ہونے والے اس مضمون میں دی گئی ہے۔
https://tribune.com.pk/.../two-women-still-equal-one-man
یہ ایک نامناسب صورت حال ہے جس کا متعلقہ قانونی اداروں کو نوٹس لینا چاہیے۔ جہاں تک شرعی وفقہی پہلو کا تعلق ہے تو یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس پر دور جدید میں کافی بحث ہو چکی ہے اور بہت مضبوط علمی بنیادوں پر یہ تعبیر سامنے آ چکی ہے کہ قرآن کی متعلقہ آیت میں ’’قانون’’ کے بجائے ’’ارشاد’’ کی نوعیت کی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ قرض کے لین دین میں جھگڑے اور حق تلفی سے بچنے کی جتنی بھی ممکن ہو، پیش بندی کر لی جائے اور کہیں خواتین پر گواہی کی ذمہ داری ڈالنی پڑے تو اس میں ان کو سہارا بھی فراہم کیا جائے۔ اس میں عدالت کو کسی خاص ضابطے کا پابند نہیں ٹھہرایا گیا اور نہ خواتین کی گواہی کو مردوں سے کم معتبر قرار دینا مقصود ہے۔ ماضی کے اہل علم میں سے بھی علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم نے اس نکتے کو بہت وضاحت سے بیان کیا ہے۔
یہ ذہن میں رہے کہ مروجہ قانون شہادت بھی کلیتاً جمہور کی فقہی آرا پر مبنی نہیں ہے۔ مثلاً مالیاتی معاملات اور حدود وغیرہ کے علاوہ باقی تمام معاملات میں ایک مرد یا ایک عورت یا کسی بھی دوسرے ذریعہ ثبوت کو کافی قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی کلاسیکی فقہی موقف سے کافی حد تک مختلف بات ہے۔
(b) in all other matters, the Court may accept, or act on the testimony of one man or one woman or such other evidence as the circumstances of the case may warrant.
اس وجہ سے ہماری رائے میں فقہاء کے روایتی موقف کا احترام رکھتے ہوئے، کوئی وجہ نہیں کہ جہاں بہت سے دوسرے اجتہادی مسائل میں قانونی اسلامائزیشن میں غیر معروف یا غیر روایتی آرا کو اختیار کیا گیا ہے، اس مسئلے میں بھی خواتین کی گواہی اور دستخط کو یکساں قانونی حیثیت دیتے ہوئے انھیں درپیش دقتوں اور مشکلات کا ازالہ نہ کیا جائے۔
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۸)
ڈاکٹر محی الدین غازی
(324) عَمَّا أَرْضَعَتْ کا ترجمہ
درج ذیل جملے میں عَمَّا أَرْضَعَتْ کا ترجمہ ’اپنے دودھ پیتے بچے‘ کیا گیا ہے، لیکن اس نکتے کی طرف عام طور سے دھیان نہیں گیا کہ أَرْضَعَتْ فعل ماضی ہے مضارع نہیں ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ماضی کا ہونا چاہیے:
یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ. (الحج: 2)
”جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی“۔ (سید مودودی)
”جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی“۔ (احمد رضا خان)
”جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمے عبارت کے مطابق ہیں:
”جس دن دیکھیں گے اس کو بھول جاوے گی ہر دودھ پلانے والی جس کو دودھ پلایا تھا“۔(شاہ رفیع الدین)
”جس دن اس کو دیکھو گے بھول جاوے گی ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پلائے کو“۔ (شاہ عبدالقادر)
عبارت کے مطابق ترجمہ کرنے سے مفہوم کی وسعت بڑھ جاتی ہے، اس میں وہ تمام بچے شامل ہوجاتے ہیں جنھیں اس نے دودھ پلایا ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ ہر ماں اپنے بچوں سے غافل ہوجائے گی۔
(325) کُتِبَ عَلَیْهِ کا ترجمہ
درج ذیل آیتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے کُتِبَ عَلَیْهِ کا ترجمہ بعض لوگوں نے درست نہیں کیا ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ۔ کُتِبَ عَلَیْہِ أَنَّہُ مَن تَوَلَّاہُ فَأَنَّہُ یُضِلُّہُ وَیَہْدِیہِ إِلَیٰ عَذَابِ السَّعِیرِ۔ (الحج: 3و4)
”بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذاب جہنم کا راستہ دکھائے گا۔(سید مودودی، شیطان کے نصیب میں یہ لکھا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے)
”جس کی یہ ڈیوٹی ہی مقرر ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا وہ اس کو گم راہ کر کے رہے گا اور اس کی رہنمائی وہ عذاب دوزخ کی طرف کرے گا“۔(امین احسن اصلاحی، شیطان کی یہ ڈیوٹی تو نہیں ہے)
دراصل یہاں نہ تو شیطان کے نصیب کی بات ہے اور نہ ہی اس کی ڈیوٹی کی بات ہے، بلکہ اس کے بارے میں اللہ کے فیصلے کا ذکر ہے۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:
”جس کی نسبت (خدا کے یہاں سے) یہ بات لکھی جاچکی ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)
”جس کے بارے میں خدا کا یہ فیصلہ ہوچکا ہے“ (امانت اللہ اصلاحی)
(326) وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ
بوّأ کا معنی ہے بسانا، ٹھکانا دینا۔ جوہری لکھتے ہیں: وبوَّأت للرجل منزلاً وبوّأتہ منزلاً بمعنی، أی ہیَّأتہ ومکَّنت لہ فیہ. (الصحاح)
قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مقامات پر آیا ہے اور عام طور سے اس کا یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل آیت میں اس کا ترجمہ جگہ بتانا، تجویز کرنا یا مقرر کرنا وغیرہ کیا گیا ہے۔ اس سے ایک تو لفظ کا پورا حق ادا نہیں ہوپاتا ہے، دوسرے یہ کہ آگے محذوف ماننا پڑتا ہے کہ جب انھوں نے وہاں گھر بنالیا تو انھیں لوگوں میں حج کی منادی کا حکم دیا گیا۔ جب کہ اگر بوّأ کا حقیقی مفہوم بغیر کسی تاویل کے لیا جائے تو محذوف ماننے اور بعد کی آیتوں کو کسی اور زمانے سے متعلق ماننے کے تکلف کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابراہیم پر جو لام ہے اس کی وجہ سے یہ مفہوم لیا گیا ہے، حالاں کہ وہ تاکید کے لیے ہے، جیسے شکرتہ اور شکرت لہ۔ ترجمے ملاحظہ کریں:
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ۔ (الحج: 26)
”یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم ؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو“۔ (سید مودودی)
”اور جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا“۔ (احمد رضا خان)
”اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی“۔ (محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمے میں بوّأ کا حقیقی مفہوم اختیار کیا گیا ہے:
”اور (یاد کرو) جب کہ ہم نے ابراہیم کے لیے ٹھکانا بنایا بیت اللہ کی جگہ کو“۔ (امین احسن اصلاحی)
”یاد کرو وہ وقت جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کی جگہ بسایا تھا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(327) مکان سحیق
وَمَن یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ۔ (الحج: 31)
”اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے“۔ (سید مودودی)
یہاں سحیق کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ سحیق اگر کسی چیز کے لیے کہا جائے گا تو اس سے مراد یہ ہوگا کہ وہ چیز تباہ ہوگئی اور اگر جگہ کے لیے کہا جائے تو دور دراز جگہ مراد ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ سحیق مکان کی صفت ہو اور اس سے مراد ایسی جگہ ہو جہاں انسان کے چیتھڑے اڑجائیں۔ کیوں کہ سحیق جب تباہی کے لیے آتا ہے تو تباہ کرنے والی چیز کے لیے نہیں بلکہ تباہ ہونے والی چیز کے لیے آتا ہے، اس وقت وہ اس چیز کی صفت ہوتا ہے نہ کہ جگہ کی صفت۔
بہرحال درست ترجمہ وہی ہے جو عام طور سے کیا گیا ہے:
”اب یا تو اسے پرندے اچک لیتے ہیں، یا ہوا اس کو دور دراز مقام پر ڈال دیتی ہے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)
(328) أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً
السماء کا ترجمہ آسمان ہونا چاہیے، لیکن صاحب تدبر نے ایک مقام پر اس کا ترجمہ آسمانوں اور ایک دوسرے مقام پر بادلوں کردیا ہے:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (الحج: 63)
”دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں سے پانی برساتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی، ہی کا اضافہ بھی درست نہیں ہے)
وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (إبراہیم: 32)
”اور بادلوں سے پانی اتارا“۔ (امین احسن اصلاحی)
وَاللَّہُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (النحل: 65)
”اور اللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ درست ہے البتہ یہاں ہی کا اضافہ درست نہیں ہے)
(329) وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ
قسا القلب کا مطلب دل کا سخت ہونا ہے۔ یہ تعبیر مختلف صیغوں سے قرآن میں کئی جگہ آئی ہے۔ جیسے:
فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکْرِ اللَّہِ۔ (الزمر: 22)
”تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے“۔ (سید مودودی)
وَجَعَلْنَا قُلُوبَہُمْ قَاسِیَةً۔ (المائدۃ: 13)
”اور ان کے دل سخت کر دیے“۔ (سید مودودی)
درج ذیل الفاظ کا بھی یہی ترجمہ ہونا چاہیے تھا، لیکن صاحب تفہیم نے اس کا مختلف ترجمہ کیا:
وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ۔ (الحج: 53)
”اور جن کے دل کھوٹے ہیں“۔ (سید مودودی)
ایک بات تو یہ ہے کہ دل کھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قاسیۃ کا مطلب کھوٹا ہونا نہیں بلکہ سخت ہونا ہوتا ہے۔ درست ترجمہ وہی ہے جو دوسروں نے کیا ہے اور خود صاحب تفہیم نے درج بالا مقامات پر کیا ہے۔
(330) ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ
ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوب کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:
یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیئًا لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ۔ (الحج: 73)
”لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مِل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے، مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور“۔ (سید مودودی)
”بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
”عابد اور معبود دونوں ہی عاجز ہیں“۔ (احمد علی)
”عابد بھی لچر اور ایسا معبود بھی لچر“۔ (اشرف علی تھانوی)
اس آیت میں الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ کے مختلف معنی لیے گئے ہیں، کچھ لوگوں نے عابد ومعبود ترجمہ کیا ہے، جو الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔ کچھ نے مدد چاہنے والے اور جن سے مدد چاہی جائے ترجمہ کیا ہے، یہ بھی الفاظ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ مطلوب اسے کہتے ہیں جسے طلب کیا جائے نہ کہ وہ جس سے طلب کیا جائے۔ عام طور سے لوگوں نے طالب سے مراد غیر اللہ کو پکارنے والے اور مطلوب سے مراد وہ اصنام لیے ہیں جنھیں وہ پکارتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں طالب سے مراد اصنام اور مطلوب سے مراد وہ مکھی ہے جو ان سے کچھ لے بھاگی ہے۔ یہ ایک بلیغ منظر کشی ہے کہ گویا مکھی مطلوب اور وہ اصنام اس کے طالب ہیں۔ ضعف تعجب کا صیغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ مکھی تو کم زور ہے ہی یہ اصنام اس مکھی سے بھی زیادہ کم زور ہیں۔
درج ذیل ترجمہ الفاظ کے مطابق ہے:
”بودا ہے چاہنے والا اور جو چاہتا ہے“۔ (شاہ عبدالقادر)
(331) لَا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ کا ترجمہ
درج بالا آیت کے جملے میں لَا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ کا یہ ترجمہ دیکھیں:
”اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اس سے اس کو بچا بھی نہیں پائیں گے۔ طالب اور مطلوب دونوں ہی ناتواں!“۔ (امین احسن اصلاحی)
یہاں لَا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ کا ترجمہ کیا ہے ’وہ اس سے اس کو بچا بھی نہیں پائیں گے‘ یہ درست نہیں ہے، بلکہ جو عام طور سے کیا گیا ہے وہ درست ہے، جیسے:
”چھڑا نہ سکیں وہ اس سے‘‘۔(شاہ عبدالقادر)
(332) ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ مِن قَبْلُ
اس آیت میں ضمیر ھو کا مرجع ابراہیم ہے یا اللہ، اس میں اختلاف ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ نام رکھا۔ بہرحال ’ہُو‘ کا ترجمہ ’اس نے‘ ہونا چاہیے، تاکہ قاری اس کا مرجع متعین کرنے میں آزاد رہے۔ بعض لوگوں نے ہُو کا ترجمہ ’اللہ‘ کیا ہے۔
مِّلّةَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ مِن قَبْلُ وَفِی ہَٰذَا۔ (الحج: 78)
”قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام”مسلم“ رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے)“۔ (سید مودودی)
”تمہارے باپ ابراہیم کا دین، اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں“۔ (احمد رضا خان)
دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی“۔ (محمد جوناگڑھی)
درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:
”دین تمہارے باپ ابراہیم کا، اس نے نام رکھا تمہارا مسلمان حکم بردار پہلے سے اور اس قرآن میں“۔ (شاہ عبدالقادر)
(333) مِّلّةَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ
درج بالا آیت میں مِّلّةَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں، عام طور سے لوگ مِلّةَ سے پہلے کوئی فعل محذوف مانتے ہیں۔
مولانا امانت اللہ اصلاحی ھذہ مبتدا محذوف مانتے ہیں اور ترجمہ کرتے ہیں: ”یہ تمارے باپ ابراہیم کا طریقہ ہے“ قرآن مجید میں یہ اسلوب متعدد مقامات پر آیا ہے۔
(334) فِی اللَّہِ کا ترجمہ
قرآن مجید میں ’فی سبیل اللّٰہ‘ کی تعبیر تو کثرت سے آئی ہے، جس کا معنی ’اللہ کے راستے میں‘ ہے، البتہ کہیں کہیں ’فی اللّٰہ‘ کی تعبیر بھی ہے، اس کا ترجمہ ’اللہ کی خاطر‘ ہونا چاہیے۔
(۱) وَجَاہِدُوا فِی اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ۔ (الحج: 78)
”اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے“۔ (سید مودودی)
”اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا“۔ (احمد رضا خان)
”اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
یہاں ’فی سبیل اللّٰہ‘ نہیں بلکہ ’فی اللّٰہ‘ ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ’اللہ کی راہ میں‘ کرنے کے بجائے ’اللہ کی خاطر‘ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ زمخشری لکھتے ہیں: فِی اللَّہِ أی فی ذات اللہ ومن أجلہ۔ (تفسیر الکشاف)
درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:
”اور محنت کرو اللہ کے واسطے جو چاہیے اس کی محنت“۔ (شاہ عبدالقادر)
(۲) وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا فِی اللَّہِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا۔ (النحل: 41)
”جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)
یہاں بھی اللہ کے واسطے یا خاطر زیادہ مناسب ہے۔ زمخشری لکھتے ہیں: فِی اللَّہِ: فی حقہ ولوجہہ۔ (تفسیر الکشاف)
”جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں“۔ (سید مودودی)
”اور جنھوں نے گھر چھوڑا اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ظلم اٹھایا“۔ (شاہ عبدالقادر)
(335) لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ
درج ذیل جملے کے ترجمے ملاحظہ کریں:
لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ۔ (الحج: 28)
”تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں“۔ (سید مودودی)
”کہ پہنچیں اپنے بھلے کی جگہوں پر“۔ (شاہ عبدالقادر)
”تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لیے حاضر ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)
یہاں شھد کا ترجمہ دیکھنا، پہنچنا، اور حاضر یا موجود ہونا کیا گیا ہے، اسی طرح منافع کا ترجمہ فائدے، فائدے کے کام اور فائدے کی جگہیں کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ تجویز کرتے ہیں:
”تاکہ وہ شریک رہیں ان فائدوں میں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں“۔
مطالعہ سنن ابی داود (۵)
ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
مطیع سید: احناف مسجد میں نماز ِ جنازہ کے قائل نہیں ہیں حالانکہ مسجد میں نماز جنازہ کی روایت آتی ہے۔ (کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد، حدیث نمبر ۳۱۸۹)
عمارناصر: احناف کے ہاں تعامل سے بھی حکم اخذ کیا جاتاہے۔ عمومی عمل یہی رہا ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر ادا کی جائے۔ عہد نبوی کا جو واقعہ ہے، اس کی مختلف تو جیہات کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ کوئی خاص کیفیت تھی، باہر بارش ہورہی تھی یا کوئی اور وجہ تھی تو اس سے آپ عمومی ضابطہ اخذ نہیں کر سکتے۔
مطیع سید: ایک صحابی نے نذر مانی کہ بیت اللہ کی فتح پر میں بیت المقدس میں جاکر نماز پڑھوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہیں پڑھ لو۔ (کتاب الایمان والنذور، باب من نذر ان یصلی فی بیت المقدس، حدیث نمبر ۳۳۰۵) کیاہم نذرکی ظاہر ی صورت کو چھوڑ سکتے ہیں؟
عمارناصر: جی، بعض صورتوں میں چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ دیکھتےہوئے کہ مقصد کسی مقدس اور عبادت والے مقام پر نماز پڑھنا ہے، آپ نے اس شخص سے کہا کہ اس کے لیے اتنا سفر کرنے کے بجائے یہیں مدینہ میں نماز پڑھ لے۔
مطیع سید: ایک دوست نے کہا کہ مجھ سے ایک گناہ سر زد ہو گیا تو میں نے نیت کی کہ میں تین روزے رکھوں گا، لیکن اب تین روزے بہت مشکل لگ رہے ہیں۔ تو کیا اس کی کوئی اور صورت ہو سکتی ہے؟
عمارناصر:نہیں، مشکل لگنا تو کوئی وجہ نہیں۔ اگر باقاعدہ روزوں کی ہی نیت کی تھی تو پھر رکھنے پڑیں گے۔ زیادہ مشکل لگ رہا ہے تو سردیوں میں رکھ لیں۔
مطیع سید: کان سے نکالے گئے سونے کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں خیر نہیں۔ (کتاب البیوع، باب فی استخراج المعادن، حدیث نمبر ۳۳۲۸) یہ بات نبی ﷺ نے کس مفہوم میں ارشاد فرمائی؟
عمارناصر: اس کا بھی یقیناً کوئی خاص سیاق ہے، ورنہ کان سے سونا نکالنے یا نکالے ہوئے سونے کو استعمال کرنے کی ممانعت تو نہیں۔ شارحین کہتے ہیں کہ شاید کان سے سونا نکالنے کا جو طریقہ یا اس کی جو شرائط وغیرہ اس وقت مروج تھیں، ان میں کوئی خرابی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھی یا پھر کوئی اور وجہ ہوگی جس کی وجہ سے آپ نے یہ تبصرہ فرمایا۔ واللہ اعلم
مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام سے فرمایا کہ جو چیز تمھارے پاس موجود نہ ہو، وہ کسی کو نہ بیچو۔ (کتاب البیوع، ابواب الاجارۃ، باب فی الرجل یبیع ما لیس عندہ، حدیث نمبر ۳۵۰۵) کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ چیز ہماری ملکیت میں نہیں ہوتی، لیکن گاہک آتا ہے تو ہم کسی سے چیز لے کر اس کو دے دیتے ہیں۔ تو کیا یہ غلط ہے؟
عمارناصر: نہیں، یہ ٹھیک ہے۔ روایت میں دراصل احتیاط اور سد ذریعہ کے طور پر اس سے منع کیا گیا ہے۔ اصل میں چیز ابھی ملکیت میں نہ ہو تو اس کی فروخت سے بسااوقات تنازع پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، خاص طور پر پرانے دور کی منڈی کو اگر ذہن میں رکھیں۔ آپ نے چیز کا سودا کر لیا ہے، لیکن اب وہ بازار میں آپ کو مل نہیں رہی تو اس میں ایک تو وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور دوسرا یہ جھگڑ ے کا سبب بن سکتا ہے۔
مطیع سید: جس نے قرآن کے بارے میں اپنی کوئی رائے دی، وہ اگر ٹھیک بھی ہوئی تو اس نے غلطی کی۔ (کتاب العلم، باب الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم، حدیث نمبر ۳۶۵۲) کیا یہ صرف احتیا ط کے پہلو سے ہے؟
عمارناصر: اپنی طرف سے رائے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بات ایسے ہی ذہن میں آگئی اور وہ بیان کر دی گئی۔ اس میں غیر ذمہ داری کا ایک رویہ جھلک رہا ہے۔ بات تکے سے ٹھیک ہو گئی، لیکن بات کہنے والا اہل نہیں تھا یا اس نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا یا اس کی کوئی سند اس کے پا س نہیں تھی تو یہ انداز قابل مذمت ہے، چاہے تکا ٹھیک لگ گیا ہو۔
مطیع سید: گھوڑے کے گوشت کو احناف مکروہ قرار دیتے ہیں جبکہ حدیث میں تو اس کی اجازت آئی ہے۔ (کتاب الاطعمۃ، باب فی اکل لحوم الخیل، حدیث نمبر ۳۷۸۸) احناف کی کیا دلیل ہے؟ کیا وہ بھی کسی روایت کی بنیاد پر کر اہت کا حکم لگاتے ہیں؟
عمارناصر: یہ امام ابوحنیفہ کی رائے ہے، امام ابویوسف اور امام محمد اس سے اتفاق نہیں کرتے اور انھی احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کراہت اس پہلو سے کہتے ہیں کہ گھوڑا اصل میں گوشت کھانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ سواری کے لیے ہے۔ آپ اس کو گوشت کھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں گے تو دوسرا پہلو متاثر ہوگا۔
مطیع سید: تو اس بات کو کیا گدھے پر بھی قیاس کر سکتے ہیں؟
عمارناصر: نہیں، امام ابوحنیفہ اس پر قیاس تو نہیں کرتے۔ البتہ یہ استدلال وہ کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں گھوڑے، گدھے اور خچر کا ذکر سواری کے جانور کے طور پر ہوا ہے۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (النحل، آیت ۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں کا اصل مقصد تخلیق سواری ہے۔
مطیع سید: حضرت جویریہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی بات کی اور ان کے رضامندی ظاہر کرنے پر یہ نکاح ہو گیا۔ (کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب اذا فسخت الکتابۃ، حدیث نمبر ۳۹۳۱) یعنی حضرت جویریہ نے خود اپنے نکاح کا معاملہ طے کیا۔ کیا اس روایت سے احناف دلیل لیتے ہیں کہ عورت خود نکاح کر سکتی ہے؟
عمارناصر: یہ واقعہ بھی دلیل بن سکتا ہے، لیکن اس خاص واقعہ کے علاوہ احناف کی ایک توعقلی دلیل ہے کہ لڑکی اگر بالغ ہے تو وہ اپنا فیصلہ کر سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید نے بھی نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی ہے جس سے لگتا ہے کہ عورت اس معاملے میں خود اختیار رکھتی ہے۔ تو دو دلائل ہیں۔ ایک نقلی دلیل ہے کہ قرآن کی آیات میں نسبتِ نکاح عورت کی طرف کی گئی ہے اور دوسری عقلی دلیل ہے کہ اگر وہ بالغ ہے تو اس نے خود اپنا فیصلہ کرنا ہے۔
مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ ایک غلام کا اگر ایک حصہ آزاد کیا جائے تو اس کو مکمل طور پر آزاد کرنا ضروری ہے (کتاب العتق، باب فی من اعتق نصیبا لہ من مملوک، حدیث نمبر ۳۹۳۳) جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جتنا حصہ آزاد کیا گیا، بس اتنا ہی آزاد ہے، باقی حصے آزاد نہیں ہوں گے۔ (کتاب العتق، باب فی من روی انہ لا یستسعی، حدیث نمبر ۳۹۴۰)
عمارناصر: حدیث کے دیگر طرق میں ا س کی وضاحت موجود ہے۔ اگر ایک غلام کئی افراد کے درمیان مشترک ہے اور ان میں سے ایک مالک اپنا حصہ آزاد کر دے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آزاد کرنے والے کے مال میں گنجائش ہو تو وہ ذمہ دار ہے کہ باقی مالکوں کو ان کے حصے کی قیمت ادا کر کے پورے غلام کو آزاد کر دے۔ لیکن اگر اس کے مال میں گنجائش نہ ہو تو پھر اس کے حصے کا غلام آزاد ہو جائے گا اور باقی مالکوں کی ملکیت باقی رہے گی۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اگر آزاد کرنے والے کے مال میں گنجائش نہ ہو تو پھر غلام کو موقع دیا جائے گا کہ وہ کہیں سے رقم جمع کر کے اپنے باقی مالکوں کو ادا کر دے اور مکمل آزادی حاصل کر لے۔
مطیع سید: ایک صحابی وفات پا گئے۔ انہوں نے ایک غلام مدبر کیا ہوا تھا، یعنی اس سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی وفات پر وہ آزاد ہو جائے گا۔ آپ ﷺنے اس صحابی کی وفات کے بعد اس غلام کو فروخت فرما دیا۔ (کتاب العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث نمبر ۳۹۵۵) ایسا کیوں کیا گیا؟
عمارناصر: اس کی وجہ روایت میں نقل ہوئی ہے کہ مرنے والے کے ذمے قرض تھا، اور غلام کے علاوہ ادائیگی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ایسی صورت میں قرض داروں کا حق مقدم ہے۔ مرنے والے کی وصیت کو منسوخ کر کے پہلے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا۔
مطیع سید: احناف کاموقف یہ ہے کہ مدبر کیے ہوئے غلام کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔
عمارناصر: احناف کا یہ موقف غالباً عام حالات میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس غلام کو مالک نے کہہ دیا ہو کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو جا ؤ گے تو اس کو بنیادی طورپر آزادی کا پروانہ دے دیا گیا ہے۔ ایسے غلام کو مالک اب فروخت نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر ایسی کوئی خاص صورت حال ہو جیسی اس واقعے میں بیان ہوئی ہے اور مرنے والے کے پاس مدبر کے علاوہ کوئی مال نہ ہو اور ادھر قرض خواہ کھڑے ہوں تو میرے خیال میں احناف شاید اس صورت میں اسے فروخت کرنے پر پابندی نہیں لگاتے۔ اس کی احناف کی فقہی کتب سے تحقیق کر لینی چاہیے۔
مطیع سید: ولدالزنا شرّالثلاثة۔ (کتاب العتق، باب فی عتق ولد الزنا، حدیث نمبر ۳۹۶۳) ولد الزنا اپنے والدین سے بھی بدتر ہے۔ اس میں اس بچے کا کیا قصور ہے؟
عمارناصر: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ روایت پیش کی گئی تو انہوں نے اس کی توجیہ یہ کی کہ ولد الزنا شر الثلاثة اذا عمل بعمل ابویه۔ یعنی اگر وہ بھی کردار کے لحاظ سے انھی جیسا ہو اور اسی راہ پر چل رہا ہو تو پھر وہ ان دونوں سے بد تر ہے۔
مطیع سید: قرآن حکیم کے حروف کے حوالےسے بہت سی روایات آتی ہیں۔ کچھ صحابی کہتے ہیں کہ ہم ایک لفظ کو زبر سے پڑھتے تھے، کچھ کہتے ہیں کہ زیر سے پڑھتے تھے، جیسے ھیتَ لک اور ھیتُ لک۔ ایک روایت میں قولوا حطة نغفر لکم کی جگہ قولوا حطة تغفر لکم آیا ہے۔ (کتاب الحروف والقراءات، حدیث نمبر ۴۰۰۶) کئی جگہ حرکات میں اور کئی مقامات پر صیغوں میں تبدیلی آتی ہے۔ جب قرآن مجید کو مصحف میں اکٹھا کیا گیا تو اس میں یہ کیسے طے کیا گیا کہ دونوں میں سے یہ حرکت اور یہ صیغہ لیا جائے گا؟
عمارناصر: اس بنیاد پر تو مصحف کو جمع کیا ہی نہیں گیا کہ کسی لفظ کو پڑھا کیسے جائے گا۔ مصحف کو جمع کرنے کی وجہ اور اس کا اصول تو کچھ اور تھا۔ اصل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو قرآن سکھایا اور اس کے ساتھ ان کو اجازت دی کہ بہت سے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔ مثلًا یہ کہ بعینہ ان لفظوں کے علاوہ ملتے جلتے اور ہم معنی لفظ بھی پڑھے جا سکتے تھے جن سے مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی طرح لہجوں کا اختلاف تھا، اس میں بھی وسعت رکھی گئی۔ بعض مقامات پر ایک لفظ کو غائب یا حاضر کے مختلف صیغوں میں پڑھا جائے تو مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کی بھی اجازت دی گئی۔ بعض جگہوں پر لفظوں کی کمی بیشی بھی نظر آتی ہے۔ ایک قراءت میں ایک لفظ موجود ہے، دوسری میں نہیں ہے۔ مشہور مثال ہے: وما خلق الذکر والانثی جو بعض قراءتوں میں یوں ہے: والذکر والانثی۔ بعض جگہ الفاظ کی تقدیم وتاخیر ہے۔ جیسے معروف قراءت میں ہے: اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح جبکہ ایک قراءت میں ہے : اذا جاء فتح اللّٰہ والنصر۔ اس طرح کے مختلف طریقوں سے قرآن کو پڑھنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر یہ پابندی عائد کر دی جاتی کہ قرآن کو بالکل اسی طریقے پر پڑھا جائے جو سکھایا گیا ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی نہ ہوتو بہت بڑی مشکل پیدا ہو جاتی۔ خاص طور پر عام لوگ جو زیادہ تر امی تھے اور پڑھے لکھے نہیں تھے، اس معاملے میں بہت حساس ہو جاتے اور غلطی کے خوف سے قرآن کی تلاوت کی طرف راغب ہونے کے بجائے اس سے گریز کرنے لگتے۔ ان سب مصلحتوں سے قراءت میں مختلف نوعیت کے اختلاف کی اجازت دے دی گئی۔ اجازت کی نوعیت بھی ایک طرح کی نہیں تھی۔ بعض جگہ آپ ﷺ خود ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھنا سکھا دیتے تھے۔ بعض جگہوں پر ایسے معلوم ہو تا ہے کہ صحابہ نے وسعت کو دیکھتے ہوئے اجتہادا ًبھی کچھ قراءتیں اختیار کرلیں۔ اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ گویا اس معاملے میں خاصی لچک تھی۔
حضرت عثمان کے دور میں جب بعض علاقوں میں ایسے اختلافات سے جھگڑے پیدا ہونا شروع ہو گئے اور لوگوں نے ایک دوسرے کی تکفیر شروع کر دی تو اس کی کو شش کی گئی کہ ان اختلافات کو بڑھنے سے روکا جائے اور جتنا ممکن ہو، ان کو محدود کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک غلط فہمی عام طور پر پائی جاتی ہے اور علوم القرآن کے ماہرین یہ مفروضہ نقل کر دیتے ہیں کہ حضرت عثمان نے جو نسخے مرتب کروائے تھے، ان میں قراء ت کے ہر طرح کے اختلاف کو متن میں سمو دینے کی کوشش کی گئی، حالانکہ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور عقلاً بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ جہاں اعراب کا اختلاف ہے یا ایک لفظ کے صیغے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن وہ لکھا ایک ہی طرح سے جاتا ہے، ایسے اختلافات کو کیسے متن میں واضح کیا جا سکتا تھا۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر کچھ لوگوں کی قراءت میں بعض منسوخ آیات شامل تھیں تو انھیں مصحف میں شامل نہ کر کے ان کی تلاوت واشاعت کا راستہ روک دیا گیا۔ اسی طرح الفاظ کی کمی بیشی یا تقدیم وتاخیر پر جو اختلافات مبنی تھے، وہ بھی مصحف کے مدون کرنے جانے سے خارج ہو گئے۔ لیکن کسی لفظ کو پڑھنے کے جو مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، ان کو ختم کرنا یا محدود کرنا مصحف عثمانی کے ذریعے سے ممکن نہیں تھا اور نہ یہ اس کا مقصد تھا۔
کسی لفظ کی قراءت جن جن طریقوں سے ہو سکتی ہے، وہ زبانی ہی نقل ہو رہے تھے اور مصحف کی تدوین کے بعد بھی نقل ہوتے رہے۔ قرآن بنیادی طور پر زبانی نقل ہواہے اور اس کی قراءتیں بھی زبانی ہی نقل ہوئی ہیں۔ چنانچہ جن قراء توں کو حضرت عثمان نے متن میں شامل نہیں کیا تھا، ان کی تلاوت بھی کلیتاً فوری طور پر موقوف نہیں ہو گئی۔ لوگ ان کے مطابق بھی پڑھتے رہے اور لوگوں کو سکھاتے بھی رہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت تو معروف ہے جو ایک زمانے تک کوفہ میں رائج رہی اور ان کے شاگردوں کے حلقے میں اس کو مصحف عثمانی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ بعد میں پھر جب ان قراءتوں کو کتابوں میں مدون کیاگیا تو عمومی طور پر اس چیز کو ایک معیار کے طور پر قبول کر لیا گیا کہ مصحف عثمانی کا متن جن قراءتوں کی گنجائش اپنے اندر نہیں رکھتا، انھیں متفق علیہ اور معیاری قراءت شمار نہ کیا جائے، بلکہ شاذ قراءت کے زمرے میں رکھا جائے۔
مطیع سید: پھرکس دور میں یہ چیزیں کیسے طے ہوگئیں؟
عمارناصر: جیسے ہی علم قراءت مدون ہونا شروع ہوا تو رفتہ رفتہ قراءتوں کی زمرہ بندی ہونا شروع ہوگئی۔ کچھ قراءتوں کو مستند قرار دے دیا گیا اور اس کے لیے یہ معیار بنا یا گیا کہ وہ مصحف کے مطابق ہو، عربی قواعد کے مطابق ہو، اور اس کی سند موجود ہو۔ اس کے مطابق قراءتوں کی چھانٹی کرکے کچھ کو مستند قرار دے دیا گیا اور کچھ شاذ قرار پائیں۔ اس عمل کو مکمل ہوتے ہوئے تقریباً دو تین سو سال لگے ہیں اور اس میں بھی اہم اختلافات موجود رہے ہیں۔
مطیع سید: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسے الفاظ بولے ہیں کہ ان میں قراءت کے اختلاف کی گنجائش پیدا ہو جائے؟
عمارناصر: علم القراءت میں اس پر کافی بحث ہے۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ جتنے مختلف طریقے ہیں، یہ سارے اللہ کی طرف سے اتارے گئے تھےاور رسول اللہ ﷺ نے خود ان کی تعلیم دی تھی۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ لوگوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ بعض حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے جیسے سہولت ہو، قراءت کر لیا کریں۔ بہرحال علمائے قراء ت نے جو معیار وضع کیا کہ کوئی بھی قراءت تبھی مستند شمار ہو گی جب اس کی سند موجود ہو تو اس کی بنیادپر آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی مختلف قراءتیں علمائے قراءت کے ہاں متداول ہیں، ان کی سند اگر صحابی تک پہنچتی ہے تو قرین قیاس ہے کہ صحابی نے وہ نبی ﷺ سے سیکھی ہوگی۔
مطیع سید : سونے کی انگو ٹھی کی ممانعت اور چاندی کی اجازت توسمجھ میں آتی ہے، یہ لوہے کی انگوٹھی کی ممانعت کس پہلو سے ہے؟ (کتاب الخاتم، باب ما جاء فی خاتم الحدید، حدیث نمبر ۴۲۲۳)
عمارناصر: اس کی وجہ حدیث میں ہی یہ بتائی گئی ہے کہ لوہا جہنمیوں کا زیور ہے۔ مطلب یہ کہ اہل جہنم کو لوہے کے طوقوں اور زنجیروں میں جکڑا جائے گا، اس مشابہت کی بنیاد پر لوہے کی انگوٹھی نہ پہنی چاہیے۔ یہ ممانعت اسی ایک روایت میں آئی ہے اور اس کی سند میں بھی کچھ ضعف ہے۔ بہرحال زیادہ تر فقہاء اس کی روشنی میں اس کو حرام قرار دیتے ہیں، لیکن بعض فقہاء کے نزدیک اس کی ممانعت نہیں ہے۔ وہ ایک دوسری حدیث سے اخذ کرتے ہیں کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔
مطیع سید: مجدد کے بارے میں روایات آتی ہیں (کتاب الملاحم، باب ما یذکر فی قرن المائۃ، حدیث نمبر ۴۲۹۱) تو ہمیں اس کا کیسے اندازہ ہو گا کہ کوئی شخص مجدد ہے؟ کیا وہ خودبتاتا ہے یا اس کے کام سے ہمیں معلوم ہوگا یا امت اس کے مجدد ہونے کا فیصلہ کر تی ہے؟
عمارناصر: لوگ اس کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے یہ کوئی منصب ہے جس پر کسی کو فائز کیاجاتا ہے۔ اصل میں یہ امت میں دین کو زندہ رکھنے کا ایک انتظام ہے، کوئی منصب نہیں ہے جس پر کوئی فائز ہو۔ اور یہ کام اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت مختلف لوگوں سے لیتے ہیں۔ کسی سے جزواً اور کسی سے زیادہ وسیع پیمانے پر لیتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو بتایا جائے کہ تم مجدد ہو اور وہ اس کا اعلا ن کرے۔ اگر اس کا کام دین کے اس وقت کے تقاضے کو پورا کر رہا ہے تو اسی سے اندازہ ہو جائے گا۔ فرض کریں کسی کو نہ پتہ چلے، تب بھی کام تو اس نے کر دیا اور جو مقصد تھا، وہ پورا ہوگیا۔ دین کے احیا ء اور تجدید کی جو ضرورت تھی، وہ اس نے پوری کر دی اور اللہ کے ہاں اجر کا حقدار بن گیا۔
مطیع سید: روایت کے الفاظ سے تو بظاہر کوئی ایک شخص سمجھ میں آتا ہے۔
عمارناصر: نہیں، حدیث کے الفاظ ہیں: من یجدد لھا دینھا۔ فصیح عربی میں من واحد کے لیے خاص نہیں، جماعت کے لیے بھی بالکل عام ہے۔
مطیع سید: آج کل جو زلزلے وغیرہ آتے ہیں، کیا ان کو عذاب کہہ سکتے ہیں یا آزمائش کہیں گے؟
عمارناصر: اس میں کئی پہلو ہوتے ہیں۔ تنبیہ بھی ہے، عذاب بھی ہے اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کے لیے آخرت کی سزا سے کفارے کی بھی صورت ہے۔
مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کے خروج کے واقعات چھ ماہ کے اندر اندر رونما ہو جائیں گے۔ (کتاب الملاحم، باب فی تواتر الملاحم، حدیث نمبر ۴۲۹۵) ایسا ہوا تو نہیں۔
عمارناصر: یہ مشکل روایت ہے۔ قسطنطنیہ کی فتح تو کب کی واقع ہو چکی ہے، لیکن دجال کاخروج نہیں ہوا۔
مطیع سید: کیا اس روایت کے الفاظ میں کچھ فر ق آگیا ہے یا سند وغیرہ کا مسئلہ ہے؟
عمارناصر: میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ پیشین گوئیاں بہت الجھی ہوئی ہیں، ان میں راویوں کے قیاسات بہت مل گئے ہیں۔ ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا کافی مشکل ہے۔ اس خاص روایت کی سند میں بھی کچھ مسائل ہیں۔
مطیع سید: یہ بھی آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کو بیک وقت آپس میں اور دشمن سے لڑنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ (کتاب الملاحم، باب ارتفاع الفتنۃ فی الملاحم، حدیث نمبر ۴۳۰۱) مجھے لگتا ہے کہ کئی موقعوں پر تاریخ میں ایسے ہوا ہے۔
عمارناصر: اس پیشین گوئی کو اگر محدود تناظر میں لیا جائے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خاص عر صے کی بات ہو رہی ہے جس سے زیادہ تر پیشین گوئیوں کا تعلق ہے تو پھر یہ قابل فہم ہے۔ اس خاص دور سے متعلق اپنی امت کے لیے آپ نے کئی دعائیں بھی فرمائیں جن میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بیک وقت دو آزمائشوں میں نہ پڑیں کہ آپس میں بھی لڑ رہے ہوں اور دشمن بھی حملہ آور ہو جائے۔
