2021

جنوری ۲۰۲۱ء

عقل حاکم اور عقل خادم کا امتیازمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
خدا کی رحمت اور عدل: ایک حقیقت کے دو نامڈاکٹر عرفان شہزاد
سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا نیا مرحلہمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
حورانِ بہشتی کے قرآنی اوصاف وخصائلمولانا محمد عبد اللہ شارق
فتوی و قضاء میں فرق اور مسئلہ طلاق میں بے احتیاطیمفتی عبد اللہ ممتاز قاسمی سیتامڑھی
مدرسہ طیبہ میں سالانہ نقشبندی اجتماعمولانا محمد اسامہ قاسم
تعلیمی نظام اور تحریکی تقاضےمولانا ابوعمار زاہد الراشدی

عقل حاکم اور عقل خادم کا امتیاز

محمد عمار خان ناصر

زنا یعنی جنسی تسکین کو معاشرتی حدود وقیود سے مقید کیے بغیر جائز قرار دینے کے حوالے سے بعض مسلمان متکلمین نے  یہ دلچسپ بحث اٹھائی ہے کہ شرعی ممانعت سے قطع نظر کرتے ہوئے، کیا یہ عمل عقلا بھی قبیح اور قابل ممانعت ہے یا نہیں؟ اس ضمن میں حنفی فقیہ امام جصاص اور شافعی فقیہ امام الکیا الہراسی کے ہاں  دو مخالف زاویہ ہائے نگاہ  کی ترجمانی ملتی ہے۔ جصاص کا کہنا ہے کہ زنا عقلا قبیح ہے، کیونکہ اس کی زد بچے کے نسب اور کفالت وغیرہ کے معاملات پر پڑنا ناگزیر ہے، اس لیے ان سوالات سے مجرد کر کے مرد وعورت کے باہمی جنسی استمتاع کو درست قرار دینا انسانی معاشرے کے مصالح کے لحاظ سے عقلا بھی درست نہیں۔

الکیا الہراسی اس پر سوال اٹھاتے ہیں کہ نسب کے ثبوت کی ضرورت کچھ شرعی احکام پر عمل کے لیے پیش آتی ہے، اگر وہ نہ ہوں تو محض عقلا نسب کی پہچان لازم نہیں۔ رہا یہ سوال کہ پھر بچے کی پرورش اور کفالت کا کون ذمہ دار ہوگا تو الکیا الہراسی کہتے ہیں کہ اگر بچے کا باپ معلوم ہو تو بھی اس کے نطفے سے بچے کی پیدائش ہونے سے عقلا یہ لازم نہیں آتا کہ اس کی کفالت کا بھی وہی ذمہ دار ہو۔ یہ ذمہ داری بھی شرعا ہی لازم ہے، جبکہ شرعی حکم نہ ہونے کی صورت میں لوگ دوسرے عقلی طریقوں سے اس کی تدبیر کرنے کے پابند ہوتے کہ نسل انسانی کے بقا کو کیسے یقینی بنائیں۔ اس استدلال کی روشنی میں الکیا الہراسی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر شرعی حکم نہ ہو تو زنا عقلا قبیح نہیں، بلکہ بالکل جائز ہے، کیونکہ عورت کی رضامندی سے اس سے جنسی استمتاع کرنے میں نہ تو دونوں میں سے کسی کا نقصان ہے اور نہ یہ ظلم ہے۔ اس کی تائید میں الہراسی اہل عرب کے عرف کا حوالہ بھی دیتے ہیں جن کے ہاں زمانہ جاہلیت میں زنا اور اس سے حصول اولاد کی مختلف صورتیں رائج تھیں۔

جصاص اور الکیا الہراسی کے مذکورہ اختلاف سے ہمارے سامنے عقل کی ان دو نوعیتوں کے امتیاز کو سمجھنے کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس کا ذکر معاصر عرب فلسفی عابد الجابری نے اپنی معروف کتاب ’’تکوین العقل العربی“ میں فرانسیسی فلسفی آندرے لالاند کے حوالے سے کیا ہے۔ لالاند نے عقل کی ان دو صورتوں کو فرانسیسی میں La raison constituante اور La raison constituee کا عنوان دیا ہے جس کا ترجمہ عابد الجابری عربی میں ’’العقل السائد“ اور ’’العقل الفاعل“سے کرتے ہیں۔ اردو میں ہم انھیں، بالترتیب، ’’ عقل حاکم“ اور ’’عقل خادم“سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ ’’ عقل حاکم“ سے مراد وہ تمام اساسی تصورات، عقائد اور اصول وقواعد ہوتے ہیں جو کسی قوم میں عمومی طور پر مانے جاتے ہیں، جبکہ ان کی روشنی میں زندگی کے روز مرہ امور میں جس عقل کو استعمال کرتے ہوئے مخصوص نتائج تک پہنچا جاتا ہے، وہ ’’ عقل خادم“ ہوتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں ’’ عقل خادم“ صرف اخذ نتائج کی صلاحیت کا عنوان ہے جو انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے اور یہ صلاحیت تمام انسانوں میں ایک جیسی اور مشترک ہوتی ہے، جبکہ ’’ عقل حاکم“  کائنات، زندگی اور معاشرت وغیرہ سے متعلق ان بنیادی تصورات کا مجموعہ ہوتی ہے جنھیں کوئی قوم یا تہذیب مختلف اسباب سے اختیار کر لیتی ہے اور پھر انھی کے تحت تمام جزوی نتائج اخذ کرتی چلی جاتی ہے۔ عقل خادم کے برعکس، عقل حاکم کا سارے انسانوں میں مشترک ہونا ضروری نہیں، بلکہ مختلف قوموں اور تہذیبوں کی عقل حاکم مختلف ہو سکتی ہے۔ جب ہم ’’یونانی عقل“، ’’مسلم عقل“ اور ’’مغربی عقل“ جیسی تعبیرات استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد یہی عقل حاکم ہوتی ہے، کیونکہ عقل خادم کی سطح پر ایسے کسی قومی یا تہذیبی امتیاز کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

اس تنقیح کی روشنی میں زنا کے عقلی جواز یا عدم جواز کے حوالے سے جصاص اور الکیا الہراسی کے اختلاف کو سمجھیے تو جصاص دراصل ’’عقل  خادم“ کی سطح پر زنا کی عقلی قباحت کو واضح کرنا چاہ رہے ہیں جس میں نسب کی حفاظت، رشتوں کی حرمت اور صلہ رحمی وغیرہ کی ذمہ داریاں پہلے سے تسلیم شدہ ہیں یعنی ’’ عقل حاکم“ کا حصہ ہیں اور ان کو مان لینے کے بعد زنا کی قباحت واقعتا عقلی طور پر ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف الکیا الہراسی سوال کو عقل متحرک سے اٹھا کر ’’ عقل حاکم“ کی سطح پر لے جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ اس سطح پر اگر شریعت کے حکم کو فیصلہ کن حیثیت میں نہ مانا جائے تو بتائیے، کون سی چیز ہے جو صرف عقل کی بنیاد پر ایک اساسی اصول کے طور پر یہ طے کرتی ہو کہ نسل انسانی کی بقا کے لیے نسب کی حفاظت اور خاندان کی تشکیل کا طریقہ ہی واحد اور لازم طریقہ ہے؟

لالاند نے ’’عقل حاکم“ اور ’’عقل خادم“ کا فرق واضح کرتے ہوئے ایک بہت اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ ’’عقل حاکم“ کی تشکیل بھی ’’عقل خادم“ ہی کے ذریعے سے ہوتی ہے، یعنی کوئی قوم مشاہدہ اور استنتاج واستنباط کی مشترک انسانی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے حیات وکائنات سے متعلق کچھ بنیادی نتائج تک پہنچتی ہے۔ پھر اصول وتصورات کا یہ مجموعہ اس کے لیے ’’عقل حاکم“ کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور بعد کے مراحل میں اس کی ’’عقل خادم“ خود اپنی ہی تشکیل دی ہوئی ’’عقل حاکم“ کے تحت اور اسی کے دائرے میں مسائل واحکام اخذ کرنے کا وظیفہ انجام دیتی رہتی ہے۔ تفہیم کے لیے، عقل کے اس دوہرے عمل کو دستوری زبان میں آئین وضع کرنے اور پھر اس کی روشنی میں قانون سازی کے عمل سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ ایک خود مختار پارلیمان کسی نئے ملک کی تشکیل کے مرحلے میں ملک کے نظم ونسق سے متعلق ایک بنیادی دستوری ڈھانچہ وضع کرتی ہے جو اس کی اپنی ہی تخلیق ہوتا ہے، اور پھر اس کے بعد وہی پارلیمان انھی دستوری حدود وقیود کے دائرے میں قانون سازی کے عمل کو جاری رکھتی ہے۔

یہاں دو سوال اہم ہیں:

ایک یہ کہ اگر عقل خادم کسی بھی مرحلے میں معطل نہیں ہوتی اور ’’عقل حاکم“ کی تشکیل بھی اسی کی مرہون منت ہوتی ہے تو پھر عقل حاکم اور عقل خادم  کے امتیاز کی سرے سے ضرورت اور معنویت ہی کیا ہے؟ یعنی اس سارے عمل کو ہم سادہ طور پر ’’عقل “ ہی کی سرگرمی سے کیوں تعبیر نہیں کر دیتے؟

دوسرا یہ کہ عقل خادم کی تعریف اگر یہ ہے کہ یہ ’’مانے ہوئے“ مفروضات سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت کا نام ہے تو سوال یہ ہے کہ ’’عقل حاکم“ کی تشکیل کے بعد تو ’’عقل خادم“ کے لیے نقطہ حوالہ (یعنی پوائنٹ آف ریفرنس) ’’عقل حاکم“ بن جاتی ہے، لیکن عقل حاکم کی تشکیل کرتے ہوئے عقل کن بنیادوں پر انحصار کرتی ہے، یعنی خود عقل حاکم کی تشکیل کا عمل، عقل کن اصولوں کی روشنی میں انجام دے پاتی ہے؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ عقل خادم، ان دونوں مرحلوں میں کام کر رہی ہوتی ہے، لیکن دونوں صورتوں میں اس کے تحرک کی نوعیت جوہری طور پر مختلف ہوتی ہے۔ عقل حاکم کے دائرے میں آنے والے سوالات کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

ایک حصہ وہ ہے جس میں عقلی تحرک کی غایت درپیش سوالات کو مستقل بنیادوں پرطے کرنا ہوتا ہے اور یہ سرگرمی وجودی سطح پر اوربہت ہی فوری نوعیت کی ہوتی ہے۔ عقلی سرگرمی کا یہ ہنگامی پن انسانی شعور کی ساخت اور اس کے وجودی احوال، دونوں سے پیدا ہوتا ہے۔ انسانی شعور زندگی کی معنویت سے متعلق کچھ بنیادی سوالات کا فوری اور فیصلہ کن جواب چاہتا ہے اور اسے زیادہ لمبے عرصے تک موخر رکھنے کا تحمل نہیں کر سکتا۔ تاخر کا یہ مرحلہ وجودی بے چینی کا مرحلہ ہوتا ہے جسے مستقل طور پر برداشت کرنا شعور انسانی کی طاقت سے باہر ہے۔ پھر اپنے وجودی احوال کے لحاظ سے انسان کو ٹھوس مادی نوعیت کے مطالبات سے نبرد آزما ہونا پڑتا ہے اور ان کے روبرو اپنی سعی وکاوش کو رو بہ عمل کرنے کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے کہ بنیادی سوالات کا ایک متعین جواب طے کیا جا چکا ہو۔

پس ایک تارک الدنیا سادھو یا ایک محو تفکر فلسفی تو یہ کر سکتا ہے کہ ہمیشہ ان سوالات پر مراقبے کی کیفیت میں رہے، لیکن معاشرت کی سطح پر زندگی کا تسلسل قائم رکھنے کے تقاضے بنیادی سوالات کے حوالے سے گومگو کی کیفیت میں پورے نہیں کیے جا سکتے۔ چنانچہ اس مرحلے پر عقل مجبور ہوتی ہے کہ سوالات کا ایک جواب طے کرے اور پھر اسے ’’مفروغ عنہ“ قرار دے کر اگلے مراحل کی طرف متوجہ ہو جائے جو لامتناہی اور تسلسل وتغیر سے عبارت ہیں۔ جوابات کا یہ مجموعہ ’’عقل حاکم“ کا وہ بنیادی حصہ قرار پاتا ہے جو اگرچہ عقل خادم ہی کی سرگرمی سے وجود پذیر ہوتا ہے، لیکن خود عقل خادم انھیں ایک دفعہ طے کر کے اور مابعد کی ساری سرگرمیوں کے لیے بنیاد کا درجہ دے کر آگے بڑھ جانا چاہتی ہے، اس لیے اسے ایک الگ کیٹگری شمار کرنا منطقی اصولوں کا ایک لازمی مقتضا ہے۔

عقل حاکم کے دائرے میں تصورات ومسلمات کا دوسرا حصہ وہ ہوتا ہے جس کی تشکیل پہلے حصے کی طرح urgent نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لیے ایک طویل تاریخی سفر طے کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مثال کے طور پر عالم غیب پر یقین، انسانی معاملات کا کسی ماورا ہستی کے ارادہ ومنشا کے تابع ہونا اور موت کے بعد کسی نہ کسی صورت میں زندگی کے تسلسل وغیرہ جیسے تصورات اگر عقل حاکم کے پہلے دائرے سے متعلق ہیں تو انسانی معاشرت کی تنظیم کی بنیاد بننے والے مختلف تصورات اور اصول واقدار کو ہم عقل حاکم کے دوسرے دائرے میں شمار کر سکتے ہیں جنھوں نے معاشرت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ خاص شکل اختیار کی ہے اور بسا اوقات صدیوں کے سفر کے بعد ان تصورات کے مجموعے نے وہ خاص سانچہ بنا دیا جسے کسی قوم یا تہذیب کا امتیازی انداز فکر یا طرز زندگی سمجھا جاتا ہے۔

دوسرا سوال جو ہماری موجودہ گفتگو کے سیاق میں بہت بنیادی اہمیت کا حامل ہے، یہ ہے کہ ’’عقل حاکم“ کی تشکیل کے لیے وہ کون سے شعوری وسائل ہیں جو عقل خادم کو دستیاب ہوتے ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ان شعوری وسائل کی مدد سے متعین جوابات تک پہنچنے کے عمل کو ایک خاص رخ دینے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں؟ خاص طور پر یہ کہ انسانی شعور کے عمومی وسائل وآلات (وجدانی احساسات، جذبات، منطقی تصورات، محسوسات وتجربات) کے علاوہ مذہبی علم یا وحی کا اس میں کیا کردار ہو سکتا ہے یا تاریخی طور پر رہا ہے اور اس خاص ذریعہ علم کی، عام انسانی ذرائع علم کے ساتھ تعامل کی نوعیت کیا ہے؟

اس سوال کا جواب ٹھیک طریقے سے سمجھ لینا اس اختلاف کے ممکنہ حل کی بھی ایک کلید فراہم کرتا ہے جو عقل وشرع کے باہمی تعلق کے حوالے سے مسلمان متکلمین کے مابین پایا جاتا ہے۔ ہماری رائے میں اس بحث میں عقل حاکم اور عقل خادم  کا امتیاز بہت بنیادی ہے اور اس نکتے پر کماحقہ توجہ نہ دیے جانے کے باعث یہ سوال اسلامی علمیات میں کافی الجھ سا گیا ہے۔ ان شاء اللہ کسی آئندہ نشست میں اس پر نسبتا تفصیل سے کچھ معروضات پیش کی جائیں گی۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(222)    لِلَّذِینَ اَحسَنُوا فِی ھَذہِ الدُّنیَا حَسَنَۃ کا ترجمہ

یہ جملہ قرآن مجید میں دو مقامات پر آیا ہے۔ اس جملے میں ”فِی ھذِہِ الدُّنیَا“ کو اگر ”اَحسَنُوا“ سے متعلق مانیں گے تو ترجمہ ہوگا: جن لوگوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لیے نیک بدلہ ہے۔اور ”فِی ھذِہِ الدُّنیَا“ کو اگر ”حَسَنَۃ“ کی خبر مقدم مانیں گے تو ترجمہ ہوگا: ”جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے اس دنیا میں نیک بدلہ ہے“۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام طور سے اردو مترجمین نے دونوں جگہ الگ الگ ترجمہ کیا ہے:

(1) وَقِیلَ لِلَّذِینَ اتَّقَوا مَاذَا اَنزَلَ رَبُّکُم قَالُوا خَیرًا لِّلَّذِینَ اَحسَنُوا فِی ھذِہِ الدُّنیَا حَسَنَۃ وَلَدَارُ الآخِرَۃ خَیر وَلَنِعمَ دَارُ المُتَّقِینَ۔ (النحل: 30)

”دوسری طرف جب خدا ترس لوگوں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے جو تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے، تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ”بہترین چیز اتری ہے“، اِس طرح کے نیکوکار لوگوں کے لیے اِس دنیا میں بھی بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے بڑا اچھا گھر ہے متقیوں کا “۔(سید مودودی)

”جو لوگ نیکوکار ہیں ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جن لوگوں نے بھلائی کی راہ اختیار کی، ان کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جنہوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ان کے لیے بھلائی ہے“۔ (احمد رضا خان)

(2) قُل یَا عِبَادِ الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّکُم لِلَّذِینَ اَحسَنُوا فِی ھذہِ الدُّنیَا حَسَنَۃ وَاَرضُ اللَّہِ وَاسِعَۃ إنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُونَ اَجرَھم بِغَیرِ حِسَابٍ۔ (الزمر :10)

”کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو، جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والوں ہی کو ان کا پورا پورا بے شمار اجر دیا جاتا ہے“ (جوناگڑھی)

”جن لوگوں نے اِس دنیا میں نیک رویہ اختیار کیا ہے ان کے لیے بھلائی ہے“۔ (سید مودودی)

”جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لیے بھلائی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لیے نیک بدلہ ہے“۔(محمد جوناگڑھی)

”جو لوگ اس دنیا میں نیکی کریں گے ان کے لیے (آخرت میں) نیک صلہ ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”جنہوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے“۔ (احمد رضا خان)

سورة الزمر والے جملے کا درست ترجمہ سورة النحل والے جملے کی روشنی میں متعین ہوجاتا ہے، کیونکہ وہاں اس کے بعد وَلَدَارُ الآخِرَۃ خَیر سے یہ بات طے ہوجاتی ہے کہ حَسَنَۃ سے مراد دنیا کی بھلائی ہے۔ سورة النحل کی درج ذیل آیت بھی اس کی تائید کرتی ہے:

وَالَّذِینَ ھاجَرُوا فِی اللَّہِ مِن بَعدِ مَا ظُلِمُوا لَنُبَوِّئَنَّھم فِی الدُّنیَا حَسَنَۃ وَلَاَجرُ الآخِرَۃ اَکبَرُ لَو کَانُوا یَعلَمُونَ۔ (النحل: 41)

”اور جن لوگوں نے ظلم سہنے کے بعد خدا کے لیے وطن چھوڑا ہم ان کو دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے۔ اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے۔ کاش وہ (اسے) جانتے“۔ (فتح محمد جالندھری، کاش کا لفظ اللہ کے لیے مناسب نہیں ہے۔)

اس جائزے میں ایک دلچسپ بات تو یہ سامنے آئی کہ اکثر مترجمین نے سورة النحل والے جملے کا ترجمہ تو سیاق کلام کے مطابق کیا ہے، لیکن تقریباً ان تمام مترجمین نے سورة الزمر والے جملے کا ترجمہ اس سے مختلف کردیا۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ سامنے آئی کہ مولانا احمد رضا خان نے دونوں مقامات پر عام مترجمین سے مختلف ترجمہ کیا، یعنی پہلی آیت میں وہ ترجمہ کیا جو دوسروں نے دوسری آیت میں کیا، اور دوسری آیت میں وہ کیا جو دوسروں نے پہلی آیت میں کیا۔ سورة النحل میں سیاق کی واضح دلالت کے باوجود اس سے ہٹ کر ترجمہ کرنا حیر ت انگیزاتفاق ہے، جبکہ سورة الزمر میں وہی ترجمہ کیا ہے۔ سورة الزمر میں اکثر مترجمین نے جو ترجمہ کیا ہے، وہ اس آیت میں سیاق کلام کی دلالت سے مطابقت نہیں رکھتا ہے، کیونکہ اس جملے کے بعد ہی وَاَرضُ اللَّہِ وَاسِعَۃ آیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حَسَنَۃ  سے مراد دنیا کی بھلائی ہے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک دونوں مقامات پر اس جملے کا درست ترجمہ یوں ہے: ”جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھی نیک بدلہ ہے“۔ اس کی ایک دلیل تو سورة النحل کی مذکورہ بالا دونوں آیتیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک دلیل اور یہ ہے کہ دنیا تو ہے ہی دار العمل، اس لیے یہ کہنے سے کہ ،جس نے اس دنیا میں نیکی کی، کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوگی، لیکن یہ کہنے سے کہ نیکی کرنے والے کو دنیا میں بھی نیک صلہ ملے گا، ایک نئی بات معلوم ہوتی ہے، اور وہ یہ کہ نیک لوگوں کے لیے آخرت کے صلے کے ساتھ دنیا میں بھی نیک صلہ ہے۔

(223)    زَوجَین کا ترجمہ

اردو میں جوڑا نر اور مادہ کے مجموعے کو کہتے ہیں، اور ان میں سے ہر ایک کو جوڑ کہتے ہیں، نر اور مادہ کے ایک جوڑے کو عربی میں زوجین کہتے ہیں۔ اس پہلو سے درج ذیل آیتوں کے مختلف ترجموں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے:

(1) وَمِن کُلِّ شَیئٍ خَلَقنَا زَوجَینِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرُونَ۔ (الذاریات: 49)

”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں، شاید کہ تم اس سے سبق لو“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑ بنائے کہ تم دھیان کرو“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہر چیز کی ہم نے دو قسمیں بنائیں تاکہ تم نصیحت پکڑو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ہم نے ہر چیز سے دو جوڑے پیدا فرمائے تاکہ تم دھیان کرو اور سمجھو“۔ (طاہر القادری)

(2) وَاَنَّہ خَلَقَ الزَّوجَینِ الذَّکَرَ وَالاُنثَیٰ۔ (النجم: 45)

”اور یہ کہ اسی نے جوڑا یعنی نر مادہ پیدا کیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور یہ کہ اسی نے دو جوڑے بنائے نر اور مادہ“۔ (احمد رضا خان، نر اور مادہ ایک جوڑا ہوا)

(3) فَجَعَلَ مِنہ الزَّوجَینِ الذَّکَرَ وَالاُنثَیٰ۔ (القیامۃ :39)

”تو اس سے دو جوڑ بنائے مرد اور عورت“۔(احمد رضا خان)

”پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں“۔ (سید مودودی)

”پھر اس کی دو قسمیں بنائیں (ایک) مرد اور (ایک) عورت“۔ (فتح محمد جالندھری)

(4) حَتَّیٰ إِذَا جَاءَ اَمرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلنَا احمِل فِیھا مِن کُلٍّ زَوجَینِ اثنَینِ۔ (ہود: 40)

”یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور وہ تنو ر ابل پڑا تو ہم نے کہا ”ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لو“۔ (سید مودودی)

”یہاں تک کہ کہ جب ہمارا حکم آیا اور تنور اُبلا ہم نے فرمایا کشتی میں سوار کرلے ہر جنس میں سے ایک جوڑا نر و مادہ“۔ (احمد رضا خان)

(5) فَاسلُک فِیھا مِن کُلٍّ زَوجَینِ اثنَینِ۔ (المومنون: 27)

”تو اس میں بٹھالے ہر جوڑے میں سے دو “۔(احمد رضا خان، ہر ایک میں سے ایک جوڑا، نہ کہ ہر جوڑے میں سے دو)

”تو، تو ہر قسم کا ایک ایک جوڑا اس میں رکھ لے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو سب (قسم کے حیوانات) میں جوڑا جوڑا (یعنی نر اور مادہ) دو دو کشتی میں بٹھا دو“۔ (فتح محمد جالندھری، یہاں بھی تعبیر مبہم ہوگئی ہے۔)

”تو تم اس میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو جوڑے (نر و مادہ) بٹھا لینا“۔ (طاہر القادری)

مذکورہ تمام آیتوں میں جن لوگوں نے دو جوڑے ترجمہ کیا ہے، وہ درست نہیں۔ قسمیں ترجمہ کرنا بھی صحیح نہیں ، کیونکہ یہاں صنفی تقسیم کو بتانا مقصود نہیں ہے بلکہ صنفی رشتے کو بتانا مقصود ہے جو لفظ زوجین سے ادا ہوتا ہے۔

(224)  ازواج کا ترجمہ

ازواج، زوج کی جمع ہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال قسمیں بتانے کے لیے بھی کیا گیا ہے، اور کہیں شوہر اور کہیں بیوی کے لیے بھی کیا گیا ہے۔ درج ذیل تین مقامات پر ترجمے غور طلب معلوم ہوتے ہیں:

(1) ثَمَانِیَۃ اَزوَاجٍ مِّنَ الضَّانِ اثنَینِ وَمِنَ المَعزِ اثنَینِ۔ (الانعام: 143)

”(پیدا کیے) آٹھ نر و مادہ یعنی بھیڑ میں دو قسم اور بکری میں دو قسم“۔ (محمد جوناگڑھی)

”آٹھ قسم کے جوڑے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

”آٹھ قسم کے جوڑے پیدا کیے ہیں“۔ (محمد حسین نجفی)

”آٹھ قسم کے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”چوپایوں کی آٹھ قسموں کو لو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”آٹھ نرو مادہ، چوپایوں کے آٹھ جوڑ، چوپایوں کے چار جوڑے“۔

(2) وَاَنزَلَ لَکُم مِّنَ الاَنعَامِ ثَمَانِیَۃ اَزوَاجٍ۔ (الزمر: 6)

”اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے“۔ (سید مودودی)

”اور تمہارے لیے چوپایوں میں سے (آٹھ نر ومادہ) اتارے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور تمہارے لیے چوپایوں میں سے آٹھ جوڑے تھے“۔ (احمد رضا خان)

”اور اسی نے تمہارے لیے چار پایوں میں سے آٹھ جوڑے بنائے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور پھر تمہارے لیے (تعداد میں) چوپایوں کے آٹھ جوڑے پیدا کیے“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور تمہارے لیے (نر ومادہ) چوپایوں کی آٹھ قسمیں اتاریں“۔ (امین احسن اصلاحی)

And He sent down to you eight pairs of the cattle. (Qaribullah & Darwish)
and he sent down for you eight head of cattle in pairs (Yousuf Ali)

ثَمَانِیَۃ اَزوَاجٍ کا ترجمہ آٹھ جوڑے موزوں نہیں ہے، اسی طرح انگریزی کے بھی مذکورہ دونوں ترجموں کے فرق پر غور کیا جاسکتا ہے۔

(3) وَالَّذِینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا ھب لَنَا مِن اَزوَاجِنَا وَذُرِّیَّاتِنَا قُرَّۃ اَعیُنٍ۔ (الفرقان: 74)

”جو دعائیں مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے“۔ (سید مودودی)

”اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما“۔ (محمد جوناگڑھی)

and who pray "O our Sustainer! Grant that our spouses and our offspring be a joy to our eyes, (Asad)
And who say: Our Lord! Vouchsafe us comfort of our wives and of our offspring, (Pickthall)

” کسانی کہ می گویند: پروردگارا! از ہمسران و فرزندانمان مایہ روشنی چشم ما قراردہ“۔ (مکارم شیرازی)

عربی زبان میں لفظ ازواج دونوں پر صادق آتا ہے۔ انگریزی میں spouseاس کا درست مفہوم ادا کرتا ہے۔ اردو میں میری علم کی حد تک سبھی لوگوں نے اس آیت میں ازواجنا کا ترجمہ ہماری بیویاں کیا ہے۔

فارسی میں عام طور سے اس آیت میں مذکور ازواج کا ترجمہ ہمسران کیا گیا ہے، لفظ ہمسر فارسی زبان میں بیوی کے لیے بھی آتا ہے اور جوڑے کے ساتھی کے لیے بھی۔

بہرحال، اس آیت میں ازواج کا ترجمہ ایسا ہونا چاہیے جس میں عموم ہو، اور اس دعا کی معنویت صرف شوہر کے لیے نہیں رہے بلکہ بیوی کے لیے بھی رہے۔مجھے اردو میں spouse یا زوج کی طرح بالکل موزوں لفظ نہیں ملا، تاہم انسانوں کے سیاق میں شریک حیات اور جیون ساتھی جیسے الفاظ بھی مطلوبہ مفہوم کو ادا کرتے ہیں۔


خدا کی رحمت اور عدل: ایک حقیقت کے دو نام

ڈاکٹر عرفان شہزاد

فطرت الہی اور فطرت انسان کی مشترکہ اساسات اور احساسات:

فطرت الہی کو جاننے اور سمجھنے کا راستہ فطرت انسانی  ہے۔

فِطْرَتَ اللَّہ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْھَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّہ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ [الروم: 30]

"تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیاہے۔"

اخلاقیات اور جمالیات کے باب میں انسانوں کی فطرت میں پائے جانے والے  بنیادی اور مشترکہ احساسات اور ان کی اساسات فطرت الہی پر مبنی ہیں۔ انسان اسی چیز کو اچھا اور برا سمجھتا ہے جو فطر ت الہی سے اسے ودیعت ہوا ہے۔ اس کا برعکس کہنا بھی اسی وجہ سے درست ہے کہ انسانی فطرت جسے اچھا اور برا سمجھتی ہے وہ خدا کے نزدیک بھی اچھا اور برا ہے۔ یہ ایک منصوص قضیہ ہے۔ اس کے مقابل اس فہم کا نقص یا کوئی نص ہی سے کوئی دلیل پیش کی جائے تو قابل اعتنا ہو سکتی ہے، خیال آرائی کی یہاں کوئی حیثیت نہیں۔

حسن و قبح اور عدل و ظلم کا معیار:

 حسن و قبح اور عدل و ظلم معروض میں موجود تصورات نہیں ہیں، جنھیں انسان خارج سے اخذ کرتا ہے اور جن کی پابندی خدا پر بھی لازم ہو، یہ فطرت الہی  سے پھوٹے تصورات ہیں ،جن کا پرتو انسانی فطرت میں آیاہے اور اس وجہ سے ان کی پیروی اور پابندی انسان خود پر لازم سمجھتا ہے۔ یہ احساسات تمام انسانیت کا مشترک ورثہ اور اثاثہ ہیں، اسی لیے یہ عالم گیر سطح پر یکساں ہیں۔

عدل و ظلم، حسن و قبح اور نیکی و بدی کے تصورات اور احساسات کی انسانی فطرت اور ذہن میں موجودگی کے بارے  میں  کوئی بحث نہیں، البتہ ان کی تعریف اور اطلاقی صورتوں کی تعیین میں اختلاف اور مباحثہ میں ہوتا ہے۔ فلاسفہ کے ایک محدود گروہ، جو کسی بھی تصور اور قدر کی آفاقیت اور استقلال کے قائل نہیں، کو چھوڑ کر ایسا کبھی نہیں سمجھا جاتا کہ یہ طے کیا جائے کہ عدل کوئی قدر ہے بھی یا نہیں، یا ظلم کوئی تصور ہوتا ہے یا نہیں اور اسی طرح نیکی اور بدی کوئی تصور رکھتے ہیں یا نہیں۔ البتہ یہ مباحثہ ہوتا ہے کہ فلاں معاملے میں عدل کی کون سی صورت عدل کہلائے گی اور کیا چیز ظلم بن جائے گی اور یہ کہ کوئی فعل درحقیقت نیکی ہے یا نہیں۔ تعریف اور اطلاق میں اختلاف سے تصورباطل نہیں ہو جاتا۔ احساس اور تصور کی سطح پر انسانوں کا ہمہ گیر اتفاق اس پر ایک عالم گیر شاہد ہے۔

عدل و رحمت سے محبت اور ظلم اور ناانصافی سے نفرت کا تجربہ چند ماہ کے بچوں تک میں کر لیا گیا ہے1,2۔ ہمیں بچوں میں ان احساسات کو منتقل نہیں کرنا پڑتا، بلکہ ان کے اندر موجود ان احساسات کے اطلاقات کے وقت ان کی ابتدائی رہنمائی کرنا ہوتی ہے۔ انھیں یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ اچھائی اوربرائی کے احساسات کیا ہوتے ہیں، انھیں صرف یہ بتانا ہوتا ہے کہ فلاں اور فلاں چیز کیوں اچھی یا بری ہے۔  لیکن اچھا ئی اور برائی ہوتی کیا ہے، اس کو موضوع  نہیں بنانا پڑتا۔ یہ اس لیے کہ ان کا علم فطرت سے وہ اسی طرح لے کر آتے ہیں جیسے بھوک پیاس اور زبان سیکھنے اور بولنے کی جبلت لے کر آتے ہیں۔ ماحول سے وہ تصورات کے اطلاقات سیکھتے ہیں، تصورات نہیں سیکھتے، وہ پہلے سے ان میں موجود ہوتے ہیں۔

خدا کی رحمت و عدل:

حسن و قبح کے یہ مشترک احساسات اور ان کی اساسات، انسانوں کی ایک دوسرے کے درمیان اورخدا اور بندے کے درمیان مکالمہ اور مخاطبہ کی بنیاد اور ذریعہ ہیں۔ خدا اور انسان کی فطرت کے درمیان یہ احساسات اور ان کی اساسات کا اشتراک اگر نہ ہو تو بندوں کو یہ باور کرانے کا کوئی جواز ہی نہیں رہتا کہ خدا رحم اور عدل کرنے والا ہے اور ظلم نہیں کرتا، جب کہ  رحم، عدل اور ظلم کے مفاہیم اور ان کا میرٹ وہ نہیں جو انسان سمجھ سکتے ہیں۔

خدا کا رحم اور عدل کرنا، ظلم نہ کرنا اور اپنے وعدے پورے کرنے کے مفاہیم وہی ہیں جو انسانی عقل و فطرت سمجھتی ہے۔ خدا کے ان فرامین کے باوجود خدا کو کسی ضابطے کا پابند نہ سمجھنا یا انسانی فہم میں پائے جانے والے ان ضابطوں سے اسے بے نیاز سمجھنا بے بنیاد عقلی تجاوز ہے۔ یہ غلط فہمی خدا پر  بھروسے اور اس بھروسے پر اس کی اطاعت کرنے اور اس پر امید جزر کرنے اور اس کے ڈر سے اس کی معصیت سے بچنے اور معصیت پر سزا کے خوف کی ساری خدائی اسکیم کو عملاً معطل کر دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ خدا کو ظالم یا  لاابالی سمجھ کر اس سے ناراض ہو جانے یا اسےنظر انداز کرنے یا اباحیت کی  صورت میں نکلنا بدیہی ہے۔

خدا کی رحمت اور عدل کے اصولوں کی اطلاقی صورتوں کے پیچھے اس کے علم اور حکمت کا احاطہ نہ کرنے سکنے کی بنا پر یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ خدا کے ہاں رحمت اور عدل کے مفاہیم ہی کوئی اور ہیں۔ یہ ایسی ہی غلط فہمی ہے جیسے کسی عدالتی فیصلے کی تفصیلی جانکاری کے بنا یہ سمجھ لیا جائے کہ فیصلہ میرٹ پر نہیں ہوا ہوگا یا میرٹ ہی کوئی اور مقرر کیا گیا ہوگا جو عام انسانی فہم سے بالاتر کوئی تصور ہے۔

خدا کسی قبیح کا ارتکاب نہیں کرتا، کیونکہ ہر قبیح ظلم ہے اور اس نے اپنی ذات سے ظلم کی نفی کی ہے۔ قبیح کا ارتکاب نہ کرنے کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اس پر قدرت نہیں رکھتا، بلکہ یہ ہے کہ قبیح کا ارتکاب کرنا اس کی شان کے لائق نہیں، یعنی وہ شان جو اس نے خود بیان کی ہے۔ قدرت ہونے کے باوجود قبیح کا اتکاب نہ کرنا خدا کو ہماری نظر میں عظیم بناتا ہے، ورنہ مجبور کے لیے قبیح کا ارتکاب نہ کرنا کوئی کارنامہ نہیں۔ یہی بات اس کو مہربان خدا بناتی ہے جس سے محبت کی جا سکتی ہے، ورنہ صرف عظمت صرف خوف اور خشیئت پیدا کرتی ہے۔

دنیا کی تخلیق اور مشیئت خداوندی:

دنیا کی تخلیق کے منصوبے کی اساس خدا کی مشیئت ہے اور اس کا مقصدبندوں پر عنایات کرنا ہے۔ یہ مشیئت خدا کی صفات کے اظہار اور اس کی ہمہ گیر عبودیت کے لیے برپا کی گئی ہے نہ کہ محض رحمت کے اظہار کے لیے۔ مشیئت رحمتِ محض نہیں بلکہ عدل کے ساتھ گندھی ہوئی ہے۔ یہ محض رحمت ہوتی تو دکھ اور تکلیف نہ ہوتے۔ دکھ اور تکلیف نہ ہوتے تو خدا کی صفات رحمت، عدل اور کرم کا ظہور نہ ہوتا۔ خدا کی اس اسکیم میں بشمول انسان سب مخلوقات کو دکھ اور تکلیف سے بھی گزرنا پڑا۔ یہ سب انسان کو سامنے رکھ کر نہیں، بلکہ خدا کی صفات کے اظہار کےلیے بنایا گیا ہے۔  

ساری کائنات خدا کے سامنے تسلیم ہے، سوائے انسان اور جنّ کے عقلی وجود کے، جسے اس نے ارادہ واختیار دے کر اپنے سامنے تسلیم ہو جانے کی دعوت دی ہے۔

دنیا میں آزمایش کا اصول:

دنیا کا نظام اصول آزمایش پر ہے جس میں عدل نہیں ہے۔ اسی سے عدل کا تقاضا پیدا ہوتا ہے جو آخرت کے برپا کرنے کو لازم بنا دیتا ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا عادل ہے ورنہ آخرت میں عدالت لگانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ آزمایش کا قانون عدل پر مبنی نہیں ہے۔ عدل ہو تو آزمایش نہیں ہو سکتی۔ البتہ آزمایش کے خاتمے پر جزا اور سزا کا قانون مل کر اسے مطابق عدل اور عنایت رحمت کا مظہر بناتا ہے۔

ہمارے ہاں خدا کے وکیلوں کو دنیا میں بھی خدا کا افعال اور اسکیم کو مطابقِ عدل ثابت کرنے کی فکر دامن گیر رہی جس کےلیے انھوں نے عجیب تاویلات کیں۔ انھوں نے خدا کو ظلم سے بری قرار دینے کے لیے  اس کی ذات کے لیے عدل کے فطری اور معروف تصورات ہی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا کہ خدا کی آزاد ذات پر یہ پابندیاں نہیں لگائی جا سکتیں اور یہ کہ یہ انسانوں کے معیارات ہیں۔ حالانکہ یہ فطرت کے معیارات تھے جنھیں خود خدا نے ودیعت کیا تھا اور انسان کو مخاطب کرتے ہوئے اس نے انسان کے ذہن میں انھیں تصورت کی بنیاد پر خود کو عدل و رحمت کرنے والا اور ظلم نہ کرنے والا قرار دیا تھا۔ ایک بار جب خدا عدل کے معروف تصور کاپابند نہ رہا تو اس کی زد پھر آخرت کے تصور عدل پر بھی پڑی اور وہاں بھی خدا عدل کے تقاضوں سے آزاد قرار دے دیا گیا۔ یہ نظریہ خدا، دین اور مسلمان تینوں سے نادان دوستی پر مبنی تھا۔ خدا لاابالی ٹھرا جس کو چاہے سزا دے جس کو چاہے جزا دے، دین کے اوامر و نواہی کی پاسداری کارِ اضافی قرار پائے۔ خدا کے وعدے اور وعیدیں دونوں کے پورا کرنے کی پابندی خدا پر نہیں رہی۔ خدا  سےامید اور خوف دونوں کی بنیاد ہی نہ رہی تو اعمال اور اطاعت  اپنا جواز کھو بیٹھے۔ مسلم ذہن خدا کے بارے میں  بے یقینی کا شکار ہو گیا۔ خداعنایت کر دےتو نجات مل جائے گی مگر خدا قہر نازل کر دے تو کیا کیا جائے، اس سے بچنے کے لیے اس نے سہارے تلاشے اور تراشے یا وہ سرے سے مایوس ہو کر رہ گیا۔

میرٹ کا اصول اور تقاضے:

حقیقت خدا کے اپنے بیان میں اس کے برعکس تھی۔ اس کی رحمت نے چاہا کہ انسانوں کو ابدی نعمتوں سے نوازے۔ مگر اس نوازش کو اس نے اعزاز بنا یا جسے میرٹ پر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس میرٹ کے لیے اس نےانسان کو اچھائی اور برائی کی سمجھ  اور ارادہ اور اختیار دے کر آزمایش کا قانون بنایا۔ یہ اس کی مشیئت تھی۔

 آزمایش کا میرٹ خدا کی شان اور عنایات کے مطابق نہیں، بلکہ انسان کی استطاعت کے مطابق مقرر کیا گیا:

لَا يُكَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَھَا  [البقرة: 286]

اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔

 یہ رحمت ہے، لیکن یہی عدل ہے۔ ایسے ہی جیسے ہم میڑک کے طالب علم سے ماسڑز کی سطح کا امتحان نہیں لیتے۔

اس آزمایش کے لیے انسان کی تخلیق کا مقصد اسے میرٹ کی بنیاد پر کامیاب کرنا ہے:

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاۃ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَھُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُور [الملك: 2]

"(وہی) جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا  ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگذر فرمانے والا  بھی۔"

عدل سے مراد مساوات اور یکسانیت نہیں ہے۔ میرٹ کا سب کے لیے یکساں ہونا ظلم ہے، عدل نہیں۔ بے لاگ اور اندھا انصاف کرنا اور مستحق کو رعایت نہ دینا ظلم ہے عدل نہیں۔ مستحق کے لیے سفارش قبول کرنا بھی عدل کا تقاضا ہے۔ دوسرے پہلو سے دیکھیے تو یہی سب رحمت ہے۔ یہ سفارش نہ بے قاعدہ ہے نہ بے محابا اور نہ اتنی زور آور کہ خدا کو فیصلہ بدلنے پرمجبور کر سکے ورنہ یہ ظلم کی وکالت بن جائے گا:

يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَائِكَۃ صَفًّا لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَہُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا [النبأ: 38]

اُس دن، جب فرشتے اور جبریل امین، سب اُس کے حضور میں صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ اُس دن، جب وہی بولیں گے جنھیں رحمن اجازت دے اور وہ صحیح بات کہیں۔

 مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَہ إِلَّا بِإِذْنِہ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِہِ إِلَّا بِمَا شَاءَ [البقرة: 255]

"کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور میں کسی کی سفارش کرے۔ لوگوں کے آگے اور پیچھے کی ہر چیز سے واقف ہے اور وہ اُس کے علم میں سے کسی چیز کو بھی اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے، مگر جتنا وہ چاہے۔ "

وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِہِ الشَّفَاعَۃَ إِلَّا مَنْ شَھَدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ يَعْلَمُون [الزخرف: 86]

اُس کے علاوہ یہ جنھیں پکارتے ہیں، وہ شفاعت کا کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں، جو حق کی گواہی دیں گے اور وہ اُس کو جانتے بھی ہوں گے۔

یعنی جن کو سفارش کی اجازت ملے گی وہ خلاف حق کچھ نہیں کہیں گے۔

آزمایش کے قانون کا لازمی نتیجہ کامیابی کے ساتھ ناکامی، نیکی کے ساتھ بدی اور عدل کے ساتھ ظلم کی صورت میں نکلنا تھا۔ یہ سب اس آزمایش کی اسکیم کا حصہ ہے۔ اس سے رحمت اور عدل کا تقاضا پیدا ہوا کہ نیکوکاروں کو پورا صلہ ملے جو آزمایش گاہ میں نہیں ملتا اور مظلوموں کی داد رسی ہو جو یہاں نہیں ہو پاتی۔ یہ رحمانیت کا تقاضا تھا جو عدل پر منتج ہوتا ہے۔ یوں آخرت کا جواز پیدا ہوا جہاں پورا عدل بروے کار لایا جائے۔ ایسا نہ ہو تو دنیا  اپنی تمام تر تکوینی معنوییت کے باوجود عبث قرار پاتی اور خدا لاابالی ظالم، اور غیر حکیم ثابت ہوتا ہے جس نے نیکوکاروں کو پورا صلہ نہیں دیا، ہوس کے بچاریوں کو زیادہ پرلطف زندگی گزارنے کا موقع دیا اور مظلوموں کی داد رسی کا انتظام نہ کر کے ظالم کی حوصلہ افزائی کی۔

ظالم کو معافی اور رعایت دینا مظلوم کے حق میں ظلم ہے۔ ظالم و مظلوم دونوں خدا کی رحمت و عنایت کے مستحق ٹھریں تو یہ ظالموں کی حوصلہ افزائی ہے جس سے ان کو مظلوم پر زیادتی کرنے کی شہ ملتی ہے کہ اس کے لیے بھی امکان نجات و عنایت موجود ہے۔ یوں خدا ظالم کا سہولت کار بن کر ظالم ٹھرتا ہے، جب کہ اس نے خود پر رحمت لازم کر رکھی ہے۔

اس لحاظ سے دیکھیے تو رحمت اور عدل ایک دوسرے میں ممزوج اور مترادف ہیں اور رحمت یعنی کہ عدل کرنا خدا نے خود پر لازم قرار دے دیا ہے۔

قُلْ لِمَنْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلْ لِلَّہِ كَتَبَ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ لَيَجْمَعَنَّكُمْ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَۃ لَا رَيْبَ فِيہ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَھُمْ فَھُمْ لَا يُؤْمِنُونَ [الأنعام: 12]

"اِن سے پوچھو، زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، وہ کس کا ہے؟ کہہ دو، اللہ ہی کا ہے۔ اُس نے اپنے اوپر رحمت لازم کر رکھی ہے۔ وہ تم سب کو جمع کر کے ضرور روز قیامت کی طرف لے جائے گا جس میں کوئی شبہ نہیں۔ اِس کو وہی لوگ نہیں مانتے جنھوں نے اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کر لیا ہے۔"

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَۃِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّۃٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِھَا وَكَفَی بِنَا حَاسِبِينَ [الأنبياء: 47]

"روز قیامت کے لیے ہم انصاف کی ترازو رکھ دیں گے۔ پھر کسی جان پر ذرا بھی ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی کسی کا عمل ہو گا تو ہم اُس کو لا موجود کریں گے۔ اورہم (لوگوں کا) حساب لینے کے لیے کافی ہیں۔"

میرٹ پر سب کو داخلہ مل جانا میرٹ پر آنے والوں کے ساتھ فریب ہے۔ نیک و بد سب خدا کی رحمت اور عنایت سے بہرہ مند ہوں تو یہ نیکو کاروں کے ساتھ دھوکا ہے کہ نفس کے تقاضوں کے خلاف خدا کی مرضیات پر چلنے والے، نفس کی پجاریوں کے ساتھ ایک صف میں کھڑے کر دیے جائیں۔ دونوں کے نیک اور بد انجام میں فرق ہونا رحمت بھی ہے اور عدل بھی۔ چنانچہ خدا نے یہی بتایا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا:

أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ أَمْ لَكُمْ كِتَابٌ فِيہ تَدْرُسُونَ إِنَّ لَكُمْ فِيہ لَمَا تَخَيَّرُونَ أَمْ لَكُمْ أَيْمَانٌ عَلَيْنَا بَالِغَۃ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَۃِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ سَلْھُمْ أَيُّھُمْ بِذَلِكَ زَعِيمٌ [القلم: 35 - 40]

"(تم سمجھتے ہو کہ یہ نہیں ہو گا) تو کیا ہم اپنے فرماں بردار بندوں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے؟ تمھیں کیا ہوا ہے، تم کیسا حکم لگاتے ہو؟ کیا تمھارے پاس کوئی کتاب ہے جس میں تم پڑھتے ہو کہ وہاں تمھارے لیے وہی کچھ ہے جو تم پسند کرو گے؟ کیا تمھارے لیے ہم پر کوئی قسمیں ہیں جو قیامت تک چلی جائیں گی کہ تمھارے لیے وہی کچھ ہے جو تم حکم لگاؤ گے؟ اِن سے پوچھو کہ اِن میں سے کون اِس کا ذمہ لیتا ہے؟"

 اس لحاظ رحمت اور عدل کی حقیقت ایک ہے۔ ایسی رحمت جو عدل سے بے نیاز ہو، خود رحمت کے منافی ہے۔ رحمت اور عدل ایک دوسرے کو متوازن نہیں کرتے، نہ یہ متخالف اور متصادم ہیں، بلکہ یہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرا ناقص بلکہ باطل ہو جاتا ہے۔ کامل عدل رحمت کے بغیر ممکن نہیں اور رحمت بغیر عدل کے نہیں ہے۔

اس آزمایش میں میرٹ کی شرط عدل پر مبنی ہے۔ البتہ رحمت الہی کا تقاضا  ہوا کہ انسان کی خلقی مجبوریاں جیسے نسیان اور جذبات کے تصرف، اور نفس اور شیطان کی ترغیبات کے مقابلے میں رعایات بھی دی جائیں اور ان موانعات کے مقابلے میں میرٹ پر آنے کے لیے سہولت بھی مہیا کی جائے۔ چنانچہ، علم و عمل میں نسیان  اور دیانت دارانہ خطا پر بلا مشروط معافی اور جذبات کی مغلوبیت میں جرم کا ارتکاب اور اس کے فورا بعد ندامت پر لازمی درگزر کا اصول بتایا گیا:

رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا [البقرۃ : 286]

پروردگار، ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں تو اُس پر ہماری گرفت نہ  کر۔

إِنَّمَا التَّوْبَۃ عَلَی اللَّہ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّہُ عَلَيْھِمْ وَكَانَ اللَّہُ عَلِيمًا حَكِيمًا [النساء: 17]

اللہ پر توبہ قبول کرنے کی ذمہ داری اُنھی لوگوں کے لیے ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کر بیٹھتے ہیں، پھر جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں۔سو وہی ہیں جن پر اللہ عنایت کرتا اور اُن کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔

روز قیامت تثلیث کے قائلین مسیحیوں کے بارے میں خدا اور مسیح علیہ السلام کے درمیان مکالمے کے آخر میں خدا نے اپنا واضح طور پر اعلان فرمایا ہے کہ ان میں سے جو لوگ اپنے قول و قرار اور عہدو میثاق میں سچے ثابت ہوئے اور اُنھوں نے جانتے بوجھتے کسی گم راہی پر اصرار نہیں کیا، بلکہ جو کچھ سمجھا، دیانت داری کے ساتھ سمجھا، اُس میں دانستہ کوئی تبدیلی یا تحریف نہیں کی، پھر اپنی استطاعت کے مطابق اُس پر عمل پیرا رہے، اُن کے لیے جنت کی بشارت ہے۔

اِن تُعَذِّبہُم فَاِنَّہُم عِبَادُکَ وَاِن تَغفِر لَہُم فَاِنَّکَ اَنتَ العَزِیزُ الحَکِیمُ قَالَ اللَّـہ ھٰـٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُھُمْ لَھُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِھَا الْأَنْھَارُ خَالِدِينَ فِيھَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّـہُ عَنْھُمْ وَرَضُوا عَنْہ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [المائدہ : 119]

اب اگر آپ اُنھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ ہی زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کی سچائی  اُن کے کام آئے گی۔ اُن کے لیے باغ ہوں گے جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔زمین و آسمان اور اُن کے اندر تمام موجودات کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

خدا کی رحمت عدل سے تجاوز تب کرتی ہے جب ایسا کرنا خلاف عدل نہ ہو

خدا کی رحمت عنایت کی صورت میں عدل سے تبھی تجاوز کرتی ہے جب وہ عدل کے خلاف نہ ہو۔خدا کی رحمت اگر مجرموں کو دنیا میں فوراً سزانہ دے اور بار بار موقع دے،3 یا آخرت میں سزا نہ دینے کا  یاکچھ سزا دے کر ابدی سزا نہ دینے کا فیصلہ کرلے4تو رحمت کا یہ مظہر عدل کے منافی نہیں، مگر  یہ کہ  وہ ان پر عنایات بھی کرے یہ عدل کے منافی ہے۔ نیکوکار انعام یافتگان کے مقابل ظالموں اور فاسقوں کی محرومی خود بہت بڑی سزا ہے جب کہ انعام یافتگان کی نعمتیں ابدی ہوں اور محروموں کی محرومی بھی ابدی ہو۔  خدا اگر ظالموں کو فنا کر دے تو یہ بھی ان کے حق میں رحمت ہے اور یہ  عدل کے خلاف نہیں، اس لیے درست بھی ہے۔ یہ سزا بہت ہے کہ انھیں ابدی عنایات نہیں ملیں۔ یہ سب کرنا خدا کا اختیار (عزیز) ہے مگر خلاف عدل نہیں اور مظہر رحمت بھی ہے۔

سزا اور جزا کے اعلان کی پاسداری میں ایک فرق ہے۔ سزا کے اعلان کی پاسداری نہ کرنا غلط نہیں۔ وعدہ اور وعید میں سے یہ وعدہ ہے کہ جسے اگر پورا نہ کیا جائے تو یہ بد اخلاقی  ہے، اس لیے قبیح ہے اور خدا قبیح کا ارتکاب نہیں کرتا، لیکن وعید پر باوجود قدرت اور اختیار کے عمل نہ کرناعنایت سمجھاجاتا ہے اس لیے حسن ہے۔ چنانچہ خدا اگر کسی کو سزا نہ دے تو اسے کسی میعاد کی خلاف ورزی نہیں کہا جائے گا۔ البتہ وہ عنایت بھی کرے یہ خلاف عدل ہونے کی وجہ سے نہیں ہوگا۔

یہیں سے انبیا کی مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کا جواز سمجھ آ جاتا ہے کہ اگر یہ عنایت کے مستحق نہیں، تو کم از کم سزا سے نجات دے دی جائے اور خدا اس کا اختیار رکھتا ہے:

إِذْ قَالَ إِبْرَاھِيمُ رَبِّ اجْعَلْ ھَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ رَبِّ إِنَّھُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنّہ مِنِّي وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ  [إبراھيم: 35، 36]

(یہ ابراہیم کی اولاد ہیں )۔ اِنھیں وہ واقعہ سناؤ، جب ابراہیم نے دعا کی تھی کہ میرے پروردگار، اِس شہر کو امن کا شہر بنا اور مجھے اور میری اولاد کو اِس سے دور رکھ کہ ہم بتوں کو پوجنے لگیں۔ پروردگار، اِن بتوں نے بہت لوگوں کو گم راہی میں ڈال دیا ہے۔ (یہ میری اولاد کو بھی گم راہ کر سکتے ہیں )، اِس لیے جو (اُن میں سے) میری پیروی کرے، وہ تومیرا ہے اور جس نے میری بات نہیں مانی، اُس کا معاملہ تیرے حوالے ہے، پھر تو بخشنے والا ہے، تیری شفقت ابدی ہے۔

إِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَإِنَّھُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [المائدة: 118]

اب اگر آپ اُنھیں (مسیح علیہ اور ان کی والدہ کو بھی معبود بنانے والوں کو) سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ ہی زبردست ہیں، بڑی حکمت والے ہیں۔

  چنانچہ اگر خدا ظالموں کو عنایات اور انعامات سے محروم کرنے پر اکتفا کر لے یا انھیں فنا کر ڈالے5تو یہ خلاف عدل نہیں کہ مظلوم کی داد رسی ظالم کو سزا دینے پر منحصر نہیں، مگر ظالم پر عنایت خلاف عدل ظالم کی حوصلہ افزائی ہے۔ اسی طرح میرٹ پر آنے کے بعد خدا کی بے پایاں عنایات کا تعلق بھی رحمت سے ہے، مگر یہ عدل کے منافی نہیں، اس لیے روا ہے۔ یہاں بھی لیکن عدل بالکلیہ خارج نہیں ہوا۔ چنانچہ کسی غیر نبی پر خواہ کتنی عنایات ہو جائیں، وہ نبی کا درجہ نہیں پا سکتا۔

دنیا میں البتہ عنایات جتنی زیادہ ہوتی ہیں میرٹ میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔

وحی سے مزید سہولت کی عنایت اور میرٹ میں اضافہ

 وحی  کے علم کے ذریعے سے انسانوں کے لیے  عدل کے قیام میں مزید سہولت بھی فراہم کی گئی:

اللَّہُ الَّذِي أَنْزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ [الشورى: 17]

"اللہ ہی ہے جس نے اپنی یہ کتاب قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے اور (اِس طرح حق و باطل کو الگ الگ کرنے کے لیے) اپنی میزان نازل کر دی ہے۔"

وحی کو ہدایت اور نور کہا گیا جو نفس اور جہالت کے ظلمات سے انسان کو عقیدے اور عمل کی درست اور متوازن راہ دکھائے۔

وحی کی عنایت ہوتے ہی انسان کے میرٹ میں اضافہ کر دیا گیا۔ ہر فرد کی جانچ اس کے میسر علم کے بقدر ہونے کا عادلانہ اصول مقرر ہوا تو وحی کے حاملین کا میرٹ بھی غیر حاملین سے زیادہ مقرر ہوا۔ عنایت (رحمت) اور عدل یہاں بھی باہم ممزوج ہیں۔  وحی کو براہ راست پانے والے انبیا کے محاسبے اور میرٹ کا معیار استدلال کی راہ سے وحی  وصول کرنے والے عام لوگوں کے مقابلے میں کہیں بلند رکھا گیا۔ یونس علیہ السلام  وحی کے براہ راست مخاطب تھے، انھیں ایک خطا پر مچھلی کے پیٹ میں بند کردیا گیا، پھر جب ندامت اور توبہ کی تو معافی ملی ورنہ وہی ان کا مدفن قرار پا گیا تھا۔ ادھر ان کی قوم شرک جیسے شدید گناہ اور اس پر سرکشی کے باوجود بغیر سزا کے محض توبہ کرنے پر معافی کی مستحق قرار پائی۔

خدا کی رحمت اس کے غضب پر بڑھی ہوئی ہے ،اس کے عدل پر نہیں۔

اخلاق و شرع اور عدل و رحمت:

کائنات کاتکوینی نظا م میزان عدل پر قائم ہے۔ اس میں معمولی تغیر عظیم فسادکا سبب بنتا ہے۔ انسان کو ارادہ اور اختیار، نسیان اور جہالت کے عوارض اور نفس اور شیطان کی ترغیبات دے کر نظام زندگی میں اسی میزان عدل کو قائم کرنے کی آزمایش میں مبتلا کیا گیا ہے۔ اس میں فطرت اور وحی کی رہنمائی سے انحراف فساد کا سبب بنتا ہے:

وَالسَّمَاءَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِيزَانَ أَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ  وَأَقِيمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُوا الْمِيزَانَ [الرحمن:7، 8، 9]

"اور اُس نے آسمان کو اونچا کیا اور اُس میں میزان قائم کر دی کہ (اپنے دائرۂ اختیار میں) تم بھی میزان میں خلل نہ ڈالو۔اور انصاف کے ساتھ سیدھی تول تولو اور وزن میں کمی نہ  کرو۔ "

یہ اخلاقیات اور قانون کی میزان ہے۔ قانون کی  بنیاد بھی اخلاقیات ہوتی ہے۔اس میزان کے توازن میں کوتاہی اور خلاف ورزی بھی فسادات کا سبب بنتی ہے۔ یہی فساد آخرت تک ممتد ہو جاتا اور انسان کو دنیا اور آخرت دونوں کے خسران میں ڈال دیتا ہے۔

اخلاق و شرع دونوں میں وحی کی ہدایات اور احکامات عدل اور رحمت کا امتزاج ہیں۔ عقیدے کے باب میں خدا کے وجود کو تسلیم کرنا اور اس پر بنا پر اس کی عبادت کرنا عقل و فطرت کا تقاضا بن کر سامنے آتا ہے تو دیانت داری کا تقاضا اسے تسلیم کرتے ہوئے اس کے مقتضیات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ یہی عدل ہے۔ وحی اسی عقلی استدلال کی طرف متوجہ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ یہ سہولت خدا کی رحمت سے صادر ہونے والی عنایت ہے تاکہ انسان عقل کی عدالت کا فیصلہ تسلیم کرے۔

سماجی اخلاقیات کے باب میں سچی گواہی دینا،عداوت  کے باوجود حق پر قائم رہناعدل ہے،سچ بولنا، جھوٹ سے بچنا، یہی میزان عدل کو قائم کرنا ہے، وحی اسی کی دعوت  دیتی ہے۔ یہ دعوت رحمت کا نتیجہ ہے کہ انسان عدل قائم کر سکے۔

قانون کے باب میں فرائض کو استطاعت کے ساتھ متعلق کرنا اور حالت اضطرار میں احکام میں نرمی اور گنجایش اور ان کا معاف ہو جانا عدل کے اصول پر ہے اور یہ سب رحمت کا نتیجہ اور تقاضا بھی ہے۔ ایک کو دوسرے سے الگ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔

انسان میں مکارم اخلاق کا حاسہ آگے بڑھ کر زیادہ اور بے لوث نیکی کرنا چاہتا ہے۔ وحی اس کی حوصلہ افزائی اور ترغیب دیتی ہے۔  یہ سراسر رحمت ہے۔ اس نیکی کا صلہ دینا البتہ عدل او رحمت کا تقاضا ہے۔

خدا کے فیصلے اعمال کی گنتی پر نہیں رویوں کی حقیقت پر کیے جائیں گے۔ یہ حکیمانہ عدل بھی ہے اور رحمت بھی۔

تسلیم و انکار کے رویوں کے دو درجے

تسلیم و انکار کے رویوں کے دو درجے ہیں: تسلیم کے دور درجےخود سپردگی (اسلام) احسان  (اعلی درجے کی خود سپردگی) اور انکار حق کے در درجے غفلت پر اصرار اور سرکشی (غفلت پر اصرار میں جارحانہ رویہ دکھانا) ہیں۔ غفلت پر اصرار بھی سرکشی ہی کی ایک صورت مگر شدت اور جارحیت میں کھی سرکشی سے ایک درجہ کم ہے۔ تسلیم و انکار کے رویے کامیابی اور ناکامی کا معیار ہیں، جنھیں خدا کے علم کی روشنی میں عدل کے تقاضوں کے مطابق برتا جائے گا۔ رعایت کے مستحق رعایت پائیں گے اور میرٹ پر آنے والے بےپایاں عنایت سے سرفراز ہوں گے۔غیر مستحق اور میرٹ پر نہ آنے والے سزا کے مستحق اور اس کی عنایات سے محروم رہیں گے۔یوں رحمت اور عدل کے تقاضے پورے ہوں گے۔

 خلاصہ یہ کہ خدا کی رحمت وعدل ایک کو دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا اورخدا کو اس کے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔


حواشی

(1)  https://www.youtube.com/watch?v=FRvVFW85IcU
(2)  Hamlin, J., Wynn, K. & Bloom, P. Social evaluation by preverbal infants. Nature 450, 557–559 (2007). https://doi.org/10.1038/nature06288

(3) وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَی ظَھْرِھَا مِنْ دَابَّۃٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُھُمْ إِلَی أَجَلٍ مُسَمًّی فَإِذَا جَاءَ أَجَلُھُمْ فَإِنَّ اللَّہَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا [فاطر، 45]
"لوگوں کو اُن کے اعمال پر اگر اللہ فور  اً پکڑتا تو زمین کی پشت پر کسی جان دار کو باقی نہ چھوڑتا، مگر وہ اُنھیں ایک مقرر مدت تک مہلت دیتا ہے۔ پھرجب اُن کی مدت پوری ہو جاتی ہے تو لازماً پکڑتا ہے، اِس لیے کہ اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔"

(4)  َأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَھُمْ فِيھَا زَفِيرٌ وَشَھِيْقٌ  خَالِدِينَ فِيھَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ وَأَمَّا الَّذِينَ سُعِدُوا فَفِي الْجَنَّۃِ خَالِدِينَ فِيھَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ عَطَاءً غَيْرَ مَجْذُوذ [ہود: 106 - 108]
"سو جو بدبخت ہوں گے، وہ دوزخ میں جائیں گے۔ اُنھیں وہاں چیخنا اور چلانا ہے۔ وہ اُسی میں پڑے رہیں گے، جب تک (اُس عالم کے) زمین و آسمان قائم  ہیں، الّا یہ کہ تیرا پروردگار کچھ اور چاہے۔ اِس میں شک نہیں کہ تیرا پروردگار جو چاہے، کر گزرنے والا ہے۔ رہے وہ جو نیک بخت ہیں تو وہ جنت میں ہوں گے۔ وہ اُسی میں رہیں گے، جب تک (اُس عالم کے) زمین و آسمان قائم ہیں، الاّ یہ کہ تیرا پروردگار کچھ اور چاہے، اُس کی طرف سے ایسی عطا کے طور پر جو کبھی منقطع نہ ہوگی۔"

(5)  ایضا
جنت اور دوزخ کے ساتھ مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ کی تحدید واقع ہوئی ہے، اس سے ان کی غیر ابدی ہونے کا جو وہم پیدا ہوتا ہے اس میں سے صرف جنت سے متعلق اس وہم کو یہ کہہ کر دور کیا گیا ہے کہ یہ غیر منقطع ہوگی، مگر دوزخ کے بارے میں اس وہم کو دور نہیں کیا گیا۔


سودی نظام کے خلاف جدوجہد کا نیا مرحلہ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاقی شرعی عدالت میں سودی نظام کے خاتمہ کے حوالہ سے رٹ کی سماعت طویل عرصہ کے بعد دوبارہ شروع ہونے سے ملک میں رائج سودی قوانین سے نجات کی جدوجہد نئے مرحلہ میں داخل ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی تحریک انسداد سود پاکستان نے نئی صف بندی کے ساتھ اپنی مہم پھر سے شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم و مغفور نے وفات سے چند ہفتے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا کہ پاکستان کا معاشی نظام مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر استوار ہو گا مگر ان کی ہدایت کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے حالانکہ دستور پاکستان میں دوٹوک کہا گیا ہے کہ سودی نظام کو جلدازجلد ختم کر کے ملک کے معاشی نظام کو قرآن و سنت کے احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔ مگر ان واضح ہدایات کے باوجود سودی نظام اور قوانین بدستور موجود ہیں اور عدالتوں میں آنکھ مچولی مسلسل جاری ہے۔ چند روز قبل وفاقی شرعی عدالت نے اس سلسلہ میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک درخواست کو مسترد کیا تو راقم الحروف نے ٹویٹ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عرض کیا کہ اس کا اصولی طور پر خیرمقدم ہونا چاہیے مگر ٹال مٹول اور تاخیری حربوں میں تسلسل کے باعث اب یہ تکلف ہی لگتا ہے۔

اس موقع پر سودی نظام کے خلاف جدوجہد کے معروضی تقاضوں کے حوالے سے چند معروضات پیش کی جا رہی ہیں:


حورانِ بہشتی کے قرآنی اوصاف وخصائل

مولانا محمد عبد اللہ شارق

”حورانِ بہشتی“کا مصداق

حورانِ بہشتی“ کا تذکرہ ہم سنتے ہی رہتے ہیں، قرآن وحدیث میں اِن کے حسن وجمال، پرکشش اوصاف،عمدہ خصائل اور جاذبیتِ نظر کے کئی قصے بیان ہوئے ہیں۔ قرآنِ مجید میں اللہ تبارک وتعالی جہاں کہیں بھی جنت کی خوابوں جیسی زندگی کا تذکرہ فرماتے ہیں تو وہاں پر بہت دفعہ اِن حوروں کا ذکر بھی فرماتے ہیں۔ حوروں کے اِس تذکرہ میں مردوں اور عورتوں، دونوں کے لیے یکساں رغبت کا سامان موجود ہوتا ہے۔ لیکن ہم میں سے بعض لوگوں نے یہ تصور کررکھا ہے کہ شاید اِن کا تذکرہ صرف مردوں کو راغب کرنے کے لیے ہوتا ہے اور مومن عورتوں کے لیے یہ آیات واحادیث غیرمتعلقہ ہیں۔ یہیں سے پھر خواتین کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنت کے اندر مومن مردوں کو حوریں ملیں گی تو مومن عورتوں کو کیا ملے گا؟ اور ان کو جو کچھ بھی ملے گا تو اس کا تذکرہ حوروں کی طرح قرآن وحدیث میں بار بار کیوں نہیں ہے؟جنت کی باقی نعمتیں اپنی جگہ، لیکن مذکورہ غلط فہمی کی وجہ سے حورانِ بہشتی کے حسن وجمال کے تذکرے خواتین کے لیے بے لذت اور غیر متعلقہ ہوکر رہ گئے ہیں کیونکہ بقول ان کے اِن تذکروں میں کسی مرد کو ہی دلچسپی ہوسکتی ہے، کسی عورت کو نہیں۔ جو خواتین اس غلط فہمی کو زبان پر نہیں لاپاتیں، وہ بھی اِن آیات واحادیث کو دل ہی دل میں بہرحال یوں بے تاثر ہوکر سنتی ہیں کہ گویا اِن میں خواتین کے لیےشوق اور رغبت کا کوئی سامان نہیں، یہ محض مردوں کی ترغیب کے لیے ہیں اور جنت کی اِس نعمت کے بارہ میں بتلا کر بس انہی میں دلچسپی وشوق مندی پیدا کرنا مقصود ہے۔

اِن غلط فہمیوں کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم نے ”حورانِ بہشتی“ کو ایک ماورائی مخلوق سمجھ لیا ہے جو نہ تو آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور نہ ہی اِس دنیا سے کبھی ان کا کوئی تعلق رہا ہے۔ بے شک یہ بات درست ہے کہ جنت میں رنگ اور رونق بکھیرنے والی حسینائیں اپنے دیو مالائی حسن اور غیر معمولی شخصیت کی وجہ سے اس دنیا کی حسیناؤں سے بالکل مختلف ہوں گی، بلکہ یہ بات بھی درست ہے کہ وہ سب کی سب دنیا سے گذر کر جانے والی نہیں ہوں گی اور ان میں ایک بڑی تعداد ایسی ہوگی کہ جنہیں رب العلمین نے کلمہء ”کن“ کے ساتھ کسی اور طریقہ سے وجود بخشا ہوگا اور بنا کسی دنیاوی عبادت وریاضت اور جہد ومشقت کے محض اپنے فضل واحسان سے جنت کے خوابوں جیسے مسکن کی زینت بنایا ہوگا۔ بے شک یہ بات درست ہے اور صرف عورتوں کے حق میں نہیں، بلکہ ایک صحیح السند حدیث کی رو سے کچھ مرد بھی شاید ایسے ہوں گے جو جنت کے اندر کلمہء کن سے پیدا ہوئے ہوں گے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”لاتزال جھنم تلقی فيھا وتقول ھل من مزيد حتی يضع رب العزۃ فيھا قدمہ فينزوي بعضھا إلی بعض وتقول قط قط بعزتك وكرمك ولا يزال في الجنۃ فضل حتی ينشئ اللہ لھا خلقا فيسكنھم فضل الجنۃ“ (صحیح مسلم۔ رقم 2848)

یعنی ”جہنم تمام تر بھرتی ہونے کے باوجود ”کچھ اور“ کا تقاضا کرتی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ جل شانہ اس پر اپنا قدم رکھیں گے اور وہ سکڑ کر ”بس بس“ کرنے لگے گی، جبکہ  اسی طرح جنت بھی تمام تر بھرتی کے باوجود باقی بچ رہے گی اور اللہ جل شانہ (”کلمہ ”کن“ کے ساتھ) کچھ مخلوق  پیدا کرکے اسے بچ رہنے والی جنت میں بسادیں گے۔“

قرآن وحدیث میں موجود قرائن سے محسوس ہوتا ہے کہ جنتی حسیناؤں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہی ہوگی اور یہ بھی درست ہے کہ حورانِ بہشتی کا ایک بڑا مصداق یہی حسینائیں ہیں، مگر یہ سمجھنا کہ قرآن وحدیث میں جہاں جہاں حورانِ بہشتی کا تذکرہ آتا ہے تو اس سے مراد بس یہی خاص طور پر پیدا کی گئی حسینائیں ہوتی ہیں، ہمارے خیال میں سراسر ایک غلط فہمی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اِس کے برعکس لغت، قرآن اوراحادیث وآثار کے سارے قرائن اس کی نفی کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں بنیادی طور پر حورانِ بہشتی کا مصداق وہ سب حسینائیں ہیں جو جنت میں بسائی جائیں گی، خواہ وہ کلمہء کن سے پیدا کی گئی ہوں یا دنیا کی اہلِ ایمان  خواتین ہوں۔

تاہم آگے بڑھنے سے قبل ایک نہایت ضروری تمہید کو سمجھ لینا چاہئےکہ دنیا سے گذرکر جانے والی مومن خواتین کے دخولِ جنت کا کوئی منکر نہیں، امت کا  اتفاق ہے کہ یہ جنت ہی میں جائیں گی۔ غلط فہمی صرف یہ سمجھنے میں واقع ہوئی ہے کہ قرآن وحدیث میں اکثر وبیشتر جن جنتی حسیناؤں کا تذکرہ آتا ہے تو ان سے مراد صرف کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسینائیں ہوتی ہیں اور لفظِ ”حور“ کا مصداق بھی صرف یہی ہوتی ہیں۔ غلط فہمی صرف اتنی ہی ہے اور گو بہت بڑی نہیں، مگر اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اب قرآن وحدیث میں مذکور حورانِ بہشتی کے ولولہ خیز تذکرے ہماری خواتین سے بے تعلق ہوجاتے ہیں  کیونکہ کلمہء کن سے پیدا ہونے والی حورانِ بہشتی میں دلچسپی کسی مرد کو ہی ہوسکتی ہے۔ غلط فہمی پر مبنی یہ قول چونکہ بعض کتبِ تفسیر میں مذکور ہے، بعض نے اس کو ترجیح بھی دیا ہے اور پھر یہ امت میں مشہور بھی ہے تو اس لیے یہ غلط فہمی تناور ہوکر ایک درخت بن چکی ہے۔  زیرِ نظر تحریر میں اسی غلط فہمی کا علمی جائزہ لینا مقصود ہے اور اس وضاحت کے ساتھ کہ  خود ماضی ہی کے بعض مفسرین نے اسے ایک غلط فہمی قرار دیا ہے۔

”حور“ کا لغوی مفہوم

سب سے پہلے ”حور“ کے لغوی اطلاق کو لیجئے، یہ لفظ ”حوراء“کی جمع ہے اور ”اسمِ صفت“ ہے، اسمِ جنس نہیں۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ ”حور“ کا لفظ عربی زبان میں انسان، جن اور فرشتہ کی طرح کا کوئی لفظ نہیں ہے جس سے کوئی خاص نوع یا جنس کی مخلوق مراد لی جاتی ہو،بلکہ یہ لفظ ایسا ہی ہے جیسے کسی کو خوب صورت، دراز قد اور صاحبِ کردار کہہ دیا جائے۔ چنانچہ اسلام کی آمد سے قبل بھی ”حور“ کا  لفظ ”حسینہ“  کے معنوں میں عربوں کے ہاں مستعمل اور مروج تھا اور اُن عربوں کے ہاں مستعمل تھا جو سرے سے کسی جنت نامی چیز کو ہی نہیں مانتے تھے۔ عموما ان کی بدوی عورتیں شہری عورتوں کے لیے یہ لفظ استعمال کیا کرتی تھیں۔ لسان العرب اورتاج العروس وغیرہ (کتبِ لغت) کی عبارات کے ساتھ ساتھ امام مجاہد کے ایک تفسیری قول کو ملانے سے ہماری نظر میں ”حور“ کے مکمل معنی کچھ یوں بنتے ہیں: وہ لڑکیاں جو گوری ہوں اور جن کی آنکھوں کی جھلمل اتنی بے داغ اور پرکشش ہو کہ دیکھنے والے کی نگاہ ان آنکھوں کی تاب نہ لاسکے۔ گویا مختصر لفظوں میں ہم ”حور“ کا ترجمہ ”جادو نظر حسینائیں“ کرسکتے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ اگر قرآن وحدیث میں کہیں کہیں جنتی حسیناؤں کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جنت میں دیگر نعمتوں کی فراوانی کے ساتھ ساتھ ”حوریں“ بھی ہوں گی تو یہاں پر اس لفظ کو اسمِ جنس بنا دینا اور بغیر کسی قرینہ کے یہ کہنا کہ اس سے مراد صرف وہ خواتین ہیں جنہیں خدا تعالی بغیر کسی دنیاوی عبادت وریاضت کے جنت عطا فرمائیں گے، کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟جب عربی زبان میں اس کے معنی مطلق ”حسینائیں“ ہیں تو قرآن وحدیث میں بھی اس لفظ کا اطلاق اسی مفہوم میں ہونا چاہئے اور ”حورانِ بہشتی“ کے اطلاق میں وہ سب حسینائیں شامل ہونی چاہئیں جنہیں پروردگار جنت کی زینت پنائے گا خواہ وہ دنیا میں آدم زاد بھی رہی ہوں یا نہ۔ چنانچہ طبری اور ابنِ کثیر نے لفظِ ”حور“ کا صرف لغوی مفہوم واضح کرنے پر اکتفاء کیا  ہے اور یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ طبری اور ابنِ کثیر کسی تخصیص کے قائل نہیں کیونکہ اس لفظ کا لغوی اطلاق تعمیم کا مقتضی ہے، نہ کہ تخصیص کا۔

یہاں ضمنا یہ بات عرض کردینا بھی مناسب ہوگا کہ فیروزآبادی اور راغب اصفہانی کے بقول ”حور“ کا لفظ عربی زبان میں فی الاصل جمع مؤنث کے لیے بھی استعمال ہوتا ہےاور جمع مذکر کے لیے بھی اور بعض معاصر اہلِ علم کے مطابق ”حور“ کے قرآنی اطلاق میں بھی جمع مذکر اور جمع مؤنث دونوں کا مفہوم داخل ہے، یعنی قرآن میں جہاں اس لفظ کا اطلاق ہوا ہے تو وہاں دونوں کے حسن کی طرف اشارہ کرنا مطلوب ہے۔ زیرِ بحث اعتراضات کا دفعیہ کرنے کے لیے یہ توجیہ بظاہر بہت اچھی محسوس ہوتی ہے، لیکن مفسرین نے عام طور پر قرآن مجید میں وارد لفظِ ”حور“ کی تفسیر صرف حسین عورتوں کے ساتھ ہی کی ہے اور ہماری رائے میں یہی بات درست ہے۔ وجہ یہ کہ قرآن میں اکثر جگہ جنتی حسیناؤں کا ذکر مؤنث کے تصریحی صیغہ کے ساتھ آیا ہے  اور وہ چار مقامات جہاں ”حور“ کا لفظ آیا ہے تو ان میں سے بھی دو مقامات  (الرحمن، الواقعہ) کے سیاق وسباق میں مؤنث ہی کا اسلوب چل رہا ہے اور ممکن ہی نہیں کہ وہاں اسے جمع مؤنث کے ساتھ ساتھ جمع مذکر بھی قرار دیا جائے۔ ان مقامات کی تفصیل اگلے عنوان کے تحت مذکور ہے۔

قرآنی قرائن

”حور“ کا لغوی مفہوم جان لینے کے بعد خود قرآنِ مجید کے داخلی قرائن پر غور کیجئے، قرآن میں اکثر جگہوں پر جنتی حسیناؤں کا تذکرہ کچھ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ وہاں ”حور“ کا لفظ سرے سے استعمال ہی نہیں ہوا، بلکہ مختلف الفاظ میں بس ان حسیناؤں کی سیرت وصورت، حسن ورعنائی، وجاہت وکشش اور پاکیزگی کو بیان کیا گیاہے۔ ذرا سوچئے کہ کیا اِس کے بعد بھی جنتی حسیناؤں کے اِن اوصاف وخصائل کو کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسیناؤں سے مخصوص کرنے کا کوئی جواز ہے؟ ہماری تحقیق کے مطابق قرآنِ مجید میں صرف چار مقامات ایسے ہیں جہاں اللہ تعالی نے ان حسیناؤں کے لیے ”حور“ کا لفظ استعمال کیا ہے اور ان کے حوالہ جات یہ ہیں: ۱۔ ﴿كَذَلِكَ وَزَوَّجْنَاھُم بِحُورٍ عِينٍ﴾ (الدخان: 54) ۔ ۲۔ ﴿وَزَوَّجْنَاھُم بِحُورٍ عِينٍ﴾ (الطور: 20)۔ ۳۔ ﴿حُورٌ مَّقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ﴾ (الرحمن: 72)۔ ۴۔ ﴿وَحُورٌ عِينٌ﴾ (الواقعہ: 22)

جبکہ تقریبا دس مقامات ایسے ہیں کہ جہاں اِن حسیناؤں کا ذکر ہوا ہے مگر وہاں حور کا لفظ استعمال ہی نہیں ہوا۔ دیکھئے: ۱۔ ﴿وَلَھُمْ فِيھَا أَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃ﴾ (البقرہ: 25)۔ ۲۔ ﴿وَأَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃ﴾ (آلِ عمران: 15)۔ ۳۔ ﴿لَّھُمْ فِيھَا أَزْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃ﴾ (النساء: 57)۔ ۴۔ ﴿ھُمْ وَأَزْوَاجُھُمْ فِي ظِلَالٍ عَلَی الْأَرَائِكِ مُتَّكِؤُونَ﴾ (یس: 56)۔ ۵۔ ﴿وَعِنْدَھُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ عِينٌ﴾ (الصافات: 48)۔۶۔ ﴿وَعِندَھُمْ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ أَتْرَابٌ﴾ (ص: 52)۔ ۷۔ ﴿ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ أَنتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ﴾ (الزخرف: 70)۔ ۸۔ ﴿فِيھِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ لَمْ يَطْمِثْھُنَّ إِنسٌ قَبْلَھُمْ وَلَا جَانٌّ﴾ (الرحمن: 56)۔ ۹۔ ﴿إِنَّا أَنشَأْنَاھُنَّ إِنشَاء º فَجَعَلْنَاھُنَّ أَبْكَارًا º عُرُبًا أَتْرَابًا﴾ (الواقعہ: 35)۔ 10۔ ﴿وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا﴾ (النباء: 33)

احادیث وآثار

اس کے بعد اگر احادیث وآثار کو دیکھا جائے تو وہاں پر بھی کم از کم ہمیں تو ایسا کوئی قرینہ نظر نہیں آیا جس سے محسوس ہو کہ حورانِ بہشتی کا اطلاق صرف کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسیناؤں پر ہوتا ہے اور جنتی حسیناؤں کے تذکروں میں صرف وہی شامل ہیں یا یہ کہ یہ تذکرے صرف مردوں کی دلچسپی کے لیے ہیں۔ یوں تو قرینہء تخصیص کی ناموجودگی بذاتِ خود عدمِ تخصیص کی ایک دلیل ہے، لیکن یہاں پر کچھ ایسے قرینے ملتے ہیں جن سے الٹا اس تصورِ تخصیص کی  نفی ظاہر ہوتی ہے۔ مثلا

(1)قرآن میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے: ﴿إِنَّا أَنشَأْنَاھُنَّ إِنشَاء º فَجَعَلْنَاھُنَّ أَبْكَارًا﴾ (الواقعہ: 35، 36) یعنی ”ہم ان حسیناؤں کو ایک خاص طرز سے وجود بخشیں گے اور انہیں دوشیزگی عطا کریں گے……“ اس آیت کی تفسیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ صریح ارشاد صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ دنیا کے اندر جو مومن بیبیاں بوڑھی اور سن رسیدہ ہوجائیں گی، مذکورہ آیت کی رو سے اللہ تعالی انہیں بھی جنت کے اندر نئے سرے سے جوانی اور دوشیزگی عطا کریں گے۔ دیکھئے:

أتت عجوز إِلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّہِ، ادْعُ اللَّہَ أَنْ يُدْخِلَنِي الْجَنَّۃَ، فَقَالَ: يَا أُمَّ فُلاَنٍ، إِنَّ الْجَنَّۃَ لاَ تَدْخُلُھَا عَجُوزٌ قَالَ: فَوَلَّتْ تَبْكِي فَقَالَ: أَخْبِرُوھَا أَنَّھَا لاَ تَدْخُلُھَا وَھِيَ عَجُوزٌ إِنَّ اللَّہَ تَعَالَی يَقُولُ: ﴿إِنَّا أَنْشَأْنَاھُنَّ إِنْشَاءً فَجَعَلْنَاھُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا﴾ (شمائل الترمذي، رقم 241۔جامع الترمذی، رقم 3296۔ البانی نے پہلی سند کو حسن قرار دیا ہے۔)

 یعنی ”ایک بڑھیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالی مجھے جنت میں پہنچا دیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بی بی! جنت میں بڑھیا نہیں جائے گی۔ راوی بتلاتے ہیں کہ یہ سن کر وہ بڑھیا روتے ہوئے واپس پھر نے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے بتلاؤ: جنت میں بڑھیا بڑھاپا لے کر نہیں جائے گی (بلکہ جنت میں جو بھی جائے گا جوان ہوکر جائے گا) کیونکہ اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے: ”ہم انہیں ایک نیا جنم دے کر کنواریاں، اپنے خاوندوں کی لاڈلیاں اور عمر میں یکساں بنادیں گے۔“

(2) اسی طرح ایک روایت ہے کہ سیدنا ابو بکرؓ  کی اہلیہ حضرت ام رومانؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وفات پا گئیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: ”من سرہ أن ينظر إلی امرأۃ من الحور العين فلينظر إلی أم رومان“  (الطبقات الكبرى ، ابن سعد، 8/276) یعنی ”جو آدمی کسی حور کو دیکھنا پسند کرے تو وہ ام رومان کو دیکھ لے۔“ اب ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ارشاد میں ام رومانؓ کے جنتی ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لیے ان پر  ”حور“ کا اطلاق کیا۔

(3) ایک روایت میں صحابیء رسول ابو نحیلہؓ کی ایک دعاء نقل کی گئی ہے کہ ”اللھم اجعلني من المقربين واجعل أمي من الحور العين“ (المعجم الكبير للطبراني، ۲۲/ 278) یعنی ”اے پروردگار مجھے اپنا مقرب بنا  اور میری ماں کو حورانِ بہشتی میں شامل فرما۔“

(4)حسن بصری رحمہ اللہ نے نو صحابہ کرام سے یہ فیصلہ کن مضمون نقل کیا ہے کہ ”حور“ سے مراد کوئی اور ہو نہ ہو، مومن عورتیں تو ہیں ہی اور اس روایت کی سند بھی موجود ہے۔ دیکھئے:

”عبد الرزاق قال: أنا جعفر بن سليمان عن عباد بن عمرو قال: سأل يزيد ابن أبي مريم الحسن فقال: يا أبا سعيد ما الحور العين؟ قال عجائزكم ھؤلاء الدرد ينشئھن اللہ خلقا آخر، فقال لہ يزيد بن أبي مريم: عن من تذكر ھذا يا أبا سعيد، قال: فحسر الحسن عن ذراعيہ ثم قال: حدثني فلان وفلان حتی عد من المھاجرين خمسۃ وعد من الأنصار أربعۃ. عبد الرزاق قال أنا معمر عمن سمع الحسن يقول حور العين من نساء الدنيا ينشئھن اللہ خلقا آخر“ (تفسیر الصنعانی، سورہ الدخان: 54)

یعنی ”عبد الرزاق نے جعفر اور جعفر نے عباد بن عمرو سے نقل کیا ہے کہ یزید بن ابی مریم نے حسن بصری سے پوچھا کہ حوریں کیا ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہی تمہاری بوڑھیاں جن کے دانت ٹوٹ چکے ہیں، اللہ انہیں ایک نئی تخلیق عطا کرے گا۔ یزید نے جب دریافت کیا کہ یہ آپ نے کس سے سنا؟ تو یہ سن کر حسن نے اپنی آستینیں چڑھائیں اور گن گن کر نام بتانے لگے، ان میں پانچ نام مہاجرین کے اور چار انصاریوں کے تھے۔ یہی تفسیر حسن بصری سے ایک اور سند کے ساتھ بھی منقول ہے۔“

(5) نیز اگر حورانِ بہشتی کے تذکرے صرف مردوں کا شوقِ جنت بڑھانے کے لیے ہوتے اور عورتوں سے غیر متعلق ہوتے تو اس کی وجہ سے جو ابہامات ہماری خواتین کو لاحق ہوتے ہیں،بعینہ یہی ابہامات عہدِ نبوی کی خواتین کے ذہن میں بھی ضرور پیدا ہوتے اور وہ اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نہ کوئی سوال ضرور کرتیں۔ عہدِ نبوی کی تاریخ گواہ ہے کہ عہدِ نبوی کی خواتین کو سوال اٹھانے کی مکمل آزادی حاصل تھی اور وہ اس طرح کے سوالات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاجھجک پوچھ لیا کرتی تھیں۔ ان کے ذہنوں میں ایسا کوئی سوال پیدا نہ ہونا اور احادیث وروایات کے عظیم الشان ذخیرہ کا ایسی کسی قسم کی رویت سے یکسر خالی ہونا بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ عہدِ نبوی کی خواتین لا محالہ ”حورانِ بہشتی“ کے اطلاق میں مومن بیبیوں کو بھی شامل سمجھتی تھیں، ورنہ ان کے ذہن میں بھی یا کم از کم بعد کی کچھ صدیوں کی مومن خواتین کے ذہن میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا۔

مذکورہ تمام قرائن وشواہد گواہی دیتے ہیں کہ دنیا سے گذر کر جانے والی مومن خواتین پر ”حور“ کا اطلاق کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

حورانِ بہشتی کے تذکرہ میں خواتین کے لیے ترغیب کے پہلو

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ ”حورانِ بہشتی“ سے مراد علی الاطلاق جنتی حسینائیں ہیں (خواہ وہ دنیا کی مومن عورتیں ہوں یا کلمہء ”کن“ سے پیدا ہونے والی حسینائیں) اور ان حسیناؤں کے بارہ میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ یہ زنانہ حسن وجمال کا مرقع بن کر مومن مردوں ہی کے پاس ہوں گی تو اب یہ سوال باقی ہی نہیں رہتا کہ مومن مردوں کے پاس تو ہ کلمہء کن سے پیدا ہونے والی حسینائیں ہوں گی اور حسن وجمال کے بتلائے گئے احوال بھی انہی کے ہیں، لہذا یہ دنیا کی مومن خواتین کہاں جائیں گی اور انہیں کیا ملے گا۔ قرآن وحدیث میں جب حورانِ بہشتی کا ذکر ہوتا ہے تو وہاں صرف مردوں کو ہی یہ نہیں بتایا جارہا ہوتا کہ انہیں جنت میں دوسری نعمتوں کے ساتھ ساتھ حسینائیں بھی ملیں گی، بلکہ مومن خواتین کو بھی گویا یہ پیغام دیا جارہا ہوتا ہے کہ جنت میں آنے والی خواتین کو کس طرح ایک حسین سراپا دے کر جنتی مردوں کی بیگمات بنایا جائے گا۔ پس یہ آیات واحادیث صرف مردوں کی ترغیب کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ خواتین کے لیے بھی اِن میں دلچسپی کا پورا پورا سامان موجود ہوتا ہے۔

کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ دنیا کی چند روزہ گوری رنگت، باسی ہوجانے والے تیکھے نقوش، خاک سے نکلنے والے سونا چاندی اور چند لمحوں بعد بے رونق ہوجانے والے سرخی پاؤڈر کے لیے صنفِ نازک بے چین رہتی ہے، انہی کے خواب اور انہی کے خیال ہماری خواتین پر طاری رہتے ہیں، انہی کی آرزو کرتے کرتے ہمارا دم نکل جاتا ہے اور ایک وقتی رفاقت کے بعد جس دلہا نے پیوندِ خاک ہوجانا ہے، اس دلہا کی دلہن بننے کے لیے اور جیسے تیسے مردوں کی بیوی بننے کے لیے ہماری کنواریاں دعائیں مانگتی ہیں اور دعائیں مانگتے ہوئے انہیں رونا بھی آتا ہے، پس یہ کیسے ممکن ہے کہ ذرہ سے لے کر آفتاب تک ہر چیز کو وجود بخشنے والا پروردگار جس حسن اور جس سراپا کی تعریف کرے، جس صورت اور سیرت کو بطور ایک مثال کے پیش کرے، جس جمال اور رعنائی سے اپنی جنت کو سجائے اور پھر ایسے حسن وجمال کے پیکروں کو اپنے انعام یافتہ مثالی مردوں کے ساتھ بیاہنے کی بات کرے تو اس افسانوی اور دیو مالائی حسن کو حقیقتا پالینے کے لیے ہمارے دلوں میں کوئی شوق پیدا نہ ہو اور نہ ہی رب العلمین کے انعام یافتہ مثالی روپ اور مثالی کردار والے مردوں کے ساتھ بیاہنے کو ہمارے دل مچلیں؟

کسی بھی عورت سے معلوم کرلیجئے کہ عموما خواتین کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوتی ہے؟ روٹی، کپڑا اور مکان کی بات میں نہیں کرتا کہ یہ تو ضروریات ہیں اور بے شک جنت کے اندر یہ بھی اعلی ترین پیمانہ پر پوری ہوں گی۔ میں بات کر رہا ہوں لذتوں کی، خواہشات کی اور تعیشات کی۔ ان کے دائرہ میں رہتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو کسی بھی عورت کی سب سے بڑی خواہش اور سب سے اولین خواہش جو اسے پریشان کن حد تک لاحق ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ کسی طرح میں ایک مثالی حسن کی مالک بن جاؤں، میری خوب روئی دیو مالائی ہو، میری نگاہیں صنفِ مخالف کو مبہوت کر کے رکھ دیں اور یہ کہ میرا رفیقِ حیات ایک مثالی کردار، مثالی شخصیت اور مثالی ہی روپ کا مالک ہو۔ اب ذرا حورانِ بہشتی والی آیات واحادیث کو پڑھئے، کیا ان میں صنفِ نازک کی انہی چاہتوں کی تکمیل کی بات نہیں ہورہی؟ تو اب آپ خود ہی بتائیے کہ یہ آیات واحادیث عورتوں سے غیر متعلق کیوں کر ہوئیں؟ بے شک ان میں مردوں کے لیے بھی پوری پوری دلچسپی کا سامان موجود ہے، مگریہ عورتوں کے لیے بھی غیر متعلقہ ہرگز نہیں ہیں۔ ہاں، اگر عورتوں کو لازوال حسن، بے مثال سراپا، قابلِ رشک شخصیت، نہ ختم ہونے والی جوانی، نگینہ جیسی صورت اور حسین، خلیق ومعزز رفیق کی خواہش نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے، اس صورت میں حورانِ بہشتی کے احوال میں واقعی ان کے لیے دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔

جنتی حسیناؤں کے قرآنی اوصاف وخصائل

مناسب محسوس ہوتا ہے کہ یہاں پر ہم ایک مفصل نظر جنتی حسیناؤں کے اوصاف وخصائل پر ڈالیں اور واضح کریں کہ اِن کے اندر مردوں کے ساتھ ساتھ کس کس طرح سے خواتین کے لیے بھی رغبت اور سبق کا پورا پورا سامان موجود ہے ۔ ہم نے یہاں بنیادی طور پر صرف ان اوصاف وخصائل کا انتخاب کیا ہے جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں اور احادیث میں مذکورتفصیلی اوصاف کو اس ضمن میں کہیں کہیں صرف وضاحت کے لیے لے آئے ہیں:

۱۔    سب سے پہلی خوبی تو وہی ہے جو انہیں ”حور“ کا نام دے کر اللہ نے واضح فرمائی ہے۔ ”حور“ کے معنی ہیں: ”آنکھوں کے اندر طلسماتی کشش رکھنے والی اجلے رنگ کی حسینائیں“، خواتین سوچ لیں کہ کیا انہیں ایسا بننے کا واقعی کوئی شوق نہیں ہے؟

۲۔   ایک اور چیز ان کے بارہ میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ”عِین“ ہیں (الصافات: 48)، یعنی ”بڑی بڑی آنکھوں والی آہو چشم حسینائیں۔“

۳۔  ایک خصوصیت یہ بھی بتلائی گئی کہ دنیا کے اندر اگر وہ سن رسیدہ بوڑھیاں بھی تھیں تو جنت کے اندر اللہ جل شانہ انہیں پھر سےبھرپور شباب کے ساتھ  کنواریاں بنا کر اٹھائیں گے(الواقعہ: 63) اور یوں ہوجائیں گی کہ گویا کبھی ان کو کسی انسان نے چھوا تک نہیں۔ (الرحمن: 65) وقت گذرنے کے ساتھ وہ مضمحل نہیں ہوں گی، بلکہ کنواریاں ہوں گی، کنواریاں رہیں گی اور کنواریوں جیسی رعنائی، کنواریوں جیسی تازگی، کنورایوں جیسی اٹھان، کنواریوں جیسے جذبے اور کنواریوں جیسی شفافیت گویا ہمیشہ برقرار رہے گی۔

۴۔  اگر کسی بہت ہی خوب صورت سراپے پر انسان کی نظر پڑے تو یوں گمان ہوتا ہے کہ گویا اس نے کوئی نگینہ دیکھ لیا ہے۔ اللہ جل جلالہ نے حورانِ بہشتی کے بارہ میں بھی ان کے اجلے اور دُھلے ہوئے حسن کو بیان کرنے کے لیے یہ تعبیر ارشاد فرمائی کہ گویا وہ کوئی داغ دھبوں سے دور، پردوں میں پڑا ہوا صاف وشفاف موتی ہیں۔  (الواقعہ: 23)

۵۔  ان حسیناؤں کا سراپا ایسا سرخ وسفید ہوگا اور ایسی بیش قیمت پوشاکیں انہوں نے پہن رکھی ہوں گی کہ ان پہ یاقوت ومرجان اور رنگ برنگی موتیوں کا گمان ہوگا(الرحمن: 58) اور ان کا بے داغ وجود گویا چھلکے میں چھپے ہوئے انڈے کی طرح ہے جو ابال کر چھیلنے سے ظاہر ہوتا ہے اور اس کا گول مٹول وجود آنکھوں کو لذت وفرحت بخشتا ہے۔(الصافات: 49)

۶۔   وہ ”کواعب“ ہوں گی (النباء: 33)، یعنی ان کی چھاتیوں پر جوانی کے دلکش ابھاروں کی گولائی ایک متناسب اٹھان کے ساتھ ظاہر ہوگی جیساکہ ابتدائے بلوغت میں ہوتا ہے۔ (دیکھئے؛ روح المعانی) ایسی صفات کے بارہ میں کچھ کہتے سنتے ہوئے، ممکن ہے کہ ہم شرمائیں، لیکن کیا اس بات میں کوئی شک ہوسکتاہے کہ مرد عورتوں کو ایسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں اور عورتیں خود اپنے آپ کوبھی؟

۷۔    وہ ”خیرات حسان“ یعنی ”ملکہ حسن“ ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق اور خوش اطور بھی ہوں گی۔ (الرحمن: 70)

۸۔   ایک صفت ان کی یہ ارشاد فرمائی کہ وہ ”عُرُب“ ہوں گی (الواقعہ: 37) جس کے معنی عربی لغت کی رو سے کچھ یوں کیے جاتے ہیں کہ وہ لڑکیاں جو اپنے مردوں کی محبوب ہوں، ناز وانداز کے سارے اسلوب جانتی ہوں، ان کی اداؤں میں ایک گرمجوشی اور دلربائی ہو، اپنے مردوں پر خود بھی فدا ہوں، ہنسنے اور ہنسانے والی ہوں، شیریں گفتار ہوں اور اپنے مردوں کی لاڈلی ہوں، بالفاظِ دیگر نسوانی خوبیوں کا ایک خوب صورت مرقع ہوں۔ اردومیں اس کا ترجمہ ”لاڈلی ومحبوب“ بھی گویا اسی لیے کیا جاتا ہے کہ اس میں دل اٹکانے کے سارے قرینے ضمنا آجاتے ہیں۔ قرآنی بیان کی رو سے حورانِ بہشتی گویا دل اٹکانے کے قرینوں میں محاورتا نہیں، بلکہ حقیقتا طاق ہوں گی۔

۹۔   اپنے رفیقوں کی ہم عمر ہوں گی۔ (ص: 52)

۰۱۔  وہ ”مطہرۃ“ یعنی ”غلاظتوں اور نجاستوں سے پاک“ ہوں گی۔ (البقرہ: 25) واقفانِ حال جانتے ہیں کہ ماہواری کے ایام عورت کے لیے کتنی کوفت کے ایام ہوتے ہیں، جبکہ جنت کے بارہ میں یہ بتایا جارہا ہے کہ وہاں اس کوفت کا نام ونشان بھی نہیں ہوگا، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی رو سے ماہواری تو در کنار، وہاں بول وبراز کی حاجت بھی نہیں ہوگی۔ (تفسیر ابنِ کثیر)

۱۱۔  ایک بات جو تقریبا ہر جگہ کہی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ حسینائیں جنتی مردوں کے پاس ہوں گی اور ان کی زوجیت میں ہمیشہ رہیں گی۔

۲۱۔ وہ ”مقصورات فی الخیام“ ہوں گی، یعنی اپنے مردوں کی نظر میں  بازار کا شوپیس بنانے کی نہیں، بلکہ ایک قابلِ حفاظت اور سنبھال کر رکھے جانے کی چیز ہوں گی اور ”پردہ نشین“ ہوں گی۔ (الرحمن: 72) حورانِ بہشتی کی اس خصلت میں ہر باحیاء عورت کے لیے سامانِ رغبت کے ساتھ ساتھ ایک سبق بھی ہے، سبق یہ کہ جن بیبیوں نے جنت میں جا کر حیاء کے قرینوں کو مد نظر رکھنا ہے، کیا دنیا کے اندر وہ بے حیاء ہوکر گلیوں اور بازاروں میں اپنے حسن کو نیلام کریں گی؟ باقی یہ مقصد نہیں ہے کہ وہ جنت کے اندر قیدی بن کر رہیں گی اور نہ ہی یہ کہ دنیا میں جنتی عورتوں کو گھر کا قیدی بن کر رہنے کا حکم ہے، نہیں! بلکہ یہ کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں گی باپردہ ہوں گی، غیر مردوں کی نگاہوں سے مستور ہوں گی اور اپنے شوہروں میں ہی عزت، لذت اور راحت کے سارے سامان مجتمع پائیں گی۔

23۔ ایک صفت یہ بتلائی گئی کہ وہ ”قاصرات الطرف“ ہوں گی۔  اس کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی صحیح ہیں۔ اول یہ کہ اپنے شوہروں کے سوا کسی کی طرف ان کی نگاہیں نہیں اٹھیں گی، یعنی جنت میں خدا تعالی ہر ایک مرد کو ایسا حسن عطا فرمائیں گے، متعلقہ تمام حوروں کے لیے اپنے اپنے شوہر اتنے حسین کردیے جائیں گے اور ہر ایک حسینہ کا اپنے اپنے مرد سے متعلق تاثر اتنا قوی ہوگا کہ نگاہ کسی اور طرف موڑنے کو سرے سے جی ہی نہیں چاہے گا، چنانچہ ایک روایت کے مطابق وہ اپنے شوہر سے کہے گی: ”وعزّۃ ربي وجلالہ وجمالہ، إن أری في الجنۃ شيئا أحسن منك، فالحمد للہ الذي جعلك زوجي، وجعلني زوجَك“ (تفسیر ابنِ جریر، الرحمن: 56) یعنی ”مجھے اپنے رب کی عزت، عظمت اور جمال کی قسم، جنت میں تم سے زیادہ حسین چیز مجھے کوئی اور نظر نہیں آتی، شکر ہے اس رب کا جس نے تجھ کو میرا اور مجھ کو تیرا رفیق بنایا۔“

یہ ”قاصرات الطرف“ کی ایک تفسیر ہے اور عربی محاورہ کی رو سے درست ہے، جبکہ ایک دوسری تفسیر  کے مطابق ”قاصرات الطرف“ کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے مردوں کی نگاہ کو اِدھر اُدھر نہیں ہونے دیں گی، گویا ان کے سراپا میں ایسی بجلیاں بھری ہوں گی جو دیکھنے والے کی نگاہ کو جکڑ لیں گی اور اِدھر اُدھر کا ہوش نہیں رہنے دیں گی اور ہر عورت اپنے خاوند کے لیے ایسی ہی ہوگی۔ ”قاصرات الطرف“ کا یہ معنی بھی عربی محاورہ کی رو سے درست ہے اور بعض مفسرین نے اسے اختیار کیا ہے۔ (دیکھئے: روح المعانی) سو یہ لفظ اپنی ایک تفسیر کی رو سے عورت کے حسن کو بیان کرتا ہے کہ وہ اپنے دیکھنے والے کی نگاہوں کو جکڑ لیں گی اور ادھر ادھر کا ہوش نہیں رہنے دیں گی، جبکہ دوسری تفسیر کی رو سے خاوند کے حسن کو بیان کرتا ہے کہ وہ ان کے سوا کسی کو دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گی۔ قرآن میں اس جگہ ایک قطعی الدلالہ لفظ استعمال فرمانے کی بجائے ظنی الدلالہ یا یوں کہیں کہ ذو معنی لفظ استعمال فر ما کر گویا دونوں کے غیر معمولی حسن کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔

حورانِ بہشتی کے مذکورہ اوصاف کے اندر خواتین غور کریں اور پھر سوچیں کہ کیا یہ اوصاف وخصائل ان سے غیر متعلقہ ہیں اور اِن میں اُن کے لیے کیا واقعی کوئی سبق اور کوئی رغبت نہیں ہے اور کیا ان اوصاف میں صرف مردوں کو رغبت ہوتی ہے یا پھر عورت بھی خود کو ایسا ہی دیکھنا چاہتی ہے؟

جنتی مردوں کا حسن وجمال

ذہن میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ قرآن وحدیث میں چلئے، جنتی حسیناؤں کے اوصاف وخصائل تو موجود ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ ان میں خواتین کو بھی رغبت ہونی چاہئے، لیکن سوال یہ ہے کہ خود ان مردوں کے حسن وجمال کا کوئی تذکرہ کیوں نہیں ہے جنہوں نے عورتوں کا رفیق بننا ہے؟ اس کے جواب میں پہلی گذارش تو یہ ہے کہ ”قاصرات الطرف“ کا پہلا مفہوم جو ابھی بیان ہوا، وہ در اصل جنتی مردوں ہی کے حسن کی طرف اشارہ کرتا ہے، چنانچہ متعلقہ ایک روایت بھی ابھی بیان ہوئی ہے جس میں جنتی عورت اپنے خاوند کی تعریف کرتی ہے۔  نیز ایک اور روایت کی رو سے جنتی مردوں کی آنکھیں سرمگیں ہوں گی، سراپا بالوں کے بغیر ہوگا اور چہرہ پر ڈاڑھیاں نہیں ہوں گی۔ (جامع الترمذی، رقم 2359)  نیز ایک حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ جنت کے اندر ایک بازار ہوگا، اس بازار میں عورتوں اور مردوں کی تصویریں لگی ہوں گی، انسان کو جو تصویر اچھی لگے گی اس میں داخل ہوگا اور ویسا ہی سراپا لے کر باہر آجائے گا۔ (جامع الترمذی، رقم 2550)

قرآن میں ارشاد ہے کہ وہ ریشم کے بیش قیمت لباس میں ملبوس ہوں گے اور انہوں نے سونا، چاندی و موتیوں کے جڑاؤکنگن پہن رکھے ہوں گے۔ (الحج: 23، الانسان: 21) نیز ان کے چہرے روشن وچمکدار ہوں گے (آلِ عمران: 106) ان کے چہرے کھلتے ہنستے اور بارونق ہوں گے (عبس: 38، 39)  اور ان پر ایک بشاشت، تازگی، شگفتگی اور تمتماہٹ دیکھی جاسکے گی۔ (القیامہ: 22) وہ نعمتوں کا جہان ہوگا جس میں وہ ٹھہرے ہوں گے، اونچی مسندوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے اور ان کے چہروں پر خوشحالی کے جلوے ہوں گے۔ (المطففین: 24) یہ صفات جنتیوں کی ہیں اور عورت ومرد دونوں کو شامل ہیں لہذا اِن سے جنتی مردوں کی سیرت، صورت اور وجاہت کا اندازہ بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔

تاہم اگر چاہا جائے کہ مردوں کے حسن وجمال کو بیان کرنے کے لیے بھی ویسی ہی رنگین تشبیہات ملیں جیسی جنتی حسیناؤں کے لیے وارد ہیں تو  وہ شاید نہ مل سکیں کیونکہ رنگین اور مترنم تشبیہات عموما ہر زبان میں زنانہ حسن کے لیے ہوتی ہیں اور انہی سے کلام میں وہ ترنم پیدا ہوتا ہے جس میں مردوں وعورتوں دونوں کو دلچسپی ہوتی ہے۔ نیز جنتی حسیناؤں کا ذکر خصوصیت کے ساتھ شاید اس لیے بھی کیا جاتا ہے کہ مومن خواتین جنت کو صرف مردوں کی جگہ نہ سمجھیں اور نہ ہی مرد اپنے آپ کو وہاں تنہا سمجھیں۔

نیز یہ بات سچ ہے کہ قرآن وحدیث میں جنت کی بہت بلیغ تصویر کھینچی گئی ہے لیکن درحقیقت جنت سننے کی نہیں، دیکھنے کی چیز ہے اور دیکھنے سے ہی تعلق رکھتی ہے۔ اس کی لذتوں اور ذائقوں کے جتنے پہلو ہمارے سامنے بیان ہوئے ہیں، وہ سب کے سب در اصل اجمالی خاکہ ہیں اور جنت کا جہاں بس انہی پہلؤوں میں محصور نہیں۔ قرآن وحدیث ہی کی نصوص سے یہ بات پوری صراحت اور بداہت کے ساتھ ثابت ہے۔ارشادِ ربانی ہے کہ جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی تمنا دل کرتے ہیں اور آنکھوں کی لذت کا سامان بھی مہیا ہوگا۔ (الزخرف: 71) ایک اور جگہ فرمایا کہ کوئی نہیں جانتا کہ جنتیوں کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان پردۂ غیب میں پڑا ہوا ہے۔ (السجدہ: 17)  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ ”میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ تو کبھی کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کبھی کسی دل میں اس کا خیال گذرا۔“ (صحیح البخاری، رقم 3244)

مفسرین کے اختلافی اقوال کا جائزہ

اب تک کی گفتگو اس تناظر میں تھی کہ قرآن وحدیث میں مذکور جنتی حسیناؤں کے اوصاف وخصائل جنت ہی میں پہلا جنم لینے والی حسیناؤں سے مخصوص نہیں، بلکہ ان میں وہ جنتی خواتین بھی شامل ہیں جو دنیا کے امتحان میں مردوں کے ساتھ شریک رہی تھیں، لیکن ہم گذشتہ سطور میں عرض کر چکے ہیں کہ بعض کتبِ تفسیر میں تخصیص کے اقوال بھی موجود ہیں۔ درجِ ذیل سطور میں انہی اقوال کی تنقیح مقصود ہے، لیکن اِن اختلافی اقوال کو جاننے سے قبل ایک بار پھر یاد دہانی کرانا ضروری ہے کہ مومن عورتوں کے جنت میں داخلہ کا کوئی منکر نہیں، غلط فہمی صرف یہ سمجھنے میں واقع ہوئی ہے کہ قرآن وحدیث میں اکثر وبیشتر جن جنتی حسیناؤں کا تذکرہ آتا ہے تو ان سے مراد صرف کلمہء کن کے ساتھ  پیدا کی جانے والی حسینائیں ہوتی ہیں۔

ہمارے مطالعہ کی رو سے امام سیوطی نے ”تفسیر الدر المنثور“ میں شعبی کے حوالہ سے صرف وہ قول نقل کرنے پر اکتفاء کیا ہے جس کی رو سے ”حور“ کا مصداق کوئی اور ہو نہ ہو، مومن خواتین تو ہیں ہی اور تخصیص کا کوئی قول سرے سے نقل ہی نہیں کیا (شعبی کی عبارت چند سطروں بعد آجائے گی)، جبکہ علامہ شمس الدین محمد بن احمد الشربینی نے اپنی تفسیر ”السراج المنیر“ کے اندر صریح لفظوں میں تخصیص کے قول پر نکتہء اعتراض اٹھاتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے، جس کی عبارت بھی آئندہ سطروں میں ہم نقل کریں گے۔ اسی طرح مولانا ثناء اللہ پانی پتی نے ”تفسیرِ مظہری“ میں جو گفتگو کی ہے، اس سے بھی بظاہر یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک تخصیص کا قول مرجوح ہے۔ علاوہ ازیں تفسیرِ طبری اور تفسیر ابنِ کثیر وغیرہ میں سرے سے یہ اختلافی بحث چھیڑی ہی نہیں گئی اور نہ ہی تخصیص وتعمیم کا کوئی پہلو کہیں زیرِ بحث آیا ہے، بس لفظِ ”حور“ کا لغوی مفہوم واضح کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے اور ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ لغوی اطلاق واضح کرنے پر اکتفاء کرنا بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ حضرات تعمیم کے قائل ہیں۔

پھر جن تفاسیر میں یہ قول مذکورہے کہ ”حور“ کے اطلاق میں مومن خواتین شامل نہیں تو ان میں بھی در اصل اس قول کو  ایک اختلافی واحتمالی قول کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، نہ کہ واحد قطعی تفسیر کے طور پر۔ نیز جن جن تفاسیر میں یہ قول مذکور ہے، ان میں سے بھی تفسیرِ جلالین، تفسیرِ قرطبی، تفسیرِ بغوی، تفسیرِ ابن قیم، اللباب فی علوم الکتاب، تفسیرِ مظہری اور تفسیرِ خازن وغیرہ میں یہ اختلافی نکتہ سورۃ الرحمن کی آیت نمبر 56اور 74کے تحت اٹھایا گیا ہے جس میں حورانِ بہشتی کی ایک صفت بتلائی گئی ہے کہ ”ان حوروں کو کسی انسان یا جن نے نہیں چھوا ہوگا۔“ توجہ طلب بات یہ ہے کہ جنتی حسیناؤں کا ذکر سورۃ الرحمن سے قبل بھی قرآن میں کئی جگہ ہوا ہے، بلکہ اگر صرف ”حور“ کے لفظ کو لے لیجئے تو یہ بھی سورۃ الرحمن سے قبل سورۃ الدخان کی آیت 54 میں اور سورۃ الطور کی آیت 20 میں ذکر ہوچکا ہے، لیکن مذکورہ کتبِ تفسیر میں سورۃ الرحمن کے اندر ہی تخصیص کے قول کا زیرِ بحث آنا اور اس سے قبل گذر جانے والے کسی متعلقہ مقام پر اس کا زیرِ بحث نہ آنا اس بات کی دلیل ہے کہ مذکورہ مصنفین کے نزدیک اگر تخصیص کا قول قابلِ وقعت ہے بھی تو اسے صرف سورۃ الرحمن کے اندر مذکور حوروں کے تذکرہ سے متعلق ہونا چاہئے، نہ کہ قرآن وحدیث میں مذکور جنتی حسیناؤں کے تمام احوال سے، اگرچہ خود اہلِ تخصیص کے اعتراف کے مطابق علماء کی ایک جماعت اس قدر تخصیص کی بھی قائل نہیں۔

تاہم تفسیرِ رازی، ابو السعود، صنعانی، بیضاوی، روح المعانی اور روح البیان میں یہ اختلافی بحث سورۃ الدخان کی آیت 54 کے تحت چھیڑی گئی ہے اور یہ وہ سب سے پہلا مقام ہے جہاں قرآن میں ”حور“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان چند مصنفین کے نزدیک تخصیص کے اختلاف کا تعلق ان تمام مقامات سے ہونا چاہئے جہاں ”حور“ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لیکن اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ وہ تمام مقامات جہاں جنتی حسیناؤں کے احوال مذکور ہیں، خواہ وہاں ”حور“ کا لفظ ہو یا نہ ہو، وہ ان مصنفین کے نزدیک اس تخصیص کی لپیٹ میں ہونے چاہئیں، کسی طور درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ ایسے کئی مقامات سور ۃ الدخان سے پہلے بھی قرآن میں موجود ہیں جن کی طرف اشارہ گذشتہ سطور میں کیا جاچکا ہے اور اس صورت میں تخصیص کی اختلافی بحث کو وہاں مذکور ہونا چاہئے تھا جہاں سب سے پہلے قرآن میں جنتی حسیناؤں کا ذکر آیا، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

تفاسیر کے اس تمہیدی جائزہ کے بعد اب ہم دیکھتے ہیں کہ تخصیص کے اس دوسرے قول کی بنیاد کیا ہے؟

(1) ابنِ قیم اور قرطبی کے مطابق سورۃ الرحمن کی آیت میں حوروں کی جو صفت بتائی گئی ہے کہ وہ اَن چھوئی ہوں گی، یہ صرف جنت ہی میں پہلا جنم لینے والی حسیناؤں میں پائی جاتی ہے کیونکہ مومن خواتین تو اس سے قبل دنیا میں چھوئی جاچکی ہیں۔  اس استدلال کے ضعف کو سمجھنے کے لیے صرف ایک نکتہ پہ غور کیجئے کہ سورۃ الواقعہ کی آیت35 میں جنتی حسیناؤں کو ”کنواری“ بھی فرمایا گیاہے اور گذشتہ سطور میں گذر چکا ہے کہ صحیح سند سے منقول ایک صریح حدیثِ نبوی کی رو سے وہ مومن خواتین بھی اس کے اطلاق میں شامل ہیں جو دنیا کے اندر بوڑھی ہو کر مری تھیں۔ اب اگر سن رسیدہ بوڑھیاں جنت میں جاکر کنواری ہوسکتی ہیں تو پھر ”اَن چھوئی“ کیوں نہیں؟ سورۃ الرحمن میں ذکر تو جنت والے جنم کا ہے اور اس جنم کی رو سے ظاہر ہے کہ مومن خواتین بھی جیساکہ کنواری ہوں گی، ویسا ہی اَن چھوئی بھی ہوں گی۔ جلیل القد تابعی امام شعبی نے ”الرحمن“ کی آیت کو صریحا ”الواقعہ“ کی آیت نمبر 35 پر قیاس کیا ہے۔ امام سیوطی لکھتے ہیں:

”أخرج سعيد بن منصور وابن المنذر عن الشعبي في قولہ: لم يطمثهن إنس قبلھم ولا جان؛ قال: ھن من نساء أھل الدنيا خلقھن اللہ في الخلق الآخر كما قال: إنا أنشأناھن إنشاء فجعلناھن أبكارا؛ لم يطمثھن حين عدن في الخلق الآخر إنس قبلھم ولا جان!“ (الدر المنثور۔ الرحمن: 56)

”سعید بن منصور اور ابن المنذر نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ سورۃ الرحمن کی آیت میں حوروں کی جو صفت ”ان چھوئی“ بتلائی گئی ہے، وہ جنت میں جانے والی دنیا کی خواتین سے متعلق ہے کیونکہ انہیں وہاں ایک نیا جنم ملے گا، چنانچہ سورۃ الواقعہ میں انہیں کنواری بھی کہا گیا ہے، وجہ ظاہر کہ وہ اپنے نئے جنم میں ”ان چھوئی“ ہی ہوں گی۔“

اسی طرح تفسیر ”السراج المنیر“ میں قائلینِ تخصیص کے اس استدلال کو اسی بنیاد پر مسترد کیا گیا ہے:

”وقيل: إن الحور العين المذكورات في القرآن ھن المؤمنات من أزواج النبيين والمؤمنين، يخلقن في الآخرۃ علی أحسن صورۃ، قالہ الحسن البصري، قال ابن عادل: والمشھور أن الحور العين لسن من نساء أھل الدنيا، إنما ھنّ مخلوقات في الجنۃ لأنّ اللہ تعالی قال:لم يطمثھن إنس قبلھم ولا جانّ؛ وأكثر نساء أھل الدنيا مطموثات. انتھی. لكن مرّ أنہ لم يطمثھن بعد إنشائھن خلقاً آخر وعلی ھذا لا دليل في ذلك“ (تفسیر السراج المنیر۔ الرحمن: 72)

یعنی ”ایک قول ہے کہ قرآن میں مذکور حورانِ بہشتی سے نبیوں اور مومنوں کی مومن بیویاں مراد ہیں، انہیں آخرت میں ایک حسین وجمیل سراپا عطا ہوگا، حسنِ بصری اسی کے قائل ہیں، جبکہ ابنِ عادل کہتے ہیں: مشہور بات یہ ہے کہ حورانِ بہشتی دنیا کی عورتوں میں سے نہیں ہیں، بلکہ یہ جنت ہی میں پہلا جنم لینے والی خواتین ہیں کیونکہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ ”ان چھوئی“ ہیں اور دنیا کی اکثر عورتیں تو دنیا میں زیرِ استعمال رہی تھیں، لیکن پہلے بیان ہوچکا ہے کہ ان کا نیا جنم ”ان چھوا“ ہی ہوگا لہذا یہ کوئی وجہِ استدلال نہیں۔“

       (2) روح المعانی کے مصنف علامہ آلوسی بھی تخصیص کے قائل ہیں، انہوں نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ روایات کی رو سے حورانِ بہشتی مٹی کی بجائے زعفران، مشک اور کافور سے یا پھر ملائکہ کی تسبیح سے تخلیق کی گئی ہیں، تاہم اول تو ان روایات کی استنادی حیثیت واضح نہیں، دوسرا اگر یہ سب صحیح بھی ہوں تو روایات میں جنت کے اندر حاصل ہونے والے وجود کی بات ہو رہی ہے اور جنت کے اندر دنیا کی مومن بیبیوں کو بھی ایک نیا وجود حاصل ہونا ہے، اس لیے اگر اُن کا وجود بھی جنت میں کافور وزعفران کے اسی خمیر سے اٹھایا جائے جس خمیر سے جنت میں پہلا جنم لینے والی حسیناؤں کا وجود تخلیق ہوگا اور روایات کے بیان میں دنیاکی مومن عورتیں بھی شامل ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے؟

       (3) تفسیر رازی اور ابو السعود میں ابوہریرہؓ کا قول نقل کیا گیا ہے کہ ”لسن من نساء الدنيا“ یعنی ”حوریں دنیا کی عورتوں میں سے نہیں“، تاہم اول تو ابو ہریرہؓ کے اس قول کی بھی کوئی سند معلوم نہیں، جبکہ حسن بصری نے نو صحابہ کرام سے اس کے برعکس یہ نقل کیا ہے کہ حوروں سے مراد مومن عورتیں ہیں اور اس روایت کی سند بھی موجود ہے، نیز یہی قول شعبی اور کلبی کا بھی ہے اور اگر ابوہریرہؓ کا قول ثابت بھی ہو تو اس کا مفہوم یہ ہوسکتا ہے کہ جنتی حسینائیں دنیا کی خواتین جیسی نہیں۔

       (4) روح البیان کے مصنف نے لکھا ہے کہ جمہور کے نزدیک دنیا کی خواتین ”حور“ کے اطلاق میں شامل نہیں،تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ آخر کس بنیاد پر جمہور کی طرف اس قول کی نسبت کر رہے ہیں، ہم جان چکے ہیں کہ متقدمین میں سے صرف ابو ہریرہؓ سے یہ قول منسوب ہے لیکن وہ بھی مدعا کے اثبات کے لیےکافی نہیں۔ ہماری نظر میں زیادہ سے زیادہ تخصیص کے قول کو ایک مشہور بات کہا جا سکتا ہے جیساکہ تفسیرِ قرطبی، اللباب فی علوم الکتاب، تفسیر السراج المنیر اور التفسیر المنیر(وہبۃ الزحیلی) میں کہا گیا ہے، جبکہ کسی بات کا محض ”مشہور“ ہونا اسے یہ سند فراہم نہیں کرتا کہ جمہور اہلِ علم کا علمی نکتہء نظر بھی یہی رہا ہو۔چنانچہ ہمارے نزدیک یہ بات غلط طور پر مشہور رہی ہے اور بعد کے مفسرین میں سے اگر کئی ایک نے تخصیص کوبظاہر ترجیح دیا ہے تو وہ بھی غالبا اسی مشہور غلط فہمی کے زیرِ اثر ہے، نیز شاید کوئی مضبوط بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے ہی خود ان کے ہاں بھی عموما تخصیص کے حق میں کوئی زیادہ شدت نظر نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ”حور“ کے لغوی اطلاق کو بنا کسی دلیل کے ایک خاص جنس کی مخلوق سے مخصوص کر دینے کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔

آخری بات

بعض لوگ حورانِ بہشتی کے تذکرہ کو دنیاوی تلذذ اور جگت بازی کا ذریعہ بناتے ہیں، حالانکہ جنت کی نعمتوں کا تذکرہ اس لیے ہوتا ہے کہ آدمی دنیا کی پوجا چھوڑ کر اللہ کی پوجا اختیار کرے، اپنے سجدوں کو طویل کردے، کم زوروں پر رحم کھائے، زندگی کی روش بدلے اور دنیاوی خواہشات کی بجائے اخروی مقاصد کا اسیر بنے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اپنی یاد سے ہمارے دلوں کو معمور فرما دیں، اپنے لیے جینے مرنے کا سلیقہ سکھا دیں اور ایسا بنا دیں کہ جنت کو پانے کے ہم قابل ہوسکیں۔

گذشتہ گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ ”حور“ کا لفظ قرآن وحدیث میں بالعموم تمام جنتی حسیناؤں کے لیے استعمال ہوتا ہے (خواہ وہ کلمہ کن سے پیدا ہونے والی ہوں یا دنیا کی مومن عورتیں) اور اس کا معنی ”جاذبِ نظر حسینائیں“ ہے۔ نیز قرآن وحدیث میں جہاں جنتی حسیناؤں کا تذکرہ آتا ہے تو اسے صرف کلمہء کن کے ساتھ پیدا ہونے والی حسیناؤں سے متعلق سمجھنا (یا مومن مردوں کو بھی ساتھ شامل کرد ینا) ایک تکلف ہے۔مزید یہ کہ  ان تذکروں میں مومن خواتین کے لیے بھی رغبت کا پورا پورا سامان موجود ہوتا ہے اور اس پہلو کو اجاگر کرنا ہی قرآن کی صحیح ترجمانی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔واللہ سبحانہ وتعالی اعلم

فتوی و قضاء میں فرق اور مسئلہ طلاق میں بے احتیاطی

مفتی عبد اللہ ممتاز قاسمی سیتامڑھی

اللہ تعالی نے دین اسلام کو تاقیامت انسانوں کی رہنمائی کے لیے برپا کیا ہے، اس کے انفرادی، خاندانی، معاشرتی،ملکی اور سیاسی زندگی میں دائمی و آفاقی انتہائی منظم ومستحکم اصول موجود ہیں؛ لیکن بہت سی مرتبہ ہمارے ان اصولوں کے صحیح انطباق نہ کرسکنے کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور بہت سی خرابیاں رونما ہوتی ہیں؛ خصوصا رہنمایان دین وشریعت کی ذرا سی چوک امت میں سخت تباہی وبربادی کا ذریعہ بنتی ہے۔

دنیا کے اندر صدیوں تک اسلامی حکومت برپا رہی ہے اور مسلم حکام اپنی کوتاہیوں کے باوجود اپنے عدالتی نظام کو اسلامی آئین وضوابط کے تحت چلاتے رہے ہیں، خلافت راشدہ، خلافت بنو امیہ اور خلافت عباسیہ وفاطمیہ ہر دور میں دارالقضاءکا مضبوط سسٹم رہا ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ خلافت عثمانیہ کے سنہرے دور کے بعد ختم ہوگیا۔ جب خلافت ختم ہوئی تو دارالقضاءکا اسلامی نظام بھی جاتا رہا؛ چناں چہ حضرات مفتیان کرام نے قاضیوں کی ذمے داریاں بھی سنبھالنی شروع کردیں جس کی وجہ سے ”فتوی و قضاءکا فرق“ جاتا رہا اور فقہی کتابوں میں جو مسائل قضاءکے لیے لکھے گئے تھے، حضرات مفتیان کرام نے ان کے مطابق فتوی دینا شروع کردیا۔حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

والمُفتُونَ الیوم غافلون عنہ، فان اکثرہم یفتونَ باحکامِ القضاء. ووجہ الابتلاءفیہ: ان المذکور فی کتب الفقہ عامۃ ہو مسائل القضاء، وقَلَّما تُذکرُ فیہا مسائلُ الدِّیانۃ. نعم، تذکر تلک فی المبسوطات، ولا تُنَال الا بعد تدرُّبٍ تامٍ، ولعل وجہتہ ان القاضی فی السلطنۃ العثمانیۃ لم یکن ینصبُ الا حنفیًا، بخلاف المفتیین فانہم کانوا من المذاہب الاربعۃ، وکان القاضی الحنفی یُنَفِّذُ ما افتُوا بہ، فشرع المُفتُونَ تحریر حکم القضاء لینفِّذ القاضی، فاشتہرت مسائل القضاءفی الکتب، وخملت مسائل الدیانۃ، ثم لا یجبُ ان تتفقَ الدیانۃ والقضاء فی الحکم بل قد یختلفان۔ (فیض الباری علی صحیح الباری:1/ 272)

’’آج کے مفتی حضرات اس (فتوی و قضاءکے فرق)سے غافل ہیں؛ چناں چہ اکثر مفتیان احکام قضاءکے مطابق فتوی دے رہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ متوسط فقہی کتابوں میں عام طور سے قضائی احکام لکھے ہوے ہیں اور بہت کم دیانت (فتوی) کے مسائل کا ذکر ہے؛ ہاں مبسوطات میں دیانت کے مسائل کا ذکر ہے؛ لیکن ان (کتابوں کے مسائل دیانت) کو مکمل مشق وتمرین سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ (قضاءکے مطابق فتوی کے چلن کے عام ہوجانے کی) وجہ شاید یہ ہے کہ عثمانی سلطنت میں قاضی کے عہدے پر صرف حنفی مامور ہوا کرتے تھے، جب کہ مفتیان مذاہب اربعہ کے تھے، اس لیے حنفی قضاۃ ان مفتیوں کے فتوے کے مطابق فیصلہ کردیا کرتے تھے؛ چناں چہ مفتیوں نے قضاءکے احکام لکھنا شروع کردیا تاکہ قاضی اس حکم قضائی کو نافذ کریں۔ اس طرح کتابوں میں قضاءکے مسائل عام ہوتے چلے گئے اور دیانت (فتوی) کے مسائل ختم ہوتے چلے گئے۔جب کہ ہمیشہ قضاءاور دیانت کا حکم شرعی یکساں نہیں ہوتا، بہت سی مرتبہ دونوں کے احکام مختلف ہوتے ہیں۔“

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ متاخرین کے دور میں قاضیوں کا علمی معیار گرگیا تھا، قضاۃ کی تقرریاں علمی بنیاد پر کم اور قرابت داری کی بنیاد پر زیادہ ہونے لگی تھی اس لیے متاخرین نے قاضی کے فیصلے کو فتوی کے تابع کردیا تاکہ قاضی اپنی کم علمی کی وجہ سے کچھ غلط فیصلہ نہ کردے ۔ شامی نے لکھا ہے : ”القضاء تابع للفتوی فی زماننا لجہل القضاۃ“ کہ قاضیوں کی جہالت کی وجہ سے اس زمانے میں قضاءفتوی کے تابع ہے یعنی مفتی قضائی حکم لکھ دیتا تھا اور قاضی اس حکم کی تنفیذکرتا تھا ۔ یہ چلن اتنا عام ہوگیا تھااور دھڑلے سے مفتیان قضائی حکم فتوی میں لکھنے لگے تھے کہ شامی کو فتاوی شامی میں کئی بار توجہ دلانی پڑی کہ عام لوگ جب مسئلہ دریافت کرنے آ ئے تو مفتی کے لیے ضروی ہے کہ دیانت کے مطابق فتوی دے ؛ البتہ اس فتوی میں”لا یصدق قضاءا“ کی صراحت کردے کہ دارالقضاءمیں اس فتوے کا اعتبار نہ کیا جائے تاکہ قاضی اس فتوی کی روشنی میں غلط فیصلہ نہ کردے۔ (و اذا کتب المفتی یدین) ای کتب ہذا اللفظ بان سئل مثلا عمن حلف واستثنی ولم یسمع احدا یجیب ای لا یحنث فیما بینہ وبین ربہ ولکن یکتبہ بعدہ ”ولا یصدق قضاءا“ لان القضاءتابع للفتوی فی زماننا لجہل القضاۃ فربما ظن القاضی انہ یصدق قضاءا ایضا۔ (شامی: ۶۱۲۴)

 تتبع وتلاش سے ایسے ڈھیر سارے مسائل ہمارے سامنے آئیں گے؛ جن میں قضاءودیانت کا فرق نہیں کیا جا رہا ہے اور اس بات کے قائل علامہ کشمیریؒ جیسی شخصیت ہیں؛ لیکن آج ہم معاشرہ کی بیخ کنی کرتے انتہانی سنگین وحساس مسئلہ یعنی طلاق کے حوالے سے قضاء ودیانت کا فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہو رہی بے احتیاطیوں پر گفتگو کریں گے۔

آئیے سب سے پہلے ہم دیانت وقضاءمیں فرق سمجھتے ہیں!

 فتوی احکام شرعیہ کے متعلق اِخبار محض کا نام ہے۔ علامہ قرافیؒ لکھتے ہیں: الفتوی محض اخبار عن اللہ تعالی فی الزام او اباحۃ۔ (انوار البروق فی انواءالفروق:4/89) لہذا مفتی کی ذمے داری بس''صورت مسئولہ کے مطابق حکم شرعی بتادینا ہے ، قطع نظر اس کے کہ صورت مسئولہ نفس الامر کے مطابق ہے یا خلاف۔ شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں: یقول المفتی ''الحکم فی الصورۃ المسئول عنہا کذا'' ولا یلزم منہ ان تکون الصورۃ المسئول عنھا موافقۃ للواقع فی نفس الامر۔ (اصول الافتاءوآدابہ:12) قاضی نفس الامر اور وجود خارجی کو جاننے کا مکلف ہے جب کہ مفتی کا یہ کام قطعی نہیں ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: القاضی الحاکم یحتاج الی معرفۃ المسائل والوقائع ایضا بخلاف المفتی۔ (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:3/ 69)

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قضاءکا اپنا میدان ہے اور دیانت یعنی فتوی کا اپنا میدان ہے، دونوں کو اپنے حدود میں رہنا اور ان کی پاسداری کرنا چاہیے۔ متعدد فقہاءنے لکھا ہے کہ قاضی کے لیے فتوی دینا جائز نہیں ہے اور اس پر تقریبا تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جو معاملہ قاضی کے زیر سماعت ہو اس مسئلہ میں قاضی کے لیے فتوی دینا جائز نہیں ہے۔ ایسے ہی مفتی حضرات کے لیے قضاءکے میدان میں جانا اور دیانت سے بڑھ کر قضائی احکامات کے مطابق فتوی دینا درست نہیں ہے۔ اصل مسئلہ پر جانے سے پہلے بطور تمہیدچند باتوں کا سمجھ لینا ضروری ہے۔

ایک مجلس میں ایک سے زائد طلاق کی دو شکلیں ہیں۔

اول:   کوئی یوں کہے ”میں نے تم کو تین طلاق دی“ یا ”ایک طلا ق دو طلا ق تین طلاق“

دوم:    تین مرتبہ”طلاق طلاق طلاق“ کہہ دے۔

اول الذکر سے تین طلاق واقع ہوجائے گی، اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے، اس میں کوئی کلام نہیں۔ثانی الذکر کی تین شکلیں ہیں۔

اول:  ”طلاق طلاق طلاق“ کہے اور تاسیس/استیناف کی نیت کرے یعنی ہر مرتبہ طلاق میں نئی طلاق کی نیت کرے۔

ثانی:    ”طلاق طلاق طلاق“ کہے اور تاکید کی نیت کرے، یعنی اس کی نیت تو ایک ہی طلاق کی ہے؛ البتہ دوسری اور تیسری طلاق کے تکرار سے طلاق کو موکد کرنا مقصد ہے۔

ثالث: ” طلاق طلاق طلاق“ کہے اور اس کی نیت تاسیس یا تاکید میں سے کچھ بھی نہ تھی۔

اس میں بھی شکل اول میں تین طلاق واقع ہوجائے گی، ہماری گفتگو آخری شکل میں مذکوردوسری اور تیسری شکل پر ہوگی۔یعنی تین مرتبہ ''طلاق طلاق طلاق '' کہے اور نیت ایک طلاق کی تھی یا نیت کچھ بھی نہ تھی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک ایسی طلاق جو تین مرتبہ ”طلاق طلاق طلاق“ کہہ دی جاتی تھی ایک طلاق سمجھی جاتی تھی، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چلن بدل جانے اور دیانت کے کم ہوجانے کی وجہ سے اس پر بندش لگادی اور فرمایا کہ تین مرتبہ کہی ہوئی طلاق تین طلاق شمار ہوگی۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کیا ہے:

کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ، فقال عمر بن الخطاب: ان الناس قد استعجلوا فی امر قد کانت لہم فیہ اناۃ، فلو امضیناہ علیہم، فامضاہ علیہم ۔ (صحیح مسلم:2/1099)

معروف شارح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:

فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق انت طالق انت طالق ولم ینو تاکیدا ولا استئنافا یحکم بوقوع طلقۃ لقلۃ ارادتہم الاستئناف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادۃ التاکید فلما کان فی زمن عمر رضی اللہ عنہ وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغۃ وغلب منہم ارادۃ الاستئناف بہا حملت عند الطلاق علی الثلاث عملا بالغالب السابق الی الفہم منہا فی ذلک العصر وقیل المراد ان المعتاد فی الزمن الاول کان طلقۃ واحدۃ وصار الناس فی زمن عمر یوقعون الثلاث دفعۃ فنفذہ عمر۔ (شرح النووی علی مسلم: 10/72)

’’اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ شروع زمانے میں جب کوئی ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ (تمھیں طلاق ہے، تمھیں طلاق ہے، تمھیں طلاق ہے) کہہ کر طلاق دیتا اور تاکید واستیناف (نئی طلاق کے وقوع) کسی بھی چیز کی نیت نہ کرتا تو ایک طلاق کے وقوع کا حکم لگتا تھا؛ کیوں کہ لوگ ان الفاظ سے بہت کم استیناف (نئی طلاق کے ایقاع) کا ارادہ کرتے تھے، لہذا ان الفاظ کو ان عام معمول پر محمول کیا جاتا جسے تاکید کہا جاتا ہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا اور طلاق کے لیے ان الفاظ کا استعمال بکثرت ہونے لگا اور عام طور سے ان کی نیت استیناف کی ہوتی تھی؛ چناں چہ مطلق تین مرتبہ (طلاق طلاق طلاق کہنے) کو تین طلاق پر محمول کیا گیا اسی سابقہ غالب معمول پر عمل کرتے ہوئے۔“

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ قضائی معاملہ کے لیے تھا، دیانت کے لیے قطعا نہیں تھا؛ چوں کہ قاضی کا کام ظاہر کے مطابق حکم شرعی لگانا ہے، اور اس نے تین مرتبہ ''طلاق طلاق طلاق''کہہ دی ہے تو ظاہر یہی ہے کہ اس نے تین طلاق دی ہوگی؛ لیکن مفتی کاکام دیانت کے مطابق فتوی دینا ہے، وہ قضائی حکم کے مطابق فتوی نہیں دے سکتا۔ اس لیے اگر کسی نے تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہہ دی تو مفتی کے لیے مطلق تین طلاق کا فتوی لکھ دینا درست نہیں ہے۔

اب آئیے ہم ہندوستانی وپاکستانی معاشرہ کی صورت حال اور چلن کو دیکھتے ہیں!

