2022

جنوری ۲۰۲۲ء

پرتشدد مذہبی بیانیے: خود احتسابی کا وقتمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۴)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ سنن ابی داود (۱)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۶)مولانا سمیع اللہ سعدی 
خاندانی نظام اور سیڈا معاہدہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
افغانستان کا بحران اور ہمارا افسوسناک طرزعملمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
سیالکوٹ کے واقعے پر علماء کرام کا متفقہ اعلامیہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱)ڈاکٹر شیر علی ترین 

پرتشدد مذہبی بیانیے: خود احتسابی کا وقت

محمد عمار خان ناصر

(سیالکوٹ میں ہجوم کے ہاتھوں سری لنکن شہری کے  قتل کے پس منظر میں  اس موضوع پر سوشل میڈیا پر پیش کی گئی معروضات)

توہین مذہب کے الزام پر کسی کو مار دینے کے واقعات میں وقفہ جتنا کم ہوا ہے، اس پر معاشرتی ردعمل اور اخلاقی مذمت کی قوت میں بجائے اضافے کے کمی ہوئی ہے۔ ایک معمول کا اظہار افسوس ہر واقعے پر دکھائی دیتا ہے، اور پھر اگلے کسی واقعے کا لاشعوری انتظار ہونے لگتا ہے۔ اگر یہ مشاہدہ درست ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے نے نفسیاتی طور پر اس عمل کو نارملائز کر لیا ہے۔

نارملائزیشن میں کسی نئے مظہر کے بار بار اعادے اور تکرار کی وجہ سے انسانی نفسیات اسے ایک طرح سے قبول کر لیتی اور اس پر کوئی غیر معمولی ردعمل دینے کا داعیہ کھو دیتی ہے۔ نارملائزیشن، ہمیشہ معاشرتی حساسیتوں کے ایک بنے ہوئے سانچے میں ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ سانچہ، انصاف کے ایک معاشرتی قدر نہ ہونے اور گروہی جانبداریوں کو عملا فیصلہ کن اصول کی حیثیت سے قبول کرنے سے بنا ہے۔ اس سانچے میں جب نارملائزیشن ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ معاشرتی ضمیر ایسے واقعات کو برا سمجھنا چھوڑ دیتا ہے، بلکہ اسے برا سمجھتے ہوئے یہ قبول کر لیتا ہے کہ جیسے اور سارے معاملات میں گروہی جانبداریاں عملا نتائج کو طے کر رہی ہیں، یہاں بھی کرتی ہیں۔ اگر طاقت کے زور پر ہر گروہ اپنے مجرموں کو بچا لے جاتا ہے تو توہین مذہب کے معاملے میں بھی گروہوں کی عصبیت جاگ اٹھتی ہے اور وہ مجرم کے خلاف قانونی کارروائی نہیں ہونے دیتے۔ ان کے ضمیر کو مطمئن کرنے کے لیے سو یہ کافی ہوتا ہے کہ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، ہر معاملے میں یہی ہو رہا ہے۔

پھر کچھ گروہ اس سے آگے بڑھ کر یا تو ایسے اقدامات کو جواز یا کم سے کم حسن نیت اور مذہبی جذبے کی رعایت دینے لگتے ہیں۔ یوں ایسے گروہوں کی اصل قوت خود ان کی تعداد نہیں، بلکہ وہ عمومی سانچہ ہوتا ہے جس میں اکثریت ایسی چیزوں کو نفسیاتی طور پر نارملائز کیے بغیر کوئی چارہ نہیں پاتی۔ اس معاملے کی اصل سنگینی اس پہلو سے ہے جو ہماری نظر میں ہونی چاہیے۔


توہین رسالت پر داروگیر کا سوال قرآن میں بھی زیر بحث آیا ہے، تاہم اس کی صورت موجودہ مذہبی موقف سے بالکل مختلف ہے۔ سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے اس گروہ کو تفصیل سے موضوع بنایا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم، آپ کے اہل خانہ اور عام مسلمان خواتین کو مسلسل اسکینڈلائز کرنے کی مہم میں مصروف تھا اور مسلمان سماج کو اجتماعی اذیت میں مبتلا کیے ہوئے تھا۔ قرآن مجید نے ان کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دنیا وآخرت میں خدا کی لعنت کے سزوار ہیں۔ انھیں چاہیے کہ اپنی روش سے باز آ جائیں، اور اگر اس تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے تو پھر اے پیغمبر، ہم آپ کو حکم دیں گے کہ ان کے خلاف آپریشن کریں، اور پھر یہ لوگ مدینے میں رہنے نہیں پائیں گے، بلکہ جہاں ملیں گے، ان کو پکڑ کر قتل کر دیا جائے گا۔

اس ہدایت میں قرآن نے بتایا ہے کہ یہ معاملہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے شریعت کا یعنی فقہی اصطلاح میں "حدود" کا نہیں، بلکہ سیاست شرعیہ کا معاملہ ہے۔ کوئی ایک یا چند افراد کیا، اگر پورا ایک گروہ بھی توہین رسالت کو باقاعدہ ایک مہم بنا کر مسلمانوں کے درپے آزار ہو تو اسے تنبیہ کی جائے گی، زجر وتوبیخ اور دوسرے تعزیری اقدامات سے اپنی روش بدلنے پر مجبور کیا جائے گا اور پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کے خلاف آخری اور انتہائی اقدام کر کے اس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔

توہین رسالت کے جرم کو قذف کی طرح حدود کے زمرے میں شامل نہ کرنے اور اسے سیاست شرعیہ سے متعلق قرار دینے میں گہری دینی حکمتیں مضمر ہیں۔ اسلام ایک دعوتی مذہب ہے اور عقلی ونفسي استدلالات کی بنیاد پر اپنی دعوت کو پیش کرتا ہے۔ وہ قرآن اور پیغمبر، دونوں کی حقانیت کو عقل وفطرت کے دلائل پر پرکھنے کے لیے پیش کرتا ہے اور ہر طرح کے اشکالات واعتراضات کا انھی کی روشنی میں جواب دیتا ہے۔ دوسری طرف وہ لوگوں کے مسلمہ موروثی عقائد کو چیلنج کرتا اور انھیں کفر وشرک قرار دیتے ہوئے لوگوں کو ان سے تائب ہونے کی دعوت دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں شدید مخالفانہ ردعمل کا پیدا ہونا ایک فطری انسانی رویہ ہے اور اس ردعمل کو صبر وتحمل کے ساتھ گوارا کرتے ہوئے حکمت کے ساتھ دعوت دین کو پیش کرتے رہنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں جو ایک دعوتی مذہب اختیار کر سکے۔ اگر اسلام اپنی پہلی ترجیح دعوت کے فروغ کے بجائے ناموس رسالت کے تحفظ کو بناتا اور مسلمان ہر گستاخ رسول کے ساتھ لڑنے بھڑنے اور مرنے مارنے کو اپنی اولین ایمانی ذمہ داری بناتے تو تاریخ میں اس کا ذکر مکے میں پیدا ہونے والے چند "شرپسندوں" کے الفاظ میں ملتا اور بس۔ یہ ترجیحات کا حکیمانہ تعین تھا جس نے اسلام کو ایک نہایت مخاصمانہ صورت حال سے، جس میں ہمہ وقت پورا معاشرہ توہین رسالت کا مرتکب ہو رہا تھا، نبرد آزما ہونے کی طاقت بخشی اور پرامن طور پر دنیا میں پھیلنے والا عالمی مذہب بنا دیا۔

پس توہین رسالت سے متعلق قرآن کی ہدایت یہی ہے کہ جس معاشرے میں مسلمان اصلا غیر مسلموں کے سامنے دعوت دین پیش کرنے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہوں، وہاں ایسے مخالفانہ رویوں پر صبر اور اعراض سے کام لیں اور اشتعال ظاہر کر کے دعوت کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔ اور جہاں ان کے پاس سیاسی طاقت ہو اور کوئی بدنہاد گروہ اپنے خبث باطن کے اظہار سے مسلمان جماعت کے احساسات وجذبات کو مجروح کرنے پر تلا ہوا ہو، وہاں پہلے مرحلے میں تنبیہ وتوبیخ سے اسے باز رکھنے کی کوشش کریں اور کسی بھی معقول طریقے سے اس میں کامیابی نہ ہو اور انتہائی اقدام کے بغیر اس فتنے سے گلوخلاصی ممکن نہ دکھائی دیتی ہو تو پھر ریاستی طاقت استعمال کر کے اس کی بیخ کنی کر دیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:

’’کفار کی گستاخیوں پر مسلمانوں کو بے حد غصہ آتا تھا۔ وہ نامعقول یہ کرتے تھے، اس سے بڑھ کر اور کیا گستاخی اور موجب غیظ ہوگا۔ خیال کیجیے ، مسلمانوں کو کس قدر ناگوار ہوتا ہوگا کہ جان لینے اور جان دینے کو تیار ہو جاتے ہوں گے، مگر اتنی بڑی گستاخی اور ایسے سخت موجب غیظ پر حق تعالیٰ کی تعلیم سنیے۔ فرماتے ہیں:

لتبلون فی اموالکم وانفسکم الی قولہ وان تصبروا وتتقوا فان ذلک من عزم الامور۔

یعنی جان اور مال میں تمہاری آزمائشیں ہوں گی اور مشرکین اور اہل کتاب سے اذیت کی باتیں سنو گے۔

اس کی تفسیر میں مفسرین نے یہی واقعہ لکھا ہے کہ وہ اپنے اشعار میں مسلمانوں کی بیویوں کا نام لے کر اظہار تعشق کرے تھے۔ اتنی بڑی غیظ وغضب کی بات سننے کے بعد فرماتے ہیں: ان تتقوا وتصبروا۔ الخ۔ اگر تم صبر کرو اور بچو (یعنی جہالت کی باتوں سے) تو یہ بڑی عزیمت کی بات ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: وقل لعبادی یقول التی ھی احسن۔ میرے بندوں سے فرما دیجیے کہ وہ نرم بات کہا کریں۔ ان الشیطان ینزغ بینہم۔ شیطان درمیان میں جھڑپ کرانا چاہتا ہے۔ جب جھڑپ اور لڑائی ہوگی تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ دونوں طرف سے عداوت بڑھ جائے گی۔ بے شک شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے۔

یہ حق تعالیٰ کی تعلیم تھی۔ اب حدیث سنیے۔ کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کو بجائے محمد کے مذمم کہتے تھے۔ اب خود ہی اندازہ کر لیجیے کہ ایسے سخت الفاظ سن کے مسلمانوں کا کیا حال ہوتا ہوگا، مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی سخت بات کو مسلمانوں کے دلوں سے کیسا ہلکا کیا۔ فرماتے ہیں: انظروا کیف صرف اللہ عنی الخ۔ یعنی دیکھو، شتم قریش کو خدا نے مجھ سے کیسے ہٹا لیا۔ وہ شتم اور لعنت کرتے ہیں مذمم کو اور میں تو محمد ہوں (میرا نام محمد ہے، مذمم نہیں۔ وہ مذمم کو برا کہہ رہے ہیں نہ کہ محمد کو)۔

اگرچہ مذمم سے نیت ان کم بختوں کی حضور کی گستاخی کی تھی، مگر حضور ہمارے غیظ وغضب کو ہلکا کرنے کے لیے فرماتے ہیں کہ میاں، یوں دل کو سمجھا لیا کرو کہ ہمارے حضور مبارک کا نام ہے ہی نہیں۔

بہرحال وہ حق تعالیٰ کی تعلیم تھی اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے۔ جب جہل کے مقابلے میں بھی خدا اور رسول کو خشونت پسند نہیں تو مناظرہ میں کب پسند ہوگی۔‘‘ (التبلیغ ج ۲۰ ص ۱۶۶۵)


مذہبی انتہاپسندی کی موجودہ صورت حال کے ذمہ دار عوامل کے حوالے سے ہمارے ہاں  ایک سے زیادہ بیانیے موجود ہیں جن پر واضح طور پر فکری ونظریاتی تقسیم کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے واقعات کو مختلف بیانیے اپنی اپنی پوزیشن اور اپنے مجوزہ حل کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثلا موجودہ صورت حال میں، ایک طبقے نے مذہب کو، دوسرے نے مذہبی طبقوں اور علماء کو، تیسرے نے مقتدر طبقوں کی پالیسیوں کو اور چوتھے نے قیام پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا اور، بالترتیب، ان چاروں مظاہر کے ’’بندوبست " کو مسئلے کا حل قرار دیا۔   مذہبی طبقے نے صورت حال کی ذمہ داری مغرب میں ہونے والے واقعات، عالمی سیاسی دباو، ہماری حکومتوں کے طرز عمل اور مقامی لبرل بیانیوں پر عائد کی۔ اس نکتے پر اشتراک کے باوجود  خود مذہبی حلقوں میں بھی تین الگ الگ پوزیشنز اس موقع پر واضح طور پر سامنے آئی ہیں۔

ایک پوزیشن ان زیادہ تر غیر سیاسی اہل علم کی ہے جنھوں نے اس واقعے کو بنیادی طور پر ایک انسانی واخلاقی مسئلے کے طور پر دیکھا اور بالخصوص مذہب کے سوء استعمال کے پہلو سے یہ مناسب سمجھا کہ مذہبی نمائندوں کی حیثیت سے سری لنکا کے ہائی کمشنر سے مل کر تعزیت کریں اور یوم مذمت منانے کا اعلان کریں۔

دوسری پوزیشن اس مذہبی سیاسی طبقے کی ہے جس نے اس واقعے سے مذہبی طبقوں پر آنے والے دباؤ کو سیاسی زاویے سے دیکھا اور اس دباؤ میں مزید اضافے کی پیش بندی کرنا چاہی۔ مولانا فضل الرحمن نے اسی نقطہ نظر سے واقعے کی مذمت کو بین الاقوامی حالات اور حکومتی پالیسی وغیرہ سے نتھی کر دیا، اور اسی حلقے کی طرف سے علماء کے ہائی کمشنر سے تعزیت کے عمل پر تحفظات بھی ظاہر کیے گئے۔

تیسری پوزیشن تحریک لبیک اور ان کے ہمدردوں کی ہے۔ اگرچہ سیالکوٹ کے واقعے سے ٹی ایل پی نے ایک بیان کے ذریعے سے لاتعلقی ظاہر کی ، لیکن وہ اپنے پھیلائے ہوئے "لبیک لبیک" اور "من سب نبیا فاقتلوہ" کی اس عوامی تعبیر سے خود کو اصولی طور پر اور دوٹوک انداز میں الگ کرنے کی سیاسی طور پر متحمل نہیں۔

واقعے سے پیدا ہونے والی دکھ اور رنج کی کیفیت مدھم ہونے کے بعد یہ تمام بیانیے اپنے اپنے استدلال کے ساتھ اسی طرح میدان میں موجود ہیں جیسے پہلے تھے۔ اگر اس خاصے واقعے میں مذہبی طبقے کو دفاعی پوزیشن لینا پڑی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیانیوں کی مساوات (equation) میں کوئی خاص تبدیلی آ گئی ہے۔ اگر خدا نخواستہ کوئی اور واقعہ ایسا رونما ہو گیا جو مخالف بیانیوں کے لیے کسی پہلو سے ناسازگار ہو تو صورت حال الٹ ہو جائے گی اور مذہبی بیانیہ ایک مرتبہ پھر خود کو assert کرنے کی پوزیشن میں آ جائے گا۔

کیا یہ معاملہ اسی طرح چلتا رہے گا اور کسی اجتماعی فکری یکسوئی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں؟ ہمارے خیال میں، ایسا نہیں ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ ان مختلف بیانیوں کے استدلال کے معروضی تجزیے کا عمل زیادہ گہرائی کے ساتھ جاری رہے تا آنکہ اجتماعی قومی دانش ان سب بیانیوں میں موجود جزوی صداقتوں اور استدلال کے وزن کو جانچتے ہوئے بتدریج ایک ایسا متوازن بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے جسے قوم کی مجموعی تائید حاصل ہو اور مختلف انتہائیں، عملا اسی متوازن بیانیے کی پابندی پر مجبور ہو جائیں۔ ایک طویل عمل سے پیدا کیے گئے بگاڑ کو راتوں رات سدھارا نہیں جا سکتا۔ ایک متوازن اور متفقہ قومی بیانیے تک پہنچنے میں ابھی کئی صبرآزما مراحل پیش آنے والے ہیں، لیکن ان شاء اللہ آخر قوم اس تک پہنچ ہی جائے گی۔


نومبر کے آخر میں  جامعہ محمدی شریف چنیوٹ اور اقبال عالمی مرکز برائے تحقیق ومکالمہ (IRD) کے زیر اہتمام "دینی نظام تعلیم اور جدید فکری مباحث" کے عنوان پر ایک ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا تو جدید معاشرے میں مذہب اور اہل مذہب کو درپیش صورت حال کا ایک جائزہ پیش کیا گیا اور "مذہبی علمی روایت کو کیا کرنا چاہیے" کے علاوہ دو باتیں ایسی عرض کیں جو اہل مذہب کو نہیں کرنی چاہییں، یعنی اس حوالے سے موجودہ رویے اور حالت میں بہت سنجیدگی سے بہتری لانے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ان دو باتوں کے ساتھ ایک اور بات بھی شامل کر لی جائے تو یہ تین اہم باتیں بن جاتی ہیں جو مذہب کی پوزیشن اور کردار کو الٹا کمزور کرنے اور نقصان دینے کا موجب بن رہی ہیں۔

پہلی یہ کہ جدید ذہن کے ساتھ گفتگو کے لیے اپنے عصری علم اور فہم کو اس سے بہت بہتر سطح پر لانے کی ضرورت ہے جو اس وقت ہے۔ جدید ذہن کے، مذہب سے عدم اطمینان کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ مذہبی علم اور مذہبی فہم کے متعلق علمی پس ماندگی کا تاثر بہت مستحکم ہے جو کلیتاً‌ تعصب پر مبنی نہیں، بلکہ مذہبی علم وفہم کے عمومی طور پر دستیاب نمونے اس کو کافی جواز مہیا کرتے ہیں۔ ناقص علم اور پس ماندہ ذہن کی بات کو قابل توجہ نہ سمجھنا انسان کا ایک فطری رویہ ہے۔ ناقص فہم اور غیر مستند علم کے ساتھ کسی موضوع پر مذہب کا دفاع کرنے سے کلی احتراز کی ضرورت ہے۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ آدمی سردست ضبط سے کام لے اور صحیح معلومات اور بہتر استدلال کی جستجو میں لگ جائے۔

دوسری چیز مذہبی اخلاقیات کی صورت حال ہے۔ انسانوں کی اکثریت کے لیے مذہب، عقل اور استدلال کی راہ سے نہیں، بلکہ روحانی طلب کی تشفی اور عملی اخلاقیات کے راستے سے اپیل پیدا کرتا ہے۔ مذہب ایک سماجی ادارے کے طور پر اگر انھی اخلاقیات سے دوری کا مظہر بن جائے جن کا مذہبی تعلیم پرچار کرتی ہے تو یہ اولاً‌ اہل مذہب سے لیکن مآلاً‌ خود مذہب سے دوری کا سبب بن جاتا ہے۔ علمی اور فکری پچھڑے پن کی صورت حال میں اہل مذہب، معیاری اخلاقیات کا نمونہ ہی معاشرے میں زندہ رکھ سکیں تو یہ کوئی معمولی خدمت نہیں ہوگی۔

تیسری چیز جس کا میں اضافہ کرنا چاہتا ہوں، وہ پرتشدد مذہبیت ہے۔ یہ رویہ ایک ہاری ہوئی اور خود کو شدید خطرے میں محسوس کرنے والی نفسیات کا مظہر ہے۔ اس نفسیاتی حالت میں گروہ تشدد کو اپنی شناخت کی حفاظت یا درپیش خطرے کو ٹالنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت میں وہ خود اپنی تباہی کے سفر کو تیز کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ تیسری بات اس لحاظ سے پہلی دو باتوں سے بھی اہم ہے کہ پہلی دو کمزوریوں کی اصلاح کرنا یا نہ کرنا خود اہل مذہب کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس تیسری کمزوری کو ٹھیک کرنے کے لیے معاشرہ اہل مذہب کا انتظار نہیں کرے گا اور نہ مزید انھیں اس کا موقع دے گا کہ وہ خود اس کو ٹھیک کر لیں۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۴)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(291) استثناء منقطع کی ایک مثال:

سورۃ الشعراء کی درج ذیل آیتوں میں جن دو گروہوں کا ذکر ہوا ہے، انھیں عام طور سے شعرا کے دو گروہ مان کر تفسیر کی گئی ہے اور اسی کے مطابق ترجمہ کرتے ہوئے الّا کا ترجمہ استثناء متصل والا کیا گیا ہے۔اس ترجمہ و تفسیر کے مطابق ان آیتوں میں عام شعرا کی مذمت کی گئی ہے اور ایمان والے شعرا کو ان سے مستثنی کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہ شعرا کے دو گروہوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ متبعین کے دو گروہوں کا ذکر ہے۔ ایک گروہ شاعروں کے متبعین کا ہے اور دوسرا گروہ ایمان لانے والوں یعنی اللہ کے رسول کے متبعین کا ہے۔ اس طرح گویا دونوں کے متبعین کا کردار سامنے لاکر یہ واقعاتی شہادت پیش کی گئی ہے کہ رسول پر شاعر ہونے کا الزام غلط ہے کیوں کہ رسول کے متبعین قطعی طور پر اس سے بالکل مختلف کردار کے حامل ہیں جو شاعروں کے متبعین کا کردار ہوتا ہے۔ اس تفسیر کے بعد یہ بحث از خود ختم ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید میں بالاطلاق شعرا کی مذمت کی گئی ہے۔

اس تفسیر کی روشنی میں دیکھیں تو ان آیتوں میں شاعر بھی بس وہی مراد ہیں جنھیں لوگ اپنا مقتدا مانتے تھے۔ ان شاعروں کے پاس وحی کی ہدایت موجود نہیں تھی مگر وہ اپنے اوپر الہام ہونے کا دعوی کیا کرتے تھے۔ ابن عاشور کے بقول: وکان بین الکھانۃ والشعر جامع فی خیال المشرکین إذ کانوا یزعمون أن للشاعر شیطاناً یملی علیہ الشعر وربما سموہ الرَّءِیّ۔ مشرکوں کے تصور میں کہانت اور شاعری میں قدر مشترک یہ تھی کہ ان کے گمان کے مطابق شاعر کو شیطان کی طرف سے اشعار کا القا کیا جاتا تھا۔ چنانچہ جو گم راہی، بے راہ روی اور اخلاقی پستی ان شاعروں میں تھی، وہی ان کے متبعین میں بھی دیکھی جاسکتی تھی۔ غرض درج ذیل آیتوں میں ایسے شاعروں اور ان کے متبعین کی مذمت کی گئی ہے، نفس شاعری کی مذمت نہیں کی گئی ہے۔

اس وضاحت کے بعد درج ذیل آیتوں کے ترجمے اور خاص طور سے الّا کے ترجمے پر غور کریں:

وَالشُّعَرَاءُ یَتَّبِعُہُمُ الْغَاوُونَ۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّہُمْ فِی کُلِّ وَادٍ یَہِیمُونَ۔ وَأَنَّہُمْ یَقُولُونَ مَا لَا یَفْعَلُونَ۔ إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَکَرُوا اللَّہَ کَثِیرًا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَیَعْلَمُ الَّذِینَ ظَلَمُوا أَیَّ مُنقَلَبٍ یَنقَلِبُونَ۔ (الشعراء: 224تا 227)

”رہے شعراء، تو ان کے پیچھے بہکے ہوئے لوگ چلا کرتے ہیں۔ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے ہیں۔ اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو کرتے نہیں۔ بجز اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ کو کثرت سے یاد کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو صرف بدلہ لے لیا، اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”بس وہ اس سے مستثنیٰ ہیں جو ایمان لائے“۔(امین احسن اصلاحی)

”سوائے ان کے جو ایمان لائے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”مگر جو لوگ ایمان لائے“۔ (فتح محمد جالندھری)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں: ”نہ کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور اور جنہوں نے نیک عمل کیے“۔۔۔الخ یعنی ایسے لوگ شعرا کی اتباع کرنے والے نہیں ہوتے ہیں۔

بالفاظ دیگر دوسرا گروہ پہلے گروہ سے مستثنیٰ نہیں ہے بلکہ دونوں بالکل الگ الگ دو گروہ ہیں۔

(292) ذکری کا ترجمہ

مذکورہ ذیل لفظ ذکری کو عام طور سے لوگوں نے علت یا مفعول لہ مان کر ترجمہ کیا ہے:

وَمَا أَھلَکْنَا مِن قَرْیَۃٍ إِلَّا لَہَا مُنذِرُونَ۔ ذِکْرَیٰ وَمَا کُنَّا ظَالِمِینَ۔ (الشعراء: 208،209)

”(دیکھو) ہم نے کبھی کسی بستی کو اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے خبردار کرنے والے حق نصیحت ادا کرنے کو موجود تھے اور ہم ظالم نہ تھے“۔ (سید مودودی)

”ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا ہے مگر اسی حال میں کہ اس کے لیے ڈرانے والے تھے نصیحت کے طور پر اور ہم ظلم کرنے والے نہیں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

ذکری کو منذرون کی علت بنانے سے مفہوم ٹھیک سے واضح نہیں ہوتا ہے، انذار کے اندر تو خود نصیحت کا مفہوم ہوتا ہے، پھر اس کے بعد ذکری لانے سے کیا فائدہ ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں ذکری، منذرون کی علت نہیں ہے بلکہ ایک مستقل جملہ ہے، جس میں مبتدا محذوف ہے اور خبر مذکور ہے، یعنی ھذہ ذکری۔ ترجمہ ہوگا:

”ہم نے کبھی کسی بستی کو اِس کے بغیر ہلاک نہیں کیا کہ اُس کے لیے خبردار کرنے والے موجود تھے، یہ ایک یاد دہانی ہے، اور ہم ظالم نہ تھے“۔

درج ذیل ترجمے میں بھی اسے مستقل جملہ مانا گیا ہے، البتہ ذکری کو مصدر منصوب اور اس کے فعل کو محذوف مانتے ہوئے:

”نصیحت دیتے ہیں ہم“۔ (شاہ رفیع الدین)

اسی طرح درج ذیل ترجمے میں بھی اسے مستقل جملہ مانا گیا ہے مگر ماضی کا ترجمہ کیا گیا ہے:

”اور ہم نے کسی بستی کو ہلاک نہیں کیا مگر یہ کہ اس کے لیے ڈرانے والے بھیج دیے تھے یہ ایک یاد دہانی تھی اور ہم ہرگز ظلم کرنے والے نہیں ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

لیکن ماضی کا ترجمہ کرنے سے اس کی معنویت متأثر ہوتی ہے۔ کہنا تو یہ ہے کہ گذشتہ اقوام کے بارے میں ہم اپنی یہ جو سنت بتارہے ہیں یہ ایک یاد دہانی ہے۔

(293) یُلْقُونَ السَّمْعَ کا ترجمہ

یُلْقُونَ السَّمْعَ وَأَکْثَرُہُمْ کَاذِبُونَ۔ (الشعراء: 223)

اس آیت کے دو طرح سے ترجمے کیے گئے ہیں:

”سُنی سُنائی باتیں کانوں میں پھونکتے ہیں، اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”شیطان اپنی سنی ہوئی ان پر ڈالتے ہیں اور ان میں اکثر جھوٹے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”جو کان لگاتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

یعنی سنی ہوئی چیز پیش کرنا اور آرہی آواز پر کان دھرنا۔

قرآن مجید کے استعمال کی روشنی میں دیکھیں تو دوسرا مفہوم درست معلوم ہوتاہے، سورۃ ق میں آیا ہے:

إِنَّ فِی ذَٰلِکَ لَذِکْرَیٰ لِمَن کَانَ لَهُ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیدٌ۔ (ق: 37)

”اِس تاریخ میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو، یا جو توجہ سے بات کو سنے“۔ (سید مودودی)

یہاں أَلْقَی السَّمْعَ ہے، جس کا مطلب بالاتفاق کان لگانا ہے، اسے نظیر مان کر مناسب ہوگا کہ یُلْقُونَ السَّمْعَ کا ترجمہ کیا جائے: وہ کان لگاتے ہیں۔ البتہ یہاں کان لگانے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ کان لگانے کی اداکاری کرتے ہیں، گویا وہ سن رہے ہوں حالاں کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں کچھ سنتے نہیں ہیں۔

(294) مِنَ الْمُخْرَجِینَ کا ترجمہ

قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَہِ یَا لُوطُ لَتَکُونَنَّ مِنَ الْمُخْرَجِینَ۔ (الشعراء: 167)

”انہوں نے کہا،”اے لوطؑ، اگر تو اِن باتوں سے باز نہ آیا تو جو لوگ ہماری بستیوں سے نکالے گئے ہیں اُن میں تو بھی شامل ہو کر رہے گا“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حضرت لوط علیہ السلام سے پہلے بھی انھوں نے اپنی بستیوں سے لوگوں کو نکالا تھا جن میں انھیں شامل کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ دراصل یہ ایک اسلوب ہے جس کا مقصود سورت کے قافیوں کی رعایت ہے۔ کہنا بس یہ ہے کہ تمھیں نکال دیا جائے گا۔ درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:

”بولے اگر نہ چھوڑے گا تو اے لوط تو تو نکالا جاوے گا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”وہ کہنے لگے کہ لوط اگر تم باز نہ آؤ گے تو شہر بدر کردیے جاؤ گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(295) مِنَ الْمَرْجُومِینَ کا ترجمہ

اسی طرح سے درج ذیل آیت میں یہ مراد نہیں ہے کہ اور لوگوں کو سنگسار کیا گیا ہے یا پھٹکارا گیا ہے، جن میں حضرت نوح علیہ السلام کو شامل کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں، بلکہ یہ دھمکی دی جارہی ہے کہ تم باز نہ آئے تو تمھیں سنگ سار کردیا جائے گا:

قَالُوا لَئِن لَّمْ تَنتَہِ یَا نُوحُ لَتَکُونَنَّ مِنَ الْمَرْجُومِینَ۔ (الشعراء: 116)

”انہوں نے کہاکہ اے نوح! اگر تو باز نہ آیا تو یقیناً تجھے سنگسار کردیا جائے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمے میں یہ خامی موجود ہے:

”انہوں نے کہا،اے نوحؑ، اگر تو باز نہ آیا تو پھٹکارے ہوئے لوگوں میں شامل ہو کر رہے گا“۔ (سید مودودی)

بہرحال یہ ایک اسلوب ہے، جو سورۃ الشعراء میں اور بعض دوسری صورتوں میں کثرت سے آیا ہے، اس اسلوب میں کسی پہلے سے موجود اس وصف کے گروہ میں شامل ہونے کی بات نہیں ہوتی ہے، بلکہ صرف اس وصف کو اختیار کرنے کی بات ہوتی ہے۔

(296) فَافْتَحْ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا کا ترجمہ

فَافْتَحْ بَیْنِی وَبَیْنَہُمْ فَتْحًا وَنَجِّنِی وَمَن مَّعِیَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ۔ (الشعراء: 118)

مذکورہ آیت میں فتحا کا دو طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے، ایک کھلا اور واضح فیصلہ اور ایک قطعی اور دو ٹوک فیصلہ۔

”اب میرے اور ان کے درمیان دو ٹوک فیصلہ کر دے اور مجھے اور جو مومن میرے ساتھ ہیں ان کو نجات دے“۔ (سید مودودی)

”پس تو مجھ میں اور ان میں کوئی قطعی فیصلہ کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”سو تو میرے اور ان کے درمیان ایک کھلا فیصلہ کردے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو میرے اور ان کے درمیان بالکل واضح فیصلہ فرمادے“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں کھلا اور واضح کے لیے نہ تو لفظ میں دلالت ہے اور نہ ہی اس مفہوم کا یہاں محل معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے لفظ فتحا سے ذہن اس طرف گیا ہو۔ اصل میں لفظ فَتْحًا یہاں فَافْتَحْ کی تاکید کے لیے آیا ہے۔ فتح کا مطلب فیصلہ کرنا ہوتا ہے، ابن عاشور لکھتے ہیں:

الفَتح: الحُکم، وتأکیدہ ب  فَتْحاً لإرادۃ حکم شدید۔ (التحریر والتنویر)

(297) من خلاف کا ترجمہ

درج ذیل آیتوں میں من خلاف کہہ کر جو بات کہی گئی ہے اس کے مفہوم و معنی تو سب پر واضح ہیں، تاہم اردو زبان میں اس کی ادائیگی میں ترجمہ کرنے والوں کو دقت پیش آئی اور انھوں نے مختلف انداز سے مفہوم کو ادا کیا۔ ملاحظہ فرمائیں:

(۱) لَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلَافٍ۔ (الشعراء: 49)

”میں تمہارے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں میں کٹواؤں گا“۔ (سید مودودی)

”بیشک میں تمہارے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا“۔ (احمد رضا خان)

”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں اطراف مخالف سے کٹوا دوں گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”قسم ہے میں ابھی تمہارے ہاتھ پاؤں الٹے طور پر کاٹ دوں گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹوں گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲) أَوْ تُقَطَّعَ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُم مِّنْ خِلَافٍ۔ (المائدۃ: 33)

”یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں“۔ (سید مودودی)

”یا ان کے ایک ایک طرف کے ہاتھ اور ایک ایک طرف کے پاؤں کاٹ دیے جائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۳) لَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلَافٍ۔ (الاعراف: 124)

”میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں بے ترتیب کاٹوں گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے کاٹ دوں گا“۔ (ذیشان جوادی)

(۴) فَلَأُقَطِّعَنَّ أَیْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلَافٍ (طہ: 71)

”سو میں تمہارے ہاتھ اور پاؤں (جانب) خلاف سے کٹوا دوں گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”(سن لو) میں تمہارے پاؤں الٹے سیدھے کٹوا کر“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ان تمام مقامات کے لیے ”ایک دوسرے کی مقابل سمت سے“ کی تعبیر تجویز کی ہے۔ توقع ہے کہ یہ تعبیر مفہوم کے لیے زیادہ مناسب ہوگی۔ ترجمہ ہوگا:

”میں تمہارے ہاتھ پاؤں ایک دوسرے کی مقابل سمت سے کاٹ ڈالوں گا“۔


مطالعہ سنن ابی داود (۱)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: رفع حاجت کے وقت استقبالِ قبلہ سے متعلق مختلف احادیث آتی ہیں۔بعض حدیثوں کے مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ قضائے حاجت کے وقت قبلے کی طرف منہ ہو بھی جائے تو خیر ہے، بس کسی کھلے میدان میں قبلہ رخ ہونا منع ہے۔مثلاً‌ حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ وفات سے ایک سال قبل میں نے نبی ﷺ کو دیکھاکہ آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے رفع حاجت کر رہے تھے۔(سنن ابی داود، کتاب الطہارۃ، باب الرخصۃ فی ذلک، حدیث نمبر ۱۲) یہ کیا مسئلہ ہے؟

عمارناصر: آپ نے دونوں طرح کی حدیثیں دیکھی ہیں۔حدیثوں میں اختلاف ہے اور اسی لیے یہ ایک اجتہادی بحث ہے۔شوافع کے ہاں کھلی فضا میں اور ایک بند عمارت میں فرق کیا جاتا ہے۔لیکن احناف کھلی فضا پر یہ معارضہ کر دیتے ہیں کہ کھلی فضا میں کو ن سا قبلہ بالکل سامنے ہوتا ہے، وہاں بھی درمیان میں کئی رکاوٹیں ہوتی ہیں۔تو بس ٹھیک ہے، جس رائے پر بھی اطمینان ہو، اس پر عمل کر لینا چاہیے۔

مطیع سید : اگر گھر بناتے ہوئے مستری یا نقشہ نویس کہتا ہے کہ آپ کے گھر میں واش روم کا رخ قبلہ کی طرف کر دیں تو جگہ کی تقسیم بہت مناسب ہو جائے گی تو کیا ہم اس طرح کی گنجائش نکال سکتے ہیں؟

عمارناصر:دیکھیں، ایک تو آپ کا اپنا فہم ہے، اس کے لحاظ سے آپ کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ آپ کے علاوہ گھر میں دوسرے لوگ بھی ہیں اور مہمانوں نے بھی آنا ہے۔تو ان سب کے اطمینا ن کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے۔آپ شافعی تعبیر پر مطمئن ہو کر بیت الخلاء بنا لیں اور کوئی اس میں جائے ہی نا تو یہ بھی تو ٹھیک نہیں۔

مطیع سید: نبی ﷺ نے فرمایا کہ حاجت کے وقت نماز نہ پڑھے، اجازت کے بغیر امامت نہ کروائے اور اکیلے اپنے لیے دعا نہ کر ے۔یہ روایت لکھ کر امام ابو داؤد فرماتے ہیں: ھذا من سنن ِ اھل الشام لم یشرک فیھا احد۔ (کتاب الطہارۃ، باب ایصلی الرجل وہو حاقن، حدیث نمبر ۹۱) اس سے کیا مراد ہے ؟

عمارناصر: سنن سے یہاں مراد ہے کہ اس روایت کو نقل کرنے میں اہل شام کے ساتھ کوئی شریک نہیں، یعنی یہ شامی راویوں نے ہی نقل کی ہے۔

مطیع سید:میرے ایک دوست ہیں جنہیں ایک ٹانگ کا پولیوہے۔وہ چلنے کے لیے بر یسز لگاتے ہیں جو ان کے جوتوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔وہ وضو کے وقت جوتوں کے اوپر ہی مسح کر لیتے ہیں، کیونکہ انہیں دھو کر دوبارہ بریسز لگانے میں دقت بھی ہے اور وقت بھی کافی لگتا ہے۔تو کیا وہ بغیرپاؤں دھوئے ایسا کر سکتے ہیں ؟

عمارناصر:جی، صبح پہلی دفعہ وضو کرتے ہوئے وہ بریسز لگانے سے پہلے پاؤں کو دھو لیں۔پھر اگلے دن تک جوتوں پر ہی مسح کر تے رہیں۔موزوں یا جوتوں پر مسح اسی حالت میں درست ہے جب آپ نے وضو کر کے پاکی کی حالت میں پاؤں پر جرابیں یا جوتے پہنے ہوں۔

مطیع سید: شرم گاہ کو چھو نے سے وضوکا ٹوٹنا، اس حوالے سے بڑی مختلف روایات آتی ہیں۔(کتاب الطہارۃ، باب الوضوء من مس الذکر وباب الرخصۃ فی ذلک، حدیث نمبر ۱۸۱، ۱۸۲) بعد میں صحابہ کے ہاں بھی بحث چلتی رہی ہے اور دونوں اپنے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں۔

عمارناصر: اس حوالے سے علامہ انور شاہ نےسب سے معقول بات کہی ہے کہ اگر آپ اس کو فقہی مفہوم میں لیں کہ اس سے وضو ٹوٹتا ہے یا نہیں توپھر روایتیں متعارض ہیں۔آپ کو کچھ چھوڑنی پڑتی ہیں، کچھ لینی پڑتی ہیں۔لیکن اگر آپ اس کو نقض ِ وضو کے پہلو سے نہیں، محض پاکیزگی کے احساس کے پہلوسے دیکھیں تو پھر دونوں ٹھیک ہیں۔فقہی طور پر یہ ناقضِ وضو نہیں ہے لیکن اگر آپ کا ہاتھ بغیر حائل کے شرم گاہ کو لگ جائے تو ظاہر ہے، ایک پاکیزہ آدمی اس پر ایک نفور سا محسوس کرتا ہے۔تو اس پہلو سے کہا گیا ہے کہ آدمی وضو کرلے۔

مطیع سید: کیا اس کو یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ وضو کے آداب کے خلاف ہے کہ آدمی باوضو ہونے کی حالت میں ایسا کرے؟

عمارناصر:اس طرح کہہ لیں۔حاصل یہی ہے کہ اگرچہ فقہی مفہوم میں تو وضو نہیں ٹوٹا، لیکن بہتر ہے کہ وضوکرلے۔یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس صورت میں وضو کرنا مستحب ہے۔

مطیع سید: اسی طرح آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کی روایات بھی مختلف ہیں۔(کتاب الطہارۃ، باب فی ترک الوضوء مما مست النار وباب التشدید فی ذلک، حدیث نمبر ۱۸۷ تا ۱۹۵) صحابہ بھی موافق و مخالف دلائل دیتے رہے ہیں۔

عمارناصر: وہ بھی ایسی ہی بات لگتی ہے۔بعض روایتوں سے ایسے لگتا ہے کہ اس وضو سے مراد شاید کلی وغیرہ کرنا ہے۔عربی میں وضو منہ دھونے اورکلی وغیرہ کرلینے کے معنی میں بھی آتا ہے۔یا اگر وضو سے اصطلاحی وضو مراد ہے تو وہ استحباب کے درجے میں ہے۔یہ ساری چیزیں اصل میں استنباطی ہیں۔

مطیع سید: ام حبیبہ بنت جحش مستحاضہ تھیں اور ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔(کتاب الطہارۃ، باب من روی ان المستحاضۃ تغتسل لکل صلاۃ، حدیث نمبر ۲۸۹) یہ روایت بڑی کثرت سے آئی ہے ، لیکن ایسے لگتا ہے کہ یہ تو آج کے سہولیات والے دور میں بھی ممکن نہیں کہ ہر نماز سے پہلے آدمی سر دیوں اور گرمیوں میں غسل کرے۔

عمارناصر: جی، معروف روایت ہے۔اصل میں راوی جب قصہ بیان کر تا ہے تو ایک سادہ سا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا وہ ان کے پورے سال کے معمولات نوٹ کر تا تھا؟ ظاہر ہے، نہیں۔تو مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ نے جب ان کو یہ طریقہ تجویز فرمایا تو وہ اس راوی کے مشاہدے یا معلومات کی حد تک عمومی طور پر یا حتی الامکان اس کے مطابق عمل کرتی ہوں گی۔

مطیع سید: ایک خاتون سے آپ ﷺ نے فرما یا کہ وہ ایک غسل کر کے دو نمازیں اکٹھی پڑھ لیا کریں۔(کتاب الطہارۃ، من قال تجمع بین الصلاتین وتغتسل لھما غسلا، حدیث نمبر ۲۹۴) کیا وہ یہی ام حبیبہ تھیں؟

عمارناصر: غالباً‌ یہی تھیں، لیکن مجھے حتمی طور پر مستحضر نہیں۔ایک دو اور خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے جو مستحاضہ تھیں۔ممکن ہے، ان میں سے کسی کو کہا گیا تھا کہ ایک غسل کر کے دو نمازوں کو اکٹھا کر لیا کریں۔

مطیع سید:فقہا تو کہتے ہیں کہ حیض کے علاوہ عورت کو جو کچھ آتا ہے، اس پر غسل واجب نہیں ہوتا۔

عمارناصر: ظاہر ہے کہ آپ ﷺ نے وجوب کے معنی میں غسل کا حکم نہیں دیا، یہ استحباب ہی کے درجے میں ہے۔اصل میں تو وہ مریض ہے، اس کا پہلا کیا ہوا وضو ہی اصولی طور پر قائم ہے۔تاہم آپﷺ نے استحباب کے درجے میں فرمایا کہ اگر وہ غسل کرلے تو یہ بہتر ہے۔

مطیع سید:تیمم کے حوالے سے محدثین کا موقف ہے کہ ایک ہی ضرب کافی ہے، جبکہ احناف کہتے ہیں کہ دو ضربیں ہونی چاہییں۔

عمارناصر:روایتیں دونوں طرح کی ہیں اور وہ دونوں ہی ٹھیک ہیں۔ایک ضرب لگا کر تیمم کرلیں تو بھی ٹھیک ہے اور دو الگ الگ ضربیں لگا کر کرلیں تو بھی درست ہے۔

مطیع سید: حضرت ابو موسیٰ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود سے پوچھا کہ اگر مجھ پر غسل واجب ہو جائے اور ایک ماہ تک پانی نہ ملے تو کیا میں پھر بھی تیمم نہ کروں؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں، تیمم نہ کرو۔ان کو حضرت عمار بن یاسر کی روایت بتائی گئی تو انھوں نے کہا کہ حضرت عمر، عمار کی روایت پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔یعنی وہ بھی قائل نہیں تھے کہ غسل واجب ہونے پر تیمم کیا جا سکتا ہے۔(کتاب الطہارۃ، باب التیمم، حدیث نمبر ۳۲۱)

عمارناصر: حضرت ابن مسعود کا عام موقف تو یہی نقل ہوا ہے، لیکن روایات میں اس کی وضاحت ہے کہ وہ محض احتیاطاً‌یہ کہتے تھے۔صحیح بخاری میں یہ مکالمہ اس طرح منقول ہے کہ انھوں نے کہا کہ اگر ہم لوگوں کو اس کی رخصت دینے لگے تو لوگ تھوڑا سا پانی ٹھنڈا لگنے پر غسل چھوڑ کر تیمم کرنے لگ جائیں گے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جواز کے تو قائل تھے، لیکن کہیں لوگ بلاضرورت تیمم نہ لگیں، اس پہلو سے ذرا شدت اختیار کرتے تھے۔

مطیع سید: آپ ﷺ قضائے حاجت سے واپس آئے تو ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کو سلا م کیا، لیکن آپ نے جواب نہیں دیا۔آپ نے پہلے تیمم کیا اور پھر سلام کا جواب دیا۔(کتاب الطہارۃ، باب التیمم فی الحضر، حدیث نمبر ۳۳۰) یہ کس پہلو سے تھا؟

عمارناصر:یہ کوئی فقہی یا قانونی حکم نہیں ہے۔آپ ﷺ نے اس کو پسند نہیں فرمایا کہ پاکی کے بغیر جوا ب دیں۔اس میں دیکھیں، بعض دفعہ جو فوری کیفیت انسان پر طاری ہوتی ہے، اس کا بھی دخل ہوتا ہے۔آپ ﷺ ابھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آئے تھے اور ساتھ ہی کسی نے سلام کہہ دیا۔اگر آپ ویسے ہی بیٹھے ہوں اور فوری طورپر رفع حاجت سے فارغ ہو کر نہ آئے ہوں تو آپ کو احساس نہیں ہوگا کہ میں ناپاکی کی حالت میں ہوں، لیکن بیت الخلاء سے نکل کر آدمی کو تھوڑا سا احساس ہوتا ہے کہ میں ناپاکی کی حالت میں ہوں۔

مطیع سید: ظواہر نے تو اس سے مسئلہ بھی نکا ل لیا ہوگا کہ ناپاکی کی حالت میں سلام کا جواب نہ دیا جائے۔

عمارناصر:میرے ذہن میں نہیں۔میرے خیال میں اس حدتو نہیں گئے ہوں گے، لیکن اگر وہ جانا چاہیں تو اپنے اصول کے تحت جا سکتے ہیں۔

مطیع سید: شدید سردی میں جب گیس بھی نہ ہو تو صبح کے وقت اگر کسی کو غسل کی حاجت ہوتی ہے اور پانی برف کی طرح ٹھنڈا ہے تو کیا وہ تیمم کر سکتا ہے ؟

عمارناصر: ہاں، اگر فوری طورپر گرم پانی کاانتظام نہیں ہے تو تیمم کر کے نمازپڑھ سکتے ہیں۔

مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لڑکی کے پیشاب کو دھویا جائے اور لڑکے کے پیشاب پر بس چھینٹے مار لینا کافی ہے۔(کتاب الطہارۃ، باب بول الصبی یصیب الثوب، حدیث نمبر ۳۷۵، ۳۷۶) بچے اور بچی کے پیشاپ کو دھونے میں فر ق کیوں رکھا گیا ہے ؟

عمارناصر:حدیث میں تو کوئی وجہ بیان نہیں ہوئی۔شارحین کی طرف سے ایک وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ لڑکی کے پیشاب کی بدبو زیادہ ہوتی ہے یا وہ زیادہ گاڑھا ہوتا ہے، اس لیے اس کو دھوئے بغیر بدبو کا ازالہ نہیں ہوتا۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے قبر ستا ن میں نماز پڑھنے سے اور بابل میں نماز پڑھنے سے منع کیا کیونکہ اس پر لعنت کی گئی تھی۔(کتاب الصلاۃ، باب فی المواضع التی لا تجوز فیہا الصلوۃ، حدیث نمبر ۴۹۰) قبرستان میں نماز کی ممانعت کی وجہ سمجھ میں آتی ہے، لیکن بابل پر لعنت کیوں کی گئی؟

عمارناصر:گذشتہ قوموں میں سے کسی پر یہاں عذاب آیا تھا۔ایسی جگہ جو خداکے عذاب کے نزول کی جگہ ہو، وہاں پر ٹھہرنا یا عبادت کرنا پسندیدہ نہیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی جب تبوک کے سفر میں قوم ثمود کے علاقے سے گزرے تو صحابہ سے فرمایا کہ یہاں سے تیزی سے گزرو۔البتہ یہاں فقہی مفہوم میں نماز کا ادا ہونا یا نا ہونا زیرِ بحث نہیں ہے۔اگر نماز پڑھ لی تو ادا ہو جائے گی۔

مطیع سید: لیکن آج اگر وہاں آبادی بن چکی ہے، شہر آباد ہو چکا ہے تو وہاں تویہ مسئلہ نہیں ہوناچاہیے۔

عمارناصر: اب وہ مخصوص علاقہ اگر جانا پہچانا نہیں رہا تو ظاہر ہے، نماز کی ادائیگی میں بھی فرق ملحوظ نہیں رکھا جا سکتا۔لیکن اگر معلوم ہو کہ کو ن سا علاقہ ہے جہاں پر عذاب اتراتھا تو پھر اس کا علم ہونا انسان کے اندر ایک کیفیت پیدا کرتا ہےکہ یہ علاقہ تو خدا کے عذاب کی جگہ ہے، مجھے تو یہاں رکنا ہی نہیں چا ہیے چہ جائیکہ وہاں نماز ادا کی جائے۔

مطیع سید: اذان اور اقامت کے الفاظ میں فر ق ہے اور اختلافات بھی ہیں۔ان کلمات کا اختلاف کیسے پیداہوا؟

عمارناصر: اصل میں نبی ﷺ سے مختلف طریقے ثابت ہیں۔ہوایہ کہ جب صحابہ مختلف علاقوں میں پھیلے ہیں تو جس علاقے میں کچھ صحابہ چلے گئے، وہاں ان کا عمل جاری ہو گیا۔دوسرےعلاقے میں دوسرے صحابہ کا عمل اختیار کر لیا گیا۔اس دور میں ابھی روایتیں اس طرح مدون نہیں تھیں۔بعد میں جب روایتیں جمع ہوگئیں تو اس سے واضح ہو گیاکہ یہ سارے طریقے رسو ل اللہ ﷺ سے ہی ثابت ہیں۔

مطیع سید: تشبیک (ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسانے) سے کیوں منع فرمایا گیا ؟ (کتاب الصلوۃ، باب ما جاء فی الہدی فی المشی الی الصلاۃ، حدیث نمبر ۵۶۲)

عمارناصر: بس یہ کیفیت پسند نہیں کی گئی۔بعض جسمانی ہیئتیں نماز کی حالت میں پسند نہیں کی گئیں اور اس میں پیغمبر کا ذوق بڑا اہم ہے۔

مطیع سید: کیا یہ ذوق بدل بھی سکتا ہے ؟

عمارناصر:وہ تو اس وقت بھی ہو سکتا ہے، بد ل گیا ہو، لیکن ذوق سے پھوٹی ایک چیز ہے تو اس میں آپ کو ذوق ہی کی پیروی کرنی چاہیے۔یعنی اس کا تعلق علت سے نہیں، علت ایک اور چیز ہے۔قانونی طور پر اس کو متعین کرنا آسان ہوتا ہےکہ اب حکم کی علت بدل گئی ہے۔لیکن یہ جو ذوق کی چیزیں ہوتی ہیں، اس میں تو آپ کو اتباع ہی کرنی چا ہیے۔

مطیع سید: اس میں ہم کیا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اپنے دور کے لحاظ سے کچھ اور چیزیں بھی اس میں شامل کر لیں ؟

عمارناصر: آپ اور چیزیں جو آپ کے عرف میں ہیں یا آپ کے ذوق یا ذاتی احساس کے لحاظ سے لگے کہ بری ہیں یا حالت نماز کے کے منافی ہیں تو آپ ان کو شامل کر سکتے ہیں۔بعض روایتوں میں ہے کہ آدمی جب بیٹھتا ہے تو فرشتے اس کے سامنے آ کر اس دیوار کی طرف جدھر قبلہ ہے، کھڑے ہو جاتے ہیں۔تو عبد اللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فجر کے وقت مسجد میں آتے تھے تو اگر ان کے سامنے کوئی شخص دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھنا چاہتا تو وہ اس کو ہٹا دیتےتھے۔یہ چیزیں اس طرح کے روحانی احساس سے پیداہوتی ہیں۔

مطیع سید: نمازی کے سامنے سے گدھے یا کتے کے گزرنے سے نماز کے ٹوٹ جانے کی جو روایت ہے، (کتاب الصلوۃ، باب ما یقطع الصلوۃ، حدیث نمبر ۷۰۲) اس کا کیا مطلب ہے؟

عمارناصر: مطلب یہ ہے کہ نماز کا ایک روحانی ماحول ہوتا ہے، وہ اس سے ٹوٹ جاتا ہے۔قطع اسی مفہوم میں ہے۔علامہ انورشاہ صاحب نے اس اصول کو باربار اور بڑی تاکید سے بیان کیا ہے کہ پیغمبر کی حدیثوں کو ہم ایک فقیہ کے بیانات نہ سمجھیں۔پیغمبر بہت مختلف جگہ سے، بڑی اعلیٰ جگہ سے بات کرتا ہے۔بہت سے مسئلے فقہا کے ہاں اس لیے پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ ہر بات کو فقہی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔

مطیع سید:ایک معذور شخص نے بتایا کہ جب وہ لڑکا تھاتو ایک جگہ آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔وہ سامنے سے گزرا تو آپ نے اس کو بد دعا دی اور وہ پاؤں سے معذور ہوگیا۔(کتاب الصلوۃ، باب ما یقطع الصلوۃ، حدیث نمبر ۷۰۷) روایت بڑی عجیب لگی کہ آپ ﷺ تو بڑے شفیق تھے۔سامنے گزرنے پر اتنی سخت بددعا دے دی؟

عمارناصر: وہ شخص اس وجہ سے معذور ہوا، یہ اس کا اپنا قیاس بھی ہو سکتا ہے۔لیکن اگر ایسا ہوا ہو تو آپ ﷺ کا شفیق ہونا بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے، لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کو اس کا اس طرح بے پرواہی سے آگے سے گزرنا ایک روحانی احساس کے تحت ناگوار گزرا ہو او راس پر آپ نے بد دعا کر دی ہو۔ایسی چیزوں میں ظاہری عمل سے زیادہ وہ رویہ اہم ہوتا ہے جس سے وہ عمل وجود میں آیا۔ایک اور واقعے میں آپ نے ایک آدمی کو دائیں ہاتھ سے کھانے کے لیے کہا تو اس نے برا مانتے ہوئے کہا کہ جی، میں بائیں سے نہیں کھا سکتا۔آپ نے کہا کہ اچھا، اللہ کرے نہ ہی کھا سکو اور اس کا ہاتھ پھر بعد میں مفلوج ہو گیا۔ایسا لگتا ہے کہ آگے سے گزرنے والے نے بھی ایسا ہی کوئی رویہ ظاہر کیا ہو۔

مطیع سید: کیا یہ روایت ٹھیک ہے ؟

عمارناصر: مجھے تحقیق نہیں، لیکن اگر ایسے ہوا ہو تو ایسی ناقا بل ِ فہم نہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راوی کا قیاس ہو۔

مطیع سید: آج کا ذہن اور خاص طورپر مغربی لوگ اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ کیسے آپ کے نبی تھے۔ایک بچہ تھا اور اس کی غلطی پر اتنی سخت بددعا دے دی۔

عمارناصر: بعض چیزیں ایسی ہیں جن کو دیکھنے کا زاویہ بہت ہی مختلف ہو سکتا ہے۔آپ ایک زاویے سے اسے بہت غلط سمجھ سکتے ہیں، لیکن ایک دوسرے زاویے سے وہ بالکل مختلف دکھائی دے گی۔چیزوں کی تفہیم میں زاویہ بڑا اہم ہوتا ہے۔اسی طرح بعض باتیں کچھ ذہنی سانچوں میں قابل فہم بنتی ہیں، کچھ میں نہیں بنتیں۔تو اگر اعتراض پیداہو تو جواب میں زیادہ بہتر یہ ہوتا ہے کہ آپ اس کی ایسی توجیہ کریں کہ وہ مخاطب کے ذہن کےلحاظ سے قابل فہم ہو تاکہ وہ تشویش میں مبتلا نہ ہو۔مثلاً‌ آپ اس طر ح کی توجیہ کر سکتے ہیں کہ یہ راوی کا قیاس ہے، اس لیے کہ بعض اوقات بات اتنی لطیف ہوتی ہے کہ اس کو سمجھانا بڑ امشکل ہو جاتا ہے۔

مطیع سید: فاتحہ خلف الامام کے بارے میں احناف یہ دلیل دیتے ہیں کہ سورہ اعراف میں کہا گیا ہے کہ جب قرآن پڑھا جا رہا ہو تو اس کو سنو اور خاموش رہو۔یہ جہری نمازو ں میں تو چل سکتی ہے، لیکن سری نمازوں کے لیے یہ دلیل کیسے بنے گی ؟

عمارصاحب: جی، سری میں تو یہ دلیل نہیں بنتی۔احناف براہ راست اس سے جہری میں ہی استدلا ل کرتے ہیں، اگرچہ بعض حضرات کھینچ تان کر اسے سری پر بھی منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اصل میں اس آیت کا براہ راست نماز سے تعلق نہیں اور وہ اس تناظر میں نہیں آئی۔اس میں تو یہ ادب بیان کیا گیا ہے کہ قرآن جب پڑھاجا رہا ہو تو اس وقت شور شرابہ نہ کرو اور اس سے بے توجہی نہ برتو۔اس کا نمازسے، یعنی جہری نماز سے بھی کوئی تعلق نہیں۔نماز میں اگر مقتدی قرآن پڑھتا ہے تو اس کی وجہ قرآن سے بے توجہی یا اس کا معارضہ نہیں ہوتا۔وہ چیز ہی بالکل اور ہے۔بہرحال ظاہری الفاظ کی حد تک آپ اس سے جہری نماز کے لیے بھی استدلال کرسکتے ہیں۔بعض آثار میں اس سے خطبہ جمعہ کے وقت خاموش رہنے کا حکم بھی اخذ کیا گیا ہے۔

مطیع سید: اس حوالے سے آپ کے خیال میں کون سا موقف زیادہ بہتر ہے ؟ امام مالک کا، امام شافعی کا یا امام ابوحنیفہ کا ؟

عمارناصر: مجھے امام مالک کا موقف زیادہ معقول لگتا ہے کہ سری نمازوں میں قراءت کی جا سکتی ہے۔اسی طرح جہری نمازوں کی آخری دو رکعتوں میں بھی کی جا سکتی ہے۔

مطیع سید: کیاانور شاہ صاحب بھی اس کے قائل تھے ؟

عمارناصر: وہ بھی امام مالک کے موقف کے قائل تھے، اگر چہ انھوں نے اس کا جواز فقہ حنفی کے اندر سے ہی نکالنے کی کوشش کی ہے۔احناف کے ہاں ایک کمزور سی روایت ہے جو صاحب ہدایہ نقل کرتے ہیں کہ امام محمد سری نمازوں میں قراءت کے قائل تھے۔مولانا ظفر احمد عثمانی اور مولانا تقی عثمانی کا بھی یہی رجحان ہے۔

مطیع سید: یہ ذراموضوع سے ہٹ کر سوال ہے کہ عمر احمد عثمانی صاحب کی فقہ القرآن کیسی کتاب ہے ؟

عمارناصر: اچھی علمی کتا ب ہے۔فقہی ذخیرے کی جو اہم بحثیں ہیں، ان کا انہوں نے محاکمہ کیا ہے۔ان کے بعض نتائج ِفکرسے اتفاق ہے، بعض سے نہیں ہے۔لیکن ان کا جو طرزِ استدلال ہے، اس میں کافی کمزوری ہے۔چیزیں سامنے ہو ں تو آدمی کمزوری سمجھ جاتاہے۔ان کا طرز استدلال اور نصوص کو دیکھنے کا انداز مجھے زیادہ متاثر کن نہیں لگا۔

مطیع سید :حدیث میں ہے کہ بیٹھے ہوئے امام کی اقتدا مقتدی بھی بیٹھ کر کریں۔(کتاب الصلوۃ، باب الامام یصلی من قعود، حدیث نمبر ۶۰۱) آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ انور شاہ صاحب اس کے قائل تھے۔

عمارناصر: جمہور تو قائل ہیں کہ یہ ہدایت منسوخ ہو گئی ہے، لیکن حنابلہ جواز کے قائل ہیں۔شاید علامہ انور شاہ صاحب کا رجحان بھی حنابلہ کی طرف ہے، لیکن مجھے مستحضرنہیں ہے۔

مطیع سید: امام ابوداود نے رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنے کی روایتیں نقل کی ہیں اور ان کو ضعیف بتایا ہے۔(کتاب الصلوۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث نمبر ۷۴۸ تا ۷۵۲) اس کے علاوہ صحیح مسلم میں رفع یدین کرنے کو گھوڑوں کی دم سے تشبیہ دینے کی روایت کو احناف دلیل کے طورپر پیش کرتے ہیں، اسے آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

عمارناصر: نہیں، اس کا رفع الیدین جو مشروع ہے، اس سے تعلق نہیں ہے۔رفع یدین ایک اصطلاح بھی ہے، اور رفع یدین کا ایک لغوی مفہوم بھی ہے۔اس روایت میں تو ایسے لگتا ہے کہ لوگ قعدے میں بیٹھے ہوئے، بے توجہی سے ہاتھ اوپر نیچے کررہے تھے۔مثلاً‌ کوئی ہاتھ سے کان پر خارش کر رہا ہے، کوئی ڈاڑھی کھجا رہا ہے، وغیرہ۔لغوی معنوں میں یہ بھی رفع یدین ہے جس کو آپ ﷺنے گھوڑے کی دم سے تشبیہ دی ہے۔گھوڑے کی دم بھی ایک جگہ ٹکی نہیں رہتی، کبھی ادھر اٹھتی ہے، کبھی ادھر اٹھتی ہے۔تو آپﷺ نے اس طرح بے ضرورت ہاتھوں کو حرکت دینے سے منع کیا ہے نہ کہ مشروع رفع یدین کو اس سے تعبیر کیا ہے۔

مطیع سید:یہ جو ذکر ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے نماز کی رکعتیں زیادہ یا کم پڑھا دیں، کیا وہ ایک ہی واقعہ ہے یا مختلف واقعات ہیں ؟

عمارناصر: ایسا مختلف واقعات میں ہوا۔

مطیع سید: ایک واقعے میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺنے سہواً‌ سلام پھیر دیا اور پھر لوگوں سے باتیں کیں اور اس کے بعد باقی نماز پڑھا دی۔(کتاب الصلوۃ، باب السہو فی السجدتین، حدیث نمبر ۱۰۰۸) توہمارے فقہا کیوں کہتے ہیں کہ بات کی تو نماز ٹوٹ گئی، اب دوبارہ پڑھیں ؟

عمارناصر: یہ احناف کا موقف ہے۔احناف کہتے ہیں کہ بنیادی طورپر کلام کرنا تو نماز کے منافی ہے، تو بہتر یہ ہے کہ اس کو ہم اس زمانے پر محمول کریں جب پہلے پہل نماز میں کلا م کی اجازت تھی، پھر بعد میں منسوخ کر دی گئی۔لیکن مالکیہ اس کے قائل ہیں کہ اگر اس طرح کی صورت حال میں نماز کی اصلاح کے لیے کلام کیا گیا ہو تو اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔کلام کے بعد باقی ماندہ نماز مکمل کی جا سکتی ہے۔

مطیع سید: نماز کے فوراً‌ بعد ایک صحابی کھڑے ہوکر نفل پڑھنے لگے تو حضرت عمر فاروق نے روک دیا اور کہا کہ یہود عبادت کے اندر فاصلہ نہیں رکھتے۔کیا محض یہود کی مشابہت کی وجہ سے انہوں نے اس سے منع فرمایا ؟

عمارناصر: نہیں، یہود سے مشابہت تو ضمنی وجہ ہے۔مقصد یہ ہے کہ فرض نماز اور نفل نماز کو بالکل الگ الگ نظر آنا چاہیے۔اس کے لیے عام طورپر کہتے ہیں کہ یا تو صفیں توڑ دیں جس سے باجماعت نماز کی ہیئت باقی نہ رہے یا یہ کہ جگہ بدل لیں تا کہ یہ نظر آئے کہ فرض نماز ہو گئی ہے، اب یہ الگ نفل نماز پڑھ رہا ہے۔

مطیع سید: یہود نے ایسا کیا کیاتھا ؟

عمارناصر: یہ پتہ نہیں یہود کے ہاں ایسا کیا تھا۔ممکن ہے عرب میں جو یہود تھے، ان کا ایسا کوئی عمل سامنے ہواور انہوں نے چیزیں گڈ مڈ کر دی ہوں۔مجھے اس کی تحقیق نہیں ہے، لیکن یہ تلاش کرنی چاہیے جس کی طرف وہ اشارہ کر رہے ہیں۔

مطیع سید: حضرت عبد اللہ بن زبیر کے دور میں ایک ہی دن جمعہ اور عید آگئی تو جمعہ اور عید کی نمازیں اکٹھی پڑھی گئیں۔(کتاب الصلوۃ، باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید، حدیث نمبر ۱۰۷۲)

عمارناصر: جی، صحابہ میں یہ عمل ملتا ہے کہ جمعہ اور عید اکٹھی آجائے تو عید کو تھوڑا موخر کر کے جمعہ کے ساتھ ادا کر لیا جائے تاکہ لوگوں کو بار بار گھر سے آنے کی دقت نہ ہو۔ابن ابی شیبہ میں تفصیلی روایات ہیں۔غالباً‌ نبی ﷺ کے متعلق بھی اس طرح کی کوئی روایت منقول ہے۔یہ ذہن میں رکھیں کہ اس دور میں جمعہ اور عید کی نماز مرکزی مقامات پر ہی ہوتی تھی اور مضافات وغیرہ سے لوگوں کو خاص اہتمام کر کے مکہ یا مدینہ جانا پڑتا تھا تاکہ جمعہ یا عید کی نماز ادا کر سکیں۔اس لیے صحابہ نے جمع بین الصلوتین کی جو سہولت شریعت نے خاص حالات میں دی ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جمعہ اور عید کو اکٹھا اد ا کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔

مطیع سید: نبی ﷺ سے جوروایت آتی ہے، اس میں تو ایسے لگ رہا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جماعت ایک ہی کافی ہے۔ایک پڑھ کر چلے جائیں، دوسری گھروں میں جا کر پڑھ لیں۔(کتاب الصلوۃ، باب اذا وافق یوم الجمعۃ یوم عید، حدیث نمبر ۱۰۷۰)

عمار ناصر: وہ روایت الگ ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ نماز عید کے لیے آئے ہیں، وہ عید پڑھ کرچلے جائیں اور انہیں جمعے کے لیے دوبارہ آنا ضروری نہیں۔یہ الگ مسئلہ ہے کہ دونوں نمازیں اکٹھی پڑھ لیں۔

مطیع سید: جمعے کی اذان جس کا حضرت عثمان غنی نے اضافہ فرمایا، یہ کون سی اذان تھی؟ پہلی ہے یا دوسری ؟ (کتاب الصلوۃ، باب النداء یوم الجمعۃ، حدیث نمبر ۱۰۸۷)

عمارناصر:جو مسجد میں ہوتی تھی، وہ تو رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے ہو رہی ہے۔اضافہ جو حضرت عثمان نے جو کیا، وہ مسجد سے باہر اذان کا تھا۔خطبے سے پہلے جو دی جاتی ہے، وہ اصل اذان ہے۔

مطیع سید:وہ اس وقت کی ایک مجبوری تھی۔کیا آج بھی وہ وجہ ہے؟ اگر نہیں تو اس کی کیا ضرورت ہے ؟

عمارناصر:جی، اسے چھوڑ سکتے ہیں۔امام شا فعی اس کے قائل نہیں ہیں۔کتاب الام میں کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک وہ پہلا طریقہ ہی پسندیدہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا۔

مطیع سید: تو اس اضافی اذان کو کیوں جاری رکھا گیا، چھوڑ کیوں نہیں دیا گیا ؟

عمار ناصر: اصل میں ایک روایت چلی آرہی ہو تو اس کی بھی اپنی ایک حیثیت بن جاتی ہے۔صحابہ سے چلی آرہی تھی، فقہا نے بھی اس کو اختیار کرلیا تو ٹھیک ہے۔بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہے جو شروع تو ایک خاص تناظر میں ہوتی ہیں، لیکن پھر تعامل کی وجہ سے ان کی اپنی اہمیت بن جاتی ہے۔

مطیع سید:سہل بن سعد کہتے ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کو منبر پر یا منبر کے علاوہ کبھی دونوں ہاتھ اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا۔(کتاب الصلوۃ، باب رفع الیدین علی المنبر، حدیث نمبر ۱۱۰۵)اس سے کیا مراد ہے ان کی ؟

عمارناصر: اصل میں وہ تبصرہ کر رہے ہیں کہ بعض خطباء خطابت کرتے ہوئے ہاتھوں اور بازووں کو جو بہت زیادہ حرکت دیتے ہیں، یہ طریقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں تھا۔

مطیع سید: گویا یہاں دعا کی بات نہیں ہورہی، تقریرکی بات ہو رہی ہے ؟

عمارناصر: مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے کہ وہ اس تناظر میں ہے۔

مطیع سید: یہ باب رفع الیدین علی المنبر کے تحت روایت آئی ہے۔

عمارناصر: جی۔مراد یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ادھر ہاتھ چلا رہے ہیں، ادھر ہاتھ اٹھا رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہاتھ سے اور ایک انگلی کے اشارے سے جو کہنا ہوتا، وہ کہہ دیتے تھے۔

مطیع سید: امام ابوداؤد گوٹھ ما ر کربیٹھنے سے متعلق آپ ﷺ کے منع فرمانے کی روایت لائے ہیں اور ساتھ ہی صحابہ کا عمل بھی نقل کرتے ہیں کہ وہ ایسے بیٹھا کرتے تھے۔(کتاب الصلوۃ، باب الاحتباء والامام یخطب، حدیث نمبر ۱۱۱۰، ۱۱۱۱)

عمارناصر: گوٹھ مار کر بیٹھنا اصولا ً‌ تو منع نہیں ہے۔یہ کسی خاص پہلو سے اس سے منع کیا گیا ہوگا۔ہو سکتا ہے کہ گوٹھ مار کر بیٹھنے سے ستر کے کھلنے کا اندیشہ ہو یا اس لیے منع کیا گیا ہو کہ سستی اور نیند طاری نہ ہو اور آدمی توجہ سے خطبہ سنے۔

مطیع سید: امام جب خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو احناف تو کہتے ہیں کہ اس وقت نفل نماز ادا نہ کریں، بلکہ خطبہ سنیں۔لیکن ایک روایت میں آتا ہے کہ نبی ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ایک آدمی آکر بیٹھنے لگا تو آپ نے اسے دو رکعتیں پڑھنے کے لیے کہا۔(کتاب الصلوۃ، باب اذا دخل الرجل والامام یخطب، حدیث نمبر ۱۱۱۵)

عمارناصر: یہ سلیک غطفانی کا واقعہ ہے۔احناف یہ کہتے ہیں اور قرائن بھی یہ بتاتے ہیں کہ اس وقت اصل مقصد اس کو نماز پڑھوانا نہیں تھا۔ورنہ تو ایک عمومی حکم بن جاتا کہ جو بھی آئے اور امام خطبہ دے بھی رہا ہو تو وہ نوافل پڑھے۔اصل حکم تو یہ ہے کہ امام جب آگیا تو خطبہ خود نماز کا ایک حصہ ہے۔مجھے اس میں احناف کی بات زیادہ وزنی لگتی ہے کہ اس صحابی کو ایک خاص مقصد کے لیے آپ ﷺ نے کھڑاکیا تھا۔وہ بیان بھی ہوئی ہے کہ اس پر مفلوک الحالی نمایاں تھی۔آپ نے اس کو کھڑا کر کے لوگوں کو صدقے کی ترغیب دی اور اس کے لیے کچھ سامان جمع ہو گیا۔

(جاری)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۶)

اہل سنت اور اہل تشیع کی علمی روایت کا ایک تقابلی مطالعہ

مولانا سمیع اللہ سعدی

2۔ اساتذہ و تلامذہ کے بعد کتبِ رجال کا ایک اہم ترین مقصد راوی کا حدیثی مقام یعنی اس کے بارے میں ائمہ محدثین کی کی گئی جرح و تعدیل ذکر کرنا ہے، شیوخ و تلامذہ سے راوی کا زمانہ، طبقہ متعین ہوتا ہے اور جرح و تعدیل سے اس کی روایت کی حیثیت معلوم ہوتی ہے، اس سلسلے میں اہل سنت و اہل تشیع کے رجالی تراث کا ایک تقابلی مطالعہ پیشِ خدمت ہے:

اہل سنت کتب ِ رجال اور جرح و تعدیل

اہل سنت کتب ِ رجال میں ہر راوی کے تذکرے میں خصوصیت کے ساتھ جرح و تعدیل کا ذکر ہوتا ہے، جرح و تعدیل کے یہ اقوال حفاظ محدثین اور جرح و تعدیل کے مستند ائمہ سے سند کے ساتھ نقل کیے گئے ہیں، خواہ اقوالِ جرح ہوں، یا اقوال ِ تعدیل، ذیل میں اس حوالے سے چند تراجم کتب ِ رجال سے نقل کیے جاتے ہیں:

ايوب بن جابر اليمامي وهو أخو محمد بن جابر الحنفي روى عن حماد بن أبي سليمان وأبي إسحاق وعبد الله بن عصم روى عنه أبو داود الطيالسي وخالد بن مرداس والحسين بن محمد المروزي ويوسف بن عدي، يعد في اليماميين سمعت أبي وأبا زرعة يقولان ذلك
حدثنا عبد الرحمن أنا عبد الله بن أحمد بن حنبل فيما كتب إلي قال قال أبي: أيوب بن جابر يشبه حديثه حديث أهل الصدق
حدثنا عبد الرحمن نا محمد بن إبراهيم عن عمرو بن علي ان ايوب ابن جابر صالح قد روى عنه.حدثنا عبد الرحمن قال قرئ على العباس بن محمد الدوري قال قلت ليحيى بن معين: أيوب بن جابر كيف كان حديثه؟ قال هو ضعيف، قلت هو كان أمثل أو أخوه -محمد؟ قال [ولا واحد منها.
حدثنا عبد الرحمن نا أحمد بن عصام قال كان علي بن المديني يضعف حديث أيوب بن جابر.سمعت أبي يقول: أيوب بن جابر ضعيف الحديث
قال وسئل أبو زرعة عن أيوب بن جابر فقالواهي الحديث ضعيف وهو أشبه من اخيه1

اس ترجمہ میں ابن ابی حاتم رازی نے امام احمد بن حنبل سے سند کے ساتھ ایسا قول نقل کیا، جو اس کی تعدیل کی طرف اشارہ کر رہا ہے، جبکہ امام یحیی بن معین، علی ابن مدینی، اپنے والد امام ابو حاتم رازی اور امام ابو زرعہ سے اس راوی کی تضعیف نقل کی ہے، یہ سب اقوال مصنف نے ان ائمہ سے سند متصل کے ساتھ نقل کیے ہیں ۔

أبان بن أبي عياش: وهو أبان بن فيروز أبو إسماعيل البصري، عن أنس، كان شعبة سيئ الرأي فيه، حدثنا محمد، ثنا يحيى بن معين، عن عفان عن أبي عوانة، قال: لما مات الحسن اشتهيت كلامه، فجمعته من أصحاب الحسن، فأتيت أبان بن أبي عياش، فقرأه علي عن الحسن، ما أستحل أن أروي عنه شيئا2

اس ترجمہ میں امام بخاری رحمہ اللہ نے امام شعبہ اور امام ابو عوانہ سے اس راوی کی تضعیف نقل کی ہے۔

إسماعيل" بن أبان الوراق الأزدي أبو إسحاق ويقال أبو إبراهيم الكوفي. روى عن عبد الرحمن بن سليمان بن الغسيل وإسرائيل ومسعر وعبد الحميد بن بهرام وأبي الأحوص وعيسى بن يونس وعبد الله بن إدريس وابن المبارك وخلق. وعنه البخاري وروى له أبو داود1 والترمذي بواسطة وأحمد بن حنبل ويحيى بن معين وأبو خيثمة وعثمان بن أبي شيبة والقاسم بن زكريا بن دينار والدارمي وأبو زرعة وأبو حاتم والذهبي ويعقوب بن شيبة وجماعة من آخرهم إسماعيل سمويه وأبو إسماعيل الترمذي. قال أحمد بن حنبل وأحمد بن منصور الرمادي وأبو داود ومطين: "ثقة" وقال البخاري: "صدوق" وقال النسائي: "ليس به بأس" وقال ابن معين: إسماعيل بن أبان الوراق ثقة وإسماعيل بن أبان الغنوي كذاب" وقال الجوزجاني: "إسماعيل الوراق كان مائلا عن الحق ولم يكن يكذب في الحديث" قال ابن عدي: "يعني ما عليه الكوفيون من التشيع وأما الصدق فهو صدوق في الرواية" قال محمد بن عبد الله الحضرمي مات سنة "216". قلت: وقال البزار: "وإنما كان عيبه شدة تشيعه لا على أنه عير عليه في السماع" وقال الدارقطني: "ثقة مأمون" وقال في سؤالات الحاكم عنه: "أثنى عليه أحمد وليس هو عندي بالقوي" وقال ابن شاهين في الثقات: "قال عثمان بن أبي شيبة إسماعيل بن أبان الوراق ثقة صحيح الحديث" قيل له فإن إسماعيل بن أبان عندنا غير محمود فقال: "كان ها هنا إسماعيل آخر يقال له بن أبان غير الوراق وكان كذابا" وقال أبو أحمد الحاكم: "ثقة" وذكره ابن حبان في الثقات وقال ابن المديني: "لا بأس به وأما الغنوي فكتبت عنه وتركته" وضعفه جدا وقال جعفر بن محمد بن شاكر الصائغ ثنا إسماعيل بن أبان الوراق أبو إسحاق الكوفي: "وكان ثقة"3

اس ترجمہ میں حافظ ابن حجر نے ایک راوی سے متعلق درجہ ذیل 16 کبار ائمہ و حفاظ کے اقوال نقل کئے ہیں:

امام احمد بن حنبل، امام احمد بن منصور رمادی، امام ابو داود، امام محمد بن عبد اللہ حضرمی مطین، امام بخاری، امام نسائی، امام یحیی ابن معین، امام جوزجانی، امام ابن عدی، امام بزار، امام دار قطنی، امام ابن شاہین، امام عثمان ابن ابی شیبہ، امام ابو احمد الحاکم، امام ابن حبا ن، امام ابن المدینی،

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کتب میں راوی کے حدیثی مقام سے متعلق کتنا تفصیلی مواد موجود ہے ۔

اہل تشیع کتبِ رجال اور جرح و تعدیل

اہل تشیع کے اولین مصادر ِ رجال، رواۃ کے بارے میں ائمہ محدثین یا ائمہ (معصومین ) کی توثیق و تضعیف کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں، قلیل رواۃ کے بارے میں ایک آدھ قول توثیق یا تضعیف کا مل جاتا ہے، ہر راوی کی تعدیل یا تجریح اور وہ بھی متعدد ائمہ و اہل علم سے، جیسا کہ اہل سنت کے مصادر ِ رجال کا عام طرز ہے، اہل تشیع کی اولین کتب اس وصف سے خالی ہیں، شیعہ محققین کو بھی اس بات کا ادراک ہے، ذیل میں اولا شیعہ محققین کی اس بابت رائے نقل کی جاتی ہے، اس کے بعد بطورِ نمونہ ان کتب سے چند تراجم نقل کئے جائیں گے:

عراق کے معروف شیعہ مجتہد و محقق، جن کی بعض کتب نجف کے حوزہ علمیہ میں درسا پڑھائی جاتی ہیں، شیخ محیی الدین موسوی غریفی اپنی ضخیم کتاب "قواعد الحدیث" میں رجال کے اولین مصادرِ ستہ (رجال نجاشی، فہرست طوسی، رجال طوسی، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، رجال ابن الغضائری اور رجال البرقی ) کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ولیس فی تلک الاصول الرجالیہ الستۃ کتاب شامل لجمیع رواۃ احادیثنابحیث یکشف عن حالھم توثیقا و تضعیفا و مدحا و جرحا"4

یعنی ان چھ کتب رجالیہ میں کوئی ایسی کتب نہیں ہے، جو ہماری احادیث کے جمیع رواۃ کے احوال باعتبار ِ توثیق، تضعیف اور جرح و مدح کے واضح کرتے ہوں ۔

اس کے بعد شیخ غریفی نے اصولِ ستہ میں سے ہر ایک کے بارے میں مزید اپنی تحقیقی رائے دی ہے، چنانچہ رجال ِ کشی کے بارے میں رقم طراز ہیں:

"فالشیخ الکشی اقتصر فی کتاب رجالہ علی الرواۃ الذین ورد فیھم احادیث مدحا او ذما و اہمل الباقین جمیعا، وبتعبیر آخرانہ اقتصر علی ذکر الروایات فی حق الرواۃ علی ان کتابہ قد رماہ النجاشی بکثرۃ الاغلاط"5

یعنی شیخ کشی نے اپنی کتاب میں صرف ان رواۃ کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے، جن کے بارے میں کوئی مدح یا ذم کی حدیث منقول ہے اور باقی سب کو چھوڑ دیا ہے، دوسرے لفظوں میں شیخ کشی نے صرف رواۃ کے حق میں منقول روایات ذکر کی ہیں، نیز شیخ نجاشی نے اس کتاب کے بارے میں کثرت ِ اغلاط کا دعوی کیا ہے ۔

شیخ طوسی کی رجال ِ طوسی کے بارے میں شیخ غریفی لکھتے ہیں:

"لم یلتزم بالتصریح بالتوثیق فی کل مورد یقتضیہ فکان غرضہ استقصاء الرواۃ فحسب، وان صرح بتوثیق کثیرمنھم بالعرض، وعلیہ فلا یکون ترکہ لتوثیق راو دالا علی عدم وثاقتہ عندہ ولذا اہمل النص علی توثیق کثیر من وجوہ الرواۃ وثاقتھم"6

یعنی شیخ طوسی نے ہر راوی سے متعلق توثیق کی صراحت نہیں کی ہے، ان کا مقصد صرف رواۃ کا احاطہ تھا، اگرچہ شیخ طوسی نے بہت سے رواۃ کی توثیق بالتبع ذکر کی ہے، لہذا کسی راوی کی توثیق کا ترک کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ راوی ان کے نزدیک ثقہ نہیں ہے، اسی وجہ سے انہوں نے کئی اہم رواۃ کی توثیق ذکر نہیں کی ہے ۔

یہاں اس بات کا اعادہ مناسب ہوگا کہ شیخ طوسی کی کتاب ِ رجال اولین مصادر رجال میں سے عدد رجال کے اعتبار سے سب سے زیادہ ضخیم کتاب ہے، اس کتاب میں تقریبا ساڑھے چھ ہزار رواۃ کا ذکر ہے، اب ان چھ ہزار رواۃ میں سے کتنے رواۃ کی توثیق و تضعیف شیخ طوسی نے ذکر کی ہے، تو معروف شیعہ محقق حیدر حب اللہ اس حوالے سے اپنی کتاب "دروس تمیدیۃ فی تاریخ علم الرجال " میں رقم طراز ہیں:

"ان الطوسی لم یتعہد بتقویم من یورد اسماءھم من الرجال الرواۃ، الا انہ وثق 157 رجلا وضعف 72 رجلا ووصف 50 منھم بالمجاہیل و الباقی سکت عنھم، فلم یصفھم لا بالسلب و الا با لایجاب"7

یعنی شیخ طوسی نے اس کتاب میں رواۃ کی حدیثی درجہ بندی نہیں کی ہے، سوائے اس کے کہ 157 افراد کی توثیق، 72 افراد کی تضعیف کی ہے ، جبکہ 50 افراد کو مجاہیل میں شمار کیا ہے، باقی سے سکوت اختیار کیا ہے، ان کی نہ سلبی اور نہ ایجابی کوئی صفت بیان کی ہے ۔

ساڑھے چھ ہزار رواۃ میں سے صرف 280 رواۃ کے بارے میں جرح و تعدیل کا ذکر کرنے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شیعہ اولین مصادر رجال اس حوالے سے کتنی تہی دامن ہیں ۔

شیخ غریفی اس کے بعد فہرست طوسی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ولم یجر الشیخ الطوسی فی فہرستہ علی ما وعد فی المقدمۃ من الاشارۃ الی ما قیل فیھم من التعدیل و التجریح حیث اہمل توثیق کثیر من وجوہ الرواۃ"8

شیخ طوسی نے مقدمے میں جو وعدہ کیا تھا کہ رواۃ کے بارے میں منقول جرح و تعدیل کا ذکر کیا جائے گا، اس بات پر شیخ قائم نہ رہ سکے، چنانچہ بہت سے نامی گرامی رواۃ کی توثیق ذکر نہیں کی ۔

اب شیخ نے کتنے رواۃ کی تقویم ذکر کی ہے، تو محقق حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

وثق الطوسی ھھنا 92 شخصا فقط ممن ذکرھم و ضعف 21 فقط منھم9

یعنی شیخ طوسی نے فہرست میں صرف 92 اشخاص کی توثیق اور 21 افراد کی تضعیف ذکر کی ہے ۔جبکہ حیدر حب اللہ کے بقول 912 اشخاص و رواۃ کا ذکر ہے، تو ان میں سے صرف 123 افراد کی توثیق یا تضعیف ذکر کی ہے، اس سے ان کتب رجالیہ میں رواۃ کی جرح و تعدیل پر مشتمل مواد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

شیخ غریفی رجال نجاشی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"وقد جرح و ضعف کثیر امن اولئک الرواۃ المولفین کما لم یوثق کثیر منھم"10

یعنی شیخ نجاشی نے کثیر مولفین رواۃ کی تضعیف کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ بہت سے رواۃ کی توثیق بھی ترک کی ہے ۔

اگر قارئین کو شیخ غریفی کا رجال طوسی کے بارے میں "صرح بتوثیق کثیر منھم بالعرض " والا تبصرہ یاد ہے، کہ شیخ غریفی سارھے چھ ہزار میں سے 157 افراد کی توثیق کو کثیر من الرواۃ کہہ رہے تھے ، تو اس "وضعف کثیرا من اولئک الرواۃ" کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کتنے رواۃ کی تضعیف کی ہوگی؟

شیخ حیدر حب اللہ نے بھی رجال نجاشی کے بارے میں اس جیسا تبصرہ کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

"لم یکن غرض النجاشی کما بینا حیت تالیفہ لکتابہ تقویم رواۃ الحدیث والرجال الذین یذکرھم فیہ الا انہ مع ذلک قیم جمعا ممن ذکرھم علی انحاء"11

یعنی نجاشی کا مقصد اس کتاب کی تالیف سے شیخ نجاشی کا مقصد رواۃ و رجال کی درجہ بندی کرنا نہیں تھا، اس کے باوجود شیخ نجاشی نے کئی طریقوں سے متعدد رواۃ کی تقویم ذکر کی ہے ۔

آخر میں شیخ غریفی رجال برقی کے بارے میں لکھتے ہیں:

"والبرقی لم یذکر فی کتابہ جرحا و لا تعدیلا للرواۃ و انما عد طبقاتھم بدون استیفاء"12

یعنی شیخ برقی نے اپنی کتاب میں رواۃ کی جرح و تعدیل زکر نہیں کی ہے، آپ نے بغیر احاطہ کئے رواۃ کے طبقات کا ذکر کیا ہے ۔

ان مصادر ِ رجالیہ میں سے صرف کتاب الضعفاء المعروف رجال ابن الغضائری وہ واحد کتاب ہے، جس کا مقصد ضعیف رواۃ کا ذکر ہے، لیکن اس کتاب کے بارے میں شیعہ اہل علم کے متعدد اختلافی ابحاث منقول ہیں، جیسے کہ اس کا ا صل مصنف کون ہیں ؟ کتاب کی استنادی حیثیت کیا ہے ؟ اس کتاب کی تضعیفات کا کیا مقام ہے؟اس کتاب کے بارے میں بعض مستند رواۃ کی تضعیف کی کیا تاویلات ہیں، یہ سب مباحث شیخ حیدر حب اللہ نے اپنی کتاب دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ (ص 132 تا ص142 ) بیان کئے ہیں، ان سب اختلافی مباحث کے باوجود یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس کتاب میں کل 225 کے قریب رواۃ کا ذکر ہے ۔

ان چھ کتب رجال کے ساتھ اس دور کی دو اور کتب بھی قابلِ ذکر ہیں، ایک معروف شیعہ عالم و مورخ ابن شہر آشوب مازندرانی کی "معالم العلماء فی فہرسۃکتب الشیعۃ واسماء المصنفین قدیما و حدیثا " ہے، جبکہ دوسری کتاب چھٹی صدی ہجری کے شیعہ عالم شیخ منتجب الدین رازی کی "فہرسۃ منتجب الدین " ہے، یہ دو کتب بھی شیعہ علم رجال کی اولین مصادر میں شمار کی جاتی ہیں، اگرچہ انہیں اصول اربعہ یا اصول خمسہ میں نہیں گنا جاتا، لیکن اصولِ رجالیہ کے زمانے کی کتب ہونے کی بنا پر ان کی بھی خاصی اہمیت ہے، یہ دونوں کتب بھی جرح و تعدیل کے اعتبار سے دیگر اصولِ رجالیہ کی طرح تہی دامن ہیں، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ معالم العلماء کے بارے میں لکھتے ہیں:

"نص المازندرانی علی وثاقۃ 44 شخصا و علی ضعف خمسۃ اشخاص آخرین"13

یعنی مازندرانی سے صرف 44 اشخاص کی توثیق اور صرف 5 اشخاص کی تضعیف بیان کی ہے، حالانکہ شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس میں کل 1021 اشخاص کے تراجم بیان ہوئے ہیں، یوں ہزار اشخاص میں سے صرف پچاس رواۃ کے بارے میں توثیق یا تضعیف ملتی ہے ۔ جبکہ فہرسۃ منتجب الدین میں دیگر کتب کی بنسبت اشخاص کی تعریف، توثیق زیادہ ملتی ہے، اگرچہ یہ کتاب بھی اصلا فہرسۃ الطوسی کی طرح شیعہ مصنفین کی ببلوگرافی ہے، اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ اس کی توثیق و تضعیف کو اہمیت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وفائدۃ الکتاب فی مجال التراجم اکثر منھا فی مجال التوثیق و التضعیف"14

لیکن اس کتاب میں ساڑھے پانچ سو کے قریب مصنفین کاذکر ہے، اگر ہم اس کا نصف بھی توثیق پر مشتمل مان لیں، تو پونے تین سو کے قریب رواۃ کی توثیق ثابت ہوتی ہے، جو ظاہر ہے شیعہ رواۃ کی کل تعداد کے اعتبار سے نہایت قلیل تعدادہے، اس کتاب سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں، تاکہ اس کتاب کی توثیق کا انداز واضح ہوسکے:

"السيد الاشرف بن الحسين بن محمد الجعفري.ثقة، فاضل
السيد مصباح الدين أبو ليلى احمد بن محمد بن احمد الحسينى عدل ثقة
الشيخ وجيه الدين أبو طاهر احمد بن (محمد بن احمد بن) ابى المعالى.فاضل، فقيه، ثقة15"

ان تین تراجم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان تراجم میں راوی کے ساتھ صرف ثقہ یا فاضل کا لفظ ہے، اہل سنت کتب کی طرح(جن سے تراجم ما قبل میں ہم نقل کر چکے ہیں) متعدد ائمہ جرح و تعدیل سے سند متصل کے ساتھ راوی کی توثیق یا تضعیف کے بارے میں تفصیلی اقوال بالکل نہیں ہیں ۔

یوں اہل تشیع کے اولین مصادر رجال ، جن میں خصوصیت کے ساتھ رجال کے مصادر خمسہ (رجال نجاشی، فہرست طوسی، رجال طوسی، اختیار معرفۃ الرجال المعروف برجال الکشی، رجال ابن الغضائری )بھی شامل ہیں، جو شیعہ علم رجال کا منبع شمار ہوتی ہیں، ان کتب میں رواۃ کی توثیق یا تضعیف کا مواد نہ ہونے کے برابر ہیں، جن کا اقرار خود شیعہ محققین کو بھی ہے، کما مر

حواشی

  1.  الجرح و التعدیل، ابن ابی حاتم رازی، ج2، ص 242، رقم الترجمہ:862
  2.  الضعفاء الصغیر، امام بخاری ص29، رقم الترجمہ:33
  3.  تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ج2، ص269، رقم الترجمہ:506
  4.  قواعد الحدیث، الغریفی، ج1، ص191
  5.  ایضا:ج1، ص192
  6.  ایضا:ج1، ص 196
  7.  دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص 144
  8.  قواعد الحدیث، ج1، ص 194
  9.  دروس تمہیدیۃ ص 158
  10.  قواعد الحدیث، ج1، ص 192
  11.  دروس تمہیدیہ:ص 125
  12.  قواعد الحدیث:ج1، ص 196
  13.  ایضا:ص167
  14.  دروس تمہیدیۃ، ص 165
  15.  فہرست شیخ منتجب الدین، منتجب الدین رازی، ص36

(جاری)

خاندانی نظام اور سیڈا معاہدہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سعودی وزیر خارجہ محترم عادل الجبیر نے ایک اعلامیے میں خاندانی نظام کے حوالے سے بین الاقوامی معاہدہ سیڈا (CEDAW) کو قرآن و سنت کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے منظور کیا جانے والا قانون بھی سیڈا کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے جسے دینی حلقوں نے خلافِ شریعت قرار دے کر مسترد کیا ہے۔ اس تناظر میں مولانا حافظ فضل الہادی (نائب خطیب مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ) نے مذکورہ اعلامیہ کا ترجمہ کیا ہے جو پیشِ خدمت ہے۔

’’سعودی عرب نے (سیڈا) CEDAW سے متعلق اقوام متحدہ کی دستاویز کو مسترد کرنے کا اعلان کر دیا۔ یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جسے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے منظور کیا ہے۔ سعودی عرب اسلامی شریعت کی دفعات کو کافی سمجھتے ہوئے سیڈا کے عدمِ تعمیل کا اعلان کرتا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ عرب ممالک نے سیڈا سے اتفاق کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان لوگوں کے لیے جو سیڈا معاہدے سے لاعلم ہیں، اس کی وضاحت یہ ہے:

  1. سیڈا کہتا ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح ہوتی ہیں۔ اور قرآن کہتا ہے ’’وليس الذكر کالانثٰی‘‘ (اور مرد عورت کی طرح نہیں ہے۔)
  2. سیڈا کا فیصلہ ہے کہ مرد کو تعدد ازدواج کی اجازت نہیں ہے۔ اور قرآن کا اعلان ہے ’’فانكحوا ما طاب لكم من النساء مثنٰی وثلاث ورباع‘‘ (تو پھر جتنی عورتوں سے چاہو نکاح کر لو، دو دو، تین تین اور چار چار۔)
  3. سیڈا کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ بچوں کے نام ان کی ماؤں کے نام پر رکھے جائیں۔ اور قرآن کہتا ہے ’’ادعوھم لآباءھم‘‘ (تم ان کو ان کے باپوں کے نام سے پکارو۔)
  4. سیڈا کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورت کی عدت نہیں۔ اور قرآن واضح کرتا ہے ’’والمطلقات يتربصن بانفسھن ثلاثة قروء‘‘ (طلاق شدہ عورتیں خود تین حیض آنے تک انتظار کرتی رہیں۔)
  5. سیڈا کا یہ بھی فیصلہ ہے کہ مرد کو عورت پر سرپرستی حاصل نہیں ہے اور باپ کو اپنی بیٹیوں کی سرپرستی نہیں۔ اور قرآن کہتا ہے ’’الرجال قوامون علی النساء‘‘ (مرد عورتوں کے نگران ہیں۔)
  6. سیڈا کا کہنا ہے کہ مرد اور عورت کی میراث ایک ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’للذكر مثل حظ الانثيين‘‘ (مرد کا دو عورتوں کے برابر حصہ ہوگا۔)
  7. سیڈا کا کہنا ہے کہ ایک مرد اپنے جیسے مرد سے شادی کر سکتا ہے، ایک عورت اپنے جیسی عورت سے شادی کر سکتی ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’اتاتون الذكران من العالمين‘‘ (جہان کے سارے لوگوں میں سے تم ہو جو مردوں کے پاس جاتے ہو۔)
  8. سیڈا خواتین کو اسقاطِ حمل کا حق دیتا ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’ولا تقتلوا اولادكم‘‘ (اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو)۔
  9. سیڈا میاں بیوی دونوں کے لیے شادی سے باہر جنسی تعلقات کو جرم نہیں قرار دیتا۔ اور قرآن کہتا ہے ’’ولا تقربوا الزنا انہ كان فاحشۃ وساء سبيلا‘‘ (زنا کے قریب نہ جاؤ، کیونکہ یہ بے حیائی اور برا راستہ ہے)۔
  10. سیڈا کا یہ بھی کہنا ہے کہ عورت جس سے چاہے پابند، جب چاہے جدا، اور جب چاہے دوبارہ جڑ جائے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’محصنات غير مسافحات ولا متخذات أخدان‘‘ (باقاعدہ شادی کرنے والیاں ہوں، نہ علانیہ بدکاری کرنے والی ہوں اور نہ خفیہ آشنائی کرنے والیاں۔)
  11. سیڈا کہتا ہے کہ شادی کی عمر اٹھارہ سال کے بعد ہے۔ اور قرآن کہتا ہے ’’وابتلوا اليتامٰی حتٰی اذا بلغوا النكاح‘‘ (اور یتیموں کو جانچتے رہو یہاں تک کہ وہ شادی کی عمر کو پہنچ جائیں)

جو شخص سیڈا (CEDAW) کے ساتھ کھڑا ہونا اور اس کا دفاع کرنا چاہتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ وہ اللہ تعالٰی کا نافرمان ہے اور اس کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت کا انکار کرتا ہے۔ اس کی سرگرمی دراصل قدامت پسند معاشرے کو تحلیل کرنے کے لیے تندہی سے کام کرنا ہے اور اسے ہوس و بگاڑ کی طرف دھکیلنے کے لیے کام کرنا ہے۔‘‘

افغانستان کا بحران اور ہمارا افسوسناک طرزعمل

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ اسلام لاہور ۲۷ نومبر ۲۰۲۱ء کی خبر کے مطابق امارتِ اسلامی افغانستان کے وزیر خارجہ مولوی محمد امیر خان متقی اپنے وفد کے ہمراہ دوحہ پہنچ گئے ہیں جہاں وہ افغانستان کی تازہ ترین صورتحال کے حوالہ سے امریکی حکمرانوں سے مذاکرات کریں گے۔ جبکہ اخبار کی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات جناب فواد چوھدری نے اسلام آباد میں اے پی پی کے ملازمین کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلحہ کی جنگ تو ختم ہو گئی اب باتوں کی جنگ جاری ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کی جنگ ساڑھے تین گھنٹے میں ختم ہو گئی تھی جب کابل کے حکمران بھاگ گئے تھے اور امریکہ جنگ ہار گیا تھا مگر اب باتوں اور بیانیہ کی جنگ جاری ہے۔

ہمارے خیال میں فواد چوہدری نے موجودہ صورتحال کے حوالہ سے ایک اہم سوال کا جواب دیا ہے کہ جب تمہاری جنگ ختم ہو گئی ہے تو اب کیا ہو رہا ہے اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے نئے مرحلہ کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے جس کے لیے دوحہ میں مذاکرات کے ایک اور دور کا آغاز ہو گیا ہے؟ وفاقی وزیر اطلاعات نے اس کی وجہ باتوں اور بیانیہ کی جنگ کو قرار دیا ہے اور ہمیں اس حد تک ان کی بات سے اتفاق ہے کہ اب جنگ باتوں اور بیانیہ کی ہے، مگر اس سے اگلی بات بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف باتوں کی جنگ نہیں بلکہ نظریات اور تہذیب و ثقافت کی جنگ ہے جس کے ذریعے میدانِ جنگ میں افغان طالبان کے ہاتھوں واضح شکست سے دوچار ہونے والی قوتیں اس جنگ کے مقاصد کو معاشی دباؤ اور نفسیاتی حربوں کے ذریعے حاصل کرنے کے درپے ہیں، اور امریکی اتحاد اس کوشش میں ہے کہ فلسفہ و نظام اور تہذیب و ثقافت کے غلبہ کا جو ایجنڈا وہ ہتھیاروں کی جنگ میں پورا نہیں کر سکا اس کی تکمیل کے لیے سیاسی، معاشی اور نفسیاتی ہتھیاروں کو بروئے کار لا کر اپنی شکست کو فتح میں تبدیل کر لیا جائے۔

ہمارے نزدیک اس وقت افغان قوم تین بحرانوں سے دوچار ہے جو زیادہ تر مصنوعی ہیں اور امریکہ اور اس کے حواریوں کی پیدا کردہ ہیں:

اس مقصد کے لیے نہ صرف یہ کہ امارتِ اسلامی افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے بلکہ دنیا کو ان کی معاشی امداد سے دور رکھنے کے لیے ہر قسم کے دباؤ اور حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ حتٰی کہ امارت اسلامی افغانستان کے اس تقاضے کو بھی بے رحمانہ انداز میں نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ اگر خود افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کر دیے جائیں تو وہ کسی اور بیرونی مدد کے متقاضی نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ مسلسل ہو رہا ہے، ساری دنیا کے سامنے ہو رہا ہے اور پوری ڈھٹائی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ جس میں مغربی ملکوں اور استعماری قوتوں کا کردار تو سمجھ میں آتا ہے مگر مسلّمہ مسلم ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان کا طرز عمل کم از کم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’المسلم اخو المسلم لا یَظلمہ ولا یُسلمہ‘‘ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ خود اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کو ظلم کے لیے کسی اور کے حوالے کرتا ہے۔ جبکہ امت مسلمہ اس وقت خاموش تماشائی دکھائی دے رہی ہے بلکہ جب بھی کسی عملی کردار کا موقع آتا ہے تو اس کا وزن اور جھکاؤ منفی نظر آنے لگتا ہے۔ ان حالات میں مسلم حکومتوں سے کسی خیر کی توقع تو اب نظر نہیں آتی مگر علم و دانش اور رائے عامہ کا وہ میدان ضرور موجود ہے جس میں اربابِ فکر و دانش اگر کچھ کرنا چاہیں تو اس کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔

اس لیے ہم اربابِ علم و دانش سے گزارش کریں گے کہ وہ خاموش تماشائی بنے رہنے کی بجائے اپنے کردار کو مؤثر طریقہ سے ادا کرنے کی کوئی صورت پیدا کریں۔ جبکہ اصحابِ ثروت سے بھی یہی گزارش ہے کہ اس سنگین معاشی بحران میں اپنے افغان بھائیوں کی امداد پر سنجیدہ توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

سیالکوٹ کے واقعے پر علماء کرام کا متفقہ اعلامیہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سات دسمبر منگل کا دن اسلام آباد میں خاصا مصروف گزرا، اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے سیالکوٹ کے سانحہ کے حوالہ سے سرکردہ علماء کرام کی باہمی مشاورت اور سری لنکا کے ہائی کمیشن میں تعزیت اور اظہار یکجہتی کے لیے حاضری کے پروگرام میں شرکت کا پیغام ملا تو اطمینان ہوا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے اس قسم کے اہم مسائل پر کردار ادا کرنے کا عزم کیا ہے۔ دونوں پروگراموں میں حاضری ہوئی اور اس موقع پر دیگر بعض سرکردہ حضرات کی طرح میں نے بھی اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ کونسل اس قسم کے اہم قومی و ملی معاملات میں اس نوعیت کے کردار کا تسلسل قائم رکھے گی۔ اس سلسلہ میں کونسل کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ درج ذیل ہے:

’’سیالکوٹ کے دلخراش و افسوسناک واقعہ پر پاکستان بھر کے جید علماء کرام و اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز، شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی کی سربراہی میں سری لنکن سفیر سے ملاقات و اظہار افسوس اور تمام مکاتب فکر کے علماء کرام، مفتیان، عظام و مشائخ کی پریس کانفرنس:

شرکاء پریس کانفرنس: (۱) ڈاکٹر قبلہ ایاز ، چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل (۲) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان (۳) مولانا انوار الحق حقانی، نائب صدر وفاق المدارس العربیہ(۴) مولانا زاہد الراشدی، سیکرٹری جنرل پاکستان شریعت کونسل (۵) قاری محمد حنیف جالندھری، ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ (۶) مولانا عبد الخبیر آزاد، چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی (۷) مولانا عبد الخیر زبیر (۸) مولانا پیر نقیب الرحمن (۹) پیر علی رضا بخاری (۱۰) علامہ حامد سعید کاظمی (۱۱) صاحبزادہ حسان حسیب الرحمن (۱۲) حافظ طاہر محمود اشرفی (۱۳) مولانا مفتی عبد الرحیم، جامعۃ الرشید کراچی (۱۴) ڈاکٹر حبیب الرحمن (۱۵) مولانا محمد طیب طاہری (۱۶) علامہ امین شہیدی (۱۷) علامہ عارف واحدی (۱۸) سینٹر پروفیسر ساجد میر (۱۹) مولانا یوسف کشمیری (۲۰) پیر حبیب الحق (۲۱) پیر حبیب عرفانی (۲۲) پیر خالد سلطان اور دیگر سرکردہ حضرات۔

مشترکہ اعلامیہ:

ہم آج سری لنکن سفارت خانے میں ۳ دسمبر کے اندوہناک واقعہ پر اظہارِ تعزیت اور اظہارِ یکجہتی کرنے آئے ہیں۔ سیالکوٹ کا حالیہ سانحہ ایک المیہ ہے جس کی وجہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں غم و غصہ پھیل گیا ہے۔ ہجوم کی صورت میں بے رحمانہ انداز میں ایک انسان کو مارا پیٹا گیا اور بالآخر موت کے گھاٹ اتار کر اس کی لاش جلائی گئی۔ ماورائے عدالت قتل کا یہ ایک بھیانک واقعہ ہے، بغیر ثبوت کے توہین مذہب کا الزام لگانا غیر شرعی حرکت ہے۔ یہ پوری صورتحال قرآن و سنت، آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان اور ملک میں رائج جرم و سزا کے قوانین کے سراسر خلاف ہے، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سمیت پاکستان بھر کے مستند علماء نے بھر پور طریقے سے اس کی مذمت کی ہے۔

عاقبت نا اندیش عناصر کا یہ اقدام ملک و قوم، اسلام اور مسلمانوں کی سبکی کا باعث بنا ہے۔ علاوہ ازیں ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کی قومی دستاویز جس میں ایسے ہر قسم کے مسلح اقدام کی نفی کی گئی، یہ اقدام اس سے سراسر انحراف ہے۔ ’’پیغامِ پاکستان‘‘ کو پاکستان کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور مدارس بورڈز کی تائید حاصل ہے۔ ان شر پسند افراد کے خلاف رائج ملکی قوانین کے مطابق سخت سے سخت قانونی اقدامات کئے جائیں۔ اس تکلیف دہ واقعہ میں امید کی ایک کرن یہ تھی کہ ایک نوجوان ملک عدنان نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر اس قتل ہونے والے بے گناہ شخص کو بچانے کی بھر پور کوشش کی، اس نو جوان کا یہ اقدام قابل تحسین بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔ وزیر اعظم پاکستان نے اس نوجوان کی حوصلہ افزائی کے لیے ’’تمغۂ شجاعت‘‘ دینے کا اعلان کر کے ایک بہت مستحسن اقدام کیا ہے۔

آج کا نمائندہ اجتماع قرار دیتا ہے کہ اسلام میں تشدد اور انتہا پسندی کی کوئی جگہ نہیں ہے، لہذا علماء کرام اعتدال پسندی کو فروغ دیں، انتہا پسندی کو روکنے کے لیے معاشرے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں تاکہ ملک پاکستان امن اور آشتی کا گہوارہ بن جائے۔‘‘

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا مقدمہ)

تعارف

ستمبر 2006 میں عابد علی نے، جس کا تعلق شمالی ہندوستان کے شہر مراد آباد سے تقریبًا بارہ میل کے فاصلے پر واقع گاؤں احرار اللہ سے ہے، کئی دہائیوں سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہونے کے باوجود اپنی پچھتر سالہ بیوی اصغری علی کے ساتھ تجدیدِ نکاح کی۔ ۔ چند ہفتے پہلے ان نکاح ٹوٹ گیا تھا، کیوں کہ انھیں ایک مقامی مسلمان مولوی عبد المنان کریمی نے دیگر دو سو افراد سمیت کافر قرار دیا تھا۔ کریمی نے یہ انتہا پسندانہ فتوی اس وقت صادر کیا جب اسے پتا چلا کہ حال ہی میں اس کے گاؤں میں وفات پانے والے ایک بزرگ شخص کی نماز جنازہ ادا کی گئی ہے۔ نماز جنازہ میں شرکت کوئی قابل اعتراض امر نہیں تھا۔ تا ہم کریمی کے خیال میں گاؤں کے لوگوں نے مخالف مسلک کے امام کے پیچھے نمازِ جنازہ ادا کرکے ایک سنگین جرم کا ارتکاب کیا تھا1۔

کریمی اور وہ دو سو لوگ جنھیں اس نے دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا، دونوں کا تعلق سنی اسلام کے معروف بریلوی مسلک سے تھا۔ جنازے کی امامت کرنے والے مولوی ابو حفیظ محمد کا تعلق تاریخی مسلکِ دیوبند سے تھا۔ جنازے کے دن چونکہ مقامی مولوی موجود نہیں تھا، اس لیے ابوحفیظ نے قائم مقام امام کی حیثیت سے نماز جنازہ پڑھا دی۔ کریمی کے نزدیک ایک دیوبندی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی وجہ سے گاؤں کے لوگوں کا عقیدہ باطل ہو گیا تھا اور اسی وجہ سے ان میں سے شادی شدہ افراد نکاح ٹوٹ گیا تھا۔کریمی کا پرزور اصرار تھا کہ دائرہ اسلام میں واپسی کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ توبہ کریں، از سرِنو کلمہ پڑھیں، اور عقدِ نکاح کی تجدید کریں۔ اس کے الفاظ یہ تھے: "توبہ کرو، کلمہ پڑھو اور نکاح پڑھواؤ"۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک عوامی تقریب میں سو سے زیادہ جوڑوں نے نکاح کی تجدید کی۔ فتح کے شادیانے بجاتے ہوئے کریمی نے بڑے پرجوش انداز میں کہا: "یہ شادیاں ہر قسم کی نمود ونمائش سے پاک ہیں۔ صرف دوگواہوں کی موجودگی کی شرط پوری کی گئی ہے"2۔

شمالی ہندوستان میں رونما ہونے والے اس عجیب وغریب واقعے کے چند سال بعد، سرحد پار پاکستان میں واقعات کے ایک غیر مربوط سلسلے نے دیوبندی بریلوی مخاصمت کو غیر معمولی توجہ کا مرکز بنا دیا۔ اگلا قصہ اس جاری کش مکش کے فریقوں اور علم برداروں کی مزید وضاحت کرتا ہے۔

10جنوری 2011 کو پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے مظفر گڑھ کے ایک مقامی امامِ مسجد محمد شریف اور اس کے بیٹے محمد اسلم کو توہینِ رسالت کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی۔ دراصل انھیں 2010 میں اپنے خاندان کے ایک کریانہ سٹور پر عید میلاد النبیؐ کی تقریب سے متعلق اشتہاری پوسٹر کو ہٹانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس تقریب کے منتظمین کے مطابق، جنھوں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا، شفیع اور اسلم نے پوسٹر کو پھاڑا تھا اور اسے اپنے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ باپ اور بیٹے دونوں پر پاکستان کے متنازعہ قانونِ توہینِ رسالت کے تحت مقدمہ بنایا گیا۔ نظری اعتبار سے یہ قانون کسی بھی معروف مذہب کی توہین کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ تاہم عملاً اس کا اطلاق اکثر وبیتر ان افراد پر ہوتا ہے جو توہینِ رسالت کے جرم میں ملوث پائے گئے ہوں۔ جرم کی سزا تعزیری جرمانوں سے لے کر سزائے موت تک ہے۔

شفیع اور اسلم کے خلاف عدالتی فیصلہ پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کے ہیجان انگیز قتل کے چھ دن بعد صادر ہوا۔ سلمان تاثیر کو اس کے ذاتی محافظ ممتاز قادری نے گولی مار دی تھی جس کے خیال میں گورنر نے قانونِ توہینِ رسالت کی مخالفت کرکے سنگین گناہ کا ارتکاب کیا تھا3۔اس سنسنی خیز واقعے کے بعد پاکستان میں متعدد سیاستدانوں، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے توہینِ رسالت کے قانون کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت میں کہا کہ یہ فرقہ وارانہ تشدد کو ابھارتا ہے، اور اسے ذاتی انتقام کی تسکین کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ان احتجاجی جلسوں میں شفیع اور اسلم کے وکیل صفائی عارف گورمانی بھی شریک تھے۔

گورمانی کا دعویٰ تھا کہ اس کے موکلوں کو سزا دیتے وقت عدل وانصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔ اس کے خیال میں اس کے موکل سنیوں کے درمیان موجود بین المسالک چپقلش کی زد میں آ گئے ہیں۔ گورمانی نے کہا: "دونوں (مدعی اور مدعیٰ علیہ) مسلمان ہیں۔ یہ کیس سنی مسلمانوں کے درمیان دیوبندی بریلوی اختلاف کا شاخسانہ ہے۔ میں ان کی وکالت اس لیے کر رہا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ وہ توہینِ رسالت کے جرم میں ملوث نہیں ہیں"4۔ اس کے موکلوں کا تعلق دیوبندی مکتبِ فکر سے تھا۔

سنی اسلام کے دیوبندی اور بریلوی مسالک میں فرقہ وارانہ چپقلش، جس کی طرف گورمانی نے اشارہ کیا، مسلمان علما کے درمیان مناظرانہ بحثوں کے اضطراب انگیز لیکن اہم سلسلے سے تعلق رکھتی ہے جس کا آغاز انیسویں صدی کے شمالی ہندوستان میں ہوا۔ شفیع کی طرف سے عید میلاد النبیؐ کے اشتہار کی بے حرمتی سے جنم لینے والے تنازع کی طرح انیسویں صدی کے اس مباحثے نے جنوبی ایشیائی اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی مقام اور حیثیت کے حوالے سے متصادم تصورات کو جنم دیا تھا۔ اس نے ایک ایسے پیچیدہ شرعی مسئلے کو موضوعِ فکر بنایا جو کئی صدیوں تک مسلمانوں کے دماغوں پر حاوی رہا، یعنی یہ کہ مسلمان معاشرہ کس طریقے سے حضور ﷺ کی یاد کو تازہ رکھے اور آپ کے اسوہ پر عمل کرے؟

زیر نظر کتاب بریلوی دیوبندی اختلاف کا پہلا جامع مطالعہ ہے۔ یہ ایک مناظرانہ جنگ ہے جس نے جنوبی ایشیا میں اسلام اور مسلمانوں کی شناخت کو انتہائی گہرے انداز میں تشکیل دیا ہے۔ اس مناظرانہ جنگ کو شروع ہوئے لگ بھگ دو سو سال کا عرصہ ہو چکا ہے، تاہم اس کی گرفت مابعد استعمار دور میں بھی جنوبی ایشیا کے مقامی مسلمانوں اور پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تارکین وطن کی مذہبی حساسیتوں پر آج بھی قائم ہے5۔ اس تنازع کے استدلالات، تحریری سرمایے اور ماحول نے ناقابل تنسیخ طریقے سے اس نہایت اہم سوال کی تشکیل کی ہے کہ جدید دنیا میں، جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں کس چیز کو حقیقی اسلام کا اور ایک معیاری مسلم شناخت کا درجہ حاصل ہے۔

جیسا کہ ان دو واقعات سے، جن سے میں نے بات کا آغاز کیا ہے، معلوم ہوتا ہے، دیوبندی بریلوی اختلاف محض ایک علمی چپقلش کا معاملہ نہیں۔ اس مباحثے کے فریقوں اور علمبرداروں کے درمیان اختلاف کا سلسلہ اسلام کے روزمرہ معمولات کو محیط ہے اور توہینِ رسالت کی تعریف سے لے کر اس سوال تک پھیلا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اخلاقی اور روحانی زندگی کی تشکیل کس نمونے پر کی جائے۔ تاہم عموماً عوامی اور علمی مباحثوں میں بریلوی دیوبندی اختلاف کا مطالعہ ا بعض بظاہر بہت مضبوط لیکن درحقیقت سطحی موازنوں کے فریم ورک میں کیا جاتا ہے، مثلا فقہی اسلام اور صوفی اسلام، خالص اسلام اور عوامی اسلام، تحدید پسند اسلام اور شمولیت پسند اسلام، روایتی اسلام اور احیائی اسلام وغیرہ۔ ان باہم دگر جُڑے موازنوں میں بالعموم جس موازنے کو بریلوی دیوبندی اختلاف کی توضیح کے طور پر شاید سب سے زیادہ پیش کیا جاتا ہے، وہ فقہی/صوفی موازنہ ہے۔ اس اختلاف کو، جیسا کہ میں اس تعارف میں واضح کروں گا، بکثرت اسلام کی صوفی اور فقہی روایات یا فقہ وتصوف کے درمیان ایک دائمی اختلاف کا ایک مظہر سمجھا جاتا ہے۔ بریلوی دیوبندی اختلاف کے داخلی استدلالات کی گہری تحقیق کی روشنی میں، زیر نظر کتاب ایسے تقابلی تشریحات وتوضیحات کی فکری کم مایگی اور کجی سے پردہ اٹھاتی ہے۔ یہ تقابلی موازنے انسانی زندگی اور مذہب کے دائرۂ کار کی تحدید کے کے حوالے سے لبرل سیکولر ازم کے انداز فکر کی غمازی کرتے ہیں جس کی ناکامی طے شدہ ہے۔ سادہ فکری پر مبنی اور سیاسی طور پر نقصان دہ اور گمراہ کن ہیں۔

میں ایک ایسے متبادل فکری منہج کی وکالت کرتا ہوں جو مذہب کے حدود کی تعیین کے لیے پیش کیے گئے ان متصادم بیانیوں کو روایت اور تجدید ے دو حریف فکری سانچوں (competing rationalities)کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ان سانچوں کو تشکیل دینے والے فریق یہ کوشش کرتے ہیں کہ خاص حکمت عملی کے ذریعے سے دینی روایت کی تعیین وتحدید کے اختیار پر اپنا استحقاق ثابت کر سکیں۔ وہ اپنے مد مقابل بیانیوں کی اہمیت کو گھٹانے کی جدوجہد کرتے ہیں تا کہ قطعیت سے یہ بتا نے کا اختیار صرف ان کے پاس ہو کہ کس چیز کو مذہب سمجھنا چاہیے اور کس کو نہیں۔ اس عمل میں حکمت عملی کے طور پر تکفیر وتضلیل (exclusion) کی کئی صورتیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر مخالفین کے دلائل کی داخلی بے ربطی کو واضح کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے ماضی کے مستند دلائل کے ساتھ ان کا تضاد دکھا کر ان عناصر کی ثقاہت کو نقصان پہنچانا مقصود ہوتا ہے، جنھوں نے مخالف دلائل تشکیل دیے ہیں، اور سب سے اہم یہ کہ ان کے مقابلے میں معیاری اسلام (normative)کا ایک متبادل اور متوازی تصور پیش کیا جاتا ہے۔

بحث ونزاع کے اس ماحول کو، جس میں برتری حاصل کرنے کے لیے مختلف استدلالی حکمت عملیوں سے کام لیا جا رہا ہو، کبھی بھی تقابلی خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ اس کے بجاے یہ فکر ونظر کے ایک انداز کا تقاضا کرتا ہے، جو بہت قریب سے ان متقابل استدلالات کو جانچے جن کے ذریعے سے ایک علمی واستدلالی روایت کی حدود متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بعینہ یہی منہج ہے جس کو اس کتاب میں برتنے کی کوشش کی گئی ہے۔ روایت اور تجدید کے حوالے سے انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمانوں کے مابین زیر بحث فکری سانچوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ کتاب ان مناہج کو سامنے لاتی ہے جن کے ذریعے سے جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کی حدود کا تعین کیا گیا، ان کو توجہ کا مرکز بنایا گیا، اور ان پر بحث ومباحثہ کیا گیا6۔

معاشرتی تشکیل کا مذہبی نظام فکر (Political Theology)

یہ کتاب خاص طور پر یہ نقطہ نظر پیش کرتی ہے کہ بریلوی دیوبندی تنازع کی اساس معاشرتی تشکیل کے مذہبی نظام فکر کا سوال ہے۔ معاشرتی تشکیل کے مذہبی نظام فکر سے میری مراد مذہبی مباحثوں اور سیاسی و سماجی تصورات کا گہرے طورپر باہم وابستہ (interlocking) ہونا ہے۔ان تنازعات کا مرکزی سوال یہ تھا کہ نوآبادیاتی دور میں، جب مسلمان اپنی سیاسی حاکمیت کھو بیٹھے تھے، خدائی حاکمیت اور حضرت محمد ﷺ کے مقام ومرتبہ کے مابین تعلق کو کس طرح سمجھا جائے؟7 خدا اور پیغمبر کے درمیان تعلق کی متخالف تفہیمات نے مذہبی رسوم اور عوام کی روزمرہ زندگی کی شکل وصورت کے بارے میں متوازی تصورات کو جنم دیا۔ بالفاظ دیگر بریلوی دیوبندی تنازع نے خدائی حاکمیت، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دینی مقام اور حیثیت اور روزمرہ کی مذہبی رسوم کے درمیان شرعی تعلق کے حوالے سے متوازی تصورات پیش کیے۔ اس تنازع میں زیرِ بحث سوال یہ تھا کہ ایک غیر معمولی اخلاقی اور سیاسی بے چینی کے دور میں خدا، پیغمبر اور معاشرے کے درمیان تعلق کو کیسے سمجھا جائے۔ علم کلام، فقہ اور روزمرہ کے اعمال کے درمیان تعلق وہ فکری دھاگا ہے جو اس کتاب کے مباحث کی شیرازہ بندی کرتا ہے، اور میں اسے مسلمانوں کے مابین داخلی مناقشے اور استدلال کی روایات کی تحقیق کے لیے ایک منہج کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہوں۔

اس کتاب کا ایک مرکزی موضوع یہ سوال ہے کہ کس طرح سیاسی اقتدار کا خاتمہ ایسے حالات پیدا کرتا ہے جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور کسی گروہ کی روزمرہ معاشرتی زندگی کے ساتھ اس کے تعلق پر مناقشوں میں شدت پیدا کرتے ہیں۔ جب برطانوی نوآبادیاتی نظام کے آغاز سے برصغیر پاک وہند کے اکثر حصوں پر مسلمانوں کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، تو اکابر مسلمان علما کے لیے اس سے زیادہ فوری نوعیت کا مسئلہ اور کوئی نہیں تھا کہ وہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے دینی سرحدات کو محفوظ کریں۔ یہ کتاب بتاتی ہے کہ کس طرح دو متخاصم گروہ، جن میں انیسویں صدی کے سب سے زیادہ نامور اور کثیر التصانیف علما شامل تھے، اس فوری مسئلے سے نبرد آزما ہوئے۔ یہ کتاب بریلوی دیوبندی چپقلش کی مابعد استعمار باقیات سے زیادہ اس کے دور استعمار کے تناظر سے بحث کرتی ہے۔ اس فیصلے کی وجہ نئی پیش رفت کی اہمیت کو گھٹانا نہیں، اور نہ ہی اس کا مقصد اس مسئلے کی تاریخی جڑوں کی تلاش ہے۔ اس فیصلے کی بنیاد یہ تیقن ہے کہ صرف نوآبادیاتی تناظر کے ایک مسلسل اور محتاط مطالعے سے ہی مابعد استعمار دور میں اس کش مکش کی باقیات کو ٹھیک طرح سے سمجھا جا سکتا اور ان کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے8۔ ان متون، کرداروں اور بیانیوں کی ایک گہری تحقیق سے، جو اس مباحثے کے دور آغاز میں موجود تھے، میں اس بات کی تفصیلی تصویر پیش کرنا چاہتا ہوں کہ استعماری جدیدیت کے دور میں کس طرح ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی حدود بحث ومناقشہ کا موضوع بنیں۔

بڑی تصویر

اس کتاب کا ارتکاز جنوبی ایشیا میں اسلام کی دو متوازی تحریکوں اور مذہبی تصورات پر ہے جن کی ابتدا انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی۔ ان حریف تجدیدی سلسلوں کے کرتا دھرتا وہ ممتاز علما تھے، جن کی حیات اور علمی مساعی نے جنوبی ایشیا کے مسلم ورثے پر گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔ باوجود شدید اختلافات کے، ان میں بہت سے مشترکات بھی موجود تھے۔ وہ بالعموم مشترکہ علمی شجروں، حوالہ جاتی مصادر، مطالعہ وتشریح کے طور طریقوں اور یکساں جغرافیوں (یعنی دہلی اور شمالی ہندوستان) سے وابستہ تھے۔ علوم اسلامیہ کے ماہر یہ علما ایک جیسے ادارتی مراکز یعنی مدارس میں بیٹھتے تھے جہاں اعتقادی علومِ، اخلاقیات اور خدا پرستی کی تعلیم وتربیت دی جاتی ہے۔

جنوبی ایشیا میں بہت سے مسلمان علما بشمول انیسویں صدی کے ان کرداروں کے جن کی فکر سے اس کتاب میں بحث کی جائے گی، درس نظامی کے تعلیم وتربیت یافتہ تھے۔ یہ بھاری بھرکم (عموما چھ سالہ) نصاب علوم اسلامیہ کے مختلف پہلؤوں (تفسیرِ قرآن، علومِ حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور منطق) پر مشتمل ہے، البتہ کسی مدرسے کے مخصوص رجحانات کے لحاظ سے مختلف مضامین کو مختلف سطح کی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ درسِ نظامی سترھویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مشہور عالم ملا نظام الدین (م 1677) کے نام نامی سے منسوب ہے۔

مسلمانوں کے جن حریف فکری دھاروں کو اس کتاب میں زیرِ بحث لایا گیا ہے، اگر انھیں آج کے رائج نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو وہ اس اعتبار سے بھی ایک جیسے ہیں کہ دونوں کو باہر سے ایک ہی طرح کے دقیانوسی انداز میں دیکھا جارہا ہے۔ مغربی، مسلم اکثریتی، اور غیر مغربی اور مسلم اقلیتی تناظر میں یکساں طور پر مدارس اور ان کے کارپرداز علما کو عام طور سے ایک پُراسرار روایت کے ماہرین کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو عہد جدید سے بالکل لاتعلق ہے۔ سب سے بدتر یہ کہ انھیں انتہا پسند علم دشمنی کے نمائندوں کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو بنیاد پرستی اور عسکریت پسندی کی آگ بھڑکاتے ہیں9۔ مدرسہ کا خوف اب ایک ایسا عالمگیر مظہر ہے جس میں مختلف اور باہم متضاد نظریاتی وابستگیاں اور دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے گروہ مشترک طور پر مبتلا ہیں۔ ان میں طاقتور نوسامراجی تھنک ٹینکس سے لے کر صہیونی اور مسیحی قوم پرست، بہت سے لبرلز، تجدد پسند اور حتی کہ بعض صورتوں میں مسلم اکثریتی ممالک کے اسلام پسند بھی شامل ہیں۔ اگر چہ مدارس اور علما کی بھونڈی تصویر کشی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، تاہم نائن الیون کے بعد ان میں ایک غیرمعمولی شدت اور اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب مدارس کو تقریبا طالبان اور دہشت گردی کے ہم معنی قرار دے دیا گیا۔ اس حوالے سے ایک سرگرم صنعت معرض وجود میں آ گئی ہے، جس میں خود ساختہ ماہرین براجمان ہیں جنھوں نے مدارس اور علما کی تحقیر اور بدنامی کو ایک پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے۔

ہر چند کہ یہ ایک نسبتاً پرپیچ بین المسلکی تنازع پر ایک اختصاصی علمی کتاب ہے، تاہم جنوبی ایشیا کے مسلمان علما اور ان کے علمی مباحثوں کے بارے میں اس مریضانہ بیانیے کی تصحیح اس کتاب کے نمایاں اہداف میں سے ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ اس کا مقصد مدارس کی تقدیس یا اس سے کوئی رومان وابستہ کرنا نہیں۔ جیسا کہ مدارس سے وابستہ بہت سے اہل علم کسی ہچکچاہٹ کے بغیر یہ تسلیم کریں گے کہ ایک شخص مدرسے کی علمی روایات کے بہت سے پہوں بالخصوص صنفی انصاف کے سوالات اور غیر مسلم اقلیتوں سے متعلق رویے کا ناقد ہو سکتا ہے10۔ تاہم جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی علمی روایات کی ایک پیچیدہ اور پُرکار تصویر پیش کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے داخلی تنازعات کی گہرائیوں، تفصیلات اور ابہامات کو زیرِ غور لایا جائے۔ یہ کتاب اسی نوعیت کی ایک کوشش ہے اور جدید جنوبی ایشیائی اسلام میں علما کے درمیان جنم لینے والے غالبا سب سے طویل المدت اور علمی اعتبار سے عمیق ترین مناظرانہ معرکہ آرائی یعنی بریلوی دیوبندی اختلاف کی بہت قریب سے جائزہ پیش کرتی ہے۔ اس اختلاف کے گہرے مطالعے سے میرا مقصد جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کے علمی پس منظر کے ایک اہم اور معتد بہ حصے (fragment) کی تفصیلی تصویر کشی ہے۔ سو اصل میں یہ مناقشہ کس چیز کے بارے میں ہے، اور کن مرکزی کرداروں نے اس کی صورت گری کی ہے؟ میں اگلے مرحلے میں ان سوالات کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، تاکہ اس پروجیکٹ کے مقصد اور بنیادی استدلال کی توضیح وتشریح کر سکوں۔

روایت اور اصلاح کی متقابل عقلیات

اس پوری کتاب میں، میں ہندوستانی مسلمانوں کی علمی اشرافیہ کے دو مدمقابل دھڑوں کی طرف سے پیش کی جانے والی روایت اور اصلاح کی حریف عقلیات توضیح کروں گا۔ ان میں سے ایک گروہ ان علما کا تھا، جن کے تصور دین کا دار ومدار اس پر تھا کہ خدا کی مطلق طور پر امتیازی حاکمیتِ اعلیٰ کا اثبات کیا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انھوں نے حضرت محمد ﷺ کی ایک ایسی تصویر پیش کی جس میں آپ کی بشریت پر اور مختار کل وحاکم مطلق خدا کے حضور آپ کی عبدیت پر بہت زیادہ زور تھا۔ انھوں نے ان رسوم ورواج اور روزمرہ کی عادات واطوار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی اہمیت کو گھٹا رہے تھے، یا حضور ﷺ کی تقدیس ایسے انداز میں کررہے تھے جس سے آپ کی بشریت میں شک پیدا ہو۔ اس اصلاحی منصوبے کے بڑے کرداروں میں سے ایک، انیسویں صدی کے ابتدائی عہد کے ہندوستانی مسلمان مفکر شاہ اسماعیل شہید (م 1831) تھے۔ ان کے اس اصلاحی ایجنڈے کو انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں دیوبند کے پیش رووں نے آگے بڑھایاجو ایک دینی مدرسہ اور مسلک تھا جو شمالی ہندوستان کے شہر دیوبند میں 1866 میں قائم کیا گیا ۔

شمالی ہندوستان میں مسلمان علما کے ایک دوسرے گروہ نے اس اصلاحی تحریک کو شدت سے چیلنج کیا۔ انھوں نے اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کیا کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو پیغمبر علیہ السلام کے دائرۂ اختیار سے الگ نہیں کیا جا سکتا، جو مخلوقِ خدا میں سب سے زیادہ کرشماتی اور خدا کی محبوب ترین ہستی ہیں۔ ان کی نظر میں خدا اور پیغمبر کے خصوصی مقام اور اختیار میں باہم کوئی تضاد نہیں، بلکہ وہ ایک دوسرے کی تائید وتوثیق کرتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے استدلال کیا کہ نبی کو، جن پر وحی الہی کا نزول ہوا، محض ایک انسان کی حیثیت سے پیش کر کے ان کی امتیازی حیثیت کو گھٹانا ہے انتہائی قابل اعتراض ہے۔ نتیجتاً ان علما نے ان مذہبی رسوم اور روزمرہ کے اعمال کا دفاع کیا جن کا مقصد حضور ﷺ کی یاد اور کرشماتی شخصیت کی تعظیم تھا۔ شش جہت مفکر مولانا احمد رضا خان اس اصلاح مخالف تحریک کے سرخیل تھے۔ وہ بریلوی مسلک کے بانی تھے، جو ایک دوسرا مسلکی گروہ تھا جو شمالی ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے شہر بریلی کی طرف منسوب ہے جہاں مولانا احمد رضا خان کی ولادت ہوئی تھی۔ بریلوی مسلک کئی معنوں میں انیسویں صدی کے عالم فضل حق خیر آبادی (م 1861) کا جانشین تھا، جنھوں نے پرزور انداز میں شاہ محمد اسماعیل کی مخالفت کی تھی۔

اس کتاب کے بڑے مقاصد میں سے ایک مقصد ان مسلکی رجحانات اور تنازعات کا بیان ہے جنھوں نے ان علما کی فکری زندگی کی تشکیل کی، جو بیک وقت عربی، فارسی اور اردو میں قادر الکلام اورتحریر کی صلاحیت سے بہرہ ور تھے۔ جیسے جیسے ہم اس کتاب میں ہم آگے بڑھیں گے، میں موقع بموقع ان علما کا تعارف تفصیل سے پیش کروں گا۔ سردست اتنی بات کافی ہے کہ یہ جدید جنوبی ایشیائی اسلام میں سب سے زیادہ کثیر التصانیف، بڑے پیمانے پر پیشوا مانے جانے والی اور متنازع شخصیات تھیں، جو بیک وقت نامور فقیہ اور صوفی شیوخ تھے۔ ان کے متضاد اصلاحی پروگراموں نے جدید اسلام کے بیانیے میں سب سے زیادہ تیز وتند اور شدت سے لڑی جانے والی مناظرانہ جنگوں کے ابھارنے میں کردار ادا کیا۔ ان کے تنازعات سے کئی زبانی اور تحریری مناظروں، تردیدات اور جوابی تردیدات، فقہی واعتقادی فتاوی ہائے تکفیر اور حکایت گوئی کی ایسی روایات نے جنم لیا جو بعض علما کی تعظیم کرتی ہیں، اور بعض کا تمسخر اڑاتی ہیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے میں اپنے "دیوبندی بریلوی مناظرے" کی اصطلاح کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں جو اس کتاب میں تسلسل سے استعمال کی جائے گی۔ یہ کتاب اٹھارویں صدی کے اواخر سمیت انیسویں صدی کے اوائل واواخر چند اہم تاریخی گوشوں سے بحث کرتی ہے۔ اس لیے جب میں بریلوی دیوبندی مناظرے کی بات کرتا ہوں تو میرے ذہن میں یہ وسیع تر تناظر ہوتا ہے، اگر چہ بریلوی ودیوبندی مسالک انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں پیدا ہوئے۔ میرا مُدَّعا کسی غائی (Teleological)بیانیے کی تائید نہیں، جس کی رو سے ان گروہوں کا ظہور ناگزیر تھا۔ اس کی بجائے میں اس اصطلاح کو ایک جامع تعبیر کے طور پر استعمال کر رہا ہوں تاکہ خدائی حاکمیتِ اعلی، نبوی اختیار اور رسومیاتی اعمال کے درمیان تعلق پر انیسویں صدی کے اوائل میں جنم لینے والے اور اس صدی کے نصف آخر میں مسلکی اور گروہی شکل اختیار کر لینے والے مناقشے وضاحت کر سکوں۔

اس مناقشے کی استدلالی فضا بے شمار باہم دگر جُڑے متعدد سوالات سے معمور ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مذہبی گروہ کو کن خطوط پر اپنی زندگی کو استوار کرنا چاہیے جس سے خداے مطلق کے سامنے اس کی اطاعت کا اظہار ہو؟ خدا اور انسانوں کے درمیان واسطہ ہونے اور روز قیامت شفیع ہونے کی حیثیت سے پیغمبر کے اختیار کی نوعیت کیا ہے؟ پیغمبر کو کس قسم کا علم حاصل تھا؛ کیا ان کے پاس علمِ غیب تھا؟ ایسے مذہبی رسوم، عقیدت مندانہ اعمال اور روز مرہ کے معمولات کی شرعی حیثیت کیا ہے جن کی نظیر رسول اللہ ﷺ اور ان کے صحابہ کے عمل میں موجود نہ ہو؟ کن حالات میں ایسے اعمال بدعت قرار پاتے ہیں؟ ایک اور نزعی سوال جو اس اختلاف کا سبب بنا، خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان (امکانِ کذب) اور پیغمبر علیہ السلام کی طرح کے کسی دوسرے شخص کی تخلیق کے امکان (امکانِ نظیر) کا سوال ہے۔ یہ سوالات فقہ، علم کلام اور روزمرہ کے دینی اعمال کے ساتھ مشترک طور پر تعلق رکھتے ہیں۔ میں اپنے موقف کا اعادہ کروں گا کہ بریلوی دیوبندی اختلاف، مذہبی شناخت کی تشکیل کے دو متصادم بیانیوں کا اظہار تھاجن میں سے ہر ایک فقہ اور رسومیاتی اعمال کے حدود وقیود کے متعلق متوازی تصورات پیش کیے۔

اس کتاب کا نام Defending Muhammad in Modernity رکھا گیا ہے، کیونکہ یہ جس مسلکی کش مکش کی تفصیل پیش کرتی ہے، وہ حضرت محمد ﷺ سے متعلق متقابل تصورات پر مرکوز ہے۔ نبی ﷺ کا کون سے تصور کو ایک مسلمان کی معیاری دینی وابستگی اور روزمرہ زندگی کی بنیاد بننا چاہیے؟ بریلوی دیوبندی نزاع کا مغز یہ سوال ہے، جس نے جدید استعماری دور میں غیر معمولی اہمیت حاصل کر ل۔ استعماری حالات نے جہاں شدید بے چینی پیدا کی، وہیں مثالی مسلمان عوام کی تشکیل کی توقع اور ارادے کو بھی جنم دیا۔ دیوبندی بریلوی اختلاف میں نمایاں ہونے والے حضرت محمد ﷺ کے متوازی تصورات مثالی مسلمان فرد اور مثالی معاشرہ، دونوں کو محیط ہیں جو (ایک لحاظ سے) دو الگ الگ دائرے ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کی شخصیت وہ مرکزی حوالہ تھا جس کے ذریعے سے اصلاح کا تصور تشکیل دیا گیا ۔ یہ سارا مباحثہ حضرت محمد ﷺ ہی پر مرکوز تھا۔

وہ تمام اختلافی نکات جن سے اس کتاب میں بحث کی گئی ہے، حضرت محمد ﷺ پر مرکوز ہیں: (قیامت کے دن) آپ کا شفاعت کرنے کا اختیار، بدعات کی صورت میں ان کے اُسوۂ حسنہ سے انحراف، آپ کے علمِ غیب کی نوعیت وحیثیت اور خدا کے لیے ایک دوسرے محمد کو پیدا کرن۔ ایک خاص مفہوم میں یہ کتاب اس داستان کو بیان کرتی ہے کہ کیسے جدید جنوبی ایشیا کے اکابر علما نے حضرت محمد ﷺ کے مقام ومرتبہ کی وضاحت کی کوشش کی، اور معیاری اسلامی تصورات کے دائرے میں آپ کی شخصیت اور اوصاف وخصائص کے متعلق متوازی تصورات پیش کیے۔ اگرچہ ان کے مابین شدید ترین اختلاف موجود تھا، لیکن یہ تمام ہندوستانی علما جن کی داستان اس کتاب میں بیان کی گئی ہے، دینی اصلاح کے لیے حضرت محمد ﷺ سے متعلق اپنے پیش کردہ معیاری اور درست دینی تصور کو بیان اور رائج کرنے اور اس کا دفاع کرنے پر قطعی طور پر متفق تھے۔ جدیدیت میں حضرت محمد ﷺ کا مقام اور حیثیت کیسے سمجھی جائے، اس حوالے سے پرجوش تنازعات میں صرف دیوبندی اور بریلوی تحریکوں کے قائدین ہی شریک نہیں تھے، بلکہ، جیسا کہ کیشیا علی نے ایک اہم استدلال کیا ہے، انیسویں صدی میں حضرت محمد ﷺ کی زندگی سے متعلق مغربی انداز فکر پر بھی مستند اور تاریخی طور پر قابل تصدیق محمد کی تلاش کا پہلو غالب ہے۔ کیشیا علی مزید کہتی ہیں کہ ان کی (یعنی مغربی مصنفین کی) دلچسپی اور جستجو میں اور مسلمان مذہبی مفکرین، روایتی علما اور مغربی تعلیم یافتہ مسلم مصلحین کی جستجو میں ایک اشتراک پایا جاتا ہے11۔

بریلوی دیوبندی مناقشے کا آغاز کرنے والے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ لیکن وہ سوالات اور اختلافات جو انیسویں صدی کی ان شخصیات کے دل ودماغ پر حاوی رہے، تقریبا دو سو سال بعد آج بھی پرجوش بحث ومباحثہ کا موجب ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان دونوں میں اس مناظرانہ کش مکش کے موضوعات اور دلائل

نہ صرف دینی تعلیم گاہوں میں، جیسا کہ ارشد عالم کی تحقیق سے واضح ہوتا ہے، بلکہ عام میل جول کے ماحول، مساجد اور عوامی کتب خانوں جیسے روزمرہ کے مقامات میں بھی سرایت کیے ہوئے ہیں، جیسا کہ نویدہ خان نے اس کی تفصیلات جمع کی ہیں12۔ ڈیجیٹل دور کے آغاز نے اس تنازع کی شدت اور جغرافیائی وسعت میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کئی ویب سائٹس پر اور مختلف مناظرانہ چیٹ رومز میں - جو جنوبی ایشیا کے مقامی اور اسی طرح امریکا، برطانیہ اور جنوبی افریقا جیسے ممالک میں رہنے والے مہاجر مسلمانوں سے آباد ہیں – حریف نظریات اور آرا مستقلاً بحث ومناقشہ، ، تنقید وتجزیہ اور انکار وتردید کے عمل سے گزرتے رہتے ہیں13۔ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ اختلاف دھندلانے کی بجائے مزید ابھر کر سامنے آیا ہے۔

یہ کتاب بریلوی دیوبندی مباحثے یعنی اس کے کلیدی ادوار، استدلالات، بیانیوں اور ابہامات کی پہلی باضابطہ تحقیق ہے جو اٹھارویں صدی کی اہم نظیروں کے ساتھ ساتھ انیسویں صدی کے پورے منظرنامے کو غور وفکر کا موضوع بناتی ہے۔ میرے مصادر میں عربی، فارسی اور اردو کے ایسے مخطوطات جنھیں اس سے پہلے مطالعہ وتحقیق کا موضوع نہیں بنایا گیا، نیز مطبوعہ مآخذ شامل ہیں جن کا دائرہ مناظرانہ متون سے لے کر اصلاحی ادب، خطبات ومکاتیب کے مجموعے، بیانیہ (narrative)تاریخیں، فقہی و کلامی متون، فتاوی جات کے مجموعے اور سوانحی تذکروں تک وسیع ہے۔ فقہی اور کلامی دلائل کی گہری تفہیم پیش کرنے کے ساتھ ساتھ میں نے جنوبی ایشیا کے نامور علما کی شخصیت کا بھی واضح خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ان حساسیتوں، اضطرابات اور باہمی کشمکش کو دل چسپ بنا سکوں، جو ان علما کی فکری زندگی اور سفر میں جاری وساری تھے۔ یہ پروجیکٹ متعدد مربوط لیکن کسی حد تک مختلف النوع فکری موضوعات ومسائل سے بحث کرتا ہے۔ چنانچہ میں نے نسبتًا مختلف النوع نظری آلات کے مجموعے سے کام لیا ہے، جس کا سلسلہ سیاسی کلامیات کی تحقیقات سے لے کر سیکولر ازم کے مطالعات، عباداتی رسوم کی تحقیقات، قانونی تعبیر وتشریح کے اصولوں، اور نیریٹو تھیوری تک پھیلا ہوا ہے۔ اس پوری کتاب میں، میں نے کوشش کی ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کی فکر کو مغربی فلسفیانہ اور ادبی مناقشوں کے ساتھ تقابلی انداز میں پیش کروں۔ میں نے یہ کوشش ایسے انداز میں کی ہے جس سے اول الذکر کی گہرائی، علمی ودینی اہمیت اور خصوصیات واضح ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی متون اور تناظرات کو مطالعات مذہب اور وسیع تر علوم انسانی (ہیومینیٹیز) کے مسائل ومباحث سے مربوط کیا جا سکے۔ ایک مخصوص معنی میں یہ کتاب علوم اسلامیہ اور مغربی علوم انسانی (ہیومینیٹیز) کے مخصوص اجزا میں باہمی مکالمے کی نمائندگی کرتی ہے ایک ایسا مکالمہ جس سے دونوں کی تعمیر وترقی ممکن ہو سکے۔

فکری منہج

فکری اعتبار سے یہ کاوش ان مبنی بر استناد مباحثوں (authoritative discourses) کی تحقیق کرتی ہے جن کا مقصد خاص حکمت عملی کے ساتھ مذہب کے حدود پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ طلال اسد نے واضح کیا ہے، مبنی بر استناد مباحثے سے مراد وہ "مباحثہ ہے جو تسلسل کے ساتھ اپنے یکسر مخالف مواقف کی پیش بندی کرنا چاہتا ہے، اور اس طرح ان مواقف کے اظہار کو روکنے کی کوشش کرتا ہے "14۔ یہ کتاب ان اقدامات اور حکمت عملیوں کو نمایاں کرتی ہے جن کے ذریعے دینی روایت کے باہم حریف پاسبانوں نے ایک دوسرے کی مذہبی حیثیت اور مستند ترجمانی کی اہلیت کی نفی کرتے ہوئے اپنے مذہبی استناد کو تقویت فراہم کی ۔ ان کا مذہبی اقتدار – یعنی ان کا یہ دعوی کہ و ہی مستند راے کی نمائندگی کرتے ہیں –ان کی مناظرانہ چپقلش کی موجودگی اور حالات پر منحصر تھا۔ خاص تاریخی حالات میں رونما ہونے والی اس چپقلش میں ، جس کے نتائج کی پیش بینی ناممکن تھی، باہم فریق بننے نے دونوں کے لیے اس کا موقع پیدا کیا کہ وہ روایت اور اس کی حدود کی تعیین وتحدید کے سوال پر مستند حیثیت کا حامل ہونے کے دعوے کے ساتھ کلام کریں۔ طلال اسد نے بہت عمدہ طریقے سے اسے یوں بیان کیا ہے: " استناد کے دعووں میں مخاصمت کو، نہ کہ باہمی افہام وتفہیم کو، مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے"15۔

مبنی بر استناد مباحثے کے حوالے سے طلال اسد کے پیش کردہ تصور کا گہرا تعلق ان کی اس مشہور رائے سے ہے کہ اسلام کا مطالعہ ایک "استدلالی روایت" (discursive tradition) کی حیثیت سے کیا جائے، جو کہ مغرب میں اسلام کے علمی مطالعے میں سب سے زیادہ مستعمل تصورات میں سے ہے16۔ استدلالی روایت کا تصور اسلام جیسی معیاری روایت میں مذہبی متون، زمان اور روزمرہ زندگی کے باہمی تعامل کے تعقل وتفہیم کے لیے بارآور مواقع فراہم کرتا ہے۔ استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کے مطالعے سے مراد یہ ہے کہ استدلال، دلیل اور حوالے کے طریق کار کی ان مختلف صورتوں پر غور کیا جائے جن کے ذریعے اس سوال پر مبنی بر استناد بحث ومناقشہ کیا جاتا ہے کہ ایک سماجی گروہ کی عملی زندگی کیسی ہونی چاہیے ۔۔ ماضی کی کون سی روایات اور نظائر کو حال اور مستقبل میں ایک سماجی گروہ کی منظم زندگی کو تشکیل دینا چاہیے؟ استدلالی روایت کے تصور میں یہ سوال بنیاد کا پتھر ہے۔ اور چونکہ اس سوال کے مختلف اور عموما متضاد جوابات ہو سکتے ہیں، اس لیے ایک استدلالی روایت اپنی فطرت میں تنازع اور کشمکش کا مظہر ہوتی ہے۔

طلال اسد نے حال ہی میں چند نکات کی صورت میں، جو بیک وقت فکر انگیز اور مسحور کن ہیں، استدلالی روایت کے حوالے سے اپنے موقف کے اس نہایت اہم پہلو کی توضیح ہے۔ وہ لکھتے ہیں : "روایت، واحد بھی ہے اور جمع بھی۔ کے فعال کرداروں کے لیے روایت میں نہ صرف تسلسلات ہوتے ہیں، بلکہ دخول وخروج کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں۔ روایت غلطیوں کے ساتھ ساتھ بے وفائی کو بھی برداشت کرتی ہے؛ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ (انگریزی میں) روایت (tradition) اور غداری (treason) دونوں کا ماخذ اشتقاق ایک ہے"17۔ اس کتاب اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے طلال اسد کی اس دعوت کا عملی انطباق ہے کہ اسلام کا مطالعہ استدلالی روایت کی حیثیت سے کیا جائے۔ یہ ان مناہج کی تحقیق کرتی ہے جن میں ایک استدلال روایت یعنی جدید جنوبی ایشیا میں اسلام

مبنی بر استناد مباحثوں کے ایک مخصوص ماحول میں حریف افکار اور نظریاتی منصوبوں سے نبرد آزما ہوئی۔ یہ اس ماحول کا جائزہ لیتی ہے جس میں متخاصم نظریات، عقیدہ اور عمل کی معیاری اور مستند مآخذ سے جواز یافتہ صورتوں کے دائرے سے ایک دوسرے کو نکال باہر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مختصر یہ کہ یہ کتاب جنوبی ایشیا میں اسلام کی تاریخ کے ان نازک لمحات کا جائزہ لیتی ہے، جن میں اس کی حدود کی تعیین کے حوالے سے نہایت نمایاں انداز میں بحث ومباحثہ ہو رہا تھا۔

آگے بڑھنے سے پہلے میں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حالیہ عرصے میں استدلالی روایت کے بارے میں اسد کا نظریہ بد قسمتی سے بعض انتہائی غلط تعبیرات کی زد میں ہے۔ اس کی متعدد مثالوں میں سے ایک مثال شہاب احمد کی شاندار کتاب: What is Islam: The Importance of Being Islamic (پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2015) ہے۔ شہاب احمد استدلالی روایت کو بالکل غلط طور پر ایک واجب الاتباع (prescriptive) اور طبقاتی تصور سمجھتے ہیں، جس كا مقصد ایک مستند راسخ الاعتقادی کو محکم کرنا ہے۔ شہاب احمد کے الفاظ میں: "اسد کے، اسلام کو ایک 'استدلالی روایت' کی حیثیت سے پیش کرنے میں ایک دقیق لیکن اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک استدلالی روایت کی قطعی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صحیح (correct) بات کو دعوائے استناد کے ساتھ بیان کرنے کی حرکیات کام کر رہی ہوتی ہیں۔"(272)۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ روایت کا ایسا واجب الاتباع اور دعوائے استناد پر مبنی تصور روایت کے اندر ایسے مباحث اور اعمال کے شامل ہونے کی توضیح نہیں کرتا جو واجب الاتباع یا مبنی بر استناد ہونے کا دعوی ٰ نہیں کرتے یا، شہاب کے الفاظ میں، تفتیش ودریافت کا انداز لیے ہوتے ہیں۔ شہاب احمد اس سے یہ اہم نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسد کی استدلالی روایت کے تصور سے " راسخ الاعتقادی اور غیر راسخ الاعتقادی/تجدد پسندی کی ایک نئی ثنویت (binary)" جنم لیتی ہے جو اسلام کے طاقتور بیانات کو راسخ العقیدہ اور نسبتا کم طاقتور بیانات کو تجدد پسند قرار دیتی ہے(274)۔

یہ طلال اسد کی فکر کی ایک نادرست تفہیم ہے۔ اس میں کئی الجھنیں ہیں۔ میں ان میں سے کچھ کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔

اول یہ کہ زیادہ طاقتور یا بااختیار ہونا راسخ الاعتقادی کو یا کم طاقتور ہونا تجدد پسندی کو مستلزم نہیں۔ اسد کے نزدیک راسخ الاعتقادی کوئی ایسی شے یا حالت نہیں، جو تجرباتی معیار پر اور بڑے واضح انداز میں موجود ہو۔ جیسا کہ اسد نے واضح کیا ہے، کہ ستدلالی روایت میں سرگرم افراد راسخ الاعتقادی اور ربط وتوازن کے حصول کی شدید خواہش رکھتے ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ وہ اسے حاصل بھی کرلیں۔ مباحثے ومناقشے کے ذریعے سے ربط وتوازن کے حصول کی یہی خواہش وامنگ ایک سماجی گروہ کی اجتماعی زندگی کی تشکیل کو ممکن بناتی ہے۔ایک استدلالی روایت نہ ختم ہونے والے تنازعات کا اکھاڑہ ہوتی ہے، جنھیں تجرباتی معیارات پر یا تنظیمی انداز میں، سرکاری طور پر مستند درجہ دینا کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ راسخ الاعتقادی کا تجرباتی سطح پر قابل پیمائش تصور، جس کے ذریعے زیادہ طاقت زیادہ راسخ الاعتقادی کو جنم دیتی ہے اور کم طاقت، کم راسخ الاعتقادی کو، یہ ایک ایسا اضافہ ہے جو شہاب احمد نے اسد کے نظریاتی منہج پر اپنی طرف سے شامل کیا ہے۔

دوسرا یہ کہ اسد کا استدلالی روایت کے تصور میں قطعیت یا عمودی تسلسل شامل نہیں۔ استدلالی روایت کے تصور کو راسخ الاعتقادی کے فروغ کا ایک آلاتی وسیلہ قرار دینا اس نظریے کو اس کی اہم ترین بصیرت سے محروم کر دینا ہے۔ ایک استدلالی روایت طاقت کے ان رشتوں کو اپنے اندر سموتی ہے، جن کے ذریعے ایک سماجی گروہ عملی زندگی بسر کرتا اور اس پر بحث ومناقشہ کو جاری رکھتا ہے۔ یہ ایک، عملی زندگی میں پیوست اخلاقی استدلال ہوتا ہے "جس میں طاقت کی پشت پناہی کے ساتھ، کچھ منفرد نظریات نہ صرف تصورات کے مربوط مجموعے اور ان کے مفاہیم میں تبدیلیاں لاتے ہیں، بلکہ ایسی منفرد حساسیتیں، جذبات اور رجحانات بھی پیدا کرتے ہیں جن کی رو سے ایک شخص کچھ مخصوص طریقوں پر عمل کرتا اور ان کے علاوہ دیگر طریقوں پر عمل نہیں کرتا "18۔ استدلالی روایت کو تشکیل دینے والے دلائل میں معیاری اور واجب الاتباع طریقوں کو تحقیق وتفتیش کی نوعیت رکھنے والے عمل سے الگ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسد کی فکر میں صحیح ہونے کا تصور ایک متعین اور مشخص راسخ الاعتقادی کو واجب الاتباع قرار دینے کو مستلزم نہیں ۔ اور اسی خاص وجہ سے استدلالی روایت تو عمودی تسلسل پر مبنتی ہوتی ہے اور نہ وہ طبقاتی ہوتی ہے، کیوں کہ کسی روایت کے زمان کے ساتھ وابستہ اور بحث ونزاع کی خصوصیت سے متصف ہونے کے باعث اس کو کبھی بھی معروضی تسلسل یا استحکام کے سانچے میں سکیڑا نہیں جا سکتا۔ آخری بات یہ کہ طلال اسد کے تصور کی تفہیم میں شہاب احمد کی بنیادی غلط فہمی کا باعث روایت اور طاقت کا نسبتاً ایک سادہ تصور ہے۔ جیسا کہ میشل فوکو نے بہ تکرار واضح کیا ہے، طاقت اور فکری بحث ومباحثہ کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لیے بحث ومباحثہ کی کوئی بھی صورت، چاہے وہ تحقیق وتفتیش کی نوعیت رکھتی ہو یا نفی وتضاد کی یا کوئی اور، طاقت سے یا اختیار کے ساتھ تعامل سے دامن نہیں بچا نہیں سکتی۔ شہاب احمد غلط طور پر یہ فرض کرتے ہیں کہ تحقیق وتفتیش کی نوعیت کا بحث ومباحثہ طاقت سے مقدم ہوتا ہے، بلکہ کسی بھی قسم کی تحقیق وتفتیش جیسے ہی معرض اظہار میں آتی ہے، فورا طاقت میں پیوست ہو جاتی ہے، اور ہمیشہ اسے ایک منفرد استطاعت اور حساسیت کا درجہ پہلے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ در اصل غیر مبنی بر استناد بحث نزاع کا تصور ہی یہ فرض کرتا ہے کہ ایک مبنی بر استناد بحث ومباحثہ کا سلسلہ پہلے سے موجود ہے۔

اسد کے استدلالی روایت کے تصور کے ساتھ ساتھ ایک اور فکری کلید جو اس کتاب کے مقاصد میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، "مباحثہ کے عارضی ظروف وحالات" ہیں۔ میں نے یہ تصوّر بدھ مت کے عالم اَنَندا اَبِیسیکارا (Ananda Abesekara) سے اخذ کیا ہے۔ چند سال پہلے سری لنکا کے معاصر بدھ مت پر اپنی شاندار تحقیق میں ابیسیکارا نے مذہب، روایت اور اصلاح کے پہلے سے بنے ہوئے (a priori) تصورات کو ان اشخاص پر تھوپنے کے خلاف اپنا مقدمہ پیش کیا جو کسی دینی روایت کے حدود کو کنٹرول کرنے کے لیے جد وجہد کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں اس کے بجائے ان ہنگامی اور عارضی حالات کی تحقیق کرنی چاہیے، جن میں مخصوص مادی، اداراتی اور علمیاتی حالات مل کر یہ طے کرتے ہیں کہ کون سی چیز مذہب ہے اور کون سی نہیں۔19

باَلفاظِ دیگر بین المسالک (یا بین المذاہب) مذہبی تنازعات میں ظاہر ہونے والی مذہب کی مختلف صورتوں کو واضح طور پر موجود کچھ خانوں میں بانٹ کر، ایک معیار کی حیثیت نہیں دی جا سکتی، بلکہ ان عارضی حالات کی تحقیق کی جانی چاہیے، جو ان تنازعات کو ممکن بناتے ہیں، اور جن میں وہ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اس پراسس کو محیط عارضی احوال کو نمایاں کرنے سے جس میں کسی مذہب کے حدود کے بارے میں بحث ونزاع کی جا رہی ہوتی ہے، یہ طریق فکر کا نتیجہ مآل کار یہ سامنے آتا ہے کہ مذہب کو قطعی ممتاز اور واضح خانوں میں بانٹنا ناممکن ہے۔ مجھے مذہب اور مذہبی زندگی کی تحقیق کے لیے ابیسیکارا کا یہ، احوال وظروف کو اہمیت دینے والا منہج بے انتہا دل کش معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک استدلالی روایت کی منطق اور تنازعات کی تحقیق کے لیے ایک ایسا طریق کار فراہم کرتا ہے، جو مذہب کی تعریف وتحدید کی لبرل سیکولر خواہش کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا۔ ابیسیکارا بالکل طلال اسد کی طرح (جن کے افکار سے وہ بے انتہا مستفید ہوئے ہیں) اصرار کرتے ہیں کہ مذہب، بالکل زندگی کی طرح، ہمیشہ تعریف وتحدید کی گرفت سے آزاد رہتا ہے۔

اس کتاب میں، میں نو آبادیاتی جنوبی ایشیا میں اسلام کی کہانی میں بحث واختلاف کے بہت اہم احوال وظروف کی تحقیق پیش کروں گا۔ میں روایت اور اصلاح کی ان حریف عقلیات کی تفصیل سامنے لاؤں گا جو ان مخصوص حالات میں نمایاں ہوئیں، اور جن میں اس سوال پر مبنی براستناد مجادلہ کیا گیا کہ کون سی چیز اسلام ہے اور کون سی نہیں۔ اس کاوش کے ذریعے میری کوشش ہوگی کہ یہ واضح کر سکوں کہ ان عقلیات کو اصلاح پسند/غیر اصلاح پسند، فقہی/صوفی اور روایتی/جدید جیسی محدود دوگانہ تقسیمات کی مدد سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ متبادل منہج کے طور پر میں تجویز کروں گا اور دکھاوں گا کہ مسلمانوں کے درمیان بریلوی-دیوبندی جیسے بین المسالک تنازعات کے سلسلے کو، جو حاکمیتِ اعلیٰ کے بدلتے تصورات اور حالات سے اثر پذیر تھے، تشکیل معاشرہ کے حریف بیانیوں کی ایک مثال کی حیثیت سے سمجھا جائے۔ یہ حریف بیانیے فقہ، عقائد اور روزمرہ اعمال کے باہمی تعامل کی باہم متضاد تفہیمات کی عکاسی اور اظہار کرتے ہیں۔ ان کی بنیاد خدا، پیغمبر اور سماج کے درمیان تعلق کے متخالف تصورات پر ہے۔ ایک بار پھر عرض ہے کہ یہ اس کتاب کا مرکزی استدلال ہے۔

حواشی

  1. ایک فتوے کے بعد اترپردیش میں 200 شادیاں دوبارہ ہوئیں۔ ٹائمز آف انڈیا، 5ستمبر، 2006۔
  2. ایضًا۔
  3. ممتاز قادری کو حکومتِ پاکستان نے فروری 2016 میں سزا دی۔ لیکن وہ توہینِ رسالت اور انتہا پسندی کے سے متعلق  بحث مباحثے میں اب تک ایک انتہائی متنازعا شخصیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہت سے لوگ انھیں عدم برداشت اور انتہا پسندانہ تشدد کی علامت سمجھتے ہیں، جب کہ کئی لوگوں کی نظر میں، بالخصوص شہروں، میں وہ شہیدِ ناموس رسالت ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی نے سیاسی تنظیم تحریکِ لبیک یا رسول اللہ (اے اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں) کی شہرت اور اٹھان  میں دن دوگنا رات چوگنا اضافہ کیا، جس کی قیادت اس وقت  شعلہ انگیز خطیب مولوی خادم رضوی  کر رہے ہیں۔ تحریک لبیک 2018 کے عام انتخابات میں پانچویں بڑی پارٹی کی حیثیت سے سامنے آئی، اور زیادہ تر قانونِ توہینِ رسالت کے تحفظ کے نام پر بیس لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ (مولانا خادم حسین رضوی   19 نومبر 2020 کو وفات پا گئے۔ تحریکِ لبیک کے موجودہ امیر مولانا سعد حسین رضوی ہیں۔ از مترجم )
  4. عدالت نے امام اور اس کے بیٹے کو توہین رسالت کے جرم میں سزا سنائی۔ ڈان، 11 جنوری، 2011۔
  5.  مہاجر جنوبی ایشیائی مسلمانوں کے مناظروں کے سیاق -جیسے جنوبی افریقا- کے لیے ملاحظہ کریں برانن انگرام کی عمدہ تحقیق: Revival from Below: The Deoband Movement and Global Islam (برکلے: یونیورسٹی آف کیلیفورنیا پریس، 2018)۔
  6.  اس کتاب میں ذکر کیے گئے کرداروں کا تصورِ اصلاح ہمیشہ بنیادی انقلاب کے ہم معنی  نہیں۔ اس کے بجاے ان کے نزدیک اصلاح ایک طرح کی رفوگری و پیوند کاری  کا عمل ہے، اور عقائد وطرزِ حیات کے غلط رویوں کو راہ راست پر لانا ہے۔اصلاح کے عمل میں دین کی حفاظت اور  تقویت دونوں شامل ہیں۔ مسلمانوں کے علمی افکار اور تاریخ میں اصلاح کے اس تصور کی مزید وضاحت کے لیے Islamic Political Thought میں ملاحظہ  ہو: ابراہیم موسیٰ اور شیر علی ترین، Revival and Reform in Islam، تدوین گرہارڈ باورنگ (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس)، 202-219۔
  7. اس پوری کتاب میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (Divine Sovereignty) کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے، جن میں اس کتاب میں مذکور شخصیات نے اسے استعمال کیا ہے، یعنی یہ کہ یہ صرف خدا کی قدرتِ مطلقہ اور اختیارِ کامل ہے جس پر اس کی توحید اور یکتائی قائم ہے۔ اس پروجیکٹ کے سیاق میں توحید کے علاوہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے مفہوم کی ادائیگی کے لیے قدرۃ (اردو اور فارسی میں قدرت) یا قدرتِ الہٰی اور اختیار کی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ ماقبل جدید اور جدید اسلامی فکر میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے تصور کو جن متنوع اور عموما مختلف مفاہیم میں بیان کیا جاتا ہے، ان کی ایک مختلف زاویے سے عمدہ تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: محمد زمان، The Sovereignty of God in Modern Islamic Thought ، جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی 25، نمبر 3 (جولائی 2015)، 389-418؛ اینڈریو مارچ، Genealogies of Sovereignty in Islamic Political Theology، سوشل ریسرچ 80، نمبر 1 (بہار: 2013): 293-320؛ احمد عبد المجید، Reserving Schmitt: The Sovereign as a Guardian of Rational Pluralism and the Peculiarity of the Islamic State of Exception in al-Juwayni’s Dialectical Theology، یورپین جرنل آف پولیٹیکل تھیالوجی، جس کی اشاعت 12 ستمبر 2017 کو آن لائن ہوئی۔
    http://doi.org/10.1177%2F147885117730672
    اس کتاب میں جن علما کی فکر زیرِ بحث ہے، بنیادی طور ان کا تعلق پر دہلی/ہندوستان کے شمالی خطے میدانِ گنگا سے ہے۔ 'ہندوستانی مسلمانوں' کی اصطلاح محدود بھی ہے اور تاریخی اعتبار سے نا مناسب بھی، تاہم اسے میں سہولت اسلوب کی خاطر استعمال کر رہا ہوں، کیوں کہ 'ہندوستانی بولنے والے مسلمان' اور 'شمالی ہندوستان کے مسلمان' زیادہ ثقیل  لگتا ہے، یا ان علما کے تصور کردہ مخاطبین کے اعتبار سے کافی محدود ہے۔ میں تعبیری تنوع کی خاطر 'ہندوستانی مسلمانوں' اور 'جنوبی ایشیائی مسلمانوں' کی تعبیرات بھی  ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال کروں گا۔
  8. پاکستان میں بریلوی دیوبندی تنازع کی مفید تحقیق وتجزیے کے لیے ملاحظہ ہو: محمد وقاص سجاد، For the Love of Prophet: Deobandi-Barelvi Polemics and the Ulama in Pakistan (پی ایچ ڈی کا مقالہ، گریجویت تھیالوجیکل یونین، 2018)۔
  9. جنوبی ایشیا میں مدارس کی علمی روایت اور تاریخ کے لیے ملاحظہ کریں: ابراہیم موسی، What is a Madrasa? (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2015)۔ مزید دیکھیں: رابرٹ ہیفنر اور محمد قاسم زمان، مدونین، Schooling Islam: The Culture and Politics of Modern Muslim Education (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2007)۔
  10. جنوبی ایشیا اور اس سے ہٹ کر داخلی تنقید کے ان چند ادوار کے ایک عمدہ تجزیے کے لیے دیکھیے: محمد قاسم زمان، Modern Islamic Thought in a Radical Age: Religious Authority and Internal Criticism (نیو یارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)۔
  11. کیشیا علی، The Lives of Muhammad (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2014)، 43۔
  12. ارشد عالم، Inside a Madrasa: Knowledge, Power, and Islamic Identity in India (نیو دلی، روٹلیج، 2011)؛ نویدہ خان، Muslim Becoming: Aspiration and Skepticism in Pakistan (ڈرہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2012)۔
  13. مثال کے طور پر دیکھیے: سنی فورٹ (www.Sunniport.com)، فلاح ریسرچ فاؤنڈیشن (www.falaah.co.uk) اور اہل السنہ فورم (http://ahlussunnah.boards.net)۔
  14. طلال اسد، Anthropology and the Analysis of Ideology، مین، این ایس، 14 (1979): 607-627۔
  15. ڈیوڈ سکاٹ اور چارلس ہرش کائنڈ، مدونین، Powers of the Secular Modern: Talal Asad and His Interlocuters ميں ديكهيے: طلال اسد، Responses (سٹينفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 212۔
  16. طلال اسد، The Idea of an Anthropology of Islam (واشنگٹن، ڈی: سنٹر فار کانٹیمپرری عرب سٹڈیز، جارج ٹاؤن یونیورسٹی، 1986)۔
  17. طلال اسد، Thinking about Tradition, Religion and Politics in Egypt Today، کریٹیکل انکوائری 42، شمارہ 1 (خزاں 2015): 169۔
  18. انندا ابیسیکارا، Thervada Buddhist Encounters with Modernity: A Review Essay، جرنل آف بدھسٹ ایتھکس 25 (2018): 333-371۔
  19. انندا ابیسیکارا، Colors of the Robe: Religion, Identity, and Difference (کولمبیا: یونیورسٹی آف ساؤتھ کیرولینا پریس، 2003)۔
(جاری)

فروری ۲۰۲۲ء

غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مساجد کا حکممحمد عمار خان ناصر 
حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفاتمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۵)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ سنن ابی داود (۲)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۷)مولانا سمیع اللہ سعدی 
امارت اسلامی أفغانستان کو تسلیم نہ کرنے کی وجہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مولاناعتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفاتڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲)ڈاکٹر شیر علی ترین 
اہم قومی مسائل پر ملی مجلس شرعی کا موقفادارہ 

غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مساجد کا حکم

محمد عمار خان ناصر

گذشتہ دنوں کراچی میں ایک مسجد کے انہدام سے متعلق سپریم کورٹ کا حکم قومی سطح پر زیربحث رہا اور اس کی موزونیت یا غیر موزونیت پر مختلف نقطہ ہائے نظر سامنے آئے۔ اس ضمن میں کسی خاص مقدمے کے اطلاقی پہلووں سے قطع نظر کرتے ہوئے، اصولی طور پر یہ بات واضح ہونا ضروری ہے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی مساجد کا فقہی حکم کیا ہے ۔ چونکہ عموماً‌ اس حوالے سے جو فقہی موقف اور استدلال سامنے آ رہا ہے، وہ ادھورا اور فقہ وشریعت کی درست اور مکمل ترجمانی نہیں کرتا، اس لیے کچھ اہم توضیحات یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

پہلی بات جو اس بحث میں بہت عام کہی گئی، وہ یہ تھی کہ مسجد اگر کسی کی زمین غصب کر کے بھی تعمیر کی گئی ہو تو تعمیر ہو جانے کے بعد اسے گرانا جائز نہیں، بلکہ اس کی تلافی مالک کو زمین کی قیمت اور تاوان وغیرہ ادا کر کے کی جا ئے گی۔ یہ بات قطعی طور پر غلط ہے اور نہ صرف دین وشریعت کا ابتدائی فہم رکھنے والا شخص اس کی غلطی کو واضح طور پر سمجھ سکتا ہے، بلکہ اس پر مستند اداروں کے فتاویٰ بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جامعہ الازہر کے فتوے کے مطابق ایسی زمین پر مسجد کی تعمیر جائز نہیں بلکہ حرام ہے اور اگر مسجد بنا لی جائے تو بھی اس کو مسجد نہیں سمجھا جائے گا اور زمین کے مالک کو اسے گرا دینے کا حق حاصل ہے۔

اسی طرح جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاون کراچی کے فتوی نمبر 144202200526 میں کہا گیا ہے کہ

’’شرعی مسجد کی جگہ خالص اللہ کے لیے وقف جگہ ہوتی ہے اور جگہ وقف کرنے کی ایک شرط اس جگہ کا مالک ہونا ہے۔ صورتِ مسئولہ میں چونکہ غاصب زمین کا مالک نہیں ہوتا، لہذا غصب شدہ زمین میں مسجد بنانے سے وہ مسجد شرعی مسجد نہیں کہلائے گی۔ نیز زمین غصب کرنا اور اس پر مسجد بنانا گناہ ہے۔"

غصب شدہ زمین پر بنائی گئی مسجد کو شرعی تحفظ دینے کے موقف سے جو عمومی تاثر بنتا ہے، وہ یہ ہے کہ بس جہاں مسجد کا نام آ جائے، سب اخلاقی اور قانونی ضابطے معطل ہو جاتے ہیں اور جہاں بھی جیسے بھی ایک دفعہ مسجد بن جائے، اس کو شرعی تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔ یہ نوعیت کے لحاظ سے ویسا ہی ایک تاثر ہے جیسا توہین مذہب کے معاملے میں عام ہو گیا ہے کہ جہاں گستاخی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو پھر مذہبی جذبات ہی بنیادی اہمیت اختیار کر لیتے ہیں، اور قانون ضابطوں کو ان کے تابع ہو جانا چاہیے۔ ہمارے نزدیک اس تاثر کا ازالہ اور ان کے پیچھے کارفرما انداز فکر کی غلطی واضح کرنا بھی دینی نقطہ نظر سے اتنا ہی اہم ہے جتنا کسی انتظامی یا عدالتی فیصلے کی ناموزونیت پر سوالات اٹھانا۔

دوسری اہم بات جو اس حوالے سے کہی گئی، یہ ہے کہ سرکاری املاک کا حکم انفرادی ملکیت سے مختلف ہے اور سرکاری زمین پر اگر لوگوں نے اپنی ضرورت کے تحت حکومتی اجازت کے بغیر بھی مسجد تعمیر کر لی ہو تو اس کو گرایا نہیں جا سکتا، بلکہ حکومت پر اس کی قانونی منظوری دینا لازم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ بات علی الاطلاق اور اس عموم کے ساتھ درست نہیں جس طرح پیش کی جا رہی ہے۔ حنفی فقہ کی کتب میں اس مفہوم کی جزئیات یقیناً‌ موجود ہیں جن میں یہ کہا گیا ہے کہ جو زمینیں ملکیت عامہ کی نوعیت رکھتی ہوں، یعنی کسی کی انفرادی ملکیت میں یا کسی خاص مقصد کے لیے وقف شدہ نہ ہوں، وہاں اگر علاقے کے مسلمان دینی ضرورت کے تحت مسجد تعمیر کر لیں تو یہ درست ہے اور اسے بھی شرعی مسجد کا درجہ حاصل ہوگا اور وہ تمام احکام اس پر جاری ہوں گے جو ایک مسجد پر ہوتے ہیں۔ ان فقہی جزئیات کی بنیاد دراصل اس قانونی مفروضے پر ہے کہ ایسی جگہیں مفاد عامہ کے لیے ہوتی ہیں اور حکومت کی طرف سے عوام کو ایک طرح کی خاموش اجازت حاصل ہے کہ وہ حسب ضرورت انھیں مسجد کے لیے خاص کر لیں۔ فقہاء کی مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ حکام وقت کی طرف سے لوگوں کویہ اجازت عمومی طور پر اور ہمیشہ کے لیے حاصل رہنا کوئی شرعی تقاضا ہے اور وہ اس کو حکومت کی پیشگی اجازت سے مشروط نہیں کر سکتے۔

پس ان فقہی تصریحات سے استشہاد اسی صورت میں پر درست ہو سکتا ہے جب حکومت کی طرف سے اس حوالے سے کوئی قانون سازی موجود نہ ہو۔ اس صورت میں اسے اجازت سکوتی پر محمول کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت کو لوگوں کے ایک فیصلے یا اقدام پر کوئی اعتراض نہیں۔ اسی کو فقہ میں دلالتاً‌ اجازت دینا کہا جاتا ہے۔ تاہم اگر حکومت نے باقاعدہ سرکاری املاک کے متعلق ایک قانون سازی کر دی ہو اور بغیر سرکاری اجازت کے کسی بھی جگہ کو تصرف میں لانا ممنوع قرار دیا ہو تو پھر مذکورہ فقہی جزئیات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا ۔ ہمارے دور میں، یہ معلوم ہے کہ حکومتوں کی طرف سے سرکاری املاک کے متعلق ، بالخصوص شہری آبادیوں میں، ایسی کوئی خاموش اجازت لوگوں کو حاصل نہیں ہوتی، بلکہ ایسا کرنے کو خلاف قانون اور جرم سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان جزئیات کو آج کے حالات پر منطبق کرنا اور یہ نتیجہ نکالنا کہ سرکاری املاک پر مسجد بنانے کے لیے کسی حکومتی اجازت کی ضرورت نہیں اور ایسی جو بھی مسجد بنا لی جائے، وہ حکومتی اجازت کے بغیر بھی شرعی مسجد ہوتی ہے جسے گرانا خود حکومت کے لیے بھی جائز نہیں، قطعی طور پر فقہاء کے موقف کی درست ترجمانی نہیں ہے۔

اس تناظر میں، دار العلوم دیوبند کے مختلف فتاویٰ جات میں تمام ضروری فقہی وشرعی قیود کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس مسئلے کی جو نوعیت واضح کی گئی ہے، ہمارے نزدیک وہ زیادہ مستند اور درست تعبیر ہے اور اسی حوالے سے ان فتاویٰ جات کا ایک انتخاب ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مذکورہ فتاویٰ سے متعلق مکمل سوال وجواب دیکھنے کے لیے دار العلوم کے دار الافتاء کی ویب سائٹ سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

https://darulifta-deoband.com/

دار العلوم کے ان فتاویٰ جات سے درج ذیل نکات واضح ہوتے ہیں:

۱۔ سرکاری زمین پر حکومتی اجازت کے بغیر مسجد کی تعمیر جائز نہیں۔ اسی طرح مسجد کی توسیع کے لیے بلا اجازت سرکاری زمین کو مسجد کا حصہ بنانا بھی جائز نہیں۔ مسجد کے متعلقات مثلاً‌ وضو خانہ اور بیت الخلاء وغیرہ کے لیے بھی سرکاری زمین بلا اجازت استعمال کرنا جائز نہیں۔ (فتویٰ نمبر 67272 ، فتویٰ نمبر 58857، فتوی نمبر 145278، فتویٰ نمبر 63790)

۲۔ جس جگہ پر قانون کے مطابق کوئی بھی عمارت بنانا، ناجائز ہو، وہاں مسجد بنانا بھی ناجائز ہے۔ مسجد کو اس حوالے سے کوئی استثنا یا خصوصیت حاصل نہیں۔ (فتویٰ نمبر 159187)

۳۔ اگر کسی جگہ بغیر اجازت مسجد بنا لی گئی ہو یا کسی حصے کو مسجد میں شامل کر لیا گیا ہو تو اس کی حیثیت جائے نماز یا مصلیٰ کی ہے جس پر مسجد کے احکام لاگو نہیں ہوتے اور اس میں نماز کی ادائیگی پر مسجد کی نماز کا ثواب بھی نہیں ملتا۔ (فتویٰ نمبر 169425، فتویٰ نمبر 9092)

۴۔ اجازت وہی معتبر ہے جسے قانونی طور پر اجازت شمار کیا جاتا ہو۔ اگر کسی سرکاری جگہ پر نماز باجماعت کا سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہو اور سرکاری افسران نے بھی اس پر اعتراض نہ کیا ہو تو اس کے باوجود قانونی طور پر حکومتی اجازت ملنے تک وہ مسجد شرعی نہیں بنے گی، یعنی افسران کی رضامندی یا خاموشی کو سرکاری اجازت شمار نہیں کیا جا سکتا۔ (فتوی نمبر 17357)

۵۔ اگر ماضی میں سرکاری زمین کا کوئی حصہ بلا اجازت مسجد میں شامل کر لیا گیا ہو تو اسے سرکاری اجازت سے ہی مسجد میں شامل رکھا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس کی اجازت نہ دے تو نئی تعمیر میں اس کو مسجد سے خارج کر دینا ضروری ہے۔ (فتویٰ نمبر 603728 )

۶۔ اگر مسجد کی توسیع سے گزرگاہ تنگ ہوتی ہو اور لوگوں کی آمد ورفت متاثر ہوتی ہو تو سرکاری اجازت کے باوجود مسجد کی توسیع کرنا درست نہیں ہے۔ (فتوی نمبر 58336)

۷۔ اگر غلطی یا لاعلمی سے کسی دوسرے مقصد مثلاً‌ قبرستان کے لیے وقف کی گئی جگہ پر مسجد بنا لی گئی ہو تو علم میں آنے پر اس کو منہدم کرنا اور قبرستان کو جگہ واپس کرنا شرعاً‌ ضروری ہے۔ (فتوی نمبر 165214)

۸۔ کرایے کی جگہ پر یا عارضی اور محدود مدت کے لیے حاصل کی گئی جگہ پر قائم کی گئی مسجد کی حیثیت بھی مصلیٰ کی ہے، اس پر مسجد شرعی کے احکام جاری نہیں ہوتے۔ (یہی حکم مختلف اداروں میں نماز کے لیے خاص کی گئی جگہ کا ہے جنھیں باقاعدہ مسجد کے طور پر وقف نہ کیا گیا ہو)۔ (فتویٰ نمبر 146164)

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

حضرت مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفات

محمد عمار خان ناصر

ممتاز اور بزرگ عالم دین حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ کئی سال کی علالت کے بعد گذشتہ دنوں انتقال فرما گئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون

حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ سے پہلا تعارف غالباً‌ نوے کی دہائی میں ان کی تصنیف ’’واقعہ کربلا“ کے حوالے سے ہوا تھا۔ رسمی طالب علمی کا دور تھا۔ کتاب انڈیا سے چھپی تھی، لیکن متنازعہ موضوع کی وجہ سے اس کا غیر قانونی ایڈیشن پاکستان سے بھی چھپا اور بڑے پیمانے پر فروخت ہوا۔ عم مکرم مولانا عبد الحق خان بشیر نے اس پر ایک تفصیلی تنقید ماہنامہ ’’حق چاریار’’ میں شائع کی جس میں بنیادی طور پر کتاب کے قابل نقد اقتباسات اور اکابر دیوبند کی آرا سے ان کا اختلاف نمایاں کیا گیا تھا۔ والد گرامی ان دنوں برطانیہ میں تھے اور اس حوالے سے انھوں نے عم مکرم کو ایک خط بھی لکھا جس کی نقل ریکارڈ میں کہیں محفوظ ہوگی۔

۲۰۰۱ء کے بعد الشریعہ کی ادارت کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تو اس میں مباحثہ ومکالمہ کا ایک مستقل سلسلہ شروع کیا گیا جو روایتی مذہبی حلقوں کے لیے بہت تعجب انگیز اور باعث اضطراب تھا۔ نہ صرف دیوبندی حلقے بلکہ دیگر مکاتب فکر کے ذمہ دار حضرات نے اس پر ناپسندیدگی ظاہر کی، کیونکہ اس میں بہت سے نازک مسائل پر مختلف نقطہ ہائے نظر ادارے کی طرف سے صحیح یا غلط کا کوئی حکم لگائے بغیر پیش کیے جا رہے تھے جس سے، ناقدین کے خیال میں، مستند مسلکی یا مذہبی موقف کے قابل بحث اور قابل اختلاف ہونے کا تاثر پیدا ہوتا تھا۔ مباحثہ ومکالمہ کے اس سلسلے کی جن اہل علم نے واضح طور پر تائید اور سرپرستی فرمائی، ان میں حضرت مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ بھی تھے۔ ان کا خط الشریعہ میں شائع شدہ ہے جس میں انھوں نے لکھا کہ یہ نیا طرز باعث دلچسپی ہے اور خاص طور پر برادرم میاں انعام الرحمن کی تحریروں کی خصوصی توصیف کی جو ان دنوں الشریعہ میں سنجیدہ موضوعات پر مستقل لکھا کرتے تھے۔

 مولانا سنبھلیؒ، اس کے بعد سے، علالت کے آخری چند سال نکال کر، نہ صرف مجلے کے مستقل قاری رہے، بلکہ اپنے خطوط، تبصروں اور کئی اہم موضوعات پر اپنی تحریروں کے ذریعے سے مجلے کی علمی سرپرستی بھی فرماتے رہے۔ ۲۰۰۳ء میں مسجد اقصیٰ کی تولیت پر راقم کا تفصیلی موقف شائع ہوا تو جن بڑے اہل علم کی طرف سے اس پر حوصلہ افزائی موصول ہوئی، ان میں بھی مولانا سنبھلیؒ کا نام نمایاں تھا۔ مولانا کا یہ خط بھی الشریعہ میں شائع شدہ ہے۔ طالبان کی حکومت کے سقوط کے کچھ سال کے بعد مولانا نے ’’خواب جو بکھر گیا“ کے عنوان سے طالبان کی پالیسیوں کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا جو الشریعہ میں شائع ہوا اور کافی بحث ونقد کا موضوع بنا۔

 الشریعہ اور والد گرامی کے توسط سے مولانا علیہ الرحمہ کے ساتھ ناچیز کا ایک خاص ذاتی تعلق بھی استوار ہو گیا اور وہ بزرگانہ شفقت کے ساتھ کئی مسائل میں اپنے ذاتی ملاحظات سے بھی نوازتے رہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے حلقے سے متعلق ان کی رائے کافی منفی تھی جس کا وہ کھلا اظہار بھی فرماتے تھے۔ ۲۰۰۱ء میں والد گرامی اور المورد کے اہل قلم کے مابین تین چار اہم موضوعات پر ایک تفصیلی مباحثہ ہوا جو الشریعہ اور اشراق کے علاوہ بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوا۔ مولانا نے اس پر والد گرامی کو تفصیلی خط لکھا جس میں فرمایا کہ غامدی صاحب کو فکری طور پر مولانا اصلاحی کی طرف منسوب کرنا درست نہیں اور وہ دراصل مولانا مودودی کے حلقے کے آدمی ہیں۔ راقم کا المورد اور غامدی صاحب کے ساتھ تعلق بھی مولانا کے علم میں تھا اور کافی سال کے بعد انھوں نے ایک خط میں راقم کو لکھا کہ علمی استفادہ تو خود انھوں نے بھی مولانا اصلاحی سے بہت کیا ہے، لیکن اس کے لیے باقاعدہ غامدی صاحب کے ادارے سے میری وابستگی کیوں ضروری تھی؟

 زندگی اور صحت کے آخری سالوں میں مولاناؒ نے اپنی ساری توجہ ’’محفل قرآن“ پر مرکوز کر دی تھی جس کی متعدد جلدیں، الفرقان میں قسط وار اشاعت کے بعد، شائع ہو چکی ہیں۔ اس کی ایک جلد جو سورۃ البقرۃ اور آل عمران پر مشتمل ہے، مولانا علیہ الرحمہ نے خاص طور پر بھجوائی اور اس پر تبصرے کا حکم دیا۔ افسوس، اس مقصد سے کتاب کے تفصیلی مطالعے اور نوٹس وغیرہ لینے کے باوجود تبصرہ لکھنے کی نوبت نہیں آ سکی اور مولانا کی تعمیل ارشاد نہ ہو سکی جس پر بہت شرمندگی ہے۔

 اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کو بلند درجات عطا فرمائے، ان کو اپنے سلف صالح کے ساتھ جوار رحمت میں جگہ دے، اور ان کی علمی ودینی خدمات کے سلسلے کو ان کے اخلاف کے ذریعے سے جاری رکھے۔ اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتنا بعدہ، آمین۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۵)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(298) ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ

تذکیر کا مطلب یاد دلانا ہوتا ہے، یہ یاد دہانی سمع اور بصر دونوں راستوں سے ہوسکتی ہے، کتابِ وحی کی آیتوں کو سنا کر بھی اور کتابِ کائنات کی نشانیوں کو دکھا کر بھی۔

درج ذیل آیت میں تذکیر اپنے اسی وسیع مفہوم میں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ آگے صُمًّا وَعُمْیَانًا آیا ہے۔ صم کا مطلب بہرے اور عمیان کا مطلب اندھے ہے۔ سنائی جانے والی تذکیر یعنی آیاتِ وحی کی تکذیب کرنے پر بہرے کہا گیا اور دکھائی جانے والی تذکیر یعنی کائنات کی نشانیوں کا انکار کرنے پر اندھا کہا گیا۔

بعض لوگوں نے تذکیر کا ترجمہ سنانا کیا ہے جو موزوں نہیں ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

وَالَّذِینَ إِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْہَا صُمًّا وَعُمْیَانًا۔ (الفرقان: 73)

”جنہیں اگر اُن کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے“۔ (سید مودودی)

”اور جب انہیں ان کے رب کے کلام کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اندھے بہرے ہو کر ان پر نہیں گرتے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے رب کی آیتیں یاد دلائی جائیں تو ان پر بہرے اندھے ہوکر نہیں گرتے“۔ (احمد رضا  خان)

”اور وہ کہ جب ان کو پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو اُن پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں)“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو ان کے رب کی آیات کے ذریعہ سے یاددہانی کی جاتی ہے تو ان پر بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرتے“۔ (امین احسن اصلاحی، البتہ تفسیر میں قرآن کے ذریعہ سے تعلیم وتذکیر لکھا ہے، جو درست نہیں ہے۔ مرئی اور مسموع دونوں طرح کی آیات یہاں مراد ہیں۔)

(299) مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا

وَإِذَا رَأَوْکَ إِن یَتَّخِذُونَکَ إِلَّا ھُزُوًا أَہَٰذَا الَّذِی بَعَثَ اللَّہُ رَسُولًا۔ إِن کَادَ لَیُضِلُّنَا عَنْ آلِہَتِنَا لَوْلَا أَن صَبَرْنَا عَلَیْہَا وَسَوْفَ یَعْلَمُونَ حِینَ یَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا۔ (الفرقان: 41، 42)

”یہ لوگ جب تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق بنا لیتے ہیں (کہتے ہیں) ”کیا یہ شخص ہے جسے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ اِس نے تو ہمیں گمراہ کر کے اپنے معبودوں سے برگشتہ ہی کر دیا ہوتا اگر ہم اُن کی عقیدت پر جم نہ گئے ہوتے“ اچھا، وہ وقت دور نہیں ہے جب عذاب دیکھ کر اِنہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ کون گمراہی میں دور نکل گیا تھا“۔ (سید مودودی)

یہاں مَنْ أَضَلُّ سَبِیلًا کا ترجمہ مختلف طرح سے کیا گیا ہے:

کچھ لوگوں نے تفضیل کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:

”کون زیادہ گمراہ تھا“۔ (طاہر القادری)

”زیادہ بہکا ہوا کون ہے“۔ (ذیشان جوادی)

”راہِ راست سے کون زیادہ بھٹکا ہوا ہے؟“۔ (محمد حسین نجفی)

”سب سے زیادہ بے راہ کون ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

سیاق کلام کو دیکھیں تو تفضیل کا ترجمہ مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہاں مختلف گم راہوں کے درمیان موازنے کا محل نہیں ہے بلکہ رسول کا مذاق اڑانے والوں کے گم راہ ثابت ہونے کی بات ہے۔

درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”سیدھے رستے سے کون بھٹکا ہوا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کون شخص بہت گم راہ ہوا ہے راہ سے“۔ (شاہ رفیع الدین)

”کون بہت بچلا ہے راہ سے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”پوری طرح راہ سے بھٹکا ہوا کون تھا؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

(300) وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا

ترتیل رتل سے ہے، جس کے معنی حسنِ ترکیب کے ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے: الرَّتَلُ: حُسْن تَناسُق الشَّیء،  وثَغْرٌ رَتَلٌ ورَتِلٌ: حَسَن التَّنْضِیدِ مُستوی النباتِ، وَقِیلَ المُفَلَّج، وَقِیلَ بَیْنَ أَسنانہ فُروج لَا یَرْکَبُ بَعْضُہَا بَعْضًا۔

ترتیل کی نسبت اگر متکلم یا مصنف کی طرف کی جائے تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ کلام کو عمدہ ترتیب وترکیب کے ساتھ پیش کیا اور اگر اس کی نسبت قاری کی طرف کی جائے تو مطلب ہوتا ہے کہ زبان سے کلام کو خوبی کے ساتھ ادا کیا۔ لسان العرب میں ہے: ورَتَّلَ الکلامَ: أَحسن تأْلیفہ وأَبانَہ وتمَہَّلَ فِیہِ. والتَّرْتِیلُ فِی الْقِرَاءَ ۃِ: التَّرَسُّلُ فِیہَا وَالتَّبْیِینُ مِنْ غَیْرِ بَغْیٍ۔

وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَیْہِ الْقُرْآنُ جُمْلَۃً وَاحِدَۃً کَذَٰلِکَ لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا۔ (الفرقان: 32)

اس آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

”منکرین کہتے ہیں ”اِس شخص پر سارا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتار دیا گیا؟“ ہاں، ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں اور (اسی غرض کے لیے) ہم نے اس کو ایک خاص ترتیب کے ساتھ الگ الگ اجزاء کی شکل دی ہے“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا“۔(احمد رضا خان)

”اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر ہی پڑھ سنایا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے اس کو تدریج واہتمام کے ساتھ اتارا“۔ (امین احسن اصلاحی)

وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا کا عام طور سے ترجمہ کیا گیا ہے کہ ہم نے ٹھہر ٹھہر کر یا تدریج کے ساتھ اتارا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے کیا نئی بات معلوم ہوئی؟ ٹھہر ٹھہر کر نازل ہونا تو ایک عیاں حقیقت تھی جس پر کافروں کو اعتراض تھا۔ اسی بات کو دوبارہ کہنے کا کیا فائدہ ہے۔

دراصل اس آیت میں مذکور کفار کا اعتراض ہی یہی تھا کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہونے کے بجائے ایک ہی بار میں کیوں نہ اتار دیا گیا۔ اس کے جواب میں دو باتیں کہی گئیں، ایک بات تو یہ کہ اس طرح نبیﷺ  (اور آپ کے مومن ساتھیوں)کے دل کی تقویت کا مسلسل سامان ہوتا رہے گا۔ یہ گویا تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کرنے کی حکمت بیان کردی گئی۔ اس کے بعد دوسری بات یہ کہی گئی کہ تھوڑا تھوڑا نازل کرنے کے باوجود یہ بہترین ترتیب میں ہے۔ اس کے حسنِ ترتیب میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ یہ گویا قرآن کی معجزاتی خوبی بیان کی گئی کہ طویل عرصے تک تھوڑا تھوڑا نازل ہونے والا کلام آخر کار کتنی عمدہ ترتیب میں ہے۔ اسے علامہ طاہر بن عاشور یوں بیان کرتے ہیں:

والترتیل یوصف به الکلام إذا کان حسن التألیف بین الدلالة. واتفقت أقوال أئمة اللغة علی أن هذا الترتیل مأخوذ من قولہم: ثغر مرتل، ورتل، إذا کانت أسنانه مفلجة تشبه نور الأقحوان. ولم یوردوا شاہدا علیه من کلام العرب. والترتیل یجوز أن یکون حالة لنزول القرآن، أی نزلناہ مفرقا منسقا فی ألفاظه ومعانیه غیر متراکم فہو مفرق فی الزمان فإذا کمل إنزال سورة جاءت آیاتہا مرتبة متناسبة کأنہا أنزلت جملة واحدة، ومفرق فی التألیف بأنه مفصل واضح. وفی هذا إشارة إلی أن ذلک من دلائل أنه من عند اللہ لأن شأن کلام الناس إذا فرق تألیفه علی أزمنة متباعدة أن یعتوره التفکک وعدم تشابه الجمل۔ (التحریر والتنویر)

مولانا امانت اللہ اصلاحی وَرَتَّلْنَاہُ تَرْتِیلًا کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”اور ہم نے اسے بہترین ترتیب دی“۔

(301) لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ

مذکورہ بالا آیت (الفرقان: 32) میں لِنُثَبِّتَ بِہِ فُؤَادَکَ کا ترجمہ عام طور سے حسب ذیل کیا گیا ہے:

”تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

حسب ذیل ترجمہ عام ترجموں سے مختلف ہے:

”کہ اس کو اچھی طرح ہم تمہارے ذہن نشین کرتے رہیں“۔ (سید مودودی)

عبارت کے لحاظ سے یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ تو یہی ہے کہ ”تاکہ اس کے ذریعہ سے ہم تمہارے دل کو مضبوط کریں“ البتہ تفسیر میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دل کو مضبوط کرنے سے مراد اسے یاد کرلینے اور سمجھ لینے کی مضبوطی ہے۔ جیسا کہ تفسیر بیضاوی میں ہے: لنقوی بتفریقہ فؤادک علی حفظہ وفہمہ۔ تاہم یہ تفسیر کم زور معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ قرآن تو دل پر نازل ہورہا تھا، ایک ساتھ نازل ہوتا تو وہ بھی محفوظ ہوجاتا۔ یہاں تو عمومی معنوں میں دل کا ثبات مراد لینا ہی بہتر معلوم ہوتا ہے۔

(302) اتَّخَذُوا ہَٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا

درج ذیل آیت میں مَہْجُورًا کی تین طرح سے تفسیر کی گئی ہے، مارودی لکھتے ہیں:  فیه ثلاثة أوجه: أحدها: أنہم ہجروه بإعراضہم عنه فصار مہجوراً، قاله ابن زید. الثانی: أنہم قالوا فیه هجراً أی قبیحا، قاله مجاهد. الثالث: أنہم جعلوہ هجراً من الکلام وہو ما لا نفع فیه من العبث والہذیان، قاله ابن قتیبة۔ (النکت والعیون) یعنی قرآن کو چھوڑ دینا، قرآن کے سلسلے میں بد کلامی کرنا اور قرآن کو بے سود کلام قرار دینا۔ اردو میں اس کا ترجمہ بھی تینوں طرح سے کیا گیا ہے:

وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا هَٰذَا الْقُرْآنَ مَہْجُورًا۔ (الفرقان: 30)

”اور کہا رسول نے اے رب میرے قوم میری نے ٹھہرایا ہے اس قرآن کو جھک جھک“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اس قرآن کو نشانہ تضحیک بنا لیا تھا“۔ (سید مودودی)

”اس قرآن کو چھوڑنے کے قابل ٹھہرایا“۔(احمد رضا خان)

”اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اس قرآن کو پس انداز کردہ چیز بنایا“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں مھجورا کے ساتھ اتخذوا آیا ہے۔ لفظ اتخذ کا اصل مطلب پکڑنا ہے، لفظ میں وسعت کی وجہ سے بنانا، اختیار کرنا اور اپنے کسی عمل کا ہدف بنانا بھی اس کے وسیع مفہوم میں شامل ہوا۔ قرآن مجید میں اتخذ  بہت زیادہ بار ذکر ہوا ہے، اور ہر جگہ اس کا یہی مفہوم ہے۔ اگر ہم مہجور کا مطلب چھوڑا ہوا لیں تو اتخذ  کے ساتھ یہ لفظ بے میل معلوم ہوتا ہے۔ درج ذیل لفظی ترجمے میں یہ چیز ظاہر ہورہی ہے:

”قوم میری نے پکڑا ہے اس قرآن کو چھوڑا ہوا“۔ (شاہ رفیع الدین)

اوپر کی گفتگو کی روشنی میں پہلے دونوں ترجمے زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ تجویز کرتے ہیں: ”میری قوم اس قرآن کے بارے میں بکواس کرتی رہی“  اس مفہوم کو دیگر کئی مقامات پر ھزوا سے بھی تعبیر کیا گیا، جیسے ”وَاتَّخَذُوا آیَاتِی وَمَا أُنْذِرُوا ہُزُوًا“۔(الکہف: 56)

(303) اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا

 وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَیٰ یَدَیْهِ یَقُولُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِیلًا۔ (الفرقان: 27)

”اور جس دن (ناعاقبت اندیش) ظالم اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کھائے گا (اور کہے گا) کہ اے کاش میں نے پیغمبر کے ساتھ رشتہ اختیار کیا ہوتا“۔ (فتح محمد جالندھری، کھائے گا کہنے کی ضرورت نہیں ہے، اپنے ہاتھ کاٹ کاٹ کر کہے گا)

”اور اس دن ظالم شخص اپنے ہاتھوں کو چبا چبا کر کہے گا ہائے کاش کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راہ اختیار کی ہوتی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا،کاش میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا“۔ (سید مودودی)

اس آخری ترجمہ میں تین باتیں قابل غور ہیں، ایک یہ کہ ویوم کا ترجمہ (اور اس دن) چھوٹ گیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ یدیہ مثنی ہے اس کا ترجمہ اپنا ہاتھ نہیں اپنے ہاتھ ہوگا۔ اور تیسری بات یہ کہ یہاں رسول کا ساتھ دینا مراد نہیں بلکہ رسول کے راستے پر چلنا مراد ہے۔ کیوں کہ لفظ سبیل آیا ہے۔ رسول کے اختیار کیے ہوئے راستے کو اختیار کرنے میں معیت کی معنویت بھی واضح ہوجاتی ہے۔

(304)  أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ

لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ بَعْدَ إِذْ جَاء نِی۔ (الفرقان: 29)

”اس نے تو مجھے اس کے بعد گمراہ کردیا کہ نصیحت میرے پاس آپہنچی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بیشک اس نے مجھے بہکادیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے“۔ (احمد رضا خان)

”اس نے مجھے گم راہ کرکے اس یاددہانی سے برگشتہ کیا، بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی“۔ (امین احسن اصلاحی، یاد دہانی سے برگشتہ کرکے مجھے گم راہ کیا)

”اُس کے بہکائے میں آ کر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی تھی“۔ (سید مودودی، نصیحت نہ ماننے کی وجہ سے اس کے بہکاوے میں آیا)

مذکورہ بالا جملے میں لَّقَدْ أَضَلَّنِی کا ترجمہ تو بالکل واضح ہے کہ اس نے مجھے گم راہ کیا۔ گم راہ راستے سے کیا جاتا ہے یاد دہانی سے نہیں، اس لیے لَّقَدْ أَضَلَّنِی عَنِ الذِّکْرِ کا ترجمہ یاددہانی یا نصیحت سے گم راہ کرنا موزوں نہیں معلوم ہوتا ہے۔ یہاں عن سے پہلے فعل محذوف ہے، جس کا مطلب ہے یاد دہانی سے غافل و برگشتہ کرکے۔

صحیح ترجمہ یوں ہے:

”اس نے مجھے گم راہ کردیا اس یاددہانی سے برگشتہ کرکے بعد اس کے کہ وہ میرے پاس آچکی تھی“۔ (محمد امانت اللہ اصلاحی)

(305) فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ

وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا۔ (سورۃ الفرقان: 5)

”اور کہتے ہیں کہ یہ اگلوں کے فسانے ہیں جو اس نے لکھوائے ہیں تو وہ اس کو صبح شام لکھ کر تعلیم کیے جاتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”وہی لکھوائے جاتے ہیں اس پاس صبح اور شام“۔ (شاہ عبدالقادر)

ان دونوں ترجموں میں املاء کا ترجمہ لکھ کر تعلیم کرنا اور لکھوانا کیا گیا ہے۔ اس پر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کو وحی لکھی ہوئی شکل میں تو دی نہیں جاتی تھی اور نہ ہی آپ لکھی ہوئی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کرتے تھے۔ اصل میں لفظ املاء کا مطلب لازمی طور پر لکھوانا نہیں ہے، بلکہ القا کرنا ہے۔ جس پر القا کیا جارہا ہے وہ اسے لکھ بھی سکتا ہے اور سن کر ذہن میں محفوظ بھی کرسکتا ہے۔

تفسیر جلالین میں تملی کا ترجمہ تُقرَأ کیا گیا ہے، جو مناسب ہے۔

علامہ ابن عاشور املاء کا مفہوم بتاتے ہیں: والإملاء: ہو الإملال وہو إلقاء الکلام لمن یکتب ألفاظہ أو یرویہا أو یحفظہا۔ (التحریر والتنویر)

اس پہلو کو سامنے رکھیں تو درج ذیل دونوں ترجمے موزوں تر معلوم ہوتے ہیں:

”اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں“۔ (سید مودودی)

”پس وہ پڑھے جاتے ہیں اوپر اس کے صبح وشام“۔ (شاہ رفیع الدین)

مطالعہ سنن ابی داود (۲)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: مغرب کی دو رکعتیں چھوٹ جائیں تو ہم ان دونوں میں قعدے کا اہتما م کر تے ہیں۔کیا یہ حدیث میں آیا ہے یا استنباطی چیز ہے؟

عمار ناصر: یہ استنباطی چیز ہے۔

مطیع سید: اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی دونوں میں سے پہلی رکعت میں قعدے میں نہیں بیٹھتا تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا؟

عمار ناصر: جی، سجدہ سہو نہیں آئے گا۔ امام کے ساتھ اگر آپ کی ایک رکعت چھوٹ گئی ہے تو جس رکعت میں آپ شامل ہوئے ہیں، آپ اس کو چاہے اپنی پہلی اور جو امام کے بعد پڑھیں گے، اس کو دوسری اور تیسری شمار کرلیں یا اس کے برعکس امام کے ساتھ جو رکعات پڑھ رہے ہیں، ان کو دوسری اور تیسری شمار کرلیں جبکہ چھوٹی ہوئی رکعت کو پہلی شمار کرلیں۔ یہ آپ کی نیت پر منحصر ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی ان دونوں طریقوں کی تصویب منقول ہے۔

مطیع سید: مروان بن حکم نے خطبہ پہلے اور نماز عید بعد میں پڑھنے کا طریقہ نکالا۔ایک صحابی نے فرمایا کہ تونے یہ بدعت نکالی ہے۔(کتاب الصلوۃ، باب الخطبۃ یوم العید، حدیث نمبر ۱۱۴۰) بعض کہتے ہیں کہ وہ اصل میں حضرت علی پر تبرا کرتا تھا اور صحابہ نماز کے بعد اٹھ کر چلے جاتے تھے، اس لیے اس نے خطبہ پہلے رکھ دیا۔کیا یہ ایسے ہی تھا؟

عمار ناصر: اموی عمال کی یہ روش تو روایات میں بیان ہوئی ہے۔ لیکن اس وقت میرے ذہن میں نہیں کہ مروان نے جو خطبے کو مقدم کرنے کا طریقہ اختیار کیا، اس کی وجہ بھی یہی تھی۔ بعض دیگر روایات میں ہے کہ خطبے کو نماز سے مقدم کرنے کا طریقہ اس سےپہلے حضرت معاویہ نے بھی اختیار کیا تھا۔ وجہ یہی بیان ہوئی ہے کہ نماز کے بعد لوگ خطبہ سننے کے لیے نہیں ٹھہرتے تھے تو انھوں نے ترتیب بدل دی۔

مطیع سید: حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں بلاخوف ومطر نمازیں اکٹھی پڑھنے کا ذکر آتا ہے۔ (کتاب صلاۃ السفر، باب الجمع بین الصلاتین، حدیث نمبر ۱۲۱۰) ایک شیعہ دوست کہتے ہیں کہ آپ لوگ کبھی بھی اکٹھی نہیں پڑھتے۔ کیا شیعہ نے مستقل نمازیں اکٹھی کرلیں تو اہل سنت نے رد عمل میں کبھی کبھار بھی ایسا کرنا چھوڑ دیا؟

عمار ناصر: نہیں، رد عمل میں ایسا نہیں ہوا۔ اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ نمازیں اصل میں اپنے الگ الگ اوقات میں مشروع کی گئی ہیں تو انھیں اپنے وقت میں ہی پڑھنا چاہیے اور کوئی وجہ ہو، کوئی جواز ہو توپھر ان کو جمع کرنا چاہیے۔یہ جمہور فقہاء کے نزدیک ہے، احناف تو جمع کے قائل ہی نہیں، ،یعنی سفر میں بھی قائل نہیں۔ خوف اور بارش کے بغیر جمع سے متعلق ابن عباس کی جو روایت ہے، چونکہ وہ ایک ہی روایت ہے تو اس سے واضح نہیں ہوتا کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں۔یہ روایت مختلف تعبیرات قبول کرلیتی ہے۔ وہ احناف کی تعبیر بھی قبول کرلیتی ہے جو کہتے ہیں کہ آپﷺ نے اگر مدینے میں نمازیں جمع کی ہیں تو یہ جمع ِ صوری تھی، یعنی بظاہر اکٹھی پڑھی جا رہی تھیں،لیکن حقیقت میں ایک نماز کو آخری وقت تک موخر کر کے دوسری نماز کو ابتدائی وقت میں پڑھا جا رہا تھا۔وہ شیعہ حضرات کی تعبیر کو بھی قبول کرلیتی ہے کہ کوئی عذر نہیں تھا، محض لوگوں کو یہ بتا نے کے لیے نمازیں جمع کی گئیں کہ اس کی بھی سہولت ہے۔ ایک تیسری تعبیر بھی ہو سکتی ہے کہ ابن عباس یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نمازوں کو جمع کرنے کی وجہ محض خوف یا بارش نہیں ہے،عذر کی کئی اور بھی شکلیں ہو سکتی ہیں۔ بعض دفعہ کسی کام میں مصروفیت ہوتی ہے یا کوئی اور ایسی وجہ ہو سکتی ہے کہ نمازوں کو جمع کرنا ایک مجبوری بن جاتی ہے۔ اس کو بارش یا خوف کی حالت میں محصور نہ سمجھو۔تو وہ دو تین طرح کی تعبیرات قبول کرلیتی ہے۔

مطیع سید: کیا تہجد پہلے تمام مسلمانوں پر فرض تھی یا شروع سے ہی بس آپﷺ پر فرض تھی اور مسلمان تطوعاً‌ پڑھتے تھے؟ عبد اللہ بن عباسؓ کی روایت میں بیان ہوا ہے کہ یہ پہلے لوگوں پر فرض تھی، پھر اسے منسوخ کر دیا گیا۔ (کتاب التطوع، باب نسخ قیام اللیل والتیسیر فیہ، حدیث نمبر ۱۳۰۴)

عمار ناصر: مفسرین عام طورپر یہ کہتے ہیں کہ شروع میں اصل میں یہی نماز تھی جو فرض کی گئی تھی، پھر بعد میں اس کو نفل کا درجہ دے دیا گیا۔ البتہ مجھے ایسے یاد پڑتا ہے کہ شاید علامہ انور شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ یہ ایسا نہیں ہے۔ یہ عام لوگوں پر فرض نہیں تھی۔

مطیع سید: سبعۃ احرف کی کافی روایات ہیں۔ (کتاب الوتر، باب انزل القرآن علیٰ سبعۃ احرف، حدیث نمبر ۱۴۷۵ تا ۱۴۷۸) ان کی کچھ سمجھ نہیں آتی۔

عمار ناصر: یہ بڑامشکل مسئلہ ہے۔ سبعہ احرف والی روایت میں کئی طر ح کے سوالات ہیں۔خاص طور پر سبعہ کی تعیین کرنا کہ قراءتیں کس لحاظ سےسات ہیں، بڑاہی مشکل ہے۔ اس کی کوئی ایسی توجیہ یا تعبیر جو پوری طرح سمجھ میں آتی ہو، میرے علم میں نہیں ہے۔ علامہ سیوطی نےتو کہہ دیا کہ یہ متشابہات میں سے ہے۔

مطیع سید: علامہ انور شاہ صاحب نے اس کے بارے میں کوئی رائے دی ہے؟

عمار ناصر: اس وقت ذہن میں نہیں ہے۔

مطیع سید: اگر ہم اس سے لہجے مراد لیں تو وہ توسات سے زیادہ ہیں۔

عمار ناصر: لہجوں پر یہ منطبق نہیں ہوتی۔

مطیع سید: غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں بعد میں عجم کی شامل کی ہوئی ہیں۔

عمار ناصر: یہ بات بنیادی طورپر تمناعمادی وغیرہ نے کہی ہے۔غامدی صاحب اس طرح سے نہیں کہتے، ان کی بات مختلف ہے۔

مطیع سید: امام ابو داؤد نے باب فی تعجیل الزکوٰۃ کا عنوان باندھا ہے، ،یعنی زکوٰۃ وجوب سے پہلے ادا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ (کتاب الزکوٰۃ، باب فی تعجیل الزکوۃ، حدیث نمبر ۱۶۲۳) تو کیا ہم اسے پر دوسری عبادات کو قیاس کر سکتے ہیں؟

عمار ناصر: نہیں۔عبادات میں نوعیت کے لحاظ سے فرق ہے۔ نماز کے اوقات بتائے گئے ہیں تو اسے اوقات کے لحاظ سے متعین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ اس خاص وقت میں ہی مطلوب ہے۔اس میں بھی خاص حالات میں پہلے پڑھ لینے کی اجازت دی گئی ہے۔روزے اور حج کا بھی یہی معاملہ ہے۔ لیکن زکوۃ میں ایسا نہیں ہے کہ اس کا کوئی خاص وقت رکھا گیا ہے جس میں سب نے زکوۃ ادا کرنی ہے۔ یہ کہا گیا ہے کہ سال گزرنے پر وہ آپ پر لازم ہوگی۔ ظاہر ہے، ہر آدمی کا سال الگ ہوگا۔ تو یہ نوعیت کا فرق ہے کہ زکوۃ فر ض سال کے بعد ہوتی ہے، لیکن یہ مطلب نہیں کہ آپ پہلے نہیں دے سکتے۔ اگر آپ نے دینی ہے اور لوگوں کی ضرورت موجود ہے تو آپ پہلے بھی دے سکتےہیں۔

مطیع سید: حضرت ابن عباس فرماتےہیں کہ ان کے والد حضرت عباس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقے کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ دیے۔ (کتاب الزکوٰۃ، باب الصدقۃ علیٰ بنی ہاشم، حدیث نمبر ۱۶۵۳) حضرت عباس تو بنو ہاشم میں سے تھے، کیا زکوٰۃ ان کے لیے جائز تھی؟

عمار ناصر: احادیث میں صدقہ کی تعبیر کافی وسیع معنی میں آتی ہے۔ زکوٰۃ کے علاوہ بیت المال میں آنے والے دیگر محصولات پر بھی اس کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے، حضرت عباس کو یہ مال فے میں سے دیے گئے ہوں۔ مال فے میں خمس رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اقربا کے لیے خاص کیا گیا تھا۔ ممکن ہے، اس میں سے ان کو اونٹ دیے گئے ہوں یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ذاتی حصے میں سے دیے ہوں۔

مطیع سید: حج کا احرام باندھنے کے بعد صحابہ نے اس کو عمرے میں تبدیل کر لیا۔آگے لکھا ہے کہ یہ بات صحابہ کے ساتھ خاص تھی۔ (کتاب المناسک، باب الرجل یہل بالحج ثم یجعلہا عمرۃ، حدیث نمبر ۱۸۰۸) ان کے ساتھ خاص ہونے کی کیا وجہ تھی؟

عمار ناصر: اصل تو یہی ہے کہ آپ جس عبادت کے لیے احرام باندھ کر نکلے ہیں، اسی کو پورا کریں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصول سے ہٹ کر صحابہ کو احرام تبدیل کرنے کا حکم دیا تو اس کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک خاص مصلحت کے تحت کیا گیا تھا۔ آپﷺ اور صحابہ روانہ تو حج کا احرام باندھ کر ہوئے تھے،لیکن راستے میں آپ کو خیال آیا کہ ایک بڑا غلط تصور چلا آرہا ہے جس کی اس موقع پر اصلاح ضروری ہے۔ وہ یہ کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ حج کے سفر میں عمرہ کر نا گناہ ہے۔تو آپ ﷺ نے عام قاعدے کے خلاف صحابہ سے کہا کہ وہ اسی احرام میں عمرے کی نیت کر لیں اور عمرہ ادا کر کے احرام کھول دیں۔یہ ایک خاص صورت حال میں کیا گیا تھا۔ عام ضابطہ یہی ہے کہ جس عبادت کی نیت سے احرام باندھا ہو، اسی کو مکمل کریں۔

مطیع سید: حدیث میں دوسرے کی طرف سے حج کرنے کی اجازت آئی ہے۔ (کتاب المناسک، باب الرجل یحج عن غیرہ، حدیث نمبر ۱۸۰۹) کیا کسی دوسرے کی طرف سے حج وہی شخص کر سکتا ہے جس نے پہلے حج کیا ہوا ہو؟ کیا یہ ضروری ہے؟

عمار ناصر: کوئی نص تو میرے علم نہیں ہے، لیکن یہ عقلی اور قیاسی طورپر سمجھ میں آتی ہے۔ آدمی کے ذمے پہلے اس کا اپنا حج ہے،وہ ادا کرے، پھر کسی دوسرے کی طرف سے فریضہ ادا کرے۔ یہ معقول بات ہے۔

مطیع سید: ایک آدمی غریب ہے، اس پر حج فر ض ہی نہیں۔ اس کو کسی نے کہا کہ آپ کو میں خرچ دیتا ہوں، آپ میرے والدین کی طرف سے حج کر آئیں۔ تو کیا یہ درست نہیں ہوگا؟

عمار ناصر: اس رائے کے مطابق درست نہیں ہوگا۔ نیابتاً‌ حج کے لیے ایسے آدمی کا انتخاب کرنا چاہیے جو پہلے اپنا فریضہ ادا کر چکا ہو۔بہرحال چونکہ استنباطی مسئلہ ہے، اس لیے آپ چاہیں تو اختلاف بھی کر سکتے ہیں۔

مطیع سید: غریب آدمی پر تو فرض تھا ہی نہیں، اس پر اپنا فریضہ ادا کرنے کی شرط کیسے لگائی جا سکتی ہے؟

عمار ناصر: یہاں دوسرے کی طرف سے ادا کرنے کی اہلیت کی بات ہو رہی ہے۔ اس پر فرض نہیں تھا، یہ ٹھیک ہے۔ جب اس نے اپنا حج نہیں اداکیا تو فقہا یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی دوسرے کی طرف سے ادا کرنے کااہل نہیں ہے۔

مطیع سید: احرام کی حالت میں عورت دستانے اور نقاب نہ پہنے۔ (کتاب المناسک، باب ما یلبس المحرم، حدیث نمبر ۱۸۲۶) متقدمین تو چہرے کے پردے کے قائل نہیں تھے تو کیا یہ دستا نے بھی اس دور میں چلتے تھے؟

عمار ناصر: متقدمین چہرے کے پر دے کے وجوب کے قائل نہیں تھے، جواز کے تو قائل تھے۔بہت سی خواتین کر تی بھی تھیں، احرام کی حالت میں چہرے کو ڈھانپنا ممنو ع ہے۔

مطیع سید : دستا نے بھی اس دور میں تھے کہ جس کا ذاتی ذوق ہو، پہن لے؟

عمار ناصر: دستانے تو ضروری نہیں، پردے کی نیت سے ہی پہنے جاتے ہیں۔ سردیوں میں موسم کے لحاظ سے بھی پہنے جاتے تھے۔

مطیع سید: کب یہ کہا گیا کہ چہرے کا پر دہ بھی نا لازمی ہے؟

عمار ناصر: کافی بعد میں متاخرین کے ہاں یہ رجحان پیدا ہوا۔ائمہ اربعہ کے ہاں تو نہیں ملتا۔

مطیع سید: آپ نے اپنے دادا جان کے بارے میں بھی یہی لکھا ہے کہ وہ اس کے وجوب کے قا ئل نہیں تھے۔

عمار ناصر: احناف کے ہاں تو یہی ہے۔البتہ متاخرین حنابلہ اور امام ابن تیمیہ وغیرہ کے ہاں وجوب ہے۔سعودیہ میں ابن تیمیہ کی رائے کی بنیادپر اس کو قانوناً‌ بھی لازم کر دیا گیا تھا۔احناف کے ہاں ہندوستان میں بعض لوگوں نے کچھ شدت اختیار کی ہے۔

مطیع سید: احرام کی حالت میں نکاح کی ایک طرف ممانعت کی روایات آتی ہیں، (کتاب الحج، باب المحرم یتزوج، حدیث نمبر ۱۸۴۱) دوسری طرف یہ بھی آتا ہے کہ آپ ﷺنے حضرت میمونہ سے احرام کی حالت میں نکا ح فرمایا۔ (کتاب المناسک، باب المحرم یتزوج، حدیث نمبر ۱۸۴۴)

عمار ناصر: اس نکاح کے بارے میں روایتیں متعارض ہیں۔ایک میں ہے کہ آپ ﷺنے احرام میں کیا اور دوسری میں ہے کہ آپﷺ احرام سے نکل چکے تھے۔محدثین کے ہاں احرام سے نکل جانے والی روایت کو عام طورپر قبول کیا جاتا ہے۔

مطیع سید: امام داؤود لکھتے ہیں کہ ابن عباس کو وہم ہواہے، حالتِ احرام میں آپ ﷺ نے نکاح نہیں کیا۔

عمار ناصر: جی محدثین یہی کہتے ہیں کہ ابن عباس کو غلط فہمی ہوئی ہے۔

مطیع سید: لاینکح ولا یُنکح میں نکاح سے مرا دیہ بھی لے سکتے ہیں کہ عقد نکاح نہیں، بلکہ نکاح کے بعد خلوت کرنا مراد ہے؟

عمار ناصر: احناف یہ تاویل کر تےہیں، لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ عقد نکاح ہی مراد ہے۔ لاینکح ولا یُنکح ۔ یعنی خود بھی نکاح نہ کرے اور دوسرے کا بھی نہ کروائے۔

مطیع سید: احرام باندھنے میں کندھے کو ننگا رکھنا (کتاب المناسک، باب الاضطباع فی الطواف، حدیث نمبر ۱۸۸۴) یہ بھی رمل جیسی وقتی کوئی چیز تھی یا مستقل حکم ہے؟ حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے ان دونوں چیزوں کا یعنی رمل اور اضطباع کا پس منظر ایک ہی بیان کیا۔ (کتاب المناسک، باب الاضطباع فی الطواف، حدیث نمبر ۱۸۸۷)

عمار ناصر: حضرت عمر کی رائے یہی تھی کہ اگرچہ یہ طریقہ ایک خاص موقع پر مشرکین کو مسلمانوں کی ہمت اور حوصلہ دکھانے کے لیے اختیار کیا گیا تھا اور اب اس کی ضرورت نہیں، لیکن چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ عمل کیا جاتا رہا، اس لیے اس کو جاری رکھنا چاہیے۔

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں حرمت والے مہینوں کے اپنی جگہ پر واپس آ جانے کاذکر فرمایا۔ (کتاب المناسک، باب الاشہر الحرم، حدیث نمبر ۱۹۴۷) یہ حرمت کے مہینے کیا پچھلی شریعتوں سے چلے آرہے تھےیا اہل عرب نے خود طے کرلیے تھے؟

عمار ناصر: قرآن ِ مجید سے یہی پتہ چلتا ہے کہ عرب کے ماحول میں حج اور عمرے کی عبادت کو محفوظ کرنے کے لیے یہ مہینے باقاعدہ مقرر کیے گئے تھے۔ حرمت کے مہینوں کا حج اور عمرہ کے ساتھ باقاعدہ تعلق ہے اور ان کی حکمت یہی ہے۔ اسی لیے حج کے لیے تین مہینے اکٹھے اور عمرے کے لیے ایک مہینہ الگ رکھا گیا ہے تاکہ لوگ آسانی سے آکر حج ادا کر سکیں اور واپس بھی جا سکیں۔قاضی ابوبکر ابن العربی نے احکام القرآن میں ان کی مشروعیت کے پس منظر اور حکمت پر تفصیلی بات کی ہے۔

مطیع سید: چونکہ وہ حج اور عمرے کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے خود یہ طے کر لیا کہ ان مہینوں میں جنگ نہیں کریں گے؟

عمار ناصر: نہیں، خود نہیں طے کیا۔یہ دینِ ابراہیمی کی روایت کا حصہ تھا۔

مطیع سید: اب ان حرام مہینوں کی کیا حیثیت ہے؟

عمار ناصر: فقہاء میں یہ بحث ہے کہ کیا یہ حرمت قائم ہے یا ختم ہو گئی ہے۔ جمہور فقہاء اس کو برقرار مانتے ہیں، جبکہ احناف کا کہنا ہے کہ یہ حرمت منسوخ ہو چکی ہے۔ اب یہ نسخ والی بات تو دلیل کے اعتبار سے کمزور معلوم ہوتی ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں ان مہینوں کی حرمت کا ضابطہ بیان فرمایا جو آپ کی وفات سے تین مہینے پہلے کی بات ہے۔ لیکن امت کے تعامل کو دیکھیں تو وہ بظاہر احناف کا موید ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےبعد صحابہ کے دور میں اس کا ذکر نہیں ملتا کہ صحابہ ان مہینوں میں جنگ سے گریز کرتے ہوں۔ قیاسی طور پر بھی بعض استنباطات کی گنجائش نکلتی ہے۔ مثلاً‌ اگر حج اور عمرے کے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے ان مہینوں میں لڑائی ممنوع کی گئی تھی تو پھر یہ حکم جزیرہ عرب تک محدود ہونا چاہیے، یعنی باقی دنیامیں آپ لڑ سکتے ہیں۔پھر یہ کہ عرب میں بھی صورتحال اس طرح سے نہیں رہی۔ تو یہ ایک اجتہادی بحث بن جاتی ہے۔

مطیع سید: منیٰ میں قیام کے دوران قصر نماز پڑھنا یہ کیا حج کے احکام کا حصہ ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی وجہ سے نماز قصر کی تھی؟ (کتاب المناسک، باب الصلاۃ بمنی، حدیث نمبر ۱۹۶۰)

عمار ناصر: یہ بھی استنباطی بحث ہے کہ کیا قصر، حج کے عمل کا حصہ ہے یا حاجی، مسافر ہونے کی وجہ سے قصر کرتے ہیں۔ فقہا میں یہ بحث چلتی ہے۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے حلق کروایا۔ہزاروں کے مجمع کےسامنے کروایا، ،(کتاب المناسک، باب الحلق والتقصیر، حدیث نمبر ۱۹۸۱) پھر اس کی مقدار کے بارے میں اختلاف کیوں ہے؟جیسے امام شافعی کہتے ہیں کہ تین بال بھی کٹوالے تو بھی ٹھیک ہے، لیکن احناف کا موقف اور ہے۔ وہ پورے سر کے بال کٹوانے کا کہتے ہیں۔

عمار ناصر: نہیں، اس اختلاف کی وجہ یہ نہیں ہے کہ حضورﷺ نے حلق پورا کروایا تھا یا نہیں۔ وہ تو معلوم ہے، ،لیکن سر منڈوانا لازم نہیں۔ اگر کسی نے سر منڈوانا ہے تو ظاہر ہے پورے سرکو ہی منڈوانا ہے۔بحث، بالوں کے قصر میں ہوتی ہے کہ اگر بال چھوٹےکروانے ہیں تووہ کتنے کفایت کر جائیں گے۔چونکہ بنیادی طور پر اس کی حیثیت ایک علامت کی ہے تو شوافع کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، علامتاً‌ دو تین بال کٹوالیےتو بھی کافی ہے۔

مطیع سید: آپﷺ جب خانہ کعبہ میں بت گرا رہے تھے تو کہا جاتا ہے کہ وہاں سے اس مینڈھے کے سینگ بھی ملے جو حضرت ابراہیم ؑ نے قربان کیا تھا۔آپ ﷺنے غالباً‌ ان پر پردہ ڈال دینے کا حکم دیا۔کیا یہ واقعی اسی مینڈھے کے سینگ تھے؟

عمار ناصر: عرب میں زبانی روایت تو چلی آ رہی تھی کہ یہ اسی مینڈھے کے سینگ ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی تصویب یا تغلیط کے متعلق کوئی بات منقول نہیں، البتہ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے کعبہ کے کلیدبردار سے کہا کہ وہ ان سینگوں کو ڈھانپ دے تاکہ کعبے میں نماز ادا کرنے والوں کی توجہ ان کی طرف مبذول نہ ہو۔ اب حقیقت حال کیا تھی، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ جو کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے تو اس وقت میری روح میرے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔(کتاب المناسک، باب زیارۃ القبور، حدیث نمبر ۲۰۴۱) کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟

عمار ناصر: ابو داؤد کی روایت کےاس جملے پر محدثین کو تحفظات ہیں کہ یہ جملہ ٹھیک نہیں ہے۔

مطیع سید : آپ اسے کیسے دیکھتے ہیں؟

عمار ناصر: اس روایت کی یہی سند ہے اور محدثین اس پر مطمئن نہیں ہیں۔سلام کا جواب دینے کی اور بھی روایتیں ہیں، لیکن یہ جملہ جو اس روایت میں ہے، اس پر محدثین مطمئن نہیں ہیں۔

مطیع سید: مصاہرت کے حوالے سے جو احناف کہتے ہیں کہ شہوت سے کسی عورت کو چھونے سے مصاہرت کا رشتہ ثابت ہو جاتا ہے تو کیا کوئی کسی غیر عورت کو غلطی سے یہ سمجھ کر شہوت سے چھو لے کہ یہ میری بیوی ہے، ،تب بھی حرمت ثابت ہو جاتی ہے؟

عمار ناصر: نہیں غلطی سے نہیں، ارادے سے کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا تو رشتے کی حرمت قائم ہوجائے گی۔ جس عورت کو آدمی نے شہوت کے ساتھ چھو لیا، اس کی ماں کے ساتھ نکاح اس پر حرام ہو جائے گا، کیونکہ اس کو ایک طرح سے اس کی ساس کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔قرآن نے تو اصل میں نکاح کی صورت میں یہ حکم بیان کیا ہے۔ احناف نے اس میں ایک لطیف استدلا ل کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھو لینے کی نوعیت بھی یہی بن جاتی ہے۔

مطیع سید: ذوالکفل کا نام قرآن مجید میں آتا ہے لیکن اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔صحابہ کی طرف سے بھی کوئی سوال نہیں اٹھا۔

عمار ناصر: ذوالکفل نام سے زیادہ ایک لقب لگتا ہے۔قرآن نے بہت سی شخصیات کا یا واقعات کاذکر مخاطبین کے ہاں جو تصور عام تھا یا جو معلومات موجود تھیں، ان پر انحصار کرتے ہوئے کیا ہے۔

مطیع سید: تو کیا وہ تصورات یا معلومات بھی ہمیں کچھ ملتی ہیں؟

عمار ناصر: بعض میں مل جاتی ہیں، بعض میں نہیں ملتی۔

مطیع سید: ایک غیر مسلم کا قرآن پر یہ اعتراض بن سکتا ہے کہ ایسی ایک شخصیت کا ذکر دیا جس کا کچھ اتا پتہ نہیں۔

عمار ناصر: یہ قرآن پر تو اعتراض نہیں بنتا۔قرآن نے ایک شخصیت کا ذکر کیا ہے جو اس کے مخاطبین کومعلوم تھی۔ اب اگر وہ معلومات جو ان کو معلوم تھیں، ہمیں نہیں پہنچیں تو یہ تاریخ کا مسئلہ ہے، اس میں قرآن پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟

مطیع سید : بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذوالکفل اصل میں کپل سے معرب ہوا اور یہ اشارہ ہے کپل دسو کی طرف جو مہاتما گوتم بد ھ کا علاقہ تھا۔یعنی یہاں گوتم بدھ مراد ہیں۔

عمار ناصر: یہ سارے قیاسات ہیں۔

مطیع سید: ایک شخص نے اپنی بیوی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شکایت کی کہ وہ جو بھی ہاتھ لگانا چاہے، اس کو روکتی نہیں لیکن میں اس کے بغیر رہ نہیں سکوں گا۔ آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، اس سے فائدہ اٹھاتے رہو۔(کتاب النکاح، باب النہی عن تزویج من لم یلد من النساء، حدیث نمبر ۲۰۴۹) ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ روایت موضوع ہے، ،حالانکہ رواۃ اس کے سارے ثقہ ہیں۔

عمار ناصر: ابن جوزی درایتاً‌ اس روایت کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کا اشکال یہ ہے کہ وہ آدمی کہہ رہا ہے کہ بد کر دار و بدکار عورت ہے اور رسول اللہ ﷺ اس کو ساتھ رکھنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ تو یہ نہیں ہو سکتا۔ اس پہلو سے وہ درایتاً‌ اس پر سوال اٹھاتے ہیں۔

مطیع سید: یہ صلوٰۃ اور سلام میں فرق کیا ہے، جو ہم درود میں پڑھتے ہیں؟

عمار ناصر: صلوٰۃ کا لفظ رحمت کے لیے اور سلام سلامتی کے لیے آتا ہے۔ رحمت کی تعبیر بہت عام ہے، سلامتی اللہ کی رحمت اور عنایت کی ایک خاص صورت ہے۔

(جاری)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۷)

اہل سنت اور اہل تشیع کی علمی روایت کا ایک تقابلی مطالعہ

مولانا سمیع اللہ سعدی

اہل تشیع کے دیگر مصادر رجال اور جرح و تعدیل

اہل تشیع کے اولین مصادر رجال کا اقوال جرح و تعدیل کے اعتبار سے ایک جائزہ سامنے آچکا ہے،کہ ان کتب میں رواۃ کی تقویم نہ ہونے کے برابر ہے،اس کے بعد اہل تشیع کی بعد کے زمانوں میں لکھے جانے والی کتب ِ رجال کا فردا فردا ایک جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان کتب میں جرح و تعدیل کا مواد کم اور کیف کے اعتبار سے کس درجہ کا حامل ہے؟ان کتب میں سے متعدد کتب ایسی ہیں،جو ان اولین مصادر رجال کی جمع و ترتیب یا ان پر شروح و حواشی کی صورت میں ہے جیسا کہ احمد ابن طاووس کی التحریر الطاووسی (یہ کتاب حسن بن زین الدین العاملی کی تیار کردہ ہے،جو انہوں نے ابن طاووس کی کتاب حل الاشکال فی معرفۃ الرجال سے تیا رکی ہے )،جو رجال کے اولین مصادرِ خمسہ (رجال الکشی،رجال الطوسی،فہرسۃ الطوسی،رجال النجاشی اور رجال ابن الغضائری ) کا مجموعہ ہے،اس لئے ان جیسی کتب کا جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ ان سب کتب پر فردا فردا بحث ما قبل میں آچکی ہے،البتہ ان کتب پر بحث ہوگی،جو مستقل تالیفات شمار ہوتی ہیں:

1۔رجال ابن داود الحلی

ان کتب میں سے سب سے پہلی اور اہم کتاب "رجال ابن داود " ہے،جو ساتویں صدی ہجری کے شیعہ محقق ابن داود الحلی کی تصنیف ہے،شیعہ کتب رجال میں یہ سب سے اولین تصنیف ہے،جو جرح و تعدیل کی اساس پر لکھی گئی ہے،چنانچہ محقق حیدر حب اللہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ظہر فی ھذا لکتاب ابداع جدید فی تقسیم مادۃ الرجالیہ لم یسبقہ الیہ غیرہ من الرجالیین فیما نعلم،حتی ان الشہید الثانی قال فی حقہ "سلک فیہ مسلکا لم یسبق بہ احد من الاصحاب"1

یعنی "اس کتاب میں رجالی مواد کی تقسیم میں نئی صورت گری کی گئی ہے،جو ہمارے علم کے مطابق سابق رجالیین میں سے کسی نے نہیں کی،یہاں تک شہید ثانی نے بھی اس کتاب کے بارے میں فرمایا کہ مصنف نے ایسا اسلوب اختیار کیا ہے،جس کی طرف کسی نے اس سے پہلے سبقت نہ کی "

چنانچہ آگے اس ابداع کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ حیدر حب اللہ نےلکھا ہے کہ اس کتاب میں پہلی بار رجال کو جرح و تعدیل کے اعتبار سے ممدوحین اور مجروحین و مجہولین میں تقسیم کر کے ذکر کیا گیا ہے، اس کتاب میں سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں تاکہ اس کا منہج و اسلوب سامنے آسکے:

"زكريا بن يحيى الواسطي ق (جخ، جش) ذكر ابن نوح ثقة.2
زياد بن سابور أخو بسطام الواسطي ق (جخ) ثقة.3
هاشم بن أبي هاشم قر (جخ) مجهول.4
المنهال بن عمرو الأسدي سين (جخ) مهمل5

رجال ابن داود سے چند تراجم کا نمونہ سامنے آچکا ہے،ان تراجم کو تراجم کی بجائے فہارس کہنا زیادہ انسب ہوگا،کہ راوی کا نام ہے اور اس کی توثیق یا تضعیف کے بارے میں صرف ثقہ یا مجہول و مہمل کا لفظ ہے فقط، رواۃ کی ان تقویمات میں ایک اساسی سقم یہ ہے کہ شیخ ابن داود رواۃ اور کتب ِ حدیث کے مصادر اساسیہ کے مصنفین کے ہم عصر نہیں ہیں،قریب تین صدیوں کے بعد کی شخصیت ہیں،تو آپ نے ان تقویمات کی کوئی وضاحت نہیں کی ہے کہ یہ تقویمات متقدمین اہل علم سے مروی ہیں، ائمہ (معصومین ) سے منقول ہیں؟یا اگر ابن داود کی اپنی توثیقات ہیں تو کس بنیاد پر اور کن اصولوں کے تحت وہ رواۃ کی توثیق یا تجریح کا فیصلہ کرتے ہیں؟ شیخ ابن داود نے مقدمہ میں بھی ان امور مہمہ میں سے کسی امر کی وضاحت نہیں کی،جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کتب رجال سے جو تراجم ہم نے نقل کئے،ان میں خصوصیت کے ساتھ رواۃ کی تجریح یا تعدیل کے بارے میں متقدمین اہل علم کے اقوال سند کے ساتھ منقول تھے،جیسا کہ تہذیب التہذیب سے جو ترجمہ نقل کیا گیا،اس میں صرف ایک راوی کے بارے میں سولہ کبار محدثین کے اقوال منقول تھے۔

ان اہم ابحاث کے معدوم ہونے کے ساتھ یہ بات بھی قابل ِ ذکر ہے کہ یہ کتاب ایک مجلد پر مشتمل ایک مختصر کتاب ہے،شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس کتاب میں 1744 رواۃ کو ممدوح اور 565 رواۃ کو مجہولین کی درجہ بندی میں ذکر کیا گیا ہے،یوں کل 2300 کے قریب رواۃ کا ذکر ہے،جو اہل تشیع کے کل رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے۔ اس کے ساتھ مزید بات یہ ہے کہ اس کتاب کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں علمائے شیعہ میں بڑے پیمانے پر اختلاف ہوا ہے،کیونکہ اس میں متعدد جہات سے اغلاط پائی جاتی ہیں،جن کی تفصیل حیدر حب اللہ نے مکمل تفصیل دی ہے،چنانچہ شیخ لکھتے ہیں:

لاحظ المتتبعون من الرجالیین وجود مشاکل فی ھذا الکتاب،کالاخطاء الواردۃ فی ضبط الاسماء،وفی النقل من المصادر وفی مقدمتھم السید مصطفی التفرشی فی کتابہ نقد الرجال الذی رصد فیہ بشکل مکثف اھم الملاحظات علی الکتاب"6

یعنی بعد میں آنے والے علمائے رجال نے اس کتاب میں کئی مشاکل پائے ہیں،جیسا کہ اسماء کو ضبط کرنے میں ہونے والی اغلاط،مصادر سے نقل میں غلطیاں،ان میں سب سے قابل ذکر سید مصطفی تفرشی ہیں،جنہوں نے اپنی کتاب نقد الرجال میں مفصل انداز میں کتاب کے بارے میں اپنے ملاحظات بیان کئے ہیں۔ اس کے بعد تفرشی کا قول نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"کتابہ ھذا مشتمل علی اغالیط لا تحصی واشتباہات لا تستقصی،یعرفھا من تامل فیہ و نظر فی ظاہرہ و خافیہ"

یعنی ان کی یہ کتاب لا تعداد اغلاط اور بے شمار التباسات پر مشتمل ہے،ہر وہ آدمی ان کو جان سکتا ہے جو،اس کے ظاہر و مخفی مقامات میں دقت ِ نظر سے دیکھے۔

اس کے بعد شیخ حیدر حب اللہ نے اس کتاب کے معتمد ہونے اور اسے بطور ِ مصدر لینے یا نہ لینے کے بارے میں علمائے شیعہ کے تین مواقف بیان کئے ہیں،الرفض التام،القبول التام اور القبول المعتدل یعنی اسے مکمل لے لینا،مکمل ترک کر دینا،یا اس کے ساتھ اعتدال کا رویہ اپنانا،کہ اغلاط کے ملاحظہ کے ساتھ اس کو لیا جائے۔

2۔خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال

جرح و تعدیل کے نکتہ نظر سے لکھی گئی اس دور کی دوسری اہم ترین کتاب معروف شیعہ محدث اور امام ابن تیمیہ کے ہم عصر ابو منصور حسن بن مطہر حلی،جنہیں عام طور پر علامہ حلی کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے،کی تصنیف ہے،علامہ حلی کا اہل تشیع میں جو مقام ہے،وہ کسی پر مخفی نہیں،علامہ حلی کی شہرت کی وجہ سے اس کتاب کو بھی خاصی مقبولیت ملی،بعد کے اہل علم نے اس پر شروح و حواشی کثرت سے لکھے،علامہ حلی مقدمہ میں کتاب کی تالیف کا مقصد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"فان العلم بحال الرواة من أساس الأحكام الشرعية، وعليه تبتني القواعد السمعية، يجب على كل مجتهد معرفته وعلمه،ولا يسوغ له تركه وجهله، إذ أكثر الاحكام تستفاد من الاخبار النبويةوالروايات عن الأئمة المهدية، عليهم أفضل الصلوات وأكرم التحيات،فلا بد من معرفة الطريق إليهم، حيث روى مشايخنا رحمهم الله عن الثقةوغيره، ومن يعمل بروايته ومن لا يجوز الاعتماد على نقله.فدعانا ذلك إلى تصنيف مختصر في بيان حال رواة ومن يعتمد عليه،ومن تترك روايته، مع أن مشايخنا السابقين رضوان الله عليهم أجمعين صنفوا كتبا متعددة في هذا الفن، الا ان بعضهم طول غاية التطويل مع اجمال الحال فيما نقله، وبعضهم اختصر غاية الاختصار، ولم يسلك أحد النهج الذي سلكناه في هذا الكتاب، ومن وقف عليه عرف منزلته وقدره وتميزه عما صنفه المتقدمون.7

یعنی احوال رواۃ کا علم احکام شرعیہ کی بنیاد ہے اور اسی پر قواعد کی بنا ہے،لھذا ہر مجتہد پر اس علم کی معرفت واجب ہے اور اس کے بارے میں بے خبری کا ترک ضروری ہے،کیونکہ اکثر احکام نبی ﷺ کی احادیث اور ائمہ (علیھم السلام ) کی روایات سے ماخوذ ہیں،تو ان ائمہ تک خبر کی طریق کی معرفت ضروری ہے،کہ ہمارے مشائخ نے ثقہ سے روایت لی ہے یا کسی اور سے،اور کن رواۃ کی روایت پر عمل جا ئزہے اور کن رواۃ کی روایت پر عمل ناجائز؟اس وجہ سے ہم احوال رواۃ میں ایک مختصر تصنیف کی طرف متوجہ ہوئے جو معتمد و غیر معتمد رواۃ کے احوال پر مشتمل ہو،باوجودیکہ ہمارے مشائخ نے اس فن میں متعدد کتب تصنیف کی ہیں،مگر بعض بظاہر تو لمبی کتب ہیں مگر احوال کے اعتبار سے مجمل ہیں،جبکہ بعض انتہائی اختصار کی حامل ہیں،لھذا کسی نے ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا،جو ہم نے اس کتاب میں اپنایا ہے،جو اس کتاب سے واقف ہوگا،تو اس کتاب کی متقدمین کی کتب کی بنسبت قدر و منزلت اور اس کا امتیاز جان سکے گا۔

علامہ حلی کے اس اقتباس میں ایک تو اس بات کا اعتراف نظر آتا ہے کہ خاص جرح و تعدیل کے اعتبار سے متقدمین کی کتب ناکافی ہیں،اسی وجہ سے وہ اپنی کتاب کو متقدمین کی کتب سے عالی و ممتاز قرار دے رہے ہیں اور اسے اسلوب و منہج میں یکتا کہہ رہے ہیں،اب اس کتاب سے چند تراجم نقل کئے جاتے ہیں،تاکہ کتاب کا منہج و اسلوب واضح ہوسکے:

ان دو تراجم سے اتنی بات تو واضح ہوتی ہے کہ علامہ حلی کی کتاب واقعی متقدمین کی کتب سے ممتاز اور منہج و اسلوب میں انفرادیت کی حامل ہے،کہ اس کتاب میں راوی کے بارے میں علمائے جرح و تعدیل کے اقوال نقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے،اس کتاب کا اسلوب اہل سنت کی کتب رجال کے اسلوب کے مماثل ہے،یاد ش بخیر!علامہ حلی کی اس کتاب کا پس منظر عموما یہ بیان کیا جاتا ہے کہ علامہ حلی نے یہ کتاب امام ابن تیمیہ کے اس اعتراض کے جواب میں لکھی ہے،کہ اہل تشیع کے ہاں علم رجال و جرح و تعدیل کا کوئی وجود نہیں ہے،اس پس منظر کی طرف شیخ حیدر حب اللہ نے بھی اشارہ کیا ہے اور اپنے تئیں اس بات کو رد کرنے کی کوشش کی ہے،اس کے واقع میں ثبوت و عدم ثبوت سے قطع نظر، علامہ حلی نے اس کتاب میں اہل سنت کی کتب رجال کا اسلوب و منہج اپنانے کی جو کاوش کی ہے،اس سے اس پس منظر کو تقویت ملتی ہے،واللہ اعلم

لیکن کتاب کے اس امتیاز کے باوصف یہ کتاب انتہائی مختصر کتاب ہے،ساڑھے پانچ سو کے قریب صفحات پر مشتمل ایک متوسط حجم کی جلد میں چھپی ہے،شیخ حیدر حب اللہ کے بقول اس کتاب میں معتمد رواۃ میں 1227 رواۃ اور غیر معتمد رواۃ میں 510 رجال کا ذکر کیا گیا ہے،یوں کل ملا کے اس کتاب میں صرف ساڑھے سترہ سو رواۃ کا ذکر ہے 10حالانکہ شیعہ رواۃ کی کل تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق تیس ہزار کے لگ بھگ ہے،کیونکہ شیخ خوئی کی معجم رجال الحدیث میں پندرہ ہزار کے قریب رواۃ ہیں،جبکہ شیخ علی نماز ی کی مستدرکات علم الرجال،جس میں ایسے رواۃ کا ذکر ہے،جو جملہ کتب رجالیہ میں مذکور نہیں ہیں،اس میں اٹھارہ ہزار سے زائد رواۃ کا ذکر ہے،یوں 33 ہزار رواۃ بنتے ہیں، تو ایک محتاط اندازہ بھی لگا لیں تو تیس ہزار رواۃ بن جاتے ہیں،جبکہ علامہ حلی کی کتاب میں صرف ساڑھے سترہ سو رواۃ کا ذکر ہے،جو رواۃ کی کل تعداد کا بمشکل پانچ فیصد بنتا ہے،یوں علامہ حلی کی کتاب اہل تشیع کے علم رجال کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے بلا شبہ ایک اچھی کاوش ہے،لیکن اس میں کل رواۃ کے صرف پانچ فیصد کا احاطہ کیا گیا ہے،جو ظاہر ہے،علمی لحاظ سے بالکل ناکافی تعداد ہے۔

اب یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ علامہ حلی نے اتنے کم رواۃ کا ذکر کیوں کیا؟علامہ حلی کے منہج و اسلوب کو دیکھتے ہوئے یہ توجیہ کی جاسکتی ہے کہ چونکہ علامہ حلی نے اس کتاب میں رواۃ کے بارے میں جرح و تعدیل کے اقوال ذکر کرنے کا التزام کیا ہے،اور متقدمین کے پورے ذخیرے میں صرف یہی رواۃ ہی علامہ حلی کو ملے،جن کے بارے میں کسی نہ کسی کتاب اور کسی نہ کسی عالم کا قول ِ جرح و تعدیل مل جاتا ہے،جبکہ متقدمین کے تراث میں باقی تمام رواۃ جرح و تعدیل کے ابحاث سے مسکوت عنہ ہیں،پچھلے صفحات میں متقدمین کے اولین مصادر رجالیہ خمسہ کا رواۃ کے جرح و تعدیل کے اعتبار سے ایک مفصل تجزیہ سامنے آچکا ہے،اس تفصیل کی روشنی میں یہ توجیہ بعید نہیں ہے،واللہ اعلم

یہ بات یاد رہے کہ اہل تشیع کے علمی تراث کے بارے میں عموما مخالفین کا نظریہ یہ ہے کہ اہل تشیع کے تراث میں خواہ حدیثی تراث ہو یا رجالی،اس تراث میں دورِ صفوی میں مصنوعی اضافہ کیا گیا ہے، اس نظریے کے مطابق اہل تشیع کا رجالی تراث ہی اتنے رواۃ پر مشتمل تھا،اس لئے علامہ حلی نے اتنے رواۃ کا ذکر کیا ہے،لیکن مضامین کے اس سلسلے میں ہم نے چونکہ مخالفانہ و مخاصمانہ الزامات و دعاوی سے صرف نظر کیا ہے،بلکہ اہل تشیع و اہل سنت ہر دو فریقوں کے ہاں موجود تراث کا تقابل کیا گیا ہے،اس لئے اس دعوی اور اس کی تاریخی ثبوت یا عدم ثبوت کے بارے میں سکوت اختیار کرتے ہیں۔

3۔حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال

یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ محقق شیخ عبد النبی جزائری کی ہے،اسے رجال الشیخ عبد النبی الجزائری بھی کہہ دیا جاتا ہے،یہ کتاب بھی اصلا متقدمین کے تراث کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے،لیکن مصنف نے اس میں ابداع سے کام لیتے ہوئے متقدمین کی کتب میں موجود رواۃ کو چار اقسام میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے:

رجال الحدیث الصحیح

رجال الحدیث الحسن

رجال الحدیث الموثق

رجال الحدیث الضعیف

اس میں پہلی قسم کے تحت 1045 رواۃ،دوسری قسم میں 83 رواۃ، تیسری قسم میں 59 رواۃ اور آخری قسم میں 1171 رواۃ کو بیان کیا ہے،یوں کل ملا کے 2360کے قریب رواۃ کو بیان کیا ہے،جو ظاہر ہے کہ کل شیعہ رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے اور کل رواۃ ِشیعہ کا بمشکل 7 فیصد حصہ بنتا ہے،اس کتاب میں مصنف نے اپنی طرف سے سوائے مقدمہ و خاتمہ کے کچھ نہیں لکھا،بلکہ متقدمین کا تراث ہی نقل کیا ہے،چنانچہ مقدمہ میں اپنی کتاب کا منہج بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:

"اعلم ان کل رجل ذکرہ النجاشی فی کتابہ ذکرتہ اولا بعبارتہ من غیر تغیر۔۔ثم اتبعتہ بکلام العلامہ فی الخلاصہ من غیر تغییر ایضا۔۔ثم اتبعتہ کلام الخلاصۃ بالحواشی المنسوبۃ الی الشہید الثانی ان وجدتھا،ثم اتبع بکلام الشیخ فی کتاب الرجال و الفہرست محافظا علی اللفظ ما امکن۔۔۔ھذا کلہ فی الفصول الثلاثۃ الاول،و اما فی الفصل الرابع فانی قد اقتصرت علی ما ذکرہ النجاشی و العلامہ فی الخلاصہ،سواء کان فی بابہ او فی غیرہ،و اتبعت کلاھما بباقی الکلام علی النہج المذکور فی الفصول الثلاثۃ11

یعنی میں ہر اس راوی کا پہلے ذکر کروں گا،جس کو نجاشی نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے،نجاشی کی عبارت میں بغیر کسی تبدیلی کیے، اس کے بعد علامہ حلی کا خلاصہ سے کلام بلا تغییر نقل کروں گا،،پھر اس کے بعد میں شہید ثانی کے حواشی کی عبارت بغیر تبدیلی کے لاوں گا م،اگر مجھے ملی،پھر اس کے بعد شیخ طوسی کی رجال و فہرست کی عبارت لاوں گا،حتی الامکان الفاظ کی رعایت کرتے ہوئے،یہ ترتیب پہلی تین فصلوں (یعنی پہلی تین اقسام ) میں ہوگی،جبکہ فصل رابع میں میں نجاشی و علامہ حلی کے کلام پر اکتفاء کروں گا،خواہ اسی جگہ انہوں نے کلام کیا ہو یا کسی اور جگہ،پھر ان کے کلام کے بعد میں باقی کلام فصول ثلاثۃ کی ترتیب کے مطابق نقل کروں گا۔

یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ مصنف گیارہویں صدی (المتوفی 1021ھ)سے تعلق رکھتے ہیں،تو انہوں نے رواۃ پر متقدمین کے کلام کو استقصاء کے ساتھ نقل کرنے کی کوشش کی ہے،یوں ماضی کے سات سو سالہ تراثِ رجال میں شیخ جزائری کو دو ہزار سے کچھ اوپر رواۃ ملے،جن پر ماضی کے اہل علم نے جرحا و تعدیلا گفتگو کی ہے،اس سے اہل سنت کتب رجال اور اہل تشیع کے تراث ِ رجال کا تقابل بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کے صرف ایک محدث امام ابن ابی حاتم رازی نے علم رجال کے تدوین کے زمانے میں ہی الجرح و التعدیل لکھ کر اٹھارہ ہزار رواۃ کے بارے میں اہل علم کے اقوال و جرح و تعدیل بیان کردئیے،جبکہ شیخ عبد النبی جزائری سات صدیوں کے رجالی تراث کو کھنگالنے کے بعد بھی صرف ڈھائی ہزار کے قریب رواۃ کے بارے میں شیعہ محدثین کے کلام ِ جرح و تعدیل کو نقل کر سکے۔


حواشی

  1. دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال،ص 188
  2. رجال ابن داود،رقم الترجمہ:643
  3. ایضا:رقم الترجمہ:651
  4. رقم الترجمہ:1670
  5. رقم الترجمہ:1606
  6. دروس تمہیدیۃ:ص 191
  7. خلاصہ الاقوا فی معرفۃ الرجال،ابن مطہر حلی،ص43
  8. خلاصۃ الاقوال: ص102
  9. ایضا:ص127
  10. دروس تمہیدیۃ:ص 204-205
  11. حاوی الاقوال فی معرفۃ الرجال،عبد النبی الجزائری،ص95۔96

(جاری)

امارت اسلامی أفغانستان کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں ۱۲ جنوری کو پاکستان شریعت کونسل فیصل آباد  کی ایک نشست میں گفتگو)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ افغانستان کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو کی افواج کو اپنی ناکامی کے اعتراف کے ساتھ وہاں سے واپسی کو کچھ عرصہ گزر چکا ہے، امارتِ اسلامی افغانستان نے اپنی حکومت قائم کر لی ہے جسے پورے افغانستان میں کنٹرول حاصل ہے ،امن و امان کی صورتحال پہلے سے کہیں بہتر ہے، اور نئے حکمران بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہیں موقع دیا جائے وہ دنیا اور عالمی ماحول کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں وقت دیا جائے تاکہ وہ افغان قوم کے تمام طبقات کو اعتماد میں لے کر اپنا نظام طے کر سکیں اور چار عشروں کی طویل اور خوفناک جنگ کے اثرات کو سمیٹتے ہوئے افغان عوام کے عقیدہ و ثقافت کی بنیاد پر مستقبل کی نقشہ بندی کر سکیں۔

مگر دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جا رہا بلکہ معاشی بحران اور سیاسی دباؤ کے ذریعے پیشگی شرائط کے ساتھ انہیں شکست خوردہ قوتوں کے ایجنڈے کے مطابق افغانستان کے مستقبل کا نظام تشکیل دینے پر مجبور کیا جا رہا ہے جس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم حکومتیں بھی اس معاملہ میں افغان بھائیوں کا ساتھ دینے کی بجائے مغربی قوتوں کے لیے سہولت کاری کا ماحول قائم رکھے ہوئے ہیں۔

اس معاملہ میں یہ پہلو بطور خاص قابل توجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغان اسٹیبلشمنٹ کی اپنے دور کی آٹھ ماہ کی تنخواہیں نئی حکومت کے ذمہ واجب الادا چھوڑ کر گئے ہیں، افغانستان کے اثاثے بہت سےمغربی ملکوں میں منجمد کر دیے گئے ہیں، اور افغانستان کی حکومت کو تسلیم نہ کر کے دنیا بھر میں ان کے ہمدردوں اور بہی خواہوں پر ان کی امداد و تعاون کے راستے بند کر دیے گئے ہیں۔ جسے میں یوں تعبیر کیا کرتا ہوں کہ افغان قوم اس وقت شعب ابی طالب میں محصور ہے اور ان کی مخالف اقوام و ممالک نے ان کے معاشی بائیکاٹ کا غیر اعلانیہ معاہدہ کر رکھا ہے جس پر سختی سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے، حتٰی کہ جو تھوڑی بہت مدد وہاں جا رہی ہے وہ بھی محاصرہ کرنے والوں کی مرضی اور طریق کار پر موقوف ہے۔

بعض دوست سوال کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے اور خاص طور پر مسلمان ممالک ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اس سوال کو سمجھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے اور اس کا حقیقت پسندانہ جواب تلاش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ میرے خیال میں اصل بات یہ ہے کہ سیکولر عالمی قوتوں نے یہ دیکھ کر کہ امت مسلمہ اسلام سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح مذہب کو ذاتی اور اختیاری دائرے میں شامل کر لینے پر آمادہ نہیں ہے، انہوں نے یہ بات حتمی طور پر طے کر لی ہے کہ مسلمانوں کا اسلام ’’شریعت لیس‘‘ ہونا چاہیے یعنی وہ قرآن و سنت کے شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کو اپنے ممالک میں ضروری نہ سمجھیں بلکہ اس حوالہ سے باقی دنیا کے سیکولر ایجنڈے سے ہم آہنگ ہو جائیں۔ جس پر مسلم دنیا کے مقتدر حلقے تو شریعت کے بغیر اسلام کو عملاً قبول کر چکے ہیں مگر عالمِ اسلام بحیثیت امت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ شریعت کے احکام و قوانین پر عمل نہ کر سکنا الگ بات ہے اور احکامِ شریعت سے دستبرداری اس سے مختلف چیز ہے۔ یہ اصل کشمکش ہے جس میں عالمی سیکولر طاقتیں ایک طرف ہیں عالمِ اسلام کی رائے عامہ دوسری طرف ہے۔ جبکہ مسلم دنیا کے برسر اقتدار حلقے اپنی پالیسیوں اور طریق کار کے حوالے سے عالمی طاقتوں کے کیمپ میں دکھائی دے رہے ہیں۔ چنانچہ دنیائے اسلام کے دینی حلقے اور دینی مدارس و مراکز بھی سیکولر حلقوں کی طعنہ زنی اور کردارکشی کا ہر سطح پر صرف اس لیے مسلسل نشانہ بنے ہوئے ہیں کہ ان کے خیال میں عام مسلمانوں کی شرعی احکام کے ساتھ کمٹمنٹ اور وابستگی کا باعث یہ دینی حلقے اور مدارس و مراکز ہیں۔

اس پس منظر میں امارت اسلامی افغانستان اور افغان عوام بھی اسی منفی طرز عمل کا نشانہ بنے ہوئے ہیں حتٰی کہ چار عشروں کی طویل جنگ سے تباہ شدہ افغان معاشرہ اور قحط و افلاس کا شکار افغان قوم کو موجودہ معاشی بحران میں انسانی بنیادوں پر غیر مشروط امداد و تعاون کےحق سے بھی محروم کر دیا گیا ہے جو بلیک میلنگ کی بدترین شکل ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے تمام طبقات بالخصوص علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی ذمہ داری اور قبر و حشر میں جوابدہی کو سامنے رکھتے ہوئے مظلوم افغان بھائیوں کی جو کچھ بھی ہو سکے امداد کریں جس کی معروضی صورتحال میں عملی صورت یہ ہے کہ:

مولاناعتیق الرحمٰن سنبھلیؒ کی وفات

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

چنددن قبل معروف عالم دین، مفسرِقرآن اوردانشورومحقق مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نوے سال سے زیادہ کی عمرمیں وفات پاگئے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔

وہ عرصہ درازسے علیل چل رہے تھے۔موصوف دارالعلوم دیوبندکے فارغ التحصیل اورمولانامحمدمنظورنعمانی رحمہ اللہ کے فرزنداکبرتھے۔قلم کے دھنی اوراپنی بات آزادانہ طورپر کہنے والے مصنف تھے۔صاحب اسلوب اورصاحب فکرانسان تھے۔تقریباً‌ تین دہائی قبل سے وہ لندن میں مقیم تھے اوراس لیے شاعرکی زبان میں کہہ سکتے تھے کہ ؎

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق ومغرب کے مے خانے

جب وہ ہندوستان میں تھے توبرسوں تک پہلے ندائے ملت اورپھرمشہوراصلاحی مجلہ الفرقان (بانی: مولانا محمد منظور نعمانیؒ) کی ادارت کرتے رہے جن میں انہوں نے اپنے پختہ سیاسی نظریات کے ساتھ ملت کی اصلاح اورتربیت شعور کا کام انجام دیا۔وہ علم وتحقیق کی آبروتھے۔ بہت سلجھاہودماغ ااوررواں قلم پایاتھا۔جس موضوع پر قلم اٹھاتے، بڑے اعتمادکے ساتھ تجزیاتی اسلوب میں گفتگوکرتے۔طالبان اورامریکہ کی پہلی جنگ میں انہوں نے طالبان کی شکست کے اسباب کا جائزہ لیا۔ اسی طرح مسلمانوں میں اہانت رسول کو لے کریاحجاب کے مسئلہ میں جوغیرضروری حساسیت پائی جاتی ہے، اس کی نشان دہی کی۔افغانستان پر لکھے ان کے مقالہ پر بھی ردعمل ہوااورندوۃ العلما کے ایک دوسرے سنبھلی استادمولانابرہان الدین سنبھلی مرحوم نے اس کا جواب لکھااورطالبان کے موقف کی ستائش کی۔پھر غالباً‌ ترجمان (جدید)دارالعلوم دیوبندمیں جواب الجواب بھی آیا۔

ہندوستانی مسلمانوں کا موجودہ حالات میں سیاسی، تعلیمی کیالائحہ عمل ہوناچاہیے، اس کی برابررہنمائی کرتے رہے۔لندن چلے جانے کے بعدان کی تحریریں زیادہ ترمعروف علمی وفکری مجلہ الشریعہ(گوجرانوالہ پاکستان) اور الفرقان اورترجمان (جدید)دارالعلوم دیوبندمیں شائع ہوتی تھیں جس کے مدیر مولانا ڈاکٹروارث مظہری صاحب ہیں۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پرانہوں نے علامہ ابن القیم کی بحث کی خاصی گرفت کی ہے اوراس مسئلہ پر حنفی نقطہ نظرکی وکالت کی ہے۔مغرب میں رہنے والے مسلمان کس اندازمیں اپنی دینی شناخت کوبرقراررکھتے ہوئے وہاں کے معاشروں سے ایڈجسٹ کریں اوران کے لیے فائدہ مندثابت ہوں، اس پر بھی ان کے مضامین میں روشنی ڈالی گئی ہے۔

مشاجرات صحابہ کے نازک باب میں انہوں نے انقلاب ِایران کے سیاق میں گفتگوکرتے ہوئے اپناموقف پیش کیاہے جومدلل اورتجزیاتی ہے اورکسی قسم کی عقیدت سے مبراہوکراختیارکیاگیاہے۔بہتوں کواس سے اختلاف ہے اور ہوناچاہیے، مگروہ ناصبی ہرگزنہ تھے جیساکہ بعض فیس بکی لکھاریوں نے ظاہرکرنے کی کوشش کی ہے۔سیدناعثمان بن عفان ذی النورین سیدناامیرمعاویہ، سیدناعمروبن العاص سیدناحضرت مغیرہ رضی اللہ عنہم کادفاع اوران پر لگائے گئے تاریخ کے الزامات کی تحقیق وصفائی لاریب ”نصب“نہیں ہوسکتی وہ ان جلیل الشان لوگوں کا حق ہے۔انہوں نے سیدناحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مقام ومرتبہ کا پوراپاس ِادب رکھاہے۔یزیداوراس کے عمال کے اقدامات کی توجیہ کی ہے۔یزیدپر لگے گھنونے الزامات کا دفاع کیاجوان سے پہلے بہت سے ائمہ کباربھی کرچکے ہیں۔ تاہم لوگ اس بات کوبالکل نظراندازکردیتے ہیں کہ مولانانے اپنی تحقیق میں سیدنامعاویہ کے یزیدکواپناجانشین بنانے کی حمایت نہیں کی بلکہ نتائج کے لحاظ سے اس کوغلط ہی قراردیاہے۔اتفاق واختلاف کی بات الگ، یہ کتاب ”واقعہ کربلاکا حقیقی پس منظر“ایک معرکۃ الآراکتاب ثابت ہوئی اوراس پر برصغیرمیں خوب لے دے بھی مچی۔

اس کے بعدمولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے حیات نعمانی لکھی جس میں انہوں نے اپنے والدبزگوارکا نقش جمیل کچھ اس طرح پیش کیاکہ اس عہدکی پیچیدہ ملی صورت حال بھی قاری کے سامنے آجاتی ہے اورموجودہ زمانہ میں ملی کاموں کا طریقہ بھی سمجھ میں آتاہے۔

مولاناسنبھلی کا تیسرابڑاکارنامہ ان کی تفسیر”محفل قرآن“ہے۔جووہ عرصہ درازتک ایک کالمی درس قرآن کی صورت میں الفرقان میں لکھاکرتے تھے۔اسی تاریخی مناسبت کوباقی رکھتے ہوئے اس کانام محفل ِقرآن ہی رکھا گیا ہے۔راقم سطورنے اس تفسیرکی ابتدائی دوجلدیں حرفاً‌ حرفاً‌ پڑھی ہیں اوروہ گواہی دیتاہے کہ اس نے اس مختصر تفسیرکو عصرحاضرکی دوسری بہت سی معروف ومتداول تفسیروں سے کہیں بڑھ کربہترومفیدترپایاکیونکہ وہ غیرضروری مباحث وتفصیلات سے مکمل گریز کرکے صرف قرآن کی آیات کے مفہوم ومدعاپر فوکس کرتے ہیں۔اکثرمقامات پر سلف کے فہم ہی کوترجیح دی ہے، بہت کم اپنی الگ رائے بیان کی ہے۔حدیث وسیرت اورفقہ کوبھی سامنے رکھا ہے۔ طرزبیان عقلی ومنطقی ہے۔

راقم خاکساربرسوں تک ماہنامہ افکارملی دہلی کا مدیر رہا۔ مولانالندن میں اس کے خریدارتھے اورانہوں نے اپنی کئی کتابیں تبصرے کے لیے گاہے بگاہے بھجوائیں۔چنانچہ راقم کے کی تبصرے ان کی کتاب واقعہ کربلاکا حقیقی پس منظر (انگریزی ایڈیشن پر) حیات نعمانی اورتفسیرکی دوجلدوں پر شائع ہوئے۔واقعہ کربلاوالی کتاب پر تبصرہ الشریعہ کے علاوہ عالمی اسلامی یونورسٹی اسلام آبادکے شائع ہونے والے مجلہ فکرونظرمیں بھی چھپااورمولانانے شکریہ کا ایک خط بھی راقم خاکسارکے نام لکھا۔یہاں یہ کہنابھی غالباً ضروری ہوگاکہ جدیدتفاسیرمیں انہوں نے تدبرقرآن کی بڑی تعریف کی ہے۔ نمازکی اہمیت پر جابجاروشنی ڈالنے کی بنیادپر دوسرے قرآنی نظم اورعربی لغت کی رعایت کی بنیادپر اگرچہ اس کا اظہاربھی کھل کرکردیاہے کہ صاحب ِتدبرنے بعض صحابہ کی شان میں نازیباالفاظ استعمال کیے ہیں جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔(اشارہ سزائے رجم کے سلسلہ میں حضرت ماعزؓکے بارے میں مولانااصلاحیؒ کے ریمارک کی طرف ہے)۔

پروفیسرفریدہ خانم (صاحب زادی مولاناوحیدالدین خاں رحمہ اللہ)کی کتاب مولانامودودی کی تعبیردین پر نقدکے سلسلہ میں شائع ہوئی۔اِس کتاب پر راقم نے افکارملی میں ایک مثبت تبصرہ کیاکردیاکہ ایک مخصوص حلقہ کی باسی کڑھی میں ابال آگیا اور اس تبصرے کی تردیدمیں کئی مضامین افکارمیں شائع ہوئے۔میرے تبصرہ کے بعد مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا مکتوب آیا۔ انہوں نے پروفیسرموصوفہ کی کتاب منگوا کرپڑھی اوراپنے والدگرامی کے حوالہ سے واقع ہوئی حوالہ کی ایک بڑی فروگزشات کی طرف توجہ دلائی۔اسی موقع سے مولانانے راقم کولکھاتھاکہ جب مولانا مودودی علیہ الرحمہ کی کتاب ”قرآن کی چاربنیادی اصطلاحیں“منظرعام پر آئی توغالباً‌ سب سے پہلے انہوں نے الفرقان میں اس تعبیرِدین پر پہلانقدکیاتھا۔خاکسارنے ان سے گزارش کی کہ وہ مقالہ فراہم کرایاجائے۔انہوں نے بھی تلاش کروایا، لیکن تاحال ان کا ناقدانہ تبصرہ کہیں ملانہیں۔ممکن ہے کہ کہیں الفرقان کی فائلوں میں دباہو۔تاہم اِس سے یہ پتہ چلاکہ مولاناموصوف بھی مولانامودودی کی تعبیردین سے اختلاف رکھتے تھے۔

مولاناسنبھلی کثرت سے مطالعہ کرتے اورعلماء کے حلقہ میں راقم کی رائے میں اِس لیے ممتازتھے کہ مشرق ومغرب دونوں کوبہت قریب سے دیکھنے اوربرتنے کی بناپر ان کی تحریروں میں حقیقت پسندی معروضیت ا ورعدم جذباتیت اورانصاف پسندی پائی جاتی ہے، یک رخاپن نہیں ہے۔اوراس لیے مغربی فکرکے نقدکے ساتھ مغرب والوں کی بعض اخلاقی قدروں کی ستائش انہوں نے کی جوکہ علما کے حلقہ میں یکسرناپیدہے۔ساتھ ہی وہ موجودہ زمانے کے چیلنجوں اورمطالبات پر بھی گہری نظررکھتے تھے۔اسلام کے تعلق سے مغرب میں کیاکچھ لکھاپڑھاجارہاہے، اس کی انگریزی سے اپنی واقفیت کی بناکرفرسٹ ہینڈمعلومات رکھتے۔ملی ضرورتوں کے ادراک کی وجہ سے مدارس اسلامیہ کے نصاب ونظام پر بھی انہوں نے لکھاہے۔الفرقان کے اداریوں پر مشتمل ان کے کچھ مضامین کا مجموعہ ”مجھے ہے حکم اذاں“کے عنوان سے چھپ چکاہے۔ضرورت ہے کہ ان کے منتخب علمی فکری اورتنقیدی مضامین بھی شائع کیے جائیں۔

بعض مباحث پر انہوں نے مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ اوردوسرے اکابرسے اختلا ف بھی کیامگران کے پورے احترام کومدنظررکھتے ہوئے۔مولاناابوالحسن علی ندوی کی کتاب المرتضی ٰ کا بھی انہوں نے ناقدانہ جائزہ لیاتھاجس کودوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کی زبان وبیان مولویانہ وواعظانہ نہیں بلکہ سنجیدہ، دانشورانہ، شگفتہ اورمنطقی اوراستدلالی اسلوب کے حامل ہیں۔مولانامرحوم کے اخلاف میں جہاں تک راقم کی واقفیت ہے، بھائیوں، پوتوں، نواسوں اوربھانجوں میں بھی یہی صفات عالیہ منتقل ہوئی ہیں اوربلامبالغہ کہاجاسکتاہے کہ:

این خانہ ہمہ آفتاب است

مولاناسنبھلی اِس سے قبل بھی کئی بارسخت بیمارپڑے تھے مگرشایدقدرت ان سے ترجمہ وتفسیرکا کام مکمل کراناچاہتی تھی چنانچہ وہ ہرباربسترسے اٹھ کرپھرجانفشانی سے اِس کام میں لگ جاتے گویاشبلی وعتیق میں یک گونہ مشابہت یوں ظاہرہوئی کہ شبلی رحمہ اللہ نے اپنے اخیرایام سیرت نبوی علی صاحبہا الف الف تحیہ وسلام میں بسرکیے تومولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے اپنی حیات مستعارکے آخری لمحات کتاب اللہ کے فہم وتفسیرمیں گزارے۔

خداکاشکرہے یوں خاتمہ بالخیر ہونا تھا۔ اللہم انزل علیہ شآبیب رحمتک


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۲)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Moderity کا مقدمہ)


آگے بڑھنے سے پہلے اس  کاوش   کے بنیادی اشکالیے  کو واضح کرنے کے لیے، میں  ان وسیع تر نظری اور سیاسی   اہداف  کو واضح کرنا چاہوں  جو اس  سے مقصود ہیں۔  آئندہ سطور میں، میری  خصوصی دلچسپی یہ واضح کرنے سے ہوگی کہ   مسلمانوں کے مابین  بریلوی دیوبندی جیسے اندرونی اختلافات  کو   کیسے  مذہب سے متعلق نئی عالمی سیاسی حکمت عملی  کا جزو بنایا جاتا اور ان پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اچھے مسلمانوں اور برے مسلمانوں کی تقسیم  کا تنقیدی جائزہ

عہد حاضر میں علمی اور غیر علمی دونوں حلقوں میں بریلوی دیوبندی اختلاف کو عموماً اسلام کی فقہی اور صوفی روایتوں یا فقہ اسلامی اور تصوف کے درمیان ایک دائمی کش مکش کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ علما جو عید میلاد النبی منانے کی مخالفت کرتے ہیں، انھیں شریعت، اصلاح اور خالص اسلام کے علمبرداروں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس لگے بندھے مفروضے کی نسبت عموماً دیوبندیوں کی طرف کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس جو ان اعمال کا دفاع کرتے ہیں، انھیں تصوف، عوامی اسلام اور اسلام کے ایک نرم تصور کے حامیوں کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔

اس تقسیم میں ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بریلوی اور دیوبندی دونوں بیک وقت صوفی شیوخ اور فقہ کے نامور علما تھے۔ بریلوی مسلک کبھی بھی صرف اولیا کی پرستش تک محدود نہیں رہا۔ وہ ہمیشہ معاشرتی تشکیل کے ایک ایسے بیانیے کا نمائندہ رہا ہے جس کی بنیاد ایک اعلیٰ علمی اور تصنیفی روایت پر ہے۔ اسی طرح دیوبندی روایت صوفیانہ پہلوؤں سے تہی دامن نہیں۔

مزید برآں، بریلوی دیوبندی مشائخ نے اپنے پیش روؤں کی طرح اپنے آپ کو ان خانوں میں تقسیم نہیں کیا ، اور نہ ہی فقہی/صوفی جیسے سادہ موازنوں میں خود کو محدود کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ صبح جاگتے ہوئے وہ صوفیانہ اعمال کے لیے کمر کس لیتے ہیں، اور شام ہوتے ہی فقہی روپ اختیار کر لیتے ہیں۔  مثلاً‌ جب معروف ومشہور دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی (جن کے بارے میں ہم اس کتاب میں آگے مزید بہت کچھ پڑھیں گے) سے پوچھا گیا کہ فقہ اور تصوف کے درمیان کیا تعلق ہے، تو انھوں نے جواب دیا: "میں اخلاقی اعمال کے سلسلے میں فقہا کے فیصلوں پر زیادہ اعتماد کرتا ہوں، لیکن میرا یہ فیصلہ خالص عقل پر مبنی ہے، کیوں کہ طبعی طور پر مجھے صوفیہ کے طور طریقوں سے محبت ہے"1۔

اسی طرح، مقبول عام تصویر کے برعکس، بریلوی مکتب فکر کے بانی اور اس کتاب کے بنیادی کردار مولانا احمد رضا خان محض صوفی نہیں تھے۔ درحقیقت وہ فقہاے مجتہدین کی رائے کو صوفیائے کرام کی رائے کے مقابلے میں ثانوی یا کم اہم سمجھ کر رد کرنے کے رجحان کے شدید ناقد تھے۔ اپنی قابل ذکر کتاب "مقال العرفاء فی اعزاز الشرع والعلماء" میں انھوں نے ما قبل جدید دور کے صوفی بزرگوں کے کئی حوالے جمع کیے ہیں (جن میں زیادہ قابل ذکر مشہور صوفی شیخ عبد القادر جیلانی متوفی 1166ء ہیں)، جو اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ فقہی تعلیمات کی مضبوط اساس کے بغیر تصوف کی حقیقت تک رسائی ہو سکتی ہے2۔ اس لیے اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اعلیٰ حضرت اور مولانا تھانوی دونوں کے لیے فقہ اور تصوف ایک مشترک دینی سوچ کا حصہ ہیں، جنھیں ایک دوسرے کے مقابل خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔

اس کتاب میں فقہی/صوفی موازنے کے خلاف میرا یہ دعویٰ ہے کہ علمی اور تاریخی دونوں اعتبار سے یہ ناقص ہے۔ یہ مسلمانوں کے درمیان استدلال ومناقشے کی روایات اور اختلافات کی پیچیدگیوں کو  ایک آسان فہم لیکن مسخ شدہ بیانیے کے ذریعے مستور کر دیتا ہے۔ اگر چہ دیوبند کے پیش رو علما بھی اپنے ارد گرد رائج صوفیانہ اعمال کے متعدد مظاہر کے شدید ناقد ہو سکتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے درمیان بریلوی دیوبندی اختلاف وتنازع کو فقہی غُلو یا صوفیانہ تساہل کے درمیان نزاع تک محدود کرنا بالکل بے بنیاد ہے۔ فقہی/صوفی موازنے کااچھے/برے مسلمان کے نسبتاً ایک وسیع تر، زیادہ طاقت ور اور نتیجتاً زیادہ نقصان دہ بیانیے کے ساتھ گہرا تعلق ہے3، جس میں "اچھائی" کا پیمانہ اچھے مذہب کے سیکولر لبرل تصور سے ہم آہنگی ہے۔ اچھے مذہب کا یہ تصور بالعموم ایک مخصوص انداز میں امریکا کے سامراجی مفادات وخواہشات سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔

اچھے/برے مسلمان کے موازنے کو، جیسا کہ الزبتھ ہرڈ (Elizabeth Hurd) کی حالیہ کاوش سے ظاہر ہوتا ہے، "عقیدے کے دو چہروں" کے ایک وسیع تر عالمی بیانیے میں سمویا گیا ہے، جو بین الاقوامی تعلقات اور پبلک پالیسی کے حلقوں میں جاری بیش تر گفتگو پر حاوی رہتا ہے۔ اس تقسیم میں اچھا مذہب وہی ہے جو آسانی سے قابو میں آئے اور جو امدادی سرگرمیوں اور انسانی حقوق کی مہمات جیسے نولبرل (neo-liberal) مفادات ومقاصد کے لیے کارگر ہو۔ اس کے برعکس برا مذہب وہ ہے جسے نگرانی اور تادیب کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ مذہب ہے جو آسانی سے تشدد، عدم برداشت اور انتہا پسندی کا شکار ہو جاتا ہے، اس لیے اسے مسلسل سدھائے رکھنا ضروری ہے۔ ہرڈ بتاتی ہیں کہ اچھے اور برے مذہب کے درمیان امتیاز قائم کرنے کی اس کوشش میں مصنوعی طور پر مذہب اور مذہبی پیروکار کے ایک نئے تصور کی تشکیل شامل ہے جو سیاست سے الگ ہو۔ پالیسیوں کی تنفیذ کی ضرورت کا یہ بیانیہ جو اچھے اور برداشت والے ایسے مذہب کو مضبوط بنائے جو تاریخی پیچیدگیوں، مقامی سیاقات، اندرونی اختلافات اور روزمرہ عملی زندگی کی حرکیات سے سروکار نہ رکھے۔ لیکن فکری اِفلاس کے باوجود -یا شاید اس کی وجہ سے- "مذہبی آزادی" کے لیے وسیلے کے طور پر اچھے مذہب کا تصور ایک انتہائی منافع بخش صنعت کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ اس نئے مذہب کے بزعم خویش ماہرین بشمول محققین، سرکاری ملازمین، صحافیوں اور سفارت کاروں پر دولت وطاقت کی بڑی نوازشات ہیں۔ ان لوگوں سے تھنک ٹینکس، ادارے، حکومتی محکمہ جات جیسے امریکی محکمۂ داخلہ کا دفتر  براے مذہب وعالمی معاملات (US State Department Office of Religion and Global Affairs)، جس کا آغاز 2013 میں ہوا، آباد ہیں4۔

جنوبی ایشیا میں اسلام کے قضیے کے حوالے سے "عقیدے کے دو رخ" والے بیانیے نے تصوف کی، جسے آخر کار بریلوی مسلک کے مساوی قرار دیا گیا ہے، پرزور حمایت کی شکل اختیار کر لی ہے، تاکہ شریعت پر مُصِر دیوبندی مسلک کے مزعومہ خطرے کو روکا اور کم کیا جا سکے۔ اس استدلال کی بطور خاص ایک مکروہ مثال واشنگٹن ڈی سی میں واقع تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) کی وہ رپورٹ ہے جو 2003 میں Civil Democratic Islam: Partners, Resources and Strategies کے عنوان سے وسیع پیمانے پر شائع ہوئی۔ تین خود ساختہ "ماہرین اسلام" جن میں اس منصوبے کا نگران  ناول نگار چیرائل بينارڈ (Cheryl Benard) بھی شامل ہے، کے تصنیف کردہ 70 صفحات کے اس رسالے کا مطمح نظر یہ ہے کہ "اسلام کے ارتقائی عمل میں تعمیری معاونت فراہم کرکے" جمہوریت کو فروغ دیا جائے5۔ من جملہ دیگر امور کے، اس رپورٹ کا مطمح نظر یہ ہے کہ "اسلامی بنیاد پرستی" کے مسئلے سے "نبٹنے" اور "متمدن وجمہوری اسلام کے فروغ" کی خاطر "ممکنہ ہم خیالوں" کی حیثیت سے مختلف قسم کے مسلمانوں کی خوبیوں اور نقائص کی نشان دہی کرے6۔