مطیع سید: ایک حدیث میں بصرہ کا ذکر آیا ہے۔ (کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرۃ، حدیث نمبر ۴۳۰۶) یہ شہر تو غالباً نبی ﷺ کےبعد حضرت عمر نے آباد کیا تھا تو روایت میں اس کا نام کیسے آ گیا؟
عمارناصر: روایت میں بھی پیشین گوئی کے طور پر ہی ذکر ہے کہ میری امت کے لوگ اس نام کا ایک شہر بسائیں گے یا اس شہر میں اتریں گے۔ تو پیشین گوئی میں تو آنے والے وقت کے کسی واقعے کا ذکر ہو سکتا ہے۔
مطیع سید: بنو مخزوم کی ایک عورت تھی جس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نبیﷺ نے کاٹ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں سے امانتاً چیزیں لیتی تھی اور پھر لے کر مکر جاتی تھی۔ (کتاب الحدود، باب فی القطع فی العور اذا جحدت، حدیث نمبر ۴۳۹۵) لیکن احناف کہتے ہیں کہ یہ عمل چوری کے زمرے میں نہیں آتا۔
عمارناصر: اجتہادی مسائل میں روایات کی تاویل وتوجیہ کی کافی گنجائش ہوتی ہے، مثلاً اس روایت سے متعلق احناف کہتے ہیں کہ امانتاً چیزیں لے کر مکر جانے کا ذکر اس عورت کے تعارف کے طور پر کیا گیا ہے، نہ کہ اس کے ہاتھ کاٹنے کی وجہ کے طور پر۔ ہاتھ اس لیے کاٹا گیا کہ اس نے عام مفہوم میں باقاعدہ چوری کی تھی۔ بہرحال جمہور محدثین اس روایت کو ظاہر پر لیتے ہیں جو مجھے تو صحیح لگتا ہے۔ احناف کی نظر بعض دفعہ قاعدے قیاس پر زیادہ مرکوز ہو جاتی ہے جس سے حکم کی روح مجروح ہو جاتی ہے۔
مطیع سید: ایک موقع پر آپﷺ نے قتل کے ایک معاملے میں فرمایا کہ اگر مدعی قصاص معاف نہیں کر ےگا تو وہ قاتل و مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر لے کر جہنم میں چلا جا ئے گا۔ (کتاب الدیات، باب الامام یامر بالعفو فی الدم، حدیث نمبر ۴۴۹۸) حالانکہ قصاص معاف کرنا یا نہ کرنا تو آدمی کا اختیار ہو تا ہے۔
عمارناصر: اس واقعے کی تفصیل صحیح مسلم وغیرہ میں آئی ہے۔ صورت یہ تھی کہ دو آدمی جنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے لیے گئے اور کسی بات پر توتکار ہوئی جس پر ایک نے دوسرے کے سر پر کلہاڑا دے مارا اور وہ مر گیا۔ مقتول کا بھائی قاتل کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے جان بوجھ کراس کو قتل کیا ہے، جبکہ قاتل کا کہنا تھاکہ مجھ سے حالت اشتعال میں یہ گناہ سرزد ہواہے، میرا قتل کرنے کا قصد نہیں تھا۔ قرائن بظاہر ایسے تھے کہ اس کی بات ٹھیک لگ رہی تھی، لیکن مدعی قصاص لینے پر مصر تھا اور ظاہر ہے، اس کے بھی جذبات تھے۔ جذبات میں مدعی انتقام کے لیے بہت پرجوش ہو جاتا ہے۔ تو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ انداز اختیار فرمایا کہ مدعی سے کہا کہ اچھا بھائی، یہ تمھارے حوالے ہے، تم اس سے قصاص لے لو۔ جب وہ اس کو لے کر جانے لگا تو ساتھ ہی یہ تبصرہ کر دیا کہ اگر قاتل کی بات ٹھیک ہے کہ اس نے قصداً قتل نہیں کیا تو پھر قصاص لینے والا دونوں مقتولوں کے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا۔ یہ گویا مدعی کو متنبہ کرنے کے لیے تھا کہ ایسے معاملے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ تو یہ بات سمجھانے کا ایک اسلوب تھا جو موثر ثابت ہوا اور مدعی نے یہ بات سن کر قاتل کو چھوڑ دیا۔
مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ تبع لعین تھا یا نہیں اور میں نہیں جانتا کہ عزیر نبی تھے یا نہیں۔ (کتاب السنۃ، باب فی التخییر بین الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، حدیث نمبر ۴۶۷۴) اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عزیر کا ذکر تو قرآن مجید میں بھی ہے۔
عمارناصر: تبع کے بارے میں سیرت ابن ہشام میں کافی تفصیل موجود ہے۔ یہ زمانہ جاہلیت میں یمن میں قوم سبا کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا۔ قرآن میں ذکر ہے کہ اس قوم پر ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت آئی۔ تبع کئی بادشاہوں کا لقب تھا۔ ان میں سے ایک کے متعلق آتا ہے کہ اس نے یہودیت قبول کر لی تھی اور اس کے زیر اثر یمن میں یہودی مذہب عام ہو گیا تھا۔ اس روایت میں غالباً اسی کا ذکر ہے کہ اس کے دین اور عقیدے کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ شارحین کہتے ہیں کہ بعض دیگر احادیث میں ہے کہ تبع نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس لیے اس کو برا مت کہا کرو۔ اگر یہ روایات صحیح ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ لاعلمی کی بات آپﷺ نے اس وقت فرمائی ہوگی جب آپ کو اس کے بارے میں ابھی وحی سے معلومات نہیں ملی تھیں۔ حضرت عزیر کا قرآن میں ذکر تو ہے، لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے ایک برگزیدہ بندے تھے، تاہم ان کے نبی ہونے کی کوئی واضح اور قطعی دلیل قرآن میں نہیں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس حوالے سے کوئی حتمی بات وحی میں نہیں بتائی گئی تھی۔
مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مخاطب کر کے ناقصات عقل و دین کے الفاظ ارشاد فرمائے۔ (کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، حدیث نمبر ۴۶۷۹)
عمارناصر: اس کی وضاحت حدیث میں ہی موجود ہے۔ عقل کے لحاظ سے ان کو اس پہلو سے کم تر کہا گیا کہ بیشتر دنیوی امور میں ان کو تجربہ اور ممارست نہیں ہوتی اور ان معاملات میں تنہا عورتوں پر ویسے ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی جیسے مردوں پر ڈالی جا سکتی ہے۔ مثلاً مالی لین دین کے معاملات میں گواہ بننا اور معاملے کی تفصیلات وغیرہ کو ٹھیک طریقے سے یاد رکھنا۔ دین کے لحاظ سے ان کے ساتھ ایسی خلقی کمزوریاں لگی ہوئی ہیں کہ فرائض دین کی ادائیگی میں بھی انھیں مردوں کے مقابلے میں کچھ رعایتیں دینی پڑتی ہیں اور بہت سی دینی ذمہ داریوں کا ان کو مردوں کی طرح مکلف بھی نہیں ٹھہرایا گیا۔
مطیع سید: ایک چیز محسوس ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والے جو گمراہ فرقے تھے، آپﷺنے عموماً ان کا نام نہیں لیا۔ لیکن ایک روایت میں قدریہ کا نام لے کر فرمایا کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ (کتاب السنۃ، باب فی القدر، حدیث نمبر ۴۶۹۱)
عمارناصر: مجھے بھی اس روایت کے بارے میں تردد ہے کہ یہ شاید بعد میں کسی نے وضع کی ہے۔
مطیع سید: ان کے متعلق یہ بھی ہے کہ یہ دجال کا گروہ ہو گا، ان کی عیاد ت نہ کرو اور ان کا جنازہ نہ پڑھو۔ (کتاب السنۃ، باب فی القدر، حدیث نمبر ۴۶۹۲) سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ دجال کا گروہ ہوگا تو ان کی نماز جنازہ کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا، تو یہ کس بات سے منع کیاگیا ہے؟
عمارناصر: مراد یہ ہے کہ ان کا تعلق دجال ہی کے سلسلے سے ہوگا۔ یعنی دجال کے ظہور سے پہلے یہ اسی زمرے کے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوں گے۔
مطیع سید: انصارکا ایک بچہ جنازے کے لیے لایا گیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ اس بچے کے لیے خوشخبری ہے کہ نہ اس نے کوئی گناہ کیا اور نہ وہ گناہ کو جانتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ نے جنت اور جہنم کو بنایا اور ان کے لیے لوگ بھی پیدا کیے جبکہ وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔ (کتاب السنۃ، باب فی ذراری المشرکین، حدیث نمبر ۴۷۱۳) یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔
عمارناصر: اس سوال سے متعلق حدیثوں میں اختلاف ہے۔ بعض میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جو مشرکین ہوئے، ان کی اولاد کا بھی وہی حکم ہے جو خود ان مشرکین کا ہے۔ اگر یہ اصول ہے تو اس میں اشکالات بہت زیادہ ہیں، لیکن یہ روایت اسی کے مطابق ہے۔ بعض دوسری روایات میں ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ کچھ اور روایات میں یہ آیا ہے کہ ایسے نابالغ بچوں کو قیامت کے دن آزمایا جائے گا کہ وہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں اور اس آزمائش کے مطابق ان کے انجام کافیصلہ کیا جائے گا۔ اب کیا حقیقت حال ہے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
مطیع سید: ایک ہیجڑا ازواج مطہرات کے پاس اور عام مسلمانوں کے گھروں میں آتا جاتاتھا۔ اس کی کسی بات کی وجہ سے آپ ﷺنے اسے علاقہ بدر کر دیا۔ کسی نے کہا کہ اس کو قتل کیوں نہ کر دیا جائے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں، وہ نماز پڑھتا ہے۔ (کتاب الادب، باب فی الحکم فی المخنثین، حدیث نمبر ۴۹۲۸) کیا وہ اگر نماز نہ پڑھتا ہوتا تو اسے قتل کر دیا جاتا؟
عمارناصر: نہیں، آپﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جب وہ مسلمان ہے تو اسے کیوں قتل کیا جائے؟ یہ کسی قانون کا بیان نہیں، بلکہ سوال کرنے والے کے سوال میں جو عجلت اور ناسمجھی ہے، اس پر متنبہ کرنے کا ایک انداز ہے۔
مطیع سید: آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نبوت کے مختلف حصوں میں سے اب صرف سچا خواب باقی رہ گیا ہے۔ (کتاب الادب، باب ما جاء فی الرویا، حدیث نمبر ۵۰۱۷) پھر یہ کشف، الہام، القا وغیر کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جس کا ذکر صوفیہ کرتے ہیں؟
عمارناصر: بعض اہل علم مثلاً غامدی صاحب اس کو بہت اطلاق پر رکھتے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ اب ختم نبوت کے بعد غیب سے کسی خبر یا اشارے کا امکان بس اچھے خواب کی صورت میں ہی باقی رہ گیا ہے۔ صوفیہ جو باقی چیزیں بیان کرتے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بظاہر الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں، لیکن اصل میں حدیث کا جو اسلوب ہے، اس پر اگر آپ غور کریں تو اس سے ایسا کوئی کلی ضابطہ اخذ نہیں ہوتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے مبشرات کا ذکر کیا اور اس کی مثال کے طورپر ایک چیز یعنی خواب کا ذکر کر دیا۔ تو اس سے اسی نوعیت کی جو کچھ دوسری چیزیں ہیں، ان کی نفی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ وہ بھی اس کے تحت آجاتی ہیں۔ اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے تو یہ حدیث کے الفاظ کے خلاف نہیں ہوگا۔
مثلاً حدیث جبریل میں آپ ﷺ نے واضح کیا کہ احسان کیا ہے؟ تو احسان تو ایک عمومی چیزہے، کسی عمل کے کرنے کے ایک رویے کا نام ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ آپ اللہ کی عبادت اس کیفیت میں کریں کہ گویا اس کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ ایک پہلو ہے جو مثال کے طورپر آپ نے بیان کردیا۔ یہ مراد نہیں کہ احسان کا تعلق اسی خاص معاملے اور اسی خاص صورت سے ہے۔ اسی اسلوب کو اگر اس روایت پر منطبق کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ نوعیت کے لحاظ سے نبوت کے اجزا میں سے مبشرات ہی رہ گئی ہیں۔ مبشرات وہ ہوتی ہیں جن میں انسان کو غیب کی کوئی خبر دے دی جائے۔ اس کی ایک شکل رویا صالحہ ہے اور باقی صورتیں بھی اسی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ نبوت کے دوسرے بنیادی خصائص مثلاً منصب یا معجزات وغیرہ دیا جانا، وہ ختم کر دیے گئے ہیں۔
مطیع سید: آپﷺنے کسی کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونے سے منع فرمایا، (کتاب الادب، باب فی قیام الرجل للرجل، حدیث نمبر ۵۲۳۰) لیکن ایک موقع پر حضرت سعد بن معا ذ کے متعلق فرمایا کہ اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔
عمارناصر: آپﷺ نے اصل میں اپنے لیے اس پروٹوکول سے منع فرمایا۔ آپﷺ اپنے لیے اس کو پسند نہیں فرماتے تھے، لیکن دوسروں کے متعلق منع نہیں کیا۔ حضرت سعد والا واقعہ ویسے اس مسئلے سے متعلق نہیں ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زخمی تھے اور انہیں سواری پر لایاگیا تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اٹھ کر ان کو سہارا دو اور اترنے میں ان کی مدد کرو۔