 یہاں عام چلن ہے کہ نکاح کے وقت نکاح خواں تین مرتبہ قبول کراتا ہے ”قبول ہے قبول ہے قبول ہے“ کے الفاظ سے ، اس لیے کم پڑھے اوراَن پڑھ لوگوں میں یہ سوچ ہے کہ جب تک تین مرتبہ طلاق طلاق طلا ق نہیں کہیں گے طلاق واقع نہیں ہوگی؛ چوں کہ تین مرتبہ قبول کیا تھا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ فلمی کہانیاں اور ڈرامے معاشرے کو دیکھ کر بنتی ہیں یا فلموں سے متاثر ہوکر معاشرہ بنتا ہے، اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ فلموں اور سیریلوں کا معاشرہ سے ڈائریکٹ کنکشن (رابطہ)ہے، گوکہ فلم بینی حرام ہے؛ لیکن اس نے ہمارے معاشرے کو بھی متاثر کیا ہے، فلموں اور سیریلوں میں طلاق کا تصور یہی دیا اور سمجھایا گیا ہے کہ جب تک تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق نہ کہی جائے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ شاید ہی کہیں ایسا ہوتا ہے کہ نارمل حالت میں طلاق دی گئی ہو ورنہ عام طور سے غصہ کے عالم میں ہی طلاق کی نوبت آتی ہے، ایسے میں انسان بس ''طلاق طلاق طلاق'' کہہ دیتا ہے، اس کی نیت استیناف یا تاکید کی نیت نہیں ہوتی ہے۔

اس صورت حال کو جاننے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں۔

1۔    اگر کوئی تین مرتبہ ''طلاق طلاق طلاق'' کہہ دے اور معاملہ دارالقضاءآئے تو قاضی ثبوت وشواہد کی روشنی میں صورت حال کا جائزہ لے کر اپنی صوابدید کے مطابق فیصلہ کریں ۔اگر فیصلہ میں خطا ہوبھی گیا تو وہ ایک اجر سے محروم نہیں ہوں گے۔

2۔     اگر معاملہ دارالافتاءآئے اور وہ بصراحت کہے کہ میری نیت ایک کی تھی تو ایک طلاق واقع ہوگی۔

3۔    اگر معاملہ دارالافتاءآئے اور استفتاءمیں اپنی نیت استیناف/تاکید کی صراحت نہ ہو تومفتی اس نیت کی وضاحت طلب کرے اور مستفتی کی وضاحت کے مطابق فتوی دے یعنی اگر وہ تاکید کی نیت بتائے تو تاکید اور استیناف کی نیت بتائے تو استیناف۔

4۔       اگر معاملہ دارالافتاءآئے اور وضاحت طلب کرنے پر جواب آئے کہ ''میری کوئی نیت نہ تھی، بس تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ دی'' تو اسے معاشرہ کی صورت حال کی وجہ سے ایک طلاق سمجھی جائے اور ایک طلاق کا فتوی دیا جائے۔جیسا زمانہ نبوی، خلافت صدیقی اورخلافتِ فاروقی کے ابتدائی دو سالوں میں ہوتا رہا ہے۔

پیدا ہونے والے اشکالات کے جوابات:

نمبر پر ایک پر یہ اشکال ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ اگر قضائی تھا تو پھر موجودہ وقت کے قضاۃ حضرات کو اپنی صوابدید کے مطابق وقوع اور عدم وقوع طلاق کے فیصلہ کا اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو وقوع طلاق کا فیصلہ کیا تھا اس کی دو وجہ تھی ۔

۱۔ چلن کا بدل جانا

۲۔ دیانت کا کم ہوجانا

موجودہ حالات میں دیانت کی کمی تو دور عمری سے ہزار گنا زائد ہے؛ لیکن ہمارے یہاں دینی شعور کی کمی اور جہالت کی وجہ سے چلن پھر سے بدل چکا ہے اور چلن بدل جانے کی وجہ سے قاضی رواج کے مطابق فیصلہ کرسکتا ہے۔ مجموعہ قوانین اسلامی میں ہے:

”اور اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی نیت ایک ہی طلاق کی تھی اور ا س نے محض زور پیدا کرنے کے لیے الفاظ طلاق دہرائے ہیں، اس کا مقصد ایک سے زائد طلاق دینا نہیں تھا تو اس کا یہ بیان حلف کے ساتھ تسلیم کیا جائے گا اور ایک ہی طلاق واقع ہوگی اور اگر طلاق دینے والا یہ کہتا ہے کہ اس کی کچھ بھی نیت نہیں تھی، نہ ایک کی اور دو یا تین کی، دیکھا جائے گاکہ عرف میں ایسے مواقع پر تاکیدا الفاظ دہرانے کا رواج ہے یا نہیں ، اگر عرف غالب یہ ہوکہ ایسے مواقع پر لوگ محض کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے بار بار اسی لفظ کو دہراتے ہیں تو عرف کے تقاضوں کی رعایت کرتے ہوے الفاظ کی تکرار کو تاکید پر محمول کرکے ایک ہی طلاق واقع کی جائے گی۔ (مجموعہ قوانین اسلامی: ۴۹۱)

چنانچہ بینہ وثبوت اور عرف کو ملحوظ رکھ کر قاضی ایک یا تین کا فیصلہ کرسکتے ہیں ، اگر وہ مصیب ہوے تو دو اجر کے مستحق ہوں گے اور اگر مخطی ہوے تو ایک اجر کے ۔ ارشاد نبوی ہے : اذا حکم الحاکم فاجتہد فاصاب، فلہ اجران، واذا حکم فاخطا فلہ اجر واحد (ترمذی: 1326)

نمبر دو اور تین پر حضرات مفتیان کرام کی طرف سے یہ اشکال ہوتا ہے کہ اس طرح لوگ تین کی نیت سے طلاق دیں گے اور ایک کا فتوی حاصل کرلیں گے۔ جواب بڑا سادہ اور سیدھا ہے کہ ہمارا تو کام ہی”اِخبار محض“ ہے، اس نے زبان یا تحریر سے جیسا بتایا ہمارا کام اس کے مطابق فتوی دے دینا ہے، اب معاملہ فیما بینہ وبین اللہ ہے۔اگر اس نے جھوٹ بول کر آپ سے فتوی حاصل کیا ہے یعنی اس کی نیت استیناف کی تھی اور ”تاکید کی نیت یا بلا نیت“ کہہ کر ایک طلاق کا فتوی حاصل کر لیا تو یقینا اس کا مواخذہ آپ سے نہیں ہوگا، عنداللہ اس کا جوابدہ وہ خود ہوگا؛ لیکن اگر اس کی نیت وہی تھی جو وہ زبان سے کہہ رہا ہے یعنی تاکید کی تھی یا بلا نیت تھی اور آپ نے تین طلاق کا فتوی لکھ کر اس کے گھر کو توڑ دیا، ان کے بچوں کو بکھیردیا اور طلاق کی وجہ سے جو انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ان کی زندگی پر ہوے تو یقینا کہیں نہ کہیں اس جرم میں آپ کا شمار ہوگا اور اس طلاق کی وجہ سے ہونے والے تمام تر برے اثرات کے آپ ذمہ دار ہوں گے اوراس کے لیے عنداللہ جوابدہ ہونا پڑے گا۔ جان لیجیے! اسے ”اجتہادی خطا“ کہہ کر بھی نہیں ٹالا جاسکے گا۔ حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے حدیث : اذا حکم الحاکم فاجتہد فاصاب، فلہ اجران، واذا حکم فاخطا فلہ اجر واحد. (ترمذی: 1326) کے متعلق عقد الجید شاہ ولی اللہ محدث ہلویؒ کے حوالے سے حاشیہ لکھا ہے:  

ان حدیث الباب فی حق القاضی لا فی حق المفتی او المجتہد والقاضی الحاکم یحتاج الی معرفۃ المسائل والوقائع ایضا بخلاف المفتی (العرف الشذی شرح سنن الترمذی:3/69)

’’ حدیث مذکور قاضی کے حق میں ہے نہ کہ مفتی یا مجتہدکے حق میں (کہ اگر وہ مصیب رہا تو دو گونا اجر اور اگر مخطی رہا تو ایک گونا اجر) چوں کہ قاضی مسائل جاننے کے ساتھ تحقیق واقعہ کا بھی مکلف ہے، برخلاف مفتی کے (کہ انھیں تحقیقی واقعہ کی ضرورت نہیں۔ان کے لیے مسائل کا علم کافی ہے) “

نمبر دو والی شکل کو اگر آپ بغور دیکھیے تواس مسئلہ کو لے کر دارالافتاءآنے والے ہر شخص کو آپ جھوٹا اور فریبی فرض کرکے فتوی لکھتے ہیں، یعنی جتنے بھی آدمی کے ساتھ یہ حادثہ پیش آئے اور وہ آپ سے فتوی طلب کرے گوکہ وہ سچااور دین دارآدمی ہے ، خوف خدا کی وجہ سے دارالافتاءآیا ہے؛ لیکن آپ بلا کسی دلیل کے اسے جھوٹا مان لیتے ہیں کہ یقینا یہ جھوٹ بول رہا ہے اور پھر قضاءکے مطابق تین طلاق کا فتوی لکھ دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ اصول فتوی اور اصول شریعت دونوں کے خلاف ہے ۔

نمبر دو پر ہونے والے اعتراض کا واضح جواب یہ بھی ہے کہ اس اندیشہ کو تمام اہل مراجع نے محسوس نہیں کیا؛ بلکہ انھوں نے بصراحت لکھا کہ اگرمستفتی اقرار کرتا ہے کہ اس نے تین مرتبہ طلاق طلاق طلا ق کہی ہے؛ لیکن نیت ایک کی تھی تو مفتی ایک طلاق کے وقوع کا ہی فتوی دے گا۔

نمبر چار پر یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ زمانہ نبوی اور خلافت صدیقی میں چوں کہ تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہنے کے باوجود ایک کی نیت کا ہی چلن تھا جیسا کہ امام نوویؒ کی عبارت سے واضح ہے؛ لیکن اب ایسی صورت حال نہیں ہے۔ اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے کہ زمانہ اب بھی وہی ہے، اب بھی لوگ تین مرتبہ طلا ق طلاق طلاق کہہ کرایک طلاق واقع ہونا ہی سمجھتے ہیں، بس ایسا سمجھنے کی وجہ میں فرق ہے، قرن اول میں ایمان کی پختگی، شرعی علوم سے گہری واقفیت اور عنداللہ جوابدہی کے خوف سے ایسا چلن تھا، اب جہالت، شرعی علوم سے ناواقفیت اور فلم وسیریل بینی کے اثر سے ایسا چلن ہے۔ بہرحال نتیجہ کے اعتبار سے دونوں کی صورت حال برابر ہے اس لیے حکم شرعی بھی برابر لگنی چاہیے، یعنی جو حکم پہلے لگتا تھا وہی حکم اب بھی لگنا چاہیے۔مجموعہ قوانین اسلامی کا حوالہ گزر چکا ہے۔

اسی قبیل سے جھوٹی طلاق کے اقرار کا مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے اس ارادے کے ساتھ کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے کہہ دے کہ ''میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں'' یا کسی نے اس کی بیوی کو زبردستی طلاق دلانے یا طلاق نامہ پر دستخط کرانے کی کوشش کی اور اس نے جھوٹ کہہ دیا کہ وہ اپنی بیوی کو پہلے ہی طلاق دے چکا ہے تو دیانۃ اس کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہوگی، یعنی مفتی حضرات وقوع طلاق کا فتوی نہیں دے سکتے؛ البتہ اگر معاملہ دارالقضاءجاتا ہے تو ثبوت وشواہد کی روشنی میں قاضی طلاق واقع کردے گا۔ فتاویٰ شامی میں ہے: المفتی یفتی بالدیانۃ) مثلا اذا قال رجل: قلت لزوجتی انت طالق قاصدا بذلک الاخبارکاذبا فان المفتی یفتیہ بعدم الوقوع والقاضی یحکم علیہ بالوقوع۔ (رد المحتار: 5/365)

مفتی کا کام دیانت کے مطابق فتوی دینا ہے؛ چناں چہ اگر کسی نے اپنی بیوی سے کہا ''انت طالق'' (تم مطلقہ ہو/تم کو طلاق دے چکا ہوں) اس ارادے کے ساتھ کہ وہ جھوٹی خبر دے رہا ہے تو مفتی عدم وقوع طلاق کا فتوی دے گا اور (اگر معاملہ دارالقضاءجاتا ہے تب) قاضی وقوع طلاق کا فیصلہ کرے گا۔

کسی نے اپنی بیوی کو ہنسی مذاق میں کہہ دیا کہ ''میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں '' یا اپنے دوستوں کی مجلس میں تفریحا اقرار کیا کہ میں تو بیوی کو طلاق دے چکا ہوں تب بھی اس پر دیانۃ (فتوی کی رو سے) طلاق واقع نہ ہوگی۔ ولو اقر بالطلاق کاذبا او ھازلا وقع قضاءلا دیانۃ (رد المحتار:3/236)

مذکورہ بالا دونوں مسائل میں بھی دارالافتاءسے وقوع طلاق کے فتاوے صادر ہوتے ہیں اور ان کی مضبوط دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ثلاث جدهن جد، وهزلهن جد: النکاح، والطلاق، والرجعۃ۔ (ابوداود:2194) ہوتی ہے، جب کہ اس روایت کے حوالے سے” انشاءطلاق اور اخبار طلاق میں فرق“ اور اس کی وجہ سے قضاءودیانت کا فرق کرنا بھول جاتے ہیں ۔ یعنی اگر ان شاءطلاق ہنسی مذاق میں بھی واقع ہوجاتی ہے مثلاہنسی مذاق میں یوں کہہ دے کہ  ”میں تمھیں طلاق دیتا ہوں“ تو طلاق واقع ہوجائے گی؛ لیکن اگر ہنسی مذاق میں اقرار طلاق کرلے کہ میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں تو فتوی کی رو سے طلاق واقع نہ ہوگی؛البتہ قضاءکی رو سے طلاق واقع ہو جائے گی۔(حوالہ سابق دیکھیں) چوں کہ اگر ہنسی مذاق میں بھی کیے گئے اقرار کی بناءپر نکاح، طلاق اور رجعت کے احکام قضاکے اعتبار سے نافذ نہ کیے گئے تو معاملات خراب ہوجائیں گے اور قاضی کے لیے فیصلہ کرنا دشوار ہوجائے گا؛ کیوں کہ وہ ظاہر کے مطابق حکم لگانے کا مکلف ہے۔ اس کا مقصد ہزل تھا یا جد، اپنے قول میں وہ سچا تھا یا جھوٹاا س سے قاضی کو کوئی مطلب نہیں؛ چنانچہ اگر کسی شخص نے دو آدمی کو پہلے سے گواہ بنا دیا کہ میں اپنی بیوی کو جھوٹی طلاق کی خبر دوں گا، تم گواہ رہو اور بیوی کو جھوٹی طلاق کی خبر دے دی کہ ”میں تمھیں طلاق دے چکا ہوں /تم مطلقہ ہو“، اب اگر یہ معاملہ دارالقضاءجاتا ہے تب بھی قاضی وقوع طلاق کا فیصلہ نہیں کرے گا۔ در مختار میں ہے: قال: انت طالق او انت حر وعنی الاخبار کذبا وقع قضاء، الا اذا اشہد علی ذلک۔ (الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین:3/293)

اس سے صاف واضح ہے کہ حدیث مذکور کا اطلاق عمومی نہیں ہے، بلکہ یہ امور قضا کے ساتھ مخصوص ہے، اگر حکم عمومی ہوتا جھوٹی تو طلاق سے پہلے گواہ بنانے یا نہ بنانے سے کچھ فرق نہ پڑتا اور بتقاضائے عموم بہرحال اس پر طلاق واقع ہوجاتی۔

بہرحال؛ ان سب کے باوجود دارالافتاوں کا چلن یہی ہے کہ ان سب مسائل میں وہ حکم قضاءکے مطابق فتوی لکھتے ہیں اور ان مقامات میں جہاں طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے، وہاں بھی بے پروا ہوکر طلاق واقع کردیتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ علامہ کشمیریؒ کے بقول دیانت وقضاءمیں فرق سے غفلت ہے اور متداول کتب فقہ میں جہاں بیشتر مسئلے قضاءکے لکھے ہوئے ہیں، ان کے مطابق فتوے لکھنا ہے۔ میرے تخمینہ کے مطابق دارالافتاوں میں ستر اسی فیصد سوالات طلاق یا میراث کے آتے ہیں جن میں چالیس سے پچاس فیصد سوالات طلاق کے ہوتے ہیں، یعنی معاشرہ طلاق کی آگ میں بری طرح جھلس رہا ہے۔ طلاق کی وجہ سے صرف میاں بیوی جدا نہیں ہوتے، بلکہ دو خاندان ٹوٹ جاتے ہیں، بچوں پر جو سنگین اثرات پڑتے ہیں وہ اتنے خطرناک ہیں کہ انھیں بیان کرنے کے لیے مستقل ایک مقالہ چاہیے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ اگر ان مسائل پر توجہ دی گئی تو یقینا طلاق کی شرح معاشرہ سے کم ہوجائے گی اور اس لعنت کی وجہ سے برپا ہونے والے فساد جس سے قوم تباہ ہورہی ہے اور ان کا مستقبل خاکستر ہو رہا ہے، ان سے کسی حد تک بچ پانا ممکن ہوگا۔ اللہ کرے کہ ارباب فتاوی ،سنجیدہ علمی شخصیات اور درد مند اہل علم اس سنگین مسئلہ میں غور کریں اور امت جس مسئلہ سے بری طرح جھوجھ رہی ہے، اس سے انھیں نجات دلانے میں مدد کریں ۔اگر ضرورت پڑنے پر حضرت تھانوی ؒ دوسرے فقہ سے رجوع کرسکتے ہیں تو یقینا آپ اپنی ہی فقہی کتابوں میں موجود مسئلہ میںمحض دیانت وقضاءمیں فرق کرکے اور اپنا دائرہ کار متعین کرکے امت کے ایک بڑے طبقہ کو (جو پہلے سے ہی غریب ، مفلوک الحال اور ان پڑھ ہوتے ہیں )کا گھر ٹوٹنے اور مزید شکستہ حال ہونے سے بچا سکتے ہیں ۔اللہ تعالی ہمیں توفیق دے۔ وہو المصیب

ایک درخواست:  یہ میرے ناقص فکر ومطالعہ اور علمی وعوامی تجربہ کا حاصل ہے، کوئی انسان لغزش وخطا سے خالی نہیں، اس لیے اگر اہل علم ونظر قارئین کو اس تحریر میں کوئی قابل اشکال پہلو یا لائق اصلاح بات نظر آئے تو نشان دہی فرمادیں ساتھ ہی اگر اس موضوع یا اس کے ذیلی ابحاث سے متعلق اضافی مواد آپ کے مطالعہ میں ہو تو آگاہ فرمائیں۔ بے حد شکر گزار ہوں گا۔



مدرسہ طیبہ میں سالانہ نقشبندی اجتماع

مولانا محمد اسامہ قاسم

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر اہتمام سالانہ نقشبندی اجتماع کا انعقاد کیا جاتا ہے جس کے مہمان خصوصی حضرت خواجہ خلیل احمد ہوتے ہیں۔ اس سال یہ دینی فکری اصلاحی نقشبندی اجتماع 21 دسمبر بروز سوموار مدرسہ طیبہ گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ اس مبارک روحانی اجتماع میں حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب ،حضرت مولانا اشرف علی، مولانا شاہ نواز فاروقی، مولانا جمیل الرحمٰن اختر، مولانا فضل ہادی ، سید سلمان گیلانی، حافظ فیصل بلال حسان ، مفتی عبید الرحمن، مولانا عثمان رمضان، صاحبزادہ نصرالدین خان عمر اور مولانا امجد محمود معاویہ نے شرکت کی۔

قاری محمد عمر فاروق کی پرسوز تلاوت سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ حافظ یحیی بن زکریا، حافظ عادل حسین اور حافظ فیصل بلال حسان نے نعتیہ کلام پیش کرتے ہوئے بارگاہ رسالت میں گلہائے عقیدت پیش کیے۔  نعتیہ کلام کے بعد صاحبزادہ حضرت خواجہ خلیل احمد صاحب اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ علامہ زاہد الراشدی صاحب نے خواجہ صاحب کو اجتماع میں خوش آمدید کہا۔ خواجہ صاحب نے ختم خواجگان نقشبندیہ مجددیہ سلسلہ کے مطابق مجلس ذکر کرائی۔ پھر ایک عزیز کے انتقال کی اطلاع ملنے پر  جنازے میں شرکت کے لیے جلد واپس تشریف لے گئے۔

نقشبندی محفل ذکر کے بعد جامعہ محمودیہ سرگودھا کے مہتمم حضرت مولانا اشرف علی صاحب نے اصلاح قلب، دینی مدارس اور خانقاہوں کی اہمیت کے حوالے سے گفتگو کی ۔ فرمایا کہ ہمارے پاس مسجد اور مدرسے کی نسبت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ، ہم خوش نصیب ہیں کہ دین سیکھنے اور سکھانے والوں میں شمار ہوتے ہیں  ۔ حضرت لاہوری علیہ الرحمہ اکثر فرمایا کرتے تھے ایک ہوتا ہے رنگ فروش اور ایک ہوتا ہے رنگ ساز۔ رنگ فروش رنگ بیچتا ہے لیکن رنگ ساز رنگ چڑھاتا ہے۔ مدارس اور خانقاہوں میں ادب اخلاق کا رنگ چڑھایا جاتا ہے۔ اہل دل علماء کی صحبت سے دل روشن اور منور ہوتا ہے۔ اکابرین کی صحبت اور معیت غنیمت ہے۔

پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی امیر مولانا قاری جمیل الرحمن اختر صاحب  نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جہاں بزرگ اکابرین موجود ہوں، وہاں اللہ ربّ العزت کی طرف سے انتہائی سکون اور راحت کا سامان ہوتا ہے۔ اللہ والوں سے رشتے ناطے توڑکر لوگ سمجھتے تھے کہ ہم ان کے بغیرکہیں کامیابی،کامرانی اورخوشحالی کے منازل آسانی کے ساتھ طے کرلیں گے مگرحالات اورواقعات نے یہ ثابت کردیاہے کہ یہ سراسر بھول،نادانی اورخام خیالی کے سواکچھ نہیں۔ہمارے پاس آج دنیاکی ہرنعمت اورسہولت موجودہے لیکن اس کے باوجودہماری زندگیوں میں چین ہے اورنہ سکون۔سب کچھ پاس ہونے کے باوجودبے چینی اوربے سکونی سے ایسالگ رہاہے کہ ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔اس کے مقابلے میں اگر اللہ کے دوستوں کی چندسیکنڈز کی قربت اورصحبت بھی اختیارکرلی جائے توپھر ہمارے جیسے گنہگاربھی لمحوں میں خالی ہاتھ دنیاجہان کے سارے غم بھول جاتے ہیں۔

شاعر ختم نبوت سید سلمان گیلانی نے بھرپور انداز میں خوبصورت نئے کلام پڑھ کر محفل کو مزید بارونق بنا دیا گیلانی صاحب کے اس مشک بار کلام پہ خوب داد دی گئی۔

درودِ پاک میں تسکین ہے دلوں کے لیے
درودِ  پاک اجالا  ہے  ظلمتوں کے  لیے
درود پاک میں برکت خدا نے  رکھی ہے
درود پاک میں پڑھتا ہوں برکتوں کے لیے

عصر کی نماز کے بعد اجتماع کی آخری نشست  سے خطاب کرتے ہوئے خطیب اسلام مولانا شاہ نواز فاروقی صاحب اپنی گفتگو میں کہا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر جسم کالوتھڑا یہ دل ٹھیک ہو جائے تو سارا جسم ٹھیک اور اگر یہ دل خراب تو سارا جسم خراب ، انہوں کہا کہ جسم بمنزلہ محکوم اور رعایا کے ہے جبکہ یہ دل بمنزلہ حاکم کے ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ لوگ اپنے حاکم اور بادشاہ کے دین پہ ہوتے ہیں اسی طرح سارا جسم بھی دل کی مان کر چلتا ہے۔ جو دل نے کہنا ہے جسم نے وہی کرنا ہے، دلوں کی صفائی اور تزکیہ نفس کے لیے یہ اجتماع رکھا گیا ہے ۔ یہ دل دو طرح سے صاف ہو سکتا ہے، ذکر اللہ کی کثرت اور اہل اللہ کی صحبت و معیت سے دلی کیفیات میں نکھار اور ایمانی جذبات میں قوت آتی ہے۔

الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر  علامہ زاہد الراشدی صاحب نے روحانی نقشبندی اجتماع سے آخری خطاب کرتے ہوئے خواجہ خلیل احمد صاحب کی تشریف آوری اور تمام شرکاء کی اجتماع میں شرکت پر سب حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ تصوف و سلوک تزکیہ نفس اور مشائخ علماء کرام کی رب العزت سے قربت وتعلق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض بزرگوں کی طرف یہ بات منسوب ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ کوئی کام ہماری مشیت کے بغیر نہیں ہوتا تو عام لوگوں کو یہ بات بہت عجیب لگی، اس کا مطلب یہ ہے کہ بزرگ حقیقت میں وہی چاہتے ہیں جو اللہ ربّ العزت کی چاہت و مشیت ہوتی ہے، اس لیے کچھ بھی ان مشائخ کی مشیت سے ہٹ کر نہیں ہوتا۔

اجتماع کا اختتام علامہ زاہد الراشدی صاحب کی دعا پر ہوا ۔ دعا کے بعد تمام شرکاء کی ضیافت کی گئی۔

تعلیمی نظام اور تحریکی تقاضے

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۱٠ دسمبر ۲۰۲۰ء کو جامعہ فریدیہ اسلام آباد میں اساتذہ و طلبہ کے اجتماع سے خطاب کا خلاصہ )

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ کافی عرصہ کے بعد جامعہ فریدیہ میں حاضری اور اساتذہ و طلبہ کے ساتھ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور مجھ سے کہا گیا ہے کہ کچھ گزارشات بھی کروں اس لیے تعمیل حکم میں چند باتیں عرض کر رہا ہوں۔ جامعہ فریدیہ ملک کے بڑے تعلیمی اداروں میں سے ہے اور مختلف حوالوں سے اپنی ایک الگ تاریخ رکھتا ہے۔ حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کی محنتوں کا ثمرہ اور ان کا صدقہ جاریہ ہے۔ انہوں نے اور ان کے خاندان و رفقاء نے اس علمی ادارہ اور مرکز کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور جامعہ فریدیہ آزمائشوں کے مختلف مراحل سے گزرا ہے۔

اس پس منظر میں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے کہ یہاں کا تعلیمی تسلسل جاری ہے۔ طلبہ کی بڑی تعداد اور اساتذہ کی اکثریت بحرانی کیفیات سے دوچار ہونے کے باوجود مصروف تعلیم ہے، جبکہ میری طالب علمانہ رائے میں تعلیمی تسلسل کو قائم رکھنا اور نظام کو ڈسٹرب ہونے سے بچانا آج کے دور میں دینی مدارس کے لیے بڑی کامیابی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ جن لوگوں اور طبقوں کو دینی مدارس کے نظام کی بقا مسلسل پریشان کر رہی ہے ان کی ہر ممکن کوشش ہے کہ ان مدارس کا نظام و ماحول کسی نہ کسی طرح ڈسٹرب ہو جائے اور تعلیمی و معاشرتی کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ ان حالات میں ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپنے تعلیمی نظام اور ماحول کو کسی حالت میں معطل نہ ہونے دیں۔ چنانچہ آپ حضرات نے گزشتہ کچھ عرصہ کے حالات میں تعلیمی سلسلہ کو جس صبر و حوصلہ اور حکمت کے ساتھ قائم رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے اس پر مبارکباد دیتے ہوئے اس سلسلہ میں کردار ادا کرنے والے سب احباب خصوصاً اسلام آباد کے اکابر علماء کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

اس موقع پر ایک تاریخی واقعہ آپ کے گوش گزار کرانا چاہتا ہوں کہ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ ۱۹۴۱ اور ۱۹۴۲ کے دوران دارالعلوم دیوبند جا کر دورۂ حدیث میں شریک ہوئے تھے اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور دیگر اکابر اساتذہ سے استفادہ کیا تھا۔ حضرت مدنیؒ تحریک آزادی کے بڑے راہنماؤں میں سے تھے، اس حوالہ سے وہ گرفتار کر لیے گئے جس پر دارالعلوم دیوبند کے طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے کلاسوں کا بائیکاٹ کر دیا اور احتجاجی جلسوں اور جلوسوں کا سلسلہ شروع کر دیا جو اس حد تک بڑھ گیا کہ تعلیمی نظام معطل ہو کر رہ گیا حتٰی کہ اس سال سالانہ امتحانات بھی نہیں ہو سکے تھے۔ طلبہ کی اس تحریک کی قیادت کے لیے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے سرکردہ طلبہ کی جو کمیٹی منتخب کی گئی اس کا سربراہ والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کو بنایا گیا اور انہوں نے کمیٹی کے دیگر ارکان کے ہمراہ احتجاجی تحریک کی قیادت کی تھی۔ اس تحریک کی مختلف باتیں بیان کرتے ہوئے والد گرامیؒ نے یہ بات بتائی بلکہ اپنی یادداشتوں میں تحریر بھی فرمائی ہے کہ انہیں بزرگ اساتذہ اور علماء کرام مسلسل سمجھاتے تھے کہ احتجاج کا حق ضرور استعمال کرو لیکن اس سے تعلیمی سلسلہ اور مدرسہ کے ماحول کو متاثر نہ ہونے دو۔ انہیں اس خدشہ سے بھی آگاہ کیا گیا کہ اس طرح انگریزی حکومت کو دارالعلوم دیوبند کو بند کرنے کا بہانہ ملے گا اور یہ بہت بڑا قومی نقصان ہو گا۔ والد محترمؒ فرماتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بات ہم پر اثرانداز نہیں ہو رہی تھی اور ہم اپنے جذبات میں مگن احتجاجی تحریک کو پورے جوش و خروش کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے۔ بالآخر جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ اور جنرل سیکرٹری حضرت مولانا احمد سعید دہلویؒ دیوبند تشریف لائے اور کئی ملاقاتوں میں ہمیں اس بات پر قائل کیا کہ ہم تعلیمی بائیکاٹ اور احتجاجی جلوسوں کا سلسلہ ختم کر دیں۔ اس حوالہ سے ہمیں ان بزرگوں نے بھی یہ فرمایا کہ احتجاج اور تحریک سے دارالعلوم دیوبند کے نظام کو ڈسٹرب نہ ہونے دو اور حکمرانوں کے لیے اس بات کا موقع اور بہانہ فراہم نہ کرو کہ وہ دارالعلوم دیوبند کے خلاف کوئی کارروائی کر سکیں۔ حضرت والد محترمؒ فرماتے تھے کہ ہمیں یہ بات سمجھانے کی ہر بزرگ نے کوشش کی کہ مدرسہ کو مدرسہ رہنے دو مورچہ میں تبدیل نہ کرو اس سے نقصان ہو گا اور یہ بات امت کے فائدہ کی نہیں ہے۔ چنانچہ ان بزرگوں کے حکم اور اصرار پر ہم نے اپنی تحریک روک دی مگر حالات اس حد تک بگڑ چکے تھے کہ اس سال دارالعلوم کے سالانہ امتحانات نہ ہو سکے اور ہمیں اگلے سال دوبارہ جا کر امتحانات میں شریک ہونا پڑا۔

اس لیے مجھے جامعہ فریدیہ کے گزشتہ حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کے بحال ہونے اور اساتذہ و طلبہ کے ذوق و شوق کا سلسلہ جاری رہنے پر فی الواقع بہت خوشی ہو رہی ہے۔ اس کے ساتھ ایک بات دینی تحریکات اور جدوجہد کے بارے میں بھی عرض کرنا چاہتا ہوں۔ میں خود تحریکی دنیا کا آدمی ہوں، درجنوں دینی و قومی تحریکات میں نصف صدی کا عرصہ گزار چکا ہوں اور اپنے تجربات کی روشنی میں گزارش کر رہا ہوں کہ مسائل تو کھڑے ہوتے رہتے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے حوالہ سے جدوجہد کرنے کو جی چاہتا ہے اور یہ ہماری ذمہ داری بھی ہوتی ہے، اس لیے کوئی مسئلہ سامنے آنے اور اس میں حصہ لینے کو جی چاہے یا ضروری ہو تو اس کے لیے تین چار امور کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔

جامعہ فریدیہ کے حوالہ سے تعلیمی اور تحریکی دونوں قسم کے سوال سامنے آتے ہیں، اس لیے میں نے دونوں کے بارے میں مختصرًا کچھ گزارشات پیش کر دی ہیں، اللہ تعالیٰ جامعہ فریدیہ سمیت ہمارے تمام دینی مدارس، مراکز اور اداروں کی حفاظت فرمائیں اور ہمیں ان کی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق صحیح محنت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

فروری ۲۰۲۱ء

پاکستانی سیاست میں سول بالادستی کی بحث / پاکستان میں غیر مسلموں کے مذہبی حقوق / مشرقی پاکستان کی علیحدگی : درست تاریخی تناظرمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
علامہ احمد جاوید اور تصوفمیر امتیاز آفریں
شیخ الہندؒ کا قومی و ملی انداز فکرمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عورت کا سماجی کردار اور خاندانی حقوق و فرائضمولانا حافظ عبد الغنی محمدی
’’الوفاء باسماء النساء‘‘ (محدّثات انسائیکلوپیڈیا) / ” تین طلاق :ایک سماجی المیہ“ادارہ

پاکستانی سیاست میں سول بالادستی کی بحث / پاکستان میں غیر مسلموں کے مذہبی حقوق / مشرقی پاکستان کی علیحدگی : درست تاریخی تناظر

محمد عمار خان ناصر

حریفانہ کشاکش سیاست واقتدار کا جزو لاینفک ہے اور تضادات کے باہمی تعامل سے ہی سیاسی عمل آگے بڑھتا ہے۔ برطانوی استعمار نے اپنی ضرورتوں کے تحت برصغیر میں جہاں پبلک انفراسٹرکچر، تعلیم عامہ، ابلاغ عامہ، بیوروکریسی اور منظم فوج جیسی تبدیلیاں متعارف کروائیں، وہیں نمائندگی کا سیاسی اصول بھی متعارف کروایا۔ یہ پورا مجموعہ کچھ داخلی تضادات پر مشتمل تھا جس نے نئی سیاسی حرکیات کو جنم دیا۔ چنانچہ تعلیم، ابلاغ عامہ اور نمائندگی کے باہمی اشتراک سے استعمار کے خلاف مزاحمت کی لہر پیدا ہوئی اور بالآخر استعمار کو یہاں سے رخصت ہونا پڑا۔

تقسیم کے بعد پاکستانی ریاست کو یہ پورا مجموعہ اپنے داخلی تضادات سمیت بعینہ منتقل ہوا ہے، لیکن اس فرق کے ساتھ کہ اب فوج اور بیوروکریسی استعمار کے نمائندہ نہیں، یعنی انھیں نکال باہر کرنا ممکن نہیں۔ یوں جمہوریت بمعنی سول بالادستی اور مقتدرہ کے مابین کشاکش ایک بظاہر لاینحل مسئلے کے طور پر موجود ہے اور سیاسی عمل کو آگے دھکیل رہا ہے۔ سول بالادستی اپنی آئیڈیل شکل میں مقتدرہ کے کردار کو جن حدود میں محدود کرنا چاہتی ہے، وہ مقتدرہ کے لیے قابل قبول نہیں اور مقتدرہ، جمہوری فیصلہ سازی کو جس طرح اپنی طے کردہ ترجیحات کا پابند بنانا چاہتی ہے، وہ بنیادی طور پر عوامی سیاسی جماعتوں کو قبول نہیں۔ فریقین کے اصل مواقف یہی ہیں اور غیر معمولی حالات میں یہ باقاعدہ بیانیوں کی شکل بھی اختیار کر لیتے ہیں، تاہم عام حالات میں ایک ملفوف مفاہمت سے کام چلتا رہتا ہے۔

 پچھلے دو تین سالوں میں ہیئت مقتدرہ جس طرح سیاسی بندوبست کے باب میں بلا ستر سامنے آئی، بعض تجزیہ نگاروں کی رائے اس کے متعلق یہ تھی کہ وہ سیاسی حرکیات میں ایک ایسی مفید پیش رفت  ہے جو مآل کار جمہوری جدوجہد کو مضبوط کرے گی۔ اہم بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس بے ستری کو چھپانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی جس سے یہ اخذ کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہ سب کچھ کسی وقتی موڈ میں یا ہنگامی ضرورت کے تحت نہیں، بلکہ قصدا اور طویل المیعاد منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور اس سے ایک کھلا اور واضح پیغام دینا مقصود ہے کہ باگ ڈور ہمارے ہاتھ میں ہے، اس لیے جس کو اقتدار میں کچھ حصہ چاہیے، اسے  ہماری شرائط پر ہمارے ساتھ معاملہ کرنا ہوگا۔

یہ پر عزم ننگا پن چند  بڑی تلخ حقیقتوں کی نشان دہی کرتا ہے جس کا سامنا جذباتیت سے نہیں کیا جا سکتا۔   اس کے فوری  عوامل میں دہشت گردی کے خلاف جنگ   اور اس کے نتیجے میں طاقت کے توازن کا غیر معمولی طور پر فوجی مقتدرہ کے حق میں   ہو جانا ہے۔  اس جنگ کی جو اصل قیمت ہم نے بطور قوم دی ہے، وہ سول حکومت کی بے وقعتی کی صورت میں دی ہے اور اس کا کوئی فائدہ اگر کسی کو ملا ہے تو عسکری ادارے کو، جرات اور حوصلے اور اعتماد میں غیر معمولی اضافے کی صورت میں ملا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی حالیہ  بے ستری اسی اعتماد کا ایک مظہر ہے۔


اسٹیبلشمنٹ اور جمہوری قوتوں کے مابین طاقت کے اس عدم توازن کو  مستقل طور پر قائم رکھنے والے عوامل میں جس پر جمہوری قوتوں کی باہمی تفریق، کسی بھی شرط پر اقتدار میں حصہ داری کی اندھی خواہش اور سب سے بڑھ کر حقیقی اخلاقی قوت سے محرومی شامل ہیں۔ اخلاقی لحاظ سے عوامی سیاست کے نمائندے اپنی کوئی ساکھ نہیں بنا پائے، اور سیاسی لحاظ سے وہ سول بالادستی کی جدوجہد کے لیے درکار یکسوئی اور داخلی اتحاد کو، موقع دیے جانے پر، حصول اقتدار کے مقصد پر قربان کرتے رہے ہیں۔ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی تاریخ اسی کی تفصیل ہے اور یہی کمزوری، مقتدرہ کی سب سے بڑی قوت ہے۔ مقتدرہ کے پاس حصول اقتدار کی خواہاں متبادل سیاسی قوتوں مثلا ق لیگ اور پی ٹی آئی وغیرہ کو میدان میں لانے کا آپشن بھی موجود ہے اور بڑی سیاسی جماعتیں اپنے مشترکہ سیاسی تجربے کی روشنی میں میثاق جمہوریت جیسے جس معاہدے تک پہنچی تھیں، اسے غیر موثر کر دینے کی صلاحیت سے بھی وہ بہرہ ور ہے۔

سول بالادستی کے حوالے سے  جمہوری قوتوں کابیانیہ اصولی اور نظریاتی طور پر بہت مضبوط ہے، تاہم  اس سوال کو خود جمہوری طاقتوں کے اپنے کردار  سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ یہ کہ کہنے والے کو نہ دیکھو، جو وہ کہہ رہا ہے، اس کو دیکھو، یہ بات فلسفیانہ سطح پر ہی اچھی لگتی ہے۔ انسان کی عمومی نفسیات اس طرح کام نہیں کرتی۔ ایسا ہوتا تو اللہ تعالی ٰ  اپنی توحید سمجھانے کے لیے حسن کردار سے متصف نبیوں کے بجائے بلند پایہ فلسفیوں کو مبعوث فرماتا۔ خاص طور پر جہاں اخلاقی حکم لگائے یا دعوے کیے جا رہے ہوں، وہاں تو یہ منطق بالکل کام نہیں کرتی۔  دوسری بات یہ کہ ادارے کی قوت کا سامنا اداروں کی مدد سے ہی کیا جا سکتا ہے، شخصی مہم جوئی سے نہیں۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کو جتنا احترام خود سیاست دان دیتے ہیں، وہ ہمیں معلوم ہے۔ بھٹو مرحوم شاید ڈکٹیٹر شپ کے مزاج کے حوالے سے بدنام زیادہ ہیں، بعد کے سبھی سیاسی راہ نما بشمول میاں صاحب کا اس میں کوئی استثنا نہیں۔

ریاستی  اختیارات کے غلط استعمال کے مسئلے کو  اس کی اصل جڑ سے سمجھنا ضروری ہے۔ ریاستی اداروں کا رد عمل دراصل ان اداروں کے ذمہ داران کا طرز عمل ہوتا ہے جو انسان ہوتے ہیں اور اسی طرح behave کرتے ہیں جیسے نفسیات کے اصولوں کے تحت سارے انسان کرتے ہیں۔ کسی بھی صورت حال میں انسان جو رد عمل ظاہر کرتا ہے، وہ عموما reflexive ہوتا ہے، یعنی سوچا سمجھا، شعوری اور اختیاری نہیں ہوتا، بلکہ اس conditioning کے مطابق ہوتا ہے جس کے تحت انسان کی شخصیت کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس میں بہت بنیادی کردار یہ بات ادا کرتی ہے کہ تشکیل شخصیت میں اخلاقی احساسات کی ترسیخ کس قدر شامل ہے اور وہ شخصیت کے حیوانی داعیات کا مقابلہ کرنے کی کس حد تک استعداد رکھتے ہیں۔

طاقت ملنے پر اس کا غلط استعمال، غلطی ہو جانے پر اپنا دفاع، اور خود کو یا کسی تعلق دار کو کسی بھی طرح کے خطرے میں دیکھ کر اس کا تحفظ، یہ سب انسانی نفسیات کے reflexive reactions ہیں۔ اگر اخلاقی احساسات کی مناسب ترسیخ کسی معاشرے کے تربیتی نظام اور ماحول کا حصہ نہ ہو تو پورے معاشرے کا نفسیاتی سانچہ بالکل ویسا بن جاتا ہے جیسا ہمارے معاشرے کا بنا ہوا ہے۔ ہم میں سے ہر فرد اور ہر گروہ اختیار ملنے پر اس کا غلط استعمال کرتا ہے، اپنے یا اپنے تعلق داروں سے کوئی غلطی یا جرم سرزد ہونے پر اپنے تحفظ کے لیے گروہی حمایت، سیاسی اثر ورسوخ، جھوٹ، رشوت، دھاندلی، دھونس اور مخالف پر دباو ڈالنے کے تمام حربے اختیار کرتا ہے اور اسے تعلق داری کا ایک لازمی اور بدیہی تقاضا تصور کرتا ہے۔ انصاف، غلطی کا اعتراف، غلطی کی سزا بھگتنے کے لیے درکار اخلاقی جرات جیسے شخصی اوصاف پیدا کرنے کا کوئی اہتمام ہماری نفسیاتی کنڈیشننگ کا حصہ نہیں ہے۔

ایسی صورت حال میں ہم میں سے جن کو ریاستی طاقت کے مراکز تک پہنچنے اور انھیں استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ بعینہ اسی کنڈینشننگ کے زیر اثر وہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں جس پر ہم اس وقت قومی سطح پر رنج اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان سے کسی مختلف کردار کی توقع آخر ہم کس بنیاد پر کر سکتے ہیں؟ زیادہ طاقت حاصل ہونے اور اخلاقی ذمہ داری کے مابین تو معکوس تناسب پایا جاتا ہے۔ طاقت تو ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں کرتی، بلکہ پہلی کنڈیشننگ کو ہی مزید مضبوط کرتی ہے۔

یہ وہ ’’کتا ‘‘ ہے جو کنویں میں پڑا ہوا ہے اور ہم اس کو وہیں چھوڑ کر ہر نئے  واقعے کے بعد چالیس پچاس مزید ڈول نکالنے کا مطالبہ لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔


حالیہ سیاسی کشمکش میں  سول بالادستی  کی علمبردار سیاسی قوتوں نے  جو بیانیہ پیش کیا، اس میں  ’’شخصی کرداروں ‘‘ اور ’’اداروں ‘‘ کا ایک مصنوعی فرق قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو محل نظر ہے۔  خود کو حب الوطنی کا معیار سمجھنے اور اپنے اقتدار کو چیلنج کرنے والے سیاست دانوں کی ملکی وفاداری کو مشکوک ٹھہرانے کی ذہنیت صرف بالائی عسکری قیادت میں نہیں ہے، جیسا کہ مختلف سیاسی قائدین نے باور کرانے کی کوشش کی۔ اپنے ادارے کی بالادست حیثیت، ملکی سیاست میں طاقت کی کشمکش میں اس کے موقف سے وابستگی، اور ملکی قانون سے بالاتر ہونے کا احساس ادارے کے تمام رینکس میں مشترک ہے اور اس درجے میں مشترک ہے کہ نتائج سے بالکل بے نیاز ہو کر درمیانی یا نچلی سطح کی قیادت بھی اس طرح کی مہم جوئی کا حوصلہ کر سکتی ہے جس طرح کی، مزار قائد پر ’’مادر ملت زندہ باد‘‘ کے نعرے لگانے پر کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے معاملے  میں کی گئی۔  سیاسی حکمت عملی کے طور پر کرداروں اور اداروں میں فرق کیا جا سکتا ہے، لیکن اصل حقیقت نظروں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔ بطور ادارہ اپنی امتیازی حیثیت کا احساس، فرق مراتب کے ساتھ، اوپر سے نیچے تک پوری فوج میں سرایت کیے ہوئے ہے اور ہر سطح پر رویے میں جھلکتا ہے۔ اس لیے  سول بالادستی کی بحث میں جلد یا بدیر  پورے ادارے کی حیثیت اور کردار کو  اس کے سارے پہلووں کے ساتھ موضوع بنانے کی ضرورت پیش آئے گی۔

بطور ادارہ فوج کے کردار کو  ایک سنجیدہ  سیاسی مباحثے کا موضوع بنانا  صرف جمہوری سیاست کے لیے نہیں،  بلکہ فوج اور قوم کے باہمی تعلق میں استحکام  کے لیے بھی ضروری ہے۔ اس حوالے سے تنقیدی سوالات  کے راستے مصنوعی طریقے سے مسدود کرنے کا نتیجہ  فوج سے متعلق ناہموار اور نفرت پر مبنی  اظہارات کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ درست بات ہے کہ فوج  کے سیاسی کردار کی وجہ سے  اس کے دفاعی کردار اور  قومی خدمات  کو نفرت کا نشانہ بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ تاہم  جب صورت حال یہ ہو کہ سیاست دانوں، مختلف مافیاز، پولیس، دیگر سرکاری انتظامی اداروں، اور مذہبی راہ نماوں سمیت  ہر طبقے کو  شدید تنقید اور طنز وتضحیک کا نشانہ بنانے کی آزادی ہر شخص کو حاصل ہو اور ایسا کرنے پر کسی کا بھی مواخذہ نہ ہو سکتا ہو، لیکن فوج کا نام آتے ہی پوری ریاست خطرے میں پڑ جائے اور فوج واحد ادارے کے طور پر سامنے آئے جس کے تقدس کا مجروح  ہونا ناقابل برداشت ہو تو پھر سوچنے کی بات ہے کہ اس سے فوجی ادارے کا امیج کیا بنتا ہے اور اس سے اظہار نفرت  کی ذہنیت کی اصلاح ہوتی ہے یا اس کو تقویت ملتی ہے؟

اظہار نفرت تو دور کی بات ہے، کسی مزاحیہ پروگرام میں جہاں معاشرے کے ہر طبقے کے مزاح کے انداز میں لتے لیے جا سکتے ہیں، آپ کو کبھی اشارتا بھی کوئی فوجی کردار مزاح کا نشانہ بنتا ہوا دکھائی نہیں دے گا۔ اس کے پیچھے ایک پوری نفسیات جھلک رہی ہے جو ایک قومی ادارے کے لیے، جس کا وجود اور استحکام اور اس پر قوم کا اپنائیت پر مبنی اعتماد اس ملک کے وجود اور استحکام کی ضمانت ہے، ہرگز کوئی مثبت چیز نہیں ہے۔


جہاں تک موجودہ حکمران جماعت کا تعلق ہے تو ۲٠۱۳ء کے انتخابات کے بعد ہم نے عرض کیا  تھا کہ سیاسی رویوں کے حوالے سے مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی طویل تجربات سے ہی کچھ سیکھا ہے، اور یہ کہ تحریک انصاف کو بھی یہ چیزیں سیکھنے کا وقت ملنا چاہیے۔

اقتدار ملنے کے بعد، یقینا تحریک انصاف نے کافی سیاسی سبق سیکھے ہیں جو آئندہ اس کے کام آئیں گے۔ مثلا یہ کہ خالص نظریاتی یا اخلاقی اقدار کی بنیاد پر اقتدار کا حصول یا اس کو برقرار رکھنا ہماری معروضی سیاست میں ممکن نہیں اور اس کے لیے بہت سے سمجھوتے  کرنے پڑتے ہیں۔ اسی طرح یہ کہ صرف بلند عزائم اور گڈ گورننس کے لیے اچھے جذبات کافی نہیں، منصوبہ بندی اور سیاسی وانتظامی تجربہ بھی بہت ضروری ہے۔ یہ دونوں سبق اب خود عمران خان بھی دہراتے ہیں۔

ہمارے  خیال میں ابھی یہ سفر جاری ہے۔ کئی اور چیزوں کے علاوہ دو اہم باتیں عمران خان کو سیکھنے کی اشد ضرورت ہے:

ایک یہ کہ سیاسی اختلاف کو ذاتی دشمنی بنانے کی نفسیات سے خود کو اور اپنی جماعت کو کیسے نکالا جائے تاکہ سیاسی عمل کو ہموار طریقے سے جاری رکھا جا سکے۔ خاص طور پر یہ کہ کرپٹ سیاسی عناصر کو ذاتی دشمن کا درجہ دے دینا سسٹم کی تطہیر کے لیے ہرگز کافی یا اس کے لیے مددگار نہیں۔ یہ ایک لمبا اور صبر آزما عمل ہے۔

دوسرا یہ کہ سیاسی وانتظامی اصلاحات کا مقصد کسی ایک فرد کو بطور نجات دہندہ پیش کر کے اور اس کے لیے فری ہینڈ کا مطالبہ کر کے چند مہینوں یا سالوں میں حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو ایک مستقل بیانیے کے طور پر سیاسی عمل کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے تحریک انصاف کا موجودہ، فرد واحد پر منحصر سیاسی سٹرکچر ہرگز موزوں نہیں۔  عمران خان   کے ساتھ تحریک انصاف نے جو رومان وابستہ کیا ہوا ہے، اس کا معاملہ یہ ہے کہ اگر اس میں خدانخواستہ مذہبیت کی کوئی آمیزش ہوتی تو اب تک کسی نہ کسی مہدی یا اوتار کا ظہور ہو چکا ہوتا۔ اگر یہ ایک طویل جدوجہد ہے تو عمران خان کو اپنی ذات سے آگے بھی اس کے تسلسل کا کوئی بندوبست کرنا ہوگا، کیونکہ سیاست میں دیرپا اثرات چھوڑنے اور سیاسی کیریئر کو ایک personal ambition کے طور پر ترتیب دینے کی ترجیحات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ موخر الذکر کام کسی ایک حلقے کے ایم این اے وغیرہ کو زیب دیتا ہے، سیاسی جماعتوں کے قائدین کو نہیں دیتا۔

پاکستان میں غیر مسلموں کے مذہبی حقوق

گزشتہ دنوں  خیبر پختون خوا کے  ایک گاوں میں   ایک مندر کے منہدم کیے جانے کے تناظر میں   یہ سوال ایک بار پھر زیر بحث آیا کہ  ایک مسلمان ریاست میں  غیر مسلموں  کے شہری ومذہبی حقوق کیا ہیں۔ ہمارا نقطہ نظر اس حوالے سے یہ ہے کہ غیر مسلم شہریوں کے حقوق اور آزادیوں کا تعلق، مسلم ریاست کی نوعیت اور ان سیاسی اصولوں سے ہے جن پر ریاست کی بنیاد رکھی گئی ہو۔ اس حوالے سے اسلامی تاریخ میں دار الاسلام کا جو قانونی تصور رائج رہا ہے، اس میں اور آج کی جمہوری مسلم ریاستوں میں بہت بنیادی نوعیت کا فرق ہے۔ دار الاسلام کو قانونی لحاظ سے مسلمانوں کا علاقہ مانا جاتا تھا جس میں غیر مسلم ایک معاہدے کے تحت رہتے تھے اور اس کی مخصوص شرائط ہوتی تھیں جن پر سختی سے عملدرآمد کروانا یا نہ کروانا حکمرانوں کی سیاسی صوابدید پر منحصر ہوتا تھا۔ دار الاسلام میں اسلام کی سیاسی حاکمیت کے تصور کا ایک پہلو یہ بھی مانا جاتا تھا کہ غیر مسلم، اپنی مخصوص رہائشی آبادیوں سے باہر یعنی مسلمانوں کی آبادی میں عبادت گاہ نہ بنائیں اور اپنی آبادیوں میں بھی پہلے سے بنی ہوئی عبادت گاہوں پر اکتفا کریں اور نئی عبادت گاہیں نہ بنائیں۔ اس پابندی کو عملا لاگو کرنے میں مختلف ادوار اور حالات میں سیاسی پالیسیاں مختلف رہی ہیں، لیکن اصولا یہ پابندیاں مذہبی قانون کا حصہ مانی جاتی رہی ہیں۔ جدید جمہوری ریاستوں کی بنیاد شہریت کے اس تصور پر نہیں ہے اور خاص طور پر پاکستان کا قیام یہاں کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ جن دستوری وعدوں کی بنیاد پر ہوا ہے اور آئین میں بھی ان ضمانتوں کو شامل کیا گیا ہے، وہ ایسی کسی تفریق کی اجازت نہیں دیتے۔ آئین اور ملکی قانون کے مطابق غیر مسلموں کو بھی وہی سیاسی اور معاشرتی حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں، اس لیے دار الاسلام کے تناظر میں بیان کیے گئے تصورات اور قوانین کا یہاں حوالہ دینا بے محل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ شہری حقوق کا مسئلہ  سیاسہ کے دائرے سے متعلق ہے اور ان معنوں میں اسلامی وغیر اسلامی کی تفریق یہاں بے معنی ہے کہ جو تصور اسلامی تاریخ میں رائج رہا ہے، وہ تو اسلامی ہے اور آج کا جمہوری تصور غیر اسلامی۔ سیاسہ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اسلام کی سیاسی حاکمیت کو محفوظ رکھتے ہوئے حالات کے تحت جو بھی سیاسی معاہدہ کیا جائے، وہ اسلامی ہی ہوگا۔ تمدنی وسیاسی امور میں ویسے بھی شریعت نے، اخلاقی تطہیر اور ضروری ترمیم کے ساتھ دنیا میں رائج طریقوں کو  ہی اختیار کیا ہے۔ ذمہ کا تصور اور جزیہ عائد کرنے کا طریقہ شریعت نے متعارف نہیں کروایا۔ یہ پہلے سے موجود تھا جسے موافق مصلحت پا کر اختیار کر لیا گیا۔ دور جدید میں جس طرح جمہوری نظام، بین الاقوامی معاہداتی نظام  اور قانون انسانیت کے باب میں موجودہ عالمی اتفاق کو شرعی مقاصد سے متصادم نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی جواز دے دیا گیا ہے، اسی طرح جدید تصور شہریت کو بھی اسلامی قرار دینے میں کوئی مانع نہیں۔  

مشرقی پاکستان کی علیحدگی : درست تاریخی تناظر

پاکستان کی سیاسی تاریخ  کے ہر طالب علم کے سامنے سوال ہمیشہ ذہن میں آتا ہے کہ تقسیم ہند کے موقع پر شمال مشرق اور شمال مغرب میں واقع دور دراز مسلم خطوں کو ’’ایک‘‘ ریاست بنانے کا فیصلہ کن سیاسی بنیادوں پر کیا گیا؟

پہلی یہ کہ اس حادثے کی جڑیں بعد از تقسیم کے کچھ واقعات میں نہیں، بلکہ خود اس بندوبست میں دیکھنے کی ضرورت ہے جو دونوں خطوں کو ایک ریاست میں ضم کرنے کی صورت میں کیا گیا تھا۔ بہت سے زمینی حقائق اس کے ایک قابل عمل بندوبست ہونے کی نفی کر رہے تھے جنھیں شاید اس لیے نظر انداز کرنا مناسب سمجھا گیا کہ ان کی طرف توجہ دلانے والے تقسیم کے مخالفین اور خاص طور پر مولانا ابو الکلام آزاد تھے۔  یہ شروع سے ہی "ڈومڈ" تھا اور جلد یا بدیر ایسا ہونا ہی تھا۔ہاں، کچھ سمجھداری سے کام لیا جاتا تو یہ اتنے برے طریقے سے نہ ہوتا جیسے ہوا۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ تحریک پاکستان اپنے بنیادی سیاق میں شمال مغرب کے مسلم خطے سے تعلق رکھتی تھی۔ بنگال میں مسلم سیاسی جدوجہد کی حرکیات  پنجاب سے کافی مختلف تھیں اور دونوں خطوں کی سیاسی منزل لازمی طور ایک متحدہ ریاست نہیں تھی۔ چنانچہ ایک خود مختار مسلم خطے کا تصور پیش کرتے ہوئے نہ خطبہ آلہ آباد میں اقبال نے اس کا ذکر کیا، نہ پاکستان کی تجویز میں چودھری رحمت علی نے بنگال کو شامل کیا، بلکہ سوال کیے جانے پر کہا کہ بنگالی اپنی ایک الگ ریاست بنا سکتے ہیں۔ اس نوعیت کی کچھ دیگر تجویزوں میں بھی شمال مغربی ریاست اور حیدرآباد کے علاوہ بنگال کا ذکر ایک الگ ریاست کے طور پر کیا گیا تھا۔ 1940 میں فضل حق نے قرارداد لاہور پڑھی تو اس میں ایک سے زیادہ ریاستوں کا ذکر تھا، لیکن 1946 میں کابینہ مشن کی آمد پر، مذاکرات میں مسلم لیگ کی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے قرارداد لاہور میں ترمیم کر کے "ریاستوں" کی جگہ ’’ریاست‘‘ کا لفظ شامل کر لیا گیا۔ (اس حوالے سے بنگلہ دیشی نقطہ نظر وہاں کے قومی انسائیکلو پیڈیا میں دیکھ لینا مناسب ہے جس کے مطابق، بنگالی رہنماؤں نے اس سے اختلاف کیا تھا اور واضح کیا تھا کہ وہ دو الگ الگ ریاستوں کے تصور کے ساتھ اس جدوجہد میں شریک ہیں)۔

http://en.banglapedia.org/index.php?title=Lahore_Resolution

بہرحال، تقسیم ہند کا فیصلہ ہو جانے پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال آیا اور کانگریس اور وائسرائے دونوں نے متحدہ بنگال پاکستان کو دینے کا مطالبہ نہیں مانا تو حسین شہید سہروردی نے کوشش کی کہ مسلم اکثریتی بنگال کو پاکستان کا حصہ بنانے کے بجائے ایک الگ ریاست کے طور پر تسلیم کروایا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کوشش کو قائد اعظم کی بھی تائید حاصل تھی، لیکن یہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ کانگریس کا خیال تھا کہ یہ بنگال کی تقسیم کو روکنے کی ایک چال ہے، جبکہ وائسرائے کو خدشہ تھا کہ دو سے زیادہ مستقل ریاستوں کے قیام کی اجازت دی گئی تو اس نوعیت کے کئی اور مطالبے بھی ابھر سکتے ہیں جو تقسیم کے عمل کو موخر کر دیں گے۔ یوں گویا مجبورا دونوں خطوں کو ایک ریاست کا حصہ بنانا پڑا۔ یہ ذہن میں رہے کہ اس سے پہلے لارڈ ویول ایک خط میں ایک یا ایک سے زیادہ مسلمان ریاستوں کے امکان کا ذکر کر چکا تھا جس سے واضح ہے کہ صرف ایک مسلم ریاست برطانوی پالیسی کا کوئی طے شدہ حصہ نہیں تھا۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے حصول اقتدار کی اس جدوجہد میں جو سوشیواکنامک پہلو خود مسلمانوں کو داخلی طور پر تقسیم کیے ہوئے تھے، ان کو سامنے رکھے بغیر تاریخ کی درست تفہیم نہیں ہو سکتی۔ قائد اعظم اور مسلم لیگ کی خواہش کلکتے سمیت پورا بنگال پاکستان میں شامل کرنے کی تھی، لیکن صنعتی وسائل سے مالامال کلکتہ نہ ملنے کے بعد باقی کے مفلوک الحال بنگال کی اہمیت مسلم لیڈرشپ کی نظر میں ظاہر ہے، وہ نہیں ہو سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حسین شہید سہروردی کو یہ کوشش کرنے دی گئی کہ وہ بنگال کو ایک مستقل ریاست منوا سکتے ہیں تو منوا لیں۔ یہ بات نہیں مانی گئی تو پاکستان میں بنگال کی شمولیت جس حیثیت سے ہوئی، وہ واضح ہے اور اقتدار وسیاست کی حرکیات کے لحاظ سے مغربی یعنی اصل پاکستان کی لیڈرشپ اور مقتدرہ کا رویہ مشرقی پاکستان کی جانب وہی ہو سکتا تھا جو ہوا۔ بنگالیوں سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ وہ پاکستان میں شامل کر لیے جانے کو ہی اپنے لیے اعزاز سمجھیں اور شراکت اقتدار کے سوال کے حوالے سے اپنی اوقات کو نہ بھولیں۔ 1971 کا سانحہ اسی صورت حال کا ایک منطقی انجام تھا جس کا تجزیہ کرتے ہوئے اب ہم عام طور پر کئی طرح کے ثانوی عوامل کو بنیادی اسباب کے طور پر دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جو ہونا تھا، وہ تو ہو چکا، لیکن ہائنڈسائٹ سے کام لیا جائے تو شاید قرارداد لاہور کے اصل تصور کے مطابق دو الگ الگ ریاستیں بننا ہی خطے کے مسلمانوں کے زیادہ مفاد میں تھا۔ دونوں کے مابین شروع سے ہی کنفیڈریشن کی طرح کا کوئی تعلق ہوتا یا دفاعی معاہدات وغیرہ ہو جاتے تو انڈیا کے مقابلے میں بھی ہماری مجموعی اسٹریٹیجک پوزیشن زیادہ مضبوط ہوتی اور ہم یہ شرمناک تاریخ رقم کرنے سے بھی بچ پاتے۔  کم سے کم یہ ہونا چاہیے تھا کہ  متحدہ ریاست  کے قیام کے بعد صورت حال کے بہت زیادہ بگڑ جانے سے پہلے ہی باہمی مفاہمت سے راستے الگ کر لیے جاتے۔ لیکن اقتدار، ہاتھ میں آیا ہوا خطہ زمین اور وسائل پھر اتنی آسانی سے چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔بہرحال، وکان امر اللہ قدرا مقدورا۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(225)    القاسیۃ قلوبہم من ذکر اللہ کا ترجمہ

اَفَمَن شَرَحَ اللَّہُ صَدرَہُ لِلاِسلَامِ فَہُوَ عَلَیٰ نُورٍ مِّن رَّبِّہِ فَوَیل لِّلقَاسِیَةِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکرِ اللَّہِ اُولَٰئِکَ فِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ۔ (الزمر: 22)

“اب کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے (اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس نے اِن باتوں سے کوئی سبق نہ لیا؟) تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جن کے دل اللہ کی نصیحت سے اور زیادہ سخت ہو گئے، وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں”۔ (سید مودودی)

“تو خرابی ہے ان کی جن کے دل یادِ خدا کی طرف سے سخت ہوگئے ہیں”۔ (احمد رضا خان)

“پس ان پر افسوس ہے جن کے دل خدا کی یاد سے سخت ہو رہے ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اور ہلاکی ہے ان پر جن کے دل یاد الٰہی سے (اثر نہیں لیتے بلکہ) سخت ہو گئے ہیں”۔(محمد جوناگڑھی، قوسین کا اضافہ الفاظ کے مطابق نہیں ہے۔)

“تو ہلاکی ہے ان کے لیے جن کے دل اللہ کی یاددہانی قبول کرنے کے معاملے میں سخت ہوچکے ہیں”۔(امین احسن اصلاحی، من کا ترجمہ عن سے کیا گیا ہے۔)

مذکورہ بالا ترجموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کو القَاسِیَۃِ قُلُوبُہُم مِّن ذِکرِ اللَّہِ کا ترجمہ کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے۔ کیونکہ اللہ کی یاد سے تو دل سخت نہیں ہوتے ہیں۔ اسی لیے بعض لوگوں نے من کو عن کے معنی میں لیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کی رائے عام مفسرین سے مختلف ہے، وہ یہاں تضمین مانتے ہیں، یعنی ایسا لفظ محذوف مانتے ہیں جس کا صلہ من ہو، کیونکہ القاسیة کا صلہ من نہیں آتا ہے۔ ان کی رائے کے مطابق یہاں الخالیۃ کی تضمین مان لی جائے یعنی الخالیۃ من ذکر اللہ۔ اس طرح ترجمہ ہوگا “تباہی ہے ان کے لیے جن کے دل سخت ہیں ،اللہ کے ذکر سے خالی ہیں”۔بالفاظ دیگر “جن کے دل اللہ کے ذکر سے خالی ہونے کی وجہ سے سخت ہوگئے ہیں”۔ درج ذیل ترجمہ اس مفہوم سے قریب تر ہے:

“پس اُن لوگوں کے لیے ہلاکت ہے جن کے دل اللہ کے ذکر (کے فیض) سے (محروم ہو کر) سخت ہوگئے”۔ (طاہر القادری)

(226)    اَسوَا الَّذِی عَمِلُوا کا ترجمہ

لِیُکَفِّرَ اللَّہُ عَنھُم اَسوَا َ الَّذِی عَمِلُوا وَیَجزِیَھُم اَجرَھُم بِاَحسَنِ الَّذِی کَانُوا یَعمَلُونَ۔ (الزمر: 35)

“تاکہ اللہ ان سے دفع کردے ان کاموں کے بدتر انجام کو جو انھوں نے کیے اور ان کو ان کے کاموں کا خوب تر صلہ دے جو انھوں نے کیے”۔ (امین احسن اصلاحی)

اس ترجمے میں اَسوَا الَّذِی عَمِلُوا کا ترجمہ ’کاموں کا بدتر انجام‘ کیا گیا ہے۔ یہ تکلف ہے۔ یہ سادہ لفظی ترکیب ہے جس کا مطلب ’بدترین کام‘ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تکفیر کا مطلب انجام کو دفع کرنا نہیں ہوتا ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ متعدد بار آیا ہے اور سب جگہ سیئات کے ساتھ آیا ہے۔ اس کا مطلب برائیوں پر پردہ ڈال دینا ہے۔ اسی طرح بِاَحسَنِ الَّذِی کَانُوا یَعمَلُونَ کا ترجمہ ’کاموں کا خوب تر صلہ‘ درست نہیں ہے، صلے کے لیے تو اَجرَہُم آیا ہے۔ درست مفہوم ’بہترین کام‘ ہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل ترجمہ صحیح ہے:

“تاکہ جو بد ترین اعمال انہوں نے کیے تھے انہیں اللہ ان کے حساب سے ساقط کر دے اور جو بہترین اعمال وہ کرتے رہے اُن کے لحاظ سے اُن کو اجر عطا فرمائے”۔ (سید مودودی)

(227)    وَالَّذِینَ ظَلَمُوا مِن ھَؤُلَاءِ کا ترجمہ

قَد قَالَہَا الَّذِینَ مِن قَبلِہِم فَمَا اَغنَیٰ عَنہُم مَّا کَانُوا یَکسِبُونَ۔ فَاَصَابَہُم سَیِّئَاتُ مَا کَسَبُوا وَالَّذِینَ ظَلَمُوا مِن ھَؤُلَاءِ سَیُصِیبُہُم سَیِّئَاتُ مَا کَسَبُوا۔ (الزمر: 50۔51)

“یہی بات ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگ بھی کہہ چکے ہیں، مگر جو کچھ وہ کماتے تھے وہ ان کے کسی کام نہ آیا۔ پھر اپنی کمائی کے برے نتائج انہوں نے بھگتے، اور اِن لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں وہ عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے، یہ ہمیں عاجز کر دینے والے نہیں ہیں”۔ (سید مودودی)

“اور جو لوگ ان میں سے ظلم کرتے رہے ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اوران میں سے بھی جو گناہ گار ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا آیت میں وَالَّذِینَ ظَلَمُوا مِن ھَؤُلَاءِ میں مِن کو تبعیضیہ مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہاں اشکال یہ ہے کہ سیاق کلام میں جن لوگوں کے بارے میں بات ہورہی ہے وہ سب منکرین ہیں اور سبھی ظلم میں ملوث ہے۔ مفسرین نے  ھَؤُلَاءِ سے مراد زمانہ رسول ﷺ کی پوری انسانی امت کو لیا ہے۔ حالانکہ گفتگو سب کے بارے میں نہیں صرف اس دور کے ظالموں کے بارے میں ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحیؒ کی رائے کے مطابق یہاں مِن بیانیہ ہے۔ اس طرح ترجمہ ہوگا:

“اور یہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے”۔

(228)    بِمَفَازَتِہِم کا ترجمہ

وَیُنَجِّی اللَّہُ الَّذِینَ اتَّقَو ا بِمَفَازَتِہِم لَا یَمَسُّہُمُ السُّوءُ وَلَا ہُم یَحزَنُونَ۔ (الزمر: 61)

“جن لوگوں نے یہاں تقویٰ کیا ہے ان کے اسباب کامیابی کی وجہ سے اللہ ان کو نجات دے گا، ان کو نہ کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (سید مودودی، ایک اور غلطی یہ ہے کہ کامیابی کے بجائے اسباب کامیابی ترجمہ کیا گیا)

“اور جو پرہیزگار ہیں ان کی (سعادت اور) کامیابی کے سبب خدا ان کو نجات دے گا نہ تو ان کو کوئی سختی پہنچے گی اور نہ غمناک ہوں گے”۔(فتح محمد جالندھری)

“اور اللہ بچائے گا پرہیزگاروں کو ان کی نجات کی جگہ نہ انہیں عذاب چھوئے اور نہ انہیں غم ہو”۔ (احمد رضا خان)

“اور اللہ نجات دے گا ان لوگوں کو جو ڈرتے رہتے ہیں ان کے مامن میں۔ نہ ان کو کوئی گزند پہنچے گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے”۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا آیت میں مفازۃ کا ترجمہ بعض لوگوں نے’کامیابی‘ اور بعض لوگوں نے’نجات کی جگہ‘ یا ’مامن‘ کیا ہے۔ مفازۃ کے دونوں معنی آتے ہیں۔ جن لوگوں نے کامیابی ترجمہ کیا ہے انھوں نے باءکو سبب کے مفہوم میں لیا ہے۔ لیکن کامیابی کی وجہ سے نجات ملنے کا مطلب واضح نہیں ہوتا ہے۔ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات اور کامیابی دونوں تقوی کی وجہ سے حاصل ہوں گے۔ مفازۃ کا ترجمہ مامن کرنے سے کوئی خاص مفہوم سامنے نہیں آتا۔ کیونکہ نجات کا تذکرہ تو ہوہی چکا ہے۔ صحیح توجیہ یہ ہے کہ مفازۃ کو کامیابی کے معنی میں لیا جائے اور باءکو سبب کے بجائے مصاحبت کے معنی میں لیا جائے۔ درج ذیل ترجمہ اس توجیہ کے مطابق ہے:

“اور جن لوگوں نے پرہیزگاری کی انہیں اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی کے ساتھ بچا لے گا، انہیں کوئی دکھ چھو بھی نہ سکے گا اور نہ وہ کسی طرح غمگین ہوں گے”۔ (محمد جوناگڑھی)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تقوی اختیار کرنے والوں کو نجات بھی ملے گی اور ساتھ میں کامیابی بھی ملے گی۔ آگے لَا یَمَسُّہُمُ السُّوءُ وَلَا ہُم یَحزَنُونَ میں دونوں باتیں آگئیں۔ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوءُ (نجات) اور لَا ہُم یَحزَنُونَ (کامیابی)۔

(229)    مُتَشَاکِسُونَ کا ترجمہ

ضَرَبَ اللَّہُ مَثَلًا رَّجُلًا فِیہِ شُرَکَاءُ مُتَشَاکِسُونَ وَرَجُلًا سَلَمًا لِّرَجُلٍ ہَل یَستَوِیَانِ مَثَلًا الحَمدُ لِلَّہِ بَل اَکثَرُہُم لَا یَعلَمُونَ۔ (الزمر: 29)

“اللہ ایک مثال دیتا ہے ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج خلق آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے، کیا ان دونوں کا حال یکساں ہو سکتاہے؟ الحمدللہ، مگر اکثر لوگ نادانی میں پڑے ہوئے ہیں”۔ (سید مودودی)

“اللہ ایک مثال بیان فرماتا ہے ایک غلام میں کئی بدخو آقا شریک”۔ (احمد رضا خان)

“خدا ایک مثال بیان کرتا ہے کہ ایک شخص ہے جس میں کئی (آدمی) شریک ہیں۔ (مختلف المزاج اور) بدخو”۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا ترجموں میں متشاکسون کے مفہوم میں کج خلق اور بدخو کا بھی ذکر کیا گیا ہے، بعض نے تو بد خو ہی پر اکتفا کیا ہے۔ لغت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ میں بدخو کا مفہوم نہیں ہے، بلکہ ایسے اختلاف کا مفہوم ہے جس میں ضد شامل ہوجائے اور کوئی حل نہ نکلے۔ لسان العرب میں ہے: والشرکاءالمُتَشاکِسُون: العَسِرُونَ المختلفون الذین لا یتفقون۔

اس پہلو سے درج ذیل ترجمے مناسب ہیں:

“اللہ تعالیٰ مثال بیان فرما رہا ہے ایک وہ شخص جس میں بہت سے باہم ضد رکھنے والے ساجھی ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اللہ تمثیل بیان کرتا ہے ایک غلام کی، جس میں کئی مختلف الاغراض آقا شریک ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

(230)    وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہِ کا ترجمہ

وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہِ اُولٰئِکَ ہُمُ المُتَّقُونَ۔ (الزمر: 29)

“اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی، یہی ڈر والے ہیں”۔ (احمد رضا خان)

“اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جنہوں نے اس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں”۔ (سید مودودی، متقون کا مطلب’عذاب سے بچنے والے‘ بھی محل نظر ہے۔)

“اور جو شخص سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی وہی لوگ متقی ہیں”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اور جو سچی بات لے کر آیا اور جنھوں نے اس کی تصدیق کی، وہی لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا آیت میں الذی ایک بار آیا ہے لیکن عام طور سے لوگوں نے اسم موصول کا دوبار ترجمہ کیا ہے، یعنی صَدَّقَ بِہِ سے پہلے بھی الذی اسم موصول محذوف مانا ہے۔ اور پھر بعض نے اس کا ترجمہ’جس نے‘ اور بعض نے’جنہوں نے‘ کیا ہے۔ تفاسیر کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسم موصول کو محذوف ماننے کی وجہ یہ ہے کہ بعض مفسرین نے الَّذِی جَاءَ بِالصِّدقِ سے اللہ کے رسول کو مراد لیا ہے جو حق لے کر تشریف لائے اور صَدَّقَ بِہِ سے مراد آپ کی تصدیق کرنے والے کو مراد لیا ہے۔ حالانکہ اسم موصول کو محذوف ماننا اور صلے کو باقی رکھنا عربی قواعد کے لحاظ سے درست نہیں ہے۔ علامہ آلوسی نے لکھا ہے: وعَلی الاقوالِ الثَّلاثَۃَ یَقتَضِی اضمارُ الَّذِی وہو غَیرُ جائِزٍ عَلی الاصَحِّ عِندَ النُّحاةِ  مِن انَّہُ لا یَجُوزُ حَذفُ المَوصُولِ وابقاءُ صِلَتِہِ مُطلَقًا ای سَواء عُطِفَ عَلی مَوصُولٍ آخَرَ ام لا۔ (تفسیر روح المعانی)

دراصل اس تکلف کی ضرورت اس لیے پڑی کہ جاء بالصدق کا محدود مفہوم پیش نظر رکھا گیا، یعنی رسول کا سچا پیغام لانا۔ حالانکہ جو بھی‘سچ بات’کا علم بردار ہو وہ اس تعبیر میں شامل ہوجائے گا۔ ایک مومن سچائی کی تصدیق بھی کرتا ہے اور اس کا داعی و علم بردار بھی ہوتا ہے۔ اگر اس آیت کو اس سے پہلے والی آیت سے ملاکر دیکھا جائے تو بات واضح ہوجاتی ہے۔

فَمَن اَظلَمُ مِمَّن کَذَبَ عَلَی اللَّہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدقِ اِذ جَاء َہُ اَلَیسَ فِی جَہَنَّمَ مَثوی لِّلکَافِرِین۔ وَالَّذِی جَائَ بِالصِّدقِ وَصَدَّقَ بِہِ اولَئِکَ ہُمُ المُتَّقُونَ۔

علامہ ابوحیان نے توجہ دلائی کہ جاء بالصدق مقابلے میں آیا ہے کَذَبَ عَلَی اللَّہِ کے، جس طرح صَدَّقَ بِہِ مقابلے میں آیا ہے کَذَّبَ بِالصِّدقِ کے۔ یعنی ایک وہ ہے جو اللہ کے بارے میں جھوٹ باتیں منسوب کرتا ہے اور سچ بات کی تکذیب کرتا ہے، اور ایک وہ ہے جو سچ بات کہتا ہے اور سچ بات کی تصدیق کرتا ہے۔

اس وضاحت کی روشنی میں ترجمہ ہوگا:

“اور جس نے سچی بات پیش کی اور اس کی تصدیق کی، وہی لوگ تقوی اختیار کرنے والے ہیں”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(231)    وَیَحِلُّ عَلَیہِ عَذَاب مُّقِیم کا ترجمہ

قُل یَا قَومِ اعمَلُوا عَلَیٰ مَکَانَتِکُم اِنِّی عَامِل فَسَوفَ تَعلَمُونَ۔ مَن یَاتِیہِ عَذَاب یُخزِیہِ وَیَحِلُّ عَلَیہِ عَذَاب مُّقِیم۔ (الزمر:39۔ 40)

“کہہ دیجیے کہ اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر عمل کیے جاو میں بھی عمل کر رہا ہوں، ابھی ابھی تم جان لوگے کہ کس پر رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کس پر دائمی مار اور ہمیشگی کی سزا ہوتی ہے”۔(محمد جوناگڑھی)

“کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور کسے وہ سزا ملتی ہے جو کبھی ٹلنے والی نہیں”۔ (سید مودودی)

“کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے گا اور کس پر اترتا ہے عذاب کہ رہ پڑے گا”۔ (احمد رضا خان)

“کہ کس پر عذاب آتا ہے جو اسے رسوا کرے گا۔ اور کس پر ہمیشہ کا عذاب نازل ہوتا ہے”۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا آیت میں‘من’ ایک بار آیا ہے،’مَن یَاتِیہِ عَذَاب یُخزِیہِ‘ میں، اس کے بعد ’وَیَحِلُّ عَلَیہِ عَذَاب مُّقِیم‘ میں ’من‘ نہیں آیا ہے۔ لیکن ترجمہ کرنے والوں نے اس طرح ترجمہ کیا ہے گویا دو گروہوں کا تذکرہ ہو جن پر الگ الگ طرح کا عذاب آئے۔ حالانکہ یہاں ایک گروہ کا تذکرہ ہے اور اس پر آنے والے عذاب کے دو پہلووں کا بیان ہے، یعنی عذاب آئے گا جو رسوا کردے گا، اور وہ عذاب ٹک جانے والا عذاب ہوگا۔ درست ترجمہ اس طرح ہے:

“کہ کس پر رسوا کن عذاب آتا ہے اور ایسا عذاب نازل ہوتا ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں”۔

(232)    یتوفی کا ترجمہ

اللّہُ یَتَوَفَّی الاَنفُسَ حِینَ مَوتِہَا وَالَّتِی لَم تَمُت فِی مَنَامِہَا فَیُمسِکُ الَّتِی قَضَیٰ عَلَیہَا المَوتَ وَیُرسِلُ الاُخرَیٰ اِلَیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی۔ (الزمر: 42)

“اللہ جانوں کو وفات دیتا ہے ان کی موت کے وقت اور جو نہ مریں انہیں ان کے سوتے میں پھر جس پر موت کا حکم فرمادیا اسے روک رکھتا ہے اور دوسری ایک میعاد مقرر تک چھوڑ دیتا ہے”۔ (احمد رضا خان)

“اللہ ہی وفات دیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آئی ہونی ہوتی ہے ان کو بھی ان کی نیند کی حالت میں۔ تو جن کی موت کا فیصلہ کرچکا ہوتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اُس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے، پھر جس پر وہ موت کا فیصلہ نافذ کرتا ہے اُسے روک لیتا ہے اور دوسروں کی روحیں ایک وقت مقرر کے لیے واپس بھیج دیتا ہے”۔ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں یتوفی کا ترجمہ کرتے ہیں’اپنے قبضے میں کرلیتا ہے‘۔ اس سے یہ آیت کا مطلب یہ نہیں ہوتا ہے کہ نیند کی حالت میں موت آجاتی ہے، یا روح جسم سے نکل جاتی ہے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی نیند کی حالت میں بالکل بے اختیار ہوجاتا ہے، ایک طرح سے اللہ کے قبضے میں چلا جاتا ہے اور دوبارہ بیدار ہونا اس کے اپنے اختیار میں نہیں رہتا ہے۔ اس کی جان اللہ کے قبضے میں ہوتی ہے اور اسی کی مشیت سے وہ دوبارہ بیدار ہوتا ہے۔ آیت میں توفی کا بھی ذکر ہے اور موت کا ذکر بھی ہے۔ اس مفہوم سے دونوں کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ مزید یہ کہ یتوفی کو یمسک اور یرسل کے ساتھ ملاکر دیکھنے سے مفہوم کو سمجھنے میں زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ درج ذیل ترجمہ ملاحظہ کریں:

“اللہ اپنے قبضے میں کرلیتا ہے جانوں کو ان کی موت کے وقت، اور جن کی موت نہیں آئی ہوتی ہے ان کو ان کی نیند کی حالت میں۔ تو جن کی موت کا فیصلہ کرچکا ہوتا ہے ان کو تو روک لیتا ہے اور دوسروں کو ایک وقت مقرر تک کے لیے رہائی دے دیتا ہے”۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(233)    عما یشرکون کا ترجمہ

قرآن میں یہ تعبیر متعدد مقامات پر آئی ہے۔ اس میں مفسرین نے عام طور سے ’ما‘ کو مصدریہ مانا ہے، جس سے پورے جملے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے پاک اور بالاتر ہے کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ یعنی اس کے ساتھ شرک کرنا اس کی شان کے خلاف ہے۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا پستی اور گندگی ہے، اللہ کی ذات اس سے بہت بلند اور پاک ہے۔

اس تعبیر کی دوسری ممکنہ توجیہ یہ ہے کہ ’ما‘ کو موصولہ مانا جائے کا، جس سے پورے جملے کا مطلب یہ ہوگا کہ جن چیزوں کو اللہ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے اللہ ان چیزوں سے پاک اور بالاتر ہے۔ نحوی لحاظ سے تو اس توجیہ میں کوئی خامی نہیں ہے، لیکن معنی و مفہوم کے لحاظ سے یہ توجیہ کم زور معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ اللہ کا شرک سے پاک ہونا اور بالاتر ہونا تو بالکل واضح ہے۔ صاحب تدبر کے الفاظ میں: ”خدا کی صفات کے ساتھ ایسی صفات کا جوڑ ملانا جو اس کی بنیادی صفات کو باطل کردیں بالکل خلاف عقل ہے۔ شرک، جس نوعیت کا بھی ہو، تمام صفات کمال کی نفی کردیتا ہے اس وجہ سے خدا ایسی تمام نسبتوں اور شرکتوں سے منزہ اور ارفع ہے۔”(تدبر قرآن، سورة الاعراف: 190 کی تفسیر میں) لیکن جن چیزوں کو شریک کیا جاتا ہے ان سے پاک ہونے کا مطلب بتانے کے لیے تاویل کا تکلف کرنا پڑتا ہے۔

مترجمین کے یہاں عام طور سے تو ’ما‘ مصدریہ کا ترجمہ ملتا ہے لیکن بہت سے مترجمین نے کہیں کہیں ’ما‘ موصولہ کا ترجمہ بھی کردیا ہے، محسوس ہوتا ہے کہ وہ توجہ کی کمی کا نتیجہ ہے۔ البتہ خاص بات یہ ہے کہ صاحب تفہیم نے ہر جگہ ’ما‘ مصدریہ کا ترجمہ کیا ہے اور صاحب تدبر نے ہر جگہ ’ما‘ موصولہ کا ترجمہ کیا ہے۔ بہرحال موزوں تر مفہوم وہی معلوم ہوتا ہے جو ’ما‘ کو مصدریہ ماننے سے سامنے آتا ہے۔ ذیل میں ایسے مقامات کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

فَتَعَالَی اللَّہُ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الاعراف: 190)

“سو اللہ پاک ہے ان کے شرک سے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“اللہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

سُبحَانَہُ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (التوبة: 31)

“وہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ پاک ہے ان کے شریک مقرر کرنے سے”۔(محمد جوناگڑھی)

سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (یونس: 18)

“وہ پاک اور ارفع ہے ان چیزوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ پاک اور برتر ہے ان لوگوں کے شرک سے”۔(محمد جوناگڑھی)

سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (النحل: 1)

“وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“پاکی اور برتری ہے اسے ان شریکوں سے”۔ (احمد رضا خان)

“وہ برتر ہے ان سب سے جنہیں یہ اللہ کے نزدیک شریک بتلاتے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“پاک ہے وہ اور بالا تر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں”۔ (سید مودودی)

تَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (النحل: 3)

“وہ برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک گردانتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ اس سے بری ہے جو مشرک کرتے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی، یہ ترجمہ درست نہیں ہے، مشرک جو کرتے ہیں اس کی بات نہیں ہے بلکہ وہ جو شرک کرتے ہیں اس کی بات ہے۔)

“وہ بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔ (سید مودودی)

“وہ ان کے شرک سے برتر ہے”۔ (احمد رضا خان)

فَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (المومنون: 92)

“برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ تجویز کر رہے ہیں “۔(سید مودودی، تجویز کرنا درست نہیں ہے، بلکہ کررہے ہیں۔)

تَعَالَی اللَّہُ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (النمل: 63)

“اللہ بہت ہی برتر ہے ان چیزوں سے جن کویہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند وبالاتر ہے”۔ (محمد جوناگڑھی)

“بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔(سید مودودی)

سُبحَانَ اللَّہِ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (القصص: 68)

“اللہ پاک وبرتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ بلند تر ہے ہر اس چیز سے کہ لوگ شریک کرتے ہیں”۔(محمد جوناگڑھی)

“اللہ پاک ہے اور بہت بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔ (سید مودودی)

سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الروم: 40)

“وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو وہ شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ پاک ہے اور (اس کی شان) ان کے شریکوں سے بلند ہے”۔ (فتح محمد جالندھری)

“اللہ تعالیٰ کے لیے پاکی اور برتری ہے ہر اس شریک سے جو یہ لوگ مقرر کرتے ہیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔(سید مودودی)

سُبحَانَہُ وَتَعَالَیٰ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الزمر: 67)

“وہ پاک اور برتر ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک بناتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں”۔ (محمد جوناگڑھی)

“پاک اور بالاتر ہے وہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں”۔ (سید مودودی)

سُبحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الطور: 43)

“اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو یہ شریک گردانتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“اللہ تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے”۔(محمد جوناگڑھی)

سُبحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشرِکُونَ۔ (الحشر: 23)

“اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جن کو لوگ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں”۔ (امین احسن اصلاحی)

“پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں”۔(محمد جوناگڑھی)

“پاک ہے اللہ اُس شرک سے جو لوگ کر رہے ہیں” ۔ (سید مودودی)

علامہ احمد جاوید اور تصوف

میر امتیاز آفریں

تصوف اسلام کی روحانی تعبیراور (dimension) کا نام ہے۔جس نے اسلامی تہذیب و تمدن کے دامن کو نہ صرف وسیع کیا ہے بلکہ علوم و فنون کے اک لا متناہی سلسلے کو جنم دیا ہے۔ صوفیانہ فکر و فن نے صدیوں سے تاریخ اسلام میں بڑے اعلیٰ قلوب و اذہان کو متاثر کیا ہے جن میں رومیؒ، غزالیؒ، ابن عربیؒ، شیخ احمد سرہندیؒ،شاہ ولی اللہ ؒ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔صدیوں تک صوفیانہ طرز فکر نے نہ صرف علمی و فکری منظرنامے پر بلکہ مسلم ازہان و قلوب پر بھی حکمرانی کی ہے۔مگر جب سے مغربی افکار و نظریات نے ہمیں اپنے تہذیبی ورثے کا تنقیدی جائزہ لینے اور اپنے زوال کا تجزیہ کرنے کی راہ سجھائی ہے، تب سے انکار تصوف جدید تعلیم یافتہ روشن خیال علماءکے لئے ایک علمی شوق اور فیشن ایبل مشغلہ بن چکا ہے۔جس طرح سوشلزم اور کمیونزم کی نظر میں ہر روحانی وا خلاقی رجحان ذہنی افیون اور superstructureکہلایا اسی طرح جدیدروایتی مسلم مذہبی فکر میں تصوف کو مطعون کرکے ہدفِ تنقید بنایا گیا۔

ہماری علمی تاریخ میں تصوف کے شدید ناقدین جیسے علامہ ابن تیمیہؒ، علامہ ابن القیم ؒ اور علامہ ابن جوزیؒ بھی محمود و مذموم اور اسلامی و غیر اسلامی تصوف کے درمیان حد فاصل کھینچتے ہیں مگر بد قسمتی سے موجودہ دور کے کچھ ناقدین اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ تصوف کو ’ایک متوازی دین‘ اور ’اجنبی پودا‘ قرار دے کر اس کی بنیادیں ہی کھودنے میں لگے ہوئے ہیں۔تصوف پر یلغار موڈرن کہلانے والے مغربی افکار کے غلاموں میں ایک عام سی بات ہو چلی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی مسلسل سفر ہے، زندگی پیہم رواں دواں ہے، زندگی جہدِ مسلسل ہے اور تصوف زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے، عائلی اور معاشرتی پرورش سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے، عصری تقاضوں سے گریزاں ہے، فکری مرض ہے، نفسیاتی نشہ ہے اور قلبی سفسطہ۔اور ظاہر ہے کہ ان مذموم افکار کی تعین میں بے سند کتابوں کے غیر معروف واقعات اور جاہل صوفیاءکا ہاتھ ہے۔ اگر ہمارے محققین ، علماءاور دانشوران نے تصوف کے رموز و نکات، مضمرات، اہمیت و ضرورت، حرکیت و فعالیت اور شرعی حدود پر وافر تعداد میں کتابیں لکھی ہوتیں تو شاید نہ اہل خانقاہ تصوف کے نام پر کاروبار کرتے اور نہ ہی زندگی کے باالمقابل تصوف پر جمود اور تعطل کا الزام عائد کیا جاتا، مگر ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ تصوف پر لکھنے والے ہمارے مصنفین کا قلمی دائرہ شخصیات اور ان کی کرامتوں سے آگے نہیں بڑھتا۔اس سنگین صورت حال میں علامہ احمد جاوید جیسی کثیر الجہات شخصیات کسی نعمتِ عظمیٰ سے کم نہیں جو بیک وقت مذہبیات، فلسفہ اور ادب پر حیرت انگیز درجے کا ید طولیٰ رکھتے ہیں۔جو نہ صرف تصوف اور جدید علوم کے مردِ میدان ہیں بلکہ ذاتی رجحانات میں بہنے کے بجائے ایک تنقیدی شعور سے مختلف نظامہائے فکر کا جائزہ لیتے ہیں۔ احمد جاوید صاحب نے اپنی معلوماتی و تجزیاتی قلمی نگارشات سے صوفیانہ افکار و نظریات کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی محققانہ اور مدلل کاوشیں کی ہیں۔

علامہ احمد جاوید

برصغیرپاک و ہند کی معاصر اسلامی تاریخ میں علم و عمل اور احوال و اخلاق کے اعتبار سے کچھ ہی گنی چنی دینی شخصیات ہیں جن میں علوم معقول و منقول کے اعتبار سے زبردست جامعیت پائی جاتی ہے اور ان میں بلا شک و شبہ علامہ احمد جاوید کی شخصیت سر فہرست ہے ۔آپ ملک پاکستان کے ممتاز ترین دانشور، شاعر، صوفی اور مربی ہیں ۔ علمیت،وسعتِ مطالعہ ،تدبر و تفکر، علمی موضوعات پر نکتہ سنجی، فلسفہ، مذہب، تصوف اور ادب و تنقید میں آپ اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔دین و مذہب سے احمد جاوید کی رغبت و محبت ان کے خمیر میں رچی بسی تھی۔اسلامی تاریخ ، اسلامی فلسفہ ، منطق، علم کلام، تصوف وغیرہ پر ان کے علم اور بصیرت پر حیرت ہی کی جاسکتی ہے۔

 آپ نے شعور کی آنکھ اپنے استاد سلیم احمد کی فکری آغوش میں کھولی۔ ایک انٹریو میں احمد جاوید خود بیان کرتے ہیں کہ کیسے ان کے استاد نے کلیاتِ میر، وِل ڈیوراں کی The History of Philosophy، محمد حسن عسکری کی تمام کتب پر مشتمل ایک نصاب مرتب کیا اور یوں مذہبیات اور شاعری کے ساتھ ان کا غیر معمولی ربط استوار ہوگیا۔اردو، عربی، فارسی اور انگریزی شاعری میں آپ کو ید طولیٰ حاصل ہے اورروحانی اور ما بعد طبعییاتی افکار و نظریات ان کا محبوب مشغلہ ہیں۔رومی،ابن عربی، غزالی، سعدی، میر، غالب اور اقبال کے اثرات آپ کی شخصیت اور فکر میں صاف دیکھے جاسکتے ہیں۔1980میں لاہور منتقلی اوراقبال اکادمی کے ساتھ وابستگی سے آپ کو اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو نکھارنے کا بہترین موقع ملا۔اقبال اکادمی سے آپ 2015میں بہ حیثیت ڈائریکٹر ریٹائرہوئے۔

علمی ، ادبی اور مذہبی حلقوں میں آپ کو یکساں مقبولیت حاصل ہے۔فلسفہ، اخلاقیات، تصوف، اقبالیات، ادبی تنقید اور اسلام کے مختلف پہلووں پر آپ نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان موضوعات پر آپ نے متعدد لیکچر دیے ہیں۔ ان کی پانچ کتابیں اب تک چھپ چکی ہیں، جبکہ تیس کے قریب کتابیں زیرِ طبع ہیں۔ علاوہ ازیں موصوف باقاعدگی سے مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر دور حاضر کے فکری و اخلاقی مسائل پر نپی تلی اور متوازن گفتگو کرتے ہیں۔اس تعلق سے کافی ویڈیوز یوٹیوب اور کئی ویب سائٹوں پر دستیاب ہیں جن سے ہم اس تحریر میں استفادہ کریں گے اور تصوف کے بارے میں ان کی آراءکا تجزیہ کرنے کوشش کریں گے۔

جہاں تک تصوف کا تعلق ہے، علامہ احمد جاوید بذات خودراہِ سلوک سے علمی و عملی وابستگی رکھتے ہیں۔روزنامہ دنیا میں چھپے آپ کے ایک انٹریو کے مطابق، ’تصوف کی طرف مائل ہوئے توآخر ایک افغان صوفی بزرگ حضرت اخوند زادہ سیف الرحمان کے، جو طریقت میں مقام بلند اور نہایت مضبوط توجہ کے حامل تھے، دست حق پرست پر مشرف بہ بیعت ہوئے۔اس کے بعد ہی ان کی زندگی میں نمایاں تغیرات کے لامتناہی سلسلے کا آغاز ہوا‘(۱)

 اپنے ایک مضمون ’استعانت، انسان دوستی اور وبا کا دور ‘ میں آپ لکھتے ہیں:

”مجھے صحیح پتا نہیں، غالباً دس سال سے، میں طبعاً، ازروئے تربیت،ازروئے تعلیم، از روئے مزاج صوفی ہوں۔میری تربیت، یعنی دیندار بننے میں ، اللہ مجھے معاف کرے دیندارہم کہاں کے، لیکن ویسے کہہ رہا ہوں کہ دین سے قریب لانے میں ساری جو تربیت اور کنٹریبیوشن (contribution)ہے، وہ تصوف کا ہے اور طبعاً اور مزاجاً میں جیسے تصوف سے مناسبت رکھتا ہوں اور تین سلسلوں کا تفصیلی سلوک ، کلاسیکل سلوک کر رکھا ہے، محنت کے ساتھ، توجہ کے ساتھ ،ذوق کے ساتھ اور ایثار کے ساتھ اور اپنے بڑوں سے یعنی بڑوں سے مراد جنہیں دیکھا، ان سے بھی، جنہیں نہیں دیکھا، جن کے بارے میں مستند ذرائع سے سنا، ان اسلاف سے بھی، یعنی صحابہ سے لے کر اپنے اساتذہ و مشائخ تک، یعنی دینی معنوں میں ، بڑائی کے عارفانہ معنوں میںعظمت کے جو مظاہر تھے، ان سب سے والہانہ محبت ہے۔“ (۲)

آپ کے مجموعی تاثرات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ  ایک طرف آپ نے اپنے اساتذہ سے ذوقِ تصوف اخذ کیا تو دوسری طرف آپ نے اپنی فطری استعداد سے نظام تصوف پر تنقیدی نگاہ ڈال کرقرآن و سنت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا۔

 تصوف کے بارے میں احمد جاوید صاحب اپنے مختلف دروس میں افراط و تفریط کے درمیان ایک متوازن راہ اختیار کرنے کی وکالت کرتے ہیں۔ وہ تصوف کی حقیقت اور اس پر کیے جانے والے اعتراضات کا ایک علمی و فکری محاکمہ کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ معترضین کے اشکالات کو رفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں تودوسری طرف تصوف کے نام پر بے اعتدالیوں کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر بعض مواقع پر ناقدانہ معلوم ہوتا ہے اور بعض جگہ مصلحانہ ہے۔ کبھی تنقیدِ تصوف میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ اسے اسلام کے لئے بے حد مضر اور بے معنی قرار دینے میں نہیں جھجکتے لیکن ساتھ ہی اس کی افادیت سے بھی چشم پوشی نہیں کرتے۔ایک طرف سے آپ ابن عربیؒ، رومیؒ، بیدلؒ، حافظؒ ، دردؒ، شاہ ولی اللہؒ جیسے صوفیاءکے صوفیانہ افکار و نظریات سے حد درجہ شغف رکھتے ہیں اور دور حاضر میں ان کے بہترین شارح قرار دیے جاسکتے ہیں، دوسری طرف آپ ان کے کئی نظریات پر شدید تنقید سے بھی دامن نہیں بچاتے ہیں۔دین کے بنیادی اصول و ضوابط سے متصادم افکار و نظریات کو یک جنبش لب و قلم رد کردیتے ہیں۔

تصوف:حقیقت و اہمیت

 احمد جاوید کی نظر میں اسلام کے نظام تزکیہ و تصفیہ پر عمل کرتے ہوئے مقام احسان تک پہنچنے کا ہی نام تصوف معروف ہوا ۔اپنی کتاب’ تزکیہ نفس‘ میں تصوف کی حقیقت پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”احسان تزکیہ و تصوف کا متبادل لفظ ہے۔ احسان ایک حال دید ہے، دید کے بغیر۔ احسان کا مطلب ہے دید کا حال جو دید کا دعویٰ کرنے کی اجازت نہ دے۔ حال دید تین ہی نتائج مرتب کرے گا۔ ایک مزاج کے لئے محبت کو بڑھا دے گا۔دوسرے مزاج کے لئے خشیت کو بڑھا دے گا۔تیسرے مزاج کے لئے معرفت کا سبب بنے گا۔ تو اصل چیز احسان ہے اللہ کے حضور میں رہنا اور اللہ کو استحضار میں رکھنا۔“ (ص۱۵)

 اللہ نے انسان کی تخلیق اپنی عبادت کے لئے کی اور عبادت اس طرح کرنے کا حکم آیا ہے کہ گویا بندہ اللہ کو دیکھ رہا ہو۔حدیث جبریل کے مطابق اسلام دین کے ارکان ظاہری ، ایمان ارکانِ باطنی اور احسان ظاہر و باطن کی تحسین کا نام ہے جس کے نتیجے میں اللہ کو دیکھنے والی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جس طرح مسائل شرعیہ کے لئے علم فقہ اور مسائل اعتقادیہ کے لئے علم کلام مدون ہوااسی طرح درجہ احسان تک پہنچنے، اخلاق رذیلہ کو دور کرنے اور اخلاق حمیدہ سے مزین ہونے کے لئے صوفیہ کے احوال و مقامات اور واقعات کی شکل میں فن تصوف مدون ہوا۔

تصوف پر جیو ٹی وی کے ایک علمی مباحثے میں احمد جاوید کہتے ہیں:  ہر دین میں تصوف جیسا institution ضرور موجود ہوتا ہے حتیٰ کہ یہودیت جیسے ٹھیٹھ قانونی دین میں بھی یہ پیدا ہوا۔تصوف مذہبی شعور کے زیادہ گہرے اور بامعنی اور زیادہ مستقل حصوں کے دینی versionکا نام ہے۔اس کو نظر انداز کرکے ہم بعض باتوں میں اگر ہم ایک قانونی تحکم کے ساتھ غور کریں گے، دین کی تعبیرات کے کسی generalتسلسل کو اس پر حکم بنائیں گے تو ہم بہت زیادہ درست نتائج تک اس کی تائید یا تردید میں نہیں پہنچ پائیں گے۔ صوفی نظام العمل (episteme) میں معنی حضور کا  نام ہے۔ یعنی کسی بیان کا معنی شعور میں حضور پیدا کرتا ہے جبکہ غیر صوفی نظام العمل (non- Sufi episteme) فہم (understanding) پیدا کرتا ہے۔ غیر صوفی نظام العمل میں آدمی نامعلوم پر قانع ہوجاتا ہے۔صوفیاءکا ذہن(understanding) پر قانع نہیں ہوتا، یہ غیب کو اصولی طور پر محفوظ رکھ کر اس کے غیاب میں بھی حضوری (presence)پیدا کر لیتا ہے۔غیب میں اس حضوری پیدا کرنے کو صوفیاءاپنی اصطلاح میں اعتبار کہتے ہیں۔ (۴)

فلاسفہ اور متکلمین کے مقابلے میں صوفی discourse کو علامہ احمد جاویدزیادہ بہتر و برتر قرار دیتے ہیں کیونکہ اس میں ایک غیر معمولی جمالیاتی تاثیر پائی جاتی ہے جو مذہب کو تشکیک اور خشک مذہبیت سے بچانے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے:

”صوفیانہ discourseسے زیادہ مکمل ڈسکورس کسی بھی دینی روایت میں کبھی تخلیق نہیں ہوا اور یہی وجہ ہے کہ یہ پرانا نہیں ہوتا۔ سینٹ آگسٹائن کے City of God پر پندرہ سو برس گزر چکے ہیں مگر وہ آج بھی تازہ ہے۔۔۔ابن عربی کی فتوحات و فصوص کے متعلقہ حصے سینکڑوں سال گزار کر بھی تازہ دم ہیں۔۔۔ان کے مرتبہ علم الوجود کے اصول و مبادی آج بھی اتنے محکم ہیں کہ ان پر آج تک نہ کوئی اضافہ ہوا نہ ترمیم ۔اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔جب کہ دوسری طرف فلاسفہ و متکلمین کا بیشتر سرمایہ ازکار رفتہ ہو چکا ہے۔تو یہ کس وجہ سے ہے؟ یہ اس وجہ سے ہے کہ صوفی ڈسکورس کی تشکیل میں شعور کی جمالیاتی قوت بھی پوری طرح صرف ہوئی ہے۔۔۔اس شعور کا مذہبی مصرف نہ نکالنے کا یہ نتیجہ ہے کہ آج مذہب پر تقریباً تمام اہمdisciplines of knowledgeکی طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہو رہی ہے اور مذہبی ذہن بالکل ماوف ہوکر گوشہ ہزیمت پکڑے بیٹھا ہے۔اسے کوئی دفاع نہیں سوجھ رہا۔ یہ میں ذمہ داری سے کہہ رہا ہوں کہ یہ نوبت اس لئے آئی ہے کہ ہم نے اپنے ایمان کی ناگزیر عقلی، اخلاقی، اور جمالیاتی تاثیرکو کند کر رکھا ہے، ہم نے ایمان کے جمالیاتی لوازم کو معطل کیا ہوا ہے۔“ (۵)

احمد جاوید کے مطابق صوفیانہ بیانیہ مذہبی سطحیت کا بہترین تریاق ہے۔اس سلسلے میں وہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

”میرے خیال میں جب مذہبی علم سطحیت کا شکار ہوا، تو شعور کی مذہبی کارفرمائی کے مظاہر پر اعتراضات کی بنیاد پڑی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ غزالیؒ، یا ابن عربی وغیرہ کے تمام مباحث اور سارے معارک ہمارے themeکے ، ہمارے علمی مزاج کے محکم نمائندے ہیں۔ لیکن اتنی بات بہرحال ملحوظ رہنی چاہئے کہ ان حضرات نے شعور بلکہ وجود کے بہترین جوہر کو دینی حقائق کی قبولیت میں جس طرح صرف کرکے دکھایا ہے، وہ ان کے معترضین کے بس سے باہر ہے۔“ ( ۶ )

تنقیدی جائزہ

علامہ احمد جاوید کے مطابق تصوف کے منہج تزکیہ و علم کا justified ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ اسے تصحیح و تغلیط کے معروف معیارات سے ماورا مان لیا جائے ، کچھ لوگ تصوف کی ہر بات کو تسلیم کرلیتے ہیں، خواہ صحیح ہو یا غلط اور کچھ اس کی کلیتہً نفی کرتے ہیں، خواہ اس کا کوئی حصہ صحیح ہی کیوں نہ ہوجبکہ تصوف یا کسی اور نظریے کے بارے میں صحیح رویہ یہ ہے کہ جو بات قرآن و سنت کے مطابق ہو اسے تسلیم کیا جائے اور جومتصادم ہواسے رد کیا جائے۔

تصوف پر آپ کے ایک اہم مضمون” تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں“ میں آپ دین اسلام میں تصوف کی حیثیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”تصوف ایسا نہیں ہے کہ فلاں حضرت نے ایجاد کر لیا۔ تصوف جو ہے قرآن کے(Substance) ، سنت میں manifested substance کی روایت کے تسلسل کا ایک نام ہے۔ یعنی رسول اللہﷺ کے شعورِ بندگی اور ذوقِ بندگی کے تسلسل کے لیے جو روایت چل رہی ہے، اس روایت کا ایک عنوان تصوف ہی ہے، چاہے اسے تصوف کہو یا نہ کہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ تصوف کا لفظ قرآن و سنت سے ثابت نہیں ہے تو یہ لفظ بائنڈنگ نہیں ہے۔ تو صوفیا نے اس ماخذِ دین کو اس ٹوٹل پرسپیکٹو کے ساتھ اختیار کیا اور اسے مسلسل رکھنے کا سامان کیا۔ اس کے تسلسل کا اہتمام کیا۔

تصوف نے گویا خود اپنے اوپر ایک چیک لگا رکھا ہے کہ وہ حقیقتِ بندگی کی اور مقاصدِ بندگی کو عملی، فعلی اور زندہ حالت میں رکھنے والی روایت ہے۔ تو جہاں تک وہ اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرے گا، وہاں تک وہ ہماری اصطلاح کے مطابق تصوف ہونا کوالیفائی (qualify) کرتا ہے۔ لیکن جہاں وہ اپنی اس بیسک (basic)اور پرنسپل (principal) اور فنڈامینٹل(fundamental) ذمہ داری سے روگردانی کر رہا ہے، ان کی طرف نظر ڈالنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس کو اپنی نظام کی واحد آپریٹو(operative) بنیاد بنانے میں ناکامی کا شکار ہے تو ہم اُس فیض کو یا اُس حصے کو یا اُس دائرے کو نہایت آسانی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ تصوف نہیں ہے، یہ تصوف میں بگاڑ پیدا کر دینے والی کچھ صورتیں ہیں۔ تو تصوف کا عروج بھی اسی معیار سے پرکھا جائے گا جو معیار صوفیوں نے خود بنایا نہیں ہے قرآن اور قرآن لانے والے نے اُن پر امپوز (impose)کیا ہے تو تصوف اسی بنیاد پر اپنا جواز رکھتا ہے اور اس بنیاد میں سے جتنا وہ ہٹتا جائے گا اتنا وہ اپنے آپ کو ڈسکوالیفائی (disqualify)اور ریجیکٹبل(rejectable) بناتا چلا جائے گا... حقیقت کو اس کی کُلّیت کے ساتھ امت میں پیدا ہوانے والے جن ڈسپلنز (disciplines)نے قبول کیا ہے، اُن میں تصوف میں جامعیت زیادہ ہے۔ اس کی معراج تو ظاہر ہے قرآن و سنت ہی ہے۔ تو تصوف کوئی خدا نہیں ہے کہ وہ جس سر پہ رکھی ہو اُسے مانا جائے گا۔ جس سر پہ نہیں ہے اُسے نہیں مانا جائے گا۔ یہ کوئی مستقل عنوان نہیں ہے۔ اگر کوئی آدمی اس میں سہولت محسوس کرتا ہے کہ وہ تصوف کا نام ترک کر کے مقاصد کی طرف متوجہ رہے تو وہ بھی صوفی ہے وہ بھی کامل ہے۔“ (۷)

احمد جاوید کے مطابق دین کے کئی ڈسپلنز (disciplines)ہیں مگر نفسِ انسانی کی پہچان صوفیوں کو دیگر ڈسپلنز کے علماءسے زیادہ ہے لہذا یہ ڈسپلن زیادہ کامیاب ہے ۔ دین کا مقصد کسی ایک ڈسپلن میں محدود نہیں بلکہ سارے ڈسپلنز (disciplines)اپنا رول ادا کرتے ہوئے مل کر انسانی فطرت کے مختلف تقاضے پورے کرتے ہیں۔مگر اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ اہل تصوف دیگر ڈسپلنز سے خود کو بہتر اور ماورا سمجھیں کیونکہ عام طور پر ان میں دیگر طبقات سے زیادہ بے اعتدالیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔کیونکہ جن باطنی قرآنی حقائق کو جاننے کاوہ دعویٰ کرتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ دور رسالت یا اس سے متصل عہد میں وہ ظاہر ہونے سے رہ گئے ہوں۔ ساتھ ہی دیکھا جائے تو صوفیاءاخذ معنی ٰ کے عمل کو داخلی(subjective)قرار دیتے ہیں، حالانکہ مذہب میں textکا معنیٰ ہمیشہ عام ہوتا ہے، privateنہیں، لہذا معلوم ہوتا ہے کہ صوفیاءنے اخذ معنیٰ کے لئے مستند طریقہ لاگو نہیں کیا ہے جس سے کافی مغالطے اور الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔صوفیاءکے یہاں بیان سے حقیقت ِبیان تک پہنچنے کا عمل سادہ ہونا چاہئے تھا مگر وہ پیچیدہ ہے اور technicalitiesرکھتا ہے۔

صدیوں کے بگاڑ کے نتیجے میں تصوف میں شخصیت پرستی بڑی حد تک سرایت کرگئی ہے۔ پیروں اور سلسلوں کو لازم قرار دے کر کافی حد تک غلو سے کام لیا گیا جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے متصادم ہے۔احمد جاوید اکابرینِ تصوف کوادب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسلامی تاریخ میں ان کے غیر معمولی کردار سے اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ ان کو لغزشوں سے پاک نہیں سمجھتے بلکہ کئی مواقع پر ان کے کچھ نظریات کو رد بھی کرتے ہیں۔ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:

”تصوف کی روایت اسی کنڈیشنر (conditioner)کے احیا کی روایت ہے۔ جو بھی دین سے تعلق رکھنے والے انسٹی ٹیوشنز(institutions) ہیں، وہ سارے اسی تک و دو میں ہیں لیکن اُس کا ہر قیمت پر دفاع نہیں ہو سکتا۔ یہ صرف نبیﷺ کا قول و فعل ہے جس کا دفاع ہر قیمت پر کرنا ہے۔ نبی کے بعد کسی بھی شخصیت، چاہے وہ صحابہ ہوں اہلِ بیت ہوں، تابعین ہوں، تبع تابعین ہوں، کسی کے قول و فعل کا غیر مشروط دفاع (درست) نہیں ہے۔ یہ صرف نبیﷺ کا حق ہے۔“(۸)

ان کے مطابق کچھ اکابر صوفیاء(جیسے شاہ ولی اللہ ؒ وغیرہ) کی کتب میں کئی ایسی شطحیات ملتی ہیں جن کی تاویل کرنا بھی درست نہیں، اور ایسی چیزوں کو ان کی باطنی کجی قرار دیا جانا چاہئے۔

احمد جاوید کے مطابق تصوف کا علمی و عملی پہلو دن بہ دن زوال کا شکار ہورہا ہے اور اس کی جگہ رسم پرستی اور superficialityنے لے لی ہے۔مذکورہ بالا مضمون میں وہ لکھتے ہیں:

”زوال ہوتا ہے دینی روایتوں میں کہ فارمز (forms)پر اصرار کرنا اُن کی اوریجنل پیوریٹی (original purity) کو چھوڑ کر اور معنی کو نظر انداز کر دینا بس (اس سے) سارا سٹرکچر (structure) گر جاتا ہے۔ تو اب جیسے تصوف کا زوال ہے کہ فارم پر انحصار ہے اشغال پر۔ اور اُن کا مطلوب کیا ہے، مقصود کیا ہے، اُن کی حقیقت کیا ہے، اُس سے مکمل بے خبری ہے۔ اور پھر فارمز کو بھی اُن کی پیوریٹی اور آتھن ٹیسٹی(purity and authenticity) کے ساتھ نہیں اختیار کیا گیا۔“ (۹)

اسی لئے وہ تصوف کے موجودہ اداروں اور قصباتی تصوف پر شدید تنقید کرتے ہیں۔مزارات پر ہونے والی غیر شرعی حرکات کے متعلق ایک سوال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:

”تصوف اپنے موجودہ institutions میں اور اپنے حاضر و مظاہر میں ایک خطرناک روایت بن چکا ہے، جو بے معنی اور مضر بھی ہے۔جس قصباتی تصوف سے ہمیں واسطہ ہے، اس کا جلد از جلد فنا ہونا ہی اسلام اور مسلمانوں کے لئے بہتر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تصوف کو defendکرنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے ۔۔۔کیونکہ اپنے موجودہ مظاہر میں تصوف بڑی حد تک الا ماشاء اللہ سنت کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے اور بڑی حد تک دینی ذوق کی آبیاری کو روکنے والا ادارہ بن چکا ہے۔میں بھی اس وحشت میں شریک ہوں اور چاہتا ہوں کہ یہ روایت اپنے تمام موجود مظاہر کے ساتھ ایک ایک کرکے ختم ہو جائے، تاکہ تزکیہ نفس کا عمل ان نام نہاد ٹھیکے داروں کے ہاتھ سے نکل کر مسنون فضا میں داخل ہوسکے۔“ (۱٠)

تصوف پر ہونے والی تنقید کا تجزیہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

 ”میں تصوف کی تردید میں بننے والے ڈسکورس کے اکثر حصوں کو غلط سمجھتا ہوں لیکن اُن لوگوں(یعنی ناقدینِ تصوف) کی نیت وغیرہ پہ کوئی شبہ نہیں کرتا ،ممکن ہے وہ صوفیوں سے زیادہ اللہ والے ہوں۔ تصوف پر ہونے والی اکثر تنقیدیں اس ذہن کے لئے بے اثر ہیں، جو تصوف کو قدرے سمجھتا ہے۔اس وجہ سے کبھی ان تنقیدوں کا نتیجہ یہ نہیں نکلا کہ کوئی صوفی حلقہ ٹوٹ گیا ہو۔ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ بہت اچھی طرح بنا کے ، تراش خراش کے ساتھ ساتھ، جو اصولی بات اس میں آگئی ہے، اس کو دیکھ لیں۔اس میں جو بات سمجھ میں آئے، اس کو قبول کریں۔ جو نہ سمجھ میں آئیں، اس کی وجہ بتائیں۔ایک اصول ہے، جب اس کو کھولیں گے تو امید ہے کہ آپ کو یہ اصول زیادہ برا نہیں لگے گا۔ وہ اصول یہ ہے:

مذہبی حقائق کا ادراک مذہبی علم تک محدود نہیں ہے۔

تو یہ اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو اس کو نہیں جانتا، وہ علم سے مس نہیں رکھتا۔ ٹھیک ہے، اس اصول کو میں انشاءاللہ کسی وقت کھولوں گا۔ تصوف پر ہونے والی تنقیدوںمیں اکثر یہ غلطی کارفرما ہوتی ہے۔دیکھیں غلطیاں دو قسم کی ہوتی ہیں کسی بھی disciplineمیں۔ ایک واقعاتی، جزوی، جیسے دس اینٹوں میں ایک اینٹ خراب لگی ہوئی ہے، اور اس کی خرابی بالکل واقعاتی اور سامنے کی ہے۔ آپ پچاس چیزیں نکال کر دکھادیں ہم کہیں گے ٹھیک ہے، یہ سب غلط ہیں۔لیکن ایک ہوتی ہے کہ اس عمارت ہی کو نہیں بننا چاہئے۔پھر اس پر آپ کو بھی کچھ tough timeاٹھانا چاہئے اور وہ ابھی آپ لوگوں کو ملا نہیں ہے۔ تو ہم جہاں سے چیزوں کو دیکھنا شروع کرتے ہیں ، وہ اس یقین کے ساتھ کرتے ہیں کہ قرآن مجید بھی اپنے معلوم ہونے کے تمام راستے خود نہیں کھولتا۔ “ (۱۱)

کل ملا کر دیکھا جائے تو علامہ احمد جاوید خود ان اعتراضات کو کسی نہ کسی طرح اپنی تحریروں اور بیانوں میں address کرتے ہیں اور خُذ ما صفا وَدَع مَا کَدِر کے مصداق وہ تصوف سے ا ن چیزوں کو لینے میں عارمحسوس نہیں کرتے جو شریعتِ اسلامیہ کے مزاج سے ہم آہنگ ہوں اور ساتھ ہی ان چیزوں کو رد کرنے میں بھی تامل نہیں کرتے جو خلافِ شرع ہوں۔ قرآن و سنت کو حکم بنانے کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

 ”حضرتِ جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ ہم اپنے ہر وارد کو، اپنی ہر بات کو ،اپنے ہر حال کو ،اپنے ہر مکاشفے کو دو گواہوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ وہ دونوں تصدیق کرتے ہیں تو اُسے قبول کرتے ہیں ورنہ رد کر دیتے ہیں۔ وہ دو گواہ ہیں قرآن وسنت ۔قرآن ایسینس (essence)ہے اور سنت اُس کی سٹینڈرڈ فارم (standard form)ہے۔“(۱۲)

احمد جاوید اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ تصوف کے نظام العقائد اور اعمال کی فوری اصلاح کی جائے اور ان کی نظر میں تب تک چین سے بیٹھنا اہل علم و عرفان کے لئے مناسب نہیں جب تک اسے شریعت کے سانچے میں نہ ڈھالا جائے۔ اس ضمن میں ان کے دروس کا ایک سلسلہ Tasawuf: A Revivalist Approachکے عنوان سے یو ٹیوب پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے کئی اور قابل توجہ امور کی نشاندہی کی ہے۔  (۱۳)

المختصر تصوف اسلام کا روحانی پہلو ہے، لہذا اس سے الجھنا یا اس کا انکار کرنا ،اسلامی شریعت کے سرچشموں کو اور روحانی پہلووں کو خشک کرنا ہے مگراسے صاف و شفاف رکھنے کے لئے قرآن و سنت کے احکامات کی پاسداری لازمی ہے۔


حوالہ جات

۱۔ روزنامہ دنیا: انٹریو: احمد جاوید

۲۔ استعانت، انسان دوستی اور وبا کا دور :احمد جاوید: http://daanish.pk/40459

۳۔تزکیہ نفس: احمد جاوید: ص۵۱

۴۔https://youtu.be/k95B1I6St20

۵۔اسباق:احمد جاوید: ص: ۴۱،۵۱

۶۔اسباق:احمد جاوید: ص۱۴

۷۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: http://daanish.pk/40459

۸۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: (ایضاً)

۹۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: (ایضاً)

۰۱۔تزکیہ نفس: احمد جاوید: ص۵۱

۱۱۔اسباق:احمد جاوید :ص۶۰۲، ۷۰۲

۲۱۔ تصوف کے بارے میں کچھ بنیادی باتیں:احمد جاوید: (www.daanish.pk)

۳۱۔https://youtu.be/wxQHupHyz8U


شیخ الہندؒ کا قومی و ملی انداز فکر

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(مولانا ارشد مدنی سوشل میڈیا ڈسک کی طرف سے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں ’’عشرۂ شیخ الہندؒ‘‘ کا اہتمام کیا گیا۔ اختتامی نشست ۱٠ جنوری ۲٠۲۱ء کو دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کی زیرصدارت انعقاد پذیر ہوئی جس میں مہمان خصوصی ندوۃ العلماء لکھنو کے رئیس حضرت مولانا سید رابع ندوی دامت برکاتہم تھے۔)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے یہ انتہائی سعادت کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں ان کے افکار و تعلیمات کے فروغ کے لیے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں حاضری، بزرگوں کی زیارت اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بات میرے لیے دوہری سعادت کی ہے کہ اپنے دو مخدوم و محترم بزرگوں حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید رابع ندوی دامت برکاتہم کے زیرسایہ اس مجلس میں گفتگو کا اور ان کی برکات اور دعاؤں کے ساتھ کچھ عرض کرنے کا شرف مل رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کانفرنس کے منتظمین کو جزائے خیر سے نوازیں اور ہمیں حضرت شیخ الہندؒ کے افکار و تعلیمات اور ان کے مشن و جدوجہد کے صحیح ادراک کے ساتھ اپنے مستقبل کا پروگرام طے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے حوالے سے جب ہمارے حلقے میں بات ہوتی ہے تو میں دو باتیں عام طور پر عرض کیا کرتا ہوں۔ پہلی یہ کہ دیوبند کی تحریک کیا ہے؟ دیوبند کا فکر کیا ہے؟ دیوبند کا فلسفہ کیا ہے؟ دیوبند کا ہدف کیا ہے؟ اسے اگر کسی شخصی قالب میں دیکھنا چاہیں تو وہ حضرت شیخ الہندؒ کی ذات گرامی جس میں دیوبند کے فکر، فلسفہ، تعلیم، مشن اور جدوجہد کا ایک فرد کامل اور شخصیت کی شکل میں نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ میں دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ دیوبندیت کو اگر پہچاننا ہو کہ دیوبندی کیا ہے تو حضرت شیخ الہندؒ کا مطالعہ کریں کہ ان کی شخصیت میں دیوبندیت اپنے تمام شعبوں اور تمام تر لوازمات کے ساتھ جھلکتی ہے۔

دوسری بات یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ شیخ الہندؒ برصغیر کی ملی تاریخ کا سنگم ہیں۔ شیخ الہندؒ سے پہلے بلکہ خود حضرت شیخ الہندؒ تک ہمارے اکابر نے برصغیر کی آزادی کے لیے مسلح جنگیں لڑی ہیں جو تاریخ آزادی کا ایک مستقل باب ہے، حتٰی کہ وہ تحریک جسے ہم تحریک شیخ الہندؒ اور تحریک ریشمی رومال کہتے ہیں جبکہ جرمن وزارت خارجہ کی رپورٹوں کے مطابق اس کا نام ’’برلن پلان‘‘ تھا، حضرت شیخ الہندؒ نے جس انداز سے وہ تحریک منظم کی اور جو فلسفہ دیا وہ برصغیر کی آزادی کا ایک مکمل آئیڈیا تھا۔ اور حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت کو سنگم اسی حوالے سے کہتا ہوں کہ وہ عسکری تحریکات کی آخری شخصیت اور عسکری تحریکات سے برصغیر کے مسلمانوں کو عدم تشدد کی طرف موڑنے والی پہلی شخصیت تھے۔ انہوں نے عسکری جنگوں کے اس دور کا اختتام کر کے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو پراَمن تحریک، عدم تشدد  اور نئے دور کے تقاضوں سے متعارف کرایا، اور ایسی شخصیت بن گئے جو برصغیر کی تحریک آزادی کے ایک دور کا اختتام اور ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز ہے۔

حضرت شیخ الہندؒ کے مشن کے حوالے سے ایک تو ان کا تعلیمی دائرہ ہے، جو صرف تعلیم کے لیے نہیں تھا بلکہ ایک مقصد کے لیے تھا، میں اس کی طرف حضرت شیخ الہندؒ کے ہی الفاظ میں توجہ دلانا چاہوں گا اپنے آپ کو بھی اور آپ سب حضرات کو بھی کہ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کے ارشاد گرامی کا ذکر کیا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں جو ناکامیاں ہوئی تھیں، حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں کہ میرے استاد گرامی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ان ناکامیوں اور نقصانات کی تلافی کے لیے دیوبند کا مدرسہ بنایا تھا۔ ان نقصانات کی تلافی کا دائرہ کیا ہے؟ ذرا اس پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔

ہمارا یہ دائرہ علمی بھی ہے، فکری بھی ہے، ثقافتی بھی ہے، تہذیبی بھی ہے، سیاسی بھی ہے، اور معاشرتی بھی ہے۔ میں ۱۸۵۷ء سے پہلے کی نہیں بلکہ ۱۷۵۷ء سے پہلے کی بات کروں گا کہ ہماری پوزیشن کیا تھی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں قدم رکھا اور سراج الدولہؒ کو شہید کر کے برصغیر میں اپنی مداخلت کا آغاز کیا تھا، اس وقت سے لے کر ۱۸۵۷ء تک ایک دور ہے۔ ۱۸۵۷ء سے پھر براہ راست برطانوی استعمار آیا، تاج برطانیہ آگیا۔ اس کے بعد کا نوے سال کا دوسرا دور ہے۔ ان دونوں ادوار کو دیکھ لیں۔

۱۷۵۷ء سے پہلے ہماری پوزیشن کیا تھی؟سیاسی اعتبار سے تو میں اس موقع پر بات نہیں کر سکوں گا لیکن تعلیمی اعتبار سے عرض کروں گا جس کی طرف شیخ الہندؒ نے دوبارہ ہمارا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں درس نظامی ایک معروف نصاب رائج تھا جو صرف دینی علوم پر مشتمل نہیں تھا اس میں عصری علوم بھی شامل تھے۔ درس نظامی جو ملا نظام الدین سہالویؒ سے منسوب ہے اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور سے اس کا آغاز ہوا تھا اور اورنگزیب نے ہی لکھنو میں فرنگی محل کی یہ کوٹھی ملا نظام الدین سہالویؒ کو عطا کی تھی۔ وہاں سے درس نظامی کا آغاز ہوا تو اس وقت کی ضروریات کیا تھیں؟ حضرت شیخ الہندؒ کے تعلیمی ذوق کا پس منظر دیکھنے کے لیے اس بات پر غور کریں کہ درس نظامی کا آغاز جب ہوا تو اس وقت کا عمومی ماحول کیا تھا؟ عمومی ماحول یہ تھا کہ فارسی دفتری اور عدالتی زبان تھی، فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری ملک کا قانون تھا، اور یونانی فلسفہ پر مبنی معقولات ملک کی علمی و فکری زبان تھی۔ قرآن کریم، حدیث و سنت اور شریعت و فقہ کے ساتھ ساتھ فارسی زبان بھی ہماری تعلیم کا حصہ تھی، اور فقہ حنفی کو تو قانون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ اب بھی ہم فقہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، میں بھی الحمد للہ پڑھاتا ہوں، مگر ایک درسی اور علمی ضرورت کے دائرے میں، لیکن تب یہ قانون کے طور پر پڑھائی جاتی تھی اور یہ ہمارا تعلیمی سلسلہ چلا آرہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس نظام میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی دوسرے معاملات سنبھالے، مگر سیاسی نظام کو تبدیل کیا ۱۸۵۷ء کے بعد تاج برطانیہ نے۔ جب وہ یہاں قابض ہوئے اور نیا سسٹم بنایا تو ہم زیرو پوائنٹ پر چلے گئے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد برصغیر اور جنوبی ایشیا کے مسلمان زیرو پوائنٹ پر چلے گئے۔ ہم نے ازسرنو اپنی زندگی کا آغاز کیا، اس آغاز میں دین و ملت کے ایک بڑے بنیادی تقاضے کی نمائندگی دارالعلوم دیوبند نے کی اور دارالعلوم کا پہلا طالب علم حضرت شیخ الہند محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز تھے۔

میرے طالب علمانہ خیال کے مطابق حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی تعلیمی جدوجہد کا نقطۂ عروج اسی پہلے والے دور کی طرف واپسی کو قرار دیا کہ ہم ۱۷۵۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جائیں اور ہمارا تعلیمی نظام عصری و دینی دونوں تقاضوں پر مشتمل ہو۔ دینی و علمی تقاضوں پر بھی اور عصری تقاضوں پر بھی کہ اس وقت دونوں درس نظامی کا حصہ تھے۔ ہمارے ہاں پاکستان کے ماحول میں جب درس نظامی کے نصاب کو آگے بڑھانے کے بارے میں بات چلتی ہے تو ہمارے ذمے یہ بات لگا دی جاتی ہے کہ ہم نے دنیا اور دین کو تقسیم کر دیا اور ہم نے مولوی اور مسٹر کی تقسیم پیدا کر دی۔ میں کہا کرتا ہوں کہ نہیں بھئی! ہم نے یہ تقسیم نہیں کی۔ جب تک تعلیمی نظام درس نظامی کے ٹائٹل کے ساتھ مولوی کے ہاتھ میں تھا عصری اور دینی علوم اکٹھے پڑھائے جاتے تھے۔ یہ تقسیم ۱۸۵۷ء کے بعد ہم پر مسلط کی گئی ہے جب برطانوی استعمار نے نیا تعلیمی نظام بنایا تو اس میں سے کچھ علوم نکال دیے، قرآن کریم اور حدیث و سنت نکال دیے تھے، فقہ و شریعت نکال دی تھی، فارسی نکال دی تھی، عربی نکال دی تھی، اور ان کی جگہ اپنے علوم شامل کیے تھے۔ انہوں نے جو مضامین اور علوم نصاب سے نکالے وہ ہم نے سنبھال لیے۔ ہمارے بزرگوں نے اس اثاثے کو سینے سے لگایا اور بے سروسامانی اور بے سہارگی کی حالت میں اس نظام کو چلایا۔

میں بتایا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں کچھ عرصہ پہلے تک بلکہ میرے بچپن تک ایسا ہی تھا کہ مسجد کی چٹائیاں اور محلے کی روٹیاں، یہ ہمارا مدرسہ ہوتا تھا۔ اب تو بہت سی سہولتیں آگئی ہیں، تکلفات آ گئے ہیں۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ سہولتوں میں اضافہ فرمائے، لیکن تب کس بے مائیگی کی اور ظاہری سروسامان سے محرومی کی کیفیت میں اور کس ایثار و قربانی ، صبر و حوصلہ اور استقامت کے ساتھ ہمارے بزرگوں نے وہ نظام قائم رکھا۔ وہ علوم جو برطانوی استعمار نے ریاستی تعلیمی نظام سے نکال دیے تھے ،  ہمارے بزرگوں نے ان علوم کو سنبھالا۔ قرآن کریم اور حدیث رسول کو، شریعت اور فقہ کو، عربی کو، اور فارسی کو بھی ایک حد تک۔ اور صرف تعلیمی دائرے میں نہیں بلکہ عملی دائرے میں بھی۔ میں اس سے اگلی بات کرنا چاہوں گا کہ ایک ہے تعلیمی دائرہ کہ درس و تدریس ہوتی رہی، نہیں بلکہ عملی ماحول کو بھی باقی رکھا، آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے کے مدارس کے ماحول اور آج کے ماحول کا تقابل کر لیں، آپ کو لباس میں، وضع قطع میں، گفتگو میں، ادب و آداب میں، باہمی احترام و تعلق اور استفادے میں کوئی جوہری فرق نظر نہیں آئے گا۔ ہاں معیار کا فرق پڑتا ہے کہ کہاں حضرت ملّا نظام الدین سہالویؒ اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور کہاں ہمارے جیسے ناکارہ لوگ، لیکن ماحول کے بنیادی دائرے آج بھی وہی ہیں۔

میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک ہے تعلیم کا باقی رہنا، وہ تو ہے ہی، لیکن ہمارے لیے الحمد للہ جو فخر کی بات ہے کہ ان علوم کو بیرونی قابضین نے ختم کرنا چاہا تھا، ہمارے بزرگوں نے سینے سے لگایا اور گراس روٹ لیول پر چلے گئے، زمین پر بچھ کر انہوں نے ان علوم کو سنبھالا، اور اس اگلی بات کہ اس ماحول اور تہذیب کو بھی سنبھالا۔ جسے ثقافت اور کلچر کہتے ہیں، آج اگر دنیا میں اس پرانی ثقافت کا کوئی منظر دکھائی دیتا ہے تو جنوبی ایشیا میں ہی ہے۔ آج بڑی بڑی جگہوں پر وہ کلچر ختم ہو گیا اور جدید کلچر میں مدغم ہو گیا ہے لیکن ہمارے ہاں دینی مدرسہ کے ماحول نے، شیخ الہندؒ کے شاگردوں نے اور ان کے شاگردوں نے، ان کے خوشہ چینوں نے اس ماحول کو باقی رکھا ہوا ہے، الحمد للہ تعالیٰ۔

حضرت شیخ الہندؒ جب مالٹا کی اسارت سے واپس آئے تو انہوں نے دو باتیں کہیں، میں ان کی طرف آپ کی اور اپنی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ تحریک شیخ الہندؒ کے بعد ملک میں آزادی کے لیے جو پر اَمن تحریکیں چلی ہیں، عدم تشدد پر مبنی تحریکیں جس کا آج تک تسلسل چلا آ رہا ہے، ان شاء اللہ اسی کا رہے گا کہ یہ پر اَمن جدوجہد، عدم تشدد اور سیاسی جدوجہد کا دور ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے جو فکر فراہم کی اور اس فکر پر جو قیادت سامنے آئی میں اس کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ وہ قیادت مشترک تھی۔ تحریک خلافت کو دیکھ لیں کہ اس میں کون کون لوگ تھے؟ دیوبند اور علی گڑھ دونوں کی تربیت یافتہ مشترکہ قیادت تھی۔ شیخ الہندؒ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ ملی تحریکات کی قیادت مشترک ہونی چاہیے۔ یہ قیادت اتنی مشترک تھی کہ وزیرآباد میں، جو حضرت مولانا ظفر علی خانؒ کا شہر ہے، ان کی یاد میں ایک تقریب تھی۔ میں نے اس میں عرض کیا کہ یار دیکھو یہ حضرت شیخ الہندؒ کا کمال تھا کہ ظفر علی خانؒ جو علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے مگر مولانا کہلاتے ہیں ، محمد علی جوہرؒ جو یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے لیکن مولانا کہلاتے ہیں، اور مولانا شوکت علی کا بھی اسی انداز میں تعارف ہوتا ہے۔ تو شیخ الہندؒ کی فکر کی ایک پروڈکشن یہ بھی ہے کہ قیادت کو مشترک کر دیا، تحریک آزادی میں بھی، اور اگر ہم تحریک پاکستان کی بات کریں تو اس میں بھی قیادت مشترک نظر آئے گی۔ چنانچہ تعلیم کے اشتراک کی طرح قیادت کا اشتراک بھی حضرت شیخ الہندؒ کی محنت کا ثمرہ ہے۔ اور وہ باہمی نفرت جو پیدا کی گئی تھی اور کسی درجہ میں اب بھی ہے، اس باہمی منافرت کے باوجود علمی میدان میں دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور سیاسی قیادت کے میدان میں بھی دونوں کا اشتراک ہمارے سامنے ہے، آزادی سے پہلے بھی اور بعد بھی، میں اسے حضرت شیخ الہندؒ کی فکر ، دعاؤں اور تربیت کا ایک ثمرہ سمجھتا ہوں۔

حضرت شیخ الہندؒ کے حوالے سے میں ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا، یہ تعلیمی دائرے کی بات بھی ہے اور فکری دائرے کی بات بھی ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ کے شاگردوں نے جب ان کے دائرے کو آگے بڑھایا۔ مولانا برکت اللہ بھوپالیؒ، مولانا محمد میاں انصاریؒ نے اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے جب اس دائرے کو آگے بڑھایا تو میں ان کی علمی و فکری جدوجہد کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ مولانا محمد میاں انصاریؒ کے دو رسالے جو انہوں نے سیاسی فکر و فلسفہ کی تجدید کے لیے لکھے، ایک ’’انواع الدول‘‘ اور دوسرا ’’دستور اساسی ملت‘‘ کے نام سے۔اسے حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے شاگردوں کا کارنامہ سمجھیں کہ وہ دو رسالے مختصر سے ہیں، ایک انواع الدول کے نام سے کہ دنیا کی حکومتوں کا عصری سیاسی نظم کیسا ہے، اور دوسرا دستور اساسی ملت جس میں انہوں نے ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کا ٹائٹل استعمال کیا ہے، میں تفصیلات میں جائے بغیر میں حضرت شیخ الہندؒ کی فکر کا ایک نتیجہ بتا رہا ہوں کہ سیاسی فکر میں تجدید ہوئی کہ ہمارا ماضی کا سیاسی سسٹم مختلف تھا اور ہم کئی ادوار سے گزرے ہیں۔ خلافت راشدہ کا اپنا دائرہ تھا اور ہمارا سب سے مثالی اور آئیڈیل دور وہی ہے۔ اس کے بعد خاندانی خلافتیں آئی ہیں، بنو امیہ کی، بنو عباس کی، اور عثمانیوں کی۔ ہم خلافت کے طور پر ان سب کا احترام کرتے ہیں حتٰی کہ خلافت عثمانیہ پر طرح طرح کے اعتراضات کے باوجود ہم نے اس کا دفاع کیا اور اس کے تحفظ کے لیے جنگ لڑی۔ لیکن آج کا دور خاندانی حکومتوں کا نہیں ہے، ہمارا تسلسل بنو امیہ کی خلافت سے لے کر خلافت عثمانیہ کے آخر تک خاندانی خلافتوں کا رہا ہے، اب خاندانی حکومتوں کا دور نہیں رہا۔ اور ہمارے حلقے میں اس فکری تجدید کی بات اگر کسی نے کی ہے تو حضرت شیخ الہندؒ کے حلقے نے سب سے پہلے کی ہے۔ ’’انواع الدول‘‘ کے نام سے، ’’دستور اساسی ملت‘‘ کے نام سے، جبکہ ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کے عنوان سے اس کے اصول پیش کیے ، اور میں اسے شیخ الہندؒ کی فکر کی ایک نئی جہت تصور کرتا ہوں اور اسی حوالے سے اس کا تعارف کراتا ہوں۔