یہ دستاویز مسلمانوں کی مختلف اقسام کی طرف سے، جنھیں سادگی سے "سیکولرز"، "بنیاد پرستوں"، "روایت پسندوں" اور "جدیدیت پسندوں" کے خانوں میں بانٹا گیا ہے، متوقع تعاون کا جائزہ لیتا ہے۔ جس طرح کسی میلہ مویشیاں میں جانوروں کی مردانگی کو جانچا جاتا ہے، اسی طرح اس کتابچے کے مصنفین جدیدیت پسندوں کو "جدید امریکی جمہوریت کی اقدار اور روح سے سب سے زیادہ ہم مزاج پاتے ہیں"7۔ سیکولر مسلمان بظاہر فطری اتحادی ہوتے، اگر وہ "بائیں بازو کے نظریات" اور "امریکا مخالف سوچ" کے حامل نہ ہوتے8۔ اس ملغوبے میں تصوف کو بالاتفاق کسی خانے میں نہیں بٹھایا جا سکتا تھا، اس لیے بینارڈ اور ان کے ساتھی کہتے ہیں: "صوفی ان خانوں میں کسی بھی خانے میں ٹھیک طرح سے نہیں بیٹھتے، لیکن ہم انھیں جدیدیت پسندوں میں شامل کرتے ہیں"۔ اس موقف کے حق میں کوئی وضاحت دیے بغیر وہ صوفی ازم کو  کچھ یوں پیش کرتے ہیں: "اسلام کی ایک وسیع اور علمی تشریح۔۔۔ اپنی شاعری، موسیقی اور فلسفے کے ذریعے تصوف مذہبی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر پل کا کردار ادا کرتا ہے"۔ من جملہ دیگر پالیسی سفارشات کے، یہ دستاویز کہتی ہے کہ: "ان ممالک میں جن میں صوفیانہ روایات موجود ہیں، سکول کے نصاب، اقدار اور ثقافتی زندگی میں صوفیانہ اثر ورسوخ کی پرزور حوصلہ افزائی کی جائے۔"9

اسی طرح کا ایک موقف واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورڈ (World Organization for Resource Development and Education - WORDE)  کی 2010 میں Traditional Muslim Networks: Pakistan’s Untapped Resource in the Fight Against Terrorism  کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے10۔ایک دل چسپ سادگی کے ساتھ یہ رپورٹ "بین الاقوامی امدادی برادری" سے مطالبہ کرتی ہے کہ "انتہا پسند نظریات کی حامل قیادت کے مقابلے میں معتدل مذہبی قائدین کی سرگرمیوں کے وسیع سلسلوں کو مالی معاونت فراہم کرکے ان کو تقویت فراہم کی جائے"11۔

رینڈ دستاویز کی طرح اس رپورٹ میں بھی معتدل اتحادی اور انتہا پسند دشمن واضح طور پر متعین اور جانے پہچانے ہیں۔ بریلوی مرکزی دھارے کے معتدل صوفی ہیں، جب کہ دیوبندی (جنھیں اس پوری رپورٹ میں دیوبندی وہابی12 نام سے پکارا گیا ہے) شریعت پرست انتہا پسند ہیں، جن کے تعلیمی ادارے "انتہا پسندی کے مراکز" ہیں13۔ رپورٹ کا اختتامی نتیجہ یہ ہے کہ بریلویوں سے تعلقات استوار کرنے اور ان کی (مالی یا دیگر طریقوں سے) معاونت کرنے سے دیوبندیوں کا خطرہ کم کیا جا سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک سفارش ایک اور با اثر تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن (Heritage Foundation) کی  رپورٹ میں سامنے لائی گئی ہے14۔ ان رپورٹوں کا نتیجہ اس اندرونی دباؤ میں اضافہ ہے کہ پاکستان میں بریلوی اداروں کو تائید وتقویت پہنچائی جائے، جب کہ ملک کے مختلف حصوں میں نئی "صوفی یونیورسٹیاں" بنائی جائیں۔

نہ صرف مغربی ریاستی اور غیر ریاستی طاقتیں صوفی ازم کو اسلام کے ایک معتدل، غیر سیاسی اور نرم رخ کی حیثیت سے فروغ دے رہے ہیں بلکہ، جیسا کہ فیٹ میوڈینی (Fait Muedini) نے واضح کیا ہے، بہت سے مسلم اکثریتی ممالک (جیسے الجیریا، مراکش اور پاکستان) کی حکومتیں بھی اس دوڑ میں پیش پیش ہیں15۔ وہ ایسا اس لیے کر رہے ہیں کہ ان کے خیال میں صوفی ازم سیاسی لحاظ سے بے ضرر ہے، اور اس لیے ریاست کو اس سے کوئی خطرہ نہیں۔ مزید برآں، کسی صوفی سلسلے کی تائید ایک سیاسی لیڈر کو "مذہبی استناد" دلا سکتی ہے۔ اثر رسوخ میں فرق کے باوجود، یہ ایک یک طرفہ عمل نہیں، کیوں کہ صوفی گروہ بھی وسائل تک نسبتاً زیادہ رسائی رکھتے اور حلقۂ ارادت میں توسیع کے ذریعے ریاستی سرپرستی سے فائدہ اٹھاتے ہیں16۔ صوفیوں اور سیاسی اشرافیہ کے درمیان تعاون کی یہ روایت کوئی نئی ایجاد نہیں۔

قرونِ وُسطیٰ اور عہدِ جدید کے اوائل میں مسلم ممالک کے بادشاہوں میں یہ دستور بالکل عام تھا کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار کو تقویت پہنچانے کی خاطر صوفی شیوخ کے اثر ورسوخ سے استفادہ کرتے تھے، اور اس کے بدلے میں صوفیا بھی سرکاری سرپرستی کے فوائد وثمرات سمیٹتے17۔ در حقیقت یہ دو طرفہ مفید بند وبست تصوف کے بنیادی مخمصوں میں سے ہے: ایک طرف دنیوی آسائشوں کو ترک کرنے پر زور دینا، جب کہ دوسری طرف دنیوی حلقۂ ارادت اور سرپرستی کے اداروں پر انحصار کرنا18۔ لیکن ماقبل جدید سیاقات سے تمام تر مشابہتوں کے باوجود جدید دور میں صوفی ازم کا ریاستی فروغ یک سر مختلف اور غیر متوقع ہے۔ آج صوفی ازم کی تمام تر تعظیم کا بنیادی مقصد اسے "خالص شرعی اسلام" کے مقابلے میں حریف کے طور پر فروغ دینا ہے۔ صوفی ازم کو اس بنیاد پر معتدل یا اچھے اسلام کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے کہ وہ اصلاً اس شریعت یا برے اسلام کا حریف ہے جو ہمیشہ سے انتہا پسندی کے خطرے کا حامل رہا ہے۔

صوفی ازم کو اسلام کے ایسے پر امن تصور کی حیثیت سے پیش کرنا جو اسلام کی قانونی روایت کا مد مقابل ہو، اسلامی شریعت اور تصوف دونوں کا ایک بے سر وپا تصور ہے۔ یہ لگا بندھا مفروضہ اس بنیادی حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ راہ سلوک پر چلنے کے لیے شرعی احکام پر عمل درآمد ایک بنیادی تقاضا ہے۔ صوفیا شریعت کو مسترد نہیں کرتے۔ اس کے بجاے وہ اسے بلند تر روحانی تزکیے کی پہلی سیڑھی سمجھتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں صوفی فکر میں شریعت و تصوف کے  درمیان تعلق کو متحارب سلسلوں کی حیثیت سے نہیں دیکھا جاتا، بلکہ اس کے برعکس خدائی حقیقت تک پہنچنے کے لیے یہ پہلی سیڑھی کا درجہ رکھتا ہے۔ درجہ بندی کے اس نظام کی بہتر وضاحت ان تین ہم قافیہ الفاظ سے ہوتی ہے: شریعت (الٰہی قانون)، طریقت (راہ سلوک)، حقیقت (اللہ تعالیٰ تک رسائی)19۔ درجہ بندی اور تقابل ایک چیز نہیں۔

تصوف کو امن اور "اچھے مسلمانوں" کے ہم معنی اور اسلامی شریعت کو تشدد کے خطرے اور "برے مسلمانوں" کے برابر قرار دینا مغربی مستشرقین کی ذہنی اختراع ہے جو تا حال یورپی وامریکی اور بہت سے غیر مغربی (بشمول مسلم اکثریتی) حلقوں میں راسخ ہے۔ جیسا کہ ماہر بشریات کیتھرائن ایونگ (Katherine Ewing) نے اسے اختصار کے ساتھ پیش کیا ہے: "تصوف اور اسلام یا تصوف اور عوامی رسموں کے درمیان اختلافات کو انیسویں صدی کے متعدد محققین نے اس انداز میں  نمایاں کیا ہے   جس میں تصوف اپنی نفیس باطنی واردات کی وجہ سے 'اچھا' ہے، یا اس کے برعکس جہاں تصوف توہم پرستانہ رسومات کی وجہ سے 'برا' ہے، وہاں اسلام اپنی عقلیت پسندی اور خالص توحید کی وجہ سے 'اچھا' ہے۔  تاہم اس الٹ پھیر سے قطع نظر، جسے انیسویں صدی کے متعدد لکھاریوں نے پیش کیا ہے، نو آبادیاتی ماحول میں یہی اختلاف بذاتِ خود اور  اس کی سیاسی اور مؤثر طاقت تصوف کے مابعد ارتقا کے لیے فیصلہ کن اہمیت کی حامل رہی"20۔

شرعی بمقابلہ صوفی کا بھدا اور شرانگیز مفروضہ جہاں نو سامراجی امریکی تھنک ٹینکس کی پالیسی دستاویزات میں پایا جاتا ہے، وہیں اس طرح کے کئی دیگر سطحی موازنوں کی مثالیں جنوبی ایشیائی اسلام سے متعلق سنجیدہ تحقیقی کاوشوں میں بھی ملتی ہیں۔ مثال کے طور پر پنینا وربر (Pnina Werber) کا مضمون The Making of Muslim Dissent: Hybridized Discourses, Lay Preachers, and Radical Rhetoric Among British Pakistanis لیجیے21۔ اس مضمون میں، جس کا بنیادی موضوع برطانیہ میں مقیم جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی مسلکی شناخت کا تصور ہے، وربنر دیوبندیوں اور بریلویوں کے درمیان موازنہ کچھ اس طرح کرتا ہے:

"دیوبندیوں کے ہاں انفرادی تربیت کی حیثیت سے انفرادی عقلیت پر زور کے ساتھ شرعی استدلال (صوفیوں کے صوفیانہ علم کے بالمقابل) کو بھی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اولیا کے مزارات کے احاطے میں جاری رسم ورواج کے دفاع میں ]دیوبند کی[ اصلاحی تحریک کی بھرپور اور منظم مخالفت کی گئی۔ یہ اصلاح مخالف تحریک بریلویت کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں "فاضل علما" کے دو طبقے ابھر کر سامنے آئے۔ مصلح فقہا اور صوفی فقہا، جو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف مذہبی کش مکش میں برسرِ پیکار ہیں"22۔

ان بیانات کے بارے میں کم از کم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ محلِّ نظر ہیں۔ وربنر الفاظ کے نوآبادیاتی ورثے کو مثلاً‌ "اولیاء کے احاطے میں جاری رسم ورواج"، جسے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے استعمال کرتا ہے، نظر انداز کرتا ہے۔ حقائق کے لحاظ سے اس کا تجزیہ بھی درست نہیں، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی علما دونوں نامور فقہا اور صوفیا تھے۔ لیکن یہاں پر سب سے زیادہ قابل توجہ امر وہ انداز ہے جس میں بریلوی دیوبندی کش مکش کو اس مفروضے پر مبنی قرار دیا گیا ہے کہ شریعت وطریقت پہلے سے جانے پہچانے اور الگ تھلگ استدلالی دائرے ہیں "جو مسلسل ایک دوسرے کے خلاف مذہبی کش مکش میں برسرِ پیکار ہیں"۔ یوں اصلاح کی پھبتی اور اس کے نتیجے میں "مصلح" کا لیبل ان علما پر چسپاں کیا گیا ہے جو "تصوف کے مقابلے میں شرعی استدلال کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں"، جبکہ ان کے مخالفین کو آرام سے "صوفی فقہا" کے خانے میں محصور کیا گیا ہے۔ صوفی فقہا اور مصلح فقہا کی تقسیم سے اس طرف اشارہ ہے کہ جو فقہا تصوف کو کم توجہ دیتے ہیں، وہ زیادہ اصلاح پسند ہوتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ بے سر وپا مفروضہ ہے کہ جو شریعت کو جتنا زیادہ سنجیدہ لے گا، اس کے مذہبی رویے اور عمل میں شدت کا رجحان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ زیادہ وسیع تناظر میں ایسی تقسیم حریف مذہبی روایات کو اصلاحی/صوفی اور شرعی/صوفی  جیسے بنے بنائے موازنوں میں محصور  کر دیتی ہے، جبکہ ان حالات وواقعات کو ملحوظ نہیں رکھتی جن میں یہ روایات دعوائے استناد کے ساتھ  ان دائروں کے حدود   طے کرنے کے لیے باہم برسرپیکار ہوتی ہیں۔

اس رجحان کی ایک دوسری مثال جنوبی ایشیائی اسلام کے نامور فرانسیسی مؤرخ مارک گیبوریو (Marc Gaborieau) کے کام میں پائی جاتی ہے۔ اپنی کتاب Un autre Islam: Inde, Pakistan, Bangladesh میں گیبوریو استدلال کرتے ہیں کہ جدید جنوبی ایشیا میں اسلام کی فکری تشکیل علما کے دو الگ اور متوازی گروہوں نے کی ہے۔ ان کی راے میں ایک طرف "مُصلحین" ہیں۔ گیبوریو کی راے میں اصلاح پسند لہر کا آغاز 1740 میں اٹھارویں صدی کے مشہور عالم شاہ ولی اللہ (م 1762ء) سے ہوتا ہے، جو انیسویں صدی کے اواخر تک اور اس کے بعد بھی جدیدیت پسند مصلحین مثلاً‌ چراغ علی (م 1895)، دیوبند کے پیش روؤں اور اہل حدیث علما کی صورت میں جاری ہے۔ جب کہ اس سلسلے کی دوسری طرف ایک علمی روایت ہے جس کو ان علما نے تشکیل دیا ہے جنھیں گیبوریو غیر اصلاحی یا غیر اصلاح شدہ سے تعبیر کرتا ہے۔ اس غیر اصلاحی تحریک کا آغاز شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبد العزیز  (م 1823)  سے شروع ہوتا ہے، اور انیسویں صدی میں بریلوی مکتب فکر سے وابستہ علما نے اسے آگے بڑھایا ہے۔23

دو صدیوں میں پھیلے متعدد کرداروں اور روایات کو  ایسے عمومی خانوں میں تقسیم کرنے کے  اس  تاریخی انداز نظر کی بے اعتدالی ایک طرف، یہ موقف انتہائی بے باکی سے جنوبی ایشیائی اسلام کی متناقض تصویر کشی کے ذریعے سے مقامی مذہبی روایات پر اصلاح کی ایک خود ساختہ تعریف بھی مسلط کرتے ہیں۔ گیبوریو کی تصویر کشی کے برعکس، جیسا کہ میں باب نہم میں بتاؤں گا، بریلوی علما نے بھی اپنے کردار کو مصلحین کے روپ میں دیکھا جن کو طویل عرصے سے رائج رسوم واعمال کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ دیوبند کے پیش روؤں کے ساتھ ان کے شدید اختلاف کی بنیاد کم یا زیادہ اصلاح نہیں، بلکہ اصلاح کے تقاضوں اور ضروریات کے مختلف اور متوازی  تصورات تھے۔

جنوبی ایشیائی اسلام کی ایسی متضاد تصویر ذرا نسبتاً واضح انداز میں پاکستان میں مذہب اور عوامی ثقافت پر ڈیوڈ پینالٹ (David Pinault) کی کتاب Notes from a Fortune-Telling Parrot: Islam and the Struggle for Religious Pluralism in Pakistan میں ملتی ہے24۔ جس انداز میں وہ بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان تقابل کرتا ہے، وہ کافی اچھے طریقے سے بریلوی دیوبندی کش مکش کے بارے میں عوام اور اہل علم کی توجہ حاصل کر لیتا ہے۔ پینالٹ دیوبندیوں کی تعریف "خالص اسلام کے پیروکار جس سے طالبان نے جنم لیا" سے کرتے ہیں25۔ آگے چل کر وہ ہمیں بتاتے ہیں: "بریلوی کی اصطلاح ان سنیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو قدیم صوفیانہ اعمال پر عمل پیرا ہیں"26۔ پینالٹ کی مختصر لیکن معنی خیز تعریفات کے مطابق بریلوی دیوبندی اختلاف تصوف کے غالی مخالفین، "جن کی کوکھ سے بالآخر طالبان نے جنم لیا"، اور "قدیم صوفیانہ اعمال" کا دفاع کرنے والوں کے درمیان ایک کش مکش سے عبارت ہے۔

اس بیانیے میں کار فرما مفروضہ تصور یہ ہے کہ اسلام  مختلف نظریات کا ایک منظرنامہ ہے جس میں     سخت گیر مذہبیت اور تصوف جیسے متوازی اور الگ الگ دھارے پائے جاتے ہیں۔ اس منطق کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان عوام اور علما دونوں کو ان متضاد اور حریف تصورات سے انتساب کی بنیاد پر پہلے سے بنے بنائے خانوں میں بانٹا  جا سکتا ہے۔ یہاں پر یہ اضافہ ضروری ہے کہ اسلام کی ایسی بکھری تفہیم کا مُحرک وہ نو استعماری (neo-colonial) کاوشیں ہیں، جو تصوف کو اسلام کے ایک ایسے "پرامن/غیر سیاسی" تصور کی حیثیت سے تسلیم کرتی ہیں، جو مذہب کی زیادہ "متشدد/سیاسی" تشریحات کا حریف ہے27۔

شریعت/طریقت والے موازنے کی نسبتاً کم اشتعال انگیز مگر محلِّ نظر ایک آخری مثال عامر مفتی کی پیچیدہ کتاب Enlightenment in the Colony ہے۔ بیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان دانشور اور اردو کے ادبی نقاد محمد حسن عسکری (جو مولانا اشرف علی تھانوی کے مرید بھی رہے) کی فکر اور کاوش پر بحث کرتے ہوئے عامر مفتی لکھتے ہیں:

"اس مقام پر عسکری کا وسیع تر پروجیکٹ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ جدید عوامی دائرے کو روایتی مناظرہ بازی کے دائرے میں مکمل طور پر بدل دے۔ تاہم ہمیں اسے اسلامی بنیاد پرستی کے منصوبے کے ساتھ خلط نہیں کرنا چاہیے، جیسا کہ ان کے کم محتاط ناقدین حسب معمول کرتے آئے ہیں؛ کیوں کہ ان کی منتشر کاوشیں اپنی کلیت میں فی نفسہ شرعی یا فقہی کے بجاے قرونِ وسطیٰ کے اس صوفی نقطۂ نظر کی تشکیل نو کرتی ہیں، جس کی تعبیر وتشریح بیسویں صدی کے مفسر مولانا اشرف علی تھانوی نے کی، اور جو اپنی اصل میں اس شدید عقلیت پسند اور شدید حرفیت پسند عملی اسلام پسندی سے بالکل ایک الگ تصور ہے جو  اب پوری دنیا کی خبروں کی شہ سرخیوں کی زینت بن رہی ہے"28۔

اگر چہ عامر مفتی کی حسن عسکری کو بنیاد پرستی کے چنگل سے آزاد کرنے کی کوشش ایک لحاظ سے قابل تعریف ہے (باوجودیکہ وہ بنیاد پرستی کو بالکل عمومی معنی میں لے رہے ہیں)، لیکن انھوں نے 'شریعت یا اسلامی قانون' اور 'قرون وسطیٰ کے صوفی نقطۂ نظر' کے درمیان جو تقابل قائم کیا ہے، میں اس کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں۔ اس موقف میں دو بنیادی مسائل ہیں۔ پہلا مسئلہ فقہ و تصوف کے درمیان بذات خود یہ موازنہ ہے۔ یہ مفروضہ کہ تصوف، چاہے قرونِ وسطیٰ کا ہو یا عہد جدید کا، شریعت یا اسلامی قانون کو نکال باہر کرکے چل سکتا ہے، مولانا تھانوی جیسے عالم کی نظر میں بالکل بے معنی ہے۔ لیکن زیادہ اہم بات مفتی کی اس کوشش پر دھیان  دینا ہے کہ انھوں نے حسن عسکری کو 'شدید عقلیت پسند اور شدید حرفیت پسند عملی اسلام ازم' کے گناہ سے پاک ثابت کرنے کے لیے یہ وضاحت کی کہ ان کی بنیاد 'قرونِ وسطی کے تصوف' میں تھی29۔ اس سکیم کے مطابق قرونِ وسطیٰ کا تصوف جدید بنیاد پرستی سے جنم لینے والے تشدد کے لیے ایک اعتدالی قوت کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ 'شریعت یا اسلامی قانون نہیں بلکہ صوفی نقطۂ نظر' کے جملے سے پتا چلتا ہے کہ بنیاد پرستی کے تریاق کی حیثیت سے تصوف کی طرف رجوع اس مفروضے پر مبنی ہے کہ ایک شخص جتنا زیادہ شریعت پر کاربند رہتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ بنیاد پرستی کا شکار بنتا ہے۔ یہ بعینہ وہی مفروضہ ہے جو معاصر نولبرل کوششوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ صوفی ازم کو 'اچھے اسلام' کی حیثیت سے بیچا جائے، جو 'برے' بنیاد پرست اسلام کے خوف سے چھٹکارا دلانے کا ضامن ہے۔ عامر مفتی کا تصوف کو شریعت اور بنیاد پرستی سے 'الگ' بتانا ناقابل دفاع اور کئی مسائل سے بھرپور چیستاں ہے۔

یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس تنقید سے میرا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں ان دانشوروں کی کاوشوں کو سامراج کے نو لبرل گماشتوں سے جڑی مذموم سیاسیات کی طرح قرار دے رہا ہوں۔ اس کے بجاے، جیسا کہ صبا محمود نے ایک الگ تناظر میں استدلال کیا ہے، انداز نظر کی یہ غیر متوقع یکسانی دراصل اچھے مذہب کے ایک سیکولر تصور سے باضابطہ وابستگی کی دل کشی اور پھیلاو کو ظاہر کرتی ہے30۔

میرا نقطۂ نظر یہ ہے: جنوبی ایشیائی اسلام (یا کسی بھی استدلالی روایت) کے اختلافی ماحول کی توضیح مصلح/غیر مصلح، احیا پسند/روایت پسند، تصوف مخالف/صوفیانہ اور آزاد خیال/قدامت پسند جیسے موازنوں سے کرنا ان اعتقادی آرا کو واضح کرنے کے بجاے دھندلا دیتا ہے جو اس روایت کی تعمیر کرتی ہیں۔ یہ کتاب ایسے تشریحی موازنوں کی افادیت کو مسترد کرتی ہے۔

اچھے مسلمان/برے مسلمان کے بیانیے سے آگے جانے کے لیے راہ عمل کے طور پر یہ کتاب کسی روایت کے ان داخلی استدلالات اور حکمت ہاے عملی کی تفصیلی جانچ کی کوشش کرتی ہے، جن کے ذریعے اس کی حدود پر بحث ومناقشہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کا اساسی مفروضہ یہ ہے کہ سطحی تعمیمات اور تقابلی تشریحات کو از کار رفتہ ثابت کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ان لوگوں کی آواز سامنے لائی جائے جن کے متعلق یہ تعمیمات کی جا رہی ہیں۔ ان متون، سیاقات اور مسلکی دل چسپیوں کے گہرے مطالعے کے ذریعے، جنھوں نے دیوبندی بریلوی اختلاف کی تشکیل کی، میں یہ بتاؤں گا کہ اس مناقشے کو شرعی مصلحین اور مدہوش متصوفین کے درمیان تنازع تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔  اسلام، مذہب اور جنوبی ایشیا کے مطالعے میں اس کتاب کے کردار کی وضاحت کرتے ہوئے میں اس استدلال کے مختلف حصوں کی مزید توضیح کرنا چاہتا ہوں۔

کتاب کا مرکزی نکتہ

نو آبادیاتی ہندوستان کی مسلم اصلاحی تحریکوں پر متعدد عمدہ تحقیقات سامنے آنے کے باوجود، نامور مسلمان علما کی دینی فکر مزید تفصیلی اور گہری تحقیق کا بهرپور تقاضا کرتی ہے31۔ موجودہ تحقیقات میں جنوبی ایشیائی اسلام کی فکری/تصنیفی روایات کے بجاے سماجی، ادارتی اور سیاسی تاریخ پر نسبتاً کافی زیادہ توجہ دی جاتی ہے32۔ چند استثناآت کو چھوڑ کر، جنوبی ایشیائی اسلام کے بہت سے مؤرخین بظاہر ان تشریحی استدلالات اور واقعات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتے جن سے جنوبی ایشیا کے مسلمان علما کی فکری تشکیل ہوئی ہے۔ یہ ایک قابل افسوس فروگزاشت ہے، کیوں کہ ان اکابر علما کے مذہبی مباحثے اور  مناقشے، جنھوں نے جنوبی ایشیا کی استدلالی روایت کی تشکیل کی ہے، ان کی حیات وکردار کے مرکزی اجزاء ہیں۔ یہ صرف اشاعت کا مسئلہ نہیں، نہ ہی ایک تاریخی خلا کو پُر کیے بغیر چھوڑ دینا ہے۔ مذہبی متون کی تفصیلات اور تہہ در تہہ نزاکتوں کی طرف عدم توجہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی احیائی فکر کے متعلق مفروضاتی یا دقیانوسی تاثرات کو جنم دیتی  ہے۔ اصلاح کی حدود اور معانی کا واضح بیان – بیانیے اور داخلی اختلافات – کے بارے میں ہماری تفہیم ناقص اور غیر مفید تعمیمات سے ماخوذ ہوتی ہے۔

عام طور پر مشہور ہے کہ علماے دیوبند نے عید میلاد النبی جیسی رسومات پر تنقید کی، جب کہ بریلویوں نے ایسے اعمال کا دفاع کیا۔ لیکن ان کے استدلالات کے انداز کے سوال نے ابھی تک قابل ذکر توجہ نہیں حاصل کی ۔ میلاد نبوی منانے یا نہ منانے میں ان باہم مخالف علما کے لیے کون سا امر زیرِ غور تھا؟ کن استدلالی طریقوں سے انھوں نے اپنے اعتقادی مسلک کو استناد بہم پہنچایا اور اپنی روایت کے مد مقابل بیانیوں کو کیسے غیر مستند ٹھہرایا؟ ان کے سماجی اور مذہبی تصورات کی تشکیل میں قانون، تاریخ اور زمان کے کن تصورات نے اپنا کردار ادا کیا؟ ان کے افکار میں کہاں پر ابہام اور عدم استحکام پایا جاتا ہے؟

ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے ہندوستانی مسلمانوں کی اصلاحی تحریکات کا مفید بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اس طرح کے سوالات انتہائی اہم ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ علما کے درمیان عقائد، شریعت اور رسومات کے غیر اہم مسائل پر بظاہر پراسرار اور معمولی تکرار درحقیقت حاکمیت اعلیٰ، سیاسیات اور سماجی نظم کے گہرے سوالات کا تشکیل کنندہ اور ان سے مربوط ہے۔ ان بنیادی کرداروں نے، جن کی فکر کو اس کتاب کے صفحات میں زیرِ بحث لایا گیا ہے، انتخابی سیاست اور جمہوری اداروں یا نظاموں میں بالکل شمولیت اختیار نہیں کی۔ تاہم جیسا کہ صبا محمود نے نہایت عمدگی سے استدلال کیا ہے، ان اصلاحی تحریکوں کی جو باقاعدگی سے روحانی تزکیے اور نجات کے معاملات میں لگی ہوتی ہیں، سیاسی طاقت انفرادی اور سماجی تبدیلی کے لیے ان کی صلاحیت میں پوشیدہ ہوتی ہے33۔ صبا  محمود کے اشارے سے رہ نمائی لیتے ہوئے یہ کتاب کچھ تفصیل کے ساتھ ان استدلالات، مباحثات اور تنازعات کو قلم بند کرتی ہے جس نے دین دار افراد اور عوام کے بارے میں علما کے مابین متقابل تصورات کی تشکیل کی۔ روایت و اصلاح کی حریف عقلیات جنھوں نے ان کے سیاسی کردار اور امکانات کی تشکیل کی، ان کا ایک دقیق جائزہ دیوبند جیسے اصلاحی منصوبے کو 'غیر سیاسی' قرار دینے کو ناقص ثابت کرتا ہے۔ جیسا کہ میں اپنے مقام پر بتاؤں گا کہ یہ موقف سیاست کے ایک نمایاں طور پر محدود اور لبرل تصور پر مبنی اور اسے بڑھاوا دینے کے لیے ہے۔

ایک بار پھر کہتا ہوں کہ بڑے پیمانے پر ایسی فکری لغزشیں ہندوستان کے نمایاں جدید مسلم مصلحین کے افکار وآرا پر ناکافی توجہ سے جنم لیتی ہیں۔ انیسویں صدی کے علما جیسے شاہ محمد اسماعیل شہید اور علامہ فضل حق خیر آبادی، جن کا تعارف اوپر ہوا، مناسب توضیحی مثالیں ہیں۔ جیسا کہ میں اس کتاب کے پہلے حصے میں بتاؤں گا، شفاعت نبوی کے حدود پر شاہ اسماعیل شہید اور علامہ خیر آبادی کے درمیان ایک گرما گرم مباحثہ نوآبادیاتی ہندوستان میں بین المسالک اختلافات کی کہانی میں ایک بنیادی صورت حال کی تصویر کشی کرتا ہے۔

شاہ اسماعیل آج تک ایک انتہائی متنازعہ شخصیت  اور بے شمار تنقیدوں اور جوابی تنقیدوں کا موضوع رہے ہیں۔ تاہم ہندوستان مسلمانوں کی احیائی روایت میں اس اہمیت کے باوجود، ان کی مذہبی اور سیاسی فکر پر بنیادی مغربی ماخذ سابق مؤرخ ہارلن پیئرسن (Harlan Pearson) کا مقالہ: Islamic Reform and Revival in Nineteenth-Century India: The Tariqah-i-Muhammadiyah ہے34۔ باوجود ایک متاثر کن کاوش ہونے کے، پارسن کا تجزیہ بڑی حد تک برطانیہ کی  سرکاری دستاویزات پر مبنی ہے، جبکہ مقامی زبانوں کے مصادر کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس لیے گاہ بگاہ اندرونی مذہبی مباحثوں کے متعلق چند مباحث کے باوجود وہ ان کے اندرونی استدلالات، توقعات اور ابہامات کی ایک تفصیلی اور دقیق تصویر کھینچنے میں ناکام رہے ہیں۔

زیادہ عموم کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ایشیائی مطالعات کے میدان میں مسلمانوں کی علمی روایات کی تحقیق نسبتاً‌ ایک نوزائیدہ مرحلے میں ہے۔ ابراہیم موسیٰ نے اس صورت حال کی تلخیص مناسب انداز میں کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

نوآبادیاتی ہندوستان میں اسلام کے مؤرخین کو پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ وہ خطے میں 'علما' کی روایت کا گہرا علم رکھنے کا دعوی کریں گے تو یہ دعویٰ حقیقت کا عکاس نہیں ہوگا۔ مؤرخین تا حال تقریباً مستقل طور پر نوآبادیاتی یا قومی سیاسیات سے جڑی بین الاقوامی شخصیات جیسے علی گڑھ کے بانی سرسید احمد خان، لاہور میں مدفون فلسفی شاعر علامہ اقبال، انڈین نیشنل کانگریس کی نامور شخصیت مولانا ابو الکلام آزاد یا پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کوئی  پانچ دہائیاں قبل جنوبی ایشیا میں دینی فکر کے فروغ میں روایتی علماے دین کے کردار پر کسی قابل ذکر تحقیق کی تلاش بے سود تھی۔ اگر چہ کچھ علما 1857 کے ہنگامے میں ملوث تھے، اوران میں علامہ فضل حق خیر آبادی کا نام نمایاں طور پر ذکر کیا جاتا ہے، پھر بھی ان کے حالات زندگی، علمی کاوشوں اور جس طرح سے انھوں نے بیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں کلامی پیش رفت کو متاثر کیا، اس کے بارے میں بہت کم کچھ کہا گیا تھا۔ جنوبی ایشیا میں استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی ایک جامع تصویر سامنے لانے کے لیے روایتی علما کی کاوشیں تلاش وتحقیق کی مستحق ہیں35۔

اگر چہ ڈاکٹر موسی کی بات ایک دہائی سے زیادہ پرانی ہے، لیکن یہ اب بھی کافی حد تک درست ہے۔ میری یہ کتاب نوآبادیاتی جنوبی ایشیا میں اہم ترین علمی شخصیات کے مذہبی خیالات کو توجہ کا مرکز بنا کر مسلمانوں کی علمی روایات کی ایک باریک بین تصویر پیش کرتے ہوئے ان خلاؤں کو پر کرتی ہے۔ میں اپنے قارئین کو جنوبی ایشیا کی جدید مسلم علمی روایات کے استدلالات، تنازعات اور تفسیری مناہج کی ایک تفصیلی اور کثیر الجہت سیر کراؤں گا۔ نوآبادیاتی جنوبی ایشیا میں بین المسالک مناقشوں کا جائزہ لیتے ہوئے میں کئی مواقع پر  ما قبل جدید اسلامی مصادر پر بھی ڈیرے ڈالوں گا، تاکہ جنوبی ایشیا سے آگے ان مناقشوں کے فکری شجروں کو نمایاں کر سکوں۔ اس حوالے سے بھی یہ کتاب جنوبی ایشیا کی مسلم احیائی فکر پر موجودہ اکثر کاوشوں سے مختلف ہے جن میں بیک وقت عربی، فارسی اور اردو کے مصادر سے اعتنا کرنے کا اہتمام شاذ ونادر  ہی  کیا جاتا ہے۔ اس طرح سے یہ کتاب جنوبی ایشیائی مطالعات، علوم اسلامیہ اور زیادہ وسیع انداز میں مطالعۂ مذہب جیسے مضامین کو یکجا کرتے  ہوئے ان کے اندر نتائج تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ علما کی علمی روایت کے استدلالی تناظر سے جنم لینے والے عربی، فارسی اور اردو مصادر سے استفادہ کرتے ہوئے میں نے کوشش کی ہے کہ عموماً‌ حاشیے میں دھکیلے گئے جنوبی ایشیا کے اہم ترين علمی  ذخیرے کی بازیافت کرکے اسے سامنے لاؤں۔

 ابواب کی ترتیب (The Arc of the Book)

اس کتاب کے ابواب کی ترتیب تاریخی کے بجاے موضوعی ہے، اگر چہ ایک طرح سے وہ تاریخی ترتیب کے مطابق ہیں، کیوں کہ وہ انیسویں صدی کے آگے پیچھے ترتیب دیے گئے ہیں۔ تاہم یہ کتاب تاریخی ترتیب پر علمی تاریخ نہیں ہے۔ اس کے بجاے یہ ان اسنادی اور بہت سے مواقع پر مخالف بیانیوں کے ان مخصوص حالات کا جائزہ لیتی ہے، جن کا مقصد اسلام کے حدود کی تعیین  تھی۔

حصۂ اول ودوم کا آغاز واختتام مختصر تعارفی ابواب کے ساتھ کیا گیا ہے، جو آنے والے ابواب میں شامل سیاسی تناظر اور فکری ماحول کو زیر بحث لاتے ہیں۔ حصۂ اول: 'معاشرتی تشکیل کے حریف بیانیے' کا موضوعِ بحث انیسویں صدی کے اوائل ہیں، جس میں گاہے گاہے اٹھارھویں صدی کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔ یہ ان مناظرانہ مباحث پر مشتمل ہے جو شاہ اسماعیل شہید اور ان کے  ناقدی کے درمیان، جن میں فضل حق خیر آبادی سرِ فہرست ہیں، اہم ترین دینی مسائل جیسے اسلام میں شفاعتِ نبوی کے حدود پر سامنے آئے۔ ان دو (بشمول کچھ دیگر) علما کے، معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں پر توجہ دیتے ہوئے میں نے جنوبی ایشیا کی مسلم احیائی فکر کے ان دو حریف دھاروں کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے  جنھوں نے انیسویں صدی کے اواخر میں مضبوط مسلکی شناخت کی حیثیت اختیار کر لی۔ معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں کا تصور ان متوازی مناہج کی طرف اشارہ کرتا ہے جن میں انیسویں صدی کے اوائل میں ہندوستان کی مغلیہ سلطنت سے برطانوی نوآبادیات کی طرف انتقال کے عبوری دور  میں، جو سیاسی بے یقینی کے حالات سے عبارت تھا، خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور نبوی دائرۂ اختیار کے درمیان تعلق کو سمجھا گیا۔ سیاسیات کی کون سی اصطلاحات اور تصورات خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر دینی مناقشوں کی بنیاد بنے؟ کس طرح سیاسیات اور کلامیات  بغل گیر ہو کر ایک دوسرے کو بارآور بناتے ہیں؟ روایت کی وہ کون سی حریف عقلیات ہیں  جو معاشرتی تشکیل کے متوازی بیانیوں کی وجہ سے ابھر کر سامنے آئیں؟ یہ وہ اساسی فکری سوالات ہیں جو اس کتاب کے حصۂ اول کے پانچ ابواب کی تشکیل کرتے ہیں۔

باب اول: " ہندوستان کے نوآبادیاتی عہد کی ابتدا میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر غور وفکر" اس تاریخی اور اعتقادی ماحول کا پس منظر پیش کرتا ہے، جس پر آنے والے ابواب میں بحث کی گئی ہے۔ معاشرتی تشکیل کے مذہبی بیانیوں (Political Theology) کی اصطلاح کو جس طرح اس کتاب میں برتا گیا ہے، اسی کے تناظر میں مغل حکمرانوں سے برطانیہ کی طرف حاکمیتِ اعلیٰ کے انتقال کے عبوری دور میں فکری اور سماجیاتی ماحول میں جنم لینے والے چند کلیدی تغیرات اور تسلسلات پر بحث کی گئی ہے۔ آئندہ  دو ابواب: "اخلاقی اصلاح کی  توقعات اور خدشات" اور "حاکمیتِ اعلیٰ کی از سرنو تقویت" (Re-energizing Sovereignty) شاه اسماعیل شہید کی اصلاحی فکر اور کاوشوں سے بحث کرتے ہیں، جس میں خدائی حاکمیت کی بحالی، یعنی شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں رائج رسم رواج کے منفی اثرات سے خدائی حاکمیت کے عقیدے کو بچانے کے لیے ان کی کاوشوں سے خصوصی اعتنا کیا گیا ہے۔ یہ دونوں ابواب ان کی مشہور اور متنازع فیہ اردو کتاب "تقویۃ الایمان" اور ان کے نسبتاً کم معروف لیکن تقویۃ الایمان ہی  کی طرح متنازع فیہ فارسی رسالہ "یک روزہ" کا عمیق مطالعہ ہے۔ اس کے ساتھ ان ابواب میں ان کی عوامی اصلاح کی کوششوں پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ چوتھا باب: "دینی سیاسیات" ان کی  اہم لیکن نسبتًا کم معروف فارسی کتاب "منصبِ اِمامت" پر تفصیلی بحث کے ساتھ سیاسیات اور سیاسی قائدین کی مثالی صورتوں سے متعلق ان کے تصور اور نظریے کو کچھ تفصیل کے ساتھ سامنے لاتا ہے۔ پانچواں باب: "نظریۂ شفاعت" میں شفاعتِ نبوی کے سوال اور علامہ فضل حق خیر آبادی کی طرف سے شاہ اسماعیل شہید کی تردید پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ یہ باب قارئین کو ایک صاحبِ علم کی حیثیت سے علامہ خیر آبادی اور خیر آبادی مکتبِ فکر کا تعارف بھی کراتا ہے۔

اور آخر میں کتاب کے اس حصے کے ایک مختصر نتیجۂ بحث میں، میں نے استعماری حکومت اور سابقہ ابواب میں مذکور مقامی اصلاحی فکر کے درمیان تعامل کے نظریے کا تجزیہ کرنے  کی کوشش کی ہے۔ میں نے  خاص طور پر اس سوال پر غور وفکر کیا ہے کہ کیا شاہ اسماعیل جیسے مصلح، مفکر اور کارکن کی فکر وکاوش کو جنوبی ایشیا میں ابھرنے والے ایک اسلامی اصلاحی رجحان (protestant sensibility) کی ایک مثال کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اس امکان کے چند پہلوؤں سے اتفاق کے باوجود میں نے ایسی  کسی نظریہ سازی میں پائے جانے والے اہم مسائل کی نشان دہی کی ہے۔ میری راے یہ بھی ہے کہ استعماری طاقت اور مقامی فکر کے درمیان تعامل کی نوعیت کے حوالے سے  (ماضی کے) تسلسل یا انقطاع کی بحث کا   پورا ڈھانچہ  (problem space)، جو جنوبی ایشیا اور جنوبی ایشیائی مذاہب سے متعلق تحقیقات میں غالب رہتا ہے، اب شاید اس افادیت کا حامل نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا، اور اس تناظر میں، میں " معاشرتی تشکیل کے متوازی مذہبی بیانیوں " جیسے نئے نظری سانچوں کی ضرورت واضح کرنا چاہتا ہوں۔

دوسرا حصہ: "حریف مسالک" انیسویں صدی کے اواخر میں بریلوی دیوبندی تنازع کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔ ایک تعارفی باب (چھٹا باب) بعنوان: "نوآبادیاتی حکومت کے سایے میں اصلاحِ مذہب" ایک بار پھر اگلے تجزیے کے لیے میدان ہموار کرتا ہے۔ یہ قانون، مذہب اور سیاسیات کے حوالے سے نوآبادیاتی تشکیلِ نو کے بنیادی خد وخال بیان کرتا ہے، اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کے سنی علمامیں ابھرنے والے مسالک کو زیرِ غور لاتا ہے۔ اگلے چند ابواب دیوبندی اور بریلوی مسلک کے پیش روؤں کے ان مباحثوں کا جائزہ لیتے ہیں  جو فقہ وشریعت کے کانٹے دار مسائل پر ان کے اختلاف کا سبب بنے: اسلام میں بدعت کی تعریف وحدود۔ بدعت سے مراد وہ اعمال اور طرز حیات ہے جو رسول اللہ ﷺ کی سنت کی مخالف ہو۔ لیکن وہ کون سے اعمال ہیں اور ان کی تعیین کیسے ہو، ایسے سوالات ہیں جو ہمیشہ شدید تنازع اور اختلاف کو ہوا دیتے ہیں، جیسا کہ انیسویں صدی کے مسلم ہندوستان میں ہوا۔ ساتواں باب: "قانون، حاکمیت اور شرعی عمل کے حدود" ان استدلالات کو سامنے لانے کے ساتھ جن کے ذریعے دیوبند کے پیش روؤں نے بدعت کی حدود کا تصور واضح کیا اور اس پر بحث ومناقشہ کیا، دیوبند کے اصلاحی پروگرام کے بنیادی عناصر کو وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے۔

فکری طور پر میں خدائی حاکمیت کی برتری کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل مذہبی بیانیے اور روزمرہ زندگی میں شرعی اعمال کے حدود کی تحدید کے لیے فکرمند شرعی تصور کے درمیان ممکنہ روابط کی تفتیش بھی کر رہا ہوں۔ میں بتاؤں گا کہ دیوبندی فکر کے مطابق فقہ وکلام کا مرکزی سوال یہ ہے کہ ایک نیا عمل بدعت کی حدود میں کب داخل ہوتا ہے۔ اپنے پیش رو شاہ اسماعیل شہید کی طرح (جن کی انھوں نے بھرپور تائید کی) اُن کے اصلاحی منصوبے کا مرکزی نکتہ روزمرہ زندگی کو اس طرز پر از سرِ نو مرتب کرنا ہے جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی یکتائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے۔ اگر کوئی مُستحب رسم ورواج جیسے میلاد منانے سے خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو خطرہ لاحق ہو، یا وہ اسے کم زور کرے تو وہ بدعت کے زمرے میں آئیں گے اور اس وجہ سے انھیں چھوڑنا ہوگا۔ شاہ اسماعیل اور دیوبند کے پیش روؤں کے لیے اصلاحی عمل رائج عادات، رسوم ورواجات اور سماجی تقریبات میں مکمل انقلاب برپا کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ انھوں نے اپنے کردار کو ان مداخلت کاروں کی حیثیت سے تصور کیا جو تاریخ کا دھارا موڑ دیتے ہیں۔ مزید برآں انھوں نے اصلاح کے لیے تجدید کے اس ماڈل کو زمان اور تاریخ کی ایک ایسی تصور سازی کے ذریعے استناد بہم پہنچایا جس کا محوری نکتہ  یہ ہے کہ مسلمان ایک معیاری  عہد (یعنی دور رسالت وصحابہ) سے مسلسل دوری اور انقطاع  کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ آٹھواں باب: "حاکمیت کی بحالی کے لیے نیک کاموں کا سد باب: میلاد اور اس کے اضطرابات" (Forbidding Piety to Restore Sovereignty: Mawlid and its Discontents) میلاد النبی ﷺ منانے پر معروف دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی کے استدلالات کو سامنے رکھ کر بدعت کے متعلق دیوبندی نظریات کی تطبیق کی ایک مخصوص مثال پیش کرتا ہے جو جنوبی ایشیا میں ابھی تک سب سے زیادہ متنازع رسم ہے۔

نواں باب: "حصولِ خیر: اصل مفاہیم کی بحالی کی حیثیت سے اصلاح" اسلام میں بدعت وروایت کی حدود کا ایک حریف بیانیہ سامنے لاتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ کس طرح بریلوی مسلک کے بانی اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان نے بدعت کے موضوع پر دیوبندی نظریات کی تردید کی۔ خان صاحب نے اپنے دیوبندی حریفوں کی سخت سرزنش کی کہ ان کی نظر میں انھوں نے بدعات کی مخالفت کی آڑ میں طویل المیعاد رسوم وعبادات کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا۔ خان صاحب کے نزدیک اصلاح ایسے شرعی خیر کے حصول سے عبارت ہے جو ہر آنے والے والے لمحے میں پہلے سے رائج اعمال کی شکل میں نمایاں ہے، نہ کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے تحفظ کی خاطر احتیاطی بنیادوں پر ایسے اعمال کو نکال باہر کرنا۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی یاد اور احترام میں منائے جانے والے رسومات کو ناجائز قرار دینے کی کسی بھی کوشش کی تردید میں خاص طور پر متشدد واقع ہوئے تھے۔ خان صاحب اور ان کے بریلوی پیروکاروں کے لیے رسول اللہ ﷺ کی کائناتی مرکزیت پر سوال اٹھانا اور ان کے روحانی رتبے کی استثنائی حیثیت کی تحقیر کرنا دین کی پوری عمارت کو منہدم کرنے کے مترادف ہے۔ خان صاحب نے بتایا کہ دیوبند کے پیش رو خدائی حاکمیت کی بحالی کے لیے اپنے گمراہ کن اور جاہلانہ جوش وجذبے میں اس قسم کی استدلالی بغاوت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

یہ باب اس استدلال کے بنیادی خد وخال کو واضح کرتا ہے۔ لیکن ان تمام تر تلخ اختلافات اور تنازعات کے باوجود خان صاحب اور ان کے دیوبندی حریفوں کے اصلاحی ایجنڈوں کے درمیان چند واضح مقامات پر مماثلت اور یکسانیت بھی ہے۔ اگلا باب (دسواں): "مماثلتیں" روزمرہ کی دینی زندگی کی تنقید واصلاح کے متعلق بریلوی سوچ اور فکر کو نمایاں کرنے کے برتر مقصد کے لیے اِن اتفاقی نکات کا جائزہ لیتا ہے، تاکہ اس مشہور غلط فہمی کا ازالہ کیا جا سکے کہ دیوبندی مکتب فکر رسوم ورواجات کے بارے میں عوامی چال چلن کے ناقد جب کہ بریلوی اس کے حامی ہیں۔ جیسا کہ میں اس باب میں بتاؤں گا، احمد رضا خان عوام کے عادات واعمال، بالخصوص عورتوں کی عادات ورواجات کی تنقید میں اپنے دیوبندی حریفوں سے اگر آگے نہیں، تو ان سے پیچھے بھی نہیں ہیں۔

گیارھواں باب: "علم غیب: علم عطائی پر بحث ومناقشہ" رسول اللہ ﷺ کے علم غیب کے سوال پر مرکوز ہے۔ تمام تر اختلافات کے باوجود، صرف اسی مخصوص سوال کے تناظر میں مولانا احمد رضا خان نے دیوبند کے پیش روؤں کی تکفیر کی (انھیں دائرہ اسلام سے خارج کافر قرار دے دیا)۔ یہ باب علم، حاکمیت اور نبوی معجزے کے درمیان تعلق کے ان متقابل تصورات کا تجزیہ کرتا ہے جو خان صاحب کے اس عجیب وغریب فتوے کا سبب بنے۔ میری راے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے علم کی حیثیت ووسعت کے متعلق اس مناقشے میں اصلاً زیر بحث علم اور مذہب کی تعریف ہے۔

اس کتاب کا تیسرا اور آخری حصہ ایک ہی باب "داخلی اختلافات" (بارھواں باب) پر مشتمل ہے۔ یہ متنازع مذہبی سوالات پر دیوبندیوں کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو زیر بحث لاتا ہے۔ بطورِ خاص یہ دیوبند کے پیش روؤں اور ان کے صوفی شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (م 1899) کے درمیان اختلافات پر بحث کرتا ہے۔ حاجی امداد اللہ ایک ممتاز صوفی شیخ تھے جو ہندوستان اور دیگر مقامات میں اپنے دیوبندی مریدوں، دیگر بہت سے علما اور عوام کی نظر میں محترم تھے۔ وہ 1857 کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان سے مکہ ہجرت کر گئے، جب انگریزوں نے انھیں اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کرنے پر گرفتار کرنے کی کوشش کی۔ وہ 1899 میں اپنی وفات تک مکہ میں رہے۔ اپنے دیوبندی مریدوں کی انتہائی عزت کرنے کے باوجود انھوں نے ذرا دھیمے لیکن قابل توجہ انداز میں متنازع دینی سوالات پر ان سے اختلاف کیا۔ یہ باب ان کے درمیان سمجھوتے اور ان باریک اختلافات کی تحقیق کے لیے وقف ہے۔ ایک نامور صوفی شیخ اور ان کے مریدوں کے درمیان اختلاف کی اس مثال سے میں ثابت کروں گا کہ  وہ اختلافات کے جن داخلی استدلالات کو سامنے لائے ہیں، انھیں شرعی/صوفی تقابل کے خانوں میں کیوں نہیں بانٹا جا سکتا۔ میں اس یادگار بیانیے کو بھی نمایاں کروں گا کہ کس طرح دیوبند کے پیش روؤں نے محبت، عقیدت اور اختلاف کے درمیان تطبیق پیدا کی۔

تتمہ میں میں علومِ دینیہ اور جنوبی ایشیائی مطالعات میں اس کتاب کے اہم فکری مضمرات اور کردار پر بحث کروں گا۔ میں خاص طور پر ان مناہج پر غور کروں گا جن سے ایک دینی روایت کے اخلاقی استدلالات کا ایک محتاط جائزہ، جیسا کہ اس کتاب میں برتا گیا ہے، مذہب کی ان حالیہ تحقیقات میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے، اور اس کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے، جنھوں نے مذہبی/سیکولر تقابل پر سوال اٹھایا ہے۔ میری راے ہے کہ زندگی سے متعلق متبادل افکار سے پردہ اٹھانا، جیسا کہ کسی روایت کی داخلی کاوشوں میں دکھایا جاتا ہے، لبرل سیکولرزم کی آفاقیت کے عمومی مفروضے پر سوال اٹھانے کے پروجیکٹ کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ آخر میں ایک مختصر پس نوشت بعنوان: "داخلی 'غیر' کو توجہ سے سننا" میں، میں معاصر جنوبی ایشیا میں اپنے اس کام کی سیاسی مداخلت (یعنی ممکنہ یا متوقع فکری اثرات) پر سوچ بچار کروں گا، اور ساتھ اپنے ذاتی موقف کے حوالے سے چند افکار پیش کروں گا۔

لیکن پہلے چند نکات کی وضاحت ضروری ہے۔ چونکہ اس کتاب کا تعلق ایک ایسی رواں بحث سے ہے،جو ہمیشہ تنازعات کا سبب بنتی اورغیر معمولی توجہ حاصل کرتی ہے، اس لیے مناسب ہے کہ میں اس حوالے سے اپنا موقف واضح کروں۔ میں نے یہ تحقیق مذہب کے علمی مطالعے کی روایت میں سر انجام دی ہے۔ اگر چہ میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق جنوبی ایشیا (پاکستان) سے ہے، لیکن میں اس مناقشے کا نہ تو شراکت دار ہوں اور نہ ہی اس کے شراکت دار افراد اور جماعتوں سے میرا کوئی تعلق ہے۔ اس تحقیق کا مقصد یہ نہیں کہ کسی موقف یا مسلک کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلہ کیا جائے نہ ہی یہ اس اختلاف کا کوئی حل ہے۔ اس کے بجاے میں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس کے استدلالات، شراکت داری اور ابہامات کا بیان اور تحقیق اس انداز سے کروں کہ جنوبی ایشیا کے تناظر میں مسلم علمی روایات کی تفہیم کی گہرائی اور نزاکتوں میں اضافہ کر سکوں۔

تاہم مجھے "غیر جانب دار"، "جذبات سے عاری" محقق کے طور پر نہ دیکھا جائے جو اُن شخصیات میں کوئی دل چسپی نہیں رکھتا جن پر وہ تحقیق کرتا ہے۔ ان کے مسلکی مواقف کے متعلق غیر جانب دار ہونے کے باوجود میں نے ان کی فکر کی تفہیم وترسیل کی بھرپور کوشش میں گزشتہ کئی سال صرف کیے ہیں، اور ظاہر ہے کہ اس کتاب میں پیش کیے جانے والے علما اور ان کی کتابوں سے میں نے ایک قریبی رشتہ استوار کیا ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے، اور میں علمی حوالے سے ان کا مرہونِ منت ہوں۔ آنے والے صفحات میں سوانحی تذکروں سے نہیں، بلکہ مذہب کے علمی مطالعے کے طریق ہاے کار اور اصولوں کی روشنی میں، میں ان کی تذکرہ کروں گا ۔ اس منہج میں یہ ممکن ہوتا ہے کہ روایت کی تہہ در تہہ باریکیوں اور تنازعات سے پردہ اٹھایا جائے، جب کہ لبرل سیکولر فکریت کے اعتدالی دعووں اور مفروضوں کا بھی قلع قمع کیا جائے۔ یہ دہری توقع اس کتاب کا مغز ہے۔ میں تتمّے میں اس مسئلے پر مزید بات کروں گا۔

ایک دوسری وضاحت بھی ضروری ہے۔ اس کتاب میں بہت سے مقامات پر میں نے حکایات اور حکایات کے زیر اثر تاریخوں اور سوانحی تذکروں کے مقامی ذخیروں سے حوالے دیے ہیں۔ یہ توضیحی اور تجزیاتی سے لے کر وقائع نگاری اور عقیدت پر مبنی مصادر تک پھیلے ہوئے ہیں۔ میری طرف سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ میں ان مصادر سے استفادہ صرف ان کی ظاہری حیثیت کی بنیاد پر نہیں کرتا، نہ ہی میں انھیں تجربی حقائق کے ذخائر کے طور پر لیتا ہوں جو پیش آنے والے واقعات کے متعلق سوالات کا یقینی جواب فراہم کرتے ہیں۔ مجھے بہ نسبت اس سوال کے ان سیاسی اور مسلکی کاوشوں میں زیادہ دل چسپی ہے جو یہ حکایات کسی استدلالی روایت کی اخلاقی تشکیل اور تزویراتی عمل کے لیے سرانجام دیتی ہیں۔ مزید برآں انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا کے مسلم احیائی ورثے میں حکایات ایک بنیادی و مؤثر آلے اور طرز استدلال کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس روایت کی خصوصیت ہی حکایات پر مبنی تحریری سرمایے کی فراوانی ہے۔ اس لیے ان حکایات سے استفادے سے میرا مقصد یہی ہے کہ اس پورے ذخیرے  کی بنت میں جو  استدلالی تصورات  کارفرما ہیں،  ان کو سمجھا اور علمی گفتگو کا حصہ بنایا جائے۔

میں نے، جہاں کہیں ممکن تھا اور جہاں پر معلومات دست یاب تھیں، کسی تحریر کی تصنیف کے متعلق موجود سلسلۂ سند/تحریری ثبوت یا مناقشوں پر بھی مختصر نوٹس کا اضافہ کیا ہے، اگر چہ اس پوری کتاب میں میری توجہ تحریری سرمایے کی مادی تاریخ کے بجاے استدلالی مواد پر مرکوز ہے۔ ان اکثر کتابوں کے اصل قلمی نسخے دستیاب نہیں جن کا تجزیہ اس کتاب میں کیا گیا ہے، اور متعدد سوانحی، بالخصوص بیسویں صدی کے اواخر کی حکایات کا دار ومدار زبانی روایت پر ہے، یا وہ عقیدت پر مبنی تاریخ کے انداز میں سامنے آئے ہیں۔ اس لیے اس بات پر زور دینا مفید ہے کہ اس کتاب میں جن مرکزی شخصیات کی زندگیوں اور افکار سے بحث کی گئی ہے، ان کے بارے میں ہم تک معلومات مختلف شارحین کے دستاویزات کے توسط سے پہنچی ہیں، اور ان کی مسلکی وابستگیوں اور افکار کی خصوصیات سے متاثر ہیں۔ مزید برآں جن متون کے ذریعے ہم ان شخصیات سے متعارف ہوتے ہیں، بالخصوص وہ جو بعد میں عربی سے فارسی اور اردو میں یا فارسی سے اردو میں ترجمہ ہوئے، عام طور پر ایسی کئی شخصیات کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہوتے ہیں جن کا تعلق  ایک مخصوص زمانی عرصے سے ہوتا ہے۔36 ایسے متون کے معاملے میں جہاں کہیں ممکن ہوا، میں نے اپنے تجزیے کی بنیاد اصل زبان پر رکھی ہے، جب کہ اس کے ترجمے کو بھی بعد میں کسی مخصوص اعتقادی نقطۂ نظر کے لیے حک واضافے کی تحقیق کے خاطر غور وفکر کا موضوع بنایا ہے۔

ان تنقیحات اور ضروری وضاحتوں کے ساتھ میں یہ عرض داشت بھی پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کسی کو یہ زحمت بھی کرنی چاہیے کہ وہ اس ترتیب کو توڑے جس میں ان یورپی وامریکی ثانوی مصادر کے مقابلے میں ہمیشہ مشکوک ٹھہرنے والے مقامی مصادر کی تحقیر کی جاتی ہے، جن کو یہ اختیار سونپا گیا ہے کہ وہ ان کی تاریخی ثقاہت کی تحقیق، تجزیہ اور تعیین کریں۔ میں ایسی سرپرستی کو نخوت زدگی سمجھتا ہوں۔ تمام تحریریں (بشمول زیر نظر تحریر کے) ذاتی آرا اور حساسیتوں پر اگر مبنی نہیں تو متاثر ضرور ہوتی ہیں، اور ان میں مختلف قسم کے فوائد اور گہرائیاں یا نقائص اور خطرات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر تمام تر تعصبات اور صریح جانبدارانہ مواقف کے باوجود جنوبی ایشیائی اسلام سے متعلق یہاں کی مقامی مسلم وقائع نگاری اپنی تفصیلات، گہرائی اور جزئیات تک میں بہت سے مواقع پر یورپی اور امریکی دانش سے کافی بلند ہے۔ اس کتاب کو لکھتے ہوئے میں نے تشکیک اور تسلیم کے علمی مناہج کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس توازن کو ملحوظ رکھنے کی  کوشش سے،  امید ہے کہ ان تہہ بر تہہ  استدلالات اور مقاصد  کے ساتھ  جو کسی استدلالی روایت کی تشکیل کرنے والوں کے پیش نظر ہوتے ہیں،  ایک زیادہ گہرا اور زیادہ ہمدردانہ تعامل کیا جا سکتا ہے۔


حواشی

  1. اشرف علی تھانوی، ملفوظاتِ اشرفیہ (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، 1981)، 132۔
  2. احمد رضا خان، مقال عرفاء فی اعزاز شرع و علماے شریعت و طریقت (کراچی: ادارۂ تصنیفاتِ امام احمد رضا خان، تاریخ اشاعت ندارد)۔
  3. محمود ممدانی، Good Muslim, Bad Muslim: America, the Cold War , and the Roots of Terror (نیو یارک: پینگوئن رینڈم ہاؤس، 2005)۔
  4. الزبتھ ہرڈ، Beyond Religious Freedom: The New Global Politics of Religion (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2015)۔
  5. چیرائل بینارڈ، اینڈریو رِڈِل اور پیٹر ولسن، Civil Democratic Islam: Partners, Resources, and Strategies (سانٹا مانیکا، سی اے: رینڈ، 2003)، 25۔
  6. ایضاً، 47۔
  7. ایضاً، 37۔
  8. ایضاً، 25۔
  9. ایضاً، 29۔
  10. ہدیہ میراحمدی، مہرین فاروق اور ولید زیاد، Traditional Muslim Networks: Pakistan’s Untapped Resource in the Fight Against Terrorism (واشنگٹن، ڈی سی: WORDE، 2010)۔
  11. ایضاً، 2۔
  12. وہابی کی اصطلاح عالمِ عرب کی اٹھارھویں صدی کی مسلم اصلاحی تحریک، جس کی بنیاد شیخ محمد بن عبد الوہاب (م 1798) نے رکھی، کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ باوجود اعتقادی مماثلتوں کے، معمولی ثبوت کی بنیاد پر دیوبندیوں کو وہابیوں کی طرح قرار دینا نوآبادیاتی دور کا الزام ہے۔ حقیقت میں اصلاح کے یہ دو دھارے اساسی طور پر ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ وہابی چاروں سنی مسالک کی تقلید کو اگر مسترد نہیں کرتے تو اسے قرار واقعی اہمیت بھی نہیں دیتے، جب کہ دیوبندیوں کے نزدیک فقہی مسلک سے وابستگی بنیادی قدر ہے۔ برطانوی مستشرق ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر (م 1900) نے ہندوستانی وہابی کی اصطلاح کو مقبولِ عام بنایا۔ مسلکِ دیوبند کے مخالفین مثلاً‌ بریلوی، دیوبندیوں کو مسلسل اس مقصد سے وہابی کہتے آئے ہیں کہ ان کی استنادی حیثیت کو کم زور کریں، اور انھیں انتہا پسند بنیاد پرستوں کی حیثیت سے پیش کریں۔ دیوبندی وہابی اصطلاح کو بغیر کسی جھجھک یا غور وفکر کے اختیار کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ WORDE کے مصنفین کو نوآبادیاتی دور کی ان مناظرانہ باقیات کا علم نہیں۔
  13. میراحمدی، فاروق اور زیاد، Traditional Muslim Network، 13۔
  14. دیکھیے: لیزا کرٹس اور حیدر ملک، Reviving Pakistan’s Pluralist Traditions to Fight Extremism (واشنگٹن، ڈی سی: ہیریٹیج فاؤنڈیشن، 2009)۔
  15. فیٹ میوڈینی، Sponsoring Sufism: How Governments Promote “Mystical Islam” in Their Domestic and Foreign Policies (نیو یارک: پالگریو میکملن، 2015)، 2۔
  16. ایضاً
  17. دیکھیے: اظفر معین، The Millennial Sovereign: Sacred Kingship and Sainthood in Islam (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2010)۔
  18. دیکھیے: نائل گرین، Sufism: A Global History (چیچِسٹر: وِلی بلیک وِل، 2012)۔
  19. کارل ارنسٹ، The Shambala Guide to Sufism (بوسٹن: شمبالا پبلیکیشنز، 1997)، 18-32۔
  20. مدونین: کیتھرین ایونگ اور روزمیری Introduction to Sufi Politics: Rethinking Islam, Scholarship, and the State in South Asia and Beyond کے لیے کیتھرین ایونگ کا لکھا گیا تعارف (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، زیرِ طباعت)۔ اس استدلال کی مکمل توضیح اور پاکستان میں صوفی ازم کے لیے اس کے مضمرات پر ایونگ کا کچھ عرصہ پہلے لکھا گیا مقالہ: Arguing Sainthood: Modernity, Psychoanalysis, and Islam (ڈرہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 1997) ملاحظہ کریں۔
  21. پنینا وربنر، The Making of Muslim Dissent: Hybridized Discourses, Lay Preachers, and Radical Rhetoric among British Pakistanis، امیریکن ایتھنالوجسٹ 23، شمارہ 1 (فروری 1996): 102-129۔
  22. ایضاً، 106-111۔
  23. مارک گیبوریو، Un autre Islam: Inde, Pakistan, Bangladesh (پریس، البن میشل، 2007)، 142۔
  24. ڈیوڈ پینالٹ، Notes from the Fortune-Telling Parrot: Islam and the Struggle for Religious Pluralism in Pakistan، (لندن: ایکوینوکس، 2008)۔
  25. ایضاً، 9۔
  26. ایضاً، 42۔
  27. اس استدلال سے جڑے مزید فکری مسائل اور جن مہلک سیاسی ایجنڈوں کو یہ بڑھاوا دیتا ہے، ان کی تفہیم کے لیے دیکھیے: گریگری اے لپٹن، Secular Sufis: Neoliberalism, Ethnoracism, and the Reformation of the Muslim Other، مسلم ورلڈ 101، شماره 3 (2011): 427-440 اور Frequencies: A Genealogy of Spiritualityمیں شیر علی ترین کا مضمون: Park 51۔ یہ ایک آن لائن پروجیکٹ ہے، جسے جان ماڈرن اور کیتھرائن لوفٹن نے شروع کیا ہے، سوشل سائنس ریسرچ کونسل، دسمبر 2011،   http://frequencies.ssrc.org/2011/12/13/park-51
  28. عامر مفتی، Enlightenment in the Colony: The Jewish Question and the Crisis of Postcolonial Culture (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2007)، 19۔
  29. "انتہائی عقلیت پسند اور انتہائی حرفیت پسند عملی اسلام ازم" بھی سرسری نظر میں بیک وقت بے تکی اور مبہم ہے۔ اسلام ازم کی تحقیق میں اس طرح کے انتہائی سیکولرسٹ مناہج کے مطالعے کے لیے عرفان احمد کی عمدہ تحقیق ملاحظہ کریں: Religion as Critique: Islamic Critical Thinking from Mecca to Marketplace (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2017)۔
  30. صبا محمود، Secularism, Hermeneutics, Empire: The Politics of Islamic Reformation، پبلک کلچر 19، شمارہ 2 (2006): 323-347۔
  31. ہندوستان کی اصلاحی تحریکوں پر ہونے والی چند تحقیقات میں شامل ہے: باربرا مٹکاف، Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1982)؛ فرانسس روبنسن، The Ulama of Farangi Mahall and Islamic Culture in South Asia (نیو دلی: اورینٹ لانگ مین، 2001)؛ محمد قاسم زمان، Custodians of Change: The Ulama in Contemporary Islam (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2006)؛ ڈیٹرک ریٹز،Islam in the Public Sphere: Religious Groups in India, 1900-1947 (نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2006)؛ اوشا سانیال، Devotional Islam and Politics in British India: Ahmad Raza Khan Barelwi and His Movement, 1870-1920 (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1996)؛ اور ہارلن اوٹو پیئرسن، Islamic Reform and Revival in Nineteenth-Century India: The Tariqah-Muhammadiya، (دلی، یودا پریس، 2008)۔
  32. اسد زمان کی عمدہ کاوش Custodians of Change اس عمومی چلن سے ایک اہم استثنا ہے۔ اردو اور عربی دونوں طرح کے مصادر کا احاطہ کرتے ہوئے یہ کتاب جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی علمی روایت کی پیچیدگیوں سے زیادہ ہم آہنگ ہے۔ تاہم اس کی زیادہ تر توجہ پاکستان میں روایتی علما کے مابعد نوآبادیاتی تناظر پر ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی کے دیوبندی مفکر مولانا اشرف علی تھانوی کے بارے میں زمان کی نسبتاً حالیہ تحقیق: Asharf Ali Thanawi: Islam in Modern South Asia (آکسفرڈ: ون ورلڈ پبلیکیشنز، 2008) اسلام اور نوآبادیاتی ہندوستان کو زیادہ براہ راست موضوع بحث بناتی ہے۔ تھانوی کی فکر کے ان گوشوں کو مزید کچھ گہرائی کے ساتھ جن کو ابھی تک موضوع بحث نہیں بنایا گیا، جائزہ لینے کے لیے میں نے اس کتاب پر انحصار کیا ہے۔ (دیکھیے: ساتواں اور آٹھواں باب)۔
  33. صبا محمود، Politics of Piety: The Islamic Revival in and the Feminist Subject (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2005)، 35۔
  34. ڈیوک یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ سے اپنی پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد پیئرسن علمی دنیا کو خیرباد کہہ کر نجی شعبے میں کام کرنے چلے گئے۔
  35. ابراہیم موسیٰ، The Deoband Madrasa، تدوین: ابراہیم موسیٰ، خصوصی اشاعت، مسلم ورلڈ 99، شمارہ 3 (جولائی 2009): 427۔
  36. میں اس نکتے کی وضاحت میں مارگرٹ پرناو کی ترغیب کے لیے شکر گزار ہوں۔

(جاری)

اہم قومی مسائل پر ملی مجلس شرعی کا موقف

ادارہ

۱۳ جنوری ۲۰۲۲ء کو لاہور پریس کلب میں ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کے صدر مولانا زاہد الراشدی، مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین اور ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا حافظ محمد عمران طحاوی کی  گفتگو کا خلاصہ

مارچ ۲۰۲۲ء

ایمان اور الحاد: چند اہم سوالات کا جائزہمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۶)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ سنن ابی داود (۳)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۸)مولانا سمیع اللہ سعدی 
فکری شبہات کی دلدل اور اہل علم کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مسجد کا ادارہ اور امام وخطیب کا کردارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
بانجھ مزرعۃ الآخرہ سے مولانا سنبھلی کی رحلتڈاکٹر شہزاد اقبال شام 
بچے کو گود دینا، مادہ تولید کی سپردگی اور کرایے کی کوکھ (Surrogacy)ڈاکٹر عرفان شہزاد 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۳)ڈاکٹر شیر علی ترین 

ایمان اور الحاد: چند اہم سوالات کا جائزہ

محمد عمار خان ناصر

انیسویں صدی کے ڈنمارک کے فلسفی سورن کیرکیگارڈ نے مسیحی علم کلام کی تنقید کرتے ہوئے ایمان کی درست نوعیت کو واضح کرنے کے لیے "یقین کی جست (leap of faith) " کی تعبیر اختیار کی تھی۔ کیرکیگارڈ نے کہا کہ ایمان محض عقلی استدلال کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ اس میں انسان کی پوری شخصیت شامل ہوتی ہے اور انسان کے جذبات، فکرمندی اور اضطرابات کے مجموعے سے وہ کیفیت وجود میں آتی ہے جب انسان میسر شواہد کی روشنی میں ایمان کی جست لینے پر تیار ہو جاتا ہے۔

Kierkegaard affirms a leap, not because the would-be believer doesn’t have sufficient evidence to leap, but simply because faith cannot be reduced to an intellectual test one passes via assent. No, faith is rooted in passion, in one’s cares and concerns. In entrusting one’s life to God, faith’s movement forward requires a decision each individual must make for him or herself.

انسان کے کسی بھی بڑے اور غیر معمولی فیصلے میں یہ جست شامل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کوئی قدم اٹھانا چاہتا ہے تو اس کو میسر معلومات یہ ثابت کرنے کے لیے کبھی کافی نہیں ہوتیں کہ نتائج یقینی طور پر حسب منشا ہوں گے۔ سو قدم اٹھانے کے لیے ایک یقین خود میں پیدا کرنا پڑتا ہے جس کی حیثیت ایک جست کی ہوتی ہے۔

ابراہیمی مذاہب کے علم کلام میں قابل فہم طور پر ایمان کے عقلی پہلو زیادہ نمایاں کیے جاتے ہیں اور خاص طور پر وجود باری اور توحید پر ایمان کو تقریباً‌ ایک بدیہی قضیے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ یہی معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا ہے۔ یقیناً‌ انفس، آفاق اور تاریخ میں ایسے غیر معمولی شواہد موجود ہیں جو ایمان باللہ اور ایمان بالرسول کو سلیم الفطرت انسانوں کے لیے ایک معقول اور قابل قبول انتخاب بناتے ہیں، لیکن آخری تجزیے میں یقین کی جست کے بغیر انسان ایمان تک نہیں پہنچ سکتا۔ دراصل یہ جست ہی ہے جس کی خدا کی نظر میں قدر ہے۔ ایمان بالغیب کی ساری قدروقیمت اسی میں مضمر ہے۔

ابراہیمی مذاہب کے ذریعے سے غیر معمولی تاریخی معاونات نے ایمان کو وہ حیثیت دیے رکھی ہے جو علم کلام میں بیان کی جاتی ہے۔ کلامی روایت کا یہ اعتماد دراصل اس تاریخی صورت حال کا عکاس ہے جس میں یہ روایت پروان چڑھی۔ تاہم قرب قیامت کے دور میں ایمان کے مددگار عوامل واسباب کا محدود اور کمزور ہوتے چلے جانا آزمائش کی اسکیم کا ایک حصہ ہے۔ صورت حال کا تدریجاً‌ وہاں پہنچنا لازم ہے جب ایمان کے ظاہری اور محسوس مویدات کالمعدوم ہو جائیں اور صرف چند لوگ رہ جائیں جو قرآن کی اس آیت اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا مصداق بننے کے اہل ہوں:

رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعنَا مُنَادِیًا یُّنَادِی لِلاِیمَانِ اَن اٰمِنُوا بِرَبِّکُم فَاٰمَنَّا رَبَّنَا فَاغفِر لَنَا ذُنُوبَنَا وَ کَفِّر عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الاَبرَارِ (آل عمران، آیت ۱۹۳)

"اے پروردگار ہم نے ایک پکار کرنے والے کو سنا کہ ایمان کے لیے پکار رہا تھا کہ اپنے پروردگار پر ایمان لاؤ تو ہم ایمان لے آئے۔ سو اے پروردگار ہمارے گناہ معاف فرما اور ہماری برائیوں کو ہم سے دور کر دے اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھائیو۔"

إن سيداً بنى داراً واتخذ مأدبة وبعث داعياً، فمن أجاب الداعي دخل الدار وأكل من المأدبة ورضي عنه السيد، ألا وإن السيد الله، والدار الإِسلام، والمأدبة الجنة، والداعي محمد صلى الله عليه وسلم‏

"ایک بادشاہ نے محل بنایا اور اس میں ضیافت کا اہتمام کیا ہے۔ اس نے لوگوں کو بلانے کے لیے ایک پکارنے والے کو بھیجا ہے۔ تو جو اس پکارنے والے کی بات سنے گا، وہ محل میں جائے گا اور ضیافت سے لطف اندوز ہوگا اور بادشاہ بھی اس سے خوش ہوگا۔ (اور جو نہیں سنے گا، وہ ضیافت سے بھی محروم رہے گا اور بادشاہ کی ناراضی بھی مول لے گا)۔ سنو، اس تمثیل میں بادشاہ اللہ ہے، محل اسلام ہے، ضیافت جنت ہے اور لوگوں کو پکارنے والا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔"


پوسٹ ماڈرنسٹ فلسفی اور ناول نگار البرٹ  کیمیو نے اپنے  ناول کے بنیادی کردار کی زبانی  وجودیت کے فلسفے کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیمیو نے اور ایک پادری کے مابین ایک فرضی مکالمہ قلم بند کیا ہے اور اسے اس طرح سے مرتب کیا ہے کہ زندگی کی معنویت یا مقصد  سے متعلق  کی عدم دلچسپی اور  اس دلچسپی پر  پادری کی ’’جھنجھلاہٹ’’ کو نمایاں کیا جائے۔ بہرحال  یہ مکالمہ اس کی تفہیم میں مددگار ہے کہ وجودی نقطہ نظر، مذہبی انداز فکر کو کیسے دیکھتا ہے۔ البتہ اس مکالمے سے اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ وجودیت پسند، جن اسباب سے بھی خدا کے وجود یا زندگی کی معنویت میں دلچسپی نہ رکھتے ہوں، یہ کیونکر فرض کر سکتے ہیں کہ یہ سوال فی نفسہ بھی بے معنی ہے یا سارے انسانوں کے لیے وجودیت پسند ہونا ہی واحد عقلی انتخاب ہے؟

مثلاً‌ کوئی شخص یا گروہ اگر کچھ اسباب سے شادی میں دلچسپی کھو بیٹھے تو یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کے وہ کچھ فلسفیانہ یا عقلی دلائل بھی دے سکتا ہے اور نفسیاتی نقطہ نظر سے بھی اس کیفیت کو سمجھنا ممکن ہے، اور اسی طرح کا ایک مکالمہ کسی میرج بیورو کے نمائندے اور تجرد پسند کے مابین بھی سپرد قلم کیا جا سکتا ہے، لیکن کیا ان کی اس کیفیت کو بنیاد بنا کر یہ فرض کرنے کا بھی جواز ہے کہ شادی سے دلچسپی ہی بے مقصد بات ہے اور سارے انسان ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں؟ بالفاظ دیگر ’’مجھے فلاں سوال میں دلچسپی نہیں’’ کے بیان کو ’’یہ سوال ہی کوئی حقیقت نہیں رکھتا’’ کے مساوی کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟

منطق کی اصطلاح میں یہ طرز استدلال مصادرہ علی المطلوب (begging the question ) کی مثال ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ جو نکتہ اصل میں محل نزاع ہے، اسی کو دلیل بنا کر پیش کر دیا جائے۔ وجودی پوزیشن میں معنویت کے سوال سے دلچسپی نہ ہونا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ وجود ہے ہی بے معنی، اس لیے معنویت میں دلچسپی کیسی؟ لیکن مکالمے میں اصل مقدمے پر بات کیے بغیر اس پر مبنی وجودی پوزیشن کو بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے کہ جب ایک وجودیت پسند کو خدا سے دلچسپی ہی نہیں تو اس سے خدا کی بات کیوں کی جا رہی ہے؟


کارل شمت نے تو جدید سیاسی تصورات کے متعلق نشان دہی کی ہے کہ وہ روایتی مذہبی تصورات ہی کی ایک سیکولر تشکیل ہیں۔ مطلب یہ کہ جدیدیت میں انسانی شعور کی اس تاریخی تشکیل سے جس میں مذہب کا کردار بہت گہرا رہا ہے، ابھی خلاصی حاصل نہیں کی جا سکی۔ نیٹشے یہی بات اخلاقیات کے باب میں کہتا ہے۔ تاہم یہ بات سب سے زیادہ جس سوال سے متعلق درست ہے، وہ زندگی کی معنویت اور اس کی غیر مادی نسبتوں کا سوال ہے۔ الحاد یا اس سے ملتی جلتی پوزیشنوں میں یہ قضیہ بنا لینا تو آسان ہے کہ زندگی بس اپنے مادی ظہور اور اختتام تک محدود ہے اور اس سے ماورا کوئی حقیقت نہیں رکھتی، لیکن انسانی شعور سے اس احساس اور اس خواہش کو کھرچنا ممکن نہیں کہ زندگی کو دوام ہونا چاہیے، انسان کو اس زندگی سے بہتر زندگی ملنی چاہیے اور اس زندگی کا انسان کی ultimate کامیابی اور فلاح سے تعلق ہونا چاہیے۔ چنانچہ کسی پسندیدہ انسان کے مرنے پر کوئی یہ نہیں کہتا کہ اچھا ہے، ایک بے مقصد زندگی کے کرب سے اسے نجات ملی۔ آخرت اور حیات بعد الموت کے مذہبی عقیدوں کی نفی کرنے یا ان کے متعلق تشکیک رکھنے والے یا ان سوالات کو غیر اہم سمجھنے والے، سب کسی نہ کسی انداز میں اس کے لیے ایک بہتر زندگی کی تمنا یا دعا کرتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مشہور شخصیات کے مرنے کے بعد ان کو جنت یا دوزخ میں بھیجنے کی بحثوں کا زیادہ اہم اور قابل توجہ پہلو یہ ہے۔ اور دوسروں کے انجام کے فیصلے کرنے سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے انجام سے غافل نہ ہوں، بلکہ ملی ہوئی مہلت میں اسے اچھا بنانے کی کوشش میں مصروف ہو جائیں۔ حدیث میں کیا ہی اعلی دعا آئی ہے۔

اللھم اجعل الحیاة زيادة لنا فى كل خير واجعل الموت راحة لنا من كل شر. آمین

’’اے اللہ، زندگی کو ہمارے لیے ہر خیر میں اضافے کا اور موت کو ہمارے لیے ہر دکھ سے راحت پا لینے کا ذریعہ بنا دے۔‘‘


انسانوں کے مابین مطلق مساوات کا عقیدہ ایک تہذیبی شعار کے طور پر اگرچہ قبول عام حاصل کر چکا ہے، لیکن یہ قبولیت شعور عامہ کی سطح پر بعض بنیادی فلسفیانہ سوالات سے نظریں چرانے کی قیمت پر ہے۔

ایک بنیادی سوال تو اس قدر کے ماخذ سے متعلق ہے۔ اگر قدر کا ماورائے انسان کوئی ماخذ نہیں اور یہ محض انسانی تشکیل کا نتیجہ ہوتی ہے تو ہر قدر کی طرح مساوات کی قدر بھی کوئی ٹھوس اور پائیدار فلسفیانہ بنیاد نہیں رکھتی۔ کم سے کم علم حیاتیات تو اس کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتا، بلکہ اس کی نفی کرتا ہے۔ اسرائیلی تاریخ دان یووال حراری کی کتاب "سیپئنز"  میں بھی یہ سوال بڑی وضاحت اور صاف گوئی سے اٹھایا گیا ہے۔

حیاتیاتی عدم مساوات کی صورت حال کے جو نفسیاتی اثرات انسانی ذہن پر پڑتے ہیں، ان کا علاج یہ سوچا جا رہا ہے کہ مثلاً‌ جسمانی معذوری وغیرہ کے معاملات کو سرے سے "غیر معمولی صورت حال" کے طور پر دیکھنا ہی چھوڑ دیا جائے اور معذوری کو ایسے ہی ایک معمول کا فرق اور امتیاز سمجھا جائے جیسے مختلف نارمل انسانوں میں ہوتا ہے۔ اسی قسم کا زاویہ نظر اپنا کر خواتین کو درپیش حیاتیاتی عدم مساوات (مثلا ماہواری اور حمل وغیرہ) کے نفسیاتی اثرات کا ازالہ کرنے (اور درحقیقت اس سے نظریں چرانے) کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر جسمانی یا ذہنی معذوری وغیرہ سرے سے کوئی غیر معیاری صورت حال ہی نہیں تو پھر جینیٹکس کے علم اور دیگر طبی وسائل سے ان معذوریوں کو قبل از پیدائش روکنے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں، ان کا بھی کوئی جواز اور ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ وہ اسی وقت با معنی بنتی ہیں جب یہ قبول کیا جائے کہ معذوروں کو ’معیاری’ انسانی زندگی حاصل نہیں۔ معلوم نہیں کہ مذکورہ طرز فکر کے علمبردار اس الجھن سے کیسے نمٹتے ہیں اور انسانی زندگی کی بہتری کے لیے جاری طبی تحقیقات کے متعلق ان کا نقطہ نظر کیا ہے؟

نیٹشے اس مفہوم میں بیسویں صدی کا پہلا عظیم فلسفی تھا کہ اس نے بالکل درست طور پر پیش بینی کی کہ مغربی تہذیب میں "خدا مر چکا ہے" اور پھر اس اہم ترین سوال پر توجہ مرکوز کی کہ خدا کے بعد، اب "اقدار" کیا ہوں گی اور کس بنیاد پر طے ہوں گی؟روشن خیالی کے عہد میں جہاں مغرب کی فلسفیانہ روایت عمومی طور پر، مذہب کو نظر انداز کر کے، اخلاقیات کو ایسی بنیادوں پر استوار کرنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے سارے انسانوں کے لیے ایک مشترک اور آفاقی اخلاقیات تشکیل دی جا سکے، نیٹشے نے "آفاقی" اخلاقیات کے تصور پر ہی سوال اٹھا دیا اور کہا کہ تاریخی طور پر (جس کا آغاز وہ مغرب میں یونانی اور رومی عہد سے کرتا ہے) اخلاقیات کی ابتدا طاقتور طبقات اور کمزور ومحکوم طبقات کی باہمی تقسیم سے ہوئی تھی، اور طاقتور جو طرز عمل اختیار کرتے تھے، وہ ان کی اس حیثیت کی وجہ سے بطور امر واقعہ اعلی اور برتر، جبکہ محکوموں کا طرز عمل پست اور ادنی سمجھا جاتا تھا۔

نیٹشے کی رائے میں یہی فطری اخلاقیات ہے اور طاقتور ہی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنے ہم سروں کے ساتھ معاملہ کرنے کے بھی اور طاقت کی پوزیشن سے کمزوروں اور کم تروں کے ساتھ برتاو کرنے کے اصول بھی طے کرے۔ انسانی ہمدردی اور رحم دلی وغیرہ کو اخلاقیات کی بنیاد بنانا اس کے خیال میں کمزور طبقات کا ایک ہتھیار ہے جو انھوں نے طاقتوروں کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا اور عملاً‌ ان پر فتح حاصل کر لی۔ نطشے یہودی اور مسیحی اخلاقیات کو اسی وجہ سے "غلامانہ اخلاقیات" قرار دیتا ہے جس نے پوری مغربی تہذیب کو "آلودہ" کر کے جدید دور میں جمہوری تصورات، مساوات اور آفاقی اخلاقیات جیسے فلسفوں کی شکل اختیار کر لی ہے۔

امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اخلاقی اقدار کا    انسان سے ماورا  کوئی ماخذ نہیں تو  پھر انصاف سے محروم اس کائنات میں انصاف کو قدر بنانے کی کوشش سے کہیں زیادہ معقول پوزیشن نیٹشے کی ہے جو نیٹشے انسان کا اخلاقی جوہر ہمدردی اور رحم کے بجائے قوت کو قرار دیتا ہے۔ کائنات میں جاری وساری قدر صرف طاقت ہے۔ انصاف بھی وہم ہے اور انصاف کی محنت بھی محض خود فریبی ہے۔ اگر انصاف کی قدر انسان کی خود ساختہ ہے تو وہ بے بنیاد ہے۔ کائنات کی مادی تفہیم میں فلسفیانہ طور پر یہی بات درست ہے۔ رحم اور انصاف ویسے ہی دکھ درد کے روبرو انسان کی ایک ذہنی اختراع ہے جیسے، تنویری موقف کے مطابق،  انسان نے  مذہبی عقیدے گھڑ لیے ہیں۔

اقدار  اور اخلاقیات کو انسان کی تخلیق   ماننے ہی کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان عالم طبیعی کی جتنی تسخیر کرتا جا رہا ہے، اتنا ہی اس کے تکبر، سنگ دلی اور حرص میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ طاقت اور اس پر مبنی اقتدار کے احساس میں مسلسل اضافے کو ’’ترقی’’ کا عنوان دے دیا گیا ہے۔ اخلاقیات اور اقدار کو مذہبی ایمان سے آزاد کر دینے کی ایک بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ انسان کو humbleness کا درس دیتا ہے جو لامحدود طاقت کے حریص انسان کو پسند نہیں۔ جدید مغربی تہذیب اگر مسیحی اقدار پر قائم رہ کر مادی ترقی کرتی تو اس کا امکان بہت کم تھا کہ انسان اپنے وسائل اور محنت کو افلاس زدہ انسانیت سے چشم پوشی کر کے WMD جیسا سامان تباہی ایجاد کرنے پر صرف کرتا۔ سرمایہ دارانہ تہذیب میں انسان دوستی، مساوات اور انسانی حقوق جیسے اخلاقی آئیڈیلز اور لامحدود طاقت اور حرص کی جبلتیں مسلسل باہم برسرپیکار ہیں اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اخلاق اور رحم دلی جیسے نازک احساسات کب تک طاقت اور حرص جیسی درشت جبلتوں کی مزاحمت کر سکیں گے۔ طاقتور انسان، کمزور انسان سے اخلاقیات کا درس نہیں لیتا۔ اخلاقیات کے لیے انسان کو دوبارہ اپنے پروردگار کے سامنے جھکنے کی ضرورت ہے۔

دست ہر نا اہل بیمارت کند
سوئے مادر آ کہ تیمارت کند

اللہ اگر رحمن و رحیم، قادر مطلق اور علیم کل ہے تو پھر شر (evil) کا وجود کیوں ہے؟ یہ الٰہیات کے مشکل سوالات میں سے ہے جن کا ہمیشہ سے مذہبی فکر کو سامنا ہے۔ جدید دور میں خدا کے مذہبی تصور پر بے اطمینانی یا اس سے تنفر کے اہم اسباب میں سے ایک سبب یہ سوال بھی ہے۔ بہرحال، مذہبی علم کی رو سے انسان کو وجود اور احوال وجود کو سمجھنے کی جتنی صلاحیت اس دنیا میں دی گئی ہے، وہ اس سوال کا کوئی ایسا تشفی بخش جواب دینے پر جو ہر الجھن کو دور کر دے، قادر نہیں۔ فرشتوں کے سوال پر اللہ تعالٰی نے انسان کے ہاتھوں شر کے ظہور کا امکان پیدا کرنے کی ایک جزوی حکمت بتانے کے بعد آخری بات یہی کہی ہے کہ انی اعلم ما لا تعلمون،  یعنی جو میں جانتا ہوں، وہ تم نہیں جانتے۔ ممکن ہے، کسی اور جہان میں انسان کو ادراک حقیقت کی اس سے بہتر صلاحیت مل جائے جس سے وہ اس کو سمجھ سکے۔

صوفیہ کی اصطلاح میں اس سے جو ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے، وہ "حیرت" یعنی bewilderment ہے جو ایمان کے منافی نہیں، بلکہ احوال وجود کی پیچیدگی کے سامنے انسانی ادراک کے عجز وقصور کا اعتراف ہے۔ مذہبی لحاظ سے یہی متوازن اور مطلوب پوزیشن ہے۔ اگر انسانی ادراک کی کم مایگی کے شعور کے بجائے انسان پر ادراکی صلاحیت کے کامل ہونے کا زعم طاری ہو جائے تو یہی حیرت الحاد میں بدل جاتی ہے۔

بعض لوگ اس پر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر انسان کو عقل واقعی خدا نے دی ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس نے عقل سے بڑا سوال عقل میں رکھ دیا ہو یا یہ کہ عقل میں سوال رکھنے کے بعد عقل سے اس سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کر دیا جائے؟  تاہم یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لیے کہ مذہبی فکر میں سوال سے دستبردار ہونے یا اس کو بے معنی سمجھنے کی بات نہیں کہی جا تی، بلکہ یہ کہا جاتا ہے کہ  اپنے موجودہ علمی وسائل کے ساتھ انسانی عقل اس سوال کی تمام جہات کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ جہاں تک عقل سے بڑا سوال عقل میں رکھے جانے  کا تعلق ہے تو  اس میں کوئی عقلی مانع نہیں۔ عقل میں سوال رکھے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے صحیح جواب تک ازخود پہنچنے کی صلاحیت بھی عقل میں رکھی گئی ہو۔

عقل کے ہر سوال کے حتمی جواب تک پہنچنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہونے کا دعویٰ تو جدید تنویری فکر بھی نہیں کر سکتی یا اگر کرتی ہے تو اس کا عقلی جواز  نہیں بتا سکتی۔ ہاں، خود کو اس کا پابند بنا سکتی ہے کہ عقل سے ماورا کسی جواب کو قبول نہیں کرے گی، چاہے خود عقل درست جواب تک کبھی نہ پہنچ سکے۔ یہیں سے تنویری فکر اور مذہبی ایمان میں بنیادی اختلاف واقع ہوتا ہے۔ تنویری فکر   اپنے مخصوص تصور انسان کے تحت  ماورائے عقل کسی جواب کو قابل توجہ نہ سمجھنے کی پابندی خود پر عائد کر لیتی ہے، جبکہ مذہبی ایمان   وحی کے ذریعے سے انسان کو میسر کی جانے والی راہنمائی کو   قابل قدر   مانتا اور اس سے اطمینان حاصل کر لیتا ہے۔


اسلام میں انسانوں کی آزمائش اور جزا وسزا کے حوالے سے جو الہی ضابطے بیان کیے گئے ہیں، یک نگر انسان پرستی (Exclusive Humanism)  کا ان پر معترض ہونا قابل فہم ہے۔ انسان پرستی  کے مذہب کا بنیادی مسئلہ جزا وسزا کا کسی اصول اور ضابطے پر مبنی ہونا یا نہ ہونا نہیں، بلکہ انسان کو انسان سے بالاتر کسی ہستی کے سامنے جواب دہ ماننا ہے۔ وہ الوہیت کا مرتبہ بطور نوع انسان ہی کو دیتا ہے جو خود تو اپنا محاسبہ کر سکتی ہے، لیکن اپنے اوپر کسی خدا کو حاکم نہیں مانتی۔ اس لیے اس کے ساتھ یہ بحث کہ جنت کن کے لیے ہے اور جہنم کن کے لیے، اور کن اصولوں پر کسی کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہوگا، اصول کو چھوڑ کر فروع کا تصفیہ کرنے کے ہم معنی ہے۔ چنانچہ ہیومن ازم کے ساتھ یہ گفتگو غیر منطقی ہے۔

اسی طرح ہیومنسٹک موقف کی طرف سے مذہبی عقیدے پر کیے جانے والے اعتراضات بھی خود کلامی کی نوعیت کے ہیں، مذہبی موقف کے ساتھ کسی مشترک بنیاد پر مجادلہ نہیں ہیں۔ مثلاً‌ یہ کیسا خدا ہے جو انتقام لیتا ہے؟ یہ کیسا خدا ہے جس کا چہیتا ایک خاص گروہ ہے اور باقی سب کو وہ جہنم میں پھینک دے گا؟ یہ کیسا خدا ہے جس کے نزدیک انسانوں کے اچھے عملوں کی کوئی قدر نہیں اور وہ ایک خاص عقیدہ نہ رکھنے پر انھیں ہمیشہ کے لیے جہنم میں پھینک دیتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس اسلوب کے سارے اعتراضات محض rhetoric ہیں، ان کی کوئی منطقی بنیاد نہیں ہے اور خاص طور پر مذہبی آدمی کے لیے وہ اپنے اندر کوئی استدلالی قوت نہیں رکھتے۔

اگر یہ خدا ہے جو انسان سمیت پوری کائنات کا حاکم ہے اور اس کا صحیح تعارف وہ ہے جو وحی میں انسان کو دیا گیا ہے تو پھر وہ جیسا ہے، ویسا ہی ہے۔ اس کے نزدیک ایمان کی زیادہ اہمیت ہے تو پھر ہے۔ وہ رحیم ہونے کے ساتھ اپنی نافرمانی پر انتقام بھی لیتا ہے تو پھر لیتا ہے۔ اس کو اگر اس کی کوئی پروا نہیں کہ منکر اور نافرمان انسانوں سے جہنم کو بھر دے تو پھر نہیں ہے۔ انسان سرکش ہو کر اور جواب دہی سے اپنے تئیں جان چھڑانے کے لیے خدا کے فیصلوں کو اپنے احساسات اور اغراض کے تابع بنانا چاہے تو اس ہوا پرستی کی خدا کی نظر میں یا مذہبی آدمی کی نظر میں کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟ اور کل اس کے سامنے حاضر ہونے پر یہ فلسفے کتنا بار پا سکیں گے؟

تاہم اس باب میں اسلامی عقیدے کی درست تفہیم بھی ضروری ہے، کیونکہ اس باب میں غیر محتاط "عوامی تعبیرات" میں بات کی نوعیت بہت بدل جاتی ہے۔ قرآن نے جو بات بہت واضح انداز میں کہی ہے، وہ یہ ہے کہ آخرت کا اجر کسی بھی گروہ کے لیے خاص نہیں ہے۔   اسلامی عقیدہ نجات کو کسی "گروہ" کی نسبت سے بیان نہیں کرتا، بلکہ نجات کی شرائط کے حوالے سے بیان کرتا ہے۔ اللہ نے کسی "مذہبی گروہ" کے ساتھ یہ عہد وپیمان نہیں کیا کہ جنت خاص اسی کو دے گا۔ پچھلے گروہوں میں سے جن میں یہ زعم پیدا ہو گیا تھا، قرآن نے ان کی گوشمالی کی ہے اور بتایا ہے کہ یہودی ہوں یا مسیحی، صابی ہوں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے، سب کی نجات ایمان اور عمل صالح کے ساتھ مشروط ہے۔ (البقرۃ)

سورہ بقرہ کی آیت 112 میں بھی یہود اور نصاری کے اس دعوے کے جواب میں کہ جنت میں صرف یہودی یا مسیحی جائیں گے، فرمایا گیا ہے کہ

بَلٰى مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَه لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَه اَجْرُه عِنْدَ رَبِّه وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ (۱۱۲)

"ہاں کیوں نہیں؟ جس نے بھی اپنا چہرہ اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ نیکی کرنے والا بھی ہو تو اس کااجر اس کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے"

جن حالات میں ایمان باللہ اور عمل صالح کے جو تقاضے تھے، اگر ان میں سے کسی گروہ نے بھی وہ پورے کیے ہیں تو وہ جنت کا حق دار ہے۔  خدا کے سامنے چہرہ جھکا دینے کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ کے نبیوں کی دعوت سے واقف ہونے پر اس سے بے توجہی نہ برتے، بلکہ اس پر لبیک کہے۔ اگر کوئی انسان بات سامنے آنے کے باوجود غفلت یا تعصب میں پڑا رہتا ہے تو وہ مجرم ہے۔ محمد رسول اللہ کی بعثت کے بعد اگر آپ پر ایمان لانے اور اس کے عملی تقاضے پورے کرنے والے جنت کے مستحق ہیں تو اس معیار پر پورا اترنے کی وجہ سے ہیں نہ کہ ایک خاص گروہ میں شامل ہو جانے کی وجہ سے۔ اسی طرح اگر کسی نے اپنے تعصب کی وجہ سے آپ کی دعوت کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور اس کا انکار کیا ہے تو وہ بھی اس "جرم" کی وجہ سے جہنم کا سزاوار ہوگا، نہ کہ کسی خاص گروہ سے باہر ہونے کی وجہ سے۔ مشرک بھی اگر دائرہ نجات سے باہر ہیں تو ایک ٹھہرائے گئے معیار کی وجہ سے باہر ہیں۔

جن انسانوں تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اس انداز سے نہیں پہنچی کہ ان کے لیے قابل توجہ بن سکے، ان کے متعلق  پوری توقع ہے کہ اللہ کے ہاں ان کا عذر مسموع ہوگا۔ تاہم اس کی صحیح حقیقت خدا ہی کے علم میں ہے اور ہم انسان یہ حکم نہیں لگا سکتے کہ کون دنیا سے کیا انجام لے کر گیا ہے۔ مسلمانوں کی ذمہ داری اتنی ہے کہ ان کے پاس اللہ کے آخری پیغمبر کی وساطت سے جو "الحق" یعنی واضح اور حتمی ہدایت موجود ہے، وہ خود بھی اسی یقین کے ساتھ اس پر کاربند رہیں اور دوسرے انسانوں کو بھی اس سے روشناس کرواتے رہیں۔

اتنی اصولی اور اجمالی بات قانون خداوندی کے مبنی بر عدل وانصاف ہونے کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور علم کلام میں بھی اتنی ہی کہی جاتی ہے۔ عوامی سطح پر عام یہ تعبیر کہ صرف مسلمان جنت میں جائیں گے اور باقی سب جہنم میں، غیر محتاط بات ہے۔ بظاہر اس کا محرک لوگوں کے دلوں میں اسلام کی قدروقیمت بٹھانا ہوتا ہے، لیکن یہ ایک طرف بدعملی اور تساہل کو جنم دیتی ہے اور دوسری طرف خدا کے عدل وانصاف اور حکمت پر بھی سنگین عقلی واخلاقی سوالات پیدا کرتی ہے۔ اسلامی عقیدے کی درست تعبیر وہی ہے جو عرض کی گئی ہے اور اسے ہمیشہ اسی طرح بیان کرنا چاہیے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۶)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(306) فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاءِ

درج ذیل آیت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

لَّوْلَا جَاءُ وا عَلَیْهِ بِأَرْبَعةِ شُہَدَاءَ فَإِذْ لَمْ یَأْتُوا بِالشُّہَدَاءِ فَأُولَٰئِکَ عِندَ اللَّہِ ہُمُ الْکَاذِبُونَ۔ (النور: 13)

”آخر یہ لوگ اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ کیوں نہ لائے؟ تو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو لازما اللہ کے نزدیک یہی لوگ جھوٹے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب گواہ نہ لائے تو وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

ان ترجموں سے یہ بات نکلتی ہے کہ اللہ کے نزدیک ان کے جھوٹے ہونے کی وجہ ان کا چار گواہ پیش نہ کرنا ہے۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ تو ہر حال میں اللہ کے نزدیک جھوٹے تھے، خواہ وہ چار گواہ پیش کردیتے۔

اس نکتے کو پیش نظر رکھتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی فَإِذْ کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں ’تو جب کہ‘، ایسی صورت میں آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ چار گواہ پیش کرکے دنیا کے سامنے سچے بن سکتے تھے، لیکن جب کہ وہ چار گواہ نہیں پیش کرسکے ہیں تو دنیا کے سامنے سچے ثابت نہیں ہوسکے اور اللہ کے یہاں تو وہ جھوٹے ہیں ہی۔

ترجمہ ہوگا: ”آخر یہ لوگ اپنے اس الزام کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہ کیوں نہ لائے؟ تو جب کہ یہ لوگ گواہ نہیں لائے ہیں، تو اللہ کے نزدیک بھی یہ لوگ جھوٹے ہی ہیں۔“

(307) الْحَقُّ الْمُبِینُ

درج ذیل آیتوں میں الْحَقُّ الْمُبِینُ کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیہِمُ اللَّہُ دِینَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّہَ ہُوَ الْحَقُّ الْمُبِینُ۔ (النور: 25)

”اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ کو سچ کر دکھانے والا“۔ (سید مودودی)

”اس دن اللہ ان کا واجبی بدلہ پورا کردے گا اور وہ جان لیں گے کہ اللہ ہی حق اور واضح کردینے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اس دن خدا ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا (اور) ٹھیک بدلہ دے گا اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ خدا برحق (اور حق کو) ظاہر کرنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

ان ترجموں میں مبین کا ترجمہ واضح کرنے والا کیا گیا ہے۔ عربی لغت کے مطابق مبین عام طور سے لازم یعنی خود واضح ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ لسان العرب میں ہے:  وَقَالَ الزَّجَّاجُ: بانَ الشیءُ وأَبانَ بِمَعْنًی وَاحِدٍ، خاص طور سے اگر وہ مفعول کی ضمیر کے بغیر آئے۔

قرآن مجید میں المبین بہت سے مقامات پر آیا ہے، اکثر مقامات پر اس کا معنی متعین طور پر واضح اور صریح کے معنی میں ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں بھی یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے، اس لحاظ سے درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”اس دن اللہ انہیں ان کی سچی سزا پوری دے گا اور جان لیں گے کہ اللہ ہی صریح حق ہے“۔(احمد رضا خان)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ درج ذیل آیت میں الحق المبین کا ترجمہ عام طور سے صریح حق کیا گیا ہے۔

فَتَوَکَّلْ عَلَی اللَّہِ إِنَّکَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِینِ۔ (النمل: 79)

”پس اے نبیؐ، اللہ پر بھروسا رکھو، یقینا تم صریح حق پر ہو“۔ (سید مودودی)

”تو خدا پر بھروسہ رکھو تم تو حق صریح پر ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

(308) تَسْتَأْنِسُوا

درج ذیل آیت میں تَسْتَأْنِسُوا کا ترجمہ عام طور سے اجازت لینا کیا گیا ہے۔ لیکن لغت میں اس لفظ کے استعمالات سے اجازت لینے کا مفہوم کہیں نہیں ملتا۔ بعض لوگوں نے رضا لینا اور تعارف پیدا کرنا بھی ترجمہ کیا ہے، لیکن وہ بھی اس لفظ کا صحیح مفہوم نہیں ہے۔

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّیٰ تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَیٰ أَہْلِہَا۔ (النور: 27)

”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو“۔ (سید مودودی)

”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک تعارف نہ پیدا کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک کہ اجازت نہ لے لو اور وہاں کے رہنے والوں کو سلام نہ کرلو“۔(محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے ترجمہ تجویز کیا ہے:

”اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہو جب تک گھر والوں کو احساس نہ دلا دو (انھیں تمہاری آہٹ نہ مل جائے) اور انھیں سلام نہ کرلو۔“

گویا استیناس کا مطلب ہے اپنی موجودگی کا احساس دلانا۔ اس قول کو طبری نے ذکر کیا ہے:

وقال آخرون: معنی ذلک: حتی تؤنسوا أہل البیت بالتنحنح والتنخم وما أشبہہ، حتی یعلموا أنکم تریدون الدخول علیہم. (تفسیر طبری)۔ یہ مفہوم اس لفظ کے لغوی مفہوم کے مطابق ہے۔

(309) یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ

غض البصر کا مطلب نگاہیں نیچی رکھنا ہے۔ بعض لوگوں نے یہاں ابصار کا ترجمہ آنکھیں کیا ہے، نگاہیں زیادہ مناسب ہے۔ اسی طرح بعض نے غض کا ترجمہ بند کرنا کیا ہے، جب کہ نیچی رکھنا زیادہ مناسب ہے، غَضَّ طرفہ، أی خَفضه وغض من صوته۔ (الصحاح للجوھری)

قُل لِّلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ۔ (النور: 30)

”کہہ واسطے مسلمان مردوں کے کہ بند کریں آنکھیں اپنی“۔ (شاہ رفیع الدین)

”کہہ دے ایمان والوں کو نیچی رکھیں ٹک اپنی آنکھیں“۔(شاہ عبدالقادر)

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”مومنوں کو ہدایت کرو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

(310) یَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ

وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ (النور: 30)

آیت کے اس ٹکڑے کا ترجمہ عام طور سے شرم گاہوں کی حفاظت کرنا کیا گیا ہے۔ جیسے:

”اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں“۔ (سید مودودی)

لیکن بعض لوگوں نے شرم گاہوں کو چھپانا ترجمہ کیا ہے، جیسے:

”اور تھامتے رہیں اپنے ستر“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور اپنی شرم گاہوں کی پردہ پوشی کریں“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہ ترجمہ آیت کے مفہوم کو محدود کردیتا ہے۔ قرآن میں دو مقامات (المومنون: 5 اور المعارج: 29) پر وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ آیا ہے، ظاہر ہے کہ وہ محض ستر کا خیال رکھنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ شرم گاہ کی حفاظت کے وسیع تر مفہوم میں ہے۔

(311) وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ

درج ذیل آیت میں وَلَا یُبْدِینَ کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’نہ دکھائیں‘ کیا ہے۔ ظاہر نہ کرنا یا ظاہر نہ ہونے دینا زیادہ مناسب ہے۔ ایک تو لفظ ابداء کا یہی تقاضا ہے دوسرے یہ کہ زینت کو چھپانے اور ظاہر کرنے کے سلسلے میں ہدایات دی جارہی ہیں، سیاق کلام کے لحاظ سے دکھانے کا یہاں محل نہیں ہے۔

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوجَہُنَّ وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ إِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا۔ (النور: 31)

”اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہو جائے“۔ (سید مودودی، بچاکر رکھنے کے بجائے نیچی رکھنا زیادہ موزوں ہے)

”اور کہہ دے ایمان والیوں کو نیچے رکھیں ٹک اپنی آنکھیں اور تھامتے رہیں اپنے ستر اور نہ دکھاویں اپنا سنگار مگر جو کھلی چیز ہے اس میں سے“۔ (شاہ عبدالقادر، یہاں بھی ستر کا خیال رکھنا مراد نہیں ہے۔)

”اور مسلمان عورتوں کو حکم دو اپنی نگاہیں کچھ نیچی رکھیں اور اپنی پارسائی کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ نہ دکھائیں مگر جتنا خود ہی ظاہر ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو ان میں سے کھلا رہتا ہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اس کے جو ظاہر ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے اوپر ’نہ دکھائیں‘ ترجمہ کیا ہے، انھوں نے اسی آیت میں اسی طرح کے دوبارہ آنے والے جملے کا ترجمہ ’نہ ظاہر کریں‘  کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

وَلَا یُبْدِینَ زِینَتَہُنَّ

”اور نہ کھولیں اپنا سنگار“۔ (شاہ عبدالقادر)

”وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں“۔ (سید مودودی)

”اور اپنا سنگھار ظاہر نہ کریں“۔ (احمد رضا خان)

(312) وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا

جمیعا کا لفظ قرآن مجید میں عام طور سے ’سب‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے، صرف سورۃ الحشر آیت نمبر 14 میں دو مرتبہ ’مجتمع ہو کر‘ کے معنی میں آیا ہے۔ درج ذیل آیت میں دو طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے، ’سب مل کر‘ اور ’سب‘۔ ظاہر ہے کہ اللہ کی طرف مجتمع ہو کر رجوع کرنے کا حکم نہیں دیا جارہا ہے، بلکہ اس کا حکم دیا جارہا ہے کہ تمام مومن اللہ کی طرف رجوع کریں۔ ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیعًا أَیُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ (النور: 31)

”اور توبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو شاید تم بھلائی پاؤ“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے“۔ (سید مودودی)

”اور اے ایمان والو! سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج  بالا ترجموں میں ’سب مل کر‘  اور درج ذیل ترجموں میں ’سب‘  یعنی جمع کی تاکیدہے، اور یہی اس آیت میں موزوں ہے:

”اور توبہ کرو طرف اللہ کے سب اے مسلمانو تاکہ تم فلاح پاؤ“۔ (شاہ رفیع الدین)

”اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ“۔ (محمد جوناگڑھی،  تُفْلِحُون کا ترجمہ نجات پانانہیں،فوز و کامرانی پانا ہے، جس میں نجات کا مفہوم بھی شامل ہے)

”اور مومنو! سب خدا کے آگے توبہ کرو تاکہ فلاح پاؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)

(313) وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِکُمْ

درج ذیل آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَیْکُمْ آیَاتٍ مُّبَیِّنَاتٍ وَمَثَلًا مِّنَ الَّذِینَ خَلَوْا مِن قَبْلِکُمْ وَمَوْعِظةً لِّلْمُتَّقِینَ۔ (النور: 34)

”ہم نے صاف صاف ہدایت دینے والی آیات تمہارے پاس بھیج دی ہیں، اور ان قوموں کی عبر ت ناک مثالیں بھی ہم تمہارے سامنے پیش کر چکے ہیں جو تم سے پہلے ہو گزری ہیں، اور وہ نصیحتیں ہم نے کر دی ہیں جو ڈرنے والوں کے لیے ہوتی ہیں“۔  (سید مودودی، قوموں تک محدود کرنا مناسب نہیں ہے، الذین میں افراد اور قومیں سب شامل ہیں۔ عبرت ناک مثالوں تک محدود رکھنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہے۔)

”اور ان لوگوں کی تمثیل بھی سنادی ہے جو تم سے پہلے گزرے“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں تمثیل کی بات نہیں ہے، ان لوگوں کے سبق آموز تذکروں کی بات ہے)

”اور ان لوگوں کی کہاوتیں جو تم سے پہلے گزرچکے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی، کہاوتوں کی بات نہیں ہے)

درج ذیل ترجمہ زیادہ موزوں ہے:

”اور جو لوگ تم سے پہلے گزر چکے ہیں ان کی خبریں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(314) نُّورٌ عَلَیٰ نُورٍ

نُّورٌ عَلَیٰ نُورٍ (النور: 35)

عام طور سے اس کا لفظی ترجمہ کیا گیا ہے، جیسے:

”نور پر نور ہے“۔ (احمد رضا خان)

”روشنی پر روشنی (ہو رہی ہے)“۔ (فتح محمد جالندھری)

”روشنی کے اوپر روشنی“۔ (امین احسن اصلاحی)

نور علی نور‘ عربی کا محاورہ ہے جس کا مطلب بہت زیادہ روشنی ہے۔ اردو محاورے کی رعایت کرتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”روشنی در روشنی“۔

(315)  ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ

ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ (النور: 40)

اس جملے کا عام طور سے لفظی ترجمہ کیا گیا، جیسے:

”غرض اندھیرے ہی اندھیرے ہوں، ایک پر ایک (چھایا ہوا)“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اندھیرے ہیں ایک پر ایک“۔ (احمد رضا خان)

”تاریکیوں پر تاریکیاں چھائی ہوئی ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

نور علی نور‘ کی طرح ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ بھی تاریکیوں کی شدت بتانے کے لیے ہے، اردو محاورے کی رعایت کرتے ہوئے مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”تاریکی در تاریکی“۔

(316) یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ

فَلْیَحْذَرِ الَّذِینَ یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ أَن تُصِیبَہُمْ فِتْنةٌ أَوْ یُصِیبَہُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ۔ (النور: 63)

”پس وہ لوگ جو اس کے حکم سے گریز کرتے رہے ہیں اس بات سے ڈریں کہ ان پر کوئی آزمائش آجائے یا ان کو ایک دردناک عذاب آ پکڑے“۔ (امین احسن اصلاحی)

یُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِہِ کا ترجمہ ’گریز کرتے رہے ہیں‘ کرنا درست نہیں ہے۔ خلاف ورزی کرنا درست مفہوم ہے، جیسا کہ دیگر لوگوں نے ترجمہ کیا ہے:

”رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے“۔ (سید مودودی)

”پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ کہ جو مخالفت کرتے ہیں حکم اس کے سے“۔ (شاہ رفیع الدین)

”سو ڈرتے ہیں جو لوگ خلاف کرتے ہیں اس کے حکم کا“۔ (شاہ عبدالقادر، فلیحذر تو امر کا صیغہ ہے، اس کا ترجمہ ’ڈرتے ہیں‘ درست نہیں ہے۔)

(317)    سورۃ النور، آیت (43)  کا ترجمہ

درج ذیل آیت کے ترجمے میں مختلف لوگوں سے الگ الگ تسامح ہوا ہے۔

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ یُزْجِی سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیْنَهُ ثُمَّ یَجْعَلُهُ رُکَامًا فَتَرَی الْوَدْقَ یَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ وَیُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مِن جِبَالٍ فِیہَا مِن بَرَدٍ۔ (النور: 43)

”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ بادل کو آہستہ آہستہ چلاتا ہے، پھر اس کے ٹکڑوں کو باہم جوڑتا ہے، پھر اسے سمیٹ کر ایک کثیف ابر بنا دیتا ہے، پھر تم دیکھتے ہو کہ اس کے خول میں سے بارش کے قطرے ٹپکتے چلے آتے ہیں اور وہ آسمان سے، اُن پہاڑوں کی بدولت جو اس میں بلند ہیں، اولے برساتا ہے“۔ (سید مودودی)

اس میں مِنْ خِلَالِہِ کا ترجمہ ’اس کے خول میں سے‘ کیا ہے۔ خلال کا لفظ خول کے لیے نہیں آتا ہے۔ یہ خلل کی جمع ہے، جس کے معنی کسی چیز  یا کچھ چیزوں کے درمیان کی جگہ کے بھی ہوتے ہیں اور کسی چیز میں موجود  رخنوں کے بھی ہوتے ہیں۔ دوسری  قابل توجہ بات یہ ہے کہ من جبال میں من کو سبب کا مانا گیا ہے، اور ’پہاڑوں کی بدولت‘ ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔ من جبال دراصل من السماء کا بدل ہے۔جس کا مطلب ہے آسمان سے یعنی اس میں موجود پہاڑوں سے نازل کرتا ہے۔

 ”پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان میں سے مینہ برستا ہے۔ وہی آسمان کی جانب سے اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

’پہاڑوں میں سے اولے برساتا ہے‘، نہ کہ ’اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے‘۔

”تو تُو دیکھے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو برف کے پہاڑ ہیں ان میں سے کچھ اولے“۔ (احمد رضا خان)

’برف کے پہاڑ‘ کہنا درست نہیں ہے، پہاڑوں سے مراد بڑے بڑے پہاڑ نما بادل ہیں۔ اسی طرح ’کچھ اولے‘ بھی کم زور ترجمہ ہے، ’اولے‘ کہنا کافی ہے۔ من کو تبعیض کا مان کر بھی ’کچھ‘ کہنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے۔

”پس دیکھتا ہے تو مینہ کو نکلتا ہے درمیان اس کے سے اور اتارتا ہے آسمان کی طرف سے پہاڑوں سے کہ بیچ ان کے ہے سردی اولوں کی“۔ (شاہ رفیع الدین)

’کہ بیچ ان کے ہے سردی اولوں کی‘ یہ ترجمہ عجیب سا ہے۔ برد کا ترجمہ اولے ہوگا نہ کہ اولوں کی سردی۔ مزید یہ کہ اگر من برد کو ینزل کا مفعول نہیں بنائیں گے تو مفعول کسے بنائیں گے!

”پھر تو دیکھے مینہ نکلتا ہے اس کے بیچ سے اور اتارتا ہے آسمان سے اس میں جو پہاڑ ہیں اولوں کے“۔ (شاہ عبدالقادر)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اولوں کے پہاڑ نازل کرتا ہے، حالاں کہ نازل تو اولے کرتا ہے۔

”پھر تو بارش کو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے نکلتی ہے اور اسی بادل سے یعنی اس کے بڑے بڑے حصوں میں سے اولے برساتا ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

السماء کا ترجمہ بادل کیا ہے، جبال کا ترجمہ بڑے بڑے حصے کیا ہے۔ یہ دونوں باتیں محل نظر ہیں۔

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”پھر دیکھتے ہو کہ ان کے بیچ سے مینہ نکلتا ہے اور آسمان سے -اس کے اندر کے پہاڑوں سے- اولے برساتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(جاری)

مطالعہ سنن ابی داود (۳)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: بڑی عمر کے آدمی کے لیے رضاعت کے مسئلے میں اختلاف رہا ہے۔ (کتاب النکاح، باب فی من حرم بہ، حدیث نمبر ۲۰۶۱) ایسے لگتا ہے کہ بہت کم فقہاء اس کے قائل ہیں کہ بڑی عمر میں بھی رضاعت ثابت ہو جاتی ہے۔ اکثریت کی رائے تو یہ نہیں تھی، لیکن امام ابن حزم اس کے قائل تھے۔

عمار ناصر: صحابہ میں سے ام المومنین حضرت عائشہ کا ہی ذکر ملتا ہے جو اس کی قائل تھیں۔ بعد میں شاید کچھ تابعین بھی قائل ہوں۔ جمہور کا موقف تو دو سال کی عمر تک رضاعت ثابت ہونے کا ہے، اس کے بعد نہیں۔

مطیع سید: اپنی بیوی کا اگر کوئی دودھ پی لیتا ہے تو کیا اس سے رضاعت کا کوئی تعلق بنتا ہے؟

عمار ناصر: حرمت تو نہیں ثابت ہوتی، لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے۔

مطیع سید: ابن حزم کے نقطہ نظر سے درست نہیں یا ویسے ہی درست نہیں؟

عمار ناصر: فقہا کہتے ہیں کہ بیوی کا دودھ پینا درست نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو جائےتو اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔

مطیع سید: جب اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی تو پھر کس حوالےسے فقہا منع کر تے ہیں؟

عمار ناصر: دودھ اصل میں تو غذا ہے اور اس کی اگر چہ قانونی تحدید کر دی گئی ہے کہ اس مدت کے اندر عورت کا دودھ پینے سے حرمت ثابت ہوتی ہے، لیکن بہر حال اس عمل سے حرمت کے رشتے کی ایک مناسبت تو ہے۔ اس پہلو سے فقہاء اس کو خلاف احتیاط قرار دیتے ہیں۔

مطیع سید: گویا اس کے پینے سے حرمت بھی نہیں اور گنا ہ بھی نہیں۔

عمار ناصر: کچھ گنا ہ تو ہوگا، لیکن اس کے نکاح پر اس کا اثر نہیں پڑے گا۔

مطیع سید: کچھ قیدی آئے جن میں کچھ حاملہ عورتیں بھی تھیں تو آپﷺ نے ان کے مالکوں کو ان کے ساتھ مباشرت سے منع فرمایا۔ (کتاب النکاح، باب فی وطئ السبایا، حدیث نمبر ۲۱۵۵) اس ممانعت کی کیا وجہ تھی؟ عورت جب حاملہ ہو جاتی ہے تو پھر اس کے بچے کے نسب کا مسئلہ تو باقی نہیں رہتا۔ حمل تو ٹھہر چکا ہوتا ہے۔

عمار ناصر: نہیں، اس میں یہ پہلو نہیں ہے۔ یہاں اس کی رعایت کی گئی ہے کہ جب تک کسی کا بچہ عورت کے پیٹ میں ہے، اس وقت تک وہ عورت گویا اسی کی ملکیت میں ہے۔ اس لیے قیدی خواتین کا استبراء رحم کیے بغیر ان سے ہم بستری کو نبی ﷺ نے ممنوع قرار دیا۔ اس میں نسب کے اشتباہ کا مسئلہ بنیادی نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی کی بیوی حاملہ ہے اور وہ اسے طلاق دے دے تو عورت بچے کو جنم دینے کے بعد ہی دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔

مطیع سید: ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’غلاق’ کی حالت میں طلاق کا اعتبار نہیں۔ (کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علی غلط، حدیث نمبر ۲۱۹۳) یہاں غلاق کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: محدثین اس کی دو طرح سے تشریح کرتے ہیں۔ بعض اس سے مراد غصے کی ایک ایسی کیفیت لیتے ہیں جس میں آدمی کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو جائے۔ بعض دیگر حضرات اس کو جبر واکراہ کے معنی میں لیتے ہیں۔

مطیع سید: کیا زبر دستی لی جانے والی طلاق احناف کے نزدیک واقع ہو جاتی ہے؟

عمار ناصر: زیادہ تر احناف تو اسی کے قائل ہیں۔

مطیع سید: جو قائل ہیں، وہ کس بنیاد پر قائل ہیں؟

عمار ناصر: وہ کہتے ہیں کہ اس نے ہوش وحواس میں طلاق دی ہے، اس لیے نافذ ہونی چاہیے۔

مطیع سید: یہاں اضطرار کا اصول لاگو نہیں ہوتا کہ اس نے کسی نقصان سے بچنے کے لیے یہ الفاظ کہے ہیں؟

عمار ناصر: اصولاً‌ لاگو ہونا چاہیے، لیکن بعض دفعہ احناف بھی ذرا ظاہر پرست ہو جاتے ہیں۔

مطیع سید: اگر آپ سے کوئی پوچھے تو آپ کیا فرمائیں گے؟

عمار ناصر: میری رائے میں ایسی طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے۔

مطیع سید: ہنسی مزاح میں بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی الطلاق علی الہزل، حدیث نمبر ۲۱۹۴) آپ نے کئی دفعہ فرمایا کہ فقہا بعض چیزوں کو قانونی پیراڈائم میں لےجاتے ہیں حالانکہ نبی ﷺ اس تناظر میں بات نہیں فر ما رہے ہوتے۔ بس احتیاط کا ایک پہلو ملحوظ ہوتا ہے۔ تو کیا اس روایت کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے؟

عمار ناصر: اس مسئلے میں ایک رجحان تو یہی بنتا ہے کہ اس طرح کی چیزوں، ہنسی مزاح میں نکاح و طلاق وغیرہ کو قانونی طور پر نافذ نہیں ماننا چاہیے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شریعت اصل میں رشتہ نکا ح کے معاملے میں ذرا مختلف جگہ سے بات کرتی ہے۔ وہ اس معاملے میں لوگوں کو Sensitive رکھنا چاہتی ہے۔ دیکھیں، ظہار سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ ظہار میں آدمی نے بیوی سے یہ کہہ دیا کہ تم میری ماں کی طرح ہو تو اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ اب دومہینے کے روزے رکھ کر اس کی سزا بھگتو۔ اس سے لگتا ہے کہ شریعت اس معاملے میں انسان کو Sensitive کرنا چاہتی ہے۔ نکاح کا رشتہ قائم کرنا یا توڑنا ایسی چیز نہیں ہے کہ آپ اسے ہنسی مزاح کا موضوع بنا لیں۔ اس لحاظ سے یہ بات کہی گئی کہ مزاح میں بھی اگر کسی نے ایسا کہا تو اس کے نتائج قانونی صورت میں اس پر لازم ہوں گے۔ لیکن بہر حال چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے، اس لیے اس پر بحث ہو سکتی ہے کہ کہاں اس کا اطلاق کریں اور کہاں نہ کریں۔

مطیع سید: عبد اللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ تین طلاقیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں۔ حضرت ابو بکر کے دور میں بھی یہی رہا اورپھر حضرت عمر نے آکر انہیں تین ہی شمار کرنے کا حکم جاری کیا۔ (کتاب الطلاق، باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث، حدیث نمبر ۲۲۰۰) لیکن جو ابو رکانہ کی روایت آتی ہے، اس میں ہے کہ نبی ﷺ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا تین سے کیا ارادہ تھا؟ اگر تین کو ہر حال میں ایک ہی مانا جاتا تھا تو نبی ﷺ نے اس سے ایسا کیوں پوچھا؟ اس سے تو لگتا ہے کہ اگر وہ کہتے کہ میری نیت تین ہی کی تھی تو آپ تین ہی شمار فرماتے۔

عمار ناصر: ابن عباس کی روایت اور ابو رکانہ کی روایت، دونوں میں کافی بحث ہے۔ دونوں کے مختلف طرق ہیں جن میں صورت حال کی تفصیلات مختلف بیان ہوئی ہیں۔ ابن عباس کی روایت کے معروف طریق میں تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کی بات مطلقاً‌ بیان ہوئی ہے، کوئی قید نہیں ہے۔ لیکن ابوداود نے جو طریق نقل کیا ہے، اس کے مطابق ابن عباس نے یہ بات اس عورت سے متعلق کہی جس کو رخصتی یعنی ہم بستری سے پہلے طلاق دے دی گئی ہو۔ اسی طرح ابو رکانہ کی روایت کے بھی مختلف طرق ہیں۔ بعض میں ہے کہ آپ نے ان سے ان کی نیت پوچھی، اور بعض میں ہے کہ آپ نے ان سے کہا کہ بیوی سے رجوع کر لیں۔ اس پر جب ابورکانہ نے کہا کہ میں نے تو تین طلاقیں دی تھیں تو آپ نے فرمایا کہ ہاں مجھے معلوم ہے، لیکن پھر بھی تم رجوع کر لو۔ یوں مجتہدین کے لیے کافی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ان میں سے ایک روایت کو دوسری پر ترجیح دے سکیں۔ امام ابن تیمیہ اور امام ابن القیم جو ابن عباس کی اس روایت کو درست سمجھتے ہیں کہ عہد نبوی میں تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا، وہ ابو رکانہ کی روایت کو مضطرب قرار دیتے ہیں اور اس سے استدلال نہیں کرتے۔

مطیع سید: ایک بادشاہ کے علاقے سے گزرتے ہوئے حضرت ابرہیم ؑ کو اپنی بیوی سارہ کے متعلق کہنا پڑا کہ یہ میری بہن ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی الرجل یقول لامراتہ یا اختی، حدیث نمبر ۲۲۱۲) اس کی کیا وجہ تھی؟

عمار ناصر: دیگر تفصیلی روایات میں یہ آیا ہے کہ وہ بادشاہ اپنے علاقے سے گزرنے والی ہر خوب صورت عورت کو چھین لیتا تھا اور اس کے شوہر کو قتل کروا دیتا تھا۔ اس لیے حضرت ابراہیم نے اس کے پوچھنے پر توریہ سے کام لیا اور کہا کہ میرے ساتھ میری بہن ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی کے ساتھ اس کی بیوی ہوتی تو وہ آدمی کو مروا دیتا تھا اور عورت پر قبضہ کر لیتا تھا، کیونکہ اگر شوہر ہے تو بیوی چھینے جانے پر اس میں نفرت اور انتقام کے جذبات پیدا ہوں گے۔ لیکن اگر بہن ہوتی تو پھر وہ آدمی کو قتل نہیں کرواتا تھا۔

مطیع سید: جب حضرت ابراہیم نے سارہ کو اپنی بہن بتایا تو پھر تو وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ اس کانکاح میرے ساتھ کر دو۔ حضرت ابراہیم کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا؟

عمار ناصر: نہیں، یہ نکاح کی بات نہیں تھی۔ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نکاح کے لیےنہیں، بلکہ ویسے ہی عورتوں کو چھین لیتا تھا اور شوہر کو قتل کروا دیتا تھا۔ تو حضرت ابراہیم نے فوری طور پر جو تدبیر سوچی، وہ یہ تھی کہ قتل سے بچنے کے لیے سارہ کو بہن کہہ دیا جائے اور بیوی کو بادشاہ کی دست درازی سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے۔ چنانچہ روایت میں یہی ہے کہ جب بادشاہ نے دست درازی کی کوشش کی تو حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کی وجہ سے وہ وقتی طور پر مفلوج ہو گیا اور اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد فرمائی اور بادشاہ نے خوف زدہ ہو کر دونوں کو جانے کی اجازت دے دی۔

مطیع سید: حضرت زینب اور ابو العاص کو کئی سال کے وقفے کے بعد دوبارہ اکٹھا کر دیا گیا۔ (کتاب الطلاق، باب الی متی ترد علیہ امراتہ اذا اسلم بعدہا، حدیث نمبر ۲۲۴۰) کیا اس سارے عرصے میں ان کا نکاح ختم نہیں ہو گیا تھا؟

عمار ناصر: اس میں دونوں طرح کی روایتیں ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کو سابقہ نکاح کے ساتھ ہی جمع کر دیا گیا اور دوسری میں ہے کہ نیا نکاح کروایا گیا تھا۔ احناف نئے نکاح والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں۔

مطیع سید: والدین میں سے ایک مسلمان ہو گیا تو حضورﷺ کے سامنے ان کا مسئلہ آیا کہ بچی کس کے پاس رہے گی۔ آپﷺ نے بچی کو درمیان میں بٹھا دیا اور فرمایا کہ جس طرف بچی مائل ہو گی، اسی کو دے دی جائے گی۔ بچی ماں کی طرف مائل ہونے لگی تھی تو آپ ﷺنےدعا فرمائی کہ وہ باپ کی طرف مائل ہو۔ (کتاب الطلاق، باب اذا اسلم احد الابوین مع من یکون الولد، حدیث نمبر ۲۲۴۴) وہ تو نبی ﷺتھے، ان کی دعا قبول ہوگئی۔ ہمارے لیے ایسی صورت میں کیا قانون ہے؟

عمار ناصر: وہ تو آپ ﷺنے بتا دیا کہ قانون یہ ہے کہ اس موقع پر بچے کا اختیار ہے۔

مطیع سید: لیکن یہاں ایسا لگ رہا ہے کہ آپﷺنے اپنا اختیار بھی استعمال فر مایا۔

عمار ناصر: نہیں، آپ نے کوئی اختیار استعمال نہیں کیا۔ آپﷺنے دعا کی تو اللہ نے بچی کے دل میں بات ڈال دی۔

مطیع سید: لعان کے بعد طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی یا دی جائے گی؟

عمار ناصر: یہ استنباطی بحث ہے۔ احناف غالباً‌ اس کے قائل ہیں کہ باقاعدہ طلاق دلوائی جائےگی۔

مطیع سید: آپﷺ سے اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی کہ آپ نے جدائی کروائی یا نہیں؟

عمار ناصر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں میں تفریق کروانا ثابت ہے۔ عویمر عجلانی کے واقعے میں ایک روایت یہ ہےکہ انھوں نے لعان کے بعد فوراً‌ خود ہی بیوی کو طلاق دے دی۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے دونوں کے درمیان تفریق کر دی۔

مطیع سید: ہلال ابن امیہ کے واقعے میں میاں بیوی کے مابین لعان کے بعد آپ نے فرمایا کہ اگر بچے کی شباہت اس آدمی جیسی ہوئی جس پر شوہر نے الزام لگایا ہے تو پھر شوہر اپنے الزام میں سچا ہے۔ (کتاب الطلاق، باب فی اللعان، حدیث نمبر ۲۲۵۶) یعنی آپ نے بچے کی شکل و صورت سے الزام کی تحقیق میں مدد لی۔ کیا آج ہم اس کی بجائے ڈی این اے وغیرہ سے اس سلسلے میں مدد لے سکتے ہیں؟

عمار ناصر: نہیں، آپ نے یہ نہیں کہا کہ اگر بچے کی شباہت ایسی ہوئی تو اس کا نسب اس سے ثابت ہوگا۔ لعان کے بعد بچے کا نسب تو کسی سے ثابت نہیں ہوتا، صرف ماں کی طرف اسے منسوب کیا جاتا ہے۔ آپ نے صرف یہ فرمایا کہ بچے کی شباہت سے یہ پتہ چل جائے گا کہ شوہر نے جو الزام لگایا، وہ ٹھیک تھا یا نہیں۔ اس کا بچے کے نسب پر کوئی قانونی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ ڈی این اے ٹیسٹ بھی اگر اس حوالے سے کوئی قابل وثوق مدد دے سکتا ہو تو لعان کی صورت مین اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ اگر بیوی الزام قبول نہ کرنے کی صورت میں لعان کے بجائے یہ مطالبہ کرے کہ ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جائے تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ بچہ کس کا ہے تو میری رائے میں بیوی کو یہ حق ملنا چاہیے۔ مقاصد شریعت کی رو سے خود کو بدکاری کے الزام سے بری ثابت کرنا بیوی کا بھی حق ہے اور اگر نسب کی تحقیق ممکن ہو تو پیدا ہونے والے بچے کا بھی یہ حق ہے۔ ہاں، اگر طبی ذرائع سے تحقیق ممکن نہ ہو تو پھر لعان کا طریقہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے بچے کی ولدیت ثابت کرنے کے لیے تین آدمیوں کے درمیان قرعہ ڈلوایا۔ (کتاب الطلاق، باب من قال بالقرعۃ اذا تنازعوا فی الولد، حدیث نمبر ۲۲۶۹) حضرت علی قیافہ شناس کو بھی بلا سکتےتھے یا اور کوئی ذریعہ استعمال کر سکتے تھے مگر انہوں نے قرعہ پر فیصلہ کیا جو بالکل تخمینی طریقہ ہے۔

عما رناصر: معروضی حالات جیسے ہوتے ہیں، اسی کے لحاظ سے آپ نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس دور میں آج کے دور کی طرح تحقیق نسب کے زیادہ قابل وثوق ذرائع دستیاب نہیں تھے۔ حضرت علی کو بچے کی ولدیت کا جھگڑا نمٹانا تھا تاکہ قانونی ذمہ داریوں کا تعین کیا جا سکے تو اس مقدمے میں انھیں یہی ممکن نظر آیا کہ قرعہ اندازی سے اس کا فیصلہ کر دیا جائے۔

مطیع سید: ہو سکتاہے کہ قیافہ شناس بھی اس وقت میسر نہ ہو۔

عمار ناصر: جی، ممکن ہے وہ بھی میسر نہ ہو یا قیافہ پر ان کا اتنا اعتماد نہ ہو۔ ایسے میں معاملے کو نمٹانا ہوتا ہے، جیسے بھی نمٹایا جا سکے۔

مطیع سید: روایت میں یہ بھی وضاحت نہیں کہ جو دوسرے دو آدمی تھے، کیا انھوں نے اس عورت کے ساتھ بدکاری کی تھی؟ ان کو آپ نے پکڑا یا نہیں؟

عمار ناصر: دیگر روایات میں اس کی تفصیل موجود ہےکہ انھوں نے غلط اجتہاد کرتے ہوئے ایک ہی طہر میں اس باندی سے مجامعت کو جائز سمجھتے ہوئے مجامعت کی تھی جس کی وجہ سے ان پر حد جاری نہیں کی گئی۔

مطیع سید: حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حاملہ عورت چھوڑے ہوئے روزوں کا فدیہ دے سکتی ہے۔ (کتاب الصوم، باب من قال ہی مثبتۃ للشیخ والحبلی، حدیث نمبر ۲۳۱۷) کیا اس کے لیے روزوں کی قضا ضروری نہیں؟

عمار ناصر: یہ قابل بحث مسئلہ ہے۔ عام طور پر فقہاء یہی کہتے ہیں کہ چونکہ وہ بعد میں روزے رکھ سکتی ہے، اس لیے قضا کرے۔ لیکن ابن عباس کی اور متعدد تابعین کی رائے یہ ہے کہ چونکہ وہ اس وقت روزے نہیں رکھ پارہی اور اس میں اس کا کوئی قصور بھی نہیں تو اس کے لیے فدیہ دے دینے کی گنجائش موجود ہے۔ بظاہر ذوالوجہین مسئلہ ہے اور اجتہادی ہے۔ پہلے قیاس کو دیکھیں تو یہ بات درست لگتی ہے کہ بعد میں اس کو روزے قضا کرنے چاہییں۔ دوسرے قیاس کو دیکھیں تو فدیے کی گنجائش نکلتی ہے۔

مطیع سید: کیا اس مسئلے کو Case to Case دیکھا جا سکتا ہے؟

عمار ناصر: بالکل، یہ بھی ہو سکتاہے کہ ایسے ہر معاملے کو صورت حال کے لحاظ سے الگ الگ دیکھا جائے۔ قرآن سے تو ترجیح یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان تصوموا خير الكم۔ روزے کی جگہ روزہ ہی رکھا جائےتو بہترہے۔

مطیع سید: عاشورا کا روزہ کیا پہلے فرض تھا؟

عمار ناصر: روایات میں ایسے ہی منقول ہے کہ وہ لازم تھا۔ پھر رمضان کے روزے فرض ہو جانے کے بعد اس کو اختیاری قرار دے دیا گیا۔

مطیع سید: تو کیا یہ اسی نسبت سے رکھوایا جا تا تھا جس نسبت سے یہود رکھتےتھے یا مسلمانوں کے رکھنے کی کوئی اور وجہ تھی؟

عمار ناصر: اس کی ابتدا سے متعلق روایات مختلف ہیں۔ بعض میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش یہ روزہ رکھا کرتے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس وقت سے یہ معمول تھا۔ بعض میں ہے کہ جب آپ مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو فرعون سے حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کی نجات کے شکرانے کے طور پر یہ روزہ رکھتے دیکھا تو فرمایا کہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی خوشی منانے کا زیادہ حق رکھتے ہیں۔ ممکن ہے، دونوں باتیں درست ہوں۔ اس کا رواج قریش میں بھی ہو اور نبی ﷺ نے دیکھتے ہوئے کہ کوئی نہ کوئی روزہ تو رکھنا چاہیے، مسلمانوں پر بھی اس کو لازم کر دیا ہو۔ مدینہ میں آنے کے بعد اس دن کا روزہ رکھنے میں اور بھی کئی مصلحتیں تھیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی نسبت ہوگئی، اور یہودیوں کے ساتھ بھی کچھ موافقت اور ان کی تالیف قلب ہوگئی جس کی آپ ﷺ نے ابتدائی دور میں کافی کوشش بھی کی تھی۔

مطیع سید: شام کے علاقے کے بارے میں جو پیشین گوئیاں بیان ہوئی ہیں، (کتاب الجہاد، باب فی سکنی الشام، حدیث نمبر ۲۴۸۳) ان کا تعلق کس زمانے سے ہے؟ آپ ﷺ نے عرب قوم کے دور اقتدار کے اختتام کی باتیں بھی بیان فرمائی ہیں اور قیامت کے قریب رونما ہونے والے واقعات کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ شام کے حوالےسے پیشین گوئیاں کس صورت حال سے متعلق ہیں؟

عمار ناصر: اس کو کافی تحقیق سے دیکھنا پڑے گا۔ پیشن گوئیوں سے متعلق روایتوں میں کافی پیچیدگیاں ہیں اور راویوں نے ایک دور سے متعلق واقعات کو دوسرے دور سے متعلق کافی گڈمڈ بھی کر دیا ہے۔

مطیع سید: ایک صحابی نے نبی ﷺ سے سیاحت کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی سیاحت جہاد میں ہے۔ (کتاب الجہاد، باب فی النہی عن السیاحۃ، حدیث نمبر ۲۴۸۶) اس کا کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: اردو میں جس کو سیر وسیاحت کہتے ہیں، یہاں وہ مفہوم مراد نہیں ہے۔ عہد نبوی کی عربی میں سیاحت ایک مذہبی اصطلاح کے طور پر مستعمل تھی۔ سیاحت ترکِ دنیا کا ایک خاص طریقہ تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ آدمی گھر بار چھوڑ دے اور ساری زندگی مسافروں اور خانہ بدوشوں کی طرح خدا کی زمین میں پھر تا رہے۔ اسی مفہوم میں اس حدیث میں کہا گیا ہے کہ اسلام میں عبادت کے طور پر گھربار چھوڑنے اور خدا کی زمین میں گھومتے رہنے کی کوئی شکل اگر ہے تو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ آدمی جہاد فی سبیل اللہ کے لیے گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑا ہو۔ محض گھر سے نکل جانا اور سیر وتفریح کے لیے دنیا میں گھومتے رہنا، یہ یہاں مراد نہیں ہے۔

مطیع سید: آپ ﷺ کو ایسا گھوڑا پسند نہیں تھا جس کا ایک اگلے اور ایک پچھلے پاؤں میں سفیدی ہو۔ (کتاب الجہاد، باب ما یکرہ من الخیل، حدیث نمبر ۲۵۴۷) یہ کیا نبی ﷺ کا کوئی ذاتی ذوق تھا یاکوئی اور وجہ تھی؟

عمار ناصر: بظاہر تو یہ ذوقی بات ہی لگتی ہے۔

مطیع سید: آپ نے اسی طرح کی ایک روایت کے حوالےسے فرمایاتھا کہ نبی ﷺ کے ذوق کی بھی پیروی کرنی چاہیے۔ تو اس روایت میں ہم کیسے اس ذوق کی پیروی کریں؟

عمار ناصر: ذوق کاتعلق اگر کسی عباداتی یا تعبدی پہلو سے ہے تو اس کے متعلق یہ عرض کیا تھا۔ یہ کسی جانور کی پسند یا ناپسند کا معاملہ تو مختلف ہے۔ یہ بالکل طبعی سا ذوق ہے جس کا کسی دینی پہلو بظاہر نہیں ہے۔ اس میں بھی آپ اگر پیروی کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، لیکن اس کی نوعیت مختلف ہے۔

مطیع سید: یہ جو جانوروں کے گلے میں گھنٹی باندھنے یا سفر میں قافلے کے ساتھ کتا رکھنے کی ممانعت آئی ہے، (کتاب الجہاد، باب فی تعلیق الاجراس، حدیث نمبر ۲۵۵۵) کیا یہ بھی شخصی ذوق ہی تھا؟

عمار ناصر: اس میں ایک روحانی پہلو بھی ہے۔ بعض چیزوں کی مناسبتیں عالمِ غیب سے ہیں تو نبی ﷺ کے سامنے وہ بھی ہوتی ہیں۔ ان کے لحاظ سے یہ فرمایا۔ مثلاً‌ گھنٹی سے فرشتوں کو مناسبت نہیں ہے، شیاطین و جنات کو اس سے مناسبت ہے۔ اسی طرح کتا ہےکہ کتے کے ساتھ جنات و شیاطین کو مناسبت ہے۔ اس وجہ سے آپ کو بھی ان کو ساتھ رکھنا پسند نہیں تھا۔

مطیع سید: کسی اور چیز میں مقابلہ کرنا جائز نہیں، سوائے اونٹ اور گھوڑے کی دوڑ اور تیز اندازی کے مقابلے کے۔ (کتاب الجہاد، باب فی السبق، حدیث نمبر ۲۵۷۴) اس کا کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: مراد یہ ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اور بلامقصد جانوروں میں جو مقابلے کروائے جاتے ہیں، وہ نہیں کروانے چاہییں۔ خاص طور پر ایسے مقابلے جن میں کوئی غیر اخلاقی پہلو بھی ہو، مثلاً‌ جانور ایک دوسرے کو زخمی کرتے ہوں۔ مقابلے ایسے ہونے چاہییں جن سے انسان کسی ہنر میں مہارت پیدا کرے اور اس کا اظہار کرے، جیسے گھڑ سواری یا تیز اندازی کے مقابلے۔

مطیع سید: آج کے دور میں کھیل میں جو شرطیں لگا ئی جاتی ہیں، کیا وہ درست ہیں؟

عمار ناصر: اس میں فقہا تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اگر کوئی تیسرا فریق کھیلنے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے انعام مقرر کر تا ہے اور لوگ کھیل کر انعام جیتتے ہیں تو یہ درست ہے۔ لیکن اگر کھیلنے والے آپس میں ہی ایسی شرط طے کریں تو اس میں جوے کی شکل بن جاتی ہے جو درست نہیں۔

مطیع سید: یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی مقابلے میں شریک سب کھلاڑیوں سے رقم جمع کی جاتی ہے۔ اس رقم سے انعام خریدا جاتا ہے اور جو جیتے، اس کو انعام دے دیا جاتا ہے۔

عمار ناصر: اس میں اس طرح سے صریح جوئے کی صورت تو نہیں ہے لیکن ایک مشابہت پائی جاتی ہے، اس لیے عام طورپر فقہا اس سے منع کرتے ہیں۔

(جاری)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۸)

اہل سنت اور اہل تشیع کی علمی روایت کا ایک تقابلی مطالعہ

مولانا سمیع اللہ سعدی

(اہل تشیع کی اہم کتبِ رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے فرد ا فردا تجزیہ جاری ہے، پچھلی قسط میں چند کتب کا ذکر آگیا تھا، اس قسط میں یہی سلسلہ آگے بڑھایاگیا ہے۔ )

4۔ منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال

یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ محدث محمد بن علی الاسترابادی (1028ھ) کی تصنیف ہے، یہ معروف اخباری عالم میرزا محمد امین الاسترابادی کے استاذ ہیں اور حاوی الاقوال کے مصنف شیخ عبد النبی الجزائری کے ہم عصر ہیں، محقق استرابادی کی یہ کتاب شیعہ حلقوں میں الرجال الکبیر کے نام سے معروف ہے، شیخ حیدر حب اللہ نے اس کتاب کو رجالی موسوعات کی پہلی کوشش قرار دیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

"وھو عہد التالیف الموسوعی فی الرجال الشیعی الذی لم یعہد ھذہ الموسوعیۃ من قبل"1

کہ محقق استرابادی کی یہ کتاب رجال شیعہ کے اس موسوعاتی دور سے ہے، کہ اس قسم کا موسوعاتی مواد اس سے پہلے معروف نہ تھا۔

کتاب کے مقدمہ میں مصنف کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

حاولت فیہ ذکر ما وصل الی من کلام علماءنا المتقدمین والمتاخرین وما وقفت علیہ من المقال فی شان بعض اصحابنا من علماءنا المخالفین2

یعنی اس کتاب میں، میں نے اپنے متقدمین و متاخرین علماء کے کلام کو ذکر کرنے کا ارادہ کیا ہے، اور اس کے ساتھ ہمارے مخالفین کی کتب میں ہمارے بعض اصحاب کے بارے میں جن باتوں پر میں مطلع ہوا ہوں، ان کو بھی ذکر کرنے کا ارادہ ہے۔

اس کے بعد مصنف نے شیعہ رجالی تراث میں سے بارہ مصادر اور اہل سنت کے دو مصادر (حافظ بن حجر کی تقریب اور امام ذہبی کا ایک اختصار ) کا نام لیا ہے، اس طرح شیعہ کتب رجال کے ساتھ ساتھ اہل سنت کتب سے بھی شیعہ رجال کے بارے میں معلومات ڈھونڈنے کی کو شش کی ہے، یوں کتاب کے مقدمے سے اس بات کی بخوبی وضاحت ہوتی ہے کہ مصنف نے متقدمین و متاخرین کا پورا علم رجال جمع کرنے کی تگ و دو کی ہے، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ کتاب کی ضخامت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

"ان الکتاب یعد موسوعۃ رجالیۃ کبیرۃ بل من اوسع ما کتب فی الرجال الشیعی حتی عصرہ۔

یعنی یہ کتاب ایک وسیع رجالی موسوعۃ شمار ہوتی ہے ، بلکہ اپنے زمانے تک رجال شیعہ کی سب سے بڑی کتاب ہے۔ کتاب کی طوالت و وسعت کے بارے میں شیخ حیدر حب اللہ کے ان کلمات کے بعد اور خود مصنف کے اس اقرار کے بعد، کہ اس میں متقدمین و متاخرین کا علم رجال سمویا گیا ہے اورمصنف نے مقدمے میں ایک درجن متقدمین کی رجالی کتب کی فہرست بھی دی ہے، جن کے رواۃ کا اس میں استقصاء کرنے کی کوشش کی گئی ہے، ان سب کے بعد کتاب میں کل 4026 رواۃ کا ذکر ہے، جو رجال ِ شیعہ کی کل تعداد (تقریبا تیس ہزار رواۃ ) کا بمشکل تیرہ فیصد بنتا ہے، جو ظاہر ہے کہ نہایت قلیل تعداد ہے، مصنف نے اتنے تگ و دو کے بعد اپنے پیش رو شیخ عبد النبی الجزائری کی کتاب حاوی الاقوال پر مزید دو ہزار رواۃ کا اضافہ کیا ہے، یہ کتاب بھی حاوی الااقوال کی طرح متقدمین کے کی کتب سے محض مواد کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، چنانچہ کتاب سے ایک ترجمہ نقل کیا جاتا ہے تاکہ کتاب کا اسلوب کچھ واضح ہوسکے:

ابراہیم بن عبد الحمید الاسدی مولا ھم البزاز الکوفی ق، ثم ظم: ابن عبد الحمید لہ کتاب وفیہ ایضا ابن عبد الحمید واقفی، ثم ضا، ابن عبد الحمید من اصحاب ابی عبد اللہ علیہ السلام۔ ۔ ۔ و فی ست: ابن عبد الحمید، ثقۃ لہ اصل۔ ۔ ۔ وفی جش: ابن عبد الحمید الاسدی مولاھم کوفی، وفی صہ: ابن عبد الحمید وثقۃ الشیخ فی الفہرست۔ ۔ ۔ وفی کش ابراہیم بن عبد الحمید الصنعانی۔ 3

اس ترجمے سے کتاب کا اسلوب بخوبی واضح ہوتا ہے کہ مصنف مختلف رجالی کتب کے لئے ق، ظم، ضا، ست، کش وغیرہ کے رموز لگا (ان رموز کی وضاحت مصنف نے مقدمہ میں کی ہے ) کر ان کی عبارات بغیر کسی تبصرے، تنقیح و تہذیب کے، بعینہ نقل کرتے جاتے ہیں، یوں اگر جرح و تعدیل کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کتاب اس حوالے سے بے فائدہ ہے، کیونکہ اس میں نہ تو علامہ حلی کی طرح ہر راوی کے بارے میں اقوال جرح و تعدیل جمع کرنے کی مرتب کوشش کی گئی ہے نہ شیخ عبد النبی الجزائری کی طرح رواۃ کو ضعف وثقاہت کے اعتبار سے تقسیم کر کے ذکر کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ اس کتاب کو منہج کے اعتبار سے ایک مبہم کتاب قرار دیتے ہیں، چنانچہ کتاب کے منہج و اسلوب سے متعلق لکھتے ہیں:

" مع ھذا کانت مقدمۃ الکتاب مقتضبۃ جدا، فلم یبین المیرزا منہجہ و طریقتہ فی الکتاب و الغایۃ من تالیفہ کما ھو داب المولفین قبلہ"4

یعنی اس ضخامت کے باوجود کتاب کا مقدمہ نہایت مختصر ہے، اس میں مصنف نے کتاب کا منہج، اسلوب اور کتاب کی تالیف کی غرض و غایت بیان نہیں کی، جیسا کہ اس سے پہلے مصنفین کا وطیرہ تھا۔

بغیر کسی خاص ترتیب جدید ، تدوین اور اسلوب کے محض متقدمین کے رجالی تراث کو بعینہ نقل کرنا جمع و ترتیب تو کہلائی جاسکتی ہے، اسے باقاعدہ رجالی کتاب کہنا مشکل ہے، ضخامت کی وجہ سے اس کا ذکر یہاں کیا گیا، ورنہ متقدمین کی کتب کے محض مجموعات کو ذکر کرنا تطویل لا طائل ہے، کیونکہ جن رجالی کتب کو اس کتاب میں جمع کیا گیا ہے، ان پر رواۃ کی جرح وتعدیل کے اعتبار سے فردا فردا پچھلے صفحات میں بحث ہوچکی ہے۔

5۔ نقد الرجال

یہ کتاب گیارہویں صدی ہجری کے شیعہ عالم سید مصطفی بن حسین التفرشی کی ہے، جنہیں مختصرا لتفرشی کہہ دیا جاتا ہے، سید تفرشی مرزا محمد الاسترابادی کے ہم عصر ہیں۔ اس کتاب کا مقصد بیان کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:

"ولما نظرت في كتب الرجال رأيت بعضها لم يرتب ترتيبا يسهل منه فهم المراد ومع هذا لا يخلو من تكرار وسهو، وبعضها وان كان حسن الترتيب الا ان فيه أغلاطا كثيرة، مع أن كل واحد منها لا يشتمل على جميع أسماء الرجال أردت أن اكتب كتابا يشتمل على جميع الرجال من الممدوحين والمذمومين والمهملين، يخلو من تكرار وغلط، ينطوي على حسن الترتيب ويحتوي على جميع أقوال القوم قدس الله أرواحهم من المدح والذم"5

جب میں نے کتب رجال کو دیکھاتو بعض کتب ایسی ہیں جو ایسی ترتیب کی حامل نہیں ہیں ، جو تسہیل فہم میں معاون ہو، اس کے ساتھ ان کتب میں تکرار و تسامحات بھی ہیں، جبکہ بعض کتب باعتبارِ ترتیب بہترین کتب ہیں، لیکن ان میں کثرت سے غلطیاں موجود ہیں، نیز ہر دو قسم کی کتب تمام رجال کے تذکرے پر مشتمل نہیں ہیں، تو میں نے ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تیار کروں، جو جمیع ممدوحین، مذمومین اور مھمل رواۃ کے ذکر پر مشتمل ہو اور تکرار و اغلاط سے بھی پاک ہو، حسنِ ترتیب کی حامل ہو اور رواۃ کے بارے میں قوم(اہل علم ) کے مدح و ذم کے تمام اقوال کا احاطہ کرے۔

اس کے بعد مصنف نے درجہ ذیل نو کتب کو مصادر قرار دیتے ہوئے ان کے رموز بیان کئے:

رجال کشی، رجال نجاشی، رجال طوسی، فہرس الطوسی، رجال ابن الغضائری، رجال ابن شہر آشوب، علامہ حلی کی خلاصۃ الاقوال اور ایضاح الاشتباہ اور رجال ابن داود الحلی،

اس کے ساتھ مصنف نے تصریح کی ہے کہ میری کوشش ہوگی کہ ان مصادر کی عبارت بعینہ نقل کروں، البتہ کبھی کبھا ر ضرورتا تبدیلی کروں گا۔

یہ کتاب موسسۃ آل البیت سے پانچ ضخیم جلدوں میں چھپی ہے، اس کتاب میں شیخ حیدرحب اللہ کے بقول 6604 رواۃ 6 کا ذکر ہے، یوں یہ کتاب استرابادی کی منہج المقال سے دو ہزار زیادہ رواۃ پر مشتمل ہے، یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ شیخ عبد النبی جزائری کی رجال الجزائری میں دو ہزار رواۃ، مرزا محمد استرابادی کی منہج المقال میں چار ہزار رواۃ اور تفرشی کی نقد الرجال میں چھ ہزار رواۃ ہیں، حالانکہ تینوں کے مصادر تقریبا یکساں ہیں، جیسا کہ پچھلے صفحات میں ہم ان کتب کے تذکرے میں نقل کرچکے ہیں، یہاں بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے، کہ ان تینوں مصنفین نے متقدمین کے رجالی تراث کا مکمل احاطہ کرنے کے لئے کتاب لکھی تھی اور تینوں کے مصادر بالکل یکساں تھے، تو رواۃ کی تعداد میں اتنا عظیم فرق کیونکر پیدا ہوا ؟پھر خاص طور پر علامہ محمد استرابادی نے مجمع الرجال میں بارہ شیعہ مصادر کو سمونے کے بعدچار ہزار رواۃ پر مشتمل مجموعہ تیار کیا اور اسے حیدر حب اللہ نے اپنے دور کی سب سے وسیع کتاب قرار دیا، جبکہ سید تفرشی نے ان بارہ مصادر میں سے نو کو نقد الرجال میں جمع کرنے کی کوشش کی، تو چھ ہزار رواۃ کا مجموعہ تیار کیا، شیعہ کتب رجال کا جب زمانی اعتبار سے جائزہ لیاجائے تو ایک خاص ترتیب کے ساتھ رواۃ و رجال کا ہر آنے والی کتب میں اضافہ نظر آتا ہے، بالخصوص یہ اضافہ ان کتب میں زیادہ حیرت کا باعث ہے، جو متقدمین کے ایک جیسے تراث کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، لیکن رواۃ کی تعداد میں پھر بھی ایک دوسرے سے کافی مختلف ہے، جیسا کہ منہج المقال اور اس کتاب نقد الرجال میں آپ ملاحظہ کرچکے ہیں، اسے تکرار کا نتیجہ کہیں یا آنے والے زمانوں میں رواۃ و رجال کی دریافت کا نتیجہ ؟رواۃ کی تعداد میں یہ اضافہ ہر زمانہ کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ امام خوئی کی کتاب معجم رجال الحدیث میں پندرہ ہزار تک پہنچ جاتا ہے اور شیخ علی نمازی کی مستدرکات علم الرجال میں اٹھارہ ہزار تک پہنچ جاتا ہے۔

رواۃ کی تعداد میں اس حیران کن ارتقائی اضافہ سے قطع نظرسید تفرشی نے اپنی اس کتاب میں مذکورہ ساڑھے چھ ہزار رواۃ میں سے نہایت قلیل تعداد کے بارے میں جرح و تعدیل کا تذکرہ کیا ہے، مقالہ نگار نے موسسہ آل البیت سے طبع شدہ نقد الرجال کی پانچ جلدوں میں سے پہلی دو جلدوں کو صفحہ بہ صفحہ دیکھا، کہ کتنے رواۃ کے بارے میں مصنف نے جرح یا تعدیل کا ذکر کیا ہے، تو یہ اعداد و شمار سامنے آئے:

6۔ الوجیزۃ فی علم الرجال

یہ کتاب بارہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ محدث محمد باقر مجلسی کی ہے، جنہیں شیعہ حلقوں میں علامہ مجلسی کے نام سےذکر کیا جاتا ہے، علامہ مجلسی شیعہ علم حدیث کے اہم ترین ستون سمجھے جاتے ہیں، الکافی کی مفصل شرح مراۃ العقول کے نام سے لکھی ہے، جو الکافی کی سب سے متداول شرح ہے، اس کے علاوہ ایک سو دس جلدوں پر محیط شیعہ روایات کا ایک انسائیکلوپیڈیا بحار الانوار کے نام سے ترتیب دیا ہے، علامہ مجلسی شیعہ علم حدیث کے مرکزی اہل علم میں جانے جاتے ہیں، علامہ مجلسی نے علم الرجال پر ایک جلد پر مشتمل کتاب "الوجیزۃ فی علم الرجال " لکھی ہے، کتاب کے مقدمہ میں شیخ مجلسی لکھتے ہیں:

“التمس منّي جماعة من طالبي علوم أئمّة الدين (صلوات اللّه عليهم أجمعين)، أن أكتب لهم في تحقيق أحوال رجال أسانيد الأخبار، رسالة وجيزة أقتصر فيها على بيان ما اتضح لي من أحوالهم، و اشتهر عند أصحابنا- رضي اللّه عنهم- من أقوالهم، من غير تعرض لخصوص الأقوال و قائليها، و ترك المجاهيل لعدم الفائدة للتعرّض لها، على غاية الإيجاز و الاختصار، ليسهل على الطالبين تحصيلها”7

یعنی مجھ سے طلبہ کی ایک جماعت نے درخواست کی کہ میں حدیث کے رواۃ کی تحقیق کے بارے میں ایک ایسا رسالہ ترتیب دوں، جس میں صرف ان رجال کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا ہو، جن کے احوال میرے سامنے واضح ہوچکے ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے اصحاب علم کے اقوال معروف و مشہور ہیں ، نیز اس میں قائلین اور ان کے اقوال کا تفصیلی ذکر نہ کیا گیا ہو، اور اس کے ساتھ مجاہیل رواۃ کا ذکر بھی چھوڑ دیا گیا ہو، کیونکہ ان کےذکر کیا کوئی فائدہ نہیں اور اس رسالہ میں نہایت اختصار سے کام لیا گیا ہو تاکہ طلبہ علم کے لئے اس سے استفادہ آسان ہو۔

اس کے بعد مصنف نے رواۃ کو پانچ اقسام میں تقسیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کتاب میں ثقہ غیر امامی کے لئے (ق)، ثقہ امام کے لئے (ثقہ )ممدوح کے لئے (م)ضعیف کے لئے (ض) اور مجہول کے لئے (م) کا رمز استعمال کریں گے۔ اس کتاب میں مصنف صر ف راوی کا نام ذکر کرتے ہیں اور اس کے آگے اوپر ذکر کردہ رموزِ خمسہ میں سے کوئی رمز (ق، م، ض وغیرہ) ذکر کر دیتے ہیں، بطوِ نمونہ چند تراجم ملاحظہ ہوں:

  1. آدم بن إسحاق، ثقة
  2. آدم بن الحسين النخاس، ثقة
  3. آدم بن المتوكّل، ثقة
  4. آدم بن محمد القلانسي، ض، و غيرهم، م8

اس کتاب کو ہم اہل سنت کتب میں سے تقریب التہذیب سے تشبیہ دے سکتے ہیں، لیکن تقریب التہذیب کے منابع تو تہذیب التہذیب، تہذیب الکمال ، الکمال فی اسماء الرجال وغیرہ جیسی مبسوط کتب ہیں اور تقریب ان سب کا ایک جامع اختصار ہے، اس لئے تقریب کے رموز کو ان مفصل کتب سے باآسانی دیکھا جاسکتا ہے، لیکن الوجیزہ کے منابع و مصاد رمتعین و معلوم ہی نہیں ہیں، اور نہ علامہ مجلسی نے مقدمہ میں کسی خاص مصدر کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ کن کتب سے علامہ مجلسی نے رواۃ کے بارے میں یہ اقوال نقل کئے ہیں، لیکن علامہ مجلسی چونکہ ایک منجھے ہوئے محدث ہیں، اس لئے قوی امید ہے کہ علامہ مجلسی نے معتبر مصادر سے رواۃ کی توثیق و تضعیف نقل کی ہوگی، یہ کتاب مصنف کے علم حدیث میں ایک نمایاں مقام ہونےکی بنا پر یقینا شیعہ علم رجال کی تقویم کے حوالے سے ایک بلند پایہ کتاب ہے، لیکن متقدمین کی کتب کی طرح اس کتاب کی بھی اساسی خامی رواۃ و رجال کا عدم استقصاء ہے، اس کتاب میں مکررات سمیت محض 2345 رواۃ کا ذکر ہے، جو کل شیعہ رواۃ کا بمشکل دس فیصد بنتا ہے، یوں ابن داود حلی سے لیکر علامہ حلی تک اور علامہ حلی سے لیکر شیخ مجلسی تک جس جس نے بھی شیعہ رواۃ و رجال کو تقویم یعنی توثیق و تضعیف کے اعتبار سے جمع کرنے کی کوشش کی، تو وہ دو ڈھائی ہزار سے آگے نہ بڑھ سکے، کیونکہ شیعہ کے قدیم رجالی تراث میں رواۃ کی جرح و تعدیل نہ ہونےکے برابر ہے، جیسا کہ ما قبل میں یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ آچکی ہے، شیعہ تاریخ کے پہلے بارہ سو سال میں علامہ مجلسی سے زیادہ وسعتِ نظر کا حامل محدث نہیں گزرا، جب شیخ مجلسی اپنے وسیع نظر کے باوجودمحض ڈھائی ہزار کے قریب رواۃ کی تقویم جمع کرسکے، تو اس سے شیعہ کتب رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے تہی دامن ہونے کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

7۔ منتہی المقال فی احوال الرجال

یہ کتاب تیرہویں صدی ہجری کے شیعہ محدث محمد بن اسماعیل مازندرانی کی ہے، جو ابو علی الحائری کے نام سے معروف ہے، اس کتاب میں مصنف نے اپنے زمانے تک تمام موجود رجالی تراث کو سمونے کی کوشش کی ہے، چنانچہ شیخ حیدرحب اللہ نے بائیس رجالی کتب کا ذکر کیا ہے، جن کا مواد حائری نے اپنی کتاب میں جمع کیا ہے اور ہر کتاب کے لئے خاص رمز استعمال کیا ہے، ان رموز کی تفصیل کتاب کے محققین ( محققین موسسۃ آل البیت ) نے کتاب کی پہلی جلد میں دی ہے، 9 چونکہ یہ کتاب متقدمین کی کتب کےمواد کا محض مجموعہ ہے، اس لئے اس کا الگ سے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی، لیکن مفصل ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر کیا گیا ہے، یہ کتاب استرابادی کی منہج المقال کے ہو بہو مشابہ ہے، بلکہ دقت نظر سے اسی کا چربہ اور نقل معلوم ہوتی ہے، استرابادی کی کتاب کا ذکر ما قبل میں آچکا ہے، اسی وجہ سے شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

"ویظہر الحائری فی ھذا الکتاب متاثرا باستاذہ الوحیدالبھبانی ، بل یذہب المحدث النوری الی ان الکتاب احتوی اتمام تعلیقہ استاذہ، وھذہ احدی اھم اسباب شہرۃھذا الکتاب، ھذا ھو التاثر الاول لہ، کما تاثر ایضابالاسترابادی صاحب منہج المقال، وسیظہر ھذا واضحا فی معالم الکتاب10

یعنی بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس کتاب میں شیخ حائری اپنے استاذ وحید بھبانی سے متاثر ہے، ( وحید بھبانی نے منہج المقال پہ ہی تعلیق لکھی ہے، جسے عموما تعلیقہ الوحید البھبھانی کہا جاتا ہے ۔ )بلکہ محدث نوری تو اس طرف گئے ہیں، کہ یہ کتاب استاذ کی تعلیق کا ہی اتمام ہے، یہ وجہ اس کتاب کی شہرت کے اسباب میں سے اہم سبب ہے، اس تاثر کے ساتھ مصنف استربادی منہج المقال کے مصنف سے بھی متاثر ہیں، جیسا کہ کتاب کی خصوصیات کے بیان میں یہ بات عنقریب واضح ہوجائے گی۔

اس کتاب میں شیخ حیدر حب اللہ کے بقول چار ہزار چار سو انانوے (4479) رواۃ کا ذکر ہے، جبکہ استرابادی کی کتاب میں چار ہزار چھبیس (4026) رواۃ تھے، کما مر۔ اسی طرح یہ کتاب شیخ استرابادی کی کتاب کی طرح رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے کسی خاص تقسیم کے بغیر محض مواد کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، اس لئے جرح و تعدیل کے اعتبار سے چنداں مفید نہیں ہے، رجالی تراث میں جس جس راوی کے بارے میں کوئی قول جرح یا تعدیل منقول ہے، تو مصنف نے بھی اسے نقل کیا ہے، ورنہ صرفِ نظر کیا ہے، مقالہ نگار نے اس کی پہلی جلد کا جرح و تعدیل کے اعتبار سے صفحہ بہ صفحہ جائزہ لیا، تو معلوم ہوا کہ پہلی جلد میں کل 282 راوی ذکر ہیں، جن میں 140 کے قریب رواۃ کے بارے میں توثیق یا تضعیف کا قول نقل کیا گیا ہے، اس سے باقی جلدوں کے رواۃ کی تقویم کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس کے ساتھ اس کتاب کی پہلی جلدوں میں رواۃ کا تذکرہ رجالی تراث سے جمع کرنے میں زیادہ بسط سے کام لیا گیا ہے، لیکن جوں جوں کتاب آگے بڑھتی ہے، رواۃ کے احوال اختصار میں تبدیل ہوتے گئے، یہاں تک کہ کتاب صرف فہرست میں تبدیل ہوئی ہے، چنانچہ پہلی جلد میں محض 282 رواۃ کا ذکر ہے، جبکہ آخری ساتویں جلد میں بارہ سو بیاسی (1282) رواۃ کا ذکر ہے، حالانکہ آخری جلد کے سو صفحات خاتمہ پر بھی مشتمل ہیں، جس میں بعض رجالی قواعدو مباحث ذکر کئے گئے ہیں۔


حواشی

  1. دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال، ص 272
  2. منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، استرابادی، ج1، ص179
  3. منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال، ج1ص304، رقم الترجمہ: 106
  4. دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 272
  5. نقد الرجال، سید تفرشی، ج1، ص 34
  6. دروس فی تاریخ علم الرجال، ص288
  7. الوجیزہ فی علم الرجال، محمد باقر مجلسی، ص 140
  8. الوجیزۃ: ص141
  9. منتہی المقال، ابو علی الحائری، ص19 تا 33، ج1
  10. دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 245-246

(جاری)

فکری شبہات کی دلدل اور اہل علم کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

دینی مدارس کے فضلاء جوں جوں اپنی تعلیم کی تکمیل کے مرحلہ کی طرف بڑھتے ہیں ان کے ذہن میں تذبذب اور شک کی کیفیت ابھرنے لگ جاتی ہے کہ اب آگے کرنا کیا ہے اور اپنے مستقبل کو کس شعبے سے وابستہ کرنا ہے؟ یہ بات بالکل درست ہے اور اس سلسلہ میں میری گزارش یہ ہوتی ہے کہ اساتذہ کو اپنے شاگردوں پر نظر رکھنی چاہیے اور جس شاگرد کو دینی و معاشرتی ماحول کے جس دائرے کے لیے زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اس ماحول میں اسے ایڈجسٹ کرنے کے لیے اس کی راہنمائی کرنی چاہیے۔

مگر میں شک اور تذبذب کے ایک دوسرے پہلو کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہوں گا جس نے ہماری نئی نسل کو ہر طرف سے گھیر رکھا ہے۔ اور یہ فکری شکوک و شبہات کا فتنہ ہے اور مغربی تہذیب و فلسفہ کی یلغار کا فتنہ ہے جس کے اثرات نئی نسل کے ذہنوں میں مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ہم اسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ کسی بھی قوم اور ملت میں باہر سے آنے والے فلسفے اور افکار ہمیشہ فکری خلفشار کا باعث بنتے ہیں، ان کا ہوش مندی کے ساتھ سامنا کر لیا جائے تو قومی روایات اور ملی اقدار کو بچایا جا سکتا ہے، جبکہ نظر انداز کر دینے یا بغیر سوچے سمجھے نمٹنے کے باعث قوم اپنی تہذیب و روایات سے محروم ہو جاتی ہے۔

ہمیں اپنے عقائد اور ایمانیات کے حوالہ سے پہلے بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کے ادوار کے بعد یونانی فلسفہ ہماری طرف منتقل ہونا شروع ہوا تھا اور اس نے ہمارے عقائد اور ایمانیات کے ماحول میں خلفشار پیدا کر دیا تھا۔ معتزلہ اور دیگر عقل پرست طبقوں نے شکوک و شبہات اور بے یقینی کا طوفان کھڑا کر رکھا تھا اور اس مہم کو عباسی دور میں سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہو گئی تھی۔ اس دور کے کلامی مسائل اور اعتقادی اختلافات پر ایک نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ وہ کم و بیش سب ہی یونانی فلسفہ کی پیداوار تھے جن کا اس دور کے علماء کرام نے سامنا کیا اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد و روایات کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دیا تھا۔ مگر اس کے دو الگ الگ دائرے تھے۔

معتزلہ وغیرہ کی فکری حشرسامانیوں کے مقابلہ میں روایت کے دائرہ میں حضرت امام احمد بن حنبلؒ سامنے آئے اور خلقِ قرآن کے مسئلہ پر عقل پرستوں کے موقف کو تسلیم کرنے سے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ قرآن و حدیث سے کوئی دلیل لاؤ گے تو تمہاری بات سنوں گا، اس کے بغیر کوئی بات قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اس انکار پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں اور کوڑے بھی کھائے مگر پوری استقامت اور عزیمت کے ساتھ اپنے موقف پر ڈٹ گئے۔ جس سے اس محاذ پر اہل سنت کو سرخروئی حاصل ہوئی۔

جبکہ اس کے ساتھ دوسرا دائرہ امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ کا بھی تھا جنہوں نے ان فکری فتنوں کا مقابلہ عقل اور درایت کے ہتھیاروں سے کیا۔ انہوں نے خود یونانی فلسفہ پر عبور حاصل کیا اور یونانی فلسفہ کی نفسیات اور زبان میں انہی کے دلائل سے عقل پرستوں کو لگام دی۔ چنانچہ یہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے کہ یونانی فلسفہ کی یلغار سے اہل سنت کے عقائد و روایات کو شکوک و شبہات کے جس طوفان کا سامنا کرنا پڑا تھا اس کا رخ موڑنے کے لیے روایت کے ماحول میں امام احمد بن حنبلؒ جبکہ درایت کی دنیا میں امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابومنصوری ماتریدیؒ نے علماء اہل سنت کی قیادت فرمائی۔

میں نے یہ صورتحال اس لیے عرض کی ہے کہ آج ہمیں بھی اسی قسم کی فکری یلغار کا سامنا مغربی فکر و فلسفہ کی طرف سے کرنا پڑ رہا ہے اور ہماری نئی نسل مغربی فلسفہ و تہذیب کے پھیلائے ہوئے شکوک و شبہات کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہے۔ میری اہل علم و دانش سے گزارش ہے کہ اس طرف اسی طرح کی سنجیدہ توجہ کی ضرورت ہے جس طرح یونانی فلسفہ کی دخل اندازی کے جواب میں امام احمد بن حنبلؒ، امام ابوالحسن اشعریؒ اور امام ابو منصور ماتریدیؒ نے جدوجہد کی تھی۔ جبکہ ہماری معروضی صورتحال یہ ہے کہ روایت کے ماحول میں تو بحمد اللہ کچھ نہ کچھ کام ہو رہا ہے اور ہمارے دینی مدارس قرآن و سنت کی تعلیمات کے فروغ و ارشادات کے ذریعے روایت کو مضبوط و مستحکم کرنے میں مسلسل مصروف ہیں مگر درایت کے ماحول میں وہ صورتحال ابھی تک سامنے نہیں آئی جس کی ضرورت ہے۔ جبکہ امت مسلمہ کی نئی نسل کو شکوک و شبہات کی دلدل سے نجات دلا کر ایمان و یقین کے ماحول میں واپس لانے کے سلسلہ میں یہ ہماری ذمہ داری بنتی ہے۔

اس کے لیے میں ایک عرصہ سے یہ آواز لگا رہا ہوں کہ امام احمد بن حنبلؒ کے ساتھ ساتھ ابو الحسن اشعریؒ اور ابو منصور ماتریدیؒ کی جدوجہد کو زندہ کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم مغربی فلسفہ و نظام کا پوری طرح ادراک کرتے ہوئے اسی کی فریکونسی، طرز استدلال، نفسیات اور زبان میں اس کا جرأت و حوصلہ کے ساتھ سامنا کریں اور اپنے عقائد و روایات کا تحفظ کریں۔ ہمارے ماحول کے طلبہ اور نوجوان اساتذہ خود اس کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ اس لیے شکوک و شبہات کے ماحول سے نمٹنے کے لیے نئی نسل بالخصوص طلبہ و اساتذہ کی راہنمائی آج کے دور کا سب سے اہم علمی و فکری تقاضہ ہے جس کی طرف ارباب علم و دانش کی سنجیدہ توجہ درکار ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مسجد کا ادارہ اور امام وخطیب کا کردار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کی سیرت چیئر کے زیراہتمام ۱۸ و ۱۹ جنوری ۲۰۲۲ء کو ائمہ و خطباء کے لیے دو روزہ تربیتی ورکشاپ کی افتتاحی نشست منعقدہ ۱۸ جنوری  میں کی گئی گفتگو کا خلاصہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عزت مآب وائس چانسلر صاحب! قابل صد احترام مہمان خصوصی اور معزز شرکاءِ محفل!

 اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے اس پروگرام میں شرکت میرے لیے اعزاز کی بات ہے اور اس سے اس عظیم ادارہ کے ساتھ پرانی نسبتیں بھی تازہ ہو رہی ہیں۔ اس کا پہلا دور جامعہ عباسیہ کے عنوان سے ہماری تاریخ کا حصہ ہے جس کی علمی و دینی خدمات ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں، بالخصوص حضرت علامہ غلام محمد گھوٹویؒ کا نام سامنے آتا ہے اور ختمِ نبوت کے تاریخی مقدمہ بہاولپور کے حوالہ سے حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور حضرت علامہ گھوٹویؒ کا تذکرہ نظر سے گزرتا ہے تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ اس کے بعد اس عظیم تعلیمی مرکز کا وہ دور بھی ہمارے سامنے ہے، جب اسے دینی و عصری تعلیمات کے امتزاج کا مرکز بنایا گیا اور اس نے جامعہ عباسیہ سے جامعہ اسلامیہ کا سفر طے کیا، جس میں ملک بڑی بڑی علمی شخصیات نے اسے اپنی جولانگاہ بنایا اور میرے جیسے کارکنوں کو یہ امید لگ گئی کہ دینی و عصری تعلیم کے درمیان جو تفریق برطانوی استعمار کے دور میں پیدا کر دی گئی تھی اسے ختم کر کے اس سے پہلے دور کی طرح دینی و عصری علوم کی یکساں تعلیم کا ماحول دوبارہ دیکھنے کو مل جائے گا، مگر یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا اور ہم آج اسی تعلیمی ادارہ میں اس سے مختلف ماحول میں کھڑے ہیں۔

میں تاریخ کا طالب علم ہوں اور اس کے حوالہ سے محترم وائس چانسلر صاحب کی موجودگی میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ میں آج بھی خود کو ذہنی طور پر اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کے اسی دور میں کھڑا دیکھتا ہوں جو جامعہ عباسیہ اور جامعہ اسلامیہ کے ملاپ کا دور تھا اور دینی و عصری تعلیمات کے امتزاج کا دور تھا۔ کیونکہ ہماری قومی تعلیم کی اصل ضرورت تعلیم کا وہی دور ہے، ہمیں آج پھر اس طرف واپس لوٹنا ہو گا، ورنہ ہم اس تفریق کو ختم نہیں کر پائیں گے جس نے ہمیں تقسیم کر رکھا ہے۔ میں اپنے موضوع کی طرف آنے سے قبل محترم وائس چانسلر صاحب سے یہ درخواست کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دور کی طرف واپسی کا راستہ نکالیے، ہم اس میں آپ کے ساتھ ہیں اور اس کو موجودہ حالات میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی تعلیمی ضروریات کا اصل حل سمجھتے ہیں۔

پہلے تو مسجد کی بات کر لیں کہ ہمارے معاشرے میں مسجد کی حیثیت کیا ہے؟ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ مسجد مسلم معاشرہ میں دل کی حیثیت رکھتی ہے جبکہ مدرسہ کو دماغ کا مقام حاصل ہے۔ مسجد مسلم سوسائٹی کا اعصابی مرکز ہے اور مسلم آبادی کا زیرو پوائنٹ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین میں انسان کی آبادی کا آغاز بیت اللہ کے قیام سے کیا تھا ’’ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا‘‘ میں اس کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ مکرمہ کے جبر کے ماحول سے نکل کر آزاد ماحول میں قدم رکھا تو قبا کے چند روزہ قیام میں بھی پہلے مسجد بنائی۔ اور پھر مدینہ منورہ میں قیام کیا تو وہاں بھی اپنے گھروں سے پہلے مسجد کی تعمیر کا اہتمام فرمایا۔ اس لیے مسجد مسلم آبادی میں زیرو پوائنٹ ہے اور اعصابی مرکز ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز مسجد ہی ہے اور اسی سے مسلم آبادی کا آغاز ہوتا ہے۔

مسجد کے اعمال کا دائرہ بہت وسیع ہے جن میں سے عبادت، وعظ و نصیحت، اور تعلیم و تدریس کا ماحول تو آج بھی قائم ہے۔ مگر مسجد کے بہت سے اعمال آج متروک ہو چکے ہیں جنہیں دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے، ان میں سے دو کی طرف آج کی محفل میں توجہ دلانا چاہوں گا۔

جہاں تک فقہی اختلافات اور ائمہ مساجد کے رویہ کا معاملہ ہے تو اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ زیادہ تر اختلافات فقہی دائرہ کے ہوتے ہیں جن کے بارے میں یہ بات مسلّمہ ہے کہ فقہی اختلاف اسلام اور کفر یا حق و باطل کے دائرہ کا نہیں ہوتا بلکہ اس کا دائرہ خطا اور صواب کا ہوتا ہے۔ فقہی مسائل میں اگر ہم ایک امام کے قول پر عمل کرتے ہیں تو ’’صواب یحتمل الخطاء‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ اور کسی امام کے قول پر عمل نہیں کرتے تو ’’خطاء یحتمل الصواب‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ فقہی اختلاف حق و باطل کا نہیں بلکہ صواب و خطا کا اختلاف ہوتا ہے۔ اگر ہم اس اصول کو سمجھ لیں اور اس کی پاسداری کا اہتمام کر لیں تو بہت سے جھگڑے پیدا ہی نہ ہوں۔

اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ آج کے دور میں ہماری نوجوان نسل میں دینی تعلیمات سے بے خبری اور مغربی میڈیا کی فکری یلغار کی وجہ سے جو شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، ان کی طرف سنجیدہ توجہ دینا امام و خطیب کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس لیے اپنے ماحول کے نوجوانوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے باخبر کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے ذہنوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو محبت و پیار اور دلیل اور استدلال کے ساتھ صاف کرنے کی ضرورت ہے اور مساجد کے ائمہ و خطباء کو اس کی تیاری اور اہتمام کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں صحیح طور پر سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

بانجھ مزرعۃ الآخرہ سے مولانا سنبھلی کی رحلت

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

ہزار سالہ تہذیب اسلامی کے بوجھ تلے دبی، سسکتی اور نالہ کناں دلی نے 23 جنوری2022 کوایک اور تناور اور شجر سایہ دار اپنی خمیدہ کمر سے اتار کر حوالہ مرقد کردیا۔ نہ ہوئے اپنے ملا واحدی کہ زوجات ثلاثہ کے شوہر نامدار ہو کر بھی عاشق صادق جیسی تہمت حسنہ کے سزاوار ہوئے بھی تو اس عروس البلاد دلی کے جو بقیۃ السلف کو لپڑ  لپڑ کھا رہی ہے کہ اس کی جوع البقر ہل من مزید کے وظیفے پڑھے جا رہی ہے۔ اب  کھانے کو  رہ ہی کیا گیا ہے؟ ادب آداب سے کچھ استثناء مانگ کر ورنہ اپنے قبلہ گاہی ملا واحدی سے میں ضرور پوچھتا کہ اپ خود تو یہاں کراچی میں ایک دو نہیں، نو ادبی جرائد کی جولان گاہ آباد کر کے ٹھسے سے بیٹھ گئے ہو اور ہم واہگہ سے ادھر کے بھولے بھالے ناشناسان دلی کو زندگی بھر سیر بھی کرائی آپ نے تو سبز باغوں کی۔ دوسرے بھلے مانس اشرف صبوحی لاہور میں دم سادھے بیٹھ گئے. عاشق صادق  تو وہ بھی مرتے دم تک اسی عروس البلاد ہی کے رہے، پر انہوں نے ملا واحدی جیسا غل نہیں مچایا۔ رہے تیسرے امیدوار دلی خواجہ حسن نظامی ! تو تقسیم ہند سے پیدا شدہ وامق و عذرا کی اس عاشقی معشوقی کے جڑ پکڑنے سے پہلے ہی وہ 1955 میں چرخ نیلی فام کے ادھر کہیں  محمل نشیں ہو کر رہ گئے۔

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بھی گئے، نور اللہ مرقدہٗ۔ میری نہ تو ان سے کبھی کوئی ملاقات ہوئی, نہ مجھے ان سے خط و کتابت کا اعزاز ملا۔ بس ان کی تحریروں کی اسیری کا اعزازی طوق گلے میں لٹکائے یوں پھر رہا ہوں کہ رازداران اساطیری ادب کہتے ہیں کہ زنگ آلود لوہا سنگ پارس سے مس ہو جائے تو  سونا بن جاتا ہے۔  پس لکھوں تو کیا؟ لیکن میلان سہل پسند  ہو اور ہو بھی بصورت شکرخورہ ہو تو شکر ادھر ادھر کہیں سے مل ہی جاتی ہے۔ عرب کہتے ہیں، تعرف الاشیاء باضدادہا، "چیزیں اپنی شناخت اپنی ضد سے کراتی ہیں۔" چیزوں کو علی الاطلاق لوگے تو ان میں مولانا محترم جیسے انفس متبرکہ بھی آ جاتے ہیں۔ اتنا کہے دیتا ہوں کہ لگ بھگ اڑھائی  عشرے تک مولانا محترم اور میرے چچا مرحوم، ملک خداداد ہم جلیس، ہم نوالہ و ہم پیالہ و ہم دوش رہے۔ 25 سالہ باہمی برطانوی قربت کے بعد اگلے تیس سال چچا نے تو پاکستان میں گزارے۔مولانا البتہ اس آخری حصے میں برطانیہ میں تو رہے لیکن سال میں تین چار ماہ کے لیے ہندوستان آتے جاتے رہے۔ عمر کے آخری حصے میں یہ سلسلہ موقوف کرکے وہ مستقلاً ہندوستان ہی میں رہے۔ یوں یہ دونوں اللہ والے پچاس پچپن سال تک یک جان و دو قالب رہے پچھتر سال سے صبح شام باہم خوخیاتے ان کے دو متحارب ملکوں --- ہندوستان ، پاکستان--- کی ایٹمی توانائی بھی اس تعلق خاطر میں ہلکا سا ضعف نہ پیدا کر سکی۔ تو عرصہ رفاقت کتنا رہا؟ دو چار برس کی بات نہیں، یہ نصف صدی سے بھی متجاوز ہے, ہاں جی ! مجھے تو ہمیشہ  کچھ یوں لگتا رہا کہ میرا ایک اور چچا، یا شاید تایا،ادھر کہیں دلی لکھنؤ میں بھی موجود ہے۔

یادش بخیر ! مدت مدید کی رفاقت کے بعد ایک دن رواروی میں اپنے یہاں کے مولانا زاہدالراشدی محترم کو بتا بیٹھا: "حضور ! آپ سے ایک تعارف اور بھی نکلتا پڑتا ہے"۔مستفسرانہ سکوت مولانا موصوف کا بجائے خود ایک تعارف ہے۔عرض کیا: "آپ سے گاہے ماہے  ملک خداداد صاحب کا ذکر اذکار سنتا رہتا ہوں اور ایسا ہی کچھ ان سے آپ کی بابت بھی ملتا رہتا ہے۔" مولانا مسکرائے، پھر بولے: "تو پھر؟ آگے چلو!" عرض کیا: " ملک صاحب میرے حقیقی چچا ہیں۔" مولانا راشدی ذرا دیر صامت رہے، پھر بولے بھی تو یوں : "تو گویا اب مجھے آپ سے بھی ڈرنا پڑا کرے گا۔ صاحب ! آپ کے چچا تو بڑے خوفناک شخص ہیں. بابا ! ہم تو ان سے بہت ڈرتے ہیں." قارئین کرام !  منجملہ دیگر اضداد کے، مولانا مرحوم کی اسی ایک ضد الموسوم بہ، ملک خداداد ہی سے اندازہ کر لیجئے کہ وہ لگ بھگ اڑھائی عشرے ہمدم دیرینہ رہے بھی تو کیسے خوفناک شخص کے۔  کیوں؟ وجہ؟

وجہ کا ذکر تو آگے چل کر ہوگا۔ لیکن بروایت عبدالسلام اتنا ضرور بتائے دیتا ہوں کہ مولانا مرحوم خود بھی کچھ کم "خوفناک" نہیں تھے. نوے کی دہائی میں دونوں کے ایک اور ہمدم دیرینہ کے ساتھ چچا کی کچھ شکر رنجی سی ہوئی۔معاملے کو سلجھانے کے لیے چچا نے اس دوست کو خط لکھ کر عبدالسلام کے حوالے کیا کہ جاؤ مولانا کو دے آؤ تا کہ وہ اسے پہنچا دیں۔ خط کھلا ہوا تھا کہ دینے سے پہلے مولانا خود پڑھ لیں۔ تحریر کی شدت چچا کی افتاد طبع کی شاہکار تھی، پڑھتے ہی مولانا برافروختہ ہو گئے۔ ہاتھ نچا کر ان الفاظ کے ساتھ خط واپس عبدالسلام کے حوالے کردیا۔ " ابا سے کہہ دو، میں تمہارا ڈاکیا نہیں ہوں". عبدالسلام ہی سے مروی ہے کہ  مولانا کے اس عادلانہ جواب کے باعث ڈیڈی خفا ہونے کی بجائے ان کا زیادہ احترام کرنے لگ گئے۔

 کسی بزرگ نے اپنے ملفوظات میں لکھا ہے کہ مسجد کے باہر لنگڑے فقیر کے پاس بیٹھے کوے کو دیکھ کر میرا استعجاب دو چند ہو گیا۔ ٹوہ لگانے کو قریب جانے کی کوشش کی تو بزرگوارم پر واضح ہوا کہ کوے کی ایک ہی ٹانگ تھی اور یہی لنگڑے فقیر اور ایک ٹانگ والے کوے کا اشتراک زیست تھا۔

مولانا فاضل دیوبند اور ایک از قسم منارہ نور علمی خانوادے میں سے تھے۔ ادھر چچا خدا داد راولپنڈی کی چٹیل اور سنگلاخ زمین میں رہ کر کچھ کر سکے تو ایک مشہور زمانہ شعر کے مصرعے کے مصداق بس بی اے ہی کیا۔ (بد) گمان غالب ہے کہ پھر کہیں سے اکبر الہ آبادی کا وہ والا شعر پورا سنا پڑھا ہوگا۔ چنانچہ خفا ہو کر، تہیہ کر کے نہ تو نوکر ہوئے، نہ پینشن پائی:

ہم کیا کہیں، احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پنشن ملی اور مر گئے

قرآن وسنت کی الہامی راہنمائی کو عام کرنے کی خاطر ادھر کا وہ فاضل دیوبند فقیر اور ادھر کا یہ محض گریجویٹ کوا، دونوں مسجد کے باہر بیٹھے ہیجان کا شکار رہتے تھے۔  اضداد کو تو رکھئے ایک طرف ،یہی دونوں کا نقطہ اتصال تھا، یہی ان کی قدر مشترک تھی۔مولانا مرحوم 1967 میں برطانیہ پہنچے تو چچا کو وہاں لگ بھگ سات سال ہو چکے تھے، چچا نے برطانیہ میں اور کچھ کیا یا نہیں ، اپنے گھر کو انہوں نے پاک و ہند کا ایک ننھا سا مرکز اسلامی ضرور بنا ڈالا۔ وہیں مولانا محترم اور مرحوم چچا طویل عرصہ تک دعوت اسلامی کے نت نئے منصوبے بناتے رہے تھے۔ الحمدللہ،  آج برطانیہ کے طول و عرض میں قائم مساجد اور مراکز اسلامی گننے میں ختم نہیں ہوتے لیکن ساٹھ کی دہائی میں کسی چھوٹے سے مصلے کے لیے مؤذن تک نہیں ملتا تھا۔ اس عالم میں بھی چچا نے میرے عم زاد عبدالسلام کو قرآن حفظ کرایا۔

اب یہ سمجھنا میرے لیے خاصا مشکل ہے کہ وہ کثیر العیال شخص برطانیہ کے ناپے تولے محدود سے وقت میں یہ سب کچھ کیسے کرتا رہا۔ ابھی پار سال 2020 میں ان کی رحلت سے ذرا قبل ملاقات ہوئی تو کمر پکڑے اذیت گزیدگی کی حالت میں بھی حسب معمول وہ کمپیوٹر پر بیٹھے معاون کو ہدایات دے رہے تھے کہ یہ اسلامی خط و کتابت کورس ان خطوط پر شروع کرو، اسے یوں لکھو، یہ کتاب فلاں کو بھیجو۔ میرے پاس ثبوت تو نہیں، پر گمان یہی ہے کہ محض گریجویٹ چچا کی اس اسلامی بیٹری کو انگیخت کرنے میں مولانا محترم کا بھی بڑا حصہ رہا ہو گا۔ میرے لیے یہ جاننا خوشی اور سعادت کا باعث ہے کہ برطانیہ سے چچا کے پاکستان آ جانے پر عبدالسلام اور ان کی نصف بہتر، میری سب سے چھوٹی بہن دونوں کا مولانا محترم سے تعلق، مولانا زاہد الراشدی والے "خوفناک" تعلق سے دھندلا کر نیاز مندانہ پیرائے میں ڈھل گیا۔ یہ تعلق مولانا کے تادمِ رحلت، پہلے سے بہتر خطوط پر قائم رہا۔

مرحوم مولانا محترم کے مالی اثاثہ جات کا تو مجھے کچھ علم نہیں، لیکن ان کے علمی اثاثہ جات لپیٹ کر ایک طرف رکھ دوں تو بھی امید مستحکم ہے کہ چھ مجلدات کی محفل قرآن ہی ان کی نجات کے لئے کافی ہے۔ باقی رہیں دیگر تحریریں اور الفرقان وغیرہ، تو ممکن ہے، یہ کچھ انہیں وہاں، ادھر جنت میں، محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب دلانے میں معاون ثابت ہو، آپ یقیناً اتفاق کریں گے؟ پرسوں پرلے سال علی گڑھ سے برادر بزرگ ڈاکٹر یاسین مظہر صدیقی، ہائے ہائے ! اب مرحوم، ادھر پاکستان آئے تو میں نے انہیں برصغیر کی چھ آٹھ معروف تفاسیر اور مفسرین کے نام سنا کر استفسار کیا: "ڈاکٹر صاحب پاک و ہند میں ان کے بعد اردو میں کیا کوئی نئی تفسیر لکھی جا رہی ہے؟ اگر ہاں تو کون کون لوگ لکھ رہے ہیں اور ان کی جہت کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب ڈبڈباتی آنکھوں سے مجھے تھوڑی دیر تکتے رہے, پھر بات کا رخ بدل دیا۔ صاحبو ! مولانا محترم ہمارے حصے کا فرض کفایہ ادا کر کے رخصت ہوگئے۔ وہ تاریخ انسانی کے اس زوال ناک عہد میں رخصت ہوئے کہ جب ہماری یہ مزرعۃ الآخرہ بانجھ ہو چکی ہے ( الدنیا مزرعۃ الآخرۃ، حدیث ہے جس کا ترجمہ ہے، دنیا آخرت کی کھیتی ہے)۔

 تفسیر، حدیث، ادب، افسانہ، ڈراما، اصول تاریخ، موسیقی، ریاضی، فلسفہ، کسی شعبے میں کوئی جدت، کوئی تخلیق، کوئی ندرت، کوئی صدائے حرف کاف و نون، بدر کامل نہ سہی ادھورا سا ماہ نخشب ہی سہی، یا کوئی ظہور برج طالع ولادت دیکھنے، سننے، پڑھنے کو ملتا تو میں آخرت کی اس بانجھ کھیتی کو نخلستان و گلستان کہہ گزرتا۔ مولانا محترم تو اس حیات ناپائیدار میں ہمیں اتنا کچھ دے کر، اور خود وتنا کچھ سمیٹ کر رخصت ہوئے کہ جنت کے کسی مفروضہ یا موہومہ جاڑے میں در بند ہو کر بھی اصحاب کہف کے مثل، لیکن کھلی آنکھوں، مدت گزار سکتے ہیں۔ رنجیدگی، حزن ، ملال، تاسف، افسوس، آزردگی اور دیگر مماثل جذبے خالق کائنات نے انسان کی نیو میں ڈال رکھے ہیں۔ ان سے برات نہ تو مولانا کے اپنے اہل خانہ کو مل سکتی ہے اور نہ ہم جیسے دیگر متعلقین ان سے پنڈ چھڑا سکتے ہیں۔ میرے اپنے لئے تو یہ حزن یوں دو چند ہے کہ اتنی فکری ہم آہنگی کے باوجود ان سے کوئی ملاقات ممکن نہ ہو سکی۔ رہی مولانا کی رحلت تو پیغمبروں سے زیادہ اللہ میاں کا کوئی چہیتا نہیں ہوتا۔ چنانچہ آئیے !مولانا کی رحلت کو ہم سب مل کر بزبان امیر مینائی یوں بیان کرتے ہیں:

فنا کیسی، بقا کیسی جب اس کے آشنا ٹھہرے
کبھی اس گھر میں آ نکلے، کبھی اس گھر میں جا ٹھہرے

قید حلقہ ہائے زنجیر صبح و شام سے نجات پانے والا وہ ہم سب کا چہیتا, وہ ہمارا مولانا محترم, جب وہ اس اسیری سے اپنا بند قبا چھڑا کر اور ارضی زندان سے نکل کر اپنے آشنا کے بے ثغور و بےکراں آسمانی چوبارے میں جا بیٹھا تو صاحب ! مجھے تو حزن کے پہلو بہ پہلو کچھ رشک سا بھی ہو رہا ہے۔خدا لگتی کہیے ! کسی جدت, کسی تخلیق, کسی ندرت, کسی صدائے حرف کاف و نون سے خالی یہ مزرعۃ الاخرہ کیا ہمارے  آپ کے رہنے کے لائق رہ گئی ہے؟ بہر زمین کہ رسیدم آسمان پیدا است۔ اتنی صحرا نوردی کے بعد وسیع تاکستان نہ سہی، کہیں ننھا سا تمرھندی ہی نظر آ جاتا۔ ان معنوں میں تو مولانا واقعی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ الا ! اس بانجھ مزرعۃ الآخرہ  سے خالق کائنات اپنے تمام چہیتے احسن تقویم تیزی سے سمیٹ رہا ہے۔ و اخرجت الارض اثقالہا، صاحبو ! مجھ میں تو مالہا کہنے کا بھی یارا نہیں ہے۔

بچے کو گود دینا، مادہ تولید کی سپردگی اور کرایے کی کوکھ (Surrogacy)

ڈاکٹر عرفان شہزاد

اپنے والدین سے پرورش پانا، بچے کابنیادی اور فطری حق ہے۔

والدین کا اپنی اولاد کسی دوسرے کی گود بھرنے کے لیے اس کے سپرد کر دینا بچے کے بنیادی حقوق کے خلاف مجرمانہ اور سنگدلانہ اقدام ہے۔ انھیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ بچے کو اپنی ممتا اور شفقتِ پدری سے محروم کر دیں۔ بچہ اوّل و آخر اُنھیں کی ذمہ داری ہے۔ بچے کو دنیا میں لانے کا فیصلہ انھیں اسی وقت کرنا چاہیے جب وہ اس کی ذمہ داری کو خود نبھانے کا ارادہ اور استطاعت رکھتے ہوں۔بچے کو کسی دوسرے کے حوالے سوائے اس مجبوری کے نہیں کیا جا سکتا کہ والدین دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں، یا  وہ بچےکو پالنے کے قابل نہیں رہے۔

اس کے باوجود بچے سے اس کے حقیقی والدین کی شناخت چھینی نہیں جا سکتی۔ یہ اس کا بنیادی حق ہے۔ اس سے اس کا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ یہی دین کا حکم ہے۔

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ‏ ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (القرآن، 33: 4-5)

اور (خدانے) نہ تمھارے منہ بولے بیٹوں کو تمھارا بیٹا بنادیا ہے۔ یہ سب تمھارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، مگر اللہ حق کہتا ہے اور وہی سیدھی راہ دکھاتا ہے۔ تم منہ بولے بیٹوں کو اُن کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔ یہی اللہ کے نزدیک زیادہ قرین انصاف ہے۔ پھر اگر اُن کے باپوں کا تم کو پتا نہ ہو تو وہ تمھارے دینی بھائی اور تمھارے حلیف ہیں۔ تم سے جو غلطی اِس معاملے میں ہوئی ہے، اُس کے لیے تو تم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔

والدین، بچے کی شخصیت اور پرداخت میں صرف اتنا ہی تصرُّف کر سکتے ہیں جو بچے کے حق میں ہو، اس کے خلاف کسی تصرُّف کا انھیں کوئی حق نہیں۔ جس طرح وہ بچےکو قتل نہیں کر سکتے، اسے بیچ نہیں سکتے، اسی طرح وہ اسے اپنی ممتا اور شفقت سے محروم کر کے کسی دوسرے کے حوالے بھی نہیں کر سکتے۔

یہ کوئی ایثار نہیں کہ اپنے کسی عزیز کی خالی گود بھرنے کے لیے اپنے جگر کا ٹکڑا اسکے حوالے کر دیا جائے۔ ایثار اپنی ذات کے حوالے سے کیا جاتا ہے، اپنا حق چھوڑا جاتا ہے، کسی دوسرے کا حق تلف کرکے کسی کا بھلا نہیں کیا جاتا۔

لے پالک بچے کو جب یہ علم ہوتا ہے کہ جن کو وہ اپنے حقیقی والدین سمجھتا رہا ہے وہ اس کے حقیقی والدین نہیں، اس کے حقیقی والدین کوئی اور ہیں، تو اس کی دنیا اُتھل پُتھل ہو جاتی ہے۔ پھر جب وہ یہ باور کرتا ہے کہ اسے گویا ایک "زائد شے" سمجھ کر کسی کا دل بہلانے یا اس کی تنہائی دور کرنے کے لیے اس کے سپرد کر دیا گیا تھا، تو  اسے اپنی توہین کا احساس ہوتا ہے جو اس کی شخصیت کو دیمک کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔

یہاں مریم علیھا السلام کی والدہ کا مریم علیھا السلام کی پیدایش سے پہلے انھیں خدا کے نام پروقف کردینے کے واقعے1 سے یہ استدلال نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو بچوں کے کیرئیر کے انتخاب اور انھیں کسی دوسرے کے سپرد کر دینے کا حق حاصل ہے۔ درحقیقت، یہ مادرِ مریم کی طرف سے اپنی خواہش کا اظہار تھا کہ وہ انھیں دین کی خدمت اور خداکے نام پر وقف کرنا چاہتی تھیں۔ مگر  مریم علیھا السلام پر لازم نہ تھا کہ شعور کی عمر کو پہنچ کر وہ اس کی پابند رہتیں، ایسے ہی جیسے بچپن کے نکاح کی پابندی شعور اور بلوغت کے بعد واجب نہیں ہوتی۔ یہ اور بات ہے کہ مریم علیھا السلام کی اپنی طبیعت بھی اسی طرف مائل رہی اور والدہ کی خواہش پوری ہوئی۔

 پھر یوں نہیں ہوا کہ ان کے پیدا ہوتے ہی انھیں دین کے خدّام کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ یقیناًیہ اقدام ان کی شعوری عمر کے بعد ہی کیا گیا ہوگا۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں، مگر اصولی طور پر اس کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو خدا کے لیے ذبح کر رہے ہیں تو انھوں نے اس پر، بلا کسی تاویل کے، عمل کرنے سے پہلے اپنے بیٹے کی راے لی تھی، اور بیٹے کی رضامندی کے بعد ہی اقدام کیا تھا۔

اللہ تعالی نے اپنی حکمت اور رحمت کی بنا پر مریم علیھا السلام کی والدہ کی اس خواہش کو قبول کیا، مگر یہ کوئی قاعدہ نہ تھا جس کا التزام ضروری تھا۔ چنانچہ اس واقعہ سے کوئی عمومی اصول وضع نہیں کیا جا سکتا کہ والدین کو بچوں کے کیرئیر یا انھیں دوسروں کے حوالے کردینے کا اختیار ہے۔ تاہم، بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ایسا کوئی فیصلہ اگر کرنا ہی پڑے تو یہ تب ہی کیا جا سکتا ہے جب بچے باشعور ہوں اور ان کی رضامندی اس میں شامل ہو۔

بے سہارا بچوں کا معاملہ الگ ہے، انھیں گود لینا ایک نیکی کا کام ہے، مگر اس میں بھی انسانی نفسیات اور جذبات کے مذکورہ بالا پہلوؤں کا لحاظ رکھتے ہوئے، خداوندِ عالم نے یہ لازم قرار دیا ہے کہ بچوں کو ان کے حقیقی باپ کے نام سے، ان کی اصل شناخت ہی سے پکارا جائے۔ باپ اگر نامعلوم ہو، تو انھیں دینی بھائی قرار دیا گیا ہے، لیکن ان کی ولدیت کسی صورت تبدیل نہیں کی جا سکتی2، یہ ایک جھوٹ ہے، جسے گورار نہیں کیا جا سکتا۔

بچے کی جینیاتی شناخت کی حفاظت اور بچے کی نگہداشت میں والدین کی مکمل توجہ میں خلل اندازی سے بچانے کے لیے شریعت میں زنا کو حرام ٹھہرایا گیا ہے، تاکہ والدین کی توجہ اپنے گھرانے باہر نہ بھٹکے۔

جنسی تعلق کی حرمت محض اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس سے میاں اور بیوی کا حق تلف ہوتا ہے، بلکہ اصلاً اس لیے ہے کہ اس سے بچوں کا حق تلف ہوتا ہے: ان بچوں کا حق بھی تلف ہوتا ہے جو جائز تعلق سے وجود میں آئے اور ان کا باپ یا ماں یا دونوں اپنی جنسی آزاد روی کی وجہ سے گھرپر توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے، اور ان بچوں کا حق بھی تلف ہوتا ہے جو زنا کے تعلق سے وجود میں آئے اور انھیں والدین کی مکمل اور مستقل توجہ اور احساس ذمہ داری میسر نہیں، کیونکہ اس ماں اور باپ کے درمیان مستقل رفاقت کے ارادے سے باندھا گیا معاہدہ (نکاح) نہیں ہے۔

اسی بنا پر مستقل رفاقت کے ارادے کی شق کے بغیر کوئی نکاح، درحقیقت نکاح ہی نہیں، کیونکہ اس میں ممکنہ طورپر وجود پذیر ہونے والے بچوں کو ماں اور باپ دونوں کی باہمی پرورش میسر نہیں ہوتی۔ نکاحِ متعہ کی حرمت کی حقیقت یہی ہے۔

تاہم، بچوں کی پیدائش کے امکان کو اگر معدوم کر لیا گیا ہو تو بھی ایسا نکاح جائز نہیں، اس لیے کہ اِنھیں مرد و و عورت نے کبھی نہ کبھی کسی مستقل رفاقت کے ارادے سے نکاح کرنا اور اولاد پیدا کرنی ہے۔اس لیے اس سے پہلے اس آزاد روی کی اجازت نہیں دی جاسکتی جسے بعد میں بدلنا مشکل ہو جائے یا میاں اور بیوی کے خالص تعلق پر وہ کسی بھی پہلو سے اثر انداز ہو سکے۔

خاندان اور اولاد کی فطری ضرورت اور خواہش سے لوگ عام طور پر عاری نہیں ہوسکتے۔ مستثنیات، جو عیال داری سے آزاد رہنا چاہتے ہیں، زیرِ بحث نہیں۔ عمومی قوانین مستنثیات کو مد نظر رکھ کر نہیں بنائے جاتے، مگر ان پر بھی عمومی قوانین کی پابندی کرنا لازم ہوتا ہے۔ پھر یہ بھی طے نہیں کہ ایک شخص جو اس وقت بچوں کی خواہش نہیں رکھتا،  جانے کب اپنا ارادہ تبدیل کر لے۔

اسی لیے شادی کے بعد جو جنسی تعلق مستقل رفاقت کے ارادے سے اپنائے گئے شریک حیات سے ماورا ممنوع ہے، وہ شادی سے پہلے بھی ممنوع رہناضروری ہے۔

اسی اصول پر مادہ تولید کا عطیہ یا سپردگی (سپرم اور ایگ ڈونیشن) کا مسئلہ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نکاح کا مطلب محض جنسی تعلق کو جواز فراہم کرنا نہیں ہے، یہ عقدِ نکاح اس تعلق کے نتیجے میں وجود میں آنے والے بچوں کی پرورش اور اس سے پیدا ہونے والے جذباتی تعلق کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے باندھا جاتا ہے۔ مرد اور عورت کے درمیان اگر مستقل رفاقت کے ارادے سے باندھا گیا رشتہءِ نکاح نہیں ہے، تو ان کے مادہ تولید کے امتزاج سے بچہ حاصل کر کے ان میں سے کسی ایک یا کسی تیسرےکے حوالے کرنا، بچے کو اس کے حقیقی والد یا والدہ یا دونوں سے محروم کرنا ہے۔

یہی صورتحال زنا میں پیش آتی ہے کہ اس تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو باپ یا ماں اور باپ دونوں کی مستقل اور مکمل توجہ اور ذمہ داری میسر نہیں آسکتی۔ اس سے بچے کی حق تلفی ہوتی ہے، جس کا اختیار کسی کو نہیں۔ ایسے بچوں کی ادارہ جاتی یا سرکاری سرپرستی والدین کی پرورش کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ جس سبب سے زنا حرام ہے، مادہ تولید کی سپردگی بھی حرام قرارپاتی ہے۔

نطفے اور بیضے کا عطیہ اعضا کے عطیے جیسا نہیں۔ نطفہ اور بیضہ انسانی وجود کے تشکیلی عناصر ہیں۔ ان سے پورا انسان وجود میں آتا ہے۔ یہ درحقیقت ایک انسان کو عطیہ کرنے کا معاملہ ہے، جس نے باشعور ہونا ہے۔ ایک انسان کو عطیہ کرنے کا اختیار کسی دوسرے انسان کو نہیں ہے، خواہ وہ اس کا والد یاوالدہ ہی ہو۔

اسی بنا پر اسقاطِ حمل کا مطلق اور مکمل اختیار بھی والدین کو ہے، نہ حاملہ کو کہ وہ جب چاہے حمل ختم کر سکے۔ حمل نے اگر انسانی وجود اختیار کر لیا ہے تو اب بلا کسی معقول عذر3 کے اس کا خاتمہ، انسان کا قتل ہے۔ اور ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے۔ قرآن مجید میں بتایا گیا ہےکہ جنین میں انسانی شخصیت کے ظہور کا مرحلہ مذکور ہوا ہے جو جنین کی نشوونما کے دوران میں کچھ وقت کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے:

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَةٍ مِّن طِينٍ ‎‏ ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ ‎ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ (القرآن، 23: 12-15)

ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا تھا۔ پھر اُس کو (آگے کے لیے) ہم نے پانی کی ایک (ٹپکی ہوئی) بوند بنا کر ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھ دیا۔ پھر پانی کی اُس بوند کو ہم نے ایک لوتھڑے کی صورت دی اور لوتھڑے کو گوشت کی ایک بندھی ہوئی بوٹی بنایا اور اُس بوٹی کی ہڈیاں پیدا کیں اور ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا۔ پھر ہم نے اُس کو ایک دوسری ہی مخلوق بنا کھڑا کیا۔ سو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ، بہترین پیدا کرنے والا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس کے بعد تم کو لازماً مرنا ہے۔ پھر یہ کہ قیامت کے دن تم لازماً اٹھائے بھی جاؤ گے۔

"أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ" سے یہی مرحلہ مراد ہے جب جنین کا حیوانی وجود انسانی شخصیت حاصل کرتا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ سے مروی ہے کہ یہ مرحلہ رحم مادر میں نطفے کے تقرر سے 120 دن کے بعد آتا ہے4۔

اس حیوانی وجود کا اسقاط بھی کسی عذر کی بنا ہی پر جائز ہو سکتا ہے، مگر انسانی شخصیت اختیار کر لینے کے بعد اس کی حرمت میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ اسقاطِ حمل کا فیصلہ والدین کو پوری دیانت داری، خدا خوفی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے ساتھ کرنا چاہیے۔

میاں اور بیوی کے مادہ تولید سے زائی گوٹ بنا کر، ادھار کی کوکھ (سروگیسی) میں رکھ کر بچہ حاصل کرنا، جسے اس کے حقیقی ماں باپ کا نام اور گود ملے گی، اسے رضاعت پر قیاس کرتے ہوئے درست قرار دیا جا سکتا ہے: جس طرح رضاعی ماں کے دودھ سے بچے کی پرورش ہوتی ہے، اس معاملے میں یہ پرورش اس کے خون سے ہوتی ہے۔ رضاعی ماں ہی کی طرح سروگیٹ ماں اور اس کے خونی رشتے، بچے کے لیے رضاعی محرم ہو جائیں گے۔ رہا معاملہ سروگیٹ ماں کے بچے کے ساتھ جذباتی تعلق کا، تو وہ تعلق رضاعت میں بھی پایا جاتا ہے۔ اس مسئلے کا حل انسان کو نکالنا ہے۔ اسی پر مزید قیاس کرتے ہوئے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ رضاعت کی اجرت کی طرح سروگیسی کی اجرت لینا بھی درست ہے۔

 تاہم یہ کرنا چاہیے یا نہیں، اس کا فیصلہ فرد اور سماج کو کرنا ہے۔


حواشی

(1) إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَانَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ‎فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنثَىٰ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالْأُنثَىٰ ۖ وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّي أُعِيذُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ ‎فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا (القرآن، 3: 35-36)
اِنھیں یاددلاؤ وہ واقعہ جب عمران کی بیوی نے دعا کی کہ پروردگار، یہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے، اُس کو میں نے ہرذمہ داری سے آزاد کرکے تیری نذر کردیا ہے۔سوتو میری طرف سے اِس کو قبول فرما، بے شک توہی سمیع و علیم ہے۔ پھر جب اُس نے اُس کو جنا تو بولی کہ پروردگار، یہ تو میں نے لڑکی جن دی ہے ـــــ اور جو کچھ اُس نے جنا تھا، اللہ کو اُس کا خوب پتا تھا ـــــــــــــــــ اور (بولی کہ ) وہ لڑکا اِس لڑکی کی طرح نہ [814] ہوتا۔ (خیر اب یہی ہے ) اور میں نے اِس کا نام مریم رکھ دیا ہے اوراِس کو اور اِس کی اولاد کو میں شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ (اُس کے احساسات یہی تھے)، تاہم اُس کے پروردگارنے اُس لڑکی کو بڑی خوشی کے ساتھ قبول فرمایا اور نہایت عمدہ طریقے سے پروان چڑھایا اور زکریا کو اُس کا سرپرست بنادیا۔
(2) القرآن، 33: 4-5

(3) مثلا حاملہ کی جان کو اس سے شدید خطرہ لاحق ہو۔

(4) عَنْ عَبْدِ الله، قَالَ حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ‏: «‏إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً ۲مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ (صحیح بخاری،رقم :6133)

عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے بیان کیا ــــــ اور آپ صادق بھی تھے اور مصدوق بھی ــــــ آپ نے فرمایا:یہ حقیقت ہے کہ تم میں سے ہر آدمی کی خِلقت اُس کی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی صورت میں جمع رہتی ہے۔ پھر اتنی ہی مدت میں لہو کی پھٹکی ہو جاتی ہے، پھر اتنی ہی مدت میں گوشت کی بوٹی بن جاتی ہے۔ اِس کے بعد فرشتہ بھیجا جاتا ہے اور وہ اُس میں روح پھونکتا ہے۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۳)

ڈاکٹر شیر علی ترین

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Moderity کا پہلا باب)


پہلا باب: نوآبادیاتی ہندوستان کے ابتدائی عہد میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر غور وفکر

انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ایک موقع پر  شمالی ہندوستان کے نامور مسلمان مُصلح شاہ محمد اسماعیل دہلی کی مشہور جامع مسجد کے صحن میں بیٹھے درسِ حدیث دے رہے تھے۔ لوگوں کا ایک مجمع تبرکاتِ نبوی کو اٹھائے مسجد میں داخل ہوا اور مسجد کھچا کھچ بھر گئی۔ یہ لوگ نبی اکرم ﷺ کی شان میں بآوازِ بلند درود وسلام پڑھ رہے تھے۔ شاہ اسماعیل اس منظر سے بالکل متاثر نہ ہوئے اور انھوں نے اپنا درس جاری رکھا۔ ان کی طرف سے کسی قسم کا رد عمل نہ پا کر جلوس میں شریک لوگوں کو بڑی ناگواری ہوئی۔ "مولانا! یہ کس طرح کا رویہ ہے؟" ان میں سے ایک نے اسماعیل کو طنزیہ انداز میں کہا۔ "از راہِ کرم کھڑے ہو جائیے اور تبرکاتِ نبوی کے سامنے تعظیم بجا لائیے"1۔

تاہم شاہ اسماعیل پھر بھی  بے توجہی  کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ان کی مسلسل بے توجہی  نے جلوس کو مزید برافروختہ کیا۔ اب انھوں نے ذرا سخت لہجے میں اپنا مطالبہ دہرایا۔ آخر کار شاہ اسماعیل نے جواب دیتے ہوئے کہا: "پہلی بات یہ ہے کہ یہ تبرکات مصنوعی ہیں، حقیقی نہیں ہیں۔ دوسری یہ کہ اس لمحے میں رسول اللہ ﷺ کے نائب کی حیثیت سے ان کے پیغام کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوں، اس لیے میں کھڑا نہیں ہو سکتا"۔ اس تلخ جواب نے پہلے سے مشتعل مجمع کو مزید بھڑکایا۔ نوبت   شدید  جھگڑے تک  نہ پہنچنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ مسجد میں شاہ اسماعیل کے پیروکاروں کی تعداد بھی اتنی ہی تھی جتنی کہ ان کے مخالفین کی۔ اس لیے یہ لڑائی صرف زبانی تلخ کلامی اور تو تو میں میں تک محدود رہی2۔

شاہ اسماعیل کے رویے پر شدید برہم ہو کر جلوس نے ان کے خلاف اس وقت دہلی میں مسند نشیں مغل بادشاہ اکبر شاہ (م 1837) کے پاس باضابطہ مقدمہ دائر کیا۔ انھوں نے شاہ اسماعیل پر گستاخئ رسول کا الزام لگایا اور اکبر شاہ سے مطالبہ کیا کہ انھیں اس گستاخانہ رویے کی سزا دے۔ بادشاہ نے اسماعیل کو دربار میں طلب کیا اور اس واقعے کے دن ان  کی طرف سے جامع مسجد میں اختیار کیے کیے گئے طرز عمل کی وضاحت مانگی3۔ دربار میں شاہ اسماعیل نے تسلیم کیا کہ انھوں  نے تبرکات کے بارے میں یہ کہا ہے کہ وہ مصنوعی ہیں اور یہ کہ انھیں ان کی تعظیم بجا لانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اکبر شاہ نے انھیں ڈانٹتے ہوئے کہا: "یہ کس قدر نامناسب ہے کہ آپ ان تبرکات کو مصنوعی کہہ رہے ہیں"۔ اسماعیل مسکرائے اور نرمی سے جواب دیا: "جناب، میں نے تو انھیں صرف  زبان سے  مصنوعی کہا ہے، لیکن آپ تو حقیقت میں انھیں مصنوعی  سمجھتے ہیں"۔ اکبر شاہ نے حیرت کے عالم میں پوچھا: "وہ کیسے؟" اسماعیل نے واضح انداز میں کہا: "جناب، سال بھر میں یہ تبرکات دو دفعہ آپ کو  زیارت کروانے کے لیے آپ کے پاس دربار میں لائے جاتے ہیں، لیکن آپ خود کبھی ان تبرکات کی زیارت کے لیے دربار چھوڑ کر نہیں جاتے"۔ یہ سن کر بادشاہ لاجواب ہو گیا۔

شاہ اسماعیل نے دربار میں ایک وزیر سے مطالبہ کیا کہ وہ قرآنِ کریم اور بخاری شریف لے کر آئے۔ جب یہ دو کتابیں ان کے پاس لائی گئیں تو انھوں نے انھیں کچھ وقت کے لیے ہاتھوں میں لیا اور پھر انھیں واپس کر دیا۔ پھر وہ دربار میں جمع لوگوں کے سامنے تقریر کے لیے آگے بڑھے۔ اس تقریر میں شاہ اسماعیل نے اس بات کا پرزور اعادہ کیا کہ تبرکات کے بارے میں اختلاف ہے کہ وہ حقیقی ہیں یا مصنوعی۔ "لیکن اگر ہم ان کے مستند ہونے کو تسلیم کر لیں، تب بھی جو تقدس رسول اللہ ﷺ کے پہنے ہوئے جوتے یا لباس کے ایک ٹکڑے کے ساتھ  وابستہ کیا جاتا ہے، وہ کسی ذاتی شرف کا حامل  نہیں۔ اس کے برعکس قرآن کے کلامِ الہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ اسی طرح بخاری شریف یقینی طور پر رسول اللہ ﷺ کے الفاظ ہیں، اور دین میں قرآن کے بعد سب سے زیادہ صحیح کتاب یہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا اور رسول ﷺ کا کلام رسول اللہ ﷺ کے پہنے ہوئے لباس سے زیادہ مقدس ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود جب قرآن اور صحیح بخاری کا نسخہ آپ کے سامنے لایا جاتا ہے تو کوئی تعظیم کے لیے کھڑا نہیں ہوتا۔  اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ لوگ تبرکاتِ نبوی کی تعظیم ان کے تقدس کی وجہ سے نہیں بلکہ رسم پرستی کی بنیاد پر کرتے ہیں"4۔

جیسا کہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے، انیسویں صدی کے اوائل میں رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی روشنی میں رسم ورواج کی شرعی حیثیت نے شمالی ہندوستان کے عوامی حلقوں میں بین المسالک اختلافات میں مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔ شاہ اسماعیل، جو اس کہانی کے اصل کردار ہیں، ایک نئی ابھرنے والی اصلاحی تحریک کی شکل میں سامنے آئے جس نے عرصہ دراز سے چلے آنے والے رسم رواج کو اگر مذہب کے لیے مکمل طور پر نقصان دہ قرار نہیں دیا تو بھی انھیں غیر ضروری کہہ کر شد ومد سے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مثال کے طور پر ان کے نزدیک تبرکاتِ نبوی کی تعظیم ایک غیر ضروری انحراف ہے جس نے دین کی بنیادوں کو کمزور کر دیا ہے۔ مادی تبرکات کا نبی کی ذات سے کوئی خاص تعلق نہیں؛ وہ صرف اشیا ہیں جو کسی بھی قسم کے پیغمبرانہ  تقدس سے خالی ہیں۔ ان میں وہ چیز نہیں پائی جاتی  جو مذہبی دانشور رابرٹ اورسی (Robert Orsi) کے الفاظ میں، پیغمبر کی "حقیقی موجودگی" میں ہوتی ہے5۔ پُرجوش انداز میں حقیقی اور مادی اشیاء کے درمیان فرق کرنے کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل جیسے مصلحین نے شاہانہ طرزِ زندگی اور سیاست کے خلاف بھی بھرپور احتجاج کیا جو ان کی نظر میں دینی اعتبار سے کمزور لوگوں کی افزائش کا سبب تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اشرافیہ کی طرزِ سیاست نے ایسے مذہبی رویے کو پروان چڑھایا ہے جس نے عام لوگوں میں توہم پرستی کو پختہ اور خدائی حاکمیتِ اَعلیٰ کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ اشرافیہ مخالف سوچ مذکورہ بالا واقعے سے واضح ہے جس سے عوام کے لگی  بندھی  رسموں کے "نشے" میں مبتلا ہونے اور اس وقت کے مغل بادشاہ کی دینی کمزوری کے درمیان ایک ربط نمایاں ہوتا ہے۔

تاہم تبرکاتِ نبوی کے احترام سے شاہ اسماعیل کے انکار پر جلوس کی مخالفت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصلاحی تحریک کے علم برداروں کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ حریف علما کے ایک گروہ نے پوری قوت سے ان کے استناد کو للکارا اور ان روایات کا دفاع کیا جنھیں شاہ اسماعیل تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ اس مخالف گروہ کے لیے تبرکاتِ نبوی کا احترام نبی کی عزت وتعظیم کا ایک مثالی راستہ تھا۔ اس لیے جو بھی ان رسموں کی شرعی حیثیت کو چیلنج کرتا ہے،  وہ رسول اللہ ﷺ کی امتیازی حیثیت اور خصوصی مقام  کی تحقیر کا مجرم ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں روایت اور نبوی دائرۂ اختیار کے حدود پر یہ مناقشے ایک ایسی صورتِ حال سے ابھرے جس کی خاصیت حاکمیتِ اعلیٰ کا بحران ہے۔ 1707ء میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد آنے والی دہائیوں میں مسلمانوں کی سیاسی تقدیر تیزی سے انحطاط پذیر تھی۔مغلیہ سلطنت کے دو سو سال سے زائد  عرصہ حکومت کے بعد  1757 میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں ایک نئی سامراجی طاقت ملک کے سیاسی منظر نامے پر چھا رہی تھی۔ درج بالا قصے میں مذکور اکبر شاہ صرف براے نام بادشاہ تھا جس کی مؤثر عمل داری محض دہلی کے دارالخلافہ  تک محدود تھی۔ وہ اورنگزیب کے جانشینوں کے اس سلسلے سے تعلق رکھتا تھا جو ایک ایسے ہندوستان پر  حکمران تھے  جس میں حاکمیتِ اعلیٰ بتدریج لیکن فیصلہ کن انداز میں برطانیہ کو منتقل ہو رہی تھی6۔

سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ میں اس تبدیلی نے اعتقادی دائرے میں حاکمیتِ اعلیٰ کے سوال پر گرما گرم مباحث کے لیے ماحول کو ساز گار بنا دیا۔ ان اختلافات کے پیچھے یہ سوال کار فرما تھا کہ: خدا، پیغمبر اور عام مسلمانوں کے درمیان تعلق کو ایک  نظریے کی شکل دینے کے لیے کس سیاسی تصور کو بنیاد بنایا جائے؟ کیا یہ سہ گانہ تعلق نظام مراتب کی صورت میں ترتیب دیا جائے  جس میں حاکمِ اعلیٰ یعنی خدا تک رسائی صرف پیغمبر ﷺ کے وسیلے سے ممکن ہے؟ یا خدا اور بندے کے درمیان تعلق ایک یکسر مختلف جمہوریت پر مبنی ہے جو نظام مراتب کے کسی بھی تصور کو مسترد کرتی ہے؟ مذہبی معاشرت کی تشکیل کے یہ متوازی تصورات روزمرہ زندگی اور اعمال کے کون سے تصورات کا تقاضا کرتے ہیں؟

سیاسی تبدیلی کے اس دور میں انھی سوالات نے ہندوستان کے مسلمان اہل علم کے درمیان کئی مناظروں اور مباحثوں کو جنم دیا۔ زیرنظر کتاب کا یہ حصہ انیسویں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں میں ہونے والی انھی مناظرانہ سرگرمیوں کا تجزیہ کرتا ہے جن کی وجہ سے اسلام میں خدائی حاکمیت اور نبوی تقدس کے درمیان تعلق کی متوازی تفہیمات سامنے آئیں۔ جن کرداروں نے ان مناظروں میں شرکت کی، وہ دہلی کے دو نامور مسلمان سنی علماء: شاہ محمد اسماعیل (جن کا ذکر درج بالا قصے میں ہوا) اور فضل حق خیر آبادی تھے۔

ان کے مناظروں کا مرکزی نکتہ اسلام میں شفاعتِ نبوی کے شرعی حدود اور امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان) اور امکان نظیر (خدا کی حضرت محمد ﷺ کی طرح کا ایک اور نبی پیدا کرنے پر قدرت) کے بیک وقت جنم لینے والے دو اعتقادی مسائل تھے۔ شفاعت نبوی سے مراد قیامت کے دن خدا اور اس کے گناہ گار بندوں کے درمیان سفارشی کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کا کردار ہے جس کی رو سے  حضور ﷺ گناہ گاروں کی طرف سے خدا کے دربار میں پیش ہو کر ان کے گناہ بخشوائیں گے اور انھیں جنت میں جگہ دلوائیں گے۔ نبی اکرم ﷺ کے منصب شفاعت کے متعلق اسلامی شریعت کے مصادر یعنی  قرآن وسنت میں تفصیلی بحث موجود ہے۔ تاہم اس سفارش کا دائرہ اور خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے حوالے سے اس کے مضمرات شدید بحث ومباحثے کا موضوع رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ماقبل جدید اسلامی روایت میں معتزلہ کے کلامی مکتب سے وابستہ علماء نے شفاعت کے عقیدے کو رد کیا۔ معتزلہ نے عقیدۂ شفاعت کو خدائی حاکمیت کے لیے براہ راست  خطرہ قرار دے دیا7۔ جیسا کہ شون مارمن (Shaun Mormon) نے بتایا ہے، قرون وسطیٰ میں، مثلا ً‌ مملوکوں کے زیر حکومت مصر میں بالکل اسی طرح اس سوال پر دقیق بحث ومباحثہ ہوا تھا کہ دنیوی یا شاہی  سفارش میں اور اخروی شفاعت کے درمیان خطِ امتیاز کیا کھینچا جائے8۔

نسبتاً‌ قریبی زمانے  میں عالم عرب میں وہابی مکتب فکر کے حامیوں نے زیادہ جوش وخروش کے ساتھ شفاعتِ نبوی کے عقیدے کی تردید ہے۔ اس کی سب سے حیران کن مثال 1925 میں اس وقت سامنے آئی جب سعودی اداروں نے رسول اللہ ﷺ، ان کے خاندان اور ان کے قریب ترین صحابہ کرام کی قبروں کو اس بنیاد پر مسمار کیا کہ وہ پوجا پاٹ کے مراکز بن گئے ہیں اور اس طرح خدائی حاکمیت اعلیٰ (توحید) کو کمزور کر رہے ہیں۔ اس باب میں شاہ اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی کے درمیان جس سوال پر نزاع اور بحث رہی، وہ سعودی حکومت کے آنحضرت ﷺ کے خاندان کی قبروں کو مسمار کرنے سے ایک صدی پہلے پیش آیا۔ اس لیے بہت سے حوالوں سے ان کا مناظرہ اس اعتقادی کشمکش کی نمائندگی کرتا ہے جو آنے والی دہائیوں میں مباحثوں اور مناظروں کے ایک زبردست طوفان میں بدلنے والی تھی ، اور جس کے نتائج بڑے واضح انداز میں مزارات اور قبروں کی مسماری جیسے واقعات کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اگر چہ شاہ اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی کی وجہ سے کوئی اینٹ نہیں گری، لیکن اس تنازع کے نتائج  اتنے ہی حیران کن ہیں۔

فضل حق خیرآبادی نے توہینِ رسالت کے الزام کی بنیاد پر شاہ اسماعیل پر کفر اور واجب القتل ہونے کا فتوی لگایا۔ اس کے جواب میں شاہ اسماعیل نے خیر آبادی پر ایک ایسی  دینی فکر کو پروان چڑھانے کا الزام لگایا جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کی خصوصی  حیثیت کو کمزور کرتا اور عوام میں بدعات وخرافات کے ارتکاب کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جیسا کہ اس کتاب کے آئندہ  حصوں میں بتایا جائے گا، ان کے درمیان اس اختلاف نے انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں شمالی ہندوستان کے حریف علما کے درمیان ایک خوف ناک اعتقادی معرکہ آرائی کی صورت اختیار کر لی۔ پہلے حصے کے اس تعارف میں ان شخصیات کے علمی کردار، ان کے مناقشے کی بُنت اور ان کے اختلاف کی اہمیت پر مزید بحث کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ اس سیاسی اور فکری ماحول کے نمایاں خد وخال کو واضح کروں جس میں شاہ اسماعیل اور مولانا خیرآبادی کے درمیان بحث ومباحثہ کا ظہور ہوا۔ اس مقصد کے لیے میں وہ مختلف طریقے دریافت کرنے کی کوشش کروں گا  جن سے سیاسی کلامیات کا تصور   فریقین کے موقف اور کشمکش کے سیاق سباق پر روشنی ڈالنے میں ممکنہ طور پر ممد ومعاون ہو ۔ اس کے بعد میں حاکمیت اعلی ٰ کے تصور میں ان بنیادی تبدیلیوں کا ایک مختصر شجرہ   پیش کروں گا جو مغل  اقتدار  سے برطانوی اقتدار کی طرف انتقال کے دوران میں رونما ہوئیں اور یہ بحث آئندہ ابواب کے لیے ایک پس منظر فراہم  کرے گی۔

سیاسی  قالب  میں مذہبی تصورات: عالمی شمال اور جنوبی ایشیا

حال ہی میں سیاسی قالب میں مذہبی تصورات کی  بحث نے یورپ اور امریکا کے علمی حلقوں میں کافی ہلچل  مچائی ہے۔ اس تصور میں زیادہ تر موضوع بحث جدید سیکولر سیاسیات بالخصوص جدید قومی ریاست کی  مذہبی بنیادوں کی نشاندہی ہے۔ اس تصور کو عموماً‌ جرمن مفکر کارل شمٹ (Carl Schmitt) کی 1922 میں چھپنے والی مؤثر کتاب "سیاسی قالب میں مذہبی تصورات" (Political Theology) سے جوڑا جاتا ہے۔

اس کاوش میں شمٹ نے نہایت عمدگی سے یہ استدلال کیا ہے کہ: "ریاست کے جدید نظریے سے متعلق تمام نمایاں تصورات سیکولر ازم کے قالب میں ڈھالے گئے مذہبی تصورات ہیں"9۔ جدید ریاست مذہب پر قابو پانے اور اس کی جگہ لینے کے باوجود اپنی حاکمیت کی تشکیل میں گہرے طور پر مذہبی ہے۔ شمٹ کی فکر کے ایک تحقیقی مطالعے میں پال کاہن (Paul Kahn) شمٹ کے استدلال کا خلاصہ کچھ یوں بیان کرتے ہیں: "ریاست ایک سیکولر تنظیم نہیں، جیسا کہ یہ دعوی کرتی ہے"10۔ اس کے بجاے مفروضہ سیکولر ریاست کی حاکمیتِ اعلیٰ قادر مطلق خدا کی طرح ہے جس کا دار ومدار عمومی قاعدے کے برخلاف استثنائی قانون کی  تنفیذ کی صلاحیت پر ہے۔ اس رائے نے ایسے کئی اہل علم کی توجہ حاصل کی ہے جنھوں نے مختلف انداز میں شمٹ کے نظریے کو توسیع دی ہے، اس پر نظرثانی کی ہے اور اسے نقد ونظر کا موضوع بنایا ہے، تاکہ جدید سیکولر سیاسیات کے مذہب پر مبنی سیاسی نظاموں سے کلی انقطاع کے پُرفریب دعوے پر سوال اٹھا سکیں۔ تحقیق کا یہ انداز، جس کا مقصد لبرل سیکولر سیاسیات کی مفروضہ  خصوصی اور استثنائی حیثیت   کا ابطال ہے، علم اور انسانی زندگی کے متعدد شعبہ جات میں سرانجام دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ہامل گراہم (Graham Hammil) اور جولیا لَپٹن (Julia Lupton) جس انداز میں سیاسی کلامیات کے تصور کو زیرِ غور لاتے ہیں، اس کی وسعت کو دیکھیں: "وہ   باہمی معاملات، معاہدے اور مقابلے جو سیاسی اور مذہبی زندگی کے درمیان وقوع پذیر ہوتے ہیں، بالخصوص مقدس حکایات، بنیادی نظریات اور  رسومیاتی اشکال  کا اس مقصد کے لیے استعمال کرنا کہ  بادشاہوں، کارپوریشنز اور پارلیمانوں کی حاکمیت قائم ہو، اسے جواز فراہم ہو، اور اس پر غور وفکر کیا جائے"11۔

اس اعتبار سے ایک نظریے کی حیثیت سے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  کا تعلق صرف مذہب تک محدود نہیں۔  ہامل اور لپٹن اپنی کتاب کے آغاز میں پرزور انداز میں بتاتے ہیں: "مذہب اور سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  ایک چیز نہیں"12۔ اس کے بجاے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  ایک اہم فکری کلید فراہم کرتا ہے جس سے سیکولر طاقت کے اندازِ کار کو مذہب، قانون، ادب، سیاسیات، سائنس اور اقتصادیات جیسے متنوع لیکن باہم دگر جڑے ہوئے میدانوں میں کھولا جا سکتا ہے۔ میں ان علمی کاوشوں کے زیرِ بار ہوں جنھوں نے سیکولر حکومت کے اختلافات، تناقضات اور کلامیات کو نمایاں کرنے کے لیے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  کی فکر سے کام لیا ہے، اگرچہ میں اس کاوش میں  ذرا الگ انداز سے سیاسی قالب میں مذہبی تصورات  سے تعرض کروں گا۔

مجھے سیاست کی اعتقادی بنیادوں کے بجاے ان سیاسی تصوّرات، مفروضات اور توقعات میں زیادہ دلچسپی ہے جن کی جھلک بظاہر اعتقادی مباحثوں اور مناقشوں میں نظر آتی ہے۔ میری توجہ کا مرکز مذہبی تصورات  اور سیاسیات کا  سنگم ہے، جیسا کہ  وه خدائی حاکمیتِ اعلیٰ پر مباحثوں اور مناقشوں میں ظاہر ہوئے۔ وہ کون سے مناہج ہیں جن میں خدا اور انسانوں کے درمیان تعلق کے بارے میں مناقشات اور استدلالات سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کی  بدلتی  تفہیمات اور مظاہر کے عکاس اور ان پر مبنی ہیں؟13 مختصر یہ کہ آنے والے ابواب میں میں اسی سوال کو پیش نظر رکھ کر بات کروں گا۔

اس سوال نے جس حل طلب مسئلے (problem space) کا کئی پہلؤوں سے احاطہ کیا ہے، وہ کارل شمٹ کی کتاب Political Theology میں موجود ایک اور اہم رائے سے ماخوذ ہے جس کی رو سے "وہ مابعد الطبیعی تصویر جو ایک مخصوص عہد دنیا کے متعلق  بناتا ہے، اس کی ساخت بعینہ وہی ہوتی ہے جسے وہ عہد فوری طور پر اپنے سیاسی نظم کی ہیئت کے لیے بھی مناسب سمجھتا ہے"14۔ وہ آگے بتاتے ہیں کہ ماورائیت سے  انسانی خود انحصاری تک کا سفر عہدِ جدید کی ابتدا سے یورپ کے سیاسی کلامیات میں بنیادی پیش رفت کی نمائندگی کرتی ہے۔  ]حکومت کے[ جواز (legitimacy) کے جمہوری تصور نے  اپنی حکمرانی کے لیے ایک واحد شارع کی حیثیت سے حاکمِ اعلیٰ کو انتہا پسندانہ انداز میں "نکال باہر کرکے" سابقہ شاہی تصور کی جگہ لے لی۔ مسلمانوں کی بادشاہت کا عہد آخر کار اختتام پذیر ہوا، اس لیے کہ روایتی معنوں میں جواز (legitimacy) کا وجود باقی نہ رہا۔ شمٹ نے اپنے استدلال میں بتایا کہ سترھویں اور اٹھارھویں صدی میں کلامیات اور سیاسیات دونوں شعبوں میں مطلق العنان حاکمِ اعلیٰ کا تصور رائج تھا۔ نتیجتاً شمٹ نے دعویٰ کیا کہ کسی خاص عہد میں ترتیب دی گئی دنیا کی فکری تصویر کا خاکہ  بعینہ اس دور میں رائج سیاسی نظم کی طرح ہوتا ہے۔ اس لیے انیسویں صدی میں جیسے جیسے سیاسی تصورات اور ریاست سے متعلقہ نظریات روز افزوں انسانی خود انحصاری  (immanence) کے زیر اثر آتے رہے، وہ شاہی طاقت کو کمزور کرتے گئے جس کی جگہ آخر کار ایک یکسر مختلف جمہوریت نے لے لی15۔

جمہوریت کے اس نئے شعور کی وہ فیصلہ کن خاصیت جو اسے اس کے شاہی مد مقابل سے ممتاز کرتی ہے، حالت استثنا کا مکمل استرداد ہے۔ حالت استثنا کلامی معنوں میں ان کرامات وعقائد کی نمائندگی کرتی ہے جو انسانی سمجھ اور تنقیدی شک سے بالا ہوتے ہیں۔ شمٹ نے اسے یوں بیان کیا ہے: "جمہوریت  سیاسی اضافیت کی ایک ایسی تعبیر ہے جو معجزات اور تحکمانہ عقائد سے آزاد ہے"16۔

جیسا کہ مؤرِّخ ڈیوڈ گلمارٹن (David Gilmartin) نے بہت عمدہ انداز میں واضح کیا ہے، حاکمیتِ اعلیٰ کا کوئی تصور، چاہے وہ خدائی ہو یا ریاستی، طاقت کی ایک ایسی صورت کی نمائندگی کرنے کی اَن بوجھی پہیلی سے نہیں بچ سکتا، جو سیاسیات اور روزمرہ زندگی کے دائرے سے باہر رہتے ہوئے  بھی اس کے ساتھ الجھا ہوتا ہے۔ حاکمِ اعلیٰ کی طاقت بیک وقت اپنے دائرۂ عمل کے اندر اور  باہر موجود ہوتی ہے۔ گلمارٹن اس پہیلی کو بوجھنے کے لیے "]حکومت کے[ جواز" (legitimation)، "طاقت (authority) کا ایسا دعوی جو معمول سے ماورا ہو" اور "حکومت (governance): فی الواقع سماج میں نظم کو بروے کار لانے اور برقرار رکھنے کی خاطر معمول کی کارروائیوں" کے درمیان امتیاز قائم کرتا ہے17۔ موضوع بحث سے قدرے باہر نکلنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے یہاں پر حاکمِ اعلیٰ کی طاقت سے متعلق گلمارٹن کے تجزیے کو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے تحفظ کے لیے مذہبی اصلاح کے تصور میں کار فرما داخلی کشاکش پر بھی منطبق کیا جا سکتا ہے۔ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو روزمرہ رسم ورواج کے بگاڑ سے تحفظ فراہم کرنے کا معنی خیز اشارہ اس بنیادی تضاد میں مقید رہتا ہے جسے گلمارٹن نے زیرِ غور لایا ہے کہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ معمول کی زندگی سے باہر رہتی ہے، لیکن اس کے الٹ پھیر سے اسے خطرہ بھی لاحق ہوتا ہے؛ وہ فانی وجود سے ماورا ہوتی ہے، تاہم وہ اس کا سب سے زیادہ قریبی معمار بھی ہے۔

یہ نکتہ کہ حاکمیتِ اعلیٰ کی یہ کشمکش کوئی مجرّد نظریاتی اور سادہ معاملہ نہیں، اس کی بہت  مفید  وضاحت ہندوستان میں برطانوی استعمار کی حکومت کے بارے میں دو متنازع لیکن باہم معاون ڈسکورسز: "استعمار(Colonialism)" اور "سامراجیت (Imperialism)" سے متعلق متھی مکھرجی (Mithi Mukherjee) کے تجزیے میں کی گئی ہے۔  مکھر جی نے استعمار  کے لفظ کو جس طرح استعمال کیا ہے، اس سے مراد حکمرانی کے وہ معاملات ہیں جو "زمینی فتوحات، طاقت، تشدد، غلبہ اور مفتوح اقوام کو مطیع بنانے سے عبارت ہیں"18۔ اس کے برعکس "سامراجیت نیچرل لا (Natural Law) کے تحت انصاف کے ایک ماورائے قومیت اور بالائے جغرافیہ تصور پر مبنی ہے"، جو استعماری طاقت و حکومت کی ناانصافیوں کو لگام دینے اور ان پر نکتہ چینی کی کوشش کرتی ہے19۔ استعماری طاقت اور سامراجی انصاف کے یہ متوازی ڈسکورسز باہم مل کر کام کرتے تھے، جن میں اول الذکر سماج میں جارحانہ انداز میں سرگرم عمل رہتا ، جب کہ مؤخر الذکر بالکل الگ تھلگ رہ کر باہر سے  اول الذکر کی نگرانی کرتا تھا۔ اس کا مجموعی اثر یہ تھا کہ استعماری ریاست اور مقامی سماج کے درمیان سپریم کورٹ کے ادارے اور وکیل کی شخصیت کو سب سے طاقتور ثالث کے مقام پر فائز کیا گیا۔  استعماری حاکمیت کی ترقی اور استحکام کا حصول  ان دو عوامل  کے باہمی تناو اور  کشمکش کے ذریعے سے کیا جاتاتھا، یعنی ایک طرف طاقت کے بل بوتے پر حکومت اور دخل اندازی اور دوسری طرف نیچرل لا کی  ماورائےجغرافیہ چھتری کے نیچے انصاف کی فراہمی۔

میں چاہتا ہوں کہ ذیل میں حاکمیتِ اعلی سے متعلق ان تاریخی افکار کی روشنی میں اس سوال کا جواب دوں کہ: سیاسی نظریات اور افکار کے بدلتے تصورات کس طرح ان مناہج کی تشکیل کرتے ہیں  جن میں بظاہر خدائی حاکمیت اور خدا و انسان کے درمیان تعلق جیسے کلامی تصورات کو مخصوص سیاسی تناظرات میں غور وفکر کا موضوع بنایا جاتا ہے۔ میری توجہ کا محور ریاست، سیاست اور حکمرانی سے متعلق  مسلمانوں کے علمی افکار کا مطالعہ نہیں  جو روایتی طور پر سیاسیات سے وابستہ ہیں، (اگر چہ میں گاہے گاہے اس موضوع پر بھی کچھ عرض کروں گا)۔ اس کے بجاے میں چاہتا ہوں کہ سیاسیات اور مثالی حکومت کے ان تصورات پر غور کروں جو بالخصوص رسول اللہ ﷺ کی شخصیت اور سماج کی روزمرہ زندگی کے بارے میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے کردار کے تعلق سے بین المسالک مناقشوں میں نمایاں ہیں۔خدائی حاکمیت اور نبوی اقتدار کے حریف تصورات کس طرح ایک مثالی ریاست کے متوازی رجحانات میں ایک دوسرے سے محو گفتگو ہیں، یہ سوال اس حصے میں کلامیات اور سیاسیات کے باہمی الجھاو اور اس کتاب کے وسیع تر تناظر کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ سیاسی اور کلامی مسائل کے آمیزے کی تحقیق اُس تاریخی تناظر میں خاص طور پر ثمر آور ہو سکتی ہے جسے عبوری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، جب ایک طویل المیعاد سیاسی نظم نابود ہونے کے قریب ہو، اور اس کی جگہ ایک اور نظام لے رہا ہو، مثلاً شاہی نظام سے استعماری نظام میں داخل ہونے کا دور۔ اس قسم کے اشکالیے (problem space) کا خاص طور پر جنوبی ایشیائی اسلام اور مغلیہ سلطنت سے برطانوی نوآبادیاتی نظام کی طرف منتقلی سے بڑا خاص تعلق ہے۔  یہ  طاقت کی بدلتی حرکیات کا ایک تدریجی  عمل تھا جو سترھویں اور اٹھارویں صدی کے درمیان وقوع پذیر ہوا اور یہ  قریب قریب وہی زمانہ جو شمٹ کی تحقیق کا موضوع ہے۔

حاکمیت اعلیٰ سے متعلق بدلتے ہوئے سماجی  نظریات

جیسا کہ مؤرخ کرسٹوفر بیلی (Christopher Baly) نے استدلال کیا ہے، ہندوستان کے ابلاغی اور سیاسی نیٹ ورکس میں وسیع تر تبدیلیاں اور انقلابات، جنھوں نے بالآخر برطانوی راج کو ممکن بنایا، اٹھارویں صدی کے آغاز سے ہی رونما ہو رہے تھے۔ بیلے کے مطابق اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان کے مغلیہ سلطنت سے برطانوی راج میں بدلنے کے وقت تین بنیادی سیاسی اور معاشی تبدیلیاں ظاہر ہوئیں: (1) مرکزی حکومت کا بکھر کر چھوٹی اور منتشر ریاستوں میں تبدیل ہو جانا، (2) دہقان طبقے کی یک جائی اور اس کے نتیجے میں اقتصادیات کے زرعی شعبے میں نمو وترقی، اور (3) متعدد استعماری اور مقامی ایجنٹوں کے درمیان ابلاغ اور جاسوسی کے رسمی وغیر رسمی ہر دو  دائروں میں غیر معمولی ترقی اور تحرک۔  اس آخری رجحان نے قدیم شاہی طبقے اور امرا واشرافیہ کی سیاسی طاقت اور ثقافتی اثاثے کو فیصلہ کن طور پر گھٹا دیا20۔

استعماری راج کی طرف انتقال کے حاکمیتِ اعلیٰ سے تعلق کی نظریاتی اہمیت کا ادراک سیاسی نظریہ ساز سودپتا کاویراج (Sudipta Kaviraj)نے اس طرح سے کیا ہے کہ انھوں نے اس کی زمرہ بندی ماتحتیت سے حاکمیتِ اعلیٰ کی طرف تبدیلی کی حیثیت سے کی ہے۔  کاویراج کا دعوی ہے کہ "استعماری جدیدیت کی آمد سے قبل ہندوستان کی تمام ریاستیں شمولیت/ماتحتیت کے تصور پر پوراا ترتی ہیں: وہ سماج پر حکمرانوں کے ایک گروہ کی حیثیت سے حکومت کرتی تھیں، جو اپنے ماتحت سماج سے الگ تھلگ رہتے، اور اپنی رعیت کے ساتھ جدید قوم پرستی کی طرح کسی مضبوط جذباتی یا ادارہ جاتی بندھن میں بندھے ہوئے نہیں تھے۔ اس طرح سے ان کی، اپنے سماج کی روزمرہ زندگی کی بنیادی ساخت کو متاثر کرنے کی صلاحیت انتہائی محدود تھی21۔ کاویراج کے مطابق رفتہ رفتہ اور بالخصوص 1857 کی بغاوت کے نتیجے میں ماتحتیت کے اس سیاسی نظام کا تختہ بااختیار استعماری ریاست نے الٹ دیا۔ استعماری ریاست نظریاتی اعتبار سے اپنے پیش روؤں سے نہ صرف اس اعتبار سے ممتاز تھی کہ  وہ اُن سے زیادہ طاقت ور تھی، بلکہ زیادہ اہم اس کا وہ ارادی اور براہ راست انداز تھا جس میں وہ رعایا کو اپنی حاکمیتِ اعلیٰ کے تابع بناتا تھا۔  کاویراج کے نزدیک ماقبل استعماری دور سے استعماری دور میں داخل ہونے سے متعلق گفتگو اس بے جا مفروضے پر مشتمل ہوتی ہے کہ ہم تاریخی طور پر ایک ہی شے کے دو مختلف رخوں کے متعلق بات کر رہے ہیں۔  جب وہ اپنی گفتگو میں ریاستی طاقت کے جدید استعماری اور قدیم اسلامی و ہندوانہ تصورات کا تقابل کرتے ہیں تو آدمی اساسی طور پر "سیاسی طاقت کے دو مختلف اداروں کا سامنا کرتا ہے"22۔ ایک بااختیار ریاست کا تصور جس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنے رعایا کو براہ راست اپنے احکام کا پابند بنائے اور ان پر اپنا حق جتائے، مکمل طور پر جدید ہے۔ کاویراج آگے جاکر زیادہ فکر انگیز طریقے سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ ہندوستانی تناظر میں ریاست کا تصور ہی "جدیدیت کا بنیادی ماخذ ہے"23۔

حاکمیتِ اعلیٰ کے حوالے سے مؤرخ اور ماہر بشریات برنارڈ کوہن (Bernard Cohn) کی کلیدی کاوش کاویراج کے استدلال کو مزید واضح کرتی ہے، جب کہ اسے اس کتاب میں ہمارے موضوع سے زیادہ براہ راست جوڑتی بھی ہے۔ ان کی کاوش مغلیہ سلطنت سے برطانوی راج میں منتقلی کے عبوری دور کے ثقافتی اثرات کے حوالے سے دلچسپ نکات فراہم کرتی ہے۔ کوہن کے مطابق انیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ نے ہندوستانی سماج میں اپنی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کے قیام کے لیے اپنے مغل پیش روؤں کی  رسمی اصطلاحات کو باقی رکھا، تاہم انھوں نے ان اصطلاحات کو ایسے معنی پہنائے جو سابقہ معانی سے یکسر مختلف تھے۔ برطانوی راج کا مغلوں کی اصطلاحات کا استعمال ایک طرح سے سامراجی حاکمیتِ اعلیٰ کے دو مختلف نظاموں کے درمیان ترجمے کا عمل تھا۔ سب سے نمایاں مقام جہاں پر ترجمے کا یہ عمل وقوع پذیر ہوا، شاہی دربار تھا۔

پوری مغلیہ تاریخ میں شاہی دربار نے مغل حکمرانوں اور ان کی رعایا کے درمیان تعلق وتبادلے میں ایک نمایاں کردار ادا کیا۔ خاص طور پر مغل دربار میں ادا کی جانے والی تقریباتی رسموں نے مقامی رعایا کو وسیع تر سلطنت کے دائرے میں شامل کرنے کا کردار نبھایا۔ مثلاً ایک رسم جو دربار میں ادا کی جاتی تھی، مقامی اشرافیہ  کی طرف سے مغل بادشاہ کو تحفے تحائف اور سونے کے سکوں، ہاتھیوں، گھوڑوں اور زیورات کی شکل میں قیمتی اشیاء کا نذرانہ پیش کرنا تھی۔ یہ نذرانہ یا پیش کش سلطنت سے وفاداری کی ایک علامتی شکل تھی۔ ایسی کسی پیش کش کی قدر وقیمت کا تعین اس شخص کے مقام اور مرتبے کے مطابق پوری باریک بینی سے کیا جاتا تھا جو اسے پیش کرتا۔  بدلے میں مغل بادشاہ اس شخص کو خلعت پیش کرتا، جو یا تو کپڑے کی بنی کوئی چیز یا کئی کپڑے ہوتے تھے، جو عام طور پر چوغے، پگڑی اور شال پر مشتمل ہوتے تھے۔ باہمی تبادلے کا یہ عمل علامتی اہمیت کا حامل تھا: خلعت تسلسل یا وراثت کی علامت تھی، اور اس تسلسل کا انحصار طبعی بنیاد پر تھا  جس میں خلعت کو وصول کرنے والے اور عطیہ کرنے والے، دونوں کے جسم کپڑوں کے واسطے سے ایک دوسرے سے تعلق قائم کر لیتے تھے24۔

بالفاظِ دیگر اشیا کے سیدھے سادے تبادلے کے بجاے نذرانہ پیش کرنا اور خلعت وصول کرنا "اطاعت، بیعت اور خلعت عطا کرنے والوں کی برتری کے اقرار کے اعمال تھے"۔ مزید برآں حاکمیتِ اعلیٰ اور شاہی نظام کے اس رسمی اظہار نے مقامی سماج کے مخصوص طبقات کو شاہی حکومت کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کرنے کا کردار ادا کیا۔ جیسا کہ کوہن نے واضح کیا ہے: "ہندوستان میں حکمرانی کا مقامی نظریہ انضمام کے تصورات اور 'نظام مراتب کے نظریے' پر  مبنی تھا، جس میں نہ صرف ہر کسی کو دوسرے سے الگ رتبہ دیا جاتا، بلکہ جن پر حکومت کی جا رہی تھی، ان کا انضمام بھی کیا جاتا تھا"25۔

تاہم اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں اگر چہ برطانویوں نے نئے ہندوستانی حکمرانوں کی حیثیت سے نذرانوں اور پیش کشوں کی رسم کو برقرار رکھا، لیکن انھوں نے تبادلے کے اس عمل کو جو معنی دیا، وہ قطعی مختلف تھا۔ مغلوں کے برعکس برطانویوں نے ان رسموں کو مادی معنوں میں لیا۔ نذرانوں اور پیش کشوں کو سفارش کی حیثیت سے دیکھا گیا، جسے برطانیہ نے اپنی تجارتی سرگرمیوں سے متعلقہ حقوق کی حیثیت سے پیش کیا۔ انھوں نے "اپنے ثقافتی طور طریقوں کی اتباع میں نذرانوں کو رشوت سے اور پیش کشوں کو خراج سے تعبیر کیا، اور اسے ادلے بدلے کا لین دین تصور کیا "26۔

درباری رسموں کے برطانوی وارثوں نے ایک محتاط انداز میں تشکیل دی گئی شاہی حاکمیتِ اعلیٰ کی صورت گری کو لین دین کی ایک مادی صورت کا معنی دیا۔ جیسا کہ کوہن نے وضاحت کی ہے: "بظاہر مغلیہ رسم ورواج کو برقرار رکھا گیا، لیکن ان کے معانی بدل گئے تھے۔ ہندوستانی حکمرانوں کے سایے میں جو چیز (مقامی آبادی کی سلطنت میں) شمولیت تھی، اب وہ رسم ماتحتیت کی علامت بن گئی، جس میں شاہی شخصیت اور اس کے منتخب کردہ دوست اور خادم کے درمیان، جو حکمرانی کا حصہ بننے والا تھا، کوئی روحانی تعلق باقی نہ رہا27۔

برطانیہ کے استعماری نظام میں 1857 کی بغاوت تک یہ عقدہ لاینحل رہا، جس میں بغاوت کو وحشیانہ طریقے سے کچلا گیا، اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر پر آخر کار مقدمہ چلا کر انھیں جلا وطن کیا گیا۔ اس اہم معرکے کو سر کرنے کے بعد برطانیہ نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 کے ذریعے ہندوستان کی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کو اپنی بادشاہت میں ضم کر دیا۔

زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ علامتی ورثہ جو مغل بادشاہ کی شخصیت سے متعلق تھا، اس کے تقدس کا خاتمہ کیا گیا۔ اپنی  رعایا پر حاکمیت کو جواز بخشنے کے لیے رائج سابقہ پیچیدہ مقامی طریقوں کی جگہ استعماری طاقت کے وحشیانہ اظہار نے لے لی۔ جیسا کہ کوہن نے اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے لکھا ہے: "بادشاہ پر مقدمے کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1858 سے ملا کر دیکھنا چاہیے۔ مغل بادشاہ پر مقدمہ، ان کی جلاوطنی اور مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ایک ایسے انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا جس نے مکمل طور پر سماج کے سابقہ سیاسی نظم کے تَقدُّس کا خاتمہ کر دیا"28۔

کاویراج کے استدلال سے بہت مماثل کوہن کا تجزیہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان میں استعمار کی آمد سے حاکمیتِ اعلیٰ کا فکری سرمایہ بھی خاطر خواہ تبدیلیوں سے گزرا ہے۔ حاکمیتِ اعلیٰ کے سابقہ تصور کی جگہ، جو مراعات، نظامِ مراتب اور مقامی سماج کے ساتھ جسمانی علائق میں بندھا ہوا تھا، واضح طور پر قوتِ مقتدرہ کی ایک مادی تفہیم نے لے لی۔ کوہن کا تجزیہ خاص طور پر جس چیز کو نمایاں کرتا ہے، وہ  ان دو مثالی تصورات کے درمیان کش مکش ہے  کہ قوتِ مقتدرہ کو کیسے کام کرنا چاہیے، اور فی الواقع یہ کس طرح کام کرتی ہے ۔ کیوں کہ زیادہ سنجیدہ پہلوؤں کو دیکھا جائے تو برطانوی راج کا سیاسی ڈھانچا کسی حوالے سے بھی مغلیہ سلطنت کے اس پہلے ڈھانچے کو اکھاڑ نہیں پھینکتا، جو حسب ونسب اور وساطت وشفاعت سے عبارت تھی۔ حتّیٰ کہ برطانوی راج کے زیرِ سایہ وساطت کا عمل اس بات کی تشکیل میں انتہائی اہم رہا کہ سیاسی اقتدار تک رسائی حقیقت میں کیسے ہوتی ہے،اور سماج کی تشکیل کس طرح سے کی گئی۔ تاہم اس ساختیاتی تسلسل کے باوجود وہ مآخذ، تصورات اور مفاہیم جس نے قوتِ مقتدرہ کی تنظیم کی، مستقل طور پر بدل گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغلیہ سلطنت میں حاکمیتِ اعلیٰ پر بحث ومناقشہ نہیں ہوا، بلکہ مقصود ایک نظام سے دوسرے نظام کی طرف، جو شاہی حکومت سے بہت الگ ہے، انتقال کے عبوری دور میں حاکمیتِ اعلیٰ کی سماجیات میں برپا ہونے والی فکری اور سیاسی تبدیلیوں کو واضح کرنا ہے29۔

حاکمیتِ اعلیٰ کی فکری فضا اور سیاسی صورت گری میں برپا ہونے والی یہ بنیادی تبدیلیاں سماجی نظم اور نظام مراتب کے لیے گہرے مضمرات کی حامل ہیں۔ اپنی تحقیقی کتاب Ashraf into Middle Classes میں مؤرخ مارگریٹ پرناو (Margrit Pernau) نے بتایا ہے کہ انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں برطانوی راج کے استحکام نے شمالی ہندوستان میں سماجی شرف وعزت کے حوالے سے مسلمانوں کے تصورات پر گہرے اثرات مرتب کیے30۔ 1830 کی دہائیوں کے بعد جوں ہی برطانیہ نے زیادہ فیصلہ کن انداز میں سیاسی اقتدار حاصل کیا، اور جوں ہی نوآبادکاروں اور ان کے ماتحت لوگوں کے درمیان سیاسی، ثقافتی، سماجی اور نسلی فاصلے واضح ہونے لگے، سماجی عزت وشرف کے مفاہیم اور عناصر بھی بدلنے لگے31۔ اس وقت تک شرف وعزت کا دائرہ صرف جاگیرداروں اور علما تک محدود تھا، جب کہ سوداگر، تاجر اور دست کار بالکل عام لوگ سمجھے جاتے تھے۔ مزید برآں اسلام کے مرکزی مقامات سے نام ونسب کا تعلق ہونا شرف وعزت کی امتیازی علامت تھی، جو اشراف کو مقامی نومسلموں (اجلاف) سے الگ کرتی تھی، اگر چہ شرافتِ نسب کا دعویٰ سماجی شناخت کے حصول کی ایک تدبیر تھی۔

لیکن  1857 کے نتیجے میں انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمانوں کی سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ کی بحالی کے امکان کے خاتمے، ایک ایسے عوامی دائرے کے ظہور جو نوآبادیاتی تعلیمی اداروں سے معمور تھا، اور علمِ دین سے صرف اور صرف علماے کرام کی روز افزوں وابستگی جیسی پیش رفتوں نے شرف وعزت کے ان تصورات کو یکسر بدل دیا۔ خاندان کی اہمیت برقرار رہی، لیکن شرف وعزت بتدریج انفرادی پاک بازی سے جُڑ گئی۔ یہ ایک ایسی تبدیلی ہے جسے پرناو نے "موروثی اقدار سے زندہ اقدار میں تبدیلی" سے تعبیر کیا ہے32۔ یہ تبدیلی ایک دوسری تبدیلی کے پہلو بہ پہلو پیش آئی اور اسے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک ایسے متوسط طبقے کے ظہور نے سہولت بہم پہنچائی جو خود کو سماج کے بالائی اور نچلے طبقے سے ممتاز تصور کرتا تھا۔ اگر چہ اس میں بھی کسی طرح سے یکسانی نہیں تھی، تاہم اس متوسط طبقے، جس نے شرف وعزت کی چادر اوڑھ لی تھی، کی نمایاں خصوصیت شاہانہ طرزِ زندگی اور فضول خرچی کی شدید مخالفت اور دینی اصلاح کی تحریک سے اس کی قربت ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں تقویٰ اور سماجی عزوشرف کے ملاپ نے اہلِ علم اشرافیہ یعنی علماء اور سوداگروں، تاجروں اور دیگر پیشہ ور گروہوں (یعنی متوسط طبقے) کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ سماجی نظم میں یہ اساسی تبدیلی اس بین المسالک مناقشے کے لیے ایک اہم پس منظر مہیا کرتی ہے جس سے اس کتاب میں بحث کی گئی ہے، اور جس کا موضوع پرناو کے پروجیکٹ کے بالکل متوازی ہے۔

اور آخر میں ابتدائی جدید اور جدید جنوبی ایشیا میں حاکمیتِ اعلیٰ کے اشکالیے کی توضیح کے لیے اَظفَر مُعین (Azfar Moin) کی کتاب The Millenial Sovereign ناگزیر طور پر متعلق ہے۔ اس کاوش میں معین نے استدلال کیا ہے کہ سیاسی حاکمیت کی مغلیہ تفہیمات کا دار ومدار بادشاہت وولایت کے باہمی ربط پر تھا۔ بادشاہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو صوفی ولی کی کرامت کے اصول اور انداز پر منظم کیا جاتا اور سرانجام دیا جاتا تھا جومذہبی اقتدار اور توقعات سے بھرپور ہوتا تھا۔ بادشاہت و ولایت ایک دوسرے کے ساتھ "بغل گیر ہو کر"  مربوط تھے33۔ مُعین کے مطابق حاکمیتِ اعلیٰ کے ایسے مقدس تصور کی اٹھان اور اساس ولی کی کرامت پر تھی، اور یہ تصور عہد جدید سے قبل مسلم سلطنتوں بشمول ہندوستان کی مغلیہ اور ایران کی صفوی سلطنت میں غالب رہا، تاآنکہ استعماری جدیدیت کی تاخت نے اس کو اکھاڑ پھینکا34۔ اس کتاب کا کام وہیں شروع ہوتا ہے جہاں معین نے اپنا کام ختم کیا ہے۔ مجھے اس سوال میں دلچسپی ہے کہ جب اس عہد کے  تقریباً‌ اختتامی دور میں جس کا مطالعہ اظفر معین نے کیا ہے، ایک تصور کی حیثیت سے حاکمیتِ اعلیٰ کے مسئلے کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا۔

میں بطورِ خاص اس سوال کو زیرِ غور لاؤں گا کہ ہندوستان میں مغل بادشاہت سے برطانوی استعمار کی طرف انتقال کا یہ عبوری دور کس طرح ان مباحثوں اور مناقشوں کے لیے بنیاد فراہم کرتا ہے جو علما کے مابین اور ان کے ہم عصر معاشروں میں  حاکمیتِ اعلی کے تصور پر وقوع پذیر ہوئے؟ میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ اور انسانی شخصیت کے درمیان اس شرعی رشتے کے متعلق سوالات پر توجہ دوں گا جو انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان اہل علم کے درمیان شدید علمی ہیجان اور کشمکش کے مظاہر کے طور پر سامنے آئے۔

مثلاً ایک ایسے دور میں جب سیاسی حاکمیتِ اعلیٰ روز افزوں انحطاط پذیر تھی، خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کے بارے میں کس طرح کے تصورات پیش کیے گئے؟ مسلمان کس طرح اپنی روزمرہ زندگی اس نہج پر گزاریں جس میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی مکمل خصوصی اور امتیازی حیثیت  کا اقرار ہو؟ حاکمیتِ اعلیٰ کا انحصار کس بات پر ہے؟ کیا خدائی حاکمیتِ اَعلیٰ کا دار ومدار مُعجِزات جیسے استثنائی قانون کی تنفیذ پر ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں ہے تو پھر قیامت کے دن آنحضرت ﷺ کی شفاعت والے کردار کو کیسے سمجھا جائے، جب ان کی برکت ورحمت سے گناہ گاروں کو بخشش کی استثنا دی جائے گی؟ استثنا دینے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ کیا استثنائیت کے خدائی یا پیغمبری  دعووں میں کوئی تضاد ہے؟ جیسا کہ میں بتانے کی کوشش کروں گا، یہ بظاہر کلامی سوالات اس بات سے انتہائی گہرا تعلق رکھتے تھے کہ کس طرح سیاست کے شرعی حدود کے بارے میں تصورات قائم کیے گئے۔ آنے والے صفحات میں، میں شاہ محمد اسماعیل اور علامہ فضل حق خیر آبادی کے درمیان شفاعتِ نبوی کے حدود پر برپا ہونے والے پرجوش مناظروں کے گہرے مطالعے سے کلامی اور سیاسی تصورات کے باہمی تعامل کی تحقیق کروں گا35۔ میں امکانِ کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کا امکان) اور امکانِ نظیر (یعنی اللہ تعالی کا حضرت محمد ﷺ کی طرح کی  ایک اور شخصیت کو پیدا کرنے کا امکان) کے متنازع مسائل میں ان کے حریف مواقف کا تفصیلی تجزیہ بھی پیش کروں گا۔

میں اپنے استدلال میں بتاؤں گا کہ شاہ اسماعیل اور علامہ خیر آبادی کے متقابل کلامی افکار کی اساس سیاسی عوامل کے وہ حریف بیانیے تھے، جس نے انسانی فرد اور خدائی حاکمیتِ اعلی کے درمیان شرعی تعلق کو استوار کیا۔ میں بتاؤں گا کہ بظاہر ان کلامی مناقشوں کے پیچھے یہ بڑا سیاسی سوال کار فرما تھا کہ سیاسی تغیّر وتبدیلی کے حالات میں حاکمیتِ اعلیٰ کو کس طرح سمجھنا چاہیے۔ اس لیے میرا تجزیہ الہیاتی اور سیاسی تصورات کے باہمی تعامل اور یک جائی سے متعلق ہے۔ میری تحقیق کا مرکزی موضوع وہ مناہج ہیں جن کے ذریعے مسلمانوں کے کلامی مباحث تشکیل دیے گئے اور جن کی بنیاد سیاسی تصورات کی متوازی تفہیمات تھیں۔

اس بحث کی تمہید کے طور پر، میں اس کتاب کے پہلے حصے میں انیسویں صدی کے اوئل کی ایک سنسنی خیز شخصیت شاہ محمد اسماعیل کی حیات اور علمی خدمات کو غور وفکر کا موضوع بناؤں گا  جن کی تحریروں اور سرگرمیوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں ایک طوفان بپا کر دیا۔ جنوبی ایشیائی اسلام کی علمی اور سماجی تاریخ پر شاہ اسماعیل نے انمٹ نقوش ثبت کیے، اگر چہ ان کی مذہبی فکر کی پرتیں اور تضادات بہت کم زیر بحث لائے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے صفحات میں اس خلا کو پر کرنے کے لیے کچھ پیش رفت ہوگی۔ لیکن شاہ اسماعیل کون تھے، اور وہ اس قدر متنازع کیوں ہیں؟ میں اس سوال کے جواب سے ابتدا کرتا ہوں۔


حواشی

  1.  اشرف علی تھانوی، ارواحِ ثلاثہ (کراچی: دار الاشاعت، 2001)، 49۔
  2.  ایضا، 49-50۔
  3.  مرینالانی راجاگوپالن (Mrinalani Rajagopalan) نے اپنی معلوماتی تحقیق Building Histories: The Archival and Affective Lives of Five Monuments in Modern Delhi  (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2016) میں بتایا ہے کہ جامع مسجد، جو دلی کی سب سے بڑی مسجد ہے، جسے مغل بادشاہ شاہ جہاں نے سترھویں صدی میں تعمیر کیا، بیسویں صدی میں استعمار مخالف اور سیکولر قوم پرست تحریک کا زبردست مرکز رہی، جو استعماری طاقت کے حدود اور خالص مذہبی مقام کی حیثیت سے مسجد کی روایتی تعریف کا پول کھولتی ہے۔ راج گوپالن کے تجزیے میں اس نکتے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے کہ ایک صدی قبل بھی، جیسا کہ درج بالا واقعے میں بتایا گیا، جامع مسجد وہ مقام تھا، جہاں پر استعماری راج میں انتقال کے عبوری دور میں سماج کی شرعی زندگی کے متعلق سنسنی خیز بین المسالک اختلافات اور حریف تصورات زیادہ واضح طور پر سامنے آئے۔ بین المسالک مناقشے کے لیے ظاہری مقام وعلامت اور استعماری حکومت کے رینگتے ساے کی ایک واضح نشانی کی حیثیت سے جامع مسجد کی نمایاں اہمیت کا سب سے حیران کن مظاہرہ شاہ اسماعیل کی خطیبانہ اور تدریسی سرگرمیوں پر برطانوی ریزیڈنٹ افسر کی طرف سے پابندی ہے، جسے میں اس حصے میں بعد میں بیان کروں گا۔
  4.  اشرف تھانوی، ارواحِ ثلاثہ، 49-50۔
  5.  رابرٹ اورسی، History and Presence (کیمبرج، ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 10۔
  6.  کرسٹوفر بیلی، Indian Society and the Making of the British Empire (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1988)۔
  7.   Cambridge Companion to Classical Islamic Theology، تدوین: ٹِم وِنٹر (کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2010) میں مارسیا ہرمینسن کا مضمون، Eschatology، 308- 324۔
  8.  سٹڈیا اسلامیکا 87 (1998): 125- 139میں شون مارمن کا مضمون: The Quality of Mercy: Intercession in Mamluk Society۔
  9.  کارل سیاسی کلامیات کے بڑے نظریہ سازوں میں سے تھے، جو 1888 سے لے کر 1985 تک حیات رہے۔ وہ اپنے اس نظریے کے لیے سب سے زیادہ مشہور ہیں کہ حاکمیتِ اعلیٰ کا حامل وہ ہے، جو استثنا لاگو کر سکتا ہو۔ کارل شمٹ، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty  (کیمبرج، ایم اے: ایم آئی ٹی پریس، 1986)، 36۔
  10.  پال کاہن، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty (نیو یارک: کولمبیا پریس، 2012)، 18۔
  11.  گراہم ہامل اور جولیا لپٹن،Political Theology and Early Modernityکا تعارف، تدوین: گراہم ہامل اور جولیا لپٹن (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2012)، 1۔
  12.  ایضا۔
  13.  کلامی مباحثوں اور مناقشوں کی اساس  اور ان میں کار فرما مباحثوں و مناقشوں کی تحقیق میں میں خود کو عُوَیمر انجُم کے اس فکر انگیز نکتے سے شدید متفق پاتا ہوں کہ: "کسی بھی فکری دنیا میں فکر ونظر کے سیاسی دائرے کی بنیاد اساسی عقائد اور عموماً‌ ساکت اور پیشگی مفروضے ہوتے ہیں۔ جدید اہل علم نے اسلام کی سیاسی فکر کو عموماً خلافت پر روایتی مصادر سے سمجھا ہے، لیکن انھوں نے بڑی حد تک علمیات، کلامیات اور قانونی نظریے کو نظر انداز کیا ہے"۔عُویمِر انجم، Politics, Law, and Community in Islamic Thought: The Tamiyyan Moment (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)، 9۔
  14.  شمٹ، Political Theology ، 46۔
  15.  ایضا، 1-55۔
  16.  ایضا، 43۔
  17.  ڈیوڈ گلمارٹن، Rethinking the Public through the Lens of Sovereignty، جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈیز 38، نمبر 3 (ستمبر 2015): 371- 386۔
  18.  میتھی مکھرجی،India in the Shadows of Empire: A Legal and Political History, 1774-1950 (نیو دلی، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2010)، xv ۔
  19.  ایضا، xvi۔
  20.  کرسٹوفر بیلی، Empire and Information: Intelligence Gathering and Social Communication in India, 1780-1870، (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1999) اور Indian Society (؟)۔
  21.  سودِپتا کاویراج، The Trajectories of the Indian State (رانیکھٹ: پرمننٹ بلیک، 2010)، 51۔
  22.  ایضا۔
  23.  ایضا، 40۔
  24.  The Prevention of Tradition، تدوین: ایرک ہوبزباون اور ٹیرنس رینجر (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1992)، 73،میں برنارڈ کوہن کا مضمون، Representing Authority in Victorian India۔
  25.  ایضا۔
  26.  ایضا، 169 – 170۔
  27.  ایضا، 172۔
  28.  ایضا، 178۔
  29.  اس مسئلے میں میری سوچ ڈیوڈ گلمارٹن کے ساتھ کی جانے والی گفتگو سے متاثر ہے۔
  30.  مارگریٹ پرناو، Ashraf into Middle Classes: Muslims in Nineteenth-Century Delhi(نیو دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2013)۔
  31.  ایضا، 1- 157 اور 179 – 297۔
  32.  ایضاً، 423۔
  33.  اَظفَر مُعین، The Millennial Sovereign: Sacred Kingship and Sainthood in Islam (نیویارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2010)، 5۔
  34.  ایضا، 2 – 22۔
  35.  میں یہ بات ایک بار پھر کہتا ہوں کہ جس مناظرانہ کش مکش کو یہاں زیر بحث لایا گیا ہے، وہ کہیں 1826 میں وقوع پذیر ہوئی ہے، ہندوستانی تاریخ کاا یک ایسا دور جب برطانوی استعمارپہلے سے قابض ہو گیا تھا، لیکن اس نے مکمل طور پر مغلیہ سلطنت کو برطرف نہیں کیا تھا، وہی پیش رفت جو بعد میں 1857 میں وقوع پذیر ہوتی ہے۔ اس لیے کئی حوالوں سے اس تاریخی دور کو مغلیہ سلطنت سے برطانوی استعماری راج میں تبدیلی کے آہستہ لیکن حتمی عبوری دور کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا ہے۔


اپریل ۲۰۲۲ء

مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین سے متعلق ہمارا موقفمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۷)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ سنن ابی داود (۴)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۹)مولانا سمیع اللہ سعدی 
کم عمری کا نکاح: اسلام آباد ہائیکورٹ کا متنازعہ فیصلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
قادیانیوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں میں فرقمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق اور توہینِ قرآن و توہینِ رسالت کے الزاماتڈاکٹر محمد مشتاق احمد 
مسلم وزرائے خارجہ سے توقعاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہڈاکٹر شہزاد اقبال شام 
ماں باپ کی زیادہ عمر اور ڈاؤن سنڈروم کا تعلقخطیب احمد 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۴)ڈاکٹر شیر علی ترین 
الشریعہ اکادمی کا سالانہ نقشبندی اجتماعمولانا محمد اسامہ قاسم 
ولی کامل نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ؒکی رحلتمولانا ڈاکٹر غازی عبد الرحمن قاسمی 

مرزا غلام احمد قادیانی کے متبعین سے متعلق ہمارا موقف

محمد عمار خان ناصر

مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے متبعین کے متعلق اپنے نقطہ نظر کے مختلف پہلو میں وقتاً‌ فوقتاً‌ اپنی تحریروں میں بیان کرتا رہا ہوں۔ آج کل یہ سوال پھر زیربحث ہے، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اپنے موقف کی ایک جامع اور مختصر وضاحت یکجا پیش کر دی جائے۔

1۔ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے اور ایک مستقل امت کے طور پر مسلمانوں کی شناخت کی بنیاد ہے۔ اس عقیدے کی بالکل الگ اور مبتدعانہ تشریح کرتے ہوئے مرزا صاحب کو نبی ماننے کی بنیاد پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا آئینی فیصلہ بالکل درست ہے۔

2۔ آئینی فیصلے کے بعد قادیانیوں کو پاکستان کے دوسرے غیر مسلم شہریوں کی طرح وہ تمام حقوق اور تحفظات حاصل ہیں جو آئین اور قانون غیر مسلموں کو دیتے ہیں۔ اس میں قادیانیوں اور دوسرے غیر مسلموں میں کوئی فرق آئین وقانون کی رو سے درست نہیں اور یہ آئینی حیثیت اس کے ساتھ بھی مشروط نہیں کہ قادیانی خود کو غیر مسلم تسلیم کر لیں۔ البتہ دلیل اور منطق کے ساتھ دنیا پر اور خود قادیانیوں پر بھی اس فیصلے کی دینی بنیاد اور عملی ضرورت کو واضح کرتے رہنا چاہیے۔

3۔ قادیانیوں کے عمومی مقاطعہ کو دینی حکم قرار دینا درست نہیں۔ انفرادی طور پر حسب مصلحت کسی کو میل جول سے روکا جا سکتا ہے، لیکن بحیثیت گروہ سماجی معاملات میں ان سے تعلقات نہ رکھنا نہ دین کا حکم ہے اور نہ اس امتیاز کی آئین وقانون اجازت دیتے ہیں۔

4۔ قادیانی ایک منحرف گروہ کے طور پر امت مسلمہ کے مدعو ہیں۔ ان کی غلطی سمجھانے کے لیے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اور تنقید کا سوقیانہ انداز اختیار کرنا دینی اخلاقیات کے خلاف ہے جس پر حضرت مولانا مفتی محمد شفیع، حضرت مولانا سرفراز خان صفدر اور حضرت مولانا حیات خان جیسے اکابر کی تنبیہات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں آئین وقانون بھی اس کو قابل تعزیر قرار دیتا ہے جس کی وضاحت پاکستان کے ضابطہ تعزیرات کی شق 295-Aمیں موجود ہے۔ یہ قانون بتاتا ہے کہ پاکستان کے شہریوں میں سے کسی بھی گروہ کے مذہبی احساسات کو مجروح کرنے یا اس کے مذہبی مقدسات کی توہین کرنے پر دس سال تک قید کی سزا اور جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔

295-A. Deliberate and malicious acts intended to outrage religious feelings of any class by insulting Its religion or religious beliefs:
Whoever, with deliberate and malicious intention of outraging the 'religious feelings of any class of the citizens of Pakistan, by words, either spoken or written, or by visible representations insults the religion or the religious beliefs of that class, shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to ten years, or with fine, or with both.