مطیع سید: جس نے بیری کا درخت کاٹا، اللہ اس کے سر کو دوزخ میں ڈال دے۔ (کتاب الادب، باب فی قطع السدر، حدیث نمبر ۵۲۳۹)
عمارناصر: عرب کے ریگزار میں بیری کے درخت سایے کا کام دیتے ہیں۔ تو کوئی آدمی بلا ضرورت فائدہ عامہ کی چیز کو کاٹ دے، اس پر وعید کی گئی ہے۔
مطیع سید: گھروں میں سانپ وغیرہ پائے جاتے ہوں تو ان کے بارے میں آپﷺ نے حکم فرمایا کہ ان کو تین دفعہ ڈراو اور پھر اس کے بعد بھی دکھائی دیں تو انھیں مار دو۔ (کتاب الادب، باب فی قتل الحیات، حدیث نمبر ۵۲۵۶) یہ شاید ان کے جنات ہونے کی وجہ سے فرمایا؟
عمارناصر: جی، اسی وجہ سے فرمایا۔ مراد یہ ہے کہ گھروں میں جو چھوٹے سانپ وغیرہ ہوتے ہیں، ان کو مارنے سے پہلے ان کو وارننگ دے دو۔ ممکن ہے، وہ جنات ہوں۔ اگر وارننگ کے بعد بھی گھر میں دکھائی دیں تو پھر ان کو مار سکتے ہو۔
مطیع سید: تو کیا جو گھروں سے باہر سانپ رہتے ہیں، ان کے جنات ہونے کا امکان نہیں ہوتا؟
عمارناصر: امکان تو ان کے متعلق بھی ہے، لیکن ماحول سے تھوڑا سا فرق پڑ جاتا ہے۔ اصل میں تو سانپ کے بارے میں آپ کو تجربے سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ موذی چیز ہے تو خطرہ محسوس ہونے پر اس کو آپ مار سکتے ہیں۔ جو گھروں میں رہ رہے ہیں اور گھر کے ماحول کا حصہ ہیں، ان کے بارے میں بھی یہی حکم ہے، بس ایک گونہ احتیاط بتائی گئی ہے کہ ان سے آپ کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو مارنے سے پہلے ان کو وارننگ دے دیں۔
مطیع سید: مباہلہ جس طرح نبی ﷺ کےدور میں تھا، کیا آج بھی اسی طرح کیا جا سکتا ہے؟
عمارناصر: محدثین ذکر تو کرتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھا اور آپ کے بعد آپ کی امت بھی ضرورت پڑنے پر مباہلہ کا طریقہ اختیار کر سکتی ہے، لیکن ہماری تاریخ میں صحابہ کے ہاں یا بعد کے دور میں اس کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کو اللہ تعالیٰ نے جو خاص آیات ِبینات دی ہوتی ہیں، اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ علامہ انور شاہؒ نے فیض الباری میں نقل کیا ہے کہ جب مرزا قادیانی کے دور میں یہ مباہلوں وغیرہ کا سلسلہ شروع ہو ا تو شیخ الہند مولانا محمود حسن اس پر سخت ناراض ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی اور آپ نے اس ہدایت پر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی تھی اور آپ ﷺ اگر ان کے خلاف دعا کر تے تو وہ اللہ کی طرف سے قبول ہو جانی تھی، لیکن اللہ کا عام قاعدہ یہ نہیں ہے۔ عام قاعدہ تو حق وباطل کے التباس اور آزمائش کاہے۔ شیخ الہند نے کہا کہ خدانخواستہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی آزمائش کے لیے اس مباہلے میں مرزا غلام احمد کو کامیاب کردیتےتو اس سے جن لوگوں کا ایمان جاتا، اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی؟ مولانا مودودی کے بعض مکاتیب میں بھی اسی طرح کی رائے ملتی ہے۔
مطیع سید: میرے ذہن میں بھی یہ الجھن تھی کہ اس طرح تو مباہلہ ہمارے ہاتھ میں حق و باطل میں فرق کا ایک یقینی پیمانہ بن جاتا ہے اور آزمائش کی ساری خدائی سکیم بے معنی ہو جاتی ہے۔
عمارناصر: جی بالکل، اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بنایا ہی نہیں۔
(مکمل)
وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے چند گذارشات
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
ملک میں حکومت تبدیل ہو گئی ہے اور جن مراحل سے یہ عمل گزرا ہے بلکہ ابھی گزر رہا ہے اس سے ہمارے اس معاشرتی مزاج کا ایک بار پھر اظہار ہوا ہے کہ ملک میں کوئی کام ہماری مرضی کے مطابق ہو رہا ہو تو وہ ہمارے خیال میں دستور کا تقاضہ بھی ہوتا ہے، شریعت کا حکم بھی ہوتا ہے، ملکی مفاد بھی اسی سے وابستہ ہوتا ہے، اور قومی سلامتی کا راستہ بھی وہی قرار پاتا ہے۔ لیکن وہی کام اگر ہمارے ایجنڈے، اہداف اور نقطۂ نظر سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اس سے سازش کی بو آنے لگتی ہے، قومی وحدت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ملکی سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے، اور دستور و قانون کے تقاضے پامال ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ عمومی مزاج ہمارے معاشرتی ماحول میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ اس سے ہٹ کر کسی اور لہجے میں سیاسی بات کرنے سے زبانیں ناآشنا ہو چکی ہیں۔
ہمارا سیاسی ماحول قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی بیرونی مداخلت کا شکار چلا آ رہا ہے جس کا آغاز پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کے دور میں ہو گیا تھا کہ ان کی بیرون ملک سرگرمیاں اور ان کے ذریعے غیر ملکی دخل اندازی کا تسلسل ان کی برطرفی کے لیے ایک عوامی تحریک پر منتج ہوا تھا، اور تب سے ہم کسی تعطل کے بغیر سیاسی، معاشی اور تہذیبی ہر سطح پر بیرونی سازشوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ سازشیں کامیاب بھی ہوتی ہیں اور ناکام بھی۔ بعض سازشیں بے نقاب ہو جاتی ہیں جبکہ بہت سی مخفی رہ کر اپنے مخصوص دائروں میں کام کرتی رہتی ہیں۔ یہ کھیل جاری ہے اور جب تک ہم بحیثیت قوم دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کے حقیقی ماحول کی طرف نہیں آتے یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہے گا، ایک دوسرے پر الزامات بھی لگتے رہیں گے، بلیک میلنگ بھی ہوتی رہے گی اور سیاسی خلفشار بار بار جنم لیتے رہیں گے کیونکہ ملک کو خودمختاری، سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور تہذیبی شناخت سے محروم کرنے والوں کا یہ ہتھیار ہمیشہ کارگر رہا ہے۔
اس تناظر میں موجودہ خلفشار اور سیاسی رسہ کشی کے واقعاتی پہلوؤں سے قطع نظر نئی حکومت بالخصوص وزیراعظم میاں شہباز شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے معروضی تقاضوں کے حوالے سے ہم کچھ گزارشات پیش کرنا چاہیں گے، اس امید کے ساتھ کہ وہ ان پر غور فرمائیں گے اور قومی پالیسی کے امور طے کرتے ہوئے ملک کے ایک بڑے طبقہ کی ان خواہشات کو بھی سامنے رکھیں گے:
- پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں موجودہ تبدیلی اور نئی حکومت کا قیام بہرحال دستوری طریقہ کے مطابق پارلیمنٹ کے ذریعے اور عدلیہ کی نگرانی میں ہوا ہے اور اس کی تکمیل کے مراحل اسی دائرہ میں طے پا رہے ہیں، جس میں دیگر ریاستی اور قومی اداروں کا مجموعی تعاون بھی جھلک رہا ہے جو بہرحال خوش آئند ہے۔ ہمارے خیال میں ملک کو دستور و قانون کے ٹریک پر رکھنے کا یہی طریقہ درست اور ضروری ہے۔ وزیراعظم سے گزارش ہے کہ ان کی حکومت جن مذکورہ ذرائع سے تشکیل پائی ہے اس ٹریک کو مضبوط کرنے اور اس کے تسلسل کو قومی مزاج کا حصہ بنانے کے لیے موثر عملی اقدامات کریں کہ اسی سے ملکی مفاد وابستہ ہے۔
- دوسری بات یہ ہے کہ قائد اعظم مرحوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر واضح طور پر کہا تھا کہ ہماری معیشت مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات پر استوار ہو گی، جو بدقسمتی سے ابھی تک نہیں ہو سکی۔ اور اس سلسلہ میں دستور کی واضح ہدایت اور عدالتِ عظمٰی کا دوٹوک فیصلہ بھی ہمیں اسلامی معیشت کے ٹریک پر لانے میں کامیاب نہیں ہوا اور ہم بدستور عدالتی اپیلوں اور کیسوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں تازہ معلومات کے مطابق وفاقی شرعی عدالت دو عشروں سے چلنے والے کیس پر سماعت مکمل کر کے ملک میں رائج سودی قوانین کے مستقبل کے بارے میں آئندہ دو چار روز میں کوئی حتمی فیصلہ سنانے والی ہے۔ وزیراعظم محترم سے ہماری درخواست ہے کہ اگر یہ فیصلہ دستورِ پاکستان، شرعی احکام اور عدالتِ عظمٰی کے سابقہ فیصلوں کی بنیاد پر قومی امنگوں کے مطابق سامنے آیا تو اسے قبول کر لیا جائے اور پھر سے اپیلوں کے چکر میں نہ پڑا جائے۔ یقیناً نظام کے تسلسل کے حوالہ سے مسائل پیش آئیں گے، انہیں فیصلہ کو نظر انداز کر کے اور اپیلوں کے چکر میں پڑ کر حل کرنے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ ان عملی مسائل کے حل کے لیے شریعت اور معیشت کے ماہرین اور دنیا کے دیگر ملکوں میں غیر سودی معیشت کا تجربہ کرنے والے اداروں کی مشاورت و تعاون سے حل کرنے کا راستہ نکالا جائے، اس سے اللہ تعالیٰ بھی راضی ہوں گے اور قوم بھی مطمئن ہو گی کہ ہم نے اس دلدل سے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔
- تیسری گزارش ہمارے نزدیک یہ ضروری ہے کہ آئی ایم ایف، سیڈا، فیٹف اور دیگر بیرونی اداروں کے کہنے پر ہم نے آنکھیں بند کر کے ان کے بھیجے ہوئے کچھ قوانین منظور و نافذ کر رکھے ہیں جس میں (۱) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی نگرانی آئی ایم ایف کے سپرد کر دینے کا عمل، (۲) مذہبی اوقاف کا قانون اور (۳) خاندانی نظام و قوانین میں ردوبدل کا ایکٹ سرفہرست ہیں۔ ان پر نظرثانی کا اصولی اعلان تو فوری طور پر کیا جائے جبکہ نظرثانی کے لیے وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے دستوری اداروں کے ساتھ ساتھ متعلقہ علمی و فکری حلقوں کو اعتماد میں لے کر عملی طریقہ کار بھی وضع کیا جائے۔
- جبکہ چوتھی گزارش یہ ہے کہ کشمیر، فلسطین اور افغانستان کی موجودہ صورتحال پر پاکستان کا مضبوط ردعمل اور کردار سامنے آنا ضروری ہے جس کے لیے امارتِ اسلامی افغانستان کو فوری طور پر تسلیم کیا جائے اور عالمِ اسلام کے اِن مسائل پر عالمی رائے عامہ بالخصوص مسلم امہ کو بیدار کرنے کی عالمی مہم کو ازسرنو منظم کیا جائے۔
عدالتی فیصلوں پر شرعی تحفظات کا اظہار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
وراثت کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی طرف ہم نے ملک کے اصحابِ علم کو ایک مراسلہ میں توجہ دلائی تھی جس پر علماء کرام کے ایک گروپ ’’لجنۃ العلماء للافتاء‘‘ نے فتوٰی کی صورت میں اظہار خیال کیا ہے اور اس پر مولانا عبد الستار حماد، مولانا عبد الحلیمم بلال، مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی، مولانا عبد الرحمٰن یوسف مدنی، مولانا سعید مجتبٰی سعیدی، مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر اور مولانا عبد الرؤف بن عبد الحنان کے دستخط ہیں۔ ان دوستوں کی کاوش پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم اس کی اہمیت و ضرورت کے حوالہ سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی مطالبات پر پاکستان میں قانون سازی اب زیادہ تر عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہو رہی ہے اور اس سے بہت سے شرعی قوانین خاموشی کے ساتھ متاثر ہوتے جا رہے ہیں، مثلاً
- قصاص کے قانون کو ختم کرنے کے بیرونی مطالبے پر قانون کو تبدیل کیے بغیر یہ طریق کار اختیار کر لیا گیا ہے کہ قصاص کے مقدمہ کے تمام مراحل مکمل ہو جانے حتٰی کہ رحم کی اپیل مسترد ہو جانے کے بعد بھی کسی کو پھانسی کی سزا نہیں دی جا رہی اور ایسا سالہا سال سے ہو رہا ہے۔
- نکاح و طلاق کے باب میں خلع کو مطالبہ طلاق کی بجائے طلاق کا نوٹس قرار دے کر خلع کی درخواستوں کو مسلسل اسی دائرہ میں نمٹایا جا رہا ہے جو اب عدالتی ماحول کا حصہ بن چکا ہے۔ اس میں خاوند کو طلب کیے بغیر اور اس کا موقف سنے بغیر یکطرفہ فیصلے ہو رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے خلع کا قانون عملاً تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔
- توہینِ رسالت کے قانون میں کوئی تبدیلی لائے بغیر اس کے مقدمہ کے اندراج کا پروسیجر بدل دیا گیا ہے جس سے قانون اپنے تقاضوں کے مطابق مؤثر نہیں رہا۔
- گزشتہ دنوں ایک اعلیٰ عدالت نے اٹھارہ سال سے کم عمر کی شادی کو مطلقاً ناجائز قرار دے دیا تھا جس پر ملی مجلس شرعی پاکستان کے تحت سرکردہ علماء کرام اور وکلاء کا مشترکہ موقف اس کالم میں ہم پیش کر چکے ہیں کہ یہ شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔
اس طرح شرعی قوانین کے متن میں کوئی تبدیلی لائے بغیر عدالتی فیصلوں اور پروسیجر کی تبدیلی کے ذریعے ملک میں نافذ شدہ اسلامی قوانین میں عملی ترامیم کا سلسلہ جاری ہے جس پر ذمہ دار علماء کرام کو کم از کم اپنی رائے کا اظہار ضرور کرنا چاہیے تاکہ ان مسائل پر شرعی موقف عوام کے سامنے آتا رہے۔ ہماری گزارش ہے کہ تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء کرام کو اس صورتحال پر سنجیدہ توجہ دے کر شریعت اسلامیہ کی علمی و دینی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دینے کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ جبکہ مشترکہ طور پر موقف کی تشکیل اور اس کے اظہار کے لیے ملی مجلس شرعی پاکستان سب کی خدمت میں حاضر ہے۔
’’سوال
حال ہی میں عدالتِ عظمٰی نے خواتین کی وراثت سے متعلق یہ فیصلہ جاری کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی وراثت سے حصہ لے لیں، بعد میں ان کی اولاد اس کا دعوٰی نہیں کر سکتی۔ اس فیصلے پر مفتیان کرام کی طرف سے شرعی تبصرہ اور بروقت اظہار رائے کرنا بہت ضروری ہے۔ (ابو عمار زاہد الراشدی)
جواب
الحمد للہ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔
قرآن حکیم میں ہے ’’للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدین والاقربون مما قل منہ او کثر نصیباً مفروضاً‘‘ (النساء ۷) ’’آدمی کے لیے حصہ ہے اس جائیداد میں سے جو اس کے والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں۔ اسی طرح عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس ترکہ سے جو والدین یا قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ زیادہ ہو یا کم ہو، یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔‘‘
ہمارے ہاں معاشرتی روٹین یہ ہے کہ عورتوں کو حصہ دیا ہی نہیں جاتا، اگر دیا جاتا ہے تو پھر قطع تعلقی کر دی جاتی ہے۔ عورتیں بسا اوقات اس لیے بھی خاموش رہتی ہیں کہ اگر میں نے اپنا حصہ لے لیا تو میرے بھائی مجھ سے قطع تعلقی کر لیں گے۔ لہٰذا خاموشی کا مطلب دستبرداری سمجھنا درست نہیں بلکہ ان کا جو حق بنتا ہے وہ دینا چاہیے۔ اگر ایسی حالت میں وہ معاف بھی کر دے تو پھر بھی معاف نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ابھی تک تو وہ اس کی مالک ہی نہیں بنی تو معاف کیسے کر سکتی ہے؟ پہلے اس کو مالک بنا دیا جائے، اس کو ہر قسم کے پریشر اور دباؤ سے آزاد کیا جائے، پھر وہ اپنی مرضی اور خوش دلی سے کچھ دن گزرنے کے بعد دے دیتی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
صورتِ مسئولہ میں عدالت کا فیصلہ درست نہیں ہے کہ اگر کوئی خاتون زندگی میں اپنا حصہ وصول نہیں کر سکی تو اس کا حصہ ختم ہو جائے گا۔ جب اللہ نے اس کا حصہ مقرر کیا ہے تو کس اصول کے تحت اسے روکا جا سکتا ہے؟ لہٰذا وہ حصہ اسی کا ہے اور جس کے پاس بھی پڑا ہے اس کے پاس بطور امانت ہے، جسے ادا کرنا ضروری ہے۔ خاتون کی وفات کے بعد وہ بطور وراثت اس کی اولاد کو منتقل ہو جائے گا جس کا وہ مطالبہ کر سکتے ہیں، لہٰذا عدالتِ عظمٰی کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔‘‘
امپورٹڈ قوانین اور سیاسی خلفشار
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(پاکستان شریعت کونسل کے ایک مشاورتی اجلاس کے بارے میں پیش کی گئی معروضات)
- امارت اسلامیہ افغانستان کو باقاعدہ تسلیم کیے بغیر باہمی تعلقات کو معمول کی سطح پر نہیں لایا جا سکتا جو دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنے اور علاقائی امن کے فروغ کے لیے لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہم نئی حکومت کو یاددہانی کے طور پر یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی ڈکٹیشن پر منظور کیے گئے ایسے امپورٹڈ قوانین پر نظرثانی ناگزیر ہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس دستور کے تقاضوں اور شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں کیونکہ یہ ہماری قومی خودمختاری کے لیے سوالیہ نشان ہیں اور ان سے بہرحال گلوخلاصی کرانا ہوگی۔
- پاکستان شریعت کونسل کی جدوجہد کا میدان علمی و فکری ہے اس لیے حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی کشمکش اور انتخابی سیاست سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے، البتہ ہمارا ایجنڈا واضح ہے کہ (۱) ملک کی نظریاتی اساس (۲) دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات (۳)قومی خود مختاری (۴)بیرونی مداخلت کی روک تھام، اور (۵) مسلم تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کے لیے پاکستان شریعت کونسل گزشتہ تین عشروں سے اپنی استطاعت کے دائرے میں مانیٹرنگ اور کوتاہیوں کی نشاندہی کا فریضہ سر انجام دیتی چلی آ رہی ہے، اور ہمارا یہ کردار آئندہ بھی اسی طرح ان شاء اللہ تعالی جاری رہے گا۔
- موجودہ سیاسی خلفشار اور اس کے اسباب و نتائج پر ہم پوری نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس قسم کے خلفشار کی فضا کو قائم رکھنا عالمی اور مقامی سیکولر لابیوں کا مستقل ایجنڈا ہے، جس کے لیے مختلف دائروں کے جو لوگ استعمال ہو رہے ہیں ان پر نظر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ اس فضا میں دو باتیں کسی حد تک ہمارے لیے اطمینان کا باعث ہیں:
- ایک یہ کہ ساری خرابیوں کے باوجود آئینی طریقہ کار مسلسل آگے بڑھ رہا ہے جس کے لیے عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ دیگر ریاستی ادارے تعاون کر رہے ہیں۔ ملک کو سیاسی خلفشار سے نجات دلانے کا یہی راستہ صحیح ہے اور تمام اداروں حلقوں اور طبقات کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
- دوسری بات قابلِ اطمینان یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کا کردار اس میں قائدانہ ہے، جو ایک نظریاتی سیاسی جماعت ہے اور دستورِ پاکستان کی تشکیل اور نفاذِ شریعت کی جدوجہد میں اس کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔ ہم اس پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور پاکستان شریعت کونسل کے مقاصد کے دائرے میں انہیں بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام، بالخصوص بائیس متفقہ دستوری نکات اور دستورِ پاکستان کی تشکیل میں کردار ادا کرنے والے دیگر دینی حلقے اور نظریاتی جماعتیں بھی آگے آئیں اور قومی خود مختاری، نفاذِ شریعت اور مسلم تہذیب کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
- پاکستان کو سیاسی فکری معاشی اور تہذیبی خلفشار کی دلدل میں دھکیلنے والے عالمی اور مقامی سیکولر حلقوں کی سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں، ہم ان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ان خواہشات میں ہمیشہ کی طرح ان شاء اللہ تعالی اب بھی ناکام ہوں گے اس لیے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اسلامی نظام مسلم تہذیب اور قومی خودمختاری کے ساتھ شعوری وابستگی رکھتی ہے اور اس کے لیے پہلے کی طرح ملک کے عوام اب بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
- کشمیر اور فلسطین کے نہتے عوام پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں اور عالمی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ اور مسلم حکومتیں دنیا بھر میں اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ دینے کے بجائے قابض قوتوں اور ظلم ڈھانے والوں کو خاموش حمایت فراہم کر رہی ہیں، جو قابل مذمت ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کم از کم یہ کردار ضرور ادا کرتے رہنا چاہئے کہ مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کی مذمت میں آواز بلند کرتے رہیں اور یہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند حلقوں کی ذمہ داری ہے۔
صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہ
ڈاکٹر شہزاد اقبال شام
گزشتہ شمارے میں امریکی ریاستوں میں کم عمری کی شادی کی کم سے کم عمر پر گفتگو مکمل ہو گئی تھی. آج یورپی دنیا کا مختصر جائزہ لینا پیش نظر ہے۔ ممکن ہے، قارئین کو اس طوالت میں اکتاہٹ محسوس ہو، تاہم اس کا مقصد مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے۔ یوں یہ معلوم ہو سکے گا کہ دنیا بھر میں اس معمولی حیثیت کے اور غیر اہم مسئلے کو پاکستان اور مسلم دنیا میں ”انتہائی اہم“ مسئلہ بنانے کا سبب آخر ہے کیا؟
تمام یورپ میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے، سوائے اسکاٹ لینڈ کے، جہاں زوجین کے لیے 16 سال عمر ہے۔ پھر بتا دوں کہ قانونی عمر وہ ہوتی ہے جس پر فرد آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے شادی کر سکتا ہے۔ اسے والدین، معاشرے یا ریاست کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہتی۔ قانونی عمر سے کم شادی کی عمر (وہی صغرسنی)مختلف یورپی ممالک میں مختلف ہے جہاں عدالت، والدین اور سماجی کارکن کی مرضی سے شادی ممکن ہوتی ہے۔ 48 یورپی ممالک میں سے 24 ممالک میں عدالتی رضا مندی پر شادی کی کم از کم عمر 16 سال ہے۔ والدین کی رضامندی سے مشروط ایسے ممالک کی تعداد 6 ہے۔ اینڈورا (Andorra) میں عدالتی رضامندی پر شادی کی عمر 14 سال ہے۔ لیتھوانیا میں یوں 15 سالہ عمر میں شادی ممکن ہے۔ ترکی میں یہ عمر 17 سال ہے۔ لیکٹنسٹائن (Liechtenstein)، بلجیم، فن لینڈ، فرانس، یونان، آئس لینڈ، لکسمبرگ اور سلوونیا میں شادی کی کم از کم کوئی عمر نہیں ہے۔ ان ممالک میں کہیں والدین کی رضامندی پر عدالتی منظوری درکار ہوتی ہے۔کہیں عدالتی منظوری ہی اصل ہوتی ہے اور والدین کو محض سنا جاتا ہے۔ کہیں والدین کے ساتھ سماجی کارکن کا کردار بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود مذکورہ آٹھ ممالک میں شادی کی کم از کم عمر کی کوئی زیریں حد نہیں ہے۔
ادھر اپنے ملک میں بعض حلقوں کا ایک ہی واویلا رہتا ہے کہ کم از کم عمر 18 سال کی جائے۔ والدین، غربت، معاشرتی مسائل اور والدین کا کوئی خاص ذاتی مسئلہ ان لوگوں کے نزدیک مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ بہت پہلے ایک دن میں گھومتے گھومتے اینٹوں کی بھٹی پر جا نکلا۔ مرد و زن غربت کا بدنما اشتہار بنے کام میں جتے ہوئے تھے۔ دیکھا بارہ پندرہ سالہ لڑکا لڑکی کام کے ساتھ ساتھ باہم اٹھکیلیاں بھی کر رہے ہیں۔ ایسے لگا کہ ان کی لگاوٹ معاشرتی قدروں کو پامال کر رہی ہے۔ان کے بزرگوں سے استفسار کیا تو معلوم ہوا۔ "جی، دونوں میاں بیوی ہیں۔" فقیہانہ جستجو "کیوں" کی طرف لے گئی، پتا چلا پورا خاندان برادری اس بیگار پر لگا ہوا ہے۔ ان دونوں خالہ زادوں کی لگاوٹ جب معاشرتی اقدار کی بیرونی سرحد کے قریب جا پہنچی تو بزرگوں نے یوں فیصلہ کیا: ”جب ان دونوں نے ابھی چوری چھپے اور بعد میں یہی کچھ کرنا ہے تو کیوں نہ ان کی شادی کر دی جائے، تو صاحب جی ہم نے ان کی شادی کر دی۔“ کچھ دیر تک تو میں سٹپٹا کر رہ گیا۔ ہمت کر کے گفتگو کو انٹرویو کی شکل دے ڈالی۔
”پولیس یا کسی اور نے آپ کو پکڑا نہیں؟“
جواب ملا:
”جی وہ! وہ جی ہم نے ان کی شادی دھوم دھام (یہی الفاظ تھے) سے کی تو ادھر ادھر سے بہت لوگ آئے۔ بڑے داروغہ جی تو نہیں آئے، پر تھانہ محرر خود تشریف لائے تھے۔ پھر صاحب جی! ایک ہفتے بعد ایک ویگن میں فیشنی عورتیں اور چند مرد اچانک آ دھمکے پہلے ہماری تصویریں بنائیں۔ پھر دولہا دلہن سے کچھ باتیں پوچھیں جب وہ اپنی مرضی کے سب کام کر چکے تو ہمیں دھمکانے لگے کہ یہ شادی غیر قانونی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اشارے سے ہمیں کہا تم لوگ جاؤ اپنا کام کرو۔ ہم بے سوچے سمجھے کام میں جُت گئے۔ رات کو چاچا تاج ولی کہنے لگے، او نیک بختو! سمجھا کرو، شادی تو غیر قانونی ہو گئی، دوپہر کا مرغن کھانا سب ویگن والوں نے ٹھیکہ دار کے ڈیرے پر مزے لے کر کھایا۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو میں ہاتھ جوڑے، دھوتی سنبھالے ان کی ایک بڑی دھانسو قسم کی لیڈر عورت کے آگے جا کھڑا ہو گیا۔ نخوت سے بولی: بابا ، جلدی بولو، ہمیں دیر ہو رہی ہے، کیا بات ہے؟ میں غریب کیا کہتا، یہ ضرور کہا میم جی! ہم ٹھیکہ دار کے زر خرید غلام ہیں۔ جب تک ہمارا قرضہ نہیں اترتا، ہم، ہمارے بچے، عورتیں، بوڑھے، بیمار سب ان کے غلام ہیں۔ میم جی ہم نے ریڈیو پر سنا تھا کہ بچوں سے مشقت کرانا بھی جرم ہے۔ میم جی، ہم نے سوچا شاید آپ نے ٹھیکہ دار سے اس بارے میں کچھ پوچھا ہو۔ آپ نے پولیس سے کوئی بات کی ہو تو ہمیں بتا دیں، وہ کیا جواب دیتی، منہ بنائے دفع ہو گئی۔ اب جاؤ تم سب اپنا اپنا کام کرو۔ یہ کہہ کر چاچا کروٹ بدل کر سو گیا۔“