حضرت شیخ الہندؒ کے حوالے سے آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ الہندؒ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے، ذرا ان کی جدوجہد پر ایک نظر ڈالیے کہ وہ ہندوستان کی آزادی اور ہماری قومی آزادی کی تحریک تھی لیکن اس کا ایک ٹائٹل ’’جنود ربانیہ‘‘ کا تھا۔ اور اس ٹائٹل کے ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے رابطہ کس کس سے کیا؟ ہم خلافت عثمانیہ کی بات کرتے ہیں، اس زمانے میں مکہ مکرمہ کا جو ماحول تھا اور شریف مکہ کی حکومت کا معاملہ، میں اس تفصیلات میں نہیں جاتا، لیکن جو یادداشتیں برلن سے چھپی ہیں، دو سال پہلے جب میں دیوبند میں منعقدہ شیخ الہندؒ سیمینار میں آیا تھا تو میں نے بعض دوستوں سے عرض کیا تھا کہ ہم نے برطانوی سی آئی ڈی کی دستاویزات تو ’’تحریک شیخ الہندؒ‘‘ کے نام سے مرتب کر دی ہیں اور شائع ہو چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ اور حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ وہ رپورٹیں ہمارے سامنے آگئیں، لیکن اس میں جرمنی کا بھی ایک بڑا کردار تھا، میری نظر سے کچھ باتیں گزریں جس کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے کہ انہیں بھی ریکارڈ پر لانا چاہیے۔

جرمنی کی سی آئی ڈی کی رپورٹوں میں اس تحریک کا نام ’’برلن پلان‘‘ بتایا گیا ہے اور ان رپورٹوں کے مطابق اس میں جرمن کے علاوہ جاپان بھی شریک تھا۔  میں دوستوں کو توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ وہ دستاویزات بھی سامنے آنی چاہئیں۔ یہ جرمن وزارت خارجہ کے ایک افسر اولف شمل ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ یادداشتیں شائع کی ہیں۔ میں اس حوالے سے یہ بات کہنا چاہ رہا ہوں کہ حضرت شیخ الہندؒ نے وقت کی ضروریات و ترجیحات کا بھی خیال رکھا اور وقت کی قوتوں کا ماحول بھی دیکھا کہ کونسی قوت سے ہم کیا فائدہ لے سکتے ہیں؟ یہ قوموں اور ان کی تحریکات کی ضرورت ہوتی ہے، ہم ہر کسی کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور ہر کسی کو دھتکار نہیں سکتے۔

میں حضرت شیخ الہندؒ کے حوالے سے یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ انہوں نے عالمی سوچ دی ہے۔ ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات کے درمیان ملی سوچ دی ہے اور مفاہمت پیدا کی ہے، مختلف ملکوں کے درمیان روابط پیدا کر کے عالمی فکر کو اجاگر کیا ہے۔ اسلام تو خود عالمی مذہب ہے جو ’’یا ایھا الناس‘‘ سے اپنا خطاب شروع کرتا ہے اور پوری انسانیت کا مذہب ہے۔ اسلام نے پوری نسل انسانی کی رہنمائی کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور اس کا وقت پھر آنے والا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ قرآن کریم آج بھی اسلام کی تفہیم اور دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے  اور انسانی مسائل کے حل کا سب سے بڑا منبع ہے۔ انسانی سماجیات کے مسائل کا قرآن کریم نے جس فطری انداز میں حل پیش کیا ہے آج ایسا کوئی فارمولا کسی کے پاس نہیں ہے۔ چنانچہ ہمیں شیخ الہندؒ کے اس ارشاد کی طرف واپس جانا ہو گا جو انہوں نے مالٹا کی اسارت سے واپس آ کر کہا تھا کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھو اور قرآن کریم کے حلقے عام کرو۔

حضرت شیخ الہندؒ نے بنیادی پیغام یہ دیا تھا کہ آپس کے اختلافات کم کر کے ملی ماحول پیدا کرو اور قرآن کریم کے ساتھ فہم کا تعلق قائم کرو۔ حضرت شیخ الہندؒ کی اس آواز کے بعد قرآن کریم کے حلقے قائم ہونا شروع ہوئے۔ نظارۃ المعارف القرآنیہ جو دہلی میں قائم ہوا، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا حلقہ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا ادارہ، اور مختلف قرآنی حلقے بنے۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے حضرت شیخ الہندؒ کی اس آواز پر لبیک کہہ کر درس قرآن کریم کے متعدد حلقے قائم کیے۔ اسی طرح میرے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کا قرآن کریم کا مستقل حلقہ تھا۔ میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ قرآن کریم کی طرف رجوع اور قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق اور یہ بات کہ قرآن کریم کو سماجی راہنما کے طور پر پڑھا جائے۔ قرآن کریم اور سنت رسول ہمارا مرکز و مرجع ہیں، داخلی طور پر قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق اور دنیا کے سامنے قرآن کریم کو سماجی راہنما کے طور پر پیش کرنا آج ہماری ذمہ داری ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کا ہم نام لیواؤں پر قرض ہے۔

میں برصغیر میں دو ہی شخصیتوں کا نام لیا کرتا ہوں فکری و علمی اور سماجی راہنمائی کے طور پر، ایک حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے بعد میرے ذہن میں دوسرا نام حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ کا آتا ہے۔ ان کا ہم پر قرض ہے کہ جس زبان میں انہوں نے دنیا کو قرآن و حدیث سمجھائے ہیں ہم وہ زبان سیکھیں، وہ ذوق سیکھیں، وہ اسلوب پیدا کریں، اور حضرت شیخ الہندؒ کے فکر و فلسفہ کے مطابق قرآن کریم کو، سنت رسول کو، فقہ و شریعت کو دنیا کے سامنے پیش کریں، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ جس طرح ہمارے ماضی کے راہنما تھے اسی طرح ہمارے مستقبل کے راہنما بھی ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے علوم و افکار کے صحیح ادراک کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اور ملت کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

عورت کا سماجی کردار اور خاندانی حقوق و فرائض

مولانا حافظ عبد الغنی محمدی

جدیدیت اور قدامت کی کشمکش میں عورت کا معاشرتی کردار دور حاضر کا اہم سوال ہے  ۔ عورت کو خانگی امور تک محدود رہ کر گھر اور خاندان میں کردار اداء کرنا چاہیے یا اس کو باہر نکل کر معاشرتی زندگی کے دیگر امور میں بھی کردار ادا کرنا چاہیے ؟  یہ سوال روایت میں زیادہ زیر بحث نہیں رہا بلکہ بنیادی طور پر جدیدیت کی کوکھ سے جنم لینے والا ہے ۔ جدیدیت کے طرفدار بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ روایت میں بہت وسعت تھی۔ عورتوں کے حوالے سے بہت سےاحکام ہم نے جدیدیت کے زیر اثر قبول کیے ہیں ۔ لیکن اسلام ہو یا  دیگر مذاہب اور تہذیبیں ، عورت کا  کردار ما قبل جدید معاشروں میں محدود ہی رہا ہے ۔ گھر سے باہر مجموعی طور پر عورتوں کا معاشرتی زندگی میں کردار نہیں تھا ۔طویل زمانے  کی معاشرت کے بعد عورتیں غالب تہذیب کے زیر اثر جب گھر سے باہر کی زندگی میں کردار ادا کرنے لگی ہیں تو گھر اور باہر دونوں قسم کی زندگی کا متاثر ہونا اور ان میں مسائل کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔  یہ مسائل ہر تہذیب اور مذہب کے لئے جداگانہ نوعیت کے ہیں ۔ مسلم معاشروں میں بھی اس رحجان کا غلبہ ہے کہ عورتیں گھر سے باہر کی زندگی میں کردار ادا کررہی ہیں ۔ مسلم مفکرین اور علماء نے ایک زمانے تک اس کی مختلف خدشات کی بنا پر مخالفت کی، لیکن آج  وہ اس سے پیدا ہونے مسائل  ڈسکس کرر ہے ہیں یا گھر سےباہر کی زندگی میں عورت دائیں بازو کے لیے کیا کردار ادا کرسکتی ہے، اس کی تیاریوں میں ہیں۔

مولانا مودودی دور حاضر  کے عظیم مفکر ہیں، وہ ان سب چیزوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں   ؟ مولانا مودودی روایتی میدان میں رہتے ہوئے  انہی تشریحات کو نئے معانی پہناتے ہیں اور دور حاضر کے  فکر و فلسفے کے مطابق اسی کو مقبول بناتے ہیں ۔ عورت کے بارے اسلامی تصورات  پر بہت سی جگہوں پر سوالا ت پیدا ہوتے ہیں ، ان کی فکر پر یقینا بعض جگہوں پر سوال اٹھیں گے اور ان کی بعض تعبیرات بہت خوبصورت معانی پہنے ہوں گی ۔ ان کی فکر کے مطالعہ سے عورتوں کے بارے ان کے تصورات کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس میں قانونی اور فقہی مسائل بھی زیر بحث آئیں گے اور معاشرتی و سماجی مسائل بھی ۔

مرد کی عورت پر فضیلت

قرآن و حدیث کی بعض نصوص سے پتہ چلتاہے کہ  مرد عورت سے افضل ہے اور عورت اس کے تابع ہے ۔ موجودہ دور میں بہت سے علماء کرام ان آیات میں تاویل کرکے ان کو نئے معانی  پہنا کر موجودہ دور کی فکر کے مطابق بنانا چاہتے ہیں  کہ مردو زن میں مساوات ہے، اسلام ان میں کوئی فرق نہیں کرتا ۔ مولانا مودودی ان نصوص کو انہی معانی کے مطابق دیکھتے ہیں جن کے تحت ان کو روایت میں دیکھا گیا ہے ۔ مجموعی طور پر نصوص کو دیکھا جائے تو یہی روایتی فہم ہی درست ہے، ان کی جدید تعبیر ان کو مجموعی فکر سے کاٹ دینے والی بات ہے ۔ جن نصوص سے مساوات پر زد پڑتی ہے، ان کومولانا مودودی کیسے دیکھتے ہیں، ذیل میں ان کا مطالعہ پیش کیا جاتاہے ۔

مولانا مودودی مردو زن کی مساوات کےبارے کہتے ہیں کہ جن چیزوں میں مساوات ہوسکتی ہے اور جس حد تک مساوات قائم کی جاسکتی تھی ، وہ اسلام نے قائم کردی ہے ۔ لیکن اسلام اس مساوات کا قائل نہیں ہے جو قانون فطرت کے خلاف ہو ۔ انسان ہونے  کی حیثیت سے جیسے حقوق مرد کے ہیں ویسے ہی عورت کے ہیں ۔ لیکن زوج فاعل ہونے کی حیثیت سے ذاتی فضیلت (بمعنی عزت نہیں بلکہ بمعنی غلبہ تقدم )مرد کو حاصل ہے، وہ اس نے پورے انصاف کے ساتھ مرد کو عطا کی ہے ۔ "وللرجال علیھن درجۃ" 1 اسی طرح عورت اور مرد میں فاضل اور مفضول کا فطری تعلق تسلیم کرکے اسلام نے خاندان کی تنظیم حسب ذیل قواعد پر کی ہے ۔

خاندان میں مرد کی حیثیت قوام کی ہے ، یعنی وہ خاندان کا حاکم ہے ، محافظ ہے ، اخلاق اور معاملات کا نگران ہے ۔ اس کی بیوی اور بچوں پر اس کی اطاعت فرض ہے ۔ اور اس پر خاندان کے لئے روزی کمانے اور ضروریات زندگی فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے ۔ "الرجال قوامون علی النساء بمافضل اللہ بعضھم علی بعض و بما انفقوا من اموالھم" 2 "الرجل راع علی اھلہ و ھو مسئول" 3 اسی طرح عورت گھر سے باہر مرد کی اجازت سے نکل سکتی ہے ۔ حدیث میں ہے کہ عورت جب بغیر اجازت  کے خاوند کے گھر سے نکلتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔عورت کی اصلاح کا حکم مرد کو دیا گیا ہے ، اگر عورت میں نشو ز و نافرمانی دیکھے تو اس کی اصلاح کا کوئی سا طریقہ اپنا سکتاہے ۔ "اور جن بیویوں سے تم کو سرکشی و نافرمانی کا خوف ہو ان کو نصیحت کرو ، خواب گاہوں میں ان سے ترک تعلق کرو ، پھر بھی باز نہ آئیں تو مارو ، پھر اگر وہ تمہاری اطاعت کریں تو ان پر زیادتی کرنے کے لئے کوئی بہانہ نہ ڈھونڈو"4۔ 5

مولانا مودودی کہتے ہیں کہ مرد و زن کے احکامات میں بھی فرق ہے ۔اس کو ایسا کوئی حکم نہیں دیا گیا جس میں گھر سے باہر نکلنا پڑے ۔ اس کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ہے، کسب مال کی ذمہ داری اس کے شوہر پر ہے اور اس مال سے گھر کا انتظام کرنا اس کا کام ہے ۔اسی طرح عورت محرم کے بغیر اکیلی سفر پر نہیں جاسکتی ، یہاں تک  کہ حج پر بھی نہیں جاسکتی ۔ جماعت کی نماز اس پر واجب نہیں ہے ۔ جمعہ اس  پر فرض نہیں ہے ۔ جہاد اس پر فرض نہیں ہے ۔ ان تمام احکامات میں فرق کی وجہ یہی ہے کہ دونوں کی ذمہ داریاں الگ ہیں ۔6 مولانا مودودی نصوص کو موجودہ دور کے تناظر میں نہیں دیکھتے ہیں بلکہ موجودہ دور کو نصوص کے تناظر میں دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ نصوص فطرت ہیں اور ان سے ہٹ غیر فطری زندگی ہے جس کا غالب تہذیب شکار ہوچکی ہے ۔

عورت کا معاشرتی کردار

مولانا مودودی نے اس رحجان کی وکالت کی کہ عورت کا اصل مقام گھر ہے ، اس  کو گھر میں رہنا چاہیے اور  گھر کی زندگی میں کردار ادا کرنا چاہیے ۔ اس کے لئے انہوں نے نصوص سے بھی مختلف انداز میں استدلال کیا  ہے۔ عورت کے گھریلو کردار کی اہمیت اور خوبیوں کو اجاگر کیا ،   اور جدید رحجان کے زیر اثر گھر اور معاشرے میں  پیدا ہونے والی خرابیوں کو  واضح کیا  ہے۔

مولانا مودودی کا کہنا  ہے کہ عورت کے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنے اور معاشرتی امور میں حصہ لینے سے گھر داری اور خانگی نظام تباہ ہوجائے گا  ، یا عورت پر دوہرا بار ڈال دیاجائے گا کہ وہ اپنے فطری فرائض بھی انجام دیں جن میں مرد قطعا شریک نہیں ہوسکتا اور پھر مرد کے فرائض کا بھی نصف حصہ اٹھائیں ۔  عملا یہ دوسری صورت ممکن  نہیں ہے،  لازما پہلی صورت ہی رونما ہوگی اور مغربی ممالک کا تجربہ بتاتا ہے  کہ وہ رونما ہوچکی ہے۔ 7

مولانا مودودی کی کی یہ بات درست ہے۔ گھر داری ، خانگی امور اور خاندانی نظام کو اچھی طرح چلانے کے لئے پورے وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور مغرب جہاں عورت معاشرتی امور میں حصہ لیتی ہے، ان کا خاندانی نظام تباہ ہوچکا ہے ۔ عورت کا معاشرتی امور میں حصہ لینا دو وجہوں کی بنیاد پر ہوسکتاہے ۔ ایک تو معاشرے کو عورت کی خدمات کی ضرورت ہے ، ملکی تعمیر و ترقی میں ملک کی نصف آبادی کو بے کار چھوڑ دینا درست نہیں ہے ۔ دوسرا عورت بھی معاشی طور پر خود کفیل ہو تاکہ مرد کی کفالت کے زیر اثر جو خرابیاں جنم لیتی ہیں، ان کا ازالہ ہوسکے ۔ معاشرتی امور میں حصہ لینے کی جو دوسری بنیاد ہے، اس کا حل پیش کرنے میں ہمارا خاندانی نظام ناکام ثابت ہورہا ہے ۔ عورت کا استحصال مختلف شکلوں میں آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے مولانا۔ مودودی صرف مغرب کے خاندانی نظام کو موضوع بحث بناتے ہیں لیکن مشرق کے خٰاندانی نظام کی تباہی کا ذکر کرتے ہیں نہ ہی اس کی اصلاح کے ممکنہ پہلوؤں کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔

مسلم ممالک میں خاندانی نظام کا جو حال ہے مولانا اس پر صرف یہ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ مسلمان یورپ  و مغرب کی نقالی میں غرق ہیں اس لئے یہ دنیا کے رہنما نہیں بن پارہے یا ان کے ہاں بھی مسائل ہیں ۔ مغربی تہذیب نے  خاندان  کے ادارے میں بہت بنیادی تبدیلیاں کیں، اس کی وجوہات و اسباب کو صرف خواہشات اور نفس پرستی جیسی چیزوں سے جوڑ دینا سماج کے مطالعہ کا درست رویہ نہیں ہے ۔ ہمارے ہاں خاندان کا ادارہ مغربی تہذیب کی طرف جن چیزوں میں بڑھ رہا ہے، اس میں تہذیب جدید اور غالب تمدن کی نقالی کو ہی آخری حیثیت نہیں بلکہ اس کے علاوہ معاشرےمیں موجود اس کی وجوہات و اسباب پر غور کرنا چاہیے ۔

مولانا مودودی اس معاملے میں بیشتر جگہوں پر اصول فطرت کو دلیل بناتے ہیں کہ مردو  عورت کو فطری طور پر کچھ کاموں کے لئے پیدا کیاگیا ہےاور وہ انہی مخصوص کاموں کو کرنے کے اہل ہیں۔ اگر اسی میدان میں رہیں گے تو نظام ٹھیک چلتا رہے گا اگر اس سے ہٹ کر چلیں گے تو نظام خراب ہوجائے گا۔  مولانا مودودی کی تنقید کو سمجھنے کے لئے ان  کی کتابوں سے کچھ عبارات کا مطالعہ ذیل میں پیش کیا جاتاہے ۔

"مرد کے دائرہ عمل میں آکر عورتیں کبھی مردوں کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکتیں ، اس لئے کہ وہ ان کاموں کے لئے بنائی ہی نہیں گئی ہیں ۔ ان کاموں کے لئے جن اخلاقی و ذہنی اوصاف کی ضرورت ہے وہ درا صل مرد میں پیدا کئے گئے ہیں ۔ عورت مصنوعی طور پر مرد بن کر کچھ تھوڑا بہت ان اوصاف  کو اپنے اندر ابھارنے کی کوشش کرے بھی تو اس کا دہرا نقصان خود اس کو بھی ہوتا ہے اور معاشرہ کو بھی ۔ اس کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ نہ پوری عورت رہتی ہے نہ پوری مرد بن سکتی ہے اور اپنے اصل دائرہ عمل میں جس کے لئے وہ فطرتا پیدا کی گئی ہے ناکام رہ جاتی ہے ۔ معاشرہ اور ریاست کا نقصان یہ ہے کہ وہ اہل کارکنوں کے بجائے نااہل کارکنوں سے کام لیتا ہے اور عورت کی آدھی زنانہ اور آدھی مردانہ خصوصیات سیاست اور معیشت کو خراب کرکے رکھ دیتی ہیں "۔ 8

سیاست اور ملکی انتظام اور فوجی خدمات اور اسی طرح کے دوسرے کام مرد کے دائرہ عمل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس دائرے میں عورت کو گھسیٹ لانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہماری خانگی زندگی بالکل تباہ ہوجائے گی ۔ 9

اسی فکر کے تحت مولانا مودودی نے عورت کی حمل ، حیض  و نفاس اور دیگر حالتوں کا ذکر کیا  ہے اور مختلف ماہرین فن کے بیانات سے ثابت کیا ہے کہ ان حالات میں عورت میں مختلف قسم کی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کی بنا پر وہ  ٹھیک طرح کام نہیں کرپائے گی ۔ اگر چہ مولانا مودودی نے اس کی جو مثالیں دی ہیں، وہ مبالغہ پر مبنی  ہیں کہ ایک عورت  جو ٹرام کی کنڈکٹر ہے، اس زمانہ میں غلط ٹکٹ کاٹ دے کر دے گی اور ریز گاری  گننے میں الجھے گی ۔ ایک موٹر ڈرائیور عورت گاڑی آہستہ اور ڈرتے ڈرتے چلائے گی اور ہر موڑ پر گھبرائے گی ۔ ایک لیڈی ٹائپسٹ غلط ٹائپ کرے گی  ۔ کوشش کے باوجود الفاظ چھوڑ جائے گی ، کسی حرف پر انگلی مارنی چاہے گی اور ہاتھ کسی پر جاپڑے گا ۔ ایک گانے والی عورت اپنے لہجہ اور آواز کی خوبی کو کھود ے گی حتی کہ ایک ماہر نطقیات محض آواز سن کر بتادے گا کہ گانے والی اس وقت حالت حیض  میں ہے۔ 10 لیکن ان حالات میں تبدیلیاں رونما ہونا یقینی امر ہے جس کا اثر کاموں پر بھی پڑتا ہے۔

مغربی تہذیب میں جہاں عورت کو معاشی آزادی  دی گئی اور وہ معاشرتی امور میں حصہ لیتی ہے، وہاں عورت مرد بن چکی ہے۔ اپنے نسوانی کاموں سے دستبردار ہوچکی ہے ، ازادواجی زندگی کی ذمہ داریاں ، بچوں کی تربیت خاندان کی خدمت ، گھر کی تنظیم ، ساری چیزیں اس کے لائحہ عمل سے خارج ہوگئیں بلکہ ذہنی طور پر وہ اپنے اصلی فطری مشاغل سے متنفر ہوگئی ہے اور اس کی ایک ہی فکر ہے کہ اس کو ہر کام میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنا ہے۔ گویا حقوق نسواں کی تحریک میں مرد عورتوں کا آئیڈیل بن کر سامنے آئے ہیں۔ عورتوں کو مردوں جیسی زندگی چاہیے، مردوں جیسا کام چاہیے، مردوں جیسا لباس چاہیے، جبکہ مرد عورتوں جیسے زندگی ، لباس اور کاموں میں عزت محسوس نہیں کرتے ۔

مولانا مودودی مغربی سماج پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہاں عورت کو یا تو لونڈی سمجھا گیا یا آزادی کے بہانے ایک ایسا سماج قائم کیا گیا جو شہوت پرستی پر مبنی تھا ۔ مغرب میں شہوانی تعلق کے سوا مرد اور عورت کے درمیان کوئی ایسا احتیاجی ربط باقی نہیں رہا ہے جو انہیں مستقل وابستگی پر مجبور کرتا ہو ۔ اس لئے مناکحت کے رشتہ میں اب کوئی پائیداری نہیں رہی ۔ مولانا تنقید کے دوران  ایسی باتیں بھی کہہ دیتے جونہ صرف درست نہیں بلکہ اخلاقیات سے گری ہوئی ہیں ۔  مغربی تہذیب میں شرم و حیاء اور عفت و عصمت کا ایک تصور موجود ہے جو  ہمارے تصور سے جدا ہے لیکن مولانا مودودی اس سارے سماج کو ایک ایسے سماج کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جہاں شرم و حیا اور عفت و عصمت جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں آج اہل کتاب کی عورتوں پر محصنات ہونے کا اطلاق مشکل ہی ہوسکتاہے۔ 11  ضرورت اس چیز کی ہے کہ ہم  اپنے خاندانی نظام کا بھی ازسر نو جائزہ لیں اور غالب تہذیب کی جانب سے جو چیزیں ہمارے معاشروں کا حصہ بن چکی ہیں اس بارے بھی غور و فکر کریں کہ ان کو زیادہ بہتر انداز میں کس طرح مینج کیا جاسکتاہے ۔

مولانا مودودی معاشرے کے عملی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرپاتے ۔ باوجود اس  کے ان کی مجموعی فکر یہی ہے کہ عورت کا مقام گھر ہے ، اس کو معاشرے کی عملی زندگی میں حصہ نہیں لینا چاہیے ۔ بعض جگہوں پر اس کے برعکس کہتے ہیں ، لیکن اپنی بات کو مکمل طور پر واضح نہیں کرتے ہیں۔ مجمل سے انداز میں یہ تو کہہ دیتے ہیں کہ فطرت ان سے الگ الگ کام لینا چاہتی ہے، لیکن اس الگ کی تفصیلات کیا ہوں گی اور اس کو کس اندا ز میں کیا جائے، ان چیزوں پر روشنی نہیں ڈالتے ہیں۔  کبھی عورتوں کے لئے بھی مردوں جیسی مساوات اور یکساں مواقع کی بات کرتے ہیں ۔  مثلا فرماتے ہیں

"مرد و عورت کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع ملنے چاہیے ، تعلیم  و تربیت ، حقوق مدنیت، معاشی و تمدنی حقوق ان تمام چیزوں میں مساوات ضروری ہے۔  جن قوموں نے اس قسم کی مساوات سے انکار کیا ہے ، جنہوں نے اپنی عورتوں کو جاہل ، ناتربیت یافتہ ، ذلیل اور حقوق مدنیت سے محروم رکھا ہے وہ خود پستی کے گھڑے میں گر گئی ہیں کیونکہ انسانیت کے پورے نصف حصہ کو گرادینے کے معنی خود انسانیت کو گرا  دینے کے ہیں ۔ ذلیل ماؤ ں کی گودیوں  سے عزت والے ، نا تربیت یافتہ ماؤں کی آغوش سے اعلی تربیت والے اور پست خیال ماؤں کے گہوارے سے اونچے خیال والے انسان نہیں نکل سکتے ۔ فطرت کا مقصود ان دونوں سے ایک جیسے کام لینا نہیں ہے ۔ دونوں کی جسمانی و نفسی کیفیات مختلف ہیں ۔" 12

ایک دوسری جگہ پر ایک سوال کا جواب کے جواب میں عورت کی معاشی خود مختاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ عورت کاروبار کرسکتی ہے، ملازمت کرسکتی ہے لیکن اس ملازمت کا دائرہ صرف خواتین تک محدود ہونا چاہیے ۔

بی بی سی نے مولانا مودودی کے انٹرویو میں ان سے سوال پوچھا کہ مغربی سوسائٹی میں طلاقوں کی کثرت عورتوں کےلئے  کچھ زیادہ مسئلہ نہیں ۔ کیونکہ وہ معاشی طور پر آزاد ہیں اور مرد کی محتاج  نہیں ہیں ۔ جبکہ اسلامی معاشرہ میں عورت کی یہ پوزیشن نہیں ہے   ۔ مولانا مودودی اس کے جواب میں کہتے ہیں  کہ  آپ کو معلوم نہیں ہے کہ مسلمان عورت اپنے باپ سے ورثہ پاتی ہے ، اپنے شوپر سے اور اپنے بیٹے سے بھی اس کو حصہ ملتاہے ۔اس طرح جس شکل میں بھی اسے کوئی ورثہ ملتاہے ، وہ اس کی خود مالک ہوتی ہے اور اس کا شوہر ، باپ ، بیٹا یا کوئی اور شخص اس کو اس سے محروم نہیں کرسکتا ۔ اسی طرح ایک مسلمان عورت کاروبار کرسکتی ہے اور ان اداروں میں ملازمت کرسکتی ہے جن کا دائرہ خواتین تک محدود ہے۔ 13

ایک اور عبارت میں عورت کے گھر سے نکلنے کو صرف مجبوری کی صورت میں منظور کرتے ہیں جس کا دائرہ رخصت ہے ۔ اس کی تعلیم و تربیت کی نوعیت بھی ایسی ہونی چاہیے کہ وہ گھر کے نظام بہتر طور پر چلاسکے ۔  

"حالات ضروریات  سے عورت گھر سے باہر نکل سکتی ہے عورت کا دائرہ عمل اس کا گھر ہے  یہ محض ایک وسعت اور رخصت ہے اس کو اسی حیثیت میں رہنا چاہیے ۔ عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اس کو ایک بہترین بیوی بہترین ماں اور بہترین  گھر والی بنائے "۔14

مولانا کی  یہ عبارات ان کے فکری خلفشار کا بھی ثبوت ہیں کہ ایک طرف وہ مغربی تہذیب اور  نظام کی مخالفت میں ا س سے ہٹ کر نقطہ نظر دینا چاہتے ہیں جبکہ عملی مجبوریوں اور موجودہ دور کے سوالات کو بھی نظر انداز نہیں کرپاتے  ہیں اور ان کے ساتھ ہم آہنگی کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔

عورت کے لئے پردہ

مولانا مودودی چہرے کے پردے کے قائل ہیں لیکن باقی جسم اور چہرے میں فرق کرتے ہیں ۔ چہرے اور نقاب کے باب میں ویسے قطعی احکام نہیں جیسے ستر پوشی اور اخفائے زینت کے باب میں دیے گئے ہیں۔ بوقت ضرورت کھول سکتی ہے۔

"ولا یبدین زینتھن" میں جس زینت کا بیان ہے، وہ ستر کے ماسوا ہے ۔ اس کو محرم رشتہ داروں یا ایسے لوگوں کے سامنے کھولنے کی اجازت دی گئی جو عورتوں کی خوبیوں سے آشنا نہیں ہوتے ہیں ۔اب زینت کا اظہار جس چیز سے بھی ہو اوہ منع ہے ۔ الا ما ظہر منھا سے مراد ایسی زینت ہے جو اضطرارا ظاہر ہوجائے یا جس کو ضرورت کے پیش  نظر ظاہر کرنا پڑجائے۔ 15

چہرے اور ہاتھوں کے پردے کے بارے ایک جگہ کہتے ہیں کہ اس   کا فیصلہ مسلمان عورت  جو خدا رسول کے احکامات کی پابند ہے ، جس کو فتنے میں مبتلا ہونا منظور نہیں ہے ، وہ خود فیصلہ کرسکتی ہے کہ چہرہ اور ہاتھ کھولے کہ نہیں ۔ کب کھولے کب نہ کھولے ، کس حد تک کھولے اور کس حد تک چھپائے ، اس باب میں قطعی احکام نہ شارع نے دیے ہیں ، نہ اختلاف احوال و ضروریات کو دیکھتے ہوئے یہ مقتضائے حکمت کہ قطعی احکام وضع کئے جائیں ۔ بلا ضرورت قصدا کھولنا درست نہیں ہے ۔ اپنا حسن دکھانے کے لئے بے حجابی کی جائے تو یہ گناہ  ہے ۔ باقی شارع اس کو پسند نہیں کرتاہے شارع کی پسند یہی ہے کہ چہرہ کو چھپایا جائے ۔ 16

عورت کا حق حکمرانی

عورت کے حق حکمرانی کو مسلمان ملکوں میں عملی طور پر تسلیم کیا جاچکا ہے ۔ اصولی طور پر بھی نصوص میں تاویل کی راہ اپناتے ہوئے  علماء کی اکثریت اس کو تسلیم کرچکی ہے ۔مولانا مودودی اس مقام پر نصوص کی اتباع میں کھڑے ہیں اور ان کے مطابق ہی اس مسئلہ کو دیکھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک عورت نہ صرف حکمران نہیں بن سکتی بلکہ کسی بھی اہم اور کلیدی  عہدے پر کام نہیں کرسکتی ہے ۔ مولانا مودودی نصوص میں جس قدر عموم پیدا کررہے ہیں، یہ بھی خالص اجتہادی نوعیت کی چیز ہے ۔ نصوص کے پس منظر میں عورت کی حکمرا نی ہے اور روایت میں بھی اس کا ہی ذکر ہور ہا ہے جبکہ مولانا اس میں توسع کرتے ہوئے اس کو ہر معاملے پر لاگو کردیتے ہیں ۔

"الرجال قوامون علی النساء۔17 لن یفلح قوم ولو اامرھم امراۃ" 18 یہ دونوں نصوص اس باب میں قاطع ہیں کہ مملکت  میں ذمہ داری کے مناصب خواہ وہ صدارت ہو یا وزارت یا مجلس شوریٰ کی رکنیت یا مختلف محکموں کی ادارت عورتوں کے سپر نہیں کئے جاسکتے۔ اس لئے کسی اسلامی ریاست کے دستو ر میں عورتوں کو یہ پوزیشن دینا یا اس کے لئے گنجائشیں رکھنا نصوص صریحہ کے خلاف ہے۔19

ایک سے زائد شادیاں

ایک فرد کو کتنی شادیاں کرنی ہیں ، اسی طرح اس کے بچے کتنے ہونے چاہیے، اس بارے مولانا مودودی کی فکر کا حاصل یہ ہے کہ  قرآن کریم میں اس کا خطاب افراد سے ہے اور یہ افراد کی مرضی پر موقوف ہے۔ نظم اجتماعی سےیہ خطاب نہیں  ہے کہ وہ افراد کی آزادی میں دخل انداز ہو ۔ بیوی بچوں کی تعداد مقرر کرنے کا حق ریاست کو  نہیں ہے ۔ فرد کو اس کی اجازت دی گئی ہے اس کے بعد اس کی اپنی ضروریات زندگی اور اس چیز پر موقوف ہے کہ عدل کرسکتا ہے کہ نہیں۔20 مولانا نظم اجتماعی کو یہ حق نہیں دیتے ہیں کہ وہ ان چیزوں میں دخل دے ۔

عورت کا حق خلع

جس طرح مرد عورت کو طلاق دے کر رشتہ ازدواج کو ختم کرسکتا ہے، اسی طرح عورت خلع لے کر مرد سے جدا ہوسکتی ہے ۔لیکن مرد طلاق دینے میں خود مختار اور آزاد ہے جبکہ عورت کے خلع کے لئے فقہاء کرام نے شرائط مقرر  کی ہیں جن کی موجودگی میں ہی صرف خلع ہوسکتاہے، ان کے بغیر خلع نہیں ہوسکتا۔ جامعہ علوم اسلامیہ  بنوری ٹاؤن  کےبعض فتاویٰ میں خلع کی درج ذیل شرائط لکھی گئی ہیں ۔

خلع ایک معاملہ ہے، اس میں مرد کا رضا مند ہونا ضروری ہے ۔ اگر مرد رضا مند نہ ہو تو عورت علاقے کے معززین کے ذریعے طلاق کی کوشش کرے ۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو عورت عدالت میں تنسیخ نکاح کا دعویٰ کرے گی ۔ اسے معتبرگواہوں کے ذریعہ شوہر کے ظلم کو ثابت کرنا ضروری ہوگا۔ تمام ثبوت کی فراہمی کے بعد  عدالت اگر تنسیخِ نکاح کا فیصلہ کرتی ہےتو نافذ ہوگا ۔ ورنہ عدالت کا یہ فیصلہ نافذ نہیں ہوگا۔ 21

یعنی عدالت میں خلع کا مقدمہ نہیں ہوگا بلکہ تنسیخ نکاح کا مقدمہ ہوگا اور اس میں بھی چند عذرایسے ہیں جن کی بناء پر تنسیخ نکاح ہوسکتی ہے مثلاً بیوی کا نان ونفقہ  اور حقوق زوجیت ادا کرنا وغیرہ۔اگر ان کو ثابت کرتی ہے تو خلع ہوگا ورنہ نہیں۔ اور اس کے علاوہ اگر عدالت فیصلہ دے بھی دے، تب بھی نافذ نہیں ہوگا ۔   اس لحاظ سے طلاق کے ساتھ خلع کا تمام اختیار بھی خاوند کے پاس آجاتاہے- اگر چاہے تو اس کومنظور کرے چاہے منظور نہ کرے۔ جبکہ شریعت میں طلاق کااختیار مرد کے پاس  ہے اور اگر اس اختیار میں کوئی کمی بیشی یا ظلم کا عنصر پایاجائے تو عورت کو خلع کا اختیار دیاگیا ہے ۔ اگر یہ اختیار بھی خاوند کے اختیار اور رضا مندی کے ساتھ مشروط ہوجاتاہے تو عورت کے پاس اختیار کیسا    ؟

 خلع کے بارے حضرت ثابت بن قیس کی بیوی کی روایت میں ہے کہ انہوں نے فرمایا، میں ان پر کسی عیب کی تہمت نہیں لگاتی، لیکن میں اسلام میں کفر ناپسند کرتی ہوں یعنی ان کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی ہوں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نےان سے حضرت ثابت کے دیے باغ کو واپس کرواکر حضرت ثابت  کو طلاق کا حکم دیدیا۔22 اس روایت میں اللہ کے نبی ﷺ نے ان کے بیان کو کافی سمجھا اور مزید اس کی تحقیق نہیں کی کہ وہ کیوں طلاق لینا چاہتی ہیں ۔

ابوداؤ د اور ترمذی شریف کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا " جس عورت نے اپنے خاوند سے بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کیا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے "۔ 23 لیکن اس روایت میں اس مزاج کی نفی کی گئی ہے اور ایسی عادت اور رویہ کے بارے میں یہ وعید ارشاد فرمائی گئی ہے۔ اس میں کوئی قانونی فیصلہ نہیں  ہے اور بلا وجہ طلاق مرد ہو یا عورت ان کو دینی بھی نہیں چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کےنزدیک مبغوض ترین چیز ہے ، لیکن جس طرح مرد اگر بلا وجہ طلاق دے تو ہوجاتی ہے، اسی طرح عورت اگر بلا وجہ خلع لے تو حضرت ثابت بن قیس کی روایت سے یہی سمجھ میں آتاہے کہ خلع نافذ ہوجاتاہے ۔

مولانا مودودی خلع کے بارے میں کہتے ہیں کہ خلع میں قاضی کا وجہ طلب کرنا یا اس پر مطمئن ہونا ضروری نہیں ۔ اگر عورت کہتی ہے  مجھے پسند نہیں تو قاضی پر یہ نہیں کہ کھوج لگائے کہ کیوں ناپسند ہے، کیونکہ  ہوسکتاہے عورت کو کسی ایسی وجہ سے ناپسند ہو جو قاضی کے نزدیک وجہ تفریق نہیں بن سکتی ہو ۔ نیز ہر ایک وجہ کا کھل کر  مکمل طور پر بتانا ممکن بھی نہیں اور رسول اللہ اور خلفاء راشدین کے عمل سے بھی یہی پتہ چلتاہے کہ انہوں نے اس کی تحقیق نہیں کی ۔ اگر اس میں عورت کے بے وجہ خلع کا احتمال ہے تو مرد کی طلاق میں بھی یہ احتمال موجود ہوتاہے جبکہ شارع نے اس سے منع نہیں کیا، اس کو نافذ قرار دیا ہے تو عورت کے لئے بھی قانونی طور پر یہ حق رہے گا۔  24 مولانا مودودی خلع کے آسان  نہ ہونے کے معاشرتی مسائل کو  بخوبی سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے خلع کو انتہائی آسان کردیا ۔

عورت پر ظلم و ستم بطور سبب تفریق

فقہاء کرام نے مرد و زن میں تفریق کے کچھ اسباب کا ذکر کیا ہے۔ اگر یہ چیزیں پائی جائیں تو عورت عدالت کے ذریعے  مرد سے جدا ہونے کا مطالبہ کرسکتی ہے اور قاضی ان چیزوں کے پائے جانے پر جدائی کا حکم دے گا ۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں پر ظلم و ستم کے واقعات بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مولانا مودودی فقہاء کے بیان کردہ دیگر اسباب کے ساتھ مار پیٹ گالی گلوچ کو بھی  تفریق کے اسباب میں شمار کرتے ہیں ۔

" اتناضرور ہونا چاہیے کہ مارپیٹ اور گالم گلوچ کی عادت کو خلع کے جائز اسباب میں شمار کیاجائے اور ایسی عورتوں کو بلامعاوضہ خلع دلوایاجائے"۔ 25

مردانہ عیوب  سے متعلق فقہاء کے موقف پر تنقید

فقہاء جن عیوب کی بنا پر عورت کو اختیار دیتے ہیں کہ وہ قاضی کے پاس جا کر خاوند کے خلاف مقدمہ قائم کرسکتی ہے اور خاوند سے جدا ہوسکتی ہے، مولانا مودودی ان عیوب کے بارے گفتگو کرتے ہیں کہ ان میں بہت سے ایسے مسائل  ہیں جو عورت کے حقوق اور شریعت کے منشا کے خلاف  ہیں ۔ عنین ، مجبوب  ، خصی  ،برص زدہ ، مجنون اور مرد و عورت کے دیگر ایسے امراض جن کے ساتھ تعلقات مردو زن قائم نہیں ہوسکتے ہیں، ان میں اگر کوئی فریق جدائی کا مطالبہ کرتا ہے تو امام مالک کے نزدیک اس کو خیار فسخ حاصل ہوگا ۔ مولانا مودودی بھی اسی فقہی مذہب کو لیتے ہیں ۔ کیونکہ تعلقات مردو زن میں تحفظ اخلاق اور باہمی مودت و رحمت  یہ دونوں مقاصد ایسے عیوب میں فوت ہوجاتے ہیں اور یہ بات اسلامی قانون ازدواج کے اصول میں سے ہے کہ ازدواجی تعلق زوجین کے لئے مضرت اور حدوداللہ سے تجاوز کا موجب نہ ہونا چاہیے ۔ 26

ان عیوب کے بارے فقہاء کی بعض آراء پر مولانا مودودی تنقید کرتے ہیں ۔ عنین ، مجنون وغیرہ ایسے امراض جن کے تندرست  ہونے کا امکان ہو ، ان کے بارے فقہاء یہ کہتےہیں کہ  اس کو ایک سال تک علاج کی مہلت دی جائے گی ۔ اگر علاج کے بعد وہ ایک مرتبہ بھی ہم بستری پر قادر ہوگیا ۔ حتی کہ اگر ایک مرتبہ اس نے ادھوری مباشرت بھی کرلی  تو عورت کو فسخ نکاح کا حق نہیں ہے  بلکہ یہ حق  ہمیشہ کے لئے باطل ہوگیا ۔ اگر عورت کو نکاح کے وقت معلوم تھا کہ وہ نامرد ہے اور پھر وہ نکاح پر راضی ہوئی تو اس کو سرے سے قاضی کے پاس دعویٰ ہی لے جانے کا حق نہیں ۔ اگر اس نے نکاح کے بعد ایک مرتبہ مباشرت کی اور پھر نامرد  ہوگیا تب بھی عورت کو دعویٰ کا حق نہیں ۔ اگر عورت کو نکاح کے بعد شوہر کے نامرد ہونے کا علم  ہوا اور وہ اس کے ساتھ رہنے پر اپنی رضا مندی کا اظہار کردے تب بھی وہ ہمیشہ کے لئے خیار فسخ سے محروم ہوگئی۔ مجنون کے بارے بھی اسی قسم کے مسائل فقہی کتابوں میں ہیں۔27

مولانا مودودی ان صورتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  ان صورتوں میں عورت کا خیار فسخ تو  باطل ہوگیا ۔ اس کے بعد ایسے ناکارہ شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کی دوسری صورت یہ رہ جاتی ہے کہ وہ خلع کرلے مگر وہ اس کو مل نہیں سکتا ۔ کیونکہ شوہر سے مطالبہ کرتی ہے تو اس کا پورا مہر بلکہ مہر سے کچھ زائد لے کر بھی چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا ۔ اور عدالت سے رجوع کرتی ہے تو اس کو مجبور کرکے طلاق دلوانے یا تفریق کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ اب غور کیجئے اس غریب کا  حشر کیا ہوگا  ؟ بس یہی نا کہ یا تو وہ خودکشی کرلے یا عیسائی راہبات کی طرح نفس کشی کی زندگی بسر کے اور اپنے نفس پر روح فرسا تکلیفیں برداشت کرے یا قید نکاح میں رہ کر اخلاقی فواحش میں مبتلا ہو ۔ یا پھر سرے سے دین اسلام ہی کو خیر باد کہہ دے ۔ مگر کیا اسلامی قانون کا منشا بھی یہی ہے کہ عورت ان حالات میں سے کسی حالت میں مبتلا ہو  ؟ کیا ایسے ازدواجی تعلق سے شریعت کے وہ مقاصد پورے ہوسکتے ہیں جن کے لئے قانون ازدواج بنایاگیا تھا ۔ کیا ایسے زوجین میں مود و رحمت ہوگی ۔ کیا وہ  باہم مل کر تمدن کی کوئی مفید خدمت کرسکیں گے ۔ کیا ان کے گھر میں خوشی اور راحت کے فرشتے کبھی داخل ہوسکیں گے ۔ 28مولانا مودودی کہتے ہیں کہ خصی ، مجبوب ، مجنون ان تمام کے بارےسابقہ  فقہاء کی قانون سازی عورت کے خلاف جاتی ہے ۔29

خاوند کے لاپتہ ہو جانے کی صورت میں تفریق

مفقود الخبر یعنی اگر کسی عورت کا خاوند لا پتہ ہوجاتا ہے، اس کی کوئی خبر نہیں تو اس کو بھی فقہاء نے ان اسباب میں شمار کیا ہے جن کی بنا پر عورت جدائی کا مطالبہ کرسکتی ہے ۔ فقہاء کی اس بارے مختلف آراء ہیں ۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ خاوند کی عمر کے بقدر اس عورت کو انتطار کرنا ہوگا ، جبکہ مالکیہ نے چار سال کی مدت مقرر کی ہے ۔ اگر چار سال تک شوہر کی کوئی خبر نہ ہو تو قاضی عورت کے لئے فسخ نکاح کاحکم لگاکر اس کو نئے نکاح کی اجازت دے گا۔ دونوں قسم کی آراء کی بنیادیں صحابہ کرام کی آراء میں ملتی ہیں ۔فقہاء احناف اول موقف رکھتے ہیں لیکن موجودہ دور میں انہوں نے اس پر ازسر نوغور کیا ہے ۔ قریبی زمانے کے تمام فتاویٰ میں اس کو قاضی کی صوابدید پر چھوڑاگیا ہے کہ قاضی حالات وواقعات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کرسکتاہے ۔ مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب اس میں ایک سال کی مدت مقرر کرتے ہیں ۔ جامعہ بنوری ٹاؤن کے ایک فتویٰ میں بھی اس کی مدت ایک سال مقرر کی گئی ہے ۔ 30

  مولانا مودودی کہتے ہیں اس بارے میں قرآن و حدیث کی کوئی نص موجود نہیں ہے اس لئے یہ مسئلہ اجتہادی ہے ۔ بعض ضعیف  اور موضوع قسم کی روایات مذکور ہیں لیکن وہ قابل اعتبار نہیں ہیں ۔ مولانا مودودی اس مسئلہ میں بھی قرآن و حدیث سے براہ راست استنباط حکم کرتےہیں ۔ قرآن کریم میں ہے "فلاتمیلو کل المیل فتذروھا کا لمعلقلۃ" 31 اگر خاوند کی زندگی میں یہ حکم ہے کہ ان کو معلق نہ کرچھوڑو تو خاوند کے گم ہونے کی صورت میں یہ حکم کیوں نہیں ۔اسی طرح ایلاء کی صورت چار ماہ بعد قرآن کریم جدائی کا حکم لگادیتا ہے ۔ اس لئے ان صورتوں کو دیکھتے ہوئے اور زمانے کے حالات وواقعات کی بناء پر اس عورت کو اتنی لمبی مدت تک رکنے کا حکم نہیں لگایا جائے گا بلکہ مالکی مذہب ہی نصوص کے قریب ہے ۔ لیکن مالکی مذہب کی تفصیلات کو عموما نظر انداز کردیا جاتاہے۔ اس میں اگر خاوند نفقہ نہ چھوڑ کر گیا ہو یا بیوی کی عمر جوانی کی ہو اور فتنہ کا خوف ہو تو قاضی اس کو انتظار کا نہیں کہے گا بلکہ تفریق کا حکم لگادے گا ۔لیکن اگر حالات نارمل ہوں اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو اور خاوند نفقہ چھوڑ کر گیا ہو تو پھر قاضی کی صوابدید ہے کہ اس وقت صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک سال سے لے کے چار سال تک  انتظار کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ مولانا مودودی نصوص کے قریب ہونے کی وجہ سے مالکی مذہب کو اپناتے ہیں ۔32

نفقہ پر عدم قدرت کی وجہ سے تفریق

نفقہ پر قدرت نہ ہونے یا نفقہ نہ دینے کو فقہاء نے فسخ نکاح اور خلع کے جائز اسباب میں شمار کیا ہے ۔اگر خاوند کی جانب سے تعدی پائی جائے، اس وقت تو فقہاء یہی کہتے ہیں کہ اگر عورت مطالبہ کرے تو تفریق کروادی جائے ۔ لیکن  اگر خاوند نفقہ پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس صورت میں امام مالک کی رائے یہ ہے  کہ مناسب مدت دیکھ کر تفریق کا حکم لگادیا جائے ۔ حنفیہ کہتے ہیں کہ اگر شوہر کے پاس نہ ہوں تو مجبور نہیں کیاجائے گا ۔ اگر ہوں لیکن وہ دیتا نہیں تو عورت خود انتظام کرے اگر نہیں کرسکتی تو جدائی کا حکم لگایاجائے گا۔33 مولانا مودودی اس سلسلے میں مالکیہ کی رائے کو لیتے ہیں۔ عورت کو چاہیے تو یہی کہ صبر کرے اور آزمائش کا مقابلہ کرے، لیکن اخلاقیات کا دائرہ قانون سے الگ ہے ۔ فقہی اور قانونی طور پر اس کو اختیار ہوگا کہ اگر ایسے خاوند کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو نکاح کو فسخ کردیا جائے گا۔ اس کو قانونی طور پر اس چیز کا پابند نہیں بنایا جاسکتاہے کہ وہ اس خاوند کے ساتھ رہے ۔ 34

ایلاء کی مدت میں بیوی سے دور رہناوجہ تفریق

اگر خاوند قسم اٹھالیتا ہے کہ وہ چار ماہ بیوی کے پاس نہیں جائے گا   تو  نہ جانے کی صورت میں ، ایک فقہی موقف کے مطابق اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجاتی ہے ۔ اسلام سے پہلے ایسی صورتوں کو لوگ بیویوں کو تنگ کرنے کے لئے استعمال کرتےتھے۔ اسلام نے ان کا سدباب کیا اور اس کو اسباب تفریق میں شمار کیا ۔ لیکن اگر کوئی شخص قسم الگ رہنے کی قسم تو نہیں کھاتا، لیکن عملا بھی عورت کے قریب نہیں جاتاتو   اس کا حکم  کیا ہوگا ؟ مولانا مودودی کہتے ہیں کہ علت دونوں میں ایک ہی ہے یعنی عورت کو ضرراور تکلیف پہنچانا ، عورت کو معلق کر چھوڑنا یا ان کو تکلیف پہنچانا۔ جب یہ حکم اسی کے سدباب کے لئے ہے تو  قسم نہ کھانے کی صورت میں بھی یہی حکم لگایا جائے گا ۔ مالکیہ کی رائے بھی یہی ہے کہ اگر تکلیف دینے کی نیت سے ایسا کرے تو قسم نہ بھی کھائی ہو تو ایلاء واقع ہوجائے گا ، کیونکہ ایلاء سے مقصود بھی ضرار کو روکنا ہے ۔ 35

مرد کو طلاق کا مشروط اختیار

شریعت میں طلاق کا اختیار مرد کو دیاگیا ہے، عورت کو نہیں دیاگیا ہے ۔ اس کی حکمت یہ بتائی جاتی ہے کہ عورت جلد باز ہوتی ہے ، معاملہ فہم نہیں ہوتی ۔ بے اسوچے کوئی فیصلہ کرلیتی ہے یا یہ کہ گھر کا خرچ چلانے والا مرد ہوتاہے، اس لئے حق طلاق بھی اسی کے پاس ہونا چاہیے ۔ان چیزوں کا تعلق خاص حالات اور زمانےسے  تو ہوسکتاہے، لیکن ان چیزوں کو بنیاد بناکر حق طلاق کو مطلقا مرد تک محدود کرنا درست نہیں ۔ جہاں تک نصوص کا تعلق ہے، ان میں بھی اشارات سے ہی استدلال کیا گیا ہے کہ طلاق کی نسبت مرد کی طرف کی گئی ہے، عورت کی طرف نہیں کی گئی، اس لئے حق طلاق مرد کو ہے عورت کو نہیں ۔ اس بارے کوئی صریح نص نہیں ہے ۔ لیکن ان استدلالات کو اگر تعامل کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے   تو رسول اللہ ﷺ اور مابعد کے ادوار میں عورتوں نے کبھی طلاق نہیں دی ، ہمیشہ سے مرد ہی طلاق دیتے آرہے ہیں۔ کسی عورت کو اگر ضرورت پڑی بھی تو اس نے طلاق دینے کی بجائے خلع یا عدالت سے تنسیخ نکاح کی درخواست کی ۔ اس لئے یہ بات درست ہے کہ شریعت میں اصولا طلاق کا اختیار مرد کو دیا گیا ہے ۔ لیکن مرد کے اختیار نے اس کو مطلق العنان بنانے میں کردار ادا کیا ہے جس کا ازالہ شرع کے بہت سے احکامات میں کرنے کی کوشش کی گئی ۔مولانا مودودی بھی اس کا حل تجویز کرتے ہیں ۔

قرآن کریم کی مختلف آیات سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ حق طلاق صرف خاوند کے پاس ہے ۔"الا ان یعفون او یعفو الذی بیدہ عقدۃ النکاح" 36  اس آیت کے آخری فقرہ میں اس قاعدہ کی تصریح کی گئی ہے کہ عقدہ نکاح مرد کے ہاتھ میں ہے اور وہی باندھے رکھنے یا کھول دینے کا اختیار رکھتا  ہے ۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں طلاق کا ذکر آیا ہے، مذکر کے صیغوں میں آیا ہے ، اور فعل کو مرد ہی کی طرف نسبت دی گئی ہے ۔ مثلا "ان عزموا الطلاق، فان طلقھا، اذا طلقتم النساء فطلقوھن" یہ اس بات پر دلیل ہے کہ شوہر بحیثیت شوہر ہونے کے طلاق دینے یا نہ دینے کا کلی اختیار رکھتا ہے اور کوئی قانون ایسا نہیں بنایا جاسکتا  جو اس کا یہ حق سلب کرتاہو ۔37

خاوند کے حق طلاق کو مولانا مودودی مشروط کرتے ہیں ۔ اس کے لئے اگر چہ عمومی قسم کی آیات سے استدلال کرتے ہیں جو خاص اس حوالے سے نہیں اتاری گئیں، لیکن ان کا یہ استدلال اہم ، مفید اور دلچسپ ہے ۔ "اسلام میں تمام حقوق اس شرط کے ساتھ مشروط ہیں کہ ان کے استعمال میں ظلم اور حدود اللہ سے تجاوز نہ ہو ۔ "و من یتعد حدود اللہ فقد ظلم نفسہ" 38 لہذ ا جو شخص حدود اللہ سے تجاوز کرتا ہے وہ خود اپنے آپ کو اس کا مستحق بناتا ہے کہ اس کا حق سلب کرلیا جائے ۔ پس جب کسی عورت کو اپنے شوہر سے   ظلم و ضرر کی شکایت ہو تو بقاعدہ "فان تنازعتم فی شیئ فردوہ الی اللہ و الرسول" 39   اگر اس کی شکایت جائز ثابت ہوگی تو قانون نافذ کرنے والوں یعنی اولی الامر کو حق ہوگا کہ شوہر کو اس کے اختیار سے محروم کرکے بطور خود اس اختیار کو استعمال کریں ۔ قاضی کو فسخ ، تفریق اور تطلیق کے جو اختیارات شرع میں دیے گئے ہیں ، وہ اسی اصل پر مبنی ہیں۔ 40

نابالغ کا نکاح

مولانا مودودی احادیث و آثار کی روشنی میں کہتے ہیں کہ عورت کے نکاح میں ولی کی رائے کا دخل ہونا چاہیے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں عورت اس معاملے میں بےا ختیار ہے اس کی رضامندی سے ہی کوئی بھی فیصلہ کیا جاسکتاہے ۔ احناف کا فقہی موقف یہی  ہے کہ عورت اپنی مرضی سے شادی کرسکتی ہے، لیکن اگر ایسی جگہ شادی کرے جو خاندانی طور پر برابر نہ ہوں تو پھر سرپرستوں کو اعتراض کا حق ہے ، ور نہ اس کا کیا نکاح نافذ ہوگا۔41 اگرچہ آج ہم اس فقہی اور روایتی موقف کے اظہار میں تردد کا شکار ہوتے ہیں لیکن احناف کی فقہ و فتاویٰ کی تمام کتابوں میں آج بھی یہی موقف ملتاہے ۔تاہم اس سے کوئی غلط دروازہ نہ کھلےاس لئے اس پر کچھ حدود و قیود لگائی جاسکتی  ہیں ۔

  اگرلڑکی یا لڑکا  نابالغ ہو اور اس  کا باپ یا کوئی ولی اس کا نکاح کردے تو  بالغ ہونے کے بعد کیا اس کو اختیار ہو گا  کہ اس نکاح کو باقی رکھے یا نہیں ؟ فقہاء عام طور پر کہتے ہیں کہ با پ اور دادا کے علاوہ  کسی نے نکاح کیا ہو تو  بالغ ہونے کے بعد اختیار ہوگا کہ چاہے اس نکاح کو باقی رکھے اور چاہے اس کو رد کردے۔ لیکن اس میں بھی فقہی طور پر  جس طرح کی باتیں کی جاتی ہیں، وہ نہایت عجیب ہیں۔ مثلا یہ  کہ اگر بالغ ہونے کے بعد اس کو جس مجلس میں پتہ چلا ہے،اسی مجلس میں اس کو رد کردے، تب تو اس کو یہ اختیار ہوگا ور نہ نہیں ۔ اگر یہ نکاح باپ ، دادا نے کیا ہو تو لڑکی یا لڑکے  کو بالغ ہونے کے بعد اختیار نہیں ہوگا، چاہے ان کو یہ رشتہ پسند ہو یا نہیں۔ اسی طرح انہوں نے غیر کفو میں نکاح کر دیا ہو یا  مہر کم طے کردیا ہو، تمام صورتوں نکاح لازم ہے ، کیونکہ ان کی شفقت کامل ہوتی ہے، وہ ان کا برا نہیں سوچ سکتے ہیں۔ اس کو ولایت اجباری کہتے ہیں۔ تا ہم اگر ان کی جانب سے بددیانتی پائی جائے، تب احناف بھی لڑکے اور لڑکی کو اختیار دیتے ہیں۔ 42

مولانا مودودی کہتے ہیں کہ لڑکی کے لئے ولایت اجباری باپ اور دادا کے لیے ثابت  نہیں، اس کا کسی روایت سے ثبوت نہیں۔ بالغ ہونے کے بعد اگر لڑکی کو اختیار ہے تو بلوغت سے پہلے کے گئے نکاح میں ایسا کیوں نہیں ہے۔ 43

فقہاء نے عام طور پر جن روایات سے استدلال کیا ہے، وہ واقعاتی نوعیت کی ہیں۔ مثلا حضرت عائشہ نے اپنی بھتیجی کا نکاح کردیا ، یاحضرت عائشہ کا نکاح ان کے والد نے کردیا ۔ لیکن یہ ولایت اجباری میں صریح نہیں ہیں  اور  ان میں ولایت اجباری کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ جس عورت کا نکاح کیا گیا، اس نے بالغ ہونے کے بعد رد کردیا ہو اور پھر اس کے رد کو قبول کیا گیا یا قبول نہیں کیا گیا ،  ایسی کوئی تصریح روایات میں نہیں ہے ۔ اس لئے یہ مسئلہ اجتہادی نوعیت کا ہے اور مولانا مودودی مسائل میں اجتہاد کو بروئے کار لاتے ہیں جیسا کہ دیگر مسائل میں بھی ان کا طریقہ ہے۔  اس جگہ بھی وہ فقہاء سے الگ رائے قائم کرتے ہیں اور باپ، دادا کے لئے  ولایت اجباری کے قائل نہیں ہیں ۔ بعض روایات  میں صراحت کے ساتھ یہ مذکور ہے کہ غیر شادی شدہ کا نکاح اس سے پوچھے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا بغیر اجازت نکاح نہ کیا جائے۔ 44 جب روایات میں صراحت ہے اور ولایت اجباری کسی تصریح سے ثابت نہیں ہے تو انہی تصریحات کی روشنی میں اس مسئلہ کو دیکھنا چاہیے۔

حاصل کلام

عورتوں کے بارے میں مغربی تہذیب کے تصورات پر مولانا نے بہت جاندار تنقید کی ہے اور اس سے ہمارے معاشروں کو جو خطرات در پیش ہیں، ان کی بھی نشاندہی کی ہے۔  تاہم مغربی تہذیب کے تصورات پر تنقید اور اس کا متباد ل پیش کرتے ہوئے مولانا نے زمانی تصورات کا بھی کافی اثر قبول کیا ہے۔ روایتی حلقے میں مولانا مودودی نے جماعت کی تنظیم میں جس طرح عورتوں کو شامل کیا ہے، اس طرح کسی دوسری جماعت میں عورتوں کی شرکت نظر نہیں آتی ہے۔ اسی طرح خواتین کی تعلیم و تربیت اور زندگی کے عملی میدانوں میں ان کی شرکت جماعت اسلامی میں نمایاں نظر آتی ہے۔

مولانا مودودی نے روایتی اور فقہی تصورات میں سے  جو  چیزیں  زمانے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتیں، ان میں فقہاء کی آرا سے وسیع تر استفادہ کے علاوہ قرآن و سنت پر براہ راست غورو فکر کے ذریعے سے مختلف اجتہادی آرا قائم کی ہیں ۔ اسلامی روایت میں عورت کے حوالے سے جو علاقائی ، زمانی  اور فقہی تصورات دین کا حصہ بن گئے، مولانا مودودی ان پر بھی کلام کرتے ہیں اور نصوص کو براہ راست دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولانا کی خوبی یہ ہے کہ وہ نصوص کے فہم کو ائمہ مجتہدین  کے اقوال میں سے کسی قول کی روشنی میں لیتے ہیں  ۔ مولانا نے روایتی فریم ورک کی حفاظت  کی کوشش کی  ہے۔  ان کی یہ کوشش مدلل اور معقول نظر آتی ہے ، لیکن اس کوشش میں کہیں مبالغہ بھی نظر آتاہے۔ روایت کی تنقیح کے لیے ضروری ہے کہ ان مبالغہ آمیز تصورات کا روایت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے ۔

جدید دور میں  مسلم مفکرین اور معاشروں کو عام طور پر فکری انتشار کی کیفیت اور نظام عمل وفکر میں مناسبت کے فقدان  کا سامنا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے تدارک کی کوشش کی جائے اور مسلم مفکرین وفقہاء کی فکر کی روشنی میں جدید دور میں خواتین کے معاشرتی مقام اور کردار کے حوالے سے کوئی جامع ، منظم اور مرتب فکری و عملی نظام وضع کرنے کی کوشش کی جائے۔


حوالہ جات

  1.  البقرۃ ،228
  2.  النساء ،34
  3.   جامع البخاري ، رقم :   7138  ومسلم ، رقم :  1829
  4.  النساء،34
  5.  مودودی ، سید ابوالاعلی ،  پردہ ، لاہور : اسلامک پبلیکیشنز ص 198
  6.   پردہ ، ص 204
  7.   اسلامی ریاست، 538
  8.   اسلامی ریاست،539
  9.   اسلامی ریاست، 538
  10.   پردہ  ، 156ـ 162
  11.  مودودی ، سید ابو الاعلی ،  خطبات یورپ ،لاہور : ادارہ ترجمان القرآن ، ص 125
  12.   پردہ ، 153
  13.  مودودی ، سید ابو الاعلیٰ ،  اسلام دور جدید کا مذہب ،لاہور : اسلامک پبلیکیشنز ، ص ،19
  14.   پردہ ،  210
  15.   پردہ ،  261
  16.   پردہ ، 266
  17.   النساء : 34
  18.   صحیح  بخاری: 4425
  19.   مودودی ، سید ابو الاعلی ، اسلامی ریاست ، لاہور : اسلامک پبلیکیشنز ، ص،  402
  20.   مودودی ، سید ابولاعلی ، سنت کی آئینی حیثیت لاہور : اسلامک پبلیکیشنز ، ص 282
  21.   فتوی نمبر : 144201201197دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
  22.   الجامع الصحیح ، رقم : 4867
  23.   أبو داود ، سلیمان بن اشعث السجستانی ،السنن ،  دار الرسالۃ العالمیۃ ، رقم :  2226، الترمذي ، محمد بن عیسی ، جامع الترمذی ، سعودی عرب : وزارة الشؤون الإسلاميةرقم :  1187
  24.   حقوق الزوجین ،ص، 69
  25.  حقوق الزوجین ، 126
  26.   حقوق الزوجین ، ص 130
  27.   تمرتاشی ، محمد بن عبد اللہ غزنی ، تنویر الأبصار ،ج4 ، ص 249ـ254 ابو المعالی البخاری ، محمود بن احمد ،  محیط البرهاني ، بیروت : دار الکتب العلمیہ ، ج 4 ص 1238
  28.   حقوق الزوجین ص 78
  29.   حقوق الزوجین ،  138
  30.   فتوی نمبر :  144104200978دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
  31.  النساء،129
  32.  حقوق الزوجین ، ص 142
  33.   بدائع الصنائع ، 524، رد المختار ، ج5ص 306
  34.   حقوق الزوجین ، 125
  35.   حقوق الزوجین ، ص 36 ، 37
  36.  البقرۃ: 237
  37.   حقو ق الزوجین ، ص 104
  38.   الطلاق : 1
  39.   النساء : 59
  40.   حقوق الزوجین ، ص 105
  41.   کاسانی  ، بدائع الصنائع ، بیروت : دار الکتب العلمیہ ج2، ص 247،
  42.   حصکفي، الدر المختار، بيروت، لبنان: دارالفکر ج، 3 ص، 66، 67،  الفتاویٰ الھندیۃ ، بیروت ، دار الکتب العلمیۃ  ، ج  : 1 ، ص:285
  43.   مودودی ، سید ابوالاعلی ،حقوق الزوجین ، لاہور : اسلامی پبلیکیشنز ،ص 116
  44.   بخاری،محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحيح،بیروت : دار ابن کثیر ، رقم : 4843


’’الوفاء باسماء النساء‘‘ (محدّثات انسائیکلوپیڈیا) / ” تین طلاق :ایک سماجی المیہ“

ادارہ

علمی حلقوں میں یہ خبر بہت خوشی و مسرّت کے ساتھ سنی جائے گی کہ ڈاکٹر محمد اکرم ندوی(ولادت 1964) کی محدّثات انسائیکلوپیڈیا ، جس کا چرچا تقریباً 15 برس سے تھا ، منظرِ عام پر آگئی ہے۔  اسے دار المنھاج ، جدّہ ، سعودی عرب نے'الوفاء بأسماء النساء' کے نام سے 43 جلدوں میں شائع کیا ہے ۔

ڈاکٹر اکرم ندوی نے دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے 1981 میں عالمیت اور 1983 میں فضلیت کی ہے ۔  مجھے ان کے ساتھ 5 برس ہم درس رہنے کی سعادت حاصل رہی ہے۔  بعد میں انھوں نے لکھنؤ یونی ورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔  ندوہ سے فراغت کے بعد انھوں نے ندوہ ہی میں چند برس تدریسی خدمت انجام دی ، پھر مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی ہدایت پر برطانیہ چلے گئے اور آکسفورڈ سینٹر آف اسلامک اسٹڈیز کے فیلو بن گئے تھے ۔  چند برس قبل انھوں نے وہاں سے علیٰحدگی اختیار کرلی ہے۔  ان دنوں وہ السلام انسٹی ٹیوٹ کے پرنسپل اور کیمبرج اسلامک کالج کے ڈین ہیں۔  حدیث ، فقہ ، سوانح ، سفرنامہ اور دیگر موضوعات پر عربی ، اردو اور انگریزی میں ان کی تقریباً 3 درجن تصانیف اور تراجم ہیں ۔

زیرِ تذکرہ کتاب ان کا غیر معمولی کارنامہ ہے  _ اس میں عہدِ نبوی سے موجودہ دور تک کی دس ہزار ایسی خواتین کا تذکرہ ہے جنھوں نے کسی نہ کسی پہلو سے حدیثِ نبوی کی خدمت انجام دی ہے۔ مثلاً علمِ حدیث حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کیا ہے ، حدیث کی روایت کی ہے ، حدیث کی تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دی ہے ، احادیث حفظ کی ہیں ، حدیث کے مجموعے تیار کیے ہیں ، حدیث کے موضوع پر تصنیف و تالیف کا کام کیا ہے ، کتبِ حدیث کی شرح کی ہے ، حدیث کی تعلیم کے ادارے قائم کیے ہیں ، وغیرہ ۔ انھوں نے یہ کام 15 برس قبل کرلیا تھا ، پھر اس میں اضافے کرتے رہے  ۔ اس کے مقدمہ کا انھوں نے خود ہی انگریزی ترجمہ کرلیا تھا ، جو   UK سے Al_Muhaddithat : The women Scholars in Islam  کے نام سے 2007 میں شائع ہوگیا تھا ۔ (یہ انگریزی کتاب انٹرنیٹ پر موجود ہے )

اصل عربی کتاب کو طبع کرانے کی کوششیں اسی وقت سے جاری تھیں ۔عالم عرب کے کئی ناشروں سے بات ہوئی تھی ، لیکن بہت زیادہ ضخیم ہونے اور خطیر مصارف کی وجہ سے کوئی ناشر اسے چھاپنے کی ہمّت نہیں کرپارہا تھا ۔ بالآخر جدّہ کے دار المنہاج نے اس کا حوصلہ دکھایا اور اس کی دل چسپی سے مکمل انسائیکلوپیڈیا زیورِ طبع سے آراستہ ہوگئی ہے۔

بھائی اکرم ندوی اس عظیم علمی خدمت پر تحسین و ستائش کے مستحق ہیں ۔ پوری ندوی برادری کو ان پر ناز ہے ۔ انھوں نے یورپ میں بیٹھ کر ان مستشرقین کے الزام کا منھ توڑ جواب دیا ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو گھر کی چہار دیواری میں بند کرکے تحصیلِ علم سے  محروم رکھا ہے ۔

(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)

” تین طلاق :ایک سماجی المیہ“

قرآن کریم میں انسان کی عائلی زندگی سے متعلق جن معاملات کے بارے میں تفصیل سے اصولی ہدایات دی گئی ہیں ان میں نکاح و طلاق کے مسائل سرِ فہرست ہیں۔ نکاح کے مقاصد، نکاح میں مذہب کی اہمیت، تعددِ ازدواج، نکاح کے بعد کی زندگی میں خانگی ذمہ داریاں، میاں بیوی کے در میان ناچاقی و تنازعات کا حل اور دیگر امور کے بارے میں تفصیلی ہدایات موجود ہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کے در میان باہم نباه ممکن نہ رہے تو اس عقد کو ختم کرنے کا طریقہ کار بھی طلاق کی صورت میں بتایا گیا ہے۔ تاہم نکاح و طلاق کا انعقاد کیسے ہوگا، اس کی تفصیلات سے قرآن کریم میں تعرض نہیں کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مسائل میں ایک سے زائد آراء اور طریق کار کی گنجائش پیدا ہو گئی۔ چنانچہ ائمہ مجتہدین نے اپنے ماحول اور عرف و رواج کے مطابق ان آیات کی تعبیر و تشریح کی۔

مناکحات کے باب میں جو مسئلہ قرنِ اوّل سے معرکہ آراء رہا وہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ہیں۔ حضرات صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کے ہاں بھی ایک مجلس کی طلاق ثلاثہ کے بارے میں ایک سے زائد آراء موجود تھیں۔ اسی طرح تابعین اور بعد کے ادوار میں ہر زمانے میں فقہائے کرام کے ہاں یہ مسئلہ مختلف فیہ رہا۔ ائمہ اربعہ نے اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے بعد اجماعی مسئلے کے طور پر دیکھا جبکہ بعض دیگر کبار ائمہ اور بعد کے ادوار میں خود ائمہ اربعہ کے پیروکاروں میں نامور فقہائے کرام نے اسے ایک ایسے اجتہادی مسئلے کے طور پر لیا جس میں تعددِ آراء کی گنجائش موجود ہے۔

طلاق کا مسئلہ شرعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خالص سماجی مسئلہ بھی ہے۔ سماج پر اس کے منفی یا ناخوشگوار اثرات بہر صورت مرتّب ہوتے ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے کوئی نقطۂ نظر اختیار کرتے وقت مسئلے کے سماجی پہلو کو ملحوظ رکھنا از حد ضروری ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ کئی دہائیوں سے اس مسئلے کے حوالے سے افراط و تفریط کی صورتِ حال ہے۔ ایک طرف ایقاعِ طلاق میں بے احتیاطی ہے اور دوسری طرف وقوعِ طلاق میں شدّت کا رویّہ ہے۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلے کو سماجی تناظر میں دیکھا جائے اور خاندان کو توڑنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔

عزیزم محمد تہامی بشر علوی نوجوان محقق ہیں۔ انہوں نے طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے کو سماجی تناظر میں دیکھنے کی کو شش کی ہے۔ بیک وقت تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے کی حمایت میں مضبوط دلائل دیے ہیں۔ یکبارگی کی تین طلاقوں کے نتیجے میں حلالہ کی صورت میں جو شریعت کی روح کے خلاف حیلے اختیار کیے جاتے ہیں ان کی شرعی حیثیت بھی واضح کی ہے۔ ایک مجلس کی تین طلاقوں کے بارے میں متقدمین فقہاء اور معاصر اہل علم کے نقطہ ہائے نظر کو جمع کر کے مسئلے کے اجماعی پہلو پر بھی بحث کی ہے۔ علاوہ ازیں مسئلے کے ضمنی متعلقات یعنی حدودِ تقلید اور فقہی توسیع پر بھی عمده گفتگو کی ہے۔ مؤلف کے بقول اس کتاب کی تحریر کا محرک بیک وقت تین طلاقوں کی وجہ سے سماجی طور پر جنم لینے والے المیے ہیں کہ کس طرح تین طلاقوں کی وجہ سے آناًفاناً ایک ہنستا بستا گھر اجڑ کر رہ جاتا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے بیک وقت تین طلاقوں کو تعزیری جرم قرار دینے کی سفارش کی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ آئے دن تین طلاقوں کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ پھر جب غلطی پر ندامت کا احساس ہوتا ہے تو علماء سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب اس حوالے سے علمی ضرورت پوری کرتی نظر آتی ہے۔ امید ہے علمائے کرام اس سے مستفید ہوں گے۔

کتاب کی زبان رواں اور اسلوبِ نگارش علمی و تحقیقی ہے۔ یکبارگی کی تین طلاقوں کے حوالے سے اس کتاب نے چبھتے ہوئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ علمی حلقے اس مسئلے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے اسے اَز سرِ نو زیر غور لائیں اور ایک اجماعی موقف تشکیل دینے کی کوشش کی جائے۔ میرے خیال میں یہ کتاب اس اعتبار سے بھی لائق تحسین ہے کہ نوجوان اہل علم میں بھی احکامِ شرع کو سماج کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کا ذوق پروان چڑھنے لگا ہے۔ دعا ہے کہ الله تعالىٰ اس ذوق میں اضافہ فرمائے اور مستقبل قریب میں ہمیں اس حوالے سے مزید علمی تحقیقات دیکھنا نصیب ہوں۔

ڈاکٹر قبلہ ایاز

چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان

‎کتاب بذریعہ ڈاک منگوانے کے لیے حافظ طاہر صاحب سے رابطہ کریں:  923066426001

مارچ ۲۰۲۱ء

مسلم معاشروں میں عقل اور مذہب کی بحثمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۴)ڈاکٹر محی الدین غازی
مولانا انور شاه کاشمیری ؒ كے درس حدیث کی خصوصیاتڈاکٹر حافظ محمد رشید
حضرت صدیق اکبرؓ کے اسوہ کے چند پہلومولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شیعہ سُنّی اختلاف اور مشاہیرِ اسلام کا رویّہڈاکٹر اختر حسین عزمی
ہندو مذہبی صحائف میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاںمولانا مشفق سلطان
’’سائنسی دور اور مذہبی بیانیے‘‘محمد عمار خان ناصر

مسلم معاشروں میں عقل اور مذہب کی بحث

محمد عمار خان ناصر

عقل اور مذہب کے باہمی تعلق کی بحث  جدید مسلم معاشروں کی  اہم ترین تہذیبی بحث ہے جو مختلف سطحوں پر مختلف شکلوں میں    سامنے آتی رہتی ہے۔  تاہم اس پوری بحث کو   ایک تاریخی   تناظر میں دیکھنے اور اس کی اہمیت ومضمرات پر غور کرنے کی کوشش کم ہی کی جاتی ہے۔   یہ ایک مشکل کام ہے  اور     اس کے ایک جامع تناظر  کا سامنے آنا اہل دانش کے مابین تسلسل  کے ساتھ ہونے والی علمی گفتگو کے نتیجے میں  ہی ممکن ہے ۔ تاہم اس حوالے سے  چند ابتدائی معروضات  ان سطور میں پیش کرنے کی جسارت کی جا رہی ہے۔

(۱)

عقل اور  مذہب کے باہمی تعلق یا  موافقت ومخالفت  کی بحث میں  سب سے پہلا نکتہ جس کی تنقیح ضروری ہے، وہ  یہ ہے کہ عقل سے  مراد کیا ہے  اور کس مفہوم میں    مذہب کے ساتھ  اس کے موافقانہ یا مخاصمانہ تعلق کا سوال پیدا ہوتا یا زیر بحث  آتا ہے۔     اسی سے یہ بات سمجھنا بھی آسان ہوگا کہ  مذہب اور مذہبی عقائد کے عقلی یا غیر عقلی ہونے  کا کیا مطلب ہے یا مختلف  لوگ اس سے کیا مراد لیتے ہیں۔

عام بول چال میں ہم عقل کا لفظ حیاتیاتی مفہوم میں  ذہنی صحت کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کے مطابق ہر  انسان جو  خود اپنے اور اپنے ارد گرد موجود  لوگوں اور چیزوں  کے ساتھ تفہیم اور  برتاو کا ایسا تعلق قائم کر سکے جو  عام طور پر انسان کرتے ہیں،  عاقل کہلاتا ہے اور  اس بنیاد پر سماجی واخلاقی ذمہ داریوں کا مکلف مانا جاتا ہے۔  جو انسان اس قابل نہیں ہوتا، اسے  پاگل یا فاتر العقل قرار دیا جاتا ہے۔  عقل کی یہ  تعریف  انفرادی سطح  سے تعلق رکھتی ہے،  کسی فرد کی عملی ذمہ داری کے تناظر میں ہوتی ہے اور  قانون واخلاق سے متعلق سوالات میں  کام آتی ہے۔ ظاہر ہے، اس مفہوم میں مذہب یا عقل کے  باہمی تعلق کا سوال    پیدا نہیں ہوتا۔

عقل کا ایک دوسرا مفہوم فلسفیانہ مباحث  کے دائرے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں عقل سے مراد  فکر واستدلال کے قوانین کے تحت حکم لگانے کی صلاحیت  ہوتی ہے جس کی مدد سے انسانی شعور اپنی فعلیت یعنی  اپنے کام کرنے کے   انداز کا      جائزہ لے کر  فکر واستدلال کے قوانین  بھی متعین کر سکتا ہے  اور ان قوانین کی مدد سے اپنے  معروضات مثلا بدیہیات فکر، جذبات واحساسات،  اخلاقی داعیات، اور  حسی ذرائع سے  ملنے والے مشاہدات وتجربات پر کوئی حکم بھی لگا سکتا ہے اور اسی طرح معلوم چیزوں کی مدد سے غیر معلوم    چیزوں کے متعلق قیاسات  کر سکتا ہے۔  مذہب اور عقل کے باہمی تعلق  کی تفہیم کا سوال   بنیادی طور  پر  اس سطح پر بھی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ اس صلاحیت یا  طرز فکر میں  تمام انسان اور سارے انسانی معاشرے مشترک ہیں اور  انسانی تاریخ میں مذہبی اعتقاد  کی معنویت بھی  انسانی شعور کے  داعیات اور  انسانی تجربے  کے تناظر میں ہی واضح کی جاتی رہی ہے۔

البتہ عقل کا ایک تیسرا مفہوم  ہے جو   انسانی تاریخ میں تہذیبی فکر  کے متخالف ارتقاء سے  جدید دور میں   سامنے آیا ہے  اور   یہاں عقل    کا مفہوم متفق علیہ اور مشترک نہیں رہتا۔  اس اختلاف کا تعلق وجود کے تصور  اور وجود کے بارے میں   کوئی حکم لگانے یا کسی حکم کو قبول کرنے کے  جائز معیارات سے ہے۔ اسلامی علمیات میں  وجود، عالم شہود اور عالم غیب دونوں کو   محیط ہے اور دونوں کا علم یا کم سے کم ان کے متعلق ایک تصور قائم کرنا،  مختلف نوعیت کے ذرائع علم سے  ممکن ہے۔   اس تصور  وجود کے لحاظ سے  اگر کوئی  حکم یا قضیہ انسانی شعور   کے مطالبات ومقتضیات سے ہم آہنگ ہے، یعنی شعور اس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے اور فکر واستدلال کے قوانین اس کی نفی نہیں کرتے، بلکہ اس کی تائید کرتے ہیں  تو اسے قبول کرنا  عقلی ہے، چاہے اس کا تعلق  عالم غیب سے ہو۔  اس کے مقابلے میں جدید مغربی فکر میں تدریجا جس تصور وجود کو قبول  کر لیا گیا ہے، اس میں عالم غیب  ایک موہوم یا انسانی تفکر کے لیے ایک غیر متعلق چیز ہے اور اس کے حوالے سے  وجود کے کسی بھی پہلو کی تفہیم، ظاہر ہے غیر عقلی قرار پاتی ہے  ۔  اس مفہوم کے لحاظ سے   مذہب اور عقل کے  مابین ایک حقیقی اختلاف  پایا جاتا ہے اور  دراصل یہی  دائرہ گفتگو یا مناقشے کا اصل دائرہ ہے۔ مذہبی عقائد وتعلیمات، مذہبی رسوم اور مذہبی  اخلاقیات وقوانین سےمتعلق تمام اختلافات  اسی بنیادی اختلاف کی فرع ہیں۔

عقل کے  حوالے سے اصطلاح کا ایک اختلاف  خود اسلامی علمیات کے  تناظر میں عقیدہ وایمان پر گفتگو کرنے والوں کے مابین بھی دکھائی دیتا ہے۔  اسلامی روایت  میں  مذہبی عقائد یعنی وجود باری، توحید، رسالت اور  بعث بعد الموت کو  عقلی مانا جاتا ہے اور عقلی دلائل سے ان کے ’’اثبات “ کی سعی کی جاتی ہے، تاہم اس ساری سعی وکاوش کا   مقصد  یہ بتانا نہیں ہوتا کہ  اہل ایمان نے ان دلائل کی وجہ سے  یا ان کا قائل ہونے کے بعد  ان عقائد کو قبول کیا ہے یا یہ کہ اگر  نبی کے ذریعے سے  انسانوں کو یہ خبر نہ دی جاتی تو بھی وہ محض عقلی استدلال کے زور پر  ان  تک پہنچ سکتے تھے۔    اس صورت حال  کو بعض اہل فکر یوں  تعبیر کرتے ہیں کہ ایمان یا عقیدہ ایک غیر عقلی چیز ہے، جس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اسے انسانی عقل نے ازخود اور اپنے بل بوتے پر  دریافت نہیں کیا اور نہ کر سکتی ہے۔     اسی طرز فکر کے تسلسل میں  بعض اہل فکر ’’علم “ کا اطلاق ان    چیزوں پر کرتے ہیں جو  معروف عقلی ذرائع سے انسان کی رسائی میں آئی ہوں،  جبکہ ایمانیات  مثلا   خدا اور فرشتوں وغیرہ کے تصور کو  علم کے بجائے صرف ’’خبر “ قرار  دیتے ہیں۔

یہ  اگرچہ کافی حد تک اصطلاح کا  فرق ہے، تاہم  علم کلام کی کلاسیکی روایت کے تناظر میں  غور وفکر کرنے والے حضرات کے لیے خلجان کا باعث بنتا ہے، کیونکہ  اسلامی علمیات میں علم ایک جامع  اصطلاح ہے جس میں غیبیات بھی  شامل ہیں، چاہے ان تک رسائی کا ذریعہ  صرف نبی کی دی ہوئی خبر ہو۔ اسی طرح نبی پر اعتماد  کی نوعیت بھی  اندھے اعتقاد یا توہم کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی  بھی انسانی فطرت، انسانی عقل وشعور اور انسانی تجربے میں اپنی بنیادیں ہوتی ہیں جن کی طرف متوجہ کرنا، نبی پر ایمان کی دعوت دیتے ہوئے، خود  قرآن  مجید  کے طرز استدلال کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔   اس نکتے کی تنقیح پر مزید  بات ہو سکتی ہے کہ کیا ایمان کی دعوت دراصل  نبی کی ذات پر اعتماد   کرنے کی دعوت ہوتی ہے، جبکہ  عقل وفطرت کے شواہد کی حیثیت مویدات کی ہوتی ہے یا معاملہ اس کے برعکس ہے،  لیکن  سردست  اس  تفصیل میں پڑے بغیر اصطلاح  کے فرق کو سمجھ لینا ،  باہمی تفہیم کے لیے، امید ہے کہ کافی ہوگا۔

(۲)

عقل کا مفہوم کیا ہے اور کن معنوں میں  عقل اور مذہب کے باہم موافق  یا مخالف ہونے  کا سوال زیربحث لایا جا سکتا ہے،  یہ واضح ہونے کے بعد اب یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ  اس سوال کا  تاریخی تناظر کیا ہے اور خاص طور پر ہمارے یعنی مسلمان معاشروں  کے لیے اس گفتگو کی اہمیت اور معنویت کیا ہے۔  

ہمارے نقطہ نظر سے اس کی اہمیت دو پہلووں سے ہے:  ایک نظری وفکری اور دوسرا  عملی، انتظامی اور تدبیری۔ نظری پہلو کا تعلق تاریخ فکر  سے ہے،  یعنی   اس پورے سیاق   کو  گہرائی میں جا کر سمجھنا جس میں   مغربی فکر میں  وجود کے اس تحدید شدہ تصور کو  اختیار کیا گیا۔  اس کا عملی وتدبیری پہلو  یہ ہے کہ   مسلمان معاشروں میں  اس نئے تصور وجود نے جو فکری تقسیم پیدا کی ہے،  اس کو کیسے دیکھا جائے  اور   اس امکان کا جائزہ لیا جائے کہ آیا اس تقسیم کا   قومی سطح پر تشتت اور افتراق  ہی کے رخ پر آگے بڑھنا  ناگزیر ہے یا اسے کوئی  تعمیری   صورت بھی دی جا سکتی ہے۔

پہلے، نظری پہلو کو دیکھیے:

عقل جدید جس تصور وجود   پر مبنی ہے،   وہ دراصل  بہت سے  تاریخی اسباب کے انسانی فکر پر مرتب کردہ اثرات اور ان   اثرات کو ایک شعوری اور ارادی  ججمنٹ کی شکل دینے کا نتیجہ ہے۔ ان میں سے اہم ترین سبب  وہ انتہائی کامیاب کوششیں ہیں جو  مغربی معاشروں میں حس وتجربہ سے تعلق رکھنے والے معاملات میں  توہم پرستی اور مذہبی خوش اعتقادی  کے خاتمے کے لیے کی گئیں۔   مذہبی خوش اعتقادی   کی  تہمیش  (marginalization)  میں   اصلاح مذہب کی تحریک نے جبکہ  واقعات ومظاہر  کے فطری اسباب کو  سمجھنے اور انھیں انسانی علم کے دائرے  میں لانے  میں سائنس نے بہت اہم کردار ادا کیا اور یوں انسانی علم نے  فطرت کی تفہیم اور اس کے ساتھ تعامل    کو   عقلی وتجربی بنیادوں پر استوار کرنے میں   غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔  

تاہم  مغربی فکر میں تصور وجود کی تحدید   یہاں  تک نہیں رہی، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر  مطلقا عالم غیب کے وجود   اور اس کے ساتھ  کسی بھی قسم کےربط وتعلق کے عدم امکان کو بھی    تصور وجود کا  جزو لاینفک بنا لیا گیا۔   بظاہر  سائنسی تحقیق، تجربیت اور  فطرت کی تفہیم کے لیے  اس کی ضرورت نہیں تھی اور ان دونوں کو ساتھ ساتھ قائم رکھا جا سکتا تھا، لیکن   جدیدیت کا غالب رجحان  اس کے خلاف ہے۔ یوں  تاریخ فکر کے لحاظ سے   گفتگو اور بحث ومناقشہ کا ایک اہم  موضوع یہ سوال بنتا ہے کہ  مغربی فکر میں تصور وجود کی اتنی  انتہائی تحدید    کے محرکات اور اسباب کیا ہیں اور یہ سفر کن  فکری مراحل سے  گزرتا ہوا اس نتیجے تک پہنچا ہے۔

اس حوالے سے اہم ترین نکتہ اس سوال کی تہہ میں  جانا ہے کہ اونٹ کی مینگنی سے  اونٹ کے وجود کا اور  اس پر قیاس کرتے ہوئے کائنات کے وجود سے خدا کے وجود کا استدلال  جو دور جدید سے پہلے سادہ اور فطری انسانی شعور  کے لیے فیصلہ کن  تھا، جدید  شعور کے لیے وہ کیوں    موثر نہیں ہے؟  عالم غیب سے متعلق جدید موقف کی توجیہ سادہ طور پر  مذہبی جبر کے رد عمل کے طور پر کرنا تاریخی طور پر زیادہ درست نہیں۔ یہ ایک پیچیدہ  مسئلہ ہے جس کو  اس کی ساری جہتوں کے ساتھ اور انسانی شعور کی پیچیدگیوں  کو  پوری طرح مد نظر رکھتے ہوئے ہی   اس کی درست تفہیم ہو سکتی ہے۔ ان پیچیدگیوں کا  کسی حد تک اندازہ   اس کلامی موقف سے کیا جا سکتا ہے جو   ایمان کو  عقل  اور عقلی فعلیت کے دائرے سے باہر  قرار دینے پر اصرار کرتا ہے۔

اس بحث کی، عمل اور تدبیر کے حوالے سے اہمیت کو سمجھنے کے لیے   اس فرق کو  پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو  مغربی معاشروں کے تاریخی سیاق  اور مسلمان معاشروں کے تاریخی تناظر میں پایا جاتا ہے۔

مغربی فکر میں جدید تصور  وجود اور اس پر مبنی تصور عقل کو  ایک خاص تاریخی  سیاق میں    صدیوں تک جاری رہنے والی ایک عقلی سرگرمی کے نتیجے میں قبول کیا گیا ہے۔ اس سرگرمی کا محوری نکتہ ایک  نئے تصور انسان کی تشکیل رہا ہے۔ جدید تصور وجود کی تشکیل بنیادی طور پر  اس نئے تصور انسان  کی  تحدیدات اور ضروریات کے تحت ہوئی ہے اور  جوں جوں  تصور انسان کی تحدید  ہوئی ہے، اس کے بالکل متوازی طور پر  تصور وجود کی  بھی تحدید ہوتی چلی گئی ہے۔     عقل جدید   اس بات کو بہت اچھی طرح اور  گہرائی کے ساتھ سمجھتی ہے کہ  وجود کو عالم شہود تک محدود کر دینے کا  موقف انسانی شعور کے لیے ایک  بحرانی صورت حال پیدا کرنے کا موجب ہے، کیونکہ  انسانی شعور کی بنیادی ترین طلب  وجود فی نفسہ کے بامعنی ہونے کے  تناظر میں  انسانی زندگی کی معنویت کی تلاش  ہے جو عالم غیب  کو تصور وجود کا حصہ  بنائے اور غیب وشہود کو  باہم متعلق مانے بغیر ممکن نہیں۔    

اس انتہائی   مشکل سوال کا حل  مغربی فکر میں  یہ نکالا گیا ہے کہ مستند انسانی شعور کی  ایک نئی تعریف  وضع کر کے اب تک کی پوری انسانی تاریخ کے   شعور  پر جھوٹا اور مبنی بر توہم ہونے کا حکم لگا دیا جائے، یعنی   یہ پوزیشن لے لی جائے کہ  انسانی شعور میں  کائناتی سطح پر معنی   کی  طلب ہی   ایک جھوٹی اور مصنوعی  طلب ہے۔  انسان جانوروں میں سے ایک جانور ہے جس کے لیے  حیاتیاتی بقا   اور فطرت پر تصرف حاصل کرنے کے جبلی داعیے کی تکمیل کے علاوہ   اور کسی قسم کا کوئی معنی اپنے اندر حقیقت نہیں رکھتا۔ ہاں، کسی حادثے کے نتیجے میں انسان کو عقل مل  گئی ہے جس کی مدد سے وہ دوسرے جانوروں کے مقابلے میں  اپنی جبلی  ضرورتوں کی تکمیل زیادہ بہتر اور منظم طریقے سے کر سکتا ہے۔  اخلاقیات کی ضرورت صرف تنظیم   تعلقات کو مشترکہ طو رپر قابل قبول اساسات فراہم کرنے  کے پہلو سے ہے۔  اس سے زائد ، زندگی میں کسی  معنویت کی تلاش  حماقتوں میں سے ایک حماقت ہے جس میں   اب تک کا سارا انسانی شعور مبتلا رہا ہے۔ فرد کی حیثیت سے انسان اب بھی اس وہم سے کوئی رشتہ ناتا رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے، لیکن   انسانی معاشرت کی اجتماعی تنظیم میں مذہبی اقدار    کا کوئی راہ نما کردار  تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

تاہم،  یہاں ہمارے لیے قابل توجہ نکتہ  یہ ہے کہ مغربی معاشروں  کے تناظر میں   انسان کی اس حیوانی تفہیم کا موقف    اور  مذہبی اقدار  کو   انسانی زندگی کی تشکیل کے دائرے سے بے دخل کرنے کا فیصلہ  کوئی  ایسا اضطراب، خلفشار یا انتشار پیدا نہیں کرتا جس سے   ان کا تہذیبی   سفر  رک جائے۔  مغرب میں اجتماعی شعور  اپنی تاریخ سے، اس میں   فکری تبدیلیوں کے مختلف مدارج سے  اور ان   سے وجود میں آنے والے فکری امکانات اور پوزیشنز سے پوری طرح واقف ہے۔ اس کے مقابلے میں ، مسلمان معاشروں کا تعارف ، دور جدید کی تمام تہذیبی بحثوں کی طرح، عقل ومذہب کی اس بحث  سے  بھی ایک سوال کی صورت میں نہیں ہوا  جس پر ہمیں اپنے تہذیبی سیاق  میں  غور وفکر  کرنا ہے، بلکہ عقل کے ایک نوتشکیل شدہ تصور اور اس کی بنیاد پر مذہبی اعتقاد پر لگائے گئے ایک حکم کی  صورت میں ہوا ہے۔  دوسرے لفظوں میں، ہمارے اجتماعی شعور کے سامنے  یہ سوال بطور سوال نہیں آیا، بلکہ ایک طے شدہ جواب ساتھ لے کر اور اس مطالبے کے ساتھ آیا ہے کہ  اس جواب کو اور اس کے تمام مفروضات کو  یہ تسلیم کرتے ہوئے قبول کرو کہ  تمھارے اپنے تہذیبی شعور میں اس سوال کا جو جواب موجود ہے، وہ اب علم وعقل کی نظر کوئی وقعت نہیں رکھتا۔

یوں مسلمان معاشروں میں جب یہ موقف پیش کیا جاتا ہے تو    ہماری فکری تاریخ میں  وہ سیاق موجود نہ ہونے کی وجہ سے جس میں  مذہبی عقیدے کی وجودی حیثیت اور   انسانی معاشرے کے لیے مذہبی اقدار   کی معنویت سے متعلق عقل جدید  کی پوزیشن اپنے پورے پس منظر کے ساتھ  معلوم ہو، اس کا نتیجہ  ایک گہرے وجودی  اضطراب اور  اجتماعی شعور  کی سطح پر  شدید قسم کی مخاصمانہ تقسیم  کی صورت میں  سامنے آتا ہے۔   سیاسی مفہوم میں سیکولرزم  کی آئیڈیلائز   یشن   کے مرحلے میں یہ تقسیم    کسی حد تک   باہمی   گفتگو  کی گنجائش رہنے دیتی ہے، لیکن  اس سے اگلا مرحلہ اعتقادی سیکولرزم  کا ہوتا ہے جو فی نفسہ مذہب  اور انسانی تاریخ میں اس کے کردار کی demonization سے کم    تر کسی پوزیشن   پر اکتفا نہیں کر سکتا۔

اس صورت حال میں انسانی سطح پر سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ  ایک مشترک شناخت،   تاریخ اور تہذیبی پس منظر رکھنے کے باوجود  خط تقسیم کے دونوں جانب   موجود   فریق   اشتراک، اجتماعیت اور  باہمی ہمدردی کے جذبات اور مشترک انسانی  سعی وجہد کے  داعیات سے   عاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔  روایتی تہذیبی شعور کے حاملین کے لیے   نئی تہذیبی  شناخت  اختیار کرنے والوں پر ’’مرعوبیت “ اور ’’غداری “ کا نفسیاتی و اخلاقی حکم لگائے بغیر انھیں دیکھنا ممکن نہیں رہتا، اور     عقل جدید کے متوسلین  خود کو اس پر مجبور پاتے ہیں کہ  جس تہذیبی شعور سے انھوں نے   علیحدگی اختیار کی ہے،  اس کو اور اس   کے تمام تاریخی وتہذیبی مظاہر   کو   تحقیر اور استہزا کی نظر سے  خود بھی دیکھیں اور دوسروں کو بھی دکھانے کی کوشش کریں تاکہ اپنے متعلق تہذیبی ’’غداری “ کے تاثر یا الزام کو   counterbalance کر سکیں۔ نتیجہ یہ کہ  تہذیبی سفر میں  کسی بھی سمت میں مثبت پیش رفت ، فریقین کے نقطہ نظر سے،  اس سے مشروط قرار پاتی ہے کہ میدان عمل، مخالف تہذیبی موقف  اور اس کے حاملین سے بالکل   پاک ہو جائے اور اس تطہیر کو باقاعدہ  ایک سیاسی انداز کی مہم کا ہدف بنایا جائے۔  یہ زاویہ نظر ایک شکاری ذہنیت   (predatory mindset) کو جنم دیتا ہے  جس میں  ہر فریق، مخالف کو    dehumanize کرنے   اور اس کے مواقع  پیدا کرتے رہنے  کو  اپنی حکمت عملی کا بنیادی پتھر تصور کرتا ہے۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عقل ومذہب کی بحث کو  اس کے درست تاریخی اور تہذیبی سیاق میں   موضوع بنانے کی ضرورت ہے تو ہماری مراد اس سے بنیادی طور پر یہی دو پہلو ہوتے ہیں۔  ہمیں  ایک طرف گہرائی کے ساتھ مغربی  معاشروں کی تاریخ فکر کو    اور ان  تاریخی اسباب کو  جاننے کی ضرورت ہے جس میں انسان،  عقل اور وجود کے  نئے تصورات تشکیل دیے گئے اور  انھیں  انسانی شعور کے لیے واحد ممکن انتخاب  بنانے کا تمام تر فکری لوازمہ مہیا کیا گیا۔  دوسری طرف  اس تاریخی جبر کا حقیقت پسندانہ اور  ہمدردانہ ادراک، ہماری  اجتماعی ضرورت ہے جس نے   ہمارے معاشروں میں شعور اور تہذیبی شناخت کی سطح پر ایک گہری تقسیم  پیدا کر دی ہے  اور جس  کو resolve کرنے کی کوئی تعمیری  صورت  نکالنا   ہر دو  جانب کے اہل دانش کی مشترکہ  تہذیبی ذمہ داری  بنتی ہے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۴)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(234) السیئات کا ترجمہ

سیئات اصل میں صفت ہے اس کا موصوف اگر اعمال ہوں تو برائیاں مراد ہوتی ہیں، اور اگر احوال ہوں تو بدحالیاں مراد ہوتی ہیں، درج ذیل آیت میں حسنات سے خوش حالیاں اور سیئات سے بدحالیاں مراد ہیں:

وَقَطَّعنَاہُم فِی الاَرضِ اُمَماً مِّنہُمُ الصَّالِحُونَ وَمِنہُم دُونَ ذَلِکَ وَبَلَونَاہُم بِالحَسَنَاتِ وَالسَّیِّئَاتِ لَعَلَّہُم یَرجِعُون۔ (الاعراف: 168)

”اور ہم ان کو خوش حالیوں اور بدحالیوں سے آزماتے رہے کہ شاید باز آجائیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

جب کہ آگے درج کی گئی آیت میں بہت سے لوگوں نے سیئات کا ترجمہ برائیاں یا گناہوں کے نتائج کیا ہے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے مطابق سیئات سے مراد قیامت کے اہوال اور مصائب ہیں جن سے اہل ایمان کو بچالیا جائے گا، قیامت اور اہل ایمان کے تذکرے کے لحاظ سے یہ مفہوم زیادہ مناسب لگتا ہے۔

وَقِہِمُ السَّیِّئَاتِ وَمَن تَقِ السَّیِّئَاتِ یَومَئِذٍ فَقَد رَحِمتَہُ وَذَلِکَ ہُوَ الفَوزُ العَظِیمُ۔ (غافر: 9)

”اور انہیں گناہوں کی شامت سے بچالے، اور جسے تو اس دن گناہوں کی شامت سے بچائے تو بیشک تو نے اس پر رحم فرمایا، اور یہی بڑی کامیابی ہے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ان کے برے نتائج اعمال سے بچا اور جن کو تو نے اس دن برے نتائج سے بچایا تو وہی ہیں جن پر تونے رحم فرمایا اور یہی در حقیقت بڑی کامیابی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور بچا دے اُن کو برائیوں سے، جس کو تو نے قیامت کے دن برائیوں سے بچا دیا اُس پر تو نے بڑا رحم کیا، یہی بڑی کامیابی ہے“۔ (سید مودودی)

”اور ان کو آفتوں سے بچا اور جن کو تو نے اس دن آفتوں سے بچایا تو وہی ہیں جن پر تونے رحم فرمایا اور یہی در حقیقت بڑی کامیابی ہے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(235) نعماء  کا ترجمہ

وَلَئِن اَذَقنَاہُ نَعمَاء بَعدَ ضَرَّاء مَسَّتہُ۔ (ہود :10)

”اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور اگر ہم اسے نعمت کا مزہ دیں اس مصیبت کے بعد جواسے پہنچی“۔ (احمد رضا خان)

”اور اگر کسی تکلیف کے بعد، جو اس کو پہنچی، اس کو نعمت سے نوازتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسائش کا مزہ چکھائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

آسائش والا ترجمہ لفظ نعماء سے قریب تر ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی یہاں نعماء کا ترجمہ خوش حالی کرتے ہیں، جب کہ ضراء کا مفہوم تنگ حالی ہے۔ امام طبری کی درج ذیل تفسیر لفظ نعماء کی بخوبی وضاحت کرتی ہے۔

یقول تعالی ذکرہ: ولئن نحن بسطنا للانسان فی دنیاہ، ورزقناہ رخاءً فی عیشہ، ووسعنا علیہ فی رزقہ، وذلک ہی النّعم التی قال اللہ جل ثناؤہ: ولئن اذقناہ نعماء۔ وقولہ: بعد ضراءمستہ، یقول: بعد ضیق من العیش کان فیہ، وعسرۃ کان یعالجہاَ۔

(236) دعی اللہ کا ترجمہ

دُعِیَ اللہ کا مطلب ہے اللہ کو پکارا گیا، جب کہ دُعِیَ الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی طرف بلایا گیا، بعض مترجمین نے درج ذیل آیت میں دُعِیَ اللہ  کا ترجمہ اللہ کی طرف بلانا یا اللہ کی دعوت دینا کیا ہے، جو درست نہیں ہے۔ یہاں اللہ کو پکارنا صحیح ترجمہ ہے اور اس سے مراد اللہ کی عبادت کرنا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ اِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحدَہُ کے مقابل میں  واِن یُشرَک بِہِ آیا ہے۔

ذَلِکُم بِاَنَّہُ اِذَا دُعِیَ اللَّہُ وَحدَہُ کَفَرتُم وَاِن یُشرَک بِہِ تُؤمِنُوا۔ (غافر:12)

”(جواب ملے گا) یہ حالت جس میں تم مبتلا ہو، اِس وجہ سے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم ماننے سے انکار کر دیتے تھے اور جب اُس کے ساتھ دوسروں کو ملایا جاتا تو تم مان لیتے تھے“۔ (سید مودودی)

”یہ انجام تمہارے سامنے اس وجہ سے آیا کہ جب اللہ واحد کی دعوت دی جاتی تو تم اس کا انکار کرتے اور اس کے شریک ٹھہرائے جاتے تو تم مانتے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”یہ (عذاب) تمہیں اس لیے ہے کہ جب صرف اکیلے اللہ کا ذکر کیا جاتا تو تم انکار کر جاتے تھے اور اگر اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جاتا تھا تو تم مان لیتے تھے“۔ (محمد جوناگڑھی، اللہ کا ذکر مراد نہیں بلکہ اللہ کی عبادت مراد ہے۔)

”یہ اس پر ہوا کہ جب ایک اللہ پکارا جاتا تو تم کفر کرتے اور ان کا شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے“۔ (احمد رضا خان)

”یہ اس لیے کہ جب تنہا خدا کو پکارا جاتا تھا تو تم انکار کردیتے تھے۔ اور اگر اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جاتا تھا تو تسلیم کرلیتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(237)  مَا اُرِیکُم اِلَّا مَا اَرَی کا ترجمہ

قَالَ فِرعَونُ مَا اُرِیکُم اِلَّا مَا اَرَی وَمَا اَہدِیکُم اِلَّا سَبِیلَ الرَّشَاد۔ (غافر:29)

”فرعون بولا کہ میں تم کو اپنی سوچی سمجھی رائے بتارہا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”فرعون نے کہا میں تو تم لوگوں کو وہی رائے دے رہا ہوں جو مجھے مناسب نظر آتی ہے“۔ (سید مودودی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی اس کا ترجمہ’ واقعی رائے ‘تجویز کرتے ہیں۔ ”میں تم کو اپنی واقعی رائے بتارہا ہوں“۔

(238) یوم الآزفۃ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں الآزفۃ قیامت کی صفت ہے یوم کی صفت نہیں ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے اسے یوم کی صفت بناکر ترجمہ کیا ہے:

وَاَنذِرہُم یَومَ الآزِفَۃِ اِذِ القُلُوبُ لَدَی الحَنَاجِرِ کَاظِمِینَ مَا لِلظَّالِمِینَ مِن حَمِیمٍ وَلَا شَفِیعٍ یُطَاع۔ (غافر:18)

”اے نبی، ڈرا دو اِن لوگوں کو اُس دن سے جو قریب آ لگا ہے“۔ (سید مودودی)

”اور ان کو قریب آنے والے دن سے ڈراؤ“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور پیغمبر انہیں آنے والے دن کے عذاب سے ڈرائیے“۔ (جوادی)

مذکورہ بالا ان ترجموں میں الآزفۃ کو یوم کی صفت بنایا گیاہے، جو درست نہیں ہے، جب کہ درج ذیل ترجموں میں یوم کی صفت کے طور پر ترجمہ نہیں کیا گیا ہے:

”اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے“۔ (احمد رضا خان)

”اور ان کو قریب آلگنے والی آفت کے دن سے ڈرا“۔ (امین احسن اصلاحی، آلگی آفت سے ہونا چاہیے)

”اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی (قیامت سے) آگاہ کر دیجئے“۔(محمد جوناگڑھی، اس ترجمے میں یوم کا ترجمہ نہیں ہوا ہے)

(239) وَمَا کَیدُ الکَافِرِینَ اِلَّا فِی ضَلَال کا ترجمہ

فَلَمَّا جَاءہُم بِالحَقِّ مِن عِندِنَا قَالُوا اقتُلُوا اَبنَاء الَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ وَاستَحیُوا نِسَاءہُم وَمَا کَیدُ الکَافِرِینَ اِلَّا فِی ضَلَال۔ (غافر: 25)

اس آیت میں ضلال کا ذکر کید کے لیے آیا ہے، اس لیے یہاں ضلال بھٹکنے یا غلطی پر ہونے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ ناکام ہونے کے معنی میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہاں یہ جملہ حالیہ ہے اور تمام کافروں کے سلسلے میں عام اصول بتارہا ہے، یہ ماضی میں کسی خاص گروہ کی چال کے ناکام ہونے کی خبر نہیں دے رہا ہے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ کریں:

”پھر جب وہ ہماری طرف سے حق ان کے سامنے لے آیا تو انہوں نے کہاجو لوگ ایمان لا کر اس کے ساتھ شامل ہوئے ہیں ان سب کے لڑکوں کو قتل کرو اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دو۔ مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی“۔ (سید مودودی)

”اور ان کافروں کی چال بالکل رائیگاں گئی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور کافروں کا داؤ نہیں مگر بھٹکتا پھرتا“۔ (احمد رضا خان)

”اور کافروں کی جو حیلہ سازی ہے وہ غلطی میں ہی ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں: ”اور کافروں کی چال بالکل رائیگاں جاتی ہے“۔

(240)  ذرونی کا مفہوم

وَقَالَ فِرعَونُ ذَرُونِی اَقتُل مُوسَی وَلیَدعُ رَبَّہُ اِنِّی اَخَافُ اَن یُبَدِّلَ دِینَکُم اَو اَن یُظہِرَ فِی الاَرضِ الفَسَاد۔ (غافر:26)

اس آیت میں لفظ ذرونی کا ترجمہ عام طور سے مجھے چھوڑو کیا گیا ہے۔ اور اس کی تفسیر اس طرح کی گئی ہے کہ گویا فرعون کو اس کی قوم کے لوگ اس اقدام سے روکے ہوئے تھے، اور وہ ان سے اجازت چاہتا تھا۔

”اور فرعون بولا کہ مجھے چھوڑو کہ موسی کو قتل کردوں اور وہ اپنے پروردگار کو بلالے۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ (کہیں) تمہارے دین کو نہ بدل دے یا ملک میں فساد (نہ) پیدا کردے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ایک روز فرعون نے اپنے درباریوں سے کہا،چھوڑو مجھے، میں اِس موسی کو قتل کیے دیتا ہوں“۔ (سید مودودی)

”اور فرعون بولا مجھے چھوڑو میں موسی کو قتل کروں“۔ (احمد رضا خاں)

”اور فرعون نے کہا مجھے چھوڑو میں موسی کو قتل کیے دیتا ہوں“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی توجہ دلاتے ہیں کہ یہ عربی زبان کا اسلوب ہے، جیسے اردو میں کہتے ہیں لو میں یہ کردیتا ہوں یا لاؤ  میں یہ کردیتا ہوں۔ یہاں ترجمہ ہوگا:

”اور فرعون نے کہا لو میں موسی کو قتل کیے دیتا ہوں“۔

قرآن مجید میں یہ تعبیر اللہ کے سلسلے میں بھی آئی ہے، اور ظاہر ہے کہ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالی کو کوئی روکے ہوئے ہے اور اللہ کسی سے اجازت مانگتا ہے۔ درج ذیل مثال سامنے رکھی جاسکتی ہیں۔

فَذَرنِی وَمَن یُکَذِّبُ بِہَذَا الحَدِیثِ۔ (القلم:44)

”تو مجھ کو اس کلام کے جھٹلانے والوں سے سمجھ لینے دو“۔(فتح محمد جالندھری)

(241) مغنون عنا کا ترجمہ

وَاِذ یَتَحَاجُّونَ فِی النَّارِ فَیَقُولُ الضُّعَفَاء لِلَّذِینَ استَکبَرُوا اِنَّا کُنَّا لَکُم تَبَعاً فَہَل اَنتُم مُّغنُونَ عَنَّا نَصِیباً مِّنَ النَّارِ۔ (غافر:47)

”تو کیا آپ لوگ عذاب دوزخ کا کچھ حصہ بھی ہماری جگہ اپنے سر لینے والے بنیں گے؟“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج بالا آیت میں مُّغنُونَ عَنَّا نَصِیباً مِّنَ النَّارِ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے گویا ان سے عذاب کا کچھ حصہ اپنے سر لینے کی مانگ کررہے ہوں۔ یہ درست ترجمہ نہیں ہے۔ اس جملے کا مطلب عذاب کا کچھ حصہ اپنے سر لینا نہیں ہے بلکہ عذاب کے ایک حصے سے بچالینا اس کا مطلب ہے۔درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”اب کیا یہاں تم نار جہنم کی تکلیف کے کچھ حصے سے ہم کو بچا لو گے؟“۔ (سید مودودی)

صاحب تدبر نے درج ذیل آیت میں اسی طرح کی تعبیر کا درست ترجمہ کیا ہے۔

فَہَل اَنتُم مُّغنُونَ عَنَّا مِن عَذَابِ اللّہِ مِن شَیءٍ۔ (ابراہیم :21)

”تو کیا اللہ کے اس عذاب میں سے کچھ تم ہمارا بوجھ ہلکا کروگے؟“۔ (امین احسن اصلاحی)

(242) توفیۃ الاعمال کا ترجمہ

قرآن میں کچھ مقامات پر توفیۃ الاجور کی تعبیر آئی ہے، وہاں تو پورا پورا صلہ دینے کا مفہوم واضح ہے۔ البتہ قرآن میں کچھ مقامات پر توفیۃ الاعمال کی تعبیر آئی ہے، وہاں بھی مفہوم اعمال کا پورا بدلہ دینے کا ہے۔ دونوں تعبیروں میں فرق یہ ہے کہ توفیۃ الاجور میں ارتکاز اجر پر ہوتا ہے کہ اجر میں کوئی کمی نہیں کی جائے گا، اور توفیۃ الاعمال میں ارتکاز عمل پر ہوتا ہے کہ کوئی عمل بدلہ دینے سے چھوٹ نہیں جائے گا۔

توفیۃ الاعمال کی تعبیر والے مقامات پر صاحب تدبر نے مختلف طرح سے ترجمے کیے ہیں، تاہم ان میں مناسب ترجمہ وہی ہے جو خود انھوں نے بعض جگہ کیا ہے یعنی اعمال کا پورا بدلہ دینا نہ کہ اعمال کو پورا کرنا۔

(۱) مَن کَانَ یُرِیدُ الحَیَاۃَ الدُّنیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ اِلَیہِم اَعمَالَہُم فِیہَا۔ (ہود 15)

”جو دنیا کی زندگی اور اس کے سر وسامان کے طالب ہوتے ہیں ہم ان کے اعمال کا بدلہ یہیں چکا دیتے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲) وَاِنَّ کُلاًّ لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُم رَبُّکَ اَعمَالَہُم۔ (ھود:111)

”اور یقینا تیرا رب ہر ایک کو اس کے اعمال کا بدلہ پورا کرکے رہے گا“۔ (امین احسن اصلاحی، ”بدلہ پورا دے کرکے رہے گا“ ہونا چاہیے۔)

(۳) وَتُوَفَّی کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (النحل:111)

”اور ہر جان کو وہی پورا پورا بدلہ میں ملے گا جو اس نے کیا ہوگا“۔ (امین احسن اصلاحی، عمل کا بدلہ ملے گا نہ کہ وہی عمل بدلے بدلے میں ملے گا۔)

”اور ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا“۔ (سید مودودی)

(۴) وَوُفِّیَت کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (الزمر :70)

”اور ہر جان کو جو کچھ اس نے کیا ہوگا پورا کیا جائے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور ہر متنفس کو جو کچھ بھی اُس نے عمل کیا تھا اُس کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا“۔ (سید مودودی)

(۵) وَلِکُلٍّ دَرَجَات مِّمَّا عَمِلُوا وَلِیُوَفِّیَہُم اَعمَالَہُم۔ (الاحقاف :19)

”اور ان میں سے ہر ایک کے لیے ان کے اعمال کے اعتبار سے درجے ہوں گے(تاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو) اور تاکہ وہ ان کے اعمال ان کو پورے کردے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”دونوں گروہوں میں سے ہر ایک کے درجے ان کے اعمال کے لحاظ سے ہیں تاکہ اللہ ان کے کیے کا پورا پورا بدلہ ان کو دے“۔ (سید مودودی،’دونوں گروہوں میں سے‘ کا تفسیری اضافہ نامناسب ہے،’تاکہ‘سے پہلے’اور‘بھی آنا چاہیے۔)

مولانا انور شاه کاشمیری ؒ كے درس حدیث کی خصوصیات

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

مولانا انور شاہ کاشمیری ؒ  کی علمی زندگی کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ تصنیف کے میدان کے آدمی نہیں تھے ،آپ کا اصل میدان تدریس تھا، اس لیے ان کے علمی ورثہ  کے طور پر جتنی بھی کتب ملتی ہیں ان میں سے اکثر امالی و تدریسی تقریرات کی شکل میں ہیں ، جن کو ان کے بعد ان کے جلیل القدر شاگردوں نے  ترتیب و تدوین سے آراستہ کیا ۔ ایک موقع پر ان کے ایک شاگرد مفتی محمود صاحب نانوتوی ؒ نے فرمایا:

"ہندوستان میں حضرت شاہ ولی اللہ ؒ سے زیادہ کامیاب کوئی مصنف اور حضرت شاہ صاحب کشمیریؒ سے بڑھ کر کوئی مدرس پیدا نہیں ہوا۔"1

گویا شاہ صاحب ؒ میدان تدریس کے شاہ سوار تھے ۔ انہوں نے اپنا میدان مطالعہ چونکہ قدیم کتب کو بنائے رکھا اس لیے اگر کوئی کتاب تصنیف بھی کی تو اس میں وہی پرانا اسلوب واضح نظر آتا ۔  ایک موقع پر انہوں نے اپنی کوئی تالیف اپنے استاد حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ کو سنائی تو انہوں  نے اس پر تبصرہ فرماتے ہوئے کہا:

"شاہ صاحب اس کی شرح بھی لکھ دیجئے تاکہ اساتذہ بھی اس سے استفادہ پر قادر ہو سکیں" 2

اسی لیے ان کےہمہ جہت  کام کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ان کے درس حدیث کی خصوصیات کا تذکرہ انتہائی ضروری ہے ۔ ذیل میں ہم ان کے درس کی نمایاں خصوصیات کا تذکرہ کریں گے ۔

تفصیل واطناب

اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب ؒ کو مضبوط قوت حافظہ سے نوازا تھا ، اس کے ساتھ ان کا مطالعہ بھی کافی وسیع اور متنوع  تھا ۔ حدیث کی تشریح میں وہ علوم و فنون میں اپنی پوری مہارت  کو استعمال کرتے ۔  اسی وجہ سے درس صرف درس حدیث ہی نا ہوتا بلکہ متنوع علوم کا مجموعہ ہوتا جن کو حدیث کی مراد متعین کرنے کے لیے آپ انتہائی سلیقہ سے استعمال کرتے ۔ یہی نہیں بلکہ ان علوم کے مباحث خلافیہ میں بھی مجتہدانہ رائے رکھتے ۔ مولانا مناظر احسن گیلانی ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں :

"میں عرض کرنا چاہتا تھا کہ جیسے حدیث کے متعلق شاہ صاحب ؒ کے درس میں گر کی باتیں معلوم ہوتی رہتی تھیں ، ایسی باتیں جن سے تاثرات میں غیر معمولی انقلاب پیدا ہو جاتا تھا ، یہی حال دوسرے علوم و فنون کے متعلق تھا ۔ درس تو ہوتا تھا حدیث کا لیکن شاہ صاحب کی ہمہ گیر طبیعت  نے معلومات کا جوگرانمایہ قیمتی سرمایہ ان کے اندر جمع کر دیا تھا ، وہ ان کے اندر سے بے ساختہ چھلکتا رہتا تھا۔"3

مولانا انظر شاہ مسعودی ؒ ان کے درس حدیث کا شاہ ولی اللہ ؒ کے درس حدیث سے موازنہ  کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

"شاہ ولی اللہ ؒ کا طریق درس حدیث کی ضروری وضاحت سے زیادہ نہیں تھا ۔ مولانا گنگوہی ؒ اور مولانا نانوتوی ؒ نے اس میں فقہ حنفی کے مآخذ کی نشاندہی کا اضافہ کیا ، لیکن مولانا کشمیری قدس سرہ العزیز نے عام درس گاہی طریق درس میں یکسر انقلاب برپا کیا ۔ آپ نے حدیث کی شرح و تفصیل میں صرف و نحو ، فقہ و اصول فقہ ، معانی و بلاغت ، اسرار و حکم ، سلوک و تصوف ، فلسفہ و منطق ، سائنس و عصری علوم کا ایک گرانقدر اضافہ ، رجال کی بحثیں ، مصنفین و مولفین کی تاریخ و سوانح ، تالیفات و تصنیفات پر نقد و تبصرہ آپ کے درس کا ایک امتیاز تھا ۔ اس کے نتیجہ میں درسی تقریریں بجائے مختصر ہونے کے طویل ہو گئیں ۔" 4

اس کے ساتھ آپ کا مقصد  ذہین طلبہ کو مطالعہ کے ذوق و سلیقہ سے روشناس کروانا بھی ہوتا تھا ۔ آپ درس کے دوران کتب کا ایک انبار اپنے ساتھ رکھتے اور مختلف مباحث میں طلبہ کو اصل کتاب کے حوالے کتاب سے دکھاتے تاکہ طلبہ علی وجہ البصیرہ اس سے واقفیت کے ساتھ اس کتاب سے اس کا مطالعہ بھی کر سکیں ۔ مولانا گیلانی ؒ اس ضمن میں رقم طراز ہیں :

"وہ اپنے عہد کے طلبہ کی علمی بے بضاعتیوں  کا اندازہ کر کے تکلیف اٹھا کر علاوہ موضوع درس کے چند خاص امور کا تذکرہ التزاما اپنے درس میں ضرور فرمایا کرتے تھے ، مثلا جن مصنفین کی کتابوں کا حوالہ دیتے ان کی ولادت و وفات کے سنین کے ساتھ ساتھ مختصر حالات اور ان کی علمی خصوصیت ، علم میں ان کا خاص مقام کیا ہے ؟ ان امور پر ضرور تنبیہ کرتے چلے جاتے ۔ یہ ان کا ایسا اچھا طریقہ تھا ، جس کی بدولت شوقین اور محنتی طلبہ ان کے حلقہ درس میں شریک ہو کر علم کے ذیلی سازو  سامان سے مسلح ہو جاتے تھے یا کم از کم مسلح ہونے کا ڈھنگ ان کو آ جاتا تھا ۔" 5

درس کی ان خاصیت کے پیش نظر شاہ صاحب ؒ کے بہت سے شاگردوں کو بطور دلیل کے پیش کیا جا سکتا ہے کہ جنہوں نے ان کے درس سے استفادہ کیا اور ایک ہی وقت میں متنوع  تحقیقات و معلومات کے حاصل ہونے کی وجہ سے ان کے علمی حوصلوں میں وسعت ، گہرائی و گیرائی پیدا ہوئی اور مستقبل میں انہوں نے علمی میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ۔ شاہ صاحب کے اسلوب درس کی اس افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  قاری محمد طیب صاحب ؒ اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں :

"حضرت ممدوح کی اس تبحر پسندی اور ذوق زیادۃ علم کا نتیجہ یہ تھا کہ طلبہ میں بھی وہی ذوق تبحر پیدا ہونے لگا ۔ ہر طالب علم کوشش کرتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ تحقیق کے ساتھ مسئلہ کی تہہ تک پہنچے ۔ اس دور میں ہر چھوٹے بڑے کا یہ ذہن بن گیاتھا اور اس کے آثار زمانہ طالب علمی ہی میں نمایاں ہونے لگے تھے۔

چنانچہ اس زمانہ کے متعدد طلباء دورہ حدیث نے اچھے اچھے قابل قدر رسالے اور مضامین سے اپنے علمی تبحر کا ثبوت دیا ۔ میں نے ادب و تاریخ کے سلسلہ میں رسالہ " مشاہیر امت" لکھا۔ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مرحوم (سابق مفتی اعظم پاکستان ) نے " ختم النبوۃ فی القرآن " اور " ختم النبوۃ فی الحدیث" کا رسالہ دو جلدوں میں مرتب کیا۔ مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی  نے " کلمۃ السر فی حیوۃ روح السر" لکھا ۔ مولانا بدر عالم میرٹھی نے بھی کئی رسالے لکھے اور تقریبا دو تین سال کے عرصہ میں احاطہ دار العلوم سے اٹھارہ ، انیس رسالے شائع ہوئے ۔

یہ درحقیقت وہی ذوق تھا جو حضرت ممدوح کے درس حدیث سے طلبہ لے کر اٹھتے تھے اور علمی طور پر اپنے اندر زمانہ طالب علمی ہی میں ایک ایسی قوت محسوس کرنے لگتے تھے کہ گویا وہ تمام علوم و فنون پر حاوی ہیں اور علم ان کے اندر سے خود بخود ابھر رہا ہے ۔ وہ کتب بینی محض عنوان بیان تلاش کرنے کے لیے کر رہے ہیں ۔"6

اس انداز تدریس سے ذی فہم و ذی استعداد طلبہ ہی کما حقہ مستفید ہو سکتے تھے ، دوسرے اور تیسرے درجے کے طلبہ اگرچہ اس طرح فائدہ حاصل نا کر پاتے لیکن  متعلقہ علوم و معارف کو سن لینا اور ایسے مباحث پر یک گونہ اطلاع حاصل کر لینا بھی کسی نعمت سے کم نا تھا ۔ اس انداز تدریس کو نبھانا بھی ہر استاد و معلم کے بس کی بات نہیں ہوتی ، جس قوت حافظہ ، استحضار علوم اور قوت بیان کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر کسی کو عطا نہیں ہوتی ۔  مولانا  محمد انظر شاہ صاحب ؒ اسی کیفیت کومولانا حسین احمد مدنی ؒ کے ایک قول کے حوالے سے  یوں  بیان کرتے ہیں :

"دار العلوم کے وہ طلبہ جو دوسرے مدارس کی تعلیم سے متاثر ہو کر طویل درسی تقریریوں کی افادیت میں کچھ شبہ محسوس کرتے  رہے فراغت کے بعد جب انہیں دینی خدمات کا  موقع ملا اور نت نئے دینی فتنوں کے مقابلہ کے لیے اپنی علمی توانائیوں سے کام لینا ضروری ہوا تو اس کا اعتراف کیا کہ درس میں مختلف عنوانات کے تحت اساتذہ کے افادات ہمارے لیے کارآمد ہوئے ، بھلا آپ خود ہی سوچئے کہ ایک طریق تعلیم کے نتیجہ میں صرف متعلقہ کتاب کا حل دوسری جانب فن کی تعلیم اور تیسری طرف مختلف فنون کا افادہ ، ان تینوں طریقوں میں جامع شخصیتیں تیار کرنے کے لیے کون سی صورت مفید و کارگر ہے !   ظاہر ہے کہ جماعت میں موجود طلبہ کی ایک بڑی تعداد میں بعض وہ فہیم طلبہ بھی ہوں گے جو ان مختلف فنون پر پھیلی ہوئی تقریروں سے بھر پور فائدہ اٹھاتے رہیں ، رہ گئے دوسرے اور تیسرے درجہ کے طالب علم ، یقین ہے کہ وہ بھی اس اجتہادی طرقی تعلیم سے کلیۃ محروم نہیں رہے ، سنی سنائی اور کانوں میں پڑی ہوئی باتیں کسی نہ کسی وقت ان کے لیے بہرحال کار آمد ہوتی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ تعلیم کے اس اچھوتے طرز کو نبھانے کے لیے جامع شخصیتیں مطلوب ہیں جنہیں وسعت علم کے ساتھ حفظ و یادداشت کی غیر معمولی صلاحیتیں بھی حاصل ہوں ، اس راہ کی دشواریوں کا مجھے سب سے پہلے احساس " ترمذی شریف " کے ابتدائی سبق میں ہوا جس میں اپنے استاذ اکبر مولانا حسین احمد مدنی ؒ کے یہ الفاظ کانوں میں پہنچے :

" مرحوم حضرت شاہ صاحب  کشمیری ؒ نے طویل تقریروں کی بنیاد ڈال کر ہم ایسوں کو پریشانی میں مبتلا کر دیا ، وہ اپنے بے پناہ علوم اور زبردست قوت حافظہ کی بناہ پر اس طریقہ کو نبھاتے لیکن جو ان صفات سے خالی ہیں وہ ضیق محسوس کرتے ہیں ۔" 7

مشکل یا متعارض روایات کو حل کرنے کا اسلوب

مشکل یا متعارض احادیث میں شاہ صاحب ؒ شرح حدیث کا مدار کسی ایک لفظ یا کسی ایک طریق و سند کو نہیں بناتے تھے بلکہ اس حدیث کے تمام الفاظ اور طرق کو اکٹھا کرتے اور ان میں سے شارع علیہ السلام کے الفاظ کی جستجو کر کے اسے مدار شرح قرار دیتے۔ اس باب میں ان کی رائے یہ تھی کہ روایات میں روایت بالمعنی عام ہے ، اور احکام کا دارو مدار حضور اکرم ﷺ کے الفاظ ہیں ۔ اس لیے اگر ان الفاظ میں سے حضور ﷺ کے الفاظ کی تعیین ممکن ہو تو انہیں کو مدار شرح بنایا جائے گا ۔ مختلف اسناد و الفاظ میں سے شارع کے الفاظ کی تعیین وہ فصاحۃ و روعۃ الفاظ پر رکھا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ ایک نقطہ یہ بیان فرماتے کہ حدیث کے راویوں کا اتقان جتنا زیادہ بڑھتا جائے گا اتنا ہی زیادہ روایت باللفظ کا امکان زیادہ ہوگا ۔ اسی وجہ سے جس محدث نے راویوں کے اتقان و ثقاہت کا زیادہ خیال رکھا ہوگا اس کی نقل کردہ روایت میں  فصاحۃ و بلاغۃ اور رونق الفاظ کا عنصر بھی زیادہ اور نمایاں ہوگا اور ہم ان الفاظ کے بارے یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ  اس افصح العرب شخصیت کے الفاظ ہیں جن کو جوامع الکلم عطا کیے گئے تھے ۔  اسی لیے ان کے ہاں صحیح بخاری و صحیح مسلم کی نقل کردہ روایت کے الفاظ میں یہ رونق و فصاحت سنن کی روایت کی نسبت زیادہ پائی جاتی ہے ۔  اس لیے وہ متعارض یا مشکل احادیث میں کسی ایک خاص لفظ یا کسی خاص سند کو مدار تشریح نہیں بناتے تھے بلکہ مجموعی طور پر ان سب الفاظ و طرق کو دیکھ کر ان سب کو تشریح میں جمع کرتے ہوئے ایسی تعبیر کرتے جو اطمینان قلب اور شرح صدر کا باعث بن جاتی ۔  ان کے ہاں مذاہب میں بہت سے اختلافات کسی خاص لفظ یا کسی خاص سند یا طریق کو مدار قرار دینے سے ہی پیدا ہوتے ہیں 8

علماء متقدمین کا احترام

درس حدیث میں شاہ صاحب ؒ جب کبھی متقدمین کے اقوال میں سے کسی قول پر تنقید کرتے تو پہلے ان کی جلالت شاہ اور عظمت کا اعتراف کرتے ، ان کی خصوصیات کا ذکر کرتے اور ان کی خدمات دینیہ کو سراہتے ۔ پھر ان کے اقوال پر اپنی رائے پورے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیان فرمایا کرتے ۔ اس حوالے سے قاری طیب صاحب ؒ لکھتے ہیں :

"غرض ایجابی و سلبی دونوں قسم کے علوم کی نیرنگیاں حلقہ درس کو ایک رنگین گل دستہ بنائے ہوئے تھیں ،م جس میں رنگ رنگ کے علمی پھول چنے ہوتے تھے ، تفنن علوم کی رنگینیوں کے ساتھ آپ کے درس میں ایک خاص شوکت بھی ہوتی تھی ، کلام میں تمکن اور قوت الفاظ میں شوکت و حشمت اور کلام کے وقت حضر ت ممدوح کی ہیئت کذائی کچھ ایسے انداز کی وہ اجتی تھی جیسے کوئی بادشاہ اپنا حاکمانہ فرمان سنا رہا ہے ۔ بالخصوص ائمہ مجتہدین کے متبعین علماء کے کلام پر بحث و تنقید چھڑ جاتی تو اس وقت معارضانہ اور ناقدانہ کلام کی شوکت اور بھی زیادہ ابھری ہوئی دکھلائی دیتی تھی ، نگاہیں تیز ہو جاتیں ، آواز قدرے بلند ہو جاتی اور گردن اٹھا کر بولتے تو ایک عجیب پر شوکت اور رعب افزاء کلام معلوم ہوتاتھا۔

بعض مواقع پر مثلا حافظ ابن تیمیہ ؒ اور ابن قیم ؒ کے تفردات کا ذکر آتا تو پہلے ان کے علم و فضل اور تفقہ و تبحر کو سراہتے ، ان کی عظمت و شان بیان فرماتے ، اور پھر ان کے کلام پر بحث و نظر سے تنقید فرماتے ، جس میں عجیب متضاد کیفیات جمع ہوتی تھیں ، ایک طرف ادب و عظمت اور دوسری طرف رد و قدح یعنی بے ادبی اور جسارت کے ادنیٰ سے ادنیٰ شائبہ سے بھی بچتے اور رجح اور صواب میں کتمان صواب سے بھی دور رہتے کبھی کبھی علمی جوش میں آ کر برنگ مزاح بھی رد و قدح فرماتے تھے ، جو بجائے خود ہی ایک مستقل علمی لطیفہ ہوتا تھا۔"9

اس کی ایک بہت عمدہ مثال مولانا یوسف بنوری ؒ نے ذکر کی ہے ۔ شاہ صاحب ؒ " التفسیر الکبیر " کا تذکرہ کرتے ہوئے امام فخر الدین الرازی ؒ کی بہت تعریف کیا کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں اس رائے کا اظہار کرتے کہ امام فخری الدین رازی ؒ قرآن کریم کے مشکل مقامت میں کھب جاتے ہیں اور بڑی متین تحقیقات اور بڑی مضبوط تدقیقات پر قاری کو متنبہ کر دیتے ہیں ۔ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے  کہ وہ کسی مشکل پر متنبہ تو ہو جاتے ہیں لیکن اس کی ایسی وضاحت کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے کہ جس سے اطمینان قلب حاصل ہو جائے ۔ مولانا بنوری ؒ کہتے ہیں کہ تفسیر کبیر کے بارے میں عام طور پر جو قول مشہور ہے کہ "فيہ کل شئی الا التفسیر" ، اس کے بارے میں میں نے شاہ صاحب سے پوچھا تو انہوں نے  اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :" کسی راوی مزاج شخص کا قول ہے " ۔ گویا تفسیر کبیر اور امام فخر الدین الرازی ؒ کا اس طرح دفاع کیا ۔ مولانا بنوری کی عبارت یوں ہے :

وكان يثني علي "مفاتيح الغيب" اي "التفسير الكبير" للامام فخر الدين خطيب الرازي، ويقول: ان الامام يغوص في علوم القرآن و مشكلاتہ، لم ار مشكلا من معضلاتہ الا والامام تنبہ لہ، غير انہ ربما لا يظفر بما يقنع بہ النفوس الصاديۃ وتنشرح بہ الصدور الصافيۃ۔ فہكذا كان الشيخ رحمہ اللہ ينبہنا علي تلك التحقيقات المتينۃ  والتدقيقات الرصينۃ۔  سالتہ عما قيل في تفسير الامام: " فيہ كل شيئ الا التفسير" كما حكاہ الشيخ جلال الدين السيوطي في " اتقانہ" - فقال : لعلہ قول من غلب عليہ الروايۃ ۔ كان يريد رحمہ اللہ كانہ قول محدث ہمہ استطراد الروايات من الاخبار والآثار فقط ۔ من غير ملاحظۃ الي سائر مزايا التنزيل العزيز ۔ و لفظہ بالارديۃ : " كسي راوي مزاج شخص كا قول ہوگا "  وبلغني انہ قال مرۃ:  ذالك القول ظلم في حق الامام۔10

اسی اسلوب کی ایک مثال شاہ صاحب ؒ کا حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ کے بارے میں رویہ ہے ،   ایک طرف ان کی شرح بخاری " فتح الباری " کے تناظر میں وہ ان کو پورے احترام و محبت کے ساتھ  " حافظ الدنیا " کا لقب دیا کرتے تھے  اور دوسری طرف ان کی آراء پر جابجا تنقید بھی کرتے ہیں اور اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ حافظ ابن حجر نے کئی مقامات پر اپنے مسلک  و مذہب کی رعایت  وحمایت میں ہر صحیح و خطاء کو قبول کر لیا ہے ۔11 گویا احترام و عقیدت اپنی جگہ لیکن جہاں علمی دیانت کا مقام ہو وہاں تنقید کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں ۔   

درس میں علماء کا مزاج و درجہ بیان کرنا

وسعت مطالعہ کے سبب شاہ صاحب ؒ کو مختلف علماء کے مزاج کا اندازہ تھا اور علمی مسائل میں ان کے درجات بھی متعین کرتے تھے ، اس درجہ بندی اور مزاج شناسی کی بنیاد پر ان سے مروی احادیث یا کسی حدیث کی تشریح میں ترجیح قائم کرتے ۔ فیض الباری و دیگر کتب میں اس کی جا بجا مثالیں موجود ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں ۔

  کسی بھی کام کی ابتداء میں اللہ کا نام ذکر کرنے کے بارے میں مشہور حدیث ہے :