5۔ مسلمانوں اور قادیانیوں کے باہمی معاملات میں ان پر غیر مسلم کے احکام جاری ہوں گے، تاہم اگر امت مسلمہ اور کفار کے مابین کسی تنازع یا کشمکش میں سیاسی سطح پر قادیانی مسلمانوں کی صف میں کھڑا ہونا چاہیں اور مسلمانوں کی اجتماعی قیادت اسے اسلام اور مسلمانوں کے نقطہ نظر سے قرین مصلحت دیکھے تو ایسا کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ تحریک پاکستان کے موقع پر مسلم لیگ نے کیا اور مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا مفتی محمد شفیع جیسے جید علماء نے اس کی تصویب کی۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۷)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(318) ایواء کا مطلب

آوی یؤوی ایواء کا اصل مطلب ٹھکانا فراہم کرنا ہوتا ہے۔ البتہ جب کسی دشمن یا کسی خطرے سے بچاؤ کا موقع ہو تو پناہ دینا بھی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہوجاتاہے۔ اس لیے اگر موقع پناہ کا نہیں ہو تو ایواء کا ترجمہ ’ٹھکانا دینا‘ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے درج ذیل آیتوں کے ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:

(۱) وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ آیة وَآوَیْنَاہُمَا إِلَیٰ رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِینٍ۔ (المومنون: 50)

اس آیت میں آوَیْنَاہُمَا کہہ کر ٹھکانا فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے، نہ کہ پناہ دینے کی۔ اس آیت میں اس انتظام کی طرف اشارہ ہے، جو حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش کے وقت اللہ تعالی نے حضرت مریم  علیہا السلام کے لیے کیا تھا۔جس کا ذکر سورہ مریم میں ہے۔ اللہ تعالی نے اس عمدہ انتظام کو بھی اپنی نشانی کے طور پر بیان کیا ہے۔ درج ذیل آیت میں معین سے مراد ایک چشمہ ہے نہ کہ بہت سے چشمے۔ آیت کے ترجمے ملاحظہ کریں:

”اور بنایا ہم نے مریم کے بیٹے اور اس کی ماں کو ایک نشانی اور ان کو ٹھکانا دیا ایک ٹیلے پرجہاں ٹھیراؤ تھا اور پانی نتھرا“۔ (شاہ عبدالقادر، یہ مناسب ترجمہ ہے)

”اور ابن مریم اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشان بنایا اور ان کو ایک سطحِ مرتفع پر رکھا جو اطمینان کی جگہ تھی اور چشمے اس میں جاری تھے“۔ (سید مودودی، غالباً کاتب کی غلطی سے نشانی کی جگہ نشان ہوگیا۔ ’چشمے جاری تھے‘ کے بجائے ’چشمہ جاری تھا‘ ہونا چاہیے۔)

درج ذیل ترجموں میں پناہ دینا ہے، جو مناسب نہیں ہے:

”اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسیٰ) اور ان کی ماں کو (اپنی) نشانی بنایا تھا اور ان کو ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور جہاں (نتھرا ہوا) پانی جاری تھا، پناہ دی تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے ابن مریم اور اس کی والدہ کو ایک نشانی بنایا اور ان دونوں کو بلند صاف قرار والی اور جاری پانی والی جگہ میں پناہ دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے مریم کے بیٹے (عیسی علیہ السلام) کو اور ان کی ماں (حضرت مریم) کو بڑی نشانی بنایا اور ہم نے ان کو ایک ایسی بلند زمین پر لے جاکر پناہ دی جو (بوجہ غلات اور میوہ جات پیدا ہونے کے) ٹھہرنے کے قابل اور شاداب جگہ تھی“۔ (اشرف علی تھانوی)

(۲) أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَیٰ۔ (الضحی: 6)

اس آیت میں بھی پناہ دینے کا محل نہیں ہے، بلکہ ٹھکانا دینے ہی کا محل ہے۔

”بھلا نہ پایا تجھ کو یتیم پھر جگہ دی“۔ (شاہ عبدالقادر)

”کیا اس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا فراہم کیا؟“۔ (سید مودودی)

”کیا خدا نے آپ(ص) کو یتیم نہیں پایا؟ تو پناہ کی جگہ دی؟“۔ (محمد حسین نجفی)

”کیا اس نے تم کو یتیم پاکر پناہ نہیں دی ہے“۔ (ذیشان جوادی)

(۳) وَلَمَّا دَخَلُوا عَلَیٰ یُوسُفَ آوَیٰ إِلَیْہِ أَخَاہُ۔ (یوسف: 69)

اس آیت میں بھی پناہ دینے کی بجائے اپنے نزدیک کرلینا درست ترجمہ ہے۔

”اور جب وہ لوگ یوسف کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنے پاس پناہ دی“۔ (ذیشان جوادی)

”یہ لوگ یوسفؑ کے حضور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا“۔ (سید مودودی)

(۴) تُرْجِی مَن تَشَاءُ مِنْہُنَّ وَتُؤْوِی إِلَیْکَ مَن تَشَاءُ۔ (الاحزاب: 51)

اس آیت میں پناہ دینا نہیں بلکہ اپنے پاس رکھ لینا درست ترجمہ ہے۔

”ان میں سے جس کو آپ چاہیں الگ کرلیں اور جس کو چاہیں اپنی پناہ میں رکھیں“۔ (ذیشان جوادی)

”ان میں سے جسے تو چاہے دور رکھ دے اور جسے چاہے اپنے پاس رکھ لے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(319)  وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِینَ

غفلت کا مطلب لاپرواہی برتنا ہوتا ہے، نہ کہ کسی کام سے نا بلد ہونا۔ درج ذیل آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ مخلوق سے غافل و بے پروا نہیں ہے۔ طرائق طریقة کی جمع ہے جس کے معنی راستے کے ہیں۔ درج ذیل آیت میں طرائق کا ترجمہ راستے ہونا چاہیے، البتہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے نزدیک طرائق سے آسمان مراد ہیں۔

وَلَقَدْ خَلَقْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعَ طَرَائِقَ وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِینَ۔ (المومنون: 17)

”اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، تخلیق کے کام سے ہم کچھ نابلد نہ تھے“۔ (سید مودودی)

”اورہم ہی نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم بنانے میں بے خبر نہ تھے“۔ (احمد علی)

”ہم نے تمہارے اوپر سات آسمان بنائے ہیں اور ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم نے تمہارے اوپر (کی جانب) سات آسمان پیدا کئے۔ اور ہم خلقت سے غافل نہیں ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہ بہ تہ آسمان بنائے اور ہم مخلوق سے بے پروا نہیں ہوئے“۔ (امین احسن اصلاحی، ’بے پروا نہیں تھے‘ ہونا چاہیے۔)

”اور تمہارے اوپر ہم نے سات راستے بنائے، اور ہم مخلوق سے بے پروا نہیں تھے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(320) أَنزِلْنِی مُنزَلًا مُّبَارَکًا

وَقُل رَّبِّ أَنزِلْنِی مُنزَلًا مُّبَارَکًا وَأَنتَ خَیْرُ الْمُنزِلِینَ۔ (المومنون: 29)

”اور کہہ، پروردگار، مجھ کو برکت والی جگہ اتار اور تُو بہترین جگہ دینے والا ہے“۔(سید مودودی)

”اور عرض کر کہ اے میرے رب مجھے برکت والی جگہ اتار اور تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور (یہ بھی) دعا کرنا کہ اے پروردگار ہم کو مبارک جگہ اُتاریو اور تو سب سے بہتر اُتارنے والا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور کہنا کہ اے میرے رب! مجھے بابرکت اتارنا اتار اور تو ہی بہتر ہے اتارنے والوں میں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور دعا کیجیو کہ اے رب! تو مجھے اتار مبارک اتارنا اور تو بہترین اتارنے والا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

بعض لوگوں نے مبارک جگہ ترجمہ کیا ہے اور بعض لوگوں نے مبارک اتارنا ترجمہ کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ یہاں منزلا ظرف نہیں بلکہ مصدر میمی ہے۔ وہ حسب ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”اور کہو کہ اے رب! تو مجھے اپنی برکتوں کے ساتھ اتار اور تو بہترین اتارنے والا ہے“۔

اس سے ترجمے میں شگفتگی بھی آجاتی ہے اور اس میں معنویت بھی بھرپور ہے۔

(321) ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ

درج ذیل آیت میں کس چیز کو بعید کہا جارہا ہے، وعدے کو، یا اس چیز کے واقع ہونے کو جس کی خبر دی جارہی ہے۔ ظاہر ہے وعدہ یا خبر تو دے دی گئی ہے، اس کے بعید ہونے کا سوال نہیں ہے، یہاں اس چیز کے بعید ہونے کی بات ہے جس کے واقع ہونے کی خبر دی جارہی ہے۔

ہَیْہَاتَ ہَیْہَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ۔ (المومنون: 36)

”بعید، بالکل بعید ہے یہ وعدہ جو تم سے کیا جا رہا ہے“۔ (سید مودودی)

”بہت ہی بعید اور نہایت ہی مستبعد ہے یہ ڈراوا جو تمھیں سنایا جارہا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”جس بات کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے (بہت) بعید اور (بہت) بعید ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(322) فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ

فَأَخَذَتْہُمُ الصَّیْحةُ بِالْحَقِّ فَجَعَلْنَاہُمْ غُثَاءً فَبُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ۔ (المومنون: 41)

”پس پکڑا ان کو آواز تند نے ساتھ حق کے، پس کردیا ہم نے ان کو ریزہ ریزہ پس لعنت ہے واسطے قوم ظالموں کے“۔ (شاہ رفیع الدین، غثاء کا ترجمہ ریزہ ریزہ کرنا درست نہیں ہے، اس کا مطلب کوڑا کرکٹ ہوتا ہے)

”پھر کردیا ہم نے ان کو کوڑا سو دور ہوجاویں گے گناہ گار لوگ“۔ (شاہ عبدالقادر، ظالمین کا ترجمہ گناہ گار لوگ کرنا درست نہیں ہے)

”تو ہم نے ان کو کوڑا کرڈالا۔ پس ظالم لوگوں پر لعنت ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا دُور ہو ظالم قوم!“۔ (سید مودودی، کچرا بنادیا درست ہے، بناکر پھینک دیا درست نہیں ہے۔)

”تو ہم نے انہیں گھاس کوڑا کردیا تو دور ہوں ظالم لوگ“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہم نے انہیں کوڑا کرکٹ کر ڈالا، پس ظالموں کے لیے دوری ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو ہم نے ان کو خس و خاشاک کردیا۔ تو خدا کی پھٹکار ہو ایسے بدبختوں پر“۔ (امین احسن اصلاحی، ظالمون کا ترجمہ بدبختوں درست نہیں ہے۔)

(323) مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ

درج ذیل آیت دو مقام پر آئی ہے، دونوں جگہ مضارع کے صیغے میں ہے، لیکن دونوں جگہ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ ماضی کا کیا ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

مَا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ۔ (المومنون: 43)

”نہ تو کوئی امت اپنے وقت مقررہ سے آگے بڑھی اور نہ پیچھے رہی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوئی اور نہ اس کے بعد ٹھیر سکی“۔ (سید مودودی)

اوپر کے دونوں ترجموں میں یہ غلطی ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”نہ کوئی قوم اپنی اجل معین سے پہل ہی کرتی اور نہ وہ اس سے پیچھے ہی ہٹتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی) آگے بڑھ سکتی ہے نہ اس سے پیچھے رہ سکتی ہے۔

”کوئی جماعت اپنے وقت سے نہ آگے جاسکتی ہے نہ پیچھے رہ سکتی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

مَّا تَسْبِقُ مِنْ أُمّةٍ أَجَلَہَا وَمَا یَسْتَأْخِرُونَ۔ (الحجر: 5)

”کوئی گروہ اپنے وعدہ سے آگے نہ بڑھے نہ پیچھے ہٹے“۔ (احمد رضا خان)

”کوئی قوم اپنے وقت مقرر سے نہ پہلے ہلاک ہوئی ہے نہ پیچھے رہی ہے“۔ (احمد علی)

اوپر کے دونوں ترجموں میں یہ غلطی ہے، جب کہ درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”کوئی قوم نہ اپنے وقت مقرر سے پہلے ہلاک ہوسکتی ہے، نہ اُس کے بعد چھوٹ سکتی ہے“۔ (سید مودودی)

”کوئی گروہ اپنی موت سے نہ آگے بڑھتا ہے نہ پیچھے رہتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)


مطالعہ سنن ابی داود (۴)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: ایک موقع پر ایک بدوی آپﷺ کے پاس آیا اور آپ ﷺ نے اسے دین کی تعلیم دیتے ہوئے صرف ارکان دین یعنی عبادات کے متعلق بتایا۔ (کتاب الصلاۃ، باب فرض الصلاۃ، حدیث نمبر ۳۹۱) معاملات کی بات نہیں فرمائی۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: ایسے موقع پر سائل کے مقصد کو پیش نظر رکھنا ہوتا ہے کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے۔ سائل کا مقصد سمجھ کر کہ وہ کیا پوچھنا چاہ رہا ہے، اس کے لحاظ سے جواب دے دیا جاتا ہے۔ باقی چیزوں کی نفی مقصود نہیں ہوتی۔ یہاں سائل دین کی کوئی ایسی وضاحت طلب ہی نہیں کر رہا جو پوری انسانی زندگی پر محیط ہو۔ بنیادی انسانی اخلاقیات کی جو باتیں معروف ہیں، وہ ان سے واقف ہے، اور وہ چاہ رہاہے کہ دین مجھ پر اس کے علاوہ کیا ذمہ داری عائدکر تا ہے جسے اداکرنے کے بعد میں سرخروہوجاؤں گا۔ ظاہرہے، اس کے جواب میں آپ ﷺ کو پورے دین کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔

مطیع سید: عورتیں جو بالوں کی مینڈھیاں بناتی تھیں، آپﷺنے انہیں غسل کے لیے کھولنے کا حکم نہیں فرمایا۔ (کتاب الطہارۃ، باب فی المراۃ ہل تنقض شعرہا عند الغسل، حدیث نمبر ۲۵۱) تو کیا اس سے نیل پالش کا جواز نکال سکتے ہیں کہ وضو یا غسل کے لیے اسے اتارنے کی ضرورت نہیں؟

عمار ناصر: مینڈھیوں پر قیاس نہ کیا جائے تو بھی میری رائے میں تو ایسا کرنا درست ہے۔

مطیع سید: یعنی جب وضو کر کے نیل پالش لگائی ہو یا پھر اس کے لیے وضو کی شرط بھی نہیں؟

عمار ناصر: غامدی صاحب نے اس کو موزوں کے مسح پر قیاس کرتے ہوئے یہ رائے دی ہے کہ اگر وضو کر کے نیل پالش لگائی ہو تو پھر اس کے اوپر سے پانی بہا دینا کافی ہے۔ میرے خیال میں تو وضو کر کے لگانا ضروری نہیں۔ اگر ویسے بھی لگا لی ہو تو اس کے ساتھ ہی وضو کیا جا سکتا ہے۔ اس کو یوں سمجھا جائے گا کہ جب تک نیل پالش لگی ہوئی ہے، وہ چمڑے کا یا ناخن کا حصہ ہی ہے۔ میرے نزدیک جو لوگ رنگ روغن کا کام کرتے ہیں اور ان کے ہاتھوں پر پینٹ لگ جاتا ہے جسے کافی کوشش سے ہی اتارا جا سکتا ہے، ان کا حکم بھی یہی ہے۔ جب تک وہ پینٹ جسم پر لگا ہوا ہے، وہ جسم کی جلد کی ہی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ میرے خیال میں شریعت کے اصول تیسیر کا تقاضا ہے۔

مطیع سید: صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین کے کچھ غلام مسلمان ہو کر آگئے تو آپﷺ نے انھیں واپس بھیجنے سے انکار فرما دیا۔ (کتاب الجہاد، باب فی عبید المشرکین یلحقون بالمسلمین فیسلمون، حدیث نمبر ۲۷۰۰) کیا یہ صلح حدیبیہ کے بعد کا واقعہ ہے؟ اس معاہدے میں تو طے کیا گیا تھاکہ مشرکین میں سے جو مسلمانوں کے پاس جائے گا، اسے واپس بھیج دیا جائے گا۔

عمار ناصر: نہیں، روایت میں تصریح ہے کہ یہ معاہدہ طے پانے سے پہلے کا واقعہ تھا۔ ابھی چونکہ معاہدہ نہیں ہوا تھا، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں واپس نہیں بھیجا۔

مطیع سید: آپ ﷺنے نجد کی جانب ابان ابن سعید کو سردار بنا کر بھیجا۔ ان کی واپسی پر خیبر فتح ہو چکا تھا۔ آپ ﷺ نے انہیں حصہ نہیں دیا، لیکن ابو موسی اشعری اور جعفر بن ابی طالب کو حصہ عطا فرمایا۔ (کتاب الجہاد، باب فی من جاء بعد الغنیمۃ لا سہم لہ، حدیث نمبر ۲۷۲۳، ۲۷۲۵) آپﷺ نے یہ فرق کیوں رکھا؟

عمار ناصر: مال غنیمت کی تقسیم میں حکمران کی صوابدید کا بھی کافی دخل ہوتا ہے۔ بعض دوسرے مواقع پر بھی آپ نے اپنا یہ صواب دیدی اختیار استعمال فرمایا اور سیاسی یا انفرادی مصلحت کے تحت فیصلہ کیا کہ کس کو کتنا حصہ دینا چاہیے اور کس کو نہیں۔

مطیع سید: مال غنیمت کی تقسیم موجود دور میں بھی اسی طرح ہوگی؟

عمار ناصر: نہیں، اب تو صورتحا ل بہت ہی مختلف ہو گئی ہے۔ نزول قرآن کے زمانے میں مجاہدین ذاتی حیثیت میں ہتھیار اور سواری وغیرہ کا بندوبست کر کے جنگ میں شریک ہوتے تھے۔ بعد کے دور میں باقاعدہ تنخواہ دار فوجیں منظم کر لی گئیں تو مال غنیمت براہ راست فوجیوں میں تقسیم کر دینا ممکن نہیں رہا۔ اگر یہی طریقہ جاری رکھا جاتا تو سرکاری خزانے سے فوجوں کے اخراجات کی رقم کہاں سے لائی جاتی؟ آج کل کے بین الاقوامی معاہداتی نظام میں تو مال غنیمت پر فاتحین کے حق کو بھی کافی محدود کر دیا گیا ہے۔ غالباً‌ دشمن کے جنگی سازوسامان پر قبضہ کر لینا تو فاتح کا حق مانا جاتا ہے، لیکن اس کے علاوہ عام لوگوں کے اموال پر قبضہ درست نہیں مانا جاتا۔ مال غنیمت کا قدیم تصور اس سے مختلف تھا۔

مطیع سید: حدیبیہ کے معاہدے کے بعد ایک صحابی ابو بصیر مکے سے بھاگ کر مدینہ آ گئے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کے مطابق انھیں واپس بھیج دیا۔ راستے میں انھوں نے گرفتار کر کے لے جانے والے مشرکوں کو قتل کر دیا اور پھر اپنی طرح مکے سے بھاگ کر نکلنے والے بہت سے افراد کا ایک جتھہ بنا کر مشرکین پر حملے کرنے لگے۔ (کتاب الجہاد، باب فی صلح العدو، حدیث نمبر ۲۷۶۵) کیا ابو بصیر کا یہ اقدام غیر شرعی تھا؟

عمار ناصر: نہیں، اس میں کسی شرعی اصول کی خلاف ورزی تو انھوں نے نہیں کی تھی۔ معاہدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا تھا اور آپ نے معاہدے کے مطابق انھیں واپس بھیج دیا۔ مکے کے مسلمان جنھیں جبراً‌ مکے والوں نے قید بنا کر رکھا ہوا تھا، وہ تو اس معاہدے کا فریق ہی نہیں تھے۔ ان کو پورا حق حاصل تھا کہ وہاں سے آزادی حاصل کریں اور اگر مجتمع ہو کر ظالموں کے خلاف لڑ سکتے ہوں تو لڑیں۔ ابوبصیر اور ان کے ساتھیوں نے یہی کیا۔

مطیع سید: آپﷺ نے ابو بصیر کو کوئی پیغام کیوں نہیں بھجوایا کہ یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے؟

عمار ناصر: نہیں، اس کی ضرورت کیا تھی؟ اس کے کام میں کوئی شرعی خرابی تو تھی نہیں تو کیوں آپ ﷺ پیغام بھیجتے؟ ہاں، یہ آپ نے ضرور واضح کر دیا تھا کہ آپ ان کو مدینہ میں پناہ نہیں دے سکتے، کیونکہ اس سے قریش کے ساتھ جنگ کی آگ دوبارہ بھڑک اٹھے گی۔ مدینہ کے علاوہ وہ اپنے طور پر جہاں بھی جاتے اور جو بھی کرتے، ا س کی ذمہ داری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نہیں آتی تھی۔

مطیع سید: آپ ﷺ خود قریش سے نہیں لڑ رہے تھے اور جو لڑائی چھیڑ رہا تھا، اسے منع بھی نہیں کررہے تھے؟

عمار ناصر: آپﷺ تو اس لیے لڑائی نہیں کر رہے تھے کہ ان سے معاہدہ کر چکےتھے اور معاہدے کے پابند تھے۔ ابوبصیر کو کیوں منع کرتے؟ ان کا تو کوئی معاہدہ نہیں تھا اور وہ قریش کے مظلوم بھی تھے۔

مطیع سید: حضورﷺ نے ایک معاہدہ کیا اور ابو بصیر آپﷺ کے ایک ماننے والا تھے۔ کیااس معاہدے کی پابندی ان پر لاگو نہیں ہوتی تھی؟

عمار ناصر: بالکل نہیں ہوتی تھی۔ وہ معاہدہ آپ نے اس حیثیت سے نہیں کیا تھا کہ میں پیغمبر ہوں اور میرے سب ماننے والے اس کے پابند ہوں گے۔ وہ اس حیثیت سے تھا کہ مدینے میں جو ہماری حکومت قائم ہے اور مدینے میں جو لوگ آپﷺ کی حکومت کے تحت رہ رہے ہیں، وہ اس کے پابند ہیں۔ مکے کے مسلمان تو نہ اس معاہدے میں شریک ہوئے تھے اور نہ اس کے پابند تھے۔ یہ مدینے کی حکومت اور مکے کے سرداروں کے درمیان ایک معاہدہ تھا۔

مطیع سید: آج جو فاٹا کے لوگ ہیں، کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ریاستِ پاکستان کی عمل داری میں نہیں آتے، ہم تو الگ ہیں، اس لیے ہم ریاست پاکستان کی پالیسیوں کے پابند نہیں؟

عمار ناصر: ا گر ان کی یہ بات درست ہے کہ ان پر ریاست پاکستان کی پالیسیوں کی پابندی لازم نہیں تو ان کا نتیجہ بھی ٹھیک ہے۔ ریاست پاکستان کی ان علاقوں کے ساتھ معاہدے کی کیا نوعیت ہے، یہ دیکھنا پڑے گا۔ اگر تو اس معاہدے کے مطابق وہ پاکستان کی سیاسی پالیسی کے اور پاکستانی آئین کے پابند ہیں توان کی بات ٹھیک نہیں ہے۔ اگر وہ ریاست کا حصہ ہیں تو ریاست کی رٹ وہاں پر قائم ہوگی۔ ریاست کا حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کوئی خارجہ پالیسی ریاست سے الگ نہیں بنا سکتے۔ ان کے لیے قانونی نظام کے لحاظ سے اگر کوئی الگ بندوبست کیا گیا ہے تو وہ بھی آئین کی کسی Provision کے تحت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اصل میں توریاست پاکستان کا حصہ ہیں۔ میرے علم کی حد تک وہاں وہ عسکریت پسند گروہ تھے، ان کی مرکزی قیادت نے بھی ایسی کوئی دلیل نہیں دی۔ وہ یہ کہتے تھے کہ ہم اس لیے ریاست پاکستان کے پابند نہیں ہیں کہ یہ جمہوریت پر قائم ہے جس کو ہم کفر سمجھتے ہیں۔ گویا آئینی طور پر اور معاہدے کے مطابق ریاست کا حصہ ہونے کے بعد وہ نظریاتی بنیادوں پر اس کی رٹ کو چیلنج کر رہے تھے۔ یہ تو بغاوت ہوتی ہے۔

مطیع سید: آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ جلد تم اہل روم کے ساتھ صلح کروگے اور ان کے ساتھ مل کر ایک دوسرے دشمن کے ساتھ جنگ کرو گے۔ (کتاب الجہاد، باب فی صلح العدو، حدیث نمبر ۲۷۶۷)ایسا کب ہوا؟یا ابھی یہ واقعہ ہوگا؟

عمار ناصر: بظاہر جس طرح سے یہ بات بیان ہوئی ہے، تاریخ میں ایسا کوئی واقعہ نظر نہیں آتا۔ ممکن ہے آگے چل کر کبھی ایسا ہو۔ لیکن بظاہر روایت کے انداز سے لگتا ہے کہ آپﷺ فوراً‌ مابعد کے جو حالات ہیں، اس کے حوالے سے کہہ رہے ہیں۔ پیشین گوئیوں سے متعلق بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو تاریخ میں بعض دفعہ بڑی نمایاں ہوکرواقعات کی صورت میں آجاتی ہیں، لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح کا کوئی واقعہ کسی چھوٹی سطح پر ہواہواور تاریخ میں اتنا نمایاں نہ ہوا ہو۔

مطیع سید: یا ممکن ہے کہ رومیوں کے کسی گروہ سے صلح ہوئی ہو؟

عمار ناصر: ہاں جی، پیشین گوئیوں کا مصداق متعین کرنے میں بہت زیادہ احتمالات اور امکانات ہوتے ہیں۔

مطیع سید: ذی الخلصہ ایک بت خانہ تھا۔ آپ ﷺنے حضرت جریر سے فرمایا کہ کیا تم مجھے اس سے راحت کیوں نہیں دلا دیتے؟تو انھوں نے جا کر اس کو جلادیا۔ (کتاب الجہاد، باب فی بعثۃ البشراء، حدیث نمبر ۲۷۷۲)اس کو کیوں جلوایا گیا اوریہ کس دور کا واقعہ ہے؟

عمار ناصر: بت خانے منہدم کروانے کے جتنے واقعات ہیں، وہ عام طورپر فتح مکہ کے بعد کے ہیں۔ اسی موقع پر آپﷺ نے مہمیں بھیجیں۔ ذو الخلصہ کو گرانے کے لیے آپ نے جریربن عبد اللہ کو مبعوث کیا۔ سرزمین عرب کو شرک اور بت پرستی سے پاک کرنے کی جو ذمہ داری آپ کو دی گئی تھی، یہ اسی کا حصہ تھا۔

مطیع سید: اہل کتاب کا ذبیحہ جائز ہے (کتاب الضحایا، باب فی ذبائح اہل الکتاب، حدیث نمبر ۲۸۱۷) تو کیا وہ بسم اللہ اللہ اکبر کہہ کر ذبح کریں گے تب جائز ہوگا یا اپنے طریقے سے بھی ذبح کر لیں تو وہ حلال ہے؟

عمار ناصر: نہیں، جس طریقے سے بھی انہوں نے اللہ کا نام لے لیا، اپنے مذہب کے مطابق جو بھی ان کے ہاں کلمات ہیں، وہ پڑھ لیے تو جانور حلال ہوگا۔

مطیع سید: جانور ذبح کیا اور اس کے پیٹ میں سے مردہ بچہ نکل آیا تو حدیث میں واضح طورپر آیا ہے کہ اس کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (کتاب الضحایا، باب ما جاء فی ذکاۃ الجنین، حدیث نمبر ۲۸۲۷) لیکن احناف کہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ نکلا ہو تو اس کو ذبح کیا جائے گا، ورنہ وہ مردار سمجھا جائے گا۔

عمار ناصر: ظاہری قیاس کے لحاظ سے احناف کی بات میں وزن ہے۔ پیٹ میں جو بچہ ہے، وہ ایک الگ وجود ہے، اس لیے اس کو الگ سے ذبح ہونا چاہیے۔ اس کی ماں کا ذبح کیا جانا اس کے لیے کافی نہیں۔

مطیع سید: لیکن احناف کے پاس دلیل کیا ہے؟

عمار ناصر: یہی کہ اس کا الگ وجود ہے۔

مطیع سید: اسی لیے محدثین اور احناف کی آپس میں بڑی لگتی رہی ہے۔ لیکن مجھے ذاتی طورپہ یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جب نبیﷺ کی بات سامنے آگئی تو پھر قیاس کو کیوں اہمیت دی جا رہی ہے؟

عمار ناصر: اصل میں ائمہ احنا ف بھی اگر حدیث یا روایت کی صحت پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو وہ بھی ایسے سوال نہیں اٹھاتے۔ ان کے سامنے یا تو اس وقت تک بہت سی روایتیں پہنچی نہیں تھیں یا پہنچی تھیں تو اتنے مخدوش طریقے سے کہ اس پر انہیں اطمینا ن نہیں ہوا۔ یا وہ سمجھ رہے ہیں کہ قیاس چونکہ ایک بالکل مختلف بات بتا رہا ہے تو روایت کے ظاہری مفہوم میں تاویل کر لینی چاہیے۔ تو وہ اس حدیث کی تاویل یوں کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ماں کا ذبح کیا جانا بچے کے لیے بھی کافی ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جیسے ماں کو ذبح کیا گیا، اسی طرح بچے کو بھی ذبح کیا جائے۔

مطیع سید: کیا اس بات کا بھی امکان ہے کہ احناف کے ہاں یہ رائے پہلے قیاس کی بنیاد پر قائم کر لی گئی ہو، اور بعد میں جب انہیں حدیث ملی تو انہوں نے حدیث کی تاویل کرلی؟

عمار ناصر: جی، یہ ممکن ہے۔ بہت سی مثالوں میں ایسے ہی ہواہے کہ روایت ائمہ کے سامنے نہیں آئی، انہوں نے ایک رائے قائم کرلی۔ بعد کے آنے والوں نے رائے نہیں بدلی اور حدیث میں تاویل کا طریقہ اختیار کر لیا۔ امام طحاوی نے تو کئی جگہ امام ابوحنیفہ کی آرا کی یہی توجیہ کی ہے کہ ان تک حدیث نہیں پہنچی تھی۔

مطیع سید: حدیث میں جب ہم الفاظ کی بحث کررہے ہوتے ہیں تو کئی دفعہ الفاظ پر بڑا انحصار کررہے ہوتےہیں۔ ہمیں کیسے یہ پتہ چل سکتا ہے کہ یہ الفاظ بعینہ حضورﷺ کے ہی ہیں؟

عمار ناصر: زیادہ سے زیادہ آپ ظنِ غالب تک پہنچ جاتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس روایت کے کئی طرق ہوں اور کچھ الفا ظ سب طرق میں مشترک آرہے ہیں تو اس سے آپ انداز ہ کر سکتے ہیں کہ یہ الفاظ آپﷺ کے ہیں۔ ورنہ عموماً‌ احادیث کی روایت بالمعنیٰ ہی ہوتی ہے۔

مطیع سید: مسلمان اور کافر آپس میں وارث نہیں ہو سکتے۔ (کتاب الفرائض، باب ہل یرث المسلم الکافر، حدیث نمبر ۲۹۱۰) لیکن حضرت معاذ کے پاس ایک معاملہ لایا گیا جس میں ایک یہودی کا وارث ایک مسلمان بن رہا تھا تو انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دے کر اسے وارث بنادیا کہ الاسلام یزید ولا ینقص، اسلام بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔ (کتاب الفرائض، باب ہل یرث المسلم الکافر، حدیث نمبر ۲۹۱۳)

عمار ناصر: انہوں نے حدیث کی مراد کے متعلق گویا یہ اجتہادی سوال اٹھایا کہ مسلمان اور کافر آپس میں وارث نہیں ہو سکتے، کیا اس کا تعلق اہل کتاب سے بھی ہے یا یہ مشرکین کے بارے میں ہے؟ یہ بات کہی تو آپﷺ نے مشرکین کے تناظر میں ہی تھی۔ جس موقع پر آپﷺ نے یہ بات کہی، وہاں مکے کے مشرکین سے مسلمانوں کو وراثت ملنے یا نہ ملنے کا معاملہ زیر بحث تھا۔ تو اس سے ایک گنجائش نکل آتی ہے کہ اہل کتاب کے احکام مختلف ہیں۔ تو اس سے بعض صحابہ اور تابعین نے یہ قیاس کیا کہ جیسے ہم ان کی عورتوں سے نکاح کر سکتےہیں، لیکن وہ ہماری خواتین سے نکاح نہیں کر سکتے، اسی طریقے سے ان کا مال تو مسلمانوں کو بطور وراثت مل جائے گا، لیکن مسلمان کی وراثت غیر مسلم کو نہیں ملے گی۔ حضرت معاذ کے یہاں الاسلام یزید ولا ینقص کی حدیث کا حوالہ دینے کا یہی مطلب ہے۔

مطیع سید: غزوہ ہند کی جو روایات ہیں، ان کو کیسے سمجھیں؟ کیا یہ روایات درست بھی ہیں یا نہیں؟

عمار ناصر: دو تین طرح کی روایتیں ہیں۔ محدثین ان پر بحث بھی کرتے ہیں۔ بعض کی سند پر جرح بھی ہے، لیکن کچھ صحیح بھی مانی گئی ہیں۔

مطیع سید: محمد بن قاسم جو ہندوستان میں وارد ہوا، یہ اس سے متعلق سمجھی جائیں یا مستقبل کے کسی واقعہ سے متعلق؟

عمار ناصر: فطری طور پر تو جو پہلا غزوہ تاریخ میں ہوا، اس پر اس کو منطبق کرنا چاہیے۔ شارحین کے ہاں یہ رجحان ہے کہ وہ کسی ایک خاص حملے کو متعین کرنے کے بجائے مختلف نمایاں واقعات کو اس کا مصداق قرار دیتے ہیں۔ مثلاً‌ ابن کثیر نے محمد بن قاسم اور اس کے بعد محمود غزنوی وغیرہ کےحملوں کو بھی اس کا مصداق کہا ہے۔ لیکن شارحین اس کے متعلق واضح ہیں کہ اس کا مصداق تاریخ میں رونما ہو چکا ہے، یعنی یہ کوئی ایسی پیشین گوئی نہیں ہے جس کے ظہور کا ابھی انتظار ہے۔

مطیع سید: حضرت صفیہ بنت حیی کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح فرمایا اور خیبر سے واپسی پر راستے میں ہی صحبت بھی فرمائی۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی سہم الصفی، حدیث نمبر ۲۹۹۱) اس سے ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے کوئی عدت نہیں گذاری۔ لیکن اگلی روایت میں آتا ہے کہ آپ ﷺنے انہیں ام سلیم کے گھر عدت کے لیے بھیج دیا۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی سہم الصفی، حدیث نمبر ۲۹۹۷)

عمار ناصر: عدت گذارے بغیر تو ظاہر ہے، زن وشو کا تعلق ممکن نہیں۔ البتہ جو عورتیں جنگ میں قیدی بن کر آتی ہیں، ان کی عدت تین ماہواریوں والی عدت نہیں ہوتی۔ ان کے لیے ایک ماہواری کافی ہوتی ہے جس سے پتہ چل جائے کہ پیٹ میں کوئی چیز نہیں ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ام سلیم بھی خیبر میں ساتھ تھیں اور سیدہ صفیہ کو عدت مکمل ہونے تک ان کے پاس ہی رکھا گیا۔ پھر راستے میں جب ان کی عدت مکمل ہو گئی تو رخصتی بھی کر دی گئی۔

مطیع سید: بنو ثقیف کے لوگ فتح مکہ کے موقع پر زکوۃ اور جہاد سے استثنا کی شرط رکھتے ہیں اور آپﷺ قبول فرما لیتے ہیں۔ (کتاب الخراج، باب ما جاء فی خبر الطائف، حدیث نمبر ۳۰۲۵) تو حضرت ابو بکر صدیق نے اس پر قیاس کر تے ہوئے کیوں مانعین زکوۃ کو رخصت نہیں دی؟

عمار ناصر: دونوں جگہ اصول مختلف ہیں۔ بنو ثقیف زکوٰۃ اور جہاد سے استثنا چاہتے تھے اور آپ نےاس کو اس مصلحت کے تحت عارضی طور پر قبول فرمایا کہ یہ لوگ اسلام کی طرف آجائیں تو بعد میں خود بخود یہ پابندیاں بھی قبول کر لیں گے۔ جبکہ جو مانعین زکوٰۃ تھے، وہ پہلے اسلام قبول کر چکے تھے جس میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی شرط شامل تھی اور اب انکار کر کے اس پابندی سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ یعنی وہ ریاست کی رِٹ کو چیلنج کر رہے تھے اور ان کی صورت حال مختلف تھی۔

مطیع سید: مجوس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اپنی محرم خواتین کے ساتھ نکاح کر تے تھے اور حضرت عمر کے حکم پر ان کے ایسے نکاح ختم کر دیے گئے۔ (کتاب الخراج، باب فی اخذ الجزیۃ من المجوس، حدیث نمبر ۳۰۴۳) ان کے درمیان کیوں تفریق کی گئی حالانکہ اسلام دیگر مذاہب کو مذہبی آزادی دیتا ہے کہ ان کے مذہب کے مطابق جو درست ہو، اس پر عمل کریں؟

عمار ناصر: حضرت عمر کے بارے میں یہ روایت تو موجود ہے کہ انہوں نے ایسے نکاح ختم کروانے کا حکم دیا، لیکن یہ ایک شاذ روایت ہے۔ اس پر اسلامی تاریخ میں عمومًا‌ عمل نہیں ہوا۔ تابعین یہی بتا تے ہیں کہ ہمارے ہاں ایسے ہی چلا آرہا ہے کہ مجوس اپنی محارم سے نکاح کرتے ہیں اور ہمارے علما نے کبھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی۔ حضرت عمر نے ممکن ہے کسی موقع پر شان ِجلالی میں ایسی کوئی بات کہہ دی ہو۔ عام طورپر اس پر عمل نہیں ملتا۔ فقہا کے ہاں بھی ایسے ہی ہے کہ وہ اس سے نہیں روکتے بلکہ ایسے نکاحوں کو قانونی طور پر جائز نکاح مانتے ہیں۔

مطیع سید: ایک جگہ میں پڑھ رہا تھا کہ ہندوستا ن کی جو زمین ہے، یہ ِ زمینداری کے خاتمے کے بعد عشری نہیں رہی اور یہاں پر عشر واجب نہیں رہا، لیکن تبر ک کے طور پر زمین کی پیداوار میں سے کچھ صدقہ کر دیا جائے تو بہتر ہے۔ کیا ہندوستان اور پاکستان کی ساری زمینوں پر یہ حکم لگتا ہے؟

عمار ناصر: یہ بحث اٹھتی رہی ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور دوسرے لوگ اس کو اٹھاتے رہے ہیں کہ ہندوستان کی زمینیں عشری ہیں یا خراجی۔ عشر تو اصل میں زکٰوۃ ہے جو مسلمانوں سے لی جاتی ہے۔ غیر مسلموں کی زمینیں فتح کی گئیں تو ان سے ظاہر ہے زکوۃ نہیں لی جا سکتی تھی، کیونکہ یہ مسلمانوں کی اپنی خاص عبادت ہے۔ اس کی جگہ ان سے خراج لیا گیا۔ یعنی خراجی زمینیں دراصل مفتوحہ زمینیں ہوتی تھیں جو غیر مسلموں کے تصرف میں ہوں۔ اب اس میں کئی فقہی بحثیں پیدا ہوگئیں کہ عشری زمین کون سی ہوتی ہے اور خراجی زمین کون سی ہوتی ہے۔ کیا خراجی زمین عشری میں بدل سکتی ہے یا نہیں۔ یہ ساری اس تناظرمیں پیداہونے والی بحثیں ہیں۔ ہندوستا ن میں مسلمان جب یہاں آئے تو کسی نے ہو بہو ان احکام کی پابندی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ خلفا اور بادشاہ اپنے طریقے پر محصولات عائد کرتے رہے۔ عشری اور خراجی کے علاوہ بھی زمینوں کی مختلف کیٹیگریز بن سکتی ہیں۔ اس سے آپ کوئی کلیہ اخذ کریں کہ اگر کوئی عشری زمین نہیں ہے تو لازماً‌ وہ خراجی ہوگی اور لازما ً‌ ریاست ہی کی ملکیت میں ہو گی، یہ ضروری نہیں۔ خراج وغیرہ سے متعلق اسلامی فتوحات کے دور میں جو قوانین بنائے گئے، وہ اجتہادی ہیں اور اس دور کے عرف سے ان کا گہرا تعلق ہے۔ ان سے اگر آپ کلی قانون اخذ کریں اور دنیا کے سارے علاقوں پر ان کو لاگو کریں تو یہ عجیب سی بات ہوگی۔

مطیع سید: تو پھر کیا حل نکلا کہ ہم آج کی زمینوں کو عشری کہیں گے یا خراجی؟

عمار ناصر: خراج کی تو آج کل بحث ہی نہیں ہے، کیونکہ آج کی جو قومی ریاستیں ہیں، ان کی زمینیں مفتوحہ زمینیں نہیں ہیں۔ اب جن مسلمانوں کے پاس زمینیں ہیں، وہ ان کی ملکیت ہیں اور وہ فصل اگاتے ہیں تو ان سے عشر وصول کیا جائے گا، اس طرح ان کو آپ عشری کہہ سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ باقی اراضی، چاہے وہ غیر مسلموں کی ملکیت ہوں یا سرکاری اراضی ہوں، ان کا سارا معاملہ اجتہادی ہے۔ ایسے لوگ جن کے پاس بہت سی زمینیں ہیں اور وہ انہیں کاشت نہیں کررہے، حکومت ان کے بارے میں فیصلہ کر سکتی ہے۔ اسی طرح جن لوگوں کو کسی دور میں زمینیں الاٹ کی گئی تھیں تو حکومت ان سے واپس بھی لے سکتی ہے جیساکہ حضرت عمر نے نبی ﷺ کی الاٹ کی ہوئی زمینیں واپس لے لیں کہ لوگ انھیں کاشت نہیں کر رہے تھے۔ یا حکومت ان کو پابند کر سکتی ہے کہ ان زمینوں کو کاشت کرو۔ یا یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ ملکیت انھی کی رہے، مگر ان کا انتظام حکومت سنبھال لےکہ ٹھیک ہے کہ تمہاری ملکیت میں ہی رہے گی، لیکن ان پر کاشت کاری کا عمل ہم اپنی نگرانی میں کروائیں گے۔ اصل چیز ہے کہ عمومی مصلحت کیا کہتی ہے۔ حکومت اس کو سامنے رکھ کر ان زمینوں کے متعلق کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔

مطیع سید: آ ج کے دور میں حکومت اس میں کچھ دخل نہیں دے رہی۔

عمار ناصر: جی نہیں دے رہی، جبکہ اسے دخل دینا چاہیے۔

مطیع سید: تو کیا اگر یہ اجتہادی چیز ہے تو لوگوں کو اختیار ہے کہ وہ وہ عشر دے دیتے ہیں تو ٹھیک، نہیں دیتے تو بھی کوئی بات نہیں؟

عمار ناصر: نہیں، اگر مسلمان کے پاس زمین ہے اور فصل اس مقدار کو پہنچتی ہے جس پر عشر واجب ہوتا ہے تو پھر زکوٰۃ دینی پڑے گی۔

مطیع سید: امام ابو داؤد نے ایک باب باندھا ہے کہ امام مشرکین کے ہدایا قبو ل کر سکتا ہے۔ اس میں ایک روایت کے مطابق آپ نے فدک کے سردار کا بھیجا ہوا تحفہ قبول فرمایا، لیکن دوسری روایت میں ہے کہ عیاض بن حمار کہتے ہیں کہ میں ایک اوٹنی تحفتا ً‌لے کر آیا تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تم اسلام قبول کر چکے ہو؟ میں نے کہا کہ نہیں تو فرمایا کہ مجھے مشرکین سے تحفہ لینے کی ممانعت ہے۔ (کتاب الخراج، باب فی الامام یقبل ہدایا المشرکین، حدیث نمبر ۳۰۵۵، ۳۰۵۷)

عمار ناصر: اس کا تعلق حکمت اور مصلحت سے ہے۔ کلی طور پر نہ مشرک کا ہدیہ قبول کرنے کی ممانعت ہے اور نہ قبول کرنا لازم ہے۔ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کس طرح کے مشرکوں سے اور کس طر ح کی صورت حال میں ہدیہ قبول کیا جا سکتا ہے اور کب نہیں کیا جا سکتا۔ عیاض بن حمار کے واقعے میں شارحین لکھتے ہیں کہ غالباً‌ اس کا مقصد انھیں اسلام کی طرف راغب کرنا تھا۔ آپ نے محسوس کیا کہ ان کو محبت تو ہے، لیکن کسی تساہل کی وجہ سے اسلام قبول نہیں کر رہے تو مناسب سمجھا کہ ان کو ذرا متنبہ کر دیں تاکہ وہ اسلام قبول کر لیں۔

(جاری)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۹)

اہل سنت اور اہل تشیع کی علمی روایت کا ایک تقابلی مطالعہ

مولانا سمیع اللہ سعدی

(اہل تشیع کی اہم کتبِ رجال کا رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے فرد ا فردا تجزیہ جاری ہے، پچھلی قسط میں چند کتب کا ذکر آگیا تھا، اس قسط میں یہی سلسلہ آگے بڑھایاگیا ہے۔)

8۔ شعب المقال فی درجات الرجال

یہ کتاب معروف ایرانی عالم و محقق مہدی نراقی کے بیٹے نجم الدین ابو القاسم نراقی کی ہے، اس کتاب میں مصنف نے رجال کو تین درجات ا قسام میں تقسیم کر کے بیان کیا ہے:

پہلی قسم ان رواۃ کی ہے، جن کی ثقاہت پر کتب رجال کا مکمل اتفاق ہے، اس قسم میں مصنف نے 898 رواۃ کا ذکر کیا ہے۔

دوسری قسم ان رواۃ کی ہے، جن کی ثقاہت کے بارے میں کتب رجال میں متضاد اقوال منقول ہیں، اس قسم میں 193 رواۃ کا ذکر ہے۔

تیسری قسم ان رواۃ کی ہے، جن کی کتب رجال میں حدیث میں ثقاہت کی بجائے صرف مدح منقول ہے، جیسے انہیں شیخ، الامام یا الفقیہ کے لقب سے ذکر کیا گیا ہو، اس قسم میں 479 رواۃ کا ذکر ہے۔ یوں کل ملا کے تقریبا 1570 رواۃ کا ذکر ہے، جو ظاہر ہے کہ کل شیعہ رواۃ کے اعتبار سے نہایت قلیل تعداد ہے، یہ کتاب ساڑھے تین سو صفحات کی متوسط ضخامت والی ایک جلد میں چھپی ہے۔

9۔ اتقان المقال فی احوال الرجال

یہ کتاب چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم و مجتہد محمد طہ نجف کی ہے، یہ کتاب بھی نراقی کی شعب المقال کی طرح یک متوسط جلد میں چھپی ہے، اس کتاب میں مصنف نے رواۃ کو ثقات، حسان اور ضعفاء تین اقسام میں بیان کیا ہے، رواۃ کی ترقیم نہیں کی گئی ہے، لیکن ایک جلد میں پندرہ سو دو ہزار سے زائد رواۃ نہیں سما سکتے، یوں یہ کتاب بھی استیعاب ِ رواۃ کے اعتبار سے پچھلی کتاب کی طرح بالکل غیر مفید کتاب ہے۔

10۔ تنقیح المقال فی علم الرجال

یہ کتاب معروف عراقی مجتہد و محقق شیخ عبد اللہ مامقانی (المتوفی 1933ھ)کی ہے، شیعہ علم رجال کی تاریخ میں اولین مفصل کتاب ہے، مقدمات و خاتمہ و فہارس سمیت یہ کتاب چالیس جلدوں میں چھپی ہے، اس کتاب میں مصنف نے اپنے زمانہ تک کا سارا کا سارا علم رجال سمونے کی کوشش کی ہے، کتاب پر ایک تحقیقی نظر ڈالنے والے محمد رضا مامقانی نے اپنی کتاب "مسرد تنقیح المقال" میں کتاب کے مصادر و ماخذ میں تیس کے قریب شیعہ کتب رجال کا ذکر کیا ہے ، ان کے علاوہ اہم سنی کتب رجال اور دیگر شیعہ کتب اخبار و روایات کو بھی کتاب کے مصادر میں شامل کیا ہے۔ یوں یہ کتاب شیعہ علم رجا ل کے تقریبا سب موجود مصادر کا مجموعہ ہے، اس کتاب میں مصنف راوی کا نام ذکر کرتے ہیں، اس کے بعد جن جن مصادر و ماخذ میں اس کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے، مصنف اس کتاب کے رمز کے ساتھ اسے ذکر کرتے ہیں، مصنف نے کتاب کی فراغت کے بعد "نتائج التنقیح " کے نام سے اپنی کتاب میں مذکور رجال کی فہرست دی ہے اور اس کے ساتھ جن جن رجال پر ثقاہت یا ضعف کا حکم لگایا ہے، اس کا بھی ذکر کیا ہے، شیخ رضا مامقانی کے نزدیک نتائج التنقیح میں رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے تعداد یوں بنتی ہے:

ثقات: 1328

حسان: 1665

موثق: 46

یوں کل ملا کے 3039 رواۃ کی توثیق کی گئی ہے، جبکہ 10326 رواۃ ایسے ہیں، جن کے بارے میں ضعف، مجہول یا مہمل کا لفظ ذکر کیا گیا ہے، یوں نتائج التنقیح کے مطابق کل رواۃ 13365 بن جاتے ہیں۔ جن کے بارے میں مصنف نے کوئی نہ کوئی جرح یا تعدیل کا تبصرہ کیا ہے۔

یہ بلا شبہ ایک ضخیم تعداد ہے، یہ تعداد کل شیعہ رجال (30000) کا 45 فیصد بنتا ہے، جو پچھلی کتب کی بنسبت کافی زیادہ تعداد ہے، لیکن یہاں دو باتیں قابلِ ذکر ہیں:

1۔اس کتاب میں مصنف نے اپنے زمانے تک موجود سارا کا سارا شیعہ علم رجال سمویا ہے، تو نتیجہ میں ثقہ رواۃ صرف تین ہزار جبکہ ضعیف، مھمل و مجہول رواۃ دس ہزار بنے، ، یوں گویا شیعہ کے کل رجالی تراث میں تقریبا 25 فیصد رواۃ ثقہ جبکہ 75 فیصد رواۃ ضعیف و مجہول ہیں۔ لھذا یہ کہنا بالکل بجا ہوگا کہ علامہ مامقانی تک رجال کا جتنا شیعہ رجال کا جتنا تراث تیار ہوا تھا، اس میں 75 فیصد رواۃ خود شیعہ محققین کے نزدیک ضعیف، مجہول اور مھمل ہیں، جبکہ محض 25 فیصد رواۃ ایسے ہیں، جن کے بارے میں توثیق و تعدیل کا کئی نہ کوئی قول مل جاتا ہے۔

2۔اس کتاب میں مصنف نے دس ہزار سے زائد ر واۃ کے بارے میں مجہول یا مھمل کی جو اصطلاح استعمال کی ہے، شیخ حیدر حب اللہ اس کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

احدی اہم الملاحظات علی الکتاب ھی ان المامقانی استعمل مصطلح المجہول اعم مماھو مصطلح علیہ عند الرجالیین لیعم المجہول وھو من صرح الرجالیون بجہالتہ و المھمل وھو من ہل یذکر ہ الرجالیون لا بمدح ولا قدح“1

اس کتاب کے بارے میں ایک اہم بات ملحوظ رکھنے کی ہے کہ علامہ مامقانی نے مجہول کی اصطلاح علمائے رجال کی اصطلاح مجہول سے عام معنی میں استعمال ہے، علامہ مامقانی کے اصطلاح مجہول میں اصطلاحی مجہول بھی شامل ہے یعنی وہ راوی جس کی جہالت کی صراحت علمائے رجال نے کی ہو اور مھمل بھی شامل ہے، یعنی وہ راوی جس کا ذکر کتب رجال میں سرے سے ہی نہ ہو، نہ مدحا ً‌ اور نہ قدحاً‌۔

یوں گویا دس ہزار سے زائد جو رواۃ علامہ مامقانی نے مجہول و ضعیف قرار دئیے، ان میں ایسے رواۃ بھی شامل ہیں جن کا ذکر ہی علمائے رجال کے ہاں مفقود ہے۔ مجہول کی یہ اصطلاح علامہ خوئی کی معجم رجا ل الحدیث میں بھی بکثرت ملتی ہے، جس پر تبصرہ آگے آئے گا، دراصل اہل تشیع کے علم رجال کا اولین جو سرمایہ تیار ہوا، وہ کل ملا کے سات آٹھ ہزار رواۃ سے زیادہ نہیں ہے، بشرطیکہ اس میں مکررات نہ مانیں، جیسا کہ اس سلسلے کی اولین اقساط میں یہ بات تفصیل کے ساتھ آچکی ہے، جہاں فریقین کے اولین سرمایہ رجال کا ایک تقابل پیش کیا گیا، بعد کی صدیوں کی کتب چونکہ انہی اولین سرمایے کی جمع و ترتیب پر مشتمل ہے، اس لئے ایسے رواۃ، جن پر مدحا یا قدحا بحث کی گئی ہیں، بہت کم ہیں، اس لئے زمانہ حال کے جن مصنفین (جیسے علامہ مامقانی و علامہ خوئی غیرہ) نے اس اولین سرمایے سے ہٹ کر احادیث کی اسناد میں موجود رواۃ کو بھی جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا، تو انہیں یہ مشکل پیش آئی کہ بہت سے رواۃ پر تو علمائے رجال نے کسی قسم کا کلا م ہی نہیں کیا، تو انہیں مجہول و مہمل کی درجہ بندی میں شامل کرنا پڑا۔

یوں اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو علامہ مامقانی نے جن ہزارہا رواۃکو مجہول کی درجہ بندی میں شامل کیا، وہ اصلا جرح و قدح کی کوئی قسم نہیں ہے، بلکہ اس بات کا اعلان ہے کہ ان رواۃ کے بارے میں علمائے رجال کا اثباتاً‌ یا نفیاً‌ کسی قسم کا کوئی تبصرہ ہی موجود نہیں ہے۔ اس لئے علامہ مامقانی کی تنقیح المقال چالیس ضخیم جلدوں پر مشتمل ہونے کے باوجود رجال کی تعدیل و تجریح کے اعتبار سے پچھلی کتب سے کسی طور بھی مختلف نہیں ہے، قابل تبصرہ رواۃ اس میں بھی زیادہ سے زیادہ وہی چار سے پانچ ہزار کے آس پاس ہیں، جن کا ذکر متقدمین کی کتب میں بھی موجود ہے، باقی آٹھ سے نو ہزار کے قریب رواۃ کا ذکر و عدم ذکر برابر ہے، کیونکہ وہ مھمل و مجہول ہیں، یعنی کتب رجال ان کی مدح و قدح سے خاموش ہیں۔ مجہول و مھمل کی یہ بحث نہایت دلچسپ ہے، اگر اس کا تقابل اہل سنت کی الجہالۃ فی الراوی والی اصطلاح کے ساتھ کیا جائے، آنے والی اقساط میں ان شا اللہ اس بحث کو الگ عنوان کے ساتھ بیان کیا جائے گا، جس سے آخری زمانے میں لکھی گئی اہل تشیع کی ضخیم کتب رجال کی ضخامت کے باوجود رواۃ کی تقویم میں غیر مفید ہونا مزید واضح ہوسکے گا۔

11۔ قاموس الرجال

یہ کتاب معروف شیعہ محقق و مجتہد محمد تقی تستری کی ہے، بارہ جلدوں پر مشتمل ہے، یہ کتاب دراصل علامہ مامقانی کی کتاب تنقیح المقال پر ایک تنقیدی و توضیحی حاشیہ ہے، اور تنقیح المقال کی تہذیب اور اس کا اختصار ہے، مصنف نے مقدمہ میں تنقیح المقال کے ان نقائص کو تفصیل سے بیان کیا ہے، جس کی وجہ سے قاموس الرجال کی صورت میں اس کی تہذیب کی ضرورت پیش آئی، چونکہ یہ مستقل کتاب نہیں، بلکہ تنقیح المقال کا ہی ایک مہذب ایڈیشن ہے، اس لئے اس پر مستقل تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

12۔ معجم رجال الحدیث

شیعہ رجالی تراث کی جو پہلی اینٹ شیخ کشی و نجاشی و امام طوسی نے رکھی تھی، اس کی آخری اینٹ معروف معاصر عراقی شیعہ محقق و مجتہد ابو القاسم خوئی نے معجم رجال الحدیث کی صورت میں رکھی، شیعہ علم رجال کی ہزار سالہ تاریخ میں معجم رجال الحدیث سے زیادہ معیاری اور تمام رجالی تراث کو دقت سے کھنگالنے کا کام نہیں ہوا، شیخ خوئی شیعہ حلقوں میں محتاج تعارف نہیں، شیعہ مکتب میں مرجعیت کے مقام پر فائز تھے، تفسیر و حدیث میں خاص طور پر مہارت رکھتے تھے، تفسیر میں البیان فی تفسیر القرآن لکھی، تو حدیث میں معجم رجال الحدیث لکھی، جو چوبیس جلدوں پر مشتمل ہے، معجم رجال الحدیث کا ایک مختصر لیکن شیعہ علم رجال کے حوالے سے نہایت وقیع مقدمہ لکھا، جس میں کتب اربعہ کی صحت و قطعیت کے حوالے سے اخباری مکتب کا علمی و تحقیقی رد، علمائے رجال کی توثیقات کی حیثیت اور کتب رجال کے تسامحات وغیرہ جیسے اہم مباحث بیان کئے، کتاب کا منہج و اسلوب شیخ خوئی نے "مزایا الکتاب " کے عنوان سے بارہ نکات میں بیان کیا ہے، 2 ان بارہ نکات میں دو باتیں بڑی اہم ہیں، شیخ خوئی کے الفاظ میں اسے نقل کرتے ہیں:

"ثم انا ذکرنا فی الکتاب کل من لہ روایۃ فی الکتب الاربعۃ سواء اکان مذکور فی کتب الرجال ام لم یکن، وذکرنا موارد الاختلاف بین الکتب الاربعۃ فی السند، و کثیرا ما نبین مو ھو الصحیح منھا وما فیہ تحریف او سقط"

یعنی ہم نے کتاب ہر اس راوی کا ذکر کیا ہے، جس کی کتب اربعہ میں کوئی روایت ہے، خواہ وہ کتب رجال میں مذکور ہو یا نہ ہو، اور اہم نے کتب اربعہ کے اسناد میں اختلافی مقامات کی نشاندہی بھی کی ہے، اور زیادہ تر ان اختلافات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان میں سے کونسا طریق صحیح ہے، اور کس میں تحریف ہوئی ہے یا کوئی راوی سقط ہوا ہے۔

یوں یہ شیعہ علم رجال کی تاریخ میں یہ پہلی کتاب ہے، جس میں کتب اربعہ کے تمام رواۃ کا اہتمام کے ساتھ استقصاء کیا گیا ہے، اس سلسلہ مضامین میں اب تک جتنی شیعی کتب رجال کا ذکر آچکا ہے، ان میں زیادہ تر کتب سابقہ تراثِ رجال کی جمع و ترتیب اور ان کی شرح و توضیح پر مشتمل ہیں، کتب اربعہ کی مجموعی یا ان میں سے کسی ایک دو کے رواۃ کے احوال پر مشتمل کتب نہ ہونے کے برابر ہیں، شیخ خوئی پہلی شخصیت ہیں، جنہوں نے کتب اربعہ کے تمام تر رواۃ کو معجم میں جمع کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ شیخ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

التزم السید الخوئی فی الموسوعہ ان یذکر کل الرواۃ الواردۃ اسمائھم فی الکتب الاربعۃ او فی المصادر الرجالیہ القدیمۃ، فاذا بحثنا عن اسم ما ولم نجدہ مذکورا فی کتاب السید الخوئی، فھذا معناہ ان ھذا الاسم لم یرد فی ای من الکتب الاربعۃ و لم یتعرض لہ الرجالیون القدمی"3

یعنی سید خوئی نے اس موسوعہ میں ان تمام رواۃ کو ذکر کرنے کا التزام کیا ہے، جن کے نام کتب اربعہ یا قدیم رجالی مصادر میں آئے ہیں، لھذا جب ہم کسی راوی کا نام تلاش کرنا چاہیں اور اسے سید خوئی کی کتاب میں نہ پائیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نام کتب اربعہ میں بھی نہیں آیا ہے اور نہ ہی اولین علمائے رجال اس کا ذکر کرچکے ہیں۔

اب اگر اس جہت سے اہل سنت کے ساتھ تقابل کیا جائے کہ اہل سنت کے صحاح ستہ کے تمام رواۃ پر مشتمل پہلی کتاب کب لکھی گئی تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اہل سنت کے صحاح ستہ کے تما م رواۃ کے احوال پر لکھی گئی پہلی اہم اور اساسی کتاب امام عبد الغنی مقدسی ( المتوفی 600ھ) کی کتاب الکمال فی اسماء الرجال ہے، جس سے آگے تہذیب الکمال، تہذیب التہذیب، تقریب التہذیب اور الکاشف فی من لہ روایۃ فی الکتب الستۃ جیسی کتب تیار ہوئیں، شیخ عبد الغنی مقدسی اور صحاح ستہ میں تین صدیوں کا فاصلہ ہے، جبکہ ابو القاسم خوئی اور کتب اربعہ میں پورے ہزار سال کا فاصلہ ہے، اس کے علاوہ صحاح ستہ کے رجال پر(انفرادا و اجتماعا ) مجموعی طور پر سو کے قریب کتب لکھی گئیں ہیں، جن میں سے چالیس کے قریب مطبوعہ کتب ہیں (ملاحظہ ہو رواۃ الحدیث، النشاۃ، المصطلحات،المصنفات ص678 تا 696) جبکہ کتب اربعہ کے تمام رجال پر معجم رجال الحدیث کے علاوہ کوئی قابل ذکر کتاب نہیں، البتہ کتب اربعہ کے رجال پر انفرادی کتب شاید لکھی گئی ہوں، لیکن ان کی تعداد کتنی ہیں اور کتنی مطبوعہ ہیں؟ شیعہ علم رجال کی تاریخ پر لکھی کتب بالخصوص شیخ حیدر حب اللہ کی کتاب دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ میں اس حوالے سے قابل ِ ذکر مواد موجود نہیں ہے، حالانکہ شیخ حیدر حب اللہ نے نہایت استقصاء کے ساتھ علم رجال کی تاریخ لکھی ہے، اس سے شیعہ کے کتب اربعہ اور اہل سنت کے صحاح ستہ کے رجال پر مواد کا آسانی سے تقابل ہوجاتا ہے۔

"السابعۃ التدقیق فی احوال الرواۃ والبحث عن وثاقتھم او حسنھم علی وجہ علمی"4

یعنی اس کتاب کی ساتویں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رواۃ کے احوال ثقاہت یا حسن ہونے کے اعتبار سے بڑی باریک بینی سے بیان کئے گئے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ خوئی نے رواۃ کی جرح و تعدیل پر خصوصی توجہ دی ہے، اب سوال یہ ہے کہ معجم رجال الحدیث میں رواۃ کی تقویم کس طرح کی گئی ہے، تو اس پہلو سے کتاب کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کتاب میں بھی علامہ مقانی کی تنقیح المقال کی طرح مجہول و مہمل رواۃ نہایت بکثرت ملتے ہیں، اس بات کا اثبا ت معجم رجال الحدیث کی تلخیصات کا جائزہ لینے سے ہوتا ہے، چنانچہ ذیل میں دو تلخیصات کا ذکر کیا جاتا ہے:

1۔سید جواد حسینی نے معجم رجال الحدیث سے کتب اربعہ کے تمام رواۃ الگ کئے ہیں اور ان رواۃ پر سید خوئی نے جو حکم لگایا ہے، اس کا بھی ذکر کیا ہے، یہ کتاب "المعین علی معجم رجال الحدیث " کے نام سے چھپی ہے، اس کتاب میں کتب اربعہ کے رواۃ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں:

"تم بالمعین و لاول مرۃ معرفۃ عدد رواۃ الکتب الاربعۃ فبلغ ثلاثۃ آلاف وسبعمائۃ راوہ تقریبا"5

یعنی اس کتاب معین کی مدد سے کتب اربعہ کے رواۃ نکی تعداد معلوم ہوئی، جو 3700 کے قریب رواۃ بنتے ہیں۔

مصنف نے المعین میں ان تمام رواۃ کے تراجم معجم رجال الحدیث سے نقل کئے اور آخر میں ان رواۃ کی ایک فہرست بھی دی ہے اور اس کے سامنے سید خوئی کا لگایا گیا حکم بھی لکھ دیا ہے کہ سید خوئی نے اس راوی، ثقہ، مجہول، ضعیف، کذاب کیا کیا لکھا ہے، مقالہ نگا ر نے اس پوری فہرست میں سے مجہول و مہمل رواۃ الگ کئے تو کل 2800 کے قریب رواۃ ایسے نکلے، جن کے بارے میں سید خوئی نے مجہول یا مہمل کا لفظ لگایا ہے، گویا 3700 رواۃ کا 75 فیصد حصہ (2800 ) رواۃ مجاہیل بنتے ہیں، جب کتب اربعہ کے رواۃ میں سے مجاہیل دو تہائی سے زیادہ ہیں، تو باقی رواۃ میں کتنے مجاہیل ہوں گے، مخفی نہیں۔

2۔ محقق محمد الجواہری نے نے معجم رجال الحدیث کی ایک بہترین تلخیص 'المفید من معجم رجال الحدیث " کے نام سے ایک ضخیم جلد میں تیار کی ہے، اس کتاب میں مصنف نے معجم رجال الحدیث کے تمام رواۃ کو فہرست کے انداز میں ذکر کرتے ہوئے ہر راوی کے بارے میں شیخ خوئی کا تبصرہ بھی ساتھ نقل کیا ہے، معروف ویب سائٹ موقع فیصل نور کے ایک تحقیقی آرٹیکل میں المفید من معجم رجال الحدیث میں مجاہیل، ثقہ، ضعیف رواۃ کی تعداد نقل کی گئی ہے، تو اس آرٹیکل کے مطابق معجم رجال الحدیث میں رجال کی تقویم کے اعتبار سے تعداد یوں بنتی ہے:

یاد رہے معجم رجال الحدیث میں کل رواۃ ساڑے پندرہ ہزار کے لگ بھگ ہے، جس میں آٹھ ہزار کے قریب رواۃ یعنی آدھے کے قریب رواۃ مجاہیل ہیں، یوں معجم رجال الحدیث اپنی ضخامت اور بعض رجالی مباحث کی وقعت کے باوجود رواۃ کی جرح و تعدیل کے اعتبار سے متقدمین کے رجالی تراث سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔


حواشی

  1. دروس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ، ص 388
  2. معجم رجال الحدیث، شیخ خوئی، ج1،ص 15
  3. دروس فی تاریخ علم الرجال، حیدر حب اللہ، ص 404
  4. معجم رجال الحدیث، خوئی، ج1،ص 13
  5. المعین علی معجم رجال الحدیث ص 5
  6. https://www.fnoor.com/main/articles.aspx?article_no=15744#.YiYrb-hBw2w

(جاری)

کم عمری کا نکاح: اسلام آباد ہائیکورٹ کا متنازعہ فیصلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مغرب نے جب سے معاشرتی معاملات سے مذہب اور آسمانی تعلیمات کو بے دخل اور لاتعلق کیا ہے، خاندانی نظام مسلسل بحران کا شکار ہے۔ اور خود مغرب کے میخائل گورباچوف، جان میجر اور ہیلری کلنٹن جیسے سرکردہ دانشور اور سیاستدان شکوہ کناں ہیں کہ خاندانی نظام بکھر رہا ہے اور خاندانی رشتوں اور روایات کا معاملہ قصہ پارینہ بنتا جا رہا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جب معاشرتی قوانین کو آسمانی تعلیمات کی پابندی سے آزاد کر کے خود سوسائٹی کی سوچ اور خواہش کو ان کی بنیاد بنایا جائے گا تو وہ ہر دم بدلتی ہوئی سوچ اور خواہشات کے سمندر میں ہی ہچکولے کھاتے رہیں گے اور انہیں کہیں قرار اور استحکام نہیں ہو پائے گا۔ جبکہ مغربی دانشور اس صورتحال کو دیکھتے اور سمجھتے ہوئے بھی ؎

خود تو ڈوبے ہیں صنم
تم کو بھی لے ڈوبیں گے

کے مصداق باقی دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کو بھی اسی دلدل میں اپنے ساتھ شریک ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔ اور اس مغربی تہذیب و فلسفہ کو دنیا بھر سے منوانے کے لیے مغربی قوتیں تحریص، ترغیب اور تخویف کے تمام حربے استعمال کرتے جا رہے ہیں جس سے عالمی سطح پر تہذیبی خلفشار اور فکری دھماچوکڑی کا عجیب سا منظر دکھائی دے رہا ہے۔

دوسری طرف عالمِ اسلام کی صورتحال یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے کم و بیش سبھی طبقات اپنے معاشرتی اور خاندانی قوانین میں آسمانی تعلیمات یعنی قرآن و سنت کے پابند رہنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے مسلم امہ کا خاندانی نظام آج بھی بحمد اللہ تعالیٰ مضبوط نظر آ رہا ہے۔ البتہ مغرب کے فکر و فلسفہ سے متاثر دانشور اور حکمران اس کوشش میں ہیں کہ اسلامی احکام و قوانین اور مسلمانوں کی خاندانی و معاشرتی روایات و اقدار کو کسی نہ کسی طرح کھینچ تان کر مغربی فکر و فلسفہ کے سانچے میں فٹ کر دیا جائے، جس کے لیے خاندانی قوانین میں مسلسل ترامیم اور عدالتی فیصلوں کا ایک طویل سلسلہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اس تناظر میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک حالیہ فیصلہ دینی حلقوں میں ان دنوں زیربحث ہے جس کا ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے بھی نوٹس لیا ہے اور اس کی رپورٹ مجلس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر محمد امین کے قلم سے قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے:


’’ملی مجلسِ شرعی نے، جو مختلف مکاتب فکر کا مشترکہ علمی پلیٹ فارم ہے، عائلی قانون میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کو خلافِ اسلام قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پچھلے دنوں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج، جسٹس بابر ستار نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ زیربحث مقدمہ میں لڑکی کا نکاح ۱۸ سال سے کم عمر میں ہوا ہے لہٰذا نکاح قابلِ فسخ ہے اور زنا بالرضا کے مصداق ہے۔ ان کے اس خلافِ شریعت فیصلے نے دینی حلقوں میں اضطراب پیدا کیا، چنانچہ ملی مجلسِ شرعی کے صدر مولانا زاہد الراشدی نے تین رکنی علماء کمیٹی بنانے کی ہدایت کی جو اس موضوع پر غور کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے۔ انہوں نے سیدہ عظمٰی گیلانی ایڈووکیٹ (لاہور ہائیکورٹ) سے بھی مذکورہ کمیٹی سے تعاون کی درخواست کی۔

مذکورہ کمیٹی، مشتمل بر مولانا مفتی شاہد عبید (جامعہ اشرفیہ)، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی (جامعہ رحمانیہ)، مولانا محمد عمران رضا طحاوی اور سیدہ عظمٰی گیلانی ایڈوکیٹ کا اجلاس ۱۴ مارچ ۲۰۲۲ء کو راقم کے دفتر میں ہوا۔ تفصیلی بحث و مناقشہ کے بعد درج ذیل موقف پر (تلخیصاً) اتفاق ہوا:

(۱) جسٹس بابر ستار صاحب کا فیصلہ خلافِ شریعت ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل لاء کے حوالے تو دیئے ہیں لیکن قرآن و سنت، فقہاء اور یہاں تک کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلوں سے بھی استفادہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ لڑکی کی عمر ۱۴ سال دو ماہ ہے، وہ بہت صحت مند نہیں، ایک شادی شدہ بال بچے دار مرد نے جھوٹ بول کر اسے بہلایا پھسلایا اور اس نے ماں باپ کی مرضی کے بغیر اس سے نکاح کر لیا۔ ماں کی شکایت پر جسٹس صاحب نے اس نکاح کو فسخ کر دیا۔

(۲) شرعِ اسلامی کی رو سے جسٹس صاحب کے پاس کئی حل تھے۔ مثلاً وہ رخصتی کو مؤخر کر سکتے تھے، مرد کو طلاق کا حکم دے سکتے تھے اور تحکیم کے لیے کمیٹی قائم کر سکتے تھے۔

(۳) اس طرح کا فیصلہ ہر کیس کی بنیاد پر الگ ہونا چاہیے۔ ایک عمومی فیصلہ کر دینا کہ ۱۸ سال سے کم عمر کی بچی کا نکاح جائز نہیں ہوتا، غلط اور خلافِ شریعت فیصلہ ہے۔

(۴) اس طرح کے معاملے میں کورٹ میرج کا استعمال اور ولی کی غیر موجودگی بہت سے مفاسد کو جنم دیتی ہے جن سے بچنا ضروری ہے۔

(۵) ملک بھر خصوصاً اسلام آباد کے دینی حلقوں کو چاہیے کہ سنگل بنچ کے مذکورہ فیصلے کے خلاف ڈویژن بنچ میں ریویو پٹیشن (نظرثانی کی درخواست) دائر کریں اور ایسے وکیل عدالت میں پیش ہوں جو صحیح اسلامی نقطۂ نظر کو موثر طریقے سے عدالت میں پیش کر سکیں۔

ملی مجلس شرعی کے جن زعماء نے اس نقطۂ نظر کی حمایت کی ان میں مولانا زاہد الراشدی، مولانا ملک عبد الرؤف، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا عبد المالک، مولانا مفتی شاہد عبید، مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا قاری زوار بہادر، ڈاکٹر فرید احمد پراچہ، قاری جمیل الرحمن اختر، حافظ ڈاکٹر حسن مدنی، حافظ محمد عمران طحاوی، حاجی عبد اللطیف چیمہ، حافظ محمد نعمان حامد، مولانا محمد اسلم نقشبندی، مولانا فاروق قادری، مولانا مجیب الرحمن انقلابی، حافظ ڈاکٹر محمد سلیم اور دیگر علماء شامل ہیں۔‘‘

قادیانیوں اور دیگر غیر مسلم اقلیتوں میں فرق

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عزیزم ڈاکٹر حافظ محمد عمار خان ناصر سلمہ نے قادیانیوں سے متعلق اپنے موقف میں دو باتیں عام ماحول سے مختلف کہی ہیں۔

ایک یہ کہ قادیانیوں کے خلاف بات کرتے ہوئے اس حد تک سخت اور تلخ لہجہ نہ اختیار کیا جائے جسے بد اخلاقی وبدزبانی سے تعبیر کیا جا سکے۔ یہ بات میں بھی عرصہ سے قدرے دھیمے لہجے میں مسلسل کہتا آ رہا ہوں، بلکہ حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ اور فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیاتؒ کی ڈانٹ بھی پڑ چکی ہے۔ ان دونوں بزرگوں کی تلقین ہوتی تھی کہ مناسب اور مہذب انداز میں تنقید کی جائے اور بداخلاقی سے گریز کیا جائے۔

دوسری بات یہ کہ قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم قرار دیے جانے کے بعد وہ ملک کی دوسری غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ برابر  حقوق اور  رویہ کا استحقاق رکھتے ہیں۔ اس میں مجھے تردد ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ امت مسلمہ اور دستور کا فیصلہ تسلیم کر کے  اس کے مطابق چلیں تو انھیں دوسری غیر مسلم آبادیوں کی طرح برابر کے حقوق اور رویہ کا پورا حق حاصل ہے، لیکن وہ اس فیصلے کو تسلیم نہیں کر رہے بلکہ دنیا بھر میں اس قومی اور دینی فیصلے کے خلاف مورچہ بندی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس ماحول میں ان کا برابر کے حقوق اور رویہ کا تقاضا محل نظر ہے، کیونکہ اس طرح ان کی حیثیت دوسری غیر مسلم اقلیتوں سے مختلف ہو جاتی ہے جو الگ موقف کی متقاضی ہے، جبکہ ان کے معاشرتی بائیکاٹ کی بات بھی میرے نزدیک اسی دائرے سے تعلق رکھتی ہے اور میں اس کے حق میں ہوں۔

قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق اور توہینِ قرآن و توہینِ رسالت کے الزامات

سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

دستوری اور قانونی پس منظر

1974ء میں ایک دستوری ترمیم کے  ذریعے دستورِ پاکستان میں مسلمان کی تعریف شامل کی گئی جس کی رو سے قادیانیوں اور لاہوریوں کو غیرمسلم قرار دیا گیا۔ تاہم ان کی جانب سے اس کے بعد بھی خود کو مسلمان کی حیثیت سے پیش کرنے کا سلسلہ جاری رہا جس کی وجہ سے بعض اوقات امن و امان کے مسائل بھی پیدا ہوتے گئے۔ اس پس منظر میں 1984ء میں ایک خصوصی امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس کے ذریعے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں دفعات 298-بی اور 298-سی کا اضافہ کیا گیا اور ان کے ایسے تمام افعال پر پابندی لگا کر ان کو قابلِ سزا جرم بنا دیا گیا۔ اس قانون کو اکثر اس بنیاد پر اعتراض کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ اس نے قادیانیوں اور لاہوریوں کی مذہبی آزادی ختم کردی ہے۔

اس موضوع پر اعلی عدلیہ کی جانب سے کئی فیصلے آئے ہیں لیکن دو کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ ایک 1985ء میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ہے (مجیب الرحمان بنام وفاقی حکومت، پی ایل ڈی 1985 وفاقی شرعی عدالت 8)؛ اور دوسرا 1993ء میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ ہے (ظہیر الدین بنام ریاست، 1993 ایس سی ایم آر 1718)۔ پہلے فیصلے میں قرار دیا گیا کہ یہ قانون اسلامی احکام سے متصادم نہیں ہے اور دوسرے میں یہ قرار دیا گیا کہ یہ قانون دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے بھی متصادم نہیں ہے۔ ان فیصلوں کی بنیاد دو بنیادی امور ہیں: ایک یہ کہ کسی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ دوسروں کو دھوکا دے اور اسی لیے کسی غیر مسلم کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ خود کو مسلمان کے طور پر دوسروں کو پیش کرے؛ اور دوسرا یہ کہ قادیانیوں اور لاہوریوں کے ایسے افعال سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جس کی روک تھام کےلیے حکومت قانون کے ذریعے حقوق پر مناسب قیود عائد کرسکتی ہے۔

پہلے فیصلے کی اہمیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ جب وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی حیثیت اختیار کرلے، تو اس کی پابندی سپریم کورٹ پر بھی لازم ہوتی ہے، یعنی جب وفاقی شرعی عدالت نے کسی امر کے متعلق یہ قرار دیا کہ وہ اسلامی احکام سے متصادم ہے یا نہیں ہے، تو سپریم کورٹ اس کے برعکس فیصلہ نہیں دے سکتی۔ یہ وفاقی شرعی عدالت کا ایک بہت اہم اختیار ہے جس کا ہمارے ہاں بہت کم لوگوں کو ادراک ہے۔ دوسرا فیصلہ اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے دیا ہے جس میں پانچ ججز شامل تھے اور اس بنچ نے یہ فیصلہ ایک کے مقابلے میں چار کی اکثریت سے دیا ہے۔ چنانچہ اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا اختیار صرف اس بنچ کو حاصل ہے جس میں پانچ یا اس سے زائد ججز ہوں اور ان میں کم از کم پانچ ججز اس کے خلاف فیصلہ دیں، اور یہ امر بظاہر – کم از کم تا حال – ناممکن نظر آتا ہے۔ اس لیے پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے یہ امر طے شدہ ہے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 298-بی اور 298-سی نہ تو اسلامی احکام سے اور نہ ہی دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم ہیں ۔

یہاں تک تو بات طے شدہ ہے لیکن ہمارے ہاں کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قادیانیوں کی مخصوص عبادت گاہوں میں قرآن مجید کے نسخے کی موجودگی یا کلمۂ طیبہ لکھے جانے کو، یا اس طرح کے بعض دیگر افعال کو، بھی نہ صرف دفعات 298-بی اور 298-سی کی خلاف ورزی سمجھا گیا، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھیں توہینِ قرآن (دفعہ 295-بی) اور توہینِ رسالت (دفعہ 295-سی) بھی قرار دیا گیا۔ یہ مسئلہ پچھلے دنوں سپریم کورٹ کے سامنے ایک مقدمے میں سامنے آیا جس پر سپریم کورٹ نے 24 مارچ کو فیصلہ سنایا ہے:

Crl.P.916.L/2021، طاہر نقاش بنام ریاست۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:

https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/crl.p._916_l_2021.pdf

کئی پہلوؤں سے یہ فیصلہ نہایت اہم ہے اور اس وجہ سے اس بحث بہت ضروری ہے۔ اس لیے یہاں اس فیصلے کے اہم نکات پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

مقدمے کے حقائق  اور فریقین کے دلائل

اس مقدمے کے حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ درخواست گزاروں (اور ایک اور شخص) کے خلاف 3 مئی 2020ء کو اس الزام پر ایف آئی آر کٹوائی گئیں کہ انھوں نے قادیانی ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طرز پر بنایا ہے اور اس کے اندر دیواروں پر شعائرِ اسلام (کلمۂ طیبہ، بسم اللہ الرحمان الرحیم، یا حیّ یا قیّوم) لکھے ہوئے ہیں اور قرآن مجید کے نسخے بھی رکھے ہوئے ہیں۔ نیز بجلی کے بل میں بھی اس عبادت گاہ کو مسجد کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر میں دفعات 298-بی اور 298-سی ہی درج کی گئیں جو قادیانیوں سے متعلق ہیں۔ان دفعات کے تحت ان الزامات پر ان کے خلاف ٹرائل کورٹ میں مقدمہ شروع ہوا۔ تاہم اس کے بعد شکایت کنندہ نے ایف آئی آر میں توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات بھی شامل کرنے کےلیے درخواست دی جو ٹرائل کورٹ نے منظور کرلی۔ ملزمان نے اس کے خلاف پہلے ایڈیشنل سیشنز جج کی عدالت میں اور پھر ہائی کورٹ میں درخواستیں دیں لیکن دونوں عدالتوں سے وہ درخواستیں خارج ہوگئیں، اور نتیجتاً ان کے خلاف توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات بھی ایف آئی آر میں شامل رہیں۔ اس وجہ سے ملزمان نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی کہ انھیں اس کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت دی جائے۔ (ایک ہی فیصلے کے خلاف دو درخواستیں مسترد ہونے کے بعد سپریم کورٹ میں اپیل نہیں ہوسکتی تھی، لیکن سپریم کورٹ کو درخواست کی جاسکتی تھی کہ چونکہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے تو سپریم کورٹ اپیل دائر کرنے کی اجازت دے۔ پھر سپریم کورٹ مناسب سمجھے تو اجازت دے سکتی ہے یا ہائی کورٹ کے فیصلے میں غلطی نہ ہو تو وہ معاملہ نمٹا دیتی ہے۔)

جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس امین الدین خان پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی اور فیصلہ جسٹس شاہ نے لکھا جس سے جسٹس خان نے اتفاق کیا۔

درخواست گزاروں کا (جو اصل مقدمے میں ملزمان تھے) موقف یہ تھا کہ ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان کی بنا پر دفعات 298-بی اور 298-سی (امتناعِ قادیانیت) کا مقدمہ بنتا ہے، نہ کہ دفعات 295-بی (توہینِ قرآن) یا 295-سی (توہینِ رسالت) کا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی نجی عبادت گاہ میں شعائرِ اسلام کی موجودگی یا قرآن کے نسخے کی موجودگی سے توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کا مسئلہ نہیں بنتا کیونکہ وہ قرآن کو کلام الٰہی اور حضرت محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور اس وجہ سے وہ توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

دوسری جانب سرکاری استغاثہ کی جانب سے بھی اور ان ملزمان کے خلاف شکایت کنندہ نے بھی بنیادی طور پر یہ دلیل دی کہ ان کی مذکورہ عبادت گاہ نجی مکان نہیں بلکہ عوامی مقام ہے اور یہ کہ قادیانیوں کی جانب سے کلمۂ طیبہ پڑھنے یا قرآن پڑھنے سے ہی توہینِ رسالت اور توہینِ قرآن ثابت ہوتی ہیں۔

عدالت کے سامنے اس مقدمے میں تنقیح طلب امر یہی تھا کہ کیا ان افعال سے توہینِ رسالت یا توہینِ قرآن کے جرائم ثابت ہوتے ہیں؟

قادیانیوں کے بطورِ اقلیت حقوق

جسٹس منصور علی شاہ نے پہلے ان دو اہم نظائر پر بات کی ہے جو اس موضوع پر سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور جن کی پابندی خود اس دو رکنی بنچ پر لازم تھی: ایک مجیب الرحمان کیس میں وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ ، اور دوسرا ظہیر الدین کیس میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کا فیصلہ۔ جسٹس شاہ نے واضح کیا ہے کہ ظہیر الدین کیس میں اگرچہ دفعات 298-بی اور 298-سی کے متعلق قرار دیا گیا تھا کہ یہ دستور میں مذکور بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہیں لیکن اسی فیصلے میں یہ بھی تصریح کی گئی تھی کہ قادیانیوں پر پابندی صرف عوامی سطح پر اظہار تک ہی محدود ہے اور نجی سطح پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسی طرح مجیب الرحمان کیس میں شریعت کورٹ نے تصریح کی تھی کہ اس پابندی کا اطلاق قادیانیوں کے مرزا صاحب پر ایمان پر نہیں ہوتا، نہ ہی اس کی بنا پر انھیں اپنے مذہب پر عمل کرنے سے، یا اپنی عبادت گاہوں میں اپنے طریقے سےعبادت کرنے سے  روکا جاسکتا ہے کیونکہ اسلامی شریعت نے مسلمانوں کے ساتھ رہنے والے غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی ہوئی ہے۔

اس بنیاد پر بات آگے بڑھاتے ہوئے جسٹس شاہ نے پاکستان کے دستور کی ان دفعات کا جائزہ پیش کیا ہے جن کی رو سے تمام شہریوں کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، مذہبی آزادی کا حق بھی حاصل ہے اور بہ حیثیتِ انسان تکریم اور عزت کا بھی۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دفعہ 14 (انسانی تکریم کا حق) کا حوالہ دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ کسی غیر مسلم کو اس کے مذہب پر عمل کرنے سے روکنے، یا اپنی عبادت گاہ کی حدود میں عبادت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے سے دستور کی جمہوری اقدار کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے اور اس کی اسلامی روح بھی پامال ہوتی ہے۔

اسی طرح انھوں نے دفعہ 20 کا حوالہ دیا ہے جو ہر مذہب کے ماننے والوں کو، قانون کی حدود کے اندر، اپنے مذہب پر عمل اور اس کی ترویج کی اجازت دیتی ہے اور اسی طرح انھیں اپنی عبادت گاہیں قائم کرنے کا حق بھی دیتی ہے۔ جسٹس شاہ نے اس پر بحث نہیں کی کہ کیا اس دفعہ کے تحت قادیانیوں یا کسی دوسری غیر مسلم اقلیت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کی طرف بلائیں، لیکن ان کی پچھلی بحث سے اس سوال کا جواب نفی میں ہی معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ پہلے ہی قرار دے چکے ہیں (اور یہ قرار دینے کے سوا کوئی راستہ تھا بھی نہیں کیونکہ ان سے قبل وفاقی شرعی عدالت اور پھر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے یہی قرار دیا تھا) قادیانیوں کو عوامی سطح پر ان افعال کی اجازت نہیں جن سے مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہو اور امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو۔ اس کے بعد انھوں نے دفعہ 22 کا حوالہ دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ کسی کو اس کے مذہب کے خلاف کسی دوسرے مذہب کی عبادت یا رسم میں شریک ہونے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی کسی دوسرے مذہب کی تعلیمات سیکھنا اس پر لازم کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح اس دفعہ کے تحت ہر مذہبی گروہ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مخصوص اداروں میں شاگردوں کو اپنے مذہب کی تعلیم دیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے دفعہ 25 کا حوالہ دیا ہے جس نے تمام شہریوں قانون کا یکساں تحفظ دیا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے واضح کیا ہے کہ دفعہ 260 کی ذیلی دفعہ 3 کی رو سے قادیانی غیر مسلم ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ملک کے شہری نہیں رہے یا انھیں وہ بنیادی حقوق حاصل نہیں رہے جو ملک کے تمام شہریوں کو دستور کی رو سے حاصل ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دستور کی دفعہ 4 کا حوالہ دیا ہے جس میں تصریح کی گئی ہے کہ اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کا یہ ناقابلِ تنسیخ حق ہے کہ انھیں قانون کا یکساں تحفظ حاصل رہے اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک ہو۔

توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے قانون کا اطلاق؟

ان دستوری اصولوں کی توضیح کے بعد جسٹس شاہ نے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا جائزہ لیا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ اس مقدمے کے مخصوص حقائق میں ان دفعات کا اطلاق ملزمان پر ہوتا ہے یا نہیں؟

دفعہ 295-بی میں قرآن کریم یا اس کے کسی حصے کی بالارادہ توہین پر عمر قید کی سزا مقرر کی گئی ہے، جبکہ دفعہ 295-سی میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں صراحتاً یا اشارتاً یا کنایتاً گستاخی پر موت کی سزا اور اس کے ساتھ جرمانے کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ (1986ء میں جب پارلیمان نے دفعہ 295-سی وضع کی تو اس میں موت کی سزا یا عمر قید کی سزا کے درمیان عدالت کو اختیار دیا تھا لیکن وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں اسماعیل قریشی کیس میں قرار دیا تھا کہ "یا عمر قید" کے الفاظ اسلامی احکام سے متصادم ہیں۔ چنانچہ اس فیصلے کے نافذ العمل ہونے کے بعد سے یہ الفاظ غیر مؤثر ہوگئے ہیں اور اب عدالت اس جرم پر سزاے موت ہی دے سکتی ہے، اور اس کے ساتھ جرمانے کی سزا بھی، لیکن عمر قید کی سزا نہیں دے سکتی۔)

جسٹس شاہ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ دفعہ 295-بی میں جرم کےلیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ قرآن کریم یا اس کے کسی حصے کو بالارادہ خراب کیا گیا ہو، نقصان پہنچایا گیا ہو یا اس کی بے حرمتی کی گئی ہو، اور اسی طرح دفعہ 295-سی میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا ذکر ہے، جبکہ موجودہ مقدمے میں ملزمان پر ایسا کوئی الزام نہیں عائد کیا گیا، بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ ان کی عبادت گاہ میں قرآن مجید کے نسخے موجود تھے اور کلمۂ طیبہ لکھا ہوا تھا۔ ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں نے قرار دیا تھا کہ قادیانیوں کی جانب سے صرف کلمۂ طیبہ پڑھنا یا قرآن پڑھنا ہی توہینِ قرآن یا توہینِ رسالت کے جرم کےلیے کافی ہے، لیکن جسٹس شاہ نے قرار دیا ہے کہ یہ قانون کی غلط تعبیر ہے۔ اس غلطی کو واضح کرنے کےلیے انھوں نے تعبیرِ قانون کا بنیادی اصول ذکر کیا ہے کہ سزاؤں کے قانون کو اس کے سادہ مفہوم تک ہی محدود رکھا جائے گا اور اس پر کسی مفہوم کا اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ ان دفعات میں جن امور کو جرم قرار دیا گیا ہے، صرف انھی پر سزا دی جاسکتی ہے اور ان پر قیاس کے ذریعے کسی اور چیز کا اضافہ کرکے اس پر بھی یہ سزائیں نہیں جاسکتیں۔ اسی طرح انھوں نے مقننہ کے ارادے کا اصول بھی ذکر کیا ہے کہ قانون وضع کرنے والوں کا مقصد بھی یہ نہیں تھا، اگرچہ اس کے ساتھ انھوں نے یہ تنبیہ بھی کی ہے کہ مقننہ کے ارادے یا مقصد کی بنیاد پر بھی سزاؤں کے قانون کو اس کے سادہ مفہوم سے آگے کسی اور امر کی طرف توسیع نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس شاہ نے یہ بھی واضح کیا کہ محض اس گمان پر سزا نہیں دی جاسکتی کہ ان کے دل میں توہین کا خیال ہوگا، جب تک وہ خیال عمل کی صورت میں آشکارا نہ ہو۔

سپریم کورٹ کا فیصلہ

ان امور کی بنا پر جسٹس شاہ نے قرار دیا کہ ہائی کورٹ اور دیگر ماتحت عدالتوں سے قانون کے فہم میں غلطی ہوئی تھی اور یہ کہ ان درخواست گزاروں پر اصل مقدمے میں جو الزامات عائد کیے گئے ہیں، ان پر توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ درخواست گزاروں کی درخواست منظور کرتے ہوئے انھوں نے اسے اپیل میں تبدیل کیا اور اپیل منظور کرنے کے نتیجے میں حکم دیا کہ درخواست گزاروں کے خلاف توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے الزامات ختم کرکے صرف دفعات 298-بی اور 298-سی (امتناعِ قادیانیت) کے تحت ہی مقدمہ چلایا جائے۔

یہ فیصلہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت اہم ہے اور اس سے پاکستان کے دستوری بندوبست میں قادیانیوں کی حیثیت اور ان کے حقوق اور ان حقوق پر عائد قیود کی درست تعبیر نافذ کرنے میں مدد ملے گی۔ یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کے مسئلے پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کی گئی تھی۔ تاہم اس فیصلے نے پھر واضح کردیا ہے کہ پاکستان کے دستور اور قانون کی رو سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے چکنے کے بعد بہ  حیثیت ِ غیر مسلم ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے، خواہ قادیانی اپنے لیے غیر مسلم کی حیثیت قبول کریں یا نہ کریں۔


مسلم وزرائے خارجہ سے توقعات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مسلم ممالک کے باہمی تعاون کے فورم اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا وجود تمام تر تحفظات کے باوجود اس لحاظ سے بہرحال غنیمت اور حوصلہ افزا ہے کہ مسلم ممالک کے حکمران وقتاً فوقتاً مل بیٹھ کر اپنے مسائل اور عالمِ اسلام کی مشکلات پر کچھ نہ کچھ غور کر لیتے ہیں اور موقف کا بھی اظہار کرتے ہیں جس سے اس حد تک اطمینان ضرور ہو جاتا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی صف میں ان مسائل و مشکلات کا احساس موجود ہے اور امید رہتی ہے کہ یہ احساس کبھی نہ کبھی ادراک اور عملی پیشرفت کی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے، ان شاء اللہ تعالٰی۔

اس حوالہ سے عالمِ اسلام کی اصل ضرورت کیا ہے؟ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے ہمیں پاکستان کی سابق وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کا وہ تاریخی تبصرہ یاد آ جاتا ہے جب انہوں نے بوسنیا اور سربیا کی کشمکش کے دوران مسلمانوں کے قتل ِعام کا ذکر کرتے ہوئے مسلمانوں کی بے بسی کا اظہار کیا تھا کہ

’’اب تو کوئی اوتومان ایمپائر (خلافتِ عثمانیہ) بھی نہیں ہے جس کے سامنے ہم اپنے دکھوں کا رونا رو سکیں۔‘‘

یہ بے بسی آج بھی قائم ہے جس کی تازہ ترین صورت دیکھی جا سکتی ہے کہ شام کے صدر نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے جو امریکہ بہادر کو پسند نہیں آیا اور اس نے کھلم کھلا اس پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ گویا ایک مسلمان ملک کے حکمران کے لیے دوسرے مسلمان ملک کا دورہ کرنے سے قبل امریکہ بہادر کی رضا اور ناراضگی کو دیکھنا ضروری ہے۔

اور یہ بھی عالمِ اسلام کی اسی بے بسی کی ایک واضح شکل ہے کہ افغانستان سے امریکی اتحاد کی افواج اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے واپس جا چکی ہیں اور امارتِ اسلامی افغانستان نے ملک میں امن و اتحاد کو برقرار رکھنے کی مثال قائم کر دی ہے، مگر پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلم ممالک امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم کرنے کے لیے امریکہ بہادر کی پیشانی کی سلوٹیں شمار کرنے میں مصروف ہیں اور اس کی طرف سے ’’این او سی‘‘ جاری ہونے کے انتظار میں ہیں۔

مسلم ممالک کے قابل صد احترام وزرائے خارجہ کی خدمت میں ہم اس موقع پر پہلی گزارش یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ عالمی دباؤ اور بیرونی مداخلت کے اس ماحول سے نکلنا ہے اور اپنے فیصلے آزادانہ ماحول میں خود کرنے کا حوصلہ اور اختیار حاصل کرنا ہے  جس کے بغیر ہم عالمِ اسلام کے کسی مسئلہ کو حل کرنے کا کوئی مؤثر راستہ اختیار نہیں کر سکیں گے۔

ہمارے خیال میں دوسرا اہم ترین توجہ طلب مسئلہ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کے بارے میں اقوامِ متحدہ کی حالیہ قابلِ تحسین قرارداد کو دیگر قراردادوں کی طرح ’’داخل دفتر‘‘ کر دینے کی بجائے اس کی بنیاد پر ایک منظم اور مربوط مہم چلانے کا ہے۔ جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں منفی قوتوں اور لابیوں کے پھیلائے ہوئے گمراہ کن شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے خلافتِ راشدہ کی طرز پر اسلام کی صحیح اور متوازن تعلیمات اور کردار کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ جو ظاہر ہے کہ اس سلسلہ میں مصروفِ عمل اسلامی نظریاتی حلقوں اور مراکز کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے، کیونکہ روایتی سفارتی حلقوں، سیکولر لابیوں اور این جی اوز وغیرہ کو اس مہم کا ذریعہ بنانے سے اسلاموفوبیا کی موجودہ صورتحال میں بہتری آنے کی بجائے اس کے مزید بگڑنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

یہ خبر ہمارے لیے اطمینان کا باعث بنی ہے کہ اس کانفرنس کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے جو کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والے مسلسل ظلم کے باعث ان کا اپنا حق ہونے کے ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری بھی ہے، اور اس سے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر ایک بار پھر اجاگر کرنے میں یقیناً مدد ملے گی۔ اس کے علاوہ فلسطین، اراکان اور دیگر خطوں کے مسلمانوں کی مظلومیت اور ان کے حقوق کی پامالی بھی مسلم وزرائے خارجہ کی توجہات کی منتظر ہے۔ جبکہ معروضی صورتحال میں مسلم ممالک پر مغربی اداروں اور این جی اوز کی فکری اور تہذیبی یلغار انتہائی فکر انگیز اور توجہ طلب مسئلہ ہے۔ عالمی اداروں، بین الاقوامی لابیوں، مغربی حکومتوں اور سیکولر این جی اوز کی مسلسل کوشش یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے معاشرتی اور تہذیبی بالخصوص خاندانی نظام و ماحول میں قرآن و سنت کے صریح احکام و قوانین سے دستبرداری کے لیے تیار کیا جائے، جس کے لیے پوری مسلم دنیا میں چند مخصوص حلقوں کے سوا عالمِ اسلام کا کوئی طبقہ تیار نہیں ہے، اور یہ کشمکش دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

مسلم وزرائے خارجہ کو ان مسائل کا نوٹس لیتے ہوئے قرآن و سنت کے ساتھ مسلمانوں کی کمٹمنٹ کا ساتھ دینا چاہیے اور مغربی دنیا کی استعماری قوتوں کو واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ ہمارے دینی، تہذیبی اور معاشرتی معاملات میں دخل اندازی کے طرز عمل پر نظرثانی کریں۔ ان گزارشات کے ساتھ ہم مسلم وزرائے خارجہ کی کانفرنس کی کامیابی کے لیے دعاگو ہیں اور اپنے تمام معزز مہمانوں کے لیے خیرسگالی اور محبت کے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہیں، آمین یا رب العالمین۔

صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہ

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج جناب جسٹس بابر ستار نے ایک فیصلے میں قرار دیا کہ محض جسمانی بلوغت پر 18 سال سے کم عمر لڑکی اپنی مرضی سے شادی کی اہل نہیں ہوجاتی۔ ایسا ہر نکاح فاسد اور فسخ کرنے کے لائق ہے۔ فاضل جج صاحب اگر اس مقدمے کے حقائق و واقعات کے مطابق اتنا ہی فیصلہ سنا تےجو صرف اس مقدمے تک محدود رہتا تو اضطراب نہ پیدا ہوتا لیکن فاضل جج صاحب کے فیصلے نے اسلام اور پورے قانون فطرت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ فاضل جج صاحب نے حلف تو پاکستانی آئین کے تحت اٹھایا ہے جس کے مطابق کوئی قانون اور قانون کے تحت سنایا گیا فیصلہ قرآن و سنت کے منافی نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس فیصلے میں وہ قانون بین الاقوام کا حوالہ دیتے نظر آتے ہیں۔ پورے احترام کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جج صاحب کا فیصلہ رواروی میں اور باریک بینی سے خالی ذہنی کیفیت میں لکھا گیا ہے۔

یہ بات بھی نہیں ہے کہ اس نوعیت کا مقدمہ عدالت میں پہلی بار آیا ہے۔ عدالت میں تو کیا، کم سنی کی شادی کا مسئلہ پوری دنیا میں قانون فطرت کے مطابق وضع کردہ قوانین کے ذریعے نمٹایا جاتا ہے۔ لیکن فاضل جج صاحب نے مسئلے کا جائزہ مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ نہیں لیا۔ وہ اس فکری آسیب کا شکار نظر آتے ہیں جس کے تحت کم سنی کی ہر شادی غلط ہوتی ہے۔ اس زیر نظر مقدمے کی حد تک تو شاید فیصلہ قبول کر لیا جائے لیکن یہ کہنا کہ اٹھارہ سال سے کم عمری کی ہر شادی غلط اور زنا کے مماثل ہے، ایسا داعیہ ہے جس کی تائید نہ تو قانون فطرت کرتا ہے اور نہ جدید متمدن ممالک میں فیصلہ یوں سنایا جاتا ہے، نہ شریعت مطہرہ میں اس کی تائید ملتی ہے۔ متعدد متمدن ممالک میں کم سنی کی شادی کا تصور عام ہے۔ شریعت اسلامی بھی کم سنی کی شادی کی تائید کرتی ہے۔

آج کل انسانی حقوق پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ انہی کی روشنی میں اس مقدمے کو دیکھتے ہیں۔ کسی شخص کا جسمانی نظام غذا طلب کرتا ہے، اسے بھوک لگتی ہے تو بتائیے، دنیا کے کس حصے میں، کس مذہب میں، کس تمدن میں اسے کھانا کھانے سے روکا جا سکتا ہے۔ کسی شخص کا جسمانی نظام نو دس سال کی عمر میں فعال ہو کر صنف مخالف کا تقاضا کرے تو کون سے انسانی حقوق رکاوٹ کھڑی کرتے ہیں۔ میرے محدود مطالعے کے تحت سات ہزار سالہ انسانی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ تمام انسان بلاامتیاز ملک و ملت و مذہب بلوغ کی علامتیں ظاہر ہوتے ہی ہر شخص کی صنفی ضروریات پوری کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق میں سے ہے۔ مجھے بھوک لگے تو آپ مجھے کھانا کھانے سے منع کرنے والے کون ہوتے ہیں؟ مجھے زندگی گزارنے کے لیے صنف مخالف کی ضرورت ہے تو آپ کون ہوتے ہیں مجھے باز رکھنے والے؟ یہ انسانی حقوق تو مجھے ہر سہولت دیتے ہیں. آج بھی دنیا بھر میں یہی چلن ہے۔

پاکستان میں کم سنی کی شادی کا مسئلہ متعدد دفعہ اٹھا۔ 2019 میں کم سنی کی شادی روکنے کی خاطر قومی اسمبلی میں بل پیش ہوا تو میں نے اخبارات میں ایک سلسلہ مضامین لکھا تھا۔ انہی مضامین کی بنیاد پر یہ واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ عالی مقام جسٹس صاحب کے فیصلے کے عموم کو کسی طرح سے بھی اخلاق و قانون کی تائید حاصل نہیں ہے، شریعث تو ذرا اعلی مقام رکھتی ہے۔ اسے کسی اور موقع پر زیر بحث لایا جائے گا۔ آئیے ! کم سنی کی شادی کا جائزہ جج صاحب کے اپنے قانون بین الاقوام کی روشنی میں لیتے ہیں کہ دنیا کے دیگر ممالک اس قانون کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔

 امریکہ پچاس ریاستوں کی یونین ہے جس کی ہر ریاست کو اپنا عائلی قانون بنانے کا اختیار ہے۔ ان ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر کیا ہے؟ کسی ریاست میں  اٹھارہ سالہ عمر تو کیا، سولہ ریاستوں میں ایسی کوئی عمر ہی نہیں۔ ان  تمام  ریاستوں کا عائلی قانون ایک دوسرے سے معمولی فرق کے ساتھ بڑی حد تک قانونِ فطرت ہے۔

الاسکا اور نارتھ کیرولینا نامی دو  ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر 14 سال ہے۔ میری لینڈ، کنساس، انڈیانا اورجزائر ہوائی نامی چار ریاستوں میں یہ عمر پندرہ سال ہے۔ انیس امریکی ریاستیں وہ ہیں جن میں کم سے کم عمر سولہ سال ہے۔ وہ ریاستیں کنِکٹی کٹ، جارجیا، الباما، ایریزونا، الینو ئس، آئیوا، نارتھ ڈکوٹا، منی سوٹا، مِسوری، ہیمپشائر، ساؤتھ ڈکوٹا، ٹیکساس، اوٹاہ، ویرمونٹ، ورجینیا، وسکونسن، واشنگٹن ڈی سی، ساؤتھ کیرولینا اور مونٹینا ہیں۔ اسی طرح فلوریڈا، ارکنساس، نبراسکا، کنیٹکی، اوہائیو، نیویارک اور اوریگان نامی سات ریاستوں میں یہ عمر سترہ سال ہے۔ سولہ ریاستیں وہ ہیں جن میں شادی کی کم از کم کوئی عمر نہیں ہے جو یہ ہیں:وائیومنک، ویسٹ ورجینیا، واشنگٹن (ڈی سی نہیں) ساؤتھ کیرولینا (قانونی تضادات کے بعد اسے سولہ سال والی عمر میں بھی شمار کیا جاتا ہے) پنسلوینیا، اوکلاہاما، نیو میکسیکو، مسی سپی، نیویڈا، مشی گن، میسا چوسٹس، مینی، لوزیانا، کولاریڈو، اِڈاہو اور کیلی فورنیا۔

شادی کی قانونی عمر (اٹھارہ، انیس یا اکیس) سے کم عمر کی جو تفصیلات  بیان ہوئی ہیں، ان میں کم سنی کی شادی چند شرائط سے منسلک ہے۔ درج ذیل میں سے بعض ریاستیں ایک شرط اور بعض زیادہ شرائط پوری ہونے پر قانونی عمر سے کم کسی بھی عمر میں شادی کی اجازت دیتی ہیں: کم سن لڑکی نے بچے کو جنم دیا ہو؛ کم سن بالکل آزاد (Emancipated)ہو جیسے ماں باپ مرگئے ہوں یا معلوم نہ ہوں؛ لڑکی حاملہ ہو گئی ہو؛ والدین یا قانونی سرپرست کی اجازت ہو؛ اور یہ عدالتی اطمینان ہو کہ اس کم سن کی شادی ممکن ہے۔

ان شرائط خمسہ میں سے بعض ریاستوں میں عدالتی اطمینان پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ یہ قانون کا پہلا حصہ ہے۔ دوسرا حصہ بلوغ کی قانونی عمر کی تکمیل پر حرکت میں آتا ہے۔ پورے امریکہ میں شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال ہے (نبراسکا اور مسی سپی میں یہ عمر بالترتیب انیس اور اکیس سال ہے). قانونی عمر کی تکمیل پر مرد و زن خود مختار ہیں کہ پسند کی شادی کریں۔

کیا آپ نے غور کیا کہ ان تمام  ریاستوں میں سے کسی ایک میں بھی شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال نہیں ہے۔دو امریکی ریاستوں میں کم سے کم مقررہ عمر اگر 14 سال ہے تو سولہ ریاستوں میں شادی کی کم سے کم عمر سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان حالات میں اگر ہمارا کوئی فاضل جج ہم پر ”یہ“ امریکی فکر مسلط کرنا چاہے تو ہم بسر و چشم دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھیں گے کہ آؤ کر گزرو یہ امریکی قانون ہمارے یہاں بھی نافذ۔  امید ہے کہ مسٹر و ملا اور راہروانِ مسجد و میخانہ دونوں کو  اس امریکی مثال سے ہدایت مل جائے گی۔

دنیا کا کوئی قانون دیکھ لیں،میری مراد ترقی یافتہ دنیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ اس میں بال کی کھال اتاری جاتی ہے۔ انسانی فہم میں آنے والا بعید ترین امکان بھی قانونی دائرے میں لانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ شادی بھی انہی امور میں سے ہے جس کے متعدد پہلو ہیں۔ ہر ایک پر بڑی سوچ بچار کے بعد اگر جامعیت سے بھرپور قانون بنایا جائے تو وہی قانون، قانونِ فطرت کہلاتا ہے۔

اپنے ملک میں آزاد خیال لوگوں اور خواتین کے حقوق والیوں نے بغیر جانے اور  بغیر پڑھے یہ فرض کر رکھا ہے کہ چونکہ فلاں جگہ ایک اَسّی سالہ جاگیردار نے تیرہ سالہ لڑکی سے شادی کر لی ہے، لہٰذا یقینا سارے ملک میں ایسے ہی ہوتا ہو گا۔ اور یہ کہ ہر کم سنی والی شادی بوڑھے کے ساتھ ہی ہوتی ہے، اس لیے ریاستی نظام فوراً حرکت میں آ ئے۔ حالانکہ یہ لوگ شہروں سے نکل کر جی ٹی روڈ، موٹر وے سے چھ آٹھ کلومیٹر دور کی دنیا دیکھیں، وہاں چند سال گز اریں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ہمارے ان دیہات کی دنیا یکسر مختلف نوعیت کی ہے۔

گویا کسی امریکی ریاست میں شادی کی کم سے کم عمر اٹھارہ سال کہیں نہیں۔ یہ کام امریکہ میں جائز ہو سکتا ہے تو یہاں پاکستان میں کیا رکاوٹ ہے؟ یہ وہ دلیل ہے جس کی بنا پر میں کہتاہوں کہ مذہب بیزار یا مذہب دشمن طبقہ کسی عقلی بنیاد پر اس کا مخالف نہیں ہے، اس کی مخالفت دین دشمنی پر ہے۔ یہاں آکر میں انسانوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتا۔ میرے نزدیک ایک طرف یزدان کے خیمے میں مقیم انسان ہیں جو قانونِ فطرت کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں تو دوسرے لوگ اہرمن کے پجاری ہیں۔ اوّل الذکر اللہ والے امریکی سپریم کورٹ میں اس خاتون رجسٹرار کی صورت میں مل جائیں گے جس نے ہم جنسوں کی شادی پر عدالتی فیصلے کی نقل اپنے دستخطوں سے یہ کہہ کردینے سے انکار کر دیا تھا کہ میرے مذہبی عقائد اس فیصلے کی تائید نہیں کرتے۔ وہ نیک بخت خاتون اپنی ملازمت داؤ پر لگا بیٹھی لیکن فیصلے کی نقل نہیں دی۔ رہے اہرمن کے راکھشش تو وہ آپ کو ہر ملک اور ہر معاشرے میں ملیں گے۔

کچھ لوگوں یا اداروں نے ہمارے دینی طبقوں کو ان ہیولوں کے تعاقب میں لگا رکھا ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں جن میں سے ایک کم سنی کی شادی ہے۔ میرے مخاطبین دینی طبقے کے میرے اپنے عزیز لوگ ہیں۔ ان عزیزان گرامی سے گزارش ہے کہ اپنے مسلک کے کسی بڑے کے ملفوظات کے ساتھ عہد حاضر کی فکر کا مطالعہ بھی کیا کریں۔ کلمة الحکمۃ پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ اسی کو ”لوہا  لوہے کو کاٹتا ہے“ کہا جاتاہے۔ اس مسئلے کو لے لیں،دین دشمن طبقات میں سے کون ہے جو آپ کے شرعی دلائل اور قرآن و سنت پر کان دھرے گا۔ کیا موسیٰ علیہ السلام فرعونی سانپوں کا سر لکڑی کی بوجھل الہامی الواح سے نہیں کچل سکتے تھے؟ تختیاں جن کی ایک ضرب سے ان کے قتلے بن جاتے، لیکن سنپولیوں کا مقابلہ اژدھے سے کیا گیا۔

کم سنی کی شادی کا معاملہ ایسا ہی ہے، یہ قانونِ فطرت ہے اور قانونِ فطرت کا تعلق کسی مذہب سے تلاش نہ کیا جائے۔ یہ ہر مذہب اور ہر معاشرت میں مل جاتا ہے۔جس قانونِ فطرت کا نام ہم نے یا اللہ کریم نے اسلام رکھا ہے، اس کے مظاہر ہمیں کُو بہ کُو اور قریہ بہ قریہ مل سکتے ہیں۔

کم سنی کی شادی کے متعلق انسانی رجحانات آج بھی وہی ہیں جو صنعتی انقلاب سے قبل کے معاشروں میں تھے۔ آج کم سنی کی شادی سے متعلق دو طرفہ بظاہر دلائل، لیکن حقیقتاً لوگوں کے اپنے نقطہ ہاےنظر، ملتے ہیں۔ ان دلائل میں کوئی چیز نہیں ملتی تو ”تلاشِ حق“ کی کیفیت نہیں ملتی۔ اور یہ کام جستجو، کھوج، پِتّہ ماری اور تحقیق کے بغیر نہیں ہوتا۔

 کم سنی کی شادی پر مذہبی طبقہ دلائل دیتا ہے تو حضرت عائشہؓ سے ابتدا ہوتی ہے۔ غیر ضروری مدافعت اور اُکتا دینے والی گھسی پٹی گفتگو سے آگے لوگ جا تے ہی نہیں۔ دوسرا وہ طبقہ ہے جس کا ذہن مذہب کے خلاف اتنا زہر آلود ہے کہ انہیں  کوئی اچھی چیز تو کیا ملے گی، وہ تو تلاشِ حق کے بھی روادار نہیں ہیں۔ ان کی زندگی محض مذہب دشمنی اور مذہبی طبقے سے منافرت پر قائم ہے۔ پس ضروری ہے کہ اس امریکی قانون کا ہلکا سا خلاصہ ذرا دوسرے انداز میں پیش کیا جائے جہاں  صغر سنی کی شادیاں کم و بیش ویسے ہی ہوتی ہیں جیسے ہمارے دیہات میں بغیر کسی تقنین (Codification) کے ہو رہی ہیں۔

جن ریاستوں میں کم از کم عمر نہیں ہے ، وہاں پیدائش کے بعد بچے کی شادی عدالتی اطمینان کے بعد کسی بھی عمر میں ممکن ہے۔ لوگ سوچیں گے کہ یہ کیسے ممکن ہے ، ممکن ہی نہیں ہو بھی رہا ہے۔ جنوبی امریکی زندگی قبائلی نظام سے عبارت ہے۔ مثلاً ماں کو ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے کر کہا کہ بس دو ایک ماہ زندگی باقی ہے۔ ماں مچل گئی کہ میں نے اپنے دو ایک سالہ بچے کے سہرے کے پھول دیکھنا ہیں، وہ عدالت جا پہنچی، عدالت اجازت دے دے گی ،کیوں دے گی؟ کیونکہ وہاں کی عدالتوں پر این جی او کے تاریک آسیبی سائے نہیں ہیں۔ جج اپنے دماغ سے سوچتے ہیں جن میں انسانی جذبات بھی شامل ہوتے ہیں۔

ان امریکی ریاستی قوانین پر عمل کا جائزہ لیا جائے تو اپنے ہاں کسی کو یقین نہیں آئے گا۔ حوالہ جات کے لیے عرض کروں کہ میں نے مشہور امریکی تھِنک ٹینک ، پیو (Pew) ریسرچ سینٹر کی تحقیق پر انحصار کیا ہے جس کے بیشتر اعدادوشمار امریکی بیورو آف اسٹیٹسکس سے لیے گئے ہیں، ماسوائے اس کے کہ ان کے اپنے سروے وغیرہ ہوں۔ پیو کے مطابق صرف 2014ءمیں 57,800 ایسے بچوں کی شادیاں ہوئیں جن کی عمریں 15 تا 17 سال تھیں۔

ان میں 31,644 کم سن بچیاں تھیں۔ ایک اور ادارہ اَن چینڈ ایٹ لاسٹ (Unchained at Last) ہے۔ اس کا مقصد جبری اور صغر سنی کی شادیاں روکنا ہے۔اس کے مطابق اکیسویں صدی کے ابتدائی 15 سالوں میں دو لاکھ بچوں کی شادیاں انہی قوانین کے مطابق ہوئیں۔ ضرب تقسیم خود کر لیں، ہر روز چھتیس شادیوں سے بھی قدرے زائد۔  این جی اوز اور ریاست کے اندھے وکیل ذرا صبر سے تفصیلات  پڑھ لیں: صرف فلوریڈا میں سترہ سالوں میں 13 سالہ بچوں سمیت 16,400 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ ٹیکساس اس سے بھی آگے ہے جہاں 14 سالوں میں 40,000 بچوں کی شادیاں ہوئیں۔ نیویارک متجددین کا گڑھ ہونے کا باعث ذرا پیچھے رہا جہاں دس سالوں میں 3,800 شادیاں ہوئیں یعنی اوسط ہر روز ایک سے قدرے زائد ۔ اوہائیو میں پندرہ سالہ مدت میں 4,443 لڑکیوں کی شادیاں مختلف عمروں کے مردوں سے ہوئیں۔ ایک بچی کی شادی 48 سالہ مرد کے ساتھ ہوئی۔

مذکورہ دو لاکھ شادیوں کا ایک فی صد تقریباً دو ہزار، 14 سال سے کم عمری کی شادیاں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ذرائع ابلاغ میں اس کا کوئی نوٹس تک نہیں لیا گیا۔  ان میں 13 سالہ بچوں کی تعداد اکیاون ہے۔ 6 بچوں کی شادیاں 12 سالہ عمر میں ہوئیں۔ الباما میں ایک 74 سالہ شخص نے 14 سالہ لڑکی سے شادی کی۔ ایک اور ریاست میں 10 سالہ بچیوں کی شادیاں 24 تا31 سالہ مردوں سے ہوئیں۔ یہ سب کچھ متعلقہ ریاستی قوانین اور دستور کی چھتری کے نیچے ہو رہا ہے۔ اپنے متجددین اور دین بیزار طبقے سے امید ہے کہ یہ امریکی رویہ لینے میں اسے کوئی تامل نہ ہو گا۔

بچے کی شادی والدین کا مسئلہ ہے۔ وہ معاشرتی قدروں کے مطابق یہ کام کریں تو ٹھیک، ورنہ عدالتی اطمینان کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔ عدالتی اطمینان شادی روکنے کے لیے نہیں، شادی سے مفاسد دور کرنے کے لیے ہوگا۔ عبداللہ ؓ ابن مسعود سے منسوب حدیث کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ”جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہے (ماراہ المسلمون حسناً فھو عنداللہ حسن) اسلامی معاشرت میں ریاست کا وجود بہت معدوم سا اور خبر گیری کی حد تک کا ہے۔ مارکس کا قول کس سے پنہاں ہے جو ریاست کو آلہ جبر قرار دیتا ہے۔ اثباتی انداز میں محرم راز خالقِ کائنات کا فرمان لاگو کریں ذرا، شخصی امور میں ریاست کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ والدین بگڑے ہوے ہوں تو اجتماعی معاشرت میں غیر متوازن کام ممکن نہیں ہوتا، پھر بھی بگاڑ کا امکان رہتا ہے۔ یہاں آ کر ریاست نگران (Watch Dog) کا کردار ادا کرتی ہے، نہ کہ مقنن (Legislator) کا۔ ریاستی نمائندوں ججوں وغیرہ سے گزارش ہے کہ اس بابت اسلامی قوانین وضع شدہ (Codified) شکل میں موجود ہیں، کسی نئی تقنین کی حاجت نہیں ہے۔

بلوغت کے ساتھ جب انسان کے جسمانی تقاضے بیدار ہوتے ہیں تو یہ مسئلہ قانون، ریاست، معاشرے سے زیادہ انسانی حقوق سے مربوط ہو جاتا ہے جن کا کام رکاوٹ پیدا کرنا نہیں بلکہ معاشرے کے مجموعی میلانات کے اندر نئے جوڑے کا درست ترین مقام متعین کرنا ہوتا ہے۔ معمولی مقامی اختلافات کے ساتھ یہ مسئلہ دنیا بھر میں ایک ہی اصول سے منسلک ہے جس کا مذہب سے بہت کم تعلق ہے۔

پارلیمان،  کابینہ اور سپریم کورٹ کورٹ سے توقع کی جاتی ہے کہ اس اہم معاشرتی مسئلے کو خوب بحث و تمحیص کے بعد مناسب انداز میں نمٹایا جائے۔ ایسی قانون سازی  کے ذریعے جو سات ہزار سالوں سے دنیا بھر میں معروف ہے اور متمدن دنیا میں بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ ججوں کے ذاتی میلانات کو عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے باز رکھنے کا کوئی مکینزم وضع کرے گی۔ کیا یہ امر باعث تعجب نہیں ہے کہ جج آئین کے تحت حلف اٹھائیں اور فیصلے لکھتے وقت آئینی شقوں کا خیال رکھنے کی بجائے قانون بین الاقوام کا سہارا لیں ؟

اللہ نے موقع دیا تو کم سنی کی شادی پر یورپی اور چند دیگر ممالک کے قوانین کا جائزہ بھی پیش کیا جائے گا۔


ماں باپ کی زیادہ عمر اور ڈاؤن سنڈروم کا تعلق

خطیب احمد

(اہل علم جانتے ہیں کہ صحت اور علاج کے معاملات میں شریعت نے انسان کے تجربے پر مدار رکھا ہے۔ جس چیز کا نقصان طبی تحقیق اور تجربے سے واضح ہو جائے، اس سے گریز کرنا شریعت کا مطلوب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق معلوم ہے کہ آپ نے توالد وتناسل سے متعلق بعض طریقوں سے اس بنیاد پر منع کرنے کا ارادہ فرمایا کہ ان سے بچوں کی صحت پر زد پڑتی ہے، لیکن پھر معلومات کی اطمینان بخش تصدیق نہ ہونے پر ارادہ تبدیل فرما لیا۔

جدید طبی تحقیقات کی رو سے لڑکی کی شادی کم سے کم کس عمر میں ہونی چاہیے اور بچوں کی پیدائش زیادہ سے زیادہ کس عمر تک ہونی چاہیے، اس کے متعلق اس تحریر میں ضروری معلومات دی گئی ہیں۔ مسلمان ثقافتوں میں بلوغت پر اور بعض حالات میں بلوغت سے پہلے جنسی خواہش پیدا ہو جانے کی عمر میں بھی شادی کا رواج رہا ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر طبی تحقیق ان زمانوں میں ان نتائج تک پہنچ چکی ہوتی جن تک آج پہنچی ہے تو فقہی روایت میں بھی جواز وعدم جواز کی صورت مختلف ہوتی۔ بہرحال، اصل چیز اصول ہے۔ اطلاقی فیصلے انسان کے علم کی حدود کے تابع ہوتے ہیں۔ علم میں بہتری اور وسعت آنے پر فقہی آرا کو بھی اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور ہماری فقہی روایت میں یہ صلاحیت بحمد اللہ ہمیشہ موجود رہی ہے۔ مدیر)


کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک لڑکی جب ماں کی کوکھ میں موجود ہوتی ہے (fetal life) تو اسکے پاس 60 سے 70 لاکھ انڈے (oocytes) ہوتے ہیں۔ جو اپنی تخلیق کے اگلے لمحے سے ہی خودکار عمل کے ذریعے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اور نو ماہ کے حمل میں بچی کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی 50 سے 60 لاکھ انڈے ختم ہوچکے ہوتے۔ ایک لڑکی ایورج 10 لاکھ بیضوں (Eggs) کے ساتھ اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے۔ جو اسکی دونوں اووریز میں موجود ہوتے ہیں۔

اب پیدائش کے بعد پہلے ماہ سے ہی ہر ماہ تقریباً 10 ہزار Immature انڈے خود ہی مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان کی سپیڈ انکی یوٹرس میں ہونے والی موت سے اب قدرے کم ہوگئی ہے۔ لڑکی کے 8 سے 15 سال کی عمر میں بالغ ہونے تک انکی ایورج تعداد 3 سے 4 لاکھ رہ چکی ہوتی۔

انڈے موجود ہیں تو مینسٹرل سائیکل پیدائش کے فوراً بعد کیوں نہیں شروع ہوتا؟

لڑکی جب بلوغت کی ایورج عمر 12 سال (جو کہ ہر لڑکی کی ایک دوسرے سے مختلف ہے) کو پہنچتی ہے تو اسکے برین میں موجود hypothalamus سب سے پہلے ایک gonadotropin-releasing hormone (GnRH) نامی ہارمون پیدا کرنے کا آرڈر جسم کو جاری کرتا ہے۔ حکم کی من و عن تعمیل میں GnRH متحرک کرتا ہے pituitary gland کو کہ اب آگے تم follicle-stimulating hormone (FSH) پرڈیوس کرو۔ یہ FSH ہارمون egg development کا پراسس شروع کرانے کے لیے فی میل ہارمون ایسٹروجن estrogen لیولز کو ہائی کرنا شروع کرتا ہے۔ اور لڑکی کا موڈ زندگی میں پہلی بار عجیب کچا پکا سا ہونے لگتا۔ پہلے پیریڈز ہوتے اور زندگی کے پہلے پیریڈز کے پہلے دن کو کاؤنٹ کرکے آگے تقریباً چودھویں دن ovulation کے بعد ایک انڈہ اووری سے باہر نکل کر فلاپئین ٹیوب میں محض 12 سے 24 گھنٹوں کی زندگی لے کر آجاتاہے۔ لڑکی ماں بننے کے لیے تیار ہے۔ جہاں پہلے سے موجود سپرم یا ان 12 سے 24 گھنٹوں کے اندر آکر fertilization کا پراسس مکمل کرکے زائگوٹ بن جاتے ہیں۔

بلوغت چاہے 10 سال میں کیوں نہ آجائے مگر 18 سال سے کم عمر لڑکی ہر گز ماں نہ بنے۔

موضوع پر واپس آتے ہیں کہ لڑکی کی پیدائش کے بعد چاہے اسکی سو سال زندگی ہو کوئی ایک انڈہ بھی نیا پیدا نہیں ہوتا۔ پیدائشی طور پر موجود انڈوں میں سے ہی ہر مینسٹرل سائیکل میں ایک انڈہ رلیز ہو کر حمل کے لیے فلاپئین ٹیوب میں آتا ہے۔ جہاں سپرم کے ساتھ ملکر زائگوٹ بنتا۔

اسکے برعکس پیدا ہونے والا لڑکا نطفوں (Sperms) کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اسکی بلوغت کی عمر میں 74 دن کے سائیکل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہماری وفات تک نان سٹاپ پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ انسانی موت کے بعد جب دل دھڑکنا بند ہوجاتا ہے اسکے بعد بھی جسم میں موجود سپرم کچھ دیر زندہ رہتے ہیں۔ مگر 35 سال کی عمر کے بعد انکی کوالٹی اور صحت دن بدن کمزور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ لڑکے بھی دس بارہ سال کی عمر میں بالغ ہوتے ہیں۔ اور پیدا ہونے والے سپرم کی تعداد اور صحت کے بہترین سال 20 سے 30 تک ہی ہیں۔ ان سپرمز سے پیدا ہونے والے بچے کے چانسز ممکنہ طور پر والد کی طرف سے کسی معذوری یا بیماری میں جانے کے لیے کم ہوتے ہیں۔ نسبتاً ان بچوں کے جن کے والد کی عمر بچہ پیدا کرنے کے وقت 35 سال سے زیادہ ہو۔

ڈاؤن سنڈروم ایک کروموسومل ڈس آرڈر ہے۔ ایک سپرم میں 23 کروموسوم اور ایک بیضے میں بھی 23 کروموسوم ہوتے ہیں۔ یہ دونوں مل کر 46 بن جاتے ہیں۔ جب کسی وجہ سے ٹرائی سومی یا کوئی بھی جوڑا 3 کروموسوم بن جائیں تو کوئی کروموسومل ڈس آرڈر ہوتا ہے۔ کروموسوم نمبر 21 دو کی بجائے تین بن جائیں تو بچی ڈاؤن سنڈروم ہوگا۔ مگر یہ تین کروموسوم آخر ہوتے کیوں ہیں؟ لڑکی کی عمر کا تعلق کیسے ہوا؟ آئیے دیکھتے ہیں

اس سے پہلے میں نے ڈاؤن سنڈروم پر دو بڑی ہی مفصل اور مدلل تحریریں لکھیں۔ جن سے میرے سرکل میں موجود تمام ڈاکٹرز نے کلی اتفاق کیا۔ مگر کچھ دوستوں نے بات کو مذہبی رنگ دے کر کہا کہ ماں کی ذیادہ عمر کا ڈاؤن سنڈروم سے کوئی تعلق نہیں۔ اور کہا کہ والد کو کلین چٹ نہ دیں اسکی عمر بھی وجہ بن سکتی ہے۔ آئیے اس تحریر میں اس بات کا سائنسی اور علمی جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جیسے ہی لڑکی بالغ ہوتی۔ پہلے جو ماہانہ 10 ہزار انڈے ضائع ہو رہے تھے۔ ان کے ضائع ہونے کی ماہانہ تعداد اب 1 ہزار ہو گئی ہے۔ یہ انڈے ہر روز مر رہے ہوتے یعنی ایورج 30 سے 35 انڈے ہر روز خود ہی ختم ہو رہے ہوتے۔ ایسا نہیں کہ ایک دم ایک ہزار مر جائیں گے۔ کیونکہ خدا نے رکھے ہی لاکھوں ہیں اور ان کا مرنا باقی بچنے والوں کے لیے ضروری ہے تو یہ خود کار پراسس جاری رہتا۔ ایک کچا انڈہ جو ایسٹروجن بڑھنے سے پک کر باہر خدا کے حکم سے باہر آیا وہ اب انسان بننے جا رہا ہے۔ اگر دو انڈے باہر آجائیں تو جڑواں بچے پیدا ہونگے۔ جتنے بھی پکے ہوئے انڈے اووری سے باہر نکلیں گے اتنے ہی بچے ہونگے۔ ایک انڈہ اگر دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا تو جڑواں بچے ہم جنس و ہم شکل ہوتے ہیں۔۔دو الگ انڈوں سے پیدا ہونے والے بچے ہم جنس و ہم شکل نہیں ہوتے۔

جو انڈے لڑکی کی 20 سے 30 سال کی عمر میں رلیز ہوتے وہ صحت و سائز و کوالٹی کے اعتبار اسکی پوری زندگی میں رلیز ہونے والے انڈوں سے بہترین ہوتے ہیں۔ یہی دنیا بھر میں آئیڈیل عمر ہے بچے پیدا کرنے کی۔ جوانی اپنے عروج پر ہوتی اور ہر سال بارہ صحت مند بیضے قدرت عطا کر رہی ہوتی کہ اپنی فیملی مکمل کر لو۔

جیسے ہی لڑکی کی عمر 32 ہوتی فرٹیلیٹی گرنا شروع ہوجاتی ہے۔ انڈوں کی تعداد تو ہر دن کم ہو ہی رہی ہوتی۔ جو باقی بچتے وہ بھی دیکھیں 32 سال پرانے ہیں۔ جب آپ پیدا ہوئی تھیں وہ تب ہی آپکے ساتھ دنیا میں آئے تھے۔ وہ ہر ماہ نہیں بنتے بس سٹور سے باہر نکلتے ہیں۔

بات آئی اب سمجھ میں؟

ان انڈوں کی صحت و کوالٹی ان کی بائیو لاجیکل عمر کے ساتھ وہ نہیں رہی جو آپکی اور انکی اپنی 30 سال کی عمر تک تھی۔

لڑکی کی 32 سے 37 سال کی عمر کے دوران فرٹیلیٹی اس تیزی سے گرتی کہ نیچرل حمل کے چانس بہت کم رہ جاتے۔ 40 تک آکر فرٹیلیٹی خطرناک حد تک گر چکی ہوتی۔ آی وی ایف اور سروگیسی کے آپشنز پھر دنیا بھر میں اپنائے جاتے۔ اور اسی دوران پیدا ہونے والے بچوں میں سے اکثریت کروموسومل اناملی کے ساتھ پیدا ہوتی۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

دونوں اووریز میں لاکھوں انڈے پڑے ہیں۔ ایک انڈے میں 23 کروموسوم کے جوڑے ہیں۔ خدا کے حکم سے ان کی Division کو Pause کیا گیا ہوا ہے۔ جیسے ہی ہر مینسٹرل سائیکل میں ایسٹروجن ہارمون کا لیول بڑھتا ہے ovulation پراسس سٹارٹ ہوتا تو ان لاکھوں انڈوں میں سے صرف ایک صحت مند انڈے کی فرٹیلائزیشن سٹارٹ ہوجاتی۔ اور اسکے کروموسومز Divide ہونے لگتے ہیں۔ اور یہ Division سپرم سے ملکر مکمل ہوجاتی۔ ہر یعنی ہر ایک کروموسوم پہلے اپنے ہی ساتھی کروموسوم sister strands سے الگ ہوتا اور پھر مخالف جنس کے کروموسوم سے ملکر کرکے اپنا اپنا جوڑا بنا لیتا ہے۔ یہ 23 جوڑے 46 کروموسوم ہوتے ہیں۔ جن کے اندر DNA ہوتا ہے۔ یہ ایک خلیہ پھر تیزی سے تقسیم ہونے لگتا اور ہم پانی سے خون اور پھر گوشت پوست کا انسان بن جاتے۔ ہمارے ہر تقریباً ہر خلیے میں آج 46 کروموسوم موجود ہیں۔ جو ہمارے سٹیم سیل میں تھے۔

اب ایک لڑکی کی عمر ہے 32 سال۔ یعنی جس انڈے سے بچہ ہونے جا رہا وہ بھی 32 سال پرانا انڈہ ہے۔ ہر انڈے میں پروٹینز ہوتی ہیں۔ انسانی انڈے میں پروٹینز کے دو لیولز یہ ہیں cohesin and securin۔ یہ پروٹین کے لیول عمر بڑھنے کے ساتھ اووری میں پڑے لاکھوں انڈوں میں سے دن بدن کم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیول کا کم ہونے کا مطلب ہے کہ کروموسوم جب اپنے ہی جوڑے سے الگ ہوگا تو کوئی ایک آدھ کروموسوم اپنے ہی جوڑے سے چپکا رہ جائے گا۔ یعنی uneven کروموسوم کی division ہوگی۔ لڑکی کے سب کروموسوم جوڑے کھل کر ایک ایک ہو گئے اور لڑکے کے بھی ہوگئے۔ ایک یہ آپس میں ملاپ کرتے ہیں۔ ایک نمبر سے لیکر 23 نمبر والا کروموسوم اپنے ہی پارٹنر سے ملتا ہے۔

جب لڑکی کی عمر زیادہ ہوتی تو انڈے میں پروٹینز کا لیول کم ہوتا۔ 21 نمبر کروموسوم کا جوڑا جو لڑکی کا اپنا ہے وہ جدا نہیں ہوتا۔ اور ایک مرد کا کروموسوم بھی اس کے ساتھ مل جاتا ہے۔ تو یہ تین کروموسوم ہو جاتے۔ اسے Trisomy 21 کہا جاتا ہے۔ یعنی یہ کام تقریباً اسی وقت ہوجاتا جس لمحے انڈہ اور سپرم آپس میں ملتے ہیں۔ ایسا نا ہونے کے برابر یا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ مرد کے سپرم میں موجود 21 کروموسوم جدا نہ ہو سکا ہو۔ اور ٹرائی سومی 21 ہو کر بچہ ڈاؤن سنڈروم ہوجائے۔ ایسا لڑکی کی طرف سے ہی اکثریت میں ہوتا ہے۔ اور پوری دنیا میں یہ بچے بڑی عمر کی لڑکیوں کے ہاں زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔ گو چھوٹی عمر کی لڑکیوں کے ہاں بھی پیدا ہوتے ہیں مگر اکثریت میں ریشو بڑی عمر یعنی 32 سے 37 سال میں ماں بننا ہے۔

ڈاؤن سنڈروم کی سو فیصد وجہ یہ ایک ہی نہیں ہے۔ دیگر وجوہات آپ میرے دیگر مضامین میں پڑھ سکتے ہیں۔ اور نہ ہی ایسا ہے کہ زیادہ عمر کی لڑکی کے ہاں ڈاؤن سنڈروم بچہ ہی ہوگا۔ مگر عمر بڑھنے کے ساتھ رسک ضرور بڑھ جاتا ہے۔

یہ کوئی تھیوری نہیں ہے ناں کو ریسرچ ہے۔ جسکا آپ حوالہ مانگنے لگ جائیں۔ یہ وہ نیچرل پراسس ہے جو میرے آپ کے اور دنیا کے ہر مرد و عورت کے جسم میں اس دنیا کے پہلے انسان سے لیکر آخری انسان تک ایسے ہی ہوتا رہے گا۔

کوشش کریں آپ لڑکی ہیں یا لڑکا 30 سے پہلے اپنی فیملی دو تین بچوں کے ساتھ مکمل کر لیں۔ کیرئیر بنتا رہے گا یار۔ ایک بھی دائمی معذور بچہ پیدا ہوگیا تو بنا ہوا کیرئیر اور سب کچھ اندھیر ہوجائے گا۔ آپ اس صدمے کو نہیں سہہ سکیں گے۔ ڈاؤن سنڈروم ہو گیا تو ہو گیا یہ کنڈیشن ساری عمر ساتھ رہے گی۔ والدین کا سب سے بڑا مسئلہ ان بچوں کی معذوری کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ میرا بھی بچہ معذور ہو تو کیسے قبول کر لوں گا کہ یہ اب ایسے ہی رہے گا۔۔حالانکہ اسنے رہنا ویسے ہی ہوتا ہے۔

یورپ میں شادیاں بہت لیٹ ہوتی ہیں۔ وہ لوگ ڈاؤن سنڈروم کو اکثریت میں دوران حمل تشخیص ہوتے ہی ابارٹ کر دیتے ہیں۔ اور ایک بچہ نیچرل یا مصنوعی طریقہ حمل سے یا سرو گیسی سے پیدا کرکے ایک بچے کے ساتھ ہی فیملی مکمل کر لیتے ہیں۔

آپ نے معذور بچے بس دیکھے ہیں۔ میں بارہ سال سے دن رات ان کی تعلیم و تربیت سے منسلک ہوں۔ سپیشل بچوں کا استاد ہوں۔ انکے والدین سے روز ملتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں کاش کوئی ہمیں وقت سے پہلے بتا دیتا۔ جنکو بتاتا ہوں روز لکھتا ہوں اور آپ بات سمجھتے ہی نہیں ہیں۔

والدین سے کہوں گا اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی 25 کے اوپر نیچے کرنے کی کوشش کریں۔ سادہ شادی کر لیں۔ لڑکے اور لڑکی والے دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔ مادی معیارات کی من پسند تلاش میں اپنے پوتوں دوہتوں کو معذوری نہ دیں۔

آپ لڑکی ہیں۔ عمر زیادہ ہے۔ شادی لیٹ ہوئی یا بچہ لیٹ پیدا ہوا۔ 32 سے 37 میں ریڈ لائن پر ہیں۔ مالک نے ایک بچہ صحت مند دے دیا بس کریں۔ زیادہ بھی ہو تو دو بچے کر لیں۔ وہ بھی رسک ہی ہے۔ ڈاؤن سنڈروم ضروری نہیں پہلا ہی بچہ بچی ہو دوسرا تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا ساتواں آٹھواں بھی دیکھا ہے۔ جب بچہ سپیشل ہوتا تو بچوں کو عموماً بریک لگتی۔ اور کئی جگہوں پر تو وہ بھی نہیں لگتی دو تین چار تک بغیر کسی احتیاط کے سب کچھ اللہ کی سپرد کرکے اسباب سے منہ موڑ کر سپیشل بچے ایک ہی معذوری کے ساتھ پیدا کر لیے جاتے۔

دوران حمل اپنا اسکین کسی تجربہ کار ریڈیالوجسٹ سے کروایا کریں۔ ساری گائنی ڈاکٹرز پراپر الٹرا ساؤنڈ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ اور ایک بچہ سپیشل ہو جائے تو دوسرے حمل سے پہلے کسی ماہر و پروفیسر ڈاکٹر گائناکالوجسٹ سے مشورہ کیا کریں۔ گو اسکی فیس زیادہ ہوگی مگر وہ آپکے بچے کی عمر بھر کی معذوری سے تو زیادہ نہیں۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۴)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Moderity کا دوسرا باب)


دوسرا باب:  اخلاقی اصلاح کے امکانات اور درپیش خطرات


شاہ محمد اسماعیل کی بکھری یادیں

برصغیر کی اسلامی تاریخ میں بہت کم ایسے مفکرین ہوں گے جن کا فکری ورثہ شاہ محمد اسماعیل (جو شاہ اسماعیل شہید کے نام سے بھی معروف ہیں) کی طرح متنازع اور اختلافی ہے۔ شاہ اسماعیل نے 1779 میں دلی کے ایک ایسے ممتاز گھرانے میں آنکھیں کھولیں جسے جدید ہندوستان کے یکتاے روزگار اور بااثر مسلمان اہلِ علم کی جاے پیدائش ہونے پر ناز تھا۔ ان کے دادا شاہ ولی اللہ اٹھارھویں صدی کے نہایت مشہور ومقبول مفکر تھے۔ شاہ اسماعیل کے والد شاہ عبدالغنی، شاہ ولی اللہ کے صاحب زادوں میں سے نسبتاً کم معروف تھے۔ شاہ اسماعیل نے اپنی دینی تعلیم بشمول قرآن، حدیث، فقہ، منطق اور تصوف اپنے عظیم چچاؤں شاہ عبد العزیز اور شاہ رفیع الدین (م 1821) کی نگرانی میں مکمل کی۔

اہل علم کے اس روشن خاندان میں شاہ اسماعیل ایک انوکھی شخصیت کے مالک تھے۔ ان بہت ساری چیزوں میں سے جو بعض اوقات ان کے خاندان کے بڑوں بالخصوص شاہ عبد العزیز کے لیے حیرانی کے ساتھ پریشانی کا سبب بنتی تھیں، ایک چیز شاہ اسماعیل کا جنگی فنون بالخصوص عسکری نوعیت کی جسمانی ریاضت کے ساتھ والہانہ تعلق تھا۔ شاہ اسماعیل کے سوانح میں انھیں ایک بہادر جنگ جو عالم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو جوانی سے ہی نہ صرف علمی بلکہ جسمانی جہاد کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے۔ شاید انھیں پہلے سے اندازہ تھا کہ ان کی زندگی کیسے گزرے گی، اور یہ کہ ایک دن وہ میدان کارزار میں اتریں گے1۔ مثلاً ان کے سوانح میں آتا ہے کہ اکیس سال کی عمر میں انھوں نے گھڑ سواری، تیر اندازی، شمشیر زنی اور تیراکی پر دسترس حاصل کر لی تھی۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ کبھی کبھی مسلسل تین دن تک دریا میں تیراکی کرتے رہتے، اور اس دوران میں دریا کے کنارے صرف اپنے طلبہ کو سبق پڑھانے اور کھانا کھانے کی غرض سے وقفہ کرتے تھے۔[53] انھوں نے تھکاوٹ کے آثار ظاہر کیے بغیر ایک ہی سانس میں (دس سے گیارہ میل) طویل مسافت پیدل طے کرنے کی مہارت بھی بہم پہنچا لی تھی۔ اور نیند پر قابو پانے میں ان کی ریاضت اتنی کامل تھی کہ وہ بغیر کسی تکلیف کے آٹھ سے دس دن تک جاگتے رہتے، اور جب کبھی ان کا جی چاہتا، سو لیتے یا جاگ جاتے تھے۔2

مشقت کی عادی جسمانی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے ذریعے سے شاہ اسماعیل نے خود کو نہ صرف مسلمان اہل علم اشرافیہ کی تن آسانی سے خود کو الگ رکھا، بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ انھوں نے اپنے عہد کی مغل سیاسی اشرافیہ سے بھی خود کو ممتاز کیا جو ان کی نظر میں عیاش، بگڑی ہوئی اور ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی اور اخلاقی زوال کی ذمہ دار تھی۔ یہ ایک ایسی سوچ تھی جس نے بعد میں ان کی اصلاحی کاوشوں میں بنیادی حیثیت حاصل کی۔ شاہ اسماعیل کے سوانح نگاروں نے تمام جزئی تفصیلات کے ساتھ مغلوں کے سیاسی اشرافیہ کے خلاف ان کی للکار وتنقید کو پیش کیا ہے۔ ایک واقعہ حسب ذیل ہے:

شاہ اسماعیل کو شمشیر زنی سکھانے والے استاذ، جن کا نام مرزا رحمت اللہ بیگ تھا، دلی میں بہت سے مغل شہزادوں اور نواب زادوں کے استاذ کی حیثیت سے مشہور تھے۔ ایک بار شاہ اسماعیل اس اکھاڑے میں شمشیر زنی کی مشق کر رہے تھے جہاں پر مرزا بیگ اپنے شاگردوں کو تربیت دیتے تھے کہ دو شہزادوں نے انھیں دیکھ کر ان کا مذاق اڑایا کہ ایک "ملا" سیاسی اشرافیہ کے ساتھ مخصوص فنون حرب کو سیکھنے کے لیے  خواہ مخواہ خود کو مشقت میں ڈالے ہوئے ہے۔ اپنی مشق پوری کرنے کے بعد شاہ اسماعیل ان دو شہزادوں کی طرف متوجہ ہو کر گویا ہوئے:

"میں ان کی اولاد میں سے ہوں جنھوں نے ایسی ہی حالت سے دنیا بھر میں اسلام کی اشاعت کی اور اسلامی سلطنتیں قائم کر دیں، اور آپ ان کی اولاد میں سے ہیں  جنھوں نے آرام طلب فطرت کی بدولت میں مسلمانوں کی حاکمیت  کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہزادے نہ تھے۔ پانچ لاکھ عرب جو آپ کی ماتحتی میں کسریٰ وقیصر کی سلطنت میں کام کر رہے تھے، لال قلعہ کے رہنے والے اور شہزادے نہ تھے۔ جو کچھ انھوں نے کام کیا، وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ، اور جو کچھ آپ کے بزرگوں کی آرام طلب روح نے کیا، وہ بھی زمانہ نہیں بھولا ہے"3۔

یہ فرد جرم سن کر دونوں شہزادے پشیماں ہوئے اور معذرت چاہی۔ تاہم شاہ اسماعیل نے انھیں شمشیر زنی کے مقابلے کی دعوت دی جسے انھوں نے کچھ پس وپیش کے بعد قبول کر لیا۔ پہلے ہی چند مرحلوں میں شاہ اسماعیل کی زبردست مہارت وتربیت کی دھاک بیٹھ گئی۔[54]  خود سر شہزادوں نے اعتراف کیا کہ اشرافیہ سے منسوب فنون حرب میں یہ "ملا زادہ"، جس پر انھوں نے پھبتی کسی تھی، ان سے زیادہ ماہر ہے۔ یہ کہانی شجاعت وبہادری کی ٹوپی کو شاہی اشرافیہ کے سر سے اتار کر شاہ اسماعیل کے سر پر رکھتی ہے۔ مزید برآں یہ بتاتی ہے کہ مغلوں کی "عیش پرستانہ عادات" ہی ان کے زوال کا باعث تھیں۔ اس طرح یہ واقعہ کہانی کے انداز میں شجاعت وبہادری اور جسمانی مضبوطی کو سیاسی طاقت اور مقبولِ عام حاکمیتِ اعلیٰ سے جوڑ دیتا ہے۔

دراصل مضبوط جسم کو پروان چڑھانے کے لیے شاہ اسماعیل نے مذہبی اشرافیہ میں رائج عادات واطوار سے تعلق منقطع کر لیا۔ اگرچہ شاہ اسماعیل کے خاندان کے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا نہ اپنے تحفظات کا اظہار کیا، تاہم ان کے والد اور چچا اکثر اس کی فوجی تربیت پر حیرت سے ہنستے تھے۔ اپنے خاندان کے ایک ایسے فرد کو دیکھ کر انھیں الجھن ہوتی تھی  جس کی طرز زندگی مولویانہ معاشرت سے نہ صرف بہت دور بلکہ اس کے برعکس تھی4۔

شاہ اسماعیل کے طبعی میلانات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر چہ اپنے خاندان کے ساتھ ان کے مضبوط علمی روابط تھے، تاہم سید احمد بریلوی (م 1831، اس کے بعد اس کتاب میں انھیں سید احمد5 کے نام سے پکارا جائے گا) ہی وہ شخصیت تھی جس نے اس کے اصلاحی کردار پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ سید احمد برصغیر میں اسلام کے علمی اور سیاسی نقشے پر ایک دل چسپ شخصیت ہیں۔ اگرچہ انھوں نے قرآن وحدیث کی تعلیم شاہ عبدالعزیز اور شاہ عبدالقادر سے حاصل کی تھی، پھر بھی وہ ایک روایتی عالم سے زیادہ ایک عسکری جنگ جو اور صوفی مُصلح تھے۔ تاہم سید احمد نے اپنے گرد اشرافیہ اور عوامی دونوں حلقوں کے پیروکار جمع کیے۔ شاہ اسماعیل کے علاوہ سید احمد کے بڑے مریدوں میں شاہ عبد العزیز کے داماد اور نامور حنفی عالم مولانا عبد الحی (م 1828) بھی شامل تھے۔ سید احمد کے ساتھ شاہ اسماعیل کی پہلی ملاقات 1819 میں ہوئی جب وہ ریاستِ ٹونک (جو آج راجستھان کے نام سے جانا جاتا ہے) سے واپس لوٹے۔ وہاں انھیں شاہ عبد العزیز نے بھیجا تھا تاکہ وہ امیر علی خان (م 1834) سے، جو بعد میں ٹونک کے نواب بنے، مکمل عسکری تربیت حاصل کریں۔ سید احمد سے ملاقات شاہ اسماعیل کی زندگی میں انقلاب کا نقطۂ آغاز ہے6۔

اس دور سے پہلے اپنی علمی پختگی کے باوجود شاہ اسماعیل اپنے اصلاحی مشن کے لیے کوئی مربوط ایجنڈا ترتیب نہیں دے سکے تھے۔ آزاد منش ہونے کی وجہ انھوں نے کوئی مستقل پیشہ بھی اختیار نہیں کیا تھا۔ اس بات کو بیسوی صدی کے سوانح نگار اور شاہ اسماعیل کے پرجوش حامی غلام رسول مہر (م 1971) نے کچھ یوں بیان کیا ہے: [55] "طبیعت میں ایک گونہ بے پروائی سی پائی جاتی تھی"7۔ لیکن سید احمد سے ملاقات وبیعت کے بعد شاہ اسماعیل کی زندگی میں ایک غیرمعمولی انقلاب برپا ہوا۔ ان کی سابقہ بے پروائی اور بد نظمی دینی اصلاح کے ایک منظم پروگرام میں تبدیل ہو گئی۔

جو خصوصیت شاہ اسماعیل کو اپنے خاندان کے اکثر افراد سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے علم وتحقیق کے ساتھ بھرپور انداز میں عوامی سرگرمیوں میں بھی شرکت کی۔ شاہ اسماعیل نے دلی کے مشہور اور مرکزی جامع مسجد کے سب سے زیادہ عوامی منبر تک اپنے اصلاحی مشن کو مدلل انداز میں پہنچایا۔ وہاں بیٹھ کر انھوں توحید کی تائید اور بدعات ورسومات کی تردید میں شعلہ انگیز خطباتِ جمعہ دیے۔ ان خطبوں کی بیک وقت پرجوش تائید یا تردید ہوئی۔ بعض لوگوں نے ہندوستانی مسلمانوں میں راسخ اعتقادی خرابیوں کی تشخیص کرنے اور انھیں طشت از بام کرنے پر ان کی تعریف کی، جبکہ کچھ لوگوں نے طویل عرصے سے رائج رسم ورواج کی توہین اور اولیاے کرام پر تنقید سے پیدا ہونے والے معاشرتی انتشار کی بنا پر انھیں برا بھلا کہا۔ سچ یہ ہے کہ شاہ اسماعیل کے خطبوں نے ایسا غم وغصہ پیدا کر دیا تھا کہ ایک موقع پر ان کے مستقل حریف مولانا فضل حق خیر آبادی نے دلی کے انگریز حاکم کی عدالت میں شاہ اسماعیل کے خلاف مقدمہ دائر کیا کہ وہ شاہ اسماعیل کو جامع مسجد کے منبر پر تقریر سے روکے۔ یہ مقدمہ منظور ہوا اور شاہ اسماعیل کو اس بنیاد پر خطبہ دینے سے منع کر دیا گیا کہ اس سے امنِ عامہ متاثر ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پابندی اس وقت اٹھا لی گئی جب شاہ اسماعیل نے انگریز افسر کو یقین دہانی کرائی کہ ان کے خطبات میں کوئی نئی بات نہیں، بلکہ اس کا مقصد توحید کا احیا ہے۔

عوامی اصلاح

1820 میں مشہور پریسبٹیرین مُصلِح چارلس فِنی (Charles Finney) نیو یارک کے شمال میں "گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر قریہ قریہ" اپنے اصلاحی پروگرام کی تبلیغ میں مصروف تھے، کیوں کہ وہ "دوسرے عظیم احیا" کے سرخیل تھے8۔ ہزاروں میل دور شاہ اسماعیل بھی دلی میں اور بالآخر پورے ہندوستان اور اس سے باہر بھی عوام کے سامنے اپنا اصلاحی منصوبہ پیش کر چکے تھے۔ جامع مسجد جیسے نمایاں مقامات میں رسمی تقریروں کے ساتھ ساتھ  انھوں نے بازاروں اور گلیوں کوچوں جیسے عوامی مقامات میں پورے جوش وخروش سے اصلاحی مہم چلائی۔ [56] اپنے خاندان کے افراد کی جھنجھلاہٹ کے باوجود وہ دلی کے مشہور قحبہ خانوں تک گئے  تاکہ طوائفوں اور ان کے سرپرستوں کو اس "عذابِ الٰہی" سے ڈرائیں جو ان کی تاک میں ہے۔ مثلاً ایک شام نمازِ مغرب ادا کرنے کے بعد شاہ اسماعیل نے موتی نام کی ایک مشہور طوائف کے قحبہ خانے کا رخ کیا۔ اس قحبہ خانے میں شہر کے دولت مند ترین لوگ بکثرت آتے تھے۔ شاہ اسماعیل نے خود کو بھکاری ظاہر کیا تو انھیں اندر جانے کی اجازت مل گئی۔ جوں ہی وہ داخل ہوئے، انھوں نے صحن میں رومال بچھایا اور اس پر بیٹھ گئے اور زور زور سے ثم رددناہ اسفل سافلین تک  سورۃ التین9 کی تلاوت کی۔ اس کے بعد مولانا نے اس قدر بلیغ اور مؤثر تقریر کی گویا جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کروا دیا۔

اس کا اثر یہ ہوا کہ موتی اور اس کے سرپرستوں نے قحبہ خانے میں موجود ڈھولک، ستار اور دیگر آلاتِ موسیقی توڑنا شروع کر دیے۔ اسی رات کو جب شاہ اسماعیل جامع مسجد واپس پہنچے تو ان کے تایا زاد اور مشہور محدّث مولانا محمد یعقوب دہلوی نے انھیں سیڑھیوں پر روک لیا۔ مولانا یعقوب نے قحبہ خانہ جانے پر ان کی سرزنش کی۔ انھوں نے کہا: "اسماعیل میاں! تمھارے دادا ایسے تھے اور تمھارے چچا ایسے تھے، اور تم ایسے خاندان سے ہو جس کے سلامی بادشاہ رہے ہیں، مگر تم نے اپنے آپ کو بہت ذلیل کر لیا۔ اتنی ذلت ٹھیک نہیں"۔ اس پر اسماعیل نے پوری خود اعتمادی سے کہا: "مجھے آپ کی کہی ہوئی بات پر حیرت ہوتی ہے۔ میں تو اس روز سمجھوں گا کہ آج میری عزت ہوئی ہے  جس روز دلی کے شہدے میرا منہ کالا کرکے اور گدھے پر سوار کرکے مجھے چاندنی چوک میں لے جائیں گے، اور میں یہ کہہ رہا  ہوں گا کہ قال اللہ کذا وقال رسول اللہ کذا (یعنی اللہ نے یہ فرمایا اور رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا)10۔

نکاحِ بیوگان

شاہ اسماعیل نے جن بنیادی امور کی اصلاح کا جوش وجذبے کے ساتھ بیڑہ اٹھایا، ان میں ایک نکاح بیوگان تھا۔ ہندو بیواؤں کے عقدِ ثانی سے متعلق اپنی کتاب میں تانیثی (feminist) مؤرخ تانیکا سرکار نے ثابت کیا ہے [57] کہ انیسویں صدی کے وسط میں نکاحِ بیوگان کا موضوع انتہائی حساس اور اشتعال انگیز تھا جس سے متعدد اور عموماً مخالف فرقوں کے ہندو اہل علم اور کارکن نبرد آزما تھے۔ مزید برآں سرکار کی نظر میں نکاحِ بیوگان کی مخالفت نے کم از کم مذہبی اتحاد کی حد تک "نہ صرف بہت سی ہندو ذاتوں کو متحد کیا، بلکہ اس نے ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان خط امتیاز بھی کھینچ دیا"11۔ چند دہائیوں کی کش مکش اور بحث کے بعد بالآخر ہندؤوں کا اصلاحی مشن قانون کے میدان میں فتح یاب ہوا۔ 1856 میں استعماری ریاست نے ایک قانون (ایکٹ نمبر XV، جولائی 1856) پاس کیا جس نے "ہندو بیواؤں کے عقدِ ثانی کے خلاف سابقہ قانونی اور جبری بندش" کو منسوخ کر دیا۔ اس سے ستائیس سال قبل 1829 میں ایک اور قانون پاس ہوا تھا جس کے ذریعے ستی (ہندو بیوہ کا اپنے مردہ شوہر کی چتا میں زندہ جلا دیا جانا) کی رسم پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ جیسا کہ سرکار نے تفصیل سے بیان کیا ہے: "ان کے درمیان ستی اور نکاحِ بیوگان (کی بندش) کو دو قوانین کے ذریعے جرم قرار دیا گیا جو کسی زمانے میں ایک مقدس رسمیں تھیں، اور جو طویل عرصے سے مذہب کی رو سے حیاتِ جاودانی کی ایک شکل سمجھی جاتی تھیں"12۔

انیسویں صدی میں برصغیر کے مذہبی، سیاسی اور قانونی دائروں میں نکاحِ بیوگان اور ستی کے الجھے ہوئے مسائل پر کافی عمدہ علمی تحقیقات سامنے آئی ہیں13۔ تاہم برصغیر سے متعلق تحقیقات کے میدان میں ان سوالات پر بحث ومباحثہ بنیادی طور پر انیسویں صدی کی ہندو فکر، کارکنوں اور استعماری ریاست کی بدلتی ترجیحات پر مرکوز ہوتا ہے۔ تاہم نکاح بیوگان کے حوالے سے یہ ناخوش گوار تنازعات صرف ہندؤوں اور ہندو مت میں پیدا نہیں ہوئے، بلکہ انیسویں صدی کے اوائل سے برصغیر کی مسلم اصلاحی فکر کے لیے بھی یہ ایک بنیادی مسئلہ تھا۔ متعدد ہندو روایات میں نکاحِ بیوگان سے ایک سماجی نفرت پائی جاتی ہے، تاہم اس مسئلے میں شاہ محمد اسماعیل جیسے مسلمان مصلحین کے لیے بھی دل چسپی کا کافی سامان تھا جن کی خواہش تھی کہ ہندوستانی اسلام کو "ہندو" اثرات سے پاک کیا جائے۔ جیسا کہ ہم آنے والے صفحات میں بیان کریں گے، جس طرح نکاح بیوگان کی مخالفت بہت سی ہندو ذاتوں کے لیے مسلمانوں اور ہندؤوں کے درمیان خطِ امتیاز تھی، اسی طرح بہت سے مسلمان مصلحین کے لیے بھی نکاحِ بیوگان کی ممانعت کے خلاف جد وجہد  (ہندووں اور مسلمانوں میں) اہم خطِ امتیاز کی حیثیت رکھتی تھی۔ یوں  انیسویں صدی میں نکاح بیوگان کے حق میں مسلم مصلحین کی مہم کا مفاد ایک طرف ان ہندو اصلاحی آوازوں کے ساتھ مشترک تھا جو ہندو بیواؤں کی عقد ثانی کی بندش کے مخالف تھے، اور دوسری طرف ان ہندو اہل علم کے ساتھ جو پورے جوش سے اس بندش کا دفاع کر رہے تھے۔[58]

اول الذکر کے ساتھ، مسلم مصلحین نکاح بیوگان کے خلاف بندش کو ہٹانے کے نظریاتی حکم پر متفق تھے، جبکہ موخر الذکر کے ساتھ شاہ اسماعیل جیسے مسلمان مصلحین اس نکتے پر   ایک پرجوش اعتقادی اور جذباتی اتفاق رکھتے تھے کہ ہندو اور مسلمان برادریوں کے درمیان خط امتیاز اور واضح حدود برقرار رکھی جانی چاہییں۔ ازدواجیت اور جنسیت کے انتہائی قریب لیکن متلون دائرے بطور خاص ایسا زرخیز میدان تھے جن میں یہ حدود نمایاں کیے گئے، ان پر بحث ہوئی، اور ان کی تحدید کی گئی۔ ذیل میں میری کوشش ہے کہ اس مناقشے میں مسلمان مصلحین کے کردار کے اہم اجزا کو زیر غور لا کر اس بحث کا ایک نقشہ پیش کروں۔ مقصد کے لیے میں اس مسئلے میں شاہ اسماعیل کے بنیادی کردار کا ایک بیانیہ (narrative) خاکہ پیش کروں گا۔

نکاح بیوگان کا موضوع شاہ اسماعیل کے لیے بہت ذاتی نوعیت کا تھا۔ ان کی بڑی ہمشیرہ بیوہ تھیں جن کا کئی سال تک عقد ثانی نہیں ہوا تھا۔ بعد میں شاہ اسماعیل نے خود اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اس وقت شمالی ہندوستان میں نکاح بیوگان سے متعلق بندش کو ایک لحاظ سے معمول سمجھ کر قبول کیا تھا۔ ان کے اپنے الفاظ میں یہ واقعہ کچھ یوں ہے: "جب میں اپنی ہمشیرہ کو (محمد تبریزی، م 1340 کی) حدیث کی کتاب مشکاۃ پڑھایا کرتا تو میں ارادی طور نکاح بیوگان کے فضائل سے متعلق احادیث کو چھوڑ دیتا۔ مجھے خدشہ تھا کہ کہیں وہ عقد ثانی کی خواہش نہ کر بیٹھے"14۔ جب شاہ اسماعیل سید احمد سے بیعت ہوئے تو یہ قابل اعتراض رویہ ایک دم بدل گیا۔

شاہ اسماعیل کے مطابق سید احمد ہی وہ شخصیت تھے جنھوں نے اس "حقیقت" کے بارے میں ان کی آنکھیں کھولیں کہ نکاح بیوگان کو برا سمجھنا دراصل "ایک ہندو رسم ہے جو سنت نبوی کے خلاف ہے"۔ بعد ازاں شاہ اسماعیل نے اپنی ہمشیرہ کا عقد ثانی اپنے ایک قریبی دوست سے کیا۔ اس عقد ثانی کا قصہ دل چسپی سے خالی نہیں۔

ایک دن شاہ اسماعیل جامع مسجد میں نکاح بیوگان کے موضوع پر وعظ کہہ رہے تھے۔ مجمع میں بیٹھے ایک شخص نے سوال پوچھنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ اسماعیل کو فورًا محسوس ہوا کہ یہ آدمی ان کی اپنی بیوہ ہمشیرہ، جس کا تاحال عقد ثانی نہیں ہوا، کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے15۔ وہ بڑے پریشان ہوا اور پیشگی اقدام کے طور پر مجمع کو فوراً‌ برخاست کرکے یہ کہا: "مجھے ایک اہم بات یاد آگئی۔ چلیں اگلے ہفتے پھر ملتے ہیں"۔ شاہ اسماعیل مسجد سے جلدی سے نکلے اور بھاگتے ہوئے اپنی بڑی ہمشیرہ کے گھر گئے۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا، شاہ اسماعیل اس کے پاؤں میں گر گئے اور زار وقطار روتے ہوئے کہنے لگے: "اے بہن! میری ساری تگ ودو آپ کے ہاتھوں میں ہے، میرے وعظ کی تاثیر کا انحصار آپ پر ہے"۔ مکمل حیرت کے عالم میں اس نے پوچھا: [59] "آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟" شاہ اسماعیل نے جواب میں کہا: "اگر تم شادی کر لو تو ایک اہم سنتِ نبوی کو زندہ کرنے میں میری مدد ہو جائے گی اور میں بغیر کسی جھجھک کے اپنا سلسلہ وعظ جاری رکھ سکوں گا"۔ بہن نے جواب میں کہا: "میرے پیارے بھائی! مجھے بھی سنت نبوی کا احیا اتنا ہی عزیز ہے، لیکن میں اتنی بوڑھی اور بیمار ہوں کہ عقد ثانی کر نہیں سکتی"۔ لیکن جب اسماعیل نے اپنا اصرار جاری رکھا تو آخر کار اس نے اپنے بھائی کی بات مان لی۔ ان کا نکاح شاہ اسماعیل کے ایک قریبی دوست کے ساتھ کر دیا گیا۔16

اس شخصی کام یابی سے حوصلہ پاتے ہوئے شاہ اسماعیل نے بڑے پیمانے پر شمالی ہندوستان کی مسلمان بیواوں کے عقد ثانی کی تحریک شروع کی۔ اس کام کے لیے انھیں معاونین کی ایک فوج ظفر موج دست یاب ہوئی جو قریہ قریہ جا کر عقد ثانی کے قابل بیوہ مسلمان خواتین کو ڈھونڈتے تھے۔ ایک شخص مولوی عبد الرحیم صاحب نکاح بیوگان کے سلسلے میں اتنے سرگرم تھے کہ وہ "رانڈوں کی شادی والے ملا" کے لقب سے مشہور ہو گئے17۔

شاہ اسماعیل کی اصلاحی بیداری پر سید احمد کے نقوش واثرات ان مٹ ہیں، اگر چہ علمی اعتبار سے شاہ اسماعیل ان سے زیادہ کامل اور پڑھے لکھے تھے۔ ایک خاص جذباتی موقع پر کسی نے شاہ اسماعیل سے پوچھا: "آپ کے تایا شاہ عبد العزیز اور شاہ عبد القادر دونوں آپ کو بے حد چاہتے ہیں، اور سید احمد ان کے شاگردوں میں ہیں۔ پھر آپ اپنے تایاؤں کے مقابلے میں ان سے اتنے قریب کیوں ہیں؟" شاہ اسماعیل نے  اختصار کے ساتھ جواب دیا: "میں بس اتنا کہوں گا کہ جب میں اپنی (بیوہ) ہمشیرہ کو حدیث کی کتاب مشکاۃ پڑھایا کرتا تو میں قصداً نکاح بیوگان کی فضیلت میں وارد احادیث کو چھوڑ دیتا، اس خدشے کی بنا پر کہ وہ عقد ثانی کی خواہش نہ کر بیٹھے۔ لیکن جب سید احمد کے ساتھ میرا تعلق مضبوط ہوا تو میں نے خود اس کا عقد ثانی کرا دیا۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں ان کے اتنے قریب کیوں ہوں!"18

درج بالا واقعے کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں پہلے سے نہ صرف عام مسلمانوں بلکہ مسلمان علما کے درمیان بھی "ہندوانہ رسومات" کی جڑوں کی گہرائی کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اسماعیل کا اپنی ہمشیرہ کو درس حدیث دینے کے وقت نکاح بیوگان سے متعلق احادیث نبویہ کو چھوڑ دینے کا اعتراف بہت اہم ہے، کیوں کہ اس سے نکاح بیوگان کو رائج کرنے کے لیے ان کے مشن کا اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مقصد دوسروں کی اصلاح سے زیادہ اپنی اصلاح تھا۔ برصغیر کے مسلمانوں میں رائج نکاح بیوگان کی بندش کو ہٹانے کی خواہش اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ رسوم ایک ایسے ہندوستانی ماحول میں پیچ درپیچ پیوست ہونے کی وجہ سے خاموش طور پر قبول کیے گئے تھے جس میں "ہندوؤں" اور "مسلمانوں" کی مذہبی وابستگیوں کے درمیان امتیاز اس قدر واضح نہیں تھا۔ [60] اگر چہ ہندو اور مسلمان مصلحین اپنی کوششوں کے تناظر اور مقاصد کے حوالے سے ایک دوسرے سے واضح طور پر مختلف تھے، تاہم یہ کہنا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ وہ نہ صرف نکاح بیوگان کی تائید میں بلکہ نکاح بیوگان کی بندش کو مذہبی تعلیمات کی مخالفت پر مبنی ایک غلط رسم قرار دینے میں بھی ایک دوسرے سے متفق ہیں- ایک ایسی جد وجہد جو تعبیر وتشریح کے اصولوں کے اعتبار سے مسلمانوں کے بجاے ہندؤوں کے لیے نسبتاً زیادہ بڑا چیلنج تھا۔ دونوں کا یہ نقطۂ نظر بھی ایک جیسا تھا کہ ایک بیوہ خاتون ہمیشہ جنسی آوارگی اور بداخلاقی کا بآسانی شکار ہو سکتی ہے، اگر اسے رشتۂ ازدواج کے اخلاقی بندھن میں نہ باندھا جائے19۔  

یہ نکتہ غور طلب ہے کہ کہیں شاہ اسماعیل اور ان کے رفقاے کار نے اس صورت حال کے پیدا کرنے میں کوئی کردار تو ادا نہیں کیا جس کی بنیاد پر استعماری ریاست نے ہندو بیواؤں کے عقد ثانی کی قانونی اجازت فراہم کی۔ اس سے قطع نظر کہ کوئی اس امکان کو کیسے دیکھتا ہے، جس طرح کہ گزشتہ بحث سے معلوم ہوتا ہے، یہ مفید ہوگا کہ روایتی طور پر "ہندو مذہب" یا ہندو کرداروں کے اصلاحی اقدامات میں برصغیر کے مسلمان مصلحین کے مداخلتی کردار کو کم از کم زیرِ غور ضرور لایا جائے۔ ان بالعموم نظر انداز شدہ نکات اتفاق کی نشان دہی اس لیے بھی اہم ہے کہ اس سے  اصلاح پسندوں کی  اس خوش گمانی  کا پردہ چاک کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی شناخت میں امتیاز اور اختلاف  کی کچھ   ہمیشہ سے چلی آنے والی اور بہت ہی واضح حدود ہوتی ہیں  (جن کے تحت کسی مذہبی روایت میں اصلاح کا عمل انجام دیا جاتا ہے)۔

غیر الوہی کرشماتی طاقت کی تسخیر

ایک اور  دلچسپ واقعہ جس سے اسماعیل کی اصلاحی کاوشوں کی بنیاد میں کارفرما  متعلق مختلف قسم کی تنقیدات یکجا سامنے آتی ہیں،  ایک خلوت پسند لیکن مسحور کن صوفی پیر جلال شاہ کے ساتھ ان کی ملاقات ہے20۔  اسماعیل ایسے کئی مشہور اجتماعات وتقریبات میں از خود شریک ہوتے تھے جو صاحب کرامت صوفیا کی غیرمعمولی روحانی صلاحیتوں کا اظہار ہوتے، اور جس میں عام لوگوں اور شاہی خاندان کے افراد کی ایک بڑی تعداد شرکت کرتی تھی۔ اپنی شناخت کو چھپانے کے لیے وہ ایسے مقامات پر فوجی وردی میں جاتے تھے۔ شاہ جلال کی عمر 38 سال تھی، اور وہ غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل اور صاحب کشف وکرامت تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ کسی پر ایک نظر ڈالنے سے اسے اپنی مرضی کا تابع بنا سکتے ہیں۔ روحانی کشش کے ساتھ ساتھ شاہ جلال حیرت انگیز طور پر وجیہ تھے۔ وہ ہر سال ماہِ ربیع الاول میں میلاد النبی کے پہلے بارہ دنوں میں دہلی میں قدم شریف کی درگاہ پر روحانی اجتماعات کا انعقاد کیا کرتے تھے۔

ان اجتماعات میں شاہ جلال کے ساتھ سفر کرنے والے مصاحبین کے علاوہ  مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے فقرا، تاجر برادری اور اشرافیہ کے تقریباً دو سو لوگ شریک ہوتے۔ اگر چہ شاہ ایک صوفی تھے، لیکن ان کا طرز  زندگی پر تعیش تھا۔ ان کے ہاں ایرانی قالینوں اور زیورات جیسے سامانِ عیش کی فراوانی تھی۔ اس ٹھاٹھ باٹھ اور پرتعیش زندگی کے باوجود شاہ کی یہ بات قابل تعریف تھی کہ وہ غریبوں پر دل کھول کر خرچ کرتے تھے، اور ان میں پاک بازی کی علامات جھلکتی تھیں، ایسے جیسے اصلاح اور غفلت سے بیداری  کا  موقع ملنے کے منتظر ہوں۔ اپنے مصلح سے ان کی ملاقات بہت جلد ہونے والی تھی  جب  چھ ربیع الاول کی رات کو شاہ اسماعیل نے شاہ جلال کے مشہور اجتماع میں شرکت کی۔ وہ قدم شریف میں تقریباً رات کے دس بجے داخل ہوئے جب روحانی محفل عروج پر تھی۔ شاوہ اسماعیل کو حیرت ہوئی جب شاہ جلال نے انھیں اپنے پاس بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔ کچھ لمحوں کے لیے شاہ اسماعیل کو اجتماع کی سرگرمیوں میں کوئی قابل اعتراض بات معلوم نہ ہوئی21۔

تاہم یہ اطمینان اس وقت ختم ہو گیا جب تبرُّکاتِ نبوی کو لایا گیا۔ جلال شاہ اور دوسرے تمام لوگ سراپا احترام بن کر کھڑے ہو گئے۔ شاہ اسماعیل چپکے  سے وہاں سے پیچھے ہٹ گئے تاکہ ایسی رسم کو بجا لانے سے احتراز کریں جس کی وہ پرزور انداز میں تردید کرتے تھے۔ اگر چہ کسی اور کو پتا نہیں چلا، لیکن شاہ جلال نے یہ بات نوٹ کی۔ تاہم انھوں نے کچھ نہ کہا، نہ ہی ناگواری یا ناراضگی کا کوئی تاثر ظاہر کیا۔ جب محفل دوبارہ جمی تو شاہ جلال نے دوبارہ شاہ اسماعیل کو اپنے پہلو میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ کچھ دیر کے لیے وہ دونوں کچھ نہ بولے۔ قدم شریف پر ایک پرشکوہ سکوت طاری تھا۔ آخر کار جلال شاہ نے مہر سکوت توڑی اور آہستہ لیکن قابل سماعت آواز میں اسماعیل سے گویا ہوئے: "کیا آپ دہلی سے ہیں"؟ شاہ اسماعیل نے اثبات میں جواب دیا تو جلال شاہ نے کہا: "ہر سال ہم آپ کی وجہ سے دہلی آ جاتے ہیں تاکہ آپ جیسے اہل دہلی کی نیک صحبت سے فیض یاب ہوں"22۔ جب وہ کچھ مزید بے تکلف ہو گئے تو شاہ اسماعیل کی خوش کلامی اور ان کی حکیمانہ گفتگو کا شاہ جلال پر اس قدر اثر ہوا کہ انھوں نے فورًا محفل برخواست کر دی، اور اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ سب کچھ لپیٹ کر وہاں سے چلے جائیں۔ جو دوسروں کو مسحور کرتا تھا، وہ خود شاہ اسماعیل کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ جلد ہی اسماعیل اور شاہ دونوں تنہا رہ گئے۔ اگر چہ روحانی محفل  جس میں ایک بھاری مجمع شریک تھا، قبل از وقت اختتام کو پہنچ گئی، تاہم اسماعیل کے اصلاحی کردار کی ابتدا ہوا چاہتی تھی۔

اس سے پہلے کہ شاہ اسماعیل اپنا جادو چلاتے، شاہ جلال نے کہا: "کیا آپ شاہ اسماعیل نہیں ہیں؟" اس نے ایک ایسے پراعتماد طالب علم کے انداز میں سوال کیا جس نے ابھی اپنا امتحان پاس کیا ہو۔23 پہلے شاہ اسماعیل تھوڑا ہچکچائے لیکن شاہ جلال کے اصرار پر انھوں نے آخر کار اپنی شناخت کی تصدیق کر دی۔ انھیں اس بات پر حیرت تھی کہ شاہ جلال کو کیسے پتا چلا کہ وہ کون ہیں۔ شاہ جلال نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے آپ کے مخالفین نے آپ کی تصویریں اور حلیے لکھ لکھ کے بھیجی ہیں  اور استدعا کی ہے کہ میں اپنے روحانی تصرف کو بروے کار لاتے ہوئے آپ پر قابو پا کر قتل کر دوں۔ لیکن شاہ جلال نے شاہ اسماعیل کو یقین دہانی کرائی کہ وہ بغیر کسی وجہ کے کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے۔24

اس کے بعد شاہ اسماعیل نے انھیں ایک شخصی اور فی البدیہہ تقریر کے ذریعے وعظ ونصیحت کی۔ انھوں نے ان غلطیوں سے پردہ اٹھایا جن میں شاہ جلال مبتلا تھے، اور جس نے ان کے پیروکاروں اور مریدوں کو غلط رستے پر ڈال دیا تھا۔ شاہ اسماعیل کی زبان سے قرآن وحدیث کا منشا غور سے سننے کے بعد شاہ جلال کانپ اٹھے۔ انھوں نے لجاجت بھری آواز میں کہا: "آپ کا ارشاد بجا ہے۔ حقیقت میں اب تک میں نے جو کچھ ثواب جان کر کیا ہے وہ سب اسلام کے خلاف ہیں۔ میں نے قبور کی زیارت کے لیے سفر کیے، مزارات پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں اور اس جیسے جو کام کیے، وہ سب درحقیقت شرک وبدعت ہیں۔ میں اپنے کیے گئے گناہوں کا جواب تو خدا کو دوں گا ہی، لیکن ان لوگوں کے جواب کا کیا کروں گا جو میری وجہ سے بہکاوے میں آ گئے"۔ یہ کہتے ہی وہ بلک بلک کر رونے لگے۔25 شاہ  اسماعیل نے انھیں تسلی دی اور انھیں خدا سے فوراً معافی مانگنے کی تلقین کی۔ یہ رات دو بجے کا وقت تھا۔ دہلی میں ہو کا عالم تھا اور سوائے کوتوال کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے اور کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

شاہ اسماعیل اور جلال شاہ نے آنکھیں بند کرکے پورے دل سے خدا کے حضور شاہ جلال کی توبہ کی قبولیت اور مغفرت کے لیے گڑگڑا کر دعا  کی۔ ان کی دعا کی قبولیت اس طرح ہوئی کہ ایک گرجتی ہوئی لیکن تسکین بخش آواز آسمان سے سنائی دی: "اے جلال! ہم نے تیرے گناہ معاف کیے، اور آج سے تو ہمارے دوستوں میں سے ہے۔" یہ سنتے ہی شاہ جلال اور شاہ اسماعیل دونوں بے ہوش ہو گئے۔ گھنٹہ بھر بے ہوش رہنے کے بعد جب شاہ جلال اٹھے تو "انھوں نے اپنا دل ربانی جلووں سے معمور پایا"26۔ وہ بدعت سے سنت کی طرف آ گئے، اور اسلام کے سچے پیروکاروں کے قافلے میں شامل ہو گئے۔  

اس واقعے کو بیان کرنے کے بعد شاہ اسماعیل کے سوانح نگار مرزا حیرت دہلوی ایک دل چسپ حاشیہ چڑھاتے ہیں جس کا نشانہ واضح طور پر معقولات کے ساتھ اشتغال رکھنے والا خیرآبادی مکتب فکر ہے: "یوں آسمانی آواز کا آنا ایک فلسفی کے دماغ کو خلجان میں مبتلا کرے گا، مگر جب وہ دل اور قوتِ یقین کی پرزور حالت کو دیکھے گا تو اسے اس بات میں کوئی شک نہیں ہوگا کہ دل میں خدا کی آواز سننے کی صلاحیت ہے، جب وہ دنیوی تعلقات سے پاک وصاف ہو جائے"27۔

مرزا حیرت کے نزدیک جلال شاہ اپنے دل کی پاکیزگی کی وجہ سے خدائی آواز سننے کے قابل ہوئے۔ جو کوئی اس جیسے واقعے کو بے بنیاد سمجھتا ہے، وہ دل اور خدا کے درمیان قریب تعلق کو نہ سمجھ سکتا ہے نہ اس کی قدر کر سکتا ہے۔ ہر اصلاح شدہ پاک باز شخص کے دل کی آواز خدا کی آواز ہے۔ جلال شاہ کے انقلابِ حال کی کہانی شاہ اسماعیل کے اصلاحی منصوبے کے تمام مرکزی موضوعات کو سامنے لاتی ہے: پیری اور ولایت کی غیرشرعی اساسات پر تنقید، ایسی رسموں کا انکار جو اسی پیری اور ولایت سے جنم لیتی ہیں، اور ان دو بنیادی ذرائع سے جڑے اشرافی طرزِ حیات کی تردید۔ جلال شاہ کے انقلابِ حال کی اس عجیب حکایت میں برصغیر میں انفرادی اور اجتماعی اصلاح کے اس تصور اور خواہش کو واضح طور پر پیش کیا گیا ہے جو صرف اور صرف خدا کی مطلق اور امتیازی حاکمیتِ اعلیٰ (خالص توحید) کے قیام کا خواہاں ہے۔


حواشی

  1. مرزا حیرت دہلوی، حیاتِ طیبہ (لاہور: اسلامی اکیڈمی ناشران کتب، 1984)، 41-51۔
  2. ایضاً، 47۔
  3. ایضاً، 44۔ یہ پیراگراف براہ راست اردو متن سے لیا گیا۔ مترجم
  4. ایضاً، 43۔
  5. کسی ابہام سے بچنے کے لیے میں اگلے صفحات میں ان کے نام کا 'بریلوی' لاحقہ ذکر کرنے کے بجاے سید احمد استعمال کروں گا۔
  6. سید احمد کی علمی اور سیاسی زندگی کے ایک عمدہ مطالعے کے لیے دیکھیے: جرنل آف رائل ایشیاٹک سوسائٹی 21، نمبر 2، (اپریل 2011): 98-177 میں ثنا ہارون کا آرٹیکل بعنوان: Reformism and Orthodox Practice in Early Nineteenth-Century Muslim North India: Sayyed Ahmad Shaheed Reconsidered پڑھیں۔ اس آرٹیکل میں ثنا ہارون ہمیں بتاتی ہیں کہ ٹونک میں عسکری تربیت حاصل کرنے کے دوران سید احمد ایک صوفی شیخ کی حیثیت سے شہرت حاصل کر چکے تھے، جن سے لوگوں اور بسا اوقات جانوروں کی مادی وروحانی فوائد کی خاطر کرامات کا ظہور ہوتا تھا، اور وہ مستقبل کے بارے میں پیش گوئی بھی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر: "وہ بیمار لوگوں پر ہاتھ پھیر تے اور دعائیں پڑھ کر پانی پر دم کرتے، پھر اسے مریضوں کو پلاتے جس سے وہ شفایاب ہو جاتے۔ ان کے دم سے ایک ایک نابینا آدمی دوبارہ بینا ہو گیا، ایک بیمار بیل دوبارہ ریڑھی کھینچنے کے قابل ہو گیا، اور ایک سوکھی گائے دوبارہ دودھ دینے لگی (182)۔
  7. غلام رسول مہر، تقویۃ الایمان کا مقدمہ (کراچی: صدیقی ٹرسٹ، تاریخ اشاعت ندارد)، 37۔
  8. چارلس ہیمبرک-سٹوو، Charles Finney and the Spirit of American Evangelicalism (گرینڈ ریپڈز، ایم آئی: ولیم بی ایرڈمینز، 1996) 37۔
  9. انگریزی متن میں سورۃ التوبۃ ہے، جو درست نہیں، مترجم۔ اشرف علی تھانوی، ارواحِ ثلاثہ (کراچی: دارالاشاعت، 2001)، 56-58۔ چاندنی چوک پرانی دہلی میں قدیم ترین اور مصروف ترین تجارتی بازاروں میں سے ہیں، جو آج تک دہلی کے شمال مرکز میں واقع ہے۔ اسے اصل میں سترھویں صدی میں مغل بادشاہ شاہ جہان نے تعمیر کیا تھا، اور اس کا نقشہ اس کی بیٹی جہان آرا (م 1681) نے بنایا تھا۔
  10. تانیکا سرکار، Rebels, Wives, Saints: Designing Selves and Nations in Colonial Times (لندن: سیگل بکس، 2009)، 122۔
  11. ایضاً، 121۔
  12. ایضاً، 68۔  
  13. مثلاً سرکار، Rebels, Wives, Saints: Designing Selves and Nations in Colonial Times (لندن: سیگل بکس، 2009)؛ تانیکا سرکار، Hindu Wife, Hindu Nation: Community, Relgion, and Cultural Nationalism (بلومنگٹن: انڈیانا یونیورسٹی پریس، 2001)؛ لتا مانی، Contentious Traditions: The Debated on Sati in Colonial India (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1998)؛ اشیس نندی، The Savage Freud and Other Essays on Possible and Retrievable Selves (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1995)۔
  14. تھانوی، ارواح ثلاثہ، 71۔
  15. اسماعیل کی ہم شیرہ (جس کا نام نہیں بتایا گیا) پہلے ان کے تایا زاد مولوی عبد الرحمان (شاہ رفیع الدین کے صاحب زادے) سے بیاہی گئی تھی، جو شادی کے چند دن بعد وفات پا گئے تھے۔
  16. تھانوی، اَرواح ثلاثہ، 68-78۔
  17. دل چسپ بات یہ ہے کہ دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی کے سوانح نگار مولانا مناظر احسن گیلانی کے مطابق چند دہائی بعد بعینہ یہی سلسلۂ واقعات نانوتوی صاحب کے ساتھ پیش آیا۔ واضح طور پر یہ مولانا گیلانی کی کوشش معلوم ہوتی ہے کہ بیانیے کے انداز میں شاہ اسماعیل اور مولانا نانوتوی (بلکہ اس کو دیوبندی تحریک تک وسعت دے کر) کے اصلاحی پروگراموں کو ملائیں۔ مناظر احسن گیلانی، سوانح قاسمی، جلد 2 (لاہور: مکتبہ رحمانیہ، 1976)، 10۔
  18. تھانوی، ارواحِ ثلاثہ، 71۔
  19. تانیکا سرکار کے مطابق: "اصلاح پسندوں نے قدامت پرستوں کا نکاح بیوگان کو مکمل غیر اخلاقی قرار دینے کے دعوے کے مقابلے میں یہ جواب دعوی پیش کیا کہ نکاح بیوگان کی عدم موجودگی اخلاق باختگی اور گناہ کا سبب ہے"۔ (Rebels, Wives, Saints, 144)
  20. مرزا دہلوی، حیاتِ طیبہ، 135-148۔
  21. ایضاً۔
  22. ایضاً، 140۔
  23. ایضا، 141
  24. ایضاً، 141-42۔
  25. ایضاً، 144-45۔
  26. ایضاً، 146۔
  27. ایضاً، 147۔


الشریعہ اکادمی کا سالانہ نقشبندی اجتماع

مولانا محمد اسامہ قاسم

علماء کرام انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ حضور تاجدار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں ایک مقصد تزکیہ نفس بھی ہے ۔ امت مسلمہ کی رہنمائی اور اصلاح معاشرہ کے لیے علماء کرام اور مشائخ عظام مساجد ،مدارس اور خانقاہوں میں مؤثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ اللہ کے ولیوں کی محافل، مشائخ عظام کی مجالس اور علماء کرام کے اصلاحی بیانات دلی کیفیات کو درست اور ایمانی جذبات کو قوت دیتے ہیں۔

اس مقصد کی تکمیل اور اکابرین کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ہر سال الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام علامہ زاہد الراشدی کی سرپرستی میں امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ علیہ کے مریدین ، متعلقین اور متوسلین کے لیےسالانہ نقشبندی اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کے مہمان خصوصی حضرت خواجہ خلیل احمد ہوتے ہیں۔

اس سال یہ دینی فکری اصلاحی نقشبندی اجتماع 14 مارچ بروز سوموار الشریعہ اکادمی کے  کیپمس مدرسہ طیبہ گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ اس مبارک روحانی اجتماع میں حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب ،حضرت مولانا اشرف علی، حضرت مولانا عبد القدوس قارن ،مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا مفتی طاہر مسعود، مولانا عبد الواحد رسولنگری، مولانا عزیز الرحمن شاہد، مولانا جمیل الرحمٰن اختر، مولانا فضل الہادی اور مولانا عمر حیات صاحب نے شرکت کی، جبکہ نعت خوان حضرات میں سے سید سلمان گیلانی ،حافظ فیصل بلال حسان، یحییٰ زکریا اور قاری ارشد محمود صفدر نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ علماء اور دینی کارکنوں کو  اجتماع کی اطلاع اور دعوت پہنچانے میں  مولانا حافظ سمیع الحق   نے خصوصی محنت کی اور    ان کی دعوت اور رابطے پر بڑی تعداد میں   احباب پروگرام میں شریک ہوئے۔

قاری احمد شہباز کی پرسوز تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ حافظ یحییٰ بن زکریا، ثناخوان مصطفی حافظ محمد عاصم اور حافظ فیصل بلال حسان نے بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔

نعتیہ کلام کے بعد پہلا بیان جامعہ محمودیہ سرگودھا کے مہتمم حضرت مولانا اشرف علی صاحب کا ہوا۔ مولانااشرف علی صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز مدح ربانی اور درود و سلام کے فضائل و احکام سے کیا اور اصلاح قلب، دینی مدارس اور خانقاہوں کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی ۔ فرمایا کہ ہمارے پاس مسجد اور مدرسے کی نسبت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، ہم خوش نصیب ہیں کہ دین سیکھنے اور سکھانے والوں میں شمار ہوتے ہیں ۔  حضرت لاہوری علیہ الرحمہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہوتا ہے رنگ فروش اور ایک ہوتا ہے رنگ ساز۔ رنگ فروش رنگ بیچتا ہے لیکن رنگ ساز رنگ چڑھاتا ہے۔ مدارس اور خانقاہوں میں ادب واخلاق کا رنگ چڑھایا جاتا ہے۔ اہل دل علماء کی صحبت سے دل روشن اور منور ہوتا ہے اکابرین کی صحبت اور معیت غنیمت ہے۔

مولانا اشرف علی کے بعد مولانا عبد الواحد رسولنگری صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جہاں بزرگ اکابرین موجود ہوں، وہاں اللہ ربّ العزت کی طرف سے انتہائی سکون اور راحت کا سامان ہوتا ہے۔ اللہ والوں سے رشتے ناتے توڑکر لوگ سمجھتے تھے کہ ہم ان کے بغیرکہیں کامیابی،کامرانی اورخوشحالی کی منازل آسانی کے ساتھ طے کرلیں گے مگرحالات اورواقعات نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ سراسر بھول،نادانی اورخام خیالی ہے۔ہمارے پاس آج دنیاکی ہرنعمت اورسہولت موجودہے لیکن اس کے باوجودہماری زندگیوں میں چین ہے اورنہ سکون۔ اس کے مقابلے میں اگر اللہ کے دوستوں کی چند لمحوں کے لیے قربت اورصحبت اختیارکرلی جائے توپھر ہمارے جیسے گنہگاربھی لمحوں میں دنیا جہان کے سارے غم بھول جاتے ہیں۔

 شاعر ختم نبوت سید سلمان گیلانی صاحب نے بھرپور انداز میں خوبصورت نئے کلام پڑھ کر محفل کو بارونق بنا یا۔

 خطیب اسلام مولانا شاہ نواز فاروقی نے اصحاب رسول کی عظمت و رفعت اور منقبت پر گفتگو کی ، جبکہ مولانا مفتی طاہر مسعود صاحب نے اپنی گفتگو میں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے حوالے سے بتایا کہ اس سلسلے کی نسبت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی طرف ہے۔ یہ روحانی سلسلہ حضور صلَّی اللہ علیہ وسلم کے مبارک سینے سے نکلا ہوا مبارک سلسلہ ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ دلوں کی صفائی اور تزکیہ نفس کے لیے یہ اجتماع رکھا گیا ہے ۔ یہ دل دو طرح سے صاف ہو سکتا ہے۔  ذکر اللہ کی کثرت اور اہل اللہ کی صحبت و معیت سے دلی کیفیات میں نکھار اور ایمانی جذبات میں قوت آتی ہے۔

مفتی طاہر مسعود صاحب کے بیان کے بعد نماز عصر مولانا عزیز الرحمن شاہد صاحب کی امامت میں ادا کی گئی۔ نماز کے بعد حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب نے ختم خواجگان کے ساتھ دعا فرمائی۔ اس کے بعد بیعت کا اعلان ہوا اور کثیر تعداد میں مریدین و معتقدین نے حضرت کے ہاتھ پر بیعت کی۔

ولی کامل نمونہ اسلاف حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ؒکی رحلت

مولانا ڈاکٹر غازی عبد الرحمن قاسمی

 اس فانی اورعارضی دنیا میں روز ازل سے آمد وروانگی کے سلسلے جاری ہیں ہرچیز اپنی طے شدہ عمر کی ساعتیں گزار کربالآخر فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے او ر ہر ذی روح نے موت کا جام لازمی پینا ہے جس سے کسی کو استثنی نہیں۔جوبھی اس دنیا میں آیا وہ جانے کے لیے ہی آیاہے۔ یہ قانون فطرت ہے جس سے کسی ذی روح کو مفر نہیں اور نہ اس کا کوئی منکر ہوسکتاہے  البتہ بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جن کی جدائی اورفراق کودل جلدی تسلیم نہیں کرتا اور نہ ان کی وفات کا غم بھولتا ہے۔ انہی میں سے ایک شخصیت میرے والد ماجد ،حضرت مولانا محمد قاسم قاسمی ؒ کی ہے۔

آپ ؒ کی ولادت ۸ ربیع الاول 1357ھ مطابق 1937ءکو عارف باللہ حضرت مولانا فضل محمد ؒ کے گھر ہوئی۔ چار سال کی عمر میں قرآن مجید کاپہلا سبق اپنے والد محترم حضرت مولانا فضل محمد ؒ سے پڑھا (جو دارالعلوم دیو بند ہندوستان کے فاضل تھے اورانہوں نے بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ سے پڑھی تھی اور اس وقت دارلعلوم دیوبند کی مسند تدریس پر فائز دیگر اکابرین علماء سے بھی کسب فیض کیا تھا۔) حضرت مولانا منظور احمد نعمانی ؒ(مدیر الفرقان، ہندوستان) فقیروالی تشریف لائے توحضرت والد صاحب ؒ کو ان سے ابتدائی سبق پڑھنے کااعزاز حاصل ہوا۔

1947ء میں اپنے والد محتر م حضرت مولانافضل محمد ؒ کے ہمراہ دیو بند کا سفر کیا اور 10 دن حضرت شیخ الاسلام سیدحسین احمد مدنی ؒ کے مہمان رہے ۔

1955ء میں آپ نے دورہ حدیث جامعہ قاسم العلوم فقیرولی میں مکمل کیا اوربخاری شریف حضرت مولانامفتی فاروق احمد انصاری ؒ سے پڑھی جو حضرت مولانا خلیل احمد انبیٹھوی سہارنپوری ؒ صاحب بذل المجہود کے شاگردتھے۔ حضرت مولانا مفتی فاروق احمد انصاری ؒ فرماتے تھے کہ میں نے بچپن میں اپنے والدمکرم مولانا صدیق احمد ؒ کے ہمراہ قطب الاقطاب امام اکبر حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہیؒ کی زیارت کی تھی ۔چنانچہ اس لحاظ سے بھی حضرت والد صاحب کی علمی سند اورنسبت بڑی بلندپایہ ہوئی ۔

اسی طرح آپ کے ایک اوراستاد حضرت مولانا مفتی فقیراللہ رائے پوری ؒ اسیر مالٹاشیخ الھند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ کے براہ راست شاگرد تھے جس وقت وہ جامعہ قاسم العلو م فقیروالی پڑھانے تشریف لائے، وہ نا بینا ہوچکے تھے ۔اور آپ جامعہ رشید یہ ساہیوال کے بانی وسابقہ مہتمم د حضرت مولانا حبیب اللہ ؒ کے والد ہیں۔اس کے علاوہ آپ کے اوردیگر اساتذہ کی ایک طویل فہرست ہے جس کی تفصیل کا یہ وقت نہیں ہے۔

جامعہ قاسم العلوم فقیروالی میں محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری ؒ نے 15 دن قیام فرمایا اور اسی طرح مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ نے 16 دن قیام کیا اوردرس وتدریس سے جامعہ کے درودیوار اورعلاقہ کو منور کیا اور حضرت والد صاحب ؒ نے بھی ان عظیم مجالس سے حظ وافر پایا۔

مارچ 1980ء میں دارالعلوم دیوبند کے سو سالہ اجلاس میں اپنے والد محترم حضرت مولانا فضل محمد ؒ کے ہمراہ 10 افراد کے قافلہ کےساتھ شرکت کی۔

1981ء میں دادا جان ولی کامل حضرت مولانا فضل محمد ؒ کی وفات کے بعد مجلس شوری ٰ نے آپ کو جامعہ قاسم العلوم فقیروالی کا مہتمم مقرر کیا چنانچہ آپ کے دور میں ادارہ نے مزید خوب علمی ترقی کی۔دو مرتبہ آپ نے حج بیت اللہ کی سعادت حاصل  کی ۔دل کے بائی پاس اورگردوں کے عارضے میں مبتلا ہونے کے باوجود آپ کے دینی معمولات اورعبادت وریاضت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ صوم و صلوۃ کی پابندی تلاوت قرآن ،بعد از نماز فجر اذکار مسنونہ سمیت دیگر  عبادات کا امتثال تا حیات جاری رہا ۔

آپ نہایت وسیع الظرف، حوصلہ وحلم کے کوہ گراں ، لوگوں کے عیوب پر بڑی سختی سے پردہ ڈالنے والے، چغلی وغیبت سے بہت دور، معذرت اور عذر کو فوری قبول کرنے والے،کبھی زبان کو گالی سے آلودہ نہیں کیا، اور بدلہ لینے یا کسی کی  اذیت رسانی پر انتقامی کارروائیوں کے جذبات سے عاری، ہمیشہ لوگوں کے کام آئے، عاجزی وانکساری کے پیکر، نمودونمائش اور ریا کاری سے کوسوں فاصلے پر،اپنے ہاتھ سے اپنے کام کرنے والے، بہت سی ایسی خوبیوں اور خصوصیات کے مالک تھے جو آج ہمیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔

28 جنوری 2022ء بروز جمعۃ المبارک عین نماز جمعہ کے وقت قرآنی آیات کا ورد کرتے ہوئے نشتر ہسپتال ملتان انتقال ہوا اور 29 جنوری 2022ء  بروز ہفتہ کو جامعہ قاسم العلوم فقیروالی میں بعد از نماز ظہر دوپہر2 بجے ، نماز جنازہ ادا کی گئی جس میں  پاکستان کے مختلف شہروں اوردور دراز علاقوں سے  تشریف لائے  ہزاروں علماء اور صلحاء نے شرکت کی اور نماز جنازہ آپ کے برادر نسبتی ابوالانوار حضرت علامہ عبدالحق مجاہد صدرانجمن انوارالاسلام ملتان نے پڑھائی اورجامعہ کے احاطہ میں تدفین ہوئی۔جنازہ سےقبل علماء اورمعززین علاقہ نے آپؒ کے صاحبزادے اور میرے بڑے بھائی  مولانا پیر حافظ مسعود قاسم قاسمی  مدظلہ کے سرپر آپ کی جانشینی کی پگڑی باندھی اور انہیں اپنے والد محترم ؒ  کے مشن پر چلنے کی نصائح کیں ۔اللہ تعالی آپ کی بال بال مغفرت  فرمائےاور اعلی علیین میں جگہ عطافرمائے۔

مئی ۲۰۲۲ء

عورت کی تکریم اور اہم سماجی وقانونی مسائلمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۸)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ سنن ابی داود (۵)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے چند گذارشاتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
عدالتی فیصلوں پر شرعی تحفظات کا اظہارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
امپورٹڈ قوانین اور سیاسی خلفشارمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہڈاکٹر شہزاد اقبال شام 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۵)ڈاکٹر شیر علی ترین 

عورت کی تکریم اور اہم سماجی وقانونی مسائل

محمد عمار خان ناصر


(خواتین سے متعلق معاشرتی رویوں اور مختلف قانونی وسماجی مسائل کے حوالے سے سوشل میڈیا کے لیے وقتاً‌ فوقتاً‌ جو توضیحات قلم بند کی گئیں، ان کا ایک انتخاب یہاں پیش کیا رہا ہے۔)


عورت کی تکریم کا تصور اور سماجی رویے

ہمارے سماجی تناظر میں عورت کا وجود، شناخت اور حیثیت تسلیم کیے جانے یا نہ کیے جانے کی کشمکش کی تین تکونیں ہیں، یعنی گھر، گھر سے باہر عمومی معاشرہ اور سرمایہ دارانہ نظام کی منڈی۔ گھر اور منڈی دو متوازی قوتیں ہیں جو معاشرے کو اپنی اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان دونوں کے درمیان معاشرہ اپنے رویے، اخلاقیات اور حدود وضوابط متعین کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے۔

گھر روایتی سماجی اخلاقیات کے دائرے میں عورت کو تحفظ وتکریم اور کفالت فراہم کرنے کا بندوبست ہے جس کے ساتھ پابندیوں اور قدغنوں کا ایک ایسا مجموعہ وابستہ ہے جو عورت کو بڑی حد تک ایک ملکیتی شے بنا دیتی ہیں اور بہت سی صورتوں میں غیر انسانی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ تحفظ اور ملکیت کا یہ امتزاج جدید معاشی نظام سے وجود میں آنے والی معاشرت میں فٹ نہیں بیٹھتا اور دن بدن اپنی گرفت کھوتا جا رہا ہے۔

جدید معاشی نظام عورت کو ان قدغنوں سے آزادی کی ضمانت اور پابندیوں سے بغاوت کا حوصلہ اور وسائل دیتا ہے، تاہم ہمارے سیاق میں یہ نظام عورت کو اس بغاوت کا اور اپنی آزادی کو بروئے کار لانے کا سب سے قیمتی معاوضہ جس میدان میں دیتا ہے، وہ صنفی حسن اور صنفی تلذذ کا میدان ہے۔ اس نوعیت کی "آزادیاں" خریدنے کے لیے پوری منڈی اہلاً‌ وسہلاً‌ کا بورڈ آویزاں کیے ہوئے ہے۔

اس کشمکش میں عورت کے لیے انفرادی ملکیتی حیثیت سے آزادی حاصل کر کے بازار نمائش میں اجتماعی ملکیتی حیثیت قبول کرنے کا فیصلہ تو بہت آسان اور پرکشش ہے، لیکن ظاہر ہے، یہ ایک خاص طبقے کا ہی انتخاب ہو سکتا ہے۔ عورت بطور صنف اجتماعی طور پر یہ انتخاب کرنا بھی نہیں چاہتی اور بازار بھی اس کے مواقع فراہم نہیں کرتا۔

معاشرہ اس وقت انھی دو ملکیتی نظاموں کے درمیان کشمکش سے گزر رہا ہے۔ معاشرے کا آئیڈیل یہ ہے کہ عورت کو فرد کے طور پر بھی اور صنف کے طور پر بھی تقدس اور احترام کے ساتھ آزادی اور اختیار سے بہرہ مند کیا جائے تاکہ جو تحفظ وتکریم اس کو گھر دیتا ہے، وہ ملکیتی شے بننے سے مشروط نہ رہے اور جو آزادی اس کو جدید معاشی نظام دیتا ہے، اس کے اظہار کا میدان صرف بازار حسن نہ ہو، بلکہ وہ اسی تکریم اور تحفظ کے ساتھ تمام معاشرتی سرگرمیوں کا حصہ بن سکے جو اسے گھر میں دی جاتی ہے۔

گھر کے رشتوں کو جو احترام دیا جاتا ہے، اسی احترام کو صنف کے حوالے سے معاشرتی قدر بنانے پر محنت کی ضرورت ہے۔ رشتوں کا احترام ان خاص افراد تک محدود ہوتا ہے جن سے رشتہ ہوتا ہے۔ صنف کا احترام ہوگا تو وہ جو بھی ہوگی اور جہاں بھی ہوگی، قابل احترام ہوگی۔ اس تناظر میں "آزادی" کا مغربی فلسفہ اور جسم اور مرضی جیسے سلوگن ہمارے سیاق میں مددگار نہیں، بلکہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کا پیغام اور تاثیر عورت کی تکریم نہیں جو ایک اخلاقی احساس ہے۔ ان کا پیغام ایک طرف انفرادیت کے نفسی احساس اور صنفین کے مابین بے گانگی اور منافرت کو فروغ دینا اور دوسری طرف نسوانی جسم کو جنس بازار بنانے میں سرمایہ دارانہ منڈی کو سہولت فراہم کرنا ہے تاکہ اس کی خرید وفروخت کرنے والے کسی اخلاقی ججمنٹ کا موضوع نہ بنائے جا سکیں اور "آزادی" کی قدر کے تحت ان کو قانونی اور سماجی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

تکریم کو معاشرتی قدر بنانا انسانوں کے باہمی تعلق کو ایک اخلاقی اصول پر استوار کرنا اور سماج میں محاسبے کا ایک خودکار میکنزم تشکیل دینا ہے۔ آزادی کو نقطہ حوالہ بنانا اس کے برعکس صنفین میں ایک بے گانگی اور کشمکش پیدا کرنا ہے جس میں تحفظ کی بنیادی ضمانت ریاست کا ڈنڈا ہے۔ جہاں ریاست یہ تحفظ مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، وہاں عدم تحفظ کے مظاہر پر صرف لعن طعن ہو سکتا ہے یا کچھ قوانین بنوا کر حصول طاقت کا نفسیاتی احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ دونوں طریقے نتیجے میں غیر موثر رہتے ہیں اور صرف فرسٹریشن کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

آئیے، اپنے معاشرے کو، اپنی اقدار کو، اپنی ریاست کو اور معاشرے کی بہتری کے لیے اپنے وسائل کو خود اپنی نظر سے دیکھنا سیکھیں۔ مستعار اور اجنبی تصورات کے سحر میں گرفتار ہو کر خود کو تباہ نہ کریں۔

بیوی کی تادیب کے حوالے سے شوہر کا اختیار

بعض دفعہ شان نزول، کسی قرآنی ہدایت کا صحیح تناظر سمجھنے میں بہت مدد دیتی ہے۔ شوہر کو بیویوں کی تادیب کا اختیار دینے اور ایک آپشن کے طور پر ان کی پٹائی کی اجازت بھی اسی نوع کی چیز ہے۔ روایات میں بیان ہوا ہے کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کی سرکشی پر اسے تھپڑ مار دیا تو وہ اپنے والد کے ساتھ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گئی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اپنے شوہر سے قصاص لے سکتی ہے، یعنی بدلے میں اسے تھپڑ مار سکتی ہے۔ وہ یہ اجازت لے کر ابھی جا ہی رہی تھی کہ جبریل یہ آیت لے کر آ گئے اور آپ نے انھیں واپس بلا کر کہا کہ ہم نے کچھ اور ارادہ کیا تھا، لیکن اللہ کا ارادہ کچھ اور ہے اور اللہ ہی کا ارادہ بہتر ہے۔

اس پس منظر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت کا اصل مقصد گھر کے نظم میں شوہر کی حیثیت کو واضح کرنا ہے۔ اس کا اصل اثر نفسیاتی ہے اور گھر کے ڈسپلن کو قائم رکھنے میں یہ شوہروں کے اختیار کو واضح کرتی ہے تاکہ سرکش بیویاں متنبہ رہیں۔ تاہم دین کو جو اصل رویہ مطلوب ہے، وہ وہی ہے جو اسوہ حسنہ سے واضح ہوتا ہے۔ آپ نے کبھی خود اپنی بیویوں یا خادموں کے خلاف یہ اختیار استعمال نہیں فرمایا، بلکہ بعض شوہروں کی طرف سے اختیار کے سوء استعمال کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر اس پر پابندی بھی لگا دی۔ لیکن اس کا الٹا نتیجہ نکلا اور شوہروں کے لیے انھیں سنبھالنا مشکل ہو گیا تو پھر دوبارہ اجازت دینی پڑی۔

اس تناظر میں ماضی قریب کے ممتاز تیونسی علامہ ابن عاشور نے واضح کیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی جو اجازت دی گئی، وہ ان لوگوں کے عرف کے لحاظ سے ہے جو اس کو معیوب نہ سمجھتے ہوں اور ان کے ہاں اسے شوہر کا ایک معمول کا اختیار مانا جاتا ہو۔ مزید یہ کہ یہ چونکہ محض ایک اجازت ہے جو کئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، مثلاً‌ ناجائز تعدی نہ کرنا، اور اس میں معاشرتی عرف کا بھی لحاظ ہے، اس لیے حکومت اس اختیار پر پابندی لگا سکتی اور اسے قابل تعزیر عمل قرار دے سکتی ہے۔

اس بحث کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ بیوی کی طرف سے سرکشی کے رویے پر اس کی تادیب کا معاملہ یک طرفہ نہیں ہے، بلکہ اسلامی فقہ میں زوج ناشز یعنی سرکش شوہر کی تادیب کا بھی ایک پورا ضابطہ بیان ہوا ہے جو ہمارے ہاں کہیں زیر بحث نہیں آتا۔ جامعۃ الکویت کے کلیۃ الشریعہ کے أستاذ مسعود صبری نے اپنی ایک تحریر میں ان تعزیری وتادیبی اقدامات کی اچھی وضاحت کی گئی ہے جو سرکش شوہر کے خلاف کیے جا سکتے ہیں۔

ان فقہی احکام کا خلاصہ یہ ہے کہ

۱۔ اگر عورت، شوہر کی شکایت کرے تو قاضی ان کے ہمسایوں کو یہ ذمہ داری دے سکتا ہے کہ وہ ان کے احوال کی نگرانی کریں اور شوہر کو زیادتی سے روکیں۔ اگر ہمسایے ذمہ دار نہ ہوں تو قاضی شوہر کو پابند کر سکتا ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ پر گھر لے کر بیوی کو رکھے جہاں ارد گرد کے لوگ ان پر نظر رکھ سکیں۔

۲۔ شوہر کے خلاف شکایت آنے پر قاضی اس کو بھی پہلے زبانی وعظ ونصیحت اور پھر سخت سرزنش کرنے اور آخر میں جسمانی سزا کا طریقہ اختیار کر سکتا ہے۔

۳۔ اگر شوہر زیادتی سے باز نہ آئے اور بیوی تعزیر کی طالب ہو تو قاضی کو آخری چارے کے طور پر اس پر مناستب تعزیری سزا بھی نافذ کرنی چاہیے۔

۴۔ اگر شوہر، بیوی کے کسی بھی حق کی ادائیگی میں کوتاہی کر رہا ہو تو قاضی جبرا اس کو اس کا حق دلوائے گا۔

۵۔ اگر بیوی کو زیادتی سے محفوظ رکھنے کے لیے شوہر کو کچھ عرصے کے لیے بیوی سے الگ کر دینے کی ضرورت پیش آئے تو قاضی کو اس کا اختیار بھی حاصل ہے تاآنکہ شوہر اصلاح احوال کر لے۔

۶۔ اس کے علاوہ یہ بھی اس قانون کا حصہ ہے کہ شوہر کی طرف سے تشدد کے ارتکاب پر بیوی جسمانی طور پر مجروح ہو تو اس پر قصاص ودیت کا قانون جاری ہوگا۔

رشتہ نکاح میں زوجین کے باہمی حقوق واختیارات

سوالات

1۔ موجودہ زمانے میں شوہر کی طرح بیوی بھی کمائی کرتی ہے. دونوں مل کر گھر کے مالی معاملات دیکھتے ہیں۔ تو کیا بیوی پر یہ لازم ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی اپنی تمام تر کمائی شوہر کو دے یا اپنے خرچ کا حساب اس کو دے؟ کیونکہ وہ خدا کے بعد شوہر کے آگے جواب دہ ہے؟

2۔ اکثر یہ سنا ہے کہ بیوی نفل عبادت بھی شوہر کی مرضی سے کرنے کی پابند ہے، اس لئے اگر وہ اپنی تنخواہ یا اور مال میں کسی کی مدد کرتی ہے تو اسے شوہر سے اجازت لینی پڑے گی۔

3۔ مرد شریعت کی رو سے ہر بات کو عورت پر لازم کر دیتا ہے. کیا ان حقوق کی کوئی فہرست ہے جو شریعت نے مرد کو دیے ہیں تاکہ جہاں بات عورت کے کمپرومائزز کے باوجود نہ سنبھل سکے، وہاں یہ فہرست دکھائی جا سکے؟

4۔ کیا بیوی خاندانی رشتہ داریاں اور تعلقات بھی مرد کی مرضی کے تحت نبھائے گی مثلاً رحمی اور غیر رحمی رشتہ داری میں خوشی اور غمی میں شرکت یا پیشہ ورانہ تعلقات؟

جوابات

پہلے دونوں سوالوں کا جواب میرے نزدیک نفی میں ہے۔ اگر بیوی کماتی ہے تو گھر کی ذمہ داریوں میں شرکت کے حوالے سے باہمی مفاہمت سے جو بات طے ہو، بیوی اسی کی پابند ہے۔ ساری کمائی شوہر کو دے دینے کی پابند نہیں اور نہ اپنی کمائی میں اپنی صوابدید سے کوئی بھی تصرف کرنے میں وہ شوہر کو جواب دہ ہے۔ نفل عبادت میں بھی وہ وہاں شوہر کی اجازت کی پابند ہے جہاں عبادت سے گھر کی ذمہ داریوں یا شوہر کے حقوق پر کوئی زد پڑتی ہو۔ یہ کوئی مطلق اصول نہیں ہے۔

تیسرے سوال سے متعلق یہ کہنا ہے کہ حقوق کی ایسی کوئی متعین فہرست شریعت نے نہیں دی جو ہر ہر حالت میں کسی کمی بیشی کے بغیر حتمی قرار دی جا سکے۔ حقوق اور ذمہ داریوں میں عرف اور باہمی مفاہمت کا بہت دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن نے "ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف" کا اصول بیان کیا ہے۔ کسی معاشرے میں جو طریقہ معروف اور مروج ہو اور زوجین میں اس پر باہمی مفاہمت ہو گئی ہو تو اس کی پابندی کرنی چاہیے۔ تاہم معروف اور رواج چونکہ شریعت کا حکم نہیں، اس لیے اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے یعنی تنقید اور اصلاح کے عمل سے اس کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

البتہ شوہر کو بیوی پر جو حق حاصل نہیں، وہ شاید گنوائے جا سکتے ہیں۔ انھی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ بیوی کی ملکیت میں اس کی رضامندی اور باہمی مفاہمت کے بغیر کوئی حق نہیں جتا سکتا۔ شریعت نے اس کو ایسا کوئی اختیار نہیں دیا۔ اگر دونوں مل کر گھر کا خرچ چلاتے ہیں تو آمدن میں تصرف کے لیے ایک حد تک دونوں کی باہمی رضامندی کا نکتہ شامل ہو جاتا ہے جیسے باہمی مفاہمت کے اصول کے تحت طے کیا جا سکتا ہے۔ اگر دونوں کی کل آمدن کو جمع کرنا گھریلو اخراجات پورے کرنے کے لیے ضروری ہے تو مفاہمت سے ایسا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اصولاً‌ یہ واضح رہنا چاہیے کہ شوہر کا بطور شوہر کے یہ شرعی حق نہیں ہے کہ بیوی اپنے ذاتی مال میں بھی اس کی اجازت یا صواب دید کی پابند ہو۔

چوتھے سوال سے متعلق بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ رشتہ داری کے حقوق اور سماجی تعلقات کے باب میں بھی عرف ہی کا اصول بنیاد ہے، لیکن یہ صرف عورت کے لیے نہیں ہے، شوہر بھی عرفی اخلاقیات کا پابند ہے۔ رشتہ داروں کی خوشی غمی میں شرکت کے حوالے سے جو بھی عرف ہو، شوہر اور بیوی کو اس کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پیشہ ورانہ تعلقات مثلاً‌ کولیگز کی خوشی غمی میں شرکت بھی عرفا ملازمت کا حصہ ہوتی ہے۔ اگر عورت کے ملازمت وغیرہ کرنے پر باہمی مفاہمت ہے تو یہ چیزیں بھی خود بخود اس کا حصہ ہیں۔

خواتین کی گواہی کا مسئلہ

اسلامی قانون میں خواتین کی گواہی کا مسئلہ ان دنوں پھر زیربحث ہے جس کا پس منظر بنک کے ذریعے سے مالیاتی لین دین میں خواتین کو درپیش مشکلات ہیں۔ قانون شہادت مجریہ 1984 کے مطابق مالی معاملات سے متعلق کسی دستاویز پر دو مردوں یا ایک مرد اور دو خواتین کے دستخط ہونے ضروری ہیں۔ اس تناظر میں بنک اپنے کام کو عملاً‌ آسان بنانے کے لیے مالیاتی دستاویزات پر دو مردوں ہی کے دستخط قبول کرتے ہیں تاکہ تین یا چار افراد کا ڈیٹا جمع نہ کرنا پڑے اور فارم پر بھی دو ہی افراد کے دستخطوں کی جگہ رکھی جاتی ہے۔ اس صورت حال میں خواتین کو، جو اب معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے شریک ہو رہی ہیں، مختلف قسم کی دقتوں کا سامنا ہے جس کی تفصیل ۳ اپریل کو ٹربیون میں شائع ہونے والے اس مضمون میں دی گئی ہے۔

https://tribune.com.pk/.../two-women-still-equal-one-man

یہ ایک نامناسب صورت حال ہے جس کا متعلقہ قانونی اداروں کو نوٹس لینا چاہیے۔ جہاں تک شرعی وفقہی پہلو کا تعلق ہے تو یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے جس پر دور جدید میں کافی بحث ہو چکی ہے اور بہت مضبوط علمی بنیادوں پر یہ تعبیر سامنے آ چکی ہے کہ قرآن کی متعلقہ آیت میں ’’قانون’’ کے بجائے ’’ارشاد’’ کی نوعیت کی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ قرض کے لین دین میں جھگڑے اور حق تلفی سے بچنے کی جتنی بھی ممکن ہو، پیش بندی کر لی جائے اور کہیں خواتین پر گواہی کی ذمہ داری ڈالنی پڑے تو اس میں ان کو سہارا بھی فراہم کیا جائے۔ اس میں عدالت کو کسی خاص ضابطے کا پابند نہیں ٹھہرایا گیا اور نہ خواتین کی گواہی کو مردوں سے کم معتبر قرار دینا مقصود ہے۔ ماضی کے اہل علم میں سے بھی علامہ ابن تیمیہ اور علامہ ابن القیم نے اس نکتے کو بہت وضاحت سے بیان کیا ہے۔

یہ ذہن میں رہے کہ مروجہ قانون شہادت بھی کلیتاً‌ جمہور کی فقہی آرا پر مبنی نہیں ہے۔ مثلاً‌ مالیاتی معاملات اور حدود وغیرہ کے علاوہ باقی تمام معاملات میں ایک مرد یا ایک عورت یا کسی بھی دوسرے ذریعہ ثبوت کو کافی قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی کلاسیکی فقہی موقف سے کافی حد تک مختلف بات ہے۔

(b) in all other matters, the Court may accept, or act on the testimony of one man or one woman or such other evidence as the circumstances of the case may warrant.

اس وجہ سے ہماری رائے میں فقہاء کے روایتی موقف کا احترام رکھتے ہوئے، کوئی وجہ نہیں کہ جہاں بہت سے دوسرے اجتہادی مسائل میں قانونی اسلامائزیشن میں غیر معروف یا غیر روایتی آرا کو اختیار کیا گیا ہے، اس مسئلے میں بھی خواتین کی گواہی اور دستخط کو یکساں قانونی حیثیت دیتے ہوئے انھیں درپیش دقتوں اور مشکلات کا ازالہ نہ کیا جائے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۸)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(324) عَمَّا أَرْضَعَتْ کا ترجمہ

درج ذیل جملے میں عَمَّا أَرْضَعَتْ کا ترجمہ ’اپنے دودھ پیتے بچے‘ کیا گیا ہے، لیکن اس نکتے کی طرف عام طور سے دھیان نہیں گیا کہ أَرْضَعَتْ فعل ماضی ہے مضارع نہیں ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ماضی کا ہونا چاہیے:

یَوْمَ تَرَوْنَہَا تَذْہَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ. (الحج: 2)

”جس روز تم اسے دیکھو گے، حال یہ ہو گا کہ ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے سے غافل ہو جائے گی“۔ (سید مودودی)

”جس دن تم اسے دیکھو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے کو بھول جائے گی“۔ (احمد رضا خان)

”جس دن تم اسے دیکھ لو گے ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمے عبارت کے مطابق ہیں:

”جس دن دیکھیں گے اس کو بھول جاوے گی ہر دودھ پلانے والی جس کو دودھ پلایا تھا“۔(شاہ رفیع الدین)

”جس دن اس کو دیکھو گے بھول جاوے گی ہر دودھ پلانے والی اپنے دودھ پلائے کو“۔ (شاہ عبدالقادر)

عبارت کے مطابق ترجمہ کرنے سے مفہوم کی وسعت بڑھ جاتی ہے، اس میں وہ تمام بچے شامل ہوجاتے ہیں جنھیں اس نے دودھ پلایا ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ ہر ماں اپنے بچوں سے غافل ہوجائے گی۔

(325) کُتِبَ عَلَیْهِ کا ترجمہ

درج ذیل آیتوں کا ترجمہ کرتے ہوئے کُتِبَ عَلَیْهِ کا ترجمہ بعض لوگوں نے درست نہیں کیا ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَن یُجَادِلُ فِی اللَّہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَیَتَّبِعُ کُلَّ شَیْطَانٍ مَّرِیدٍ۔ کُتِبَ عَلَیْہِ أَنَّہُ مَن تَوَلَّاہُ فَأَنَّہُ یُضِلُّہُ وَیَہْدِیہِ إِلَیٰ عَذَابِ السَّعِیرِ۔ (الحج: 3و4)

”بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کی پیروی کرنے لگتے ہیں۔ حالانکہ اُس کے تو نصیب ہی میں یہ لکھا ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا اسے وہ گمراہ کر کے چھوڑے گا اور عذاب جہنم کا راستہ دکھائے گا۔(سید مودودی، شیطان کے نصیب میں یہ لکھا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے)

”جس کی یہ ڈیوٹی ہی مقرر ہے کہ جو اس کو دوست بنائے گا وہ اس کو گم راہ کر کے رہے گا اور اس کی رہنمائی وہ عذاب دوزخ کی طرف کرے گا“۔(امین احسن اصلاحی، شیطان کی یہ ڈیوٹی تو نہیں ہے)

دراصل یہاں نہ تو شیطان کے نصیب کی بات ہے اور نہ ہی اس کی ڈیوٹی کی بات ہے، بلکہ اس کے بارے میں اللہ کے فیصلے کا ذکر ہے۔ اس پہلو سے درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”جس کی نسبت (خدا کے یہاں سے) یہ بات لکھی جاچکی ہے“۔ (اشرف علی تھانوی)

”جس کے بارے میں خدا کا یہ فیصلہ ہوچکا ہے“ (امانت اللہ اصلاحی)

(326) وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ

بوّأ کا معنی ہے بسانا، ٹھکانا دینا۔ جوہری لکھتے ہیں: وبوَّأت للرجل منزلاً وبوّأتہ منزلاً بمعنی، أی ہیَّأتہ ومکَّنت لہ فیہ. (الصحاح)

قرآن مجید میں یہ لفظ کئی مقامات پر آیا ہے اور عام طور سے اس کا یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ البتہ درج ذیل آیت میں اس کا ترجمہ جگہ بتانا، تجویز کرنا یا مقرر کرنا وغیرہ کیا گیا ہے۔ اس سے ایک تو لفظ کا پورا حق ادا نہیں ہوپاتا ہے، دوسرے یہ کہ آگے محذوف ماننا پڑتا ہے کہ جب انھوں نے وہاں گھر بنالیا تو انھیں لوگوں میں حج کی منادی کا حکم دیا گیا۔ جب کہ اگر بوّأ کا حقیقی مفہوم بغیر کسی تاویل کے لیا جائے تو محذوف ماننے اور بعد کی آیتوں کو کسی اور زمانے سے متعلق ماننے کے تکلف کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ابراہیم پر جو لام ہے اس کی وجہ سے یہ مفہوم لیا گیا ہے، حالاں کہ وہ تاکید کے لیے ہے، جیسے شکرتہ اور شکرت لہ۔ ترجمے ملاحظہ کریں:

وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاہِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ أَن لَّا تُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَہِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ۔ (الحج: 26)

”یاد کرو وہ وقت جب ہم نے ابراہیم ؑ کے لیے اِس گھر (خانہ کعبہ) کی جگہ تجویز کی تھی (اِس ہدایت کے ساتھ) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور قیام و رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک رکھو“۔ (سید مودودی)

”اور جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کا ٹھکانا ٹھیک بتادیا“۔ (احمد رضا خان)

”اور جبکہ ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو کعبہ کے مکان کی جگہ مقرر کر دی“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمے میں بوّأ کا حقیقی مفہوم اختیار کیا گیا ہے:

”اور (یاد کرو) جب کہ ہم نے ابراہیم کے لیے ٹھکانا بنایا بیت اللہ کی جگہ کو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”یاد کرو وہ وقت جب کہ ہم نے ابراہیم کو اس گھر کی جگہ بسایا تھا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(327) مکان سحیق

وَمَن یُشْرِکْ بِاللَّہِ فَکَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ أَوْ تَہْوِی بِہِ الرِّیحُ فِی مَکَانٍ سَحِیقٍ۔ (الحج: 31)

”اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے“۔ (سید مودودی)

یہاں سحیق کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ سحیق اگر کسی چیز کے لیے کہا جائے گا تو اس سے مراد یہ ہوگا کہ وہ چیز تباہ ہوگئی اور اگر جگہ کے لیے کہا جائے تو دور دراز جگہ مراد ہوگی۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ سحیق مکان کی صفت ہو اور اس سے مراد ایسی جگہ ہو جہاں انسان کے چیتھڑے اڑجائیں۔ کیوں کہ سحیق جب تباہی کے لیے آتا ہے تو تباہ کرنے والی چیز کے لیے نہیں بلکہ تباہ ہونے والی چیز کے لیے آتا ہے، اس وقت وہ اس چیز کی صفت ہوتا ہے نہ کہ جگہ کی صفت۔

بہرحال درست ترجمہ وہی ہے جو عام طور سے کیا گیا ہے:

”اب یا تو اسے پرندے اچک لیتے ہیں، یا ہوا اس کو دور دراز مقام پر ڈال دیتی ہے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(328) أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً

السماء کا ترجمہ آسمان ہونا چاہیے، لیکن صاحب تدبر نے ایک مقام پر اس کا ترجمہ آسمانوں اور ایک دوسرے مقام پر بادلوں کردیا ہے:

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّہَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (الحج: 63)

”دیکھتے نہیں کہ اللہ ہی ہے جو آسمانوں سے پانی برساتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی، ہی کا اضافہ بھی درست نہیں ہے)

وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (إبراہیم: 32)

”اور بادلوں سے پانی اتارا“۔ (امین احسن اصلاحی)

وَاللَّہُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً۔ (النحل: 65)

”اور اللہ ہی نے آسمان سے پانی اتارا“۔ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہ درست ہے البتہ یہاں ہی کا اضافہ درست نہیں ہے)

(329) وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ

قسا القلب کا مطلب دل کا سخت ہونا ہے۔ یہ تعبیر مختلف صیغوں سے قرآن میں کئی جگہ آئی ہے۔ جیسے:

فَوَیْلٌ لِّلْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکْرِ اللَّہِ۔ (الزمر: 22)

”تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے“۔ (سید مودودی)

وَجَعَلْنَا قُلُوبَہُمْ قَاسِیَةً۔ (المائدۃ: 13)

”اور ان کے دل سخت کر دیے“۔ (سید مودودی)

درج ذیل الفاظ کا بھی یہی ترجمہ ہونا چاہیے تھا، لیکن صاحب تفہیم نے اس کا مختلف ترجمہ کیا:

وَالْقَاسِیَةِ قُلُوبُہُمْ۔ (الحج: 53)

”اور جن کے دل کھوٹے ہیں“۔ (سید مودودی)

ایک بات تو یہ ہے کہ دل کھوٹا نہیں ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قاسیۃ کا مطلب کھوٹا ہونا نہیں بلکہ سخت ہونا ہوتا ہے۔ درست ترجمہ وہی ہے جو دوسروں نے کیا ہے اور خود صاحب تفہیم نے درج بالا مقامات پر کیا ہے۔

(330) ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ

ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوب کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

یَا أَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّہِ لَن یَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا لَهُ وَإِن یَسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیئًا لَّا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ۔ (الحج: 73)

”لوگو، ایک مثال دی جاتی ہے، غور سے سنو جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مِل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے، مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور“۔ (سید مودودی)

”بڑا بودا ہے طلب کرنے والا اور بڑا بودا ہے وہ جس سے طلب کیا جا رہا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”عابد اور معبود دونوں ہی عاجز ہیں“۔ (احمد علی)

”عابد بھی لچر اور ایسا معبود بھی لچر“۔ (اشرف علی تھانوی)

اس آیت میں الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ کے مختلف معنی لیے گئے ہیں، کچھ لوگوں نے عابد ومعبود ترجمہ کیا ہے، جو الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔ کچھ نے مدد چاہنے والے اور جن سے مدد چاہی جائے ترجمہ کیا ہے، یہ بھی الفاظ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ مطلوب اسے کہتے ہیں جسے طلب کیا جائے نہ کہ وہ جس سے طلب کیا جائے۔ عام طور سے لوگوں نے طالب سے مراد غیر اللہ کو پکارنے والے اور مطلوب سے مراد وہ اصنام لیے ہیں جنھیں وہ پکارتے ہیں۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا خیال ہے کہ یہاں طالب سے مراد اصنام اور مطلوب سے مراد وہ مکھی ہے جو ان سے کچھ لے بھاگی ہے۔ یہ ایک بلیغ منظر کشی ہے کہ گویا مکھی مطلوب اور وہ اصنام اس کے طالب ہیں۔ ضعف تعجب کا صیغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ مکھی تو کم زور ہے ہی یہ اصنام اس مکھی سے بھی زیادہ کم زور ہیں۔

درج ذیل ترجمہ الفاظ کے مطابق ہے:

”بودا ہے چاہنے والا اور جو چاہتا ہے“۔ (شاہ عبدالقادر)

(331) لَا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ کا ترجمہ

درج بالا آیت کے جملے میں لَا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ کا یہ ترجمہ دیکھیں:

”اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اس سے اس کو بچا بھی نہیں پائیں گے۔ طالب اور مطلوب دونوں ہی ناتواں!“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں لَا یَسْتَنقِذُوہُ مِنْهُ کا ترجمہ کیا ہے ’وہ اس سے اس کو بچا بھی نہیں پائیں گے‘ یہ درست نہیں ہے، بلکہ جو عام طور سے کیا گیا ہے وہ درست ہے، جیسے:

”چھڑا نہ سکیں وہ اس سے‘‘۔(شاہ عبدالقادر)

(332) ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ مِن قَبْلُ

اس آیت میں ضمیر ھو کا مرجع ابراہیم ہے یا اللہ، اس میں اختلاف ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی اس رائے کو ترجیح دیتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ نام رکھا۔ بہرحال ’ہُو‘ کا ترجمہ ’اس نے‘ ہونا چاہیے، تاکہ قاری اس کا مرجع متعین کرنے میں آزاد رہے۔ بعض لوگوں نے ہُو کا ترجمہ ’اللہ‘ کیا ہے۔

مِّلّةَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمِینَ مِن قَبْلُ وَفِی ہَٰذَا۔ (الحج: 78)

”قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیم ؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام”مسلم“ رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے)“۔ (سید مودودی)

”تمہارے باپ ابراہیم کا دین، اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اگلی کتابوں میں اور اس قرآن میں“۔ (احمد رضا خان)

دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”دین تمہارے باپ ابراہیم کا، اس نے نام رکھا تمہارا مسلمان حکم بردار پہلے سے اور اس قرآن میں“۔ (شاہ عبدالقادر)

(333) مِّلّةَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ

درج بالا آیت میں مِّلّةَ أَبِیکُمْ إِبْرَاہِیمَ کے مختلف ترجمے کیے گئے ہیں، عام طور سے لوگ مِلّةَ سے پہلے کوئی فعل محذوف مانتے ہیں۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی ھذہ مبتدا محذوف مانتے ہیں اور ترجمہ کرتے ہیں: ”یہ تمارے باپ ابراہیم کا طریقہ ہے“ قرآن مجید میں یہ اسلوب متعدد مقامات پر آیا ہے۔

(334) فِی اللَّہِ کا ترجمہ

قرآن مجید میں ’فی سبیل اللّٰہ‘ کی تعبیر تو کثرت سے آئی ہے، جس کا معنی ’اللہ کے راستے میں‘ ہے، البتہ کہیں کہیں ’فی اللّٰہ‘ کی تعبیر بھی ہے، اس کا ترجمہ ’اللہ کی خاطر‘ ہونا چاہیے۔

(۱) وَجَاہِدُوا فِی اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ۔ (الحج: 78)

”اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے“۔ (سید مودودی)

”اور اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا حق ہے جہاد کرنے کا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں ’فی سبیل اللّٰہ‘ نہیں بلکہ ’فی اللّٰہ‘ ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ’اللہ کی راہ میں‘ کرنے کے بجائے ’اللہ کی خاطر‘ کرنا زیادہ مناسب ہوگا۔ زمخشری لکھتے ہیں: فِی اللَّہِ أی فی ذات اللہ ومن أجلہ۔ (تفسیر الکشاف)

درج ذیل ترجمہ زیادہ مناسب ہے:

”اور محنت کرو اللہ کے واسطے جو چاہیے اس کی محنت“۔ (شاہ عبدالقادر)

(۲) وَالَّذِینَ ہَاجَرُوا فِی اللَّہِ مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا۔ (النحل: 41)

”جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں بھی اللہ کے واسطے یا خاطر زیادہ مناسب ہے۔ زمخشری لکھتے ہیں: فِی اللَّہِ: فی حقہ ولوجہہ۔ (تفسیر الکشاف)

”جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور جنھوں نے گھر چھوڑا اللہ کے واسطے بعد اس کے کہ ظلم اٹھایا“۔ (شاہ عبدالقادر)

(335) لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ

درج ذیل جملے کے ترجمے ملاحظہ کریں:

لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ۔ (الحج: 28)

”تاکہ وہ فائدے دیکھیں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں“۔ (سید مودودی)

”کہ پہنچیں اپنے بھلے کی جگہوں پر“۔ (شاہ عبدالقادر)

”تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لیے حاضر ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں شھد کا ترجمہ دیکھنا، پہنچنا، اور حاضر یا موجود ہونا کیا گیا ہے، اسی طرح منافع کا ترجمہ فائدے، فائدے کے کام اور فائدے کی جگہیں کیا گیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”تاکہ وہ شریک رہیں ان فائدوں میں جو یہاں اُن کے لیے رکھے گئے ہیں“۔


مطالعہ سنن ابی داود (۵)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: احناف مسجد میں نماز ِ جنازہ کے قائل نہیں ہیں حالانکہ مسجد میں نماز جنازہ کی روایت آتی ہے۔ (کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنازۃ فی المسجد، حدیث نمبر ۳۱۸۹)

عمارناصر: احناف کے ہاں تعامل سے بھی حکم اخذ کیا جاتاہے۔ عمومی عمل یہی رہا ہے کہ نماز جنازہ مسجد سے باہر ادا کی جائے۔ عہد نبوی کا جو واقعہ ہے، اس کی مختلف تو جیہات کی جا سکتی ہیں۔ مثلاً‌ یہ کہ وہ کوئی خاص کیفیت تھی، باہر بارش ہورہی تھی یا کوئی اور وجہ تھی تو اس سے آپ عمومی ضابطہ اخذ نہیں کر سکتے۔

مطیع سید: ایک صحابی نے نذر مانی کہ بیت اللہ کی فتح پر میں بیت المقدس میں جاکر نماز پڑھوں گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہیں پڑھ لو۔ (کتاب الایمان والنذور، باب من نذر ان یصلی فی بیت المقدس، حدیث نمبر ۳۳۰۵) کیاہم نذرکی ظاہر ی صورت کو چھوڑ سکتے ہیں؟

عمارناصر: جی، بعض صورتوں میں چھوڑ سکتے ہیں۔ یہ دیکھتےہوئے کہ مقصد کسی مقدس اور عبادت والے مقام پر نماز پڑھنا ہے، آپ نے اس شخص سے کہا کہ اس کے لیے اتنا سفر کرنے کے بجائے یہیں مدینہ میں نماز پڑھ لے۔

مطیع سید: ایک دوست نے کہا کہ مجھ سے ایک گناہ سر زد ہو گیا تو میں نے نیت کی کہ میں تین روزے رکھوں گا، لیکن اب تین روزے بہت مشکل لگ رہے ہیں۔ تو کیا اس کی کوئی اور صورت ہو سکتی ہے؟

عمارناصر:نہیں، مشکل لگنا تو کوئی وجہ نہیں۔ اگر باقاعدہ روزوں کی ہی نیت کی تھی تو پھر رکھنے پڑیں گے۔ زیادہ مشکل لگ رہا ہے تو سردیوں میں رکھ لیں۔

مطیع سید: کان سے نکالے گئے سونے کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس میں خیر نہیں۔ (کتاب البیوع، باب فی استخراج المعادن، حدیث نمبر ۳۳۲۸) یہ بات نبی ﷺ نے کس مفہوم میں ارشاد فرمائی؟

عمارناصر: اس کا بھی یقیناً‌ کوئی خاص سیاق ہے، ورنہ کان سے سونا نکالنے یا نکالے ہوئے سونے کو استعمال کرنے کی ممانعت تو نہیں۔ شارحین کہتے ہیں کہ شاید کان سے سونا نکالنے کا جو طریقہ یا اس کی جو شرائط وغیرہ اس وقت مروج تھیں، ان میں کوئی خرابی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھی یا پھر کوئی اور وجہ ہوگی جس کی وجہ سے آپ نے یہ تبصرہ فرمایا۔ واللہ اعلم

مطیع سید: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکیم بن حزام سے فرمایا کہ جو چیز تمھارے پاس موجود نہ ہو، وہ کسی کو نہ بیچو۔ (کتاب البیوع، ابواب الاجارۃ، باب فی الرجل یبیع ما لیس عندہ، حدیث نمبر ۳۵۰۵) کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ چیز ہماری ملکیت میں نہیں ہوتی، لیکن گاہک آتا ہے تو ہم کسی سے چیز لے کر اس کو دے دیتے ہیں۔ تو کیا یہ غلط ہے؟

عمارناصر: نہیں، یہ ٹھیک ہے۔ روایت میں دراصل احتیاط اور سد ذریعہ کے طور پر اس سے منع کیا گیا ہے۔ اصل میں چیز ابھی ملکیت میں نہ ہو تو اس کی فروخت سے بسااوقات تنازع پیدا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے، خاص طور پر پرانے دور کی منڈی کو اگر ذہن میں رکھیں۔ آپ نے چیز کا سودا کر لیا ہے، لیکن اب وہ بازار میں آپ کو مل نہیں رہی تو اس میں ایک تو وعدہ خلافی ہو جاتی ہے اور دوسرا یہ جھگڑ ے کا سبب بن سکتا ہے۔

مطیع سید: جس نے قرآن کے بارے میں اپنی کوئی رائے دی، وہ اگر ٹھیک بھی ہوئی تو اس نے غلطی کی۔ (کتاب العلم، باب الکلام فی کتاب اللہ بغیر علم، حدیث نمبر ۳۶۵۲) کیا یہ صرف احتیا ط کے پہلو سے ہے؟

عمارناصر: اپنی طرف سے رائے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بات ایسے ہی ذہن میں آگئی اور وہ بیان کر دی گئی۔ اس میں غیر ذمہ داری کا ایک رویہ جھلک رہا ہے۔ بات تکے سے ٹھیک ہو گئی، لیکن بات کہنے والا اہل نہیں تھا یا اس نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا یا اس کی کوئی سند اس کے پا س نہیں تھی تو یہ انداز قابل مذمت ہے، چاہے تکا ٹھیک لگ گیا ہو۔

مطیع سید: گھوڑے کے گوشت کو احناف مکروہ قرار دیتے ہیں جبکہ حدیث میں تو اس کی اجازت آئی ہے۔ (کتاب الاطعمۃ، باب فی اکل لحوم الخیل، حدیث نمبر ۳۷۸۸) احناف کی کیا دلیل ہے؟ کیا وہ بھی کسی روایت کی بنیاد پر کر اہت کا حکم لگاتے ہیں؟

عمارناصر: یہ امام ابوحنیفہ کی رائے ہے، امام ابویوسف اور امام محمد اس سے اتفاق نہیں کرتے اور انھی احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کراہت اس پہلو سے کہتے ہیں کہ گھوڑا اصل میں گوشت کھانے کے لیے نہیں ہے، بلکہ سواری کے لیے ہے۔ آپ اس کو گوشت کھانے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں گے تو دوسرا پہلو متاثر ہوگا۔

مطیع سید: تو اس بات کو کیا گدھے پر بھی قیاس کر سکتے ہیں؟

عمارناصر: نہیں، امام ابوحنیفہ اس پر قیاس تو نہیں کرتے۔ البتہ یہ استدلال وہ کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں گھوڑے، گدھے اور خچر کا ذکر سواری کے جانور کے طور پر ہوا ہے۔ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً (النحل، آیت ۸) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں کا اصل مقصد تخلیق سواری ہے۔

مطیع سید: حضرت جویریہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی بات کی اور ان کے رضامندی ظاہر کرنے پر یہ نکاح ہو گیا۔ (کتاب العتق، باب فی بیع المکاتب اذا فسخت الکتابۃ، حدیث نمبر ۳۹۳۱) یعنی حضرت جویریہ نے خود اپنے نکاح کا معاملہ طے کیا۔ کیا اس روایت سے احناف دلیل لیتے ہیں کہ عورت خود نکاح کر سکتی ہے؟

عمارناصر: یہ واقعہ بھی دلیل بن سکتا ہے، لیکن اس خاص واقعہ کے علاوہ احناف کی ایک توعقلی دلیل ہے کہ لڑکی اگر بالغ ہے تو وہ اپنا فیصلہ کر سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ قرآن مجید نے بھی نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی ہے جس سے لگتا ہے کہ عورت اس معاملے میں خود اختیار رکھتی ہے۔ تو دو دلائل ہیں۔ ایک نقلی دلیل ہے کہ قرآن کی آیات میں نسبتِ نکاح عورت کی طرف کی گئی ہے اور دوسری عقلی دلیل ہے کہ اگر وہ بالغ ہے تو اس نے خود اپنا فیصلہ کرنا ہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ ایک غلام کا اگر ایک حصہ آزاد کیا جائے تو اس کو مکمل طور پر آزاد کرنا ضروری ہے (کتاب العتق، باب فی من اعتق نصیبا لہ من مملوک، حدیث نمبر ۳۹۳۳) جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ جتنا حصہ آزاد کیا گیا، بس اتنا ہی آزاد ہے، باقی حصے آزاد نہیں ہوں گے۔ (کتاب العتق، باب فی من روی انہ لا یستسعی، حدیث نمبر ۳۹۴۰)

عمارناصر: حدیث کے دیگر طرق میں ا س کی وضاحت موجود ہے۔ اگر ایک غلام کئی افراد کے درمیان مشترک ہے اور ان میں سے ایک مالک اپنا حصہ آزاد کر دے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آزاد کرنے والے کے مال میں گنجائش ہو تو وہ ذمہ دار ہے کہ باقی مالکوں کو ان کے حصے کی قیمت ادا کر کے پورے غلام کو آزاد کر دے۔ لیکن اگر اس کے مال میں گنجائش نہ ہو تو پھر اس کے حصے کا غلام آزاد ہو جائے گا اور باقی مالکوں کی ملکیت باقی رہے گی۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اگر آزاد کرنے والے کے مال میں گنجائش نہ ہو تو پھر غلام کو موقع دیا جائے گا کہ وہ کہیں سے رقم جمع کر کے اپنے باقی مالکوں کو ادا کر دے اور مکمل آزادی حاصل کر لے۔

مطیع سید: ایک صحابی وفات پا گئے۔ انہوں نے ایک غلام مدبر کیا ہوا تھا، یعنی اس سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی وفات پر وہ آزاد ہو جائے گا۔ آپ ﷺنے اس صحابی کی وفات کے بعد اس غلام کو فروخت فرما دیا۔ (کتاب العتق، باب فی بیع المدبر، حدیث نمبر ۳۹۵۵) ایسا کیوں کیا گیا؟

عمارناصر: اس کی وجہ روایت میں نقل ہوئی ہے کہ مرنے والے کے ذمے قرض تھا، اور غلام کے علاوہ ادائیگی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ایسی صورت میں قرض داروں کا حق مقدم ہے۔ مرنے والے کی وصیت کو منسوخ کر کے پہلے قرض داروں کا قرض ادا کیا جائے گا۔

مطیع سید: احناف کاموقف یہ ہے کہ مدبر کیے ہوئے غلام کو فروخت نہیں کیا جا سکتا۔

عمارناصر: احناف کا یہ موقف غالباً‌ عام حالات میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس غلام کو مالک نے کہہ دیا ہو کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو جا ؤ گے تو اس کو بنیادی طورپر آزادی کا پروانہ دے دیا گیا ہے۔ ایسے غلام کو مالک اب فروخت نہیں کر سکتا۔ البتہ اگر ایسی کوئی خاص صورت حال ہو جیسی اس واقعے میں بیان ہوئی ہے اور مرنے والے کے پاس مدبر کے علاوہ کوئی مال نہ ہو اور ادھر قرض خواہ کھڑے ہوں تو میرے خیال میں احناف شاید اس صورت میں اسے فروخت کرنے پر پابندی نہیں لگاتے۔ اس کی احناف کی فقہی کتب سے تحقیق کر لینی چاہیے۔

مطیع سید: ولد الزنا شرّالثلاثة۔ (کتاب العتق، باب فی عتق ولد الزنا، حدیث نمبر ۳۹۶۳) ولد الزنا اپنے والدین سے بھی بدتر ہے۔ اس میں اس بچے کا کیا قصور ہے؟

عمارناصر: ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے یہ روایت پیش کی گئی تو انہوں نے اس کی توجیہ یہ کی کہ ولد الزنا شر الثلاثة اذا عمل بعمل ابویه۔ یعنی اگر وہ بھی کردار کے لحاظ سے انھی جیسا ہو اور اسی راہ پر چل رہا ہو تو پھر وہ ان دونوں سے بد تر ہے۔

مطیع سید: قرآن حکیم کے حروف کے حوالےسے بہت سی روایات آتی ہیں۔ کچھ صحابی کہتے ہیں کہ ہم ایک لفظ کو زبر سے پڑھتے تھے، کچھ کہتے ہیں کہ زیر سے پڑھتے تھے، جیسے ھیتَ لک اور ھیتُ لک۔ ایک روایت میں قولوا حطة نغفر لکم کی جگہ قولوا حطة تغفر لکم آیا ہے۔ (کتاب الحروف والقراءات، حدیث نمبر ۴۰۰۶) کئی جگہ حرکات میں اور کئی مقامات پر صیغوں میں تبدیلی آتی ہے۔ جب قرآن مجید کو مصحف میں اکٹھا کیا گیا تو اس میں یہ کیسے طے کیا گیا کہ دونوں میں سے یہ حرکت اور یہ صیغہ لیا جائے گا؟

عمارناصر: اس بنیاد پر تو مصحف کو جمع کیا ہی نہیں گیا کہ کسی لفظ کو پڑھا کیسے جائے گا۔ مصحف کو جمع کرنے کی وجہ اور اس کا اصول تو کچھ اور تھا۔ اصل یہ ہے کہ نبی ﷺ نے لوگوں کو قرآن سکھایا اور اس کے ساتھ ان کو اجازت دی کہ بہت سے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا جا سکتا ہے۔ مثلًا یہ کہ بعینہ ان لفظوں کے علاوہ ملتے جلتے اور ہم معنی لفظ بھی پڑھے جا سکتے تھے جن سے مفہوم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی طرح لہجوں کا اختلاف تھا، اس میں بھی وسعت رکھی گئی۔ بعض مقامات پر ایک لفظ کو غائب یا حاضر کے مختلف صیغوں میں پڑھا جائے تو مفہوم میں کوئی فرق نہیں پڑتا، اس کی بھی اجازت دی گئی۔ بعض جگہوں پر لفظوں کی کمی بیشی بھی نظر آتی ہے۔ ایک قراءت میں ایک لفظ موجود ہے، دوسری میں نہیں ہے۔ مشہور مثال ہے: وما خلق الذکر والانثی جو بعض قراءتوں میں یوں ہے: والذکر والانثی۔ بعض جگہ الفاظ کی تقدیم وتاخیر ہے۔ جیسے معروف قراءت میں ہے: اذا جاء نصر اللّٰہ والفتح جبکہ ایک قراءت میں ہے : اذا جاء فتح اللّٰہ والنصر۔ اس طرح کے مختلف طریقوں سے قرآن کو پڑھنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر یہ پابندی عائد کر دی جاتی کہ قرآن کو بالکل اسی طریقے پر پڑھا جائے جو سکھایا گیا ہے اور اس میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی نہ ہوتو بہت بڑی مشکل پیدا ہو جاتی۔ خاص طور پر عام لوگ جو زیادہ تر امی تھے اور پڑھے لکھے نہیں تھے، اس معاملے میں بہت حساس ہو جاتے اور غلطی کے خوف سے قرآن کی تلاوت کی طرف راغب ہونے کے بجائے اس سے گریز کرنے لگتے۔ ان سب مصلحتوں سے قراءت میں مختلف نوعیت کے اختلاف کی اجازت دے دی گئی۔ اجازت کی نوعیت بھی ایک طرح کی نہیں تھی۔ بعض جگہ آپ ﷺ خود ایک سے زیادہ طریقوں سے پڑھنا سکھا دیتے تھے۔ بعض جگہوں پر ایسے معلوم ہو تا ہے کہ صحابہ نے وسعت کو دیکھتے ہوئے اجتہادا ً‌بھی کچھ قراءتیں اختیار کرلیں۔ اس کی مثالیں بھی ملتی ہیں۔ گویا اس معاملے میں خاصی لچک تھی۔

حضرت عثمان کے دور میں جب بعض علاقوں میں ایسے اختلافات سے جھگڑے پیدا ہونا شروع ہو گئے اور لوگوں نے ایک دوسرے کی تکفیر شروع کر دی تو اس کی کو شش کی گئی کہ ان اختلافات کو بڑھنے سے روکا جائے اور جتنا ممکن ہو، ان کو محدود کیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک غلط فہمی عام طور پر پائی جاتی ہے اور علوم القرآن کے ماہرین یہ مفروضہ نقل کر دیتے ہیں کہ حضرت عثمان نے جو نسخے مرتب کروائے تھے، ان میں قراء ت کے ہر طرح کے اختلاف کو متن میں سمو دینے کی کوشش کی گئی، حالانکہ تاریخی طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اور عقلاً‌ بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ جہاں اعراب کا اختلاف ہے یا ایک لفظ کے صیغے مختلف ہو سکتے ہیں، لیکن وہ لکھا ایک ہی طرح سے جاتا ہے، ایسے اختلافات کو کیسے متن میں واضح کیا جا سکتا تھا۔ یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر کچھ لوگوں کی قراءت میں بعض منسوخ آیات شامل تھیں تو انھیں مصحف میں شامل نہ کر کے ان کی تلاوت واشاعت کا راستہ روک دیا گیا۔ اسی طرح الفاظ کی کمی بیشی یا تقدیم وتاخیر پر جو اختلافات مبنی تھے، وہ بھی مصحف کے مدون کرنے جانے سے خارج ہو گئے۔ لیکن کسی لفظ کو پڑھنے کے جو مختلف طریقے ہو سکتے ہیں، ان کو ختم کرنا یا محدود کرنا مصحف عثمانی کے ذریعے سے ممکن نہیں تھا اور نہ یہ اس کا مقصد تھا۔

کسی لفظ کی قراءت جن جن طریقوں سے ہو سکتی ہے، وہ زبانی ہی نقل ہو رہے تھے اور مصحف کی تدوین کے بعد بھی نقل ہوتے رہے۔ قرآن بنیادی طور پر زبانی نقل ہواہے اور اس کی قراءتیں بھی زبانی ہی نقل ہوئی ہیں۔ چنانچہ جن قراء توں کو حضرت عثمان نے متن میں شامل نہیں کیا تھا، ان کی تلاوت بھی کلیتاً‌ فوری طور پر موقوف نہیں ہو گئی۔ لوگ ان کے مطابق بھی پڑھتے رہے اور لوگوں کو سکھاتے بھی رہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت تو معروف ہے جو ایک زمانے تک کوفہ میں رائج رہی اور ان کے شاگردوں کے حلقے میں اس کو مصحف عثمانی کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ بعد میں پھر جب ان قراءتوں کو کتابوں میں مدون کیاگیا تو عمومی طور پر اس چیز کو ایک معیار کے طور پر قبول کر لیا گیا کہ مصحف عثمانی کا متن جن قراءتوں کی گنجائش اپنے اندر نہیں رکھتا، انھیں متفق علیہ اور معیاری قراءت شمار نہ کیا جائے، بلکہ شاذ قراءت کے زمرے میں رکھا جائے۔

مطیع سید: پھرکس دور میں یہ چیزیں کیسے طے ہوگئیں؟

عمارناصر: جیسے ہی علم قراءت مدون ہونا شروع ہوا تو رفتہ رفتہ قراءتوں کی زمرہ بندی ہونا شروع ہوگئی۔ کچھ قراءتوں کو مستند قرار دے دیا گیا اور اس کے لیے یہ معیار بنا یا گیا کہ وہ مصحف کے مطابق ہو، عربی قواعد کے مطابق ہو، اور اس کی سند موجود ہو۔ اس کے مطابق قراءتوں کی چھانٹی کرکے کچھ کو مستند قرار دے دیا گیا اور کچھ شاذ قرار پائیں۔ اس عمل کو مکمل ہوتے ہوئے تقریباً‌ دو تین سو سال لگے ہیں اور اس میں بھی اہم اختلافات موجود رہے ہیں۔

مطیع سید: کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسے الفاظ بولے ہیں کہ ان میں قراءت کے اختلاف کی گنجائش پیدا ہو جائے؟

عمارناصر: علم القراءت میں اس پر کافی بحث ہے۔ بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ جتنے مختلف طریقے ہیں، یہ سارے اللہ کی طرف سے اتارے گئے تھےاور رسول اللہ ﷺ نے خود ان کی تعلیم دی تھی۔ لیکن بعض کہتے ہیں کہ لوگوں کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ بعض حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے جیسے سہولت ہو، قراءت کر لیا کریں۔ بہرحال علمائے قراء ت نے جو معیار وضع کیا کہ کوئی بھی قراءت تبھی مستند شمار ہو گی جب اس کی سند موجود ہو تو اس کی بنیادپر آپ کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی مختلف قراءتیں علمائے قراءت کے ہاں متداول ہیں، ان کی سند اگر صحابی تک پہنچتی ہے تو قرین قیاس ہے کہ صحابی نے وہ نبی ﷺ سے سیکھی ہوگی۔

مطیع سید : سونے کی انگو ٹھی کی ممانعت اور چاندی کی اجازت توسمجھ میں آتی ہے، یہ لوہے کی انگوٹھی کی ممانعت کس پہلو سے ہے؟ (کتاب الخاتم، باب ما جاء فی خاتم الحدید، حدیث نمبر ۴۲۲۳)

عمارناصر: اس کی وجہ حدیث میں ہی یہ بتائی گئی ہے کہ لوہا جہنمیوں کا زیور ہے۔ مطلب یہ کہ اہل جہنم کو لوہے کے طوقوں اور زنجیروں میں جکڑا جائے گا، اس مشابہت کی بنیاد پر لوہے کی انگوٹھی نہ پہنی چاہیے۔ یہ ممانعت اسی ایک روایت میں آئی ہے اور اس کی سند میں بھی کچھ ضعف ہے۔ بہرحال زیادہ تر فقہاء اس کی روشنی میں اس کو حرام قرار دیتے ہیں، لیکن بعض فقہاء کے نزدیک اس کی ممانعت نہیں ہے۔ وہ ایک دوسری حدیث سے اخذ کرتے ہیں کہ لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔

مطیع سید: مجدد کے بارے میں روایات آتی ہیں (کتاب الملاحم، باب ما یذکر فی قرن المائۃ، حدیث نمبر ۴۲۹۱) تو ہمیں اس کا کیسے اندازہ ہو گا کہ کوئی شخص مجدد ہے؟ کیا وہ خودبتاتا ہے یا اس کے کام سے ہمیں معلوم ہوگا یا امت اس کے مجدد ہونے کا فیصلہ کر تی ہے؟

عمارناصر: لوگ اس کو ایسے سمجھتے ہیں جیسے یہ کوئی منصب ہے جس پر کسی کو فائز کیاجاتا ہے۔ اصل میں یہ امت میں دین کو زندہ رکھنے کا ایک انتظام ہے، کوئی منصب نہیں ہے جس پر کوئی فائز ہو۔ اور یہ کام اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تحت مختلف لوگوں سے لیتے ہیں۔ کسی سے جزواً‌ اور کسی سے زیادہ وسیع پیمانے پر لیتے ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کو بتایا جائے کہ تم مجدد ہو اور وہ اس کا اعلا ن کرے۔ اگر اس کا کام دین کے اس وقت کے تقاضے کو پورا کر رہا ہے تو اسی سے اندازہ ہو جائے گا۔ فرض کریں کسی کو نہ پتہ چلے، تب بھی کام تو اس نے کر دیا اور جو مقصد تھا، وہ پورا ہوگیا۔ دین کے احیا ء اور تجدید کی جو ضرورت تھی، وہ اس نے پوری کر دی اور اللہ کے ہاں اجر کا حقدار بن گیا۔

مطیع سید: روایت کے الفاظ سے تو بظاہر کوئی ایک شخص سمجھ میں آتا ہے۔

عمارناصر: نہیں، حدیث کے الفاظ ہیں: من یجدد لھا دینھا۔ فصیح عربی میں من واحد کے لیے خاص نہیں، جماعت کے لیے بھی بالکل عام ہے۔

مطیع سید: آج کل جو زلزلے وغیرہ آتے ہیں، کیا ان کو عذاب کہہ سکتے ہیں یا آزمائش کہیں گے؟

عمارناصر: اس میں کئی پہلو ہوتے ہیں۔ تنبیہ بھی ہے، عذاب بھی ہے اور بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کے لیے آخرت کی سزا سے کفارے کی بھی صورت ہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ قسطنطنیہ کی فتح اور دجال کے خروج کے واقعات چھ ماہ کے اندر اندر رونما ہو جائیں گے۔ (کتاب الملاحم، باب فی تواتر الملاحم، حدیث نمبر ۴۲۹۵) ایسا ہوا تو نہیں۔

عمارناصر: یہ مشکل روایت ہے۔ قسطنطنیہ کی فتح تو کب کی واقع ہو چکی ہے، لیکن دجال کاخروج نہیں ہوا۔

مطیع سید: کیا اس روایت کے الفاظ میں کچھ فر ق آگیا ہے یا سند وغیرہ کا مسئلہ ہے؟

عمارناصر: میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ پیشین گوئیاں بہت الجھی ہوئی ہیں، ان میں راویوں کے قیاسات بہت مل گئے ہیں۔ ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا کافی مشکل ہے۔ اس خاص روایت کی سند میں بھی کچھ مسائل ہیں۔

مطیع سید: یہ بھی آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کو بیک وقت آپس میں اور دشمن سے لڑنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ (کتاب الملاحم، باب ارتفاع الفتنۃ فی الملاحم، حدیث نمبر ۴۳۰۱) مجھے لگتا ہے کہ کئی موقعوں پر تاریخ میں ایسے ہوا ہے۔

عمارناصر: اس پیشین گوئی کو اگر محدود تناظر میں لیا جائے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک خاص عر صے کی بات ہو رہی ہے جس سے زیادہ تر پیشین گوئیوں کا تعلق ہے تو پھر یہ قابل فہم ہے۔ اس خاص دور سے متعلق اپنی امت کے لیے آپ نے کئی دعائیں بھی فرمائیں جن میں سے ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ بیک وقت دو آزمائشوں میں نہ پڑیں کہ آپس میں بھی لڑ رہے ہوں اور دشمن بھی حملہ آور ہو جائے۔

مطیع سید: ایک حدیث میں بصرہ کا ذکر آیا ہے۔ (کتاب الملاحم، باب فی ذکر البصرۃ، حدیث نمبر ۴۳۰۶) یہ شہر تو غالباً‌ نبی ﷺ کےبعد حضرت عمر نے آباد کیا تھا تو روایت میں اس کا نام کیسے آ گیا؟

عمارناصر: روایت میں بھی پیشین گوئی کے طور پر ہی ذکر ہے کہ میری امت کے لوگ اس نام کا ایک شہر بسائیں گے یا اس شہر میں اتریں گے۔ تو پیشین گوئی میں تو آنے والے وقت کے کسی واقعے کا ذکر ہو سکتا ہے۔

مطیع سید: بنو مخزوم کی ایک عورت تھی جس کا ہاتھ چوری کے جرم میں نبیﷺ نے کاٹ دیا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں سے امانتاً‌ چیزیں لیتی تھی اور پھر لے کر مکر جاتی تھی۔ (کتاب الحدود، باب فی القطع فی العور اذا جحدت، حدیث نمبر ۴۳۹۵) لیکن احناف کہتے ہیں کہ یہ عمل چوری کے زمرے میں نہیں آتا۔

عمارناصر: اجتہادی مسائل میں روایات کی تاویل وتوجیہ کی کافی گنجائش ہوتی ہے، مثلاً‌ اس روایت سے متعلق احناف کہتے ہیں کہ امانتاً‌ چیزیں لے کر مکر جانے کا ذکر اس عورت کے تعارف کے طور پر کیا گیا ہے، نہ کہ اس کے ہاتھ کاٹنے کی وجہ کے طور پر۔ ہاتھ اس لیے کاٹا گیا کہ اس نے عام مفہوم میں باقاعدہ چوری کی تھی۔ بہرحال جمہور محدثین اس روایت کو ظاہر پر لیتے ہیں جو مجھے تو صحیح لگتا ہے۔ احناف کی نظر بعض دفعہ قاعدے قیاس پر زیادہ مرکوز ہو جاتی ہے جس سے حکم کی روح مجروح ہو جاتی ہے۔

مطیع سید: ایک موقع پر آپﷺ نے قتل کے ایک معاملے میں فرمایا کہ اگر مدعی قصاص معاف نہیں کر ےگا تو وہ قاتل و مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر لے کر جہنم میں چلا جا ئے گا۔ (کتاب الدیات، باب الامام یامر بالعفو فی الدم، حدیث نمبر ۴۴۹۸) حالانکہ قصاص معاف کرنا یا نہ کرنا تو آدمی کا اختیار ہو تا ہے۔

عمارناصر: اس واقعے کی تفصیل صحیح مسلم وغیرہ میں آئی ہے۔ صورت یہ تھی کہ دو آدمی جنگل میں لکڑیاں کاٹنے کے لیے گئے اور کسی بات پر توتکار ہوئی جس پر ایک نے دوسرے کے سر پر کلہاڑا دے مارا اور وہ مر گیا۔ مقتول کا بھائی قاتل کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے جان بوجھ کراس کو قتل کیا ہے، جبکہ قاتل کا کہنا تھاکہ مجھ سے حالت اشتعال میں یہ گناہ سرزد ہواہے، میرا قتل کرنے کا قصد نہیں تھا۔ قرائن بظاہر ایسے تھے کہ اس کی بات ٹھیک لگ رہی تھی، لیکن مدعی قصاص لینے پر مصر تھا اور ظاہر ہے، اس کے بھی جذبات تھے۔ جذبات میں مدعی انتقام کے لیے بہت پرجوش ہو جاتا ہے۔ تو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ انداز اختیار فرمایا کہ مدعی سے کہا کہ اچھا بھائی، یہ تمھارے حوالے ہے، تم اس سے قصاص لے لو۔ جب وہ اس کو لے کر جانے لگا تو ساتھ ہی یہ تبصرہ کر دیا کہ اگر قاتل کی بات ٹھیک ہے کہ اس نے قصداً‌ قتل نہیں کیا تو پھر قصاص لینے والا دونوں مقتولوں کے گناہ کا بوجھ اٹھائے گا۔ یہ گویا مدعی کو متنبہ کرنے کے لیے تھا کہ ایسے معاملے میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے معاف کر دینا زیادہ بہتر ہے۔ تو یہ بات سمجھانے کا ایک اسلوب تھا جو موثر ثابت ہوا اور مدعی نے یہ بات سن کر قاتل کو چھوڑ دیا۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ تبع لعین تھا یا نہیں اور میں نہیں جانتا کہ عزیر نبی تھے یا نہیں۔ (کتاب السنۃ، باب فی التخییر بین الانبیاء علیہم الصلاۃ والسلام، حدیث نمبر ۴۶۷۴) اس کا کیا مطلب ہے؟ حضرت عزیر کا ذکر تو قرآن مجید میں بھی ہے۔

عمارناصر: تبع کے بارے میں سیرت ابن ہشام میں کافی تفصیل موجود ہے۔ یہ زمانہ جاہلیت میں یمن میں قوم سبا کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا۔ قرآن میں ذکر ہے کہ اس قوم پر ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت آئی۔ تبع کئی بادشاہوں کا لقب تھا۔ ان میں سے ایک کے متعلق آتا ہے کہ اس نے یہودیت قبول کر لی تھی اور اس کے زیر اثر یمن میں یہودی مذہب عام ہو گیا تھا۔ اس روایت میں غالباً‌ اسی کا ذکر ہے کہ اس کے دین اور عقیدے کے متعلق مجھے کچھ علم نہیں۔ شارحین کہتے ہیں کہ بعض دیگر احادیث میں ہے کہ تبع نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس لیے اس کو برا مت کہا کرو۔ اگر یہ روایات صحیح ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہ لاعلمی کی بات آپﷺ نے اس وقت فرمائی ہوگی جب آپ کو اس کے بارے میں ابھی وحی سے معلومات نہیں ملی تھیں۔ حضرت عزیر کا قرآن میں ذکر تو ہے، لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ وہ اللہ کے ایک برگزیدہ بندے تھے، تاہم ان کے نبی ہونے کی کوئی واضح اور قطعی دلیل قرآن میں نہیں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس حوالے سے کوئی حتمی بات وحی میں نہیں بتائی گئی تھی۔

مطیع سید: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مخاطب کر کے ناقصات عقل و دین کے الفاظ ارشاد فرمائے۔ (کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ، حدیث نمبر ۴۶۷۹)

عمارناصر: اس کی وضاحت حدیث میں ہی موجود ہے۔ عقل کے لحاظ سے ان کو اس پہلو سے کم تر کہا گیا کہ بیشتر دنیوی امور میں ان کو تجربہ اور ممارست نہیں ہوتی اور ان معاملات میں تنہا عورتوں پر ویسے ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی جیسے مردوں پر ڈالی جا سکتی ہے۔ مثلاً‌ مالی لین دین کے معاملات میں گواہ بننا اور معاملے کی تفصیلات وغیرہ کو ٹھیک طریقے سے یاد رکھنا۔ دین کے لحاظ سے ان کے ساتھ ایسی خلقی کمزوریاں لگی ہوئی ہیں کہ فرائض دین کی ادائیگی میں بھی انھیں مردوں کے مقابلے میں کچھ رعایتیں دینی پڑتی ہیں اور بہت سی دینی ذمہ داریوں کا ان کو مردوں کی طرح مکلف بھی نہیں ٹھہرایا گیا۔

مطیع سید: ایک چیز محسوس ہوتی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد آنے والے جو گمراہ فرقے تھے، آپﷺنے عموماً‌ ان کا نام نہیں لیا۔ لیکن ایک روایت میں قدریہ کا نام لے کر فرمایا کہ قدریہ اس امت کے مجوس ہیں۔ (کتاب السنۃ، باب فی القدر، حدیث نمبر ۴۶۹۱)

عمارناصر: مجھے بھی اس روایت کے بارے میں تردد ہے کہ یہ شاید بعد میں کسی نے وضع کی ہے۔

مطیع سید: ان کے متعلق یہ بھی ہے کہ یہ دجال کا گروہ ہو گا، ان کی عیاد ت نہ کرو اور ان کا جنازہ نہ پڑھو۔ (کتاب السنۃ، باب فی القدر، حدیث نمبر ۴۶۹۲) سوال یہ پیداہوتا ہے کہ یہ دجال کا گروہ ہوگا تو ان کی نماز جنازہ کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا، تو یہ کس بات سے منع کیاگیا ہے؟

عمارناصر: مراد یہ ہے کہ ان کا تعلق دجال ہی کے سلسلے سے ہوگا۔ یعنی دجال کے ظہور سے پہلے یہ اسی زمرے کے لوگ ہوں گے جو مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوں گے۔

مطیع سید: انصارکا ایک بچہ جنازے کے لیے لایا گیا۔ حضرت عائشہ فرماتی ہے کہ اس بچے کے لیے خوشخبری ہے کہ نہ اس نے کوئی گناہ کیا اور نہ وہ گناہ کو جانتا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ عائشہ ایسا نہیں ہے۔ اللہ نے جنت اور جہنم کو بنایا اور ان کے لیے لوگ بھی پیدا کیے جبکہ وہ اپنے باپوں کی پشتوں میں تھے۔ (کتاب السنۃ، باب فی ذراری المشرکین، حدیث نمبر ۴۷۱۳) یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

عمارناصر: اس سوال سے متعلق حدیثوں میں اختلاف ہے۔ بعض میں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جو مشرکین ہوئے، ان کی اولاد کا بھی وہی حکم ہے جو خود ان مشرکین کا ہے۔ اگر یہ اصول ہے تو اس میں اشکالات بہت زیادہ ہیں، لیکن یہ روایت اسی کے مطابق ہے۔ بعض دوسری روایات میں ہے کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ کچھ اور روایات میں یہ آیا ہے کہ ایسے نابالغ بچوں کو قیامت کے دن آزمایا جائے گا کہ وہ ایمان لاتے ہیں یا نہیں اور اس آزمائش کے مطابق ان کے انجام کافیصلہ کیا جائے گا۔ اب کیا حقیقت حال ہے، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

مطیع سید: ایک ہیجڑا ازواج مطہرات کے پاس اور عام مسلمانوں کے گھروں میں آتا جاتاتھا۔ اس کی کسی بات کی وجہ سے آپ ﷺنے اسے علاقہ بدر کر دیا۔ کسی نے کہا کہ اس کو قتل کیوں نہ کر دیا جائے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ نہیں، وہ نماز پڑھتا ہے۔ (کتاب الادب، باب فی الحکم فی المخنثین، حدیث نمبر ۴۹۲۸) کیا وہ اگر نماز نہ پڑھتا ہوتا تو اسے قتل کر دیا جاتا؟

عمارناصر: نہیں، آپﷺ کا مطلب یہ تھا کہ جب وہ مسلمان ہے تو اسے کیوں قتل کیا جائے؟ یہ کسی قانون کا بیان نہیں، بلکہ سوال کرنے والے کے سوال میں جو عجلت اور ناسمجھی ہے، اس پر متنبہ کرنے کا ایک انداز ہے۔

مطیع سید: آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نبوت کے مختلف حصوں میں سے اب صرف سچا خواب باقی رہ گیا ہے۔ (کتاب الادب، باب ما جاء فی الرویا، حدیث نمبر ۵۰۱۷) پھر یہ کشف، الہام، القا وغیر کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے جس کا ذکر صوفیہ کرتے ہیں؟

عمارناصر: بعض اہل علم مثلاً‌ غامدی صاحب اس کو بہت اطلاق پر رکھتے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ اب ختم نبوت کے بعد غیب سے کسی خبر یا اشارے کا امکان بس اچھے خواب کی صورت میں ہی باقی رہ گیا ہے۔ صوفیہ جو باقی چیزیں بیان کرتے ہیں، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بظاہر الفاظ اس کی تائید کرتے ہیں، لیکن اصل میں حدیث کا جو اسلوب ہے، اس پر اگر آپ غور کریں تو اس سے ایسا کوئی کلی ضابطہ اخذ نہیں ہوتا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے مبشرات کا ذکر کیا اور اس کی مثال کے طورپر ایک چیز یعنی خواب کا ذکر کر دیا۔ تو اس سے اسی نوعیت کی جو کچھ دوسری چیزیں ہیں، ان کی نفی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ وہ بھی اس کے تحت آجاتی ہیں۔ اگر یہ مفہوم مراد لیا جائے تو یہ حدیث کے الفاظ کے خلاف نہیں ہوگا۔

مثلاً‌ حدیث جبریل میں آپ ﷺ نے واضح کیا کہ احسان کیا ہے؟ تو احسان تو ایک عمومی چیزہے، کسی عمل کے کرنے کے ایک رویے کا نام ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ آپ اللہ کی عبادت اس کیفیت میں کریں کہ گویا اس کو سامنے دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ ایک پہلو ہے جو مثال کے طورپر آپ نے بیان کردیا۔ یہ مراد نہیں کہ احسان کا تعلق اسی خاص معاملے اور اسی خاص صورت سے ہے۔ اسی اسلوب کو اگر اس روایت پر منطبق کیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ نوعیت کے لحاظ سے نبوت کے اجزا میں سے مبشرات ہی رہ گئی ہیں۔ مبشرات وہ ہوتی ہیں جن میں انسان کو غیب کی کوئی خبر دے دی جائے۔ اس کی ایک شکل رویا صالحہ ہے اور باقی صورتیں بھی اسی نوعیت کی ہیں۔ اس کے علاوہ نبوت کے دوسرے بنیادی خصائص مثلاً‌ منصب یا معجزات وغیرہ دیا جانا، وہ ختم کر دیے گئے ہیں۔

مطیع سید: آپﷺنے کسی کی تعظیم کے لیے کھڑا ہونے سے منع فرمایا، (کتاب الادب، باب فی قیام الرجل للرجل، حدیث نمبر ۵۲۳۰) لیکن ایک موقع پر حضرت سعد بن معا ذ کے متعلق فرمایا کہ اپنے سردار کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔

عمارناصر: آپﷺ نے اصل میں اپنے لیے اس پروٹوکول سے منع فرمایا۔ آپﷺ اپنے لیے اس کو پسند نہیں فرماتے تھے، لیکن دوسروں کے متعلق منع نہیں کیا۔ حضرت سعد والا واقعہ ویسے اس مسئلے سے متعلق نہیں ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زخمی تھے اور انہیں سواری پر لایاگیا تو آپ ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اٹھ کر ان کو سہارا دو اور اترنے میں ان کی مدد کرو۔

مطیع سید: جس نے بیری کا درخت کاٹا، اللہ اس کے سر کو دوزخ میں ڈال دے۔ (کتاب الادب، باب فی قطع السدر، حدیث نمبر ۵۲۳۹)

عمارناصر: عرب کے ریگزار میں بیری کے درخت سایے کا کام دیتے ہیں۔ تو کوئی آدمی بلا ضرورت فائدہ عامہ کی چیز کو کاٹ دے، اس پر وعید کی گئی ہے۔

مطیع سید: گھروں میں سانپ وغیرہ پائے جاتے ہوں تو ان کے بارے میں آپﷺ نے حکم فرمایا کہ ان کو تین دفعہ ڈراو اور پھر اس کے بعد بھی دکھائی دیں تو انھیں مار دو۔ (کتاب الادب، باب فی قتل الحیات، حدیث نمبر ۵۲۵۶) یہ شاید ان کے جنات ہونے کی وجہ سے فرمایا؟

عمارناصر: جی، اسی وجہ سے فرمایا۔ مراد یہ ہے کہ گھروں میں جو چھوٹے سانپ وغیرہ ہوتے ہیں، ان کو مارنے سے پہلے ان کو وارننگ دے دو۔ ممکن ہے، وہ جنات ہوں۔ اگر وارننگ کے بعد بھی گھر میں دکھائی دیں تو پھر ان کو مار سکتے ہو۔

مطیع سید: تو کیا جو گھروں سے باہر سانپ رہتے ہیں، ان کے جنات ہونے کا امکان نہیں ہوتا؟

عمارناصر: امکان تو ان کے متعلق بھی ہے، لیکن ماحول سے تھوڑا سا فرق پڑ جاتا ہے۔ اصل میں تو سانپ کے بارے میں آپ کو تجربے سے پتہ ہوتا ہے کہ یہ موذی چیز ہے تو خطرہ محسوس ہونے پر اس کو آپ مار سکتے ہیں۔ جو گھروں میں رہ رہے ہیں اور گھر کے ماحول کا حصہ ہیں، ان کے بارے میں بھی یہی حکم ہے، بس ایک گونہ احتیاط بتائی گئی ہے کہ ان سے آپ کو خطرہ محسوس ہوتا ہے تو مارنے سے پہلے ان کو وارننگ دے دیں۔

مطیع سید: مباہلہ جس طرح نبی ﷺ کےدور میں تھا، کیا آج بھی اسی طرح کیا جا سکتا ہے؟

عمارناصر: محدثین ذکر تو کرتے ہیں کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہیں تھا اور آپ کے بعد آپ کی امت بھی ضرورت پڑنے پر مباہلہ کا طریقہ اختیار کر سکتی ہے، لیکن ہماری تاریخ میں صحابہ کے ہاں یا بعد کے دور میں اس کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ نبی کو اللہ تعالیٰ نے جو خاص آیات ِبینات دی ہوتی ہیں، اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے۔ علامہ انور شاہؒ نے فیض الباری میں نقل کیا ہے کہ جب مرزا قادیانی کے دور میں یہ مباہلوں وغیرہ کا سلسلہ شروع ہو ا تو شیخ الہند مولانا محمود حسن اس پر سخت ناراض ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کو تو اللہ کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی اور آپ نے اس ہدایت پر نصاریٰ کو مباہلے کی دعوت دی تھی اور آپ ﷺ اگر ان کے خلاف دعا کر تے تو وہ اللہ کی طرف سے قبول ہو جانی تھی، لیکن اللہ کا عام قاعدہ یہ نہیں ہے۔ عام قاعدہ تو حق وباطل کے التباس اور آزمائش کاہے۔ شیخ الہند نے کہا کہ خدانخواستہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کی آزمائش کے لیے اس مباہلے میں مرزا غلام احمد کو کامیاب کردیتےتو اس سے جن لوگوں کا ایمان جاتا، اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی؟ مولانا مودودی کے بعض مکاتیب میں بھی اسی طرح کی رائے ملتی ہے۔

مطیع سید: میرے ذہن میں بھی یہ الجھن تھی کہ اس طرح تو مباہلہ ہمارے ہاتھ میں حق و باطل میں فرق کا ایک یقینی پیمانہ بن جاتا ہے اور آزمائش کی ساری خدائی سکیم بے معنی ہو جاتی ہے۔

عمارناصر: جی بالکل، اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بنایا ہی نہیں۔

(مکمل)

وزیر اعظم میاں شہباز شریف سے چند گذارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ملک میں حکومت تبدیل ہو گئی ہے اور جن مراحل سے یہ عمل گزرا ہے بلکہ ابھی گزر رہا ہے اس سے ہمارے اس معاشرتی مزاج کا ایک بار پھر اظہار ہوا ہے کہ ملک میں کوئی کام ہماری مرضی کے مطابق ہو رہا ہو تو وہ ہمارے خیال میں دستور کا تقاضہ بھی ہوتا ہے، شریعت کا حکم بھی ہوتا ہے، ملکی مفاد بھی اسی سے وابستہ ہوتا ہے، اور قومی سلامتی کا راستہ بھی وہی قرار پاتا ہے۔ لیکن وہی کام اگر ہمارے ایجنڈے، اہداف اور نقطۂ نظر سے ہم آہنگ نہیں ہے تو اس سے سازش کی بو آنے لگتی ہے، قومی وحدت خطرے میں پڑ جاتی ہے، ملکی سلامتی داؤ پر لگ جاتی ہے، اور دستور و قانون کے تقاضے پامال ہوتے نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ عمومی مزاج ہمارے معاشرتی ماحول میں اس قدر رچ بس گیا ہے کہ اس سے ہٹ کر کسی اور لہجے میں سیاسی بات کرنے سے زبانیں ناآشنا ہو چکی ہیں۔

ہمارا سیاسی ماحول قیامِ پاکستان کے بعد سے ہی بیرونی مداخلت کا شکار چلا آ رہا ہے جس کا آغاز پہلے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان کے دور میں ہو گیا تھا کہ ان کی بیرون ملک سرگرمیاں اور ان کے ذریعے غیر ملکی دخل اندازی کا تسلسل ان کی برطرفی کے لیے ایک عوامی تحریک پر منتج ہوا تھا، اور تب سے ہم کسی تعطل کے بغیر سیاسی، معاشی اور تہذیبی ہر سطح پر بیرونی سازشوں کا شکار چلے آ رہے ہیں۔ سازشیں کامیاب بھی ہوتی ہیں اور ناکام بھی۔ بعض سازشیں بے نقاب ہو جاتی ہیں جبکہ بہت سی مخفی رہ کر اپنے مخصوص دائروں میں کام کرتی رہتی ہیں۔ یہ کھیل جاری ہے اور جب تک ہم بحیثیت قوم دستور کی بالادستی اور قومی خودمختاری کے حقیقی ماحول کی طرف نہیں آتے یہ سب کچھ اسی طرح جاری رہے گا، ایک دوسرے پر الزامات بھی لگتے رہیں گے، بلیک میلنگ بھی ہوتی رہے گی اور سیاسی خلفشار بار بار جنم لیتے رہیں گے کیونکہ ملک کو خودمختاری، سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور تہذیبی شناخت سے محروم کرنے والوں کا یہ ہتھیار ہمیشہ کارگر رہا ہے۔

اس تناظر میں موجودہ خلفشار اور سیاسی رسہ کشی کے واقعاتی پہلوؤں سے قطع نظر نئی حکومت بالخصوص وزیراعظم میاں شہباز شریف کو مبارکباد دیتے ہوئے معروضی تقاضوں کے حوالے سے ہم کچھ گزارشات پیش کرنا چاہیں گے، اس امید کے ساتھ کہ وہ ان پر غور فرمائیں گے اور قومی پالیسی کے امور طے کرتے ہوئے ملک کے ایک بڑے طبقہ کی ان خواہشات کو بھی سامنے رکھیں گے:

عدالتی فیصلوں پر شرعی تحفظات کا اظہار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وراثت کے بارے میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی طرف ہم نے ملک کے اصحابِ علم کو ایک مراسلہ میں توجہ دلائی تھی جس پر علماء کرام کے ایک گروپ ’’لجنۃ العلماء للافتاء‘‘ نے فتوٰی کی صورت میں اظہار خیال کیا ہے اور اس پر مولانا عبد الستار حماد، مولانا عبد الحلیمم بلال، مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی، مولانا عبد الرحمٰن یوسف مدنی، مولانا سعید مجتبٰی سعیدی، مولانا ابو عدنان محمد منیر قمر اور مولانا عبد الرؤف بن عبد الحنان کے دستخط ہیں۔ ان دوستوں کی کاوش پر شکریہ ادا کرتے ہوئے ہم اس کی اہمیت و ضرورت کے حوالہ سے یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی مطالبات پر پاکستان میں قانون سازی اب زیادہ تر عدالتی فیصلوں کے ذریعے ہو رہی ہے اور اس سے بہت سے شرعی قوانین خاموشی کے ساتھ متاثر ہوتے جا رہے ہیں، مثلاً

اس طرح شرعی قوانین کے متن میں کوئی تبدیلی لائے بغیر عدالتی فیصلوں اور پروسیجر کی تبدیلی کے ذریعے ملک میں نافذ شدہ اسلامی قوانین میں عملی ترامیم کا سلسلہ جاری ہے جس پر ذمہ دار علماء کرام کو کم از کم اپنی رائے کا اظہار ضرور کرنا چاہیے تاکہ ان مسائل پر شرعی موقف عوام کے سامنے آتا رہے۔ ہماری گزارش ہے کہ تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء کرام کو اس صورتحال پر سنجیدہ توجہ دے کر شریعت اسلامیہ کی علمی و دینی ترجمانی کا فریضہ سرانجام دینے کا ضرور اہتمام کرنا چاہیے۔ جبکہ مشترکہ طور پر موقف کی تشکیل اور اس کے اظہار کے لیے ملی مجلس شرعی پاکستان سب کی خدمت میں حاضر ہے۔

’’سوال

حال ہی میں عدالتِ عظمٰی نے خواتین کی وراثت سے متعلق یہ فیصلہ جاری کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی وراثت سے حصہ لے لیں، بعد میں ان کی اولاد اس کا دعوٰی نہیں کر سکتی۔ اس فیصلے پر مفتیان کرام کی طرف سے شرعی تبصرہ اور بروقت اظہار رائے کرنا بہت ضروری ہے۔ (ابو عمار زاہد الراشدی)

جواب

الحمد للہ وحدہ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔

قرآن حکیم میں ہے ’’للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدین والاقربون مما قل منہ او کثر نصیباً مفروضاً‘‘ (النساء ۷) ’’آدمی کے لیے حصہ ہے اس جائیداد میں سے جو اس کے والدین اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں۔ اسی طرح عورتوں کے لیے بھی حصہ ہے اس ترکہ سے جو والدین یا قریبی رشتہ دار چھوڑ جائیں۔ زیادہ ہو یا کم ہو، یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حصہ ہے۔‘‘

ہمارے ہاں معاشرتی روٹین یہ ہے کہ عورتوں کو حصہ دیا ہی نہیں جاتا، اگر دیا جاتا ہے تو پھر قطع تعلقی کر دی جاتی ہے۔ عورتیں بسا اوقات اس لیے بھی خاموش رہتی ہیں کہ اگر میں نے اپنا حصہ لے لیا تو میرے بھائی مجھ سے قطع تعلقی کر لیں گے۔ لہٰذا خاموشی کا مطلب دستبرداری سمجھنا درست نہیں بلکہ ان کا جو حق بنتا ہے وہ دینا چاہیے۔ اگر ایسی حالت میں وہ معاف بھی کر دے تو پھر بھی معاف نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ ابھی تک تو وہ اس کی مالک ہی نہیں بنی تو معاف کیسے کر سکتی ہے؟ پہلے اس کو مالک بنا دیا جائے، اس کو ہر قسم کے پریشر اور دباؤ سے آزاد کیا جائے، پھر وہ اپنی مرضی اور خوش دلی سے کچھ دن گزرنے کے بعد دے دیتی ہے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

صورتِ مسئولہ میں عدالت کا فیصلہ درست نہیں ہے کہ اگر کوئی خاتون زندگی میں اپنا حصہ وصول نہیں کر سکی تو اس کا حصہ ختم ہو جائے گا۔ جب اللہ نے اس کا حصہ مقرر کیا ہے تو کس اصول کے تحت اسے روکا جا سکتا ہے؟ لہٰذا وہ حصہ اسی کا ہے اور جس کے پاس بھی پڑا ہے اس کے پاس بطور امانت ہے، جسے ادا کرنا ضروری ہے۔ خاتون کی وفات کے بعد وہ بطور وراثت اس کی اولاد کو منتقل ہو جائے گا جس کا وہ مطالبہ کر سکتے ہیں، لہٰذا عدالتِ عظمٰی کو اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔‘‘

امپورٹڈ قوانین اور سیاسی خلفشار

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(پاکستان شریعت کونسل کے ایک مشاورتی اجلاس کے بارے میں  پیش کی گئی معروضات)

  1. امارت اسلامیہ افغانستان کو باقاعدہ تسلیم کیے بغیر باہمی تعلقات کو معمول کی سطح پر نہیں لایا جا سکتا جو دہشت گردی کی وارداتوں کو روکنے اور علاقائی امن کے فروغ کے لیے لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ہم نئی حکومت کو یاددہانی کے طور پر یہ کہنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی ڈکٹیشن پر منظور کیے گئے ایسے امپورٹڈ قوانین پر نظرثانی ناگزیر ہے جو پاکستان کی نظریاتی اساس دستور کے تقاضوں اور شریعت سے ہم آہنگ نہیں ہیں کیونکہ یہ ہماری قومی خودمختاری کے لیے سوالیہ نشان ہیں اور ان سے بہرحال گلوخلاصی کرانا ہوگی۔
  2. پاکستان شریعت کونسل کی جدوجہد کا میدان علمی و فکری ہے اس لیے حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی کشمکش اور انتخابی سیاست سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے، البتہ ہمارا ایجنڈا واضح ہے کہ (۱) ملک کی نظریاتی اساس (۲) دستورِ پاکستان کی اسلامی دفعات (۳)قومی خود مختاری (۴)بیرونی مداخلت کی روک تھام، اور (۵) مسلم تہذیب اور ثقافت کے تحفظ کے لیے پاکستان شریعت کونسل گزشتہ تین عشروں سے اپنی استطاعت کے دائرے میں مانیٹرنگ اور کوتاہیوں کی نشاندہی کا فریضہ سر انجام دیتی چلی آ رہی ہے، اور ہمارا یہ کردار آئندہ بھی اسی طرح ان شاء اللہ تعالی جاری رہے گا۔
  3. موجودہ سیاسی خلفشار اور اس کے اسباب و نتائج پر ہم پوری نظر رکھے ہوئے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اس قسم کے خلفشار کی فضا کو قائم رکھنا عالمی اور مقامی سیکولر لابیوں کا مستقل ایجنڈا ہے، جس کے لیے مختلف دائروں کے جو لوگ استعمال ہو رہے ہیں ان پر نظر رکھنا ہماری ذمہ داری ہے۔ البتہ اس فضا میں دو باتیں کسی حد تک ہمارے لیے اطمینان کا باعث ہیں:
    • ایک یہ کہ ساری خرابیوں کے باوجود آئینی طریقہ کار مسلسل آگے بڑھ رہا ہے جس کے لیے عدلیہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنا کردار ادا کر رہی ہے جبکہ دیگر ریاستی ادارے تعاون کر رہے ہیں۔ ملک کو سیاسی خلفشار سے نجات دلانے کا یہی راستہ صحیح ہے اور تمام اداروں حلقوں اور طبقات کو اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔
    • دوسری بات قابلِ اطمینان یہ ہے کہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کا کردار اس میں قائدانہ ہے، جو ایک نظریاتی سیاسی جماعت ہے اور دستورِ پاکستان کی تشکیل اور نفاذِ شریعت کی جدوجہد میں اس کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔ ہم اس پر جمعیت علماء اسلام پاکستان کے امیر مولانا فضل الرحمن کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور پاکستان شریعت کونسل کے مقاصد کے دائرے میں انہیں بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام، بالخصوص بائیس متفقہ دستوری نکات اور دستورِ پاکستان کی تشکیل میں کردار ادا کرنے والے دیگر دینی حلقے اور نظریاتی جماعتیں بھی آگے آئیں اور قومی خود مختاری، نفاذِ شریعت اور مسلم تہذیب کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
  4. پاکستان کو سیاسی فکری معاشی اور تہذیبی خلفشار کی دلدل میں دھکیلنے والے عالمی اور مقامی سیکولر حلقوں کی سرگرمیاں مسلسل جاری ہیں، ہم ان سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی ان خواہشات میں ہمیشہ کی طرح ان شاء اللہ تعالی اب بھی ناکام ہوں گے اس لیے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اسلامی نظام مسلم تہذیب اور قومی خودمختاری کے ساتھ شعوری وابستگی رکھتی ہے اور اس کے لیے پہلے کی طرح ملک کے عوام اب بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔
  5. کشمیر اور فلسطین کے نہتے عوام پر مظالم بڑھتے جا رہے ہیں اور عالمی ادارے خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں، جو انتہائی افسوسناک ہے۔ اور مسلم حکومتیں دنیا بھر میں اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ دینے کے بجائے قابض قوتوں اور ظلم ڈھانے والوں کو خاموش حمایت فراہم کر رہی ہیں، جو قابل مذمت ہے۔ ہمیں اس حوالے سے کم از کم یہ کردار ضرور ادا کرتے رہنا چاہئے کہ مظلوموں کی حمایت اور ظالموں کی مذمت میں آواز بلند کرتے رہیں اور یہ دنیا بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند حلقوں کی ذمہ داری ہے۔

صغر سنی کی شادی پر عدالتی فیصلے کا جائزہ

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

گزشتہ شمارے میں امریکی ریاستوں میں کم عمری کی شادی کی کم سے کم عمر پر گفتگو مکمل ہو گئی تھی. آج یورپی دنیا کا مختصر جائزہ لینا پیش نظر ہے۔ ممکن ہے، قارئین کو اس طوالت میں اکتاہٹ محسوس ہو، تاہم اس کا مقصد مسئلے کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا ہے۔ یوں یہ معلوم ہو سکے گا کہ دنیا بھر میں اس معمولی حیثیت کے اور غیر اہم مسئلے کو پاکستان اور مسلم دنیا میں ”انتہائی اہم“ مسئلہ بنانے کا سبب آخر ہے کیا؟

تمام یورپ میں شادی کی قانونی عمر 18 سال ہے، سوائے اسکاٹ لینڈ کے، جہاں زوجین کے لیے 16 سال عمر ہے۔ پھر بتا دوں کہ قانونی عمر وہ ہوتی ہے جس پر فرد آزاد ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی مرضی سے شادی کر سکتا ہے۔ اسے والدین، معاشرے یا ریاست کی رضامندی کی ضرورت نہیں رہتی۔ قانونی عمر سے کم شادی کی عمر (وہی صغرسنی)مختلف یورپی ممالک میں مختلف ہے جہاں عدالت، والدین اور سماجی کارکن کی مرضی سے شادی ممکن ہوتی ہے۔ 48 یورپی ممالک میں سے 24 ممالک میں عدالتی رضا مندی پر شادی کی کم از کم عمر 16 سال ہے۔ والدین کی رضامندی سے مشروط ایسے ممالک کی تعداد 6 ہے۔ اینڈورا (Andorra) میں عدالتی رضامندی پر شادی کی عمر 14 سال ہے۔ لیتھوانیا میں یوں 15 سالہ عمر میں شادی ممکن ہے۔ ترکی میں یہ عمر 17 سال ہے۔ لیکٹنسٹائن (Liechtenstein)، بلجیم، فن لینڈ، فرانس، یونان، آئس لینڈ، لکسمبرگ اور سلوونیا میں شادی کی کم از کم کوئی عمر نہیں ہے۔ ان ممالک میں کہیں والدین کی رضامندی پر عدالتی منظوری درکار ہوتی ہے۔کہیں عدالتی منظوری ہی اصل ہوتی ہے اور والدین کو محض سنا جاتا ہے۔ کہیں والدین کے ساتھ سماجی کارکن کا کردار بھی ہوتا ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود مذکورہ آٹھ ممالک میں شادی کی کم از کم عمر کی کوئی زیریں حد نہیں ہے۔

ادھر اپنے ملک میں بعض حلقوں کا ایک ہی واویلا رہتا ہے کہ کم از کم عمر 18 سال کی جائے۔ والدین، غربت، معاشرتی مسائل اور والدین کا کوئی خاص ذاتی مسئلہ ان لوگوں کے نزدیک مسئلہ ہی نہیں ہوتا۔ بہت پہلے ایک دن میں گھومتے گھومتے اینٹوں کی بھٹی پر جا نکلا۔ مرد و زن غربت کا بدنما اشتہار بنے کام میں جتے ہوئے تھے۔ دیکھا بارہ پندرہ سالہ لڑکا لڑکی کام کے ساتھ ساتھ باہم اٹھکیلیاں بھی کر رہے ہیں۔ ایسے لگا کہ ان کی لگاوٹ معاشرتی قدروں کو پامال کر رہی ہے۔ان کے بزرگوں سے استفسار کیا تو معلوم ہوا۔ "جی، دونوں میاں بیوی ہیں۔" فقیہانہ جستجو "کیوں" کی طرف لے گئی، پتا چلا پورا خاندان برادری اس بیگار پر لگا ہوا ہے۔ ان دونوں خالہ زادوں کی لگاوٹ جب معاشرتی اقدار کی بیرونی سرحد کے قریب جا پہنچی تو بزرگوں نے یوں فیصلہ کیا: ”جب ان دونوں نے ابھی چوری چھپے اور بعد میں یہی کچھ کرنا ہے تو کیوں نہ ان کی شادی کر دی جائے، تو صاحب جی ہم نے ان کی شادی کر دی۔“ کچھ دیر تک تو میں سٹپٹا کر رہ گیا۔ ہمت کر کے گفتگو کو انٹرویو کی شکل دے ڈالی۔

”پولیس یا کسی اور نے آپ کو پکڑا نہیں؟“

جواب ملا:

”جی وہ! وہ جی ہم نے ان کی شادی دھوم دھام (یہی الفاظ تھے) سے کی تو ادھر ادھر سے بہت لوگ آئے۔ بڑے داروغہ جی تو نہیں آئے، پر تھانہ محرر خود تشریف لائے تھے۔ پھر صاحب جی! ایک ہفتے بعد ایک ویگن میں فیشنی عورتیں اور چند مرد اچانک آ دھمکے پہلے ہماری تصویریں بنائیں۔ پھر دولہا دلہن سے کچھ باتیں پوچھیں جب وہ اپنی مرضی کے سب کام کر چکے تو ہمیں دھمکانے لگے کہ یہ شادی غیر قانونی ہے۔ ہمارے بزرگوں نے اشارے سے ہمیں کہا تم لوگ جاؤ اپنا کام کرو۔ ہم بے سوچے سمجھے کام میں جُت گئے۔ رات کو چاچا تاج ولی کہنے لگے، او نیک بختو! سمجھا کرو، شادی تو غیر قانونی ہو گئی، دوپہر کا مرغن کھانا سب ویگن والوں نے ٹھیکہ دار کے ڈیرے پر مزے لے کر کھایا۔ جب وہ رخصت ہونے لگے تو میں ہاتھ جوڑے، دھوتی سنبھالے ان کی ایک بڑی دھانسو قسم کی لیڈر عورت کے آگے جا کھڑا ہو گیا۔ نخوت سے بولی:  بابا ، جلدی بولو، ہمیں دیر ہو رہی ہے، کیا بات ہے؟ میں غریب کیا کہتا، یہ ضرور کہا میم جی! ہم ٹھیکہ دار کے زر خرید غلام ہیں۔ جب تک ہمارا قرضہ نہیں اترتا، ہم، ہمارے بچے، عورتیں، بوڑھے، بیمار سب ان کے غلام ہیں۔ میم جی ہم نے ریڈیو پر سنا تھا کہ بچوں سے مشقت کرانا بھی جرم ہے۔ میم جی، ہم نے سوچا شاید آپ نے ٹھیکہ دار سے اس بارے میں کچھ پوچھا ہو۔ آپ نے پولیس سے کوئی بات کی ہو تو ہمیں بتا دیں، وہ کیا جواب دیتی، منہ بنائے دفع ہو گئی۔ اب جاؤ تم سب اپنا اپنا کام کرو۔ یہ کہہ کر چاچا کروٹ بدل کر سو گیا۔“

تھوڑا حساب کیا تو اندازہ ہوا کہ صغرسنی کی شادی کی مخالف این جی او اور اس پر واویلا کرنے والے اداروں کو سال بھر کام سے روک کر ان کے مالی وسائل چائلڈ لیبر کے خاتمے پر لگائے جائیں، ان ”فیشنی عورتوں“ کے سیمینار بند کر کے وسائل اینٹوں کی صنعت میں غلامانہ زندگی بسر کرنے والوں کے قرض اتارنے میں لگا دیئے جائیں تو ہزاروں خاندان ٹھیکہ داروں سے نجات حاصل کر کے آزاد زندگی بسر کر سکتے ہیں۔ یورپ، امریکہ اور تمام مغربی دنیا جب صغر سنی کی شادی پر وہی نقطہ نظر رکھتی ہے جو ہمارے  علما کا ہے تو پاکستان میں اس کے خلاف واویلا کرنے والوں کا مقصد کیا ہے؟ یہ ”فیشنی عورتیں“ اور ان کے ساتھی چاہتے کیا ہیں؟ مسئلہ کیا ہے؟ یہ سمجھ لیا جائے تو کوئی الجھن باقی نہیں رہتی۔ ان لوگوں کی تاریں ہلانے والوں نے اور غیر ملکی کرنسیوں میں وسائل فراہم کرنے والوں نے فی الحقیقت ہمارے علما اور دینی طبقے کو ایسے کام میں لگا رکھا ہے جس کا سرا کبھی کسی کو نہیں ملے گا۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ یہ کام عشروں سے ہو رہا ہے۔ صغرسنی کی شادی پر علما کے شرعی دلائل پر الجھن کی شکار ایک نسل تیار ہو کر معاشرتی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے تو ان لوگوں کے سیمینار بابت صغر سنی انہی دلائل پر ویسے ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ اب ان کا ہدف اگلی نسل ہوتا ہے۔ دلائل کا جواب اور جواب الجواب علما کرام کی طرف سے اب بھی اسی مواد پر مشتمل ہوتا ہے جو نصف صدی سے ہمارے دینی طبقے کا اثاثہ ہے۔ یوں الجھن کی شکار ایک اور نسل تیار ہو کر معاشرے میں ضم ہو چکی ہوتی ہے۔ مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔

جہاں تک میں سمجھا ہوں اور شاید درست ہی سمجھا ہوں گا کہ اس مشق کا مقصد یہ ہے کہ ایک عام شخص اور نوعمر لڑکے لڑکی کے ذہن میں صغر سنی کی شادی کے حوالے سے سیرت طیبہؐ کا جو عمومی نقش ہے، اس پر خراشیں ڈال کر نبی اکرم ؐ کی ذات والا صفات کے بارے میں شکوک و شبہات کو عام کیا جائے۔ میری پیشگی معذرت قبول ہو، اس کام میں مال پیسہ بنانے والے تو کچھ کما رہے ہیں لیکن ہمارے علما نادانستگی میں وہی کچھ کر رہے ہیں جو مدمقابل لوگوں کے غیر ملکی آقائے ولی نعمت چاہتے ہیں۔ یہ لوگ عورت کی صحت، ہجوم آبادی، غربت اور پرورش اطفال جیسے رنگین لبادوں میں دلائل کا رُخ صغر سنی کی شادی کی طرف کرتے ہیں تو سامعین اور قارئین بڑی حد تک ان کے ہمنوا بن چکے ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کے ذہن میں سیرت طیبہ جھلملانا شروع ہو جاتی ہے۔جواب میں علما کی طرف سے ان لوگوں جیسے عقلی دلائل نہیں آتے۔ علما اور دینی طبقے کی دلیل وہی ایک نکاتی رہتی ہے کہ اسوۃ حسنہ ہمارا چراغِ راہ ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن کچے ذہن، خام فکر اور جاہلیت جدیدہ کی تعلیم سے آراستہ یہ نسل  ان مذکورہ سیمیناروں کی اسیر ہو چکی ہوتی ہے ؎

مسمریزم کے عمل میں دہر اب مشغول ہے
مشرق و مغرب میں اِک عامل ہے اک معمول ہے

مخصوص اسکولوں میں تعلیم پانے والے یہ شاہیں بچے چند ہی سالوں میں زاغ و شپرک (کوے چیلیں) بن کر شام کو KFC اور میکڈونلڈ نوچ رہے ہوتے ہیں۔ چند سالوں میں ہنس کی چال چلتے چلتے یہ کوے جب کالج یونیورسٹی میں پہنچتے ہیں تو آراستہ و پیراستہ ہالوں اور ریستورانوں میں مرغن پکوانوں کے ساتھ اب نئے شکاری سیمیناروں کے پھول گجرے لیے ان کا استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ ان کے ذہن میں وہ کچھ انڈیلتے ہیں کہ ؎

جسم و جاں کیسے کہ عقلوں میں تغیر ہو چلا
تھا جو مکروہ اب پسندیدہ ہے اور مقبول ہے

دین اور سیرت طیبہ پر اس مخلوق کا علم بمنزلہ صفر ہوتا ہے۔ ایسے عالم میں ایک طرف سے اس کچے ذہن پر بذریعہ سیمینار عورت کی صحت، غربت، ہجوم آبادی، پرورش اطفال، بے روزگاری کے دلائل کی گولہ باری ہو رہی ہو اور دوسری طرف سے، اللہ معاف کرے، نکاح کے وقت حضرت عائشہ کی عمر، رخصتی کس عمر میں ہوئی۔ جی ایک روایت میں …… جی ایک اور روایت میں جس کی سند متصل ہے …… اور ساتھ رسولؐ اللہ کی عمر، پھر دونوں کی عمروں کا موازنہ، صاحب ! یہ کچھ کسے سمجھ آئے گا؟ محترم علمائے کرام! یہ دلائل اسی ذہن میں قرار پکڑ سکتے ہیں جو ان مصطلحات، اس محاورے، اس روزمرہ سے آشنا بلکہ ان کا رمز آشنا ہو۔ آپ کو پھر یاد دلائے دیتا ہوں کہ حضرت موسیٰ ؑنے سنپولیوں کا مقابلہ اژدہے سے کیا تھا، سانپ سنپولیوں کے مقابلہ میں ایک بڑا اژدھا۔

 کم سنی کی شادی کے مخالف عدالتی ذہن کو عہدِ حاضر کی اس کی اپنی زبان میں جواب دیا جانا چاہیے۔ جسمانی اعتبار سے دو عاقل بالغ افراد کو مغربی دنیا اتنی آزادی دیتی ہے کہ اسکولوں میں لڑکے لڑکیاں کچھ بھی کریں آزاد ہیں، استاد مداخلت کرے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا سزاوار! ارے بھئی ہم ملا بھی تو یہی کچھ کہتے ہیں بلکہ ہمارا کہا ہوا زیادہ وزن رکھتا ہے۔ تمہارے ہاں لڑکا اپنا کام مکمل کرنے کے بعد مطلقاً آزاد۔  آثار و باقیات سمیٹے تو لڑکی اور اس کے والدین، بھلا کیوں؟ ہم ملا کہتے ہیں اس حیوانی تعلق کو انسانی عہدو پیمان میں ڈبو کر لڑکے کو ذمہ دار بناؤ،جس کا طریقہ نکاح ہے، بولو جواب دو ! عورت کو ہم حقوق د ے ر ہے ہیں یا تم؟۔ کیا فرمایا، کم سن بچی کی شادی معمر مرد سے؟ ارے امریکہ یورپ میں ہر سال ایسی ہزاروں شادیاں ہوتی ہیں اور انسانی حقوق کے نام پر ہوتی ہیں اور ابتدائے آفرینش سے ہو رہی ہیں۔ محترم علمائے کرام میری عاجزانہ رائے میں اس انسانی مسئلے کے لیے وہی دلائل وضع کیا کریں جو مخالفین کی اپنی دنیا کے ہیں۔ سیرت طیبہ میں سے دلائل کی دنیا الگ ہے جو کچے ذہنوں میں جگہ نہیں پکڑ سکتے۔ امید ہے، علمائے کرام ان معروضات پر غور کریں گے۔ ورنہ یہ عمل محرم راز خالق کائنات کی سیرت پر خراشیں ڈالنے کا موجب بنے گا۔ محرم راز خالق کائناتؐ کا دفاع اس طریقے سے تو نہیں ہو سکتا۔

کوشش کی جائے گی کہ آئندہ کبھی اس  مسئلے کے دوسرے پہلو پر بھی  گفتگو کی جائے۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۵)

ڈاکٹر شیر علی ترین

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Moderity کا دوسرا باب اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ)


شاہ اسماعیل کا علمی وفکری سرمایہ

اصلاحی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل نے انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان کی انتہائی اہم کتابیں سپرد قلم کیں۔ انھوں نے فقہ، کلام، منطق، سیاسیات اور تصوف کے متعدد موضوعات اور علوم پر کتابیں لکھیں1۔ مزید برآں انھیں عوام کے لیے سہل ومقبول اور خواص اہل علم کے لیے مشکل اور دقیق کتابیں لکھنے میں غیرمعمولی مہارت حاصل تھی۔ اس کتاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ شاہ اسماعیل کی کلامی، فقہی اور سیاسی فکر کو زیر بحث لاتے ہوئے ان کی تمام پیچیدگیاں قارئین کے سامنے رکھی جائیں۔ میں ان کی شدید متنازع کتاب "تقویۃ الایمان" کے تفصیلی تجزیے کے ساتھ ساتھ سیاست شرعیہ سے متعلق ان کی نسبتاً کم مشہور کتاب "منصبِ امامت" اور سنت وبدعت سے متعلق ان کی کتاب "ایضاح الحق" پر بھی روشنی ڈالوں گا۔ ان کے فکری ورثے پر وسیع غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر چسپاں کیے گئے "سادہ فکر سلفی" کے لیبل کے برعکس وہ ایک باریک بیں اور نکتہ رس مفکر ہیں۔ شاہ اسماعیل کی فکر کو منفرد بنانے والے تضادات، تناقضات اور ابہامات کا نقشہ کھینچنا بھی اس کتاب کے مقاصد میں شامل ہے۔ ضخیم اور متنوع علمی کاوشوں کے باوجود عہد حاضر میں شاہ اسماعیل کے متعلق کوئی بحث ان مناظرانہ جھنجھٹوں سے جان نہیں چھڑا سکتی جو ان کی سوانح حیات کا جُزوِ لاینفک ہیں۔ انیسویں صدی کے اواخر میں بریلوی اور دیوبندی مسالک کے پیش روؤں کے درمیان کش مکش نے ان کی شخصیت کو مزید تقسیم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی بہت سی مناظرانہ بحثوں کا مرکزی موضوع شاہ اسماعیل کے چند شدید متنازعہ بیانات ہیں۔

درحقیقت برصغیر (اور بسا اوقات برصغیر سے باہر بھی) کے سنی مسلمانوں کے درمیان چپقلشوں کے مناظرانہ پس منظر میں شاہ اسماعیل کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اس کے متعلق ان کے حامی اور مخالف دونوں اپنی آرا میں یکساں شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی میں اور بعد میں بھی شاہ اسماعیل کے حامیوں بالخصوص دیوبند کے پیش روؤں کے نزدیک وہ ایک عظیم مصلح تھے جنھوں نے مسلم ہندوستان میں ایک شدید دینی زوال کے وقت میں اصلاح کا علم بلند کیا2۔ ان کے نزدیک شاہ اسماعیل ایک ایسا نجات دہندہ تھے جنھوں نے بیک وقت عوام اور اہل علم دونوں کے دلوں میں خالص توحید کی دھاک بٹھا دی۔

اس کے برعکس ان کے مخالفین کے نزدیک وہ ایک قابل اعتراض فکر کے مالک تھے جنھوں نے نبی اکرم ﷺ اور دیگر اولیاے کرام کی اہانت کرکے ہندوستان میں پہلی بار سنیوں کے درمیان نفرت کا بیج بویا۔ عہد حاضر کے مشہور بریلوی عالم یاسین اختر مصباحی نے اسے یوں بیان کیا ہے: "اگر اسلام کو شاہ اسماعیل کے معیارات پر جانچا جائے تو ہندوستانی تاریخ کے گزشتہ پانچ سو سال کے مسلمانوں کی اکثریت کافر ٹھہرتی ہے۔ تقویۃ الایمان کی اشاعت سے پہلے ہندوستان میں  مسلمانوں کے دو گروہ تھے: شیعہ اور سنی۔ ان کے گمراہ کن ایجنڈے کے نتیجے میں سنی معاشرہ لاتعداد گروہوں اور دھڑوں میں تقسیم ہو گیا3"۔ شاہ اسماعیل کے مخالفین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انھوں نے حضور اکرم ﷺ کی دینی حیثیت کو گھٹایا اور مقدس رسوم وروایات کے تقدس کو پامال کیا۔ نوآبادیاتی اور آج کے ہندوستان کے گہرے مناظرانہ ماحول میں شاہ اسماعیل پر ان کے مخالفین اولین "ہندوستانی وہابی" کا لیبل چسپاں کرتے ہیں4۔ مزید برآں ان کے مخالفین کی کوشش ہوتی ہے کہ شاہ ولی اللہ کے سلسلے سے ان کا تعلق  کاٹ دیں۔ وہ انھیں طنزیہ انداز میں ولی اللہی خاندان کی کالی بھیڑ کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں جو اس لائق بھی نہیں کہ اسے عالم کہا جائے۔

مثال کے طور پر عہد حاضر کے ایک بریلوی مناظر سید محمد نعیم الدین نے جس تحقیر آمیز اور طنزیہ انداز میں شاہ اسماعیل کی نوجوانی کا رویہ بیان کیا ہے، اسے ایک بار ملاحظہ فرمائیں:

"شاہ اسماعیل اپنے اساتذہ کے لیے باعث عار تھا۔ وہ ہمیشہ گھر کے کام سے غافل رہتا، درس میں خلل ڈالتا اور اپنے نامعقول اور باغیانہ رویے کی وجہ سے دوسرے طلبہ کے لیے بھی انتشار کا سبب بنتا۔ اس کا بنیادی مشغلہ پتنگ بازی، جسمانی ورزش اور وقت کا ضیاع تھا۔ اپنے غرور وتکبر کی وجہ سے شاہ اسماعیل اپنے خاندان کے بڑوں بالخصوص اپنے ممتاز چچا شاہ عبد العزیز کے لیے ہمیشہ پریشانی کا سبب بنتا۔  یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ دیوبندی علما نے شاہ ولی اللہ کے خاندان میں سے ان کے سب سے نالائق بندے کو اپنا مذہبی رہ نما چُنا، جب کہ اس خاندان کے دیگر عالی مقام اصحابِ علم سے اغماض برتا"5۔

مذکورہ بالا بیان میں موجود مبالغے سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ بعد کی زندگی میں شاہ اسماعیل کی  اصلاحی سرگرمیوں نے ان کے خاندان کے معزز حنفی علما کے لیے اضطراب کا کافی سامان پیدا کیا تھا۔ مثال کے طور پر مسلم ہندوستان میں حنفی روایات کے برعکس شاہ اسماعیل نے نماز میں رفع یدین کے عمل کی تبلیغ وتائید کی۔ یہ عمل ہندوستان کے حنفی اور غیر مقلد اہل علم کے درمیان شدید متنازع تھا۔ جب اسماعیل کے چچا شاہ عبد العزیز کو خبر ملی کہ ان کا بھتیجا اس عمل کی تائید کر رہا ہے اور اس کی وجہ سے تنازع جنم لے رہا ہے تو انھوں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں۔ وہ میری نہیں سنے گا"6۔ شاہ عبد العزیز نے اپنے چھوٹے بھائی شاہ عبد القادر سے کہا کہ اسماعیل کو سمجھائے کہ وہ غیرضروری مسائل کھڑے نہ کریں۔ شاہ عبد القادر نے جواب میں کہا: "جیسے آپ کا حکم! لیکن وہ میری بھی نہیں سنے گا، بلکہ وہ جواب میں حدیثیں پیش کرنے لگے گا"7۔ پھر شاہ عبد القادر نے یہ کام اپنے بیٹے اور اسماعیل کے چچا زاد شاہ محمد یعقوب دہلوی (جن کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے) کے ذمے لگایا۔

شاہ یعقوب نے شاہ اسماعیل سے بات کی اور انھیں رفع الیدین جیسے اشتعال انگیز مسائل کونہ چھیڑنے  کی نصیحت کی۔ جیسا کہ ان کے چھوٹے چچا نے پیش گوئی کی تھی، شاہ اسماعیل نے جواب میں حدیث کا حوالہ دیا۔ انھوں  نے شاہ یعقوب سے کہا: "اگر عوام کے فتنے کا خیال کیا جائے تو اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا کہ جو کوئی میری امت کے فساد کے وقت میری سنت پر عمل کرے تو اسے سو شہیدوں کے برابر اجر ملے گا8۔ کیونکہ جو کوئی سنت متروکہ اختیار کرے گا، عوام میں ضرور شورش ہوگی"۔ شاہ اسماعیل کا جواب سن کر شاہ عبد القادر نے آہ بھر کر کہا: "بابا ہم تو سمجھے تھے کہ اسماعیل عالم ہوگیا، مگر وہ تو ایک حدیث کا مطلب بھی نہیں سمجھا۔ یہ حکم تو اس وقت ہے جب کہ سنت کے مقابل خلافِ سنت ہو، جب کہ اس مسئلے میں سنت کا مقابل خلافِ سنت نہیں بلکہ ایک دوسری سنت ہے، کیونکہ جس طرح رفع الیدین سنت ہے، اسی طرح  ارسال بھی سنت ہے"9۔

ایک تخیلاتی حکومت کے قیام  کی جدوجہد

شاہ اسماعیل کی علمی وفکری زندگی کے علاوہ ان کی سعی وجہد  اور سوانح کا کافی حصہ خیبر پختون خوا (جسے پہلے شمال مغربی سرحدی صوبہ کہا جاتا تھا) میں سکھوں کے خلاف 1826 سے لے کر 1831 تک شمالی ہندوستان کی تحریکِ مجاہدین سے تعلق رکھتا ہے جس میں وہ ایک مرکزی تھے۔ سید احمد کی دل آویز شخصیت کے زیرِ سایہ شاہ اسماعیل اور دیگر پانچ سو علما اور عوام نے سکھوں کے خلاف جنگ کا آغاز کیا، تاکہ اس خطے کے پختون مسلمانوں کو سکھا شاہی ظلم وجبر سے نجات دلائیں۔ تحریکِ جہاد کے تصور نے اغوا کی ایک الم ناک داستان سے جنم لیا تھا۔ جب سید احمد 1819 میں رام پور میں تھے تو افغانستان سے کچھ پشتون لوگ ان سے ملنے کے لیے آئے۔ انھوں نے ایک دل خراش داستان سنائی جس نے سید احمد کا دل دہلا دینے  کے ساتھ انھیں برافروختہ بھی کر دیا۔ پنجاب میں سفر کرتے ہوئے یہ پشتون اپنی پیاس بجھانے کی خاطر ایک کنویں کے پاس رک گئے۔ انھوں نے کنویں پر چند سکھ خواتین کو کام کرتے دیکھا۔ ہندوستانی زبانوں سے ناواقفیت کی بنا پر انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے ان سے پانی مانگا۔ انھیں ابتدا میں حیرت اور بعد میں دہشت کا دھچکا لگا جب ان عورتوں نے ادھر ادھر دیکھ کر یہ اطمینان کر لیا کہ کوئی انھیں دیکھ نہیں رہا اور پھر پشتو میں گفتگو شروع کر دی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سکھ نہیں بلکہ مختلف قبائل اور علاقوں کی افغان خواتین ہیں جنھیں سکھ اغوا کرکے پنجاب میں لائے ہیں اور  یہاں وہ ان کی داشتاؤں کی حیثیت سے رہ رہی ہیں۔ "اے سید احمد! ان عورتوں کو کفر سے بچانے کے لیے کچھ کیجیے"، ان افغانوں نے التجا کی۔ "ان شاء اللہ میں جلد ہی سکھوں کے خلاف جہاد کا آغاز کروں گا"10، سید احمد نے بھرپور تیقن کے ساتھ جواب دیا۔

سید احمد سے متعلق سوانحی تذکروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساری زندگی بالخصوص ٹونک میں قیام کے دوران عسکری تربیت کے ذریعے جہاد کی تیاریوں میں مصروف رہے۔ سکھ اور پشتون مسلمانوں پر ان کی مبینہ ظالمانہ حکومت نے انھیں ایک ٹھوس ہدف مہیا کیا کہ وہ اپنی زندگی بھر کی تربیت کو روبعمل لا سکیں۔ اس مقصد کے لیے سید احمد کے مرکزی معاونین اور منصوبہ ساز شاہ عبد العزیز کے دو رشتہ دار تھے: ان کے بھتیجے شاہ محمد اسماعیل اور ان کے داماد عبد الحی بڈھانوی۔ اسماعیل اگر ایک شعلہ بیان مقرر اور زبردست عسکری کمانڈر تھے تو اس کے برعکس عبد الحی زیادہ تر تنہائی پسند تھے  جن کی خاموش اور ساکن طبیعت کی وجہ سے وہ سید احمد کے بنیادی سیاسی مشیر اور منصوبہ ساز کی حیثیت سے بطور خاص مناسب ٹھہرے11۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، عبد الحی بھی ایک نمایاں حنفی عالم تھے اور  ان کی وجہ سے ایک ایسے مشن کے مسلکی تنوع میں اضافہ ہوا جس میں ایک اچھی خاصی تعداد غیر مقلدین (جو چاروں فقہی مذاہب میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے) کی تھی۔

جو راستہ ان مجاہدین نے اختیار کیا، وہ جدید قومی ریاست کی سرحدات اور حدود کا پابند نہیں تھا۔ وہ شمالی ہندوستان میں واقع راے بریلی سے گوالیار، اجمیر اور راجستھان کے علاقے ٹونک سے ہوتے ہوئے سندھ میں حیدر آباد اور شکار پور تک اور بلوچستان میں درۂ بولان سے ہوتے ہوئے قندھار تک پہنچے، جہاں سے وہ کابل اور بالآخر درۂ خیبر کے رستے سے پشاور پہنچے۔

پشاور اور اس کے گرد ونواح (بالخصوص پنجتار) میں قیام کے دوران سید احمد نے نہ صرف دہلی اور شمالی ہندوستان کے علما اور عمائدین سے، جن کے ذریعے انھیں اس مہم کے لیے نقدی اور افرادی قوت کی رسد مل رہی تھی، بلکہ پورے افغانستان اور وسطی ایشیا کے سیاسی قائدین اور قبائلی زعما کے ساتھ بھی براہ راست رابطہ رکھا۔ ان کی اور ان کی بالائی قیادت کی اس مہم کے بارے میں کیا خیالات تھے؟ شاید اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے کردار، مشن اور دائرۂ کار کو ان لوگوں کے سامنے کیسے پیش کر رہے تھے جن سے وہ اپنی تائید اور امداد کا مطالبہ کر رہے تھے؟

سید احمد نے ہرات کے سلطان شاہ محمد کو ایک خط لکھا تھا جس کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تحریک جہاد کے ابتدائی دور کا ہے، جس میں ان چند سوالات کے جوابات کی طرف رہ نما اشارے ہیں12۔ سید احمد نے تحریک جہاد کی غرض وغایت اور تناظر کو اس انداز میں واضح کیا ہے: "جہاد کرنا اور فتنہ وفساد کو فرو کرنا ہر زمان ومکان میں ایمان کے اہم ترین ارکان میں سے ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب اہل کفر کی شورش اور سرکشی اپنی آخری حد کو پہنچ گئی ہے۔ شعائر دین مسخ ہو گئے ہیں، اور سلاطین اسلام کی حکومتیں برباد ہو گئی ہیں۔ ہندوستان کے تمام علاقوں سمیت سندھ وخراسان میں ایک عظیم فتنہ برپا ہو چکا ہے۔ اس دوران سرکش کافروں کے استیصال میں غفلت برتنا اور فسادی باغیوں13 کے کچلنے میں سستی کرنا عظیم معصیت اور بدترین گناہ ہے"14۔

اس خط میں کئی چیزیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی یہ کہ، جیسا کہ میں باب نمبر ۴ میں شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر پر بحث کے دوران نسبتاً زیادہ تفصیل سے واضح کروں گا، سید احمد نے جہاد کو جواز دینے کے لیے جس تباہی کا حوالہ دیا ہے، اس میں بجاے مسلمانوں کے علاقے چھن جانے  کے شعائر دین کے پا مال ہونے پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ان کی نظر میں عوامی دائرے میں اسلام کا کردار اور مسلمانوں کی شناخت سیاسی اقتدار یا کسی علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے برابر یا اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ دوسری یہ کہ سید احمد کی جانب سے آزادی کا مطالبہ کرنے والے علاقوں میں سندھ اور خراسان کو، جسے وہ بار بار اپنے خطوط میں دہراتے ہیں، شامل کرنے کے دو مطلب ہیں۔ پہلا یہ کہ ان کے خیال میں تحریکِ جہاد ایک بین الاقوامی مہم تھی جو کسی مخصوص علاقے بالخصوص برطانوی ہندوستان تک محدود نہ تھی۔ اور دوسرا یہ حکمتِ عملی پر مبنی اقدام تھا جس کا مقصد ان علاقوں کے سیاسی اشرافیہ کو یہ یقین دلانا تھا کہ یہ تحریک مجاہدین سے کہیں زیادہ ان کے اپنے حق میں ہے اور اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کی ہمدردی، توجہ اور تعاون حاصل کیا جائے۔

درحقیقت اپنے خطوط میں سید احمد نے بار بار بڑی نزاکت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک طرف ایک مذہبی قائد (امام) کی حیثیت سے خود کو منوانے کی کوشش کرتے ہیں  جو صرف ایک شرعی حکومت کا قیام چاہتا ہے، جب کہ دوسری طرف اپنے آپ کو ایک سیاسی حاکم (سلطان) کی حیثیت سے الگ رکھا ہے  جو موجودہ حکم رانوں اور ان کی حکومت کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔ اصل میں اس میں دور اندیشی سے زیادہ اپنے سیاسی مقاصد کے بارے میں مختلف گروہوں اور قبیلوں میں گردش کرنے والی چہ میگوئیوں کو ٹالنے کا محرک  نمایاں تھا۔ مثال کے طور پر شاہ محمود کے نام اسی خط کے آخر میں، اور دیگر افغان وپختون سرداروں کے نام خطوط میں انھوں نے اپنے دائرۂ کار کی وضاحت کچھ یوں کی ہے: "چوں کہ اہل کفر وفساد کے خلاف جہاد نصبِ امام کے بغیر ناممکن ہے، اس لیے نامور (مقامی) علماے دین نے میرے ہاتھ پر بیعت کی، اور مجھے اپنا امام بنا لیا، خطباتِ جمعہ بھی میرے نام سے پڑھے جاتے ہیں"۔ یہ تمہید باندھنے کے بعد وہ اصل بات پر آتے ہیں: "دینی امامت اور دنیوی سلطنت کے مناصب کے درمیان بہت بڑا فرق ہے"15۔

اپنے مخاطب کو مزید یقین دہانی کی خاطر لکھتے ہیں: "ایک مذہبی قائد (امام) کی تعیناتی کا مقصد صرف جہاد کرنا اور بغاوت وفساد کو دبانا ہے، نہ کہ ملکوں وشہروں کو نوآباد کرنا اور ضلعوں وعلاقوں پر قبضہ جمانا"۔ سید احمد نے اپنی بات ایک دل چسپ بیان پر ختم کی: "امام اور اس کے متبعین بذات خود مقصود نہیں ہوتے، بلکہ ان کا مقصد حکومت وسلطنت کو اس کے حق داروں تک واپس لوٹانا ہوتا ہے"16۔ سید احمد نے انتقالِ اقتدار کی اس مدت کو غیرحتمی اور مبہم چھوڑ دیا۔ تاہم ایک امام کی حیثیت سے اپنے مذہبی وسیاسی اقتدار کو سیاسی حکم رانوں کے اقتدار سے ممتاز کرنے کی کوشش سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ خطے کے بااثر افراد کی تائید حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ ان کے دعوی اقتدار کو چیلنج نہ کریں۔

ابتدا میں بظاہر یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی۔ کچھ عسکری فتوحات کے بعد، جس کے نتیجے میں خطے سے سکھوں کی پسپائی ہوئی، 1827 میں سید احمد کو مقامی سیاسی اور مذہبی عمائدین کی تائید سے امیر المؤمنین بنایا گیا۔ پشاور میں یوسف زئی قبیلے نے بطور خاص انھیں خوش آمدید کہا۔ اپنے خطوط اور تقریروں میں سید احمد اور شاہ اسماعیل دونوں اپنے نئے ماحول  کو بلاد/دیار/اوطانِ یوسف زئی سے یاد کرتے ہیں17۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حمایت وتائید میں اضافہ ہوتا گیا اور دیگرعلاقوں جیسے سوات، ننگرہار، بونیر اور پکھلی سے مختلف قبائل جیسے آفریدی، خٹک، مہمند، خلیل کے لوگ بھی شامل ہونے لگے۔ تاہم جس انداز سے سید احمد اپنے خطوط میں اپنی تحریک اور کردار کا دفاع کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دائرۂ کار کے حوالے سے مسلسل شکوک وشبہات جنم لے رہے تھے۔ مثال کے طور پر پشاور کے ایک بااثر قبائلی رہ نما یار محمد خان تھے  جن کے ساتھ سید احمد کے تعلقات میں کئی نشیب وفراز آئے اور بالآخر شدید تلخی میں بدل گئے۔ ان  کے نام1827 سے لے کر 1830 کے درمیان اپنے ایک خط میں اس نمائشی التجا کو ملاحظہ کریں: "میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں"، سید احمد نے پرزور انداز میں کہا: "میری دعوتِ جہاد اور کفر وفساد کے خاتمے کے لیے پرعزم ہونا پوری سچائی اور دیانت کے ساتھ دولت، مقام ومرتبہ، شہرت، سیاسی طاقت، اقتدار، نام ونمود اور دوسروں پر برتری کی خواہش سے آلودہ وداغ دار نہیں"۔ ایک دل نشیں استدلالی انداز میں سید احمد نے مزید واضح کیا ہے کہ انھیں اس مشن کے لیے "خدائی الہام اور غیبی اشارات کے ذریعے مامور کیا گیا ہے"18۔ اس لیے اس مشن کو آلودہ کرنے کے لیے "کسی شیطانی سرگوشی اور نفسانی خواہش کی کوئی گنجائش نہیں"19۔

سید احمد کی یقین دہانیوں کے باوجود اقتدار کے کھیل میں شریک ہو کر بھی اپنی شرکت کو ظاہر نہ کرنا ایک ایسا نازک کام تھا جس کا زیادہ دیر تک چلنا مشکل تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تحریک جہاد کو حاصل مقامی پشتونوں کی تائید کم ہوتی گئی اور بالآخر وہ کھلی مخالفت میں بدل گئی۔ تعلقات کی اس تدریجی لیکن جوہری تبدیلی میں عُشر کے ادارے کے قیام اور زیادہ مہر دینے پر پابندی جیسے قوانین کے نفاذ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے پشتون قبائلی سرداروں نے سید احمد کے پسندیدہ لقب "امیر المؤمنین" کے استعمال کو ناپسند اور مسترد کیا۔ ان کے خیال میں یہ ان کی حاکمیت کے لیے براہ راست خطرہ تھا۔

شمالی ہندوستان کے مصلحین کے لیے ان اقدامات کا مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل تھا جو قانون الہی پر کار بند ہو۔ لیکن مقامی پشتونوں کے لیے یہ قوانین عرصۂ دراز سے رائج قبائلی اقدار کے خلاف تھے، اور انھوں نے اس طرزِ حیات میں خلل پیدا  کر دیا تھا جس کے ساتھ وہ عادی تھے۔ قانون اور سماج آپس میں کس طرح تعامل کرے؟ اس سوال کی تہہ میں کار فرما فلسفیانہ اختلاف ایک نہ ختم ہونے والی دشمنی میں بدل گیا۔ یہ دشمنی اس حد تک بڑھ گئی کہ متعدد طاقت ور پشتون قبائلی سرداروں نے جب سید احمد اور ان کے پیروکاروں کو خطے سے نکالنے کے لیے ایک ہمہ گیر مہم کا آغاز کیا تو سکھوں کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کر لیے ۔ اس کا نتیجہ سیاسی اور عسکری تباہی تھا۔ چند افراد کو چھوڑ شمالی ہندوستان کے مصلحین سکھوں اور پشتونوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس مہم میں سید احمد کے ساتھ شاہ اسماعیل بھی دسمبر 1831 میں پشاور سے کچھ دو سو پچاس کلومیٹر دور قصبے بالا کوٹ میں مارے گئے۔ عبد الحی تین سال قبل 1828 میں اس وقت وفات پا چکے تھے جب تحریک جہاد کے راستے میں شدید رکاوٹیں پیدا ہو گئی تھیں۔ طُرفہ یہ کہ ہندوستان میں سید احمد کے بہت سے پیروکاروں نے ان کی موت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور یہ خیال کیا کہ وہ اپنی مافوق الفطرت صلاحیتوں کو بروے کار لا کر کہیں چھپ کر جی رہے ہیں۔ یہ بعینہ وہ رویہ تھا جس کے خلاف وہ اور شاہ اسماعیل آخری دم تک لڑتے رہے!20

تحریکِ جہاد اور اس میں بدلتی وفاداریوں اور اتحادوں کی داستان ایک اثر انگیز جاسوسی فلمی منظر نامے کے طور پر پیش کیے جانے کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ منظرنامہ پنجابیوں، پشتونوں، شمالی ہندوستان کے باسیوں، علما، جنگ جؤوں اور عامیوں کے کرداروں اور جاسوسی مشنوں، سازشی تحریکوں، سیاسی ساز باز، خیالی توقعات، خوف ناک اندیشوں اور ایکشن سے بھرپور عسکری جھڑپوں کے پلاٹوں سے بھرپور ہے۔ تحریک جہاد کی علمی اور سیاسی تاریخ، جو اہم عربی فارسی وعربی مآخذ کی روشنی میں پوری تفصیلات بالخصوص ان پانچ سالوں کے دوران سید احمد اور اسماعیل کے خطوط کے ذخیرے کو سامنے لائے، ابھی لکھا جانا باقی ہے۔ یہ تفصیلات اس کتاب کا موضوع نہیں، لیکن میں اختصار کے ساتھ اندرونی تنازعات اور اختلافات کے ساتھ ان حریف مذہبی تصورات کا کچھ حصہ دکھانا چاہتا ہوں جو تحریکِ جہاد کی بنیاد بنے اور تحریک کے دوران کئی بار باہم ٹکرائے۔ اس مقصد کے لیے میں بالاختصار ایک ایسی دل چسپ کتاب کو موضوع بحث بنانے جا رہا ہوں جو ایک ایسے شخص نے لکھی ہے  جو تحریکِ جہاد میں بھرپور شرکت کے بعد اسے بیچ راستے میں چھوڑ کر دلی واپس ہو گیا، اور اپنے ذاتی مشاہدات خود قلم بند کیے۔

ایک منحرف کی دلچسپ داستان

سید محبوب علی دہلوی (متوفی 1864۔ اس کے بعد انھیں محبوب علی لکھا جائے گا) دہلی کے ایک ممتاز حنفی عالم تھے جو اپنے عہد کے دیگر سر برآوردہ علما کی طرح شاہ عبد العزیز اور شاہ عبد القادر کے تربیت یافتہ تھے۔ محبوب علی نے 1815 کے آس پاس سید احمد سے بیعت کی جب سید صاحب دہلی میں تھے۔ وہ جون 1927 میں لگ بھگ چار سو آدمیوں کی فوج لے کر تحریکِ جہاد میں شامل ہوئے21۔ پشاور کے قریب پڑاو کے دوران محبوب علی نے سرحدی علاقے کے طول وعرض کا سفر کیا اور پوری جاں فشانی سے تحریکِ جہاد میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

اپنے قیام کے تقریباً چھ ماہ کے دورانیے میں انھیں سید احمد کی جنگی حکمت عملی اور طریقِ کار سے شدید اختلاف پیدا ہوا۔ ان کی نظر میں یہ خوف ناک حد تک سخت گیر ہونے کے ساتھ غیر محتاط طریق کار پر مبنی تھی۔ ان  کی نظر میں سید احمد کا سخت گیر اندازِ قیادت، جس میں اختلاف، تنقید اور مشورے کے لیے بہت کم گنجائش تھی، معکوس نتائج پیدا کر رہا تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ محبوب علی سید احمد کے اختیار کردہ لقب امیرالمؤمنین کو شرعی اصولوں کے خلاف سمجھتے تھے، کیونکہ شرعی اعتبار سے اس لقب کا تقاضا یہ تھا کہ سید احمد کی بیعتِ امارت سے انکار کرنے والے ہر شخص پر سزاے موت نافذ کی جائے۔  بظاہر سید احمد کو (مخالفین کے لیے) یہ سزا تجویز کرنے میں کوئی  تردد نہیں تھا۔ محبوب علی نے اپنے استدلال میں کہا: اس لقب پر پورا اترنے کے لیے ضروری ہے کہ سید احمد امیرالمؤمنین کا منصب سنبھالنے سے پہلے جنوبی ایشیا کی علما برادری سے اتفاق راے حاصل کریں۔ مزید برآں جنگی کمک کے نقطۂ نظر سے اقتدار کا ایسا بڑا دعویٰ تحریک جہاد کے لیے نہ صرف یہ کہ غیر ضروری بلکہ اس مقصد سے توجہ ہٹانے والا بھی ہے۔ پشاور میں اپنی آمد کے ایک سال بعد 1828 میں محبوب علی نے بالآخر یہ واضح کیا کہ سید احمد کے ساتھ ان کے اختلافات لاینحل ہو گئے ہیں، اور اسی وجہ سے وہ دہلی واپس آگئے22۔ اہم بات یہ ہے، اور یہ ایک ایسا نکتہ ہے جسے میں اس کی انتہائی اہمیت کے پیش نظر ایک بار پھر دہراؤں گا، کہ تحریکِ جہاد کے انتظامی امور پر سید احمد کے ساتھ بھرپور اختلاف کے باوجود وہ اس کی کامیابی کے شدید خواہاں تھے۔ سید احمد پر ان کی ذاتی تنقید تحریکِ جہاد کے سیاسی اور اخلاقی دائرۂ کار سے مجموعی وابستگی پر اثر انداز نہ ہو سکی، اور وہ سید احمد اور شاہ اسماعیل کی مشن کی کامیابی کے لیے دعا گو رہے۔

تاہم دہلی واپسی پر محبوب احمد کو سید احمد کے پرجوش حامیوں کی طرف سے زبردست ردعمل کا سامنا کرنا پڑا جو انھیں غداری اور بے وفائی کا طعنہ دے رہے تھے ۔ کچھ لوگوں نے براہ راست میدان جنگ سے اس کی واپسی کو مسلکی رنگ دیا۔ ان کی نظر میں چونکہ وہ ایک حسینی سید تھے، اس لیے سید احمد کے مشن سے ان کی وابستگی مضبوط نہیں تھی۔ اسی ردعمل اور طنز وتشنیع کے تناظر میں محبوب علی نے ایک یادگار اور ضخیم کتاب لکھی (جو اصلاً‌ فارسی میں ہے، لیکن اس کے کچھ حصے عربی میں ہیں، اور اس کی تقریباً ایک ہزار لوحات ہیں) لکھی جس کا نام "تاریخ الائمۃ فی ذکر خلفاء الامۃ" ہے23۔

اس نایاب کتاب میں، جو آج تک قلمی نسخے کی شکل میں ہے، محبوب علی نے کوشش کی ہے کہ تاریخ میں مسلمان علما پر کیے جانے والے انواع واقسام کے حملوں اور مزاحمت کی ایک علمی تاریخ لکھ کر خود اپنی تاریخ قلم بند کریں۔ انھوں نے اپنی اس کتاب کا تعارف، جسے لکھنے میں انھیں 1828 سے لے کر 1836 تک آٹھ سال کا عرصہ لگا، کچھ اس انداز میں کروایا ہے: "اس کتاب میں خدا کے خلفا کے واقعات تفصیل سے لکھ کر بتاؤں گا کہ ان کے مخالفین اور دشمنوں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟ یہ کتاب لوگوں کے لیے آخرت کی یاد دہانی کا کام بھی دے گی، اور ان کے دلوں کو اُخروی ثواب کے حصول پر آمادہ کرے گی"24۔ یہ اقتباس کتاب کے مقصد کو بالکل ٹھیک ٹھیک بیان نہیں کرتا، کیونکہ کتاب کا ایک بڑا حصہ فقہ اسلامی کی روشنی میں متنازعہ رسوم اور بالخصوص اولیاء اللہ کے مزاوروں پر حاضری (زیارت قبور) کے محاکمے کے لیے وقف ہے25۔ بہر صورت کتاب کے آخر میں محبوب علی نے ایک عینی شاہد کی حیثیت سے تحریک جہاد کے دوران اپنے تجربات ومشاہدات خاصی طوالت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔ ذیل میں محبوب علی کے اپنے الفاظ میں ان واقعات کے چند اقتباسات پیش کرتا ہوں۔ میں نے کتاب کے مختلف حصوں سے انھیں نقل کیا ہے، تاکہ قارئین کو ان کے براہ راست تجربات اور مشاہدات کا ایک منتخب لیکن معلوماتی اور نمائندہ اقتباسات فراہم کیا جا سکے۔ ذیل میں نسبتاً ایک لمبی عبارت دی جا رہی ہے، لیکن میں قارئین سے درخواست کروں گا کہ وہ اسے آخر تک پڑھنے کی زحمت کریں۔ محبوب علی اس داستان کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں:

"میں 17 شعبان 1242 ہجری (اندازاً‌  15 مارچ 1827) کو چار سو آدمیوں کو لے کر کفار سے جہاد کے ارادے سے دہلی سے روانہ ہوا۔ چند مہینے سفر کے بعد ہم بہاول پور کے رستے سے پشاور کے قرب وجوار میں واقع کھنڈ میں پہنچے۔ اس وقت مجاہدین کے امیر سید احمد پنجتار (پشاور سے تقریباً‌  130 کلومیٹر کے فاصلے پر) تھے، جبکہ عسکری کارروائیوں کے امیر ابوعمر26 اسماعیل پکھلی (جسے آج ہزارہ کہا جاتا ہے) میں تھے۔ شمالی ہندوستان، سندھ اور خراسان کے متعدد مجاہدین بھی ان کے ساتھ تھے۔ پشاور کے مقامی سردار یار محمد خان اور ان کے بھائی، سید احمد کے شدید مخالف تھے۔ ان کی مخالفت سے نمٹنے کے لیے سید احمد انھیں مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے بجائے انھیں بزور بازو اطاعت گزار بنانا چاہتے تھے۔

مجھے مسلمانوں کے دو برسرپیکار گروہوں کے درمیان فتنہ کھڑا ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جہادی اُمور الہامات کے ذریعے نمٹائے جا رہے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کے لیے شرعی طریقِ کار مشورے کا ہے۔ ایک شخص جس کا نام سید شاہ (جس نے سید احمد سے انتہائی قربت حاصل کی تھی) تھا، کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ درانی کا جاسوس ہے۔ انھی کے مشورے پر سید احمد نے اسماعیل کو (پشاور میں اپنے پاس رکھنے کے بجاے) پکھلی بھیجا، جو حکمتِ عملی کے اعتبار سے ایک بڑی غلطی تھی۔

جب میں نے یہ صورتِ حال دیکھی تو مجھے یقین ہو گیا کہ یہ آدمی (سید احمد) معاملات پر اپنی گرفت کھو رہا ہے۔ اس لیے جب میں (پنجتار میں) ان سے ملا تو میں نے انھیں خلوت میں بتایا: "اے سید! جہاد دین کا سب سے اہم ترین فریضہ ہے، اور اسے مشورے ہی سے سرانجام دیا جا سکتا ہے۔ اور جنگ (اپنے مخالفین) کے ساتھ چال چلنے کا نام ہے۔ لیکن آپ تو کسی کے ساتھ بھی چال نہیں چل رہے، اس کے بجاے آپ کے ساتھ چالیں چلی جا رہی ہیں۔ اب یہ نہ کہنا کہ میں امیر المؤمنین یا زمین پر خدا کا خلیفہ ہوں جس کی اطاعت ہر فرد پر واجب ہے۔ صبر سے کام لیں، اور مقامی لوگوں سے نفرت نہ کریں، نہ ہی اپنے منصوبے ان پر ظاہر ہونے دیں۔ اس وقت تک انتظار کریں جب ہندوستان سے بارہ ہزار مزید فوجی آپ کے ساتھ آکر شامل نہ ہو جائیں، اس وقت پوری طرح اپنے اختیارات کو بھرپور انداز میں استعمال کریں۔ میری رائے سننے کے بعد سید احمد نے مجھے جواب میں کہا: "تم میرے مقصد کو ایک ایسے وقت میں برباد کر رہے ہو جب وہ تکمیل کے قریب ہے۔ تمھیں میری اطاعت میں اس طرح خاموش رہنا چاہیے جیسے کہ یہ پہاڑ میرے سامنے خاموش کھڑا ہے"۔

میں نے انھیں التجا کی: "پشاور کے سرداروں کو مطمئن کرنے کی ذمہ داری مجھے سونپ دیجیے تاکہ وہ لوگوں کو آپ کی بیعت سے نہ روکیں، اور آپ کی فوج میں شامل ہونے والے مجاہدین کا رستہ نہ روکیں"۔ انھوں نے میری درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا: "یہ ممکن نہیں۔ یار محمد کے دل میں رتی برابر بھی ایمان نہیں۔ وہ تمھیں اسی وقت قتل کر دے گا"۔ میں نے جواب میں کہا: "اگر وہ مجھے قتل کرے پھر تو اچھا ہے۔ اس کی وجہ سے بغیر کسی شک وشبہے کے آپ کا ان کے خلاف جنگ لڑنا جائز ہو جائے گا"۔ انھوں نے جواب میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ اس لیے میں نے دوبارہ ان سے درخواست کی: "اچھا پھر مجھے 'لاہوری کتے' (رنجیت سنگھ) کے پاس نمائندہ بنا کر بھیج دیجیے۔ میرے ذریعے انھیں یہ پیغام بھجوا دیں کہ "مسلمانوں کے اصولوں کے مطابق ہم اپنے دشمنوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ یا تو اسلام قبول کریں یا (اطاعت گزاری کے ثبوت کے طور پر) جزیہ دینا قبول کریں۔ میرے ذریعے سے اس کو  یہ پیغام بھیجیں"۔ اس تجویز کے جواب میں سید احمد نے کہا: "میں ایسا نہیں کروں گا۔ وہ (رنجیت سنگھ) ہمارا مذاق اڑائے گا، اور کوئی کافر مسلمانوں کا مذاق اڑائے یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے"۔ جب میں نے معاندانہ رویہ دیکھا تو مجھ پر کھل گیا کہ یہاں پر میرا مزید قیام اختلاف وانتشار کو بڑھاوا دے گا، اس لیے میں نے سید احمد (اور تحریکِ جہاد) کو خدا حافظ کہا اور واپس دہلی لوٹ آیا27۔

ایک طرف محبوب علی شمال مغرب میں ایک ناکام عسکری تحریک سے پریشان تھے، تو دوسری طرف دہلی واپسی پر انھیں عوام کی طرف سے غدار اور واجب القتل قرار دیے جانے کی پھبتیوں نے رنجیدہ کر دیا ۔ انھوں نے پریشانی کے عالم میں لکھا ہے: "علما وحکم رانوں سے جاہلوں کی اندھی عقیدت نے دنیا کو بگاڑ کر رکھا ہے"28۔ اہم بات یہ کہ محبوب علی صرف ان لوگوں کے شاکی نہیں جنھوں نے ان پر طنز وتشنیع کی اور ان کی جان کے درپے ہوئے، بلکہ وہ ان لوگوں کے بھی شاکی ہیں جنھوں نے سید احمد پر ان کی موت سے پہلے اور بعد میں طنز وتشنیع کی اور فتوے لگائے۔ جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: "کچھ جاہل لوگوں نے مجاہدین کے امیر (سید احمد) سے بھی اپنی نفرت کا اظہار کیا، اور مجاہدین کو مفسدین سمجھا۔ ایسے تمام الزامات لگانا حرام ہے، کیونکہ یہ ملت کے سیاسی نظم کو بگاڑنے کا سبب بنتے ہیں"29۔ وہ ذرا تلخ لہجے میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے  ، جس سے جہاد کے متعلق ان توقعات پر افسوس اور خوش گمانی کا اشارہ ملتا ہے جو شرمندۂ تکمیل نہ ہو سکیں، لکھتے ہیں: "اس معاملے میں لوگوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مجاہدین کی کام یابی کے لیے ہمہ وقت دعاے خیر کریں، وہ جیسے بھی ہوں اور جہاں کہیں بھی ہوں۔ انھیں چاہیے کہ سید احمد رحمہ اللہ کے لیے دعاے رحمت کریں، کیوں کہ وہی پہلی شخصیت ہیں جنھوں نے جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند کیا اور کافروں کا سامنا کرنے میں کام یاب ہوئے"30۔

سید احمد سے محبوب علی کے قطع تعلق اور ان کی عسکری اور سیاسی بصیرت پر تحفظات کے باوجود تحریک جہاد کے برتر مقاصد اور توقعات سے متعلق ان کا حسن ظن آخر دم تک قائم رہا۔ محبوب علی کی نظر میں جنگ کا مقصد سیاسی اعتبار سے فتح یا شکست کا حصول نہیں تھا۔ اس کے بجاے ایک منصفانہ سیاسی نظام کی خواہش وجد وجہد ان کا مطمح نظر تھا۔ اپنی کہانی میں محبوب علی بظاہر تمام کرداروں میں سب سے زیادہ متاثر کن نظر آتے ہیں۔ وہ ایک دور اندیش عسکری منصوبہ ساز، علمی طور پر پختہ اور سیاسی لحاظ سے سمجھ دار تھے۔ وہ طرح طرح کی انتہا پسندانہ حملوں کا شکار ہوتے ہیں، لیکن کسی کو بھی ان کی کہانی میں پیش کردہ اندرونی تنقید کی شان دار مثال کو جاننے کے لیے پاسبانِ عقل کو رخصت دینے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ محبوب علی کی داستان سے پوری وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص بیک وقت کسی شخصیت یا تحریک کا شدید ناقد ہوتے ہوئے بھی  اس کے برتر اخلاقی اور سیاسی امکانات کے ساتھ جُڑا ہوا اور اس کا ثنا خواں ہو سکتا ہے۔

مزید برآں مسلکی اعتبار سے محبوب علی ان لوگوں کے شدید ناقد ہیں جو ایسے علما پر وہابی کا لیبل لگاتے ہیں جو شفاعتِ نبوی اور زیارتِ قبور جیسے عقائد واعمال سے روکتے ہیں۔ ان کی کتاب کا باقی حصہ شمالی ہندوستان میں "مخالف وہابی" مناظروں کی ایک کاٹ دار تنقید پر مبنی ہے۔ محبوب علی ان لوگوں کی تنقیدات پر بھی اتنے ہی برافروختہ ہیں جتنا وہ خط تقسیم کی دوسری  جانب ان لوگوں سے نالاں ہیں جو سید احمد سے میدان جہاد میں غداری کے الزام پر ان کے قتل کا مطالبہ کر رہے تھے۔ محبوب علی اپنے غصے کا رخ ان لوگوں کی طرف پھیرتے ہوئے کہتے ہیں:

یہ لوگ الزامات لگانے میں بہت بے دھڑک واقع ہوئے ہیں۔ "فلاں اولیا کی ولایت کا منکر ہے، یا وہ وہابی ہو گیا ہے"۔ ان کی اس طرح کی باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے  خود کو اولیاء اللہ سمجھنا شروع کر دیا ہے اور کسی جگہ بیٹھ کر جو بھی ان کی جی میں آتا ہے، بک دیتے ہیں۔ انھیں احساس تک نہیں کہ افترا پردازی اور بہتان تراشی ایک بُری بلا ہے، جس کی وجہ سے دین اور دنیا دونوں برباد ہو سکتے ہیں۔ وہ روافض (شیعوں کے لیے بولا جانے والا توہین آمیز لفظ جس کا لفظی معنی "منکرین" ہیں) کی طرح اپنے تمام مخالفین پر تبرّا کرتے ہیں، اور انھیں ائمۂ دین کے منکر قرار دیتے ہیں"31۔

اگر چہ محبوب علی کو حضرت فاطمہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے نسبی تعلق پر ناز ہے، لیکن ان کی مسلکی رواداری شیعہ کی تائید نہیں کرتی۔ شیعہ ان کے لیے  مسلمانوں میں  شامل ایک گروہ ہے  جو ان کی  رواداری کی حدود سے خارج ہے۔ یہ تمام نکات ایک واضح لیکن عموماً نظر انداز کردہ رائے کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ علما دیگر انسانی کرداروں کی طرح پیچیدہ اور مشکل لوگ ہیں جنھیں آسانی سے بنے بنائے خانوں تک محدود اور تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔

"خدائی مددگاروں" کا قابل اعتراض بیانیہ

اس طرح کی پیچیدگی تاریخ دان عائشہ جلال کی معلوماتی لیکن بڑی حد تک مسائل سے بھرپور کتاب Partisans of Allah میں بالکل مفقود ہے۔ ان کے نزدیک سید احمد اور شاہ محمد اسماعیل کی تحریکِ جہاد نے "مذہب بطور ایمان وعقیدہ " اور "مذہب بطور امتیازی شناخت" کو خلط ملط کر کے  "جہاد کے ساتھ جڑے اعلیٰ اخلاقی اقدار" اور عملیت پر مبنی افہام وتفہیم کو  کمزور کر دیا32۔ یہ درجہ بندیاں جو سیکولر لبرل الٰہیات کی پیداوار ہیں، مبہم ہونے کے ساتھ ساتھ نامناسب بھی ہیں۔ اس الہیات کی رو سے اچھا مذہب یا "مذہب بطور ایمان وعقیدہ" ایک ہمہ گیر داخلی واردات سے عبارت ہے۔ اس کے برعکس برا مذہب عوام کی رسوم و عبادات، امتیازی علامات اور ان علامات کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے تشدد کے استعمال سے سروکار رکھتا ہے۔

عائشہ جلال کے نزدیک سید احمد اور شاہ اسماعیل دونوں مسلم کرداروں کا وہ تسلسل ہیں جنھوں نے قرآن میں بیان کردہ جہاد کے "اعلیٰ اخلاقی اقدار" کو تج کر جہاد کو "داخلی وروحانی" مقاصد کے بجاے مادی اور عملی نتائج کے لیے استعمال کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا مادیت وروحانیت اور عملیت وتصوریت کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا ممکن ہے؟ عائشہ جلال اس علیحدگی کے ممکن ہونے پر غور کرنا بھی گوارا نہیں کرتیں۔

اچھا مذہب یعنی "مذہب بطور ایمان وعقیدہ" وہ ہے جو پرامن انداز میں روحانی تزکیے کے حدود تک محدود ہو، اور ایسے مذہب کے ہنگاموں سے بالکل دور ہو جو مذہبی اعمال کی اساس پر دوسروں سے امتیاز کا داعی ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ اپنے نظریۂ مذہب کا اطلاق نظریۂ جہاد پر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ اچھا جہاد، جہاد بالقلب یا اعلی اخلاقی اقدار کا جہاد ہے۔ اس کے برعکس برا جہاد توسیع پسندی، عملی منصوبہ بندی، مذہبی امتیازات کی تحدید اور تشدد کے استعمال کا نام ہے۔ یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد اکبر، یعنی دنیوی خواہشات اور بندھنوں سے جسم کی حفاظت وتربیت اور جہادِ اصغر یا مسلح جنگ کے درمیان فرق مسلمانوں کی علمی تراث میں موجود ہے33۔ لیکن فقہ اسلامی اور تصوف کے درمیان تعلق کی طرح جہاد اکبر واصغر کا باہمی  تعلق بھی تقابل اور تقسیم (binary) کے بجاے درجہ بندی  (hierarchy) کا  تعلق ہے۔

عائشہ جلال نے سید احمد کی تحریک جہاد کی ناکامی اور مسلمانوں کے روحانی زوال کی جو وجوہات بیان کی ہیں، ان کا تعلق مسلمانوں کی تاریخ کے عروج وزوال کے ایک مشہور عام بیانیے کے ساتھ ہے۔ اس بیانیے کے مطابق قرآن میں عدل وانصاف پر مبنی اور اخلاقی طور پر جہاد کا جو ایک ترقی یافتہ تصور دیا گیا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ کم زور ہو گیا۔ یہ اس لیے ہوا کہ مسلمان علما سیاسی فوائد اور سیاسی اشرافیہ کے اقتدار کے کھیلوں پر فریفتہ ہو گئے، جس نے جہاد کے اخلاقی تصورات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اور اسے سیاسی اور مادی مقاصد کے لیے ایک دنیوی ہتھیار میں بدل دیا۔ عائشہ جلال کے اپنے الفاظ میں: "مسلمان معاشرے کی نمائندہ شخصیات نے اسلامی عقیدے کے ایک فطری جُز کی حیثیت سے اخلاقیات کو حاشیے کی طرف دھکیل دیا۔ اس طرز عمل کے مضمرات اس وقت زیادہ واضح ہوئے جب اسلامی قانون نے خود کو ان اخلاقی تصورات سے بالکل الگ کردیا جو قرآن میں بیان کیے گئے تھے۔ رفتہ رفتہ جہاد کا وسیع قرآنی تصور غائب ہو گیا، اور اسلام کی فقہی روایت میں اس نے ایک محدود مفہوم اختیار کر لیا۔ قدیم فقہی مصادر جہاد کے روحانی اور اخلاقی مفاہیم سے پہلو تہی کرکے جنگ کے مادی پہلوؤں پر زیادہ زور دیتے ہیں"34۔

اخلاقی اور مادی امور کے درمیان تفریق اور خالص مذہب کے بنیادی ماخذ کے طور پر قرآن کریم کی ظاہری تکریم، جسے بعد میں آنے والی نسلوں کے فقہا نے آلودہ کر دیا- یہ وہ مواقف ہیں جن سے  کسی انتہائی متشکک پروٹسٹنٹ کے چہرے پر بھی خوشی سے  مسکراہٹ بکھر جائے گی۔ اسلامی تاریخ کے حوالے سے بھی عائشہ جلال کا مطالعہ ان کے اپنے الفاظ میں "اسلام کی فارسی اور عربی شکلوں" کے درمیان لسانی ونسلی کش مکش کے ایک سراسر محل نظر موقف پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق "فارسی اثرات عام ہوئے، اور آج تک موجود ہیں، جب کہ عربوں کے اثرات نے شدت پسند مذہبی تحریکوں کی شکل اختیار کر لی35"۔ یہ ایک مضحکہ خیز رائے ہے۔ شدت پسند مذہبیت اور فارسی رواداری کے درمیان ایک دوگانہ (binary) تقابل تاریخی اور علمی اعتبار سے بے سروپا ہے36۔

عمومی طور پر عائشہ جلال کا علمی منہج بھی سید احمد اور شاہ اسماعیل کی تحریک جہاد کے تجزیے کی بنیاد ہے۔ تحریک جہاد کے حوالے سے غلام رسول مہر (سید احمد کے سوانح نگار) کے کام کا بڑی محنت کے ساتھ ایک مفید خلاصہ پیش کرنے کے بعد عائشہ جلال ایک الٰہیات دان کا لبادہ اوڑھ کر سید احمد اور شاہ اسماعیل کو "جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کے شعور کو آلودہ کرنے" پر لعنت ملامت کرتی ہیں37۔ وہ مزید دعویٰ کرتی ہیں کہ: "انھوں نے اپنی تعلیمات کے روحانی پہلو کو خیرباد کہا، اور اپنے گرتے مقصد کو سہارا دینے کے لیے انسانی دل کے بدترین جذبات کو مخاطب بنایا"38۔ اس دوران وہ شارحین میں سب سے زیادہ ماہر اور غیر جانب دار ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر(م 1900) کے، جو استعماری دانش کا نچوڑ ہے، بے کم وکاست حوالے دیتی ہیں! جی ہاں، کوئی اور نہیں، بلکہ  ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر!

مناظرے کے اَکھاڑے میں باضابطہ اترنے کے اعلان کے بعد عائشہ جلال سید احمد اور شاہ اسماعیل کے "مداحوں کے جھرمٹ" کو چیلنج کرتی ہیں کہ وہ "ہنٹر کے چبھتے ہوئے الزامات کا جواب دیں"39۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجھے سید احمد کی تحریکِ جہاد کے دفاع یا قرآن کریم کے "اعلی اقدار" سے اس کی اخلاقی ہم آہنگی یا انحراف میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ایسی کوئی کاوش مذہب کے علمی مطالعے کے ساتھ بالکل میل نہیں کھاتی۔ اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ میرے پاس وہ دینی مہارت نہیں جو اس طرح کی کسی سرگرمی کے لیے ضروری ہے۔ اس کے بجاے میری دلچسپی مخصوص کرداروں کو یک رُخے افراد  کے طور پر پیش کرنے، جن کے پیش نظر صرف سیاسی مقاصد تھے،  اور ان کی فکر، کتابوں اور علمی زندگی کی تفصیلات یا باریکیوں کو توجہ نہ دینے کی علمی اور تاریخی کمزوری کی نشان دہی کرنے سے ہے۔ اس طریقِ کار سے جہاد اور بطورِ خاص برصغیر کے اسلام کی کوئی گہری اور درست  تصویر پیش کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ قاری حیرت میں ڈوبا رہتا ہے کہ اس کتاب میں "خدائی طرف دار" سے آخر کون لوگ مراد ہیں: مصنفہ کے زیرِ تحقیق لوگ یا خود مصنفہ؟

جہاد وتشدد اور سیاسیات سے ان کے قریبی تعلق کے ایک نسبتاً زیادہ عمیق اور مفید تصور کے لیے بجا طور پر طلال اسد کی بصیرت افروز کلاسیک On Suicide Bombing کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس پوری تحریر میں طلال اسد ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسیات اور تشدد کے بارے میں عام طور پر فرض کردہ تضاد کے بارے میں تنقیدی سوچ سے کام لیں اور اس پر سوال اٹھائیں۔ یہ فرض کردہ تضاد مغرب کی لبرل سیاسیات کی معقولیت اور خود کش بمبار کی شکل میں پرتشدد غیر لبرل کرداروں کی نامعقولیت کے موازنے کو جائز قرار دیتا ہے۔ On Suicide Bombing خود ستائی پر مبنی ایسے لبرل بیانیے کے خلاف ایک زبردست فردِ جرم ہے40۔ طلال اسد نے جس طرح سے جہاد اور سیاست کے ناقابلِ علیحدگی تعلق کے بارے میں سیاسی مفکّرہ روزین یوبن (Roxanne Euben) کے تجزیے کو استعمال کیا ہے، یہاں پر وہ میرے لیے بہت اہم ہے۔

وہ لکھتی ہیں: "جہاد نہ تو دنیوی طاقت کے حصول کی ایک اندھی اور خونی ذہنیت کی جد وجہد ہے، نہ ہی اُخروی زندگی میں داخل ہونے کا کوئی دروازہ ہے۔ اس کے بجائے یہ سیاسی کارروائی کی ایک صورت ہے، جس میں، حنہ ارنت (Hannah Arendt) کی اصطلاح میں، ابدی زندگی کا حصول پوری گہرائی کے ساتھ ناگزیر طور پر ایک دنیوی جدوجہد سے جڑا ہوتا ہے- اور وہ زمین پر ایک منصفانہ معاشرے کا قیام یا بحالی ہے"41۔ اسد اور یوبن، سید احمد اور اسماعیل کی تحریکِ جہاد میں کار فرما اخلاقی اور سیاسی پروجیکٹ کے لیے ایک انتہائی مفید علمی منہج فراہم کرتے ہیں۔ "شدت پسند" اسلام کی عینک سے یا اس کے اخلاقی پہلوؤں سے اس تحریک پر کلی انداز میں تنقیدی حکم لگانا اس کے سیاسی کردار اور ثمرات کے نسبتاً زیادہ گہرے مطالعے کی راہ میں رکاوٹ میں پیدا کرتا ہے۔

مابعد نوآبادیاتی تشریحات

ایک بار پھر شاہ اسماعیل کی طرف واپس آتے ہیں۔ تحریک جہاد، جس کے لیے انھوں نے اپنی جان قربان کی، ان کی زندگی کے دیگر پہلوؤں کی طرح متضاد تشریحات کا موضوع بن چکی ہے جن کے لیے مسلکی اختلافات اور مابعد نوآبادیاتی قومی بیانیے ایندھن کا کام دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کے نزدیک سکھوں کے خلاف شمالی ہندوستان کی تحریکِ جہاد دینی اصلاح کا ایک اہم دور تھا، جو صرف مقامی پشتون قبائل اور ان کے سرداروں کی غداری کی وجہ سے ناکام ہوئی  جو اپنے "نجات دہندگان" کے درپے ہو گئے تھے42۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق "شہداے بالاکوٹ" نے، باوجود اپنی عسکری ناکامی کے، جنوبی ایشیا میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے مستقبل میں کی جانے والی تمام کوششوں کے لیے راستہ ہموار کیا۔ بیسویں صدی کے مشہور ہندوستانی-پاکستانی اسلام پسند سیاسی مفکر اور جماعت اسلامی کے بانی سید اَبوالاعلی مودودی (م 1979) نے ایک مقام پر لکھا ہے: "جنوبی ایشیا میں اسلام کی بارہ سو سالہ تاریخ میں سید احمد بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید کی برپا کردہ تحریک کو صحیح معنوں میں جہاد کہا جا سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے مسلمان حکم رانوں نے متعدد جنگیں لڑیں، لیکن ان میں سے کوئی حکم الٰہی کی اساس پر نہیں تھی۔ یہ محض جنگیں تھیں نہ کہ اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد۔ بس یہی دو شخصیات ہیں جنھوں نے اپنے تمام ذاتی اور سیاسی مقاصد کو بالاے طاق رکھا اور خدا کی زمین پر خدا کے نظام کو نافذ کرنے کے لیے جنگ لڑی"43۔

تاہم یہی کہانی جب شاہ اسماعیل کے مخالفین مثلاً بریلوی حضرات بیان کرتے ہیں تو یہ مکمل طور پر ایک مختلف بیانیے میں بدل جاتی ہے۔ اس بیانیے کے مطابق شاہ اسماعیل اور ان کے رفقا نے سیاسی طاقت کے حصول کے لیے ایک ایسے سماج میں، جس میں دیگر مسلمان بس رہے تھے، خون ریزی اور فتنہ وفساد برپا کرنے کی ایک افسوس ناک نظیر قائم کی۔ مزید یہ کہ اگر وہ حقیقت میں مسلمانوں کو غیر مسلموں کی حکومت سے نجات دلانا چاہتے تھے تو انھوں نے سکھوں سے لڑنے کے لیے سینکڑوں میل کا سفر کرنے کے بجاے شمالی ہندوستان کے اندر ہی برطانوی استعمار کے فوری خطرے کو ٹالنے کے لیے اپنی توانائیاں کیوں صرف نہیں کیں44۔ اس کہانی سے معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت تحریکِ جہاد کے اصل بانی برطانوی ایجنٹ تھے جن کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں میں فکری اور مسلکی اعتبار سے پھوٹ ڈالنا تھا۔

جواب میں سید احمد اور شاہ اسماعیل کے حامی ان کی تحریروں سے ایسے حوالے دینے میں پھرتی دکھاتے ہیں جو انگریزوں کی مخالفت میں ہوتے ہیں۔ سید احمد کے خطوط وخطبات دونوں کے مجموعوں کے تعارف میں ان لمحات کا ذکر ہوتا ہے جس میں انھوں نے انگریزوں کو برا بھلا کہا ہوتا ہے، یا ان سے لڑنے کی خواہش کا اظہار کیا ہوتا ہے۔ سید احمد انھیں گاہے گاہے "کفار فرنگ" یا "ذلیل عیسائیوں" سے یاد کرتے ہیں۔ مثلاً اگست 1827 میں امیرِ بخارا نصر اللہ خان (م 1860) کے نام کچھ طویل خط میں سید احمد نے انگریزوں کا کئی بار نسبتاً ناگواری کے انداز میں ذکر کیا ہے، اور ایک مقام پر لکھا ہے: "فرنگی کافر جنھوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا ہے، اور انتہائی تجربہ کار، ہوشیار، فریبی اور مکار ہیں"45۔

لیکن انگریزوں سے شاہ اسماعیل اور سید احمد کے تعامل سے متعلق الزامی اور دفاعی دونوں قسم کے بیانیوں کا حاصل ان کرداروں پر قوم پرستانہ خواہشات اور اندیشوں کو تھوپنا ہے جنھوں نے سیاسیات کو جدید ریاست کی محدود عینک سے کبھی دیکھا نہیں۔ مثلاً اَمیرِ بُخارا کے نام اپنے خط میں انگریزوں پر سید احمد کی کاٹ دار تنقید میں ایک سامراج مخالف غصہ کم اور امیر کو برطانوی اقتدار کے منڈلاتے خطرے کے بارے میں تنبیہ زیادہ نمایاں ہے۔ یہ دراصل ایک ماوراے سرحدات تحریک جہاد کو سندِ جواز فراہم کرنا تھا جس کی قیادت سید احمد خود کر رہے تھے اور جس کا پہلا مرحلہ سکھوں سے لڑائی تھی۔ اس تحریک پر "انگریز کے ایجنٹ" یا "سامراج مخالف" کی باہم متقابل سیاسیات (binary politics) کا بآسانی اطلاق نہیں ہو سکتا۔ بہر صورت شاہ اسماعیل کے موافقین ومخالفین دونوں اپنے اُن فکری رجحانات مثلاً سامراج مخالف قوم پرستانہ سیاسیات کی روشنی میں ان کا تذکرہ کرتے ہیں جن کے وہ قائل نہ تھے۔ ان کا تذکرہ دو حریف بیانی مناہج کے درمیان معلق رہتا ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ جب "شاہ محمد اسماعیل" کا نام مختلف بیانی تصورات میں داخل کیا جاتا ہے تو بعض لوگوں کے ہاں وہ "دیوبندی فکر کے پیش رو"، "جنوبی ایشیا کی اسلامی تاریخ کے پہلے حقیقی شہید" (جیسا کہ مودودی صاحب کا نقطۂ نظر ہے)، اور بعض کے ہاں "اولین ہندوستانی وہابی" وغیرہ بن جاتے ہیں۔ ان میں سے بعض تعریف وتوصیف اور کچھ مذمت وتردید کے پل باندھتے ہیں، لیکن ان دونوں میں جو بات مشترک ہے، وہ یہ بیانی خواہش ہے کہ تاریخ کے ہنگامے سے شاہ اسماعیل کے ورثے کی ایک متعین تفہیم اخذ کی جائے۔ آنے والی بحث میں مجھے اس تراث کے لیے تاریخیت (historicity) پر مبنی حل کی تلاش یا اس کی تفہیم کے لیے کوئی دوسرا بیانیہ تشکیل دینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ درحقیقت شاہ اسماعیل کی شخصیت سے جڑے کثیف مناظرانہ تناظرات کو دیکھتے ہوئے یہ ناممکن ہے کہ تاریخی طور پر اس تنازع کا حل نکالا جائے جو ان کے ذکر چھیڑتے ہی کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے بجاے یہ زیادہ نتیجہ خیز ہوگا کہ ان کی تراث کا اس طرح سے جائزہ لیا جائے جو ان کے اپنے سماجی تصورات کو واضح کرے، اور ان کی زندگی سے متعلق انواع واقسام کے خود ساختہ مفروضوں کی کمزوری کو نمایاں کرے۔ اس طریق کار کی روشنی میں جن اہم ترین موضوعات پر بحث کی ضرورت ہے، ان میں سے ایک خدائی حاکمیت (توحید) سے متعلق ان کے نظریات ہیں، جن پر میں اگلے صفحات میں بحث کروں گا۔


حواشی

    1. حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) پر ان کی بے حد مقبول اور خوف ناک حد تک متنازع کتاب تقویۃ الایمان کے علاوہ اسماعیل کی دیگر نمایاں کتابوں میں عبقات، جو (وحدت الوجود کے موضوع پر) شاہ ولی اللہ کی کتاب لمعات  کی شرح ہے؛ منصبِ امامت، جس کا موضوع سیاستِ شرعیہ ہے (جس پر باب چہارم میں تفصیلی بحث آ رہی ہے)؛ اور ایضاح الحق، جو بدعت کے تعبیری اصولوں اور فقہی قواعد سے متعلق ہے، شامل ہیں۔

    2. بانیانِ دیوبند کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل کے پرجوش حامیوں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خان اور بیسویں صدی کے نامور عالم مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (م 1999) بھی شامل ہیں۔ مولانا ندوی نے ان کی کتاب تقویۃ الایمان کا عربی ترجمہ کیا اور انھیں مشرق وسطی میں مقبول عام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

    3. بحوالۂ سید محمد نعیم الدین، اطیب البیان فی رد تقویۃ الایمان، (بمبئی: رضا اکیڈمی، 1998)، 206۔

    4. شاہ اسماعیل پر یہ بھی الزام ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان اٹھارھویں صدی عیسوی کے عرب مصلح محمد بن عبد الوہاب کی معروف کتاب التوحید سے سرقہ کی ہے۔ تاہم اس دعوے کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا، جو اسماعیل کو محمد بن عبد الوہاب کے متبعین یا فکر سے جوڑتا ہو۔

    5. نعیم الدین، اطیب البیان فی رد تقویۃ الایمان، 38۔

    6. تھانوی، ارواح ثلاثہ، 74۔

    7. ایضاً، 75۔

    8. ایضاً۔

    9. ایضاً۔

    10. شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر (لاہور: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، 2014)، 21۔

    11. ایضاً، 37۔

    12. اس خط کا تعلق سید احمد کے (اور شاہ اسماعیل کے چند) خطوط، تقاریر اور خطبات کے اس مجموعے سے ہے جسے مولانا غلام حسین نامی شخص نے سید احمد کی وفات کے تقریباً پچاس سال بعد 1883 میں اپنے ہاتھ سے نقل کیا۔ غلام حسین کا تعلق پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تھا، اور وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا، جس کا سید صاحب کے علمی شجرے سے قریبی تعلق تھا۔ ایک کامل عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے  بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے ہاتھ سے اس طرح کی دیگر کئی نایاب کتب نقل کیں۔ ان کا کتب خانہ، جس کی حفاظت کا اہتمام ان کے جانشین نہ کر سکے، لاہور کے ایک تاجرِ کتب عبد الرشید نے خریدا اور پھر 1975 میں انھی کے اشاعتی ادارے مکتبہ رشیدیہ سے غلام حسین کے نقل کردہ نسخے کا قلمی نسخہ چھپا۔ اس بحث میں، میں نے قلمی نسخے کی صورت میں چھپنے والی کتاب پر انحصار کیا ہے۔

    13. فسادی باغیوں سے سید صاحب کی مراد افغانستان اور خراسان کے "باغی" قبائل اور گروہ ہیں۔ یہ ایک نعرہ تھا جس کے ذریعے انھوں نے تحریکِ جہاد کو علاقائی طور پر مقبول بنانے کی کوشش کی۔

    14. سید احمد شہید، مکاتیبِ سید احمد شہید (لاہور: مکتبہ رشیدیہ، 1975)، 18۔

    15. ایضاً۔

    16. ایضاً۔

    17. مثال کے طور پر دیکھیے: ایضاً، 18؛ شاہ محمد اسماعیل، مکتوباتِ شاہ اسماعیل دہلوی، غیر مطبوعہ قلمی نسخہ، ایم ایس 102، ص 26، پنجاب یونیورسٹی لائبریری کے قلمی نسخوں کا سیکشن، لاہور۔

    18. سید احمد، مکاتیب، 13۔

    19. ایضاً۔

    20. پشتونوں کے شمال مغربی خطے میں سید احمد اور ان کی تحریک کے آثار کے لیے ثنا ہارون کی عمدہ تحقیق بعنوان: Frontier of Faith: Islam in the Indo-Afghan Borderland ملاحظہ فرمائیں۔ پشتون قبائل کے نقطۂ نظر سے تحریکِ جہاد کی ایک دل چسپ تاہم بعض مقامات پر دستاویزی تحقیق کے لیے ملاحظہ فرمائیں: الطاف قادر، Sayyid Ahmad Barailvi: His Movement and Legacy from the Pakhtun Perspective (نیو دلی: سیج پبلی کیشنز، 2015)۔

    21. خوشتر نورانی، برٹش گورنمنٹ اور تحریک جہاد: ایک تحقیقی مطالعہ (دہلی: ادارۂ فکر اسلامی، 2014) 55-152۔

    22. ایضاً، 155-56۔

    23. یہاں پر کیے گئے تجزیے کے لیے میں نے اس کتاب کے دو نسخوں کے مختلف حصوں سے استفادہ کیا ہے۔ پہلا نسخہ تقریباً دو سو لوحات پر مشتمل ہے جس میں محبوب علی نے زیادہ تر بحث زیارتِ قبور پر کی ہے۔ اور دوسرا نسخہ معاصر محقق خوشتر نورانی کی کتاب "برٹش گورنمنٹ اور تحریک جہاد" میں عربی میں محبوب علی کے عینی مشاہدات کی تدوینِ جدید ہے۔ خوشتر نورانی کی تحقیق کا مقصد سید احمد کی تحریک جہاد کو برطانوی استعمار کو ایک سہولت کار کے طور پر ثابت پیش کرنا ہے، اور اس سے بظاہر اس تحریک کے ایک منحرف کے آنکھوں دیکھے حال میں ان  کی دل چسپی کی وجہ واضح ہوتی ہے۔ تاہم محبوب علی کی یاد داشتیں علی الاطلاق نورانی صاحب کے پراجیکٹ کے حق میں نہیں۔ بہر صورت میں نے بنیادی طور پر نورانی صاحب کے کام سے استفادہ محبوب علی صاحب کی کتاب کے چیدہ مباحث تک رسائی کے لیے کیا ہے جو بد قسمتی سے اس قلمی نسخے میں شامل نہیں تھے جو میرے پیشِ نظر تھا۔ جس وقت یہ کتاب اشاعت کے لیے پریس میں جا رہی تھی، اس وقت یہ قلمی نسخہ میری رسائی سے باہر تھا۔ میں پروفیسر جاوید مجددی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے تاریخ ائمہ کی دست یابی اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کیا۔

    24. دیکھیے خوشتر نورانی کی کتاب تحریک جہاد میں: سید محبوب علی، تاریخ الائمۃ فی ذکر خلفاء الامۃ، ص 157۔

    25. سید محبوب علی، تاریخ الائمۃ فی ذکر خلفاء الامۃ، قلمی نسخے کی تصویر 319، پنجاب یونیورسٹی لائبریری کا ذخیرۂ مخطوطات، لاہور۔

    26. ابو عمر بیٹے کی نسبت سے شاہ اسماعیل صاحب کی کنیت تھی۔

    27. سید محبوب، تاریخ الائمۃ، نورانی کی تحریک جہاد کے ضمن میں، ص 183-196۔

    28. ایضاً، 194۔

    29. ایضاً۔

    30. ایضاً، 195۔

    31. سید محبوب، تاریخ الائمۃ، لوحات 2-3۔ (ترجمے میں فارسی متن کو بنیاد بنایا گیا ہے، مترجم)

    32. عائشہ جلال، Partisans of Allah: Jihad in South Asia (کیمبرج ایم اے: ہاورڈ یونیورسٹی پریس، 2008)، 16۔

    33. جہاد پر مسلمانوں کی ماقبل جدید اور جدید علمی کاوشوں کے لیے ملاحظہ فرمائیں: جوناتھن بروکوپ (مرتب)، Islamic Ethics of Life: Abortion, War and Euthanasia (کولمبیا: یونیورسٹی آف ساوتھ کیرولینا پریس، 2003)۔ نیز دیکھیے: پال ہِک، “Jihad” Revisited، جرنل آف ریلیجیس ایتھکس 32، نمبر 1 (بہار 2004): 95-128۔

    34. عائشہ، Partisans of Allah، 8 -9۔

    35. ایضاً، 36۔

    36. اسلامی فکر وتاریخ کے اس طرح کے نسلی ولسانی مطالعے میں موجود مسائل کے لیے دیکھیے: گریگَری لپٹن، Rethinking Ibn Arabi (نیو یارک: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2018)۔ عربی شدت پسندی/فارسی رواداری کے باہمی تضاد (binary) تصور بالخصوص برصغیر کے تناظر میں موجود چند فکری اور تاریخی نقائص کے لیے دیکھیے: سیما علوی، Sher Ali Tareen, Review of Muslim Cosmopolitanism in the Age of Empire، انٹرنیشنل جرنل آف ساوتھ ایشین سٹڈیز 15، نمبر 1 (جنوری 2018): 126-31۔

    37. یہاں پر ان تقابلات: عقیدہ/ایمان، اندرونی/بیرونی، تصوراتی/عملی، دینی/دنیوی، کلی/جزئی اور جہاد کے تناظر میں سب سے زیادہ مناسب: تشدد/سیاسیات میں کار فرما سیکولر لبرل تصورات پر ایک نظر ڈالیں۔ عام طور پر یہ بالکل ایک سادہ انداز میں پیش کیے جاتے ہیں۔

    38. ایضاً، 106۔

    39. ایضاً۔

    40. طلال اسد، On Suicide Bombing (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009) 7-64۔

    41. روزین ایل یوبن، Jihad and Political Violoence، کرنٹ ہسٹری 101 (نومبر 2002): 365۔

    42. اس نقطۂ نظر کی بہترین ترجمانی کے لیے دیکھیے: شیخ محمد اکرام، موجِ کوثر۔

    43. عبد اللہ بٹ، شاہ اسماعیل شہید (لاہور: تعمیر پرنٹنگ پریس، 1974)، 19 پر سید ابوالاعلی مودودی کا پیش لفظ۔

    44. اس قسم کے بیانیوں کی ایک عمدہ مثال کے لیے ملاحظہ کیجیے: غلام راجا، امتیازِ حق: فضل حق خیر آبادی اور شہید دہلوی کے سیاسی کردار کا تقابلی جائزہ (لاہور: مکتبۂ قادریہ، 1979)۔

    45. سید احمد، مکاتیب، 28۔


جون ۲۰۲۲ء

تحریک انصاف کا بیانیہ: بنیادی سوالمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۹)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مشائخ احناف کے تصور دلالۃ النص پر چند سوالاتڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل 
سلامتی کونسل اور امارت اسلامی افغانستانمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
دستور کا احترام اور اس کے تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
آئین کی رو سے احمدیوں کے مذہبی حقوقڈاکٹر محمد مشتاق احمد 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۶)ڈاکٹر شیر علی ترین 

تحریک انصاف کا بیانیہ: بنیادی سوال

محمد عمار خان ناصر

سماجی نفسیات اور منطق واستدلال کے اصولوں سے تھوڑی بہت دلچسپی کی وجہ سے میں اس سوال پر غور کرتا رہتا ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی پر سیاسی تنقید جن بنیادوں پر کی جا رہی ہے، وہ کیوں خان صاحب اور ان کے ہمدردوں اور سپورٹرز کو اپیل نہیں کرتی۔ اس تنقید کا غالباً‌ سب سے نمایاں پہلو خان صاحب کے قول وفعل کا تضاد یا دوہرے اخلاقی یا سیاسی معیارات ہیں۔ یعنی وہ جن بنیادوں پر مخالفین پر تنقید کرتے ہیں، خود انھی کاموں کو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کئی ایسی چیزوں کا خود اعتراف بھی کرتے ہیں، جیسے مثلاً‌ ارکان پارلیمنٹ کی وفاداریاں خریدنا یا سیاسی جوڑتوڑ یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی عمل میں مداخلت وغیرہ کے سوالات ہیں۔

غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تنقید دراصل خان صاحب اور ان کے حامیوں کے اصل بیانیے کو موضوع ہی نہیں بناتی۔ اگر اس پورے بیانیے کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ بنیادی طور پر متعارف سیاسی اخلاقیات یا جمہوری تصورات یا آئینی ضابطوں کی پابندی کی کہیں بھی کمٹمنٹ نہیں کرتا جن کو توڑنا یا ان کی خلاف ورزی کرنا ان کے نزدیک کوئی قابل اعتراض عمل ہو۔ عمران خان کا بیانیہ بنیادی طور پر ایک ’’اخلاقی “ بیانیہ ہے جو سیاسی اصول وضوابط سے بالاتر ہے اور مروجہ سیاسی اصول اور نظام اس بیانیے کی تکمیل کے لیے محض ایک ذریعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بیانیہ بالکل صاف اور واضح ہے اور یہ کہتا ہے کہ موجودہ سیاسی قوتیں اخلاقی طور پر اقتدار میں آنے کا حق نہیں رکھتیں اور انھوں نے طاقت کے زور پر معاشرے اور ریاستی نظم میں جو اثر ورسوخ پیدا کر رکھا ہے، ریاست کے تمام اداروں بشمول فوج اور عدلیہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس کو ختم کرنے میں عمران کی مدد کرے۔ اس اعلی تر مقصد کے لیے عمران خان کو الیکٹیبلز کو ساتھ ملانا پڑے یا کچھ کرپٹ عناصر کو دے دلا کر ان کی تائید حاصل کرنی پڑے تو یہ ایک عملی مجبوری اور ضرورت ہے۔

اس سادہ اور واضح بیانیے کو پیش نظر رکھا جائے تو بالکل سمجھ میں آ جاتا ہے کہ قول وفعل کے تضاد کی تنقید کیوں اس بیانیے میں کوئی بڑا ڈینٹ نہیں ڈالتی۔ اخلاقی وجمہوری اصولوں کی پاسداری یا پامالی اس بیانیے کا بنیادی استدلال ہے ہی نہیں۔ بنیادی استدلال ایک خاص تعریف کے مطابق ’’ایماندار “ اور ’’کرپٹ “ ہونا ہے۔ ایماندار سیاسی طاقت ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو چونکہ اس کا مقصد درست ہے، اس لیے اس اعتراض کا کوئی وزن نہیں۔ مخالف سیاسی طاقتوں کا بنیادی مقصد چونکہ غلط ہے، اس لیے یہ تمام طریقے اگر وہ استعمال کریں تو وہ قابل اعتراض ہیں۔ یہ موقف چاہے پی ٹی آئی کے حامی زبان سے واضح طور پر بیان کریں یا نہ کریں، ان کی ذہنی تفہیم بہرحال یہی ہے۔

اس لحاظ سے، میرے خیال میں پی ٹی آئی کے بیانیے پر اب تک کی غالب سیاسی تنقید ناکافی ہے۔ اس تنقید میں بنیادی نکتے کو موضوع نہ بنانے کا نقصان یہ ہے کہ فکری پولرائزیشن گہری ہوتی جا رہی ہے اور پی ٹی آئی کے لوگ سرے سے یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ آخر پورا ریاستی سسٹم اور ملک کی بہت بڑی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی سیاسی قوتیں ہاتھ دھو کر عمران خان کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہیں۔ ان کے نزدیک اس کی ایک ہی تفہیم باقی بچتی ہے، یعنی حق کے مقابلے میں باطل کا مجتمع ہو جانا اور قومی آزادی کے سوال پر بیرونی طاقتوں کا مقامی میر جعفروں کی سرپرستی کرنا۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کو سیاسی بحث ومباحثہ میں موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔


تحریک طالبان پاکستان اور القاعدہ نے پاکستانی ریاست کے خلاف جو بیانیہ پیش کیا تھا اور جس سے ایک پوری نسل متاثر ہوئی، اس کے بنیادی التباس کو نہ سمجھنے بلکہ اس کا شکار ہو جانے کی وجہ سے پوری مذہبی فکر آرمی پبلک اسکول پشاور  کے اندوہناک واقعے تک دو ذہنی اور تضاد کا نمونہ بنی رہی اور اپنے گول مول موقف سے دہشت گردی کے بیانیے کو بالواسطہ تائید مہیا کرتی رہی۔

بیانیہ بڑا واضح اور جذباتی لحاظ سے بہت طاقتور تھا: ایک کافر ملک نے ایک مسلمان ملک پر حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے شرعاً‌ جہاد فرض ہو چکا ہے۔ افغانستان کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے مسلمانوں پر بھی جہاد فرض ہے۔ ریاست پاکستان نے اس کے بالکل برعکس، امریکی کیمپ کا حصہ بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے جو شرعاً‌ کفر ہے۔ اس لیے پاکستانی ریاست اور اس کے نمائندہ اداروں کا حکم بھی کفار کا ہے جن کے خلاف جہاد فرض ہے۔

اس دوٹوک اور انتہائی طاقتور بیانیے کا مذہبی فکر کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، کیونکہ سارے مقدمات اسلامی فقہ سے ہی ماخوذ تھے۔ علماء کرام اور ساری مذہبی جماعتیں ایک طرف یہ کہتی رہیں کہ ہم اس موقف کی حمایت نہیں کرتے، کیونکہ اس سے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچے گا، لیکن ان کے پاس استدلال کو رد کرنے کی نہ جرات تھی اور نہ علمی بنیاد۔ چنانچہ یہ کہہ کر ایک طرح سے اس کو تائید ہی مہیا کی جاتی رہی کہ یہ ردعمل ریاست کے غلط فیصلے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، اس لیے ریاست کو ان عناصر کے خلاف اقدام کے بجائے اپنی پالیسی کو تبدیل کرنا چاہیے۔

ہمارے نزدیک بالکل یہی صورت حال آج پی ٹی آئی کے بیانیے کی بن چکی ہے اور اس پر درست سوال نہ اٹھانے کی وجہ سے قوم کا ایک بڑا حصہ عمران خان کے گمراہ کن بیانیے کا شکار ہو چکا ہے۔

ٹی ٹی پی اور عرب عسکریت پسندوں کے تکفیری بیانیے کا مین اسٹریم مذہبی فکر کے پاس تو، جیسا کہ عرض کیا گیا، ذہنی الجھاؤ اور تضاد فکری کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔ البتہ متعدد اہل علم نے فقہی وکلامی اور سیاسی واخلاقی اصولوں کی روشنی میں اس کو موضوع بنایا اور اس کی غلطی واضح کی۔ اس ضمن میں ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب اور ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کی تحریریں کتابی صورت میں بھی دستیاب ہیں۔ راقم نے بھی ایک تسلسل کے ساتھ اس بیانیے کے مختلف پہلوؤں پر تنقیدی معروضات پیش کیں جنھیں ایک مجموعے کی شکل دینے کا کام جاری ہے۔

میری تنقید میں ایک اہم سوال جو اٹھایا گیا، وہ یہ تھا کہ کسی بھی صورت حال کی نوعیت اور اس میں مسلمانوں کی دینی ذمہ داری متعین کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ عسکریت پسند صورت حال پر جو شرعی حکم لگا رہے ہیں اور اس کی روشنی میں مسلمانوں کی ذمہ داری طے کر کے خود کو اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مامور کر رہے ہیں، وہ یہ کس حیثیت سے کر رہے ہیں؟ بالفاظ دیگر انھیں یہ استحقاق کس بنیاد پر حاصل ہوا ہے کہ وہ اپنے فہم کے مطابق جس نتیجے پر پہنچے ہوں، نہ صرف پوری مسلمان امت یا کسی خاص مسلمان ملک کو اس کا پابند قرار دیں بلکہ امت کی طرف سے کوئی فیصلہ یا اقدام کرنے کا اختیار بھی خود کو تفویض کر دیں؟

یہ وہ سوال تھا جو اس بحث میں نہیں اٹھایا جا رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ اس کے اٹھانے سے اس پورے گمراہ کن بیانیے کی بنیادی غلطی بالکل واضح ہو گئی اور ایک جذباتی ذہنی کیفیت پیدا کر کے فقہی وشرعی تلبیسات کو بطور دلیل استعمال کرنے کا رجحان بتدریج دم توڑتا چلا گیا۔ یہ سوال ویسے تو مختلف اسالیب میں متعدد تحریروں میں اٹھایا گیا، لیکن یہاں نمونے کے طور پر دو اقتباسات پیش کرنا مناسب ہے:

’’اس معاملے میں آخری بات میں ان حضرات سے جو عسکری جدوجہد کے راستے سے ملکی نظام کی تبدیلی کے طریقے پر یقین رکھتے ہیں، یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک تو آپ معاشرے کی معروضی صورت حال سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ جو کامیابی کے عملی امکانات ہیں، ان پر بھی یا تو توجہ نہیں دے رہے یا کسی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ یہاں فوج کی طاقت کا ذکر ہوا، وہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ آپ اس کو کیسے حل کریں گے؟ اور بڑی اہم بات یہ ہے کہ دیکھیں،۱س ملک میں اسلام کے نام لیوا، اسلام کے لیے جدوجہد کرنے والے کوئی ایک طبقہ نہیں ہے۔ صرف جماعت اسلامی یا تنظیم اسلامی نہیں ہے یا جو گروہ عسکری جدوجہد کرنا چاہتے ہیں، وہی نہیں ہیں۔ یہ سب اسلام کے نام لیوا ہیں۔ آپ یہ کیسے کر سکتے ہیں کہ سب اسلام کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک گروہ اٹھ کر اپنی حکمت عملی باقی سب پر ٹھونسے؟ حکمت عملی تو اجتہادی معاملہ ہے۔ آپ نے یہاں آگے بڑھنے کے لیے کیا راستہ اختیار کرنا ہے؟ یہاں کی جو مذہبی قوتیں ہیں، اہل علم ہیں، یہاں کی جو مذہبی قیادت ہے، اس وقت تک کی صورت حال تو یہی ہے کہ وہ اس طریقے سے اتفاق نہیں کرتی، اس کو غلط سمجھتی ہے، اس کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ سو اگر کوئی گروہ اٹھ کر یہ کہتا ہے کہ میری نظر میں چونکہ یہی طریقہ صحیح ہے، اور باقی سب کی رائے یا ان کا اجتہاد چونکہ ہماری نظر میں غلط ہے تو ہم اس کی کوئی پروا نہیں کرتے، ہم اپنی حکمت عملی ٹھونسیں گے تو یہ طرز فکر ایک اخلاقی مسئلہ بھی ہے۔ اجتہادی معاملات میں آپ اپنی رائے دوسروں پر نہیں ٹھونس سکتے۔ اجتہادی معاملات میں آپ کو اجتماعیت سے کام لینا ہوتا ہے۔ جس رائے پر متعلقہ لوگوں کا عمومی اتفاق ہو، اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔‘‘  (الشریعہ، مارچ ۲۰۱۵)

’’طاقت کے توازن کو نظر انداز کرنے کے علاوہ تشدد اور تصادم کی مذکورہ حکمت عملی کے نتیجے میں کئی اہم مذہبی واخلاقی اصول بھی مجروح ہوئے۔ مثال کے طور پر زیادہ تر مثالوں میں عسکری تصادم کے فیصلے کو قوم کی اجتماعی نمائندگی حاصل نہیں تھی، بلکہ چند گروہوں نے اپنے تئیں یہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کر کے اس کے نتائج کو پوری قوم پر مسلط کر دیا، حالانکہ اسلامی شریعت کی رو سے کسی علاقے میں مسلح مزاحمت کا حق چند افراد یا کسی ایک گروہ کا حق نہیں، بلکہ پوری قوم کا اجتماعی حق ہے اور ایسے کسی بھی اقدام کے جواز کے لیے یہ ضروری ہے کہ اسے قوم کی اجتماعی تائید اور پشت پناہی حاصل ہو اور قوم اس کے لازمی نتائج کا سامنا کرنے اور اس کے لیے درکار جانی ومالی قربانی دینے کے لیے تیار ہو۔ اگر قوم اپنی مجموعی حیثیت میں ایسے کسی فیصلے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری قبول کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو یا اس کے لیے آمادہ نہ ہو تو کسی گروہ کا ازخود کوئی فیصلہ کر کے اسے عملی نتائج کے اعتبار سے ساری قوم پر تھوپ دینا شرعاً واخلاقاً درست نہیں ہے۔‘‘  (الشریعہ، اکتوبر ۲۰۱۷)

میرے نزدیک عمران خان کے بیانیے اور سیاسی طرز فکر سے متعلق بھی بنیادی ترین سوال کی حیثیت اب اسی کو حاصل ہے۔ اس کا ایک واضح جواب طلب کیے بغیر عمران خان کے بیانیے پر کسی قسم کی سیاسی گفتگو محض وقت کا ضیاع ہوگا۔


قوم کے اجتماعی معاملات سے متعلق کسی بھی بیانیے کے لیے اس سوال کا جواب دینا کہ وہ قوم اور اس کے نمائندہ طبقات کے لیے اس بیانیے کو اجتماعی رائے سے قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار مانتا ہے یا نہیں، کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ بیانیے دسیوں ہو سکتے ہیں اور ہر بیانیے کو اپنا استدلال پیش کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کرنے کا حق حاصل ہے۔ لیکن کیا کوئی بھی بیانیہ یا اس کے علمبردار اپنے تئیں یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ پوری قوم کی تقدیر کا فیصلہ کرنا ان کے ہاتھ میں ہے اور ان کے علاوہ کوئی دوسرا طبقہ قوم کی نمائندگی کا جواز نہیں رکھتا؟

یہ وہ سوال ہے جو ہماری ماضی قریب کی تاریخ میں بار بار زیر بحث آیا ہے اور اس حوالے سے دو واضح رجحان ہمارے سامنے موجود ہیں۔ ایک رجحان سید احمد شہید کی تحریک مجاہدین، ٹی ٹی پی، جامعہ حفصہ کے ذمہ داران اور ٹی ایل پی کی صورت میں ہے جو صرف بیانیہ اور اس کا استدلال قوم کے سامنے رکھنے پر اکتفا نہیں کرتا، بلکہ خود ہی اپنے آپ کو وہ مجاز اتھارٹی بھی قرار دیتا ہے جسے فیصلہ یا اقدام کرنے کا حق حاصل ہے۔

دوسرا رجحان قائد اعظم کی زیر قیادت مسلم لیگ کی صورت میں اور قیام پاکستان کے بعد مولانا مودودی کی جماعت اسلامی کی صورت میں اپنا ظہور کرتا ہے۔ قائد اعظم نے ایک ایسے ماحول میں جہاں سیاسی منظر نامے پر تحریک خلافت، جمعیت علمائے ہند اور مجلس احرار اسلام جیسی قوتیں غالب تھیں، جدوجہد کا آغاز کیا اور طویل جدوجہد کے بعد سیاسی عمل کے ذریعے سے اس مرحلے تک پہنچ گئے جب مسلمانوں نے قطعی انداز میں اپنا اجتماعی فیصلہ ان کے حق میں دے دیا کہ مسلم لیگ ہی سیاسی قضیے میں مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔

مولانا مودودی کے بیانیے اور حکمت عملی میں یہ نکتہ کتنی اہمیت رکھتا ہے، اسے مولانا کی اپنی زبان سے اس اقتباس میں دیکھا جا سکتا ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ اگر پاکستان خدا نخواستہ ایک غیر اسلامی اور سیکولر ریاست میں بھی تبدیل ہو جائے تو وہ اپنا بیانیہ قوم کے سامنے رکھنے اور رائے عامہ کو قائل کرنے کی جدوجہد ازسرنو شروع کر دیں گے:

’’واضح طور پر سمجھ لیجیے کہ یہاں اسلامی نظام کا قیام صرف دو طریقوں سے ممکن ہے:

ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے، وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے ان وعدوں کے بارے میں جو انھوں نے اپنی قوم سے کیے تھے، اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے، اسے خود محسوس کر لیں اور ایمان داری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو اس کے اہل ہوں۔ ۔……..

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ معاشرے کو جڑ سے ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک عمومی تحریک اصلاح کے ذریعے سے اس میں خالص اسلامی شعور وارادے کو بتدریج اس حد تک نشو ونما دیا جائے کہ جب وہ اپنی پختگی کو پہنچے تو خود بخود اس سے ایک مکمل اسلامی نظام وجود میں آ جائے۔

ہم اس وقت پہلے طریقے کو آزما رہے ہیں۔ اگر اس میں ہم کامیاب ہو گئے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ پاکستان کے قیام کے لیے ہماری قوم نے جو جدوجہد کی تھی، وہ لاحاصل نہ تھی بلکہ اس کی بدولت اسلامی نظام کے نصب العین تک پہنچنے کے لیے ایک سہل ترین اور قریب ترین راستہ ہمارے ہاتھ آ گیا، لیکن اگر خدا نخواستہ ہمیں اس میں ناکامی ہوئی اور اس ملک میں ایک غیر اسلامی ریاست قائم کر دی گئی تو یہ مسلمانوں کی ان تمام محنتوں اور قربانیوں کا صریح ضیاع ہوگا جو قیام پاکستان کی راہ میں انھوں نے کیں اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم پاکستان بننے کے بعد بھی اسلامی نقطہ نظر سے اسی مقام پر ہیں جہاں پہلے تھے۔ اس صورت میں ہم پھر دوسرے طریقے پر کام شروع کر دیں گے جس طرح پاکستان بننے سے پہلے کر رہے تھے۔‘‘ (ابوالاعلیٰ مودودی: ’’اسلامی ریاست۔ فلسفہ، نظام کار اور اصول حکمرانی‘‘، مرتب: خورشید احمد، اسلامک پبلی کیشنز لمیٹڈ، لاہور، اکتوبر ۲۰۱۰ء، ص ۶۳۶، ۶۳۷)


سوال یہ ہے کہ عمران خان کے انداز فکر کی جڑیں ان میں سے کس رجحان میں ہیں اور ان کی سیاسی فکر کا شجرہ نسب کس سے جا ملتا ہے؟

گذشتہ ایک دہائی کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر معمولی نظر رکھنے والا شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ عمران خان افتاد طبع اور انداز فکر کے اعتبار سے پہلے رجحان کے حامل ہیں۔ خاص طور پر اقتدار سے محرومی پر انھوں نے جس طرح کے ردعمل کا مظاہرہ کیا ہے، وہ ان کی نفسیاتی ساخت کی بہت واضح ترجمانی کرتا ہے۔

ان کی سیاسی کارکردگی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے اصل بیانیے کو قربان کر تے ہوئے انھوں نے الیکٹبکز کی ایک بڑی تعداد کو پارٹی میں قبول کر کے 2013 کا الیکشن لڑا۔ پھر حکومت بنانے کے لیے انھیں ایسے کئی سیاسی عناصر کے ساتھ بھی معاملہ کرنا پڑا جن پر وہ اس سے پہلے نفرین بھیجتے تھے۔ یہ سارا بندوبست مقتدر قوتوں کی مکمل تائید سے کیا گیا جسے اپنے اصولی اور ابتدائی موقف کے برعکس عمران خان نے قبول کیا۔

اقتدار میں آنے کے بعد جب وہ متوقع کارکردگی پیش کرنے میں ناکام رہے تو انھوں نے تدریجاً‌ یہ اعتراف کرنا شروع کر دیا کہ انھیں حکومتی معاملات کا تجربہ نہیں تھا، ان کے پاس مناسب ٹیم نہیں تھی اور انھوں نے پہلے سے کوئی ہوم ورک نہیں کیا ہوا تھا۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد بھی انھوں نے کئی غلط فیصلوں کا اعتراف کیا۔ وہ اور ان کے حواری برملا یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی اس کارکردگی کی وجہ سے عوام میں ان کی مقبولیت بہت گر گئی تھی اور منتخب اراکین عوام کا سامنا کرنے سے کتراتے تھے۔

اس ساری صورت حال میں اپنی حکومت کے خاتمے کو حقیقت پسندانہ انداز میں سیاسی شکست کے طور پر قبول نہ کرنے اور ردعمل میں مرنے مارنے پر اتر آنے کی وجہ وہی انداز فکر ہے جو انھیں یہ باور کراتا ہے کہ اس ملک کی تقدیر سنوارنے کے لیے قدرت نے انھیں چن لیا ہے اور انھوں نے کچھ کر کے دکھایا ہو یا نہ ہو، اقتدار بہرحال انھی کا حق ہے۔ اس سے انھیں محروم کرنے کی کوشش کو ایک سیاسی عمل کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا، یہ لازماً‌ قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنے کی سازش ہے جس کی ذمہ داری عالمی طاقتوں کے فیصلے، کرپٹ سیاسی عناصر کی ملی بھگت اور ریاستی اداروں کی فعال یا خاموش تائید پر عائد ہوتی ہے۔ یوں پورا نظام عمران خان کا "مجرم" ہے جس کے محاسبے کے لیے قوم کو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آنا چاہیے۔

اس تناظر میں عمران خان کے سیاسی بیانیے اور اس کے استدلال پر گفتگو کی اہمیت بہت ثانوی ہو جاتی ہے۔ بنیادی ترین اور اہم ترین سوال یہ بن جاتا ہے کہ عمران خان کو اس مقام پر آخر کس نے براجمان کیا ہے؟ اگر وہ اور ان کے معتقدین خود ہی انھیں یہ حیثیت دے دینے کے مجاز ہیں تو ان کے طرز عمل میں اور ان عناصر کے طرزعمل میں کیا بنیادی فرق ہے جن کا اس بحث میں اوپر ذکر کیا گیا ہے؟

ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۹)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(336) فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہِ

درج ذیل آیت کا مفہوم متعین کرنے میں مفسرین کو بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس کا اثر ترجموں میں بھی نظر آتا ہے۔

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَیْہِ۔ (الانبیاء: 87)

”اور مچھلی والے کو جب چلا گیا غصے سے لڑکر پھر سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور مچھلی والے پیغمبر (یعنی یونس علیہ السلام) کا تذکرہ کیجیے، جب وہ اپنی قوم سے خفا ہوکر چل دیے اور انھوں نے یہ سمجھا کہ ہم ان پر اس چلے جانے میں کوئی دار و گیر نہ کریں گے“۔ (اشرف علی تھانوی، دار و گیر کرنا اس کا معنی نہیں ہے)

”اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا، یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اور سمجھا تھا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے“۔ (سید مودودی،  گرفت کرنا اس کا معنی نہیں ہے)

”اور ذوالنون، کو (یاد کرو) جب چلا غصہ میں بھرا تو گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے“۔ (احمد رضا خان، تنگی کرنا اس کا معنی نہیں ہے)

”اور ذوالنون (کو یاد کرو) جب وہ (اپنی قوم سے ناراض ہو کر) غصے کی حالت میں چل دیے اور خیال کیا کہ ہم ان پر قابو نہیں پاسکیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

قرآن مجید کے استعمالات کی روشنی میں دیکھیں تو قدر علیہ کا مطلب کسی پر قابو پانا ہوتا ہے۔ درج ذیل مثالوں سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے:

(۱)  وَأُخْرَیٰ لَمْ تَقْدِرُوا عَلَیْہَا۔ (الفتح: 21)

”اور تمہیں اور (غنیمتیں) بھی دے جن پر اب تک تم نے قابو نہیں پایا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۲)  أَیَحْسَبُ أَن لَّن یَقْدِرَ عَلَیْہِ أَحَدٌ۔ (البلد: 5)

”کیا وہ خیال رکھتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہ پائے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۳)  إِلَّا الَّذِینَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَیْہِمْ۔ (المائدۃ:34)

”مگر جو لوگ توبہ کر لیں قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پاؤ“۔ (سید مودودی)

لیکن اس مفہوم کو اختیار کرنے میں مفسرین کے سامنے دشواری یہ تھی کہ ایک نبی کے سلسلے میں یہ کیسے کیا مانا جاسکتا ہے کہ وہ یہ گمان کرلے کہ اللہ اسے اپنے قابو میں نہیں کرسکتا ہے۔ کیوں کہ یہ گمان کرنے والا تو اسلام کے دائرے سے خارج ہوجائے گا۔

اس لیے بعض مفسرین نے کہا یہاں تنگی میں ڈالنے کا مفہوم ہے۔ اور اس کے لیے قرآن کی ان آیتوں سے استشہاد کیا جن میں روزی تنگ کرنے کی بات آئی ہے، جیسے:

وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہُ۔ (الفجر: 16)

”اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

لیکن اس توجیہ کی کم زوری یہ ہے کہ قدر علیہ اور قدر علیہ الرزق دو الگ الگ اسلوب ہیں۔ یہ دونوں ہم معنی نہیں ہیں۔ قدر الرزق کا مطلب تو رزق کم کرنا ہے، لیکن صرف قدر علیہ کا مطلب یہ نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کے استعمالات سے ظاہر ہے۔

بعض مفسرین نے اس جملے کو سزا کا فیصلہ کرنے کے معنی میں لیا لیکن وہ بھی تکلف سے بھرپور توجیہ ہے۔ قرآن مجید میں تو اس کی کوئی مثال نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ ظن کا مطلب یہاں سمجھنا یا گمان کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس طرح بھاگے تھے جیسے وہ بھاگتا ہے جسے یہ گمان ہو کہ وہ قابو میں نہیں آئے گا۔ ہم روز مرہ میں یہ اسلوب استعمال کرتے ہیں، مثال کے طور پر کسی مفرور کو پکڑ کر کہا جاتا ہے: ”تم سمجھ رہے تھے کہ ہمارے ہاتھ نہیں آؤ گے۔“ حالاں کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ ایسا سمجھ رہا ہو، بس یہ ہے کہ اس کے عمل سے ایسا لگ رہا تھا۔

اس طرح ترجمہ ہوگا:   

”اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا گویا کہ ہم اس پر قابو نہیں پاسکیں گے۔“

(337) اذا ماضی کے لیے نہیں ہوتا

وَتَرَی الْأَرْضَ ہَامِدَۃً فَإِذَا أَنزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَاءَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَأَنبَتَتْ مِن کُلِّ زَوْجٍ بَہِیجٍ۔ (الحج: 5)

”اور تو زمین کو دیکھے مرجھائی ہوئی پھر جب ہم نے اس پر پانی اتارا تر و تازہ ہوئی اور ابھر آئی اور ہر رونق دار جوڑا اُگا لائی“۔ (احمد رضا خان)

”اور تم دیکھتے ہو کہ زمین سوکھی پڑی ہے، پھر جہاں ہم نے اُس پر مینہ برسایا کہ یکایک وہ پھبک اٹھی اور پھول گئی اور اس نے ہر قسم کی خوش منظر نباتات اگلنی شروع کردی“۔ (سید مودودی، ’اگانے لگتی ہے‘ أَنبَتَتْ کا درست ترجمہ ہے)

”اور (اے دیکھنے والے) تو دیکھتا ہے (کہ ایک وقت میں) زمین خشک (پڑی ہوتی ہے) پھر جب ہم اس پر مینہ برساتے ہیں تو شاداب ہوجاتی اور ابھرنے لگتی ہے اور طرح طرح کی بارونق چیزیں اُگاتی ہے“۔(فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمہ درست ہے، یعنی زمانہ حال کا بیان ہے نہ کہ زمانہ ماضی کا۔

(338)  وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ  کا ترجمہ

ذوقوا کا ترجمہ دیگر مقامات پر تو چکھو کرنا درست ہے، لیکن درج ذیل مقام کا تقاضا ہے کہ ’چکھتے رہو‘ ترجمہ کیا جائے، کیوں کہ وہ پہلے سے جہنم میں تھے، نکلنے کی کوشش کرتے اور دوبارہ لوٹائے جاتے اور ان سے یہ کہا جاتا۔

کُلَّمَا أَرَادُوا أَن یَخْرُجُوا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ أُعِیدُوا فِیہَا وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ۔ (الحج: 22)

”جب کبھی وہ گھبرا کر جہنّم سے نکلنے کی کوشش کریں گے پھر اُسی میں دھکیل دیے جائیں گے کہ چکھو اب جلنے کی سزا کا مزا“۔ (سید مودودی، وہ تو پہلے سے جہنم کا مزا چکھ رہے ہیں، پھر ’چکھو اب‘ کیوں کہا جائے گا)

”جب وہ چاہیں گے کہ اس رنج (وتکلیف) کی وجہ سے دوزخ سے نکل جائیں تو پھر اسی میں لوٹا دیئے جائیں گے۔ اور (کہا جائے گا کہ) جلنے کے عذاب کا مزہ چکھتے رہو“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری ترجمے میں اس پہلو کی رعایت کی گئی ہے۔

(339) وَنُقِرُّ فِی الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ

وَنُقِرُّ فِی الْأَرْحَامِ مَا نَشَاءُ إِلَیٰ أَجَلٍ مُّسَمًّی۔ (الحج: 5)

”اور ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحموں میں ٹھہرائے رکھتے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”ہم جس (نطفے) کو چاہتے ہیں ایک وقت خاص تک رحموں میں ٹھیرائے رکھتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور ہم جسے چاہیں ایک ٹھہرائے ہوئے وقت تک رحم مادر میں رکھتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں صرف نطفے کا ذکر نہیں ہے، بلکہ پل رہے انسان کا ذکر ہے، خواہ وہ نطفہ ہو یا مضغہ ہو یا علقہ ہو۔ اس پہلو سے آخری ترجمہ درست ہے۔

(340) مفعول بہ کا ترجمہ جس کا فعل محذوف ہو

(سورۃ الانبیاء کے کچھ مقامات)

سورۃ الانبیاء میں بہت سے نبیوں کا تذکرہ ہے، شروع میں کچھ نبیوں کا ذکر اس طرح کیا ہے کہ ان سے پہلے یا بعد میں آتینا کہہ کر بتایا ہے کہ انھیں کیا عطا کیا۔ جیسے:  وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَیٰ وَہَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِیَاءً۔ اس کے بعد پھر بہت سے نبیوں کے ناموں کو ذکر کیا۔

جن نبیوں کا صرف نام ذکر کیا ہے انھیں نصب کی حالت میں رکھا ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہاں کوئی فعل محذوف ہے۔ وہ محذوف فعل کیا ہے؟ اس پر سیاق کلام سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

ترجمہ کرنے والوں نے یہاں تین طریقے اختیار کیے، بعض نے فعل کو محذوف رکھتے ہوئے ہی ترجمہ کیا۔ اکثر نے اذکر یعنی یاد کرو محذوف مان کر ترجمہ کیا۔ اور صاحب تدبر وصاحب تفہیم نے فضل و نعمت سے نوازنے کا مفہوم محذوف مانتے ہوئے ترجمہ کیا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اسی آخری طریقے کو ترجیح دی ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ پورا سیاق اللہ کے اس خاص فضل وکرم کے بیان کا ہے جو اس نے اپنے چنندہ بندوں پر کیا۔ شروع میں کچھ کے ساتھ اس کا ذکر کرکے سیاق کلام متعین کردیا اور پھر صرف ناموں کو نصب کی حالت میں ذکر کرکے قاری کو خود وہ مفہوم اخذ کرنے کا موقع دیا گیا۔ صاحب تدبر وصاحب تفہیم دونوں سے محذوف فعل کے علاوہ مفعول ثانی کو بیان کرنے میں کہیں کہیں کچھ فروگذاشت ہوگئی ہے، ذیل میں اس کی نشان دہی بھی کردی گئی ہے۔  

وَلَقَدْ آتَیْنَا مُوسَیٰ وَہَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِیَاءً وَذِکْرًا لِّلْمُتَّقِینَ۔ (الانبیاء: 48)

”پہلے ہم موسیٰؑ اور ہارونؑ کو فرقان اور روشنی اور ’ذکر‘ عطا کر چکے ہیں اُن متقی لوگوں کی بھَلائی کے لیے“۔ (سید مودودی)

وَلَقَدْ آتَیْنَا إِبْرَاہِیمَ رُشْدَہُ مِن قَبْلُ۔ (الأنبیاء: 51)

”اُس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیمؑ کو اُس کی ہوش مندی بخشی تھی اور ہم اُس کو خوب جانتے تھے“۔(سید مودودی)

”اس سے پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کی ہدایت عطا فرمائی“۔ (امین احسن اصلاحی، رشد کا مطلب ہدایت نہیں ہوتا ہے، بلکہ سمجھ بوجھ ہوتا ہے)

وَلُوطًا آتَیْنَاہُ حُکْمًا وَعِلْمًا۔ (الأنبیاء: 74)

”اور لوطؑ کو ہم نے حکم اور علم بخشا“۔(سید مودودی)

”اور لوط (کا قصہ یاد کرو) جب ان کو ہم نے حکم (یعنی حکمت ونبوت) اور علم بخشا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور لوط کو بھی ہم نے قوت فیصلہ اور علم کی نعمت عطا فرمائی“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں ’بھی‘ کا محل نہیں ہے)

وَنُوحًا۔ (الأنبیاء: 76)

”اور نوح (کا قصہ بھی یاد کرو)“۔ (فتح محمد جالندھری)

”نوح کے اس وقت کو یاد کیجئے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہی نعمت ہم نے نوحؑ کو دی“۔ (سید مودودی، ’یہی‘ غیر ضروری ہے۔ اور ہم نے نوح کو نعمت دی)

”اور نوح کو بھی“۔ (امین احسن اصلاحی، ہم نے اپنی ہدایت بخشی۔ یاد کرو، پہلے جملے کا محل نہیں ہے اور دوسرے جملے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور ’ہم نے نوح پر اپنا فضل کیا‘ مناسب ہے۔)

وَدَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ۔ (الأنبیاء: 78)

”اور داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو یاد کیجئے“۔(محمد جوناگڑھی)

”اور اِسی نعمت سے ہم نے داؤدؑ اورسلیمانؑ کو سرفراز کیا“۔ (سید مودودی، ’اسی‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ ’اور ہم نے داؤدؑ اورسلیمانؑ کو نعمت سے سرفراز کیا‘)

”اور داؤد اور سلیمان پر بھی ہم نے اپنا فضل کیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

وَأَیُّوبَ۔ (الأنبیاء:83)

”ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہی (ہوش مندی اور حکم و علم کی نعمت) ہم نے ایّوبؑ کو دی تھی“۔ (سید مودودی، یہاں بھی یہی کی ضرورت نہیں ہے۔ نعمت متعین کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ’اور ہم نے ایّوبؑ کو نعمت دی تھی‘)

”اور ایوب پر بھی (ہم نے رحمت کی)“۔ (امین احسن اصلاحی)

وَإِسْمَاعِیلَ وَإِدْرِیسَ وَذَا الْکِفْلِ۔ (الأنبیاء: 85)

”اور اسمٰعیل اور ادریس اور ذوالکفل (کو بھی یاد کرو) یہ سب صبر کرنے والے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور یہی نعمت اسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے“۔ (سید مودودی، یہی کی ضرورت نہیں ہے۔ ’اوراسماعیلؑ اور ادریسؑ اور ذوالکفلؑ کو بھی نعمت دی‘)

”اور اسماعیل، ادریس اور ذوالکفل پر بھی (ہم نے فضل کیا)“۔(امین احسن اصلاحی)

وَذَا النُّونِ۔ (الأنبیاء: 87)

”اور مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا“۔ (سید مودودی)

”مچھلی والے (حضرت یونس علیہ السلام) کو یاد کرو!“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ذوالنون پر بھی ہم نے (رحم کیا)“۔ (امین احسن اصلاحی، ’فضل کیا‘ بہتر ہے، جیسا کہ دیگر مقامات پر کیا ہے)

وَزَکَرِیَّا۔ (الأنبیاء: 89)

”اور زکریا (علیہ السلام) کو یاد کرو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور زکریّاؑ کو“۔ (سید مودودی، یہاں بھی نوازنے کا ذکر کرنا مناسب تھا)

”اور زکریا پر بھی (فضل کیا)“۔(امین احسن اصلاحی)

وَالَّتِی أَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیہَا مِن رُّوحِنَا وَجَعَلْنَاہَا وَابْنَہَا آیَۃً لِّلْعَالَمِینَ۔ (الأنبیاء: 91)

”اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تھی“۔ (سید مودودی، یہ بھی اسی سیاق میں ہے، اس لیے نوازنے کا ذکر ہونا چاہیے تھا)

”اور وہ پاک دامن بی بی جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اس (پاک دامن بی بی) پر بھی اپنا فضل کیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

(341) اعتصام بِاللَّہ کا مفہوم

عاصم کا مطلب ہوتا ہے بچانے والا۔ اعتصم کا مطلب ہوتا ہے بچنے کے لیے کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑ لینا: نابغۃ کا شعر ہے:

یظَلّ، من خوفہِ، المَلاحُ مُعتصِمًا
بالخیزرانۃِ، بعدَ الأینِ والنجدِ

”ڈر کے مارے ملاح کشتی کا پچھلا حصہ تھامے رہتا ہے، جب کہ وہ تھکا ہارا عاجز و درماندہ ہوچکا ہوتا ہے۔“

پکڑنے والی چیز کے علاوہ جب یہ کسی بچانے والی ہستی کے لیے استعمال ہوتا ہے تو پکڑنے کا معنی نہیں ہوتا ہے بلکہ سہارا لینا اور رشتہ تھام لینا ہوتا ہے۔ اعتصام بحبل اللہ کا مطلب تو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینا ہے لیکن اعتصام باللہ کا ترجمہ اللہ کو مضبوطی سے پکڑنا نہیں بلکہ اس کا سہارا لینا اور اس کا رشتہ تھام لینا کیا جائے گا۔ اس وضاحت کے بعد درج ذیل ترجموں پر نظر ڈالیں:

(۱)  وَمَن یَعْتَصِم بِاللَّہِ فَقَدْ ہُدِیَ إِلَیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیمٍ۔ (آل عمران: 101)

”جو اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھامے گا وہ ضرور راہ راست پالے گا“۔ (سید مودودی)

”اور جس نے اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا“۔ (احمد رضا خان)

”جو شخص اللہ تعالیٰ (کے دین) کو مضبوط تھام لے تو بلاشبہ اسے راہ راست دکھادی گئی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور جس نے خدا (کی ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے رستے لگ گیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو اللہ کو مضبوطی سے پکڑے گا تو وہی ہے جس کو صراط مستقیم کی ہدایت ملی“۔ (امین احسن اصلاحی، ’وہی ہے‘ نہیں رہے گا۔ ’اس کو‘ رہے گا)

(۲)   وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّہِ جَمِیعًا۔ (آل عمران: 103)

”اور سب مل کر خدا کی (ہدایت کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہنا“۔(فتح محمد جالندھری)

”سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو“۔ (سید مودودی)

”اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھام لو“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۳)  وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ۔ (النساء: 146)

”اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھیں“۔ (محمد جوناگڑھی، اعتصام کا مطلب کامل یقین رکھنا نہیں ہے)

”اور اللہ کا دامن تھام لیں“۔ (سید مودودی)

”اور خدا (کی رسی) کو مضبوط پکڑا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اللہ کی رسی مضبوط تھامی“۔ (احمد رضا خان)

(۴)  فَأَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَاعْتَصَمُوا بِہِ۔ (النساء: 175)

”اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے“۔ (سید مودودی، پناہ ڈھونڈنے کے لیے یہ لفظ نہیں آتا ہے، ’سہارا لیں گے‘ ہونا چاہیے۔)

”تو وہ جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کی رسی مضبوط تھامی“۔(احمد رضا خان)

”پس جو لوگ خدا پر ایمان لائے اور اس (کے دین کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”پس جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۵)  وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ۔ (الحج: 78)

”اور اللہ کو مضبوط پکڑو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ“۔ (سید مودودی)

”اور اللہ کو مضبوط تھام لو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو“۔ (احمد رضا خان)

”اور اللہ کا سہارا لیے رہو“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

ان تمام ترجموں میں اللہ کا سہارا لینا، اللہ کی رسی مضبوط تھامنا، اللہ سے وابستہ ہوجانا، اللہ کا دامن تھام لینا وغیرہ درست ترجمے ہیں۔

اللہ کو پکڑنا مناسب ترجمہ نہیں ہے۔

اسی طرح اللہ کے دین کو پکڑنا یا اللہ کی ہدایت کی رسی کو پکڑنا بھی اس لفظ کو محدود کردیتا ہے۔ دین و ہدایت اعتصام باللہ کا تقاضا ضرور ہے، لیکن اس لفظ کی خاص معنویت ہے۔ اس سے یہاں خطرات کو محسوس کرنا، اپنے بچاؤ کی فکر کرنا اور بچنے کے لیے اللہ کا سہارا لینا مراد ہے۔ انسان یہ سمجھے کہ اس دنیا میں اللہ کا سہارا ہی اصل سہارا ہے اور اس سے بے نیاز ہونا بڑی نادانی ہے۔


مشائخ احناف کے تصور دلالۃ النص پر چند سوالات

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

ان سوالات کا مقصد نفس مسئلہ کو سمجھنا ہے۔ حنفی اصول فقہ کے مطابق حدود و کفارات میں قیاس کااجراء جائز نہیں کہ قیاس ظنی ہے جس میں شبے کا امکان ہوتا ہے اور شبے سے حدود ساقط ہوجاتی ہیں نیز حدود شارع کی مقرر کردہ مقدارات ہیں جن میں رائے کا عمل دخل جائز نہیں۔ تاہم احناف کے نزدیک دلالۃ النص کے ذریعے حدود و کفارات کے احکام کا پھیلاؤ جائز ہے۔ چونکہ دلالۃ النص اور قیاس دونوں سے بظاہر منصوص حکم پھیل کر فرع پر جاری ہوتا ہے، سوال پیدا ہوتا ہے کہ دلالۃ النص اور قیاس میں کیا فرق ہے؟ یہاں ہم مشائخ احناف کے نزدیک اس کے تصور پر بحث کرتے ہیں۔

مشائخ احناف کے مطابق:

1) دلالۃ النص لفظ کی لغوی دلالت کا معاملہ ہے نہ کہ شرعی دلالت کا، احناف قیاس کو شرعی تاثیرات کا معاملہ کہتے ہیں اور ان دونوں میں شعورا اسی بنا پر فرق کرتے ہیں، نیز

2) اس کی دلالت ایسی واضح ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کے معاملے میں عامی اور مجتہد دونوں برابر ہیں۔

دلالۃ النص کی دلالت قیاس کے مقابلے میں قوی تر ہونے کی بنا پر حدود و کفارات میں دلالۃ النص کے اجراء کو احناف جائز کہتے ہیں۔ یاد ر ہے کہ دلالت کی تقویت کے لحاظ سے احناف دلالۃ النص کو عبارۃ النص سے نیچے رکھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ عبارت النص کے مساوی قوی لغوی دلالت نہیں بلکہ اس سے کم تر ہے۔

درج بالا بیان میں "لغوی دلالت" سے کیا مراد ہے؟ اس سے ذہن میں تین امکانات آتے ہیں:

1) باعتبار وضع لفظ کا مفہوم،

2) باعتبار عرف لغوی لفظ کا مفہوم،

3) تیسرا امکان بطریق استعمال ہے، یعنی سیاق کلام میں لفظ کےاستعمال کا کسی معنی کو ظاہر کرنا ۔

اس اعتبار سے دلالۃ النص کے تحت پیش کردہ مثالوں کا تجزیہ کرتے ہیں۔

1) اگر کسی نے کہا کہ "میں زید کو ایک روپیہ نہ دوں گا"، تو دو روپے یا اس سے زائد رقم دینا بطریق اولی منع ہوگا کیونکہ دو روپے میں ایک روپے کا مفہوم شامل ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے قرآن میں آیا کہ جو شخص ایک ذرے کے برابر عمل کرے گا اسے اس کا اجرملے گا۔ تو ایک سے زیادہ پر عمل کا اجر بطریق اولی ثابت ہوا اور یہ لغوی دلالت "بطریق وضع" کی صورت ہے ۔

2) لیکن اگر کسی نے کہا کہ "فلاں کے پاس ایک ٹکا بھی نہیں ہے " ، یہاں دو ٹکوں کی نفی تو بطریق وضع لازم آئے گی مگر ایک سے کم کی نفی لازم نہیں آئے گی بلکہ اس کے لئے اہل زبان کے عرف کو دیکھنا ہوگا، یعنی اگر وہ محاورتاً ایک ٹکے کی نفی سے ہر قسم کے مال کی نفی مراد لیتے ہیں تو پھر آدھے ٹکے کی نفی بھی درست ہوگی ۔ اسی طرح اگر کہا کہ "فلاں شخص کو ڈھیر مال بھی دو تو خیانت نہیں کرتا" تو ڈھیر سے کم مقدار مال بطریق اولی اس میں شامل ہوگا کہ وہ ڈھیر میں شامل ہے مگر ڈھیر سے زیادہ مثلا دو ڈھیر بطریق وضع اس میں شامل نہیں ہوگا۔ البتہ بطریق عرف اسے مراد لینے کی گنجائش ہوگی ۔

3) قرآن نے کہا کہ والدین کو "اف " نہ کہو اور سیاق کلام سے واضح ہوا کہ مقصد والدین کا احترام ہے (جیسا کہ ارشاد ہوا : لَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ)۔ چنانچہ لفظ کے استعمال کے مقام نے "اف" کے مفہوم کو واضح کردیا اور یوں والدین کو مارنے، گالی دینے اور قتل وغیرہ کرنے کی ممانعت بطریق اولی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہوگئی۔ یاد رہے کہ لفظ "اف" سے لغوی طور پر مارنے کی ممانعت بطریق وضع لازم آنا ضروری نہیں کیونکہ یہ لفظ "مارنے"کے مفہوم کو شامل نہیں (جیسے دو میں ایک کا مفہوم شامل ہے) بلکہ ایسا ممکن ہے کہ "اف" کہنے سے منع کرنے کے باوجود زیادہ ایذا دینا جائز ہو۔ مثلا ایک بادشاہ کسی محترم شخص (مثلا کسی دوسرے ملک کے بادشاہ) کو کسی جرم کے سبب قتل کرناچاہتا ہے اور جلاد کو کہتا ہے: "اسے اف تک مت کہنا، بس قتل کردو" تو یہ کلام قابل فہم ہے۔ اسی قبیل کی مثال یہ ہےکہ شارع نے یتیم کا مال (ناجائز طریقے پر ) کھانے سے منع کیا ہے، سیاق کلام سے واضح ہے کہ مقصود صرف کھانا نہیں بلکہ ضائع کرنا ہے، لہذا اس کے مال کو جلانا بھی اسی مفہوم میں شامل ہوا۔

احناف کے نزدیک درج بالا سب مثالیں دلالۃ النص میں شامل ہیں۔ تاہم ان کے سوا چند ایسی مثالیں بھی ہیں جو دلالۃ النص کی درج بالا تشریح پر بمشکل پورا اترتی ہیں۔ دو مثالوں پر غور کرتے ہیں:

1) نص میں باندی پر بدکاری کی سزا آزاد عورت کے مقابلے میں نصف قرار دی گئی ہے۔ کیا غلام پر بھی یہی حکم لاگو ہوگا؟ احناف اسے دلالۃ النص قرار دیتے ہوئے غلام پر بھی یہی حکم جاری کرتے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہےکہ لفظ باندی کے مفہوم میں لغوی اعتبار سے غلام کی شمولیت کا طریقہ کیا ہے؟ ظاہر ہے نہ بطریق وضع اور نہ ہی بطریق عرف لفظ باندی غلام کے مفہوم پر مشتمل ہے۔ اگر کہا جائے کہ یہاں اس حکم کی بنیاد باندی ہونا نہیں بلکہ "غلامیت" کا وصف ہے تو اسے ہی قیاس کرنا کہتے ہیں، یعنی وصف مشترک کی بنا پر ایک جزئی کے حکم کو دوسرے پر جاری کرنا۔ اس استدلال کو یتیم کا مال کھانے یا والدین کو اف کہنے کی طرح "بطریق استعمال "قرار دینا بھی مشکل ہے کیونکہ سیاق کلام سے اسے سمجھنا ممکن نہیں، چہ جائیکہ عامی بھی اسے سمجھ سکے۔ احناف اسے قیاس اس لئے نہیں کہتے کیونکہ ان کے نزدیک حدود میں قیاس جائز نہیں اوراس لئے وہ اس حکم کو دلالۃ النص کے تحت پھیلاتے ہیں۔

2) حدیث میں آتا ہے کہ جب ایک اعرابی نے اپنی بیوی کے ساتھ روزے کی حالت میں مجامعت کرلی تو آپﷺ نے اس پر کفارہ عائد کیا۔ احناف کا کہنا ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر روزے کی حالت میں کھا پی لے تب بھی اس پر کفارہ عائد ہوگا اور اس کی بنیاد ان کے نزدیک یہ ہے کہ کفارہ عائد کئے جانے کی وجہ جانتے بوجھتے روزہ توڑنا اور اس کی اہانت کرنا تھا نہ کہ مجامعت کرنا، لہذا کھانا پینا بھی دلالۃ النص کے طریقے پر مجامعت کے مفہوم میں شامل ہے۔ یہاں بھی وہی سوال پیدا ہوتا ہے جو باندی والی مثال پر پیدا ہوا کہ آخر کھانے پینے کو مجامعت کے مفہوم میں شامل کرنے کی "لغوی بنیاد" کیا ہے نیز اس میں اور قیاس میں کیا فرق ہے؟ مزید یہ کہ "روزہ ٹوٹنا" ایک شرعی مفہوم ہے نہ کہ لغوی معاملہ، اسے دلالۃ النص قرار دیتے ہوئے لغت کا معاملہ کس مفہوم میں مراد لیا جائے؟ یہاں بھی احناف کے نزدیک اسے قیاس نہ ماننے کی وجہ یہی ہے کہ حدود و کفارات میں ان کے نزدیک قیاس جائز نہیں۔ امام جصاص و امام سرخسی کے ہاں اعرابی والی مثال پر بحث دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرات اس حکم کی توجیہہ معین نص کے خاص الفاظ سے بھی کرتے ہیں جس کے بعد یہ دلالۃ النص کے بجائے عبارت النص کی صورت بن جاتی ہے اور اسے دلالۃ النص کی مثال کہنا درست نہیں رہتا۔1

ایک ممکنہ توجیہ اور اس کے مسائل

ممکنہ طورپر ایک توجیہ یہ ذہن میں آتی ہے کہ دلالۃ النص میں "شریعت یا شارع کا عرف"بھی مراد ہے، یعنی شرع کے احکام کا استقراء کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے بعض قسم کے احکام میں بعض قسم کے اوصاف و فروق کا لحاظ نہیں رکھا، لہذا اگرچہ آیت کسی خاص جزئی کا حکم بیان کررہی ہو مگر دیگر خود بخود اس میں شامل سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ بدکاری کی سزا میں تخفیف کا حکم اگرچہ باندی کے لئے آیا ہے، تاہم اسے غلام کے لئے بھی مانا جائے گا کیونکہ حکم کی بنیاد "غلامیت " کا وصف ہے نہ کہ مرد و عورت ہونا۔ اس توجیہ سے تین سوالات جنم لیتے ہیں:

پہلا مسئلہ- مشائخ کی عبارات کی توجیہ کیا ہوگی؟

مشائخ احناف شعوری طور پر اس بات کی نفی کرتے ہیں، یعنی وہ واضح کرتے ہیں کہ یہ لغت کا معاملہ ہے نہ کہ شرعی احکام پر مبنی عرف کا۔ چنانچہ اس توجیہ کو ماننے کے لئے مشائخ کی صریح عبارات کی توجیہ و تاویل کرنا ہوگی۔ ان عبارات کو اس توجیہ کے ساتھ کیسے ایڈجسٹ کیا جائے؟

امام دبوسی، سرخسی (م 483 ھ) و بزدوی (م 482 ھ) رحمہم اللہ نے دلالۃ النص کو جن الفاظ میں پیش کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے:

الف) دلالۃ النص لغوی مفہوم سے ثابت ہونے والا حکم ہے (فمن حيث كان الموجب ثابتاً بمعنى النص لغة) نہ کہ شریعت کے احکام سے (لأن معناه بلا خلل فيه معروف باللغة لا بالشريعة)

ب) یہ معنی فی الفور اور بلاخلل سمجھ آنے والا ہوتا ہے، برخلاف قیاس جہاں غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے

ج) اس لغوی دلالت کو عامی (یعنی غیر مجتہد) بھی سمجھ لیتا ہے (حتى فهمه كل من عرف معنى النص لغة كما لو كان النص عاماً)

د) اگر کسی زبان میں لفظ "اف" کا مطلب ایذا نہ ہو تو اس زبان والے پر اس کی یہ دلالت ثابت نہ ہوگی (حتى لا يحرم على قوم لا يعقلون معناه أو كان عندهم هذا اسماً لضرب كرامة)

ھ) قیاس کا مطلب شرعی مفہومات و تاثیرات کے پھیلاؤ سے معلوم ہونے والا حکم ہوتا ہے نہ کہ لغت سے (فالقياس منا: استنباط علة من النص بالرأي ظهر أثرها في الحكم بالشرع لا باللغة)

چنانچہ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ دلالۃ النص کا مطلب "شریعت کے عرف" کا لحاظ رکھتے ہوئے حکم کو پھیلانا بھی ہے۔

پس اگر یہ بات مان لی جائے کہ دلالۃ النص شریعت کے عرف کا معاملہ ہے تو مشائخ احناف کی ان صریح عبارات کی کیا توجیہہ کی جائے جو اس کی نفی کرتی معلوم ہورہی ہیں ۔

دوسرا مسئلہ- کیا مجتہد و عامی اسے سمجھنے میں مساوی ہوسکتے ہیں؟

اس توجیہ کے بعد اس بات کا کیا مطلب رہا کہ دلالۃ النص کو سمجھنے میں عامی و مجتہد دونوں برابر ہیں ؟ مشائخ احناف دلالۃ النص کے نزدیک لغوی دلالت پر مبنی حکم کا ایسا پھیلاؤ ہے جسے سمجھنے میں مجتہد و عامی دونوں مساوی ہوتے ہیں۔ امام دبوسی نے دلالۃ النص کے مفہوم کو سمجھانے کے لئے دس مثالوں کا تذکرہ کیا ہے، یہاں ہم ان میں سے تین مثالیں پیش کرتے ہیں۔5

قرآن نے زانی پر حد کی سزا کا اجرا کیا، بعض علماء (جیسے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ) نے لوطی پر بھی اس بنا پر اسے جاری فرمایا کہ ان کے نزدیک زنا کا مطلب شرم گاہوں کا ملاپ ہے نیز یہ کہ اس کی حرمت اس لحاظ سے بڑھ کر ہے کہ خاتون کے ساتھ مباشرت نکاح سے جائز ہوجاتی ہے جبکہ مرد کے ساتھ اس کی ممانعت دائمی ہے نیز یہ کہ اس میں انسانی نسل کا بھی ضیاع ہے۔ تاہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک عمل قوم لوط زنا کے مساوی نہیں کہ ایک تو مفعول کے لحاظ سے اس عمل میں ویسی شہوت نہیں پائی جاتی جیسے زنا میں مفعول میں پائی جاتی ہے نیز یہ کہ اس میں زنا کی طرح انسانی نسل کا ضیاع نہیں پایا جاتا۔ پس آپ لوطی پر حد جاری کرنے کے قائل نہیں۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس معاملے کے منصوص سے اولی و مساوی ہونے میں اختلاف عامی میں نہیں ہوا بلکہ ائمہ مجتہدین کے مابین ہوا۔ ایسے میں عامی سے یہ توقع کیسے رکھی جائے کہ وہ اس معاملے کو سمجھ سکے؟

جماع سے کفارہ لازم آنے کی وجہ روزے کی افطار ہے نہ کہ بیوی سے تعلق کرنا، اگر یہی سبب ہوتا تو کفارہ لازم نہ آتا (کیونکہ بیوی سے جماع ازخو د جائز ہے) اور روزہ توڑنے کا معنی ، جو کہ ایک شرعی اسم ہے، کھانے پینے میں بھی مساوی طور پر شامل ہے۔ روزے کا مطلب شہوت کو روکنا ہے اور اس اعتبار سے کھانا پینا و جماع مساوی معنی میں ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ قیاس نہیں بلکہ قیاس وہ ہے جو امام شافعی نے کیا کہ اگر کسی کو زبردستی کچھ کھلایا پلایا جائے تو اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا جیسے بھولے سے کچھ کھانے سے نہیں ٹوٹتا کیونکہ دونوں میں ارادہ نہ پایا جانا مشترک ہے۔

یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ امام شافعی کے نزدیک جماع پر تو کفارہ لازم آتا ہے مگر کھانے پینے سے نہیں کیونکہ آپ اسے جماع کی خصوصیت قرار دیتے ہیں۔ اب اگر یہ ایسا لغوی معاملہ ہوتا جیسے عامی بھی سمجھ سکتا ہے تو امام شافعی جیسے مجتہد اور عربی دان پر یہ کیوں کر مخفی رہا؟

شارع نے قتل خطا پر کفارہ عائد کیا ہے، امام شافعی کے مطابق قتل عمد پر بطریق اولی کفارہ عائد ہوگا کیونکہ خطا ایسا عذرہے جس سے حقوق اللہ ساقط ہوتے ہیں ۔ لہذا اصول کا تقاضا یہ تھا کہ قتل خطا پر کفارہ عائد نہ ہوتا ، لیکن جب غلطی کے باب میں شرع نے کفارہ واجب کیا تو عمداً ایسا کرنے پر بطریق اولی ہوگا۔ اسی طرز پر امام شافعی کہتے ہیں کہ جس طرح یمین منعقدہ (مستقبل کی بات پر قسم کھا کر) توڑنے پر کفارہ ہے اسی طرح یمین غموس (ماضی کی بات پر جھوٹی قسم کھانے) پر بطریق اولی کفارہ ہوگا کیونکہ موخر الذکر میں جھوٹ پایا جانا زیادہ واضح ہے۔ احناف کے نزدیک یمین غموس پر کفارہ نہیں ۔ اس کی وجہ امام دبوسی یہ بتاتے ہیں کہ کفارہ ان امور پر لازم نہیں آتا جو سراسر ممنوع و حرام ہوں بلکہ کفارہ ان امور پر لازم آتا ہے جن میں اباحت و ممانعت دونوں پہلو پائے جائیں۔ پس قتل عمد چونکہ اصلا حرام ہے لہذا اس پر کفارہ عائد نہیں ہوگا اور اسی طرح یمین غموس چونکہ اصلا حرام ہے اس لئے اس بھی کفارہ عائد نہ ہوگا ۔ یمین منعقدہ میں یہ دونوں پہلو اس لحاظ سے جمع ہوگئے کہ ایسی قسم اصلا جائز ہے مگر زیادہ قسمیں کھانے کو پسند نہیں کیا گیا۔

یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ امام شافعی جو استدلال فرما رہے ہیں، پہلی مثال کے برعکس اس کا جواب متعلقہ عمل میں کسی ایسی جہت کا دکھانا نہیں جس سے وہ کم معنی کی حامل ہوجائے (جیسا کہ لوطی کی مثال میں ہوا کہ امام ابوحنیفہ نے اس میں ایسی جہات واضح فرمائیں جس سے اس کی حرمت زنا کم تر ہوگئی) بلکہ امام دبوسی نے اس کا جواب شریعت کے ایک الگ و مستقل اصول (کفارات مباح و ممانعت لئے ہوئے امور میں ہوتا ہے) سے دیا ۔ کیا عامی اس اصول کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ کیا اعرابی والی (یا کسی دوسری) مثال میں عامی اس اصول کا لحاظ رکھ سکتا ہے؟

تیسرا مسئلہ- دلالۃ النص اور قیاس میں فرق کیا ہے؟

آخری سوال یہ ذہن میں آتا ہے کہ اس کے بعد قیاس اور دلالۃ النص میں کیا فرق ہے؟ دلالۃ النص کے ضمن میں امام دبوسی ہی کی پیش کردہ چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔

آپﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بلی کا جھوٹا نجس نہیں کیونکہ وہ طوافین (یعنی عام طور پر گھروں میں گھومنے پھرنے والیوں ) کی طرح ہے۔ امام دبوسی کہتے ہیں کہ بلی کے جھوٹے کی نجاست کی تطہیر عبارت النص کے طور پر جبکہ گھروں میں گھومنے والے دیگر جانوروں جیسے کہ سانپ (یا چھپکلی وغیرہ) کے جھوٹے کی تطہیر دلالۃ النص سے ثابت ہوئی۔ اس مثال سے معلوم ہوا کہ منصوص علت (اگرچہ صریح نہ ہو) پر مبنی حکم کا پھیلاؤ دلالۃ النص ہے۔ "صریح منصوص علت" سے مراد ایسے الفاظ کا استعمال ہے جو بااعتبار وضع لغوی طور پر سببیت کے مفہوم کا فائدہ دیتے ہیں، جیسے "کی" (تاکہ) یا "من اجل ذٰلک" (اس لیےیا اسی وجہ سے) وغیرہ الفاظ۔

آپﷺ نے استحاضہ (حیض کی مدت سے متصل دورانئے میں خاتون کو آنے والے خون) کے بارے میں فرمایا کہ یہ رگ سے نکلنے والا خون ہے، اس کے نکلنے کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کیا جائے۔ پس خون کی نجاست کا یہ حکم جسم کے دیگر مقامات سے نکلنے والے خون پر بطریق دلالۃ النص ثابت ہوگا۔ یہاں بھی علت اگرچہ صریح طور پر منصوص نہیں، تاہم اس سے ثابت ہونے والے حکم کا پھیلاؤ امام دبوسی کے نزدیک دلالۃ النص ہے۔

ان دو مثالوں سے واضح ہوا کہ غیر صریح منصوص علت کے پھیلاؤ سے حاصل ہونے والا حکم دلالۃ النص کی کیفیت لئے ہوتا ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک وہ علت جو قیاسی حکم کا فائدہ دیتی ہے، وہ دلالۃ النص والی علت یا معنی سے مختلف کیسے ہے؟ کیا مشائخ احناف کے ہاں اخذ علت کے ایسے طرق بھی موجود ہیں جو صراحتا منصوص و غیر منصوص کے سوا ہوں؟

مشائخ احناف دلالۃ النص اور قیاس کے مابین اس بنیاد پر فرق کرتے ہیں کہ دلالۃ النص لغوی دلالت سے جبکہ قیاس شرعی تاثیرات سے حاصل ہونے والا حکم کا پھیلاؤ ہے۔ یہاں یہ سوال اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ "شرعی تاثیر " سے کیا مراد ہے؟ مشائخ کے نزدیک اس سے مراد کسی وصف کا کسی حکم میں اثر ظاہر ہونا ہے (یہ تعریف بذات خود سرکلر نوعیت کی محسوس ہوتی ہے)۔ یہ اثر کیسے ظاہر ہوتا ہے یا با الفاظ دیگر اس اثر کا علم کیسے ہوتا ہے؟ اس کا جواب مشائخ کے نزدیک نصوص و اجماع کے بیانات ہیں۔ اس مقام پر آکر اصل مشکل سامنے آتی ہے: آخر دلالۃ النص اور قیاسی علت میں فرق کی بنیاد کیا ہے؟ اسے یوں سمجھئے کہ مسالک علت کیا کیا ہیں؟ امام دبوسی و سرخسی کے ہاں اس عنوان سے کلام نہیں ملتا، البتہ امام سرخسی قیاس کی بحث میں اس سوال سے بحث کرتے ہوئے کہ "کسی نص کا معلول ہونا کیسے معلوم ہوتا ہے"، اصول السرخسی میں اس کے طرق کو یوں بیان کرتے ہیں کہ کسی نص کی تعلیل چار طرح ہوتی ہے:6

الف) کسی نص سے، جیسا کہ ارشاد ہوا لَا يكون دولة بَين الْأَغْنِيَاء مِنْكُم،

ب) فحوی النص سے، جیسے آپﷺ کا یہ فرمان کہ اگر چوہا جمے ہوئے گھی میں گرجائے تو چوہا نکال کر آس پاس والے گھی کو پھینک دو اور باقی استعمال کرلو لیکن اگر گھی مائع حالت میں ہو تو سارا گھی پھینک دو، اس حدیث میں علت کی طرف اشارہ ہے۔ یہی معاملہ ربا کی علت کا ہے یعنی وہ بھی اسی طرح فحوی النص کے قیبل سے ہے،

ج) نص میں مذکور حکم پر استدلال سے، جیسے استحاضہ کے خون والی مثال،

د) اور قائلین قیاس کے اجماع سے

غور کیجئے کہ دلالۃ النص میں بھی انہی جیسے امور کی بنا پر حکم پھیلایا جاتا ہے جیسا کہ اوپر دی گئی دو مثالوں سے واضح ہوا۔ مزید غور طلب بات یہ ہے کہ امام دبوسی (اور اسی طرح امام سرخسی) استحاضہ والی مثال کو دلالۃ النص کے تحت رکھتے ہیں جبکہ یہاں امام سرخسی اسے تعلیل کے مسلک "استدلال" کے تحت لارہے ہیں۔ ایسے میں یہ مزید سوال ذہن میں آتا ہے کہ قیاسی علت کے مسلک استدلال اور دلالۃ النص کی لغوی دلالت میں فرق کیا رہا؟ تیسری قابل غور بات یہ ہے کہ امام سرخسی کے مطابق ربا کی علت استدلال نہیں بلکہ فحوی النص کے قبیل سے ہے جبکہ یہ مشائخ دلالۃ النص اور قیاس کا فرق سمجھاتے ہوئے مسئلہ ربا کو قیاس کی مثال کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ پس اگر ربا قیاس کی مثال ہے جس کی علت فحوی النص کے قبیل سے ہے، تو یہ دلالۃ النص سے الگ کیسے ہوئی؟

مزید آگے بڑھتے ہوئے جب مشائخ احناف کے ہاں قیاس کی بحث (فصل فی الرکن) میں یہ دیکھا جائے کہ کسی وصف کی "شرعی تاثیر" ظاہر ہونے کی کیفیت یا صورتیں کیا ہیں، تو امام سرخسی و بزدوی اس کی مثال میں استحاضہ کی مثال بھی ذکر کرتے ہیں7 جہاں خون کی تاثیر حکم نجاست میں ظاہر ہوئی جبکہ اسی مثال کو دلالۃ النص بھی کہا گیا جو کہ لغوی علت ہوتی ہے۔

پس ان سب امور کے پیش نظر یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ مشائخ احناف کے ہاں دلالۃ النص اور قیاس میں فرق کی بنیاد کیا ہے؟ ان کے بیانات کی روشنی میں کیا دلالۃ النص اور قیاس میں "کم و زیادہ غور و فکر کی ضرورت " کے سوا بھی کوئی اصولی فرق ہے؟

مراجعات

أصول البزدوي، للبزدوی، دار السراج، مدینۃ المنورۃ، طبعۃ الثانیۃ، 2016 ء

أصول الفقہ، لأبي بكر السرخسي، دار المعرفۃ، بيروت، (تاريخ الطباعۃ غير موجود)

الفصول في الأصول، للجصاص الرازي، وزارۃ الأوقاف الكويتيۃ، 1994 ء

المبسوط، للسرخسي، دار المعرفۃ، بيروت، 1993ء

تقويم الأدلۃ في أصول الفقۃ، لأبي زيد الدبوسي، دار الكتب العلميۃ، بيروت، 2001


حواشی

  1. امام سرخسی کے الفاظ یوں ہیں: وَلَنَا حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ «أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْطَرْتُ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ: مِنْ غَيْرِ مَرَضٍ وَلَا سَفَرٍ فَقَالَ نَعَمْ فَقَالَ أَعْتِقْ رَقَبَةً» وَإِنَّمَا فَهِمَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ سُؤَالِهِ الْفِطْرَ بِمَا يَحُوجُهُ إلَيْهِ، كَالْمَرَضِ وَالسَّفَرِ. وَذَكَرَ أَبُو دَاوُد أَنَّ الرَّجُلَ قَالَ: شَرِبْتُ فِي رَمَضَانَ۔۔۔وَقَالَ عَلِيٌّ ": - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - إنَّمَا الْكَفَّارَةُ فِي الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَالْجِمَاعِ (المبسوط: 3 / 73)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب اس حکم کو لفظ "فطر" کے عموم کے تحت رکھتے ہیں۔ اسی طرح امام جصاص فرماتے ہیں: فَإِنْ قَالَ قَائِلٌ: قَدْ أَوْجَبْتُمْ ‌الْكَفَّارَةَ عَلَى الْآكِلِ فِي رَمَضَانَ قِيَاسًا عَلَى الْمُجَامِعِ. وَالْأَثَرُ إنَّمَا وَرَدَ فِي الْمُجَامِعِ. قِيلَ لَهُ: لَيْسَ (هَذَا) كَمَا ظَنَنْتَ؛ لِأَنَّهُ قَدْ وَرَدَ فِي إيجَابِ ‌الْكَفَّارَةِ لَفْظٌ يَقْتَضِي ظَاهِرُهُ وُجُوبَهَا عَلَى كُلِّ مُفْطِرٍ، وَهُوَ مَا رُوِيَ «أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفْطَرْتُ فِي رَمَضَانَ، فَأَمَرَهُ بِالْكَفَّارَةِ» وَلَمْ يَسْأَلْهُ عَنْ جِهَةِ الْإِفْطَارِ، وَظَاهِرُهُ يَقْتَضِي وُجُوبَهَا عَلَى كُلِّ مُفْطِرٍ (الفصول فی الاصول: 4 / 108)
  2. آپ کے الفاظ یوں ہیں: وأما الثابت بدلالة النص: فما ثبت بالاسم المنصوص عليه عيناً أو معنى بلا خلل فيه، ولكن في مسمى آخر هو غير منصوص عليه. فمن حيث كان الموجب ثابتاً بمعنى النص لغة بلا خلل لم يكن الحكم في المحل الذي لا نص فيه ثابتاً قياساً شرعياً، لأن معناه بلا خلل فيه معروف باللغة لا بالشريعة۔ ومن حيث ثبت في محل لا نص فيه لم يكن منصوصاً عليه بعينه فسميناه ‌دلالة ‌النص لأن الحكم أبداً يعم بعموم موجبه فالمحل المنصوص عليه وإن كان خاصاً فالموجب عام فدل عمومه على عموم الحكم لما لا نص فيه. مثال قوله تعالى: {فلا تقل لهما أف ولا تنهرهما} فالتأفيف حرام نصاً والشتم والقتل ‌دلالة ‌النص حتى فهمه كل من عرف معنى النص لغة كما لو كان النص عاماً، وذلك لأن الحرام بالنص التأفيف وإنه اسم وضع لكلام فيه ضرب إيذاء واستخفاف فصار حراماً بمعناه لا بصورة النظم حتى لا يحرم على قوم لا يعقلون معناه أو كان عندهم هذا اسماً لضرب كرامة فكانت الصورة محلاً للمعنى. ولما كان سبب الحرمة معناه وهو الإيذاء وإنه بقدره موجود في كلمات أخر وأفعال من الضرب والقتل مع زيادة ثبتت الحرمة عامة، ولم يكن قياساً۔ فالقياس منا: استنباط علة من النص بالرأي ظهر أثرها في الحكم بالشرع لا باللغة متعدية إلى محل لا نص فيه كما قلنا في قوله صلى الله عليه وسلم: "الحنطة بالحنطة" إنه معلول بالكيل والجنس بالرأي لأنه ليس بعين الحنطة ولا عين معناها لغة، ولا ما أوجبه النص (تقویم الادلۃ: 132)
  3. فَأَما الثَّابِت بِدلَالَة النَّص فَهُوَ مَا ثَبت بِمَعْنى النّظم لُغَة لَا استنباطا بِالرَّأْيِ لِأَن للنظم صُورَة مَعْلُومَة وَمعنى هُوَ الْمَقْصُود بِهِ فالألفاظ مَطْلُوبَة للمعاني وَثُبُوت الحكم بِالْمَعْنَى الْمَطْلُوب بِاللَّفْظِ بِمَنْزِلَة الضَّرْب لَهُ صُورَة مَعْلُومَة وَمعنى هُوَ الْمَطْلُوب بِهِ وَهُوَ الإيلام ثمَّ ثُبُوت الحكم بِوُجُود الْمُوجب لَهُ فَكَمَا أَن فِي الْمُسَمّى الْخَاص ثُبُوت الحكم بِاعْتِبَار الْمَعْنى الْمَعْلُوم بالنظم لُغَة فَكَذَلِك فِي الْمُسَمّى الْخَاص الَّذِي هُوَ غير مَنْصُوص عَلَيْهِ يثبت الحكم بذلك الْمَعْنى وَيُسمى ذَلِك ‌دلَالَة ‌النَّص فَمن حَيْثُ إِن الحكم غير ثَابت فِيهِ بتناول صُورَة النَّص إِيَّاه لم يكن ثَابتا بِعِبَارَة النَّص وَمن حَيْثُ إِنَّه ثَابت بِالْمَعْنَى الْمَعْلُوم بِالنَّصِّ لُغَة كَانَ ‌دلَالَة ‌النَّص وَلم يكن قِيَاسا فَالْقِيَاس معنى يستنبطه بِالرَّأْيِ مِمَّا ظهر لَهُ أثر فِي الشَّرْع ليتعدى بِهِ الحكم إِلَى مَا لَا نَص فِيهِ لَا استنباط بِاعْتِبَار معنى النّظم لُغَة كَمَا فِي قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم الْحِنْطَة بِالْحِنْطَةِ مثل بِمثل جعلنَا الْغلَّة هِيَ الْكَيْل وَالْوَزْن بِالرَّأْيِ فَإِن ذَلِك لَا تتناوله صُورَة النّظم وَلَا مَعْنَاهَا لُغَة وَلِهَذَا اخْتصَّ الْعلمَاء بِمَعْرِفَة الاستنباط بِالرَّأْيِ ويشترك فِي معرفَة ‌دلَالَة ‌النَّص كل من لَهُ بصر فِي معنى الْكَلَام لُغَة فَقِيها أَو غير فَقِيه لأَجله ثبتَتْ الْحُرْمَة وَهُوَ الْأَذَى حَتَّى إِن من لَا يعرف هَذَا الْمَعْنى من هَذَا اللَّفْظ أَو كَانَ من قوم هَذَا فِي لغتهم إكرام لم تثبت الْحُرْمَة فِي حَقه (اصول السرخسی: 1 / 241)
  4. وَأَمَّا‌‌ الثَّابِتُ بِدَلَالَةِ النَّصِّ فَمَا ثَبَتَ بِمَعْنَى النَّصِّ لُغَةً لَا اجْتِهَادًا وَلَا اسْتِنْبَاطًا مِثْلُ قَوْله تَعَالَى {فَلا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ} [الإسراء: 23] هَذَا قَوْلٌ مَعْلُومٌ بِظَاهِرِهِ مَعْلُومٌ بِمَعْنَاهُ، وَهُوَ الْأَذَى وَهَذَا مَعْنًى يُفْهَمُ مِنْهُ لُغَةً حَتَّى شَارَكَ فِيهِ غَيْرُ الْفُقَهَاءِ أَهْلَ الرَّأْيِ وَالِاجْتِهَادِ (اصول البزدوی: 300)
  5. تقویم الادلۃ: 133 – 134
  6. ثمَّ تَعْلِيل النَّص قد يكون تَارَة بِالنَّصِّ نَحْو قَوْله تَعَالَى {لَا يكون دولة بَين الْأَغْنِيَاء مِنْكُم} ۔۔۔ وَقد يكون بفحوى النَّص كَقَوْل النَّبِي عَلَيْهِ السَّلَام فِي السّمن الَّذِي وَقعت فِيهِ فَأْرَة إِن كَانَ جَامِدا فألقوها وَمَا حولهَا وكلوا مَا بَقِي وَإِن مَائِعا فأريقوه فَإِن فِي هَذَا إِشَارَة إِلَى أَنه مَعْلُول بعلة مجاورة النَّجَاسَة إِيَّاه، وَكَذَلِكَ خبر الرِّبَا من هَذَا النَّوْع كَمَا بَينا وَقد يكون بالاستدلال بِحكم النَّص كَقَوْلِه عَلَيْهِ السَّلَام فِي دم الِاسْتِحَاضَة إِنَّه دم عرق انفجر فتوضئي لكل صَلَاة، وَقد يكون على اتِّفَاق الْقَائِلين بِالْقِيَاسِ (اصول السرخسی: 2/ 149)
  7. اصول السرخسی: 2/ 187 ، اصول البزدوی: 592

سلامتی کونسل اور امارت اسلامی افغانستان

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ایک قومی اخبار نے ۲۶ مئی ۲۰۲۲ء کو یہ خبر شائع کی ہے:

’’اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان میں طالبان حکومت سے کہا ہے کہ وہ خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق اور ان کی آزادی کو سلب نہ کرے۔ سلامتی کونسل نے افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم، ملازمت، شخصی آزادی اور معاشرے میں انہیں مساوی حقوق کی عدم فراہمی عالمی برادری کی توقعات پر پورا نہیں اترتیں۔ خواتین ٹی وی میزبانوں کو چہرے کا پردہ کرنے اور انہیں گھر سے بوقت ضرورت ہی باہر نکلنے جیسی پابندیاں باعث تشویش ہیں۔ لہٰذا طالبان حکومت کو چاہیے کہ وہ افغان خواتین اور بچیوں کے بنیادی حقوق کا احترام کرتے ہوئے ایسے تمام قوانین کو ختم کرے۔‘‘

اس سے قبل امریکی حکومت کی طرف سے بھی اس قسم کی تنبیہ سامنے آ چکی ہے اور اب اسی کو سلامتی کونسل کی طرف سے جاری کیا گیا ہے جو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ توجہ طلب ہے۔

بنیادی حقوق اور مرد و عورت کی مکمل معاشرتی مساوات کے حوالے سے ہم ان کالموں میں بیسیوں مرتبہ اظہارِ خیال کر چکے ہیں اور ہمارا یہ واضح نقطہ نظر ہے کہ بنیادی حقوق اور مرد و عورت کی مساوات کے حوالے سے موجودہ عالمی فلسفہ و نظام کے بارے میں مسلم دنیا کے تحفظات ہیں جن کا تعلق دین و مذہب کے ساتھ ساتھ تہذیب و ثقافت سے بھی ہے اور انہیں نظر انداز کرنا قرآن و سنت پر ایمان رکھنے والے کسی مسلمان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان تحفظات و شکایات کا اظہار دنیا کے کسی ایک خطے تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر علاقے کے مسلمانوں کی طرف سے ان کا مسلسل اظہار کیا جا رہا ہے۔ حتٰی کہ بہت سے مسلم حکمران بالخصوص او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے سابق سربراہ مہاتیر محمد بھی عالمی رائے عامہ کو اس طرف بارہا توجہ دلا چکے ہیں اور ان پر نظرثانی کا مطالبہ کر چکے ہیں۔

ہمارا موقف مختصرًا یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے عالمی منشور اور بہت سے بین الاقوامی معاہدات میں دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مجموعی عقائد اور تہذیبی روایات کو نظرانداز کر کے اس فلسفہ و نظام کی بنیاد صرف یورپ اور امریکہ کے معاشرتی پس منظر اور تجربات پر رکھی گئی ہے، جبکہ مشرقی دنیا بالخصوص مسلم معاشروں کا پس منظر اور تجربات اس سے قطعی مختلف ہیں۔ اور اس طرح مغرب یعنی امریکہ اور یورپ اپنی تہذیب و ثقافت کو اقوام متحدہ اور بین الاقوامی معاہدات کے عنوان سے باقی تمام دنیا پر مسلط کرنے کے درپے ہیں جو کسی طرح بھی قرینِ قیاس اور قابلِ قبول نہیں ہیں اور ان پر متعلقہ تمام فریقوں کو اعتماد میں لے کر نظرثانی کرنا ضروری ہو گیا ہے جس کے لیے اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم دونوں کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

مغرب اس معروضی حقیقت کا ادراک کرنے میں بلاوجہ لیت و لعل سے کام لے رہا ہے کہ مسلم اُمہ دنیا کے کسی خطہ میں اپنے عقیدہ و ثقافت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے بلکہ مسلم عوام قرآن و سنت کے احکام و قوانین کو اپنے معاشرتی ماحول میں نافذ و جاری دیکھنا چاہتے ہیں۔ مغرب کا یہ مغالطہ ابھی تک دور نہیں ہو رہا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگ اگر مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو گئے ہیں تو مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ مگر ایسا نہیں ہو رہا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان دکھائی دے رہا ہے۔ اس لیے مغرب کے پاس اس کے علاوہ اب کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ کم از کم مسلم دنیا کی حد تک ’’مرغ کی ایک ٹانگ‘‘ کی ضد ترک کر کے مسلمانوں کی قیادتوں کے ساتھ مذاکرات کا راستہ اختیار کرے اور پوری دنیا پر اپنا تسلط ہر قیمت پر قائم کرنے کی ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلم عقیدہ و ثقافت کا معاشرتی وجود و کردار تسلیم کرتے ہوئے عالمِ اسلام پر اپنا فکر و فلسفہ مسلط کرنے کے طرزعمل پر نظرثانی کرے۔

ہمارے نزدیک امارتِ اسلامی افغانستان کو تسلیم نہ کرنے اور انہیں سنبھلنے کا موقع دیے بغیر اپنی شرائط ہر صورت میں منوا لینے کے موجودہ عالمی رویہ کے پیچھے بھی مغرب کی یہی ضد اور ہٹ دھرمی کارفرما ہے۔ جبکہ اس کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلم دنیا کے بیشتر حکمران اپنے دین و ایمان کے تقاضوں اور اپنے ملکوں کے عوام کے جذبات و احساسات کی پاسداری کرنے کی بجائے عالمی ایجنڈے کے عنوان سے مغربی فکر و فلسفہ کی بالادستی کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس لیے ہم اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی اداروں سے گزارش کریں گے کہ وہ زمینی حقائق کا ادراک کریں اور مسلم عقیدہ و ثقافت کو ایک زندہ معاشرتی حقیقت تسلیم کر کے اس کے ساتھ مفاہمت اور مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔ جبکہ مسلم حکمرانوں سے ہماری استدعا ہے کہ وہ بھی آنکھیں کھول کر اردگرد کے ماحول کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ مسلم امہ کو دنیا میں کہیں بھی اپنے عقیدہ و ثقافت اور اسلام کے معاشرتی کردار سے دستبردار کرنا ممکن نہیں رہا۔ اور اس کے لیے عالمی فورم پر مسلم حکمران اپنے دین و عقیدہ اور مسلم امہ کی غالب اکثریت کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ذمہ داری ادا کریں کہ مسلم ممالک کے حکمران ہونے کی وجہ سے ان کا فریضہ یہی بنتا ہے۔

دوسری طرف امارتِ اسلامی افغانستان سے بھی ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ تہذیبی ارتقا اور بین الاقوامی معاہدات و مسلّمات کو یکسر نظرانداز کرنا بھی قرینِ قیاس نہیں ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب جاہلیت کی تمام روایات و اقدار کو یکسر مسترد کر دینے کی بجائے ’’خذ ما صفا و دع ما کدر‘‘ کے اصول پر جو باتیں قابل قبول تھیں انہیں برقرار رکھا تھا، اور جو باتیں عقیدہ اور اصول کے منافی تھیں انہیں مسترد کر دیا تھا۔ آج بھی یہی اصول اختیار کرنا ہو گا کہ جو امور شرعی اجتہاد کے دائرہ میں قبول کیے جا سکتے ہیں ان کے بارے میں رویہ میں لچک پیدا کرنا ہو گی۔ ہم امارتِ اسلامی افغانستان کے علماء کرام کو یاد دلانا چاہیں گے کہ عرف و تعامل کا تغیر مسائل و احکام کے تغیر کا باعث بنتا ہے۔ حتٰی کہ ’’عموم بلوٰی‘‘ بھی ان معاملات میں اثر انداز ہوتا ہے۔ مثلاً عورت کے چہرہ کے پردہ کے بارے میں ہی غور کر لیا جائے کہ احناف متقدمین کے ہاں چہرہ اور ہاتھ پردہ میں شامل نہیں ہیں، جبکہ متاخرین نے بھی معاشرتی تغیرات کے باعث انہیں پردہ میں شامل کیا ہے۔ یہ بات ہم نے مسئلہ اور فتوٰی کے طور پر نہیں بلکہ مثال کے طور پر ذکر کی ہے اور ہماری گزارش ہے کہ امارتِ اسلامی افغانستان کو

اس کے ساتھ مسلم حکومتوں سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے مغرب نوازی کے طرزعمل پر نظرثانی کریں اور امارت اسلامی افغانستان کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی بھرپور سیاسی، اخلاقی اور معاشی امداد کا اہتمام کریں، جبکہ اس نازک مرحلہ میں امت مسلمہ کے سرکردہ علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ علمی و فکری حوالے سے افغان قوم و قیادت کی معاونت اور راہنمائی کا کردار ادا کریں۔

دستور کا احترام اور اس کے تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے ایک کیس کے دوران کہا ہے کہ دستور اور اداروں کا احترام نہیں ہو گا تو ملک میں افراتفری پیدا ہو گی، جبکہ سپریم کورٹ بار کے صدر جناب احسن بھون نے کہا ہے کہ دستور کو ملک کے تعلیمی نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ ہم نے دونوں باتوں کی تائید کی ہے مگر اس سلسلہ میں موجودہ عمومی تناظر کے حوالے سے چند گزارشات پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ ملک میں وقفہ وقفہ سے دستور کے تحفظ، عملداری اور بالادستی کی بحث بہت عجیب معلوم ہوتی ہے جو کسی اور ملک میں دیکھنے میں نہیں آتی۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ دستورِ پاکستان کے بارے میں بے یقینی اور تذبذب کی فضا کو قائم رکھنا کسی منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد پھر سے دستوری مسائل کو کسی نہ کسی حوالے سے موضوع بحث بنانے کو اس مہم کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز کو یہ دستور پہلے ہی کافی عرصہ کے بعد اور متعدد دستوری بحرانوں سے نکل کر نصیب ہوا تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد پہلا باضابطہ دستور ۱۹۵۶ء میں نافذ ہوا تھا جو ۱۹۵۸ء کے مارشل لاء کی نذر ہو گیا۔ دوسرا دستور ۱۹۶۲ء میں سامنے آیا جسے ۱۹۶۹ء کے مارشل لاء نے ختم کیا اور اس کے بعد ملک دولخت ہو گیا۔ جبکہ موجودہ دستور ملک کا تیسرا آئین ہے جو ۱۹۷۳ء میں تمام سیاسی و دینی جماعتوں نے متفقہ طور پر طے کیا تھا اور منتخب پارلیمنٹ کے ذریعے اس کا نفاذ ہوا تھا۔ اسے بھی دو بار فوجی مداخلت کا سامنا کرنا پڑا، پہلی مرتبہ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے ۱۹۷۷ء میں مارشل لاء نافذ کیا اور دوسری بار جنرل پرویز مشرف نے نیم مارشل لاء کے ذریعے دستوری عمل میں رکاوٹ ڈالی۔

مگر ان دونوں جرنیلوں نے یہ مہربانی کی کہ دستور کو منسوخ کرنے کا انتہائی قدم نہیں اٹھایا جس کی وجہ سے یہ ابھی تک موجود چلا آ رہا ہے۔ اور اس کے پیچھے شاید کسی درجہ میں یہ احساس ہر سطح پر پایا جاتا ہے کہ کہیں ہم ایک بار پھر ۱۹۷۰ء کی پوزیشن سے دوچار نہ ہو جائیں۔ بہرحال دستور موجود و نافذ ہے مگر دستور پاکستان کے بارے میں مختلف اطراف سے شکوک و شبہات کے بادل وقفہ وقفہ سے امڈتے دکھائی دینے لگتے ہیں اور تازہ صورتحال بھی کچھ ایسی ہی محسوس ہوتی ہے کہ ملک میں حالات کو اس موڑ تک بہرصورت لے جایا جائے کہ کوئی نئی مداخلت خدانخواستہ اس دستور کو بھی ۱۹۵۶ء اور ۱۹۶۲ء کے دستوروں کی صف میں کھڑا کر دے۔

ایک طرف ملک کی سیکولر لابیاں ہیں جو عالمی سیکولر حلقوں اور اداروں کی مکمل پشت پناہی اور سپورٹ کے ساتھ مسلسل اس کوشش میں ہیں کہ دستورِ پاکستان کی نظریاتی اساس یعنی اسلامی نظریہ اور مسلم تہذیب کو اس سے خدانخواستہ کسی نہ کسی طرح الگ کر کے ملک کو سیکولر جمہوریہ کی حیثیت دے دی جائے۔ ان عناصر کو نظریہ پاکستان، قرارداد مقاصد اور دستور کی اسلامی دفعات سے خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کو ہر قیمت پر ختم کرنے کے درپے ہیں۔

دوسری طرف ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دستورِ پاکستان کو اس بنیاد پر غیر اسلامی قرار دے کر اس کی نفی کر رہے ہیں کہ اس میں حکومت کے قیام کا ذریعہ عوامی رائے اور ووٹ کو تسلیم کیا گیا ہے، جو ان حضرات کے نزدیک جمہوریت کا حصہ ہے اور وہ اسے اسلام کے منافی تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ دستورِ پاکستان کی بنیاد عوام کی حاکمیت پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ پر رکھی گئی ہے اور پارلیمنٹ کو قرآن و سنت کا پابند قرار دیا گیا ہے۔ البتہ حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو دیا گیا ہے جسے غیر اسلامی قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی حکمرانی نامزدگی یا طاقت کے حوالے سے قائم نہیں ہوئی تھی بلکہ امت کا عمومی اعتماد اس کی اساس تھی۔ جس کی وجہ سے فقہاء اسلام اسلامی حکومت کی تشکیل کی سب سے پہلی اور اولیٰ صورت عوامی رائے کو ہی قرار دیتے آ رہے ہیں۔ مگر بہرحال ایک طبقہ ملک میں موجود ہے جو دستورِ پاکستان کو اسلامی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

جبکہ تیسرا طبقہ ان قوتوں پر مشتمل ہے جو دستور کی نظریاتی اساس اور تہذیبی امتیاز کی بحث میں پڑے بغیر عملی طور پر اسے اسلام اور جمہوریت دونوں کے تقاضے پورے کیے بغیر اپنے ایجنڈے پر چلا رہی ہیں۔ چونکہ اقتدار اور حکمرانی کے ذرائع زیادہ تر اسی طبقہ کے پاس چلے آ رہے ہیں اس لیے عملاً اس کا ایجنڈا ملک میں کارفرما رہتا ہے اور اس طبقہ کے مختلف گروہوں کے درمیان جب بھی پاور شیئرنگ میں اتار چڑھاؤ کی صورت پیدا ہوتی ہے تو دستور پھر سے بحران کا شکار ہو جاتا ہے۔

اس لیے ہمارے خیال میں یہ کشمکش نہ نظریاتی ہے نہ عوامی بلکہ طبقاتی اور گروہی ہے جس پر ہمیں ’’میگنا کارٹا‘‘ کا دور یاد آنے لگتا ہے جسے برطانیہ میں انسانی حقوق کی پہلی بنیاد کہا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ معاہدہ اصل میں بادشاہ اور جاگیردار طبقوں کے مابین آپس میں اختیارات کی تقسیم کا معاہدہ تھا جس میں چند باتیں عوام کے حقوق کی بھی شامل کر دی گئی تھیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی شاید اسی طرح کے معاملات سے دوچار ہیں جو ان قوتوں کے مابین تقسیم کار مکمل ہونے تک جاری رہیں گے۔

البتہ ہم ان حلقوں اور عناصر کو توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں جو قیامِ پاکستان کے تہذیبی پس منظر، دستور کی نظریاتی اساس، اسلامی احکام و قوانین کے لیے عوام کی خواہش اور اپنے ملی مسائل و مشکلات سے دلچسپی اور ان کا شعور رکھتے ہیں کہ انہیں اپنے فریضہ اور کردار سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ ہماری اصل قومی ضرورت ملک کی وحدت و سالمیت، قومی خودمختاری، دستور کی بالادستی و عملداری، بیرونی ڈکٹیشن سے نجات، اور اسلامی تعلیمات و احکام کا فروغ و نفاذ ہے۔ ان کا شعور و ادراک رکھنے والے طبقات اور حلقوں کو منظم و متحرک ہو کر اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ورنہ ’’پاور شیئرنگ‘‘ کی جنگ لڑنے والوں کے دنگل میں ہماری ان نظریاتی اور تہذیبی بنیادوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود رہے گا۔

آئین کی رو سے احمدیوں کے مذہبی حقوق

سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک اہم فیصلہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

بعدالت ِعظمی پاکستان

(اپیلیٹ اختیار ِ سماعت)

موجود:

جناب جسٹس سید منصور علی شاہ

جناب جسٹس امین الدین خان

کریمنل پٹیشن نمبر 916-ایل/2021ء

(کریمنل متفرق نمبر 31929 آف 2021ء میں لاہور ہائی کورٹ، لاہور، کے حکمنامے مؤرخہ 24 مئی 2021ء کے خلاف)

طاہر نقاش و دیگر  (درخواست گزاران)

بنام

ریاست و دیگر (مسئول علیہان)

درخواست گزاران کے لیے:

مرزا محمود احمد، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔شیخ عثمان کریم الدین، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔

ریاست کے لیے:

مرزا عابد مجید، ڈپٹی پروسیکیوٹر جنرل، پنجاب۔ سید زاہد حسین، ڈی ایس پی۔ ارشد علی، انسپکٹر/ تفتیشی افسر۔ عبد الرشید، ایس ایچ او

شکایت کنندہ کے لیے:

جناب شوکت رفیق باجوہ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ۔ بہ تعاون حافظ مصعب رسول، ایڈووکیٹ

تاریخ سماعت:    12 جنوری 2022ء


فیصلہ


جسٹس سید منصور علی شاہ۔ درخواست گزاران لاہور ہائی کورٹ کے 24 مئی 2022ء کے حکم نامے کے خلاف اپیل کی اجازت مانگ رہے ہیں جس میں ان کی وہ درخواست مسترد کی گئی تھی جو انھوں نے اپنے خلاف قراردادِ جرم میں تبدیلی/ اضافے کو زیر دفعہ 561-اے، مجموعۂ ضابطۂ فوجداری ("سی آر پی سی")،چیلنج کیا تھا، اور جس میں 4 جنوری 2021ء اور 3 مئی 2021ء کو بالترتیب ٹرائل کورٹ اور نگرانی کی عدالت کے جاری کیے گئے حکمناموں کو برقرار رکھا گیا تھا۔

2۔ مختصر الفاظ میں، درخواست گزاران اور ایک اور شخص کے خلاف مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان 1860ء ("پی پی سی") کی دفعات 298-بی اور 298-سی کے تحت ایف آئی آر نمبر آف 2020ء مؤرخہ 3 مئی 2020ء اس الزام پر درج کی گئی کہ انھوں نے احمدی/قادیانی ہونے کے باوجود اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طرز پر بنایا تھا اور اس کے اندر دیواروں پر شعائرِ اسلام بشمول (الف) کلمۂ طیبہ، (ب)  بسم الله الرحمان الرحیم، (ج) یا حيّ یا قیّوم) لکھوایا تھا اور اپنی عبادت گاہ کے اندر قرآن مجید کے نسخے رکھے ہوئے تھے۔  یہ الزام بھی لگایا گیا کہ عبادت گاہ کا نقشہ مسجد کے طرز پر تھا اور بجلی کے بل میں بھی اس عبادت گاہ کو مسجد کے طور پر ذکر کیا گیا تھا۔ ان الزامات پر ان کے خلاف مقدمہ شروع ہوا  اور ٹرائل کورٹ، یعنی مجسٹریٹ کی عدالت،  نے 23 نومبر 2020ء کو ان کے خلاف پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی کے تحت قراردادِ جرم عائد کی۔

3۔ بعد میں شکایت کنندہ نے سی آر پی سی کی دفعہ 227 کے تحت قراردادِ جرم میں تبدیلی کی درخواست اس بنیاد پر دائر کی کہ اس مقدمے میں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا بھی اطلاق ہوتا ہے اور قراردادِ جرم میں ان کا اضافہ ہونا چاہیے۔ ٹرائل کورٹ نے اپنے حکمنامے مجریہ 4 جنوری 2021ء کے ذریعے قرار دیا کہ درخواست گزاران کے خلاف الزامات پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے اور اس لیے اس نے یہ درخواست منظور کرلی۔ درخواست گزاران نے ٹرائل کورٹ کے اس حکمنامے کے خلاف نگرانی کی درخواست دائر کی لیکن ایڈیشنل سیشنز جج نے اپنے حکمنامے مؤرخہ 3 مئی 2021ء کے ذریعے یہ درخواست مسترد کردی۔ درخواست گزاران نے ان دونوں حکمناموں کے خلاف ہائی کورٹ میں سی آر پی سی کی دفعہ 561-اے کے تحت درخواست دائر کی لیکن اس کا انجام بھی یہی ہوا اور اسے بھی معترضہ حکمنامے مؤرخہ 24 مئی 2021ء کے ذریعے مسترد کردیا گیا۔

4۔ درخواست گزاران کے فاضل وکیل نے استدلال کیا کہ ایف آئی آر میں مذکور الزامات پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کااطلاق نہیں ہوتا۔ صرف عوامی سطح پر احمدیوں کی جانب سے خود کو مسلمان کے طور پر پیش کرنے یا اپنے عقیدے کو اسلام قرار دینے اور عوامی سطح پر وہ خطابات، توضیحات اور القابات استعمال کرنے، جنھیں اسلام کی بعض مقدس شخصیات اور مقامات کےلیے مخصوص کیا گیا ہے، کے ذریعے احمدی مذہب کی تبلیغ کو ہی قانون، یعنی پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی، نے  روکا ہے،جیسا کہ ظہیر الدین بنام ریاست1 نے اس کی تعبیر پیش کی ہے، لیکن نجی سطح پر  احمدیوںپر اپنا مذہب ماننے یا اپنے عقیدے کے مطابق اس پر عمل کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس مقدمے میں درخواست گزاران مسلّمہ طور پر اپنی نجی عبادت گاہ میں موجود تھے، اور شعائرِ اسلام کا اظہار اور قرآن مجید کے نسخوں کا رکھنا ان کی نجی عبادت گاہ کے اندر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور اس وجہ سے وہ قرآن مجید کی بے حرمتی یا رسولِ پاک کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ریکارڈ پر ایسا کوئی مواد نہیں ہے کہ درخواست گزاران نے ایسے کسی فعل کا ارتکاب کیا ہو؛ اس لیے موجودہ مقدمے میں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق نہیں ہوتا۔

5۔ سرکاری مستغیث نے بھی اور شکایت کنندہ کے وکیل نے بھی ظہیر الدین کیس اور اس کے علاوہ مجیب الرحمان بنام وفاقی حکومت2، جہانگیر جوئیہ بنام ریاست3، خورشید احمد بنام حکومت پنجاب4 پر انحصار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ درخواست گزاران کی عبادت گاہ عوامی مقام ہے اور وہاں شعائرِ اسلام کے اظہار پر اور قرآن مجید کے نسخے اور دیگر مواد جو ان سے برآمد ہوا ہے رکھنے پرپی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ غیر مسلموں/احمدیوں کی جانب سے کلمۂ طیبہ یا قرآن محض پڑھنے سے ہی کلمے، قرآن مجید اور رسولِ پاک کی توہین ہوتی ہے۔

6۔ ہم نے فریقین کے وکلا کے دلائل کا بغور جائزہ لیا اور مقدمے کا ریکارڈ بھی دیکھا۔ ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ جرم کی اطلاع اور تفتیش کے دوران میں برآمد شدہ مواد کی بنا پر کیا ان جرائم کا اطلاق ہوتا ہے جنھیں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی میں قابلِ سزا قرار دیا گیا ہے؟

7۔ اوپر جن مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے ان پر مسئول علیہان کے فاضل وکلا نے بہت انحصار کیا یہ ثابت کرنے کےلیے کہ موجودہ مقدمے پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے۔ تین بنیادی مقدمات، مجیب الرحمان، خورشید احمد اور ظہیر الدینیا تو قادیانی گروہ، لاہوری گروہ اور احمدیوں کے خلافِ اسلام افعال (ممانعت اور سزا) آرڈی نینس، 1984ء،  کے ذریعے وجود میں لائی گئی پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی، یا احمدیوں کی جانب سے اپنے مذہب کے عوامی اظہار یا تبلیغ کو روکنے کےلیے انتظامی احکامات کی دستوری حدود سے بحث کرتے ہیں۔ ان مقدمات میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی دستورِاسلامی جمہوریۂ پاکستان 1973ء کی حدود کے اندر ہیں، اور اس کے علاوہ مقامی انتظامیہ کی جانب سے امن و امان کا مسئلہ پیدا ہونے سے روکنے کےلیے ایسے انتظامی احکامات کو برقرار رکھا گیا ہے۔

8۔ ظہیر الدین کیس میں اس عدالت نے یہ قرار دیا تھا کہ پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی دستوری حدود کے اندر ہیں اور دستور کی دفعہ 20 کے خلاف نہیں ہیں۔ ظہیر الدین میں بنیادی امر یہ تھا کہ احمدیوں کی جانب سے عوامی سطح پر صد سالہ جشن اور تقریبات منانے سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے، جس سے ان میں اشتعال اور عداوت پیدا ہوگی، اور اس طرح امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوگا جس سے شہریوں کی جان و مال کو سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔ عدالت نے مزید یہ قرار دیا کہ دستور کی دفعہ 20 کے تحت "مذہبی آزادی " کی جو ضمانت دی گئی ہے اس کا تحفظ صرف ان مذہبی افعال کو حاصل ہے جو مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں، جبکہ (اُس مقدمے میں) اپیل کنندگان یہ دکھانے میں ناکام رہے تھے کہ صد سالہ تقریبات ان کے مذہب کا لازمی اور ضروری حصہ ہیں، اور یہ افعال صرف عوامی سطح پر اور عوام کی نظروں کے سامنے، سڑکوں اورگلیوں میں یا عوامی مقامات پر،  سرانجام دیے جانے تھے ۔ تاہم اس عدالت نے اگرچہ ان انتظامی احکامات کو برقرار رکھا تھا جن کے ذریعے احمدیوں کو عوامی سطح پر صد سالہ جشن اور تقریبات منانے سے روکا گیا تھا، لیکن اس کے ساتھ واضح طور پر قرار دیا تھا کہ احمدی یہ افعال نجی سطح پر سرانجام دے سکتے ہیں۔ ظہیر الدین میں ججز کی اکثریت کی جانب سے لکھا:5

حکمنامے کا مقصد آخری ہدایت میں واضح کردیا گیا ہے کہ کوئی اور ایسا کام نہیں کیا جائے گا جو بلا واسطہ یا بالواسطہ مسلمانوں کے جذبات مشتعل یا مجروح کردے۔ ان قیود سے صاف طور پر مراد صرف وہ افعال ہیں جو عوامی سطح پر عوام کے سامنے سرانجام دیے جانے تھے، نہ کہ وہ افعال جو نجی سطح پر سرانجام دیے جانے تھے۔

اسی طرح مجیب الرحمان میں پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت کے فل بنچ کی جانب سے چیف جسٹس فخرِ عالم نے درج ذیل الفاظ لکھے:6

یہ برداشت نہیں کیا جاسکتا اور غیر مسلموں کو مسلمان امت کو منتشر کرنے کےلیے مسلمان برادری کے حقوق اور مراعات کے خلاف تجاوز کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔مزید یہ کہ اس سے مرزا صاحب پر قادیانیوں کے ایمان رکھنے کے حقوق متاثر نہیں ہوتے۔۔۔ نہ ہی اس سے ان کے اس حق میں مداخلت ہوتی ہے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کریں یا اس کے احکام کے مطابق اپنی عبادت گاہوں میں عبادت کریں۔

مسلمانوں کی شریعت غیرمسلموں کو اپنے عقیدے کے مطابق اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کو پورا تحفظ دیتی ہے۔۔۔ اسی وجہ سے رسولِ پاک ﷺ اور آپ کے محترم خلفاء نے بہترین شرائط، بشمول مشرکین اور غیر مسلموں کےلیے مذہبی آزادی کے، تسلیم کیں، خواہ وہ مسلمانوں کے ساتھ حالتِ جنگ میں ہوں یا نہ ہوں۔

پس نہ تو ظہیر الدین اور نہ ہی مجیب الرحمان نے احمدیوں کو اپنی عبادت گاہ میں اپنے مذہب کے مطابق اپنے مذہب پر عمل اور اس کے اظہار سے روکا یا اس پر پابندی عائد کی ہے۔

دستوری اقدار اور بنیادی حقوق

9۔ اس عدالت اور وفاقی شرعی عدالت کی مذکورہ بالا ملاحظات ہمارے دستور کے دیباچے میں مذکور دستوری اقدار سے ہم آہنگ ہیں جو ہم سے تقاضا کرتی ہیں کہ ہم بحیثیتِ قوم متحمل مزاج ہوں، آزادی، مساوات اور سماجی انصاف پر یقین رکھیں اور اپنی اقلیتوں کا احترام کریں اور انھیں آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اپنی ثقافتوں کی ترقی اور اپنے جائز مفادات کے تحفظ کےلیے کافی مواقع فراہم کریں۔پاکستان کے تمام شہریوں کو، خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم، دستور کے تحت بنیادی حقوق ، بشمول قانون اور عوامی اخلاقیات کے ماتحت مرتبے میں مساوات، حریتِ فکر، اظہار، عقیدہ، ایمان اور عبادت، کی ضمانت دی گئی ہے۔ دستور اس بات پر زور دیتا ہے کہ جب ہم ان اقدار کا احترام کریں گے، تو صرف تبھی ہم، پاکستان کے لوگ، ترقی کرسکیں گے اور دنیا کی اقوام کے اندر اپنا جائز اور باوقار مقام حاصل کرسکیں گے اور امن، ترقی اور انسانیت کی خوشحالی کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں گے۔

10۔ دستور کی دفعہ 14 ہر شخص کےلیے تکریم کی ضمانت دیتی ہے۔ انسانی تکریم اپنے اندر یہ تصور سموئے ہوئے ہے کہ ہر شخص بنیادی مساوی قدر رکھتا ہے۔ یہ سادہ لیکن گہرا تصور تین عناصر پر مشتمل ہے: اول، انسانی کنبے کا ہر فرد قدر رکھتا ہے – کسی کو مسترد یا نظر نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اس کے ساتھ بدسلوکی یا برا رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے جیسے ان کا انسان ہونا بے معنی ہو؛ دوم، ہر شخص کی قدر دوسرے ہر شخص کے برابر ہے اور کسی کی زندگی کسی دوسرے شخص کی زندگی سے زیادہ اہم نہیں ہے؛ سوم، انسانی تکریم انسانی شخصیت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اور اس سے الگ نہیں کی جاسکتی۔7 ہمارے ملک کے کسی غیر مسلم (اقلیت) کو اس کے مذہبی عقائد ماننے سے محروم رکھنا، اسے اپنی مذہبی عبادت گاہ کی چاردیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار سے روکنا ہمارے جمہوری دستور کی اساس کے بھی خلاف ہے اور ہماری اسلامی جمہوریہ کی روح اور کردار کے بھی منافی ہے۔ یہ انسانی تکریم کو بھی بری طرح مسخ اور پامال کرتا ہے اور کسی غیر مسلم اقلیت کی حقِ خلوت (پرائیویسی) کو بھی، جبکہ وہ دستور کی رو سے ملک کے دیگر شہریوں کی طرح برابر کے حقوق اور حفاظتیں رکھتے ہیں۔ ہماری اقلیتوں کے ساتھ عدم برداشت کا رویہ پوری قوم کی غلط تصویر کشی کرتا ہے اور ہمیں غیر متحمل مزاج، متعصب اور غیر لچکدار دکھاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی دستوری اقدار اور مساوات اور برداشت کے متعلق بہترین اسلامی تعلیمات اور روایات کو قبول کرلیں۔

11۔ دستور کی دفعہ 20 (اے) ہر شہری کو ، قانون، امن عامہ اور اخلاقیات کی حدود کے اندر، اپنے مذہب پر عمل اور اس کی ترویج کا حق دیتی ہے۔ دفعہ 20 (بی) قرار دیتی ہے کہ ہر مذہبی گروہ یا فرقے کو اپنے ادارے قائم کرنے، ان کی دیکھ بھال کرنے  اور ان کا انتظام چلانے کا حق ہے ۔دفعہ 22 کے تحت دستور قرار دیتا ہے کہ کسی شخص کو کسی تعلیمی ادارے میں کسی مذہب کی تعلیم حاصل کرنے یا اس کی کسی مذہبی رسم میں شامل ہونے یا عبادت ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، اگر ایسی تعلیم، رسم یا عبادت اس کے اپنے مذہب کے بجاے کسی اور مذہب کی ہو۔ دفعہ 22 (3) (اے) قرار دیتی ہے کہ کسی مذہبی گروہ یا برادری کو اس سے نہیں روکا جاسکتا کہ وہ اس برادری سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو کسی ایسے تعلیمی ادارے میں اپنی مذہبی تعلیم دے جس کا نظم و نسق کلی طور پر اسی برادری یا گروہ کے پاس ہو۔دفعہ 25 نے طے کیا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہیں اور انھیں قانون کا یکساں تحفظ حاصل ہے۔

12۔ اگرچہ دستور کی دفعہ 260 (3) اعلان کرتی ہے کہ احمدی/قادیانی غیر مسلم ہیں لیکن یہ نہ تو بطورِ پاکستانی شہری ان سے قطع تعلق کرتی ہے، نہ ہی انھیں ان بنیادی حقوق سے محروم کرتی ہے جن کی ضمانت دستور نے دی ہے۔ دستور تمام شہریوں کو یکساں سلوک، حفاظت اور تحفظ فراہم کرتا ہے، خواہ وہ مسلمان ہوں یا ٖغیر مسلم۔ دستور کی دفعہ 4، جو قانون کے تحفظ اور قانون کے مطابق سلوک کی ضمانت دیتی ہے،اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کا ناقابلِ تنسیخ حق ہے ۔

پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی

13۔ اس دستوری تناظر میں ہم اس سوال کے جواب کی طرف بڑھتے ہیں کہ کیا موجودہ مقدمے میں پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق ہوتا ہے؟ اس مقصد کےلیے ضروری ہے کہ ہم ان دفعات میں دی گئی ہیں ان جرائم کی تعریفات دیکھیں۔ چنانچہ یہ دفعات یہاں پیش کی جارہی ہیں:

دفعہ 295-بی قرآن مجید کی توہین وغیرہ

جوکوئی قرآن مجید کے کسی نسخے کو یا اس کے کسی اقتباس کی قصداً توہین کرے، یا اسے نقصان پہنچائے، یا اس کی بے حرمتی کرے، یا اس کا استعمال گستاخانہ انداز میں یا کسی غیر قانونی مقصد کےلیے کرے، تو اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی۔

دفعہ 295-سی رسول پاک  ﷺ کے خلاف گستاخانہ کلمات وغیرہ کا استعمال

جو کوئی الفاظ کے ذریعے، خواہ وہ بولے گئے ہوں یا لکھے گئے ہوں، یا نظر آنے والی علامات کے ذریعے، یا اشارتاً یا کنایتاً یا دلالتاً، بلا واسطہ یا بالواسطہ، نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی توہین کرتا ہے، تو اسے موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔

دفعہ 295-بی کے تحت جرم کے وجود میں آنے کےلیے ضروری ہے کہ ملزم نے قرآن مجید کے کسی نسخے کی یا اس کے کسی اقتباس کی قصداً توہین کی ہو ، یا اسے نقصان پہنچایا ہو، یا اس کی بے حرمتی کی ہو، یا اس کا استعمال گستاخانہ انداز میں یا کسی غیر قانونی مقصد کےلیے کیا ہو۔جرم کی اطلاع میں ایسا کوئی الزام نہیں ہے جس سے یہ جرم بنتا ہو۔ ماتحت عدالتوں نے قرار دیا ہے کہ کسی غیر مسلم/احمدی کی جانب سے صرف کلمہ یا قرآن مجید کے پڑھنے سے ہی دفعہ 295-سی کا اطلاق ہوگا۔ یہ ہمارے خیال میں نہ صرف بہت کھینچ تان کر کیا گیا ہے، بلکہ اس میں جرم کے بنیادی عناصر، یعنی مجرمانہ قصد اور مجرمانہ فعل، ہی نہیں پائے جاتے۔ صرف وہ کچھ قرآن مجید کی تلاوت کے وقت کسی غیر مسلم کے ذہن میں جو کچھ پایا جاتا ہے، اس جرم کی تشکیل کےلیے کافی نہیں ہے۔ پی پی سی کی دفعہ 295-بی کے اطلاق کےلیے ایسے ظاہری عمل (مجرمانہ فعل) کا ہونا ضروری ہے جو دکھائے کہ قرآن مجید کے کسی نسخے کی یا اس کے کسی اقتباس کی قصداً توہین کی گئی، یا اسے نقصان پہنچایا گیا، یا اس کی بے حرمتی کی گئی، یا اس کا استعمال گستاخانہ انداز میں یا کسی غیر قانونی مقصد کےلیے کیا گیا۔موجودہ مقدمے میں ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جو یہ ثابت کرے۔

14۔ اسی طرح پی پی سی کی دفعہ 295-سی کے تحت جرم کے وجود میں آنے کےلیے ضروری ہے کہ ایسے الفاظ ہوں، خواہ وہ بولے گئے ہوں یا لکھے گئے ہوں، یا نظر آنے والی علامات ہوں، یا ایسا اشارہ، کنایہ یا دلالت ہو جن کے ذریعے ، بلا واسطہ یا بالواسطہ، نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی توہین ہو۔ موجودہ مقدمے میں عبادت گاہ کے اندر کلمے کا اظہار، جس میں رسولِ پاک حضرت محمد ﷺ کا نام تھا، ایسا فعل نہیں تھا جو اس جرم کے عناصر کی تشکیل کرے۔ کسی احمدی کے ذہن میں کلمہ پڑھتے وقت کیا تھا، اس سے پی پی سی کی دفعہ 295-سی کا جرم وجود میں نہیں آتا جب تک اس کی جانب سے اس کے ساتھ کوئی ایسا ظاہری عمل نہ ہو جس سے رسولِ پاک حضرت محمد ﷺ کے اسمِ گرامی کی توہین ہوتی ہو۔ موجودہ مقدمے میں ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جو یہ ثابت کرے۔

15۔ ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ دستوری جمہوریت میں قوانین کا ہدف مفاد عامہ ہوتا ہے اور وہ فرد کی آزادیوں کا لحاظ کرتے ہیں اور اس میں کم سے کم مداخلت کرتے ہیں۔ چنانچہ تعبیرِ قانون کا یہ ضابطہ تشکیل دیا گیا ہے جس کی رو سے ضروری ہے کہ سزا کے قانون کی محدود تعبیر کی جائے جس کا فائدہ ملزم کو پہنچے۔ اس محدودیت کا انحصار قانون کی شدت پر ہے۔ تاہم یہ وضاحت مناسب ہوگی کہ جب یہ کہا جاتا ہے کہ سزاؤں کے تمام قوانین کی محدود تعبیر کی جائے گی، تو اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ عدالت یہ دیکھے گی کہ جس جرم کا الزام لگایا گیا ہے وہ استعمال شدہ الفاظ کے سادہ مفہوم میں آتے ہیں اور الفاظ کو کھینچ تان کر اس پر لاگو نہیں کرے گی۔ بہ الفاظِ دیگر، محدود تعبیر کے اصول کا تقاضا ہے کہ قانون کے الفاظ کی ایسی تعبیر اختیار نہ کی جائے کہ اس کے مفہوم میں وہ افعال بھی شامل ہوجائیں جنھیں مناسب تعبیر نہ کہا جاسکے۔ تاہم محدود تعبیر کا اصول اس بنیادی اصول کے تابع رہے گا کہ ہر قانون کا مفہوم  مقننّہ کے صریح یا واضح ارادے کی روشنی میں متعین کیا جائے گا۔8 اس مقدمے میں جن افعال کا الزام لگایا گیا ہے، ان پر پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کا اطلاق نہ تو ان دو دفعات کے الفاظ کے سادہ مفہوم کی رو سے ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پیچھے موجود مقنّنہ کے صریح یا واضح ارادے کا چشمہ لگا کر۔

16۔ ان اسباب کی بنا پر ہمارا موقف یہ ہے کہ موجودہ مقدمے کے حقائق اور حالات میں ٹرائل کورٹ اور نگرانی کی عدالت نے پی پی سی کی دفعات 295-بی اور 295-سی کے تحت قابلِ سزا جرائم کے وجود میں آنے کےلیے ضروری عناصر کا درست جائزہ نہیں لیا اور ظہیر الدین کیس کا صحیح مفہوم سمجھنے میں ناکام رہیں، اور ان دونوں حکمناموں کو برقرار رکھ کر ہائی کورٹ نے قانوناً غلطی کی۔ اس لیے اس درخواست کو اپیل میں تبدیل کرکے منظور کیا جاتا ہے: معترضہ حکمنامہ منسوخ کیا جاتا ہے، سی آر پی سی کی دفعہ 561-اے کے تحت درخواست گزاران کی درخواست منظور کی جاتی ہے اور ٹرائل کورٹ اور نگرانی کی عدالت کے فیصلے غیر مؤثر کیے جاتے ہیں۔ درخواست گزاران کے خلاف مقدمہ  قراردادِ جرم مؤرخہ 23 نومبر 2020ء کی بنیاد صرف پی پی سی کی دفعات 298-بی اور 298-سی کے تحت قابلِ سزا جرائم کے بارے میں ہی چلایا جائے گا۔

جج

جج

اسلام آباد

12 جنوری 2022ء


اشاعت کے لیے منظور شدہ



حواشی

  1. 1993 ایس سی ایم آر 1718۔
  2.  پی ایل ڈی 1985 ایف ایس سی 8۔
  3.  پی ایل ڈی 1987 لاہور 458۔
  4.  پی ایل ڈی 1992 لاہور 1۔
  5.  ص 1757۔
  6.  ص 93۔
  7.  Erin Daly & James R. May, Dignity Law, Global Recognition, Cases, and Perspectives. 2020. HEIN
  8. N.S Bindra’s Interpretation of Statutes, 12th edition (2017) LexisNexis, pp 824-5, 836.


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۶)

ڈاکٹر شیر علی ترین

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Moderity کا تیسرا باب اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ)


حاکمیت الہیہ اور عقیدہ توحید کا احیا

شاہ محمد اسماعیل کی علمی زندگی کا سب سے نمایاں پہلو ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی تصورات میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کا احیا ہے۔ حاکمیتِ اعلیٰ کے بارے میں ان کی بحث تباہ کن اخلاقی زوال کے ایک بیانے میں ملفوف ہے۔ شاہ اسماعیل کے مطابق ایسا لگتا ہے جیسے ہندوستانی مسلمانوں نے خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تقریباً بھلا دیا ہے۔ انھوں نے اس اپنے تجزیے کی اساس اس مشاہدے پر رکھی ہے کہ انبیا، اولیا اور دیگر غیر خدائی ہستیاں عوام کی مذہبی زندگی میں رچ بس گئی ہیں۔ "ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہم دنیا میں جو چاہے کریں، کوئی صاحبِ کرامت ولی یا نبی ہماری شفاعت کر دے گا یا ہمیں خدا کے عذاب سے بچا لے گا۔ یہ رویہ انتہائی احمقانہ اور غلط ہے۔ آخرت میں خدا کے رحم وکرم اور عفو ودرگزر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ ان عوام نے اولیا، شہدا پر اندھا اعتماد کر کے خدا کو بھلا دیا ہے۔ وہ مکمل گمراہ ہو گئے ہیں"1۔

اگر چہ ان خیالات کا اظہار شاہ اسماعیل کی کئی کتابوں میں ہے، تاہم ان کی مختصر ترین مگر سب سے زیادہ متنازع کتاب "تقویۃ الایمان" میں اس موضوع پر پوری قوت کے ساتھ بحث کی گئی ہے2۔ یہ کتاب امریکی ٹریکٹ سوسائٹی (1825) کے قیام کے ایک سال بعد لکھی گئی، جو نشر واشاعت پر انحصار کرنے والی ان متعدد تنظیموں سے ایک تھی جہاں سے نمایاں امریکی اصلاح پسندوں (evangelicals) نے اپنی جد وجہد کا آغا ز کیا3، اور جن کے ساتھ باہمی دل چسپی کے کئی امور پر یکساں موقف رکھنے کی وجہ سے شاہ اسماعیل بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ تقویۃ الایمان آج تک گرما گرم مباحثوں اور مناظروں کا باعث ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس کی اولین اشاعت کے بعد اس کی تردید میں اب تک 250 سے زیادہ کتابیں لکھی جا چکی ہیں4۔

تقویۃ الایمان کا شمار ان اولین اردو کتابوں میں ہوتا ہے جو متخصِّص اہل علم کے بجاے عامۃ الناس کے لیے سادہ اور عام فہم زبان میں لکھی گئی تھی۔یہ ہندوستان کی اسلامی تاریخ کے ایک ایسے دور میں چھپی جب اردو تدریجی لیکن فیصلہ کن انداز میں مذہبی اور ادبی اشرافیہ کے درمیان رابطے کے زبان کی حیثیت سے فارسی کی جگہ لے رہی تھی۔ تقویۃ الایمان کا تحریری انداز عوام کی ذہنی سطح کے مطابق ہے۔ کتاب کی تمام فصول کا آغاز کسی قرآنی آیت یا حدیث سے ہوتا ہے جس کے بعد اسماعیل اس کا ترجمہ اور تشریح پیش کرتے ہیں۔ عوام کے لیے کتاب کو عام فہم بنانے کی کوشش کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انھوں نے بار بار اللہ کے نام کے ساتھ عرف عام میں مستعمل "صاحب" کا لاحقہ لگایا ہے۔ اپنے تصور میں خالص اسلام کو بیان کرنے کے لیے وہ بار بار "ٹھیٹھ اسلام" کی عامیانہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں، ایسی اصطلاح جو عموماً کسی شخص کی نسلی یا علاقائی شناخت کے اصلی اور خالص ہونے کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جیسا کہ "ٹھیٹھ" پنجابی۔

تقویۃ الایمان کے مقدمے میں شاہ اسماعیل واضح کرتے ہیں کہ انھوں نے یہ کتاب عام فہم اردو میں اس لیے لکھی تاکہ عامۃ الناس بآسانی اس کے مطالب سمجھ سکیں۔ مزید برآں وہ اپنے قارئین سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس تصور کو رد کریں کہ قرآن وسنت تک رسائی صرف علما کے لیے ممکن ہے۔ شاہ اسماعیل اسے یوں بیان کرتے ہیں: یہ جو عوام الناس میں مشہور ہے کہ اللہ اور رسول کا کلام سمجھنا بہت مشکل ہے اس کے لیے بڑا علم چاہیے، ہم میں وہ طاقت کہاں کہ ان کا کلام سمجھیں، اس راہ پر چلنا بڑے بزرگوں کا کام ہے، ہماری کیا طاقت ہے کہ اس کے موافق چلیں، بلکہ ہمارے لیے یہی باتیں کفایت کرتی ہیں جن پر چلے جاتے ہیں، سو یہ بات بہت غلط ہے۔ اس واسطے کہ اللہ صاحب نے فرمایا ہے کہ قرآن مجید بہت صاف وصریح ہے۔ اس کا سمجھنا مشکل نہیں۔ چنانچہ سورۃ البقرہ میں فرمایا ہے: "اور بے شک ہم نے آپ پر کھلی باتیں اتاریں، ان سے منکر وہی ہوتے ہیں، جو لوگ فاسق ہیں"5۔

عام فہم زبان میں لکھنے کی مشق دراصل اس معاصر رجحان کا حصہ بننا تھا جس کا مقصد دینی فکر کو عامۃ الناس کے لیے قابلِ فہم بنانا تھا۔ یہ رجحان "موضح القرآن" کے نام سے ان کے تایا شاہ عبد القادر کے ترجمۂ قرآن میں، جو 1790 میں لکھا گیا اور 1829 میں چھپا، زیادہ واضح طور پر نظر آتا ہے6۔ اس ترجمے کے ذریعے شاہ عبد القادر نے اپنے والد شاہ ولی اللہ کی مقامی زبانوں میں ترجمۂ قرآن کی تحریک کو جاری رکھا ، جنھوں نے باوجود شدید مخالفت کے پہلی بار قرآن مجید کو فارسی میں ترجمہ کیا تھا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں عوام کے لیے لکھی جانے والی اصلاحی کتابوں میں صرف تقویۃ الایمان واحد کتاب نہیں تھی۔ اس طرح کی کتابوں کی ایک اور نمایاں مثال "نصیحۃ المسلمین" کے عنوان سے اسماعیل کے نسبتاً ایک کم معروف معاصر خرم علی (م 1855) کا کتابچہ ہے جو تقریباً 1824 میں چھپا7 اور حیرت انگیز طور پر تقویۃ الایمان کے اسلوب، فصاحت اور پیغام سے مماثلت رکھتا ہے۔

تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے احیا کے لیے موجودہ معاشرے میں اخلاقی زوال کی ایک مخصوص داستان سنا کر اپنے استدلال کو تقویت پہنچائی ہے۔ ان کے نزدیک عوام کے میں خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے متعدد حریف نشو ونما پا رہے ہیں۔ اس داستان کی رو سے ہندوستانی مسلمانوں کی ایک بھاری اکثریت، جس میں عوام اور خواص دونوں شامل ہیں، کفر وشرک کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

وہ اس پر تنبیہ کے ساتھ طنز کا تڑکا ملاتے ہوئے لکھتے ہیں:

سو سنا چاہیے اکثر لوگ پیروں کو، پیغمبروں کو، اماموں کو، شہیدوں کو، فرشتوں کو، پریوں کو مشکل کے وقت پکارتے ہیں۔ ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ ان کی منتیں مانتے ہیں۔ حاجت برآنے کے لیے ان کی نذر نیاز کرتے ہیں۔ بلا کے ٹالنے کے لیے اپنے بیٹوں کی ان کی طرف نسبت کرتے ہیں۔ کوئی اپنے بیٹے کا نام عبد النبی رکھتا ہے، کوئی علی بخش، کوئی حسین بخش، کوئی پیر بخش، کوئی مدار بخش، کوئی سالار بخش، کوئی غلام محی الدین، کوئی غلام معین الدین8۔

شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ ایسا نہیں ہے کہ لوگ خدا کی مطلق حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) پر ایمان سے دست بردار ہو گئے ہیں یا ملحد بن گئے ہیں۔ اس کے بجاے خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی روز مرہ زندگی میں رائج چند رویوں، اعمال اور رواجوں سے مجروح ہو رہی ہے جو کسی شرعی دلیل کے بجاے عرف ورواج پر مبنی ہیں۔ شاہ سماعیل کے نزدیک ایسے اعمال اور رسوم ورواج کی تعداد اور اقسام بہت زیادہ ہیں اور وہ عقائد سے لے کر روز مرہ کے معمولات تک میں سرایت کر چکے ہیں۔ ان تمام یا ان میں سے اکثر کا احاطہ یہاں نہیں کیا جا سکتا، تاہم ان کی چند مثالیں یہ ہیں: انبیا یا اولیا کے لیے علمِ غیب ثابت کرنا، ولی سے اولاد مانگنا، بغیر کسی شرعی جواز کے کچھ جانوروں یا پابندیوں کو مقدس ماننا، انبیا اور اولیا کے میلاد اور عرس کی تقریبات منعقد کرانا اور ان میں شریک ہونا، اور یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ ذاتی طور پر برکات کے نزول کے لیے ان اجتماعات میں تشریف لاتے ہیں، ضرورت وتکلیف کے وقت میں اولیا کو مدد کے لیے پکارنا، شطرنج اور مشاعروں جیسی لایعنی سرگرمیوں میں پوری پابندی اور اہتمام کے ساتھ شریک ہونا جیسے وہ نماز اور روزہ کی طرح دین کے فرض احکامات ہوں، اور یہ عقیدہ رکھنا کہ ایک فوت شدہ ولی زندہ انسانوں کو کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتا ہے۔

شاہ اسماعیل اور شاہ ولی اللہ: اصلاح کے تغیر پذیر مناہج

جس اصلاحی مشن کا آغاز شاہ اسماعیل نے کیا ، وہ انیسویں صدی کے لیے یکسر نیا، غیر متوقع یا منفرد نہیں تھا۔ اٹھارھویں صدی یا اس سے بھی قبل مسلمان اہل علم نے عوام میں رائج رسموں اور رواجوں پر بکثرت تنقید کی ہے۔ مثلاً اپنی آخری وصیت میں شاہ اسماعیل کے دادا شاہ ولی اللہ نے نکاح بیوگان سے گریز جیسی "ناپاک رسموں" کی سختی سے مخالفت کی ہے۔، وہ اسے ہندؤوں کے اثرات کا نتیجہ سمجھتے تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان اس سے دور رہیں۔ انھوں نے غمی وشادی کی تقریبات میں فضول خرچی کے رجحان پر بھی ہندوستانی مسلمانوں کو تنبیہ کی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ "ہماری مذموم عادات میں سے ایک عادت فضول خرچی ہے"۔9

ایک دوسری مثال اٹھارھویں صدی کے نقشبندی صوفی اور حنفی فقیہ اور شاہ ولی اللہ کے مشہورِ زمانہ معاصر مرزا مظہر جان جانان (م 1781) کے خلیفۂ مجاز قاضی ثناء اللہ پانی پتی (م 1810) کی ہے10۔ فقہی مسائل کے بارے میں (فارسی میں) اپنی کتاب "ما لا بدَّ منہ" میں قاضی صاحب نے "شطرنج، پتے کھیلنا بالخصوص جب اس پر شرطیں لگائی جائیں، کبوتر بازی، کبوتروں کی لڑائی، مرغوں کی لڑائی وغیرہ" جیسے رسوم ورواجات کو واشگاف انداز میں ناجائز قرار دیا ہے جو بڑے پیمانے پر عوام میں رائج تھیں۔11 اسی سال کی عمر میں، جب ان کی موت کا وقت کا قریب تھا، قاضی صاحب نے اپنی موت کے بعد ادا کی جانے والی رسموں کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں۔ ان میں سے اپنے ورثا کے نام ایک واضح ہدایت یہ ہے: "میرے مرنے کے بعد میری دہم، بستم، چہلم، شش ماہی اور سال منانے کی دنیوی رسمیں بالکل ادا نہ کریں۔ حضور ﷺ نے واضح طور پر تین دن سے زیادہ سوگ کو منع فرمایا ہے، اور (میت پر) چیخ وپکار اور عورتوں کے نوحہ کو بھی ممنوع قرار دیا ہے"12۔

انیسویں صدی کے اوائل اور بعد ازاں اواخر میں برصغیر میں شاہ اسماعیل اور مولانا اشرف علی تھانوی جیسے مصلحین کی سرگرمیوں میں اس نوعیت کے مسائل کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ اس طرح سے برصغیری اسلام کی تاریخ میں اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے درمیان ایک واضح تسلسل پایا جاتا ہے۔ عوام میں رائج رسوم ورواجات پر کاٹ دار تنقید اور ان اقدار میں شدید دل چسپی جو خدائی حاکمیت اور روزمرہ کے اعمال کے درمیان ربط کی نگرانی کرتیں ہیں، جدید استعماری دور کی پیداوار نہیں تھی۔ تاہم اس تسلسل کے باوجود شاہ اسماعیل جیسے عالم کی فکری زندگی چند بنیادی حوالوں سے اپنے پیش روؤں سے مختلف ہے۔ میں ان میں سے تین پہلووں کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔

پہلی چیز یہ ہے کہ ان کے ہاں مستند مذہبیت کے لیے روزمرہ کی زندگی اور اعمال کو ایک فیصلہ کن میدان اور معیار قرار دینے کے رجحان میں شدت آئی ہے۔ جس وسعت کے ساتھ اسماعیل نے روز مرہ کے رسوم ورواج کو اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں اپنے اصلاحی دائرے میں شامل کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے۔ اس سے پہلے کی تاریخ میں شادی بیاہ کی تقریبات، مرغوں کی لڑائی اور پتنگ بازی جیسے اعمال پر اس طرح کی واضح بحثیں بمشکل ملتی ہیں، جس طرح کہ انیسویں صدی کی اصلاحی تحریروں میں نظر آتی ہیں۔ دوسری یہ کہ نشر واشاعت کی ٹیکنالوجی، ڈاک کا نظام اور ریل گاڑی کے عام ہونے کی وجہ سے نہ صرف اصلاحی اور اصلاح مخالف آوازیں ایک وسیع حلقے تک پہنچنے لگیں، بلکہ ایک متعین اور مشخص عوامی طبقہ کا تصور بھی ابھرا جو اصلاح اور شرعی احکام کے متوازی تصورات کے حامی اور پیروکار بن سکتے ہوں۔13 تیسری یہ کہ انیسویں صدی میں براہ راست اور بالواسطہ زبانی اور تحریروں مناظروں میں ایک غیر معمولی اضافہ اور شدت سامنے آئی۔

یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ اٹھارویں صدی سے انیسویں صدی تک کے اصلاحی مناہج میں ایک باریک لیکن انتہائی اہم فکری تبدیلی رونما ہوئی۔ اس تبدیلی کو جاننے کے لیے شاہ ولی اللہ اور ان کے پوتے شاہ اسماعیل کے اصلاحی مناہج کے درمیان موازنہ اور تقابل مفید رہے گا۔ باوجود یکہ تصوف پر ان دونوں کی تحریروں مثلاً‌ شاہ ولی اللہ کی "لمعات" اور "سطعات" اور شاہ اسماعیل کی "عبقات" میں کافی حد تک مماثلت ہے، شاہ ولی اللہ کی افتاد طبع اپنے پوتے کی جارحانہ اور انتہا پسند طبیعت سے واضح طور پر مختلف تھی۔ میں یہاں شاہ ولی اللہ کے سوانح میں سے ایک واقعہ نقل کرنا چاہوں گا تاکہ قارئین اس تقابل کی ایک بہتر تفہیم حاصل کریں۔ یہ واقعہ مولانا عبید اللہ سندھی (م 1944، بیسویں صدی کے ایک دیوبندی عالم/انقلابی کارکن اور ولی اللہی فکر کے ایک نمایاں شارح) کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہے۔ شاہ ولی اللہ کے سیاسی نظریے اور فکری ورثے پر اپنی مشہور کتاب "شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک" میں مولانا سندھی درج ذیل واقعہ بیان کرتے ہیں:

ایک بار ایک معروف عالم دین مولانا محمد فاخِر الہ آبادی (م 1760) شاہ ولی اللہ سے ملنے کے لیے دلی آئے14۔ ایک مقامی مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے مولانا فخر (جو کہ ایک غیر مقلد عالم تھے) نے رفع الیدین کیا برصغیر کے احناف اور غیر مقلدین15 کے درمیان شدید متنازع فیہ عمل تھا۔ جب مسجد میں موجود احناف نے الٰہ آبادی کے اس عمل کو دیکھا تو وہ اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک ہنگامہ برپا ہوا۔ ہجوم تشدد پر آمادہ تھا، لیکن جب انھیں پتا چلا کہ یہ باہر سے آیا ہوا شخص شاہ ولی اللہ کا مہمان ہے تو وہ پیچھے ہٹ گئے۔ لوگ الٰہ آبادی کو شاہ ولی اللہ کے گھر تک لے گئے تاکہ وہ اس مسئلے میں اپنا فیصلہ سنائیں۔ جب انھوں نے شاہ ولی اللہ کی راے مانگی تو شاہ صاحب نے ہجوم کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر کہا: "آرام سے! رفع الیدین کی تائید میں احادیث ملتی ہیں۔ میں خود بھی کبھی کبھار کر لیتا ہوں"۔ یہ سنتے ہی ہجوم منتشر ہو گیا۔ جب وہ چلے گئے تو الہ آبادی نے حیرت کے عالَم میں شاہ ولی اللہ سے پوچھا: "مجھے پتا نہیں تھا کہ آپ بھی رفع الیدین کرتے ہیں"۔ شاہ ولی اللہ نے مسکراتے ہوئے کہا: "اصل میں میں رفع الیدین نہیں کرتا، لیکن اگر آج میں نے ایسا نہ کہہ دیا ہوتا تو وہ آپ کو مار دیتے"۔ انھوں نے مزید بتایا: "حکیم وہ نہیں جو بغیر کسی وجہ کے لوگوں کو اپنے مخالفین میں بدل دیتا ہے"16۔

شاہ ولی اللہ کے نزدیک اس وقت عبادات میں باریکیوں پر زور دینے کے مقابلے میں معاشرتی نظم کو برقرار رکھنا افضل تھا اور یہی موقف بعد میں ایک صوفی شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے پیش کیا جن کے بارے میں ہم بارہویں باب میں مزید جانیں گے۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب نے ایک ہنگامے کو بہترین انداز میں رفع دفع کیا۔ اس کے برعکس ان کے پوتے اسماعیل کے نزدیک روزمرہ کی زندگی کی ایک باریک تنظیم سے ہی معاشرتی نظم کا حصول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے بغیر دنیا اخلاقی انتشار میں مبتلا رہتی ہے اور اپنے علاج کے لیے ایک ایسی جارحانہ تدبیر کی ضرورت مند ہوتی ہے جس کی ترتیب اور تنفیذ مذہبی مصلح کا کام ہے۔

میرے نزدیک اندازِ فکر کا یہ اختلاف محض دادا اور پوتے کے درمیان افتادِ طبع کا اختلاف نہیں تھا۔ اس کے بجاے یہ ان وسیع تر تبدیلیوں اور انقلابات کی پیداوار تھا جن کی وجہ سے ہلچل اور مسابقت سے بھرپور انیسویں صدی میں برصغیری اسلام کے عبوری سفر کا آغاز ہوا۔ میں کتاب کے پہلے حصے کے آخر میں اور پھر چھٹے باب کے آغاز میں ان تسلسلات اور تغیرات کی طرف واپس آؤں گا جنھوں نے برصغیری اسلام کے ماقبل استعمار سے مابعد استعمار دور میں داخلے کے اس عبوری سفر کو ممکن بنایا۔ لیکن اس سے پہلے میں اسماعیل کے سیاسی نظریات اور اصلاحی پروجیکٹ کو زیرِ بحث لانا چاہتا ہوں۔

خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کا تحفظ: مذہب کو بدعات سے لاحق خطرات

شاہ اسماعیل کے معاشرتی تخیل میں یہ مفروضہ سرایت کیے ہوئے تھا کہ انسانوں اور شریعتِ الٰہی کے درمیان ایک ہمہ وقت اور مسلسل کش مکش برپا ہے۔ جیسا کہ میں اس کتاب کے دوسرے حصے میں نسبتاً‌ تفصیل سے بیان کروں گا، شاہ اسماعیل اور ان کے بعد دیوبند کے پیش روؤں کے تصورِ بدعت میں احکامِ الٰہیہ میں تغیر پیدا ہونے کا تصور مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔ شاہ اسماعیل نے بدعت کی تعریف اس طرح سے کی کہ ہر وہ عادت یا رسم جس کی انجام دہی شرعی حکم نہ ہو اور اس کے باوجود اسے اس التزام اور جذبے سے سرانجام دیا جائے کہ وہ شرعی عمل کا روپ دھار لے، بدعت ہے۔

اس انداز سے ایک غیر شرعی عمل کو دین کے دائرے میں شامل کر لینا بدعت ہے، کیونکہ یہ تنہا اور مطلق شارع کی حیثیت سے خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ کو چیلنج کرنا ہے ، کیونکہ وہی یہ فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتا ہے کہ کون سا حکم شرعی ہے اور کون سا غیر شرعی۔ اس لیے شاہ اسماعیل کی فکر میں فقہ، عقیدہ، ایمان اور عمل میں تفریق ناممکن ہے۔ "بدعت اپنے جوہر کے اعتبار سے عقیدے کے مسائل میں سے ہے۔ کسی عمل کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ مفید ہے، حالانکہ خدا نے اسے مفید نہیں کہا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی عمل نقصان دہ ہے، حالانکہ خدا نے اسے نقصان دہ نہیں قرار دیا، یہ بدعتِ حقیقی کی تعریف ہے"17۔

چنانچہ عقیدہ شاہ اسماعیل کے نزدیک پختہ اعتقادات کا کوئی داخلی مسئلہ نہیں، بلکہ علم کا ایک متحرک موضوع ہے۔ عقیدہ وعلم اس طرح باہم گندھے ہوئے ہیں کہ انھیں جدا کرنا ناممکن ہے۔ کسی عمل کے نقصان دہ ہونے کا علم اس کے بارے میں یہی اعتقاد رکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔ "آپ اسی چیز پر یقین رکھتے ہیں، جس کا آپ کو علم ہو" کا محاورہ شاہ اسماعیل کی فکر کی بنیاد تھا۔ مزید برآں بدعت ایک ایسی صورت حال کو ظاہر کرتی ہے جس میں علم وعقیدہ کے درمیان خدا کے مقرر کردہ تعلق میں انسان اپنی طرف سے نیا اضافہ کر کے خلل ڈالتا ہے۔ اس لیے بدعت کا مفہوم اپنی طرف سے کسی چیز کو ایجاد کرنا ہے، جس میں ایک بندہ اپنی مرضی سے شریعت میں ایک ایسے حکم کا اضافہ کرتا ہے جسے خدائی جواز حاصل نہ ہو، اور نتیجتاً اس سے شریعت اور اس کے حدود کی تعیین میں مطلق صاحب اختیار کی حیثیت سے خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی مخالفت لازم آتی ہے۔

شاہ اسماعیل نے بتایا کہ علم، عقیدہ اور عمل کے اس میدان کو خدا کی طرف سے منظور شدہ احکام وضوابط سے ہم آہنگ بنانے کے لیے یہ ناگزیر تھا کہ ایسے افراد اور پھر ایسے عوام کی تربیت کی جائے جن کے لیے کسی قسم کی ایسی فکر اور سرگرمی فیصلہ کن طور پر ناقابلِ برداشت ہو جو خدا کی حاکمیتِ مطلقہ میں کسی شک وشبہہ کا سبب بنتی ہو18۔

حاکمیتِ اعلیٰ کے خاص دائرے اور شعائر

لیکن اطاعت وبندگی کی وہ کون سی علامات ہیں جو خدا نے صرف اپنی ذات کے ساتھ خاص کی ہیں؟ فکر وعمل کے وہ کون سے مخصوص اور اعلیٰ وارفع دائرے ہیں جن کے ذریعے انسان خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کا اقرار اور تصدیق کریں، اور جو غیر اللہ کے لیے نہ بجا لائے جا سکیں؟ اس بنیادی سوال کا جواب دیتے ہوئے شاہ اسماعیل نے شرک کی چار اقسام بیان کی جن میں سے ہر ایک کا تعلق کچھ ایسے مخصوص اعمال سے ہے جو صرف اور صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، اور اسی وجہ سے کسی دوسرے فرد کے لیے انھیں نہیں بجا لایا جا سکتا۔ شرک کی ان اقسام میں ۱۔ علم میں شرک، ۲۔ تصرف (فطرت کے عام قانون سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کی قدرت) میں شرک، عبادت میں شرک اور عادات (روزمرہ کے رسم ورواج اور اعمال واطوار) میں شرک شامل ہیں۔ میں شاہ اسماعیل کی تشریح کے مطابق ان کی وضاحت کرتا ہوں۔

شرک فی العلم میں وہ تمام اعمال اور اطوار شامل ہیں جو خدا کے عالم الغیب ہونے کے تصور کو کمزور کرتے ہیں۔ مثلاً کسی ولی کے نام کا مسلسل ورد کرنا، اس عقیدے سے اسے پکارنا کہ وہ سنتا ہے، یا یہ خیال کرنا کہ تمام انسانی عوارض جیسے بیماری، ناداری، زندگی اور موت سے اصحاب کشف وکرامت شخصیات واقف ہوتی ہیں۔ مختصر یہ کہ شرک فی العلم سے مراد علم کی ان اقسام کو غیر اللہ کے لیے ثابت کرنا ہے جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں19۔

شرک فی التصرف سے مراد یہ ہے کہ اپنی مرضی سے کسی کی جان لینے، دعائیں قبول کرنے، شر کو دفع کرنے، بیماری لانے اور شفا دینے کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے۔ یہ وہ صفات ہیں جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہیں، اور اسی وجہ سے غیر اللہ کے لیے ان کا اثبات نہیں کیا جا سکتا۔

شرک فی العبادات سے مراد یہ کہ وہ عبادات، اعمال اور سرگرمیاں جو خدا نے اپنی عبادت کی علامات کے طور پر اپنے ساتھ خاص کی ہے، انھیں کسی اور کے لیے بجا لایا جائے۔ مثلاً رکوع کرنا، سجدہ کرنا، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا، خدا کے نام پر صدقہ خیرات دینا، اس کے نام کا روزہ رکھنا، حج بیت اللہ کے لیے دور دراز سے سفر کر کے آنا، حاجی کا ایسا انداز اختیار کرنا جو اسے دیگر تمام لوگوں سے ممتاز کرے، حرمِ مکی میں فضول گپ شپ اور شکار سے اجتناب کرنا، کعبہ کے گرد طواف کرنا، کعبہ پر غلاف چڑھانا، حجرِ اسود کو بوسہ دینا، حرم کے درختوں اور گھاس کا نہ کاٹنا، اور حرم میں جانور نہ چَرانا تمام وہ اعمال ہیں جو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے شعائر کے طور پر متعین کیے گئے ہیں۔

ان اعمال اور عبادات کی بجا آوری جو صرف مخصوص مقامات میں مشروع کیے گئے ہیں، کسی ایسی جگہ میں کرنا بھی بدعت ہے جہاں پر یہ مشروع قرار نہیں دیے گئے، مثلاً‌ اولیا کے مزاروں کی زیارت کے مواقع پر ان اعمال کو بجا لانا۔ بالفاظِ دیگر شرک فی العبادات سے مراد شاہ اسماعیل کے نزدیک خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ کے ساتھ مخصوص اعمال کو دیگر سیاقات میں بجا لانا ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے یہ تمام کام صرف اپنی عبادت کے لیے خاص کیے ہیں۔ سو اس قسم کے کام کسی اور کی تعظیم کے لیے نہیں کرنے چاہییں۔ کسی کی قبر پر چلے جانا یا دور دراز سے کسی کے تھان کا قصد کرنا، سفر کی رنج وتکلیف اٹھا کر اور میلے کچیلے ہو کر وہاں پہنچنا، وہاں جاکر جانور چڑھانا، منتیں پوری کرنا، کسی قبر یا مکان کا طواف کرنا، اس کے گرد وپیش کے جنگل کا ادب کرنا یعنی وہاں شکار نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا، گھاس نہ اکھاڑنا اور اسی قسم کے دوسرے آداب بجا لانا اور ان سے کچھ دین ودنیا کے فائدہ کی توقع رکھنا، یہ سب شرک کی باتیں ہیں۔ ان سے بچنا چاہیے، کیوں کہ یہ معاملہ خالق ہی سے کیا جانا چاہیے۔ کسی مخلوق کی شان نہیں کہ اس سے یہ معاملہ کیا جائے"20۔

شرک فی العادات یعنی روزمرہ کی عادات اور معمولات میں شرک ان چار اقسام میں سب سے زیادہ عام قسم ہے۔ یہ وہی قسم ہے جو اشرافیہ کے طرز زندگی پر شاہ اسماعیل کی وسیع تر تنقید کو ان کے کلامی فکر سے زیادہ صراحت کے ساتھ جوڑتی ہے۔ اس قسم میں شامل چند اعمال میں سے روزمرہ کی گفتگو میں دوسرے لوگوں کی حد سے زیادہ تقدیس کرنا، جیسے کسی کو "جنابِ عالی" یا "قبلہ" جیسے القاب وآداب کے ساتھ پکارنا، یا اپنے نام ونسب پر فخر کرنا، جیسے کوئی پٹھان، راجپوت اور مغل خاندان سے تعلق ہونے پر فخر کرے، اور ادب واحترام کی خاطر نیک لوگوں یا بزرگوں کے ہاتھ چھومنا شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ شرک فی العادات میں روزمرہ کی زندگی میں غیر اللہ کو وہی تقدس دیا جاتا ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ شرک کی یہ تمام اقسام ہندوستانی مسلمانوں میں پنپ رہی تھیں۔

روایت بطور اصل معیاری نمونے کا اعادہ

شاہ اسماعیل کے اصلاحی بیانیے کے مطابق ابتدائے اسلام میں جس طرح آنحضرت ﷺ اور ان کے تشکیل کردہ نومسلم معاشرے اور مشرکین، یہودیوں اور عیسائی دشمنوں کے مابین ایک کشمکش تھی، بعینہ وہی صورت حال اب انیسویں صدی کے ہندوستان میں وقوع پذیر ہے۔ اگر چہ کردار بدل گئے ہیں، لیکن کہانی وہی ہے۔ مختلف لباسوں میں ملبوس اہلِ بدعت راہِ سنت کی، جو خدا کی حاکمیتِ مُطلَقہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے سے عبارت ہے، مخالفت کر رہے ہیں، اور بے سوچے سمجھے اپنے آبا واجداد کی پیروی کر رہے ہیں۔ کیا یہ وہی جاہلیت نہیں ہے جس کی اصلاح کے لیے اسلام اور پیغمبر اسلام کو بھیجا کیا گیا تھا؟ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں اسلام کے مخالفین کی طرح انیسویں صدی کے ہندوستانی مسلمان بھی اس بات سے ناواقف ہیں کہ وہ بدعات وخرافات میں مکمل ڈوبے ہوئے ہیں۔ بہت سے دعوی تو مسلمانی کا کر رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ شرک وبدعت کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ انبیا اور اولیا کی تعظیم کے بہانے سے یہ لوگ بدعات کا ارتکاب کرتے ہیں، اور انھیں اپنے گناہوں کا احساس تک نہیں ہوتا۔ شاہ اسماعیل جاہلیت کی اس صورت حال کی ایک واضح تصویر کشی کرکے اس اضطراب انگیز صورت حال کی اصلاح کے لیے اپنا پروگرام تجویز کرتے ہیں۔ اپنی ذات پر عموماً کیے جانے والے اعتراضات کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:

"ایمان کے اکثر دعوے دار شرک کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر کوئی ان سے کہے کہ تم دعوی تو ایمان کا کرتے ہو، مگر شرک میں گرفتار رہتے ہو، کیونکہ شرک وایمان کی متضاد راہوں کو ملا رہے ہو، تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم شرک نہیں کر رہے بلکہ انبیا واولیا سے محبت رکھتے ہیں اور ان کے عقیدت مند ہیں۔ شرک تو تب ہوتا جب ہم انھیں اللہ کے برابر سمجھتے۔ ہم تو انھیں اللہ کے بندے اور مخلوق ہی سمجھتے ہیں۔ اللہ نے انھیں قدرت وتصرف بخشا ہے۔ یہ اللہ ہی کی مرضی سے دنیا میں تصرف کرتے ہیں۔ ان کو پکارنا اللہ کو پکارنا ہے اور ان سے مدد مانگنا اللہ ہی سے مدد مانگنا ہے۔ یہ لوگ اللہ کے پیارے ہیں، جو چاہیں کریں۔ یہ ہمارے سفارشی وکیل ہیں۔ ان کے ملنے سے رب مل جاتا ہے اور ان کے پکارنے سے رب کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ جتنا ہم انھیں مانیں گے، اسی نسبت سے ہم اللہ کے نزدیک ہوتے چلے جائیں گے"21۔

شاہ اسماعیل کی طرف سے اپنے اصلاحی مشن کے خلاف پیش کیے جانے والے اس ممکنہ استدلال کی تردید سے ہمیں واضح اشارات ملتے ہیں کہ ان کی نظر میں روایت کا تصور اور زمان کے ساتھ اس کے تعلق کی نوعیت کیا تھی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ بالکل وہی بہانے ہیں جو ابتداے اسلام میں مشرکین اور کفار پیش کیا کرتے تھے۔وہ اپنے قارئین کو یاد دلاتے ہیں کہ عہد نبوی کے مشرکین بھی اپنے بتوں کو خدا نہیں، بلکہ خدا کی مخلوق سمجھتے تھے۔ وہ بھی خدا کا کھلا نہیں کرتے تھے، کیونکہ وہ ان بتوں کے لیے خدائی طاقتوں کے قائل نہ تھے۔ لیکن بتوں کے نام پر قسم کھانے اور ان کے سامنے معافی کے لیے گڑگڑانے جیسے اعمال خدائی حاکمیت اعلیٰ (توحید) کی نفی کرتے تھے۔ اس لیے کہ یہی وہ اعمال ہیں جو خدا نے اپنی حاکمیت کے شعائر کے طور پر متعین کیے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے انھیں بجا لانا اس کی حاکمیتِ اعلیٰ کو چیلنج کرنا ہے۔

شاہ اسماعیل کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے خدا نے یہود ونصاری کی سرزنش کی تھی، کیونکہ وہ اپنے انبیا اور اولیا کی حد سے زیادہ تعظیم کرتے تھے، اگر چہ وہ بتوں کی طرح ان کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ یہ مضمون بہت عمدگی سے درج ذیل قرآنی آیت میں بیان ہوا ہے: انھوں نے خدا کے بجاے اپنے علما اور درویشوں کو رب بنا لیا اور مسیح بن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایک خدا کی پرستش کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور وہ مشرکوں کے شرک سے پاک اور بلند وبرتر ہے22۔

یوں شاہ اسماعیل اپنے قیاس کو وسعت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انبیا واولیا کی حد سے زیادہ تعظیم کے ذریعے معاصر ہندوستانی مسلمانوں نے ویسے ہی خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو مجروح کیا ہے جیسے مشرکین نے ابتداے اسلام میں کیا تھا۔ دونوں کا جرم ایک تھا: خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے ساتھ مخصوص اعمال کو غیر خدائی ہستیوں کے لیے بجا لانا۔ آگے شاہ اسماعیل بتاتے ہیں کہ اسی طریقے سے ہندوستانی مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کی حد سے زیادہ تعظیم کرکے آپ کی بشریت کی نفی کی ہے، جیسے مسیحیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کے مقام پر فائز کر دیا تھا۔ شاہ اسماعیل کے مطابق نبی ﷺ نے خود اپنی امت کو اس بابت عیسائیوں کی پیروی کے بارے میں خبردار کیا تھا: تم میری تعظیم میں اس طرح مبالغہ مت کرنا جس طرح مسیحیوں نے عیسیٰ بن مریم کی شان میں مبالغہ کیا۔ میں تو صرف خدا کا بندہ ہوں۔ اس لیے مجھے خدا کے بندے اور اس کے پیغمبر کے نام سے پکارا کرو"23۔

ایک اور موقع پر آپ نے اپنے صحابہ کو تنبیہ کی: میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے اس مرتبے سے آگے بڑھاؤ جس پر اللہ نے مجھے رکھا ہے۔ میں محمد، عبد اللہ کا بیٹا، اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں"24۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک ان نبوی تنبیہات کا مقصد خدائی حقیقت (حقیقتِ اُلوہیہ) اور حقیقتِ محمدیہ کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچنا تھا، ایک ایسی حد جسے عشق نبوی کے نام پر ہندوستانی مسلمان پامال کرتے رہتے ہیں۔یہ بعینہ وہی تجاوز ہے جو مسیحیوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو اور مشرکین مکہ نے اپنے بتوں کو خدائی صفات سے متصف کر کے کیا ہے۔ بالفاظِ دیگر شاہ اسماعیل کی نظر میں اگر چہ ان دو ادوار کے درمیان زمانی فاصلہ ہے، لیکن انیسویں صدی کے اوائل کا اسلام اور ساتویں صدی کے عرب میں حضور ﷺ کی بعثت کا وقت دونوں اخلاقی اور جمالیاتی اعتبار سے ایک ہی مقام پر ہیں۔

اس مقام کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ اس میں خدا کی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کی یکتائی کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ مزید برآں حضور ﷺ کے بعد شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کا یہ فرض ہے کہ وہ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ (توحید) کے مقابلے میں کھڑے ہونے والی دیگر حقیقی یا فرضی ہستیوں کا اپنی تبلیغی اور اصلاحی سرگرمیوں کے ذریعے سے قلع قمع کریں۔ اگر چہ میدان جنگ تبدیل ہو گیا ہے، لیکن معرکہ آج بھی وہی ہے۔

شاہ اسماعیل نے اپنے بیانیے میں جس طرح آنحضرت ﷺ کے دور کو اپنے اصلاحی دور کے مماثل قرار دیا ہے، اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ وہ روایت اور زمان کے تعامل کو کس نظر سے دیکھتے تھے۔ جیسا کہ ہندوستانی مسلمانوں اور اوائلِ اسلام کے یہود ونصاری کے درمیان موازنے میں دکھایا گیا، شاہ اسماعیل کی نظر میں عہدِ نبوت کی کہانی نوآبادیاتی ہندوستان میں ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔ روایت کے ایک ایسے تصور میں جس میں ایک نقطۂ آغاز بار بار وقوع پذیر ہو سکتا ہو، انتقال (translation) کا کردار ملاحظہ کیجیے25۔ شاہ اسماعیل کی نظر میں عہد نبوت ان کے اپنے زمانے میں مکمل طور قابلِ انتقال ہے، (یعنی اسی جدوجہد کا آج بھی اعادہ کرنے کی ضرورت ہے)۔ ان دو زمانی ادوار کے درمیان مکمل انتقال کے امکان کا دعوی کر کے شاہ اسماعیل نے یہ کوشش کی کہ روایت کو ایک بنیادی اور معیاری نمونے کے طور پر پیش کر کے جو بار بار وقوع پذیر ہو سکتا ہے، روایت اور بدعت کے درمیان چپقلش کی ایک کہانی ترتیب دی جائے۔ شاہ اسماعیل کے تخیل میں حال کی اصلاح کا دار ومدار ایک ایسی روایت کا وارث بننے کے امکان میں ہے جس نے ایک جست میں تاریخ کا سفر طے کیا ہو۔ ان کے ہاں ماضی، میراث کے ترکے کی طرح ہمیشہ مکمل طور پر قابل انتقال ہے۔ مزید برآں قادر مُطلق خدائی ہستی نے، جو کسی تغیر وتبدل سے پاک ہے، ماضی وحال کے درمیان تفریق کو مؤثر طریقے سے مٹا دیا ہے۔ ماورا خدا کی قیومیتِ مُطلَقہ نے زمان کی حرکت پذیری کو شکست دے دی ہے۔ اس مبدا کو قادرِ مطلق خدا کی کلی ہستی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔

شاہ اسماعیل نے اس تصور کو مسترد کیا کہ مذہب کے پیروکاروں کی جمالیاتی حساسیتوں اور عملی تجربات میں واقع ہونے والے زمانی تغیرات اور ملحقہ تبدیلیوں کے مطابق روایت کی حدود میں ترمیم کی جا سکتی ہے۔ ایسی ترمیمات کی ضرورت نہیں، کیونکہ عہد نبوی اور زمانۂ حال مکمل طور پر باہم قابلِ انتقال ہیں۔ حیرت کا دھچکا اس وقت لگتا ہے جب شاہ اسماعیل پوری صراحت سے مکمل انتقال کے اس امکان کی تصدیق کے لیے عہد نبوی اور اپنے زمانے کے درمیان یکسانی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: "بچے اس وقت بھی پیدا ہوتے تھے، عورتوں کو ماہواری آتی تھی، بچوں کا ختنہ کیا جاتا تھا، لوگ شادیاں کرتے تھے، وہ بیمار ہو کر مرتے تھے، قبریں بھی کھودی جاتی تھیں۔ پھر یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ ان حالات میں حضور ﷺ کیا کرتے تھے؟ اور ان کے بعد خلفاے راشدین روز مرہ کے یہ اعمال کس طرح سر انجام دیتے تھے؟"26

اس بیان سے اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے کہ شاہ اسماعیل کی نظر میں روایت ماضی کی ایک تعبیر کی نمائندگی کرتی ہے جسے حال میں بآسانی از سرِ نو منتقل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انتقال کی یہ خواہش ایک لاینحل مسئلے میں الجھی ہوئی تھی۔ وہ ایک ایسے نبوی دور کے دوبارہ وقوع پذیر ہونے کی متلاشی تھی جس کا دوبارہ وقوع پذیر ہونا عملاً ناممکن تھا۔ شاہ اسماعیل کا اصلاحی پروجیکٹ (ان کے بہت سے دیگر پروجیکٹس کی طرح؟) یہ لاینحل گتھی نہیں سلجھا سکا۔

امکانِ نظیر اور امکانِ کذب

شاہ اسماعیل کی کلامیات کا ایک انتہائی متنازعہ پہلو وہ اصطلاحات ہیں جن کے ذریعے سے انھوں نے خدائی حاکمیتِ اَعلی (توحید) کی قطعی یکتائی کے حق میں استدلال کیا۔ انھوں نے بتایا کہ قادر مطلق خدا کے مقابلے میں دیگر تمام ہستیاں، چاہے وہ انبیا ہوں یا جنات، شیاطین، بھوت پریت، پریاں، یا اولیا، سب یکساں طور پر کم تر ہیں۔ نہ صرف ان کے استدلال بلکہ ان کے طرزِ استدلال نے بھی غم وغصہ اور تنازعات کو جنم دیا۔ انھوں نے پرشکوہ انداز میں لکھا: "اگر آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے خاتمے تک تمام انسان اور جنات، جبریل امین اور حضرت محمد ﷺ کی طرح بن جائیں تو بھی خدا کی بادشاہت اور شان وشوکت میں ذرہ برابر اضافہ نہیں ہوتا، اور اگر وہ تمام شیطان اور دجال بن جائیں، تب بھی اس کی عظمت میں کوئی کمی نہیں آتی۔ وہ ہر حال میں قادروں کا قادر اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ کوئی اسے نفع ونقصان نہیں پہنچا سکتا"27۔ ایک عجیب انداز میں توحید فی الحکم کا اثبات کرتے ہوئے انھوں نے وہ بات کہی جو آج تک ان کی کتاب کا انتہائی متنازعہ موقف سمجھا جاتا ہے: خدا اس قدر طاقت ور ہے کہ ایک لمحے میں اپنے 'کُن' سے وہ لاکھوں نئے پیغمبر، اولیا، جنات، فرشتے، جبریل اور محمد ﷺ پیدا کر سکتا ہے28۔

شاہ اسماعیل کے سب سے بڑے مخالف علامہ فضل حق خیر آبادی نے اپنی کاٹ دار تنقید میں اس دعوے کو بڑی شدت سے رد کیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ محمد ﷺ کے نظیر کے امکان کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا جھوٹ بول سکتا ہے، اور ختم نبوت کے دعوے سے مکر سکتا ہے۔علامہ خیر آبادی کہتے ہیں کہ اس سے خدا کی ذات میں عیب کا امکان ثابت ہوتا ہے، کیونکہ جھوٹ بولنا ایک عیب ہے۔ اس دعوے کے جواب میں شاہ اسماعیل نے اپنی ایک کتاب "یک روزہ" میں مزید ایک ایسے تنازع کا جواز فراہم کیا جس نے برصغیر کے مسلمان اہل علم اور عوام کو آنے والی کئی دہائیوں تک الجھائے رکھا۔ یہ نزاع امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) سے موسوم ہے۔

کہا جاتا ہے کہ شاہ اسماعیل نے رسالہ "یک روزہ" اس وقت لکھا جب وہ جامع مسجد میں نماز پڑھنے جا رہے تھے کہ کسی نے ان کو علامہ خیر آبادی کی کتاب پکڑا دی۔ نماز ادا کرنے کے بعد شاہ اسماعیل مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے اور ایک دن میں یہ کتاب لکھ ڈالی۔ اسی وجہ سے اسے "یک روزہ" کہا جاتا ہے۔ اس کتاب میں خیر آبادی کی تنقید کے جواب میں دفاعی پوزیشن لینے کے بجائے شاہ اسماعیل نے پرزور انداز میں یہ موقف اختیار کیا کہ ہاں، خدا جھوٹ بول سکتا ہے یا اپنے وعدے کے خلاف کر سکتا ہے۔ مثلاً خدا نے وعدہ کیا ہے کہ وہ فرعون، ابو لہب اور ہامان کو جہنم میں بھیجے گا، لیکن وہ اس وعدے کے برخلاف انھیں جنت میں بھی بھیج سکتا ہے۔ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں کہا کہ خدا کے لیے جھوٹ بولنے کے امکان کی نفی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ خدا کسی ایسی چیز کی قدرت نہیں رکھتا جس کی قدرت انسانوں کو بآسانی حاصل ہے۔ اس سے لازم آتا ہے کہ انسانوں کی قدرت خدا کی قدرت سے زیادہ ہے۔

آگے چل کر شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال کو امکان اور وقوع کے درمیان فرق پر استوار کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر چہ خدا لاکھوں نئے محمد پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے، یا اپنے ہی وعدے کےخلاف کر سکتا ہے، لیکن وہ فی الواقع ایسا نہیں کرتا29۔ ان کا استدلال مختصرًا کچھ یوں ہے کہ کوئی بیان یا وعدہ اسی وقت جھوٹا ثابت ہو سکتا ہے جب وہ عملاً واقع ہو جائے، اپنے وقوع سے پہلے اسے جھوٹا نہیں کہا جا سکتا۔"30

اگر ہم مفکر جیارجیو اگیمبن (Giorgio Agamben) کے مطابق ارسطو کی فکر میں امکان اور وقوع کے درمیان فرق قائم کریں تو شاہ اسماعیل کے استدلال کی تنقیح وتوضیح اچھے انداز میں ہو سکتی ہے۔ اگیمبن بتاتے ہیں کہ ارسطو کے تصور میں امکان، وقوع پر مقدم ہوتا ہے اور اس کے لیے راہ ہموار کرتا ہے، لیکن یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اساسی طور پر امکان، وقوع کے تابع ہوتا ہے۔ ارسطو امکان کے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنے کا پورا خیال رکھتا ہے۔ مثلاً باجا بجانے والے کے پاس یہ امکان رہتا ہے کہ وہ باجا بجائے، باوجودیکہ وہ اس وقت باجا نہ بجا رہا ہو۔ اسی طرح ماہر تعمیرات کے پاس یہ امکان رہتا ہے کہ وہ عمارت بنائے، اگر چہ وہ اس وقت نہ بنا رہا ہو31۔ اگیمبن نے ارسطو سے یہ دل چسپ نکتہ اخذ کیا کہ اپنے آزادانہ وجود کو برقرار رکھنے کے لیے امکان میں یہ صلاحیت ضروری ہے کہ وہ وقوع میں داخل نہ ہو۔ اگیمبن نے اسے یوں بیان کیا ہے: "اگر امکان اپنا تسلسل چاہتا ہو، اور فوراً وقوع میں آ کر خود کو کھونا نہ چاہتا ہو، تو یہ ضروری ہے کہ اس میں امکان سے وقوع میں داخل نہ ہونے کی صلاحیت ہو32، یعنی اس امکان کی خاصیت ہی عدم وقوع ہو، یا ارسطو کے الفاظ میں یہ امکان ہمیشہ عدم امکان (im-potentiality [adynamia]) ہی رہے۔

اگیمبن کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ حاکمیتِ اعلیٰ وہی مقام ہے جہاں امکانِ محض اور وقوع دونوں برابر ہیں۔ بعینہ یہی بات شاہ اسماعیل کہتے ہیں کہ "خدا لاکھوں محمد پیدا کر سکتا ہے" یا "اپنے وعدے کے خلاف کر سکتا ہے" جیسے دعووں کا مقام یہی برابری والا ہے، جہاں پر قدرت وتصرف کا امکان کبھی وقوع کے دائرے میں داخل نہیں ہوتا۔ اس کے بجاے اپنی ذات پر ایک پابندی لگا کر یہ امکان خود اپنے آپ کو مُعَلّق رکھتا ہے، اور اس صورت میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے دونوں امکان برابر رہتے ہیں۔

شاہ اسماعیل کا یہ نظریہ کہ خدا اپنے وعدے کے خلاف کر سکتا ہے، یا ایک لاکھ نئے محمد پیدا کر سکتا ہے، درحقیقت ان کی فکر اور علمی سرمایے کا سب سے کانٹے دار اور متنازعہ پہلو ہے۔ اس لیے میں شاہ اسماعیل کی طرف سے "یک روزہ" میں پیش کیے جانے والے کلیدی دلائل ونکات کا بالاختصار ذکر کرتا ہوں، تاکہ اس انتہائی اہم کتاب کی چند جھلکیاں پیش کر سکوں جسے شاذ ونادر ہی موضوعِ تحقیق بنایا گیا ہے۔ اس سے قارئین کو علامہ خیر آبادی کی جانب سے پیش کیے گئے جواب کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی جسے میں آئندہ ابواب میں بیان کروں گا۔

شاہ اسماعیل کا استدلال اگر چہ قرآن تک محدود نہیں، لیکن اساسی طور پر انھوں نے ان قرآنی آیات کو پیش کیا ہے جن میں خدا کی قدرت کا ذکر ہے کہ وہ قیامت کے دن انسانوں اور دیگر مخلوقات کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ ان آیات کو ذکر کرنے کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ چند آیات پر غور کرنے سے ہم یہ مقصد معلوم کرسکتے ہیں۔ مثلاً شاہ اسماعیل نے سورۃ یس کی آیات نمبر 81 اور 82 کا حوالہ دیا ہے: "بھلا جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں! جب کہ وہ سب کچھ پیدا کرنے کی پوری مہارت رکھتا ہے۔ اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ: 'ہو جا' تو وہ ہو جاتی ہے"33۔

شاہ اسماعیل نے اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے بتایا کہ چونکہ اس آیت میں روزِ قیامت کا ذکر ہے، اس لیے "ان جیسوں" کے الفاظ سے مراد انسانوں کے ساتھ ساتھ تمام اشیا ہیں جنھیں از سرِ نو زندہ کیا جائے گا34۔ اس آیت کے مطابق تمام انسانی افراد کو قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جائے گا، اس لیے یہ قدرتِ الٰہیہ میں شامل ہے35۔ اب یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے کہ پیغمبر ایک انسان تھا جسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کیا جائے گا36۔ ان مقدمات کو ملاتے ہوئے اس آیت کے مطابق یہ خدا کی قدرت میں شامل ہے کہ وہ ایک اور محمد کو پیدا کرے37۔ اس لیے کہ خدا کی قدرت میں شامل ہے کہ وہ ان مخلوقات کی نظیر پیدا کرے جنھیں قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جائے گا۔ اسماعیل نے فاتحانہ انداز میں اپنی بات کو یوں سمیٹا ہے کہ "تقویۃ الایمان میں میرا نکتہ یہی تھا" ۔

اسی طرح انھوں نے ایک اور دل چسپ قرآنی آیت پیش کی ہے جس میں ایک بار پھر "ہو جاؤ، اور وہ ہو گیا" کا پرکشش جملہ موجود ہے۔ یہ سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 59 ہے: "اللہ کے نزدیک عیسٰی کی مثال آدم جیسی ہے۔ اللہ نے انھیں مٹی سے پیدا کیا، پھر ان سے کہا: "ہو جاؤ، پس وہ ہو گئے"38۔ یہ آیت اس اعتبار سے اہم ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آدم علیہ السلام کی طرح بغیر باپ کے قادرِ مطلق خدا کے لفظِ "کن" سے پیدا ہوئے تھے۔ شاہ اسماعیل کے مطابق خدا کی نظر میں حضرت عیسٰی اور حضرت آدم علیہما السلام کی پیدائش میں مماثلت سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی ہستی کو وجود میں لانے کی قدرت ہی اس بات کی علامت ہے کہ وہ اس طرح کی ایک دوسری ہستی کو پیدا کر سکتا ہے۔

"یک روزہ" کا یہ مرکزی نکتہ ہے: نبی اکرم ﷺ کا نفس وجود ہی بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی نظیر پیدا کرنا خدا کی قدرت میں شامل ہے39۔ شاہ اسماعیل واضح کرتے ہیں: "اس دلیل کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ بہر صورت محمد کا وجود خدا کی قدرت میں شامل ہے، تو محمد کی نظیر کا وجود بھی اس کی قدرت میں شامل ہے"40۔ وہ کتاب کے فارسی متن میں ایک عربی جملہ لکھتے ہوئے اس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کہ " قرآنی تصریح کے مطابق قدرتِ الہیہ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے اعتبار سے مثلین کا حکم ایک ہے (لأن حكم المثلين واحدٌ في الدخول تحت القدرة وعدمه بمنطوق القرآن)"41۔

"یک روزہ" میں مخصوص قرآنی آیات کو پیش کرنے کے علاوہ شاہ اسماعیل کا مرکزی استدلال یہ تھا کہ خدا کا اپنے وعدے کے خلاف کرنا یا ایک اور محمد کو پیدا کرنا اصلاً ناممکن (ممتنع بالذات) نہیں، بلکہ بالواسطہ ناممکن (ممتنع بالغیر) ہے۔ یہ دو اصطلاحات یعنی ممتنع بالذات اور ممتنع بالغیر، امکان کذب اور امکان نظیر کے قضیے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ ممتنع بالذات ایک عقلی عدم امکان کی طرف اشارہ ہے، یعنی ایک ایسی چیز جو اپنی اصل اور جوہر میں ناممکن ہو۔ اس کے برعکس ممتنع بالغیر سے اشارہ ایسے عدم امکان کی طرف ہے جو اپنی اصل کے بجاے کسی اور چیز کی وجہ سے، بالفاظ دیگر بالواسطہ، ناممکن ہو۔

یہ ذہن میں رہے کہ شاہ اسماعیل اپنے مخالفین مثلاً علامہ خیر آبادی کے ساتھ اس بات پر بالکل متفق تھے کہ فی الواقع محمد ﷺ کی نظیر نہ کبھی ممکن ہوئی نہ ممکن ہے، اور نہ کبھی ہوگی۔ واقعتاً محمد کی نظیر پیدا ہونا ناممکن ہے۔ اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اصل اختلاف عدم امکان کی حیثیت میں ہے۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک امکانِ کذب یا امکانِ نظیر بالذات نہیں، بلکہ بالواسطہ ناممکن تھا۔ خدا اگر چاہے تو وہ یہ کر سکتا ہے تاہم اس نے ایسا نہیں کیا اور نہ کرے گا، کیونکہ ایسا کرنا اس کے الٰہی منصوبے کے مطابق نہیں۔ اس کے برعکس علامہ خیر آبادی کے نزدیک، جیسا کہ ہم عنقریب ملاحظہ کریں گے، یہ اعمال اصلاً اور بالذات ناممکن ہیں۔ شاہ اسماعیل کے نقطۂ نظر پر بحث کو سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ ان کے استدلال کے پیچھے مرکزی خیال یہ تھا کہ: "ہر ممتنع بالغیر ممکن بالذات ہوتا ہے، اور ہر ممکن بالذات خدا کی قدرت کے تحت شامل ہے"42۔

اس اصول کی بنیاد پر انھوں نے یہ دعوی کیا کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نظیر کا عدم امکان اور غیر موجودگی بالذات نہیں بلکہ بالواسطہ ہے، اس لیے ان کی نظیر کا وجود اصل میں ممکن ہے۔ اور چونکہ واضح طور پر خدا اس چیز کو وجود میں لا سکتا ہے جو اصل ممکن ہو، تو اس سے ثابت ہو گیا کہ خدا کو یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ وہ ایک اور محمد کو پیدا کرے، یا وہ اپنے وعدے کے خلاف عمل کا فیصلہ کر لے۔ شاہ اسماعیل، ایک ایسے مصنف کی طرح جو اپنی کتاب سے متعلق عمومی تاثر کی تصحیح کرنا چاہ رہا ہو، گزارش کرتے ہیں کہ یہی وہ بات تھی جو وہ تقویۃ الایمان میں کہنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن ان وضاحتوں سے، جیسا کہ ہم عنقریب دیکھیں گے، ان کے مخالفین کی ہرگز تسلی نہیں ہوئی، بلکہ اس سے ان کی تلخی میں مزید اضافہ ہوا کہ ان کی نظر میں یہ ایک معمولی حیثیت کے حامل مولوی کی علمی اعتبار سے فضول گستاخیاں تھیں۔

"یک روزہ " کے لکھنے کے جلد ہی بعد شاہ اسماعیل سکھوں کے خلاف جہاد کے لیے نکل پڑے۔ تاہم وہ اپنے پیچھے برصغیر کے مسلمان اہل علم اور عوام کے لیے بکثرت ایسے اعتقادی مسائل چھوڑ گئے جن کی وجہ سے لوگوں میں بحث ومباحثہ اور اختلاف وتفریق کا ماحول گرم رہا۔ اگر یہ مانا جائے کہ "یک روزہ " حقیقتاً ایک دن میں لکھی گئی تھی تو پھر ایسی کتابیں چند ہی ہوں گی جنھیں مرتب کرنے میں اتنا کم وقت لگا ہو اور انھوں نے مستقبل میں کئی نسلوں پر اس قدر دیر پا اثرات مرتب کیے ہوں۔

شاہ اسماعیل کی فکر اور سیاسی نظریے کے چند دیگر پہلوؤں پر بحث کرنے سے پہلے مجھے اجازت دیجیے کہ تفریحِ طبع کی خاطر چند لمحوں کے لیے آپ کو ہندوستان سے باہر کی دنیا کی سیر کراؤں۔

شاہ اسماعیل کا ہم مسلک مسیحی مفکر

خدائی حاکمیتِ اعلی (توحید) کے احیا کے لیے شاہ محمد اسماعیل اپنے جوش وخروش میں بڑی حد تک گیارھویں صدی کے اطالوی مسیحی مصلح پطرس دامیانی (م 1072) کے مشابہ دکھائی دیتے ہیں۔ بڑی حد تک شاہ اسماعیل کی طرح دامیانی بھی ایک زبردست مناظر تھا جو خدائی حاکمیتِ اعلی (توحید) کے سوال میں گہری دل چسپی لیتا تھا، جیسا کہ اس کی سب سے مؤثر کاوش De divina omnipotia (خدائی علمِ غیب) سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے43۔ اپنی کتاب میں دامیانی نے اپنے پیش رو متعدد مسیحی مفکرین کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان میں قابل ذکر اور سب سے زیادہ نمایاں عالم مقدس جیروم (م 420) تھا، جس نے خدائی قدرت کی محدودیت پر کچھ اس انداز سے دلیل پیش کی تھی کہ خدا اپنے کیے کو واپس نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر بکارت کو لیجیے۔ اس نے دعوی کیا کہ "اگر چہ خدا سب کچھ کر سکتا ہے، لیکن وہ کسی عورت کی زائل شدہ بکارت کو دوبارہ نہیں لوٹا سکتا"44۔

ایسے من موجی خدا کے تصور سے سینٹ جیروم خاصا غیر مطمئن تھا جو اپنی مرضی سے سب کچھ کر گزرتا ہو۔ خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کو محدود کرنے کی کوشش میں اس نے "قدرتِ مُطلقہ" اور "قدرت منظمہ" کے درمیان خط امتیاز کھینچ دیا۔ قدرت مطلقہ دیگر مخلوقات سے خدا کی یکتائی کو ثابت کرتی ہے، جبکہ قدرتِ منظَّمہ سے اس کا اشارہ خدا کے قدرت کی محدودیت کی طرف تھا۔ اگر ایک طرف قدرتِ مطلقہ لامحدود ہے، تو دوسری طرف قدرتِ مُنَظمہ ایسے خدائی تعقل کے زیر اثر ہے جو قابل اعتماد اور مُرتّب ہونے کی وجہ سے انسانیت کے لیے قابلِ فہم ہے۔

لیکن دامیانی کو، جو مقدس جیروم کے سات صدیوں بعد آیا، یہ فلسفیانہ جوڑ توڑ کسی ایسی چیز کو محدود کر دینا معلوم ہوا جو اپنی اصل میں لا محدود ہے۔ اس نے مقدس جیروم کو براہ راست جواب دیتے ہوئے لکھا: "آخر ہم اس میں شک کی جرات کر کیسے سکتے ہیں کہ خدا ایک زائل شدہ بکارت کو واپس لا سکتا ہے؟ خدا ماضی کو کالعدم کر سکتا ہے تو کسی عمل کو کیوں نہیں کر سکتا کہ کوئی حقیقی تاریخی واقعہ سرے سے پیش ہی نہ آیا ہو"45۔ شاہ اسماعیل کے اس نظریے کے ساتھ کہ "خدا لاکھوں نئے محمد پیدا کر سکتا ہے" دامیانی کے اس دعوے کی حیرت انگیز مماثلت کو دیکھیے:

“God has no need of any creature and is judged by no necessity to create, out of that nothing into existence draw this natural world of ours . . . imposing upon it its customary laws. Incapable in his omnipotence and in his eternal present of suffering any diminution or alteration of his creature power, that natural order he could well replace, those laws at any moment change.”