تھوڑا حساب کیا تو اندازہ ہوا کہ صغرسنی کی شادی کی مخالف این جی او اور اس پر واویلا کرنے والے اداروں کو سال بھر کام سے روک کر ان کے مالی وسائل چائلڈ لیبر کے خاتمے پر لگائے جائیں، ان ”فیشنی عورتوں“ کے سیمینار بند کر کے وسائل اینٹوں کی صنعت میں غلامانہ زندگی بسر کرنے والوں کے قرض اتارنے میں لگا دیئے جائیں تو ہزاروں خاندان ٹھیکہ داروں سے نجات حاصل کر کے آزاد زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور تمام مغربی دنیا جب صغر سنی کی شادی پر وہی نقطہ نظر رکھتی ہے جو ہمارے علما کا ہے تو پاکستان میں اس کے خلاف واویلا کرنے والوں کا مقصد کیا ہے؟ یہ ”فیشنی عورتیں“ اور ان کے ساتھی چاہتے کیا ہیں؟ مسئلہ کیا ہے؟ یہ سمجھ لیا جائے تو کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ ان لوگوں کی تاریں ہلانے والوں نے اور غیر ملکی کرنسیوں میں وسائل فراہم کرنے والوں نے فی الحقیقت ہمارے علما اور دینی طبقے کو ایسے کام میں لگا رکھا ہے جس کا سرا کبھی کسی کو نہیں ملے گا۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ یہ کام عشروں سے ہو رہا ہے۔ صغرسنی کی شادی پر علما کے شرعی دلائل پر الجھن کی شکار ایک نسل تیار ہو کر معاشرتی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے تو ان لوگوں کے سیمینار بابت صغر سنی انہی دلائل پر ویسے ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ اب ان کا ہدف اگلی نسل ہوتا ہے۔ دلائل کا جواب اور جواب الجواب علما کرام کی طرف سے اب بھی اسی مواد پر مشتمل ہوتا ہے جو نصف صدی سے ہمارے دینی طبقے کا اثاثہ ہے۔ یوں الجھن کی شکار ایک اور نسل تیار ہو کر معاشرے میں ضم ہو چکی ہوتی ہے۔ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔
جہاں تک میں سمجھا ہوں اور شاید درست ہی سمجھا ہوں گا کہ اس مشق کا مقصد یہ ہے کہ ایک عام شخص اور نوعمر لڑکے لڑکی کے ذہن میں صغر سنی کی شادی کے حوالے سے سیرت طیبہؐ کا جو عمومی نقش ہے، اس پر خراشیں ڈال کر نبی اکرم ؐ کی ذات والا صفات کے بارے میں شکوک و شبہات کو عام کیا جائے۔ میری پیشگی معذرت قبول ہو، اس کام میں مال پیسہ بنانے والے تو کچھ کما رہے ہیں لیکن ہمارے علما نادانستگی میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو مدمقابل لوگوں کے غیر ملکی آقائے ولی نعمت چاہتے ہیں۔ یہ لوگ عورت کی صحت، ہجوم آبادی، غربت اور پرورش اطفال جیسے رنگین لبادوں میں دلائل کا رُخ صغر سنی کی شادی کی طرف کرتے ہیں تو سامعین اور قارئین بڑی حد تک ان کے ہمنوا بن چکے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے ذہن میں سیرت طیبہ جھلملانا شروع ہو جاتی ہے۔جواب میں علما کی طرف سے ان لوگوں جیسے عقلی دلائل نہیں آتے۔ علما اور دینی طبقے کی دلیل وہی ایک نکاتی رہتی ہے کہ اسوۃ حسنہ ہمارا چراغِ راہ ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن کچے ذہن، خام فکر اور جاہلیت جدیدہ کی تعلیم سے آراستہ یہ نسل ان مذکورہ سیمیناروں کی اسیر ہو چکی ہوتی ہے ؎
مسمریزم کے عمل میں دہر اب مشغول ہے
مشرق و مغرب میں اِک عامل ہے اک معمول ہے
مخصوص اسکولوں میں تعلیم پانے والے یہ شاہیں بچے چند ہی سالوں میں زاغ و شپرک (کوے چیلیں) بن کر شام کو KFC اور میکڈونلڈ نوچ رہے ہوتے ہیں۔ چند سالوں میں ہنس کی چال چلتے چلتے یہ کوے جب کالج یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں تو آراستہ و پیراستہ ہالوں اور ریستورانوں میں مرغن پکوانوں کے ساتھ اب نئے شکاری سیمیناروں کے پھول گجرے لیے ان کا استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ذہن میں وہ کچھ انڈیلتے ہیں کہ ؎
جسم و جاں کیسے کہ عقلوں میں تغیر ہو چلا
تھا جو مکروہ اب پسندیدہ ہے اور مقبول ہے
دین اور سیرت طیبہ پر اس مخلوق کا علم بمنزلہ صفر ہوتا ہے۔ ایسے عالم میں ایک طرف سے اس کچے ذہن پر بذریعہ سیمینار عورت کی صحت، غربت، ہجوم آبادی، پرورش اطفال، بے روزگاری کے دلائل کی گولہ باری ہو رہی ہو اور دوسری طرف سے، اللہ معاف کرے، نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر، رخصتی کس عمر میں ہوئی۔ جی ایک روایت میں …… جی ایک اور روایت میں جس کی سند متصل ہے …… اور ساتھ رسولؐ اللہ کی عمر، پھر دونوں کی عمروں کا موازنہ، صاحب ! یہ کچھ کسے سمجھ آئے گا؟ محترم علمائے کرام! یہ دلائل اسی ذہن میں قرار پکڑ سکتے ہیں جو ان مصطلحات، اس محاورے، اس روزمرہ سے آشنا بلکہ ان کا رمز آشنا ہو۔ آپ کو پھر یاد دلائے دیتا ہوں کہ حضرت موسیٰ ؑنے سنپولیوں کا مقابلہ اژدہے سے کیا تھا، سانپ سنپولیوں کے مقابلہ میں ایک بڑا اژدھا۔
کم سنی کی شادی کے مخالف عدالتی ذہن کو عہدِ حاضر کی اس کی اپنی زبان میں جواب دیا جانا چاہیے۔ جسمانی اعتبار سے دو عاقل بالغ افراد کو مغربی دنیا اتنی آزادی دیتی ہے کہ اسکولوں میں لڑکے لڑکیاں کچھ بھی کریں آزاد ہیں، استاد مداخلت کرے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سزاوار! ارے بھئی ہم ملا بھی تو یہی کچھ کہتے ہیں بلکہ ہمارا کہا ہوا زیادہ وزن رکھتا ہے۔ تمہارے ہاں لڑکا اپنا کام مکمل کرنے کے بعد مطلقاً آزاد۔ آثار و باقیات سمیٹے تو لڑکی اور اس کے والدین، بھلا کیوں؟ ہم ملا کہتے ہیں اس حیوانی تعلق کو انسانی عہدو پیمان میں ڈبو کر لڑکے کو ذمہ دار بناؤ،جس کا طریقہ نکاح ہے، بولو جواب دو ! عورت کو ہم حقوق د ے ر ہے ہیں یا تم؟۔ کیا فرمایا، کم سن بچی کی شادی معمر مرد سے؟ ارے امریکہ یورپ میں ہر سال ایسی ہزاروں شادیاں ہوتی ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر ہوتی ہیں اور ابتدائے آفرینش سے ہو رہی ہیں۔ محترم علمائے کرام میری عاجزانہ رائے میں اس انسانی مسئلے کے لیے وہی دلائل وضع کیا کریں جو مخالفین کی اپنی دنیا کے ہیں۔ سیرت طیبہ میں سے دلائل کی دنیا الگ ہے جو کچے ذہنوں میں جگہ نہیں پکڑ سکتے۔ امید ہے، علمائے کرام ان معروضات پر غور کریں گے۔ ورنہ یہ عمل محرم راز خالق کائنات کی سیرت پر خراشیں ڈالنے کا موجب بنے گا۔ محرم راز خالق کائناتؐ کا دفاع اس طریقے سے تو نہیں ہو سکتا۔
کوشش کی جائے گی کہ آئندہ کبھی اس مسئلے کے دوسرے پہلو پر بھی گفتگو کی جائے۔
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۵)
ڈاکٹر شیر علی ترین
(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا دوسرا باب — اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ)
شاہ اسماعیل کا علمی وفکری سرمایہ
اصلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل نے انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان کی انتہائی اہم کتابیں سپرد قلم کیں۔ انھوں نے فقہ، کلام، منطق، سیاسیات اور تصوف کے متعدد موضوعات اور علوم پر کتابیں لکھیں1۔ مزید برآں انھیں عوام کے لیے سہل ومقبول اور خواص اہل علم کے لیے مشکل اور دقیق کتابیں لکھنے میں غیرمعمولی مہارت حاصل تھی۔ اس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ شاہ اسماعیل کی کلامی، فقہی اور سیاسی فکر کو زیر بحث لاتے ہوئے ان کی تمام پیچیدگیاں قارئین کے سامنے رکھی جائیں۔ میں ان کی شدید متنازع کتاب "تقویۃ الایمان" کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ ساتھ سیاست شرعیہ سے متعلق ان کی نسبتاً کم مشہور کتاب "منصبِ امامت" اور سنت وبدعت سے متعلق ان کی کتاب "ایضاح الحق" پر بھی روشنی ڈالوں گا۔ ان کے فکری ورثے پر وسیع غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر چسپاں کیے گئے "سادہ فکر سلفی" کے لیبل کے برعکس وہ ایک باریک بیں اور نکتہ رس مفکر ہیں۔ شاہ اسماعیل کی فکر کو منفرد بنانے والے تضادات، تناقضات اور ابہامات کا نقشہ کھینچنا بھی اس کتاب کے مقاصد میں شامل ہے۔ ضخیم اور متنوع علمی کاوشوں کے باوجود عہد حاضر میں شاہ اسماعیل کے متعلق کوئی بحث ان مناظرانہ جھنجھٹوں سے جان نہیں چھڑا سکتی جو ان کی سوانح حیات کا جُزوِ لاینفک ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں بریلوی اور دیوبندی مسالک کے پیش روؤں کے درمیان کش مکش نے ان کی شخصیت کو مزید تقسیم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بہت سی مناظرانہ بحثوں کا مرکزی موضوع شاہ اسماعیل کے چند شدید متنازعہ بیانات ہیں۔
درحقیقت برصغیر (اور بسا اوقات برصغیر سے باہر بھی) کے سنی مسلمانوں کے درمیان چپقلشوں کے مناظرانہ پس منظر میں شاہ اسماعیل کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کے متعلق ان کے حامی اور مخالف دونوں اپنی آرا میں یکساں شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی میں اور بعد میں بھی شاہ اسماعیل کے حامیوں بالخصوص دیوبند کے پیش روؤں کے نزدیک وہ ایک عظیم مصلح تھے جنھوں نے مسلم ہندوستان میں ایک شدید دینی زوال کے وقت میں اصلاح کا علم بلند کیا2۔ ان کے نزدیک شاہ اسماعیل ایک ایسا نجات دہندہ تھے جنھوں نے بیک وقت عوام اور اہل علم دونوں کے دلوں میں خالص توحید کی دھاک بٹھا دی۔
اس کے برعکس ان کے مخالفین کے نزدیک وہ ایک قابل اعتراض فکر کے مالک تھے جنھوں نے نبی اکرم ﷺ اور دیگر اولیاے کرام کی اہانت کرکے ہندوستان میں پہلی بار سنیوں کے درمیان نفرت کا بیج بویا۔ عہد حاضر کے مشہور بریلوی عالم یاسین اختر مصباحی نے اسے یوں بیان کیا ہے: "اگر اسلام کو شاہ اسماعیل کے معیارات پر جانچا جائے تو ہندوستانی تاریخ کے گزشتہ پانچ سو سال کے مسلمانوں کی اکثریت کافر ٹھہرتی ہے۔ تقویۃ الایمان کی اشاعت سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کے دو گروہ تھے: شیعہ اور سنی۔ ان کے گمراہ کن ایجنڈے کے نتیجے میں سنی معاشرہ لاتعداد گروہوں اور دھڑوں میں تقسیم ہو گیا3"۔ شاہ اسماعیل کے مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے حضور اکرم ﷺ کی دینی حیثیت کو گھٹایا اور مقدس رسوم وروایات کے تقدس کو پامال کیا۔ نوآبادیاتی اور آج کے ہندوستان کے گہرے مناظرانہ ماحول میں شاہ اسماعیل پر ان کے مخالفین اولین "ہندوستانی وہابی" کا لیبل چسپاں کرتے ہیں4۔ مزید برآں ان کے مخالفین کی کوشش ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ کے سلسلے سے ان کا تعلق کاٹ دیں۔ وہ انھیں طنزیہ انداز میں ولی اللہی خاندان کی کالی بھیڑ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جو اس لائق بھی نہیں کہ اسے عالم کہا جائے۔
مثال کے طور پر عہد حاضر کے ایک بریلوی مناظر سید محمد نعیم الدین نے جس تحقیر آمیز اور طنزیہ انداز میں شاہ اسماعیل کی نوجوانی کا رویہ بیان کیا ہے، اسے ایک بار ملاحظہ فرمائیں:
"شاہ اسماعیل اپنے اساتذہ کے لیے باعث عار تھا۔ وہ ہمیشہ گھر کے کام سے غافل رہتا، درس میں خلل ڈالتا اور اپنے نامعقول اور باغیانہ رویے کی وجہ سے دوسرے طلبہ کے لیے بھی انتشار کا سبب بنتا۔ اس کا بنیادی مشغلہ پتنگ بازی، جسمانی ورزش اور وقت کا ضیاع تھا۔ اپنے غرور وتکبر کی وجہ سے شاہ اسماعیل اپنے خاندان کے بڑوں بالخصوص اپنے ممتاز چچا شاہ عبد العزیز کے لیے ہمیشہ پریشانی کا سبب بنتا۔ یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ دیوبندی علما نے شاہ ولی اللہ کے خاندان میں سے ان کے سب سے نالائق بندے کو اپنا مذہبی رہ نما چُنا، جب کہ اس خاندان کے دیگر عالی مقام اصحابِ علم سے اغماض برتا"5۔