كُلُّ أَمْرٍ ذِي بَالً لَا يُبْدَأُ فِيہ بِذِكْرِ اللَّہ أَقْطَعُ 12

امام بخاری ؒ نے کتاب کا آغاز بسم اللہ کے ساتھ کیا ہے ، اس کی تشریح میں مذکورہ بالا حدیث کا ذکر کرتے ہوئے شاہ صاحب ؒ کہتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے ، کسی روایت میں حمد کا ذکر ہے اور کسی میں اسم اللہ کا ۔ لیکن اس اضطراب کے باوجود شیخ ابو عمرو ابن الصلاح نے اس کو حسن قرار دیا ہے ۔ اس کے بعد وہ شیخ ابو عمرو ابن الصلاح کا موازنہ امام نووی ؒ کے ساتھ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

وخَالَ بعضُہم التعارض، وظن اختلاف الألفاظ اختلاف الحديث. والحال أن الحديث واحد، ومع اضطراب كلماتہ حسَّنہ الحافظ الشيخ أبو عمرو بن الصَّلاح، وھو شيخ الإمام النووي، دقيقُ النَّظر، واسع الاطِّلاع، وليس صاحبہ النووي مثلہ في الحديث.13

اسی طرح ایک جگہ علامہ شامی ؒ کے حوالے سے فرماتے ہیں :

واعلم أن ابن نُجَيْم أفقہ عندي من الشَّامي لِمَا أری فيہ أن أمارات التفقُّہ تَلُوح، والشَّامي مُعَاصِرٌ للشاہ عبد العزيز رحمہ اللہ تعالی، وھو أفقہ أيضًا عندي من الشَّامي رحمہ اللہ تعالی، وكذا شيخ مشايخنا رشيد أحمد الكَنْكُوہِي - قُدَّسَ سرُّہ - أفقہ عندي من الشَّامي.14

اس ضمن میں مولانا یوسف بنوری ؒ رقم طراز ہیں :

انہ كلما ذكر كتابا او مؤلفا في صدد النقل ، فكان يكشف عن منزلتہ في العلم و خصائصہ، قلما يجدہا الناظر في كتب الطبقات و التراجم  بغايۃ من الانصاف ، من غير غض عن قدرہ ، او اطراء في شانہ ، ليكون بصيرۃ للطلبۃ ، و وسيلۃ الي العلم الصحيح۔15

درس میں سال بسال تنوع

شاہ صاحب ؒ کا مطالعہ عام مدرسین جیسا نہیں تھا کہ سبق پڑھانے سے پہلے سبق کی تیاری کے لیے درسی کتب یا زیادہ سے زیادہ انہیں کتب کی کوئی شرح دیکھ لی اور طلبہ کے سامنے بیان کر دی، ایسے مطالعہ سے استاد کے سبق میں وقت کے ساتھ مباحث کی یکسانیت پید اہو جاتی ہے ۔ شاہ صاحب ؒ کا مطالعہ بہت وسیع تھا ، اس کی ایک وجہ ان کا مسائل کو موضوع بنا کر ان کے حل کے لیے مطالعہ کرنا تھا ۔ گویا سبق پڑھانا ہے یا نہیں پڑھانا ، مطالعہ جاری تھا ۔ اسی وجہ سے ان کے درس میں سال بسال مباحث کے تنوع کے ساتھ ترقی بھی دیکھنے میں آتی تھی ۔ گویا مطالعہ کی وجہ سے جن مسائل میں رائے بنتی یا بدلتی اگلے سبق میں اس کا اظہار فرما دیا کرتے تھے ۔ اسی وجہ دے ہر سال کے درس میں یکسانیت کی بجائے تنوع کی کیفیت نمایاں ہوتی تھی ۔ قاری طیب صاحب ؒ فرماتے ہیں :

"ایک مرتبہ فرمایا کہ میں درس کے لیے کبھی مطالعہ نہیں کرتا ہوں ، مطالعہ کا مستقل سلسلہ ہے اور درس کا مستقل۔ اس لیے ہر سال درس میں نئی نئی تحقیقات آتی رہتی تھیں ۔"16

ایک اور جگہ فرماتے ہیں :

"کتب درسیہ اور بالخصوص کتب حدیث کے فنی مباحث طبیعت ثانیہ بن چکے تھے اور ہمہ وقت کے مطالعہ سے ان میں روز بروز بسط و انبساط کی کیفیات پیدا ہوتی چلی جا رہی تھیں اور مباحث درس گھٹنے یا قائم رہنے کے بجائے خود ہی یوما فیوما بڑھتے رہتے تھے تو انہیں جزوی مطالعہ سے بڑھانے کے کوئی معنی بھی نہ تھے بلکہ شاید یہ مقررہ جزوی مطالعہ علوم کے بڑھتے ہوئے بسط میں کچھ نہ کچھ حارج اور حد بندی ہی کا سبب بن جاتا۔"17

مولانا یوسف بنوری ؒ شاہ صاحب ؒ کے مطالعہ کی کیفیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

لم يكن دابہ في المطالعۃ كاكثر علماء ھذا العصر من ان يطالعوا الكتب عند الافتقار اليہا في الفتوي او التاليف او التدريس ، فيراجعون  فيما يحتاجون اليہا من ذالك الموضوع خاصۃ، او يتفقدون ما ارادوہ من مظانہ ، بل كان دابہ في المطالعۃ انہ كلما تيسر لہ كتاب، مخطوطا كان او مطبوعا ، سقيما كان او سليما ، في موضوع علمي ، اي موضوع كان، من اي مصنف كان ، فياخذہ و يطالعہ من اولہ اولي الآخر بتمامہ ، من غير ان يبقي شيئا او يذر، نعم كان حل جہدہ و مسعاہ في ان يطالع كتب المتقدمين ثم كتب اكابر المحققين من القرون الوسطي۔18

ایک جگہ شاہ صاحب ؒ کے اس ذوق مطالعہ اور اس کے نتیجہ میں تحقیقات میں تبدیلی کو قرآن کریم کے حوالے سے اس طرح واضح کرتے ہیں :

و ربما كان يبقي سنين في التامل في بعض المشكلات حتي يبلغ الي درك البحر فيخرج اللآلي المكنونۃ ، وكان من شريف دابہ اذا عن لہ مشكل من مشكلاتہ يتوخي لحلہ اسفار اعيان من الامۃ الذين لہم عنايۃ قويۃ بامثال ھذہ العويصات ، فان فاز بشيئ احال عليہ في مذكرتہ ، و الا فكان يطيل الفكر و يرسل النظر ويبعد الغور و التامل ، فاذا سنح لہ سانح او بدا بارح قيدہ ، فاجتمعت في "مذكرتہ الخاصۃ بالقرآن" مادۃ جمۃ غزيرۃ۔19

رجال کے تذکرہ میں اسلوب

حدیث کی تشریح میں رجال کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ صاحب ؒ کا ایک الگ اسلوب تھا ، ان کے ہاں حدیث کے مقبول ہونے میں رجال پر جرح و تعدیل کے باب میں متعدد وجوہات کی بنا پر ائمہ رجال کے ہاں اعتدال قائم نہیں رہا ۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو حدیث اپنے مسلک کے خلاف ہو اس کے رجال کی خوب چھان پھٹک کی جاتی ہے اور کسی نا کسی طرح اس کے رجال میں سے کسی کو مجروح قرار دے دیا جاتا ہے ، اور کبھی اپنے مفید مطلب حدیث کے رجال سے ناروا چشم پوشی اختیار کر لی جاتی ہے ۔ اس لیے وہ رجال پر جرح و تعدیل کو حدیث کی مقبولیت کے لیے حتمی سبب نہیں سمجھتے تھے ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ ان کے اس اسلوب کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں :

منہا : انہ كان يلخص الكلام في رجال الحديث ان كان لذكرہا حاجۃ في الباب، او فائدۃ يستحسن ذكرہا، وكان لا يطيل الكلام في الجرح و التعديل حيث كان يقول : و لم اكثر من نقل كلامہم في الرجال ، وما فيہ من كثرۃ القيل و القال ، لانہ ليس عندي كبير ميزان في الاعتدال ، و بعضہم يسكت عند الوفاق و يجرح عند الخلاف ، و اذا ديعت نزال، وھذا صنيع لا يشفي و لا يكفي ، و انما ہو سبيل الجدال ، نعم ، اعتنيت بتعيينہم و معرفتہم عينہم ، فيستطيع الناظر من المراجعۃ و يتمكن من تخمير رايہ لا بالمسارعۃ۔20

اس معاملہ میں ان کا موقف یہ تھا کہ جس حدیث کی سند اصطلاحا ٹھیک ہو اور اس پر سلف کا عمل بھی ہو خواہ کچھ لوگوں کا عمل ہی کیوں نا ہو ۔تو ایسی حدیث صحیح ہے اس میں اگر عدم صحت کی کوئی علۃ بیان کی جا رہی ہے تو اس کو نہیں سنا جائے گا ۔ فرماتے ہیں :

و الناس فيہ علي آرائہم يتعللون في ما لم ياخذوا بہ و يناضلون عما اخذوا بہ ، و الذي ينبغي ان يعتقد فيہ ان ما صح سندہ اصطلاحا ثم وجد عمل بعض السلف بہ  فہو صحيح في الواقع لايسمع فيہ اعلال و تعلل۔21

حدیث کی تشریح میں دور از کار تاویلات سے اجتناب

حدیث کی تشریح میں شاہ صاحبؒ کا مزاج یہ تھا کہ شارع کی مراد و مقصود کو سامنے رکھتے اور اس کے مطابق حدیث کا محل متعین کرنے کی کوشش کرتے ۔ حدیث کی تشریح میں دو از کار تاویلات کو پسند نہیں کرتے تھے اور جہاں عام طور پر طول طویل ابحاث کے ذریعہ حدیث کی تشریح میں کھینچا تانی کا رواج تھا وہاں "لا يعبا بہ" يا "ھذا من سقط الكلام" کہہ کر آگے بڑھ جاتے ۔ اس کی  مثال یوں ہے ۔

 بسم اللہ سے ابتداء کی بحث میں اس حدیث کی تشریح میں عام طور پر جو ابحاث کی جاتی ہیں ان کا تذکرہ کر کے فرماتے ہیں :

وما يُذكر من حمل الابتداء بالحقيقي في لفظ، وبالإضافي في لفظ، أو العرفي، فلا يُعبأ بہ، لأن مدارَ ذلك علی تعدُّد الحديث. وذِكَرُ الاحتمالات التِّسْعۃِ من بين صحيح وباطل ھہنا كلہا من سَقْط الكلام.22

اختلافی مسائل میں منشاء الخلاف معلوم کرنے کا اہتمام

تدریس  حدیث میں شاہ صاحبؒ اختلافی مسائل میں اختلاف کی بنیاد اور منشا کو بیان کرتے اور پھر اس کی بنیاد پر فریقین کے دلائل کا محاکمہ کر کے اپنی رائے کا اظہار فرماتے تھے ۔ اکثر اوقات ان کی رائے وہی ہوتی جو فقہاء احناف نے بیان کی ہے لیکن اگر کہیں فریق مخالف کی دلیل میں مضبوطی محسوس کرتے تو ان کی رائے کو اپنانے میں بھی کوئی مضائقہ محسوس نہ کرتے ۔ اور بہت سی جگہ پر اپنی ایسی رائے پیش کرتے جو اختلاف کو ختم کرنے یا کم کرنے کا باعث ہوتی ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

و منہا انہ كان عني بمنشاء الخلاف بين الامۃ ، ولا سيما في المسائل التي تتكرر علي رؤوس الاشہاد ، فكان يذكر في ھذا الصدد امورا تطمئن بہا القلوب۔23

اغلاط پر متنبہ کرنا

دوران مطالعہ شاہ صاحب ؒ کو اگر کسی کتاب میں کوئی غلطی محسوس ہوتی تو درس میں اس کی وضاحت کرتے اور اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے کہ یہاں یہ لفظ مجھے پہلے ہی غلط محسوس ہو رہا تھا ، پھر مسلسل مطالعہ کے دوران فلاں کتاب میں میرے گمان کی تصدیق ہو گئی ۔  اس کی بہت سی مثالیں جا بجا ان کی کتب میں بکھری ہوئی ہیں ۔ ایک مثال ملاحظہ کریں ۔

وھناك سہوٌ ينبغي أَنْ يَتَنبَّہ عليہ النَّاظر، وھو أن الحنفيۃ عند تقرير الاضطراب في حديث القُلتين قالوا: إنہ رُوي عن ابن عمر أربعين قُلۃ. ہكذا وجدناہ في «فتح القدير» أيضًا، وكنت أظنَّ أن الصحيحَ ابن عمرو وسقط الواو من الناسخ وحينئذ يَخِفُّ الاضطراب، حتی إذا طُبع كتاب البيہقي وجدناہ فيہ عن ابن عمرو بن العاص، ففرحتُ منہ فرحَ الصائم عند الإِفطار. فھذا سہوٌ قد تسلسل في الكتب فلا تَغْفُلْ عنہ، والأمر كما قلنا.24

یہاں ایک سہو ہے مناسب ہے اس پر ناظر متنبہ ہو جائے ۔ وہ یہ کہ احناف قلتین کی حدیث میں اضطراب کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں :  کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے چالیس گھڑے منقول ہیں ۔ فتح القدیر میں ہم نے اسے اسی طرح پایا ۔ اور میرا گمان تھا کہ  صحیح ابن عمرو رضی اللہ عنہ ہے اور واو کاتب سے گر گیا ہے ، اس طرح اضطراب کم ہو جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب علامہ بیہقی کی کتاب چھپی تو ہم نے اس میں ابن عمروبن العاص ہی پایا ۔ چنانچہ مجھے  افطار کے وقت روزہ دار کی طرح کی خوشی ہوئی ۔ پس یہ سہو ہے جو کہ کتب میں مسلسل آرہی ہے ،سو اس سے غافل نہ ہو ، معاملہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کر دیاہے ۔

محدث کے مزاج کے مطابق ترجمۃ الباب کی تشریح

شاہ صاحب ؒ  حدیث کی کتاب خصوصا امام بخاری کی جامع پڑھاتے ہوئے مولف کتاب کے مزاج کے مطابق ترجمۃ الابواب کی وضاحت کیا کرتے تھے ، اور ان کی بتائی ہوئی وضاحت یا تعبیر پھر کئی جگہ پر لاگو ہوتی ۔  مثلا امام بخاری ؒ نے ابواب کے شروع میں "البدء"  کا لفظ استعمال کیا ہے ، اس سے ان کی کیا مراد ہے ؟ جیسے بدء الاذان میں کیا یہ مراد ہے کہ اذان کی ابتداء کیسے ہوئی ؟ حالانکہ وہ اس میں اذان کے سارے احکامات کو لاتے ہیں ، یا یہ مراد ہے کہ یہاں سے اذان کے مجموعی مسائل کی ابتداء ہو رہی ہے ۔ شاہ صاحب ؒ نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے کہ جہاں امام بخاری ؒ یہ لفظ استعمال کرتے ہیں وہاں ان کی مراد مجموعی مسائل کی ابتداء کرنا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں :

وما سنح لي بعد الإمعان في صنيعہ، والنظر إلی نظائرہ، كبدء الأذان وبدء الحيض، أن البَدء عندہ لا يختصُ بالحصۃ الابتدائيۃ، بل يعتبر مما يضاف إليہ لفظ البدء بما فيہ من أحوالہ أولًا، ثم يضاف إليہ لفظ البدء ثانيًا، ثم يُسأل عنہ أن بدء ہذا المجموع كيف كان؟ وحينئذٍ فيندرج تحتہ جميع أحوالہ، وہكذا فعل المصنف رحمہ اللہ تعالی فيما بعد أيضًا. فقال: «بدء الأذان، وبدء الحيض»، ثم لم يقتصر علی أول الحال فقط، بل ذكر حالہما من الأول إلی الآخر، ففہمت من صنيعہ أنہ لا يريد من لفظ البدء البدايۃ في مقابل النہايۃ، بل بدؤہ بعد أن لم يكن، ووجودہ من كَتْم العدم، فہو سؤال عن ہذا الجنس بتمامہ، أنہ كيف بدأ؟
فالحاصل: أن معناہ، السؤال عن جنس الوحي، وجنس الأذان، وجنس الحيض، أنہ كيف جاء من كتم العدم إلی ساحۃ الوجود؟ وحينئذٍ معناہ كونہ بعد أن لم يكن، لا بدايتہ قبل نہايتہ، وہذا التصرف في لفظ البدء مستفادٌ من كلام المصنف رحمہ اللہ تعالی نفسہ، لا أني تصرفت في كلامہ، وصرفتہ عن ظاہرہ۔25

تشریح میں اختصار لیکن مواد میں اکثار

 درس حدیث میں شاہ صاحب ؒ کی کوشش یہ ہوتی کہ زیر بحث موضوع میں زیادہ سے زیادہ مواد جمع کر دیں ،  بیان و تشریح کی طرف توجہ کم تھی ۔ رفتہ رفتہ یہی عادت ان کی تدریس و تالیف میں فطرت ثانیہ بن گئی ۔ یعنی الفاظ  و بیان میں اختصار اور مواد میں کثرت۔ ان کی اسی عادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا اشرف علی التھانوی ؒ کہا کرتے تھے کہ شاہ صاحب ؒ کے کلام میں ایسے جملے ہوتے ہیں کہ ان میں سے ایک کی تشریح پوری پوری کتاب کی متقاضی ہے۔26

مولانا یوسف بنوری ؒ اس عادت کو اس طرح بیان کرتے ہیں:

انہ كان يہمہ اكثار المادۃ في الباب ، دون الاكثار في بيانہا و ايضاحہا، كانہ يضن بعلمہ المضنون ۔ ثم ان  ہذا الايجاز في اللفظ ، و الغزارۃ في المادۃ اصبح لہ دابا في تدريسہ و تاليفہ و كان كما قال علي رضي اللہ عنہ : ما رايت بليغا قط الا ولہ في القول ايجاز ،  و في المعاني اطالۃ، و حكاہ ابن الاثير۔27

درس میں طلبہ کی علمی و تحقیقی تربیت کا اہتمام

شاہ صاحب ؒ کے درس حدیث کی ایک بہت اہم خصوصیت طلبہ حدیث کی علمی و تحقیقی تربیت کا اہتمام کرنا بھی تھی۔ وہ جہاں طلبہ کی علمی مواد کی طرف راہنمائی کرتے رہیں ان کو صحیح تنقید کاطریقہ بھی سکھاتے ۔ بسا اوقات وہ دوران درس کوئی مسئلہ ذکر کرتے اور پھر اس پر علمی نقد فرماتے ۔ اس سے طلبہ کو علمی نقد کا صحیح طریقہ سمجھ میں آتا ۔ اس نقد کی سب سے بڑی خوبی متقدمین علماء کے احترام میں اعتدال کا رویہ تھا ۔  فیض الباری کے مقدمہ میں مولانا محمد یوسف بنوری ؒ لکھتے ہیں :

انہ كان ربما يذكر اشياء و ينقدہا نقدا علميا ، و يدل الطلبۃ علي منہاج النقد العلمي ، ويضع لہم اساسا لذالك ، ثم يستدرك ذالك ، تنبيہا لہم بمزيۃ كلام اہل العلم و الاحتياط عن الخوض في شانہم بما تابي جلالۃ قدرہم۔28

اسی طرح طلبہ کی تربیت کی غرض سے ہی آپ ؒ زیر درس حدیث کے موضوع سے متعلق بنیادی علوم کے ساتھ موضوع سے مناسبت رکھنے والے دیگر علوم کو بیان کرنے کا اہتمام بھی کرتے ۔ اس سے طلبہ ان دیگر علوم کی مبادیات سے بھی واقف ہو جاتے جو حدیث کی تشریح کے تناظر میں اہم سمجھے جاتے تھے ۔  مولانا یوسف بنوری ؒ لکھتے ہیں :

 انہ كان لا يقتنع بذكر ما يختص بالموضوع ، بل ربما كان يذكرامورا لمناسبۃ دقيقۃ بينہا و بين الموضوع ، حرصا علي بيانہا افادۃ للطلبۃ۔29

احکام کے مصالح اور حکمتوں کا بیان

شاہ صاحب ؒ حدیث کی تعبیر و تشریح میں جا بجا احکام کی حکمتوں کو واضح کرتے ہیں تاکہ سامع کے دل میں اطمینان کی کیفیت پیدا ہو جائے ۔ اس کی مثال جزیہ کی بحث ہے کہ جس میں انہوں نے بعض لوگوں کے جزیہ کو ظلم کہنے پر جزیہ کی حکمت بیان کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ جزیہ تو غیرمسلم آبادی کے لیے ایک نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ، اس سے ان حفاظت یقینی ہوتی ہے ، وہ تھوڑے سے پیسے ادا کرتے ہیں اور بڑے بڑے دشمنوں کے خلاف اسلامی حکومت کی حفاظت سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ گویا یہ ان پر ظلم نہیں ہے بلکہ ان پر احسان ہے ۔ فرماتے ہیں :

واعلم أن بَعْضَ مَنْ لا دينَ لہم، ولا عَقْل، ولا شيء زعموا أنَّ الجِزيۃَ ظُلْمٌ، ہيہات ہيات؛ وہل عَلِموا قَدْر الجِزْيۃ؟ ہو دِرْہمٌ علی فقرائہم، وأربعۃُ دراہِمَ علی أغنياتہم، وليس علی نسوانہم وصبيانہمم شيءٌ، ثم ہل عَلِموا قَدْرَ ما يُؤخذ من المسلمين، فہو أضعافُ ذلك، يؤخذ منہم العُشرُ، والزكاۃُ، والصدقاتُ، والجباياتُ الأخری، بخلاف أہل الذِّمۃ، ثُم ہل علموا أن ما نأخذُہ منہم نكافئہم بأضعافہ، نجعلُ دماءہم كدمائنا، وأعراضَہم كأعراضنا، نحفظ أموالہم، ونناضِلُ أعداءہم. فلو وازيت ما يُؤخذ من المسلمين بما يُؤخذ منہم، لعَلِمت أن المأخوذَ من أہل الذمۃ أقلُ قليل، مما نأخذُ من المسلمين. فَمَنْ ظنَّ أن الجزيۃ ظُلْم، فقد سَفِہ نفسہ.30

صحیح بخاری کی تدریس میں شاہ صاحبؒ کا اسلوب

شاہ صاحب ؒ نے دار العلوم دیوبند میں جب تدریس کا آغاز کیا تو ابتداء میں ان کے ذمہ جامع ترمذی اور صحیح بخاری کی تدریس ہوتی تھی ، ان دو کتابوں میں انہوں نے مباحث حدیث کو اس طرح تقسیم کیا ہوتا کہ احادیث احکام کی تحقیق، ائمہ کرام کے مذاہب  اور دلائل کا استیعاب اور ان میں راجح و مرجوح کی وضاحت وہ درس ترمذی میں کر دیا کرتے۔ آخری عمر میں جب ان کی تدریس کا مرکز صحیح بخاری ہو گئی تو یہ سارے مباحث وہ درس بخاری میں بیان کرنے لگے ۔ اس لیے ان کے درس حدیث کی کچھ خصوصیات کو سمجھنا تدریس بخاری کے اسلوب کو سمجھنے پر موقوف ہے ۔ مولانا یوسف بنوری ؒ نے فیض الباری کے مقدمہ اور " نفخۃ العنبر" میں اس اسلوب پر روشنی ڈالی ہے جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے ۔

اس اسلوب کا فائدہ بیان کرتے ہوئے مولانا یوسف بنور ی ؒ لکھتے ہیں :

فہذہ مميزات درسہ لصحيح البخاري ، لا تجد بعضہا في درس غيرہ ۔ ومن اجل ذالك كل من  كان ضليعا في العلوم ، واسع الاطلاع ، حديد الذہن ، قوي الحافظۃ ، ثاقب الفكر ، كان يقوم من عندہ بحظ وافر  و بصيرۃ نافذۃ۔33

"یہ ان کے درس بخاری کے امتیازات ہیں ، آپ ان میں سے کچھ کسی اور کے درس میں نہیں پائیں گے ۔ اسی وجہ سے ہر وہ آدمی جو علوم سے بھر پور ہو ، اور اس کی اطلاعات وسیع ہوں ، ذہن رسا ہو ، حافظہ مضبوط ہو، صائب الرائے ہو ، تو وہ ان کے  پاس سے علم کا  بڑا حصہ اور  ایسی بصیرت لے کر اٹھتا ہے جو معاملات کو سمجھنے میں مدد گار ہوتی ہے۔"


حوالہ جات

  1.   محمد انظر شاہ مسعودی ، مولانا ،(1927ء-2008ء) نقش دوام : ص:305، ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان ، پاکستان ، 1426ھ
  2.   نقش دوام : ص:306
  3.   مناظر احسن گیلانی ، مولانا ،(1892ء-1956ء) احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ، ص؛ 76، ادارہ تالیفات اشرفیہ ، ملتان ، 1425 ھ
  4.   نقش دوام ، ص: 155
  5.   احاطہ دار العلوم میں بیتے ہوئے دن ، ص: 81-82
  6.  مضمون  حضرت قاری محمد طیب ؒ ، عبد الرحمان کوندو، الانور ،   ص: 274، ندوۃ المصنفین ، اردو بازار ، جامع مسجد دہلی ، 1979ء
  7.   نقش دوام ، ص: 156
  8.    نفحۃ العنبر ، ص:61
  9.   حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 264
  10.   نفحة العنبر ، صؒ 40-41
  11.   نفحة العنبر ، ص: -50 49
  12.   الدارقطني ،بو الحسن علي بن عمر بن أحمد بن مهدي بن مسعود بن النعمان بن دينار البغدادي (المتوفی: 385هـ)،  سنن الدارقطني (1/ 428)، الناشر: مؤسسة الرسالة، بيروت - لبنان 1424 هـ - 2004 م ، عدد الأجزاء: 5
  13.   فيض الباري علی صحيح البخاري (1/ 77)
  14.    فيض الباري على صحيح البخاري (2/ 307)
  15.   فيض الباري على صحيح البخاري ج:1، ص:16
  16.    حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 267
  17.   حضرت قاری محمد طیب ؒ ، کتاب " الانور" ، ص: 267
  18.   نفحة العنبر ، ص: 36
  19.   نفحة العنبر ، ص: 41
  20.   نفحۃ العنبر ، ص: 284  و فيض الباري ، ج: 1، ص: 16
  21.   محمد أنور شاه بن معظم شاه الكشميري الهندي ثم الديوبندي (المتوفى: 1353هـ)،  نيل الفرقدين  مع حاشیۃ بسط الیدین فی مسئلۃ رفع الیدین ، ص: 135، مجموعۃ رسائل الکاشمیری ،ج: 1، المجلس العلمی ، کراچی ، پاکستان ، 2004ء
  22.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 78)
  23.   فيض الباري على صحيح البخاري، ج: 1/ 16
  24.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 359)
  25.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 78)
  26.    فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1/ 16
  27.     فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1/ 16
  28.   فيض الباري علي صحيح البخاري ،  1/ 16
  29.   فيض الباري علي صحيح البخاري ،  1/ 16،  نفحۃ العنبر،  ص:284
  30.   فيض الباري على صحيح البخاري (4/ 240)
  31.   فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1، ص: 17
  32.   فيض الباري على صحيح البخاري (1/ 428)
  33.   فیض الباری علی صحیح البخاری ، ج: 1، ص: 17


حضرت صدیق اکبرؓ کے اسوہ کے چند پہلو

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سیدنا صدیق اکبرؓ کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کا واقعہ پوری اہمیت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور قرآن کریم نے بھی ’’اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ‘‘ کے حوالہ سے اس کا تذکرہ کیا ہے جو بلاشبہ ہمارے لیے ایمان کی تازگی کے ساتھ ساتھ زندگی کے بیسیوں معاملات میں راہنمائی کے پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہجرت کا ایک اور سفر بھی ہمارے لیے اسی طرح سبق آموز ہے مگر عام طور مجالس میں اس کا تذکرہ نہیں ہوتا اور میں آج اسی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔

جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مکہ والوں کے مظالم اور اذیتیں حد سے بڑھ گئیں اور بہت سے خاندان نبی کریمؐ کی اجازت سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تو ایک موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے بھی حالات سے مجبور ہو کر ہجرت کا ارادہ کر لیا اور آنحضرتؐ سے اجازت بھی حاصل کر لی۔ سامان سفر تیار کر کے ہجرت کے لیے روانہ ہو گئے اور دو تین روز کا سفر بھی کر لیا کہ راستہ میں معروف عرب قبیلہ بنو قارہ کے سردار ابن الدغنہ نے انہیں پہچان لیا اور پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ مکہ مکرمہ کے لوگوں نے ان کے لیے وہاں رہنا مشکل بنا دیا ہے اس لیے وہ دیگر بہت سے ساتھیوں کی طرح وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ نہیں آپ ایسا نہیں کریں گے ’’مثلک لا یَخرج ولا یُخرج‘‘ آپ جیسا شخص نہ شہر چھوڑ کر جاتا ہے اور نہ ہی اسے نکالا جاتا ہے۔ اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کو کما کر دیتے ہیں، بوجھ والوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔

یہ وہی جملے ہیں جو غار حرا کے واقعہ کے بعد نبی اکرمؐ کو پیش آنے والی سخت گبھراہٹ میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپؐ کو تسلی دینے کے لیے کہے تھے، اور اس حوالہ سے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ نبوت اور خلافت کا مزاج ایک ہی تھا۔ ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ میرے ساتھ مکہ مکرمہ واپس چلیں، میں قریش والوں سے خود بات کرتا ہوں اور آپ میری امان اور ضمان میں رہیں گے۔

حضرت ابوبکرؓ اس کی تسلی اور ضمانت پر واپس آ گئے جبکہ ابن الدغنہ نے قریش کے سرداروں کے پاس جا کر بات کی اور کہا کہ ابوبکرؓ جیسے سماجی خدمت گزار کو شہر چھوڑ دینے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے اس لیے میں انہیں راستہ سے واپس لے آیا ہوں اور اب وہ میری امان میں یہیں رہیں گے۔ قریش کے سرداروں کے لیے ابن الدغنہ کی اس ضمانت کو مسترد کرنا مشکل تھا اس لیے انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے مگر ہماری بھی ایک شرط ابوبکرؓ سے منوائیں کہ مذہبی سرگرمیاں کھلے بندوں جاری نہیں رکھیں گے اور گھر کی چار دیواری کے اندر ہی جو کچھ کرنا ہے کریں گے، اس لیے کہ ان کا عام جگہوں پر نماز اور قرآن کریم پڑھنا ہماری عورتوں اور بچوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتا ہے جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔

ابن الدغنہ نے یہ بات حضرت ابوبکرؓ کے پاس آ کر کہہ دی اور انہیں پابند کیا کہ وہ نماز، قرآن کریم اور جو کچھ بھی کرنا ہے گھر کے اندر کریں گے اور کھلے بندوں ایسی کوئی بات نہیں کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات قبول کر لی اور اپنی مذہبی سرگرمیوں کو گھر کی چار دیواری کے اندر محدود کر لیا۔ مگر زیادہ دن ایسا نہ کر سکے کہ نماز پڑھنا اور قرآن کریم کی تلاوت گھر کی چار دیواری کے اندر ان کو گوارا نہ تھی اس لیے کچھ دنوں کے بعد انہوں نے گھر کے دروازے سے باہر کھلے میدان میں ایک تھڑا بنا لیا جو مصلّٰی تھا اور امام بخاریؒ نے اسے اسلام میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اس مسجد میں نماز پڑھتے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ اردگرد آبادی کی عورتیں اور بچے ایسے موقع پر جمع ہو جاتے اور انہیں عبادت کرتا دیکھتے۔ حضرت ابوبکرؓ رقیق القلب بزرگ تھے، قرآن کریم پڑھتے ہوئے انہیں آنکھوں پر قابو نہ رہتا اور دیکھنے والے ان کی اس کیفیت سے متاثر ہوتے۔

یہ صورتحال قریش کے سرداروں کے لیے قابل برداشت نہیں تھی، انہوں نے پیغام بھیج کر ابن الدغنہ کو مکہ مکرمہ بلایا اور کہا کہ حضرت ابوبکرؓ نے تمہارے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری نہیں کی جبکہ ہمیں ان کا کھلے بندوں نماز و قرآن پڑھنا گوارا نہیں ہے، اس لیے یا تو ابوبکرؓ کو اس طے شدہ بات پر پابند کرو اور اگر وہ اس پابندی کو قبول نہیں کرتے تو تم اپنی ضمانت ختم کرنے کا اعلان کر دو کیونکہ ہم تمہاری ضمانت و امان کی خلاف ورزی کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اس پر ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرؓ سے بات کی اور چاہا کہ وہ اس کی امان کو اس پہلی شرط کے مطابق برقرار رکھیں جس سے انہوں نے انکار کر دیا اور ابن الدغنہ سے کہا کہ وہ اس کی امان اور ضمانت واپس کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی امان کو پسند کرتے ہیں اس لیے وہ خود کو گھر کی چار دیواری میں محدود کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس پر وہ معاہدہ ختم ہو گیا۔

اس تاریخی واقعہ میں ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر ہمیں غیر مسلم قوموں کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کرنا پڑ گیا ہے جس سے ہم اپنے شرعی فرائض و احکام کی بجا آوری میں رکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین ہی کو مقدم رکھنا چاہیے اور اس قسم کے معاہدات پر نظرثانی کا ماحول پیدا کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے ابن الدغنہ کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کی خلاف ورزی کا ماحول پیدا کر کے معاہدہ پر نظرثانی کی راہ ہموار کی تھی اور اس کے نتیجے میں نماز کی ادائیگی اور قرآن کریم کی کھلنے بندوں تلاوت پر پابندی لگانے والے یہ معاہدہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ ہمارے خیال میں اسلامی احکام و قوانین سے متصادم بین الاقوامی معاہدات کی جکڑبندیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ اسوہ مبارکہ صحیح سمت ہماری راہنمائی کرتا ہے۔

حضرت صدیق اکبر اور اختلاف رائے

رائے کا اختلاف فطری بات ہے۔ جہاں علم ہو گا اور عقل ہو گی، وہاں اختلاف بھی ہو گا۔ اختلاف کا ہونا کوئی غلط بات نہیں بلکہ اختلاف کا نہ ہونا فطرت کے منافی ہے۔ ہماری امت کے دو سب سے بڑے بزرگوں حضرت صدیق اکبرؓ اور حضرت فاروق اعظمؓ کے درمیان بھی اختلاف ہوتا رہا ہے جو ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے کہ اختلاف کی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔ ہمارے ان دو بڑے بزرگوں کے درمیان متعدد امور میں اختلافات کا ذکر روایات میں ملتا ہے جن میں سے صرف تین واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا جو خلافت صدیق اکبرؓ کے مختصر دور میں پیش آئے۔

پہلا اختلاف جو بخاری شریف میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت صدیق اکبرؓ کو خلافت کا منصب سنبھالتے ہی جن گروہوں اور قبائل کی طرف سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں مرتدین اور منکرین ختم نبوت کے علاوہ ایک گروہ منکرین زکوٰۃ کا بھی تھا جس کے سربراہ کا نام مالک بن نویرہ بتایا جاتا ہے۔ حضرت عمرؓ کو اس گروہ کے خلاف جہاد میں اشکال تھا کہ یہ کلمہ پڑھتے ہیں اور دین کی باقی سب باتیں مانتے ہیں صرف زکوٰۃ دینے سے انکار کرتے ہیں، اس لیے ان کے خلاف سختی نہیں کرنی چاہیے۔ مگر حضرت صدیق اکبرؓ نے ان کی بات قبول کرنے سے انکار کر دیا جس پر دونوں بزرگوں میں مباحثہ ہوا، حضرت ابوبکرؓ نے بڑا ہونے کے ناتے سے حضرت عمرؓ کو سخت لہجے میں جواب بھی دیا اور اپنے موقف پر قائم رہے۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اسی طرح شرح صدر عطا فرمایا جیسے حضرت ابوبکرؓ کو شرح صدر ہو گیا تھا۔

دوسرا اختلاف قرآن کریم کو کتابی شکل میں جمع کرنے کے حوالہ سے ہوا کہ مختلف جنگوں میں حافظ قرآن صحابہ کرامؓ کی کثرت کے ساتھ شہادتوں کی خبریں آنے پر حضرت عمرؓ کو قرآن کریم کی حفاظت کے بارے میں خدشہ اور خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے خلیفۂ رسولؐ کو تجویز دی کہ قرآن کریم کو کتابی شکل میں مرتب کرا کے محفوظ کرا لینا چاہیے، جس سے حضرت ابوبکرؓ نے ابتدا میں یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر یہ ضروری ہوتا تو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اہتمام فرماتے، جب انہوں نے نہیں کیا تو میں بھی اسے ضروری نہیں سمجھتا۔ مگر بعد میں حضرت ابوبکرؓ اس کے لیے تیار ہو گئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ پر عمرؓ کی طرح میرا سینہ بھی کھول دیا ہے۔ چنانچہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کو حکم دے کر قرآن کریم کو کتابی صورت میں لکھوا کر محفوظ کر دیا گیا۔

تیسرا اختلاف بیت المال سے وظائف تقسیم کرنے کے معاملہ میں ہوا۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اتھارٹی تھے اور آپؐ کا ارشاد ہی قانون ہوتا تھا اس لیے اس دور میں کوئی اشکال کی بات نہیں تھی، مگر آپؐ کے بعد بیت المال سے لوگوں کو وظائف دینے کے بارے میں اصول اور قانون طے کرنے کی ضرورت تھی جس پر حضرت عمرؓ نے رائے دی کہ معاشرہ میں جو درجات فضیلت و مرتبہ کے حوالہ سے ہیں ان کے حوالہ سے وظائف کی تقسیم میں درجہ بندی کی جائے اور مختلف گریڈ طے کر کے اس کے مطابق وظائف دیے جائیں۔ مگر حضرت ابوبکرؓ نے یہ رائے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ یہ معیشت کا معاملہ ہے اور حقوق کی بات ہے اس میں برابری کا اصول ہی چلے گا۔ ان کا ارشاد یہ ہے کہ ’’وھذا معاش فالاسوۃ فیہ خیر من الاثرۃ‘‘۔ یہ معاش کا مسئلہ ہے اس میں برابری کا اصول ترجیح سے بہتر ہے۔ چنانچہ انہوں نے کسی قسم کی درجہ بندی کیے بغیر اپنے اڑھائی سالہ دور خلافت میں سب کو برابر وظیفے دیے۔

حضرت عمرؓ نے اس موقع پر تو خاموشی اختیار فرمائی مگر جب خود خلیفہ بنے تو وظائف کی تقسیم کا نیا نظام بنایا اور اس میں سب سے زیادہ وظیفہ ازواج مطہراتؓ کو، پھر مہاجرین کو، اس کے بعد انصار کو اور پھر دیگر طبقات کو درجہ بدرجہ وظائف تقسیم فرمائے۔ البتہ دس سال تک اس نظام پر عمل کے بعد اس کے معاشرتی نتائج سامنے آنا شروع ہوئے تو حضرت عمرؓ کو الجھن ہوئی اس لیے کہ ایسے گریڈ سسٹم میں معاشرہ کی طبقاتی تقسیم ہو جاتی ہے اور سماج مختلف درجوں میں بٹ جاتا ہے۔ میں اس کی مثال دیا کرتا ہوں کہ جیسے ہمارے ہاں خاص طور پر اسلام آباد میں گریڈ سسٹم نے معاشرے کو مختلف دائروں اور طبقوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور اکثر باہمی معاملات اس معاشرتی درجہ بندی کے دائروں میں طے پاتے ہیں۔ حضرت امام ابو یوسفؒ نے ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے درجہ بندی کے اس قسم کے معاشرتی نتائج دیکھے تو فرمایا کہ اب مجھے محسوس ہوا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی رائے اس معاملہ میں زیادہ صائب تھی، اس لیے اگلے سال سے میں اس نظام کو ان کی رائے کے مطابق ازسرنو ترتیب دوں گا، لیکن اگلے سال سے قبل وہ شہید ہو گئے اور معاملہ جوں کا توں رہا۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اختلاف رائے تو فطری امر ہے البتہ اس حوالہ سے اگر اپنے بزرگوں کے اسوہ کی پیروی کی جائے تو بہت سی الجھنوں اور نقصانات سے بچا جا سکتا ہے ۔


شیعہ سُنّی اختلاف اور مشاہیرِ اسلام کا رویّہ

ڈاکٹر اختر حسین عزمی

اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان بہت سے اصولی احکام مشترک ہیں اور کچھ بنیادی عقاید و احکام میں شدید اختلاف رائے بھی پایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہر دو فریق کے ہاں ایک دوسرے کے با رے میں بہت سی بدگمانیاں بھی موجود ہیں، ایک دوسرے کی تکفیر کے اقوال بھی ملتے ہیں اور تکفیر پر خاموشی اور احتیاط کی روش بھی پائی جاتی ہیں، اگر کوئی تکفیر کا قائل نہ بھی ہو تو ایک دوسرے کو گمراہ ضرور سمجھتا ہے اور کہیں اشارے کنائے میں ایک دوسرے کو منافق باور کرایا جاتا ہے۔

جن بنیادی عقاید میں اشتراک پایا جاتا ہے، ان میں توحید، رسالت،ختم نبوت، آخرت، کتب، فرشتوں اور تقدیر پر ایمان شامل ہے۔ اس طرح پانچ نمازوں، صومِ رمضان، حج و زکوۃ کی فرضیت، اکل و شرب میں حلال و حرام کے اکثر احکام مشترک ہیں۔قرآن، حدیث، اجماع و قیاس ا گرچہ دونوں کے ہاں مصادر شریعت مانے جاتے ہیں۔ لیکن اخذِ حدیث اور اجماع کے اصول اور تصورات میں کافی فرق ہے۔اہل سنت کے ہاں حضورؐ کی حدیث کی روایت اہل بیت سمیت ہر صحابی رسولؐ سے قبول کی جاتی ہے، جب کہ اہل تشیع اخذ روایت میں اہل بیت کے علاوہ معدودے چند صحابہ تک محدود ہیں۔ اہل تشیع میں کچھ وہ ہیں جنھوں نے حضرت علیؓ کو صرف حضرت عثمانؓ پر فضیلت دی، کچھ وہ ہیں جو بو بکرؓ و عمرؓ پر بھی فضیلت دیتے ہیں، کچھ نے خلافت بلا فصل کا قول بھی اختیار کیا۔ بعض نے چار صحابہ کے سوا  تمام صحابہ کے مرتد ہونے کا عقیدہ رکھا۔ بعض نے چودہ، پندرہ صحابہ کو صحیح قرار دیا باقی کو منافق سمجھا، بعض نے اس بارےمیں توسّع اختیار کیا۔ کچھ نے تحریف قرآن کا عقیدہ بھی اپنایا۔

امام کی معصومیت کا عقیدہ اثناعشری (بارہ امامی) شیعہ کے اصول مذہب میں سے ہے۔ اہل سنت والجماعت کے ہاں علم و تقویٰ کی حامل کسی بھی مجتہد شخصیت کو امام کہا جاتا ہے۔ ان کے ہاں امامت کسی شرعی منصب کا نام نہیں اور نہ ان کے ہاں امام کے قول و عمل کے معصوم ہونے کا کوئی تصور ہے جبکہ اہل تشیّع کے ہاں امامت ایک وہبی منصب ہے۔ شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء کا شمار اہل تشیّع کے نہایت معتبر علما میں ہوتا ہے۔ ان کے مطابق شیعی نقطہ نظر سے امامت، نبوت کی طرح منصب الٰہی ہے، جس طرح اللہ اپنے بندوں میں جسے چاہتا ہے نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے اسی طرح امامت کے معاملے میں بھی کسی کو کوئی اختیار نہیں۔ خود اللہ نبی کو حکم دیتا ہے کہ ’’شخص منتخب‘‘ کی امامت کا اعلان کر دے۔ نبی اور امام میں فرق صرف یہ ہے کہ نبی پر وحی نازل ہوتی ہے اور امام خصوصی توفیق کے ساتھ رسول سے احکام حاصل کرتا ہے۔ پس رسول، خدا کا پیغام رساں اور امام، رسول کا پیام بر۔(۱)

اہل سنت کے نزدیک شیعہ کا یہ عقیدہ شرک فی النبوۃ ہے۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک یہ ایک بہت بنیادی بگاڑ،بدعت اور گمراہی ہے۔ سنّی اہل علم کے نزدیک نبیؐ کے بعد کسی کی بات منصوص نہیں ہے۔ شیعہ عالم مولانا سید افتخارحسین نجفی کے مطابق اثنا عشریہ، امام حسینؓ کی اولاد ہی سے نو شخصیات کے منصوص من اللہ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں، حضرت محمدؐ، علیؓ، فاطمہؓ اور حسن و حسینؓ کے علاوہ نو شخصیات کو بھی معصوم رکھتے ہیں، جب کہ زیدی شیعہ امام حسینؓ کے بعد کسی کے منصوص من اللہ ہونے کا اعتقاد نہیں رکھتے۔ البتہ حضور ؐکے ساتھ حضرت علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ و حسینؓ کو معصوم مانتے ہیں۔ (۲)

اہل سنت سے اس بنیادی اختلاف کے باوجود شیعہ عالم شیخ محمد حسین آل کاشف الغطاء کے مطابق صرف امامت کا اقرار نہ کرنے سے کوئی فرد اسلام کے دائرہ سے خارج نہیں ہو سکتا۔ دنیا میں تمام مسلمان یکساں ہیں، ہاں آخرت میں ضرور درجوں کا تفاوت ہو گا، عمل اور نیت کے اعتبار سے مقامات ملیں گے۔ (۳)

اہل سنّت اور اہل تشیّع کے علم حدیث کا ایک بنیادی فر ق اصطلاحات کا الگ الگ تصور ہے۔ ان علیحدہ مفاہیم کی وجہ سے فریقین کا علم حدیث ایک دوسرے سے بہت کچھ مختلف ہو جاتا ہے۔اہل سنّت کے ہاں حدیث و سنت سے مراد حضورؐ کا قول، عمل اور تقریر ( صحابہ کے قول و فعل پر حضورؐ کی خاموشی) ہے۔ جبکہ اہل تشیع کے ہاں حدیث و سنت کا اطلاق آنحضورؐ کے اقوال و افعال اور تقریرات سمیت ائمہ معصومین کے اقوال، افعال اور تقریرات پر بھی ہوتا ہے اور بارہ ائمہ کے اقوال بھی شریعت کا مستقل ماخذ اور حدیث و سنت کا مصداق ہیں۔ معروف شیعہ عالم شیخ رضا المظفر لکھتے ہیں:

’’شیعہ کے ہاں چونکہ ائمہ معصومین کے اقوال نبیؐ کے اقوال کی طرح بندوں پر حجت اور واجب الاتباع ہیں، اس لیے فقہائے امامیہ نے سنت کی اصطلاح میں توسّع کرتے ہوئے ائمہ معصومین کے اقوال، افعال اور تقریرات کو بھی سنت شمار کیا ہے‘‘۔ (۴)

معروف شیعہ عالم حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

’’علم حدیث و علم درایہ اور علوم دینیہ میں لفظ سنت سے مراد آپؐ یامعصوم کا قول، فعل اور تقریر ہے۔‘‘  (۵)

سنت و حدیث کی اصطلاح کا یہ فرق بنیادی اختلافی نکتہ ہے۔ اس نکتے پر دونوں حدیثی ذخیرے ایک دوسرے سے بالکل جدا جاتے ہیں۔

اسی طرح صحابہ کرامؓ کی عدالت اور ان سے مروی روایات کا کیا حکم ہے؟ اہل السنّہ کے ہاں تمام صحابہؓ کی روایات قابل قبول ہیں۔ الصحابۃ کُلّھم عَدُول کے اصول کی رُو سے صحابہ میں اگرچہ درجات میں فرق ہے لیکن ہر صحابی کو عادل سمجھتے ہوئے اس سے روایت قبول کی جائے گی۔ اہل سنّت کے ہاں صحابہ کے بعد کے راویوں پر جرح (جانچ پڑتال) ہوگی،صحابہؓ پر نہیں۔ اس کے برخلاف اہل تشیّع صحابہ کے ساتھ بھی دوسرے راویوں جیسا معاملہ کرتے ہیں اور ان کے ہاں صحابہ میں بھی عادل، فاسق، منافق، بدعتی اور دیگر اقسام موجود ہیں۔ اس لیے اہل تشیع صرف عادل صحابہ کی روایات قبول کرتے ہیں اور عادل صحابہ وہ ہیں جو حضرت علیؓ کے ساتھ کھڑے رہے۔ چنانچہ معروف شیعہ عالم احمد حسین یعقوب لکھتے ہیں:

کُلُ الّذین وقفوا مع علیؓ و والوہ، ھم صحابۃ عدول۔ (۶)

معروف شیعہ محدث شیخ جعفر سبحانی کے مطابق وہ صحابہ جو زمانہ نبوت اور اس کے بعد آخر وقت تک حضرت علیؓ کے ساتھی رہے، ان کی تعداد اڑھائی سو ہے۔ (۷)

کتب تاریخ کے مطابق صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے زاید تھی۔ ابن حجر کی کتاب الاصابہ میں 12446 صحابہ کے حالات درج ہیں۔ ان میں سے امام ابن کثیر کے مطابق راویانِ حدیث صحابہ کی تعداد پانچ ہزار (۸) جبکہ امام ابن حزم کی کتاب ’’اسماء الصحابہ‘‘ کے مطابق ۹۹۹صحابہ سے روایات مروی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم پندرہ سوصحابہ ایسے ہیں جن سے اہل سنت کے ہاں حدیثیں مروی ہیں۔ گویا کہ اہل تشیع رواۃ صحابہ میں سے صرف پندرہ بیس فی صد سے روایات لیتے ہیں۔ اخذ حدیث کے اس فرق کے باعث اہل سنت و اہل تشیع کے اخذ احکام کے حوالے سے بھی بڑا فرق واقع ہوا ہے۔

(۲)

حضرت عثمان ؓکی شہادت کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قصاص عثمانؓ کا مطالبہ کرنے کے باعث مسلمان سیاسی لحاظ سے دو گروہوں شیعان علیؓ اور شیعانِ معاویہؓ میں تقسیم ہو گئےتھے۔ حضرت علیؓ کا تعلق بنو ہاشم سے تھا جب کہ حضرت عثمانؓ اور امیر معاویہؓ بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دورِ جاہلیت میں جاری ان دونوں خاندانوں کی چپقلش جو فروغ اسلام کے باعث دب گئی تھی، اب پھر ابھر آئی۔ واقعہ کربلا نے اس خلیج کو اور گہرا کر دیا لیکن یہ مسئلہ اب تک سیاسی تھا۔ بعد ازاں سیاسی گروہوں نے اسے مذہبی رنگ یوں دینا شروع کیا کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے حضرت علیؓ اور حسینؓ پر برسرِمنبر تبرا بازی اور سب و شتم (برا بھلا کہنا) کو خطبہ میں شامل کر لیا، جسے عام مسلمانوں نے کبھی اچھا نہیں سمجھا۔ اس کے ردِّ عمل میں حضرت علیؓ کے حامیوں نے اہل بیت کی عقیدت و محبت میں صحابہ پر سبّ و شتم کرنا اور انھیں غاصب قرار دیناضروری سمجھا۔اور اہل سنت کو آج بھی اہل تشیّع سے اس کی شکایت ہے۔اہل سنت والجماعت کی عظیم اکثریت نے اہل بیت پر سبّ و شتم کی ہمیشہ مذمت کی ہے۔حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خطبہ جمعہ میں حضرت علیؓ پر سب و شتم کی اموی بدعت کو ختم کیا۔

امام ابو حنیفہ نے عباسی مظالم کے خلاف اہل بیت کے نفس زکیہ کے خروج میں مالی تعاون کیا۔

امت کی اکثریت اہل بیت رسول علی وحسین رضی اللہ عنہم سمیت تمام صحابہؓ کی تعظیم و احترام کی روش پر قائم تھی۔ جب بنو امیہ کے خلاف عباسی تحریک اٹھی تو اس کا ساتھ دینے والوں میں علوی نسل کے علاوہ عام مسلمانوں کی اکثریت بھی شامل تھی لیکن جب عباسی خلفاء نے اپنی خاندانی حکومت کے استحکام کے لیے علوی خاندان کو پیچھے دھکیلنا چاہا تو انھوں نے حضرت علیؓ اور ان کی نسل سے محبت کرنے والے ہر فرد کو مطعون کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ رافضی (شیعہ) ہے۔ رافضی دراصل ایک اصطلاح تھی جس سے مراد وہ آدمی ہوتا تھا جو خلفائے راشدین میں سے حضرت علیؓ کے سوا باقی خلفاء کو غاصب سمجھتا اور صحابہ سے بغض رکھتا ہو جب کہ ناصبی اس کے مقابلے میں اسے کہتے ہیں جو صحابہ سے محبت و عقیدت کے غلو میں اہل بیت بالخصوص حضرت حسینؓ سے بغض کا اظہار کرے۔

 امت اسلامیہ نے ان دونوں انتہاوں کو غلط تصور کیا اور یہ خیال کیا ہے کہ اہل بیت رسول سے محبت کا یہ قطعاً مطلب نہیں کہ صحابہ کی عظمت سے انکار کیا جائے اور صحابہ سے محبت کا بھی یہ مطلب نہیں کہ انسان کا دل اہل بیت رسول کی عقیدت و محبت سے خالی ہو۔ یہ سب امت کا مشترکہ سرمایہ ہیں۔ لیکن متعصب اور تنگ نظر لوگوں کا ہمیشہ وطیرہ یہی رہا ہے کہ انھوں نے ان دونوں سے محبت کرنے والوں کو کبھی رافضی کی گالی سے نوازا تو کبھی ناصبی ہونے کا طعنہ دیا۔

امام ابو حنیفہؒ اور شافعیؒ

امام ابو حنیفہؒ خود کو امام جعفر صادقؒ کا شاگرد کہتے تھے جبکہ امام مالک کا امام جعفر صادقؒ کے ہاں آنا جانا تھا اور امام جعفر صادق  ؒ بھی ان سے پیار کرتے تھے۔ امام شافعی چونکہ اہلیت سے بہت محبت کرتے تھے حتی کہ ایک مرتبہ ایک علوی زادہ بچہ ان کے درس کے دوران کھیلتے ہوئے کئی بار ان کی مجلس کے سامنے سے گزرا تو وہ اس کے احترام میں بار بار کھڑے ہوتے رہے۔ ان کی اس عقیدت مندی کے باعث کچھ تنگ نظر لوگوں نے انہیں رافضی (شیعہ) کہنا شروع کر دیا تو امام شافعی نے کہاکہ اگر آل محمد کی محبت رفض ہے تو جن و بشر کو چاہیے کہ میرے رافضی ہونے کی گواہی دیں۔

لو کان حُبّ آل محمدٍ رفضاً
فلیشھد الثقلانِ اَنّی رافض

امام شافعی اکثر کہتے تھے:  ’’میں حضرت ابوبکر کے ساتھ ساتھ حضرت علی کے فضل کا بھی معترف ہوں۔‘‘

اہل بیت سے محبت کے ساتھ ساتھ حضرت ابوبکرؓ سے بھی عقیدت کے اظہار کے باعث حب اہل بیت کے تنگ نظر دعوے داروں نے آپ کو ناصبی (اہل بیت کا دشمن) کہہ کر بدنام کرنا شروع کیا:

زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

اہل تشیّع اور سلطان زنگیؒ و ایوبیؒ

پانچویں صدی ہجری کے آخر تک بغداد کی عباسی خلافت عربی و عجمی عصبیت اور ترکوں کی سرکشی کے باعث کمزور پڑ چکی تھی، شیعہ سنّی فسادات نے سلطنت بغداد کو مزید خلفشار کا شکار کر دیا، خلیفہ بغداد کی کمزوری کے باعث مصر کے فاطمی خاندان نے قاہرہ میں الگ خلافت قائم کر لی تھی۔ اس وقت سے فاطمی اور عباسی خلافت آپس میں برسرپیکار تھیں۔ اس سیاسی کشاکش نے شیعہ سنی اختلاف کا رنگ اختیار کر لیا تھا۔آہستہ آہستہ عباسی خلافت کی ابتری کا یہ عالم ہو گیا کہ بغداد کے نواحی علاقوں کو چھوڑ کر باقی صوبوں میں خود مختار حکومتیں قائم ہو گئیں جو برائے نام خلافت بغداد سے وابستہ تھیں۔ ان حکومتوں کے سلاطین ایک دوسرے کے علاقوں کو ہتھیانے کی فکر میں رہتے تھے۔ مصر کی فاطمی خلافت نے شام میں سلجوقی مسلمانوں کی  بڑھتی ہوئی طاقت سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے عیسائیوں کو شام پرحملہ کرنے کی دعوت دی اور در پردہ سلجوقی مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کواپنی حمایت کا یقین دلایا۔

ملت اسلامیہ کی اس تقسیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بالآخر 15جولائی 1099ء کو صلیبی افواج بیت المقدس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ عیسائی افواج نے ایسی درندگی کا مظاہرہ کیا کہ ستر ہزار شہری بچے بوڑھے، جوان اور عورتیں بے دردی سے ذبح کیے گئے۔ مسجد اقصیٰ میں ہر طرف خون ہی خون تھا۔چند سال کے اندر اندر صلیبی اقتدار کے سیلاب نے عالم اسلام کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مسلمان امرا اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی بجائے آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے صلیبیوںکی مدد لے رہے تھے اور کہیں اپنے مسلمان بھائیوں کے خلاف صلیبیوں کی مدد کر رہے تھے۔ مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ رہی تھی۔ بغداد کی عباسی خلافت اور مصر کے شیعہ فاطمی حکمران ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کا مصداق بنے ہوئے تھے۔ ان پُر آشوب حالات میں شام میں پہلے سلطان عماد الدین زنگی (م:1146ء )اور پھر نور الدین زنگی مسلمان امرائ کو متحد کرنے اور صلیبی رشتہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترا۔

مصر کے فاطمی خلیفہ عاضد کو ایک طرف اپنے وزیر اعظم سے خدشات لاحق تھے تو دوسری طرف اسے صلیبی افواج کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔ کئی درباری امرا خفیہ طور پر صلیبوں سے راہ و رسم بھی رکھتے تھے۔ ان حالات میں خلیفہ عاضد نے سلطان نور الدین زنگیؒ سے صلیبیوں کے خلاف مدد طلب کی۔سلطان زنگی نے تمام تر سابقہ شیعہ سنّی تلخیوں اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فاطمی خلافت کو عیسائی یلغار سے بچانے کے لیے اپنے نوجوان سالار صلاح الدین ایوبی کو فوجی کمک کے ساتھ مصر بھیجا، جس نے اپنے حسن تدبیر سے نہ صرف مصر پر صلیبی حملے کو پسپا کر دیا بلکہ وزیر اعظم مصر کو بھی بے اثر کر دیا اور اپنے حسن انتظام سے رعایا کو امن و سکون مہیا کر دیا۔

سلطان زنگی کی خواہش تھی کہ مصر میں بھی خلافت بغداد کا خطبہ پڑھا جائے تاکہ دشمنانِ اسلام کے مقابلے میں وحدت امت کا منظر پھر سے اجاگر ہو۔ چنانچہ ایک مناسب وقت پر 567ھ کے ایک جمعہ میں صلاح الدین ایوبی نے خلیفہ بغداد کا خطبہ جاری کر دیا اور مصری عوام اور امرا نے اس پر کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس طرح دو سو سالہ فاطمی خلافت کے خاتمے کے بعد ملت اسلامیہ پھر سے ایک ہی خلافت کے ماتحت ہو گئی۔ مخالف مسلک کی حکومت سے سلطان نور الدین زنگی کے فراخدلانہ تعاون اور صلاح الدین ایوبی کے حسن تدبیر کے باعث ملت اسلامیہ آپس کی خونریزی اور دشمنوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہو گئی۔

ابن تیمیہؒ اور اہل تشیّع

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو یہود و نصاریٰ کو رافضیوں (شیعہ وغیرہ) سے اچھا سمجھتا ہے تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا:

 ’’الحمدللہ! ہر وہ شخص جو محمد کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ ہر اس شخص سے افضل او ربہتر ہے جو آپؐ پر ایمان نہیں رکھتا۔ اگرچہ اس مومن میں کسی قسم کی بدعت موجود ہو۔ چاہے وہ بدعت خوارج، روافض، مرجۂ قدریہ یا کسی اور قسم کی ہو، کیونکہ یہودی اور عیسائی کافر ہیں۔ اور ان کا کفر اسلام میں اظہر من الشمس ہے۔ چنانچہ اگر بدعتی شخص یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی بدعت کی وجہ سے رسول اللہؐ کا متبع ہے، آپؐ کامخالف نہیں ہے، تو وہ کافر نہیں ہے اور اگر اس کا کافر ہونا فرض بھی کر لیا  لیا جائے تو اس کا کفر اس کافر جیسا نہیں ہو گا جو رسول اللہؐ کو جھٹلاتا ہے اور آپؐ پر ایمان نہیں رکھتا۔‘‘ (۹)

اہل تشیّع اور شاہ ولی اللہؒ

شیخ محمد اکرام اپنی کتاب ’’رُود کوثر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’شیعہ سُنّی مسئلے پر اہلِ سنت کے نقطۂ نظر کی وضاحت اور تائید کے لیے شاہ ولی اللہ نے بہت کچھ لکھا لیکن اس معاملے میں بھی ان کی رائے اس طرح انتہاپسندی سے دُور تھی کہ جب ایک انتہاپسند سُنّی نے آپ سے پوچھا کہ کیا شیعوں کو کافر سمجھا جائے تو آپ نے یہ نہ مانا اور کہا کہ اس معاملے میں حنفی علماء میں اختلاف ہے۔وہ آدمی برہم ہوگیا اور کہنے لگا کہ یہ تو شیعہ ہے۔ یہ روایت خود شاہ عبدالعزیز کی ہے۔‘‘ (۱٠)

مولانا سیّد مناظر احسن گیلانی اس مسئلے پر شاہ ولی اللہ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہندوستان میں پہلے تو رانی سُنّی، پھر ایرانی شیعہ اور آخر میں متشدد سُنّی روہیلوں کی شکل میں داخل ہوئے۔ ان تینوں عناصر کے امتزاج سے تسنّن و تشیّع کے سلسلے میں بھی بڑا کام کیا۔ بڑی محنت سے ہزارہا صفحات کوپڑھ کر آپ نے چاروں خلفا کے واقعی حالات ’’ازالۃ الخفاء‘‘ میں ایسے دلنشین طریقے سے مرتب فرمائے کہ اس کتاب کے پڑھنے کے بعد اگر شیعوں کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجاتا ہے تو اسی کے ساتھ ان غالی سُنّیوں کی شدت و تیزی میں بھی کمی پیدا ہوجاتی ہے جو محض اس لیے کہ شاہ ولی اللہ نے شیعوں کی تکفیر میں فقہا حنفیہ کے اختلاف کو کیوں بیان کیا ہے، ان پر بھی شیعیت کا فتویٰ صادر کردیتے ہیں اور اس کے لیے بجائے مناظرے اور مجادلے کے شاہ صاحب نے ایک ایسی راہ دریافت فرمائی جس سے بہت سے فتنوں کا سدِّباب ہوگیا۔‘‘ (۱۱)

اہل تشیّع اور شاہ عبدالعزیزؒ

شیعہ اعتراضات کی تردید میں شاہ ولی اللہ کے بیٹے شاہ عبدالعزیزؒ نے ساڑھے چھے سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب ’’تحفہ اثنا عشریہ‘‘ لکھی۔ شیعہ مذہب و خیالات کے بیان میں صرف مستند اور معتبر شیعہ کتب پر انحصار کیا اور تاریخ و تفسیر میں صرف انھی چیزوں کو چُنا جن پر شیعہ سُنّی دونوں فریق متفق ہیں۔ کتاب کی زبان اور طرزِ بیان سنجیدہ اور مہذبانہ ہے۔ یہ کتاب علمی لحاظ سے اس پائے کی تھی کہ بہت سے شیعہ علماء نے اس کے رد میں بہت کچھ لکھا لیکن جو لوگ حدِاعتدال سے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں ان کی تسلی اور تسکین محض اتنی بات سے نہیں ہوتی کہ حق کو پورے عدل سے بیان کر دیا جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ مخالف کے کسی ایک اچھے وصف کو بھی تسلیم نہ کیا جائے حتیٰ کہ حضرت علیؓ کے مناقب کا بیان بھی بعض سنیوں کو پسند نہیں آتا۔شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:

’’شاہ عبدالعزیز نے دو سری باتوں کی طرح اس (شیعہ سُنّی) معاملے میں بھی اپنے والد کی پیروی کی تھی۔ ان کاایک پٹھان شاگرد تھا ، حافظ آفتاب نام، ہمیشہ حاضر درس ہوتا تھا۔ ایک دن حضرت علیؓ کا ذکر ہورہا تھا اور شاہ صاحب نے ان کے بہ جان و دل فضائل و مناقب بیان کیے تو وہ اتنا بگڑا کہ شاہ صاحب کو شیعہ سمجھا اور ان کے درس میں شریک ہونا بند کر دیا‘‘۔(۱۲)

مولانا داؤد غزنوی اور شیعہ عالم

مشہور اہل حدیث عالم مولانا داؤد غزنوی کے دیرینہ ساتھی مولانا اسحاق بھٹی مولانا غزنوی کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’مولانا عبدالعظیم انصاری (سابق ناظم دفتر جمعیت اہل حدیث پاکستان) کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ وہ مولانا (غزنوی)کے ساتھ تانگے پر بیٹھے کہیں جا رہے تھے۔ مولانا نے اچانک تانگے والے سے کہنا شروع کیا ’’تانگہ روکو، تانگہ روکو‘‘ تانگہ رکا تو مولانا جلدی سے نیچے اترے اور ہاتھ پھیلائے ہوئے ایک طرف کو بڑھے، دیکھا تو اُدھر شیعہ عالم مفتی کفایت حسین تانگے سے اتر کر اسی طرح ہاتھ پھیلائے مولانا کی طرف بڑھ رہے تھے۔ دونوں بزرگوں نے مصافحہ کیا اور کچھ دیر آپس میں کھڑے باتیں کرتے رہے۔‘‘ (۱۳)

اہل حدیث عالم اور شیعہ ذاکر

ماضی میں شیعہ سنّی کے درمیان کس قدر رواداری کی روایت موجود تھی، آج ہم اسے ترس گئے ہیں۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی جو حکومتی ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے ریسرچ سکالر تھے اور اہل حدیث حضرات کے ہاں ان کا نمایاں مقام ہے، لکھتے ہیں:

’’وہ زمانہ موجودہ زمانے سے مختلف تھا۔ لوگ تحمل سے ایک دوسرے کی بات سنتے اور برداشت کرتے تھے۔ اگر کسی پر تنقید کی جاتی اور وہ تنقید کاجواب دینا چاہتا تو اسے جواب دینے اور اصل حقیقت بیان کرنے کا کھلے دل سے موقع دیا جاتا تھا۔ وہ کلاشنکوفوں، موزروں اور خنجروں کازمانہ نہ تھا اور اپنے سے اختلاف کرنے والوں کو مارنے، دھاڑنے اور قتل کرنے والوں کا دور نہ تھا۔ وہ عزت و آبرو کا دور تھا، احترام و توقیر کا دور تھا... اس کی بہت سی مثالوں میں سے ایک مثال عرض کرتا ہوں:

فیصل آباد میں مولانا محمد صدیق امین پور بازار میں جامع مسجد اہل حدیث کے قریب سکونت پذیر تھے۔ ایک دفعہ مسجد سے کچھ فاصلے پر رات کے وقت شیعہ حضرات کا جلسہ ہو رہا تھا۔ لائوڈ سپیکر کے ذریعے مقرر کی آواز مولانا کے گھر پہنچ رہی تھی۔ اور مولانا تقریرسُن رہے تھے۔ مقرر نے حضرت ابوبکر صدیقؓ پر تنقید کی۔ مولانا اسی وقت گھر سے نکلے اور جلسہ گاہ میں سٹیج پر مقرر کے ساتھ مائیک کے سامنے جا کھڑے ہوئے۔ لوگ یہ منظر دیکھ کر بڑے متحیّر ہوئے۔ مقرر سے فرمایا: صدیقؓ کا دفاع صدیق کرنا چاہتا ہے۔ شیعہ مقرر کا دل گردہ ملاحظہ ہو کہ وہ مائیک چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے اور مولانا صدیق کو تقریر کا موقع دیا۔ شيعہ سامعین نے نہایت بُردباری کا ثبوت بہم پہنچایا اور مولانا صدیق نے اپنی تقریر میں حضرت صدیقؓ کا دفاع کیا۔

یہ تھا وہ زمانہ... نہ کسی نے خنجر چلایا، نہ بندوق اٹھائی، نہ چھرا ہاتھ میں پکڑا۔ پھر تقریر ختم کر کے وہ وہیں بیٹھ گئے۔ شیعہ مقرر کی تقریر سنی اور جلسہ ختم ہونے کے بعد گھر گئے۔‘‘ (۱۴)

علامہ عارف الحسینی اور سنّی علماء

علامہ عارف الحسینی کے سوانح نگار سید نثار ترمذی لکھتے ہیں:

’’ایک مرتبہ عیدالفطر پر اختلاف ہو گیا۔ شہید عارف الحسینی نے رویتِ ہلال کمیٹی کے فیصلہ کے خلاف عید منانے کا اعلان کیا۔ چونکہ اہل سنت کی عید اگلے دن تھی، اس لیے آپ رات کو اہل سنت کی مساجد و مدارس میں علمائے کرام سے عید ملنے کے لیے چلے گئے۔ اور ساتھ ہی مٹھائی بھی لے کر گئے۔ یوں رات گئے تک اہل سنت کی خوشیوں میں شریک ہوئے۔ اس کا ایک خوشگوار ردِّعمل ہوا کہ اگلی صبح اہل سنت علما مٹھائی لیے علامہ عار ف الحسینی سے عید ملنے چلے آئے۔ گو کہ بظاہر اختلاف کا مقام تھا، مگر کس قدر خوبصورتی سے وحدت، میل جول اور رابطہ کا سلسلہ نکل آیا۔‘‘ (۱۵)

سید مودودی اور انقلابِ ایران

مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی کے دستِ راست جناب مولانا خلیل احمد حامدی لکھتے ہیں:

’’۱۹۶۳ء کے حج میں مولانا مودودی کے مشورے سے خاکسار نے ترجمان القرآن (ماہ ستمبر ۱۹۶۳ء) میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا: ’’ایران میں دین اور لادینیت کی کشمکش‘‘۔ اس مضمو ن کی اشاعت پر سفارت خانہ ایران نے سخت احتجاج کیا۔ اور ایک جوابی مضمون محمد علی زرنگار کے قلم سے ترجمان القرآن میں چھاپنے کے لیے بھیجا جو چھاپ دیا گیا۔ مگر اس کے باوجودحکومتِ پاکستان نے ترجمان القرآن کو چھ ماہ کے لیے بند کر دیا۔ بلکہ جنوری ۱۹۶۴ء میں جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ اور مجلس شوریٰ کے تمام ارکان اور خود مولانا مودودی نظر بند کر دیئے گئے۔ جماعت پر جو الزامات لگائے گئے، ان میں ایک یہ الزام بھی تھا کہ اس نے ایسے مضامین چھاپے ہیں جن سے پاکستان اور ایران کے دوستانہ تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مولانا مودودی کا یہ موقف اور ترجمان القرآن کی یہ خدمت پورے پاکستان میں واحد آواز تھی جو ایران کے مظلومین کے حق میں بلند ہوئی۔ خود پاکستان کی شیعہ قیادت بھی اس زمانے میں ایران کی لادینی حکومت کے خلاف کوئی حرف زبان پر نہ لا رہی تھی۔‘‘ (۱۶)

مولانا خلیل حامدی کی اس بات کی تائید علامہ عارف الحسینی کے ان الفاظ سے ہوتی ہے جو انہوں نے اہل تشیع کو مخاطب کرتے ہوئے کہے:

’’ 1963ء میں ایران کے شہر تہران اور قم میں جو شاہ کے خلاف اور امام خمینی کے حق میں مظاہرے ہوئے اور جن پر شاہ نے اس قدر بمباری اور فائرنگ کروائی کہ پندرہ ہزار افراد شہید ہو گئے لیکن یہاں پر آپ بتا سکتے ہیں کہ (پاکستان میں) کسی امام بارگاہ یا کسی مسجد سے کسی عالم دین نے صدائے احتجاج بلند کی ہو...کسی عالم دین نے شاہ کے خلاف نہ ٹیلی گرام دیا نہ یہاں لوگوں کو حالات سے آگاہ کیا۔ بلکہ اس کے برعکس ستم بالائے ستم یہ کہ اسی شیعہ پلیٹ فارم سے بعض افراد نے جو اپنے آپ کو اہل علم سمجھتےتھے، اس وقت شاہ کے حق میں نعرہ بلند کیا اور امام خمینی نیز دوسرے علما اور عوام جو اسلام کے لیے کام کر رہے تھے، ان کے خلاف مقالے لکھے۔ اور شاہ کے لیے مجالس میں باقاعدہ دعائیں کی گئیں۔ حتیٰ کہ ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں شا ہ کی تعریف کی گئی۔ ان حالا ت میں بھی جب پندرہ ہزار شیعہ قتل ہوئے ہم اور آپ نے مجلس عزا برپا کی نہ کوئی جلوس نکالا اور نہ کوئی ٹیلی گرام انہیں دیا۔ حالانکہ اس وقت بھی مولانا مودودی صاحب نے شاہ کے خلاف مقالہ لکھا جس کے نتیجہ میں ان کا ماہنامہ ترجمان القرآن بھی بند کر دیا گیا۔‘‘ (۱۷)

جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل مرحوم کے مطابق 1979ءمیں ایرانی انقلاب کے بعد ان کی قیادت نے ایرانی قیادت سے ملاقات میں اپنی تائید کا اظہار کیا تو ایرانی قیادت نے کہا کہ ایرانی بلوچستان ان کے لیے پریشان کن مسئلہ بنا ہوا ہے۔ وہاں کے قبائل ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ واضح رہے کہ ایرانی بلوچستان کی ساری آبادی سنّی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

میاں طفیل محمد کے بقول انھوں نے ایرانی بلوچستان میں اپنا ایک آٹھ رکنی وفد بلوچستان سے بھیجا جو مولانا عبدالمجید مینگل مرحوم، مولانا عبدالحمید مینگل، مولانا عبدالغفور اور دوسرے حضرات پر مشتمل تھا۔ یہ لوگ پندرہ بیس دن وہاں رہے اور وہاں کے علمائے کرام سے بات کی اور انھیں سمجھایا۔ چنانچہ اس طرح ہماری کوششوں سے یہ مسئلہ حل ہو گیا۔(۱۸)

پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور اہل تشیع

پیر مہر علی شاہ کے سوانح نگار کے بقول قیام پاکستان سے قبل قادیانی فتنہ کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے تمام اسلامی فرقوں کے راہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوئے۔ سنی اہل حدیث اہل قرآن کے علاوہ لاہور اور سیالکوٹ کے شیعہ مجتہدین نے بھی قادیانیت کے محاذ پرپیر صاحب گولڑہ کو اپنا سربراہ و نمائندہ بنانے کا اعلان کیا۔(۱۹)

دینی تحریکات

قیام پاکستان کے بعد جب آئین پاکستان کی بحث کو الجھانے کے لیے سیکولر پریس اور سیاسی نمائندوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ملک میں کس کا اسلام نافذ کریں سنی کا شیعہ کا، اہل حدیث کا؟ یا حنفی کا تو سنی اور شیعہ مکاتب فکر کے 32جید علماء نے 22متفقہ نکات پر ایک دستاویز حکومت کو پیش کی جس کی بنیاد پر قرار داد پاکستان پاس ہوئی جو ہر دور میں بننے والے آئین کا حصہ رہی ہے۔

1974ء میں ختم نبوت تحریک اور آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے مسئلہ میں شیعہ سنی علما یکجان رہے ہیں۔ پندرہ بیس سال قبل جب ملک میں شیعہ سنی منافرت پھیلانے اور فرقہ واردیت کی آگ بھڑکانے کی کوشش ہوئی توملی یکجہتی کونسل کی صورت میں تمام شیعہ سنی اکابر علماء اکٹھے ہوئے۔

اصولی اختلاف اور حضرت علیؓ کا اسوہ

حضرت ابوبکرؓ ،عمر و عثمانؓ کی نسبت اہل تشیع حضرت علیؓ کو خلافت کا اولین حق دار تصور کرتے ہیں لیکن اس اختلاف کا حل کیا ہے اور اہل السنت کے ساتھ اہل تشیع کے لیے قابل عمل رویّہ کیا ہے، اس بارے میں مولانا سید ریاض حسین نجفی کی بات قابل غور ہے:

’’رسولؐ اللہ کی سیاسی جانشینی کے مسئلے پر اختلاف رائے کے اظہار کے باوجود حضرت علیؓ نے ماقبل کی حکومت (خلافت ابو بکر ، عمر و عثمان)کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا بلکہ امت کے مفاد میں ان سے ہر طرح کا تعاون کیا اور درپیش معاملات میں اسلام کے اعلیٰ اہداف کے لیے فعال کردار ادا کیا۔ لہٰذا ہم علی وجہ البصیرت سمجھتے ہیں کہ اس دور میں شیعان علیؓ کے لیے خود حضرت علیؓ کا اسوہ ہی نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے، اور شیعوں کو حضرت علیؓ کی پیروی میں ہمیشہ اسلام کے اعلیٰ مقاصد اور امت اسلامیہ کا مفاد پیش نظر رکھنا چاہیے۔‘‘ (۲٠)

اس میں شک نہیں کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے درمیان کچھ اصولی اختلافات بھی ہیں،اس لیےہمیںیہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اسلاف نے اصولی اختلاف کے ہوتے ہوئے باہمی طور پر کیا رویّہ اختیار کیا؟حضرت علیؓ چونکہ شیعہ و سنی دونوں مکاتیب فکر کے لیے قابل احترام ہیں، اس لیے ہم دکھانا چاہتے ہیں کہ اصولی اختلاف میں ان کا کیا رویہ تھا کیونکہ شیعہ سنی اختلاف صرف فروعی اختلاف نہیں بلکہ بعض جہتوں سے اصولی اور بنیادی اختلاف بھی ہے۔ حضرت علیؓ سےجب بعض لوگوں نے خارجیوں کے بارے میں سوال کیا:’’کیا یہ خوارج کافر ہیں؟‘‘جب خوارج وہ لوگ تھے جو جنگ ِ صفّین میں حضرت علیؓ کے ساتھ تھے اور اس جنگ میں حضرت علیؓ اور حضرت امیرمعاویہؓ کے درمیان صلح کے لیے دونوں طرف سے  ایک ایک حَکم (ثالث) مقرر ہوئے لیکن یہ تحکیم کامیاب نہ ہوئی تو حضرت علیؓ کے لشکر کا ایک بڑا حصہ حضرت علیؓ سے اس بنیاد پر الگ ہوگیا کہ حضرت علیؓ نے انسانوں کو حَکم مان کر کفر کیا ہے کیونکہ حَکم کی حیثیت صرف اللہ کو حاصل ہے: اِنِ الْحکم اِلَّا لِلّٰہِ (۲۱)

 ان خارجیوں نے نہ صرف حضرت علیؓ بلکہ حضرت عثمانؓ پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا اور حضرت علیؓ کے خلاف مسلح ہوکر بغاوت بھی کی۔ لوگ آپ سے ان کے بارے میں شرعی حکم پوچھ رہے تھے کہ کیا یہ کافر ہیں ؟تو آپ نے جواب دیا:

 ’’کفر سے تو یہ لوگ بھاگے ہیں‘‘۔

’’تو کیا یہ منافق ہیں؟‘‘

’’منافق تو اتنی عبادت گزاری نہیں کرتا جتنی یہ کرتے ہیں۔‘‘

’’تو پھر یہ کون ہیں؟‘‘

’’کل یہ ہمارے بھائی تھے، آج ہمارے خلاف باغی ہیں‘‘۔

’’ہم ان پر فتح پائیں گے تو ان کو غلام بنائیں؟‘‘۔

’’نہیں!‘‘

’’ان سے چھینا ہوا مال ، مالِ غنیمت ہوگا؟‘‘

’’بالکل نہیں‘‘۔

’’کیوں؟‘‘

’’اس لیے کہ ان پر باغی کا حکم لاگو ہوتا ہے۔ مرتد اور کافر کا نہیں‘‘۔ حضرت علیؓنے جواب دیا۔ ’’ان کے زخمیوں پر حملہ کر کے انھیں نہیں مارا جائے گا، ان کی عورتوں کو باندی نہیں بنایا جائے گا، ان سے جنگ ان کی اذیتوں سے بچنے کے لیے کریں گے، انھیں تباہ و برباد کرنے کے لیے نہیں‘‘۔

’’وہ گناہِ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں‘‘۔

’’گناہِ کبیرہ کا مرتکب فاسق ہوتا ہے ، کافر نہیں۔ خارجیوں کی تاویل فاسد ہے‘‘۔

’’وہ آپ کو بھی کافر کہتے ہیں‘‘۔

’’ہم انھیں کافر نہیں کہیں گے۔ ہم اس گڑھے میں نہیں گریں گے جس میں تکفیر کرنے والے گرے ہوئے ہیں‘‘۔

’’وہ کہتے ہیں کہ اللہ کا ارشاد ہے: اِنِ الحکم اِلَّا لِلّٰہِ (فیصلہ اور حکم تو صرف اللہ کا ہے)۔ آپ نے باہمی نزاع میں دو آدمیوں کو حَکم (ثالث) تسلیم کرلیا، لہٰذا آپ نے آیاتِ قرآنی کا کفر کیا ہے‘‘۔

’’کلمۃ حقِ اُرید بِھا البَاطِل‘‘ ،بات تو حق ہے لیکن اس سے جو مرادلیا جارہا ہے وہ باطل ہے‘‘۔حضرت علیؓ نے انتہائی بلیغ جملہ ارشاد فرمایا۔ خارجیوں کی کھلی مخالفت اور تکفیر کے باوجود حضرت علیؓ نے واضح الفاظ میں انھیں کہا:

’’ہم پر تمھارے تین حقوق ہیں: پہلا یہ کہ ہم تمھیں مسجدوں میں آنے سے نہ روکیں۔ دوسرا یہ کہ تمھارا یا تمھارے بچوں کا بیت المال سے جو وظیفہ لگا ہوا ہے، اسے بند نہ کریں، تیسرا یہ کہ جب تک تم لوگ شروفساد برپا کرنے سے رُکے رہو گے، تب تک ہم تم سے کوئی جنگ نہ کریں گے‘‘۔ (۲۲)

حضرت علیؓ نے خارجیوں کو یہ ضمانت اس وقت دی جب کہ ان کا ہر فرد تربیت یافتہ مسلح جنگجو تھا اور کسی وقت بھی جنگ کے شعلے بھڑک سکتے تھے۔مسلمانوں کے باہمی اختلاف میں ہی نہیں بلکہ شروفساد کے دور میں حضرت علیؓ کا اپنے مخالفین سے یہ سلوک ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ حدیثِ رسولؐ ہے: عَلَیکُم بِسُنّتی وسنۃ الخُلفاءِ الرّاشدین’’تم پر میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاکی سنت لازم ہے‘‘۔

خوارج نے حضرت علیؓ کی تکفیر کی، آپ پر بدترین تہمتیں لگائیں یعنی سابقون الاوّلون  اور بدری مسلمان پر جن کا اللہ کے ہاں خصوصی درجہ ہے۔ دامادِ رسولؐ پر، فاطمہؓ کے شوہر پر ، چوتھے خلیفۂ راشد پر، لیکن آپؓ نے:

۱- خارجیوں کی تکفیر کے جواب میں ان کی تکفیر نہیں کی۔

۲- ان کی تہمتوں کے جواب میں تہمت تراشی نہیں کی۔

۳- ان کی بغاوت کے امکان کے باوجود ان کے بنیادی حقوق، اظہارِ رائے کی آزادی، حق وظائف، مسلمانوں کی مسجدوں میں عبادت کرنے کا حق، سلب نہیں کیا۔

مسلمانوں کے ائمہ فقہا نے خارجیوں کی تکفیر سے پرہیز کیا ہے حالانکہ خارجی اپنے سوا دوسرے سب مسلمانوں کی تکفیر پر اصرار کرتے تھے۔ اور دوسروں کے مال و جان کی لُوٹ مار کو اپنے لیے مباح (جائز) سمجھتے تھے۔امام شوکانی اپنی کتاب ’’نیل الاوطار‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’علمائے اہلِ سنت کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ خارجی مسلمان ہیں چونکہ وہ کلمہ شہادت پڑھتے ہیں ، ارکان اسلام کی پابندی کرتے ہیں، مسلمانوں کی تکفیر انھوں نے غلط تاویل کی بنیاد پر کی ہے‘‘۔

امام غزالی اپنی کتاب التفرقۃ بین الایمان والزندقہ میں لکھتے ہیں:

’’توحید پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں کے خون کو مباح قرار دینا غلطی ہے۔ جب تک کوئی واضح راہ نہ ملے، خوارج کی تکفیر سے احتراز کرنا چاہیے‘‘۔

ابن بطال کہتے ہیں:

’’جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ خارجی مسلمانوں میں شامل ہیں جیساکہ حضرت علیؓ سے ان کی تکفیر کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؓ نے فرمایا کہ کفر سے تو یہ لوگ بھاگے ہیں‘‘۔

قاضی عیاضؒ، امام ابوالمعالیؒ، قاضی ابوبکر باقلانیؒ خوارج کی تکفیر کرنے کے قائل نہیں ہیں (۲۳)۔

ہماری رائے میں اسی سے ملتا جلتا مسئلہ ہمارے دور میں سُنّی اور شیعہ کا ہے۔ سُنّی مسالک اربعہ اوراہلِ حدیث اور احناف میں دیوبندی بریلوی کے اختلافات بنیادی نہیں ہیں۔ اصولِ عقیدہ میں یہ ایک ہی ہیں۔ البتہ سُنّی اور شیعہ کے اختلافات محض فقہی نوعیت کے نہیں بلکہ بعض بنیادی اختلافات بھی ہیں جیسے اہلِ تشیع کا تصورِ امامت جو اہلِ سنّت کے ہاں ایک گمراہی سے کم نہیں، جس کے باعث ہر فریق کی ایک تعداد ایک دوسرے کو کافر تصور کرتی ہے۔ اس معاملے میں خوارج کے بارے میں حضرت علیؓ کا طرزِعمل ہمیں ایسے اختلاف میں بھی رہنمائی دیتا ہے جس میں ہردو فریق ایک دوسرے کو کفر پر یا کم از کم گمراہی پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔


حوالہ جات

۱۔ آل کاشف الغطاء، اصل اصول شیعہ (ترجمہ: سید ابن حسن نجفی)، ص ۱۱۵، شیعہ تبلیغات تحریک جعفریہ پاکستان، سن ن

۲۔ بحوالہ ثاقب اکبر: پاکستان کے دینی مسالک، ص ۲۵۳، البصیرہ، اسلام آباد، ۲٠۱٠ء

۳۔ اصل اصول شیعہ، ص ۱۵ تا ۱۲۳

۴۔ اصول الفقہ للمظفر، تہران ۲/۵۵

۵۔ حیدر حب اللہ: نظریۃ السنۃ فی الفکر الامامی الشیعی، تہران، ص ۲۴

۶۔ نظریۃ عدالۃ الصحابۃ، تہران، ص ۷۷

۷۔ کلیات فی علم الرجال، تہران، ص ۴۹۴

۸۔ البدایۃ والنہایۃ، دار ہجر للطباعۃ، قاہرہ، ۲/۳۶٠

۹۔ مجموع الفتاوی ٰ، ج ۳۵، ص ۱۲۲

۱٠۔ رود کوثر، ص  ۵۷۸، ۵۷۹

۱۱۔ بحوالہ رود کوثر، ص ۵۷۹

۱۲۔ رود کوثر، ص ۵۷۹

۱۳۔ مولانا محمد اسحاق بھٹی: نقوش عظمت رفتہ، ص ۵۲

۱۴۔ بزم ارجمنداں، ص ۴۹۶

۱۵۔ سید نثار ترمذی: نقیب وحدت علامہ عارف الحسینی، ص ۴۳

۱۶۔ تذکرہ مودودی، ج ۲، ص ۴۳۳، ادارہ معارف اسلامی، لاہور ۱۹۸۸ء

۱۷۔ بحوالہ نثار ترمذی: نقیب وحدت علامہ عارف الحسینی، ص ۱۳۹

۱۸۔ تذکرہ مودودی، ج ۲، ص ۷۷، ۷۸

۱۹۔ علامہ فیض احمد فیض: مہر منیر، ص ۲۳٠، ۲۳۱

۲٠۔ پاکستان کے دینی مسالک، ص ۲۵۱

۲۱۔ یوسف ۱۲:۴٠

۲۲۔ مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۳۷۷۶۳۔ بیہقی، سنن کبری ٰ، ج ۸، ص ۱۷۳

۲۳۔ بحوالہ ڈاکٹر علامہ  یوسف القرضاوی: اسلامی بیداری، ص ۱۸٠۔۱۸۲


ہندو مذہبی صحائف میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیاں

مولانا مشفق سلطان

مسلمانوں میں اس بات کی بڑی شہرت ہو گئی ہے کہ ہندو مذہبی کتابوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے متعلق واضح پیشن گوئیاں موجود ہیں۔ ایک زمانے میں  میرا بھی یہی خیال تھا اور اس کو بڑے زور کے ساتھ لوگوں کے سامنے بیان بھی کرتا رہا۔ تاہم بعد میں جب براہ راست ہندو صحائف کے مطالعے کا موقع ملا اور ان پیشن گوئیوں کے بارے میں ہمارے مبلغین کی تاویلات کو دقت نظر کے ساتھ پرکھا تو اپنی سابقہ رائے کو تبدیل کر لیا۔ پچھلے سالوں میں کئی بار اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ ہندو مذہبی متون کو اپروچ کرنے کا جو نہج بعض مسلم مبلغین نے اختیار کیا ہے وہ انتہائی سطحی اور ناقص ہے۔ ان شخصیات سے والہانہ عقیدت کی بنا پر مسلمانوں نے بلا تحقیق ان کی باتوں کو اختیار کر لیا اور ہندو عوام سے مکالمے (بلکہ مناظرے) کے لیے اکثر لوگ انہی باتوں کو استعمال کرتے رہے اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں تحقیقی ذوق پہلے ہی مفقود ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ جب کوئی مسلمان سنسکرت کتابوں کے حوالے دے کر، کچھ منتروں کو (اکثر غلط تلفظ کے ساتھ) دہرا کر اسلام کی صداقت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو داد تحسین ضرور حاصل ہوتی ہے۔

میں نے کئی بار ارادہ کیا کہ میں اس بارے میں کوئی مضمون لکھوں لیکن اپنی مصروفیت اور صحت کے بعض مسائل کی وجہ سے نہیں لکھ سکا۔ اپنی آئندہ تحریروں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ان مزعومہ پیشن گوئیوں پر میں اپنا تجزیہ پیش کروں گا۔ سب سے پہلے 'کَلکی اوتار' کی پیشن گوئی کو دیکھتے ہیں جس کا مصداق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔

'کَلکی اوتار' کی پیشن گوئی 'پُران' (Purana) نامی کتب میں موجود ہے۔ ہندو مذہبی کتب میں ان کی استنادی حیثیت اتنی مضبوط نہیں ہے۔ تاہم عوام الناس میں یہی کتابیں زیادہ مقبول ہیں۔ کَلکی اوتار سے متعلق پیشن گوئی بنیادی طور پر 'بھاگوت پران' اور خاص اسی موضوع پر اسی نام سے موسوم 'کَلکی پران' میں موجود ہے۔ انہی دو کتابوں کو سامنے رکھ کر ہم اس پیشن گوئی کا تجزیہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ کیا فی الواقع ان میں مذکور تفصیلات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے مطابقت رکھتی ہیں، جیسا کہ دعویٰ کیا جاتا ہے، یا نہیں۔

کَلکی اوتار کے والدین

तत्                श्रुत्वा        पुण्डरीकाक्षो     ब्रह्मानमिदमब्रवीत्

शम्भले           विष्णुयशसो                   गृहे           प्रादुर्भावाम्यहम्

सुमत्यां मातरि विभो! पत्नीयां तवन्निदेशतः

"پنڑری کاکش وِشنو بھگوان برہما جی کی ان باتوں کو سن کر کر برہما جی سے کہنے لگے کہ میں تمہارے کہنے سے 'شَمبھل' نامی گاؤں میں 'وِشنو یَش' نام والے براہمن کے گھر 'سُمَتی' نامی براہمن کی بیٹی کے حمل سے پیدا ہوؤنگا۔" (کلکی پران۔ ادھیاے 2، اشلوک 4)

تب وشنو یش سے سُمَتی حاملہ ہوئی، اس طرح کہ ان کے رحم میں وشنو بھگوان ودیہ مان ہوئے۔ (ایضاً، اشلوک11)

اس شلوک میں میں وشنو کے اوتار کلکی کے والد کا نام 'وِشنو یَش' (Vishnu Yash) اور والدہ کا نام 'سُمَتی' (Sumati) بتایا گیا ہے۔

ان ناموں کے بارے میں ہمارے مبلغین فرماتے ہیں یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کے اسماء کے سنسکرت بدل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ کلکی اوتار کے والد کا نام 'وِشنو یش' (विष्णुयश) آیا ہے جس کے معنی 'اللہ کے بندے' کے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک وِشنو سے مراد اللہ ہے اور یَش کے معنی بندے کے ہیں۔ لیکن حقیقت میں سنسکرت زبان کے لفظ 'یش' کا مطلب 'بندہ' نہیں ہے۔ بلکہ اس لفظ کے معنی 'جلال' یا 'عظمت' کے ہیں۔ تو 'وشنو یش' کے معنی ہوں گے 'وشنو کا جلال' یا 'وشنو کی عظمت'۔ کسی شخص کا اگر یہ نام ہو تو اس کا مطلب ہوگا وہ جس کے اندر وشنو کا جلال یا عظمت ظاہر ہو۔ اس کا عربی مترادف 'عبد اللہ' نہیں بلکہ 'جلال  اللہ' یا 'بہاء اللہ' ہوگا۔

اسی طرح کلکی اوتار کی والدہ کا نام 'سُمتی' (सुमति) بتایا گیا ہے۔ اس پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس نام کے معنی 'امانت دار' یا 'امن والی' کے ہیں اور عربی میں اسے 'آمنہ' کہیں گے۔ یہ معنی بھی محل نظر ہیں۔ سنسکرت لغت میں 'متی' (मति) کے معنی 'عقل'، 'فہم' یا 'علم' کے آتے ہیں۔ 'سُ' (सु)  ایک سابقہ (उपसर्ग)ہے جو کسی صفت سے قبل آنے پر ایک چیز کو مثبت انداز میں اس صفت سے متصف بناتا ہے۔ تو لفظ 'سُمتی' کے معنی ہوتے ہیں 'علم والی'، 'فہم والی' یا 'عقل والی'۔ 'امن والی' یا 'امانت دار' اس کے معنی نہ جانے کس لغت میں ہیں۔ اس کے عربی مترادفات 'علیمہ'، 'عقیلہ' وغیرہ جیسے الفاظ ہیں۔

لہذا کلکی اوتار اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے والدین کے ناموں میں مطابقت موجود نہیں ہے بلکہ خواہ مخواہ مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کلکی کا مقام پیدائش

کلکی پران کے اسی شلوک میں کلکی کا مقام پیدائش 'شَمبھل' (शम्भल/Shambhal) بتایا گیا ہے۔

ہمارے یہ حضرات لکھتے ہیں کہ یہ نام لفظ 'شَم' (शम्) سے بنا ہے جس کے معنی 'امن' کے ہوتے ہیں۔ اور لفظ 'شمبھل' ایسےمقام کو کہتے ہیں جہاں لوگوں کو امن حاصل ہو۔ اس کے بعد وہ یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ مکہ مکرمہ کو قرآن مجید میں 'بلد امین' کہا گیا ہے اور سورہ آل عمران کی آیت 97 میں اسی کے بارے میں 'ومن دخله كان امنا' آیا ہے۔ اس لیے ان حضرات کے نزدیک شمبھل سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس نام کا کوئی مقام ہندوستان میں موجود نہیں ہے ۔ کوئی بھی شخص جو ہندوستان کے جغرافیے سے کسی قدر واقف ہے جانتا ہے کہ یہ دعوی  درست نہیں ہے۔ 'شمبھل' نام کا مقام ہندوستان کی ریاست اُتر پردیش میں دریائے گنگا کے نزدیک واقع ہے۔ اس مقام کے ہوتے ہوئے، لفظ شمبھل کو اسم کے بجائے صفت قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ زبان کے قواعد کی رو سے اسے درست تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح تو ہر کسی کتاب میں موجود اسماء کو صفات قرار دے کر ان کا کچھ سے کچھ مطلب لیا جاسکتا ہے۔

کلکی کی تاریخِ پیدائش

द्वादश्या       शुक्लपक्षस्य         माधवे          मासि            माधव

जात ददृशतु पुत्र पितरौ ह्रष्टमानसौ

"بیساکھ مہینے کے پہلے نصف حصے میں بارہویں کے دن بھگوان پیدا ہوئے۔ ان کو پیدا ہوتے دیکھ ان کے والدین کو انتہائی مسرت ہوئی۔" (ایضاً؛ اشلوک 15)

کلکی پران کے اس اشلوک میں کلکی کی تاریخ پیدائش بیساکھ مہینے کی بارہویں بتائی گئی ہے۔ اس بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ یہ وہی تاریخ ہے جو ہمارے قمری حساب سے بارہ ربیع الاول بنتی ہے، جو کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے طور پر مشہور ہے۔ لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل فراہم نہیں کی جاتی جس سے یہ دکھایا جا سکے کہ571 عیسوی کے 12 ربیع الاول کی مطابقت بیساکھ کی 12 تاریخ سے ہوتی ہو۔

کلکی کی پیدائش اور ابتدائی زندگی  سے متعلق چند تفصیلات

کلکی پران میں مذکور کلکی سے متعلق  بعض تفصیلات ایسی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی زندگی سے بالکل بھی مطابقت نہیں رکھتیں۔

ا۔  وشنو یش براہمن نے کلکی روپ بھگوان کی ترقی اور بہتری کی غرض سے صاف دل ہو کر بڑے  بڑے رِگویدی ، یَجُرویدی  اور سام ویدی براہمنوں سے ان کا نام کرن کرایا۔  (ادھیاۓ2، اشلوک23)

ب۔ کلکی بھگوان سے پہلے ان سے بڑے اور تین بھائی پیدا ہوئے تھے۔ ان تینوں کے نام کَوی، پرا گیہ اور سُمنترک تھے۔ (ایضاً، اشلوک31)

ج۔کلکی کے والد وشنو یش کلکی کا اُپ نَیَن سَنسکار کرکے ان کو ویدوں کی تعلیم حاصل کرنے کے لیےگروکل بھیجتے ہیں۔(ایضاً، اشلوک 49)

د۔ کلکی گروکل میں پرشُرام جی سے روایتی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور چونسٹھ فنون سمیت سانگ اُوپانگ وید اور دھنور وید وغیرہ پڑھتے ہیں۔  (ادھیائے 3، اشلوک6)

ان حوالہ جات سے درج ذیل باتیں ظاہر ہوتی ہیں:

١۔ کلکی کی پیدائش کے وقت ان کے والد زندہ ہوں گے اور ان کا نام خود رکھوائیں گے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کی ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔

٢۔کلکی کی پیدائش سے قبل ان کے تین بھائیوں کی ولادت ہو چکی ہوگی۔ محمد صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں یہ بات درست نہیں ہے۔

٣۔کلکی کے والد ہندو دھرم کے مطابق اپنے بیٹے کا اپ نین سنسکار کریں گے اور ویدوں کی تعلیم کے لیے باقاعدہ گروکل میں رہنے کے لیے  بھیجیں گے جہاں وہ روایتی تعلیم حاصل کریں گے۔ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی نہ کسی مدرسے میں داخلہ لیا۔

یہ سب تفصیلات بھی رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کی ابتدائی زندگی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

کلکی اوتار کی ازدواجی زندگی

کلکی پران میں ہے کہ کلکی کا بیاہ سِنگھل دیش کے راجا کی بیٹی پَدما سے ہوگا۔ (ادھیاۓ 2، اشلوک6)

کلکی پران میں کلکی کی صرف ایک زوجہ کا ذکر ہے۔  صاف ہے کہ کلکی کی ایک ہی زوجہ ہوں گی اور وہ بھی ان کے اپنی وطن کی نہیں بلکہ سنگھل دیش یعنی سری لنکا کی رہنے والی ہوں گی۔ رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ کی گیارہ ازواج مطہرات تھیں اور سنگھل دیش سے کسی کا بھی تعلق نہیں تھا۔

کلکی اوتار کی صفات

کلکی اوتار کی بعض دوسری صفات اور ان کے ذاتی حالات جو کلکی پران میں مذکور ہیں وہ ایسے نہیں ہیں کہ تنہا ان کی بنیاد پر محمد صلی الله علیہ وسلم کو اس پیشن گوئی کا مصداق قرار دیا جا سکے۔ مثلا یہ کہ کلکی ایک سفیدگھوڑے پر سوار ہو کر، ہاتھ میں تلوار لئے تیز رفتاری سے پورے زمین کا سفر کریں گے اور لاکھوں کی تعداد میں ایسے برے لوگوں کا قتل عام کریں گے جو مختلف مقامات پر حکومت کر رہے ہوں گے(بھاگوت پران  حصہ ۱۲، ادھیائے ۲، اشلوک ۱۹)۔ اس سے لوگ بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضور صلی الله علیہ وسلم بھی تو جنگوں میں شریک ہوئے اور اپنے دشمنوں کا قتل کیا۔ اس لئے آں حضور صلی الله علیہ وسلم ہی کلکی اوتار ہیں۔ اول تو رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم نےتمام روئے زمین کا سفر ایک گھوڑے پر نہیں کیا اور نہ یہ ایسی کوئی بات ہے جو کسی دوسرے حکمران یا فاتح پر صادق نہ آ سکے۔ رہی کلکی اوتار کی بعض خوبیاں اورحکمت، تواضع، شجاعت وغیرہ جیسے اوصاف، تو یہ کسی پر بھی منطبق کئے جاسکتے ہیں۔ ان کی بنیاد پر قطعاً کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔

خلاصۂ کلام

اس تجزیے کی رو سے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو کلکی اوتارکی پیشن گوئی کا مصدق قرار دینا محض تکلف ہے۔ اس کے لیے کلکی کے بعض ذاتی احوال کو یکسر صرف نظر کیا جاتا ہے اورسنسکرت الفاظ اور عبارات کے غلط معنی بیان کئے جاتے ہیں۔

اس طرح ہندو مذہبی صحائف کی من مانی تشریح سے دین اسلام کی خدمت کے بجاے، ہماری دعوت کو نقصان پہنچتا ہے۔ دین کی دعوت ہر حال میں محکم بنیادوں پر استوار رہنی چاہئے۔

’’سائنسی دور اور مذہبی بیانیے‘‘

محمد عمار خان ناصر

مصنف: مولانا محمد تہامی بشر علوی

ناشر: اقبال مرکز برائے تحقیق ومکالمہ،  بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد

صفحات: ۱٠٠

عالمِ شہود کے ساتھ ایک عالمِ غیب کا وجود اور ان کے باہمی تعلق کی نوعیت کا سوال انسانی شعور کے لیے ایک غیر فانی سوال کے طور پر ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی شعور کو جن گہرے اور پیچیدہ سوالات کا سامنا ہے، عالم شہود ان کا جواب فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہے، اور خود عالم شہود اور اس کے مختلف مظاہر کی تفہیم وتوجیہ کے لیے انسانی شعور کو مابعد الطبیعیاتی تصورات اور ان پر مبنی ایک نظام وجود کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اساطیری مذاہب میں متھالوجی، مبنی بر وحی مذاہب میں عالم غیب کی نقشہ کشی اور فلسفے کی روایت میں مابعد الطبیعی نظام ہائے فکر انسانی شعور کی اسی طلب کو پورا کرنے کی کو شش کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ عالم شہود اور عالم غیب کے باہمی تعلق کی نوعیت کو اور خاص طور پر اس پہلو کو سمجھنے میں کہ عالم غیب سے متعلق انسان کے تصورات کو کس حد تک عالم شہود میں اس کے فکر وعمل پر اثر انداز ہونا چاہیے، یہ نکتہ بہت بنیادی رہا ہے کہ خود عالم شہود سے متعلق انسان کو عقل وتجربہ کے دائرے میں کس طرح کی معلومات اور اس میں تصرف وتسخیر کی کس نوعیت کی صلاحیت حاصل ہے۔ تاریخی طور پر، عقل وتجربہ کے دائرے میں عالم شہود سے متعلق علم اور اس کے نتیجے میں تصرف وتدبیر کا دائرہ وسیع تر ہوتے چلے جانے کا براہ راست اثر عالم غیب سے متعلق انسانی تصورات واحساسات پر مرتب ہوتا رہا ہے اور جدید سائنسی معلومات واکتشافات نے اسی تناظر میں فلسفیانہ فکر اور مذہبی اعتقاد، دونوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

دور جدید میں مسلمانوں کی دینی فکر میں سائنس اور مذہب کے باہمی تعلق کا سوال کئی حوالوں سے موضوع بحث ہے، لیکن وہ عمومی طور پر بعض جزوی حوالوں سے ہے اور اس میں زیربحث پہلو بھی عموما مسئلے کی ظاہری سطح سے تعلق رکھتے ہیں۔ مذہبی فکر میں سائنس کو عموما ٹیکنالوجی کے ہم معنی یا کائناتی مظاہر سے متعلق معلومات کی فراہمی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہوئے یہ پوزیشن اختیار کی جاتی ہے کہ موضوعات کا دائرہ الگ الگ ہونے کی وجہ سے مذہب اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں اور یہ کہ سائنسی تحقیق وتفتیش، اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہب کے لیے کوئی سوال کھڑا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ تاہم ایک خاص سطح پر یہ بات درست ہونے کے باوجود، جدید سائنسی تصور کائنات نے براہ راست نہ سہی، لیکن بالواسطہ مذہبی عقیدے، انداز فکر اور طرز احساس پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں اور بہت بنیادی نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے۔مذہبی فکر میں اس صورتِ حال اور اس کے مضمرات کے گہرے ادراک کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔

برادرم مولانا محمد تہامی بشؔر علوی نے زیرِ نظر تحریر میں اس سوال کے بہت اہم پہلووں کے حوالے سے اپنے غور وفکر اور مطالعہ کے نتائج پیش کیے ہیں۔ ان کا اسلوب تحریر کافی compact ہے اور یہ فرض کر کے بات کو آگے بڑھاتا ہے کہ قاری بحث کے پسِ منظر اور اہم مباحث سے عمومی طورپر واقف ہے۔ گویا یہ تحریر ایک عام اور نئے قاری کے لیے بحث کی تسہیل وتفہیم کے لیے نہیں لکھی گئی، بلکہ اس کا مخاطب مذہب اور سائنس کے ڈسکورس سے علمی واقفیت رکھنے والے اہلِ دانش ہیں۔ مزید تخصیص کے ساتھ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہ تحریر مذہبی علماء اور اساتذہ وطلبہ کو مسئلے کی وسیع تر جہات اور نہایت اہم اور نازک سوالات کی طرف متوجہ کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس کے بہت سے تجزیاتی نکات سے اختلاف ممکن ہے اور مذہبی روایت کے بعض پہلووں کی تفصیل کے حوالے سے بھی تشنگی محسوس ہوتی ہے، لیکن اپنے بنیادی مقصد کے لحاظ سے اسے ایک کامیاب اور مفید کوشش قرار دینے میں مجھے کوئی تردد محسوس نہیں ہوتا۔

امید کرنی چاہیے کہ اس موضوع پر سنجیدہ غور وفکر اور بحث ومباحثہ کو درست خطوط پر آگے بڑھانے میں مولانا بشؔر علوی کی یہ کوشش مفید ثابت ہوگی اور مصنف کے علاوہ دیگر اہلِ دانش بھی بحث کے کئی دوسرے تشنہ پہلووں پر بھی اسی طرح توجہ مرکوز کر سکیں گے۔

کتاب بذریعہ ڈاک منگوانے کے لیے حافظ محمد طاہر سے رابطہ کیا جا سکتا ہے:

+92 306 6426001

اپریل ۲۰۲۱ء

خواتین کے حقوق و مسائل اور معاشرتی اصلاح کا مذہبی ایجنڈامحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۵)ڈاکٹر محی الدین غازی
مساجد واوقاف کا نیا قانونمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
پروفیسر یٰسین مظہرصدیقی کی یاد میںڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
عقیدہ، تہذیب اور سیاسی طاقتسید مطیع الرحمٰن مشہدی
فری لینسنگ: تعارف، اخلاقیات اور احکاممولانا مشرف بيگ اشرف

خواتین کے حقوق و مسائل اور معاشرتی اصلاح کا مذہبی ایجنڈا

محمد عمار خان ناصر

انبیاء کی دعوت کی جو تاریخ  آسمانی صحائف میں بیان ہوئی ہے، اس کے مطابق     انسانوں کو دعوت ایمان اور  اصلاح عقیدہ  کے بعد   انبیاء کا اہم ترین کام اپنے ماحول  کے اخلاقی بگاڑ اور فساد معاشرت کو درست کرنا ہوتا ہے۔  تمام انبیاء کی دعوت میں   ایمان باللہ کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور معاشرتی فساد کا کوئی نہ کوئی پہلو  نمایاں موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔   قرآن مجید کی تعلیم   اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی   دعوتی جدوجہد بھی اس سے مستثنی نہیں اور   خاص طور پر   قرآن میں شرعی احکام کا  ایک بہت بڑاحصہ  خاندانی  رشتوں  کے حوالے سے  جاہلی معاشرت میں پائی جانے والی افراط وتفریط  کی اصلاح پر مبنی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  ہر قسم کی نبوت کا دروازہ  بند کیا جا چکا ہے، لیکن  آپ کی پیش کردہ دعوت  اور  برپا کردہ اصلاحات  کی تفصیل قرآن وحدیث اور سیرت وتاریخ میں محفوظ ہے۔  غور کرنے کی بات یہ ہے کہ  بالفرض اگر نبوت کا سلسلہ جاری ہوتا اور آج ہمارے معاشرے میں    کوئی نبی  بھیجا جاتا تو   صنفین کے مقام، حقوق، ذمہ داریوں اور حدود کے حوالے سے   اس کے معاشرتی اصلاح کے ایجنڈے کے موضوعات اور ترجیحات کیا ہوتیں؟ یہ سوال   خاص طور پر  مذہبی روایت سے وابستہ اور اس کے نمائندہ طبقوں کے لیے  قابل غور ہے اور اس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ  کیا  نبی  کی بنیادی توجہ  کسی مخصوص  سماجی شناخت کے تحفظ  یا اس کو درپیش چیلنجز پر رد عمل    کو منظم کرنے پر ہوتی یا  وہ مثبت طور پر   معروف  انسانی اخلاقیات اور مذہبی اقدار کی روشنی میں  معاشرتی اصلاح کا کوئی  تعمیری ایجنڈا  پیش کرنے  کو اپنی ترجیح بناتا؟

ہمارے فہم کے مطابق ، انبیاء کی مجموعی تعلیم  اور خاص طور پر   پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی  اصلاحی مساعی کو  سامنے رکھتے ہوئے، بہت وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ   ہمارے معاشرتی تناظر میں    ان کا   تعلیم کردہ ایجنڈا حسب ذیل ہوتا:

۱۔ نبی کی سب سے  پہلی ترجیح یہ ہوتی کہ وہ  صنفی بنیادوں پر معاشرے میں  تقسیم پیدا کیے  یا ایسی کسی تفریق کا حصہ بنے بغیر   بحیثیت مجموعی پورے معاشرے  سے مخاطب ہوتا  اور بتاتا کہ   انسانی معاشرت کی بقا اور استحکام کے لیے  صنفین کے مابین مطلوب  اور فطری تعلق   باہمی ہمدردی اور تعاون کا تعلق ہے۔ نبی اپنی تعلیم  اور رویے سے اجتماعی طرز احساس   کو اس طرح تشکیل دیتا کہ   انسان کی فطری کمزوریوں کی وجہ سے معاشرتی تعلقات اور رویوں میں   جو ناہمواری اور   ناانصافی  پیدا ہو جاتی ہے،  اس کا  حل لوگ تفریق اور مخاصمت کے فروغ اور   صنفی یا طبقاتی سیاست میں تلاش کرنے کے بجائے انسانوں کے حاسہ اخلاقی کو اپیل کرنے،  اجتماعی انسانی  ہمدردی کے جذبات کو بیدار کرنے  اور معاشرتی رویوں میں عدل وانصاف کی قدروں  کو مستحکم کرنے کی طرف متوجہ ہوتے۔

۲۔  صنفی تقسیم وتفریق کا طریقہ اختیار  یا اس کی تائید کیے بغیر، نبی   اس رجحان کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتا بلکہ   اس کو  ہر طرح کی عملی نصرت فراہم کرتا  کہ خواتین  ایک معاشرتی طبقے کے طور پر    اپنے مقام اور حقوق کا شعور  پیدا کریں،    خواتین کی ذہن سازی ا ور تعلیم وتربیت کے لیے مختلف قسم کی سرگرمیاں منظم کریں،  مسائل  اور مشکلات کی نشان دہی کے لیے  ابلاغ اور رابطے کے   تمام میسر ذرائع اختیار کریں،  ضروری قانونی وسیاسی اقدامات کو یقینی بنانے کے لیے  اجتماعی جدوجہد   کریں، غرض یہ کہ  ایک  متاثرہ فریق کی حیثیت سے ، معاشرت میں مطلوبہ اصلاحات کے لیے سرگرم اور منظم کردار ادا کریں۔

۳۔ نبی، صنفین کے ساتھ ساتھ صنف ثالث کی انسانی حیثیت اور سماجی  مقام کو بھی موضوع بناتا  اور انھیں حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ دینے  اور  انسانوں سے کم تر  حیثیت  میں کسی نہ کسی طرح زندگی گزار لینے کو   ان کی تقدیر   قرار دینے  کے بجائے  معاشرے میں اس بات کے لیے قبولیت اور آمادگی پیدا کرنے کی سعی کرتا کہ ان کے لیے بھی  معمول کی معاشرتی سرگرمیوں میں   شریک ہونے کے مواقع پیدا کیے جائیں اور   ان کی خصوصی  جسمانی حالت پر تحقیر یا تضحیک کا رویہ اپنانے کے بجائے، دیگر تمام اصحاب عذر کی طرح، ان کے لیے  بھی انسانی احترام وتوقیر  کا انداز نظر پیدا کیا جائے۔

۴۔  نبی،   خاندان  کے ادارے کی اہمیت  اور  بنیادی مقصد    کی روشنی میں   مروجہ غیر متوازن معاشرتی ترجیحات  کو  اپنی اصلاحی مساعی کا اولین ہدف قرار دیتا  اور  لوگوں کو سمجھاتا کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے کے بعد  دین واخلاق اور انسان کی فطری  ضروریات، سب کا تقاضا یہی ہے کہ  مرد اور عورت  ایک باہمی رشتے میں بندھ جائیں اور ایک دوسرے کی نفسیاتی اور جسمانی  تکمیل  کا ذریعہ بنتے ہوئے زندگی گزاریں۔  نبی،  نکاح کو آسان بنانے اور  اس کے راستے میں  کھڑی کر دی جانے والی ہر قسم کی  رکاوٹوں کے ازالے کو  تعلیم وتلقین کا خصوصی  موضوع بناتا اور    نکاح کو مرد  کے معاشی اسٹیٹس اور  عورت کی طرف سے قیمتی جہیز  جیسی    شرائط کے ساتھ مشروط کرنے کے رجحان کی   سخت حوصلہ شکنی کرتا۔   

۵۔ نبی ایک سماجی مسئلے کے طور پر مطلقات اور بیواوں نیز ایسی خواتین  کے لیے   جن کی شادی کی مناسب عمر گزر چکی ہو، ازدواجی زندگی کے حق کو  بطور خاص نمایاں کرتا  اور معاشرے  کو اس ذمہ داری  کی طرف متوجہ کرتا کہ ایسی خواتین  کے لیے   بھی اس فطری معاشرتی حق سے  بہرہ مند ہونے کے مواقع پیدا کیے جائیں۔  اس ضمن میں نبی،  حسب ضرورت  ایسے افراد کو جو ایک سے زیادہ  خواتین سے نکاح کر سکتے ہیں،    اس کی ترغیب دیتا  کہ وہ ایسا کریں اور  خواتین کو یہ  تعلیم  دیتا کہ وہ  اس مسئلے کو اپنے شخصی احساسات اور جذبات  کے زاویے سے نہیں، بلکہ  ایک معاشرتی ضرورت کے زاویے سے دیکھیں ۔ نبی، خواتین میں اس طرز احساس کو فروغ دیتا کہ اگر وہ اپنی ہی کچھ بہنوں  کو اپنے ساتھ اس رشتے میں شریک بنانے پر رضامند ہوں گی تو دین واخلاق کے لحاظ سے یہ کوئی محرومی نہیں، بلکہ   ایک اعلی انسانی وٰ اخلاقی رویے کا اظہار ہوگا۔

۶۔ نبی، مرد اور عورتوں دونوں کو اپنے شریک حیات کے انتخاب   کا حق دینے کو   رشتہ نکاح کے بنیادی اصول کے طور پر  پیش کرتا اور  لوگوں کو سمجھاتا کہ نکاح بنیادی طور پر بالغ مرد اور عورت  کا باہمی فیصلہ ہے جس میں  اصل اہمیت انھی کی رضامندی کو حاصل ہے۔ خاندان اور برادری کا کردار  اس رشتے میں    اپنی ترجیحات کو مرد اور عورت پر مسلط کرنا نہیں، بلکہ افراد  کو حق انتخاب  میں سہولت مہیا کرنا اور اس رشتے سے متعلق  حقوق وفرائض  کی انجام دہی کو یقینی بنانے میں     اپنی ذمہ داری انجام دینا ہے۔     نبی، بطور خاص خواتین کو ان کی آزادی و اختیار سے محروم کرنے اور انھیں ایک جائیداد تصور کرنے کی   نفی کرتا اور  اس بات کی تعلیم دیتا کہ وہ معروف کے مطابق  اپنی ذات کےمتعلق  جو بھی فیصلہ کرنا چاہیں،  اس میں سماجی دباو   سے کام لیتے ہوئے بے جا رخنہ اندازی      کرنا ایک غیر اخلاقی طرز عمل ہے۔ نبی خواتین پر ان کی مرضی کے خلاف  فیصلے مسلط کرنے کے رویے کی حوصلہ شکنی کرتا اور  معاشرے  میں اثر ورسوخ  رکھنے والے افراد اور طبقات  کو ان کی ذمہ داری  کا احساس دلاتا ، تاکہ وہ اس طرح  کی صورت حال میں خواتین کی   نصرت وحمایت کے لیے  اخلاقی وسماجی دباو اور قانونی   اختیار کو بروئے کار لائیں۔

۷۔  انسانی تمدن   میں  تغیر وارتقاء  کے اس مرحلے   میں نبی  ، خاندان اورمعاشرے کی پدر سرانہ  بنیادوں کے حوالے سے  پائے جانے والے افراط وتفریط  کی اصلاح پر بھی خاص توجہ مرکوز کرتا۔   وہ لوگوں کو اس حقیقت کی یاددہانی کرواتا کہ خاندان  کا ادارہ  انسان نے عورتوں  کے استحصال یا ان کو  مرد کی غلامی میں دینے کے لیے نہیں ، بلکہ بقائے نسل  میں  مرد وزن کے کردار کی فطری تقسیم  کے تناظر میں  خواتین کو  بچوں کی ولادت وتربیت کے لیے ایک محفوظ  ماحول مہیا کرنے  اور   مردوں کو  ان کی حفاظت وکفالت کا ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے  قائم کیا تھا۔  نبی لوگوں کو متوجہ کرتا کہ  خاندانی رشتے  اور اس میں  ذمہ داریوں کی اس تقسیم کے  حوالے سے خواتین  میں مردوں سے منافرت  یا غیر فطری مسابقت کے جذبے کو تحریک دینا  خاندان کے ادارے کے لیے بھی تباہ کن ہے اور خواتین کی نفسیات میں بھی  شدید نوعیت کے اضطرابات اور  پیچیدگیاں پیدا کرنے کا موجب ہے  او رکسی بھی لحاظ سے خواتین کی خیر خواہی   پر مبنی نہیں ہے۔  

۸۔ نبی پدرسری نظام میں مرد کے زیادہ فعال کردار سے پیدا ہونے والی ناہمواریوں اور  خواتین کے سماجی مقام، کردار اور حقوق کی غیر منصفانہ تحدید  کو بھی اتنے ہی  اہتمام  سے اصلاح کا  موضوع بناتا  اور معاشرے کو تلقین کرتا کہ خانگی زندگی کی حدود وقیود  کو  خواتین  کے لیے قید خانہ  بنا دینے  اور     مردوں کے ان کی کفالت  کا ذمہ دار ہونے  کو  خواتین کی مالی خود مختاری  سلب کرنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کرنا   سخت غیر اخلاقی اور    خاندانی رشتے کی اصل روح کو پامال کر دینے والا  رویہ ہے۔  اس ضمن میں خاص طور پر حسب ذیل تین   امور  نبی کی تعلیم وتلقین اور اصلاحی مساعی کا مرکزی  نکتہ ہوتے:

اولا،  بوقت نکاح خواتین کو ان کا مکمل طے شدہ مہر   اور  قرابت داروں کے ترکے میں سے خواتین کے حصوں کی ادائیگی کو ایک شرعی فریضہ قرار دیتا، اس کو خدا خوفی، تقوی  اور  حسن کردار کے ایک معیار کے طور پر    پیش کرتا اور اس مسئلے کو  عمومی دینی تعلیم وتلقین  کا ایک زندہ موضوع بناتا۔

ثانیا،  خواتین کو ان کے مالی حقوق  کے باب میں  حقیقی طور پر بااختیار  بنانے کے لیے ان کی جائیداد میں مرد رشتہ داروں کی طرف سے ناروا تصرف نیز  مہر اور حق وراثت کی  غیر حقیقی معافی کے رواج کو ممنوع ٹھہراتا  اور ارباب اختیار کو اس حوالے سے ضروری قانونی  بندوبست کی تلقین کرتا۔

ثالثا،  خواتین  کی تعلیم وتربیت   اور ان کے معاشرتی تعامل  میں اس نکتے کو ایک ترجیحی  ہدف کے طور پر  شامل کرتا کہ ان میں اپنے شرعی وقانونی حقوق کا شعور پیدا ہو اور ان کے حصول کے لیے  معاشرے میں موجود تمام ذرائع تک ان کی رسائی آسان ہو۔

۹۔  خاندانی رشتے کی حدود وقیود کو  خواتین کے لیے متوازن  بنانے کے ساتھ ساتھ نبی  عمومی معاشرتی  زندگی میں بھی  ایک طبقے کے طور پر خواتین کے تعمیری اور سرگرم کردار  کی حوصلہ افزائی کرتا  اور  ایسے معاشرتی رویے  وجود میں لانے کی سعی کرتا جو   خواتین کی فطری صلاحیتوں سے مناسبت رکھنے والے  تمام دائروں میں   ان کی شرکت کو آسان بنانے میں مددگار ہوں۔ نبی اس بات کو  ایک اخلاقی قدر کے طور پر معاشرے میں رائج کرتا کہ    خواتین کی سماجی ذمہ داریوں     میں شریک کرتے ہوئے ان کی فطری خلقی نزاکتوں اور  گھریلو ذمہ داریوں کو ملحوظ رکھا جائے اور خواتین کے لیے اوقات کار اور  ذمہ داریوں کا حجم وغیرہ  طے کرتے ہوئے  اس پہلو کی خصوصی  رعایت کی جائے۔  اس ضمن میں نبی  ایسے منفی معاشرتی رویوں اور  رجحان ساز  صنعتوں کی اصلاح پر خاص توجہ مرکوز کرتا  جو  خواتین کے لیے احترام وتوقیر کا انداز  فکر پیدا کرنے کے بجائے  ان کے متعلق جنسی تلذذ کے   رویے کو فروغ دیتے  اور خواتین کے لیے جنسی ہراسانی  جیسے مسائل پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔  نبی  ایک ایسے ماحول  کو معاشرے کے سامنے اخلاقی آئیڈیل کے طور پر پیش کرتا جس میں  خواتین اپنی سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے بے خوف وخطر نقل  وحرکت کر سکیں  اور بوقت ضرورت اگر   کوئی خاتون تن تنہا اپنے گھر  سے نکل کر بیت اللہ کے حج کے لیے بھی جانا چاہے تو اسے  کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہ ہو۔  

۱٠۔ نبی خاص طو رپر   تعلیم وتربیت کے میدان میں   خواتین کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کی  ترغیب دیتا  اور ایسا ماحول پیدا کرتا جس میں    علمی وفکری اہلیت رکھنے والی خواتین  معاشرے کی دینی ودنیوی راہ نمائی  کے باب میں   مرد اہل علم ہی کی طرح موثر  کردار ادا کر سکیں۔  نبی اس بات کو بھی  بنیادی ترجیح قرار دیتا کہ خاص طور پر خواتین  کی تعلیم وتربیت  اور  ان کی علمی وعملی راہ نمائی  میں خواتین اہل علم ہی مرکزی  کردار ادا کریں  اور   اگر اس کام کو یکسوئی اور ترکیز کے ساتھ  کرنے کے لیے خواتین کی مستقل مساجد   کا قیام مفید یا مددگار ہو  جہاں تعلیم، وعظ اور امامت وخطبہ کی ذمہ داریاں خواتین کے سپرد ہوں تو معاشرہ اس کا بھی انتظام کرے۔

۱۱۔ نبی، جنسی جبلت  سے متعلق      فکری وعملی انحرافات کو  بطور خاص موضوع بناتا اور لوگوں کو بتاتا کہ  جو چیز انسان کو   جانوروں سے ممتاز کرتی ہے، وہ صرف عقل نہیں  جس کی مدد سے انسان اپنی  خواہشات  کو پورا کرنے کے  طریقے تلاش کرتا رہے، بلکہ   انسان کا اصل شرف اس کا اخلاقی وجود  ہے  جو اسے   حیوانی  جبلتوں  کی تہذیب میں    مدد دیتا  ہے۔   نبی   انسانوں کو یہ سمجھاتا کہ جانوروں کے برعکس انسان کے لیے  بھوک پیاس اور مال ودولت کی حرص کی طرح جنسی جبلت بھی  اخلاقی قدغنوں  اور  انسانی اجتماع کے مصالح کے تابع ہے اور اس کی تسکین کے  انھی طریقوں کو  انسانی معاشرے میں قبولیت اور جواز  ملنا چاہیے جو   شرف انسانی  سے ہم آہنگ اور  معاشرتی مصالح   کی حفاظت میں  مددگار ہوں۔  بالفاظ دیگر، نبی     لوگوں پر بے قید جنسی تعلق،  ہم جنس پرستی  اور شذوذ جنسی کے   دیگر طریقوں کا غیر فطری اور غیر اخلاقی ہونا واضح کرتا اور انھیں متوجہ کرتا کہ  جنسی جبلت کو ان  اخلاقی قدغنوں سے آزاد  کر کے جو انسانی  اجتماع نے صدیوں کی  اخلاقی وتہذیبی تربیت  سے مستحکم کی تھیں،  انسان اپنے آپ کو حیوانیت کی سطح پر اتار رہا اور  خود کو انسانی  شرف وامتیاز سے  محروم کر رہا ہے۔

۱۲۔   نبی لوگوں کو یاد دلاتا  کہ جہاں جنسی جذبے کی تسکین کا ضروری بندوبست  فطری بنیادوں پر معاشرے کی تعمیر وتشکیل کے لیے ضروری ہے، وہاں   انسان کے اندر کے اس وحشی کو  کسی بھی طریقے سے چھیڑچھاڑ کر کے ابھارنا  فرد اور معاشرہ، دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔  نبی اس باب میں   صنفین کو  انفرادی سطح پر بھی مخاطب کرتا کہ وہ  جنسی جذبے کو بے لگام ہونے سے بچانے کے لیے  ضروری حدود وآداب کی پابندی کریں اور  معاشرے میں رجحان سازی  کا کردار ادا کرنے والے  تمام طبقات کو بھی   ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتا کہ  وہ جنسی جذبے کی  انگیخت کو  کھیل تماشے کا ذریعہ یا ایک فروختنی چیز نہ بنائیں۔  نبی انسانوں کو    اس طرف بھی متوجہ کرتا کہ جنسی جبلت کے متعلق   حیوانی انداز فکر  کیسے انسانی معاشرے میں جنسی درندگی  کو فروغ دینے اور جنسی ہوس کا نشانہ  بن سکنے والے ہر طبقے کی   حفاظت وحرمت کو شدید خطرے سے دوچار کر  دینے کا موجب ہے۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۵)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(243)    وَمَا کُنتُم تَستَتِرُونَ کا ترجمہ

وَمَا کُنتُم تَستَتِرُونَ اَن یَشہَدَ عَلَیکُم سَمعُکُم وَلَا اَبصَارُکُم وَلَا جُلُودُکُمَ۔ (فصلت :22)

اس آیت کے حسب ذیل ترجمے کیے گئے ہیں:

”تم دنیا میں جرائم کرتے وقت جب چھپتے تھے تو تمہیں یہ خیال نہ تھا کہ کبھی تمہارے اپنے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہارے جسم کی کھالیں تم پر گواہی دیں گی“۔ (سید مودودی)

”اور تم اس سے کہاں چھپ کر جاتے کہ تم پر گواہی دیں تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں“۔ (احمد رضا خان، گواہی سے بچنے کے لیے کہیں چھپ کر جانے کی بات یہاں نہیں ہے۔)

”اور تم اس (بات کے خوف) سے تو پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور چمڑے تمہارے خلاف شہادت دیں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تم (اپنی بداعمالیاں) اس وجہ سے پوشیدہ رکھتے ہی نہ تھے کہ تم پر تمہارے کان اور تمہاری آنکھیں اور تمہاری کھالیں گواہی دیں گی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور تم یہ اندیشہ نہیں رکھتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان یا تمہاری آنکھیں یا تمہارے جسموں کے رونگٹے گواہی دیں گے“۔(امین احسن اصلاحی، تسترون کا مطلب اندیشہ رکھنا تو نہیں ہوتا ہے)

اوپر کے ترجموں پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ترجمہ کرنے والوں کے پیش نظر وہ فحش جرائم ہیں جنھیں انسان چھپ کر کرتا ہے۔ عام طور سے عربی تفاسیر کا رجحان بھی اسی طرف رہا ہے جیسے:

وما کنتم تستترون عن ارتکابکم الفواحش۔ (جلالین)

المعنی: انکم کنتم تستترون بالحیطان والحجب عند ارتکاب الفواحش۔ (الکشاف)

حالانکہ یہاں سمع وبصر اور جلد کی جس گواہی کی بات ہورہی ہے وہ اللہ کی نافرمانی کے سلسلے میں گواہی ہے، یہ نافرمانی چھپ کر بھی ہوتی ہے اور کھلے عام بھی ہوتی ہے، یہاں اس پر تنبیہ نہیں کی جارہی ہے کہ چھپ کر برائی کرتے وقت تم نے یہ نہ سوچا کہ تمہارے سمع وبصر اور جلد گواہی دیں گے، بلکہ اس پر تنبیہ کی جارہی ہے کہ تم نے یہ خیال کرکے اللہ کی نافرمانی سے خود کو بچایا نہیں کہ تمہارے اپنے سمع و بصر اور جلد تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔ غرض یہاں چھپنے کا مسئلہ نہیں بلکہ اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی بات ہورہی ہے ۔ اس بنا پر ترجمہ ہوگا:

”اور تم اس سے نہیں بچتے تھے کہ تمہارے خلاف تمہارے کان یا تمہاری آنکھیں یا تمہارے جسموں کے رونگٹے گواہی دیں “۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(244)  استعاذۃ کا ترجمہ

استعاذة کا مطلب پناہ لینا اور پناہ مانگنا ہوتا ہے، عام طور سے یہی ترجمہ کیا گیاہے، البتہ ایک مقام پر صاحب تدبر نے پناہ ڈھونڈنا ترجمہ کیا ہے، جو درست نہیں ہے۔

وَاِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیطَانِ نَزغ فَاستَعِذ بِاللَّہِ۔ (الاعراف:200)

”اور اگر تمہیں کوئی وسوسہ شیطانی لاحق ہونے لگے تو اللہ کی پناہ چاہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

فَاذَا قَرَاتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ۔ (النحل:98)

”پس جب تم قرآن پڑھو تو شیطان رجیم سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو“۔ (امین احسن اصلاحی)

فَاستَعِذ بِاللَّہِ۔ (غافر:56)

”تو تم اللہ کی پناہ مانگو“۔ (امین احسن اصلاحی)

وَاِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیطَانِ نَزغ فَاستَعِذ بِاللَّہِ۔ (فصلت: 36)

”اور اگر شیطان تمہارے دل میں کوئی اکساہٹ پیدا کرہی دے تو اللہ کی پناہ ڈھونڈو“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو اللہ کی پناہ مانگ لو“۔ (سید مودودی)

(245)  مبتدا خبر کا خاص اسلوب

اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالذِّکرِ لَمَّا جَاءَہُم وَاِنَّہُ لَکِتَاب عَزِیز۔ لَّا یَاتِیہِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیہِ وَلَا مِن خَلفِہِ تَنزِیل مِّن حَکِیمٍ حَمِیدٍ۔ مَّا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَد قِیلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبلِکَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ اَلِیمٍ۔ (فصلت 41-43)

یہ تین آیتیں ہیں، پہلی آیت میں اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا کی خبر بظاہر موجود نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اس کی خبر محذوف مان کر ترجمہ کیا ہے، حالانکہ اس طرح بغیر کسی قرینے کے خبر کو محذوف مان لینا مناسب نہیں ہے۔ بعض لوگوں نے اسے آیت نمبر چالیس میں مذکور اِنَّ کے اسم کا بدل مانا ہے اور دونوں کی خبر ایک قرار دی ہے جو اس آیت میں گزری ہے، وہ آیت ہے: اِنَّ الَّذِینَ یُلحِدُونَ فِی ءَایَاتِنَا لَا یَخفَونَ عَلَینَا اَفَمَن یُلقَیٰ فِی النَّارِ خَیر اَم مَّن یَاتِی ءَامِنًا یَومَ القِیَامَۃِ اعمَلُوا مَا شِئتُم اِنَّہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر۔ (فصلت 40) لیکن اس طرح سے اِنَّ کے ساتھ بدل کا آنا قواعد کے خلاف مانا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے آگے دور جاکر خبر تلاش کی ہے، اتنی دور خبر کا ماننا بھی تکلف کی بات ہے۔بطور مثال کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:

”یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے۔اے نبی، تم سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہے“۔ (سید مودودی، یہاں بدل مان کر ترجمہ کیا ہے۔)

”بیشک جو ذکر سے منکر ہوئے جب وہ ان کے پاس آیا ان کی خرابی کا کچھ حال نہ پوچھ، اور بیشک وہ عزت والی کتاب ہے۔ باطل کو اس کی طرف راہ نہیں، نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، اتارا ہوا ہے حکمت والے سب خوبیوں سراہے کا۔ تم سے نہ فرمایا جائے مگر وہی جو تم سے اگلے رسولوں کو فرمایا، کہ بیشک تمہارا رب بخشش والا اور دردناک عذاب والا ہے“۔ (احمد رضا خان، خبر کو محذوف مانا ہے)

”جن لوگوں نے اپنے پاس قرآن پہنچ جانے کے باوجود اس سے کفر کیا، (وہ بھی ہم سے پوشیدہ نہیں) یہ بڑی باوقعت کتاب ہے۔ جس کے پاس باطل پھٹک بھی نہیں سکتا نہ اس کے آگے سے نہ اس کے پیچھے سے، یہ ہے نازل کردہ حکمتوں والے خوبیوں والے (اللہ) کی طرف سے۔ آپ سے وہی کہا جاتا ہے جو آپ سے پہلے کے رسولوں سے بھی کہا گیا ہے، یقیناً آپ کا رب معافی والا اور دردناک عذاب والا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی، خبر کو محذوف مانا ہے۔)

مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک پہلی آیت میں خبر محذوف نہیں ہے، بلکہ پہلی آیت کے اخیر اور دوسری آیت پر مشتمل جملہ معترضہ ختم ہوتے ہی تیسری آیت میں اس کی خبر ذکر کردی گئی ہے،  اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا بِالذِّکرِ لَمَّا جَاءَہُم کی خبر ہے مَّا یُقَالُ لَکَ اِلَّا مَا قَد قِیلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبلِکَ اِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغفِرَۃٍ وَذُو عِقَابٍ اَلِیمٍ۔ اس جملے کا ترجمہ ہوگا: ”بے شک جن لوگوں نے ذکر کا انکار کیا جب وہ ان کے پاس آیا (ان کے بارے میں) تم سے وہی کہا جارہا ہے جو تم سے پہلے رسولوں سے کہا گیا (وہ یہ کہ) بے شک تمہارا رب مغفرت والا ہے اوردردناک سزا والا ہے“۔ اِنَّ رَبَّکَ لَذُو مَغفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ اَلِیمٍ ۔ یہی وہ بات ہے جو کافروں کے سلسلے میں ہر رسول سے کہی گئی۔

مبتدا اور خبر کے درمیان میں جملہ معترضہ ہے: وَاِنَّہُ لَکِتَاب عَزِیز۔ لَّا یَاتِیہِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیہِ وَلَا مِن خَلفِہِ تَنزِیل مِّن حَکِیمٍ حَمِیدٍ۔ اس کا ترجمہ ہے: ”جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے“۔ اس طرح پہلے جملہ معترضہ لاکر اس ذکر کی عظمت بیان کردی گئی جس کا ان لوگوں نے انکار کیا اور پھر ان کی خبرمیں انکار کرنے والوں کو توبہ کی دعوت کے ساتھ سزا کی دھمکی بھی سنادی گئی۔تینوں آیتوں کا ترجمہ اس طرح ہوگا:

”بے شک جن لوگوں نے ذکر کا انکار کیا جب وہ ان کے پاس آیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک زبردست کتاب ہے۔ باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم وحمید کی نازل کردہ چیز ہے، (ان کے بارے میں) تم سے وہی کہا جارہا ہے جو تم سے پہلے رسولوں سے کہا گیا (وہ یہ کہ) بے شک تمہارا رب مغفرت والا ہے اور الم ناک سزا والا ہے“۔

تیسری آیت میں مَّا یُقَالُ لَکَ سے مراد وہ باتیں نہیں ہیں جو کفار اللہ کے رسول کو سناتے تھے، بلکہ وہ بات ہے جو اللہ نے اپنے رسول سے کافروں کے بارے میں کہی ہے۔

(246) فِی ءَاذَانِہِم وَقر کا ترجمہ

وَلَو جَعَلناہُ قُرءَانًا اَعجَمِیًّا لَّقَالُوا لَولَا فُصِّلَت ءَایَاتُہُ ءَاعجَمِیّ وَعَرَبِیّ قُل ہُوَ لِلَّذِینَ ءَامَنُوا ہُدًی وَشِفَاء وَالَّذِینَ لَا یُؤمِنُونَ فِی ءَاذَانِہِم وَقر وَہُوَ عَلَیہِم عَمًی اُولٰئکَ یُنَادَونَ مِن مَّکَانِ بَعِیدٍ۔ (فصلت 44)