’’خدا کو کسی مخلوق کی حاجت نہیں ہے اور اس (کی قدرت کو) تخلیق کے ضروری ہونے سے نہیں جانچا جا سکتا۔ اس نے عدم سے ہماری اس فطری کائنات کو وجود دیا اور اس کو ان قوانین کے تابع بنایا جو اس میں جاری ہیں۔ اس کی قدرت کے قدرت مطلقہ ہونے اور اس کی ذات کے زمان سے ماورا ہونے کی بدولت چونکہ اس کی تخلیقی قدرت میں کوئی کمی یا تبدیلی واقع نہیں ہو سکتی، اس لیے وہ کائنات کے فطری نظام کی جگہ کسی دوسرے نظام کو وجود میں لا سکتا ہے اور ان قوانین کو کسی بھی لمحے میں تبدیل کر سکتا ہے۔“

بالفاظ دیگر دامیانی کے نزدیک خدا کی مطلق حاکمیتِ اعلیٰ کا دار ومدار اس کی اس قدرت پر ہے کہ وہ پہلے سے موجود کسی امر کو کالعدم کر سکتا یعنی پلک جھپکنے میں ماضی کو بدل سکتا ہے یا نہیں۔ شاہ اسماعیل کا عقیدہ بھی، کافی حد تک دامیانی کی طرح، حاکمیتِ اعلیٰ کی ایک ایسی تفہیم پر مبنی تھا جس کی اساس توحید فی التصرف (یعنی اپنے کیے ہوئے کسی بھی فیصلے کو بدل دینے) کی قدرتِ مُطلَقہ تھی۔

یہاں تک میں شاہ اسماعیل کے اعتقادی حاکمیتِ اعلیٰ کے تصور اور ان کے پسندیدہ معاشرتی واخلاقی نظم کی تشکیل کے لیے اس تصور کے مضمرات پر بحث کر رہا تھا۔ ان کے سیاسی نظریات کی زیادہ جامع تفہیم کی خاطر یہاں ایک سوال کو موضوعِ بحث لانا مناسب ہوگا: سیاسیات کے کس تصور کو انھوں نے پیش کیا اور اس کی تبلیغ کی؟ ان کی نظر میں مثالی سیاسی ہیئت، ڈھانچے اور سیاسی قائدین کے اَجزاے ترکیبی کیا تھے؟

اگلے باب میں، میں شاہ اسماعیل کی ایک اور یادگار کتاب "منصبِ امامت" کی روشنی میں، جسے میری معلومات کے مطابق ابھی تک تفصیلی تحقیق وتجزیہ کا موضوع نہیں بنایا گیا ، ان سوالات کا جواب دوں گا۔ اس کتاب میں انھوں نے بڑی وضاحت کے ساتھ ایک سیاسی نظریہ ترتیب دیا ہے۔ آنے والے صفحات میں، میں ان کی سیاسی فکر کے کلیدی پہلووں کو، جیسا کہ وہ اس کتاب میں پیش کی گئی ہے، اجاگر کروں گا۔ میں ان مناہج کی طرف بھی اشارہ کروں گا جو اس کتاب کو شاہ اسماعیل کے وسیع تر اصلاحی پروجیکٹ سے جوڑتے ہیں جو ان کی دوسری کتابوں مثلاً تقویۃ الایمان میں پیش کیا گیا ہے۔ اُسلوبِ تالیف، طرز بیان، اہم مرکزی نکات، مشکل ہونے کی سطح اور مخاطبین، ان سب پہلووں سے یہ دونوں کتابیں ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں، تاہم اس کے باوجود یہ ایک مربوط اصلاحی ایجنڈے کے اجزا کے طور پر ترتیب دی گئی ہیں۔ اگلے باب میں اس بات کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی۔


حواشی

  1. شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی: صدیقی ٹرسٹ، تاریخ اشاعت ندارد)، 48۔
  2. تقویۃ الایمان دراصل اسماعیل عربی میں "رد الاشراک" کے نام سے لکھی گئی ایک کتاب تھی جس کے پہلے حصے کا شاہ اسماعیل نے بذات خود اردو میں ترجمہ کیا اور یہی ترجمہ آج تقویۃ الایمان کے نام سے معروف ہے۔ بعد میں رد الاشراک کا باقی حصہ مولوی سلطان محمد نے "تذکیر الاخوان" کے نام سے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔ غلام رسول مہر (م 1971)، جو شاہ اسماعیل کے معروف سوانح نگار ہیں، بتاتے ہیں کہ 1837 سے لے 1854 تک اس کتاب کے چار قلمی اور مطبوعہ نسخوں نے بعد والی اشاعتوں کے لیے بنیاد فراہم کی۔ ان چار میں سے دو اشاعتوں میں ایک 1847 میں مطبع دارالعلوم، دلی اور دوسری 1854 میں مطبع مُحسنی، کلکتہ سے چھپی۔ غلام رسول مہر تفصیلات دیے بغیر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ "ان اشاعتوں میں متعدد اقتباسات میں تبدیلی کی گئی تھی"۔ (تقویۃ الایمان پر غلام رسول مہر کا مقدمہ، 37- 38)۔ میں نے بنیادی طور پر تقویۃ الایمان کے دو مطبوعہ نسخوں پر اعتماد کیا ہے، ایک وہ جو صدیقی ٹرسٹ کراچی سے چھپا ہے، اور دوسرا وہ جو مطبع احمدی لاہور (تاریخ اشاعت ندارد) سے چھپا ہے۔ حوالہ جات میں متعین نسخے سے حوالہ دینے کا التزام کیا گیا ہے۔
  3. جان ماڈرن، Secularism in Antebellum America (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2011)، 62۔
  4. شمالی ہندوستان میں پریس کے ابھرنے کے بعد تقویۃ الایمان اور ان جیسی دیگر اصلاحی کتابوں کی وسیع پیمانے پر نشر واشاعت کے لیے دیکھیے: ہارلن اوٹو پیئرسن، Islamic Reform and Revival in Nineteenth Century India: The Tariqa-i-Muhammadiyah (دلی: یودا پریس، 2008)۔
  5. اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 44؛ قرآن 2: 99۔
  6. شاہ عبد القادر، موضح القرآن (کلکتہ: مطبع نامعلوم، 1829)۔
  7. خرم علی، نصیحۃ المسلمین، ایم اس اردو 13 بی، برٹش لائبری کا ذخیرۂ مخطوطات، لندن۔
  8. اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 48-49۔
  9. شیخ محمد اکرام، رُودِ کوثر (لاہور: ادارۂ ثقافتِ اسلامیہ، 2005)، 572۔
  10. قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی فکر وحیات بالخصوص ان کے فقہی آرا کا پس منظر جاننے کے لیے Islamic Studies Presented to Charles J. Adams، تدوین: وائل حلاق اور ڈونلڈ لٹل (لائڈن: ای جے بریل، 1991) میں دیکھیے: ساجدہ علوی، “Qazi Sana Allah Panipati, an Eighteenth-Century Indian Sufi Alim: A Study of His Writing in Their Sociopolitical Context”، 11 – 26۔
  11. قاضی ثناء اللہ پانی پتی، ما لا بُدَّ منہ (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1956) 98 – 99۔
  12. ایضاً، 118۔
  13. جدید برصغیر میں عوام کے بدلتے تصورات پر مزید معلومات کے لیے دیکھیے: برانَن اِنگرام، بارٹَن سکاٹ اور شیر علی ترین (مدَوّنین)، Imagining the Public in Modern South Asia (لندن: روٹلیج، 2016)۔
  14. فاخر الٰہ آبادی برصغیر میں مسلک اہلِ حدیث کے، جس نے انیسویں صدی میں ایک زیادہ واضح گروہ کی صورت اختیار کی، اولین اور ممتاز اہل علم میں سے تھے۔ انھوں نے قرۃ العینین فی اثبات سنۃ رفع الیدین کے نام سے ایک اہم فارسی کتاب لکھی تھی جس میں انھوں نے نماز کے دوران رفع یدین کی سنیت کو ثابت کیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ شاہ محمد اسماعیل نے اسی موضوع پر اپنی کتاب میں، جس کے بعینہ یہی مقاصد اور حیرت انگیز طور پر من وعن یہی نام (تنویر العینین فی اثبات رفع الیدین) ہے، الٰہ آبادی کی کتاب سے بھرپور اخذ واستفادہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ الٰہ آبادی کے ساتھ شاہ ولی اللہ کی رفاقت سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب نہ صرف یہ کہ اہل حدیث علما سے سماجی تعلق کے حوالے سے نرم رویہ رکھتے تھے، بلکہ اٹھارویں صدی میں رائج متنوع نظریات پر مبنی تحریکوں میں اس قدر جمود نہیں تھا۔ حنفی فقہ سے اگر چہ شاہ صاحب کا تعلق بعض اوقات مبہم تھا، اور انھوں نے یہ نقطۂ نظر بھی پیش کیا تھا کہ چاروں سنی مذاہب سے اخذ واستفادہ کرکے ایک مخلوط فقہ ترتیب دی جائے، تاہم اصولی طور پر وہ ایک حنفی عالم کی حیثیت سے اپنی اصولی شناخت سے جڑے رہے۔ لیکن یہ شناخت مخالف مسلک کے لوگوں کے ساتھ دوستی اور سماجی تعلق کے رستے میں رکاوٹ نہیں بنی۔
  15. غیر مقلد عالم سے مراد وہ شخص ہے جو برصغیر میں رائج فقہ حنفی سمیت اہل سنت کے چار فقہی مذاہب میں سے متعین طور پر کسی ایک مذہب کی تقلید نہیں کرتا۔ برصغیر کے تناظر میں ان مسلکی اختلافات پر تفصیلی بحث کے لیے چھٹا باب ملاحظہ کیجیے۔
  16. عبید اللہ سندھی، شاہ ولی اللہ اور ان کی سیاسی تحریک (لاہور: سندھ ساگر اکیڈمی، 2008)، 82۔ مختلف کتابوں میں یہ واقعہ مختصر یا طویل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہاں میں نے تفصیلی واقعہ نقل کیا ہے۔
  17. شاہ محمد اسماعیل، ایضاح الحق الصریح فی احکام المیت والضریح (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1976)، 73۔
  18. اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 48-173۔
  19. دل چسپ بات یہ ہے کہ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں بتایا کہ علم کی ان مخصوص اقسام کو غیر اللہ کے لیے ماننا بدعت ہے، چاہے یہ اقسام کسی اور شخص کی ذاتی ہوں، یا خدا کی طرف سے عطا کردہ (عطائی) ہوں۔ علم اور حاکمیتِ اعلیٰ کے تعلق پر زیادہ تفصیلی بحث گیارھویں باب میں کی گئی ہے۔# اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 61۔
  20. اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 61۔
  21. ایضاً، 49 – 50۔
  22. قرآن 9: 31۔ اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 55۔
  23. ایضاً، 165۔
  24. ایضاً، 173۔
  25. یہ نکتہ میں نے استعمار اور سکھ اصلاح پر اروند مندیر کی شان دار کتاب سے لیا ہے۔ دیکھیے: اروند مندیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)۔ یہاں پر میرے تجزیے کا بیش تر حصہ مندیر کی فکر کے مرہونِ منت ہے۔
  26. شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور)، 38۔
  27. شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 101۔
  28. ایضاً، 100۔
  29. شاہ محمد اسماعیل، یک روزہ (ملتان: فاروقی کتب خانہ، تاریخ ندارد)۔ اس اختلافی بحث میں امکانِ کذب کے لیے امکانِ خلافِ وعید جیسی کم مشہور اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
  30. ایضاً۔
  31. جیارجیو اگیمبَن، Homo Sacer: Sovereign Power and Bare Life (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 1988)، 44 – 45۔
  32. ایضاً، 45۔
  33. قرآن 36 : 81 – 82۔
  34. اسماعیل، یک روزہ، 2۔
  35. ایضاً، 3۔
  36. ایضاً۔
  37. ایضاً۔
  38. قرآن 3 : 59۔
  39. اسماعیل، یک روزہ، 4۔
  40. ایضاً۔
  41. ایضاً۔
  42. ایضاً۔
  43. جین اِلشتائن، Sovereignty, Gov, and Self (نیو یارک: بیسک بکس، 2008)، 21۔
  44. ایضاً۔
  45. فرانسس اوکلے، Politics and Eternity: Studies in the History of Medieval and Early-Modern Political Thought (لائڈن: بریل، 1999)، 43 – 44۔


جولائی ۲۰۲۲ء

مذہبی معاشرہ اور لبرل ازممحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۰)ڈاکٹر محی الدین غازی 
سودی نظام سے نجات کی جدوجہدمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
قانونِ دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟ڈاکٹر محی الدین غازی 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۷)ڈاکٹر شیر علی ترین 
’’احمدی تراجم اور تفاسیر قرآن‘‘ڈاکٹر حافظ سعید احمد 

مذہبی معاشرہ اور لبرل ازم

محمد عمار خان ناصر

لبرل ازم کی اصطلاح ہمارے ہاں عموماً‌ سماجی آزادیوں کے تناظر میں استعمال ہوتی ہے اور اس سے مراد انفرادی آزادیوں پر ایسی قدغنوں کو رد کرنا لیا جاتا ہے جو سماج، مذہب یا ریاست کی طرف سے عائد کی جائیں۔ اس مفہوم میں مذہبی معاشرے اور لبرل ازم میں بنیادی تضاد ہے۔ مذہبی معاشرہ سماجی حدود وقیود مذہبی احکام اور ان پر مبنی تہذیبی روایات سے اخذ کرتا ہے۔ لبرل ازم کا فکری منبع اور عملی آئیڈیل جدید مغربی معاشرے ہیں جو عقلیت اور روشن خیالی کو راہ نمامانتے ہیں۔ اس سیاق میں پاکستان جیسے مذہبی معاشرے میں لبرل ازم کی بحث کے حوالے سے کچھ فکری اور کچھ عملی سوالات گذشتہ دو دہائیوں میں مزید اجاگر ہوئے ہیں اور سنجیدہ گفتگو کے متقاضی ہیں۔

سب سے بنیادی اور اہم سوال یہ ہے کہ لبرل ازم کا بیانیہ مذہبی معاشرے کے بیانیوں، تصورات اور ثقافتی روایات کے ساتھ کوئی مکالمہ کرنا اور عقلی وانسانی بنیادوں پر معاشرے کی کوئی ہمدردانہ راہنمائی کرنا چاہتا ہے یا ایک بالادست پوزیشن سے کلام کرتے ہوئے مذہبی معاشرے کے تصورات اور آئیڈیلز پر یک طرفہ حکم لگانا چاہتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لبرل ازم کے تمام تر اظہارات ان میں سے دوسرے رویے کی نشان دہی کرتے ہیں اور اس کے نمائندہ طبقات اس حوالے سے ایک التباس پیدا کر کے مذہب اور مذہبی تصورات پر یک طرف حکم لگانا چاہتے ہیں۔ یہ التباس نظریات اور عقائد کے ایک معروضی تقابل کی بحث میں سیاسی طاقت یا تہذیبی غلبے سے پھوٹنے والی ججمنٹس کو شامل کرنا اور ان ججمنٹس کو ایسے انداز میں پیش کرنا ہے جیسے وہ کسی معروضی حقیقت کا بیان ہیں۔ یہ التباس خاص طور پر شریعت اور اسلامی تاریخ کے باب میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے، کیونکہ اخلاقی نوعیت کے ججمنٹس صادر کرنے کا موقع اور میدان یہی ہے۔

نظریات وعقائد اور اعمال ورسوم کے معروضی تقابل میں کوئی ایسی نیوٹرل پوزیشن نہیں ہو سکتی جس پر کھڑا ہو کر کوئی شخص ایک ایسا حکم لگا سکے جو سب کے لیے قابل قبول ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاقی احکام کچھ بنیادی عقائد سے پھوٹتے اور ان پر مبنی ہوتے ہیں۔ مثلاً‌ کسی جرم پر سزائے موت دینا اخلاقی ہے یا غیر اخلاقی؟ اس سوال کا کوئی بھی جواب ممکن نہیں جب تک کہ اس سے پہلے انسانی زندگی سے متعلق کچھ بنیادی مفروضات نہ مانے جائیں۔ جب مفروضات مختلف ہوں گے تو لازماً‌ سوال کا جواب بھی مختلف ہوگا۔ اب معروضی تقابل میں بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اس سوال کے جواب میں یہ دو یا تین پوزیشنیں ہیں جو باہم مختلف ہیں۔ ظاہر ہے، ہر ایک پوزیشن کی دوسری پوزیشن کے متعلق ججمنٹ یہی ہوگی کہ وہ غیر اخلاقی ہے، لیکن یہ بیان محض اس پوزیشن کے ایک منطقی نتیجے کا بیان ہوگا اور اس میں یہ بات تسلیم شدہ ہوگی کہ مخالف پوزیشن بھی جواب میں یہی ججمنٹ دینے کی مجاز ہے اور اس کا حق رکھتی ہے۔

اس سے آگے بڑھ کر اگر کوئی پوزیشن دوسری پوزیشن سے متعلق یہ کہے کہ اخلاقیات کے دائرے میں اس کا کوئی جواز ہی نہیں یا یہ کہ وہ ایک جوابی ججمنٹ کا حق نہیں رکھتی یا یہ کہ اس کو معاملات زندگی سے متعلق اپنے عقائد کے مطابق اخلاقی احکام وضع کرنے یا انھیں روبہ عمل کرنے کا حق نہیں تو اب یہ گفتگو معروضی تقابل کے دائرے میں نہیں رہتی۔ یہ تبھی ممکن ہوتی ہے جب ایک پوزیشن کو سیاسی طاقت اور تہذیبی غلبہ حاصل ہو اور وہ طاقت کے بل بوتے پر یہ مطالبہ کرے کہ مخالف پوزیشنیں اپنے اس حق سے دستبردار ہو جائیں کہ وہ اخلاقی احکام کو اپنی اعتقادی اساسات پر استوار کریں گی۔

اسی طرح مثال کے طور پر ہم جنس پرستی کے متعلق جدید تہذیبی نقطہ نظر، مذہبی موقف کے بالکل متضاد ہے۔ اسلامی شریعت کی نظر میں ہم جنس پرستی فطرت کا بگاڑ ہے۔ لوگ کسی بھی معاشرے میں اس میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور ایسے لوگوں کی اصلاح اور اگر علت، بیماری بن گئی ہو تو ان کے جسمانی ونفسیاتی علاج کا بندوبست کرنا معاشرے کی ذمہ داری ہے۔ مذہبی معاشرے میں حسب ضرورت اس پر تادیبی وتعزیری اقدامات بھی کیے جائیں گے اور اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے سد ذریعہ کا اصول بھی عمل میں لایا جائے گا۔

تاہم جدید دور میں اس حوالے سے ہمدردانہ رویے کا یا ایسے افراد کو بہ نظر مذمت نہ دیکھنے کا مطالبہ اس کو بیماری سمجھنے پر مبنی نہیں، بلکہ اس کو ایک فطری رجحان سمجھنے اور انسانی حق کے طور پر تسلیم کرنے پر مبنی ہے۔ اس زاویہ نظر سے ہم جنس پرستی قابل مذمت نہیں، بلکہ اس کی اخلاقی مذمت کرنا انسانی حقوق کے منافی اور ناروا امتیاز کا مظہر ہے۔ اس مطالبے کو قبول کرنا، ظاہر ہے، مسلمانوں کے لیے ممکن نہیں۔ ہم جنس پرستی ایک منکر ہے اور منکر کو منکر کی حیثیت سے بیان کرنا نیز منکرات میں مبتلا اور خاص طور پر اباحیت کے قائل طبقوں یا افراد کے ساتھ ایسے تعامل سے اجتناب کرنا جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو، مسلمانوں سے دین کا لازمی تقاضا ہے۔

غالب تہذیب اپنی مادی قوت کے زیر اثر مغلوب معاشروں میں کیسے اپنے فلسفوں اور افکار کے لیے پذیرائی کا ماحول پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس حوالے سے ایک خاص فرق کو نوٹس کرنا اہم ہے۔ غالب تہذیب چونکہ ذہنی مقلدین کی نہیں بلکہ زندہ دماغوں کی ہوتی ہے، اس لیے وہ انھی افکار واقدار کو فروغ دینے کا کشٹ اٹھاتی ہے جن پر وہ اپنا باقاعدہ موقف طے کر چکی ہو اور اس کی پوری تہذیبی فکر ان کے پیچھے کھڑی ہو۔ موجودہ غالب تہذیب کے تناظر میں انسانی حقوق، جنسی آزادی وغیرہ کے مسائل کی یہی نوعیت ہے۔ لیکن جو افکار ابھی یہ درجہ حاصل نہ کر پائے ہوں، غالب تہذیب پوری سمجھ داری سے ان کی تہذیبی وکالت کی ذمہ داری نہیں اٹھاتی۔ مغلوب معاشروں میں یہ فرق ملحوظ نہیں رکھا جاتا، بلکہ مقامی تہذیبی روایات سے برسرپیکار ہونے اور انھیں منہدم کرنے کے شوق میں جو اینٹ پتھر مل جائے، اسے بصد شکریہ قبول کر کے آزمانا شروع کر دیا جاتا ہے۔

اس کی ایک مثال جانوروں سے متعلق انسان کی اخلاقی ذمہ داری کی بحث ہے جو ہمارے ہاں بہت سے لبرل اہل دانش کو قربانی کی عید کے موقع پر یاد آ جاتی ہے۔ جانوروں کے غذائی استعمال سے متعلق یہ موقف برصغیر میں صدیوں سے بلکہ اسلام سے بھی پہلے سے موجود ہے، تاہم اس کے حاملین اسے اپنے خاص مذہبی یا اخلاقی موقف کے طور پر پیش کرتے ہیں، ایسے ہی جیسے مسلمان سور کے گوشت کو حرام سمجھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ اسے ایک واحد اخلاقی پوزیشن کے طور پر بیان نہیں کرتے، بلکہ صرف ایک مقابل موقف کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ موجودہ غالب تہذیب کا خمیر چونکہ عقلی واخلاقی حکم لگانے کی اہلیت پر کلی اجارہ داری کے تصور سے اٹھایا گیا ہے، اس لیے مغلوب معاشروں میں اس کے متاثرین ان ناپختہ فلسفوں کو بھی اسی عزم وایقان سے پیش کرنے لگتے ہیں جن پر ابھی غالب تہذیب نے بھی کوئی حتمی پوزیشن نہیں لی۔

جانوروں سے ہمدردی ایک فطری جذبہ ہے اور اس کے زیر اثر یہ احساس پیدا ہونا کہ انسانوں کو اپنی خوراک کے لیے جانوروں کو قتل نہیں کرنا چاہیے، ایک قابل فہم نفسیاتی واقعہ ہے۔ تاہم اسے ایک یونیورسل اخلاقی اصول میں کیسے بدلا جائے، یہ ایک مشکل فلسفیانہ سوال ہے جس کی کچھ پیچیدگیاں اس بک ریویو میں دیکھی جا سکتی ہیں جو 2018 میں شائع ہونے والی اس موضوع کی تازہ ترین کتاب Fellow Creatures پر لکھا گیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ دور جدید کی غالب تہذیبی قوت، ماضی کی تہذیبوں کے برعکس، دنیا سے یہ مطالبہ رکھتی ہے وہ اس کی سیاسی طاقت کے مطالبات کو ایسی ججمنٹس کی حیثیت سے قبول کرے جو آفاقی اور معروضی صداقت پر مبنی ہیں اور ہمارے ہاں کی لبرل دانش اس مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے طاقت کے مطالبات کو معروضی حقیقتوں کے التباس میں جواز بہم پہنچانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے۔

لبرل بیانیوں سے متعلق ایک دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی نمائندگی یا ترجمانی کرنے والوں میں معدودے چند حضرات یقیناً‌ ایسے ہیں فکری بنیادوں پر لبرل ہیں اور لبرل ازم کی فکری بنیادوں سے علمی طور پر بھی واقف ہیں۔ تاہم اکثریت کا مسئلہ نفسیاتی ہے جو مقامی معاشرے کے ماضی وحال اور ماضی وحال کی نمائندہ شخصیات کے بارے میں سخت تنفر اور بے زاری کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ صورت حال، اصلاً‌ استعماری جدیدیت کی پیدا کردہ ہے جو اپنے اثرات ومظاہر میں اصل اور معیاری جدیدیت سے کافی مختلف ہے۔ ماضی سے الگ اور مختلف ہونا، جدیدیت کی شناخت کا ایک بنیادی عنصر ہے، تاہم معیاری جدیدیت کا عمومی رویہ خود اپنی روایت کے متعلق تنفر، بے زاری اور استہزا کا نہیں ہے۔ اس کی وجہ وہ اعتماد ہے جو ایک نئی دنیا کی تشکیل میں کامیابی سے پیدا ہوتا ہے۔ استعماری جدیدیت کو متعارف کرانے والی سیاسی طاقت چونکہ مقامی معاشروں کی نئی تشکیل مکمل کیے بغیر یہاں سے رخصت ہو گئی، اس لیے مقامی دانش کا ایک حصہ شدید اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہے۔ اس کی تمناوں کی منزل ایسا معاشرہ ہے جو جدیدیت کا کامل مظہر ہو، لیکن سردست یہ ممکن نہیں۔ اس شدید ذہنی دباو کا اظہار مقامی معاشرے، اس کی تاریخ، نمائندہ قومی شخصیات اور ثقافت وغیرہ سے اظہار نفرت اور تحقیر کی صورت میں ہوتا ہے۔

معاشرے کی نئی تعمیر کا جذبہ، مثبت ہوتا ہے اور ہمدردانہ تنقید کی صورت میں سامنے آتا ہے جس میں شرط اولین معاشرے کے ساتھ ایک وابستگی اور تعلق کو قبول کرنا ہوتا ہے۔ لبرل دوستوں کا یہ طبقہ چونکہ یہ توازن پیدا کرنے سے قاصر ہے، اس لیے اس کے نزدیک اپنی شناخت کے اظہار کا واحد طریقہ تحقیر، تمسخر اور اظہار نفرت رہ جاتا ہے۔ ایسا کوئی بھی طبقہ معاشرے کی تعمیر میں کیا مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، یہ مخفی نہیں اور اسی حقیقت کے ادراک سے ان حضرات کی نفسیاتی کیفیت میں مزید شدت پیدا ہو جاتی ہے۔

یہ واضح رہنا چاہیے کہ اظہار نفرت کا یہ رویہ ایک خاص طبقے میں زیادہ مقبول ہے اور ایسا نہیں کہ مذہبی معاشرے کی اقدار اور تصورات سے اختلاف رکھنے والے سبھی لوگ اس کا شکار ہیں۔ لبرل ازم یا سیکولرزم پر یقین رکھنے والے بہت سے سنجیدہ اور باوقار حضرات بھی موجود ہیں جو نظری اختلاف رکھتے ہوئے بھی معاشرے کی مجموعی بہبود کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایسی ہی بعض شخصیات کی وفات پر دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے مذہبی لوگ بھی اظہار تعزیت کرتے اور دعائے مغفرت کرتے ہیں۔ محترمہ عاصمہ جہانگیر، محترم آئی اے رحمان اور پروفیسر مہدی حسن کی وفات پر ایسا ہی ہوا۔ ایسی شخصیات اور بھی ہیں جو ابھی بقید حیات ہیں اور یقیناً‌ ان کے حوالے سے بھی اس روایت کا تسلسل قائم رہے گا۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۰)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(342) بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ

درج ذیل آیت میں بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ کا مندرجہ ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

بَلْ قَالُوا أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ بَلِ افْتَرَاہُ بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ فَلْیَأْتِنَا بِآیَۃٍ کَمَا أُرْسِلَ الْأَوَّلُونَ۔ (الانبیاء: 5)

”وہ کہتے ہیں:  بلکہ یہ پراگندہ خواب ہیں، بلکہ یہ اِس کی مَن گھڑت ہے، بلکہ یہ شخص شاعر ہے ورنہ یہ لائے کوئی نشانی جس طرح پرانے زمانے کے رسول نشانیوں کے ساتھ بھیجے گئے تھے“۔ (سید مودودی)

"They say: Nay, these are confused dreams; nay, he has forged it; nay, he is a poet. So let him bring us a sign, even as the Messengers of the past were sent with signs." (Maududi)

اس ترجمے میں غلطی یہ ہے کہ بل کو قالوا کے بعد میں فرض کرکے ترجمہ کیا ہے، حالانکہ بل، قالوا سے پہلے آیا ہے۔ ”بلکہ وہ یہ کہتے ہیں“ کا مطلب یہ ہے کہ وہ سابقہ بات کے علاوہ یہ بھی کہتے ہیں، جب کہ ”وہ کہتے ہیں بلکہ“ ایک گنجلک جملہ بن جاتا ہے اور بلکہ کا مطلب سمجھنا دشوار ہوجاتا ہے۔

دراصل پہلا بل گذشتہ مقولے یعنی ہَلْ ہَٰذَا إِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ أَفَتَأْتُونَ السِّحْرَ وَأَنتُمْ تُبْصِرُونَ سے متعلق ہے، اور پھر بعد کے دونوں بل یعنی بَلِ افْتَرَاہُ اور بَلْ ہُوَ شَاعِرٌ ان سے ماقبل مقولے یعنی أَضْغَاثُ أَحْلَامٍ سے متعلق ہے۔

اس پہلو سے درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”بلکہ کہا انھوں نے پریشان خیال ہیں بلکہ باندھ لیا ہے اس کو بلکہ وہ شاعر ہے، پس لے آؤ ہمارے پاس کوئی نشانی جیسے بھیجے گئے تھے پہلے پیغمبر“۔ (شاہ رفیع الدین)

”اتنا ہی نہیں بلکہ یہ تو کہتے ہیں کہ یہ قرآن پراگندہ خوابوں کا مجموعہ ہے بلکہ اس نے از خود اسے گھڑ لیا ہے بلکہ یہ شاعر ہے، ورنہ ہمارے سامنے یہ کوئی ایسی نشانی لاتے جیسے کہ اگلے پیغمبر بھیجے گئے تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

آیت کا درج ذیل انگریزی ترجمہ عجیب ہے، اس آیت میں مذکور تینوں بل کا ترجمہ بعض کیا گیا ہے، جس کی لغت میں گنجائش نہیں ہے:

"Some say, "These are his confused dreams." Others say, "He has invented it himself," and yet others say, "He is a poet. Let him bring us a sign as previous messengers did." (Waheeduddin Khan)

حالاں کہ مترجم موصوف نے اردو میں درست ترجمہ کیا ہے:

”بلکہ وہ کہتے ہیں، یہ پراگندہ خواب ہیں۔ بلکہ اس کو انھوں نے گھڑ لیا ہے۔ بلکہ وہ ایک شاعر ہیں۔ ان کو چاہیے کہ ہمارے پاس اس طرح کی کوئی نشانی لائیں جس طرح کی نشانیوں کے ساتھ پچھلے رسول بھیجے گئے تھے“۔ (وحید الدین خان)

(343) فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُم

قرآن مجید میں ایک جیسی دو آیتیں آئی ہیں، دونوں میں فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُم کا ترجمہ کرنے کے تین طریقے اختیار کیے گئے ہیں:

ایک یہ کہ منھم کو الذین سے متعلق مانا گیا اور ترجمہ کیا گیا:”ان لوگوں میں سے جو مذاق اڑاتے تھے انھیں گھیر لیا“ اس ترجمے پر اشکال یہ ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جن میں سے مذاق اڑانے والوں کو عذاب نے گھیر لیا۔ سیاق کلام میں ایسے کسی گروہ کا ذکر تو ہے نہیں۔

دوسرا یہ کہ منھم کا ترجمہ ہی نہیں کیا گیا، ”مذاق اڑانے والوں کو گھیر لیا“ منھم  کو نظر انداز کرکے عبارت کا پورا حق ادا نہیں کیا گیا، یہ اس ترجمے کی خامی ہے، گرچہ پوری آیت  کو سامنے رکھ کر اس جملے کا مطلب سمجھ میں آرہا ہے۔

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ منھم کو سخروا سے متعلق مانا گیا اور ترجمہ کیا گیا: ”جو لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے انھیں گھیر لیا“ یعنی رسولوں کا مذاق اڑانے والوں کو گھیر لیا گیا۔ یہ درست ترجمہ ہے، گو کہ بہت کم لوگوں نے اس طرح ترجمہ کیا ہے۔

سَخِرَ مِنْہُ کا مطلب ہوتا ہے کسی کا مذاق اڑانا، درج ذیل آیت میں یہ تین بار اسی معنی میں آیا ہے:

وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْہِ مَلَأٌ مِنْ قَوْمِہِ سَخِرُوا مِنْہُ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُونَ۔ (ہود: 38)

”تو نوح نے کشتی بنانی شروع کردی۔ اور جب ان کی قوم کے سردار ان کے پاس سے گزرتے تو ان سے تمسخر کرتے۔ وہ کہتے کہ اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو جس طرح تم ہم سے تمسخر کرتے ہو اس طرح (ایک وقت) ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

اس وضاحت کی روشنی میں آپ نیچے دونوں آیتوں کے ترجمے دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ ایک ہی مترجم نے دو یکساں مقامات پر الگ الگ طریقہ بھی اختیار کیا ہے۔

(1) وَلَقَدِ اسْتُہْزِیئََ بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُم مَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِءُونَ۔ (الانعام: 10)

”اور البتہ تحقیق ٹھٹھا کیا گیا ساتھ پیغمبروں کے پہلے تجھ سے پس گھیر لیا ان لوگوں کو کہ ٹھٹھا کرتے تھے ان میں سے اس چیز نے کہ تھے ساتھ اس کے ٹھٹھا کرتے“۔ (شاہ رفیع الدین)

”اور ہنسی کرتے رہے ہیں رسولوں سے تیرے پہلے پھر الٹ پڑے ان سے ہنسنے والوں پر جس بات پر ہنسا کرتے تھے“۔ (شاہ عبدالقادر، یہ درست ترجمہ ہے)

”اور واقعی آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے، پھر جن لوگوں نے ان سے تمسخر کیا تھا ان کو اس عذاب نے آگھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے“۔ (اشرف علی تھانوی، یہ درست ترجمہ ہے)

”اے محمدؐ! تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا جا چکا ہے، مگر ان مذاق اڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے“۔ (سید مودودی)

”اور ضرور اے محبوب تم سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ٹھٹھا کیا گیا تو وہ جو ان سے ہنستے تھے ان کی ہنسی انہیں کو لے بیٹھی“۔ (احمد رضا خان،، یہ درست ترجمہ ہے)

”اور واقعی آپ سے پہلے جو پیغمبر ہوئے ہیں ان کے ساتھ بھی استہزا کیا گیا ہے۔ پھر جن لوگوں نے ان سے مذاق کیا تھا ان کو اس عذاب نے آ گھیرا جس کا تمسخر اڑاتے تھے“۔ (محمد جوناگڑھی، یہ درست ترجمہ ہے)

”پیغمبر آپ سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اُڑایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں مذاق اُڑانے والوں کے لیے ان کا مذاق ہی ان کے گلے پڑ گیا اور وہ اس میں گھر گئے“۔ (ذیشان جوادی)

(2) وَلَقَدِ اسْتُہْزِیئَ  بِرُسُلٍ مِّن قَبْلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُم مَّا کَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِءُونَ۔  (الانبیاء: 41)

”اور البتہ تحقیق ٹھٹھا کیا تھا ساتھ پیغمبروں کے پہلے تجھ سے پس گھیر لیا ٹھٹھا کرنے والوں پر ان میں سے جس چیز کا ٹھٹھا کرتے تھے“۔ (شاہ رفیع الدین، کیا تھا کے بجائے کیا گیا درست ہے، جیسا کہ اول الذکر آیت کے ترجمے میں کیا ہے)

”اور ٹھٹھے ہوچکے ہیں کِتے رسولوں سے تجھ سے پہلے پھر الٹ پڑے ٹھٹھا کرنے والوں پر ان میں سے جس چیز کا ٹھٹھا کرتے تھے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ استہزاء ہوتا رہا ہے تو جو لوگ ان میں سے تمسخر کیا کرتے تھے ان کو اسی (عذاب) نے جس کی ہنسی اُڑاتے تھے آگھیرا“۔(فتح محمد جالندھری)

”اور تجھ سے پہلے رسولوں کے ساتھ بھی ہنسی مذاق کیا گیا پس ہنسی کرنے والوں کو ہی اس چیز نے گھیر لیا جس کی وہ ہنسی اڑاتے تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بیشک تم سے اگلے رسولوں کے ساتھ ٹھٹھا کیا گیا تو مسخرگی کرنے والوں کا ٹھٹھا انہیں کو لے بیٹھا“۔ (احمد رضا خان)

”اور پیغمبر آپ سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے جس کے بعد ان کفاّر کو اس عذاب نے گھیر لیا جس کا یہ مذاق اُڑارہے تھے“۔ (ذیشان جوادی)

اس آخری ترجمے میں الفاظ کی رعایت بھی نہیں کی گئی ہے، کیوں کہ یہاں کفار کا لفظ تو آیا ہی نہیں ہے، بِالَّذِینَ سَخِرُوا مِنْہُم کا ترجمہ کفار تو نہیں کیا جائے گا۔

”اور آپ سے پہلے جو پیغمبر گزرے ہیں ان کے ساتھ یہی (کفار کی طرف سے) تمسخر کیا گیا تھا سو جن لوگوں نے ان سے تمسخر کیا تھا ان پر وہ عذاب واقع ہوگیا جس کے ساتھ وہ استہزا کرتے تھے“۔ (اشرف علی تھانوی، یہ درست ترجمہ ہے)

”مذاق تم سے پہلے بھی رسُولوں کا اڑایا جا چکا ہے، مگر اُن کا مذاق اڑانے والے اُسی چیز کے پھیر میں آ کر رہے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے“۔ (سید مودودی، یہ درست ترجمہ ہے)

(344) وَلَا ہُم مِّنَّا یُصْحَبُون

أَمْ لَہُمْ آلِہَةٌ تَمْنَعُہُم مِّن دُونِنَا لَا یَسْتَطِیعُونَ نَصْرَ أَنفُسِہِمْ وَلَا ہُم مِّنَّا یُصْحَبُونَ۔ (الانبیاء: 43)

”کیا ان کے لیے ہمارے سوا کچھ اور معبود ہیں جو ان کو بچالیں گے؟ نہ وہ خود اپنی مدد کرسکیں گے اور نہ ہمارے مقابل میں ان کی کوئی حمایت کی جاسکے گی“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمہ میں کئی خامیاں ہیں، پہلی خامی یہ ہے کہ من دوننا کو أَمْ لَہُمْ آلِہَةٌ سے متعلق ماننے کا تکلف کیا گیا ہے، حالاں کہ وہ تَمْنَعُہُم کے بعد ہے اور بلا تکلف اسی سے متعلق ہونا چاہیے۔ ”کیا ان کے لیے ہمارے سوا کچھ اور معبود ہیں جو ان کو بچالیں گے؟“ کے بجائے ”کیا ان کے لیے کچھ اور معبود ہیں جو ان کو ہم سے بچالیں گے؟“ ترجمہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی پیش نظر رہے کہ قرآن میں کہیں آلِہَةٌ مِّن دُونِنَا جمع کے صیغے میں نہیں آیا ہے۔ وَاتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّہِ آلِہَةً‌ (مریم: 81) اور أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِہِ آلِہَةً‌ (الانبیاء: 24) جیسی تعبیریں آئی ہیں۔

دوسری خامی یہ ہے کہ لَا یَسْتَطِیعُونَ نَصْرَ أَنفُسِہِمْ وَلَا ہُم مِّنَّا یُصْحَبُونَ کا ترجمہ مستقبل کا کیا ہے، جب کہ حال کا ترجمہ زیادہ بے تکلف اور معنی خیز ہے۔ کیوں کہ یہ تو آنکھوں دیکھا حال ہے اور ان کے خلاف ایک کھلی دلیل ہے۔

تیسری خامی یہ ہے کہ وَلَا ہُم مِّنَّا یُصْحَبُونَ کا ترجمہ کیا ہے: ”اور نہ ہمارے مقابل میں ان کی کوئی حمایت کی جاسکے گی“ یہاں مِنَّا مقابل کے مفہوم میں نہیں ہے، بلکہ طرف کے مفہوم میں ہے، یعنی ہماری طرف سے انھیں صحبت عطا نہیں کی جائے گی۔ یصحبون میں حفاظت کا مفہوم تو ہے، کیوں کہ جس کی معیت حاصل ہوتی ہے اس کی حفاظت بھی حاصل ہوتی ہے، لیکن جس طرح سے حفظ کے ساتھ من آتا ہے اس طرح صحب کے ساتھ من نہیں آتا ہے۔ یہاں جو من آیا ہے وہ دراصل ”ہماری طرف سے“ کے مفہوم میں ہے۔

ایک اور ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

”کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں جو انہیں مصیبتوں سے بچا لیں۔ کوئی بھی خود اپنی مدد کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ کوئی ہماری طرف سے رفاقت دیا جاتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

اس ترجمے میں أَمْ لَہُمْ آلِہةٌ تَمْنَعُہُم مِّن دُونِنَا کے ترجمہ میں مذکورہ بالا کم زوری موجود ہے، اس کے علاوہ لَا یَسْتَطِیعُونَ نَصْرَ أَنفُسِہِمْ وَلَا ہُم مِّنَّا یُصْحَبُونَ کا ترجمہ ”کوئی بھی خود اپنی مدد کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ کوئی ہماری طرف سے رفاقت دیا جاتا ہے“ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں متعین طور پر ان کے مزعومہ معبودوں کی بات ہورہی ہے، ضمیر کا مرجع بھی وہی ہیں۔ اس لیے کوئی بھی کہنا درست نہ ہوگا۔ ظاہر ہے اللہ کی طرف سے اس کے نیک بندوں کو معیت عطا کی جائے گی۔  

درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”کیا یہ کچھ ایسے خدا رکھتے ہیں جو ہمارے مقابلے میں ان کی حمایت کریں؟ وہ نہ تو خود اپنی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہماری ہی تائید اُن کو حاصل ہے“۔ (سید مودودی، تائید سے زیادہ معیت لفظ سے قریب تر ہے، تائید اس کا نتیجہ ہے)

”کیا واسطے ان کے معبود ہیں کہ منع کرتے ہیں ان کو درے ہم سے، نہیں کرسکتے مدد جانوں اپنی کو اور نہ وہ ہماری طرف سے رفاقت دیے جاتے“۔ (شاہ رفیع الدین)

(345) آلِہَةً مِّنَ الْأَرْضِ

أَمِ اتَّخَذُوا آلِہَةً مِّنَ الْأَرْضِ ہُمْ یُنشِرُونَ۔ (الانبیاء: 21)

”کیا انھوں نے زمین کے الگ معبود ٹھہرالیے ہیں، وہ زمین کو شاداب کرتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمہ میں کمزوری یہ ہے کہ ’زمین کے معبودوں‘ کے لیے آلِہَةً مِّنَ الْأَرْضِ نہیں کہا جائے گا، بلکہ آلِہَةً للْأَرْضِ کہا جائے گا۔ اسی طرح أنشر کا معروف اور وسیع معنی زندگی عطا کرنا ہے۔ زمین کو شاداب کرنا أنشر کا محدود مفہوم ہے اور زندگی عطا کرنے میں وہ بھی شامل ہے۔

”کیا مقرر کیے ہیں انھوں نے معبود زمین میں سے کہ وہ پیدا کرتے ہیں“۔(شاہ رفیع الدین)

”کیا انہوں نے زمین میں سے کچھ ایسے خدا بنالیے ہیں کہ وہ کچھ پیدا کرتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

مذکورہ بالا دونوں ترجموں میں ینشرون کا ترجمہ ’پیدا کرتے ہیں‘ کیا ہے۔ أنشر کا معنی پیدا کرنا نہیں بلکہ بے جان چیز کو زندگی دینا ہے۔

”کیا ان لوگوں نے زمین (کی مخلوقات میں) سے جنہیں معبود بنا رکھا ہے وہ زندہ کردیتے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی، عبارت کی رو سے جنھیں کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔)

”کیا ٹھہرائے انھوں نے اور صاحب زمین میں کے وہ اٹھا کھڑا کریں گے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”کیا انھوں نے زمین پر بسنے والوں میں سے معبود ٹھہرالیے ہیں، جو زندگی دیتے ہیں“۔ (امانت اللہ اصلاحی)


سودی نظام سے نجات کی جدوجہد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سودی نظام کے خاتمہ کے لیے وفاقی شرعی عدالت نے رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جو فیصلہ دیا ہے اس کا تمام دینی حلقوں میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور اس پر عملدرآمد کا ہر طرف سے مطالبہ ہو رہا ہے۔ اس فیصلہ کا مختصر پس منظر یہ ہے کہ

اس پس منظر میں وفاقی شرعی عدالت کا یہ فیصلہ خوش آئند اور دو حوالوں سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے:

  1. سابقہ فیصلوں پر کیے گئے اشکالات، سوالات اور تحفظات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لے کر ان کا مکمل اور تفصیلی جواب دیا گیا ہے اور بظاہر کوئی اشکال ایسا باقی نہیں رہا جس کا حل اس فیصلے میں موجود نہ ہو۔
  2. یہ فیصلہ صرف بینکاری کے دائرے میں نہیں ہے بلکہ اس میں ملک کے نظامِ معیشت کے تمام شعبوں کو پانچ سال کے اندر اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھال لینے کا دوٹوک حکم دیا گیا ہے جس پر وفاقی شرعی عدالت کے تمام جج صاحبان اور مسلسل کیس لڑنے والی دونوں جماعتوں اور وکلاء ہم سب کی طرف سے مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے پوری پاکستانی قوم کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کیا ہے، جس سے ملکی نظامِ معیشت کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے واضح رخ مل گیا ہے۔

اس فیصلہ کے بعد مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور ماہرین معیشت کے متعدد مشترکہ اجلاس ہوچکے ہیں جن میں:

امید ہے کہ سب دوست اپنی اپنی جگہ اس ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے متحرک ہوں گے اور ملک کو سودی نظام کی لعنت اور نحوست سے نجات دلانے کے لیے کسی محنت اور قربانی سے گریز نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

قانونِ دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟

غامدی صاحب کے نقطہ نظر کا تنقیدی جائزہ

ڈاکٹر محی الدین غازی

دین کی دعوت دینے والوں کو اسیر ومحصور کرنے کا سلسلہ تو ہمیشہ سے جاری رہا ہے، لیکن خود دعوت کو پابند سلاسل کرنے کا ایک نیا آئیڈیا ابھی سامنے آیا ہے۔ یہ آئیڈیا ہمیں محترم جاوید احمد غامدی صاحب کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔ غامدی صاحب نے قانونِ دعوت کے نام سے اپنی کتاب میزان میں ایک باب باندھا ہے اور اس میں دعوت کی اتنی قسمیں کی ہیں، اور ہر قسم کو اس طرح الگ الگ دائروں میں محصور کیا ہے، کہ امت مسلمہ کے عام فرد کے لیے دعوت کا میدان بہت چھوٹا اور قدرے غیر اہم ہوکر رہ جاتا ہے۔

غامدی صاحب دعوت کے بہت بڑے حصے کو بنی اسماعیل کے لیے خاص کردیتے ہیں، ایک حصہ ارباب اقتدار کو دے دیتے ہیں، ایک چھوٹا حصہ علما کو دیتے ہیں، اور ایک بہت چھوٹا حصہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں تھماتے ہیں۔ ذیل میں ہم اس بات کو تفصیل سے بیان کریں گے۔

بنی اسماعیل میں محصور دعوت

قرآن مجید میں یابنی اسرائیل کہہ کر متعدد بار خطاب کیا گیا ہے، لیکن یابنی اسماعیل، یا عرب، یا اہل مکہ اور یا قریش کہہ کر ایک بار بھی خطاب نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن مجید کا پیغام آفاقی ہے، اس کے مخاطب سارے انسان ہیں، اس لیے اس کا اصل اور بنیادی خطاب یا ایھا الناس اور یا ایھا الذین آمنوا کہہ کر ہوتا ہے۔

یہود ونصاری کو قرآن مجید یا اھل الکتاب کہہ کر انھیں بھولا ہوا سبق یاد دلاتا ہے۔

قرآن مجید عرب کے مرکزی شہر مکہ میں حضرت محمد ﷺ پرنازل ہوا۔ آپ اور آپ کی قوم کا تعلق بنی اسماعیل سے تھا اور یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا عین مصداق تھا۔ قرآن مکہ میں نازل ہوا توفطری طور پر قرآن کے اولین مخاطب مکہ کے لوگ اور پھر عرب کے لوگ ہوتے۔عرب کے تمام قبائل کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ سب بنی اسماعیل سے تھے تاریخی طور سے درست نہیں ہے۔ عرب کے مکہ شہر میں بنی اسماعیل کے درمیان اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ پرقرآن مجید کے نازل ہونے کی حکمتوں پر کئی پہلوؤں سے گفتگو کی گئی ہے۔اسے اس آخری رسالت کی نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے۔ امام حمیدالدین فراہی اور مولانا امین احسن اصلاحی نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔

غرض یہ کہ بنی اسماعیل کے درمیان قرآن مجید نازل ہوا اور اس لحاظ سے وہ قرآن مجید کے اولین مخاطب ٹھہرے۔ لیکن ان کی حیثیت قرآن مجید کے اصل مخاطب کی نہیں تھی۔ قرآن مجید کے اصل مخاطب تورہتی دنیا تک کے تمام انسان ہیں۔

قرآن مجید نے اپنے مخاطبین کو یا ایھا الناس کہہ کر خطاب کیا، وہ خطاب سب سے پہلے اہل مکہ، پھر اہل عرب اور پھر ساری دنیا تک پہنچا۔

قرآن مجید نے دعوت قبول کرنے والوں کو یا ایھا الذین آمنوا کہہ کر مخاطب کیا، وہ خطاب سب سے پہلے مکہ پھر عرب کے مسلمانوں اور پھر دنیا کے تمام اہل ایمان پر منطبق ہوا۔

دراصل زمانہ نزول کے تقاضوں اور کتاب کے اصلی خطاب کے تقاضوں میں فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ زمانہ نزول کے تقاضوں کے تحت اس وقت کے حالات اور افراد کا ذکر ضرور ہوگا۔ لیکن اصلی خطاب ان تک محدود رہے یہ ضروری نہیں ہے۔ اصلی خطاب کی وسعتیں اس خطاب کا اسلوب بیان متعین کرے گا۔

قرآن مجید کی تعلیم وہدایت کا عملی ظہور اس کے نزول کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا۔ اس لحاظ سے قرآن مجید کی آیتوں میں عرب کے اس وقت کے حالات اور اقوام کو صاف دیکھا جاسکتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب کبھی نہیں سمجھا گیا کہ اس کے بعض بہت بنیادی احکام صرف عربوں کے لیے تھے۔

قرآن کے مخاطب صرف عرب یا صرف بنی اسماعیل کبھی بھی نہیں رہے۔ہمیشہ اس کا خطاب سب کے لیے رہا۔ یہ قرآن مجید کا امتیاز ہے۔اس امتیاز کی وجہ سے اس کا خطاب کبھی باسی نہیں ہوسکتا ہے۔ یا ایھا الناس اور یا ایھا الذین آمنوا کے الفاظ قرآن کے خطاب کو ہمیشہ زمانی لحاظ سے تازگی اور مکانی لحاظ سے لامحدود آفاقیت عطا کرتے رہے اور کرتے رہیں گے۔

جاوید احمد غامدی صاحب نے ایسی راہ اختیار کی جو قرآن مجید کے اس امتیاز سے مناسبت نہیں رکھتی ہے۔ انھوں نے جب قانونِ دعوت کے عنوان کے تحت گفتگو کی تو قرآن کی ان آیتوں کو جو دعوت دین کی عظیم ذمے داری امت مسلمہ کے تمام افراد پر عائد کرتی ہیں، بنی اسماعیل کے ساتھ خاص کردیا۔

غامدی صاحب کی پوری گفتگو کو سامنے رکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلم اقوام کو دعوت دینے کا کام صرف بنی اسماعیل کا ہے۔

غامدی صاحب یہ وضاحت نہیں کرتے ہیں کہ جو ذمہ داری بنی اسماعیل کو انجام دینی ہے، وہ بنی اسماعیل کے ہر فرد کو انجام دینی ہے یا ان کے علما یا حکام کو انجام دینی ہے، حالاں کہ یہ سوال بہت اہم ہے۔

غامدی صاحب، وجاھدوا فی اللہ حق جھادہ، وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ اور وجیء بالنبیین والشھداء جیسی آیتوں میں مذکور دعوت دین، شہادت حق اور أمر بالمعروف ونھی عن المنکر کے کارہائے عظیم کو ذریت ابراہیم اور خاص طور سے بنی اسماعیل کے لیے خاص کردیتے ہیں۔ ان آیتوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ذریت ابراہیم کو بھی اللہ تعالی نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کا حکم دیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے“۔ (میزان، ص547)

مزید لکھتے ہیں:

”اللہ تعالی نے بنی اسماعیل کو اسی بنا پر درمیان کی جماعت امۃ وسطا قرار دیا ہے جس کے ایک طرف خدا اور اس کا رسول دوسری طرف الناس یعنی دنیا کی سب اقوام ہیں، اور فرمایا ہے کہ جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے اب وہی شہادت باقی دنیا پر تمہیں دینا ہوگی“۔ (میزان، ص 548)

ان کے نزدیک دعوت کے نتیجہ میں غلبہ ونصرت کا وعدہ بھی ذریت ابراہیم کے ساتھ خاص ہے، لکھتے ہیں:

”ذریت ابراہیم کا یہی منصب ہے جس کے تحت یہ اگر حق پر قائم ہو اور اسے بے کم وکاست اور پوری قطعیت کے ساتھ دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتی رہے تو ان کے نہ ماننے کی صورت میں اللہ تعالی ان قوموں پر اسے غلبہ عطا فرماتے ہیں اور اس سے انحراف کرے تو انھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل، دونوں اس وقت اسی عذاب سے دوچار ہیں۔“ (میزان، ص 548)

درج ذیل آیتوں کی تفسیر میں بھی غامدی صاحب نے یہ بات کھل کر کہی ہے:

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمّةً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاسِ (البقرۃ: 143)

اس آیت کی تفسیر میں دین کی شہادت کو بنی اسماعیل سے جوڑ کر پیش کرتے ہیں:

”اس آیت میں یہ نبی ﷺ کی قوم بنی اسماعیل کے لیے آیا ہے۔ سورہ حج (22) کی آیت 78 میں ھو اجتباکم کے الفاظ دلیل ہیں کہ انھیں اللہ تعالی نے دین کی اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت ورسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔“ (البیان، ج1، ص 142)

وَأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتَابُ وَجِیْء َ بِالنَّبِیِّیْنَ وَالشُّہَدَاء۔(الزمر 69)

اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”یعنی ذریت ابراہیم کے لوگ جو زمین پر نبیوں کی دعوت کے گواہ بنائے گئے۔ ان کی نمائندگی ظاہر ہے کہ ان کے مجددین ومصلحین کریں گے۔“ (البیان، ج 4، ص 349)

وَجَاہِدُوا فِیْ اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلّةَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِیْ ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء  عَلَی النَّاسِ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔

”اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ۔ پس تمہیں چاہیے کہ نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط تھام لو، وہی تمہارا ولی اور مالک ہے۔ پس کیا ہی اچھا مالک ہے اور کتنا ہی بہتر مددگار ہے۔“ (الحج: 78)

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے غامدی صاحب بنی اسماعیل کے علاوہ دیگر لوگوں کو تبعاً اس میں شریک قرار دیتے ہیں (حالاں کہ یہاں خطاب یا أیھا الذین آمنوا کہہ کر کیا گیا ہے جو اس سے پہلی والی آیت میں ہے اور یہ آیت اسی پر عطف ہے۔) وہ کہتے ہیں:

”نیز یہ حقیقت بھی اس سے واضح ہوتی ہے کہ اصلا اس ذمہ داری کے لیے بنی اسماعیل کو چنا گیا ہے۔ دوسرے سب لوگ جب ان کی دعوت قبول کرکے اسلام میں داخل ہوتے ہیں تو تبعاً اس میں شریک ہوجاتے ہیں۔“ (البیان، ج 3، ص 376)

غامدی صاحب دین حق کی شہادت کے ساتھ اتمام حجت کے قانون کو بھی بنی اسماعیل سے جوڑتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

”اوپر جس انتخاب کا ذکر تھا، یہ اس کی وضاحت کردی ہے کہ وہ دین حق کی شہادت کے لیے کیا گیا ہے۔ یہ شہادت محض دعوت و تبلیغ نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ خدا کی دینونت کا ظہور بھی ہے جس کے تحت یہ اگر حق پر قائم ہوں اور اسے بے کم وکاست اور پوری قطعیت کے ساتھ دنیا کی سب قوموں تک پہنچاتے رہیں تو ان کے نہ ماننے کی صورت میں اللہ تعالی ان قوموں پر انھیں غلبہ عطا فرماتے ہیں اور اس سے انحراف کریں تو انھی کے ذریعے سے ذلت اور محکومی کے عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں۔چناں چہ ان کا وجود ان حقائق کی گواہی بن جاتا ہے جو یہ زبان وقلم سے پیش کرتے ہیں۔ دعوت وتبلیغ کے بجائے‘شہادت’کا لفظ اسی رعایت سے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت اتمام حجت ہے جو اگر ہوجائے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلہ الٰہی کی بنیاد بن جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد عالمی سطح پر اس اتمام حجت کے لیے اللہ تعالی نے یہی انتظام فرمایا ہے۔“ (البیان، ج 3، ص377)

مذکورہ بالا عبارتوں سے غامدی صاحب کا یہ مدعا بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اقوام عالم کے سامنے اس دین کی شہادت کی ذمے داری بنی اسماعیل نامی کسی مخصوص نسلی گروہ کی ہے۔ غیر مسلموں میں دعوت کے کار عظیم کو بنی اسماعیل کی مخصوص ذمہ داری قرار دیتے ہوئے پوری امت کو اس ذمہ داری سے علیحدہ کردینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ اور نہیں نکلتا ہے کہ دعوت کا کام محدود سے محدود تر ہوجائے، جب کہ قرآن مجید سے منشائے خداوندی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کو وسیع سے وسیع تر کیا جائے۔

اگر یہ کہا جائے کہ اصل ذمے داری تو بنی اسماعیل کی ہے اوردیگر مسلم اقوام اس میں تبعاً شریک ہیں، تو اس تبعیت کے لیے اول تو واضح دلیل درکار ہوگی، دوسرے یہ کہ پھر دوسری مسلم اقوام کے لیے اس خطاب میں اتنی طاقت نہیں رہ جاتی ہے کہ وہ اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔

بہرحال یہ بات کسی برہان کے بغیر قبول نہیں کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالی دین کے سب سے اہم کام کو جو نبیوں کا کام رہا ہے ایمان وعقیدہ سے جوڑنے کے بجائے کسی مخصوص سلسلہ نسب سے جوڑ دے۔ اس باب میں غلطی کی بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں ان کی ذریت میں سے امت اٹھانے کا مطلب محدود معنوں میں لے لیا گیا۔ اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ وہ امت ابتدائی طور سے آل اسماعیل میں سے ہوگی۔ چناں چہ یہی ہوا کہ نبی ﷺ کے جاں نثاروں میں سب سے پہلے آل اسماعیل شامل ہوئے، پھر بعد میں آنے والی پوری امت مسلمہ ان کے راستے پر چل کر اس امت میں شامل ہوتی رہی اور یہ سلسلے قیامت تک جاری رہے گا۔ سورہ جمعہ کی آیت نمبر (2) میں بھی یہی بات کہی گئی کہ اللہ نے اپنے رسول کو امیوں یعنی اہل مکہ یا اہل عرب کے درمیان بھیجا۔ لیکن اس کا مطلب یہ کسی نے نہیں سمجھا کہ امت مسلمہ میں ذمے داریوں کے پہلو سے عرب اور غیر عرب کی تفریق یا تقسیم کی گئی ہے۔

یہی بات اللہ کے رسول نے اس امت کو تیار کرتے ہوئے بتائی تھی، کہ یہ امت نسب کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدہ کی بنیاد پر تیار کی جارہی ہے اور عقیدہ وعمل سے گہری وابستگی ہی بلاتفریق ہر شخص کو اس خیر امت میں شمولیت کا حق دے گی۔ جزیرہ عرب کے ہزاروں غیر عرب غلام ایمان لاکر راست خیر امت میں شامل ہورہے تھے نہ کہ کسی دوسرے درجے کے امتی بن رہے تھے۔ اول روز سے یہ واضح کردیا گیا تھا کہ تاقیامت خیر امت میں شامل ہونے کے لیے کوئی حسب ونسب بنیاد نہیں بنے گا بلکہ خیر امت کے مذکورہ اوصاف ہی بنیاد بنیں گے۔

آج بھی یہ بات کسی طرح قابل قبول نہیں ہے کہ خیر امت میں شامل ہونے کا حق صرف کچھ عرب قبائل کو ہے، اور ہم ہندوستانی مسلمانوں کو نہیں ہے۔ ہندوستان کے غیر مسلموں تک دین کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری اولین درجے میں ہندوستانی مسلمانوں کی ہے، اور یہ کسی بھی طرح درست نہیں ہوگا کہ ہم اپنے اہل خانہ کی اصلاح تک خود کو محدود رکھیں اور انتظار کریں کہ عرب کے بنی اسماعیل یہاں آکر دعوت دین کا کام کریں گے۔

تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر بنی اسماعیل اور غیر بنی اسماعیل کی تقسیم کبھی نہیں رہی ہے، عہد رسالت میں مہاجرین اور انصار کے الگ الگ امتیازی تذکرے ملتے ہیں، دونوں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے۔ صحابہ کی مخصوص حیثیت بھی سامنے آتی ہے۔لیکن امت کے اندر بنی اسماعیل اور غیر بنی اسماعیل کی تقسیم غامدی صاحب کے ذہن کی اختراع ہے۔ یہ تقسیم دین کے مزاج کے خلاف ہے اور اس سے بہت سارے مفاسد کا دروازہ کھل سکتا ہے۔سب سے بڑا مفسدہ یہ ہے کہ قرآن کا  وہ بڑا حصہ جو شہادت حق پیش کرتا ہے امت کے عام افراد کے لیے اجنبی ہوجائے گا۔ اس کا علم بردار صرف بنی اسماعیل کو سمجھا جائے گا۔

تعجب خیز بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد بار بنی اسرائیل کا تذکرہ ہوا، اور بنی اسرائیل کے نام سے ہوا۔ لیکن پورے قرآن مجید میں کہیں بنی اسماعیل کا لفظ نہیں آیا، خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسماعیل کی کوئی خصوصی پہچان امت مسلمہ کے اندر متعارف نہیں کرائی اور غامدی صاحب نے کسی واضح دلیل کے بغیر خیر امت کا دائرہ صرف بنی اسماعیل کے لیے خاص کردیا، اور اس پوری امت کو اس سے محروم کردیا جو اب تک یہ سمجھتی آئی تھی کہ ایمان اور امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے ذریعے اس میں شامل ہوا جا سکتا ہے۔

کیا یہ بات آسانی سے قبول کی جاسکتی ہے کہ وحی الٰہی کی اہم ترین باتیں جیسے دین کی شہادت، اتمام حجت اور اللہ کا قانون دینونت بنی اسماعیل سے خاص طور پر متعلق ہو، اور اس طویل تاریخ میں خود بنی اسماعیل کو اس کا علم تک نہ ہو؟ واقعہ یہ ہے کہ ہمارا پورا علمی ورثہ امت کی اس طرح کی تقسیم سے یکسر خالی ہے۔

صحیح تعبیر وہی ہے جو امت میں ہمیشہ رائج رہی یعنی صحابہ کی جماعت جو رسالت کی اولین علم بردار تھی، اور پھر پوری امت جو صحابہ کی تابع رہی۔بلاشبہ صحابہ کی اکثریت بنی اسماعیل پر مشتمل تھی، لیکن بنی اسماعیل کی کوئی ایسی امتیازی حیثیت نہیں تھی جو صحابہ کے بعد قیامت تک نسل در نسل جاری وساری رہے۔ صحابہ کی جماعت کو خیر امت کہا گیا اور وہ بھی اوصاف کے حوالے سے کہا گیا تاکہ ان اوصاف کے راستے سے خیر امت میں شمولیت کا دروازہ تمام انسانوں کے لیے رہتی دنیا تک کھلا رہے۔

خلاصہ یہ کہ دین حق کی دعوت اور شہادت کی جس ذمے داری کو غامدی صاحب بنی اسماعیل کے لیے خاص بتاتے ہیں وہ پوری امت مسلمہ کے لیے عام ہے۔ نظم قرآن کی روشنی میں یہی موقف امام فراہی نے واضح کیا۔

نظم قرآن کی دلالت

اگر ہم سورہ آل عمران کی آیت 102 سے 110 تک سامنے رکھیں تو یا ایھا الذین آمنوا کے خطاب سے اہل ایمان کو بنیادی ہدایات دی گئی ہیں۔ یہ تمام ہدایات تمام اہل ایمان کے لیے ہیں۔ نظم قرآن کے امام، علامہ فراہی نے نظم کلام کی بھرپور رعایت کرتے ہوئے سب کا مخاطب اس امت کو قرار دیا ہے۔

وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ أُمَّةٌ یدْعُونَ إِلَی الْخَیرِ وَیأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُولَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (یہ بیان ہے اس منصبِ شہادت کے فرائض کا جو اللہ نے اس امت کو دیا ہے۔) وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَہُمُ الْبَینَاتُ۔ پھر اہل کتاب کے برے انجام کا ذکر کیا جب انھوں نے شہادت کے امر کو ضائع کردیا، حالاں کہ وہ شہدا بنائے گئے تھے۔ پھر ان (اہل ایمان) کے منصب کی دوبارہ توصیف کی، اور فرمایا: کُنْتُمْ خَیرَ أُمّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ۔ پس یہ اللہ کے اس قول کا بیان ہے جو سورہ بقرۃ میں آیا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَی النَّاس (تفسیر سورۃ البقرۃ 143)

غامدی صاحب نظم کلام کو دلیل بنانے کے علم بردار ہیں، لیکن اس باب میں انھوں نے نظم کلام کے شیرازے کو بکھیر کر رکھ دیا ہے، اور نظم کلام کی اتنی بھی رعایت نہیں کی ہے، جتنی رعایت نظم قرآن کو نہیں ماننے والے کرتے ہیں۔

ان کی تفسیر البیان میں متعلقہ آیات کی تفسیر پڑھتے ہوئے عجیب وغریب صورت حال سامنے آتی ہے، اور نظم کلام بالکل بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔

واعتصموا بحبل اللہ کا خطاب مسلمانوں کے لیے بتاتے ہیں، کہتے ہیں:

”اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمانوں سے یہ مطالبہ ان کی اجتماعی حیثیت میں ہے“۔

اسی آیت میں وکنتم علی شفا حفرۃ کا خطاب عربوں کی طرف موڑ دیتے ہیں، کہتے ہیں:

 ”یہ اس عظیم احسان کی یاد دہانی ہے جو قرآن کے ذریعے سے عربوں پر ہوا۔“

اسی سیاق میں ولتکن منکم أمة کا خطاب عام مسلمانوں کے لیے قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں:

 ”یہ مسلمانوں کو ان کی اجتماعی حیثیت میں حکم دیا ہے کہ اس ہدایت پر قائم رہنے کے لیے اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو مقرر کریں جو انھیں بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے رہیں۔ پھر اسی حیثیت سے فلاح کی بشارت بھی دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ حکم ارباب اقتدار سے متعلق ہے“۔

اور اسی سیاق میں کنتم خیر أمة، کا خطاب بنی اسماعیل کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ کہتے ہیں:

”یہ بنی اسماعیل کے لیے تسلی اور بشارت ہے کہ ایمان وعمل کے لحاظ سے اس وقت وہ خیر امت ہیں“۔ (البیان،جلد اول، ص 388)

امام فراہی منصب شہادت کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اہل کتاب سے لے کر امت مسلمہ کے حوالے کیا گیا۔ سورہ حج کی مذکورہ بالا آیت کی تفسیر میں امام فراہی لکھتے ہیں:

 وکذلک اجتبی اللہ المؤمنین لیکونوا شہداء علی الناس، کما أن النبی شہید علی المؤمنین۔

اس طرح اللہ نے مومنوں کو منتخب کرلیا کہ وہ لوگوں کے سلسلے میں شہدا بنیں، جس طرح نبی مومنوں کے سلسلے میں شہید ہے۔ (تعلیقات الفراہی)

جب کہ غامدی صاحب کہتے ہیں کہ یہ منصب بنی اسرائیل سے لے کر بنی اسماعیل کے حوالے کیا گیا۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔ خاص طور سے آج کے تناظر میں۔ آج اس کا موقع نہیں ہے کہ بنی اسماعیل کو ان کی ذمے داری یاد دلائی جائے، موقع اس کا ہے کہ امت مسلمہ کو اس کی ذمے داری یاد دلائی جائے۔

حکم رانوں میں محصور دعوت

پوری امت پر دعوتی ذمے داری عائد کرنے والی دو اہم آیتوں کو غامدی صاحب ارباب اقتدار کے لیے مخصوص کردیتے ہیں اور اربابِ اقتدار کو بھی دعوت کی کچھ مخصوص راہیں دکھاتے ہیں۔

ایک آیت ہے:

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّة یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ،

”اور چاہیے کہ تم میں ایک گروہ ایسا ہو جو نیکی کی دعوت دے، معروف کا حکم کرے اور منکر سے روکے اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“ (آل عمران:104)

اس آیت کے ضمن میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:

”آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ مسلمان اپنی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ اجتماعی حیثیت میں اس کے مخاطب ہیں، لہٰذایہ حکم ارباب اقتدار سے متعلق ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو اگر کسی خطہ ارض میں سیاسی خود مختاری حاصل ہوجائے تو اپنے اندر سے کچھ لوگوں کو اس کام پر مقرر کریں کہ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں، برائی سے روکیں اور بھلائی کی تلقین کریں۔ یہ ذمہ داری، ظاہر ہے کہ بعض معاملات میں تبلیغ وتلقین کے ذریعے سے اور بعض معاملات میں قانون کی طاقت سے پوری کی جائے گی۔ پہلی صورت کے لیے جمعہ کا منبر ہے جو اسی مقصد سے ارباب حل وعقد کے لیے خاص کیا گیا ہے۔ دوسری صورت کے لیے پولیس کا محکمہ جو مسلمانوں کی ریاست میں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے قائم کیا جاتا اور اپنے لیے متعین کردہ حدود کے مطابق اس کو انجام دینے کے لیے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتا ہے“۔(میزان 554)

دوسری آیت ہے:

الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَآتَوُا الزَّکَاۃ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ۔

’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰتیں دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔‘‘ (الحج: 41)

اس آیت کے سلسلے میں غامدی صاحب لکھتے ہیں:

”یہاں سے آگے اب اللہ تعالی نے وہ فرائض بیان فرمائے ہیں جو مسلمانوں کو اگر کسی جگہ اقتدار حاصل ہو تو ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر عائد ہوتے ہیں —حکومت کی سطح پر نماز قائم کرنے کے لیے جو سنت رسول اللہ ﷺ نے قائم فرمائی ہے، اس کی رو سے اولا مسلمانوں کے ارباب حل وعقد خود بھی نماز کا اہتمام کریں گے اور اپنے عمال کو بھی اس کا پابند بنائیں گے، ثانیا نماز جمعہ اور نماز عیدین کا خطاب اور ان کی امامت ہر جگہ یہ ارباب حل وعقد اور ان کے مقرر کردہ حکام ہی کریں گے یا ان کی طرف سے ان کا کوئی نمائندہ یہ خدمت انجام دے گا۔“ (البیان ج 3 ص 358)

غامدی صاحب نے پہلے تو ان دونوں آیتوں کو ارباب اقتدار کے ساتھ خاص کردیا، پھر ارباب اقتدار کے کام کو مسلمانوں کی داخلی اصلاح تک محدود کردیا، اور داخلی اصلاح کے کام کو جمعہ کے خطبے اور پولیس کے محکمے میں سمیٹ دیا۔ چناں چہ مسلمانوں کے ارباب اقتدار کی ذمہ داریوں میں غیر مسلم دنیا کو دین کی دعوت دینے کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔

ان دونوں آیتوں کو ارباب اقتدار کے ساتھ خاص کرنے کی کوئی وجہ ان آیتوں میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ آیتوں کے الفاظ، سیاق وسباق، اور اب تک کا امت کا فہم یہی بتارہا ہے کہ ان آیتوں میں پوری امت کو اس کی ذمے داری یاد دلائی گئی ہے۔

پہلی آیت میں ولتکن منکم أُمَّة میں من اگر بیانیہ ہے تو یہ ذمے داری پوری امت کی ہے، اور اگر تبعیض کا ہے تو بھی من حیث الجملہ پوری امت کی ذمے داری ہے،جب تک کسی ایک گروہ کے ذریعے یہ ذمے داری ادا نہیں ہوجاتی۔ بہرحال ذمے داری ارباب اقتدار پر نہیں بلکہ امت پر ہے، امت کا جو فرد فرض کی ادائیگی کے جذبے سے اس میں شریک ہوجائے اس کے لیے فلاح وکام یابی کی بشارت ہے۔ چناں چہ آگے کنتم خیر أُمَّة والی آیت بتاتی ہے کہ عہد رسالت میں فرض کی ادائیگی کا یہ جذبہ پوری امت میں پیدا ہوگیا تھا اور پوری امت اس میں شامل ہوگئی تھی۔

دوسری آیت میں افراد کو اقتدار دینے کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ امت کو غلبہ وتمکین دینے کی بات ہے، کہ جب ایمان والوں کو کسی علاقے میں دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اپنا یہ فرض بھول نہیں جاتے ہیں، بلکہ تن دہی سے ادا کرتے ہیں۔چناں چہ ان فرائض میں زکوٰۃ وصول کرنا نہیں بلکہ زکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ ان تعلیمات کی روشن عملی مثال عہد رسالت ہی میں سامنے آگئی تھی۔ اہل ایمان کو مدینہ میں تمکین حاصل ہوئی اور انھوں نے یعنی تمام اہل ایمان نے ان فرائض کو وہاں بحسن وخوبی انجام دیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت انھی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھیں اپنے گھروں سے نکالا گیا اور انھیں مدینے میں ٹھکانا حاصل ہوا۔ اور پھر یہ لوگ رہتی دنیا تک تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ بنے۔

یاد رہے کہ اس آیت میں جو فرائض بیان کیے گئے ہیں وہ غلبہ وتمکین کی صورت میں ضرور انجام دینے ہیں۔ تاہم غلبہ وتمکین حاصل نہ ہو تو بھی ان تمام کاموں کو کرنا ہے کیوں کہ ان کے بغیر غلبہ حاصل ہوہی نہیں سکتا ہے۔ غرض اقامت صلاۃ کی طرح یہ سب مستقل کام ہیں، اہل ایمان جس حال میں ہوں انھیں یہ کام کرنا ہے، یہ ان پر بھی فرض ہیں جن کو زمین میں غلبہ نصیب ہوا اور ان پر بھی فرض ہے جن کو غلبہ نصیب نہیں ہوا ہے۔

امت کے ارباب اقتدارچوں کہ امت کے حقیقی نمائندے ہوتے ہیں، اس لیے وہ اس کے مکلف ہوتے ہیں کہ امت کی اس ذمے داری کی ادائیگی کے لیے بہتر سے بہتر انتظامات کریں۔ اقامت صلاۃ کے لیے مساجد کی تعمیر، زکاۃ کی ادائیگی کے لیے وصولی اور تقسیم کا انتظام، نیز امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کے لیے ضروری وسائل کی فراہمی امت کے منتخب حکم رانوں کی ذمے داری ہے۔

علما میں محصور دعوت

قرآن مجید میں جہاں بھی دعوت کا حکم دیا گیاہے، پوری امت کو دیا گیاہے۔ اس سلسلے میں عالم اور غیر عالم کے درمیان کوئی تفریق نظر نہیں آتی ہے۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے پیش نظر پوری امت کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے اور پوری امت کو دعوت کے لیے سرگرم رکھنا ہے، نہ یہ کہ چند علما ہوں جو داعی ہوں اور باقی غیر عالم اور غیر داعی رہیں۔ درج ذیل آیت سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے:

وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّةً فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَآئفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون۔

’’اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں۔‘‘ (التوبہ: 122)

اس آیت سے منشائے الٰہی معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصود تو یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تفقہ فی الدین ہر مومن پر فرض ہے اور صرف وہ اس فرض سے بری ہے جو اس کی استطاعت نہیں رکھتا ہو۔ اسی لیے اہل مدینہ سے کبھی یہ نہیں کہا گیا کہ ان میں بعض لوگ تفقہ فی الدین سے آراستہ ہوں اور بعض آراستہ نہ ہوں۔تفقہ فی الدین کے لیے سفر نہ کرنے کی اجازت دراصل صرف ان لوگوں کو دی گئی جو بہت زیادہ دور ہونے کی وجہ سے اس مقصد کے لیے سفر نہیں کرسکتے ہوں، جس طرح حج تمام مسلمانوں پر فرض ہے ماسوا اس کے جو سفر حج کی استطاعت نہیں رکھتا ہو۔اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کی وہ آیت سامنے رہنی چاہیے جس میں کہا گیا: انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء، اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر مومن کو وہ علم حاصل کرنا چاہیے جس سے خشیت الٰہی پیدا ہو، چوں کہ خشیت الہی ہر مومن سے مطلوب ہے، لہذا وہ علم بھی سب سے مطلوب ہے، جس سے خشیت الہی پیدا ہو۔ اسی طرح دعوت، انذار، أمر بالمعروف ونھی عن المنکر کا کام ہر مومن سے مطلوب ہے، اور اس کے لیے جو علم اور جو دین کی سمجھ ضروری ہے اس کا حصول بھی ہر مومن پر فرض ہے۔

غرض اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ جب تک دین کی سمجھ تمام مسلمانوں تک پہنچانے کا انتظام نہیں ہوجاتا کچھ لوگ لازما دین کی سمجھ حاصل کرکے انذار کام کریں، لیکن جیسے جیسے انتظامات میسر ہوتے جائیں دین کی سمجھ پوری امت میں عام ہوتی جائے اور امت کے اندر دین کی سمجھ رکھنے والے اور نہیں رکھنے والے کی تفریق ختم ہوجائے، جس طرح عہد رسالت کے مدینہ میں یہ تفریق نہیں پائی جاتی تھی۔

غامدی صاحب اس آیت سے یہ مفہوم نکالتے ہیں کہ علما بننے کی ذمے داری کچھ لوگوں پر عائد ہوتی ہے، اور نبیوں کے بعد ان کی انذار والی ذمے داری بھی انھیں ہی انجام دینی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 ”دعوت کا یہ حکم علما کے لیے ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ سب مسلمانوں کے لیے تو یہ ممکن نہیں ہے، لیکن ان کی ہر جماعت میں سے کچھ لوگوں کو لازما اس مقصد کے لیے نکلنا چاہیے کہ وہ دین کا علم حاصل کریں اور اپنی قوم کے لیے نذیر بن کر اسے آخرت کے عذاب سے بچانے کی کوشش کریں۔ سورہ توبہ کی اس آیت پر غور کیجیے تو اس سے پہلی بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ دعوت کا جو حکم اس میں بیان ہوا ہے، اس کا مکلف اللہ تعالی نے ہر مسلمان کو قرار نہیں دیا۔“ (میزان، ص 550)

غامدی صاحب کے نزدیک انذار کا کام علما کے لیے خاص ہے، لکھتے ہیں:

 ”دین کا عالم بن کر اپنی قوم کو انذار کیا جائے، اس کی توقع ہر مسلمان سے نہیں کی جاسکتی۔ چناں چہ اللہ تعالی نے یہ بات اس آیت میں صاف واضح کردی ہے کہ تمام مسلمانوں کو نہیں بلکہ ان کے گروہ میں سے چند لوگوں کو اس کام کے لیے نکلنا چاہیے۔“ (میزان، ص 550)

 (یہاں لفظ چند بھی غور طلب ہے) وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ علما امت کی دعوت کا دائرہ کار امت کے اندر ان کی اپنی قوم ہے، وہ بھی وہ علما جو ”پہلے دین کا گہرا علم حاصل کریں“ اور ”قرآن وسنت میں گہری بصیرت پیدا کریں“ وہ لکھتے ہیں:

 ”سورہ توبہ کی یہ آیت دین میں بصیرت رکھنے والوں کو اس بات کا مکلف ٹھہراتی ہے کہ جاھدوا فی اللہ حق جھادہ کے جذبے سے وہ اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق امت کی ہر بستی اور ہر قوم میں اس دعوت کو ہمیشہ زندہ رکھیں۔ وہ اپنی قوم اور اس کے ارباب حل وعقد کو ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارے میں پوری درد مندی اور دل سوزی کے ساتھ خبردار کرتے رہیں۔ ان کے لیے ہر سطح پر دین کی شرح و وضاحت کریں۔“ (میزان، ص 551)

اصل میں اگر یہ کہا جائے کہ انذار کا کام صرف علما کے کرنے کا ہے، تو بات کچھ اور ہوتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ علما پر انذار کا کام فرض ہے، تو بات بدل جاتی ہے۔ انذار کا کام اہل ایمان کے کرنے کا ہے اور تفقہ فی الدین سے آراستہ ہونا بھی اہل ایمان سے مطلوب ہے۔ انذار کا کام بہر حال مطلوب ہے، اس کام کے لیے مطلوبہ معیار کے علما تیار نہ ہوسکیں تب بھی اس کام کو ہونا ہے، اور اس معیار کے علما اس کام کے لیے آگے نہ بڑھیں تو بھی یہ کام ہونا ہے۔ اس کام کے لیے شرط لازم صرف مومن ہونا ہے۔ کوئی صاحب ایمان ہے تو وہ انذار کرے، وہ عالم ہوکر اس فرض میں کوتاہی نہیں کرے، اور عالم نہ ہو تو بھی اس فرض سے پہلوتہی نہ کرے۔

علما کے ساتھ گہرے علم وبصیرت کی قید لگانا خود علما کو انذار کے کام سے روک دینے کا باعث بن سکتا ہے، کون ہے جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہوجائے اور اس کا ادعا بھی کربیٹھے کہ مجھے گہرا علم وبصیرت حاصل ہوگیا ہے، اور اب میں انذار کے مرتبے پر فائز ہوتا ہوں۔

قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ انذار کے لیے گہرے علم وبصیرت والا عالم ہونا ضروری نہیں ہے۔ عام فرد جسے دین کی روشنی حاصل ہوجائے وہ انذار کرنے والا بن سکتا ہے۔ درج ذیل آیت اس کی واضح مثال ہے:

وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَیْکَ نَفَراً مِّنَ الْجِنِّ یَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوہُ قَالُوا أَنصِتُوا فَلَمَّا قُضِیَ وَلَّوْا إِلَی قَوْمِہِم مُّنذِرِیْنَ۔

”اور جب ہم نے جنوں کی ایک جماعت کو تیری طرف متوجہ کیا کہ وہ قرآن سنیں، پس جب (نبی کے) پاس پہنچ گئے تو (ایک دوسرے سے) کہنے لگے خاموش ہو جاؤ، پھر جب پڑھ کر ختم ہوگیا تو اپنی قوم کو خبردار کرنے کے لیے واپس لوٹ گئے۔“  (الاحقاف:29)

واقعہ یہ ہے کہ صرف جنوں کی جماعت نہیں بلکہ انسانوں میں سے بھی جو شخص کچھ آیتیں سن کر ایمان لے آتا تھا وہ اپنے قبیلے کی طرف منذر بن کر روانہ ہوجاتا تھا۔ عرب کے قبائل میں بھی اسلام اسی طرح پھیلا اور ملکوں ملکوں بھی اسلام کی روشنی اسی طرح پہنچی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جن آیتوں کو غامدی صاحب ارباب اقتدار اور علما کے ساتھ خاص کرتے ہیں، وہ بھی اولین مخاطب کے لحاظ سے تو اس وقت کے عربوں (بنی اسماعیل) سے متعلق ہیں، تو کیا انھیں بھی بنی اسماعیل کے ارباب اقتدار اور انھی کے علما کے ساتھ مخصوص سمجھا جائے!

بہرحال، قرآن وسنت سے معلوم ہوتا ہے کہ دین کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے اور دین کی دعوت دینا بھی ہر مسلمان پر فرض ہے۔

عام فرد کی دعوت

ایسا نہیں ہے کہ غامدی صاحب امت کے عام افرادکو دین کی دعوت کی ذمے داری سے بالکل بری قرار دیتے ہیں، لیکن یہ ضرور ہے کہ مختلف کیٹیگری سے ہوتے ہوئے جب وہاں تک پہنچتے ہیں تو دعوت کا دائرہ بہت چھوٹا ہوکر متعلقین تک محدود ہوجاتا ہے۔ نیز انھیں دعوت کی ترغیب دینے والی آیتیں بھی کم رہ جاتی ہیں، کیوں کہ زیادہ تر آیتیں بنی اسماعیل کی دعوت اور ارباب اقتدار کی دعوت کے لیے خاص ہوچکی ہوتی ہیں۔

عام فرد کی دعوت کے سلسلے میں وہ لکھتے ہیں:

 ”یہ فرض باپ کو بیٹے کے لیے اور بیٹے کو باپ کے لیے، بیوی کو شوہر کے لیے اور شوہر کو بیوی کے لیے، بھائی کو بہن کے لیے اور بہن کو بھائی کے لیے، دوست کو دوست کے لیے اور پڑوسی کو پڑوسی کے لیے، غرض یہ کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ متعلق ہر شخص کے لیے ادا کرنا چاہیے۔ وہ جہاں یہ دیکھے کہ اس کے متعلقین میں سے کسی نے کوئی خلاف حق طریقہ اختیار کیا ہے، اسے چاہیے کہ اپنے علم اور اپنی استعداد وصلاحیت کے مطابق اسے راستی کی روش اپنانے کی نصیحت کرے۔“ (میزان، ص 556)

فرد کی دعوت کے سلسلے میں چوں کہ غامدی صاحب کا موقف یہ ہے کہ یہ متعلقین کی آپس میں ایک دوسرے کو خیر کی تلقین والی دعوت ہے، اس لیے انھوں نے اس آیت کے ترجمے کو بھی اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کی، جس کو وہ مومن افراد کی باہم دگر دعوت کے سلسلے میں رہ نما دلیل مانتے ہیں۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیاءُ بَعْضٍ یأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (التوبہ: 71) کا ترجمہ کرتے ہیں:

”اور مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ باہم دگر بھلائی کی نصیحت کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔“ (میزان، ص 557)

اس ترجمہ میں ”باہم دگر“ کے الفاظ اضافہ ہیں، کیوں کہ آیت میں یأمرون اور ینھون کے الفاظ ہیں اور ان کے اندر باہم دگر کا مفہوم نہیں پایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے منافقین کے بارے میں آیا ہے، الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ بَعْضُہُمْ مِنْ بَعْضٍ یأْمُرُونَ بِالْمُنْکَرِ وَینْہَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوف (التوبہ: 67) اور وہاں بھی باہم دگر کا محل نہیں ہے بلکہ عمومی بات ہے، کہ منافقین مسلم معاشرے میں منکر کو فروغ دینے اور معروف کو مٹانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ غامدی صاحب نے البیان میں اسی آیت کا درست ترجمہ کیا ہے:

 ”مومن مرد اور مومن عورتیں، وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ (ان منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں“۔ (البیان)

غامدی صاحب کے نزدیک اس آیت میں یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر اور سورۃ العصر میں مذکور تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر دونوں کا مضمون ایک ہی ہے، الفاظ کا فرق ہے۔ (میزان، ص  555)

غامدی صاحب کی یہ بات درست نہیں ہے۔ سورہ عصر میں تواصوا کا لفظ استعمال ہوا ہے، جس میں باہم دگر کا مفہوم موجود ہے۔ جب کہ یہاں آیت کے الفاظ عام ہیں، اور ان الفاظ سے مطلق أمر بالمعروف اور نھی عن المنکر مراد ہے۔ سورہ عصر میں الحق اور الصبر کی باہم دگر تلقین کی بات ہے، ظاہر ہے صبر کی تلقین اہل ایمان آپس میں ایک دوسرے کو کریں گے۔ جب کہ اس آیت میں معروف ومنکر کا مسئلہ ہے، جو اہل ایمان کا آپس کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ سارے انسانوں کا مسئلہ ہے۔ اسی لیے تواصی کے بجائے امر ونہی کی بات کہی گئی ہے، معروف ومنکر سے متعلق أمر ونہی کا کام کرنے کی اہل ایمان کو حسب موقعہ آپس میں بھی ضرورت پیش آسکتی ہے، لیکن اصل تو یہ ہے کہ اہل ایمان معروف ومنکر کے سلسلے میں عام طور سے خود آگاہ اور محتاط رہیں گے اور خود کو اس کے لیے تیار کریں گے کہ یہ کام ان سارے انسانوں میں جاکر کریں، جو اس سلسلے میں بے شعوری، غفلت اور کوتاہی کا شکار ہیں۔ غرض الفاظ اس حقیقت کو اچھی طرح واضح کرتے ہیں کہ امر بالمعروف ونھی عن المنکر سے مقصود سارے انسانوں کو دعوت دینا ہے، اور تواصی بالحق وتواصی بالصبر سے مقصود اہل ایمان کا آپس میں ایک دوسرے کو تلقین کرنا ہے۔

خود ساختہ وعیدیں اور بندشیں

غامدی صاحب علمائے امت اور افراد امت کو اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے دعوت دینے کی ہدایت دیتے ہیں، اور اس سے باہر نکلنے کے خطرناک عواقب سے ڈراتے ہیں۔

علما سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں:

 ”اس دعوت کے ہر داعی کے لیے اصل مخاطب کی حیثیت اس کی اپنی قوم کو حاصل ہے۔ چناں چہ فرمایا ہے: ”ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم“ آیت کا یہی حصہ ہے جس سے اس دعوت کا دائرہ بالکل متعین ہوجاتا ہے اور اس چیز کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ اس کے داعی اصل حق داروں کو چھوڑ کر یہ دولت جہاں تہاں دوسروں میں بانٹتے پھریں“۔ (میزان، ص 550)

افراد سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں:

 ”آدمی سب سے بڑھ کر اپنے اہل وعیال کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کرے۔ اسے متنبہ رہنا چاہیے کہ وہ اگر دوسروں کے دروازے پر دستک دیتا رہا اور اس کے اپنے گھر والے شب وروز جہنم کے لیے ایندھن فراہم کرتے رہے تو ہوسکتا ہے کہ ساری جدوجہد کے باوجود اس کی یہی کوتاہی دنیا اور آخرت میں اس کے لیے وبال بن جائے۔“ (میزان، ص 556)

اپنی قوم اور اپنے گھر والوں کی دعوت وتربیت کی اہمیت مسلم ہے، لیکن اسے کار دعوت کا متعین دائرہ قرار دینے اور اس کی رعایت نہ کرنے والے داعیان حق کو خطرناک انجام کی وعیدیں سنانے کے لیے آفتاب جیسی روشن دلیل کی ضرورت ہے۔ قرآن کی آیتوں کا عموم تو اسے واجب کرتا ہے کہ ہر شخص داعی بنے، اور جو شخص دیگر لوگوں یا دیگر اقوام تک اللہ کے پیغام کو لے کر جائے وہ کسی بھی طرح کی حوصلہ شکنی کا سزاوار نہیں ہو۔ آج دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام کی دعوت یقینا انھیں لوگوں کے ذریعے پھیلی ہے جو سارے انسانوں تک پیغام حق پہنچانے کے جذبے سے دور دراز علاقوں تک پہنچے۔

خود محترم جاوید غامدی صاحب نے اس چیز کی دعوت واشاعت کو جسے وہ بلاشبہ دین کی دعوت سمجھتے ہیں، اپنے متعلقین یا اپنی قوم تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے عالمی بنانے کے تمام وسائل اختیار کیے۔ اسی طرح امت کے دیگر افراد کو بھی اس کا ترغیب سے بھرپور جواز ملنا چاہیے کہ وہ دین کی دعوت کو جتنی دور تک پہنچاسکیں ضرور پہنچائیں۔ ترتیب کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے، اصل اعتراض دعوت کی حصار بندی پر ہے۔

جمعہ اور عیدین کی نماز

“نماز جمعہ اور نماز عیدین کا اہتمام حکومت کرے گی۔ یہ نمازیں صرف اُنھی مقامات پر ادا کی جائیں گی جو حکومت کی طرف سے اُن کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے۔ اِن کا منبر حکم رانوں کے لیے خاص ہوگا۔ وہ خود اِن نمازوں کا خطبہ دیں گے اور اِن کی امامت کریں گے یا اُن کی طرف سے اُن کا کوئی نمائندہ یہ ذمہ داری ادا کرے گا۔ ریاست کے حدود میں کوئی شخص اپنے طور پر اِن نمازوں کا اہتمام نہیں کر سکے گا۔”(جوابی بیانیہ از جاوید احمد غامدی)

جوابی بیانیہ ایک نہایت مختصر دستاویز ہے، جس میں محترم غامدی صاحب نے بہت بنیادی باتوں کا تذکرہ کیا ہے، اس بنیادی مختصر دستاویز میں اس مسئلے کا اس قدر اہتمام کا ساتھ تذکرہ تعجب خیز ہے۔

بہرحال، محترم جاوید غامدی صاحب کے نزدیک یہ بات اتنی اہم ہے کہ انھوں نے اسے جوابی بیانیہ میں کہا اور اس کے علاوہ اپنی کتاب میزان میں یہ بات کم سے کم چار مقامات پر ذکر کی۔ (میزان، قانون عبادات ص 330) (میزان، قانون عبادات، ص 332) (میزان، قانون سیاست، ص 487) (میزان، قانون دعوت، ص 554)

اس کے علاوہ اپنی تفسیر البیان میں یہ بات انھوں نے کم سے کم تین مقامات پر ذکر کی:

البیان۔ ج 1، ص 388، تفسیر سورۃ آل عمران، آیت104؛  البیان، ج 3، ص 358، تفسیر سورہ الحج، آیت 41؛ البیان، جلد پنجم، ص 206، تفسیر سورۃ الجمعۃ، آیت 9۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ بات مولانا امین احسن اصلاحیؒ نے تدبر قرآن میں کسی ایک مقام پر بھی نہیں کہی ہے اور میرے علم کی حد تک اپنی کسی کتاب میں نہیں کہی ہے۔

آخر وہ بات جو اسلامی لٹریچر میں کبھی ذرا اہمیت کی حامل نہیں رہی، مشرق ومغرب میں دین کی دعوت پر لکھی گئی کتابوں میں اس نے کبھی جگہ نہیں پائی وہ غامدی صاحب کے یہاں اس قدر اہم کیوں ہوگئی؟

یہ درست ہے کہ فقہ حنفی کی کتابوں میں جمعہ کے سلسلے میں یہ شرط ملتی ہے، لیکن اس کی حیثیت تو ایک فقہی فرعی مسئلے کی ہے، جس کی پشت پر نہ قرآن کی کوئی آیت ہے، نہ کوئی صحیح وصریح حدیث ہے اورجس کی علت بس یہ بتائی جاتی ہے کہ امت کو نزاع سے بچانے کے لیے جمعہ کے خطبہ ونماز کا حاکم کے زیر انتظام رہنا ضروری ہے۔

یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حنفی مسلک میں (صرف حنفی مسلک میں) خطبہ جمعہ کے لیے سلطان کی اجازت کو ضروری بتایا ہے۔ لیکن دور حاضر میں جب ہندوستان میں مسلم حکومت نہیں رہی تو فقہائے احناف نے جمعہ کو بند کرنے کے بجائے اسے عوام کے ذریعے جار ی رکھنے کو ترجیح دی، اسی طرح دنیا بھر کے غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں نے خطبہ جمعہ کے انتظام کو اہتمام کے ساتھ جاری وساری رکھا۔ امام کاسانی کی درج ذیل عبارت اس کے لیے حوالہ بن گئی:

 ''فأما إذا لم یکن إمامًا بسبب الفتنة أو بسبب الموت ولم یحضر وال آخر بعد حتی حضرت الجمعة ذکر الکرخی أنه لا بأس أن یجمع الناس علی رجل حتی یصلی بہم الجمعة۔'' (اگر فتنے کے سبب یا موت کے سبب حاکم نہیں ہو، اور دوسرا والی ابھی نہیں آیا ہو، یہاں تک کہ جمعہ کا وقت ہوگیا ہو تو کرخی نے ذکر کیا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ لوگ ایک آدمی پر متفق ہوجائیں جو انھیں جمعہ کی نماز پڑھادے۔ بدائع الصنائع)

علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ سلطان کی شرط اس لیے رکھی گئی ہے تاکہ جمعہ کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔ ایسا نہ ہو کہ باہمی نزاع کی وجہ سے حالات بگڑ جائیں اور جمعہ ہی تعطل کا شکار ہوجائے۔ (شرح فتح القدیر) غرض یہ کہ فقہائے احناف کا مقصد سلطان کی مدد سے جمعہ کے قیام کو یقینی بنانا ہے، نہ کہ سلطان کی اجازت کے نہیں ہونے کا حوالہ دے کر جمعہ کو بند کرانا۔

علامہ ابن قدامہ نے امت کے تعامل کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

إن الناس یقیمون الجمعات فی القری من غیر استئذان أحد (لوگ بستیوں میں جمعہ قائم کرتے رہے ہیں بنا کسی کی اجازت مانگے۔ (المغنی)

دور حاضر میں جب کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد غیر مسلم ممالک میں بستی ہے، اور جمعہ کا خطبہ ان کی دینی تربیت کا بہت اہم ذریعہ ہے، اور پھرخود بیشتر مسلم ممالک میں لادینی حکم رانوں اور دین بے زار سرکاری عہدے داروں کا دور دورہ ہے، اور انھیں مسلمانوں کی دینی تعلیم وتربیت سے بے زاری بلکہ دشمنی ہے،اور واقعہ یہ ہے کہ عالم اسلام کی بستی بستی میں جمعہ کا منبر مسلمانوں کے دین کی حفاظت کا اہم ذریعہ بنا ہواہے۔ ایسے میں تمام زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر زور دینا اور بار بار شدت کے ساتھ زور دینا کہ یہ منبرحکومت کے عہدے داروں کے لیے خاص ہے، اور حکومت کی اجازت کے بغیر جمعہ کا قیام ہی نہیں ہوگا، حیرت انگیز ہے۔

جمعہ کے خطبے کے حوالے سے غامدی صاحب کی یہ اپروچ فریضہ دعوت کو دو پہلوؤں سے سکیڑدیتی ہے، ایک تو یہ کہ وہ فریضہ دعوت جو اسلامی حکومت پر متعدد جہات سے واجب ہے اسے خطبہ جمعہ تک محدود کردیتی ہے۔ چناں چہ وہ جہاں بھی اسلامی حکومت کی دعوتی ذمہ داری کو ذکر کرتے ہیں تو خطبہ جمعہ وعیدین اور محکمہ پولیس تک اسے محدود کردیتے ہیں۔ دوسری طرف خطبہ جمعہ جو امت کی دینی تعلیم وتربیت کا زبردست انتظام ہے وہ اسے سرکاری عہدے داروں تک محدود کردیتے ہیں۔

جمعہ کے خطبے کے سلسلے میں محترم غامدی صاحب کی اس اپروچ کے کیا نتائج متوقع ہیں، اور اس کے پوری دنیا کے مسلمانوں پر کیا اثرات ہوسکتے ہیں، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ جمعہ کے نظام کو اپنی گرفت میں لانے کے لیے مسلم ممالک کے استبدادی حاکم بہت زیادہ کوشاں رہے ہیں، لیکن امت کا یہ عرف ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہا ہے کہ جمعہ کے خطیب کو دین کا عالم ہونا چاہیے۔ (دین کے عالم سے مراد مدرسے کا سند یافتہ فارغ نہیں بلکہ صاحب علم شخص مراد ہے) عرب بہار کی گزشتہ لہر میں جمعہ کے خطبوں نے غیر معمولی کردار ادا کیا تھا۔ عرب ملکوں میں بہت سے جمعہ کے خطیب محض اس وجہ سے جیل میں بند کردیے گئے کہ انھوں نے حق گوئی سے کام لیا تھا اور جمعہ کے منبر سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فرض انجام دیا تھا۔

یہ درست ہے کہ بیشتر مسلم ممالک میں جمعہ کا نظام عملًا حکومت کے زیر انتظام ہے، لیکن خطیب عام طور سے دینی عالم ہوتا ہے، اور جس ملک میں استبداد کا شکنجہ جتنا ڈھیلا ہوتا ہے، جمعہ کا خطیب اتنا ہی زیادہ دینی حقائق اور امت کے جذبات کا ترجمان ہوتا ہے۔جمعہ کے نظام کو اہل علم سے چھین کر موجودہ دور کے سرکاری عہدے داروں کے حوالے کرنا اور سرکاری عہدے داروں کے لیے دین دار ہونے کی شرط کو لازم قرار نہیں دینا اس نظام کو مفلوج کردینے کی صورت کے علاوہ اور کیا ہے۔

جمعہ کی ادائیگی امت پر فرض ہے، امت کے منتخب حکم رانوں کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ اس کے لیے بہتر سے بہتر انتظامات کریں،علم اور دین داری کے پہلو سے لائق وفائق خطیبوں کی فراہمی اور تقرر کریں، نزاعات سے بچانے کی تدابیر کریں، وہ اگر اس ذمے داری کو انجام نہیں دیں گے تو امت خود یہ انتظام کرے گی، لیکن وہ جمعہ کی ادائیگی کے لیے حکم رانوں پر منحصر نہیں رہے گی۔ امت کی پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔

یہ وضاحت بھی قرآن سے ہوتی ہے کہ جمعہ کا خطبہ محض سرکاری فرمانوں کو سنانے کے لیے نہیں ہے، وہ تو امت کو اللہ کے ذکر سے مالا مال امت بنانے کے لیے ہے۔سرکاری عہدے دار یہ کام کرتے ہیں تو بہت خوب، لیکن اگر وہ اس کے اہل نہیں ہیں تو جو اہل ہیں انھیں جمعہ کے خطبے کے لیے مقرر ہونا چاہیے۔

بات جمعہ کے منبر کی ہو یا دعوت کے میدان کی، یہ بات واضح ہے کہ محترم غامدی صاحب کی اپروچ دعوت کو بریک لگانے والی ہے، نہ کہ اسے تیز رفتار کرنے والی۔ یعنی علما کے لیے گہری دینی بصیرت کی شرط لگادی جائے، جمعہ کا منبر سرکاری عہدے داروں کے حوالے کردیا جائے اوردعوت کی ذمے داری بنی اسماعیل کو دے کر انھیں چراغ لے کر تلاش کیا جائے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب دعوت کے محرکات کی حرارت کو کم کرنا چاہتے ہیں۔ان کے یہاں دعوت اور جہاد کے بیچ گہرا تعلق ہے۔شاید وہ ایسا سمجھتے ہیں کہ دعوت کے جذبے کو قابو میں کرکے جہاد کے جذبے کو بھی قابو میں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مذہبی انتہا پسندی کا ایک تصور اپنے ذہن میں تشکیل دیا ہے، جس کا ذمے دار وہ دینی اداروں کو قرادیتے ہیں۔ اس بنا پر وہ قانونِ دعوت اور قانون جمعہ کے ذریعے دینی اداروں کو میدانِ دعوت سے بے دخل کردینا چاہتے ہیں۔ ہمارے اس خیال کا تعلق ان کی نیت سے نہیں بلکہ ان کی گفتگو کے منطقی نتائج سے ہے۔

بہرحال، یہ اپروچ درست نہیں ہے۔ قرآن مجید نے دعوت کے جذبے کو جس قوت کے ساتھ پیش کیا ہے، اس میں کمی کرنا قرآن کی حق تلفی ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دعوت ہو یا جہاد، اسے غلط رخ سے بچایا جائے اور صحیح رخ دیا جائے۔ نہ یہ کہ اس کو خود ساختہ قسموں اور شرطوں کے حصار میں قید کردیا جائے۔ دعوت تو امت مسلمہ کی منصبی ذمے داری ہے، اس کی جتنی طاقت ور ترغیب قرآن مجید میں ملتی ہے اتنی ہی طاقت ور ترغیب ہماری تشریح میں بھی ملنی چاہیے۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۷)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب Defending Muhammad in Modernity کا چوتھا باب)


سیاست شرعیہ

شعائر دین کے تحفظ کی سیاست

شاہ اسماعیل نے منصبِ امامت (فارسی میں) اس وقت لکھی جب وہ سکھوں کے خلاف برسرِ پیکار تھے جس میں بالآخر ان کی شہادت واقع ہوئی۔ ان کی وفات کتاب کی تکمیل میں حائل  ہو گئی، اگر چہ وہ اس کا معتد بہ حصہ تحریر کر چکے تھے۔ منصبِ امامت اگر چہ ایک ایسے زمانے میں تحریر کی گئی جب وہ اور ان کے شیخ سید احمد سرحدی علاقے میں اسلامی ریاست کے قیام کے لیے سرگرم عمل تھے، تاہم یہ کتاب اس تجربے سے براہ راست متعلق نہیں۔ البتہ اس سیاق کو کتاب کے پس منظر میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ کتاب کا مطبوعہ نسخہ تقریباً ایک سو پچاس صفحات پر مشتمل ہے اور یہ اپنی زبان وبیان کے لحاظ سے تقویۃ الایمان سے یکسر مختلف ہے۔

یہ عوام کے لیے لکھی جانے والی کوئی عام فہم کتاب نہیں، بلکہ سیاست کے مقاصد اور سیاسی نظاموں اور حکمرانوں کی مختلف اقسام اور درجات کا ایک گہرا فلسفیانہ مطالعہ ہے۔ اس کتاب کی زبان میں مناظرانہ انداز واضح طور پر کم ہے، اس کے بجائے یہ نسبتاً فلسفیانہ ہے۔ کتاب کو اردو کے بجاے فارسی میں (اگر چہ بعد میں اس کا اردو ترجمہ ہوا) مرتب کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شاہ اسماعیل  کے ذہن میں اس کے مخاطب علما تھے۔ اس کتاب میں کئی مقامات پر شاہ اسماعیل نے مُسَجَّع مُقَفّٰی نثر لکھی ہے جس کے کچھ نمونے قارئین اس باب میں میری نقل کردہ عبارات میں ملاحظہ کر سکیں گے۔ ذیل میں میری کوشش ہوگی کہ اس انداز میں منصبِ امامت کے مرکزی ابحاث اور استدلالات کو نمایاں کر سکوں جس سے شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر کی نمایاں خصوصیات کا ایک نقشہ سامنے آ جائے1۔

اس بحث کا مقدمہ اور خلاصہ یہ ہے کہ مثالی ریاست کا ایک جامع خاکہ پیش کرنے کے بجاے شاہ اسماعیل کی توجہ ایسی سیاسی قیادت اور نظاموں کی تفصیلات پیش کرنے پر ہے جو اخلاقی اصلاح اور اُخروی نجات کے مقاصد کے لیے زیادہ مناسب ہیں۔جیسا کہ میں عنقریب بتاؤں گا، شاہ اسماعیل کی توجہ سیاسی قیادت کے تقویٰ وتدیُّن کے بجاے ان اثرات پر تھی جو وہ معاشرے پر مرتب کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے بنیادی چیز شعائرِ اسلام کے تحفظ کا فریضہ تھا، ایک ایسا فریضہ جس کی کے لیے وہ اخلاقی طور پر ایک کمزور قیادت کو بھی برداشت کرنے کے روادار تھے۔

دل چسپ اور اہم بات یہ ہے کہ شاہ اسماعیل نے اسلامی حاکمیت کے زوال کو اسلامی ریاست یا سیاسی طاقت کے بجاے شعائر اسلام کے زوال کے مترادف قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک شعائرِ اسلام کی حیثیت سے رائج اعمال کا خاتمہ غلبۂ کفار کی ناقابل برداشت صورتِ حال کے مترادف ہے۔ اس لیے تمام مسلمانوں پر فرضِ عین ہے کہ وہ موجودہ سیاسی نظم اور قیادت کے خلاف ایک براہ راست بغاوت اور کھلی جنگ برپا کریں، اگر چہ وہ قیادت بظاہر مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو، تو پھر کسی اور علاقے کی طرف ہجرت کرنا ان پر فرض ہے، شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں واضح کیا۔

اگر ایک غیر مسلم حکمران مسلمانوں کے دینی شعائر کو تحفظ دے تو کیا وہ اسماعیل کے لیے قابل قبول ہوگا؟ شاہ اسماعیل کی گفتگو میں اس سوال کا جواب ابہام کا شکار ہے۔ ان کی سیاسی فکر میں ریاست کے کسی مربوط تصور کی تفصیلات کو اس قدر اہمیت حاصل نہیں جس قدر روز مرہ کے اعمال پر سیاست کے اثرات کو حاصل ہے۔ اور اُخروی نجات کے لیے اخلاقی اِصلاح پر شدید زور ہی وہ نکتہ ہے جو  موضوعات ومضامین کے اختلاف باوجود تقویۃ الایمان اور منصبِ امامت میں شاہ اسماعیل کے پروجیکٹ کو مربوط کر دیتا ہے۔ نتیجتاً ان کی نظر میں سیاسی اور اعتقادی حاکمیتِ اعلیٰ کا بنیادی مقصد فرد اور معاشرے کی اخلاقی اصلاح ہے۔

منصبِ امامت میں شاہ اسماعیل کے نقطۂ نظر کے اس مختصر خلاصے کے بعد میں ان کے استدلال میں کار فرما مفروضوں کی مزید وضاحت کرنا چاہوں گا۔ اگر چہ انھوں نے کسی حد تک قرونِ وسطی کی سنی سیاسی فکر کے بنیادی تصورات سے، بالخصوص بغاوت وخروج سے احتراز کے معاملے میں، اخذ واستفادہ کیا ہے، تاہم ان کی فکر کا بیش تر حصہ طبع زاد اور صرف ان کے ساتھ خاص ہے2۔ علاوہ ازیں میں کچھ تفصیل کے ساتھ ابھی جو کچھ پیش کرنے والا ہوں، وہ شرعی/ایمانی سیاست کی ایک ایسی تعبیر ہے جسے بآسانی نہ تو جدید قومی ریاست اور نہ عہد جدید سے ماقبل نظامِ خلافت کے فکری تصور اور زمانے کے نقطۂ نظر سے جانچا جا سکتا ہے۔شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر مکمل طور پر مسلمانوں کے غلبے کے دور کے سیاسی عقائد سے متاثر ہے، لیکن اصلاً اس میں ایک متعین ریاست کی خواہش کم اور روزمرہ کے رسم ورواج کے دائرے میں مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے احیا اور تحفظ کی جستجو زیادہ ہے۔ اس طرح شاہ اسماعیل کا سیاسی تصور ایک مخصوص معنی میں، جس کی تفصیلات میں عنقریب ذکر کروں گا، مسلمانوں کی سیاسی فکر کا ایک غیر لبرل ماڈل ہے جو ایک کلیدی سیاسی ادارے کی حیثیت سے جدید ریاست کے خوش کن لبرل تصور کو للکارتا ہے۔

شاہ اسماعیل کی کتاب منصبِ امامت میں غوطہ زن ہونے سے پہلے ایک آخری گذارش یہ ہے کہ استعماری جدیدیت کے آغاز میں مرتب کی جانے والی اس فارسی کتاب کے متعلق، جو پوری وضاحت کے ساتھ اُخروی نجات اور روزمرہ کے معاملات میں تقوی اور پاکیزگی پر بحث کرتی ہے، یہ مضمون اس انداز فکر کے حوالے سے ہماری تفہیم کو مزید متنوع اور پیچیدہ بناتا ہے جو امتیازی طور پر مغلیہ حکومت کے عہد شباب سے متعلق ہے، اور جو اساسی طور پر اخلاقیات اور بادشاہت کے تصورات کے زیر اثر ہے3۔

نبوی کمالات اور شفقت کی سیاسی تعبیر

شاہ اسماعیل کے مطابق سیاست کا اولین مقصد انسانوں کی اصلاح ہے، ایک ایسی اصلاح جو ان کی دنیا کو سدھارے، اور آخرت میں بھی ان کے درجات کی بلندی کا سبب بنے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ سیاست، کمالاتِ نبوی میں سے ہے4۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کی سیاسی فکر سیاستِ ایمانی اور سیاستِ سلطانی کے درمیان ایک اہم تفریق پر منحصر ہے5۔ سیاستِ ایمانی کا تعلق کمالاتِ نبوی سے ہے۔ یہ دنیوی امور کی تنظیم کے ساتھ ساتھ اخروی نجات کو بھی یقینی بناتی ہے۔ سیاستِ ایمانی کے پیچھے کار فرما بنیادی طاقت اور محرک انبیا کا اپنی امتوں کے لیے وفورِ شفقت ہے۔ اسی محبت کی وجہ سے وہ اپنے متبعین کی اخلاقی اصلاح میں لگے رہتے تھے۔ اس کے بالمقابل سیاستِ سلطانی ہے، جو حکمران کے شخصی فوائد اور مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ اپنی رعیت کے دین کی فکر کے بجاے صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کرنا سلطانی سیاست کا خاصا ہے (ص 30)۔ شاہ اسماعیل لکھتے ہیں: "ایسے حکمرانوں کا اصل مقصد اپنے رعایا کی اخلاقی اصلاح نہیں ہوتا، بلکہ اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ رعایا کی اطاعت سے اپنی ذاتی خواہشات کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں" (پس مقصودِ ایشان از سیاستِ افرادِ انسان مجرد اصلاحِ حالِ ایشان نیست، بلکہ اصلی مقصد ہمیں است کہ ایشان اطاعت ورفاقت اختیار کنند تا باعانتِ ایشان اغراضِ نفسانیۂ خود بدست آید) (ص 30)۔

سلطانی سیاست کے پیچھے اصل محرک نفسِ اَمّارہ ہوتا ہے، جو کسی حکمران کے اعمال اور فیصلوں کی سمت متعین کرتا ہے۔ نفسِ امارہ جتنا طاقت ور ہوگا، سلطانی سیاست اسی قدر فاسد اور ایمانی سیاست سے دور ہوگی۔ سیاست کی تعریف کچھ اس طرح سے کی گئی کہ وہ نفس امارہ کا اسیر بننے اور کمالات نبوی کے ذریعے اخروی نجات حاصل کرنے کے درمیان ایک مسلسل کشمکش کا نام ہے۔ اس طرح اگر چہ منصبِ امامت اور تقویۃ الایمان دونوں کتابیں اپنے اسلوب اور موضوع کے اعتبار سے ایک دوسرے مختلف ہیں، تاہم وہ ایک ہی وسیع تر فکری ڈھانچے کا حصہ ہیں، یعنی  ایک ایسی سیاست جو نفس کی حاکمیت اور خدا کی حاکمیت کے درمیان کشمکش سے عبارت ہے۔ ان دونوں کا مرکزی موضوع اور مقصد انسانی تجاوزات اور خواہشات کے مقابلے میں خدائی حاکمیت کا تحفظ تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے تقویۃ الایمان میں روزمرہ کے اعمال ورسومات پر توجہ مرکوز رکھی گئی، جبکہ منصبِ امامت میں سارا زور سیاسی نظم اور قیادت پر رہا۔ لیکن جیسا کہ ذیل کی گفتگو سے معلوم ہوگا، منصبِ امامت میں شاہ اسماعیل نے ایک جائز سیاسی نظم کے کم سے کم تقاضوں کا ذکر کیا ہے۔ اگر چہ ان کی نظر میں سلطانی سیاست اور ایمانی سیاست کے درمیان تضاد ہے، تاہم وہ کسی بھی ایسے سلطانی نظم کو قبول کرنے کے روادار تھے جو شعائر اسلام کو مٹانے سے گریز کرے۔

کمالاتِ نبوی

شاہ اسماعیل کے سیاسی فلسفے میں اس تصور کو مرکزی حیثیت حاصل تھی کہ متنوع اور قابل قبول سیاسی نظاموں کا ایک سلسلہ موجود ہے۔ کوئی سیاسی ہیئت اس وقت مثالی سمجھی جاتی ہے جب وہ کمالاتِ نبوی سے بھرپور ہو۔ ان کمالات میں (1) وجاہت یعنی فرشتوں اور عباد الرحمان کی نظر میں انبیا کا بلند مقام ومرتبہ (2) ولایت، یعنی انبیا کا علم ودانش اور وجدان وبصیرت (3) بعثت یعنی وہ تعلیم وتربیت جو انبیا اپنی امتوں کو دیتے ہیں – زیادہ گہرے معنوں میں ایک ایسا کمال جو انبیا کے وفورِ شفقت ومحبت سے عبارت ہے (4) ہدایت، جس کا تعلق انبیا کے ان معجزات اور فصاحت وبلاغت کی غیر معمولی صلاحیتوں سے ہے جن کی وجہ سے لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں (5) سیاست، جو ان تمام کمالات کو یکجا کر کے ان کے ذریعے ایک دین دار سماج تشکیل دیتی ہے۔

جتنا زیادہ کوئی سیاسی قائد اور اس کا سیاسی نظم ان نبوی کمالات کو اختیار کرے گا، اتنا زیادہ ان کے نبوی کمالات میں اضافہ ہوگا۔ درحقیقت کامل ترین امام وہی ہے جو ان نبوی کمالات کو پوری طرح اختیار کرے۔ شاہ اسماعیل جرات آمیز انداز میں کہتے ہیں کہ ایسے شخص میں نبی کی تمام صفات آ جاتی ہیں۔ اس کے نبی ہونے میں صرف یہ مانع ہوتا ہے کہ ختم نبوت کی وجہ سے یہ دروازہ بند ہو چکا ہے۔ (54) "وگرنہ اگر حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ یہی شخص ہوتا"۔ (در حق مثل ایں شخص تواں گفت کہ اگر بعد خاتم الانبیاء کسے بمرتبۂ نبوت فائز می شد ہر آئینہ ہمیں اکمل الکاملین فائز می گردد) (ص 54)۔

جو شخص تمام کمالات نبوی کو دل وجان سے اختیار کرے، اس کے اور حضور کے درمیان یہی فرق باقی رہتا ہے کہ حضور ﷺ پر مقام نبوت سے سرفراز تھے، اور یہ شخص اس مقام پر فائز نہیں ہو سکتا (درمیان ایں امام اکمل ودرمیانِ انبیاء اللہ امتیازے ظاہر نخواہد شد الا بنفسِ مرتبۂ نبوت) (ص 54)۔ اس کی وضاحت میں وہ لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے چچا زاد/داماد حضرت علی کرم اللہ وجہہ (م 666) کے ساتھ اپنے تعلق کو بیان کرتے ہوئے جو الفاظ فرمائے: "تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھا، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا" ان کا مطلب یہی تھا6۔

یہاں ایک اہم نکتہ ذہن میں رہے کہ کمالاتِ نبوی صرف انبیا تک محدود نہیں، بلکہ یہ غیر انبیا بلکہ عام مسلمانوں میں بھی پائے جا سکتے ہیں۔ غیر نبی کبھی بھی کمالاتِ نبوی کے اس مقام پر نہیں پہنچ سکتا جس تک انبیا پہنچے ہیں، شاہ اسماعیل نے محتاط انداز میں واضح کیا۔ تاہم کمالات نبوی میں نبی اور غیر نبی کے درمیان معنوی مماثلت ہو سکتی ہے (ص 52)۔ سیاسی قیادت کے مختلف مناصب اور درجات کا دار ومدار کمالات نبوی میں مماثلت کے درجے کے اعتبار سے ہے۔ ایک سیاسی حکمران میں یہ مماثلت جتنی مضبوط اور جتنے وسیع پیمانے پر ہوگی، اتنا ہی زیادہ وہ نبوی رنگ میں رنگا ہوا ہوگا۔ امامتِ حقیقیہ کی خاصیت یہی تھی کہ تمام کمالاتِ نبوی سے اس کی کامل مشابہت تھی۔

ایسی مثالی قیادت کی بہترین مثال نبی اکرم ﷺ کے بعد خلافت راشدہ کا زمانہ ہے۔ شاہ اسماعیل کے مطابق یہ ایک ایسا عہد تھا جس میں "شمعِ امامت شیشۂ خلافت میں جلوہ گر تھی" (چراغِ امامت در شیشۂ خلافت جلوہ گر گردید) (ص 74)۔ یہی وہ حالت ہے جس میں بنی نوعِ انسان کی تربیت کے باب میں خدا کا احسان اپنی انتہا کو پہنچ گیا (نعمتِ ربانی در بابِ پرورشِ نوعِ انسانی بہ تمام رسید) (ص 74)۔ خلیفۂ راشد ایک مثالی حکمران ہوتا تھا، قطع نظر اس کے کہ وہ عوام کی نظر میں مقبول یا قابل قبول تھا یا نہیں۔ بعض اوقات ایک خلیفۂ راشد کو اپنے عوام کی مکمل تائید حاصل نہیں ہوتی تھی، جیسا کہ حضرت علی کے زمانۂ خلافت میں تھا۔ ایک منتشر حکومت اگر چہ ایک مُنَظم حکومت کے مقابلے میں کم تر تھی، تاہم وہ پھر بھی خلیفہ کی حکومت واقتدار سے منحرف نہ ہوئی (ص 75)۔

شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ بعض خلفا نے بعض دیگر خلفا کے مقابلے میں زیادہ عوامی تائید حاصل کی، بالکل اسی طرح جس طرح بعض انبیا اپنا پیغام لوگوں کو پہنچانے میں دوسروں کی بہ نسبت زیادہ کام یاب رہے، لیکن اس فرق سے ان کے منصبِ امامت میں کسی قسم کی کمی بیشی واقع نہیں ہوتی۔  تاہم خلافتِ راشدہ مستحکم تھی اور ایمانی سیاست کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے درکار تمام صفات سے متصف تھی۔ خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مثالی نظام کی ایک بنیادی مثال ہیں۔ یہاں آکر شاہ اسماعیل ایک اہم اور ممکنہ طور پر دور رس اثرات کی حامل توجیہ بیان کرتے ہیں: "خلافتِ راشدہ کسی مخصوص عہد یعنی آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد کی تین دہائیوں سے خاص نہیں"۔ یہ مقدمہ قائم کرنے کے لیے شاہ اسماعیل نے "خلیفۂ راشد" کی تعریف اس طرح کی ہے: "خلیفۂ راشد وہ شخص ہے جو منصبِ امامت پر فائز ہو، اور اس کی وجہ سے ایمانی سیاست کے ابواب کا ظہور ہو" (خلیفۂ راشد عبارت است از شخصے کہ صاحبِ منصبِ امامت باشد، وابوابِ سیاستِ ایمان از او ظاہر شود) (ص 77)۔ اسماعیل کے مطابق یہ نمایاں خصوصیت صرف چار خلفاے راشدین یا حضور اکرم صلی اللہ کے زمانے تک محدود نہیں۔ (خواہ در زمانِ سابق ظاہر شود، خواہ در زمانِ لاحق، خواہ در اولِ امت باشد خواہ در اواخرِ آں) (ص 77)۔

مزید برآں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ خلیفۂ راشد کا سابقہ صرف ان لوگوں کے ساتھ لگایا جائے گا جو کوئی مخصوص شجرۂ نسب یا خاندانی پس منظر مثلاً رسول اللہ ﷺ کے قبیلے قریش سے تعلق رکھتے ہوں۔ جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جو خلافت راشدہ کو تیس سال کے عرصے تک محدود کرتی ہیں، تو شاہ اسماعیل نے ان کی توجیہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے مراد مسلسل اور غیر منقطع زمانۂ خلافت کے تیس سال ہیں۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد ایسی مسلسل خلافتیں صرف تیس سال تک رہیں، اس لیے مزید خلافتوں کا امکان ختم نہیں ہوا۔ ایک فرضی قیاس کی صورت میں شاہ اسماعیل نے خلیفۂ راشد کے سایے میں کی جانے والی سیاستِ ایمانی کا موازنہ رات کے ایک طویل اور گھپ اندھیرے کے بعد دن کی نا قابلِ تبدیل روشنی کے ظہور سے کیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دونوں سیاسی نظام گردشِ لیل ونہار کی طرح آتے جاتے ہیں کہ رات کے بعد دن کی روشنی ظاہر ہوتی ہے (تبدل قسمین خلافت را تبدُّلِ لیل ونہار قیاس باید کرد کہ بعد از زمانۂ لیل ونہار آشکارا می گردد) (ص 80)۔ اسی طرح اہل ایمان کو ہمیشہ خلافتِ راشدہ کے الٰہی تحفے کے حصول کی امید اور جد وجہد کرنی چاہیے۔ "انھیں ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے" (ہرگز مایوس نباید شد) (ص 80)۔

سلطانی سیاست اور اس کے اثرات

اگر چہ سیاستِ ایمانی میں داخل خلافتِ راشدہ ایک مثالی تصور تھا، تاہم یہ واحد قابل قبول صورت نہ تھی۔ شاہ اسماعیل نے اپنے مثالی تصور کو ایک حقیقی تجویز سے ملا کر کہا کہ اگر چہ سیاستِ سلطانی پر مبنی نظام خلافتِ راشدہ کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، پھر بھی اس کی نصرت وتائید ضروری ہے۔  اس اصول میں صرف ایک صورت کی استثنا ہے کہ جب کوئی سیاسی قائد یا نظام صراحتاً کفر کی وکالت کرے، اور ڈھٹائی سے سنتِ نبوی کی مخالفت کرے؛ اس وقت حکمران کے خلاف بغاوت جائز ہو جاتی ہے۔ اسماعیل نے سنتِ نبوی اور انسانی جسم وحواس کے درمیان ایک مماثلت قائم کرکے اس بات کی وضاحت کی۔

وہ کہتے ہیں کہ انسان ظاہری اعضا جیسے پٹھے ہڈیاں وغیرہ اور ان کے مقابلے میں ذرا باطنی حواس جیسے باصرہ، شامہ، سامعہ اور تخیل سے مرکب ہے۔ اسی طرح شرعی قوانین اور احکام کی ایک ظاہری صورت ہوتی ہے، اور ایک باطنی حقیقت جو اصل مقصد سے جڑی ہوتی ہے۔ اس صورت میں شریعت ایک مُجَسم انسان کی طرح ہے (شریعت را بمشابہِ یک شخصِ مجسم باید فہمید) (ص 56)، شاہ اسماعیل نے دعوٰی کیا۔ سیاست کی ساخت بھی بعینہ یہی ہے۔ سیاستِ ایمانی پر مبنی مثالی سیاسی نظام، جو خلیفۂ راشد کے زیرِ سایہ قائم ہو، سیاست اور امامتِ حقیقیہ کے باطنی حقائق کی نمائندگی اور تنفیذ کرتا ہے۔ ایسا حکمران زمین پر نبی کا سایہ ہے جو قانونِ الٰہی کے اساسی تقاضوں کی تنفیذ کرے (ص 56)۔

اس کے بالمقابل سیاستِ سلطانی قانون وسیاست کے ظاہری جسم کی طرح ہے جو قانون وسیاست کی داخلی روح اور گہرے مقاصد سے لاتعلق ہے۔ شاہ اسماعیل نے سیاستِ ایمانی اور سیاستِ سلطانی کے درمیان تعامل کی وضاحت صاف اور میٹھے پانی کے گدلے اور گندے پانی کے ساتھ ملنے اور خلط ہونے سے کی ہے۔ جتنا آلودہ پانی صاف پانی میں ملتا ہے، اتنا ہی زیادہ وہ ناقابل استعمال ہونے لگتا ہے۔ اسی طرح سیاستِ سلطانی نے سیاستِ ایمانی کو بھی بگاڑ دیا ہے۔ وقت گزرنے ساتھ ساتھ اول الذکر نے آخر الذکر پر غلبہ حاصل کیا اور غالب سیاسی نظام کی حیثیت سے ابھرا (ص 89)۔ لیکن سیاستِ ایمانی اور سیاستِ سلطانی میں سادہ فرق کیا تھا؟ اور اس فرق کی بنیاد کیا تھی؟

شاہ اسماعیل بتاتے ہیں کہ اگر سیاستِ ایمانی کا بنیادی مقصد امت کی اخلاقی اصلاح ہے، تو سیاستِ سلطانی کی غرض وغایت حکمران کی نفسانی اغراض اور خواہشات ہیں۔ خلفاے راشدین، جنھوں نے سیاستِ ایمانی کی کشتی چلائی، کسی بھی پہلو سے خواہشاتِ نفسانی کی تسکین میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ اپنی رعیت کی اخروی تربیت کا نبوی مشن ہی ان کا واحد مقصد تھا۔ وہ اطاعتِ الٰہی کے مقابلے میں خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کو شرک کی ایک قسم سمجھتے تھے۔ اس کے برعکس سلطانی حکمران صرف خواہشاتِ نفسانی کی تسکین میں لگا رہتا ہے۔

اس طرح سے نفس کے تقاضوں کا اسیر بن جانے کی کئی صورتیں ہیں۔ کچھ حکمران فتوحات کے پیاسے ہوتے ہیں، اور کچھ اپنے دوستوں اور معاونین سے اپنے لیے وفاداروں کا مجمع اکٹھا کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کچھ دولت جمع کرنے میں رغبت رکھتے ہیں، اور کچھ جسمانی لذتوں سے لطف اندوز ہونے کی عادت سے چھٹکارا نہیں پاتے۔ اگر چہ علامات مختلف ہیں لیکن جس بیماری سے یہ نظم سیاست پیدا ہوتی ہے، وہ ایک ہے: خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔ اگر چہ سلطانی سیاست میں سیاسی طاقت اور غلبہ زیادہ ہوتا ہے، لیکن یہ طرزِ سیاست مجموعی طور پر شریعت کی بنیادوں کو نقصان پہنچاتی ہے۔ شاہ اسماعیل کہتے ہیں: "اس قسم کی سیاست مقام عبودیت کے لیے نقصان دہ ہے" (تخم ایں خار نقصان است در مقامِ عبودیت)(ص 91)۔  

لیکن اس کے باوجود کہ سیاستِ سلطانی سیاستِ ایمانی کو دبانے کے تباہ کن عمل کا ذمہ دار ہوتا ہے، پھر بھی مؤخر الذکر کی کھلی تردید یا اس کے خلاف بغاوت لازم نہیں۔ اصل میں کسی بھی سیاسی حکمران کے خلاف ایسا باغیانہ رویہ صرف انتہائی حالات میں اختیار کیا جا سکتا ہے۔ شاہ اسماعیل کے استدلال میں ایک اہم پہلو حکمرانوں کی خواہشاتِ نفسانی کی اتباع کی سطح پر غور وفکر کرنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس مسئلے کی سطح کو ناپنا ضروری ہے۔انھوں نے حکمرانوں کو چار علیحدہ طبقات میں تقسیم کرکے ان کے متعلقہ سیاسی نظام پیش کیے جن میں سے ہر ایک مختلف معاملہ اور رد عمل چاہتا ہے۔ میں شاہ اسماعیل کے کھینچے گئے خاکے کے مطابق ان طبقات کے نمایاں خد وخال کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ جس طرح وہ ان میں سے ہر طبقے کو دیکھتے اور اس کی خصوصیات بیان کرتے ہیں، وہ ان کی سیاسی فکر پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور یہ بھی واضح کرتا ہے کہ سیاسی دائرے میں کیے جانے والے اس تجاوز کی حدود کیا ہیں جو ان کے نزدیک قابل قبول تھا۔

سلطنتِ عادلہ

سیاستِ سلطانی کی پہلی قسم وہ ہے جسے شاہ اسماعیل سلطنتِ عادلہ کا نام دیتے ہیں۔ سیاست کی یہ قسم بہت زیادہ خراب اور محل نظر نہیں۔ تاہم اس کے باوجود عادل سلاطین سلطانی سیاست سے جڑی تمام بیماریوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ اقتدار کے بھوکے، عیاش، جاہ پرست اور جسمانی لذتوں کے دل دادہ ہوتے ہیں۔ وہ بڑی یادگاریں تعمیر کرنے، عمدہ گھوڑے پالنے، اسلحہ جمع کرنے اور شان دار باغات لگانے کو اپنی بڑی کامیابیاں تصور کرتے ہیں۔ مزید برآں انصاف کی فراہمی کے وقت ان کے فیصلے پر ان کی ذاتی پسند وناپسند اثر انداز ہوتی ہے اور وہ ایک ہی جرم کے مرتکب بعض مجرموں کو اوروں کے مقابلے میں زیادہ رعایت دیتے ہیں (ص 94)۔

تاہم ان کی تمام تر نادانیوں کے باوجود وہ اہل ایمان وتقوی کے عوامی تشخص کو برقرار رکھتے ہیں، اور مذہب کے حدود کے اندر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہشاتِ نفسانی کی تسکین کے وقت وہ اتنا لحاظ کرتے ہیں کہ شریعت کی حدود کو پامال نہ کریں۔ انھوں نے تباہی کے دہانے پر کھڑے ہو کر خود کو لگام دی ہوتی ہے۔ ان کا نفس انھیں برائیوں پر ابھارتا ہے، لیکن ان برائیوں کے رستے میں خوفِ خدا حائل ہو جاتا ہے۔ شاہ اسماعیل نے ایک دل چسپ مثال سے اس رویے کی وضاحت کی ہے: "مثلاً اس حکمران کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے، اور اس سے جنسی مباشرت کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے۔ پھر بھی وہ اپنی جنسی خواہش کی تسکین کو عقد نکاح کے ذریعے ہی پورا کرتا ہے۔ وہ شادی کی خواہش میں مکمل دیوانا ہوجاتا ہے، اور اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وقت اور پیسے کو پانی کی طرح بہاتا ہے۔ لیکن شادی تک انتظار کرکے وہ ایک صریح حرام عمل کے ارتکاب سے خود کو بچاتا ہے، اور حلال کے دائرے کے اندر رہتا ہے" (ص 99)۔ شاہ اسماعیل لکھتے ہیں کہ "ایمان کا شعلہ اس کے دل کے اندر فروزاں رہتا ہے۔ لیکن اس پر خواہشِ نفس کے اندھیروں کا دبیز پردہ پڑا رہتا ہے۔ اور جوں ہی یقین کی بجلی اس کے دل کو روشن کرتی ہے تو وہ روشنی نیت کی خرابی سے جنم لینے والے اندھیروں میں چھپ جاتی ہے" (اصلِ شعلۂ ایمان در دلِ او افروختہ است، فاما دودِ ہواء وہوس بہ او آمیختہ، وبرقِ یقین بر دلِ او درخشندہ فاما ظلماتِ تغیرِ نیتِ او پوشیدہ (ص 100)۔

اگرچہ وہ اپنے ماتحتوں کی اخروی نجات کی کوشش نہیں کرتے، تاہم سلطانی حکمران دیگر امور ریاست مثلاً‌ جنگیں لڑنے، بغاوتوں کو کچلنے اور امن وامان کے قائم کرنے میں چابک دست ہوتے ہیں۔ اس لیے اگر چہ ایسے حکمران اپنی قوم کی اخلاقی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کم ہی کچھ کرتے ہیں، لیکن وہ (مسلمانوں کی سیاسی برتری کو قائم رکھ کر) شریعت کے خارجی مظاہر کا تحفظ کرتے ہیں۔ اسی لیے، شاہ اسماعیل نصیحت کرتے ہیں کہ ایسے حکمرانوں کے ماتحتوں کو ان کی مکمل تائید کرنی چاہیے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس سے سرزد ہونے والے بعض خلافِ سنت اعمال سے چشم پوشی کرنی چاہیے، اور دل وجان سے اس کی خیر خواہی کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کی معمولی کوششوں کو بہت کچھ سمجھنا چاہیے، اور اس کے چھوٹے اعمال کو بڑے اعمال کی نظر سے دیکھنا چاہیے (بعضے امور خلافِ سنت از او ظاہر می گردد، واز آں چشم باید پوشید، ودر خیر خواہی او بجان ودل باید کوشید۔ سعی قلیل او را بجاے کثیر باید شمارد، واعمال صغیر او را بجاے اعمال کبیر) (ص 104)۔ وہ اپنے نقطۂ نظر کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے یہ مشورہ دیتے ہیں کہ: "انھیں ایسا سمجھنا چاہیے کہ اگرچہ وہ اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ رب العالمین کے دین کی خدمت بھی کر رہا ہے" (حساب باید کرد کہ ہر چند باستیفاے لذتِ نفسانیہ مشغوف است اما بخدمت گزارئی دینِ رب العالمین موصوف) (ص 104)۔

سلطنتِ جابرہ اور سلطنتِ ضالّہ

شاہ اسماعیل کے مطابق سیاست کے سلطانی نظام کی اگلی دو قسمیں "سلطنتِ جابرہ" اور "سلطنتِ ضالّہ" (گم راہ سلطنت) ہیں۔ جابر حکمران سراپا نفسِ امارہ کے اسیر ہوتے ہیں۔وہ وہی کچھ کرتے ہیں جو ان کا نفس کہتا ہے، یہ پروا کیے بغیر کہ ان کے اعمال شریعت کے دائرے کے اندر ہیں یا باہر۔ وہ عوام کے سامنے اپنے آپ کو ایک اخلاقی مثال کی صورت میں پیش کرنے کی ذمہ داری سے بھی بے پروا ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کی طرح جابر حکمرانوں کی اخلاقی کمزوریاں کئی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں جس کا دار ومدار کسی مخصوص حکمران کے مزاج اور رجحانات پر ہے۔ شاہ اسماعیل نے مغل اشرافیہ کی طرف ایک واضح اشارہ کرتے ہوئے ان کمزوریوں میں سے چند کو بیان کیا ہے، مثلاً‌ نشہ کرنا، عمدہ ملبوسات اور غذاؤں کا خوگر ہونا، ناچ گانے کی محفلوں اور شطرنج جیسے کھیلوں کی سرپرستی کرنا۔ ان عادات کے لیے صرف ایک ہی مہارت چاہیے ہوتی ہے اور وہ ہے اسراف۔ نتیجتاً ان عادات نے سوائے اسراف کے اور کسی چیز کو فروغ نہیں دیا (ص 104–7 )۔

حکمران کی جانب سے آرام وآسائش اور خواہشات کی تسکین کو اہمیت دینے کے رجحان نے مملکت کی اخلاقی حالت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں ظلم واستحصال میں اضافہ اور  شدت آئی ہے۔ شاہ اسماعیل نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا اس لیے ہے کہ اسراف کے لیے مسلسل دولت کے حصول کی ضرورت ہے اور دولت جمع کرنے کی نہ ختم ہونے والی ضرورت نے ناانصافی کے متعدد دروازے کھول دیے ہیں، جیسے غریبوں کا استحصال کرنا اور تاجروں اور صنعت کاروں کے مفادات کو بالکل خاطر میں نہ لانا۔ مزید برآں چونکہ سیاسی اشرافیہ کھیل کود اور آرام وآسائش میں مگن ہے، اس لیے سلطنت کا امن وامان اور انصاف کا نظام ناکارہ ہو گیا ہے۔ حکمران کے لحاظ اور نگرانی سے بے پروا رعایا ایک دوسرے کے ساتھ ظلم اور ناانصافی پر اتر آئے ہیں۔ اس طرح سے حکمرانوں کے اسراف وعیاشی نے پوری امت کی اخلاقی عمارت کو متزلزل کر دیا ہے۔ شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ ایسی سلطنت ایک "بڑی مصیبت (بلاے عظیم)" ہے (ص 107)۔

لیکن ان حکمرانوں کی طرف سے دیے گئے تمام مصائب کے باوجود ان کی رعایا کو چاہیے کہ ان کی تائید اور اطاعت کریں۔ شاہ اسماعیل علی سبیل التنزل بتاتے ہیں کہ ان تمام تر تباہ کن رجحانات کے باوجود جابر حکمران "خود کو مسلمانوں میں سے شمار کرتا ہے" (جانِ خود را از مسلمین شمارد) (ص 116)۔ شاہ اسماعیل اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، "اس لیے کبھی کبھی دین متین کی حمایت اور شرع مبین کی غیرت اس کے دل میں جوش مارتی ہے، اور اس کی بنا پر وہ رب العالمین کے کلمے کی سربلندی کی کوشش کرتا ہے (گاہ گاہ حمایتِ دینِ متین وغیرتِ شرعِ مبین از دلِ او می جوشد، وبنا بر آں اعلاے کلمۂ رب العالمین می کوشد) (ص 116)۔

شاہ اسماعیل کے استدلال میں مرکزی نکتہ یہ ہے کہ اگر چہ حکمران مذہب کے مقرر کردہ حدود سے بےپروا اور علماے دین کے مشورے سے غافل ہے، تاہم وہ پھر بھی اسلام کو کچھ فائدہ اور غیرمسلموں کو کچھ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وہ کئی پہلوؤں سے ایسا کر سکتا ہے۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ جابر حکمران اگر چہ خدا سے دور ہے، پھر بھی مسلمان ہونے کی اساس پر اس سے یہ توقع ہے کہ وہ اہل ایمان کو کافروں کے مقابلے میں ترجیح دے گا۔ مثال کے طور پر جب وہ وزیروں مشیروں اور افسر شاہی کے اہم افراد کی تعیناتی کرے گا تو وہ ہمیشہ مسلمانوں کو غیر مسلموں پر ترجیح دے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر چہ وہ خدا کا سب سے پسندیدہ شخص نہیں ہے، پھر بھی اس نے مسلمانوں کے معاشرتی مقام کو بڑھانے اور کفار کے مقام کو گھٹانے میں اپنا کردار ادا کیا (ص 115)۔ اس بادشاہ کو "ایک اندھے مشعل بردار (کور مشعل دار)" کی طرح سمجھنا چاہیے (ص 116)۔

دوسری بات یہ ہے کہ بسا اوقات ان حکمرانوں کے تجاوزات بھی نیک نیتی پر مبنی ہوتے ہیں، یا اس کی مناسب توجیہ کی جا سکتی ہے۔ مثلاً حکمران فضول خرچ ہے، اور اپنے خزانے کو عالی شان تعمیرات میں صرف کرتا ہے۔ لیکن خدا سے اپنے تعلق کے اظہار کے لیے عالی شان، خوب صورت اور شان دار مساجد کی تعمیر میں بھی بار بار خرچ کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ شاہ اسماعیل اعتراف کرتے ہیں کہ یہ فضول خرچی اور اسراف شریعت کے اعتبار سے غیر مطلوب اور خدا کی نظر میں ناپسندیدہ ہے، لیکن اسے ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ حکمران مساجد کی تعمیر جیسی عبادات میں بے تحاشا اس لیے خرچ کر رہا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اخروی ثواب حاصل کر سکے۔ شاید اس کی دلیل یہ ہو کہ "جتنا میں (ان نیک کاموں) میں خرچ کروں گا، اتنا زیادہ مجھے آخرت میں ثواب ملے گا" (ص 115)۔ اس لیے اگر چہ ایسی فضول خرچی غیر مطلوب ہے، لیکن اس کی رعیت کو چاہیے کہ اس کے اخلاص کو مد نظر رکھے۔ اس کی رعیت بالخصوص مذہبی اشرافیہ کو سمجھنا چاہیے کہ جابر حکمران ان کی اخلاقی رہ نمائی اور ہدایت کا عمدہ امیدوار ہے، اور اس کے سامنے حق کا اظہار افضل عبادات میں سے ہے (سلطانِ جابر بلا ریب محتاجِ امر بالمعروف است، واظہارِ حق بحضورِ او افضلِ عبادات)7 (ص 116)۔ تاہم شاہ اسماعیل فورًا ایک تنبیہ کا اضافہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "یہ رہ نمائی اور ہدایت کبھی بھی ایسی کشمکش یا مخالفت میں نہیں بدلنی چاہیے جو بغاوت کی حد تک پہنچے۔ امام جابر کے خلاف خروج کرنا شریعت کی رو سے ناجائز ہے (خروج بر امامِ جابر شرعًا جائز نیست)" (ص 117)۔

شاہ اسماعیل کی ذکر کردہ تیسری قسم سلطنتِ ضالّہ میں سلطنتِ جابرہ کی تمام بری صفات موجود ہوتی ہیں، لیکن ذرا زیادہ واضح اور بے لچک انداز میں۔سلطنتِ جابرہ میں موجود تمام خرابیوں اور کمزوریوں کو سلطنتِ ضالّہ میں ریاستی سرپرستی حاصل ہو جاتی ہے، اور وہ سیاسی اور معمول کی زندگی کی بنیاد میں جگہ پکڑ لیتی ہیں۔ زندگی کے تمام پہلوؤں میں خدائی اور نبوی نظام کے مقابلے میں ایک حریف اخلاقی نظام بسیرا کر لیتا ہے۔ خدا نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا، ان کا ارتکاب علی الاعلان کیا جاتا ہے، اور جسے اس نے فرض قرار دیا ہے، اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔ شرعی احکامات اور حدود کی ایسی شدید الٹ پلٹ کا اظہار سیاسی حکمرانوں کو "شہنشاہ" جیسے القابات سے پکارنے، سونے اور چاندی کے برتنوں کو استعمال کرنے اور نوروز، دیوالی اور ہولی جیسے غیر اسلامی تہواروں کو منانے سے ہوتا ہے۔ اور چونکہ یہ غلط رسمیں عام ہو گئی ہیں تو جو اعمال صرف اسلام کے ساتھ خاص ہیں جیسے کسی کو سلام کہنا، حج بیت اللہ کرنا، علم وذکر کی مجلسوں میں شریک ہونا اور ان سے استفادہ کرنا، وہ  اس قدر مٹ گئے ہیں گویا وہ حرام ہیں (ص 116 – 20)۔

لیکن اس تمام تر اخلاقی بدحالی کے باوجود شاہ اسماعیل ایک بار پھر ان حکمرانوں کو رعایت اس لیے دیتے ہیں کہ وہ کم از کم خود کو مسلمان تو پکارتے ہیں۔ شاہ اسماعیل نے واضح کیا کہ "باوجود یکہ ان جیسے حکمران بد تر کفار اور جہنمی لوگوں میں سے ہیں، لیکن یہ اپنی زبان سے ایمان کا دعوٰی تو کرتے ہیں، اس لیے ان کا کفر مستور اور ایمان ظاہر وباہر ہے (ہر چند امثالِ ایں سلاطین فی الحقیقت از قبیلِ کفارِ اشرار اند، و از جنسِ اہلِ النفرہ، فاما از بس کہ بزبانِ خود دعواے اسلام می کنند پس کفرِ ایشان مستور است وایمانِ ایشان ظاہر وشاہد) (ص 120)۔

پس نتیجہ یہ ہے کہ سلطنت میں واقع اخلاقی انتشار کے باوجود مسلمانوں کے کم سے کم دینی شعائر جیسے "اسلامی احکام کے مطابق لڑکیوں کی شادی کرانا، عید منانا اور تدفین کی اسلامی رسموں پر عمل کرنا" عوامی دائرے میں بغیر کسی تعطل کے قائم ہیں (ص 120)۔ ان بنیادی اعمال کی موجودگی اس بات کی علامت ہے کہ امت نے ابھی شریعت کو مکمل طور پر خیر باد نہیں کہا ہے۔ کیا اس صورتِ حال میں امت کو سیاسی قیادت کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے؟ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ یہ سوال بحث کے لیے کھلا ہے۔ اس بغاوت کے حق اور مخالفت دونوں کے بارے میں معقول علمی دلائل موجود ہیں۔

اس سوال کے جواب میں ان کا ذاتی موقف اس امر پر منحصر ہے کہ ایسے کسی اقدام کے نتائج کیا ہوں گے۔ وہ اس اقدام کے عملی نتائج کو مد نظر رکھ کر استدلال کرتے ہیں کہ اگر اس سے سیاسی انتشار اور خلا پیدا ہوتا ہے تو یہ غیر مطلوب ہے، لیکن اگر یہ یقینی ہے کہ اس طرح کی بغاوت سے خلافتِ راشدہ یا سلطنت عادلہ کا نظام جنم لے گا تو پھر یہ مطلوب ہے۔ ایک سیدھا اور بے لچک فقہی موقف دینے کے بجائے شاہ اسماعیل کا استدلال اس امر پر منحصر ہے کہ امت کی بہتری کس اقدام میں ہے۔

سیاستِ سلطانی کی پہلی تین قسموں کے خلاف بغاوت کی سخت ممانعت کے مقابلے میں سلطنتِ ضالّہ کے بارے میں ان کا موقف مزید مبہم ہے۔ اس ابہام کو انھوں نے ایک اور انوکھے اور عجیب طریقے سے اور مسجع مقفی انداز میں بیان کیا ہے (اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں): "گم راہ سلطان مفسدین کا سردار اور بدعتیوں کا امام ہوتا ہے۔ اس کی سربراہی دین کے لیے سم قاتل اور اس کی حکومت کتاب وسنت کی رو سے باطل ہوتی ہے۔ لیکن جب تک وہ خود کو اسلام سے منسوب کرتا ہے، اس وقت تک اس کے کفر میں شک ہے۔ اور اس بنا پر اس کے خلاف بغاوت اور کی اطاعت سے خروج دونوں اختلافی مسائل میں سے ہیں (سلطانِ مضل ہر چند رئیسِ المفسدین است وامام المبتدعین، وریاستِ او بہ نسبتِ دین سمتے قاتل وامامتِ او بحکمِ کتاب وسنت و ہمے است باطل، اما از آنجا کہ راہِ معاملۂ اسلام بہ او مسلوک است تکفیر مشکوک بناءً علیہ اظہارِ بغا بر وے وخروج از اطاعتِ او نیز از مسائلِ اختلافیہ است) (ص 122)۔ لیکن شاہ اسماعیل آگے بتاتے ہیں کہ اس معاملے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ نہ تو بغاوت برپا کرنے میں جلدی کرنی چاہیے اور نہ ہی اس شخص پر لعنت ملامت کرنا چاہیے جو بغاوت برپا کرے۔

سلطنتِ کفر

شاہ اسماعیل کے مطابق سلطانی سیاست کی چوتھی اور بدترین قسم "سلطنتِ کفر" کے خلاف اقدام کرنے میں کوئی ابہام، اختلاف، تنبیہ یا غور وکفر کی ضرورت نہیں۔ شاہ اسماعیل نے احتیاط سے واضح کیا کہ سلطنتِ کفر سے مراد ایک ایسا سیاسی نظام نہیں جو کفار کے ماتحت ہو۔ اس میں بھی حکمران مسلمان ہوتا ہے، لیکن وہ پوری ڈھٹائی اور بے پروائی سے احکامِ شریعت کو پامال کرتا ہے۔ دنیوی خواہشات ولذات میں ڈوبا ہوا ایسا حکمران اور اس کے ماتحت بنیادی عقائد جیسے توحید الہی، نبوت اور آخرت پر ایمان سے ہاتھ دھو چکے ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلسل ان لوگوں کا تمسخر کرتے ہیں اور انھیں بے وقوف کہتے ہیں جو دنیوی لذتوں اور آسائشوں کا اسیر بننے میں ان کے ایجنڈے کا حصہ نہیں بنتے۔ ان کے اپنے الفاظ میں "وہ سنتِ نبوی کی پروا کرنے کو حماقت، روزمرہ کی عادات واطوار میں دین کی حدود کی پابندی کو کمینگی اور خدا پر توکل کو کم زوری اور بے عملی سمجھتے ہیں" (124ص )۔

اور یہ وہی نکتہ ہے جس پر شاہ اسماعیل نے جارحانہ انداز میں اپنی برہمی کا اظہار کیا ہے۔ وہ نوحہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ستم بالاے ستم یہ کہ اس استہزائی رویے سے اس کے پیروکاروں اور ماتحتوں کی نظر میں خدائی شریعت کا مقام ومرتبہ گھٹ جاتا ہے۔ نتیجتاً تمام دنیوی معاملات میں سلطانی قانون خدائی قانون پر غالب آ جاتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بدحواسی تب پیدا ہوتی ہے جب سلطانی نظام کے احکامات پر عمل کرنے کو ذہانت ونکتہ رسی جبکہ شریعت کی نظر میں مطلوب امور کی اتباع کو بے کار اور احمقانہ قرار دیا جاتا ہے (ص 124)۔

ایسے حکمرانوں کو ان کا تکبر اور خود ستائی ناگزیر طور پر اس حد تک پہنچا دیتی ہے کہ وہ نبوت اور بالآخر خدائی کا دعوٰی کر بیٹھتے ہیں۔ اس طرح خدائی حاکمیت کے لیے ان کی بے لگام خواہش نکتۂ عروج کو چھو لیتی ہے اور کفر میں لت پت اور اخروی نجات کے تصور سے بالکل عاری ایک متبادل اخلاقی اور سیاسی نظام وجود میں آ جاتا ہے۔ ایسی سلطنت میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ شاہ اسماعیل اس سوال کے جواب میں کسی ابہام سے کام نہیں لیتے۔ اس صورت میں پوری امت پر فرضِ عین ہے کہ بغاوت کرے، یا اگر ان میں بغاوت کی استطاعت نہیں تو کسی دوسرے مسلم ملک کی طرف ہجرت کریں۔ اس صورتِ حال میں مسلم امت کے سامنے بغاوت یا ہجرت کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں، اس کو ثابت کرنے کے لیے شاہ اسماعیل نے جو استدلال کیا ہے، وہ ان  کی سیاسی فکر کی طرف ایک اہم دریچہ وا کرتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک ایسی مسلمان سلطنت جس میں تمام کفریہ شعائر کا اظہار ہو، ایسے ہی ہے جسے کافروں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے (بمشابہۂ غلبۂ کفار است) (ص 125)۔ ایسی سلطنت کا فرمانروا عوامی دائرے میں کفریہ شعائر کو معمول بنا دیتا ہے۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک یہی وجہ ہے کہ "ایسے حکمران کے خلاف مزاحمت کرنا اور اسے قتل کرنا اسلام کا بنیادی تقاضا ہے" (ص 125)۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو پھر لوگوں کو چاہیے کہ کسی ایسی جگہ کی طرف ہجرت کر جائیں جہاں اسلامی شعائر موجود ہوں (ص 125)۔ یہ استدلال شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر اور تصور کے ایک انتہائی اہم پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔

سیاسی قیادت کی اہلیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہ اسماعیل کی نظر میں حکمرانوں کے عزائم یا انفرادی تقوی کے بجاے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ عوامی دائرے میں اسلام کی طاقت اور کردار پر کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔  اگر کوئی حکمران اخلاقی برائیوں میں ڈوبا ہوا ہو، تب بھی وہ ان کے لیے قابل قبول ہے، جب تک کہ وہ اسلام کے سیاسی غلبے کو قائم رکھ سکتا ہو اور عوامی دائرے میں دینی شعائر کا تحفظ کر سکتا ہو۔ ایک مسلمان حکمران بغیر قطعی طور پر  ناقابلِ قبول ہے، جب اس کی سلطنت کفار کے ماتحت سلطنتوں کے مشابہ بننا شروع ہو جائے۔ شاہ اسماعیل کے تجزیے کی رو سے کسی حکمران کی اخلاقی پستی اس صورت میں محلّ نظر ہے جب وہ سیاسی طاقت پر نقصان دہ اثرات مرتب کرے، اور لوگوں کی نظر میں شرعی اعمال کی بے توقیری کا سبب بنے۔ شاہ اسماعیل کی سیاسی فکر کی بنیادیں ایک ایسے سلطانی سیاسی عقیدے پر استوار تھیں جو اسلام کے سیاسی غلبے کو دیگر تمام امور پر فوقیت دیتا تھا۔ جب تک یہ مقصد حاصل تھا، وہ ایک مثالی خلافتِ راشدہ سے سنگین انحرافات کو بھی برداشت کرنے کے روادار تھے۔ ان کی برداشت صرف اس صورت میں جواب دیتی تھی جب ایک سیاسی حکمران یا نظام مکمل طور پر کفر کی حاکمیت سے ہم آہنگ ہو جائے۔

سلطانی سیاسی عقائد

اب اس سوال کی طرف مڑتے ہیں جو میں نے اس باب کے آغاز میں اٹھایا تھا: شاہ اسماعیل کی نظر میں سیاست کی مثالی شکلیں کیا تھیں؟ جیسا کہ سابقہ تجزیے سے ثابت ہوتا ہے، ان کی سیاسی فکر میں مثالی سیاست سے لے کر کم از کم قابل قبول سیاست تک وسیع امکانات کا ایک سلسلہ ہے۔ لیکن ان تمام صورتوں میں وہ امت کی اخلاقی اصلاح کے بارے میں غیر معمولی فکر مند نظر آتے ہیں۔ سیاست کا مقصد اخلاقی اصلاح اور نبوی اوامر کی روشنی میں امت کی اخروی نجات کی کوشش کرنی ہے۔ شاہ اسماعیل کہتے ہیں کہ اصل سیاسی حکمران وہ ہے جو امت کو اخروی نجات کی طرف بلاتا (صاحبِ دعوت) ہو۔ تاہم اس کے اندازِ دعوت میں غیرمعمولی تنوع پایا جا سکتا ہے۔ یہ کمالاتِ نبوی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش سے لے کر روحانی پاکیزگی کے لیے بنیادی اعمال کی ادائیگی تک پھیلا ہوا ہے۔ جب تک سیاسی حکمران اس دعوت کو کسی بھی شکل میں سر انجام دیتے رہیں گے، وہ جائز اور قابلِ اطاعت رہیں گے۔ جب اخلاقی اصلاح اور اخروی نجات کی دعوت کی توقع مکمل طور پر ختم ہو جائے تو  اس کے بعد کسی سیاسی نظام یا حکمران کو مشکل سے ہی جواز دیا جا سکتا ہے۔

آخر میں سیاسی قیادت سے متعلق شاہ اسماعیل کے خیالات میں چند بنیادی ابہامات قابلِ ذکر ہیں۔یہ امر بہت قابل غور ہے کہ ان کی بحث کے نظریاتی پہلوؤں کو ان کی اپنی زندگی میں موجود سیاسی حالات اور کرداروں سے مربوط کرنا مشکل ہے۔ یہ تو واضح ہے کہ اشرافیہ کے عادات واطوار پر ان کی تنقید، جس میں پرشکوہ تعمیرات اور شطرنج سے محبت کی مثالیں بار بار دی گئی ہیں، کا رخ مغل اشرافیہ کی طرف تھا۔ تاہم ٹھیک سے یہ بتانا مشکل ہے کہ ان کی اپنی درجہ بندی کے مطابق انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان میں رائج سیاسی نظام کی شرعی حیثیت کیا تھی؟ ہندوستانی مسلمانوں سے کسی اور جگہ ہجرت کر جانے کا علی الاعلان مطالبہ نہ کرنے سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ ان کی نظر میں ہندوستان "سلطنتِ کفر" نہیں تھا۔ لیکن پھر ہندوستان تھا کیا؟ مسئلہ اس وقت مزید الجھ جاتا ہے، جب شاہ اسماعیل ایسی سلطنت کی حیثیت کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں  جو کسی غیر مسلم کے زیرِ تسلط ہو، اور اس میں شریعت کے تقاضوں پر عمل در آمد کیا جا رہا ہو۔ کیا کوئی بھی غیر مسلم حکمران ناقابلِ قبول ہے، یا صرف وہی جو غیر علانیہ کافر ہو، یا وہ جو علی الاعلان شریعت کی مخالفت کرتا ہو؟

ایک اور دل چسپ ابہام ان کے  شیخ اور سکھوں کے خلاف تحریکِ جہاد کے قائد سید احمد شہید کی حیثیت کے حوالے سے ہے جو بظاہر اس کتاب کے پس منظر میں غالب کلیدی کرداروں میں سے ہیں۔ کیا شاہ اسماعیل کے خیال میں وہ ایک خلیفۂ راشد تھے یا صرف ایک سلطانِ عادل (جو سلطانی سیاست کی پہلی قسم ہے)؟ صاف ظاہر ہے کہ سید احمد کی قیادت وامامت کو، جس نے سکھوں کے خلاف تحریک جہاد سے جنم لیا تھا، جواز عطا کرنا اس کتاب کے لیے ایک اہم پس منظر کی حیثیت رکھتا تھا۔

لیکن اس کتاب کے فکری تصورات کا اطلاق سید احمد پر کیسے کیا جا سکتا ہے، یا بالفاظ دیگر اس کا حقیقی "منصبِ امامت" کیا ہے؟ یہ بتانا مشکل ہے۔ شاید یہ کتاب کا وہ حصہ تھا جس کو لکھنے کا شاہ اسماعیل کو موقع نہیں ملا۔ شاہ اسماعیل کی فکر میں برطانوی استعمار کا تقریباً عدم ذکر ایک اور چبھتا ہوا سوال ہے۔

بہر صورت منصبِ امامت سے سامنے آنے والا ایک مرکزی نکتہ یہ ہے کہ شاہ اسماعیل کی فکری عمارت کی بنیاد ایک سلطانی اسلامی سیاسی عقیدہ ہے جو سیاسی طاقت اور غلبے کو تقوی اور اخروی نجات سے مشروط کرتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی صورت حال، جو تیزی سے ایک نوآبادی سماج میں بدلنے جا رہے تھے، بظاہر ان کی فوری توجہ اور فعال استدلال کے لیے اس قدر اہم نہ تھی۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جس پر منصبِ امامت اور تقویۃ الایمان کی تہہ میں کار فرما توقعات یکساں ہیں، باوجودیکہ ان دونوں کتابوں کے اسلوب اور اہم نکات میں معتد بہ اختلافات ہیں۔ اگر تقویۃ الایمان کا زور خدائی حاکمیت اور مذہب کے روز مرہ کردار پر ہے، تو منصبِ امامت اسی سوال کو سیاسی طاقت وقیادت کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے دونوں کتابوں کا بنیادی موضوع روزمرہ کی مذہبی زندگی کو اس انداز میں منظم کرنا ہے جس سے خدائی قانون کی حاکمیت کا تحفظ ہو۔

اور آخر میں ان دونوں کتابوں کو آمنے سامنے رکھنے سے شاہ اسماعیل کے فکری رجحان اور مسلک میں لچک کا اندازہ ہوتا ہے۔ تقویۃ الایمان میں انھوں نے واضح طور پر ایک انتہائی نقطۂ نظر اپنایا ہے جس میں الہامی عجلت کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کی دنیا میں برپا شورش کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ اس کے برعکس منصبِ امامت میں ان کا رویہ نہ صرف یہ کہ اپنے اسلوب کے اعتبار سے نَپا تلا اور نسبتاً کم معاندانہ ہے، بلکہ واضح طور پر اپنے بہت سے مواقف میں معتدل بھی ہے۔ اس اختلاف کو تناقض کی نظر سے دیکھنے کے بجاے شاہ اسماعیل کی اس قابلیت کے پہلو سے دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ متنوع مخاطبین اور اغراض کے حساب سے اپنا موقف پیش کرتے تھے۔ اگر ایک طرف عوام کے لیے لکھی جانے والی کتاب تقویۃ الایمان میں تنبیہی اور جلالی انداز مناسب تھا، تو دوسری طرف منصبِ امامت میں پوری احتیاط سے ترتیب دیے گئے سیاسی نظریے کے بیان کے لیے اسماعیل نے دانش مندی  سے اپنا اسلوب بدلا ہے۔ تاہم جیسے میں نے واضح کیا، وہ غالب علمی منہج اور پروجیکٹ ایک ہی تھا جو ان بظاہر متنوع کتابوں پر اثر انداز ہوا۔

اگلے باب میں، میں شاہ اسماعیل کی فکر کے ایک انتہائی متنازع حصے یعنی شفاعتِ نبوی کی حدود پر ان کے نظریے کو زیر غور لا کر ان کے سیاسی عقائد پر بحث جاری رکھنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے میں تقویۃ الایمان کی طرف واپس لوٹتا ہوں۔


حواشی

  1. قرون وسطیٰ اور عہد جدید کے اوائل کے ہندوستان میں بالخصوص اہم فارسی مصادر کی روشنی میں، مسلمانوں کی سیاسی فکر کے ایک مفید جائزے کے لیے دیکھیے: مظفر عالم، The Languages of Political Islam: India, 1200-1800، (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2004)، خاص طور پر ص 35 – 80۔
  2. اسلامی تاریخ کے اوائل اور قرونِ وسطیٰ میں سنیوں کی سیاسی فکر کے لیے دیکھیے: عُوَیمر انجم، Politics, Law, and Community in Islamic Thought: The Taymiyyan Movement (نیو یارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)، 1 – 136۔
  3. دیکھیے: مظفر عالم، Languages of Political Islam، 35 – 80۔
  4. یہ حاشیہ انگریزی متن کے قارئین کے لیے تھا جسے اردو قارئین کے لیے غیر ضروری سمجھ کر حذف کیا گیا۔ مترجم
  5. شاہ محمد اسماعیل، منصبِ امامت (دلی: مطبعِ فاروقی، 1899)، 29 – 30۔ اس کتاب کے تمام حوالہ جات اسی اشاعت سے لیے گئے ہیں، اور متن کے اندر قوسین میں درج کیے گئے ہیں۔
  6. بحوالۂ ایضاً، 55۔
  7. یہاں پر شاہ اسماعیل کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف کا  مشہور ترجمہ "اچھائی کا حکم دینا" ہمیشہ کافی یا درست نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر اس صورت میں اچھائی کے حکم کا مفہوم یہ نہیں کہ کوئی شخص طاقت کے مقام پر کھڑا ہو کر دوسرے کو ایک مطلق حکم دے، بلکہ اس کے مفہوم میں سیاسی طور پر طاقت ور شخص کی رہ نمائی، خیر خواہی اور اصلاح بھی شامل ہے۔ یہاں پر (اور دیگر بہت سے مقامات پر) امر بالمعروف کے مفہوم میں نصیحت کے ذریعے نیکی کی طرف رغبت پیدا کرنے کا تصور "اچھائی کا حکم کرنے" سے زیادہ راجح ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اچھائی کا حکم دینے کا ایک فوری فیصلہ یا مطلق حکم کی بہ نسبت اخلاقی تشکیل کا ایک عمل ہے۔


’’احمدی تراجم اور تفاسیر قرآن‘‘

ڈاکٹر حافظ سعید احمد


مصنفین
: ڈاکٹر محمد سلطان شاہ، ڈاکٹر خورشید احمد قادری
سن اشاعت: 2022
ناشر: ورلڈ ویو پبلشرز لاہور
صفحات: 149
قیمت: درج نہیں

کسی بھی تحریر یا کتاب کے ترجمے کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب اس کا معانی ومفہوم کو غیر قوم میں منتقل کرنا مقصود ہو، الہامی اورتبلیغی مذاہب اپنی تعلیمات کو دوسری اقوام تک منتقل کرنے کی آرزو بھی رکھتے ہیں تاکہ اس فوز وفلاح میں وہ بھی شریک ہو جائیں۔یہی وجہ ہے کہ آخری اور ابدی آسمانی تعلیم انسانیت کوقرآن مجید کی صورت میں میسر آئی،اور اس کتاب کو عربی مبین میں نازل کیا گیا جس کی وجہ سے دوسری اقوام کو اس کے سمجھنے میں دشواری کا پیش آنا ایک فطری عمل تھا۔ اس کےلیے ضروری تھا کہ اس کا ترجمہ مقامی زبان میں کیا جائے۔

سب سے پہلے قرآن مجید کا ترجمہ لاطینی زبان میں ہوا اور اس کے اولین یورپی مترجم Robert of Ketton ہیں۔ اوراس کے بعد انگریزی زبان میں اس کتاب کے ترجمے کا آغاز ہوا۔، اورپندرہویں صدی عیسوی میں جان(John) نے قرآن کا نیا ترجمہ کیا۔ الیگزینڈر راس (Alexander Ross) نے 1649ء میں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کیا۔ اس کے بعد جارج سیل (Geroge Sale) کاترجمہ 1734ء میں شائع ہوا ایڈورڈ ہنری پالمر (Edward Henry Palmer1840۔1882) نے ۱۸۸۰ میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا۔اسی طرح انگریزی زبان کے ذخیرے میں قرآن مجیدکے تراجم کا اضافہ ہوتا رہا۔

جب انیسویں صدی کے آخر میں مسلمان برصغیر میں مسلمان اپنی فکری اور ثقافتی بقا کی جنگ میں مصروف تھے، تو اسی دور میں غلام احمد نامی ایک شخص نے "نبوت" کے میدان میں قدم رکھنے کی تیاریاں شروع کر دی تھیں، جس کی بنیادی وجہ مسلمانوں میں خلفشار پیدا کرنا مقصو د تھا۔ ظاہر بات ہے جب اس پر "وحی" کاسلسلہ بھی جاری ہوگیا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ پہلے مسلمانوں کے عقائدپرغیر محسوس طریقے سے حملہ کیا جائے اور ان پر اثرا نداز ہونے کے لیے مختلف طریقے وضع کیے جائیں، اس کے لیے فکری لٹریچر کی تیاری بہت ضروری تھی، تو وہاں قرآن مجید کے انگریزی ترجمے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا تاکہ اس نام نہاد "دعوت" کو دور دور تک پہنچایا جائے۔ قادیانی مذہب نےاپنی تعلیمات کو قرآن مجید سے جوڑتے ہوئے ترجمے میں تحریف کیا۔ زیرِ نظر کتاب میں قادیانیوں اور لاہوری گروپ کے تراجم کی تحریفات کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی۔

کتاب"احمد ی تراجم اور تفاسیرِ قرآن ( ایک تنقیدی مطالعہ)" اس موضوع پر اردو زبان میں راقم الحروف کی اطلاع کے مطابق یہ پہلی جامع کتاب ہے۔ اس سے قبل پروفیسر عبدالرحیم قدوائی کے مضامین شائع ہوئے، ان کو پروفیسر عبدالواسع نے مرتب کیے اور وہ مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن کے نام سے مکتبہ قاسم العلوم نے اشاعت کا اہتمام کیا تھا۔اس اشاعت پر تاریخ نہیں لکھی گئی لیکن یہ بات بالکل واضح ہے کہ زیرِ تبصرہ سے قبل شائع ہوئی تھی، اس میں قادیانی تراجم قرآن کے نام سے ایک مضمون شامل کیا گیا ہے جوتقریباً‌ آٹھ صفحات پر محیط ہے۔ اس کتاب پر دو مصنفین : ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اور ڈاکٹر خورشید احمد قادری کا نام درج ہے۔ کتاب بنیادی طور پر تین ابواب پر مشتمل ہے :

باب اول: احمدی (قادیانی) تراجم و تفاسیر قرآن کے نام سے لکھا گیا ہے، ا س کے ابتدائی پانچ صفحات احمدیت اور اس کے فرقے اور قادیانی ترجمہ وتفسیر کی پہچان کے عنوانات کے تحت لکھے گئے۔ بالکل ابتداء میں مصنفین لکھتے ہیں: قادیانیوں نے سات مکمل انگریزی تراجم قرآن شائع کیے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تراجم میں ایسے تفسیری حواشی ہیں جو ان آیات کی غلط تفسیر کرتے ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام اور ختم نبوت سے متعلق ہیں۔ مسلمان مفسرین کے برعکس زیادہ تر احمدی مفسرین نے تسمیہ کو ( سورۃ التوبۃ کے علاوہ)تمام سورتوں کی پہلی آیت کےطور پر شمار کیا ہے۔ انہوں نے حروف مقطعات کا اس تصور کے تحت ترجمہ کیا ہے کہ وہ خاص عربی الفاظ کے مخففات ہیں۔ احمد ی مترجمین اور مفسرین متن قرآن کریم میں کسی نسخ کے قائل نہیں ہیں (ص:2،3)مصنفین نے قادیانی ترجمہ وتفسیر کی پہچان کے لیے پانچ آیات:آل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157، المومنون، 23:50، الاحزاب 33:40 لکھی گئی ہیں جن کی ترجمہ میں قادیانی مذہب کی روشنی میں تحریف کی گئی ہے۔

اسی باب میں قادیانی مذہب کے نمائندہ تراجم اور تفسیری حواشی کا ذکر کیا گیا ہے۔ مصنفین نے مترجمین کا تذکرہ کرتے ہوئے درج ذیل منہج واسلوب اختیار کیا ہے : (1) مترجم کے حالات زندگی لکھتے ہوئے مصنفین نے بنیادی مصادر کو غیر معمولی اہمیت دی ہے، اور ہر ممکنہ صورت اختیار کی گئی، بعض جگہوں پر بالمشافہ ملاقات کا اہتمام کیا گیا اور ایک جگہ پر ایک طالب علم کے انٹرویو کو جگہ دی گئی (2) عمومی طور پرمذکورہ بالاآیات اور بعض جگہوں پر دیگر آیات بھی لکھ د ی گئی ہیں جن میں قادیانی مذہب کے مطابق تحریف کی گئی ہے (3) بعض جگہوں پر حروف مقطعات کے قادیانی مذہب کے مطابق خودساختہ تراجم بھی دے دیے گئے ہیں۔(4) مترجم کی لکھی گئی انگریزی کااردو میں ترجمہ کرتے ہوئے کمال مہارت سے کام لیا گیا ہے (5) آخر میں عبداللہ سعید، ڈاکٹر عبدالرحیم قدوائی کی رائے بھی درج کی گئی ہے اور بعض جگہوں پر مستشرقین کی ترجمہ کے بارے میں رائے بھی لکھ دی گئی ہے۔

اس باب میں ڈاکٹر محمد عبد الحکیم خاں کے ترجمے کو اولین قادیانی مذہب کا ترجمہ میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے عقائد کے بیان کے لیے مصنفین نےچار آیات: آل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157، البقرۃ 2:106 کا انتخاب کیا ہے۔عربی عبارت بھی درج ہے اس کے علاوہ انگریزی ترجمہ بھی ذکر کیا گیا ہے، اور انگلش سے اردو ترجمہ رواں انداز میں کیاگیا ہے۔ اس کے ساتھ تفسیری حواشی اور وضاحتیں بھی لکھ دی گئی ہیں۔ مصنفین نے اس کی گمراہی اور انحراف کے پہلو ؤں کو بھی واضح کیا ہے۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اس ترجمہ کو لکھنے کے بعد اس مذہب سے علیحدگی اختیار کر لی، عبدالرحیم قدوائی کے بقول غیر مصدقہ روایات ہیں (مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن:ص 25) جبکہ زیرِ تبصرہ کتاب کے مصنفین نے قادیانی مذہب کےبانی کے دو بیان سے یہ واضح کر دیا کہ وہ تائب ہوگئے تھے (دیکھئے: ص 18)

دوسرا ترجمہ مرزا بشیرا لدین محمود احمد کا ہے، جو کہ ایک نامکمل ترجمہ قرآن ہےاس میں اسی مذہب کا پرچار کیا گیا۔ اس کے عقائد کو واضح کرنے کے لیے سورۃ البقرۃ: 2:137 کا انتخاب کیا گیا ہے، عربی عبارت، انگریزی ترجمہ اور تفسیری حاشیہ لکھا گیا ہے۔ تیسرا مترجم مرزا بشیر احمد ہے۔مصنفین نے اس کےعقائد کے بیان کےلیے بھی پانچ آیات:آل عمران 3:55، النساء 4:157، الاحزاب 33:40، سورۃ النور 24:55، سورۃ الصف:61:6 کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ تفسیری حواشی لکھتے ہوئے انگریزی لکھنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔آخر میں اس ترجمہ کے بارے میں ایک مستشرق ایڈون ای۔کیلوری اور عبدالرحیم قدوائی کی رائے نقل کی گئی ہے۔ چوتھا مترجم پیر صلاح الدین کا تذکرہ کیا گیا ہے پانچ آیات: آل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157،المومنون، 23:50، الاحزاب 33:40 درج کی گئی ہیں، مصنفین نے یہاں بھی عربی عبارت کے ساتھ انگریزی عبارت بھی درج کی ہے اور اردو ترجمہ بھی کیا گیا ہے اور ترجمے میں تحریف کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ایک اور مترجم پیر معین الدین کا ذکر بھی موجود ہے جس کے بارے میں اس کے مختصر حالات زندگی اور سورۃ الفاتحہ اور سور ۃ البقرۃ ک ترجمہ کیا گیا ہے، بس اتنا ہی معلو م ہورہا ہے۔

فہرست کے مطابق چھٹا، جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق پانچواں مترجم مولوی شیر علی ہیں اس کے لیے انہوں نے تین آیات:آل عمران 3:55، النساء 4:157، الاحزاب 33:40 کے ترجمے کو بیان کیا ہے۔اس ترجمے کے بارے میں عبداللہ سعید اور پروفیسر ڈاکٹر قدوائی کی رائے بھی دی گئی ہے۔ فہرست کے مطابق ساتواں جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق چھٹا مترجم ملک غلام فرید ہے ایک صفحات پر اس کے حالات زندگی درج کیے گئے ہیں جبکہ پانچ صفحات اس کے ترجمے کےلیے مختص کیے گئے ہیں پانچ آیات:آل عمران 3:55، النساء 4:157، الاحزاب 33:40 اور البقرۃ 2:222، کا ترجمہ دیا گیا جبکہ سورۃ الاحزاب کے ترجمے کے علاوہ تفسیر بھی دی گئی، اور ختم نبوت کے چار معانی لکھے گئے یہاں اشد ترین ضرورت تھی کہ ان معانی کے بارے میں حاشیہ میں روایتی مسلمانوں کے دلائل لکھے جاتے تاکہ عام قاری کسی الجھن کا شکار نہ ہوتے۔

فہرست کے مطابق آٹھواں جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق ساتواں مترجم سر ظفرا للہ خان ہے، اس کے حالات زندگی اور ترجمے کے بارے میں پندرہ صفحات لکھے گئے ہیں۔ اس کے بارے میں مصنفین نے کتاب کے روایتی منہج سے ہٹ کر لکھا ہے، حالاتِ زندگی لکھنے کے بعد چودہ حروف مقطعات کے معنی لکھے گئے ہیں۔ تو اس کے لیے جن آیات کا تذکرہ کیا گیا ان میں غالباََ مصنفین قادیانی عقائد کے بیان کے علاوہ عربی سے انگریزی ترجمہ میں تحریفات اور الحاقات کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ فہرست کے مطابق نواں جبکہ متن کی نمبرنگ کے مطابق آٹھواں مترجم اور مفسر حکیم نورا لدین بھیروی ہے۔ اس نے اردو میں ترجمہ قرآن کیا جس کو عبدالمنان نے اپنی بیوی امۃ الرحمن بنت شیر علی کے ہمراہ مل کر انگریزی کے قالب میں ڈھالا۔مصنفین نے اس کے نظریات کے بیان کے لیےآل عمران 3:55، المائدہ 5: 117، النساء 4:157، المومنون، 23:50، الاحزاب 33:40، سورۃ النور 24:55 کا ترجمہ دیا گیا ہے۔ اس ترجمہ قرآن میں سوائے سورۃ الفاتحہ کے تسمیہ کو کسی بھی سورت کی پہلی آیت شمار نہیں کیا گیا۔ مصنفین نے دو حروف مقطعات کے معنی بھی بطور مثال درج کیے ہیں۔

باب اول میں کتاب کے شروع میں دی گئی فہرست کے مطابق 11 مترجمین کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ لیکن کتاب کے متن کے مطابق 8مترجمین کا تذکر دیا گیا ہے کتاب کے متن کے مطابق پیر معین الدین کے نام کے ساتھ نمبرنگ نہیں دی گئی۔ حکیم نورالدین بھیروی کے ترجمہ قرآن کو اردو سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ لیکن ان کو مترجمین کی فہرست میں لکھا گیا ہے اور مترجمین کو بھی مترجم کے طور پر فہرست کے مطابق شمار کیا گیا لیکن متن میں ان کے حالات زندگی تو لکھے گئے ہیں لیکن نمبرشمار نہیں کیا۔

باب دوم میں لاہوری گروپ کے مترجمین اور مفسرین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان میں چھ مترجمین اور مفسرین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔پہلے صفحہ پر قادیانی اور لاہوری گروپ کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا۔ مولوی محمد علی لاہوری کے ترجمہ قرآن اور حالات زندگی کے بیان کےلیے 15 صفحات مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے عقائد و نظریات کے بیان کےلیے انگریزی زبان میں اس کی تحریر نہیں لکھی گئی بلکہ صرف ترجمہ پر اکتفا کیا گیا۔ اس کے نظریات کا پوسٹمارٹم کر تے ہوئے مصنف نے مذکورہ بالا آیات اور 14 حروف مقطعات کے معنی لکھے ہیں جو اس کے ترجمہ میں درج ہیں۔ اس کے ترجمہ قرآن کے بارے میں عبداللہ یوسف علی، سید حبیب الحق ندوی، حافظ غلام سرور، عبداللہ سعید، نیل رابسن اور عبدالرحیم قدوائی کی رائے درج کی جو اس کے ترجمے کے بارے میں مختلف کمزور پہلو واضح کیے۔

دوسرا مترجم ڈاکٹر خادم رحمان نوری ہیں، مصنفین نے حالات زندگی کے علاوہ مذکورہ بالا آیات میں اس کی تحریف کی نشاندہی کی ہے، تیسرا مترجم خواجہ کمال الدین ہے اس کے بارے میں بیان کرتے ہوئے مصنفین نے مخصوص آیات کا حوالہ نہیں دیا۔ چوتھا مترجم ناصر احمد ابن آفتاب الدین احمد ہے اس کے بیان کرتے ہوئے آیات کا حوالہ نہیں دیا گیا۔ پانچواں مترجم خاں صاحب چوہدری محمد منظور الہٰی ہیں۔ آٹھواں مترجم ڈاکٹر بشارت احمد ہیں۔

باب سوم پچیس صفحات پر مشتمل ایک مضمون ہے جو الحاج غلا م سرور کے انگریزی ترجمہ کا تعا رف ہے، ان کا تعلق عمومی طور پر قادیانی مذہب سے جوڑا جاتا ہے، جس کی مصنفین نے تردید کی کوشش کی۔ مصنفین لکھتے ہیں: حافظ غلام سرور پر غلطی سے احمد ی مترجم قرآن ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔ انہوں نے احمدیت سے تعلق کا اقرار کیا ہے نہ ان کے ترجمہ سے ایسے شواہد ملتے ہیں کہ ان کا اس گروہ سے کوئی تعلق ہے (ص149)۔ آپ کا ترجمہ قرآن 1920ء کے عشرے میں منظر عام پر آیا۔یاد رہے کہ "مستشرقین اور انگریزی تراجم قرآن" میں اولین مسلم تراجم کے ذیل میں غلام سرورکوبھی شمار کیا گیا ہے-

کتاب کی پیشکش بہت خوبصورت ہے لیکن انسانی کام غلطی سے مبرا نہیں ہوا کرتا، اس میں ہمیشہ بہتری کی گنجائش موجود رہتی ہے ذیل میں کچھ نکات پیش کیے جارہے ہیں جو دراصل اس غرض سے پیش کیے جارہے ہیں تاکہ اگلے ایڈیشن میں بہتری لائی جاسکے۔

اس طرح کی علمی نوعیت کی کتب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کے بیک ٹائٹل پر مصنف کا تعارف لکھا جاتا ہے تاکہ قاری مصنف کے بارے میں جان سکے لیکن زیرِ نظر کتاب میں اس کا اہتمام نہیں کیا گیا،اس کے علاوہ کتاب کے پہلے پانچ صفحات کی تحریر کو بطور مقدمہ درج کیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا، اس کے علاوہ حاشیہ میں یا ایک باب میں حیات عیسی علیہ السلام، ختم نبوت، حروف مقطعات، ناسخ ومنسوخ اور تفسیر بالرائے پر ایک جامع مضمون لکھ دیا جاتا جس سے مسلم علمی روایت کی خبر ہوتی توعامی کے مطالعے کے لیے بھی کتاب بہت فائدہ مند ثابت ہوتی، گو بعض جگہوں پر مصنفین نے ان موضوعات پر تبصرے کیے ہیں لیکن وہ موضوع کے لحاظ سے ناکافی ہیں۔اس کے علاوہ غلام احمد کے حالات زندگی لکھتے ہوئے ایک انگریزی مضمون پر انحصار کیا گیا جو اس کتاب کے شان شایان نہیں ہے۔

پروف ریڈنگ کی ایک غلطی ابتدائی صفحات کی نمبرنگ میں نمایاں ہوگئی ہے،اس کےعلاوہ باب اول میں گیارہ مفسرین کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن متن میں صرف آٹھ مفسرین کا تذکر ہ لکھا گیا جو دو اردو سے انگریز میں ڈھالنے والے مترجم تھے، پتہ نہیں ان کو مترجمین میں شامل کیا گیا ہے یا ان کومفسرین لکھا گیا ہے۔ کتاب پڑھنے سے واضح نہیں ہو رہا کہ یہ دومصنفین کی علمی کاوش ہے یا صرف ایک مصنف نے اس کو لکھا ہے، ص 111 اور ص 113 سے یہ واضح ہور ہا ہے کہ یہ کتاب اصل میں ڈاکٹر محمد سلطان شاہ کی لکھی ہوئی ہے-

اس کتا ب کو ہر اس شخص کی لائبریری میں موجود ہونا چاہیے جس کو قرآن مجید کے مطالعے کا شغف ہے، اور دینی علوم سے ناواقف شخص کو اس کتاب سے پڑھنے سے پہلے کسی عالم دین سے قادیانی مذہب کے بارے میں بنیادی نوعیت کی معلومات حاصل کرنی چاہئیں اور کتاب کے اول حصے میں جن آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کو ابتدائی کلاسز میں نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ ختم نبوت کے تصور کو ابتدائی عمر میں طلباء کے دل ودماغ میں راسخ کر دیا جائے اور اس کتاب کے مندرجات کو ایم فل سطح پر اسلام او راستشراق کے ذیل میں متعارف کروایا جائے تاکہ نوجوان اسکالرز علمی میدان میں اس گروہ کا مقابلہ کر سکیں۔


اگست ۲۰۲۲ء

خانگی تنازعات- تمام فریقوں کی تربیت کی ضرورتمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۱)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ سنن النسائی (۱)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ کی صحافتمحمد اویس سنبھلی 
قومی و دینی خود مختاری کی جدوجہد اور علماء کراممولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۸)ڈاکٹر شیر علی ترین 

خانگی تنازعات- تمام فریقوں کی تربیت کی ضرورت

محمد عمار خان ناصر

(خانگی تنازع سے متعلق ایک عزیزہ کے استفسار پر یہ معروضات پیش کی گئیں۔ شاید بہت سی دوسری بہنوں کے لیے بھی اس میں کوئی کام کی بات ہو، اس لیے یہاں نقل کی جا رہی ہیں۔)


آپ کے معاملات کے متعلق جان کر دکھ ہوا۔ اللہ تعالی بہتری کی سبیل پیدا فرمائے۔

جہاں تک مشورے کا تعلق ہے تو ناکافی اور یک طرفہ معلومات کی بنیاد پر یہ طے کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کہ کہاں کس فریق کی غلطی ہے۔ دیانت دارانہ مشورہ، ظاہر ہے، وہی ہو سکتا ہے جس میں کسی ممکنہ غلطی کی اصلاح کی طرف بھی متوجہ کیا جائے۔ لیکن مجھے بالکل اندازہ نہیں کہ آپ کی کیا انڈرسٹینڈنگ تھی اور پھر کہاں کس کی طرف سے خرابی شروع ہوئی۔

البتہ عمومی مشاہدے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سسرال سے الگ گھر میں آزادانہ رہنے کی خواہش اگرچہ فطری اور کافی حد تک بجا ہے، لیکن ہمارے معروضی حالات میں بسا اوقات مرد کے لیے کئی اسباب سے اس کا انتظام ممکن نہیں ہوتا۔ مرد پر بیوی بچوں کے ساتھ بوڑھے ماں باپ کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ اگر ماں باپ کے پاس کسی کے رہنے کا کوئی انتظام نہیں اور بیوی بھی اس ذمہ داری میں کسی قسم کا ہاتھ بٹانے سے انکار کر دے تو مرد دوہری مشکل میں پڑ جاتا ہے جس کا اثر بدیہی طور پر بیوی بچوں کے ساتھ رشتے پر بھی پڑتا ہے۔ معاش کی ذمہ داریاں ویسے ہی بہت بھاری اور ناقابل برداشت ہو گئی ہیں اور ان مختلف قسم کے بوجھوں تلے کسی آدمی کے لیے معمول کی نفسیاتی زندگی بسر کرنا آج کے دور میں ممکن نہیں رہا۔ یہ صورت حال زیادہ تقاضا کرتی ہے کہ باہمی رشتوں میں ایک دوسرے کی مجبوریوں اور حالات کو ہمدردانہ سمجھنے کی کوشش کی جائے اور باہمی تعاون اور ایثار کا طریقہ اختیار کیا جائے۔

اس لحاظ سے اگر سسرال میں آپ کے ساتھ کوئی کھلی بدسلوکی نہ کی جا رہی ہو تو میرا مشورہ یہی ہوگا کہ سردست الگ رہائش کا مطالبہ چھوڑ کر اپنی استطاعت کے مطابق کچھ ذمہ داریاں اٹھاتے ہوئے سسرال کے ساتھ رہنا قبول کریں۔ اگر ذمہ داریوں کا بوجھ ناقابل تحمل ہو تو اس پر بے شک اسٹینڈ لیں اور کہیں کہ میں اس حد تک ذمہ داری لے سکتی ہوں، اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن پھر جو ذمہ داری لیں، اس کو خوش دلی اور خلوص کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کریں۔

اللہ تعالیٰ سے دعا اور استخارہ بھی کریں کہ آپ کو بہتر فیصلہ کرنے کی توفیق اور راہ نمائی عطا فرمائے۔ آمین


خانگی ذمہ داریوں میں شوہر کا ہاتھ بٹانے کے ضمن میں اوپر جو معروضات پیش کی گئی ہیں، ان کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو اتنا ہی اہم ہے۔ ماں باپ سے متعلق ذمہ داریوں کی ادائیگی میں حسب ضرورت شوہر کی معاونت کرنا ایک الگ معاملہ ہے اور بیٹے کی بیوی کو پورے سسرال کی خادمہ سمجھنا ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔ دونوں کو قطعاً‌ کنفیوز نہیں کرنا چاہیے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر شوہر کے والدین کو واقعتاً‌ خدمت وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے یا اس کا انتظام الگ سے موجود ہے تو پھر بہو کو لازماً‌ ساس سسر کے ساتھ ہی رکھنا اور ان کی طرف سے اس کو اپنا استحقاق سمجھنا، غیر صحت مند رویہ ہے۔ یہ توقع دراصل مشترک خاندانی نظام کے روایتی کلچر سے پیدا ہوتی ہے جس میں لڑکی کی شادی صنفی تعلق کی حد تک تو لڑکے سے ہوتی ہے، لیکن اس کے حقوق، اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین پورا سسرال کرتا ہے اور ان سب کو خوش رکھنا ایک اچھی بہو کے فرائض میں شامل سمجھا جاتا ہے۔  یہ قطعاً‌ ناروا رویہ ہے اور ناچاقی کے اسباب میں زیادہ تر اسی طرح کے اسباب کا کردار بنیادی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں تینوں فریقوں کی تربیت کی ضرورت ہے۔

  1. ساس سسر اور دیگر سسرالی رشتہ داروں کو یہ سکھانا چاہیے کہ نکاح کا رشتہ میاں بیوی میں قائم ہوا ہے اور اپنے باہمی معاملات کو طے کرنا انھی کا اختیار ہے۔ شوہر کے رشتہ داروں کو گھر میں اپنی حیثیت کی وجہ سے میاں بیوی کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے اور نہ بہو کو باقی اہل خانہ کی نیم منکوحہ کا درجہ دے کر اس سے معاملہ کرنا چاہیے۔
  2. شوہروں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ انھیں اپنی دو طرفہ ذمہ داریوں میں ایک توازن قائم کرنا ہے اور اس کے لیے وہ اگر ابتدا ہی سے میاں بیوی کے معاملات میں اپنے اختیار کو جتانا اور استعمال کرنا شروع کر دیں تو تھوڑے بہت تناؤ کے بعد ایک مناسب توازن قائم ہو جائے گا۔ اگر وہ معاملے کو بیوی اور سسرالی رشتہ داروں کے درمیان چھوڑ دیں گے تو بگاڑ زیادہ ہوگا اور پھر اس کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ توازن قائم کرنے کی ذمہ داری کا ایک لازمی حصہ دونوں طرف سے شکایتوں کی زد میں رہنا بھی ہے۔ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں اور یہ توقع نہ کریں کہ کوئی بھی فریق آپ کو انصاف یا فیئرنیس کا تمغہ دے گا۔
  3. بیویوں کو یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کیسے توقعات کے اس دباؤ میں حکمت کے ساتھ اپنے حق اور اختیار کے لیے اسٹینڈ بھی لیں، شوہر کی پوزیشن کو بھی ملحوظ رکھیں اور معروف کے حدود میں سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بھی خوشگوار تعلق استوار کریں۔ یہ سب چیزیں ممکن ہیں اگر ہم بچیوں کو شادی سے پہلے درست اور ضروری راہنمائی فراہم کریں اور تعلقات کو بنانے کا ہنر ان کو سکھائیں۔

اقلیتوں کے مذہبی جذبات  کے احترام اور آئینی حقوق کی بحث

کچھ عرصہ قبل والد گرامی مولانا زاہد الراشدی نے،  ہمارے ہاں مروج مذہبی انداز گفتگو کے تناظر میں  اہل علم کے سامنے یہ سوال رکھا تھا کہ

"ہمارا بین الاقوامی اداروں سے یہ مطالبہ ہے جو درست بلکہ ضروری ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی اہانت کو قابل سزا جرم تسلیم کیا جائے مگر یہ بات ہمیں پیش نظر رکھنا ہوگی کہ اگر بین الاقوامی اداروں نے یہ بات مان لی تو وہ انبیاء کرام کی فہرست ہم سے نہیں مانگیں گے بلکہ جس شخص کو بھی دنیا کی آبادی کا کوئی حصہ نبی مانتا ہے، اس کی اہانت جرم قرار پائے گی اور پھر دیکھ لیں کہ مقدمات کی زد میں کون زیادہ آئے گا؟"

بعض حضرات نے اس سوال کو یہ مفہوم پہنانے کی کوشش کی ہے کہ والد گرامی نے گویا اپنی طرف سے یہ "تجویز" دی ہے کہ مرزا صاحب کا نام بین الاقوامی سطح پر قابل احترام انبیاء کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ ظاہر ہے، یہ بات درست نہیں۔ اس حوالے سے مذہبی ذہن کو جو بنیادی الجھن درپیش ہے، اس کی وجہ اس سوال پر غور نہ کرنا ہے  کہ موجودہ سیکولر دنیا میں بین الاقوامی سطح پر مختلف مذاہب کی مقدس شخصیات کی توہین کو قانونی سدباب کا موضوع بنانے کی اساس کیا ہو سکتی ہے۔

اس ضمن میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ توہین مذہب پر مواخذہ کا جو قانون مذہبی واعتقادی اساس پر مبنی ہے، اس کا تعلق مسلمان حکومتوں کے داخلی دائرہ اختیار سے ہے اور اس دائرے میں ہم اس قانون کو ان انبیاء تک محدود رکھ سکتے ہیں جن پر مسلمان ایمان رکھتے ہیں۔ دیگر مذاہب کو بھی توہین وتحقیر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے، لیکن اس کی قانونی بنیاد مختلف ہے۔ اسی لیے ہمارے ضابطہ تعزیرات میں 295 بی اور 295 سی کی الگ الگ شقیں رکھی گئی ہیں۔

تاہم بین الاقوامی سطح پر کسی قانونی بندوبست کی بنیاد ظاہر ہے، مسلمانوں کا عقیدہ نہیں ہوگا، بلکہ مشترک انسانی اخلاقیات ہوگی اور اس لحاظ سے سچے یا جھوٹے نبیوں کے فرق کا سوال اٹھائے بغیر تمام مذہبی گروہوں کے لیے مذہبی جذبات مجروح کیے جانے کے خلاف تحفظ کا حق قبول کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر اس موقف سے ہی دستبرداری اختیار کرنی ہوگی کہ کسی مذہبی شخصیت کی توہین کو جرم قرار دیا جائے۔

ہمارے ہاں اس بحث میں جو غلط فہمی  پیدا ہو رہی ہے، وہ اسی نکتے کو سمجھے بغیر ہو رہی ہے اور نتیجتاً‌ ایک خاص انداز کے مذہبی ذہن کے عقل وفہم کی سطح کو ایکسپوز کرنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔

اسی نوعیت کی غلط فہمی   قادیانیوں پر عائد کی گئی بعض قانونی پابندیوں کے تناظر  میں بطور اقلیت  قادنیوں کے حقوق کے حوالے سے بھی عام ہے۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ نے ایک حالیہ فیصلے میں (جس کا ترجمہ ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب کے قلم سے الشریعہ کے جون ۲۰۲۲ء کے شمارے میں شائع ہوا ہے) قانون میں احمدیوں پر عائد کی گئی اس پابندی کی تشریح کرتے ہوئے کہ وہ شعائر اسلام کو استعمال نہیں کریں گے، کہا گیا ہے کہ:

’’ہمارے ملک کی کسی غیر مسلم (اقلیت) کو اس کے مذہبی عقائد ماننے سے محروم رکھنا، اسے اپنی مذہبی عبادت گاہ کی چاردیواری کے اندر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کے اظہار سے روکنا ہمارے جمہوری دستور کی اساس کے بھی خلاف ہے اور ہماری اسلامی جمہوریہ کی روح اور کردار کے بھی منافی ہے۔ یہ انسانی تکریم کو بھی بری طرح مسخ اور پامال کرتا ہے اور کسی غیر مسلم اقلیت کی حقِ خلوت (پرائیویسی) کو بھی، جبکہ وہ دستور کی رو سے ملک کے دیگر شہریوں کی طرح برابر کے حقوق اور حفاظتیں رکھتے ہیں۔ ہماری اقلیتوں کے ساتھ عدم برداشت کا رویہ پوری قوم کی غلط تصویر کشی کرتا ہے اور ہمیں غیر متحمل مزاج، متعصب اور غیر لچکدار دکھاتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی دستوری اقدار اور مساوات اور برداشت کے متعلق بہترین اسلامی تعلیمات اور روایات کو قبول کرلیں۔“

عدالتی تشریح کی رو سے قانون نے احمدیوں پر یہ پابندی نہیں لگائی کہ وہ خود بھی اپنے آپ کو مسلمان نہ سمجھیں یا اپنی عبادت گاہوں کے اندر بھی وہ عبادات ادا نہ کریں جن کو وہ اپنے عقیدے کی رو سے ضروری سمجھتے ہیں۔ عبادت گاہوں یا چار دیواری کے اندر وہ جو بھی عمل بجا لانا چاہیں، لا سکتے ہیں، چاہے وہ اسلام کے شعائر ہوں۔ اس سے ان کو روکنے یا ان کے خلاف توہین شعائر اسلام کے مقدمے درج کروانے کا، قانون اور آئین سے کوئی تعلق نہیں۔ مذہبی تنظیموں  اور ان کے کارکنوں  کو   یہ فرق پیش نظر رکھنا چاہیے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۱)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(346) الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی

تَنْزِیلًا مِمَّنْ خَلَقَ الْأَرْضَ وَالسَّمَاوَاتِ الْعُلَی۔ الرَّحْمَنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَی۔ (طہ: 4، 5)

”یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اس ذات کی طرف سے اتارا گیا ہے جس نے زمین اور بلند آسمانوں کو پیدا کیا ہے۔ جو رحمان عرش حکومت پر متمکن ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمے میں ’جو رحمان‘ درست نہیں ہے۔ یا تو کہیں ’جو رحمان ہے‘، یا کہیں ’رحمان جو۔۔۔‘ کیوں کہ رحمان تو صرف خدا کی ذات ہے، ایک سے زیادہ رحمان تو ہیں نہیں۔ یہاں خالق کی صفت بتائی گئی ہے کہ وہ رحمن ہے اور دوسری صفت یہ بتائی گئی کہ وہ عرش پر متمکن ہے۔

”رحمان، جو عرش حکومت پر متمکن ہے“۔(امانت اللہ اصلاحی)

”جو رحمٰن ہے، عرش پر قائم ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(347)  أَکَادُ أُخْفِیہَا کا ترجمہ

إِنَّ السَّاعةَ آتِیةٌ أَکَادُ أُخْفِیہَا لِتُجْزَی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَی۔ (طہ: 15)

اس آیت میں أَکَادُ أُخْفِیہَا کا مختلف طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے، بعض لوگوں نے فعل مقاربہ کا ترجمہ کیا ہے، جیسے:

”تحقیق قیامت آنے والی ہے نزدیک ہے کہ چھپا ڈالوں میں اس کو تو کہ بدلہ دیا جاوے ہر جی ساتھ اس چیز کے کہ کرتا ہے“۔ (شاہ رفیع الدین)

”بیشک قیامت آنے والی ہے قریب تھا کہ میں اسے سب سے چھپاؤں کہ ہر جان اپنی کوشش کا بدلہ پائے“۔ (احمد رضا خان، أَکَادُ مضارع ہے اور ماضی کا ترجمہ کیا ہے جو درست نہیں ہے)

زمانی مقاربہ کا ترجمہ کرنے میں اشکال یہ ہے کہ اس سے مطلب واضح نہیں ہوتا۔ کیوں کہ قیامت کو تو اللہ نے واقعی مخفی رکھا ہوا ہے پھر یہ کہنے کا کیا مدعا ہے، کہ قریب ہے کہ میں اسے چھپاؤں؟ آیت کا اسلوب بتارہا ہے کہ یہاں زمانی مقاربہ مراد نہیں ہے۔

بہت سے لوگوں نے أَکَادُ أُخْفِیہَا کا ترجمہ کیا ہے ’میں مخفی رکھنا چاہتا ہوں‘، جیسے:

”قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے میں اُس کا وقت مخفی رکھنا چاہتا ہوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے“۔ (سید مودودی)

”قیامت یقینا آنے والی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلا پائے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”قیامت یقینا آنے والی ہے جسے میں پوشیدہ رکھنا چاہتا ہوں تاکہ ہر شخص کو وہ بدلہ دیا جائے جو اس نے کوشش کی ہو“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں مشکل یہ ہے کہ أَکَادُ کے معنی أرید نہیں آتے ہیں، بعض مفسرین نے یہ معنی ذکر کیے ہیں، لیکن اس کی پشت پر مضبوط دلیل نہیں ملتی ہے۔ جو مثالیں ذکر کی گئی ہیں  وہ اس سلسلے میں صریح نہیں ہیں۔

بعض لوگوں نے أَکَادُ کو زائد برائے تاکید مان کر ترجمہ کیا ہے (قدیم مفسرین نے اس کی گنجائش بھی ذکر کی ہے)، جیسے:

”قیامت مقرر آنی ہے میں چھپا رکھتا ہوں اس کو کہ بدلا ملے ہر جی کو جو وہ کماتا ہے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”بے شک قیامت شدنی ہے۔ میں اس کو چھپائے ہی رکھوں گا تاکہ ہر جان کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے“۔ (امین احسن اصلاحی)

مفہوم کے لحاظ سے یہ ترجمہ موزوں معلوم ہوتا ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، مقاربہ کا زمانی مفہوم یہاں موزوں معلوم نہیں ہوتا۔ البتہ مقاربہ کا ایک اور مفہوم یہاں مراد ہوسکتا ہے اور وہ اس فعل کا ممکن ہونا ہے۔ جو چیز ممکن ہوتی ہے وہ بھی ایک طرح سے قریب ہوتی ہے، زمانی لحاظ سے نہیں مگر امکانی لحاظ سے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کا درج ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:  

”قیامت کی گھڑی ضرور آنے والی ہے، عین ممکن ہے کہ میں اسے مخفی رکھوں، تاکہ ہر متنفّس اپنی سعی کے مطابق بدلہ پائے“۔

اس ترجمے کی خوب صورتی واضح طور سے محسوس کی جاسکتی ہے۔

(348)  أَتَوَکَّأُ عَلَیْہَا

قَالَ ہِیَ عَصَایَ أَتَوَکَّأُ عَلَیْہَا۔ (طہ: 18)

”موسیٰؑ نے جواب دیا یہ میری لاٹھی ہے، اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں“۔ (سید مودودی)

”بولا یہ میری لاٹھی ہے اس پر ٹیکتا ہوں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے۔ اس پر میں سہارا لگاتا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)

پہلے ترجمے میں ایک کمزوری یہ ہے کہ أَتَوَکَّأُ عَلَیْہَا کا ترجمہ کیا ہے ’اس پر ٹیک لگا کر چلتا ہوں‘۔ ایک تو حضرت موسی اس وقت بوڑھے نہیں تھے کہ لاٹھی پر ٹیک لگاکر چلیں۔ دوسری بات یہ کہ اس ترجمے سے لاٹھی کا محض ایک استعمال سامنے آتا ہے، جب کہ ’ٹیک لگاتا ہوں‘ اگر ترجمہ کریں، جیسا کہ دوسروں نے کیا ہے تو ٹیک لگانے کی تمام صورتیں شامل ہوجائیں گی۔ چلنا بھی اور کھڑے ہونا بھی۔

(349) وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْکَ مَرَّۃً أُخْرَی

وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْکَ مَرَّۃً أُخْرَی۔ (طہ: 37)

”اور احسان کیا ہے ہم نے تجھ پر ایک بار“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور ہم نے تم پر ایک بار اور بھی احسان کیا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ہم نے تو تجھ پر ایک بار اور بھی بڑا احسان کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا“۔ (سید مودودی)

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں جس احسان کا تذکرہ ہے وہ کون سا احسان ہے، وہ احسان جو اَب کیا ہے، یا وہ احسان جو پہلے کیا تھا؟

سیاق کلام صاف بتارہا ہے کہ یہ ماضی میں کیے گئے احسان کا ذکر ہے۔ پہلے فرمایا: قَالَ قَدْ أُوتِیتَ سُؤْلَکَ یَامُوسَی۔ (طہ: 36)  اے موسی تم نے جو مانگا تمھیں دے دیا گیا۔ اس کے بعد وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْکَ مَرَّۃً أُخْرَی (طہ: 37)  کہہ کرماضی کا احسان یاد دلایا، اس جملے کو واو سے شروع کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک دوسرے احسان کی بات ہے۔ پھر إِذْ سے جملہ شروع کرکے اس احسان کی تفصیل ذکر کی، اگر یہ اس کی تفصیل نہ ہوتی تو یہاں إِذْ سے پہلے واو آتا: إِذْ أَوْحَیْنَا إِلَی أُمِّکَ مَا یُوحَی (طہ: 38)

(351) صنع کا ترجمہ

صنع کا جامع معنی تو ’کرنا‘ہے، ’بنانا‘ بھی اس کا ایک معنی ہے کیوں کہ وہ بھی انسانی فعل کی ایک قسم ہے۔

راغب أصفہانی نے فعل اور صنع کے درمیان لطیف فرق بیان کیا ہے:

الصنع إجادۃ الفعل، فکل صنع فعل ولیس کل فعل صنعا، ولا ینسب إلی الحیوانات والجمادات کما ینسب إلیہا الفعل۔ (المفردات)

غرض صنع کا مطلب کرنا اور بنانا دونوں ہے، ایسے میں سیاق کلام کی روشنی میں مناسب مفہوم متعین کرنا ہوتا ہے۔

ترجمہ کرتے ہوئے بعض مقامات پر اس پہلو کی رعایت نہیں ہوسکی ہے۔

درج ذیل تمام مقامات پر صنع کا مطلب کرنا ہے، بنانا یا تیار کرنا نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے یکساں تعبیروں کے الگ الگ ترجمے کیے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس نکتے کی رعایت نہیں کرسکے۔ بنانے اور کرنے میں فرق یہ ہے کہ بنانا کرنے کے مقابلے میں زیادہ محدود ہے، جب ہم ’کرنا‘ترجمہ کرتے ہیں تو وسیع تر معنی سامنے آتا ہے۔ بعض انگریزی تراجم میں بھی یہ غلطی نظر آتی ہے، جیسا کہ ذیل میں مثالیں ہیں۔ designs، contrive، handiwork جیسے الفاظ صنع کے مفہوم کو محدود کردیتے ہیں۔ deeds اور اس کے ہم معنی الفاظ زیادہ مناسب ہیں۔

(۱) وَأَلْقِ مَا فِی یَمِینِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوا إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ۔ (طہ: 69)

”اور ڈال جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے کہ نگل جاوے جو انھوں نے بنایا ان کا بنایا تو فریب ہے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”پھینک جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے، ابھی اِن کی ساری بناوٹی چیزوں کو نگلے جاتا ہے یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں یہ تو جادوگر کا فریب ہے“۔ (سید مودودی)

”اور ڈال تو دے جو تیرے داہنے ہاتھ میں ہے اور ان کی بناوٹوں کو نگل جائے گا، وہ جو بناکر لائے ہیں وہ تو جادوگر کا فریب ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور جو چیز (یعنی لاٹھی) تمہارے داہنے ہاتھ میں ہے اسے ڈال دو کہ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے اس کو نگل جائے گی۔ جو کچھ انہوں نے بنایا ہے (یہ تو) جادوگروں کے ہتھکنڈے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تیرے دائیں ہاتھ میں جو ہے اسے ڈال دے کہ ان کی تمام کاریگری کووہ نگل جائے، انہوں نے جو کچھ بنایا ہے یہ صرف جادوگروں کے کرتب ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

قابل غور بات یہ ہے کہ وہ کچھ بناکر نہیں لائے تھے، اور نہ وہیں انھوں نے کچھ بنایا تھا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی إِنَّمَا صَنَعُوا کَیْدُ سَاحِرٍ کا ترجمہ کرتے ہیں:

”جوکچھ انھوں نے کیا ہے یہ تو جادوگر کا کرتب ہے۔“

(۲) وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیہَا وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ (ہود: 16)

”اور مٹ گیا جو کیا تھا اس جگہ اور خراب ہوا جو کماتے تھے“۔ (شاہ عبد القادر)

”(وہاں معلوم ہو جائے گا کہ) جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ سب ملیامیٹ ہو گیا اور اب ان کا سارا کیا دھرا محض باطل ہے“۔ (سید مودودی، دنیا میں بنایا نہیں بلکہ کیا)

”اور اکارت گیا جو کچھ وہاں کرتے تھے اور نابود ہوئے جو ان کے عمل تھے“۔ (احمد رضا خان)

Vain are the designs they frame therein, (Yusuf Ali)
Their deeds in the world have come to naught (Maududi)

اردو میں بنایا ہے انگریزی میں deeds  کردیاہے، انگریزی والا درست ہے۔

(All) that they contrive here is vain (Pickthall)

(۳) وَلَذِکْرُ اللَّہِ أَکْبَرُ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ۔ (العنکبوت: 45)

”اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے اللہ جانتا ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو“۔ (سید مودودی)

”اور اللہ جانتا ہے جو کچھ کرتے ہو تم“۔ (شاہ رفیع الدین)

(۴) وَسَوْفَ یُنَبِّئُہُمُ اللَّہُ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ۔ (المائدۃ: 14)

”اور آخر جتادے گا ان کو اللہ جو کچھ کرتے تھے“۔(شاہ عبدالقادر)

”اور جو کچھ وہ کرتے رہے خدا عنقریب ان کو اس سے آگاہ کرے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ضرور ایک وقت آئے گا جب اللہ انہیں بتائے گا کہ وہ دنیا میں کیا بناتے رہے ہیں“۔ (سید مودودی، کرتے رہے نہ کہ بناتے رہے)

And ultimately Allah will tell them what they had contrived (Maududi)
Allah will inform them of their handiwork. (Pickthall)

(۵) وَضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا قَرْیَةً کَانَتْ آمِنَةً مُطْمَئِنَّةً یَأْتِیہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّہِ فَأَذَاقَہَا اللَّہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوا یَصْنَعُونَ۔ (النحل: 112)

”اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں“۔ (سید مودودی)

(۶) لَبِئْسَ مَا کَانُوا یَصْنَعُونَ۔ (المائدۃ: 63)

”یقینا بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کر رہے ہیں“۔ (سید مودودی، تیار کرنا موزوں نہیں ہے)

”بے شک برا کام ہے جو یہ کر رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کیا برے عمل ہیں جو کررہے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”واقعی ان کی یہ عادت بری ہے“۔ (اشرف علی تھانوی، عادت ترجمہ کرنا درست نہیں ہے)

Indeed they have been contriving evil. (Maududi)
Verily evil is their handiwork (Pickthall)

(۶) قُلْ لِلْمُؤْمِنِینَ یَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوا فُرُوجَہُمْ ذَلِکَ أَزْکَی لَہُمْ إِنَّ اللَّہَ خَبِیرٌ بِمَا یَصْنَعُونَ۔ (النور: 30)

”اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے“۔ (سید مودودی)

”اللہ کو خبر ہے جو کرتے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

(۷) إِنَّ اللَّہَ عَلِیمٌ بِمَا یَصْنَعُونَ۔ (فاطر: 8)

”جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس کو خوب جانتا ہے“۔ (سید مودودی)

”اللہ کو معلوم ہے جو کرتے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

(352) أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَی

وَلَتَعْلَمُنَّ أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا وَأَبْقَی۔ (طہ: 71)

اس جملے میں دو تعبیریں غور طلب ہیں، ایک ہے أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا، اور دوسری ہے أَبْقَی۔ أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اور موسی کے رب میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت ہے۔ کیوں کہ موسی خود عذاب دینے کے دعوے دار تو تھے نہیں، وہ تو اللہ کے عذاب سے ڈرا رہے تھے جب کہ دوسری طرف فرعون خود عذاب دینے کا دعوے دار تھا۔ اس لیے جملے کا یہ مطلب درست نہیں ہوگا کہ موسی اور فرعون میں سے کون زیادہ سخت عذاب دینے والا ہے۔ درست مطلب یہ ہوگا کہ اللہ اور فرعون میں سے کون زیادہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

اس آیت میں أَبْقَی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ اور فرعون میں سے کون زیادہ دیر تک باقی رہنے والا ہے، کیوں کہ یہ مسئلہ نہ تو زیر بحث تھا اور نہ ہی اسے ثابت کیا جاسکتا تھا۔ یہ تو فرعون کی طرف سے دھمکی تھی کہ اس کا عذاب بہت سخت اور دیرپا ہوگا۔ یہاں أَبْقَی معطوف ہے أَشَدُّ عَذَابًا پر۔ گویا أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَابًا کی طرح أَیُّنَا أَبْقَی عَذَابًا ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمے دیکھیں:

”پھر تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم دونوں میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیر پا ہے (یعنی میں تمہیں زیادہ سخت سزا دے سکتا ہوں یا موسیٰؑ)“۔ (سید مودودی، موسی نہیں بلکہ موسی کا رب مراد ہے)

”پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم (دونوں) میں اور موسیٰ میں سے کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے؟“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور ضرور تم جان جاؤ گے کہ ہم میں کس کا عذاب سخت اور دیرپا ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور تمہیں خوب معلوم ہوجائے گا کہ زیادہ سخت عذاب کرنے والا اور دیر تک رہنے والا کون ہے“۔ (ذیشان جوادی، یہاں عذاب کے دیرپا ہونے کی بات ہے)

”اور البتہ جانو گے تم کون سا ہم میں سے اشد ہے عذاب میں اور بہت باقی رہنے والا ہے“۔ (شاہ رفیع الدین، أبقی کا ترجمہ درست نہیں ہے)

”اور جان لوگے ہم میں کس کی مار سخت ہے اور دیر تک رہتی ہے“۔(شاہ عبدالقادر)


مطالعہ سنن النسائی (۱)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: سنن نسائی کے بارے میں ڈاکٹر محمود احمدغازی اپنے محاضراتِ حدیث میں لکھتے ہیں کہ صحت کے اعتبار سے بخاری و مسلم کے بعد اس کا مقام ہے۔ اس میں سب سے کم ضعیف روایتیں ہیں، رواۃ بھی بڑے مضبوط ہیں۔

عمار ناصر: جی التزام ِ صحت اس میں زیادہ ہے۔

مطیع سید: تو پھر اسے صحاح ستہ میں چوتھے یا پانچویں نمبر پر کیوں رکھا جا تا ہے ؟

عمار ناصر: وہ اصل میں معنوی افادیت کے پہلوسے ہے۔ سنن میں سب سے زیادہ اہمیت ترمذی کو ملی ہے۔ اس کی کچھ اپنی خصوصیات ہیں۔ ایک تو وہ روایت کے ساتھ حکم بھی بتا دیتے ہیں۔ اس کا مافی الباب ذکرکرتےہیں۔ پھر فقہی مذاہب بھی بیان کرتے ہیں۔ فقہی نقطہ نظر سے اس کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس کے بعد سنن ابی داود ہے جو بنیادی طور پر احادیث احکام کا مجموعہ ہے۔ اس کی فقہی اہمیت بھی بہت ہے اور امام ابوداود جو حدیث کے علل وغیرہ پر گفتگو کرتے ہیں، وہ محدثانہ نقطہ نظر سے بہت قیمتی ہوتی ہے۔ یوں سنن نسائی کی اہمیت ذرا کم ہو جاتی ہے، اگرچہ ان کا معیار صحت بلند ہے۔

مطیع سید: حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ عصر کے بعد کی دو رکعتیں نبی ﷺ نے ہمیشہ پڑھیں اور حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک بار پڑھیں، پھر نہیں پڑھیں۔ (کتاب المواقیت، باب الرخصۃ فی الصلاۃ بعد العصر، حدیث نمبر ۵۷۰، ۵۷۵) آپﷺ اپنی ازواج کے ساتھ رہتے تھے اور وہ بڑی باریکی سے ہر چیز نوٹ کرتی تھیں تو یہ اتنا بڑا اختلاف کیسے ہو سکتاہے؟

عمار ناصر: دو ہی امکان ہو سکتے ہیں۔ ازواج تو ہمیشہ ساتھ ہی رہتی تھیں، لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر روز آپ ﷺ عصر کے وقت ایک ہی جگہ ہوں۔ روایت میں ہے کہ آپ نے یہ دو رکعتیں اس وقت پڑھنی شروع کی تھیں جب آپ ﷺ کسی خاص وجہ سے ظہر کے بعد دو رکعتیں نہیں پڑھ سکے تھے تو آپ نے عصر کے بعد پڑھ لیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ آپ جو عمل شروع کرتے تو پھر اس کو ہمیشہ کرتےتھے۔ تو ممکن ہے، آپ نے ایک دفعہ یہ رکعتیں پڑھنے کے بعد اس کا تسلسل جاری رکھا ہو۔ اگر ایسا ہوا ہے تو پھر سیدہ عائشہ کی روایت واقعے کی صحیح تصویر بتا رہی ہے۔ حضرت ام سلمہ کے سامنے ممکن ہے، ایک دفعہ پڑھنے کے بعد دوبارہ ایسا موقع نہ آیا ہو۔

مطیع سید: نمازوں کے جو مکروہ اوقات ہیں، امام شافعی فرماتے ہیں کہ ان سب اوقات میں نماز جائز ہے ؟

عمار ناصر: وہ غالباً‌ بیت اللہ میں ان اوقات میں نماز کے جواز کے قائل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بیت اللہ کراہت کے حکم سے مستثنیٰ ہے۔

مطیع سید: اگر سوا پانچ بجے عصر کی جماعت ہو گئی تو اب جس نے عصر پڑھ لی ہے، وہ پانچ بج کر تیس منٹ پر بھی نفل نہیں پڑھ سکتا۔ اور جس نے عصر نہیں پڑھی، وہ ساڑھے چھ تک پڑ ھ سکتا ہے۔ تو وقت تومکروہ ہی چل رہا ہے۔

عمار ناصر: نہیں اس کا تعلق وقت سے نہیں ہے۔ یہ الگ حکم ہے۔ اصل میں عصرکے فرض پڑھ لینے کے بعد احتیاطاً‌ اس کو ناپسندکیا گیا ہے کہ نوافل پڑھے جائیں۔ یہ بنیادی طور پر وقت کے مکروہ ہونے کا مسئلہ نہیں ہے۔

مطیع سید: کہا جاتا ہے کہ ان تینوں اوقات میں سورج کی پوجا کی جاتی تھی، تو اس کے ساتھ مشابہت سے بچنے کے لیے یہ کیا جاتا ہے۔

عمار ناصر: یہاں دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ایک ہیں وہ تین متعین اوقات، یعنی سورج کے طلوع کا وقت، نصف النہار کا وقت اور ایک جب سورج غروب ہو رہا ہو۔ ان تین اوقات میں تو مطلق ممانعت ہے۔ عین ان اوقات میں نماز پڑھنا، اس کی حکمت سورج کی عبادت کی مشابہت سے بچنا ہے اور اس وقت فرض ادا کرنا بھی درست نہیں۔ دوسرا حکم الگ ہے، وہ یہ کہ آپ نے فجر پڑھ لی تو اس کے بعد آپ سورج کے طلوع ہونے تک نوافل نہ پڑھیں۔ دو الگ الگ حکم ہیں۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ (کتاب الامامۃ، باب کم مرۃ یقول استووا، حدیث نمبر ۸۰۹) یہ آپ ﷺ کا معجزہ تھا یا ویسے ہی آپ نے مجازاً‌ فرمایا ؟

عمار ناصر: دونوں پر محمو ل کر سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ مجھے پتہ چل جاتا ہے کہ تم پیچھے کیا کر رہے ہوں۔ ممکن ہے، آپﷺ باقاعدہ پیچھے بھی دیکھ لیتے تھے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپﷺ کی مراد یہ ہو کہ مجھے معلوم ہو جاتاہے۔

مطیع سید: جماعت میں شر کت نہ کرنے پر ایک روایت میں بڑی سخت وعیدآئی ہے جس میں آپﷺ نے ان لوگوں کا گھر جلانے کے بارے میں بات کی ہے جو بلاعذر جماعت میں شریک نہیں ہوتے۔ (کتاب الامامۃ، باب التشدید فی التخلف عن الجماعۃ، حدیث نمبر ۸۴۴) اتنی سخت وعید کے باوجود فقہا اسے فرض یا واجب کی بجائے سنت موکدہ قرار دیتے ہیں ؟

عمار ناصر: اس وعید کا سیاق یہ بتاتا ہے کہ وہاں دراصل فی نفسہ باجماعت نماز کا حکم نہیں بیا ن کیا جا رہا۔ اصل میں منافقین کے کچھ گروہوں کا ذکر ہو رہا ہےجن کے، جماعت میں شرکت نہ کرنے کی باقاعدہ قرآن نے بھی شکایت کی ہے۔ ان کے بارے میں آپ ﷺ یہ فرما رہے ہیں کہ انہوں نے ایک عادت بنالی ہے، یعنی وہ ایک تسلسل سے جماعت میں شرکت نہیں کررہے۔ ایک عام مسلمان کا رد عمل تو یہ ہوگا کہ وہ ضرور جماعت میں آئے گا۔ کسی وجہ سے نہیں آسکا، کچھ سستی ہو گئی یا ایک آدھ جماعت چھوٹ گئی ہے تو یہ اور چیز ہے۔ تبصرہ اصل میں ان لوگوں پر ہو رہا ہے جو ایک اجتماعی شعار سے مسلسل رو گردانی کر رہے تھے۔ قرآن نےبھی اسی لیے ان کے بارے میں کہا ہے۔ واذا قاموا الی الصلاۃ قاموا کسالیٰ اور اس طرح کی دیگر آیات بھی ہیں۔

مطیع سید: آپ نے اس روایت کا سیاق بیان فرمایا ہے، وہ کہاں سے لیا ہے ؟

عمار ناصر: روایت میں بھی شواہد ہیں اور جیسے میں نے کہا، قرآن سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

مطیع سید: قنوت سے متعلق باب میں ایک روایت میں ہے کہ خلفائے راشدین نے (فرض نمازوں میں) دشمن کے خلاف دعائے قنوت نہیں پڑھی اور یہ بدعت ہے۔ (کتاب التطبیق، باب ترک القنوت، حدیث نمبر ۱۰۷۶) لیکن آپ نے ایک مرتبہ فرمایا تھاکہ حضرت علی اور امیر معاویہ کے مابین جو جنگیں ہوئیں، ان میں وہ دونوں قنوت پڑھتے تھے۔

عمار ناصر: امام نسائی کا مطلب یہ ہے کہ معمولاً‌ نہیں پڑھی۔ نبیﷺ نے بھی معمولاً‌ نہیں پڑھی۔ صحابہ کا معمول بھی نہیں رہا، لیکن اہم مواقع پر ان سے ثابت ہے۔

مطیع سید: حضرت حکیم کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد کیا کہ میں قیام کی حالت سے ہی سجدے میں جاوں گا۔ (کتاب التطبیق، باب کیف یحنی للسجود، حدیث نمبر ۱۰۸۰) اس سے کیا مراد ہے ؟

عمار ناصر: مراد یہ ہے کہ رکوع سے اٹھنے کے بعد جب تک بالکل سیدھا کھڑا نہ ہو جاوں، سجدے میں نہیں جاوں گا۔ یہ تعدیل ارکان کی ہدایت ہے جو اور بھی بہت سی حدیثوں میں بیان ہوئی ہے۔

مطیع سید: یہ اونٹ کی طرح نماز میں بیٹھنے کی پوزیشن کیا ہو سکتی ہے جس سے منع کیا گیا ہے؟ (کتاب التطبیق، باب اول ما یصلی الی الارض من الانسان فی سجودہ، حدیث نمبر ۱۰۸۶)

عمار ناصر: اس کے متن میں ایسا لگتا ہے کہ کچھ خلل واقع ہو گیا ہے۔ الفاظ کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ سجدہ میں جاتے ہوئے اونٹ کی طرح اعضاء زمین پر نہ رکھا کرو، یعنی پہلے ہاتھ زمین پر رکھو اور پھر گھٹنے رکھو۔ اب اونٹ جب بیٹھتا ہے تو وہ پہلے اگلی ٹانگیں زمین پر بچھاتا ہے۔ اس لحاظ سے جملہ یوں ہونا چاہیے کہ پہلے گھٹنے زمین پر رکھو اور اس کے بعد ہاتھ رکھو۔ دیگر روایات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ کرنے کا طریقہ بھی یہی بیان ہوا ہے۔ (کتاب التطبیق، باب اول ما یصلی الی الارض من الانسان فی سجودہ، حدیث نمبر ۱۰۸۵) فطری طور پر بھی یہی بات درست لگتی ہے کہ آپ پہلے اپنے گھٹنے نیچے رکھیں، نہ یہ کہ پہلے ہاتھ رکھیں۔

مطیع سید: لیکن بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر آپ ہاتھ پہلے رکھیں گے تو سجدے کی حالت میں جلدی چلےجائیں گے، یعنی اللہ کی طرف جھکاؤ جلدی ہو جائے گا۔

عمار ناصر: نہیں، نماز میں فطری طریقے پر انتقال ہوتا ہے۔ زیادہ فطری طریقہ یہی لگتا ہے کہ پہلے گھٹنے رکھے جائیں، پھر ہاتھ اور پھر سر رکھا جائے۔

مطیع سید: ان روایتوں میں جو اختلاف ہے، اس میں آ پ کا نقطہ نظر کیا ہے؟

عمار ناصر: میں نے ان کےطرق کی تحقیق تو نہیں کی۔ میں تو ایک کامن سینس کی بات کر رہاہوں۔ فطری ترتیب یہی لگتی ہے کہ آ پ سجدے میں جائیں تو جو اعضا آ پ کے زمین کے قریب ہیں، پہلے ان کو زمین پر رکھیں۔

مطیع سید: امام نسائی نے ایک باب میں نماز میں دائیں بائیں دیکھنے کی بھی رخصت لکھی ہے، (کتاب السہو، باب الرخصۃ فی الالتفات فی الصلاۃ یمینا وشمالا، حدیث نمبر ۱۱۹۷) لیکن ہمارے ہاں تو اس کی اجازت نہیں دی جاتی۔

عمار ناصر: احادیث میں بلا ضرورت ادھر ادھر دیکھنے کو نماز میں شیطان کا حصہ کہا گیا ہے۔ البتہ کسی ضرورت کے تحت یا غیر ارادی طورپر دیکھ لیا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، اگرچہ بہتر یہی ہے کہ چہر ے کو سیدھا ہی رکھا جائے۔ عام لوگوں کو فقہی مسائل بتانے میں کچھ سختی کی جاتی ہے۔

مطیع سید: ایک موقع پر ظہر کی پانچ رکعتیں پڑھانے کے بعد آپ ﷺ نے چھٹی رکعت نہیں ملائی، بلکہ سجدہ سہو کر لیا (کتاب السہو، باب ما یفعل من صلی خمسا، حدیث نمبر ۱۲۵۰)، جبکہ فقہا کہتے ہیں کہ اگر آپ نے غلطی سے پانچ پڑھ لی ہیں تو اب چھٹی ملانی ضروری ہوگی تا کہ پہلی چار فر ض بن جائیں اور باقی دو نفل بن جائیں۔

عمار ناصر: اس میں اہم بات یہ ہے کہ نبی ﷺ کو پانچ رکعتیں پڑھا دینے یعنی نماز مکمل کر لینے کے بعد یہ معلوم ہوا تھا۔ تو اس سے فرق پڑ جاتا ہے۔ اگر آپ کو نماز میں خود ہی پتہ چل گیا ہے کہ ایک رکعت زائد ہو گئی ہے تو پھر یہ قیاس ٹھیک لگ رہا ہے کہ ایک اور رکعت ملا کر دو زائد رکعتیں کر دی جائیں۔ لیکن اگر آپ کو بعد میں پتہ چلتا ہے تو پھر حدیث کے مطابق یہ بھی کافی ہے کہ اب ایک مزید رکعت پڑھنے کے بجائے بس سجدہ سہو کر لیا جائے۔

مطیع سید: جمعہ کے خطبے کے دوران میں ایک آدمی بیٹھنے لگا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیٹھو نہیں، بلکہ نماز پڑھو (کتاب الجمعۃ، باب الصلاۃ یوم الجمعۃ لمن جاء والامام یخطب، حدیث نمبر ۱۳۹۶)جبکہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ خطبہ سننا واجب ہے، اس کے دوران نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔

عمار ناصر: اس بارے میں محدثین اور فقہا میں بحث ہے کہ کیا آپ ﷺ کا مقصد اس واقعے میں لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھیں، یعنی اصل مقصد نماز پڑھوانا تھا، یا کوئی اور وجہ تھی۔ احناف کا کہنا ہے کہ وہ ایک غریب آدمی تھا، اس کی حالت ایسی تھی کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نماز پڑھو تاکہ لوگ اس کی حالت کو دیکھ لیں اور اس کے بعد آپ نے لوگوں کو اس پر صدقہ کرنے کی ترغیب بھی دی۔ احناف کی یہی رائے ہے کہ وہ ایک خاص واقعہ تھا۔ اس کے علاوہ اور کہیں نہیں ملتا کہ آپ نے لوگوں کو خطبے کے دوران میں نماز کے لیے کہا ہو۔ اصل میں لوگوں کو اس شخص کی حالت کی طرف متوجہ کرناتھا۔ البتہ یہ حکم عربی خطبے کا ہے جو فقہاء کے نزدیک نماز کی دو رکعتوں کے قائم مقام ہے۔ اردو میں جو تقریر کی جاتی ہے، اس کا فقہی طور پر یہ نہیں ہے۔ اس دوران میں نماز ادا کی جا سکتی ہے۔

مطیع سید: عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ صلوۃ الخوف کی ایک رکعت فرض کی گئی ہے۔ (کتاب صلاۃ الخوف، باب صلاۃ الخوف، حدیث نمبر ۱۵۲۸) اس کے کیا معنی ہیں؟

عمار ناصر: وہ غالباً‌ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اگر سفر میں صلوۃ الخوف ادا کی جائے تو دو رکعتوں میں سے مقتدیوں کو امام کے ساتھ ایک ہی رکعت ملتی ہے، دوسری رکعت وہ خود اپنے طور پر پڑھتے ہیں۔

مطیع سید: صلوۃ الکسوف کے اتنے زیادہ طریقے منقول ہیں۔ کیا سورج گرہن کا واقعہ ایک ہی دفعہ ہوا تھا یا کئی دفعہ؟

عمار ناصر: عموماً‌ یہی مانا جاتا ہے کہ آپ کے دور میں ایک ہی دفعہ سورج کو گرہن لگنے کا واقعہ پیش آیا۔ اس لیے یہ سوال اہم ہے کہ جب یہ ایک ہی دفعہ کا واقعہ ہے تو روایات میں اتنا اختلاف کیسے پیدا ہوگیا۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ آپ نے کافی لمبا رکوع کیا تھا اور لوگ بار بار اٹھ کر دیکھتے تھے کہ آپ رکوع سے اٹھے یا نہیں، اس لیے راویوں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ دیگر حضرات کہتے ہیں کہ نہیں، آپ نے واقعی ایک سے زائد رکوع کیے تھے۔

مطیع سید: نماز وترکے بارے میں فرمایا کہ جس کا جی چاہے، ایک رکعت پڑھ لے اور جس کا جی چاہے، بس اشارہ کر دے۔ (کتاب قیام اللیل وتطوع النہار، باب ذکر الاختلاف علی الزہری فی حدیث ابی ایوب فی الوتر، حدیث نمبر ۱۷۰۹) اس کا کیا مطلب تھا ؟

عمار ناصر: بظاہر مطلب یہ بنتا ہے کہ وتر کو ترک نہ کرے، اگر باقاعدہ کھڑے ہو کر پڑھنے کو جی نہ چاہ رہا ہو تو بے شک بیٹھے یا لیٹے ہوئے اشارے سے ہی پڑھ لے۔ لیکن شارحین نے اور معنوں پر بھی محمول کیا ہے۔ مثلاً‌ یہ کہ اس سے مراد بیمار آدمی ہے جو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر وتر نہ پڑھ سکتا ہو۔ اس کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس حالت میں بھی چاہے اشارے سے وتر پڑھ لے، لیکن ضرور پڑھے۔

مطیع سید: یہ جو وتر کی پانچ یاسات رکعتیں ہیں، کیا یہ ایک ہی سلام کے ساتھ پڑھی جاسکتی ہیں ؟

عمار ناصر: جی، روایات میں منقول ہے کہ آپ ﷺ تہجد میں یہ سب رکعات اکٹھی پڑ ھ کر آخر میں سلام پھیر دیتے تھے۔

مطیع سید: یہ پانچ یا سات رکعتیں وترہیں یا یہ تہجد کی نماز کا حصہ ہے ؟

عمار ناصر: روایات میں وتر کا استعما ل مختلف معنوں میں ہواہے۔ بحیثیت مجموعی پوری نماز تہجد کو بھی وتر کہا گیا ہے، کیونکہ دو دو رکعتیں پڑھتے ہوئے آخر میں آپ ایک یا تین رکعت ملائیں تو اس سے پوری نماز طاق ہو جاتی ہے۔ لیکن دوسرے لحاظ سے دیکھیں تو وہ ایک رکعت یا تین رکعتیں جو طاق تعداد میں پڑھی گئیں، دراصل وہی وتر ہوتی ہیں۔ اس سے فقہا اور محدثین میں بحث پیدا ہوگئی کہ وتر ایک الگ نماز ہے جو تہجد کے آخر میں اس کے ساتھ ملا لی جاتی ہے یا نماز ِتہجد کو ہی مجموعی طور پر وتر کہا گیا ہے۔ چونکہ جو لوگ آخر شب میں نہ اٹھ سکیں، ان کو نماز وتر سونے سے پہلے ادا کر لینے کی تاکید آئی ہے تو اس سے اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ایک مستقل نماز ہے۔

مطیع سید: اگر کوئی آدمی عشا کی نماز کے بعد وتر سے پہلے چار یا چھ نوافل پڑھے اور ان کو خود پر لازم کر تو کیا اس کی نماز تہجد شمار ہو جائے گی ؟

عمار ناصر: تہجد کی نماز تو رات کے کسی حصے میں اور زیادہ افضل یہ ہے کہ پچھلے پہر میں نیند سے بیدار ہو کر ادا کی جاتی ہے۔ عشاء کے فوراً‌ بعد پڑھنے سے نوافل کا اجر ملے گا، لیکن یہ تہجد کی نماز شمار نہیں ہوگی۔

مطیع سید: ظہر سے پہلے اور بعد کی رکعتوں میں بڑا اختلاف ہے کہ یہ دو رکعتیں تھیں یا چار۔

عمار ناصر: آپﷺ کا معمول مختلف رہا ہے۔ اس لیے فقہا فرق کر تے ہیں۔ جو رکعتیں آپ ﷺ نے معمولاً‌ پڑھیں اور جن کی آپ ﷺ نے اہتمام سے تاکید بیان کی، وہ موکدہ ہیں اور ان کے علاوہ جو ہیں، وہ غیر موکدہ ہیں۔

مطیع سید: یہ موکدہ نبی ﷺ کی سنت تھیں۔ آپ ﷺ نے ان کی ترغیب دلائی، لیکن ان کے چھوڑنے پر کوئی وعید بیان نہیں فرمائی۔ تو یہ جو کہا جاتا ہے کہ جو کوئی انہیں چھوڑے گا، وہ گنہگار ہوگا، کیا یہ بات ٹھیک ہے ؟

عمار ناصر: مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ بات فقہی مفہوم میں اتنی نہیں کہی گئی جتنی کہ عام لوگوں کے مزاج اور نفسیات کو ملحوظ رکھ کر کہی گئی ہے۔ فقہی مفہوم میں یہ بات نہیں بنتی۔ سنن موکدہ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔ اس میں بھی احادیث میں ترغیب کا ہی انداز آیا ہے۔

مطیع سید: ایک حدیث کے مطابق ہر بچہ فطرت ِ اسلام پر پیداہوتا ہے۔ لیکن حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے کہ انصار کا ایک بچہ وفات پا گیا تو سیدہ عائشہ نے کہا کہ وہ جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں، ایسے نہ کہو۔ کیا پتہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو۔ (کتاب الجنائز، باب الصلاۃ علی الصبیان، حدیث نمبر ۱۹۴۳)

عمار ناصر: اس میں پہلی بات تو یہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ جزا وسزا اور اخروی انجام کے معاملات متشابہات کی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں جب ان کا ذکرکیا جاتا ہے تو قانون الٰہی کی کسی قطعی یا حتمی وضاحت کے بجائے انسانوں کو کوئی بات یا رویہ سکھانا مقصود ہوتا ہے۔ تو جو بات کہنی مقصود ہو، اس پر نظر رکھنی چاہیے۔ اس حدیث میں وہ بات یہ ہے کہ ہم کسی انسان کے بارے میں، چاہے وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، کوئی حتمی رائے نہ دیں۔ یہ چیز ہم سے متعلق نہیں ہے۔ وہ اللہ کا دائرہ اختیار ہے کہ وہ اس بچے کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔ جہاں تک حدیث میں بیان کیے گئے حکم کا تعلق ہے تو روایتوں میں کل مولود کے الفاظ ہیں، لیکن کیا اس سے واقعتا ً‌ عموم ہی مراد ہے، اس کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ احادیث میں یہ مسئلہ عموماً‌ پیش آتا ہے۔ کئی جگہ الفاظ عموم کے ہوتے ہیں، وہ عموم کلی نہیں ہوتا۔

تو یہ دیکھنا چاہیے کہ اگر کوئی عام قاعدہ بیان ہوا ہے تو پھر آپ کو یہ کہنا پڑے گا کہ اس میں بعض استثنا ءات ہیں۔ عموم ہو تو اس میں بھی استثنا ہوتے ہیں۔ مثلاً‌ حضرت خضر نے جس لڑکے کو قتل کر دیا، اس کے بارے میں روایت میں آتاہے کہ وہ پیدائشی کافر تھا۔ قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ وہ بچہ بڑا ہو کر والدین کو اپنی سرکشی اور کفر سے مصیبت میں ڈال دے گا تو اس بچے کو اللہ نے واپس لے لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اخروی انجام کے فیصلوں میں اس کا بھی ایک حد تک عمل دخل ہوگا کہ اللہ کے علم کے مطابق اگر کسی کو بلوغت تک زندگی ملتی تو اس کا عمل اور کردار کیا ہوتا۔ اسی پہلو سے انصار کے اس بچے کے متعلق بھی آپ نے فرمایا کہ اس کے حتمی انجام کے بارے میں کوئی بات کہنا خلاف احتیاط ہے، اس سے گریز کرنا چاہیے۔

مطیع سید: امام نسائی نے قبر ستان میں چپل پہننے کی ممانعت اور اجازت کے بارے میں دو حدیثیں نقل کی ہیں اور ان سے اخذ کرتے ہیں کہ سبتی چپل پہننا مکروہ ہے، لیکن ان کے علاوہ دوسرے چپل پہنے جا سکتےہیں۔ (کتاب الجنائز، باب کراہیۃ المشی بین القبور، حدیث نمبر ۲۰۴۴، باب التسہیل فی غیر السبتیۃ، حدیث نمبر ۲۰۴۵) یہ سبتی چپل کیا ہے اور اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: سبتی چپل چمڑے سے بنی ہوئی ایک خاص چپل تھی جو اس دور میں پہنی جاتی تھی۔ قبرستان میں یہ چپل نہ پہننے اور دوسری کوئی چپل پہننے کی اجازت کی بات دراصل حدیث میں نہیں آئی، بلکہ یہ امام نسائی نے اپنی طرف سے ایک تطبیق دی ہے۔ کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے کسی شخص کو سبتی چپل پہن کر قبروں کے درمیان پھرتے دیکھا تو اس سے کہا کہ ان کو اتار دو، جبکہ دوسری حدیث میں ذکر ہے کہ دفنانے والے جب دفنا کر واپس جاتے ہیں تو مردے کو ان کی چپلوں کی چاپ سنائی دیتی ہے۔ امام نسائی نے اپنے فہم کےمطابق یوں تطبیق دی ہے کہ سبتی چپل نہ پہنی جائے لیکن دوسری کوئی چپل پہنی جا سکتی ہے۔

مطیع سید: آپ ﷺ کا گزر دو قبروں پر ہوا جنھیں عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کوئی بڑا گناہ نہیں کیا تھا، بلکہ ایک چغلی کرتا تھا اور دوسرا اپنے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا۔ (کتاب الجنائز، باب وضع الجریدۃ علی القبر، حدیث نمبر ۲۰۶۴) کیا چغلی کوئی چھوٹا گنا ہ ہے ؟

عمار ناصر: مراد یہ ہے کہ بظاہر دیکھنے میں وہ کسی بڑے معاملے میں مبتلا نہیں تھا، لیکن حقیقت میں یہ بڑا گناہ ہے۔

مطیع سید: سماعِ موتی کے بار ے میں صحابہ میں کوئی اختلاف تھا ؟ حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ مردے نہیں سنتے؟ (کتاب الجنائز، باب ارواح المومنین، حدیث نمبر ۲۰۷۲)

عمار ناصر: ام المومنین حضرت عائشہ کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کی جوروایتیں ہیں وہ ظاہر پر نہیں ہیں، کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ انک لا تسمع الموتیٰ۔ حضرت عمر اور دیگر صحابہ کا یہ خیال تھا کہ ایسا ہی ہے جیسا بظاہر بدر کے مو قع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرکین جو قتل ہو چکے ہیں، میری بات تم سے زیادہ سن رہے ہیں۔

مطیع سید: تو اب آ کریہ بات زیادہ سنگین کیوں بنا دی گئی ہے، جبکہ صحابہ میں بھی یہ اختلاف تھا؟

عمار ناصر: صحابہ کے ہاں اس اختلاف کی نوعیت کلامی یا اعتقادی اختلاف کی نہیں تھی۔ متاخرین کے ہاں آ کر یہ چیزیں باقاعدہ کلامی اعتقادات و تعبیرات کی شکل اختیار کر لیتی ہیں، اس سے شدت اور سنگینی پیدا ہو جاتی ہے۔

مطیع سید: کیا اگرکوئی عمرہ کرے تو اس پر حج فرض ہو جاتا ہے ؟

عمار ناصر: استنباطی چیزوں میں حالات کا کا کافی دخل ہوتا ہے۔ پرانے دور میں فقہا نے یہ لکھا کہ جو آدمی عمرے کے لیے چلا گیا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی استطاعت ثابت ہو گئی۔ غالباً‌ اس کا مفہوم یہ نہیں ہوگا کہ اب وہ بے شک واپس چلا جائے، لیکن حج کرنے کے لیے دوبارہ لازماً‌ آئے۔ مطلب یہ ہوگا کہ اب جب وہ آ چکا ہے تو پھر حج کرکے جائے۔ اس زمانے کے سفر کے لحاظ سے آپ دیکھیں تو یہ بات قابل فہم بنتی ہےکہ آپ تین ماہ کا سفر کرکے آئے ہیں اور تین ماہ واپسی پر لگیں گے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ لمبے عرصے کے لیے انتظام کر کے آئے ہیں تو پھر آپ کو حج کرکے ہی جانا چاہیے، دوبارہ معلوم نہیں، موقع ملتا ہے یا نہیں ملتا۔ لیکن اس کو آپ آج کے حالات پر بعینہ منطبق نہیں کر سکتے۔ اب عمرے اور حج کے اخراجات میں بہت فرق ہے۔ صرف عمرے کے اخراجات کا بندوبست کر لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے پاس حج کے اخراجات بھی مہیا ہو گئے ہیں۔

مطیع سید: بعض لوگ اس مسئلے کو آج بھی ایسے ہی بیا ن کرتے ہیں۔

عمار ناصر: جی، وہ لفظاً‌ اس جزئیے کو لے لیتے ہیں، لیکن وہ ٹھیک نہیں لگتا۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حج اور عمرے دونوں کے لیے لبیک کہا، یعنی حج تمتع کرنا چاہا تو حضرت عثمان نے منع کیا۔ حضرت علی نے فرمایا کہ میں کسی کی وجہ سے نبی ﷺ کی سنت نہیں چھوڑ سکتا۔ (کتاب مناسک الحج، باب القران، حدیث نمبر ۲۷۱۹) یہ کیا اختلاف تھا؟

عمار ناصر: یہ صحابہ میں بحث رہی ہے کہ ایک ہی سفر میں حج او رعمرہ دونوں ادا کرنے چاہییں یا نہیں۔ اس بارے میں صحابہ کے دونوں رجحان رہے ہیں۔ نبی ﷺ نے حج تمتع کیا تھا۔ بعض صحابہ مثلاً‌ حضرت عمر اور حضرت معاویہ سمجھتے تھے کہ اس کی اجازت تو ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ جب لوگ حج کے لیے جائیں تو احرام باندھنے کے بعد پھر تبھی اس کی پابندیوں سے آزاد ہوں جب حج مکمل کر لیں۔ اگر وہ عمرے کے بعد احرام کھول لیں گے تو پابندیاں بھی اٹھ جائیں گی۔ یوں حج کے سفر میں وہ پابندیوں کے بغیر کچھ دن گزاریں گے جو مناسب بات نہیں۔ اس خیال کے تحت وہ لوگوں کو منع کرتے تھے کہ تمتع نہ کریں۔ لیکن دیگر اکابر صحابہ نے ان کی رائے قبول نہیں کی۔

مطیع سید: یعنی یہ دونوں آپشن باقی رہنے چاہییں؟

عمار ناصر: یہ اجتہادی بحث ہے۔ ایک پہلو سے حضرت عمر کی رائے کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تمتع کی رخصت تو دی ہے، لیکن اس کے ساتھ قربانی دینا یا روزے رکھنا ضروری قرار دیا ہے۔ یہ گویا کفارہ ادا کرنے کی ایک صورت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ممکن ہے، حضرت عمر اسی کے پیش نظر لوگوں کو روکنا چاہتے ہوں۔

مطیع سید: کیا خاص طور پر محرم کے لیے شکار کیے گئے جانور کا گوشت کھانا جائزہے ؟ ایک حدیث میں ہے کہ اگر محرم کے لیے جانور شکار کیا جائے تو اس کا کھانا اس کے لیے حلال نہیں۔ (کتاب مناسک الحج، باب اذا اشارا لمحرم الی الصید فقتلہ الحلال، حدیث نمبر ۲۸۲۴)

عمار ناصر: اس پر فقہا کے درمیان بحث ہے اور روایتیں بھی دونوں طرح کی موجود ہیں۔

مطیع سید: آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ آپ ﷺ نے انصار کی عورتوں سے شادی کیوں نہیں کی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان میں بہت زیادہ غیر ت ہوتی ہے۔ (کتاب النکاح، باب المراۃ الغیراء، حدیث نمبر ۳۲۳۰) غیرت ہونے کے کیا معنی ہیں ؟

عمار ناصر: عربی میں غیرت کا مطلب ہوتا ہے، رقابت محسوس کرنا۔ مراد یہ ہے کہ میری تو بہت سی بیویاں ہیں اور بیویوں میں رقابت فطری ہے، لیکن انصار کی خواتین میں رقابت کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ گویا آپ کو خدشہ تھا کہ انصاری عورت جو نکاح میں آئے گی، وہ خود بھی اذیت میں پڑی رہے گی اور آپ کے لیے بھی پریشانی کا موجب بنے گی۔

مطیع سید: جو آدمی اپنی بیوی کی باندی سے ہم بستری کر لے تو اگر بیوی نے اسے اس کی اجازت دی ہو تو اس کو سو کوڑے لگائے جائیں گے اور اگر اجازت نہ دی ہو تو اسے سنگسار کیا جائے گا۔ (کتاب النکاح، باب احلال الفرج، حدیث نمبر ۳۳۵۷) یہ کیا معاملہ ہے؟

عمار ناصر: اگر بیوی نے اجازت دی ہو تو اس میں ایک طرح کا شبہ آ جاتا ہے کہ گویا اس نے اپنی لونڈی شوہر کی ملکیت میں دے دی ہے۔ اس وجہ سے اسے زنا کی سنگین سزا نہیں دی جائے گی، یعنی رجم نہیں کیا جائے گا بلکہ سو کوڑے لگائے جائیں گے۔

مطیع سید: حضرت عمر نے اپنے بیٹے کو کہا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دےدے، یہ کس بنیا د پر آپ نے حکم دیا؟انہیں ایسی کیا خامی نظر آئی؟

عمار ناصر: روایت میں وجہ تو بیان نہیں ہوئی۔ محدثین قیاسات ہی کرتےہیں کہ کوئی معقول وجہ ہوگی۔ کوئی بات ان کی طبیعت و مزاج کے مطابق نہیں ہوگی۔ خیال یہی ہے کہ حضرت عمر خواہ مخوہ ایسی بات کہنے والے نہیں تھے۔ ویسے بھی ثقافت کا فرق ہوتا ہے۔ عربوں کے ہاں طلاق ہو جانا کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں تھا۔

مطیع سید: ابھی بھی شاید ایسا ہی ہے۔

عمار ناصر: جی اب بھی ایسا ہی ہے۔ ہمارے کلچر میں تو یہ ہے کہ طلاق ہو گئی تو گویا زندگی بر باد ہو گئی۔ عرب کلچر میں ایسا نہیں ہے۔

مطیع سید: اسی طرح ایک روایت حضرت ابراہیم ؑ کی ملتی ہے کہ وہ کچھ عرصے کے بعد حضرت اسماعیل کو ملنے آئے تو وہ شکار پر نکلے ہوئے تھے۔ ان کی اہلیہ سے آپ ؑ نے پوچھا کہ کیسے حالات ہیں ؟انہوں نے حالات کی شکایت کی تو حضرت ابراہیم نے بیٹے کو دہلیز بدلنے کے اشارے سے اسے طلاق دینے کا مشورہ دیا۔

عمار ناصر: اگر واقعہ کی پوری تفصیل یہی ہے تو ٹھیک ہے، انہوں نے بیٹے کو پیغام دیا کہ آدمی کے گھر میں ایسی خاتون کو ہونا چاہیے جو شکرگزار ہو۔

مطیع سید: لعان کے بعد طلاق خود بخود واقع ہو جائے گی یا دینی پڑے گی ؟

عمار ناصر: احناف کے ہاں یہ ہے کہ یا تو شوہر طلاق دے گا یا قاضی تفریق کرے گا، خود بخود نہیں ہوگی۔ دوسرے فقہا یہ کہتے ہیں کہ خود بخود تفریق ہو جائے گی۔

مطیع سید: ان کے مابین تفریق ہمیشہ کے لیے ہو جائے گی؟

عمار ناصر: جمہور کی رائے یہی ہے۔ احناف اس میں بھی گنجائش دیتے ہیں کہ اگر شوہر اپنے اس الزام سے رجوع کرلے اور تائب ہو جائے تو دوبارہ نکاح ہوسکتاہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے عبد الرحمن بن زبیر کی بیوی سے فرمایا کہ جب تک تم اور تمھارا شوہر ایک دوسرے کا مزہ نہ چکھ لو، تم اس سے طلاق لے کر اپنے پہلے شوہر رفاعہ کے لیے حلال نہیں ہو سکتیں۔ (کتاب الطلاق، باب احلال المطلقۃ ثلاثا، حدیث نمبر ۳۴۰۸) سوال یہ ہے کہ آپﷺ کیسے فرما رہے تھے کہ تم جب تک ایک دوسرے کا مزا نہ چکھ لو۔ شادی ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا اور یقیناً‌ وہ اس مرحلے سے گزر چکے ہوں گے۔

عمار ناصر: یہ بات تو اس عورت نے خود ہی آ کر کہی تھی کہ شوہر جماع کے قابل نہیں ہے۔ اس پر آپ نے یہ جواب دیا۔ تفتیش سے آپ ﷺ کو اطمینان ہو گیا تھا کہ وہ غلط کہہ رہی ہے۔ خاوند بھی آیا اور اس نے بھی اپنا موقف بیان کیا اور اس کی بات سے آپﷺ مطمئن ہو گئے۔ آپﷺ کو معلوم ہو گیا کہ یہ عورت جھوٹا بہانہ بنا کر نکاح ختم کرنا چاہ رہی ہے تاکہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کر لے۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر اس مقصد کے لیے طلاق لینا چاہ رہی ہو وہ تب تک پورا نہیں ہو سکتا جب تک موجودہ شوہر کے ساتھ ہم بستری نہ ہو جائے۔ اس سے گویا آپ ﷺ اس عورت کو اس کے اپنے ہی الفاظ کا پابند بنا کر طلاق لینے سے روکنا چاہ رہے تھے۔

مطیع سید: یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دوسرے شوہر کے پاس آئی ہی اسی مقصد کے لیے ہو۔

عمار ناصر: یہ بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے نکاح ہی اسی نیت سے کیا ہو کہ میں بعد طلاق لے لوں گی۔

مطیع سید: ایک عورت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا۔ جب اس کے پاس گئے تو اس نے کہااعوذ باللہ منک۔ میں آپ سے اللہ کی پناہ میں آتی ہوں)۔ اس پر آپﷺ نے اس کو طلاق دے دی۔ (کتاب الطلاق، باب مواجہۃ الرجل المراۃ بالطلاق، حدیث نمبر ۳۴۱۴) یہ کون تھی اور اس نے آنحضرت ﷺ کو ایساکیوں کہا ؟جبکہ وہ جانتی تھی کہ آپ پیغمبر ِ اسلام ہیں اور میں ان کی بیوی ہو ں، پھر ایسا کہنا بڑا عجیب لگتا ہے۔

عمار ناصر: اس عورت کا نام اور واقعہ کی تفصیلات مختلف روایات میں مختلف بیان ہوئی ہیں۔ بعض میں ہے کہ آپﷺ کو اس کے جسم پر کوئی داغ نظرآیا۔ بعض میں ہے کہ خود اس نے کراہت کا اظہارکیاتو آپﷺ نے فرمایاکہ اچھا اگر یہ بات ہے تو ٹھیک ہے۔ آپ نے طلاق دے دی۔ بعض روایات میں یوں ہے کہ وہ ایسا کہنا نہیں چاہتی تھی، لیکن اس کی سہیلیوں نے اسے کہاکہ اگر ایسے کہو گی تو آپ کی نظر میں تمہاری وقعت بڑھ جائے گی۔ اب ان ساری روایات کی روشنی میں واقعے کی جو صورت معقول دکھائی دیتی ہو، وہ تصور کی جا سکتی ہے۔

مطیع سید: حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے کی انگوٹھی سے منع کیا، لیکن میں یہ نہیں کہتا کہ تم کو بھی اس سے منع فرمایا۔ (کتاب الزینۃ، باب خاتم الذہب، حدیث نمبر ۵۱۸۵) تو کیا یہ صرف ان کے لیے ممنوع تھی ؟

عمار ناصر: یعنی ان کا فہم یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ہمیں یعنی اہل ِبیت کو اس سے منع فرمایا ہے۔ اہل بیت کے ذرا خاص احکام تھے۔ نبی ﷺ ان کو ایک خاص معیار پر دیکھنا چاہتے تھے۔ تو حضرت علی کا فہم یہ ہے کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ حکم عام ہے اور تم پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اس قول کو فقہا نے قبول کیا ؟

عمار ناصر: فقہا کی عمومی رائے تو مردوں کے لیے سونے کے ممنوع ہونے کی ہے اور بہت سی احادیث میں بھی یہی بات آئی ہے۔ حضرت علی کی روایات میں سے بعض میں یہ ہے کہ آپ نے انھیں شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع کیا۔ (کتاب الزینۃ، باب خاتم الذہب، حدیث نمبر ۵۱۸۵)اب اس میں تحقیق کی ضرورت ہے کہ اس روایت کے طرق جمع کیے جائیں اور دیکھا جائے کہ کیا یہ دو الگ الگ ہدایات تھیں یا اصل میں کسی خاص انگلی میں انگوٹھی پہننے کا ذکر تھا اور راوی نے قیاس سے سونے کی انگوٹھی کا ذکر کر دیا۔

مطیع سید: حدیث میں ہے کہ اب نبوت کا کوئی حصہ باقی نہیں رہ گیا، سوائے مبشرات کے اور مبشرات کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ کسی آدمی کو کوئی خواب دکھا دیا جائے۔ یہ جو "الا المبشرات" والی روایت ہے، اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ الہام، کشف اور القا وغیر ہ کی کوئی حقیقت نہیں جو صوفیہ بیان کرتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ میں تو بڑا واضح حصرہے کہ مبشرات کے علاوہ اور کچھ باقی نہیں رہا۔

عمار ناصر: روایت میں جو کہا گیا ہے "الاالمبشرات"، اس سے قطعی حصر اخذ کرنا درست نہیں۔ اس میں دیکھنا یہ چاہیے کہ کیا چیز ہے جس کے متعلق بات کی جا رہی ہے۔ جب حدیث کے مجموعی ذخیرے کو ہم دیکھتے ہیں تو اس سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ بظاہر بات بڑی حصر کے ساتھ ہو رہی ہوتی ہے، لیکن وہ ایک خاص سیاق میں ہوتی ہے جو متکلم کے ذہن میں ہوتا ہے۔ متکلم کے ذہن میں ایک سیاق ہے اور سننے والوں کے ذہن میں بھی وہ موجود ہوتا ہے، اس میں بات کی جا رہی ہوتی ہے۔ تو یہ بھی دیکھناچاہیے۔ آپﷺ فرمارہے ہیں کہ نبوت کے اجزا ختم ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے، یہاں نبوت سے مراد وہ چیزیں نہیں جو انبیا ہی کے ساتھ خاص ہوتی ہیں، ان کے علاوہ کسی کو نہیں دی جاتیں۔ اس سے مراد ایسے امور ہیں جن میں انبیاء کے علاوہ دوسرے مقربین بھی شریک ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کے ساتھ رابطہ یا ان تک پیغام پہنچانا یہ ایک عمل ہے جو اصلا ً‌انبیا ؑ کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ دوسرے لوگو ں کے ساتھ بھی اکراماً‌ یہ معاملہ کر سکتے ہیں۔ انھی کے متعلق آپ فرما رہے ہیں کہ اب نبوت تو ختم ہو گئی ہے اور صرف مبشرات باقی رہ گئے ہیں اور اس کی تشریح میں مثال کے طور پر خواب کا ذکر کر دیا گیا ہے۔

اب خواب کے علاوہ بھی رابطے اور پیغام رسانی کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک الہام کی تو کوئی بھی نفی نہیں کرتا کہ انسان کے دل میں فرشتوں کے ذریعے سے کوئی خیال ڈال دیا جائے یا آپ اللہ سے دعا مانگتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک کیفیت آپ کے دل پر طاری کر دی جاتی ہے۔ استخارہ توایک مستقل چیز ہے تو ان چیزوں کی کوئی نفی نہیں کرتا۔ ہاں، صوفیہ ان معنوں میں بھی الہام کا دعویٰ کرتے ہیں کہ فرشتوں کا انسانوں کے ساتھ تخاطب ہوتا ہے یا کشف کی صورت واقع ہوتی ہے جن میں کچھ پردے ہٹا دیے جاتے ہیں۔

مطیع سید: کشف و الہام کے بارے میں صوفیہ، خاص طورپر ابن عربی وغیرہ بہت کچھ کہتے ہیں اور اس سے بہت بڑے بڑے حقائق اور نظریات اخذ کرتے ہیں۔

عمار ناصر: کشف اورالہام کو ایک مستقل ذریعہ علم قرار دینا اور اس کی بنیاد پر آرا اور نظریات اور نظام علم قائم کرنا، یہ تو میرے خیال میں تجاوز ہے۔ لیکن جزوی طور پر یہ کسی طریقے سے ہو جائے تو اس کی نفی شاید نہیں کی جا سکتی۔

مطیع سید: لیکن یہ جو صوفیا اپنے مشاہدات لکھتے ہیں کہ ہم نے سلوک کی منازل میں ایسے دیکھا، یوں مشاہدات ہوئے، ان کی کیا حقیقت ہے؟

عمار ناصر: ہو سکتا ہے، ان کو واقعتاً‌ کسی حقیقی عالم کا ایسا تجربہ ہوتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ موضوعی اور Subjective قسم کی کیفیات طاری ہو جاتی ہوں۔ یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔

مطیع سید: یہ چیزیں صحابہ اور تابعین میں نظر نہیں آتیں۔

عمار ناصر: شاہ ولی اللہ نے لکھا ہے کہ تصوف کے تین چار ادوار ہیں۔ چوتھے دور میں آ کر یہ چیزیں یعنی کشف وغیر ہ زیادہ عام ہوئی ہیں۔ ہر دور کی اپنی کچھ خصوصیات ہیں۔ خاص طبائع اور مزاج ہیں۔ یہ جو بہت غیر معمولی ذرائع علم سے استفاد ہ ہے، یہ اسی چوتھے دور میں جا کر ہوا ہے۔

مطیع سید: شاہ صاحب اس پر نقد بھی کرتے ہیں ؟

عمار ناصر: نہیں، شاہ صاحب چو نکہ خود اسی ذوق کے ہیں، اس لیے نقد نہیں کرتے۔

مطیع سید: وہ کئی دفعہ لکھتے ہیں کہ مجھے یہ دکھایا گیا یا مجھے یہ کہا گیا۔

عمار ناصر: جی، فیوض الحرمین میں اور دیگر کتابوں میں، ان کے اس قسم کے کافی مشاہدا ت ہیں۔


دوسرا حصہ


مولانا عتیق الرحمن سنبھلیؒ کی صحافت

(ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ کے حوالے سے)

محمد اویس سنبھلی

بلند پایہ مصنف، مفسر قرآن، تعلیم و تربیت اور خدمت دین کے مثالی پیکر، صاحب طرز صحافی، نیزگمشدہ بہار کی آخری یادگار مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ۲۳/جنوری ۲۰۲۲ء کو طویل علالت کے بعد انتقال فرماگئے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون۔  

 مولانا عتیق الرحمن سنبھلی آزاد ہندوستان کے اُن اہم دینی علماء سے تھے جنہوں مسلمانوں کی فکر کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ آزادی کے محض ۱۱-۱۰/ برس بعد جو سنگین مسائل مسلمانوں کے سامنے آکھڑے ہوئے، اس کا تصور، آج کے حالات میں بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے سخت ترین حالات میں جن علماء اور دانشوران قوم نے مسلمانوں کی بروقت اور صحیح رہنمائی کی، اُن میں ایک نام مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کابھی ہے۔

مولانا نے اپنی زندگی کا بڑاحصہ مطالعہ و مشاہدہ اور تصنیف و تالیف میں صرف کیا۔ کم و بیش ۶۵/برس تک مسلسل ان کا قلم پوری توانائی کے ساتھ چلتا رہا۔ان کی پوری زندگی اشاعت دین میں بسر ہوئی اس کے علاوہ کوئی دوسرا مشغلہ تھا ہی نہیں۔ ان صفحات میں مولانا کی حیات و خدمات کے اس گوشے کا احاطہ پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جس کا تعلق ہفت روزہ ”ندائے ملت“سے ہے۔


گذشتہ صدی کی چھٹی دہائی کا زمانہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سخت ابتلا و آزمائش کا تھا۔ تقسیم ہندکے نتیجے میں اپنوں کے جدا ہونے کا بوجھ تو دل پر تھا ہی، ساتھ ہی ۶۰/ کی دہائی میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ پھوٹ پڑا۔ہر طرف مایوسی کا عالم تھا، کہیں سے کوئی ایسی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی جو مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والی یا ان کو ڈھارس بندھانے والی ہو۔ ایسے مشکل وقت میں ماہنامہ’الفرقان‘کے ایڈیٹر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے قلم سے اس موضوع پر دو تین اداریے نکلے، توان کے چھوٹے بھائی حفیظ نعمانی مرحوم نے ان سے کہا کہ’بھائی صاحب اس کے لیے تو ایک ہفت روزہ کی ضرورت ہے‘۔حفیظ صاحب کے یہ جملے مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کے دل کوچھو گئے۔ انھوں نے  ہم مزاج دوست ڈاکٹر اشتیاق قریشی سے ذکر کیا۔جب دونوں کی رائے ایک ہوگئی تومولانا محمد منظور نعمانیؒ اور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی سرپرستی میں ’ندائے ملّت‘ کے نام اے ایک ہفت روزہ نکالنے کا اعلان کردیا گیا۔’ندائے ملت‘کا اجراء۱۲/مارچ ۱۹۶۲ کو ہوا۔اس کے بانی ایڈیٹر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، معاون ایڈیٹر ڈاکٹر محمد آصف قدوائی اور پرنٹر پبلشر  حفیظ نعمانی تھے۔ ندائے ملت کے اجرا سے متعلق مولانا سنبھلی نے اپنی کتاب’راستے کی تلاش‘ میں لکھا ہے:

”ندائے ملت کا اجراء مسلمانوں کی ملکی زندگی سے متعلق مسائل کے لیے ہوا ہے۔ اس بارے میں جو اپنے خیالات ہیں ’الفرقان‘ کے دائرے اور دامن کی وسعت کی حد تک وہ برابر ناظرین’الفرقان‘ تک پہنچتے رہے ہیں۔ لیکن’الفرقان‘ کی خاص دینی اور اصلاحی نوعیت کی بنا پر یہ خیالات ایک خاص دینی حلقے ہی تک محدود رہتے تھے۔ اس چیز نے سوچنے پر مجبور کیا کہ ایک ایسی نوعیت کا پرچہ ہو جس سے اس حلقے سے باہر کے افرادِ ملت بھی دلچسپی لے سکیں۔’ندائے ملت‘کا اجراء اسی احساسِ ضرورت کا نتیجہ ہے...“ (راستے کی تلاش از مولانا عتیق الرحمن سنبھلی، صفحہ ۷-۶، ۱۹۹۳ء)

مولاناؒ کے نزدیک اس وقت کے حالات تقاضا کررہے تھے کہ ملت کا جو عنصر، حال اور مستقبل کے ان خطروں کے خلاف ملت کی جو خدمت انجام دے سکتا ہے، اس میں دریغ کو ایک ناقابل معافی گناہ سمجھے اور اپنا سب کچھ اس راہ میں جھونکنے کے لیے تیار ہوجائے۔مولاناؒ کے اپنے ان خیالات اور اس درد و کرب کے آزادنہ اظہار کا ذریعہ ماہنامہ ’الفرقان‘تھا، اور اس کا ایک محدوددائرہ تھا، جو صرف دینی ذہن رکھنے والے افراد پرمشتمل تھا۔ان تمام حالات اور واقعات کا جائزہ لینے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک ہفت روزہ نکالا جائے۔ لہٰذا ایک منجھی ہوئی ٹیم کے ساتھ ’ندائے ملت‘ کے نام سے ہفت روزہ کا اجرا عمل میں آیا۔ اخبار کا تجربہ صرف حفیظ نعمانی صاحب کے پاس تھا کہ وہ اس سے قبل روزنامہ’تحریک‘ (لکھنؤ)کے نام سے نکال چکے تھے۔ ان کا اپنا پرنٹنگ پریس بھی تھا، جس میں اردو اخبارات چھپنے کے لیے آتے رہتے تھے۔ انھیں کے مشورہ پر الہ آباد سے حسن واصف عثمانی، پٹنہ سے ظہیر صاحب کو بلایا گیا۔کچھ عرصہ بعد جمیل مہدی بھی ندائے ملت کے شعبہ ادارت سے وابستہ ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ ندائے ملت کسی کی ذاتی ملکیت نہیں تھا بلکہ یہ”ندائے ملت ٹرسٹ“ کے تحت شائع ہورہا تھا۔ مولانامحمد منظور نعمانی ؒ اور مولانا علی میاں ندویؒ اس کے سرپرست اور مالیات کی فکر کرنے والے تھے۔ ان دونوں بزرگان دین کی قیادت میں ضرورت کے تحت چند حضرات نے بنام خدا اس کا بیڑا اُٹھا لیا تھا۔ ان حضرات نے اپنی ذات سے  سرمایہ کی فراہمی کا آغاز کرکے دوسرے اہل درد و فکر اورملت کے محبین و مخلصین کو دعوت دی کہ وہ پہلے سال کاچندہ بطور خاص سوسو روپے عطا فرما کر اس کام میں معاون و مددگار بنیں۔

۱۲/مارچ ۱۹۶۲ء میں بنام خدا اخبار کا آغاز کردیا گیا۔ندائے ملت کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا تو اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے جن چار ملی شخصیات کے پیغامات شائع ہوئے، ان میں حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی، حضرت مولانا سعید احمد اکبرآبادی، حضرت مولانا معین الدین احمدندوی اور ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی کے نام شامل تھے۔

ملت کے جو افراد بنیادی خریداری کی استطاعت رکھتے تھے، انھوں نے ندائے ملت کے مقاصد سے اتفاق اور بانیان اخبار پر اعتماد کا اظہارکیا اور اخبارکے بانی خریدار بنے۔ندائے ملت کا اجرا اس وقت کسی جہاد سے کم نہ تھا۔یہی سبب تھا کہ ندائے ملت کا پہلا شمارہ ایک ہزار کی تعداد میں شائع ہوا جوپورے ملک میں بطور نمونہ بھیج دیا گیا، مگر اس کے تین ہی دن کے اندر اندر جو مانگ پیدا ہوئی تو دو ہزار کاپیاں مزید چھاپیں، حتی کہ یہ بھی ختم ہوگئیں اور پھر تیسرا اڈیشن بھی چھاپنا پڑا۔مولانا عتیق الرحمن سنبھلی لکھتے ہیں:

”الحمد للہ ندائے ملت کا اجراء عمل میں آگیا... اس کی ادارت کی ذمہ داری بھی اس ہیچ مداں کے سر ہے...جن بلند مقاصد اور جس اُونچے معیار کے ساتھ اخبار کا اجراء تجویز کیا گیا تھا۔اپنی بے بضاعتی اور صحت کی کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے تصور نے بڑا فکر مند بنا رکھا ہے۔لیکن اس کار ساز کا کیسے شکریہ ادا کیا جائے کہ پہلے ہی پرچہ کا اپنی زیادہ سے زیادہ توقع سے بڑھ کر استقبال ہوا...اور دوسرے کے بارے میں اس سے بھی بہتر آثار نظر آرہے ہیں۔“ (ماہنامہ الفرقان، شوال۱۳۸۱ھ مطابق ۱۹۶۲ء صفحہ ۵)

ندائے ملت جن ہاتھوں میں پہنچا، انھوں نے اس کا استقبال ایک اخبار کی طرح نہیں، ایک ایسی تحریک کی طرح کیا، جو ملت کے اضطراب انگیز مسائل کے لیے شروع کی گئی ہو۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ہندوستان میں امت مسلمہ کے مسائل پر ایک طویل اور مسلسل اضطراب ہی کی وجہ سے کاغذ اور قلم کی اس دنیا میں آئے، جسے صحافت کی دنیا کہا جاتا ہے، ورنہ اس سے قبل تووہ صرف ماہنامہ الفرقان کی ادارت سے وابستہ تھے۔مولانا کے ایک اداریہ کا کچھ حصہ یہاں نقل کرتے ہیں کہ اس میں ان واقعات و حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے، جن کے سبب ’ندائے ملت‘ کا اجرا عمل میں آیا۔ مولانا سنبھلی تحریر کرتے ہیں:

”ندائے ملت کی اشاعت کا آغاز ۲۱/مارچ ۲۶ء سے ہوتا ہے، اس کے محرک وہ واقعات و حالات تھے جو فروری ۱۶ء سے اکتوبر ۱۶ء تک ایک خاص تسلسل کے ساتھ ملک میں رونما ہوئے۔ یعنی جبل پور کے ہولناک بلوے، مسلم کنونشن کاآغاز اور انجام، نیشنل انٹگریشن تحریک اور پھر علی گڑھ اور میرٹھ کے فرقہ وارانہ ہنگامے۔ان واقعات سے تین باتیں سامنے آئیں۔

(۱)    ملک کی اکثریت کے فرقہ پرست عناصر بہت طاقتور پوزیشن میں آچکے ہیں اور مسلمانوں کے بارے میں ان کی نفرت آمیز ذہنیت جارحیت کی بالکل آخری حدوں تک چلے جانے میں نہ کوئی باک ہے نہ رکاوٹ۔

(۲)  مسلمان پست ہمتی اور مرعوبیت کی اس حد تک جاچکے ہیں کہ دستوری حیثیت سے برابر کے شہری ہونے کے باوجود عملی طور سے وہ رفتہ رفتہ دوسرے درجہ کے شہری کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر راضی ہوسکتے ہیں۔

(۳)  کانگریس اور حکومت کے بڑے بڑے صاف ذہن اور انصاف پسند رہنما بھی اب حالات کے دباؤ سے ہندو مسلم مسئلہ کا حل اس طرح سوچنے لگے ہیں کہ مسلمان اکثریت کی خواہشات سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرلیں اور ہندوستانی قومیت کا جو تصور فرقہ پرستوں کے ذہن میں ہے، اس سے جنگ کی کوشش ترک کردیں۔“ (ندائے ملت،۳مئی /۱۹۶۳ء)

ان حالات میں ندائے ملت شروع ہوا اور اس نے پہلے روز سے اپنے لیے جو راستہ منتخب کیا آخر تک سرمنھ انحراف کی نوبت نہیں آئی۔پہلے شمارہ کے اداریے سے’ندائے ملت‘ کی فکر اور طریقہ کار کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ ملاحظہ ہو:

وقت ہمیشہ سے اتنا تیز رفتار رہا ہے کہ ایک لمحہ کی چوک نے بھی لوگوں کو مدتوں رُلایا ہے۔ فارسی کا بہت مشہور شعر ہے  ؎

رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم وصد سالہ را ہم دُور شد

لیکن جب زمانہ بھی تیز رفتار ہوجائے اور قومیں چلنے کے بجائے دوڑ رہی ہوں تب تو وقت کے ہر ہر لمحہ کی قیمت بہت ہی بڑھ جاتی ہے۔

ہمارا دور اسی تیز رفتاری کا دور ہے، جس میں قومیں چل نہیں رہیں دوڑ رہی ہیں اور زندگی کی جدوجہد برسوں کے فاصلے لمحوں میں طے کررہی ہے۔ اس تیز رفتار اور گزیز پا زمانہ میں اگر کوئی قوم تھوڑی دیر کے لیے بھی زندگی کی کشمکش سے الگ ہوکر تلووں کے کانٹے چننے اور چوٹیں سہلانے میں لگی رہ جائے تو اس ذرا سی دیر میں ہی مدتوں کے لئے اس کی راہ کھوٹی ہوسکتی ہے، اور یہ ذرا سی ہی غفلت اسے اس صورت حال سے دوچار کرسکتی ہے کہ اب راستے بند ہیں، اب انتظار کرو کہ وقت خود ہی کوئی کروٹ بدلے اور تمہارے لیے جدوجہد کی راہ کھلے۔

منقسم ہندوستان کے پانچ کروڑ مسلمانوں کو تقسیم کے حادثے سے جو چوٹیں آئیں اور جو پریشانیاں، ناانصافیاں اور حق تلفیاں ایک عرصہ دراز کے لیے ان کا مقدر بن گئیں، وہ اثر لینے کی چیز ضرور تھیں۔ انسان کیا، ہر جاندار کی فطرت ایسی بنی ہے کہ وہ چوٹ سے درد محسوس کرے لیکن چوٹوں ہی کو دیکھتے رہنا، رونا اور چلانا اور مرثیہ گوئی میں پڑے رہنا اور مداوا کی فکر نہ کرنا یہ انسان کی حقیقی فطرت نہیں، یہ ایک مرض ہے جسے ناسمجھی، بے عملی اور کم ہمتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جن قوموں میں زندگی کی توانائی ہوتی ہے، شعور اور فکر کی قوتیں بیدار ہوتی ہیں اور دنیا میں زندگی کا راز اُن کی نگاہوں پر فاش ہوتا ہے، وہ بڑی سے بڑی چوٹیں کھا کربھی سہلانے کے لئے بیٹھ نہیں سکتیں۔ ان کا وقت مرثیہ گوئی میں صرف نہیں ہوتا اور ایک منٹ کے لئے بھی میدان عمل سے ہٹ جانے کو پسند نہیں کرتیں، وہ اگر توقف کرتی ہیں تو صرف یہ سوچنے کے لیے کہ انھوں نے چوٹ کیوں کر کھائی اور کیا سبب تھا کہ ان کو چوٹ آئی اور دوام ہی کی حالت میں ان کا ذہن اس جائزے میں مصروف ہوتا ہے۔ اور پھر ذرا سا بھی وقت برباد کیے بغیر آگے کے لیے کچھ فیصلہ کرکے سرگرم عمل ہوتی ہیں، یہی قومیں ہوتی ہیں جن کے زخم بھی بھرجاتے ہیں اور صحت سے بھرپور زندگی کا نیا سروساماں بھی انھیں فراہم ہوجاتا ہے۔

ہم ہندوستان کے مسلمانوں کو اعتراف کرنا چاہئے کہ ہم نے اس تیز رفتار دور کے وقت کا بڑا عظیم سرمایہ ماتم آرائی اور درد و الم کی دہائی میں برباد کردیا، مگر ہماری بڑی خوش قسمتی اور محض تائید ایزدی ہے کہ وقت نے ہمارے لیے کچھ کرلینے کے دروازے کسی نئی کروٹ تک کے لیے بند نہیں کئے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ہماری مسلسل بے عملی نے مسائل و مشکلات کو، قدرتی طور پربڑھنے اور پھیلنے کا موقع دے دیا ہے اور اس کی وجہ سے راہیں قدرے تنگ اور دشوار گزار ہو چکی ہیں۔ تاہم جس قدر بھی گنجائش باقی ہے وہ بہت کچھ ہے اور فکر و عمل کی پوری طاقتوں سے کام لے کر اسی بقیہ وقت اور بقیہ گنجائشوں میں گزارے ہوئے وقت اور نکلے ہوئے مواقع کی تلافی بھی کی جاسکتی ہے۔

ملک کے تیسرے عام انتخابات نے جہاں یہ بتایا کہ ملک کی اکثریت کا رجحان مسلم دشمن طاقتوں کے نظریات کی طرف بڑھا ہے وہاں اس حقیقت کو بھی سب کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے کہ مسلمان بیلنس پاور ہیں۔ اپنے ملک کی سیاسی ترازو میں وزن کا گھٹاؤ بڑھاؤ ان کے ہاتھ میں ہے۔ ملک کی سب سے بڑی فرقہ پرست پارٹی ’جن سنگھ‘ کو اس الیکشن میں کامیابی کی بہت زیادہ توقع تھی اور دوسرے سیاسی عناصر کو بھی اس کا بڑا خطرہ نظر آرہا تھا مگر جن سنگھ کو اس بات کا اعتراف ہے کہ اس کی توقع کو بڑی حد تک مسلمانوں نے پورا نہیں ہونے دیا۔ حتی کہ بعض وہ مقامات جو جن سنگھ کا گڑھ بن گئے تھے وہا ں جب مسلمانوں نے طے کر لیا کہ جن سنگھ کو ہر قیمت پر ناکام کرنا ہے تو ایسی شکست فاش اس پارٹی کے حصہ میں آئی کہ ہر شخص حیران رہ گیا، اور جن سنگھی اپنا سر پیٹ کر رہ گئے۔

اسی فیصلہ کن طاقت کا اندازہ کرکے حزب مخالف کی بعض پارٹیوں نے جن کو ہندو ووٹوں کی کچھ خاص توقع نہیں تھی اپنی انتخابی مہم زیادہ تر ایسے اندا ز پر چلائی جس میں صاف طور پر مسلم ووٹروں کو پرچانے کا منشا جھلکتا تھا، سوشلسٹ پارٹی کے رہنما ڈاکٹر رام منوہر لوہیا اور موجودہ چیرمین راج نرائن سنگھ کی انتخابی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو بہت نمایاں طور پر یہ عنصر ملے گا۔ ڈاکٹر لوہیا نے تو وہ آخری بات کہہ دی جس کو خود مسلمان بھی تصور میں نہیں لا سکتے تھے، انھوں نے کہا کہ ہندوستان کا صدر ایک دفعہ مسلمان ہونا چاہئے اور ایک دفعہ ہندو۔۔۔کوئی مسلمان بھی آج کے ہندوستان میں اس بات کو سوچ سکتا ہے؟ مگر ڈاکٹر لوہنا نے برسر عام یہ بات کہی اور گویا یہ وعدہ کیا کہ ان کی پارٹی اگر برسراقتدار آجائے تو صدارت کا یہی اصول رہے گا۔

اسی طرح برجا سوشلسٹ لیڈروں کی نظر بھی مسلمانوں پر رہی اور کافی باتیں ان کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی کی گئیں جس کو ہندو پسند نہیں کرسکتا تھا، سوتنتر پارٹی نے تو بقول جواہر لال نہرو قرآن پاک کو بیچ میں ڈال دیا۔اور اردو کی دہائی دے کر مسلمانوں کو قریب کرنے کی کوشش کی، حالانکہ اس پارٹی کے بانی رہنماؤں میں وہ کے -ایم-منشی جی بھی ہیں، جن کے کرم اُترپردیش میں اُردو کو آج بھی یاد ہیں اور ہندمیں مسلمانوں کی تاریخ پر ان کے قلم کی عنایتیں ایک غیر محتسم سلسلہ رکھتی ہیں۔ رہ جاتی ہے کانگریس، تو اس نے بھی مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے پر اس قدر زور دیا کہ مسلمانوں سے متعلق اُس کے انتخابی نعرے تمام مخالف پارٹیوں کے لیے بلائے بے درماں بن گئے اور ہر پارٹی اس سوہان روح میں مبتلا تھی کہ ان نعروں کے ذریعہ کانگریس تمام مسلم وو ٹ کھینچ لے جائے گی۔ایک’جن سنگھ‘ رہ جاتی تھی جو مسلمانوں کے ووٹ کی توقع نہیں رکھ سکتی تھی لیکن ان ووٹوں سے صرفِ نظر وہ بھی نہیں کرسکی چنانچہ اس نے اس مسئلہ کا دوسرا حل تلاش کیا اور وہ یہ کہ جہاں بن پڑا کسی آزاد مسلمان کو کھڑا کیا یا کسی پارٹی کے نام نہاد ممبروں میں سے کسی مسلمان کو آلہئ کار بنایا اور وہ پارٹی سے ٹکٹ حاصل کرکے کھڑا ہوگیا تاکہ اسلام کے نام پر مسلمان ووٹوں کو کاٹ کر ناکارہ کردیا جائے۔

الغرض ملک کے تیسرے الیکشن نے یہ حقیقت کھول کر رکھ دی ہے کہ مسلمان یہاں ایسی عدد ی طاقت کے مالک ہیں جس سے اگر تدبیر کے ساتھ کام لیا جائے تو ملک کی نئی تعمیر پر نمایاں اثر ڈالا جاسکتا ہے اور ملک کی زندگی کا کوئی نقشہ ان کی جائز خواہشات کو نظر انداز کرکے نہیں بن سکتا ہے۔ لیکن وہی بات کہ تدبیر اور ہوشمندی شرط ہے۔ اگر یہ شرط پوری نہ ہو تو پھر وہ پتوں کی طرح ہیں جو بے گنتی ہو کر بھی بے وزن ہی رہتے ہیں۔

ندائے ملت کا اجراء بنیادی طور پر صرف اسی ایک مقصد کے لیے ہوا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان ملک کے حالات کو واقعی صورت میں دیکھیں، اپنے مقام اور اپنی حیثیت کو سمجھیں اور جہد و عمل کا جس قدر بھی میدان ان کے لیے آج باقی ہو اس میں پورے جوش اور ولولہ کے ساتھ اُٹھ کروہ رہِ عمل اختیار کریں جس پر چل کر پوری اسلامیت کے ساتھ اپنا مستقبل بھی بنا سکیں اور ملک کے لیے بھی ایک قابل قدر عنصر ثابت ہوسکیں۔

ندائے ملت، کو ملت کے صرف مشترک مسائل و مفادات سے مطلب ہوگا اور کسی بھی جماعتی اور گروہی حد بندی سے کوئی سروکار نہ ہوگا۔ یہ کسی جماعت یا محدود گروہ کا ترجمان نہیں بلکہ مشترک ملی معاملات میں تمام مسلمانوں کے اتحاد کی راہیں ہموار کرنا، اور انھیں گروہی طرز فکر سے بلند کرنے کی کوشش کرنا، اس کا نصب العین ہے......خدا سے دعا ہے کہ ان مقاصد میں کامیاب کرے اور ”ندائے ملت“ کو ملت کی نشاۃ ثانیہ کا ذریعہ بنا دے۔ وَمَا ھُوَ عَلَی اللّٰہ بِعَزِیْزَ۔  (ہفت روزہ ’ندائے ملت‘، جلد ۱، شمارہ ۱، ۲۱/مارچ ۲۶۹۱ء، صفحہ ۳)

اس اداریے کے مطالعہ سے یہ سمجھنا آسان ہوجاتا ہے کہ کن بنیادوں پر ’ندائے ملت‘ کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ندائے ملت نے اپنے پہلے ہی شمارے کے ٹائٹل پر الجزائر کے شہید مسلمانوں کی قربانیوں کی ایک جھلک پیش کرتے ہوئے نشور واحدی کا یہ مصرعہ لگایا تھاکہ ”مٹی کو لہو دے کے چمن ہم نے بنایا“۔ اور اس کے نیچے الجزائر کے شہیدوں کی ایک تصویر شائع کی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح فرانسیسیوں نے شہیدوں کے سر کاٹ کر ڈھیرلگادئے۔ ندائے ملت کا یہ ٹائٹل بہت پسند کیا گیا،حضرت مولانا عبدالرب صاحب صوفیؒ کی ایک مختصر نظم ندائے ملت کے دوسرے شمارے میں شائع ہوئی جس کا عنوان تھا’ندائے ملت کا ٹائٹل دیکھ کر‘۔ نظم ملاحظہ ہو:

اے ندائے ملت حق! مرحبا صد مرحبا
قوم کو پیغامِ بیداری ہے ہر صفحہ ترا
صفحہئ اول پہ لیکن درج ہے کتنا حسیں
الجزائر کے شہیدوں کے لہو کا ماجرا
الجزائر کے شہیدوں کے سروں کے ڈھیر کا
دیکھ کر فوٹو تڑپ اُٹھا دل درد آشنا
یہ سروں کے ڈھیر کی تصویر ناجائز نہیں
زندہ جاوید ہیں گو یہ شہیدان جفا
اے مسلمانان عالم! اے مسلمانان ہند!
درس لو ان سے حیاتِ حریت آگاہ کا

(ہفت روزہ ندائے ملت، شمارہ ۲/جلد ۱، صفحہ ۵)

ندائے ملت نے صحافت کے جس معیار کو پہلے دن اپنے لیے قائم کیا تھا، ۱۹۶۸ء تک انھیں بنیادی مقاصد کو پکڑ کر کامیابی کی منازل طے کرتا رہا۔ ندائے ملت کی جرأت و ہمت، حق گوئی اور بیباکی کے سلسلہ میں سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ یہی سبب تھا کہ ہرسال کم وبیش چار پانچ مقدمات کاحکومت اُترپردیش کی جانب سے ا خبار کے ایڈیٹر کو سامنا کرنا پڑتا تھا، لیکن ان سب کے باوجود وہ اپنی بات حق گوئی اور بیباکی کے ساتھ پیش کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے تھے، اور جس طرح کی زبان اپنے اداریوں میں استعمال کرتے تھے، آج کے حالات میں وہ نہ صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے بلکہ ان کے گھر پر بلڈوزر اپنا کمال دکھا چکا ہوتا۔ ۱۹۶۲ء کے ابتدائی مہینوں میں مالدہ (بنگال) میں کشت و خون کا دور شروع ہوا۔ سیکڑوں کی تعداد میں مسلمان موت کے گھاٹ اُتار دیے گئے۔ مسلمانوں کا خون بہا اور ساری مصیبتیں بھی انھیں پر ٹوٹیں۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے۴/مئی ۱۹۶۲ء کے اداریے میں حالات کا جائزہ لینے کے بعد مسلمانوں کے خون کو گرمادینے والا اور صحیح معنوں میں رونگٹے کھڑے کردینے والا پیغام دیا۔ اس اداریہ کا کچھ حصہ یہاں نقل کیا جارہاہے تاکہ سند رہے:

...ہم ماتم کے قائل نہیں، ہاں ہمیں اس کا ضرور رنج ہے کہ مسلمانوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ کتّے اور بلیوں کی طرح مارے جاتے ہیں، یہ سننے میں کیوں نہیں آتا کہ انھوں نے بھی درندہ صفت حملہ آوروں اور غنڈوں کو منھ توڑ جواب اور کچھ سبق دیا اور دس مارے گئے تو اپنی حفاظت کا قانونی حق استعمال کرتے ہوئے دوچار کو انھوں نے بھی ٹھکانے لگا دیا؟ شاید مسلمان جان کی خیر مناتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ جواب دینے میں اور قیامت ٹوٹے گی۔ پولیس کو بھی اپنی رائفلوں کے جوہر دکھانے کا موقع ملے گا اور پھر پکڑدھکڑ کی ذلتّیں الگ اُٹھانی پڑیں گی۔ لہٰذا ہاتھ باندھ کر مار کھاتے رہو۔ ہم مسلمانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں یہ خیر منانے کی ذہنیت اُنھیں تباہ کرکے رکھ دے گی۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس معاملہ میں ناہل یا بے بس ثابت ہوچکی ہیں۔ مسلمان اگر اب تک نہیں سمجھے ہیں تو اب سمجھ لیں کہ اپنے وجود کی حفاظت انھیں خود کرنی ہے۔ بے شک عام دنوں میں اس کا طریقہ کار یہ ہوچاہئے کہ اپنے علاقوں کے امن پسند اور شریف غیرمسلموں سے رابطہ پیدا کرکے انھیں جارحیت پسندوں کے خلاف محاذ پر لائیں لیکن جب اس کے باوجود اُن پر نرغہ ہوجائے اور انھیں کو بھگتنا پڑے تو ہر شخص مرنے کی ٹھان لے، اس انداز سے جو موتیں ہوں گی وہ اگر ایک کی جگہ سو ہوجائیں تو اس ایک موت سے اچھی ہیں جو خیر مناتے ہوئے واقع ہو۔ اس کے نتیجہ میں اگر پولیس او رحکام کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا نشانہ بھی بننا پڑے تو اس سے بھی ذلّت اور پریشانیوں کا تصور کرکے گھبرانے کی ضرورت نہیں،اسے اپنی قوم کی فلاح و بقا کے لیے ایک مزید قربانی تصور کرکے پوری ہمت سے گوارا کرنا چاہئے اور جیلوں کو بھر دینا چاہئے۔

اس طرح کی موتیں مسکینوں اور بے کسوں کی موتیں نہیں سمجھی جائیں گی کہ اُن پر مرثیے پڑھے جائیں، نہ اُس کے بعد کی پریشانیوں کو ذلتیں گردانا جائے گا کہ اُن پر آہیں بھری جائیں، اُن سے زندگی کا شرار پیدا ہوگا، یہ ایک قابل فخر نقشِ قدم بنے گا...