مذکورہ بالا بیان میں موجود مبالغے سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کی زندگی میں شاہ اسماعیل کی اصلاحی سرگرمیوں نے ان کے خاندان کے معزز حنفی علما کے لیے اضطراب کا کافی سامان پیدا کیا تھا۔ مثال کے طور پر مسلم ہندوستان میں حنفی روایات کے برعکس شاہ اسماعیل نے نماز میں رفع یدین کے عمل کی تبلیغ وتائید کی۔ یہ عمل ہندوستان کے حنفی اور غیر مقلد اہل علم کے درمیان شدید متنازع تھا۔ جب اسماعیل کے چچا شاہ عبد العزیز کو خبر ملی کہ ان کا بھتیجا اس عمل کی تائید کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے تنازع جنم لے رہا ہے تو انھوں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں۔ وہ میری نہیں سنے گا"6۔ شاہ عبد العزیز نے اپنے چھوٹے بھائی شاہ عبد القادر سے کہا کہ اسماعیل کو سمجھائے کہ وہ غیرضروری مسائل کھڑے نہ کریں۔ شاہ عبد القادر نے جواب میں کہا: "جیسے آپ کا حکم! لیکن وہ میری بھی نہیں سنے گا، بلکہ وہ جواب میں حدیثیں پیش کرنے لگے گا"7۔ پھر شاہ عبد القادر نے یہ کام اپنے بیٹے اور اسماعیل کے چچا زاد شاہ محمد یعقوب دہلوی (جن کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے) کے ذمے لگایا۔
شاہ یعقوب نے شاہ اسماعیل سے بات کی اور انھیں رفع الیدین جیسے اشتعال انگیز مسائل کونہ چھیڑنے کی نصیحت کی۔ جیسا کہ ان کے چھوٹے چچا نے پیش گوئی کی تھی، شاہ اسماعیل نے جواب میں حدیث کا حوالہ دیا۔ انھوں نے شاہ یعقوب سے کہا: "اگر عوام کے فتنے کا خیال کیا جائے تو اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا کہ جو کوئی میری امت کے فساد کے وقت میری سنت پر عمل کرے تو اسے سو شہیدوں کے برابر اجر ملے گا8۔ کیونکہ جو کوئی سنت متروکہ اختیار کرے گا، عوام میں ضرور شورش ہوگی"۔ شاہ اسماعیل کا جواب سن کر شاہ عبد القادر نے آہ بھر کر کہا: "بابا ہم تو سمجھے تھے کہ اسماعیل عالم ہوگیا، مگر وہ تو ایک حدیث کا مطلب بھی نہیں سمجھا۔ یہ حکم تو اس وقت ہے جب کہ سنت کے مقابل خلافِ سنت ہو، جب کہ اس مسئلے میں سنت کا مقابل خلافِ سنت نہیں بلکہ ایک دوسری سنت ہے، کیونکہ جس طرح رفع الیدین سنت ہے، اسی طرح ارسال بھی سنت ہے"9۔
ایک تخیلاتی حکومت کے قیام کی جدوجہد
شاہ اسماعیل کی علمی وفکری زندگی کے علاوہ ان کی سعی وجہد اور سوانح کا کافی حصہ خیبر پختون خوا (جسے پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا جاتا تھا) میں سکھوں کے خلاف 1826 سے لے کر 1831 تک شمالی ہندوستان کی تحریکِ مجاہدین سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ ایک مرکزی تھے۔ سید احمد کی دل آویز شخصیت کے زیرِ سایہ شاہ اسماعیل اور دیگر پانچ سو علما اور عوام نے سکھوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، تاکہ اس خطے کے پختون مسلمانوں کو سکھا شاہی ظلم وجبر سے نجات دلائیں۔ تحریکِ جہاد کے تصور نے اغوا کی ایک الم ناک داستان سے جنم لیا تھا۔ جب سید احمد 1819 میں رام پور میں تھے تو افغانستان سے کچھ پشتون لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے ایک دل خراش داستان سنائی جس نے سید احمد کا دل دہلا دینے کے ساتھ انھیں برافروختہ بھی کر دیا۔ پنجاب میں سفر کرتے ہوئے یہ پشتون اپنی پیاس بجھانے کی خاطر ایک کنویں کے پاس رک گئے۔ انھوں نے کنویں پر چند سکھ خواتین کو کام کرتے دیکھا۔ ہندوستانی زبانوں سے ناواقفیت کی بنا پر انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے ان سے پانی مانگا۔ انھیں ابتدا میں حیرت اور بعد میں دہشت کا دھچکا لگا جب ان عورتوں نے ادھر ادھر دیکھ کر یہ اطمینان کر لیا کہ کوئی انھیں دیکھ نہیں رہا اور پھر پشتو میں گفتگو شروع کر دی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سکھ نہیں بلکہ مختلف قبائل اور علاقوں کی افغان خواتین ہیں جنھیں سکھ اغوا کرکے پنجاب میں لائے ہیں اور یہاں وہ ان کی داشتاؤں کی حیثیت سے رہ رہی ہیں۔ "اے سید احمد! ان عورتوں کو کفر سے بچانے کے لیے کچھ کیجیے"، ان افغانوں نے التجا کی۔ "ان شاء اللہ میں جلد ہی سکھوں کے خلاف جہاد کا آغاز کروں گا"10، سید احمد نے بھرپور تیقن کے ساتھ جواب دیا۔
سید احمد سے متعلق سوانحی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساری زندگی بالخصوص ٹونک میں قیام کے دوران عسکری تربیت کے ذریعے جہاد کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ سکھ اور پشتون مسلمانوں پر ان کی مبینہ ظالمانہ حکومت نے انھیں ایک ٹھوس ہدف مہیا کیا کہ وہ اپنی زندگی بھر کی تربیت کو روبعمل لا سکیں۔ اس مقصد کے لیے سید احمد کے مرکزی معاونین اور منصوبہ ساز شاہ عبد العزیز کے دو رشتہ دار تھے: ان کے بھتیجے شاہ محمد اسماعیل اور ان کے داماد عبد الحی بڈھانوی۔ اسماعیل اگر ایک شعلہ بیان مقرر اور زبردست عسکری کمانڈر تھے تو اس کے برعکس عبد الحی زیادہ تر تنہائی پسند تھے جن کی خاموش اور ساکن طبیعت کی وجہ سے وہ سید احمد کے بنیادی سیاسی مشیر اور منصوبہ ساز کی حیثیت سے بطور خاص مناسب ٹھہرے11۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، عبد الحی بھی ایک نمایاں حنفی عالم تھے اور ان کی وجہ سے ایک ایسے مشن کے مسلکی تنوع میں اضافہ ہوا جس میں ایک اچھی خاصی تعداد غیر مقلدین (جو چاروں فقہی مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے) کی تھی۔
جو راستہ ان مجاہدین نے اختیار کیا، وہ جدید قومی ریاست کی سرحدات اور حدود کا پابند نہیں تھا۔ وہ شمالی ہندوستان میں واقع راے بریلی سے گوالیار، اجمیر اور راجستھان کے علاقے ٹونک سے ہوتے ہوئے سندھ میں حیدر آباد اور شکار پور تک اور بلوچستان میں درۂ بولان سے ہوتے ہوئے قندھار تک پہنچے، جہاں سے وہ کابل اور بالآخر درۂ خیبر کے رستے سے پشاور پہنچے۔
پشاور اور اس کے گرد ونواح (بالخصوص پنجتار) میں قیام کے دوران سید احمد نے نہ صرف دہلی اور شمالی ہندوستان کے علما اور عمائدین سے، جن کے ذریعے انھیں اس مہم کے لیے نقدی اور افرادی قوت کی رسد مل رہی تھی، بلکہ پورے افغانستان اور وسطی ایشیا کے سیاسی قائدین اور قبائلی زعما کے ساتھ بھی براہ راست رابطہ رکھا۔ ان کی اور ان کی بالائی قیادت کی اس مہم کے بارے میں کیا خیالات تھے؟ شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے کردار، مشن اور دائرۂ کار کو ان لوگوں کے سامنے کیسے پیش کر رہے تھے جن سے وہ اپنی تائید اور امداد کا مطالبہ کر رہے تھے؟
سید احمد نے ہرات کے سلطان شاہ محمد کو ایک خط لکھا تھا جس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک جہاد کے ابتدائی دور کا ہے، جس میں ان چند سوالات کے جوابات کی طرف رہ نما اشارے ہیں12۔ سید احمد نے تحریک جہاد کی غرض وغایت اور تناظر کو اس انداز میں واضح کیا ہے: "جہاد کرنا اور فتنہ وفساد کو فرو کرنا ہر زمان ومکان میں ایمان کے اہم ترین ارکان میں سے ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب اہل کفر کی شورش اور سرکشی اپنی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔ شعائر دین مسخ ہو گئے ہیں، اور سلاطین اسلام کی حکومتیں برباد ہو گئی ہیں۔ ہندوستان کے تمام علاقوں سمیت سندھ وخراسان میں ایک عظیم فتنہ برپا ہو چکا ہے۔ اس دوران سرکش کافروں کے استیصال میں غفلت برتنا اور فسادی باغیوں13 کے کچلنے میں سستی کرنا عظیم معصیت اور بدترین گناہ ہے"14۔
اس خط میں کئی چیزیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ، جیسا کہ میں باب نمبر ۴ میں شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر پر بحث کے دوران نسبتاً زیادہ تفصیل سے واضح کروں گا، سید احمد نے جہاد کو جواز دینے کے لیے جس تباہی کا حوالہ دیا ہے، اس میں بجاے مسلمانوں کے علاقے چھن جانے کے شعائر دین کے پا مال ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ان کی نظر میں عوامی دائرے میں اسلام کا کردار اور مسلمانوں کی شناخت سیاسی اقتدار یا کسی علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے برابر یا اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ دوسری یہ کہ سید احمد کی جانب سے آزادی کا مطالبہ کرنے والے علاقوں میں سندھ اور خراسان کو، جسے وہ بار بار اپنے خطوط میں دہراتے ہیں، شامل کرنے کے دو مطلب ہیں۔ پہلا یہ کہ ان کے خیال میں تحریکِ جہاد ایک بین الاقوامی مہم تھی جو کسی مخصوص علاقے بالخصوص برطانوی ہندوستان تک محدود نہ تھی۔ اور دوسرا یہ حکمتِ عملی پر مبنی اقدام تھا جس کا مقصد ان علاقوں کے سیاسی اشرافیہ کو یہ یقین دلانا تھا کہ یہ تحریک مجاہدین سے کہیں زیادہ ان کے اپنے حق میں ہے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کی ہمدردی، توجہ اور تعاون حاصل کیا جائے۔
درحقیقت اپنے خطوط میں سید احمد نے بار بار بڑی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک طرف ایک مذہبی قائد (امام) کی حیثیت سے خود کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں جو صرف ایک شرعی حکومت کا قیام چاہتا ہے، جب کہ دوسری طرف اپنے آپ کو ایک سیاسی حاکم (سلطان) کی حیثیت سے الگ رکھا ہے جو موجودہ حکم رانوں اور ان کی حکومت کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اصل میں اس میں دور اندیشی سے زیادہ اپنے سیاسی مقاصد کے بارے میں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں گردش کرنے والی چہ میگوئیوں کو ٹالنے کا محرک نمایاں تھا۔ مثال کے طور پر شاہ محمود کے نام اسی خط کے آخر میں، اور دیگر افغان وپختون سرداروں کے نام خطوط میں انھوں نے اپنے دائرۂ کار کی وضاحت کچھ یوں کی ہے: "چوں کہ اہل کفر وفساد کے خلاف جہاد نصبِ امام کے بغیر ناممکن ہے، اس لیے نامور (مقامی) علماے دین نے میرے ہاتھ پر بیعت کی، اور مجھے اپنا امام بنا لیا، خطباتِ جمعہ بھی میرے نام سے پڑھے جاتے ہیں"۔ یہ تمہید باندھنے کے بعد وہ اصل بات پر آتے ہیں: "دینی امامت اور دنیوی سلطنت کے مناصب کے درمیان بہت بڑا فرق ہے"15۔
اپنے مخاطب کو مزید یقین دہانی کی خاطر لکھتے ہیں: "ایک مذہبی قائد (امام) کی تعیناتی کا مقصد صرف جہاد کرنا اور بغاوت وفساد کو دبانا ہے، نہ کہ ملکوں وشہروں کو نوآباد کرنا اور ضلعوں وعلاقوں پر قبضہ جمانا"۔ سید احمد نے اپنی بات ایک دل چسپ بیان پر ختم کی: "امام اور اس کے متبعین بذات خود مقصود نہیں ہوتے، بلکہ ان کا مقصد حکومت وسلطنت کو اس کے حق داروں تک واپس لوٹانا ہوتا ہے"16۔ سید احمد نے انتقالِ اقتدار کی اس مدت کو غیرحتمی اور مبہم چھوڑ دیا۔ تاہم ایک امام کی حیثیت سے اپنے مذہبی وسیاسی اقتدار کو سیاسی حکم رانوں کے اقتدار سے ممتاز کرنے کی کوشش سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطے کے بااثر افراد کی تائید حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ ان کے دعوی اقتدار کو چیلنج نہ کریں۔
ابتدا میں بظاہر یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔ کچھ عسکری فتوحات کے بعد، جس کے نتیجے میں خطے سے سکھوں کی پسپائی ہوئی، 1827 میں سید احمد کو مقامی سیاسی اور مذہبی عمائدین کی تائید سے امیر المؤمنین بنایا گیا۔ پشاور میں یوسف زئی قبیلے نے بطور خاص انھیں خوش آمدید کہا۔ اپنے خطوط اور تقریروں میں سید احمد اور شاہ اسماعیل دونوں اپنے نئے ماحول کو بلاد/دیار/اوطانِ یوسف زئی سے یاد کرتے ہیں17۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت وتائید میں اضافہ ہوتا گیا اور دیگرعلاقوں جیسے سوات، ننگرہار، بونیر اور پکھلی سے مختلف قبائل جیسے آفریدی، خٹک، مہمند، خلیل کے لوگ بھی شامل ہونے لگے۔ تاہم جس انداز سے سید احمد اپنے خطوط میں اپنی تحریک اور کردار کا دفاع کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دائرۂ کار کے حوالے سے مسلسل شکوک وشبہات جنم لے رہے تھے۔ مثال کے طور پر پشاور کے ایک بااثر قبائلی رہ نما یار محمد خان تھے جن کے ساتھ سید احمد کے تعلقات میں کئی نشیب وفراز آئے اور بالآخر شدید تلخی میں بدل گئے۔ ان کے نام1827 سے لے کر 1830 کے درمیان اپنے ایک خط میں اس نمائشی التجا کو ملاحظہ کریں: "میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں"، سید احمد نے پرزور انداز میں کہا: "میری دعوتِ جہاد اور کفر وفساد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہونا پوری سچائی اور دیانت کے ساتھ دولت، مقام ومرتبہ، شہرت، س