اس آیت میں فِی ءَاذَانِہِم وَقر مکمل جملہ ہے جس کی خبر مقدم ہے۔ قرآن کو وَقر نہیں کہا گیا ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کو سنتے نہیں ہیں گویا ان کے کانوں میں ڈاٹ پڑی ہوئی ہے۔بعض ترجمے ملاحظہ ہوں:

”اگر ہم اِس کو عجمی قرآن بنا کر بھیجتے تو یہ لوگ کہتے ”کیوں نہ اس کی آیات کھول کر بیان کی گئیں؟ کیا عجیب بات ہے کہ کلام عجمی ہے اور مخاطب عربی“ اِن سے کہو یہ قرآن ایمان لانے والوں کے لیے تو ہدایت اور شفا ہے، مگر جو لوگ ایمان نہیں لاتے اُن کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے، اُن کا حال تو ایسا ہے جیسے اُن کو دور سے پکارا جا رہا ہو“۔ (سید مودودی، ’اُن کے لیے یہ کانوں کی ڈاٹ اور آنکھوں کی پٹی ہے‘کے بجائے ہوگا:’ان کے کانوں میں ڈاٹ ہے اور وہ ان پر حجاب ہے‘۔)

”اور اگر ہم اس قرآن کو عجمی قرآن کی شکل میں اتارتے تو یہ لوگ یہ اعتراض اٹھاتے کہ اس کی آیات کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی؟ کلام عجمی اور مخاطب عربی؟ کہہ دو یہ ان لوگوں کے لیے تو ہدایت و شفا ہے جو اس پر ایمان لائیں، رہے وہ لوگ جو ایمان نہیں لارہے ہیں تو ان کے کانوں میں بہرا پن ہے اور یہ ان کے اوپر ایک حجاب ہے۔ اب یہ لوگ ایک دور کی جگہ سے پکارے جائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی،’اس کی آیات کی وضاحت کیوں نہیں کی گئی‘کے بجائے’اس کی آیات قابل فہم کیوں نہیں رکھی گئیں‘ہوگا۔‘’اب یہ لوگ ایک دور کی جگہ سے پکارے جائیں گے‘۔یہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ یہ کہیں نہیں ہے کہ لوگ قیامت میں دور سے پکارے جائیں گے، یہ دنیا ہی کی بات ہے کہ ان کا حال ایسا ہوگیا ہے کہ گویا انھیں دور سے پکارا جارہا ہے اور وہ سن نہیں رہے ہیں۔)

”اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بناتے تو کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی گئیں؟ یہ کیا کہ عجمی کتاب اور آپ عربی رسول؟ آپ کہہ دیجئے! کہ یہ تو ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفا ہے اور جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں تو (بہراپن اور) بوجھ ہے اور یہ ان پر اندھاپن ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو کسی بہت دور دراز جگہ سے پکارے جا رہے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

(247) ثُمَّ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں ثُمَّ  کا ترجمہ کچھ لوگوں نے’اور‘کیا ہے اور باقی لوگوں نے’پھر‘کیا ہے، جبکہ اس کا موزوں ترین ترجمہ’پھر بھی‘ہے۔

قُل اَرَءَیتُم اِن کَانَ مِنْ عِندِ اللَّہِ ثُمَّ کَفَرتُم بِہِ۔ (فصلت 52)

”اے نبی، اِن سے کہو، کبھی تم نے یہ بھی سوچا کہ اگر واقعی یہ قرآن خدا ہی کی طرف سے ہوا اور تم اِس کا انکار کرتے رہے“۔ (سید مودودی)

”(ان سے) کہو: بتاو اگر (یہ قرآن) اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”تم فرماو  بھلا بتاو اگر یہ قرآن اللہ کے پاس سے ہے پھر تم اس کے منکر ہوئے“۔ (احمد رضا خان)

”کہو کہ بھلا دیکھو اگر یہ (قرآن) خدا کی طرف سے ہو پھر تم اس سے انکار کرو“۔ (فتح محمد جالندھری)

”آپ کہہ دیجئے! کہ بھلا یہ تو بتاو کہ اگر یہ قرآن اللہ کی طرف سے آیا ہوا ہو پھر تم نے اسے نہ مانا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کہو سوچو اگر (یہ قرآن) اللہ کی طرف سے ہوا پھر بھی تم نے اس کا انکار کیا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

مساجد واوقاف کا نیا قانون

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں نئے اوقاف ایکٹ کے نفاذ کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے مشترکہ طور پر احکام شریعت اور انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس قانون کو واپس لیا جائے۔ جبکہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور دیگر ذمہ دار حکومتی راہنماؤں نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اعتماد میں لے کر قانون میں ترامیم کرتے ہوئے اسے دینی حلقوں کے لیے قابل قبول بنائیں گے۔ مگر عملی طور پر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان دونوں امور کو نظرانداز کر دیا گیا ہے اور نہ صرف یہ کہ دینی مدارس کے نئے پانچ بورڈز دینی مدارس کے وفاقوں کے مقابل کھڑے کر دیے گئے ہیں بلکہ پنجاب کے مختلف شہروں میں محکمہ اوقاف مساجد اور اس کی مبینہ رجسٹریشن کے لیے متحرک ہو گیا ہے اور محکمہ اوقاف کی اس قسم کی نقل و حرکت سے معاملات مزید شکوک اور پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں چند امور کی طرف حکومتی حلقوں اور دینی مدارس کی قیادتوں کو توجہ دلانا اس مرحلہ میں ضروری محسوس ہوتا ہے۔

اس حوالہ سے ایک اور امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مساجد کی رجسٹریشن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک الگ قانون کے تحت ہے جو پنجاب اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل منظور کیا تھا۔ ہمارے خیال میں یہ قانون بھی متنازعہ ہے اور اسلام آباد میں نافذ کیے جانے والے ایکٹ کی طرح شرعی احکام اور شہری حقوق سے متصادم ہے، اس کی آڑ میں اس قسم کی کوئی کارروائی قابل قبول نہیں ہوگی اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے متفقہ موقف کو نظرانداز کرنے کی کوئی کوشش ملک میں ایک نئے خلفشار اور محاذ آرائی کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے حکمرانوں کو سارے معاملات طاقت اور اختیار کے حوالہ سے چلانے سے گریز کرنا چاہیے اور دینی حلقوں کی مسلمہ قیادتوں کو اعتماد میں لے کر کوئی متفقہ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔

پروفیسر یٰسین مظہرصدیقی کی یاد میں

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

یادش بخیر، کوئی پچیس سال ہوتے ہیں راقم جامعۃ الفلاح بلریاگنج اعظم گڑھ میں فضیلت کا طالب علم تھا۔جامعہ کے ادارہ علمیہ نے ایک علمی مذاکرہ ”مدارس اسلامیہ کے نصاب میں اصلاح “جیسے کسی موضوع پرکیاتھا۔پہلے سیشن میں مولاناسلطان احمداصلاحی نے اپنے مقالہ میں دارالعلوم دیوبند،ندوة العلماء،مدرسۃ الاصلاح ،جامعۃ الفلاح اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سب پر تیزوتندمگرمدلل تنقیدکرڈالی ۔مقالہ ختم ہوتے ہی ایک اورفاضل کھڑے ہوئے اور فاضل مقالہ نگارکی تنقیدوں پر اعتراضات کی دندان شکن بوچھارکردی۔یہ دوسرے فاضل تھے ہمارے ممدوح پروفیسریاسین مظہرصدیقی جواس وقت غالباً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں اسلامک اسٹڈیز کے چیئرمین تھے۔ یہ پہلی بارتھاجب ان کودیکھااورسنا۔

زمانہ کے گرم وسردسے گزرتے ہوئے چندسال بعدراقم لکھنوکے ایک مجوزہ علمی وفکری ادارہ (مرکز اعداد الدعاة) سے وابستہ ہوا،جس کے داعی ومحرک تھے راقم کے مربی ومحسن مولانا ظہیراحمدصدیقی ندوی (حال چیئرمین فاونڈیشن فارسوشل کیئر لکھنو)۔اسی مرکزکے مجوزہ تعلیمی وتربیتی خاکہ کولے کر  علی گڑھ میں واردہوا۔طلبائی تحریک سے وابستگی کے دوران مختلف حیثیات میں علی گڑھ کئی بارآناجاناہواتھالیکن ان میں زیادہ ترمصروفیت طلبہ سے ملاقاتوں اور ان کے پروگراموں میں شرکت تک محدودرہی ۔اب کے علی گڑھ کے ممتاز اسکالروں اور دانشوروں سے رابطہ واستفادہ اورتبادلہ خیالات پیش نظرتھا۔چنانچہ اپنے کرم فرما ڈاکٹر محمدذکی کرمانی کے دفتر(واقع احمدنگر) (۱)میں قریبا ۵  دن قیام رہا۔اوراِس دوران مختلف علمی ہستیوں اور شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں جن میں پروفیسرظفرالاسلام اصلاحی ، پروفیسر اشتیاق احمدظلی(حال ناظم دارالمصنفین اعظم گڑھ ) ،پروفیسرعبدالعظیم اصلاحی، مولانا سیدجلال الدین عمری، مولانارضی الاسلام ندوی، مولاناسلطان احمداصلاحی (مرحوم) اور پروفیسریٰسین مظہرصدیقی وغیرہم بھی شامل تھے۔ راقم کے ترتیب دیے ہوئے مجوزہ تربیتی خاکہ کوانہوں نے دیکھا مگر اس پر کوئی نقد یا اضافہ نہیں کیا بلکہ علی گڑھ میں کسی نے بھی نہیں کیانہ اس کوبہت سنجیدگی سے لیا۔اندازہ ہواکہ علی گڑھ کے صاحبان علم سے استفادہ کی شکل سیمینار ہوسکتاہے ۔ یہ حضرات سیمیناروں کے مشاق ہیں اورروٹین ورک کے پابند و خوگر۔Out of the box یا ٹریک سے ہٹ کرکام کرناپسندنہیں کرتے۔البتہ علی گڑھ ہی کے ایک نامورفرزندپروفیسرنجات اللہ صدیقی ( ۲)کی طرف سے ہمارے اس مجوزہ منصوبہ پر سب سے موثر،جچاتلاتنقیدی تبصرہ آیا۔جس سے اندازہ ہواکہ اپنے میدان اختصاص کے ساتھ ہی عالمی فکراسلامی میں موجودہ رجحانات کیاچل رہے ہیں، اُس سے محترم نجات اللہ صاحب کی براہ راست اورگہری واقفیت قابل رشک ہے ۔بہرکیف یہ پروفیسرصدیقی سے راقم کادوسراسابقہ تھا۔

مختصر سوانحی کوائف

یاسین مظہرصدیقی یوپی کے ضلع لکھیم پوری کھیری کے ایک گاوں میں  پیداہوئے ۔آپ کے والدکا نام مولوی انعام علی تھاجن کا ذکرخیربڑے بلندالفاظ میں ہمیشہ کرتے تھے اوران کوباباجان کے نام سے یادکرتے۔ابتدائی تعلیم گاوں کے مدرسہ حیات العلوم سے حاصل کرکے دارالعلوم ندوةالعلما سے عا لمیت کی ۔ لکھنو یونیورسٹی سے فاضل کا کورس کیا۔پھرجامعہ ملیہ اسلامیہ سے ہائی اسکول،انٹراوربی اے کیا۔ماسٹرزاورپی ایچ ڈی کے لیے علی گڑھ کا رخ کیا۔ پھریہیں کے ہورہے اورجہان سرسیدکوہی اپناوطن ثانی بنالیا۔علی گڑھ میں شعبہ تاریخ میں ایم کیااوراسی شعبہ سے پی ایچ ڈی بھی کی۔( ۳) تاہم ندوہ میں زمانہ طالب علمی سے ہی اسلامیات ہی آپ کی جولان گاہ بن گئی تھی۔اس میں بھی خاص کرسیرت نبوی کے مختلف گوشوں پر بحث اورمتنوع جہات کومنورکرنے کی توفیق حاصل ہوئی ۔ بیسویں صدی اسلامی روایتی علوم کی نشاة ثانیہ کی صدی ہے۔اس میں حدیث،تفسیر،فقہ وسیرت پر گراں قدرکام انجام دیے گئے۔فن سیرت میں پروفیسرصدیقی نے خاص شہرت حاصل کی اوران کا شمارصف اول کے سیرت کے عالموں میں کیا جاتاہے۔ہندوستان کویہ شرف حاصل ہے کہ شبلی و سلیمان کے بعدڈاکٹرمحمدحمیداللہ اورپروفیسریٰسین مظہرصدیقی جیسے محققین سیرت کا تعلق اسی سے رہاہے۔

 ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی کی علمی خدمات میں سب سے ابھراہوااورنمایاں پہلوان کا سیرتی لٹریچرکا گہرامطالعہ ہے۔اسی مطالعہ سے انہوں نے’ رسول اکرم کی رضاعی مائیں‘،’معاش نبوی ،’مکی اسوہ نبوی اورمسلم اقلیتیں‘، ’خواتین عہدرسالت میں ۔ایک سماجی مطالعہ‘ اور”عہدنبوی کا نظام حکومت “وغیرہ جیسے علمی تحفے دنیائے تحقیق کو دیے۔وحی حدیث ،”سنتوںکا تنوع “اورمختلف علمی موضوعات پر مقالات ان کے علاوہ ہیں۔قدیم سیرت نگاروں ابن سعد،ابن اسحاق ابن ہشام ،واقدی ،ابن سیدالناس ،حلبی ،قاضی عیاض،طبری ،ابن کثیر اوراردومیں سیرت النبی شبلی وسلیمان وغیرہ کے متون کا تحقیقی مطالعہ ،ان کا محاکمہ اوران کے بارے میں تجزیاتی رائیں دینایہ ان کا خاص موضوع تھاجس پر ان کی تحقیقی کتاب” مصادرسیرت نبوی “شائع کردہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی شاہدعدل ہے۔(۴)

مکی اسوہ نبوی اور مسلم اقلیتیں:

پروفیسریاسین مظہر صدیقی عہدجدیدمیں سیرت کے ایک بڑے اسکالرہیں ،آپ کی تحریروں میں نہ صرف بھرپورمعلومات اورتحقیق ہوتی ہے بلکہ گہرا تجزیہ بھی پایاجاتاہے ۔مکی اسوہ نبوی اورمسلم اقلیتیں دراصل موجودہ دور کی مسلم اقلیتوں کے لیے جوکل عالمی مسلم آبادی کا 40 فیصدہیں،ان کے لیے رول ماڈل اورعملی نمونہ عمل کی وضاحت ہے۔اس لیے موجودہ دورکے لیے بڑی معنویت رکھتی ہے ۔اوراسی اہمیت کے پیش نظراس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو گیاہے ۔(۵)یہ کتاب مکی زندگی کے متعلق بہت سی نئی باتیں جوبہت کم معلوم ہیں ،سامنے لاتی ہے ۔اس کتاب کے مطابق مکہ میں نبی ﷺ نے غیرمسلموں سے وہ تمام تعلقات رکھے جو کسی بھی انسانی سماج میں معمول بہ ہیں۔ آپ ﷺ نے سیاسی قبائلی نظام میں شرکت کی آپ نے قبائلی نظام تحفظ سے استفادہ کیا ۔ آپ نے غیرمسلموں کی دعوت طعام میں شرکت کی ۔ خود آپ نے ان کو دعوت دی۔ مکہ میں بعض مسلمانوں کے غیرمسلموں سے شخصی مفادات کے تحفظ کے معاہدہ کا ذکربھی ملتاہے۔(۶)

صدیقی صاحب کے مطابق مکہ میں بعض صحابہ کرام مکہ میں خدمت خلق بھی کرتے تھے چنانچہ حضرت نعیم بن عبداللہ النحام عدوی اس میں ممتاز تھے اورجب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیاتو اہل مکہ نے ان سے کہاکہ وہ جس دین پر رہنا  چاہیں، رہیں مگرمکہ کو نہ چھوڑیں۔حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کیاتومشرکین مکہ ان پر پل پڑے جن سے ایک مکی سردار عاص بن وائل سہمی نے آکربچایا ۔آپ نے سیرت کی قدیم کتابوں کے حوالہ سے مزیدلکھاکہ مکی زندگی میں آپ ﷺ نے غیرمسلموں کا جِوار بھی حاصل کیا۔(۷)آپ ﷺ نے غیرمسلموں کو ہدایابھی دیے اورایسی بھی متعدد  مثالیں موجود ہیں کہ غیرمسلموں نے آپ ﷺ کی اورصحابہ ؓ کی مختلف انداز سے امداد کی۔ مثلاابوطالب اوربنی ہاشم کی نبی ﷺ کی حمایت اوراس راستہ میں تمام مشکلات کو برداست کرنا سیرت کا ایک معروف واقعہ ہے۔ابوسفیان نے رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت زینب کو ہجرت میں مدد دی۔حضرت ام سلمہؓ کو عثمان بن طلحہ عبدری نے مدینہ پہنچایا ۔ حضرت ام سلمہ ان کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھتیں اوران کی شرافت ،حلم وکرم کی تعریف فرماتیں۔   

اسی طرح آپ نے بتایاکہ سیرت کی کتابوں میں یہ ملتاہے کہ ۹ نبوی میں طائف سے واپسی کے بعدآپ ﷺ نے تقریبا 16قبائل سے ملاقاتیں کرکے ان کے سامنے اسلام پیش کرنے اوراسے قبول کرنے کی دعوت کے علاوہ یہ  بھی پیش کش کی کہ وہ آپ ﷺ کو اپنے علاقوں میں لے جائیں۔آپ کی حفاظت وحمایت کامعاہدہ اوروعدہ کریں تاکہ آپ دین کی دعوت تمام لوگوں تک پہنچادیں ان تمام قبائل نے آپ کی بات سنی ،بعض نے عذرپیش کیا،بعض نے سرد مہری برتی اوربعض نے سودے بازی کی کوشش کی ۔حدیبیہ کے موقع پر احابیش اوران کے سردارنے رسول اکرم کے سفیرحضرت خراش بن امیہ خزاعی کو قتل کرنے کے ارادہ سے قریش کو بازرکھاتھا ۔ حکیم بن امیہ سلمی نے اپنی قوم کو رسول اکرم کی عداوت سے بازرکھنے کی کوشش کی اوراس کے لیے شعرسے بھی کام لیا ۔غرض اس کتاب کا مواد ہندوستان اورامریکہ وغیرہ جیسے ممالک کے مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔اسی وجہ سے ہم نے اس کے تذکرہ میں  درازنفسی سے کام لیاہے۔

عہد نبوی کا نظام حکومت:

یہ پروفیسرصدیقی کی بہت اہم کتاب ہے اورغالباً ان کی ابتدائی تصنیفات میں سے ہے۔اورپہلے انگریزی میں شائع ہوئی پھرارددمیں منظرعام پر آئی ۔اِس میںمصنف نے بہت تفصیل سے بتایاہے کہ عہدنبوی میں کیسانظام اجتماعی قائم کیا گیاتھا،تعلیم کا نظم کیاتھا،سوق یامارکیٹ کوکس طرح چلایاجاتاتھااس کے افسران بکارخاص کون صحابہ تھے۔ سفراءصحابہ کون تھے۔مزیدبرآں میثاق مدینہ کا تفصیل سے تجزیہ کیاہے۔اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے اطراف میں آبادکفار،اعراب اوریہودسے کیاکیامعاہدے کیے تھے۔آپ کے غزوات وسرایاکے مقاصدکیاتھے ،زکوة اورمالیات کا نظم کیسے چلایاجاتاتھا۔آپ کے نظام مشاورت میں کون کون صحابی تھے اورعمال نبوی کون کون وغیرہ ۔

پروفیسرصدیقی بہت جزرسی کے ساتھ چیزوں کودیکھتے ہیں اورسیرت کی معروف کتابوںسیر ت ابن اسحاق ،ابن ہشام، سیرت حلبی ،ابن سیدالناس نیزبلاذری ،اصابہ ،الاستیعاب لابن عبدالبرکے علاوہ ، ڈاکٹرمحمدحمیداللہ ،سیرت النبی شبلی وسلیمان وغیرہ سے بھرپوراستفادہ کرتے ہیں۔جہاں سیرت نگاروں کے بیانات میں اختلاف وتضادنظرآتاہے وہاں محاکمہ کرتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ کتب حدیث سے بھی مدد لیتے ہیں اورروایت ودرایت کی روشنی میں مختلف واقعات کی گتھی سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ بسااوقات وہ کتب حدیث کے بیان پر اہل سیرکے بیانات کوترجیج دیتے ہیں اورکبھی اس کا عکس بھی ہوتاہے۔اس کے علاوہ اپنی رائے بھی دیتے ہیں۔ مختلف اسلامی مصنفین سے جہاں ان کواختلاف ہوتاہے اسے بیان کرتے ہیں اوراس کی وجوہ ترجیح بھی بتاتے ہیں۔

یہ کتاب بھی پہلے انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی سے شائع ہوئی ۔کتاب کے صرف حواشی وحوالجات ہی تقریبا تین سوصفحات میں آئے ہیں(۸)اسی کتاب کے تسلسل میں انہوں نے ”تاریخ تہذیب اسلامی “لکھی جس کی پہلی جلدمیں عہدنبوی اورعہدخلافت راشدہ کوکوَرکیاہے اوردوسری جلدمیں خلافت عبداللہ بن زبیرسے لے کرخلافت بنوامیہ وغیرہ کولیاہے۔

ڈاکٹرصدیقی کا ایک اورکارنامہ جس کا ان کے نام لیوااوروابستگان وشاگردان بھی کوئی تذکرہ نہیں کرتے، وہ بعض مطعون حضرات صحابہ کرام اورخلافت بنی امیہ کا دفاع ہے۔چنانچہ وہ سیدنامعاویہ بن سفیان،خودحضرت ابوسفیانؓ، حضرت عمروبن العاصؓ حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓکا نیزخلافت بنوامیہ کا عمومی دفاع کرتے ہیں اور اس کے سلسلہ میں مورخین اورخاص کراردوکے مورخین کی بدگمانیوںاورغلط پروپیگنڈوںکا جواب دیتے ہیں۔اس ضمن میں ان کی کتاب خلافت امیہ۔ خلافت راشدہ کے پس منظرمیں( شائع کردہ الفہیم )آتی ہے۔یہ کتاب اثباتی ہے ۔اس خلافت کے ابتدائی دور(خلافت معاویہ ویزید)کے جوازوصحت پر صاحب کتاب کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ان حضرات کی سائڈمیں صحابہ کرام کی خاصی بڑی جمعیت تھی جن میں بعض اکابرصحابہ بھی ہیں۔اِن صحابہ کرام نے اس خلافت میں مختلف مناصب قبول کیے ،وہ اس میں عامل وامیررہے اورمختلف ذمہ داریوں پر فائزان کی تعدادتقریباً250ہوجاتی ہے۔

مصنف نے ان تمام صحابہ کے نام،مختصرحالات اوران کے عہدے ومناصب وغیرہ سب اس کتاب میں جمع کر دیے ہیں۔استدلال یہ ہے کہ اگریہ خلافت صحیح اورجائزنہ ہوتی تواتنی بڑی تعدادمیں صحابہ کرام اِس کی بعض ناہمواریوں اوربے اعتدالیوں کے باوجوداس کی حمایت وخدمت نہ کرتے۔بظاہر معقول اوردرست استدلال ہے لیکن کچھ زیادہ مضبوط نہیں۔کیونکہ فریق مخالف اس کی بآسانی توجیہ کرلیتاہے کہ یہ صحابہ کرام اورتابعین سیدناحسینؓ کے اقدام کی ناکامی کے بعدیہ سمجھ چکے تھے کہ خلافت امیہ اب ایک ناگزیربرائی بن چکی ہے اِس کوسردست مستردنہیں کیا جاسکتا، اس لیے اس کے ساتھ تعاون کیاجاناچاہیے ۔زیادہ اہم پہلویہ ہے کہ مورخین ہی نہیں حدیث کے ذخیرہ میں بھی ایسی خاص روایتیں موجودہیں جوسیدنامعاویہ ،سیدنامروان اوریزیدسب کومجروح کرتی ہیں اوران میں سے بعض تو صحیحین  میں بھی ہیں۔ضرورت تھی کہ اِن روایات کی ایک ایک کرکے تحقیق کی جاتی ۔

اِس کی ابتداجناب محموداحمدعباسی نے کی تھی اوراس کے بعداوربہت سے لوگوں نے ا س پر کام کیاہے۔میرے والدمرحوم علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی نے اپنی کتاب ”شہادت عثمان کا تاریخی پس منظر“میں اوردوسری کتابوں میں اس قسم کی بعض روایات پر تحقیقی کلام کیاہے۔( ۹)اصل بات یہ ہے کہ فن حدیث پر عبور،رواة وائمہ حدیث اور کتب حدیث پر تحقیقی نظراس کے لیے ضروری ہے اوریہ بہت ہی زیادہ وقت طلب،پتہ ماری ،ممارست اورمزاولت کا کام ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ علم حدیث میں جن اکابروبزرگوںکا پایہ وسیع ہے اتناہی مشاجرات صحابہ کے بارے میں ان کا رویہ تحقیقی ،علمی اوراعتدال پرمبنی اورخوش عقیدگی سے مبراہوتاہے،اِس سے بعض مستثنیات ہوسکتے ہیں۔اِس پہلو سے پروفیسرصدیقی زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتے۔لیکن اس کتاب سے اصل خدمت یہ ہوئی کہ سینکڑوں صحابہ کرام کے تحقیقی حالات مختصراً اردومیں آگئے۔

ڈاکٹریٰسین مظہرصدیقی کا تیسراکارنامہ'' رسول اکرم اور خواتین ۔ایک سماجی مطالعہ" ہے۔ان کے سیرتی کاموں میں  ہی اس کا بھی شمارہوناچاہیے مگراِس کا عام طورپر تذکرہ نہیں آتااوراگرآتابھی ہے توبہت کم ۔کیوں کہ یہ کتاب اپنے مشمولات سے خواتین کے بارے میں ہمارے مذہبی ذہن کے سراسرخلاف جاتی ہے اس لیے اس کا نام بہت کم لوگ لینے کی جرات کرتے ہیں۔

اصل میں برصغیرمیں خواتین کے تعلق سے مذہبی حلقہ میں خاص طورپر حدسے بڑھی ہوئی اورمبالغہ کی حدتک حساسیت پائی جاتی ہے جس کا ردعمل اب خواتین کی طرف سے بے محاباہورہاہے۔بعض مذہبی حلقوں کا کہناہے کہ عورت کا معنی ہی (چھپانے کی چیز(عورة) ہوتاہے)لہذااس کومکمل طورپر پنجرہ میں بندکرکے ہی اِ س مذہبی حساسیت کی تسکین ہوپاتی ہے۔دل چسپ یہ ہے کہ قرآن کریم عورت کے لیے عورة نہیں بلکہ نساءیاامراة کے الفاظ استعمال کرتا ہے۔کبھی کبھی تواس موضوع پر اس قسم کے لوگوںکی تحریروں سے گمان ہوتاہے کہ گویااللہ ورسول کواس بارے میں حکم دیتے ہوئے اِن حضرات سے مشورہ لیناچاہیے تھا۔قرآن کے احکام ستروحجاب کی تفصیل میں لکھنے والوں اور خاص کرمفتیان کرام نے اپنی طرف سے بہت کچھ اضافے کرڈالے ہیں جواصل میں برصغیر کی تہذیبی رسوم ورواج کا شاخسانہ ہیں اورمعاشرہ میں اِن تعبیروں کی ہیبت ایسی ہے کہ اِنہیں کواصل سمجھا جاتا ہے ۔ اوراس پر کوئی نئی تحقیق پیش کرنے والوں پر فوراً مغربیت کے دلدادہ ہونے کا لیبل لگادیاجاتاہے۔

اس مسئلہ میں راسخ العقیدہ حلقہ میں عصرحاضرکے معروف محدث علامہ ناصرالدین البانی نے نئی تحقیق پیش کی۔( ۱٠ )اس کے بعدالاخوان المسلمون کے شیخ محمدالغزالی اورشیخ عبدالحلیم ابوشقہ نے ۔برصغیرمیں مولانامودودی رحمہ اللہ نے حقوق الزوجین میں عورتوں کے جائزحقوق کی بات کی لیکن ”پردہ“ میں آکرانہوں نے اس کوایک حدتک رِورس کردیا۔یسین مظہرصدیقی حالانکہ فقہی طورپر خاصے متصلب حنفی تھے مگراس معاملہ میں انہوں نے بھی روایتی تصورات کو توڑ دیا ہے۔

”سماجی مطالعہ“ میں انہوں نے ثابت کیاکہ رسول اللہ ﷺ اورصحابہ وصحابیات کے مابین مکمل نارمل سماجی میل ملاپ پایاجاتاتھا۔آپ ا ن کے گھروںمیں نارملی آتے جاتے تھے۔اسی طر ح صحابیوں اورصحابیات کا باہمی نارمل تعامل تھا۔ چہرہ کا کوئی پردہ نہیں تھا، ہاں اسلامی آداب کا پوراخیال رکھاجاتاتھا۔مگرایسی کوئی حساسیت نہ تھی جوموجودہ مذہبی لٹریچرمیں ظاہرکی جاتی ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابیات کے مابین یہ نارمل انسانی تعامل پردہ کے احکام سے پہلے بھی تھااور ان کے نزول کے بعدبھی جاری رہا یعنی مکی اورمدنی دونوں ادوارحیا ت میں۔صدیقی صاحب نے احادیث اور واقعات کاتجزیاتی وسماجیاتی مطالعہ پیش کرکے اپنی رائے کومبرہن وموکدکیاہے۔راقم کے علم کی حدتک ان کے استنباطات واستنتاجات سے کوئی علمی اختلاف ابھی تک سامنے نہیں آیاہے۔البتہ ان کی کتاب پر ترجمان القرآن میں تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسرانیس احمدنے جوسوالات اٹھائے، وہ زیادہ تراصل بحث سے تعلق ہی نہیں رکھتے۔ ان کا تعلق اصلاسدذریعہ سے ہے۔مولانامودودی اورشیخ ناصرالدین البانی کے مابین حجاب کے مسئلہ پر مراسلت میں بھی مولاناکی دلیل یہی سدذریعہ کا اصول تھا۔

پروفیسریاسین مظہرصدیقی کی نگارشات سیرت کوخصوصی طورپر پاکستان میں بڑی پذیرائی ملی۔شروع میں مشہور زمانہ رسالہ’ نقوش‘ میں انہوں نے سیرت پربہت لکھا۔ان کونقوش ایوارڈ بھی ملا۔نقوش کے بانی مدیرجناب محمد طفیل مرحوم سے ان کے بڑے محبت بھرے تعلقات قائم رہے ۔اس کے بعدان کے پاکستان کے مسلسل اسفار ہوتے رہے کیونکہ ان کی ہمشیرہ بھی وہیں رہتی ہیں۔سیرت سے متعلق ان کی کئی کتابیں پاکستان سے چھپیں۔اس کے علاوہ وہاں کے سیمیناروں اور مذاکروں میں وہ باربارمدعوکیے جاتے علمی اداروں میں  ان کے خطبات اور تقریریں ہوتیں۔ایک سفرمیں راقم کوبھی ان کی رفاقت کی سعادت ملی اوروہاں ان کی محبوبیت ومقبولیت کا خوب خوب مشاہدہ ہوا۔ یہ سفر 26 تا28 مارچ 2011 کوانٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادکی سیرت کانفرنس میں شرکت کے لیے ہواتھا۔

فکر و اسلوب بیان:

فکری طورپر یاسین مظہرصاحب دبستان شبلی کے خوشہ چیں ہیں اورندوة العلماءکے منہج اعتدال سے وابستہ، مسلکی تشددسے دورونفورتاہم وہ تصوف اوراہل تصوف کے بڑے قائل معلوم ہوتے ہیں اور نورمحمدی جیسے مضامین میں شاہ ولی اللہ دہلویؓ کے رجحان تصوف کی طرف ان کا میلان خاصامعلوم ہوتاہے۔وہ اس قسم کے روحانی وباطنی امور کے لیے شاہ ولی اللہ کا ہی حوالہ دیتے ہیں۔(۱۱)گرچہ کئی جگہوں پر اختلاف بھی کرتے نظرآتے ہیں۔تاہم معاصر علما ومفکرین کا ان کا مطالعہ بہت محدودہے۔یہی وجہ ہے کہ مولاناوحیدالدین خان اورجناب جاویداحمدغامدی پر ان کا اندازِتنقیدبہت تنداورجارحانہ ہےاوربتاتاہے کہ دونوں حضرات کی فکروتحریروں سے وہ براہ راست واقف نہیں، بس سنی سنائی باتوں پر تنقیدکرڈالتے ہیں۔(۱۲)

صدیقی صاحب کی علمی نگارشات کا اسلوب بڑاخشک اوربوجھل ہے۔وہ اپنے جملوںمیں اضافت کا بے محابا استعمال کرتے تھے اوراتنی کثرت سے کرتے تھے کہ بعض مرتبہ عبارت سقیم اوربھونڈی ہوجاتی ہے۔ان کی نگارشات پڑھی جاتی ہیں نئے مضامین ،جدت طرازی ،اورنئی اوراچھوتی تحقیقات کے لیے لیکن اسلوب بیان راقم کی نگاہ میں دبستان شبلی سے یکسرہٹاہوابلکہ عام ندویوں کی تحریروں سے بھی الگ اوردشوارہے۔البتہ شخصیات واساتذہ پر جو خاکے اورتاثراتی مقالے انہوں نے لکھے ہیں، وہ زبان وبیان کی غلطیوں کے باوجودلطیف طنزومزاح سے بھرپور اور بڑی حیویت ونشاط رکھتے ہیں۔

پروفیسریاسین مظہرصاحب کی ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ اپنے اساتذہ کوہمیشہ یادرکھتے اوران کے لیے دعائیں کرتے تھے۔ان کے ملفوظات ،اقوال اوران کے لطائف کا بڑاذخیرہ ان کویادتھااوراپنی مجلسوں میں ان کوتازہ کرتے رہتے تھے ۔یہ مقالات زیادہ ترت اثراتی ہیں اوران میں انہوں نے مزے لے لے کرمزاحیہ انداز میں اپنے استادوں کو یادکیاہے۔ان کا بہترین خاکہ اورتاثراتی مضمون مولانامحمداسحق صدیقی سندیلوی ندوی پرہے۔مولانااسحاق صدیقی ندوی دارالعلوم ندوةالعلماءکے بڑے اساتذہ میں سے یعنی نائب مہتمم وشیخ الحدیث تھے ،اورصدراول کی تاریخ پر بڑی محققانہ نظررکھتے تھے۔اورروایات وآثارکی چھان پھٹک کے بعدوہ سیدناامیرمعاویہ رضی اللہ عنہ اوردیگراموی حضرات کے بارے میں عام روایت سے ہٹ کرسوچتے تھے اورمنصفانہ نقطہ نظرکے وکیل بن گئے۔جبکہ مسلمان مورخین بطورخاص اردوکے بنوامیہ سے ایک خاص پرخاش رکھتے ہیں اورمولاناابوالحسن علی ندوی کا بھی اس معاملہ میں استثناءنہ تھا۔ ندوہ میں انہیں کا سکہ چل رہاہے، اس لیے جواساتذہ یاطلبہ بنوامیہ پرقدح کرنے والی کسی روایت پر سوال کھڑاکرتے وہ زیرعتاب آجاتے ۔ مولانااسحاق صدیقی ندوی اسی فکری چشمک کا شکارہوئے اوران کوندوہ سے جانا پڑا۔ان پراپنے تاثراتی مضمون میں مولانایاسین مظہرصدیقی نے اس داستان کولطیف پیرایہ میں بیان کیاہے ۔ مولانا اسحاق صاحب کی اس سلسلہ میں کتاب اظہارحقیقت بہت معروف ہے جومولانامودودیؓ کی خلافت وملوکیت کے تعاقب میں لکھی گئی تھی ۔ (۱۳)

بلاشبہ مولاناسیدابوالحسن علی ندوی المعروف علی میاںندوی فی زمانہ ندوة کے گل سرسبدہیں۔وہ مولانایاسین مظہر کے بھی استادتھے۔چنانچہ ان کی وفات پر یاسین صاحب نے تاثراتی مقالہ لکھااوربلندالفاظ میں ان کوخراج عقیدت پیش کیااوربعض مواقف پر اپنے اختلاف کا بھی تذکرہ کیابلکہ ایک جگہ تو ان کوتاریخ میں شیعیت سے متاثر تک قرار دے ڈالا۔(۱۴)مولاناعبدالسلام قدوائی ندوی کوبھی انہوںنے یادکیاہے۔ یہ جامعہ ملیہ میں یسین مظہر صاحب کے استادوسرپرست رہے،ان پربھی ایک جاندارمقالہ تحریرکیاہے۔مولاناقدوائی ندوی اپنے دروس قرآن اورقرآنی عربی کی تدریس کے لیے مشہورتھے ۔ان کوندوہ العلماءکا معتمدتعلیمات مقرر کیا گیاتھا۔اس مضمون سے معلوم ہوتاہے کہ ندوہ کے نصاب کواپ ٹوڈیٹ کرناچاہتے تھے مگرمولاناعلی میاں(ناظم ندوہ)نے ان کو ایسا نہیں کرنے دیا۔عربی زبان کوایک زندہ زبان کی حیثیت سے پڑھانے کے لیے اوراس لحاظ سے ندوہ کے نصاب ونظام میں تبدیلیاں لانے کا کریڈٹ تومولاناعلی میاں کویقیناجاتاہے ،مگرصرف عربی ادب کی حدتک ۔افسو س کہ ندوة میں جمع  بین القدیم والجدیدکا نعرہ بس ایک نعرہ ہی بن کررہ گیااوراب تووہ دیوبندکا ایک ضمیمہ معلوم ہوتاہے ۔(۱۵)

پروفیسرخلیق احمدنظامی علی گڑھ میں شعبہ تاریخ کے استاداورصدرشعبہ تھے اورنام وراسکالرتھے جن کی نظر مشائخ چشت پر بڑی وسیع تھی۔اب ان کی یادمیں یونیورسٹی میں ایک قرآن سینٹربھی کام کررہاہے۔پروفیسرصدیقی نے اپنے نامور استاد نظامی صاحب کے اوپرایک بڑامفصل اورجاندارمقالہ لکھاہے۔اوران کی خوبیوں وخامیوں کا تذکرہ کیاہے۔ نیز یونیورسٹی ملازمت اورشعبہ کی نظامت اوراس کی باریکیوں،شعبہ جاتی سیاست اورنزاکتوں پر گہری نظر ڈالی ہے۔ حالانکہ نظامی صاحب نے ۱۴ سال تک ان کولیکچرربننے نہیں دیااورجب بن گئے توپروموشن نہیں دیا۔اس کے باوجودانہوں نے استادکے احسانات کا تذکرہ ممنونیت کے جذبات کے ساتھ کیا۔(۱۶)

صاحب مصباح اللغات مولاناعبدالحفیظ بلیاوی پر جوندوہ میں ان کے استاد رہے،  ایک بڑا لطیف اورمزاحیہ مضمون لکھاہے ۔مولاناعبدالحفیظ بلیاوی قاسمی تھے اورحنفی المسلک مگرمتوسع ومعتدل مزاح حنفی ۔بعض متشددحنفی ائمہ مساجدفجرمیں اسفار میں جو مبالغہ کرتے ہیں،  اُس پر پروفیسرصدیقی نے ان کا یہ لطیفہ نقل کیاہے کہ ”حنفی امام جب السلام علیکم کہہ کر دائیں جانب سلام پھیرتاہے توحضرت آفتاب علیہ السلام دوسری طرف سے وعلیکم السلام کہتے ہوئے طلوع ہوجاتے ہیں“۔واقعہ یہ ہے کہ مولانابلیاوی پر صدیقی کا یہ مضمون اس بلاکا پُرلطف اورمزاحیہ ہے کہ اس کوپڑھتے ہوئے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوئے بغیر نہیں رہا جاسکتا۔(یہ مقالہ صدیقی صاحب کی وفات سے چندماہ پیشتر شائع ہوا) (۱۷)اسی طرح انہوں نے پروفیسروحیدقریشی کوبھی یادکیاجوکہ ان کے شعبہ تاریخ میں استادرہے تھے ۔ وہ وضع داراورخاندانی رئیس تھے اوراپنی خودداری ووضع داری میں کوئی حرف نہ آنے دیتے تھے۔ ان پر جومضمون لکھاہے، وہ غالباً ان کی آخری تحریرہے کہ وہ صدیقی صاحب کی وفات کے بعدشائع ہواہے اورایک استادکوشاگردکا بہترین خراج عقیدت ہے۔(۱۸)

پروفیسرصدیقی بڑے مجلسی ،یارباش اورحاضرجواب تھے۔وہ بقول خودابن صفی اورمشتاق احمدیوسفی وغیرہ کو پڑھنے کے رسیاتھے حالانکہ اس کا اثران کی اپنی زبان پر بہت زیادہ نہیں پڑاکیونکہ ان کی نثربڑی ثقیل ہے اوراس میں روانی کی بہت کمی ہے۔مجلس کومختلف شخصیات ،اپنے استادوں ، شاگردوں،مختلف سیمناروں کی رودادوںوغیرہ کے تذکرے کرتے رہتے اورطرح طرح کے لطائف کے ذریعہ زعفران زاربنائے رہتے ۔ ان کی مجلس میں بیٹھ کریہ یقین نہیں آتاتھاکہ یہی شخص بڑے خشک موضوعات پر دادتحقیق دیتااورحوالوں کے ڈھیرلگاتاہے۔

بڑے خوردنواز تھے۔ راقم کی جب بھی ان سے ملاقات ہوئی وہ خوب سوال وجواب کرتااورکبھی ان کی جبین پر شکن نہ دیکھی گئی بلکہ پوری بشاشت وتوجہ سے سنتے اوربے تکلفی سے گفتگوکرتے ۔میں دہلی میں رہتاتھا۔ایک بارعلی گڑھ آیاتوان کوفون کیاکہ آپ کی زیارت کرنی چاہتاہوں۔ ہنس کربولے فوراً آئیے، میں بھی آپ کی زیارت کا مشتاق ہوں۔ میں پہنچا تو گھنٹوں بیٹھ کر باتیں کرتے رہے اوراپنی ذاتی لائبریری اوراپنی مطبوعات دکھائیں۔رخصت ہونے لگا تو پوچھا، ابھی علی گڑھ میں قیام ہے؟ اگر ہاں توکل میرے ہاں آپ کی دعوت ۔میں دوسرے دن پہنچاتوپُرتکلف دسترخوان سجایا ہوا تھا۔کہنے لگے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے بنایاہے۔اس طرح کی یادیں بہت ہیں اوران سے ان کی باغ وبہارشخصیت کا پتہ چلتاہے۔پروفیسرصدیقی مرحوم کے تحقیقی مقالات زیادہ ترمعارف اعظم گڑھ کی زینت بنتے تھے یاتحقیقات اسلامی علی گڑھ کی ۔ ان کی وفات کے بعدمعارف نے اچھاخراج تحسین پیش کیاتحقیقات اسلامی سے بھی یہی امیدکی جاتی ہے۔

یہ کہنابے جانہ ہوگاکہ علی گڑھ میں مسلم لیگیت کے زیراثرابوالکلام آزادشکنی کی ایک روایت رہی ہے۔شعبہ انگریزی کے مقبول ومعروف استادومحقق پروفیسراسلوب احمدانصاری کوآزادسے ایک چڑ تھی اوروہ ان کواپنی تقریروں اور تحریروں میں مولوی ابوالکلام آزادلکھ کراپنے دل کی بھڑاس نکالتے اوران کی تفسیرکوسرسیدکی تفسیرکا چربہ قراردیتے۔علی گڑھ کے اردوادب میں گل سرسبدمختارمسعوداورمشہورمزاح نگارمشتاق احمدیوسفی بھی آزادشکنی اور ان کی ہجوگوئی میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔افسوس کہ پروفیسریسین مظہرصدیقی بھی اسی رومیں بہ گئے ۔چنانچہ پاکستان کی ایک مجلس میں وہ آزادکوشراب نوش کہہ گئے (جوبالکل غلط روایت ہے)۔ اسی طرح ایک مضمون ”ابو الکلام آزادمیزان یوسفی میں “لکھاہے ۔(۱۹)بھلا کہاں اردوکا ایک مزاح نگاراورکہاں علوم قدیم وجدیدکا جامع ابوالکلام آزاد!اسی طرح علی گڑھ کے ایک معاصراسلامی مفکراورصاحب طرزادیب کے بارے میں صدیقی مرحوم نے خودراقم خاکسارسے ناگفتنی تبصرہ کیاجونہ صرف بودا تھا بلکہ بالکل غلط تھا۔مولاناسلطان احمداصلاحی مرحوم کے بارے میں بھی انہوں نے راقم سے خاصے منفی تاثرکا اظہارکیاتھاصرف اس وجہ سے کہ مولانامرحوم فقہی طورپر کسی کے مقلدنہ تھے بسااوقات وہ خودبہت سے مسائل میں اجتہادکرلیتے تھے جبکہ صدیقی مرحوم فقہیات میں ٹھیٹھ مقلد تھے۔مولاناوحیدالدین خاں اورجاویداحمدغامدی صاحب کے بارے میں بھی ان کے رمارک مناسب نہیں۔ (اللہ ان کی لغزشوں کومعاف فرمائے )اس لیے راقم کا خیال ہے کہ معاصرین واقران کے بارے میں پروفیریٰسین مظہرصدیقی کی رایوں پر زیادہ اعتمادنہیں کیاجاسکتا۔المعاصرة کالمنافرة مثل مشہورہے اورصحیح ہے۔


حواشی و حوالجات

(1)دارالفکر،اس ادارہ سے اسلام اورسائنس کے موضوع پر وقیع کام انجام پایاہے ۔مدت تک یہاںسے ششماہی مجلہ آیات بھی نکلتارہا۔اب ڈاکٹرمحمدذکی کرمانی یوٹیوب پر سائنسی موضوعات پر مختصرلیکچرزکااہتمام کررہے ہیں۔

2۔فیصل ایوارڈ یافتہ پروفیسرنجات اللہ صدیقی ،اسلامی معاشیات وفکراسلامی کے میدان میں بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ان کی وقیع کتاب مقاصدشریعت نے اہل علم وفکرکومتاثرکیاہے۔

3۔یاسین مظہرصدیقی ،عہدنبوی میں تنظیم ریاست و حکومت (مصنف کا مختصر)تعارف ص ۵ قاضی پبلشرزاینڈڈسٹری بیوٹرزنئی دہلی ،طبع اول 1988

4۔مصادرسیرت نبوی ،دوجلدانسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیز نئی دہلی ،اب یہ کتاب پاکستان سے بھی چھپ گئی ہے۔

5۔انگریزی ترجمہ پروفیسرعبدالرحیم قدوائی نےThe Prophet Mohammad (pbuh) A Role Medel for Muslim Minorities by M.Y Mazhar Siddiqi translated by Abdur Rahim Qidwai کے نام سے کیاہےLeicester UK 2006 سے چھپ گیاہے۔

6۔مثلا وہ معاہدہ جوعبد الرحمن بن عوف زہری نے مکہ کے ایک سردارامیہ بن خلف جمحی سے کیا ان کا بیان ہے کہ کاتبت امیة بن خلف کتابا بان یحفظنی فی صاغیتی بمکة واحفظہ فی صاغیتہ بالمدینة (بخاری کتاب الوکالۃ باب اذا وکل المسلم حربیا فی دارالحرب ) یہ دونوں مکہ میں دوست تھے اورحضرت عبدالرحمن نے امیہ کے بیٹے علی جمحی کو جنگ بدر میںبچانابھی چاہا تھا مگروہ ماراگیا حافظ ابن حجر کے مطابق رسول اکرم کو اس معاہدہ کا علم تھا ۔)ملاحظہ ہو محمد یسین مظہرصدیقی ،مکی اسوہ نبوی صفحہ ۱۶۵،اسلامک بک فاونڈیشن نئی دہلی طبع اول اپریل ۲۰۰۵ء

7۔(واضح رہے کہ جوارایک اہم عرب سماجی قدرvalueتھی جس کا عرب معاشرہ میں بڑااحترام تھا،آپ نے مطعم بن عدی کی جوارطائف کے سفرکے بعدحاصل کی ،ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرکو جواردی ۔آپ ﷺ نے مکہ میں رہ جانے والے مسلمانوں کو ،جن پر تشددکیاجاتاتھا بعض شرفاءمکہ کی جواردلوائی جیساکہ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت ابوجندل کو حویطب بن عبد العزی اورمکرز بن حفص کی جواردلوائی ۔انہوں نے ضمانت لی کہ وہ ابوجندل کو ان کے باپ کے شرسے محفوظ رکھیں گے۔،مکی اسوہ نبوی ص ۲۹۳ ایضا صفحہ20 بلاذری ۱: 220میں ہے فردہ رسول اللہ علی ان اجارہ حویطب بن عبد العزی ومکرز بن حفص وضمنا ان یکف اباہ عنہ۔

8۔ملاحظہ ہو:یاسین مظہرصدیقی ،عہدنبوی میںتنظیم ریاست و حکومت قاضی پبلشرزاینڈڈسٹری بیوٹرزنئی دہلی ،طبع اول 1988 ص547تا749

9۔علامہ شبیراحمدازہرمیرٹھی ،شہادت عثمان کا تاریخی پس منظرفاﺅنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی ،بخاری کا مطالعہ جلداول دوم سوم وہی ناشراوراس خاص موضوع پر مولانامحمداسحاق صدیقی سندیلوی ندوی ،علامہ حبیب الرحمن اعظمی، مولانامفتی تقی عثمانی ،صلاح الدین یوسف ،مولانامحمدنافع ،مولاناعتیق الرحمن سنبھلی وغیرہم کی نگارشات ۔

10۔مولاناوحیدالدین خان خاتون اسلام باب سوم پردہ ص 250شائع کردہ گڈورڈ بکس نظام الدین ویسٹ نئی دہلی نیزشیخ البانی کی کتاب : جلباب المراۃ المسلمۃ

11۔محمدیٰسین مظہرصدیقی ،نورمحمدی کا دینی وتاریخی استناد،تحقیقات اسلامی علی گڑھ جولائی تاستمبر2010

12۔پروفیسریاسین مظہرصدیقی کا انٹرویوشایع کردہ محدث لاہورستمبر2020

13۔اظہارحقیقت ،یہ کتاب تین جلدوںمیں ہے اورتاریخی روایات پر تحقیق وتجزیہ میں بے مثال ہے۔پروفیسرصدیقی اپنے استادکی اس کتاب کے بڑے ثناخواں تھے۔

14۔پروفیسریاسین مظہرصدیقی لکھتے ہیں:”مولانامودودی ،قاری محمدطیب اورمولاناابوالحسن علی ندوی جیسے شیعی فکرکے حامل سنی علماءکا اس اجماع صحابہ (یزیدکی بیعت)کے بارے میں بارے میں ان کی مبینہ بزدلی اورمداہنت کا الزام لگاناعدالت ومرتبہ صحابہ کی توہین کے مترادف ہے۔کیاصحابہ کوبھی خاصاڈرایادھمکایاجاسکتاہے؟خلافت اموی خلافت راشدہ کے پس منظرمیں فروری 2010

15۔تفصیل کے لیے دیکھیے :ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی ،عالم اسلام کے مشاہیرص172مارچ 2014

16۔پروفیسریٰسین مظہرصدیقی،استاذگرامی نظامی،ماہنامہ تہذیب الاخلاق (مشاہیرعلی گڑھ نمبرجلددوم مارچ  2013ص194

17۔فکرونظرسہ ماہی پروفیسریٰسین مظہرصدیقی جون 2020ص73جلد۷۵شمارہ ۲

18۔فکرونظرسہ ماہی پروفیسریٰسین مظہرصدیقی استادوحید،ستمبر 2020ص38

19۔فکرونظرسہ ماہی پروفیسریٰسین مظہرصدیقی دسمبر 2020ص43جلد۶۵شمارہ ۴

عقیدہ، تہذیب اور سیاسی طاقت

سید مطیع الرحمٰن مشہدی

کسی مذہبی پیغام یا  عقیدےکے پھیلاؤ میں سیاسی طاقت کا کر دار کس قدر اہم  ہوتا ہے؟  دوسرے لفظوں میں  سیاسی طاقت  کی کسی اخلاقی یا مذہبی پیغام کے لئے  کیا معنویت ہے  ؟اسلام کے حوالے سے دیکھیں تو اسلام کی دعوت کے عمومی فروغ  میں سیاسی طاقت کا کتنا اثر ہے ؟ مزید  یہ کہ  کر ہ ارض کے ایک بڑے خطے پر مسلمانوں نے جو تہذیبی اثرات ڈالے ،اس میں ان کی فتوحات او ر سیاسی اثر و رسوخ  کا کس  قدر حصہ رہا  ہے ؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو اسلامی روایت  کی تفہیم میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان کی درست تفہیم نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف مغربی مفکرین  کے لئےاسلام کے آغاز و ارتقا  اور تہذیب ِ اسلامی کے عالمی اثرات  سے متعلق  درست پوزیشن  لینا دشوار  بنا رہا تو دوسر ی طرف خود مسلمانوں کو کئی حوالوں سے معذرت خواہانہ  موقف اپنانا پڑا۔

بہت سے مغربی معترضین نے اپنی منطقی و استدلالی قوت  اس بات کو ثابت کرنے میں صرف کی ہے کہ اسلام  تلوار کے ذریعے پھیلاہے، یعنی اسلام خونریزی سے پھیلنے والا مذہب ہے ۔ جواب میں مسلمانوں نےاسلام کے عسکری پہلو کو  ایک طرح کا  تاریخی دھبہ  سمجھتے ہوئے،اپنے تاریخی چہرے سے  دھونے کی ہر ممکن کو شش کی ،چاہے انہیں معذرت خواہانہ پوزیشن ہی کیوں نہ اپنا نی پڑے۔ یہاں تک کہ علامہ محمد  اقبال جیسے مفکر  کے ہاں بھی، جن کی شاعر ی میں قوموں کے لئے  طاقت و قوت اور حرکتِ پیہم کو زندگی کی علامت  کے طور پر بیان کیا  گیا اور جرم ِضعیفی کی سزا مرگ ِ مفاجات قرار پائی  ، تاریخِ اسلام کے متعلق یہ فکری الجھاؤ موجود ہے جو ڈاکٹر سر نکلسن (Sir Nicolson) کے نام لکھے گئے ان کے خط میں صاف نظر آتا ہے ۔ لکھتے ہیں :

مجھے اس حقیقت سے انکار نہیں کہ  مسلمان  بھی دوسری قوموں کی طرح  جنگ کر تے رہے ہیں ۔ انہوں نے بھی فتوحات کی ہیں ۔ مجھے اس امر کا بھی اعتراف ہے کہ  ان کے بعض  قافلہ سالار ذاتی  خواہشات  کو دین و مذہب کے لبا س میں جلو ہ گر  کرتے رہے ہیں  لیکن مجھے  پوری طرح  یقین ہے کہ  کشور کشائی  اور ملک گیری  ابتدا  ءاسلام کے مقاصد میں داخل نہیں تھی۔ اسلام کو جہاں ستائی اور کشور کشائی میں جو کامیابی ہوئی ہے ، میرے نزدیک  وہ اس کے مقاصد کے حق میں  بے حد مضر تھی۔  اس طرح وہ اقتصادی  اور جمہوری  اصول  نشو و نما نہ  پاسکے  جن کا ذکر  قرآن ِ کریم  اور احادیث  نبویﷺ  میں جا بجا  آیا ہے۔بلاشبہ  کہ مسلمانوں  نے ایک عظیم الشان سلطنت  قائم کرلی ، لیکن  سا تھ ہی ان کے سیاسی  نصب العین  پر غیر اسلامی رنگ چڑھ گیا  اور انہوں نے  اس حقیقت کی طرف سے آنکھیں بندکر لیں  کہ اسلامی اصولوں  کی گیرائی  کا دائرہ کس قدر  وسیع ہے ۔بلاشبہ اسلام کا مقصد  انجذاب ہے مگر انجذاب کے لئے کشور کشائی  در کا رنہیں بلکہ صرف  اسلا م کی سیدھی سادی تعلیم جو الٰہیات  کے دقیق  اور پیچیدہ مسائل سے پاک  اور عقل انسانی  کے عین مطابق  واقع ہوئی ہے  اس عقدہ  کی گرہ کشائی  کر سکتی ہے ۔اسلام کی فطرت میں  ایسے  اوصاف  پنہاں ہیں  جن کی  بدولت  وہ کامیابی  کے بام بلند  پر پہنچ  سکتا ہے۔ذرا چین کے حالات  پر نظر ڈالئےجہاں کسی  سیاسی قوت  کی پشت پناہی  کے بغیر اسلام  کے تبلیغی مشن  نے غیر معمولی کامیابی حاصل کرلی  اور لاکھوں انسان  اسلام کے دائرے میں داخل ہوگئے ۔میں بیس سال سے  دنیا کے افکار  کامطالعہ کر رہا ہوں اور اس طویل عر صے نے مجھ میں  اس قدر صلاحیت  پیدا کر دی ہے کہ  حالات و واقعات پر غیر جانبدار انہ حیثیت سے  غور کر سکوں۔1

چین کے مسلمانوں کا معاملہ تو بہت بعد کا ہے ، غور کیجئے کہ آغاز اسلام اور اس کے بعد اسلامی تہذیب کے تشکیل و ارتقاکے دور میں کیا ممکن تھا کہ  محض تبلیغی مشن سے  یہ سارے   اثرات اور  مقاصد حاصل کیے جا سکتے ؟مزید گہر ائی سےدیکھا جائے تو   چین کے مسلم  دعوتی مشن  کے پسِ پشت بھی اسی اسلامی تہذیب  ہی کی پشت پناہی تھی جس  نے تاریخ انسانی میں ایک بڑا اثر ڈال رکھاتھا  ، جو دعوتی مشن میں   شعوری لاشعوری سطح پر  بہرحال  موجود رہی ہے ۔ ضرورت ا س امر کی ہے کہ  اسلام  کے پیغام کے پھیلا ؤ اور تہذیب ِ اسلامی کے تشکیلی دور  میں سیاسی طاقت کی  اہمیت اور اس کے بھر پور کردار  کو واضح کیا جائے۔

عقیدہ توحید کے فروغ میں سیاسی طاقت کا کردار

ماضی قریب  کی  معروف یہودی مصنفہ  پیٹریشا کرون2 (Patricia Crone:1945-2015) اس سوال کو جس زاویے سے دیکھتی ہیں ، وہ کافی دلچسپ ہے۔ان کے نزدیک دنیا  میں جتنے  بھی مذاہب زیادہ پھیلے  اور انہیں انسانی  تہذیب  و تمدن  پر  گہرے اثرات ڈالنے کا موقع ملا ،انہیں سیاسی طاقت  کی مدد ضرور حاصل رہی3 ۔ گویا جب کسی  اخلاقی یا مذہبی  پیغام کو سیاسی طاقت کی سپورٹ ملتی ہے تبھی وہ کوئی بڑا impact ڈال سکتاہے ۔وہ اپنے نقطہ نظر کو اس مقدمہ پر کھڑا کر تی  ہیں کہ عقیدہ توحید اصل میں یہودیت  کا ہے۔  یہودیت کے پا س خالص توحید تو تھی لیکن انہیں سیاسی طاقت نہیں ملی ۔ عیسائیت کو اگرچہ سیاسی طاقت ملی لیکن ان کے ہاں عقیدہ توحید  تثلیث سے گہنا چکا تھا  البتہ مسلمانوں کے ہاں  عقیدہ توحید بھی خالص تھا اور  سیاسی طاقت بھی موجود تھی ۔ یوں عقیدہ توحید جو دراصل یہود ی مذہب  کا بنیادی عقیدہ  تھا ،مسلمانوں  نے اسے   آگے بڑھایا اور آج عقیدہ توحید جو  خالص حالت میں پوری آب وتاب کے ساتھ  موجود ہے ،ا س کی بنیادی وجہ مسلمانوں کی  سیاسی طاقت  تھی جس کے زیرِ سایہ اسے پوری طرح پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔  گویا  یہودی عقیدے اور عربوں کی  غیر متمدن طاقت کے امتزاج  کے بغیر  عقیدہ توحید  خالص صورت میں تاریخ میں اپنا سفر طے نہیں کر سکتا تھا۔ اس خاص نکتے کو واضح کرنے کی پوری گنجائش موجودہےاور غالبا مغر بی مصنفین میں سے  تاریخ ِ اسلام کو اس خاص مذہبی  زاویے  سے دیکھنے والا اور کوئی نہیں۔ وہ  اپنی معروف کتاب "Hagarism" میں لکھتی ہیں:

Without the fusion of barbarian force with Judaic value there would have been no such thing as Islamic civilization, and the intransigent stance of Islam vis-a-vis the heritage of antiquity was consequently part of the price that had to be paid for its very existence.4

غیر متمدن قوت اور یہودی عقیدے (یعنی توحید) کے ملاپ کے بغیر اسلامی تہذیب  کا تصور ممکن  نہیں۔ قدیم ورثہ کے مقابلے میں  اسلا م کا  بے لچک غیر مصالحانہ موقف اس قیمت کا ایک حصہ تھا  جو اسلام کو اپنی بقا کے لیے دینی پڑی۔

ایک اور مقا م پر لکھتی ہیں:

The power of Hagarism to reshape the world of antiquity lay in its union of Judaic values with barbarian force.5

ہیگر ازم (یعنی اسلام) کی طاقت  جس سے اس نے قدیم دنیا کو  نئی شکل دے دی، یہودی اقدار کو غیر متمدن قوت کے ساتھ جوڑ  دینے میں مضمر تھی۔

پھر لکھتی ہیں :

Instead, barbarian conquest and the formation of the Judaic faith which was eventually to triumph in the east were part of the same historical event. What is more, their fusion was already explicit in the earliest form of the doctrine which was to become Islam. The preaching of Muhammad integrated a religious truth borrowed from the Judaic tradition with a religious articulation of the ethnic identity of his Arab followers. ……
The structure of Hagarene doctrine thus rendered it capable of long-term survival, and the consolidation of the conquest society ensured that it did survive. Judaic values had acquired the backing of barbarian force, and barbarian force had acquired the sanction of Judaic values: the conspiracy had taken shape.6

درحقیقت غیر متمدن  قوت  کی فتوحات  اور یہودی  عقیدے  (یعنی توحید) کی تشکیل  جو مشرق  میں آخر کار  فاتح ٹھہرا،  ایک ہی تاریخی واقعے کا حصہ تھے۔ مزید یہ کہ  ان کا باہمی ملاپ اس عقیدے کی ابتدائی ترین  شکل میں  ہی واضح تھا جو بعد میں اسلام بنا۔ محمد ﷺ کی تبلیغ  نے یہودی روایت سے  لی گئی ایک مذہبی صداقت (یعنی توحید) کو  اپنے عرب پیروکاروں  کی نسلی شناخت کے اظہار کے ساتھ  ضم کر دیا۔  

ہیگیرین  عقیدہ (یعنی اسلام) کی ساخت  نے اس میں  لمبے عرصے تک  باقی رہنے کی صلاحیت  پیدا کی، جبکہ  فتوحات  کے استحکام نے اس کی بقا کو یقینی بنایا۔ یہودی اقدار کو غیر متمدن طاقت کی پشت پناہی حاصل ہو گئی جبکہ غیر متمدن قوت کو یہودی اقدار کا  جواز اور تقدس مل گیا۔ یوں (توحید کو تہذیبی سطح پر باقی رہنے کے لیے)  جس گٹھ جوڑ کی ضرورت تھی، وہ وجود میں آ گیا۔

غور کیا جائے تو  یہ بات جو پیٹریشیا کرون نے کی ہے، یہ تھوڑے مختلف انداز میں مسلمان فقہا بھی کہتے ہیں۔ وہ جہاد کی حکمت  یہی بیان کرتے ہیں کہ ہم کسی کو زبردستی اسلام  قبول نہیں کرواتے  لیکن جب ہم اپنی ایک سیاسی حاکمیت قائم کرتےہیں تو اس سے وہ ماحول پیداہوتا ہے جس میں غیر مسلم ،اسلام کے محاسن کو ایسی جگہ سے دیکھیں جس میں ان کے لئے اپیل اور کشش (Attraction)پیداہو۔ طا قت انسان کو مرعوب و متاثر کرتی ہے ۔طاقت محض طاقت ہونے کی بنیاد پر متا ثر کرے تو وہ الگ چیز ہے لیکن اگر کسی پیغام کے اندر محاسن اور  خوبیاں ہیں  تو ان خو بیوں اور محاسن  کا کسی طاقت کی چھتری  کے نیچے  اجاگر ہونا  اس کے فروغ  کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

فقہا جس دور میں یہ بات کر رہے ہیں، وہ اسلام کی سیاسی حاکمیت کا دور تھا ، اس لئے ان کے فکری زاویےمیں ایک طرح کی غالب پوزیشن  کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے ۔ پیٹریشا کرو ن مسلمان نہیں ہے، بلکہ  وہ ایک تاریخی زاویے سے دیکھ  رہی ہےکہ  مسلمان کیونکر  وہ کارنامہ انجام دینے کے قابل ہو ئے جو یہودی نہیں دے سکے کیونکہ ان کے پاس عقیدہ تو خالص تھا لیکن طاقت نہیں تھی ،اور مسیحی اس لیے نہیں دے سکے کہ ان کے پا س  طاقت تو تھی  لیکن عقیدہ خالص نہیں تھا۔ اس نے تو حید کو ہی لیا ہے لیکن دیکھا جائے تو  پو ری اسلامی شریعت اسی طاقت کے ذریعے  آگے بڑھی۔یوں اسلام کے تاریخی کر دار کے بارے میں ایک مشترک نکتہ مل رہا ہے  جو مسلم روایت اور اور جدیدفکر میں کافی مشابہت رکھتا ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ ویسرسٹین (David Wasserstein) جو وینڈر بلٹ یونیور سٹی (Vanderbilt University) میں  یہودیت  اور  اسلام کے یہودی ورثہ کے پروفیسر ہیں ،اپنے ایک  خطبے میں ،پیٹریشیا کرو ن سے  آگے بڑھ کر  یہ موقف اختیار کیا کہ اسلام نے  یہودی مذہب ہی کو ختم ہونے سے بچالیا ۔گویا اسلام نے ابراہیمی روایت  کے بنیادی مذہب   کو ، جو بالکل ختم ہونے کے قریب تھا ، ایک نئی زندگی بخشی۔ انہوں نے اپنا موقف اسلامی خلافت کے تناظر میں  ان الفاظ میں بیان کیا  ہے:

Islam saved Jewry. This is an unpopular, discomforting claim in the modern world. But it is a historical truth. The argument for it is double. First, in 570 CE, when the Prophet Mohammad was born, the Jews and Judaism were on the way to oblivion. And second, the coming of Islam saved them, providing a new context in which they not only survived, but flourished, laying foundations for subsequent Jewish cultural prosperity – also in Christendom – through the medieval period into the modern world…. Had Islam not come along, Jewry in the west would have declined to disappearance and Jewry in the east would have become just another oriental cult.7

اسلام نے یہودیت کو بچا لیا۔ یہ جدید دنیا میں ایک غیر مقبول  اور اضطراب انگیز دعوی ہے۔ لیکن یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اس کی دلیل دوہری ہے۔ سب سے پہلے ، 570 عیسوی میں ، جب حضرت محمد کی ​​ولادت ہوئی ، یہودی اور یہودیت غائب ہونے کے راستے پر گامزن تھے۔ اور دوسرا ، اسلام کی آمد نے انھیں اس طرح بچایا کہ ایک نیا تناظر مہیا کیا جس میں وہ نہ صرف باقی رہ سکے بلکہ پھل پھول سکے، اور (اسلامی دنیا کے علاوہ) عالم مسیحیت میں بھی اس یہودی ثقافتی نشوونما  کی بنیاد رکھی  جو قرون وسطی کے دور سے لے کر جدید دنیا تک جاری ہے…. اگر اسلام معرض ظہور میں نہ آیا ہوتا تو مغرب میں یہودیت  منظر عام سے  غائب ہوجاتی، جبکہ  مشرق میں صرف ایک مشرقی  فرقہ بن کر رہ جاتی۔

تہذیب اور سیاسی طاقت

عقیدہ یا اخلاقی پیغام ،جیسا   کہ گزشہ  سطور میں واضح ہو ا، عموما  کسی سیاسی  طا قت  کے تحت   ہی تاریخ ِ انسانی میں ایک بڑا Impact  ڈال سکتے ہیں۔اسی طرح  کوئی تہذیب  اپنی تشکیل و ارتقا  اورایک بڑے خطے پر پھیلاؤ اور گہرے  اثرات  کے حوالے سے  سیاسی پشت پناہی  کی مر ہون  منت ہوتی ہے ۔مسلم تہذیب  کی تشکیل و ارتقا اور پھیلا ؤ بھی اسی اصول کے تحت  ہوا ۔اگر چہ ہر تہذیب کی طرح مسلم تہذیب نے بھی د یگر تہذیبوں کے اثرات بھی قبول کیے لیکن اپنے سیاسی اثر و رسو خ کی بدولت  دنیا کے ایک بڑے خطے کو  نہایت  مثبت  اور تعمیری اثرات سے  مالا مال بھی کیا ۔ جو تہذیبی اثرات مسلمانوں نے ایک بڑے خطہ ارض پر ڈالے،انہیں  اس زاویے سے بھی  دیکھا جاسکتا ہے کہ ان اثرات  کا مسلمانوں کی فتوحات کے ساتھ کیا تعلق بنتاہے ۔دوسرے لفظوں میں اگر یہ فتوحات ہی نہ ہوتیں تو کیا مسلمان  اس پوزیشن میں ہوتے کہ اس قدر تہذیبی اثرات ڈال سکتے ۔مثلا  سائنسی علوم ہی میں مسلمانوں  کی خدمات کو لیجئے ،کیا یونانی علوم  کے ترجمے کی اتنی بڑی تحریک  مسلمانوں کی سیاسی  پشت پناہی کے بغیر ممکن ہو سکتی تھی ؟ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمارا معذرت خواہانہ ذہن  اس بات پر تو بڑا فخر محسوس کرتا ہے کہ مسلمانوں نے سائنس کے میدان میں نہایت غیر معمولی  کارنامے سر انجام دیے ،لیکن اس  کے پیچھے جو سیاسی اور تہذیبی طاقت تھی ، اس پر شر مندگی محسوس کر تا ہے ۔

دیمتری گوٹاس (Dimitri Gutas) اپنی کتاب Greek Thoughts, Arabic Culture) )میں عرب فتوحات   کے تہذیبی ، علمی ، انتظامی ، سماجی  اور تاریخی  اثرات  کا بڑی تفصیل سے جائزہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

Certain material conditions that prepared a background against which a translation movement could take place and flourish were established by two momentous historical events, the early Arab conquests through the Umayyad period and the Abbasid revolution that culminated in 134/750.8

وہ خاص مادی  صورتحال  جس نے وہ  پس منظر تیار کیا جس میں  ترجمہ کی تحریک  رونما ہو سکتی اور پھل پھو ل سکتی تھی ، دو  اہم تاریخی واقعات  کی وجہ سے تھی ،ایک اموی دور کی ابتدائی عرب فتو حات اور  دوسرا عباسی انقلاب  جو  134 ہجری میں عروج کو پہنچا۔

عرب  فتوحات کی تاریخی اہمیت اور مہذب دنیا  کے ایک بڑے  حصے پر تجارتی سر گرمیوں کے آغاز  پر روشنی ڈالتے ہوئے  لکھتے ہیں:

The historical significance of the Arab conquest can hardly be overestimated. Egypt and the Fertile Crescent were reunited with Persia and India politically, administratively, and most important, economically, for the first time since Alexander the Great, and for a period that was to last significantly longer than his brief lifetime. The great economic and cultural divide that separated the civilized world for a thousand years prior to the rise of Islam, the frontier between the East and the West formed by the two great rivers that created antagonistic power in either side, ceased to exist. This allowed for the free flow of raw material and manufactured goods, agricultural products and luxury items, people and services, techniques and skills, and ideas, methods, and modes of thoughts.9

عرب فتوحات کی تاریخی اہمیت میں مشکل سے ہی کوئی مبالغہ کیا جاسکتا ہے۔ مصر اور زرخیز ہلالی خطہ سکندر اعظم کے بعد پہلی بار سیاسی اور  انتظامی طور پر ، اور سب سے اہم ، معاشی طور پر ،   فارس اور ہندوستان کے ساتھ متحد کر دیے گئے۔ یہ وحدت عرب فتوحات  کے اپنے مختصر زمانے کے بھی بہت بعد تک قائم رہی۔  عظیم معاشی اور ثقافتی تقسیم  جس نے اسلام سے پہلے ایک ہزار سال سے مہذب دنیا کو   ایک دوسرے سے جدا رکھا ہوا تھا،  اور  دو عظیم دریاوں  نے مشرق اور مغرب کے درمیان جو سرحد بنا رکھی تھی،   جس نے  دونوں جانب برسرپیکار طاقتیں پیدا کر دی تھیں،  ختم ہو گئی۔  اس کے نتیجے میں خام مال اور تیار شدہ اشیاء، زرعی مصنوعات اور سامان تعیش، افراد اور خدمات ، تکنیک اور مہارتوں اور نظریات ، طریقوں اور انداز ہائے فکر  کی آزادانہ نقل وحرکت ممکن ہو گئی۔

عرب فتوحات  کے علم  و فکر کے  پھیلاؤ  میں غیر معمولی کر دار کو  واضح کرتےہوئے رقمطرا ز ہیں:

An equally significant result of the Arab conquests and arguably the most important factor for the spread of knowledge in general was the introduction of paper-making technology into the Islamic world by Chinese prisoners of war in 134/751. Paper quickly supplanted all other writing material during the first decades of the Abbasid era, when its use was championed and even dictated by the ruling elite. It is interesting to note that the various kinds of paper that were developed during that time bear the name of some prominent patrons of the translation movement.10

عرب فتوحات کا ایک اتنا ہی اہم نتیجہ اور شاید  علم کے پھیلاؤ کا سب سے اہم عامل  134/751 میں چینی جنگی قیدیوں کے ذریعہ عالم اسلام میں کاغذ سازی کی ٹیکنالوجی کا تعارف تھا۔ عباسی دور کی پہلی دہائیوں کے دوران میں،کاغذ نے لکھنے کے دیگر تمام  قسم کے مواد کی جگہ لے لی ، جب اس کے  استعمال  کو حکمران طبقے کی حمایت  اور تائید  حاصل تھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں جو مختلف قسم کے کاغذ تیار کیے گئے تھے، ان کے نام ترجمے کی تحریک کے کچھ ممتاز سرپرستوں کے نام پر رکھے گئے۔

مزید لکھتے ہیں:

In addition to the introduction of paper, the lifting of the barriers after the Arab conquests between the East and the West of Mesopotamia also had an extremely beneficial, though obviously unintentional, cultural consequence. It united areas and peoples that for a millennium had been subject to Hellenization ever since Alexander the Great while it isolated politically and geographically the Byzantines, i.e, the Greek-speaking Chalcedonies Orthodox Christians. This is doubly significant. First, it was the exclusionary theological policies and practices of Constantinopolitan "Orthodoxy" that created religious schisms in the first place and drove Syriac-speaking Christians into religious fragmentation and, in the case of the Nestorians, into Persia. The effective removal from the Islamic polity (the Dar al Islam) of this source of contention and cultural fragmentation, and their unification under a non-Persian overlord, the Islamic state, opened the way for greater cultural cooperation and intercourse. Second, the political and geographical isolation of the Byzantines also shielded these Christian communities under Muslim rule, and all other Hellenized peoples in the Islamic commonwealth, from the dark ages and aversion to Hellenism into which Byzantium slid in the seventh and eight centuries.11

کاغذ کے متعارف ہونے کے علاوہ، عرب فتوحات کے بعد  میسو پوٹیمیا  کے مشرق و مغرب  کے درمیان رکاوٹوں کے ہٹائے جانے کا بہت ہی مفید نتیجہ مرتب ہوا، جو ظاہر ہے کہ ارادی نہیں تھا۔ اس نے  ان خطوں اور لوگوں کو باہم ملا دیا جو اسکندر اعظم کے  بعد سے یعنی ایک ہزار سال سے یونانیت کےزیر اثر تھے، جبکہ سیاسی  وجغرافیائی  طورپر  بازنطینی یعنی یونانی بولنے والی اور خلقیدونی عقیدے پر کاربند  آرتھوڈوکس مسیحیت کو  الگ کر دیا۔اس کی دوہری  اہمیت تھی۔پہلی یہ کہ دراصل قسطنطنیہ  میں مرکوز  راسخ الاعتقادی  کی اخراجی الہیاتی پالیسیاں  اور اعمال ہی تھے جنہوں نے مذہبی تفریق پیداکی اور  شامی بولنے والے مسیحیوں کو مذہبی انتشار  کی طرف جبکہ نسطوریوں کو  ایران کی طرف دھکیل دیا۔ دارالاسلام  میں اس وجہ نزاع اور ثقافتی  تحزب کے موثر خاتمے سے ،اور ایک غیر جانبدار حاکمیت یعنی اسلامی ریاست کے تحت ان کے متحد ہو جانے  سے وسیع  تر ثقافتی تعاون اور میل ملاپ کےدروازے کھل گئے۔دوسری یہ کہ  بازنطینیو ں کی سیاسی اور جغرافیائی  علیحدگی نے مسلم حکومت کے تحت  رہنے والی مسیحی کمیونیٹیز کو اور ان دیگر تمام جماعتوں کو جو یونانی فکر سے وابستہ تھے، تاریک ادوار  سے اور یونانی ثقافت کی  نفرت سے محفوظ کر دیا جس کا بازنطینی  ثقافت ساتویں اور آٹھویں صدی میں شکار ہو چکی تھی۔

دیمتری  گوٹاس (Dimitri Gutas)اپنی تحقیق میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ مسلمانوں کا دیگر علوم سے متعلق رویہ کیاتھا اور وہ کس حدتک درست تھا  ۔ماضی میں مسلمانوں کے مزاج اور آج کے مزا ج میں بڑا فرق ہے۔مسلمانوں نے اپنے دور ِ عروج میں جو تہذیب تشکیل دی تھی وہ کازموپولیٹن(Cosmopolitan) تھی ، اس میں وسیع المشربی پائی جاتی تھی ۔مسلمانوں نے تہذیب اسلامی کی تشکیل کے لئے پہلے مرحلے میں ترجمے کاکام کیا ،اور اس وقت اس سر گر می کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس کام میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شانہ بشانہ کام کررہے تھے ، ان  دور میں مسلمان،  عیسائی ، یہودی ، صائبین ایک ساتھ  بیت الحکمت میں مصروف ِ عمل تھے ۔اس کی بنیادی وجہ فکری آزادی تھی ۔اب مسلم دنیا میں فکری آزادی نہیں ہے ۔ ان کے ہاں اپروچ یہ تھی کہ جہاں سے بھی قابل استفادہ چیز ملی وہ لے لیتے تھے۔

ان کے نزدیک اسلامی تہذیب کے دیگر تہذیبوں پر اثرات یک طرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ تھے ۔ جہاں اسلامی تہذیب کے دوسری تہذیبوں پر اثرات ڈالے وہاں اسلام تہذیب نے دیگر  تہذیبوں سے بھی اثرات قبول کیے ۔ جو تہذیبیں اسلامی تہذیب کے کے زیر نگیں تھی وہ تو  ایک طرح اس کا حصہ ہی بن گئیں لیکن  جو براہ راست زیر نگیں نہیں بھی تھیں ان کے ساتھ بھی ایک طرح کا تعامل جاری تھا ۔اسلامی تہذیب کے بعد جو تہذیب اپنے عرو ج میں آئی وہ یورپین تہذیب ہے۔ اس نے اپنی ماقبل اسلامی تہذیب سے افکار و نظریات، تہذیب و تمدن ، علو م وفنون اور اقدار واطوار کے حوالے سے کیا کیا سیکھا اور اسے آگے بڑھایا۔اس سلسلے میں عمومی طور پر سپین کا ذکر بڑی شدو مد سے کیا جاتاہے ۔ لیکن یورپ کے جنوبی علاقے میں خاص طور پر سسلی میں مسلمانوں نے وہاں کی تہذیب پر کیا اثرات ڈالے اس کا تذکرہ بہت کم کیاجاتا ہے ۔یہ علاقہ تقریبا دو سو سا ل تک مسلمانوں کے زیر نگیں رہا اور اس دوران میں مسلمانوں نے اس خطے پر انمٹ تہذیبی اور فکری نقو ش چھوڑے ۔اس کا انداز ہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے اقتدار  کے ختم ہو جانے کے بعد بھی جو ایک کا زموپولیٹن تہذیب یہاں ابھری، اس میں مسلم تہذیب و تمدن کے  نہایت گہرے اثرات دیکھے جا سکتے تھے ۔خاص طورپر روجردوم ، ولیم اور فیڈرک دوم کے دور حکومت میں نہ صر ف یہ کہ مسلم تہذیب کی باقیات الصالحات جاری و ساری تھیں بلکہ خود مسلمان بھی نہایت اہم انتظامی عہدوں پر فائز نظر آتے تھے ۔سلسلی میں ان بادشاہوں کی حیثیت ٹھیک وہی تھی جیسی اسلامی تہذیب کے عباسی دور میں ہارون الرشید اور مامون کی تھی۔پوری تہذیب وسیع المشربی کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کر رہی تھی۔

دیمتری گوتاس ترجمہ تحریک  (Translation Movement)سے متعلق لکھتے ہیں:

The Graeko- Arabic translation movement lasted, first of all, well over two centuries; it was no ephemeral phenomenon. Second, it was supported by the entire elite 'Abbasid society: caliphs and princes, civil servants and military leaders, merchants and bankers, and scholars and scientists.

یونانی عربی ترجمہ تحریک جو دو سو سال تک جاری رہی  ،پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی وقتی  مظہر نہ تھی  ،دوسری یہ کہ اس کو ساری عباسی  اشرافیہ، خلفاء، شہزادوں، سول  سرونٹس ، فو جی افسران ، تاجر برادری ، بینکرز ،علما اور سائنس دانوں کی  تائید حاصل تھی۔

دراصل دیمتری گو تا س نے جتنے طبقات گنوائے ہیں ، ان کے ہاں ترجمہ کی تحریک کو سپورٹ کرنا  ،خود حکمران طبقے کی دلچسپی کے باعث ہی تھا ۔ بادشاہوں اور شہزادوں کی  مسلسل دلچسپی نے اس وقت کی سوسائٹی میں یہ رجحان (Trend) بہر حال پیداکر دیا تھا اسی لئے تمام طبقات  اس میں دلچسپی ظاہر کر رہے تھے ۔اگر خود حکمرا ن ہی اس تحریک میں دلچسپی نہ لیتے تو  اس وقت کی سوسائٹی میں یہ عمومی رجحان پیدا ہی نہ ہو پاتا ،گویا ترجمہ تحریک کی شاخیں شاہی محل ہی سے پھوٹی تھیں اگر چہ  بعد میں دیگر طبقات نے بھی اس  کی آبیاری  میں اپنا اپناحصہ ڈالا۔

پاکستان کے معروف طبیعات دان ،پروفیسر پرویز ہود بھائی بھی   مسلم دانش وروں کی کامیابیوں کو  مسلم حکمرا ن طبقوں  کی حوصلہ افزائی اور حمایت  ہی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :

اسلامی سائنسی  ارتقا  کا یہ  پہلا دور  در اصل یونان سے درآمد شدہ علوم  کو سمجھنے  اور ہضم  کرنے کا  عہد تھا ۔ اس دور میں  مسلمان  دانش وروں  سے مترجموں  کے طور پر  ثانوی حیثیت  سے حصہ  لیا تھا ۔اس ابتدائی  دور میں مسلمان دانش وروں  کا سائنس  کی ترقی  میں حصہ  کسی خاص اہمیت  کا حامل نہی تھا ۔ اگر  صرف ابتدائی  دور  کو  نظر میں رکھا جائے  تو رینان  کی دلیل صحیح ہے ۔  لیکن ہمیں  یہ بھی ماننا چاہیے  کہ مسلمان  حکمران طبقوں  کی مکمل  حوصلہ افزائی  اور حمایت  کے بغیر تراجم  کاکام بھی  ناممکن ہوتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ  خلفا کے  درباروں اور شرفا  کے محلوں  میں ہر مذہب  و ملت  کے دانش وروں  اور ہنر  مندوں کی پذیرائی  اور عزت افزائی  کی جاتی تھی۔ ان کے ساتھ  محض رواداری  نہیں برتی جاتی تھی  بلکہ  ان کی تعظیم  وتکریم  کی جاتی تھی ۔ رواداری  اور مذہبی  وسعت  نظری  کے اس ماحول میں  سائنس  کی جڑیں  اسلامی سر زمین  میں گہری ہوگئیں۔12

مسلمان حکمرانوں  کی اس سر پرستی  کا موازنہ  تنویری عہد میں فرانسیسی  اشرافیہ  کی سرپرستی  کے ساتھ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ایک بنیادی عنصر  سائنس  اور علوم  میں روشن خیال خلفا  اور شہزادوں  کی دلچسپی  معلوم ہوتی ہے  جس کی وجہ سے  انہوں نے دانش وروں  کی سر پرستی کی ۔ اس سر پرستی  کے مقابلہ  میں روشن خیالی کے عہد  میں فرانسیسی  اشرافیہ  کی سر پرستی  بھی ہیچ ہے ۔ دانش ورو ں  کو اپنے درباروں  میں بلانے کے لئے حکمران ایک دوسرے سے سبقت لے جانے  کی کوشش کرتے تھے۔خلیفہ مامون کے دربار میں الکندی ، سلطان محمد ابن تکوش کے در بار میں  فخر الدین رازی ، مختلف  سلطانوں  کے طبیب کی حیثیت سے  ابن سینا ، الحکیم  کے مشیر کی حیثیت سے ابن الہیثم ،المنصو ر کےتحت  ابن رشد ۔۔۔۔غر ضیکہ تمام عظیم دانش ور  ازمنہ وسطیٰ میں شاہی در باروں سے وابستہ تھے ۔ جس سے ان کو پیشہ وارانہ شہرت ،معاشرتی احترام، کتب خانوں  اور تجربہ گاہوں  سےا ستفادہ اور ( شاید سب سے اہم بات ) فیاضانہ وظائف  ملتے تھے۔13

 پیٹریشیا کرون(Patricia Crone)  اسلامی تہذیب  کی تشکیل میں مسلم فتوحات کے کر دار سے متعلق لکھتی ہیں :

Islamic civilization is the outcome of a barbarian conquest of lands of very ancient cultural traditions. As such it is unique in history. There is of course no lack of experiences of barbarian conquest in the history of civilization; but in so far as the barbarians do not destroy the civilization they conquer, they usually perpetuate it. Nor is there any lack of barbarian transitions to civilization in the history of barbarism; but in so far as the barbarians do not take millennia to evolve a civilization of their own, they usually borrow it. But the relationship of the Arabs to antiquity does not fit any of these patterns. It is not of course particularly remarkable that the Arabs were neither so barbarous as to eradicate civilization nor so original as to invent it for themselves. But they were indeed unusual in that they did not, sooner or later, acquire or lose themselves in the civilization they conquered. Instead, the outcome of their collision with antiquity was the shaping of a very new civilization out of very ancient materials, and that at such a speed that by the time the dust of conquest had settled the process of formation was already well under way. Any attempt to understand this unique cultural event must begin by showing what it was about the conquerors and the conquered that made such an outcome possible.14

اسلامی تہذیب  بہت قدیم تہذیبی روایات  و الے علاقوں کے غیر متمدن (عربوں) کے ہاتھوں مفتوح ہونے کا  نتیجہ ہے۔ اس لحاظ سے  یہ تاریخ میں منفرد ہے۔ تہذیب کی تاریخ میں یقینا غیرمتمدن قوموں کی  فتوحات  کی کوئی کمی نہیں، لیکن غیر متمدن عناصر ان تہذیبوں  کو جنھیں انھوں نے فتح کیا تھا، تباہ نہیں کرتے، بلکہ اسے برقرار رکھتے ہیں۔  غیر متمدن قوموں  کی  تاریخ میں  ان  کے تہذیب کی طرف منتقل ہو جانے کی مثالیں بھی کم نہیں، لیکن غیر متمدن قومیں خود اپنی ایک تہذیب  بنانے کے لیے ایک ہزار سال کا عرصہ  نہیں لیتیں، بلکہ عام  طور  پر اسے مستعار لے لیتی ہیں۔ لیکن عربوں کا قدیم تہذیبوں کے ساتھ تعلق   ان میں سے کسی بھی اصول پر پورا نہیں اترتا۔ یہ بات یقینا خاص طور پر قابل توجہ نہیں ہے  کہ عرب نہ تو اتنے وحشی تھے  کہ تہذیبوں  کا خاتمہ کر دیتے  اور نہ ہی وہ  اتنے  جدت پسند تھے  کہ اپنی نئی  تہذیب بنا لیتے ۔ لیکن وہ اس لحاظ سے  انوکھے تھے کہ انھوں  نے جلد یا بدیر  جو تہذیب فتح کی تھی  نہ تو اس کو اپنایا اور نہ خود کو اس میں ضم کر دیا۔ اس کے برعکس  قدیم تہذیبوں کے ساتھ ان کا  ٹکراؤ  کا نتیجہ  یہ نکلا کہ انھوں نے نہایت قدیم مواد  سے ایک بالکل نئی تہذیب  وضع کر لی اور وہ بھی اس قدر  تیز رفتاری سے کہ جب ان کی فتوحات  کی گرد بیٹھی تو تہذیبی تشکیل کا عمل  شروع ہو چکا تھا۔ اس تہذیبی واقعہ کو سمجھنے  کی کسی بھی کوشش  کا آغاز لازما  اس امر کی وضاحت سے ہونا چاہیے  کہ ان فاتحین اور مفتوحین میں وہ کیا بات تھی جس نے اس نتیجے کو ممکن بنایا۔

ڈاکٹر فضل الرحمان تہذیبوں کے باہمی تعامل میں باہمی لین دین کو فطری عمل قرار دیتے ہوئے  اسلامی تہذیب کو اس سے مستثنی ٰ قرار نہیں دیتے ۔ ان کے نزدیک  عرب سلطنت جب فتوحات کے نتیجے میں  وسیع ہوئی تو اس نےدیگر تہذیبوں سے ضروری عناصر  حاصل کرکے ملکی نظم و نسق  اور دستور کی تشکیل  کی اور یہ چیز  اسلامی تہذیب  کے لئے امتیازی حیثیت  بھی رکھتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں:

عرب سے  باہر عربی  سلطنت کے  پھیلاؤ  کے ساتھ مسلمانوں  نے اپنے اپنے  قانون اور ملکی  نظم و نسق  کا ایک پورانظام قائم  کرنے کا ہدف  رکھا ، جس میں انہوں  نے بازنطینی  اور ایرانی  اداروں  اور دوسرے  مقامی  عناصر  کا نمونہ اپنا کر اس کو ایک اسلامی قالب کی شکل دی۔یہی وہ نظام  ہے  جس نے  اسلامی تہذیب  کو اس کی امتیازی خصوصیت  عطاکی اور جس نے اسلام کے بنیادی اخلاقی مزاج  کا اظہار  کرتے ہوئے  مسلم ریاست  کا یوں سمجھئے کہ حقیقی  دستور  مہیا کردیا اور اس کی حدود  واضح کر دیں۔15

وہ لکھتے ہیں کہ اسی  تعامل کی بدولت  ایک شاندار تہذیب وجود میں آئی جو بہت سے مادی ، معاشی  ،تاریخی اور ادبی اور سائنسی سرگرمیوں کا باعث بنی جن سے نوعِ انسانی نے بھر پور استفادہ کیا۔

عربی ذہن میں باہر کی ثقافتوں  کے اثر سے جو حرکت  پیداہوئی  وہ دوسری  سے چوتھی  صدی  ہجری (آٹھویں  سے دسویں  صدی عیسوی ) میں ایک کامیاب اور آب وتاب  والی مذہبی  عقلیتی اور مادی تہذیب کے ظہور  کا باعث بنی۔ مسلمانوں نے ایک ثروت مند تجارت  اور صنعت  کی بنیادرکھی اور پہلی دفعہ  سائنسی  مہارت  انسانیت  کی اصل  مادی ترقی  کے لئے  کام میں  لائی گئی اور عملی فائدے  کے لئے استعمال  کی گئی ۔ ذہنی و عقلی  اعتبار سے تاریخ اور  ادب کے  بنیادی عربی علوم  نے پھیل کر  عمومی  تاریخ ، جغرافیہ  اور ادب عالیہ  کی صورت  اختیار کرلی۔16

ایک اور جگہ مسلم عقلی اور ذہنی  نشوو نما کو بھی نہ صرف اسلامی اور  یونانی روایت  کے باہمی تعامل کا نتیجہ قرار دیتے ہیں بلکہ انسانی عقلی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت کی حامل قرار دیتے ہیں:

مسلم فتوحات کی ایک صدی کے اندر اندر  مسلمان  اس قابل  ہوگئے تھے کہ  اپنی مخصوص  ذہنی و عقلی  زندگی کو  پروان چڑھا سکیں  اور حدیث  ،فقہ اور تاریخ  کے خالص  عر بی اسلامی علوم کی بنیاد رکھ دیں ۔  یہ عقلی نشوو نما  جو بہت زیادہ سرعت  کے ساتھ  واقع ہوئی ، اور جو شام  میں یونانی روایت  اور عر بی قرآن کی دی  ہوئی فکر  کے بنیادی ڈھانچے  کے باہمی  تعامل کا نتیجہ  تھی، انسان کی عقلی  تاریخ  کا ایک عجوبہ چلی آتی ہے۔17

اس سلسلے میں جرمن مستشرقہ زیغرید ھونکہ  کی کتاب جس  کا عربی ترجمہ  "شمس العرب تسطع علی الغرب "کے نا م سے ہوا ہے ، بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ اس کتاب میں انہوں نے  عربی تہذیب  کے مغربی تہذیب  پر اثرات  کانہایت تفصیل سے جائزہ پیش کیا ہے۔اس کتاب میں ایک جگہ  مسلمانوں کی سائنسی خدمات  جنہوں نے مغربی سائنس دانوں کو غیر معمولی طورپر متاثر کیا ، پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں :

لقد طور  العرب، بتجاربھم  وابحاثھم  العلمیۃ، مااخذوہ  من مادۃ خام عن الا غریق، وشکلوہ تشکیلا جدیدا۔ فالعرب، فی الواقع، ھم الذین  ابتدعوا  طریقۃ  البحث  العلمئ  الحق  القائم علی التجربۃ ۔لقد سرت بین العلماء  الاغریق ، الذین لم یکونوا  جمیعا  بالا غریقین  بل کان اغلبھم من  اصل شرقی، سرت بینھم  رغبۃ فی البحث  الحق، وملاحظۃ الجزئیات، ولکنھم  تقیدو ادائما بسیطرۃ الآراء النظریۃ۔ و لم یبدا البحث  العلمی  الحق  القائم علی  الملاحظۃ و التجربۃ الا عند العرب۔ فعند ھم فقط  بدا البحث  الدائب  الذی یمکن الاعتماد  علیہ۔ یتدرج من الجزئیات  الی الکلیات، واصبح منہج  الاستنتاج  ھو الطریقۃ  العلمیۃ السلیمۃ للباحثین۔ و برزت  الحقائق  العلمیۃ کثمرۃ للمجہودات المضنیۃ فی القیاس  و الملاحظۃ بصبر لا یعرف الملل۔ و بالتجارت العلمیۃ الدقیقۃ التی لا تحصی، اختبر العرب  النظریات  و القواعد الآراء العلمیۃ  مرار اَ وتکراراَ؛ فاثبتوا صحۃ  الصحیح  منھا، و عدلوا الخطاء فی بعضہا۔ ووضعوا بدیلا َ للخاطیء منہا متمتعین فی ذلک بحریۃ کاملۃ  فی الفکر و البحث، وکان شعارھم فی ابحاثھم – الشک ھو اول شروط  المعرفۃ – تلک ھی الکلمات  التی  عرفہا  الغرب  بعدھم  بثمانیۃ قرون طوال ۔ وعلی ھذا الآساس العلمی سار العرب فی العلوم الطبیعۃ شوطاَ کبیراَ۔ اثر فیما بعد، بطریق غیر مباشر، علی مفکری الغرب وعلمائہ امثال روجر باکون (Roger Bacon) وما جنوس (Magnus) وفیتلیو (Vetellio) ولیوناردو دافنشی (Leonardo da Vinci) و جالیلیو (Galileo)۔18

عربوں نے جو یونانیوں سے خام مواد لیا ،اسے اپنے تجربات  اور سائنسی تحقیقات  کی بدولت پروان چڑھایا اور جدید شکل میں ڈھالا۔ درحقیقت عربوں ہی نے  تجربے کی بنیاد  پر قائم  حقیقی  سائنسی  تحقیق کا منہج ایجاد کیا ۔ یونانی علما ء کے ہاں ، جو سب یونانی نہیں تھے،بلکہ ان کی اکثریت  مشرقی الاصل تھی ،  حقیقی تحقیق اور جزئیات بینی  کی جستجو اور رغبت  تو سرایت کر چکی تھی لیکن وہ ۔۔۔نظری آراء  کے جبر و تسلط  کے پابند رہے۔مشاہدے اور تجربے پر مبنی سچی سائنسی تحقیق  کا آغاز  عر بو ں کے علاوہ  اور کسی کے ہاں نہ ہوا ،صر ف ان کے ہاں سنجیدہ  اوردائمی  تحقیق کا آغاز ہوا  جس پر اعتماد کیا جا سکتاہے ۔ اس طریقہ کار میں جزئیات کی سیڑھی چڑھ کر کلیات تک پہنچا جا تا ہے ۔اور یہی منہج استنتا ج ، نتیجہ اخذ کرنے  کا طریقہ کار محققین کے ہاں  صحیح  سائنسی  منہج ٹھہرا ۔ قیاس اور مشاہدے میں صرف کی گئی  انتھک  محنتوں اور ناقابل شمار ،دقیق سائنسی تجربات  کے ثمرات  کے طور پر  سائنسی حقائق ابھر کر سامنے آئے ۔عربوں نے نظریات ، اصول اور علمی  آرا ء کو  بار بار آزما یا ،جنہیں درست پایا ان کی تصدیق کی اور جہاں غلطی دیکھی وہاں اصلاح کی ،اور غلط  کا متبادل بھی پیش کیا ۔انہوں نے مکمل فکری اور  تحقیقی آزادی  کے ساتھ یہ عمل سر انجام دیا ۔ان کی تحقیقات کا شعار اور بنیادی نکتہ " شک علم  کی پہلی شرط ہے " تھا ۔ اسی علمی / سائنسی اساس پر عر بوں نے نیچرل سائنسزمیں بڑے میدان مارے ۔اس سوچ نے بعد میں بالواسطہ  راجر بیکن ،  میگنس، ویتلیوس ،لیونارڈو ڈاونچی اور گلیلیو  جیسے  مغربی مفکرین او ر سائنس دانوں کو متا ثر کیا ۔

مارشل ہاگسن اپنی کتاب The Venture of Islam میں اسلامی تہذیب  کی تشکیل و ارتقا کے متعلق لکھتے ہیں:

اسلام جس خطے میں پروان چڑھناشرو ع ہوا اس خطے میں کوئی بھی تہذیبی روایت مستحکم نہ تھی ،دیگر تہذیبیں اور سلطنتیں اپنی جگہ مضبوط اور محکم تھیں لیکن غیرمعمولی طورپر اس خطے میں اورکوئی تہذیب اپنے قدم نہیں جما سکی تھی ،یوں کہا جاسکتاہے کہ اس خطہ ارضی میں ایک  طرح کا تہذیبی خلا تھا ، لہذا اسلام کو اپنی تہذیبی روایت کو پروان چڑھانے میں کسی  قسم کی دشواری یا رد عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور نہ ہی کسی مضبوط حریف سے نبرد آزما ہونا پڑا۔

تہذیبی  خلا سے متعلق اسی سے ملتا جلتا  موقف ڈاکٹر افتخار حسین آغا  کے ہاں بھی ملتا ہے ۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں :

انسان کی  تہذیبی تاریخ  میں اسلام کی حیثیت ایک دین ِ فطرت  ہی کی نہیں ، ایک عظیم ذہنی اورمعاشرتی انقلاب  کی بھی ہے۔اسلام کے ظہور  کے وقت  دنیا شدید تہذینی انحطاط  سے دوچار تھی ۔ آج  کا تہذیب  یافتہ   یورپ قرون ِ وسطی  کی تاریکیوں  میں ڈوبا ہواتھا ۔وادی نیل ، وادی دجلہ و فرات  او ر وادی  سندھ  کی قدیم تہذیبیں  عرو ج  پر پہنچ کر  زوا ل کا شکار  ہو چکی تھیں ۔۔۔یونانی افکار  کا سنہری  دور بھی ختم ہو چکاتھا ۔ اس عرصے میں یورپ میں مملکت ِ روما  تہذیب کی ایک نئی امید لے کر ابھری تھی لیکن ۔۔۔یہ عظیم مملکت  بھی زوال آمادہ  ہوگئی ۔اس طرح  مشرق و مغرب میں تہذیب  کاایک خلا   پیداہوگیاتھا ۔ اس خلاکو  اسلام نے نہایت کامیابی سے پُر کیا۔19

سراج منیر  بھی ظہور ِا سلام کے وقت عرب کے خطے میں ایک  تہذیبی خلا  کو محسوس کرتے ہیں ،البتہ  اس کے ساتھ ساتھ آنحضرت ﷺ کے خطوط  کےا ندر اشاعت ِ اسلام کے  تہذیبی امکانات  کو بڑی عبقری نگا ہ سے دیکھتے ہوئے لکھتے ہیں:

اسلام جس سر زمین پر  ظاہر ہو ا ،اس نے ابھی مروجہ معنوں میں  تہذیب  کے مقام تک نزول  نہیں کیا تھا لیکن وہاں  مذاہب  کی کثرت موجودتھی ۔دین ِابراہیمی کے اجز ا ظہور اسلام تک موجود تھے ، یہودیت  اطراف مدینہ  میں مستحکم تھی،ارضِ فلسطین و شام اور دوسری  طرف یمن سے عیسائیت کے اثرات  بھی  وارد  ہو رہے تھے ۔مجوسیت  کی شکل میں  آریائی مذاہب کاایک بہت بڑا مظہر  ایران میں موجودتھا  اور تجارتی قافلے  اس سے کم و بیش  آشناتھے ۔ دوسری طرف تجارتی میلوں میں ہندوؤں اور چینیوں  سے بھی عربوں  کی ملاقاتیں رہتی تھیں ۔ جزیرہ نمائے عرب  معروف  اور مروج مسالک و مذاہب سے کم و بیش  آشناتھا ۔ اس ماحول میں اسلام  ایک بہت بڑے روحانی انفجار  کے طورپر  ظاہر ہوا۔پہلے مرحلے میں اسلا م نے  اپنی مذہبی اور تمدنی  بنیادیں مستحکم  کیں اور پھر اس میں پھیلنے کا رجحان  پیداہوا۔ نبی کریم ﷺ  نے جن  بادشاہوں  کو خطوط لکھے ،ان کا مطالعہ  اشاعت ِ اسلام  کی تہذیبی  نہج  کے امکانا ت  کی طرف بہت  اہم اشارے  کرتا ہے۔20

 مارشل ہاگسن تہذیب اسلامی کے ارتقا  و تشکیل کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو  یہ بیان کرتے ہیں  کہ آغاز میں اسلام اگر چہ ایک مذہب کے طورپر سامنے آیا  لیکن بعد میں ایک پوری تہذیب بنی جسے وہ Islamicate کےاصطلاح سے یاد کرتے ہیں۔ اپنی اس تشکیل کے لئے اسلا می تہذیب نے  اس خطے میں موجود ماقبل کے تمام انسانی ورثہ سے استفادہ کیا اور اس کے تمام اجزا کو اپنے اندر سمو لیا۔اسلام نے اس خطے کے عام کلچر ، زندگی کے طور واطوا ر اور اقدار کو ویسے ہی رہنے دیا جیسا کہ وہ تھا  ۔شروع میں تبدیلی نہایت کم سطح  پر کی گئی  اور اسلام ایک Sub Culture کے طور پر  اس تہذیبی  دھارے میں شا مل ہوا ۔اس وقت اسلامی تہذیب بطن مادر میں تھی  اور اس دور کو مصنف Gestation Period  کہتے ہیں ۔ پھر اس نے  اپنی ایک مستقل تہذیبی شناخت قائم کر لی۔

اس دورمیں اسلامی تہذیب کے ایک امتیازی پہلو  مار شل ہاگسن کے نزدیک یہ ہے  کہ اس نے دوسری تمام تہذیبوں کے بر عکس جو اس سے پہلے موجودتھیں ، حتی ٰ کہ وہ تہذیبیں جن کی یہ وارث تھی ، ان کے مذہبی متون اور لٹریچر کو اپنے ور ثے کے طور پر نہیں لیا بلکہ اپنی بنیاد بالکل الگ اور ایک نئے متن پر رکھی۔

مصنف موصوف  اموی اور عباسی دور  ِ خلافت  سے متعلق لکھتے ہیں:

Under the Marwanid caliphs and especially under the 'Abbasids who succeeded them, the barriers gradually fell away that had kept the evolution of the cultural life of the several conquered nations separated from each other and from the internal development of the Muslim ruling class. The leading social strata of the empire, of whatever background-even that minority that was not yet becoming Muslim-lived in a single vast society. Their common cultural patterns formed what can be called High Caliphal civilization.21

مروانی خلفا ء کے تحت اور خاص طور پر عباسیوں کے ماتحت جو ان کے بعد آئے ، آہستہ آہستہ وہ رکاوٹیں دور ہوگئیں جنہوں نے متعدد مفتوح قوموں کی ثقافتی زندگی کے ارتقا کو ایک دوسرے سے اور مسلم حکمران طبقے کی داخلی ترقی سے الگ رکھا ہوا تھا۔ سلطنت کا سرکردہ معاشرتی طبقہ ، اس کا تعلق کسی بھی پس منظر سے حتی کہ اس اقلیت سے جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی تھی، ایک ہی وسیع معاشر ے میں رہ رہے تھے  ۔ ان کے  مشترکہ ثقافتی نمونوں نے  اس چیز کو  تشکیل دیا جس کو اعلی خلافتی تہذیب کہا جاسکتا ہے۔

مزید لکھتے ہیں:

These cultural patterns continued to be expressed, till almost the end of the period, in terms of a variety of linguistic and religious backgrounds. Syriac and Pahlavi continued to be major vehicles of high culture along with the newer Arabic. The revivifying of the Hellenic intellectual tradition, a most striking feature of the period, was marked by Greek translations into Syriac as well as into Arabic; Christians, Mazdeans, Jews, and even a group of Hellenistic pagans (at ij:arran in the Jazirah) alongside Muslims, shared in many of the concerns of the time either within their own religious traditions or across religious lines, often in co-operation with each other.22

متنوع لسانی اورمذہبی پس منظر  کے اعتبار سے تقریبا اس دور  کے اختتام تک ان ثقافتی نمونوں کا اظہار  جاری رہا ۔نئی عربی ( ثقافت )  کے ساتھ شامی  اور پہلوی تقا فتیں  اعلیٰ ثقافت کا ذریعہ  ترسیل بنی رہیں ۔یونانی دانش  ورانہ روایت  کا احیاء، جو کہ  اس دور کا اہم ترین مظہر تھا ،یونانی علوم  کے عربی اور شامی  ترجموں  کی صورت میں  سامنے آیا۔عیسائی، مزدکی ، یہودی حتی کہ  یونانی بت پرستوں کے ایک گروہ نے  مسلمانوں کے شانہ بشانہ ،اس زمانے کے بہت سے مسائل  میں دلچسپی لی اور اکثر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ،چاہے وہ ان کی مذہبی روایت کے اندر ہوں یا مختلف مذہبی روایتوں کے مشترک مسائل ہوں۔

Nevertheless, it was under the common administration and protection of the Muslim caliphate that the society prospered and the civilization flowered. What brought all the traditions together increasingly was the presence of Islam.23

بہر حال ، اسلامی خلافت کے عمومی انتظام اور تحفظ کے تحت ہی معاشرے نے ترقی کی اور تہذیب پھلی پھولی۔ جس چیز نے تمام روایات کو تیزی سے ایک  دوسرے کے  قریب کیا ،وہ اسلام کی موجودگی تھی۔

پروفیسر پرویز ہود بھائی لکھتے ہیں:

ابتدائی  طورپر اسلام  کی اشاعت  کے لئے جس طرح  فتوحات  اہم تھیں ،اسی طرح دوسری تہذیبوں پر اسلامی تہذیب کی فوقیت  قائم  کرنے میں  مسلمان دانش وروں  کی شاندار  کامیابیاں  بھی خالص مقام رکھتی ہیں۔ہمیں صرف  یہ ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ منگول  حملے ،جو بظاہر عرب فتوحات سے مشابہ  تھے ،صر ف ایک عارضی  سلطنت  قا ئم کر سکے لیکن کسی  پائیدار  اور مستقل  تہذیب  کو جنم نہ دے سکے  ۔جب منگول  حملہ آوروں  کے جتھے بالآخر  گو بی کے ریگستان واپس چلے گئے تو اپنے پیچھے تباہی و بربادی  کے سوااور کچھ  نہ چھوڑا ۔اس کے برعکس  اسلامی فتوحات  نے دنیا  کو ایک نیا تمدن دیا اور یہ تمدن مسلمانوں کا غلبہ ختم ہونے کے بعد بھی صدیوں تک  پھولتا پھلتا رہا اور جاری و ساری رہا۔24

جارج سارٹن جنہوں نے سائنس کی تاریخ پر بڑی  وقیع علمی کام کیا ہے ، مسلمانوں کے سائنس سے متعلق  رویے کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

Muslims had realized the need of science, mainly Greek science, in order to establish their own culture and to consolidate their dominion, even so the Latins realized the need of science, Arabic science, in order to be able to fight Islam with equal arms and vindicate their own aspirations. For the most intelligent Spaniards and Englishmen the obligation to know Arabic was as clear as the obligation to know English, French or German for the Japanese of the Meiji era. Science is power. The Muslim rulers knew that from the beginning, the Latin leaders had to learn it, somewhat reluctantly, but they finally did learn it. The prestige of Arabic science began relatively late in the West, say in the twelfth century, and it increased gradually at the time when Arabic science was already degenerating.25

مسلمانوں نے سائنس کی ضرورت کو محسوس کر لیا تھا، خصوصاً یونانی سائنس کی، تاکہ وہ اپنا کلچر قائم کر سکیں اور اپنے اقتدار کو مستحکم کر سکیں۔ حتی کہ لاطینیوں نے بھی سائنس یعنی عربی سائنس کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کر لیا تاکہ وہ اسلام کے ساتھ برابری کی بنیادوں پر لڑ سکیں اور اپنے تصورات کی تکمیل کر سکیں۔ اسپین اور انگلستان کے جو ذہین ترین لوگ تھے، ان کے لئے عربی جاننا بہت ضروری تھا، بالکل اسی طرح جیسے میجی دور کے جاپانیوں کے لیے انگریزی، فرانسیسی اور جرمن جاننا  ضروری تھا۔ سائنس طاقت ہے، مسلمان حکمران یہ بہت پہلے سے جانتے تھے۔ لاطینی قائدین  کو بھی یہ بات  گو کچھ بے دلی کے ساتھ سیکھنی پڑی ، لیکن انجام کار انہوں نے اس کو سیکھ لیا۔ عربی سائنس کی عظمت کا احساس مغرب میں قدرے تاخیر سے یعنی تقریبا بارہویں صدی میں ہوا اور اس میں  ایسے وقت میں تدریجی اضافہ ہوتا چلا گیا جب عربی سائنس  روبہ زوال ہو رہی تھی۔

عصر حاضر کے معروف مغربی  مفکر  ایس ۔پی۔ ہنٹنگٹن   نے نزدیک اسلامی تہذیب نے نہ صرف  اپنے دورِ عرو ج میں ایک وسیع خطہ ارض کو متاثر کیا بلکہ جدید  مغربی تہذیب نے بھی  کئی صالح عناصر  اس سے اخذ کر تےہوئے اپنی ترقی کی بنیاد رکھی ۔ لکھتے ہیں:

Between the  eleventh and  thirteenth centuries, Europian culture began to develop, facilitated by the  eager  and systematic appropriation of suitable elements from the  higher civilizations  of Islam and Byzantium, together with adaptation of this  inheritance to the special conditions and interests of the west.26

گیارہویں  سے تیرہویں صدی کے درمیان، یورپی ثقافت نے  آگے بڑِھنا شروع کیا جس میں   اسلام اور بازنطینی کی اعلی ٰ تر تہذیبوں  سے   اپنے مناسب حال عناصر   بہت اشتیاق سے اور منظم انداز میں اخذ کرنے کے رویے نے بہت مدد دی اور اس ورثے کو  مغرب کی مخصوص صورت حال اور مفادات کے مطابق ڈھال لیا گیا۔

ڈاکٹر  بر نارڈ  لیوس  لکھتے ہیں:

For more than a thousand years, Islam provided the only universally acceptable set of rules and principles for the regulation of public and social life. Even during the period of maximum European influences, in the countries ruled or dominated by European imperial powers as well as in those, that remained independent, Islamic political notions and attitudes remained a profound and pervasive influence. In recent years there have been many signs that these notions and attitudes may be returning, albeit in modified forms, to their previous dominance.27

ایک ہزار سال سے زائد عرصے تک  اسلام نے  پبلک اور سماجی زندگی  کی تنظیم کے لئے وہ واحد مجموعہ  اصول و ضوابط  مہیا  کیا  جو عالمی  طور پر قابل  ِ قبول تھا ۔ یہاں تک کہ جن ملکوں میں زیادہ سے زیادہ  یورپی  اثر و رسوخ  رہا ، جن پر یورپ کی حکومت رہی یا جو  ویسے  یورپ  کی شہنشاہی  طاقتوں  کے زیر تسلط رہے اور وہ بھی  جو یورپی  تسلط  سے بالکل آزاد رتھے ، وہاں  اسلام کے  سیاسی تصورات  اور رجحانات  کا گہرا  اور نفوذ پذیر اثر رہا۔  حالیہ  بر سوں میں  اس بات کے کئی اشارات  سامنے آئے ہیں کہ یہ تصورات  اور رجحانات  ، چاہے ترمیم شدہ شکل میں  سہی، دوبارہ غلبہ پا سکتے ہیں۔

اسلامی فتوحات کے عالمی تہذیب پر جو اثرا ت ہوئے ان میں سے ایک بین المذاہب رواداری  بھی ہے ۔عہد وسطی میں اسلامی سلطنت اور  یو رپ کے درمیان  جو کہ نصرانیت پر قائم تھا ، محققین نے ایک بڑا فرق یہ بتایا ہے کہ  اسلامی ریاست  کے اندر مختلف  مذاہب و ملت  کی ایک بڑی تعداد  موجود تھی ،  جبکہ عیسائی سلطنت میں رواداری  مفقود تھی ۔  مشترکہ  معیشت  اور بعض معاہدوں  کے وجود  ،رواداری  کی ایک عظیم مثال ہے اور اس کا  مظہر ملت و مذہب  کے تقابلی علم  کا آغاز تھا۔دوسرے معنوں میں  اختلاف  کے باوجود مذہب وملت  کا مطالعہ ہوتا تھا  بلکہ بطور خاص دوسرے مذاہب  کا مطالعہ بڑے شغف  سے کیا جاتا تھا۔28

ڈاکٹر فضل الرحمان  کے ہاں  بھی یہی پوزیشن نظر آتی ہے ۔وہ لکھتے ہیں :

اس میں کوئی شک نہیں  کہ بازنطین اور ایران کی عظیم الشان سلطنتوں  کی اندرونی  کمزوری نے جو پیہم باہمی جنگوں کی وجہ سے  تھک چکی اور اندر سے ایک روحانی اور  اخلاقی جمود کی وجہ سے  کھوکھلی  ہو چکی  تھیں،مسلمانوں  کی اس شاندار پیش  قدمی کی  رفتار  کوتیز کر دیا ۔ لیکن آنکھیں خیرہ  کر نےوالی پیش رفت  کے اس فینامینا  کی توجیہ محض  اس صورت ِ حال سے نہیں کی جاسکتی ۔ اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ  اسلامی تحریک  کے تازہ دم  اور قوت سے بھر پور  کر دار کو مناسب  اہمیت دی جائے مسلمانوں کی اس پیش  رفت  کے اصل کر دار  کے بارے میں ایک ناپسندیدہ  بحث چل پڑی  ہے اور  مسائل کو  اسلام پر تنقید کرنے   والوں نے اور سچی بات ہے ، خود مسلمانوں   کے معذرت خواہانہ  رویے نے  بھی دھندلا دیا ہے ۔  جہاں اس امر پر اصرار  کہ اسلام تلوار  کے زور  سے پھیلا  حقائق کے ساتھ مذاق  ہے ، وہاں یہ  کہنا بھی  حقائق کو توڑ نا مروڑنا ہے کہ  اسلام اسی طرح پھیلا جس طرح کہ  بدھ مت اور عیسائیت  پھیلے تھے ۔ اس کے باوجود کہ عیسائیت نے وقتا فوقتا  حکومت کی طاقت  استعمال کی تھی ۔ اس معاملے کی اصل توجیہ  اسلام کے ڈھانچے  کی اس خصوصیت  میں ہے کہ  وہ مذہب  اور سیاست کا امتزاج ہے ۔ جہاں یہ کہنا  صحیح ہے کہ  مسلمانوں  نے اپنا مذہب  تلوار  کے زور سے نہیں پھیلایا ، وہاں  یہ بات بھی  سچ ہے کہ اسلام  نے سیا سی طاقت  کے حصول پر زور دیا۔  اس لیے کہ یہ اپنے آپ کو  خداکے ارادے  کا محافظ  سمجھتا تھا ،جو زمین پر ایک سیاسی  نظام کے ذریعے ہی نافذ ہو  سکتا تھا ۔ اس نقطہ نظر سے اسلام اشتراکی ڈھانچے  سے مشابہت  رکھتا ہے ، جو اگر لوگوں کو اپنا مسلک  قبول کر نے پر مجبور  نہ بھی کرے، پھر بھی وہ سیاسی  طاقت کوہاتھ میں لینے  پر ضرور زور دیتا ہے ۔ اس حقیقت سے انکار کر نا تاریخ کے خلاف  جانا ہوگااور اس سے خود  اسلام کے ساتھ بھی انصاف  نہیں ہو سکے گا۔ہمارے نزدیک  اس میں ذرہ برابر  شک نہیں کہ اس حقیقت  نے اسلام  کے عقیدہ مساوات انسانی اور وسیع انسانی دوستی  کے جبلی خصائص  کے ساتھ مل کر  مفتوحہ قوموں  میں اسلام  کے نفوذ  کے عمل کو تیز  کر دیاتھا۔29

گزشتہ صفحات میں یہ بات  تفصیل سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ  عقید ہ یا اخلاقی  پیغام کےپھیلاؤ اور انسانی تاریخ  میں وسیع  اثرات مرتب  کرنے  کے لئے بھی  سیاسی غلبہ و طاقت  کی چھاؤں در کا رہوتی ہیں  اور یہ بات بھی واضح ہوئی کہ  دعوت یا عقیدے  میں سیاسی طاقت کی نفی یا اس  کی اہمیت کو کم کر نا درست نہیں۔

  اس کو آج کے تناظر میں یو ں سمجھا جا سکتاہے کہ  آج ان اقدار کو جنہیں  پوری دنیا میں اچھی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے یا کم از کم  پوری توجہ دی جارہی ہے ، جیسے حقوقِ انسانی ، مساوات  مر دوزن ، آزادی رائے ، مذہبی آزادی ،سیکولرازم وغیرہ ،کیا ان سب کو مغر ب کی سیاسی بالادستی اور طاقت کے دباؤ سے ہٹ کر  اس طرح دیکھا جاسکتا ہے؟اسی طرح اسلام نے جو عقیدہ پیش کیا ،جو قدریں پیش کیں ،ان کے دنیامیں متعارف ہونے میں اور مقبولیت  حاصل کرنے میں سیاسی طاقت کا کر دار  رہا ہے، ایسے ہی جیسے آج ہم ان چیزوں کو ویلیو (Value)مان رہے ہیں جومغرب کی سیاسی طاقت کے بغیر نہیں ہو سکتیں ۔ جن چیزوں کو ہم قدر یا اچھی چیزیں مانتے ہیں یا کچھ تہذیبی Contribution سمجھتے ہیں تو اس میں اور ان کی قبولیت میں طاقت کا دخل لازما ہوتا ہے۔

غر ض ایسےبے شمار پہلو  پیش کیے جاسکتےہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ  عرب فتوحات (Arab Conquests) اور  توسیع سلطنت  (Expansions) کا  اسلامی تہذیب کی تشکیل وارتقا میں بنیادی کر دار رہا ہے۔ یہ تہذیب دنیا کے ایک وسیع خطے پر نہایت گہرےمذہبی، سماجی، سیاسی ، اخلاقی ، تمدنی ، علمی ،معاشی اور انتظامی اثرات مرتب کرنے میں کامیا ب رہی۔ذرا  سوچئے کہ تہذیبی سطح پر اتنی بڑی سر گرمی کو عرب فتوحات  سے الگ کر کے دیکھا  جاسکتا ہے ؟کیا صدیوں پر محیط  یہ تہذیبی تعامل اور اس کے دیر پا اور دوررس اثرات و ثمرات  میں اسلامی فتوحات  اور مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت  کے کر دار  کو  خارج کیا جا سکتا ہے ؟گویا تاریخ اسلامی  کے تشکیلی دور  کا مطالعہ اگر اس تناظر میں کیا جا ئے جس کی طرف ان سطور میں توجہ دلانے کی ایک ابتدائی کوشش کی گئی ہے تو یقینا  عقیدہ ،  تہذیبی اثرات اور فتوحات  وسیاسی طاقت کے مابین  تعلق کی تفہیم کا نیا زاویہ سامنے آئے گا ۔اسلامی  تاریخ میں مسلمانوں کی فتوحات  اور ان کے نتیجے میں سیاسی حاکمیت  ، یہ ایسی چیزنہیں ہےکہ  ہم اس پر شر مندہ ہوں  یا اس کی تفہیم کا کوئی زوایہ ہی ہمارے پا س موجود نہیں ہے۔


مصادر و مراجع


حواشی

(1) محمد اقبال،کلیات ِ مکاتیب ِ اقبال ،اردو اکادمی دہلی،2010، ج: 2 ،ص: 234-236

(2) پیٹریشیا کرون امریکی نزاد  یہودی مصنفہ ،مستشرقہ تھیں ۔ ان کامیدانِ تحقیق تاریخ  اور خصوصا ََ ابتدائی تاریخ ِ اسلام تھا ۔ پیٹریشیا کرون کی علمی زندگی کا سب سے اہم موضوع اسلامی مصادر کی تاریخی حیثیت کا بنیادی سوال تھا جس کا تعلق آغازِ اسلام سے ہے ۔ ان کے دو مشہور علمی کاموں کا موضوع: ہیگر ازم اور مکہ تجارت ہے ۔ ہیگر ازم کے تین دہائیوں بعد ، فریڈ ڈونر نے پیٹریشیا کرون  کے کام کو اسلام کے استشراقی مطالعے  کے میدان میں "سنگ میل" قرار دیا۔مصنفہ نے اپنی کتاب ہیگر ازم میں اپنے ساتھی  مائیکل کک (Michael Cook)کے ساتھ مل کر اسلام کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں ایک نیا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے ۔انہو ں نے آغازِ اسلام  کی پوری تصویر غیر عرب مصادر سے تیار کرنے کی کو شش کی ہے جو زیادہ تر  آرمینی ، یونانی ، آرامی اور سریانی زبانوں میں لکھے گئے تھے  ۔انہوں نے اسلام کے آغاز کی ایک کہانی کی تشکیل نو کی جو  اسلامی روایات کی کہانی سے مختلف ہے۔ کرون اور کوک نے دعویٰ کیا کہ عرب قیادت میں مشرق کی مختلف مشرقی تہذیبوں کے ملاپ کے  مطالعے کے ذریعےوہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں کہ اسلام کیسے وجود میں آیا۔

(3) بد ھ مت کو  جب دو ہندو راجاؤں ،اشکوک اعظم اور کنشک، جنہوں نے خود یہ مذہب اختیار کرلیا ، کی سر پر ستی حاصل ہوئی تو اس دور میں دنیا کا سب سے بڑامذہب بن گیا ۔ یوں اس سیاسی پشت  پناہی کی بدولت  دنیا کے ایک بہت بڑے خطے پر  اثرات ڈالنے میں کامیاب ہوا۔ آ ج بھی جاپان سے لے کر کا بل تک  اس کے آثار اس بات کی گواہی دے رہے ہیں۔موجود دور میں بھی اس کا شمار دنیا کے بڑے مذاہب میں ہوتا ہے ۔اسی طرح مسیحیت کو دیکھیے تو حضر ت مسیح کے بعد تقریبا  تین صدی تک  ان کا کوئی پرسان ِحال نہ تھا۔ ہر طرف انہیں دھتکارا جاتا تھا تاآنکہ  رومی سلطنت نے خود عیسائیت قبول کرلی اور  اور سلطنت کے زیر نگین علاقوں نے  جو تقریبا تین  بر اعظموں ایشیا ، یورپ اور افریقہ تک پھیلے ہوئے تھے ، مسیحیت قبول کرلی ۔اسی کے اثرات ہیں کہ آج بھی دنیا کا سب سے بڑا مذہب مسیحیت ہی ہے۔

(4) Crone, Patricia. Hagarism, p. 130.
(5) Ibid, p. 10.
(6) Ibid, p. 77.
(7) https://kavvanah.wordpress.com/2012/06/04/
how-islam-saved-the-jews-david-wasserstein/(
Accessed 01-04-2020).
(8) Dimitri Gutas. Greek Thoughts, Arabic Culture, p:11
(9) Ibid, p:11-12.
(10) Dimitri Gutas. Greek Thoughts, Arabic Culture, p:13.
(11) Ibid, p. 13.

(12)  پرویز ہود بھائی ، مسلمان اور سائنس ، ص: 138

(13)  ایضا ََ ، ص: 142

(14) Ibid, p:74.

(15) ڈاکٹر فضل الرحمٰن ،اسلام ،ص:10

(16) ڈاکٹر فضل الرحمٰن ،اسلام ،ص:13

(17) ایضا

(18) زیغرید ھونکہ،  شمس العرب تسطع علی الغرب،ص:401

(19) ڈاکٹر افتخار حسین آغا،قوموں کی شکست و زوال  کے اسباب کا مطالعہ ، ص : 51

(20) سراج منیر، ملت ِ اسلامیہ : تہذیب و تقدیر  ، ص : 88

(21) Marshall G.S Hodgson۔ The Venture of Islam, Vol-1, p. 235.
(22) Ibid.
(23) Marshall G.S Hodgson. The Venture of Islam,Vol-1, p. 235.

(24)  پرویز ہود بھائی ، مسلمان اور سائنس ، ص: 163

(25) George Sarton, A Guide to the History of Science: A First Guide for the Study of the History of Science, with Introductory Essays on Science and Tradition, Chronica Botanica, 1952, p. 30.
(26) Huntington, The clash of civilizations and remaking of world order, p. 50.
(27) Bernard Lewis, The Crisis of Islam, Phoenix, London,2003, p. 11.

(28) آدم میٹز(Adam Matez)، الحضارۃ الاسلامیہ فی القرن الرابع الہجری،ترجمہ : محمد علی ابو ریدۃ، القاہرۃ، 1940، ج:1،ص:55-96

(29)  ڈاکٹر فضل الرحمان ،اسلام ،ص:10



فری لینسنگ: تعارف، اخلاقیات اور احکام

مولانا مشرف بيگ اشرف

باسم ربي الأكرم الذي علم بالقلم علم الإنسان ما لم يعلم، وصلی اللہ علی نبيہ الأكرم! أما بعد!

فری لینسر  کی اصطلاح  والٹر سکاٹ (1771–1832)   کی طبع زاد ہے انہوں نے ایک کہانی " ايفانہو" لکھی (اس کہانی کےسورما کے نام   سے اسے موسوم کیا)۔ انہوں نے    یہ اصطلاح قرون میانہ کے ایسے جنگجوکے لیے استعمال کی  جس نے باقاعدہ فوج کا حصہ بن کر حلف نہیں لیا ہوتا  تھا۔ چناچہ یہ اصطلاح دو الفاظ کا  مرکب ہے:

۱: فری (Free)  یعنی آزاد (اس لیے فری لینسنگ کا تعلق "مفت" سے نہیں بلکہ "آزادی" سے ہے۔)

۲: لینس (Lance)۔ یہ لفظ دراصل  لاتینی زبان کے لفظ Lancea  سے بنا ہے جس کا مطلب   چھوٹا نیزہ ہے۔1

موجودہ  دور میں یہ ایسے لوگوں کے لیے برتی جاتی ہے جو کسی ادارے یا بندے کے ساتھ طویل المیعاد  معاہدے میں نہیں بندھتے، بلکہ ان کا رشتہ محض ایک  منصوبے کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے۔ عام طور سے،  ان میں کسی خاص جگہ سے کام کرنے کی قید نہیں ہوتی۔ نیز کسی وقت  کی پابندی بھی نہیں ہوتی کہ نو سے پانچ تک ہی کام کرنا ہے۔  البتہ ایک مدت مقرر ہوتی ہے جس میں اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا  ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ "اجیر "ہی ہوتے ہیں جو ایک مخصوص خدمت مہیا کرتا ہے ۔ اور عام طور سے یہ  - اگر ہم فقہی زبان میں بات کریں - اجیر مشترک ہی ہوتے ہیں جس میں معقود علیہ معین وقت نہیں ہوتا بلکہ "منفعت" ہوتا ہے۔

کیمبرج کی قاموس میں اس کی تعریف کچھ یوں ہے کہ:

"ایک مخصوص ادارے کے بجائے بیک وقت مختلف  اداروں کے لیے کام کرنا"2

چنانچہ اسی مناسبت سے  فری لینس صحافی بھی پائے جاتے ہیں ۔

پھر انٹرنٹ کے آنے کے بعد، برقی منڈیاں وجود میں آ گئیں  جہاں مختلف لوگ اپنی خدمات  پیش کرتے اور صارفین انہیں حاصل کرتے ہیں۔ اور یہی برقی منڈیاں فری لینسنگ پلیٹ فارمز(Freelancing Platforms)  کہلاتی ہیں۔ ان برقی منڈیوں کا مقصد محض لوگوں کو جوڑنا ہوتا ہے  اور اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ:

۱:  صارف ایک منصوبہ شروع کرتا ہے جس میں وہ اپنی ضرورت بیان کر، وہاں موجود  خدمیات مہیا کرنے والوں کو بولی کی دعوت دیتا ہے۔

۲: پھر دلچسپی رکھنے  والے بولی لگاتے ہیں ۔

۳: صارف کو  جو مناسب لگے، اس سے  ایک برقی کھڑکی کے  ذریعے گفت وشنید کرتا ہے۔

۴:  اگر ان کا اتفاق ہو جائے، تو  صارف اس کی بولی قبول کرلیتا ہے۔

۵: جیسے ہی دونوں طرف سے ایجاب وقبول ہو جائے،  منڈی کا خود کار نظام دونوں کےکھاتوں سے اپنی اجرت وصول کر لیتا ہے جو عام طور سے دس فیصد سے بیس فیصد تک ہوتی ہے۔

۶: اس کے بعد، عام طور سے،  صارف وہ مبلغ جو اس منصوبے کی تکمیل پر اس نے مہیا کرنا ہوتی ہے، اسے ایک "برقی پوٹلی" میں رکھوا دیتا ہے۔ اس کے لیے Escrow  کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے جو دراصل ایک  قدیم قانونی اصطلاح  ہے  اور ایسے  ضمانت نامے کے لیے استعمال کی جاتی ہے جسے فریقین کسی تیسری فریق کے پاس رکھوا دیتے تھے اور طے یہ ہوتا تھا کہ جب کوئی مخصوص شرط پوری ہوجائے، تو اسے  ان فریقین یا ان میں سے کسی ایک کے حوالے کیا جائے۔ لیکن  موجودہ  برقی منڈیوں میں دراصل   باقاعدہ پیسے رکھے  جاتے ہیں جو برقی منڈیوں سے وابستہ کھاتوں میں چلے جاتے ہیں۔ اس میں اصول یہ ہوتا ہے کہ صارف جو اس پوٹلی میں   پیسے رکھتا ہے وہ اس کا دہانہ کھول اسے خدمت گزار کے کھاتے میں انڈیل سکتا ہے جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ منصوبہ پورا یا جزوی مکمل ہوا۔  اور خدمت گزار کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ انہیں واپس صارف کے کھاتے میں  منتقل کر دے۔ جو عام طور سے اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ منصوبہ منسوخ ہو گیا اورخدمت گزار اس پر راضی ہے اس لیے اس نے  یہ پیسے واپس کر دیے۔  نیز بعض اوقات پیسوں کو کچھ حصوں میں تقسیم کر کے "سنگ میل"بنا دیے جاتے ہیں۔ جونہی ایک سنگ میل تک پہنچے، اس سے وابستہ مبلغ خدمت گزار کے کھاتے میں صارف منتقل کر دیتا ہے اور یوں اگر آگے کچھ اختلاف ہو جائے، تو خدمت گزار نے جتنا کام کیااسے کم از کم اس کا محنتانہ مل جاتا ہے۔

۶: اس کے بعد، خدمت گزار   منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے۔

۷: البتہ جہاں انسان ہیں وہاں نزاع ہے اور وہیں فصل نزاع کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔  اس لیے، ان منڈیوں میں فصل خصومات کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ اگر کوئی فریق درخواست دائر کرے، تو ان کا نمائندہ اس منصوبے اور  برقی کھڑکیوں سے کی گئی گفت وشنید کی روشنی میں  فیصلہ کرتا ہے۔ جو یہ مقدمہ ہار جائے، اسے فصل نزاع کی اجرت ادا کرنی ہوتی ہے۔

۸: نیز ان میں کارکردگی پیما بھی نصب ہوتا ہے جس سے صارف اور خدمت گزار کا رویہ اور کارکردگی وغیرہ جانی جا سکتی ہے جس میں وقت پر کام کرنا، وقت پر پیسے ادا کرنا ، منصوبے مکمل کرنے کی اوسط شرح وغیرہ شامل ہیں۔ اسی میں ، ہر منصوبے کے اختتام پر ، فریقین کو ایک دوسرے کی بابت تبصرے کا موقع بھی ملتا ہے جسے بعد والے لوگ دیکھ کر اس کی بابت رائے قائم کر سکتے ہیں اور کارکردگی پیما کی سوئی بھی اس کے مطابق اوپر نیچے جاتی ہے۔

بعض برقی بازاروں میں  کچھ فرق بھی ہوتا ہے۔ جیسے بعض جگہوں پر خدمت مہیا کرنے والے اپنا برقی ٹھیا لگا لیتے ہیں اور صارف  ان کے سابقہ تکمیل شدہ کام و کارنامے دیکھ کر   ان کی خدمات کی خود درخواست کرتا ہے۔ ایک مشہور برقی بازار fiverr میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ باقی بنیادی طور سے اسی طرح کام ہوتا ہے جیسے اوپر بیان کیا گیا۔

بلاشبہ، ان منڈیوں کا  تیسری ممالک کے لوگوں کو فائدہ ہے کہ انہیں اس سے ذریعہ معاش مل جاتا ہے اور مقامی بے روزگاری  کے حل میں اس کا ایک اچھا کردار ہے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے کہ مثلا اگر  وہ مقامی   پروگرامر کی خدمات لیں تو انہیں ایک گھنٹے کے پچھتر سے سو ڈالر  تک ادا کرنے پڑیں لیکن ان ممالک والے اس سے آدھے میں بھی کر دیتے ہیں۔ بلکہ انڈیا اور پاکستان میں بعض لوگ دس سے پندرہ تک میں بھی کر دیتے ہیں۔ بہر حال، یہ ایک اضافی چیز ہے جس سے سرسری گزر کر ہم اپنی مقصد کی طرف بڑھتے ہیں جو ان برقی منڈیوں کی  فقہی حیثیت کا تعین   کرتے   ہوئے ایک مسئلے کا تعین ہے۔

ہمارے سامنے اس وقت جو سوال ہے وہ یہ کہ  ان منڈیوں میں جب خدمت مہیا کرنے والا کسی  کے ساتھ کام مکمل کر لیتا ہے، تو اس کا اس صارف سے براہ راست تعلق قائم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات وہ منڈی سے باہر آ کر مزید  معاہدات کر ان کی تکمیل کرتے ہیں اور   اس کی اجرت براہ راست   بینک میں (Bank wire)  منتقل کر دی جاتے ہے یا  ویسٹرن یونین جیسے برقی  ڈاکیوں کے ذریعے  بھجوا دی جاتی ہے ۔ کیا  خدمت گزار کے لیے اس منڈی سےباہر آ کر  اس سے رابطہ روا ہے؟ اور اسی ضمن میں ان منڈیوں سے وابستہ  اخلاقیات بھی زیر بحث ہوں گے۔

ہمارے تعارف سے واضح ہے کہ فری لینس سے وابستہ ڈیرے دراصل برقی منڈیاں ہیں جو لوگوں کو ایک ایسی جگہ مہیا کرتی ہیں جہاں وہ مختلف خدمات مہیا کر سکیں اور  منڈیوں کے  چلانے والے اس پر اپنا کمیشن (جعل) وصول کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے  ان کا اس پر آنے والے لوگوں  سے رشتہ دراصل سمسار  اور وسیط کا ہے ۔  یہ محض تعلق بنوا لینے پر پیسے وصول کر لیتے ہیں۔

ایک مشہور منڈی کا یک جملی تعارف ملاحظہ کیجیے:

Upwork, formerly Elance-oDesk, is an American freelancing platform where enterprises and individuals connect in order to conduct business.

یہاں کلیدی شبد "Platform"  اور "connect"  ہیں۔

نیز مشہور بازار  Freelancer.com  کے قواعد وضوابط میں خدمت مہیا کرنے والوں کے حوالے سےکوئی ایسی شرط موجود نہیں کہ اگر وہ کام منسوخ کریں تو انہیں پیسے واپس مل جائیں گے۔ یہ شرط بہر حال موجود ہے کہ اگر  صارف نے اضافی پیسے ادا کیے، تو بازار کاخود کار نظام اس میں اپنا حصہ لے گا، لیکن منسوخی کے وقت پیسوں کی واپسی اس میں شامل نہیں۔ اور عملا بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔خدمت مہیا کرنے والوں کی شرائط ملاحظہ ہوں:

" For fixed price projects, if you are awarded a project, and you accept, we charge you a small project fee relative to the value of the selected bid, as an introduction fee. If you are subsequently paid more than the original bid amount, we will also charge the project fee on any overage payments.
For hourly projects, the fee is levied on each payment as it is made by the employer to you.
The fee for fixed price projects is 10% or $5.00 USD, whichever is greater, and 10% for hourly projects."3

البتہ  صارف کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ سات دن تک اگر وہ منصوبہ منسوخ کر دے، تو اسے پورے پیسے مل جائیں گے۔ چنانچہ اس صفحے پر آتا ہے کہ:

You may cancel the project from your dashboard at any time for up to seven (7) days after the project has been accepted for a full refund of your fee.