اور تاریخ اسے جانبازی و قربانی کا نام دے گی۔

ہمیں چڑ ہوتی ہے جب ہم ہندوستانی مسلمانوں کے متعلق بے کسی، مجبوری اور مظلومی کے الفاظ سنتے ہیں، مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج ان کے اندر سے یہی الفاظ اُن پر صادق آتے ہیں۔ کاش اُن کا انداز بدلے اور یہ الفاظ ان کے متعلق اب کبھی سننے میں نہ آئیں۔ ہمیں اپنے اخبارات سے بھی بے حد شکایت ہے کہ وہ اس قسم کے واقعات پراس طرح مرثیے پڑھتے ہیں اور مسلمانوں کو مجبوراور لاچار کہہ کر اس قدر مجبوری اور بیچارگی کا احساس دلاتے ہیں کہ کسی میں جان پر کھیل جانے کا حوصلہ بھی ہو تو اس کا دل بھی بیٹھ کر رہ جائے۔ یہ روش ترک ہونی چاہئے۔ مسلمانوں کے لیے ہرگز کوئی مجبوری و لاچاری کی بات نہیں ہے۔ ہاں! وہ خود ہی زندہ درگزر ہونا چاہیں، یا ان کے رہنما اُن پر مجبوری و لاچاری کا احساس طاری کردیں تو بلا شبہ ذلّت کی موت کے سوا اُن کا کوئی انجام نہیں!

(ہفت روزہ ’ندائے ملت‘، جلد ۱، شمارہ ۷، ۴/مئی ۲۶۹۱ء، صفحہ۲)

ندائے ملت اپنے عہد شباب (۱۹۶۲ء تا ۱۹۶۸ء) میں اپنی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے شائع ہوتا رہا۔اس کی ایک اہم خصوصیت یہ رہی کہ یہ جریدہ مسلمانانِ ہند کی نمائندگی جس شان اور بیباکی کے ساتھ کرتا رہا وہ آزاد ہندوستان میں بس اسی کا حصہ کہا جاسکتا ہے۔

 مسلمانوں کو یہ طعنہ تب بھی دیا جاتا تھا کہ مسلمان اپنے آپ کو قومی شعور سے ہم آہنگ کرنا ہی نہیں چاہتے۔اور یہی اس کی سب سے بڑی خامی اور اس کا سب سے بڑا جرم ہے۔ اس الزام کا جواب دیتے ہوئے ندائے ملت کے ایڈیٹر مولاناعتیق الرحمن سنبھلی نے اس کے پہلے سالنامے میں لکھا:

”ہاں آپ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان کے اندر قومی پیمانے پر حب الوطنی کا کوئی مثبت ولولہ اور ملک کی تعمیر و ترقی اور اس کے فلاح و بقا سے کوئی دلچسپی نظرنہیں آتی۔ بہت سے مسلمان اس کو تسلیم کرنا خلاف مصلحت سمجھیں گے۔ لیکن ہم تسلیم کرتے ہیں کہ بات بالکل یونہی ہے....لیکن اس میں قصور کس کا ہے اور آپ اس کے علاوہ مسلمانوں سے کیا توقع کرنے کا حق رکھتے ہیں؟ کیا مسلمان کوئی بے حس اینٹ گارے کے بنے ہوئے ہیں کہ ملک کے دروبست پر قابض اکثریت ان کے ساتھ ناوفاداروں کا معاملہ رکھے۔ دستور میں مانے ہوئے ان کے حقوق کی ادائیگی سے طرح طرح کی تدبیروں اور بہانوں سے گریز کیا جائے۔ ان کو دن رات ملک دشمن اور غیر ملکی کہا جائے۔ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کی کوئی ضمانت نہ ہو۔ آج یہاں کل وہاں ان کے زندہ جلائے جانے کے واقعات ہوتے رہیں۔ پھر اچھے اچھے ذمہ دار لوگ ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے والے بیانات دے ڈالتے ہیں...اس سب کے باوجود مسلمان خوش دل رہے، اپنے وطن کے گیت گائے، اس کی تعمیر و ترقی میں دلچسپی لے اور اس کی فلاح و بقا میں جان کھپائے...اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ گوشت پوست کے بنے ہوئے اور پہلو میں دل جیسا نازک آئینہ رکھنے والے آپ ہی کے جیسے انسانوں سے یہ کیسے ممکن ہے؟“(ندائے ملت، سالنامہ، ۳/مئی ۳۶۹۱ء، صفحہ ۱۱)

ندائے ملت کا یہ انداز خطاب تو ملک کے سربراہوں سے تھا، اس کے بعد ندائے ملت نے ہندوستانی مسلمانوں کو بھی اسی انداز میں مخاطب کیا۔ اس انداز خطاب کو پڑھ کر ندائے ملت کے ایک معاصر روزنامہ ”وفاق“ جو سرگودھا دلائل پور، پاکستان سے شائع ہوتا تھا، نے ندائے ملت کے پہلے سالنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’ندائے ملت نے...ایسے ولولہ انگیز انداز میں اپنی قوم کو پکارا ہے کہ اس تحریر میں مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم کی سی جولانیاں نمایاں طور پر محسوس کی جاسکتی ہیں....سالنامے کے ٹائٹل کو انتہائی نفیس آرٹ پیپر سے مزین کیا گیا ہے۔ کتابت، طباعت خوب نکھری ستھری ہے اگر چہ پاکستان کی ترقی پسند صحافت کی چمک دمک سے اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا لیکن تبصرہ نگار یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ پاکستان کے بزعم خود دینی جرائد کی ادارت بھی ایک صاف ستھرے ذوق کے لیے کوئی کشش نہیں لیکن ندائے ملت کا ”ہاکر“ بننا بھی شاید ایسے ذوق پر گراں نہ گزرے۔“(’ندائے ملت‘جلد ۳، شمارہ ۸۱، ۹/اگست ۳۶۹۱ء)

ندائے ملت جاری ہوا تو چاروں جانب ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ہندوستان کے حالات سے باخبر اور ملت کے تئیں ہمدردی رکھنے والے ہرصاحب فکر نے اس اخبار کو اسم بامسمٰی سمجھا۔چند شمارے ہی شائع ہوئے تھے کہ صاحب تدبر قرآن    مولانا امین احسن اصلاحی نے توباقاعدہ اس کے بارے میں ادارتی نوٹ تحریرفرمایا، جس سے اخبار کے معیار و اعتبار دونوں کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:

”لکھنؤ سے ایک ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ کے نام سے نکلا ہے۔ اس کے ایڈیٹر مولانا عتیق الرحمن اور اس کے نگراں مولانا ابوالحسن علی اور مولانا محمد منظور نعمانی ہیں۔ یہ اخبار اپنی خصوصیات و اہمیت کے اعتبار سے اس بات کا حقدار ہے کہ اس کا ذکر ان صفحات میں کیا جائے... اب تک اس اخبار کے چار شمارے نکل چکے ہیں اور ہر شمارہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ اس کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس نے ”الہلال“ مرحوم کی یاد تازہ کردی ہے۔ وہ کچھ زیادہ مبالغہ سے کام نہیں لے رہے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی مرحوم کے متعلق سنا ہے کہ ان کو ہفتہ بھر الہلال کا انتظار رہتا تھا۔ جب وہ آجاتا تو اس کو مطالعہ کرنے کے بعد سامنے اپنی میز پر رکھ لیتے اور اس وقت تک اس کو میز سے اُٹھانے کی اجازت نہ دیتے جب تک اس کے بعد کا نمبر ان کی میز پر اس کی جگہ لے لینے کے لیے نہ آجاتا۔ کچھ یہی معاملہ ’ندائے ملت‘ کے ساتھ ہمارا ہے۔

اس اخبار کی سطر سطر سے ایمان کی غذا، روح کو تقویت، فکر کو رہنمائی اور عزم و حوصلہ کو ایک حیات تازہ ملتی ہے.... اس دعوت میں مسلمانوں کے دین، مسلمانوں کی تہذیب اور مسلمانوں کی عالمگیر برادری کے جو حقوق و مطالبات ہیں اُن کا بھی پوری جرأت اور پورے اعتماد کے ساتھ اظہار و اعلان کیا جارہا ہے۔

ہمیں یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوئی کہ یہ اخبار بڑی تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی مقبولیت میں اضافہ فرمائے اور اس کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔ جن لوگوں نے ملت عزیز کو زندہ کرنے کے لیے یہ بازی کھیلی ہے ان کی درازیِ عمر کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ اپنی زندگی کے جو دن باقی ہیں، اگر وہ کچھ قدروقیمت رکھتے ہیں تو رب کریم ان کو بھی مولانا علی میاں اور مولانا نعمانی کی عمروں کے ساتھ جوڑ دے کہ ان کے پاکیزہ ہاتھوں سے یہ ملت مظلوم کی نذر ہوجائیں۔ (ماہنامہ میثاق، مئی ۱۹۶۲ء)

ندائے ملت کے اجراء کا اصل مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو مرعوبیت اور احساس بیچارگی سے نکالا جائے،انھیں بتایا جائے کہ اپنی تعمیر و ترقی کا لائحہ عمل خود بنانا ہوگا۔ ندائے ملت کی شکل میں ہندوستان کے چھ کروڑ مسلمانوں میں صحت مندانہ سیاسی تصور کے لیے ایک اہم قدم تھا۔ندائے ملت نے مسلمانوں کے اندر جرأت و خود اعتمادی اور اس میں شائع ہونے والی تحریروں نے ملّی فکر اور مسائل کے تئیں عزم و ہمت پیدا کی۔ ایک مختصر مدت میں اس نے قومی اور ملّی تعمیر کا جو فریضہ انجام دیا، وہ بہت حد تک اطمینان بخش کہا جاسکتا ہے۔ انھیں تحریروں اور سنجیدہ ادارتی ٹیم کا ہی کمال تھا کہ انتہائی کم مدت میں ندائے ملت اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں پہنچنے کی جدوجہد میں اخبارات کو برسہا برس لگ جاتے ہیں۔ ندائے ملت کے پہلے سالنامے پر جمعیۃ علماء ہندکے آرگن روزنامہ الجمعیۃ نے لکھا:

”ندائے ملت قوم و ملت کی خدمات جس انداز پر کر رہا ہے، اگر اس کے بعد بھی انسانی ضمیر بیدار نہ ہو تو تعجب ہے۔ یہ سالنامہ ملی، قومی، سیاسی اور تعلیمی مسائل کی ایک مختصر سی انسائیکلوپیڈیا ہے۔ عموماً رسائل  و اخبارات کے سالنامے چند روز کے بعد بھلا دیے جاتے ہیں، مگر یہ سالنامہ ذہن اور عمل کے لیے ایسا دستور العمل ہے جس کے نقوش عرصہ دراز کے بعد بھی مدھم نہیں پڑسکتے۔ اگرچہ ندائے ملت کی عمر زیادہ نہیں ہے لیکن ڈیڑھ سال کی عمر میں اس نے اتنی خدمات انجام دی ہیں جو شاید دوسرے ذرائع سے بیس سال کے اندر بھی انجام نہ دی جاسکیں۔ خوش قسمتی سے ندائے ملت کوایسے لوگوں کی سرپرستی حاصل ہوئی جو بین الاقوامی شہرت کے سرمایہ دار بھی ہیں اور قوم و ملت کے نباض بھی۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی عالم اسلام کے درخشندہ ستارے ہیں اور جن کا فیض کرم سارے عرب ممالک کو محیط ہے۔ مولانا محمد منظور نعمانی ہندوستان کے ان مشاہیر علماء میں سے ہیں جنھوں نے اسلام کو پیش کرنے کی صحیح راہیں متعین کیں اور اسلامی لٹریچر میں پیش بہا اضافہ کیااور اس علم و مرتبہ کے اہل حضرات نے ندائے ملت کو اپنے بلند ترین افکار سے مزین کیا ہے اور برابر کرتے ہیں۔ زیر تبصرہ سالنامہ کے مضامین میں اکثر مضامین ملت کی شاہراہ زندگی کے لیے شمع ہدایت کا کام دے سکتے ہیں، بھرتی کا ایک بھی مضمون نہیں ہے۔ امید ہے کہ ملت کے درد مند افراد اس کا مطالعہ کرکے اس کی فکری کاوشوں سے ضرور فائدہ اُٹھائیں گے اور دوسروں کو بھی فائدہ اُٹھانے کی ترغیب دیں گے۔“ (ندائے ملت جولائی ۱۹۶۳ء)

اس ہفت روزہ اخبار نے ملت کو حوصلہ دیا، بے بسی سے نکالنے کی کوشش کی، اس کے مسائل پر بے لاگ گفتگو کی، اور یہ سب کچھ اس انداز میں کیا کہ حکومتِ وقت کو وہ اپنی سیاسی راہوں کا ایک خار محسوس ہونے لگا، اسی بیچ حکومت نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مسلم حیثیت پر تیشہ چلایا تو ندائے ملت نے اس پر سخت احتساب کیا، ایک خاص اشاعت’مسلم یونیورسٹی نمبر‘ کے طورپر نکالا، آخر حکومت نے نشہ اقتدار میں، ندائے ملت کے خلاف کاروائی کی، پرنٹر پبلشر اور معاون مدیر حفیظ نعمانی صاحب(مولانا سنبھلی کے چھوٹے بھائی) اور دفتر کے دو کارکنان کے حصہ میں اسیری آئی، اور مولانا سنبھلی کو بھی کئی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی ۲/سال سے کچھ زاید عرصہ تک ندائے ملت کے اڈیٹر رہے، اس کے بعدضعف اعصاب اور خون کی کمی کے سبب ان کی صحت کچھ ایسی خراب ہوئی کہ وہ ندائے ملت کی دیکھ بھال کی پوری ذمہ داری کا بوجھ اُٹھانے کے لیے خود کو تیار نہ کرسکے، لہٰذا۱۹۶۴ء کے آخری زمانے میں ڈاکٹر آصف قدوائی ندائے ملت کے ایڈیٹربنادیے گئے، لیکن ”مسلم یونیورسٹی نمبر“کی اشاعت کے قضیہ کے بعد انھوں نے ندائے ملت سے اس معنی کر علیحدگی اختیار کرلی کہ وہ اس کے ایڈیٹر نہیں رہے۔ ۲۲/جولائی۱۹۶۶ء کو حفیظ صاحبؒ (جیل سے رہائی کے کچھ عرصہ بعد) اخبار کے ایڈیٹر بنے۔ اور ۱۹۶۸ء/تک ادارت کے فرائض انجام دیتے رہے۔البتہ ادارت کی ذمہ داری سے دست کش ہونے کے باوجود بھی مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اخبار کی سرپرستی کرتے رہے اوریہ صرف ملت کے خیرخواہی کا جذبہ تھا جو صحت کی خرابی کے باوجود مولانا کے قلم کو متحرک رکھتا، اور وہ کچھ لکھواتا جو بلا مبالغہ آزاد ہندوستان کی اردو صحافت میں اپنی کوئی مثال نہیں رکھتا، یہ سلسلہ ۱۹۶۸ء تک جاری رہا لیکن......(بس پھر نظر لگ گئی اور مسلمانوں کے بہت سے اجتماعی کاموں کی طرح ندائے ملت بھی اختلاف کی نذر ہوگیا)۔

راقم الحروف کی کتاب ’قلم کا سپاہی: حفیظ نعمانی‘شائع ہوئی، جس میں دیگر باتوں کے علاوہ ’ندائے ملت‘ کا بھی ذکر تھا، اور ان حالات کا بھی جن کے سبب ’ندائے ملت‘ سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ کتاب کے اجراء کے لیے ۲۷/دسمبر۲۰۱۵ء کو لکھنؤ میں ایک جلسہ ہوا۔ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی اس کتاب کی رسم رونمائی میں شامل ہوئے نیز انھوں کتاب پر تبصرہ بھی کیا، جو روزنامہ ’اودھ نامہ‘ میں شائع ہوا۔اس کے چند روز بعدبذریعہ میل ان کا ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط مولاناؒ نے ’ندائے ملت‘ کی تاریخ کے سلسلہ میں مذکورہ کتاب کے مطالعہ کے بعدراقم کو لکھا تھا، اس خط کا کچھ حصہ یہاں نقل کرتا چلوں تاکہ آپ بھی اس تاریخی امانت کے گواہ بن سکیں۔

بسم اللہ  ۔     خواہر زادہ عزیزمیاں اویس سنبھلی حفظہٗ اللہ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

...ندائے ملت ایک تاریخی پرچہ تھا۔اس کانام اور اس کاکام تاریخ کے صفحات پر ثبت ہے۔اور اب ہم دو بھائی(عتیق اور حفیظ) ہی رہ گئے ہیں کہ وہ اس کے بارے میں جو کچھ بیان کریں گے اسے مستند سمجھا جائے گا...تمھاری کتاب بتاتی ہے کہ ’ندائے ملت‘ ایسے ہی ماموں جان (حفیظ نعمانی)نے نکالا جیسے کچھ عرصہ پہلے وہ روزنامہ ’تحریک‘ نکال چکے تھے۔ لیکن یہ بالکل خلافِ واقعہ ہے۔ندائے ملت کے آغاز کے سلسلہ میں میرا بیان تمہاری کتاب میں موجود ہے، جس کی روسے اس کے تجویز کنندہ وہ بے شک تھے۔ اس کے بعد اس کے تیار کرنے شائع کرنے، میں بھی ان کا بڑا حصہ رہا۔ پھر وہ یہ حصہ ادا کرتے ہوئے جیل بھگتنے بھی گئے۔مگراس سے کوئی اخبار کا بانی تو نہیں ہو سکتا۔میں تو اس کا بانی ایڈیٹر تھا، میں جیل تو نہیں گیا مگر میری صحت ایسی اس کی نذرہوئی کہ مرتے مرتے بچتا رہا،اعصاب ایسے ٹوٹے کہ تحریری کام کے قابل ہی نہ رہا۔...مگرمیں تو اسے اپنے منہ سے اخبار کے لئے قربانی بھی نہیں کہہ سکتا، دوسرے چاہے کہیں، یہ تو اپنی بساط اوراپنے احساس کے مطابق ایک فریضہ کی ادائیگی تھی اور بس۔

الغرض ہم دونوں ندائے ملت کے تجویز کرنے اور اسے آگے بڑھانے والے تھے۔ حقیقی طور پر اخبار نکالنے والے اباجی،ڈاکٹر اشتیاق اور پھرحضرت مولا نا علی میاں تھے (کہ یہی اس کی مالیات کی فکر کرتے تھے) اور قانونی طور پر اس کا نکالنے والا ندائے ملت ٹرسٹ تھا۔ اس ٹرسٹ کے بنانے میں میرا کوئی حصہ تھا نہ حفیظ کا۔ یہ اباجی،علی میاں اور ڈاکٹر اشتیاق کاکا م تھا۔اور یہ بے شک ہماری نا تجربہ کاری تھی کہ ہم نے خود کو ٹرسٹ میں نہیں رکھا۔ورنہ کم از کم میرا نام اس میں ہوسکتا تھا، اس لئے کہ میرے نام پر اخبار کے بجٹ سے معاوضہ کا کوئی پیسہ نہیں نکلتا تھااور بھی ہم جس کو چاہتے ٹرسٹی بنوا سکتے تھے۔لیکن نہیں ہوا، کیوں کہ بعد میں جو ہوا وہ وہم   و گمان میں بھی نہ تھا۔ تو یہ غلطی تو ہماری تھی کہ ہم نے ٹرسٹ میں کسی شدنی کا بند وبست نہیں کیا تھا۔اس لئے پھر جو ہوا اُسے برداشت کرنا چاہئے....۔

میرا ’ندائے ملت‘ سے تعلق نہ ہوتا تو مجھے یہ سب لکھنے کی ضرورت نہ تھی لیکن جو تعلق تھا اس کی بنا پر یہ جو کچھ کہہ رہاہوں، یہ تاریخی امانت کی ادائیگی ہے اورتم کو اس کا گواہ بناتا ہوں۔     

والسلام
عتیق الرحمن سنبھلی
لکھنؤ ۴/ جنوری ۲۰۱۶ء

جو کچھ اب تک اس مضمون میں بیان کیا گیا ہے اسے آپ ندائے ملت کے ایک مختصر عرصہ(۱۹۶۲ء تا۱۹۶۸ء) کی روداد کہہ سکتے ہیں مگر یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ اس میں ذکر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی کا ہے۔ دنیا کے تماشوں سے الگ جب تک صحت نے ساتھ دیا خلوص و لگن کے ساتھ اور ملت کی سربلندی کے جذبے سے ایک امانت کے طور پرمولانا سنبھلی نے اخبار کے صفحات کو استعمال کیا۔ ۱۹۶۸ء میں ندائے ملت سے نہ صرف مولانا عتیق الرحمن سنبھلی بلکہ شعبہ ادارت سے وابستہ سبھی افراد نے علیحدگی اختیار کرلی۔اس میں ڈاکٹرمحمد آصف قدوائی اور جمیل مہدی کے نام بھی شامل تھے۔حفیظ نعمانی ؒکی کتاب ’رودادِ قفس‘ پر مولانا عتیق الرحمن سنبھلی نے جو مقدمہ تحریرکیاہے، اس کا کچھ حصہ یہاں نقل کرکے اپنی بات ختم کرتا ہوں:

”...کیا دن تھے، کیا جوش اور ولولہ تھا، کیا سوچا تھا مگر یہ بگڑے ہوئے وقت سے جنگ تھی اور وقت جب ایک بار بگڑ جائے توعمر چاہئے اس کو سدھارنے کی صورت پیدا ہو۔ ندائے ملت کا یہ خاص دور ۱۹۶۸ء میں تاریخ ہند کا ایک باب بن کر روپوش ہوگیا۔ یہ اسی باب کے چند صفحات ہیں جو چونتیس برس کے بعد اس کتاب کے بہانے پھر سامنے آگئے اور یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ ان کے مطالعے سے اپنی ہندوستانیت کا سرشرم سے جھک جاتا ہے۔ یہ حکمرانوں کے ایما پر،جو اس شریفانہ دستور کے رکھوالے تھے، ایک ایسے اخبار کے ساتھ جبرواندھیر کی نہیں، رذالت و گراوٹ کی بھی داستان ہے جو نہ صرف یہ کہ اپنے وقت میں مسلم صحافت کا مؤقر ترین سیاسی رکن مانا جاتا تھا،بلکہ اپنی اسلامیت کے ساتھ اپنی ہندوستانیت کا لحاظ رکھنے میں بھی یکتا ہی کہا جاسکتا تھا...“ (ماخوذ از مقدمہ ”رودادِ قفس“تیسرا ایڈیشن،اکتوبر۷۱۰۲ء صفحہ ۸-۹)

قومی و دینی خود مختاری کی جدوجہد اور علماء کرام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(گجرات پریس کلب میں ۴ جولائی ۲۰۲۲ء کو جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام ’’علماءکنونشن‘‘ سے خطاب)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ علماء اسلام گجرات بالخصوص چوہدری عبد الرشید وڑائچ کا شکرگزار ہوں کہ آپ دوستوں کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالٰی جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔ اس موقع پر دو تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔

ایک تو یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم قومی اور دینی حوالے سے کس مقام پر کھڑے ہیں اور ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے؟ فقہاء کرام کا ایک ارشاد بار بار دہرایا جاتا ہے کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ یعنی جو اپنے زمانے کے لوگوں کو نہیں پہچانتا وہ عالم نہیں ہے۔ یہ ارشاد ہمیں بار بار توجہ دلا رہا ہے کہ اپنا جائزہ لیں کہ ہم اپنے زمانہ سے اور زمانہ کے لوگوں کو کتنا پہچانتے ہیں؟ اس لیے کہ اس کے بغیر دینی و ملی حوالے سے کوئی ذمہ داری طے کرنا اور ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہو گا۔

میں تاریخ اور سیاست کے طالب علم کے طور پر خود کو اس زمانہ میں محسوس کر رہا ہوں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال، میسور اور دیگر علاقوں پر قبضہ کے بعد دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کی تو مغل بادشاہت کا منصب شاہ عالم ثانی کے پاس تھا۔ اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ بادشاہت کا ٹائٹل تو اسی کے پاس رہے گا مگر متحدہ ہندوستان کے تمام تر مالیاتی معاملات کا کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی کے اختیار میں چلا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بادشاہ کا ٹائٹل اور پروٹوکول شاہ عالم ثانی اور مغل خاندان کے پاس رہا جبکہ تمام تر مالیاتی امور ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنبھال لیے۔

ہم آج بھی اسی وقت اور دورانیے سے گزر رہے ہیں کہ حکمرانی کا ٹائٹل اور پروٹوکول ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس ہے جو باری باری اس کے مزے لے رہی ہیں، جبکہ ملک کا مالیاتی کنٹرول آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے پاس ہے کہ ہم کوئی فیصلہ بھی ان کی مرضی سے ہٹ کر نہیں کر پا رہے۔ حتٰی کہ ہماری قومی قانون سازی کا کنٹرول بھی ان کے پاس ہے اور ان کی تجویز پر نہیں بلکہ ڈکٹیشن پر پارلیمنٹ میں مسلسل قانون سازی ہو رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں کے دوران کبھی کبھی دوسرے ادارے بھی ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے آ جاتے ہیں مگر حکمرانی کا حقیقی اختیار اور کنٹرول بین الاقوامی اداروں ہی کے زیراستعمال ہے، جس میں اسٹیبلشمنٹ مجموعی طور پر ان کے بہترین نمائندہ کا کردار ادا کر رہی ہے۔

یہ بات سمجھنے میں اب کوئی دقت نہیں رہی کہ ہمارے مقتدر حلقے جو بھی ہیں اپنے لیے شاہ عالم ثانی کے کردار پر راضی ہو چکے ہیں اور پورے اطمینان کے ساتھ آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کی سہولت اور مواقع فراہم کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں ہمارے نزدیک آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قومی خودمختاری اور دستور کی بالادستی کا ماحول کیسے بحال کر سکتے ہیں؟ باقی سب معاملات ثانوی ہیں، اصل بات قومی آزادی اور خودمختاری کی ہے جس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے اور مستقبل میں بھی کچھ کر سکنے کی پوزیشن میں نہیں دکھائی دےرہے۔

دوسری بات جو آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اسے میں دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔ ایک یہ کہ عمومی دینی و قومی جدوجہد میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اور دوسرا یہ کہ جمعیۃ علماء اسلام اور اس کے کارکنوں کو کیا کرنا چاہیے؟

عمومی دینی و ملی جدوجہد کے تقاضوں پر ایک بات جو عرصہ سے مسلسل کہتا آ رہا ہوں اسے پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ کسی عالم دین کا دینی جدوجہد سے بالکل لاتعلق ہو جانا اور اپنے معمول کے کاموں میں ہی مگن رہنا میرے نزدیک کبیرہ گناہ بلکہ اس سے کوئی بڑی چیز ہے اور ہم عند اللہ اس کے بارے میں مسئول و ماخوذ ہوں گے۔

اس کے بعد ہر عالم دین اور دینی کارکن کو محنت اور جدوجہد اسی دائرے میں کرنی چاہیے جس کا وہ ذوق رکھتا ہے۔ نفاذ شریعت، ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالتؐ، تحفظ ناموس صحابہؓ، دعوت و تبلیغ، تدریس و تعلیم، اور اصلاح و تزکیہ کے سب دائرے دینی ہیں۔ یہ سب ہمارے کرنے کے کام ہیں اور ان میں سے ہر دائرے میں محنت اس طرح ضروری ہے کہ ہر عالم اور دینی کارکن کو ان میں سے کسی شعبے کے ساتھ ہر حالت میں وابستہ رہنا چاہیے اور دینی جدوجہد سے بالکل لاتعلق اور بے پروا نہیں ہونا چاہیے، جس کے لیے سب سے ہلکا لفظ بے حمیتی ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے ہوئے دین کے دوسرے شعبوں اور دینی جدوجہد کے دوسرے دائروں کی نفی اور تحقیر سے مکمل گریز کیا جائے۔ ہم جب اپنے اپنے کاموں کی ترجیح بیان کرتے ہوئے دیگر شعبوں کی نفی کرتے ہیں اور تحقیر و استہزا کے لہجے میں ان کا ذکر کرتے ہیں تو خود اپنی محنت پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں، اس سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔

اس سلسلہ کی آخری بات یہ ہے کہ اپنے دائرہ میں محنت کرتے ہوئے دینی جدوجہد کے دوسرے دائروں کے ساتھ تعاون کی کوشش بھی ضروری ہے۔ بالخصوص مشترکہ ملی و قومی مسائل میں تمام مکاتب فکر اور طبقات کی مشترکہ محنت کا ماحول ہماری روایت چلا آ رہا ہے اور آج بھی ہماری سب سے بڑی ضرورت وہی ہے۔ تحریک خلافت، تحریک پاکستان، تحریک آزادی، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفٰیؐ، اور دیگر دینی و ملی تحریکات میں مشترکہ محنت کا ماحول پھر سے بحال کرنا ضروری ہے اور ہماری ذمہ داری ہے۔

آج کی صورتحال یہ ہے کہ ہم سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہمیں فیٹف کی ہدایت پر منظور کیے جانے والے اوقاف کے قانون، سیڈا کی طرف سے بھیجا جانے والا خاندانی نظام کا غیر شرعی قانون، اور آئی ایم ایف کے حکم پر اسٹیٹ بینک پر اس کی نگرانی کا قانون بھی ہماری جدوجہد کے ناگزیر دائرے ہیں۔ ہمیں ان سب کے لیے مشترکہ محنت کا ماحول قائم کرنا ہو گا اور مذکورہ بالا تحریکات کی طرز کی قومی جدوجہد کا اہتمام کرنا ہو گا۔

تیسرے نمبر پر میں آپ حضرات یعنی جمعیۃ علماء اسلام کے علماء اور کارکنوں سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ لوگ یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ برصغیر کی ملی و دینی تحریکات میں ہمیشہ مرکزی کردار آپ کا رہا ہے، اور یہ عزم رکھیں کہ یہ کردار آپ کا ہی رہے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔ کوئی بھی جدوجہد آپ منظم کریں گے تو ہو گی ورنہ نہیں ہو گی۔ یہ ایک تاریخی اور سماجی حقیقت ہے جسے کسی صورت میں بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ حضرات کو اپنی یہ حیثیت اور پوزیشن سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار طے کرنا ہو گا، آپ کوئی روایتی جماعت نہیں ہیں بلکہ دینی تحریکات کا ہراول دستہ ہیں۔ اس لیے جمعیۃ علماء اسلام سے وابستہ علماء کرام اور کارکنوں کو دوسروں سے کہیں زیادہ چوکنا، مستعد اور متحرک رہنا ہو گا اور اپنے قائد کی آواز اور پوزیشن کو مضبوط کرنے اور رکھنے کے لیے سنجیدہ اور مسلسل کردار ادا کرنا ہو گا۔

میرے نزدیک قومی سیاست کی اعلٰی سطح پر مولانا فضل الرحمٰن دینی حلقوں کی واحد مؤثر آواز رہ گئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ مجھے ان کے ہر موقف اور طرزعمل سے اتفاق ہو، میں اختلاف کا حق رکھتا بھی ہوں اور ضرورت کے وقت بلاجھجھک استعمال بھی کرتا ہوں۔ مگر پوری دیانتداری اور شرح صدر کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ جس سطح پر اور جس ماحول اور لہجے میں مولانا فضل الرحمٰن اس وقت اہلِ دین اور اہلِ حق کی نمائندگی کر رہے ہیں وہاں کوئی ان کا متبادل دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر خدانخواستہ خدانخواستہ پھر خدانخواستہ یہ آواز کمزور ہو گئی تو وہ ماحول اور سطح آپ لوگوں بلکہ پورے اہل دین کی نمائندگی سے خالی ہو جائے گی، جو میرے نزدیک ہمارے بارے میں استعماری قوتوں کا بنیادی مقصد اور ایجنڈا ہے۔

اس لیے جمعیۃ علماء اسلام کے علماء کرام اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسائل سے شعوری آگاہی اور جماعتی تنظیم کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں اور پورے ادراک، سنجیدگی اور نظم و ضبط کے ساتھ اپنی جماعت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی محنت کریں۔ آپ جس قدر باشعور ہوں گے دوسروں کو راہنمائی فراہم کر سکیں گے۔ اور جس قدر منظم و مستحکم ہوں گے دینی تحریکات کو لے کر چلنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۸)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا پانچواں باب)


باب پنجم: مسئلۂ شفاعت


شفاعت نبوی کے موضوع کو حاکمیت (توحید) کے سوال سے جدا کرنا ناممکن ہے۔ کسی گناہ گار کو معاف کرنے کی قدرت، جو کہ عمومی قاعدے سے انحراف ہے، استثنا کو قانون کی شکل دینے کی استعداد پر دلالت کرتی ہے۔ حاکمِ اعلیٰ، یاد کریں، کم از کم کارل شمٹ کے تصور کے مطابق وہی ہے جو استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہو۔ سفارش کرنے والے کا کردار اس عمل میں کسی حد تک خلل انداز ہو سکتا ہے۔ یہ واضح رہنا چاہیے کہ سفارش کرنے والے کی حیثیت محض ایک وکیل کی ہے جو گناہ گار اور حاکم مطلق کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن ایسے سفارش کرنے والا  کا کیا جائے جس کی سفارش کبھی رد نہیں ہوتی اور جس کی برتر حیثیت کی وجہ سے اس کی ہر درخواستِ استثنا منظور ہو جاتی ہے؟ کیا یہ ایک طرح سے حاکم اعلیٰ کی حاکمیت پر سمجھوتہ نہیں ہے؟

مسئلۂ شفاعت پر شاہ اسماعیل کی بحث میں یہ سوالات مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھیں عوام کے اس رجحان پر سخت تشویش ہے کہ وہ انبیا واولیائے کرام جیسی انسانی ہستیوں کو حاکم اعلیٰ کی صفات سے متصف کرتے ہیں۔ انھوں نے زور دے کر بتایا کہ شفاعت کی بابت عوام کا جو نظریہ ہے، اس میں خدائی حاکمیت (توحید) کی استثنائی حیثیت کو غیر اللہ کے سفارشی کردار سے الجھا دیا گیا ہے۔ ان کی نظر میں شفاعت ان بنیادی مسائل میں سے ہے جن سے خدائی حاکمیت (توحید) کی مطلق یکتائی کو خطرہ لاحق ہے۔ آئندہ گفتگو میں میری دل چسپی شاہ اسماعیل کے استدلال کے روایتی اسلامی عقائد سے ہم آہنگ ہونے یا نہ ہونے سے زیادہ اس اسلوبِ نگارش میں زیادہ ہوگی جس میں انھوں نے اپنا استدلال پیش کیا۔ مثلاً‌ یہ کہ ان کی گفتگو میں کس قسم کی علامات، تمثیلات اور تشبیہات پائی جاتی ہیں؟ اس بظاہر اعتقادی بحث سے ہم کس طرح کے سیاسی نظریات اور اظہارات اخذ کر سکتے ہیں؟ ان کا انداز استدلال اس کے سماجی تصور کے بارے میں کیا ظاہر کرتا ہے؟

شفاعت پر شاہ اسماعیل کی بحث تقویۃ الایمان میں ان کے عمومی طرز استدلال سے ہم آہنگ ہے، اور اس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ اخروی فلاح ونجات کے دائرے میں نبی سمیت تمام غیر الہی ہستیوں کے کردار پر کاری وار کیا جائے۔کارل شمٹ کی اصطلاحات میں اسے یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں واضح کیا کہ خدا ہی وہ حاکم اعلیٰ ہے جس کے پاس کسی ایسے گناہ گار کو مغفرت اور اُخروی نجات عطا کرنے کی استثنائی قدرت ہے جس کا ٹھکانا عام قاعدے کی رو سے جہنم تھا۔ اپنے موقف کے اثبات میں شاہ اسماعیل نے متعدد احادیث پیش کی ہیں جن میں حضورِ اکرم ﷺ نے ایک انسان کی حیثیت سے بذاتِ خود اپنے عجز وقصور کا اعتراف کیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک روایت میں حضور اکرم ﷺ کا ارشادِ گرمی ہے: "خدا کی قسم! اگر چہ میں خدا کا رسول ہوں، لیکن مجھے کچھ پتہ نہیں کہ (آخرت میں) میرے ساتھ کیا ہوگا"1۔ ایک اور موقع پر آپ نے اپنے خاندان کے افراد کو جمع کیا، اور ان کے سامنے یہ اعتراف کیا: "خود کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ میں دربارِ الٰہی میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا"2۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی امت کے بارے میں اس حوالے سے شدید بے چینی تھی کہ وہ انھیں خدا کے مقام پر فائز نہ کرے، یا انھیں ایسی مافوق الفطرت صفات سے متصف نہ کرے جن سے خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کی نفی ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساہ اسماعیل نے یہ بھی بتایا کہ نبی اکرم ﷺ کی عزت وعظمت کا دار ومدار اس بات پر نہیں کہ ان کے پاس اُخروی نجات عطا کرنے کی غیر معمولی قدرت ہے، بلکہ اس کی اساس آپ کا انسانِ کامل ہونا ہے۔ بالفاظ دیگر خدائی حاکمیت پر غیر متزلزل ایمان واطاعت کا اسوۂ حسنہ ہی وہ صفت ہے جس نے پیغمبر کی ذات کو غیر معمولی مقام عطا کیا ہے۔

اس استدلال کی تائید میں شاہ اسماعیل نے متعدد قرآنی آیات کا حوالہ دیا ہے جن میں خدا نے نبی اکرم ﷺ کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی امت پر یہ واضح کریں کہ وہ کسی کو اخروی نفع یا نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ مثلاً: "اے محمد! آپ فرما دیں کہ میں تمھارے لیے نفع ونقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ آپ فرما دیں کہ مجھے کوئی اللہ تعالیٰ سے ہرگز نہیں بچا سکتا، اور میں اس کے سوا کہیں بچاو نہیں پاتا"3۔ اس آیت کی تشریح میں شاہ اسماعیل اپنے قارئین کو توجہ دلاتے ہیں کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ بارگاہِ الٰہی میں اپنی عاجزی وانکساری کا اعتراف کرتے ہیں۔ آپ نے اس بات پر اس لیے زور دیا تاکہ امت آپ کو آپ کی اصل حیثیت سے زیادہ نہ بڑھائے۔ اس مقام پر شاہ اسماعیل حضور ﷺ کی جگہ بولتے نظر آتے ہیں: "میرے امتی ہونے کی وجہ سے تم لوگ مغرور ہو کر یہ خیال کرکے حد سے تجاوز نہ کرنا کہ ہمارا پایہ بہت مضبوط ہے، ہمارا وکیل زبردست ہے، اور ہمارا شفیع بڑا محبوب ہے، ہم جو چاہیں کریں، وہ ہمیں اللہ کے عذاب سے بچا لے گا، کیوں کہ میں خود ہی ڈرتا ہوں، اور اللہ کے سوا کہیں پناہ گاہ نہیں دیکھتا"4۔ شاہ اسماعیل اپنی بات جاری رکھتے  ہوئے لکھتے ہیں: "اس آیت سے صاف معلوم ہوا کہ جو عوام پیروں پر بھروسا کرکے اللہ کو بھول جاتے ہیں اور حکم عدولی کرتے ہیں، واقعتاً گمراہ ہیں، کیونکہ سرکارِ رسالت ﷺ دن رات اللہ سے ڈرتے تھے، اور اس کی رحمت کے سوا کہیں اپنا بچاو نہیں جانتے تھے۔ کسی اور کا بھلا کیا کہنا !"5۔

اسماعیل نے اور کئی آیات کا حوالہ دیا ہے جن میں خدائی حاکمیت کے مطلق اور یکتا ہونے پر زور دیا گیا ہے، اور اخروی نجات کے دائرے میں شفعاء کے کردار پر تنقید کی گئی ہے۔ مثلاً ان آیات میں یہ بھی شامل ہیں: "وہ اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کو پوجتے ہیں جو انھیں نہ نقصان پہنچا سکیں اور نہ نفع، اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں۔ آپ فرما دیں کہ تم اللہ کو وہ خبر دے رہے ہو، جسے وہ آسمان وزمین میں نہیں جانتا (یعنی جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے)۔ وہ ان کے شریکوں سے پاک و برتر ہے"6۔ اور یہ آیت: "آپ فرما دیں کہ ایسا شخص کون ہے، جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا تصرف واختیار ہے، اور وہ پناہ دینے والا بھی ہو، اور اس کے مقابلے میں کوئی اور پناہ بھی نہ دے سکے، اگر تمھیں علم ہے (تو جواب دو)"7۔

لیکن جب شفاعتِ نبوی کی حد بندی کے حق میں ساہ اسماعیل جوش وخروش سے استدلال کر رہے تھے تو انھیں ایک شدید الجھن کا سامنا بھی تھا۔ ان کی اعتقادی فکر کے برعکس قرآن سمیت اسلامی شریعت کے بنیادی مصادر میں متعدد ایسے حوالے موجود ہیں جو اخروی نجات کے دائرے میں انسانی شفعاء کے کردار کو اصولی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ مثلاً قرآنِ کریم کی آیت ہے: "اس دن سفارش کام نہیں آئے گی مگر جسے رحمان نے اجازت دی اور اس کی بات پسند کی"8۔ اور "اور اس کے ہاں سفارش نفع نہ دے گی مگر اسی کو جس کے لیے وہ اجازت دے گا9"۔ اس اشکال کے حل کے لیے ایک ایسا تاویلی منہج درکار تھا جس کے ذریعے ایک طرف تو خدائی حاکمیتِ اعلیٰ کی یکتائی ثابت ہو جائے، اور دوسری طرف روایتی اسلامی مصادر میں اللہ کے علاوہ دیگر ہستیوں کے لیے ثابت اذنِ شفاعت سے انکار بھی لازم نہ آئے۔

شاہ اسماعیل نے یہ معرکہ کیسے سر کیا؟ شفاعت کے سوال کے بارے میں شرعی معیارات کو بروے کار لانے کے لیے انھوں نے کس قسم کی حکمتِ عملی اختیار کی؟ ذیل میں میں اس وسیع تر سیاسی پروگرام کا جائزہ لے کر، جس پر شاہ اسماعیل کی الہیات کی اٹھان ہوئی، اختصار کے ساتھ ترتیب وار بتاؤں گا کہ شاہ اسماعیل نے اس سوال کے جواب میں کیا تاویل اختیار کی۔ ذیل میں اس انداز پر غور کیجیے جس کے ذریعے اپنے الہیاتی استدلال کو پیش کرتے وقت شاہ اسماعیل نے سیاسی کرداروں اور علامات کا ذکر کیا۔ جیسا کہ میں عنقریب دکھاؤں گا، خدائی حاکمیتِ مطلقہ (توحید) کے لیے ان کا استدلال شاہی سیاست اور طرزِ زندگی پر ایک شدید تنقید سے گہرے انداز میں جڑا ہوا تھا۔ علاوہ ازیں وہ خدائی حاکمیت اور دنیوی حاکمیت کے درمیان ایک واضح تقابل قائم کرکے اول الذکر کی برتری اور یکتائی ثابت کرنے کی کوشش کرنا چاہتے  تھے۔ ان کے استدلال کے کچھ اہم پہلووں  پر غور وفکر اس نکتے کی وضاحت میں مدد دے گا۔

شفاعت کی اقسام

تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے شفاعت کی تین اقسام ذکر کی ہیں۔ یہ تین قسمیں شفاعتِ وجاہت، شفاعتِ محبت اور شفاعت بالاذن ہیں۔ شفاعتِ وجاہت سے مراد ایسی صورت ہے جب بادشاہ کا کوئی انتہائی مقرب وزیر یا مشیر کسی مجرم کی بابت سفارش کرے اور بادشاہ بغیر کسی پس وپیش کے اسے قبول کر لے۔ بادشاہ کو یہ ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ اتنے اہم رکنِ سلطنت کو ناراض کرے گا تو حکومت کے نظم ونسق میں گڑ بڑ پیدا ہو جائے گی۔ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ مجرم کو معاف کر دیتا ہے10۔

شفاعتِ محبت بھی قریب قریب یہی ہے۔ اس قسم کی شفاعت میں بادشاہ کا انتہائی محبوب شخص کسی مجرم کی سفارش کرتا ہے۔ یہ شخص قریبی رشتہ دار یا ایسا دوست ہو سکتا ہے جس کے ساتھ بادشاہ کا تعلق گہرا ہوتا ہے۔ بادشاہ اس کی سفارش قبول کرتا ہے، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اپنے دوست یا رشتہ دار کی ناراضی سے خود اسے تکلیف پہنچے گی۔ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ سفارش کی یہ دو قسمیں بارگاہِ الہی میں نہیں کی جا سکتیں، یہ صرف دنیوی بادشاہتوں میں چل سکتی ہیں۔ تاہم شفاعت کی تیسری قسم شفاعت بالاذن بارگاہِ الہٰی میں جائز ہے11۔

شاہ اسماعیل کے مطابق شفاعت بالاذن کی صورت یہ ہے کہ ایک مجرم پہلے سے توبہ تائب ہو کر یہ پختہ عزم کر چکا ہو کہ وہ دوبارہ جرم نہیں کرے گا۔ مزید برآں وہ ایک عادی مجرم نہ ہو، بلکہ کسی وقت  خواہش نفس سے مغلوب ہو کر تجاوز کر بیٹھا ہو۔ اسے اپنے کیے پر سخت ندامت اور پشیمانی ہو۔ دن رات سزا کے خوف کی وجہ سے اس کا سر شرم اور افسوس سے جھکا ہوتا ہے۔ ایسا مجرم اپنی سفارش کے لیے کسی مصاحب یا وزیر کے پیچھے بھی نہیں پڑتا، بلکہ وہ سزا ملنے پر رضا مند ہوتا ہے اور بے تابی سے بادشاہ کے فیصلے کا انتظار کرتا ہے۔ بادشاہ کو اس کی حالتِ زار پر ترس آتا ہے، اور اس سے درگزر کرنا چاہتا ہے۔ لیکن وہ آئین کی حرمت کو پیش نظر رکھنے کی وجہ سے ایسا نہیں کرتا، تاکہ لوگوں کی نظر میں قانون کا احترام کم نہ ہو اور وہ بادشاہ کے عفو ودرگزر سے غلط فائدہ اٹھا کر جرائم پر جری نہ ہو جائیں۔

ایسے میں کوئی مصاحب یا وزیر اشارہ پا کر آگے بڑھتا ہے اور مجرم کی سفارش کر دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس سفارش کا اصل مُحَرّک  مجرم کی مدد نہیں ہوتی، بلکہ وہ بادشاہ کی مرضی دیکھ کر سفارش کرتا ہے۔ بادشاہ وزیر کی سفارش کو قبول کرتا ہے، اور اپنی سلطنت کے ایک معزز رکن کی فرمائش پوری کرنے کے بہانے مجرم کو بری کر دیتا ہے۔ شاہ اسماعیل نے اصرار کیا کہ قرآن میں انبیا کے لیے جس شفاعت کا اثبات ہے، اس سے یہی تیسری قسم مراد ہے12۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تیسری صورت میں اگر چہ بادشاہ مجرم کو اس وقت بری کرتا ہے جب اس کے دربار کا کوئی مقرب وزیر اس سے سفارش کرتا ہے، تاہم اس میں فیصلہ کن کردار اس بات کا ہے کہ مجرم پہلے سے توبہ کر چکا ہے اور یہ عزم کر چکا ہے کہ وہ دوبارہ جرم سرانجام نہیں دے گا۔ اس میں سفارش کا کردار صرف سہولت کاری تک محدود ہے۔ حقیقت میں یہ مجرم کی براءت کی اصلی وجہ نہیں۔ بنیادی وجہ خدا کی قدرتِ کاملہ ہے، نہ کہ کسی اور فرد کی سفارش۔ یہاں پر "مجرم کا پہلے سے توبہ تائب" ہونے کی خصوصیت پر شاہ اسماعیل کا اصرار بہت اہم ہے۔

اگر چہ انھوں نے شفاعت کی ایک قسم کو جائز قرار تو دیا، لیکن شفیع کی یہ حیثیت تسلیم نہیں کی کہ وہ مجرموں کے حق میں ثالث کا کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس کے بالمقابل انھوں نے استدلال کیا کہ ایک وزیر (اور قیاساً حضرت محمد ﷺ) خود مختار بادشاہ (اور قیاساً خدا) کے سامنے کسی مجرم کے حق میں سفارش صرف اس صورت میں کر سکتا ہے جب بادشاہ نے پہلے سے اسے بری کرنے کا فیصلہ کیا ہو۔ شاہ اسماعیل کے اپنے الفاظ میں: "وزیر مجرم کی سفارش صرف اس لیے کرتا ہے کہ وہ اپنے جرم سے توبہ تائب ہو چکا ہے، اور بادشاہ نے اسے معاف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وزیر محض بادشاہ کی مرضی دیکھ کر سفارش کرتا ہے، کیونکہ وہ بادشاہ کا وزیر ہے نہ کہ چوروں کا حمایتی۔ وہ ایسا بادشاہ کی خوشی کے لیے کرتا ہے"13۔

ایک لحاظ سے شاہ اسماعیل کا استدلال بداہت کے خلاف معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت صرف اس وقت جائز ہے جب اس کی ضرورت نہ ہو، اور جب مجرم کی براءت میں اس کا کردار بالکل ثانوی ہو۔ پھر یہ امر باعث حیرت ہے، اور بعد میں اسماعیل کے مخالفین نے بھی اس حیرت کا اظہار کیا ہے کہ کسی کو شفاعت کی اجازت کیوں کر دی جا رہی ہے، جب کسی گناہ گار کی نجات کے لیے اس کی شفاعت غیر مطلوب اور براے نام ہے۔ شاہ اسماعیل ان ابہامات کو زیربحث نہیں لاتے۔ بہر حال یہاں جو اہم بات سامنے آتی ہے، وہ وسیع تر سیاسی پروگرام ہے جو شفاعت پر الہیاتی بحث کے اندر مستور ہے۔

سیاسی اور اعتقادی تصورات کی پار زیرگی (Cross-Pollination)

شاہ اسماعیل کے الہیاتی تصور میں پائی جانے والی مساوات پسندی (egalitarianism) کا گہرا تعلق شاہی انداز حکومت پر ان کی عمومی تنقید سے ہے، جو ان کی نظر میں سیاسی طاقت کے ایک طبقاتی نظام کو پروان چڑھاتا ہے۔ ان کے الٰہیاتی پروجیکٹ کو اشرافیہ کے مسرفانہ طرز زندگی کو بے نقاب کرنے کے سیاسی مقصد سے علیحدہ کرنا ناممکن ہے۔ ان کی نظر میں اس طرز حیات نے سلطنت کے عہد زوال میں اخلاقی نظام کے اندر زہر اتار دیا ہے۔ حاکمیتِ مطلقہ کی سیاسی الہیات کے لیے سادگی پر مبنی ایک ایسا اخلاقی نظام درکار ہے جو شاہی طرز حیات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے۔

روزمرہ کی زندگی اس طرح سے تشکیل دی جائے کہ ان تمام عادات واطوار اور اقدار کی بیخ کنی کی جائے جو خدائی حاکمیت (توحید) کو کم زور کرتے ہیں۔ شاہ اسماعیل کے نزدیک ایک ایسے سماج میں خدا کی قدرتِ مطلقہ کی یکتائی مسلسل زوال پذیر ہوتی ہے جو مصیبت کے وقت اولیا سے مدد مانگتا ہے، اور جس میں عوامی دائرے میں اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ فروغ پاتا ہے۔ اخلاقی اور سیاسی زوال کی اصلاح تقاضا کرتی ہے کہ مخلوق کے مقابلے میں ذات وصفات دونوں کے اعتبار سے خدا کی مطلق یکتائی اور قدرتِ کاملہ کا اثبات کیا جائے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے شاہ اسماعیل نے حاکمانہ اختیارات کے دنیوی اور خدائی استعمال کے درمیان ایک فیصلہ کن فرق قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خاص طور پر ان کا وہ انداز بہت مؤثر ہے جس کے ذریعے انھوں نے خدا تک رسائی کا تقابل دنیوی بادشاہوں کی مخصوص متکبرانہ بے نیازی سے کیا ہے۔ جیسا کہ انھوں نے واضح کیا: "اللہ تعالیٰ کسی متکبر حکمران کی طرح نہیں، جو اپنے بندوں پر افسرانہ یا جانب دارانہ انداز میں رحم وکرم کرتا ہے۔ خدا کے دربار میں رسائی کے لیے وزیروں، شہزادوں اور نوابوں کی وکالت اور سفارش کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر چہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے، لیکن وہ دنیوی بادشاہوں کی طرح مغرور نہیں کہ اس کے بندے اس سے چاہے کتنی ہی التجا کریں، وہ غرور کے مارے ان کی طرف دھیان ہی نہ دے"14۔

شاہ اسماعیل نے بتایا کہ خدا کے دربار تک رسائی کرنے اور فریاد سنانے اور قبول کرانے کے لیے کسی کو افسروں اور سفارشیوں کے واسطے کی ضرورت نہیں۔ علاوہ ازیں ایسا بھی نہیں کہ خدا صرف اپنے بندوں کی بڑی اور اہم دعاؤں کو خود سنتا ہے، جبکہ چھوٹے معاملات اس نے اپنے وزیروں کو سونپ رکھے ہیں۔ اپنے بندوں سے معاملہ کرنے کے لیے دنیوی بادشاہوں کے برعکس خدا کبھی اپنے اختیارات کسی کو سونپتا۔ ایک مشہور حدیث کے حوالے سے شاہ اسماعیل دعوی کرتے ہیں کہ ایک شخص کو اپنے جوتے کے تسمے تک کے لیے خدا سے دعا مانگنی چاہیے (حتى يسئله شِسعَ نَعلَيه إذا انقطع)15۔ مختصر یہ کہ شاہ اسماعیل نے بتایا کہ اپنے بندوں پر خدا کی رحمت وشفقت بے پایاں اور فوری طور پر دست یاب ہوتی ہے، اس لیے اولیا اور انبیا سے توسل کرنا غیر ضروری، غیر منطقی اور غیر شرعی ہے۔

اس نکتے کے اثبات کے لیے شاہ اسماعیل نے ایک طاقت ور قیاس پیش کیا: "اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک رعیتی آدمی بادشاہ کے پاس اکیلا بیٹھا ہے اور بادشاہ اس کی بات سننے کے لیے ہمہ تن متوجہ ہے۔ پھر وہ رعیتی کسی امیر وزیر کو کہیں دور سے پکارے اور کہے کہ تو میری طرف سے فلاں بات بادشاہ کے حضور میں عرض کر دے، تو یا تو وہ اندھا ہے یا دیوانہ"16۔ یہ قیاس اچھی طرح واضح کرتا ہے کہ شاہ اسماعیل خدائی حاکمیت اور انسانوں کے کردار کے درمیان تعلق کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق انسان کی ذمہ داری بس اتنی ہے کہ وہ خدا کی حاکمیتِ مُطلقہ پر ایمان لاکر اس کی قربت حاصل کرے۔ خدا کی اَحَدیتِ مُطلقہ کے اقرار سے ہی خدا کی قربت حاصل ہو سکتی ہے۔  

شاہ اسماعیل کے استدلال کی طرح وہ عقلی انداز فکر بھی قابل توجہ ہے جس کے اندر انھوں نے اپنا استدلال پیش کیا۔ کسی سفارشی کو مدد کے لیے پکارنا نہ صرف یہ کہ حرام اور بدعت ہے، بلکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص "پاگل"، بے عقل اور اندھا ہو چکا ہے، کیونکہ وہ اپنی ضرورتوں کے لیے غیر اللہ سے توسل پر انحصار کرتا ہے۔ جس کو خدا سے انتہائی قربت کی بابرکت نعمت میسر ہے، اس کے لیے کسی دور پار غیر خدائی ہستی کے پاس سفارش کے لیے جانا حماقت ہے۔

شاہ اسماعیل نے یہ بھی بتایا کہ غیر اللہ کے علاوہ کسی اور کی منت سماجت کرنا مطلق رحیم ذات کی حیثیت سے خدا کے حق کو چھین کر کسی ایسی ہستی کو دینا ہے جو اس کی مستحق ہی نہیں۔ ایک بار پھر یہاں شاہ اسماعیل نے جس انداز میں اس تصور کو بیان کیا ہے، وہ بہت چشم کشا ہے۔ مناظرانہ کرختگی اور واعظانہ تنبیہ کا امتزاج پیدا کرتے ہوئے شاہ  اسماعیل نے لکھا: "جس نے اللہ کی حاکمیتِ مطلقہ کا حق اس کی مخلوق کو دے دیا تو گویا اس نے ایک عظیم ہستی  کا حق لے کر کسی ذلیل ترین کو دے دیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے بادشاہ کے تاج کو ایک چمار کے سر پر رکھ دیا جائے۔ اس سے بڑی بے انصافی کیا ہوگی؟17"

وہ اپنی بات مزید زور کے ساتھ جاری رکھتے ہوئے  لکھتے ہیں: "اور یہ بات تو یقینی ہے کہ ہر مخلوق، چاہے وہ چھوٹی ہو یا بڑی، اللہ کی عظمت کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے"18۔ یہ بیان طنز سے لبریز ہے۔

ایک ایسے اخلاقی نظام کا تصور جو ذات پات اور نام ونسب کے طبقات سے ماورا ہو، شاہ اسماعیل کے پروجیکٹ کی شہ رگ تھا۔ وہ نام ونسب پر فخر کے شدید ناقد تھے، اور ان کی نظر میں مغلیہ ہندوستان کے آخری دور میں یہ وبا عام تھی۔ لیکن "چمار" کی نسل پرستانہ اصطلاح کے استعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ نام ونسب پر یہ تنقید مطلق نہ تھی۔ جیسا کہ قارئین اگلے چند ابواب میں دیکھیں گے، تمام تر اختلافات اور مناظروں کے باوجود انیسویں صدی میں مسلمان اہل علم کے باہم مخالف گروہ چمار کی تحقیر پر متفق تھے، جو ان میں سے بہت سوں کے لیے سماجی اعتبار سے بالکل نچلی حیثیت کا ایک معمولی فرد تھا19۔ حتّٰی کہ شاہ اسماعیل کے لیے بھی -جن کا عقیدہ یہ تھا کہ خدائی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بعد تمام دنیوی امتیازات اور مراعات مٹ گئی ہیں- چند ایسی بندشیں تھیں جنھیں خدا کی قدرتِ مطلقہ بھی نہیں ہٹا سکتی۔

حاکمیت اور وجودی الہیات کا لزوم

شاہ اسماعیل کی فکر میں الٰہیاتی اور سیاسی تصورات کے ملاپ کو سمجھنے کے لیے کارل شمٹ کے اس قول کی طرف لوٹنا مفید ہوگا کہ حاکم اعلیٰ (sovereign) وہی ہوتا ہے، جو استثنا کو قانون کی شکل دینے کی صلاحیت کا رکھتا ہے، ایسی قدرت جس سے وہ قانون کے دائرے میں عمومی اصول کے اطلاق کو روک سکے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں، شاہ  اسماعیل کے تصورِ شفاعت کا مرکزی نکتہ اخروی نجات کے دائرے میں غیر الہی ہستیوں کے کردار کی مکمل تردید ہے۔ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کا تحفظ اس بات کو فرض کرتا ہے کہ تمام انبیا واولیا کی قدرت کو انتہائی محدود کیا جائے۔ بالفاظِ دیگر صرف خدا ہی ان تمام قوانین کو توڑ سکتا ہے جو اس نے خود بنائے ہیں، یا شمٹ کی اصطلاح میں حاکم اعلی کے پاس ہی یہ قدرت ہے کہ وہ استثنائی صورت کی تنفیذ کرے، یعنی ایک عادی مجرم کو بری کرنے کے لیے خصوصی استثنا عطا کرکے عام اصول کو معطل کر دے۔

لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ اٹھتا ہے: شاہ  اسماعیل کی فکر میں کس قسم کی رعیت کا تصور اور ہیئت پیش کی گئی ہے؟ ذرا زیادہ تخصیص کے ساتھ سوال یہ ہے کہ کس طرح سے خدائی ماورائیت سے متعلق شاہ اسماعیل کی الہیات عوامی دائرے میں ایک خود مختار رعیت (sovereign subject) کی تشکیل کی خواہش سے مربوط ہے؟ خدائی حاکمیت کی مطلق انفرادیت کے لیے ان کا پیش کردہ استدلال کس طرح سے عوامی حاکمیت کے ایک مخصوص تصور کو بھی تشکیل دیتا ہے؟ ان سوالات کو زیر بحث لانے میں یہ سوال بنیادی اہمیت کا حامل ہے کہ ہم ماورائیت (transcendence) کی اصطلاح سے مراد کیا لیتے ہیں؟ یہاں میں چاہتا ہوں کہ خاص طور پر ماورائیت پر مارٹن ہائیڈیگر کی فکر سے متعلق اروند منڈیئر (Arvind Mandair) کے شان دار مطالعے سے استفادہ کروں۔ منڈیئر کہتا ہے کہ ہائیڈیگر کے مطابق، جیسا کہ اس کی تحریر Metaphysical Foundations of Logic میں ہے، "ماورائیت" کو، جس کی خاصیت حدود سے ماورا ہونا ہے، دو مختلف طریقوں سے سمجھا جا سکتا ہے: (1) حضور وشہود  (immanence) کے مقابلے میں؛ (2) امکان واحتمال (contingency) کے مقابلے میں20۔

پہلی صورت میں، جسے ہائیڈیگر "علمیاتی ماورائیت" (epistemological transcendence) کہتا ہے، ماورا وہ ہے "جو اندر نہیں بلکہ باہر رہتا ہے، جو جوہر (روح) اور شعور سے باہر واقع ہوتا ہے۔۔۔ جو حدود سے اور شعور کو محیط دیوار سے باہر ہوتا ہے"21۔ ماورائیت کے اس تصور میں اندرون وبیرون کے درمیان کلیدی رشتہ ہے ، جس میں حاضر ومشہود  اندرون ہے جو جوہر/فرد کے اندر رہتا ہے، اور ماورائی وجود وہ ہے جو جوہر اور شعور سے باہر واقع ہوتا ہے۔

اس کے برعکس جب ماورائیت کا تقابل امکان واحتمال کے ساتھ کیا جائے تو یہ ایک الٰہیاتی تصور بن جاتا ہے۔ پھر اس سے مرادہ وہ ہے جو ہم سے تعلق رکھنے والی اور ہمیں محسوس ہونے والی ہر چیز سے ماورا ہے؛ "تمام حسی موجودات سے اس طرح سے ماورا ہونا جو مکمل طور پر ناقابل گرفت ہو" کے معنی میں "پَھلانگ" ہے22۔ "اس صورت میں ماورا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان ایک لامتناہی فرق ہے"23۔ ہائیڈیگر مزید بتاتا ہے کہ الہیاتی مابعد الطبعیات (theological metaphysics) کی کم وبیش تمام صورتیں علمیاتی اور اعتقادی ماورائیت کے ان دو تصورات کے ساتھ جُڑتی ہیں، اور اس طرح سے "خارجی دنیا کے وجود کا قضیہ علمِ باری تعالی اور وجودِ باری تعالیٰ کے اثبات کے امکان میں الجھ جاتا ہے"24۔ اس قسم کے منہج فکر کو، جس میں عالمِ ظاہری سے متعلق ایک بندے کے علم کا امکان ایک ماورا خدا کے علم سے مشروط ہو جائے، ہائیڈیگر "وجودی الہیات (ontotheology)" کہتا ہے۔ یہ اصطلاح تین چیزوں سے مرکب ہے: وجود (onto)، الٰہ (theos) اور علم (logos)۔

یہ اہم ترین نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماورائیت کے لیے وجودی الٰہیات کا استدلال حاکمِ مُطلق خدا کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو ایک خود مختار رعیت کی شکل میں خود کو دوبارہ ظاہر کرتا ہے۔ خدائی حاکمیت اور عوامی حاکمیت باہم دگر جڑے ہوئے ہیں، جن میں ہر ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہے۔ مسئلۂ شفاعت کی بابت شاہ اسماعیل کی فکر اور وجودی الہیات کے منہج میں گہری مماثلت ہے۔ خدائی حاکمیت کی یکتائی کے لیے ان کا استدلال جتنا خدا سے متعلق ہے، اتنا ہی عوامی دائرے میں ایک خود مختار رعیت کی تشکیل سے متعلق ہے۔ خدا اور ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت باہم غیر متعلق نہیں، بلکہ خدائی حاکمیت سے متعلق شاہ اسماعیل کے بیانات کی استدلالی فضا میں یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہیں۔

تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے سیاسی الہیات کا ایک ایسا تصور پیش کیا جو عوامی دائرے میں ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کو شعوری طور پر اس مطالبے سے مربوط کرتا ہے کہ وہ تغیر وتبدل سے پاک حاکمِ مطلق خدا کی ماورائیت کا اقرار کرے۔ اس وجودی الہیاتی منہج کے اندر کسی بندے کا اپنی ذات یا دوسروں سے تعلق خدائی حاکمیت سے وفاداری پر منحصر ہے۔ سماج کے تمام افراد کی اجتماعی ذمہ داری یہ ہے کہ خدائی حاکمیت کا اقرار کریں25۔ سماجی یک جہتی کی بنیاد ہی خدائی حاکمیت کا اقرار ہے۔ سماج کے تمام افراد حاکمِ مطلق خدا سے اپنی مشترکہ وفاداری میں متحد ہیں۔ یہ یک جہتی برقرار تو رہتی ہے، تاہم خدائی حاکمیت (توحید) کی حدود سے تجاوز (شرک) کا مستقل خدشہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ ہر فکر، عمل اور روزمرہ کے نظامِ حیات کی مسلسل نگرانی ضروری ہے تاکہ حاکمِ مطلق خدا کے تمام ممکنہ حریفوں کو حاکمیت کے دائرے تک رسائی سے روکا جائے۔

ایسی شدید نگرانی اور بے چینی کے ماحول میں وجودیات (ontology) ہمیشہ عقائد (theology) سے بندھے ہوتے ہیں۔ زندگی کی حدود اور شناخت کی حدود حاکمِ مطلق خدا کی ہستی سے اس طرح جڑی ہوتی ہیں کہ انھیں علیحدہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ شناخت کے اس تصور کے مطابق فکر وعمل کی ان تمام صورتوں کو جو اس طرح کی رعیت کی تشکیل کے لیے خطرہ ہوں یا اس کی تشکیل کو کمزور کرتی ہوں، مٹانا چاہیے۔ شاہ اسماعیل نے شرک کی جن اقسام کو خدائی حاکمیت (توحید) کی ضد قرار دیا ہے، اس میں یہی وجودی الہیاتی استدلال کار فرما ہے۔ ان کی نظر میں یہ تجاوزات خدا اور انسان کے درمیان ایک ایسے تعلق کو کمزور کرتے ہیں، جس میں انسانی زندگی کا ہر لمحہ اس فریضے کے لیے وقف ہے کہ وہ خدائی حاکمیتِ مطلقہ کا اقرار کرے۔

مزید برآں شاہ اسماعیل کے الٰہیاتی تصور میں کسی کا ذاتی اختیار حاکمِ مطلق خدا کے دربار میں فوری رسائی کے امکان کے ذریعے قائم ہے۔ خدا کو تمام اختیارات سپرد کرنے کے عمل کے نتیجے میں بندے کو یہ آزادی دے دی گئی ہے۔ خدا اور اس کی انسانی رعیت کے درمیان تعلق کے لیے انبیا واولیا کی ثالثی کی کوئی ضرورت نہیں۔ خدا اپنے بندوں کی الحاح وزاری اور دعاؤں کے سننے اور قبول کرنے کے لیے ہمہ وقت موجود ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ نے انفرادی طور پر ہر فرد اور نتیجتاً اجتماعی طور پر تمام عوام کو غیر اللہ پر انحصار سے آزادی فراہم کی ہے۔

انفرادی اور اجتماعی نجات کا مکمل دار ومدار حاکمِ مطلق خدا سے عہدِ وفا پر منحصر ہے لیکن، اہم نکتہ یہ ہے کہ  یہ نجات مشروط ہے۔اسے صرف وہی لوگ پا سکتے ہیں جو شعوری اور ارادی طور پر خدائی حاکمیت کے تمام مزعومہ حریفوں سے دور رہیں۔ جو کوئی بھی اپنے اعمال وعقائد کے ذریعے حاکمِ مطلق خدا کے حریفوں کے اختیار کو تقویت فراہم کرتا ہے، وہ اخروی نجات نہیں پا سکتا۔

ایسا شخص جو خدائی حاکمیت کی مطلق یکتائی کو کمزور کرتا ہے، اعتقادی بغاوت کے ارتکاب کا مجرم ہے۔ خدائی حاکمیت کی سالمیت کو برقرار رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ سماجی زندگی کے ہر ہر لمحے میں خدائی حاکمِ اعلیٰ کے ساتھ مکمل وفاداری نبھائی جائے۔ خدائی حاکمیت کی کوئی معقولیت اسی وقت ہو سکتی ہے جب وہ مطلق ہو۔ خدائی حاکمیت کی یہ تفہیم حیرت انگیز طور پر اس منہج کے ساتھ مماثلت رکھتی ہے جس میں جدید ریاست اپنی حاکمیت شہریوں سے منواتی ہے۔

جس طرح جدید ریاست اپنے شہریوں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ اس کی حاکمیت سے مکمل وفاداری کا عہد کریں، اس طرح سے شاہ اسماعیل کے سیاسی عقیدے میں خدا کی حاکمیت کا تحفظ صرف اس صورت میں ممکن ہے جب وہ مطلق ہو، اور وہ کسی بھی حریف کے خطرے سے دوچار نہ ہو۔ اور جس طرح ریاست کی حاکمیت کو چیلنج کرنے کا نتیجہ شہریت سے محرومی اور غداری کے الزام کا سامنا کرنا ہے، بالکل اسی طرح شاہ اسماعیل کی نظر میں خدائی حاکمیت کو چیلنج کرنا آدمی کو ایمان کی سرحد سے باہر کر دیتا ہے۔ بالفاظِ دیگر ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت کی حدود، چاہے وہ انفرادی ہوں یا اجتماعی، خدائی ماورائیت کے عقیدے میں وجودی الہیاتی انداز میں پیوست تھیں۔ لیکن یہ وجودی الہیاتی بندوبست ایک شدید تضاد کا شکار تھا۔

ایک جانب شاہ اسماعیل نے ایک انتہائی جمہوری انداز  کی الٰہیات تشکیل دی۔ الہیات کے اس تصور کے مطابق ایک سماج تمام اختیارات کو صرف  خدا کے لیے مانتا ہے، اور اس طرح اس اختیار کو تمام انسانوں اور غیر خدائی ہستیوں سے دور رکھتا ہے۔ خدا کی حاکمیتِ مطلقہ کے ساتھ اس وفاداری کے بدلے میں انھیں خدا کی کامل قربت کی نعمت سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن خدا کی کا قربت کے حصول کے لیے شرط یہ ہے کہ بندہ خدا کی مطلق یکتائی کا اقرار کرے۔ خدا بیک وقت سماج کے اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ وہ سماج کے سب سے زیادہ قابل رسائی فرد کی حیثیت سے سماج کے اندر ہے۔ تاہم وہ ایسا قادر مطلق ہونے کی حیثیت سے باہر بھی ہے، جو کسی بھی لمحے تمام موجودہ قوانین کو تبدیل کرکے استثنا کو قانون کی شکل دے سکتا ہے۔

استثنا کو قانون کی شکل دینے کا مرحلہ خدا سے اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ سماج کی حدود سے باہر قدم رکھے تاکہ وہ اپنے جاری کردہ اصول وقوانین کو معطل کرے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے بندوں سے تعلق کے حوالے سے خدا بیک وقت بے حد قریب بھی ہے اور بے حد دور بھی۔ وہ حیرت انگیز طور پر حاضر ومشہود  (immanent) ہے، تاہم وہ حیرت انگیز طور پر ماورائی بھی ہے۔ خدا ہر جگہ ہے، اور وہ کہیں بھی نہیں۔ حاکمیت کا کوئی تصور، چاہے اس کا تعلق  مذہبی خدا (اللہ تعالیٰ) سے ہو یا لامذہبی خدا (ریاست) سے، اس لا ینحل تناقض سے جان نہیں چھڑا سکتا۔ شاہ اسماعیل کی سیاسی الہیات بھی اس متناقض استدلال میں الجھی ہوئی ہے کہ خدائی حاکمیت کا تحفظ ایسے عوام کے ذریعے سے کیا جا سکتا ہے جن کا فرض اس حاکمیت کا مسلسل اقرار اور تحفظ ہو26۔  یہ ایک ناممکن عمل تھا۔

شفاعتِ نبوی پر شاہ اسماعیل کی متنازعہ آرا اور مغلوں کے عہد حکومت کے آخری دور میں شاہی حکومت پر ان کی کاٹ دار تنقید کو شدید چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ انیسویں صدی میں شاید کسی بھی ہندوستانی مسلمان مفکر کے خیالات کو اس قدر تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، ان کے دینی افکار وعقائد برصغیر میں اور اس سے باہر برطانیہ، جنوبی افریقہ اور امریکا میں مقیم ہندوستان سے تعلق رکھنے والے  سنی مسلمانوں کے مابین مباحثوں پر کئی دہائیوں سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ تاہم ان کی اپنی زندگی میں ان کے شدید ترین اور زبردست علمی مخالف دلی کے مشہور فلسفی، شاعر اور معقولی علامہ فضل حق خیر آبادی تھے۔ انھوں نے فارسی میں "تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوٰی" کے نام سے خدائی حاکمیت پر شاہ اسماعیل کے افکار کی ایک جارحانہ تردید لکھی جس پر اب ہم بحث کریں گے۔


 حواشی

  1.  شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور: مطبع احمدی، تاریخ اشاعت ندارد)، 18۔
  2.  ایضاً، ص 24۔ اس حدیث کا شان ورود قرآن (26 : 214) کی وہ "تنبیہ" ہے، جو اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کو کی ہے: "اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ"۔
  3.  القرآن 72 : 21 – 22۔ بحوالۂ شاہ محمد اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی: صدیقی ٹرسٹ، تاریخ اشاعت ندارد)، 95۔
  4.  ایضاً۔
  5.  ایضاً، 5۔
  6.  القرآن 10 : 18۔ بحوالہ اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور)، 4۔
  7.  القرآن 23 :88، بحوالہ ایضاً، 5۔
  8.  القرآن 20 : 109۔
  9.  القرآن34 : 23۔
  10.  اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 100۔
  11.  ایضاً، 101 – 2۔
  12.  ایضاً، 102 – 103۔
  13.  ایضا، 103۔
  14.  ایضاً، اسماعیل، تقویۃ الایمان (لاہور)، 122۔
  15.  ایضاً، 23۔
  16.  اَیضاً، 23۔
  17.  ایضاً۔
  18.  ایضاً، اسماعیل، تقویۃ الایمان (کراچی)، 68۔
  19.  اس بات کا ذکر مفید ہوگا کہ انیسویں صدی میں مسلمانوں کے درمیان مناقشوں کے تناظر میں ایک حقیر فرد کی حیثیت سے لفظ چمار کا استعمال بالکل عام ہے، جبکہ اٹھارھویں صدی میں ایسے حوالے، اگر ہوں بھی تو بہت کم ہیں۔ چمار جیسی ذات پات کی اصطلاحات کا برطانوی استعمار کی جانب سے تشکیل نو اور شمالی ہندوستان کے مسلمان اہل علم اشرافیہ کے درمیان ان اصطلاحات سے جڑے منافرانہ تصورات کے درمیان تعامل ایک ایسا موضوع ہے جس پر مزید گہری تحقیق اور غور وفکر کی ضرورت ہے۔ ذات پات کی استعماری اور معاصر سیاسیات، بالخصوص سابقہ اچھوت/شودروں کے حوالے، سے مزید دیکھیے: رام نارائن راوَت اور کے ستیانارائنہ (مدَوِّنین)، Dalit Studies، (درہم: این سی، ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2016)؛ انوپاما راو، The Caste Question: Dalit and the Politics of Modern Indial، (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2009)؛ روپا وِسواناتھ، The Pariah Problem: Caste, Religion, and the Social in Modern India، (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2014)؛ اور ناتھانیل روبرٹس، To Be Cared For: The Power of Conversion and the Foreignness of Belonging in an Indian Slum، (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2016)۔
  20.  اروند منڈیئر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک، کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)، 234؛ ہائیڈیگر، Metaphysical Foundation of Logic (بلومنگٹن: انڈیانا یونیورسٹی پریس، 1984)، 160۔
  21.  ہائیڈیگر، Metaphysical Foundation of Logic، 160۔
  22.  ایضاً، 161۔
  23.  ایضاً، 162۔
  24.  ایضاً۔
  25.  یہاں پر یہ وضاحت ضروری ہے کہ شاہ اسماعیل کی سیاسی الہیات سے متعلق یہ میری ذاتی تفہیم ہے؛ انھوں نے کہیں بھی اسلامی قانون میں موجود انفرادی یا اجتماعی ذمہ داری کی اصطلاحات میں اپنے استدلال کو بیان نہیں کیا ۔
  26.  اگلے حصے میں جو ابواب میں ہیں، ان میں نسبتاً‌ زیادہ گہرائی سے سیاسی الہیات، قانون اور مثالی عوام کے درمیان تعامل پر بحث کی گئی ہے۔


ستمبر ۲۰۲۲ء

تجارتی اخلاقیات اور ہماری سماجی صورت حالمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۲)ڈاکٹر محی الدین غازی 
حکم عقلی، غزالی اور علم کلاممولانا مشرف بيگ اشرف 
آزادی کے مقاصد اور ہماری کوتاہیاںمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
رشدی ایسے کرداروں سے متعلق اہل اسلام کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ڈاکٹر محمد شہباز منج 
دعوت کی شریعتڈاکٹر عرفان شہزاد 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۹)ڈاکٹر شیر علی ترین 
’’مولانا مودودیؒ کا تصور جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘پیرزادہ عاشق حسین 

تجارتی اخلاقیات اور ہماری سماجی صورت حال

محمد عمار خان ناصر

مالکی فقیہ قاضی ابوبکر ابن العربی ؒنے ’’بیع البرنامج“ (یعنی سامان کا معائنہ کیے بغیر صرف فہرست دیکھ کر سامان خرید لینے) کی بحث میں  مالکی فقہاء کا موقف واضح کرتے ہوئے لکھا کہ یہ رفع حرج کے قاعدے کی رو سے جائز ہے، کیونکہ تاجروں کو سامان کھولنے اور پھر دوبارہ باندھنے میں بے حد مشقت ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ مغرب کے آخری کنارے سے ایک تاجر آتا ہے اور مشرق کے آخری کنارے سے آئے ہوئے ایک تاجر سے بازار میں ملتا ہے اور دونوں صرف فہرست دیکھ کر ایک دوسرے سے بندھا ہوا سامان خرید لیتے ہیں۔ اس کے بعد دونوں الگ ہو جاتے ہیں اور زندگی میں کبھی دوبارہ نہیں ملتے اور ایسی کوئی شکایت نہیں ملتی کہ ان تاجروں نے دھوکا کیا ہو۔ ابن العربی لکھتے ہیں ’’وھی امانة عظیمة وعادة کریمة“، یہ انتہائی عظیم امانت داری اور بہت ہی اعلیٰ عادت ہے۔ (عارضۃ الاحوذی)

یہ کسی دور میں مسلمانوں کی تجارتی  اخلاقیات ہوا کرتی تھی۔  موجودہ صورت حال کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک خبر کے مطابق   ایمازون کمپنی نے  گذشتہ ایک سال کے دوران میں آن لائن تجارت  کے لیے کھولے گئے تیرہ ہزار اکاونٹ بد دیانتی اور  فراڈ کی شکایات  کی بنیاد پر بند کر دیے ہیں ۔ یہ تجارت اور کاروبار میں ہماری اخلاقیات کی عمومی صورت حال ہے جس کا اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ ہم مذہبی ہیں یا غیر مذہبی، کسی ایک سیاسی جماعت  سے وابستہ ہیں یا دوسری سے، اور پڑھے لکھے ہیں یا گنوار۔ بنیادی انسانی اخلاقیات ہماری ترجیحات میں کہیں نہیں ہے۔


قرآن اور حدیث میں عام معاشرتی اخلاقیات کی تلقین عموما ’’مسلمانوں “ کے باہمی حقوق کے حوالے سے کی گئی ہے۔ اس سے یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ شاید غیر مسلموں کے ساتھ ایسا اخلاقی برتاو مطلوب نہیں ۔ امام طحاوی لکھتے ہیں کہ ایک حدیث کے الفاظ ’’لا یسوم احدکم علی سوم اخیہ“ (تم میں سے کسی کا بھائی کسی چیز کا سودا کر رہا ہو تو دوسرے کو درمیان میں اپنی سودے بازی شروع نہیں کرنی چاہیے) سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ اس کی ممانعت مسلمانوں کے حوالے سے ہی کی گئی ہے۔ امام طحاوی اس کی غلطی واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس اسلوب میں ذکر تو (تغلیباً‌) مسلمانوں کا ہوتا ہے، لیکن اخلاقی لحاظ سے اس اصول کی پابندی سب کے لیے مطلوب ہوتی ہے۔ جیسے مثلاً‌ یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی آمد ورفت کا راستہ ہے، لیکن وہی راستہ غیر مسلموں کے لیے بھی ہوتا ہے۔ (مختصر اختلاف العلماء ج ۴ ص ۶۱)

اصل یہ ہے کہ قرآن اور حدیث میں دینی واخلاقی تعلیمات کے مخاطب اصلاً‌ مسلمان ہوتے ہیں، اس لیے ایسی اخلاقی ہدایات میں اسلام اور ایمان کے رشتے کا ذکر ذمہ داری کے احساس کو بیدار کرنے اور حاسہ اخلاقی کو اپیل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلق میں اخلاقیات کی پابندی اور اعلی انسانی اوصاف کا اظہار مطلوب یا ضروری نہیں۔ اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ مسلمانوں اور اہل ایمان کے درمیان بھی ہے جو ایمان کے تعلق سے خاص امتیازی اہمیت رکھتا ہے، لیکن عمومی انسانی اخوت میں تمام بنی آدم شریک ہیں اور اس میں مذہب اور عقیدے کے اختلاف سے فرق پیدا نہیں ہوتا۔

قرآن مجید تمام انبیاء کا ذکر انھیں ان کی کافر اور منکر قوموں کا ’’بھائی “ قرار دے کر کرتا ہے، کیونکہ ان کی ساری دعوتی سرگرمی اور جوش واخلاص کے پیچھے یہی اخوت، ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ کام کر رہا ہوتا تھا۔ سیدنا یوسف علیہ السلام نے تو اپنی خدمات اور صلاحیتیں مصر کے سرتاپا شرک میں ڈوبے ہوئے معاشرے کی مادی بہبود کے لیے وقف کر دیں تاکہ ملک کے وسائل کی اس طرح حفاظت اور بندوبست کیا جائے کہ خلق خدا بھوکی نہ رہے اور قحط سالی میں بھی اسے غلے کی نایابی کی وجہ سے مشکل پیش نہ آئے۔


معاشرے میں بنیادی اخلاقیات کی پابندی کا ماحول عام ہو، اس کے لیے اولین شرط سماجی انصاف اور ہر سطح پر قانون کی پاسداری ہے۔ طاقتور اگر قانون کے تابع نہیں تو معاشرے میں بنیادی اخلاقیات کی پابندی قدر نہیں بن سکتی۔ انسان بنیادی طور پر حیوان ہے اور ایک اخلاقی وجود بننے کے لیے اسے سخت ریاضت اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیوانی جبلت کا ظہور اصلاً‌ چھینا جھپٹی میں ہوتا ہے۔ جو معاشرہ اسی جبلی سطح کی عکاسی پیش کرتا ہو، وہاں ایسے ہی انسان پیدا ہوں گے۔ بڑے پیمانے پر اخلاقیات کے پابند انسان ایسے معاشرے میں ہی بن سکتے ہیں جس میں self-esteem  کا احساس اخلاقیات کی پابندی سے وابستہ ہوجائے اور انسان جھوٹ، دھوکہ اور فراڈ کو خود اپنے لیے باعث توہین سمجھنے لگے۔ یہ ملاپ زیادہ تر انسانوں کے لیے ایک خاص ماحول میں ہی ممکن ہوتا ہے۔ ماحول سے قطع نظر کرتے ہوئے، افراد سے انفرادی سطح پر یہ توقع کرنا کہ وہ خود سے اچھے انسان بن جائیں، بہت محدود سطح پر ہی درست ہے، سماج کی عمومی تربیت اس اصول پر نہیں ہو سکتی۔ پس اچھے انسان بنانے کی اولین شرط مقتدر طبقوں کا خود کو چھینا جھپٹی کی جبلت سے بلند کرنا ہے۔

شاہ اسماعیل شہیدؒ نے اپنی کتاب ’’منصب امامت“ میں مغلیہ دور کے  اشرافیہ  کے طرز زندگی  پر تنقید کرتے ہوئے  لکھا ہے کہ حکمران طبقوں کی جانب سے آرام وآسائش اور خواہشات کی تسکین کو اہمیت دینے کے رجحان نے مملکت کی اخلاقی حالت کا شیرازہ بکھیر دیا ہے، اور اس کے نتیجے میں ظلم واستحصال کے اضافے میں شدت آئی ہے۔ شاہ اسماعیلؒ فرماتے ہیں  کہ ایسا اس لیے ہے کہ اسراف کے لیے مسلسل دولت کے حصول کی ضرورت ہے اور دولت جمع کرنے کی نہ ختم ہونے والی ضرورت نے ناانصافی کے متعدد دروازے کھول دیے ہیں، جیسے غریبوں کا استحصال کرنا اور تاجروں اور صنعت کاروں کے مفادات کو بالکل خاطر میں نہ لانا۔ مزید برآں چونکہ سیاسی اشرافیہ کھیل کود اور آرام وآسائش میں مگن ہے، اس لیے سلطنت کا امن وامان اور انصاف کا نظام ناکارہ ہو گیا ہے۔ حکمران کے لحاظ اور نگرانی سے بے پروا رعایا ایک دوسرے کے ساتھ ظلم اور ناانصافی پر اتر آئے ہیں۔ اس طرح سے حکمرانوں کے اسراف وعیاشی نے پوری امت کی اخلاقی عمارت کو متزلزل کر دیا ہے۔

اسی طرح یہ تصور کہ ظاہراً‌ مذہبی ہونے کا عملی اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق ہے، روزمرہ کے تجربے سے بالکل غلط ثابت ہو چکا ہے اور سیدنا عمر جیسے مذہبی عبقری باقاعدہ اپنے عمال کو یہ سمجھاتے تھے کہ کسی آدمی کے نماز روزے سے دھوکے میں نہ پڑیں اور جب تک اس کو معاملات میں نہ آزما لیں، اس پر اندھا اعتبار نہ کریں۔   حسن بصریؒ نے ایک روایت میں مرسلاً‌ نقل کیا ہے کہ

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لا يَغُرَّنَّ صَلاةُ امْرِئٍ وَلا صِيَامُهُ، مَنْ شَاءَ صَامَ وَمَنْ شَاءَ صَلَّى، وَلَكِنْ لا دِينَ لِمَنْ لا أَمَانَةَ لَهُ ". (جامع معمر بن راشد، رقم ۸۰۰)

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کسی آدمی کی نماز یا روزہ (اس کو یا لوگوں کو) دھوکے میں نہ ڈالے۔ جو چاہے روزے رکھے اور جو چاہے نماز پڑھے، لیکن جو امانت دار نہیں، اس کا کوئی دین نہیں۔“

سچ پوچھیں تو ہمارا جو ظاہری دین داری اور فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی مذہب کا تصور ہے، اس سے یہ خوش گمانی پیدا نہیں ہوتی کہ مذہبی آدمی بنیادی اخلاقیات کا اچھا نمونہ ہوگا۔ اس کے بالکل برعکس، یہ امکان زیادہ ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کی دین داری اور تعصب اسے بداخلاقی کا نفسیاتی جواز مہیا کریں گے۔

انسانی رویوں میں اتنے واضح فرق کی اہمیت اور انسانی نفسیات پر اس کے اثرات کو جھٹلانے کے لیے یہ ’’اعتقادی “ قضیہ قطعاً‌ ناکافی ہے کہ عمل جتنا بھی اچھا ہو، ایمان کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ایک خاص سیاق میں اور کئی قیود کے ساتھ یہ بات علم الکلام میں درست ہو سکتی ہے، لیکن انسانی سطح پر اخلاقی رویوں کے تقابل کی بحث میں یہ مقدمہ پیش کر کے ہم خدا کے تصور کو بھی مجروح کر رہے ہیں اور ایمان کو بھی مزید مشکل بنا رہے ہیں، اور اس کا نفسیاتی محرک صرف یہ ہے کہ ہم اپنی اجتماعی بدعملی پر خود کو شرمندگی سے بچا سکیں۔ ہمیں ڈرنا چاہیے کہ جس نام کے ’’ایمان “ پر ہم خود کو ’’خیر امت“ باور کیے بیٹھے ہیں، اس کی اس ناقدری پر خدا نے یہ نعمت بھی دنیا کی طاقت ور اور انسانی اخلاقیات کے لحاظ سے ہم سے بہتر قوموں کو دے دینے کا فیصلہ کر لیا تو ہماری جگہ دنیا اور آخرت میں کہاں ہوگی؟

وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا امثالکم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۲)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(353) وَلَمْ أَکُنْ کا ترجمہ

وَلَمْ أَکُنْ بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیًّا۔ (مریم: 4)

”لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج بالا آیت میں لَمْ أَکُنْ کو عام طور سے ماضی کے معنی میں لیا گیا ہے۔ یعنی اس سے پہلے میں کبھی دعا مانگ کر نامراد نہیں رہا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے یہ ہے کہ اس کا حال کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے اور وہ زیادہ مناسب ہے۔ یعنی مجھے یقین ہے کہ میری دعا رد نہیں کی جائے گی۔ لم أکن جس طرح ماضی کے لیے آتا ہے اسی طرح حال کے لیے بھی آتا ہے۔ جیسے:

قَالَ لَمْ أَکُنْ لِأَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ۔ (الحجر: 33)

اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

”اور اے میرے رب! میں تجھے پکار کے نامراد نہیں ہوسکتا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی اسلوب کا ایک اور جملہ اسی سورت میں آیا ہے، اس سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ اور وہ ہے:

وَأَدْعُو رَبِّی عَسَی أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِیًّا۔ (مریم: 48)

غرض یہ کہ وَلَمْ أَکُنْ بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیًّا اور عَسَی أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِیًّا دونوں کا مفہوم ایک ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہاں شقیا کا ترجمہ زیادہ تر محروم کیا گیا ہے۔ حالانکہ شقی، سعید کی ضد ہے۔ یعنی بدبخت۔ ابن عاشور کے بقول: والشقی: الذی أصابته الشقوۃ، وهی ضد السعادۃ۔ (التحریر والتنویر)

یہاں یہ لفظ دعا کی قبولیت کے ضمن میں آیا ہے اس لیے نامراد کی تعبیر زیادہ موزوں ہے۔

(354) ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ کا ترجمہ

(۱) ذِکْرُ رَحْمَتِ رَبِّکَ عَبْدَہُ زَکَرِیَّا۔ (مریم: 2)

”یہ تیرے رب کے اس فضل کی یاد دہانی ہے جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ذکر ہے اس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریاؑ پر کی تھی“۔ (سید مودودی)

”یہ مذکور ہے تیرے رب کی اس رحمت کا جو اس نے اپنے بندہ زکریا پر کی“۔ (احمد رضا خان)

”یہ ذکر اس مہربانی کا ہے جو تیرے پروردگار نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج بالا ترجموں میں رَحْمَتِ رَبِّکَ کا ترجمہ اس فضل، اس رحمت یا اس مہربانی کیا گیا ہے۔ رحمت یہاں مصدر ہے، اس لیے ’اس‘ کا استعمال موزوں نہیں ہے۔ یہاں کسی خاص رحمت کی بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ تیرے رب کے رحم کرنے کا بیان ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہاں ذکر کا ترجمہ یاد دہانی نہیں بلکہ ذکر اور بیان ہے، جیسا کہ اسی سورت میں آگے بار بار وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ کہا گیا ہے۔ درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”یہ مذکور ہے تیرے رب کی مہر کا اپنے بندے زکریا پر“۔ (شاہ عبدالقادر)

جس طرح مذکورہ بالا آیت میں ’اس رحمت‘ کی بجائے ’رحم کرنا‘ درست ہے، اسی طرح درج ذیل آیت میں ’ایک رحمت‘ کی بجائے ’رحمت‘ درست ترجمہ ہے۔ دونوں جگہ ’رحمت‘ مصدر ہے، یعنی اللہ کا رحم فرمانا۔ رحمت کا کوئی ایک متعین مظہر مراد نہیں ہے۔

(۲) وَلِنَجْعَلَہُ آیةً لِلنَّاسِ وَرَحْمةً مِنَّا۔ (مریم: 21)

”اور ہم یہ اس لیے کریں گے کہ اُس لڑکے کو لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور یہ کام ہو کر رہنا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور اس لیے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت“۔ (احمد رضا خان)

”ہم تو اسے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دیں گے اور اپنی خاص رحمت“۔ (محمد جوناگڑھی)

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اور اس کو ہم کیا چاہیں لوگوں کے لیے نشانی اور مہر ہماری طرف سے“ (شاہ عبدالقادر)

(355) وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ کا ترجمہ

سورہ مریم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں ’اذْکُر‘ کا لفظ ’فی الکتاب‘ کے ساتھ آیا ہے اور بار بار آیا ہے۔ فی الکتاب کے ساتھ آنے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ یاد کرو نہیں کیا جائے بلکہ ذکر کرو، پڑھو، تلاوت کرو وغیرہ کیا جائے۔ کتاب میں لکھی ہوئی چیز کو تو پڑھا اور بیان کیا جاتا ہے، وہ یاد کرنے کا محل نہیں ہے۔

درج ذیل آیتوں میں بعض مترجمین نے ’یاد کرو‘ اور بعض نے ’ذکر کرو‘ ترجمہ کیا ہے، موخر الذکر زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مفسر ابن عاشور لکھتے ہیں: والمراد بالذکر: التلاوۃ، أی اتل خبر مریم الذی نقصه علیک. (التحریر والتنویر، تفسیر سورۃ مریم)

(۱) وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ۔ (مریم: 16)

”اور اس کتاب میں مریم کی سرگزشت کو یاد کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کتاب میں مریم کو یاد کرو“۔ (احمد رضا خان)

”اور اے محمدؐ، اس کتاب میں مریم کا حال بیان کرو“۔ (سید مودودی)

(۲) وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ إِبْرَاہِیمَ۔ (مریم: 41)

”اور کتاب میں ابراہیم کی سرگزشت کو یاد کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو“۔ (احمد رضا خان)

”اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اس کتاب میں ابراہیمؑ کا قصہ بیان کرو“۔ (سید مودودی)

(۳) وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مُوسَی۔ (مریم: 51)

”اور اس کتاب میں موسی کی سرگزشت کو یاد کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو“۔ (احمد رضا خان)

”اور کتاب میں موسیٰ کا بھی ذکر کرو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ذکر کرو اس کتاب میں موسیٰؑ کا“۔ (سید مودودی)

(۴) وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ إِسْمَاعِیلَ۔ (مریم: 54)

”اور کتاب میں اسماعیل کی سرگزشت یاد کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو“۔ (سید مودودی)

”اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو“۔ (احمد رضا خان)

”اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو“۔(فتح محمد جالندھری)

(۵) وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ إِدْرِیسَ۔ (مریم: 56)

”اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو“۔ (سید مودودی)

”اور کتاب میں ادریس کو یاد کرو“۔ (احمد رضا خان)

(356)  مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا کا ترجمہ

وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْکِبَرِ عِتِیًّا۔ (مریم: 8)

”اور میں بوڑھا ہو کر سوکھ چکا ہوں“۔ (سید مودودی)

”اور میں خود بڑھاپے کی بے بسی کو پہنچ چکا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ گیا ہوں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور میں بوڑھا ہوگیا یہاں تک کہ اکڑ گیا“۔ (شاہ عبدالقادر)

سوکھ جانا یا بے بسی کو پہنچنا وہ باتیں ہیں جن کا ذکر آیت کے الفاظ میں نہیں ہے۔ آیت کے الفاظ بہت زیادہ بوڑھا ہونے کا معنی دے رہے ہیں۔ زیادہ بڑھاپے میں سوکھ جانا یا بے بس ہوجانا ضروری نہیں ہے۔ عتیا کا مطلب اکڑ جانا بھی نہیں ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کا ترجمہ ہے:

”اور میں کھوسٹ بوڑھا ہوچکا ہوں“۔

(357) حنان کا مطلب

وَحَنَانًا مِنْ لَدُنَّا وَزَکَاۃً۔ (مریم: 13)

حنان کا اصل معنی شوق و اشتیاق ہے، پھر یہ درد مندی و غم خواری کے لیے استعمال ہوا۔ یعنی دوسروں کے تئیں ہم دردی کے جذبات۔ وحنّ: فی معنی ارتاح واشتاق، ثم استعمل فی العطف والرأفة. (تفسیر الکشاف)

نرم دلی اور سوز و گداز اس کا موزوں اردو متبادل نہیں ہیں، جیسا کہ ذیل کے دونوں ترجموں میں ہے۔

”اور اپنی طرف سے اس کو نرم دلی اور پاکیزگی عطا کی“۔ (سید مودودی)

”اور خاص اپنے پاس سے سوز و گداز اور پاکیزگی“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”اور اپنے پاس سے شفقت اور پاکیزگی بھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

(358) البَرّ کا ترجمہ

برّ کا مطلب حقوق کو پورا پورا ادا کرنا ہوتا ہے۔ وعدے کو وفا کرنا بھی ہوتا ہے۔قرآن مجید میں یہ وفاداری کے معنی میں آیا ہے۔ درج ذیل مقامات پر بَرّ کا ترجمہ فرماں بردار کیا گیا ہے، اس کی بجائے وفادار زیادہ مناسب ہے۔

(۱) وَبَرًّا بِوَالِدَیْهِ۔ (مریم: 14)

”اور وہ اپنے والدین کا فرماں بردار تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور وہ اپنے والدین کا وفادار تھا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(۲) وَبَرًّا بِوَالِدَتِی۔ (مریم: 32)

”اور مجھے ماں کا فرماں بردار بنایا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور مجھے ماں کا وفادار بنایا ہے“۔(امانت اللہ اصلاحی)

(۳) یاد رہے کہ قرآن مجید میں البَرّ اللہ کی صفت کے طور پر بھی آیا ہے۔ وہاں بھی وعدہ پورا کرنے والا مراد ہے۔

إِنَّهُ هُوَ الْبَرُّ الرَّحِیمُ۔ (الطور: 28)

”بے شک وہ بڑا ہی با وفا اور مہربان ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)


حکم عقلی، غزالی اور علم کلام

مولانا مشرف بيگ اشرف

اشعری علم کلام کا مشہور متن "ام البراہین" کا آغاز ان الفاظ سے ہوتا ہے:

اعلم أن الحكم العقلي ينحصر في ثلاثة أقسام: الوجوب والاستحالة والجواز. فالواجب ما لايتصور في العقل عدمه، والمستحيل مالايتصور في العقل وجوده، والجائز ما يتصور في العقل وجوده وعدمه.1

ترجمہ: "جان لو کہ حکم عقلی تین ہی طرح کا ہے: وجوب، عدم امکان اور جواز۔ پس واجب وہ ہے کہ عقل کے لیے اسے معدوم فرض کرنا ناممکن ہو، ناممکن وہ ہے کہ عقل کے لیے اسے موجود ماننا ممتنع ہو اور جائز وہ ہے کہ عقل اس کے وجود وعدم دونوں کا تصور کر سکتی ہو۔"

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب علم الکلام ایک شرعی علم ہے اور اس میں ان عقائد سے بحث کی جاتی ہے جو شرعی مصادر(کتاب، سنت واجماع) سے ثابت شدہ ہوں، تو کلام کی کتابوں میں گفتگو کا آغاز "حکم عقلی" سے کیوں کیا جاتا ہے؟اور اس سے پہلے  یہ جاننا ضروری ہے کہ "حکم عقلی"   ہے کیا؟ اس تحریر میں ہم حکم عقلی جاننے کی کوشش کرتے  ہوئے اس کی روشنی میں یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ  جب حکم عقلی سے گفتگو کی جائے، تو منہج استدلال کیا ہوتا ہے۔اور اس کے لیے بنیاد امام غزالی  کو بنائیں گے۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ اشارہ ضروری ہے کہ علم کلام مسلمانوں کا وہ علم ہے جسے فلسفے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور اسی فن میں مسلمان وحی واسلامی احکام پر مختلف ادوار میں اٹھائے گئے سوالات  کا جواب  دیتے اور اعتراضات کی تردید کرتے آئے ہیں۔نیز امام غزالی رحمہ اللہ تعالی نے تہافت میں ابن سینا وفارابی کی آرا پر جو تنقید اٹھائی اس میں بھی وہ کلامی منہج برتتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں علم کلام کی طرف توجہ ہوئی ہے۔ کوئی اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کی طرف آیا اور کوئی اسے ضرر رساں سمجھ کر اس کی طرف تنقید کے لیے آیا۔ راقم سطور کا تعلق پہلے گروہ سے ہے جو اس کے احیا کو بہت اہم  اور مسلمانو ں کے کلامی  واصولی بنیادوں کو نظر انداز کر کے جدید  سائنس اورفلسفے کے اٹھائے گئے سوالات واعتراضات کی روشنی میں وحی وشرع کی وضاحت کے در پے ہونے کو  خیر کا پیش خیمہ نہیں سمجھتا۔چناچہ کلامی منہج سے ناواقفیت کی وجہ سے ہمیں کلام اورخاص طور سے غزالی پر ایسی نکتہ چینی سننے کو ملتی ہے جو کلامی منہج کی روشنی میں کوئی معنے نہیں رکھتی۔ مثلا یہ کہ غزالی نے فلاسفہ سے گفتگو کرتے ہوئے معجزے  کی دلیل وحی  کو قرار دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیں جلایا ۔یہ معجزے کے امکان کا  بس ایمان کی بنیاد پر دعوی ہے کوئی عقلی دلیل نہیں۔ اور یہ کہتے ہوئے "امکان" اور "وقوع" میں فرق اوجھل رہتا ہے۔ نیز بعض لوگ یہ  سمجھتے ہیں کہ جب امام غزالی نے سبب ومسبب کے درمیان "رشتہ ضرورت" کا انکار کیا، تو گویا انہوں نےاس کے "وقوع  "پر بھی قلم نسخ پھیر دیا۔اسی طرح، متکلم جب خدا کو ثابت  کرتا ہے، تو پہلے ہی سے خدا  پر ایمان لا چکا ہوتا ہے اور اس طرح یہ سرگرمی کوئی عقلی سرگرمی نہیں رہتی اور ایسے کہنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ دلیل کے منطقی وعقلی بنیادیوں پر درست ہونے کے لیے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ  مستدل(دلیل دینے  والا) کا ایما ن کیا ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ استدلال میں مقدمات کیا ہیں اور کیا ان  مقدمات سے نتیجہ  کی سوت پھوٹی ہے یا نہیں ؟اس لیے، کلامی منہج کو سمجھنا ضروری ہے اور اس تحریر میں  ہم گفتگو "حکم عقلی" سے کریں گے۔

حکم عقلی:

عربی زبان میں حکم  "فیصلے" کو کہتے ہیں جسے منطق وغیرہ میں قضیہ (Proposition )کہا جاتاہے۔ چناچہ سورة الحج کےاخیر میں قرآن مشرکین کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے:

ﵟوَإِن جَٰدَلُوكَ فَقُلِ ٱللَّهُ أَعلَمُ بِمَا تَعمَلُونَ ۔ ٱللَّهُ يَحكُمُ بَينَكُم يَومَ ٱلقِيَٰمَةِ فِيمَا كُنتُم فِيهِ تَختَلِفُونَ (آیت ۶۸، ۶۹)

ترجمہ: " اگر یہ آپ سے کٹ حجتی کرتے رہیں، تو آپ (بس) یہ کہہ دیجیے کہ تم جو (کٹ حجتی اور باطل اعتراضات)کرتے ہواس سے اللہ تعالی خوب واقف ہے،(اور معاملہ اللہ تعالی کے سپرد کر دیجیے ، اے نبی جی کہ)اللہ تعالی بروز قیامت تمہارے بیچ اس حوالے سے فیصلہ فرما دے گا جس میں  تمہارے درمیان اختلاف رہا۔"

اور فیصلے کا تانا بانا دو اطراف سے بنتا ہے کہ ایک چیز کو دوسرے چیز کے لیے ثابت کیا جاتا ہےیا اس کی نفی کی جاتی ہے۔ چناچہ جب یہ فیصلہ کیا جائے کہ: "فلاں بندہ قاتل ہے"، تو فلاں بندہ کے لیے قتل کے عمل کو ثابت مان لیا گیا یا اگر یہ کہا جائے کہ : " اس وقت مینہ نہیں برس رہا "، تو یہاں   حال میں بارش کے برسنے کی نفی کی گئی۔

جس چیز یا شخص پر حکم لگایا جائے یا اس کی نفی کی جائے، اسے موضوع ، محکوم علیہ  وغیرہ کے نام سے یا د کیا جاتا ہے ۔ اس مثال میں "فلاں بندہ" موضوع یا محکوم علیہ ہے جبکہ جس امر کو ثابت کیا جائے یا اس کی نفی کی جائے، اسے محمول یا محکوم بہ کہتے ہیں۔ اس مثال میں "قتل" محکوم بہ ہے۔

اگر کسے فیصلے کا ماخذ شریعت ہو، تو اسے حکم شرعی کہتے ہیں۔ جیسے یہ کہنا کہ: "نماز فرض ہے"۔ یہاں نماز پر فرضیت کا حکم لگایا گیا ہے اور "نماز" موضوع جبکہ "فرضیت" محمول ہے۔

اس کے برعکس، اگر فیصلے کی بنیاد انسانی عقل ہو، تو وہ "حکم عقلی " کہلاتا ہے اور  اس سیاق میں عقل  سے مقصود کسی چیز کے وجود یا عدم وجود کے حوالے سے گفتگو ہے۔ اس لیے، عقل کے تین بنیادی احکام ہیں:

۱: وجوب : جب انسانی عقل کے لیے کسی معاملے کا عدم ناقابل تصور ہو، تو وہ واجب اور اس کا حکم وجوب۔

۲: ممتنع: جب انسانی عقل کے لیے کسی معاملے کا وجود ناقابل تصور ہو، تو وہ محال اور اس کا حکم امتناع۔

۳: ممکن: جب انسانی عقل کے لیے  نہ کسی معاملے کا وجود ناقابل تصور ہو، نہ عدم، تو وہ ممکن اور اس کا حکم امکان۔   

پس واجب ومحال میں انسان کسی تصور  کے حوالے سے باقاعدہ دعوی کرتا ہے کہ وجود اس کی ذات کا تقاضا ہے یا وجود کی کرنیں اس پر پھوٹ ہی نہیں سکتیں۔ اس کے برعکس، ممکن میں انسان  اپنی لاعلمی کا اقرا رکرتا ہے کہ کسی تصور کے بالمقابل اس کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں جس کی بنیاد پر اس کے وجود کو واجب ولازم یا ممتنع وناممکن گردانے۔

اور یہی سے یہ پہلو نکلتا ہے کہ اگر کوئی ممکن کے وجود کا دعوی کرتا ہے، تو اسے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ :

۱: اس کی علت پائی گئی،

۲: اور اس سےپہلے، اسے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ وہ علت اس ممکن کی علت بھی ہے۔

لیکن اگر کوئی صرف ممکن ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اسے اس کی دلیل نہیں دینی ۔ اسی لیے، ممکن کی اپنی علت کے رشتے سے تین حالتیں  ہیں:

۱: واجب لغیرہ: اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ممکن کی علت پائی گئی، تو ممکن کا وجود لازم ہو جاتا ہے۔ اسے "واجب لغیرہ" کہتے ہیں۔ یعنی یہ اگرچہ ممکن ہے لیکن چونکہ علت ومعلول کے اصول کے تحت جب علت پائی جائے، تو معلول ضرور پایا جاتا ہے،اس لیے اس ممکن کا وجود لازم ہوا۔ اور اسی لحاظ سے، اسے "واجب لغیرہ" کہتے ہیں کہ ایک غیر – یعنی علت – کی وجہ سے اس کا وجود ضروری ہو گیا۔

۲: ممتنع الوجود لغیرہ: اوپر یہ بات گزری کہ ممکن الوجود میں وجود ضروری ہے نہ عدم ۔اسی لیے، جب تک ہمیں  علت  کے وجود کا علم نہ ہو،  ممکن کے وقوع کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور اگر ہمیں اس امر کا علم ہو کہ  ممکن کی ایک یا محدود علتیں ہیں اور ان میں سے کوئی بھی نہیں پائی گئی ، تو بلاشبہ ہم اس کے حوالے سے یہی فیصلہ کریں گے کہ وہ موجود نہیں۔ پس جب تک ممکن کی علت کا عدم وجود متحقق ہو، وہ ممتنع لغیرہ ہے۔

۳: ممکن محض: جب کسی ممکن کے وقوع وعدم وقوع سے صرف نظر کر دیا جائے، تو وہ ممکن محض ہے۔

ان پانچ صورتوں  اور ان میں  موجود دعوی یا عدم دعوی کو ذیل کے جدول سے سمجھا جا سکتا ہے:

غزالی کی عبارات:

ہم امام غزالی کے ہاں ان امور کی تعریف پیش کرتے ہیں۔ امام صاحب پہلے واجب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ

«وأما الواجب الوجود فهو الذي متى فرض معدوما غير موجود لزم منه محال، ثم الواجب وجوده ينقسم إلى ما هو واجب لذاته وإلى ما هو واجب لغيره»2

ترجمہ: "واجب الوجود  وہ ہے کہ اگر اسے معدوم فرض کر لیا جائے، تو کوئی محال لازم آئے۔پھر واجب دو طرح کا ہے: واجب ذاتی وواجب لغیرہ۔"

اس کے بعد، وہ واجب ذاتی کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

أما الواجب لذاته فهوالذي فرض عدمه محال لذاته لا بفرض شيء آخر، صار به محالا فرض عدمه3

ترجمہ: "واجب ذاتی وہ ہے کہ اسے معدوم فرض کرنا  بذات خود ناممکن ہو، کسی دوسرے (خارجی) عنصر کی وجہ سے اسے معدوم فرض کرنا ناممکن نہ ہوا ہو"

اور اخیر میں ممکن پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

«والحاصل أن كل ممكن بذاته فهو واجب بغيره، فالممكن إن اعتبرت علته وقدر وجودها كان واجب الوجود، وإن قدر عدم علته كان ممتنع الوجود، وإن لم يلتفت إلى علته لا باعتبار العدم ولا باعتبار الوجود كان له في ذاته المعنى الثالث، وهو الإمكان، فإذن كل ممكن فهو ممتنع وواجب أي ممتنع عند تقدير عدم العلة، فيكون ممتنعا بغيره لا لذاته أو ممكنا من حيث ذاته إذا لم تعتبر معه علته نفيا وإثباتا»4

ترجمہ: "الغرض   ہر وہ امر جو ممکن کے قبیل سے ہو ، تو واجب لغیرہ ہو سکتا ہے۔ اگر اس کی علت کو پیش نظر رکھا جائے اور  مان لیا جائے کہ علت پائی گئی، تو وہ واجب الوجود ہے۔ اور اگر یہ تسلیم کر لیاجائے کہ اس کی علت معدوم ہے، تو وہ ممتنع الوجود ہے۔ لیکن اگر اس کی علت کو نظر انداز کرتے ہوئے نہ یہ دیکھا جائے کہ وہ پائی گئی نہ یہ دیکھا جائے کہ وہ معدوم ہوئی،تو ذاتی لحاظ سے وہ امکا ن سے متصف ہے۔"

حکم عقلی سے وابستہ چند احکام:

اس سے امام غزالی مندرجہ ذیل نتائج حاصل کرتے ہیں:5

۱: ایک امر ایک ہی وقت میں واجب لذاتہ اور واجب لغیرہ نہیں ہو سکتا۔ یہاں سے یہ پہلو نمایاں ہوا کہ ایک امر کو "واجب" اور دوسرے کو اس کی علت کی وجہ سے موجود قرار دینا دو الگ نوعیت کے دعوے ہیں کیونکہ واجب وجود کے تصور کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسے کسی علت کی نیاز نہیں بلکہ اس کا وجود ضروری ہے۔

۲: واجب لغیرہ دراصل ممکن  لذاتہ ہے کیونکہ جسے واجب لغیرہ کہا جاتا ہے وہ ایسا امر ہے کہ اسے معدوم یا موجود فرض کرنے سے کوئی ذاتی محال لازم نہیں آتا ۔ البتہ چونکہ اس کی علت یا سبب پائے جاتے ہیں او رعلت وسبب کے پائے جانے سے معلول یا مسبب ضرور بضرور پائے جاتے ہیں، اس لیے اس امر کا وجود واجب ہو جاتا ہے۔

۳: جو بات ابھی واجب لذاتہ اور واجب لغیرہ کے حوالے سے کہی گئی وہی بات ممتنع لذاتہ اور ممتنع لغیرہ کے حوالے سے ہے۔

۴: ممتنع لذاتہ کی مثالیں: ایک ہی چیز کا  ایک ہی وقت میں سیاہ وسفید ہونا، ایک ہی قضیے یا بات کا  ثابت ومنفی ہونا۔

۵: واجب لغیرہ کی مثال: یہ فرض کرنا کہ آج قیامت قائم ہوئی لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہوا اور ایسا اس وجہ سے کہ اللہ تعالی کے علم ازلی میں ہے کہ ایسا نہیں ہونا۔ یہ واجب لذاتہ نہیں  بلکہ واجب لغیرہ کی مثال ہے۔ دراصل اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ اس کائنات میں وہ باتیں جو پیش آسکتی تھیں لیکن نہیں وقوع پذیر ہوئیں، اگرچہ اپنی ذات میں ممکن ہیں لیکن چونکہ اللہ تعالی کے علم ازلی میں ہے کہ انہوں نے نہیں ہونا ، اس لیے وہ ممعتنع لغیرہ ہیں۔اس کی ایک دوسری مثال یہ ہے کہ ایک آدمی کو اللہ تعالی نے ایک بیٹے اور ایک بیٹی سےنوازا اور وہ فوت ہو گیا۔اب اس کا تیسرا بیٹا یا بیٹی ہونا اگرچہ بذات خود ممکن ہے، لیکن  وہ اللہ تعالی کے علم ازلی کے  پیش نظرممتنع ہے۔

۶:  ہم نے دیکھا کہ جب ممکن ذاتی کی علت پائی جائے، تو وہ واجب لغیرہ ہو جاتا ہے کیونکہ ممکن کا مطلب ہی یہ ہے کہ وجود اس کی ذات کا تقاضا نہیں بلکہ کسی  دوسرے سے حاصل ہوا۔ اس لحاظ سے، واجب لغیرہ کا تصور اس کی علت  کے تصور پر مقدم ہے۔

غزالی وعلم کلام سے حکم عقلی کی کچھ مثالیں:

ذیل میں ہم  امام غزالی سے اس حوالے سے دو مثالیں پیش کرتے ہیں جس سے "حکم عقلی" کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے:

رویت باری تعالی:

کیا قیامت کے دن ایمان والے اللہ تعالی کا دیدار اپنی آنکھوں سے کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں تین مختلف آرا پائی جاتی ہیں:6

امام غزالی رحمہ اللہ تعالی جب اس مسئلے میں تحقیق کرتے ہیں تو اپنے کتاب کے پہلے قطب میں اس کا تذکرہ فرماتے ہیں جو "ذات" سے متعلق  مباحث میں ہے کہ مثلا اللہ تعالی کی ذات جسم سے پاک ہے، جوہر وعرض سے پاک ہے۔ نیز اس میں اللہ تعالی کے وجود پر دلیل کھڑی کی جاتی ہے۔ آپ اس کی وجہ میں دو امور واضح کرتے ہیں:

  1. اللہ تعالی کی رویت کے مسئلے کو ذات باری تعالی سے متعلق "قطب" (یعنی باب) میں لانے کی وجہ یہ ہے کہ معتزلہ نے رویت کا انکار اس بنیاد پر کیا کہ جو ذات جہت سے پاک، وہ اس سے پاک ہے کہ اسے دیکھا جا سکے۔
  2. ہمارا (یعنی اشاعرہ کا ) کہنا ہے کہ دیکھنے کے لیے علت "وجود" ہے۔ پس جو چیز یا ذات موجود ہے اسے دیکھنا "جائز عقلی" ہے۔
  3. اور یہاں سے فورا امام صاحب اس غلط فہمی کو دور کرتے ہیں کہ "جائز عقلی"  ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ "بالفعل" (In Actuality)بھی ایسا ہو۔ بلکہ بعض خارجی عناصر کی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ  انسان بالفعل کسی چیز کو نہ دیکھ سکے۔  وہ اسے یوں سمجھاتے ہیں کہ دیکھو جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں دریا میں جو پانی ہے وہ پیاس بجھاتا ہے یا فلاں گاگر میں موجود شراب   مدہوش وبد مست کر دیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پیاس پانی کے پینے اور مدہوشی می نوشے سے ہوتی ہے۔لیکن اس تعبیر کی بنیاد یہ ہے کہ پانی اور شراب  میں یہ استعداد (Potentiality)ہے ۔ یہی سے وہ واضح کرتے ہیں کہ اس باب میں گفتگو کے دو پہلو ہیں:
    • جواز عقلی۔ اس کے لیے امام غزالی دو عقلی دلائل لاتے ہیں اور اس پر گفتگو کرتے ہوئے بالکل بھی قرآن، حدیث  یا شریعت کا حوالہ نہیں دیتے۔
    • وقوع۔ البتہ جب بات وقوع کی آتی ہے تو وہ واضح کرتے ہیں کہ اسے صرف شریعت ہی سے جانا جانا سکتا ہے اور اس کے لیے وہ کتاب وسنت سے دلائل کھڑے کرتے ہیں۔

امام صاحب کی عبارت ملاحظہ ہو جس سے ان کا منہج واضح ہوتا ہے:

«فالنظر في طرفين: أحدهما في الجواز العقلي، والثاني في الوقوع الذي لا سبيل إلى دركه إلا بالشرع، ومهما دل الشرع على وقوعه فقد دل أيضاً لا محالة على جوازه ولكنا ندل بمسلكين واقعين عقليين على جوازه»9

ترجمہ: "پس (اس باب میں) تحقیق دو پہلووں سے ہے: ایک عقلی جواز کے پہلو سے اور دوسرا اس کے وقوع کے پہلو سے جسے شریعت کے بنا نہیں جا نا جا سکتا۔نیز اگرچہ جب کسی معاملے کی بابت شریعت سے ثابت ہو گیا کہ وہ ہو گی تو بلاشبہ  یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ   عقلی طور سے جائز ہے، لیکن ہم اس کے عقلی جواز پر دو عقلی دلائل بھی پیش کریں گے۔"

اس عبارت سے واضح ہے کہ متکلم کا منہج کیا ہے۔ متکلم کے پاس ایک طرف "حکم شرعی" ہے اور دوسرے طرف "حکم عقلی"۔ اور اس کا مقدمہ ہے کہ حکم شرعی اور حکم عقلی کبھی بھی باہم دست وگریباں نہیں ہوتے۔لیکن جب وہ فلسفی سے گفتگو کرتا ہے یا کسی ایسے سے اسلامی فرقے سے گفتگو کرتا ہے جو کسی حکم کے جواز عقلی کا منکر ہو، تو وہ اس کے لیے  صرف یہ نہیں کہتا کہ چونکہ شریعت نے ایسا کہا ہے اس لیے اسے ماننا ہو گا کیونکہ فلسفی بحیثیت فلسفی کے، کتاب وسنت کو بنیاد نہیں بناتا اور اسلامی فرقہ جسے محال عقلی سمجھتا ہے وہ  وحی میں موجود ایسی نصوص کی تاویل کرتا ہے جیسے معتزلہ "نظر" کی تاویل انتظار سے کر دیتے ہیں۔ اس لیے، متکلم جواز عقلی کے منکر کی دلیل کا جواب عقلی بنیادوں ہی پر دیتا ہے۔

اور ہم پہلے واضح کر چکے ہیں کہ کسی امر کے "جواز عقلی" کا انکار دراصل یہ دعوی کرنا ہے کہ وہ تصور ناممکنات میں سے ہےاور  ایسے دعوی کرنے والے کو دلیل دینی ہوتی ہے جبکہ اس کے "جواز عقلی" کے قائل کے ذمے میں دلیل نہیں بلکہ ناممکن ہونے کے دعوی کرنے والے کی دلیل کو توڑنا ہوتا ہے۔ اگروہ جواز عقلی پر اپنے اور فریق مخالف کے اتفاقی مقدمات سے کوئی اثباتی دلیل لاتا ہے تو ایک اضافی معاملہ اور احسان ہے۔ آداب مناظرہ ومکالمہ کے لحاظ سے، یہ اس کی ذمے داری نہیں۔

یہاں سے، ایک اور پہلو بھی واضح ہوا کہ کسی متکلم کی گفتگو کے حوالے سے جب تک یہ واضح نہ ہو کہ خطاب کس سے ہے، اس کے منہج استدلال پر کوئی بات کہنا درست نہیں۔

اسباب ومسببات کا اقتران:

امام غزالی رحمہ اللہ تعالی نے فلاسفہ کی تردید سے پہلے ان کا تفصیلی مطالعہ کیا اور اس کے بعد جب وہ ان کی تردید کے لیے کمر بستہ ہوئے، تو انہوں نے "مقاصد الفلاسفہ" کے نام سے رسالہ لکھا جو دراصل تہافت کا مقدمہ ہے اور اس میں انہوں نے واضح کیا کہ  وہ کون سے نظریات ہیں جن کی امام صاحب تردید کریں گے۔ بالفاظ دگر، اس مقدمے سے امام صاحب نے اپنا "مخاطب" طے کر دیا۔ اور اس کتاب میں ان کا  خطاب ابن سینا  و فارابی  سے ہے جیسا کہ انہوں نے تہافت کے شروع  میں واضح کیا ۔

اس لیے، امام غزالی پر کوئی   تنقید اس وقت تک برمحل نہیں ہو سکتی، جب تک ان کے کلام کو ان کے خطاب کے تناظر میں نہ رکھا جائے۔ چناچہ اگر کوئی بندہ ان مقدمات ہی کا انکار کر دے جن پر امام صاحب کے ہاں علم کلام کھڑا ہے یا جنہیں ابن سینا وفارابی تسلیم کرتے ہیں ، تو ظاہر ہے کہ وہ ایک الگ معاملہ ہے جیسے کوئی سوفسطائی  یہ کہہ دے کہ وہ "وجود" کو مانتا ہی نہیں۔ سب سراب ہے، سب دھوکا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اس کے ساتھ  امام صاحب گفتگو کررہے  ہیں نہ اس کی اس بات کو امام صاحب کے مخاطب ابن سینا وفارابی مانتے ہیں۔

تہافت کا ایک مشہور باب  "اسباب ومسببات کے رشتے "سے متعلق ہے اور اس کی شہرت کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کی مشابہت ہیوم کے ہاں موجود اسباب پر گفتگو سے ہے ۔ اسباب ومسببات میں رشتہ "اقتران"  ہے یا "ضرورت" کا ۔اس حوالے سے امام صاحب اور اشاعرہ کا بالعموم نقطہ نگاہ یہ ہے کہ یہ "اقتران" ہے، ضرورت نہیں۔امام صاحب جن لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے ان کا دعوی تھا کہ یہ رشتہ "وجوب وضرورت" کا ہے۔ اس لیے، سبب ومسبب میں جدائی "ناممکنات" میں سے ہے۔ ظاہر ہے کہ یہاں چونکہ ان کے مخطاب کا دعوی تھا اس لیے اس نے دلیل بھی دی اور امام صاحب نے اس کی دلیل توڑی ہے۔ امام صاحب گفتگو کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں:

«الاقتران بين ما يعتقد في العادة سبباً وما يعتقد مسبباً ليس ضرورياً عندنا بل كل شيئين ليس هذا ذاك ولا ذاك هذا، ولا إثبات أحدهما متضمن لإثبات الآخر ولا نفيه متضمن لنفي الآخر، فليس من ضرورة وجود أحدهما وجود الآخر ولا من ضرورة عدم أحدهما عدم الآخر مثل الري والشرب والشبع والأكل والاحتراق ولقاء النار والنور وطلوع الشمس والموت وجز الرقبة والشفاء وشرب الدواء وإسهال البطن واستعمال المسهل وهلم جرا إلى كل المشاهدات من المقترنات في الطب والنجوم والصناعات والحرف، وإن اقترانها لما سبق من تقدير الله سبحانه يخلقها على التساوق لا لكونه ضرورياً في نفسه غير قابل للفرق بل في المقدور خلق الشبع دون الأكل وخلق الموت دون جز الرقبة وإدامة الحيوة مع جز الرقبة وهلم جرا إلى جميع المقترنات، وأنكر الفلاسفة إمكانه وادعوا استحالته»10

ترجمہ: "عام طور سے، جسے سبب ومسبب سمجھا جاتا ہے وہ ہمارے ہاں "ضروری" نہیں۔ بلکہ ہر ایسے دو امور جو ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں  اور ایک   کا  اثبات  یا نفی اپنے اندر دوسرے کے اثبات یا نفی کو نہیں لیے ہوئے ،  تو ایک کے وجود  یا نفی سے  "بالضرورۃ" دوسرے کا وجود  یا نفی نہیں برآمد ہوتے۔ مثلا، پانی پینا اور سراب ہونا، کھانا اور پیٹ بھرنا، آتش   رسیدی وسوختی،  طلوع خورشید وروشنی، گردن زنی وموت، دوا  داروکرنا اور شفایاب ہونا،دست آور دوا لینا اور پیٹ کا جاری ہونا اور اسی طرح دوسرے مشاہدے پر مبنی امور جن کا تعلق طب، علم نجوم اور دیگر صنعت وحرفت سے ہے۔ان تمام ہم راہ وہم زمان جوڑوں   کا ملاپ اللہ تعالی کی تقدیر ازلی کی وجہ سے ہے کہ وہ انہیں اسی طرح پیدا کرتا ہے، ایسا نہیں کہ ان دونوں کی ذوات "بالضرورۃ" ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں   کہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو سکیں۔ بلکہ (اللہ کی )قدرت  میں ہے کہ کھائے  بنا پیٹ بھر جائے، گردن زنی کے بغیر موت طار ی ہو جائے بلکہ گردن زنی کے باوجود  سانسیں چلتی رہیں اور اسی طرح دوسرے ہم زمان امور۔فلاسفہ ان کے امکان  سے انکاری ہیں اور عدم امکان کے مدعی ۔"

یہاں امام صاحب نے پہلے واضح فرمایا کہ اس گفتگو میں دو طرح کے امور شامل نہیں:

 ہم بات ختم کرنے سے پہلے اس طرف اشارہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ غزالی کی اسباب ومسببات کی تحقیق میں  یہ اعتراض کرنا کہ غزالی نے کسی دلیل کی بغیر اسباب ومسببات کے رشتہ ضرورت کا انکار کیا، دراصل غزالی یا متکلم کے پورے نظام کے اوجھل ہونے کی وجہ سے ہے۔ غزالی اس مرحلے تک پہنچے سے پہلے یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ یہ کائنات "حادث" ہے اور اس میں موجود ہر ہر چیز، خواہ وہ سبب ہو خواہ مسبب، حادث ہے اور اسے پیدا کرنے والی ایک ذات ہے جو کم از کم زندگی، علم، قدرت اور ارادے سے متصف ہے۔اس لیے، جب ہم  نے دو امور کو حادث مان لیا (اور وہ دونوںایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں نیز ان میں ایک دوسرے کے ضمن  میں بھی نہیں پایا جاتا ہے)، تو اس کے بعد یہ دعوی کرنا کہ ان میں "ضرورت" کا رشتہ ہے، ایک بے معنی بات ہے کیونکہ "ضرورت" کا مطلب ہی یہ ہے کہ ایک چیز واجب ہے اور وجود اس کی ذات کا حصہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ علم کلام کا منہج سمجھنے کے لیے "حکم شرعی" اور "حکم عقلی" دونوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے، علم کلام ایک طرف اصول فقہ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے (اور یہی سے اصول فقہ وکلام میں مشترک مباحث کا وجود واضح ہوتا ہے) تو دوسری طرف  یہ عقلی مباحث کو بھی اپنے اندر لیے ہوئے (اور یہی سے کلام کے ایک جزو کا علم اصول فقہ کا مقدمہ ہونا واضح ہوتا ہے)۔

بلاشبہ، ہم یہ دعوی نہیں کر رہے کہ "حکم شرعی" اور "حکم عقلی" کی باہم دگری وتعامل ایک سادہ معاملہ ہے۔ بلکہ یہ ایک انتہائی پیچیدہ وجدلی تعلق ہے اور بعض اوقات ایک متکلم حکم عقلی کو اصل مان کر حکم شرعی کی اس کے مطابق تشریح کر رہا ہوتا ہے اور دوسرے اس جھول کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اشاعرہ کا معتزلہ پر اور ابن تیمیہ کا اشاعرہ پر اور خود اشاعرہ کا ابن تیمیہ پر ، تسلسل عالم کے قضیے میں، اعتراض اسے جدلی رشتے کا شاخسانہ ہے۔


حواشی

  1. متن أم البراهين، ص 28
  2. معيار العلم في فن المنطق، ص 344
  3. معيار العلم في فن المنطق ص345
  4. معيار العلم في فن المنطق، ص346
  5. معيار العلم في فن المنطق، ص345 – 347
  6. المسايرة، ص 49 ومابعدها، الاقتصاد في الاعتقاد ص42 ومابعدها، شرح الأصول الخمسة، ص232 ومابعدها، مجموع الفتاوى، 16/ 84
  7. لا تدرکہ الابصار وھو یدرک الابصار وھو اللطیف الخبیر [الأنعام: 103] ۔ یہاں قاضی عبد الجبار معتزلی نے کلامی منہج کی رعایت کرتے ہوئے، رویت کی نفی پر نقلی دلیل لانے سے پہلے باقاعدہ واضح کیا کہ کسی مسئلے پر نقل سے استدلال کب درست ہے اور وہ رویت کے مسئلے میں کیسے پایا جاتا ہے۔
  8. مجموع الفتاوى، 11/ 362
  9. الاقتصاد في الاعتقاد للغزالي، ص42
  10. تہافت الفلاسفۃ، ص237
  11. یہ "عقلی رشتے" سے کچھ الگ نہیں بلکہ ایک ہی امر کی دو تعبیریں ہیں۔


آزادی کے مقاصد اور ہماری کوتاہیاں

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱۱ اگست ۲۰۲۲ء کو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامی کے زیر اہتمام ’’یومِ آزادی‘‘ کے سلسلہ میں تقریب سے خطاب)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یومِ آزادی کے حوالے سے اس تقریب کے انعقاد اور اس میں شرکت کا موقع دینے پر صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں۔ اس موقع پر جن طلبہ اور طالبات نے قیامِ پاکستان اور حصولِ آزادی کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ میرے لیے خوشی کا باعث بنے ہیں کہ ہماری نئی نسل اپنے ماضی کا احساس رکھتی ہے، حال سے با خبر ہے، اور مستقبل کے خطرات پر بھی اس کی نظر ہے جو میرے جیسے لوگوں کو حوصلہ دے رہی ہے کہ ہمارے مستقبل کی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا شعور رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے مزید برکات و ترقیات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

قیامِ پاکستان کو پون صدی گزر چکی ہے اور ایک نئے ملک کے طور پر اس کے وجود میں آنے کے محرکات میں عام طور پر جن عوامل کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے تین چار کا آج کی گفتگو میں تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور فرنگی استعمار سے آزادی کے لیے سب لوگوں نے مل کر جدوجہد کی۔ جدوجہد کے اس دائرے میں دوسری ہم وطن قومیں بھی ہمارے ساتھ شریک تھیں ہندو، سکھ، مسیحی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اس جدوجہد میں حصہ لیا اور سب نے مل کر وطن کو بیرونی تسلط سے آزاد کرایا۔ جبکہ اگلے تین دائرے مسلمانوں سے متعلق ہیں۔

قیامِ پاکستان کے یہ محرکات مختلف طبقات کی طرف سے ذکر ہوتے رہتے ہیں اور یہ سب نہ صرف درست ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مربوط ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے بنیادی عوامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے علمی ماحول میں تحقیق اور ریسرچ کی دنیا کے لوگوں کے درمیان کھڑا گفتگو کر رہا ہوں اس لیے یہ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے یہ مقاصد ابھی تک ادھورے ہیں اور ہم ان میں سے کوئی ایک بھی مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکے۔

ملک کے تمام جامعات اور بڑے علمی مراکز کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبہ اور ریسرچ سکالرز سے میری گزارش ہے کہ آزادی اور قیام پاکستان کے مذکورہ عوامل و مقاصد میں ہماری ناکامی اور کوتاہی تو سب کے سامنے ہے مگر اس کے اسباب کا جائزہ لینا اہل دانش کا کام ہے اور ملک کے علمی مراکز کی ذمہ داری ہے۔ میں نوجوان اہلِ دانش سے گزارش کروں گا کہ ان موضوعات کو اپنی ریسرچ کا موضوع بنائیں اور اگلی نسل کو بتائیں کہ ہم آزادی اور قیام پاکستان کے مقاصد اب تک کیوں حاصل نہیں کر پائے اور اپنی ان کوتاہیوں کی تلافی ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟

اس کے ساتھ ہی میں اپنے پیشرو مقرر محترم ڈاکٹر محمد امین کی ایک بات کو دہراتے ہوئے اس کے ساتھ ایک گزارش کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ ہمیں الگ ملک مل جائے تو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و قوانین کی عملداری قائم کریں گے، مگر ہم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس پر آج اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہو رہا ہے اور ہم قومی سطح پر خلفشار اور افراتفری کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ارشاد کی تائید کرتے ہوئے یہی بات دوسرے انداز سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔

اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو نعمتوں میں اضافہ کروں گا لیکن اگر ناشکری کی تو ’’ان عذابی لشدید‘‘ میرا عذاب بھی سخت ہو گا۔ اسی طرح ایک مقام پر قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے آسمان سے تیار کھانے نازل کیے جانے کا تقاضہ کیا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تیار کھانے اتار دیتا ہوں لیکن اب اگر ناشکری کی تو ایسی سزا دوں گا جو کسی اور کو نہیں دی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس نعمت کی ناشکری کرنے والوں کی شکلیں بدل دی گئیں۔ یہاں مفسرین کرامؒ نے لکھا ہے کہ عمومی نعمتوں کی ناشکری بھی سزا کا باعث ہوتی ہے مگر مانگی ہوئی نعمت کی ناشکری اس سے کہیں زیادہ سزا کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ پاکستان ہم نے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا تھا جو بہت بڑی نعمت ہے بالخصوص ایسے ماحول میں جب پوری دنیا میں ریاست کا تعلق مذہب سے ختم ہو کر رہ گیا تھا حتٰی کہ خلافتِ عثمانیہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ اس ماحول میں مذہب اور مذہبی احکام و ثقافت کے عنوان سے نئی ریاست کا وجود میں آنا نعمتِ عظمٰی سے کم نہیں تھا، مگر ہم پون صدی سے ناشکری اور ناقدری کے ماحول میں ہیں اور اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار اور اس میں کوتاہی کی تلافی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

سیلاب کے متاثرین اور ہماری قومی ذمہ داری

بارشوں اور سیلاب سے متاثرین کی صورت حال انتہائی پریشان کن اور اضطراب انگیز ہے۔ یہ وقت بحث ومباحثہ کا نہیں، متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے جو کچھ بس میں  ہو، کر گذرنے کا ہے۔ عربی ادب کی ایک کہاوت ہے کہ ایک شخص نہر میں ڈوب رہا تھا اور ایک شخص اس کو کنارے پر کھڑا ہو کر احتیاط نہ کرنے پر ملامت کر رہا تھا۔ ڈوبنے والے نے  آواز  دی، میرے بھائی، پہلے مجھے ڈوبنے سے بچاو، پھر جتنی چاہے ملامت کر لینا۔

آج ہمیں یہی صورت حال درپیش ہے۔ ملک بھر میں مساجد کے ائمہ وخطبا اور منتظمین کو سب سے زیادہ اس کام کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور باہمی رابطہ ومشاورت کے ساتھ کوئی علاقائی مرکز قائم کر کے منظم او رمربوط محنت کرنی چاہیے۔  سب احباب سے گذارش ہے کہ وہ اس کارخیر میں شریک ہوں اور باقی سب کاموں پر اسے ترجیح دیتے ہوئے  سرگرم ہو جائیں تاکہ ہم اپنے متاثرہ اور بے یار و مددگار بھائیوں کی امداد اور بحالی میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈال سکیں۔

رشدی ایسے کرداروں سے متعلق اہل اسلام کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟

ڈاکٹر محمد شہباز منج

رشدی اور اس جیسے دیگر کرداروں سے متعلق اہل اسلام کے رویے پر بات کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رشدی اور اس کی بدنام ِ زمانہ کتاب پر ایک سرسری نظر ڈال لی جائے۔ رشدی ہندوستانی نژاد برطانوی امریکی ناول نگار اور ادیب ہے۔ قبل ازیں بھی اس کے بعض ناول شائع ہوئے تھے، لیکن اس کو زیادہ شہرت و پذیرائی " شیطانی آیات" کی اشاعت کے بعد ملی۔ ادبی ناقدین کے مطابق " سٹینیک ورسز" رشدی کے اپنے مخمصوں کی عکاس ہے، جو خود اس کو برطانوی استعمار کا ایک شکار ظاہر کرتی ہے۔ یہ اصل میں معاصر انگلینڈ میں ہندوستانی تارکینِ وطن کے پس منظر میں لکھی گئی کہانی ہے۔ اس کے دو مرکزی کردار جبریل فرشتہ اور صلاح الدین چمچہ ہندوستانی مسلم پس منظر کے دو اداکار ہیں۔ یہ کہانی گویا فرشتہ کے کرادر کے ذہن کے خوابوں کی کچھ سلسلہ وار کڑیاں ہیں۔

ایک سلسلہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد ﷺ کی ایک افسانون داستان ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک توحید پسند انسان مشرک لوگوں میں توحید پر مبنی مذہب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی حیثیت شیطانی آیات والے واقعے کو حاصل ہے، جس کے مطابق ایک موقع پر حضورﷺ کے زبان سے قرآن کی تلاوت کے دوران کچھ ایسے کلمات نکل گئے، جس میں اہل مکہ کی بعض دیویوں کی سفارش کے مقبول ہونے کی بات کی گئی تھی، لیکن بعد میں ان الفاظ کو شیطان کی آمیزش قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔

یہ واقعہ بدقسمتی سے مسلم لٹریچر میں بھی بیان کیا گیا ہے، اگرچہ محققینِ اسلام اس کو ایک جعلی واقعہ قرار دیتے ہیں، لیکن بہر حال یہ مسلم لٹریچر میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہندوستانی کسان لڑکی عائشہ کا کردار ہے، جو جبریل فرشتہ سے وحی وصول کرتی ہے اور اپنی کمیونٹی کو مکہ کی زیارت پر لے جانے کے لیے تیار کرتی ہے، ایک اور سلسلہ بیسویں صدی کے آخر کے ایک غیر ملکی جنونی مذہبی رہنما امام کا کرادر پیش کرتا ہے، جو بالواسطہ طور ایرانی مذہبی رہنما روح اللہ خمینی پر طنز کی ایک صورت دکھائی دیتا ہے۔

اگرچہ رشدی نے کئی موقع پر واضح کرنے کی کوشش کی اس کا یہ ناول اسلام کے خلاف نہیں ہے، مثلا 28 دسمبر 1990 کو نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دینے ہوئے اس نے کہا کہ " اس کا ناول کبھی توہین آمیز نہیں تھا۔ اس کے مطابق جبرائیل کی کہانی دراصل یہ بتاتی ہے کہ کیسے انسان کو ایمان کے ضائع ہونے سے تباہ کیا جاسکتا ہے۔ اس نے مزید واضح کرنے کی کوشش کی کہ مذاہب پر حملوں والے کردار مذاہب کے ابتدائی عمل کے نمائندے ہیں اور مصنف کے نقطہ نظر کی نمائندگی نہیں کرتے۔ " مگر اس توجیہ کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو یہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ رشدی اپنے کرداروں اور ان کے ناموں کو جس طرح استعمال کرتا ہے، اس میں اس نوع کے مسلم کرداروں کی توہین نکلتی ہے۔ اس لیے اس کو توہین آمیز کہنا بے جا نہیں۔ اس کے عنوان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ رشدی اس کو عنوان کے ذریعے ایٹریکٹو بنانا چاہتا تھا، ورنہ کہانی کے پلاٹ سے اس کا عنوان بظاہر میچ نہیں کرتا۔

شیطانی آیات جسے مسلم لٹریچر میں قصۂ غرانیق سے تعبیر کیا جاتا ہے، ایک اکیڈمک بحث ہے، جو مسلم اور مغربی مصنفین میں اس سے پہلے بھی بحث و جرح کا موضوع رہی ہے اور اب تک بھی ہے، اس کو ناول میں ایک سلسلے کے طور پر بیان کرنا تو چلو ایک الگ بات ہے، لیکن اس کو ایسے ناول کا عنوان بنا نا، جس میں مختلف مسلم مقدس شخصیات کے ناموں کو بھی توہین آمیز انداز سے ڈپکٹ کیا گیا ہو، اسلام کے حوالے سے مصنف کے برے اردوں کا مظہر دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس ناول کا دفاع اس حوالے سے کرنا کسی طرح ممکن نہیں کہ اس میں اسلام کی توہین شامل نہیں۔

ایسے واقعات پر اہلِ اسلام کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟

اب ظاہر ہے کہ اس طرح کے توہین آمیزرویے پر مسلمانوں کی طرف سے سخت ردعمل فطری بات ہے۔ لیکن اس سخت رد عمل کی صورتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ سخت ردعمل کی ایک صورت تو پاپولر رویہ ہے، جس کی رو سے یہ سمجھا اور قرار دیا جاتا ہے کہ متعلقہ شخص کو قتل کر دیا جائےاور اس کے لیے کسی اصول و قانون کی پابندی ضروری نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اس کو معاصر اصولی و نظریاتی تناظر میں اصولی، علمی و قانونی انداز سے ڈیل کیا جائے۔ دونوں رویوں کے اپنے اپنے اثرات و نتائج ہیں۔ اگر ہم اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کے تناظر میں جائزہ لیں تو ہمارے نزدیک پہلا رویہ دوسرے کے مقابلے میں سخت نقصان دہ نظر آتا ہے، اور قرآنی اصول اثمھما اکبر من نفعھما (ان کا نقصان ان کے نفعے سے بڑا ہے)کے تناظر میں دیکھیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ دوسرا رویہ اختیار کریں جس میں فائدہ زیادہ ہے۔

قتل کے جواز کا رویہ اختیار کرنے سے چند در چند نقصانات اس طرح سے سامنے آتے ہیں کہ مثلاً‌ جب کسی ایسے شخص کو قتل کیا جاتا یا قتل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، تو ایک تو مسلم مخالف لوگ اسے مسلمانوں کی انتہا پسندی و دہشت گردی کی دلیل کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں، اور دوسرے جس مقصد کے لیے مسلمان یہ اقدام کرنا چاہتے ہیں، وہ حاصل ہونے کی بجائے الٹا اس کو نقصان پہنچتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بہت سے لوگ بہ طور ِخاص مغربی ماحول میں اسے آزدیِ اظہار کے خلاف سمجھتے ہوئے اس پر اپنی پختگی کے اظہار کے طور پر مزید توہین کے مرتکب ہوتے ہیں یا اس کا پروگرام بناتے ہیں، ان لوگوں کا نظریہ(چاہے مسلمان اس کے کتنے بھی مخالف ہوں) واضح طور پر یہ ہے کہ ہم کو آزادی ِاظہار کے لیے کوئی بھی قربانی دینی چاہیے؛ہم اس کو دبانے کی ہر گز اجازت نہیں دیں گے۔

اس نظریے پر عمل کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ بہت سے مزید لوگ توہین کے مرتکب ہوتے ہیں، یوں اہل اسلام کا جو مقصد توہین روکنے کا تھا، معاملہ اس کے الٹ ہو جاتا ہے، یعنی توہین اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایک اور چیز جو اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے، وہ یہ سامنے آتی ہے کہ وہ شخص جو بالکل غیر اہم ہوتا ہے، پوری دنیا میں مشہور ہو جاتا ہے اور بہت سے لوگ اس کی حمایت میں کھڑے ہو جاتے اور اس کے فالور بن جاتے ہیں، جس کے نتجے میں اس کا لٹریچر جو صرف چند لوگوں تک محدود ہوتا ہے، لاکھوں کروڑوں لوگوں تک پہنچ جاتا ہے، جس سے نہ صرف متعلقہ شخص کو مالی فائدہ ہوتا ہے، بلکہ او ر بہت سے لوگ اسی راستے سے فائدہ سمیٹنے کا رویہ اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ذرا سلمان رشدی اور اس کے متعلقہ ناول کی مثال لیجیے :

سلمان رشدی کا پہلا ناول گریمس جو 1975 میں شائع ہوا، کو اددبی حلقوں میں بالکل توجہ نہیں ملی اور اسے مکمل اگنور کیا گیا۔ اس کے دوسرے ناول مڈنائٹس چلڈرن، جو 1981 میں شائع ہوا، کو البتہ تھوڑی پذیرائی ملی، اسے بوکر پرائز سے نوازا گیا، لیکن یہ پرائز 1969 سے دیا جاتا ہے اور اس سے پہلے بارہ سال تک مختلف ادیبوں کو دیا جاتا رہا، اب بھی دیا جاتا ہے، اس کو پچاس سال سے اوپر کا عرصہ ہو گیا، لیکن اس پرائز کے حاملین میں سے کتنوں کے لوگ صرف نام بھی جانتے ہیں! اس کے بعد بھی رشدی کی بعض کتابیں اور ناول آئے، لیکن اس کو بہت زیادہ اہمیت پھر بھی حاصل نہ ہوئی۔ اس کو اصل شہرت "سٹینک ورسز "یا "شیطانی آیات " کے بعد اس وقت ملی جب اس پر شدید مسلم ردعمل پر تشدد مظاہروں کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ کتاب ستمبر 1988 میں شائع ہوئی۔ جنوری 1989 کے وسط تک برٹش بک سیلر ڈبلیو ایچ سمتھ ہفتے میں بمشکل اس کی ایک سو کاپیاں فروخت کرتا تھا، لیکن فروری 1989کے وسط میں پاکستان میں اس کے خلاف زبردست مظاہروں کے بعد جب ایرانی مذہبی رہنما روح اللہ خمینی نے رشدی کے خلاف قتل کا فتوی جاری کیا، تو اس کے بعد یہ کتاب اتنی تعداد میں فروخت ہوئی کہ ڈینئل سٹیل کی دوسرے نمبر پر بیسٹ سیلر کتاب "سٹار" سے بھی پانچ گنا زیادہ فروخت ہوئی۔ مئی 1989 یعنی مسلم ردعمل کے صرف چار مہینوں کے اندر اس کتاب کی سات لاکھ پچاس ہزار کا پیاں فروخت ہوئیں اور رشدی نے صرف ایک سال میں اس کتاب کی فروخت سے دو ملین ڈالر کمائے، اور یہ کتاب امریکہ کی وائکنگ پبلشنگ کمپنی کی اب تک کی بیسٹ سیلر کتاب ہے۔

اوپر کی بحث سے ہم نے واضح کر دیا کہ اس حوالے سے جو رویہ مسلمانوں نے اپنا یااس کا فائدے کی بجائے بہت زیادہ نقصان ہوا، اس کے نتیجے میں رشدی کو بہت زیادہ پذیرائی ملی؛مالی فائد ہ ہوا توہین آمیز مواد پھیلا اور بہت سے ایسے ذہنوں کو بھی اس طرف متوجہ کیا جو دوسری صورت میں کبھی متوجہ نہ ہوتے۔ لیکن اس پر سوال پیدا ہوتا کہ کیا مسلمانوں کو ایسے کام پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے تو اس حوالے سے عرض ہے کہ ضرور کرنا چاہیے، لیکن اس ضمن میں معاصر نظری و عملی حرکیا ت کو پیش رکھتے ہوئے کرنا چاہیے۔ ان حرکیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اعتراض و نقد کی صورتیں درج ذیل ہیں :

  1. کسی ادبی یا علمی یا اس تناظر میں پیش کردہ کام کا جواب اسی فن اور انداز سے دینا چاہیے، اس طرح جتنے لوگوں کے اس سے متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ان کو اس کے خلاف دلیل مل جائے گی۔
  2. اس کے خلاف، اگر کسی جگہ میسر ہو، تو قانونی اقدام کیا جائے، اور اگر قانونی اقدام کی کوئی صورت نہ ہو تو اس کے لیے قانون بنوانے کے لیے معاصر مسلمہ طریقِ دباؤ، جیسے اس پر علمی تحریروں اور پر امن احتجاج اور ریلیوں وغیرہ کے ذریعے متعلقہ معاشروں کو ایسی قانون سازی پر قائل کیا جائے اور اس کے لیے انھی کے قوانین سے حوالے تلاش کرکے پیش کیے جائیں۔ مثلا توہین رسالت کو قابل تعزیر جرم قرار دلوانے کے لیے مغرب میں ہولوکاسٹ کے انکار کے جرم ہونے وغیرہ سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ اسی طرز پر اسے بھی جرم ہونا چاہیے۔

تاہم جہاں آپ رہتے ہیں وہاں کے قانون کا احترام ہونا چاہیے۔ کسی بھی مذہبی جواز سے اس کی مخالفت دین کے حوالے سے بھی نقصان دہ ہے، اور اس کا دینی جواز بھی کوئی نہیں۔ مذہب بھی آپ پر اس قانون کی پا بندی لازم ٹھہراتا ہے، جس کی پابندی آپ نے اپنے عہد کے لحاظ سے قبول کی ہے۔ یعنی آپ جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کے قانون کی پابندی آپ پر شرعا ضروری ہے، اس لیے کہ آپ نے اسی قانون کے تحت وہاں رہنا قبول کیا ہے، جب آپ اس کی مخالفت کرکے کوئی ماورائے قانون اقدام کریں گے تو شرع کی بھی مخالفت ہوگی۔ اگر آپ کو اس کا قانون شریعت کے خلاف لگتا ہے، تو آپ وہاں رہنا قبول نہ کریں۔ یہ بات شرعاً‌ درست نہیں کہ آپ قانون کی پابندی کا وعدہ کریں اور پھر اس کو توڑدیں۔

دعوت کی شریعت

جناب ڈاکٹر محی الدین غازی کے جواب میں

ڈاکٹر عرفان شہزاد

ہمارے محترم دوست، جناب ڈاکٹر محی الدین غازی نے جاوید احمد صاحب غامدی کی کتاب، “میزان” میں بیان کردہ "قانون دعوت" پر نقد کیا ہے جو بعنوان، "قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟" ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کے شمارہ جولائی 2022 میں شائع ہوا ہے۔ زیر نظر تحریر کا مقصود غازی صاحب کے اس نقد کا تجزیہ کرنا ہے۔

غازی صاحب کے نقد کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین پوری امت کی ذمہ داری ہے جس پر تفقہ فی الدین یا کسی خاص نسل (ذریت ابراہیم) یا حکومت کی شرائط عائد کرنا، دعوت دین کی حصار بندی کرنا اور اسے عملاً معطل یا غیر مؤثر کرنے کے مترادف ہے۔

غازی صاحب نے دعوت دین کے نازک فریضے کی عمومی فرضیت کے اپنے موقف پر کوئی براہ راست استدلال نہیں کیا۔ انھوں نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کر کے اس کی عمومیت کا تحقق فرض کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ اگر کوئی عمومی فرض ہے تو اس کا مشتقل اثبات کرنا ضروری ہے۔

ہمارا موقف یہ ہے کہ جس طرح دین میں عبادات، نکاح و طلاق، سیاست و جہاد وغیرہ کی شریعت دی گئی ہے، اسی طرح دعوت دین کی بھی باقاعدہ شریعت قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے۔ ہماری علمی روایت میں اس کی طرف کما حقہ توجہ نہ ہوسکی۔ جاوید احمد غامدی صاحب کے مجددانہ کاموں میں سے ایک بڑا اور اہم کام یہ بھی ہے کہ انھوں نے دعوت دین کی شریعت کو قرآن مجید کی براہ راست نصوص سے متعین کر کے پیش کیا ہے۔

دعوت کے تین پہلو ہیں:

دعوت دین یا انذار، شہادت حق اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر دعوت دین نہیں ہے یہ جانی مانی بھلائیوں کے کرنے اور جانی مانی برائیوں کو روکنے کی کوشش اور نصیحت ہے۔ یہ اختیار کے ساتھ بھی ہوتی ہے اور بغیر اختیار کے بھی۔

غامدی صاحب نے دعوت کی ذمہ داری کو پیغمبروں کی دعوت، ذریت ابراہیم کی دعوت، علما کی دعوت، نظم اجتماعی (حکومت) کی دعوت، علما کی دعوت اور فرد کی دعوت میں تقسیم کیا ہے۔

پیغمبروں کی دعوت

پیغمبروں کی دعوت جن دعاوی اور خدائی نگرانی اور اس کی محسوس مداخلت و معیت کے ساتھ ہوتی تھی وہ اب نہیں ہو سکتی۔ مثلا پیغمبر خدا سے حکم پا کر آخری چارہ کار کے طور پر مباہلہ کا چیلنج بھی دے سکتا تھا، وہ اب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اب کوئی اپنے تئیں اتمام حجت کے بعد لوگوں کو یہ الٹی میٹم نہیں دے سکتا کہ وہ اگر اس کے انذار یا دعوت پر ایمان نہیں لائیں گے تو خدا کے عذاب کا شکار ہو جائیں گے۔ اس انجام کے معلوم ہونے کا اب کوئی ذریعہ نہیں رہا۔

ذریت ابراہیم کی دعوت

عالمی سطح پر دعوت دین کا کام ذریت ابراہیم کی ذمہ داری ہے۔ ان کی اصل ذمہ داری شہادت حق ہے۔ اس کے لیے وہ دعوت دین بھی دیں گے۔ شہادت حق کیا ہے؟

"شہادت کے معنی گواہی کے ہیں۔ جس طرح گواہی سے فیصلے کے لیے حجت قائم ہو جاتی ہے، اُسی طرح حق جب اِس درجے میں واضح کر دیا جائے کہ اُس سے انحراف کی گنجایش باقی نہ رہے تو اُسے شہادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اِس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی فرد یا جماعت کو اپنی دینونت کے ظہور کے لیے منتخب فرما تے اور پھر قیامت سے پہلے ایک قیامت صغریٰ اُن کے ذریعے سے اِسی دنیا پر برپا کر دیتے ہیں۔ اُنھیں بتا دیا جاتا ہے کہ وہ خدا کے ساتھ اپنے عہد پر قائم رہیں گے تو اِس کی جزا اور انحراف کریں گے تو اِس کی سزا اُنھیں دنیا ہی میں مل جائے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اُن کا وجود لوگوں کے لیے ایک آیت الٰہی بن جاتا ہے اور وہ خدا کو گویا اُن کے ساتھ زمین پر چلتے پھرتے اور عدالت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اِس کے ساتھ اُنھیں حکم دیاجاتا ہے کہ جس حق کو وہ بچشم سر دیکھ چکے ہیں، اُس کی تبلیغ کریں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت بے کم و کاست اور پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں تک پہنچادیں۔ یہی شہادت ہے۔ یہ جب قائم ہو جاتی ہے تو دنیا اور آخرت، دونوں میں فیصلۂ الٰہی کی بنیاد بن جاتی ہے۔" (البیان)

اور یہ گواہی صرف ذریت ابراہیم ہی دے سکتی ہے۔ اور اسی بنا پر بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل دونوں کو خدا نے شہدا یعنی گواہ کہا ہے۔

قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ تَبْغُونَهَا عِوَجًا وَأَنتُمْ شُهَدَاءُ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (3: 99)

اِن سے پوچھو، اے اہل کتاب، تم اُن لوگوں کو اللہ کے راستے سے کیوں روکتے ہوجو ایمان لائے ہیں؟ تم اِس میں عیب ڈھونڈتے ہو، دراں حالیکہ تم اِس کے گواہ بنائے گئے ہو؟ (اِس پر غور کرو) اور (یاد رکھو کہ)جوکچھ تم کررہے ہو، اللہ اُس سے بے خبر نہیں ہے۔

وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ فَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلَاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ النَّصِيرُ (22: 78)

اور (مزید یہ کہ اپنے منصب کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے) اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اُس نے تمھیں چن لیا ہے اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ تمھارے باپ ـــ ابراہیم ـــ کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے۔ اُسی نے تمھارا نام مسلم رکھا تھا، اِس سے پہلے اور اِس قرآن میں بھی (تمھارا نام مسلم ہے)۔ اِس لیے چن لیا ہے کہ رسول تم پر (اِس دین کی) گواہی دے اور دنیا کے سب لوگوں پر تم (اِس کی) گواہی دینے والے بنو۔ سو نماز کا اہتمام رکھو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو مضبوط پکڑو۔ وہی تمھارا مولیٰ ہے۔ سو کیا ہی اچھا مولیٰ ہے اور کیا ہی اچھا مددگار!

ذریت ابراہیم پر ان کے انبیا اور رسولوں اور خود ان کے اپنے وجود سے جس طرح شہادت حق قائم ہوئی ہے وہ دوسری اقوام پر نہیں ہوئی۔ وہ انبیا کی اولاد ہیں۔ اپنے آباؤاجداد کو خدا سے وحی پاتے انھوں نے دیکھا، سمندر کے پھٹنے کا نظارہ انھوں نے کیا، پہاڑ کو اپنے سر پر معلق انھوں نے دیکھا، خدا کو بادلوں میں بولتے انھوں نے سنا، من و سلوی ان کے لیے اترا، بادلوں کا سایہ ان پر فگن ہوا، بدر کے یوم فرقان کا مشاہدہ انھوں نے کیا، فتح مکہ کی پیشین گوئی انھیں کے ہاتھوں پوری ہوئی، رسولوں کے غلبے کی سنت اللہ آخری دفعہ محمد رسول اللہ کے ذریعے سے ان کے سامنے اور ان کے ہاتھوں پوری ہوئی ،خدا کی معیت کے محسوس نشان ان کے سامنےکھولے گئے ہیں۔ پھر ان کی یہ قومی تاریخ قومی ورثے کی صورت میں متواتر، اجماعی اور مسلمہ تاریخ کے طور پر ان کے ساتھ نقل ہوتی چلی آئی۔ چنانچہ جس طرح تاریخ کے تواتر اور اجماع کی بنا پر یہ بات یقینی ہے کہ سکندر اعظم کا وجود تھا اور اس نے معلوم دنیا کا ایک بڑا حصہ فتح کیا تھا، اسی طرح ذریت ابراہیم کے ساتھ خدا کی مداخلت اور معیت کی ان کی قومی تاریخ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت ہے جو ان کے تواتر اور اجماع سے منتقل ہوئی ہے۔ یعنی اسے ان کی پوری کمیونٹی بیان کرتی ہے اور ان سب کے سب کا جھوٹ پر جمع ہونا ممکن نہیں۔ خیال رہے کہ مسلمہ تاریخ سے جزئی واقعات اور مسلمہ واقعات کی جزئیات مراد نہیں ہوتیں۔

ایک کمیونٹی کی متواتر اور اجماعی تاریخ، نہ کہ دیو مالا، انھیں کی گواہی سے مسلمہ حقیقت مانی جاتی ہے۔ علم کی یہی روایت ہے۔

جیسے رسول غیب کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس پر گواہ بنتا اور اس کی گواہی لوگوں کے سامنے دیتا ہے، اسی طرح دیگر اقوام کے لیے ذریت ابراہیم کا مشاہدہ حق، مسلمہ تاریخ کی صورت میں وہ گواہی ہے جس پر دیگر اقوام کو ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے۔

ذریت ابراہیم کی شہادت کا دوسرا پہلو، ان کا اپنا وجود ہے جو خدا کے عہد کا نشان بن کر ہر زمانے کے لوگوں پر حق کی گواہی ثبت کرتا ہے۔ اس عہد کے مطابق اگر آل ابراہیم ایمان و عمل کے مطلوبہ معیار پر پورے اتریں اور شہادت حق دیگر اقوام تک بے کم و کاست پہنچاتے رہیں تو دنیا میں اپنے مقابل قوموں پر سرفرازی پائیں گے ورنہ انھیں کے ہاتھوں ذلیل ہوں گے۔ بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل دونوں کی قومی زندگی کے عروج و زوال کے کئی ادوار اس عہد کی مسلسل تاریخ ہے۔ اسی کے ذیل میں بنی اسرائیل کے لیے یہ مزید تصریح قرآن مجید میں آئی ہے کہ قیامت تک کے لیے وہ مسیحیوں کے آگے مغلوب رہیں گے۔ نیز، قیامت تک ان پر کوئی نہ کوئی مسلط ہوتا رہے گا جو انھیں ان کی خدا سے بے وفائی کی سزا دیتا رہے گا۔ یہ سب ہم ان کی پوری تاریخ، جو دور جدید تک چلی آتی ہے، دیکھ سکتےہیں۔ یہ شہادت حق ہے۔ یہ نسل پرستی نہیں ہے، ایک ایسی ذمہ داری جس کو اٹھانے سے دیگر اقوام کانپ اٹھیں گی۔

یہ ذریت ابراہیم کی مسلمہ تاریخ ہے جس کی تائید ان کی معاصر تواریخ سے بھی ہوتی ہے۔ ان کی یہی حیثیت ہے جس کی بناپر دعوت دین کا معاملہ محض دلیل کا نہیں، بلکہ شہادت (evidence) کا بن جاتا ہے۔ اہل علم نے ذریت ابراہیم کے ساتھ خدا کی معیت کے ان کھلے مسلمہ حقائق کی تاریخی شہادت کی وہ اہمیت نہیں سمجھی، جس کی یہ مستحق ہے۔

مذکورہ بالاسورہ الحج کی آیت میں مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ یہ گنجایش ہی نہیں چھوڑتا کہ غیر اسمعیلیوں کو اس میں شامل کیا جا سکے۔ اس لیے مذکورہ شہادت حق انھیں کی ذمہ داری ہے جو انھوں نے دیگر اقوام کے سامنے دینی ہے۔ یہ کام انھوں نے قومی سطح پر کرنا ہے اور اس کے لیے منظم کوششیں کرنا ہیں۔

علما کی دعوت:

قومی سطح پر دعوت دین یا انذار کے کام کے لیے دین میں گہری بصیرت پیدا کرنا دعوت دین کی ذمہ داری کا تقاضا ہے جسے خود قرآن نے بیان کیا ہے۔ یہ علما کی دعوت ہے۔

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (9: 122)

یہ تو ممکن نہیں تھا کہ مسلمان، سب کے سب نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کے ہر گروہ میں سے کچھ لوگ نکلتے تاکہ دین میں بصیرت پیدا کرتے اور اپنی قوم کے لوگوں کو (اُن کے اِن رویوں پر) خبردار کرتے، جب اُن کی طرف لوٹتے، اِس لیے کہ وہ خدا کی گرفت سے بچتے؟

غامدی صاحب لکھتےہیں:

"دین کا علم حاصل کر لینے کے بعد دعوت کی جو ذمہ داری اُنھیں ادا کرنی ہے، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے’’انذار‘‘ اور صرف’’انذار‘‘ ہے، یعنی یہ کہ حیات اخروی کی تیاریوں کے لیے لوگوں کو بیدار کیا جائے۔ یہ اگر غور کیجیے تو بعینہٖ وہی کام ہے جو اللہ کے نبی اور رسول اپنی قوم میں کرتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’انذار‘‘ کا کام آپ کے بعداِس امت کے علما کو منتقل ہوا ہے اور ختم نبوت کے بعد یہ ذمہ داری اب قیامت تک اُنھیں ہی ادا کرنی ہے۔" (میزان)

علما یہ انذار اپنی قوم کے مسلم اورغیر مسلم دونوں ہی کو کریں گے۔ اس دعوت یا انذار کا لازمی ردعمل ہوتا ہے۔ لوگ سوال، شبہات اور اعتراضات پیش کرتے ہیں جن کا جواب دینے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ جس طرح زندگی کے ہر شعبہ میں فرائض کی انجام دہی کے لیے ایک کوالی فیکیشن مقرر کی جاتی ہے، اسی طرح تفقہ فی الدین دعوت دین کی کوالی فیکیشن ہے۔

یہاں محض دین کا علم یا دین کی سمجھ کی شرط نہیں، بلکہ دین میں گہری بصیرت پیدا کرنے کا تقاضا ہے۔ یہ انبیا کا مشن ہے اور نازک ترین ذمہ داری ہے جسے ہر گز عامی کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔ یہ رعایتیں نہ برتنے ہی کا نتیجہ ہے کہ دعوت دین کی مد میں افراط و تفریط نے ایک طرف دعوت دین کے عمل کو بری طرح گہنایا ہے، اسلام کے مخالفین اور معترضین کو اسلام پر حملہ آور ہونے کے لیے آسان چارہ مہیا کیا ہے تو دوسری طرف عائلی حقوق کی پامالی سے ان گنت انسانی المیوں کو جنم دیا ہے۔

دعوت دین کے لیے علم و تفقہ کی شرط کے ابطال کے لیےغازی صاحب نے قرآن مجید میں جنّوں کے واقعہ سے جو استدلال کیا ہے وہ بے محل ہے۔ جنوں نے قرآن سنتے ہی اپنی قوم کو جو انذار کیا وہ ان کی صواب دید کا بیان ہے، ذمہ داری کا نہیں۔ جب دعوت کی ذمہ داری کا بیان قرآن مجید میں آیا ہے تو باقاعدہ اصولی انداز میں اس کی کوالی فیکیشن بیان ہوئی ہے جسے کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب کوئی شخص اپنے طور پر انذار کا یہ فریضہ انجام دینے لگتا ہے تو اسے منع بھی نہیں کیا جا سکتا، تاہم، اس کے ساتھ اہل علم کی معیت ہونا پھر بھی ضروری ہے تاکہ دعوت دین ناقص نہ رہ جائے جو غلط فہمیوں کا باعث بن جائے۔ 

فرد کی دعوت:

فرد کی دعوت کی ذمہ داری اپنے متعلقین کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نصیحت تک محدود ہے۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر دعوت دین نہیں ہے، بلکہ جانی مانی بھلائیوں کے کرنے اور جانی مانی برائیوں کو روکنے کی کوشش اور نصیحت ہے۔ فرد کے اختیار کی نوعیت سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی نوعیت تبدیل ہوگی۔ جہاں اختیار ہے وہاں وہ حکم دے سکتا ہے اور جہاں اختیار نہیں وہ صرف نصیحت کی جائے گی۔

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ  إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (9: 71)

مومن مرد اور مومن عورتیں، وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ (اِن منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنھیں اللہ عنقریب اپنی رحمت سے نوازے گا۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زبردست ہے، وہ بڑی حکمت والا ہے۔

نظم اجتماعی کی دعوت:

نظم اجتماعی کی صورت میں فرد کا یہی انفرادی فریضہ اب قانونی اختیار کے ساتھ اجمتماعی فریضہ بن جاتا ہے:

الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ  وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22: 41)

وہی کہ جن کو اگر ہم اِس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز کا اہتما م کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ (اللہ ضرور اُن کی مدد کرے گا) اور سب کاموں کاانجام تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا م ویسے تو سبھی حکومتیں اپنے تصورات کے مطابق کرتی ہیں مگر مسلم حکمرانوں کے لیے امر بالمعروف کی خاص صورت، جمعے کا منبر مقرر کیا گیا ہے۔ جمعہ کا منبر مسلم حکمرانوں کی نشست اور استحقاق ہے یہ رسول اللہ ﷺ سے لے کر امت مسلمہ کی پوری تاریخ کی مسلسل روایت رہی ہے۔ استدلال اس پر کرنا پڑتا ہے کہ جمعہ کے منبر صرف حکمرانوں کا حق نہیں ہے بلکہ علما کا بھی حق ہے۔ غامدی صاحب کا موقف یہی ہے کہ یہ علما کا حق نہیں ہے، تاہم، جمعہ کے علاوہ ہفتے کے سارے دنوں میں مسجد کا منبر ان کے لیے موجود ہے وہ جب چاہیں لوگوں کو وعظ و نصیحت کریں۔ محض جمعہ کا منبر ان سے لے لینے سے ان کے عوامی روابط میں فرق نہیں پڑتا۔ اس لیے یہ تاثر کہ اس طرح حکمران علما کو ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے، درست نہیں۔ خاص طور پر جمہوری سماجوں میں یہ ممکن نہیں۔

ان استدلالات کے برعکس غازی صاحب نے دعوت دین کی ذمہ داری ہر مسلمان فرد پر عائد کرتے ہیں اور استدلال میں "یا ایھا الذین امنوا" اور "ایا ایھا الناس" کے عمومی خطابات پیش کیا ہے کہ دین کے مخاطب بلا واسطہ اور بالواسطہ تمام لوگ ہیں اس لیے دعوت دین کی ذمہ داری بھی تمام لوگوں کی ہے۔ دعوت دین کی ذمہ داری کی عمومیت ثابت کرنے کے لیے یہ کوئی استدلال نہیں ہے۔ دین کی دعوت تو ہر ایک کے لیے ہے، مگر دین کی دعوت دینے کی ذمہ داری بھی کیا ہر ایک پر عائد ہوتی ہے؟ یہ استدلال تو یہاں نہیں ہو سکتا۔ کیا جہاد کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ کیا حج کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ بلکہ دین کا ہر ہر حکم ادا کرنا کیا سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتا ہے یا وہ اپنی شرائط کے پورا ہونے کے بعد افارد پر لاگو ہوتا ہے؟ شریعت کے اس عمومی قاعدے سے دعوت دین کو استثنا دینے پر اصرار کیوں ہے؟

غازی صاحب نے غامدی صاحب کی کتاب، "میزان" میں 'قانون دعوت 'کے زیر عنوان شامل آیات قرآنی پر غامدی صاحب کی ترجمانی پر بھی نقد کیا ہے۔ غازی صاحب "خیرامت" اور "امت وسط" سے پوری امت مراد لیتے ہوئے دعوت دین کی ذمہ داری ان سب پر عائد کرتے ہیں۔ حالانکہ "خیر امت" والی آیت امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور "امت وسط" والی آیت شہادت حق کی ذمہ داری کو بیان کرتی ہے۔ دونوں میں دعوت دین کی ذمہ داری کا بیان نہیں ہے۔ اس لیے دعوت دین کی ذمہ داری کی عمومیت پر ان سے استدلال نہیں ہو سکتا۔ رہی یہ بات کہ مذکورہ آیات میں ساری امت مراد ہے یا بنی اسمعیل اور جماعت صحابہ، تو غامدی صاحب نے اس سے صرف جماعت صحابہ کو مراد لیا ہے۔ آیات ملاحظہ کیجیے:

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ (3: 110)

(ایمان والو، اِس وقت تو اللہ کی عنایت سے) تم ایک بہترین جماعت ہو جو لوگوں پر حق کی شہادت کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو۔ اور یہ اہل کتاب بھی (قرآن پر) ایمان لاتے تو اِن کے لیے بہتر ہوتا۔ (اِس میں شبہ نہیں کہ) اِن میں ماننے والے بھی ہیں، لیکن (افسوس کہ) اِن میں زیادہ نافرمان ہی ہیں۔

 "خیر امت"، سندِ تحسین ہے جو محض اسلام قبول کر لینے کے مترادف نہیں کہ ہر مسلمان اس کا مستحق قرار پائے۔ یہ اعزاز ہے جسے جماعت صحابہ نے اپنے قابل تحسین اعمال اور کردار کی بدولت حاصل کیا تھا۔ اب یہ اختیار کس کا ہے اس امت کو اس کے تمام اچھے برے لوگوں سمیت بھی خیر امت قرار دے، اور کون ہے جو اپنے یا اپنے گروہ کے لیے بہترین ہونے کا دعوی کر سکے؟

"امت وسط" کا لقب شہادت حق کے تناظر میں ہے جو بنی اسمعیل کا امتیاز ہے۔ اس کی تفصیل پیشتر گزر چکی۔

‎‏ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا  (2: 143)

 اور (جس طرح مسجد حرام کو تمھارا قبلہ ٹھیرایا ہے)، اُسی طرح ہم نے تمھیں بھی ایک درمیان کی جماعت بنا دیا ہے تاکہ تم دنیا کے سب لوگوں پر (حق کی) شہادت دینے والے بنو اور اللہ کا رسول تم پر یہ شہادت دے۔

اسی طرح سورہ آل عمران کی درج ذیل آیت میں بھی بھلائیوں کی دعوت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم ہے، نہ کہ دعوت دین کا۔

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّة یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ، (3: 104))

اور چاہیے کہ تمھارے اندر سے کچھ لوگ مقرر ہوں جو نیکی کی دعوت دیں، بھلائی کی تلقین کریں اور برائی سے روکتے رہیں۔ (تم یہ اہتمام کرو) اور (یاد رکھو کہ ) جو یہ کریں گے، وہی فلاح پائیں گے۔

اس آیت میں ایک جماعت بنانے کی جو ہدایت ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔ مسلمانوں کی یہ ایک جماعت مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے اختیار کے بغیر ممکن نہیں۔ اس سے وہ جماعتیں مراد نہیں لی جا سکتیں جو مسلمان اپنے طور پر قائم کر کے دعوت و ارشاد کا کام کرتے ہیں۔ ان میں آپس میں کوئی نظم و ربط نہیں ہوتا، بلکہ اکثر اوقات رقابت و تفرق ہوتا ہے۔ البتہ، نیک نیتی اور مطلوبہ شرائط اور قابلیت کے ساتھ نجی طورپر یہ کام کرنا قابل تحسین ہیں، مگر آیت میں ذمہ داری کا بیان ہے اور وہ ایک ہی جماعت کی ذمہ داری کا بیان ہے جو حکومتی نظم کے بنا ممکن نہیں۔ غامدی صاحب نے امر بالمعروف کے لیے مسجد کے منبر اور نہی عن المنکر کے لیے پولیس کے محکمہ کی درست نشان دہی کی ہے جو ایک ہی نظم کے تحت کام کرتے ہیں۔

غازی صاحب نے سورہ حج کی آیت 41 تمکین فی الارض کو بغیر حکومت کے کسی جگہ مسلمانوں کے امن و سکون سے رہنے کے معنی میں بھی لیا ہے۔ یہ معنی لینا کسی طرح درست نہیں۔ یہ آیت ہجرت مدینہ کے بعد ان آیات کے تناظر میں نازل ہوئی ہے جن میں جہاد اور معابد کے دفاع کا مضمون بیان ہوا ہے۔ چنانچہ تمکین فی الارض سے بغیر حکومت اور اختیار کے کسی جگہ مسلمانوں کا محض امن و سکون سے رہنا مراد نہیں لیا جا سکتا:

أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ‎ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيرًا وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ ‎ الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (22: 39-41)

(چنانچہ) جن سے جنگ کی جائے، اُنھیں جنگ کی اجازت دے دی گئی ہے، اِس لیے کہ اُن پر ظلم ہوا ہے اور اللہ یقیناً اُن کی مدد پر قادر ہے۔ وہ جو ناحق اپنے گھروں سے نکال دیے گئے، صرف اِس لیے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے۔ (یہ اجازت اِس لیے دی گئی کہ) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کنیسے اور مسجدیں جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھائے جا چکے ہوتے۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کے لیے اُٹھیں گے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اللہ زبردست ہے، وہ سب پر غالب ہے۔ وہی کہ جن کو اگر ہم اِس سرزمین میں اقتدار بخشیں گے تو نماز کا اہتما م کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے اور بھلائی کی تلقین کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔ (اللہ ضرور اُن کی مدد کرے گا) اور سب کاموں کاانجام تو اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

البتہ مسلمان اپنے طور پر جماعت بنا کر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کریں تو یہ فرد کے ذمے اس فریضے کی ادائیگی کے زمرے میں آئے گا۔ اس کے لیے سورہ حج کی اس آیت سے استدلال کی ضرورت نہیں۔ مگر یہ کام دعوت و ارشاد اور نصیحت کے طرز پر ہوگا، قانونی اختیار کے ساتھ نہیں، جو آیت بالا کا تقاضا ہے۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۹)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا پانچواں باب)


فضل حق خیر آبادی اور محبتِ نبوی کی سیاست

تقویۃ الایمان کی اشاعت کے ساتھ ساتھ دلی میں شاہ اسماعیل کی اصلاحی سرگرمیوں نے شہر کے اہل علم اشرافیہ کے درمیان بحث ومباحثہ اور استدلالات کی ایک گرما گرم فضا تشکیل دی تھی۔ خاص طور پر کتاب کی نسبتاً زیادہ متنازعہ عبارات پر بحث ومباحثہ اور تجزیے ہو رہے تھے۔ اس وقت ماحول میں اس قدر انتشار تھا کہ 1826 میں ایک مشہور عوامی مناظرے میں شاہ اسماعیل کا اپنا چچا زاد محمد موسٰی دہلوی (م 1864) ان کے خلاف صف آرا تھا1۔ جوں جوں جامع مسجد میں شاہ اسماعیل کے خطبات مزید لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے گئے، اسی رفتار سے ان کے خیالات کو دبانے کے لیے مخالف تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ اس تحریک کے سرخیل دلی کا بااثر اور اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے عالم علامہ فضل حق خیر آبادی تھے۔

خیر آبادی جو کہ شاہ اسماعیل سے عمر میں بیس سال چھوٹے تھے، برصغیری اسلام کی تاریخ میں انتہائی اہم شخصیت ہیں، تاہم ان کی فکر تاحال مغربی اہل علم کی بہت کم توجہ حاصل کر پائی ہے۔ شمالی ہندوستان کے شہر خیر آباد میں پیدا ہونے والے، فضل حق خیر آبادی کو آج انتہائی شدت سے برطانوی استعمار کے خلاف سیاسی سرگرمیوں کے لیے یاد کیا جاتا ہےجس کی وجہ سے ان پر غداری کا مقدمہ دائر کیا گیا اور ہندوستان سے جزائر انڈمان، جسے آج میانمار کہا جاتا ہے، جلا وطن کیا گیا۔ وہاں دو سال کا عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد وہ 1861 میں وفات پا گئے۔ اپنی اسارت کے دوران خیر آبادی نے فصیح وبلیغ عربی میں، جس کا بیش تر حصہ مُسَجَّع ومُقَفّیٰ نثر میں ہے، " باغی ہندوستان " (الثورۃ الہندیۃ) کے نام سے کتاب لکھی۔ یہ کتاب نہ صرف خیر آبادی کی زندگی سے متعلق دل چسپ نکات پر مشتمل ہے، بلکہ اس فیصلہ کن دور کے ہندوستان کے وسیع سیاسی عہد کو بھی زیر بحث لاتی ہے2۔ کتاب کے مقدمے میں موجودہ الفاظ سے ان کے اس درد اور یاس کا اندازہ ہوتا ہے، جس میں وہ اپنی شکست اور استعماری طاقت کے سخت شکنجے کے نیچے اَسارت کے آخری ایام گزار رہے تھے۔ "میری یہ کتاب ایک دل شکستہ، نقصان رسیدہ، حسرت کشیدہ اور مصیبت زدہ انسان کی کتاب ہے، جو اب تھوڑی سی تکلیف کی بھی طاقت نہیں رکھتا، اپنے رب سے جس کے لیے سب کچھ آسان ہے، مصبیت سے نجات کا امیدوار ہے" (فإن كتابي هذا كتاب أسير كاسر خاسر، على ما فات منه حاسر، مبتلى بكل عسير لا يطاق ولو في أن يسير، منتظر لفرج على ربه يسير)3۔

خیرآبادی کی علمی شہرت کی وجہ اسلامی فلسفہ ومنطق پر ان کی تحریریں اور عربی شعر وشاعری میں ان کی نغز گوئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تقریباً چار ہزار اشعار کہے۔ خیر آبادی کے تلامذہ کا متنوع اور وسیع سلسلہ نہ صرف پورے ہندوستان بلکہ وسطی ایشیا، ایران اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلا ہوا تھا۔ خیر آبادی مکتبِ فکر کا علمی گڑھ شمالی ہندوستان، بالخصوص خیرآباد، بدایون، رام پور اور سہارن پور جیسے شہر تھے۔ خیر آبادی کے علمی مزاج کی ایک نمایاں خصوصیت، جس کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار فضل حق کے عظیم الشان والد اور استاد فضل امام خیر آبادی (م 1829) کا تھا، یہ تھی کہ اس میں فلسفہ اور منطق جیسے غیر منقولی اور معقولی مضامین پر زیادہ زور تھا۔

فضل امام خیر آبادی، جنھوں نے دلی میں ایک نامی گرامی مدرسے کی بنیاد رکھی تھی، (دیگر کتابوں کے ساتھ ساتھ) منطق میں مشہور نصابی کتاب "المرقاۃ" کے مصنف تھے۔ اسی طرح فضل حق خیر آبادی نے اپنے والد کی کتابوں پر شروحات اور معقولات کے اہم موضوعات پر مشہور کتابیں لکھنے کے ساتھ وسیع پیمانے پر رائج درسی کتاب "الہدیۃ السعیدیۃ" لکھی4۔

خیر آبادیوں کا علمی ورثہ علامہ فضل حق کے شاگردوں نے آگے بڑھایا، جن میں زیادہ قابل ذکر ان کے کثیر التصانیف صاحب زادہ عبد الحق خیر آبادی اور ان کے جگری دوست اور فکری حلیف فضل رسول بدایونی (م 1872) کے بیٹے عبد القادر بدایونی (م 1901) تھے۔خیر آبادیوں کو برصغیر اور اس کے باہر اپنے غیر معمولی علمی عظمت کا احساس تھا، اور اس کے اظہار میں وہ کوئی باک محسوس نہیں کرتے تھے۔ مثلاً‌ ایک بار مولوی اکرام اللہ شہابی نامی ایک شخص نے عبد الحق خیر آبادی سے پوچھا: "بھائی! انسانی تاریخ میں کتنے لوگ ایسے ہیں جنھیں حکیم مانا جا سکتا ہے؟" عبد الحق نے خود اعتمادی سے جواب دیا: "دنیا میں ساڑھے تین حکما ہیں: پہلا معلم اول ارسطو، دوسرا (دسویں صدی کا مشہور مسلمان فلسفی) معلم ثانی الفارابی (م 951)، تیسرا میرے والد فضل حق خیر آبادی اور باقی آدھا آپ کا یہ دوست"5۔ عبد الحق کے اس خوش کُن دعوے پر بات ہو سکتی ہے، لیکن خیر آبادی مکتب بالخصوص فضل حق خیر آبادی (اس کے بعد خیرآبادی سے مراد وہی ہوں گے) کی علمی خدمات کے اثرات کا اعتراف نہ کرنا مشکل ہے۔ برصغیر کی علمی تاریخ میں ان کے مقام کا اندازہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ ان کے فکری مخالفین کی طرف سے  مرتب کردہ سوانحی تذکروں میں، مثلاً عبد الحی حسنی (م 1922) کی مشہور کتاب نزھۃ الخواطر میں ان کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے: "وہ اپنے زمانے میں عربیت، فلسفہ اور منطق کے سب سے بڑے عالم تھے"6۔

آزُردہ، خیر آبادی اور بدایونی کی تکون

اپنے طلبہ اور خاندان کے افراد کے علاوہ خیر آبادی اور ان کے مکتب فکر سے انتہائی قریب جڑے ہوئے دو اور اہل علم مفتی صدر الدین آزردہ (م 1868) اور فضل رسول بدایونی تھے۔

خیر آبادی اور بدایونی کی عمر میں تقریباً ایک سال کا فرق تھا، اور وہ آزردہ سے عمر میں کوئی دس سال چھوٹے تھے۔ ان تینوں کے درمیان بہت سے مشترکات تھے۔ یہ تینوں شاعری اور معقولات کے دل دادہ تھے، ایک دور میں برطانوی استعمار کے ملازم رہے، جوش وخروش سے 1857 کی جنگِ آزادی میں شریک ہوئے، اور تینوں فضل امام خیر آبادی کے شاگرد تھے7۔ علاوہ ازیں شاہ اسماعیل سے انتہائی بے زاری میں بدایونی اور فضل حق دونوں ایک جیسے تھے۔ شاہ اسماعیل کے خلاف مناظروں اور تردیدات کے سلسلے میں کئی نام آتے ہیں، تاہم بدایونی اور خیر آبادی اس سلسلے کے بانی مبانی تھے۔ بدایونی بیک وقت عملی طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے عالم بھی تھے کہ ان کی مناظرانہ پھرتیوں کی وجہ سے انھیں خدا کی شمشیرِ بَراں (سیف اللہ المسلول) کا لقب دیا گیا، ایک ایسا لقب جو عام طور پر حضور ﷺ کے چچا زاد اور داماد حضرت علی بن ابو طالب کرم اللہ وجہہ سے منسوب کیا جاتا ہے8۔ بدایونی نے شاہ اسماعیل کے نظریات کی تردید میں کئی کتابیں لکھیں، جن میں "البوارق المحمدیۃ لرجم الشیاطین النجدیۃ"، "الفوز المبین بشفاعۃ الشافعین"، "سیف الجبار المسلول علی اعداء الابرار"، "احقاق الحق وابطال الباطل" اور "المعتقد المنتقَد" شامل ہیں9۔ سواے آخری کتاب کے جو عربی میں ہے، باقی تمام کتابیں اردو میں لکھی گئیں10۔

خیر آبادی کی کاوشوں کی طرح، جن کا تجزیہ اس باب میں پیش کیا جا رہا ہے، بدایونی کی کتابوں کے موضوعات بھی شفاعتِ نبوی، علمِ نبوی اور ختم نبوت ہیں۔ ان کی تنقیدات کئی جگہ پر ایک دوسرے سے آکر مل جاتی ہیں، اور بدایونی نے عموماً خیر آبادی کی کتابوں سے اخذ واستفادہ کیا ہے، اور ان کے حوالے دیے ہیں۔ میرے پاس گنجائش نہیں کہ بدایونی کی علمی کتابوں کا تفصیلی جائزہ پیش کر سکوں، لیکن انیسویں صدی کے اوائل کے علمی تناظر میں اس کی اہمیت کے پیش نظر میں یہاں ان پانچ بنیادی فکری مقاصد اور استدلالات کا خلاصہ پیش کرتا ہوں جو ان کی مناظرانہ تحریروں میں جاری وساری ہیں:

(1) شاہ اسماعیل اور محمد بن عبد الوہاب کو روایتی سنی حنفی مسلک کے خلاف ایک مشترکہ بین الاقوامی سازش کے کرداروں کے طور پر پیش کرنا،

(2) یہ ثابت کرنا کہ بر صغیر میں شاہ اسماعیل کے مخالف اہل علم میں وہ بذات خود اور خیر آبادی، عالم عرب میں موجود خلافت عثمانیہ کے حنفی علما کے قریبی دوست اور حلیف ہیں،

(3) شاہ اسماعیل کے اصلاحی ایجنڈے کو شاہ ولی اللہ اور ان کے صاحب زادوں کی فکر کے مخالف ثابت کرکے اسے ولی اللہی خاندان کے علمی شجرے سے کاٹنا،

(4) اس تصور کی تردید کے لیے کہ بدایونی/خیرآبادی مکتب فکر محض معقولی مصادر اور طرزِ استدلال پر انحصار کرتی ہے، اپنے موقف کے اثبات کے لیے استدلال میں قرآن وسنت کے نصوص کو بکثرت پیش کرنا،

(5) شاہ اسماعیل کو ایک جدید معتزلی کے طور پر پیش کرنا، جو رسول اللہ ﷺ کے بلند مقام ومرتبے مثال کے طور پر مقام شفاعت کا مخالف ہے11۔

یہ استدلالات اور اندازِ فکر، بالخصوص ان میں سے اول الذکر تین، انیسویں صدی کے اواخر میں مولانا احمد رضا خان کی کتابوں میں کثرت سے دہرائے گئے ہیں، جیسا کہ میں کچھ تفصیل سے نویں، دسویں اور گیارھویں باب میں بیان کروں گا۔ پس مناظرانہ کش مکش میں احمد رضا خان بہت سے حوالوں سے بدایونی کے فکری جانشین تھے۔ اس لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ احمد رضا خان نے بدایونی کی سب سے اہم تنقیدی کتاب "المعتقد المنتقد"12 پر "المعتمد المستند بناء نجاۃ الابد" کے نام سے ایک اہم شرح لکھی۔

شاہ اسماعیل کے خلاف بدایونی کی مناظرانہ شہرت اور تصنیفات کی کثرت کے برعکس آزُردہ کے رویے کے حوالے سے تاریخی مصادر کافی حد تک مبہم ہیں۔ مثلاً‌ خیر آبادی کے اس فتوے پر، جس میں شاہ اسماعیل کو کافر قرار دیا گیا تھا، آزردہ کے دستخط تھے، تاہم امکانِ نظیر (یعنی خدا کی یہ قدرت کہ وہ حضرت محمد کا ایک مثیل پیدا کرے) کے مسئلے میں انھوں نے شاہ اسماعیل کے حق میں لکھا13۔ اور بظاہر شاہ اسماعیل کے ساتھ خیر آبادی کی دشمنی سے آزردہ بڑی حد تک بے چین رہتے تھے، اور کئی بار یہ بے چینی اپنے جگری دوست سے اختلاف اور تنقید کا باعث بھی بنتی۔ لیکن آزردہ شاہ  اسماعیل کے سخت انداز بیان کے بھی شدید ناقد تھے، باوجودیکہ وہ کئی اختلافی مسائل میں ان کے ہم نوا تھے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو دلی میں بڑھتے ہوئے مناظرانہ درجۂ حرارت میں بالآخر کمی لانے میں دل چسپی تھی۔

تصور کی حدود کی پہرے داری: خیر آبادی کا رد عمل

خیر آبادی کی طرف واپس لوٹتے ہوئے عرض ہے کہ اس باب کے سیاق میں ان کے حالات زندگی کا ایک اہم نکتہ انیسویں صدی کے اشرافیہ کے ایک متمول فرد کی حیثیت سے ان کا معاشی پس منظر ہے۔ خیر آبادی کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جس کے ہندوستان میں مغلوں کے شاہی خاندان سے گہرے تعلقات اور روابط تھے۔ اپنے والد فضل امام خیر آبادی کی طرح انھوں نے بھی مغل دربار کے ایک اعلی ترین عہدے دار کی حیثیت سے خدمات سر انجام دی تھیں۔ مزید بر آں، مغل سلطنت کے زوال کے بعد بھی خیر آبادی نے برطانوی سلطنت میں ایک اہم عہدے دار کی حیثیت سے اپنی خدمات جاری رکھیں، تا آنکہ برطانیہ نے ان پر بغاوت کا الزام لگا کر انھیں ہندوستان سے جلا وطن کر دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ استعماری انتظامیہ کی نظر میں ان کا اس قدر احترام تھا کہ دلی کے برطانوی ریزیڈنٹ افسر نے ان کی درخواست پر شاہ محمد اسماعیل کو جامع مسجد میں خطبہ دینے سے منع کردیا تھا۔ یہ درخواست اس وقت منظور کی گئی جب خیر آبادی نے بتایا کہ شاہ اسماعیل کے خطبات دلی کے اندر فرقہ وارانہ امن اور ہم آہنگی کے لیے سنگین خطرہ بن گئے ہیں۔ یہ پابندی چالیس دن تک برقرار رہی۔ سوانحی تذکرے اس بابت خاموش ہیں کہ برطانوی استعمار سے ان کے اتنے قریبی تعلقات اس قدر تیزی سے کیوں خراب ہوئے جس کے نتیجے میں انھیں ریاست کا دشمن قرار دیا گیا اور جلاوطنی میں عمر قید کی سزا دی گئی۔جنگ آزادی 1857 کے برپا کرنے میں ان کا مُبینہ کلیدی کردار ہی شاید وہ بنیادی سبب ہے جس سے ان تعلقات نے پلٹا کھایا14۔

خیر آبادی کا اشرافی پس منظر ان کے سوانح حیات میں پوری تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ مثلاً‌ جب وہ نوجوان لڑکے تھے اور شاہ عبد العزیز کے گھر، جو اس کے حریف شاہ اسماعیل کے چچا تھے، حدیث کے اسباق پڑھنے کے لیے جاتے تھے تو ہاتھی پر سفر کرکے جاتے تھے، اور اس مقصد کے لیے خاص طور پر ایک خادم ان کے ساتھ رہتا تھا۔ خادم کی ذمہ داری تھی کہ وہ خیر آبادی کے سر پر چھتری کا سایہ رکھ کر دھوپ سے ان کی حفاظت کرے۔ بعد میں ان کے مخالفین ان کے اشرافی پس منظر کا حوالہ دے کر انھیں  تقوی وطہارت سے خالی باور کرانے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلاً‌ نزھۃ الخواطر میں ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: "ان کا لباس علما کے لباس کے بجاے شاہانہ ہوتا تھا" (كان زيه زي الأمراء دون العلماء)15۔

شاہ محمد اسماعیل اور فضل حق خیر آبادی دونوں انیسویں صدی کے اوائل کے شہری اور علمی عہد میں جی رہے تھے۔ جیسا کہ ابھی ذکر ہوا، شاہ اسماعیل کے نامی گرامی تایا شاہ عبد العزیز اور ان کے چچا شاہ عبد القادر (جس کا ذکر دوسرے باب میں ہوا ہے) علم حدیث میں خیر آبادی کے اہم اساتذہ تھے۔  باوجود یکہ ان کا ایک ہی علمی شجرے سے تعلق تھا، ان کے سماجی تصورات میں شدید مخالفت تھی۔ خیر آبادی کی نظر میں شاہ اسماعیل کی الہیاتی فکر گستاخانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تخریبی تھی۔ ان کی نظر میں خدائی حاکمیت کے دفاع کے بہانے سے شاہ اسماعیل نے ایک نیا دین ایجاد کیا  تھا جس میں رسول اللہ ﷺ کی گستاخی اور توہین پائی جاتی تھی۔ شاہ اسماعیل کے اصلاحی ایجنڈے میں خیر آبادی کو جو چیز سب سے زیادہ خطرناک معلوم ہوئی، وہ یہ تھی کہ شاہ اسماعیل  نے ایک ایسے اخلاقی نظام کے امکان کا سوچا جس میں پہلے سے چلے آنے والے مقدس مراتب، امتیازات اور خصوصی حیثیات کی توہین پائی جاتی تھی۔ خیر آبادی کے نزدیک اگر عوام کو بہکا کر ان کے سامنے دنیا کا ایک ایسا تصور پیش کیا جائے جس میں مراتب کی توہین ہو، یا جس میں حضور ﷺ کے مرکزِ کائنات ہونے کا انکار ہو، تو دین کا شیرازہ بکھر جائے گا۔

شاہ اسماعیل کی پیدا کردہ کش مکش کا مرکزی نکتہ وہ منہاج ہے جس کے ذریعے انھوں نے قابل تصور خیالات کی حدود کو چیلنج کیا۔ ایک بار جب یہ قابلِ تصور ہوگیا کہ خدا کئی لاکھ نئے محمد پیدا کر سکتا ہے یا وہ اپنے وعدے سے مکر سکتا ہے تو دین کا تصور لامحالہ مسخ ہو گیا۔ مثلاً خیر آبادی کے معاصر سوانح نگار اسید الحق بدایونی (انھیں خیر آبادی کے معاصر فضل رسول بدایونی سے گڈ مڈ نہ کیا جائے) کے دل چسپ تجزیے کو ملاحظہ کریں کہ انبیا، اولیا اور دیگر بزرک ہستیوں کے متعلق شاہ اسماعیل کی گستاخی اور بے احتیاطی  نے بعد میں (مرزا غلام احمد قادیانی کی جانب سے) "انکارِ ختم نبوت کی راہ ہموار کی"16۔ اس لیے بدایونی اور خیر آبادی کے بہت سے پیروکاروں کی نظر میں شاہ اسماعیل فتنۂ قادیانیت کے پیش رو تھے، کیونکہ انھوں نے وہ حالات پیدا کیے جن سے مرزا غلام احمد (م 1908) جیسے مدعیانِ نبوت کے لیے رستہ ہموار ہو گیا17۔ خیر آبادی کے لیے بذات خود شاہ اسماعیل کا ناقابل معافی قصور یہ مفروضہ تھا کہ نبی ﷺ کی رفعتِ شان اور خدائی حاکمیت کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن ہے۔ خیر آبادی کی نظر میں پیغمبر کی شخصیت اور خدا کی ہستی ایک ہی کونیاتی پروگرام کا حصہ ہیں۔ اس لیے کوئی ایسی کوشش جو اخروی نجات کے باب میں رسول اللہ ﷺ کے کردار کی نفی کرے، صرف انتشار پھیلا سکتی ہے۔

شاہ اسماعیل کے ساتھ خیر آبادی کی علمی نوک جھوک کا تصنیفی زمانہ اور ترتیب کچھ یوں تھی۔ 1825 میں تقویۃ الایمان کی اشاعت کے بعد خیر آبادی نے "تقریرِ اعتراضات بر تقویۃ الایمان" کے نام سے فارسی میں ایک بہت مختصر تردید شائع کی۔ ان چند صفحات کا مرکزی موضوع امکانِ نظیر تھا، جس میں شاہ اسماعیل کے اس دعوے کی تردید تھی کہ "خدا لاکھوں اور محمد پیدا کر سکتا ہے"۔ اس کے جواب میں شاہ اسماعیل نے "یک روزہ" لکھی، جس کا ذکر میں گذشتہ صفحات میں  کر چکا ہوں۔ اس کے بعد خیر آبادی نے "تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی" کے عنوان سے فارسی میں تقویۃ الایمان اور یک روزہ دونوں کی ایک اور تفصیلی تردید لکھی۔ ذیل میں میرے تجزیے کا بیش تر حصہ اس کتاب کے ایک دقیق مطالعے پر مبنی ہے18۔ یہ تمام واقعات 1825 کے ہنگامہ خیز سال میں پیش آئے، جن کے صرف چند مہینے بعد شاہ اسماعیل نے سکھوں کے خلاف عسکری تحریک برپا کی جس میں ان کی وفات ہوئی، جس کی وجہ سے یہ مختصر لیکن شدید تنازع غیر ارادی طور پر رک گیا۔

خیر آبادی نے تحقیق الفتوی کے بالکل آغاز میں شاہ اسماعیل اور ان کے عقائد سے متعلق اپنی شدید ناراضی اور تحقیر کا اظہار یوں کیا ہے:

"اس کا بے فائدہ کلام، جو جھوٹے اقوال اور عجیب وغریب باتوں پر مشتمل ہے، درستی اور سچائی کے ساتھ ذرہ برابر تعلق نہیں رکھتا [ایں کلام لا طائل از اکاذیبِ اقاویل واعاجیبِ اباطیل ہرگز از راستی مساسے وبصدق التباسے ندارد]۔ شفاعت کی اقسام بیان کرتے وقت اس نے متعدد گستاخیوں کا ارتکاب کیا ہے اور اس نے متقدمین اور متاخرین کے اجماع کے برعکس اشرف الاشراف حضور ﷺ کے بلند مقام ومرتبے کو گھٹایا ہے۔ اس عمل سے اس نے اپنے ایمان کی آبرو ضائع کی ہے، اور جاہل عوام کے تاریک دلوں میں فتنہ اور گم راہی کا بیج بویا ہے‘‘19۔

خیر آبادی نے شاہ اسماعیل پر انبیا، اولیا اور فرشتوں کی توہین کا الزام لگایا، اور ان پر "کافر اور واجب القتل" ہونے کا فتوی صادر کیا (235)۔ ذیل میں میں اس بات کا جائزہ لینے جا رہا ہوں کہ وہ اس عجیب نتیجے تک کیسے پہنچے۔ شفاعت نبوی اور امکانِ نظیر یا امکانِ کذب پر شاہ اسماعیل کے خیالات کی تردید کا جائزہ لینے سے میرا مقصد انیسویں صدی میں ہندوستان کی اسلامی فکر میں ایک حریف سیاسی عقیدے کا بیان ہے۔

محبت امتیاز کی علامت ہے

شفاعت نبوی پر فضل حق خیر آبادی کی فکر ان عناصرِ اربعہ سے مرکب تھی: (1) خدا اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان ایک امتیازی محبت وقربت کا رشتہ ثابت کرنا؛ (2) نبی اکرم ﷺ کو ایک انتہائی محبت کرنے والی، مخلص اور طاقت ور شخصیت کی صورت میں پیش کرنا، جو مسلسل گناہ گار بندوں کے گناہوں کو بخشوانے کی خاطر شفاعت کرتی ہے؛ (3) شفاعت کے ایک قطعی درجاتی ماڈل کا اثبات کرنا، جس میں خدا کی بارگاہ کی نسبت سے انبیا، اولیا اور عام لوگوں کے درمیان ایک واضح اور ناقابل سمجھوتہ حد قائم کی گئی ہو؛ اور (4) تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل کے اس دعوے کی تردید کہ بارگاہِ الہی میں صرف شفاعت بالاذن جائز ہے۔

شاہ اسماعیل پر خیر آبادی کا بنیادی الزام یہ تھا کہ اول الذکر نے مقام نبوت کی رفعتِ شان کی تنقیص کی ہے۔ خیر آبادی نے استدلال کیا کہ وہ مقام اور اعزاز جو خدا نے حضور ﷺ کو عطا کیا ہے، انتہائی خاص ہے۔ کسی بھی دوسری ہستی کو آپ کی طرح اختصاص حاصل نہیں (سبحانہ آں جناب را بہ فضل وکرامت اختصاص باشد کسے دیگر را از خلق) (283)۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شفاعت کی حیثیت میں کوئی بھی حضور ﷺ کا ہم سر نہیں، اور یہی بات حضور ﷺ کے انفرادی مقام ومرتبے پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ گناہ گاروں کے لیے حضور ﷺ کے مقامِ شفاعت نے انھیں دیگر تمام مخلوقات سے امتیاز عطا کیا ہے، اور تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ خاص ہستی کی حیثیت سے آپ کے مقام ومرتبے پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔شفاعت حضور ﷺ کے امتیاز کے اثبات کا ذریعہ ہے۔ یہی وہ بنیادی خاصیت ہے، جس نے حضور ﷺ کو امتیاز عطا کیا۔

خیر آبادی نے مزید بتایا کہ شفاعت وہ بنیادی مقام ہے جو آخرت میں حضور ﷺ کی رفعتِ شان کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے۔ بالفاظِ دیگر اس دنیا میں منصبِ نبوت کے ساتھ وابستہ عظمت کا تسلسل آخرت میں شفاعت کی نعمت سے ہوگا۔ اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے خیر آبادی نے تیرھویں صدی کے مشہور مفسرِ قرآن عبد اللہ بن عمر البیضاوی (م 1826) کا حوالہ دیا ہے، جو کہتے ہیں: "دنیا میں وجاہت نبوت ہے اور آخرت میں شفاعت ہے" (الوجاهة في الدنيا نبوة، وفي الآخرة الشفاعة)20۔

خیر آبادی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ آخرت میں حضور ﷺ کا مقام ومرتبہ دنیوی مقام ومرتبہ سے کہیں زیادہ بلند وبرتر ہوگا۔ روزِ قیامت کو اللہ تعالیٰ ان کے مثالی کردار اور اطاعت کے بدلے میں انھیں یہ اختیار دیں گے کہ وہ اپنی امت کے حق میں شفاعت کریں۔ شفاعت فرائض نبوت کی ادائیگی کے بدلے میں انعام واکرام ہے؛ یہ شانِ نبوت کی تصدیق اور بدلہ دونوں ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، خیر آبادی کے نزدیک شفاعت کی نعمت منصبِ نبوت کے ساتھ لازمی طور پر جڑی ہوئی ہے۔ شفاعت آخرت میں نبی ﷺ کی رفعتِ شان کی ابدیت کو ممکن بناتی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ حضور ﷺ کی شفاعت کے اختیار پر سمجھوتے کی کوئی کوشش نبوت کی حیثیت پر براہ راست حملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیر آبادی کی نظر میں شفاعت پر شاہ اسماعیل کا استدلال موجب کفر ہے۔

علاوہ ازیں خیر آبادی کی نظر میں شاہ اسماعیل کا اشتعال انگیز بیانیہ خاص طور سے محل نظر تھا۔ انھوں نے بتایا کہ خدائی حاکمیت (توحید) کے توہین آمیز بیانات اور خدائی حاکمیت کے بارے میں ان کے مجوزہ استدلال کے درمیان کوئی جوڑ نہیں۔ مثال کے طور پر "خدا کی یہ قدرت کہ وہ لاکھوں اور محمد پیدا کر ڈالے"، ایک غیر ضروری گستاخی ہے جس کا خدائی حاکمیت (توحید) کے احیا سے کوئی جوہری تعلق نہیں۔  خیر آبادی اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، "فرض کرو، اگر کوئی اپنی بادشاہت چلانے میں کسی وزیر یا مشیر کا مکمل محتاج ہے، بادشاہ وہی کرتا ہے جو اس کا وزیر اسے کہتا ہے کہ کرو، اب اس بادشاہ کی حاکمیت کو بحال کرنے کی خاطر یہ کہنا بے مقصد ہے کہ بادشاہ لاکھوں نئے وزیر بنا سکتا ہے، یا وہ عوام کو وزارت سونپ سکتا ہے۔ یہ بادشاہ کو اپنی بادشاہت میں حکم چلانے میں کس طرح وزیر کی مداخلت کا مسئلہ حل کر سکتا ہے؟" (332)۔

خیر آبادی نصیحت کرتے ہیں کہ شاہ اسماعیل کو بس اتنا کہہ دینا چاہیے تھا: "خدا کی حاکمیت کے دائرے میں کسی کو مداخلت کی گنجائش نہیں" (بیستے گفت کہ کسے را در کارخانہ جاتِ الہی مداخلت ہیچ گونہ نیست) (333)۔ یہ سیدھا سادہ موقف اختیار کرنے کے بجاے شاہ اسماعیل نے ایک نیا راگ الاپنا شروع کر دیا جس نے ان کے استدلال کو تقویت پہنچانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، اور اس عمل میں وہ حضور ﷺ کی گستاخی بھی کر بیٹھے۔ یہ بیک وقت ایک گم راہ فکر اور بے ادبی کی نشانی ہے۔

خیر آبادی کی نظر میں بے مقصد گستاخانہ اظہارات کے ساتھ ساتھ شاہ اسماعیل نے حضور ﷺ سے خدا کے تعلق کے اعتقادی تصور میں محبت کی غیرمعمولی اہمیت کو نظر انداز کیا ہے۔ خیر آبادی کے عقیدے کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ خدا اور حضور ﷺ کے درمیان مُحِب ومحبوب جیسا گہرا رشتہ ہے۔

اس نے بتایا کہ محبوب کے ناز اٹھانا محبت کے رشتے کی افزائش اور کام یابی کا بنیادی تقاضا ہے۔ اس لیے جس طرح ایک سچا عاشق کبھی ایسے قول وفعل کا مرتکب نہیں ہوتا جس سے اس کے محبوب کی دل آزاری ہو، یا جس سے وہ مایوس ہو، یا جس سے اس کی توہین ہو، بالکل اسی طرح خدا اپنی محبوب ترین ہستی حضور اکرم ﷺ کی تسلی واطمینان کا بہت خیال رکھتا ہے۔

مزید برآں محبت و دل داری کا کوئی رشتہ تب قائم رہ سکتا ہے جب ہر کسی کے حق میں محب اپنے محبوب کی سفارش قبول کرے۔ اس لیے شاہ اسماعیل کے موقف کے بالکل برعکس خیر آبادی نے بغیر کسی اگر مگر کے خدا کی بارگاہ میں شفاعت وجاہت اور محبت کو جائز قرار دیا۔

چونکہ خدا نے حضور ﷺ کو اپنی محبوب ترین ہستی قرار دیا ہے، اس لیے وہ گناہ گار لوگوں کے حق میں ہمیشہ ان کی سفارش قبول کریں گے۔ حضور ﷺ اور خدا کے درمیان شدید محبت کے رشتے کو ثابت کرنے کے لیے خیر آبادی نے مشہور حدیثِ قدسی کا حوالہ دیا: "جب میں کسی بندے کو اپنا محبوب بناتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے"21۔ اس تصنیف کی بنیادی خصوصیت وہ انداز ہے جس میں یہ محبت کی بے پناہ طاقت پر زور دیتی ہے۔ خدا کا اپنے محبوب سے تعلق محض ایک ذہنی کیفیت کا نام نہیں، اس کے بجاے یہ محبت محبوب کے دل ودماغ اور ہر ادا میں رچ بس جاتی ہے۔ اس لیے، خیر آبادی کی نظر میں، حدیث قدسی سے بغیر کسی ابہام کے نہ صرف خدا کی نظر میں اس کے محبوبین کے بلند مقام ومرتبہ کا اثبات ہوتا ہے، بلکہ اس حدیث سے خدائی اور نبوی وجودیات کے درمیان بے پناہ قربت اور ناقابل تفریق تعلق کے عمومی استدلال کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔

مزید برآں خیر آبادی نے اس بات پر زور دیا کہ خدا نے اپنی مخلوق کو مختلف مراتب اور مقامات دے کر پیدا کیا ہے (سبحانہ آفریدگانِ خود را بمراتبِ متفاوتہ ومدارجِ متباعدہ آفریدہ) (268)۔ تمام ہستیوں سے محبت اور تعلق کے پیش نظر بہت باریکی سے اور بغیر کسی لحاظ کے مختلف مراتب اور متفرق درجات متعین کیے گئے ہیں جن میں خدا نے اپنی بارگاہ کے مقربین کو ان کے درجات کے مطابق مقام ومرتبہ عطا فرمایا (ہر یکے از مقربانِ بارگاہِ خدا علی قدرِ تفاوتِ درجاتہم وعلی حسب مراتبھم منزلتے ومکانتے بکشیدہ) (268)۔ کسی کی سفارش کی قبولیت کا دار ومدار اس بات پر ہے کہ بارگاہِ الہی میں اس کا مقام ومرتبہ کیا ہے۔ زیادہ درست الفاظ میں، سفارش کی اجازت سفارش کرنے والے سے خدا کی محبت کی دلیل ہے۔

محبت، طاقت، امتیاز

خیر آبادی کے تصور میں محبت کو طاقت سے الگ کرنا ناممکن ہے۔ امتیازی رتبہ محبت کی دین ہے۔ محبت ہی اخروی مقام ومرتبے کی تعیین میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ سفارش بھی محبت ہی کی دین ہے، ایک ایسا تحفہ جو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک ہستی کے بلند مقام ومرتبے کی علامت ہے۔ اس لیے انبیاے کرام اور اولیاے عظام کی دعائیں اور سفارشیں دیگر عوام اور گناہ گار لوگوں کی بنسبت زیادہ مقبول ہوتی ہیں۔ خیر آبادی نے ان مقامات ومراتب کے اثبات کے لیے اس قرآنی آیت کا حوالہ دیا: "وہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض نے خدا سے کلام کیا ہے، اور بعض کو دیگر سے بلند درجات دیے گئے ہیں"22۔

خیر آبادی، شاہ  اسماعیل کے ساتھ اس نکتے پر متفق تھے کہ خدا قادر مطلق، وحدہ لا شریک اور ہر قسم کے تغیر وتبدل سے پاک ہے۔ اسی طرح تمام مخلوقات، چاہے وہ انسان ہوں، فرشتے، انبیا، ان پڑھ، بادشاہ یا غلام، سب پر فرض ہے کہ وہ خدا کے سامنے کامل بندگی کا اظہار کریں۔ اس بنیادی عقیدے میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ خیر آبادی اس بات پر بھی اتنا ہی زور دے رہے تھے کہ خدا کی وحدانیت اور اس کی مخلوق کے مقامات ومراتب میں، جو اس نے خود ترتیب دیے ہیں، کوئی تناقض نہیں۔ خدا کی بارگاہ میں ہر ہستی کو ایک مخصوص منصب اور عالی رتبہ عطا کیا گیا ہے۔ اس نے واضح کیا کہ جیسے بعض ہستیوں کو انتہائی قربت اور عزت دی گئی ہے، اسی طرح دیگر لوگوں کو مردود وگمراہ کر دیا گیا ہے۔ بارگاہ الہی میں ہر کسی کو اس کی عزت اور مقام کے اعتبار سے درجہ دیا گیا ہے۔  خدا کے محبوب کا کبھی وہ مقام نہیں ہو سکتا جو مردود کا ہے وغیرہ۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ گناہ گاروں کی خاطر سفارشیوں کے سفارش کی قبولیت اور اثر انگیزی کا دار مدار بھی خدا کے ان سے تعلق کی گہرائی پر ہے۔ بالفاظ دیگر کسی سفارشی کو سفارش کی اجازت ملنے کا انحصار خدائی محبت کے نظام میں اس کے مقام ومرتبے پر ہے۔ علاوہ ازیں، اور یہ سب سے اہم ترین نکتہ ہے، خدا کا کسی کی سفارش کو قبول کرنا اس کے مقام ومرتبے کا اعتراف ہے (263 – 265)۔

سفارش کا واضح مقصد کسی مجرم کے جرائم معاف کرانا ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سفارش کا عمل خدا کی محبوب ہستیوں کے ممتاز مقام ومرتبہ کی تصدیق کرتا ہے۔ خیر آبادی کے الفاظ میں: "کسی کی سفارش کو قبول کرنا محبت کے آثار میں سے ہے" (334)۔ اس نکتے کی تائید میں انھوں نے ایک شعر نقل کیا ہے (ترجمہ): کسی نے ایک عاشق سے پوچھا: کہ فراق اور وصال دونوں میں کون سا بہتر ہے؟ عاشق نے جواب میں کہا: وہی جس سے معشوق کو خوشی ملتی ہو۔ بگفتا وصل بہ یا ہجرانہ دوست۔۔۔۔ بگفتا ہر چہ میلِ خاطرِ اوست (288)۔

خیر آبادی نے دعوی کیا کہ بارگاہ الہی میں کوئی ہستی  اس قدر معزز، بلند مرتبت اور محبوب ترین نہیں جس قدر حضرت محمد ﷺ ہیں۔ انھوں نے لکھا: "قیامت کے دن انبیا کے علاوہ کسی کو بھی بارگاہِ الہی میں بولنے کی اجازت نہیں ہوگی" (275)۔ شاہ اسماعیل کے برعکس، جن کی نظر میں نبی اکرم ﷺ کی طرف سفارش کی غیر معمولی صلاحیت کی نسبت خدائی حاکمیت کے لیے ایک خطرہ ہے، خیر آبادی کے نزدیک خدائی حاکمیت اور نبی علیہ السلام کا امتیازی مقام ایک دوسرے کے مؤید ہیں23۔

خیر آبادی نے واضح کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا اظہار ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ وہ ایک مشہور حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں: "ایک ایمان دار مسلمان کے لیے رسول اللہ ﷺ کو اپنی ذات، والدین، اولاد اور تمام انسانیت سے بڑھ کر محبوب ماننا چاہیے" (400)۔ اس کے ساتھ خیر آبادی کی نظر میں خدا کی قدرت اور پیغمبر ﷺ کی عظمت کے درمیان کوئی تضاد نہیں تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی انھی کائناتی صفات کی تصدیق ہی سے ایک بندہ خدا کے حضور اپنی بندگی کا اعتراف کرتا ہے۔ خیر آبادی نے استدلال کیا کہ یہ موقف قرآن میں وہاں صاف طور پر مذکور ہے جہاں  خدا اپنے پیغمبر سے کہتا ہے: "جو لوگ سے آپ سے بیعت کر رہے، در حقیقت وہ خدا سے بیعت کر رہے ہیں، خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے"24۔ خیر آبادی نے متعدد احادیث کا حوالہ بھی دیا ہے جو ان کی نظر میں ناقابل تردید انداز میں رسول اللہ ﷺ کے عالی رتبے کا اثبات کرتی ہیں: مثلاً شُرَیح بن یونس فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو زمین میں گشت کرتے  ہیں اور اس گھر کی کثرت سے زیارت کرتے ہیں جس میں احمد یا محمد نام رکھنے والا کوئی شخص ہو" (295)۔ اور "قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ کو صرف اپنی امت کی سفارش کے اور کسی چیز کی فکر نہیں ہوگی۔ جب تمام انبیا اپنے انجام کی خاطر پریشان ہو کر رو رو کر کہہ رہے ہوں گے: نفسی نفسی (میری جان بچ جائے)، ایسے میں رسول اللہ ﷺ رو رو کر امتی امتی ( میری امت بچ جائے) کہہ رہے ہوں گے (322)۔

خدائی قدرت اور نبوی مقام کے درمیان تعلق کے تصور کو شاید سب سے بہتر انداز میں بیان کرنے لیے ان کی نقل کردہ احادیث میں یہ موزوں ترین ہے:

"قیامت کے دن انبیاے کرام کے لیے منبر رکھے جائیں گے جن پر وہ بیٹھ جائیں گے۔ میرا منبر خالی رہے گا، میں اس پر نہیں بیٹھوں گا۔ میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں کھڑا رہوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے حبیب! تم کیا چاہتے ہو کہ تمھاری امت سے کیسا معاملہ کروں [ماتريد أن أصنع بأمتك]؟  میں عرض کروں گا: اے پروردگار! ان کا حساب جلدی فرما۔ پس انھیں بلایا جائے گا اور ان کا حساب لیا جائے گا۔ ان میں سے بعض وہ ہوں گے جو اللہ تعالی کی رحمت سے جنت میں داخل ہوں گے، اور بعض میری شفاعت سے" (327 – 28)۔

نیز اپنی امت کی اخروی نجات کے لیے حضور ﷺ کی بے انتہا فکرمندی بھی ملاحظہ فرمائیں، جیسا کہ اس حدیث میں ہے: "اور میں شفاعت کرتا رہوں گا حتی کہ مجھے ایسے لوگوں کے ناموں کے دفتر دے دیے جائیں گے جن کے لیے جہنم کا حکم ہو چکا ہوگا، اور مجھے جہنم کا داروغہ کہے گا: یا رسول اللہ! آپ نے اپنی امت میں خدا کے غضب کی کچھ بھی سزا نہیں رہنے دی" (328)۔

خلاصۂ کلام یہ کہ شفاعتِ نبوی پر خیر آبادی کی بحث میں دو بنیادی استدلالات یہ تھے: (1) اللہ تعالیٰ گناہ گاروں کے حق میں محمد ﷺ کی سفارش ہمیشہ قبول کرتے ہیں، کیونکہ وہ خدا کی بارگاہ میں محبوب ترین اور بلند ومقام ومرتبے پر فائز ہیں۔ اور (2) قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ سفارش کے طلب گاروں کی مسلسل سفارش کریں گے، تا کہ ان کی مغفرت اور جنت میں ٹھکانے کو یقینی بنائیں۔

سفارش اور سینہ زوری میں فرق

خیرآبادی کے تصورِ شفاعت پر ایک بنیادی سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر خدا اپنے محبوب (نبی ﷺ) کی ہر سفارش قبول کرتا ہے تو پھر اپنی بارگاہ کے معاملات کو سنبھالنے میں خدا کی اپنی حاکمیت کا کیا ہوگا؟ دوسرے لفظوں میں اگر خدا اپنے پیغمبر کی سفارش کو رد نہیں کرتا تو پھر خدا کی تشریعی قدرت کی حیثیت کیا ہے؟ خیر آبادی اس ممکنہ اعتراض کو سفارش اور تحکم کے درمیان فرق پر زور دینے کے ذریعے زیر بحث لائے ہیں۔ "ہر دانا ونادان یہ جانتا ہے کہ سفارش ایک چیز ہے اور سینہ زوری اور۔ سفارش میں سینہ زوری نہیں ہوتی" (ہر عاقل ونادان می دانند کہ سفارش دیگر است وتحکم دیگر است۔ در سفارش تحکم نہ می باشد) (264)۔ یہ وضاحت خیر آبادی نے کچھ تحقیر آمیز انداز میں کی ہے، کیونکہ ان کی نظر میں اسے بالکل ایک واضح نکتے کی تشریح پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ خدا کا کسی کی سفارش کو قبول کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے علاوہ کسی اور ہستی کو اس کے کارخانۂ قدرت میں مداخلت کا حق ہے۔ خدا اپنے مقربین اور محبوبین کی سفارش کو اس لیے قبول کرتا ہے تاکہ اپنی بارگاہ میں ان کے بلند مقام ومرتبے کو واضح کرے۔ تاہم کسی سفارش کی قبولیت یا تردید کا فیصلہ صرف اس کا ذاتی استحقاق ہے۔ مختصر یہ کہ خدا اپنے مُقَرّبین کی سفارش کسی دباو یا نقصان کی وجہ سے نہیں بلکہ محبت کی وجہ سے قبول کرتا ہے (263 – 70)۔

خدائی اور نبوی قدرت وعظمت کے درمیان ہم آہنگی پیدا  کرتے ہوئے اس مقام پر خیر آبادی کو ایک منطقی تضاد کا سامنا تھا۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ خدا اپنی بادشاہت میں حاکمِ مطلق مختارِ کل ہے جو کسی سے حکم وصول نہیں کرتا۔ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ بارگاہِ الٰہی میں حضور ﷺ کو ایسا بلند مقام ومرتبہ حاصل ہے کہ ان کی سفارش کبھی رد نہیں کی جاتی۔ کیا اس سے خدا اور نبی ﷺ کے اختیار میں الجھن کا خطرہ نہیں پیدا ہوتا؟ خیر آبادی کی نظر میں بالکل نہیں پیدا ہوتا۔ وہ بنیادی فرق علّیت (causality) کا ہے جو اختیار کی ان دو قسموں کو الگ کرتا ہے۔ خدا کسی کے خوف یا دباو میں آکر سفارش قبول نہیں کرتا، بلکہ سفارش کرنے والے سے محبت کی خاطر قبول کرتا ہے۔

خیر آبادی آگے دلیل پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر خدا دباو میں آکر سفارش قبول کرتا ہے پھر تو اس کے پاس اپنی بادشاہت کے لیے درکار حاکمیت ہی موجود نہیں۔ ایسی صورت میں وہ ایک بے اختیار بادشاہ ہے جو صرف براے نام حکمران ہے۔ حقیقت میں اس کے وزیر ہی حکومت کے تمام امور پر مسلط ہیں۔ سیاسی طور پر ایسا بے اختیار  بادشاہ وہی کرے گا جو اس کے وزیر مشیر اس سے کروانا چاہیں گے۔ اسے یہ خوف لاحق ہوگا کہ اگر وہ ان کے مطالبات پورے نہ کرے تو اس کے نتیجے میں اس کی کمزور اور ظاہری حکومت بھی جاتی رہے گی۔ چونکہ ایسا بادشاہ بالکل اپنے وزیروں کے تابع ہے، اس لیے اس کا کسی کی سفارش کو قبول کرنا اطاعت وفرمان برداری ہے نہ کہ سفارش قبول کرنا (فرمان برداری واطاعت است، نہ قبولِ شفاعت) (264)۔ ایسی صورت، خیر آبادی نے بتایا، بارگاہِ الٰہی میں ممکن ہی نہیں۔

خیر آبادی نے شاہ اسماعیل پر سخت تنقید کی کہ سفارش اور سینہ زوری کے درمیان اس قدر اہم فرق کی طرف ان کا دھیان کیوں نہیں گیا۔ انھوں نے واضح کیا کہ سفارش کی درخواست اور سینہ زوری مکمل پر طور دو الگ چیزیں ہیں ۔ یہ خوف نہیں بلکہ کسی محبوب کے بلند مقام ومرتبہ کے اعتراف کی خواہش ہے جو کسی حاکم اعلیٰ کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ کسی سفارشی کی درخواست کو قبول کرے۔

خیر آبادی نے استدلال کیا کہ شاہ اسماعیل جس بات کے سمجھنے میں ناکام رہے، وہ یہ تھی کہ محبت سفارش کی قبولیت کی واحد وجہ ہے، جو کسی بھی خوف یا دباو سے آزاد ہوتی ہے۔ خیر آبادی نے شاہ اسماعیل کو اس بات کے لیے بطور خاص تنقید کا نشانہ بنایا کہ انھوں نے گناہ گاروں کی بخشش کے واسطے رسول اللہ ﷺ کی دست گیری کو باطل ٹھہرایا، اور عوام میں ناامیدی کا زہر پھیلایا ہے۔ خیرآبادی نے نسبتاً تیکھے انداز میں لکھا: "ہم نافرمان گنہ گاروں، شفاعت کے امیدواروں کو غلط فہمی (اور جہالت) سے منسوب کرکے وہ خود غلطی میں پڑا گیا ہے، اور دوسروں کو غلطی میں ڈالنے کی کوشش کی ہے، کیوں کہ ثابت ہو چکا کہ حضور ﷺ کی شفاعت اہل کبائر کے لیے یقینی ہے، لہذا سفارش کے امیدواروں کو غلط فہمی میں مبتلا اور خطاکار کہنا بہت بڑی خود فراموشی، غلط فہمی اور بد دینی ہے۔ خدا کرے جو شفاعت سے نا امید ہو، نا امید رہے" (ایں قائل امیدواری را بہ فراموش کاری نامیدہ، بہ گناہ گارانِ بے طاعت امیدوارانِ شفاعت را بغلط کاری نسبت کردہ، خود در غلط وتغلیط افتادہ۔۔۔۔ ہر کہ از شفاعت نومید باشد نومید ماند) (330)۔

خیر آبادی نے اس بات پر بھی شاہ اسماعیل کی گرفت کی کہ انھوں نے شفاعت بالاذن کے تصور کو مکمل طور پر مسخ کرکے پیش کیا ہے۔ شاہ اسماعیل نے شفاعت بالاذن کی صورت کچھ یوں بیان کی تھی کہ ایک بادشاہ، سفارش کی درخواست موصول ہونے سے پہلے مجرم کو معاف کرنے کا فیصلہ کر چکا ہو۔ اس صورت میں سفارش کا مقصد صرف بادشاہ کے اصولی رجحان کی تائید ہے؛ یہ بادشاہ کے فیصلے کی علت نہیں۔ خیر آبادی نے اس استدلال کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انھوں نے بتایا کہ سفارش کو بے مقصد اور فالتو ہونے سے بچانے کے لیے لازمی ہے کہ وہ مجرم کی براءت کی اصل علت ہو (335)۔

خیر آبادی کے نزدیک شاہ اسماعیل کا یہ نکتہ کہ شفاعت بالاذن صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب بادشاہ نے پہلے سے مجرم کو معافی دینے کا ارادہ کر لیا ہو، سفارش کو بالکل لغو اور بے کار بنا دیتا ہے (در ایں صورت شفاعت لغو وباطل است)۔ خیر آبادی نے اعتراض کیا کہ سفارش کا فائدہ ہی کیا ہے اگر ایک بادشاہ نے سفارش موصول ہونے سے پہلے گنہگار پر رحم کر دیاہو؟ اس نے اپنا نقطۂ نظر سمیٹتے ہوئے کہا: "سفارش اس صورت میں کارآمد ہے، جب وہ مؤثر ہو" (335)۔ خیر آبادی نے اپنے تجزیے کو سمیٹتے ہوئے شاہ اسماعیل کی علمی حیثیت پر بالواسطہ انداز میں ایک تبصرہ داغا: "یہ قائل یا تو جاہل ہے جو اپنے آپ کو عالم ظاہر کرنا چاہتا ہے، اسے سفارش کا معنٰی ہی معلوم نہیں، یا عالم ہے جو جہالت کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ سفارش کا معنی الٹ دکھاتا ہے" (قائلِ یا جاہل متعلم است کہ معناے سفارش در فہم او نہ می آید، یا عالم متجاہل است کہ معناے سفارش واضح گونہ می نماید) (330)۔

شمٹ کے نظریات کی رو سے، خیر آبادی شاہی معاشرتی تصور کے سب سے بہترین محافظ تھے۔ وہ نہ صرف استثنائی صورت – شفاعت کے خصوصی اختیار– کے قائل تھے، بلکہ انھوں نے اسے ایک عام آدمی کے لیے بارگاہ الہی میں گناہوں کی معافی کے لیے اسے ایک ضروری شرط بھی قرار دیتے تھے۔ خیر آبادی نے کھل کر یہ واضح کیا کہ روز محشر کوئی بھی شخص حضور ﷺ کی سفارش کے بغیر بخشش کا پروانہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اس سیاق میں بطور خاص راہ نما نکتہ یہ ہے کہ نبوی اختیار کی حدود کے لیے ان کے تشکیل کردہ استدلال میں ان کی جانب داری اور سماجی مقام کا اظہار کس طرح ہوا۔ ایک بار پھر میرے مقاصد کے لیے جس قدر ان کا استدلال اہم ہے، اسی قدر اس استدلال کی زبان اہم ہے۔

شفاعت پر خیر آبادی کی فکر میں مغل افسر شاہی (bureaucracy) کی علامتیت (symbolism) سرایت کیے ہوئے ہے۔ مثلاً روز قیامت کا منظر پیش کرتے ہوئے خیر آبادی نے رسول اللہ ﷺ کی ایک واضح تصویر کشی کی ہے کہ وہ گنہ گاروں کی طرف سے سفارش کے لیے موصول ہونے والی درخواستوں کی فائلوں (دفاتر) کی چھان پھٹک کر رہے ہوں گے۔ نبی ﷺ بذات خود تمام فائلوں کو نظر سے گزاریں گے، اور اپنے ہر درخواست گزار کو بخشش کا پروانہ عطا کریں، جس کے نتیجے میں اسے جنت میں ٹھکانہ ملے گا۔ درحقیقت خیر آبادی کا یہ تصور کہ دربارِ الہی میں نبی ﷺ کی حیثیت سب سے بلند مرتبت افسر کی ہے، گہرے طور پر ایک ایسے پروجیکٹ سے مربوط ہے جس کا مقصد نظام مراتب اور امتیازات پر قائم ایک سیاسی اور قومی مزاج کا تحفظ تھا۔

(جاری)

حواشی

  1. فضل رسول بدایونی، عقیدۂ شفاعت کتاب وسنت کی روشنی میں (بدایون: تاج الفحول اکیڈمی، 2009)، 84؛ محمد موسیٰ دہلوی شاہ اسماعیل کے چچا شاہ رفیع الدین دہلوی کے صاحب زادے تھے۔
  2. مارگریٹ پرناو نے بہت عمدہ طریقے سے اس کتاب کی تاریخ کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ جیل میں اس کتاب کی تکمیل کے بعد یہ "کاغذ اور کپڑے کے کباڑوں میں خفیہ طریقے سے ان کے بیٹے کو ہندوستان بھیجی گئی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے نے اس کتاب کے پارچوں کی از سر نو تدوین کی، اور اسے ان ہندوستانی علما کے پاس بھیج دیا جنھوں نے 1857 کے بعد مکہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ وہاں سے یہ پارچے پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر واپس آگئے۔ عوام میں اس کا ذکر پہلی بار 1914 میں ہوا"۔ پرناو اس کتاب کی تاریخ سے یہ نتیجہ اخذ کرتی ہیں، جس سے میں اتفاق کرتا ہوں، کہ: "کتاب کے مواد اور ساخت میں تحریفات کے وقوع سے انکار نہیں کیا جا سکتا ، لیکن فی الحال ایسی کسی تحریف کا کوئی ثبوت موجود نہیں"۔ مارگریٹ پرناو، Ashraf into Middle Classes: Muslim in Nineteenth-Century Delhi (نیو دلی، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2013)، 229 – 30.
  3. فضل حق خیر آبادی، الثورۃ الہندیۃ (باغی ہندوستان) (لاہور: مکتبۂ قادریہ، 1977)، 252۔
  4. برصغیر میں اسلامی علم الکلام اور فلسفے میں خیر آبادی مکتبِ فکر کی خدمات کی ایک عمدہ تحقیق کے لیے ملاحظہ کیجیے: The Oxford Handbook of Islamic Theology، اسد احمد اور رضا پورجوادی، “Theology in Indian Subcontinent” تدوین: سَبین شمتکے (آکسفرڈ: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 2016)، 606 – 24۔
  5. اسید الحق بدایونی، خیر آبادیات (لاہور: مکتبۂ اعلیٰ حضرت، 2011)، 24 – 25۔
  6. عبدالحئی حسنی، نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر، ج 5 (دار عرفات: طیب اکیڈمی،1993)، 586۔
  7. اسید الحق بدایونی، خیر آبادیات، 89 – 102۔
  8. یہ لقب عام طور پر حضرت علی سے منسوب کیا جاتا ہے۔
  9. فضل رسول بدایونی، البوارق المحمدیۃ لرجم الشیاطین النجدیۃ (لاہور: دارالاسلام، 2014)؛ فضل رسول بدایونی، الفوز المبین بشفاعۃ الشافعین، مجموعۂ رسائل بدایونی کے ذیل میں (کراچی، دارالنعمان، 2010)؛ فضل رسول بدایونی، سیف الجبار المسلول علی اعداء الابرار (لاہور: مکتبۂ رضویہ، 1973)؛ فضل رسول بدایونی، احقاق الحق وابطال الباطل (بدایون: تاج الفحول اکیڈمی، 2007)؛ فضل رسول بدایونی، المعتقد المنتقَد (استنبول: حقیقت کتابوی، 1985)۔
  10. فضل رسول بدایونی، مجموعۂ رسائل، 7 – 95۔
  11. فضل رسول بدایونی، مجموعۂ رسائل؛ البوارق المحمدیۃ؛ "الفوز المبین؛ سیف الجبار؛ احقاق الحق؛ اور المعتقد المنتقَد۔
  12. بدایونی نے یہ کتاب مکہ کے ایک عالم کی درخواست پر لکھی تھی۔
  13. ایضاً، 131۔
  14. برطانویوں کے ساتھ خیر آبادی کے تعلقات اور 1857 کی جنگ آزادی میں اس کے کردار کے ایک تفصیلی جائزے کے لیے دیکھیے: Indian Economic and Social History Review 43، نمبر 1 (مارچ 2006) میں: جمال ملک، Letters, Prison Sketches, and Biographical Literature: The Case of Fazl-e-Haq Khairabadi in the Andaman Penal Colony ، 77 – 100۔
  15. الحسنی، نزهة الخواطر، 586۔
  16. اسید بدایونی، خیر آبادیات، 107۔
  17. احمدیوں کے عقیدۂ نبوت اور اسلامی فکر میں اس کی حیثیت کے لیے دیکھیے: یوحانن فرائیڈمین کی کلاسیک، Prophecy Continuous: Aspects of Ahmadi Religious Thought and Its Medieval Background (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 1989)۔ مزید دیکھیے عادل خان کی عمدہ کتاب، From Sufism to Ahmadiyya: A Muslim Minority Movement in South Asia (بلومنگٹن: انڈیانا یونیورسٹی پریس، 2015)۔
  18. خیر آبادی نے لگ بھگ 1848 اور 1853 کے درمیان امکان نظیر کی تردید ایک اور بنیادی اور معروف کتاب "امتناع نظیر" کے نام سے لکھی۔ یہ خیر آبادی کی جانب سے شاہ اسماعیل کی تردید پر سید احمد کے شاگرد حیدر علی ٹونکی (م 1865) کا جواب الجواب ہے۔ (اسید بدایونی، خیر آبادیات، 135، 162 – 71)۔
  19. فضل حق خیر آبادی، تحقیق الفتوی فی ابطال الطغوی (لاہور: مکتبۂ قادری، 1979)، 261؛ آنے والے حوالہ جات اسی اشاعت سے لیے گئے، اور بین القوسین متن میں دیے گئے ہیں۔ احمد دلال نے بتایا ہے کہ اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے احیا پسند بڑے مسلمان اہل علم میں سے محمد بن عبد الوہاب اس حوالے سے منفرد تھے کہ انھوں نے ایسے اعمال کی بنیاد پر دوسرے مسلمانوں کی تکفیر کی جو ان کی نظر میں خدائی حاکمیت (توحید) پر سمجھوتے کے نتیجے میں اعتقادی نافرمانی کے مترادف  تھے (احمد دلال،”The Origins and Objectives of Islamic Revivalist Thought: 1750-1850”، جرنل آف امیریکن اورینٹل سوسائٹی 113، نمبر 3 [1993]: 341 – 59)۔ اس نکتے کی روشنی میں یہ بات مفید ہوگی کہ انیسویں صدی کے ہندوستانی تناظر میں زیر بحث مناقشے میں خیر آبادی اور بعد ازاں احمد رضا خان نے، جو ابن عبد الوہاب کے مسلکی مخالفین تھے، اپنے مخالفین پر کفر کے فتوے لگائے۔ اس کا مقصد محض یہ بتانا نہیں کہ تکفیر صرف اور صرف وہابیوں کا کام نہیں، بلکہ یہ بھی واضح کرنا ہے کہ ایسے فتووں کا سبب اعتقادی خرابی کے متنوع مفاہیم ہیں جن میں کسی کو حضور ﷺ کے مقابلے میں لاکھڑا کرنا بھی شامل ہے۔ تکفیری استدلالات اور نظریات جو تکفیر کے تیروں کا محرک بنے، بڑی حد تک متنوع تھے، اور ان کا نشانہ بننے والے اہداف غیر متوقع تھے۔
  20. بحوالہ خیر آبادی، تحقیق الفتوی، 265۔
  21. خیر آبادی، تحقیق الفتوی، 267۔ حدیث قدسی سے مراد وہ حدیث ہے، جس میں نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو روایت کرتے ہیں۔
  22. القرآن 2 : 253۔
  23. نبوات کے متعلق ایسی روایات کے ایک عمدہ جائزے کے لیے دیکھیے: کارل ارنسٹ، “Muhammad as the Pole of Existence”، کیمبرج کمپینین ٹو محمد، مدونین: جوناتھن براکپ (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2009)۔ نیز دیکھیے: اینے میری شمل، And Muhammad Is His Messenger: The Veneration of the Prophet in Islamic Piety (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 1985)۔
  24. القرآن 48 : 10۔

’’مولانا مودودیؒ کا تصور جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘

پیرزادہ عاشق حسین

’’مولانا مودودیؒ کا تصور جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘

مصنّف: مراد علی

ناشر: شیبانی فاؤنڈیشن،اسلام آباد

صفحات: 276

رابطہ: 923335915287+

ای میل: shaybanifoundation.pk@gmail.com

مولانا مودودی کے حوالے سے مشرق و مغرب میں جن موضوعات کو زیادہ تر مشق سخن بنایا گیا ان میں "جہاد" اور " سیاسی اسلام" سر فہرست ہیں۔ مغرب سے تعلق رکھنے والے محققین نے کئی وجوہات کی بناء پر مولانا مودودی کو مکمل طور پر نہیں پڑھا کیونکہ آپ کی فکر سے متعلق چند بنیادی چیزیں ایسی ہیں کہ جن تک ان کی رسائی ممکن نہ تھی لہذا انہوں نے انتہائی علمی بد دیانتی سے کام لے کر اسلامی انتہا پسندی (Islamic Extremism)، اسلامی بنیاد پرستی (Islamic Fundamentalism) اور عسکریت پسندی کو مولانا مودودی اور ان کی فکر کے ساتھ نتھی کیا اور کہا گیا کہ مولانا مودودی ہی موجودہ زمانے میں دنیا سے کفر مٹانے کے اصل نظریہ ساز ہیں۔ عالمی سطح پر عسکریت پسندوں کو بنیادی غذا انہی کی فکر سے ملی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا کی جس کتاب کو ہدف تنقید بنایا گیا وہ " الجہاد فی الاسلام" ہے۔ حالانکہ کسی بھی فکر پر تنقید کرنے یا اس پر تحقیق کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اس فکر کے ایک ایک جزو پر نظر ہو اور مجموعی موقف اختیار کرنے یا کسی کی طرف کوئی بات منسوب کرنے کیلئے ہر پہلو کو پیش نظر رکھنا لازمی ہے۔ مشرق کی طرف خاص طور پر اردو دان طبقے کی طرف نظر دوڑائیں تو ادھر بھی مولانا مودودی کے تصور جہاد پر تنقید کرنے والے اہل علم نے محدود لٹریچر کی بنیاد پر رائے قائم کرکے مولانا کی طرف کہیں تو "شوکت کفر" والی بات منسوب کی اور کہیں ان کے موقف کو "پریشان خیالی" سے تعبیر کیا۔

اس پورے پس منظر میں اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ مولانا مودودی کے تصور جہاد پر کوئی ایسا شخص قلم اٹھائے جس کی نہ صرف مولانا کے لٹریچر پر گہری اور دقیق نظر ہو بلکہ ساتھ ہی اس کے اندر یہ ملکہ/مہارت بھی ہو کہ وہ اس تصور جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات کا جائزہ بھی لے سکتا ہو اور پھر اس کا موازنہ فقہی تراث سے بھی کرسکتا ہو۔ زیر نظر کتاب فاضل مصنف نے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاکر اسی ضرورت کو پورا کرنے کی کماحقہ کوشش کی ہے اور وہ قرض جو کہ اہل علم کے ذمے تھا اسے بھر پور طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ فاضل مصنف کی اس کتاب میں اسی موضوع سے متعلق مباحث کو تحقیق کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے مولانا کے نظام فکر کی بنیادی خصوصیات واضح کی ہیں، ان کے تصور تصور جہاد کی تفصیلات کو بھی بیان کیا ہے، اس کی فقہی بنیادیں بھی واضح کی ہیں اور اس پر مبنی نظام فکر اور تصور جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات کا محاکمہ بھی کیا ہے۔

فاضل مصنف اور نوجوان محقق برادرم مراد علی کا تعلق اپر دیر خیبر پختونخوا سے ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کی ہے اور اب یہیں سے سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات میں ایم ایس کر رہے ہیں۔ آپ اقبال انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ اور انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے تحقیقی منصوبوں کا حصہ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ملک کے مؤقر جرائد میں آپ کے کئی تحقیقی مقالات بھی شائع ہوچکے ہیں۔ ستمبر2020ء میں  انہوں نے "شیبانی فاؤنڈیشن" کے نام سے ایک تحقیقی ادارے کی داغ بیل ڈالی اور دو سال کے مختصر عرصے میں انتہائی اعلی معیار پر مبنی چار تحقیقی کتب شائع کیں۔ اس کے علاؤہ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام انہوں نے کئی اہم علمی موضوعات پر سیمینارز اور ویبینارز کا انعقاد کیا۔

برادرم مراد علی سے میرا تعلق چار ساڈھے چار سال پر محیط ہے۔ 2018 میں ہماری پہلی ملاقات ہوئی، کچھ عرصہ اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اکٹھے رہے۔ اکثر اوقات علمی موضوعات اور سلگتے مسائل پر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ان کے علمی اور تحقیقی کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتا رہا ہوں اور سب سے بڑھ کر زیر بحث کتاب کی پروف خوانی کی ذمے داری راقم کے ذمے تھی جو کہ میرے لئے انتہائی فخر کی بات ہے۔ پروف ریڈنگ کے دوران میں نے کتاب ہذا کے لفظ لفظ کو پڑھا ہے اور کئی مقامات پر تو باقاعدہ ڈیرے ڈالے ہیں لہذا میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ فاضل مصنف نے اپنی اس تحقیق کے دوران انتہائی علمی دیانت داری سے کام لیا ہے۔ یہ کتاب چونکہ فاضل مصنف کی کم و بیش پانچ سالہ مطالعے اور غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ اسے منظر عام پر لانے کیلئے فاضل مصنف نے جس محنت شاقہ اور لگن سے کام لیا ہے وہ انتہائی قابل رشک ہے کیونکہ میں خود اس کا گواہ ہوں۔ لہذا مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں ہے کہ بر صغیر میں فکر مودودی پر کام کرنے والے محققین میں فاضل مصنف کا نام صف اول میں شامل کئے جانے کے مستحق ہے۔

کتاب مجموعی طور پر معلومات سے بھر پور ہے۔ یوں تو اس کا ہر ایک باب ایک سے بڑھ کر ایک ہے لیکن میرے نزدیک سب سے اہم اس کے دو ابواب ہیں: باب دوم: "مولانا مودودی کی فکر کی تفہیم کے بنیادی اصول" اور سب سے اہم ترین باب نہم: مولانا مودودی اور شدت پسندی" ہے۔

زیر نظر کتاب (9) نو ابواب پر مشتمل ہے۔ پہلے باب کا عنوان " الجہاد فی الاسلام کا تاریخی پس منظر" ہے جس میں فاضل مصنف نے مولانا کی تصنیف الجہاد فی الاسلام کا تاریخی پس منظر بیان کیا ہے کہ برطانوی سامراج سے مرعوب  مسلمان اہل علم جب معذرت خواہانہ لہجے میں اسلام کا دفاع کر رہے تھے تو کس طرح مولانا مودودی نے اپنے پیش روؤں کی طرح معذرت خواہانہ لہجہ اپنانے کے بجائے پورے اعتماد اور ایقان کے ساتھ اسلام کا تصور جہاد دنیا کے سامنے پیش کیا۔

کتاب کے دوسرے باب کا عنوان " مولانا مودودی کی فکر کی تفہیم کے بنیادی اصول" ہے۔ یہ باب نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے مولانا کی فکر جہاد کے مآخذ سے بحث کی ہے اور یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ مولانا کی فکر جہاد کو سمجھنے کے لئے صرف الجہاد فی الاسلام کا مطالعہ کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے لئے مولانا کی دیگر تصانیف جن میں خاص طور پر تفہیم القرآن ، رسائل و مسائل، اسلامی ریاست ، تفہیمات ، سود کا ضمیمہ نمبر(3)، اور تصریحات وغیرہ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ کیونکہ ان کے اندر جگہ جگہ مولانا نے اس موضوع کو زیر بحث لایا ہے اور مختلف وضاحتیں دی ہیں۔ یہ بات اس لئے زور دیکر کہی گئی ہے کیونکہ مولانا کی فکر جہاد پر مشرق و مغرب میں جو بھی تنقید ہوئی ہے اس کے پیچھے بنیادی وجہ یہی ہے کہ مولانا کی فکر جہاد کو صرف الجہاد فی الاسلام سے لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

کتاب کے تیسرے باب کا عنوان "اخلاقی و کلامی اور قانونی و فقہی فرق" ہے۔ اس باب کے اندر فاضل مصنف نے مولانا مودودی تصور جہاد کے حوالے سے جس انتہائی اہم پہلو کو سامنے لایا ہے وہ یہ ہے کہ مولانا مودودی نے جہاد کے حوالے سے دو (٢) پہلوؤں سے بحث کی ہے۔ ایک اخلاقی اور کلامی ہے اور دوسرا قانونی اور فقہی۔ اس کی وضاحت میں فاضل مصنف فرماتے ہیں کہ مولانا نے اپنی تصانیف الجہاد فی الاسلام، خطبات، دینیات وغیرہ میں جہاد کے اخلاقی اور کلامی پہلو کو اجاگر کیا ہے جبکہ تفہیم القرآن میں جابجا، اور بالخصوص سود کے ضمیمہ نمبر (٣) میں جہاد کے قانونی اور فقہی پہلو پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ اس طرح باب سوم میں فاضل مصنف نے زیادہ تر بحث جہاد کے اخلاقی اور کلامی پہلو پر کی ہے۔

جہاں تک جہاد کے قانونی اور فقہی پہلو کا تعلق ہے تو فاضل مصنف نے باب چہارم سے لیکر باب ہشتم تک مختلف عنوانات کے تحت اسی پہلو کو اجاگر کیا ہے اور تفصیل سے اس پر کلام کیا ہے اور تقریبا ایک سو کے قریب صفحات اس پر خرچ کئے ہیں۔

کتاب کے سب سے آخری اور اہم ترین باب کا عنوان "مولانا مودودی اور شدت پسندی" ہے۔ اس میں فاضل مصنف نے انتہا پسندی کو مولانا مودودی کی فکر کے ساتھ جوڑنے کی کوششوں کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ اور مختلف عنوانات کے تحت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ کیوں یہ نسبت غلط اور بے بنیاد ہے۔ اس باب میں فاضل مصنف مولانا مودودی کی دستوری قانونی اور تحریکی جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتے ہیں اور دلائل سے ثابت کرتے ہیں کہ مولانا کی قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کی پوری کی پوری جدوجہد قانونی اور دستوری تقاضوں کے عین مطابق تھی۔ اور باب کے آخر پر نتائج بحث کو ان الفاظ میں سمیٹتے ہیں کہ:

"ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ مولانا مودودی اپنے مطلوبہ نظریہ کے نفاذ کے لیے خفیہ تحریک، فوجی انقلاب، مسلح جدوجہد، قتل و غارت اور تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ مولانا مودودی کو کئی بار جیل میں ڈالا گیا، پھانسی کی سزا سنائی گئی، آپ پر ہر دور میں ارباب اقتدار نے گھیرا تنگ کیا ، آپ کو قتل کرنے کی کوششیں کی گئیں، آپ کی جماعت کے مجلے اور اخبارات پر پابندیاں لگائی گئیں لیکن آپ نے کبھی اپنے اصول سے ذرا بھی انحراف نہیں کیا۔ دور ایوب مولانا مودودی کی زندگی کا دور ابتلاء (Ordeal) ہے۔ آپ پر ہر جانب سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی حملے کئے گئے، اجتماعات پر پابندی لگائی گئی، آپ کے کارکنوں کو شہید کردیا گیا لیکن آپ نے پھر بھی تشدد کا راستہ اختیار نہ کرنے اور قانون کو ہاتھ میں نہ لینے کی نصیحتیں بار بار دہرائیں".

میں سمجھتا ہوں اس آخری باب کا مطالعہ نہ صرف مولانا مودودی کے ناقدین کے لئے ضروری ہے بلکہ مولانا کی فکر سے وابستہ لوگوں کے لیے بھی اس باب کا بغور مطالعہ نہایت مفید اور ضروری ہے۔ جس کے نتیجے میں امید کی جاسکتی ہے  کہ مولانا کی فکر سے متعلق بہت ساری غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی اور بہت سارے مفروضات غلط ثابت ہو جائیں گے۔ 

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو برادرم مراد علی کا کام نہایت شاندار اور بر وقت ہے۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ موضوع سے متعلق سارا مواد اس میں یکجا ہوگیا ہے جو کہ محققین کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ نیز فاضل مصنف نے نہ صرف یہ کہ مولانا کی چھوٹی بڑی ساری تصانیف کو کھنگالا ہے بلکہ ان کی نشری تقاریر، ان کے خطوط حتی کہ ان کی تنقید میں لکھی گئی کم و بیش ہر قابل ذکر تحریر سے خوب استفادہ کیا ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ کوئی بھی بات بغیر دلیل اور حوالے کے نقل نہیں کی ہے۔

 فاضل مصنف برادرم مراد علی علمی اور تحقیقی حلقوں کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے یہ کتاب لکھ کر  ایک دینی اور فکری ضرورت کی تکمیل کی ہے۔ امید ہے کہ اس کاوش کو قدر و مقبولیت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اور اس سے خاطر خواہ استفادہ کیا جائے گا۔

میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مصنف کی یہ کوشش اپنی بارگاہ میں قبول کرے، اسے ان کے لئے دنیا و آخرت میں کامیابیوں کا ذریعہ بنائے اور انہیں مزید ایسی علمی اور تحقیقی کوششیں جاری و ساری رکھنے کی توفیق دیتا رہے۔

اکتوبر ۲۰۲۲ء

معاشرتی آداب واحکام کا جبری نفاذمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۳)ڈاکٹر محی الدین غازی 
ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ: ایک تجزیاتی مطالعہڈاکٹر محمد شہباز منج 
ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ -ملی مجلسِ شرعی کا موقفمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
توہینِ مذہب کے مقدمات سے متعلق سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہادارہ 
مولانا مودودی کے جہادی تصوراتاحمد حامدی 
ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکارمحمد یونس قاسمی 
قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟ڈاکٹر محی الدین غازی 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۰)ڈاکٹر شیر علی ترین 

معاشرتی آداب واحکام کا جبری نفاذ

محمد عمار خان ناصر

سعودی عرب، ایران اور افغانستان میں قائم مذہبی حکومتوں میں معاشرے کی اسلامی تشکیل کا جو تصور اور حکمت عملی اختیار کی گئی ہے، وہ دین اور دنیا دونوں اعتبار سے محل نظر ہے۔

دینی اعتبار سے اس میں دو بڑی خرابیاں ہیں:

ایک یہ کہ جن دینی اقدار اور آداب کی پابندی کو رواج دینے کا اصل طریقہ وعظ ونصیحت اور اخلاقی تربیت ہے (جبکہ قانونی اقدام کو کسی انتہائی سنگین اور واضح تجاوز تک محدود ہونا چاہیے) ان کو ریاستی طاقت کے زور پر نافذ کرنے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔

دوسری یہ کہ جن مسائل میں ایک سے زیادہ دینی تعبیرات موجود یا ممکن ہیں، ان میں کسی ایک خاص تعبیر کو بزور قانون نافذ کر دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں باتیں خود دینی اخلاقیات اور تصورات سے متصادم ہیں۔

دنیوی اعتبار سے اس کا بنیادی نقص یہ ہے کہ اس میں دینی اقدار کے تحفظ یا غلبے کو تھیاکریسی کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے جس کو، واضح اسباب سے، آج کا اجتماعی انسانی شعور قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس امتزاج کے نتیجے میں معاشرے میں مذہبی احکام واقدار کا فروغ اور جبر، لازم وملزوم بن کر سامنے آتے ہیں جس کا انسانی شعور اور نفسیات پر قطعاً‌ کوئی مثبت اثر مرتب نہیں ہوتا۔

تیسرے نکتے کے حوالے سے مزید یہ عرض ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں علماء کے، سیاسی اقتدار کی اعلی ترین ذمہ داری یعنی خلافت وامامت سے الگ رہنے کا انتظام نہایت حکیمانہ تھا۔ یہ تقسیم کار اس بات کی گنجائش رکھتی تھی کہ معاشرے کے اخلاقی حالات جیسے بھی ہوں، مذہبی علماء ریاستی اختیار کے ساتھ وابستہ ذمہ داریوں کے بوجھ سے الگ رہتے ہوئے، پوری توجہ علم اور عمل کی سطح پر دینی راہ نمائی پر مرکوز رکھیں۔ ان کی ذمہ داری دینی آئیڈیلز کو تصور اور نمونے کی سطح پر زندہ رکھنا ہو، نہ کہ معاشرے کو لازمی طور پر ایک مکمل اور بے عیب اسلامی معاشرہ بنا کر دکھانا۔

بدقسمتی سے اس انتظام کی معنویت اور حکمت، مذکورہ تینوں حکومتوں میں بالکل درخور اعتنا نہیں سمجھی گئی۔ سعودی عرب میں اب اس کے ادراک کی ابتدا ہو گئی ہے۔ باقی دونوں حکومتیں بھی جتنا جلدی اس کا ادراک کر لیں، ان کے لیے بھی اور دین ومعاشرہ کے باہمی تعلق کے لیے بھی بہتر ہوگا۔

عدالت میں زیربحث مقدمات سے متعلق غیر عدالتی فیصلے

گذشتہ دنوں ایک سوال یہ زیر بحث رہا کہ اگر توہین رسالت کے کسی ملزم کے خلاف تفتیشی اداروں کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق ملزم واقعی جرم میں ملوث ہو اور مختلف علماء کرام نے بھی   صورت حال کا جائزہ لے کر  الزام کی درستی پر اطمینان ظاہر کیا ہو تو  کیا ملزم کا یا اس کے متعلقین کا یہ شرعی وقانونی حق ختم ہو جاتا ہے کہ جب تک عدالتی فیصلہ  جرم کے ثبوت پر مہرتصدیق ثبت نہ کر دے،  ملزم کو عدالتی وغیر عدالتی  سطح پر مجرم قرار دینے سے گریز کیا جائے اور ملزم اور اس کے متعلقین کو قانونی دفاع کا پورا موقع دیا جائے ؟

اسلامی قانون، عدل وانصاف میں "غیر جانب داری" کے حوالے سے کتنا حساس ہے، اس کا اندازہ اس فقہی  بحث سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر قاضی کے ذاتی علم کے مطابق کسی شخص نے ارتکاب جرم کیا ہو تو کیا وہ اس کے خلاف فیصلہ کر سکتا ہے؟ فقہاء کا کہنا ہے کہ جن معاملات کا تعلق حقوق اللہ سے ہے، یعنی اللہ کا کوئی حق بندے پر نافذ کرنا مطلوب ہے، جیسے حدود کے مقدمات، ان میں قاضی بالاتفاق اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کر سکتا۔ وہ گواہیوں اور دیگر قانونی شواہد کا پابند ہے جو اس کے سامنے پیش کیے جائیں اور نقد وجرح کے عمل سے گزر کر درجہ اعتبار کو پہنچ جائیں۔

جہاں تک انسانوں کے باہمی لین دین یا دیگر معاملات کا تعلق ہے تو حنفی فقہاء یہاں بھی اسی اصول کے قائل ہیں، جبکہ بعض شافعی اہل علم ایسے معاملات میں علم القاضی کو فیصلے کی جائز بنیاد تسلیم کرتے ہیں۔ قصاص کے مقدمات سے متعلق حنفی روایت میں کچھ اختلاف اقوال بھی ہے، لیکن متاخرین کا کہنا ہے کہ فرض کریں، اصولاً‌ اس کی گنجائش ہو بھی تو ہمارے دور میں قاضی حضرات اتنے دیانت دار نہیں ہیں کہ ان کو یہ اختیار دیا جا سکے۔

یہ بحث عدالتی نظام کے اس فرد سے متعلق ہے جس کے پاس باقاعدہ فیصلہ کرنے کی قانونی اتھارٹی موجود ہے۔ باقی تمام اطراف جن کے پاس ایسی کوئی اتھارٹی بھی نہیں، ان کی ذمہ داری اور حدود کیا ہیں اور کیا ہونی چاہییں، وہ اس سے واضح طور پر سمجھی جا سکتی ہیں۔

خواجہ سرا کمیونٹی: بنیادی مسئلہ

خواجہ سرا طبقے سے متعلق گذشتہ دنوں میں  متعدد فورمز پر گفتگو کا موقع ملا۔ ایک بات جو ہر جگہ عرض کی گئی، یہ ہے کہ مسئلے کی اصل جڑ ایسے افراد کا خاندانی نظام سے نکال دیا جانا اور نتیجتا انھیں اس پر مجبور کر دینا ہے کہ وہ اپنی الگ کمیونٹی بنا کر زندگی گزاریں اور زمانے کے سرد وگرم کا سامنا کریں۔

ایسا ہمارے معاشرے میں کن تاریخی اسباب سے ہوا، یہ ایک غور طلب سوال ہے۔ یہ علم میں آیا کہ بعض مغربی مصنفین نے اس ضمن میں ہندوستان میں استعماری ریاستی پالیسیوں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، لیکن سردست ہمیں اس کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا۔ بعید نہیں کہ اس سے پہلے بھی ایک الگ طبقے کے طور پر ان کی شناخت بن چکی ہو اور استعماری پالیسی نے اس کو مزید بڑھاوا دے دیا ہو۔

لیکن تاریخی اسباب جو بھی ہوں، ایسے افراد کو گھر اور خاندان کے فطری ماحول اور انسانی رشتوں سے محروم کر کے مجبور کر دینا کہ وہ اپنے لیے گرو اور چیلے کی صورت میں ایک الگ سماجی پناہ گاہ بنائیں اور سماج کا ایک حقارت زدہ اور دھتکارا ہوا طبقہ قرار پائیں، مسئلے کی اصل جڑ ہے۔ اس طبقے پر سستی اور بے ہودہ تفریح مہیا کر کے، بھیک مانگ کر اور جسم فروشی کر کے روزی روٹی کمانے کا جو سماجی داغ لگا ہوا ہے، وہ صرف اس بنیادی مسئلے کے منطقی اور ناگزیر نتائج ہیں۔

تاہم اس کے نتائج وقت گزرنے کے ساتھ، صرف اس طبقے تک محدود نہیں رہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ خود کو مصنوعی طور پر خواجہ سرا کہلانے والے افراد بھی ایک بڑی تعداد میں اس نیٹ ورک کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور اس پیشے کے ساتھ وابستہ مالی مفادات بہت سے افراد کو مسلسل اپنی طرف کھینچتے رہتے ہیں۔

صورت حال میں ایک تیسری، اور غالبا سب سے اہم اور دور رس تبدیلی سرمایہ داری اور غالب تہذیب کے بعض ڈسکورسز کی باہمی معاونت سے اب سامنے آ رہی ہے۔ ایل جی بی ٹی کے حقوق کا بیانیہ ایک پوری عالمی مارکیٹ کو بنیادیں فراہم کرتا ہے اور اس نوعیت کی بحثیں اپنے فکری اور مادی وسائل کے ساتھ غیر مغربی معاشروں پر ایک تہذیبی جارحیت کے انداز میں حملہ آور ہیں۔

2018 کے ایکٹ میں، سماج کے ایک حقیقی اور جینوئن مسئلے کو موضوع بناتے ہوئے اور بعض بہت ضروری اقدامات کو حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل کرتے ہوئے، تعیین صنف کے حوالے سے ایک تہذیبی اور اعتقادی نزاع کو بالکل بلا ضرورت اور بلاجواز اس میں گھسیڑ دینا اسی صورت حال کا ایک مظہر ہے۔ جن لابیوں یا اشرافیہ کے جن طبقات نے یہ سب کیا ہے، اگر پورے شعور کے ساتھ کیا ہے تو بھی، اور اگر اس تہذیبی نزاع کی نزاکت کو سمجھے بغیر فکری سادگی سے دنیا کے ایک چلتے ہوئے ڈسکورس کو اپنا لیا ہے تو بھی، دونوں صورتوں میں ان کی قوم کے سامنے جواب طلبی ہونی چاہیے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۳)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(359) وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا

وَاہْجُرْنِی مَلِیًّا۔ (مریم: 46)

”تم مجھ سے ہمیشہ کے لیے دور اور دفع ہو!“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جا ایک مدت دراز تک مجھ سے الگ رہ“۔ (محمد جوناگڑھی)

 ”بس تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے الگ ہو جا“۔ (سید مودودی)

عام طور سے لوگوں نے ملیا کو زمانا (محذوف) کی صفت مانا ہے۔ لیکن لفظی ترکیب سے قریب تر یہ ہے کہ ملیا کو ھجر کی صفت مانا جائے جو مفعول مطلق ہے۔اس صورت میں ھجر کی طوالت کا نہیں بلکہ اس کی شدت و زیادتی کا اظہار ہے۔ یعنی پورے طور پر دور ہوجاؤ یا بالکل دور ہوجاؤ۔ ابن عاشور لکھتے ہیں: وہذہ المادۃ تدل علی کثرۃ الشیء. (تفسیر التحریر والتنویر، زیر بحث آیت کی تفسیر میں) درج ذیل ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

”تم مجھ سے بالکل دور ہوجاؤ“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

گویا زور دور ہونے کی مدت پر نہیں بالکل دور ہونے کی کیفیت پر ہے۔

(360)  أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِیًّا کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں ترجمے کے حوالے سے دو باتیں محل نظر ہیں۔ ایک یہ کہ شقیا کا ترجمہ محروم ہونا نہیں بلکہ نامراد ہونا ہے۔ خاص طور سے جب کہ سیاق دعا کا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس آیت میں دعاء مختلف مشتقات کی صورت میں تین بار آیا ہے اور تینوں بار بندگی کے مفہوم میں نہیں بلکہ دعا یعنی پکارنے کے مفہوم میں ہے۔ اس کی ایک دلیل تو یہ ہے کہ دعاء کا اصل مطلب پکارنا ہی ہے، دوسری دلیل یہ ہے کہ اسی سورت کی چوتھی آیت میں قریب قریب اسی اسلوب میں یہ لفظ آچکا ہے۔ وہاں اس کا معنی پکارنا اور دعا مانگنا ہی ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَأَعْتَزِلُکُمْ وَمَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ وَأَدْعُو رَبِّی عَسَی أَلَّا أَکُونَ بِدُعَاءِ رَبِّی شَقِیًّا۔ (مریم: 48)

”میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارا کرتے ہیں، میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے رب کو پکار کے نامراد نہ رہوں گا“۔ (سید مودودی، خدا کو چھوڑ کر، کی بجائے  خدا کے سوا ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ ترجمہ زیر بحث پہلوؤں کے حوالے سے درست ہے۔)

”اور میں آپ لوگوں سے اور جن کو آپ خدا کے سوا پکارا کرتے ہیں ان سے کنارہ کرتا ہوں اور اپنے پروردگار ہی کو پکاروں گا۔ امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکار کر محروم نہیں رہوں گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میں تو تمہیں بھی اور جن جن کو تم اللہ تعالیٰ کے سوا پکارتے ہو انہیں بھی سب کو چھوڑ رہا ہوں۔ صرف اپنے پروردگار کو پکارتا رہوں گا، مجھے یقین ہے کہ میں اپنے پروردگار سے دعا مانگ کر محروم نہ رہوں گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”میں آپ لوگوں کو اور ان چیزوں کو جن کو آپ لوگ خدا کے سوا پوجتے ہیں چھوڑ کر علیحدہ ہورہا ہوں اور صرف اپنے رب ہی کی بندگی کروں گا۔ امید ہے کہ اپنے رب کی بندگی کرکے میں محروم نہیں رہوں گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور میں ایک کنارے ہوجاؤں گا تم سے اور ان سب سے جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو اور اپنے رب کو پوجوں گا قریب ہے کہ میں اپنے رب کی بندگی سے بدبخت نہ ہوں“۔ (احمد رضا خان)

(361)  مِنَ النَّبِیِّینَ کا ترجمہ

أُولَئِکَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ۔ (مریم: 58)

”یہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے نبیوں میں سے اپنا فضل فرمایا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”یہ ہیں جن پر ا للہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتانے والوں میں سے“۔ (احمد رضا خان)

”یہ وہ لوگ ہیں جن پر خدا نے اپنے پیغمبروں میں سے فضل کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

ان ترجموں سے یہ تأثر جاتا ہے کہ اللہ نے کچھ نبیوں پر فضل کیا، اور ان کا یہاں ذکر ہوا۔ دراصل لوگوں نے یہاں مِنَ النَّبِیِّینَ میں من کو تبعیض کے معنی میں لیا ہے، جس کی وجہ سے ایسا ترجمہ کیا ہے۔ درست بات یہ ہے یہاں من بیانیہ ہے، اس کی روشنی میں حسب ذیل ترجمہ ہوگا:

”یہ انبیاء ہیں جن پر اللہ نے اپنا فضل فرمایا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(362) فَسَیَعْلَمُونَ کا ترجمہ

فعل مضارع پر سین داخل ہوجائے تو وہ مستقبل کا مفہوم دیتا ہے۔ لیکن درج ذیل ترجمے میں فَسَیَعْلَمُونَ کا ترجمہ ’معلوم ہو جاتا ہے‘  کیا ہے، جو درست نہیں ہے۔

حَتَّی إِذَا رَأَوْا مَا یُوعَدُونَ إِمَّا الْعَذَابَ وَإِمَّا السَّاعَةَ فَسَیَعْلَمُونَ مَنْ ہُوَ شَرٌّ مَکَانًا وَأَضْعَفُ جُنْدًا۔ (مریم: 75)

”یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیتے ہیں جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے خواہ وہ عذاب الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی تب انہیں معلوم ہو جاتا ہے کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور!“۔ (سید مودودی)

دراصل یہ پورا جملہ مستقبل کے لیے ہے۔ اس لیے ترجمہ ہوگا:

”یہاں تک کہ جب ایسے لوگ وہ چیز دیکھ لیں گے جس کا اُن سے وعدہ کیا گیا ہے خواہ وہ عذاب الٰہی ہو یا قیامت کی گھڑی تب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کس کا حال خراب ہے اور کس کا جتھا کمزور۔“

(363)  وردًا کا ترجمہ

لغت میں اس کا زیادہ تر استعمال پانی کی گھاٹ پر جانے کے لیے ہوتا ہے۔ لسان العرب میں ہے: والوِرْدُ ووُردُ الْقَوْمِ: الْمَاءُ.

اور چوں کہ پانی کی گھاٹ پر جانے والا شخص پیاسا ہوتا ہے، اس لیے اس میں کبھی پیاس کا مفہوم بھی شامل ہوجاتا ہے۔ زمخشری کے الفاظ میں: والورد: العطاش لأنّ من یرد الماء لایردہ إلا لعطش وحقیقة الورد: المسیر إلی الماء۔ (تفسیر الکشاف)

بہرحال بیشتر مفسرین اور مترجمین ’وردا‘ کا مطلب ’پیاسے‘ لیتے ہیں۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

وَنَسُوقُ الْمُجْرِمِینَ إِلَی جَہَنَّمَ وِرْدًا۔ (مریم: 86)

”اور مجرموں کو پیاسے جانوروں کی طرح جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے“۔ (سید مودودی)

”اور مجرموں کو جہنم کی طرف ہانکیں گے پیاسے“۔ (احمد رضا خان)

”اور گنہگاروں کو دوزخ کی طرف پیاسے ہانک لے جائیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور گناہ گاروں کوسخت پیاس کی حالت میں جہنم کی طرف ہانک لے جائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

دیکھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں ورد اور اس کے مشتقات کئی جگہ آئے ہیں، اور سب جگہ ان کا مطلب کسی جگہ پہنچنا ہے۔ دوسری جگہوں پر یہ پیاسے کے معنی میں نہیں آیا ہے۔

اسی لیے مولانا امانت اللہ اصلاحی آیت کا ترجمہ حسب ذیل کرتے ہیں:

”اور مجرموں کو ہانک کر جہنم کے گھاٹ پر پہنچائیں گے“۔

ابن عطیہ کہتے ہیں: ویحتمل أن یکون المصدر والمعنی نوردہم وِرْداً وہکذا یجعلہ من رأی فی القرآن أربعة أوراد فی النار۔ (المحرر الوجیز)

(364)  أَوْلَی بِہَا صِلِیًّا کا ترجمہ

ثُمَّ لَنَحْنُ أَعْلَمُ بِالَّذِینَ ہُمْ أَوْلَی بِہَا صِلِیًّا۔ (مریم: 70)

”پھر ہم ان لوگوں کے سب سے زیادہ جاننے والے ہوں گے جو اس جہنم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ سزاوار ہوں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”پھر یہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے کون سب سے بڑھ کر جہنم میں جھونکے جانے کا مستحق ہے“۔ (سید مودودی)

یہاں أعلم اور أولی دو الفاظ أفعل کے وزن پر آئے  ہیں، ان کا ترجمہ اسم تفضیل مان کر بھی ہوسکتا ہے اور اسم مبالغہ مان کر بھی۔

ظاہر ہے یہاں تفضیل ماننے کا موقع نہیں ہے، یعنی یہ بحث نہیں ہے کہ کون سب سے زیادہ جانتا ہے یا کون سب سے زیادہ جہنم کا سزاوار ہے۔ اس لیے مبالغہ مان کر ترجمہ کرنا درست ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل ترجمے میں ہے:

”اور ہم ان لوگوں سے خوب واقف ہیں جو ان میں داخل ہونے کے زیادہ لائق ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(365) السِّرَّ وَأَخْفَی کا ترجمہ

وَإِنْ تَجْہَرْ بِالْقَوْلِ فَإِنَّہُ یَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَی۔ (طہ: 7)

”اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر ایک پوشیدہ، بلکہ پوشیدہ سے پوشیدہ تر چیز کو بھی بخوبی جانتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

اس آیت کا ترجمہ عام طور سے حسب بالا طریقے سے کیا گیا ہے اور وہی درست معلوم ہوتا ہے۔

جب کہ درج ذیل ترجمے میں تقابل کا اسلوب برتنے کرنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ السِّرَّ وَأَخْفَی کا ترجمہ ’علانیہ اور پوشیدہ‘ کرنا تو کسی طرح درست نہیں ہے۔

”خواہ تم علانیہ بات کہو (یا چپکے سے) وہ علانیہ اور پوشیدہ، سب کو جانتا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)


ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ: ایک تجزیاتی مطالعہ

ڈاکٹر محمد شہباز منج

ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 ء پر گرما گرم بحث جاری ہے۔ مذہبی حلقوں  کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آرہا ہے  اور ان کے اعتراضات میں سب سے  بڑا اعتراض اس ایکٹ کو ہم جنس پرستی سے متعلق قرار دے کر کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں جو تاثرات سامنے آرہے ہیں  ان کے حاملین کو دو انواع میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک زیادہ سخت موقف والے اور دوسرے نسبتاً کم سخت موقف  والے۔زیادہ سخت موقف والے  احباب  کا خیال ہے  کہ اس ایکٹ کے ذریعے  لبرل لوگ مغربی تہذیب کے نقش قدم پر ہمارے معاشرے میں ہم جنس پرستی  کو فروغ دینا چاہتے  ہیں  اور  نسبتاً  کم سخت موقف رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ  اس ایکٹ میں ٹراسن جینڈرز کو جو مراعات   دی گئی ہیں، ان  کے نتیجے میں ہم جنس پرستی فروغ پائے گی۔  ہم ان سطور میں  اس بڑے اعتراض یا تاثر کو ایکٹ  کے متن کے تناظر  میں سمجھنے اور اس کا تجزیہ کرکے    کسی معروضی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

پہلی چیز  لفظ ٹرانس جینڈر کو ایکٹ کا عنوان بنانے اور اس کی  تعریف  متعین کرنے سے متعلق ہے۔ اس سلسلے میں بحث  کا اہم نکتہ اور قابل اعتراض پہلو یہ بیان کیا   جا رہا ہے کہ  ایکٹ میں   خنثی یا کھسرے (Intersex)، یونخ (Eunuch) ، خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر  مرد اور ٹرانس جینڈر عورت سب کو ٹرانس جینڈر کے عنوان کے تحت لایا گیا ہے، جس سے ایک ابہام پیدا ہو گیا ہے۔ خنثی، کھسرے، خواجہ سرا یا  یونخ کے مسائل اور ان کو ایڈریس کرنے   سے اسلام اور مسلمانوں کو  کوئی مسئلہ نہیں، ان کے حقوق خود اسلامی روایت میں موجود  ہیں،  اصل مسئلہ ٹرانس جینڈر مرد یا عورت کا ہے، یہ تصور  ہی سرے سے خود تراشیدہ اور غیر فطری ہے؛  ٹرانس جینڈر مرد یا عورت تو  اصل میں  اور اپنی پیدایشی شناخت کے اعتبار سے مکمل مرد یا عورت ہوتے ہیں، بعد میں کسی وقت  کسی نفسیاتی عارضے یا  شوق اور خواہشِ نفس کے تحت وہ  اپنی پیدایشی شناخت  سے برعکس  شناخت اختیار کرتے یا کرنا چاہتے ہیں، جو اسلامی روایت اور مسلمانوں کے لیے  بالکل اجنبی  اور مغرب سے درآمد کردہ چیز ہے۔ اب ہم  اس  بحث اور موقف  کا تجزیہ کرتے ہیں:

مذکورہ  نکتہ یا اعتراض  Transgender Persons (Protection of Rights) Act, 2018 کی شق 2 کی ذیلی شق 1اور پھر اس کی ذیلی شق n کے تحت تین  نکات میں بیان کی گئی ٹراسن جینڈر پرسن کی تعریف سے متعلق ہے۔ یہاں ہم یہ تینوں نکات نقل کرکے اس پر بات کریں گے:

(i) Inter-sex (Khunsa) with mixture of male and female genital features or congenital ambiguities, or
( ii) Eunuch assigned male at birth, but undergoes genital excision or castration; or
(iii) a Transgender Man, Transgender Woman, Khawajasira or any person whose gender identity and/or gender expression differs from the social norms and cultural expectations based on the sex they were assigned at the time of their birth.