بلاشبہ، اس   مبلغ  واپس کرنے میں کچھ تفصیل ہے جو عملا سامنے آتی ہے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ ایک اضافی سہولت ہے کہ سات دن تک وہ منسوخ کر کے پیسے لے سکتا ہے۔ اس کے بعد نہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہاں پیسے محض تعلق   بنوانے اور "رشتہ کروانے" کے ہیں۔

اس تنقیح کے بعد ہم اپنے سوال کی طرف آ جاتے ہیں ۔ ان منڈیوں کا نظام دو شرطیں عائد کرتا ہے جو ہمارے سوال سے وابستہ ہیں:

پہلی شرط: رابطہ نہ کرنا

 پہلی شرط یہ ہے خدمت گزار اس منڈی سے باہر کسی صارف سے رابطہ نہیں کرے  الا یہ کہ وہ اسے پہلے سے جانتا ہو۔ ان کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:

Unless you have a prior relationship with a User, you must only communicate with Users via the Website. You must not, and must not attempt to, communicate with other Users through any other means including but not limited to email, telephone, Skype, ICQ, AIM, MSN Messenger, WeChat, SnapChat, GTalk, GChat or Yahoo.4

لیکن یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ  آیا  "سمسار" یا "وسیط" ایسی کوئی شرط عائد کر سکتا ہے کہ  جن کا اس  کے وسیلے سے تعلق بنا وہ مستقبل میں کبھی بھی براہ راست  کوئی معاملہ نہیں کر سکتے  ؟

ادنی غور وخوض سے واضح ہے کہ یہ شرط  اس منصوبے  یا  عمل سے بالکل غیر متعلق ہے۔ بلکہ  آپ غور کیجیے کہ  اس عقد کے الفاظ میں کتنا عموم ہے کہ:

"communicate with other Users "

اس کے ظاہر کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کچھ لوگوں کی  گفت وشنید میں دوستی ہو جائے، تو وہ  آپس میں کسی سلسلے میں بھی بات نہیں کر سکتے، ایک دوسرے کو سندیس نہیں بھیج سکتے۔ مثلا اگر انہیں علم الکلام یا فلسفے کا شوق تھا جو اس گفتگو میں ظاہر ہوا تو وہ آپس میں اس حوالے سے بات بھی نہیں کر سکتے (یہ صرف فرضی مثال نہیں، بلکہ ایسا عملا ہوتا ہے)۔ اسی طرح کی اور بہت سے مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہاں  شرط سے مقصود صرف کاروباری مقاصد کے لیے ملنا ہے جس کی تخصیص کی ، اگرچہ،  کوئی وجہ نہیں اور ان منڈیوں کے  ساہوکاروں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ لوگ کسی بھی طرح آپس میں  اس برقی کھڑکیوں کے علاوہ بات چیت نہ کر سکیں  جس  میں کبھی بھی  وہ جھانک سکتے ہیں، تو سوال پھر عود کر آئے گا کہ  اس مخصوص منصوبے کے علاوہ ، جس کے دونوں فریقوں نے پیسے ادا کر دیے، کسی اور منصوبے کے لیے روکنا کس طرح  روا ہے  جبکہ وہ عقد سے بالکل غیر متعلق ہے۔

یہاں شاید، آپ کے ذہن میں یہ سوال انگڑائی لے کہ  کیا جب مسلمان کسی معاہدے پر ہاں کہہ دے، تو اس پر لازم نہیں ہو جاتا ؟ کیا اللہ کے نبی   صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں فرمایا جو بخاری مسلم جیسے کتابوں میں آیا ہے کہ :

"المسلمون عند شروطھم"5 (مسلمان اپنی وضع کردہ شرطوں کی پاسداری کرتے ہیں)

اس پر میں یہ عرض کروں گا کہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ بلکہ حدیث کا یہ ٹکڑا   مقید ہے۔ چناچہ علامہ قسطلانی نے یہ روایت نقل فرما کر فورا کہا کہ:

أي الجائزة شرعا (یعنی وہ شرطیں جسے شریعت نے بھی روا رکھا ہو)

چناچہ کیا آپ نے بی بی بریرہ  ، رضی اللہ تعالی عنہا ،کا مشہور واقعہ نہیں سنا جو بخاری میں ہے کہ جب بی بی عائشہ  ، رضی اللہ تعالی عنہا ،   نے انہیں خرید نا چاہا تو ان کے بیچنے والوں نے  یہ شرط لگائی کہ ولا انہیں کی ہو گی اور انہوں نے اصرار کیا۔  اس پر ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  برہم ہوئے اور بی بی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ،سےفرمایا کہ: "خرید لو، ولا کی شرط  بھی لگا لو۔ ولا  بہر کیف اسی کی ہے جو آزاد کرے"۔6

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کچھ شرطیں ایسی ہیں جو کالعدم ہو جاتی ہے لیکن اس سے عقد پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

شاید اس پر آپ یہ کہیں کہ  یہاں ولا کا حق اللہ تعالی نے کسی کو دیا ہی نہیں، اس لیے یہ شرط کالعدم ہے۔ لیکن زیر بحث شرط اس قبیل سے نہیں۔ اس پر عرض یہ ہے کہ ہم دین کو فقہا کے منہج کے تحت سمجھتے ہیں   اور فقہا نے جہاں شرطیں بیان فرمائی ہیں وہاں وہ صاف الفاظ میں لکھتے ہیں کہ  کچھ ایسی ہیں جو اگر عائد کر بھی دی جائیں، تو قانون کی نگاہ  میں وہ کالعدم   ہیں اور انہیں ماننے والا اخلاقی طور سے اس کا  پابند نہیں۔ اس کی دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

۱: علامہ قدوری اپنی مختصر میں فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے باربرداری کا جانور کرائے پر دیتے ہوئے یہ شرط عائد کی کہ   اس پر ایک من گندم لادو گے، تو اس پر   بوجھ اور باربرداری میں گندم جیسی کوئی اور چیز بھی لادی جا سکتی ہے۔ "گندم" کا کہنا  (تسمیہ)کالعدم ہو گا۔   بلاشبہ، یہ عرف ورواج میں دیکھ   کر فیصلہ ہوتا ہے کہ  کسی چیز سے  فرق پڑتا ہے یا نہیں لیکن مقصود یہ دکھانا ہے کہ اگرچہ  عقد میں اس کا ذکر ہے، لیکن   اس کی کوئی حیثیت نہیں اور  کرایے پر لینے والا اس کا پابند نہیں۔7

۲: نیز فقہا فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کوئی جانور بیچا اور یہ شرط عائد کی کہ اسے وہ آگے نہیں بیچے گا ، تو  ظاہر الروایہ کے مطابق شرط باطل اور سودا درست جیسا کہ علامہ سرخسی  رحمہ اللہ تعالی نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔  قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی سے ایک روایت ایسی منقول ہے جس میں سودا  باطل ہوتا ہے، لیکن  حنفی فقہا نے اپنی ترجیح کا وزن اس کے پلڑے میں نہیں ڈالا۔8

شاید یہاں آپ کہیں کہ یہ شرط اس لیے  لغو ہے کہ اس میں  بائع یا مشتری کا  نفع نہیں جبکہ برقی منڈیوں کا مقصد ان منڈیوں سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے جیسا کہ آپ نے خود اوپر ان "ساہو کاروں" کے حوالے سے کہا۔

اس پر عرض یہ ہے کہ یہ بات درست ہے کہ اس شرط کے گرنے کی وجہ وہی جو آپ نے بیان کی۔ لیکن اگر  اس سے یہ مراد لیا جائے کہ شرط لگانے والے کے ذہن میں مستقبل میں کسی بھی قسم کا نفع  لینے کے امکان کی نفی مراد ہے، تو فقہا کی  اس  مثال پر بھی اشکال پیدا ہو جاتا ہے۔ چناچہ دیکھیے ایک بندے کو اپنی چیز بہت پسند ہے اور وہ اسے مجبوری میں بیچتا ہے اور ساتھ ہی یہ لاگو کرتا ہے کہ تم اسے بیچو گے نہیں  اور اس کے من میں یہ ہے کہ جلد ہی وہ اپنی یہ قیمتی چیز اس سے واپس خرید لے گا اگرچہ  کچھ زیادہ قیمت دینی پڑی۔ پر اگر  اس نے آگے بیچ دی، تو وہ کہاں اس کے لیے سرگرداں رہے گا۔بلاشبہ، یہ بھی ایک گونہ نفع ہے۔ لیکن اس طرح  کے امکانات کا فقہا نے لحاظ نہیں فرمایا۔ بلکہ محض وہ "نفع" مراد ہے جو براہ راست  ہو۔ چناچہ ہماری مثال میں دیکھیے کہ یہ ساہوکار اس طرح کی شرطیں لگا کر مستقبل کا نفع ہی محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہ شرط لگانا ایسا ہی ہے کہ رشتہ کروانے والی دونوں خاندانوں سے، جن کا اس نے ملاپ کروایا، کہے کہ "آئندہ بھی اگر تم لوگوں نے آپس میں رشتہ کیا تو مجھے بیچ میں لانا" (یعنی بس فیس دے دینا، دوسرے الفاظ میں)۔ ظاہر ہے کہ اسے ایک مضحکہ کہا جا سکتا ہے لیکن اس شرط کی کوئی حیثیت نہیں۔

اس لیے، بندے کے ہاں ان برقی منڈیوں کے اس نفع کی کوئی حیثیت نہیں اگرچہ وہ اسے عائد کر دیں اور اگرچہ خدمت گزار کو معاہدے میں اس شرط کی ڈور سے باندھا گیا ہو۔

یہاں آگے بڑھنے سے پہلے میں اس مسئلے کی ایک اخلاقی اور کلامی جہت پر بھی بات کرنا چاہوں گا کیونکہ بعض وہ دماغ جو تجرید  ی وفکری بالاخانوں میں محو استراحت ہوتے ہیں اور منڈی کی    تلخی وسختی سے انہیں کوئی یارا نہیں ہوتا ، اس طرح کی باتیں   ان کی اعلی اخلاقی اقدار  کو کچوکے لگاتی ہے  اور وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ جسے اتفاق نہیں وہ جائے اور ان چیزوں سے فائدہ نہ اٹھائے۔ لیکن حقیقت میں یہ اسلام کی حقیقت پسندی ہے کہ اس نے ساہوکاروں، سرمایہ داروں اور وہ لوگ جن کے ہاتھ میں ذرائع کی لگام   ہے، انہیں کھلی چھٹی نہیں دے دی کہ وہ اس طبقے کا استحصال کرتا رہے جو نان جویں کے لیے اس   عالم اسباب میں ان کے در کا سوالی ہے۔ چناچہ  اس طرح کے لوگ ایک جتھا (کارٹل)بنا کر اپنی مرضی کی شرطیں عائد کر دیں اور چونکہ ہر منڈی کا کرتا دھرتا اس جتھے کا حصہ ہے اس لیے ہر بندہ اسے ہی ، ان ساہو کاروں کی شرائط پر،  استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے جیسا کہ شوگر ملز وغیرہ کے مالکان کرتے ہیں۔ اس لیے، اسلام نے   ایک طرف "المسلمون عند شروطهم"  کا خوبصورت اصول دیا اور دوسری طرف اس   کابھی خیال کیا کہ یہ دائرہ لا تعین  نہ بن جائے  بلکہ اس پر قدغن لگا دی۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ کہنا برمحل ہو گا کہ فقہا کے ہاں جس شرط میں بائع، مشتری یا مبیع (یہ محض غلام کی صورت میں ہے) کا نفع ہو اس سے بیع فاسد ہو جاتی ہے، ورنہ شرط گر جاتی ہے۔

دوسری شرط:  رابطہ کے ذرائع کا تبادلہ

دوسری شرط ان منڈیوں  کے طرف سے  یہ  بھی عائد کی جاتی ہے کہ صارفین اپنا پتہ وغیرہ ایک دوسرے کو نہیں دیں گے۔ چناچہ ان کے الفاظ پر غور کیجیے:

You must not post your email address or any other contact information (including but not limited to Skype ID or other identifying strings on other platforms) on the Website, except in the "email" field of the signup form, at our request or as otherwise permitted by us on the Website.9

اس شرط کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ لوگ   ان منڈیوں کی برقی کھڑکیوں  میں اپنے رابطے کا طریقہ ایک دوسرے کو نہیں بتائیں گے اپنے برقی پتے ایک دوسرے کو نہیں دیں گے ۔

اور جو یہ کہا گیا کہ:

except in the "email" field of the signup form

تو اس سے مقصود اس کا خود کار نظام ہے جس میں خدمت گزار اپنی معلومات ڈالتا ہے جو صارفین کی پہنچ سے کوسوں دور ہوتی ہے۔

بلاشبہ، اس شرط کی پاسداری ایک مسلمان پر ضروری ہے کیونکہ اس شرط کا  مقصد یہ ہے کہ وہ منڈیاں   ایک برقی کھڑکی  مہیا کر رہی ہیں جس سے  فریقین گفت وشنید کر سکتے ہیں۔ اور ان کی اس سہولت پر وہ بات کرنے کی اجازت نہیں ہو گی جس سے انہوں نے منع کیا کیونکہ یہ اس  منصوبے ہی کا حصہ ہے  اس سے باہر نہیں۔ لیکن یہاں بھی  ایک مسلمان کے لیے دو باتیں ہیں:

ا:  اس کے لیے بلاشبہ، یہ روا نہیں کہ اپنا سراغ وہاں دے یا اس سے مانگے۔

۲: لیکن بعض اوقات  صارف  یا خدمت گزار خود اپنا پتہ وہاں لکھ دیتا ہے۔ اس صورت میں ایک مسلمان  کے لیے یہ روا ہے کہ اس پر رابطہ کر لے کیونکہ اس نے کوئی مخالفت نہیں کی۔ ان برقی منڈیوں میں پھندے (کڑکیاں) نصب ہوتے ہیں جو خود کار اس طرح کی چیزوں کو پکڑ لیتے ہیں، لیکن جس طرح فیس بک وغیرہ پر اس طرح کے پھندوں سے لوگ ہوشیاری سے بچ جاتے ہیں ، وہاں بھی بچ جاتے ہیں۔ یہاں مقصود یہ کہنا نہیں کہ ایسا کرنا چاہیے بلکہ صرف قاری کو بتانا ہے کہ جس صورت کی بات کی جاری ہے وہ محض فرضی نہیں اور ایسا ہوتا ہے۔ نیز اس برقی ساگر میں کسی کا نام ہی لے کر اسے گوگلایا جائے (یعنی گوگل پر تلاش کیا جائے)تو اس سے رابطے کے راستے خود بخود  آپ کے قدم چومتے ہیں چناچہ اس کے ذریعے سے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو بچھڑ چکے تھے ، پھر ملے۔ یہاں پھرمیں یہی عرض کروں گا کہ اس بات کے کرنے سے مقصود یہ بتانا ہے کہ ایسا ہوتا ہے اورفرضی بات نہیں۔

اس لیے، پوری گفتگو کا نتیجہ یہ کہ:

۱: وہ لوگ آپس میں  ان برقی ڈیروں سے باہر ملاقات کر سکتے ہیں اور اس سے حاصل شدہ آمدن رواہے۔

۲: نیز اگر کسی مسلمان نے  ان کی برقی کھڑکیاں استعمال کر اپنا پتہ دوسرے کو دے دیا، تو بلاشبہ وہ گناہگار ہے  کہ اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

۳: لیکن اس کی آمدن بہر کیف درست ہے کیونکہ اسے پیسے یہ برقی بازار نہیں دیتے بلکہ  صارف دیتا ہے ۔ ان برقی بازاروں کے پاس ان صارفین اور خدمت گزاران سے پیسا آتا ہے، ان کے پاس جاتا نہیں ۔  اور اس نے صارف کی شرط نہیں توڑی۔ اس لیے، یہاں اس کی آمدن کے حرام ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔

۴: اگرچہ  احتیاط اسی میں ہے کہ ان  برقی بازاروں کے نظام ہی سےمعاملہ کرنا چاہیے کہ اس میں صارف وخدمت گزار دونوں  کے لیے اطمینان ہے کہ اس میں دونوں میں سے کوئی کام کروا کر آسانی سے پھر نہیں سکتا اور ایک نظام میں بندھا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہاں مقصود فقہی حکم کا تعین ہے، اس لیے بہر کیف ان کے لیے ان منڈیوں سے باہر بھی ملاقات جائز ہے۔

آخر میں عرض یہ ہے کہ  یہی اصول  دوسری منڈیوں پر بھی عائد ہو گا جیسا Olex  وغیرہ۔ البتہ اگر کوئی اور خاص شرط ہو تو اس پر غور وفکر کر کے اس کا حکم بیان کیا جائے گا۔ .والله أعلم،!


حواشی

(1)  Glare P.G.W., ed. Oxford Latin Dictionary. Oxford University Press 1968.
(2) https://dictionary.cambridge.org/dictionary/english/freelance. This link and all the subsequent links accessed at: 3/6/2021 7:04 PM.
(3) https://www.freelancer.com/feesandcharges
(4) https://www.freelancer.com/about/terms

(5)  صحيح البخاري، كتاب الإجارۃ، باب أجرالسمسرۃ.

(6)  صحيح البخاري، كتاب الشروط، باب الشروط في الولاء.

(7)  وما لا يختلف باختلاف المستعمل فلا ضمان عليہ فإذا شرط سكنی واحد فلہ أن يسكن غيرہ وإن سمی نوعا أو قدرا يحملہ علی الدابۃ مثل أن يقول: خمسۃ أقفزۃ حنطۃ فلہ أن يحمل ما ھو مثل الحنطۃ في الضرر أو أقل كالشعير والسمسم وليس لہ أن يحمل ما ھو أضر من الحنطۃ كالملح والحديد (مختصر القدوري، كتاب الإجارۃ)

(8) المبسوط للسرخسي، كتاب البيوع، باب البيوع إذا كان فيھا شرط، (۱۳/۱۵)

(9) https://www.freelancer.com/about/terms

مئی ۲۰۲۱ء

عقل اور مذہب کی بحث: چند مزید معروضاتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۶)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ جامع ترمذی (۱)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
آئین، اسلام اور بنیادی حقوقجسٹس قاضی فائز عیسیٰ
معاہدات: ذمہ داری یا ہتھیار؟مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا وحید الدین خانؒ کا انتقالمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
قائد اعظم کا اسلامخورشید احمد ندیم
الشریعہ اکادمی کی تعلیمی سرگرمیاںادارہ

عقل اور مذہب کی بحث: چند مزید معروضات

محمد عمار خان ناصر

مسلم معاشروں میں عقل اور مذہب کی بحث کے حوالے سے بعض معروضات میں (مارچ ۲٠۲۱ء) یہ بنیادی نکتہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ  عقل اور مذہب پر  گفتگو  کے سلسلے کو  تاریخی سیاق  میں  اور تہذیبی سطح پر  منظم کرنے کی ضرورت ہے۔  انفرادی سطح پر   اور مختلف مسائل کے حوالے سے      تاثرات اور ججمنٹس کے اظہار کا   سلسلہ پہلے سے موجود ہے اور     آئندہ بھی جاری رہے گا، لیکن دو تہذیبی مواقف کے مابین مکالمے  کی  نوعیت، شرائط اور  تقاضے کافی مختلف ہوتے ہیں اور دراصل  اسی سطح پر  ہمارے معاشرتی تناظر میں اس بحث کی   علمی تفہیم  کا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے جس میں اہل دانش کا کردار اور ذمہ داری بہت  بنیادی ہے۔  

 اس ضمن میں  گفتگو  کا بنیادی محور، ہماری طالب علمانہ رائے میں، درج ذیل تین   سوالات کو ہونا چاہیے:

۱۔ انکارخدا کے موقف کا عقلی امکان اور جزوی سطح پر  اس کا وقوع انسانی تاریخ میں ہمیشہ  سے موجود رہا ہے۔  خاص طور پر مسلمانوں کی فکری روایت کے لیے دہریت اور  عقلی بنیادوں پر انکار نبوت وغیرہ کے مواقف نامانوس نہیں ہیں  اور ان موضوعات پر تفصیلی بحثیں  اسلامی روایت میں موجود ہیں۔ جدید دور کی غالب تہذیب نے  انسانی فکر واحساس کے لیے اس کی قبولیت کے ذرائع ووسائل پیدا کرنے میں غیر معمولی محنت کی ہے اور یوں اس کو  اسی طرح ایک تہذیبی طاقت حاصل ہو گئی ہے جیسے  اس سے  پہلے  مختلف مشرکانہ مذاہب کو اور توحید پر مبنی ابراہیمی روایت کو حاصل رہی ہے۔   اس پہلو سے   دنیا کے   دیگر معاشروں میں  بھی الحاد کی مختلف سطحوں اور صورتوں کے لیے  فکر واحساس میں قبولیت  کا پیدا ہونا  نہ تو کوئی اچنبھے کی بات ہے اور نہ  تاریخی عمل  کے لحاظ سے کوئی   بہت خلاف معمول یا غیر متوقع معاملہ ہے۔    تاہم  بحث طلب سوال یہ ہے کہ  دنیا کی موجودہ غالب تہذیب نے اپنے خاص تاریخی سیاق میں  جس تصور وجود کو  اپنے لیے اختیار کیا ہے اور    اب اسے  تاریخی تحدیدات سے ماورا   قرار دیتے ہوئے ایک آفاقی سچائی رکھنے والے تصور وجود  کا درجہ دینے  کا فطری داعیہ رکھتی ہے،  کیا  اس سے مختلف تصور وجود رکھنے والی تہذیبوں اور بالخصوص مسلم معاشروں سے اس بات کی توقع یا مطالبہ   کسی بھی اصول کے لحاظ سے روا ہے کہ وہ اس موقف کو  من وعن قبول کر لیں اور اپنی  تاریخ اور اپنی تہذیبی روایت سے متعلق  اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں کہ وہ ایک نابالغ ، ناپختہ اور مبتدی انسانی شعور کے مظاہر ہیں؟

جدید الحادی عقل کی طرف سے مذہب کی یہ توجیہ کہ یہ انسان میں خوف کے جذبے سے پیدا ہوا ہے، کوئی منطقی استدلال نہیں، بلکہ اس کی نوعیت تعلی کی ایک خاص نفسیاتی پوزیشن سے کسی موقف پر حکم لگانے کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ’’استدلال “ سرے سے نفس مسئلہ کو موضوع ہی نہیں بناتا۔ اگر کسی تجرباتی یا منطقی دلیل سے خدا کا موجود نہ ہونا ثابت کیا جا چکا ہو، تب تو مذہب کی توجیہ کرتے ہوئے مذکورہ حکم لگایا جا سکتا ہے، لیکن اصل دعوے کے بارے میں بڑے بڑے ملحدین (فلسفی اور سائنٹسٹ) یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ خدا کے وجود کی حتمی طور پر نفی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں یہ دعوی کہ انسانوں نے خوف کے جذبے کے زیر اثر تخیل کی مدد سے مذہب کو ایجاد کیا ہے، منطقی طور پر کوئی وزن نہیں رکھتا۔ یہ محض ایک ’’حکم “ ہے جو منطقی دلیل کی غیر موجودگی میں، ایک مفروضے کو درست مان کر مخالف موقف پر لگا دیا جاتا ہے۔

ذرا غور کیجیے تو اسی طرح کا نفسیاتی حکم، مفروضاتی پوزیشن کو تبدیل کر کے جدید الحاد پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اگر وجود باری کی نفی ثابت نہیں، اور یہ مفروضہ قبول کر لیا جائے کہ خدا موجود ہے تو جدید الحادی رویے کی یہ نفسیاتی توجیہ بآسانی کی جا سکتی ہے کہ یہ انسان کے misplaced’’علمی تکبر“ سے پیدا ہوا ہے۔ انسان نے کائنات کے لا محدود نامعلوم حقائق کی ایک معمولی سی تجلی دیکھ لی اور کچھ طبیعی قوانین دریافت کر کے زندگی کی کچھ مشکلات کو آسان بنانے کی صلاحیت حاصل کر لی تو ایک تھڑ دلے انسان کی طرح اس زعم میں مبتلا ہو گیا کہ اس نے کائنات کی حتمی حقیقت جان لی ہے اور اب اسے خدا کو ماننے کی ضرورت نہیں رہی۔

جدید الحاد کی تہذیبی جائے پیدائش بھی اس توجیہ کی پوری تائید کرتی ہے۔ مغرب میں، جو جدید الحاد کی اصل جنم بھومی ہے، جدید علم اور طاقت سے پرورش پانے والا تعلی اور تکبر کا رویہ تو اب خود مغربی علوم میں طشت ازبام کیا جا رہا ہے۔ جس تہذیب نے اپنے علاوہ باقی ساری دنیا کے معاشروں اور تاریخ کا مطالعہ تکبر اور تعلی کے جذبے سے سرشار ہو کر کیا ہو، اس کے بارے میں اس کی ضمانت کیسے اور کس اعتماد پر دی جا سکتی ہے کہ کائنات کی حقیقت طے کرتے ہوئے علم اور طاقت کے نشے سے اس کا دماغ خراب نہیں ہوا ہوگا اور ماضی کی ساری انسانی تاریخ پر یہ حکم کہ وہ جہالت اور خوف کی وجہ سے مذہب کے زیر اثر رہی، تکبر کی نفسیاتی کیفیت سے آازاد ہو کر لگایا ہوگا؟

۲۔ عقل اور مذہب کے باہمی تعلق کے حوالے سے مغربی روایت اپنے تاریخی تجربے کی روشنی میں جس موقف تک پہنچی ہے، وہ تاریخی تجربہ غیر مغربی معاشروں کا نہیں ہے۔ تاہم  ایک خاص تہذیب کا تاریخی تجربہ ہونے کے باوجود جدید مغربی فکر میں ایک یونیورسل اپیل بھی پائی جاتی ہے۔  یہاں غور وفکر اور بحث  کا طلب گار نکتہ یہ ہے کہ اگر  تہذیبی سطح پر  یہ پوزیشن ہمارے لیے قابل قبول نہیں تو کیا  ہمیں یہ سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں کہ  غالب تہذیب کے موقف کی  تاریخی تشکیل کیسے ہوئی ہے اور  وہ اپنے اندر ایک یونیورسل اپیل پیدا  کرنے میں کیونکر کامیاب ہے؟  کیا ان سوالات کا ایک گہرا تہذیبی فہم ہمارے لیے کوئی معنویت رکھتا ہے یا نہیں کہ عالم غیب سے  بے اعتنائی اور  پھر  اس کی نفی   کا موقف اختیار کرنے والی عقل نے  کائنات، حیات وشعور  اور انسان کی  تفہیم کی کیا متبادل فکری اساسات مہیا  کی ہیں؟  عالم غیب کے اثبات پر مبنی    تفہیم کائنات  کو قبول کرنے میں   جدید عقل کے کیا تحفظات ہیں اور   مذہبی تفہیم پر  اس کی مختلف الجہات تنقید کیا ہے؟    عقل جدید نے  انسانی معاشرت کی تشکیل کے لیے درکار اہم اخلاقی وفلسفیانہ تصورات کو، جن کی  تشکیل    انسانی تاریخ   میں مذہبی  اعتقاد اور    عقلی  تصور سازی کے اشتراک سے ہوئی تھی،   کیسے غیر مذہبی   اساسات پر استوار  کر کے  اپنے لیے  کارآمد بنا لیا ہے؟ جدید سائنس، حیات وکائنات اور انسان کی اس نئی تفہیم کو  کیسے اور  کن پہلووں  سے براہ راست یا بالواسطہ تقویت فراہم کرتی ہے؟   اور  کائنات کی تفہیم کے غیر مذہبی سانچے میں رہتے ہوئے  جدید عقل انسانی معاشروں کی تنظیم اور اجتماعی سرگرمی   کے نظام قائم  کرنے میں  کیسے بالفعل  کامیاب ہے؟  

بحالت موجودہ یہ سب سوالات مذہبی فکر  کے سنجیدہ غور وفکر کا  موضوع نہیں ہیں  اور وہ  عقل جدید کی فکری،  عملی اور تاریخی  طاقت کا کماحقہ  اندازہ کیے یا جائزہ لیے بغیر  جزوی حوالوں سے  اس کے  نقائص، کمزوریوں یا داخلی تضادات  کا حوالہ دینے پر عموما اکتفا  کیے  ہوئے ہے۔ بالفاظ دیگر،   ہمارے ہاں ابھی تک جدید تصور وجود  اور اس سے متفرع ہونے والے تصور عقل کو ، جس کی قوت اور  نتیجہ خیزی تاریخ میں مشہود ومحسوس  ہے،  فکری سطح پر اہم سمجھنے  اور اس کی قوت وتاثیر کے منابع  کا علمی وعقلی فہم  حاصل کرنے  کی ضرورت  کا احساس پیدا نہیں ہو سکا اور ہم ا س کے غیر فطری ہونے    کی ججمنٹ  کے ساتھ اس اطمینان کو اپنے لیے  کافی سمجھتے ہیں کہ   یہ تہذیب اپنے خنجر سے آپ  ہی خود کشی کر لے گی، کیونکہ جو آشیانہ شاخ نازک پر بنایا جاتا ہے، وہ ناپائدار ہوتا ہے۔

۳۔ قرون وسطی کے یورپی معاشروں  کو چھوڑ کر،  جہاں مسیحی تہذیب نے  کلی مذہبی  یک رنگی کی صورت  پیدا کر دی تھی،  تمام تاریخی معاشروں اور تہذیبوں میں مذہبی  یا غیر مذہبی مواقف کا تنوع اور مختلف اعتقادی    مواقف رکھنے والے افراد اور گروہوں  کا وجود قبول کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی کیا جاتا ہے۔   تاہم   یہ توسع  اپنی تہذیبی شناخت سے دستبردار ہو کر یا اس کی قیمت پر   اختیار نہیں کیا جاتا۔   ہر تہذیب اپنی  نظریاتی اور سیاسی حاکمیت  کو قائم رکھتے ہوئے  ہی یہ توسع  پیدا کرتی ہے اور اسی شرط پر  اس توسع کو برقرار بھی رکھ سکتی ہے۔  اگر   توسع، اس کی شناخت اور حاکمیت کے لیے خطرہ بن رہا ہو    تو نہ صرف یہ کہ اس کا  جواز باقی نہیں رہتا، بلکہ عملا بھی اسے  برقرار رکھنا ناممکن ہو  جاتا ہے۔  یہ بنیادی بات سمجھنے کے لیے موجودہ غالب تہذیب کو  ہی دیکھ لینا کافی ہے۔  عقل اور مذہب  کی تقسیم   اور   مذہب کی ایک خاص دائرے میں تحدید اس تہذیب کی بنیادی شناخت ہے  اور اس کی ساری  رواداری، توسع، غیر جانب داری   اور اپنے شہریوں کے ساتھ  مساوی برتاو وغیرہ اس شرط کے ساتھ مشروط ہے  کہ تہذیبی شناخت    کو چیلنج نہیں کیا جائے گا، یعنی   اس کو تبدیل  کرنے کے لیے   سماجی یا سیاسی طاقت کو منظم نہیں کیا جائے گا۔  مسلمانوں کے ،مغربی معاشروں میں  دن بدن نمایاں ہوتے ہوئے  وجود کو اسی پہلو سے  ایک  مسئلے کے طو رپر دیکھا جاتا ہے کہ وہ  ان معاشروں کی  غالب مذہبی شناخت  اور    سیکولر تہذیبی شناخت، دونوں کے لیے امکانی مشکلات پیدا کرتے  ہوئے دکھاتی دے رہے ہیں۔

ہمارے تناظر میں اس حوالے سے  قابل بحث سوال یہ  بنتا ہے کہ کیا مسلمان معاشرے اپنی تہذیبی شناخت  کو قائم رکھنے اور  اپنی سیاسی حاکمیت کو تہذیبی شناخت  کے ساتھ وابستہ کرنے کا حق نہیں رکھتے؟  اگر نہیں رکھتے تو کیوں؟ اور اگر رکھتے ہیں تو  یہاں سیکولرزم کی بحث کا کیا مطلب ہے؟   کیا ہمارے ہاں یہ بحث  محض ایک نظری تحلیل وتجزیہ  کا عنوان ہے یا  اس کی نوعیت موجودہ تہذیبی شناخت  پر حکم  لگانے   اور اس شناخت کو عملا ختم یا کمزور کرنے کی ایک  باقاعدہ سیاسی جدوجہد ہے؟  اگر یہ بحث دوسری نوعیت کی ہے تو اس میں اور  یورپ میں  خلافت اسلامیہ کے قیام  کی جدوجہد منظم کرنے میں     کیا بنیادی فرق ہے؟

ہمارے نزدیک  یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کو تہذیبی  تناظر اور تاریخی سیاق میں موضوع بنانا    ازبس ضروری ہے  اور مسلم معاشروں کی تعمیر  واستحکام کی خواہش رکھنے والے   تمام اہل دانش کو، چاہے ان کے فکری وتہذیبی رجحانات کچھ بھی ہوں، ان سوالات پر ایک مسلسل اور سنجیدہ علمی مکالمے کا حصہ بننا چاہیے۔

ہماری نوجوان نسل اس وقت مختلف حوالوں سے ایک وجودی اضطراب اور شناخت کے بحران مختلف حوالوں سے دوچار ہے۔ آپ کسی بھی تقسیم کے حوالے سے دیکھ لیں، خط تقسیم کے دونوں طرف بڑی تعداد میں انتہائی مضطرب اور ’’مرو یا مار دو“ قسم کی ذہنی کیفیت کا شکار نوجوان ملیں گے جو اپنے کرب، اضطراب اور غصے کے اظہار کے لیے کسی نہ کسی سیاسی، معاشرتی یا مذہبی تقسیم کا حصہ بن گئے ہیں اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر اس تقسیم کو وسیع اور گہرا کرنے میں متحرک کردار ادا کر رہے ہیں۔

مثلا مذہب اور مذہبی عقائد واحساسات کے حوالے سے اس تقسیم کو دیکھ لیجیے جو پچھلی ایک دہائی میں بہت ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ایک طرف مذہبی نوجوانوں کا ایک جم غفیر نظر آئے گا جس کو قطعی طور پر اندازہ نہیں اور نہ انھیں اس کی کوئی تفہیم بہم پہنچائی گئی ہے کہ جدید دور میں عالمی سطح پر مذہب کے حوالے سے کیا سوچ مستحکم ہو چکی ہے، اس کی فکری وتاریخی بنیادیں کیا ہیں اور وہ مسلمان معاشروں کے اندر کیسے اور کس پیمانے پر سرایت کر رہی ہے۔ صورت حال کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے ان نوجوانوں کے لیے مذہب پر اٹھایا جانے والا کوئی بھی سوال، خاص طور پر جب اس کا پیرایہ اظہار کچھ نامناسب ہو، ایک وجودی خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو، ظاہر ہے، اسی سطح کے رد عمل کا تقاضا کرتا ہے۔

خط تقسیم کی دوسری جانب بھی اسی طرح disgruntled نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو اس بیانیے کی قائل ہو گئی ہے کہ تمام تر یا زیادہ تر سیاسی وسماجی اور اخلاقی مسئلوں کی جڑ دراصل مذہب ہے اور معاشرے کی منصفانہ اور عقلی تشکیل مذہب کو اسی طرح حاشیے تک محدود کیے بغیر ممکن نہیں جیسے مغربی معاشروں میں عموما کی گئی ہے۔ چونکہ منصفانہ اور عقلی سماج کی خواہش فوری اور بے تاب ہے، جبکہ اس آئیڈیل کا حصول سردست مسلم معاشروں میں ممکن نظر نہیں آتا، اس لیے ان نوجوانوں کے ہاں ردعمل کی غالب شکل وہ بن جاتی ہے جو ہمارے سامنے ہے، یعنی مذہبی عقائد و احساسات کی تحقیر اور ان سے متعلق تمسخر واستہزا کا اظہار۔

گویا دونوں طرف ذہنی رویوں میں جس چیز کا فقدان ہے، وہ ہے ایک تاریخی صورت حال کو سمجھنے کی صلاحیت اور اس بات کو ذہنی ونفسیاتی طور پر قبول کرنا کہ تاریخ اور معاشرہ اس کے پابند نہیں کہ وہ ہماری توقعات اور خواہشات کے مطابق پہلے سے بنے ہوئے موجود ہوں اور ہم اس میں کسی رکاوٹ کا سامنا کیے بغیر اپنے آئیڈیلز کے مطابق زندگی کے سفر کو آگے بڑھا سکیں۔ اس رویے کو پختہ کرنے کی خدمت پھر کچھ ایسے اہل قلم انجام دیتے ہیں جن کی تاریخ اور انسانی معاشرے کے فہم کی صلاحیت جیسی بھی ہو، کچھ پڑھ لکھ لینے اور اظہار کی صلاحیت حاصل کر لینے کی بدولت وہ ایک عصبیت کے ترجمان کے طور پر پہچان بنا لینے میں کامیاب ہیں۔

اس سارے منظر میں، ذمہ دار اور تعمیر معاشرہ سے دلچسپی رکھنے والے اہل دانش کے سامنے سوال یہ ہے کہ اس پوری نسل کو، جس کا بنیادی مسئلہ، فکری وابستگیاں مختلف اور متضاد ہونے کے باجود، اصلا ایک ہی ہے، کیسے یہ سکھایا جائے اور ان میں ایسی نفسیاتی اور فکری پختگی کیسے پیدا کی جائے کہ وہ ایک ایسے ماحول میں جو ان کے تصورات کے لحاظ سے سخت ناپسندیدہ ہے، حقیقت پسندانہ رویے کے ساتھ رہ سکیں، صورت حال کے ساتھ بطور ایک امر واقعہ ذہنی ہم آہنگی پیدا کر سکیں، اور معاشرے میں اپنے لیے کوئی تعمیری کردار تلاش کریں؟ ان کے جوش وجذبہ کا رخ کیسے اس طرف موڑا جا سکتا ہے کہ ان کی توانائی موجود صورت حال پر شکایت اور اظہار نفرت تک محدود رہ جانے کے بجائے کسی مثبت اور تعمیری مصرف میں صرف ہو؟


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۶)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(248) ائتِیَا کا ترجمہ

ثُمَّ استَوَیٰ اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَان فَقَالَ لَہَا وَلِلاَرضِ ائتِیَا طَوعًا اَو کَرہًا قَالَتَا اَتَینَا طَائِعِینَ۔ (فصلت:11)

”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا ”وجود میں آ جاو، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو“ دونوں نے کہا:ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح“۔ (سید مودودی، جب وجود ہی نہیں تھا تو حکم کیسے دیا جائے گا؟)

”پھر اس نے آسمان کی طرف توجہ فرمائی اور وہ اس وقت دھوئیں کی شکل میں تھا، پس اس کو اور زمین کو حکم دیا کہ تم ہمارے احکام کی تعمیل کرو طوعا یا کرہا۔ وہ بولے کہ ہم رضامندانہ حاضر ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، ائتیا کا مطلب ’احکام کی تعمیل کرو‘ نہیں ہوگا)

اس آیت میں نہ تو وجود میں آنے کا حکم دیا ہے نہ احکام کی تعمیل کا، بلکہ حاضر ہونے کا حکم دیا ہے، درست ترجمہ یہ ہے:

”پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا جب کہ وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے کہا کہ دونوں آو (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(249)    فَقَضاہُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ کا ترجمہ

فَقَضَاہُنَّ سَبعَ سَمَاوَاتٍ فِی یَومَینِ۔ (فصلت :12)

”پس ان کے سات آسمان ہونے کا فیصلہ فرمایا دو دنوں میں“۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں سوال یہ ہے کہ فیصلہ کرنے میں دو دن کیوں لگیں گے۔ درست ترجمہ ہے: ”پس ان کو سات آسمان بنادیا دو دن میں“۔

(248)    وَاُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُم کا ترجمہ

عدل کے معنی انصاف کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور صحیح و حق بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں۔ درج ذیل آیت میں عام طور سے انصاف کرنا ترجمہ کیا گیا ہے:

فَلِذَلِکَ فَادعُ وَاستَقِم کَمَا اُمِرتَ وَلَا تَتَّبِع اَہوَاءہُم وَقُل آمَنتُ بِمَا اَنزَلَ اللَّہُ مِن کِتَابٍ وَاُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُمُ اللَّہُ رَبُّنَا وَرَبُّکُم لَنَا اَعمَالُنَا وَلَکُم اَعمَالُکُم لَا حُجَّۃَ بَینَنَا وَبَینَکُمُ اللَّہُ یَجمَعُ بَینَنَا وَِالَیہِ المَصِیرُ۔ (الشوری :15)

”تو اسی لیے بلاو اور ثابت قدم رہو جیسا تمہیں حکم ہوا ہے اور ان کی خواہشوں پر نہ چلو اور کہو کہ میں ایمان لایا اس پر جو کوئی کتاب اللہ نے اتاری اور مجھے حکم ہے کہ میں تم میں انصاف کروں اللہ ہمارا اور تمہارا سب کا رب ہے، ہمارے لیے ہمارا عمل اور تمہارے لیے تمہارا، کیا کوئی حجت نہیں ہم میں اور تم میں، اللہ ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف پھرنا ہے“۔(احمد رضا خان)

”اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تم میں انصاف کرتا رہوں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں“۔ (سید مودودی)

”اور مجھے یہ حکم ہے کہ میں تمہارے درمیان فیصلہ کردوں“۔ (امین احسن اصلاحی، عدل کا مطلب صرف فیصلہ کرنا تو نہیں ہوتا ہے۔)

وَاُمِرتُ لِاَعدِلَ بَینَکُمُ کا عام طور سے ترجمہ کیا گیا ’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں‘۔ یہ ترجمہ اس جملے کو سیاق کلام میں اجنبی سا بنا دیتا ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انصاف کرنے یا فیصلہ کرنے کا یہاں کیا محل ہے؟ خطاب تو مکہ میں وہاں کے مشرکین سے ہے جو رسالت کے منکر ہیں اور اپنی پوری قوت سے آپ کی مخالفت کررہے ہیں۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی اس جملے کا ترجمہ اس طرح کرتے ہیں:

”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے بیچ صحیح بات واضح کردوں“۔

یہ ترجمہ سیاق کلام کے ساتھ بالکل مطابق ہوجاتا ہے۔ اور وہ صحیح بات کیا ہے وہ اس جملے کے فورا بعد واضح بھی کردی گئی ہے۔

عدل کے معنی انصاف کرنے کے علاوہ صحیح بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں، قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا: وَِاذَا قُلتُم فَاعدِلُوا (انعام:152) ’اور جب بولو توسچ بات کہو‘اس کی تفسیر جلالین میں اس طرح ہے: وَاذا قُلتُم فِی حُکم او غَیرہ فاعدِلُوا بِالصِّدقِ۔

(249) اُستُجِیبَ لَہُ کا ترجمہ

استجاب لہ کا مطلب ہوتا ہے کسی کی بات مان لینا یا اس کی طلب قبول کرلینا۔

زمخشری کہتے ہیں: المراد بالاستجابۃ۔ الطاعۃ والامتثال۔ (الکشاف)

 ابن عاشور کہتے ہیں: الِاستِجابَۃ: الاجابَۃ، فالسِّینُ والتّاءُ فِیہا لِلتَّاکِیدِ، وقَد غَلَبَ استِعمالُ الِاستِجابَۃِ فی اجابَۃِ طَلَبٍ مُعَیَّنٍ او فی الاعَمِّ۔ (ابن عاشور)

قرآن مجید میں یہ لفظ مختلف صیغوں سے کئی جگہ آیا ہے اور اسی مفہوم میں آیا ہے۔ البتہ درج ذیل آیت میں اُستُجِیبَ لَہُ کا ترجمہ بعض لوگوں نے ’اسے مان لیا گیا‘کیا ہے۔ یہ ترجمہ اس لفظ کے مطابق نہیں ہے۔ صحیح ترجمہ ہوگا:’اس کی بات مان لی گئی‘۔ تراجم ملاحظہ فرمائیں:

وَالَّذِینَ یُحَاجُّونَ فِی اللَّہِ مِن بَعدِ مَا استُجِیبَ لَہُ حُجَّتُہُم دَاحِضَۃ عِندَ رَبِّہِم وَعَلَیہِم غَضَب وَلَہُم عَذَاب شَدِید۔ (الشوری: 16)

”اور جو لوگ اللہ کے باب میں حجت کررہے ہیں بعد اس کے کہ اس کو مانا جاچکا ہے، ان کی حجت ان کے رب کے آگے بالکل پسپا ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جو لوگ خدا (کے بارے) میں بعد اس کے کہ اسے (مومنوں نے) مان لیا ہو جھگڑتے ہیں ان کے پروردگار کے نزدیک ان کا جھگڑا لغو ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اس کے بعد کہ (مخلوق) اسے مان چکی ان کی کٹ حجتی اللہ کے نزدیک باطل ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اللہ کی دعوت پر لبیک کہے جانے کے بعد جو لوگ (لبیک کہنے والوں سے) اللہ کے دین کے معاملہ میں جھگڑے کرتے ہیں، اُن کی حجت بازی اُن کے رب کے نزدیک باطل ہے“۔ (سید مودودی)

”اور وہ جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ مسلمان اس کی دعوت قبول کرچکے ہیں ان کی دلیل محض بے ثبات ہے ان کے رب کے پاس“۔ (احمد رضا خان)

اول الذکر تینوں ترجموں میں وہ غلطی موجود ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

(250)  یَنظُرُونَ مِن طَرفٍ خَفِیٍّ کا ترجمہ

درج ذیل آیت کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَتَرَاہُم یُعرَضُونَ عَلَیہَا خَاشِعِینَ مِنَ الذُّلِّ یَنظُرُونَ مِن طَرفٍ خَفِیٍّ۔ (الشوری:45)

”اور تم انہیں دیکھو گے کہ آگ پر پیش کیے جاتے ہیں ذلت سے دبے لچے چھپی نگاہوں دیکھتے ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”اور تم ان کو دیکھو گے کہ دوزخ کے سامنے لائے جائیں گے ذلت سے عاجزی کرتے ہوئے چھپی (اور نیچی) نگاہ سے دیکھ رہے ہوں گے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور تو انہیں دیکھے گا کہ وہ (جہنم کے) سامنے کھڑے کیے جائیں گے مارے ذلت کے جھکے جارہے ہوں گے اور کنکھیوں سے دیکھ رہے ہوں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور تم دیکھو گے کہ یہ جہنم کے سامنے جب لائے جائیں گے تو ذلت کے مارے جھکے جا رہے ہوں گے اور اُس کو نظر بچا بچا کر کن آنکھیوں سے دیکھیں گے“۔ (سید مودودی)

آخر الذکر ترجمے میں ایک محل نظر بات یہ ہے کہ یَنظُرُونَ کا ترجمہ’اس کو دیکھیں گے‘ کیا ہے،’اس کو‘کے لیے یہاں کوئی لفظ موجود نہیں ہے، یہا ں مطلق ’دیکھنے‘ کی بات ہے،’کسی خاص چیز کو دیکھنے‘ کی بات نہیں ہے۔ دوسری محل نظر بات یہ ہے کہ من طرف خفی کا ترجمہ’نظر بچا بچا کر کن آنکھیوں سے‘ کیا ہے۔ من طرف خفی کا مطلب’کن آنکھیوں سے‘ ہے۔ لیکن ’نظر بچا بچا کر‘کے لیے یہاں کوئی لفظ نہیں ہے۔

(251) مِن اَولِیَاء کا ترجمہ

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر من ولی (واحد کے صیغے میں) کہہ کر نفی کی گئی ہے۔ بعض مقامات پر مِن اَولِیَاء (جمع کے صیغے میں) کہہ کر نفی کی گئی ہے۔ دونوں اسلوبوں میں کچھ معنوی فرق ضرور ہے، اور ترجمے میں اس فرق کا اظہار ہونا چاہیے۔ درج ذیل تین مقامات میں سے پہلے دونوں مقامات پر ترجمہ کرتے ہوئے اس کی رعایت نہیں کی گئی ہے، جبکہ تیسرے مقام پر عام طور سے مترجمین نے اس کا لحاظ کرتے ہوئے ترجمہ کیا ہے، اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ تیسرے مقام پر آگے یَنصُرُونَہُم بھی آگیا ہے۔

(1) وَمَا کَانَ لَہُم مِّن دُونِ اللَّہِ مِن اَولِیَاء۔ (ہود:20)

”اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی مددگار ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور نہ اللہ کے مقابلہ میں کوئی ان کا حامی تھا“۔ (سید موددی)

”اور نہ ان کا کوئی حمایتی اللہ کے سوا ہوا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور نہ خدا کے سوا کوئی ان کا حمایتی ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور نہ اللہ سے جدا ان کے کوئی حمایتی“۔ (احمد رضا خاں)

(2) وَمَا لَکُم مِّن دُونِ اللَّہِ مِن اَولِیَاء۔ (ہود:113)

”اور تمہارے لیے اللہ کے سوا کوئی حامی نہیں“۔(امین احسن اصلاحی)

”اور خدا کے سوا تمہارے اور دوست نہیں ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اللہ کے سوا اور تمہارا مددگار نہ کھڑا ہو سکے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی حمایتی نہیں“۔ (احمد رضا خان)

”اور تمہیں کوئی ایسا ولی و سرپرست نہ ملے گا جو خدا سے تمہیں بچا سکے“۔ (سید مودودی)

آخر الذکر ترجمے میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ غیر ضروری ہے اور اس عموم کو متاثر کررہا ہے جو اس جملے میں پایا جاتا ہے۔ اسلوب کلام تو یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے کسی بھی طرح کے اولیاءہوں گے ہی نہیں۔

درست ترجمہ:

”اور اللہ کے سوا تمہارے اولیاءنہیں ہوں گے“۔

(3) وَمَا کَانَ لَہُم مِّن اَولِیَاءَ یَنصُرُونَہُم مِّن دُونِ اللَّہِ۔ (الشوری: 46)

”اور ان کے کوئی حامی و سرپرست نہ ہوں گے جو اللہ کے مقابلے میں ان کی مدد کو آئیں“۔ (سید مودودی)

”ان کے کوئی مددگار نہیں جو اللہ تعالیٰ سے الگ ان کی امداد کرسکیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور خدا کے سوا ان کے کوئی دوست نہ ہوں گے کہ خدا کے سوا ان کو مدد دے سکیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور وہاں ان کے اولیاءمیں سے کوئی بھی نہیں ہوگا جو خدا کے مقابل میں ان کی کوئی مدد کرسکے“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس آیت کا آخرالذکر ترجمہ درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ ان کے اولیاءمیں سے وہاں کوئی ان کی مدد کے لیے نہیں موجود ہوگا، گویا ان کے اولیاءہونے کا اثبات ہے، مگر ان میں سے کسی کے وہاں موجود ہونے کی نفی ہے۔ حالاں کہ وَمَا کَانَ لَہُم مِّن اَولِیَاءَ (ما نافیہ اور اس کے بعد من برائے استغراق) کا مفہوم یہ ہے کہ ان کے اولیاءہی نہیں ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں اولیاءہونے کی مکمل نفی کی گئی ہے۔

درست ترجمہ: ”اور وہاں ان کے اولیاءنہیں ہوں گے جو خدا کے مقابل میں ان کی کوئی مدد کرسکیں“۔

(252) ملجا اور نکیر کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں ملجا اور نکیر دونوں الفاظ کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔

استَجِیبُوا لِرَبِّکُم مِّن قَبلِ اَن یَاتِیَ یَوم لَّا مَرَدَّ لَہُ مِنَ اللَّہِ مَا لَکُم مِّن مَّلجَاٍ یَومَئِذٍ وَمَا لَکُم مِّن نَّکِیرٍ۔ (الشوری:47)

”مان لو اپنے رب کی بات قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹلنے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے اُس دن تمہارے لیے کوئی جائے پناہ نہ ہوگی اور نہ کوئی تمہارے حال کو بدلنے کی کوشش کرنے والا ہو گا“۔ (سید مودودی)

”اس دن تمہارے لیے نہ کوئی پناہ ہوگی اور نہ تو کسی چیز کو رد کرسکو گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اس دن تمہیں کوئی پناہ نہ ہوگی اور نہ تمہیں انکار کرتے بنے“۔ (احمد رضا خان)

”اس دن تمہارے لیے نہ کوئی جائے پناہ ہوگی اور نہ تم سے گناہوں کا انکار ہی بن پڑے گا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تمہیں اس روز نہ تو کوئی پناہ کی جگہ ملے گی نہ چھپ کر انجان بن جانے کی“۔ (محمد جوناگڑھی)

ملجا اسم ظرف ہے اور اس کا درست ترجمہ پناہ گاہ ہے نہ کہ صرف پناہ۔ جبکہ نکیر کا مطلب اظہار ناگواری ہے، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ اسی معنی میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس دن نہ تو بھاگ کر کہیں پناہ لے سکو گے، اور نہ اظہار ناگواری کے ساتھ سامنا کرسکو گے۔

زیر نظر جملے کا ترجمہ یوں ہوگا:

”اس دن تمہارے لیے نہ کوئی پناہ گاہ ہوگی اور نہ تمہارے لیے اظہار ناگواری کا موقعہ ہوگا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(253) وَلَولَا کَلِمَۃ سَبَقَت مِن رَّبِّکَ اِلَیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی کا ترجمہ

قرآن مجید میں چار مقامات پر وَلَولَا کَلِمَۃ سَبَقَت مِن رَّبِّکَ آیا ہے۔ جب کہ درج ذیل ایک مقام پر اِلَیٰ اَجَلٍ مُّسَمًّی کا اضافہ ہے:

وَلَولَا کَلِمَۃ سَبَقَت مِن رَّبِّکَ اِلَی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَینَہُم۔ (الشوری :14)

اس جملے کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے:

”اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک بات ایک معین مدت کے لیے طے نہ پاچکی ہوتی تو ان کے درمیان فورا فیصلہ کردیا جاتا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اگر تیرا رب پہلے ہی یہ نہ فرما چکا ہوتا کہ ایک وقت مقرر تک فیصلہ ملتوی رکھا جائے گا تو ان کا قضیہ چکا دیا گیا ہوتا“۔ (سید مودودی)

”اور اگر تمہارے رب کی ایک بات گزر نہ چکی ہوتی ایک مقرر میعاد تک تو کب کا ان میں فیصلہ کردیا ہوتا“۔ (احمد رضا خان)

”اور اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک وقت مقرر تک کے لیے بات نہ ٹھہر چکی ہوتی تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر آپ کے رب کی بات ایک وقت مقرر تک کے لیے پہلے ہی سے قرار پا گئی ہوئی نہ ہوتی تو یقینا ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا“۔ (محمد جوناگڑھی)

دراصل اس جملے میں اِلَی اَجَلٍ مُّسَمًّی،کَلِمۃ سَبَقَت مِن رَّبِّک کی غایت نہیں ہے، بلکہ کَلِمَۃ کی وضاحت ہے۔ یعنی متعین مدت تک کے لیے کسی بات کاطے پانا مراد نہیں ہے، بلکہ متعین مدت ہی وہ طے شدہ بات ہے۔ ترجمہ ہوگا:

”اور اگر تمہارے رب کی طرف سے ایک مدت معین کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو ان کا فیصلہ کردیا جاتا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

گویا جو بات باقی چار آیتوں میں کہی گئی ہے وہی بات یہاں بھی کہی گئی ہے، البتہ یہاں زیادہ وضاحت کے ساتھ کہی گئی ہے۔

مطالعہ جامع ترمذی (۱)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

محمد عمار خان ناصر / ڈاکٹر سید مطیع الرحمن

(جامع ترمذی کے اسلوب تصنیف اور مختلف احادیث کے مضمون کے حوالے سے سوالات و جوابات)

مطیع سید: صحاح ستہ امت میں بڑی مشہور ہوئیں،ان کو پہلے پڑھا جاتا ہے اور ان پر فوکس بھی کیا جاتا ہے ،حالانکہ ان سے پہلے بھی حدیث کی کتب لکھی گئیں۔ غالبا مسند احمد اور موطا امام محمد ان سے پہلے کی ہیں ۔ کیااہم خصوصیات تھی یا کیا ایسا معیار تھا  جس کی وجہ سے ان کو قبول عام  حاصل ہوا؟

عمار ناصر: صحاح ستہ کی دو چیزیں اہم  ہیں ۔ایک تو یقینی طور پر ان کا   معیار ِ صحت ہے، کیوں کہ ان تک آتے آتے تنقیح کا  کام کافی  ہو چکا تھا ۔پھر ان مصنفین نے کچھ اپنے بھی معیار ات وضع کیے  اور اس میں مہارت پیداکی۔ دوسرا پہلو حسن ِترتیب  ہے ۔اس میں ہر کتاب کی اپنی خصوصیات ہیں جس کی وجہ انہیں وہ قبول ِعام حاصل ہوا  جو باقی کو نہیں ہوا۔

مطیع سید: امام مالک کی موطا کو بہت شہرت ملی، لیکن موطا امام محمد کو وہ شہرت نہ مل سکی؟

عمار ناصر: اصل مو طا تو امام مالک ہی کی ہے ۔امام محمد کی موطا کو آپ دیکھ لیں ،اس کے بارےمیں بحث بھی ہے کہ  کیا یہ ان کی اپنی موطا ہے یا امام مالک کی موطا کا ایک نسخہ یا ایک روایت  ہے ۔اس میں بہت زیادہ روایتیں انہوں نے امام مالک سے لی ہیں۔کچھ روایتیں اپنی سند  سے بھی لی ہیں ۔ اس میں اصل حیثیت کی  بحث چلتی ہے ۔کچھ تو یہ کہتے  ہیں کہ یہ امام مالک کی موطاکی ہی ایک روایت ہے۔تاہم اس کے اندرونی جو شواہد ہیں، ان سے یہ لگتا ہے کہ انہوں نے اسے نسخے کی روایت کے طورپر مرتب نہیں کیا، بلکہ ایک مستقل تصنیف لکھی ہے۔جو روایتیں انھوں نے امام مالک  سے لی ہیں، وہ بھی اس میں شامل کی ہیں ،اپنی روایتیں بھی شامل کی ہیں اور اپنی فقہی آراء کے حوالے سے اس سارے مواد کو مرتب کیا ہے۔ بہرحال مدینہ میں مقیم ہونے اور ایک محدث کی حیثیت سے امام مالک کا جو مقام اور تعارف ہے، وہ ظاہر ہے امام محمد کا نہیں ہے،  اسی لیے  محدثین کی روایت میں موطا امام مالک ہی  توجہ کا مرکز رہی ہے۔

مطیع سید: جو روایات انھوں نے امام مالک سے لی ہیں، کیا وہ ان کو بعینہ لے لیتے ہیں یا پھر اس پر کوئی حکم  بھی لگا تے ہیں ؟

عمار ناصر: اگر  ان کا موقف  اس کے مطابق ہے تو ظاہر ہے، وہ اس کو لے لیتے ہیں۔کہیں وہ اس پر  تبصرہ بھی کرتے ہیں ،کہیں تعارض ہو تو اپنی ترجیح بیان کر دیتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں، بلکہ  اس روایت کو لیتے ہیں۔

مطیع سید: اسی طرح کتاب الآثار ہے ؟

عمار ناصر:  کتاب الآثار  کے نام سے امام ابویوسف نے بھی  اپنی مرویات مرتب کی ہیں اور امام محمد نے بھی۔  دونوں مجموعوں  میں  وہ مرویات ہیں جو ان حضرات نے کوفہ میں اپنے شیوخ سے نقل کی ہیں۔

مطیع سید: یعنی یہ امام ابو حنیفہ کی نہیں ہے ؟

عمار ناصر: زیادہ تر سند وں میں ان کا ذکر آتا ہے ۔اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ ان کی مرویات ہیں ، لیکن تصنیف بہرحال امام ابوحنیفہ کی نہیں ہے۔

مطیع سید: مسند امام اعظم  کے بارے میں کیارائے ہےکہ یہ ان کی ہے یا ان کی طرف صرف منسوب ہے ؟

عمار ناصر: ان کی اپنی مرتب کردہ تصنیف تو ظاہر ہے کہ نہیں ہے ۔ان کی مرویات ہیں جو مختلف لوگوں نے مختلف عنوان سے جمع  کی ہیں ۔ بعد میں خوارزمی نے ان سب کو جمع کر کے جامع المسانید بنادیا ۔ حال میں   امام ابوحنیفہ کی مرویات کو کتب حدیث سے جمع کر کے مرتب کرنے کے حوالے سے مزید بھی کئی علمی کوششیں کی گئی ہیں۔

مطیع سید: جامع الترمذی  میں ایک چیز بڑی خاص  ہے ،یعنی جو وہ حدیث پر حکم لگاتے ہیں حسن یا غریب ہونے کا۔ پھر اس کے    Combinations  تبدیل ہوتے رہتے  ہیں۔مثلا یہ حدیث حسن صحیح ہے، یہ  حسن ہے، یہ غریب ہے۔

عمار ناصر: یہ باقاعدہ ان کی اصطلاحات ہیں اور بعض اصطلاحات کا مفہوم متعین کرنے میں کافی اختلاف بھی ہے کہ ان سے ان کی مراد کیا ہوتی ہے۔یہ ایک مستقل بحث ہے ۔ ان میں سے بعض اصطلاحات کی انہوں نے کتاب العلل میں وضاحت کی ہے ۔

مطیع سید: کتاب العلل میں  انہوں نے صرف حسن اور  غریب کا ذکر کیا ہے ۔اس Combination کا ذکر نہیں کیا ۔

عمار ناصر: ترمذی  کے شارحین  مقدمے میں ان چیزوں  کی وضاحت کرتے ہیں۔ کسی حد تک ابن حجر نے شرح نخبۃ الفکر میں بھی وضاحت کی ہے ۔حسن امام ترمذی  کے ہاں خاص چیز ہے ۔حسن سے کیا مراد ہے، وہ کس کے ساتھ جمع ہوتی ہے، کس کے ساتھ  نہیں ،اس میں کچھ بحثیں بھی ہیں ۔ بہتر ہے کہ کسی اچھی شرح کو دیکھ لیا جائے،اس کے مقدمے میں انہوں نے اس پر بحث کی ہوتی ہے ۔

مطیع سید: جو غریب حدیث لاتے ہیں، تو کیا اس سے استدلال کیا جاسکتاہے ؟

عمار ناصر: ان کی اصطلاح کے لحاظ سے غریب، ضعف کے در جے میں نہیں ۔ غریب  وہ روایت ہے جو ایک ہی سند سے مروی ہو، کسی اور سند سے  مروی نہ ہو۔تو غریب صحت کے منافی نہیں ہے ۔

مطیع سید: کچھ روایات ہیں، کافی کم، جن کے آگے انہوں نے منکر بھی لکھا ہے ۔

عمار ناصر: وہ صحت کے منافی ہیں ۔

مطیع سید: تو پھر کیوں ایک محدث ایک روایت  نقل کر دیتاہے جبکہ اسے پتہ بھی ہے کہ یہ منکر ہے ؟

عمار ناصر: روایت نقل کرکے ساتھ اس کا حکم بیان کر دینا بھی تو ایک کام ہے ،یعنی اس موضوع سے متعلق یہ روایت موجود ہے، لیکن اس کا درجہ یہ ہے ۔

مطیع سید: کیا یہ بھی ان کے ذہن میں ہو سکتا ہے کہ ہم تک تو یہ ضعیف پہنچی ہے ،شاید اس کا کوئی اور طریق بھی موجود ہو؟

عمار ناصر: ظاہر ہے ۔یہی تو ہمارے محدثین کی خوبی ہے  کہ انہوں نے جو بھی مواد ہم تک پہنچا یا ہے، وہ چھانٹ کر  اور باقی کو دریا بر د کر کے آپ کو صرف نتیجہ نہیں دے دیا بلکہ مواد کو بھی محفوظ کیا ہے ۔

مطیع سید: جس روایت کے بارے میں انہوں نے کوئی حکم نہیں لگایا، اس کو کیا سمجھیں گے؟

عمار ناصر: اس پر بھی بحث آپ کو کسی شرح کے مقدمے میں مل جائے گی کہ ما سکت عنہ الترمذی، اس کا حکم  کیا ہے ۔مجھے اس وقت بحث مستحضر نہیں ہے ۔

مطیع سید: امام ابو حنیفہ کا نام پوری کتاب (جامع ترمذی) میں کہیں نظر نہیں آیا ۔

عمار ناصر: کہیں کہیں انہوں نے قسم توڑ ی ہے  (مثلا کتاب الطہارۃ میں جرابوں پر مسح کی بحث میں)۔ امام ابوحنیفہ کے بارے میں محدثین کی رائے  اچھی نہیں ہے۔

مطیع سید: امام اوزاعی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے وقت کے بہت بڑے امام تھے، لیکن ان کو ان شاگردوں نے ضائع کر دیا ۔اس سے کیا مراد ہے؟ کیا ان کو اچھے شاگرد نہیں مل سکے؟

عمار ناصر: ہمارے جو معروف ائمہ فقہاء ہیں، ان میں امام شافعی خود مصنف ہیں ۔امام احمد نے حدیثیں جمع کر دیں، لیکن اپنی علمی و فقہی آراء انہوں نے خود نہیں لکھیں ،ان کے شاگر دوں نے لکھیں ۔  امام مالک نے خود بھی کتاب لکھی ہے اور ان کے شاگردوں نے بھی مسائل جمع کیے ہیں۔امام اوزاعی خود مصنف نہیں ہیں۔ بظاہر ان کے کسی شاگرد نےبھی ان کی آراء کو محفو ظ نہیں کیا۔جیسے امام محمد کو دیکھیں کہ انہوں نے بڑا کا م کیا ،امام ابو حنیفہ کا سارا علم محفو ظ کر دیا۔ تو اس جملے کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ کوئی ایسے شاگر د جو امام اوزاعی کے علم کو محفوظ کرتے ، وہ میسر نہیں آسکے۔

مطیع سید: حدیث مرسل سےاستنباط کیا جا سکتاہے؟

عمار ناصر: امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے ہاں ذرا توسع ہے ، وہ استنباط کر لیتے ہیں ۔امام شافعی وغیرہ کے ہاں کچھ مزید شرائط لگائی جاتی ہیں، مثلا یہ کہ دو تین طرق سے وہ روایت ہو یا بعض ایسے تابعین راوی ہوں جن کی ثقاہت ثابت ہے، ورنہ نہیں ۔

مطیع سید: آپ اپنی کتاب براہین میں ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وہ مر سل ہے، اس لیے اس سے استنباط نہیں کیا جا سکتا۔

عمار ناصر: نہیں، وہ محض مر سل ہونے کی وجہ سے نہیں ہوگا۔ دیکھنا پڑے گا کہ اس کی مزید کیا وجہ ہے ۔

مطیع سید: عموما یہی کہا جاتا ہے کہ مر سل سے لو گ استنباط کر تے تھے ،امام شافعی نے آکر کہا کہ اسے ہم ایسے ہی  قبول نہیں کریں گے ۔

عمار ناصر: یہ صحیح ہے ۔طبر ی نے لکھا ہے کہ دو سو سال تک علما مر سل روایت کر تے رہے۔ امام شافعی نے آکر پہلی دفعہ یہ بحث اٹھائی۔لیکن امام شافعی کی بات غلط نہیں ہے ۔دیکھیں، پہلے دور میں لوگ بعض دفعہ سند نہیں پوچھتے تھے، ایک اعتماد کا ماحول تھا ۔پھر جب  بداعتمادی ہونے لگی تو زیادہ اہتمام سے سند کی تحقیق کی ضرورت پیش آئی ۔تو اس اعتماد کے دور میں تابعی نے اگر بات کی ہے اور راوی  قابل اعتماد ہے تو روایت قبول کی جا رہی ہے۔امام شافعی نے دیکھا کہ اعتماد کے ماحول میں کئی ایسی چیزیں بھی نقل ہو  رہی ہیں جو تحقیق کر کے دیکھیں تو اوپر تک نہیں پہنچتیں۔ تب انہوں  نے یہ مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ نہیں، اتصال سند کی ہمیں تحقیق کرنی چاہیے ۔

مطیع سید: امام شافعی کی فقہ کو دیکھیں تو محدثین انہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ جتنے بڑے محدث کو دیکھیں گے تو وہ شافعی ہوگا ۔

عمار ناصر: اس پر بعض محدثین کا بڑا دلچسپ تبصرہ ہے کہ امام شافعی نے آکر محدثین کی پوزیشن کو ذرا مضبو ط کیا۔ محدثین کو تو سند یں اور روایتیں آتی تھیں ،لیکن جو علمِ مجادلہ تھا وہ ان میں نہیں تھا ۔اہل کوفہ اس میں تیز تھے اور بحث مباحثہ میں بازی  لےجاتے تھے۔امام شافعی نے آکر توازن قائم کیا  اور انہیں سکھایا کہ  اس طرح علمی مجادلہ کیا جاتا ہے۔

مطیع سید:  یہاں پر ایک اور چیز میر ے ذہن میں پیداہوتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحاح ستہ  کی کافی احادیث احناف کے موقف کے خلاف ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ حدیثیں بعد میں مدون ہوئیں،اس سے پہلے جو روایتیں فقہاء تک پہنچی  تھیں، انھوں نے اسی کے مطابق رائے قائم کی ۔ لیکن امام شافعی کے پاس احادیث کہاں سے آگئیں ؟ امام شافعی 150 ھ میں پیداہوتے ہیں، امام شافعی کا محدثین کے ساتھ اختلاف بہت کم ہےحالانکہ دور کا اتنا اختلاف بھی نہیں ۔

عمار ناصر: امام ابو حنیفہ  کا اعتنا بنیادی طور پر علمِ حدیث کےجمع اور استقصا سے نہیں تھا۔وہ کوفہ میں تھے  اور وہیں رہے اور اپنے اساتذہ کے توسط سے کو فے میں جو ذخیرہ پہنچا ہوا تھا، بنیادی  طور پر ان کا انحصار اس پر ہے  ۔اس لیے آپ دیکھیں گے کہ جب امام محمد سفر کرکے مدینہ جاتے ہیں تو بہت  سے معاملات میں اپنی رائے بدل لیتے ہیں۔امام شافعی نے تو باقاعدہ سارے مراکزِ علم گھومے ہیں۔امام محمد سے استفادہ کیا ،امام مالک سے استفادہ کیا اور انہوں نے بڑی محنت سےان دونوں علموں کو جمع کیا ۔اُدھر سے فقہ سیکھی، اِدھر سے روایتیں لیں اور اس طرح حدیث اور رائے کا امتزاج تیار کیا۔اس لیے ان کے ہاں اس کی مثالیں نسبتا بہت کم ہیں کہ ان تک روایت نہ پہنچی  ہو۔

مطیع سید: کیا یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ احناف کی فقہ کا انداز ہی یہی ہے کہ وہ ہر صحیح حدیث کو  لازما قبول نہیں کرتے، جیسا کہ امام مالک بھی اہل مدینہ کے عمل کو احادیث پر ترجیح دیتے ہیں ؟

عمار ناصر: احناف کے ہاں یقینا یہ عنصرہے، لیکن  غور کرنے سے یہ  اتنا زیادہ فیصلہ کن نہیں لگتا ۔یہ جو منہج کا اختلاف ہے  یا جو  فقہی نتائج کا اختلاف ہے، اس میں یہ عنصر مجھے کم لگتا ہے ۔ محدثین کے ہاں  جو اصولی موقف ہے، وہ بڑے مضبوط طریقے سے احناف کے ہاں بھی موجود ہے کہ اثر آگیا ہے یا حدیث آگئی ہے تو قیاس کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔یہ اصولا بھی ان کے ہاں واضح ہے اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں۔اصل میں جہاں فرق پڑتا ہے، وہ یہی ہے کہ ذخیرہ روایت اس طرح سے  پوری تنقیح کے ساتھ ان کے ہاں نہیں پہنچا ۔ جب نہیں پہنچا تو پھر جتنا ذخیرہ پہنچا،  اس میں انھوں نے تعامل، قیاس اور آثار صحابہ وغیرہ کی روشنی میں  ایک معیار بنایا کہ ہم اس  طر ح کی روایت لیں گے اور اس طر ح کی  نہیں لیں گے ۔یہ ظاہر ہے کہ ان کا حق ہے۔جس  صورت حال میں وہ کھڑے ہیں، اس میں انہوں نے اپنے لیے  احتیاط  پر مبنی ایک طریقہ اختیار کیا ہے ۔ورنہ میرے خیال میں  جس طرح ساری روایتیں بعد کے ادوار میں اہل علم تک زیادہ منقح ہو کر  پہنچی ہیں ،ان تک بھی پہنچ جاتیں تو اختلاف بہت کم  رہ جاتا ۔

مطیع سید: امام شافعی 150 ھ میں پیدا ہوئے  اور 200 ھ تک ان کی ایک فقہ ہے ۔پھر 200 ھ سے 204 ھ تک ان کی ایک نئی فقہ مرتب ہوئی ۔ ان کے قولِ جدید اور قولِ قدیم پر مبنی بہت سے اختلافات ہیں۔اس کا سبب کیا تھا ؟

عمار ناصر: بنیادی سبب تو یہی ہے کہ انہوں نے پہلے اپنے علاقے میں بیٹھ کر آرا ء قائم کیں۔ اس کے بعد ان کے علمی اسفار شروع ہو تے ہیں ۔پھر جب آخری عمر میں وہ مصر پہنچتے ہیں تو اس سارے غور وفکر پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ اپنے علمی سفر میں انہوں نے بہت سی چیزیں سیکھی ہیں ۔

مطیع سید: یہاں ایک بڑا اہم سوال پیداہوتا ہے کہ فقہ کی جہاں بحثیں ہوتی ہیں، وہاں اما م ترمذی اپنی جامع میں ائمہ کا ذکرکرتے ہیں،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سب کا ذکر کرتے ہیں لیکن امام جعفرکا کہیں بھی ذکر نہیں کرتے۔فقہ جعفری پوری مدون ہمارے سامنے موجود ہے۔اور امام جعفر امام ترمذی سے پہلے گزر چکے ہیں بلکہ امام ابو حنیفہ کے اساتذہ میں ان کا شمار ہوتاہے۔ان کا کہیں کوئی قول درج نہیں اور اہل بیت کی روایات بہت ہی کم ہیں ۔

عمار ناصر: اس کے اسباب سیاسی ہیں ۔اصل میں ائمہ اہل بیت کو شروع سے ہی جس گروہ نے گھیر لیا، اس نے انہیں  اہل سنت کے مرکزی دھارےسے ہٹا دیا ۔ اس سے رویہ بدل جاتا ہے ۔آپ دیکھیں گے کہ اس گروہ نے ملاوٹ بھی بڑی کی ہے لیکن ان ائمہ کے اقوال کو بنیادی طور پر محفوظ بھی انہوں نے ہی کیا ہے ۔

مطیع سید: جی انہوں نے ہی محفوظ کیا اور پوری فقہ مدون کی ۔ آپ نے اپنی کتاب " حدودوتعزیرات " میں اس کا ذکر بھی کیاہے ۔

عمار ناصر: اس لیے ان کا شروع سے ہی ایک الگ سیاسی تشخص بھی بن گیا اور الگ علمی تشخص بھی بن گیا ۔

مطیع سید: ائمہ اہل بیت کو اس بات کا احسا س تھا ؟

عمار ناصر: ظاہرہے، ائمہ اہلِ بیت کو احسا س تو تھا ،لیکن اس وقت بنیادی طورپر کشمکش سیاسی تھی جس میں تھوڑا سا مذہبی  عنصر شامل ہونا شروع ہوگیا تھا ۔شاید اس طرح علمی طور پر الگ مکتبہ فکر  امام جعفر تک نہیں بناتھا ۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے تو امام ترمذی روایت لیتے ہیں تو کیا اس گروہ نے حضرت علی کو نہیں گھیرا تھا؟

عمار ناصر: حضرت علی تک یہ صورتحال نہیں تھی ۔حضرت حسن اور حضرت حسین تک بھی نہیں تھی۔لیکن مثلا امام زید بن علی بہت بڑے امام ہیں ۔ان کے ساتھ بھی جو گروہ وابستہ ہوا، اس نے ان کا الگ تشخص بنا دیا ۔

مطیع سید: تو اس وجہ سے امام ترمذی نے ان سے کوئی چیز نہیں لی ۔

عمار ناصر: بظاہر، ایسے ہی لگتا ہے ۔

مطیع سید: یہ صورتحال تو اب بھی ایسی ہے کہ ہم ان کے ایک الگ گروہ ہونے کی وجہ سے ان کی بہت سی چیزوں سے استفادہ نہیں کرتے۔

عمار ناصر: جی بالکل ۔

مطیع سید: منی کو خشک ہو جانے کے بعد کپڑے سے کھر چ دینے سے متعلق جو روایت آتی ہے  (جامع الترمذی،  کتاب الطہارۃ، باب فی المنی یصب الثوب، حدیث نمبر ۱۱۶) میرے خیال سے تو اس طر ح کپڑا صاف نہیں ہوتا ،کیوں کہ وہ اس میں جذب ہوئی ہوتی ہے، لیکن روایت میں ہے  کہ کھر چ لی جائے تو ٹھیک ہے۔

عمار ناصر: بس ٹھیک ہے، یہی  کفایت کرے گا ۔خشک ہو گئی تو جب اسے کھرچ دیں گے تو اس کے اوپر جو تہہ ہے، وہ اتر جائے گی اور جو اندر جذب ہو گئی تھی، وہ بھی کسی حد تک  زائل ہو جائے گی،تو اس کو کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ طہارت کے باب میں آپ کو احادیث  میں جو  عمومی رویہ نظر آئے گا ،وہ یسر اور آسانی کا ہے ۔

مطیع سید: میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اس دور میں یہ گاڑھی ہوا کرتی تھی اور اب چونکہ پتلی ہوتی ہے ، اس لیے  اسے دھونا ضروری ہے ۔

عمار ناصر: یہ بعد میں جو ایک تکنیکی فقہی ذہن بنا ہے، وہ اس طرح کی تاویل کرتا ہے۔ ہمارے ایک استاذ بھی یہی کہا کرتے تھے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ  گاڑھی ہو یا پتلی، جو کپڑے کے اندر جذب ہو گئی ہے، وہ تو وہیں ہے۔ اسی سے پھر وہ بحث بھی پیداہوجاتی ہے کہ کیا منی نجس ہے؟ کیوں کہ بہت سے صحابہ اور امام شافعی کہتے ہیں کہ نجس نہیں ہے ، صرف نظافت کے پہلو سے اس کو  زائل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

مطیع سید: جرابو ں پر مسح کے حوالے سے فقہا نے جو شرائط عائد کی ہیں، وہ کس بنیاد پر عا ئد کی ہیں ؟

عمار ناصر: جرابوں پر مسح کے بارے میں بظاہر فقہا کے دور میں آکر ہی بحث پیداہوئی ہے۔ صحابہ کے ہاں تو آپ کو روایتیں مل جائیں گی۔نبی ﷺ کے متعلق جو جرابوں پر مسح کی روایت امام ترمذی نے نقل کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے (کتاب الطہارۃ، باب فی المسح علی الجوربین والنعلین، حدیث نمبر ۹۹) اس پر کافی بحث ہے۔ وہ روایت شاید اتنی معیاری نہیں ہے ۔البتہ صحابہ کے ہاں آثار مل جاتے ہیں ۔فقہا نے بعد میں احتیاط کے پہلو سے یہ موقف اختیار کیا کہ چونکہ ہم نے پاؤں دھونے کے بجائے موزوں  پر  مسح کی ایک رخصت پہلے ہی لے لی ہے، اس لیے اب موزوں سے آگے اس رخصت کو جرابوں تک وسیع نہیں کرنا چاہیے۔

مطیع سید: یہ جو ہمارے ہاں جرابیں ہیں ،ان پر مسح ٹھیک ہے ؟

عمار ناصر: میں ذاتی طور پر تو کر لیتا ہوں ۔

مطیع سید: ایک صحابی نے ایک موقع پر یہ کلمات کہے: حمدًا کثیرًا طیبًا مبارکًا فیہ۔آپ ﷺ نے بڑے پسند فرمائے ۔(کتاب مواقیت الصلاۃ،  باب ما جاء فی الرجل یعطس فی الصلاۃ، حدیث نمبر  ۴٠۴) یہ ایک وقتی سی بات تھی، لیکن اب ہم نے اسے نماز میں شامل ہی کر لیا ہے۔

عمار ناصر:  ترمذی کی روایت میں  یہ واقعہ اس طرح آیا ہے کہ اس صحابی کو چھینک آئی تھی جس پر انھوں نے یہ کلمات کہے۔ البتہ حدیث کی دیگر کتابوں میں     ہے کہ صحابی نے رکوع سے اٹھنے پر  سمع اللہ لمن حمدہ کے جواب میں یہ کلمات کہے تھے۔ بہرحال، رسول اللہ ﷺ نے یہ کلمات اگرچہ مقرر نہیں فرمائے لیکن پسند تو کیے ہیں۔ تو آپﷺ کی پسند سے  اگر ہم اسے اپنے معمول کا حصہ بنا لیں تو یہ صحیح  ہے ۔

مطیع سید: سورۃ النجم میں سجدے کا جو واقعہ پیش آیا ، وہ مکی دور کا ہے ۔  جن و انس  اور مسلمانوں اور مشرکوں، سب نے سجدہ کیا ۔ (ابواب السفر، باب ما جاء فی السجدۃ فی النجم، حدیث نمبر ۵۷۵) کیا کیفیت تھی، یہ کس موقع پر ہوا ؟  پھر یہ بھی ملتا ہے کہ  ایک بوڑھے نے سجدہ نہیں کیا اور اس نے مٹی اٹھا کر اپنی پیشانی پر لگا دی کہ یہی کافی ہے۔کیا وجہ تھی، کیا یہ منافق تھا؟منافقین تو مکی دور  میں نظر نہیں آتے ۔

عمار ناصر: تفصیل تو ظاہر ہے ،اس میں بیان نہیں ہوئی ۔ بظاہر ایسے لگتا ہے کہ کسی مشترک مجلس میں یہ آیت پڑھی گئی اور سب لوگ سجدے میں شریک ہو گئے ۔   اس موقع پر جو  وہاں جنات ہوں گے، انہوں نے بھی سجدہ کردیا اور جو مشرک وہاں موجود تھے ،ظاہر ہے اللہ کو تو وہ مانتے تھے ،تو یہ سوچ کر  کہ اللہ کو سجدہ کرنے کی بات ہو رہی ہے ، انہوں نے بھی کردیا  مگر ایک بوڑھے نے نہ کیا ۔ اصل میں اس وقت ایک مخلوط ماحول تھا ۔ مکے میں مخلوط ماحول تھا، مدینے میں بھی مخلوط ماحول تھا ۔ آج شاید اس طرح کے ماحول کا تصور کرنا ذرا مشکل ہے ۔

مطیع سید: لیکن منافقت کے آثار ہمیں مکے میں نہیں ملتے ۔

عمار ناصر: مکے میں منافقت کے آثار موجود تھے۔قرآن نے اس کا ذکر کیا ہے ۔ نفاق ایک رویے کا نام ہے، وہ مکے میں بھی تھا ، مکی سورتوں میں بھی اس کا ذکر ہے ۔ سورۃ العنکبوت آپ پڑھیں ۔ سورۃ عنکبوت کا پہلا رکوع سارا اسی کا بیان ہے۔ کچھ لوگ ایمان تو لے آئے ہیں اور سمجھ تو گئے ہیں کہ یہ حق ہے، لیکن اس میں جو آزمائش کے لئے  تیار ہونا ہے، وہ نہیں کر پا رہے،فورا گھبرا جاتے ہیں ۔ ان کو بھی قرآن نے منافقین ہی قرار دیا ہے ۔

مطیع سید: ایک اعرابی کی چاند دیکھنے کی گواہی پر آپ ﷺ نے رمضان کے روزے شروع فر مادیے ۔ (کتاب الصوم، باب ما جاء فی الصوم بالشہادۃ، حدیث نمبر ۶۹۱) فقہاء تو ایک شخص کی گواہی کو  نہیں مانتے ۔

عمار ناصر: وہ بعض حالتوں میں مانتے ہیں ، لیکن عام حالات میں نہیں مانتے۔ فقہا کا موقف بھی ٹھیک ہے ۔اصل میں  جواس طرح کا اکیلاواقعہ ہوتا ہے، اس سے کوئی کلی قاعدہ اخذ نہیں کیا جاسکتا ۔فقہائے احناف کے ہاں قبول شہادت کی مختلف شکلیں ہیں اور وہ  Common Sense( فہم عامہ)پر پورا اترتی ہیں ۔ مثلا اگر تو ایسا ہے کہ مطلع صاف ہے اور سب لوگ دیکھ سکتے ہیں ،پھر تو زیادہ لوگوں کی گواہی ہونی چا ہیے ۔ہاں اگر مطلع ابر آلود ہے یا اس طرح کی کوئی صور تحال ہے تو پھر ایک آدمی بھی اگر دیکھ  لے اور وہ قا بل اعتماد ہو اور قرائن بھی ہو ں کہ ہاں یہ ہو سکتا ہے تو اس کی گواہی قبول کی جاسکتی ہے ۔

مطیع سید: یہ جوشعبان کی  پند رھویں شب  کی فضیلت کی روایت ہے،امام بخاری نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (کتاب الصوم،  باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان، حدیث نمبر ۷۳۹)

عمار ناصر: پندھوریں شب کی  فضیلت سے متعلق مختلف روایتیں ہیں اور  انفرادا َ ان میں ضعف ہے ۔بعض میں زیادہ ہے، بعض میں  کچھ کم ہے ۔اس صورت میں  پھر ظاہر  ہے، محدث کے لیے گنجائش پیدا ہو جاتی ہے ۔مجھے ایسے یاد پڑتا ہے کہ شاید  علامہ البانی وغیرہ  نے مجموعے کے لحاظ سے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔

مطیع سید: انفرادی سطح پہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ جو اجتماع کی شکل میں عبادات کی جاتی ہیں؟

عمار ناصر: وہ تو ایک فقہی مسئلہ  ہو گیا کہ نوافل کے لیے اس  طرح کا اگر اہتمام کیا جائے تو  اس کا کیا حکم ہے۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے ہجرت سے پہلے بھی حج  کیا تھا ؟

عمار ناصر:کیے ہوں گے، لیکن ان کا کوئی خاص ذکر نہیں ملتا ۔آپ جب ہر سال حج کے موسم میں قبائل کے پاس جاتے تھے تو  حج بھی کرتے ہو ں گے ۔

مطیع سید: حضرت عمر حج تمتع سے کیوں منع فرماتے تھے ؟(کتاب الحج، باب ما جاء فی التمتع، حدیث نمبر  ۸۲۳، ۸۲۴) آپ ﷺ نے تو حجۃ الوداع کے سفر میں واضح طور پر اس کا حکم دیا تھا۔ پھر حضرت عمر کیوں منع فرماتے تھے ، کیا  وجہ تھی ؟

عمار ناصر: اصل میں آپﷺ نے حجۃ الوداع میں ایک خاص مصلحت کےتحت یا خاص ضرورت کے تحت لوگوں کو  ہدایت فرمائی کہ وہ  عمرے کی نیت کر لیں اور عمرہ کر کے احرام کھول لیں۔ مقصد اس تصور کی اصلاح کرنا تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کیا جا سکتا۔  لوگوں کے ہاں یہ  تصور تھا کہ حج میں آپ آئے ہیں تو عبادت  مکمل کر نے  تک آپ احرام کی پابندیوں پر قائم رہیں، یہ تقویٰ اور نیکی کے زیادہ قریب ہے۔ اگر آپ تمتع کر لیتے ہیں اور احرام سے نکل آتے ہیں تو اس دوران آپ ظاہر ہے کہ پابندیوں سے نکل جائیں گے اور مباحات سے فائدہ بھی اٹھا سکیں گے۔ حضرت عمر  کا اس سے منع کرنا کچھ دوسرے پہلووں سے ہو سکتا ہے۔ مثلا ایک پہلو تو ان کے ذہن میں یہ ہو سکتا ہے کہ  ایک عبادت کے لیے ایک ہی سفر ہو نا چاہیے  اور دوسری عبادت کے لیے الگ سفر کیا جائے ۔ اگر تفصیلا روایتوں کو دیکھا جائے تو شاید بات  زیادہ واضح ہو سکے  گی۔

مطیع سید: بجو تو بظا ہر درندوں میں لگتا ہے، لیکن آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک شکار ہے، یعنی اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔(کتاب الحج،  باب ما جاء فی الضبع یصیبہ المحرم، حدیث نمبر ۸۵۱) احناف اس کو حرام  کہتے ہیں ۔

عمار ناصر: اصل میں یہ جو جانور ہیں، ان میں حلال اور حرام کے درمیان ایک کیٹگری ہے جس  میں اشتباہ رہتا ہے۔ اگر درندہ  آپ ان  معنوں میں لیں کہ وہ باقاعدہ کسی پر حملہ کرےتو بجو یہ نہیں کرتا ۔اور اگر آپ اس  کی گوشت خوری کو دیکھیں تو  درندہ لگتا ہے ۔اس لحاظ سے وہ ایک مشتبہ زمرےمیں آجاتا ہے ۔اس پہلو سے احناف نے شاید اس کی ظاہری ہیئت  کو دیکھ کر حرام قرار دیا ہے اور وہ ایک اور حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں جو سند کے لحاظ سے نسبتا کمزور ہے۔

مطیع سید: لیکن یہاں وہی اعتراض بن رہا ہےکہ احناف صحیح حدیث کو چھوڑ رہے ہیں ۔

عمار ناصر: ظاہر ہے، وہ اس حدیث  کی کوئی توجیہ کرتے ہوں گے ۔ اجتہادی مسائل میں تحقیق و  تاویل کی بڑی گنجائش ہو تی ہے ۔

مطیع سید: ٹڈیوں کے بارے میں صحابہ نے کہا کہ ہم نے لاٹھیوں سے ما را تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ کھاؤ ، یہ سمندر کا شکار ہے ، (کتاب الحج، باب ما جاء فی صید البحر للمحرم، حدیث نمبر  ۸۵٠) حالانکہ ٹڈی تو سمندر کا شکار نہیں ہے ۔ کیا مراد تھی رسول اللہ ﷺ کی؟

عمار ناصر: صید البحر کہہ کر  اصل میں اشارہ اس طرف ہے کہ اس کا حکم وہی ہے جو دریا کے شکار کا ہے۔ یعنی جس طرح  پانی کے جانور کو ذبح کر کے ان کا خون نہیں نکالنا پڑتا، اسی طرح ٹڈی کو بھی ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ویسے ہی حلال ہے۔

مطیع سید: حدیث میں نماز کے مکروہ اوقات کا بڑے اہتمام سے ذکر آیا ہے۔ (کتاب مواقیت الصلاۃ،  باب ما جاء فی کراہیۃ الصلاۃ بعد العصر  وبعد الفجر، حدیث نمبر ۱۸۳) کہا جاتا ہے کہ ان اوقات سے اس لیے منع کیا گیا کہ ان میں سورج کی پوجا ہوتی ہے،حالانکہ جزیرہ عرب میں عام طور پر سورج کی پوجا نہیں ہوتی تھی ۔

عمار ناصر: ذکر تو نہیں ملتا لیکن مجوسیوں کے ہاں ممکن ہے، سورج پرستی بھی ہو۔اسی طرح صابیوں کا ذکر ملتا ہے کہ وہ کواکب پرست تھے۔ روایات میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور کا ایک واقعہ ملتا ہے کہ  کچھ ایسے لوگ پکڑے گئے تھے جو سورج کی پوجا کرتے تھے ۔ بعض دفعہ اگرچہ ایسا کوئی گروہ بالفعل موجود نہیں ہوتا، لیکن ایک تصور لوگوں کے سامنے ہوتا ہے کہ سورج کے ساتھ  بھی  عبادت کا تصور وابستہ  ہے ۔وہ تصور بھی بعض دفعہ بنیاد بن جاتا ہے کہ اس سے منع کر دیاجائے ۔

مطیع سید: یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیوں کہ یہ عالمی دین تھا اور اسے دیگر تہذیبو ں سے بھی واسطہ پڑناتھا، اس لیے بھی اس تصور کی نفی کردی گئی ؟

عمار ناصر: کہہ سکتے ہیں، اگر چہ زیادہ تر احادیث میں جو فوری تناظر  ہوتا ہے، اسی میں بات کہی جا رہی ہوتی ہے ۔ تاہم شارحین بعض اوقات انہیں ذرا وسیع تناظر میں بھی دیکھ لیتے ہیں۔

مطیع سید: حجۃ الوداع کے سفر میں آپ ﷺ اپنے ٹھکانے سے تشریف لے گئے تو خوش تھے، واپس آئے تو غمگین تھے ۔حضرت عائشہ نے وجہ پوچھی تو آپﷺ نے فرمایا کہ کاش میں کعبے میں داخل نہ ہوتا ،میں نے امت کو تکلیف میں ڈال دیا ۔ (کتاب الحج، باب ما جاء فی دخول الکعبۃ، حدیث نمبر ۸۷۳)

عمار ناصر: اس لیے کہ اب لوگ بھی یہ اہتمام کر یں گے کہ وہ کعبے کے اندر جائیں اور ظاہر ہے کہ ایسا ہر ایک کے لیے ممکن  نہیں ۔

مطیع سید: قربانی کا جانور ہدی جو حاجی ساتھ لے کر جاتے تھے، وہ اگر راستے میں مرنے کے قریب ہو تو اس کے متعلق کہا گیا کہ اسے ذبح کر دیں اور لوگوں کے لیے چھوڑ دیں، خود اس میں سے نہ کھائیں ۔(کتاب الحج، باب ما جاء اذا عطب الہدی ما یصنع بہ، حدیث نمبر ۹۱٠)کیا وجہ ہے ؟ قربانی ہے تو پھر آدمی خود کیوں نہیں کھا سکتا ؟

عمار ناصر: اس کیفیت میں تو وہ صدقہ بن گئی  اور صدقہ آدمی کو خود نہیں کھانا چاہیے۔اگر آپ وہاں جا کر  جانور کوذبح کریں، پھر تو  وہ قربانی ہے ۔لیکن راستے میں اگر جانور کو ذبح کرنا پڑے تو گویا آپ نے اسے صدقے کی حیثیت سے چھوڑ دیا ہے ۔

مطیع سید: حج کے اعمال میں جو تقدیم و تاخیر ہو جاتی ہے، اس پر فقہا دم کو واجب کہتے ہیں، لیکن آپﷺ تو حجۃ الوداع میں ہر ایک کو لاحرج لاحرج فرماتےجا رہے ہیں ۔(کتاب الحج، باب ما جاء فی من حلق قبل ان یذبح، حدیث نمبر ۹۱۶)پھر فقہا نے دم کا وجوب کہاں سے اخذکیاہے  ؟

عمار ناصر: احناف کے ہاں اس معاملے میں زیادہ سختی ہے ۔ ایک تو وہ بعض دوسرے قرائن سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ یہ ترتیب مقصود ہے اور اہم ہے ، اس کو ملحوظ رکھنالازم ہے ۔جب لازم ہے تو اس کو خراب کرنے  پر دم آنا چاہیے۔ دوسرے یہ  کہ چونکہ تعلیم کا موقع تھا اور آپ ﷺ لوگوں کو حج کے مسائل واحکام سکھا رہےتھے ،اس لیے اس ابتدائی مرحلے پر آپﷺ لوگوں  کو تھوڑی رعایت دے رہے تھے تاکہ لوگ تنگی میں نہ پڑیں ۔

مطیع سید: النعی  یعنی موت کا اعلان کر نے سے آپﷺ نے منع کیا ہے ۔ (کتاب الجنائز، باب ما جاء فی کراہیۃ النعی، حدیث نمبر ۹۸۴)مجھے لگ رہا ہے کہ اس کا کوئی خاص پس منظرتھا ،ورنہ کسی کی موت کا اعلان کرنے میں کیا حرج ہے ؟

عمار ناصر: ہاں، وہ ایک خاص طریقہ تھا جس میں واویلا کرنا ،گریبان پھاڑنا ، سر پیٹنا شامل تھا اور خاص طریقے سے بین کرکے لوگوں کو کسی کی موت کی اطلاع دی جاتی تھی ۔ اس سے منع کیا کیا گیا ہے۔   عام طریقے سے موت کی اطلاع دینا، ظاہر ہے منع نہیں ہے۔

مطیع سید: آج کے ہمارے اعلان سے تو اس سے بالکل مختلف ہیں ۔

عمار ناصر: ہاں یہ تو اطلاع ہیں ۔اطلاع دینا منع نہیں ہے۔ اس کو ایک ڈرامہ بنانا ،یہ منع ہے ۔

مطیع سید: یہ جو حدیث  بڑی مشہور ہے کہ جس نے لا الہ کہہ دیا، وہ جنت میں جائے گا ،اس کے کیامعنی ہیں ؟

عمار ناصر: یہ ایک عمومی بات نہیں ہے ۔یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ اس سےمقصود  یہ کہنا  نہیں ہے  کہ عمل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، صرف  کلمہ پڑھ لینا کافی ہے۔ مختلف شارحین اپنے اپنے انداز میں اس کی تاویل کر تے ہیں ۔مجھے زیادہ مناسب بات یہ لگتی ہے کہ جو آپﷺ کے ارد گرد سچے اور مخلص لوگ ہیں ، جو بہت زیادہ خوف خدا بھی رکھتے ہیں، ڈرتے بھی ہیں ،فکر مند بھی ہیں ،آپ مختلف مواقع پر کوشش کرتے  ہیں کہ ایسے لوگوں کی فکرمندی کم ہو،اور ان کو تھوڑا حوصلہ ہو ۔اگر آپ ان لوگوں کے بارےمیں کہہ رہے ہیں جن کے بارے میں آپ ﷺ کو پتہ ہے کہ یہ محض لا الہ کہہ کر رکنے والے نہیں ہیں ،اپنی حد تک عمل کی بھی کو شش کررہے ہیں  تو اس بات کا ایک محل سمجھ میں آتا ہے۔گویا اس حدیث کا مدعا کسی الہیاتی مسئلے کا بیان نہیں، بلکہ  مخلص اور فکر منداہل ایمان کو   ان کی نجات کے متعلق تسلی دینا ہے۔

مطیع سید: اور کسی صحابی نے ایسا کیا بھی نہیں کہ محض اسی پر تکیہ کر لے،نہ اس حدیث سے یہ مطلب لیا ہے ۔

عمار ناصر: بالکل۔ وہ تو بعد میں  مرجئہ نے اس طرح کی روایتوں سے فائدہ اٹھایا  اور ا س کو ایک  کلامی اور الہیاتی  مسئلے کی نوعیت دے دی۔

مطیع سید: حدیث میں قبروں پر لکھنے کی کی ممانعت کی گئی ہے۔ (کتاب الجنائز، باب ما جاء فی کراہیۃ تجصیص القبور والکتابۃ علیہا، حدیث نمبر ۱٠۵۲) آج کل ہم جو کتبے لگارہے ہیں، کیا یہ درست ہے؟

عمار ناصر: میرے خیال میں وہ ممانعت بھی سد ذریعہ کے پہلو سے ہے۔   اگر قبر کی شناخت  محفوظ رکھنے کے لیے سادگی سے  نام وغیرہ لکھ دیا جائے تو اس میں کوئی  بنیادی خرابی معلوم نہیں ہوتی۔

مطیع سید: جو پیٹ کی بیماری میں مر ا، اسے عذاب قبر نہیں ہوگا ۔(کتاب الجنائز، باب ما جاء فی الشہداء من ہم، حدیث نمبر ۱٠۶۴) حدیث غریب ہے ۔کیا مراد ہے ؟

عمارصاحب: اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ پیٹ کی بیماری بھی گناہوں کا کفارہ بنتی ہے، جس  طرح شہادت کی موت کی دوسری شکلیں کفارہ بنتی ہیں۔اس کا صلہ اللہ تعالیٰ یہ دیتے ہیں کہ قبر کے عذاب سے محفو ظ رکھتے ہیں ۔لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کی ہر بشارت کے ساتھ دیگر کئی شرائط لگی ہوتی ہیں کہ اگر ایسا ہوتو ایسا ہوگا۔    

(جاری)

آئین، اسلام اور بنیادی حقوق

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

(9  اپریل  2021ء  کو اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب)

ہمارے آئین کی بنیاد اس اعتراف اور تصدیق پر رکھی گئی ہے کہ پوری  کائنات پر اقتدار اعلی اللہ تعالیٰ کا ہے اور اختیارات کا استعمال ایک مقدس امانت ہے؛ اور ریاستی طاقت اور اختیار کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ آئین کا دیباچہ مزید یہ کہتا ہے کہ ریاستِ پاکستان میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری، برداشت اور سماجی انصاف کا اطلاق اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔ اسی طرح اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذاہب کی پیروی کرنے، ان پر عمل کرنے  اور اپنی ثقافتوں کی ترویج کےلیے مناسب مواقع دیے جائیں گے۔

آئین 280 دفعات پر مشتمل ہے مگر ان میں تقریباً دو درجن دفعات ایسی ہیں جو عوام کے حقوق کے تحفظ کے متعلق ہیں اور ان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ آئین کی دفعہ 3 استحصال کی تمام صورتوں کے خاتمے کو یقینی بناتی ہے۔ یہ دفعہ قرآن شریف کی سورۃ البقرۃ (2)، آیت 279 کے عین مطابق ہے جس میں فرمایا گیا ہے:

لَا تَظلِمُونَ وَلَا تُظلَمُونَ

تم ظلم/استحصال نہ کرو اور تم پر ظلم/استحصال نہ کیا جائے۔

دفعہ 4 یہ یقینی  بناتی ہے کہ سب کے ساتھ قانون کے مطابق یکساں سلوک ہو، اور  بالخصوص زندگی، آزادی، جسم، ساکھ اور جائیداد کے خلاف کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا جس کی اجازت قانون نے نہ دی ہو۔ یہ دفعہ  بھی اسلام سے بالکل مطابقت رکھتی ہے۔  ایک بہت مشہور حدیث ہے:

المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ1

مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔

اس دفعہ میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ وہ کام جس کی کوئی قانونی ممانعت نہ ہو، اسے ہر شخص کرسکتا ہے  اور کسی کو ایسے کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جس کا مطالبہ قانون نے اس سے نہ کیا ہو۔ یہی اصول سورۃ مریم (19) ، آیت 64 کے آخری ٹکڑے  میں موجود ہے:

وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيّا

اور تمھارا رب بھولنے والا نہیں ہے۔

سورۃ الاعراف (7)، آیت 32 سے بھی یہ اصول معلوم ہوتا ہے:

قُل مَن حَرَّمَ زِينَۃَ اللَّہِ الَّتِيٓ أَخرَجَ لِعِبَادِہٖۦ وَالطَّيِّبَٰتِ مِنَ الرِّزقِۚ

کہہ دو کہ کس نے حرام کردیا اللہ کی اس زینت کوجو اس نے اپنے بندوں کےلیے پیدا کی ، اور پاک رزق کو؟

رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے بھی یہ اصول اخذ ہوتا ہے ۔ آپ نے غزوۂ بدر ، جو 17 رمضان 2 ہجری ( 13 مارچ 624ء) کو ہوئی تھی، کے بعد قیدیوں کو اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا کر آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔2 یہ کام جبراً بھی لیا جاسکتا تھا لیکن آپ نے ان سے ایک طرح کا سمجھوتا کیا۔

لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بارے میں اگلی اہم دفعہ 9 ہےجو کہتی ہے کہ قانون کی اجازت کے بغیر کسی کو زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہ دفعہ سورۃ المآئدۃ (5)، آیت 32 کے عین مطابق ہے:

مَن قَتَلَ نَفسَا بِغَيرِ نَفسٍ أَو فَسَاد فِي الأَرضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعا وَمَن أَحيَاهَا فَكَأَنَّمَآ أَحيَا النَّاسَ جَمِيعا

جس نے کسی انسان کو قتل کیا، سواے اس کہ جان کے بدلے میں یا زمین میں فساد کی وجہ سے ہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا، اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

اور جہاں تک آزادی کی بات ہےتو  اس کی عکاسی سورۃ البقرۃ (2)، آیت 256 میں نظر آتی ہے:

لَآ إِكرَاهَ فِي الدِّينِ

دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔

اس کے بعد ہم دفعہ 10 کی طرف آتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو وجہ بتائے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گااور تحویل میں بھی نہیں  لیا جائے گا اور جب ایسا کیا جائے گا تو اسے 24 گھنٹوں کے اندر حاکمِ فوجداری کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک بہت اہم دفعہ 10-الف کا اضافہ اٹھارویں آئینی ترمیم 2010ء کے ذریعے کیا گیا جو ہر شخص کو منصفانہ سماعت اور مناسب عمل کا حق دیتی ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ المائدۃ (5)، آیت 8 میں فرمایا گیا ہے:

يَٰٓأَيُّھَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ قَوَّٰمِينَ لِلَّہِ شُھَدَآءَ بالقِسطِ وَلَا يَجرِمَنَّكُم شَنَ‍َٔانُ قَومٍ عَلَی أَلَّا تَعدِلُواْ اعدِلُواْ ھُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوَىٰ وَاتَّقُواْ اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِيرُ بِمَا تَعمَلُونَ

اے ایمان والو!، کھڑے ہو اللہ کےلیے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر مجبور نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ جانتا ہے جو تم کررہے ہو۔

دفعہ 11 جبری مشقت اور غلامی کو ممنوع قرار دیتی ہے۔ جہاں تک غلامی کا تعلق ہے، قرآن شریف کے نزول کے وقت غلامی کا عام رواج تھا لیکن اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے کئی مواقع دیے ، مختلف گناہوں کے کفارے کےلیے غلام کو آزاد کرانے کا حکم دیا اور ثواب کمانے کےلیے بھی غلام آزاد کرنے کی ہدایت دی ۔ اس لیے غلامی جلد ہی ختم ہوگئی۔ قرآن شریف نے آزاد انسان کو غلام بنانے کی اجازت نہیں دی۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین لوگوں کا ذکر کیا جن کے خلاف آپ خود قیامت کے دن استغاثہ کریں گے۔ ان میں ایک وہ ہے جس نے آزاد انسان کو غلام بنا کر بیچا۔3

اسی طرح اسلام میں جبری مشقت کی کوئی اجازت نہیں ہے اور، جیسا کہ پہلے کہا گیا، کہ جنگی قیدیوں سے بھی جبری مشقت نہیں لی گئی۔ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ پر اسلام نے خصوصی زور دیا ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔4

دفعہ 12 ایسے فعل پر سزا کے خلاف تحفظ دیتی ہے جو اس وقت جرم نہیں تھا جب اس کا ارتکاب کیا گیامگر بعد میں اسے جرم قرار دیا  گیا۔ کئی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول اسلام کا بھی ہے۔ مثلاً سورۃ بنی اسرائیل (17)، آیت 15 میں فرمایا گیا:

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّی نَبعَثَ رَسُولا

اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک ہم رسول نہ بھیجیں۔

آئین کی اس دفعہ سے ایک بہت اہم استثنا  سنگین غداری کے جرم کا ہے ۔ چنانچہ یہ دفعہ  23 مارچ 1956ء سے نافذ ہونے والے کسی آئین کی منسوخی یا معطل کرنے کو قانون کے ذریعے جرم قرار دینے سے نہیں روکتی۔

دفعہ 13 کسی ایک جرم پر ایک سے زائد دفعہ سزا دینے کے خلاف تحفظ دیتی ہے اوریہ بھی قرار دیتی ہے کہ کسی ملزم کو اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کا نظام بھی ایسا ہی ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی جرم کی سزا اس دنیا میں ملے تو پھر اسے آخرت کی سزا نہیں دی جائے گی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دنیا میں کسی کو سزا دی جائے تو یہ اس کےلیے آخرت کی سزا سے کفارہ  بن جاتی ہے۔5 کسی جرم کا اقرار کرنا کسی شخص کا رضاکارانہ عمل ہے اور اس پر اسے آخرت کی سزا سے نجات مل سکتی ہے لیکن اسے اقرار پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

دفعہ 14 انسان کی عظمت اور گھر کی رازداری کو تحفظ دیتی ہے۔ یہ دفعہ بھی قرآن کے عین مطابق ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ التین (95) ، آیت 4 انسان کو أَحسَنِ تَقوِيم کا خطاب دیتی ہے اور سورۃ بنی اسرائیل (17)، آیت 70  وَلَقَد كَرَّمنَا بَنِيٓ ءَادَمَ  کا اعلان کرتی ہے۔ اسی طرح گھر کی رازادری کے متعلق کئی آیات اور احادیث ہیں، جیسا کہ سورۃ الحجرات (49)، آیت 12 میں فرمایا گیا: وَ لَا تَجَسَّسُواْ (اور مت کرو جاسوسی)۔ اسی طرح حدیث ہے:

إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ وَلاَ تَحَسَّسُوا وَلاَ تَجَسَّسُوا وَلاَ تَنَافَسُوا وَلاَ تَحَاسَدُوا وَلاَ تَبَاغَضُوا وَلاَ تَدَابَرُوا وَكُونُوا عِبَادَ اللَّہِ إِخْوَانًا۔6

بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی جھوٹی بات ہے۔ اور عیب مت تلاش کرو، اور جاسوسی مت کرو، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش مت کرو، اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے سے منہ مت موڑو، اور اے اللہ کے بندو، سب آپس میں بھائی بن جاؤ۔

دفعہ 15 نقل وحرکت اور پاکستان میں کہیں بھی رہنے کی آزادی کا حق دیتی ہے۔ قرآن شریف کی کئی آیات ، جیسے سورۃ آل عمران (3) کی آیت 137، سورۃ النحل (16)، آیت 36، سورۃ النمل(27)، آیت 69 میں حکم دیا گیا ہے:

فَسِيرُواْ فِي الأَرضِ

تو زمین میں چلو پھرو۔

اسی طرح دفعہ 16 قانون کی حدود کے اندر اجتماع کی آزادی  کا حق دیتی ہے، جبکہ دفعہ 17 انجمن سازی اور سیاسی پارٹی بنانے کا حق دیتی ہے، مگر ساتھ ہی ایک اہم بات دفعہ 17 کی شق 3 میں سیاسی پارٹیوں کے متعلق یہ کہی گئی ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنے ذرائع آمدن ظاہرکریں گی۔ اسلام نے بھی مسلمانوں کو اجتماعیت کا درس دیا ہے۔ سورۃ الشوری(42) کی آیت 38 میں فرمایا گیا ہے:

وَأَمرُھُم شُورَی بَينَھُم

اور ان کے کام ایک دوسرے کے ساتھ مشورے سے ہوتے ہیں۔

مسلمانوں کے گروہوں، جیسے انصار اورمہاجرین،کو رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کے ایک دوسرے پر حقوق بھی مقرر فرمائے۔ اسی طرح قانونی ذمہ داریوں کی پابندی کا اسلام نے حکم دیا ۔ قرآن شریف کی سورۃ المائدۃ (5)،آیت 1 میں آیا ہے:  

يَٰٓأَيُّھَا الَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوفُواْ بِالعُقُودِ

اے ایمان والو! اپنے معاہدات کی پابندی کرو۔

مالیاتی امور میں شفافیت، بالخصوص سرکاری عہدیداروں کےلیے، اسلام کا بنیادی ستون ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ سے طائف کے محاصرے کے موقع پر ، جو 8ھ ( 630ء) میں ہوا تھا، غنیمت کے متعلق سوال کیا گیا اور آپ نے اس کا برا منانے کے بجاے اس کی وضاحت دینی ضروری سمجھی۔7 اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کو خطبے کے دوران میں ٹوک دیا گیا اور انھوں نے واضح کیا کہ اضافی چادر ان کو ان کے بیٹے نے دی تھی۔8 رسول اور خلیفۂ وقت سے ایک عام شخص نے معلومات کا مطالبہ کیا تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ تسلیم کیا گیا  کہ اس کا حق ہے کہ اسے یہ معلومات مہیا کی جائیں۔ یوں ان واقعات سے دفعہ 19-الف میں مذکور معلومات کے حق کے بارے میں بھی اسلام کا تصور واضح ہوجاتا ہے۔

دفعہ 18، تجارت، کاروبار اور پیشہ اختیار کرنے کا حق دیتی ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ النسآء (4) کی آیت 29 میں فرمایا گیا:

إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاض مِّنكُم

مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی رضامندی سے۔

رسول اللہ ﷺ نے شادی  کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ، جو  ایک کاروباری خاتون  تھیں ، اور آپ نے ان کےلیے  تجارتی سفر بھی کیے۔ مدینہ کے انصار زراعت پیشہ تھے، جبکہ مکہ سے آنے والے مہاجرین عام طور پر تجارت کرتے تھے۔  کئی صحابہ مختلف پیشوں اور فنون کے ساتھ وابستہ تھے اور کسی بھی پیشے کو حقیر نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس کئی صدیوں بعد بھی یورپ میں سرجری کو حقیر سمجھا جاتا تھا اور اس وجہ سے کئی قسائی سرجن بن گئے تھے۔

دفعہ 19 اظہارِ راے کی آزادی کا حق دیتی ہے۔ اسلام کا مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ ہمیشہ حق بات کہیں۔ سورۃالاحزاب (33) کی آیت 70 میں فرمایا گیا:

وَقُولُواْ قَولا سَدِيدا

اور کہو سیدھی بات

سورۃ المآئدۃ (5)، آیت 8 میں فرمایا گیا:

يَٰٓأَيُّھَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ قَوَّٰمِينَ لِلَّہِ شُھَدَآءَ بِالقِسطِ

اے ایمان والو!، کھڑے ہو اللہ کےلیے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے

مشہور واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ وہ چوری کرتا ہے، شراب پیتا ہے ، جوا کھیلتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے اور وہ آپ کی خاطر ان میں کسی ایک کام کوچھوڑنا چاہتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ اس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو باقی برائیاں بھی خود بخود چھوٹ گئیں۔9

قرآن شریف کی کئی آیات ،جیسے سورۃ النسآء (4)، آیت 114، سورۃ  الانبیآء (21)،آیت  3، سورۃ الزخرف ( 43)، آیت 80 اور سورۃ المجادلۃ ( 58)، آیات  7 تا 10 میں معلومات چھپانے پر، بالخصوص جن سے عوامی مفاد وابستہ ہو اور جن کا جاننا عوام کا حق ہو، سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے اور کہیں تو اسے شیطانی عمل بھی قرار دیا گیا ہے۔

دفعہ 23 جائیداد خریدنے اور بیچنے کا حق دیتی ہے۔ مال اور جائیداد کی ملکیت کے حق کے بارے میں قرآن شریف میں بہت سی آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے مال کو استعمال کرنے، اس سے فائدہ اٹھانے، اسے صدقہ کرنے، ہبہ کرنے، بیچنے، اس کے بارے میں وصیت کرنے اور اس طرح کے دیگر تمام مالکانہ حقوق حاصل ہیں اور اسی طرح اس کی موت کے بعد مال پر ورثا کی ملکیت کے بارے میں بھی آیات میں تفصیل دی گئی ہے۔

دفعہ 24 یہ تحفظ فراہم کرتی ہے کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کے مال سے زبردستی محروم نہیں کیا جائے گا اور اگر کہیں عوامی مفاد کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہوجائے تو یہ عمل قانون کی حدود کے اندر رہ کر کیا جائے گا اور اسے اس کے مال کا پورا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ مشہور واقعہ ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کےلیے زمین کی ضرورت پڑی تو دو یتیم بھائیوں، سہل اور سہیل، کے ولی کے ساتھ بات کی گئی اور ان کو زمین کا معاوضہ ادا کیا گیا حالانکہ وہ زمین معاوضے کے بغیر دینا چاہتے تھے۔10

سارے شہری برابری کے مستحق ہیں اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ دفعہ 25 پابند کرتی ہے۔ آخری تین دفعات (26، 27 اور 28) امتیازی سلوک کے مختلف پہلوؤں کی ممانعت کرتی ہیں اور ان کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ یہ دفعہ بھی اسلام کے عین مطابق ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ الحجرات (49)، آیت 13 میں فرمایا گیا ہے:

يَٰٓأَيُّھَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقنَٰكُم مِّن ذَكَر وَأُنثَی وَجَعَلنَٰكُم شُعُوبا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْ إِنَّ أَكرَمَكُم عِندَ اللَّہِ أَتقٰكُم إِنَّ اللَّہَ عَلِيمٌ خَبِيرٞ

اے لوگو! یقیناً ہم نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ  تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یقیناً تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ جو تم میں اللہ کا زیادہ فرمانبردار  اور پرہیزگار ہو۔ یقیناً اللہ سب کچھ جانتا ہے اور اسے ہر چیز کی خبر ہے۔

کئی دیگر آیات سے اس بات کے دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے، جیسے سورۃ الانعام (6)، آیت 164 میں فرمایا گیا:

وَلَا تَزِرُ وَازِرَة وِزرَ أُخرَىٰ

اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔

معاشرے کے کمزور طبقات اور افراد کے تحفظ  کےلیے کیے جانے والے اقدامات کو امتیازی سلوک نہیں کہا جاسکتا اور یہ بھی اسلامی احکام کے عین مطابق ہے کہ بچوں اور کمزور لوگوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ کم کیا جائے۔ اس وجہ سے جہاد فی سبیل اللہ کے حکم سے بھی عورتوں اور ضعیف اور بیمار لوگوں کو مستثنی کیا گیا، نماز اور روزے کے احکام میں مریضوں اور مسافروں کےلیے تخفیف کی گئی اور حج کا فریضہ بھی صرف ان لوگوں پر عائد کیا گیا جو حج کےلیے جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔

ایک بہت اہم شق جو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئی، دفعہ 25 –الف ہے جو ریاست پر ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں اور بچیوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے۔  اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر انسانیت کےلیے جو پہلا حکم نازل کیا ، وہ حکم تھا، اقرَأ: پڑھو (فعل امر)  ۔ اسی سورۃ العلق (96) کی چوتھی آیت میں قلم کاذکر ہے:  الَّذِي عَلَّمَ بِالقَلَمِ (وہ جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی)؛  اور پانچویں آیت میں تعلیم کا  ذکر ہے: عَلَّمَ الإِنسانَ مَا لَم يَعلَم (انسان کو اس کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا)۔  یوں جو پہلی وحی ہے وہ پڑھنے، لکھنے اور پڑھانے پر مشتمل ہے ۔

رسول اللہ ﷺ نے بھی تعلیم  کی اہمیت پر بہت زور دیا اور، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، جنگی قیدیوں کو بھی کہا کہ ہر قیدی رہائی حاصل کرنے کےلیے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے ۔

دفعات 20، 21 اور 22 کسی مذہب کے ماننے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیتی ہیں  اور اپنے مذہب کےعلاوہ کسی اور مذہب کےلیے محصول ادا کرنے یا زبردستی اس کی تعلیم دینے کے خلاف تحفظ کرتی ہیں۔ یہ دفعات بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ سورۃ البقرۃ (2)، آیت 256 میں فرمایا گیا:

لَآ إِكرَاہَ فِي الدِّينِ

دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔

اسی طرح سورۃ یونس (10)، آیت 99 میں فرمایا گیا:

وَلَو شَآءَ رَبُّكَ لَأٓمَنَ مَن فِي الأَرضِ كُلُّھُم جَمِيعًا أَفَأَنتَ تُكرِہُ النَّاسَ حَتَّی يَكُونُواْ مُؤمِنِينَ

اور اگر تمھارا رب چاہتا تو زمین کے سارے لوگ مل کر ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں کو مجبور کروگے کہ وہ ایمان لے آئیں؟

سورۃ الحج (22)، آیت 40 میں تو جہاد کا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ مختلف مذاہب  کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے:

وَلَولَا دَفعُ اللَّہِ النَّاسَ بَعضَھُم بِبَعض لَّھُدِّمَت صَوَٰمِعُ وَبِيَع وَصَلَوَٰت وَمَسَٰجِدُ يُذكَرُ فِيھَا اسمُ اللَّہِ كَثِيرا

اور اگر اللہ بعض لوگوں کے ذریعے بعض دوسرے لوگوں کو دفع نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجا، مَعبَد اور مسجدیں، جن میں اللہ کے نام کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، ڈھا دی جاتیں ۔

اس ساری تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق اسلام کے عین مطابق ہیں اور آئین کی ان دفعات اور اسلامی احکام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب لوگوں کو یہ حقوق میسر ہوں تو ان کا عملی نفاذ یقینی بنانے کی ذمہ داری بالخصوص عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کے ججز پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے اس بات کی بھی قسم کھائی ہے کہ وہ بلا تفریق و امتیاز اور کسی خوف یا لالچ کے بغیر ہر شخص کو انصاف مہیا کریں گے جس میں ذکر کیے گئے بنیادی حقوق بھی شامل ہیں ۔ یہ بات بھی قرآن شریف کے عین مطابق ہے۔

سورۃ المآئدۃ (5)، آیت 8 میں فرمایا گیا ہے:

يَٰٓأَيُّھَا الَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ قَوَّٰمِينَ لِلَّہِ شُھَدَآءَ بِالقِسطِ وَلَا يَجرِمَنَّكُم شَنَ‍َٔانُ قَومٍ عَلَیٰ أَلَّا تَعدِلُواْ اعدِلُواْ ھُوَ أَقرَبُ لِلتَّقوَىٰ وَاتَّقُواْ اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ خَبِيرُ بِمَا تَعمَلُونَ

اے ایمان والو!، کھڑے ہو اللہ کےلیے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر مجبور نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ جانتا ہے جو تم کررہے ہو۔

اسی سورۃ کی آیت 42 میں حکم دیا گیا ہے:

فَاحكُم بَينَھُم بِالقِسطِ

تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔

سورۃ النسآء (4)، آیت 135 میں فرمایا گیا:

وَإِن تَلوُۥٓاْ أَو تُعرِضُواْ فَإِنَّ اللَّہَ كَانَ بِمَا تَعمَلُونَ خَبِيرا

اوراگر تم بات کو بگاڑو یا انصاف کرنے سے منہ موڑو، تو یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔


حواشی

  1.   صحیح البخاری، کتاب الایمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ۔
  2.    مستدرک حاکم، ج 2، ص 152۔
  3.   صحیح البخاری، کتاب الامور المنھی عنھا، باب تحریم الغدر۔
  4.  سنن ابن ماجہ، کتاب الرھون، باب اجر الاجراء۔
  5.   صحیح مسلم، کتاب الحدود، باب الحدود کفارات لاھلھا۔
  6.   صحیح مسلم، کتاب الآداب، باب تحریم التجسس۔
  7.   سنن الترمذی، کتاب التفسیر، باب و من سورۃ آل عمران ۔
  8.   شبلی نعمانی، الفاروق
  9.   المبرد، الکامل فی الادب، ج2، ص 156۔  
  10.    ڈاکٹر رمضان البوطی، فقہ السیرۃ، ص 253۔


معاہدات: ذمہ داری یا ہتھیار؟

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

امریکہ کے صدر مسٹر جوبائیڈن نے افغانستان سے فوجوں کے انخلا میں یکطرفہ طور پر چار ماہ کی توسیع کا اعلان کر دیا ہے اور کہا ہے کہ معاہدہ کی مدت کے دوران انخلا مشکل ہے اس لیے اب افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا مئی کی بجائے ستمبر کے دوران مکمل ہو گا اور وہ بھی چند شرائط کے ساتھ مشروط ہو گا۔ اس کے ساتھ جرمنی کے وزیردفاع نے بھی کہا ہے کہ افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا ستمبر میں ہو گا۔

افغان مسئلہ کا تاریخی تناظر یہ ہے کہ افغانستان میں ۱۹۷۹ء کے آخر میں روسی افواج کی آمد پر افغان قوم مزاحمت کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی اور افغانستان کی آزادی و خودمختاری کے ساتھ ساتھ اسلامی شناخت کے تحفظ اور شرعی نظام کے عملی نفاذ کے لیے جہاد کے عنوان سے سوویت یونین کی مسلح یلغار کے سامنے سینہ سپر ہو گئی۔ جہاد اور نظام شریعت کے حوالہ سے پاکستان سمیت دنیا بھر کی مسلم اقوام و ممالک نے افغان عوام کی اس جدوجہد کا ساتھ دیا، جبکہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک عرصہ سے جاری کولڈ وار کے پس منظر میں امریکہ اور اس کے حامی ممالک بھی ’’جہاد افغانستان‘‘ کے پشت پناہ بن گئے جس کے نتیجے میں افغان قوم افغانستان سے روسی افواج کی واپسی کے مشن میں سرخرو ہوئی۔ مگر اس کے بعد افغانستان کے مستقبل کی تشکیل میں راستے الگ ہو گئے:

اور پھر اس نئی صورتحال کے ردعمل میں جہادِ افغانستان کے نظریاتی کارکن ’’طالبان‘‘ کے عنوان سے سامنے آئے جو مسلسل جدوجہد کے بعد افغانستان پر کنٹرول حاصل کر کے ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کے نام سے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔طالبان نے افغانستان کو خانہ جنگی سے پاک کر کے کچھ عرصہ کامیابی کے ساتھ حکومت کی مگر گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد وہ امریکی عتاب کا شکار ہوئے اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو افواج نے اس خطہ میں وہی محاذ سنبھال لیا جس کی کمان اس سے قبل سوویت یونین نے کی تھی۔ گویا بیرونی حملہ آوروں کو ملک سے نکالنے کے لیے افغان قوم کی وہی جنگ لوٹ آئی جو روسی افواج کے خلاف تھی، صرف اس فرق کے ساتھ کہ اب مدمقابل روس نہیں بلکہ امریکہ تھا۔ البتہ جہاد افغانستان کے اس نئے راؤنڈ کے اہداف اور مقاصد بھی وہی تھے کہ افغانستان کو بہرحال ایک خودمختار، آزاد اور اسلامی ریاست بنایا جائے۔

تاریخ نے اس کے بعد یہ منظر دیکھا کہ افغان قوم کی حریت پسندی اور اسلامیت کو زیر کرنے میں روس کی طرح امریکہ کو بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی اور بالآخر اسے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنا پڑا جس کے مختلف مراحل کے بعد یہ طے پایا کہ امریکہ اور نیٹو افواج یکم مئی ۲۰۲۱ء تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور اس دوران بین الافغان مذاکرات کے ذریعے افغانستان کے مستقبل کی نقشہ گری کر لی جائے گی۔ مگر اب امریکہ کی طرف سے اس میں چار ماہ کی توسیع کا اعلان کیا گیا ہے جبکہ افغان طالبان کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ معاہدہ کے بعد سے اب تک کی مدت میں امریکہ اور اس کے سہولت کاروں کا ٹال مٹول کا جو طرزعمل مسلسل چلا آ رہا ہے اس کے پیش نظر اس توسیعی مدت کا استعمال بھی وقت گزاری اور ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ کا راستہ روکنے کے اقدامات میں صرف ہوتا نظر آتا ہے، اس لیے وہ توسیع کو مسترد کرتے ہیں اور اگر یکم مئی تک امریکی افواج نے افغانستان سے انخلا مکمل نہ کیا تو وہ معاہدہ سے آزاد ہوں گے اور جو شرائط انہوں نے قبول کی تھیں وہ ان کے پابند نہیں رہیں گے۔ ہمارے خیال میں اس صورتحال میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں:

  1. ایک یہ کہ اصل مسئلہ مدت کا نہیں اعتماد کا ہے، اگر امریکہ اب تک معاہدہ پر عملدرآمد میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیا تو اس نے اپنا اعتماد خود خراب کیا ہے، اس کا فائدہ اسے نہیں دوسرے فریق کو ملنا چاہیے اور امریکہ کے سہولت کاروں کو یہ بات بہرحال ملحوظ رکھنی چاہیے۔
  2. دوسری بات یہ کہ مسلسل مشاہدات و تجربات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ انسانی حقوق کی طرح بین الاقوامی معاہدات بھی ذمہ داری کی بجائے ہتھیار کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں، جو آسمانی تعلیمات سے انحراف اور سارے معاملات انسانی عقل و دانش کے دائرے میں طے کرنے کے فلسفہ کا منطقی نتیجہ ہے کہ عقل کے ساتھ طاقت اور فریب کاری کا جوڑ اپنے لیے ہر بات کا جواز فراہم کر لیتا ہے، جبکہ طاقت سے محروم اقوام و ممالک اس کے رحم و کرم پر رہ جاتی ہیں، آج کے عالمی فلسفہ کے تناظر میں دنیا بھر میں ہر سطح پر یہی کچھ ہو رہا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر گزشتہ ایک صدی کے دوران ہونے والے معاہدات اور ہمارے ہاں پاکستان میں بھی بالخصوص نفاذ شریعت کے سلسلہ میں کیے جانے والے معاہدات جس کی تازہ ترین مثال ’’تحریک لبیک پاکستان‘‘ کے ساتھ کیا جانے والا معاہدہ ہے، کو موضوع بحث بنا کر ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات نکھر کر سامنے آئے گی کہ آسمانی تعلیمات کی بنیاد پر انسانی اخلاقیات ہی اقوام و ممالک کو کسی بات کا پابند بنا سکتی ہیں، ورنہ محض انسانی عقل و دانش طاقت اور فریب کاری کے زور پر اسی قسم کے مناظر دنیا کو مسلسل دکھاتی رہے گی، اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کا راستہ نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا وحید الدین خانؒ کا انتقال

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

مولانا وحید الدین خانؒ کی وفات اہلِ دین کیلئے باعث صدمہ ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ وہ ایک صاحبِ طرز داعی تھے جن کی ساری زندگی اسلام کی دعوت کو عام کرنے اور اپنی فکر کے مطابق دعوت کے ناگزیر تقاضوں کو اجاگر کرنے میں گزری۔ وہ دعوتِ اسلام کے روایتی اسلوب کے بعض پہلوؤں سے اختلاف رکھتے تھے اور اس حوالہ سے کچھ تفردات کے حامل بھی تھے مگر مجموعی طور پر ان کی محنت
  1. دعوتِ دین کے عصری تقاضوں کی نشاندہی
  2. نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کے ازالہ
  3. اور افہام و تفہیم کی عصری ضروریات
کو سامنے لانے کے لیے ہوتی تھی، اور یہی ان کی وسیع تر پذیرائی کا باعث تھی۔ برطانیہ کے ایک سفر کے دوران مجھے ان سے ملاقات و گفتگو کا موقع ملا تو ان کے خلوص و سادگی نے بہت متاثر کیا۔ ان کی گفتگو اور تحریر دونوں عام فہم اور مخاطبین کی ذہنی سطح اور نفسیات کو سامنے رکھ کر ہوتی تھیں جو میرے نزدیک آج کے دور میں دعوتِ دین کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور عفو و فضل کے ساتھ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

قائد اعظم کا اسلام

خورشید احمد ندیم

قائداعظم ایک امیر آدمی تھے۔اتنے امیر کہ 1926ء میں ان کا شمار جنوبی ایشیا کے دس سب سے بڑے سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔ان کے چار مکانات کی قدر اگر آج کے حساب سے متعین کی جائے تو1.4 سے1.6ارب ڈالر بنتی ہے۔ قائد اعظم کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟

ڈاکٹر سعد خان کی کتاب ''محمدعلی جناح...دولت‘جائیداد اور وصیت‘‘ اس سوال کا جواب دیتی ہے۔یہی نہیں‘ان کی دولت اورجائیداد کی مکمل تفصیل بھی۔قائد کا تمام سرمایہ‘آمدن‘ جائیدادسب دستاویزی ہیں۔ان کی شخصیت کی طرح‘ شفاف ریکارڈ کے ساتھ۔یہ کتاب پڑھے کئی ماہ گزر چکے لیکن ہنوز سرہانے دھری ہے۔اس کتاب نے مجھے بعض ایسے سوالات پر غورکے لیے مجبور کیا جن کا تعلق کتاب کے موضوع سے نہیں لیکن قائد کی شخصیت سے ضرور ہے۔ایک موضوع ''قائد اعظم کا اسلام ‘‘ہے۔

مذہب کے باب میں قائد اعظم کے خیالات ہمارے ہاں مدت سے زیرِ بحث ہیں۔ان کا مسلک کیا تھاا وروہ مذہب وریاست کے باہمی تعلق کو کیسے دیکھتے تھے؟ان سوالات کے ہمیں جو جواب ملے وہ مختلف ہیں۔قائداعظم کو ان معنوں میں سیکولر ماننے والے بھی کم نہیں جوسیکولرازم کو مذہب مخالف سیاسی تصور قرار دیتے ہیں۔ایسے لوگ بھی بہت ہیں جو قائدکی اسلام پسندی کے حق میں ان کے خطبات سے اقتباسات کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔وہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ شخصی زندگی سے لے کر سیاسی زندگی تک‘ہر شعبۂ حیات میں مذہب کی بالادستی کے قائل تھے۔

ڈاکٹر سعد خان نے موضوع کی رعایت سے قائداعظم کے مسلک اور مذہب کا بھی ذکر کیا ہے۔ایک پیرا گراف بہت دلچسپ ہے۔اسی نے مجھے قائد کے تصورِ اسلام پر مزید غور پر مجبور کیا۔پہلے یہ پیراگراف دیکھیے: ''بیگم جناح کا قبولِ اسلام سنی مسلک کے مطابق ہواجبکہ اگلے روز ان کا نکاح شیعہ روایت کے مطابق ہوا۔جناح کی سرکاری نمازِ جنازہ سنی مسلک کے مطابق ادا کی گئی جبکہ ان کی وصیت اسماعیلی روایت کے مطابق تھی۔جناح صاحب زندگی بھر بمبئی کی اثنا عشری جماعت کو چندہ ادا کرتے رہے لیکن کبھی مجلسِ عاشورہ میں دکھائی نہیں دیے۔دوسری طرف وہ عید میلاد کی تقریب میں ضرور دکھائی دیے جو کہ بنیادی طور پر سنی مسلک کی سرگرمی سمجھی جا تی ہے۔انہوں نے مسلکی وابستگیوں سے بالا تر ہوکر اپنی ہمشیرگان کی شادیاں کرائیں۔ان کا ایک بہنوئی سنی تھا اور دوسرا شیعہ...‘‘ (صفحہ89)

ایک اور بات جو اس کتاب کے متن میں تو نہیں لیکن میں نے بین السطور پڑھ لی۔اتنا امیر آ دمی ہونے کے باوجود قائداعظم نے حج نہیں کیا۔ان کے سوانح میں کہیں اس کی خواہش کا اظہار بھی نہیں ملتا۔ اپنی وصیت میں وہ اپنی وراثت کا بڑا حصہ تعلیمی اداروں کے نام کر گئے۔گویا وہ خلقِ خدا کو نہیں بھولے۔ مذہبی تعلیم کے مطابق حج ان پر فرض تھا جو خدا کا حق ہے۔اگر وہ ایک مذہبی آدمی تھے تواتنے اہم مذہبی فریضے سے غافل کیسے رہے؟

اسلام کے ساتھ ان کا لگاؤ ان کے بہت سے خطبات سے واضح ہے۔یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ قرآ ن مجید پڑھتے تھے۔یقینا وہ جانتے ہوں گے کہ نماز ‘روزہ‘ حج کے بارے میں قرآن مجید میں کیالکھا ہے اور مذہب کے ساتھ کسی فرد کے تعلق کو ماپنے میں‘ان پیمانوں کی کیا اہمیت ہے؟اس کے باوجود ایسا کیوں ہے کہ حج کی خواہش پیدا نہیں ہوئی؟ ایک طرف یہ احساس کہ خداکے حضور پیش ہوں توشاباش ملے کہ Well done Jinnah اوردوسری طرف فرائض سے یہ لاتعلقی؟ میں نے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔

مذہب کسی واحدتعبیر کا نام نہیں۔مسلمانوں میں‘ کم ازکم چھ تعبیرات کے ماننے والے بکثرت تلاش کیے جا سکتے ہیں۔

ایک یہ تعبیرکہ مذہب چند عقائد کو ماننے اور چند مناسک و رسوم پر عمل کر نے کا نام ہے۔کاروبارِزندگی سے اس کازیادہ گہرا تعلق نہیں۔سیاست‘کاروبار اور معاشرت کے معاملات ایک سماجی روایت کے مطابق ہوتے آئے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔یہ مذہب کا براہ راست موضوع نہیں۔ سماج کی اپنی ڈگر ہے اور مذہب کی اپنی جو سراسر انفرادی معاملہ ہے۔

دوسری یہ کہ مذہب ایک فکری نظام(discourse)ہے جیسے اشتراکیت‘سرمایہ داری اور بہت سے دوسرے نظام ہیں۔مذہب کے ساتھ ہمارا تعلق فکری (intellectual) ہے۔یہ ایک فکری سرگرمی کا موضوع ہے۔ہمیں اس دنیا کو سنوارنے کیلئے اس سے مدد لینی چاہیے۔پیغمبر انسانی تاریخ کی بلند وبالا شخصیات ہیں اور ہمیں ان کی تعلیمات سے استفادہ کرنا چاہیے۔ مذہبی کتب کو بھی اسی زاویے سے دیکھنا چاہیے۔ مذہب فرد اور خدا کامعاملہ ہے۔اس معاملے میں کسی دوسرے ادارے کا کردار‘چاہے وہ کلیسا ہو یا ریاست قابلِ قبول نہیں۔کلیسا یا مذہبی طبقے نے ایک خود ساختہ شریعت ایجاد کر رکھی ہے اور یوں ابنِ آدم کو چند رسوم میں جکڑ دیا ہے۔مذہب کو ان رسوم ومناسک سے ماورا‘ اس کے مقاصد کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔

تیسری تعبیر یہ ہے کہ مذہب ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے۔ اس کا مقصود انسانی معاشرے میں خدا کی حاکمیت کا بالفعل قیام ہے۔ مذہب کا اصل مطالبہ یہی ہے۔نماز ‘روزہ اور حج جیسی عبادات اور مناسک بھی ضروری اور مذہب کا حصہ ہیں لیکن ان کی حیثیت ایک تربیتی نظام کی ہے تاکہ ان پر عمل کر کے وہ لوگ تیار ہوں‘ جو دنیا میں اسلام کے غلبے کو امرِ واقع بنا سکیں۔

چوتھی تعبیر کے مطابق‘مذہب ایک عصبیت ہے جیسے رنگ و نسل کی عصبیت۔ ہم جس خاندان یا مذہب میں پیدا ہوتے ہیں‘اس کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔اس جذباتی وابستگی کا ہمیں زندگی بھر دفاع کرنا اور اس عصبیت کو زندہ رکھنا ہے۔جس طرح غیرت کے نام پر مرنا مارنا ایک اعزاز ہے‘اسی طرح مذہب کے نام پر قتل ہونا اور قتل کرنا بھی ایک اعزاز ہے۔اس تعبیر میں یہ بات غیر اہم ہے کہ مذہب زندگی گزارنے کا کوئی ڈھنگ سکھاتا ہے یا کسی رسم یا عبادت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر مذہب کی کسی رسم پر عمل کیا جا تا ہے تو وہ بھی اسی عصبیت کو زندہ رکھنے کے لیے۔ہم ویسے حجاب کے بارے میں حساس نہیں لیکن اگر کوئی ہمیں بالجبر اس سے روکے گا تو پھر اس کے لیے جان پر کھیل جائیں گے۔