  پہلے نکتے  میں   انٹرسیکس جس کو بریکٹ میں خنثی کہا گیا ہے ، کی تعریف کی گئی ہے  کہ یہ وہ لوگ  ہوتے ہیں جو پیدائشی لحاظ سے مرد اور عورت دونوں کی  مشترک خصوصیات  رکھتے ہیں،  دوسرے پوائنٹ میں یونخ کی تعریف متعین کی گئی ہے کہ  یہ لوگ وہ ہیں جو پیدائشی طور پر مرد ہوتے ہیں لیکن بعد میں کسی وجہ سے خصی  ہو جاتے ہیں، اور تیسری ذیلی شق میں  ٹرانس جینڈر مرد اور عورت اور خواجہ سرا کی تعریف کی گئی ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کی صنفی شناختت ان سماجی و ثقافتی تصورات سے مختلف ہوتی ہے، جو  پیدائش کے وقت  ان کی شناخت کی بنا پر متعین کی گئی ہو۔

یہ تعریفیں جان لینے کے بعد اب آتے ہیں  بحث کے اس نکتے کی طرف کہ ٹرانس جینڈر کا کھسرے  یا یونخ یا خواجہ سرا سے کچھ لینا دینا نہیں ؛ یہ  تو ایک نفسیاتی یا شوقیہ مخلوق ہے؛  اسے اس ایکٹ کے ذریعے تحفظ دینا غیر اسلامی ہے۔اس سلسلے میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ اس ایکٹ کا عنوان  خواجہ سرا یا کھسرے وغیرہ کے حقوق کا تحفط ہو تو کوئی مسئلہ نہیں،  اس کا عنوان ٹرانس جینڈر رکھنا غیر اسلامی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ اعتراض جزوی طور پر درست اور جزوی طور پر غلط ہے:

    1)  غلط اس لیے  ہے کہ جب کسی  ڈاکیومنٹ میں ایک چیز کی تعریف متعین کر دی گئی ہو تو اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے ، کیونکہ اس سے متعلق قانونی اور عدالتی معاملات میں  اسی کا حوالہ شامل ہوتا ہے۔نیز ہمارے یہاں  جب سے ٹرانس جینڈر کی اصطلاح آئی ہے عمومی طور پر اس سے مراد  انٹرسیکس یا کھسرے وغیرہ ہی لیا  جاتا ہے ( یہ تو اب موجودہ بحث میں کرید کرید  کر لوگوں  کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ الگ مخلوق ہے ، تو وہ اس پر شور ڈالنے لگے ہیں) ،یہی وجہ ہے کہ جب بل پیش ہوا تو علما حضرات نے بھی اس پر اعتراض نہیں کیا تھا، جس کی  ایک  اہم  وجہ واضح طور پر یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اس میں ٹراسن جینڈر سے مراد کھسرے اور خواجہ سرا ہی سمجھ رہے تھے۔(ابھی بھی عوام اور بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی جو موجودہ بحث سے واقف نہیں، یہ کہتے  میں نے خود دیکھے ہیں کہ یار بے چارے  کھسروں کے حقوق سے مولویوں کو کیا مسئلہ ہے ؟)دوسری بات یہ ہے کہ  تیسرے نکتے میں ٹرانس جینڈر مین اور ٹرانس جینڈر وومن  کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جس سے  یہ ابہام دور ہو سکتا ہے کہ ٹرانس جینڈر  مرد اور عورت اگرچہ پیدائشی طور پر کامل مرد اور عورت ہی ہوں ، لیکن  (خواہ کسی نفیساتی بیماری یا ہوائے نفس کی خاطر ہی یہ روپ اختیار کریں) یہ بہر حال مکمل مرد اور عورت کی تعریف پر پورا نہیں اترتے۔ پھر ایکٹ  کی   اس شق میں ان کو واضح طور پر  شق کے عنوان ٹرانس جینڈر سے  الگ کرکے  ٹرانس جینڈر مین اور ٹرانس جینڈر وومن   کہا گیا ہے نہ کہ فقط  ٹرانس جینڈر، جس سے واضح  ہے کہ کم ازکم ایکٹ کی رو سے  ٹرانس جینڈر اور ہے اور ٹراسن جینڈر مین اور ٹرانس جینڈر وومن   اور۔تیسری بات یہ کہ بالفرض ایکٹ کے عنوان سے ٹرانس جینڈر کا لفظ نکال کر  اس کی جگہ خنثی، کھسرا، یونخ   یا خواجہ سرا یا یہ  سب الفاظ رکھ دیے  جائیں، لیکن نفسیاتی اور طبی اعتبار سے  کوئی ایسا واقعی شخص بھی پایا جائے جو ان لوگوں کی تعریف پر پورا نہ اترتا ہو  اور ٹرانس جینڈر مرد یا عورت کی تعریف پر پورا اترتا ہو، تو اس کو  اعتراض ہوگا کہ  مجھے ایکٹ میں ایڈریس نہیں کیا گیا۔

    2) اور  زیر بحث اعتراض  درست اس طرح سے ہے کہ ہمارے   قوانین  اور اس میں افراد  وغیرہ  کی تعریفوں کے تعین میں  معاشرتی تصورات و نظریات کا لحاظ رکھا جانا ضروری ہے۔اگرچہ مغرب میں ایسا نہ ہو، لیکن ہمارے معاشرے میں  پیدایشی لحاظ سے کسی مکمل مرد یا عورت کا  بعد میں   مخالف صنف میں ڈھلنا بہر حال ایک  مکروہ اور نا پسندیدہ رویہ ہے، جو عملی طور پر روایتی ہی نہیں  بہت سے لبرل لوگوں کو بھی خوش  نہیں آتا، اور بلاشبہ بہت سی سماجی ، ثقافتی اور قانونی  پیچیدگیوں کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا  اس ایکٹ کا عنوان تبدیل کیا جائے؟ تو عرض یہ ہے کہ   یہ نہ کوئی الہامی چیز  ہے اور نہ شیطانی۔ انسانوں کی اپنی ضروریات  کو محسوس کرتے ہوئے  وضع کی گئی ایک اصطلاح   ہے، جس کا تعلق ہماری سماجی و معاشرتی   حاجات سے ہے۔ اصطلاحیں اور الفاظ  وقت کے ساتھ ساتھ مختلف معانی پہنتے رہتے ہیں، قبل ازیں    ہم سمجھتے تھے کہ ٹرانس جینڈر ایسی مخلوق ہے ،جو نارمل مرد یا عورت نہیں ہوتے بلکہ کھسرے یا  خواجہ سرا وغیرہ ہوتے ہیں، تو ہمیں اس  لفظ یا اصطلاح میں کوئی مسئلہ نظر نہیں  آتا تھا، یہی وجہ ہے  ( جیسا کہ اوپر بھی عرض کیا گیا ) کہ علما نے بھی اس کو  نارمل بات سمجھا اور پورے معاشرے نے بھی، اب  اگر ہم بال کی کھال کھال اتار اتار کر  لوگوں کو اس سے بدکا چھوڑیں گے اور وہ عمومی طور پر یہ سمجھنے لگ جائیں گے کہ  اس سے مراد نفسیاتی مسائل کی بنا پر یا شوقیہ جنس تبدیل کرنے والے لوگ ہی ہیں،  تو ایکٹ کا عنوان تبدیل کرنے میں   بھی کوئی حرج نہیں،  لبرلز کو بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے ، اس لیے کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کے نیچے اگر کھسروں کے مسائل حل ہو سکتے ہیں تو  بالفرض کوئی جینوئن ٹرانس جینڈر ہوا تو  کھسروں کی اصطلاح کے نیچے اس کا کام بھی چل  ہی جائے گا۔  

اب آتے ہیں ایکٹ کے باب دوم اور شق 3 کی طرف جو ٹرانس جینڈر کی شناخت کو  تسلیم کرانے سے بحث کرتی ہے۔ اس شق کی  چار ذیلی شقوں میں  سے پہلی شق میں قرار دیا گیا  ہے کہ ٹرانس جینڈر پرسن کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اسے اس کی   اپنی  خیال کردہ (Self-Perceived)  شناخت کی حیثیت سے شناخت کیا جائے۔ دوسری شق  کے مطابق   یہ  ٹرانس جینڈر پرسن  اپنی اس ذاتی محسوس کردہ شناخت  کے مطابق  خود کو نادرا  اور دیگر حکومتی شعبوں میں  رجسٹر کروانے کا اختیار رکھتا ہے۔ تیسری شق کہتی ہے کہ یہ ٹرانس جینڈر 18 سال کی عمر تک پہنچنے پر اپنی اس سیلف پرسیوڈ شناخت کے مطابق  اپنا نام اور صنف نادرا    میں درج کرانے کا مجاز ہے اور اسی کے مطابق وہ اپنا  ڈرائیونگ لائسنس  یا پاسپورٹ وغیرہ حاصل کر سکتا ہے۔ چوتھی شق  ٹرانس جینڈر پرسن  کو اجازت دیتی ہے کہ  وہ نادرا سے پہلے سے حاصل  کردہ  شناختی کارڈ میں اپنی نئی  سیلف پرسیوڈ شناخت کے مطابق  اپنا نام یا  شناخت تبدیل  بھی کر اسکتا ہے۔

ان شقوں پر  مذہبی حلقوں کی جانب سے یہ بحث ہے کہ  اسلام کے نقطۂ نظر سے سیلف پرسیوڈ شناخت کوئی شناخت نہیں  ہوتی، اصل شناخت یہ ہوتی ہے کہ  کوئی شخص   پیدائشی طور پر کیا ہے اور معاشرہ اس کو کیا سمجھتا ہے؟  ان شقوں پر جو اعتراضات وارد ہوتے ہیں ان کا دفاع کم ازکم ہمارے معاشرتی پس منظر کے لحاظ سے بہت مشکل ہے، بہ طور خاص چوتھی شق  تو صنفی شناخت کو ایک تماشا بناتی دکھائی دیتی ہے۔ اس شق  کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ نادرا میں  صنف کی تبدیلی کو کسی  بھی قسم کی  شہادت یا طبی   رپورٹ  وغیرہ سے مشروط نہیں کیا گیا۔ ٹرانس  جینڈر کی واقعی یا  غیر  واقعی صنف  سے قطع نظر    اس پر یہ قوی اعتراض وارد ہوتا ہے کہ  آخر 18 سال کی عمر میں ایک ٹرانس جینڈر نے اپنی ایک صنف درج کرا لی، تو اب اسے بدلنے کے لیے کوئی سوال  تو کیا جانا چاہیے کہ بھئی اب آپ کو  کیا مسئلہ ہوا؟ ہمیں کیسے پتہ چلے کہ اب آپ واقعی دوسری صنف بن گئے ہیں؟ یہ بات درست ہے کہ ہر کوئی ایسا نہیں کرے گا ، لیکن یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ بعض تماش بین اور آوارہ مزاج لوگ اسے تماشے اور آورگی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں اگر سیلف  پرسیوڈ شناخت کو ایک فرد کا حق مان بھی لیا جائے تو   اس کو یہ اختیار دینا نوع بنوع پیچیدگیوں کا باعث ہے کہ وہ جب چاہے بغیر کسی شہادت کے   نادرا وغیرہ میں جا کر اپنی صنف تبدیل کرا لے۔مثلاً ایک اشو یہ ہو سکتا ہے کہ  کوئی شخص جو نادرا میں پہلے  عورت تھا، اب مرد بن جائے  کہ اسے  اپنے باپ کی جاییداد سے زیادہ حصہ ملے، یا اس کو ہم جنسی پرستی کا شوق چڑھے اور وہ اپنی صنف تبدیل کرا کے بظاہر مخالف اور فی الاصل اپنی ہی جنس سے شادی رچا لے، وغیرہ وغیرہ۔

اس پر کوئی ہم سے سوال کر سکتا ہے کہ  بھئ آپ  صرف صنف کی تبدیلی کے اندراج کے بعد کسی شہادت کے بغیر  دوسری صنف میں  ڈھلنے کے اختیار پر اعتراض کر رہے ہیں، لیکن  یہ سوال نہیں اٹھا رہے کہ ایک پیدایشی  کامل مرد یا   عورت کو یہ اختیار دیا ہی کیوں جائے کہ  وہ اپنی مرضی سے  دوسری صنف بن جائے، تو اس پر عرض ہے کہ  ہمارے نزدیک اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ   کسی کو واقعی کوئی ایسا مسئلہ ہو، جس میں  اسے اپنی  پیدایشی صنف سے مخالف   جانا واقعی مجبوری بن گئی  ہو، اس لیے ہمارے نزدیک اس اختیار کو مطلق سلب کرنا  تو مذہب کا تقاضا بھی نہیں ، اس لیے کہ سب کو علی الاطلاق شوقیہ ٹرانس جینڈ رزکہنا کم ازکم ہمارے بس میں نہیں، اور یہ شاید کسی بھی شخص  اور بہ طورِ خاص کسی  بھی مذہبی عالم کے لیے ممکن نہیں کہ وہ  سب کے سب  ٹرانس جینڈرز کے طبی اور نفسیاتی مسائل سے مکمل  آگا ہی حاصل کر کے  سب پر ایک ہی حکم  لگا سکے۔

ایک اور پہلو اس بحث کا یہ ہے کہ  ٹرانس جینڈر مرد اور عورت اگر واقعی   خواجہ سراوں اور کھسروں وغیرہ کی سی صنف میں آتے ہیں  تو یہ قابلِ   رحم اور  ہمدردی و توجہ کے مستحق لوگ ہیں ، ان کے حقوق متعین کرنے میں اول الذکر لوگوں کی طرح  حساسیت کوئی بری بات نہیں ، لیکن اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ  ان میں یا تو  طبی یا نفسیاتی سطح پر کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے یا یہ ہواے نفس کی خاطر کبھی ایک اور کبھی دوسری صنف میں جانا چاہتے ہیں۔اگر تو طبی و نفسیاتی مسئلہ ہے تو ان سے ہمدردی ہونی چاہیے اور ان کے اول الذکر لوگوں ہی کی طرح حقوق  متعین کرنے اور مانے جانے چاہییں، لیکن اگر ان کا مسئلہ ہواے نفس ہے تو یہ کم ازکم ہماری سوسائٹی کے نارمز سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے اسے ہمارے ہاں مسئلہ بنا کر پیش کرنا مسئلہ ہی پیدا کرے گا ، حل نہیں نکالے  گا۔

ایکٹ کے سات ابواب اور 21 شقوں میں سے قابلِ بحث امور یہی ہیں، بقیہ  میں عموماً  متعین کردہ ٹرانس جینڈرز کے ساتھ معاشرتی اور قانونی سطح پر کسی قسم کا امتیاز نہ برتنے اور ان  کے حقوق فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے،  جو ظاہر ہے ہمارے عمومی اخلاقی نظریات  کے مطابق ہے، جس کو سب تسلیم کرتے ہیں،  تنازعہ اصل میں کسی مکمل مرد یا عورت کے  اپنی آزاد  مرضی سے دوسری صنف بن کر وہ حقوق حاصل کرنے کا ہے، جو ہمار ے لوگوں کے نزدیک ہیجڑوں ، کھسروں اور خواجہ سراوں وغیرہ کے لیے تو درست ہیں، لیکن ٹرانس جینڈرز کے  لیے نہیں۔

نتائجِ بحث

اس بحث کوسمیٹتے ہوئے ا گر ہم اپنے  نتائج مرتب کریں تو کچھ  یوں ہو سکتے ہیں:

    1)  زیرِ بحث  ایکٹ کے ٹراسن جینڈرز کے حقوق کی حفاظت  کا ایکٹ  کہلانے میں بنیادی طور پر کوئی مسئلہ نہیں، مسئلہ جب ہے کہ اس کے ذریعے معاشرے میں ہم جنس پرستی اور آوارہ مزاجی کی راہ کھلتی ہو۔

    2)  مذکورہ عنوان سے جب ایکٹ منظور کیا گیا تو اسے کم ازکم علما کی جانب سے خاموش  حمایت اس لیے حاصل ہوئی کہ ان کے نزدیک اس سے مراد خواجہ سراؤں  اور کھسروں وغیرہ کے حقوق کا بل تھا ( جیسا کہ معاشرے میں عموما بھی یہی سمجھا جاتا رہا ہے، اور موجودہ بحث سے پہلے اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی یہی سمجھتے تھے)، جس پر ظاہر ہے ان کے نزدیک بھی کوئی اعتراض  نہیں بنتا تھا۔

    3) الفاظ اور اصطلاحات میں معاشرتی  پس منظر  اور فہم و پرسپشن  کی بڑی اہمیت ہوتی ہے ، اس لیے  اب  اگر عوام   اور ممبرانِ پارلیمنٹ اس پر قائل ہو جاتے ہیں کہ ایکٹ میں  ٹرانس جینڈر کی اصطلاح تلے ہم جنس  پرستی  کے فروغ کا خدشہ ہے، تو اس کا عنوان تبدیل کیا جا سکتا ہے،  لیکن یہ معاشرتی پرسپشن ہی  کی بات ہے، اس سے زیادہ  محض مبالغہ ہے۔

    4) ہمارے نزدیک ٹرانس جینڈر مرد اور عورت کو محض  ہوائے نفس کے علمبردار سمجھنا بھی مبالغہ آرائی ہے، جب تک طبی اور نفسیاتی سطح پر یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ ایسا کوئی جینوئین کیس نہیں ہو سکتا، اور ایسا   کم ازکم مذہبی علما کے لیے ممکن نہیں اور نہ یہ ان کا شعبہ ہے۔

    5)  ایکٹ میں سیلف پرسیوڈ شناخت کے حوالے سے ٹرانس جینڈر کو جو مطق اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایک دفعہ اپنی  ایک صنف ڈکلیئر کرانے  کے  بعد جب چاہے بغیر کسی پوچھ پرتیت کے دوبارہ دوسری صنف بن جائے،  بہت سی  معاشرتی   ، اخلاقی اور قانونی پیچیدگیوں کا باعث ہے، اسے کسی  نہ کسی شہادت سے مقید کرنا ضروری ہے۔ اول تو رجسٹریشن کے وقت بھی  اگر کسی  کی سیلف پرسیوڈ  شناخت   اس کی پیدایشی یا معاشرتی شناخت کے خلاف ہے، تو اس پر  اسے کوئی  نہ کوئی شہادت لانی چاہیے، تاہم یہاں لازم نہ بھی کیا جائے تو دوبارہ تبدیل کرانے پر شہادت لازمی  ہونی چاہیے۔

ایکٹ کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اس کو  ذکر کردہ مجوزہ اصلاحات  و ترامیم کے بعد نافذ العمل رکھا جا سکتا ہے۔

ٹرانس جینڈر پرسنز ایکٹ -ملی مجلسِ شرعی کا موقف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ٹرانس جینڈر ایکٹ ۲۰۱۸ء کے متعلق ملی مجلسِ شرعی پاکستان کا موقف ملاحظہ ہو:

’’ٹرانس جینڈر پرسن کے حوالے سے ایک قانون پر کچھ دنوں سے دینی حلقوں میں بحث چل رہی ہے۔ یہ قانون ۲۰۱۸ء میں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے پاس ہوا تھا جس کا عنوان تھا ”خواجہ سرا اور اس قسم کے دیگر افراد کے حقوق کا تحفظ“۔ خواجہ سرا ملک میں بہت کم تعداد میں موجود ہیں، کچھ اوریجنل ہیں ، کچھ تکلف کے ساتھ ہیں اور کچھ کو اب مزید تکلف کے ساتھ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اللہ رب العزت نے مرد اور عورت دو جنسیں پیدا کی ہیں، تیسری جنس اللہ تعالی نے نہیں بنائی۔ خواجہ سرا یا خنثیٰ وغیرہ کوئی الگ جنس نہیں ہے، بلکہ دراصل یہ معذور افراد ہیں۔ جیسے نابینا معذور ہے، کوئی الگ جنس نہیں ہے، پیدائشی بہرہ معذور ہے، کوئی الگ جنس نہیں ہے، اسی طرح پیدائشی گونگا الگ جنس نہیں ہے، بلکہ معذور ہے۔ بالکل اسی طرح خواجہ سرا بھی معذور افراد ہیں کہ وہ ایک صلاحیت سے محروم ہیں اور معذور کے درجے میں ہیں، یہ الگ جنس نہیں ہے کہ ان کو الگ جنس کے طور پر متعارف کروایا جائے ۔ان کے حقوق ہیں ، شریعت ان کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے، اور ان کے معاملات کا فیصلہ پوری توجہ سے کرتی ہے۔ مگر ہوا یہ کہ ۲۰۱۸ء میں مستقل عنوان دے کر ان کو ایک الگ جنس کے طور پر پیش کیا گیا اور ان کے حقوق کے تحفظ کے نام سے قانون سازی کی گئی۔ اس میں اصولی غلطی یہی تھی، کیونکہ خواجہ سرا کوئی الگ جنس نہیں ہے بلکہ یہ معذور افراد کا ٹائٹل ہے، جیسے گونگے، بہرے ، نابینا اور لنگڑے ہیں۔ ان کے حقوق کا تحفظ ان کا حق ہے۔

دوسری بات یہ ہوئی کہ اس عنوان سے جو قانون سازی کی گئی، اسی عنوان کے مغالطے کی وجہ سے اصل بات کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں ہوئی۔ حالانکہ قومی اسمبلی میں جب یہ قانون پیش ہوا تو قائمہ کمیٹی میں دو خواتین ممبران جمعیۃ علماء اسلام کی نعیمہ کشور صاحبہ اور جماعت اسلامی کی عائشہ سید صاحبہ نے تفصیل کے ساتھ اس سے اختلاف کیا اور کہا کہ یہ قانون شریعت کے خلاف ہے، اس بارے میں علماء سے پوچھا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل سے بات کی جائے۔ لیکن اسمبلی کے آخری سیشن، جس کے بعد اسمبلی تحلیل ہو گئی اور الیکشن کا ہنگامہ شروع ہوگیا ،اس میں اس بل کو پاس کر دیا گیا، اس لیے لوگوں کی توجہ نہیں ہوئی۔ مگر جب لوگوں نے اس کو پڑھا اور اس کی طرف توجہ ہوئی تو اعتراض ہوا کہ یہ تو شریعت کے خلاف ہے اور جب شریعت کے خلاف ہے تو ملک کے دستور کے بھی خلاف ہے۔

اس پر کچھ دنوں سے بات چل رہی ہے، کئی علماء نے اس پر لکھا ہے، لیکن ابتدائی موقع پر توجہ اس لیے نہیں ہوئی کہ ایک تو اسمبلی تحلیل ہو گئی تھی، اسمبلی میں اس کے بعد اس پر تفصیل سے بحث نہیں ہوئی۔ اور دوسرا یہ کہ اس کا ٹائٹل معذوروں کے حقوق کے تحفظ کا تھا۔ اس ٹائٹل کی ہمدردی کے نیچے سب کچھ چھپ گیا۔ اب ظاہر ہو رہا ہے تو اس پر احتجاج ہو رہا ہے۔ مختلف دینی حلقے اس پر احتجاج کر رہے ہیں کہ یہ قانون شریعت کے خلاف ہے۔

مثلاً اس میں ہر شخص کو یہ حق دیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص بالغ ہو، وہ نادرا میں درخواست دے جس میں ہر شخص اپنی جنس خود طے کرے گا کہ میں مرد ہوں یا عورت۔ اور وہ جو جنس طے کر دے گا، نادرا پابند ہے کہ اس کے مطابق اس کو شناختی کارڈ جاری کرے۔ مثلاً ایک شخص نادرا میں حلفیہ بیان دیتا ہے کہ میں عورت ہوں، تو نادرا تحقیق نہیں کرے گا، بلکہ اس کے حلفیہ بیان پر اس کو عورت کا شناختی کارڈ جاری کرے گا۔ یا اگر کوئی عورت حلف نامہ داخل کرتی ہے کہ میں مرد ہوں تو نادرا کے ذمے تحقیق نہیں ہے، بلکہ اس کے حلفیہ بیان دینے پر اس کو مرد کا شناختی کارڈ جاری کرے گا۔

بہت سے دیگر ملکوں میں بھی یہ قانون ہے، لیکن وہاں میڈیکل چیک اپ شرط ہے۔ اگر کوئی شخص دعوٰی کرتا ہے کہ میں عورت ہوں تو اس کا میڈیکل چیک اپ ہوتا ہے۔ یہ بات تو سمجھ آتی ہے، لیکن مذکورہ قانون کے مطابق صرف دعوٰی اور حلفیہ بیان دینے پر نادرا پابند ہے کہ اس کے مطابق اس کو شناختی کارڈ جاری کرے اور پھر تمام قوانین اس شناختی کارڈ کے مطابق اس پر جاری ہوں۔

اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نادرا میں خود کو عورت رجسٹر کروا لیتا ہے جو کہ مشکل نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے حلفیہ بیان ہی کافی ہے اور پھر وہ کسی مرد سے شادی کرتا ہے تو یہ شادی قانوناً درست شمار ہو گی۔ یہ مرد کی مرد سے شادی صرف ریکارڈ کے فرق کے ساتھ قانوناً درست ہوگی۔ اسی طرح اگر کوئی عورت خود کو نادرا میں مرد لکھوا لیتی ہے تو وہ مرد کی طرح وراثت کی برابر حقدار شرعاً تو نہیں ہے مگر قانوناً ہو گی۔ اس قانون کے بہت سے مفاسد سامنے آرہے ہیں، جوں جوں اس کا ایک ایک پرت کھل رہا ہے اس کی خرابیاں واضح ہو رہی ہیں۔‘‘

اس پر سترہ ستمبر کو لاہور میں تمام مذہبی مکاتب فکر کے مشترکہ فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر اس قانون کو مسترد کیا گیا اور اسے شریعت اور دستور کے خلاف قرار دیا۔

اس حوالے سے دو مطالبے چل رہے ہیں: اس وقت سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد صاحب نے ترمیمی بل پیش کر رکھا ہے کہ اس قانون میں چند ترامیم کر دی جائیں تو یہ کسی درجے میں قابل قبول ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں عورت ہوں تو اس کے دعوے پر اس کو شناختی کارڈ جاری نہ کیا جائے بلکہ میڈیکل چیک اپ کروایا جائے۔ سینیٹر مشتاق احمد نے اس طرح کی کچھ ترامیم پیش کر رکھی ہیں۔ جبکہ جمعیۃ علماء اسلام کے سینیٹر عطاء الرحمٰن جو مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی ہیں، انہوں نے قرارداد پیش کی ہے کہ اس قانون کو منسوخ کیا جائے اور اس کے متبادل قانون لایا جائے۔

مشترکہ اجلاس میں ان دونوں سینیٹر حضرات کے موقف کی تائید اور اس قانون کے غیر شرعی اور غیر دستوری ہونے کا اعلان کیا گیا ہے اور ملک بھر میں اس کے خلاف رائے عامہ کی بیداری کی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہماری تمام مکاتب فکر کے علماء، وکلاء، ڈاکٹر صاحبان اور تمام طبقات سے تعاون کی درخواست ہےـ آج میں نے کچھ ڈاکٹر صاحبان سے رابطہ کیا ہے کہ میڈیکل فورم سے بھی بات آنی چاہیے کہ وہ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ یہ قانون کہ جو مرد بھی اپنے آپ کو عورت کہہ دے وہ عورت ہے، اور جو عورت اپنے آپ کو مرد کہہ دے وہ مرد ہے، یہ کیسا قانون ہے؟

مشترکہ اجلاس نے فیصلہ کیا ہے اس کے مطابق ملک میں رابطہ عوام مہم کا آغاز کیا جا رہا ہےـ۔ میری سب حضرات ، علماء، وکلاء، ڈاکٹر حضرات، تاجر برادری اور جو بھی قوم اور ملت سے تعلق رکھتا ہے، اور جس کا بھی قرآن و سنت اور شریعت کے احکام پر یقین ہے، ان سب سے درخواست ہے کہ وہ اس میں شریک ہوں اور تعاون کریں۔ اللہ تعالی ہم سب کو مل جل کر اپنے ملک کے قوانین کو مغرب کی تہذیب کے منحوس اثرات سے بچا لینے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔


توہینِ مذہب کے مقدمات سے متعلق سپریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ

ادارہ

(سپریم کورٹ کے اس اہم فیصلے کا  درج ذیل ترجمہ جناب ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے تعاون سے پیش کیا جارہا ہے اور یہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے جسے اس لنک سے ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے:

https://www.supremecourt.gov.pk/downloads_judgements/crl.p._883_l_2022_urdu.pdf



بعدالتِ عظمٰی پاکستان

(اپیلیٹ اختیارِ سماعت)      

 موجود:

جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

جناب جسٹس سید منصور علی شاہ

 فوجداری درخواست نمبر 833-ایل آف 2022ء :

(فوجداری متفرق نمبر 18600-بی آف 2022ء میں لاہور ہائی کورٹ، لاہور، کے فیصلے مؤرخہ 12 مئی 2022ء کے خلاف)

سلامت منشا مسیح (اپیل کنندہ) --- بنام --- ریاست و دیگر ۔۔              

مسئول علیہان:

اپیل کنندہ کے لیے: جناب عبد الحمید رانا، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ (لاہور سے وڈیو لنک کے ذریعے)

ریاست کےلیے: چودھری محمد سرور سدھو، ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل، پنجاب۔ جناب عاصم افتخار، تفتیشی افسر/ ایس پی ماڈل ٹاؤن، لاہور۔ سہیل کاظمی، ڈی ایس پی ماڈل ٹاؤن، لاہور۔

شکایت کنندہ کے لیے: سید رفاقت حسین شاہ، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ

تاریخ سماعت:

 23 اگست 2022ء


حکم

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ:

اس درخواست کے ذریعے درخواست گزار پولیس تھانہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان (‘پی پی سی‘) کی دفعات 295-اے، 295-بی اور 295-سی کے تحت درج شدہ ایف آئی آر نمبر 61، مؤرخہ 13 فروری 2021ء، سے بننے والے مقدمے میں بعد از گرفتاری ضمانت  چاہتا ہے۔ دفعہ 295-اے اس جرم کے بارے میں ہے جو ”دانستہ اور بدنیتی کے ساتھ شہریوں کے کسی طبقے کے مذہبی جذبات کو مشتعل کرے۔۔۔ اس طبقے کے مذہب یا مذہبی عقائد کی توہین کرے یا اس کی کوشش کرے“۔ دفعہ 295-بی قرآن مجید کے کسی نسخے کی قصداً توہین ، اسے نقصان پہنچانے  یا بے حرمتی کرنے کو جرم قرار دیتی ہے ۔ اور دفعہ 295-سی ”حضرت محمد ﷺ کے مقدس نام کی توہین “ کو جرم قرار دیتی ہے۔ 295-اے کے جرم پر دس سال تک کی سزا دی جاسکتی ہے، دفعہ 295-بی عمر قید کی سزا مقرر کرتی ہے، جبکہ 295-سی سزاے موت مقرر کرتی ہے۔

2۔ اس مقدمے کی بنیاد بننے والے  واقعے کی اطلاع پولیس کو 13 فروری 2021ء کو رات 11 بج کر 20 منٹ پر دی گئی اور ایف آئی آر رات 11 بج کر 30 منٹ پر درج کی گئی۔ شکایت کنندہ (مسئول علیہ نمبر 2) نے، جو خواجہ رفیق شہید انٹرمیڈیٹ کالج واقع والٹن روڈ لاہور (‘کالج‘)کا طالب علم ہے، قرار دیا کہ وہ تین دیگر طلبہ، اپنے دوستوں (‘چار دوست‘) ،کے ساتھ ماڈل ٹاؤن پارک (‘پارک‘) آیا ہوا تھا جہاں درخواست گزار اپنے ایک دوست کے ساتھ،  جو کہ دونوں مسیحی تھے، تبلیغ اور گستاخانہ باتیں کررہے تھے۔ یکم اپریل 2021ء کو درخواست گزار کو گرفتار کیا گیا اور اس کے بعد سے وہ مسلسل قید میں رہا ہے۔ اس کی درخواستِ ضمانت فاضل سیشنز جج اور فاضل جج ہائی کورٹ نے مسترد کردی؛ دونوں فاضل ججز نے ضمانت مسترد اس لیے کی کہ انھیں ایف آئی آر کے مندرجات اور چار دوستوں کے بیانات پر مکمل اعتماد تھا۔

3۔ درخواست گزار کے وکیل کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر ایک کِتابچے ”زندگی کا پانی“ کا حوالہ دیتی ہے جس میں کوئی گستاخانہ مواد نہیں ہے؛ ایف آئی آر کا اندراج 8 گھنٹوں کی بلا جواز تاخیر کے بعد ہوا حالانکہ ماڈل ٹاؤن تھانہ پارک کے قریب واقع ہے؛ چار دوستوں نے، جن میں ہر ایک کے پاس موبائل فون تھا، وقوعے کو ، جو تقریباً تیس منٹ تک جاری رہا، ریکارڈ نہیں کیا؛ چار دوستوں نے ظاہر نہیں کیا کہ ان تیس منٹوں میں ان کی جانب سے کیا کہا گیا تھا، اور یہ کہ یہ ناقابلِ یقین ہے کہ وہ کسی کو تیس منٹ تک گستاخانہ باتیں کرنے دیں اور آرام سے ایک طرف کھڑے ہو کر چپ چاپ سنتے رہیں؛ پارک کا انتظام ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کے پاس ہے جس نے پارک کےلیے دن رات مسلسل محافظین کا بندوبست کیا ہوا ہے لیکن نہ تو کسی محافظ نے، نہ ہی پارک میں آنے والے کسی اور شخص نے شکایت کی نہ اپنے بیانات ریکارڈکروائے؛ اور وہ دو مسیحی نرے احمق ہوں گے اگر انھوں نے چار نوجوان مسلمانوں کے سامنے وہ کچھ کہا جس کا ان پر الزام لگایا گیا ہے، وہ بھی ایسے پارک میں جہاں تمام نہ سہی، زیادہ تر لوگ مسلمان ہوں۔

4۔ فاضل ایڈیشنل پروسیکیوٹر جنرل پنجاب (‘اے پی جی‘) ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پولیس رپورٹ[1] (چالان) جمع کرائی جاچکی ہے، فردِ جرم عائد کردی گئی ہے اور ٹرائل کورٹ نے پانچ گواہوں کے بیانات تحریر کرلیے ہیں اور استغاثہ کے پانچ گواہوں کی گواہی باقی ہے۔ اس لیے اس مرحلے پر ملزم کو ضمانت کی رخصت عطا کرنا مناسب نہیں ہوگا، اور ایف آئی آر کے مندرجات اور چار دوستوں کے بیانات کی رو سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ملزم نے ان جرائم کا ارتکاب کیا ہے جن کی فردِ جرم اس پر عائد کی گئی ہے۔ جناب سید رفاقت حسین شاہ ، جو شکایت کنندہ کی نمائندگی کررہے ہیں، فاضل اے پی جی کے موقف کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو گواہ گواہی دے چکے ہیں ان پر جرح نہ کرکے درخواست گزار مقدمے کی تکمیل میں تاخیر کررہا ہے۔

5۔ ہم نے مقدمے کے فریقوں کے وکلا کے دلائل سنے اور ریکارڈ پر موجود دستاویزات کے علاوہ فاضل اے پی جی کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کا جائزہ لیا۔ مقدمے کی تفتیش پولیس کے سپرنٹنڈنٹ (‘ایس پی‘) نے کی۔[2] ہمارے پوچھنے پر فاضل اے پی جی اور ایس پی نے بتایا کہ ایف آئی آر میں مذکور کتاب (زندگی کا پانی) میں کوئی توہین آمیز مواد نہیں ہے۔ پھر ہم نے معلوم کیا کہ کیا گرفتاری کے وقت یا بعد میں جرم ثابت کرنے والا کوئی مواد درخواست گزار سے برآمد کیا گیا ہے، اور ہمیں بتایا گیا کہ ایسا کوئی مواد برآمد نہیں کیا گیا۔ ایس پی نے ہمیں بتایا کہ پارک کا اس کالج سے فاصلہ، جہاں یہ چار دوست پڑھتے ہیں اور جہاں سے یہ اس پارک میں آئے تھے، تقریباً دس کلومیٹر ہے لیکن ریکارڈ پر ایسا کچھ نہیں ہے جو یہ دکھائے کہ یہ وہاں کیوں گئے؟ ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ درخواست گزار لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی میں خاکروب کے طور پر ملازم ہے۔

6۔ ہم نے ایف آئی آر بھی پڑھی اور چالان بھی جس میں ایف آئی آر ہی کی باتیں دہرائی گئی ہیں اور اس میں کوئی اضافی ثبوت نہیں ہے جس سے ملزم کا جرم ثابت ہوتا ہو۔ فرد جرم 5 اپریل 2022ء کو فاضل ایڈیشنل سیشنز جج نے عائد کی جسے یہاں نقل کیا جاتا ہے:

کہ تم ملزم نے اپنے شریک ملزم /ایوب مسیح (اشتہاری مجرم) کے ساتھ مل کر 13 فروری 2021ء کو 4 بج کر 35 منٹ پر ماڈل ٹاؤن پارک لاہور میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی، اور توہین آمیز کلمات کہے اور حضرت محمد ﷺ کے مقدس نام کی توہین کی۔ پس تم ملزم سلامت مسیح اور تمھارے شریک ملزم ایوب مسیح (جو تب سے اشتہاری مجرم ہے) نے زیرِ دفعہ 295-اے، 295-بی اور 295-سی، مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان، جرم کیا ہے، جو اس عدالت کے اختیار کے تحت آتا ہے۔

اور میں حکم دیتا ہوں کہ تم ملزم سلامت مسیح پر اس عدالت میں مذکورہ بالا فردِ جرم کی رو سے مقدمہ چلایا جائے۔

فرد جرم کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں متعدد بنیادی خامیاں ہیں اور اس میں فردِ جرم عائد کرنے کے متعلق کئی اہم مقررہ شرائط نہیں پائی جاتیں۔[3] ضروری ہے کہ فردِ جرم میں جرم کی مختصر توضیح ہو اور ساتھ ہی ان حالات کا مختصر ذکر ہو جن سے وہ جرم تشکیل پاتا ہے۔ فردِ جرم میں (جس طرح وہ عائد کی گئی ہے) تین جرائم کو ملا کر ایک جرم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ہر جرم کے الگ عناصر ہیں لیکن فردِ جرم ایسا نہیں کہتی۔ ضروری ہے کہ فردِ جرم ملزم کو اس کے خلاف مقدمے سے پوری آگاہیدے جس کا اس نے جواب دینا ہے، اور  اس کا اس قابل ہونا ضروری ہے کہ وہ اس جرم کے خلاف دفاع کرسکے جس کا اس پر الزام عائد کیا گیا ہے۔[4] درخواست گزار کے خلاف قرآن مجید کی بے حرمتی کا الزام عائد نہیں کیا گیا تھا (نہ تو ایف آئی آر میں اور نہ ہی چالان میں)، لیکن پھر بھی اس پر دفعہ 295-بی کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی۔

7۔ درخواست گزار کے خلاف استغاثہ کا مقدمہ چار دوستوں کے بیانات پر مبنی ہے ۔ ہم نے ان کی گواہی کا جائزہ لیا ہے جو اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ درخواست گزار کے شریک ملزم نے کتاب ”زندگی کا پانی“ پیش کی اور ”دونوں ملزمان نے قصداً مسیحیت کی تبلیغ شروع کی“۔ مسیحیت کی تبلیغ کوئی جرم نہیں ہے، نہ ہی اسے جرم بنایا جاسکتا ہے کیونکہ ”مذہب پر عقیدہ رکھنا، عمل کرنا اور اس کی تبلیغ” بنیادی حق ہے۔[5] وہ اس کے بعد کہتے ہیں کہ دونوں ملزمان نے حضرت محمد ﷺ کی ازدواجی حیثیت پر بات کی اور اس کا موازنہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کیا اور ذومعنی جملہ کہااور پھر قرآن مجید اور بائبل کے متعلق بات کی۔ ہم مبینہ توہین آمیز الزامات نہیں دہرارہے کیونکہ اس سے گریز ضروری ہے، اور اس لیے بھی کہ وہ غیر ضروری اذیت اور اشتعال کا باعث بن سکتے ہیں۔[6]

8۔ بدقسمتی سے ایسے مقدمات کی بہت تشہیر ہوتی ہے جس کا غلط اثر ہوتا ہے اور اس سے منصفانہ سماعت کا حق بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ غیر ذمہ دارانہ اور سنسنی خیز نشر و اشاعت کے ذریعے بار بار وہ کچھ دہرایا جاتا ہے جو مبینہ طور پر ملزم نے کہا یا کیا ہوتا ہے؛ جبکہ اسے دہرانے والے شاید خود وہی جرم کررہے ہوں۔ مذہب سے متعلق جرائم بہت سنگین ہیں اور دفعہ 295-سی کے جرم پر صرف موت کی سزا مقرر ہے۔ اس لیے تمام متعلقہ افراد پر یہ یقینی بنانا لازم ہے کہ عدل کے نفاذ میں کوئی بے انصافی نہ ہوجائے۔ عدالتوں نے اس حقیقت کا نوٹس لیا ہے کہ کئی بار حساب برابر کرنے کےلیے جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں اور مذموم مقاصد کےلیے یا غلط محرکات کی وجہ سے مقدمات بھی قائم کیے گئے ہیں۔[7]

9۔ فوجداری نظام کے تبدیل ہونے اور اسلامی اصولوں پر قائم ہونے سے قبل انسانی زندگی اور بدن پر اثر انداز ہونے والے جرائم[8] کو ریاست کے خلاف جرائم تصور کیا جاتا تھا۔ اب ان جرائم کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ ایسے جرائم ہیں جن سے متاثرہ افراد یا ان کے ورثا کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ اس عدالت کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے ایک پانچ رکنی بنچ نے اس تبدیلی کی توضیح یوں کی ہے:

”اسلامی احکام کی رو سے۔۔۔ متاثرہ فرد یا اس کے ورثا کا ابتدا سے آخر تک پورے معاملے پر، بشمول اور مجرم کے،  مکمل کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ چاہیں تو اس کی اطلاع نہ دیں۔ وہ چاہیں تو مجرم کے خلاف استغاثہ نہ کریں۔ وہ چاہیں تو اپنی آزادانہ مرضی سے استغاثہ چھوڑ دیں۔ وہ چاہیں تو مجرم کو کسی بھی مرحلے پر سزا کی تنفیذ سے قبل معاف کردیں۔ جرم اور مجرم کی معافی کےلیے وہ مالی یا کوئی اور عوض لے سکتے ہیں۔ وہ صلح کرسکتے ہیں۔ وہ مجرم سے قصاص لے سکتے ہیں۔ ریاست رکاوٹ نہیں بن سکتی، لیکن اپنی حد تک بھرپور کوشش کرتی ہے کہ ان کا مقصد پورا ہونے اور ان کے حقوق کے مناسب استعمال میں ان کی معاونت کرے۔“[9]

مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء (‘مجموعہ‘) کی دفعہ 345 اور دوسرے جدول میں بھی ترمیم کرکے قتل کے علاوہ زخم کی بہت سی اقسام[10] کو قابلِ صلح بنادیا گیا۔ تاہم ”مذہب سے متعلق جرائم“[11] میں کوئی بھی جرم قابلِ صلح نہیں ہے (سواے کسی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے نسبتاً معمولی جرم کے[12] جس پر زیادہ سے زیادہ تین سال تک قید کی سزا ہے)۔ مذہب کے متعلق جرائم کے بارے میں ریاست کی حیثیت غالب ہے اور ان جرائم پر استغاثے کےلیے ریاست ذمہ دار ہے ۔ایسے مقدمات میں جب نجی شکایت کنندہ بہت ہی زیادہ دلچسپی لے تو اس سے اس کے قابلِ اعتبار ہونے پر شک ہوسکتا ہے اور یہ فساد یا کسی غلط محرک کی علامت ہوسکتی ہے۔تاہم چند ایک مقدمات میں دیکھا گیا کہ شکایت کنندگان بڑا جتھا بنالیتے ہیں اور ان کے ساتھ دوسرے لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں جو استغاثہ اور عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ مقدمے میں شکایت کنندہ،  جو ایک طالب علم ہے، لاہور سے اسلام آباد اس مقصد کےلیے آیا کہ ضمانت کی مخالفت کرے۔ اسے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس معاملے کی پیروی کےلیے ریاست اور اس کے قانونی افسران موجود تھے۔ اور جب ہم فاضل اے پی جی اور ایس پی سے سوالات پوچھ رہے تھے، تو شکایت کنندہ اور اس کے وکیل اے پی جی اور ایس پی کو جوابات فراہم کررہے تھے۔

10۔ درخواست گزار تقریباً ڈیڑھ سال سے قید میں ہے اور اس ساری مدت میں (جیسا کہ اوپر ذکر کر دیا گیا) اس سے کوئی ایسا مواد برآمد نہیں کیا گیا جس سے اس کا جرم ثابت کیا جاسکے۔ ایس پی اور فاضل اے پی جی کا کہنا ہے کہ درخواست گزار کا موبائل فون بھی چیک کیا گیا، لیکن اس سے بھی کوئی ایسا مواد نہیں ملا جس سے جرم کو ثابت کیا جاسکے، نہ ہی ایسا مواد ملا جس سے اندازہ ہو کہ درخواست گزار کا رجحان اس فعل کی طرف تھا جس کا اس پر الزام لگایا گیا ہے۔ ایف آئی آر اور چالان کے مطابق درخواست گزار تبلیغ کررہا تھا لیکن اس بات کی تائید کےلیے کوئی مواد نہیں ہے اور اس بات کا وزن کم ہوجاتا ہے جب اس بات کا اعتراف کیا جاتا ہے کہ درخواست گزار کوئی مبلغ نہیں بلکہ ایک عام خاکروب ہے۔ استغاثہ کا پورا مقدمہ چار دوستوں کی گواہی پر قائم ہے۔ تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہے  جس سے ان کی گواہی کیتائیدہوسکے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تائید کا ہونا ضروری ہے؟

11۔ تائید (corroboration) سے مراد ہے تقویت اور تصدیق، اور تائیدی ثبوت اس ثبوت سے الگ ہوتا ہے جس کووہ تقویت دیتاہے۔[13] تائید سے عدالتی فیصلوں میں غلطیوں کا امکان کم ہوجاتا ہے اور یہ عقل کا تقاضا ہے۔ تائید کا مقصد مجرم کی سزا یقینی بنانا اور بے گناہ کو سزا سے بچانا ہے۔ تاہم تائیدی ثبوت کسی بے اعتبار گواہ یا ثبوت کو بااعتبار نہیں بنا دیتا۔[14] اس مقدمے میں درخواست گزار کے خلاف صرف چار دوستوں کی گواہی ہے۔ ہمیں جرائم کی سنگینی کی بات ذہن میں رکھنی ہے اور یہ بھی کہ دفعہ 295-سی کے جرم کےلیے مقرر کی گئی صرف سزاے موت ہی ہے۔ اس لیے عقل کا تقاضا ہے کہ ان کے بیانات کو، جو اس مرحلے پر غیر یقینی نظر آتے ہیں، دوسرے ثبوتوں سے تائید ملے جو واقعاتی، دستاویزی اور/یا سائنسی ہوسکتے ہیں۔ اسلامی اصول بھی بعض حالات میں گواہی کےلیے تائید کے ہونے کو ضروری قرار دیتے ہیں۔[15]

12۔ ملزم کے بنیادی حقوق متعلقہ بہ منصفانہ سماعت اور قانونی طریقہ[16] کی ضمانت ضروری ہے، بالخصوص ان مقدمات میں جن میں سخت سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اشتعال دلانے والوں نے جذبات مشتعل اور برانگیختہ کردیے، اور ہجوم اکٹھا کرکے اسے ابھارا کہ قانون اپنے ہاتھ میں لے، جس نے ملزم کو زخمی کیا اور یہاں تک کہ قتل بھی کردیا، قبل اس کے کہ اسے عدالت مجرم قرار دیتی۔ خواہ عدالت کسی شخص کو مجرم قرار دے کر اسے سزاے سنائے، تب بھی اس سزا کا نفاذ اگر کسی ایسے فرد نے کیا جسے اس کےلیے اختیار نہ دیا گیا ہو، تو اسلامی اصولوں کے مطابق ایسا شخص افتیات (ریاست کا حق ضائع کرنے) کےلیے ذمہ دار ٹھہرتا ہے جس پر اسے سزا دی جائے گی۔[17]

13۔ اسلامی اصول[18] مذہب کے متعلق جرائم کو خدا کے خلاف جرائم قرار دیتے ہیں؛ فقہاء کی اصطلاح میں، جو انھیں حدود میں شمار کرتے ہیں، یہ ”خدا کے حقوق “سے متعلق ہوتے ہیں۔حد کے جرم میں کسی ملزم کا جرم ثابت کرنے کےلیے اسلامی اصولوں کی رو سے ثبوت کا سخت ترین، یا بہترین، معیار مقرر کیا گیا ہے اور کوئی شبہ ملزم کو بری کردیتا ہے۔ نبی ﷺ کی ایک مشہور مستند حدیث[19] میں، جس کی روایت کئی صحابہ نے کی ہے، آیا ہے:

ادْرَءُوا ‌الْحُدُودَ بِالشُّبُهَاتِ

(شبہات کی موجودگی میں سزاؤں سے گریز کرو۔)[20]

دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے اس اصول کو ان الفاظ میں دہرایا:

‌ادْرَءُوا ‌الْحُدُودَمَا اسْتَطَعتُمْ

(سزاؤں سے گریز کرو جس حد تک تم کرسکتے ہو۔)[21]

اس عدالت نے دفعہ 295-سی کے ایک مقدمے میں اس اصول کو ان الفاظ میں تسلیم کیا ہے: ”یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہیں ہوگا کہ یہ اصول (شک کا فائدہ) اسلامی قانون میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور اس کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا کہ: قاضی کسی مجرم کو چھوڑنے کی غلطی کرے تو یہ کسی بے گناہ کو سزا دینے کی غلطی سے بہتر ہے۔“[22]

میکگل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر وائل بی حلاق (1995-) نے بہت خوبی کے ساتھ واضح کیا ہے:

”حدود جرائم پر سخت سزاؤں کا مقصد لوگوں کو ان کے ارتکاب سے باز رکھنا (زجر) تھا اور اس لیے عملاً ان کا نفاذ کم ہی کیا گیا۔۔۔ ان کے ارتکاب پر اس دنیا میں سزا نہ ہونے کی صورت میں مجرم ابدی جہنم  میں جا گرتا، مابعد الموت زندگی کا ایسا تصور جس کے نتیجے میں اخلاقی ذمہ داری کا احساس نفسیات میں راسخ ہوجاتا۔ حدود کے اطلاق میں بہت زیادہ ااحتیاط کا ماخذ یہ قاعدہ تھا جو ایک حدیث سے نکلا تھا کہ “معمولی ترین شبہے کی موجودگی میں بھی” ان سے گریز ضروری ہے۔“[23]

14۔ اسلامی قانون کے اصولوں کی پابندی ، منصفانہ سماعت اور قانونی طریقے کے بنیادی حقوق کا اطلاق جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، اور معقول طریقے پر عمل پیرا ہونا تاکہ یہ یقینی بنایا جائےکہ مذہب سے متعلق جرائم میں کسی بے گناہ کو غلطی سے سزا نہ ملے،ان سارے امور کا تقاضا ہے کہ جب صرف گواہوں کی غیر یقینی گواہی ہو، تو اس کے ساتھ تائیدی ثبوت کا ہونا ضروری ہے۔ بسا اوقات پارسائی کا جذبہ، اخلاقی جوش اور/یا اشتعال بھی فوجداری مقدمات میں عمومی معیارِ ثبوت ، یعنی ”معقول شبہے سے بالاتر“،[24] کو دھندلا کردیتا ہے اور استغاثہ کو ایک پہلے سے طے شدہ ہدف کی طرف دھکیلتا ہے۔

15۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تفتیشی ایس پی نے دو ملزمان کی بات نہ مانی اور چار دوستوں کی بات قبول کی ۔ ایسی ترجیح کےلیے کوئی معقول وجہ بیان کرنا تو درکنار، سرے سے کوئی وجہ ہی ذکر نہیں کی۔ کسی تفتیشی افسر کو اس کی اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کے ساتھ امتیاز برتے یا مذہبی بنیاد پر ترجیح دے۔[25] دفاع کا بیانیہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔[26] اس بات کا ذکر بھی بے جا نہیں ہوگا کہ وفاقی شرعی عدالت[27] نے بعض معروف علماے اسلام کی آرا نقل کی تھیں جنھوں نے راے دی تھی کہ جہاں گستاخی کا ارتکاب بھی کیا گیا ہو، وہاں بھی اگر ملزم نے توبہ کرلی تو اسے سزا نہیں دینی چاہیے۔[28]

16۔ ہمیں بتایا گیا کہ درخواست گزار کا پیشہ عوامی مقامات کی صفائی ہے، جو قابلِ تحسین ہے۔ مذہبِ اسلام ذہن، بدن اور ماحول کی صفائی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس سے محبت رکھتا ہے۔ قرآن مجید کا کہنا ہے:

إِنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلتَّوَّٰبِينَ وَيُحِبُّ ٱلمُتَطَهِّرِينَ

یقیناً، اللہ محبت کرتا ہے توبہ کرنے والوں سے، اور محبت کرتا ہے پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے۔[29]

نبی پاک حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:

اَلطَّهُورُ شَطْرُ الْإِيمَانِ

صفائی نصف ایمان ہے۔[30]

نبی پاک حضرت محمد ﷺ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے مشاہدہ کیا کہ آپ خود گھر کے معمولی کام کیا کرتے تھے۔[31] پہلے خلیفۂ راشد ابو بکر رضی اللہ عنہ ایک بوڑھی نابینا خاتون کے گھر جا کر اس کا کوڑا کرکٹ اور گندگی صاف کرتے تھے۔[32]

17۔ اب ہم آگے بڑھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا مقدمے کے اختتام سے قبل درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جانا چاہیے؟ یہ ہیں مقدمے کے حقائق اور ریکارڈ پر موجود ثبوت جنھوں نے ہمیں اس درخواستِ ضمانت کا فیصلہ کرنے میں مدد دی ہے۔ چار دوست اپنے کالج سے پارک میں آئے جو ان کے کالج سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے ، لیکن انھوں نے وضاحت نہیں کی کہ انھوں نے اتنی دور واقع پارک کو کیوں چنا، یا یہ کہ وہ کالج سے وہاں کیسے پہنچے؟ اہم بات یہ ہے کہ پارک میں موجود دوسرے لوگوں یا پارک میں تعینات محافظین نے درخواست گزار پر الزام کےلیے انگلی نہیں اٹھائی، نہ ہی ان کو تفتیش میں شامل کیا گیا۔ چار دوستوں نے گواہی دی کہ درخواست گزار ”قصداً مسیحیت کی تبلیغ“ کررہا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خیال میں یہ جرم تھا (جبکہ ایسا نہیں ہے، جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا)۔ درخواست گزار کے مبلغ ہونے کے متعلق ثبوت بھی پیش نہیں کیا گیا، جس سے ان کی گواہی کا وزن کم ہوجاتا ہے۔ پھر شکایت کنندہ نے پولیس کو اطلاع دینے میں تقریباً آٹھ گھنٹے لگائے، اگرچہ پولیس تھانہ مزعومہ موقع واردات کے بالکل قریب تھا۔ مسلمہ طور پر درخواست گزار، جوکہ ایک خاکروب ہے، چار دوستوں کی بہ نسبت بہت کم تعلیم یافتہ ہے جس کی وجہ سے یہ بات قبول کرنا مشکل ہوجاتی ہے کہ انھوں نے ان اس کے مزعومہ بیانات کا جواب نہیں دیا ہوگا، اور تیس منٹ تک خاموش کھڑے رہے ہوں گے۔ نیز درخواست گزار سے جرم ثابت کرنے والا کوئی مواد برآمد نہیں کیا گیا۔ یہ تمام عوامل اسے مزید تحقیق کا مقدمہ بنا دیتے ہیں اور درخواست گزار کو ضمانت کا مستحق کردیتے ہیں۔

18۔ اس لیے درخواست گزار کو ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے، اس شرط پر کہ وہ مبلغ 50 ہزار روپے کا مچلکہ، مع ایک ضامن اسی مقدار کے مچلکے کے ساتھ،جو ٹرائل کورٹ کےلیے قابلِ اطمینان ہو، جمع کرائے۔اس درخواست کو اپیل میں تبدیل کیا جاتا ہے اور اعتراض شدہ حکم کو منسوخ کرتے ہوئے اس درخواست کو مذکورہ شرائط کے ساتھ منظور کیا جاتا ہے۔

19۔ ہم نے انتہائی احتیاط کی ہے کہ مقدمے کی صحت و عدم صحت کے متعلق کوئی ایسی بات نہ کریں جس سے درخواست گزار یا ریاست کے مقدمے پر غلط اثر پڑے، سواے اس بات کے جو ضمانت کی درخواست کا فیصلہ کرنے کےلیے ضروری تھی۔ تاہم چونکہ درخواست گزار کا مقدمہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں چل رہا تھا، تو ہم اپنا فریضہ ادا کرنے میں ناکام ہوتے اگر ہم مذکورہ خامیوں کی نشاندہی نہ کرتے۔ ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ ٹرائل کورٹ کے فاضل جج بھی ان امور کی طرف توجہ کریں گے۔

20۔ اس حکمنامے کی نقل چاروں صوبوں اور اسلام آباد وفاقی علاقے کے محکمہ ہاے استغاثہ کی طرف اطلاع اور عمل درآمد کےلیے بھیج دی جائیں تاکہ وہ یقینی بنائیں کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کے باب 15 میں مذکور مذہب کے متعلق جرائم کی تفتیش آئین اور قانون کے مطابق اسی طرح سرانجام دی جائے جیسا کہ یہاں بتایا گیا اور واضح کیا گیا۔

نوٹ:   یاد رہے کہ عوامی سہولت کے پیش نظر فیصلے کا اردو مفہوم  ترجمے کی شکل میں جاری کیا جارہاہے۔ تاہم عدالتی یا سرکاری استعمال  کے لیے انگریزی فیصلے کی طرف رجوع کیا جائے۔  (آئین اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آرٹیکل  251)

جج

جج

اسلام آباد

23 اگست، 2022ء

اشاعت کےلیے منظور شدہ


حوالہ جات

[1] زیرِ دفعہ 173، مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء۔

[2] مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء، کی دفعہ 156-اے لازم کرتی ہے کہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-سی کے تحت جرم کی تفتیش ایسا افسر کرے جو پولیس کے سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے کم نہ ہو۔

[3] مجموعۂ ضابطۂ فوجداری، 1898ء، کا انیسواں باب زیرِ عنوان”فرد ہاے جرم کی صورت“۔

[4] ایس اے کے رحمانی بنام ریاست (2005 ایس سی ایم آر 364، فقرہ 20، ص 381-382)؛ محمد بخش بنام ریاست، وفاقی شرعی عدالت کا ایک فیصلہ (2021 ایم ایل ڈی 1725، فقرہ 7، ص 1730)۔

[5] دفعہ 20-اسے، آئین اسلامی جمہوریۂ پاکستان۔ مزید دیکھیے: ایس ایم سی نمبر 1 آف 2014ء (پی ایل ڈی 2014 سپریم کورٹ 699، ص718)۔

[6] پنجاب ریلیجس بکس سوسائٹی بنام ریاست، تین فاضل ججز پر مشتمل بنچ کا فیصلہ (پی ایل ڈی 1960 لاہور 629، ص 640)۔

[7] یہ امور ان مقدمات میں بھی نوٹ کیے گئے ہیں: محمد محبوب بنام ریاست (پی ایل ڈی 2002 لاہور 587، فقرہ 30، ص 601)؛ ایوب مسیح بنام ریاست (پی ایل ڈی 2002 سپریم کورٹ 1048)۔

[8] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کا باب 16۔

[9] وفاقِ پاکستان بنام گل حسن خان (پی ایل ڈی 1989 سپریم کورٹ 633، ص 684-685)۔

[10] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کے باب 16 کے تحت جرائم۔

[11] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کا باب 15۔

[12] مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 298۔

[13] ارشاد احمد بنام ریاست (1990 پی سی آر ایل جے 374، 383-اے)۔

[14] ڈائریکٹر آف پبلک پروسیکیشنز بنام کلبورن (]1973[ اپیل کیسز 729)  جس میں دار الامراء نے قرار دیا  تھا(ص 746) کہ: ”تائید صرف اس گواہ کو دی جاسکتی ہے، یا وہ دے سکتا ہے جس پر اس کے بغیر اعتبار کیا جاسکتا ہو۔اگر کسی گواہ کی گواہی خود اپنی کمزوری کی بنا پر ساقط ہوجائے، تو اسے تائید کی ضرورت، یا اس کی جانب سے کسی کو تائید دیے جانے کی اہلیت، کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔“ اور ڈائریکٹر آف پبلک پروسیکیشنز بنام بورڈمین (]1975[ اپیل کیسز 421)  میں دار الامراء نے قرار دیاتھا (ص 455) کہ: ”جب تک کسی گواہ کی گواہی ذاتی طور پر قابلِ اعتبار نہ ہو، وہ نہ کسی کو تائید فراہم کرسکتا ہے، نہ ہی یہ سوچا جاسکتا ہے کہ اسے تائید کی ضرورت ہے۔“ ارشاد احمد بنام ریاست (1990 پی سی آر ایل جے 374، 385-بی)۔

[15] ابو عیسیٰ الترمذی (824-892)، سنن، کتاب 11، حدیث 1180؛ ابو بکر السرخسی (1009-1090)، المبسوط، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1997ء، ج16، ص 122۔

[16] آئین اسلامی جمہوریۂ پاکستان، دفعہ 10-اے۔ نوید اصغر بنام ریاست (پی ایل ڈی 2021 سپریم کورٹ 600، 618 ایچ)۔

[17] سرخسی، المبسوط، ج 9، ص 121؛ ابن عابدین الشامی (1784-1836)، رد المحتار، مصطفیٰ البابی، القاھرۃ، ج 3، ص 176؛ ابن عبد البر الاندلسی (978-1071)، التمهید، وزارۃ الاوقاف والشؤون الاسلامیۃ، المغرب، 1967ء، ج 21، ص 256؛ ابو اسحاق الشیرازی (1003-1083)، المهذب، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 2002، ج3، ص 258۔ مثال کے طور پر اگر کسی جنگی مجرم کو گرفتاری کے بعد سزاے موت کا مستحق قرار دیا گیا ہو اور اسے کسی شخص نے ریاست کی اجازت کے بغیر قتل کردیا، تو اس شخص کو افتیات کے ارتکاب پر سزا کا سامنا کرنا ہوگا۔ سرخسی، شرح السیر الکبیر، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، 1997ء، ج3، ص 126۔

[18] اگرچہ مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان میں ایسا نہیں کہا گیا۔

[19] نبی ﷺ کی روایت۔

[20] ابو یوسف (729-798)، کتاب الخراج، دار المعرفۃ، بیروت، 1979، ص 152؛ علاؤ الدین الحصکفی (1616-1677)، مسند أبي حنیفة، کتاب الحدود، حدیث 4؛ ابو عیسیٰ الترمذی (824-892)، سنن، کتاب 15، حدیث 1424۔

[21] محمد بن الحسن (749-805)، کتاب الأصل، دار ابن حزم، بیروت، 2014، ج 7، ص 150۔

[22] ایوب مسیح بنام ریاست (پی ایل ڈی 2002 سپریم کورٹ 1048، 1056 بی)۔

[23] Sharia: Theory, Practice, Transformation, Cambridge  University Press 2009, part II, chapter 10, p. 246.

[24] نوید اصغر بنام ریاست (پی ایل ڈی 2021 سپریم کورٹ 600، 617 ایف)؛ سلمان رفیق بنام قومی احتساب بیورو (پی ایل ڈی 2020سپریم کورٹ 456)؛ رحمت بنام ریاست (پی ایل ڈی 1977 سپریم کورٹ 515، ص 527 ای)۔

[25] آئین اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی دفعات 14، 20، 25 (1) اور 26 (1)۔

[26] عبید اللہ بنام ریاست (1991 ایس سی ایم آر 1734، 1736 بی)۔

[27] محمد اسماعیل قریشی بنام پاکستان (پی ایل ڈی 1991 وفاقی شرعی عدالت 10)۔

[28] ایضاً۔ مولانامفتی غلام سرور قادری، فقرہ 5، ص 17، مولانا حافظ صلاح الدین یوسف، فقرہ 6، ص 17، اور مولانا سعد الدین شیرکوٹی، فقرہ 10، ص 18۔

[29] سورۃ البقرۃ (2)، آیت 222۔ نیز دیکھیے، آیت 151۔

[30] مسلم بن الحجاج القشیری (815-875)، صحیح مسلم، باب 2، حدیث 223۔

[31] محمد بن اسماعیل البخاری (810-870)، صحیح البخاري، باب 10، حدیث 676۔

[32] ابن عساکر (1106-1176)، تاریخ دمشق، دار الفکر، بیروت، 1995ء، ج 30، ص 322۔


مولانا مودودی کے جہادی تصورات

مراد علی کی علمی کاوش کا جائزہ

احمد حامدی

مراد علی صاحب کو اللہ تعالی نے بے شمار صلاحیتوں سے نوازا ہے، مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرتے رہنا ان میں سے ایک ہے۔ مراد علی، مولانا مودودی اور ان کے کام کے ساتھ اس حد تک لگاؤ رکھتے ہیں کہ مولانا  مودودی سے متعلق مواد دیوانہ وار جمع کرتے رہتے ہیں۔ مولانا مودودی کے کام سے واقف بھی ہیں اور واقفیت میں اضافہ کرتے رہنے کے لیے ہمہ وقت تیار بھی رہتے ہیں۔  طویل اقتباسات کو یاد رکھنا اور مولانا کی آرا کو آج کے  مسائل پر لاگو کرتے رہنا ان کی ایک اور خوبی ہے اور فیس بک پر موجود لوگ اس سلسلے میں ان کی کاوشوں سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔ میں نے ان کو اس حال میں قریب سے دیکھا ہے جب وہ مولانا مودودی کی پوری پوری کتابیں کمپوز کیا کرتے تھے۔ سید مودودی کی فکر کے ساتھ ان کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اُن کی فکر کے ساتھ تحریکی لوگوں کے رویے پر شاکی رہتے ہیں اور اس کو آگے نہ بڑھا سکنے کا شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ اپنی نئی کتاب میں بھی ایک دو جگہ وہ  یہی شکوہ کرتے نظر آئے ہیں۔  

حال ہی میں "مولانا مودودی کا تصور جہاد: ایک تجزیاتی مطالعہ" کے عنوان سے ان کی کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ اس سے قبل اسی قسم کے عنوانات کے تحت ان کے مضامین "ماہنامہ ترجمان القرآن" اور "ماہنامہ الشریعہ" میں شائع ہو چکے ہیں۔ کچھ سال قبل ان مضامین پر میں نے ایک مختصر سا تبصرہ ایک فیس بک پوسٹ کی صورت میں کیا تھا، صاحبِ مضامین کا جواب آیا کہ ابھی کتاب آنا باقی ہے لہذا مکمل تبصرہ بحث کی تکمیل تک مؤخر رکھیں۔ میرا خیال ہے کہ اب اِس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد  بحث کم از کم اس حد تک مکمل ہو چکی ہے کہ اس پر تبصرہ کیا جا سکے۔

اگر ہم کتاب کے مباحث اور مضامین کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بندہ بیک وقت فقہ حنفی اور مولانا مودودی کی محبت میں گرفتار ہے لیکن حنفی فقہ کی محبت غالب ہے لہذا تعارض کی صورت میں ہمیشہ مولانا مودودی ہی کو قربانی دینی پڑتی ہے۔ اس دور میں جب معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آزاد مجتہد ہونے کے منصب سے نیچے نہیں اترتا، مراد صاحب کا فقہ اور روایت سے تمسک اور اس پر اعتماد قابل تعریف ہے لیکن کسی دوسرے کی فکر پر حنفیت اور روایت ، اس حال میں نافذ کرنا جبکہ صاحب فکر نے خود کو اُس کا ہر حال میں پابند نہیں بنایا، بالکل غلط ہے۔ چونکہ یہ غلطی کتاب کی روح ہے لہذا اجزا کی صورت میں موجود خوبی کی داد دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر اجزا کی صورت میں دیکھا جائے تو باب چہارم سے آگے کے مباحث قابلِ تحسین ہیں لیکن صاحبِ کتاب نے ان مباحث کو بھی باب دوم میں موجود روحِ کتاب کے اندر صَرف کر دیا ہے۔

جس چیز کو میں کتاب کی روح کہتا ہوں وہ مولانا کے تصوراتِ جہاد کو دو اقسام میں تقسیم کرنا ہے۔ تصوراتِ جہاد کو قانونی اور اخلاقی خانوں میں تقسیم کرنا ہی اِس کتاب کا مرکزی نکتہ ہے، اگر ہم اس بحث کا خلاصہ کریں تو درج ذیل نکات بنیں گے:

تعجب کا مقام یہ ہے کہ مراد صاحب کے مطابق جو کتاب تشکیلی دور کی ہے اور قانونی  کی بجائے اخلاقی ہے، اسی سے وہ علت القتال بھی نکالتے ہیں۔ عنایت اللہ سبحانی صاحب نے الجہاد فی الاسلام سے شوکتِ کفر کو علت القتال کے طور پر اخذ کیا ہے۔ مراد علی کے مطابق یہ علت غلط ہے،  کیونکہ اس میں مولانا کی پوری فکر کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور "الجہاد فی الاسلام"  کو اخلاقی نکتہ نظر  کی بجائے قانونی حیثیت سے دیکھا گیا ہے۔  لیکن اسی اخلاقی نوعیت رکھنے والی کتاب سے وہ محاربہ کو بطور علت نکال لاتے ہیں۔ اس کتاب کا جو حصہ شوکتِ کفر کو علت القتال قرار دیتا ہے اس کو صاحبِ کتاب نے اخلاقی کہا ہے لیکن جہاں سے محاربہ کو علت القتال قرار دینے کا امکان نکلتا ہے، وہاں وہ اس اخلاقی نوعیت کو پس پشت ڈال کر قانونی نکتے بھی نکال لاتے ہیں۔ اسی طرزِ عمل کی بنا پر کہنا پڑ رہا ہے کہ مراد صاحب بیک وقت فقہ حنفی اور مولانا مودودی کی محبت میں گرفتار ہیں لیکن مولانا مودودی کی محبت ثانوی ہے جو ہر نازک موقع پر قربان کر دی جاتی ہے۔

مراد صاحب ایک  جگہ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ مولانا کا کوئی "غیر تاریخی، غیر فقہی" تصور قابل قبول نہیں ہو سکتا،  ایسی آرا "محلِ نظر" ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ مودودی، مراد صاحب کی نظر میں "محل نظر " ہیں جو فقہ حنفی کے ان تعبیرات کے خلاف ہیں جو ڈاکٹر عمران احسن نیازی اور ڈاکٹر مشتاق صاحب پیش کرتے ہیں۔ جو لوگ ڈاکٹر مشتاق صاحب اور ان کے افکار سے واقف ہیں وہ جب اس کتاب کو پڑھیں گے تو انہیں یقیناً ایسا محسوس ہوگا کہ مراد صاحب کی زبان میں ڈاکٹر مشتاق صاحب بول رہے ہیں۔ سلیم احمد نے از راہِ انکسار کہا تھا کہ ہمارا تو کُل سرمایہ محمد حسن عسکری ہیں۔ لیکن میں بطور افسوس کہہ رہا ہوں کہ مراد صاحب کا کُل سرمایہ مشتاق صاحب بن چکے ہیں۔ مجھے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اس "تشکیلی دور" میں مشتاق صاحب کا  شدید فکری اثر، مراد صاحب کی فکر کو یک رخا بنا دے گا۔  میرے خیال میں صاحبِ تصنیف کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نتائجِ تحقیق میں موجود سقم کو دور کرنے کے لیے درج ذیل سوالات کے واضح جوابات مہیا کریں:

"کلامی اور اخلاقی" خانہ، مراد صاحب کا بنایا ہوا وہ کباڑ خانہ ہے جس میں مولانا مودودی کی  ہر وہ رائے پھینکی جائے گی جو فقہ حنفی کے خلاف ہے۔ صاحبِ کتاب، کلامی، اخلاقی، نظری وغیرہ کو جس طرح مترادفات کی صورت میں بلاتامل استعمال کرتے ہیں اور جس بے دردی کے ساتھ مولانا کی آرا کو ان خانوں میں ڈالتے ہیں اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ یہ کوئی کباڑ خانہ ہے، جس میں مولانا مودودی کی ان آرا کو ڈالا جائے گا جو مراد صاحب کے مطابق کسی عملی نظام، کسی اجتہادی رائے اور کسی قانونی حیثیت کی حامل نہیں ہوسکتیں۔ مولانا مودودی کے جہادی فکر کے ایک بڑے حصے کو اخلاقی بنا دینے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ الجہاد فی الاسلام میں موجود تصورات مولانا مودودی کی نوجوانی اور تشکیلی دور کی چیزیں ہیں جن پر اپنے زمانے کے  ماحول کا خاصا  اثر پایا جاتا ہے اور مولانا کی فکر کا یہ حصہ مسلمانوں کو محض جگانے اور  بیدار کرنے کے کام آیا ہے۔ تعارض کو رفع کرنے کا یہ عجیب طریقہ ہے کہ متعارض آرا میں سے ایک رائے کو کہیں تقسیم اور کہیں خاص کرکے بالکل بے اثر بنا کر چھوڑ دیا  جائے اور دوسری رائے کو برقرار رکھا جائے۔ بعض تعارضات اگر رفع نہیں ہو سکتے تو ان کو ہوبہو برقرار رکھنے میں کیا قباحت ہے۔ مفکرین کے ہاں متعارض چیزیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔ ایک اور  تعجب کی بات  یہ ہے کہ مولانا مودودی خود اور سید سلیمان ندوی "الجہاد فی الاسلام" کو اسلام کا قانونِ جہاد کہتے ہیں لیکن مراد صاحب کے مطابق یہ کتاب قانونی نہیں اخلاقی ہے۔

صاحب کتاب شکوہ کناں ہے کہ تحریکی لوگ قانونی مباحث اور فقہ سے اعتنا نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ فقہ کو جاننا بہت ضروری ہے لیکن فقہ کی آستان پر کسی مفکر کو بھینٹ چڑھا دینا، فقہیت کے اعتبار سے جتنا بھی نیک کام ہو، بہرحال علمیت اور دیانتداری کے خلاف ہے۔ اعتنا کا مطلب اگر جاننا ہے تو بے شمار تحریکی لوگ فقہ کو جانتے ہیں بلکہ مراد بھائی اگر اپنے اردگرد کے تحریکیوں کو ہی دیکھ لیں تو ان کو اپنی رائے غلط نظر آئے گی لیکن اگر فقہ سے اعتنا کا مطلب وہی کچھ ہے جو صاحب تحقیق نے اپنی کتاب میں کیا ہے، تو یہ اعتنا سے زیادہ فقہ پرستی ہے جس کے لیے مولانا کی فکر کو وہ بے دردی سے کاٹ چکے ہیں۔  میرے خیال میں ایسی اعتنا سے بے اعتنائی بہتر ہے۔

مراد صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں کہ میں نے ڈاکٹر مشتاق صاحب سے کہا کہ سود کا تیسرا ضمیمہ "الجہاد فی الاسلام" اور "اسلامی ریاست" میں بطور ضمیمہ شامل ہونا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم کہ دنیا اس عمل کو علمی دیانت میں شمار کرتی ہے یا نہیں لیکن میں کم از کم اس کو علمیت کے خلاف سمجھتا ہوں۔ ان دو کتابوں میں اگر کوئی اس ضمیمے کو شامل کرے گا تو وہ اپنی دانست میں خواہ کتنا ہی بڑا خیر خواہِ مودودی بن جائے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوگی۔ ضمیمے کی شمولیت کے بعد ان کتابوں کی حیثیت بالکل مختلف ہو جائے گی۔ "اسلامی ریاست" پروفیسر خورشید صاحب کی مرتب کردہ کتاب ہے، اگر پروفیسر صاحب  خود بھی ضمیمہ شاملِ کتاب کر دیں تو کتاب کی حیثیت بدل جائے گی کیونکہ موجودہ "اسلامی ریاست" کو مولانا مودودی کی تائید حاصل ہے، جبکہ ضمیمے والی کتاب کو مولانا مودودی کی تائید حاصل نہ ہوگی۔

چونکہ اس کتاب کے مباحث کی بنیاد، اخلاقی و قانونی کی تقسیم ہے، اسی وجہ سے میرا زیادہ روز اسی تقسیم کی غلطی کو واضح کرنے پر ہے اور میں اس تقسیم کو غلط اس بنیاد پر سمجھتا ہوں کہ نہ تو مولانا مودودی نے اس تقسیم کی طرف کہیں اشارہ کیا ہے اور نہ ہی مولانا نے خود کو ہر حال میں فقہ حنفی کا پابند کہا ہے۔ وہ حنفی فقہ کے ایسے پیروکار نہیں ہیں جیسے مراد صاحب اور ان کے اساتذہ ہیں۔ مولانا مودودی ایسے حنفی نہیں ہیں جو حنفی آرا کو ہر حال میں درست سمجھتے ہیں اور اپنے اوپر کسی اجتہادی رائے کو حرام کر دیتے ہیں۔ وہ حنفی فقہ کو ایک کل کے طور پر تو اپنے لیے  حد سمجھتے ہیں لیکن جزئیات میں اختلاف بھی کرتے ہیں اور حنفی آرا سے مختلف رائے بھی دیتے ہیں۔

اس کتاب میں مراد صاحب کا جو کام لائق تعریف ہو سکتا ہے اس کو بھی انہوں مذکورہ تقسیم میں صَرف کرکے اپنا نقصان کیا ہے ورنہ  اس تقسیم کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو بہت سارا کام بہت مفید اور لائق تحسین بھی ہے۔

اس بحث کو کئی طرح سے مزید پھیلایا جا سکتا ہے۔ مثلاً تعارض کو رفع کرنے کے لیے تقسیم کی بجائے تطبیق کا طریقہ استعمال کیا جائے۔ دونوں آرا کے درمیان بُعد کو تحریکی اور نئے اجتہادی مزاج کے ذریعے کم کرنے کی کوشش کی جائے۔ صاحب کتاب فرماتے ہیں کہ کسی ایک کتاب کی بنا پر مولانا کے حوالے سے کوئی رائے متعین کر دینا درست نہیں۔ ظاہر ہے ان کی یہ بات بالکل درست ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ اس رویے کی بھی مذمت ہونی چاہیے کہ کوئی سکالر اپنی من پسند بات کو پوری فکرِ مودودی پر حَکم بنا کر رکھ دے، جیسا کہ ڈاکٹر مشتاق صاحب اور ان کے متعلقین سود کے تیسرے ضمیمے کو پوری فکرِ مودودی پر نافذ کر دیتے ہیں۔ ہر بڑے مفکر کے ہاں کہیں کہیں تعارض اور دو یا دو سے زائد مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ مولانا مودودی کی فکر میں بھی اس کا امکان موجود ہے۔ لیکن بہرحال یہ اصول طے ہونے چاہییں کہ آدمی کس رائے کو کس بنا پر ترجیح دے گا۔ اگر یہ طے نہ ہو یا ترجیحات کا کوئی تعین مفکر کی فکر سے براہ راست نہ نکلتا ہو تو اپنی پسند ناپسند کی بنیاد پر آرا میں ترجیحات کا تعین غلط قرار پائے گا۔

کتاب پر تبصروں کی روایت میں یہ بھی شامل ہے کہ طباعت پر بھی بات ہو۔ یہ کتاب پہلی نظر میں پرکشش لگتی ہے ، کتاب کی کٹنگ اور بائنڈنگ بہت اچھی ہے۔ کچھ چیزیں ایسی بھی  نظر آئی ہیں کہ اگر ان پر مزید محنت کی جاتی تو بہتر سے بہترین کا سفر طے ہو جاتا۔ میرے پاس جو کاپی ہے اس میں صفحات مختلف رنگوں کے لگے ہوئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کاغذ کی کوالٹی بھی مختلف ہے۔ اندرونی صفحات میں کتاب کا عنوان، کتاب کے عام خط سے مختلف ہے، جو بھلا نہیں لگتا۔ یہ خوبی قابل داد ہے کہ پروف کی غلطیاں بہت ہی کم ہیں۔ ایک خرابی ایسی بھی ہے جس کا شمار بڑی غلطیوں میں ہوتا ہے۔ میں نے جگہ جگہ نوٹ کیا ہے کہ ربط کی بہت کمی ہے۔ کہیں کہیں ایسا تاثر ملتا ہے کہ اقتباس مکمل نہیں ہوا اور اس  کا کچھ حصہ پرنٹ ہونے سے رہ گیا ہے۔ باب سوم میں فساد کی بحث کے فوراً بعد حرابہ کی بحث اس طرح چل پڑتی ہے کہ قاری ذہنی طور تیار نہیں ہوتا اور ربط کا  کوئی جملہ تک موجود نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ درمیان میں کچھ صفحات پرنٹ یا بائنڈ ہونے سے رہ گئے ہیں۔ باب اول میں بعض جملوں کی تکرار بھی طبیعت کو بوجھل کر دیتی ہے۔


ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے بنیادی افکار

محمد یونس قاسمی

ڈاکٹر فضل الرحمان 21 ستمبر 1919 کو پاکستان میں پیدا ہوئے۔ حفظ قرآن اور دیگر ابتدائی تعلیم  اپنے گھر اورمقامی سکول سے حاصل کی۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے عربی  ادب میں امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ آکسفرڈ یونیورسٹی  میں  Avecena's Psychology  پر شاندار مقالہ لکھا  جس پر انہیں  1949 میں  ڈی فل  کی ڈگری  سے نوازا گیا۔ وہ 1950-1958 تک ڈرہم یونیورسٹی میں فارسی زبان  اور اسلامی فلسفہ کے استاذ رہے۔ 1958 میں وہ مونٹریال کی میک گل یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر ہوئے، جہاں وہ 1961 تک  علمی خدمات انجام دیتے رہے۔

1962 میں انہیں پاکستان میں سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ ( موجودہ ادارہ تحقیقات اسلامی ) کا ڈائریکٹرجنرل  نامزد کیا گیا جہاں انہوں نے 1968 تک  اسلام کو اس کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے عقلی اور لبرل انداز میں بیان کرنے، عالمگیر بھائی چارے، برداشت اور سماجی انصاف جیسے اسلامی اصولوں پر زور دینے، جدید دنیا کی فکری و سائنسی ترقی میں اسلام کے متحرک کردار کوسامنے لانے، سائنس ، ثقافت اور فکر ونظر کے شعبوں میں اسلام کی خدمات پر تحقیق کو فروغ دینے اور اسلامی تاریخ ، فلسفہ ، قانون اور فقہ میں تحقیق کا دائرہ بڑھانے جیسے اہم امور  کے حوالے سے خدمات انجام دیں۔  1969 میں انہیں شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی فکر کا پروفیسر مقرر کیا گیا اور 1987 میں شکاگو یونیورسٹی نے پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو  ان کی شاندار علمی  شراکت کے اعتراف میں  ہیرالڈ ایچ سوئفٹ کے  اعزاز سے نوازا۔ 26 جولائی 1988 کو پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن دل کی سرجری کی پیچیدگیوں  کے باعث 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔

پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمن کا کام چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ انہوں نے دس کتابیں لکھیں،درجنوں جرائد کے لیے مقالات لکھے،بہت سارے انسائیکلوپیڈیا کے لیے مضامین اور کئی کتابوں کے جائزے (Book reviews)لیے۔اس سارے کام کو دیکھتے ہوئے  ان کے فکری فریم ورک کو چار چیزوں میں تقسیم کرکے سمجھا جاسکتا ہے۔

1. قرآن کریم کی آفاقیت

2. تصور سنت اور تصور اجماع

 3. روایتی تعبیرات سے اختلاف  اور

 4. حدیث سے متعلق موقف

ہم ذیل میں انہی چار عنوانات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

1. قرآن کریم کی آفاقیت

قرآن  کریم کے  بارے میں پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا بنیادی تھیسز یہ ہے کہ اس کتاب کو ایک اکائی کے طور پر کبھی پڑھاگیا  نہ سمجھا گیا ہے۔ اکثر یہی ہوتا آیا ہے کہ اس کی آیات کو الگ الگ کرکے ان کا ترجمہ و تشریح کی گئی ہے جس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مختلف موضوعات مثلاً خدا، انسان، معاشرے اور یوم آخرت  وغیرہ کے بارے میں قرآن کا مجموعی نقطہ نظر کیا ہے اور اس ضمن میں  اس کی ہدایات اور تعلیمات کا باہمی ربط  کیسے بنتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ اس طرح کے امتزاجی ( (Syntheticمطالعے کے بغیر کوئی بھی شخص اپنے اندر قرآن کا صحیح ذوق پیدا نہیں کرسکتا۔

ڈاکٹر صاحب کے خیال میں قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے قرآن کے مضامین و مندرجات کا گہرا مطالعہ کرکے انہیں آج کی صورت حال میں اس طرح پیش کیا جانا چاہیے کہ قرآن کا اصل مقصد پوری وضاحت کے ساتھ سامنے آجائے۔ یہودی اور عیسائیوں نے یہ کام اس لیے نہیں کیا کہ وہ ہمیشہ یہ کام کرتے ہوئے قرآن کو یہودیت یا عیسائیت کی بازگشت قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں نے یہ کام اس لیے نہیں کیا کہ انہیں یہ کام کرتے ہوئے روایتی تفسیری ادب سے ہٹ کر بات کرنا پڑتی ہے  ، یوں کوئی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا خیال یہ ہے کہ اب یہ خطرہ مول لینے کا وقت ہے  اس لیے کہ اس کے بغیر قرآن کو آج کی زندگی سے موزوں، برمحل اور  Relevent ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ ان  کا کہنا یہ بھی  ہے کہ قرآن کا مرکزی مطمح نظر اس زمین پر ایک ایسا معاشرتی نظام قائم کرنا ہے، جس کی بنیاد عدل اور اخلاق پر ہو۔ڈاکٹر صاحب کے نزدیک فرد اور معاشرہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔

قرآن جب نازل ہوا تو مکے کی سوسائیٹی میں دوبنیادی خرابیاں بہت نمایاں تھیں اور ان کے اثرات بہت گہرے تھے۔ ایک متعدد بتوں کی پرستش  جس نے معاشرے میں طبقاتی تقسیم پیدا کررکھی تھی۔ دوسرا انسانوں کے درمیان معاشرتی اور اقتصادی تفاوت جس میں ایک طبقہ تاجر پیشہ لوگوں اور امیروں کاتھا جبکہ دوسری طرف بہت غریب اور نادار لوگ تھے جنہیں دووقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے کہ مکی آیات میں جہاں قرآن نے  عربوں کو بہت سے خداؤں کی بجائے ایک خدا کا تصور دیا جو اس دنیا کا خالق ، مالک اور ہرشئے پر قادر ہے، وہیں قرآن معاشرے کے کھاتے پیتے لوگوں اور تاجر پیشہ افراد کی شدید مذمت بھی کرتا ہے کہ وہ اپنا مال سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں اور اسے مستحقین پر خرچ نہیں کرتے۔ قرآن ایسے لوگوں کو جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ اور وعید سناتا ہے۔

جب تک حضور نبی کریم ﷺ مکے میں تھےدولت کی درست تقسیم اور غریبوں پر خرچ کرنے کی نصیحت اور تلقین کی جاتی رہی۔ لیکن مدینہ میں ہجرت کے بعد جب وہاں اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالی گئی  تو ایک طرف ربا کو حرام قرار دیا گیا اور دوسری طرف زکوٰۃ کا نظام قائم کیا گیا۔اس نظام کی بدولت اللہ کا رزق جو پہلے چند لوگوں کے ہاتھوں میں تھا اب غریب اور بے کس لوگوں تک پہنچنے لگا۔ اس کے ساتھ قرآن نے شوریٰ کا نظام متعارف کروایا تاکہ معاشرتی اور انتظامی معاملات کو ٹھیک طرح سے ادا کیا جاسکے۔ پھر قرآن نے باہمی اختلاف اور ایک دوسرے کے خلاف سازش کرنے کی مذمت کی اور مساوات کو معاشرے کا بنیادی  پتھر قرار دیا۔ بعد میں اسلامی قانون کے ماہرین  نے قرآن کے حکم مساوات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسان کے لیے چار طرح کے بنیادی حقوق پر زور دیا: 1۔ زندگی کا حق 2۔ مذہب اختیار کرنے کا حق3۔ روزگار اور جائیداد کی ملکیت کا حق اور 4۔ شخصی عزت و آبرو کا حق۔ یہ وہ حقوق ہیں جن کی حفاظت کسی بھی اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔

پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ قانونی مطالبات اور اخلاقی ہدایات کے درمیان موجود فرق کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم یہ فرق  قائم نہ کرپائے تو قرآنی اصلاحات کو سمجھنےمیں  ایک بنیادی غلطی کے مرتکب ہونگے۔ ان  کا خیال یہ ہے کہ یہ فرق ملحوظ نہ رکھتے ہوئے مسلم فقہی روایت صحیح راستے سے ہٹ چکی ہے۔ اس پر وہ متعدد مثالیں پیش کرتے ہیں۔

ایک زیادہ شادیوں کا مسئلہ  ہے کہ قرآن کا حکم ہے کہ اگر آپ  کو یہ خطرہ ہے کہ یتیم بچیوں کی میراث کا انتظام کرنے میں انصاف نہیں کرسکتے  تو ان میں سے جو پسند ہوں، بے شک دو دو، تین تین  یا چار چار سے نکاح کرلو، لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ایک سے زیادہ بیویوں سے انصاف نہیں کرپاوگے تو پھر ایک ہی کافی  ہے تاکہ تم بے انصافی سے بچ سکو۔ قرآن آگے جاکے مزید کہتا ہے کہ تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں انصاف ہرگز نہیں کرسکو گے۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا یہ ہے کہ اب یہاں فقہاء و مفکرین نے یہ قانونی اجازت تو لے لی ہے کہ دودو ، تین تین یا چار چار سے شادی کرلو  مگر اس کے ساتھ موجود اخلاقی شرط کو خاوند کے ضمیر کے سپرد کردیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا ماننا یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کچھ خاص حالات اور خاص مقاصد کے پیش نظر دی گئی تھی، بلکہ انہوں نے لکھا ہے کہ سچ یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی روایت کو بیک قلم موقوف کرنا ممکن نہیں ، اس لیے ایک اخلاقی شرط عائد کردی گئی تاکہ معاشرہ اخلاقی منزل کی طرف بڑھ سکے۔ یہاں پر ڈاکٹر صاحب غلامی کی مثال پیش کرتے ہیں کہ اس  کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا، قرآن نے اس روایت کو یکلخت ختم نہیں  کیا مگر اس کے ساتھ شرائط عائد کردیں  اور غلام نہ رکھنے ، انہیں آزاد کرنے کی ترغیب دی۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جتنے بھی قانونی یا نیم قانونی احکام وضع کیے جاتے ہیں، ان کے ساتھ ہمیشہ ایک قانونی بنائے منطقی   ہوتی ہے جو سارے معاملے کی روح ہوتی ہے۔  ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے نزدیک  قرآن کے یہ قانونی بنائے منطقی آفاقی اور ابدی ہیں۔  ان قانونی  بنائے منطقی کی بنیاد پر سامنے آنے والے  احکام و قوانین ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے نزدیک تغیر وتبدل کے عمل سے گزرتے  رہتے ہیں۔  وہ کہتے ہیں کہ قوانین و احکام کو حالات کے مطابق اور حالات کے ساتھ ساتھ تغیر پزیر ہونا چاہیے اور یہ کام قرآن کے ماتحت تبھی ممکن ہے جب قرآن کے ظاہری احکام یا الفاظ  کی نہیں بلکہ  نصوص کی علت  اور قانونی بنائے منطقی کی تعمیل کی جائے۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے نزدیک قرآن کریم کے احکام کا بڑی گیرائی کے ساتھ   مطالعہ کرنے اور ان کے تاریخی و سماجی پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ قرآنی احکام کے قانونی بنائے منطقی اور علل کا استخراج پوری ذمہ داری کے ساتھ کیا جاسکے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہی ایک عمل مسلمانوں کا ایک نیا مستقبل تعمیر کرسکتا ہے۔

یہ ایک بنیادی  فریم ورک ہے  جو ڈاکٹر فضل الرحمٰن  نے قرآنی نصوص سے بنایا ہے۔ اس فریم ورک کو عملی طور پر استعمال میں لانے کے لیے  ڈاکٹر فضل الرحمٰن جو منہج اور میتھڈ استعمال کرتے ہیں ، اس میں ڈبل موومنٹ تھیوری کا تصور سامنے آتا ہے، معروضیت اور تاریخیت کی بحث سامنے آتی ہے، اسی میتھڈ کے استعمال سے سنت، حدیث، اجتہاد اور اجماع سے متعلق روایت پسندوں سے مختلف افکار سامنے آتے ہیں۔ انہیں تفصیل سے سمجھنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کی کتاب اسلام، قرآن کے بنیادی موضوعات اور اسلامی منہج فکر کا تاریخی تناظر کا مطالعہ مفید رہے گا۔ہمارے پیش نظر یہاں پروفیسر  ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا تصور سنت اور تصور اجماع  ہے۔

  ڈاکٹر صاحب کے مقالات سے جو ان کا تصور سنت سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ دعوت اسلام کو عملی شکل دینے کے لیے حضور نبی کریم ﷺ کی کی گئی جدوجہد کا نام سنت ہے۔ ان کے مطابق سنت کے بغیر قرآن مجید کو نہیں سمجھا جاسکتا۔یہی وجہ ہے کہ وہ قرآن اور سنت میں تشابک و تلازم کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ حضور نبی کریم ﷺ کے اقوال و افعال، دعوت اور جدوجہد کے تمام پہلو سنت رسول کے زمرے میں آتے ہیں۔ڈاکٹر فضل الرحمن کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کے کسی قول و فعل کو ان کی دعوت اور اسکی عمومی روح سے الگ کرکے نہیں سمجھا جاسکتا۔ ان کے نزدیک سنت کو سمجھنے کے لیے پوری پیغمبرانہ زندگی کو ایک ناقابل تقسیم وحدت کے طور پر پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ سنت میں چونکہ عمل کا تصور مضمر ہے، اس لیے سنت کی تطبیق مختلف احوال میں مختلف طریقوں پر ہوتی رہے گی۔ مختلف احوال میں مختلف طریقوں پر اس کی عملی تطبیق کا  ہوتے رہنا ، سنت کی ماہیت میں داخل ہے۔ اس لیے اس سے سنت کی ناقابل تقسیم وحدت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن احادیث کے تمام مشمولات کو تاریخی طور غیر صحیح قرار نہیں دیتے بلکہ انہیں سنت رسول سے ماخوذ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک دوسری صدی ہجری کے اندر بتدریج ایک مرحلہ ایسا آیا کہ یہ تمام ماخوذات جو سنت رسول سے مستنبط تھے، سلسلہ روایات کے ذریعے خود سنت رسول کے دائرے میں شمار ہونے لگے۔ڈاکٹر فضل الرحمن روایات میں اختلاف اور تضاد کی بنا پر انہیں رسول اللہ ﷺ کے اقوال تو تسلیم نہیں کرتے مگر انہیں دینی حجیت سے خالی بھی نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک مسلمانوں نے یہ روایات خود سے نہیں گھڑیں بلکہ رسول اللہﷺ  کی تعلیمات سے اپنی فہم ودانش کے مطابق انہیں اخذ کیا ہے اور اسی کو وہ ”سنت جاریہ“ قرار دیتے ہیں۔مذکورہ بالا تصور سنت سے یہ معلوم ہوتا ہے  کہ سنت ایک متحرک اور مسلسل متغیر رہنے والا عمل ہے کیونکہ ڈاکٹر فضل الرحمٰن  کے نزدیک  عہد رسالت کے بعد سنّت کا صحیح مفہوم صرف یہی نہیں تھا کہ اس سے مراد خود آنحضرت ﷺ کی سنّت ہی ہو بلکہ سنّت نبویﷺ کی جو توضیح کی جاتی تھی وہ بھی سنّت سمجھی جاتی تھی۔قرآن کے اخلاقی اصولوں کو معاصر حالات سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے ان کی عملی تطبیق کرنا سنت ہے اور یہ سنت کسی  متعین حکم کا نام نہیں  بلکہ سنت کا مطلب سنت جاریہ ہے۔

اب اس آخری مفہوم میں سنّت اجماع امت کے ہم پلہ نظر آتی ہے جو لازمی طور پر ہر دور میں ایک وسعت پذیر طریقہ رہاہے۔  ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا خیال ہے کہ جب حدیث کی تحریک نہایت شدت کے ساتھ چل رہی تھی تو سنّت، اجتہاد اور اجماع کے درمیان جو ایک فطری تعلق تھا وہ ختم ہو گیا تھا۔اجماع بھی کسی حکم کی متعین شکل کو ہمیشہ کے لیے طے نہیں کرتا ، بلکہ سنت کی طرح متغیر اور ارتقا پذیر رہتا ہے۔ اسی سے قرآن کے اخلاقی اصول ہردور کے لیے بامعنی اور متعلق رہتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمٰن جیسے سنت اور اجماع کے تصورات میں اہل روایت سے مختلف ہیں، اسی طرح تصور حدیث پر بھی ان کا   نقطہ نظر مختلف ہے۔ ان کے نزدیک حدیث و سنت کے مابین گہرا ربط پایا جاتا ہے  اور وہ حدیث کو سنت جاریہ کی تحریری شکل قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ احادیث کا بیشتر حصہ در حقیقت قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی سنّت جاریہ ہے، جس کی نسبت انہوں نے اپنے ذاتی اجتہاد سے کام لیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کے نزدیک اس اجتہاد کا نقطہ آغاز فقہا کی اپنی شخصی اور انفرادی رائے تھی لیکن مرور زمانہ کے ساتھ الحاد و بے دینی کے رجحانات، نیز غلات کے خلاف ایک زبردست کشمکش کے بعد اسے اجماع کی سند حاصل ہوگئی یعنی امت کے سواد اعظم نے اسے تسلیم کرکے اس کی پابندی قبول کرلی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیے کہ قرون اولیٰ کی زندہ اور جاری سنّت، حدیث کے آئینہ میں عکس پذیر ہوئی مگر اس فرق کے ساتھ کہ اس میں راویوں کے سلسلہ اسناد کا اضافہ ہوگیا لیکن اس جزوی فرق کے علاوہ ایک اہم اور بنیادی فرق یہ پیدا ہوا کہ جہاں سنّت بڑی حد تک اور بنیادی طور پر عمل سے متعلق تھی، کیوں کہ وہ مسلمانوں کے کردار اور عملی طور و طریق کے معیاروں کا تعین کرتی تھی، وہاں حدیث نہ صرف فقہی اور قانونی معیاروں کے قیام کا ذریعہ بن گئی بلکہ عقائد اور اصول دین پر بھی موثر ہونے لگی۔

 ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے نزدیک احادیث سے تاریخ سازی کا کام لیا جانے لگا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث کی شکل میں معاصرانہ واقعات کو ماضی کی طرف پھیر دیا جانے لگا تاکہ اس کے ذریعہ امت مسلمہ کی زندگی کو ایک مخصو ص روحانی، سیاسی، اور معاشرتی نمونہ پر ڈھالا جاسکے۔ احادیث کے باب میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے امام شافعی کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور ان سے روایت کردہ احادیث میں سے بعض کو بیان کرکے اس پر اپنی تنقید لکھی ہے،  بالخصوص  پیش گوئیوں والی احادیث پر  وہ بہت معترض نظر آتے ہیں۔ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی اس تنقید پر جوابی تنقیدبھی  لکھی گئی جس میں بڑا کام مولانا محمد یوسف بنوری  اور مولانا محمد یوسف لدھیانوی  کاہے ۔ان تنقیدوں کے جواب میں  ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے اپنے نقطہ نظر کو مزید واضح کیا کہ وہ احادیث کا کلیتاً انکار نہیں کررہے بلکہ وہ   احادیث کی جانچ پرکھ میں ”تاریخی تنقید “ اور ”داخلی شہادت“ کا تصور پیش کررہےہیں جس کی مدد سے وہ کسی بھی حدیث کو فرمان نبوی ماننے یا نہ ماننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ان کے نزدیک ”تاریخی تنقید“ اور ”داخلی شہادت“ کا مطلب حدیث کا شان نزول تلاش کرنا ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن ”تاریخی تنقید“ اور ”داخلی شہادت“کے نتیجہ میں اجماع سے متعلق اور بعض دیگر روایات کو رسول اللہ کی طرف منسوب کرنے سے گریز ضرور کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اسکی دینی حجیت کا اقرار بھی کرتے ہیں اور انہیں بنیادی دینی صداقت کی حامل روایات قرار دیتے ہیں۔

معترضین نے ڈاکٹر صاحب کے تصور حدیث کو جوزف شاخت کے تصور حدیث کا چربہ قرار دیا ہے مگر ڈاکٹر صاحب  اور جوزف شاخت میں ایک  بڑا فرق موجود ہے، جس کے نتیجہ میں اگرچہ  وہ دونوں  ایک ہی جگہ کھڑے نظر آتے ہیں مگر فرق ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ جوزف شاخت کلیتاً احادیث کو رسول اللہ ﷺ کے فرامین نہیں مانتے مگر پروفیسرڈاکٹر فضل الرحمٰن احادیث کا  کلیتاً انکار کرنے کی بجائے ان کے ردو قبول کے لیے ایک معیار مقرر کردیتے ہیں۔

(جاری)

قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟

ڈاکٹر عرفان شہزاد کے نقد پر کچھ وضاحتیں

ڈاکٹر محی الدین غازی

راقم کامضمون”قانون دعوت یا دعوت کی حصار بندی؟“ ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ پاکستان کے شمارہ جولائی 2022 میں شائع ہوا۔ اس پر ہمارے دوست ڈاکٹر عرفان شہزاد کا نقد ماہنامہ الشریعہ کے شمارہ ستمبر 2022 میں شائع ہوا۔ یوں تو ہمارا موقف پوری وضاحت کے ساتھ آچکا ہے، اور جو باتیں اس نقد میں کہی گئی ہیں ان کی بھی وضاحت موجود ہے، کیوں کہ ان کے مضمون کا بیشتر حصہ غامدی صاحب کے نکات کا اعادہ ہے۔ تاہم شہزاد صاحب کے اٹھائے گئے کچھ نکات کا جواب دینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

شہزاد صاحب نے ہمارے نقد کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

”غازی صاحب کے نقد کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت دین پوری امت کی ذمہ داری ہے جس پر تفقہ فی الدین یا کسی خاص نسل (ذریت ابراہیم) یا حکومت کی شرائط عائد کرنا، دعوت دین کی حصار بندی کرنا اور اسے عملاً معطل یا غیر مؤثر کرنے کے مترادف ہے۔“

اس کے بعد اس خلاصے پر نقد کرتے ہوئے لکھا ہے:

”غازی صاحب نے دعوت دین کے نازک فریضے کی عمومی فرضیت کے اپنے موقف پر کوئی براہ راست استدلال نہیں کیا۔ انھوں نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کر کے اس کی عمومیت کا تحقق فرض کر لیا ہے۔ حالانکہ یہ اگر کوئی عمومی فرض ہے تو اس کا مستقل اثبات کرنا ضروری ہے۔“

یہاں دو باتیں کہی گئی ہیں:

(۱) دعوت دین کے نازک فریضے کی عمومی فرضیت کے اپنے موقف پر کوئی براہ راست استدلال نہیں کیا۔

(۲) انھوں نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کر کے اس کی عمومیت کا تحقق فرض کر لیا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ دونوں ہی باتیں درست نہیں ہیں۔

(۱) ہم نے دعوت دین کے فریضے کی عمومی فرضیت کے لیے براہ راست قرآن مجید کی ان آیتوں سے استدلال کیا ہے، جو صریح عموم کے ساتھ تمام ایمان والوں کو مخاطب کرتی ہیں۔

(۲) ہم نے دعوت دین کی ذمہ داریوں کی تخصیصات کی نفی کرکے اس کی عمومیت کا تحقق فرض نہیں کیا ہے، بلکہ دعوت دین کی ذمے داری کے عام ہونے کی واضح اور صریح دلیلوں کی بنا پر بے دلیل تخصیصات کی نفی کی ہے۔

ہم اپنی بات دو مثالوں سے واضح کریں گے۔

قرآن کی درج ذیل آیتیں شہادت حق کی ذمے داری بیان کرتی ہیں:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ۔ وَجَاہِدُوا فِیْ اللَّہِ حَقَّ جِہَادِہِ ہُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِّلّةَ أَبِیْکُمْ إِبْرَاہِیْمَ ہُوَ سَمَّاکُمُ الْمُسْلِمیْنَ مِن قَبْلُ وَفِیْ ہَذَا لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاء عَلَی النَّاسِ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیْرُ۔ (الحج: 77، 78)

جب یہاں خطاب صاف صاف یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا سے ہے، تو پھر شہادت حق کی ذمے داری ایمان والوں کی ہوئی، یا صرف بنو اسماعیل کی؟ ان آیتوں میں ارْکَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّکُمْ وَافْعَلُوا الْخَیْرَ بھی آیا ہے، فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَاعْتَصِمُوا بِاللَّہِ بھی آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے احکام تمام اہل ایمان کے لیے ہیں یا صرف بنی اسماعیل کے لیے؟

اسی طرح درج ذیل آیت دعوت الی الخیر، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمے داری بیان کرتی ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُون۔ وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّہِ جَمِیْعاً وَلاَ تَفَرَّقُواْ وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء  فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِہِ إِخْوَاناً وَکُنتُمْ عَلَیَ شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَکُم مِّنْہَا کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمْ آیَاتِہِ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون۔ وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون۔ وَلاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاء ہُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَئکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (آل عمران: 102 – 105)

اور اسی سیاق میں آگے:

کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ وَلَوْ آمَنَ أَہْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خَیْراً لَّہُم مِّنْہُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَکْثَرُہُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (آل عمران: 110)

یہاں بھی خطاب یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ سے ہے، تو یہاں مذکور فرائض کو انجام دینے کی مکلف امت پوری امت مسلمہ ہے، یا صرف بنو اسماعیل؟

قرآن مجید میں تو کہیں ایک بار بھی بنو اسماعیل کا نام نہیں آیا اور یہاں امت کے سب سے بڑے فریضے کو امت سے لے کر بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کردیا جارہا ہے۔

شہادت حق کے فریضے کو بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کردینے کی بنیاد کیا ہے اور اس سے فائدہ کیا ہوگا؟ اس سے قطع نظر، سنگین بات یہ ہے کہ یہ طریقہ استدلال وہاں تک لے جاتا ہے جہاں آدمی یہ کہے کہ قرآن صرف بنو اسماعیل کی ہدایت کے لیے نازل ہوا، امت مسلمہ صرف بنو اسماعیل ہیں اور قرآن کے جملہ احکام بنو اسماعیل کے لیے خاص ہیں۔ بلکہ فریضہ شہادت کو بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کرنے سے زیادہ آسان قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺکو بنو اسماعیل کے ساتھ خاص کردینا ہے۔ ہمارے ان احباب کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ نظریہ سازی اور استدلال کی جو راہ وہ اختیار کر رہے ہیں وہ کہاں تک جاتی ہے۔

اللہ تعالی نے ایسی ہر گمرہی کا دروازہ بند کرنے کے لیے قرآن مجید میں یا ایھا العرب اور یا بنی اسماعیل کے الفاظ استعمال ہی نہیں کیے، بلکہ یا ایھا الناس اور یا ایھا الذین آمنوا کے الفاظ سے خطاب کیا۔

ہم دوبارہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ اہل مکہ اور پھر اہل عرب کی یہ خصوصیت تو ضرور ہے کہ وہ اس دعوت کے پہلے مخاطب اور امت مسلمہ کی عمارت کی پہلی اینٹ تھے۔ لیکن وہ اصل مخاطب یا کل مخاطب نہیں تھے اور وہ کل امت مسلمہ یا اصل امت مسلمہ نہیں تھے۔ دراصل اسی حیثیت میں ابراہیم علیہ السلام اور اہل عرب کے رشتے کو قرآن مجید میں اجاگر کیا گیا ہے۔

شہزاد صاحب لکھتے ہیں:

”غازی صاحب نے سورہ حج کی آیت 41 تمکین فی الارض کو بغیر حکومت کے کسی جگہ مسلمانوں کے امن و سکون سے رہنے کے معنی میں بھی لیا ہے۔ یہ معنی لینا کسی طرح درست نہیں۔ یہ آیت ہجرت مدینہ کے بعد ان آیات کے تناظر میں نازل ہوئی ہے جن میں جہاد اور معابد کے دفاع کا مضمون بیان ہوا ہے۔ چنانچہ تمکین فی الارض سے بغیر حکومت اور اختیار کے کسی جگہ مسلمانوں کا محض امن و سکون سے رہنا مراد نہیں لیا جا سکتا۔“

واضح کردیں کہ ہم نے تمکین کا مطلب امن و سکون سے رہنا مراد ہی نہیں لیا۔ بلکہ ہم نے تو یہ کہا کہ یہاں افراد کی صورت میں ارباب اقتدار کی بات نہیں بلکہ پوری امت کو غلبہ وتمکین حاصل ہونے کی بات ہورہی ہے۔ ہمارے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:

”دوسری آیت میں افراد کو اقتدار دینے کی بات نہیں ہورہی ہے بلکہ امت کو غلبہ وتمکین دینے کی بات ہے، کہ جب ایمان والوں کو کسی علاقے میں دین پر عمل کرنے کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اپنا یہ فرض بھول نہیں جاتے ہیں، بلکہ تن دہی سے ادا کرتے ہیں۔چناں چہ ان فرائض میں زکوٰۃ وصول کرنا نہیں بلکہ زکوٰۃ ادا کرنے کا ذکر ہے۔ ان تعلیمات کی روشن عملی مثال عہد رسالت ہی میں سامنے آگئی تھی۔ اہل ایمان کو مدینہ میں تمکین حاصل ہوئی اور انھوں نے یعنی تمام اہل ایمان نے ان فرائض کو وہاں بحسن وخوبی انجام دیا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت انھی لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنھیں اپنے گھروں سے نکالا گیا اور انھیں مدینے میں ٹھکانا حاصل ہوا۔ اور پھر یہ لوگ رہتی دنیا تک تمام اہل ایمان کے لیے نمونہ بنے۔“

ہماری اس تفسیر کی تائید قرآن خود کرتا ہے، یہاں کہا گیا:

الَّذِیْنَ إِن مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاۃ وَآتَوُا الزَّکَاۃ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہَوْا عَنِ الْمُنکَرِ وَلِلَّہِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ۔ (الحج: 41)

”یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے“۔(جالندھری)

دوسری جگہ کہا گیا:

أَلَمْ یَرَوْاْ کَمْ أَہْلَکْنَا مِن قَبْلِہِم مِّن قَرْنٍ مَّکَّنَّاہُمْ فِیْ الأَرْضِ مَا لَمْ نُمَکِّن لَّکُمْ۔ (الانعام: 6)

”کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی امتوں کو ہلاک کر دیا جن کے پاؤں ملک میں ایسے جما دیئے تھے کہ تمہارے پاؤں بھی ایسے نہیں جمائے“۔ (جالندھری)

تیسری جگہ کہا گیا:

وَلَقَدْ مَکَّنَّاکُمْ فِیْ الأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ قَلِیْلاً مَّا تَشْکُرُون۔ (الاعراف: 10)

”اور ہم ہی نے زمین میں تمہارا ٹھکانہ بنایا اور اس میں تمہارے لیے سامان معشیت پیدا کیے۔ (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو“۔(جالندھری)

قوم عاد کے سلسلے میں کہا گیا:

وَلَقَدْ مَکَّنَّاہُمْ فِیْمَا إِن مَّکَّنَّاکُمْ فِیْہِ وَجَعَلْنَا لَہُمْ سَمْعاً وَأَبْصَاراً وَأَفْئِدَۃً۔ (الاحقاف: 26)

”اور ہم نے ان کو ایسے مقدور دیے تھے جو تم لوگوں کو نہیں دیے اور انہیں کان اور آنکھیں اور دل دیے تھے“۔ (جالندھری)

گویا قرآن میں تمکین جہاں بھی جمع کے صیغے میں آیا ہے، پوری قوم کا غلبہ مراد ہے اور غلبہ سے وابستہ پوری قوم کی ذمے داری مراد ہے۔ جہاں تمکین واحد کے صیغے میں آیا وہاں فرد کا اقتدار اور اس سے وابستہ ذمے داری مراد ہے۔ جیسے ذوالقرنین کے بارے میں کہا: إِنَّا مَکَّنَّا لَہُ فِیْ الْأَرْضِ وَآتَیْْنَاہُ مِن کُلِّ شَیْْء ٍ سَبَباً (الکہف: 84) یا یوسف علیہ السلام کے بارے میں کہا: وَکَذَلِکَ مَکَّنِّا لِیُوسُفَ فِیْ الأَرْضِ (یوسف: 56)

شہزاد صاحب کہتے ہیں:

”غازی صاحب دعوت دین کی ذمہ داری ہر مسلمان فرد پر عائد کرتے ہیں اور استدلال میں "یا ایھا الذین آمنوا" اور "یا ایھا الناس" کے عمومی خطابات کو پیش کیا ہے کہ دین کے مخاطب بلا واسطہ اور بالواسطہ تمام لوگ ہیں اس لیے دعوت دین کی ذمہ داری بھی تمام لوگوں کی ہے۔ دعوت دین کی ذمہ داری کی عمومیت ثابت کرنے کے لیے یہ کوئی استدلال نہیں ہے۔ دین کی دعوت تو ہر ایک کے لیے ہے، مگر دین کی دعوت دینے کی ذمہ داری بھی کیا ہر ایک پر عائد ہوتی ہے؟ یہ استدلال تو یہاں نہیں ہو سکتا۔ کیا جہاد کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ کیا حج کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے؟ بلکہ دین کا ہر ہر حکم ادا کرنا کیا سب مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتا ہے یا وہ اپنی شرائط کے پورا ہونے کے بعد افراد پر لاگو ہوتا ہے؟ شریعت کے اس عمومی قاعدے سے دعوت دین کو استثنا دینے پر اصرار کیوں ہے؟“

یہاں شہزاد صاحب عجیب باتیں کہہ گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز پڑھنا، زکات دینا، جہاد کرنا، حج کرنا اور دین کے تمام عمومی احکام کی تعمیل کرنا ہر مسلمان کی ذمے داری ہے۔ البتہ وجوب اور صحت کی شرطیں ہیں جن سے ان احکام کی عمومیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ شرطیں متغیر ہوتی ہیں، کبھی کسی فرد پر پوری ہوسکتی ہیں، اور کبھی اسی فرد پرپوری ہوجاتی ہیں۔ ایک شخص آج صاحب استطاعت نہیں ہے تو اس پر حج فرض نہیں ہے، کل صاحب استطاعت ہوجائے گا تو حج فرض ہوجائے گا۔ بہرحال حج کی فرضیت کا خطاب عمومی طور پر سب مسلمانوں سے رہے گا۔ قانون حج میں وجوب اور صحت کی ان شرطوں کو بتایا جائے گا۔ اسی طرح قانون دعوت میں بھی وجوب اور صحت کی شرطوں کو تو بتایا جائے گا لیکن اس کے عموم کو باقی رکھا جائے گا۔

بالفاظ دیگر اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جس طرح نماز (شرائط کے ساتھ) سب پر فرض ہے اسی طرح دعوت بھی (شرائط کے ساتھ) سب پر فرض ہے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔

ہمیں اعتراض اس پر ہے کہ دین کا ایک عمومی حکم کسی ایک نسل یا قبیلے یا گروہ کے ساتھ خاص کر دیا جائے۔ اس کی نظیر شریعت میں نہیں ملتی ہے۔

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۰)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا پانچواں باب)


توہین آمیز دعوے: ناممکن کو ناممکن رہنے دیں

خیر آبادی کی تنقید کا تجزیہ مکمل کرنے کے لیے میں امکان کذب (یعنی خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان) اور امکان نظیر (خدا کا حضرت محمد ﷺ کی نظیر پیدا کرنے کا امکان) سے متعلق شاہ اسماعیل کے خیالات کی تردید کے لیے ان کے استدلال کے کلیدی پہلوؤں کا نمایاں کرتا ہوں۔ یاد کریں کہ اس سیاق میں شاہ اسماعیل کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ ایسے واقعات کبھی وقوع پذیر نہیں ہوں گے، اور اسی وجہ سے یہ بالواسطہ ناممکن (ممتنع بالغیر) ہیں، تاہم وہ اپنی اصل کے اعتبار سے ناممکن (ممتنع بالذات) نہیں۔ خدا نے کبھی جھوٹ نہیں بولا، نہ کبھی وہ ایک اور محمد کو پیدا کرے گا، لیکن اگر وہ چاہے تو ایسا کر سکتا ہے؛ امکان کبھی وقوع کے اندر داخل نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس خیر آبادی کی نظر میں یہ موقف عقلی ونقلی دونوں اعتبار سے ناقابل دفاع ہے، اور اخلاقی طور پر بھی ناپسندیدہ اور متنازع ہے۔ ایک اور محمد کے امکان کا مطلب ایک اور نبی کا امکان ہے جو قرآن کریم کی نص قطعی کو غلط قرار دینے کا تقاضا کرتا ہے (152 – 153)۔ اس لیے کہ قرآن کی ایک مشہور آیت میں پوری صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے: "محمد تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں؛ (اس کے بجاے) وہ خدا کے رسول اور خاتم النبیین ہیں"1۔

خیر آبادی نے اپنے قارئین اور عوام سے تقاضا کیا کہ وہ شاہ اسماعیل کے دعووں کو ہلکا نہ لیں۔ وہ یہ دعوی نہیں کر رہا کہ کوئی اور ہستی محمد ﷺ کے ساتھ انسانیت میں شریک ہے؛ اس دعوے میں کوئی اعتقادی مسئلہ نہیں اور یہ بمشکل ہی کسی اختلاف کا موضوع بن سکتا ہے۔ خیر آبادی نے شدید تنبیہ کی کہ شاہ  اسماعیل نے یہ نہیں کہا، بلکہ ایک ایسی ہستی کے امکان کا دعوی کیا ہے جو محمد ﷺ کے ساتھ ان کے اوصاف کاملہ، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تمام کمالات میں سب سے اعلی کمال یعنی نبوت میں شریک ہو۔

خیر آبادی نے اپنے قارئین کو خبر دار کیا کہ وہ شاہ اسماعیل کی شعبدہ بازی سے ہوشیار رہیں کہ وہ محض دکھاوے کی خاطر ایک اور محمد کے وقوع کے بجاے صرف امکان کا اثبات کر رہے ہیں۔ شاہ اسماعیل کا اصل مقصد اور زور ایک دوسرے محمد کی پیدائش کے وقوع پر ہے، چاہے وہ اس کے برعکس جس چیز پر بھی اصرار کرے، اور یہ بات اس اسلوب سے واضح ہے جس میں انھوں نے یہ دعوے کیے ہیں۔ خیر آبادی نے بطور خاص اپنے قارئین کو توجہ دلائی کہ وہ اردو کی اس ترکیب "کر ڈالے" کا معنوی جائزہ لیں اور تجزیہ کریں، جو شاہ اسماعیل نے تقویۃ الایمان میں امکانِ نظیر کے لیے استدلال کرتے وقت استعمال کی ہے (اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکمِ کن سے چاہے تو کروڑوں نبی وولی وجن وفرشتے، جبرئیل اور محمد ﷺ کے برابر پیدا کر ڈالے)۔ یہ ایک دل چسپ استدلال تھا جس میں خیر آبادی نے، جو خود فارسی میں لکھ رہے تھے، اردو کے معنوی پہلوؤں پر تحقیق کی ہے۔ خیر آبادی نے واضح کیا کہ اگر شاہ اسماعیل  کا مقصد محمد کی امکانِ نظیر کا اثبات ہوتا تو وہ اس کے لیے "کر سکے" (یعنی خدا چاہے تو ایسا کر سکے) کی سیدھی اور سادہ تعبیر استعمال کر سکتے تھے (348)۔ "کر ڈالنے" اور "کر سکنے" کے درمیان فرق یہ ہے کہ مؤخر الذکر سے مراد کسی عمل کے شروع کرنے کا امکان ہے، جب کہ اول الذکر کسی عمل کے واقعی سرانجام دینے پر زور دیتا ہے۔

"کر ڈالنے کا مطلب فعل کا واقع کرنا اور وجود میں لانا ہے، نہ کہ اس فعل پر قادر ہونا اور کر سکنا" (معنی "کر ڈالنا" القاء فعل وبوجود آوردن است، نہ قدرت وتوان بر آں) (348)۔

خیر آبادی نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا کہ اگر شاہ اسماعیل کا مقصد خدا کا لاکھوں محمد پیدا کرنے کی قدرت یا امکان کا اثبات ہوتا تو وہ "کر ڈالنا" کے بجاے "کر سکنا" کی تعبیر استعمال کرتے (ترجمۂ قدرت وتوان در زبانِ اردو 'کر سکنا' است نہ 'کر ڈالنا') (348)۔

لیکن خیر آبادی کی نظر میں معنوی مسائل شاہ اسماعیل کے سراسر گمراہ کن اور خطرناک آرا کا صرف ایک پہلو تھے۔ اس سے زیادہ خطرے کی بات یہ تھی کہ شاہ اسماعیل نے قرآنی آیات سے جس انداز میں خدا کی اس قدرت کا اثبات کیا کہ وہ جان دار اور بے جان ہستیوں کو صرف لفظ "ہوجا!" (القرآن 3 : 59؛ 36 : 81 – 82) سے پیدا کر سکتا ہے، وہ انتہائی ناقص تھا۔ اس تفسیری نکتے میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ اس کا اطلاق محمد ﷺ کی ذات پر نہیں ہو سکتا۔ علاوہ ازیں خیر آبادی نے اصرار کیا  کہ شاہ اسماعیل کا استدلال صرف اس صورت میں درست مانا جا سکتا ہے جب ان قرآنی آیات کو ان کے اپنے سیاق سے مکمل کاٹ کر مطالعہ کیا جائے۔ مثلاً‌ اس آیت کو لیجیے جسے شاہ اسماعیل نے اپنے استدلال میں پیش کیا ہے: "بھلا جس ذات نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا،  وہ اس بات پر قادر نہیں کہ ان جیسوں کو (دوبارہ) پیدا کر سکے؟ کیوں نہیں! جب کہ وہ سب کچھ پیدا کرنے کی پوری مہارت رکھتا ہے۔ اس کا معاملہ تو یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لے تو صرف اتنا کہتا ہے کہ: 'ہو جا' بس وہ ہو جاتی ہے"2۔

اس آیت کو اپنے لیے استدلال میں پیش کرتے وقت شاہ اسماعیل کی علمی ناکامی یہ ہے کہ ان کو یہ پتا نہیں چلا کہ اس کے مخاطبین کون ہیں۔ خیر آبادی نے شاہ اسماعیل کو سمجھایا کہ  اس آیت کے اصل مخاطبین وہ ضدی کافر ہیں جو آخرت کا انکار کرتے تھے، اور خدا کی اس قدرت کی تردید کرتے تھے کہ وہ روز قیامت کو انسانی جسم اور ہڈیوں کو دوبارہ جوڑ کر پیدا کر سکتا ہے۔ جیسا کہ اس سے چند آیات پہلے مذکور ہے، کفار مذاق اڑاتے ہوئے پوچھتے تھے: "کون ہڈیوں کو (از سرِ نو) زندہ کر سکتا ہے، جب وہ ریزہ ریزہ ہو چکی ہوں؟" (من يحي العظام وهي رميم)3۔ مذکورہ آیت اس اعتراض کا جواب تھا۔ اگر خدا زمین وآسمان جیسی بڑی اور طاقتور مخلوقات کو پیدا کر سکتا ہے تو وہ معمولی اور حقیر انسانی جسموں، ہڈیوں اور اعضا کو کیوں از سرِ نو پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھ سکتا؟ (پس مدلولِ آیت تصحیح قدرت بر اعادۂ ابدان ورفع استبعادِ منکران است") (364)۔ خیر آبادی نے زور دے کر بتایا کہ "ان کی طرح (مثلھم) کی تعبیر"سے انسانی جسم کی کمزوری اور حقارت کی طرف اشارہ ہے" (مراد از مثال در ایں جا مثال است در اجزاے بدنی۔۔ مثال در کوتاہی وحقارت است) (364)۔ اس لیے اس میں جامع الکمالات نبی اکرم ﷺ کی نظیر کی طرف ایک خفیف اشارہ بھی نہیں۔

"مثل سے مراد یہ نہیں کہ وہ تمام کمالات میں مماثل ہو، کیوں کہ حشر جسمانی اور اعادۂ ابدان سے، تمام کمالات میں مماثل ہونا کسی طرح تعلق اور مناسبت نہیں رکھتا" (ذکر مثال در جامعِ کمالات از بیانِ حشرِ جسمانی واعادۂ ابدان بوجہے تعلق ومناسب ندارد) (364 – 65)۔ ایسی قرآنی آیت پیش کرنا جو اول الذکر معنی میں ہو، اور اس سے مؤخر الذکر معنی کے لیے استدلال کرنا کسی بھی عالم فاضل کی شان سے بعید ہے۔ خیر آبادی نے نتیجہ نکالتے ہوئے کہا  کہ قرآنی آیت کی ایسی انوکھی تفسیر شاہ اسماعیل جیسے بیان ومعانی کے عالمِ یگانہ کی تفسیر دانی کی دلیل ہے!

خیر آبادی کے تجزیے کے مطابق علم تفسیر میں شاہ اسماعیل کی نارسائی کی ایک اور دلیل امکان نظیر کے لیے درج ذیل قرآنی آیت سے استدلال ہے: "اللہ کے ہاں اسماعیل کی مثال آدم علیہ السلام کی ہے۔ اس نے اسے مٹی سے پیدا کیا، پھر اسے کہا 'ہو جا' سو وہ ہو گیا"4۔  خیر آبادی کی نظر میں، شاہ اسماعیل گذشتہ مثال کی طرح  یہاں بھی قیاس مع الفارق سے کام لے رہا تھے۔ بن باپ کے پیدا ہونے میں مسیح اور آدم علیہما السلام کے درمیان جو مماثلت ہے، اس کا انطباق نبی اکرم ﷺ کی دوبارہ تخلیق (امکانِ نظیر) پر نہیں ہو سکتا۔ خیر آبادی نے واضح کیا کہ شاہ اسماعیل کے استدلال میں بنیادی نقص یہ ہے کہ وہ اوصاف کی مختلف قسموں کو درخورِ اعتنا سمجھنے میں ناکام رہے۔

انھوں نے اپنے قارئین کو متوجہ کیا کہ اوصاف دو قسم کے ہیں: وہ جن کا دو چیزوں کے درمیان اشتراک ممکن (ممکن الاشتراک) ہو، اور وہ جو ممکن الاشتراک نہ ہوں (366)۔ حضرت آدم اور حضرت عیسی علیہما السلام دونوں کی باپ کے بغیر پیدائش پہلی قسم کے اوصاف میں سے ہے۔ بغیر باپ کے آدم علیہ السلام کی پیدائش عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس وصف میں شرکت سے مانع نہیں۔ تاہم اس کے برعکس حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت ایک ایسا وصف ہے جس سے متصف ہونا اس بات کو مستلزم ہے کہ کوئی دوسرا فرد اس صفت سے متصف نہ ہو۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پر شاہ اسماعیل کا قیاس اور نتیجتاً ان کا استدلال مکمل طور پر باطل ہو جاتا ہے۔

اس مقدمے کو قابل سماعت بنانے کے لیے، خیر آبادی نے تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ شاہ اسماعیل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے وہ حضور ﷺ کے تمام اوصاف کو پہلی قسم سے ثابت کریں جن کا اشتراک ممکن ہو (در صورتِ قابلِ سماعت تواند بود کہ ایں قائل او باثبات رساند کہ جامعِ اوصاف کہ در ذاتِ ستودہ صفاتِ آں حضرت۔۔۔ موجود بودہ اند از قسم اول یعنی ممکن الاشتراک اند) (367)۔ اس سے ایک لاینحل تناقض جنم لیتا ہے۔ اگر محمد ﷺ کی صفتِ ختم نبوت میں ان کے ساتھ کوئی شریک ہو سکتا ہے تو پھر یہ ختم نبوت ہے ہی نہیں۔ اور اگر ختم نبوت اپنی اصل کے اعتبار سے صرف محمد ﷺ کے ساتھ خاص ہو تو پھر ایک دوسرے محمد کا امکان  موجود ہی نہیں۔ شاہ اسماعیل کا استدلال جس طرف  بھی آگے بڑھتا ہے، خم ٹھونک کر اس کا ناطقہ بند کیا جاتا ہے۔

نہیں، خدا جھوٹ نہیں بول سکتا!

خیر آبادی اپنا تجزیہ جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ  بعینہ نظری اصطلاحات کے ذریعے سوچنا وہ بے احتیاطی  اور نالائقی ہے جس نے خدا کے جھوٹ بولنے کے امکان (امکانِ کذب) کے حق میں شاہ اسماعیل کے استدلال کو دور از کار بنا دیا ہے۔ وہ شاہ اسماعیل کے اس استدلال پر بطورِ خاص غضب ناک ہیں کہ اگر خدا جھوٹ بولنے کی قدرت نہیں رکھتا تو پھر انسانی قدرت اس کی قدرت سے بڑھ جائے گی۔ خیر آبادی نے شاہ اسماعیل پر ملامت کی  کہ اس گمراہ کن استدلال میں جس بات پر غور نہیں کیا گیا،  وہ یہ کہ قدرت کی دو قسمیں ہیں: قدرتِ کاملہ جو صرف خدا کے ساتھ خاص ہے، اور قدرتِ ناقصہ جو خدا کی مخلوق کی صفت ہے۔ دوسری قسم جس میں نقص وعیب کے اعمال مثلاً‌ جھوٹ بولنا شامل ہیں، وہ پہلی قسم سے مرتبے میں انتہائی فروتر ہے (بمراتب غیر متناہیہ ناقص است) (354) قدرت کی ان دونوں قسموں میں زمین وآسمان کا فرق اور امتیاز ہے۔

اس لیے اگر انسان کسی نقص مثلاً‌ جھوٹ بولنے کی قدرت رکھتے ہیں اور خدا نہیں رکھتا، تو اس سے کسی بھی صورت میں خدا کی قدرتِ کاملہ کی نفی نہیں ہوتی۔ نہ ہی اس کا یہ مطلب ہے کہ انسانوں کی قدرت خدا کی قدرت سے بڑھ گئی۔ خیر آبادی نے ایک بار پھر شاہ اسماعیل کو سمجھایا کہ  اس کے اثبات کے لیے ضروری ہے کہ  پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ انسانی قدرتِ الٰہی قدرت پر مشتمل ہے۔ "شاید 'زیادہ' کے لفظ کا معنی ان کے خیال شریف میں نہیں آیا ہوگا" خیر آبادی نے طنز بھرے لہجے میں کہا (شاید معنی لفظ 'زیادت' بخیال شریف نگزاشت) (354)۔ خیر آبادی نے واضح کیا  کہ تعبیر وتشریح کی تمام جھنجھٹوں کو تو جانے دیں، صرف یہ سوال اٹھانا کہ خدا جھوٹ بولنے کا قبیح اور شرم ناک فعل سر انجام دے سکتا ہے،  شاہ اسماعیل کے دماغ میں موجود زہریلے خیالات پر دلالت کرتا ہے۔ "وہ (اسماعیل) تسلیم کرتا ہے کہ جھوٹ بولنا ایک شرم ناک نقص ہے، پھر بھی اسے خدا کی طرف جھوٹ بولنے کے امکان کی نسبت کرنے میں کوئی باک نہیں۔ اس سے صاف طور پر واضح ہوتا ہے کہ وہ خدا کے ناقص اور عیب دار ہونے پر راضی ہے" (352)۔

خیر آبادی کی نظر میں شاہ اسماعیل کی طرف سے ارادی طور پر ایسے گستاخانہ استدلالات بغیر کسی شک وشبہہ کے یہ ثابت کرتے ہیں کہ محمد ﷺ، دیگر انبیا، فرشتوں اور اولیا کے متعلق ان کے توہین آمیز بیانات ایک گرما گرم مباحثے میں کوئی جذباتی ردعمل نہیں۔  اس کے بجاے ان بیانات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصل عقیدہ کیا ہے۔ وہ شخص جس کے گستاخانہ بیانات کے ہتھوڑے سے خدا کی ذات تک محفوظ نہیں، اس سے کیا بعید ہے کہ وہ خدا کی مخلوق بشمول نبی ﷺ کی گستاخی کرے، خیر آبادی نے نتیجہ اخذ کیا۔

خبر لیجیے دہن بگڑا

خیر آبادی کو شاید شاہ اسماعیل کی بدنامِ زمانہ گستاخیوں سے کہیں زیادہ ان تعبیرات اور عوام پر ان کے ممکنہ اثرات سے مسئلہ تھا جن کے ذریعے شاہ اسماعیل نے اپنی ان آرا کے لیے استدلال کیا تھا۔ اس منہاج میں تعبیر کا سوال بھی کلیدی تھا جس نے خیر آبادی کی تنقید کو ان کے سیاسی الہیات سے جوڑا۔  تقویۃ الایمان میں حضور ﷺ سے متعلق شاہ اسماعیل کے مفروضہ دعووں کو حضور ﷺ کی شان میں گستاخی ثابت کرنے کے لیے خیر آبادی نے چند اثر انگیز نکات کا ایک مجموعہ پیش کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس بات کا انحصار کہ کون سا کلام گستاخانہ یا توہین آمیز ہے، اس کلام کے سچ یا جھوٹ ہونے پر نہیں بلکہ اس کلام کے متکلم اور تناظر پر ہے۔

اس نکتے کی وضاحت کرتے ہوئے خیر آبادی ایک بار پھر شاہی دربار کی منظر کشی کرتے ہیں۔ انھوں نے ایک فرضی مثال پیش کی کہ سوچو، اگر ایک بادشاہ اپنی شان وشوکت کے اظہار کے لیے اپنے دربار کے انتہائی مقرب اور مکرم وزیر اعظم سے کہے: "اگر میں چاہوں تو تم سے وزارت چھین لوں، رعایا کے کسی معمولی آدمی کو تمھارے منصب پر فائز کردوں، اور تمھیں جیل بھیج دوں، یا تمھیں تختۂ دار پر لٹکا دوں"۔ باوجودیکہ یہ الفاظ کافی سخت ہیں، پھر بھی ایک طاقت ور بادشاہ کی زبان سے یہ کلام وزیر کی شان میں تخفیف نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی معمولی سپاہی یہ کہے کہ اگر بادشاہ چاہے تو وہ یہ سب کام سر انجام دے سکتا ہے تو یہ ایک معزز وزیر کی انتہائی تذلیل ہے (370)۔

اسی طرح الہیاتی دائرے میں وہ قرآنی آیات جن میں آپ ﷺ کی انسانی حیثیت کو اس طرح واضح کیا گیا ہے جیسے: "میں تمھاری طرح ایک انسان ہوں" (القرآن 18 : 110) حضور ﷺ کی عظمتِ شان کے منافی نہیں (371)۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ خدا کا کلام ہے۔ لیکن حضور ﷺ کی امت کے ایک معمولی فرد کو ان الفاظ کے کہنے کا حق حاصل نہیں؛ اور ایسا کرنا حضور ﷺ کی توہین کے مترادف ہوگا۔  ایک ممکنہ اعتراض کے اٹھنے سے پہلے اس کا جواب دیتے ہوئے خیر آبادی نے واضح کیا کہ قرآن کریم کی ان آیات کی تلاوت کو گستاخی نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہاں پر ان کا استدلال دل چسپ تھا۔  ایسا اس لیے ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے وقت ایک انسان صرف اللہ تعالیٰ کے کلام کو دہرا رہا ہوتا ہے؛ یہ الفاظ قاری کے اپنے نہیں ہوتے، اور اسی وجہ سے ان میں موجود معانی کے لیے وہ جواب دہ بھی نہیں ہوتا (372)۔ لیکن قصداً ایسے جملے کہنا کہ "خدا کئی لاکھ نئے محمد پیدا کر ڈالے" سراسر ان آداب کے خلاف ہے جنھیں حضور ﷺ سے متعلق کسی قسم کی گفتگو میں برتنا ضروری ہے۔

خیر آبادی نے بات سمیٹتے ہوئے کہا کہ شاہ اسماعیل نے پوری ڈھٹائی سے حضور ﷺ کی شان میں بے ادبی اور گستاخی کی ہے۔ علاوہ ازیں اس نے ایسے مبہم اعتقادی چیستان جیسے "ممتنع بالذات" اور "ممتنع بالغیر" کے تصورات جنھیں صرف خواص اہل علم سمجھ سکتے ہیں، بنا کر عوام کو الجھن میں ڈال دیا ہے۔ خیر آبادی کی نظر میں اگر شاہ اسماعیل کے دلائل مکمل طور پر مضبوط اور درست بھی ہوں، تب بھی انھیں خواص اہل علم کے بجاے عامۃ الناس کے سامنے پیش کرنا ان میں فکری انتشار اور الجھن کے بیج بوئے گا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ خیر آبادی کو تقویۃ الایمان کی زبان، مثالوں اور عام فہم اردو سے سخت چڑ تھی۔ وہ حسرت آمیز انداز میں لکھتے ہیں: "اسماعیل کو کیا ضرورت تھی کہ اپنی کتاب عام فہم زبان میں لکھتے؟ اور توحید کے اثبات کے لیے کیا لاکھوں دوسرے محمد پیدا کرنے کے امکان کے علاوہ کوئی اور مثال نہیں تھی؟" (445)5۔

شاہ اسماعیل نے اس الزام کا جواب کس طرح دیا ہوگا کہ وہ ایک گستاخ ہیں  جو معصوم عوام کے عقیدے کو خراب کر رہے ہیں؟ جو اشارے انھوں نے چھوڑے ہیں، ان سے واضح ہے کہ انھوں نے اپنی اصلاحی فکر اور جد وجہد کی ایسی خطرناک تصویر کشی سے شدید اختلاف کیا۔ خیر آبادی کی نظر میں جو بات انتشار وافتراق کا سبب تھی، شاہ اسماعیل کے لیے وہ اخلاقی زوال اور شکست وریخت کے ایک تاریخی لمحے میں درکار واضح اور صحیح فکر کی نمائندگی تھی۔ ادب آداب اور مقام نبوت کے نام پر ان حساس اعتقادی مسائل کو عوام کی نظروں سے چھپانے کے بجاے زیادہ دانش مندانہ رویہ یہ ہے کہ ان کو طشت از بام کیا جائے، شاہ اسماعیل نے بتایا۔ بلکہ انھوں نے دعوی کیا کہ ایسا نہ کرنے کی وجہ سے عوام میں الجھن، اضطراب اور بے چینی روز افزوں ہے۔

اس الزم کے جواب میں کہ شاہ اسماعیل نے حضور ﷺ کی گستاخی کی ہے، انھوں نے یک روزہ میں لکھا: "خدا کے ہاں حضور ﷺ کی عبدیت کا اثبات کسی قسم کی بے ادبی یا عوام کو گمراہ کرنا نہیں، بلکہ حضور ﷺ کی عبدیت کا اظہار دین کے حتمی مقاصد میں سے ہے" (تنقیصِ آں جناب بہ نسبتِ حضرتِ حق  اصلاً اساءتِ ادب بآں جناب واضلال عوام نیست، بلکہ اظہارِ عبودیتِ آں جناب است کہ از اتم مقاصدِ دین است6۔ خلاصۂ کلام یہ کہ کون سی چیز گستاخی ہے اور کون سی نہیں، اس سوال کے جواب میں شاہ اسماعیل اور خیر آبادی دونوں کی آرا خدائی حاکمیت، حضور ﷺ کی شخصیت اور رفعتِ شان اور عوام کے روز مرہ اعمال کے حریف تصورات پر مبنی تھیں۔ بالفاظ دیگر آداب کلام سے متعلق ان کا اختلاف ان کے دیگر عمومی اختلافات کی طرح ان کی، متوازی سیاسی الہیات سے متاثر تھا۔

متوازی سیاسی الہیات

اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میں خیر آبادی یا شاہ اسماعیل کے الہیاتی اور سیاسی تصورات کے درمیان سادہ عِلّیت (causality) کا فرق تجویز نہیں کرتا۔ اس کے برعکس میں دینیات اور سیاسیات کو ایسے دو الگ فکری دائروں کے طور پر دیکھنے میں تردد کرتا ہوں، جن میں ایک کو دوسرے کے لیے بآسانی علت قرار دیا جا سکتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ کتاب کے اس حصے میں، میں نے کوشش کی ہے کہ عمومی تصور کے برعکس، سیاست کے عام طور پر نظر انداز کیے گئے ان تصورات کی تحقیق کروں جو خدائی حاکمیت اور نبوی اختیار جیسے بظاہر اعتقادی تصورات پر مرکوز استدلالات کی بنیاد بنتے ہیں۔ میں نے دینیات اور سیاسیات کی علیت کے بجائے معاصرت (synchronicity) کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ اس حصے میں بیان کیا گیا مناظرانہ دور سیاسی الہیات کے دو یکسر حریف بیانیوں کو سامنے لاتا ہے۔

شاہ اسماعیل نے ایک ایسے وسیع تر سیاسی پروگرام کے حصے کے طور پر حضور ﷺ کی بشریت پر زور دیا، جو انفرادی آزادی کے امکان کو خدائی حاکمیت کی مطلق یکتائی (توحید) پر غیر مشروط ایمان سے جوڑتا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی نظر میں استثنا کو قانونی شکل دینے کی قدرتِ الہیہ میں کسی قسم کا خلل پیدا کرنا ناگزیر طور پر اس کی حاکمیت کی یکتائی (توحید) کو کمزور کرتا ہے۔ اس کے برعکس خیر آبادی کے نزدیک ایک ایسے کائناتی درجات ومراتب کا تصور بھی کفر تھا جس کا مرکز حضور ﷺ کی ذات نہ ہو۔ مزید برآں، ان کی نظر میں (قانون سے) استثنا ایک ایسا تحفہ تھا جو بارگاہ الہی میں کسی ہستی کو دیے جانے والے اعزاز کا اعتراف تھا۔ شفاعت کے خدائی تحفے نے ایک معزز وبرتر ہستی کی حیثیت سے حضور ﷺ کے مقام ومرتبے کو محفوظ کیا۔ مزید برآں اسی تحفے نے آخرت میں حضور ﷺ کی رفعت شان کے تسلسل کو یقینی بنایا۔

اس لیے خیر آبادی کی نظر میں شفاعت کا تحفہ چھیننے کی کوئی بھی کوشش ایک ناقابل برداشت اعتقادی خرابی ہے، اور دین کی منطق ومعقولیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانا ہےجو حضور ﷺ کی استثنائی حیثیت کی وجہ سے قائم تھی۔ یہی وہ بنیادی خطرہ تھا جس نے انھیں شاہ اسماعیل کی تکفیر پر مجبور کیا۔ شاہ اسماعیل اور خیر آبادی دونوں کی نظر میں سیاسی اور الہیاتی تصورات ناگزیر طور پر باہم گندھے ہوئے ہیں۔ تاہم ان کے سیاسی الہیات کے دھارے ایک دوسرے کے سراسر مخالف تھے۔

استعماری طاقت اور مقامی اصلاحی تحریکوں کے درمیان تعامل

شفاعتِ نبوی پر فضل حق خیر آبادی اور شاہ محمد اسماعیل کا اختلاف انیسویں صدی کے اوائل کے ہندوستان میں حاکمیت اعلیٰ کی سماجیات کے بارے میں ایک اہم تصویر فراہم کرتا ہے۔ یہ تنازع برصغیر کی سیاسی تاریخ کے ایک مخصوص موڑ پر کھڑا ہوا جب برطانوی استعمار کو عروج اور مغلیہ سلطنت کو زوال ہو رہا تھا۔ جیسا کہ کارل شمٹ نے بتایا ہے، سیاسی اور الہیاتی تصورات ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ گندھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس نے مزید دعویٰ کیا ہے کہ مغربی جدیدیت کے بیانیے کی خصوصیت ایک ایسی سیاسی الہیات کا ظہور ہے، جس میں حاکمیت کا مرکز جدید شہری کی ذات کو منتقل ہوا۔ علاوہ ازیں اس نئے سیاسی عقیدے میں ایک ایسا عقلی بیانیہ مستور تھا جس نے مذہب کی استثنائی حیثیت پر برتری حاصل کرنے کی کوشش کی، کیونکہ استثنا کو قانونی شکل دینے کے اختیار پر جدید ریاست بتدریج اپنا حق جتا رہی تھی۔

لیکن اس باب میں بیان کردہ مناظرانہ دور کس طرح شمٹ کے سیاسی الہیات کے تصور کے حدود کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ ذرا زیادہ کھل کر بات کی جائے تو  کیا اس اختلاف کو ایک نئے ابھرنے والے جدید سیکولر شعور اور ایک روایتی سماجی تصور کے درمیان کش مکش کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا ہم شاہ اسماعیل کو ایک ایسے مقامی مصلح کی حیثیت سے دیکھ سکتے ہیں جو اپنی سیاسی الٰہیات کے ذریعے ایک جدید عقلی تصور کو فروغ دے رہا تھا، جو توسّل، امتیازات اور مراعات کا ناقد تھا؟ بالفاظِ دیگر کیا خدائی حاکمیت کے لیے بظاہر خطرہ بننے والی رسومات کو ناجائز قرار دینے سے ان کا مقصد برصغیر میں ایک نئی ابھرنے والی، استعمار کی پروردہ پروٹسٹنٹ اسلامی جدیدیت کا اظہار تھا؟ چند وجوہات کی بنیاد پر ان سوالات کا جواب اثبات میں ہے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے، شاہ اسماعیل کا وجودی الہیاتی (ontotheological) فکری منہج ناگزیر طور پرہندوستانی مسلمانوں کی ایسی شناخت کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو عوامی دائرے میں خدائی حاکمیت کی تصدیق کرے۔ اس لیے ان کی ماورائی الہیات کا مرکزی موضوع جس قدر خدا ہے، اسی قدر ایک اصلاح شدہ ہندوستانی فرد کی تشکیل بھی ہے۔ شفاعت نبوی کے خلاف شاہ اسماعیل کا استدلال قوم پرستانہ معنی میں  عوامی حاکمیت کی آب یاری کی دعوت نہیں۔ تاہم ان کے سیاسی الہیات کا مرکزی نکتہ ایک ایسے فرد کی تشکیل ہے  جو خدائی حاکمیت کی یکسر یکتائی کی تصدیق سے خدا کی انتہائی قربت حاصل کرے۔ اس قسم کی وجودی الہیاتی (ontotheological) سیاسی الہیات، حاکمیت کے جدید تصور سے متعلق شمٹ کے بیان سے بالکل ہم آہنگ نظر آتی ہے جہاں: "لوگوں کا ارادہ خدا کے ارادے کے مماثل بن جاتا ہے؛ لوگوں کی آواز ہی میں خدا کی آواز سنائی دیتی ہے"7۔  اٹھارویں اور انیسویں صدی میں امریکا کی تبلیغی  وتبشیری (evangelical) روایت کے مؤرخین مثلاً جان ماڈرن (John Modern) اور مائیکل وارنر (Michael Warner) نے بتایا ہے کہ امریکی سیکولرازم اور اصلاح مذہب کی تاریخ ایک دوسرے سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں8۔

ان مصنفین نے بتایا ہے کہ مذہب کی قدیم صورت پر ایونجیلیکل فرقے کے لوگوں کی تنقید مذہب کی ایک ایسی اخلاقی تفہیم کے لیے شدید اہم تھی، جو داخلی تزکیے اور ماورا (transcendent) کی قربت پر زور دیتی ہو۔ نتیجتاً مذہب کے اس نئے تصور نے اخلاقی اور سیاسی پروجیکٹ کی حیثیت سے سیکولرزم کی سہولت کاری اور فروغ میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سیکولر طاقت اور ایونجیلیکل اصلاح کے درمیان تعلق کے ماڈل کا شاہ اسماعیل کے پروجیکٹ پر بیک وقت انطباق ہو بھی سکتا ہے، اور نہیں بھی۔

ایک طرف شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کی اصلاحی تحریکیں انیسویں صدی کے ہندوستان میں برطانیہ کی متعارف کردہ ٹیکنالوجی اور ادارہ جاتی صورتِ حال کی مرہونِ منت ہیں۔ زبانوں کو عام فہم بنانا، جس کے نتیجے میں اردو ہندوستان کے اہل علم اشرافیہ کے درمیان رابطے کی زبان کے طور پر ابھری، نشر واشاعت میں توسیع، تجارت وابلاغ کے ذرائع کا پھلنا پھولنا، یہ  وہ تمام تغیرات ہیں جنھوں نے شاہ اسماعیل جیسے مسلم مصلحین کی اصلاحی تحریکوں کی نمو وافزائش میں اہم کردار ادا کیا۔ مثلاً تقویۃ الایمان کی اشاعت وترسیل جس پیمانے پر ہوئی، برطانیہ کی متعارف کردہ ٹیکنالوجی سے پہلے اس کا تصور بھی ناممکن تھا9۔ لیکن ان سب کے باوجود مسلم اصلاحی تحریکوں کو استعماری جدیدیت کی پیداوار قرار دینے کی کچھ حدود ہیں جنھیں واضح کرنا فائدے سے خالی نہ ہوگا۔

خدائی حاکمیت کی بحالی کی خواہاں مسلم اصلاحی فکر اور مذہب کے جدید استعماری بیانیوں کے درمیان ایک واضح قربت کا ادراک کوئی مشکل بات نہیں۔یہ دونوں فکری دھارے اس کوشش میں تھے کہ فرد (یا مومن) کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ بغیر کسی توسّل کے براہ راست ایک ماورائی حقیقت (خدا یا اس کے برعکس) تک رسائی حاصل کر سکے۔ ان دونوں کا مقصد ماورا کی اولیت کا تحفظ تھا۔ تاہم اس واضح قربت کا یہ مطلب نہیں کہ ان دونوں دھاروں کے درمیان تعلق تنفیذ (imposition) یا رد عمل کا ہے۔

شاہ اسماعیل کے اصلاحی پروجیکٹ کا مخصوص دھارا اور تصور اگر چہ استعماری طاقت کی پیدا کردہ صورت حال کی مرہون منت ہے، تاہم وہ پروٹسٹنٹ اسلام کے منہاج میں پوری طرح سے ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ برصغیر کی دیگر اصلاحی تحریکوں سے، جو عام طور پر جدید استعماری علم کی پیداوار تصور کی جاتی ہیں، موازنہ کرکے اس نکتے کی تنقیح کی جا سکتی ہے۔

شاید اس نکتے کی سب سے عمدہ مثال استعماری ہندوستان میں سکھ اصلاحی فکر پر اروند منڈیر کی کاوش میں پائی جاتی ہے10۔ ذیل میں میرا مقصد منڈیر کے استدلال سے اختلاف نہیں، بلکہ اس کے برعکس مجھے اس کا تجزیہ انتہائی اطمینان بخش معلوم ہوتا ہے۔ سکھ اصلاحی فکر سے متعلق اس کے منہج پر بحث کرنے کے بجاے میں چاہتا ہوں کہ برصغیر میں استعماری طاقت کے ساتھ مذہبی اصلاح کے تعامل کی متنوع مثالوں کی بنت میں موجود باریک لیکن نمایاں اختلافات کی نشان دہی کروں۔

اس پیچیدہ تجزیے کو آسان الفاظ میں بیان کرنے کے لیے منڈیر رقم طراز ہے کہ سکھوں کی اصلاحی تحریکوں مثلاً سنگھ سبھا (جو 1873 میں قائم ہوئی) نے سکھ مذہب کو ایک عالمی توحیدی مذہب کی حیثیت سے پیش کیا جس کے پاس واضح الہیات ہیں۔ انھوں نے ایسا استعمار کے علمی دھارے کی تقلید اور ردعمل میں کیا جو کسی دین میں قادر مطلق خدا کی عدم موجودگی کو عیب سمجھتا ہے ۔

عالمی مذاہب کی انجمن میں شمولیت کے لیے اس عیب کو دور کرنا ایک بنیادی شرط تھا۔ اس عیب کو دور کرنے کی جستجو میں سنگھ سبھا کے مصلحین نے "سِکھی" کی تبدیلی اور تشکیل نئی سکھ مت (neo-Sikhism) کے جدید مذہب سے کی، جس میں سارا زور قادر مطلق خدا کی ہستی (توحید) پر ہے۔ منڈیر نے اس عمل کے لیے "مذہب سازی" کی اصطلاح استعمال کی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسے انداز میں غالب اور پہلے سے موجود استعماری محاورے کو اپنی روایت کی تشکیلِ نو کے لیے تصرف کیا جائے جو غالب محاورے کے مذہبی تصور سے ہم آہنگی رکھتا ہو۔ تاہم عالمی مذاہب کی انجمن میں، جو مغربی اور مسیحی تصور کی پیداوار ہے، داخلے کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ "مذہب سازی" ان ابہامات اور امکانات کو بھی بے دخل کرتی ہے جو کسی روایت کے ماقبل استعماری ورثے میں موجود ہوتے ہیں11۔

یہاں پر میرے مقصد کے لیے منڈیر کی گفتگو کا سب سے نمایاں پہلو وہ انداز ہے جس میں وہ طاقت کے اس نظام مراتب کو پیش کرتا ہے، جس میں کوئی بھی فکر استعمار سے مستعمر تک آنے کا سفر طے کرتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ استعمار/مستعمر کے تعلق کو استعمار کے محاورے (یا 'پہلے محاورے') اور اس  محاورے کے درمیان جو استعمار سے تعامل کے ذریعے مستعمر تشکیل دیتا ہے، درجات کے فرق کی اصطلاح میں بیان کیا جائے۔ پہلا محاورہ برطانیہ نے فراہم کیا۔ اس میں استعمار کے ادارے، نظریات، زبان اور فکری ورثہ شامل ہے – ہندوستانیات، نسلیات (ethnography) اور مشنری لٹریچر کے ذریعے مقامی روایات پر ان کی تنقید کو فی الحال جانے دیں12۔

درجہ بندی کے اس نظام کے مطابق، یہ استعماری محاورے کے تسلط کا نتیجہ تھا کہ مقامی علمی اشرافیہ کے علمی افکار اور اصلاحی تحریکوں کا تصور وتشکیل ممکن ہوا۔

برصغیر میں انیسویں صدی کے اواخر میں دیگر اصلاحی تحریکوں کے افکار میں بھی مقامی مذہب کی استعماری عقلیت سے ہم آہنگی کی ایسی کئی مثالیں مل جاتی ہیں۔ پس منظر اور مقاصد کے اختلاف کے باوجود یہاں پر براہمو سماج، آریہ سماج، علی گڑھ سکول، اور سنہالی بدھ مصلحین، جن کے لیے گناناتھ اوبیسیکرے (Gananath Obeysekere) نے "پروٹسٹنٹ بدھ ازم" کی اصطلاح استعمال کی ہے، کا ذکر کیا جا سکتا ہے"13۔

باوجودیکہ ان سب تحریکوں میں واضح مشترکات ہیں، شاہ اسماعیل کا معاملہ ان اصلاحی دھاروں سے نسبتاً مختلف ہے۔ شاہ اسماعیل انیسویں صدی کے أواخر سے چند  دہائیاں قبل وفات پا چکے تھے جب یہ اصلاحی دھارے پھلے پھولے۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح رہے کہ ان کی بنیادی تربیت ان تحریکوں کے پیش روؤں کے برعکس، جو یا تو استعماری عہد میں سراپا ڈوب گئے تھے یا انگریزی اداروں کے تعلیم یافتہ تھے، بالکل مختلف انداز میں ہوئی تھی۔ ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس سے یہ ثابت کیا جائے کہ شاہ اسماعیل مذہب کے بارے میں استعماری علوم سے واقف تھے، یا انھوں نے برطانوی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی تھی۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے خدائی حاکمیت کی بحالی کے لیے ان کی کوشش یا توسل پر ان کی تنقید کو جدید استعماری علم کی دین نہیں قرار دیا جا سکتا۔

اس کے بجاے یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ شاہ اسماعیل کا اصلاحی پروگرام مذہب کی ایک جدید پروٹسٹنٹ تفہیم سے مشابہ ہے، لیکن اس کی پیداوار نہیں ہے۔ خدائی حاکمیت پر ان کی فکر مذہبی استناد کے استعماری بیانیوں سے مماثل ہو سکتی ہے، لیکن یہ استعماری فکر کا چربہ نہیں ہے۔ وہ فکری مفروضے اور استدلالات جو اس کے اصلاحی ایجنڈے میں کار فرما تھے، ان پر استعماری طاقت کی طرف سے نہیں تھوپے گئے تھے، اگر چہ اس طاقت نے وہ حالات پیدا کر دیے تھے جو اس ایجنڈے کی اشاعت میں معاون تھے۔

ایک ابھرنے والے استعماری نظام کے حالات نے، جس میں سیاسی اقتدار زوال پذیر تھا،یقیناً شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کی اصلاحی تحریکوں کو ممکن بنایا۔ علاوہ ازیں ایسا بھی نہیں کہ شاہ اسماعیل نے استعماری طاقت سے کوئی اختلاف یا سمجھوتا نہیں کیا۔ انھوں نے یقیناً کیا جس کی سب سے بہترین مثال دلی میں برطانوی ریزیڈنٹ کی جانب سے ان کے خطبات پر بابندی اور بعد ازاں بحالی ہے۔ اس واقعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ شہر میں ایک نئی طاقت موجود تھی۔

تاہم استعمار اور مقامی اصلاحی فکر کے درمیان تعامل پر غور وفکر کے بارے میں مفید ہوگا کہ ایک طرف استعماری طاقت کی پیدا کردہ ٹیکنالوجیکل اور ادارتی صورتِ احوال اور دوسری طرف اس کے علمی کردار کے درمیان امتیاز قائم کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ان دونوں کے درمیان تعلق ہے۔ لیکن یہ امتیاز قائم کرنا شاہ اسماعیل جیسے مصلحین کی اصلاحی فکر کی ایک زیادہ گہری تفہیم کو ممکن بناتا ہے، جس کی اٹھان استعماری طاقت  کی غاصبانہ موجودگی کے باوجود اختلاف کے اس کے علمی غلبے سے متاثر نہ تھی۔

یہ واضح ہے کہ شاہ اسماعیل کے اشتعال انگیز بیانات اور خیر آبادی کی جانب سے ان کے جواب ایک ایسے عہد میں وقوع پذیر ہو رہے تھے جس میں استعماری ریاست بتدریج لیکن یقینی طور پر توسیع پذیر تھی۔ لیکن اخلاقی سوالات اور اضطرابات، جو ان کے استدلالات کی جان تھے، ایک طویل المدت اسلامی فکری روایت کا حصہ تھے، جنھیں مشکل سے ہی جدید پروٹسٹنٹ فکر کی پیداوار یا اس سے ماخوذ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے نئے سیاسی اور ادارتی حالات کو علمی اثرات اور تسلط کے بیانیے سے گڈ مڈ کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ توسل اور قادر مطلق خدا کی ہستی پر زور دینے میں مسلم اصلاحی اور جدید پروٹسٹنٹ تنقید کی ظاہری مشابہت کا مطلب یہ نہیں کہ یہ دونوں تنقیدات ایک جیسی ہیں۔

یہاں پر میں ایک متوقع غلط فہمی کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔ میرے نکتے کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ میں استعماری طاقت کی حدود اور مقامی لوگوں کے کردار کے درمیان کوئی حد فاصل قائم کرنے کی کوشش میں ہوں۔ اس طرز استدلال میں کئی بنیادی فکری پیچیدگیاں ہیں، جسے اروند منڈیر، ڈیوڈ سکاٹ اور اَناندا ابیسیکارا جیسے اہل علم نے اپنے اپنے انداز میں نمایاں کیا ہے14۔ مثلا مستعمَر کے کردار کو صرف استعماری حکومت کے مزاحمت کار یا اس کا تختہ الٹنے والے کی نظر سے دیکھنا طاقت کی ایک سادہ تفہیم پر مبنی ہے جس میں طاقت کو لازماً منفی حیثیت میں دیکھا جاتا ہے، اور اس کے تعمیری کردار سے صرف نظر کیا جاتا ہے۔ مقامیوں کے کردار کے پیچھے پڑنے کا نتیجہ یہ ہے کہ طاقت کے بارے میں میشل فوکو کی زیادہ تر تعلیمات ایک مذاق بن کر رہ جاتی ہیں۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ، جیسا کہ ابیسیکارا نے بہت عمدگی سے واضح کیا ہے، استعماری طاقت کے حدود فرض کرنا اس خام مفروضے کو دوام بخشتا ہے کہ طاقت کی تجرباتی پیمائش ممکن ہے، اور اس لیے ہر کوئی استعمار سے اس پیمائش کے مطابق معاملات طے کر سکتا ہے15۔علاوہ ازیں مقامیوں کے کردار کو استعماری اثر سے الگ کرنے کی خواہش اس مغالطہ آمیز مفروضے پر منحصر ہے کہ " 'اثر' کوئی ایسی چیز ہے، جو کسی کے کردار سے باہر واقع ہوتا ہے، اور یہ کہ کردار 'اثر' پر مقدَّم ہے۔ یہ  ایک ایسا تصور ہے جو استعماریت اور لبرل ازم کے اندر ایک پیچیدہ اور نیا شجرہ رکھتا ہے"16۔ منڈیر نے استعماری طاقت اور مستعمر اشرافیہ کے درمیان تعامل کے مکالماتی یا تعاملاتی (interactionist) ماڈل کی پیچیدہ ساخت پر بھی روشنی ڈالی ہے جو مقامیوں کے کردار کو واضح کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ جیسا کہ اس نے عمدگی سے واضح کیا ہے، ایسا کوئی ماڈل "ابلاغ کے ایک خفیہ ماڈل پر منحصر ہے، جس میں فریقین کے بارے میں یہ فرض کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے آزادانہ گفت وشنید کے قابل ہیں"17۔ دوسرے لفظوں میں مقامی کردار کی کھوج ان شرائط وماحول میں طاقت کی حرکیات کو سمجھنے میں ناکام ہو جاتی ہے، جن میں مقامی مبینہ طور پر استعمار کے ساتھ مکالمے میں داخل ہوتا ہے۔

مجھے مقامی کردار کی بازیافت میں کوئی دل چسپی نہیں۔ یہاں میرا نکتہ کافی الگ ہے۔ میں نے اس حصے میں مذکورہ مناظرانہ دور کے چند مخصوص پہلوؤں کی طرف توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس دور کے مطالعے کے غلط رجحان کی ایک اور مثال کے خلاف متنبہ کروں جس میں مقامی مذہبی فکر اور استعماریت کا ملغوبہ پیش کیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں استعماری طاقت کا اثر ونفوذ ایک نئے دھارے میں ظاہر ہوتا ہے، جسے استعماری تسلط اور مقامی تسلیم ورضا کے مراتب میں نہیں سمویا جا سکتا۔

واضح بات دہرانے کا خطرہ مول لیتے ہوئے عرض ہے کہ مذہب اور استعماری فکر کے درمیان تعامل کے اعتبار سے برصغیر کی اصلاحی تحریکوں نے مختلف شکلیں اختیار کی ہیں۔ ان اصلاحی تحریکوں کے درمیان اختلافات اور تغیرات کو نمایاں کرنا اس لیے مفید ہے کہ کوئی شخص مقامی مذہبی فکر کی علمی بنیادوں کو استعماری تشکیلِ نو کی ایک یکساں سکیم میں شامل نہ کرے۔ اسی وجہ سے مجھے ضروری معلوم ہوا کہ شاہ اسماعیل کے معاملے کی خاص نوعیت پر زور دوں۔ اگر چہ استعماری طاقت سے اس کا میل ملاپ تھا، لیکن میل ملاپ کا یہ انداز منفرد اور خاص تھا۔

ایک بار پھر عرض ہے کہ شاہ اسماعیل کی فکر کے استناد یا اصالت کے دعوے سے میرا مقصد یہ ثابت کرنا نہیں کہ اس کی فکر بالکل استعمار کے زیرِ اثر نہیں۔ میرا مدعا یہ نہیں کہ استعماری طاقت نے مقامی فکر کو متاثر نہیں کیا۔ اس کے بجاے شاہ اسماعیل کی مثال اصلاحی تحریکوں کو اس انداز سے دیکھنے کا امکان فراہم کرتی ہے جس میں نہ تو ان تحریکوں میں مقامی کردار کی باقیات کو تلاش کیا جاتا ہے، نہ ہی انھیں استعماری جدیدیت سے ٹھکرایا جاتا ہے۔ نتیجتاً مقامیوں کے کردار کے پیچھے پڑنا اور مقامی مذہبی فکر کو استعماری طاقت سے جوڑنا دونوں ایک غیر اطمینان بخش سرگرمیاں ہیں۔مقامیوں کے کردار کی تلاش یا مقامی مذہبی فکر کو استعمار سے جوڑنے میں کسی ایک پہلو کو لینے سے ان مناہج، استدلالات اور اختلافات کو زیادہ باریک نظر سے دیکھنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے جو کسی روایت کو تشکیل دینے والی زندگی اور فضیلت کی امتیازی صورتوں کی تشکیل اور ان پر بحث ومباحثے کی بنیاد بنتے ہیں۔ کسی فکری روایت کی شرائط ومقاصد کا ایک باریک جائزہ ہی اس کتاب کے آخری چند ابواب کا موضوع ہے۔

جاتے جاتے عرض ہے کہ شاید یہ وقت ہے کہ ہم تسلسل/انقطاع والے اشکالیے سے آگے نظر دوڑائیں، جو گزشتہ چند دہائیوں سے کافی حد تک برصغیری مطالعات، بالخصوص برصغیری مذاہب پر حاوی ہے ۔ یہاں میں ڈیوڈ اسکاٹ کے دانش مندانہ استفسار سے رہ نمائی لے رہا ہوں، جب وہ یہ سوال اٹھاتا ہے: "کیا کسی منہاج کو معمول پر لانے کا دور بعینہ وہ نہیں ہوتا جس میں انھی سوالات کے پس منظر کی از سر نو تشکیل وتحقیق ضروری ہوتی ہے جن سوالات کے ذریعے وہ پہلی بار وجود میں آیا تھا؟؛ تاکہ یہ سوال اٹھایا جائے کہ کیا وہ اب بھی معمول کے اشکالیے سے متعلق کچھ سنجیدہ جواب فراہم کر رہا ہے جو پہلی بار ابھرنے کے وقت کر رہا تھا"18۔ اسکاٹ کی بات پر غور کرنے سے یہ حیرت ہوتی ہے کہ تسلسل/انقطاع والے اشکالیے کا اب بھی کوئی خاص فائدہ ہے جو پہلے کبھی تھا؟

یہ سوال کہ "کیا استعماری دور ماقبل استعماری دور سے بالکل منقطع ہے یا یہ اس کا تسلسل ہے" ایک طرح سے فرسودہ ہو گیا ہے، اور اس سوال کے جس قسم کے جوابات دیے جاتے ہیں، وہ بھی کئی حوالوں سے طے شدہ ہیں۔ اس سوال کا سب سے واضح جواب تو یہ ہے کہ ہاں، یقیناً ان ادوار میں تسلسل وانقطاع دونوں ہیں۔ اس لیے تسلسل یا انقطاع کے عمومی بیانیے پیش کرنے کے بجاے ہمیں یہ زیادہ بامقصد معلوم ہوتا ہے کہ ایسے نئے اشکالیوں کی کھود کرید اور شناخت کریں جو مخصوص فکری ذخائر سے پیدا ہوئے ہوں۔

حریف سیاسی الہیات کا تصور، جس پر گزشتہ ابواب میں بحث ہو چکی ہے، ایک ایسے ہی نئے اشکالیے کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ قوم پرستانہ سیاست کی راہ داریوں کے بجاے مسلمان کرداروں کے دینی خدشات، جذبات اور مذہبی فکر سے ماخوذ ہے۔ میں مقامی مذہبی فکر کی طرف واپسی کی وکالت نہیں کر رہا۔ میں بس یہی واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ ایک ایسے سوال وجواب کے اشکالیے پر کیوں اصرار کیا جا رہا ہے جس کی وہ سابقہ علمی اہمیت اور فائدہ باقی نہ رہا؟ یہ اصرار ایسے نئے سوالات اٹھانے کے رستے میں رکاوٹ بنتا ہے جو ایک فکری تراث کی بنیاد بننے والی خاص اخلاقی رخوں سے زیادہ ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ میں برصغیری اسلام اور مذاہب کے مطالعے کے لیے ایسے نئے سوالات اور اشکالیوں کی تشکیل کی وکالت کر رہا ہوں جو اہم متون اور سیاقات کے دقیق اور بھرپور مطالعے کے نتیجے میں سامنے آئے ہوں۔ اس طریق کار سے ان تجزیاتی آفاق کی توسیع اور تدقیق توقع ہے جو برصغیری مطالعات کی جان ہیں، خاص طور پر برصغیر کی 'علما' روایت کے تعلق سے۔

بات سمیٹتے ہوئے عرض ہے کہ اس حصے میں، میں نے ان استدلالات اور عقلیات کی تحقیق کی ہے جن کے ذریعے ایک فکری روایت کی حدود پر ایک مخصوص مناقشے میں استنادی طریقے سے بحث کی گئی۔ میں نے انیسویں صدی کے اوائل کے مسلم ہندوستان کے ایک مخصوص مناظرانہ دور پر، جس میں مذہب اور اصلاح کی حدود پر شدید کش مکش جاری تھی، اپنی توجہ مرکوز کرکے اس اندازِ استدلال کو آگے بڑھایا ہے۔ اس کے ساتھ میں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس مناظرانہ دور میں واضح طور پر سامنے آنے والی روایت کے دو حریف تصورات کو روایتی/جدید، صوفی/فقہی، مذہبی/لامذہبی یا آزاد خیال/قدامت پسند جیسے تقابلی خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ یہ مناسب نہیں کہ شاہ اسماعیل اور خیر آبادی کے فکری مباحثوں میں زیر بحث علوم، استدلالات اور مقاصد کے بارے میں بنے بنائے مفروضوں سے لیس ہو کر داخل ہوا جائے۔ روایت اور اس کی حدود سے متعلق ان اہل علم کے تشکیل کردہ حریف بیانیے ان کے مناظرانہ تعامل کی عارضی صورت حال کے اندر قبول کیے گئے۔ ان کے مناقشے کی مخاصمانہ فضا نے انھیں مجبور کیا کہ ایک دوسرے کے استدلال کا سامنا کریں، اور اسے شرعی لحاظ سے کمزور ثابت کریں، جس نے انھیں یہ موقع فراہم کر دیا ہے کہ استنادی انداز میں بتائیں کہ کون سی چیز اسلام ہے اور کون سی نہیں۔ خیر آبادی کے استدلال کی انفرادیت اس امر پر منحصر تھی کہ وہ شاہ اسماعیل کو (مستند اسلامی عقائد) کا ’’مخالف” ثابت کریں، اور یہی حال شاہ اسماعیل کا بھی تھا۔  ان میں سے ہر ایک کی فکری بقا دوسرے کی راے کو غلط یا کم زور ثابت کرنے پر منحصر تھی۔

شاہ اسماعیل اور خیر آبادی کے درمیان شخصی معرکہ 1831 میں شاہ اسماعیل کی وفات پر ختم ہوا۔ تاہم نبوی اختیار پر جو اختلاف انھوں نے شروع کیا تھا، آنے والی دہائیوں میں، جیسے جیسے استعماری حکومت کے قدم مزید مضبوط ہونے لگے، جنگل کی آگ کی طرح پھیلنا شروع ہو گیا۔ اگلے چند ابواب میں، میں انیسویں صدی کے نصفِ آخر کے شمالی ہندوستان میں بین المسلمین اختلافات کے اس دوسرے تناظر پر اپنی توجہ مبذول کرنے جا رہا ہوں۔ موضوعی اعتبار سے اب میں اس باب میں مذکورہ حریف سیاسی الہیات کے تعلق سے روز مرہ کی زندگی میں فقہ اور شرعی عمل کی حریف تفہیمات پر غور کروں گا۔ یاد رکھیں کہ الہیات، قانون اور رسمی اعمال کا تعامل ہی وہ فکری تانا بانا ہے جس سے یہ کتاب بُنی گئی ہے۔

خدائی حاکمیت کی انفرادیت کو ثابت کرنے والے سیاسی الہیات کا اطلاق ایک ایسے فقہی تصور پر کیسے کیا گیا جو روز مرہ کے اعمال کو اس انداز میں منضبط کرتا ہے جس سے اسی حاکمیت کی تصدیق ہوتی ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو پہلے اور دوسرے حصے کے درمیان ربط کی وجہ ہے۔ میں اسلام میں ایک انتہائی اختلافی اصطلاح 'بدعت' پر اپنی توجہ مرکوز رکھ کر اس سوال کا جواب دوں گا ، جو بیک وقت فقہ، عقائد اور روزمرہ کے اعمال سے تعلق رکھتی ہے۔



حواشی

  1. القرآن 33 : 40۔ "ختم/خاتم" کی اصطلاح کی دل چسپ تشریحات اور تغیرات پر ایک عمدہ بحث کے لیے دیکھیے: فرائیڈ مین، Prophecy Continuos.
  2.  القرآن 36 : 81 – 82۔
  3.  القرآن 36 : 78۔
  4.  القرآن 3 : 59۔
  5.  اس جملے کے ساتھ اسماعیل نے تقویۃ الایمان پر اپنے ابتدائی اور مختصر جواب کو ختم کیا ہے۔ یہ متن تحقیق الفتوی کے مطبوعہ نسخے کے آخر میں ظاہر ہوتا ہے۔
  6.  شاہ محمد اسماعیل، یک روزہ (ملتان: فاروقی کتب خانہ، تاریخ اشاعت ندارد)، 25۔
  7.  کارل شمٹ، Political Theology: Four Chapters on the Concept of Sovereignty (کیمبرج، ایم اے: ایم آئی ٹی پریس، 1986)، 44۔
  8. دیکھیے: جان ماڈرن، Secularism in Antebellum America (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2011)، اور مائیکل وارنر، “The Evangelical Public Sphere,”، اے ایس ڈبلیو روزن باخ لیکچرز، یونیورسٹی آف پنسلوینیا، مارچ 2009، http://repository.upenn.edu/rosenbach/2/.
  9.  کتاب کی تاریخ اور خاص طور پر انیسویں صدی کے شمالی ہندوستان میں نشر واشاعت کو کاروبار بنانے سے مطالعے کے اطوار اور عوام پر جو اثرات مرتب ہوئے، اس کی ایک شان دار تحقیق، اگر چہ یہ تھوڑی بعد کے دور سے متعلق ہے، کے لیے ملاحظہ کیجیے: الرائک سٹارک، An Empire of Books: The Naval Kishore Press and the Diffusion of the Printed Word in Colonial India (نیو دلی: پرمننت بلیک، 2007)۔
  10.  منڈیر، Religion and the Specter، 175 – 239۔
  11.  ایضاً۔
  12.  ایضاً، 61۔
  13.  گناناتھ ابیسیکرے، “Religious Symbolism and Political Change in Celon”، ماڈرن سیلون سٹڈیز 1، نمبر 1 (1970): 43 – 63۔ اَنندا ابیسیکارا نے خوب صورت انداز میں واضح کیا ہے کہ ابیسیکرے کا مطلب یہ نہیں کہ پروٹسٹنٹ بدھ ازم اور پروٹسٹنٹ ازم دونوں ایک ہیں۔ اس کے بجاے پروٹسٹنٹ بدھ ازم ایک ایسی اصطلاح ہے جو انیسویں صدی کے سیلون میں ایک استدلالی روایت پر پرکشش استعماری طاقت کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔ ظاہر ہے کہ پروٹسٹنٹ ازم تاریخ کے کسی بھی دور میں، بشمول جدید استعماری دور کے، کوئی ناقابل تبدیل یک رخا نظریہ یا منفرد شے نہیں ہے۔ جیسا کہ بارٹن سکاٹ نے برصغیر کے تناظر میں شان دار انداز میں بتایا ہے: "پروٹسٹنٹ لفظ کے بار بار استعمال کی قابلیت نے اس امر کو یقینی بنا دیا ہے کہ جب بھی اس کا حوالہ دیا جائے گا، وہ اپنے اصلی مفہوم سے منحرف ہوگا، اور اس وجہ سے اصلی مفہوم کی یکسانیت پر سوال کھڑا کرے گا"۔ جے بارٹن سکاٹ، Spiritual Despots: Modern Hinduism and the Genealogies of Self-Rule (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 2015)، 132۔
  14.  ایضاً، 78 – 85؛ ڈیوڈ سکاٹ، Conscripts of Modernity: The Tragedy of Colonial Enlightenment، (درہم، این سی: ڈیوک یونیورسٹی پریس، 2004)، 98 – 132؛ انندا ابیسیکارا، “Religious Studies’ Mishandling of Origin and Change: Time, Tradition, and Form-of-Life in Buddhism,”، کلچرل کرٹیک 98 (ونٹر 2018): 8۔
  15.  ابیسیکارا، “Religious Studies’ Mishandling,”، 8 – 9۔
  16.  ابیسیکارا، “Protestant Buddhism”۔
  17.  منڈیر، Religion and the Specter، 78
  18.  ڈیوڈ سکاٹ، Refashioning Futures: Criticism after Postcoloniality (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 1999)، 8 – 9۔


نومبر ۲۰۲۲ء

سیاست شرعیہ کا مفہوم، نوعیت اور اہمیتمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۴)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۱)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
دینی جدوجہد کے مورچےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ اور اُن کی دینی خدماتپروفیسر ڈاکٹر انعام الحق غازی 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۱)ڈاکٹر شیر علی ترین 

سیاست شرعیہ کا مفہوم، نوعیت اور اہمیت

محمد عمار خان ناصر

مسلم تہذیب کی تشکیل وتعمیر میں دینی نقطہ نظر سے تین چیزوں کا کردار رہا ہے اور ان تینوں کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ ان میں سے کسی بھی چیز کو دوسری کا متبادل نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تین چیزیں یہ ہیں:

۱۔ شریعت

۲۔ سیاست شرعیہ

۳۔ فقہ

ہماری بحثوں میں سارا ارتکاز شریعت اور فقہ پر رہتا ہے، سیاست شرعیہ ایک مستقل موضوع کے طور پر زیرغور نہیں آتی۔ اس کو فقہ کا حصہ سمجھنا یا اس کے اندر ضم کر دینا غلط ہے، اس لیے کہ یہ اپنے اصول اور حدود اور دائرہ کار کے لحاظ سے فقہ سے بہت مختلف ہے۔ فقہ بنیادی طور پر جزئی سوالات میں شرعی حکم اجتہاداً‌ طے کرنے کا عمل ہے جو فقیہ کا وظیفہ ہے۔ فقیہ ایسے سوال یا صورت حال سے متعلق اپنی رائے دیتا ہے جو اس کے سامنے رکھی جائے اور اس کی بنیادی ذمہ داری مسئول عنہ امر کا حکم یعنی جواز یا عدم جواز بیان کرنا یا جزئی سطح پر کوئی متبادل صورت وغیرہ تجویز کر دینا ہے۔ معاشرے، اجتماع اور تہذیب کو درپیش بڑے سوالات کو موضوع بنانا یا پبلک پالیسی تشکیل دینا بنیادی طور پر فقیہ کا اختیار یا ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ ’’سیاست شرعیہ“ کا دائرہ ہے جس میں ذمہ داری اور اختیار کا تعلق ارباب حل وعقد سے ہے اور فکری وسائل فراہم کرنے کا کام معاشرے میں موجود اہل علم ودانش کے تمام طبقات سے متعلق ہے۔

ہماری تاریخ میں کئی مواقع پر فقہاء یا مذہبی علماء بھی سیاست شرعیہ کے دائرے میں مددگار کی حیثیت سے اولو الامر کی راہ نمائی اور معاونت کرتے رہے ہیں۔ اس علم کی مستقل حیثیت اور اس کے الگ حدود وضوابط پر بھی ہماری روایت میں گفتگو موجود ہے۔ فقہاء میں سے الجوینیؒ، عز الدین بن عبد السلامؒ، ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ جیسے اہل علم نے اس کے مختلف پہلووں پر کلام کیا ہے اور اس کے کئی مباحث اس لٹریچر میں بھی ملتے ہیں جسے ’’نصیحۃ الملوک“ یا انگریزی میں Mirrors for Princes کا عنوان دیا جاتا ہے۔ (جس کی مثال مغربی سیاسی لٹریچر میں میکیاولی کی ’’دی پرنس“ ہے)۔ خصوصاً‌ ابن قیم نے ’’اعلام الموقعین“ میں اس کی اہمیت بہت عمدگی سے واضح کی ہے۔

فقہ اور سیاست شرعیہ کے فرق اور امتیاز کو ملحوظ نہ رکھنے یا ان کو گڈمڈ کر دینے کا ایک اثر یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے بہت سے فیصلوں اور اقدامات کی تفہیم اور توجیہ میں ہمارے اہل علم کو بہت مشکل پیش آتی ہے، اس لیے کہ وہ انھیں ’’فقہ “ کے پیراڈائم میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ وہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے ’’سیاست شرعیہ“ سے تعلق رکھتے ہیں اور فقہی حدود وقیود کے لحاظ سے ان کی توجیہ ہو ہی نہیں سکتی۔ علامہ انور شاہ کشمیریؒ جیسے بالغ نظر عالم نے اسی وجہ سے یہ قرار دیا کہ ’’منصب الخلفاء فوق الاجتھاد ودون التشریع“، یعنی خلفائے راشدین کا منصب اجتہاد سے اوپر اور تشریع سے کم تر ہے۔ شاہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح کے اقدامات خلفائے راشدین نے کیے، وہ ایک عام فقیہ نہیں کر سکتا، کیونکہ وہ نوعیت کے لحاظ سے تشریع سے مناسبت رکھتے ہیں، تاہم تشریع چونکہ رسول اللہ پر ختم ہو چکی ہے، اس لیے ’’دون التشریع“ ایک منصب ماننا پڑے گا جس پر خلفائے راشدین کو فائز قرار دیا جا سکے۔

شاہ صاحب کی یہ بات تعبیر کے لحاظ سے ذرا منفرد ہے، تاہم خلفائے راشدین کے فیصلوں کی نوعیت سے متعلق یہ فقہاء کے عمومی رجحان کے مطابق ہے جو یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے اس طرح کے فیصلوں کو، خصوصاً‌ جب ان کے ساتھ دیگر صحابہ کا اتفاق اور تائید بھی شامل ہو جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایک پیشگی تصویب حاصل ہے۔ اس توجیہ کا فائدہ یہ ہے کہ اس طرح کے اجتہادات کی آزادی صرف خلفاء تک محدود رہتی ہے، بعد کے فقہاء تک اس کی توسیع نہیں کی جا سکتی۔

ایسے فیصلوں کی مثالیں معروف ہیں۔ البتہ ایک ذرا کم بیان ہونے والی مثال یہ ہے کہ سیدنا عمر نے مقام ابراہیم (وہ پتھر جس پر حضرت ابراہیم نے کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر کی) کو، جو پہلے کعبہ کی دیوار کے ساتھ متصل تھا، وہاں سے ہٹا کر کچھ فاصلے پر نصب کر دیا۔ اب اپنی نوعیت کے لحاظ سے یہ فیصلہ اجتہاد کے ان حدود سے کافی باہر ہے جس کی پابندی بعد کی فقہی روایت میں عموماً‌ کی گئی ہے اور کسی بھی عام فقیہ یا مجتہد کے لیے اپنی اجتہادی رائے سے یہ فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ ابن کثیر کو بھی اس کا احساس ہے، چنانچہ وہ اس کی شرعی توجیہ اس حدیث کی روشنی میں کرتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ ’’میرے بعد ابوبکر اور عمر کی اقتدا کرنا۔“ (تفسیر ابن کثیر)

اس توجیہ میں کئی مشکلات ہیں۔ مثلاً‌ ایک تو اس کے نتیجے میں یہ ماننا لازم آتا ہے کہ تشریع بنیادی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس کے کچھ جزوی پہلو آپ کے بعد خلفائے راشدین کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچے۔ گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا ادراک تھا، اسی لیے آپ نے پہلے سے یہ ہدایت فرما دی کہ ابوبکر اور عمر یا خلفائے راشدین جو بھی فیصلے کریں، ان کی پابندی کی جائے۔ اس سے ایک قانونی انداز کا حل تو نکل آتا ہے اور اس نوعیت کے اجتہاد کا دائرہ عموماً‌ کھلا رکھنے کا بھی سد باب ہو جاتا ہے، لیکن اصولی اور نظری طور پر ایک کافی مشکل سوال پیدا ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کچھ تشریعی فیصلوں کا اختیار خلفائے راشدین کو تفویض کیا گیا تھا تو کیا یہ اتنا ہی مطلق اختیار تھا جیسے پیغمبر کا تھا؟ ظاہر ہے، یہ بات کوئی بھی نہیں مانتا۔ مثلاً‌ سیدنا عمر اگر اپنے اجتہاد سے حجر اسود کی جگہ تبدیل کر کے اسے کسی دوسرے کونے میں نصب کرنا چاہتے تو کیا ان کو یہ اختیار حاصل تھا؟ بظاہر یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اگر مقام ابراہیم کی صورت میں ایک شعیرے کی جگہ تبدیل کی جا سکتی تھی تو حجر اسود بھی تو ایک شعیرہ ہے، اس کی جگہ کیوں تبدیل نہیں کی جا سکتی تھی؟ اسی طرح سیدنا عمر تراویح کو ایک باقاعدہ جماعت کی صورت دے سکتے تھے، لیکن کیا ان کو یہ اختیار بھی تھا کہ وہ کسی دوسری نفل نماز کو بھی اسی طرح اجتماعی صورت میں رائج کر دیں؟ بظاہر نہیں۔ حضرت عثمان نے جمعے کے لیے ایک اذان کا اضافہ فرمایا تو کیا ان کو یا کسی بھی دوسرے خلیفہ کو یہ اختیار بھی تھا کہ وہ باقی تمام نمازوں کے لیے بھی اسی طرح دو دو اذانیں مقرر کر دیں؟ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلے کسی مطلق تشریعی اختیار کے تحت نہیں تھے، بلکہ تشریع کے تابع اور کچھ خاص اصولوں کے پابند تھے۔

ان وجوہ سے ہمارا رجحان یہ ہے کہ خلفاء کے ایسے فیصلوں کی توجیہ ’’پیشگی تصویب“ کے اصول کے بجائے سیاست شرعیہ کے زاویے سے ہونی چاہیے اور ان کو بطور نظائر سامنے رکھتے ہوئے ان سے اصول اخذ کیے جانے چاہییں کہ امت کے دینی ودنیوی مصالح کی تکمیل کے لیے کیسے اور کس نوعیت کے اقدامات ارباب حل وعقد کو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ضرورت خلفاء کے دور تک محدود نہیں، بلکہ ہمیشہ باقی رہے گی، بلکہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد دراصل سب سے زیادہ اہمیت اسی کی ہے۔ ہمارے تناظر میں فکری سطح پر ایک تو ہم نے ’’فقہ “ کو ’’سیاست شرعیہ“ کے دائرے میں دخیل کر لیا ہے جس سے جنم لینے والی پیچیدگیوں کی کوئی انتہا نہیں اور عملی سطح پر ’’مذہبی سیاست“ اور سیاست شرعیہ میں التباس کر کے اہل حل وعقد اور سماج کے دوسرے دانش مند طبقات کو تشکیل معاشرہ کے عمل سے بے دخل کرنے کا انتظام کیا ہوا ہے۔ سیاست شرعیہ کی مستقل اہمیت اور اس کے اصل حدود وضوابط کی فکر وعمل کی سطح پر بحالی اس وقت مسلم معاشروں اور اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۴)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(366)  لِیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیدًا مِنْ لَدُنْہُ

لِیُنْذِرَ بَأْسًا شَدِیدًا مِنْ لَدُنْہُ۔ (الکہف: 2)

”تاکہ اپنے پاس کی سخت سزا سے ہوشیار کردے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تاکہ وہ اپنی جانب سے جھٹلانے والوں کو ایک سخت عذاب سے آگاہ کردے“۔ (امین احسن اصلاحی)

ان دونوں ترجموں میں لِیُنْذِرَ کا فاعل اللہ تعالی کو مانا گیا ہے۔ قرآن مجید کے استعمالات دیکھیں تو یہ کام ہر جگہ رسول اور کتاب کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ صحیح توجیہ یہ لگتی ہے کہ لِیُنْذِرَ کا فاعل پیچھے مذکور عبد یا کتاب ہے، اور لَدُنْہُ  کی ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔ مزید یہ کہ لَدُنْہُ کا تعلق عذاب سے ہے نہ کہ انذار سے۔ درج ذیل دونوں ترجمے اس پہلو سے درست ہیں:

”تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے“۔ (سید مودودی)

”تاکہ لوگوں کو عذاب سخت سے جو اس کی طرف سے (آنے والا) ہے ڈرائے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(367) وَازْدَادُوا تِسْعًا

وَلَبِثُوا فِی کَہْفِہِمْ ثَلَاثَ مِاءَۃٍ سِنِینَ وَازْدَادُوا تِسْعًا۔ (الکہف: 25)

”وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیادہ گزارے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے اور نو سال مزید برآں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور مدت گزری ان پر اپنے کہوہ میں تین سو برس اور اوپر سے نو“۔ (شاہ عبدالقادر)

اس آیت کے مذکورہ بالا ترجمے الفاظ کے مطابق ہیں۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غار میں تو تین سو سال رہے اور پھر نو سال مزید زندہ رہے۔ وَازْدَادُوا تِسْعًا کے اسلوب نے دونوں مدتوں کو الگ الگ بتادیا۔ جب کہ درج ذیل ترجمہ یہ بتارہا ہے انھوں نے یہ پوری مدت غار میں گزاری۔

”اور اصحاب کہف اپنے غار میں نو اوپر تین سو سال رہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج ذیل ترجمہ عجیب ہے، بغیر کسی قرینے کے نو دن فرض کرلینا کیسے درست ہوسکتا ہے؟ نو سال کے لیے تو واضح قرینہ موجود ہے کہ اس سے پہلے سال کا ذکر ہے۔

”اور یہ لوگ اپنے غار میں تین سو برس رہے اور اس پر نو دن کا اضافہ بھی ہوگیا“۔ (ذیشان جوادی)

درج ذیل ترجمہ عام ترجموں سے مختلف ہے:

”اور وہ اپنے غار میں تین سو سال رہے، اور (کچھ لوگ مدّت کے شمار میں) ۹ سال اور بڑھ گئے ہیں“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں کم زوری یہ ہے کہ لبثوا  کا فاعل اصحاب کہف کو اور ازدادوا کا فاعل تعداد بتانے والوں کو مانا ہے، پھر لبثوا کو اللہ کی دی ہوئی خبر کے بجائے لوگوں کا بیان قرار دیا گیا ہے۔ آیت کا مفہوم واضح ہے، اس کی تفسیر میں اس قدر تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔ آسانی سے سمجھ میں آنے والی بات یہی ہے کہ اللہ تعالی نے یہ دونوں خبریں دی ہیں، جس کے بعد کہا کہ واللہ أعلم بما لبثوا، کہ وہ کتنا عرصہ رہے اس کا علم اللہ کو ہے۔

(368)  استثنا منقطع کا ترجمہ

لَا یَسْمَعُونَ فِیہَا لَغْوًا إِلَّا سَلَامًا۔ (مریم: 62)

”وہ لوگ وہاں کوئی لغو بات نہ سنیں گے صرف سلام ہی سلام سنیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

اس ترجمے میں استثنا منقطع کا پورا لحاظ ہے۔ سلام لغو سے مستثنی نہیں ہے، بلکہ اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ پیرایہ استثنا کا ہے، لیکن دو الگ الگ باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لغو نہیں سنیں گے اور دوسری یہ کہ سلام سنیں گے۔

”وہاں وہ کوئی بے ہودہ بات نہ سُنیں گے، جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سنیں گے“۔ (سید مودودی)

اس ترجمہ میں بھی استثنا منقطع کا لحاظ ہے، لیکن سلام کا ترجمہ ’ٹھیک ہی سنیں گے‘، درست نہیں ہے۔ اس سے یہ مفہوم  نکلتا ہے کہ انھیں سننے میں کوئی پریشانی نہیں ہوگی، جو سنیں گے ٹھیک سنیں گے۔ غالبا مترجم کا مقصود یہ ہے کہ عیب سے پاک باتیں سنیں گے۔ سلام کا ترجمہ سلام ہی بہتر ہے۔

درج ذیل ترجموں میں کم زوری یہ ہے کہ وہ استثنائے متصل کا مفہوم دیتے ہیں۔ گویا سلام کو لغو سے مستثنی کیا گیا ہے، حالاں کہ سلام تو لغو میں شامل ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے مترجمین کا یہ مقصود بھی نہیں ہے، لیکن عربی کے استثنائے منقطع کا ترجمہ اردو میں مختلف طریقے سے ہوگا۔

”وہ اس میں سلام کے سوا کوئی بیہودہ کلام نہ سنیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اس میں سوائے سلام کے کوئی فضول بات نہ سنیں گے“۔ (احمد علی)

”وہ وہاں سلامتی کی صداؤں کے سوا کوئی بے ہودہ بات نہیں سنیں گے“۔ (محمد حسین نجفی)

(369)  جنۃ کا ترجمہ

عربی میں جنۃ کا اصل مطلب باغ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ جنت یعنی آسائشوں کے مقام کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جب کہ اردو میں جنت کا مطلب آسائشوں کا مقام ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں جنت کا لفظ دونوں معنوں میں آیا ہے، اس کا لحاظ ترجمہ کرتے وقت عام طور سے کیا جاتا ہے۔ البتہ سورہ کہف میں جہاں دو باغوں والے شخص کا واقعہ بیان ہوا ہے، مولانامودودی نے ترجمہ کرتے ہوئے عام مترجمین سے ہٹ کر ایک الگ جہت اختیار کرنے کی کوشش کی۔ اس واقعہ میں پہلے جَنَّتَیْنِ کا لفظ آیا، جس کا ترجمہ دو باغ کیا۔

وَاضْرِبْ لَہُمْ مَثَلًا رَجُلَیْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِہِمَا جَنَّتَیْنِ مِنْ أَعْنَابٍ۔ (الکہف: 32)

”اے محمدؐ! اِن کے سامنے ایک مثال پیش کرو دو شخص تھے ان میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے“۔ (سید مودودی)

پھر الجنتین کا ترجمہ بھی دو نوں باغ کیا۔

کِلْتَا الْجَنَّتَیْنِ آتَتْ أُکُلَہَا۔ (الکہف: 33)

”دونوں باغ خوب پھلے پھولے“۔(سید مودودی)

اس کے بعد جنتہ کا ترجمہ اپنی جنت کردیا۔

وَدَخَلَ جَنَّتَہُ۔ (الکہف: 35)

”پھر وہ اپنی جنّت میں داخل ہوا“۔ (سید مودودی)

اور تفسیر میں اس کی توجیہ بھی کی: ”یعنی جن باغوں کو وہ اپنی جنت سمجھ رہا تھا۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس اردو ترجمے کا انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے جنت کے بجائے باغ ترجمہ کردیا گیا۔

Then he entered his vine-yard (syed Maududi)

غور طلب بات یہ ہے کہ اسی واقعے میں آگے پھر جنت کا لفظ دو بار آیا۔ اور دونوں جگہ باغ کے مالک نہیں بلکہ دوسرے شخص کی زبان سے ادا ہوا ہے، پھر بھی وہاں ترجمہ جنت ہی کیا ہے۔

وَلَوْلَا إِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَکَ قُلْتَ مَا شَاءَ اللَّہُ۔ (الکہف: 39)

”اور جب تو اپنی جنت میں داخل ہو رہا تھا تو اس وقت تیری زبان سے یہ کیوں نہ نکلا کہ ماشاء اللہ“۔ (سید مودودی)

فَعَسَی رَبِّی أَنْ یُؤْتِیَنِ خَیْرًا مِنْ جَنَّتِکَ وَیُرْسِلَ عَلَیْہَا حُسْبَانًا مِنَ السَّمَاءِ۔ (الکہف: 40)

”تو بعید نہیں کہ میرا رب مجھے تیری جنت سے بہتر عطا فرما دے اور تیری جنت پر آسمان سے کوئی آفت بھیج دے“۔ (سید مودودی)

پورے واقعہ کو سامنے رکھیں، تو جنت کا ترجمہ جنت کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔شروع سے باغوں کا تذکرہ ہے، تو سب جگہ باغ ہی ترجمہ ہونا چاہیے۔

(370) خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا

درج ذیل آیت میں خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا کے دو مفہوم ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ تیرے رب کے نزدیک بہتر ہے ثواب کے اعتبار سے، دوسرے یہ کہ تیرے رب کے یہاں ملنے والے ثواب کے اعتبار سے بہتر ہے۔ یعنی عِنْدَ رَبِّکَ کو خیر سے متعلق مانا جائے یا ثوابا سے متعلق۔

وَالْبَاقِیَاتُ الصَّالِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَخَیْرٌ أَمَلًا۔ (الکہف: 46)

”اصل میں تو باقی رہ جانے والی نیکیاں ہی تیرے رب کے نزدیک نتیجے کے لحاظ سے بہتر ہیں اور اُنہی سے اچھی اُمّیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک از روئے ثواب اور (آئندہ کی) اچھی توقع کے بہت بہتر ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور باقی رہنے والے اعمال صالحہ باعتبار ثواب اور باعتبار امید تمہارے رب کے نزدیک بہتر ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا ترجموں میں عِنْدَ رَبِّکَ کو خیر سے متعلق مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ترجموں میں عِنْدَ رَبِّکَ کو ثوابا سے متعلق مانا گیا ہے۔

”تمہارے رب کے یہاں ملنے والے ثواب کے اعتبار سے اور امید کے اعتبار سے بہتر ہیں“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

”اور باقی رہنے والی اچھی باتیں ان کا ثواب تمہارے رب کے یہاں بہتر اور وہ امید میں سب سے بھلی“۔ (احمد رضا خان)

معنوی لحاظ سے دیکھیں تو موخر الذکر ترجموں میں زیادہ معنویت ہے۔ کیوں کہ اس میں یہ بات بھی آجاتی ہے کہ یہ اس ثواب کی بات ہے جو اللہ کے یہاں ملنے والا ہے۔ علاوہ ازیں اس مفہوم کی تائید قرآن کی دوسری آیتوں سے بھی ملتی ہے، جیسے: ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ وَاللَّہُ عِنْدَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ۔ (آل عمران: 195)

(371) فَظَنُّوا أَنَّہُمْ مُوَاقِعُوہَا

درج ذیل آیت میں ظن کا ترجمہ گمان کرنا یا یاخیال کرنا نہیں بلکہ سمجھ لینا اور یقین کرنا ہوگا۔ مجرم جب گرفت میں آچکے ہوں، اور جہنم سامنے نظر آرہی ہو، تو گمان و خیال کا موقع نہیں ہوتا ہے۔

وَرَأَی الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّوا أَنَّہُمْ مُوَاقِعُوہَا۔ (الکہف: 53)

”اور دیکھیں گے گناہ گار آگ کو پس گمان کریں گے یہ کہ وہ گرنے والے ہیں اس میں“۔ (شاہ رفیع الدین)

”اور دیکھیں گے گناہ گار آگ کو پھر اٹکلیں گے کہ ان کو پڑنا ہے اس میں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور مجرم دوزخ کو دیکھیں گے اور گمان کریں گے کہ وہ اسی میں گرنے والے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمے درست ہیں:

”سارے مجرم اُس روز آگ دیکھیں گے اورسمجھ لیں گے کہ اب انہیں اس میں گرنا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور گنہگار لوگ دوزخ کو دیکھیں گے تو یقین کرلیں گے کہ وہ اس میں پڑنے والے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(372)  وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِآیَاتِ رَبِّہِ فَأَعْرَضَ عَنْہَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدَاہُ۔ (الکہف: 57)

”اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم اور کون ہے جسے اس کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جائے اور وہ اُن سے منھ پھیرے اور اُس برے انجام کو بھول جائے جس کا سر و سامان اس نے اپنے لیے خود اپنے ہاتھوں کیا ہے؟“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے میں دو باتیں توجہ طلب ہیں، ایک تو بلاضرورت برے انجام کو محذوف ماننا، دوسرے یہ کہ جو لوگ آخرت اور جزا و سزا پر ایمان ہی نہیں رکھتے ہیں اور برے انجام کا تصور ہی نہیں رکھتے ہیں، وہ اپنے اعمال کے انجام کو کیوں یاد رکھیں گے؟

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے؟ جسے اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے وہ پھر منھ موڑے رہے اور جو کچھ اس کے ہاتھوں نے آگے بھیج رکھا ہے اسے بھول جائے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(373)  أَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا

وَکَانَ الْإِنْسَانُ أَکْثَرَ شَیْءٍ جَدَلًا۔ (الکہف: 54)

”لیکن انسان سب سے زیادہ جھگڑالو واقع ہوا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور آدمی ہر چیز سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“۔ (احمد رضا خان)

”لیکن انسان سب چیزوں سے بڑھ کر جھگڑالو ہے“۔(فتح محمد جالندھری)

پہلی بات یہ ہے کہ جدل کا اصل مطلب جھگڑا کرنا نہیں بلکہ بحث کرنا ہوتا ہے۔ بحث کبھی جھگڑے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں دوسروں سے انسان کا موازنہ مقصود نہیں ہے، کہ وہ دوسری چیزوں سے زیادہ بحث مباحثہ کرتا ہے، یا جھگڑا کرتا ہے، بلکہ مقصود یہ ہے کہ بحث کرنا اس کی نمایاں ترین صفت ہے۔ وہ کوئی اور کام اتنا نہیں کرتا جتنا کہ بحث کرتا ہے۔ کسی بھی کام سے زیادہ بحث کا کام کرتا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں:

”اور انسان سب سے زیادہ بحث کرنے والا واقع ہوا ہے“۔

مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۱)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: آپ ﷺ وضو کے دوران ناک اور منہ میں پانی ڈالتےتھے اور آپ ہمیشہ ڈالتے رہے۔1 پھر ہمیں یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ ضروری نہیں، اس کے بغیر بھی وضو مکمل ہو جا تاہے ؟

عمار ناصر: یہ استنباط ہے۔ استنباط اسی کو کہتے ہیں کہ دلائل کا یا نصوص کاجوانداز اور اسلوب ہے، اس سے شارع کی منشا کو سمجھا جائے۔ شارع چیزوں کو اہمیت کے لحاظ سے الگ الگ طریقوں سے اپنی منشا واضح کرتا ہے۔ قرآن نے جب بیان کیا ہے کہ وضو کرو تو چہرہ دھوؤ تو اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ وضو میں فرض تو چہرہ دھونا ہی ہے۔ اس کے علاوہ جو زائد امور احادیث میں بیان ہوئے ہیں، وہ فرض نہیں ہو سکتے ورنہ قرآن وضو کا ادھورا طریقہ بیان نہ کرتا۔

مطیع سید: کیا ایسے لوگ بھی رہے ہیں جو اسے فرض قرار دیتے ہوں؟

عمار ناصر: ظاہریہ کے ہاں غالباً‌ ایسا ہے۔

مطیع سید: ایک جنگ کے موقع پر وضو میں بعض صحابہ کی ایڑیاں خشک رہ گئیں۔ انہوں نے ایڑیوں پر مسح کر لیا تھا، ایسے الفاظ آتے ہیں۔2 یہاں مسح سے کیا مراد ہے ؟

عمار ناصر: مطلب یہ کہ صحیح طرح ایڑیوں کو دھویا نہیں تھا، بس گیلا ہاتھ پھیر کر کام چلانے کی کوشش کی۔

مطیع سید: مجھے مسح سے ایسے لگا کہ شاید ان صحابہ نے قرآن کی آیت سے مسح کا استدلال کیا ہو۔

عمار ناصر: نہیں، یہاں یہ معاملہ نہیں تھا۔ یہاں مسح کر نے کا مطلب یہ ہے کہ جلدی میں انہوں نے بس ہاتھ پھیر لیا، ٹھیک طریقے سے دھویا نہیں۔

مطیع سید: گھر بناتے ہوئے ہم بیت الخلا میں قبلہ رخ نہ ہونے کا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر کی روایت میں تو بڑا واضح آتا ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ کی پشت اس طرف تھی۔3 تو اتنی صاف اور واضح روایت کے ہوتے ہوئے ہم کیوں تاویل کرتے ہیں کہ نہیں، انہوں نے آپﷺ کو صحیح طرح دیکھا نہیں ہوگا ؟ یہی تاویل عموماً‌ شارحین کرتے ہیں۔

عمار ناصر: اس میں ایسا ہوتا ہے کہ جب آپ کے سامنےدوسرے دلائل زیادہ قوی ہوں جن میں ممانعت آئی ہے یا جن میں آپ کا فہم بتا رہا ہے کہ یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے تو یہی کرتے ہیں کہ قوی دلیل کی روشنی میں اس کے مخالف شواہد کی تاویل کرتے ہیں۔

مطیع سید: عمامہ پر مسح آج بھی کیا جاسکتا ہے؟

عمار ناصر: بالکل کیا جا سکتا ہے۔ حنفی فقہاء کہتے ہیں کہ گیلا ہاتھ کسی حد تک سر پر پھیرلیں تاکہ مسح کا فرض براہ راست سر کے مسح سے ادا ہو جائے۔ پھر باقی مسح عمامہ کے اوپر سے کرلیں۔

مطیع سید: ہم درود میں اللھم صل علی محمد وعلی آلِ محمد کما صلیت علی ابراھیم و علی آلِ ابراھیم کی دعا کرتے ہیں۔ آلِ ابراہیم کا تو ہمیں پتہ ہے کہ اللہ نے ان کو نبوت عطا فرمائی یعنی یہ ان پر خدا کا کرم تھا۔ آپ ﷺ کی آل کو کس چیز سے نوازا گیا ہے جو یہاں درود شریف میں بیان ہواہے ؟

عمار ناصر: تشبیہ ظاہر ہے، ہر پہلو سے تو نہیں ہوتی۔ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد پر دین کے حوالے سے اللہ کی خاص عنایا ت ہوئیں۔ وہ چونکہ ماضی کی بڑی روشن مثال ہے تو اس پہلو سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یعنی جیسے ان کی اولاد کو اس مقصد کے لیے چن لیا گیا اور دنیا کی قوموں میں ان کو ایک خاص مقام دیا گیا تو اسی طرح محمد اور آلِ محمد ﷺ پر بھی خصوصی رحمت اور عنایت کی جائے۔ اس میں من کل الوجوہ تشبیہ نہیں ہوتی اور یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ جیسے ان میں انبیا آئے تھے، آل محمد میں بھی نبی ہوں گے۔

مطیع سید: رفع الیدین کرنے اور نہ کرنے کی ایک توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ نبیﷺ نے کبھی کیا اور کبھی نہیں کیا، لہذا دونوں طریقے درست ہیں۔ لیکن صحابہ کے ہاں ایسی اپروچ نہیں دکھائی دیتی۔ یا تو صحابہ کرتے تھے یا نہیں کرتے تھے۔ کبھی کرنااور کبھی نہ کرنا تو کسی صحابی سے ثابت نہیں ہے، نہ ہی یہ ثابت ہے کہ کسی صحابی نے کہا کہ دونوں طریقے ہی درست ہیں، جیسے چاہو، عمل کرو۔

عمار ناصر: کسی صحابی کے بارے میں اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں کہ وہ ہمیشہ رفع یدین کرتےتھے۔ روایات میں مطلقاً‌ بیان ہوا ہے کہ وہ رفع یدین کرتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ جیسے کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے زندگی کے معمول کی تحقیق کر کے اسے بیان نہیں کیا، صرف اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے، اسی طرح مختلف صحابہ کو دیکھنے والوں نے بھی اپنے جزوی مشاہدات ہی بیان کیے ہیں۔ کسی بیان سے یہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ متعلقہ صحابی کا پوری زندگی کا مسلسل عمل بیان کیا جا رہا ہے۔

مطیع سید: احناف نے رفع الیدین کرنے کی روایات کو کیوں نہیں لیا ؟

عمار ناصر: امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو غیر ثابت سمجھتے تھے۔ انھوں نے روایت پر تنقید کی ہے۔ بعد میں امام طحاوی نے ایک دوسرا استدلال پیش کیا اور کہا کہ یہ عمل ثابت تو ہے، لیکن یہ پہلے دور کا ہے جو بعد میں منسوخ ہو گیا تھا۔ آج کل زیادہ تر یہی استدلال احناف کے ہاں مقبول ہے۔ البتہ علامہ انور شاہ اور دیگر متاخرین نے اس سے اختلاف کیا ہے اور دونوں طریقوں کو ثابت اور غیر منسوخ قرار دیا ہے۔

مطیع سید: صحیح مسلم میں جو روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کی دموں کی طرح ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا،4 جب اس روایت کو باب کے عنوان سے امام مسلم نے واضح کر دیا کہ سلام کے وقت رفع یدین سے متعلق ہے تو پھر ہمارے ہاں لوگ اس سے ترک ِ رفع الیدین کی دلیل کیسے لیتے ہیں؟

عمار ناصر: یہ درست بات ہے۔ حنفی علماء نے بھی اس استدلال کی تردید کی ہے کہ یہ رکوع والے رفع یدین سے متعلق نہیں ہے۔ البتہ صحیح مسلم کے عنوانات کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خود امام مسلم کے اپنے قائم کردہ نہیں ہیں، بلکہ بعد میں کسی نے روایات کے مضمون کو سامنے رکھتے ہوئے شامل کیے ہیں۔

مطیع سید: صلوۃ الخوف کوقرآن بڑی تفصیل سے بیان کرتا ہے، حالانکہ بظاہر یہ بڑی وقتی سی چیز لگتی ہے۔

عمار ناصر: ویسے تو اللہ تعالیٰ کی جو ترجیحات اور جو اہمیت رکھنے والی چیزیں ہیں، ان کوہم انسانی پیمانوں سے نہیں سمجھ سکتے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور حیثیت اور آپ سے متعلق حدود وآداب کو بیان کرنا تو قرآن مجید کا خاص موضوع ہے۔ صلوۃ الخوف کا مسئلہ اصلاً‌ اسی پہلو سے بیان ہوا ہے، اس کا ایک فقہی مسئلہ ہونا ضمنی بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے مسلمان یہ گوارا نہیں کرتے تھے کہ کسی اور کی امامت میں نماز ادا کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اس جذبے کی تصویب فرمائی ہے اور اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک حل بتا دیا ہے کہ ایسی صورت حال میں سارے مسلمان اس طرح آپ کی امامت میں باری باری نماز ادا کر سکتے ہیں۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں چیزوں کے کون سے پہلو اہم ہیں۔ قرآن نے جس پہلوسے اس کو بیان کیا ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ نماز سے متعلق ایک چھوٹا سا اور وہ بھی کبھی کبھار پیش آنے والا مسئلہ ہے اور قرآن نے اس سے اعتنا کرلیا ہے۔ قرآن کے سامنے وہاں جو مسئلہ ہے، وہ پیغمبر کی ذات ہے اور اس کے حوالے سے ایک سوال پیداہوگیا کہ پیغمبر کے ہوتے ہوئے مسلمان نہیں چاہتے کہ کسی اور کے پیچھے نماز پڑھیں اور قرآن ا ن کی اس خواہش کو نہ صرف بنظر ِ تحسین دیکھ رہا ہے بلکہ اس کا ایک پورا طریقہ بتارہا ہے۔

مطیع سید: کیا فقہاء نے اسے نبیﷺ کے دور کے ساتھ مخصوص کیا ہے ؟ یہ بھی رائے دی جاتی ہے کہ چونکہ آپﷺ کی امامت میں سارے نماز پڑھنا چاہتے تھے، اس لیے اس کو اس قدر اہتمام سے بیان کیا گیا۔

عمار ناصر: مجھے اس میں امام ابویوسف کا موقف ٹھیک لگتا ہے۔ امام ابو یوسف کا یہ موقف ہے کہ اتنے تردد کی ضرورت کیا ہے؟ اب ہمیں ایسی کوئی صورت حال پیش آتی ہے تو کون سا امام ہے جس کے پیچھے سارے مسلمان اصرار کریں کہ ہم تو اسی کے پیچھے نماز پڑھیں گے؟ وہ باری باری الگ الگ جماعت کر سکتے ہیں۔ قرآن تو بیان شروع ہی یہاں سے کرتا ہے کہ اذا کنت فیھم، یعنی آپ ان کے اندر موجود ہوں اور انھیں نماز پڑھا رہے ہوں تو پھر یہ طریقہ ہوگا۔

مطیع سید: آپﷺ نے ایک منقش چادر کے بارے میں فرمایا کہ یہ ابو جہم کو دے دو۔5 آپﷺ نے خود یہ چادر استعمال کرنی پسند نہیں فرمائی لیکن انہیں دینے کو کہا۔ کیا وہ مسلمان نہیں تھے۔ کیا وجہ تھی ؟

عمار ناصر: نہیں، اس کی وجہ یہ نہیں ہے۔ یہ ابوجہم تو چادروں کی خریدو فروخت کرنے والے تھے اور انھی سے یہ منقش چادر خریدی گئی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ چادر اسے واپس دے کر کوئی سادہ چادر لے آؤ جس کے نقش ونگار نماز میں اپنی طرف متوجہ نہ کریں۔

مطیع سید: سیاہ کتا شیطان ہے،6 اس سے کیا مراد ہے ؟ اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا کہ عورت، گدھا اور کتا، ان تینوں میں سے کوئی آگے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: اس کو بعض ظاہریہ اس معنی میں لیتے ہیں کہ نماز فقہی طور پر فاسد ہو جاتی ہے۔ عام طور پر محدثین اس کو اس معنی میں نہیں لیتے۔ قطع سے مراد یہ ہے کہ نماز کا ایک روحانی پہلو بھی ہے جس میں فرشتوں کے حضور کی اور ان کی دعاؤں کےساتھ شرکت کی بڑی اہمیت ہو تی ہے۔ دیکھیں، نماز ی کے آگے سے آپ گزرتے ہیں تو اس سے نماز کے ماحول میں اور روحانی کیفیت میں ایک طرح کاخلل پیدا ہو جاتا ہے۔ نماز کا اپناایک روحانی ماحول بھی ہوتا ہے۔ اس میں اگر کتا سامنے سے گزر گیا ہے تو اس سے بھی ایک طرح کا خلل آ جاتا ہے۔ عورت کے بارے میں بعض شارحین یہ کہتے ہیں کہ یہ بات مطلقاً‌ ہر عورت کے بارے میں کہی گئی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ماہواری کی کیفیت میں عورت کا گزرنا مراد ہے۔ اس پہلو سے بھی کہتے ہیں کہ جب آپ نماز میں یکسوئی کی حالت میں کھڑے ہوں، اس حالت میں اگر عورت آپ کے سامنے سے گزر ے تو آپ کی یکسوئی میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔

مطیع سید: فقہ میں نماز کے اند ر عملِ قلیل اور عملِ کثیر کا فرق بتایا گیا ہے، جبکہ احادیث میں آتا ہے کہ نبی ﷺ بچوں کو نماز کے دوران میں اٹھا لیتے تھے اور سجدے میں جاتے ہوئے انھیں زمین پر بٹھا دیتے تھے۔7 یہ عمل تو فقہ کی اصطلاح میں عمل قلیل نہیں ہے۔ تو پھر کس بنیاد پر عملِ قلیل اور عملِ کثیر کی تقسیم کی گئی ہے؟

عمار ناصر: کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو آپ خاص محل میں تو قبول کر لیتے ہیں، لیکن اس کو ایک عمومی ضابطہ سمجھنے کے بارے میں آپ کا مجموعی فہم دین یہی کہے گی کہ ایسا نہیں ہے۔ نماز اصل میں تو یہی ہے کہ سکون اور اطمینان کے ساتھ اور نماز سے غیر متعلق اعمال کے ساتھ مشغول ہوئے بغیر ادا کی جائے۔ اب آپ اگر اس طرح کے اعمال کو عمومی اجازت پر محمول کرنا چاہیں تو آپ کا فہم دین آپ کو بتائے گا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس میں توجیہ کے کئی پہلو نکالے جا سکتے ہیں، مثلاً‌ یہ کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا۔ لیکن توجیہ آپ جو بھی کر لیں، اصل بات یہ ہے کہ نماز کے متعلق دین کی مجموعی ہدایات اس سے مانع ہیں کہ اس طرح کے اعمال کو نماز کی حالت میں ایک عام اجازت قرار دیا جائے۔

مطیع سید: نماز کے بعد جو باجماعت دعا ہوتی ہے، اس کی کوئی روایت ہے ؟

عمار ناصر: اس طرح معمولاً‌ تو ثابت نہیں، بعد میں کسی دور میں اس کا رواج ہوا ہے۔ ہمارے بعض پرانے اہل علم مثلاً‌ شاطبی وغیرہ اسے بدعات میں ہی شمار کرتے ہیں۔

مطیع سید: علامہ انور شاہ صاحب کے بارے میں آتا ہے کہ وہ بھی اس کے قا ئل نہیں تھے۔

عمار ناصر: ثبوت کا تو کوئی بھی قائل نہیں ہے۔ یعنی آج کل جس طرح ہم معمولاً‌ فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کرتے ہیں، اس طرح معمولاً‌ حضورﷺ کے زمانے میں ہوتی تھی، یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا۔ تو اصل سوال یہ ہے کہ اس کو ایک معمول کے طور پر اختیار کرنے کی کیا حیثیت ہے ؟ شاطبی کا کہنا ہے کہ یہ بدعت ہے۔

مطیع سید: احناف کی اس بارے میں کیا رائے ہے ؟

عمار ناصر: متقدمین احناف کا موقف میرے ذہن میں نہیں، لیکن دیوبندی علماء مختلف الرائے ہیں۔ بعض جیسے مفتی رشید احمد لدھیانوی صاحبؒ بہت سخت مخالف تھے، جبکہ بعض قائل تھے، جیسے مفتی کفایت اللہ صاحبؒ نے اس پر باقاعدہ ایک رسالہ لکھا ہے۔ ہمارے دادا حضرت مولانا سرفراز صفدر صاحبؒ بھی فرض نماز کے بعد جواز اور استحباب کے قائل تھے، لیکن نوافل کے بعد اجتماعی دعا کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ علامہ انور شاہ صاحبؒ نے کسی بحث میں یہ لکھا ہے کہ بہت سے امور میں کسی چیز کا فی نفسہ ثابت اور مشروع ہونا کافی ہوتا ہے اور اس کی بنیاد پر اسے معمولاً‌ اختیار کیا جا سکتا ہے، چاہے شارع نے خود ا س کو معمول بنانے کا اہتمام نہ کیا ہو۔ میرے خیال میں، اس رائے میں کافی وزن ہے۔

مطیع سید: نبیﷺ نے سردی اور گرمی کے متعلق فرمایا کہ یہ جہنم کے سانس لینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔8 یہ آپ ﷺ نے کن معنوں میں فرمایا؟ آج کا جدید ذہن اس کو کیسے سمجھ سکتا ہے، کیونکہ سائنس تو ہمیں اس تبدیلی کی وجہ زمین اور سورج کے درمیان فاصلے کا کم یا زیادہ ہونا بتاتی ہے؟

عمار ناصر: ایسے بیانات بنیادی طور پر متشابہات کے دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی صحیح حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے، بس بالاجمال یہ ماننا کافی ہے کہ موسم کی تبدیلی کا تعلق ایک سطح پر کائنات کے اس نظام سے بھی ہے جس میں جنت اور جہنم واقع ہیں۔ البتہ اس سے اس کی نفی نہیں ہوتی کہ ایسی چیزوں کے ان اسباب کو جانا اور متعین کیا جائے جو عام انسانی علم کے دائرے میں آتے ہیں۔ یہ کائناتی نظام کی الگ الگ سطحیں ہیں اور اپنی اپنی سطح پر دونوں باتیں درست ہیں۔

مطیع سید: ایک دفعہ آپ ﷺ نے ظہر کی چار کی بجائے پانچ رکعتیں پڑھادیں اور بعد میں صرف سجدہ سہو کرلیا، چھٹی رکعت ساتھ نہیں ملائی۔9 حنفی فقہا تو چھٹی رکعت ملانے کا کہتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر نمازی چوتھی رکعت میں تشہد میں بیٹھا ہو، پھر تو بعد میں دو رکعتیں مزید پڑھنے سے فرض نماز ادا ہو جائے گی، ورنہ نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں تو نبی ﷺ کا واضح عمل ہمارے سامنے موجود ہے۔

عمار ناصر: صدرِاول میں فقہا کے لیے یہ مسئلہ تھا کہ روایتیں اس طرح سے منقح اور مدون ہوکر ساری تحقیق کے ساتھ ان کو نہیں پہنچی تھیں۔ بہت سی روایتیں تو پہنچی ہی نہیں تھیں۔ بہت سی ایسی تھیں جو اس طرح باوثوق ذریعے سے نہیں پہنچی تھیں جس سے وہ ان کی صحت پر مطمئن ہو جاتے۔ اس لیے ان کے لیے ایسی چیزوں میں قیاس سے کام لینے کی یاکسی روایت پر عمل نہ کرنے کی زیادہ گنجائش تھی۔

مطیع سید: تو کیا آج بھی اس کی تاویلات کی گنجائش ہے؟

عمار ناصر: متاخرین احناف نے اس طرح کے مباحث میں کافی سوالات اٹھائے ہیں۔ مثلاً‌ اس روایت میں چوتھی رکعت میں تشہد میں بیٹھنے کا ذکر نہیں جس کی احناف عموماً‌ یہ تاویل کرلیتے ہیں کہ روایت میں اس کا تو ذکر نہیں کہ آپ نے چھٹی رکعت شامل نہیں کی۔ ہو سکتا ہے، آپ نے کی ہو۔ لیکن مفتی تقی عثمانی صاحب کے درسِ ترمذی کے مرتب نے حاشیے میں اس پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ معروف روایت میں تو اس کا ذکر نہیں، لیکن بعض روایتوں میں اس کی صراحت موجود ہے۔ انہوں نے طبرانی کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں وضاحت ہے کہ آپﷺ چوتھی رکعت میں نہیں بیٹھے تھے۔

مطیع سید: اسی واقعے میں آپ ﷺ نے لوگوں سے کچھ بات چیت کی اور جب واضح ہوگیا کہ آپ سے سہو ہوا ہے تو دوبارہ نماز ادا کرنے کے بجائے صرف سجدہ سہو فرما لیا۔10 کیا گفتگو کرنے سے نماز ٹوٹ نہیں گئی تھی؟

عمار ناصر: اسی سے مالکیہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر اصلاح ِ نماز کے لیے بقدر ضرورت کوئی گفتگو ہوئی ہو تو اس سے نماز نہیں ٹوٹے گی۔ آپ اسی پر بِنا کر سکتے ہیں۔

مطیع سید: آپ کو میں نے دیکھا ہےکہ آپ تشہد میں مسلسل انگلی ہلاتے ہیں۔ یہ کس روایت کے تحت ہے ؟ صحیح بخاری یا صحیح مسلم کے مطالعے میں تو ابھی تک ایسی روایت نہیں آئی۔

عمار ناصر: صحیحین میں غالباً‌ نہیں آئی، لیکن بہت سی روایتیں ہیں۔ کئی صحابہ نے آپ ﷺ کا یہ عمل نقل کیا ہے کہ آپ تشہد میں دعا کرتے ہوئے اپنی شہادت کی انگلی کو ہلاتے رہتے تھے۔

مطیع سید: اس کے پیچھے کیا تصور ہے؟

عمار ناصر: بس یہ دعا کی علامت ہے۔ آپ دعاکررہے ہیں اور یہ توحید کی بھی علامت ہے۔

مطیع سید: لیکن احناف توایسا نہیں کرتے۔

عمار ناصر: وہی مسئلہ ہے کہ تمام روایتیں اس طر ح ائمہ تک قابلِ اطمینان طریقے سے نہیں پہنچیں۔ احناف تک جو روایتیں نہیں پہنچیں، میں نے اس پر تھوڑا سا کام کیا تھا۔ بہت سے مسائل ہیں جن میں ان تک روایتیں نہیں پہنچیں۔ بعض جگہ تو وہ تصریح بھی کرتے ہیں کہ ہمارے سامنے یہ روایت ہے، اس کے علاوہ کوئی روایت ہے تو ہمیں بتاؤ۔ اسی لیے امام محمدجب بعد میں مدینہ گئے تو بہت سے مسائل میں اسی بنیاد پر انھوں نے امام ابوحنیفہ کی رائے سے اختلاف کیا کہ ان کے سامنے کچھ قابل اعتماد روایات ان کی رائے کے خلاف آ گئی تھیں۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے دعا کی کہ بخار کو جحفہ کی طرف بھیج دیاجائے۔11 کیا جحفہ کوئی آباد علاقہ تھا یا کوئی ویران خطہ تھا؟

عمار ناصر: مجھے معلوم نہیں۔ ہو سکتاہے، اس وقت وہاں آبادی ہو۔

مطیع سید: اگر آباد تھا کہ تو آپﷺ بخارکو وہاں بھیجنے کے بجائے بخار کا خاتمے کی دعا بھی تو فرما سکتے تھے۔ مدینے سے بخار کو وہاں کیوں بھیج دیا گیا؟

عمار ناصر: جی یہ بھی دعا کرسکتے تھے لیکن دعا میں یہ چیز بھی دیکھنی ہوتی ہے کہ اللہ کے کسی تکوینی قانون کے تحت وباآئی ہے تو وہ تو اپنا کام پورا کر کے جائے گی۔ اللہ کی بعض سنن کو ہم اس طرح نہیں سمجھتے۔ ممکن ہے، اللہ کے قانون میں یہ ہو کہ یہ وبا جو آئی ہے، اس نے اپناحصہ لےکر ہی جانا ہے۔ البتہ اس کی شاید گنجائش ہو کہ ایک علاقے سے اسے دوسرے علاقے کی طرف بھیج دیا جائے۔ جحفہ اس وقت اگر آباد تھا تو معلوم نہیں، وہاں مسلمانوں کی آبادی تھی یا مشرکین کی۔ ممکن ہے، ایسے مشرکین ہوں جو بددعا یا عذاب کے مستحق ہوں۔ یا ہو سکتا ہے، یہ پہلو ہو کہ اگر اس وبا کی زد میں لوگوں نے آنا ہی ہے تو وہ مدینہ کے لوگ نہ ہوں، کیونکہ ہجرت کے بعد ویسے ہی یہاں کی آب وہوا اور وبا وغیرہ کی وجہ سے مہاجرین کےلیے یہاں ٹھہرنے میں کافی دقت تھی۔ تو اس نوعیت کے کئی امکان قابل غور ہو سکتے ہیں۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ قبر کاعذاب جانوربھی سنتے ہیں۔12 پھر یہ علمی اختلاف کیوں پیداہواکہ قبر یہی ہے اور یہیں پر عذاب ہو رہاہے یا کہیں اور ہو رہاہے ؟ اگر جانور عذاب کو سنتے ہیں تو پھر تو یہیں اسی قبر میں ہورہاہوگا۔ جویہ کہتے ہیں کہ اس قبر میں عذاب نہیں ہوتا، کیا ان کے سامنے یہ روایت نہیں ہے؟

عمار ناصر: یہ بحثیں صحابہ اور تابعین کے ہاں تو موجود نہیں ہیں۔ بعد کے دور میں متکلمین نے چھیڑیں۔ متکلمین میں بعض ایسے ہوتے ہیں جو نص سے قریب تر رہنے کو ترجیح دیتےہیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں جو کچھ پیدا ہونے والے عقلی سوالات کی روشنی میں ایک تعبیر کر لیتے ہیں اور روایتوں کی تشریح اس کے تحت کرتے ہیں۔ یہی کچھ اس معاملے میں بھی ہوا ہے۔ کئی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جو قبر ہے، اصل میں یہاں عذاب و ثواب نہیں ہے۔ ان کا اشکال یہ ہے کہ جو لوگ ڈوب کر مرگئے یا جنہیں جانور کھاگئے، ان کا عذاب وثواب کہاں ہوتا ہے؟ وہ تو کسی قبر میں نہیں ہیں۔ اس سے وہ یہ اخذ کرتے ہیں کہ عذاب وثواب کسی دوسرے عالم میں ہوتا ہے۔ اس کی روشنی میں وہ پھر ان احادیث کی توجیہ وتاویل کر لیتے ہیں جن میں اس مٹی کی قبر میں عذاب وثواب کا ذکر آیا ہے۔

مطیع سید: تو اس سلسلے میں کیا موقف اختیا رکر نا چاہیے؟

عمار ناصر: میراخیال یہ ہے کہ جو اس طرح کی چیزیں ہیں، ان میں کوئی ایک کلی قسم کا موقف یا نظریہ بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی آپ باقاعدہ کوئی کلیہ بنائیں، کوئی نظریہ بنائیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ نصوص سے جو بات بھی ثابت ہو، بس اس کو ویسے ہی مان لینا چاہیے، اس سے کوئی کلی قاعدہ یا اصول نہیں بنانا چاہیے۔ اگر آپ قرآن میں دیکھیں تو آپ کو دونوں تینوں طر ح کے شواہد مل جائیں گے۔ بعض ایسے ہیں جن سے عذابِ قبر نہ ہونے پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً‌ سورۃ یسین میں تصریح ہے کہ کفار کو جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو وہ حیران ہوں گے کہ من بعثنا من مرقدنا ھذا، ہم تو سوئے ہوئے تھے، کس نے ہمیں اٹھا دیا۔ مطلب یہ کہ درمیان کے دور کا انہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ اس طرح حدیثوں میں کچھ ایسی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ یہ جو قبر میں پڑا ہوا جسم ہے، اسی کے ساتھ عذاب و ثواب کا تعلق ہے۔

بعض ایسی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ مثال کے طور پر شہدا ء کو پرندوں کے جسم دے دیے جاتے ہیں اور وہ ان اجسام میں نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اب ان چیزوں کی کھود کرید میں پڑنے کی بجائے یہ کہہ دینا زیادہ درست ہے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ ہو سکتا ہے یہاں بھی ہو اور کسی دوسرے جہان میں بھی ہو۔ یا یہ کہ کچھ انسانوں کے ساتھ یہاں ہو اور کچھ کے ساتھ وہاں ہو۔ تفصیل میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کااور پیغمبر کا اصل مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ جو مرنے اور جی اٹھنے کے درمیان کا عرصہ ہے، اس میں اس طرح کے معاملات ہوتے ہیں۔ اب اس میں اس بحث کا کیا فائدہ ہے کہ اس جسم کے ساتھ نہیں ہوتا، بلکہ جسم ِ مثالی کے ساتھ ہوتا ہے ؟ عذاب بہرحال بندے کو ہوتا ہے اور اس کی تکلیف ہوتی ہے۔ وہ اس جسم کو ہو یا جسمِ مثالی کوہو، اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے۔

مطیع سید: کیا خاص طور پر جمعہ کا روزہ رکھنا منع ہے؟ روایت میں اس کی ممانعت آئی ہے۔13

عمار ناصر: حدیث میں ہے کہ صرف جمعے کو روزے کے لیے خاص نہ کیا جائے، بلکہ اگر روزہ رکھنا ہو تو اس سے پہلے یا اس کے بعد بھی کوئی دن ساتھ ملا لیا جائے۔ اس سے یہ لگتا ہے کہ جمعے کے دن اس طرح روزے کا اہتمام کرنے سے روکنا مقصود ہے جس سے یہ لگے کہ یہ دن روزے کے ساتھ کوئی خاص مناسبت رکھتا ہے۔ اگر یہ پہلو نہ ہو اور اہتمام کے بغیر کبھی روزہ رکھ بھی لیا جائے تو اس کی ممانعت نہیں۔ بعض شارحین کہتے ہیں کہ شاید اس پہلو سے آپﷺ نے منع کیا کہ جمعہ کے دن لوگوں کو کچھ مشقت اٹھا کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانا ہوتا ہے تو آپ نے عام لوگوں کی مشقت کا لحاظ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اس دن روزہ نہ رکھیں۔

مطیع سید: ایک روایت میں ہے کہ آپ نے کسی کو مٹھی بھرکر درہم دیے۔ راوی بتاتا ہے کہ یہ پانچ سو درہم تھے۔14 یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ہاتھ میں پانچ سو درہم آجائیں ؟ اتنا چھوٹا سکہ تو اس وقت غالباً‌ نہیں ہوتاہوگا۔

عمار ناصر: یہ تو درہم کا حجم دیکھنے سے ہی کچھ اندازہ ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے، دونوں ہتھیلیاں ملا کر درہم اٹھائے گئے ہوں اور ان کی تعداد پانچ سو بن جاتی ہو۔

مطیع سید: ذوالحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد ناخن اوربال نہ کٹوانا،15 یہ حکم استحبابی ہے، یہ کیسے معلوم ہوا؟روایات میں تو ظاہراً‌ تاکیدی حکم ہی دیا گیا ہے۔

عمار ناصر: اصل میں ہر حکم کے بارے میں فقہا مجموعی دلائل اور کسی حکم کے گر دو پیش کے قرائن سے یہ متعین کرتے ہیں کہ اس کا فقہی درجہ کیا ہے۔ اس حوالے سے احناف نے ایک بڑا اہم عقلی اصول بیان کیا ہے کہ شریعت میں کوئی حکم جو تمام مسلمانوں سے متعلق ہو یعنی عموم بلویٰ کی نوعیت رکھتا ہو، وہ اگر کسی خبر واحد میں آیا ہو تو وہ واجب نہیں ہو سکتا، وہ صرف مستحب ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر شارع کی نظر میں وہ واجب ہوتا تو پھر اس کا ابلاغ کسی خبر واحد سے نہیں، بلکہ شہرت اور تواتر کے ساتھ کیا گیا ہوتا۔ ناخن اور بال نہ کاٹنے کی روایت بھی چونکہ خبر واحد ہے، اس لیے خصوصاً‌ احناف کے اصول کے مطابق یہ واجب نہیں ہو سکتا۔


حواشی

  1.  صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الطہارۃ، باب فی وضوء النبی صلى الله عليہ وسلم، رقم الحدیث: 235، جلد: 1، ص: 210
  2.  صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب العلم، ‌‌باب من اعاد الحديث ثلاثا ليفهم عنہ، رقم الحدیث: 96، ص: 99
  3.  صحیح البخاری، ‌‌‌‌کتاب الوضوء، ‌‌‌‌باب التبرز فی البيوت، رقم الحدیث: 148، ص: 113
  4.  صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الصلاۃ، باب الامر بالسكون فی الصلاۃ والنہی عن الاشارة باليد ورفعہا عند السلام، رقم الحدیث: 430، جلد: 1، ص: 322
  5.  صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الصلاۃ، ‌‌باب اذا صلى فی ثوب لہ اعلام ونظر الى علمہا، رقم الحدیث: 373، ص: 167
  6.  صحیح مسلم، ‌‌‌‌كتاب الصلاۃ، باب قدر ما يستر المصلی، رقم الحدیث: 510، جلد: 1، ص: 365
  7.  صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب الصلاۃ، ‌‌باب اذا حمل جاريۃ صغيرة على عنقہ فی الصلاة، رقم الحدیث: 516، ص: 197
  8.  صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب مواقیت الصلاۃ، ‌‌باب: الابراد بالظہر فی شدة الحر، رقم الحدیث: 536، ص: 202
  9.  صحیح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب السہو فی الصلاة والسجود لہ، رقم الحدیث: 572، جلد: 1، ص: 401
  10.  صحیح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب السہو فی الصلاة والسجود لہ، رقم الحدیث: 572، جلد: 1، ص: 401
  11.  صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب مقدم النبیﷺ واصحابہ المدینۃ، رقم الحدیث: 3926، ص: 988
  12.  صحیح مسلم، كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب التعوذ من عذاب القبر، رقم الحدیث: 586، جلد: 1، ص: 411
  13.  صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم الجمعۃ، رقم الحدیث: 1985، ص: 522
  14.  صحیح البخاری، کتاب الشھادات، باب من امر بانجاز الوعد، رقم الحدیث: 2683، ص: 691
  15.  صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب نہی من دخل عليہ عشر ذی الحجۃ وہو مريد التضحيۃ ان ياخذ من شہره او اظفاره شيئا، رقم الحدیث: 1977، جلد: 3، ص: 1565
(جاری)

دینی جدوجہد کے مورچے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مجلس احرار اسلام  پاکستان کی سالانہ کانفرنس میں گفتگو )


حضرت خواجہ ناصرالدین خاکوانی، امیر محترم سید محمد کفیل شاہ بخاری، اکابر علمائے کرام، محترم بزرگو اور دوستو!

میں   حسب معمول سب سے پہلے دو باتوں پر  مجلس احراراسلام کا شکریہ ادا کروں گا۔  ایک تو اس پر کہ انہوں نے مورچہ قائم رکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالی اس مورچے کو قائم رکھیں، کیوں کہ ابھی اس مورچے کے بہت سارے کام باقی ہیں۔ اور دوسرا اس بات پر کہ مجھے بھی اکثر حاضری کا موقع دے دیتے ہیں۔ میری یہاں حاضری صرف نسبت کو تازہ کرنے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے ہوتی ہے کہ کن بزرگوں اور کس قافلے سے ہماری نسبت ہے اور کس  تسلسل سے ہے۔  اللہ تعالی اس قافلے اور تسلسل کو قائم رکھیں۔  اسی پر زندگی گزارنے کا موقع دیں اور اسی پر موت عطا فرمائیں۔

  یہ مجلس احرار اسلام کی سالانہ کانفرنس ہے اور بہت اہم مقام پر ہے۔  میں کوئی تقریر کرنے کی بجائے اس وقت ہمیں قومی سطح پر دینی جدوجہد کے حوالے سے جو مسائل درپیش ہیں اور اس مورچے اور اس جیسے مورچوں کے حوالے سے جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے، ان کی ایک فہرست عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم کہاں کہاں پھنسے ہوئے ہیں اور کیا کیا مسائل درپیش ہیں اور وہ مسائل کس لیول پر ہیں؟   ان مسائل کی فہرست پیش کروں گا اور پھر اپنی فکر اور سوچ کے مطابق اس کی وجہ عرض کروں گا کہ ہم کیوں پھنسے ہوئے ہیں؟ اور پھر فیصلہ آپ پر چھوڑ کر اجازت چاہوں گا۔  

ہمیں اس وقت پاکستان میں سب سے پہلا مسئلہ دستور کے حوالے سے درپیش ہے۔  اس سے پہلے ہم کہا کرتے تھے کہ دستور کی بالادستی اور پاسداری ہونی چاہیے۔  بڑی مشکل سے اور طویل جدوجہد کے بعد ہم نے 1973ء میں ایک متفقہ دستور حاصل کیا تھا اور نافذ کیا تھا۔  وہ دستور دینی مکاتب فکر کے ہاں بھی متفقہ تھا، سیاسی جماعتوں کے ہاں بھی متفقہ تھا اور علاقائی قومیتوں کے ہاں بھی متفقہ تھا۔  پوری قوم اس پر متفق تھی اور اصولی طور پر اب بھی متفق ہے اور متفق چلی آ رہی ہے۔  ہم اب تک یہ کہہ رہے ہیں کہ دستور کی بالادستی اور عملداری قائم ہونی چاہیے، دستور کے مطابق ملک کا نظام چلنا چاہیے اور تمام اداروں اور طبقات کو دستور کے دائرے میں رہنا چاہیے۔ یہ ہمارا اصولی موقف ہے اور ہم یہ بات کرتے چلے آرہے ہیں۔

  لیکن میں انتہائی تکلیف کے ساتھ اپنے قلق کا اظہار نہیں کر سکتا جو میں چند دنوں سے محسوس کر رہا ہوں کہ اب ہمیں دستور کی بقاء اور تحفظ کی بات کہنا پڑ رہی ہے اور ایک سیاسی کارکن کے طور پر مجھے محسوس ہورہا ہے کہ شاید ہمارا اگلا سب سے بڑا نعرہ اور سب سے بڑی جدوجہد کا عنوان یہی ہوگا۔ میری ان مقامات پر نظر ہے جہاں سے دستور کو سبوتاژ کرنے کی آوازیں اٹھ رہی ہیں، اور ذہن سازی کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں اور دونوں طرف سے یہ خطرہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ ان حلقوں کی طرف سے بھی جو دستور کو قائم نہیں دیکھنا چاہتے اور بدقسمتی سے ان حلقوں کی طرف سے بھی جو دستور کی دفعات اور اسلامی شقوں پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر کے اس طرف سے بھی دستور کی رٹ کو چیلنج کرنے کا پروگرام رکھتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔  مجھے دونوں طرف سے دستور کو خطرہ نظر آ رہا ہے۔  اللہ میری بات غلط کرے لیکن شاید اب ہمیں قومی سطح پر سب سے بڑی جنگ دستور کے تحفظ کی لڑنی پڑے گی۔  میں آپ سے احرار کے فورم پر کھڑے ہو کر عرض کر رہا ہوں کہ اس کے لیے ابھی سے تیاری شروع کریں۔

دستور ہمارے ملک کی وحدت کی علامت، ہمارے اسلامی تشخص اور  ہمارے ایمانی جذبات کی علامت ہے۔  خدانخواستہ کہیں سے بھی اس کو نقصان پہنچ گیا تو شاید عالم اسباب میں  ہماری قوم دستور جیسی  کسی دستاویز  پر متفق نہ ہو سکے۔

 ہمیں عالمی سطح پر جو دوسرا بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ عقیدہ ختم نبوت کی دفعات کا مسئلہ ہے،  جس سے متعلق ہم سے مسلسل مطالبہ کیا جا رہا ہے۔  یو این کے ادارے، یورپی یونین، آئی ایم ایف اور بین الاقوامی ادارے مطالبہ کر رہے ہیں کہ قادیانیوں کے خلاف جو دستوری اور اصولی فیصلے موجود ہیں وہ فیصلے واپس لیے جائیں یا کم از کم غیر مؤثر بنائے جائیں۔  عالمی سطح پر بین الاقوامی اداروں کی طرف سے ہم سے یہ مطالبہ جاری ہے۔  لیکن الحمدللہ دو مسئلے ایسے ہیں کہ جن پر ہماری قوم کسی کی بات نہیں سن رہی۔  نہ اقوام متحدہ کی بات سن رہی ہے اور نہ یورپی یونین کی بات سن رہی ہے۔  ان میں سے ایک ختم نبوت کا مسئلہ ہے اور دوسرا تحفظ ناموس رسالت کا مسئلہ ہے۔  اور میرے جیسے کارکنوں کا یہی آخری سہارا ہے کہ یہ ہماری آخری دفاعی لائن ہے جس کو کوئی کراس نہیں کر پا رہا ۔اللہ تعالی اس دفاعی لائن کو سلامت رکھیں۔

ختم نبوت کے حوالے سے ہمیں یہ مسئلہ درپیش ہے اور قادیانیوں کے حوالے سے ہم سے مطالبہ کیا جا رہا ہے اور 1974 کے بعد سے تسلسل کے ساتھ یہ مطالبہ جاری ہے۔  کئی دفعہ ان مطالبات کو پورا کرنے کی کوشش ہوئی ہے اور ایسے فیصلے ہوئے ہیں، لیکن آپ حضرات کی بیداری اور بیدار مغزی کے عمل نے ان کے سامنے رکاوٹ ڈالی ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ بھی ہمارے جذبات اور ہماری دینی حمیت اور غیرت ایسی کسی بھی کوشش کی راہ میں رکاوٹ بنے گی۔

 تحفظ ناموس رسالت کے مسئلے پر بھی ایسی ہی صورتحال ہے اور وہی تقاضے ہیں بلکہ اب تو ایک تقاضا  اور بڑھ گیا ہے۔  پہلے یہ مطالبہ تھا کہ توہین رسالت پر قتل کی سزا کا قانون ختم کیا جائے۔  اب اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ مطالبہ ہے کہ موت کی سزا ہی سرے سے ختم کی جائے۔  چاہے وہ قصاص کے طور پر ہو، یار جم کے طور پر ہو، یا توہین رسالت کے جرم پر ہو،  سرے سے موت کی سزا ہی ختم کی جائے۔  شرائط اور دباؤ کے ساتھ ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے اور ہم ایک عرصے سے اس دباؤ کا شکار ہیں کہ موت کی سزا ختم کرو تو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاملات صحیح ہو سکتے ہیں، ورنہ نہیں۔  تجارتی مراعات موت کی سزا ختم کرنے کے ساتھ مشروط ہیں وغیرہ۔ اب ہم اس مقام پر کھڑے ہیں۔  

 اس کے علاوہ ہمیں شروع سے ہی خاندانی نظام کا مسئلہ درپیش ہے۔  ہماری تہذیب و ثقافت اور کلچر، دوسرے لفظوں میں اسے مشرقی کلچر، پاکستانی کلچر یا مسلم کلچر کہہ لیں۔  ہماری ایک تہذیب ہے، ہماری ثقافت چلی آ رہی ہے، ہم اس پر قائم ہیں اور اپنی تہذیب و ثقافت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نہیں ہوں گے۔  لیکن خاندانی نظام میں مسلسل قوانین میں ترمیم کے ذریعے ہمارے اس سسٹم کو کمزور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ 1962ء میں پہلا قانون آیا تھا اور پھر قوانین پر قوانین آ رہے ہیں۔  میں صرف مثال کے طور پر عرض کرنا چاہوں گا تفصیل کا موقع نہیں ہے کہ طریقہ واردات کیا ہے؟ قانون کا عنوان کچھ اور ہوتا ہے اور اس قانون کے اندر کچھ اور ہوتا ہے۔

 آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ پہلے گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے ایک قانون منظور اور نافذ ہوا۔  اس کی باقی تمام شقوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، میں صرف مثال کے طور پر بات عرض کروں گا کہ گھریلو سسٹم میں خاندان اور میاں بیوی کے درمیان تنازعات اور جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ میاں بیوی کے جھگڑے کو ختم کرنے کا پراسس قرآن مجید نے بیان کیا ہے:  ان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اھلہ وحکما من اھلھا۔  قرآن پاک کہتا ہے کہ اگر میاں بیوی میں جھگڑا ہو جائے تو یہ جھگڑا عدالتوں میں نہ لے جائیں بلکہ گھر بیٹھ کر اس کو حل کریں اور خاندان کے اندر اسے طے کریں۔ میاں بیوی دونوں کے خاندانوں کا ایک ایک نمائندہ بیٹھ کر اسے طے کرے۔ قرآن مجید نے جو یہ پراسس دیا کہ میاں بیوی کا کوئی جھگڑا اور تنازعہ باہر لے جانے کی بجائے گھر کی چار دیواری میں گھر کے ماحول میں طے کیا جائے، اس قانون کے تحت یہ سارا پراسس ختم کردیا گیا ہے۔ میاں بیوی میں جھگڑا ہوگیا تو ہمارا قانونی پراسس یہ ہے کہ بیوی ایس ایچ او کو فون کرے اور ایس ایچ او خاوند کو گرفتار کرکے اسے کڑا ڈال لے اور اس کے بعد عدالت میں خاوند سے پوچھا جائے گا کہ جھگڑا کیا ہے؟ یوں پورے کا پورا خاندانی نظام تتربتر کردیا گیا ہے۔

  جو ٹرانس جینڈر پرسن کا ایکٹ ہے یہ 2018ء سے نافذ ہے۔ دوست پوچھتے ہیں کہ یہ قانون 2018ء میں نافذ ہوا تھا تو ابھی تک خاموشی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں خاص تکنیک ہے۔  اس بات سے آپ اندازہ کر لیں کہ یہ قانون سینٹ اور قومی اسمبلی میں 2017ء میں پیش ہوا تھا، دو جماعتوں کے نمائندوں نے جمعیت علماء اسلام کی نعیمہ کشور اور جماعت اسلامی کی نمائندہ عائشہ سیدہ نے فورم پر بڑی مضبوطی سے اس قانون کی مخالفت کی تھی، لیکن یہ قانون آخری سیشن میں پاس ہوا اور اس کے دو گھنٹے بعد اسمبلی تحلیل ہو گئی اور ساتھ ہی ملک میں الیکشن کا ہنگامہ کھڑا ہوگیا اور یہ سارا معاملہ الیکشن کے نیچے دب گیا۔ یہ تکنیک اختیار کی گئی تاکہ کوئی بات نہ کر سکے۔  بعد میں اس کے پرت کھلتے گئے تو واضح ہوتا گیا کہ یہ کچھ ہوا ہے۔

 اس کی تفصیلات کا موقع نہیں ہے، لیکن ٹرانس جینڈر ایکٹ کیا ہے؟ مختصر عرض کروں گا کہ اس کا عنوان خواجہ سراؤں کے حقوق کے متعلق ہے۔  خواجہ سرا قوم کا معذور طبقہ ہے، جس کی تعداد پاکستان میں بہت کم ہے۔ اوریجنل خواجہ سرا اور بتکلف خواجہ سرا بننے والوں کی تعداد کا کیا تناسب ہے؟ لیکن جو اوریجنل خواجہ سرا ہیں، شریعت نے اس کا حل نکالا ہے کہ جس میں مرد کی علامتیں زیادہ ہوں وہ مرد شمار ہوگا اور جس میں عورت کی علامتیں زیادہ ہوں وہ عورت شمار ہوگی۔  احکام شرعیہ میں یہ واضح طور پر موجود ہے۔  خنثیٰ مشکل جس کی جنس کی سمجھ نہ آ رہی ہو فقہاء نے اس کے احکام بھی ذکر کئے ہیں۔

 میں نے ڈاکٹر صاحبان کی ایک مجلس میں سوال کیا کہ باقی تمام مسائل میں میڈیکل ٹیسٹ ہوتا ہے تو اس معاملے میں میڈیکل ٹیسٹ کیوں نہیں ہوتا؟   باقی معذوریوں کو میڈیکل ٹیسٹ کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے تو یہاں کیوں نہیں کیا جا سکتا؟اس پر اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت تھی؟ لاکھ میں دو آدمی  اس نوعیت کے ہوں گے تو ان کے مسئلے کا سادہ سا حل ہے کہ جو چند افراد ملک میں ایسے ہیں تو اس کا میڈیکل حل نکالو۔  کیا ان کا میڈیکل نہیں ہو سکتا، کیا میڈیکل والے فوت ہو گئے ہیں، ان کے پاس اس کا کوئی حل نہیں ہے ؟

 لیکن ہوا یہ ہے کہ چند خواجہ سراؤں کے مسئلے کو بنیاد بنا کر کہ ہم نے ان کی معذوری اور مجبوری کو ڈسکس کرنا ہے، پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا پروگرام دے دیا گیا ہے۔ عنوان یہ ہے کہ ہم نے خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور پریکٹیکل طور پر پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا ایجنڈا دے دیا گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق ملک کا کوئی بھی شہری کوئی بھی مرد نادرا سے اپنے آپ کو عورت رجسٹر کروا  سکتا ہے اور کوئی بھی عورت اپنے آپ کو مرد رجسٹر کروا سکتی ہے اور نادرا پابند ہے کہ وہ جو حلفیہ بیان دے اس کے مطابق اسے رجسٹر کرے۔

 میں نے یہ عرض کیا کہ ہمارا خاندانی نظام جسے 1962ء میں چھیڑنا شروع کیا تھا اور چھیڑ تے چھیڑتے اب اس مقام پر آ گئے ہیں کہ مرد اور عورت کی جنس ہی مشکوک ہو گئی ہے اور پوری قوم کو خواجہ سرا بنانے کا ایجنڈا قوم کے سامنے رکھ دیا گیا ہے۔

میں نے چند  قومی مسائل کا ذکر کیا۔ دستور، ختم نبوت کے قوانین، ناموس رسالت کے تحفظ کا قانون اور خاندانی نظام۔ اب میں اوقاف کی طرف آتا ہوں۔ ہمارے ہاں انگریزوں کے دور میں جب برطانوی حکومت نے 1857ء میں یہاں قبضہ کیا تھا  تو اوقاف کے پرانے قوانین منسوخ کر دیے تھے اور نئے قوانین نافذ کیے تھے تو میں یہ تاریخی حقیقت عرض کرنا چاہوں گا کہ آزادی کی جنگ علماء اور دینی جماعتوں نے لڑی تھی، لیکن اس میں کوئی کلام نہیں ہے کہ مسلمانوں کے تشخص کی جنگ، اوقاف کی جنگ اور مسلمانوں کے اپنے معاملات میں شریعت کے قوانین کی جنگ سرسید احمد خان نے لڑی تھی کہ مسلمان الگ قوم ہے، اس کا اپنا تشخص ہے،ان کی اپنی تہذیب ہے، جسے محفوظ رہنا چاہیے اور اوقاف کی جنگ بھی انہوں نے لڑی ۔میں ریکارڈ کی بات سامنے لانا چاہوں گا۔ یہ بات کہ اس ملک میں مسلمانوں کے اوقاف مسلمانوں کے مذہبی قوانین کے دائرے میں رہنے چاہییں، یہ لڑائی سرسید احمد خان، جسٹس امیر علی اور پھر قائد اعظم محمد علی جناح نے لڑی۔  وائسرائے کی ۔۔۔۔ کونسل میں قائد اعظم کی تقریر ہے کہ ہمارے اوقاف کے معاملات میں ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے تمام قوانین شریعت کے قانون کے مطابق طے کیے جائیں۔

 انگریزوں نے ہمیں یہ حق دیا تھا کہ وقف کے مسائل اور خاندانی نظام کے مسائل شریعت کے مطابق ہوں گے۔ انگریزوں نے تو ہمیں یہ حق دیا تھا لیکن آج میں بڑے دکھ کے ساتھ عرض کروں گا کہ وہ مذہبی آزادی اور وقف کا تحفظ جو ہمیں انگریزوں نے دیا تھا اس اوقاف ایکٹ کے تحت ہم سے چھین لیا  گیا ہے۔ وہ حقوق جو سرسید احمد خان، جسٹس امیر علی اور قائد اعظم مرحوم نے جنگ لڑ کر حاصل کیے تھے کہ ہمارے اوقاف کے قوانین اور خاندانی قوانین شریعت کے مطابق ہوں گے، آج گھریلو تشدد کے خاتمے کے عنوان سے اور اوقاف ایکٹ کے حوالے سے وہ تمام مذہبی آزادیاں ہم سے سلب کر لی گئی ہیں اور ہم خاموش تماشائی ہیں۔ یہ سب ابھی ہمارے سامنے ہوا ہے۔

قومی مسائل کی فہرست تو لمبی ہے۔ ان میں سے ایک مسئلہ اور عرض کر دیتا ہوں۔ پاکستان بنتے ہی طے ہوا تھا اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم  نے سٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ ہمارے ملک کا معاشی نظام مغربی اصولوں پر نہیں ہوگا، بلکہ اسلامی اصولوں پر ہوگا۔ قائد اعظم کا یہ خطاب ریکارڈ پر ہے۔ اس کے بعد ہمارے ملک کے ہر دستور نے یہ وعدہ کیا کہ ہم سودی نظام سے ملک کو نجات دلائیں گے۔ 1973ء کے دستور نے گارنٹی دی کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ کم سے کم عرصے میں سودی نظام کو ختم کرے۔  پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے سودی نظام کی تعیین اور اس کی متبادل صورتیں سارا سسٹم مکمل کیا اور  اس کے مطابق وفاقی شرعی عدالت نے سودی قوانین کے خاتمے کا فیصلہ دیا، متبادل قوانین دیے اور پورا سسٹم دیا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس فیصلے کی بنیاد پر اسے قائم رکھا اور اس پر فیصلہ دیا کہ ہم سود کو ختم کریں گے۔ اس کے بعد نظر ثانی کی اپیل ہوئی اور فیصلہ دوبارہ وفاقی شرعی عدالت میں گیا۔ وفاقی شرعی عدالت نے انیس سال کے بعد فیصلہ دیا کہ  وہ فیصلہ ٹھیک تھا اور حکومت سے کہا کہ سودی نظام ختم کرو۔

 لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وزیر اعظم محترم  نے ٹاسک فورس قائم کی، لیکن میں بڑے تعجب سے یہ بات کہوں گا۔ میں نے ٹاسک فورس کے ایک اہم ادارے کو خط لکھا کہ جناب !آپ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے ٹاسک فورس کا بھی حصہ ہیں اور آپ نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے سٹے بھی لے لیا ہے۔ ادھر  عمل درآمد کی میز پر بیٹھے ہیں اور ادھر عدالت میں سٹے لے کر کھڑے ہیں، یہ کیا تضاد ہے؟  اور اب دوبارہ غیر معینہ مدت کے لیے۔۔۔۔۔۔

 یہ میں نے صرف چند مسائل کی ایک جھلک عرض کی ہے۔ باقی مسائل کی فہرست کو  چھوڑتے ہوئے عرض کروں گا کہ ان مسائل کی بنیادی وجہ کیا ہے؟  ایک مذہبی اور سیاسی کارکن کے طور پر میں اس کی جو وجہ سمجھتا ہوں وہ عرض کرتا ہوں۔

 پہلی بات یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہمارے قومی ادارے اور کسی استثناء کے بغیر ہمارے تمام ریاستی ادارے نہ اسلام کے نظام میں سیریس ہیں ، نہ سودی نظام کے خاتمے میں سیریس ہیں اور نہ  ہی قومی خودمختاری میں سیریس ہیں۔ ہمیں اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔  ہم ایڈھزم،” ڈنگ ٹپاؤ“ کی پالیسی پر چل رہے ہیں کہ وقت گزارو۔ ان تمام مسائل کی پہلی وجہ یہ ہے کہ تمام ریاستی ادارے ان معاملات میں سیریس نہیں ہیں۔ ہماری سنجیدگی کا حال یہ ہے کہ ہم ٹاسک فورس میں بھی بیٹھے ہیں اور سٹے کی اپیل میں بھی کھڑے ہیں۔

 ان مسائل کی دوسری وجہ بیرونی مداخلت ہے۔ ہم نے جتنے بھی اس طرح کے کام کیے ہیں وہ سب بیرونی مداخلت پر کیے ہیں۔ ختم نبوت کے قوانین کو ختم کرنے کرنے کے لیے اندر سے آواز آئی یا باہر سے آواز آرہی ہے؟  بیرونی دباؤ ہے۔ ناموس رسالت کے قانون کو جس خطرے کا سامنا ہے وہ اندر سے ہے یا باہر سے ہے؟  خاندانی نظام کے حوالے سے جو قوانین بنائے گئے ہیں یہ ہم نے طے کیے ہیں یا باہر سے آئے ہیں ؟  اوقاف کے قوانین ہم نے بنائے ہیں یا باہر سے آئے ہیں؟  گھریلو تشدد کا قانون۔۔۔۔۔ نے بھیجا ہے، سٹیٹ بینک کو بیرونی نگرانی میں دینے کا قانون آئی ایم ایف نے بھیجا ہے۔ مسلسل   بیرونی مداخلت ہے جو ہمارے قوانین کا حلیہ بگاڑ رہی ہے۔ اس لیے میں یہ عرض کروں گا کہ اب ہمیں ان ساری باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے سب سے بڑی جنگ بیرونی مداخلت کے خلاف لڑنی ہوگی۔  ہمارے ملک کی قانون سازی بیرونی مداخلت سے پاک ہونی چاہیے، ورنہ دستور کی بالادستی بھی سوالیہ نشان ہے اور ملک کی خودمختاری بھی سوالیہ نشان ہے۔ہمیں دستور کے تحفظ اور بالادستی کے لیے بیرونی مداخلت کے خاتمے اور بیرونی مداخلت کا راستہ روکنے کے لیے بحیثیت قوم متحد ہونا ہوگا اور تمام طبقات، تمام جماعتوں اور تمام اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ورنہ ایسٹ انڈیا کمپنی سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔  اللہ تعالیٰ اس ملک کی حفاظت فرمائیں۔

مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ اور اُن کی دینی خدمات

پروفیسر ڈاکٹر انعام الحق غازی

پیدائش

مولانا محمد علی صدیقیؒ   ( 12 مارچ 1910تا  16 دسمبر 1992)   المعروف مولانا محمد علی کاندھلوی یکم ربیع الاول ۱۳۲۷ ہجری  بمطابق 12 مارچ 1910عیسوی  بروز پیر ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ کے محلہ مولویاں میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ نے آپ کا نام علی احمد رکھا جب کہ آپ کے والد گرمی پیار سے آپ کو  حیدر کہتے تھے۔ بعد  میں آپ محمد علی کے نام سے پکارے جانے لگے۔1

خاندان

 مولانا ؒ چار بھائی  اور دو بہنیں تھیں۔ بھائیوں کے نام بالترتیب حکیم محمد عمر، حکیم محمد عثمان اور  مولانا بشیر احمد ہیں۔ مولاناؒ کے والدِ گرامی کا نام مولانا حکیم صدیق احمدؒ تھا۔ آپ حضرت  مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ کے ارشد تلامذہ اور اجل خلفاء میں سے تھے یعنی علمِ ظاہر اور علمِ باطن دونوں میں حضرت گنگوہی سے فیض یاب تھے۔ آپ نسباً‌ حضرت  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اولاد ہونے کی وجہ سے صدیقی تھے۔  مونالا کے والدِ گرامی زمینداری اور طبابت کے ساتھ ساتھ شیخ ِطریقت بھی تھے اور آپ کا  حلقۂ   ارادت  کافی وسیع تھا۔جمعہ کے روز خصوصیت سے ارادت مندوں کا جھمگٹا رہتا تھا۔ مولانا کے والدِ گرامی حکیم صدیق احمدؒ نے طبابت کا پیشہ حضرت گنگوہی ؒ کی ہدایت کے مطابق اختیار کیا تھا۔ یہ علم نہیں  ہو سکا کہ آپ نے علمِ طبابت کس سے حاصل کیا، تاہم  آپ کے دادا (مولانا محمد علی صدیقی ؒکے پڑدادا) حکیم رحیم اللہ ایک جید اور حاذق طبیب تھے اور دور دور تک آپ کی شہرت تھی۔ آپ اُن لوگوں میں  شامل تھے جو حضرت سید احمد بریلویؒ کے ساتھ جہادِ بالاکوٹ میں شریک تھے۔ انہی حکیم رحیم اللہ کے والد  حکیم عزیز اللہ اور دادا حکیم حفیظ اللہ بھی طبابت کرتے تھے۔ حضرت مولاناؒ کے والدِ گرامی مولانا صدیق احمدؒ کو فقہ میں بھی خداداد ملکہ تھا۔ تمام ہمعصر  ان کی فقاہت کا لوہا مانتے تھے۔ فقہ حنفی پر اُن کی نظر صرف مقلدانہ نہیں بلکہ محققانہ تھی۔ انہوں نے فقہ حنفی  کا بڑا علمی اور تحقیقی مطالعہ کیا تھا۔ دلائل کو عنوان بنا کر ایک مبسوط کتاب بھی لکھی تھی جو اکثر تو محفوظ نہ رہ سکی تاہم حضرت مولانا ؒ کی کاوش سے بچے کھچے کچھ اوراق جمع کیے گئے تو پوری کتاب الطہارۃ بن گئی جو کہ دو سو (200) صفحات پر مشتمل تھی۔ فقہ پر دلائل کی فراہمی پر انہوں نے کس قدر محنت کی ہو گی اور کتنا عرصہ لگایا ہو گا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہ صرف کتاب الطہارۃ کی ترتیب  میں انہوں نے کم و بیش ساٹھ ۶۰ حدیث کی کتابوں  سے اور 30 فقہ کی کتابوں سے استفادہ کیا۔

مولانا محمد علی صدیقیؒ کے والدِ گرامی ایک جامع شخصیت تھے۔ وہ مفسرقرآن تھے، محدث تھے، فقیہ تھے، روحانی بیماریوں کے لیے مرشدِ کامل اور جسمانی بیماریوں کے لیے طبیب حاذق تھے۔ آپ 1921ء میں جب  کہ مولاناؒ کی عمر صرف  گیارہ سال تھی اس دار فانی سے رخصت  ہو گئے2۔

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ مولانا کا شجرہ نسب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔  یہاں اُن کے شجرہ نسب کا  بیان مقصود نہیں البتہ اُن کے خاندان کے ایک جلیل القدر بزرگ کا مختصر تذکرہ فائدے سے خالی نہیں ہو گا یعنی ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف عالم دین اور احتساب کے ادارے کے بانی قاضی ضیاء الدین سنائی  (641ھ-718ھ) ،جو کہ سلطان علاء الدین خلجی (1296-1316 عیسوی )کے دور میں محتسب کے منصب پر فائز رہے ۔  قاضی صاحب دیانت داری اور تقوی میں مقتدائے وقت تھے۔ حکومت کی جانب سے احتساب کا کام ان کے سپرد تھا۔ حضرت  سلطان الھند شیخ نظام الدین اولیاء ؒ  کی محفلِ سماع پر ہمیشہ اعتراض کرتے تھے۔ جب قاضی صاحب مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے تو شیخ نظام الدین اولیاء ؒ  ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ قاضی صاحب کو جب اطلاع ہوئی تو اپنی دستار شیخ المشائخ کے لیے راستے میں بچھوا دی۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ نے دستار زمین سے اٹھا کر آنکھوں سے لگا لی۔ جب شیخ المشائخ  اُن کے سامنے پہنچے  تو  قاضی صاحب نے شرم کے مارے آنکھیں نہ ملائیں۔ حضرت نظام الدین ؒ اٹھ کر باہر تشریف لائے ہی تھے کہ قاضی صاحب کی وفات ہو گئی۔ شیخ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور فرمانے لگے:  

"ایک ہی ذاتِ گرامی شریعت کی حمایت کرنے والی تھی، افسوس کہ وہ بھی نہ رہی"۔

قاضی ضیاء الدین سنائی ؒ جب پہلی بار احتساب کی نظر سے حضرت بو علی شاہ قلندرؒ کے پاس  گئے تو اُنہوں نے دو تین بار تیز نگاہ سے اُن کی طرف دیکھا لیکن کوئی اثر نہ ہوا۔ جب مولانا سنامیؒ  چلے گئے تو  لوگوں نے قلندرؒ صاحب سے کہا کہ آج  تو ضیاء الدین سنائی نے آپ پر بڑی سختی کی، فرمایا:

"دو تین بار میں نے چاہا کہ اس پر حملہ کر دوں لیکن اُس نے شریعت کی زرہ پہن رکھی تھی، میرے تیر نے اس پر اثر نہ کیا"۔

قاضی ضیاء الدین سنائی ؒ نے دہلی  میں ہفتہ وار درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا تو اس میں معاشرے کے تمام طبقات کے لوگ شریک ہونے لگے اور بقول مؤلف تاریخِ فیروز شاہی، شرکاء کی تعداد تین ہزار تک ہو جایا کرتی تھی۔ قاضی  ضیا ء الدینؒ نے احتساب کے متعلق ایک معرکۃ الآراء کتاب "نظام الاحتساب" کے نام سے تحریر کی جس میں احتساب کے بنیادی خدوخال، اُصول، اہمیت اور نفاذ کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ قاضی ضیاء الدین کے جاری کردہ فتاوی کو "الفتاوي الضيائية" کے نام سے  جمع بھی کیا گیا جو شریعت ، شرعی احکام کے استنباط اور اجتہادی طریقوں کا مرقع تھا3۔

بچپن ( چند واقعات) 

یہاں حضرت مولانا محمد علی صدیقیؒ کے بچپن کے چند واقعات کے ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اُس ماحول کے بارے میں علم ہو سکے جس میں  مولانا نے پرورش پائی۔

تعلیم و تربیت

مولاناؒ نے حفظِ قرآن پاک اپنی والدہ محترمہ سے شروع کیا اور تیسویں کی ۱۶ سورتیں اُن سے  حفظ کیں۔ اس کے علاوہ قاعدہ بغدادی بھی اپنی والدہ محترمہ سے ہی پڑھا۔ بعد میں حافظ رحیم بخش کے ہاں دس سال کی عمر میں مکمل قرآن ِ پاک حفظ کیا۔ مولانا نے 1921ء تا 1922ء بڑوت میں اپنے بڑے بھائی حکیم محمد عمر کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی۔ 1923ء میں آپ اپنے ماموں مولانا اشفاق الرحمنؒ کی تربیت میں رہے۔ 1924ء  سے 1927ء تک مولاناؒ نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور  میں تعلیم حاصل کی۔ وہاں اُن کے اساتذہ میں مولانا مفتی جمیل الرحمن تھانوی، قاری محمد داؤد، مولانا مسعود احمد کے  نام زیادہ نمایاں ہیں۔

مولانا نے1928 اور1929 کے دوران دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کی۔ رسمی تعلیم کا سلسلہ1929  تک جاری رہا، جب کہ مولانا کی عمر 19 سال تھی۔

اس کے علاوہ مولانا نے1937ء میں مولوی فاضل، 1938ء میں فاضل فارسی اور 1940ء میں  عربی فاضل کی اسناد حاصل کیں۔

زمانہ طالبِ علمی کے چند واقعات

یہاں مولاناؒ کے زمانہ طالبِ علمی کے چند واقعات پیش کئے جاتے ہیں تا کہ ہم اُن کی دینی، ذہنی  اور فکری ساخت سے بہترانداز میں آشنا ہو سکیں:

 مولانا کے مشائخ

مولانا محمد علی صدیقیؒ کے اکابر و مشائخ وہ تاریخ ساز شخصیات ہیں جنہوں نے دینِ اسلام اور کلمۂ حق کی بلندی  کے لیے ساری زندگی لگا دی۔ اُن کا ذکر مولانا ؒکی وصیت  کی روشنی  نقل کیا جاتا ہے:

 مولاناؒ، حضرت  مولانا احمد علی لاہوریؒ اور شیخ الحدیث مولانا ذکریاؒ سے بیعت تھے ۔ وہ  مولانا احمد علی لاہوریؒ کے پاس  کم  رہے تاہم اُنہیں حضرت مولانا حسین مدنیؒ اور حضرت مولانا محمد ذکریاؒ کے پاس لگاتار دو دو ماہ شب و روز گزارنے اور اُن بزرگوں کی خلوت و جلوت  دیکھنے کا موقع ملتا رہا۔ اِن کےعلاوہ جن بزرگوں کے فیضانِ نظر اُنہیں ملا اور  جن کی صحبت سے دین کی صحیح نعمت اور قلب کی صحت نصیب ہوئی  اُن کے نام درج ذیل ہیں:

مولاناؒ کا مسلک

 مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ  فکر و نظر کےا عتبار سے خالص اہل السنہ و الجماعت  سے تھے۔  مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں امامت کو نہ صرف مسلمانوں کی ضرورت  بلکہ اُن کا فرض  گردانتے کہ وہ اس  کے لیے اجتماعیت کا ڈھانچہ بنائیں۔ اُن کے خیال میں بہتر  یہ ہے کہ یہ ضرورت مسلمانوں میں سے اہل تقوی اور فتوی کے مشورے سے ہو۔ اگر شورائی نظم کی سعادت نہ مل سکے تو فوجی غلبہ سے بھی  یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے۔ اجتماعی ضرورت کی۔ اُن  کا عقیدہ تھا کہ  نہ امام اللہ کی جانب سے مقرر ہوتا ہے اور نہ معصوم ہوتا ہے ، امام کی بعثت اور عصمت عقیدۂ  ختم نبوت سے متصادم ہے۔ مولاناؒ  پوری جماعتِ صحابہ کی عدالت کے قائل تھے اور سب کو مرحوم و مغفور اور رضی اللہ عنہم کا مصداق سمجھتے تھے۔ اُن کے مسلک کے مطابق  قرآن اگر نبوت کی صداقت کی علمی دلیل ہے تو صحابہ ٔ       کرام صداقت ِ نبوت کی عملی دلیل ہیں۔

 وہ قرآن کو حرف بحرف منزل من اللہ، ہر تحریف سے پاک  اور کتابت اور روایت دونوں لحاظ سے متواتر سمجھتے،  اس میں شک   کو ایمان سے محرومی گردانتے۔  مسلمانوں میں نزاعِ باہمی اور تفریق کی ہر صورت کو اللہ سبحانہ کی بہت بڑی نافرمانی سمجھتے۔ فقہائے مجتہدین او رائمۂ محدثین دونوں کا احترام کرتے اور علم و عمل میں دونوں سے استفادہ کرنے کے قائل تھے۔ اُن کی نظر میں محدثین اگر الفاظِ نبوت کے محافظ ہیں  تو فقہائے کرام اُن کے معانی کے نگران ہیں۔ جیسے ائمۂ حدیث بہت ہیں مگر مشہور صرف چند ہیں، ایسے ہی ائمۂ مجتہدین بھی بہت ہیں مگر مشہور صرف چھ ہیں۔ فقہ حنفی کو دوسرے فقہوں کے مقابلہ میں اجتماعی فکر کا نتیجہ سمجھتے ،  اُن کے نزدیک حنفی ہونے کا مطلب یہ تھا کہ اُنہیں فہمِ اسلام کی غرض سے قرآن دانی اور سنت شناسی میں اپنی سمجھ پر نہیں بلکہ امام  ابوحنیفہؒ ، امام ابو یوسف ؒاور امام محمدؒ کی  فہم و بصیرت پر بھرپور اعتماد ہے۔اُن کے خیال میں حنفی ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محدثینِ کرام کے دامانِ احترام کو ہاتھ لگایا جائے، دوسرے مجتہدین میں سے کسی درجہ میں  سوئے ادب کیا جائے۔ وہ نسبتِ صوفیا کو بہت بڑی نعمت سمجھتے7۔

مولاناؒ سیالکوٹ میں

 مولانا محمد علی کاندھلوی ؒکا سیالکوٹ آنے  اور پھر یہیں قیام کر لینے کا ایک پس منظر ہے جوانہوں نے اپنی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات "میرے ماہ و سال" میں بالتفصیل بیان کیا ہے۔ میری کوشش ہو گی کہ  یہاں اُس پس منظر سے متعلق ضروری باتوں کا ذکر کر وں:

1929ء میں مولاناؒ دیوبند میں تھے کہ جمعیت علمائے ہند نے انگریز کے خلاف کانگریس کی تحریک  میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ جمعیت کے امروہہ  کے اجلاس میں کیا گیا۔ سول نافرمانی کی اس تحریک کے سلسلہ میں حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ نے جامع مسجد دیوبند میں ایک جلسہ  میں پُر جوش تقریر کی جسے سن کر مولانا محمد علی صدیقؒی نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس تحریک میں حصہ لیں گے۔ یوں وہ حضرت مدنیؒ کے سیاسی سفر میں ہم رکاب ہو گئے اور پورا ایک ماہ حضرت مدنیؒ کے ساتھ گزارا ۔ پھر والدۂ محترمہ سے اجازت لے کر 1930 میں دہلی آ گئے اور دفعہ 144 کی موجودگی کے باوجود کمپنی باغ میں جلسہ منعقد کیا، گرفتار ہوئے اور دہلی،  لاہور اور ملتان جیل میں رہے۔ مارچ 1931 میں رہائی ہوئی۔ اس عرصے میں حضرت مولاناؒ کو  پنجاب کے علماء اور سیاسی لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا اور آپ کے ذہن میں اس علاقے میں دین کا کام کرنے کا داعیہ پیدا ہوا۔

25 نومبر 1931 جمعہ کا دن مولاناؒ مجلس ِ احرار کی کشمیر ایجیٹیشن کے سلسلہ میں جامع مسجد دہلی سے لاہور  کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں آ کر ایک جلسہ میں تقریر کی  جس کی صدارت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کر رہے تھے۔ اگلے روز سیالکوٹ آئے۔ یہاں مختلف مقامات پر تقاریر کیں۔ صرف رام تلائی میں 13 تقریریں کیں اور مختلف حیلوں بہانوں سے گرفتاری سے بچتے رہے،      یہاں تک  کہ گرفتار ہو  گئے اور آپ کو اڑھائی سال جیل کی سزا دی گئی۔ سیالکوٹ جیل میں مقامی لوگوں، علماء، سیاسی ورکروں اور دانشوروں سے میل جول کا مزید موقع ملا اور یہاں کے مذہبی اور فکری رویوں سے آگہی ہوئی تو دل میں یہ بات پختہ ہو گئی کہ دین کا کام اسی علاقے میں کریں گے۔

 مارچ 1934ء میں مولاناؒ  جیل سے رہا ہو کر واپس کاندہلہ پہنچے اور اپنی والدہ ماجدہ کی حالت دیکھی تو یہ سوچ غالب آنے لگی کہ فکرِ معاش کی طرف توجہ کی جائے تا کہ والدۂ محترمہ کی خدمت کی جا سکے۔اِنہی دنوں سیالکوٹ جیل کے ایک قریبی ساتھی  اور مولاناؒ کے مداح ڈاکٹر فیروز الدین صاحب دہلی آئے اور انہوں نے مولانا کو بذریعہ خط اطلاع کر کے وہیں بلا لیااور پھر ایک دلچسپ ترکیب سےمولانا ؒ کو سیالکوٹ لے آئے۔ یہ واقعہ مولاناؒ کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:

"ڈاکٹر فیر وز الدین  کا چار روز قیام  تھا۔ چار روز اُن کے ساتھ رہا۔ 29 تاریخ کو ان کی روانگی تھی۔ رات کو وہ بمبے ایکسپریس سے جانے والے تھے۔ میں ان کو اسٹیشن روانہ کرنے گیا۔ اسٹیشن پر میں  نے  پلیٹ فارم ٹکٹ لے لیا۔ اُن کی مشایعت کی خاطر گاڑی چلنے تک بیٹھ گیا۔ گاڑی نے چلنے کا وسل کیا۔ میں نے اُترنے کی کوشش کی، مجھے یہ کہہ کر بٹھا لیا کہ اس گاڑی کے چلنے میں دیر ہے۔ بالآخر میں اُترنے لگا تو کہنے لگے: ٹھہرو ٹھہرو۔۔۔گاڑی تیز ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ چلو اگلے اسٹیشن پر اُتر جاؤں گا۔ اسٹیشن آیا، میں نے اُترنے کی کوشش کی لیکن مجھے یہ کہہ کر روک لیا کہ ٹھہرو جی، گاڑی کافی ٹھہرے گی۔گاڑی پھر چل دی۔ اب انہوں نے راز کھولا کہ میں نے آپ  کا ٹکٹ لے لیا ہے۔ اب میں پریشان ہوا۔ میں نے کہا کہ میں پھر آؤں گا۔ ابھی میرے حالات اچھے نہیں ہیں۔ بولے کہ کیا حالات ہیں اور کیا چیز رکاوٹ ہے؟ میں  نے کہا کہ میری والدہ بڑی عسرت اور تنگی میں زندگی گزار رہی ہیں۔ بولے فکر نہ کیجئےکہ اس کا انتظام ہو جائے گا۔ بالفعل میں اُن کو دو سو روپیہ کا منی آرڈر آپ کی جانب سے روانہ کر آیا ہوں۔ اب میں چپ ہو گیا"8۔

سیالکوٹ میں خدمت دین

سیالکوٹ آنے کے بعدمولاناؒ کا قیام کچھ عرصہ تو ڈاکٹر فیروز الدین صاحب  کے گھر  میں رہا، جس کے دوران مطالعہ کے علاوہ یہاں مختلف مسالک کے علماء سے ملاقاتیں رہیں جن میں مولانا غلام فریدؒ، مولانا ابراہیمؒ، مولانا احمد دینؒ اور مولانا یوسف ؒسرِفہرست تھے۔

12 اگست 1934ء کو مولانا نے مولانا غلام فریدؒ کے مشورے سے ائمۂ         مساجد کے بچوں کے لیے قصبہ چٹھی شیخاں میں فلاحِ دین و دنیا کے نام سے مدرسہ قائم کیا۔ مولاناؒ یہاں رائج  طریقے سے چندہ جمع کرنے کو ناپسند فرماتے تھے اس لیے یہ وقت بڑی تنگی میں گزرا۔ مولاناؒ اور پندرہ طلبہ کا گزارا ایک آنہ سیر  کے حساب سے خریدی گئی سوکھی روٹیوں کو چھاجھ میں بھگو کر کھانے پر تھا۔

1935ء میں ڈاکٹر فیروز الدین نے خادم  علی روڈ پر ½ کنال زمین خریدی اور اس میں مدرسہ کے لیے عارضی طور پر چار کمرے بنا دیے اور پھر مدرسہ فلاحِ  دین و دنیا کو یہاں منتقل کر دیا گیا۔ شہر میں  آجانے کی وجہ سے اور حاجی محمد علی ایگزیکٹو انجینئر کی مسجد واقع ایبٹ  روڈ میں جمعہ پڑھانے کی وجہ سے مولاناؒ کا یہاں تعارف اور شہرت بڑھنے لگی اور عام تعلیم یافتہ طبقہ مولاناؒ کے قریب ہونے لگا۔

سیالکوٹ شہر میں اُس وقت کی مشہور کاروباری اور سماجی شخصیت حاجی شہاب الدین نے  دارلعلوم  الشہابیہ کے نام سے ایک دینی درسگا ہ  کی بنیاد رکھی۔ حاجی شہاب الدین کے حاجی محمد علی ایگزیکٹو انجینئر سے تعلقات تھے اور موخر الذکر  مولاناؒ کے مداح بن چکے تھے۔   14 فروری 1936 کو مولاناؒ اور حاجی شہاب الدین کے درمیان   دارلعلوم  الشہابیہ  میں کام  کرنے کے سلسلہ میں بڑی پُرمغز اور دلچسپ گفتگو ہوئی جس میں دہلی سے آئے ہوئے حاجی شہاب الدین کے ایک سمدھی بھی شامل ہو گئے۔  گفتگو کے دوران جب    حاجی شہاب الدین نے مشاہرے کی بات کی تا مولاناؒ کا جواب تھا:  میں دین فروش نہیں کہ مشاہرہ لے کر کام کروں، میں تا ایک ادنی داعی ہوں اور داعی سائل نہیں ہوتا۔ حاجی شہاب الدین جہاں دیدہ اور مردام شناس شخصیت، اسی ملاقات میں دارلعلوم مولاناؒ ے سپرد کر دیا  اور عمر بھر مولاناؒ کے کام میں کوئی مداخلت نہ کی ۔مولانا محمد علی صدیقی کاندہلویؒ اُسی روز یعنی 14 فروری 1936 کو رات دس بجے تک بمع سامان دارالعلوم الشہابیہ تشریف  لے آئے اور پھر دنیا سے رحلت تک یعنی 16 دسمبر 1992 تک تقریبا 57 سال یہیں دین کی خدمت سر انجام دیدتے رہے ۔  مولاناؒ کے اندر خدمتِ دین، اخلاص اور لگن اس قدر رچ بس گئی تھی کہ 14 فروری کو آپ رات دس بجے دارالعلوم الشہابیہ میں قدم رنجہ فرماتے ہیں اور اگلے ہی روز یعنی 15 فروری 1936 کو درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جس میں ہر مکتبۂ فکر مثلا بریلوی، شیعہ، اہل حدیث،  چکڑالوی اور مرزائی شامل ہوتے ہیں اور سوالات کی بوچھاڑ کرتے ہیں۔  ایک 26 سالہ نوجوان  جو علم،  مطالعہ، ذوق، گہرائی اور صحبت کےاعتبار سے ایک بحرِ بیکراں  تھا  کے لیے مشکلات تو پیدا ہونا ہی تھیں؛ چنانچہ درسِ قرآن کے اس سلسلسہ کے نتیجہ میں مولاناؒ کے خلاف ایک طوفان بپا ہوگیا جس کے بڑے اسباب میں حسد، ذاتی وگروہی مفادات،  ممکنہ سیاسی ردو بدل کا خوف بھی شامل تھا۔

 مولانا کی تصانیف

حضرت مولانا کی تصانیف کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں؛ مطبوعہ و غیرمطبوعہ۔ یہاں  ا ُن کی چند اہم تصانیف اور تحریروں  کا مختصرتعارف پیش کیا جاتا ہے:

مطبوعہ تصانیف

1۔ معالم القرآن

یہ مولاناؒ کی تحریر کردہ تفسیرِ قرآن کریم ہے جس کی تصنیف کا سلسلہ آپ نے 1974 میں شروع کیا اور تا دم واپسیں اس پر کام جاری تھا۔ آپ کی زندگی میں اس کی 12 جلدیں شائع ہو گئیں تھیں۔ معالم القرآن کی ہر جلد ایک پارے پر مشتمل ہے اور مولانا ؒ ہر جلد کے آغاز میں اصطلاحاتِ قرآنی اور شرعی و قانونی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں۔ معالم القرآن کی چیدہ چیدہ خصوصیات میں اُس کا معاصرانہ اُسلوب، شرعی مسائل کی تنقیح، استنباط کے طریقوں کی تشریح، جدید قانونی مسائل کا شریعت کی روشنی میں تجزیہ قابلِ ذکر ہیں۔  راقم کےعلم کے مطابق معالم القرآن پر کچھ لوگوں نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیقی مقالات بھی  تیار کئے ہیں  جو پنجاب یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے علومِ اسلامیہ کے شعبوں کے زیرِ نگرانی لکھے گئے9 ۔

2۔ امام اعظم اور علم الحدیث

یہ کتاب امام ابوحنیفہ ؒ کے علم الحدیث میں حقیقی مقام کے تعین میں  معرکۃ الآراء کتب کی فہرست میں نمایاں ترین  ہے۔ بلکہ اُردو زبان میں اس نوعیت کی تحقیقی کاوش شاید ہی کوئی اور ہو۔  مولاناؒ نے اِس کتاب کی تکمیل صرف 17 دنوں میں کی۔  کم وقت میں یہ کام سر انجام  دینے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا کہتے ہیں کہ   علم و فکر کی دنیا میں ہوتا یوں ہے کہ ایک تصنیفی خاکہ ذہن میں جنم لیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی صورت مزید واضح ہوتی رہتی ہے اور اس کے مصادر و مراجع بھی متعین ہوتے رہتے ہیں،  جب کے انسان اپنی روزمرہ دیگر مصروفیات میں مشغول بھی رہتا ہے پھر کچھ وقت فراغت کا مل جاتا ہے تو تصنیف قرطاس پر منتقل ہو جاتی ہے۔ اِس عمل میں غیر معمولی  تیزی اُس وقت دکھائی دیتی ہے جب مصنف مخلص، صحبت یافتہ اور جذبہ قربانی سے معمور ہو۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مولاناؒ کو یہ فرصت ملی تو اُنہوں نے اس کتاب کی تکمیل صرف 17 دنوں میں کر ڈالی10۔

4۔ نقوش زنداں

    1953 میں قادیانیوں کو غیر مسل قرار دینے کے لیے  ملکی سطح پر ایک بہت بڑی تحریک کا آغاز ہوا۔ سیالکوٹ شہر میں دارلعلوم  الشہابیہ اس تحریک کا مرکز بنا اور قیادت مولاناؒ نے کی۔ جلسے ، جلوس ، احتجاج اور مولاناؒ کی شعلہ بیانی نے  حکمرانوں  کی نیندیں حرام کردیں۔ اس تحریک کے دوران مولاناؒ دو بار گرفتار ہوئے۔  اُسی زمانۂ اسیری  کے دوران مولاناؒ نے   اپنے احباب، تلامذہ اور متعلقین کو  زندگی کے مختلف موضوعات پر دینی نقطۂ نظر سے تقریبا ۳۹ خطوط لکھے، ۳۱۳ صفحات پر مشتمل  یہ کتاب اُنہی خطوط کا مرقع ہے11۔ 

5۔ اسلام کا نظام اذکار

317 صفحات پر مشتمل  اس کتاب  میں قرآن  و سنت کے پیش کردہ اُصول اور قوانینِ فقاہت کی روشنی میں اس بات کی تشریح کی گئی ہے کہ صرف نبی کریمﷺ کا بتایا ہوا نظامِ اذکار ہی ایسا نظام ہے جو صحیح معنی میں روحانی ارتقا  ءکا ذمہ دار ہے 12۔

متفرق  مضامین اور کتابچے

 علاوہ از ایں  مولاناؒ کے  رشحاتِ قلم  سے  کئی کتابچے اور دیگربے شمار تحریریں نکلیں اور زیورِ طبع سے آراستہ  بھی ہوئیں ۔  اُن کے اپنے جاری کردہ ماہنامہ مجلے "رشاد" میں  راقم کے پاس موجود سال  1972-1973 کے  دوران شائع  ہونے والے 7 شماروں  میں مختلف موضوعات پر 27 مضامین ہیں ۔ سیالکوٹ کے قیام  کے آغاز میں   مولانا کاندھلویؒ نے  ایک کتاب تاریخ الحدیث کے نام سے لکھی اور اس کو طبع بھی کروا یا، مذہبِ اہلِ سنت اور میرا مسلک کے نام سے کتابچے  لکھے جو اپنے وقت پر چھپتے رہے اور جن میں سے اکثرکا    نسخہ تلاش کرنا شاید اب  آسان نہ ہو۔ مولانا ؒ     دینی  مدارس کے طلبہ کے لیے نصاب سازی میں خصوصی دلچسپی رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں کئی ایک درسی کتابیں بھی تالیف کیں، اس باب میں ان کی عربی زبان سکھانے کے بارے میں   تصنیف کردہ کتابیں سرِ فہرست ہیں۔

غیر مطبوعہ تصانیف

1۔ میرے ماہ و سال

یہ مولاناؒ کی خود نوشت سوانح حیات ہے۔ حضرت کی وفات کے فورا بعد جب راقم  نے ان کے کاغذات کی چھان بین کی تو پنسل سے لکھے ہوئے یہ اوراق ملے جس میں انہوں نے سال بہ سال اپنی زندگی کے متعلق بتایا  ہے۔  تلاش، بسیار کے بعد مجھے جو اوراق مل سکے وہ صرف 1943 تک کے ہیں۔ مسسلسل کوششوں کے با وصف1943کے بعد والے واقعات کا مواد مجھے نہیں مل سکا۔ تاہم میسر مواد کا مخطوطہ میرے پاس ہے اور میں اسے مولاناؒ کی چند ایک اور غیر مطبوعہ تحریروں کے ساتھ طبع کروانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔  اس کتاب میں  مولانا کا انداز  واقعے اور موقع محل کے اعتبار سے بہت ہی دلچسپ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اسلوب میں ایک خاص چاشنی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے  مولاناؒ کی زندگی کے ایسے گوشے بھی سامنے آتے ہیں جن کا اُن کے قریبی احباب کو بھی شاید علم نہ رہا ہو۔ بالخصوص مشکلات اور صبر آزما مراحل جن سے آپ کو گزرنا   پڑا۔شروع کے صفحات سے معلوم ہوتا ہے کہ "میرے ماہ و سال" کو مولاناؒنے 1980 میں تحریر کرنا شروع کیا تھا۔

2۔ قاضی ضیاء الدین سنائی اور اُن کا عہد

برصغیر پاک و ہند میں شریعت کے لیے جدو جہد کرنے والوں میں قاضی ضیاء الدین سنائیؒ کی شخصیت نمایاں ہے۔ آپ مولاناؒ کاندھلوی کے جدِ امجد بھی تھے۔ قاضی ضیاء الدین سنائیؒ کی شخصیت، افکار، جدوجہد، علمی مرتبے اور ردً بدعات میں جرأتِ رندانہ کے متعلق لیگل سائز کے اپنے ہاتھ سے تحریر کردہ تقریبا 150 صفحات لکھے ہیں جو میری رائے میں کتابی شکل میں آتے آتے تین ساڑھے تین سو صفحات بن  جائیں گے۔

3۔ ترتيب أحاديث الجامع الصحيح للإمام البخاری وسردها مفصلة على أسامى الصحابة13

  26 لیگل صفحات پر  مشتمل   ہاتھ سے لکھے ہوئے عربی زبان کے اس کتابچے میں  مولاناؒ نے بخاری شریف کی 184 صحابہ اور صحابیات سے مروی روایات کو ترتیب وار جمع کیا ہے۔ اس کتابچے کے آغاز میں مولاناؒ نے   اپنے اُن  شیوخ کا بھی ذکر کیا ہے جن سے اُنہوں نے  روایتِ حدیث کی اجازت لی ۔ کتاب کا تعارف کی بابت مولاناؒ لکھتے ہیں:

 ترجمہ: "یہ بخاری کی احادیث کی مفصل فہارس کی ایک قسم ہے جس کی ضرورت علومِ حدیث میں تحقیق کرنے والوں کو پڑتی ہے۔ اس کی ضرورت ان لوگوں کو بھی پڑتی ہے جو سیاست، معاشرت اور اخلاق کے موضوعات پر مقالات لکھتے ہیں"14۔

وفات

16 دسمبر 1992 عیسوی  بروز بدھ بمطابق 20 جمادی  الثانی 1413 ہجری مولاناؒ معمول کے مطابق   صبح  9بجے طلبہ کو پڑھارہے تھے کہ آپ کی طبیعت خراب ہوئی، ہسپتال لے جایا گیا  تاہم وہ رضائے الہی سے اپنے رب کے حضور پیش ہو گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ کی تدفین سیالکوٹ کے معروف قبرستان " بابل شہید" میں کی گئی۔



حواشی

  1.   میرے ماہ و سال از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ   ( مخطوط) ص: ۱ اس کا مخطوطہ راقم کے پاس ہے۔  ارادہ  ہے کہ میسر مواد                     (1943 تک کا ہی  مجھے ملا ہے)   کو مولانا کی وصیت ،خطوط  اور دیگر چند تحریروں کے ساتھ طبع کروادیا جائے۔
  2. میرے ماہ وسال   از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ ( مخطوط) ص:  ۹
  3.  قاضی ضیا  ءالدین سنامی اور اُن کا عہد از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ  ( مخطوط) خلاصہ صفحات: ۴۰۔ ۶۰ ( اس کتاب کا مخطوطہ راقم کے پاس ہے اور جلد زیورِ طبع سے آراستہ ہوگا)
  4. میرے ماہ وسال از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ  ( مخطوط) صفحات: ۹، ۱۰، ۱۱، ۱۲
  5. میرے ماہ وسال از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی ؒ ( مخطوط)  متفرق صفحات۔
  6.  وصیت نامہ مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی  (مخطوط)  صفحات ۵۔ ۶  یہ وصیت نامہ  مولانا  نے 31 جنوری،  1990 عیسوی میں تحریر کیا۔ اِس میں  اُنہوں نے اپنے حالاتِ زندگی کا بھی   مختصرا ذکر کیا ہے۔ اسے مولاناؒ کی خود نوشت سوانح کے ساتھ طبع کروانے کا ارادہ ہے۔
  7.  وصیت نامہ  از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی ؒ(مخطوط)  صفحات  ۴۔۵
  8. میرے ماہ وسال  از مولانا محمد علی صدیقی کاندھلویؒ ( مخطوط) ص:  ۲۳
  9. معالم القرآن، مولانا محمد علی صیدیقیؒ،ادارہ تعلیماتِ قرآن سیالکوٹ، جلد: ۱ تا ۱۲،توریخِ طباعت 1974 تا 1992  مزید دیکھئے: https://besturdubooks.net/maalim-ul-quran
  10.  دیکھئے:  https://www.rekhta.org/ebooks/imam-e-aazam-aur-ilm-ul-hadees-maulana-muhammad-ali-siddiqui-kandhlawi-ebooks?lang=ur
  11.   نقوشِ زنداں، مولانا محمد علی صدیقی، مکتبہ قاسمیہ رنگ پورہ روڈ سیالکوٹ 1962   مزید دیکھئے: https://toobaa-elibrary.blogspot.com/2021/01/blog-post_22.html
  12.  اسلام کا نظامِ اذکار، مولانا محمد علی صدیقی، دارلعلوم الشہابیہ سیالکوٹ، 1990 ص: ۱  ۔ مزید دیکھئے:  https://toobaa-elibrary.blogspot.com/2021/01/blog-post_21.html
  13.  اس کتابچے کا مخطوطہ راقم کے پاس ہے۔
  14.  ترتيب أحاديث الجامع الصحيح للإمام البخاری وسردها مفصلة على أسامى الصحابة  از مولانا مغمد علی صدیقی کاندھلویؒ( مخطوط) ص: ۶

انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۱)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا چھٹا باب)


چھٹا باب: استعماری طاقت کے سایے میں اصلاحِ مذہب

1890 میں جمعہ کے روز  بیرون ملک سے آئے ہوئے ایک سیاہ فام عالم  (اس کے اصل وطن کے بارے میں روایت خاموش ہے) اترپردیش ہندوستان کے قصبے دیوبند میں وارد ہوا۔ مقامی سماج اور ان کے دینی اعمال میں دلچسپی کے باعث اس نے حاجی محمد عابد حسین سے، جو اس قصبے کے ممتاز مدرسے دارالعلوم دیوبند کے بانیوں میں سے نسبتاً کم معروف ہیں، درخواست کی کہ اسے جامع مسجد میں خطبہ پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ عابد حسین نے مذکورہ مہمان کی درخواست برضا ورغبت قبول کی، اسے دیوبند کی جامع مسجد میں لے آئے، اور اسے منبر پر رونق افروز کیا۔ اتفاق سے دیوبندی سلسلے کے ایک اور بانی اور نامور دیوبندی عالم رشید احمد گنگوہی بھی وہاں آئے ہوئے تھے اور نمازِ جمعہ میں شریک تھے۔ چونکہ یہ رسول اللہ کی ولادت کا مہینہ ربیع الاول تھا، اس لیے مہمان خطیب نے پورا خطبہ عید میلاد النبی کے فضائل پر دیا۔

مولانا گنگوہی ہندوستان میں رائج میلاد کے شدید مخالف تھے۔ ان کی نظر میں یہ ایک مذموم بدعت تھی، جس کی کوئی نظیر سلف صالحین کے عہد میں نہیں تھی۔ مزید برآں، مولانا گنگوہی کی نظر میں، میلاد میں یہ خرابی بھی در آئی تھی کہ جاہل عوام نے اس رسم کو طرح طرح کے منکرات کی محفلوں میں تبدیل کر دیا تھا۔ جوں جوں مولانا گنگوہی خطبے میں میلاد کے فضائل پر دلائل سنتے گئے، میلاد کے حوالے سے اپنے موقف کی وجہ سے ان کے غصے اور اضطراب  میں اضافہ ہوتا گیا۔ ایک مقام پر خطبے کے دوران ہی ان کا صبر تمام ہوا اور انھوں نے خطیب کو ٹوک کر کہا: "مولانا! مہربانی کرکے اپنا خطبہ سمیٹ لیجیے"1۔

خطیب نے، جو مولانا گنگوہی سے اچھی طرح واقف نہ تھا، انھیں خطبے کے آداب سکھاتے ہوئے ڈانٹا: "خاموش! خطبۂ جمعہ کے دوران کلام کرنا حرام ہے"۔ "آپ مجھے مت سکھائیں کہ کیا حلال ہے اور کیا حرام"۔ مولانا گنگوہی نے برہم ہو کر ترکی بہ ترکی جواب دیا، "آپ اس لائق ہیں کہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو منبر سے نیچے اتار دیا جائے۔ فقہ کے اصولوں کی رو سے ہونا یہ چاہیے کہ خطبہ مختصر دیا جائے اور نماز لمبی پڑھی جائے۔ آپ بالکل اس کے برعکس کر رہے ہیں"۔ "خاموش"، خطیب نے انھیں پھر ڈانٹ ڈپٹ کی۔

کچھ نمازی مولانا گنگوہی کے ساتھ خطیب کے گستاخانہ رویے پر برافروختہ ہوئے اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے امامت کے لیے مولانا گنگوہی سے درخواست کی ، لیکن انھوں نے اس خدشے کی بنیاد پر انکار کردیا  کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے یہ تماشا اس لیے کھڑا کیا کہ خود خطبہ دیں اور جمعہ کی نماز پڑھائیں۔ آخر کار دیوبند کے ایک اور نامور عالم اور مولانا گنگوہی کے رفیقِ خاص محمد یعقوب نانوتوی نے جمعہ پڑھایا۔ نماز کے بعد مولانا گنگوہی جلد مسجد سے باہر چلے گئے۔ بعد ازاں بیرونی مہمان نے مولانا یعقوب نانوتوی سے کہا: "اس وہابی2 کو یہاں بلائیں جو خطبے کے درمیان کرخت انداز میں مداخلت کر رہا تھا، اور کافی دیر تک ایک مسخرے کی طرح اناپ شناپ بکتا رہا "3۔

مولانا نانوتوی چاہتے تھے کہ مہمان کو جواب دیں، لیکن خدشہ تھا کہ اگر انھوں نے ایسا کیا تو پہلے سے برافروختہ نمازی کسی انجام کی پروا کیے بغیر ہنگامہ نہ کھڑا کر دیں۔ اس لیے انھوں نے خود کو کسی قسم کے رد عمل سے باز رکھا اور ایسے ظاہر کیا کہ انھوں نے یہ توہین آمیز کلمات سنے ہی نہیں، اور سنتیں ادا کرنے میں مصروف رہے۔ اس طرز عمل سے انھوں نے ممکنہ طور پر پیدا ہونے  والے فساد اور بلوے کا راستہ مسدود کر دیا4۔

یہ واقعہ تلخ مناظروں کی اس فضا کی ایک واضح تصویر فراہم کرتا ہے جو انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہندوستان کے مسلمان اہل علم پر سایہ فگن تھی۔ جیسا کہ اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے، سنتِ نبوی کی حدود، بالخصوص عید میلاد النبی جیسی عوامی تقریبات کی شرعی حیثیت پر مناقشے کا نتیجہ شدید مسلکی تقسیم تھا۔ مولانا گنگوہی کے رد عمل کا تعلق نہ صرف سماجی رسوم کی شرعی حیثیت سے تھا، بلکہ اس کے ساتھ اتنی ہی اہمیت اس بات کی بھی تھی کہ رسمی عبادات کے مرکز مسجد میں، جو ایک عوامی  مقام ہونے کے  باوجود  شدید گروہی تقسیم کے بھی زیر اثر ہے، عوام کی سرپرستی اور رہ نمائی کا حق کسے حاصل ہے5۔ یہ حکایت اہل علم اشرافیہ کے علمی مناقشوں اور روزمرہ زندگی کے اعمال میں فرقہ وارانہ تناو کے درمیان قریبی تعلق کو بھی واضح کرتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تناو پورے شمالی ہندوستان کے مختلف مسلمان گروہوں کے درمیان باہمی تکفیر اور الزام تراشی میں بدل گیا۔

ہندوستان کے نامور علما کے لیے شرعی احکام سے متعلق متنازعہ سوالات پر گرما گرم بحث ومباحثہ کوئی نیا عمل نہیں تھا۔ حتّیٰ کہ پندرھویں اور سولھویں صدی میں، جب کہ اسلامی حکومت کا دور عروج تھا، انفرادی طور پر کئی مسلمان اہل علم تلخ اور عموماً بہت انفرادی نوعیت کے علمی تنازعات میں الجھے رہتے تھے۔ یہ رجحان انیسویں صدی کے پہلے نصف کے اوائل تک جاری رہی، جیسا کہ پچھلے حصے میں ہم نے شاہ محمد اسماعیل اور مولانا فضل حق خیر آبادی کے درمیان بحث ومباحثے میں دیکھا۔ تاہم انیسویں صدی کے اواخر کا مناظرانہ جوش وجذبہ کئی حوالوں سے اہم اور سابقہ ادوار سے مختلف تھا۔

خاص طور پر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد (جس میں برطانیہ نے مسلمانوں کو شکست فاش سے دو چار کیا) ہندوستان کے اہل علم کی اشرافیہ دینی اصلاح کے متوازی پروگراموں کے ساتھ مخالف مسالک میں بٹ گئی۔

الٹا مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت کے خاتمے نے ایک بے مثال علمی جوش وخروش کے لیے راستہ ہموار کر دیا جس میں علما کے متحارب گروہ اس سوال سے نبرد آزما تھے کہ برطانوی استعمار کے تحت پیدا ہونے والی نئی صورت حال میں دین اور مسلمانوں کی اصلاح کیسے کی جائے۔6

2 اگست، 1858 کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے ذریعے برطانیہ کی طرف سے ہندوستانی رعایا پر حاکمیت کے باضابطہ اعلان میں یہ واضح کیا گیا کہ تمام ہندوستانی رعایا کو "قانون کا مساوی اور غیر جانب دارانہ تحفظ حاصل ہوگا۔۔۔ اور انھیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق حاصل ہوگا"7۔ استعماری ریاست کی طرف سے مقامی مذہبی آبادیوں کو قانونی تحفظ دینے کی ظاہری رواداری کو اس لبرل سیکولر اقدام سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا جس میں مذہبی عقائد واعمال اور مباحث کو ریاست اور اس کے قوانین سے خارج کرنے کے باوجود انھیں اس کا تابع اور محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے۔ جیسا کہ ڈیوڈ گلمارٹن (David Gilmartin) نے بتایا ہے، یہ بندوبست استعماری ریاست کے مزعومہ کلی (آفاقی)، عقلی اور سائنسی دائرے اور مقامی ثقافتوں اور آبادیوں کے دائرے کے درمیان، جس کی تحدید ان کی جزئی (مخصوص) اقدار اور خصوصیات (مذہبی، قبائلی وغیرہ) کرتی ہیں، استعماری تقسیم کا نتیجہ ہے8۔

کلی (آفاقی) اور جزئی (مخصوص) کے درمیان اس فرق نے استعماری ریاست کی آفاقیت اور نتیجتاً اس کی انفرادیت کو قائم کرنے میں توقع سے بڑھ کردار ادا کیا۔ اس نے عوامی دائرے، جو قانون اور سیاسیات کے چل چلاو کی نگرانی کرتا ہے، اور نجی دائرے کے درمیان، جو مذہبی حساسیتوں اور اعمال کو جگہ دیتا ہے، ایک مصنوعی لیکن شدید انقطاع پیدا کر دیا۔ اس لیے گلمارٹن نے عمدگی کے ساتھ واضح کیا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر کے سیاق میں عوامی اور جزئی کے حوالے سے گفتگو  کرنا عوامی اور  نجی کے نسبتاً معروف فرق کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے۔ مقامی مذہبی آبادیوں کی خصوصیات کو تسلیم کرنا اور ان کے تحفظ کا دعوی کرنا ہی وہ وصف ہے جس سے استعماری ریاست کی آفاقیت اور برتری اور قانون وسیاست کے معاملات پر کنٹرول کا حصول کیا گیا9۔ لیکن جیسا کہ جولیا سٹیفنز (Julia Stephens) نے ثابت کیا ہے، قانون کے ذریعے مذاہب کی حفاظت کے امکان نے مذہبی آزادی اور قانونی تحفظ کے درمیان تعلق کے اردگرد واقع ابہامات میں صرف اضافہ کیا ہے، جو شدید نوعیت کے متنوع مناظروں اور صورتِ احوال کو جنم دے رہے ہیں10۔ اگرچہ استعمار نے زندگی کے ایک منفرد اور نجی دائرے کی حیثیت سے مذہب کا اخراج اس مقصد کے لیے کیا تاکہ وہ ریاست کے تحفظ اور نگرانی میں آ سکے، تاہم اس اقدام کا الٹا اثر یہ ہوا کہ اس سے یہ دائرہ مزید متناقض، مناظرانہ اور مسابقت آمیز بن گیا۔

کسی بھی تصور (زیر بحث معاملے میں مذہب) کی تعریف وتحدید کی جتنی زیادہ کوشش کی جاتی ہے، اتنا ہی زیادہ اس کی تعریف اور حدود میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں11۔ یہ کوئی اتفاقی امر نہیں کہ برصغیر میں انیسویں صدی میں بین المذاہب اور بین المسالک مناظرانہ تلخیوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مزید یہ کہ انیسویں صدی کی مناظرانہ معرکہ آرائیاں صرف ایک مجسم حقیقت اور مسابقی تصور کے طور پر مذہب کی سیاسی اور علمیاتی تشکیلِ نو کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس میں مختلف ٹیکنالوجیز جیسے پرنٹنگ پریس، ریلوے اور ڈاک کے نظام نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔ جیسا کہ اروند منڈیر نے خوب صورتی سے واضح کیا ہے، استعماری ہندوستان میں مذہبی مناقشوں کے دو علیحدہ لیکن ایک دوسرے سے مربوط میدان بیک وقت سرگرمِ عمل تھے۔ ایک بین المذاہب مناظروں کا میدان، جس میں ہندو، مسلمان، سکھ اور مسیحی مشنریاں ایک دوسرے کے مد مقابل تھیں۔ خارجی 'غیر' کے ساتھ اس اختلاف میں انفرادی مذہبی شناختوں کی حقانیت زیر بحث تھی۔ دوسرا میدان داخلی 'غیر' کے ساتھ مکالمے کا تھا۔ یہ داخلی تعصبات استناد اور روایت کی حدود کے متعلق متخالف تصورات سے پیدا ہوئے تھے۔

پہلے دائرے کا موضوع دوسروں کے ساتھ اپنی ذات کے تعلق کا تھا، جب کہ دوسرا دائرہ مستند ذات کی خصوصیت کے گرد گھوم رہا تھا12۔ منڈیر کے نکتے پر غور کرنے سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں جنم لینے بین المذاہب مناقشوں کے واقعات کے درمیان حیرت انگیز مماثلت ہے۔ مثال کے طور پر ہندوؤں، مسلمان اور سکھوں کے بڑے مصلحین اور اصلاح مخالف بزرگوں کو لیجیے۔ یہ اگر چہ واضح طور پر ایک دوسرے سے مختلف اور الگ ہیں، تاہم ان کے مباحثوں اور اختلافات کے اغراض ومقاصد، تشکیل اور لائحۂ عمل میں حیرت انگیز مماثلت ہے13۔

اگر چہ مسلمان اہل علم کی ایک بڑی تعداد نے اصلاح کی خواہش ظاہر کی ، تاہم ان کے اصلاحی افکار میں کافی تنوع ہے، جس سے متعدد استدلالات، مناقشے اور مناظرے جنم لیتے ہیں14۔ ان اصلاحی تحریکوں میں سب سے ممتاز دیوبند ہے، جو ایک مدرسہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مکتب فکر بھی ہے۔ مدرسہ دیوبند1866 میں شمالی ہندوستان کے قصبے دیوبند، اترپردیش میں ہندوستان کے نامور مسلمان اہل علم نے قائم کیا۔ رشید احمد گنگوہی اور قاسم نانوتوی (م 1877) بطور خاص وہ ہردل عزیز علما تھے جنھوں نے مذہبی تعلیم کے اس ادارے کی بنیاد رکھی جس نے برصغیری اسلام کی علمی، سماجی اور سیاسی تاریخ کو گہرے طور پر متاثر کیا۔ آج لگ بھگ 150 سال بعد ہندوستان میں اپنے اولین ادارے سمیت مدرسہ دیوبند پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ ایشیا میں پڑوسی اور دور پار کے ممالک جیسے جزائرِ غرب الہند، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور امریکا میں شاخوں کے وسیع سلسلے کے ساتھ پوری آب وتاب کے ساتھ قائم ہے۔ صرف برصغیر میں دیوبندی مدارس کی تعداد تقریباً پچاس سے ساٹھ ہزار ہے، جن میں زیادہ تر ہندوستان میں ہیں۔

لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر چہ متعدد ممالک میں بہت سے مدارس اپنے آپ کو دیوبند سے منسوب کرتے ہیں، لیکن دیوبند کے قصبے میں ابھی تک قائم اولین مدرسے کے ساتھ ان کا تعلق براے نام یا بالکل نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے کیونکہ یہ واضح کرتا ہے کہ دیوبند کا لفظ جہاں مدرسے کی صورت میں ایک ادارے کے لیے استعمال ہوتا ہے، وہیں جدید دنیا میں اس سے سنی اسلام کا ایک مخصوص نظریہ یا طرز فکر بھی مراد لیا جاتا ہے۔ مزید برآں استعماری اور مابعد استعماری برصغیر میں دیوبندی مسلک کبھی یک رخا یا یکساں نہیں رہا۔ جیسا کہ اس کتاب کے آخری باب میں بتایا گیا ہے، فقہ اور عملی احکام کے اہم سوالات پر دیوبندی علما کے درمیان، جن میں اکابرِ دیوبند بھی شامل ہیں، بسا اوقات اختلاف بھی واقع ہوا ہے۔

علاوہ ازیں انیسویں صدی کے اواخر سے لے کر آج تک دیوبندی علما کے درمیان سیاسیات، سیاسی وابستگی اور انتخابی جمہوریت میں شرکت پر بھی اختلاف رہا ہے، جس میں بعض اوقات کافی شدت بھی آئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض نامور دیوبندی علما (جیسے شبیر احمد عثمانی، م 1949) نے تحریک پاکستان کی نہ صرف تائید کی بلکہ اس میں کلیدی کردار ادا کیا، جب کہ دوسروں (بطور خاص حسین احمد مدنی) نے اس کی بھرپور مخالفت کی15۔

مزید یہ کہ کچھ دیوبندی علما جیسے مولانا اشرف علی تھانویؒ شدت سے تزکیۂ نفس اور رواج ورسوم کی درستی کے ذریعے عوام کی اصلاح کے مثالی تصور کے قائل تھے، جبکہ کچھ دوسرے علماء، جیسے ان کے معاصر عبید اللہ سندھی (م 1944) کو اگر  رسم ورواج کی اصلاح میں کوئی دلچسپی تھی بھی تو بہت  کم تھی۔ مثلاً‌ سندھی اصلاح کو انقلابی سیاست اور سماجی ومعاشی انصاف کی عینک سے دیکھتے تھے۔  انھوں نے یہ نظریہ بیسویں صدی کے وسط میں افغانستان، سوویت روس اور ترکی کے اسفار کرنے کے بعد پیش کیا16۔ اس لیے دیوبندی مسلک میں متعدد اور بیک وقت متضاد نظریاتی دھارے پائے جاتے ہیں۔

انیسویں صدی کے اواخر کے ہندوستان میں اور آنے والی دہائیوں میں روایتی طرز پر تعلیم پانے والے علما میں سے دیوبندیوں کے بڑے مخالفین بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر نے پوری شدت سے ان کے استناد کو چیلنج کیا۔ ان متخالف اعتقادی مسالک – دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث – نے زندگی کی مثالی اقدار کے باہم دگر جڑے مگر متوازی بیانیے اور ان اقدار کی تعبیر وتشریح کے مناہج تشکیل دیے۔

دیوبندی اور بریلوی مکاتبِ فکر کے برعکس اہل حدیث مکتبِ فکر نے اہل سنت کے مُسلّمہ چار فقہی مذاہب کی تقلید کو مسترد کیا۔ انھوں نے احکامِ دینیہ کے مصادر کو قرآن وسنت تک محدود کرنے پر دلائل دیے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر چہ اہل حدیث نے فقہی مذاہب اور ائمہ کے واسطے کے بغیر قرآن وسنت تک رسائی کے مقبولِ عام دعوے کی وکالت کی، تاہم اس تحریک کی کئی بنیادی خصوصیات اس دعوے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر اہل حدیث مکتب فکر سے انتساب رکھنے والے کثیر التصانیف اور مشہور ومعروف عالم صدیق حسن خان (م 1890) کا علمی اور سماجی پس منظر لیجیے۔ واضح طور پر  شاہانہ مزاج رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی شادی بھی ریاست بھوپال کی شہزادی سے ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں انھوں نے زیادہ تر  عربی زبان کو ہی ذریعہ اظہار بنایا  تاکہ عرب دنیا میں اہل حدیث مکتبِ فکر کی علمی دھاک بٹھا سکیں۔ یہ  ایک ایسی سوچ تھی جس کی وجہ سے ان کی فکر ہندوستانی عوام کے لیے مشکل دے ہی قابل رسائی ہو سکتی تھی۔

نواب صدیق حسن خان کے ہاں تعبیر وتشریح میں تقلید سے انکار، شاہانہ معاشرت اور عربی اشرافیت (elitism) سب ایک ساتھ پائے جاتے تھے۔ تعبیر وتشریح کے مناہج میں اختلاف کے علاوہ اہل حدیث علما کا اپنے احناف معاصرین کے ساتھ پنج وقتہ نماز سے متعلق تین اعمال یعنی  ہاتھ اٹھانے (رفع الیدین)، سورۂ فاتحہ کے بعد زور سے آمین کہنے (آمین بالجہر) اور امام کے پیچھے فاتحہ کہنے (قراءت خلف الامام)  کی شرعی حیثیت پر بھی تنازع تھا۔ اس کے برعکس بریلوی اور دیوبندی علما کے درمیان مخاصمت رسول اکرم ﷺ کی شان سے متعلق حریف تصورات اور سنتِ نبوی کی حدود پر مرتکز تھی۔

جیسا کہ اگلے تین ابواب میں واضح ہوگا، ان کے تنازعات کا مرکزی موضوع یہ سنجیدہ سوالات تھے کہ عوام اپنی روزمرہ زندگی میں سنتِ نبوی پر کس طرح عمل کریں، اور دینی اعمال کو بدعات کے خطرات سے کیسے محفوظ کیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ کے علم کی حیثیت اور حدود بھی بنیادی نکاتِ اختلاف میں تھیں (اس پر گیارھویں باب میں بحث ہوگی)۔

مسلک کیا ہے؟

1866 میں دیوبند مدرسے کے ایک تحریک کی صورت میں ابھرنے اور اہل حدیث اور بریلوی مسالک کی تشکیل نے برصغیری اسلام کے علمی منظر نامے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ اس وقت سے علم کی تخلیق واشاعت نے ایک بے نظیر مسلکی صورت اختیار کر لی۔ اس گروہی یک جہتی اور اتحاد کی بہترین عکاسی 'مسلک' کے لفظ سے ہوتی ہے جو نوآبادیاتی برصغیر میں کسی ممتاز اصلاحی تحریک کے لیے بہت مشہور اصطلاح بن گئی ہے۔ حقیقت میں مسلک کا یہ تصور مسلم ہندوستان میں انیسویں صدی کے نصفِ آخر سے پہلے کبھی اس قدر متعارف نہیں تھا۔ پھر مسلک ہے کیا؟

مسلک ایک تغیر پذیر اور عام طور پر ایک مبہم اور کثیر المعانی اصطلاح ہے۔یہ عربی زبان کے لفظ 'سلوک' (چال چلن) سے ماخوذ ہے، اور بنیادی طور پر اس کا تعلق کسی بندے کی پرہیز گاری اور اخلاقی تعلیم وتربیت سے ہے۔ تاہم جدید برصغیر کے تناظر میں لفظ مسلک کا اخلاقی مفہوم شریعت کے متخالف نظریات کے ساتھ نہ صرف بندھا ہوا ہے، بلکہ شاید اس سے مغلوب ہو گیا ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر کے بعد مسلک واضح طور پر ایک مسابقتی تصور بن گیا ہے۔ یہ نہ صرف ایک دینی فکر پر دلالت کرتا ہے، بلکہ شریعت پر حق جتلانے والے دیگر مدعیوں کے مقابلے میں واحد مدعی کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس لیے اس تصور کی بنیاد میں ہی ایک لاینحل تضاد اور ابہام ہے۔

کسی مسلک سے تعلق رکھنا یا اس کی طرف منسوب ہونا اس بات کی علامت ہے کہ دین کی یہی ایک تعبیر ہی حق ہے، تاہم متعدد مسالک کی موجودگی اور دوسرے حریفوں کے وجود پر مسلکی شناخت کا انحصار شریعت کی شکست وریخت اور عدم استحکام کو تجویز کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر مسلک، شریعت کے متعلق ایک ایسا ادعا ہے جو شریعت سے متعلق کسی مطلق ادعا کی غیر موجودگی اور عدم امکان کا اعلان کرتا ہے۔

مسلک کے تصور میں کار فرما تضاد کی سب سے اچھی وضاحت دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث کرداروں کے درمیان مسلکی شناخت کے اخذ و رَد کے بارے میں تذبذب کی موجودگی سے ہوتی ہے۔ کسی مسلکی شناخت کو قبول کرنا اور برتنا علمی استناد اور روایت کی وہ امتیازی علامات عطا کرتا ہے جو کسی مخصوص مسلک کو اس کے حریف مسالک سے ممتاز کرتی ہیں۔لیکن بریلوی اور دیوبندی جیسے القابات کو ترک کرنا سنی مذہب کے ادعا کے لیے اس انداز میں راہ ہموار کرتا ہے جو 'مسلکی' اختلافات اور امتیازات سے بالا ہے۔ چونکہ یہ ایک دوسرے کے بالکل متضاد نہیں، اس لیے کسی مسلک کی جزئیت اور سُنّی مذہب کی کلیت بہر حال ایک تعمیری تضاد میں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں، اس لیے یہ اخذ ورد کے بظاہر متضاد رویوں کے پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

لیکن اب میں مختصراً‌ اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ مسلک ہے کیا؟ دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث جیسے متخالف مسالک کے درمیان اختلافات کا خلاصہ کیا ہے؟ المختصر، مسلک علم وعمل اور تعبیر وتشریح کے اصولوں کے باہمی تعامل سے وجود میں آتا ہے۔ کسی مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس مسلک کا پیروکار ایک ایسے ممتاز مسلکی گروہ سے تعلق رکھتا ہے جو ایسے تین بڑے سوالات پر مبنی ہے جن کے تین متغیرات (variables) ہیں:

(1) علم: بنیادی فقہی، اخلاقی اور اعتقادی مسائل سے نمٹنے کے لیے روایت کے کون سے مصادر سے استفادہ کرنا چاہیے؟

(2) تعبیر وتشریح کے اصول: فقہی روایت کے ماقبل جدید ورثے کو جدید دنیا میں کیسے اور کن تعبیری اصولوں کی بنیاد پر واضح کیا جائے؟ اور

(3) عمل: مستند علم اور تعبیر وتشریح کے اصولوں (1 اور 2) کے نظریے سے رسم ورواج اور روزمرہ زندگی کا کون سا خاکہ سامنے آتا ہے؟

علم، تعبیر اور عمل کا یہ سنگم جنوبی ایشیا کے مسلکی اختلافات اور مناظروں کی بنیاد ہے۔

بریلوی دیوبندی اختلاف کی اساس اصولِ تعبیر اور عمل کا اختلاف ہے۔ فقہی مسائل میں شدید اختلافات کے باوجود دونوں مکاتب فقہ حنفی کی تقلید پر متفق ہیں۔ تاہم اہل حدیث مکتب فکر مسلمہ فقہی مذاہب کی حجیت کو ہی مسترد کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں وہ اپنے حنفی حریفوں سے عملی احکام کے معاملے میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ مسلک کی اصطلاح کو سمجھنے کے لیے ممکنہ طور پر سب سے کارگر تجزیاتی طریق کار یہ ہے کہ علم، اصولِ تعبیر اور عمل کے درمیان تعامل پر غور کیا جائے۔

انیسویں صدی کے اواخر میں شمالی ہندوستان میں سنی اسلام کی نظریاتی تشکیل نے، جو متخالف مسالک کی صورت میں ابھر کر سامنے آئی، مناظروں کی شدت میں بے تحاشا اضافہ کیا۔ تمام اصلاح پسند گروہ بشمول دیوبندیوں، بریلویوں اور اہل حدیثوں نے اس برپا شدہ مناظرانہ معرکہ آرائی میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ ان مناظروں میں سب سے زیادہ معروف مناظرے بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان ہیں، جن سے یہ کتاب بحث کرتی ہے۔اس کش مکش نے بریلوی اہل علم کے اکابر، جیسے بانئ مسلک مولانا احمد رضا خان اور ان کے دیوبندی حریفوں بشمول مدرسۂ دیوبند کے بانیوں مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی، اور ان کے جانشینوں جیسے مولانا خلیل احمد سہارن پوری (م 1927) اور مولانا اشرف علی تھانوی کو الجھائے رکھا17۔ باوجود یکہ یہ دونوں مسالک ایک ہی حنفی فقہی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، انھوں نے نبی اکرم ﷺ کی سنت کی حدود اور عوامی دائرے میں اس کی تنفیذ پر ایک دوسرے کی مخالفت کی۔

لوئی ڈوماں (Louis Dumont) نے جدید ہندوستان میں ہندو سماج کے تناظر میں بتایا ہے کہ "بطورِ حاکمِ اعلیٰ بادشاہ کے خاتمے سے۔۔۔۔ عوام نے ایک اجتماعی فرد کی حیثیت سے، جس کا وجود ایک خطے میں تھا، دھرما کی جگہ لے لی18۔ بعینہ استعماری ہندوستان کے سیاق میں نبی اکرم ﷺ کی سنت ایک ایسے استعارے کے طور پر سامنے آئی جو پوری کلیت میں شریعت کی نمائندگی کر رہی تھی۔ شریعت کا مرکز اب شدت کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کی ذات بن گیا۔ کسی واضح اور معقول سیاسی طاقت کی غیر موجودگی میں نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ بنیادی استدلالی مقام کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آیا، جہاں شمالی ہندوستان کے علما کے حریف دھڑے اپنے مذہبی استناد کے لیے استدلال اور بحث ومباحثہ کرتے، لیکن ان میں سے ہر دھڑے نے سنت کی تعریف کافی مختلف بلکہ متضاد طریقے سے کی۔ اس حوالے سے دیوبندی بریلوی مناقشے کی صورت حال بطور خاص بہت توضیحی ہے۔

دیوبندیوں کے اصلاحی پروگرام میں نبی اکرم ﷺ کے مقام کا ایک مساوات پسندانہ تخیل تھا۔ مثلاً دیوبندی علما کی نظر میں کسی کو نبی اکرم ﷺ کا بھائی کہنا کوئی گستاخانہ یا بے ادبی پر مبنی طرز عمل نہیں، بلکہ نبی اکرم ﷺ کی انسانی صفات کے اعتراف کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ دیوبندیوں نے اپنے استدلال میں بتایا کہ معروف حدیث: "میں تم میں سے کسی کی طرح نہیں" کا مطلب وحی الہی کے وصول کرنے والے کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کے منفرد مقام کا اعتراف ہے۔ دیگر تمام انسانی صفات کے اعتبار سے وہ دوسرے انسانوں ہی کی طرح ہیں۔ اس لیے دیوبندی علما کے نزدیک یہ اعتقاد رکھنا ناقابل برداشت ہے کہ نبی اکرم ﷺ علم غیب کے حامل ہیں۔ جیسا کہ میں آٹھویں باب میں بتاؤں گا، عید میلاد النبی جیسی رسموں کی مخالفت میں، جس میں بیک وقت کئی محفلوں میں نبی اکرم ﷺ بذات خود حاضر ہوتے ہیں، ان کے اس اعتقادی موقف کا مرکزی کردار تھا۔ شاہ محمد اسماعیل کی طرح دیوبند کے پیش روؤں کے لیے نبی اکرم ﷺ کا کمالِ نبوت ان کے کمالِ انسانیت کے مرہونِ منت تھا۔

جیسا کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے ایک بار دیوبندی مکتبِ فکر کا موازنہ اپنے حریفوں سے کرتے ہوئے کہا: "بدعتی حضور کو الٰہ مانتے ہیں مگر ناقص۔ ہم انھیں عبد مانتے ہیں مگر کامل۔ تو تم حضور کی تنقیص کرتے ہو، اور ہم کمال کے قائل ہیں"19۔ مولانا تھانوی نے نبی اکرم ﷺ کی بشریت سے متعلق دیوبندیوں کے موقف کے دفاع میں پنج وقتہ نمازوں میں پڑھے جانے والے تشہد سے استدلال کیا: "میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں"۔ مولانا تھانوی نے واضح کیا کہ اس تشہد میں جس امر پر غور کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اس میں رسول اللہ ﷺ کی عبدیت کو ان کی رسالت پر مقدم کیا گیا ہے۔ اس لیے نبی اکرم ﷺ کے مقامِ عبدیت کو آپ کے مقام رسالت پر فوقیت حاصل ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی بشریت ان کی شخصیت کا سب سے بنیادی وصف ہے20۔

اس کے برعکس بریلوی نظریے کے مطابق خدا اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان تعلق میں سب چیزوں سے بڑھ کر حیثیت محبت کو حاصل ہے۔  مولانا فضل حق خیر آبادی کی طرح، جن کی بریلوی بہت توقیر کرتے ہیں، ان کے نزدیک ایسا کوئی شرعی استدلال جو خدا کی محبوب ہستی کی حیثیت سے رسول اللہ ﷺ کے مقام ومرتبے کو کمزور کرتا ہے، مثلا گناہ گاروں کے حق میں اس کی شفاعت پر سوال اٹھانا یا میلاد کو بدعت کہنا، ناقابلِ قبول ہے۔ مزید برآں کسی کے لیے ایسا کہنا تو درکنار، سوچنا بھی نہ صرف تحقیر آمیز بلکہ گستاخی ہے کہ وہ حضور ﷺ کو اپنا بھائی سمجھے۔ کوئی ایسی بات یا طرز عمل جو صرف نظری اعتبار سے بھی نبی اکرم ﷺ کے مقام کو گھٹائے، بریلویوں کے لیے ناگوار ہے۔

مثال کے طور پر مولانا احمد رضا خان کے نزدیک حضور اکرم ﷺ کے ساتھ خدا کی قربت وحی کے زمانے اور حکمت سے مربوط ہے۔ قرآن ایک ہی قسط میں نازل ہونے کے بجائے دوعشروں سے زیادہ مدت میں آہستہ آہستہ اس لیے نازل ہوا کہ خدا اور نبی اکرم ﷺ کے درمیان محبت کا رشتہ پروان چڑھے۔ سلسلۂ وحی کی تکمیل پر حضور ﷺ کا قرآن سے متعلق علم اور اس علم کے ذریعے ماضی ومستقبل (ماکان ومایکون) کے تمام واقعات کا علم خدا کا نبی اکرم ﷺ سے محبت کا ایک اظہار ہے21۔ محبت، علم اور وحی کے امتزاج نے نبی اکرم ﷺ کے علم غیب پر، جس کا جائزہ گیارھویں باب میں پیش کیا گیا ہے، اور جو مولانا احمد رضا خان اور ان کے پیروکاروں کے لیے بہت اہم اور حساس ہے، کش مکش کو جنم دیا۔لیکن جیسا کہ میں نے اس کتاب کے تعارف میں ذکر کیا ہے، یہ امر خصوصاً محل نظر ہے کہ دیوبندی بریلوی مخاصمت کو عوامی صوفی ازم کے حامیوں (بریلوی) اور فقہی قدامت پسندی کے علم برداروں (دیوبندی) کے درمیان جنگ سے تعبیر کیا جائے۔

دیوبندی اور بریلوی دونوں فقہ حنفی اور تصوف سے گہرا ربط وضبط رکھتے ہیں۔ ان کا باہمی اختلاف اس سوال پر تھا کہ استعماری صورت حال کے زیر اثر ایک سنی حنفی مسلمان کے حقیقی معنی کیا ہیں۔ ان کے اختلاف کی بنیاد سنت نبوی کے متوازی تصورات تھے، نہ کہ مخالف فقہی مذاہب سے انتساب۔ مسالک اور فقہی مذاہب کے درمیان فرق کے لیے یہ بے حد اہم ہے کہ دیوبندی بریلوی تنازع کی تہہ میں کار فرما علمیاتی قربت وتعلق کو تسلیم کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں گروہ اپنے عمومی خیالات اور اپنے ان پیروکاروں کے اعتبار سے، جن کی تائید وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں، ایک دوسرے کے بہت مشابہ ہیں  جس کی وجہ سے ان کے مناظرے عموماً بہت طنز آمیز اور ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں۔

دیوبندی بریلوی مناظرے انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوئے، جب شاہ محمد اسماعیل کی وفات پر چند دہائیاں گزر چکی تھیں۔ تاہم شاہ اسماعیل کی شخصیت ان مناظروں کا مرکزی موضوع تھی۔ دیوبند کے پیش روؤں نے خم ٹھونک کر ان کے خیالات کا دفاع کیا، اور انھیں ایک مثالی مذہبی مصلح کی روپ میں پیش کیا۔ مثلاً ایک مقام پر تقویۃ الایمان کی متنازعہ عبارات پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا رشید احمد گنگوہی نے واضح کیا: "تقویۃ الایمان ایک حیران کن کتاب ہے جو قرآن وحدیث کی تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ اس کے مصنف کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ جو کوئی انھیں کافر یا گمراہ کہتا ہے، وہ خود شیطان ہے، اور اس پر خدا کی طرف سے لعنت ہے"22۔

تعبیری منہج کے اعتبار سے شاہ اسماعیل کی اصلاحی فکر دیوبند کے پیش روؤں سے زیادہ غیر مقلدین کی فکر کے مماثل ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ تقویۃ الایمان میں شاہ اسماعیل نے عوام سے مطالبہ کیا تھا کہ قرآن وحدیث جیسے دین کے مصادر سے استفادہ کے لیے انھیں علما پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ علاوہ ازیں اگر چہ شاہ اسماعیل فقہ حنفی میں خوب ماہر تھے، لیکن انھوں نے حنفی مذہب کو اپنی شناخت کے طور پر پیش نہیں کیا۔ بلکہ جیسا کہ میں نے دوسری باب میں بیان کیا، متعدد متنازع مسائل جیسے رفع الیدین میں شاہ اسماعیل اپنے خاندان کے حنفی علما کی روش سے ہٹ گئے تھے، اور اس کی وجہ سے ان میں کافی بے چینی بھی پیدا ہوئی تھی۔ اس لیے بظاہر یہ عجیب معلوم ہوتا ہے کہ دیوبند کے پیش روؤں نے، جو کٹڑ حنفی تھے اور اہل حدیث مکتب فکر کے شدید مخالف تھے، شاہ اسماعیل کو اس قدر جذباتی انداز میں قبول کیا اور ان کا دفاع کیا۔ لیکن چند عوامل ایسے ہیں جو اس ظاہری تضاد کی وضاحت کر سکتے ہیں۔

پہلا یہ کہ انیسویں صدی کے اواخر کے اہل حدیث علما کے برعکس شاہ اسماعیل نے کسی فقہی مذہب کی تقلید سے انکار نہیں کیا، نہ ہی ماضی کے معتبر حنفی علما کی تنقیص کی۔ شاہ اسماعیل کی فکر میں کسی فقہی مذہب کی تقلید کے سوال پر کوئی قابل ذکر علمی رائے موجود ہی نہیں، جو دیوبندی علما کی حنفی حساسیتوں کو ان کے خلاف ابھار سکتی۔

دوسرا یہ کہ شاہ اسماعیل کی شخصیت میں دیوبند کے پیش روؤں کو اپنے اصلاحی ایجنڈے کے لیے ایک بہترین ترجمان مل گیا۔ شاہ اسماعیل کا سارا زور توحید کے احیا پر تھا اور روز مرہ کے عملی احکام میں بدعت کی حدود پر ان کے خیالات دیوبندی فکر سے بہت زیادہ مماثل تھے۔ اس لیے تعبیری ذوق میں اختلافات کے باوجود اس فکری قربت نے شاہ اسماعیل اور دیوبندی پیش روؤں کے درمیان ایک مضبوط اتحاد کو ممکن بنایا۔

دیوبندی جس قدر شاہ اسماعیل کے علمی اور سیاسی کارناموں کے دل دادہ تھے، مولانا احمد رضا خان اور ان کے بریلوی پیروکار ان سے اتنے ہی نالاں تھے۔ مولانا احمد رضا خان کے لیے شاہ اسماعیل اور ان کے دیوبندی مداح ایک ہی علمی شجرے کا حصہ تھے، جس نے توحید کے احیا کی ایک گمراہ کن جستجو میں حضور ﷺ کے مقام ومرتبے کو گھٹایا۔ فضل حق خیر آبادی کی طرح مولانا احمد رضا خان نے شاہ اسماعیل اور اکابر دیوبند کی فکر پر تابڑ توڑ حملے کیے، اور انھیں برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک شدید خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے انیسویں صدی کے اواخر کے ہندوستان میں بریلوی دیوبندی مناظرے کئی حوالوں سے اس کش مکش کی علمی طور پر نسبتاً زیادہ منقح اور گروہی  ارتکاز کے ساتھ سامنے آنے مجادلاتی  سلسلے ہیں جو شاہ اسماعیل اور خیر آبادی کے درمیان کئی دہائیاں پہلے فکری معرکہ آرائی کی صورت میں ظاہر ہوئے۔

ان تنازعات میں ایک بنیادی دینی سوال، جو سنی مسلم مفکرین کی فکر پر حاوی تھا، یہ تھا: نبی اکرم ﷺ اور ان کے صحابہ کرام کی سنت میں نئے اضافے کی حدود کیا ہیں؟َ بالفاظِ دیگر عبادات اور رسمی اعمال کے دائرے میں اضافہ کب بدعت بن جاتا ہے، یا دوسرے الفاظ میں، اسلام میں کسی عمل پر بدعت کے اطلاق کے لیے بنیادی ضابطہ کیا ہے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں جن پر آئندہ باب میں بحث ہوگی۔



حواشی

  1.   اشرف علی تھانوی، ارواح ثلاثہ (کراچی: دار الاشاعت، 2001)، 209 – 10۔
  2.  وہابی کی اصطلاح کو استعماری جنوبی ایشیا میں مسلم انتہا پسندی کی علامت کے طور پر استعمال کرنے کے لیے دیکھیے: الیس مارگنسٹائن فوئرسٹ، Indian Muslim Minorities and the 1857 Rebellion: Religions, Rebels and Jihad (لندن: آئی بی ٹورس، 2017)۔ اگر چہ فوئرسٹ کا سارا زور اس اصطلاح کے اس نامبارک مفہوم پر ہے، جو برطانوی مستشرقین کی کاوشوں سے رائج ہوا ہے، تاہم یہ بات دل چسپ ہے کہ ایک "سیاہ فام  بیرونی مسلمان عالم" نے اس مخصوص واقعے میں اس لفظ کا استعمال کیا ہے، جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انیسویں صدی کے اواخر میں "وہابی" اصطلاح کسی کو گمراہ قرار دینے کے لیے ایک علامت کے طور پر ہندوستان سے باہر بھی مستعمل تھی۔
  3.  یہ معلوم نہیں کہ سیاہ فام عالم کس زبان میں مقامی اہل علم سے بات کرتا تھا، تاہم اندازے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فصیح عربی ہوگی، کیونکہ یہ اس وقت بھی اور اب بھی مسلمان اہل علم اشرافیہ کے درمیان رابطے کی زبان ہے۔
  4.   اَیضاً۔
  5.  استعماری جنوبی ایشیا میں بین المسالک تنازعات کے مرکز کے طور پر مسجد کے کردار کے لیے ملاحظہ کیجیے: ثنا ہارون کا آنے والا مضمون، The Fragmentation of South Asian Mosque Practice under the Colonial State، یہ ایک غیر مطبوعہ مضمون ہے، جو مصنفہ کی ملکیت میں ہے۔
  6.  برطانوی استعمار کے خلاف مسلمانوں کے علمی ردعمل کے پیچ در پیچ سلسلے اور اس دور میں مسلمانوں کی ابھرنے والی اصلاحی، احیائی اور جدید تحریکات کے شاید سب سے عمدہ اور فیصلہ کن تجزیے کے لیے دیکھیے، محمد قاسم زمان کی حال میں چھپنے والی شان دار کتاب: Islam in Pakistan: A History (پرنسٹن، این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2018)، 14-53۔
  7.   مدونین ایرک ہوبزباون اور ٹیرینس رینجر، The Invention of Tradition (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1992) 165 میں برنارڈ کوہن کے مضمون Representing Authority in Victorian India میں منقول ہے۔
  8.  ڈیوڈ گلمارٹن، Democracy, Nationalism, and the Public: A Speculation on Colonial Muslim Politics، ساتھ ایشیا 14، نمبر 1 (1991): 123-40۔
  9.  ایضاً۔
  10.  جولیا سٹیفنز، The Politics of Muslim Rage: Secular Law and Religious Sentiment in Late Colonial India، ہسٹری ورک شاپ جرنل 77 (2014): 45-64۔
  11.  جنوبی ایشیا میں ایک منقح اور مسابقتی تصور کی حیثیت سے مذہب کی استعماری تشکیلِ نو کی ایک متاثر کن تحقیق کے لیے ملاحظہ کیجیے ٹینا پوروہٹ کی شان دار کتاب: The Aga Khan Case: Religion and Identity in Colonial India (کیمبرج، ایم اے: ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 2012)۔
  12.  اروند منڈیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)۔
  13.  استعماری جنوبی ایشیا میں بین المسالک اور بین المذاہب مناظروں کے متنوع اور مماثل سلسلوں کے نسبتاً تفصیلی تجزیے کے لیے دیکھیے مجموعۂ مقالات، مدون کینِتھ جونز، Religious Controversy in British India: Dialogues in South Asian Languages  (البانی: سٹیٹ یونیورسٹی آف نیو یارک پریس، 1992)۔ مسلم مسیحی مناظروں کے تجزیے کے لیے دیکھیے: اروِل پاول، Muslims and Missionary in Pre-Mutiny India (رکمنڈ، سری: کرزن پریس، 1993)۔
  14.  اپنے فکر انگیز تحقیقی مقالے میں ایس اکبر زیدی نے ایک مفید تنبیہ کی ہے کہ ان مباحثوں اور مناظروں کا سلسلہ صرف بڑے اصلاحی گروہوں کے نامور علما اور قائدین تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس میں انیسویں صدی کے اواخر کے شمالی ہندوستان کے "اگر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں" (17) نسبتاً کم معروف اردو لکھاری اور صحافی بھی شامل تھے۔ زیدی نے بجا طور پر واضح کیا ہے کہ اس دور میں ان مناظروں کی شدت اور کثرت دونوں ایک متحدہ ہندوستانی مسلمان قومیت کی موجودگی کے تصور کے خلاف جاتی ہے۔
  15.  تحریک پاکستان میں علماے دیوبند کے کردار کے لیے دیکھیے: وینکٹ دھولیپالا، Creating a New Medina: State Power, Islam, and the Quest for Pakistan in Late Colonial North India (نیو دلی: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2015)۔ حسین احمد مدنی کی مخالفت کے لیے دیکھیے: باربرا مٹکاف، Husain Ahmad Madani: The Jihad for Islam and India’s Freedom (لندن: ون ورلڈ پریس، 2008)۔ بیسویں صدی کے اواخر میں دیوبند کی سیاسی فکر میں پیش رفت کے لیے دیکھیے: محمد قاسم زمان، The Ulama in Contemporary Islam: Custodians of Change (پرنسٹن این جے: پرنسٹن یونیورسٹی پریس، 2002)، 87 – 111، اور After September 11: 2001 Essays Archive، سوشل سائنس ریسرچ جرنل، 2001 میں بابرہ مٹکاف، ‘Traditionalist’ Islamic Activism: Deoband, Tablighis, and the Talibs۔
    http://essays.ssrc.org/sept11/essays/metcalf.htm.
  16.  دیکھیے: محمد قاسم زمان، Modern Islamic Thought in a Radical Age: Religious Authority and Internal Criticism (نیو یارک: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 2012)، اور شیر علی ترین، Revolutionary Hermeneutics: Translating Qur’an as a Manifesto for Revolution، جرنل آف ریلیجئس اینڈ پولیٹیکل پریکٹس 3، نمبر 1-2 (2017): 1-24۔
  17.  یہاں یہ وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نانوتوی اور خان ایک دوسرے کے خلاف براہ راست محاذ آرا نہیں ہوئے۔ تاہم بعد میں دیوبندی فکر پر خان کے حملوں کا محور نانوتوی کے نظریات تھے بالخصوص ان کی کتاب تحذیر الناس میں امکان نظیر کے حوالے سے ان کا موقف۔
  18. لوئس ڈیومنٹ، Religion, Politics, and History in India: Collected Papers in Indian Sociology (دا ہیگ: موٹن، 1971)، 118، بحوالہ گیانندرہ پانڈے، The Construction of Communalism in Colonial North India (دلی: آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، 1990)، 4۔
  19.  بحوالہ محمد اقبال قریشی، بدعت کی حقیقت اور اس کے احکام (لاہور: ادارۂ اسلامیات، 2000)، 27۔
  20.  اشرف علی تھانوی، الافاضات الیومیۃ، جلد 3 (ملتان: ادارۂ تالیفاتِ اشرفیہ، تاریخ اشاعت ندارد)، 235 – 37۔
  21.  احمد رضا خان، الدولۃ المکیۃ بالمادۃ الغیبیۃ (لاہور: نذیر سنز، 2000)، 289۔ میرے پیش نظر اس کتاب کی لاہور اور کراچی کی دونوں اشاعتیں ہیں، اور حوالے کے وقت متعلقہ اشاعت کے حوالے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
  22.  رشید احمد گنگوہی، فتاوی رشیدیہ (کراچی: محمد: کارخانۂ اسلامی کتب، 1987)، 423۔


دسمبر ۲۰۲۲ء

فوج کا متنازعہ کردار اور قومی سلامتی کے لیے مضمراتمحمد عمار خان ناصر 
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۵)ڈاکٹر محی الدین غازی 
مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۲)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن 
حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ: تعارف و خدماتمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ؒمولانا ابوعمار زاہد الراشدی 
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۱)ابو الاعلیٰ سید سبحانی 
توہین مذہب کے ایک مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہڈاکٹر محمد مشتاق احمد 
انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۲)ڈاکٹر شیر علی ترین 

فوج کا متنازعہ کردار اور قومی سلامتی کے لیے مضمرات

محمد عمار خان ناصر

(اس عنوان پر سوشل میڈیا پر وقتاً‌ فوقتاً‌ پیش کی گئی  منتخب معروضات)

متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ میری امت جب جہاد کو ترک کر کے کاشت کاری میں مشغول ہو جائے گی تو عزت اور سرفرازی ذلت اور نکبت میں بدل جائے گی۔ (اس کی اسناد میں کچھ مسائل ہیں، لیکن امام ابن تیمیہ کی رائے میں اس کے متعدد طرق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بات بے اصل نہیں ہے، یعنی فی الجملہ اس کی نسبت قابل اعتماد ہے۔)

ان احادیث کا کیا مطلب ہے؟ کیا اس میں کاشت کاری کی مذمت بیان کرنا مقصود ہے؟ ظاہر ہے نہیں، کیونکہ زراعت کی فضیلت اور برکات پر الگ سے بے شمار احادیث موجود ہیں۔ یہ زرعی دور تھا اور اسلامی ریاست کے مستقل محاصل کا دار ومدار بھی زراعت پر ہی تھا، اس لیے اس پیشے کی مذمت یا اس کی اہمیت کو کم کرنا تو مقصود نہیں ہو سکتا۔

امام یحیی بن آدم نے مکحول سے اس کا جو ایک مرسل طریق نقل کیا ہے، اس سے اس حدیث کا صحیح مدعا سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جب میری امت زراعت میں مشغول ہو جائے گی تو ’’پھر وہ بھی باقی لوگوں جیسی ہو جائے گی۔“ غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں ’’امت “ سے مراد عرب مسلمانوں کی وہ جماعت تھی جس کو مسلمانوں کی سلطنت کے انتظام وانصرام اور استحکام کی ذمہ داری دی گئی تھی، جبکہ زراعت یہاں زمینوں اور جائیدادوں کے حصول اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول ہو جانے کی تعبیر ہے۔

مسلمانوں کی عرب قیادت سے جس کردار کی توقع تھی اور جس پر اس سلطنت کے استحکام اور ان کی قیادت وسیادت کے تسلسل کا انحصار تھا، وہ یہ تھا کہ وہ اپنی توجہ سلطنت کی سرحدوں کی حفاظت اور حسب مصلحت ان کی توسیع پر مرکوز رکھیں اور فتوحات سے حاصل ہونے والے وسائل میں حصہ داری اور مراعات کی دوڑ میں شریک نہ ہوں۔ جیسے ہی وہ اس مسابقت کا حصہ بنیں گے، اپنے اس کردار کو بھی کمپرومائز کریں گے اور سیاسی عمل کو اپنے تابع رکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو کر خود سیاسی حرکیات کے زیراثر آ جائیں گے جس کا آخری نتیجہ اقتدار سے محرومی کی صورت میں نکلے گا۔ اب یہ تاریخی وتہذیبی لحاظ سے کتنی گہری بات تھی، یہ سمجھنے کے لیے ابتدائی صدیوں کی اسلامی تاریخ کا ایک سرسری مطالعہ بھی کافی ہے۔

ہمارے تناظر میں اس تہذیبی اصول کی کیا معنویت ہے؟ اس کے لیے پاکستانی فوج کے قومی وسیاسی کردار پر اس کو منطبق کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔ قوم سازی اور قومی شناخت کی تشکیل میں فوجی ادارے کا کردار ہمارے ہاں بنیادی رہا ہے۔ فوج کی حریف سیاسی قوتوں کے تمام تر اعتراضات کے باوجود قومی شعور نے بحیثیت مجموعی فوج کے اس کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور ہر طرح کے سیاسی اور عسکری بلنڈرز کے باوجود بطور ادارے کے، فوج کا احترام برقرار اور اس کے قومی کردار کی اہمیت مسلم رہی ہے۔ تاہم اب یہ ادارہ اور خصوصاً‌ اس کی اعلی قیادت جس طرح اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو ثانوی مقام دیتے ہوئے مراعات اور وسائل پر حق جتانے کی دوڑ میں لگ گئی ہے، وہ یقینی طور پر اسی صورت حال کے مماثل ہے جس کو مذکورہ حدیث میں، جہاد چھوڑ کر زراعت میں مشغول ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ادارے نے یہ رخ کن اسباب یا مجبوریوں سے اختیار کیا ہے، یہ وہ بہتر جانتا ہے، لیکن اس کا انجام کیا ہے، وہ بتانے کے لیے تاریخ کافی ہے۔ اس کی ابتدائی علامات اب ظاہر ہونا بھی شروع ہو چکی ہیں۔


ابن خلدون نے بادشاہت کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے یہ اصول بہت خوبی سے سمجھایا ہے کہ قومی وسائل میں سے اشرافیہ کے کن طبقات کو کن حالات میں ترجیحی حصہ دینا بادشاہ کی مجبوری ہوتا ہے۔ ابن خلدون کہتے ہیں کہ بادشاہ کو نظام مملکت چلانے کے لیے دو طبقوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک اہل قلم اور دوسرے ارباب سیف۔ اہل قلم ایک عمومی عنوان ہے جس میں ہر طرح کی مہارت رکھنے والے طبقے شامل ہیں جن کی بادشاہ کو ضرورت ہوتی ہے، مثلاً‌ انتظامی صلاحیت رکھنے والے وزراء، اہل قلم، ادبا، مورخین، شعرا وغیرہ، جبکہ  اہل سیف کا مصداق واضح ہے۔

ابن خلدون کہتے  ہیں کہ جب سلطنت کی ابتدا ہو، تب بھی اہل سیف کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور جب سلطنت کا آخری وقت ہو اور داخلی عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی خطرہ ہو تو بھی دفاع کے لیے اہل سیف کو ترجیحی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ البتہ جب سلطنت ایک دفعہ مستحکم ہو جائے تو اس میں اہل سیف کی اہمیت بس ہنگامی حالات کے لیے ہوتی ہے، جبکہ مملکت کو چلانے کے لیے اہل قلم کا کردار بنیادی اہمیت حاصل کر لیتا ہے۔

معروضی صورت حال کے لحاظ سے بادشاہ کو اہل سیف یا اہل قلم کے لیے قومی خزانے میں سے خصوصی مراعات دینی پڑتی ہیں۔ مثلاً‌ جب اہل سیف کی اہمیت ہوگی تو ان کا رتبہ، مراعات اور سرکاری زمینوں کی الاٹمنٹ میں حصہ سب سے زیادہ ہوگا۔ اسی طرح استحکام کی حالت میں چونکہ اہل قلم کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے تو رتبے، مراعات، بادشاہ کے ساتھ قریبی تعلقات وغیرہ میں بھی انھی کو ترجیح ہوگی۔

معمولی غور سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ اصول آج کے جمہوری نظام حکومت پر کیسے منطبق ہوتا ہے اور یہ کہ کسی ملک کے استحکام کی صورت میں کن طبقات کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور مسلسل خطرے سے دوچار ہونے کی حالت میں کون سے طبقات  زیادہ مراعات کے حقدار قرار پاتےہیں۔


سابق آرمی چیف  جنرل قمر جاوید باجوہ نے گذشتہ مارچ میں اپنی ایک تقریر میں کہا کہ معاشرے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کمزور آدمی کے لیے قانون کچھ اور ہو اور طاقتور کے لیے کچھ اور، کمزور کو قانون پکڑ لے اور طاقتور کو کچھ نہ کہے۔

یہ تو کامن سینس کی بات ہے اور خوشی ہے کہ طاقتور ترین ادارے کو اس کا احساس ہے، لیکن کیا کوئی کسی طریقے سے ان کو یہ سمجھا سکتا ہے کہ جنگل جیسے ملک میں اس صورت حال کی ذمہ داری میں خود وہ کیسے اور کتنے شریک ہیں؟ کیا طاقتور کو تحفظ فراہم کرنے کے اس نظام کی جو hierarchy بنتی ہے، وہ اس سے بے خبر ہیں؟

ان کو ملکی نظام، وسائل اور پالیسیوں پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لیے فرماں بردار سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے جن کو بدلے میں ان کی پشت پناہی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو جاگیرداروں، وڈیروں، چودھریوں، شاہوں اور مخدوموں کی حمایت درکار ہے جو بدلے میں قومی وسائل میں حصہ اور اپنے علاقوں کا اقتدار چاہتے ہیں۔ علاقے کے اقتدار کے لیے کارکنوں اور کارندوں کو دست وبازو بنانے کی ضرورت ہے جن کے اپنے جائز وناجائز مطالبات اور گلی، محلے، شہر کی سطح پر چودھراہٹ کی خواہشیں ہیں۔ ان کی خواہشیں پوری کرنے اور انھیں قانون کی گرفت سے بچا کر رکھنے کے لیے سرکاری مشینری کی معاونت درکار ہے۔ سرکاری مشینری اسی معاشرے میں رہنے والے انسانوں کی ہے جنھیں اپنی جگہ وسائل، اقتدار واختیار اور قانون سے تحفظ چاہیے جو سیاسی نمائندے اور خود سرکاری مشینری کے مختلف حصے امداد باہمی کے طور پر ایک دوسرے کو مہیا کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس پورے سسٹم میں بالکل نچلی سطح پر زیادتی کرنے والے چھوٹے طاقتور کو قانون سے جو تحفظ مل رہا ہے، کیا اس کا منبع اسی سطح پر ہے یا وہ فراہمی تحفظ کی اس پورے نظام کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟ جب پورے سسٹم کا ننگا اور برہنہ پیغام یہ ہے کہ طاقت کے بقدر تحفظ ملنا یقینی ہے تو اس کی حتمی  ضمانت آخر کہاں سے مل رہی ہے؟

اگر طاقتور ہمیں تقریروں سے بہلانے کے بجائے خدارا بیٹھ کر اس سوال پر غور فرما سکیں تو خلق خدا کو کچھ نہ کچھ انصاف مہیا کرنے کا چارہ ہو سکتا ہے۔


مغربی استعمار کے زیر تسلط رہنے والے ممالک  کی بعد از استعمار   سیاسی واقتصادی صورت حال کامطالعہ کرنے والے ایک مغربی مصنف  Dietmar Rothermund نے  لکھا ہے کہ ان میں سے بیشتر ممالک میں فوج اپنے افسروں اور سپاہیوں کو عام لوگوں سے بہتر معیار زندگی اور مراعات مہیا کرتی ہے، اس لیے جب ان مراعات کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو فوج ایک ادارے کے طور پر اپنے تحفظ کے لیے فوری طور پر حرکت میں آتی ہے۔ واضح چین آف کمانڈ اور یکجان ہونے کے جذبے کی وجہ سے سیاسی بحرانوں میں فوج فوری اقدام کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ استعماری دور میں یہ فوجیں اپنی حکومتوں کے اقتدار کو چیلنج نہیں کرتی تھیں (کیونکہ ان کی طرف سے مراعات اور وسائل کی تخفیف کا خطرہ نہیں ہوتا تھا)، لیکن بعد از استعمار بیشتر حکومتوں کو اپنی افواج کی طرف سے بار بار بغاوتوں اور مداخلت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور بہت سے لیڈروں کو فوج کے ہاتھوں جان سے ہاتھ دھونے پڑے ہیں۔

(The Routledge Companion to Decolonization, 254)

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاں مروج  یہ تجزیہ بہت سادگی پر مبنی ہے کہ سیاسی نظام میں مداخلت اقتدار کے بھوکے "کچھ" جرنیلوں کی شرارت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ افراد کا نہیں، پاور اسٹرکچر کا مسئلہ ہے اور فوجی ادارہ بطور ادارہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے یہ پوزیشن رکھتا ہے اور رکھنے پر مجبور ہے۔ اس لیے وقتی نوعیت کی شرمندگی اور پسپائی سے کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی  ضرورت نہیں۔ مسئلہ جوں کا توں موجود ہے۔ اس کو اصل بنیادوں پر ایڈریس کیا جائے گا تو حل ہوگا، ورنہ یہی کولہو رہے گا اور یہی بیل۔


اس تناظر میں معروف  کالم نگار جناب عرفان صدیقی نے اپنے ایک تازہ کالم میں  جس بنیادی سوال کی طرف  توجہ دلائی ہے، ہمارے خیال میں   اس پر  سنجیدہ قومی مباحثے کا آغاز کرنے کی ضرورت ہے:

’’نئے سپہ سالار کو اپنے رفقا کے تعاون سے جائزہ لینا ہوگا کہ فوج کے اندرونی نظام کی کون سی چُولیں کسنے کی ضرورت ہے۔

کون سی باتیں فوج کے وقار کو مجروح کرتی اور چوپالوں کا موضوع بنتی ہیں۔

ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹیز کے وسیع وعریض اور مسلسل فروغ پذیر نیٹ ورک

درجنوں صنعتی وکاروباری منصوبے

پلاٹوں کی خریدوفروخت کا کاروبار

پُرکشش سول عہدوں کا حصول

مارشل لائوں کے باعث سول معاملات میں تجاوزات کا معاملہ

عمومی عالمی جمہوری روایات کے برعکس دفاعی بجٹ کا پارلیمنٹ سے پوشیدہ رہنا

ریٹائرمنٹ کے بعد وسیع زمینی رقبوں کا تحفہ اور ایسے دیگر معاملات اور مفادات کا جائزہ لینا ہوگا جن کا دوسرے جمہوری ممالک میں کوئی تصور نہیں۔

شہداء، غازیوں اور جوانوں کی فلاح وبہبود کے منصوبوں کو خصوصی استثنا دیا جاسکتا ہے۔“


اگر یہ سوال قوم کی تقدیر سے تعلق رکھنے والا ایک بنیادی سوال ہے کہ قومی وسائل کی تخصیص کیسے ہو رہی ہے، یعنی قوم کا کون سا طبقہ کتنے وسائل سے مستفید ہو رہا ہے اور یہ سوال بہرحال سیاسی قوتوں نے اٹھانا ہے تو اگلا اہم سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی قوتیں، داخلی تقسیم سے قطع نظر، اس سوال کے حوالے سے یکسو ہیں؟ یعنی کیا وہ اس پر متفق ہیں کہ اس پر یک جان ہو کر وسائل کی تخصیص کا معاملہ سیاسی قوتوں کے اختیار میں لے آئیں؟ جواب نفی میں ہے، کیونکہ اس وقت تمام سیاسی قوتوں کی ترجیح یہ نہیں، بلکہ وسائل میں حصہ داری حاصل کرنا ہے جس کے لیے "ان" کے ساتھ اچھے تعلقات کی ضرورت ہے۔

چلیے، سیاسی قوتیں متفق نہیں ہیں تو اس سے اگلا سوال یہ ہے کہ موجودہ متحارب قوتوں میں سے کس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ جتنی اسپیس بنے، اس میں ہی اس سوال کو آگے بڑھانا چاہیں گی؟ بات کا رخ واضح رکھنے کے لیے یہ وضاحت پیش نظر رہنی چاہیے کہ سوال، وسائل کے صحیح استعمال کے بارے میں نہیں، بلکہ ان کی تخصیص کے بارے میں ہے۔ مطلب یہ سوال زیربحث نہیں کہ کون سی سیاسی قوت وسائل کا درست استعمال کرے گی، بلکہ یہ ہے کہ کون سی سیاسی طاقت، وسائل کی موجودہ تخصیص میں تبدیلی اور نظرثانی کی بات کر سکتی ہے؟

اس حوالے سے ممتاز  تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے ایک تجزیے کا حوالہ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ لکھتی ہیں  کہ سیاسی جماعتیں جنرلز کی سیاست میں مداخلت پر تو تنقید کرتی ہیں، لیکن قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ جو جنرلز نے کی ہے، اس کو موضوع بنانے کے لیے ابھی آمادہ نہیں۔ کیونکہ اس کام میں سول اور فوجی قیادت، دونوں حصہ دار ہیں۔ اس مسئلے پر دونوں کے درمیان اصل معرکہ اس وقت بپا ہوگا جب کبھی قومی وسائل اتنے محدود ہو جائیں کہ دونوں کو اس پر لڑنا پڑے کہ کس کو زیادہ حصہ ملے گا۔ فی الحال چونکہ وہ نوبت نہیں آئی، اس لیے کوئی فیصلہ کن تبدیلی نہیں آ رہی اور پاکستان ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے بحران کی طرف لڑھکتا رہے گا۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۹۵)

مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کے افادات کی روشنی میں

ڈاکٹر محی الدین غازی

(374) موعد کا ترجمہ

موعد، وعد سے مشتق ہے، لیکن اس میں ہمیشہ وعدے کا مفہوم نہیں ہوتا ہے، کبھی موعد صرف وقت مقررہ کے لیے بھی آتا ہے۔ درج ذیل آیتوں میں موعد وقت مقررہ کے معنی میں ہے نہ کہ وعدہ کیے ہوئے وقت کے معنی میں:

(۱) بَلْ زَعَمْتُمْ أَلَّنْ نَجْعَلَ لَکُمْ مَوْعِدًا. (الکہف: 48)

”بلکہ تمہارا گمان تھا کہ ہم ہر گز تمہارے لیے کوئی وعدہ کا وقت نہ رکھیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”بلکہ تم نے گمان کیا کہ ہم تمہارے حساب کے لیے کوئی یوم موعود نہیں مقرر کریں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”لیکن تم تو اسی خیال میں رہے کہ ہم ہرگز تمہارے لیے کوئی وعدے کا وقت مقرر کریں گے بھی نہیں“۔ (محمد جونا گڑھی)

درج ذیل ترجمہ مناسب ہے:

”لیکن تم نے تو یہ خیال کر رکھا تھا کہ ہم نے تمہارے لیے (قیامت کا) کوئی وقت مقرر ہی نہیں کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۲) وَتِلْکَ الْقُرَی أَہْلَکْنَاہُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَجَعَلْنَا لِمَہْلِکِہِمْ مَوْعِدًا۔ (الکہف: 59)

”اور یہ بستیاں ہم نے تباہ کردیں جب انہوں نے ظلم کیا اور ہم نے ان کی بربادی کا ایک وعدہ رکھا تھا“۔ (احمد رضا خان)

درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:

”اور ان میں سے ہر ایک کی ہلاکت کے لیے ہم نے وقت مقرر کر رکھا تھا“۔ (سید مودودی)

”اور ان کی تباہی کے لیے ایک وقت مقرر کردیا تھا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۳) بَلْ لَہُمْ مَوْعِدٌ لَنْ یَجِدُوا مِنْ دُونِہِ مَوْئِلًا۔ (الکہف: 58)

”بلکہ ان کے لیے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”مگر ان کے لیے وعدے کا ایک وقت مقرر ہے اور اس سے بچ کر بھاگ نکلنے کی یہ کوئی راہ نہ پائیں گے“۔ (سید مودودی)

مذکورہ بالا آیت میں ایک اور پہلو قابل توجہ ہے، وہ یہ کہ موئل کا ترجمہ سرکنے کی جگہ، بھاگ نکلنے کی راہ وغیرہ کیا گیا ہے۔ موئل دراصل پناہ کی جگہ کو کہتے ہیں۔ والمَوْئِلُ: الملجأُ۔ (لسان العرب)

درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”لیکن ان کے لیے ایک مقررہ وقت ہے اور وہ اس کے مقابل میں کوئی پناہ کی جگہ نہیں پائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(375) غداء کا ترجمہ

شام کے کھانے کو عربی میں عَشاء کہتے ہیں اور دن کے کھانے کو غَداء کہتے ہیں، خواہ وہ صبح میں کھایا جائے یا دوپہر میں۔ ابن عاشور کے الفاظ میں:  والغداء: طعام النہار مشتق من کلمۃ الغدوۃ لأنہ یؤکل فی وقت الغدوۃ، وضدہ العشاء، وہو طعام العشی۔ (التحریر والتنویر)

اردو میں ناشتہ صبح کے مختصر کھانے کو کہتے ہیں۔ اس لیے غداء کا ترجمہ ’کھانا‘ کرنا مناسب ہے، ’ناشتہ‘ یا ’صبح کا کھانا‘ اس کا درست متبادل نہیں ہے۔

فَلَمَّا جَاوَزَا قَالَ لِفَتَاہُ آتِنَا غَدَاءَنَا۔ (الکہف: 62)

”پھر جب آگے چلے کہا موسی نے اپنے جوان کو: لا ہمارے پاس ہمارا کھانا“ (شاہ عبدالقادر)

”جب آگے چلے تو (موسیٰ نے) اپنے شاگرد سے کہا کہ ہمارے لیے کھانا لاؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جب یہ دونوں وہاں آگے بڑھے تو موسیٰ نے اپنے نوجوان سے کہا کہ ہمارا کھانا دے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”پھر جب وہاں سے گزر گئے موسیٰ نے خادم سے کہا ہمارا صبح کا کھانا لاؤ“۔ (احمد رضا خان)

”آگے جا کر موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا، لاؤ ہمارا ناشتہ“۔ (سید مودودی)

”پھر جب دونوں (وہاں سے) آگے بڑھ گئے تو موسی نے اپنے خادم سے فرمایا کہ ہمارا ناشتہ تو لاؤ“ (اشرف علی تھانوی)

پہلے تینوں ترجمے بہتر ہیں۔

(376) أَنْ أَذْکُرَہُ کا ترجمہ

قَالَ أَرَأَیْتَ إِذْ أَوَیْنَا إِلَی الصَّخْرَۃِ فَإِنِّی نَسِیتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِیہُ إِلَّا الشَّیْطَانُ أَنْ أَذْکُرَہُ وَاتَّخَذَ سَبِیلَہُ فِی الْبَحْرِ عَجَبًا۔ (الکہف: 63)

”خادم نے کہا،آپ نے دیکھا! یہ کیا ہوا؟ جب ہم اُس چٹان کے پاس ٹھیرے ہوئے تھے اُس وقت مجھے مچھلی کا خیال نہ رہا اور شیطان نے مجھ کو ایسا غافل کر دیا کہ میں اس کا ذکر (آپ سے کرنا) بھول گیا مچھلی تو عجیب طریقے سے نکل کر دریا میں چلی گئی“۔ (سید مودودی)

اس ترجمے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نوجوان کے دوبار نسیان کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک نسیان مچھلی کا خیال رکھنے سے متعلق، اور دوسرا نسیان مچھلی کے دریا میں نکل جانے کا ذکر کرنے سے متعلق۔ عام طور سے مفسرین و مترجمین کی یہی رائے ہے۔

”اور مجھے (آپ سے) اس کا ذکر کرنا شیطان نے بھلا دیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”دراصل شیطان نے ہی مجھے بھلا دیا کہ میں آپ سے اس کا ذکر کروں“۔ (محمد جوناگڑھی)

جب کہ ایک دوسری رائے یہ ہے کہ یہاں ایک ہی نسیان کا تذکرہ ہے اور وہ مچھلی کا خیال رکھنے سے متعلق ہے۔ اس کے مطابق ترجمہ ہوگا:

”تو میں مچھلی کو بھول گیا۔ اور یہ شیطان ہی تھا جس نے اس کو یاد رکھنے سے مجھے غافل کردیا۔ اور اس نے عجیب طرح اپنی راہ دریا میں نکال لی“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ’أن أذکرہ‘ کا اور کھول کر ترجمہ کرتے ہیں:

”تو میں مچھلی کا خیال نہ رکھ سکا اور یہ شیطان ہی تھا جس نے اس کا خیال رکھنے سے مجھے غافل کردیا اور اس نے عجیب طرح اپنی راہ دریا میں نکال لی۔“

ذکر کا مطلب صرف نام لینا ہی نہیں ہوتا ہے، بلکہ یاد رکھنا اور خیال رکھنا بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کے درج ذیل جملے میں ہے:

 فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ۔ (البقرۃ: 152)

”تو تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا“۔

یہاں اللہ کا بندوں کو یاد رکھنا دراصل اس کا اپنے بندوں پر نظر عنایت فرمانا ہے۔

گویا حضرت موسی کے رفیق سفر نے پہلے تو یہ اعتراف کیا کہ وہ مچھلی کا خیال نہیں  رکھ سکا، پھر اس نے یہ وضاحت کی کہ شیطان کے غفلت میں ڈالنے کی وجہ سے یہ لاپرواہی ہوئی اور پھر اس نے یہ بتایا کہ اس نسیان (لاپرواہی) کے نتیجے میں مچھلی عجیب طرح سے دریا میں نکل بھاگی۔ اس طرح تینوں جملوں کی ترتیب واضح ہوجاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں رائج ترجمہ و تفسیر میں ان تینوں جملوں میں بے ربطی دکھائی دیتی ہے۔ مچھلی کے بھاگ نکلنے کا ذکر بعد میں ہے اور اس بھاگنے کا تذکرہ نہ کرنے کا ذکر پہلے ہے۔ دوسری بات یہ کہ اصل بھول تو مچھلی کے سلسلے میں لاپرواہی کرنا ہے، نہ کہ اس کے بھاگنے کا ذکر نہ کرنا، پھر شیطان کی طرف ایک چھوٹی بھول کو منسوب کیوں کیا گیا؟ بڑی بھول کے لیے شیطان کو کیوں ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا؟

مضبوط بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مچھلی کا خیال نہ رکھنا ہی وہ بات ہے جس سے شیطان نے غافل کیا۔ جہاں تک اس واقعہ کو ذکر نہ کرنے کی بات ہے، تو اس کی وجہ نسیان نہیں بلکہ  حضرت موسی علیہ السلام کی ناراضی کا خوف رہا ہوگا، جیسا کہ عام طور سے ایسے موقع پر ہوتا ہے۔

(377) ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ کا ترجمہ

قَالَ ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ۔ (الکہف: 64)

”موسیٰؑ نے کہا،اسی کی تو ہمیں تلاش تھی“۔(سید مودودی)

”(موسیٰ نے) کہا یہی تو (وہ مقام) ہے جسے ہم تلاش کرتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”موسیٰ نے کہا یہی تھا جس کی تلاش میں ہم تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں تلاش کا لفظ موزوں نہیں ہے۔ حضرت موسی اس طرح کی چیز یا مقام کی تلاش میں نہیں نکلے تھے۔ وہ تو ایک منزل مقصود کے ارادے سے نکلے تھے۔ اور یہ جو پیش آیا وہ اس منزل مقصود تک پہنچنے کی ایک علامت تھی۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”اس نے کہا یہی ہمارا مقصود تھا۔“

درج ذیل ترجمہ بھی مناسب ہے:

”موسیٰ نے کہا یہی تو ہم چاہتے تھے“۔ (احمد رضا خان)

(378) زُبَرَ الْحَدِیدِ کا ترجمہ

آتُونِی زُبَرَ الْحَدِیدِ۔ (الکہف: 96)

درج ذیل ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

”مجھے لوہے کی چادریں لا کر دو“۔ (سید مودودی)

”مجھے لوہے کی چادریں لادو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو تم لوہے کے (بڑے بڑے) تختے لاؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)

”میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لاؤ“۔(امین احسن اصلاحی)

درج بالا آیت میں زبر الحدید کے دو ترجمے کیے گئے ہیں، لوہے کے ٹکڑے اور لوہے کی چادریں اور تختے۔ لغت کے مطابق زبر ٹکڑوں کو کہتے ہیں، ان کا چادر یا تختے کی شکل میں ہونا ضروری نہیں ہے۔ لسان العرب میں ہے:

”وزُبْرَۃُ الْحَدِیدِ: الْقِطْعَةُ الضَّخْمَةُ مِنْہُ، وَالْجَمْعُ زُبَرٌ“۔

لوہے کے ٹکڑے ترجمہ کرنا اس لیے بھی زیادہ موزوں ہے، کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ اس قوم کے پاس لوہے کی چادریں بنانے کی ٹکنالوجی تھی یا نہیں؟ زیادہ امکان ہے کہ وہ اس سے ناواقف تھے اور یہ کام ذوالقرنین نے کیا۔

سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے کہ لوہے کے ٹکڑے جمع کرکے انھیں پگھلا کر بڑی بڑی چادریں بنائی گئیں اور ان سے تانبا پلائی ہوئی آہنی دیوار بنائی گئی۔

بہرحال، لوہے کے ٹکڑے کہنے میں عموم ہے، اس میں چادروں کی شکل کے ٹکڑے بھی (اگر رہے ہوں گے تو) شامل ہوجائیں گے۔ چادریں کہہ کرایک چیز متعین کردینا مناسب نہیں ہے۔

(379)  دکّاء کا مطلب

پہاڑ یا دیوار یا کسی چیز کو توڑ کرکے گرادیا جائے تو اسے دکّ کہتے ہیں۔ الدَّکُّ: ہَدْمُ الْجَبَلِ وَالْحَاءِطِ وَنَحْوِہِمَا۔ (لسان العرب)

اس انہدام کے نتیجے میں اس جگہ زمین ہموار ہوجاتی ہے، اس لیے ہموار ہونے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہوگیا۔

درج ذیل آیت میں بھی دیوار کو توڑ کر ریزہ ریزہ کردینے کی بات ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کی زمین ہموار ہوجائے گی۔ لیکن یہاں زمین کے ہموار ہونے کی نہیں بلکہ دیوار کے منہدم ہوجانے کی خبر دی جارہی ہے۔

فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ رَبِّی جَعَلَہُ دَکَّاءَ۔ (الکہف: 98)

درج ذیل دیگر ترجمے دیکھیں:

”پس جب میرے رب کے وعدے کا ظہور ہوگا، اس کو ہموار کردے گا“۔ (امین احسن اصلاحی، زمین ہموار ہوگی نہ کہ دیوار)

”جب میرے رب کے وعدے کا وقت آئے گا تو وہ اس کو پیوند خاک کر دے گا“۔ (سید مودودی، پیوند خاک کرنا دوسری بات ہے اور منہدم کرنا دوسری بات)

”جب میرے پروردگار کا وعدہ آپہنچے گا تو اس کو (ڈھا کر) ہموار کردے گا“۔ (فتح محمد جالندھری، دیوار منہدم ہوگی، زمین ہموار ہوگی)

”پھر جب آوے وعدہ میرے رب کا گرادے اس کو ڈھاکر“(شاہ عبدالقادر)

”پس جب آوے گا وعدہ پروردگار میرے کا، کردے گا اس کو ریزہ ریزہ“ (شاہ رفیع الدین)

آخری دونوں ترجمے زیادہ مناسب ہیں۔

(380)  وَکَانُوا لَا یَسْتَطِیعُونَ سَمْعًا

الَّذِینَ کَانَتْ أَعْیُنُہُمْ فِی غِطَاءٍ عَنْ ذِکْرِی وَکَانُوا لَا یَسْتَطِیعُونَ سَمْعًا۔ (الکہف: 101)

اس جملے کے درج ذیل ترجمے دیکھیں:

”جن کی آنکھوں پر ہماری تنبیہ سے پردہ پڑا رہا اور وہ سننے کی تاب نہیں لاتے تھے۔“ (امین احسن اصلاحی)

”جن کی آنکھوں پر ہماری تنبیہ سے پردہ پڑا رہا“ کے بجائے ”جن کی آنکھوں پر ہماری تنبیہ کے جواب میں پردہ پڑا رہا“ ہونا چاہیے۔

”اُن کافروں کے سامنے جو میری نصیحت کی طرف سے اندھے بنے ہوئے تھے اور کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے“(سید مودودی)

”جن کی آنکھیں میری یاد سے پردے میں تھی اور (امر حق) سن بھی نہیں سکتے تھے“ (محمد جوناگڑھی)

یہاں ذکر کا زیادہ مناسب ترجمہ یاد نہیں بلکہ یاددہانی اور نصیحت ہے۔

وَکَانُوا لَا یَسْتَطِیعُونَ سَمْعًا کا ترجمہ ہوگا اور وہ سن نہیں سکتے تھے۔ جب کہ ”وہ سننے کی تاب نہیں لاتے تھے“ یا ”کچھ سننے کے لیے تیار ہی نہ تھے“ درست ترجمہ نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں مسئلہ تاب لانے یا تیار ہونے کا نہیں ہے، یہاں مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے ایسی غفلت میں خود کو مبتلا کر رکھا ہے کہ وہ سننے کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔مزید یہ کہ لفظ ’استطاع‘تیار اور آمادہ ہونا یا تاب لانے کے لیے استعمال ہوتا بھی نہیں ہے۔

(381)  سدّین کا ترجمہ

سدّ کا مطلب آڑہوتاہے، یعنی وہ چیز جو خالی جگہ کو بھر دے یا راستے کو بند کردے۔ وہ پہاڑ کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے اور دیوار کی صورت میں بھی۔ درج ذیل آیت میں سدّین یعنی دو کا تذکرہ ہے اور یہاں دو پہاڑ مراد ہیں نہ کہ دو دیواریں۔ جب کہ ذوالقرنین نے جو سد تعمیر کیا اسے دیوار کہا جائے گا۔ بعض مترجمین نے سدین کا ترجمہ دو دیواریں کیا ہے جو درست نہیں ہے۔ ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:

حَتَّی إِذَا بَلَغَ بَیْنَ السَّدَّیْنِ وَجَدَ مِنْ دُونِہِمَا قَوْمًا لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ قَوْلًا۔ (الکہف: 93)

”یہاں تک کہ دو پہاڑوں کے درمیان کے درے تک جا پہنچا۔ ان دونوں پہاڑوں کے درے میں اس کو ایسے لوگ ملے جو کوئی بات سمجھ نہیں پاتے تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)

پہاڑوں کے درے میں نہیں بلکہ پہاڑوں کے پاس۔ دون یہاں قریب کے معنی میں ہے۔ اگر درہ مراد ہوتا تو بینھما ہوتا، دونھما نہیں ہوتا۔

”یہاں تک کہ جب دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو اسے ان کے پاس ایک قوم ملی جو مشکل ہی سے کوئی بات سمجھتی تھی“۔ (سید مودودی)

”یہاں تک کہ جب دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی“۔ (محمد جوناگڑھی)

لَا یَکَادُونَ یَفْقَہُونَ قَوْلًا کا ترجمہ ”جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی۔“ درست نہیں ہے۔

”یہاں تک کہ دو دیواروں کے درمیان پہنچا تو دیکھا کہ ان کے اس طرف کچھ لوگ ہیں کہ بات کو سمجھ نہیں سکتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(382)  خَرْج کا ترجمہ

خرج کا اصل مطلب خراج، ٹیکس ہوتا ہے۔ اجرت کا مفہوم بھی اس لفظ سے ادا ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے خرج کا ترجمہ خرچ کیا ہے۔ یہ درست نہیں ہے۔

فَہَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْجًا عَلَی أَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمْ سَدًّا۔ (الکہف: 94)

”ہم آپ کے لیے خرچ (کا انتظام) کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو کیا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم آپ کے لیے خرچ کا بند و بست کردیں اور آپ ہمارے اور کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

’خرچ  کا بندوبست کردیں‘کی جگہ ’پیداوار کا کچھ حصہ متعین کردیں گے‘اس جملے کا بالکل درست مفہوم ہے۔ خرج اصل میں پیداوار سے کچھ حصہ نکال کر دینے کے لیے آتا ہے۔

”سو کیا ہم لوگ آپ کے لیے کچھ چندہ جمع کردیں اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان میں کوئی روک بنادیں۔“(اشرف علی تھانوی)

یہاں بھی خرج کا ترجمہ درست نہیں ہے۔ چندہ جمع کرنے کے لیے تو یہ لفظ آتا نہیں ہے۔

درج ذیل ترجمہ بہتر ہے:

”سو کہے تو ہم ٹھیرادیں تیرے واسطے کچھ محصول اس پر کہ بنادے تو ہم میں اور ان میں ایک آڑ“(شاہ عبدالقادر)

(جاری)


مطالعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم (۲)

سوالات : ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

جوابات : ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

مطیع سید: جس کی بیٹی نکاح سے ناراض ہو جائے، وہ مر دود ہے۔1 یہاں مر دود سے کیا مراد ہے؟

عمار ناصر: مطلب یہ کہ اس کو فسخ کر دیا جا ئے گا۔

مطیع سید: نکاح ہو گا ہی نہیں؟

عمار ناصر: یعنی اس کو رد کر دیا جا ئے گا، قائم نہیں رہنے دیا جائے گا۔

مطیع سید: اگر رخصتی بھی ہو گئی ہے تو کیا وہ اس کو طلاق دے گا؟

عمار ناصر: اس کا تعلق صورت حال کی نوعیت سے ہے۔ اس پر کوئی ایک ہی اصول یا کلیہ نہیں لاگو ہوگا۔ بعض صورتوں میں آپ کو اس کو منعقد مان کر فسخ کی طرف جانا پڑے گا۔ بعض صورتوں میں آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ سرے سے منعقد ہی نہیں ہوا۔ اس میں یہ فقہی گنجائش ہوتی ہے، اور فقہا کا اختلاف بھی ہے۔

مطیع سید: ولیمہ کی کیاحیثیت ہے؟ کیا یہ ضروری ہے، سنت ہے یا محض ایک دینی رسم ہے؟

عمار ناصر: فقہی لحاظ سےسنت ہے۔ مسلمانوں کے معاشرتی نظام اور دینی رسومات میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔

مطیع سید: عورتوں کے بارے میں فقہا کہتے ہیں کہ کھانا پکانا اورگھر کا کام کاج، اصلاً‌ ان کی ذمہ داری نہیں۔ احناف کہتے ہیں کہ ان کی ذمہ داری صرف دوکام ہیں، حق مباشرت اور گھر میں رہنا۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ کیااحناف قانونی مفہوم میں کہہ رہے ہیں؟ اس طرح تو گھر کا نظا م چل ہی نہیں سکے گا۔

عمار ناصر: یہ ساری چیزیں کلچر سے تعلق رکھتی ہیں اور عرف پر مبنی ہوتی ہیں۔ قرآن نے ایک اصول بیان کر دیا جو بہت صحیح ہے کہ ولھن مثل الذی علیھن بالمعروف۔ معروف کے لحاظ سے جو ان کی ذمہ داریاں ہیں، اسی کے لحاظ سے ان کے حقوق ہیں۔ جس کلچر میں ہماری فقہ مدون ہوئی ہے، اس میں عام طورپر گھروں میں خادموں اور باندیوں کا ہونا معمول کی بات تھی اور ان کو گھر کا ناگزیر حصہ سمجھا جاتا تھا۔ اس میں یہ تصور پیداہوا کہ جب گھر میں خادم اور باندیاں ہیں تو وہ انھی کاموں کے لیے ہیں، تو بیوی کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے۔ تو حقوق وفرائض کے تعین میں ایک بڑا دخل عرف کا بھی ہے۔ اُس کلچر میں یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے۔ ہمارے ہاں کا کلچر مختلف ہے۔ ہمارے ہاں بعض ایسے خاندان ہیں جن میں روایت چل رہی ہے کہ گھر میں کام کے لیے ملازمہ اور خانسامے ہوتے ہیں۔ اس میں اگر آپ بیوی کو گھر کے کام کا کہہ رہےہیں تو اس کا مطلب یہ سمجھا جائے گاکہ آپ ا س کی تحقیر کرناچاہ رہے ہیں کہ گھر میں نوکر چاکر موجود ہیں، لیکن آپ اسے کہہ رہے ہیں کہ کام کرو۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ عام گھروں میں خواتین پر ہی گھر کے کام کاج اور کھانا پکانے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ تو ہمارے عرف میں اس فقہی جزئیے کا اطلاق نامناسب ہوگا۔

مطیع سید: حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ سے حضر ت عمر نے ہی منع کیا ہے۔2 گویا صحابہ میں اس بات پر اتفاق نہیں تھا کہ متعہ کو آنحضرت ﷺ نے ممنوع ٹھہرایا تھا؟

عمار ناصر: جی، صحابہ کے بیانات سے اور خود حضرت عمر کے ارشادات سے بھی قرین قیاس بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے عمومی معاشرتی مصلحت کو سامنے رکھتے ہوئے اجتہاداً‌ متعہ کو ممنوع قرار دیا تھا۔ متعہ کے نصاً‌ ممنوع ہونے پر صحابہ کے مابین اتفاق رائے نہیں تھا۔ حضرت علیؓ خیبر کے موقع پر کی جانے والی ممانعت کا حوالہ دیتے تھے، لیکن ابن عباس اس کے باوجود اضطرار کی حالت میں متعہ کے جواز کے قائل تھے۔

مطیع سید: حضرت عائشہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ کوئی غیر محرم بالغ مرد ہے جو گھر میں آتا جاتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کو دودھ پلا دو اور پھر وہ تمھارے پاس آ جا سکتا ہے۔3

عمار ناصر: یہ سالم مولیٰ ابی حذیفہ کے بارے میں ہے۔ ابو حذیفہ نے انہیں منہ بولا بیٹا بنایا ہواتھا اور وہ انھی کے گھر میں رہتے تھے، وہیں پلے بڑھے تھے اور گھر کے فرد کی طرح ان کا آناجانا تھا۔ جب متبنیٰ کے متعلق یہ حکم آیا کہ وہ حقیقی اولاد نہیں ہیں تو ان کی اہلیہ نے یہ سوال آپ کے سامنے رکھا کہ اب ابوحذیفہ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے تاثرات دکھائی دیتے ہیں۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس کو دودھ پلا دو تو اس سے ابوحذیفہ کے دل کا تردد ختم ہو جائے گا۔ پھر وہ پہلے کی طرح گھر میں آتا جاتارہے۔

مطیع سید: لیکن قرآن میں دودھ پلانے کی عمر دو سال ذکر ہوئی ہے۔ یہاں ایک بالغ مرد کو دودھ پلا کر رضاعت ثابت کی جا رہی ہے۔ تو کیا قرآن کے مطلق حکم کو حدیث مقید کرسکتی ہے؟

عمار ناصر: اصولیین کے ہاں اس پر لمبی چوڑی بحث ہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ قرآن کا حکم ہو یا حدیث کا، اس میں تخصیص کی ایک نوعیت یہ ہے کہ اصل حکم میں ترمیم کرکے شارع کوئی تبدیلی کر دے۔ ایک و ہ تخصیص ہوتی ہے کہ آپ اصل میں شارع کے منشا کو سمجھ کر اور دیگر نصوص کی روشنی میں قیاسا َ کہتے ہیں کہ یہ حکم یہاں نہیں لاگو ہونا چاہیے۔ اس صورت میں آپ حکم میں کوئی ترمیم نہیں کررہے، بلکہ کہہ رہے ہیں کہ اصل میں کہنے وا لے کا منشا بھی یہی ہے۔ تو یہ جو قیاسی تخصیص ہے، یہ دراصل ترمیم نہیں ہوتی۔ اصل میں کسی حکم کے انطباق کو یا اطلاق کو آ پ خود شارع کے دوسرے بیانات کی روشنی میں متعین کرتے ہیں۔ یہ تخصیص میں سمجھتا ہو ں کہ قرآن کے حکم میں ایک فقیہ بھی اجتہاداً‌ کر سکتا ہے، تو پیغمبر کیوں نہیں کر سکتا؟

مطیع سید: بہت سی احادیث کے بارے میں احناف یہ موقف اختیارکرتے ہیں کہ قرآن میں چونکہ یہ حکم مطلق ہے، اس لیے ہم اسے حدیث سے مقید نہیں کر سکتے۔

عمار ناصر: میری رائے میں احناف کا یہ موقف محل نظر ہے۔ لیکن اس میں کافی تفصیلی مباحث ہیں جو اصول فقہ کی کتابوں میں دیکھنے چاہییں۔

مطیع سید: آپ ﷺنے ایک موقع پر ایک قیافہ شناس کی رائے پر خوشی کا اظہار کیا جس نے دو آدمیوں کی جسمانی مشابہت دیکھ کر یہ کہا تھا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں۔4 جبکہ احناف کہتے ہیں کہ قیافہ شناس کی بات پر نسب کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

عمار ناصر: اس روایت کے بارے میں احناف کہتے ہیں کہ یہاں یہ بات نہیں کہی جارہی۔ ایک بچہ جس کا نسب پہلے سےمعلوم نہیں ہے اور آپ محض ایک قیافہ شنا س کے بیان پر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، روایت میں تو یہ زیرِ بحث نہیں ہے۔ روایت میں تو یہ بات ہے کہ زید بن حارثہ کا اسامہ کا والد ہونا تو نسب کے معروف قواعد کے لحاظ سےثابت تھا۔ البتہ بعض لوگ الٹی سیدھی باتیں کرتے تھے اور اس نسب پر شبہے کا اظہار کرتے تھے تو جب ایک قیافہ شناس نے بھی یہ کہہ کر تصویب کر دی کہ یہ باپ بیٹا ہیں تو اس سے جو لوگوں کے ذہن میں جو شبہات تھے، وہ ختم ہو گئے۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے خوشی کا اظہار کیا۔ اس سے آپ یہ نہیں اخذ کر سکتے کہ کوئی اور ثبوت نہ ہو تو بھی آپ صرف قیافہ شناس کے کہنے پر ثبوت ِ نسب کا فیصلہ کردیں گے۔

مطیع سید: روایت میں آتا ہے کہ اگر آدمی دوسری شادی کرے تو نئی بیوی اگر کنواری ہو تو اس کے پاس سات دن اور اگر ثیبہ ہو تو تین دن رہے۔ پھر اس کے بعد بیویوں میں دنوں کی برابر تقسیم شروع کرے۔5 احناف کہتے ہیں کہ نہیں، بلکہ نئی بیوی کنواری ہو یا ثیبہ، سب کے لیے برابر دن ہوں گے اور دلیل قرآن سے دیتے ہیں کہ قرآن کہتا ہے کہ ان کے مابین عدل کرو۔

عمار ناصر: احناف کا استدلال مضبوط نہیں لگتا۔ عدل اپنی جگہ برحق ہے، لیکن ایک نئی دلہن آئی ہے تو اس کا کچھ اضافی حق بنتا ہے۔

مطیع سید: اگر حوا نہ ہوتی تو کوئی عورت خیانت نہ کرتی۔6 یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔

عمار ناصر: میرا تاثر بھی یہی ہے کہ یہ چونکہ حضرت ابو ہریرۃ سے مروی ہے اور ان کی نسبت سے بعض اسرائیلیات بھی آ گئی ہیں، اس لیے روایت کے مضمون سے ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی وہیں سے آئی ہے۔ بہرحال شارحین نے، جو حضرت آدم کو بہکانے سے متعلق بعض روایات ہیں کہ حوا نے ان کو بہکا پھسلا کر ممنوعہ پھل کھلانے پر آمادہ کیا، اس کی روشنی میں اس کی تشریح کی ہے۔

مطیع سید: فاطمہ بنت قیس کی روایت میں آتا ہے کہ عورت کو جب تیسری طلا ق دے دی جائے مرد پر اس کی عدت میں نان نفقہ کی ذمہ داری نہیں ہے۔7 لیکن احناف کہتے ہیں کہ نان نفقہ اس کے ذمے ہوگا۔

عمار ناصر: اس روایت پر فقہا میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اس روایت کو لیتے ہیں لیکن کئی اکابر صحابہ نے اس روایت کو نہیں لیا۔ حضرت عمر نے بھی نہیں لیا، حضرت عائشہ نے بھی نہیں لیا۔ احناف کا موقف بھی اس روایت کے خلاف ہے۔ اصولی طور پر چونکہ تیسری طلاق کے بعد بھی بیوی شوہر کی عدت میں ہے اور اس نے وہ پابندی اس کے لیے ہی قبول کی ہے، اس دوران میں وہ کسی اور جگہ نکاح بھی نہیں کر سکتی ہے تو خرچہ بھی اسی پر آنا چاہیے۔

مطیع سید: روایت میں آیا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو پسلی سے پیداکیا،8 یہ کیا کوئی تمثیل ہے؟

عمار ناصر: محدثین کے ہاں دونوں طرح سے اس کی تشریح ملتی ہے۔ بعض اس کو لفظی معنوں میں لیتے ہیں اور اس کی تائید میں بعض اسرائیلی روایات بھی موجود ہیں جن میں یہ ہے کہ انھیں آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیداکیا گیا۔ لیکن کچھ دوسرے اہل علم اس کو استعارے کا اسلوب بھی کہتے ہیں۔

مطیع سید: اگر استعاراتی اسلوب لیں تو پسلی سے کیا مراد ہے؟

عمار ناصر: کجی کے معنوں میں ہے، کیونکہ روایت کے جو پورے الفاظ ہیں، ان میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ ایسا اسلوب ہے جیسے خلق الانسان من عجل کا ہے، یعنی انسان جلد بازی کے خمیر سے پیداکیا گیا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ یہ استعارے کا اسلوب ہے۔ یعنی عورت کی طبیعت میں ایک خلقی کجی ہے، اگر تم اس کو بالکل سیدھا کرنا چاہو تو وہ نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس کے تخلیقی عمل کی طرف اشارہ ہو کہ چونکہ اس کو پسلی سے پیداکیاگیا ہے، اس لیے جس طرح پسلی میں ایک خم ہے، عورت کا مزاج بھی ایسا ہی ہے۔ اگر پسلی سے پیداہوئی ہو تو میرے خیال سے بعید بات نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ ساری انسانیت کی ابتدا ایک نفس سے ہوئی ہے۔ ایک نفس سے پھر اللہ نے اس کا جوڑا پیدافرمایا۔ اس سے لگتا ہے کہ مستقلاً‌ آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور پھر آدم سے آگے حوا کو تخلیق کیا گیا۔

مطیع سید: ایسا بھی ممکن ہے کہ جس طرح اللہ نے آدم کو الگ سے پیدا کیا، اسی طرح سے حواکو بھی الگ سے پیداکیا ہو؟

عمار ناصر: اگر خلقکم من نفس واحدہ کو ظاہری معنوں میں لیں تو پھر یہ بات کہنا مشکل ہے۔ اصل تو ایک جان ہونی چاہیے جس سے آگے نسل چلی ہو۔ اگر ایک فرد الگ پیدا کیا گیا اور دوسرا الگ تو پھر ایک نفس والی بات درست نہیں ہو سکتی۔ بہرحال یہ متشابہات میں سے ہے۔ اس کی پوری حقیقت جاننا ممکن نہیں۔

مطیع سید: آپﷺ نے کوئی عورت بطور باند ی رکھی؟

عمار ناصر: جو زیادہ عا م اور معروف موقف ہے، اس کے مطابق ماریہ قبطیہ باندی ہی تھیں۔

مطیع سید: ایک دفعہ کوئی شکایت بھی ان کے حوالے سے آپﷺ کے سامنے آئی تھی جس پر آپ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ایک آدمی کی تفتیش کے لیے بھیجا تھا؟

عمار ناصر: جی، چونکہ سیدہ ماریہ کو آپﷺ نے ازواج کے ساتھ نہیں رکھا ہواتھا، تھوڑا ہٹ کر ان کے لیے الگ رہائش تھی تو ایک شخص گھر کا ضروری ساز وسامان ان کو پہنچانے کے لیے ان کے پاس آتا جاتا تھا۔ اس پر لوگوں نے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علیؓ کو بھیجا کہ جا کر اس شخص کو قتل کر دو۔ انھوں نے جا کر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ شخص تو مخنث ہے، یعنی اس کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہے۔ اس واقعے میں ایک بڑا اشکال یہ ہے کہ آپ نے بغیر تحقیق کے کیسے اس کو قتل کرنے کا حکم دے دیا؟ اور یہ کہ اگر وہ مجرم تھا تو صرف اس کو کیوں سزا دی، سیدہ ماریہ کا کیوں مواخذہ نہیں کیا؟ شارحین اس کی توجیہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آپ کے علم میں تو صحیح حقیقت حال تھی، لیکن آپ نے لوگوں کے شبہات اور منفی تاثر کے ازالے کے لیے حضرت علی کو مامور کیا تاکہ ایک ظاہری تحقیق اور تفتیش کے ذریعے سے بھی لوگوں پر واضح ہو جائے کہ وہ جو الزامات لگا رہے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔

مطیع سید: کیا ان کے لیے بھی خاص دن مقرر تھا؟

عمار ناصر: نہیں، ان کے لیے کوئی باقاعدہ دن مخصوص نہیں تھا، جس طرح ازواج کے لیے دنوں کی تقسیم تھی۔


حواشی

  1. صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب اذا زوج ابنتہ وہی كارہۃ فنكاحہ مردود‌‌ ، رقم الحدیث: 5138، ص: 1323
  2. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب النکاح، ‌‌باب نہی رسول الله صلى الله عليہ وسلم عن نكاح المتعۃ آخرا، رقم الحدیث: 5117، ص: 1318
  3. صحیح مسلم، كتاب الرضاعۃ، باب رضاعۃ الكبير، رقم الحدیث: 1453، جلد: 2، ص: 1076
  4. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب فضائل الصحابۃ، ‌‌باب مناقب زيد بن حارثۃ، رقم الحدیث: 3731، ص: 945
  5. صحیح البخاری، ‌‌‌‌كتاب النکاح، ‌‌‌باب اذا تزوج الثيب على البكر، رقم الحدیث: 5214، ص: 1341
  6. صحیح مسلم، كتاب الرضاعۃ، باب لولا حواء لم تخن انثى زوجہا الدهر، رقم الحدیث: 1470، جلد: 2، ص: 1092
  7. صحیح مسلم، كتاب الطلاق، باب المطلقۃ ثلاثا لا نفقۃ لہا، رقم الحدیث: 1480، جلد: 2، ص: 1114
  8. صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، رقم الحدیث: 5186، ص: 1332

(جاری)

حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ: تعارف و خدمات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ضبط و ترتیب: حافظ خرم شہزاد

(بزم شیخ الہند گوجرانوالہ کے زیر اہتمام یکم نومبر ۲۰۲۲ء کو اِفتتاحی ماہانہ فکری نشست سے گفتگو)

بعد الحمد و الصلوٰۃ۔ میرے لیے بڑی خوشی کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کی خدمات، فکر اور مشن کے تعارف کے لیے ’’بزم شیخ الہند‘‘ کے نام سے ہم کچھ دوستوں نے جن میں حضرت مولانا قاری محمد یوسف عثمانی، ہمارے بھائی عبد المتین چوہان مرحوم اور دیگر رفقاء بھی شامل تھے ،بہت پہلے ایک کام کا آغاز کیا تھا جس کے تحت فکری نشستیں ہوا کرتی تھیں، پھر زمانے کے ساتھ ساتھ کام ٹھنڈا پڑ گیا۔ اب ہمارے بہت باذوق ساتھی حافظ خرم شہزاد صاحب جو ما شاء اللہ صاحبِ مطالعہ اور صاحبِ فکر بھی ہیں اور صرف متفکر نہیں بلکہ فکر دلانے والے بھی ہیں۔ انہوں نے اس کام کے شروع کرنے کا ارادہ کیا اور ویسے بھی ہمارے ساری فکر اور جدوجہد کی بنیادی علمی، فکری اور تحریکی شخصیت شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز ہیں تو میں نے مشورہ دیا کہ انہی کے نام سے دوبارہ کام مناسب رہے گا۔ اب بزم شیخ الہندؒ کو دوبارہ متحرک کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے، حافظ خرم شہزاد صاحب اور ان کے رفقاء مبارک باد اور شکریے کے مستحق بھی ہیں اور یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ کام اب اگلی نسل کو منتقل ہو رہا ہے اور یقینا یہ باعث مسرت اور سعادت بات ہے ۔ آج اس بزم کی پہلی ماہانہ فکری نشست ہے جس میں موضوعِ بحث حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو بنایا گیا ہے۔

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒ کا تاریخ میں تعارف دو حوالوں سے ہے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد مذہبی حلقوں کی جو نئی تقسیم ہوئی تھی اس میں دیوبندی مکتبۂ فکر کا بانی اور نقطۂ آغاز کہا جاتا ہے۔ ۱۸۵۷ء اور یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور سے پہلے ہمارے ہاں مسلم معاشرے میں جو مذہبی دائرہ بندی تھی اس کے عنوانات اور تھے، ۱۸۵۷ء کے بعد جہاں اور بہت سی باتیں تبدیل ہوئیں تو اس کے ساتھ ہمارے مذہبی حلقوں کے دائروں کا تعارف بھی تبدیل ہوگیا۔

دیوبندی ، بریلوی اور اہل حدیث مکتبۂ فکر ۱۸۵۷ء کے بعد کی ایجاد ہیں اس سے پہلے ان ناموں سے ہمارا کوئی تعارف نہیں تھا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد سارے ملک اور قوم نے سارے معاملات کا آغاز زیرو پوائنٹ سے کیا تھا اور یہاں اس وقت تین چار فکری حلقے بن گئے تھے۔ ایک فکری حلقہ علی گڑھ کی صورت میں سر سید احمد خان مرحوم کا تھا۔ ایک مکتبہ فکر دیوبندی کہلایا جس کا آغاز ۱۸۶۶ء میں دارالعلوم دیوبند کے قیام سے ہوا تھا، اور ایک مکتبہ فکر بریلوی کہلایا جو اسی دور کے ایک بزرگ تھے انہوں نے اپنا ایک فکری اور اعتقادی تعبیرات کا دائرہ متعین کیا اور وہ بریلوی کہلائے۔ اسی طرح سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی تحریک کے بعد اہل حدیث کے عنوان سے کچھ حضرات نے اپنا تشخص الگ کیا ہے۔ مسائل کا اختلاف تو ہوتا ہی ہے مگر یہ سوچ اور فکر کا اختلاف ہے۔ یہ نئے تعارف ہیں ،علی گڑھ، دیوبند ، بریلوی اور اہل حدیث ۱۸۷۵ء کے بعد کی تقسیم ہے اور اس میں جو ایک مستقل مکتب فکر علمی، فکری ، تحریکی اور سیاسی مکتبہ فکر جو دیوبندی کہلاتا ہے اس کے بانی، امام، زیرو پوائنٹ، اور نقش اول دو تین شخصیات ہیں ،حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور ان کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ ہیں۔ حضرت نانوتویؒ کا ایک تعارف تو یہ ہے کہ ان سے اور مولانا گنگوہیؒ سے دیوبندی مکتبہ فکر کا آغاز ہوتا ہے۔

تاریخ میں ان کا دوسرا تعارف یہ ہے کہ وہ ایک نئے تعلیمی نظام کی بنیاد تھے اور ایک تعلیمی نظام کا آغاز ان سے ہوتا ہے۔ کیونکہ ۱۸۵۷ء میں سب مدارس ختم ہوگئے تھے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے کچھ باقی رکھے ہوئے تھے لیکن انگریزوں نے باقی سارے مدارس ختم کر دیے تھے کوئی ایک مدرسہ اور وقف بھی باقی نہیں رہا تھا، از سر نو زیرو پوائنٹ سے کام شروع ہوا تو دیوبند میں مدرسہ عربیہ کے نام سے ۱۸۶۶ء میں مدرسہ قائم ہوا، اس کے بانیوں میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ؒکے علاوہ حاجی عابد حسینؒ اور مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ بھی تھے۔ چونکہ یہ زیادہ متعارف تھے اس لیے تاریخ مولانا نانوتویؒ کادارالعلوم کے بانی کا تعارف کرواتی ہے کہ ایک تعلیمی نظام کا آغاز ان سے ہوتا ہے۔

ان کا ایک تاریخی تعارف ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں حصہ لینا بھی ہے ،اس کا تھوڑا سا پس منظر عرض کر دیتا ہوں کہ ہوا یوں کہ ۱۷۵۷ء سے بہت پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی اس سے پہلے کی آئی ہوئی تھی اور وہ ایک تجارتی کمپنی تھی، برطانیہ ،فرانس اور ہالینڈ کی الگ الگ کمپنیاں تھیں جو اس زمانے میں کام کر رہیں تھی۔ ان کی آپس میں چپقلش بھی تھی لیکن ان میں برٹش برطانیہ والی ایسٹ انڈیا کمپنی آگے بڑھی ہے ۔ یہ مستقل ایک موضوع ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کیسے قائم ہوئی ،کیسے اجازت ملی، کیسے آگے بڑھی اور کیا کام کیا؟ لیکن ۱۷۵۷ء میں بنگال میں نواب سراج الدولہ شہیدؒ وہاں کے حکمران تھے ،اُن سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی چپقلش ہو گئی کچھ ٹیکسوں، پابندیوں اور کچھ قوانین کی بنیاد پر! تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے بغاوت کر دی اور اس کے نتیجے میں کمپنی کو کامیابی ہوئی، سراج الدولہ شہید ہوئے اور بنگال پر قبضہ کر لیا۔ بعد میں ان کے حوصلے بڑھے، بنگال کے بعد انہوں نے میسور، اور لکھنؤ پر قبضہ کیا اور لمبی جنگیں ہوئیں۔

اس کا ایک درمیان کا پوائنٹ یہ ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے بڑھتے جب دہلی زد میں آگیا تو اس وقت مغلوں میں شاہ عالم ثانی کی بادشاہت اور حکومت تھی، جب انہوں نے دہلی کو خطرے میں محسوس کیا کہ کمپنی کی پیشرفت یہاں تک آگئی ہے کہ اب اگلا ٹارگٹ دہلی ہوگا تو پھر مذاکرات ہوئے اور مذاکرات میں وہی ہوا جو کچھ مذاکرات میں ہوا کرتا ہے۔ مذاکرات اور گفتگو میں آپس میں ایک معاہدہ طے پایا، معاہدے میں شاہ عالم ثانی نے انڈیا کے مالیاتی نظام ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیا۔ وہ تقسیم یہ تھی کہ بادشاہ تو شاہ عالم ہی رہیں گے ،بادشاہت بھی مغلوں کی رہے گی، سکہ اور نام بھی ان کا چلے گا لیکن مالیاتی کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی کرے گی۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں جیسے آج کل بھی یہی ہے کہ نام اور ٹائٹل ہمارا ہے اور مالیاتی کنٹرول آئی ایم ایف کے ہاتھ میں ہے۔

بالکل یہی پریکٹیکل شکل یہ تھی جو آج آئی ایم ایف کی ہے کہ مالیاتی کنٹرول اُن کے ہاتھ میں ہے اور باقی نظام ہمارے نام پر ہے۔شاہ عالم ثانی کا کمپنی کے ساتھ معاہدہ ہو گیا، اس کے تحت شاہ عالم بادشاہ ہے، اس کا اس عنوان سے اعلان ہوا کہ’’زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘ یہ تین جملے تھے اور اس کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنا نمائندہ بٹھا دیا۔ اس اعلان کے بعد حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین اور ہمارے علمی اور دینی حلقے کے امام حضرت شاہ عبد العزیز محدثِ دہلویؒ نے فتویٰ دے دیا کہ اب ہندوستان دارالحرب ہوگیا ہے اور جہاد فرض ہوگیا ہے اور اس کے خلاف بغاوت اور خروج کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور پھر اعلان کر کے اسی نظم کے تحت بالاکوٹ کی جنگ ہوئی ہے اس نتیجہ میں انہوں نے پشاور پر قبضہ کیا اور پھر وہ مظفر آباد جا رہے تھے تو راستے میں رنجیت سنگھ کے بیٹے شیر سنگھ نے گھیرے میں لے کر شہید کر دیا۔ ۱۸۳۱ء کی بالاکوٹ کی جنگ ہو چکی تھی اور اس کے بعد حالات اتنے دِگرگوں ہو گئے کہ دہلی کے مرکز کے بڑے بزرگ شاہ محمد اسحاق محدث دہلویؒ ہجرت کر کے مکہ مکرمہ چلے گئے تھے اور اس کے بعد بغاوت، خروج اور جہاد کی جو نئی آبیاری ہوئی ہے یعنی ۱۸۳۱ء سے لے کر ۱۸۵۷ء تک درمیان کے عرصے میں ملک بھر میں تیاری ہوتی رہی، مختلف مقامات پر بنگال، صوبہ سرحد (خیبر پختونخوا) پنجاب میں بھی جس نے بعد میں ۱۸۵۷ء کی اجتماعی شکل اختیار کر لی تھی۔

اس کی تفصیلات کا موقع نہیں، میں صرف یہ حوالہ دینا چاہوں گا کہ ۱۸۵۷ء کا معرکہ پورے ملک میں ہوا اور انگریزوں کے خلاف بغاوت ہوئی تھی، اس میں اِس حلقے نے بھی شاملی کے محاذ پر حصہ لیا تھا۔ اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ جب جنرل بخت خان نے بغاوت کر دی تو اِس حلقے کے لوگوں نے تھانہ بھون میں آپس میں مشاورت کی اور اس میں ایک ترتیب طے پائی کہ’ ہم نے بھی بغاوت کرنی ہے اور جہاد کرنا ہے‘ تو اس میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو امیر المومنین بنایا گیا جو اس وقت شیخ المشائخ تھے، اور مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو جنگ کے لیے کمانڈر انچیف اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کو قاضی القضاۃ بنایا گیا۔ ایک سسٹم طے کیا اور اس کے تحت بغاوت ہوئی ،جنگ لڑی اور شاملی کا محاذ فتح ہوا ۔ میں نے الحمد للہ وہ مقام دیکھا ہے ،ہم جب آخری بار دیوبند کے پروگرام میں انڈیا گئے ہیں تو مولانا اللہ وسایا صاحب ،اللہ پاک سلامت رکھے ہمارے بڑے باذوق بزرگ ہیں ، تھوڑا بہت ذوق میرا بھی ہے۔ تو ہم نے وہ سارے ایس او پیز سے نکل کر شاملی کا محاذ بھی دیکھا ہے ، تھانہ بھون بھی دیکھا ہے، مولانا اللہ وسایا نے اس کی تفصیل لکھی ہے۔ تو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ناکام ہو گئی تھی۔ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس وقت سب کچھ انگریزوں نے قبضہ کر لیا تھا، مدارس بند کر دیے اور سارا سسٹم ختم کر دیا تھا۔

اس کے بعد دیوبند سے پرائیویٹ سطح پر مدرسے کا آغاز ہوا۔ پہلے مدارس کی پوزیشن یہ ہوتی تھی کہ نواب صاحبان، بادشاہ اور ریاستیں علماء کو جاگیریں دے دیتی تھی اور وہ مدرسہ بناتے تھے ۔لیکن ۱۸۷۵ء میں ہم بالکل زیرو پوائنٹ پر جا کر کھڑے ہوگئے تھے۔ اس وقت جو پہلا مدرسہ بنا ہے وہ ۱۸۶۶ء میں دیوبند میں مدرسہ عالیہ کے نام سے ان میں حاجی عابد حسین، مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہم بھی تھے ۔اس مدرسے کا بانی بھی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کو کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا تاریخ میں تعارف تین حوالوں سے ہے، جنگ آزادی میں کردار کے حوالے سے ،دیوبندی مکتبہ فکر اور دارالعلوم دیوبند کے بانی کے حوالے سے ہے۔

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی خدمات کے دائرے اور بھی بہت سے ہیں، بنیادی طور پر وہ ایک متکلم تھے۔ یعنی وقت کے فکری، اعتقادی فتنوں کو محسوس کر کے اُن کا مقابلہ کرنا اور وقت کے تقاضوں کے مطابق اسلام کے عقائد ، اس کی تعبیرات وتشریحات کو نئی نسل تک پہنچانا۔ یہاں ہر دور میں متکلم رہے ہیں مگر اُس دور کے سب سے بڑے متکلم حضرت مولانامحمد قاسم نانوتویؒ تھے۔اس حوالے سے میں ایک بات کہا کرتا ہوں کہ ایک دائرہ فقیہ کا ہوتا ہے لہٰذا ہمارے فقہی امام مولانا رشید احمد گنگوہیؒ ہیں ،اور ایک دائرہ متکلم کا ہے لہٰذافکری امام اور علم کلام میں ہمارے پیشواحضرت نانوتویؒ ہیں اور روحانیات میں ہمارے امام حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔یہ ہماری تکون ہے۔ روحانیات، سلوک ،تصوف میں ہماری ساری نسبتیں حاجی امداداللہ مہاجر مکی ؒ پرجمع ہوتی ہیں۔اورفقہی حوالے سے ہمارے عقائد اور مسائل کی تعبیرات وتشریحات مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور ہمارے فکری، فلسفہ ، جدید مسائل ، علم کلام اس میں ہماری انتہاء حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ہیں ،لہٰذا اِس تکون سے دیوبندیت نے جنم لیا ہے۔ کسی نے مجھ سے ایک سوال پوچھا کہ دیوبندیت اور بریلویت میں کیا فرق ہے؟ میں نے کہا ۱۸۵۷ء کے بعد مسائل، عقائد، تعبیرات میں مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی تعبیرات کو ’’دیوبندیت‘‘ کہتے ہیں اور مولانا احمد رضا خان کی تعبیرات کو ’’بریلویت‘‘ کہتے ہیں۔ یہ تعبیرات کے فرق سے الگ الگ دائرے ہوئے ہیں ۔

اس وقت کے جو اعتقادی فتنے اور فکری خطرات تھے ،ایک طرف عیسائیت بڑھ رہی تھی کیونکہ ۱۸۵۷ء کے بعد ایک یلغار عیسائیت نے کی ہے ویسی ہی یلغار جیسے اندلس کے فتح کے بعد اسپین نے مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے کی تھی۔ ملکہ ازابیلہ نے جبر، تبلیغ، دعوت سے سارا ماحول تبدیل کرنے کی کوشش کی، اندلس کو دوبارہ اسپین بنانے میں انہیں سو سال بھی نہیں لگا ،اس سے کم عرصہ میں ماحول تبدیل ہو گیا تھا۔ اب آپ کو اگر اسپین جانے کا موقع ملے تو وہاں ’’عائشہ اسٹریٹ‘‘ ملے گی عائشہ نہیں ملے گی، ’’علی روڈ‘‘ ملے گا علی نہیں ملے گا، وہاں شاید ’’عثمان پارک‘‘ بھی مل جائے لیکن عثمان نہیں ملے گا، بس پرانے نام چلے آرہے ہیں اور وہ تبدیل کر رہے ہیں۔

یہاں (برصغیر میں) بھی یہی پروگرام اور اُن کی فرنٹ لائن یہ تھی کہ ان (مسلمانوں) کو عیسائی بنا لیا جائے۔ لہٰذا پادریوں نے قریہ قریہ بستی بستی یلغار کی اور ہمارے علماء نے الحمدللہ اس کا سامنا کیا، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ اور ان کے ساتھ پورا گروپ ہے اور اس کی پوری ایک تاریخ ہے، وہ بھی ۱۸۵۷ء کے جہاد کے شرکاء میں سے ہیں ۔ علمی طور پر اُن کی کتاب ’’اظہار الحق‘‘ آج تک عیسائی مسلم کلامیات پر سند مانی جاتی ہے اور عملی طور بھی جہاد میں۔ اس وقت جو بڑے پادری فنڈر سامنے آئے تھے اس کا مقابلہ بھی اسی گروپ نے کیا تھا۔

اسی طرح اس زمانے میں ایک یلغار اتحادِ مذاہب کے حوالے سے بھی تھی یعنی مکالمہ بین المذاہب، ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا۔ اس پر ’’میلہ خداشناسی‘‘ کے نام سے ایک میلہ لگا کرتا تھا ، اس میں ہندو، آریا سماج، سکھ اور مسلمان بھی شریک ہوتے تھے اور ساری پبلک جمع ہوتی تھی، تین تین، چار چار، پانچ پانچ دن مجمع جمع رہتا تھا اور سارے مذاہب کے مقررین اور متکلمین اس میں آکر بحث کرتے تھے اور پھر لوگ فیصلہ کرتے تھے۔ اس میں ہمارے بزرگ بھی جاتے تھے، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور دوسرے حضرات بھی تشریف لے گئے تھے۔ وہاں ایک محاذ یہ تھا کہ اپنے مذہب اور عقائد کو عقلی بنیاد اور کامن سینس سے ثابت کرنا ہے۔ میں درمیان میں ایک فرق واضح کرتا چلوں کہ ہمارے بزرگوں کا طریقہ کار کیا رہا ہے؟ دوسرے مذاہب سے جب آپ کسی مسئلے پر گفتگو کریں گے تو وہاں آپ کے اپنے دلائل نہیں چلیں گے، کسی عیسائی سے بات کرتے ہوئے قرآن پاک کا حوالہ آپ کو کام نہیں دے گا کیونکہ یہ ہمارا اپنا حوالہ ہے ،کسی سکھ سے گفتگو کرتے ہوئے آپ کو حدیث کام نہیں دے گی کیونکہ یہ ہمارے آپس کے دلائل میں سے ہے۔ اس کے ساتھ مسلّمات سے بات کرنی ہوگی ۔یہ بات ہم بسا اوقات بھول جاتے ہیں اور اس بات کا شکار ہو جاتے ہیں لہٰذا جس سے بھی مکالمہ کریں دلیل مسلمات میں سے ہوتی ہے یک طرفہ دلیل، دلیل نہیں ہے۔ آج بھی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دوسرے مذاہب کے حوالے سے آپ اپنے دلائل سے بات نہیں کریں گے، بلکہ ان دلائل سے بات کریں گے جو دونوں کے درمیان تسلیم شدہ ہیں۔ اور آج کی دنیا میں مسلمات میں سب سے بڑا مسلمہ اصول ’’کامن سینس‘‘ ہے۔ لہٰذا آج یہودیوں اور عیسائیوں سے گفتگو کرنے کے لیے آپ کو کامن سینس سے ہی بات کرنا ہو گی، اسی طرح دہریوں کے ہاں کامن سینس کے علاوہ کوئی اور دلیل چلتی ہی نہیں ہے۔ میلہ خدا شناسی کے نام سے ایک دائرہ یہ تھا کہ عقل، کامن سینس، محسوسات اور وقت کی زبان میں اپنے مذہب اور مسائل کو ثابت کرنا ہوتا تھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور یہ حلقہ اس کا بھی ایک میں کردار تھا۔

ہمارے ہاں ایک رجحان یہ بھی ہے کہ ’’ہمیں ایسے مباحثوں میں شریک نہیں ہونا چاہئے ‘‘ یہ سوچ درست نہیں ہے۔ ہمیں اس میں شریک ہونا چاہیے نہیں بلکہ شریک ہونا پڑے گا۔ آج کی دنیا میں خدا کے انکار، دہریت، سیکولرازم، مذہب کے انکار اور قیامت کے انکار پر جو فکری مباحث ہیں ہم اُن سے لاتعلق رِہ کر دین کی خدمت نہیں کر سکتے۔ معلوم نہیں ہمارے ہاں یہ سوچ کہاں سے آگئی ہے کہ ’’ہمارا ان چیزوں سے کیا تعلق ہے‘‘ لہٰذا آج کے جو مسائل ہیں ان میں سب سے بڑا مسئلہ خدا کا انکار ہے، آج دنیا اور انسانی سوسائٹی کی بنیادی تقسیم بلیورز اور نان بلیورز کی ہے، جو اہل مذاہب خدا اور آخرت کو مانتے ہیں وہ بلیورز اور جو نہیں مانتے یہ نان بلیورز کہلاتے ہیں۔ ہم اُن سے لاتعلق نہیں رہ سکتے، اُن سے بات کرنی پڑے گی اور مباحثے میں شریک ہونا پڑے گا۔ خیر اس کا ایک دائرہ میلہ خدا شناسی کے نام سے تھا، حضرت نانوتویؒ اور ان کے رفقاء بھی اس کا ایک بنیادی کردار تھے انہوں نے اس مکالمے سے گریز نہیں کیا اس میں شریک ہوئے ہیں اور اپنے مذہب اور مسائل کو عقل، منطق، لاجک اور کامن سینس سے ثابت کیا ہے۔

ایک تقسیم اور ذہن میں رکھ لیں کہ ہمارے ہاں سوسائٹی کی تقسیم میں لاجک اور دلیل کی بنیاد پر جو طبقہ سب سے نمایاں ہوا ہے وہ ’’دیوبندی‘‘ کہلاتا ہے، رویات، درایت اور بیلنس بھی ہے۔ ایک طبقے کی بنیاد خالص درایت پر ہے جیسے سر سید احمد خان ہیں ،ایک طبقے کی بنیاد خالص روایت پر ہے ہمارے اہل حدیث دوستوں کی اور ایک طبقے کی بنیاد سماجی روایات پر ہے جیسے بریلویت۔ لہٰذا لاجک اور کامن سینس کے طور پر سب سے نمایاں ’’دیوبندی‘‘ طبقہ ہے۔ اقبالؒ نے بھی یہی کہا ہے کہ ’’ہر پڑھا لکھا مسلمان دیوبندی ہے‘‘ یعنی جو پڑھی لکھی، دلیل اور لاجک سے بات کرتا ہے۔ بالکل ہندوؤں میں اسی زمانے میں ایک نیا فرقہ ایجاد ہوا تھا جس کو ’’آریاسماج‘‘ کہتے ہیں اس کا بانی پنڈت دیانند سرسوتی ہے اور یہ بھی پڑھے لکھے ہندو کہلاتے ہیں۔ یہ لاجک سے بات کرنے میں مشہور تھے، اس پر ایک مثال عرض کرتا ہوں اور دوسرا علماء کرام سے التماس کرتا ہوں کہ پڑھا کریں۔

پنڈت دیانند سرسوتی بڑا پڑھا لکھا فلسفی اور مفکر آدمی تھا۔ کسی کے گمراہ یا کافر ہونے سے اس کی علمیت کی نفی نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہمارے ہاں ایک مسئلہ ہے کہ ’’جس کے ساتھ ہمارا اتفاق نہیں وہ جاہل ہے‘‘ ایسا نہیں ہے۔ کسی کے فکر، مذہب اور عقیدے سے اختلاف کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا علم ہی چھن گیا ہے، بلکہ اس کے پاس علم ہے۔ پنڈت دیانند سرسوتی نے ایک کتاب لکھی، اس میں مذاہب کا تقابل کیا ہے، حق باطل سے ہٹ کر عقلی دنیا میں وہ بہت بڑی کتاب ہے، عیسائی ، بدھ مت، مسلمان کیا ہیں؟ تقابلِ مذاہب پر وہ کتاب ہے۔ اس میں مسلمانوں پر بھی تبصرے ہیں اس میں ایک مستقل باب ہے قرآن پاک پر ایک سو سترہ (۱۱۷) عقلی اور کامن سینس قسم کے اعتراضات ہیں۔ اور ایک نئی نسل کو متاثر کرنے کے لیے وہ دلائل کافی ہیں، خالی الذہن آدمی کو اگر پڑھا دیں تو وہ (اپنے مذہب سے) چھلانگ لگا دے گا۔

آج بھی جو سوالات نئی نسل کے ذہنوں میں ڈالے جا رہے ہیں اور یہ نئی نسل دینی اعتبار سے خالی الذہن ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں ہمارے بچوں اور بچیوں کے ذہنوں میں جو سوالات ڈالے جا رہے ہیں اور مسلسل ڈالے جا رہے ہیں اس نسل کے ذہنوں میں جو دینی اعتبار سے خالی الذہن ہے اور ہم شکایت یہ کر رہے ہیں کہ وہ گمراہ ہو رہے ہیں، تو وہ گمراہ کیوں نہیں ہوں گے! خالی برتن میں جو کچھ ڈال دے گا وہی کچھ ہو گا۔ کیا ہم نے اُس برتن میں کچھ ڈالا ہے جو دوسرے سے شکایت کریں؟ جب برتن خالی ہے تو جو مرضی ڈالے گا۔ یہی صورت اُس وقت تھی ۔تو عرض کر رہا تھا کہ دیانند کی کتاب میں سادہ سے سوالات ہیں مثلاً اس نے لکھا ہے کہ ’’دیکھو! ہم تو کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب حق ہے اس میں آجاؤ! مگر مسلمان ابھی تک اس کام میں لگے ہوئے ہیں ، صبح اٹھ کر وضو کرتے ہیں اور کھڑے ہو کر اللہ سے کہتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا دے، یعنی ابھی تک ان کے پاس سیدھا راستہ نہیں ہے۔‘‘

ایک خالی الذہن بچے کے لیے یہ سوال کافی ہے کہ ابھی تک سیدھا راستہ نہیں ہے تب ہی مانگ رہے ہیں ۔ایک سوال اس نے یہ کیا کہ ’’دیکھو! مسلمان ہمیں کہتے ہیں کہ ہندو بت پرست ہیں، ٹھیک ہے ہم پتھر کی مورتی بناتے اور اس کو پوجتے ہیں اور آپ نے پتھر کا کوٹھا بنایا ہوا ہے اور اس کے اردگرد گھومتے ہیں، پتھر کو چومتے ہیں، وہاں بھی پتھر کو پوجتے ہیں اور ہم بھی پتھر کو پوجتے ہیں تو فرق کیا ہے؟‘‘

اس کتاب میں اس قسم کے سوالات ہیں۔ اس پر ہمارے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا تو آمنا سامنا اور مناظرہ بھی ہوا ہے، حضرت کے رسالہ ’’قبلہ نما‘ ‘میں اِن سوالات کے جوابات کا ذِکر ہے۔ اگر میری یہ بات ہضم ہو جائے تو میں عرض کروں گا کہ دیانند سرسوتی کے اس فکری فتنے کے جواب میں تین بزرگ سامنے آئے ہیں، (۱) حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ (۲) اہل حدیث حضرات میں حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی کتاب ہے ’’حق پرکاش‘‘ جو اس کے جواب میں لکھی گئی ہے (۳) بریلوی بھی میدان میں آئے ہیں، مولانا نعیم الدین مراد آبادی نے اس حوالہ سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ نئی نسل کے ذہن میں وقت سوالات کھڑے کرتا ہے اس کا جواب دینا ضروری ہے۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اس دور کے فکری امام بھی ہیں، انہوں نے سوالات کا سامنا کیا ہے نظرانداز نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا کہ ’’چھوڑو یار! رہنے دو‘‘ بلکہ انہوں نے سامنا کیا اور جواب دیا ہے۔ ان کے جواب پر پنڈت دیانند نے مانا اور تسلیم کیا۔

یہاں ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں، میلہ خدا شناسی میں مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کا ایک ہندو پنڈت سے مناظرہ ہو رہا تھا، مکالمہ لاجک، دلیل اور منطق سے ہوتا ہے۔ ہندو پنڈت نے جب دیکھا کہ میں شکست کھا رہا ہوں تو اس نے پینترا بدلا اور کہا ’’مولوی صاحب چھوڑو اس بات کو یہ باتیں ہوتی رہے گی، کھانے کا مقابلہ کر لو!‘‘ مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے فرمایا، ’’ٹھیک منظور ہے‘‘۔ یہ سن کر ساتھی پریشان ہوگئے کہ مولوی صاحب تو کھاتے ہی کچھ نہیں ہیں، یہ تو ہلکی پھلکی خوراک کھاتے ہیں اور کھانے کا چیلنج قبول کر لیا ہے۔ جب بات آگے بڑھی اور فیصلہ ہونے تک پہنچی تو مولانا قاسم نانوتویؒ نے فرمایا ’’ٹھیک ہے مقابلہ کھانے کا ہے، لیکن کھانے کا نہیں ہوگا بلکہ نہ کھانے کا ہوگا۔ مجھے اور اسے پنجرے میں بند کر دو پھر دیکھو کیا ہوتا ہے۔‘‘

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے علوم و افکار کی بات بڑی لمبی ہے، اور میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ اس پر کچھ عرصہ پہلے حضرت مولانا محمد اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے انڈیا میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ پر محاضرات کروائے تھے، انڈیا میں چھپے ہیں ہمیں ان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ بات کو سمیٹتے ہوئے کہوں گا کہ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی شخصیات سے عقیدت اور محبت بھی رکھتے ہیں، ان کے نام نے نعرے بھی لگاتے ہیں، مگر انہیں پڑھتے نہیں ہیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے تعلیمی، فکری اور سیاسی دائرے کو پڑھنا چاہئے۔

میں اس پر اپنی بات کو ختم کروں گا کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ سے مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے اپنی یادداشتوں میں یہ بات نقل کی ہے کہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے مدرسہ بنایا ہے اس کا مقصد کیا ہے؟ حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا ’’دیکھو! تعلیمی کام کرتے رہو میں کسی میں رکاوٹ نہیں بنتا، لیکن میرے استاذ نے یہ مدرسہ کیوں بنایا تھا؟ ۱۸۵۷ء میں جو کچھ نقصانات ہوئے تھے اس کی تلافی اور متبادل تلاش کرنے کے لیے یہ مدرسہ بنایا تھا‘‘۔ کیونکہ۱۸۵۷ ء میں ہمارا سب کچھ لُٹ گیا تھا اور ہم زیرو پوائنٹ پہ کھڑے ہوگئے تھے ۔ ہم اپنے نقصانات کا اندازہ کر لیں، ایک تقسیم کار ہے۔

ایک بات اور عرض کروں گا کہ ہم میں سے ہر آدمی سارے کام کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ فیل ہو جاتا ہے اس لیے کہ ہم میں ابھی تک تقسیم کار نہیں آرہی۔ ہمیں تقسیم کار کرنا ہوگی، آپس میں کام بانٹنا ہوگا اور نقصانات کا اندازہ کرنا ہوگا، جو علمی بھی ہیں، فکری بھی ہیں، سیاسی بھی ہیں، اور تہذیبی بھی ہیں۔ ہمیں فکری حلقوں کو اس وقت کی ترجیحات کا جائزہ لینا ہو گا۔ چلیں پچھلے نقصانات تو جو ہوگئے سو ہوگئے تھے، ہمیں اس وقت کے نقصانات کا جائزہ لینا ہوگا کہ اب کہاں کہاں سے کیا کیا نقصانات آ رہے ہیں ، ہمیں سوچ سمجھ کر ترجیحات قائم کر کے، اپنے بزرگوں کی تعلیمات کو پڑھ کر اور اُن سے واقفیت حاصل کر کے اُن کی راہنمائی میں ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی ہو گی اور اُن بزرگوں سے راہنمائی حاصل کرنا ہوگی، اللہ پاک اُن کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے اور ہمیں اُن سے شعوری راہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

یہ بہت خوش آئند ہے جس پر حافظ خرم شہزاد اور ان کے ساتھیوں کو مبارک باد دوں گا کہ وقتاً فوقتاً ہم کسی بزرگ کی شخصیت کو سامنے رکھ کر بیٹھیں، باتیں کریں، اُن کی خدمات کا جائزہ لیں، اُن میں اپنے لیے راہنمائی کے راستے تلاش کریں اور دیکھیں کہ ہم نے اُن کے مشن کو آج کے دور میں کیسے باقی رکھنا اور آگے بڑھانا ہے۔ اور ہماری یہ ڈبل ذمہ داری ہے کہ اُن کے مشن کو باقی رکھنا اور آگے بڑھانا! کیا وہاں سامنے کام رُک گئے تھے؟ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کی وفات کو کتنا عرصہ ہوا ہے اور کیا ان کے بعد کوئی فتنہ کھڑا نہیں ہوا؟ ہمارے آج کے چیلنجز کا سامنا کس نے کرنا ہے؟ اب چیلنجز، طریقہ کار اور ہتھیار مختلف ہوگئے ہیں اس لیے اب ہماری ڈبل ڈیوٹی ہے۔ پچھلے بزرگوں کے مشن کے مشن کو زندہ رکھنا اور آج کی ضروریات کا اندازہ کر کے اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرنا، ہم تو بوڑھے ہوگئے ہیں نئی نسل کو کم از کم سمجھا تو دیں کہ یہ کام کرنے کا اور ایسے کرنے کا ہے۔ اللہ پاک اس پروگرام کو کامیابی عطا فرمائے اور ہمیں اپنے فرائض سرانجام دیتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین


حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی ؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے رخصت ہو گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کچھ عرصہ قبل کراچی حاضری کے دوران ان کی بیمارپرسی کا موقع ملا تو والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا آخری دور یا دآ گیا، انہوں نے بھی ضعف و علالت کا خاصا عرصہ بسترِ علالت پر گزارا تھا اور میں ساتھیوں سے کہا کرتا تھا کہ یہ ’’من بعد قوۃ ضعفاً‌ و شیبة‘‘ کا اظہار ہے کہ جس بزرگ کے ساتھ ان کی جوانی کے دور میں پیدل چلنا بھی ہمارے لیے مشکل ہوتا تھا، آج وہ اپنے ہاتھ سے منہ میں لقمہ ڈالنے کی سکت نہیں رکھتے ’’ رہے نام اللہ کا‘‘۔

حضرت مفتی صاحبؒ کو دیکھ کر ماضی کے بہت سے مناظر ذہن میں تازہ ہو گئے اور تھوڑی دیر ان کے سامنے کھڑے رہ کر حسرت کے ساتھ وہاں سے نکل آیا، اب وہ اس مرحلہ سے بھی گزر گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت میں بلند سے بلند فرمائیں اور ان کے سب متعلقین کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ اپنے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع قدس اللہ سرہ العزیز کے فرزند و جانشین ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی علمی، دینی اور سیاسی روایات کے امین و پاسدار بھی تھے۔ اور ان کی مختلف النوع سرگرمیاں دیکھ کر حضرت مفتی اعظمؒ کی یاد تازہ ہو جایا کرتی تھی۔ بڑے مفتی صاحبؒ کی تو صرف زیارت کاشرف حاصل ہوا تھا، یا والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ سے وقتاً‌ فوقتاً‌ ان کا تذکرہ سنتے رہتے تھے جو ان دونوں کے استاذ محترم تھے اور علمی و فقہی مسائل میں ان کا مرجع بھی تھے کہ کسی بھی ضرورت کے وقت وہ راہنمائی اور فتوٰی کے لیے ان سے رجوع کیا کرتے تھے۔

البتہ حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانیؒ دامت فیوضہم کے ساتھ نیازمندی کا تعلق عرصہ سے چلا آ رہا ہے، دونوں بزرگوں کی شفقتوں اور محبتوں سے فیضیاب ہوتا آ رہا ہوں، بلکہ حضرت مفتی صاحبؒ کے ساتھ اندرون ملک بہت سی مجالس میں شرکت کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کے بعض اسفار میں بھی رفاقت رہی ہے جو میری زندگی کے بہترین ایام میں سے ہے۔

مفتی صاحب مرحوم کے ذوق کا یہ پہلو میرے لیے ہمیشہ باعث توجہ رہا ہے کہ وہ علمی و دینی مجالس میں روایتی خطاب کی بجائے عوام اور علماء دونوں کے لیے راہنمائی کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور اجاگر کرتے تھے جن میں سے بعض باتوں کا میں اپنے مختلف کالموں میں ذکر کر چکا ہوں۔ موقع و محل کے مطابق ضرورت کے امور کو محسوس کرنا اور اس کے مطابق راہنمائی کرنا ان کا خاص ذوق تھا جو یقیناً‌ علماء کرام کے لیے مشعل راہ ہے۔ وہ تربیت و اصلاح کی طرف بطور خاص توجہ دیتے تھے اور جہاں اس حوالہ سے کوئی کمی یا کوتاہی دیکھتے اسے نظرانداز کرنے کی بجائے اس کی نشاندہی کر کے اصلاح کی طرف متوجہ کرتے تھے۔

مفتی صاحبؒ متعلقہ امور میں مشورہ کرتے تھے اور مشورہ قبول بھی کرتے تھے اور حوصلہ افزائی کا معاملہ کرتے تھے۔ میں نے امریکہ کے ایک سفر میں ان سے گزارش کی کہ ہمیں اپنے فضلاء اور منتہی طلبہ کو موجودہ عالمی فکری و تہذیبی ماحول سے روشناس کرانے اور آج کے علمی، فکری اور ثقافتی مسائل پر ان کی تیاری کرانے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بالخصوص بین الاقوامی قوانین و معاہدات اور ان کے عملی و تہذیبی اثرات سے انہیں آگاہ کرنا چاہیے جو ہمارے ہاں عام طور پر نہیں ہوتا۔ انہوں نے میری اس گزارش سے نہ صرف اتفاق کیا بلکہ مجھے دو تین بار اس بات کا موقع فراہم کیا کہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے شرکاء کے سامنے مختلف نشستوں میں اپنے ذوق کے مطابق عالم اسلام اور مغرب کی فکری و تہذیبی کشمکش کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر تفصیل کے ساتھ بیان کر سکوں۔

مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ صاحبِ علم اور صاحبِ عمل تو تھے ہی، صاحبِ نسبت اور صاحبِ کردار بھی تھے۔ نئی نسل بالخصوص نوجوان علماء کرام کی ایسی جامع الاوصاف شخصیات سے شعوری ماحول میں وابستگی ہمارے دور کی اہم دینی ضروریات میں سے ہے، اور اس حوالے سے میری گزارش عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ بڑی شخصیات کے افکار و فیوض کو تحریری صورت میں پڑھنےکے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ ملاقاتوں اور مجالس کے ذریعے ان سے استفادہ زیادہ موثر اور نفع بخش ہوتا ہے اور نوجوان علماء کرام کو اس طر ف توجہ دینی چاہیے۔ گوجرانوالہ میں ایک بار تشریف آوری کے موقع پر حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانیؒ جامعہ نصرۃ العلوم اور الشریعہ اکادمی میں بھی رونق افروز ہوئے اور آج کی فکری اور تعلیمی ضروریات پر اکادمی کی نشست میں بہت پرمغز گفتگو کی جو ہمارے لیے راہنمائی اور حوصلہ افزائی کا باعث بنی۔

حضرت مفتی صاحبؒ ہم سے رخصت ہو گئے ہیں لیکن ان کی یادیں ان کی کمی کا احساس دلاتی رہیں گی۔ البتہ دل کو یہ تسلی ہے کہ ان کے بھائی اور ہم سب کے مخدوم حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم ہمارے درمیان موجود ہیں جو نہ صرف اپنے ملک کے علماء کرام اور دینی کارکنوں کے لیے رہبر و راہنما ہیں بلکہ دنیائے اسلام میں پاکستان کی علمی پہچان اور اہلِ حق کی آبرو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور حضرت مفتی محمد رفیع صاحبؒ کے فرزند مولانا محمد زبیر اشرف عثمانی اپنے والد گرامی کی تعلیمی اور اصلاحی جدوجہد کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ حضرت مفتی صاحبؒ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائیں اور حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں جامعہ دارالعلوم کراچی کو اپنے علمی، فکری اور دینی سفر میں مسلسل پیشرفت سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔


ڈاکٹر نجات اللہ صدیقیؒ: زندگی کے کچھ اہم گوشے (۱)

ابو الاعلیٰ سید سبحانی

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی تحریک اسلامی ہند کے ایک مایہ ناز فرزند تھے، بہت کم عمری میں تحریک سے وابستہ ہوئے اور تادم زیست وابستہ رہے، لیکن یہ وابستگی کوئی عام سی وابستگی نہ تھی، بلکہ آخر دم تک تحریک اور امت کے لیے غیرمعمولی حد تک فکرمند رہے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ایک عظیم ماہرِ اسلامی معاشیات تھے اور عالمی سطح پر انہوں نے اسلامی معاشیات کے حوالہ سے نہ صرف ایک پہچان بنائی تھی، بلکہ دنیا بھر میں اسلامی معاشیات کے حوالے سے ان کی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا تھا۔ عالم اسلام کا سب سے بڑا ایوارڈ شاہ فیصل ایوارڈ بھی اسی سلسلہ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں پیش کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خدمات کا ایک میدان اسلامی معاشیات تھا، اور دوسرا میدان اسلامی فکر۔ خاص بات یہ ہے کہ ان دونوں ہی میدانوں میں ان کی خدمات بہت ہی نمایاں اور موثر رہیں۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا خانوادہ ایک علمی خانوادہ تھا۔ آپ کے آباء واجداد سندھ کے راستے عرب سے ہندوستان آئے تھے۔ یہاں سلاطین کی حکومت میں ان کے خاندان کو قاضی کا درجہ حاصل تھا۔ ہندوستان میں ان کے اہل خاندان اعظم گڑھ کے قریب ’’قاضی کی سرائے‘‘ میں سکونت پذیر ہوئے تھے۔ 1920 کے قریب ڈاکٹر صدیقی کے والد حکیم عبدالقدوس اپنے بڑے بھائی کے ساتھ قاضی کی سرائے سے گورکھپور منتقل ہوگئے، اور وہیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی ولادت 21 اگست 1931 میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں ہوئی اور پھر اسلامیہ انٹرکالج گورکھپور میں داخل ہوگئے۔

اسلامیہ انٹرکالج میں تعلیم کے دوران یکے بعد دیگرے دو واقعات پیش آئے، ان دونوں واقعات نے ڈاکٹر صدیقی کی زندگی کو ایک رخ دینے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا:

(۱) ساتویں جماعت میں زیرتعلیم تھے، اسی دوران 1943 میں ایک نوجوان’’تمکوہی‘‘ قصبے سے گورکھپور شہر منتقل ہوا اور اتفاق سے ڈاکٹر صدیقی کے دوسرے گھر میں کرایے دار ہوا، اور اتفاق پر اتفاق یہ ہوا کہ ان ہی کے کالج اور ان ہی کے کلاس میں اس کا داخلہ بھی ہوگیا۔ قدرت کا کرنا تھا کہ یہ نوجوان علوم و افکار کی دنیا سے لے کر عملی اور حرکی زندگی تک ڈاکٹر صدیقی کا بہترین رفیق ثابت ہوا، اور تقریباً ستر سال کی بے مثال رفاقت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوا۔ اس نوجوان کا نام ڈاکٹر عبدالحق انصاری تھا، جو تحریک اسلامی کے عظیم مفکر اور کچھ عرصے کے لیے جماعت اسلامی ہند کے امیر ہوئے۔ ڈاکٹر انصاری شروع میں ڈاکٹر صدیقی کے دوسرے گھر میں کرایے دار تھے، لیکن بہت جلد ہی وہ ڈاکٹر صدیقی کے اپنے گھر میں ایک فیملی ممبر کی طرح رہنے لگے تھے۔ ڈاکٹر عبدالحق انصاری اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی رفاقت بہت ہی مثالی تھی، اور یہ رفاقت دونوں کی شخصیت سازی میں غیرمعمولی طور پر معاون ثابت ہوئی۔ دونوں کی زندگی میں کئی پہلووں سے یکسانیت پائی جاتی تھی۔ دونوں ایک ساتھ تحریک سے وابستہ ہوئے، دونوں نے اپنے لیے تحریک کا فکری محاذ منتخب کیا، دونوں نے تحریک اسلامی کی بڑے پیمانے پر فکری خدمات انجام دیں، دونوں اجتہادی مزاج رکھتے تھے اور جرأتمندانہ سوچ کے حامل تھے، دونوں کے تحقیقی ذوق اور علمی کمال کا تحریک اور تحریک کے باہر کی دنیا میں اعتراف کیا جاتا تھا۔

(۲) اسلامیہ انٹرکالج میں، ہائی اسکول کی تکمیل سے پہلے ہی آپ دونوں کا تعارف مولانا مودودی کے لٹریچر اور ان کی قائم کردہ تحریک’’جماعت اسلامی‘‘سے ہوا، عبدالحق انصاری مرحوم ستر سالہ رفاقت کے بعد اس دارفانی سے کوچ کرگئے، لیکن تحریک اسلامی سے جو رفاقت قائم ہوئی وہ تقریباً اسی سال تک یعنی آخری سانس تک باقی رہی۔ تعلیم کا پورا سلسلہ تحریکی تقاضوں کے مطابق جاری رکھا، غوروفکر کا پورا سلسلہ تحریک کی ضروریات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جاری رکھا، اختصاص کا میدان تحریک کے وژن کو سامنے رکھتے ہوئے اختیار کیا، تصنیف و تالیف اور ترجمہ کا ایک زبردست کام تحریک اسلامی کے مشن، وژن اور طریقہ کار کو نگاہوں میں رکھتے ہوئے انجام دیا۔

ان دونوں واقعات یا ان دونوں رفاقتوں کے ڈاکٹر نجات صاحب مرحوم کی زندگی پر بہت گہرے اثرات دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اسکول کی تعلیم کے دوران ہی انہوں نے ڈاکٹر عبدالحق انصاری کے ساتھ مل کر تحریک کے لیے عملی جدوجہد شروع کردی تھی، اس سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ

’’ہم نے لٹریچر حاصل کیا، لائبریری بنائی، مختلف رسائل وجرائد منگوانے شروع کیے، اور طلبہ ساتھیوں کے درمیان کام کا آغاز کردیا، ان تمام سرگرمیوں میں عبدالحق صاحب ہمارے ساتھ شریک ہوتے تھے، البتہ وہ شروع ہی سے خشک مزاج رکھتے تھے، کافی سنجیدہ تھے، چنانچہ تفریحی اور ادبی سرگرمیوں میں وہ کم دلچسپی لیتے تھے اور مجھے ان میں کافی دلچسپی تھی‘‘۔ (دیکھیں: ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012)

ہائی اسکول کی تکمیل کے مرحلہ میں ان دونوں کے ساتھ ایک اور واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کی تفصیلات ڈاکٹر صدیقی مرحوم کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’جب ہم نے مولانا مودودی کالٹر یچر پڑھا، اور اس میں دیکھا کہ مولانا مودودی نے کس طرح موجودہ تعلیمی نظام پر تنقید کی ہے اور ایک نئے تعلیمی نظام کا خاکہ پیش کیا ہے، اس وقت ہمارے دل میں شوق پیدا ہوا کہ ہم اس تعلیم کو ترک کر کے دینی تعلیم حاصل کریں، ہم دونوں کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ ہم انجینئر بنیں، لیکن ہم لوگ اپنے آپ میں کچھ اور فیصلہ کر چکے تھے، ہائی اسکول کرنے کے بعد ہم دونوں نے ترک تعلیم کا فیصلہ کرلیا، اور پھر میں ملیح آباد گیا، جہاں جماعت اسلامی کا مرکز تھا، میں نے وہاں مولانا ابواللیث صاحب سے ملاقات کی، اور ان سے درخواست کی کہ ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے اور اب ہم چاہتے ہیں کہ جماعت ہماری تعلیم کانظم کرے، اس انداز پر جس کا مولانا مودودی کے لٹریچر میں ذکر ملتا ہے۔ لیکن مولانا ابواللیث صاحب نے وسائل اور افراد کی قلت کا عذر پیش کرتے ہوئے معذرت کر لی، چنانچہ میں واپس گورکھپور چلا گیا، وہاں ہم دونوں تقریباً دو ماہ تک اسکول نہیں گئے، یہ ہائی اسکول کے بعد کا زمانہ تھا۔اسکول کے پرنسپل کو جب معلوم ہوا کہ ہم دونوں نے تعلیم ترک کر دی ہے تو انہوں نے کچھ اساتذہ سے، جو ہم سے قریب تھے، کہا کہ ان کو سمجھا کر اسکول واپس لائیں، چونکہ ہم دونوں ہی اسکول کے ممتاز طلبہ میں شمار ہوتے تھے، چنانچہ بعض اساتذہ کے کہنے کے بعد ہم دو ماہ تاخیر کے ساتھ گیارہویں جماعت میں داخل ہوگئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب ہمارا دل کسی بھی طرح اس تعلیمی نظام سے مطمئن نہیں تھا۔ گورکھپور سے انٹرمیڈیٹ کی تعلیم مکمل کر لینے کے بعد میں تو علی گڑھ چلا گیا، اور وہاں بی۔اے میں داخلہ لے لیا، جبکہ انصاری صاحب عربی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ندوۃ العلماء لکھنو چلے گئے‘‘۔

اس سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں:

’’1950 کے اوائل میں ہم ادارہ ادب اسلامی کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے طلبہ کی ایک بڑی تعدادکو لے کر رامپور پہنچے، جہاں ان دنوں جماعت کا مرکز تھا۔ ادارہ ادب اسلامی کا با قاعدہ قیام تو بعد میں ہوا لیکن اس دور میں ہم لوگ اسی نام سے کام کیا کرتے تھے۔ رامپور میں ہم نے دوبارہ مولانا ابواللیث صاحب کے سامنے اپنا مطالبہ پیش کیا، اور کہا کہ ملیح آباد میں آپ نے جو عذر پیش کیا تھا، اس کی گنجائش اب نہیں باقی رہ گئی ہے، رامپور بڑا شہر تھا، اور علمی شخصیات بھی وہاں بآسانی مل سکتی تھیں، چنانچہ ابواللیث صاحب نے گفتگو وغیرہ کی اور آخر میں ہم سے کہا گیا کہ آپ لوگ یہیں قیام کریں، آپ کی تعلیم کا نظم کیا جائے گا، چنانچہ میں نے اور حمیداللہ صاحب نے علی گڑھ کی تعلیم ترک کردی اور جنوری 1950 سے وہیں قیام کیا، اور چند ماہ بعد جب با قاعدہ ثانوی درسگاہ کا آغاز جولائی 1950 میں ہوا تو انصاری صاحب بھی ندوے سے اپنا تعلیمی سال مکمل کر کے رامپور آگئے، اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جماعت نے ثانوی درسگاہ کے قیام کا فیصلہ ہماری سچی طلب اور مستقل اصرار کے بعد لیا تھا۔‘‘

ثانوی درسگاہ کا قیام تو جماعت اسلامی ہند کا مرکزی فیصلہ تھا، لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس درسگاہ کے حقیقی موسس اور محرک ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری مرحوم ہی تھے، انہی کی سچی طلب اور مستقل اصرار پر جماعت اسلامی ہند نے اس ادارہ کو قائم کیا تھا، اور اتفاق کی بات ہے کہ یہی اس درسگاہ کے بالکل ابتدائی طلبہ بھی تھے۔ ثانوی درسگاہ کا پورا تصور اور اس تصور کی کامیابی اور ناکامی اسی سچی طلب پر قائم تھی، ورنہ افراد سازی کے ایسے مصنوعی طریقے جن کے پیچھے سچی طلب، سچا جذبہ اور سچی محنت نہ ہو، کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی 1950 میں اور ڈاکٹر عبدالحق انصاری 1952 میں جماعت االامی کے رکن ہوئے تھے، جبکہ آپ دونوں 1946سے ہی جماعت کے کاموں میں پوری طرح سرگرم رہنے لگے تھے۔ اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں وہ چاہتے تھے کہ اجتماعیت سے وابستگی کے تقاضوں کی تکمیل ہو اور جہاں کوئی مشکل درپیش ہو ذمہ داران سے رابطہ کرلیا جائے، تاکہ کوئی بھی کام پورے اطمینان کے ساتھ انجام دیا جائے۔

1947 میں ہائی اسکول کی تکمیل کے بعد جب جماعت نے اپنے محدود وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے آگے کی تعلیم کا مناسب بندوبست کرنے سے معذرت کردی، تو قریب دو ماہ کے گیپ کے بعد اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور پرنسپل کی کوششوں کے نتیجہ میں دوبارہ دونوں افراد تعلیمی سلسلہ شروع کرنے پر آمادہ ہوئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے سے متعلق مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم کو ایک تحریر ارسال کی تھی، وہ شائد جماعت کے نظم سے اجازت طلبی کے قسم کی تحریر رہی ہوگی۔ اس تحریر کے جواب میں 16 اگست 1947 کو مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم نے ایک خط تحریر کیا تھا، یہ خط اس زمانے میں عصری تعلیم سے متعلق جماعت کے موقف اور رجحان کو بھی بیان کرتا ہے، اس خط سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے اس سے پہلے مرکز سے ایک اور خط ارسال کیا جاچکا تھا، جو کسی وجہ سے نجات صاحب تک نہیں پہنچ سکا تھا، چنانچہ اس خط میں اسی خط کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا ابواللیث اصلاحی مرحوم رقمطراز ہیں:

’’بہرحال جو خط آپ کو بھیجا گیا ہے اس کا مفہوم یہی ہے کہ جو حالات آپ نے بیان فرمائے ہیں ان کے تحت اگر آپ اپنی موجودہ تعلیم جاری رکھنا چاہیں تو آپ اس کے مجاز ہیں۔ موجودہ تعلیم کے نقائص سے دل کچھ ایسا متاثر ہے کہ اس کے لیے اجازت دینے کی ہمت نہیں پڑتی۔ جب آپ کے سامنے مجبوریاں ہیں تو مجبورا ہمیں آپ کے اس فیصلے کو برداشت ہی کرنا پڑے گا۔ آپ ماشاء اللہ خود سمجھ دار ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ اس تعلیم کو اچھے مقصد ہی کے لیے حاصل کریں گے اور اگر خدانخواستہ بعد کو کسی مرحلہ میں محسوس کریں گے کہ اس میں مفاد سے زیادہ مضار ہیں تو اس کو بے تامل ترک کر دیں گے۔ ہمارے ہر کام کا محور وہ نصب العین ہونا چاہیے، جو ایک مومن کا حقیقی نصب العین ہے اور اس کو ہر حال میں عزیز رکھنا چاہیے۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ69)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا وژن بہت ہی واضح تھا، چنانچہ انہوں نے کبھی ادھر ادھر مڑ کر نہیں دیکھا، ہمیشہ نصب العین کی خدمت پیش نظر رہی۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد بی اے کرنے لگے، لیکن ثانوی درسگاہ کے قیام کی بات آئی تو یونیورسٹی کی تعلیم ترک کرکے خوشی خوشی درسگاہ سے وابستہ ہوگئے۔

ثانوی درسگاہ کا زمانہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب کی زندگی کا ایک بہت ہی اہم پڑاؤ تھا، ثانوی درسگاہ میں جہاں ایک طرف اعلی صلاحیتوں کے حامل، ذہین اور تلاش و جستجو کا مزاج رکھنے والے ساتھیوں کا ایک اچھا گروپ مل گیا، وہیں پڑھنے لکھنے کا ایک شاندار ماحول، اور بہترین اساتذہ کی ایک ٹیم نصیب ہوگئی۔

ثانوی درسگاہ کے ماحول اور سرگرمیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں نجات اللہ صدیقی صاحب فرماتے ہیں:

’’وہاں ہم سبھی مختلف ڈسکشنز اور مباحثوں میں شریک رہتے تھے، مختلف موضوعات پر گفتگو بھی ہوتی تھی، وہاں کا نظم کچھ اس طرح تھا کہ ہم بعد نماز عصر اپنے طور پر جدید علوم کا مطالعہ کر سکتے تھے، اس میں ایک صاحب تھے شاہ ضیاء الحق صاحب، جو ڈاکٹر ذاکر حسین کے ساتھیوں میں سے تھے اور جماعت کے شوری کے ممبر تھے، وہ ہمارے نگراں مقرر کیے گئے تھے۔ مولانا ابواللیث صاحب کی خصوصیت تھی کہ جہاں رہتے وہاں لوگوں سے اچھے روابط قائم کرتے اور ان کو کافی قریب کرلیا کرتے تھے، رامپور میں بھی مولانا نے کچھ ایسا ہی کیا، چنانچہ وہاں شاندار تاریخی لائبریری ’’رضا لائبریری‘‘ سے ہمارے لیے استفادہ آسان ہوگیا۔ رامپور کی دو بڑی شخصیات مولا نا عبدالوہاب خاں رام پوری اور ان کے بھائی مولاناعبدالسلام خاں سے استفادہ کا موقع بھی ملا۔ اس کے علاوہ وہاں ہم نے مولانا ابواللیث اصلاحی، مولانا صدرالدین اصلاحی، مولانا جلیل احسن ندوی، مولانا ایوب اصلاحی وغیرہ مختلف علمی شخصیات سے بھر پور استفادہ کیا۔ میرا مزاج شروع ہی سے عبدالحق صاحب سے کچھ مختلف تھا، میرا معمول تھا کہ روزانہ صبح سویرے چہل قدمی کے لیے نکلتا تھا، کچھ ملاقاتیں کرتا، کچھ ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتا‘‘- (رفیق منزل، نومبر 2012)

ثانوی درسگاہ کے تعلق سے ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی بہت واضح سوچ رکھتے تھے، ثانوی درسگاہ کے مقصد قیام سے متعلق وہ اپنی کتاب ’’اسلام، معاشیات اور ادب‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’یہ درسگاہ 1950 میں قائم ہوئی تھی اور بوجوہ 1960 میں بند ہوگئی۔ مقصد یہ تھا کہ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو چار سالہ کورس کے ذریعہ عربی، قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر علوم اسلامیہ کی اتنی تعلیم دے دی جائے کہ آئندہ وہ جدید علوم میں سے کسی علم میں اسلامی نقطہ نظر سے علمی اور تحقیقی کام کرسکیں‘‘۔ (صفحہ11)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے ساتھ ثانوی درسگاہ میں دوران تعلیم یہ خوش آئند واقعہ پیش آیا کہ یہاں ان کو فکر فراہی سے متعارف ہونے اور علامہ فراہی کے شاگرد رشید مولانا اختر احسن اصلاحی مرحوم سے استفادہ کا موقع نصیب ہوگیا۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اس سے متعلق فرماتے ہیں:

’’ثانوی درسگاہ سے اپنا کورس مکمل کرنے کے بعد میں، انصاری صاحب اور حمیداللہ صاحب قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسۃ الاصلاح گئے، وہاں علامہ فراہی کے تلمیذ خاص مولانا اختر احسن اصلاحی رحمہ اللہ، جو جماعت کی مرکزی مجلس شوری کے رکن تھے، ان سے قرآن مجید پڑھا۔ مدرسۃ الاصلاح میں سب سے خاص بات یہ رہی کہ ہمیں علامہ فراہی کے خاص نوٹس استفادہ کے لیے فراہم کیے گئے، جن میں سے بیشتر اب شائع ہوچکے ہیں۔ میں اور انصاری صاحب وہاں سے چھ ماہ کے بعد واپس چلے آئے، البتہ حمیداللہ صاحب ایک سال تک رہے‘‘۔ (رفیق منزل، نومبر 2012)

مدرسۃ الاصلاح میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی حسب پروگرام مولانا اختر احسن اصلاحی اور دوسرے بڑے اساتذہ سے قرآن مجید اور نظم قرآن کا درس لیتے، اور ساتھ ہی وہاں طلبہ کو باقاعدہ انگریزی وغیرہ کچھ عصری مضامین بھی پڑھاتے تھے۔ ہمارے بڑے ابا مولانا امانت اللہ اصلاحی مرحوم بتاتے تھے کہ اس دوران نجات صاحب نے ان کے کلاس کے طلبہ کو انگریزی زبان پڑھائی تھی۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب فکر فراہی سے کس حد تک متاثر تھے، اس پر الگ سے اور بھرپور اسٹڈی کرنے کی ضرورت ہے، البتہ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ علامہ فراہی رحمہ اللہ کی چیزوں سے خاص دلچسپی رکھتے تھے، قرآن مجید سے ان کو خاص شغف تھا، اور ان کی تحریروں میں قرآن مجید سے استفادہ اور استدلال کا پہلو کافی نمایاں نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ثانوی درسگاہ آنے سے پہلے ہی مولانا مودودی کے لٹریچر سے متاثر ہوکر اس بات کا فیصلہ کرچکے تھے کہ معاشیات کے میدان میں ہی ان کو کام کرنا ہے، چنانچہ ثانوی درسگاہ سے قبل انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لے لیا تھا، اور بی اے میں اپنے لیے عربی اور انگریزی زبانوں کے علاوہ معاشیات کا مضمون منتخب کیا تھا۔ لیکن ثانوی درسگاہ کے قیام کا فیصلہ ہوا تو بی اے چھوڑ کر وہ درسگاہ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ مدرسۃ الاصلاح سے واپس آنے کے بعد ان کے سامنے ایک بڑا سوال مستقبل کا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذاتی مطالعہ کی بنیاد پر معاشیات کے میدان میں اکیڈمک لیول پر کوئی بڑا کام کرنا ممکن نہ تھا، چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اکنامکس ڈپارٹمنٹ میں جاکر ایک فری اسٹوڈنٹ کے طور پر ایم اے معاشیات کی کلاس جوائن کرلی۔ اور پھر 1956 میں باقاعدہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی اے اکنامکس میں داخلہ لیا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا ذاتی فیصلہ تھا، جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران ان کے اس فیصلے سے بہت زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ جماعت اسلامی کا یہ دور عجیب وغریب کنفیوژن کا دور تھا، ایک طرف موجودہ نظام کی نوعیت کے تعین کا مسئلہ تھا، موجودہ نظام، جس کا ایک حصہ تعلیمی نظام بھی تھا، اس کے مکمل بائیکاٹ کا رجحان تھا، دوسری طرف اپنی علمی وفکری ضرورتوں کی تکمیل کا مسئلہ تھا، ظاہر سی بات ہے کہ متبادل کھڑا کرنے کے لیے نہ اس وقت جماعت کے پاس وسائل تھے اور نہ آج ہیں۔ چنانچہ یہ مسئلہ اس وقت مرکزی مجلس شوری میں بھی زیر بحث آیا، واقعہ کی تفصیل ڈاکٹر صدیقی کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’جب ہم لوگ یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ہمارے خلاف کافی ہنگامہ کیا گیا کہ یہ لوگ باطل نظام کا حصہ بن رہے ہیں، اس سے ثانوی درسگاہ کا مقصد فوت ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ، حتی کہ شوری میں ہماری رکنیت کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا، اور ثانوی درسگاہ بند کرنے کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہاں سے نکل کر طلبہ یونیورسٹی کی طرف چلے جارہے ہیں۔‘‘ (ماہنامہ رفیق منزل، نومبر 2012)

ڈاکٹر صدیقی اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’ہمارا تجربہ ہے کہ درسگاہ کے فارغین نے جو کچھ بھی کام کیے ہیں، وہ انہی نے کیے ہیں جو بعد میں یونیورسٹی کی طرف چلے گئے۔ علی گڑھ میں ہماری اعلی تعلیم کا بنیادی مقصد تحریک ہی کی خدمت تھا، ورنہ ہم اگر اسی نظام کا حصہ بننا چاہتے تو اس کے لیے بہترین وقت انٹرمیڈیٹ کے بعد کا تھا، جب کہ ہمارے والدین کی شدید خواہش تھی کہ ہم انجینئر نگ کر یں۔ لوگ مولانا مودودی کی تحریروں کی روح نہیں سمجھ پائے، مولانا مودودی کا یہ مقصد بالکل نہیں تھا کہ ہم ان اداروں کا رخ ہی نہ کریں، جس کا اظہار بعد میں مولانا مودودی کی طرف سے کیا بھی گیا۔‘‘ (حوالہ سابق)

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹر صدیقی نے 1958 میں معاشیات سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور 1960 میں معاشیات سے ہی ایم اے کیا۔ ان دونوں مراحل میں انہوں نے یونیورسٹی میں نمایاں پوزیشن حاصل کی۔ زمانہ طالب علمی میں وہ یونیورسٹی میں ایک نمایاں پہچان اور طلبہ کے درمیان بہت ہی عزت ومرتبہ رکھتے تھے۔ یہ دور یونیورسٹی میں اشتراکی رجحانات کے عروج کا دور تھا، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے وہاں اسلامی رجحان رکھنے والے طلبہ کو جمع کرنے اور ان کو یونیورسٹی میں ایک موثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔

ایم اے معاشیات کے بعد آپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات سے ہی پی ایچ ڈی میں داخلہ لے لیا، پی ایچ ڈی میں آپ کا موضوع تھا:

‘‘A Critical Examination of the Recent Theories of Profit’’

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی پی ایچ ڈی 1966 میں مکمل ہوئی۔

مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ کی شخصیت کا ایک امتیازی پہلو یہ تھا کہ ان کی شخصیت میں زبردست جامعیت پائی جاتی تھی، وہ ایک طرف عصری علوم میں مہارت رکھتے تھے، دوسری طرف دینی علوم میں گہری دسترس رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زمانے کی زبان میں پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ گفتگو کی، اور ان کو دنیا بھر میں شوق سے سنا اور پڑھا گیا۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھیوں کی اٹھان بھی بالکل اسی طرز پر ہوئی تھی، انٹرمیڈیٹ تک انہوں نے عصری تعلیم حاصل کی اور اس میں نمایاں مقام حاصل کیا اور اس کے بعد ثانوی درسگاہ اور مدرسۃ الاصلاح سے وابستہ ہوئے اور وہاں بھی انہوں نے ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔ وہاں سے دوبارہ یونیورسٹی کی طرف گئے اور وہاں بھی امتیازی پوزیشن کے ساتھ اعلی تعلیم مکمل کی۔ چنانچہ مولانا مودودی کی طرح ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی شخصیت میں بھی زبردست جامعیت پائی جاتی تھی، وہ عصری علوم میں بھی گہری نگاہ رکھتے تھے اور دینی علوم کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ اسلامی معاشیات، اسلامی فکر اور مقاصد شریعت پر ان کے کاموں میں دینی وعصری علوم کی یہ جامعیت بہت صاف نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی زندگی کا ایک قابل ذکر حصہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گزرا، پی ایچ ڈی کی تکمیل کے بعد 1961 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ معاشیات میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے، تقریباً پندرہ سال تک اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1975 میں آپ کا پرموشن ہوا اور آپ ریڈر یا اسوسی ایٹ پروفیسر ہوگئے۔ 1977 میں اسلامیات کے حوالے سے آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے آپ کو شعبہ اسلامیات میں پروفیسر اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کا ڈائرکٹر بنا دیا گیا۔

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی یونیورسٹی کی دنیا میں کھو جانے والی شخصیت نہیں تھے، یونیورسٹی کے یہ مناصب ان کے لیے پاؤں کی بیڑیاں نہیں بن سکتے تھے۔ انہوں نے اس دوران بھی اپنے طے کردہ اصل محاذ یعنی اسلامی معاشیات پر علمی وتحقیقی کام جاری رکھا اور اس کے لیے اپنی استعداد کی حد تک ہندوستان میں بھی اور ہندوستان کے باہر جہاں جہاں ممکن ہوسکا ایڈووکیسی کا کام کرتے رہے۔ قریب 1976 میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اسلامی معاشیات کے موضوع کو متعارف کرانے اور اس کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنانے کے لیے ایک پرپوزل تیار کیا اور اسے وائس چانسلر پروفیسر اے ایم خسرو کے سامنے پیش کردیا۔ لیکن بوجوہ اس وقت اس کو شامل نصاب نہ کیا جاسکا، البتہ ایک عرصے کے بعد 1994 میں اسلامی معاشیات کو ایک آپشنل پیپر کے طور پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نصاب کا باقاعدہ حصہ بنا دیا گیا۔

1972 میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کو پہلی بار مغربی دنیا کا تفصیلی سفر کرنے کا موقع ملا۔ امریکی تنظیم کنسلٹیٹیو کمیٹی آف انڈین مسلم (CCIM) اور مسلم اسٹوڈنٹ اسوسی ایشن (MSA) کی دعوت پر آپ امریکہ کے لیے روانہ ہوئے۔ امریکہ میں آپ نے چار ماہ قیام کیا، اور اسی دوران آپ برطانیہ، فرانس، لیبیا اور سعودی عرب بھی گئے۔ یہ سفر اسلامی معاشیات کی انٹرنیشنل ایڈووکیسی کی راہ میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ سعودی عرب میں آپ نے اس موقع پر فریضہ حج بھی ادا کیا۔

1976 میں آپ نے دوسری مرتبہ سعودی عرب کا سفر کیا، یہ سفر سعودی عرب میں منعقد اسلامی معاشیات پر پہلی عالمی کانفرنس کے سلسلہ میں ہوا، اس کانفرنس کے انعقاد میں جہاں بہت سے افراد کی کوششوں کا دخل تھا وہیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا بھی ایک اہم رول تھا، سعودی عرب میں منعقد یہ کانفرنس اسلامی معاشیات کے فروغ کے سلسلہ میں ایک سنگ میل ثابت ہوئی، سعودی حکومت نے ایک طرح سے اس کانفرنس کی سرپرستی کی، دنیا بھر کے اسکالرس کو مدعو کیا گیا، اور پھر اس سلسلہ میں ٹھوس کام انجام دینے کے لیے مختلف پہلووں سے منصوبہ بندی کی گئی۔

یہ سفر آپ کی زندگی کا ایک نیا موڑ ثابت ہوا، اور آپ اس کے دو سال بعد سعودی عرب منتقل ہوگئے، ہندوستان سے سعودی عرب منتقل ہوجانے کا آپ کا یہ فیصلہ نہ تو ملازمت کے حصول کے لیے تھا، نہ ہی کسی دوسری ذاتی غرض کے لیے تھا، یہ فیصلہ خالص اپنے مشن کے لیے تھا اور معاشیات پر ان کے بڑے علمی پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے یہ ایک طرح کی ہجرت تھی۔ اس سفر کا بیک گراؤنڈ وہ خود کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

’’کچھ عرصہ پہلے 1976 میں کئی برس کی کوششوں کے بعد اسلامی معاشیات کی پہلی بین الاقوامی کانفر نس مکہ مکرمہ میں منعقد ہوئی، جس نے ان بہت سے لوگوں کو قریب آنے کا موقع دیا جو انفرادی طور پر اس میدان میں کام کر رہے تھے، وہاں ایک تحقیقاتی مرکز قائم کرنے کی سفارش کی گئی، سیاسی حالات اور مالی ضروریات دونوں کے پیش نظر اس مرکز کا ہندوستان میں بلکہ پاکستان میں یا کسی اور جگہ قائم ہونا بھی ممکن نہ تھا۔ جامعہ ملک عبدالعزیز میں مرکز کا قیام طے ہوا۔ ہمیں اس ملک میں رہ کر یہ کام کرنے کی نزاکتوں کا احساس تھا اور ہے۔ مگر کام جس مرحلہ میں ہے اور اس وقت تھا اس کے پیش نظر یہاں سے کام کرنے کے مصالح کا پہلو غالب تھا اور اب بھی ہے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ کام کے لیے ان افراد میں سے چند کا یہاں ہونا ضروری تھا جو اس کا واضح تصور رکھتے تھے اور عرصہ دراز سے اس کا تجربہ رکھتے تھے۔ چنانچہ شروع ہی سے مجھ سے اصرار کیا گیا۔ فورا بعض وجوہ سے میرا آنا ممکن نہ ہوا، چنانچہ اوائل 1977 میں میں نے برادرم فضل الرحمن فریدی کے آنے کی تجویز پیش کی جو بعض وجوہ سے سال بھر بعد عملی شکل اختیار کر سکی، پھر آخر 1978 میں یہاں بغیر میری درخواست کے تقرر نامہ موصول ہوا، اور اصرار کیا گیا کہ میں آجاؤں اور میں نے یہاں آنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ (اسلام، معاشیات اور ادب، صفحہ 319)

چنانچہ 1978 میں آپ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی سے بحیثیت پروفیسر وابستہ ہوگئے۔ یہاں آپ تقریباً بائیس سال تک مقیم رہے، اور 2000 تک آپ وہاں تدریس اور تحقیق کا کام انجام دیتے رہے۔

2001 میں آپ کیلیفورنیا یونیورسٹی کے سینٹر فار نیئر ایسٹرن اسٹڈیز سے وابستہ ہوگئے، 2002 اور 2003 میں آپ اسلامک ڈیولپمنٹ بینک جدہ کے اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ سے وزیٹنگ اسکالر کے طور پر وابستہ رہے۔

2006 کے اگست اور ستمبر میں آپ نے انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملیشیا میں متعدد توسیعی لکچر دیے۔

2010 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل نے آپ کو ڈپارٹمنٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے پروفیسر ایمریٹس بنانے کا فیصلہ کیا۔

یہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم کے تعلیمی وتدریسی سفر کی ایک ہلکی سی جھلک تھی۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم پر یہ اعتراض شدت سے کیا جاتا تھا کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر بیرون ملک کیوں منتقل ہوگئے، جبکہ ہندوستان کی اسلامی تحریک اور یہاں کے اکیڈمیا کو ان کی زیادہ ضرورت تھی۔ اس سلسلہ میں ایک بہت ہی دلچسپ خط وکتابت جناب جاوید اقبال صاحب (سابق منیجر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی) اور ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے درمیان ہوئی، گفتگو کے کچھ اہم اقتباسات یہاں پیش کیے جارہے ہیں۔ جاوید اقبال صاحب مارچ 1983 میں اپنے ایک خط میں نجات اللہ صدیقی صاحب کو ان کی تحریروں اور جماعت اسلامی ہند کے افراد کے درمیان ان کی حیثیت اور مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بہرحال، ایک زمانہ وہ تھا کہ آپ اپنے ملک میں مادہ پرست اور لادینی سیاست کی قیادت کو چوٹی سے پکڑ زمین پر پٹخ دینا چاہتے تھے، اب وہ وقت بھی آیا جبکہ ملک وملت کو آپ کی شدید ضرورت تھی، تب آپ نے ترک وطن کا فیصلہ کرلیا، چاہے عارضی ہی سہی۔‘‘ (حوالہ سابق: 316)

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی خوبی تھی کہ وہ ہر بات کا بہت سنجیدگی سے اور بہت معقول انداز سے جواب دینے کی کوشش کرتے تھے، جاوید اقبال صاحب کے خط کا جواب بھی انہوں نے بہت ہی خوب صورت انداز میں دیا ہے، یہ پورا جواب پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے، ذیل میں اس کے کچھ اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں:

’’جاوید اقبال صاحب بات یہ ہے کہ جس انقلاب کے ہم خواہاں ہیں اس کے لیے بہت سے میدانوں میں مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ شروع کے دور میں ایک ضروری کام انقلابی جوش پیدا کرنا تھا، لیکن آگے صرف جوش سے کام نہیں چلتا، اس جوش کو قابو میں لا کر مسلسل محنت کی شکل دینے کی ضرورت ہے، انقلاب کے لیے در کار بہت سے کاموں کی نشاندہی عصر حاضر میں تحریک اسلامی کی تجدید کرنے والوں نے بالخصوص مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اچھی طرح کی ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ وقت نکال کر ذیل کی دو کتابوں کو دوبارہ دیکھ لیں:

(۱) نشان راہ (جو الگ سے بھی چھپا ہے اور تنقیحات میں بھی شامل ہے)

(۲) تعلیمات بالخصوص مقالہ ’’نیا نظام تعلیم‘‘۔

ان تحریروں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے ایک فکری انقلاب ناگزیر ہے۔ اس فکری انقلاب کے لیے دو کاموں کی ضرورت ہے۔ اول یہ کہ ہر میدان علم کی نسبت سے قرآن و سنت کی روشنی میں بنیادی نکات متعین کر کے ان علوم کی اسلامی تشکیل نو عمل میں لائی جائے۔ دوم یہ کہ مغرب کی مادہ پرست تہذیب نے ان علوم کی جو تشکیل کر رکھی ہے اس کو علمی تنقید کر کے بے بنیاد، غلط اور انسانیت کے لیے مضر ہونا ثابت کر دیا جائے۔‘‘ (حوالہ سابق: 317-318)

آگے اس خط میں بہت ہی اختصار کے ساتھ نجات اللہ صدیقی مرحوم نے اپنی پوری زندگی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے، اس میں اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیوں چلے گئے تھے، پھر وہاں تعلیم ادھوری چھوڑ کر ثانوی درسگاہ کیوں چلے آئے تھے اور پھر ثانوی درسگاہ سے واپس یونیورسٹی کی دنیا میں کیوں چلے گئے، لکھتے ہیں:

’’میں نے اور میری طرح بعض اور دوستوں نے ان تحریروں سے یہ سبق سیکھا ہے کہ تحریک کی خدمت کے لیے ایک میدان علم چن لیں اور اس کے ذریعہ مذکورہ بالا دونوں کام انجام دے کر اسلامی تحریک کی خدمت اور اسلامی انقلاب کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے اپنی زندگی لگادیں۔ میں نے یہ فیصلہ اپنی عمر کے اٹھارہویں انیسویں سال میں (1950-1949) بلکہ اس سے کچھ پہلے ہی کر لیا تھا۔ ہمارے لیے یہ ممکن بھی تھا اور موزوں بھی کیونکہ ہم طالب علم تھے (جو رفقاء جماعت اس وقت عمر کے چالیسویں سال میں تھے، ظاہر ہے کہ ان کے لیے ایسا فیصلہ نہ ممکن تھا، نہ موزوں ہوتا)، میں نے انجینئرنگ کی لائن کی تعلیم چھوڑی، جس کے لیے انٹرمیڈیٹ سا ئنس کیا تھا اور مسلم یونیورسٹی میں عربی اور اکنامکس کے ساتھ بی اے میں داخلہ لیا۔ پھر یہ تعلیم ناقص نظر آئی تو جنوری 1950 میں رام پور منتقل ہوگیا۔ جہاں ثانوی درس گاہ جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی۔ اس سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ سرائے میر پھر کچھ عرصہ علی گڑھ میں مزید مطالعہ وتحقیق کا سلسلہ رہا۔ اس مرحلہ پر 1956 میں یہ واضح ہو گیا کہ دور جدید میں علمی و تحقیقی کام، وہ بھی ایسا کام جو قدیم جدید کو جامع ہو یونیورسٹی میں رہ کر ہی کیا جا سکتا ہے، ہم خوداتنے وسائل نہیں اکٹھا کر سکتے۔‘‘ (حوالہ سابق: 318)

یہ خط بہت طویل ہے، لیکن اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا بڑا حصہ یہاں درج کیا جارہا ہے، یہ خط نجات اللہ صدیقی کی کہانی خود ان کی اپنی زبانی ہے، میرے خیال سے یہ خط نجات اللہ صدیقی کی زندگی کو سمجھنے والوں کے لیے ایک اہم ترین دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے، آگے لکھتے ہیں:

’’جو لوگ مجھے قریب سے جانتے اور دیکھتے رہے ہیں وہ گواہی دیں گے کہ ہر مرحلہ میں میرے لیے اصل کام اسلامی معاشیات کو سمجھنے سمجھانے، مرتب کرنے اور اس عمل کے لیے چند اور لوگوں کو منظم کرنے کا کام رہا ہے۔ معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے ملازمت اور اس کے تقاضے اس لیے پورے کیے گئے کہ وہی اصل کام کے لیے بنیاد فراہم کرتے تھے اور خدا کا شکر ہے کہ اکنامکس کا استاذ ہونے کی وجہ سے وہ اصل کام میں مددگار بھی ہوتے رہے۔۔۔‘‘ (حوالہ سابق: 319)

سعودی عرب قیام کے دوران ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اسلامی معاشیات کے حوالہ سے کئی طرح کی خدمات انجام دیں، اس سلسلہ میں انہوں نے ایک طرف انٹرنیشنل ایڈووکیسی کا کام انجام دیا، وہیں دوسری طرف عرب دنیا کی یونیورسٹیز میں اسلامی معاشیات کا سبجیکٹ متعارف کرانے کی پوری کوشش کی، بلکہ متعدد یونیورسٹیز میں اسلامی معاشیات کو داخل نصاب کرانے میں انہیں غیرمعمولی کامیابی بھی حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں جس پروجیکٹ پر وہ کام کررہے تھے اس کے اہم ترین پروگرامز کچھ اس طرح تھے:

علم معاشیات اور معاشی نظام کے حوالے سے تقریباً ڈیڑھ سو موضوعات پر مشتمل ایک کتابچہ تیار کیا گیا اور اس کو دنیا بھر کے تین سو علماء اور ماہرین معاشیات کی خدمت میں ارسال کیا گیا کہ اگر وہ ان موضوعات پر تحقیقی مقالہ یا کتاب لکھیں۔ اس پر ان لوگوں کو معقول معاوضہ دینے، اور ان کے کام کی بڑے پیمانے پر اشاعت کی یقین دہانی بھی موجود تھی۔ ان مقالات اور کتابوں پر ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی اور ان کے ساتھی نظرثانی کرتے اور انہیں اکیڈمک معیار کے مطابق ایڈٹ کرکے شائع کرنے کا اہتمام کرتے تھے، اس سے اکیڈمیا میں اسلامی معاشیات کا موضوع نہ صرف متعارف ہوا، بلکہ دنیا بھر میں لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی۔

اس اسکیم سے تقریباً سو سے زائد وہ اسکالرس اور پروفیسرس وابستہ ہوئے جن کا تعلق امریکہ اور دوسرے ممالک کی یونیورسٹیز سے تھا۔

اس کے علاوہ ہر سال دو سال پر کانفرنس اور سیمینار منعقد کرتے، جن میں اسلامی معاشیات کے اہم موضوعات کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔

ان کوششوں کے نتیجہ میں درجنوں یونیورسٹیز میں بی اے اور ایم اے میں اسلامی معاشیات کا سبجیکٹ پڑھایا جانے لگا۔

ریسرچ اسکالرس کی ایک بڑی تعداد نے پی ایچ ڈی کے لیے اسلامی معاشیات سے متعلق کسی نہ کسی موضوع کا انتخاب کیا۔

اسلامی معاشیات سے متعلق اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے باقاعدہ پروگرامز کیے گئے۔

اسلام آباد پاکستان میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کا قیام عمل میں آیا، ملیشیا اور بنگلہ دیش میں بھی اس سلسلہ کی اہم کوششیں ہوئیں۔

اس پروجیکٹ سے متعلق یہ تمام باتیں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم نے خود قلم بند کی ہیں۔

جاوید اقبال صاحب کے نام اس خط کے آخر میں ہندوستان کی تحریک اسلامی سے وابستہ بہت سے افراد کے نامناسب رویے پر نجات اللہ صدیقی مرحوم کا درد چھلک پڑتا ہے، وہ اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے صاف طور پر لکھتے ہیں:

’’میں جو آپ سے’’نشان راہ‘‘ اور ’’نیا نظام تعلیم‘‘ دوبارہ پڑھنے کو کہہ رہا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ مذکورہ بالا کام اور اسلامی انقلاب کے در میان رشتہ سمجھ لیں، جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے دوست یہ خیال کر سکتے ہیں کہ میں یہاں دولت کمانے آیا ہوں۔جولوگ ایسا خیال کریں ان سے میرا کوئی شکوہ نہیں۔ والی اللہ المشتکی

میرا اللہ جانتا ہے کہ میں جس کام کے لیے ثانوی درس گاہ گیا تھا اسی کام کے لیے اس مرحلہ میں سعودی عرب آیا ہوں۔ میں اپنی محدود قوتیں اور اوقات عمر کے فرق کا لحاظ رکھتے ہوئے جس طرح وہاں صرف کرتا تھا اسی طرح یہاں اسی کام کے لیے صرف کررہا ہوں‘‘۔ (حوالہ سابق: 320-321)

(جاری)


توہین مذہب کے ایک مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

مقدمے کے حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ سہراب والا، تحصیل و ضلع میانوالی، میں ایک شخص نصر اللہ خان کے خلاف 30 اگست 2021ء کو ایک ایف آئی آر درج کی گئی جس میں قرار دیا گیا تھا کہ ملزم نے مختلف مواقع پر دعوے کیے ہیں کہ اس نے خواب میں رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کو بھی دیکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کو بھی دیکھا ہے اور اس کے اس طرح کے دعووں سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ (ایف آئی آر نمبر 337 آف 2021ء مورخہ 30 اگست 2021ء) چنانچہ اس کے خلاف مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-اے کے تحت مقدمہ درج کرکے پولیس نے تفتیش شروع کردی۔ ملزم نے اس ایف آئی آر کو کالعدم کرنے اور مقدمہ ختم کرنے کےلیے ہائی کورٹ میں رٹ درخواست دائر کردی جس پر لاہور ہائی کورٹ کے یک رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کے بعد یہ درخواست منظور کرکے اس کے خلاف مقدمہ ختم کرنے کا حکم دیا ہے (رٹ درخواست نمبر 60241 آف 2021ء، نصر اللہ بنام ایس ایچ او ، تھانہ صد، میانوالی)۔

سیشن کی عدالت کے بجاے ہائی کورٹ کیوں؟

آگے بڑھنے سے قبل اس سوال کا جواب ضروری ہے کہ ملزم نے عام طریقہ اختیار کرنے کے بجاے رٹ درخواست کا راستہ کیوں چنا؟ عام طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے خلاف مقدمے میں سیشن کی عدالت میں اپنا دفاع کرتا اور ایسی صورت میں استغاثہ پر لازم ہوتا کہ وہ اس کے خلاف جرم ثابت کرے، اور جرم ثابت نہ کرسکنے کی صورت میں سیشن کی عدالت اسے بری کردیتی۔ تاہم اس نے سیشن کی عدالت میں مقدمہ لڑنے اور اپنا دفاع کرنے کے بجاے ہائی کورٹ کا رخ کیا اور براہِ راست وہاں درخواست دائر کرکے ایف آئی آر ہی ختم کرنے کی استدعا کردی۔

جہاں تک مقدمہ ختم کرنے کےلیے ہائی کورٹ میں رٹ درخواست کا تعلق ہے، استثنائی حالات میں یہ درخواست دائر کی جاسکتی ہے اور ہائی کورٹ مطمئن ہو، تو وہ استثنائی حالات میں مقدمہ ختم کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے، قبل اس کے کہ سیشن کی عدالت فیصلہ سنادے  اور پھر اپیل ہائی کورٹ میں آجائے، لیکن اس سلسلے میں یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ ہائی کورٹ میں رٹ درخواست کی سماعت اور فوجداری عدالت میں فوجداری مقدمے کی سماعت میں فرق ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ اس صورت میں ٹرائل کورٹ کے طور پر مقدمہ نہیں دیکھتی، بلکہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ ملزم کے وہ بنیادی حقوق تو متاثر نہیں ہورہے جن کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے۔ موجودہ مقدمے کے تناظر میں دیکھیں، تو ہائی کورٹ نے صرف یہ دیکھنا تھا کہ منصفانہ سماعت (fair trial) کا حق تو متاثر نہیں ہورہا؟ یعنی مثلاً کیا اسے دفاع کا مناسب موقع فراہم کیا جارہا ہے یا نہیں؟ کیا اس کے دفاع کی راہ میں کوئی رکاوٹ ڈالی گئی ہے؟ کیا اسے اپنے خلاف ثبوت اور شواہد دیکھنے سے روکا گیا ہے؟ کیا اسے گواہوں پر جرح سے روکا گیا ہے؟ کیا اسے اپنی مرضی کا وکیل کرنے سے محروم رکھا گیا ہے؟ وغیرہ۔ باقی رہا یہ معاملہ کہ اس نے واقعتاًجرم کا ارتکاب کیا ہے یا نہیں، یا اس کے خلاف ثبوت کس نوعیت کے ہیں، گواہ قابلِ اعتماد ہیں یا نہیں؟ وغیرہ، تو یہ امور ہائی کورٹ اس رٹ درخواست کی سماعت کے موقع پر نہیں دیکھ سکتی تھی، نہ ہی ان امور پر وہ کوئی فیصلہ دے سکتی تھی۔ یہ امور تو اس کے سامنے تب آتے، جب سیشن کی عدالت ملزم کے خلاف فیصلہ کرکے اسے سزا سنادیتی اور پھر وہ اپیل میں ہائی کورٹ میں آتا۔ بدقسمتی سے موجودہ فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے رٹ درخواست اور اپیل میں فرق کو نظر انداز کرکے ان امور پر بھی بحث کی ہے اور ان پر حتمی راے دی ہے جو اس مرحلے پر بحث میں نہیں آسکتے تھے۔

کہیں قانون کو حقوق کی خلاف ورزی کےلیے تو استعمال نہیں کیا جارہا؟

یہ امور بحث میں کیوں آگئے اور جسٹس شیخ نے ان پر حتمی راے دینی کیوں ضروری سمجھی؟ اس سوال کا جواب جسٹس شیخ نے فقرہ نمبر 15 اور 16 میں دیا ہے جو کچھ یوں ہے کہ اگر مقدمہ دائر کرکے قانونی کارروائی شروع کرنے کے نتیجے میں ایسی صورت بن جائے کہ قانونی طریقِ کار کا غلط استعمال (abuse of the process of law) کرکے ملزم کے ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہو جن کے تحفظ کی ضمانت آئین میں دی گئی ہے، تو پھر ہائی کورٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سرے سے مقدمہ ہی ختم کردے تاکہ ملزم کے بنیادی حقوق محفوظ ہوجائیں۔ موجودہ مقدمے میں ایسا کیا تھا، جس کی بنا پر جسٹس شیخ اس نتیجے پر پہنچے، اس پر آگے بحث آرہی ہے، لیکن اس وقت اس بات پر توجہ کریں کہ اس فیصلے میں میں ہائی کورٹ نے ملزم کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ ختم کرنے کا حکم تو دے دیا، لیکن اس کے خلاف ایف آئی آر درج کروانے والے کے خلاف جھوٹا اور بے بنیاد مقدمہ دائر کرنے پر قانونی کارروائی شروع کرنے کا حکم نہیں دیا!  سوال یہ ہے کہ جب آپ نے یہ نتیجہ نکالا کہ ملزم کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے دراصل قانونی طریقِ کار کا غلط استعمال کررہے ہیں، تو ان کے خلاف کارروائی کا حکم آپ نے کیوں نہیں دیا؟ کیا آپ کے خیال میں ملزم کے بنیادی حقوق کے تحفظ کےلیے بس اتنا ہی کافی تھا کہ اس کے خلاف دائر مقدمہ ختم کردیا جائے اور اس کے بعد اس کی مرضی کہ وہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے یا نہ کرنے جنھوں نے اس کے خلاف یہ مقدمہ دائر کیا تھا؟ یہ ہمارے عدالتی نظام کی وہ خصوصیت ہے جس کی بنا پر نہ صرف یہ کہ انصاف نہیں ہوپاتا بلکہ مقدمات کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس پہلو پر مزید بحث کو کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں۔

اب آئیے اس سوال پر کہ ہائی کورٹ اس نتیجے پر کیسے پہنچی کہ موجودہ مقدمے میں قانونی طریقِ کار کا غلط استعمال ہورہا ہے؟ درخواست گزار (جو فوجداری مقدمے میں توہینِ مذہب کا ملزم تھا) کے وکیل کی بنیادی دلیل یہ تھی کہ ایف آئی آر میں یہ تو کہا گیا ہے کہ ملزم نے اللہ تعالیٰ کو اور رسول اللہ ﷺ کے بعض صحابہ کو خواب میں دیکھنے  کا دعوی کیا ہے اور یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ ہوا میں اڑتا ہے، لیکن ان امور سے وہ جرم وجود میں نہیں ہوتا جس کا اس پر الزام ہے کیونکہ اس کےلیے ایسے الفاظ یا افعال کا ہونا ضروری ہے جو توہین آمیز ہوں، اور ایف آئی آر میں ایسے الفاظ یا افعال کا ذکر ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف سرکار کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کا موقف یہ تھا کہ ملزم نے قصداً اور بدنیتی کے ساتھ ایسی کہانیاں گھڑی ہیں جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں اور یہ کہ اس کے خلاف گواہوں کے بیانات بھی باضابطہ طور پر ریکارڈ کیے جاچکے ہیں۔ ان امور کی بنا پر اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کی راے یہ تھی کہ ملزم کے خلاف کافی ثبوت موجود ہیں اور مقدمہ ختم نہیں کرنا چاہیے بلکہ سیشن کی عدالت کو فیصلہ کرنے دینا چاہیے۔

دفعہ 295-اے کی تعبیر و تشریح

فریقین کے وکیلوں کے دلائل مختصر ذکر کرنے کے بعد جسٹس شیخ نے اپنا تجزیہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کی تاریخ سے شروع کیا اور بتایا کہ 1860ء میں انگریزوں نے مجموعۂ تعزیراتِ ہند کے نام سے جو قانون نافذ کیا، اس کے باب پندرہ میں توہینِ مذہب کی مختلف صورتوں کے متعلق دفعات 295 تا 298 شامل کی گئی تھیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ان دفعات کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوستان کے کثیر المذاہب معاشرے میں مذہبی بنیادوں پر دنگا فساد کی روک تھام ہو۔ چنانچہ ان دفعات کے ساتھ بالعموم دفعہ 153-اے بھی متعلق ہوجاتی تھی۔ تاہم یہ انتظام اس وقت ناکافی ثابت ہوا جب راج پال کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی پر مبنی کتاب کے متعلق لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اس پر دفعہ 153-اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔ چنانچہ اس موقع پر توہینِ مذہب کے باب میں دفعہ 295-اے کا اضافہ کیا گیا جس میں قرار دیا گیا کہ اگر کسی نے قصداً اور بدنیتی کے ساتھ اپنے الفاظ یا افعال سے کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا، تو اس کو اس دفعہ کے تحت سزا دی جائے گی۔

اس کے بعد اس دفعہ کی تعبیر و تشریح کےلیے جسٹس شیخ نے بھارتی مصنفین، ایک انگریز مصنف اور 1950ء اور 1960ء کی دہائی سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلوں سے طویل اقتباسات پیش کیے ہیں اور نتیجہ یہ نکالا ہے کہ موجودہ مقدمے کے حقائق پر دفعہ 295-اے کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ اس مقدمے میں ملزم کے خلاف ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ اس نے خواب وغیرہ کے جو دعوے کیے تھے وہ اس نے قصداً اور بدنیتی کے ساتھ کسی کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کےلیے کیے تھے۔ یہ بات انتہائی حیران کن ہے کیونکہ ابھی تو سیشن کی عدالت میں مقدمہ جاری تھا، استغاثہ کے دو گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے جاچکے تھے اور انھوں نے دیگر امور کے علاوہ مذہبی جذبات مجروح کرنے کی بات خصوصاً کی تھی۔ ایسے میں سوال صرف یہ باقی رہتا تھا کہ کیا ملزم نے مذہبی جذبات قصداً مجروح کیے اور یہ کہ کیا اس نے ایسا بدنیتی سے کیا؟ قانونی اصطلاح میں کیا  mens rea یا قصد مجرمانہ کا عنصر موجود تھا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب مقدمے کی سماعت پوری ہونے سے قبل صرف ایف آئی آر دیکھ کر کیسے دیا جاسکتا تھا؟

مقدمہ ختم کرنے کا حکم کیوں دیا گیا؟

ایک لمحے کےلیے مان لیجیے کہ واقعتاً اس عنصر کی موجودگی کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا اور اس بنا پر جسٹس شیخ نے نتیجہ نکالا کہ دفعہ 295-اے کا اطلاق نہیں ہوتا اور مقدمہ ختم کردینا چاہیے، تو فیصلہ یہیں پر ختم کردینا چاہیے تھا، لیکن جسٹس شیخ نے آگے بڑھ کر ان امور پر بھی تفصیلی راے دی جس کی سرے سے ضرورت ہی نہیں تھی۔ مثلاً انھوں نے دو صفحات اس بات کی توضیح میں لکھے کہ خواب ہوتے کیا ہیں، انسان خواب کیوں دیکھتے ہیں، خواب کا کوئی مطلب بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ انھوں نے اس ضمن میں سگمنڈ فرائڈ، کارل یونگ، ایلن ہوبسن اور رابرٹ میکالےکی آرا ذکر کی ہیں اور آخر میں نتیجہ یہ نکالا ہے کہ کسی شخص پر اس بنا پر مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے خواب میں کیا دیکھا ہے! سوال یہ ہے کہ کیا جسٹس صاحب بھول گئے تھے کہ ملزم پر مقدمہ اس وجہ سے دائر نہیں کیا گیا تھا کہ اس نے خواب میں کیا دیکھا ہے، بلکہ اس بنا پر قائم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے خواب دعووں کی صورت میں بیان کرکے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرتا ہے؟

بہرحال، مقدمہ ختم کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہو کہ ملزم کےلیے mens rea  کا عنصر ثابت نہیں کیا جاسکا یا یہ کہ خواب میں جو کچھ بھی دیکھا جائے اس کی بنا پر کسی پر مقدمہ دائر نہیں کیا جاسکتا، یہ دونوں بنیادیں نہایت کمزور ہیں۔ پہلی بنیاد اس وجہ سے کمزور ہے کہ اس کا فیصلہ تو ثبوت اور شواہد دیکھنے کے بعد سیشن کی عدالت ہی کرسکتی تھی یا پھر اس کے خلاف اپیل ہائی کورٹ میں آتی، تو اس وقت ہائی کورٹ کرلیتی؛ موجودہ مقدمے میں جب ابھی ثبوت اور شواہد ہائی کورٹ نے دیکھے ہی نہیں تو وہ اس بنیاد پر فیصلہ کیسے کرسکتی تھی؟ دوسری بنیاد اس کےلیے کمزور ہے کہ ملزم پر مقدمہ اس بنا پر نہیں دائر کیا گیا تھا کہ اس نے خواب میں کیا کچھ دیکھا ہے، بلکہ اس بنا پر قائم کیا گیا تھا کہ وہ اپنے خوابوں کو دعووں کی صورت میں پیش کرکے دوسروں کے مذہبی جذبات مجروح کرتا ہے۔

پھر بھی اگر ان دو بنیادوں پر ہائی کورٹ صرف مقدمہ خارج کرنے کے حکم تک محدود رہتی، تو یہ کئی دیگر کمزور فیصلوں کی طرح ایک عام سا کمزور فیصلہ ہوتا، لیکن جسٹس شیخ نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا، بلکہ آگے بڑھ کر ایک اور مسئلے پر بھی راے دی ہے اور اس راے کو بنیاد بنا کر حکم بھی جاری کیا ہے۔ اس پر بحث ضروری ہے۔

مجرم یا نفسیاتی مریض؟

جسٹس شیخ نے ایک اور مصنف کی راے پر انحصار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مختلف نفسیاتی امراض کا شخص بعض اوقات گستاخانہ الفاظ بولتا ہے یا ایسے افعال کا ارتکاب کرتا ہے جنھیں توہینِ مذہب کہا جاسکتا ہے۔ ایسے مریضوں کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ انھیں سزا دینے کی کوشش کی جائے۔ اس کے بعد ایک دفعہ پھر انھوں نے منصفانہ سماعت کے بنیادی حق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ منصفانہ سماعت کے حق میں پولیس کی جانب سے مناسب تفتیش بھی شامل ہے۔ انھوں نے مزید لکھا ہے کہ تفتیش غیر جانب دارانہ اور غیر متعصبانہ ہونی چاہیے۔ ان امور کےلیے انھوں نے ایک دفعہ پھر بھارتی عدالت کے فیصلے پر انحصار کیا ہے حالانکہ ہمارے ہاں اس موضوع پر عدالتی نظائر کی کمی نہیں ہے۔ بہرحال ان امور پر بنا کرتے ہوئے انھوں نے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ پاکستان کے قانون کی رو سے ذہنی امراض کے شکار افراد کو تحفظ حاصل ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے خصوصاً دو قوانین کا حوالہ دیا ہے۔ ایک مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 84 اور دوسری ضابطۂ فوجداری کی دفعہ 464۔ انھوں نے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی قرار دیا  کہ اگر ملزم یا اس کے وکیل کی جانب سے دماغی صحت کا عذر نہ بھی پیش کیا جائے، تب بھی عدالت کو خود اس بات کا نوٹس لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ انھوں نے عالمی تنظیمِ صحت کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستان میں 4 فی صد یعنی تقریباً 2 کروڑ 40 لاکھ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں۔ ان ساری باتوں سے انھوں نے نتیجہ یہ نکالا ہے کہ جب بھی پولیس کسی جرم کی تفتیش کرے، اور بالخصوص جب وہ توہینِ مذہب کے باب کے تحت کسی جرم کی تفتیش کرے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ پہلے ملزم کا دماغی معائنہ کروا کر متعین کرے کہ اس کی ذہنی حالت درست ہے یا نہیں۔

فاضل جسٹس صاحب کے اس حکم پر میرے دو سوالات ہیں۔ ایک یہ کہ جب ان کے سامنے مقدمے میں درخواست گزار نے سرے سے ذہنی مریض ہونے کا عذر پیش ہی نہیں کیا، نہ ہی اس کا ثبوت پیش کیا، نہ ہی اس دعوے اور ثبوت کے خلاف دوسرے فریق کے دلائل یا شواہد سنے گئے، تو وہ اس سوال پر فیصلہ کرکے حکم کیسے دے سکتے تھے؟ آخر کیوں ہمارے بعض فاضل جج صاحبان موقع نکال کر ان سوالات کو اپنے فیصلے میں شامل کرلیتے ہیں جو مقدمے میں ہوتے ہی نہیں ہیں؟ کیا صرف اس لیے کہ وہ سوالات ان کی اپنی کسی پرانی ذہنی الجھن سے متعلق ہوتے ہیں اور اب انھوں نے موقع نکال کر اس الجھن پر اپنی راے حکم کی صورت میں دوسروں پر لازم کرنا ضروری سمجھا؟ جج صاحبان کا کوئی بھی مذہبی یا لبرل نظریہ ہوسکتا ہے لیکن مقدمے کا فیصلہ کرتے ہوئے انھیں انھی قانونی سوالات تک محدود رہنا پڑے گا جو مقدمے میں ان کے سامنے آئے اور جن پر فریقین کی جانب سے دلائل اور شواہد پیش کیے گئے۔ اپنا نظریاتی ایجنڈا آگے بڑھانے کےلیے اپنے منصب کا استعمال جج صاحبان کےلیے مناسب نہیں ہے۔

دوسرا سوال اس سے زیادہ اہم ہے کہ ذہنی بیماری کا عذر ہو، ذاتی دفاع کا عذر ہو، اکراہ اور زبردستی کا عذر ہو، یا کوئی اور قانونی عذر، یہ سارے عذر استثنا کی حیثیت رکھتے ہیں اور استثنا کا بارِ ثبوت اسی پر ہوتا ہے جو قانون سے اپنے لیے استثنا کا دعوی کرتا ہے۔ مثلاً الف نے ب کو قتل کردیا لیکن الف کا کہنا یہ ہے کہ اس نے یہ قتل ذاتی دفاع میں کیا ہے، تو یہ ثابت کرنا اس کی ذمہ داری ہوگی اور اگر وہ یہ ثابت نہیں کرسکا، تو اسے قتل کی سزا دی جائے گی۔ یقیناً “ملزم قانون کا محبوب فرزند ہوتا ہے”، اور اس وجہ سے الف پر ب کا قتل ثابت کرنا استغاثہ کی ذمہ داری ہوگی، لیکن جرم ثابت ہوجائے (خواہ استغاثہ نے ثبوت پیش کیا ہو یا ملزم نے خود ہی آزادانہ اقرار کیا ہو)، تو اس کے بعد ملزم کی حیثیت مجرم کی ہوجاتی ہے اور اگر اس کا دعوی ہے کہ جرم کے باوجود اسے سزا سے استثنا حاصل ہے، تو اس استثنا کا ثابت کرنا اسی کی ذمہ داری ہوگی۔ فاضل جسٹس صاحب نے مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 84 کا حوالہ تو دیا لیکن پتہ نہیں کیوں ان کی توجہ اسے طرف نہیں گئی کہ یہ دفعہ جس باب میں ہے اس کا عنوان ہے: “عمومی استثناءات” (general exceptions)! ان کو عمومی استثناءات اس لیے کہتے ہیں کہ یہ تمام جرائم کی سزا سے بچنے کےلیے پیش کیے جاسکتے ہیں لیکن ہیں یہ استثناءات ہی۔ (بعض جرائم کےلیے مخصوص استثناءات بھی موجود ہیں، جیسے باپ نے بیٹے کو قتل کیا، تو باپ سے قصاص نہیں لیا جاسکتا۔)

فیصلے میں کیا نہیں ہے؟

یہاں تک تو ان امور پر بحث ہوئی، جو اس فیصلے میں مذکور ہیں۔ اس کے بعد آخر میں ہم ان امور کا ذکر کریں گے جو اس فیصلے میں مذکور نہیں ہیں حالانکہ ان کا ذکر بہت ضروری تھا اور وہ موجود ہوتے، تو شاید فیصلہ مختلف ہوتا، یا کم از کم اس میں وہ کمزوریاں نہ ہوتیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا۔

جسٹس شیخ نے، جیسا کہ ذکر ہوا، اس فیصلے میں پاکستان سے کیا دیگر ممالک سے بھی عدالتی نظائر پیش کیے، قانونی دلائل کے علاوہ سگمنڈ فرائڈ، کارل یونگ اور دیگر ماہرینِ نفسیات کی آرا بھی ذکر کیں، خوابوں کے تجزیے بھی کیے، سب کچھ کیا، لیکن جس بات کی طرف ان کا دھیان نہیں گیا، وہ یہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان میں ایک عدالت کے جج ہیں، ایک ایسے ملک میں جس کا آئین اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے اعلان سے شروع ہوتا ہے، جس کے آئین میں تصریح کی گئی ہے کہ یہاں کوئی قانون اسلامی شریعت سے متصادم نہیں بنایا جائے گا اور تمام موجودہ قوانین کو اسلامی شریعت سے ہم آہنگ بنایا جائے گا، اور جس کے قانونی نظام میں صراحت سے کہا گیا ہے کہ عدالتیں قانون کی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے اسلامی شریعت کے اصولوں سے ہم آہنگ تعبیر و تشریح اپنائیں گی۔ عام قوانین اور عام مقدمات میں بھی یہ ذمہ داری عدالتوں پر ہے(دیکھیے، قانونِ نفاذِ شریعت 1991ء کی دفعہ 4)، لیکن بالخصوص یہاں تو مقدمہ ہی توہینِ مذہب کا تھا۔ کیا جسٹس صاحب کو قانون کی تعبیر کرتے ہوئے “قرآن و سنت میں مذکور احکامِ اسلام” (دیکھیے، آئین کی دفعہ 227) کی طرف رجوع کرکے یہ دیکھنا نہیں چاہیے تھا کہ کیا ان احکام کی رو سے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا دعوی کرنا یا صحابۂ کرام کو دیکھنے کا دعوی کرنا اور پھر لوگوں میں اس بیان کرنا قابلِ سزا جرم بنتا ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو کن صورتوں میں، اور اگر نہیں، تو کیوں نہیں؟ اسی طرح کیا جسٹس صاحب کےلیے ضروری نہیں تھا کہ وہ سگمنڈ فرائڈ اور کارل یونگ کے تجزیے پیش کرنے سے قبل یہ دیکھتے کہ قرآن و حدیث میں خوابوں کی کتنی قسمیں ذکر ہوئی ہیں؟ خوابوں کے متعلق آیات و احادیث کی تشریح مسلمان اہلِ علم مفسرین، محدثین، فقہاء، اصولیین اور متکلمین نے کیسے کی ہے؟ خواب اور الہام کا کیا تعلق ہے؟ سچے خواب کیا ہوتے ہیں؟ ان کی تعبیر کیسے پیش کی جاتی ہے؟ ان امور پر بحث کیے بغیر کیسے آپ یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ جب مسلمانوں کے ہاں کوئی خواب میں اللہ تعالیٰ کو یا صحابۂ کرام کو دیکھنے کا دعوی کرتا ہے، اور یہ دعوی وہ لوگوں کے سامنے کرتا ہے، تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ خوابوں کی حقیقت کے متعلق جدید دور کے مباحث کی طرف توجہ نہ کریں، لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے ملک میں اور مسلمانوں کے سماج میں کسی عمل کا مفہوم متعین کرنے کےلیے مسلمانوں کے علوم کو ہمارے جج صاحبان درخورِ اعتنا کیوں نہیں سمجھتے، بالخصوص جبکہ اسلامی اصولوں کی روشنی میں قانون کی تعبیر ان کی آئینی اور قانونی ذمہ داری بھی ہے؟


انیسویں صدی میں جنوبی ایشیا میں مذہبی شناختوں کی تشکیل (۱۲)

ڈاکٹر شیر علی ترین

اردو ترجمہ: محمد جان اخونزادہ

(ڈاکٹر شیر علی ترین کی کتاب  Defending Muhammad in Modernity کا ساتواں باب)


ساتواں باب: قانون، حاکمیت اور شرعی عمل کی حدود


حد اور تجاوز کا باہم دگر انحصار: بدعت کی پہچان  کے  اصول

مسلم فکر میں بدعت (جس کا لفظی معنی نئی چیز ہے) بیک وقت شدید متنازع، مبہم اور لچک دار اصطلاحات میں سے ہے۔ بدعت بیک وقت دین/روایت کی حدود اور ہمیشہ ان حدود سے تجاوز کے منڈلاتے خطرے اور امکان کا اظہار ہے۔ حدود اور تجاوز، جیسا کہ مشل فوکو نے تاکید کی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے اور ایک دوسرے کے لیے تشکیلی عناصر ہیں؛ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے امکان، اور بقولِ کَسے، اِستحالہ (impossibility) کے لیے شرط ہے۔ اس نے اسے عمدگی سے یوں بیان کیا ہے: "حد اور تجاوز ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں، چاہے ان کی کمیت جو بھی ہو، کہ کوئی حد موجود ہو نہیں سکتی اگر وہ ناقابل تجاوز ہو، اور  تجاوز بے معنی ہوگا اگر یہ ایک ایسی حد کو پار کرے جو اوہام اور سایوں سے مرکب ہو۔ لیکن کیا اس عمل سے باہر حد کی اپنی ایک زندگی ہو سکتی ہے، جو پُروقار طریقے سے اس کے اندر سے گزرتا ہے، اور اس کی نفی کرتا ہے؟1

یہاں فوکو کے الفاظ ان فکری مضمرات کا احاطہ کرتے ہیں جو اسلام میں تجاوز کی علامت کی حیثیت سے بدعت کے تصور پر سایہ فگن ہیں۔ بدعت کے ارتکاب کا معنی سنتِ نبوی کی حدود سے تجاوز ہے، لیکن خطرے یا تجاوز کا وقوع ہی ان حدود کی تشکیل کرتا ہے۔ سنت وبدعت، دین کی حدود اور ان حدود سے تجاوز، بہت گہرائی میں  باہم دگر مربوط اور ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔میری ڈگلس (Mary Douglas) کی کلاسیکی تصنیف Purity and Danger میں ایک اہم استدلال سے  مدد لیتے ہوئے کہ ناپاک اور پاک باہم دگر مربوط ہیں، کہا جا سکتا ہے کہ سنت وبدعت لازم وملزوم ہیں۔

ڈگلس  نے پوری فصاحت سے اسے ایسے الفاظ میں  بیان کیا ہے جو نمایاں انداز میں اس فکری منہج کے مشابہ ہیں  جو سنت وبدعت کے درمیان تعلق کو بنیاد فراہم کرتا ہے: "اگر ناپاک ہونا کوئی نامناسب چیز ہے، تو ہمیں سلیقے سے اس کے قریب جانا چاہیے۔ ناپاکی یا گندگی وہ ہے جسے کسی نمونے میں اس لیے شامل نہیں کیا جا سکتا تاکہ (اس کی پاکی) اپنی جگہ برقرار رہے"2۔

بدعت کا تصور اصلاً دو مشہور احادیث سے ماخوذ ہے: "ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم کی طرف لے جانے والی ہے"، اور "جو کوئی ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسی چیز ایجاد کرے، جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے"3۔ تاہم بدعت کے مفہوم میں جو تجاوز ہے، اسے معاصر ایجابی قانون (positive law) میں خلاف ورزی (violation) کے معنی کے ساتھ بمشکل ہی جوڑا جا سکتا ہے۔ کسی پر بدعت کے ارتکاب کا حکم لگانا اس پر یہ الزام لگانا ہے کہ اس نے سنتِ نبوی کی تخفیف کی، سلف صالحین کے راستے کی خلاف ورزی کی، اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ اس نے آقا اور غلام کے درمیان موجود اس بنیادی عہد کو توڑ دیا، جو ایک بندے کو خدا سے جوڑتا ہے۔

بدعت بڑے پیمانے پر بین المسالک تضلیل کے لیے ایک اہم اصطلاح ہے، کیوں کہ اس میں وسعت ہونے کے ساتھ ساتھ لچک بھی ہے؛ اس کا اطلاق عبادات، عقائد اور روزمرہ کی عادات واطوار میں مزعومہ تجاوزات پر ہوتا ہے۔

ماریبل فائرو (Maribel Fierro) بدعت پر ماقبل جدید اسلامی دور کی متعدد علمی کتابوں کی ایک موسوعی تحقیق میں یہ بتاتی ہے کہ جن چیزوں پر بدعت کا اطلاق کیا جاتا ہے، ان کا سلسلہ قرآن کی تلاوت کے قابلِ اعتراض طریقوں سے لے کر مسجد کے جائے دخول میں پنکھوں کی تنصیب تک دراز ہے!4 وہ عقائد، اعمال اور اطوار جن پر بدعت کی اصطلاح کا اطلاق ہو سکتا ہے، بہت زیادہ ہیں اور وہ مختلف اصلاحی تحریکوں اور مزاجوں کو محیط ہیں۔ برصغیر کے وہ علما، جن کی بدعت سے متعلق فکر کو زیادہ تر اس حصے میں زیر بحث لایا گیا ہے، وہ ایک طویل المدت علمی روایت کے جانشین تھے، اور اس معمور تصور کی مجموعی علمی اور سماجی تاریخ میں وہ اپنا انفرادی حصہ ڈال رہے تھے۔

بدعت کی اصطلاح سے متعلق ناخوش گوار رمزیت (symbolism) آج بھی قائم ودائم ہے۔ مثلاً اسلام میں بدعت کے اطلاق پر اپنے ایک مضمون میں معاصر مسلمان امریکی دانشور عمر فاروق عبد اللہ لکھتے ہیں: "کسی چیز پر بدعت کے اطلاق میں عموماً سرعت سے کام لیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے نئے خیالات کو دبایا جاتا اور تخلیقی سوچ کو مشکل بنایا جاتا ہے۔ بعض مسلمانوں کے لیے یہ اصطلاح ایک زور آور ہتھوڑا بن گیا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے خیالات کو منواتے اور دوسروں کے خیالات کو مکمل طور پر دباتے ہیں"5۔ جیسا کہ عبد اللہ کی گفتگو سے معلوم ہوتا ہے، اسلام میں تخلیق اور ایجاد اور رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کے مثالی طرز عمل کو برقرار رکھنے کے حکم پر عمل کرنے کے درمیان ایک مخمصہ موجود رہا ہے جو آج بھی اتنا ہی پریشان کن ہے جتنا یہ صدیوں پہلے تھا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی کے تصور میں بدعت کی حدود متعین کرنے کے لیے معیارات کیا ہیں، اور اسی بات کو ذرا وسعت دے کر یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک استدلالی روایت کی حیثیت سے اسلام کی حدود کی معیارات کیا ہیں؟ دراصل یہ سوال کہ کوئی نئی چیز کب بدعت بنتی ہے، اس سوال کے مانند ہے کہ اسلام اور اس کی حدود کی تعیین کس چیز سے ہوتی ہے6۔

اس باب میں، میں ان مناہج کا جائزہ لوں ہوگا  جن کی روشنی میں دیوبندی مکتبِ فکر اور ان سے پہلے شاہ محمد اسماعیل نے اس بنیادی سوال کو موضوع بحث بنایا۔ چونکہ اس مسئلے پر ان علما کے خیالات میں واضح یکسانیت ہے، اس لیے وضاحت کی غرض سے اس باب کا بیشتر حصہ، نہ کہ سارا باب، دیوبند کے ابتدائی دور کے سب سے زیادہ کثیر التصانیف مفکر مولانا اشرف علی تھانوی کے افکار سے بحث کرے گا۔

اپنے پیروکاروں میں حکیم الامت کے لقب سے معروف مولانا اشرف علی تھانوی جدید برصغیر کے مسلمان علما میں سب سے زیادہ بااثر اور وسیع پیمانے پر پڑھے جانے والے عالم ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے۔ انھوں نے تفسیرِ قرآن، علوم حدیث، فقہ واصول فقہ، تصوف اور فلسفے سمیت علوم اسلامیہ کے تقریبا تمام پہلوؤں پر تفصیل سے لکھا۔ مولانا تھانوی بیک وقت ایک کامل فقیہ اور چشتی سلسلے کے ایک نامور صوفی تھے۔ وہ اترپردیش کے قصبے تھانہ بھون میں پیدا ہوئے، اور بیس سال کی عمر میں 1883 میں دیوبند سے فارغ التحصیل ہوئے7۔ ان کی علمی زندگی نہ صرف بانئ دیوبند رشید احمد گنگوہی سے، بلکہ انیسویں صدی کے سلسلۂ چشتیہ کے ممتاز ہندوستانی صوفی حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے بھی متاثر تھی۔

حاجی صاحب رشید احمد گنگوہی، قاسم نانوتوی اور اشرف علی تھانوی سمیت دیوبند کے تمام پیش روؤں کے صوفی شیخ رہے۔ اگر چہ وہ باضابطہ عالم نہیں تھے، لیکن بلا شبہ وہ نوآبادیاتی ہندوستان کے سب سے کرشماتی اور وسیع پیمانے پر مانے جانے صوفی شیخ تھے۔ مولانا تھانوی کی طرح حاجی امداد اللہ کی جنم بھومی بھی تھانہ بھون تھی۔ انھیں مہاجر مکّی کا لقب اس لیے ملا کہ جنگ آزادی 1857 کے بعد ان پر برطانیہ کی طرف سے جنگ میں شرکت کا الزام لگا، جس کی وجہ سے انھوں نے مکہ مکرمہ ہجرت کی۔ حاجی صاحب نے اپنی بقیہ ساری زندگی مکہ مکرمہ میں جلاوطنی کی حالت میں گزاری، جہاں پر مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے ہندوستانی اور غیر ہندوستانی مریدین ان کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوتے رہے۔ مولانا تھانوی 1884 میں حاجی صاحب سے بیعت ہوئے، جب وہ اپنے پہلے حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ گئے تھے۔ حاجی صاحب نے ایک صوفی شیخ کی حیثیت سے مولانا تھانوی کی شخصیت میں تشکیلی کردار ادا کیا۔ نتیجتاً تھانوی نے حاجی صاحب کے سلسلے کو تسلسل اور ترقی دینے میں بنیادی کردار ادا کیا، جیسا کہ ہم اسے آخری باب میں زیادہ تفصیل کے ساتھ دیکھیں گے۔

1883 میں دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا تھانوی نے اترپردیش کے شہر کانپور کے ایک مدرسے جامع العلوم میں 14 سال تک تدریس کی۔ 1897 میں وہ اپنے آبائی قصبے تھانہ بھون واپس لوٹ آئے اور اس خانقاہ کی قیادت سنبھال لی، جو ہندوستان چھوڑنے سے پہلے ان کے شیخ امداد اللہ چلاتے تھے۔ تھانہ بھون میں قیام کے دوران مولانا تھانوی نے بڑی تعداد میں مریدوں کی روحانی تربیت کی، اور ایک کثیر التصانیف اور مقبولِ عام مصنف کی حیثیت سے اپنا لوہا منوایا۔ انھوں نے دیوبندی مسلک سے قریبی تعلق استوار رکھا، اور کئی سالوں تک اس کے سرست کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ مولانا تھانوی کا حلقۂ ارادت پورے ہندوستان میں تھا۔ ان میں سب سے ممتاز ان کے بھتیجے مولانا ظفر احمد عثمانی (م 1974) اور مفتی محمد شفیع (م 1976) تھے، جو 1947 میں تقسیم کے بعد پاکستان کی نمایاں مذہبی شخصیات ابھر کر سامنے آئیں8۔

مولانا تھانوی کے علمی ورثے کا ایک بڑا حصہ بدعت کے موضوع سے خاص ہے9۔ اس تصور سے متعلق ان کی گفتگو متنوع قسم کی تحریری اصناف میں پائی جاتی ہیں، جن میں مقبول اصلاحی تصانیف، فتاوی جات اور وہ ملفوظات شامل ہیں، جو بڑی باریک بینی سے ان کے مریدوں نے مرتب کی ہیں۔ یہ استدلالی ذخائر ایک مذہبی مصلح کی حیثیت سے تھانوی کے سماجی تصورات اور زیادہ عموم کے ساتھ دیوبندی مسلک کے بارے میں بصیرت افروز نکات فراہم کرتے ہیں۔

آئندہ گفتگو میں، میں ان کی فکر کے چند اہم گوشوں کا تجزیہ اس امید سے کرتا ہوں کہ ان مناہج کو قلم بند اور نمایاں کروں جن کے ذریعے علماے دیوبند نے اعتقادات اور احکامِ دینیہ میں بدعت کی حدود کو متصور کیا۔ اگر چہ یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ علماے دیوبند نے متعدد مقبول عام رسموں اور اطوار کی مخالفت کی، لیکن انھوں نے یہ کام کیسے کیا ، یہ سوال مغرب کی علمی حلقوں میں معتد بہ توجہ حاصل نہ کر سکا۔ انھوں نے تعبیر وتشریح کے کن اصولوں کو بروے کار لا کر سنت وبدعت کی حدود کاتعین کیا؟ ان کی نظر میں بدعت کا بنیادی تصور کیا تھا؟ ان کے اخلاقی اصلاح کے تصور میں پائے جانے والے ابہامات کون سے تھے؟ یہ وہ چند سوالات ہیں  جنھیں میں اس باب میں زیر بحث لاؤں گا۔ تاہم ابتداء میں میں چاہتا ہوں کہ اختصار کے ساتھ اس طریق کار کی وضاحت کروں گا جس کی روشنی میں میں سنت وبدعت کو دیکھتا ہوں، تاکہ اسلام میں بدعت کے تصور سے متعلق میرے نظریے کا خلاصہ سامنے آجائے۔

اسلام میں سنت وبدعت کی تصور سازی (Theorization)

سنت (normativity) کی اصطلاح سے میری مراد وہ اعتقادی وابستگیاں اور عملی احکام کے نمونے ہیں، جن کا مطالبہ کسی سماج سے اس لیے کیا جاتا ہے کہ وہ ان کی مدد سے اخلاقی پاکیزگی اور فضائل کا حصول کریں۔ فلسفی کرسٹین کورسگارڈ نے اپنی کتاب Sources of Normativity میں اس تصور کو کچھ یوں بیان کرتی ہیں: "اخلاقی معیارات (ہمیشہ) پابندی کا مطالبہ رکھنے والے  (normative) ہوتے ہیں۔ وہ محض وہ رستہ نہیں بتاتے جس کے مطابق ہمیں عمل کرنا چاہیے۔ بلکہ وہ ہم پر حق جتاتے ہیں؛ ہمیں حکم کرتے ہیں، پابند بناتے ہیں، تجویز کرتے ہیں، یا ہدایت کرتے ہیں"۔ اسی طرح وہ بتاتی ہیں کہ "علم، حسن اور معنی جیسے تصورات فضیلت اور انصاف کی طرح سب کے سب ایک مستقل پہلو لیے ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا سوچنا، کیا پسند کرنا، کیا کرنا اور کیا ہونا چاہیے"10۔ اسلام جیسی دینی روایت میں مستند  طریقے (normativity) کے مصادر ہمیشہ متنوع، متعدد اور باہم مربوط ہوتے ہیں، جو ماہر علما کے علمی استناد سے لے کر متوارث اجتماعی عمل کی مجموعی وزن تک پھیلے ہوتے ہیں۔ میں سنت (normativity) کی اصطلاح کو راسخ العقیدگی (orthodoxy) کی اصطلاح پر فوقیت دیتا ہوں کیوں کہ مذہبی استناد کے موضوع پر سرگرم عمل مختلف حریف مدعیوں کو زیادہ حد تک ابہام اور لچک فراہم کرتا ہے11۔  راسخ العقیدگی کی اصطلاح، اگر چہ یہ تسلیم بھی کیا جائے کہ وہ مستقل اختلاف کا موضوع ہے، یہ غلط تاثر پیدا کرتی ہے کہ حقیقت میں نام اور پتوں کی ایک ایسی فہرست بنانا ممکن ہے، جس میں راسخ العقیدگی کے محافظین کی شناخت اور نام زدگی ممکن ہو۔ اسلام میں ایک مقتدر کلیسائی ادارے کی عدم موجودگی میں راسخ العقیدگی کی اصطلاح کی تحقیقی قدر وقیمت محل نظر دکھائی دیتی ہے۔ مزید برآں، اور زیادہ دو ٹوک انداز میں، 'مسلک' (sect) کی طرح 'راسخ العقیدگی' بھی ان اصطلاحات میں سے ہے جنھیں جوں ہی استعمال کیا جائے، "]مسیحی[ سیاسی کلامیات کی مشین" ان کو جکڑ لیتی ہے12۔

Two: The Machine of Political Theology and the Place of Thought کے عنوان سے اپنی عمدہ تحقیق میں فلسفی رابرتو اِسپَزِیتو (Roberto Esposito) ثابت کرتے ہیں کہ مسیحی سیاسی کلامیات اور جدید سیکولر ازم میں فکری یکجائی ہے13۔ علاوہ ازیں وہ اس مشین جیسے عمل کے بارے میں بتاتے ہیں جس کے ذریعے سیکولر سیاسی کلامیات خود کو ان اصطلاحات میں زبردستی گھساتی ہیں، جو غیر مغربی روایتوں اور ثقافتوں کی تحقیق کے دوران استعمال ہوتی ہیں14۔ جیسا کہ اسپزیتو نے واضح کیا ہے: "لسانیات کا پورا تانا بانا، جو ہمارے فکری مقولات (categories) کو کمزور کرتا ہے، سیاسی کلامیات کی اصطلاحات سے متاثر ہے"۔ اِسپزیتو کی فکر سے شہہ پاتے ہوئے اور اس کی شرح کرتے ہوئے اروند منڈیر زیر بحث مسئلے کو کچھ یوں سمیٹتے ہیں: "(خاص طور پر جدید) مغربی زبان وفکر کی کارروائیوں میں ایسے مابعد الطبیعاتی آلات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے، جن کا بنیادی فریضہ اختلاف کو شناخت کے ڈھانچوں (مثلاً تناقض سے پاک اتحاد، تمثیل، انفرادیت، شخصیت)  تک محدود کرکے (شخصیات، ثقافتوں، تصورات کے درمیان) اختلاف کو وجود میں لانا ہے15۔

منڈیر کے ذکر کردہ شناخت کے ان ڈھانچوں کی فہرست میں "راسخ العقیدگی" کو شامل کرنا مفید ہوگا، جنھیں سیکولر مسیحی سیاسی کلامیات کی مشین ترتیب دے کر "عمومی انطباق (translation)" کے ایک عمل کے ذریعے دوسرے سیاقات کو برآمد کرتے ہیں16۔  انطباق کی یہی پرفریب لیکن طاقتور کلامیات ہی ہیں جنھیں علوم اسلامیہ میں راسخ العقیدگی کی اصطلاح کے دفاع یا احیا کے لیے کی جانے والی متعدد کوششیں زیر غور لانے میں ناکام ہو چکی ہیں17۔ گِل اَنیجر (Gil Anidjar) سے استفادہ کرتے ہوئے عرض ہے کہ یہ اصطلاح ان مسیحی سیاسی کلامیات کے "خون" میں تر ہے جو سیکولر تصوریت کی بنیاد ہے، اور اس بنا پر اسلام اور دیگر جنوبی ایشیائی مذاہب کی تحقیق میں اس قدر آزادی اور خوشی سے اسے رائج ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے18۔ یہ اصطلاح جدید برصغیر کے علما کے مباحثوں اور مناقشوں کی تحقیق کے مخصوص سیاق کے حوالے سے بھی کار آمد نہیں۔

برطانوی ہندوستان میں بڑے مسلم اصلاحی مکاتب فکر، جیسے دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث سب کے سب پڑھے لکھے مذہبی اشرافیہ کی اسی نام نہاد راسخ العقیدگی کا حصہ تھے؛ ان کے درمیان اختلاف سنت کی تشریح میں تھا، اورنتیجتاً ان شرعی توقعات میں تھا، جو وہ اپنے عوام کے لیے رکھتے تھے۔ راسخ العقیدگی بمقابلہ آزاد خیالی (heterodoxy) کا یہ دوگانہ تصور سنت کو بدعت سے جدا کرنے والی حدود کے متعلق متعدد اختلافی آرا کی تصویر سامنے لانے میں بھی بالکل کار آمد نہیں ہے۔

اسلام میں شرعی احکام کی حدود پر علمی مناقشوں کے تجزیے کے لیے سنت (normativity) کی اصطلاح زیادہ لچک اور فکری گنجائش فراہم کرتی ہے۔

سنت (normativity) کی اصطلاح کو اختیار کرنے کے لیے مجھے بطور خاص ماہر بشریات /سماجیات پائرے بوردیو (Pierre Bourdieu) کا تصورِ 'عادت' (habitus) بڑا دل چسپ معلوم ہوا۔ یہ تصور اس کی دو کتابوں The Logic of Practice اور An Outline of a Theory of Practice میں پیش کیا گیا ہے۔ بوردیو 'عادت' کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے: "تاریخ کی ایسی پیداوار جو تاریخ کے پیدا کردہ حالات سے ہم آہنگ انفرادی اور اجتماعی اعمال کو جنم دیتا ہے۔ 'عادت' ماضی کے ایسے تجربات کی براہ راست موجودگی کو یقینی بناتا ہے، جو ہر جاندار میں ادراک اور فکر وعمل کے نظاموں کی شکل میں ودیعت کیے گئے ہوتے ہیں، اور جو تمام رسمی قواعد اور مفصَّل اَحکام سے زیادہ بااعتماد طریقے سے بدلتے زمانے کے ساتھ اعمال کی 'درستگی' (واوین کا اضافہ میری طرف سے ہے) اور ان کی اصل شکل کو برقرار رکھنے کی ضمانت فراہم کرتے ہیں"19۔  بوردیو کے نزدیک 'عادت' متشکل تاریخ کی ایک شکل ہے، جو ایسے نئے تجربات کی تشکیل کرتی ہے، جو ماضی کے تجربات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ساختوں سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔'عادت' اور سنت کے درمیان تعلق کی بہتر تصویر اس وقت سامنے آتی ہے جب بوردیو لکھتا ہے: "'عادت' ان تمام 'معقول' اور 'عقل سلیم پر مبنی' رویوں کو پیدا کرنے کا کام کرتی ہے جو ان ضابطہ بندیوں کی حدود میں ممکن ہو، اور جس کی 'ایجابی منظوری' (واوین کا اضافہ میں نے براے تاکید کیا ہے) دی جا سکتی ہے، کیونکہ وہ ایک مخصوص میدان کی عقلی خصوصیت کے ساتھ معروضی انداز میں ہم آہنگ ہوتے ہیں، جس کے معروضی مستقبل کی وہ پیش بینی کرتے ہیں"20۔

بوردیو کی 'عادت' کی اصطلاح سے زیادہ قریب اس کے 'اجماع' (doxa) کا تصور ہے جس کا مطلب ہے: جسمانی آہنگوں اور مظاہر کا ایسا مجموعہ جسے سماج کے افراد ایک ثابت کونیاتی نظم کی حیثیت سے حق سمجھتے ہیں، اور جسے آزادانہ (یعنی دوسروں کے درمیان کوئی ایک) نہیں، بلکہ ایک بدیہی فطری نظم کے طور پر سمجھا جاتا ہو، جو بغیر کسی سوال یا نکتہ چینی کے بار بار وقوع پذیر ہوتا رہتا ہو"21۔ اسلام میں سنت کی اصطلاح کی نظریہ سازی میں ایک مرکزی سوال یہ ہے کہ استنادی مذہبی مباحث کا ایک مجموعہ کسی سماج کے روزمرہ اعمال میں کس طرح متشکل ہوتا ہے؟ اس سیاق میں بوردیو کا یہ نکتہ بطور خاص قابل غور ہے کہ "جس قدر معروضی نظام پائیدار ہوں گے، اور زیادہ بھرپور انداز میں پیروکاروں کے اعمال میں خود کو وقوع پذیر کریں گے، اسی قدر 'اجماع' (doxa)، جسے حق مانا گیا ہے، کے میدان کی حدود وسیع ہوں گی"22۔

اسلام میں مسلمانوں کے درمیان بدعت کی حدود پر اختلافات میں کار فرما اقداری توقعات اور تنازعات پر بحث کو گہرائی میں لے جانے کے لیے مجھے بوردیو کے 'عادت' اور 'اجماع' کے جڑواں تصورات مفید معلوم ہوتے ہیں۔ ایک مخصوص معنی میں مسلم فکر میں بدعت کے مباحث مثالی 'اسلامی عادات' کے متوازی تصورات پر مبنی ہیں، یا زیادہ واضح انداز میں ایک ایسی 'عادت' پر، جس کی تجسیم اور تشکیل سنت کے ذریعے ہوئی ہو۔ یہاں جس بات پر زور دینا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ سنت محض فقہی احکام کے استنباط کے لیے ایک قانونی مصدر کی اصطلاح نہیں۔ اس کے بجاے اس کا اطلاق زندگی کے تمام ان اعمال واطوار پر ہوتا ہے، جو فطری اور طبعی 'عادات' کی شکل اختیار کر لیتے ہیں – ایک کامل نمونہ، جس کے پیچھے متشکل تاریخ کھڑی ہو۔ جیسا کہ بوردیو نے ہمیں تنبیہ کی ہے: "عادت ایسے حقائق کو مسترد کرنے سے، جو اس کے ساتھ جڑے سابقہ مجموعی حقائق پر سوال اٹھاتے ہوں، اگر ان کا ایک دوسرے سے سامنا حادثاتی طور پر یا جبرًا ہو جائے، بالخصوص ایسے حقائق کا سامنا نہ کرنے سے اور ان نئے حقائق کے اندر انتخاب کے ذریعے سے، اپنی ثبات اور 'تبدیلی' کے خلاف اپنے دفاع کو یقینی بناتی ہے۔23

یہ نکتہ کہ 'عادت' تبدیلی کے مقابلے میں اپنا دفاع کرتی ہے، بطور خاص ثبات وتغیر کے اس باہمی تعامل سے متعلق ہے جو اسلام میں سنت وبدعت کے مناقشے میں کار فرما رہتا ہے۔ سنت ایک مُصدَّقہ معیاری 'عادت' پر دلالت کرتی ہے جو ایک مشترک تاریخ اور روایت رکھنے والے سماج کی تشکیل کرتی ہے۔اس لیے سماج اور اس کی تاریخ اور روایت سب کو ایسے نئی معلومات اور بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرنا چاہیے، جو اس کی پاکیزگی کو متاثر کرتے، اس کے ثبات کو کمزور کرتے، اور نتیجتاً مباحث کے ایک ایسے مجموعے کی حیثیت سے جو اپنے پیروکاروں سے مجسم تصدیق کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔ دوسری طرف بدعت، جو سنت کے برعکس ہے، منظم سرگرمی کی ان غیر مصدًقہ عادات واطوار پر دلالت کرتی ہے جو سنت کی پہلے سے چلے آنے والی متفقہ ساخت کی مخالفت میں متعارف کیے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں بدعت کے تعبیری پہلوؤں میں گہرائی سے غوطہ زن ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اس کے بیانیاتی (narratological) پہلو پر مختصر غور وفکر کروں، تاکہ اس کے علمی اور شرعی پہلو مزید واضح ہو جائیں۔ اس مقصد کے لیے میں قرون وسطی اور جدید اسلام کے ابتدائی عہد کے سب سے باوقار عالم کی فکر کی طرف رجوع کرتا ہے، جنھوں نے بدعت کے موضوع پر لکھا ہے۔ میری مراد چودھویں صدی عیسوی کے معروف اندلسی/غرناطی مالکی فقیہ امام ابواسحاق ابراہیم الشاطبی ہیں۔  

بدعت بیانیے کی روپ میں: سنت، بدعت اور اجنبیت

بدعت جس قدر ایک اعتقادی، فقہی اور کلامی اصطلاح ہے، اسی قدر یہ ایک بیانیے کے روپ میں بھی ہے۔ دراصل اس کے بیانیے والے انداز پر غور وفکر اس اصطلاح سے متعلق تجزیاتی نقطۂ نظر اور منہاج کو وسعت اور گہرائی دینے کے امکانات رکھتا ہے۔ زیادہ تخصیص کے ساتھ عرض ہے کہ بدعت کے موضوع پر مسلمانوں کے علمی مناقشے ایک ایسے بیانیے میں ملفوف ہوتے ہیں جنھیں 'اجنبیت کا بیانیہ' کہا جا سکتا ہے، جس میں ابتداے اسلام میں کفار کے ہاتھوں نبی اکرم ﷺ اور آپ کے صحابہ کی اجنبیت اور جلاوطنی کے ایک مثالی بیانیے کو بعد میں آنے والے تعصب و عناد کے ہر ایک ایسے واقعے کے لیے بنیادی خاکے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو سنت کے مشعل برداروں کو بدعت کے علم برداروں کے مقابلے میں لا کھڑا کرتا ہے۔ راہ سنت پر کار بند ہونا اجنبیت کو مستلزم ہے، لیکن یہ اجنبیت ایک فرد اور سماج کی قرآن، سنت اور سلفِ صالحین کی تعلیمات سے غیر مشروط وابستگی کی دلیل بھی ہے۔ ذیل میں میں ان اخلاقی دعووں اور خواہشات کی تفصیل سے وضاحت کروں گا جو بدعت پر مسلمانوں کے علمی اور اصلاحی مباحث میں اجنبیت کے ایک ایسے بیانیے میں کار فرما ہیں۔ جیسا کہ ادبی مفکر ہیدَن وائٹ (Hayden White) نے عمدگی سے بتایا ہے: "چونکہ سچائی کی ہر ایک سرگزشت میں بیانیت موجود ہوتی ہے، اس لیے ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ اخلاقیات یا اخلاقی قوتِ مُحَرِّکہ بھی موجود ہوتی ہے۔۔۔۔ کیا ہم اخلاقی شکل دیے بغیر (سچائی کو) بیانیے کا روپ دے سکتے ہیں؟24"

ایسے بیانیے کی تشکیل کی ایک مؤثر اور رہ نما توضیح کے لیے میں بدعت کے تصور اور اطلاق پر سب سے زیادہ اصولی اور سب سے زیادہ تفصیلی ماقبل جدید کاوش الاعتصام پر بالاختصار بحث کروں گا۔ اس کتاب کو چودھویں صدی کے مالکی فقیہ ابراہیم الشاطبی نے تصنیف کیا ہے۔ الشاطبی سقوطِ غرناطہ سے مکمل سو سال پہلے وفات پا گئے۔ فقہ اور اصول فقہ پر ان کی کاوشیں (جیسے ان کی دوسری شان دار کتاب الموافقات) جدید مسلم فکر کے اوائل میں عمدہ ترین اور مؤثر ترین تصور کی جاتی ہیں25۔ اگر چہ تھوڑی دیر میں میں بدعت کے تعبیری پہلوؤں پر اس کی بحث کے منتخب پہلوؤں پر کلام کروں گا، تاہم یہاں پر میں الاعتصام میں اس کے شان دار تعارفی باب پر اپنی توجہ مرتکز رکھتا ہوں۔

اس تعارف میں الشاطبی نے بدعت پر اپنی کتاب  کو حضور ﷺ کی اس مؤثر حدیث پر مسلسل غور وفکر کا نتیجہ قرار دیا ہے: "اسلام کی ابتدا اجنبیت میں ہوئی، اور یہ پھر اجنبی بن جائے گا، تو اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے" (بدأَ الإسلامُ غريباّ وسيعود بدأ غريباًو فطوبىٰ للغُرَباء)۔ پروفیسر ابراہیم موسیٰ کی تشریح سے اس حدیث نبوی کے کئی پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "یہاں پر کسی کے اجنبی یا نووارد ہونے کو کئی حوالوں سے مثالی بتایا گیا ہے۔ یہ زمان ومکان کے ایک مخصوص جبر کو فرض کرتا ہے۔ ایسے سخت حالات میں سچائی کے متلاشی اکثریت کے ظلم وجبر سے دربدر اور حاشیے میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ حاشیے میں دھکیلے گئے اپنی تکالیف میں در بدر پھرتے ہیں اور ایک دوسرے سے اظہار یک جہتی کرتے ہیں۔ اس در بدری کی جسمانی اور روحانی ظلم وجبر سے لے کر سیاسی اور کئی ممکنہ دیگر صورتیں ہیں"26۔ اجنبیت، جو کہ عموماً ایک خوف ناک صورت حال تصور کی جاتی ہے، در اصل الٰہی اور نبوی رحمتوں کی اس خوب صورتی سے بندھا ہوتا ہے، جو یہ حدیث بتاتی ہے۔ مزید برآں یہ ارشادِ نبوی اجنبی اوائل کے بیانیے کو ایک ایسے غائی فلسفے (teleology) سے جوڑتا ہے جو انھی اوائل کی طرف لوٹتا ہے۔ جس انداز میں یہ حدیث بیانیت اور زمنیت کو یک جا کرتا ہے، اس میں تکرار کی صفت بہت اہم ہے۔ پال ریکوئر (Paul Recoeur) نے اسے کچھ یوں بیان کیا ہے: "بیانی تکرار ابتدا کو خاتمہ اور خاتمے کو ابتدا سمجھنا ممکن بناتا ہے تاکہ زمان کو، کسی طرز عمل کے ابتدائی حالات کی تکرار کے طور پر اس کے آخری نتائج میں، پیچھے جا کر سمجھنا سیکھا جا سکے۔ اس طرح سے پلاٹ انسانی عمل کو نہ صرف یہ کہ زمان 'میں'  راسخ کرتا ہے، بلکہ یہ اسے حافظے میں بھی قائم رکھتا ہے"27۔

الشاطبی کی نظر میں حضور ﷺ کی یہ حدیث ایک مسلسل اور بار بار وقوع پذیر ہونے والی جنگ کو بیان کرتی ہے: خدائی حاکمیت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور اپنے آبا واجداد کی رسم روایات کی پیروی کے درمیان جنگ۔

 اسی جنگ نے حضور ﷺ کو اپنے ہی سماج میں اجنبی بنا دیا، اور وہی لوگ ان پر طنز واستہزا کے تیر برسانے لگے، جو اس سے پہلے ان کے عزیز ترین دوست اور اقارب تھے۔ اس انداز میں الشاطبی نے حضور ﷺ کو دیے جانے والے مصائب میں پنہاں ذہنی اذیت کی بپتا سنائی۔ "تمام اصحاب امن نے ان کے خلاف اعلان جنگ کیا، ان کا عزیز ترین دوست بھی ان کے لیے درد ناک عذاب کی حیثیت اختیار کر گیا۔ ان کے قریب ترین رشتہ ان کی دوستی سے سب سے زیادہ دور بھاگنے لگے۔ اور جو لوگ ان پر سب سے زیادہ مہربان تھے، وہی ان کے خلاف حد درجہ سنگ دل ہو گئے۔ تو کون سی اجنبیت اس اجنبیت کے برابر ہو سکتی ہے" (وصارَ أهلُ السِلْمِ كلُّهم حرْباً عليه، عادَ الوليُّ الـحَمِيم كالعَذاب الأَليم، فأقرَبـُهم إليه نسباً كان أبعدَ الناسِ عن مُوالاتِه، وأَلصقُهم به رحِماً كانوا أقسى قلوباً عليه، فأي غُرْبةٍ تُوازي هذه الغربة)28۔  حضور ﷺ کو اپنے مشن میں اس قسم کی مزاحمت کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ اس لیے کہ انھوں اس چیز کو چیلنج کیا "جس کے لوگ عادی بن گئے تھے"  (خرج عن معتادهم) (13)۔ سنت اور بدعت کے بیانی پلاٹ میں ایک اور اساسی چیز ان راسخ عادات کی طاقت اور ترغیب  ہے، جو احکام الہی کی مخالفت میں ہوتے ہیں۔

حضور ﷺ جزیرۃ العرب میں مشرکین اور دیگر غیر مسلموں کے درمیان طویل عرصے سے رائج عادات کے تسلسل میں مداخلت کی، اور اسی وجہ سے ان کے اصحاب کی مختصر جماعت سے لوگوں نے کنارہ کشی کی۔

لیکن اس ناگزیر دشمنی کے باوجود انھوں نے خدا کی اس رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھا، جس نے ان میں شدید مصائب میں بھی ہمت پیدا کی، اور انھیں متحد رکھا۔ خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کا یہی وہ تصور ہے جو الشاطبی کی کتاب الاعتصام (مضبوطی سے پکڑنا) کی وجہ تسمیہ بنا۔ یہ قرآن کی ایک مشہور آیت سے ماخوذ ہے: "اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور تفرقے میں مت پڑو"29۔ اس قرآنی آیت سے اپنی کتاب کا عنوان اخذ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ الشاطبی کی نظر میں سنت نبوی سے انحراف اور بدعات کا ارتکاب کسی اعتقادی یا اخروی خلاف ورزی سے بڑھ کر ہے۔ بدعت سماج کے سیاسی نظم، اتحاد اور طاقت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ الشاطبی کی نظر میں یہ انفرادی نجات اور سماجی استحکام اور ہم آہنگی کے لیے ایک دوہرا خطرہ تھا۔

 بدعت کے تباہ کن اثرات پر الشاطبی کا استدلال ایک منفرد بیانیے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ انھوں نے حضور ﷺ کی وفات کے بعد والی صدیوں میں اسلام کے ظہور کی کہانی اور اس کہانی میں اپنے مقام کو اجنبیت اور در بدری کے جذباتی تاثرات میں بیان کیا ہے۔ جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا، رسول اللہ ﷺ کی اس پیشن گوئی کے مطابق کہ: "میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی"،  اس میں بدعات کا اضافہ ہونے لگا،  بعینہ جس طرح اس سے پہلے یہودیت ومسیحیت کے ساتھ ہوا۔ رفتہ رفتہ لیکن حتمی طور پر اسلام کے اثرات اور وحدت متاثر ہونے لگی، کیونکہ عوام اہل سنت پر بدعات وخرافات غالب آ گئیں" (فتكالبت على سواد أهل السنة البدعة والأهواء) (15)۔

  سادہ لیکن مؤثر ترغیبی الفاظ میں الشاطبی نے اتباع سنت اور اجنبیت کے درمیان ایک گہرا تعلق قائم کیا۔ "اہل حق اہل باطل کے مقابلے میں ہمیشہ کم رہے ہیں" (إن أهل الحق في جنب أهل الباطل قليل) (15)۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں: "کوئی طبقہ اجنبی اس وقت بنتا ہے، جب وہ اپنے اہل وعیال کو کھو دیتا ہے، یا ان کی تعداد کم ہو جاتی ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب نیکی برائی میں اور برائی نیکی میں بدل جائے، سنت بدعت کی اور بدعت سنت کی صورت اختیار کر لے30" (الغربة لا تكون إلا مع فقد الأهل أو قلتهم، وذلك حين يصير المعروف منكرًا والمنكرُ معروفًا، وتصير السنة بدعةً والبدعةُ سنةً) (15)۔

الشاطبی کی نظر میں سنت اور بدعت کے درمیان ایک معکوس تعلق ہے۔ جب بھی کوئی بدعت جنم لیتی ہے، اس کے مقابلے میں ایک سنت مر جاتی ہے" (ما من بدعة تحدُثُ إلَّا ويـَموتُ من السُنَنِ ما هو في مُقَابَلَتِها) (19)۔ انھوں نے ایک ریاضی دان کی طرح دو جمع دو چار کے انداز میں لکھا، اور اپنے نکتۂ نظر کے اثبات میں نبی اکرم ﷺ کے مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما (م 687) کی روایت پیش کی ہے: "لوگوں پر ابھی ایک سال بھی نہیں گزرتا، لیکن وہ اس میں کوئی بدعت ایجاد کر لیتے ہیں، اور کسی سنت کو مار دیتے ہیں" (ما يأتي على الناس من عام إلا أحدثوا فيه بدعةً أو أماتوا فيه سنة) (19)۔ اس لیے الشاطبی کے نزدیک سنت کے علم برداروں کی اجنبیت پہلے سے معلوم ایک رجعت پسندانہ زمنی نمونے کی اتباع ہے۔ علما کی ہر آنے والی نسل اپنے سے پہلی نسل کے مقابلے میں اپنے اردگرد کی دنیا میں سنت نبوی کے معدودے چند آثار دیکھتی ہے۔ اس نکتے پر زور دینے کے لیے الشاطبی نبی اکرم ﷺ کے ایک قریبی صحابی حضرت ابو الدرداء (م 652) (جو اموی عہد کے دمشق کے ایک نامور عالم اور فقیہ تھے) اور ان کی بیوی ام الدرداء  کا واقعہ سناتے ہیں۔ باوجود یکہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کو ابھی چند دہائیاں گزری تھیں، وہ اپنے ارد گرد کی دنیا کا نوحہ پڑھ رہے تھے۔ایک دن ابوالدرداء اپنے گھر میں غصے سے داخل ہوئے۔ "آپ کیوں غصے میں ہیں؟" ان کی بیوی نے پوچھا۔ انھوں نے جواب دیا: "خدا کی قسم! میں رسول اللہ ﷺ کے امر (چھوڑی ہوئی سنتوں) میں کسی چیز کو (باقی) نہیں دیکھ رہا، سواے اس کے وہ باجماعت نماز پڑھتے ہیں" (والله ما أعرف شيئًا من أمر محمد إلا أنهم يُصلُّون جميعًا) (16)۔

 الشاطبی اپنے آپ پر اس واقعے کی بعینہ تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب میں نے اپنا علمی سفر شروع کیا، اور عوام کو مخاطب کرنا شروع کیا، تو میں نے دیکھا کہ میں ہر طرف سے طرح طرح کی بدعات میں گھرا ہوا ہوں۔ جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں: "میں نے خود کو اپنے زمانے کے اکثر لوگوں میں اجنبی محسوس کیا" (وَجَدْتُ نفسي غريبًا في جمهور أهل الوقت) (16)۔ الشاطبی کی اجنبیت کی عجیب وغریب کہانی اس لائق ہے کہ اسے ان کے اپنے الفاظ میں بیان کیا جائے، کیونکہ وہ ایک بڑی حد تک بیانیت، سنت اور اجنبیت کے درمیان اس تعامل کی تصویر کشی کرتے ہیں، جس کا نقشہ میں نے ان آخری چند صفحات میں کھینچنے کی کوشش کی ہے:

اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے میں نے اس پر غور کیا کہ لوگ جن چیزوں کے عادی بن گئے ہیں، میں ان کی مخالفت کی شرط پر سنت کی اتباع کروں۔ اس صورت میں یہ ناگزیر ہے کہ میرے ساتھ بھی وہی معاملہ پیش آئے جو رسوم کی مخالفت کرنے دیگر لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے، بالخصوص اس صورت میں جب ان اعمال کے مرتکبین اپنے ہی عمل کو سنت نہ کہ کوئی اور چیز سمجھتے ہوں۔ تاہم اس صورت میں مجھے ایک بھاری بھر کم بوجھ اٹھانا پڑتا، لیکن اس کے ساتھ اس کا اجر وثواب بھی بڑا تھا۔ دوسری صورت یہ تھی کہ میں سنت اور سلف صالحین کی مخالفت کی شرط پر لوگوں کی اتباع کروں، جس سے میں گمراہی کے سایے تلے آ جاؤں، میں اللہ سے اس صورت کی پناہ چاہتا ہوں۔ تاہم اس صورت میں میں بدعت کی موافقت کرتا، اور مخالفین کے بجاے موافقین میں شمار ہوتا۔ (17)

آگے الشاطبی زیادہ پرزور انداز میں لکھتے ہیں: "لیکن میں نے دیکھا کہ اتباع سنت میں ہلاکت  میں ہی نجات ہے" (رأيت أن الهلاك في اتباع السنة هو النجاة)۔ اور یہ کہ لوگ مجھے اللہ کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اس لیے میں نے بعض مسائل میں تدریج سے کام لینا شروع کیا تو میرے خلاف قیامت کھڑی کی گئی، اور مجھ پر مسلسل لعنت ملامت ہونے لگی۔  عتاب اپنے تیر میری طرف پھینکنے لگا، اور میری طرف بدعت وضلالت کی نسبت ہونے لگی، اور مجھے جاہلوں اور کند ذہنوں کا مرتبہ دیا گیا (فقامت على القيامة، وتواترت على الملامة، وفوّق إليّ العتاب سهامه، ونسبت إلى البدعة والضلالة، وأنزلت منزلة أهل الجهل والغباوة) (17)۔

الشاطبی نے ایک لے میں اپنی بلند ہمتی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دعوی کیا: "میں مسلسل ان بدعات کے پیچھے لگا رہا جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے تنبیہ کی، اور ان سے ڈرایا ہے۔۔۔۔۔ اور میں ان سنتوں کی تلاش کرتا رہا، جس کی روشنی ان بدعات کی وجہ سے بجھنے کے قریب تھی، تاکہ میں اپنے عمل سے ان کی چمک بحال کروں، اور قیامت کے دن ان کو زندہ کرنے والوں میں شمار ہو جاؤں" (أبحث عن السنن التي كادت تطفئ نورها تلك المحدثات، لعلي أجلو بالعمل سناها) (19)۔

دیکھیے الشاطبی نے کس طرح اپنے علمی کاوشوں کا بیانیہ ترتیب دیا، گویا کہ سیرتِ نبوی بیان کر رہے ہیں۔ بدعت کو بیانیے کے روپ میں بیان کرنا رسول اللہ ﷺ کے ایک وارث اور نبوی اختیار کی حیثیت سے اس کے اپنے مذہبی استناد کی تشکیل کے ساتھ گہرے طور پر مربوط تھا۔ کارِ نبوت کے ابتدائی دور میں رسول اللہ ﷺ کی طبعی، جذباتی اور نفسیاتی اجنبیت کی مثال راہ سنت میں کسی شخص کے مقام کو متعین کرتی ہے۔  بالفاظِ دیگر اجنبیت کا استعارہ زمانی دائرے میں تاریخ کے درست سمت میں کھڑے ہونے اور اخروی دائرے میں نجات پانے پر دلالت کرتی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ ہر عہد میں وارثینِ نبوت کو اسی طرح کی اجنبیت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ حضور ﷺ کے صحابی حضرت اویس قرنی (م 657) نے، جن کی طرف شیخ کی طبعی موجودگی کے بغیر اس کے ساتھ روحانی تعلق یا ارادت قائم کیے جانے کے معروف صوفی عمل (طریقۂ اویسیہ) کی نسبت کی جاتی ہے، اس تصور کا خلاصہ بہترین انداز میں بیان کیا ہے: "نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے سے کوئی شخص مومن کا دوست نہیں رہتا" (إن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لم يَدَعْ للمؤمنِ صديقًا) (19)۔


حواشی

  1.   مدون: جیرِمی کیرٹ، Religion and Culture میں شامل مشل فوکو، A Preface to Transgression (نیو یارک: روٹلج، 1999)، 60۔
  2.   میری ڈوگلس، Purity and Danger (لندن: روٹلج، 2002)، 50۔
  3.   محی الدین النووی، الاربعین (قاہرہ: مکتبۃ الخانجی، 2005)، 5-7۔
  4.   ماریبل فائرو، The Treatises against Innovations (kutub al-bida’)، Der Islam 68، شمارہ نمبر 1 (1992): 204 – 46۔ یہ مثالیں صفحہ 211 – 16 اور 220 پر موجود ہیں۔
  5.   Voices of Islam، جلد 5، مدون: امید صافی (ویسٹ پوسٹ، سی ٹی: پریجر، 2007) میں عمر فاروق عبد اللہ کا مقالہ بعنوان: Creativity, Innovation and Heresy in Islam، ص 15۔
  6.   یہاں پر میں اسلام میں بدعت سے متعلق مہران کامراوا کے نقطۂ نظر سے شدید اختلاف رکھتا ہوں۔ اس نے اپنی مرتب کردہ کتاب Innoavation in Islam  میں بدعت کو اصلاح کی متقاضی "غالب قدامت پسندانہ بے مقصدیت" کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ "تخلیق وایجاد کی راہ میں رکاوٹوں" کی نشان دہی کے بجائے، جس کا مقصد ان پر قابو پانا ہو، تجزیاتی اعتبار سے کہیں زیادہ یہ کاوش مفید ہے کہ سنت وبدعت اور کفر وضلالت کے ان حریف تصورات کی تحقیق کی جائے جو استنادی مباحثوں اور مناقشوں کی مخصوص صورتوں میں بدعت کی اصطلاح پر مرتکز ہیں، یا اس اصطلاح سے پھوٹتے ہیں۔ ایسا طرز فکر ممکن ہے کہ اس طرح کے غلط سوالات کی تشکیل کو روکے کہ "مغرب کیوں کر ترقی یافتہ اور جدید بنا، جب کہ مسلم دنیا پیچھے رہ گئی؟" یا ایسے فضول عمومی تہذیبی دعووں کی بیخ کنی کرے کہ: "وہ دن گئے جب ریاضی، فلکیات، توپ سازی، صنعت، دواسازی، فلسفہ اور طبیعیات میں مسلمانوں کے کارنامے یورپ کے سائنسی انقلاب کے لیے راہ ہموار کرتے اور اس کی بنیاد کا کام کرتے۔ اسلام کا اپنا داخلی سائنسی انقلاب ختم ہو گیا، اس میں دریافت کی روح پژمردہ ہو گئی، اور عالمی تہذیب میں اس کا کردار اب یورپ سے بہت کم تر ہو گیا ہے"۔ ایسی باتیں سراسر مضحکہ خیز ہیں۔ مہران کامراوا، مدوِّن، Innovation in Islam: Traditions and Contributions (برکلے: یونیورسٹی آف کیلی فورنیا پریس، 2011)، صفحہ نمبر 1 اور 3۔
  7.  محمد قاسم زمان، Islam in Modern South Asia (آکسفرڈ: ون ورلڈ پبلیکیشنز، 2008)، 17۔
  8.   ایضاً، 30۔
  9.   تھانوی کے علمی تراث کو تاریخی ترتیب کے ساتھ تین مقالوں میں عمدگی کے ساتھ زیر بحث لایا ہے: درخشان خان، Fashioning the Pious Self: Middle Class Religiosity in Colonial India (پی ایچ ڈی مقالہ، یونیورسٹی آف پینسلوینیا، 2016)؛ علی میاں، Surviving Modernity: Ashraf Ali Thanvi and the Making of Muslim Orthodoxy in Colonial India (پی ایچ ڈی مقالہ، ڈیوک یونیورسٹی، 2015)؛ فریحہ خان، Traditionalist Approaches to Shari’ah Reform: Molana Asharaf Ali Thanwi’s Fatwa on Women’s Right to Divorce (پی ایچ ڈی مقالہ، یونیورسٹی آف مشیگن – این آربر، 2008)۔
  10.  کرسٹین کورسگارڈ، The Sources of Normativity (کیمبرج: کیمبرج یونیورسٹی پریس، 1996) 8، 9۔
  11.  دیکھیے بریٹ ولسن، Failure of Nomenclature: The Concept of Orthodoxy in the Study of Islam، کمپیریٹو اسلامک سٹڈیز 3، نمبر 2 (2007): 169 – 94۔
  12.  رابرتو ایسپزیتو، Two: The Machine of Political Theology and the Place of Thought (نیو یارک: فوردھام یونیورسٹی پریس، 2016)۔
  13.  میں اروند منڈیر کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے اسپزیتو کی کتاب کی طرف مجھے توجہ دلائی۔
  14.  اسپزیتو، Two، 23۔
  15.  اروند منڈیر، Decolonizing Secularism’s ‘Conceptual Matrix’، کمپیریٹو سٹڈیز آف ساؤتھ ایشیا، افریقا اور دی مڈل ایسٹ 38، نمبر 2 (2018): 443 – 51۔
  16.  دیکھیے اروند منڈیر، Religion and the Specter of the West: Sikhism, India, Postcoloniality, and the Politics of Translation (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2009)۔
  17.  مثلا دیکھیے: رابرٹ لینگر اور اوڈو سائمن، The Dynamics of Orthodoxy and Heterodoxy: Dealing with Divergence in Muslim Discourses and Islamic Studies، ڈائی ویلٹ ڈیس اسلامز: انٹرنیشنل جرنل فار دا سٹڈی آف ماڈرن اسلام 48، اشاعت ¾ (2008): 273 – 88۔
  18.  گل انیدجر، Blood: A Critique of Christianity (نیو یارک: کولمبیا یونیورسٹی پریس، 2016)۔ اپنی شاہ کار کتاب What is Islam? The Importance of Being Islamic میں شہاب احمد نے شریعت کے بارے میں میرے ایک سابقہ نظریے پر -میری نظر میں صحیح۔ توضیح کی ہے کہ مسلم فکر اور تاریخ میں شریعت کی تنفیذ صرف اور صرف علما کا دائرہ نہیں (اگر چہ وہ اس معاملے میں کسی حد تک علما کے کردار کی اہمیت کو گھٹاتے ہیں)۔ اس توضیح نے میری تعبیر کی ترتیبِ نو کو بہتر بنانے میں مجھے فائدہ دیا۔ تاہم میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ راسخ العقیدگی پر میری تنقید میں شریعت کا مصدر (اختصاصی علم/ اقتدار وغیرہ) میرا مرکزی نکتہ نہیں تھا۔ اس سے کہیں زیادہ میرے استدلال کا بنیادی مقصد یہ کوشش تھا کہ بین المسالک اختلافات کو ان فکری سانچوں کے خوف ناک حصار سے آزاد کراؤں، جو سیکولر سیاسی الہیات کی حرکیات کو قائم رکھتے اور آگے بڑھاتے ہیں، جیسا کہ میں نے اوپر واضح کیا۔ تاہم جاتے جاتے میں یہ واضح کردوں کہ راسخ العقیدگی کی اصطلاح سے شہاب احمد کی وابستگی بادی النظر میں ایک حد تک حیران کن اور پہیلی جیسا معلوم ہوتا ہے۔ کیا اس کی کتاب کا مرکزی نکتہ اسلام میں راسخ العقیدگی کی غالب اور فقہی تناظر کی تفہیمات کو تہہ وبالا کرنے کا قابل قدر پروجیکٹ نہیں؟ لیکن زیادہ گہرے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ راسخ العقیدگی کی اصطلاح اور اس سے توقع کو ترک کرنے میں اس کی ہچکچاہٹ حقیقت میں اس قدر حیرت انگیز نہیں۔ کیوں کہ اس کی کتاب کا ایک اور بنیادی خیال راسخ العقیدگی کے ایک تصور (جو فقہی تناظر پر مبنی ہے) کو ایک دوسرے تصور (جس کی بنیاد محبت، فلسفے، شاعری وغیرہ ہے) سے بدلنا ہے۔ حریف راسخ العقیدگی کا یہ تصور خاص طور پر اس کے کھلے عام لفظوں میں تاریخیت اور تجربیت پر مبنی متعدد دعووں میں سامنے آیا ہے، جس کی رو سے مسلمانوں کے لیے مخصوص کتابوں اور مصنفین کی "مرکزیت" اور "اثرات" کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ کتنی بار اس کتاب کا حوالہ دیا گیا، یا اس کے قارئین کتنی تعداد میں تھے (احمد، What is Islam، 7 – 106)۔ راسخ العقیدگی کی غالب تفہیمات کو ختم کرنے جب کہ اس کے پے بہ پے راسخ العقیدگی کی نئی عمارتیں تعمیر کرنے کی متناقض خواہش وہ بنیادی فکری تضاد ہے، جو اس کی پوری کتاب میں نمایاں ہے۔
  19.  پائرے بوردیو، The Logic of Practice (Stanford, CA: Stanford University Press, 1990)، 54۔ جان لیجیے کہ اجماع (doxa) اور راسخ العقیدگی (orthodoxy) کسی طرح بھی ایک نہیں۔
  20.  ایضاً، 55۔
  21.  ایضاً۔
  22.  پائرے بوردیو، Outline of a Theory of Practice (سٹینفرڈ، سی اے: سٹینفرڈ یونیورسٹی پریس، 1990)، 166۔
  23.  بوردیو، Logic of Practice، 60 – 61۔
  24.  مدون: ڈبلیو جے ٹی مچل، On Narrative (شکاگو: یونیورسٹی آف شکاگو پریس، 1980) میں ہیدن وائٹ کا آرٹیکل، The Value of Narrativity، 22 – 23۔
  25.  الشاطبی اور ان کی قانونی فکر کے لیے مزید ملاحظہ کیجیے: خالد مسعود، Shatibi’s Philosophy of Islamic Law (کوالالمپور: اسلامک بک ٹرسٹ، 2002)۔
  26.  ابراہیم موسی، Ghazali and the Poetics of Imagination (چیپل ہل: یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا پریس، 2005) 43۔
  27.  پال ریکوئر، Narrative Time، مچل کے On Narrative میں، 179۔
  28.  ابراہیم الشاطبی، الاعتصام (بیروت: دار الکتاب العربی، 2005)، 13۔ اس کتاب کے دیگر حوالے بھی اسی اشاعت سے ہیں، اور متن کے اندر بین القوسین درج کیے گئے ہیں۔
  29.  القرآن 3 : 103۔
  30.  یہاں پر میں نے منکر کے معروف تراجم جیسے 'برائی'، 'غلط' اور 'مردود'  نے نہیں کیا۔ اس کے بجاے میں نے اسی معنی میں بامحاورہ ترجمہ کیا ہے، جو الشاطبی کا مقصود ہے، یعنی "خلافِ سنت اور عوام میں رائج اور مقبول"31۔ دیکھیے: اشرف علی تھانوی، اصلاح الرسوم (لاہور: ادارۂ اشرفیہ، 1958) اور شاہ محمد اسماعیل، ایضاح الحق (کراچی: قدیمی کتب خانہ، 1976)۔

(جاری)