مذہب کی پانچویں تعبیر یہ ہے کہ یہ کارخانہ قدرت ایک واہمہ یا عکس ہے جس کی اپنی کوئی حقیقت نہیں۔اس کائنات میں ایک ہی حقیقت ہے اوروہ خدا کی ذات ہے۔ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں‘اسی کے تنزلات ہیں۔ انسان بھی اسی سمندر کا ایک قطرہ ہے۔اس کی سعی و جہد کا حاصل یہ ہونا چاہیے کہ وہ قطرہ پھر سمندر میں مل جائے۔مذہب کا مطلوب بھی یہی ہے۔

چھٹی تعبیر کے مطابق‘انسان خدا کی مخلوق اور اس کا بندہ ہے۔اسے ایک دن خدا کے حضورمیں پیش ہونا ہے۔وہاں اس کے مستقل ٹھکانے کا فیصلہ ہونا ہے:جنت یا جہنم۔اس کا فیصلہ اس پر منحصر ہے کہ ایک انسان نے اس دنیا میں خود کو کتنا پاکیزہ بنایا۔یہ پاکیزگی اس دین پر عمل سے حاصل ہوتی ہے جو پیغمبر لے کر آتے ہیں۔اس میں کچھ غیر اہم نہیں۔یہ ذہنی و جسمانی طہارت نماز‘ روزہ اور حج‘ زکوٰۃ کے بغیر نہیں مل سکتی ‘اس لیے یہ مقصود بالذات ہیں۔امورِ دنیا میں مذہبی تعلیمات فرد کی سماجی حیثیت کے مطابق‘اس سے متعلق ہوتی ہیں اور وہ اسی حد تک جواب دہ ہے۔

مجھے ان تعبیرات میں غلط اور صحیح کا فیصلہ نہیں کرنا۔میں نے بطورامرِ واقعہ ان کو بیان کیا ہے۔ان سب کو ماننے والے کسی نہ کسی درجے میں ’مذہبی‘ ہیں۔سوال یہ ہے کہ قائد اعظم ان میں سے کس تعبیر کے قائل تھے؟

تفہیمِ مذہب ایک مسلسل عمل ہے۔ ارتقا اس کا خاصہ ہے اور تعبیرات کا تعدد نتیجہ۔

ان تعبیرات سے ایک ''تاریخی مذہب‘‘ وجود میں آتا ہے۔ تاریخی مذہب، مذہب کے بنیادی ماخذ اور اس کی تفہیم کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ہر مذہب کی تاریخ میں، کچھ وقفے کے بعد، تجدید و احیائے دین کی ایک تحریک اٹھتی ہے۔ یہ تحریکیں اس دعوے کے ساتھ برپا ہوتی ہیں کہ اصل مذہب انسانی تعبیرات سے بوجھل ہو گیا ہے، اس لیے لازم ہے کہ اب حقیقی دین کی بازیافت کی جائے۔ اس کے لیے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ حقیقی مذہب کو تعبیر کے تاریخی عمل سے الگ کیا جائے۔

اسلام کی تاریخ بھی اسی طرح آگے بڑھی ہے۔ اس سے دو نقطہ ہائے نظر وجود میں آئے۔ ایک وہ جو تجدید و احیا کی تحریکیں اپناتی ہیں۔ اس کے مطابق دین اصلاً قرآن اور سنت کا نام ہے‘ ہمیں ان کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کرنا اور انہیں سمجھنا ہے۔ مذہب کا وہ فہم ہمارے لیے حجت نہیں جو انسانی کاوش اور تاریخی عمل کا حاصل ہے۔ اس میں سے اگر کچھ قبول کیا جائے گا تو نقد و جرح کے اس پیمانے پر جو ہر احیائی تحریک از خود طے کرتی ہے۔ دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ مذہب کو اسلاف کی تعبیر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اصل ماخذات کے ساتھ یہ تعبیر بھی مذہب کا حصہ ہے۔ دونوں کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔ یہ نقطہ نظر دین کو اس عملی و علمی روایت میں رکھ کر دیکھتا ہے، اس لیے روایتی کہلاتا ہے۔

یہ نکتہ مزید شرح کا متقاضی ہے۔ احیائی تحریکوں کے مطابق، مذہب صرف قرآن و سنت کا نام ہے۔ قرآن کو ہم اصولوں کی روشنی میں سمجھیں گے جو کسی بھی متن کی تفہیم کے لیے فطری طور پراختیار کیے جاتے ہیں۔ جیسے عربی زبان اور اسالیبِ کلام۔ اس عمل میں لازم نہیں کہ اُس تفسیر کو بھی قبول کیا جائے جو ہم سے پہلے ادوار میں ہوتی آئی ہے۔ اسی طرح احادیث کو بھی ہم سمجھیں گے اور اس میں بھی ضروری نہیں کہ قدیم لوگوں کی رائے کو حتمی سمجھا جائے جو روایت یا درایت کے باب میں اختیار کی گئی ہے۔

روایتی موقف یہ ہے کہ قرآن مجید کو اسلاف کی تفسیر سے الگ کرکے نہیں سمجھا جا سکتا۔ اسی طرح نبیﷺ سے کسی روایت کو اگر قدیم محدثین نے سنداً صحیح قرار دے دیا تو اسے اب صحیح مانا جائے گا۔ یا ایک حدیث کا جومفہوم اختیار کیا جا چکا، اسے ہی قبول کیا جائے گا۔ یہی معاملہ استنباطِ احکام کا بھی ہے جس سے فقہ کی روایت وجود میں آئی۔ مزید یہ کہ کسی تعبیر پراگر اجماع وجود میں آگیا تواس کی مخالفت جائز نہیں؛ چنانچہ اہلِ سنت نے یہ موقف اپنا لیاکہ اصولِ فقہ میں ائمہ اربعہ کے دائرے سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔

انسانی سماج مسلسل حرکت میں ہے۔ اس لیے کوئی جامد سوچ اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ مذہب کو اگر زندہ رہنا ہے تو اسے متحرک ہونا پڑے گا۔ وقت کا یہ بہاؤ احیائی تحریکوں کو جواز بخشتا ہے۔ مذہب کا مزاج مگرروایتی ہے۔ اس کی صحت کا انحصار نقل پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں روایتی نقطہ نظر غالب رہا جو مذہب کی اس فطری ضرورت کو پورا کرتا ہے؛ تاہم تاریخی دبائو کے نتیجے میں، وہ اس روایت کو مسلسل متحرک رکھنے پر مجبور ہے۔ یوں روایت پسند بادلِ نخواستہ تبدیلی کو قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن حیلے کے ساتھ۔ وہ کوشش کرتے ہیں کہ اگر نئی راہ اختیار کرنا پڑے تو یہ تاثر قائم رہے کہ دراصل یہ قدیم روایت ہی کا تسلسل ہے۔

ارتقا کا ایک ناگزیر نتیجہ یہ بھی ہے کہ ایک وقت کی احیائی تحریک، جب ماضی کا قصہ بنتی ہے تو اکثر روایت میں شامل ہو جاتی ہے۔ اگر اس کے متاثرین ایک قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہوں یا وہ مسلمانوں کے اعیان و اشرافیہ کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوجائے تو روایت کا مستند حصہ سمجھی جاتی ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ وہ احیائی تحریکیں جو سب کچھ بدل دینے کے عزم سے اٹھیں، وقت کے ساتھ روایت کو اپنے فکری نظام میں جگہ دینے پر مجبور ہوئیں۔ یوں یہ ایک دوطرفہ عمل ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی نے اس حقیقت کو ایک بار ازراہ تفنن بیان کیا۔ ان سے کسی نے کہاکہ فلاں معاملے میں آپ نے جو رائے اپنائی ہے، متقدمین میں سے تو کسی نے اختیار نہیں کی۔ مولانا نے جواب دیا: آپ ہمارے مرنے کا انتظار کیجیے‘ کچھ وقت کے بعد ہم بھی متقدمین میں شامل ہوجائیں گے۔

حاصل یہ ہے کہ احیائی اور روایتی نقطہ نظر ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور تعبیرات کے تعدد کو گوارا کیا گیا ہے۔ یہ تعبیرات چھ سات کے عدد میں مقید نہیں ہیں؛ تاہم قبولیتِ عامہ چند ہی کو ملتی ہے۔ بیسویں صدی تک آتے آتے، مسلمانوں میں ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جب زندگی اور سماج کی صورت گری میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس نے ایک فکری جمودکو جنم دیا۔ بیسویں صدی میں ایسی سیاسی تبدیلیاں آئیں جن کے نتیجے میں مسلمان انفعالی حالت سے نکلے اور مختلف خطوں میں زمامِ کار ان کے ہاتھ میں آگئی۔ اب انہیں اپنے اجتماعی وجود کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا تھا۔ بقا نئی تعبیر کاتقاضا کرتی تھی لہٰذا نئی تعبیرات اختیار کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ یہی وہ دور ہے جب قائداعظم کی فکری تشکیل ہوئی۔

قائداعظم کے لیے اس بات کی اہمیت، اس وقت بہت بڑھ گئی جب ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا اور انہوں نے وکالت کو پیشہ کیا۔ اس کے ساتھ وہ سیاست میں آئے اور مسلمانوں کے ترجمان بنے۔ نجی زندگی کے حوالے سے مذہب کا معاملہ ان کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں رہا۔ ذاتی سطح پر، جب مذہب کی ضرورت پیش آئی توروایتی دینی تعبیرکو انہوں نے کافی سمجھا۔

اصل مسئلہ سیاسی زندگی میں پیش آیا۔ تجربات نے انہیں سمجھایاکہ مسلمانوں کی تہذیبی اور سماجی بنت ہندوئوں سے مختلف ہے۔ ہندووں کے اعیانی طبقے کے رویے نے انہیں اس رائے پر مستحکم کیا؛ تاہم چونکہ وہ اسلام کے کوئی سکالر نہیں تھے، اس لیے اپنے تئیں اس کا کوئی حل تلاش نہیں کرسکتے تھے، اگرچہ وہ اس کی ضرورت کومحسوس کر رہے  تھے۔

مسلمانوں کو درپیش اس عملی مسئلے کے حل کی طرف علامہ اقبال نے انہیں متوجہ کیا۔ خطبہ الٰہ آباد کے وقت وہ سیاسی طورپر فعال نہیں تھے لیکن یہ ممکن نہیں کہ یہ خطبہ ان کی نظرسے نہ گزراہو۔ وہ ہندی مسلمانوں کے حالات سے مایوس ہوکرانگلستان جاچکے تھے۔ اقبال نے ان کے نام اپنے خطوط میں مسلمانوں کے مسائل اوران کے حل کی نشاندہی کی۔ اس باب میں قائداعظم علامہ اقبال کو اپنا فکری قائد مانتے ہیں، جس طرح اقبال قائداعظم کو اپنا سیاسی راہنما قرار دیتے ہیں۔ کیا قائد، اقبال کی اس فکری قیادت کوتعبیرِ مذہب کے عموم میں بھی قبول کرتے تھے؟ میں اس سوال کوآگے چل کرمخاطب بناؤں گا۔

اسلام پر قائداعظم نے وقتاً فوقتاً جو گفتگو کی، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اسلام کو اپنے طورپر سمجھنا شروع کردیا تھا، بالخصوص تہذیبی اورسیاسی حوالے سے۔ جب وہ مسلمان قوم کا سیاسی مقدمہ لڑرہے تھے تولازم تھاکہ وہ اس کے علمی مقدمات اور تہذیبی امتیازات سے واقف ہوں۔ بایں ہمہ بطور وکیل بھی انہیں اسلام کے عائلی قوانین کو سمجھنا تھاکہ انہیں عدالت کے سامنے اپنے موکل کا مقدمہ پیش کرنا پڑتا تھا جو شخصی احوال میں ان سے رجوع کرتاتھا۔ جب انہوں نے وقف کابل (مارچ 1911) پیش کیا، تب بھی انہوں نے یقیناً اسلام کامطالعہ کیا ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ اس مطالعے اور غوروفکر سے وہ کن نتائجِ فکر تک پہنچے؟ تعبیرِ مذہب کے پہلوسے، ہم ان کا شمارکس طبقے میں کریں گے؟

قائداعظم کے تصورِ اسلام کوان کے تصورِ پاکستان سے بے نیاز ہوکر نہیں سمجھا جاسکتا تھا۔ یہ تصور دو نکات پر مشتمل ہے۔

ایک یہ کہ پاکستان اسلام کے اصولوں پر قائم ایک مملکت ہے۔ یہ بات انہوں نے اتنے اصرارکے ساتھ، اس کثرت سے اور اتنے اسالیب میں کہی کہ اس کا انکار عقلاً محال ہے۔ کبھی انہوں نے شریعت کو پاکستان کے دستورکی بنیاد کہا (25جنوری 1948ء) اور کبھی اسے 'اسلامی ریاست‘ قرار دیا (فروری 1948)۔ دیانتداری کا تقاضا ہے کہ ان کی 11اگست 1947ء کی تقریر کو ان کی دیگر تقاریر کے سیاق و سباق میں پڑھا جائے یادیگر تقاریر کومجلسِ دستور سازکے اِس خطاب کے تناظر میں سمجھا جائے۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پاکستان اصلاً مسلمانوں کیلئے بنا ہے۔ یہ بات بھی قائداعظم نے اتنی تکرارکے ساتھ کہی کہ اس کا انکار تاریخ کاانکار ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان اگراپنے تہذیبی وجود کا اظہارکرنا چاہیں توکوئی دوسرا عقیدہ یا نظریہ ان کی اس خواہش کے راستے میں مزاحم نہ ہو؛ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کوئی دوسرا مذہبی یا تہذیبی گروہ مذہبی آزادی کے فطری حق کو استعمال کرنا چاہے تواس کو روک دیا جائے۔ اس سے البتہ یہ واضح ہوتا ہے کہ ریاست کا غالب رنگ اسلامی ہوگا۔

قائداعظم کا تصورِ اسلام، ان کے تصورِ پاکستان اور سیاسی کردارکے زیرِاثر متشکل ہوا۔ بطوروکیل، تفہیمِ اسلام ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی ضرورت بھی تھی لیکن جیسے جیسے ان کا سیاسی کردار بڑھتاگیا، اسلام ان کیلئے ایک عقیدے یا فقہی قضیے سے زیادہ ایک سیاسی نظام اور تہذیبی قوت کے طورپر اہم ہوتا گیا۔ انہوں نے اسلام کومعاصر سیاسی افکار اورتبدیلیوں کے تناظر میں سمجھناچاہا۔ یہ اسلام کی تفہیم کاعقلی منہج ہے۔

قائد نے جہاں جہاں اور جب جب اسلام کو موضوع بنایا، ان کی گفتگو کا کم وبیش پچانوے فیصد حصہ اسلام کے بارے میں ایک اصولی یا عمومی موقف کا بیان ہے۔ ان کی طرف سے اس کی کوئی توضیح و تشریح نہیں کی گئی۔ جیسے ''قرآن کریم مسلمانوں کا عمومی ضابطہ حیات ہے‘‘۔ اس طرح کے بیانات سے کوئی تصورِ اسلام اخذ کرنا ممکن نہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ قائد اسلام کے سکالرنہیں تھے، اس لیے اُن سے یہ توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔ یہ عذر قابلِ قبول ہے اوراس سے ان کی عظمت میں بھی کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ مسلم تاریخ میں ان کا مقام ایک سیاسی رہنما کے طورپر ہے نہ کہ ایک سکالر کے طور پر۔ اس سے لیکن یہ بنیادی مقدمہ قائم رہتا ہے کہ ان کے بیانات سے کوئی مستقل بالذات تصورِ اسلام کشید کرنا ممکن نہیں۔

قائداعظم کے خطبات و ارشادات میں موجود اس خلا نے مختلف گروہوں کویہ موقع فراہم کردیا کہ وہ قائداعظم کے بیانات کی تشریح اپنے اپنے تصورِ اسلام کی روشنی میں کریں۔ اب اگرکوئی ان کے کسی انٹرویو میں موجود ''اسلامی ریاست‘‘ کی اصطلاح کو مولانا مودودی کے تصورِاسلامی ریاست کی روشنی میں پیش کرنا چاہے توآپ اس کا قلم یا زبان نہیں روک سکتے۔ اسی طرح اگرکوئی سردار شوکت حیات اور سبطِ حسن کی طرح قائداعظم کو غیر مذہبی (سیکولر) ثابت کرنا چاہے توآپ اس پربھی کوئی قدغن نہیں لگا سکتے۔ کوئی ان کی تقریر سے 'اسلامی سوشلزم‘ (چٹاگانگ، 26مارچ 1948ء) کی اصطلاح لے کر انہیں 'سوشلسٹ‘ قراردینا چاہے تو قائداعظم کے ارشادات کی روشنی میں اس کی تردید نہیں کی جاسکتی۔

میں نے قائداعظم کی تقاریر، بیانات اور اقدامات سے بلاواسطہ ان کے فہمِ اسلام تک رسائی کی کوشش کی ہے۔ اس سے بڑی حد تک اُس ریاست کے خدوخال نمایاں ہوتے ہیں جوان کے نزدیک ایک اسلامی ریاست ہے۔ اس کوشش میں کسی دوسرے کی تشریح یا توضیح شامل نہیں۔ میں اس فہم کو چند نکات کی صورت میں بیان کررہا ہوں:

1۔ پاکستان کی ریاست اپنے سیاسی ومعاشی نظام کی تشکیل میں اسلام کی تعلیمات کو بنیاد بنائے گی۔ (25جنوری 1948ء)

2۔ قرآن مجید کے مطابق انسان زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے دوسروں انسانوں کے ساتھ اُسی طرح معاملہ کرنا ہے جس طرح خدا اپنے بندوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یہ محبت اور تحمل و برداشت سے عبارت ہے۔ ہمیں خداکی مخلوق سے یہی رویہ رکھنا ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے قرآن مجید کی ایک عقلی تفسیروتشریح کی ضرورت ہے۔ اسلامی عبادات دراصل اسی رویے کی تشکیل کیلئے ہیں۔ (نومبر1939ء‘ عید کا پیغام)

3۔ اسلام انسانوں کے درمیان امتیاز نہیں کرتا۔ بطور نظام، تہذیب اور تمدن، اسلام انسانی برابری، بھائی چارے‘ آزادی اور مساوات کا قائل ہے اور پاکستان کا نظام اسی تصورِ اسلام کی اساس پر بنے گا۔ (25 جنوری 1948ء، 26مارچ 1948ء)

4۔ ہندوئوں سے مختلف ہونے کا بنیادی سبب نظام ہائے معاشرت کا اختلاف ہے۔ اسلام وحدتِ آدم پریقین رکھتا ہے اور ہندومت معاشرتی سطح پر انسانوں کو طبقات میں تقسیم کرتا ہے۔ (22مارچ، 1940)

5۔ پاکستان کی ریاست میں، مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں تفریق نہیں کی جائے گی۔ وہ اپنے مذہبی وجود کے اظہار میں آزاد ہوں گے اورریاست کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوگا۔ (11اگست 1947ء)

6۔ پاکستان کی ریاست ان معنوں میں کوئی مذہبی ریاست (Theocracy) نہیں بن رہی جس میں مذہبی پیشواؤں (priests) کا ایک طبقہ کسی خدائی مشن کے ساتھ حکومت کرے گا۔ ) فروری 1948ء)

7۔ پاکستان میں بسنے والے ہندوئوں، مسیحیوں اور پارسیوں کو وہی حقوق اور مراعات حاصل ہوں گی جو کسی دوسرے شہری کو میسر ہیں۔ (فروری 1948ء)

8۔ پاکستان کی ریاست میں کلیدی عہدوں کیلئے مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہو گی۔ پاکستان کا کوئی شہری کسی اہم ترین منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔

9۔ خواتین کو معاشرت اور سیاست میں متحرک کردار ادا کرنا ہوگا، تاہم اس کا مطلب مغرب کی نقالی نہیں۔

یہ نکات قائداعظم کی تقاریر سے ماخوذ ہیں۔ اس میں کسی دوسرے کی تفہیم و تشریح شامل نہیں۔ یہ اسلام کو سیاسی و سماجی سطح پر سمجھنے کا ایک عقلی منہج ہے۔ اس لیے میں اس کا شمار تعبیرِ اسلام کے دوسرے طبقے میں کرتا ہوں۔ (ان طبقات کا ذکر میں نے اس سلسلے کے پہلے کالم میں کیا ہے)۔ کوئی فرد جب کسی مذہب کوعقلی سطح پر سمجھتا ہے توایک ناگزیر نتیجے کے طورپر ان مسلکی اور فرقہ وارانہ تعبیرات سے بلند ہوجاتا ہے جواسے خاندان یا معاشرے سے وراثتاً منتقل ہوتی ہیں۔ فقہ پھر اس کے نزدیک نکاح و طلاق یا تجہیزوتدفین جیسے معاملات تک محدود ہو جاتی ہے۔ قائد اعظم کا معاملہ بھی یہی تھا۔ وہ وقت کے ساتھ مسلکی تقسیم سے بلند ہوگئے۔

میں جب قائد کے ارشادات سے ابھرنے والی اس تعبیر کو سامنے رکھتا ہوں تو مجھے ان اخبارِ آحاد پر زیادہ اعتماد نہیں رہتا جو اسلام کے ساتھ ان کے وابستگی کی ایک جذباتی تصویر پیش کرتے ہیں، جیسے حسرت موہانی سے منسوب ایک روایت۔ اسی طرح خوابوں کا معاملہ بھی، اگر سچ مان لیا جائے تولاشعوری سطح پرخوش گمانیوں کے اظہار سے زیادہ کچھ نہیں۔

کیا قائداعظم اور علامہ اقبال ایک ہی تعبیرِ اسلام کے قائل تھے؟ مولانا شبیر احمد عثمانی کے ساتھ قائد کے تعلق کی نوعیت کیا تھی؟ اس بحث میں یہ سوالات اہم ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کو الگ سے موضوع بنایا جائے۔

قائداعظم کا تصورِ اسلام، کیا کلی طور پرفکرِ اقبال سے مستعارہے؟

علامہ اقبال ایک عالم تھے اور قائداعظم ایک عملی سیاست دان۔ تعبیرِ دین کے باب میں دونوں کا تقابل خوش ذوقی نہیں اور نہ ہی یہاں مطلوب ہے۔ قائد نے اقبال کے علمی تبحر کا بارہا ذکر کیا اور انہیں ایک طرح سے اپنافکری رہنما بھی قرار دیا۔ اس سے یہ تاثر قائم ہواکہ قائد کے تمام تر افکار، فکرِ اقبال سے ماخوذ ہیں۔ اس لیے قائدکے فہمِ دین تک رسائی کیلئے ضروری ہے کہ اس سوال کا موضوع بناناجائے۔

اقبال، اس میں کیا شبہ ہے کہ نادرِ روزگار شخصیت تھے۔ ایک عبقری۔ ان کے اقلیمِ فکر اور مطالعے کی وسعت وہمہ گیری کا احاطہ آسان نہیں۔ مذہب، فلسفہ، تصوف، تاریخ، سماجی علوم، ادب... علم وفضل کون سا شعبہ ہے، جس کی امہاتِ کتب تک ان کی رسائی نہیں تھی۔ 'جاویدنامہ‘ میں انہوں نے جس طرح مختلف افلاک پر اقامت کیلئے شخصیات کا انتخاب کیا ہے، صرف یہی یہ جاننے کے لئے کافی ہے کہ علمی اعتبار سے وہ کس درجے کے آدمی تھے۔ اس پہ مستزاد علم کی مشرقی ومغربی روایات سے براہ راست استفادہ۔

قائداعظم علامہ اقبال کی اس حیثیت سے واقف تھے۔ اس لیے انہوں نے اقبال کی آرااور تجزیوں کو ہمیشہ بہت اہمیت دی۔ اس سے بڑھ کر، اس بات کی کیا دلیل ہوگی کہ علامہ نے خطبہ الٰہ آباد میں جس منزل کی نشاندہی کی تھی، قائد نے اس تک پہنچنے کواپنا مقصدِ حیات بنالیا۔ اس کے باوصف، میراتاثر یہ ہے کہ قائداعظم کا فہمِ اسلام، کلی طور پر علامہ اقبال کی تعبیرِدین سے ماخوذ نہیں تھا۔ ان کا اتفاق جزوی تھا۔

اس کی وجہ 'شاکلہ‘ کا فرق ہے۔ علامہ اقبال کی شخصیت پر جذبات کا غلبہ تھا۔ قائد پر عقل کا۔ اقبال دل سے سوچتے تھے، قائددماغ سے۔ شخصیت پرجب ایک پہلوکا غلبہ ہوتو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ دوسرے کی کلی نفی ہوگئی ہے۔ جذبات کے غلبے سے یہ مرادنہیں کہ عقل کا کردار ختم ہوگیا یاعقلی شخصیت کا یہ مفہوم نہیں کہ ایسے آدمی کے پاس دل نہیں ہوتا۔ غلبے کا مطلب یہ ہے کہ دل و دماغ میں تصادم ہوجائے تو ترجیح کسے دی جاتی ہے یا زندگی کے بارے میں سوچتے ہوئے، کون ساپہلو زیادہ اہم شمارہوتا ہے۔

علامہ اقبال کے بارے میں رشید حمد صدیقی نے لکھا ہے کہ انہیں اسلام کے آفاقی پیغام سے زیادہ رسالت مآبﷺ کی شخصیت نے متاثر کیا۔ گویا اسلام تک ان کی رسائی دل کے راستے سے ہوئی۔ ظاہرہے کہ یہ دل تک محدود نہیں رہا، ان کے لئے عقلی سرگرمی کا بھی سب سے بڑا موضوع بنا۔ اسلام کو پیش کرنے والی شخصیت جیسی بلند و بالا تھی، اس کا پیغام بھی اُسی شان کا تھا۔ اقبال اصلاً شاعر تھے۔ جودل کی حاکمیت کا قائل نہ ہو وہ شاعر نہیں بن سکتا۔ ان کے دیگر امتیازات ان کی شاعرانہ طبیعت کے تابع ہیں۔

قائداعظم سیاستدان تھے اور سیاستدان ہمیشہ عملی آدمی ہوتا ہے۔ عملی آدمی عقل کی حاکمیت کا قائل ہوتا ہے۔ وہ رزم گاہ میں کھڑا ہوکر فیصلے کرتا ہے، ایک سپہ سالار کی طرح۔ کبھی ہزاروں اور کبھی لاکھوں افراد کی زندگی اس کے ایک فیصلے سے بندھی ہوتی ہے۔ وہ خودکو دل کے حوالے نہیں کرسکتا۔ قائداعظم نے ہمیشہ عقلی فیصلے کیے۔ کبھی اپنی باگ دل کے ہاتھ میں نہیں دی۔ ان کی تمام سیاسی زندگی اس پر گواہ ہے۔ جیسے قیامِ پاکستان کیلئے یکسو ہونے کے باوجود، کیبنٹ مشن کی سفارشات کو تسلیم کرلیا تھا۔

میں اس فرق کو ایک مثال سے واضح کرتاہوں۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم دونوں نے حج نہیں کیا لیکن دونوں کے حج نہ کرنے کے اسباب مختلف تھے۔ اقبال ہمیشہ اس خواہش میں جیتے رہے۔ عمر کے آخری حصے میں تو ٹریول ایجنٹ تک سے رابطہ کر لیا تھا کہ سفر کی تفصیلات طے کریں۔ گفتگو کے دوران میں سفرِ حجاز کا ذکر آ جاتا تو وہ ایک دوسری کیفیت میں چلے جاتے۔

حج اصلاً مکہ کا سفر ہے۔ اقبال دین کے عالم تھے، اس بات سے بہتر واقف تھے۔ اس کے باوجود جب بھی سفرِ حجاز کی بات ہوئی، ان کا دل مدینہ میں اٹکا دکھائی دیا۔ شاعری اور نثر دونوں کا یہی معاملہ ہے۔ 13جون 1937ء کو سر اکبر حیدری کے نام خط میں لکھا ''ایک ہی خواہش، جو ہنوز میرے دل میں خلش پیدا کرتی ہے، یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہو تو حج کیلئے مکہ جاؤں اور وہاں سے اس ہستی کی تربت پر حاضری دوں، جس کا ذاتِ الٰہی سے بے پایاں شغف میرے لیے وجہ تسکین اور سرچشمہ الہام رہا ہے‘‘۔

عمر کے اس آخری حصہ میں جذباتی اور روحانی طور پر وہ حجاز کے سفر پر روانہ ہو چکے تھے۔ 'حضورِ رسالت‘ کے عنوان سے فارسی رباعیات اور قطعات لکھے جا رہے تھے کہ

بہ ایں پیری رہِ یثرب گرفتم
نوا خواں از سرورِ عاشقانہ

اس ذوق و شوق کی کہانی، اقبال نے جس والہانہ انداز میں، اپنی نثر اور شاعری میں لکھی ہے، چشمِ ترکے ساتھ ہی پڑھی اور بیان کی جا سکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اقبال اگر مدینہ پہنچ جاتے تو شاید واپس نہ آسکتے۔ وہ 'پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا‘ کا مصداق بن جاتے۔

دوسری طرف قائداعظم کے ہاں کہیں جذبات کا ایسا اظہارنہیں ملتا۔ وہ حج پر نہ جا سکے اور کبھی اعلانیہ اس خواہش کا اظہار بھی نہیں کیا۔ قائد نے خود اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی۔ میرا قیاس یہ ہے کہ ان دو رویوں کا فرق دراصل شاکلہ کافرق ہے۔ رسالت مآبﷺ اور اسلام سے اقبال کے تعلق کی بنیاد جذباتی تھی، جس کا ظہور حج کے معاملے میں بھی ہوا۔ قائد کی رسول اللہﷺ اور اسلام سے تعلق اصلاً عقلی تھا، اس لیے اس کا اظہار جذباتی سطح پر نہیں ہوا۔ اس فرق کی وجہ سے قائد نے فکرِاقبال کے اس پہلوسے تو اثر قبول کیا جس کا تعلق اسلام کے سیاسی و سماجی تعلیمات کی عقلی توجیہ اور تشریح سے تھا لیکن وہ اقبال کی کلی تعبیر سے کوئی مناسبت نہ پیدا کر سکے۔

قائد اعظم اسلام کو عصری نظریات کے تقابل میں، عقلی اور فکری سطح پر ایک سیاسی و سماجی نظام کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ تاریخ یہ کہتی ہے کہ جنہوں نے دین کوصرف اس پہلو سے سمجھا، ان کے ہاں، مذہب کا وہ پہلو پس منظر میں چلا گیا جو تعلق باللہ یا شخصی عبادات سے متعلق ہے۔ اس تعبیر کے مطابق یہ پہلو ایک فرد کے لیے اہم ہو سکتا ہے لیکن مقصود بالذات نہیں۔ اس تعبیرمیں مقاصدِ شریعت اہم ہوتے ہیں، شریعت نہیں۔ اقبال نے جب مذہب کی عقلی توجیہ کی تو ان کا رجحان بھی اسی جانب دکھائی دیتا ہے۔ خطبات میں جب وہ اجتہاد کو موضوع بناتے اور شرعی سزاؤں کے آفاقی پہلو پر گفتگو کرتے ہیں تواسے مقاصدِ شریعت ہی کی روشنی میں حل کرنا چاہتے ہیں۔

تاہم، اقبال چونکہ ایک عالم تھے، اس لیے اس عقلی توجیہ کے باوجود، وہ عبادات اور شریعت کی اہمیت سے صرفِ نظر نہیں کرسکتے تھے‘ اس لیے وہ دونوں میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس میں کتنے کامیاب رہے، یہ اس وقت میرا موضوع نہیں۔ مجھے تو یہاں علامہ اقبال اور قائداعظم کے نظام ہائے فکر کے باہمی تعلق تک محدود رہنا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ تعبیرِ دین کے حوالے سے قائد سید امیر علی سے قریب تر ہیں۔ شایدان کی کتاب 'سپرٹ آف اسلام‘ قائد کے پیش نظر رہی ہو۔

فکرِ قائد کی تشکیل میں، کیا مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کا بھی کوئی حصہ تھا‘ جنہوں نے ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے، اپنے حلقے سے علیحدگی اختیار کی اور قائد کا ساتھ دیا؟

متحدہ قومیت کے مسئلے پر مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی کی اپنے حلقۂ فکر سے بغاوت، مسلم برصغیر کا ایک غیرمعمولی واقعہ ہے۔ اس نے تاریخ کا رخ متعین کرنے میں ایک اہم کردار اداکیا۔ یہ داستان ابھی تک اُس طرح لکھی نہیں جاسکی جیسے لکھی جانی چاہیے تھی۔ میری دلچسپی بھی اس کے صرف ایک پہلوسے ہے کہ کیا مولانا تھانوی کے سیاسی افکار قائداعظم کے فہمِ اسلام پراثر انداز ہوئے؟

مسلم برصغیر کی علمی و تہذیبی تشکیل میں مولانا اشرف علی تھانوی کا مقام پیشِ نظر رہے تواس سوال کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے۔ علمِ تفسیر سے فقہ تک، تصوف سے کلام تک، نفسیات سے سماجی علوم تک، علم کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس پر مولانا تھانوی کااثر نہ ہو۔ ہماری تاریخ میں علامہ اقبال کے بعد وہ واحد شخصیت ہیں جنہیں حکیم الامت کہا گیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ اس اعزازکے مستحق تھے۔مولانا تھانوی اکابر علمائے دیوبند میں سے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اپنے جن فرزندوں پر نازکرتا ہے، وہ ان میں سے ایک تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے متحدہ قومیت کے مسئلے پراپنے مسلک کے سوادِ اعظم سے اختلاف کیا۔ مولانا شبیراحمد عثمانی، مولانا تھانوی ہی کا فکری وسیاسی تسلسل ہیں۔ ان کا انتقال 1943ء میں ہوا جب تحریکِ پاکستان برپا ہوچکی تھی اور مسلم لیگ کوان لوگوں کی شدت کے ساتھ ضرورت تھی جواس کا مقدمہ دینی ومذہبی بنیادوں پر پیش کرسکیں۔ یہ کام مولانا شبیراحمد عثمانی نے سرانجام دیا۔

مولانا اشرف علی تھانوی نے مسلم لیگ کا ساتھ کیوں دیا؟ مولانا عملی سیاست میں علما کی شرکت کے خلاف تھے؛ تاہم وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ ملی سیاست علما کے اثرسے باہر نہ رہے تاکہ وہ صراطِ مستقیم پررہے۔ اس کا حل انہوں نے یہ تجویزکیا کہ مسلمانوں کی دو جماعتیں ہونی چاہئیں۔ ایک سیاسی جو عملاً بروئے کار آئے اور ایک علما کی جماعت جواس کی فکری رہنمائی اور تبلیغ (انذار)کاکام کرتی رہے۔ سیاسی جماعت اس کے زیرِ اثررہے۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے مسلم لیگ کی طرف دستِ تعاون بڑھایا۔

مسلم مفادکے حوالے سے مولانا تھانوی مسلم لیگ اورکانگرس دونوں کومثالی نہیں سمجھتے تھے؛ تاہم مسلم لیگ کوترجیح دیتے ہیں۔ اس ترجیح کی دووجوہات تھیں۔ پہلی‘ یہ مسلم لیگ مذہب کو قومیت کی اساس قراردیتی تھی اور مولانا تھانوی کے نزدیک یہی موقف درست تھا۔ دوسری یہ کہ کانگرس کے مقابلے میں مسلم لیگ کی اصلاح کے امکانات زیادہ تھے۔

مولانا کے پیش نظر یہ خاکہ تھاکہ مسلم لیگ مولانا تھانوی (یاعلما) سے فکری رہنمائی لے۔ اس ضمن میں مولاناکی مسلم لیگ کی قیادت کے ساتھ خط وکتابت رہی، بالخصوص نواب محمد اسماعیل خان کے ساتھ جو مسلم لیگ یوپی کے صدرتھے۔ نواب صاحب سے انہوں نے استفسار کیاکہ تعاون کی صورت میں مسلم لیگ میں علماکا کردار کیا ہوگا؟ ان کا جواب تھا: وہی جوایک مسلم سماج میں ہوتا ہے۔ مولانا تھانوی کے ساتھ قائد کی کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ براہ راست رابطے کا واحد ثبوت قائداعظم کا ایک خط ہے جوانہوں نے مولانا تھانوی کے ایک خط کے جواب میں لکھا۔

1937ء تک مولانا تھانوی مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد میں یکسو نہیں تھے۔ اس سال ہونے والے انتخابات سے پہلے جب جھانسی کے لوگوں نے مولاناکی رائے معلوم کرنا چاہی توان کاجواب واضح نہیں تھا۔ انہوں نے مسلم لیگ کے بارے میں اپنی ترجیح کا ذکرکیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہاکہ مسلم لیگ زمین داروں کی جماعت ہے‘ اس لیے یہ امرمشتبہ ہے کہ وہ جیت کراسلامی نظام نافذ کرسکے گی؛ تاہم مولانا ظفراحمد عثمانی کی تجویز پر انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ بحیثیت مجموعی یہ انتخابات ہارگئی لیکن مولاناکی نصرت کے باعث جھانسی میں کامیاب رہی۔

6جون 1938ء کو پٹنا میں مسلم لیگ کا ایک اہم اجلاس ہوا۔ اس میں مولانا تھانوی کی طرف سے چار رکنی وفد نے شرکت کی۔ اجلاس میں مولانا تھانوی کا ایک خط پڑھا گیا جس میں انہوں نے یہ بیان کیاکہ وہ مسلم لیگ سے کیا چاہتے ہیں۔ ایک یہ کہ مسلم لیگ کواب جنداللہ‘اللہ کے لشکر میں تبدیل ہوجانا چاہیے۔ اس کیلئے وہ اللہ پر ایمان کو مضبوط کریں۔ دوسرے یہ کہ مغربی تہذیب کے اثرات سے نکلیں۔ تیسرے غیرمسلموں کے ساتھ مشابہت سے بچیں اور داڑھی رکھیں۔ چوتھا یہ کہ نماز روزہ اور زکوٰۃ کا اہتمام کریں۔ 1943ء میں مولانا تھانوی کا انتقال ہوا‘ 1944ء میں ان کے سیاسی جانشین مولانا شبیر احمد عثمانی مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ 1945ء میں جمعیت علمائے ہند سے الگ ہوکر علمائے دیوبند کے ایک طبقے نے جمعیت علمائے اسلام کی بنیاد رہی، جس نے مسلم لیگ کی اعلانیہ حمایت کردی۔ مولانا عثمانی کلکتہ میں ہونے والے تاسیسی اجلاس میں خود شریک نہ ہو سکے۔ ان کی غیرحاضری میں ان کا خطبہ صدارت پڑھ کر سنایا گیا۔

اس اجلاس میں کم وبیش پانچ ہزارعلما شریک ہوئے۔ انہوں نے 'گاندھی ازم، اشتراکیت اور کمال ازم کی ملحدانہ سیاست‘ سے اظہارِ لاتعلقی کیا اور قائداعظم کو یقین دلایاکہ علما اور مشائخ انتخابات میں مسلم لیگ کا ساتھ دیں گے۔ مسلم لیگ کی طرف سے نواب محمد اسماعیل کا پیغام بھی سنایا گیا‘ جنہوں نے وعدہ کیاکہ پاکستان میں شریعت اور مذہب کے معاملات میں علماکی قیادت کوتسلیم کیا جائے گا۔

اجلاس میں مختلف قراردادوں کی صورت میں جمعیت نے اسلامی ریاست کا خاکہ بھی پیش کیا۔ ان قراردادوں کے مطابق، چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہوگا لہٰذا اس میں علما کا کردار اہم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے تجویزکیا گیاکہ پاکستان میں 'شیخ الاسلام‘ کا منصب ہو۔ ایک مفتیٔ اعظم ہو جو عدالتوں اورفقہی مسائل میں رہنما ہو جہاں مسلمانوں کے امورکے فیصلے ان کی فقہ کے مطابق ہوں۔ زکوٰۃ وصدقات کے لیے بیت المال ہو اور 'نظاماتِ اوقافِ اسلامیہ‘ ہو۔

مولانا تھانوی علما کے عملی سیاست میں حصہ لینے کے خلاف تھے لیکن ان کی رائے کے برعکس، مولانا عثمانی نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور عوامی سطح پر بھرپور انداز میں مسلم لیگ کا مقدمہ پیش کیا۔ انہوں نے متحدہ قومیت کے تصورکو شدت کے ساتھ رد کیا جو جمعیت علمائے ہند پیش کررہی تھی۔ اسے غیراسلامی کہا۔ نبیﷺ کی آمد کے بعد ان کے خیال میں اب صرف ایک تقسیم باقی ہے: مومن اور کافر۔ انہوں نے یہ دعویٰ کیاکہ شیخ الہند بھی ہندو اور مسلمان کو دوالگ قومیں سمجھتے تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنی وفات سے نو دن پہلے کیا۔ انہوں نے مدینہ اور پاکستان کو مترادف کہا اور یہ تعبیر پیش کی کہ رسالت مآبﷺ نے مدینہ میں ایک پاکستان قائم کیا (جمعیت کے لاہوراجلاس میں خطاب) ان کا کہنا تھاکہ جس طرح مدینہ کی ہجرت اوروہاں ایک اسلامی مرکزکا قیام ہمہ گیر اسلامی ریاست کی طرف پہلا قدم تھا، اسی طرح پاکستان کا قیام بھی اس سمت میں پہلا قدم ہے۔

پاکستان بننے کے بعد 13 جنوری 1848ء کو مولانا عثمانی کی رہائش گاہ پر جمعیت علمائے اسلام کا اجتماع ہوا جس میں شیخ الاسلام کے منصب کی بحالی کا مطالبہ دہرایا گیا۔ مولانا تھانوی اور مولانا عثمانی جمہوریت کے مخالف تھے اور اسے غیر اسلامی سمجھتے تھے۔

اس تجزیے سے واضح ہے کہ مولانا تھانوی اور مولانا شبیر احمد عثمانی‘ دونوں قائد اعظم کی طرح مسلمانوں کو ایک الگ قوم سمجھتے تھے؛ تاہم 'اسلامی ریاست‘ اور سیاسی تصورات کے باب میں دونوں کا نقطہ ہائے نظر مختلف تھے۔ اس بات کا مجھے کوئی ثبوت نہیں ملا کہ ان علما کے کردار کی تحسین کے باوجود، قائد اعظم نے ان سے کوئی فکری اثر لیا ہو۔

(بشکریہ روزنامہ دنیا)

الشریعہ اکادمی کی تعلیمی سرگرمیاں

ادارہ

الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کے زیر انتظام  مدرسہ الشریعہ ومسجد خدیجۃ الکبری ٰ ہاشمی کالونی، کنگنی والا میں اور   مدرسہ طیبہ ومسجد خورشید، کوروٹانہ میں  سرگرم عمل ہیں۔   الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر مولانا زاہدالراشدی اور ڈپٹی ڈائریکٹر مولانا محمدعمار خان ناصر ہیں، جبکہ مولانا محمدعثمان جتوئی، مولانا عبدالرشید، مولانا طبیب الرحمٰن، مولانا محفوظ الرحمٰن، مولانا عبدالوہاب، ، مولانا سفیراللہ ، مولانا کامران حیدر ،مولانااسامہ قاسم، قاری عمرفاروق اور ڈاکٹر محموداحمد پر مشتمل اساتدہ و منتظمین کی ٹیم ان کے ساتھ مصروف کار ہے۔اور معاونین میں حاجی عثمان عمر ہاشمی ،جناب محمدمعظم میر ، جناب محمد مبشر چیمہ،جناب محمدطیب،  جناب یحییٰ میر  ،جناب عاصم   بٹ،جناب ڈاکٹر عمران   رفیق، جناب دلشاد  ،جناب زبیر   اور جناب حاجی بشیر  نمایاں ہیں ۔

اکادمی کے شعبہ جات:

درس قرآن وحدیث

مسجد خدیجۃ الکبرٰی میں   مولانا زاہدالراشدی  روزانہ نماز فجر کے بعد درس قرآن وحدیث ارشادفرماتے ہیں جس سے اہل محلہ واہل علاقہ مستفید ہوتے ہیں۔

ناظرہ قرآن کریم

اکادمی میں روزانہ صبح وشام ناظرہ قرآن کریم کی کلاس ہوتی ہے جس  میں اب تک تقریباً چالیس طلبہ مکمل قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔

شعبہ حفظ

الحمدللہ الشریعہ اکادمی کے زیر اہتمام حفظ قرآن کریم کی کلاس  باقاعدہ تسلسل کے ساتھ جاری ہے   جس  میں اب تک تقریباً بیس طلبہ مکمل حفظ قرآن کریم کی سعادت  حاصل کر چکے ہیں۔

شعبہ درس  نظامی مع عصری تعلیم

شعبہ درس نظامی کے تحت درج ذیل درجات میں تعلیم جاری ہے:

اعدادیہ ، پری نہم (ایک سال)

درجہ اولیٰ بمع میٹرک  (آرٹس)  (دو سال)

درجہ ثانیہ وثالثہ بمع ایف اے  (دو سال)

الحمد للہ اس شعبے کے تحت 20 سے زائد طلباء درس نظامی کی تعلیم کے ساتھ ہائی فرسٹ ڈویژن میں میٹرک اور ایف اےکی تعلیم حاصل کرچکے ہیں اورمیٹرک میں  طالب علم دانیال عارف نے 990، احمد فداء نے 930، فرمان اللہ نے 925،  اسامہ وارث نے  893، طلحہ معاذ نے  887 ، عبدالوہاب نے 877، کامران حیدرنے  871 اور امان اللہ نے 854نمبر لے کر،جبکہ ایف اے میں احمد فداء نے 924، دانیال عارف نے 899نمبر لے کر اسکالر شپ کا اعزاز حاصل کیا۔

درجہ ثانیہ کا کورس اور میٹرک کا نصاب تین سالوں میں پڑھایا جا تا ہےاور میٹرک کا امتحان گوجرانوالہ بورڈ سے دلوایا جاتا ہے، جس میں طلبہ کی کارکردگی الحمدللہ ہر آنے والے سال میں گزشتہ سالوں سے بہتر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اکادمی میں ابتدائی طلبہ کے لیے ایک بنیادی درجہ ہےجس میں طلبہ کو مڈل تک کا نصاب پڑھا کر میٹرک کرنے کی استعداد  پیدا کی جاتی ہے ۔

مدرسۃ للبنات

اکادمی سے متصل مدرسۃ للبنات میں مقامی بچیوں کے لیے ناظرہ قرآن کریم کی کلاس جاری ہے، اور خواتین کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے ”ترجمہ قرآن وضروریات دین“کی کلاس بھی جاری ہے نیز ہفتہ وار درس کا بھی اہتمام کیاجاتاہے اس شعبہ میں مستقل طور پر تین  معلمات تدریس کے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔

تین سالہ آن لائن کورس

اکادمی کے زیر اہتمام زندگی کے مختلف شعبہ جات سے وابستہ خواتین وحضرات کیلئے ہفتہ وار قرآن وحدیث کی بنیادی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دیگر عربی فنون پر مشتمل تین سالہ تعلیمی پروگرام جاری ہے، جس کے تحت تین کلاسیں چل رہی ہیں۔جس میں ملک کی معروف علمی شخصیات کے لیکچرز بھی کرائے جاتے ہیں۔

ایم فل/پی ایچ ڈی کی سطح پر  تحقیقی رہنمائی

الشریعہ اکادمی کے  مقاصد میں علماء وطلبہ کو ایسا پلیٹ فارم مہیا کرنا بھی ہے،جس سے ان کو ان کے علمی میدان میں رہنمائی مل سکے۔ اس مقصد کے لیے جہاں اکادمی میں وقیع لائبریری کاقیام عمل میں لایا گیا، وہیں علماء وطلبہ کو علمی رہنمائی کے لیے افراد بھی مہیا کئے گئے جن سے وہ اپنے موضوعاتِ تحقیق پر منہج وتحقیق ومواد سے متعلقہ معلومات حاصل کرسکیں۔ اکادمی کی طرف سے یہ سہولت  فراہم کی گئی ہے کہ وہ یونیورسٹی میں ایم فل/ پی ایچ ڈی میں داخلہ لیں اور ان کی رہائش واخرجات کا ایک معتد بہ حصہ اکادمی کی طرف سے ادا کیا جائے۔ اگرچہ یہ سلسلہ ابھی   محدود سطح پر ہے لیکن متعدد احباب اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے  ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں مکمل کر چکے ہیں اور کچھ کے مقالات جاری ہیں۔

کوئز مقابلہ جات

اکادمی کے زیر انتظام دینی مدارس کے طلبا کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے کسی نہ کسی موضوع پر  مقابلے کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ تحریری مقابلوں کے علاوہ  گزشتہ تین سال سے  کوئز مقابلے کا اہتمام کیا جا رہا ہے جس میں کامیابی حاصل کرنے والے طلبہ کو نقد رقم اور دینی کتب انعام میں دی جاتی ہیں۔ ہر سال اس  مقابلے کاموضوع طلباء کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوےمنتخب کیا جاتاہے۔ اب تک درج ذیل موضوعات پر کوئز مقابلہ جات کااہتمام کیا جاچکاہے۔

ان مقابلہ جات میں شرکاء کو ساٹھ ہزار سے زائد رقم ،سینکڑوں کتب اور شیلڈزانعامات دیے جا چکے ہیں۔

فہم دین کورس

سکول وکالج کے طلبہ واہل علاقہ کی دینی رہنمائی کےلیے وقتاً فوقتاً عربی گرامر ،ترجمہ قرآن کریم اور بنیادی تعلیم کاانتظام کیاجاتا ہے۔

لائبریری

الشریعہ اکادمی  کے زیرانتظام دینی،علمی اور تاریخی موضوعات پر مشتمل ایک وقیع لائبریری   قائم کی گئی ہے جس میں اسلامی علوم، تاریخ، فلسفہ،  ادب اور دیگر موضوعات پراردو،عربی،انگریزی زبانوں میں ہزاروں کتابیں موجود ہیں ،جن سے دینی و عصری اداروں کے طلباء و اساتذہ اور علم وتحقیق سے دلچسپی رکھنے والے حضرات استفادہ کرتے ہیں ۔ لائبریری میں نئی کتب کا اضافہ تسلسل کے ساتھ کیا جارہاہے۔اس کے علاوہ مدرسہ طیبہ میں بھی طلبہ واہل علاقہ کے ادبی ذوق اور مطالعہ کے پیش نظر   لائبریری کا آغاز کیا گیا ہے۔

شعبہ نشرو اشاعت

شعبہ نشرو اشاعت کے تحت ماہنامہ الشریعہ کی اشاعت 1989ء سے  باقاعدگی سے جاری ہے جو علمی حلقوں کے مطابق ملک کے علمی و تحقیقی جرائد میں معروف و ممتاز حیثیت رکھتا ہے ۔نیز اس شعبہ کے تحت مولانا زاہد الراشدی، مولانا عمار خان ناصر اور دیگر اہل قلم کی اب تک دو درجن کے لگ بھگ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

فلٹرڈ پانی کی فراہمی

الشریعہ اکادمی کے دونوں کیمپسز میں طلباء اور عوام الناس کیلئے صاف اور فلٹر شدہ پانی کا انتظام کیا گیا ہے۔

علمی وفکری نشستیں، سیمینار

اکادمی میں وقتاً فوقتاً مختلف علمی و فکری موضوعات پر اہل علم کی نشستوں ،سیمینارز اور تربیتی ورک شاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں معروف اربابِ علم و فکر اظہار خیال فرماتے ہیں ۔

نقشبندی محفل

مدرسہ طیبہ کوروٹانہ میں  تعلیمی سال کے دوران بروز سوموار بعد از نماز عصر امام اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر ? کے سلسلہ کے مطابق ” نقشبندی محفل“ کے زیر عنوان اصلاحی نشست ہوتی ہے جس میں حضرت مولانا زاہد الراشدی   درس قرآن وحدیث ارشاد فرماتے ہیں اور مسنون اذکار کا وِرد کیا جاتا ہے۔

نقشبندی اجتماع

گزشتہ دو سال سے الشریعہ اکادمی کی شاخ مدرسہ طیبہ میں سالانہ نقشبندی اجتماع کا انعقاد کیا جارہا ہے، جس میں دیگر علماء،صلحاءاور نعت خوان حضرات کے علاوہ خصوصی طور پرحضرت مولانا  خواجہ خلیل احمد   سجادہ نشین خانقاہ سراجیہ (کندیاں شریف)تشریف لاتے ہیں۔

دورہ تفسیر قرآن کریم اور محاضراتِ علومِ قرآنی

2011ء سے  الشریعہ اکادمی میں ہر سال شعبان کی تعطیلات میں دورہ تفسیر قرآن اور محاضرات علوم قرآن کا انعقاد کیا جاتا ہے   جو اَب تک الحمد للہ کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔

محاضراتِ علوم قرآن کے تحت   درج ذیل عنوانات پر لیکچرز ہوتے ہیں:

”اصولِ تفسیر، اصولِ ترجمہ، مشکلات القران، جغرافیہ قرآنی، قرآنی شخصیات ومقامات کا تعارف، علوم القرآن اور تفاسیر کی متداول کتب کا تعارف اور امام شاہ ولی اللہؒ سے مولانا عبید اللہ سندھیؒ تک اکابرین وعلماء کی تفسیری خدمات کا تعارف“ وغیرہ ۔

 اس کے شرکاء میں مدارس، سکول وکالج کے اساتذہ اور منتہی درجات کے طلباء شامل ہیں۔ اور اب تک 400 سے زائد حضرات اس میں شرکت کرچکے ہیں۔

الشریعہ اکادمی، مدرسہ طیبہ کی ضروریات:


جون ۲۰۲۱ء

جنوبی ایشیا میں دینی مدرسہمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۷)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ جامع ترمذی (۲)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
مساجد و مدارس اور نئے اوقاف قوانینمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
دینی مدارس کے وفاقوں کو درپیش نیا مرحلہڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی
دینی مدارس کے نئے بورڈز کا قیامڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن
مولانا وحید الدین خانؒمولانا محمد وارث مظہری

جنوبی ایشیا میں دینی مدرسہ

محمد عمار خان ناصر

دینی مدارس کے نصاب میں  اعلی ٰ ثانوی سطح تک عصری تعلیم کے مضامین   کی شمولیت کے حوالے سے حکومت اور  مدارس کے وفاقوں کے مابین   ایک معاہدے    کی اطلاعات کچھ عرصے سے   گردش میں ہیں۔   مدارس کی رجسٹریشن اور مالی معاملات کی نگرانی کے حوالے سے  بھی   کئی اہم امور پر   گفت وشنید چل رہی ہے، جبکہ   وقف شدہ اداروں   سے متعلق انتظامی  وقانونی اختیارات سرکاری افسران کو منتقل کرنے کے حوالے سے    بھی ایک متنازعہ قانون سازی پچھلے چند ماہ سے  حکومت اور دینی  قیادت کے مابین کشاکش کا عنوان ہے۔  اس پس منظر میں اور اسی تسلسل میں گذشتہ فروری  میں دینی مدارس کے کچھ نئے بورڈز قائم ہوئے جنھیں ریاستی توثیق دی گئی ہے۔  زیرنظر سطور میں   اس ساری صورت حال کے تاریخی پس منظر پر عموما اور  حالیہ پیش رفت کی نوعیت پر خصوصا کچھ گذارشات پیش کرنا مقصود ہے۔

مدارس کے نئے بورڈ باقی مکاتب فکر میں بھی قائم ہوئے ہیں، لیکن دیوبندی مدارس کا ایک نیا بورڈ مجمع العلوم الاسلامیہ بوجوہ زیادہ زیربحث ہے۔ اس پر گفتگو تین مختلف سطحوں پر ہو رہی ہے جن کی اپنی اپنی اہمیت ہے:

پہلی سطح کا تعلق دیوبندی مدارس کی داخلی پالیٹکس سے ہے اور سوشل میڈیا پر زیادہ تر یہ بحث اسی سطح پر کی جا رہی ہے۔ ایک بہت بڑا طبقہ وفاق المدارس کی مرکزیت کو قائم رکھنے کا حامی ہے، جبکہ ایک خاصا بڑا طبقہ مختلف اسباب، تجربات اور شکایات کی بنیاد پر ایک متبادل انتظامی بندوبست کو ضروری سمجھتا ہے۔ دونوں کا موقف اور دلائل تفصیل سے سامنے آ چکے ہیں۔ ہمیں اس پہلو سے زیادہ دلچسپی نہیں، اور ویسے بھی یہ دیوبندی حلقے کا ایک داخلی معاملہ ہے۔

دوسری سطح پر بحث اس حوالے سے ہو رہی ہے، اگرچہ اس کا تناسب بہت کم ہے، کہ مدارس کے طلبہ اور فضلاء کو دینی اسناد کی توثیق وغیرہ کے حوالے سے جن مشکلات کا سامنا ہے، نئے انتظامی اقدامات سے وہ کس حد تک حل ہو رہے ہیں یا ہو سکتے ہیں یا نہیں ہو سکتے۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمن صاحب نے اس پہلو سے تفصیلا اظہار خیال فرمایا ہے۔

تیسری سطح تعلیم اور جدید ریاست کے باہمی ربط اور اسلامی تاریخ کے روایتی مدرسے اور جدید دور کے مدارس کے باہمی تقابل سے متعلق ہے۔ اس سطح پر گفتگو بالکل ہی نادر ہے اور غالبا محمد دین جوہر صاحب کی ایک تحریر کے علاوہ گفتگو اور تجزیے کا یہ پہلو موجودہ سیاق میں نظروں سے بالکل اوجھل ہے، اگرچہ اس سے پہلے وقتا فوقتا اس پر مختلف جوانب سے کچھ بات کی جاتی رہی ہے۔

جو مختصر معروضات پیش کرنا مقصود ہے، وہ بنیادی طور پر اسی دوسری اور تیسری سطح سے متعلق ہیں۔ مسئلے کی دوسری اور تیسری جہت دراصل ایک ہی بات کے دو پہلو ہیں، لیکن ہمارے ہاں اس کے صرف ایک پہلو پر بات ہوتی ہے، یعنی مدارس کی دینی اسناد کی ریاستی توثیق کی ضرورت، جبکہ مدرسے کے تاریخی کردار اور نوعیت میں رونما ہونے والی تبدیلی کہیں زیربحث نہیں آتی۔ سو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آج کے مدرسے کے لیے اسناد کی ریاستی توثیق کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی تاریخ کے روایتی مدرسے میں یہ سوال موجود نہیں تھا، کیونکہ مدرسے کا تصور ہی یہ نہیں تھا۔

اسلامی تہذیب میں دینی علم اور اس کے تسلسل کی اہمیت مسلم تھی اور یہ ذمہ داری فطری طور پر علماء کے سپرد تھی۔ اسلامی تاریخ کی ابتدا سے ہی علماء یہ ذمہ داری اپنے شخصی علمی مقام کی بنیاد پر انجام دیتے آ رہے تھے۔ جو عالم جس علم میں کمال پیدا کر لیتا تھا، اس علم کے طلبہ اس کے گرد جمع ہو جاتے اور کسب فیض کرتے رہتے تھے۔ بعد کے ادوار میں حکومتی انتظام یا وقف کی سماجی روایت کے تحت باقاعدہ مدرسے بھی قائم ہونے لگے، لیکن اس انتظام کی نوعیت ایک اجتماعی ضرورت کی تکمیل میں علماء کو سہولت پہنچانے کی تھی۔ علماء کو اپنے علم کے مستند ہونے یا اپنے طلبہ کو استناد منتقل کرنے کے لیے کسی ریاستی توثیق کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔

استعماری دور میں اس بندوبست کے بڑی حد تک معطل ہو جانے اور سرکاری وغیر سرکاری انتظام میں جدید تعلیم کی عمومی ترویج کی مساعی کے تناظر میں مدرسے کے ادارے نے ایک بدلی ہوئی صورت حال میں اپنی ہیئت اور کردار ازسرنو متعین کیا۔ ان میں سب سے اہم تبدیلی یہ تھی کہ مدرسے کے اہداف میں دینی علوم کی روایت کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم وثقافت کے اثرات کی مزاحمت کو بھی شامل کیا گیا جس کا ایک لازمی تقاضا یہ تھا کہ، ماضی کے برعکس، مدارس بڑے پیمانے پر اور کثرت سے ملک کے طول وعرض میں قائم کیے جائیں اور ان میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کے داخلے کی گنجائش پیدا کی جائے جو یہاں سے ایک دینی تربیت لے کر معاشرے میں واپس جائیں اور عوام الناس کے دینی تشخص اور دینی وابستگی کو محفوظ رکھنے کے لیے ائمہ، خطباء اور مبلغین ودعاۃ کی صورت میں کردار ادا کریں۔ وقف کا سیٹ اپ ختم ہو جانے کی وجہ سے اخراجات کے لیے عوامی چندے کا طریقہ اختیار کر لیا گیا جس کے اپنے گہرے اور دور رس اثرات ہیں۔  ذرائع آمدن عوامی صدقات وخیرات  پر مبنی ہونے کی مناسبت سے جلد ہی    معاشرے کے  بے سہارا اور  یتیم بچوں کی کفالت  بھی  مدارس کے دائرہ کار میں شامل ہو گئی  اور یوں   تعلیم وتبلیغ کے ساتھ ساتھ ایک رفاہی اور  خیراتی ادارہ ہونے کا پہلو بھی   مدرسے کے تشخص  کا ایک لازمی حصہ بن گیا۔

اہداف کی تبدیلی، ترجیحات کی تبدیلی کو مستلزم ہوتی ہے اور ترجیحات ایک زنجیر کی صورت میں ہوتی ہیں جو یکے بعد دیگرے تبدیل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ تاریخی مدرسے کا ہدف محدود تعداد میں عالی استعداد کے حامل علماء اور اساتذہ پیدا کرنا تھا۔ جدید مدرسے نے اپنا ہدف بڑی تعداد میں ’’فضلائے مدارس“کی تیاری متعین کیا تو اس کے کچھ عملی نتائج نکلنا ناگزیر تھا۔ مدارس کے نصاب ونظام سے متعلق پچھلی ایک صدی کا سارا بحث ومباحثہ انھی نتائج کی عکاسی کرتا ہے۔ ان میں سے دو نتائج سب سے نمایاں ہیں۔

ایک، نصاب کی تسہیل وترمیم اور داخلے اور حصول سند کے لیے مطلوب علمی استعداد کے معیار میں مسلسل تخفیف

دوسرا، اتنی بڑی تعداد میں فضلاء کی معاشرے میں کھپت کا مسئلہ

بدقسمتی سے مدارس کے حلقوں میں اس تاریخی تبدیلی کا شعوری ادراک نہ ہونے کی وجہ سے جو اس نئے مرحلے پر پیدا ہوئی تھی، ان دونوں نتائج کے حوالے سے سخت ذہنی ابہامات، تضاد فکر اور بعض صورتوں میں ایک حالت انکار کی فضا غالب رہی ہے۔ چونکہ یہ شعوری ’’اعتراف “ موجود نہیں تھا کہ مدرسے کا ہدف اب صرف اعلی سطح کے چنیدہ علماء پیدا کرنا نہیں، بلکہ بڑی تعداد میں مبلغین تیار کرنا ہے، اس لیے کئی دہائیوں تک یہ کشمکش چلتی رہی کہ نصاب کی تسہیل کی جائے یا نہ کی جائے۔ یہ کام عملا ناگزیر تھا، اس لیے ہوا، لیکن ایک لمبی تدریج کے ساتھ اور بہت ہی غیر محسوس طریقے سے ہوا تاکہ مخالف عناصر زیادہ اضطراب کا شکار نہ ہوں۔

اسی طرح فضلاء کی کھپت کے سوال سے بھی عرصہ دراز تک اغماض برتا جاتا رہا اور مدرسے کے طلبہ کو یہ بات ایک دینی فریضے کے طور پر باور کرائی جاتی رہی کہ ان کو دینی تعلیم کے لیے منتخب کر لیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی دنیا وآخرت بس دینی تعلیم سے وابستہ رہے اور وہ دائیں بائیں کسی اور طرف متوجہ نہ ہوں۔ چنانچہ ایک طرف عصری تعلیم کے مضامین کو سنجیدگی کے ساتھ اور مطلوبہ ضرورت کے مطابق مدارس کے نصاب میں جگہ دینے سے پہلو تہی کی گئی اور دوسری طرف اپنے طور پر عصری تعلیم کے امتحانات پاس کرنے والے طلبہ کی شدید حوصلہ شکنی بلکہ مدرسے سے خارج تک کر دینے  کا رویہ اختیار کیا گیا اور یہ ماحول دس بیس سال پہلے تک مدارس میں موجود رہا ہے۔

دینی اسناد کی ریاستی توثیق کا سوال بنیادی طور پر ایک تو فضلائے مدارس کی کھپت کے مسئلے سے پیدا ہوتا ہے، اور اس کی دوسری اہم جہت تعلیم اور جدید ریاست کے باہمی تعلق کی ہے۔ تعلیم عامہ کا کوئی بھی ایسا نظم جو ایک خاص طرح کی گروہی شناخت پیدا کرتا ہو، جدید قومی ریاست کے دائرہ اختیار سے باہر نہیں رہ سکتا، کیونکہ تشکیل شناخت کا سوال جدید ریاست کے لیے ایک وجودی سوال ہے، یعنی ریاست کی بقا اس سے وابستہ اور اس پر منحصر ہے۔ دینی مدارس کی قیادت نے انتہائی سادہ فکری یا خوش فہمی سے ان دونوں پہلووں کی اہمیت سے مسلسل صرف نظر کیا اور اس ادراک سے بالکل قاصر رہی کہ اتنے بڑے پیمانے پر قائم دینی تعلیم کے نظام کو ریاستی توثیق اور ریاستی دائرہ اختیار سے الگ رکھنا ہمیشہ کے لیے ممکن نہیں ہے۔

مدارس کی قیادت تارکان دنیا اور ابلہان مسجد پر مشتمل نہیں تھی، بلکہ مذہبی سیاست کے میدان میں ریاست اور ریاستی نظام طاقت کے ساتھ مسلسل تعامل کر رہی تھی اور ریاستی اشرافیہ کے انداز فکر نیز مختلف اور متنوع عالمی حرکیات سے بھی پوری طرح واقف تھی۔ اس کے باوجود، مناسب اور سازگار حالات میں، جبکہ ابھی ریاستی نظام عبوری تشکیلی مراحل میں تھا اور مدارس اپنی شرائط پر ریاست کے ساتھ معاملہ کرنے کی پوزیشن میں تھے، دینی تعلیم اور ریاستی نظام کے مابین ایک مثبت، متوازن اور مبنی بر اعتماد تعلق وجود میں لانے سے گریز کیا گیا، بلکہ اس کے برعکس مدارس کو ریاستی توثیق کے نظام سے الگ رکھنے کو مدارس کی آزادی اور خود مختاری کا عنوان دے کر بنیادی طور پر مذہبی سیاست کے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔

مزید حیرت انگیز امر یہ ہے کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں خود فضلائے مدارس کی اپنی نمایاں ہوتی ہوئی ضروریات کے پیش نظر، دینی اسناد کی ریاستی توثیق کے حوالے سے سلسلہ جنبانی شروع کیا گیا، لیکن خوش فہمی سے باہر نکلنے اور یہ سمجھنے کی ضرورت پھر بھی محسوس نہیں کی گئی کہ ابتدائی مراحل پر بعض سیاسی اسباب سے ریاست کا رویہ مبنی بر رعایت ہو سکتا ہے، لیکن جلد یا بدیر ریاست اس توثیق کو لامحالہ اپنی شرائط سے مشروط کرے گی۔

فضلائے مدارس کی کھپت کے مسئلے اور تعلیم عامہ کے کسی بھی نظام کے ساتھ جدید ریاست کے لازمی تعلق کے ان دو بنیادی عوامل کے ساتھ دو اور عوامل شامل ہوئے جنھوں نے اس مرحلے کی طرف پیش قدمی کی راہ ہموار کی جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔ یہ عرض کیا گیا کہ جدید ریاست اپنے حدود میں تشکیل شناخت کے سوال پر کمپرومائز نہیں کر سکتی اور خاص طور پر اگر کسی شناخت کے ساتھ نقض امن اور ریاست مخالف بیانیے کا پہلو شامل ہو جائے تو پھر تو کوئی کمزور سے کمزور ریاست بھی اس سے صرف نظر کا تحمل نہیں کر سکتی۔

دینی مدارس جس طرح کی گروہی شناخت تشکیل دیتے ہیں، اس میں فرقہ واریت اور (بالخصوص دیوبندی مدارس کے تناظر میں) سیاسی مفہوم میں اسلام کے عالمی احیاء کی خواہش، نہایت توانا فکری عناصر کے طور پر شامل ہیں۔ یہ دونوں عناصر جس حد تک ریاستی مفاد کے تابع اور ریاستی طاقت کے لیے مددگار رہے ہیں، ریاست ان کی باقاعدہ سرپرستی کرتی رہی ہے اور حسب ضرورت اب بھی کرتی ہے، لیکن ہمارے ہاں یہ فکری عناصر ریاست کی طے کردہ حدود سے متجاوز ہو کر خود ریاست کے لیے اور ریاست کی بین الاقوامی پالیسیوں کے لیے مسائل پیدا کرنے کا موجب بن گئے۔

ظاہر ہے، اس میں ریاستی کردار کو بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا، لیکن اس کا عملی نتیجہ یہ نکلا کہ دینی تعلیم کے نظام کو ریاستی نظم وضبط کے دائرے میں لانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر دباو بڑھنا شروع ہو گیا اور پچھلی دو دہائیوں میں مدارس کی طرف سے پہلے سخت، پھر نسبتا لچک دار اور آخر میں کمزور مزاحمت کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد، آج ریاست اس پوزیشن میں بھی ہے اور اس کے لیے پرعزم بھی کہ دینی اسناد کی توثیق اب مدارس کی شرائط اور ترجیحات پر نہیں، بلکہ ریاست کی شرائط اور ترجیحات پر کی جائے گی۔ (وہ شرائط اور ترجیحات کیا ہیں اور کتنی حکمت وفراست پر مبنی ہیں، یہ ایک الگ بحث ہے)۔ دوسری طرف مدارس کے ایک بہت بڑے حلقے میں بھی اس حقیقت کا ادراک کر لیا گیا ہے کہ اس محاذ پر مزاحمت کی پوزیشن کو برقرار رکھنا فضلائے مدارس کی سماجی ضروریات کے لحاظ سے بھی ممکن نہیں، اور ریاست کے عزم مصمم کو بھی مزید کسی دباو سے پسپا نہیں کیا جا سکتا۔ مختلف نئے بورڈز کی تشکیل اور مختلف انفرادی دینی اداروں کی اسناد کے لیے ریاستی توثیق کے حصول کی حالیہ پیش رفت اسی ادراک حقائق کا نتیجہ ہے۔

اس تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ دینی تعلیم کی ریاستی توثیق کے مسئلے کو ہمارے ہاں معروضی حقائق کے تناظر میں اور دینی اداروں، معاشرہ اور ریاست کے مابین ایک مجموعی انسجام کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا گیا، بلکہ بنیادی طور پر مذہبی سیاست کے ایک ایشو کے طور پر برتا گیا ہے۔ ایک زاویے سے دیکھا جائے تو درست سمت میں پیش قدمی نہ ہونے کی ذمہ داری ریاست پر عائد کی جا سکتی ہے، لیکن ہمارے نزدیک معروضی حالات کے لحاظ سے اس ناکامی کی زیادہ تر ذمہ داری دینی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ باقی مسلم ممالک میں، جہاں اس مسئلے کو زیادہ درست اور حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھا گیا ہے، دینی تعلیم کی ریاستی توثیق کا نسبتا بہت بہتر بندوبست نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے مصر، ترکی اور انڈونیشیا وغیرہ کے علاوہ جنوبی ایشیا میں ہی بھارت اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے نظام کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ صورت حال میں بھی، اگرچہ قدرے درست سمت میں پیش رفت ہو رہی ہے، دینی قیادت کا ذہنی الجھاو اور غیر حقیقت پسندانہ رویہ بدستور برقرار ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مدارس کی اجتماعی قیادت صورت حال کا معروضی جائزہ لے کر ریاست کے سامنے دینی اسناد کی توثیق کے ایک ایسے بندوبست کا متفقہ اور اجتماعی مطالبہ رکھتی جسے حکومتی معاہدوں یا نوٹیفکیشنز کی ضمانت کے بجائے باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہو (یعنی اس کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے) اور اس میں واضح اور متعین معیارات طے کیے جائیں جن کے تحت کسی بھی دینی ادارے کے لیے انفرادی طور پر یا اداروں کے کسی گروپ کے لیے تعلیمی بورڈ کے طور پر ریاستی توثیق کے حصول کا موقع موجود ہو۔

لیکن چونکہ اس سارے مسئلے کو اب تک مدارس کی خود مختاری بمقابلہ ریاستی مداخلت کے فریم ورک میں دیکھا اور دکھایا جاتا رہا ہے جس میں دینی اداروں اور فضلاء کے ’’تحفظ “ کے لیے کسی جری اور بااثر سیاسی ’’قیادت “ کی ضرورت ہے، اس لیے کوئی ایسا انتظام قبول کرنے کے لیے ذہن آمادہ نہیں جس میں جمہوری انداز میں ایک صحت مند تعلیمی مقابلے کا ماحول ہو اور مختلف ومتنوع ترجیحات کے ساتھ دینی ادارے معاشرے کی دینی وتعلیمی ضرورتوں کو اپنی محنت اور توجہ کا مرکز بنا سکیں۔ حکومتی حلقوں کے ساتھ تعلقات اور سیاسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر پہلے بھی کچھ انفرادی اداروں اور بورڈز کو توثیق دی گئی تھی، اب بھی اسی بنیاد پر توثیق کے دائرے کی توسیع کر دی گئی ہے۔ یہ طریقہ ریاستی زاویہ نظر سے اور دینی اداروں کی نمائندگی کرنے والی اشرافیہ کے نقطہ نظر سے قابل فہم ہو سکتا ہے، لیکن دینی اداروں کے مجموعی پوٹینشل، ممکنہ کردار اور افادیت کے حوالے سے انتہائی محل نظر بندوبست ہے۔

آخر میں اس نکتے پر بھی اظہار خیال ضروری ہے کہ اس سارے معاملے میں ’’روایتی مدرسہ“ اور اس کے تاریخی کردار کی جگہ کہاں ہے اور وہ ضرورت کیسے پوری ہوگی؟ ہماری مراد اعلی سطح کے علماء ومتخصصین پیدا کرنے اور دینی علوم کی روایت کو معاصر ضروریات کے مطابق آگے بڑھانے سے ہے۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، مدرسے کو تعلیم عامہ کا ادارہ بنانے کے نتیجے میں پورا نظام اس ایک ہدف کے گرد مرکوز نہیں رہ سکتا، تاہم اعلی استعداد کے حامل منتخب اہل علم تیار کرنے کا کام ایک اہم جزو کے طور پر اس میں شامل رہ سکتا ہے۔ اس وقت بھی بڑی تعداد میں مدارس کی طرف رجوع کرنے والے افراد میں سے ایک منتخب تعداد ایسے ذی استعداد فضلاء کی نکل آتی ہے جو اعلی سطحی علوم کے ساتھ طبعی مناسبت بھی رکھتے ہیں اور اس ذوق کی پاسداری بھی کرتے ہیں۔ اسی کے نتیجے میں اب بھی روایتی دینی علوم میں اچھا درک رکھنے والے اساتذہ اور محققین مدارس سے پیدا ہو رہے ہیں۔

البتہ ’’روایتی مدرسے“ کے کردار کا یہ پہلو کہ اس کا ہم عصر عقلی وعلمی روایت کے ساتھ بھی ایک زندہ تعلق قائم ہو اور دینی مدرسہ ان علوم ونظریات کی تنقیح وتنقید کا ایک پلیٹ فارم مہیا کرے، بدقسمتی سے تاریخی تغیرات کے نتیجے میں، جدید مدرسے کے لیے اس کردار کی ادائیگی بے حد مشکل ہو گئی ہے اور بتدریج مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ عقلی ونظری علوم کے ساتھ مطلوبہ تعامل، خاص طور پر جدید مغربی تہذیب کے پیدا کردہ علوم، اس ذہنی سانچے میں ممکن ہی نہیں جو مدارس کے ماحول میں بنانے پر ساری توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ یہاں جدید معاشی وسیاسی نظریات کی تفہیم بھی وہی ’’معتبر “ ہے جو دینی اکابر، مثلا مولانا تقی عثمانی صاحب نے ’’اسلام اور جدید معیشت وتجارت“ اور ’’اسلام اور سیاسی نظریات“ میں بیان فرمائی ہو۔ مغربی علوم کا مقدمہ براہ راست اور خود ان کی زبانی سمجھنا اور پھر اس کی ایسی تحلیل وتنقید جو ان علوم کے ساتھ مکالمے میں پیش کی جا سکے، اس سانچے میں ناممکن ہے۔

ڈاکٹر ابراہیم موسی اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ امام غزالی کو مدارس کے نظام ونصاب میں کوئی اہمیت کیوں نہیں دی جاتی۔ ہمارے نزدیک اس کا ایک جواب یہ ہے کہ امام غزالی عقلی ونظری مباحث میں تقلید سے شدید باغی ہیں اور ’’المنقذ من الضلال“ میں انھوں نے اپنے ذہنی سفر کی یہ داستان تفصیل سے بیان کی ہے۔ مدارس کا ماحول، جو ’’عقلیات“  میں بھی اکابر کے ’’منقولات “ کی پابندی کو ایمان وعقیدہ کی حفاظت کی شرط اولین کے طور پر ذہنوں میں راسخ کرتا ہے، اس انداز فکر کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ہمیں پوری حقیقت پسندی کے ساتھ اس کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ جدید مدرسے نے اپنے اور اس کردار کے درمیان بہت وسیع فاصلہ پیدا کر لیا ہے۔ موجودہ صورت میں، ’’امید خلاف امید“ کے طور پر تو اس توقع کو برقرار رکھا جا سکتا ہے کہ کسی دن مدرسے کا یہ کردار بحال ہو جائے گا، لیکن بظاہر اس کے دور یا نزدیک کوئی آثار نہیں ہیں۔ اس اعتراف سے ہی اس ضرورت کی تکمیل کے کچھ متبادل وسائل اور امکانات (مثلا عقلیات کا ذوق رکھنے والے منتخب ذی استعداد علماء کے لیے مدارس کے نظم سے باہر مختلف حلقہ ہائے مطالعہ کا قیام) پر سنجیدگی سے توجہ دی جا سکے گی۔

ہذا ما عندی واللہ تعالی اعلم


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۷)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(254)  اَوَمَن یُنَشَّاُ فِی الحِلیَۃِ کس کا قول ہے؟

درج ذیل آیت کے ترجموں کا جائزہ لیتے ہوئے ہم دیکھیں گے کہ کسی قول کے قائل کے تعین میں غلطی ہونے سے مفہوم اور اس سے نکلنے والے نتائج پر کتنا اثر پڑتا ہے؟ اَوَمَن یُنَشَّاُ فِی الحِلیَۃِ وَہُوَ فِی الخِصَامِ غَیرُ مُبِینٍ کو عام طور سے لوگوں نے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور پھر اس سے مختلف نتائج برآمد کیے ہیں، جیسے یہ کہ عورتیں ناقص جمال والی ہوتی ہیں اس لیے زیورات کے ذریعے ان کے اس نقص کو پورا کیا جاتا ہے، عورتیں ناقص عقل اور ناقص بیان والی ہوتی ہیں اسی لیے وہ بحث میں اپنی بات وضاحت سے اور دلیل کے ساتھ رکھ نہیں پاتی ہیں۔ عورتوں کے سلسلے میں ایسی باتیں اللہ کے فرمودات سے نکالے ہوئے قرآنی حقائق کے طور پر پیش کی جاتی ہیں۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر امام رازی) اگر اس آیت کو اللہ کا قول نہ مان کر جاہلی سماج کے اس شخص کا قول مان لیں جو لڑکی کی پیدائش سے خوش نہیں ہوتا ہے، تو اللہ کی طرف منسوب کرکے یہ نتائج برآمد نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ بلکہ یہ محض جاہلی معاشرے کے انسانوں کی نفسیات کا بیان ہوتا ہے کہ وہ عورتوں کے بارے میں کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ درج ذیل ترجموں پر غور کریں:

وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُم بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحمَٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجہُہُ مُسوَدًّا وَہُوَ کَظِیم۔ اَوَمَن یُنَشَّاُ فِی الحِلیَۃِ وَہُوَ فِی الخِصَامِ غَیرُ مُبِینٍ۔ (الزخرف: 17-18)

”اور جب ان میں سے کسی کو اس چیز کی بشارت دی جاتی ہے جس کو وہ خدا کی صفت بیان کرتا ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ گھٹا گھٹا رہنے لگتا ہے کہ کیا (وہ پیدا ہوئی ہے) جو زیوروں میں پلتی اور مفاخرت میں بے زبان ہے؟“ (امین احسن اصلاحی)

یہ ترجمہ درست ہے۔ البتہ کچھ باتیں تصحیح طلب ہیں، جیسے:’جس کو وہ خدا کی صفت بیان کرتا ہے‘، کی بجائے ’جس کو وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے‘۔’پلتی‘ کی بجائے’پالی جاتی‘ اور’مفاخرت‘ کی بجائے ’بحث مباحثہ‘ ہونا چاہیے۔

زیر گفتگو آیت کے وہ ترجمے دیکھیں جن میں اسے اللہ کا قول بنایا ہے:

”کیا (اللہ کی اولاد لڑکیاں ہیں) جو زیورات میں پلیں اور جھگڑے میں (اپنی بات) واضح نہ کرسکیں؟“ (محمد جوناگڑھی)

”کیا اللہ کے حصے میں وہ اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرح واضح بھی نہیں کر سکتی؟“۔ (سید مودودی)

”کیا وہ جو زیور میں پرورش پائے اور جھگڑے کے وقت بات نہ کرسکے (خدا کی) بیٹی ہوسکتی ہے؟“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کیا جس کو زیورات میں پالا جاتا ہے اور وہ جھگڑے کے وقت صحیح بات بھی نہ کرسکے (وہی خدا کی اولاد ہے)“۔ (ذیشان جوادی)

”کیا (خدا کے لیے وہ ہے) جو زیوروں میں پرورش پائے اور بحث و تکرار میں اپنا مدعا واضح نہ کر سکے؟“۔ (محمد حسین نجفی)

اس مقولے کو اللہ کا قول اس لیے نہیں مانا جاسکتا ہے کیوں کہ اس میں مذکور باتیں فرشتوں پر صادق ہی نہیں آتی ہیں۔ مشرکین فرشتوں کو (نعوذ باللہ) اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے، لیکن ان اوصاف کے ساتھ نہیں کہتے تھے۔ یہ اوصاف تو وہ اپنی دانست میں اپنے یہاں پیدا ہونے والی لڑکیوں میں پاتے تھے۔ انھیں یہ لگتا تھا کہ لڑکیوں کی پرورش پر بہت زیادہ خرچ کرنا ہوتا ہے اور اس کا کوئی فائدہ انھیں حاصل نہیں ہوتا ہے۔

اس سے مختلف انداز میں اسی طرح کی بات دوسرے مقام پر آئی ہے:

وَاذَا بُشِّرَ اَحَدُہُم بِالاُنثَی ظَلَّ وَجہُہُ مُسوَدّاً وَہُوَ کَظِیم۔ یَتَوَارَی مِنَ القَومِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِہِ اَیُمسِکُہُ عَلَی ہُونٍ اَم یَدُسُّہُ فِی التُّرَابِ اَلاَ سَاء مَا یَحکُمُون۔ (النحل:58-59)

”ان میں سے جب کسی کو لڑکی ہونے کی خبر دی جائے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور دل ہی دل میں گھٹنے لگتا ہے۔ اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرتا ہے۔ سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبا دے، آہ! کیا ہی برے فیصلے کرتے ہیں؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

یہاں پر بھی بیٹی پیدا ہونے پر جاہلیت زدہ سماج کے لوگوں کی کیفیت کو بتایا گیا ہے۔

(255) زُبُرُ الاوَّلِینَ کا ترجمہ

وَانَّہُ لَفِی زُبُرِ الاوَّلِینَ۔ (الشعراء:196)

یہاں زُبُرِ الاوَّلِینَ مضاف اور مضاف الیہ ہے، اولین کا مطلب ہے اگلے لوگ، ترجمہ ہوگا اگلے لوگوں کی کتابیں۔ لیکن بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ موصوف صفت کا کردیا ہے، یعنی اگلی کتابیں۔ اگلی کتابوں کے لیے الزبر الاولی آئے گا، جیسے الصحف الاولی۔ اولین تو انسانوں کے لیے آتا ہے کتابوں کے لیے اولی آئے گا۔

And, verily, [the essence of] this [revelation] is indeed found in the ancient books of divine wisdom [as well]۔ (Asad)

”اور بیشک اس کا چرچا اگلی کتابوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)

ان دونوں ترجموں میں یہ غلطی موجود ہے۔ جب کہ درج ذیل دونوں ترجمے درست ہیں:

And lo! it is in the Scriptures of the men of old۔ (Pickthall)

”اور اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی یہ موجود ہے“۔ (سید مودودی)

(256) لَبَسَ کا ترجمہ

درج ذیل آیت کے مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

وَلَو جَعَلنَاہُ مَلَکاً لَّجَعَلنَاہُ رَجُلاً وَلَلَبَسنَا عَلَیہِم مَّا یَلبِسُونَ۔ (الانعام :9)

”اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسانی شکل ہی میں اتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں“۔ (سید مودودی)

”اگر ہم پیغمبر کو فرشتہ بھی بناتے تو بھی مرد ہی بناتے اور وہی لباس پہناتے جو مرد پہنا کرتے ہیں“۔ (ذیشان جوادی)

”و اگر او را فرشتہ ای قرارمی دادیم، حتماً وی را بصورت انسانی درمی آوردیم؛ (باز بہ پندار آنان،) کار را بر آنہا مشتبہ می ساختیم؛ ہمان طور کہ آنہا کار را بر دیگران مشتبہ می سازند!“ (مکارم شیرازی)

”و اگر می گردانیدیمش فرشتہ ای ہمانا می گردانیدیمش مردی و ہمی پوشانیدیم بر او آنچہ را می پوشند“۔ (معری)

Had we appointed him (Our messenger) an angel, We assuredly had made him (as) a man (that he might speak to men); and (thus) obscured for them (the truth) they (now) obscure۔ (Pickthall)
And if We had made him an angel, We would have made him [appear as] a man, and We would have covered them with that in which they cover themselves۔ (Sahih International)

مختلف زبانوں کے اکثر مترجمین نے اس آیت میں لبس کا ترجمہ شبہے میں ڈالنا کیا ہے، بعض لوگوں نے پہنانا کیا ہے۔

لَبِسَ جس کا فعل مضارع یلبَسُ ہوتا ہے اور لَبَسَ جس کا فعل مضارع یلبِسُ ہوتا ہے، دو الگ الگ الفاظ ہیں۔ پہلے کا مطلب ہے پہننا (پہنانا نہیں)، اور دوسرے کا مطلب ہے مشتبہ بنادینا۔ یہاں آیت میں دوسرا لفظ آیا ہے جس کا مطلب ہے مشتبہ بنادینا۔

پہلے لفظ کی قرآنی مثال درج ذیل ہے:

یَلبَسُونَ مِن سُندُسٍ وَاستَبرَقٍ مُّتَقَابِلِینَ۔ (الدخان :53)

دوسرے لفظ کی قرآنی مثال درج ذیل ہے:

وَکَذَلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِّنَ المُشرِکِینَ قَتلَ اولاَدِہِم شُرَکَآؤہُم لِیُردُوہُم وَلِیَلبِسُوا عَلَیہِم دِینَہُم وَلَو شَاء اللّہُ مَا فَعَلُوہُ فَذَرہُم وَمَا یَفتَرُون۔ (الانعام:137)

”اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کے لیے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کردیا ہے تاکہ ان کو تباہ و برباد کردیں اور ان پر دین کو مشتبہ کردیں“۔ (ذیشان جوادی، یہاں درست ترجمہ کیا ہے جب کہ اسی لفظ کا مذکورہ بالا آیت میں غلط ترجمہ کیا ہے۔)

مذکورہ بالا آیت (الانعام :9) اور اس آیت (الانعام:137) میں ایک ہی لفظ یعنی یلبِسُ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب مشتبہ کرنا ہے۔

پہنانے کے لیے ایک تیسرا لفظ آتا ہے اور وہ ہے: البَسَ جس کا مضارع یُلبِسُ آتا ہے۔

پہنانا مراد ہوتا تو عبارت اس طرح ہوتی: وَلَالبَسنَاہِم مَّا یَلبَسُونَ۔ لیکن ایسا تو یہاں نہیں ہے۔

ایک اور بات یہ ہے کہ وَلَلَبَسنَا عَلَیہِم مَّا یَلبِسُونَ میں ’علیھم‘ میں جمع کی ضمیر آئی ہے اگر فرشتہ مراد ہوتا تو واحد کی ضمیر آتی یعنی’علیہ‘ ہوتا۔

(257)  زخرف کا ترجمہ

اہل لغت اور علمائے تفسیر لفظ زخرف کے دو معنی بتاتے ہیں، (الزینۃ والذھب) سامان زینت اور سونا۔ اس میں اختلاف ہے کہ اس کا اصل معنی زینت ہے یا سونا۔ قرآن مجید میں یہ لفظ چار مقامات پر آیا ہے، دو مقامات پر تو یقینی طور پر زینت کے معنی میں آیا ہے۔

    (1) وَکَذَلِکَ جَعَلنَا لِکُلِّ نِبِیٍّ عَدُوّاً شَیَاطِینَ الانسِ وَالجِنِّ یُوحِی بَعضُہُم الَی بَعضٍ زُخرُفَ القَولِ غُرُوراً وَلَو شَاء رَبُّکَ مَا فَعَلُوہُ فَذَرہُم وَمَا یَفتَرُون۔ (الانعام:112)

”اور اسی طرح ہم نے شیطان (سیرت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی باتیں ڈالتے رہتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(2) انَّمَا مَثَلُ الحَیَاۃِ الدُّنیَا کَمَاء انزَلنَاہُ مِنَ السَّمَاءِ فَاختَلَطَ بِہِ نَبَاتُ الارضِ مِمَّا یَاکُلُ النَّاسُ وَالانعَامُ حَتَّیَ اذَا اخَذَتِ الارضُ زُخرُفَہَا وَازَّیَّنَت۔ (یونس: 24)

”دنیا کی زندگی کی مثال مینھ کی سی ہے کہ ہم نے اس کو آسمان سے برسایا۔ پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں مل کر نکلا یہاں تک کہ زمین سبزے سے خوشنما اور آراستہ ہوگئی“۔ (فتح محمد جالندھری)

درج ذیل آیت میں سب نے زخرف کا ترجمہ سونا کیا ہے:

(3) اویَکُونَ لَکَ بَیت مِّن زُخرُفٍ۔ (الاسراء:93)

”یا تو تمہارا سونے کا گھر ہو“۔(فتح محمد جالندھری)

بعض مفسرین نے یہاں دونوں معنوں کو جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ گھر مراد لیا ہے جس کی سونے وغیرہ سے آرائش کی گئی ہو۔عبدالرحمن سعدی کہتے ہیں: ای: مزخرف بالذہب وغیرہ۔ (تفسیر السعدی) امام رازی کہتے ہیں: ولا شَیئَ فی تَحسِینِ البَیتِ وتَزیِینِہِ کالذَّہَبِ۔ (تفسیر الرازی)

دراصل یہاں ہمیں درج ذیل آیت کے سلسلے میں گفتگو کرنی ہے:

(4) وَلَولَا ان یَکُونَ النَّاسُ امَّۃً وَاحِدَۃً لَجَعَلنَا لِمَن یَکفُرُ بِالرَّحمَنِ لِبُیُوتِہِم سُقُفاً مِّن فَضَّۃٍ وَمَعَارِجَ عَلَیہَا یَظہَرُون۔ وَلِبُیُوتِہِم ابوَاباً وَسُرُراً عَلَیہَا یَتَّکِؤُونَ۔ وَزُخرُفاً وَان کُلُّ ذَلِکَ لَمَّا مَتَاعُ الحَیَاۃِ الدُّنیَا وَالآخِرَۃُ عِندَ رَبِّکَ لِلمُتَّقِینَ۔ (الزخرف: 33-35)

اس آیت میں زخرف کا ترجمہ بعض لوگوں نے سونا کیا ہے اور بعض لوگوں نے زینت وآرائش کیا ہے۔

”اور اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ سب لوگ ایک ہی جماعت ہوجائیں گے تو جو لوگ خدا سے انکار کرتے ہیں ہم ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی بنا دیتے اور سیڑھیاں (بھی) جن پر وہ چڑھتے ہیں۔ اور ان کے گھروں کے دروازے بھی اور تخت بھی جن پر تکیہ لگاتے ہیں۔ اور (خوب) تجمل وآرائش (کردیتے) اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے۔ اور آخرت تمہارے پروردگار کے ہاں پرہیزگاروں کے لیے ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمام لوگ ایک ہی طریقہ پر ہو جائیں گے تو رحمٰن کے ساتھ کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتوں کو ہم چاندی کی بنادیتے۔ اور زینوں کو (بھی) جن پر چڑھا کرتے۔ اور ان کے گھروں کے دروازے اور تخت بھی جن پر وہ تکیہ لگا لگا کر بیٹھتے۔ اور سونے کے بھی، اور یہ سب کچھ یونہی سا دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیزگاروں کے لیے (ہی) ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

ان آیتوں میں شروع میں ’من فضۃ‘ آیا ہے اور آخر میں’ زخرفا‘ آیا ہے۔ زخرفا کا عطف فضۃ پر نہیں ہے، بلکہ پیچھے گزرے دیگر منصوب الفاظ پر عطف ہے جو جعلنا کا مفعول بہ ہیں۔ اس لیے یہاں سونا مراد لینے کے بجائے زینت و آرائش مراد لینا مناسب ہے۔ یعنی مذکورہ تمام چیزیں چاندی کی بناتے اور ان میں سونے وغیرہ کے نقش و نگار اور زینت و آرائش کا اضافہ کرتے۔

(258) نَادَیٰ فِرعَونُ فِی قَومِہِ کا ترجمہ

قرآن مجید میں لفظ نادی متعدد بار آیا ہے، اور ہرجگہ اس کا مطلب پکارنا سمجھا گیا ہے۔

جیسا کہ فرعون کے بارے میں آیا:

فَحَشَرَ فَنَادَیٰ۔ (النازعات :23)

”اور (لوگوں کو) اکٹھا کیا اور پکارا“۔ (فتح محمد جالندھری)

البتہ درج ذیل آیت میں نادی کا ترجمہ بعض لوگوں نے منادی کراناکیا ہے:

وَنَادَی فِرعَونُ فِی قَومِہِ قَالَ یَا قَومِ الَیسَ لِی مُلکُ مِصرَ وَہَذِہِ الانہَارُ تَجرِی مِن تَحتِی افَلَا تُبصِرُونَ۔ (الزخرف :51)

”اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی اور کہا اے میری قوم! کیا مصر کا ملک میرا نہیں؟ اور میرے (محلوں کے) نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں، کیا تم دیکھتے نہیں؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور فرعون نے اپنی قوم میں منادی کرائی“۔ (محمد حسین نجفی)

”ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا“۔ (سید مودودی، تفسیر میں منادی کرانے کا مطلب لیا ہے)

صحیح بات یہ ہے کہ یہاں منادی کرانا نہیں بلکہ پکار کر کہنا ہی درست ہے۔ اور قوم سے مراد پوری قوم نہیں بلکہ وہاں جمع لوگ مراد ہیں۔ جیسا کہ اوپر سورة النازعات والی آیت میں ہے۔ دراصل یہاں جو بات کہی جارہی ہے وہ سامنے کہنے کی ہے نہ کہ منادی کرانے کی۔

مطالعہ جامع ترمذی (۲)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

مطیع سید: حرام وحلال نکاح کے درمیان فرق صرف دف اور آواز کا ہے ۔(کتاب النکاح، باب ما جاء فی اعلان النکاح، حدیث نمبر ۱٠۸۸) کیا اس کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شادی بیاہ پر آج کل کا بینڈ باجا بھی  درست ہے؟

عمار ناصر: فقہا  کا جو عمومی رجحان ہے، وہ تو آپ دیکھیں گے کہ آج کل دف کی بھی اجازت نہیں دیتے۔کہتےہیں کہ مقصد اعلان ہے  جو دوسرے طریقوں سے بھی کیا جا سکتا ہے۔موسیقی کے حوالے سے فقہاکا عمومی رویہ ناپسندیدگی کا ہے ۔

مطیع سید: گویا وہ اس بات سے ڈر رہے ہیں کہ کام دف سے آگے نہ بڑھ جائے ؟

عمار ناصر: جی، بات بڑھ نہ جائے اور یہ بھی کہ مثلا آپ دف بجا رہے ہیں توآواز سن کر لوگ تو یہی کہیں گے کہ ڈھول بج رہا ہے ۔ (البتہ بعض علماء مثلا مولانا بدر عالم میرٹھیؒ نے   فقہاء کو  متوجہ کیا ہے کہ جتنی اجازت حدیث میں موجود ہے، اس سے لوگوں کو نہ روکیں،  ورنہ لوگ  پھر حدود کو بالکل توڑ  دیں گے)۔

مطیع سید: فقہا توسختی کرتے ہیں، محدثین کا اس بارے میں موقف ہے؟

عمار ناصر: امام ترمذی نے اس روایت پر کوئی  منفی تبصرہ تو نہیں کیا ؟

مطیع سید: نہیں، وہ بس یہ روایت لائے ہیں ۔

عمار ناصر: تو پھر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ  حدیث کے مطابق اس کے جواز کے قائل ہیں۔

مطیع سید: اگر شادیوں پر ڈھول بجتاہے ،بینڈز بجتے ہیں ،شور مچتا ہے اور لوگوں کااس کے ساتھ رزق بھی وابستہ ہے تو ہم کیا اس روایت سے اس کے جواز کی بنیاد فراہم کر سکتے ہیں؟ آخر  شادی ہی تو ہو رہی ہے ؟

عمار ناصر: فقہا یہ کہتے ہیں کہ یہ آلا تِ لہو اور مزامیر ، اصل میں ممنوع  اور لہو کے تحت آتے ہیں ۔ گنجائش  آپ کو اتنی ہی ملےگی جتنی نص میں یا حدیث میں آئی ہے اور وہ بھی کچھ شرائط کے ساتھ ۔ اگر اس زاویہ نظر کو درست مانیں تو پھر تو گنجائش نہیں نکلے گی۔لیکن اگر آپ کا زوایہ نظر وہ ہے جو ہمارے بعض لوگوں کا رہا ہے کہ اصل میں یہ لہو یعنی دل بہلانے کا ایک طریقہ ہے ،لہو تو اور بھی کئی چیزیں ہیں  جو فی نفسہ ممنوع نہیں ہیں تو پھر گنجائش نکلے گی۔یعنی کسی چیز کا محض لہو ہونا اس کو ممنوع نہیں بناتا۔لہو کے ساتھ کچھ اور ایسی چیزیں بھی شامل ہو گئی  ہوں جن میں کوئی خرابی ہو تو پھر ممنوع ہوگا۔

مطیع سید: یہ ولی کے بغیر نکاح کو  غیر منعقد  قرار دینے والی روایت ،صحیح روایت ہے ۔ (کتاب النکاح، باب ما جاء لا نکاح الا بولی، حدیث نمبر ۱۱٠۱ ، ۱۱٠۲) بظاہر تو صاف الفا ظ ہیں کہ  نکاح نہیں ہوتا۔ اس کا مطلب کیا ہے اور احناف کیوں کہتے ہیں کہ ولی کے بغیر بھی نکا ح ہو سکتا ہے؟فقہا کے پاس، اس کی Logic کیا ہے ؟

عمار ناصر: احناف کا طریقہ یہ ہے کہ وہ روایت کو اور خاص طورپر اس طرح کی اخبار احاد کو اصل مان کر، جو باقی دلائل و قرائن ہیں، ان کو نظر انداز نہیں کر دیتے ۔ یہ ان کا ایک عمومی منہج ہے ۔ان کا زاویہ نظر یہ ہے کہ سارے پہلو دیکھے جائیں ،نکا ح کے مقاصد کیا ہیں ،اس میں قرآن کی آیات میں کیا رجحان ملتاہے  اور رائے اور قیاس سے کیا مدد ملتی ہے،اس کے تحت  وہ دیکھیں گے کہ  اس روایت   کو ہم کہاں رکھیں۔اس لحاظ سے و ہ کہتے ہیں کہ نکا ح تو عورت کا حق ہے جب وہ بالغ ہو گئی ہے ۔یہ کہنا کہ کسی بھی حال میں ولی کے بغیر اس کو حق حاصل نہیں ہے ، اصل میں یہ کہنا ہے کہ اس کا اپنا حق ہے ہی نہیں ۔اس لیے اس کا دائرہ متعین کر نا پڑے گاکہ کس حالت میں یا  کس خاص صورت میں وہ  ولی کے بغیر نکا ح کر سکتی ہے اور کس صورت میں نہیں۔اس کے لیے انہوں نے کچھ شرائط قیاس سے لگادی ہیں۔مثلا اگر وہ بالغ ہے اور ایسی جگہ نکاح کر رہی ہے جہاں  نکاح کرنے میں اعتراض ہونا نہیں چاہیے، یعنی کفومیں اور  اپنے ہم پلہ لوگوں میں کر رہی ہے ، تو  اس کا مطلب ہے کہ ولی  اگر اس پر اعتراض کر رہاہے تو خواہ مخواہ رکاوٹ ڈال رہا ہے یا یہ چاہ رہا ہے کہ وہ اس کی مرضی سے کہیں نکاح کرے ۔ تو ایسی صورت میں ہم  بالغ لڑکی کے  خود کیے ہوئے نکاح کو منعقد مانیں گے ۔ہاں، وہ اگر ایسی جگہ نکاح کر رہی ہے جہاں پر اس کے ولی یا اس کے خاندان  کے لوگو ں کی ناراضی کی کوئی   حقیقی وجہ ہے ،تو پھر وہ  اعتراض اٹھا سکتے ہیں  اور ان کے اعتراض پر  قاضی نکاح کو فسخ کر سکتا ہے۔اصل میں روایت کی Placement   یعنی اس کا محل طے کرنا بہت اہم ہوتا  ہے ۔احناف کا اصل استدلال تو یہی ہے۔ پھر   اس کی سند میں بھی کچھ مسائل ہیں جن کا امام ترمذی نے ذکر کیا ہے۔ احناف ان کا  بھی حوالہ دیتے ہیں، لیکن وہ ثانوی اور ضمنی نوعیت کے  استدلالات ہیں۔

مطیع سید: یہ کیسے معلوم ہو تا ہے کہ یہ خبر آحاد ہے ؟

عمار ناصر: احادیث بنیادی طور پر اخبار آحاد ہی ہیں ۔  کسی روایت کے طر ق یا اتنی سندیں جمع ہو جائیں کہ وہ خبر واحد  کی تعریف سے نکل جائے ،ایسا تو بہت نادر ہے۔ اکثر روایات ایسی ہی ہیں ، خاص طور پر پہلے دور میں جب ذخیرہ حدیث مرتب و مدون نہیں ہو ا تھا ۔

مطیع سید: گویا یہ بعد کے دور میں ہواکہ ایک روایت کی کئی اسناد یا طرق مل گئے؟

عمار ناصر: جی، اور اس سے پہلے کا دور، یہ بڑا اہم دور تھا  ۔ دوسری صدی میں،اور شاید تیسری میں بھی ، محدثین  جس کام میں لگے ہوئے تھے،ان کا علم اوران کا دائرہ  معلومات حدیث کی جمع و تدوین ہی  تھا ۔ جو فقہا ہیں، ان کا اصل اعتنا حدیث سے اس طرح نہیں تھا۔ وہ اپنے اساتذہ یااپنے علمی حلقوں میں جن روایات کا ذکر ہوتا تھا، ان پر  یا    عمومی طورپر معروف احادیث پر ہی انحصار کرتے ہوئے فقہی مسائل میں استدلال کرتے تھے۔

مطیع سید: بعد میں ایسی کوئی شخصیت نہیں آئی جس نے ان دونوں دھاروں  کے درمیان پل کاکام کیا ہو ؟

عمار ناصر: نہیں، جب یہ مکاتب فکر بن گئے اور عصبیتیں پیداہوگئیں تو پھر یہ کام بڑا مشکل ہو گیا۔ البتہ یہ آپ کو نظر آئے گا کہ تدوین ِ حدیث کے بعد اس کے اثرات بہر حال ہر   فقہی مکتب فکر پر  پڑے ہیں ۔ فقہائے احناف پر بھی پڑے ہیں ۔بعد کے لوگوں کے رویے اور طرز استدلال پر بھی  اس کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔آخری دور میں شاہ ولی اللہ نے باقاعدہ تجویز کیا  اور اپنی حد تک کوشش بھی کی کہ حنفی اور شافعی فقہ میں   اقرب الی السنۃ ہونے کی بنیاد پر     تطبیق  پیدا کر دی جائے،  لیکن ظاہر ہے کہ  یہ بات اس طرح سے چلی نہیں ۔ دیوبندی اہل علم میں سے علامہ انور شاہ صاحب کے ہاں البتہ  یہ رجحان کافی نمایاں ہے کہ وہ  اختلافی مسائل میں  تطبیق  کی ایسی راہ نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے    کم سے کم صحیح احادیث   میں سے کسی کو ترک نہ کرنا پڑے۔

مطیع سید: ایک عورت کے مہر  سے متعلق آپ ﷺ نے ایک صحابی کو فرمایا کہ قرآن کی کوئی سورت اسے یاد کروا دو،یہی مہر ہے ۔(کتاب النکاح،  باب ما جاء فی مہور النساء، حدیث نمبر ۱۱۱۴) فقہا پھر کم سے کم مہر کیوں مقرر کر تے ہیں؟   روایت سے تو معلوم ہوتاہے کہ اس طر ح بھی مہر دیا جاسکتاہے ۔

عمار ناصر: مہر کی کم سے کم مقدار طے ہونے کے علاوہ احناف کا کہنا یہ بھی ہے کہ مہر کو مال ہونا چاہیے۔

مطیع سید: جی وہی، لیکن یہاں تو مال نہیں ہے، صرف سورتیں یاد کروائی گئی ہیں۔

عمار ناصر: قانونی پہلو سے آپ دیکھیں تو احناف کی بات ٹھیک ہے ۔قرآن بھی اموالکم ہی کہتا ہے ۔مہر  بنیادی طورپر مال ہی ہوگا۔لیکن بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں جن میں عام اصول پر عمل مشکل ہوتا ہے۔ مثلا اگر اس بندے کے پاس مہر کے طور پر دینے کے لیے کچھ بھی نہیں تو اس طرح کی صورتحال کا کوئی حل نکالنا پڑتا ہے۔ اعتدال کی بات یہ ہے کہ آپ عمومی قانون وہ رکھیں جو احناف کہتے ہیں اور استثنائی صورتوں کی گنجائش مان لیں  ۔یہ بھی ٹھیک نہیں کہ آپ اس روایت کی بنیاد پر یہ کہیں کہ ہر حالت میں مطلقا اس طرح مہر دیا جا سکتا ہے۔

مطیع سید: وضع حمل تک لونڈی سے مباشرت سے منع فرمایا گیا، (کتاب النکاح، باب ما جاء فی الرجل یشتری الجاریۃ وہی حامل، حدیث نمبر ۱۱۳۱) حالانکہ حمل ٹھہر جائے تو اس کے بعد  مباشرت سے بچے کے نسب پر کوئی  اثر نہیں پڑتا۔پھر اس سے منع کرنے کی علت کیا ہے ؟

عمار ناصر: ایسے معاملات  کو اسلام ایک  خشک قانونی زاویے سے نہیں دیکھتا، بلکہ حکمت کو بھی ملحوظ رکھتا ہے۔  مسلمان معاشرے میں  نسب کی حفاظت سے متعلق حساسیت    پختہ رہے، اس کے لیے  یہ زیادہ مناسب ہے کہ   جب تک ایک حمل سے عورت کا پیٹ فارغ نہ ہو جائے،    دوسرا آدمی  ہم بستری سے دور رہے۔

مطیع سید: یہ جو نبی ﷺ کے داماد ابو العاص تھے ،یہ جب مسلمان ہوئے تو کیا آپ ﷺ نے اپنی بیٹی سیدہ زینب کا ان کے ساتھ نکا ح دوبارہ پڑھایا یا سابقہ نکاح کو ہی جاری رکھا ؟

عمار ناصر: دو روایتیں ملتی ہیں ۔ایک میں ہے کہ نیا  نکاح کیا اور دوسری میں ہے کہ اسی کو جاری رکھا ۔ جیسا کہ امام ترمذی نے واضح کیا ہے، دونوں کی سندوں میں ضعف ہے ۔ (کتاب النکاح، باب ما جاء فی الزوجین المشرکین  یسلم احدہما، حدیث نمبر ۱۱۴۲، ۱۱۴۳)

مطیع سید: عمومی طورپر کس بات کو لیا جاتا ہے ؟

عمار ناصر: فقہاکا اس میں اختلاف ہے ۔احناف کہتے ہیں کہ عدت کے اندر اگر شوہر نے ایمان قبول کرلیا  تو ٹھیک ہے، لیکن  جب عدت پوری ہوگئی تو سابقہ نکاح ختم ہو گیا ۔  پھر اسلام قبول کرنے پر دونوں کا نیا نکاح ہوگا۔

مطیع سید: یعنی فقہا ان دونوں روایتوں پر بنیاد نہیں رکھتے؟ یا اگر سند میں ضعف ہے تو قرآن کی روشنی میں روایت کو ترجیح دیتے ہیں؟

عمار ناصر: یہ طے کرنا بعض اوقات مشکل ہوتا ہے کہ فقیہ اصلا قیاس کی بنیاد پر رائے پیش کر رہا ہے اور روایت کو تائیدا  پیش کر رہاہے یا اس کی رائے اصل میں روایت کی وجہ سے بنی ہے اور وہ قیاس کو تائید کے طورپر پیش کر رہا ہے۔

مطیع سید: رضاعت کے بارےمیں حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ پہلے قرآن میں حرمت ثابت ہونے  کا معیار  دس دفعہ دودھ پینے کو مقرر کیا گیا، پھر اس کو منسوخ کر کے پانچ دفعہ  دودھ پینے کو معیار مقرر کر دیا گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو   اسی حکم پر عمل  جاری تھا۔ (کتاب الرضاع،  باب ما جاء لا تحرم المصۃ ولا المصتان، حدیث نمبر ۱۱۵٠) اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ یہ دوسرا حکم تو اب قرآن میں موجود نہیں ہے؟

عمار ناصر: کافی محل اشکا ل روایت ہے۔  خاص طور پر یہ کہ روایت کے بعض طرق میں سیدہ عائشہ  کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو یہ آیت قرآن میں پڑھی جاتی تھی۔  فقہا اور محدثین اس کو دو طرح سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک تو یہ کہ اس پر درایتا سوال اٹھا دیے جائیں  کہ یہ بات ٹھیک ہی نہیں ہو سکتی کہ آیت قرآن میں نازل ہوئی تھی، لیکن  مصحف میں لکھے جانے سے رہ گئی۔احناف عموما یہی اعتراض کرتے ہیں کہ اگر یہ آیت قرآن کا حصہ تھی تو سیدہ عائشہ نے  اسے مصحف میں کیوں شامل نہیں کروایا؟ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔محدثین اور شوافع عموما یوں تاویل کر لیتے ہیں کہ ان کی مراد یہ ہے کہ بالکل آخر وقت تک مسلمان پڑھ رہے تھے، لیکن بالکل آخری زمانے میں اس کو منسوخ کر دیا گیا  جس کی وجہ سے مصحف میں اسے نہیں لکھا گیا۔  میرے خیال میں امام ترمذی نے روایت کے جو الفاظ نقل کیے ہیں، ان سے ایک اور  امکان بھی  نکلتا ہے۔    اس کے مطابق سیدہ عائشہ نے کہا کہ  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اسی پر معاملہ جاری تھا۔  یہ الفاظ  اس میں صریح نہیں ہیں کہ دوسرا حکم بھی قرآن میں اترا تھا۔ ممکن ہے، اسی کو  بعد میں راویوں نے   اس طرح تعبیر کر دیا ہو  کہ یہ آیت قرآن میں پڑھی جا رہی تھی۔

مطیع سید: فاطمہ بنت قیس نے اپنا معاملہ بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ تین طلاقوں کے بعد عدت میں نان ونفقہ کی ذمہ داری شوہر پر نہیں ہے ۔لیکن حضرت عمر فاروق نے فرمایا کہ میں کتاب للہ پر فیصلہ کروں گا نہ کہ ایک عورت کی بات پر ۔ (کتاب الطلاق، باب ما جاء فی المطلقۃ ثلاثا  لا سکنی لہا ولا نفقۃ، حدیث نمبر ۱۱۸٠)

عمار ناصر: بہت سے صحابہ اور تابعین کا یہی رجحان رہا ہے کہ فاطمہ بنت قیس کی روایت  قابل اعتماد نہیں ہے۔ حضرت عمر نے اس بنیاد پر اسے رد کر دیا کہ یہ  قرآن کے خلاف ہے۔ اب قرآن میں بظا ہر تو ایسی کوئی تصریح نہیں ہے جو یہ کہہ رہی ہو کہ  تین طلاقوں کے بعد بھی  نفقہ شوہر کے ذمے ہے، لیکن قرآن کا  جو اسلوب ہے اس حکم کو بیان کرنے کا، وہ عموم کاہے ۔وہ اصل میں عموم سے استدلال کررہے ہیں اور فاطمہ کی  روایت کو وزن نہیں دے رہے۔

مطیع سید: کیا یہ اس عورت کے لیے کوئی خصوصی حکم ہو سکتا ہے؟

عمار ناصر: اس کے دو پہلو ہیں۔ایک یہ کہ کیا اس کو نفقہ ملنا چاہیے یا نہیں ۔دوسرا یہ کہ کیا اس پر خاوندکے گھر میں رہنا ،اور خاوند پر اسے رہائش مہیا کرنا لازم ہے یا نہیں ۔یہ جودوسرا پہلو ہے، اس میں تو روایت کے اندر ایسے قرائن موجود ہیں کہ فاطمہ کا خاص معاملہ ہو سکتا ہے ، یعنی  بعض خاص اسباب سے  اسے شوہر کے گھر میں رہائش  کا حق نہیں دیا گیا۔لیکن یہ جو نفقے کا حق ہے، اس سے محروم کرنے کی کوئی تاویل بظاہر سمجھ میں نہیں آتی ۔اس لیے بعض فقہا قائل ہیں کہ طلاق ِ ثلاثہ کے بعد  عدت میں بیوی کا نان و نفقہ شوہر کے ذمے نہیں۔لیکن قیاسا یہی بات ٹھیک لگتی ہے کہ طلاقیں تواس کو تین ہو گئی ہیں، لیکن وہ ہے تو اسی شوہر کی عد ت میں ۔  نہ کہیں جا سکتی ہے، نہ نیا نکاح کر سکتی ہے تو اس کا خرچ شوہر ہی کے ذمے ہونا چاہیے۔

مطیع سید: حضرت عمر نے بھی اس کے بر عکس فیصلہ فرمایا ؟

عمار ناصر: جی، انہوں نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ اسے  نان و نفقہ  ملے گا ۔

مطیع سید: نکا ح و طلاق ہنسی مذاق میں بھی ہو جاتی ہے ۔ (کتاب الطلاق، باب ما جاء فی الجد والہزل فی الطلاق، حدیث نمبر ۱۱۸۴) ایسا کیوں ہے، جبکہ کامن سینس یہ کہتی ہے کہ نیت   ضروری ہونی چاہیے؟

عمار ناصر: نکاح و طلاق کے بار ے میں شریعت کا جو مزاج ہے، وہ یہ ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں لوگوں کو تھوڑا Sensitive (حساس)بنانا چاہتی ہے کہ اس کو کھیل نہ بنا لیں ۔ دیکھیں، اگر  کسی نے بیوی کے ساتھ  ظہار کیا تو قرآن اس پر کتنا  سخت مواخذہ کرتا ہے کہ شوہر نے اسے ماں یا بہن  آخر کہا کیوں ہے۔ اس لحاظ سے میرے خیال میں اس  روایت کا مدعا  یہ سمجھ میں آتا ہے کہ لوگوں کو تھوڑا Sensitize (حساس)کیا جائےکہ ان معاملات میں ایسے کریں گے تو نتیجہ مرتب ہو جائے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے سدِ ذریعہ کے طور پر  یعنی زجر وتوبیخ کے لیے یہ کہا ہو، کوئی قانونی ضابطہ  بیان کرنا اصلا پیش نظر نہ ہو ۔ ممکن ہے، کچھ ایسے مقدمات سامنے آئے ہوں کہ شوہر نے طلاق تو سوچ سمجھ کر  دے دی تھی، لیکن پھر اس سے مکرنے کے لیے یا ذمہ داری سے فرار ہونے کے لیے کہہ رہا ہو کہ  میں نے تو بس ایسے ہی مذاق  میں کہا تھا ۔ یہ سب امکانات ہو سکتے ہیں۔

مطیع سید: تو کیا اس بنیاد پر قانونا ایسی طلاق نافذ ہو جاتی ہے؟

عمار ناصر: فقہا نے تو اس کو  بالکل اسی طر ح لیا ہے کہ یہ لازما واقع ہوجاتی ہے ۔میرے خیال میں اگر اس کو اس  زاویے سے دیکھاجائے کہ اس سے اصل میں لوگوں کو  Sensitizeکرنا مقصود ہے تو پھر اس سے اتنا سخت قسم کا قانونی ضابطہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

مطیع سید: یعنی قاضی  پابند نہیں کہ ہر طرح کی صورت حال میں  یہی فیصلہ کرے؟

عمار ناصر: جی بالکل، میری رائے تو یہی ہے۔

مطیع سید: روایت میں ہے کہ خلع والی عورت کی عد ت ایک حیض ہے۔ (کتاب الطلاق،  باب ما جاء فی الخلع، حدیث نمبر ۱۱۸۵) جبکہ احناف کہتے ہیں کہ تین حیض ہے  اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ ہم خبر واحد کو قرآن کے مقابلے میں قبول نہیں کریں گے ۔

عمار ناصر: اس خاص روایت کے متعلق احناف کا استدلال اس وقت  میرے ذہن میں نہیں ہے ، لیکن  احناف اپنے اصول کے لحاظ سے کئی روایتیں چھوڑ دیتے ہیں ۔ا س طرح کی روایتوں کے بارے میں بعض جگہ امام ابو حنیفہ کا یا امام محمد وغیرہ کا تبصرہ مل جاتاہے ۔وہ روایت پر درایتا سوال اٹھا کر اور ان کے خیال میں جو دوسرے زیادہ قوی دلائل ہیں، ان کی روشنی میں اسے چھوڑ دیتے ہیں ۔بہت سی مثالیں ایسی بھی ہیں  کہ روایت اس طرح قوت ِ سند کے ساتھ اور اس طرح قا بل اعتماد طریقے کے ساتھ ان کے سامنے نہیں آئی تھی ۔یعنی یاتو روایت ان کے سامنے نہیں ہے یا اس طرح قابلِ وثوق طریقے سے نہیں پہنچی کہ وہ اس پر  اپنی بات کی بنیاد رکھتے۔ تاہم احناف کا اصولی موقف یہ ہے کہ اگر روایت آجاتی ہے تو اس کے مقابلے میں وہ قیاس کوچھوڑ دیتے ہیں۔میں نے اپنی کتاب میں  اس کی بہت سی مثالیں بھی جمع کی ہیں ۔

مطیع سید: خلع لینے والی عورتیں منافق ہیں ۔بلاجہ جو عورت خلع لے گی، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گی۔(کتاب الطلاق، باب ما جاء فی المختلعات، حدیث نمبر ۱۱۸۶، ۱۱۸۷) امام ترمذی نے یہ بھی لکھا ہے کہ  ان کی اسناد قوی نہیں ہیں ۔

عمار ناصر: سند کے لحاظ سے کچھ کمزوری ہو  سکتی ہے، لیکن معنا  یہ بات سمجھ میں آتی ہے ۔میاں بیوی کارشتہ جب قائم ہوگیا ہے  تو شریعت یہ چاہتی ہے کہ یہ قائم ہی رہے ۔

مطیع سید: اگر عورت اس وجہ سے خلع لے کہ مجھے بس اس کا چہرہ پسندنہیں ۔یہ تو کوئی بہت بڑی وجہ نہیں نظرآتی۔

عمار ناصر: نہیں، یہ تو ایک وجہ بنتی ہے۔بے وجہ کا مطلب ہے کہ شوہر کے ساتھ رہنے میں کوئی نفسی ،مالی  یا کوئی اس طرح کا مسئلہ نہیں ہے ۔ مثلا ایسے ہی  کسی کے دل میں خیال آ جائےکہ کہیں اور  بھی تجربہ کر کے دیکھتے ہیں ۔ میرے خیال میں یہ رجحان ہے جس کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ بعض دیگر احادیث میں  اس مزاج کو ذواقین اور ذواقات  سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی  نئے نئے مزے چکھنے کےلیے  رشتہ نکاح کو توڑنا اور نئے رشتے بنانا۔

مطیع سید: ایک انصاری نے اپنے غلام کو اپنی وفات کے بعد  آزاد قرار دے دیا ۔ پھر اس کا انتقال ہو گیا تو آپ ﷺ نے اس کے غلام کو فروخت کر دیا ۔ (کتاب البیوع، باب ما جاء فی المدبر، حدیث  نمبر   ۱۲۱۹) مدبر کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ آقا کی وفات کے بعد خودبخود آزاد ہو جاتا ہے ،تو پھر آپ ﷺ نے اسے کیوں فروخت کیا؟

عمار ناصر: یہ گویاآپ ﷺ نے اس انصاری کے، غلام کو آزاد کرنے کے فیصلے کو مسترد کر دیا ،کیوں کہ اس طرح کے فیصلے میں کئی چیزیں دیکھنی پڑتی ہیں ۔روایت میں ہے کہ اس غلام کے علاوہ اس کا کوئی اور مال نہیں تھا۔ اب ممکن ہے، اس کے ذمے قرض ہو جسے ادا کرنے  کے لیے کوئی اور ذریعہ نہ ہو، یا جو وارث تھے ان کا حق بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ تو نبی ﷺ نے اس کےفیصلے کو اس لیے ختم کیا کہ اس سے دوسرے حق داروں کے حق مجروح ہو رہے تھے ۔

مطیع سید: کسی بیع میں دو شرطیں جائز نہیں ہیں ۔ (کتاب البیوع،  باب ما جاء فی کراہیۃ بیع ما لیس عندک، حدیث نمبر ۱۲۳۴)  اس سے کیا مراد ہے ؟کیا کسی بیع میں ایک سے زیادہ شرائط نہیں رکھی جا سکتیں؟

عمار ناصر: فقہا اس کی مختلف طریقے سے تشریح کرتے ہیں لیکن آپ اگر مختلف طرق کو جمع کریں تو اس سے معلوم ہوتاہے کہ دو شرطوں سے مراد یہ ہے کہ  سودا دو شکلوں کاہو سکتا ہے ،اس طرح کا بھی ہو سکتا ہے اور اُس طرح کا بھی ،اور آپ اس کو طے کرنے کی بجائے اس میں دونوں Options رکھ دیتے ہیں ۔ اس سے بعد میں کئی نزاع پیدا ہو جاتے ہیں ، اس لیے اس سے منع کیا گیا ہے۔ یہ مراد نہیں ہے کہ آپ نے کسی  معاملے میں ایک شرط رکھی ہو تو اس پر مزید ایک اور شرط نہیں رکھ سکتے۔

مطیع سید: کوئی چیز کسی کو ہبہ کر دی جائے تو صرف باپ اولاد سے واپس لے  سکتا ہے، اور کوئی نہیں۔ (کتاب البیوع، باب ما جاء فی الرجوع فی الہبۃ، حدیث نمبر ۱۲۹۸) ہمارے ہاں پاکستا ن میں یہ قانون ہے کہ باپ بھی واپس نہیں لے سکتا ۔

عمار ناصر: دیکھیں، والد کے رشتے کی نوعیت مختلف ہے ۔ اصل تو یہ ہے کہ آپ نے ہبہ کر دیا ہے تو آپ اسے واپس نہیں لے سکتے ۔لیکن باپ کو تو ویسے ہی اپنے بیٹے کے مال میں سے اپنی ضرورت کے لحاظ سے لے لینے کا حق ہے۔ تو رشتے کی نوعیت کے لحاظ سے اس کو یہ بھی حق ہے کہ اس نے اولاد کو ہبہ  دیا ہو تو اس کو واپس بھی لے سکتا ہے۔

مطیع سید: مسجد میں تجارت کے حوالے سے ایک روایت ہے  کہ ایسا کرنے والے کو بددعا دی جائے کہ تمھیں تجارت میں فائدہ نہ ہو۔ (کتاب البیوع، باب  النہی عن البیع فی المساجد، حدیث نمبر  ۱۳۲۱)

عمار ناصر: مطلب یہ ہے کہ مسجد کا ایک اپنا ادب ہے ، اسے خرید وفروخت کی جگہ نہ بنایا جائے۔ یہ مراد نہیں ہےکہ کسی موقع پر اتفاقی طور پر آپ کوئی معاملہ کر لیں تو  وہ بھی ناجائز ہے۔ مقصود یہ ہے کہ مسجد کو اس مقصد کے لیے  استعمال نہ کریں ۔یہ مسجد کے آداب کے خلاف ہے ۔

مطیع سید: اجتہاد سے متعلق حضرت معاذ بن جبل کی جو مشہور روایت ہے، اس کے بارے میں امام ترمذی فرماتے ہیں کہ  اس کی سند متصل نہیں ہے ۔(کتاب الاحکام،  باب ما جاء فی القاضی کیف یقضی، حدیث نمبر ۱۳۲۸) کیا اس روایت کی مضبوطی کسی اور سند سے ہو جاتی ہے ؟

عمار ناصر: نہیں، اس کی سند متصل نہیں ہے ۔ لیکن اس کی شہرت اتنی ہے  کہ فقہا اور محدثین عام طور پر اسے قبول کر تے ہیں ۔یعنی یہ  اپنے مضمون میں بھی اتنی معقول ہے اور اہل علم کے مابین بھی اس قدر معروف ہے  کہ سند کا انقطاع اس کے ثبوت پر اثراندازنہیں ہوتا۔

مطیع سید: یہ اتنی اہم روایت ہے اور اجتہاد کی بنیاد ہی اس پر کھڑی کی جاتی ہے، لیکن اس کی سند متصل نہیں ہے۔

عمار ناصر: نہیں، ان معنوں میں یہ کوئی بنیادی اہمیت رکھنے والی روایت نہیں ہے  کہ اگر یہ نہ ہو تو  ہم بالکل  اندھیرے میں جا کھڑے ہوں گے۔ یہ بس ہمارے ہاں ایک سوچنے کا انداز ہے ۔ اس روایت میں ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے کہ اگر یہ روایت نہ ہوتی تو وہ معلوم نہ ہو سکتی۔

مطیع سید: میں دیکھتا ہو ں کہ جتنی بھی اجتہاد کی بحثیں ہیں، وہاں اس روایت کا سب سے پہلے حوالہ دیا جاتا ہے ۔

عمار ناصر: وہ اصل میں حوالے کے لیے سہولت دیتی ہے ، کیونکہ اس میں ایک بات تصریحا بیان ہو گئی ہے ۔ورنہ اگر یہ روایت نہ ہو تی  تو   ایسا نہیں کہ دین میں اجتہاد کا جواز یا اہمیت   ہمیں معلوم نہ ہو سکتی۔  آنحضرت ﷺاور صحابہ کا جتنا طریقہ تعلیم ہے ،وہ سارا یہی ہے ۔یہ تو کامن سینس کی بات ہے کہ پہلے آ پ دیکھیں گے کہ اللہ تعالی ٰ نے کیا کہا ہے اور رسول اللہ ﷺ نے کیا کہا ہے  اور پھر آپ اپنی رائے استعمال کریں گے ۔البتہ جو چیز لفظا کہیں بیان نہ ہوئی ہو جس کا حوالہ دیا جا سکے تو آپ کو کئی چیزوں سے  اخذ کر کے اس کو واضح کرنا پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ روایت حوالے میں ایک سہولت  پیداکر  دیتی ہے۔ اس میں متعین طریقے سے وہ بات لفظوں میں بیان ہوگئی ہے ،ورنہ معنوی لحاظ سے یہ کوئی بنیادی  ماخذ کا درجہ رکھنے والی روایت نہیں ہے ۔

(جاری)

مساجد و مدارس اور نئے اوقاف قوانین

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

بعض حضرات کی طرف سے نئے اوقاف قوانین کے حوالہ سے یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ یہ قوانین عالمی معاشی دباؤ کی وجہ سے حکومت کو مجبورًا نافذ کرنا پڑ رہے ہیں اور یہ ایک طرح سے قومی ضرورت بن چکے ہیں۔ اس کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ عالمی سطح پر یہ مفروضہ قائم کر لیا گیا ہے کہ مبینہ دہشت گردی کے فروغ میں زیادہ کردار دینی تعلیم اور دینی مدارس کا ہے اس لیے بین الاقوامی ادارے یہ اطمینان چاہتے ہیں کہ پاکستان میں دینی مدارس، مساجد اور اوقاف کے وسیع ترین نیٹ ورک میں وقف کا کوئی ادارہ اور اس کے وسائل دہشت گردی کے کسی معاملہ میں استعمال نہ ہونے پائیں۔ اس لیے وہ کوشاں ہیں کہ مساجد و مدارس اور رفاہی معاملات پرائیویٹ سیکٹر سے نکل کر سرکاری کنٹرول میں آجائیں تاکہ ریاستی ادارے بین الاقوامی اداروں کی نگرانی اور ہدایات کے مطابق ان کو کنٹرول کر سکیں، اور اس طرح مسجد و مدرسہ اور رفاہی اوقاف کے وسائل کا دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے کا امکان روکا جا سکے۔

حال ہی میں ملک بھر میں ہر سطح پر نافذ کیے جانے والے نئے اوقاف میں اسی کو بنیاد بنایا گیا ہے چنانچہ مساجد و مدارس اور وقف املاک و اداروں کی پہلے سے چلی آنے والی ہر قسم کی رجسٹریشن منسوخ کر دی گئی ہے تاکہ ہر مسجد و مدرسہ اور ہر وقف ادارے کو ازسرنو رجسٹریشن کے ذریعے اس دائرے میں لایا جائے جو محکمہ اوقاف کے کنٹرول اور فیٹف (FATF) کی نگرانی میں ہو گا، حتٰی کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ کی نگرانی کو خفیہ رکھنے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور نئی رجسٹریشن کے لیے جو فارم محکمہ اوقاف کی طرف سے ملک کے مختلف حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں ان میں فیٹف کی ہدایات کا واضح طور پر ذکر موجود ہے۔

اس سلسلہ میں پہلی بات یہ ہے کہ جس دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام سے یہ سب کچھ کیا جا رہا ہے اس کی اپنی تعریف اور حدود طے نہیں ہیں، کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ تو پوری قوت کے ساتھ لڑی جا رہی ہے مگر دہشت گردی کی تعریف کیا ہے؟ کون سے ادارے اور افراد اس کے دائرے میں آتے ہیں؟ اور کسی کو دہشت گرد قرار دینے کی مسلمہ اتھارٹی کون سی ہے؟ یہ سب سوالات مسلسل ابہام کا شکار ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی طاقت و قوت کا حامل ادارہ جس کو چاہے دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تمام فریقوں کو اس کا بہرحال ساتھ دینا ہوتا ، بلکہ اس بارے میں امریکہ کے سابق صدر بش کا یہ اعلان فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے کہ ’’تم اگر ہمارے ساتھ نہیں ہو تو ہمارے دشمن ہو‘‘۔ یعنی کسی کے لیے غیرجانبدار رہنے کا کوئی امکان نہیں چھوڑا گیا۔ اس کا عالمی منظر ہمارے سامنے ہے کہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کے دور میں اقوام و ممالک کا ایک غیرجانبدار فورم بھی موجود و متحرک تھا جو اب کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ گویا دنیا کے ہر ملک کو امریکہ کا ہر حال میں ساتھ دینا ہے اور اگر کوئی ملک اس مخمصہ میں نہیں پڑنا چاہتا اور غیر جانبداری کا راستہ اختیار کرنے کا خواہشمند ہے تو اس کا شمار امریکہ کے دشمنوں میں ہو گا۔ چنانچہ یہ سارا کچھ دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ کا ساتھ نہ دینے والوں کو ہر حالت میں اس کی جھولی میں ڈالنے کی مہم بن گئی ہے جس میں ہم بھی شریک ہیں اور ماتھے پر کوئی شکن ڈالے بغیر ٹرک کی بتی کے پیچھے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔

دوسری بات یہ توجہ طلب ہے کہ دہشت گردی کے فروغ میں مسجد و مدرسہ کو ذمہ دار قرار دیتے چلے جانے میں زمینی حقائق اور پروپیگنڈا کا توازن کیا ہے، اس کی طرف کوئی توجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حالانکہ پاکستان کے حوالہ سے ہماری وزارت داخلہ بار بار سروے کر کے لاکھوں مدارس و مکاتب میں سے صرف چند سو مدارس کو اس جرم کا مرتکب قرار دے کر مدارس و مساجد کی غالب اکثریت کو اس عمل سے مستثنیٰ قرار دے چکی ہے، البتہ ان چند سو کی فہرست پیش کرنے کے لیے بھی کوئی ادارہ تیار نہیں ہے۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ جس طرح پولیس کے تھانوں میں کسی عمومی مسئلہ پر ایف آئی آر درج کرتے وقت چند افراد کے نام درج کر کے ان کے علاوہ بہت سے دیگر افراد کا جملہ درج کر دیا جاتا ہے تاکہ جس کو بھی پکڑنا ہو دیگر افراد کے دائرے میں اس کا نام درج کر کے اسے قابو کیا جا سکے، یہی تکنیک دہشت گردی کے حوالہ سے ملک بھر کے دینی مدارس کے بارے میں مسلسل استعمال کی جا رہی ہے کہ جو چند سو مدارس ’’دہشت گردی‘‘ میں ملوث پائے گئے ہیں ان کی کوئی فہرست طے نہیں ہے، مگر ملک کے جس مدرسہ کو زد میں لانا ہوتا ہے چند سو میں اس کا نام شامل کر کے اس پر چڑھائی کر دی جاتی ہے۔

اس صورتحال میں یہ کہا جا رہا ہے کہ نئے اوقاف قوانین حکومت کا نفاذ کی بین الاقوامی مجبوری ہے اور پاکستان کے مفاد میں ہمیں اس معاملہ میں حکومت سے تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ ہم قومی طور پر کسی نئی الجھن کا شکار نہ ہو جائیں، جبکہ اس کے ساتھ ہی انتہائی بھولپن کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں میں دین و ملک سے محبت کرنے والے حضرات کی کمی نہیں ہے ان کے ہوتے ہوئے ان قوانین کا ایسا استعمال نہیں ہو گا جس سے مسجد و مدرسہ کے نظام کو کوئی نقصان پہنچ سکے۔

گویا ان دوستوں کی تجویز یہ ہے کہ ہم چند افراد کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے خود کو اس سسٹم کی جکڑبندی کے حوالے کر دیں جو مسجد و مدرسہ کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے مسلسل جتن کر رہا ہے اور اب تک کے تمام حربے ناکام ہونے کے بعد اب اس کے ہاتھ میں ایک ایسا بہانہ آ گیا ہے جسے دینی حلقوں کے بعض دوست بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے قومی مجبوری قرار دے رہے ہیں اور دھیمے لہجے میں ان کی مجالس میں اس قسم کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ ایسے دوستوں سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ بھائی! بات افراد کی نہیں سسٹم کی ہے، اس کا طوق گلے میں ڈال کر یہ سمجھ لینا کہ جس کے ہاتھ میں رسی ہے وہ ہمارا ہمدرد ہے، کم از کم الفاظ میں اسے سادگی اور بھولپن سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے جس کی توقع مجھے اپنی دینی قیادت سے ہرگز نہیں ہے۔

حضرت مولانا مفتی محمودؒ وفاق المدارس العربیہ کے بانیوں میں سے تھے اور ۱۹۷۲ء کے دوران جب وہ صوبہ سرحد (کے پی کے) کے وزیر اعلیٰ بنے تو اس وقت بھی وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ تھے۔ ان سے بہت سے بزرگ علماء نے تقاضا کیا کہ وہ دینی مدارس کو سرکاری امداد و سرپرستی کے دائرہ میں لائیں تو انہوں نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ میری وزارت اعلیٰ آج ہے کل نہیں ہو گی، مگر جو کام میں کر جاؤں گا وہ بعد والوں کے لیے ہمیشہ کے لیے دلیل بن جائے گا اس لیے میں اپنی وزارت اعلیٰ کی خوشی فہمی میں دینی مدارس کو موجودہ ریاستی نظام اور محکموں کے حوالے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا، ہمارا خیال ہے کہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ کا یہ دانشمندانہ فیصلہ اور موقف آج بھی ہمارے لیے مشعل راہ ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔


دینی مدارس کے وفاقوں کو درپیش نیا مرحلہ

ڈاکٹر محمد طفیل ہاشمی

مفتی تقی عثمانی صاحب کا ایک کلپ سنا جس میں انہوں نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے درس نظامی پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹی اور حکومت نے وہ پروگرام واپس لے لیاتھا۔ مفتی صاحب  کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ پروگرام بدستور چل رہا ہے،  بلکہ حال ہی میں  اسے اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے۔ میں نے یونیورسٹی اتھارٹی سے کہا ہے کہ وہ اب تک کا سارا ڈیٹا سوشل میڈیا پر وائرل کر دیں تاکہ فقہی تقاضے کے مطابق مفتیان کرام موجود سماجی حالات سے آگاہ ہوں۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے درس نظامی پروگرام کی تاریخ یہ ہے کہ (میں اب یونیورسٹی میں نہیں ہوں لیکن یونیورسٹی ریکارڈ سے ان تمام مندرجات کی تصدیق کی جا سکتی ہے)  مجھے اپنے مطالعے کی بنا پر شروع سے یہ احساس تھا کہ پاکستان بر صغیر میں اسلام کی بقا کے باعث وجود میں آیا ۔انگریزی انتداب کے بعد جس طبقے نے اسے اسپین ہونے سے بچایا، حقیقتا وہی لوگ اس ملک کے  خالق ہیں اور اس کا نظم چلانے کے اولیں مستحق بھی۔(میں نے اپنے تحقیقی مطالعے کے دوران اندلس کی پوری تاریخ کا دقت نظر سے بالاستیعاب نہ صرف مطالعہ کیا تھا بلکہ اندلس کی علمی تاریخ پر میری ایک کتاب بھی ہے جو پاکستان میں اعلیٰ درجات میں زیر تدریس ہے) ۔ لیکن تاریخی ارتقا کے نتیجے میں ملکی نظم و نسق چلانے کے لیے کچھ مخصوص مہارتوں کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ مدارس کا ایک طبقہ تقسیم ملک کے بعد بھی اس ذہنی کیفیت سے نہیں نکل سکا جو غیر ملکی تسلط کے باعث پیدا ہوئی تھی اور ایک حد تک فطری اور نا گزیر تھی۔ دوسرا طبقہ  کنجے گرفت  و ترس خدا را بہانہ ساخت کا پیکر ہو گیا ۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ دینی طبقات کو ملکی نظام چلانے کی اہلیتوں کے حصول کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔

اتفاق سے میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں تھا  اور اوپن یونیورسٹی اصلا ان لوگوں کے لیے بنائی گئی تھی جو کسی بھی وجہ سے باقاعدہ کالجز یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتے تھےتاکہ  اس یونیورسٹی کے ذریعے ان کے لیے تکمیلی تکنیکی فنی اور دیگر انواع کی تعلیم کا فاصلاتی طریق پر انتظام کیا جائے ۔ میں نے سوچا کہ دینی مدارس کے طلبہ اپنی تعلیمی مصروفیات کے باعث رسمی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری طرف ہماری جامعات معمولی درجہ میں تفسیر حدیث اور فقہ وغیرہ کی تعلیم دے کر ایم اے کی اسناد دیتی ہیں تو کیوں نہیں یہ کیا جائے کہ دینی مدارس کے نصاب کو یونیورسٹی میں درجاتی کریڈٹ دیا جائے۔ مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی ٹیوٹر مقرر کیا جائے اور دینی مدارس کے بعض متروک مضامین (مثلا ریاضی، زبانیں، سیاسیات، اقتصادیات، تاریخ اور دیگر سماجی علوم)، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق ضروری ہیں، فاصلاتی طریقہ سے پڑھا دیے جائیں اور یونیورسٹی امتحان لے کر میٹرک سے پی ایچ ڈی تک ڈگری دیا کرے ۔ مدارس کے نظم کو محفوظ رکھنے اور ان کا مالی تعاون کرنے کے لیے یہ بھی سوچا کہ طلبہ کے داخلے مدارس کے توسط سے کیے جائیں (جو میری غلطی تھی لیکن نیک نیتی پر مبنی) اور مدارس کے اساتذہ کو یونیورسٹی کا ٹیوٹر لگا کر ان کی آمدنی میں اضافے کی راہ نکالی جائے ۔

یونیورسٹی اتھارٹیز اس پروگرام کے خلاف تھیں ۔ایسے میں مجھے  باہر سےصرف مرحوم ڈاکٹر محمود غازی اور ڈاکٹر ایس ایم زمان کی مکمل حمایت حاصل تھی ۔آخر بہت مشکل سے اتھارٹیز کو رضامند کرنے کے بعد میں نے مختلف وفاقوں اور مدارس سے رابطے کرنا شروع کیے ۔مجھے بریلوی، اہل حدیث اور شیعہ وفاقوں کی طرف سے بھر پور یقین دہانی کرائی گئی ۔لیکن دیوبندی وفاق کو اس کی افادیت باور کروانے میں مجھے بہت وقت محنت اور وسائل خرچ کرنا پڑے۔ ایک سے زائد مرتبہ وفاق کے اجلاسوں میں بھی پروگروام پیش کیا ۔بارہا اسلام آباد میں مقتدر علماء وفاق کی میٹنگز بلائیں، ایک بار مری میں جہاں وفاق کا مرکزی اجلاس ہو رہا تھا، اس میں حاضر ہو کر تفصیلی بریفنگ دی۔ اس اجلاس میں مولانا رفیع عثمانی اور مفتی تقی عثمانی دونوں شریک تھے اور انہوں نے بھی پروگرام کے طریق کار کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں۔ کئی بار صدر وفاق سے اسلام آباد میں میٹنگ ہوئی۔ ایک بار کراچی جاکر بھی مولانا سلیم اللہ خان سے  ملاقات کی اور باقاعدہ ایک معاہدہ طے ہوا ۔

اس کے مطابق مجھے 8--9 ماہ کےبعد یہ پروگرام لانچ کر دینا تھا ۔لیکن ایک دن اچانک میرے آفس میں وفاق المدارس کے ایک نمائندہ وفد کے ارکان یکے بعد دیگرے آنا شروع ہو گئے جس میں ملتان، لاہور، فیصل آباد اور اکوڑہ خٹک سے وفاق کے نمائندے شامل تھے۔ جب سب تشریف لا چکے تو میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ  جو پروگرام ہمارے درمیان طے ہوا، اس پر فورا اور اسی سمسٹر سے عمل در آمد کیا جائے ۔۔میں نے اپنی مشکلات اور  یونیورسٹی کا طریق کار سب کچھ عرض کیا، لیکن وفد میں موجود استاذ گرامی قدر مولا نا نذیر احمد صاحب ؒ کی وجہ سے میں نے ہامی بھر لی اور قہر درویش بر جان خویش کے مصداق دن رات کام کر کے پروگرام شروع کر دیا ۔اس پروگرام میں مولانا محمد ادریس کاندھلوی کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد میاں صدیقی میرے معاون خصوصی تھے۔ پروگرام لانچ کر دیا گیا لیکن جب میرے پاس داخلوں کی تفصیل آئی تو معلوم ہوا کہ دیوبندی وفاق سے کوئی طالب علم داخل نہیں ہوا ۔ یعنی، مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے۔

حیرت ہوئی۔مولانا محمد زاہد صاحب سے،  جو اپنے والد مرحوم مولانا نذیر احمد  کی معیت میں تقریباً تمام میٹنگز میں شریک رہے، معلوم کیا تو انہوں نے صرف یہ کہا کہ "علماء کرام نے رجوع کرلیا  "۔ بعد میں دیگر ذرائع سے معلوم ہوا کہ مولانا سلیم اللہ خان نے تمام مدارس کو ایک سرکلر جاری کر دیا تھا کہ  طفیل ہاشمی کا پروگرام مدارس کے خلاف حکومت کی سازش ہے ، اس میں کوئی طالب علم داخل نہ کروایا جائے۔  اگرچہ میرے پاس ثبوت کوئی نہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ یونیورسٹی کی جس میٹنگ میں یہ پروگرام منظور کیا گیا تھا، اس وقت کے وفاقی سکریٹری ایجوکیشن بھی اس کے ممبر تھے ۔میٹنگ کے بعد انہوں نے تنہائی میں مجھے کہا : یہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟ مدرسوں کے مولوی اگر ڈگری لے کر سی ایس ایس کر کے بیورو کریسی میں آجائیں گے تو   ہمارے بچے کہاں جائیں گے ؟

میں نے انہیں جواب دیا کہ کہاں سی ایس ایس؟ بیچارے تعلیمی اداروں میں چلے جائیں تو بھی بسا غنیمت لیکن وہ بہت منجھے ہوئے اور سینئر بیورو کریٹ تھے اور مستقبل کو دور تک دیکھ سکتے تھے۔  مجھے شبہ ہوتا ہے کہ مولانا سلیم اللہ خان تک سازش تھیور ی انہوں نے نہ پہنچائی ہو  اور دیوبندی علماء سازش کے خوف کا بآسانی شکار ہو جاتے ہیں ۔   اس حادثے کے نتیجے میں مختلف اہل علم اور اہل اللہ کے تقوی، دانش، کردار کی بلندی اور بے شمار خوبیوں سے متعارف ہو کر ایک نظریہ نہ بنانا میرے بس میں نہیں تھا ۔

درمیانی عرصے میں صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت آئی تو میں نے مولانا حنیف جالندھری سے بار بار کہا کہ آپ کچھ بڑے مدارس کے لیے سرحد حکومت سے یونیورسٹی چارٹر لے لیں تاکہ اپنی اسناد کے معادلہ کے چکر سے نکل جائیں لیکن انہوں نے دلچسپی نہیں لی۔ شاید اس وجہ سے کہ یونیورسٹیز کو سالانہ آڈٹ کروانا ہوتا ہے۔

اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت نے وہ ایم اے پروگرام جن کے ساتھ شہادۃ عالمیہ کا معادلہ تھا، کلیۃ بند کر دیا ہے۔ گویا آئندہ ایم اے نام کی کوئی سند نہیں ہو گی۔ اس کی جگہ بی ایس نے لے لی ہے۔ کیا موجودہ وفاقوں کا ایچ ای سی سے کوئی نیا معاہدہ ہوا ہے کہ شہادۃ عالمیہ اب بی ایس کے برابر ہو گی؟ اگر نہیں تو ایک نیا مرحلہ جد وجہد درپیش ہوگا۔ نیز حکومت نے اب پرائیویٹ تعلیمی سلسلہ ختم کر دیا ہے۔ البتہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے درس نظامی کے رواں پروگرام کو جو پہلے میٹرک، ایف اے، بی اے اور ایم اے، ایم فل کے ناموں سے چل رہا تھا، جدید اسکیم سے ہم آہنگ کرتے ہوئے بی ایس اور ایم ایس درس نظامی کے ناموں سے مشتہر کر دیا ہے۔ الغرض

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا


دینی مدارس کے نئے بورڈز کا قیام

ڈاکٹر حافظ سید عزیز الرحمن

گزشتہ دنوں میں دینی مدارس کے حوالے سے کچھ نئے بورڈز (وفاق) قائم کیے گئے ہیں، بعض مدارس کی اسناد کو انفرادی طور پر بھی ایم اے کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں کام ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں۔ اب خاصے وقفے کے بعد یہ عمل زیادہ بڑے پیمانے پر دہرایا گیا ہے، اس لیے یہ امور زیادہ نمایاں ہوگئے ہیں۔

چناں چہ اس وقت مدارس کے حلقے کا گرم ترین موضوع یہی بورڈز کا قیام ہے، اس بحث میں زیادہ گرمی جامعۃ الرشید اور جامعہ بنوریہ کے مشترکہ بورڈ کے قیام سے آئی، جسے دیوبندی حلقے کے بورڈ، وفاق المدارس کے خلاف سازش قرار دیا گیا، خود وفاق  کے ترجمان نے بھی اس پر باضابطہ رد عمل پیش کیا۔ یاد رہے کہ ان نئے بورڈز کے قیام سے قبل وفاق المدارس سے ملحق مدارس کی تعداد ۲۱ ہزار سے زائد ہے۔ اور اس اعتبار سے یہ پاکستان میں کسی بھی مکتب فکر کا سب سے بڑا بورڈ ہے۔

چوں کہ یہ مسئلہ نہایت حساس ہے، اس لیے ہمارے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ اس پورے سلسلے کا پس منظر کیا ہے؟

مدارس کے مختلف بورڈز کے قیام کا سلسلہ کب شروع ہوا؟

بعض مدارس کی اپنی اسناد کو کب منظوری دی گئی؟

اس قضیے کے تعلیمی،انتظامی اور سیاسی مضمرات کیا ہوسکتے ہیں؟

اس تحریر میں اسی نوعیت کے کچھ سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مدرس کی اسناد اور مختلف وفاقوں کے قیام کے تاریخی پس منظر بیان کرنے بعد یہ جائزہ چند نکات کی صورت میں لیا جائے گا کہ سردست یہی ممکن ہے، اگرچہ یہ موضوع خاصا طویل ہے، اور ایک مفصل و ضخیم مضمون کا متقاضی۔

مدارس کے بورڈ کا قیام اور منظوری

نومبر ۱۹۸۲ میں پہلی بار پاکستان میں چار وفاقوں کو دینی مدارس کے باضابطہ تسلیم شدہ تعلیمی بورڈ کی حیثیت دی گئی، اور ان کی سند شہادۃ العالمیہ (دورہ حدیث)کو صرف تعلیمی اور تدریسی مقاصد کے لیے چند شرائط کے ساتھ ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے مساوی قرار دیا گیا۔ ان شرائط میں سے سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ اسناد باقاعدہ کسی یونیورسٹی سے معادلے کے بغیر قابل قبول نہیں ہوں گی۔

ان وفاقوں کے نام یہ ہیں:

کچھ عرصے کے بعد ۱۹۸۷ء میں جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے مدارس کے لیے رابطۃ المدارس۔ لاہور کے قیام کا بھی نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا۔

اسی دوران کچھ مدارس کو الگ سے بھی یہ اعزاز دیا گیا کہ ان کی اپنی سند شہادۃ العالمیہ کو بھی ایم اے کے مساوی قرار دیا گیا۔ ان مدارس کے نوٹیفکیشن کی تاریخی ترتیب سے نام یہ ہیں:

اس عمل کے بہت مدت بعد اب حال میں مزید چند مدارس کی سند کو یہ اعزاز بخشا گیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:

اس ضمن میں اہم ترین بات یہ ہے کہ اس وقت صرف شہادۃ العالمیہ کو ہی ایم اے عربی اور ایم اے اسلامیات کے مساوی قرار دیا گیا تھا۔ باقی اسناد یعنی ثانویہ عامہ، ثانویہ خاصہ اور عالیہ کی اسناد کو کو بالترتیب میٹرک و انٹر اور بی اے کے مساوی قرار نہیں دیا گیا، جس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت تک وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت صرف شہادت العالمیہ کا ہی امتحان ہوا کرتا تھا۔ باقی تمام درجات کے امتحانات وفاق سے ملحق مدارس اپنے اپنے طور پر لیا کرتے تھے۔ لیکن حیرت اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ۱۹۸۲ سے لے کر آج سے کچھ عرصے پہلے تک اس مسئلے پر مزید کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، اس کا سبب حکومتی عدم دل چسپی ہو یا مدارس کے نمائندوں کی عدم التفات، طلبہ کے لیے یہ امر بہت سے مسائل اور مشکلات کا سبب بنا رہا ہے۔

اہم پہلو

مدارس کی اسناد کو ایم اے کے مساوی تسلیم کرنے کے لیے ۲۰۱۷میں ایک شرط یہ عائد کی گئی تھی کہ اس کے لیے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سمیت کسی بھی حکومت کی چارٹرڈ اور منظور شدہ یونیورسٹی سے بی اے کے لازمی اسباق میں سے دو جن میں ایک انگریزی کا امتحان دینا لازم ہو گا۔ اس شرط کا اطلاق نئے منظور شدہ تمام بورڈ کے طلبہ پر ہوگا۔ اس سے قبل منظور ہونے والے تمام وفاقوں کے لیے انگریزی کی شرط نہیں تھی۔

نیز ان مدارس کی رجسٹریشن کے لئے بھی اب طریقہ کار یہ ہے کہ یا تو یہ ۱۸ اگست ۲۰۰۱ء کے نوٹیفکیشن کے مطابق پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے الحاق کریں یا ۲۲ اگست ۲۰۱۹ءکے نوٹیفکیشن کے مطابق ایک نئے قائم شدہ ڈائریکٹریٹ جنرل آف ریلیجیئس ایجوکیشن سے منظوری حاصل کریں۔ اسی طرح ۲۰۱۹ءکے بعد بعد اب مدارس کے رجسٹریشن کے معاملے کو وزارت تعلیم کے ماتحت کیا گیا ہے یاد رہے کہ اس سے پہلے یہ ذمے داری وزارت صنعت و حرفت کی تھی۔

اس وقت تک مدارس کے  مزید جو نئے بورڈز تشکیل دیے گئے ہیں،ان کےاسما ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔ یہ تمام بورڈز فروری سے اپریل ۲۰۲۱ء تک کی مختلف تاریخوں میں منظور کیے گئے ہیں۔ جن کی تفصیل یہ ہے:

۴ فروری ۲۰۲۱ء

۱۵ اپریل ۲۰۲۱ء

۲۷ اپریل۲۰۲۱ء

موجود صورت حال۔ ایک نظر میں

مدارس کے قدیم و جدید تعلیمی بورڈز اور ان کی اسناد کے حوالے سے اب تک جو صورت حال سامنے آئی ہے، ان کا خلاصہ ان نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے:

۱۔ چاہے وفاق المدارس العربیہ یا اس کے ساتھ مزید منظورشدہ مختلف مسلکی چار (مجموعی طور پر پانچ ) تعلیمی بورڈز ہوں، یا نئے قائم ہونے والے مختلف بورڈز یا مدارس کی انفرادی اسناد، تمام کی تمام صرف اور صرف تعلیمی مقاصد کے لیے منظور شدہ ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ ان دونوں مضامین کے علاوہ کسی بھی مضمون میں شہادۃ العالمیہ کی بناد پر ایم اے نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں بھی صرف شہادۃالعالمیہ کو ایم اے کے برابر قرار دیا گیا ہے،یہ ایم اے بھی صرف اسلامیات اور ایم اے عربی کے مساوی ہیں۔

۲۰۱۷ میں البتہ ایک پیش رفت یہ ہوئی تھی کہ ثانویہ عامہ، ثانویہ خاصہ اور عالیہ کی اسناد کو بھی ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے بترتیب میٹرک، ایف اے اور بی اے کے مساوی قرار دینے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ لیکن اس سے بہت پہلے سے میٹرک اور ایف اے کی سطح پر معادلے کا اختیار آئی بی سی سی (انٹر بورڈ کمیٹی آف چیئرمین )کو حاصل تھا،لیکن وہاں بھی چند شرائط ایسی تھیں جن کی وجہ سے طلبہ کو دقت پیش آتی تھی جن میں متعلقہ درجات کے لازمی مضامین خاص طور پر انگریزی اور مطالعۂ پاکستان کا امتحان دینا ضروری تھا۔  اہم بات یہ ہے کہ مدارس کے جانب سے اس کمیٹی کو شاید کبھی بھی اپروچ نہیں کیا گیا اور اگر کیا گیا تو بہت محدود پیمانے پر،جس کے اثرات کبھی نمایاں نہیں ہو سکے۔ ایک زمانے میں اس کمیٹی کی چیئرمین شپ پروفیسر انوار احمد زئی مرحوم سابق چیئرمین انٹر میڈیٹ بورڈ کراچی اور میٹرک بورڈ کراچی کے پاس تھی۔ ان سے اس ضمن میں کئی ملاقاتیں کر کے انہیں بہت سے اقدامات پر ذاتی حیثیت میں آمادہ کیا،طے یہ ہوا کہ اس سلسلے کی ایک میٹنگ میں جو بھوربن میں ہونے والی تھی راقم نے ہم اس مسئلے پر ایک پریزنٹیشن پیش کریں گے، لیکن بعض وجوہ سے وہ میٹنگ نہ ہو سکی اور کچھ مدت بعد پروفیسر انوار احمد زئی ان ذمے داریوں سے سبک دوش ہو گئے۔یوں یہ مسئلہ جہاں کا تہاں رہ گیا۔

۲۔اس معادلے کے لئے شرط اولین یہ ہے کہ امید وار کے پاس مذکورہ مدارس یا بورڈز میں سے کسی ایک کی سند شہادۃالعالمیہ ہونی چاہیے۔

۳۔یہ شہادۃالعالمیہ بھی سولہ سالہ نصاب کی بنیاد پر جاری کی گئی ہو۔ چناںچہ اگر کوئی ادارہ یہ نصاب چار سال یا پانچ سال پڑھا کر شھادۃالعالمیہ جاری کرتا ہے،تو یہ سنداول تو قابل قبول ہی نہیں ہوگی، بالفرض یہ پہلو کسی بھی مقام پر نظر انداز ہو جاتا ہے اور معادلہ جاری بھی کر دیا جاتا ہے تب بھی طالب علم پر تلوار ہمیشہ لٹکتی رہے گی اور یہ پہلو ہمیشہ قابل اعتراض یاد رہے گا۔

۴۔نئے منتخب ہونے والے بورڈز کے لیے معادلے کی ایک شرط یہ بھی ہوگی کہ ان کے فضلا کے لیے کسی بھی منظور شدہ یونیورسٹی سے سے دیگر لازمی پرچوں کے ساتھ انگریزی بی اے کا امتحان دنیا بھی لازم ہو گا۔جو کہ وفاق المدارس العربیہ کی سند پر اب بھی لازمی نہیں ہے۔

۵۔اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اس سند پر صرف اسلامیات اور عربی کے کسی بھی تدریسی منصب پر انسان درخواست دینے کا اہل ہو سکتا ہے یا ایم فل وغیرہ کے لیے اپلائی کر سکتا ہے۔باقی کسی مقصد کے لیے یہ سند قابل قبول نہیں ہے۔

۶۔ایک فرق کے علاوہ، جو پوائنٹ نمبر ۴ میں درج کیا گیا، تمام ایسے مدارس جن کا ذکر ہوا اور تمام نئے پرانے بورڈز اور ان کی اسناد قانونی طور سے یکساں درجے کی حامل ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔

۷۔یہ معادلہ بھی صرف شہادۃالعالمیہ کے لیے ہے۔ اس کے علاوہ جس قدر بھی کورسز مدارس میں کرائے جا رہے ہیں، یا مستقبل میں کرائے جانے ممکن ہیں، مثلاً تخصصات یا اس نوعیت کے مختلف سرٹیفکیٹ کورسز، ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے، ان کی پوزیشن وہی ہے جو تازہ پیش رفت سے قبل تھی۔

۸۔ بعض بورڈز سے بین الاقوامی اور اسکالر شپ کی امید دلائی ہے۔جامعات میں تعلیم کے لیے اپنے طلبہ کو بھیجنے کی بات کی ہے، یہ ہر بورڈ اور ہر مدرسہ اپنی ذاتی حیثیت میں کر سکتا ہے، اور اس موجودہ منظوری سے قبل بھی کر سکتا تھا۔ اس کا کسی نوعیت کا بھی تعلق موجودہ منظوری سے نہیں ہے۔

۹۔اس ساری صورت حال کے باوجود ایک اور آزمائش سر پر موجود ہے، وہ یہ ہے کہ ایچ ای سی کے ضابطے کے مطابق اب قانونی طور پر ایم اے کا کسی ادارے میں جواز نہیں ہے۔ کراچی یونیورسٹی سمیت بعض اداروں نے اپنے حجم کو دیکھتے ہوئے کچھ فیصلے ایچ ای سی سے ہٹ کر کرنے کی کوشش ضرور کی ہے، لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق ان کی زندگی بہت زیادہ نظر نہیں آتی۔ جلد یا بہ دیر ان سب کو اسی فارمیٹ کا حصہ بننا پڑے گا جو ایچ ای سی کا تجویز کردہ ہے،سوائے اس کے کہ وہ خود مزید کوئی قدم اٹھائے اور اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے،جس کا امکان کم ہے۔ ایچ ای سی کو اس ضمن میں یہ اختیار حاصل ہے کہ کسی بھی ایسی سند کی جو ایچ ای سی سے منظور شدہ باقاعدہ چارٹرڈ یونیورسٹی سے حاصل کی گئی ہو، تصدیق سے اس بنا پر انکار کردے کہ اس کے اجرا میں ایچ ای سی کی پالیسی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس اعتبار سے شہادۃالعالمیہ کو منظور کرنے کا وہ نوٹیفکیشن جو ۱۹۸۲ء میں ہوا تھا اور وہ نوٹیفیکیشن جو ۲۰۲۱ء میں ہوا ہے، بالکل ایک ہے، لفظ لفظ ،اورحرف حرف۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ۲۰۲۱ء میں بھی دی جانے والی منظوری ایم اے کی ہے،جو حکومت کے اپنے ہی فیصلے کے مطابق قانوناً ختم ہوچکا ہے۔ اس وقت ضابطے کے مطابق اٹھارہ سالہ تعلیم کے بعد بی ایس کی ڈگری جاری کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اب معادلہ جس سند کا بھی ہوگا وہ ایم اے کا نہیں بی ایس کا ہوگا۔یا یوں کہیے کہ ہونا چاہیے۔اس لیے یہ بات اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ متعلقہ اداروں نے مدارس کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ دکھا دیا ہے۔

مضمرات

اس سارے قضیے کے نتائج و عواقب کیا ہو سکتے ہیں، اب ان پربھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔

۱۔مذکورہ تفصیل سے یہ اندازہ کرنا تو زیادہ مشکل نہیں رہا کہ اس ساری سرگرمی سے نئے بورڈز کو کچھ حاصل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ حکومتی ادارے اس سے کیا حاصل کرسکتے ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس سے محض اہل مدارس کو منتشر کرنا مقصود ہے، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہےکہ ایک ایک مکتبہ فکر کی ذیلی تقسیموں کو الگ الگ نوازنے کی پالیسی اپنائی جارہی ہے، چناں چہ بریلوی مکتب فکر کو ہی دیکھیے تو تنظیم المدارس کی موجودگی میں ایک طرف جہاں جامعۃ المدینہ اور جامعہ نعیمیہ لاہور کی سندیں الگ سے قبول کی گئی ہیں، وہیں ان کے ساتھ ساتھ دعوت اسلامی کے مدارس کے لیے کنز المدارس کے نام سے الگ وفاق تشکیل دیا گیا ہے۔ اس طرح منہاج القرآن سے منسلک مدارس کے لیے الگ سے بورڈ قائم کردیا گیا ہے۔ حال آں کہ وفاق المدارس کے مقابلے میں تنظیم المدارس سے ملحق مدارس کی تعداد پہلے ہی انتہائی کم تھی۔

۲۔مدارس کے معاملے میں ایک حماقت تو پہلے روز ہی کردی گئی تھی، جب انہیں کسی بھی نظام کا حصہ بنانے کی بات کرتے ہوئے انہیں مسلکی بنیاد پر الگ الگ بورڈز بناکر دے دیے گئے تھے، امکانی طور پر درست راستہ کیا ہوسکتا تھا، اس پر الگ سے بات کی جارہی ہے، مگر موجودہ ترتیب سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ اس مسلکی خلیج کو مزید زاویوں سے بڑھانے اور ان کی پرورش کی کوشش کی جارہی ہے، جس کے مضمرات پر کسی لمبی چوڑی گفت گو کی ضرورت نہیں۔

۳۔در حقیقت مدرسے اور مولوی کا وہ جن جو اسی کی دہائی میں بوتل توڑ کر باہر نکالا گیا تھا، اب ظاہر ہے کہ اتنی بڑی مدت گزرنے کے بعد اس قدر وسیع پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ اسے ایک بوتل تو کیا بوتلوں کہ بڑے کریٹ میں واپس منتقل کرنا بھی ممکن نہیں رہا۔پھر اس دوران بھی مختلف واقعات وقوع پذیر ہوتے رہے جن کے مضمرات صرف ملکی سطح پر نہیں بین الاقوامی سطح پر بھی سامنے آتے رہے اور مدرسے اور مولوی کے حوالے سے جو بین الاقوامی دباؤ ہمیشہ سے موجود رہا ہے اس میں مزید اضافہ ہوتا رہا۔اب اسے کسی نہ کسی طور پر قابو کرنا بہ ہر کیف بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے، اس لیے تقسیم در تقسیم کی حکمت عملی کے کئی ایک امور تیزی کے ساتھ پھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

بعض حضرات کی رائے میں یہ سارا قصہ تین چار ماہ تک عروج پر رہے گا۔ (بین الاقوامی صورت حال پر نظر رکھنے والوں کے لیے اس بات کی گہرائی میں جانا زیادہ مشکل نہیں) اس بات سے تو انکار نہیں، لیکن معاملہ اس قدر محدود نظر نہیں آتا نہ ہی یہ سب کچھ محض سال دو سال کے امور سے تعلق رکھتا ہے یہ ایک طویل منصوبہ بندی کا حصہ معلوم ہوتا ہے، جس کے آخری اقدامات آج سے کوئی پندرہ بیس برس قبل اٹھائے جا چکے تھے۔

۳۔بعض حضرات کی رائے میں یہ زیادہ تشویش کی بات نہیں بل کہ ایسے ہی ہے کہ جب بچے بڑے ہونے لگتے ہیں تو انہیں الگ الگ بسانے کی فکر ہوتی ہے، یہ مثال یہاں اس لیے منطبق نہیں ہوتی کہ وہاں محض انتظامی طور پر دیوار کھڑی کرنے اور چولہے الگ کرنے سے کام چل جاتا ہے، مالی طور پر والدین کو وسعت حاصل ہوتی ہے تو وہ الگ الگ مکانات بھی لے کر بچوں کو مطمئن کر دیتے ہیں، لیکن یہاں اصل معاملہ مدارس کے انتظامی امور کا نہیں، ان کی فکری خودمختاری کا ہے، اور اس خود مختاری کو پڑنے والی زد ان امور سے کہیں زیادہ خطرناک محسوس ہوتی ہے۔

۴۔آج سے چند برس پہلے تک مدارس حکومتی سطح پر ہونے والے مذاکرات میں اپنی شرائط بھی بڑی سہولت سے رکھ لیا کرتے تھے اور اپنا مقدمہ بھی پوری قوت کے ساتھ پیش کیا کرتے تھے تھے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس سے مدارس، اہل مدارس اور طلبہ کو کس قدر فائدہ حاصل ہوسکا ،یا یہ بورڈز کس قدر فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں تھے، اور اس پوزیشن سے کس قدر وہ فائدہ اٹھا سکے۔اب صورت حال تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔

۵۔تقسیم در تقسیم کے اس عمل کو روکنا اس لیے بھی مشکل تر ہے کہ مادیت پرستی کے اس دور میں ہر ایک کی یہ خواہش بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے کہ وہ دوسروں پر فوقیت لے جائے اور اس کا ادارہ لوگوں کی زیادہ توجہ کا باعث بن سکے۔ اس کیفیت کا ایک اور پہلو یہ ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں مادی یا سیاسی لالچ کا معمولی سا امکان بھی بہت سے امور میں انسان کی آنکھیں بند کر لینے اور بہت سے امور سے صرف نظر کر لینے کا باعث بن جایا کرتا ہے۔ یہ انسانی نفسیات ہے، جس سے کہیں پر بھی مفر نہیں۔ ان تمام معاملات میں بھی اس پہلو سے بہت سی مثالیں تلاش کی جا سکتی ہیں۔

۶۔معاملات کو یہاں تک پہنچانے میں پہلے سے موجود بورڈز اور ان کی انتظامیہ کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ ادارہ بنانا مشکل ہے لیکن اداروں کو برقرار رکھنا مشکل تر ہے۔ انتظامی امور میں سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ انسان کسی بھی ذمے داری پر زیادہ عرصے رہ کر لوگوں کے طعنوں سے نہیں بچ سکتا۔ لوگوں کی امیدیں بڑھتی چلی جاتی ہیں، اور ان کے اطمینان کا پہلو کم سے کم ہوتا جاتا ہے۔ ایسے موقع پر جب انسان لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اصل ہدف سے توجہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں کبھی بھی ادارے پنپ نہیں سکے اور ان کے ہاں صدیوں سے موجود ادارے اس قدر بھی نہیں کہ ایک ہاتھ کی انگلیوں پر ہی گنے جا سکیں۔

۷۔صرف وفاق المدارس کو ہی لیا جائے تو اس کے انتظامی اور مالی امور کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود شبہات اور شکایات ایک طرف، وہ صحیح بھی ہو سکتی ہیں غلط بھی، لیکن یہ ہمارا موضوع نہیں نہ ہی ہماری دل چسپی ہے۔ تعلیمی امور میں بھی بہت سی ایسی اصلاحات نہیں ہو سکیں جو خود مدارس کی اور اہل مدارس کی خواہش تھی، مگر ان کی خواہش، خواہش کی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکی، اور عملی طور پر کچھ نہیں ہو سکا۔

۸۔اس دوران ایسی کوششیں بھی سامنے آتی رہیں، جن کے نتیجے میں کچھ شخصیات اور کچھ اداروں پر وقفے وقفے سے طرح طرح کا دباؤ بڑھتا رہا، یا کم از کم وہ ادارے اور شخصیات وفاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بہت زیادہ اطمینان محسوس نہیں کر رہے تھے۔ بے چینی کی یہ کیفیت انسان کو ہر طرح کی قید اور حدود توڑنے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ ایسے میں کہیں سے کوئی رخنا نظر آئے، یا حبس زدہ ماحول میں کہیں سے ہلکی ہوا بھی محسوس ہو تو نتائج و عواقب سے بے پروا ہو کر اس طرف لپکنا انسانی فطرت ہے۔ اس معاملے میں یہ کیفیت بھی نظر آ رہی ہے۔

۹۔ان تمام امور کو تقویت پہنچانے والا سب سے بڑا نکتہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات میں، جیسا کہ اوپر ذکر کیا جاچکا ہے، کسی نوعیت کی سنجیدگی کا دور دور تک احساس نہیں ہوتا واللہ اعلم

سیاسی پہلو

اس سارے قضیے کا ایک اہم سبب سیاسی بھی ہے۔ جس کا تعلق پانچ سابقہ بورڈز میں سے کم از کم دو بورڈز کے ساتھ تو واضح ہے۔ایک عرصے سے ہم یہ کہتے آ رہے ہیں اگرچہ کہ ہمیں اپنی حیثیت کا اندازہ ہے، جو کہ کچھ بھی نہیں، کہ مدارس کے ان وفاقوں کا دائرہ کار محض اور صرف تعلیمی اور تدریسی ہونا چاہیے۔ ان وفاقوں کی بقا و سالمیت کا یہ بنیادی تقاضا ہے کہ ان کو ہر نوعیت کے سیاسی اور سماجی حتی کہ مذہبی مسائل سے بھی الگ رکھا جائے۔ کسی نوعیت کا بڑے سے بڑا ایشو بھی کیوں نہ درپیش ہو، انہیں ان میں ملوث نہ کیا جائے۔ ان مقاصد کے لیے الگ سے ہمارے پاس تمام مسالک کے جداگانہ اور مشترکہ پلیٹ فارم موجود بھی ہیں، اور نئے پلیٹ فارم وقتی ضرورت کے تحت تشکیل بھی دیے جاسکتے ہیں۔ لیکن چوں کہ وقتی مقاصد ہمیشہ ہمارے ہاں  ترجیحاً سامنے رہتے ہیں اور دور اندیشی کے امور سے ہم کم کم ہی اعتنا کرتے ہیں، اس لیے یہ تجویز کبھی پذیرائی حاصل نہیں کر سکی۔ اب یہی دیکھیے کہ چند ماہ پہلے تک وہ جمعیت علمائے اسلام جو وفاق المدارس کی صدارت کے حوالے سے ایک الگ نقطہ نظر کے حامل تھی، اس قضیے میں نہایت خاموشی کے ساتھ وفاق المدارس کی غیر مشروط حامی نظر آ رہی ہے۔ اگر ہمیں ایک چھوٹے سے تجزیے کی اجازت دی جائے تو عرض کریں گے کہ اس سلسلے میں جمعیت شاید دونوں جانب سے فائدے میں رہے۔ حکومتی سطح پر بھی اور وفاقی سطح پر بھی، دونوں جانب سے وہ اس وقت عمدہ بیٹنگ کی پوزیشن میں ہے، اور ہم نہیں سمجھتے کہ اتنے اچھے مواقع میسر آنے کے بعد وہ انہیں گنوا سکتی ہے۔ اشاعت التوحید کے وابستہ مدارس کو جو الگ بورڈ کی صورت میں منظم کیا جارہا ہے، اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ کم و بیش نو سو مدارس وفاق المدارس سے الگ ہو سکتے ہیں، مگر ایک زاویۂ نظر یہ بھی ہے کہ یہ تمام مدارس جمعیت علمائے اسلام کے لیے حزبِ اختلاف کا درجہ رکھتے ہیں، اس بنا پر ان کا وفاق سے علیحدہ ہونا جمعیت کے لیے اطمینان کا باعث ہوسکتا ہے۔

طاقت کے حصول کی انسانی خواہش کا یہ معاملہ حکومتوں، حکومتی اداروں، طاقت ور قوتوں اور عام آدمی کا نہیں، ہماری مجموعی انسانی نفسیات کا ہے۔ ہم طاقت کے کسی ایک پہلو پر قناعت اختیار نہیں کرسکتے، جب ہم طاقت ور ہوتے ہیں تو ہوتے ہی چلے جاتے ہیں اور اس میں مزید اضافہ ہر وقت ہماری خواہش ہوتا ہے۔ اس فطری خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس سارے قصے میں طاقت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور اس کی اس کروٹ کے نتیجے میں کون کون زمین پر آ رہیں گے اور کن کن کو عروج نصیب ہوسکتاہے۔

کیا ہونا چاہیے

ان حالات میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ہونا چاہیے اور آج سے پہلے جب یہ بورڈ منتخب کیے گئے تھے اور انہیں منظور کیا گیا تھا تب ہی کیا کیا اقدامات اٹھا لینے چاہیے تھے۔اگر اس وقت یہ نہیں ہو سکا تو اب کیا کیا ممکن ہے

۱۔مدارس کو اگر واقعی کوئی وقار اور مقام دینا مقصود ہے تو حکومت کے لیے سب سے پہلے جو قدم لازم ہے وہ ہے ان وفاقوں کو داخلی خودمختاری کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر اسناد تفویض کرنے کا اختیار رکھنے والے ادارے degree awarding institute کا درجہ دینا۔اسی طرح جن مدارس کی سند شہادۃ العالمیہ کو انفرادی سطح پر ایم اے کے برابر قرار دیا جا رہا ہے،انہیں بھی ابھی اسناد تحفیظ کرنے کا اختیار رکھنے والا ادارہ degree awarding institute قرار دینا چاہیے۔ یہ ایک نہایت ضروری امر تھا، اور نہایت ضروری تھا کہ یہ کام ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہی مکمل ہو جاتا، لیکن جب تک یہ کام نہیں ہو گا اس وقت تک مدارس کو دی جانے والی مراعات کی حیثیت کاغذی اور زبانی ہو گی،اس سےزیادہ کچھ نہیں۔

۲۔حکومتوں سے مذاکرات کرتے ہوئے اور مراعات لیتے ہوئے سب سے پہلا نکتہ جو ہر صورت پیش نظر رہنا چاہیے وہ مدارس کی داخلی خودمختاری ہے، جس پر کسی صورت سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ بہ ظاہر خوش نما نظر آنے والے اقدامات کی تہہ میں عموماً یہی ہدف کار فرما ہوتا ہے۔

۳۔برعظیم پاک و ہند میں موجود مختلف مکاتبِ فکر ایک  حقیقت ہیں،جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،نہ ہی یہ مسلکی تقسیم اور تفریق ختم کرنا کسی حکومت کے بس میں ہے،اس لیے یہ مدارس اسی امتیاز اور مسئلہ کی شناخت کے ساتھ قائم رہیں گے مگر حکومت کی ذمے داری یہ ہونی چاہیے کہ وہ اس امتیاز کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں چند ایک ضروری امور میں یکسانیت uni formality پیدا کرنے پر آمادہ کرے۔ جس کے لیے ان تمام بورڈز پر مشتمل ایسی مشترکہ اتھارٹی تشکیل دی جاسکتی ہے، جو ان کے مابین رابطہ کار کی ذمے داریاں بھی انجام دے، اور انہیں قریب کرنے کا فریضہ بھی اس کے پیش نظر ہو۔

اگر کہیں سوچنے کا عمل شروع ہو تو اس کے حوالے سے مزید تجاویز دی جاسکتی ہیں۔

۴۔یکسانیت کی اس ضرورت ہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک درجے میں ہمیں یہ یکسانیت ہمارے ماحول میں موجود دیگر سیکولر تعلیمی اداروں کے ساتھ بھی درکار ہے۔بار بار جو مختلف اداروں کی جانب سے عصری تعلیم کی شرط عائد کی جاتی ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو تعلیمی نفسیات سے واقف لوگوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔کاش ایسا ہوتا کہ مدارس اپنی ضرورتوں اور اپنی سہولتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے خود ایسی ریسرچ کرتے اور اس ریسرچ کی روشنی میں اپنے حاصل شدہ نتائج  کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے نصاب تشکیل دیتے کہ حکومت کی مداخلت کا گراف کم سے کم درجے میں آنے پر مجبور ہو جاتا۔

۵۔ان حالات میں بھی ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کی بہ جائے مل کر بیٹھیں اور تمام بورڈ اپنے مسلکی،فقہی اور سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض دینی تعلیم کے نکتے پر یکجا ہوکر اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے طرز پر اپنے آپ کو اکٹھا کریں اور اپنی داخلی خودمختاری کو یقینی بناتے ہوئے مل کر فیصلے کرنے کی عادت ڈالیں۔

۶۔مدارس کے ان بورڈز کی باہمی آویزش جہاں انہیں کم زور کرنے کا باعث بنے گی، وہیں ایک جانب تو اپنے نظام پر ان کی گرفت کم زور ہوگی، دوسری جانب ان بورڈز کے مابین ایک غیر محمود اور مضر مسابقت بھی پیدا ہوسکتی ہے، جو خاص طور پر ان بورڈز کے نظام امتحان کو متاثر کرے گی، نتیجتاً شہادۃ العالمیہ کا رہا سہا غیر رسمی وقار بھی خطرے میں پڑسکتا ہے۔

۷۔ ان فیصلوں میں سب سے اہم نکتہ یہ بھی شامل ہونا چاہیے کہ ایک بورڈ کا طالب علم آسانی اور سہولت کے ساتھ دوسرے بورڈ میں کیسے منتقل ہو سکتا ہے۔یہ مسئلہ پہلے اس لئے التواءکا شکار رہا کہ ایک مسلک کے تمام مدارس کسی ایک وفاق سے منسلک تھے۔اب جب کہ ایک ایک مسلک کے کئی کئی بورڈ معرض وجود میں آ چکے ہیں تو اس بات کی اہمیت دو چند ہو چکی ہے۔یہ فیصلہ کر لینے سے جہاں ان بورڈز کے درمیان پیدا ہونے والی خلیج کم ہوگی وہیں مستقبل میں بھی ان کے آپس میں قریب تر رہنے کے امکانات روشن رہیں گے۔اور اگر بالفرض واقعی کہیں پر ان تمام اقدامات کا مقصد ان مدارس کو منتشر کرنا ہے تو ان مقاصد کو بھی اور ان مقاصد سے حاصل ہونے والی مضرتوں کو بھی کم کیا جا سکے گا۔

۸۔نئے بننے والے مختلف بورڈز کے حوالے سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان اسی طرح تنظیم المدارس وغیرہ کو بھی اپنا رویہ نرم رکھنا چاہیے اور کوشش ہونی چاہیے کہ انہیں تسلیم کیا جائے،شنید ہے کہ اس ضمن میں بعض بڑے حضرات نے کوششیں شروع کی ہیں،یہ ایک مفید اور محمود عمل ہے، اسے جاری رکھنا چاہیے اور اپنے دلوں میں موجود گنجائش کو مزید بڑھانا چاہیے۔ یہ کسی کا ذاتی معاملہ نہیں ہے، اس لیے اتنے حساس معاملے کو انا کا شکار نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے۔

۹۔اس سارے عمل کا ایک مفید اور مثبت نتیجہ اس صورت میں ضرور برآمد ہو گا، جب یہ تمام بورڈ باہم ایک دوسرے کے احترام اور اعتماد کی فضا کو قائم کرنے کے بعد مثبت اور معیاری مسابقت کی فضا قائم کریں، اس کے نتیجے میں ان بورڈز کے نصاب اور نظام میں بہتری کی گنجائش پیدا ہوگی، اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تبدیلیوں کے لیے کسی ایک بورڈ کا انتخاب کرنا سہل اور آسان ہوگا۔

۱۰۔مختلف نوعیت کے کورسز کا اجرا ایک مکمل سائنس ہے،اگر کسی کورس کو حکومتی سطح پر کچھ بھی مقام دلانا مقصود ہے تو اس سائنس کو پوری طور پر جاننا ہماری ضرورت ہے۔مثال کے طور پر سرٹیفکیٹ کورس کیا ہے، ڈپلومہ کیا ہوتا ہے، ڈگری پروگرام کیا ہے، ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام کیا ہے، بیچلر کی کیا شرائط ہیں، ماسٹر کس کس شرط کے تحت مکمل ہوسکتا ہے، وغیرہ۔پھر یہ کہ کس کورس کے لئے کم سے کم کتنے کریڈٹ آور ہونے چاہییں ان کورسز کو کسی ڈگری پروگرام میں  کیسے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے؟ یہ تمام چیزیں جانے بغیر ہم جتنی بڑی چھلانگ لگانا چاہتے ہیں وہ ممکن ہی نہیں۔ اس بات کو ہم  ایک چھوٹی سی مثال سے ہم واضح کرتے ہیں۔

اگر کہیں تین مہینے کا عربی کا ڈپلومہ کورس کرایا جاتا ہے،جو چھ ماہ پر مشتمل ہے، یا تین ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس کرایا جاتا ہے، اس کو منظور کرانے کے لیے لازم ہے کہ اس کے اتنے کریڈٹ آور پورے کئے جائیں، اور کاغذات میں واضح کیے جائیں جن کے بغیر تین ماہ کا سرٹیفکیٹ کورس حکومتی قوانین کے مطابق قابل قبول نہیں ہو گا۔یہ شرط پوری کرلی جائے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ یہ کورس کرنے والا طالب علم جب اپنا سرٹیفیکیٹ ڈپلومہ لے کر کہیں عربی میں ایم اے کرنے کے لیے جائے گا تو اس کو کچھ کریڈٹ آور کی چھوٹ میسر آ سکے گی۔ یہ چھوٹی سی مثال تھی جو ہم نے اپنی بات واضح کرنے کے لیے پیش کی۔

مختلف نئے موضوعات پر جس نوعیت کے کورسز ہمیں مطلوب ہیں، اور اس سلسلے میں جو کاوشیں لوگوں اور اداروں کے ذہنوں میں ہیں،ان کو منظوری کے مراحل سے گزارنے کے لیے ان تمام باریکیوں کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے،ورنہ جس قدر چاہیں حکومتی اداروں کے پیچھے بھاگتے رہیے، ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

۱۱۔ مدارس میں ہونے والے تخصصات کی تعلیم بھی پہلے مرحلے میں وفاقوں کی سطح پر، اور دوسرے مرحلے میں معادلے کے لیے منظم کرنے کی ضرورت ہے، گو یہ راستہ پر خطر ہے، اسی بنا پر وفاق المدارس کی سطح پر شروع ہونے والی ایک مشق نتیجہ خیز ہونے سے پہلے ختم کردی گئی تھی، اس وقت کے خدشات اپنا وزن رکھتے تھے، مگر اس کے علاوہ بھی خطرات موجود ہیں، لیکن کم از کم تخصص کے مقالے کی بنیاد پرایم فل میں کسی قدر رعایت حاصل کی جاسکتی ہے، اس کا ایک اضافی فائدہ یہ بھی ہوگا کہ سب میں نہ سہی بعض مدارس میں مقالہ نگاری کی روایت کو کم از کم تخصص کی سطح پر تقویت ملے گی۔ اور شاید منہج تحقیق کی تدریس کی بھی مدارس میں روایت قائم ہوسکے۔

۱۲۔ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے پاس بنیادی نوعیت کی فنی اور تکنیکی مہارت ر کھنے والے افراد ہی سرے سے موجود نہیں،نہ اس  جانب ہماری کوئی توجہ ہی ہے۔ایسے میں ہمیں بے وقوف بنانا،استعمال کرنا اور ہماری راہ کھوٹی کرنا ہر ایک کے لئے آسان ہے، اور یہی کچھ ہو رہا ہے جو ہم مسلسل جھیلتے چلے آرہے ہیں اور مسلسل اپنا نقصان کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اصل ہدف ہماری نظر سے اوجھل ہے۔

۱۳۔نصاب سازی بہ جائے خود ایک فن ہے،اب جب کہ مختلف بورڈ ایک ہی عنوان کے تحت میدان عمل میں ہیں تو ہر ایک کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے نصاب میں ایسی بنیادی اور جوہری تبدیلی کریں جو طلبہ کے ان کی جانب رغبت کا باعث بنے۔ یہ کام محض دو تین کتابوں کو تبدیل کر دینے سے انجام نہیں پاسکتا۔اس کے لیے دینی ضرورت کا علم،دینی تعلیم کے بنیادی مقاصد کے بارے میں مکمل ذہنی یکسوئی،اور اپنے اہداف کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے حصول کے طریق کار کے بارے میں بھی ذہن کا واضح ہونا ضروری ہے۔دیکھا یہ جا رہا ہے کہ خود علم اور مقصد تعلیم کے حوالے سے بھی بہت زیادہ الجھنیں ہمارے ذہنوں میں موجود ہیں۔ لیکن یہ تفصیلی موضوع ہے،اور علیحدہ تحریر کا متقاضی

۱۴۔ سب سے بڑھ کر اہم بات یہ ہے کہ مدارس کو، یا کم از کم چند ایک بڑے مدارس کو درس نظامی کے ساتھ ساتھ کم از کم ایف اے ریگولر کرانے کی روایت ڈالنی چاہیے۔ اس کے لیے منتخب طلبہ سے سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے، یہ پریکٹس کئی ایک جگہوں پر انفرادی حیثیت میں بعض اساتذہ و مہتممین کی کاوش سے جاری ہے۔ اسے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اب چوں کہ بی ایس کے نظام کے ساتھ ہی پرائیویٹ امتحانات کا سلسلہ ختم ہو رہا ہے، اس لیے زیادہ مفید امکان ہمارے لیے علاہ اقبال اوپن یونیورسٹی ہے، جس کا درس نظامی کا شعبہ اس مقصد کے لیے الگ سے فعال ہے۔ اس لیے آگے بڑھیے، طلبہ کے لیے کیئریر کونسلگ کا اہتمام کیجیے، انہیں رہنمائی فراہم کیجیے، ان کا ہاتھ پکڑیے، اور نئی تعلیم یافتہ، سمجھ دار اور معاملہ فہم دینی قیادت کی تیاری کے فرائض میں شریک ہوجائیے۔ محدود ترین دائرے میں دار العلم والتحقیق کے پلیٹ فارم سے ہم یہ فریضہ گذشتہ کم بیش دس بارہ برسوں سے انجام دے رہے ہیں۔

مدارس کے نئے بورڈز کے قیام کے حوالے سے پیش آمدہ صورت حال کے سلسلے میں چند باتوں کا خلاصہ مختلف اقساط میں پیش کیا گیا۔اس بحث میں کچھ تو تاریخ تھی،چند اعداد و شمار تھے،کچھ چیزیں تجزیے کے درجے میں تھیں، کچھ مستقبل کے امکانات تھے جو تحریر ہوئے ۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ایسے تمام تجزیات معلومات،قرائن،تاریخ اور مشاہدے کو سامنے رکھ کر کیے جاتے ہیں،اس لیے ان میں کمی بیشہ اور اصلاح و اضافے کا امکان ہر صورت میں رہتا ہے۔ہم اپنی حتمی وفاداری صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ رکھتے ییں،اور دم آخر تک یوں ہی رکھنے کے متمنی ہیں،مدارس دین کی ایک علامت کا درجہ رکھتے ہیں،اور ان سے وابستہ لاکھوں طلبہ اسی نسبت سے ہمارے لیےحددرجے قابل قدر ہیں،ان کا مفاد ہمارے لیے ہر قیمتی متاع سے بڑھ کر ہے،اسی جذبے سے کسی کو ہدف بنائے بغیر پوری نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ یہ سطور لکھی گئیں۔اللہ تعالی ہمیں ہر خیرات پوری طرح متعلق فرمائے اور ہر شر کو ہمارے حق میں خیر سے تبدیل فرمادے۔

امین بجاہ سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

مولانا وحید الدین خانؒ

مولانا محمد وارث مظہری

مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے تھے۔خوش قسمتی کا پہلو تو ظاہر ہے۔’’بدقسمتی‘‘ کا پہلو یہ ہے کہ اس قدر طویل اورفعال علمی وفکری زندگی گزارنے کے باوجود ان کی مقبولیت کادائرہ نسبتا محدود رہا۔ ان کی شہرت میں بدنامی کا عنصر غالب رہا۔وہ مسلمانوں کے کسی بھی حلقے میں اپنی کوئی مستقل اور مضبوط جگہ نہیں بناسکے۔ہر حلقے کے’’بے شعور وباشعور‘‘ افراد کو ان کے مختلف نظریات سے شدید اختلاف رہا۔یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے معاصرین کی طرح اپنے رفقا و تلامذہ کی کوئی ایسی ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ان کی فکری وراثت کو سنبھال  کر اسے پروان چڑھا سکے۔

مولانا سے میرا تعلق

مولانا  وحید الدین خاں ؒ کو میں نے بہت قریب سے دیکھا،برتا اور پرکھا۔ مجھے ان کے ساتھ کچھ عرصے تک کام کرنے کا موقع ملا۔اور اس دوران مجھے ان کے ساتھ طویل علمی صحبتیں میسر آ    ئیں۔فکری نشستوں اور پروگراموں میں شرکت کے ساتھ بارہا مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ تبادلہ ٔ  خیالات کا اتفاق ہوا۔ علاوہ ازیں میں نے مولانا کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔سالہاسال تک ’’الرسالہ‘‘ کے مطالعے کے جنون میں مبتلا رہا۔ اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے مولانا کی شخصیت اور فکر دونوں کا یکساں طور پر مطالعہ کیا ہے۔1995 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے ذوق عربی کی تسکین کے لیے میں نے ندوۃ العلماء ،لکھنؤکا رخ کیا۔وہاں میرا داخلہ’’ علیا اولی ادب‘‘ میں ہوا۔لیکن دوران سال میں نے ندوے کو خیر آباد کہہ دیا۔ کیوں کہ اس کا ادب عربی کا نصاب مختلف فنون پر مشتمل تھا جن سے میں دیوبند کی طالب علمی کے دورانیے میں گزرچکا تھا۔ میرا مقصود صرف عربی زبان میں تخلیق وترجمے کی اعلی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ ندوے سے لوٹ آنے کے بعد دہلی،علی گڑھ اور بجنور کے علمی گلیاروں کی خاک چھانتا رہا۔پھر 1997 میں بطور مدیر معاون’’ الرسالہ‘‘ سے وابستہ ہوگیاجس کا اشتہار روزنامہ’’ قومی آواز‘‘ نئی دہلی میں شائع ہوا تھا۔کچھ وقفوں کے ساتھ قریبا ایک سال تک مولانا سے رسمی وابستگی رہی۔

مولانا کی صحبت بافیض سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ایک ایسے دور میں جب کہ معاشی مستقبل کے حوالے سے بے اطمینانی کی کیفیت ذہن ودماغ پر چھائی ہوئی تھی اور میں خود کو ایک دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا تھا کہ مجھے پہلے اپنے معاشی مستقبل کو بہتر بنانے کی طرف قدم آگے بڑھانا چاہیے یا علم ومطالعے کو پروان چڑھانے کوترجیح دینا چاہیے؛ مولانا کی صحبت نے مجھے دوسرے پہلو پراپنی توجہ کومرکوز رکھنے پر آمادہ کیا۔ مولانا کی صحبت میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے نرا جاہل اور جدید دنیا سے نابلد ہوں۔ اب تک میں عربی زبان کے سحر میں مبتلا اور اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر تھا۔واقعہ یہ ہوا کہ مولانا کی معیت میں دہلی میں ایک انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت ہوئی جس کی ساری کارروائی از اول تا آخر انگریزی میں تھی۔ مجھے کچھ بھی پلے نہیں پڑسکا ۔اس پر میرے لیے ذلت کا سامان یہ ہوا کہ بعض مندوبین نے مجھ سے مخاطب ہوکر انگریزی میں سوالات اچھال دیے جن کا جواب میرے پاس سرکھجانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔میرے تاسف وندامت کودیکھتے ہوئے مولانانے  مجھے خود سے انگریزی سیکھنے کے گر بتائے ۔ میں نے اس پر عمل کیا اور کامیاب رہا۔ مولانا کی صحبت کا ایک اثر یہ ہوا کہ میں شعروادب کی بھول بھلیوں سے باہر نکل آیا۔شعروادب کا ذوق مجھےوراثت میں ملا ہے کہ میرے والد ایک اچھے اور قادر الکلام شاعر تھے۔چناں چہ طالب علمی کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی میں خود کوشعرگوئی اور ادب نویسی سے باز نہ رکھ سکا جس کے نتائج ماہنامہ ’’آج کل‘‘ نئی دہلی، ماہنامہ’’ ایوان اردو‘‘،نئی دہلی اور دیگر سرکاری وغیر سرکاری  ادبی رسائل میں شایع ہوتے تھے۔لیکن مدتوں سے منھ کو لگی ہوئی یہ کافر مولانا کی صحبت میں چھوٹ گئی۔کیوں کہ مولانا نے اس کی شدید حوصلہ شکنی کی۔

یہ عظیم الشان فائدے مجھے مولانا کی زندگی کوقریب سے دیکھنے اور ان کی نصیحتوں پر کسی قدر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوئے۔تاہم میں یہ چاہتا تھا کہ مولانا میری اس باب میں رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کن کتابوں اور کن شخصیات کو ترجیحی طور پر پڑھنا چاہیے؟ کن موضوعات پر مطالعے کو اپنی اس ابتدائی علمی زندگی کے  اس مرحلے میں مجھے پیش نظر رکھنا چاہیے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے سامنے اس کا خاکہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ مجھے’’ الرسالہ‘‘ لٹریچر میں پوری طرح خود کو غرق کردیناچاہیے۔

وہ معاصرین اور دور حاضرکے اصحاب علم وفکر کی کتابوں کوتواس لائق ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کسی کوان کے مطالعے کا مشورہ دے سکیں، متقدمین کی کتابوں میں سے چند ایک کے علاوہ(جن میں مقدمہ ابن خلدون سرفہرست ہے) وہ تقریبا پوری اسلامی کلاسکس بالفاظ دیگر اسلامی تراث کودفتر بے معنی سمجھتے ہوئے ’’غرق مے ناب اولی‘‘ تصور کرتے تھے۔مولانا سے دامن کشی کی بنیادی وجہ ان کی افتاد طبع اور ان کے غلو آمیز نظریات تھے۔قائل کرنے کے بجائے اپنے نظریات کومسلط کرنے کا ان کا انداز نہایت ناگوار گزرتا تھا۔ انہیں ایسا معاون چاہیے تھا جو ان کی شخصیت کے آفاق میں اس طرح گم ہو کہ باہر کی پوری دنیا اس کی نظروں سے بالکلیہ اوجھل ہوچکی ہو۔وہ’’ الرسالہ‘‘ تحریک کا ایسا مخلص خادم چاہتے تھے جو اپنی ضروریات ومطالبات سے اوپر اٹھ کر خود کو اس تحریک کے لیے پوری طرح تج دینے اور قربان کردینے کا جذبہ رکھتا ہو۔مجھے بہت جلد محسوس ہونے لگا کہ میں اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتا۔کسی شخصیت کا ضمیمہ بن جانا علمی زندگی اور شناخت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔مولانا کواس کا کوئی ملال بھی نہیں تھاکہ کون ان سے الگ ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟وہ ان احساسات سے بالاتر تھے۔

 ۲۰۰۰میں تنظیم ابنائے قدیم دار العلوم دیوبند(نئی دہلی) سے،اس سے نکلنے والے ماہنامے، ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ سے بطور مدیر تحریر وابستہ ہوگیا۔اسی سال تنظیم نے بانی دار العلوم دیوبند مولانا   محمدقاسم نانوتوی ؒ پر ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا جس میں شرکت کی مولانا کوبھی دعوت دی گئی۔انہوں نے اس کے لیے مقالہ لکھنے کی یہ شرط رکھی کہ راقم الحروف چند ایام ان کے پاس حاضر ہواوروہ یہ مقالہ اس کو املا کرائیں۔چناں چہ اس شرط کی منظوری کے ساتھ یہ مقالہ تیار اور شایع ہوا۔ اس میں مدارس کی قدرومعنویت اور اصحاب مدارس کے کردار اور کارناموں کو سنجیدہ علمی اسلوب میں نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن سیمینار میں مولانا کومقالہ پڑھنے نہیں دیا گیا۔ سامعین کے ایک طبقے نے جس میں بعض معروف علما بھی شامل تھے،وہ شور وہنگامہ برپا کیا کہ مولانا کواسٹیج سے اترنا اور مجھے دوران پروگرام مولانا کوان کے گھرچھوڑنا پڑا۔مولانا نے مقالے پر کافی محنت کی تھی۔بقول ان کے اس کی پریزنٹیشن کی انہوں نے باضابطہ ریہرسل کی تھی۔بلاشبہ یہ ناخوش گوار واقعہ تھا لیکن مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ ایسے تمام ناخوش گوار واقعات کو  جھٹک دینے اور برداشت کرجانے کی غیر معمولی نفسیاتی قوت رکھتے تھے۔

نادر و کمیاب خوبیاں

مولانا بڑی اہم خوبیوں کے مالک تھے۔ان کی شخصیت اور ان کے عملی شب وروز میں سیکھنے کی بہت سی چیزیں تھیں:

مولانا کی کشادہ ظرفی

 مولانا بہت سے معاملات میں بہت کشادہ ظرف واقع ہوئے تھے( اگرچہ  کچھ  دوسرے معاملات میں ذرا تنگ ظرف بھی۔)مولانا سے وابستگی کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے غیر مطبوعہ مضامین کے کئی ضخیم ترین بنڈل یہ کہہ کر میرے حوالے کردیے کہ میں ان میں سے جن کو چاہوں’’ الرسالہ‘‘ میں اشاعت کے لیے منتخب کرلوں اور باقی کوان سے مشورے کے بغیرکوڑے دان کی نذر کردوں۔چناچہ میں نے بمشکل دس فیصد مضامین کےعلاوہ سارے مضامین ضایع کردیے ۔متعدد مضامین کو جونہایت محنت سے لکھے گئے تھے،میرے اظہار اختلاف کے بعد وہ میرے سامنے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتے تھے۔ مجھے ایسے دو مضامین کی اس وقت یاد آتی ہے: ایک مضمون میں انہوں نے اس خیال کا اظہا ر کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں دعوت کا کام فتوحات کےہجوم میں دب کر رہ گیا۔ میرے اعتراض پر انہوں نے بلا تامل اسے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا۔ دوسرے مضمون کا عنوان تھا: البادی اظلم(شروع کرنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔) اس میں اس موقف کا اظہار کیا گیا تھا کہ چوں کہ فسادات کی ابتدا  ہندوستان میں مسلمان کرتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ بڑے ظالم ہیں۔میری تنقید پر انہوں نے مسکراکر میرے سامنے اسےپھاڑ کرردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔

ان واقعات سے اندازہ ہوا کہ مولانا کے اندر کشادہ ظرفی اور لچک پائی جاتی ہے۔ البتہ وہ اس کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھے کہ اپنے کسی نظریے اور موقف کے کسی جز سے بھی دست بردار ہوں۔ان کی کتاب ’’ تجدید دین‘‘ پڑھ کر مجھے شدید تکدر ہوا جس کا اظہار میں نے مولاناکے سامنے کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ مولانا رضوان القاسمی ؒ( مہتمم دار العلوم سبیل السلام ،حیدر آباد)نے بھی اس کتاب پراسی شدت کے ساتھ تنقید کی ہے۔ مختلف مواقع پر ان کی ’’تسلیم کی خو‘‘ کودیکھتے ہوئے میں نے مولانا کومشورہ دیا کہ وہ ایک ایسی تحریر لکھ دیں جس کامضمون یہ ہوکہ ان کے جونظریات جمہورعلمائے امت سے متصادم ہیں،وہ ان سے اظہار برأت کرتے ہیں۔مولانانے فرمایا کہ میں خود سے یہ تحریر لکھ لوں، مولانا اس پر دستخط کردیں گے۔لیکن انہوں نے اگلے ہی لمحے وضاحت کی کہ :’’یہ محض آپ کے اطمینان خاطر کے لیے ہوگی۔ورنہ جس طرح میں کل ان تمام نظریات ومواقف کودرست تصور کرتا تھا،آج بھی ویسا ہی تصور کرتا ہوں۔ ان سے دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔میں نے کہا کہ پھر صرف میرے اطمینان کے لیے اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟

مولانا کی خوبی (اور اسی کے ساتھ خامی !)یہ تھی کہ وہ نہایت سنجیدگی اور متانت سے معترض کے اعتراضات کوسنتےاور اپنے نقطہ نظرکی بھرپور طور پر تفہیم کی کوشش کرتے تھے ۔ معترض کی درشت کلامی اور طنز وتشنیع پر بھی قطعاً مشتعل نہیں ہوتےلیکن اس تفہیم پرواقع ہونے والے نہایت وزنی اشکالات واعتراضات کوبالکل خاطر میں نہیں لاتے اورخاموش ہوجاتے یا موضوع گفتگو بدل دیتے تھے۔

مولانا اور ہندوستانی مسلمان: کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

ہمیں اس پہلوپرغور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مولانا اور امت مسلمہ کے درمیان جو کشمکش پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں نے ایک دوسرے کوتقریبا مسترد کردیا، اس کا نقصان کس کے حق میں کیا ہوا؟میرا خیال ہے کہ مولانا اورہندوستانی مسلمان دونوں اس نقصان میں برابر کے شریک ہیں۔مولانا اور ان کی ایک مثبت نتیجہ خیزفکری تحریک کویہ خسارہ برداشت کرنا پڑا کہ وہ صرف ایک طبقے تک سمٹ کررہ گئی۔ مولانا کی فکر وقت کی آواز تھی ۔ اس کے اسلوب پیش کش میں قوت وتوانائی تھی جس نے اول وہلے میں ہی اہل علم کومتاثر کیا اور مولانا علمی وفکری دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے لیکن خاص طور پر ملی معاملات میں اپنی’’غیر معتدل‘‘ آرا وبیانات سے خود کواس حدتک متنازعہ بنالیا کہ عوام وخواص کی اکثریت کی نگاہ میں ان کی فکرکی معنویت وافادیت مشتبہ ہوکررہ گئی۔مولانا کی نہایت تعمیری سوچ بھی لوگوں کوتخریبی نظرآنے لگی۔ان کے اعلی اور قیمتی افکار وخدمات پس منظر میں چلے گئیں۔ اور ان کے کمزور اور متنازعہ فیہ بیانات واقوال لوگوں کو ذہنوں پر چھا گئے۔میں سمجھتا ہوں کہ مولانا اور ہندوستانی مسلمان، جن میں عوام وخواص دونوں شامل ہیں، نے ایک دوسرے کوسمجھنے میں شدید غلطی کی۔ مولانا سمجھتے تھے کہ پوری ملت یا امت کا فکری شاکلہ (یہ مولانا کی خاص اصطلاح ہے) بگڑگیا ہے۔ اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ لیکن اس تشکیل نوکے کے عمل میں مولانا نے توڑنے اور ڈھانے پرتوجہ زیادہ مرکوز رکھی اور تعمیر پر کم۔کیوں کہ تعمیر ی عمل تدریج اور حکمت عملی چاہتا ہے۔ اپنے مدعویا مخاطب کو آخری حدتک مشتعل اور متنفر کرکے مقصود کوحاصل کرنے کی پالیسی خود مولانا کےاصل الاصول سے ٹکراتی ہے جس کے وہ زندگی بھر مبلغ رہے۔ایک پیغمبر اور داعی اپنی قوم کوسب سے پہلے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور اس سے آخری حد تک قربت ومفاہمت کی راہیں تلاش کرتا ہے تاکہ اس کی آواز سنی جاسکے اور اس کے پیغام پر کان دھراجاسکے۔ افسوس مولانا اس پہلو پرزیادہ غور نہیں کرسکے۔

مولانا سے نفرت اور دوری کے نتیجے میں ملت کا جونقصان ہوا وہ بھی کم نہیں ہے۔اس وقت مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت وعداوت کی جوآندھی چل رہی ہے اورجس سے مسلمانوں کا ملی وسیاسی وجود ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے، اس کا پیشگی احساس وادراک کرنے والوں میں مولانا سرفہرست تھے۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندو فسطائی تنظیموں کے ساتھ مولانا کے قریبی روابط سے ملت میں جوبھی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کی پنپتی فضا پر پیش بندی کی ایک کوشش تھی۔اس تعلق سے ان کا  ذہن مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے متاثر تھا اور وہ ان کے بڑے مداح تھے۔مولانا کی شخصیت اس لحاظ سے ہندوستان کی واحد شخصیت تھی جسے فریق مخالف کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق امورومعاملات میں بی جے پی کے قائدین اور پالیسی ساز ان سے مشورے کرتے اور ان کی راے کواہمیت دیتے تھے۔

ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے جومولانا نے مجھے بتایا تھا۔۱۹۹۹ میں قندھار طیارہ اغوامعاملہ پیش آیا۔ اغوا کاروں سےہندوستانی حکومت کے اہل کاروں کی گفت وشنید سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ ’’دیوبند‘‘ سےگہری عقیدت رکھتے ہیں اور وہاں کی زیارت کے خواہش مند ہیں۔اس واقعے کے بعد بی جے پی نمائندوں کا ایک وفد مولانا کے پاس حاضر ہوا اوراغوا کاروں کی دار العلوم دیوبندسے فکری مناسبت وہم آہنگی کی حقیقت جاننی چاہی۔ مولانا نے فرمایا کہ :’’میں توخود دیوبندی ہوں‘‘۔ اور پھر انہیں سمجھایا کہ دیوبندیت بریلویت صرف ایک مذہبی گروہی شناخت سے عبارت ہے ۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مولانا ایک بیچ کی کڑی ہوسکتے تھے اور وہ رول ادا کرسکتے تھے جوجنگ احزاب کے موقع پر صحابی رسول حضرت نعیم  بن مسعود ؓنے ادا کیا تھا اور جن کی دانش مندانہ ترکیب سے نہایت خطرناک جنگ کی مسلط کردہ وبا مسلمانوں کے سرسے ٹل گئی تھی۔ لیکن افسوس ہندوستان کی مسلم کمیونٹی مولانا کی اس انفرادی حیثیت سے فائدہ نہیں اٹھاسکی۔مولانا مسلسل اس موضوع پر لکھتے رہے کہ مدعو قوم سے نفرت وکشاکش مسلمانوں کے لیے ہلاکت آفریں ہے لیکن مولانا کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔اکثریت سمجھتی رہی کہ مولانا اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بی جے  اور آر ایس ایس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مولانا پر یہ الزام بے بنیاد ہے۔تشددد پسند ہندو تنظیموں سے مولانا کی وابستگی ان کی مخصوص دعوتی ایپروچ کی دین تھی۔وہ اس موقف کا برملا اظہار کرتے تھے کہ ڈائلاگ اور مفاہمت کی کوششیں اصلا تشدد پسند افراد اور جماعتوں کے ساتھ کی جانی چاہیئیں تاکہ ان کی ذہنیت میں مثبت تبدیلی پیدا ہو،نہ کہ امن پسند افراد کے ساتھ ،جو پہلے ہی ’’بے مسئلہ ‘‘ ہیں۔

ایک دن میں حاضر ہوا تو مولانا کوشدت کے ساتھ اپنا منتظر پایا۔ مولانا نے بتایا کہ : ’’وزیر اعظم واجپائی کی طرف سے ایک اہم میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کرنی چاہیے یا نہیں‘‘۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد میٹنگ تھی جس میں شرکت میں مولانا کوتامل تھا ۔ میں نے ذرا ہلکے موڈ میں کہا کہ:’’ مولانا! آپ کی جوبدنامی ہونی تھی وہ توہوچکی۔ اب مزید کیا ہوگی؟‘‘۔(یہ واقعہ اس واقعے کے بعد کا ہے جب آر ایس ایس کی ایک میٹنگ میں مولانا کی پیشانی پر قشقہ لگادیا گیا تھا اور اس کی تصویر میڈیا میں آنے کی وجہ سے مولانا کی شدید بدنامی ہوئی تھی۔) آپ میٹنگ میں شریک ہوں۔میں بھی چلتا ہوں‘‘۔ مولاناکواس پر اطمینان ہوگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ:’’ میں اب ضرور شریک ہوں گا۔لیکن آپ کی شرکت اس میں ممکن نہیں ہے‘‘۔ اس واقعے نے مجھے بھی تھوڑی دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کیا۔ کیوں کہ مولانا کے ساتھ ہر پروگرام میں مجھے شرکت کی مکمل اجازت پیشگی طور پر حاصل تھی، لیکن بعد کے واقعات نے مجھے اس حقیقت کوسمجھنے میں مدددی کہ یہ مولانا کی مخصوص دعوتی ذہنیت اور فکری مشن کا حصہ تھا۔اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض پنہاں نہیں تھی۔نیتوں کا حال بس خدا کومعلوم ہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا نے ملت کو اور ملت نے مولانا کوکھودیا۔اس میں ’’ونر‘‘ کوئی نہیں ؛دونوں ہی کھونے والے  ہیں۔

اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف سب سے بلند اور موثر آواز مولانا کی تھی۔’’تعبیر کی غلطی‘‘کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔اقامت دین اور حاکمیت الہ کی اصطلاحوں میں سوچنے والوں کے فکری زاویے بدل گئے۔مولانا علی میاں ندوی ؒ کی ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ اور اخوان المسلمین کے مرشد عام دوم حسن الہضیبی  کی ’’دعاۃ لاقضاۃ‘‘ نے وہ کام نہیں کیا جومولانا  کی مذکورہ کتاب نے کیا۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف مولاناکی کوششیں مزید موثر اور نتیجہ خیز ہوسکتی تھیں اگر ان کوملت کا باضابطہ تعاون حاصل ہوتا۔

مولانا کے کام کی تین اساسی جہات

مولانا وحید الدین خان ؒ کے کام اور خدمات کی میری نظر میں تین اہم اور بنیادی جہات یا رخ ہیں:

 ۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے مخالف بیانیے کی تشکیل

۲۔ اسلامی عقلیات کی تشکیل

۳۔دعوتی لٹریچر کی تالیف واشاعت

۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے حوالے سے سرسری ذکر اوپر آیا۔جماعت اسلامی سے نکلنے کے بعد مولانا نے اس کواپنی فکر کا مرکز بنایا اور’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ متعدد چھوٹی بڑی تحریریں تسلسل کے ساتھ لکھیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اصحاب علم وفکر کی توجہ کا مرکز بنا اور اس پرمباحثات شروع ہوئے۔خود جماعت اسلامی سے وابستگی رکھنے والے مختلف اصحاب علم: مولانا سلطان احمد اصلاحی ؒ ،مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی کے افکار پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔خواہ یہ اثرات براہ راست ہوں یا بالواسطہ۔ان دونوں حضرات کی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ مرحوم مولانا اصلاحی کی نظریہ ٔ حاکمیت الہ کی رد میں اورثانی الذکر کی نظریہ ٔ جہاد میں غلو کی رد میں۔ مولانا کی پہلی مضبوط شناخت یہی تھی۔عالم عرب میں بھی سیاسی اسلام کی علمی تنقید کے حوالے سے  اس موضوع پرمولانا کی فکری  کاوشوں نے اس بحث کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کیا۔ وہاں کے علمی حلقوں پر اس کے اس کے اثرات مرتب ہوئے۔مغربی حلقوں میں اس حوالے سے مولانا کو جوپذیرائی ملی وہ بالکل ظاہراور متوقع تھی۔ جو کمی دوسرے موضوعات کےحوالے سے نظر آتی ہے،وہی کمی یہاں بھی نظر آتی کہ اس فکر کواستحکام عطا کرنے اور پروان چڑھانے والے رفقائے کار اور تلامذہ مولانا کومیسر نہیں آئے۔ مولانا کو جو کچھ کہنا تھا وہ ایک عرصے تک الفاظ وتعبیرات کی تبدیلی کے ساتھ کہہ فارغ ہوگئے۔اس میں اضافہ مولانا کی سرپرستی میں دوسرے افراد کے ذریعہ ہوتا تویہ فکر اور مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ بناتی۔لیکن ’’الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ کام رک گیا۔’’سیاسی اسلام‘‘ کا نظریہ جس تیزی کے ساتھ اپنے پر پھیلاتا رہا، اس تیزی اورشدت کے ساتھ اس کا تعاقب نہیں کیا جاسکا۔’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ مزید مضبوط اور موثر تحریریں اس موضوع پر نہیں آسکیں۔

۲۔مولانا کےکام کی دوسری اہم جہت اسلامی عقلیات کی تشکیل ہے۔ برصغیر ہند میں سرسید احمد خاں ؒ نام اس کے بنیاد گذاروں میں اہمیت رکھتا ہے۔لیکن ان کی کوششیں اس حوالے سے افراط وتفریط کا شکار ہوکر رہ گئیں۔البتہ اس کے نتیجے میں اس تعلق سے ذہنوں میں سوالات ابھرے اور کام کا داعیہ پیداہوا۔ پھر شبلی نعمانی (الکلام اور علم الکلام) اور علامہ محمد اقبال(The Reconstruction of Religious Thought in Islam ) نے اس حوالے سے جوکام کیا وہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔اس کے اثرات غیرمعمولی طور پر عالم اسلام اور اس کے باہر کے علمی وفکری حلقوں پر مرتب ہوئے۔جدید علم کلام پرگفتگوآگے بڑھی۔مولانا کام کام اس میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔مولانا نے جدید سائنس کو اپنا موضوع بنایا۔جدید سائنسی افکار واکتشافات کے حوالے سے مذہبی فکریات اورمذہبی نظریہ ٔ حیات وکائنات( world view) پر عائد کیے جانے والے اعتراضات وتنقیدات کاجائزہ لینے کی کوشش کی۔مذہب کے خلاف سائنسی مفروضات کا علمی رد لکھا جو’’علم جدید کا چیلنج‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا ۔اس موضوع پر یہ کتاب ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ’’عقلیات اسلام‘‘،مذہب اور سائنس‘‘  اور ’’مذہب اور جدید چیلنجز‘‘ جیسی کتابیں اہم اور قابل مطالعہ ہیں۔یہ کہنا میری نظر میں بہت صحیح نہیں ہے کہ مولانا مغربی فکروفلسفے کا بہت گہرا ادراک رکھتے تھے۔عالم اسلام کیا خود برصغیر ہند میں اس حوالے سےشہرت رکھنے والوں کی ایک تعداد موجود ہے۔(بظاہر مولانا کوفلسفے سے کچھ خاص شغف نہیں تھا) لیکن مولانا نے جس سنجیدہ، سادہ اور مضبوط علمی اسلوب میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی وہ بہت اہم اورنتیجہ خیز تھی۔کاش مولانا نے اس موضوع پر کام کومزید آگے بڑھایا ہوتا لیکن چنداچھے ابتدائی نقوش کے بعد مولانا نے اس کام کوموقوف کردیا یا یہ کہ مولانا کا زاد علم اس حوالے سے ایک حد پر جا کر ختم ہوگیا۔

اس کی ایک وجہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ یہ موضوع بہت زیادہ مطالعہ چاہتا ہے،دوسرے موضوعات پر کاموں کےہجوم میں جس کی فرصت مولانا کو نہیں مل سکتی تھی۔ دوسرے موضوعات پر کام کی مصروفیات کو کم کرکے اس کام کوترجیحی فہرست میں رکھنا چاہیے تھا، لیکن مولانا اس کے لیے خود کوتیار نہیں کرسکے۔یہ کام بھی فرد واحد کا نہیں تھا۔مولانا کوایسے افراد تیار کرنے چاہییں تھے جو اس کام کا بیڑاسنبھال سکیں اور اسے جاری رکھ سکیں۔لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔

۳۔ مولانا کے کام کی تیسری جہت دعوہ لٹریچر کی تیاری اور اشاعت ہے۔قرآن،حدیث اور سیرت رسول کو بنیاد بناکر مولانا نے چھوٹے بڑے بہت سے کتب ورسائل لکھے جن کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے۔بلاشبہ یہ لٹریچر دعوتی نقطہ  ٔ نظر سے بہت اہم ہے۔قرآن کا انگریزی ترجمہ کافی مقبول ہوا۔’’تذکیر القرآن‘‘ اس لحاظ سے اہم ہے جس میں سادہ انداز میں قرآن کی تعلیمات وپیغام کوواضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح سیرت رسول پر ’’پیغمبر انقلاب ‘‘اس موضوع پر لکھی سینکڑوں کتابوں میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔ادھر کم از  کم دودہائیوں سے مولاناکی پوری توجہ کام کی اس تیسری جہت پرمرکوز تھی ۔ یعنی سادہ انداز میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو غیر مسلمین کے درمیان عام کرنا۔ اس کے کیا اثرات ونتائج مرتب ہوئے؟ا س کا اگراس تناظر میں جائزہ لیاجائے کہ ان کوپڑھ کر کتنے لوگوں نے اسلام قبول کیاتویہ کوئی بہت معقول بات نہیں ہوگی۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا کنورژن کو بنیاد بنا کر کام کرنے کے قائل نہیں تھے۔اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ یہ کام خدا کا ہے۔ ہمار ا کام صرف ابلاغ ہے اور بس۔اس میں شک نہیں کہ مولانا کے دعوتی لٹریچر میں جابجا افراط وتفریط کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ دین وشریعت کا کوئی پہلو کہیں زیادہ دب گیا ہے اور کہیں زیادہ ابھرگیا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس کی افادیت اور اس سیاق میں مولانا کی انفرادیت مسلم ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ باقی اس میں کیا خامیاں اور کمیاں ہیں ان پر بحثیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔

مولانا کے افکاروخدمات کی اور بھی جہات ہیں لیکن یہ تین جہات زیادہ بامعنی اور اہم ہیں۔یہ تینوں جہات اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ یہ کام آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن ’’الرسالہ‘‘ اسلامی مرکز نے اب اپنے ادارے’’ سی پی ایس انٹرنیشنل ‘‘کے تحت صرف تیسری جہت پر اپنی ساری توجہات مرکوز کردی ہیں۔ اس طرح پہلی دو جہتیں جوخالص فکری نوعیت کی ہیں،اس کی متقاضی تھیں کہ مولانا کے بعد ان پر کام کا سلسلہ جاری رہے لیکن بظاہر اب’’ الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ ممکن نہیں ۔کیوں کہ وسائل توموجود ہیں ،افراد موجود نہیں ۔

مولانا کی چند کمزوریاں اور ان کے نقصانات

 مولانا کے اپنے ممتاز اوصاف اور نادر خوبیوں اور کمالات کے ساتھ چند کمزوریاں بھی تھیں جن کے مسلسل واقعات مشاہدے میں آئے۔کمزوریوں سے یوں تو بڑی سے بڑی اور عبقری شخصیات بھی خالی نہیں ہوتیں لیکن مولانا کا معاملہ اس باب میں کئی لحاظ سے استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔

 میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کی فکر کا بے کم وکاست تجزیہ ہونا چاہیے اور ان کے تمام ذہنی ونفسیاتی ، زمانی ومکانی اور دیگراحوال وظروف کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی فکروشخصیت کی قدر پیمائی کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہر زاویے سےان کی پوری فکر کا پھرپور تنقیدی جائزہ  لیاجانا چاہیے تاکہ ان کی فکراپنے دائرے میں منقح ہوکر سامنے آجائے۔ مولانا کے تئیں صحیح اور سچی خراج عقیدت  یہی ہے اور مولانا نے زندگی بھر اسی پر عمل کیا اور اسی کی لوگوں کوترغیب دی۔اس حوالے سے مولانا کی ایک قیمتی تحریر’’علما اوردور جدید‘‘ کوپیش نظر رکھنا چاہیے جس میں مولانا نے دور جدید میں علما کی فکروکردار کا تفصیلی تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کی نقاب کشائی کے ساتھ ان سے مرتب ہونے والے مثبت ومنفی اثرات سے بحث کی ہے۔صرف ثناخوانی یا مجرد تنقید فکری زوال کی سب سے بڑی علامت ہے۔اس تحریر کا مقصد نہ تو مولانا کی کمزوریوں کی نقاب کشائی ہے اور نہ  ان کے اوصاف وامتیازات کی مدح سرائی۔اس کا مقصد ان کی فکروشخصیت کے خد وخال کو سمجھنا اور ان میں موجود بصیرت کے پہلوؤں کو واشگاف کرنا ہے۔ اس تحریر کو اسی تناظر میں پڑھا جانا چاہیے۔

جولائی ۲۰۲۱ء

مسلم معاشرہ اور جنسی انحراف کے پرانے اور نئے رجحاناتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۸)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ جامع ترمذی (۳)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
اسلام کا فلسفہ حرکتبیرسٹر ظفر اللہ خان
سرسید احمد خان، قائد اعظم اور مسلم اوقافمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اقلیتوں کا بلاتحدید حق تبلیغ مذہبڈاکٹر شہزاد اقبال شام
مستشرقین کے مطالعہ ”دکن میں اشاعتِ اسلام“ کا جائزہڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

مسلم معاشرہ اور جنسی انحراف کے پرانے اور نئے رجحانات

محمد عمار خان ناصر

مذہبی راہ نماوں کے جنسی بداخلاقی میں ملوث ہونے کے واقعات گذشتہ کچھ عرصے سے ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں ایسے ہی ایک واقعے نے   غیر معمولی توجہ حاصل کی اور اس کی  سنگینی کے باعث  معاشرے کے کم وبیش تمام  طبقات   اس کی مذمت میں  یک زبان  ہو گئے۔   ملزم کے متعلقین میں سے بعض  حضرات نے اس بنیاد پر دفاع کرنے کی کوشش کی کہ اس مسئلے میں علماء کی مثال کو خاص طور پر ہدف تنقید بنانا درست نہیں، کیونکہ اس بیماری میں سارا معاشرہ مبتلا ہے، بلکہ بعض غیر محتاط  حضرات نے  تو اس کے لیے  صحابہ کرام سے گناہوں کے سرزد ہونے کا حوالہ دینا بھی گوارا کر لیا۔ اسی طرح  واقعے کی مذمت کرنے والے  لبرل اہل دانش نے اس معاملے میں اپنے اعتراض کو اس نکتے پر مرکوز رکھا کہ اس میں متاثرہ فریق پر جبر کیا گیا یا شخصی حیثیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو دباؤ میں لا کر جنسی استحصال کیا گیا ہے۔ ان حضرات کے نقطہ نظر سے اگر یہ پہلو نہ ہو تو لواطت یا ہم جنس پرستی وغیرہ میں فی نفسہ کوئی اخلاقی خرابی نہیں۔

ان دونوں  گروہوں کے شاذ    موقف کے برعکس معاشرے کی اکثریت نے اسلام کی واضح تعلیمات کی روشنی میں ان دونوں مواقف پر صد نفرین بھیجی اور ہم جنس پرستی کو ایک رذیل اور ملعون ہوس پرستی قرار دیا جس کی شناعت بہت بڑھ جاتی ہے جب اس میں جبر، دباؤ اور استحصال شامل ہو اور زمین وآسمان کانپ اٹھتے ہیں اگر مذہبی علماء کے اس میں عادتا ملوث ہونے کو ایک معمولی اور ہلکا عمل باور کرانے کی کوشش کی جائے۔

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ پوری دنیا میں ایک بھی صاحب ایمان نہ ہو تو اللہ کی شان میں مچھر کے پر کے برابر فرق واقع نہیں ہوتا۔ دین سے نسبت رکھنے والے اپنے اعمال کی بدولت خود کو اور اپنے ساتھ دین کو رسوا کریں تو اللہ کو اس سے ہرگز کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور نہ اس کی شان میں کوئی فرق واقع ہوتا ہے، بلکہ کبھی کبھی ایسی رسوائیوں کا سامان وہ خود کرتا ہے۔  اہل مذہب نے معلوم نہیں، کس خوش فہمی  یہ فرض کر لیا ہوا ہے کہ اعمال بد کا وبال صرف فاسقوں فاجروں پر آتا ہے، جبکہ دین خداوندی کے پاسبان اس سے مستثنی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اللہ اپنی طرف نسبت رکھنے والوں کا زیادہ سخت محاسبہ فرماتا ہے، اس لیے  ضرورت ہے کہ ہم حالیہ رسوائی  کو بارگاہ الہی کی طرف سے ایک تنبیہ سمجھیں، اور صرف دشمنان دین کے ہاتھ آ گئی ایک بات سمجھ کر نہ گزر جائیں۔

اس پوری صورت حال میں  دینی مدارس کے موجودہ نظام میں   فضلاء کو عالم دین کی سند   جاری  کرنے کے علمی واخلاقی معیارات   کا سوال نہایت اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔  جدید دور میں دینی مدرسہ  تاریخی تغیرات   کے جس عمل سے گذرا ہے، اس کے کچھ پہلووں پر  گزشتہ دنوں بعض  معروضات  پیش کی گئی تھیں۔  اٹھارہ سو ستاون کے بعد جب دیوبند میں جدید دینی مدرسے کی تشکیل ابھی ابتدائی مراحل میں تھی تو سرسید احمد خان نے اس کے مستقبل کے حوالے سے تین اہم خدشات پیش کیے تھے: ایک یہ کہ یہ مدرسہ علم جدید کے سوالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر پائے گا۔ دوسرا یہ کہ اس سے پیدا ہونے والے طبقے کو  معاشرہ تدریجا ایک معاشی  بوجھ تصور کرنے لگے گا۔ اور تیسرا یہ کہ بلند کرداری کا وہ معیار جس کی توقع دین کے علمی وروحانی نمائندوں سے کی جاتی ہے، اس نظام میں مجموعی طور پر اسے برقرار رکھنا ناممکن ہوگا۔

اس تیسرے نکتے میں آج ہم ڈیڑھ سو سال کے بعد بآسانی اس شق کا اضافہ کر سکتے ہیں کہ ہزاروں کی تعداد میں ایک طبقے کو ’’مذہبی علماء“ کی شناخت دے کر معاشرے میں متعارف کروانا، جبکہ ان میں سے اکثریت علمی صلاحیت اور دینی اخلاق وکردار کے اعتبار سے اس معیار پر پورا نہیں اترتی، بالآخر اس طبقے اور مدارس کے پورے نظام کے وقار اور وقعت کو برباد کر دینے پر منتج ہوگا۔ مدارس کے ذمہ داران کو اس صورت حال  کا انتہائی سنجیدگی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ ایک موقر ادارے  کو  ، جو اس وقت مسلم  معاشرے کی اہم ترین دینی ضروریات کو   پورا کرنے کا ذمہ دار  ہے، غلط اور غیر حکیمانہ ترجیحات اور غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی  بھینٹ نہ چڑھا دیا جائے۔

بہرحال   حالیہ واقعات کے نتیجے میں پاکیزگی کے پردوں میں مستور اور تقدس کے لبادوں میں محجوب جنسی بداخلاقی کے کلچر پر گفتگو کا دروازہ کھلا اور اس کے سدباب کے لیے درکار ضروری تجزیے کی راہ ہموار ہوئی ہے جو ایک بہت خوش آئند، ضروری اور ناگزیر پیش رفت ہے۔ بچپن اور لڑکپن کی عمر کے تجربات، انسان کی نفسیاتی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں اور اس عمر میں اگر کسی معاشرے کی پوری نسل جنسی استحصال کی زد میں ہو تو اس کا تسلسل اگلی نسل میں بھی یقینی ہے، کیونکہ جو نسل جنسی استحصال کو ایک معمول کے عمل کے طور پر قبول کرتے ہوئے جوان ہوگی، اس کے ہاتھوں اگلی نسل کے جنسی استحصال کو روکنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس تسلسل کو روکنے کے لیے اسی طرح کا ایک انقطاع لایا جانا ضروری ہے جو مثلا کورونا جیسے وائرسز کی روک تھام کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ بچپن اور لڑکپن کی عمر میں نئی نسل کو تمام تدابیر بروئے کار لاتے ہوئے ایسا تحفظ فراہم کیا جائے جس سے اس موروثی اور اجتماعی مرض کا اگلی نسلوں کو انتقال محدود سے محدود تر ہوتا چلا جائے۔

حالیہ دنوں میں بچوں یا نوجوانوں کے جنسی استحصال کو سہولت اور معاونت فراہم کرنے والے ماحول کی مختلف خصوصیات پر اہل دانش نے انسانی نفسیات کی روشنی میں توجہ طلب اور کافی حد تک حقیقت پسندانہ تجزیے پیش کیے۔ اس میں تین چار نکات بہت اہم ہیں:

۱۔ بچوں یا بچیوں کے جنسی استحصال کی بیماری کسی ایک طبقے تک محدود نہیں، بلکہ ایک وبا کی طرح پھیلی ہوئی معاشرتی بیماری ہے۔ تاہم اس کا ظہور بدیہی طور پر اس ماحول میں (مثلا اقامتی دینی اداروں میں) زیادہ ہوتا ہے جہاں بچے، کلیتا بڑوں کے رحم وکرم پر ہوں، غیر محتاط اختلاط کے مواقع بکثرت ہوں اور بچے گھر جیسی ضروری حفاظت سے بالکل محروم ہوں۔

۲۔ اس جرم کو ہلکا سمجھنے اور اس کے تسلسل کو قائم رکھنے میں بنیادی اور اہم ترین عامل، ماحول میں موجود یہ پیغام ہوتا ہے کہ یہ ہوتا آ رہا ہے اور ہر جگہ ہو رہا ہے اور اس کو خاموشی اور پردہ پوشی کی مضبوط پناہ حاصل ہے۔

۳۔ جرم کی تحریک وترغیب کے اسباب موجود اور مواخذہ کے امکانات معدوم ہونے کے باعث انسانی رشتوں کا تقدس ذہنوں میں بالکل دب جاتا ہے اور قریبی رشتہ دار تک اس جرم کے ارتکاب میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے۔ ایسی صورت حال میں دینی اداروں کا نیکی اور تقوی وطہارت کی تلقین پر مبنی ظاہری ماحول بھی کوئی موثر کردار ادا نہیں کر پاتا، بلکہ جبلی ونفسیاتی محرکات، تقوی وطہارت کی ظاہری تلقین پر غالب آ جاتے ہیں۔

۴۔ ایک اہم تجزیہ طلب نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ فطری جنسی داعیات کی موجودگی میں، صنفین کے تعامل اور اختلاط کے مواقع موجود نہ ہونے اور جنسی رغبت کو بالکل منفی انداز میں پیش کرنے کا معکوس اثر مرتب ہوتا ہے، یعنی اس سے جنسی تجسس اور رغبت بڑھ جاتی ہے اور اس کا رخ ماحول میں موجود آسان شکار یعنی بچوں کی طرف مڑ جاتا ہے۔

اس سارے تجزیے سے جو بنیادی بات نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے، وہ ہے کسی خرابی کو روکنے کے لیے سد ذریعہ اور امتناعی تدابیر کی اہمیت۔ اگر کوئی عمل واقعتا اخلاقی لحاظ سے غلط ہے اور اسے روکنا مقصود ہے تو ان تمام تدابیر کی ضرورت اور اہمیت سے بقائمی ہوش وحواس انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کی معاشرتی تعلیمات میں بالکل اسی اصول پر مرد وزن کے اختلاط کے حدود وآداب مقرر کیے گئے ہیں جو اس بنیادی حکم پر مبنی ہیں کہ شادی کے رشتے کے باہر مرد وعورت کا جنسی تعلق ممنوع ہے۔ اسلام اور موجودہ غالب تہذیب کا اصل اختلاف اسی بنیادی موقف میں ہے، اور مردوزن کے اختلاط کی امتناعی تدابیر کے حوالے سے اختلاف اس بنیادی اختلاف پر متفرع ہے۔ تہذیب حاضر کے موقف کے مطابق چونکہ آزاد جنسی تعلق، انفرادی آزادیوں میں شامل ہے جس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی، اس لیے اس کی تجویز کردہ امتناعی تدابیر صرف جبر اور اکراہ کو موضوع بناتی ہیں۔ اسلام کا موقف یہ ہے کہ آزاد جنسی تعلق فی نفسہ ممنوع ہے، اس لیے ان تمام ذرائع، محرکات اور وسائل کا سدباب بھی ضروری ہے جو اس کی راہ ہموار کرتے ہوں۔

مسلم معاشروں میں لبرل جنسی اخلاقیات کے حامی اہل دانش یہاں اخلاقی جرات سے کام لیتے ہوئے وہ اصل موقف بیان کرنے کے بجائے جو غالب تہذیب کا موقف ہے، ایک عجیب الجھا ہوا موقف پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ اس حساسیت کو (کم سے کم فی الحال) مجروح نہیں کرنا چاہتے جو آزاد جنسی تعلق کی قباحت کے حوالے سے مسلم معاشرے میں پایا جاتا ہے، اور دوسری طرف انفرادی آزادیوں کے اس ماحول کو فوری طور پر اپنے ارد گرد دیکھنا چاہتے ہیں جو غالب تہذیب کے اصل معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ اس دو ذہنی یا مخمصے کے نتیجے میں وہ مرد وزن کے اختلاط کے حوالے سے امتناعی تدابیر کے خلاف ایسے بے معنی قسم کے استدلالات پیش کرتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی اصل اخلاقیات چونکہ اس کے دل میں ہوتی ہے، اس لیے ماحول میں خواہ مخواہ کی قدغنیں عائد کرنا ایک فضول بات ہے۔ یوں یہ فکری طبقہ بچوں کے جنسی استحصال کے سدباب کے لیے  جن تمام تدابیر کی اہمیت خود فصاحت وبلاغت سے بیان کرتا ہے، مرد وزن کے اختلاط کی بحث میں ان میں سے ایک ایک کی نفی کر کے صریح فکری تضاد کا نمونہ بن جاتا ہے۔

مثلا بچوں کے باب میں ان اہل دانش کو غیر محتاط اختلاط کے مفاسد صاف دکھائی دیتے ہیں، لیکن مرد وزن کے اختلاط میں ان کی توقع یہ ہوتی ہے کہ ظاہری حجابات اور فاصلوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف کردار کی داخلی مضبوطی پر اعتماد کیا جائے۔ بچوں کے باب میں وہ بالکل درست طور پر اس حقیقت کا ادراک کرتے ہیں کہ جبلی اور نفسیاتی تقاضوں کے سامنے، ضروری احتیاطی تدابیر کی غیر موجودگی میں، ظاہری دینداری کا ماحول بھی غیر موثر ہو جاتا ہے، لیکن مرد وزن کے اختلاط میں ان کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ ظاہری حدود وآداب کی پابندی کو ایک بے جا تکلف اور اس حوالے سے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو کسی کے نجی معاملے میں غیر مطلوب مداخلت باور کیا جائے۔ جنسی گھٹن کے ماحول کا یہ اثر تو ان کی نگاہ بصیرت گہرائی میں جا کر دیکھ لیتی ہے کہ وہ جنسی رغبت کو زیادہ شدت کے ساتھ ابھارنے کا ذریعہ بنتا ہے، لیکن یہ کہ خواتین کا لگاوٹ بھرا انداز گفتگو، جسمانی محاسن کی نمائش، نامناسب لباس اور صنف مخالف کے ساتھ بے تکلفانہ اختلاط بھی جنسی تحریش وترغیب کا ذریعہ بنتا ہے، یہ ’’دقیانوسیت “ ان کے ذہن رسا کی گرفت میں نہیں آتی۔ ایسے تمام اہل دانش کی دونوں مسئلوں پر لکھی گئی تحریروں کو آمنے سامنے رکھ کر بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس ذہنی مخمصے کا شکار ہیں اور قسم قسم کے منطقی مغالطوں سے ایک سیدھی اور صاف بات کے متعلق مسلم معاشرے سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ وہ اسے غیر ضروری اور بے مقصد تسلیم کر کے اس سے دستبردار ہو جائے۔

مسلم معاشروں کے لیے تہذیبی بقا اور معاشرتی سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ وہ اپنے اندرون میں موجود اخلاقی انحرافات سے متعلق بھی اپنی سوئی ہوئی حساسیت کو بیدار کریں اور موجودہ غالب تہذیب کے زیراثر جو نئے انحرافات ان پر مسلط کرنے کی کوشش داخل وخارج سے ہو رہی ہے، ان کے حوالے سے بھی اپنی حساسیت کو زندہ اور توانا رکھیں۔ اللہ تعالی ہم سب کو فہم سلیم کی نعمت ارزاں فرمائے۔ آمین


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۸)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(259) سلفًا اور آخِرین کا ترجمہ

فَجَعَلنَاہُم سَلَفاً وَمَثَلاً لِلآخِرِینَ۔ (سورة الزخرف: 56)

”اور ان کو ماضی کی ایک داستان اور دوسروں کے لیے ایک نمونہ عبرت بنادیا“۔ (امین احسن اصلاحی)

خ پر زبر کے ساتھ آخَر کا مطلب ہے: دوسرا، جب کہ خ کے نیچے زیر والے آخِر کا مطلب ہوتا ہے: پچھلا یا بعد والا۔ عام طور سے حضرات مترجمین نے اس کا لحاظ کیا ہے۔ البتہ مذکورہ بالا آیت میں صاحب تدبر نے آخِرین کا ترجمہ دوسروں کردیا ہے جو غلط ہے۔ دیگر مترجمین نے درست ترجمہ کیا ہے خود صاحب تدبر نے دوسرے مقامات پر اس لفظ کا درست ترجمہ کیا ہے۔

سلف کا مطلب عام طور سے ماضی کی داستان، قصہ ماضی یا گیا گزرا کیا گیا ہے، ظاہر ہے جس قوم کو غرقاب کردیا گیا ہو، وہ ماضی کی داستان تو بن ہی جائے گی۔ البتہ کسی کے لیے کسی کے سلف ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس راستے سے وہ گزر رہا ہے، اس راستے سے اس سے پہلے کوئی اور گزر چکا ہے۔ یہاں آیت کا منشا یہ ہے کہ بعد میں آنے والوں کو معلوم ہو کہ ان سے پہلے ایک قوم عذاب کے راستے پر چل کر اپنے کیفر کردار کو پہنچ چکی ہے۔ تو اگر وہ اس راستے پر چلیں گے تو وہ اس پر چلنے والے پہلے لوگ نہیں ہوں گے۔ لفظ سلف کی یہ تشریح اس لفظ کو آیت میں بہت معنی خیز بنادیتی ہے۔

کئی مترجمین نے اس طرح ترجمہ کیا ہے کہ گویا آخرین کا تعلق صرف مثلا سے ہے۔ سلف کا مطلب سامنے رہے تو یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ اس آیت میں لفظ آخرین کا تعلق سلفا اور مثلا دونوں سے ہے۔ کچھ ترجمے ملاحظہ ہوں:

”پس ہم نے انہیں گیا گزرا کردیا اور پچھلوں کے لیے مثال بنادی“۔ (محمد جونا گڑھی، اس ترجمے میں آخرین کا تعلق صرف مثلا سے ہے۔)

”اور بعد والوں کے لیے پیش رو اور نمونہ عبرت بنا کر رکھ دیا“۔ (سید مودودی)

”اور ان کو بعد میں آنے والوں کے لیے پیشوا اور نمونہ عبرت بنادیا“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(260) لَجَعَلنَا مِنکُم مَّلَائِکَۃً کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں ’منکم‘ آیا ہے۔ بعض لوگوں نے من کو ابتدائیہ مانا ہے، یعنی انسانوں سے فرشتوں کو پیدا کرنا، بعض نے تبعیضیہ مانا ہے، یعنی کچھ انسانوں کو فرشتہ بنادینا، بعض نے بدلیہ کے معنی میں لیا ہے، یعنی تمھارے بدلے فرشتے بنادیتے، مولانا امانت اللہ اصلاحی کے نزدیک یہاں من برائے تجرید ہے، یعنی تمھیں فرشتے بنادیتے۔ یہ مفہوم کسی طرح کی پیچیدگی سے خالی ہے۔

درج ذیل آیت کے ترجمے میں ایک بات اور یاد دلانا مناسب ہے کہ لو ماضی کا مفہوم دیتا ہے۔ اس لیے لَو نَشَاء لَجَعَلنَا کا صحیح ترجمہ ہوگا: اگر ہم چاہتے تو بنادیتے، نہ کہ اگر ہم چاہیں تو بنادیں۔ اس وضاحت کی روشنی میں درج ذیل تراجم کو دیکھیں:

وَلَو نَشَاء لَجَعَلنَا مِنکُم مَّلَائِکَۃً فِی الاَرضِ یَخلُفُونَ۔ (سورة الزخرف:60)

”ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کردیں جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں“۔ (سید مودودی، لفظ ’تمہارے‘ زائد ہے، اور یہ مستقبل کا ترجمہ ہے ماضی کا ہونا چاہیے۔)

”اور اگر ہم چاہتے تو زمین میں تمہارے بدلے فرشتے بساتے“۔ (احمد رضا خان)

”اور اگر ہم چاہتے تو تم میں سے فرشتے بنا دیتے جو تمہاری جگہ زمین میں رہتے“۔ (فتح محمد جالندھری، ’تمہاری جگہ‘ زائد ہے)

”اگر ہم چاہتے تو تمہارے عوض فرشتے کردیتے جو زمین میں جانشینی کرتے“۔ (محمد جوناگڑھی، تمہارے عوض کا کیا مطلب ہے؟؟)

”اور اگر ہم چاہیں تو تمہارے اندر سے فرشتے بنادیں جو زمین میں خلافت کریں“۔ (امین احسن اصلاحی، یخلفون کا ترجمہ خلافت کرنا درست نہیں ہے۔)

بعض حضرات نے ترجمہ کیا ہے: زمین میں تمہارے جانشین ہوتے، یا تمہاری جگہ زمین میں رہتے۔ جب کہ آیت میں یخلفونکم نہیں ہے صرف یخلفون ہے، یعنی جانشین ہوتے۔

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”اور اگر ہم چاہتے ہوتے تو تمھیں فرشتے بنادیتے جو زمین میں جانشین ہوتے“۔ (لو کے بعد فعل مضارع نشاء ہے، اس لیے ’چاہتے ہوتے‘ ترجمہ کیا ہے)

(261) وَقِیلِہِ کا مفہوم و اعراب

درج ذیل آخری آیت میں وَقِیلِہِ کا مفہوم متعین کرنے میں مفسرین ومترجمین کو حیرانی ہوئی ہے۔ بعض لوگوں نے اسے تین آیتوں قبل مذکور علم الساعۃ پر عطف کیا ہے۔ لیکن زمخشری نے اس پر تنقید کی ہے کہ معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے اور مفہوم کچھ خاص نہیں بنتا ہے۔ کچھ لوگوں نے واو کو برائے قسم لیا اور قسم کا مفہوم بیان کیا ہے، یہ مفہوم بھی لفظی اور معنوی تکلف سے بھرپور ہے، کچھ لوگوں نے واو کو رُبَّ کے معنی میں لے کر بسا اوقات ترجمہ کیا ہے۔ یہاں بھی معنوی تکلف موجود ہے۔ ہر طرح کے تکلف سے خالی اور معنی کے لحاظ سے بہتر صورت یہ ہے کہ وَقِیلِہِ کو شَہِدَ بِالحَقِّ پر معطوف مانا جائے۔ نیز درمیان والی آیت کو جملہ معترضہ مانا جائے۔ درج ذیل تینوں آیتوں کا مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

وَلَا یَملِکُ الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِہِ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَن شَہِدَ بِالحَقِّ وَہُم یَعلَمُونَ۔ وَلَئِن سَاَلتَہُم مَّن خَلَقَہُم لَیَقُولُنَّ اللَّہُ فَاَنَّی یُوفَکُونَ۔ وَقِیلِہِ یَارَبِّ اِنَّ ہَوُلَاء قَوم لَّا یُومِنُونَ۔ (سورة الزخرف: 86-88)

”اُس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، الا یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ اور اگر تم اِن سے پوچھو کہ اِنہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں۔ اور وہ یہ کہے کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے تھے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

دیگر تراجم ملاحظہ ہوں:

”قسم ہے رسول کے اِس قول کی کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے“۔ (سید مودودی)

”مجھے رسول کے اس کہنے کی قسم کہ اے میرے رب! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے“۔ (احمد رضا خان)

”اور (بسااوقات) پیغمبر کہا کرتے ہیں کہ اے پروردگار یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان کا (پیغمبر کا اکثر) یہ کہنا کہ اے میرے رب! یقینا یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اسی (اللہ) کو رسول(ص) کے اس قول کا عِلم ہے کہ اے میرے پروردگار! یہ لوگ ایمان نہیں لاتے“۔(محمد حسین نجفی)

”اور (حق کی گواہی دینے والوں کا) قول یہ ہوگا کہ اے رب یہ لوگ خود ایمان لانے والے نہ بنے“۔ (امین احسن اصلاحی، یہ ترجمہاوپر بیان کی گئی تاویل کے مطابق ہے)

(262) منہ کا ایک خاص استعمال

درج ذیل آیت میں مِنہ کا کیا مفہوم ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

وَسَخَّرَ لَکُم مَّا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الاَرضِ جَمِیعاً مِّنہُ۔ (سورة الجاثیۃ:13)

عام طور سے لوگوں نے مِنہُ کو سخّر سے متعلق مانا ہے۔ یعنی اپنے پاس سے، اپنی طرف سے، اپنے حکم سے یا اپنے فضل سے مسخر کیا ہے۔ چنانچہ حسب ذیل ترجمے کیے گئے ہیں:

”اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے اِس میں بڑی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور تمہارے لیے کام میں لگائے جو کچھ آسمان میں ہیں اور جو کچھ زمین میں اپنے حکم سے“۔ (احمد رضا خان)

”اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور آسمان وزمین کی ہر ہر چیز کو بھی اس نے اپنی طرف سے تمہارے لیے تابع کر دیا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اسی نے تمہاری خدمت میں لگارکھا ہے ان چیزوں کو جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سب کو اپنی طرف سے“۔ (امین احسن اصلاحی)

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جب اللہ نے بتایا کہ اس نے مسخّر کیا ہے تو پھر مزید ”اپنی طرف سے یا اپنے پاس سے یا اپنے حکم سے“ کہنے کی خاص معنویت کیا رہ جاتی ہے۔ قرآن مجید میں متعدد جگہ تسخیر کا ذکر آیا ہے لیکن یہ اضافہ اور کہیں نہیں آیا ہے۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے ہے کہ مِنہُ میں ضمیر کا مرجع مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الاَرضِ میں موجود ما موصولہ ہے۔ اور یہ جمیعا کی تاکید کے لیے آیا ہے۔ یعنی آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لیے مسخّر کیا ہے۔ اس تاویل کے بعد مِنہُ کا الگ سے ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے۔ درج ذیل ترجمہ اس رائے کے مطابق ہے:

”اور اس نے آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے“۔ (محمد حسین نجفی)

مطالعہ جامع ترمذی (۳)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

مطیع سید: باپ سے بیٹے کا قصاص نہیں لیا جائے گا۔ (کتاب الدیات، باب ما جاء فی الرجل یقتل ابنہ یقاد منہ ام لا؟، حدیث نمبر ۱۴٠٠) کیا یہ مساوات کے اصول کے خلاف نہیں؟

عمار ناصر: شریعت رشتوں میں تفاوت کی قائل ہے اور اس کی بنیاد پر بہت سے حقوق میں بھی فر ق قائم رکھتی ہے۔ یہ ہم غلط کہہ دیتے ہیں کہ شریعت مطلق  مساوات پر  مبنی ہے ۔ البتہ مالکیہ اس میں  قیاسی طور پر ایک قید شامل کرتے ہیں جو میرے خیال میں قابل غور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ  اصولا تو یہ ٹھیک ہے کہ باپ کے ہاتھ  سے بیٹا مارا گیا  تو اس پر وہ حکم  نہیں جاری کریں گے جو ایک دوسرے آدمی پر کر سکتے ہیں۔لیکن یہ اس وجہ سے ہوگا کہ باپ نے غصے میں، اشتعال کی کیفیت میں اپنا حق  تادیب استعمال کر تے ہوئے ایسی ضرب لگا دی کہ موت واقع ہو گئی۔اس پر یہ کیفیت طاری نہ ہوتی تووہ شاید یہ نہ کرتا ،اس لیے اس میں آپ اس کو رعایت دیں گے ۔لیکن اگر اس نے سوچ سمجھ کر اور منصوبہ بندی  کرکے بیٹے کو قتل کیا ہو تو پھر صورتحال بدل جاتی ہے، پھر اس سے قصاص لیا جائے گا۔

مطیع سید: مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے۔(کتاب الدیات،  باب ما جاء لا یقتل مسلم بکافر، حدیث نمبر ۱۴۱۲) اس کے کیا معنی ہیں؟

عمار ناصر: اس کی کافی وضاحت میں نے اپنی کتاب " حدودو تعزیرات " میں کی ہے ۔ یہ بات دراصل آپ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر اس تناظر میں فرمائی تھی کہ اسلام سے پہلے کے جو قصاص کے معاملات چل رہے تھے ،اب میں ان کو ختم کر رہا ہوں ۔اس تناظر میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے ۔ گویا جن کے پاس  قصاص لینے کا حق ہے  ، ان کے دل میں آپ آمادگی پیدا کر رہے ہیں کہ وہ زمانہ کفر میں تمہارے آپس کے معاملات تھے ۔ جس کو قتل کیا گیا،  وہ کافر تھا ، اور آج یہ قاتل مسلمان ہو گیا ہے اور اسلام لانے سے ویسے ہی پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو اب اس مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا ئے گا ۔یہ مطلب نہیں کہ ایک بندہ اسلام لانے کے بعد کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مفہوم میں  یہ نہیں  کہا،  بلکہ آپ ﷺ نے خود ایسے کئی مقدمات میں قصاص لیا ہے۔ مرفوع روایات بھی مل جاتی ہیں اور خلفائے راشدین  کا عمل  بھی مل جاتا ہے ۔

مطیع سید: احناف بھی  مسلمان سے کافر کا قصاص لینے کے قائل ہیں، لیکن غالبا وہ اس روایت کی اس طرح تشریح نہیں کرتے  جس طرح آپ کر رہے ہیں ۔

عمار ناصر: عام طور پر احناف یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کافر سے مرا د وہ کافر ہے جس کا مسلمانوں کے ساتھ کوئی معاہد ہ نہیں ہے، یعنی حربی کافر ۔ تو وہ حربی کافر میں  اور ذمی اور معاہد کافر میں فرق کرتے ہیں۔  البتہ میں نے روایت  کی جو تشریح کی ہے، وہ جصاص نے بھی ذکر کی ہے ۔

مطیع سید: حضرت ماعز اسلمی پر حد زنا جاری ہوئی، ان کو سنگسار کیا گیا، لیکن صحابہ نے جب نبی ﷺ کو بتایا کہ وہ سزا سے بھاگنا چاہ  رہے تھے تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا؟  (کتاب الحدود،  باب ما جاء فی درء  الحد عن المعترف اذا رجع، حدیث نمبر ۱۴۲۸) جب حد جاری کرنے کا فیصلہ ہو گیا تھا تو  پھر تو ان کو نبی ﷺ  بھی کوئی رعایت نہیں دے سکتے تھے۔ تو یہ کس مفہوم میں  فرمایا؟

عمار ناصر: نہیں، یہ بات کہ  حاکم کے پاس مقدمہ آجانے کے بعد  حد کی معافی نہیں ہو سکتی، یہ بات اپنے اطلاق پر نہیں ہے ۔اصلا آپ نے یہ بات چوری کے ایک مقدمے میں فرمائی تھی جب مال مسروقہ کا مالک سزا کا فیصلہ سننے کے بعد چورکو معاف کرنا چاہ رہا تھا۔  زنا کے متعلق  تو اللہ تعالیٰ  ویسے ہی چاہتے ہیں کہ اس کی پردہ پوشی کی جائے۔  آپ ﷺ بھی چاہ رہے تھے کہ ماعز خود کو سزا کے لیے پیش نہ کرے۔  پھر جب آدمی خود سزا پانے کے لیے آگیا ہو تو اس کا معاملہ بھی کچھ مختلف ہو جاتاہے ۔ اسی لیے احناف کا کہنا ہے کہ اگر زنا خود مجرم کے اقرار سے ثابت ہوا ہو  اور وہ بعد میں اپنے اقرار سے  منکر ہو جائے تو اس سے حد ساقط کر دی جائے گی اور امام ترمذی نے بھی اس روایت پر  اسی مضمون کا عنوان قائم کیا ہے۔

مطیع سید: ایک صحابی کو رجم کیا گیا اور آپﷺ نے اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی، لیکن ایک عورت کو رجم کیا گیا تو آپ نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی ۔ (کتاب الحدود،  باب تربص الرجم بالحبلی حتی تضع، حدیث نمبر ۱۴۳۵) اس فرق کی کیا وجہ ہے؟

عمار ناصر: یہ جس کی نہیں پڑھی گئی ،وہ غالبا ماعز کے متعلق ہے ۔ماعز کے متعلق روایتیں بڑی مختلف طرح کی ہیں ۔ ان سے بڑی متضاد شکل سامنے آتی ہے ۔بعض میں آتا ہے، جیسے ابھی اوپر روایت گزری ہے کہ  آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ کیوں نہ دیا اور بعض میں ہے کہ آپ نے اس کے رجم کر دیے جانے کے بعد اس پر بڑے سخت تبصرے کیے اور کہا کہ  ایسا کوئی  شخص میرے پاس لایا گیا تو میں اسے عبرت کا نشان بنا دوں گا۔  اگر ماعز کے جرم کی نوعیت ایسی تھی تو پھر  یہ سمجھ میں آتا ہے کہ آپ نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی ہو، جبکہ  جس خاتون کی نماز جنازہ آپ نے پڑھی، اس کے متعلق فرمایا کہ  اس کی توبہ مدینہ کے ستر افرا د کی مغفرت کے لیے کافی ہے۔

 مطیع سید: ماعز کب کے صحابی ہیں؟ کیایہ شروع کے مہاجرین میں سے ہیں ؟

عمار ناصر: نہیں ، یہ کوئی حضور ﷺ کے حاضر باش صحابہ میں سے نہیں ہیں ۔روایات سے معلوم ہوتا ہے  کہ آپ ﷺ اس واقعے سے پہلے انھیں نہیں جانتے تھے ۔اس موقع پر ہی انھیں آپ کے پاس لایا گیا یا وہ خود آئے اور پھر ان کے ساتھ یہ سارا معاملہ ہوا ۔

مطیع سید: آپﷺ کی ایک لونڈی نے زناکیا  اور اسے کوڑے لگانے کے لیے آپ نے حضرت علی کو مامور کیا۔(کتاب الحدود،  باب ما جاء فی اقامۃ الحد علی الاماء، حدیث نمبر ۱۴۴٠)  یہ کون سی باندی تھی؟ ایک اور واقعہ یہ آتا ہے کہ آپ نے  اپنی باندی ماریہ قبطیہ   کے پاس آنے جانے والے ایک غلام کو قتل کرنے کا حکم حضرت علی کو دیا، لیکن ان کو تحقیق سے پتہ چلا کہ اس آدمی کا تو عضو تناسل ہی کٹا ہوا ہے۔ کیا  یہ وہی واقعہ ہے؟

عمار ناصر: نہیں ،بظاہر تو دو الگ الگ واقعے ہیں اور دونوں کی تفصیلات بھی مختلف ہیں۔ ایک واقعے میں  آپﷺنے حضرت علی کو بھیجا تھا  کہ ایک آدمی کو  جس کے متعلق لوگ باتیں کرتے تھے کہ اس کے آپ کی ام ولد، ماریہ قبطیہ کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں ، قتل کر دیں۔غالبا صحیح مسلم میں روایت ہے۔یہ واقعہ جو امام ترمذی نے نقل کیا ہے، اس سے الگ ہے ۔ اس میں  ایک باندی  پر حد جاری کرنے کی بات ہو رہی ہے جس کا جرم ثابت تھا، کیونکہ وہ حاملہ تھی۔

مطیع سید: حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورخلافت میں کچھ لوگ مرتد ہو گئے  جن کو آپ نے زندہ جلا دیا۔ (کتاب الحدود،  باب ما جاء فی المرتد، حدیث نمبر  ۱۴۵۸) یہ کون لوگ تھے اور کیوں مرتد ہوئےتھے؟

عمار ناصر: مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ کی کچھ روایات ذہن میں آ رہی ہیں۔ ان کے مطابق، یہ باقاعدہ مرتد ہونے کا واقعہ نہیں تھا، یعنی ایسا نہیں کہ وہ اعلان  کر کے مرتد ہوئے  تھے۔ہوا یوں تھا کہ کچھ لوگ ایسے ملے  جو بظاہر مسلمان تھے،لیکن خفیہ طور پر انھوں نے اپنے گھروں میں بت رکھے ہوئے ہیں  جن کی پوجا کرتے تھے۔ شاید بعض روایات میں ہے کہ وہ سورج کی پوجا کرتے تھے۔ تو حضرت علی نے انہیں مرتد شمار کرکے کہ یہ بظاہر اسلام کا اعلان کرتے ہیں اور اندرون خانہ  انہوں نے پرانے کام جاری رکھے ہوئے ہیں، انھیں زندہ جلا دیا جس پر عبد اللہ بن عباس نے انھیں  بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ میں جلا  کر کسی کو سزا دینے سے منع فرمایا ہے۔

مطیع سید: مجوسی کے کتے کا شکار منع ہے  ۔(کتاب الصید،  باب ما جاء فی صید کلب المجوس، حدیث نمبر ۱۴۶۶)  کتا تو بس شکار کا ایک آلہ ہے، جیسے بندوق ہوتی ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ کسی مجوسی کا ہے یا مسلمان کا؟

عمار ناصر: نہیں، مجوسی کے کتے کی مدد سے کیا گیا شکار منع نہیں ہے، اگر  شکار کسی مسلمان نے یا کسی یہودی یا مسیحی نے کیا ہو۔  مجوسی نے اپنے کتے کی مدد سے خود جو شکار کیا ہو، وہ منع ہے ، کیونکہ اس کا حکم اس کے ذبیحے کا ہے اور مجوسی کا ذبیحہ کھانا ہمارے لیے ممنوع ہے۔ اسی لیے  اس کا اپنے کتے سے کیا ہوا شکار کھانا بھی ہمارے لیے منع ہے ۔

مطیع سید: عقیقہ میں جو لڑکے لڑکی میں فرق رکھا گیا ہے  کہ لڑکے کی طرف سے دو بکرے اور لڑکی کی طرف سے ایک  ذبح کیا جائے، (کتاب الاضاحی، باب ما جاء فی العقیقۃ، حدیث نمبر ۱۵۱۳) یہ کیوں ہے؟ عقیقہ تو بچے پر آنے والی بلاؤں  سے بچا ؤ کے لیے   ایک صدقہ ہے۔اس لحاظ سے لڑکے لڑکی میں فر ق نہیں ہو نا چاہیے۔

عمار ناصر: قیاس کے لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ فرق نہیں ہونا چاہیے، لیکن حدیثوں میں ایسے ہی آیا ہے۔اگر اس کو ایک شرعی یعنی تعبدی حکم  مانا جائے جیسا کہ فقہاء عموما مانتے ہیں تو  شریعت میں جن مسائل میں  مرد اور عورت میں اس نوعیت کا فرق کیا گیا ہے، وہ اس کی نظیر بن سکتے ہیں، جیسے وراثت  کے حصوں میں فرق ہے۔   اور اگر اس زاویے سے دیکھا جائے کہ عقیقہ  اہل عرب کی مخصوص  معاشرتی رسم تھی  جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی برقرار رکھا تو پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کا فرق بھی  اسی رواج کا حصہ تھا۔  اس پہلو سے اس کی نظیر عورت کی دیت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔ اہل عرب عورت کی دیت مرد سے آدھی  دلواتے تھے اور صحابہ کے آثار  میں  اسی کے مطابق فیصلے ملتے ہیں۔

مطیع سید: فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اب قیامت تک اس پر چڑھائی نہیں کی جائے گی۔ (کتاب السیر، باب ما جاء ما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم یوم فتح مکۃ، حدیث نمبر ۱۶۱۱) لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت عبد اللہ بن زبیر نے مکہ میں اپنی حکومت کا اعلان کیا تو اس  دور میں ان کےخلاف بیت اللہ پر چڑھائی بھی  کی گئی ۔

عمار ناصر: اس پیشین گوئی کا تناظر اور ہے ۔وہ اصل میں مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کے بار ے میں نہیں ہے۔ مراد یہ ہے کہ  ہم نے آج جس طرح  مکہ پر حملہ کر کے بیت اللہ  کو اپنے تصرف میں لے لیا ہے ،اب اس پر اہل کفر آکر اس طرح  چڑھائی نہیں کریں گے ۔ ایسا اب اسی وقت ہوگا جب قیامت کا وقت بالکل قریب آ جائے  گا ۔

مطیع سید: آپ ﷺنے ایک موقع پر فرمایا کہ میں ایک حبشی کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ کعبے پر چڑھا ہو اہے ۔

عمار ناصر: وہ بھی اصل میں آخری دور میں  ہو گا۔ گویا جو چیزیں قیامت کے آنے کو طے کر دیں گی،ان میں اس طرح کے واقعات ہوں گے کہ کعبہ بھی گر گیا اور لاالہ کہنے والے بھی ختم ہوجائیں گے، یعنی اس حد تک دنیا میں فسا د عام ہو چکا ہو گا ۔

مطیع سید:  جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ چلے آئے  تو کیا ضرورت تھی جا کر کفار کو  چھیڑنے کی  جس کے نتیجے میں جنگ بدر ہو گئی؟ کافر تو اب مسلمانوں کو تنگ نہیں کر رہے تھے۔  

عمار ناصر: رسول  اللہ ﷺ کو بیت اللہ  کا ایک ہدف دے دیا گیا تھا کہ یہ حاصل کرنا ہے۔ ظاہر ہے اس کی ابتدا دفاع سے ہی ہونی تھی ، بلکہ ابتدا تو لڑنے کی ممانعت سے ہوئی تھی  کہ ابھی نہیں لڑنا۔پھر جہاد کا مرحلہ آیا۔ مدینہ تو  آپ اسی لیے گئے تھے  کہ اب جہاد کرنا ہے۔مدینہ  کوئی پناہ لینے تھوڑی گئے تھے۔یہاں آ کر آپ ﷺ نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ  پہلے اہل مکہ  کو اپنی قوت آزمانے کا موقع دیا جائے، اس لیے کہ آپ حرم میں جا کر لڑنے سے گریز کرنا چاہتے  تھے ۔آپ نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ پہلے ان کو میدان میں نکالو تاکہ ایک دو معرکوں میں ان کا  جو دم خم ہے، وہ نکال دیا جائے۔آخرِکار کرنا تو یہی تھا کہ مکہ فتح کرنا ہے۔چنانچہ  خندق کے بعد آپ ﷺ نے کہہ دیا کہ ان کی طاقت ختم ہوگئی ہے، اب ہماری باری ہے  کہ ہم ان کی طرف بڑھیں گے۔

مطیع سید: تو آج اقدامی جہاد یا دفاعی جہاد کی بحث پھر کس حوالے سے چھڑی ہوئی ہے ؟

عمار ناصر:  یہ اقدامی اور دفاعی کی بحث آج کے دور میں ہی اٹھائی گئی ہے ۔ انیسویں صدی سے پہلے یہ بحث نہیں تھی۔  مستشرقین نے یہ بات الزام کے انداز میں کہی کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے  تو سر سید وغیرہ نے جواب دینا شروع کر دیا کہ نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  تو صرف دفاع کے لیے لڑتے تھے ۔ پھر ایک بحث چل نکلی جو بالکل بے معنی ہے ۔

مطیع سید: آج کی دنیا میں تو ہر ملک کی باؤنڈریز طے ہوگئی ہیں۔ اب تو کوئی ملک نہیں کہہ سکتا کہ  ہم نے ایک ٹارگٹ حاصل کرنا ہے اور ہم پوری دنیا پر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔

عمار ناصر: بہت سے لوگ  موجود ہیں  جو ایسا سمجھتے ہیں ۔

مطیع سید: کیا یہ سوچ درست ہے ؟

عمار ناصر: دیکھیں جو میں نے کتاب "جہاد:ایک مطالعہ " لکھی ہے، اس میں یہی نکتہ واضح کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں اور صحابہ کے ہاں جہاد کی کیا نوعیت تھی ۔پھر اس کے بعدحالات میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں ۔میرے خیال میں کچھ چیزیں ہیں جن پر  ہم اصرار نہیں کر سکتے ۔دیکھیں ، کچھ چیزیں فقہا نے مان لیں  کہ مشرکین کے لیے جو احکام تھے کہ ایمان لاؤ ورنہ  گردن مار دی جائے گی، یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا ۔ جزیہ لینا اور ان کو محکوم بنا کر رکھنا ،اس کو  بھی ہماری فقہی روایت میں ایک تدریج سے سیاسہ کی نوعیت کا اقدام مان لیا گیا ہے۔  فقہی کتابوں میں احکام تو بیان کیے جاتے ہیں، لیکن یہ احساس بھی رہا ہے جسے اب علی العموم  قبول کرلیا گیا ہے کہ ان سے جزیہ لے کر اور تحقیر کے ساتھ مسلمانوں کا محکوم بنا کر رکھنا ، یہ لازمی طور پر مطلوب نہیں ہے۔

اس کے بعد یہ سوال کہ کیا آ پ مسلمانوں کی سیاسی حاکمیت باقی قوموں پر  قائم کرنے کے لیے جہاد کر سکتے ہیں یا  نہیں تو میرے خیال میں اصل مطلوب اسلام کو   قوت کے ساتھ دنیا میں سربلند رکھنا اور مسلمانوں کو  کفار کی چیرہ دستی سے محفوظ رکھنا ہے۔  اس کی عملی شکل  کیا ہوگی،  اس کا بڑا گہرا تعلق  تاریخی حالات سے ہے ۔اس وقت جس صورتحال میں ہم کھڑے ہیں، اس میں دنیا میں بین الاقوامی معاہدات ہو چکے ہیں  اور قومی سرحدوں  کے تحفظ پر انسانیت کا ایک عمومی اتفاق ہو چکا ہے۔ اس میں آپ ایسا نہیں کر سکتے کہ  سلطنت  اور بادشاہت  کے دور جیسی سیاسی حاکمیت  دوسری قوموں پر قائم کر دیں۔ اس وقت اگر امن قائم رکھنا مقصودہے تو اسی میں بہتری  ہے۔مسلمانوں کا اپنا تحفظ بھی اسی میں ہے کہ یہ اصول مانا جاتا ہے ۔ اگر آپ یہ کہیں کہ یہ کوئی اصول نہیں ہے ،ہم دوبارہ ڈیڑھ دو سو سال پیچھے چلے جاتے ہیں  جب  Might is right(جس کی لاٹھی اس کی بھینس)کااصول  مانا جاتا تھا تو نتیجے میں  مسلمانوں کا ہی  نقصان ہوگا۔البتہ  اگر حالات جوہری طور پر بدل جائیں  توپھر دیکھا جا سکتا ہے  کہ ان بدلے ہوئے حالات میں اسلام اور   مسلمانوں کی سربلندی کی عملی صورت کیا بنتی ہے۔

مطیع سید: حضرت ابن عبا س سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے خاص طور پر اہل بیت کو تین باتوں کی تاکید فرمائی۔ ان میں سے ایک یہ تھی کہ گھوڑی کے ساتھ گدھے کی جفتی  نہ  کروائیں۔(کتاب الجہاد، باب ما جاء فی کراہیۃ ان تنزی الحمر علی الخیل، حدیث نمبر ۱۷٠۱) یہ ایسی کیا چیز ہے جو اہلِ بیت کے ساتھ خاص ہے ؟

عمار ناصر: ایک خاص پہلو ہے۔ دیکھیں، رسول اللہ ﷺ اپنے لیے اور اپنے خاص قریبی لوگوں کے لیے کچھ چیزوں کو  جو مروء ۃ یا  اعلی اخلاقی طرزِعمل  کے خلاف ہوں، پسندنہیں فرماتے تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ علی العموم اس سے لوگوں کو منع بھی نہیں کرنا چاہتے  تھے۔ یہ اسی نوعیت کی ایک بات ہے۔

مطیع سید: اپنے ساتھی کی اجازت کے بغیر  آدمی دو کھجوروں کو ملاکر نہ کھائے۔ (کتاب الاطعمۃ،  باب ما جاء فی کراہیۃ القران  بین التمرتین، حدیث نمبر  ۱۸۱۴) اس سے کیا مراد ہے؟ کیا دو مختلف قسم کی کھجوریں پڑی ہیں یا ایک آدمی زیادہ کھا رہا ہے ؟

عمار ناصر:ایک آدمی مشترک کھانے میں سے زیادہ کھا رہا ہے ۔ لوگ جب اکٹھے بیٹھے ہوئے ہیں اور کھانا بھی نپا تلا ہے  تو ایک آدمی ایک کھجور کھا رہا ہے اور آپ دو دو اٹھا کر  کھارہے ہیں تو دوسرا محسوس کرے گا کہ یہ آپ اس کی حق تلفی کر رہے ہیں۔

مطیع سید: یہ جلالہ کون سا جانورہے  جس کا گوشت  کھانے اور دودھ پینے سے منع کیا گیا ہے؟ (کتاب الاطعمۃ،  باب ما جاء فی اکل لحوم الجلالۃ  والبانہا،  حدیث نمبر ۱۸۲۴)

عمار ناصر: جلّالہ کا مطلب ہے گندگی کھانے والا ۔ایسا جانور جس کے چارےوغیرہ کا آپ بندوبست  نہیں کرتے  اور وہ باہر گھوم پھر کر گلیوں میں گندگی کھاتا ہے ۔اس کا گوشت کھانے سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔

مطیع سید: حضرت سفیا ن ثوری کے بارے میں آتاہے کہ وہ کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کو مکروہ جانتے  تھے۔ (کتاب الاطعمۃ،  باب فی ترک الوضوء قبل الطعام، حدیث نمبر ۱۸۴۷)  ہمارے ہاں تو  کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کی بڑی تاکید کی جاتی ہے ۔

عمار ناصر: حدیثوں میں کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے سے متعلق  کوئی بات نہیں آئی ۔مجھے نہیں معلوم کہ ایسی کوئی تاکید آئی ہو۔ البتہ نظافت وغیرہ کے پہلو سے  دھو لینے چاہییں۔

مطیع سید: ہو سکتا ہے کہ حضرت سفیا ن کے سامنے یہ بات آئی ہو کہ لوگ اس کی بڑی تاکید کررہے ہیں اور اہتما م کرتے ہیں ،اس لیے انہوں نے یہ رد عمل دیا ہو۔

عمار ناصر: یہ کامن سینس  کی بات ہے کہ اگر آپ کے ہاتھ صاف ہیں تو کھا لیں، لیکن اگر کوئی مٹی یا گندگی لگی ہوئی ہے تو آپ کو دھو لینے  چاہییں۔

مطیع سید: رات کا کھانا کھاؤ چاہے مٹھی بھر جو  ہو، ورنہ جلدی بوڑھے  ہو  جاو گے۔ (کتاب الاطعمۃ،  باب ما جاء فی فضل العشاء، حدیث نمبر  ۱۸۵۶) امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور  اس کے راوی ضعیف ہیں۔

عمار ناصر: جی، سند کا حال تو امام ترمذی نے بتا دیا۔  البتہ مفہوم کے لحاظ سے  اطباء بھی یہ کہتے ہیں کہ آدمی کو بالکل بھوکا نہیں سونا چاہیے، کچھ نہ کچھ کھا کر سونا چاہیے۔               

(جاری)

اسلام کا فلسفہ حرکت

بیرسٹر ظفر اللہ خان

ساحل افتادہ گفت گرچہ بے زیستم
ہیچ نہ معلوم شدہ آہ کہ من چیستم
موج ز خود رفتہ، ئی تیز خرامید و گفت
ہستم اگر میروم، گر نروم نیستم

1972ء میں جب میں چھٹی جماعت میں تھا۔ میر ے ایک محترم استاد کلاس میں باآواز بلند حضرت اقبالؒ کی یہ نظم پڑھ کر ہمیں سنایا کرتے تھے:

چاند اور تارے

ڈرتے ڈرتے دم سحر سے
تارے کہنے لگے قمر سے
نظارے رہے وہی فلک پر
ہم تھک بھی گئے چمک چمک کر
کام اپنا ہے صبح و شام چلنا
چلنا، چلنا، مدام چلنا
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں، نہیں ہے
رہتے ہیں ستم کشِ سفر سب
تارے، انساں، شجر، حجر سب
ہو گا کبھی ختم یہ سفر کیا
منزل کبھی آئے گی نظر کیا
کہنے لگا چاند، ہم نشینو
اے مزرعِ شب کے خوشہ چینو!
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہبِ زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
انجام ہے اس خرام کا حسن
آغاز ہے عشق، انتہا حسن

(بانگ درا از محمد اقبالؒ)       

میرا نا پختہ ذہن اس خوبصورت نظم کے پُر شکوہ معنوں کو نہ سمجھ سکا۔ پھر بھی میں نے اس کے غنائی ابیات اور ہم وزن مصرعوں کو زبانی یاد کر لیا۔ جوں جوں میرا شعور ترقی کرتا رہا۔ ان کے معنی اور اہمیت میری روح کو سیراب کرتی رہی۔ میرے استاد کی رعب دار تحریک انگیز آواز میرے ذہن میں گونجتی رہی۔

جب میں نے ایک مدرسے میں فلسفہ اور منطق کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی تو پہلی کتاب جو ہم نے پڑھی ایسا غوجی فی منطق تھی۔ اس کتاب کے فلسفیانہ مفروضوں میں سے ایک یہ ہے کہ کائنات ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ایسا غوجی فی منطق، ہرقلیطس کے نقش قدم پر چل رہا تھا۔ جس نے بجا طور پر کہا تھا کہ ہرچیز متغیر ہوتی ہے، کوئی چیز ساکن نہیں رہتی۔ کوئی شخص ایک ہی دریا میں دو مرتبہ قدم نہیں رکھ سکتا۔ میرے نو خیز اور اثر پذیر ذہن نے کتاب کے نام کوکسی حد تک مزاحیہ پایا تاہم اس نے مجھے کائنات پر سنجیدگی سے غور کرنے پر آمادہ کر دیا جو ہمیشہ متغیر ہوتی اور وسیع سے وسیع ہوتی چلی جا رہی ہے۔ میں زندگی بھر حرکت اور تبدیلی (تغیر) کے ہمہ گیر تصورات کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرتا آ رہا ہوں۔ تاہم جب میں ان تصورات کو سمجھنا شروع کرتا ہوں تو وہ پہلے ہی تبدیل ہو چکے ہوتے ہیں۔ صاحبِ شعور انسان بننے کے چالیس سال بعد اور زندگی کے عملی تجربات حاصل ہونے پر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ تبدیلی کائنات کا جوہرِ حقیقی ہے اور ہم سب کو اس سے ہم قدم ہو کر چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیرّ کو ہے زمانے میں

(ستارہ: بانگ درا از محمد اقبالؒ)

قرآن تغیر پیہم کے اس اصول کی توثیق کرتا ہے۔

كُلَّ يَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَاْنٍ. (سورۃ الرحمٰن، آیت: ۲۹)

(ہر آن وہ نئی شان میں ہے)

اس کارگاہ عالم میں اللہ تعالیٰ کی کارفرمائی کا ایک لا متناہی سلسلہ جاری ہے۔ وہ بے حد و حساب نئی سے نئی وضع اور شکل اوصاف پیدا کر رہا ہے۔ اس کی دنیا کبھی ایک حال پر نہیں رہتی۔ ہر لمحہ اس کے حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اوراس کا خالق ہر بار اُسے ایک نئی صورت سے ترتیب دیتا ہے جو پچھلی تمام صورتوں سے مختلف ہوتی ہے۔

يُقَلِّبُ اللّٰہُ الَّيْلَ وَالنَّھَارَ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَۃً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ. (سورۃ النور، آیت: ۴۴)

(رات اور دن کا الٹ پھیر وہی کر رہا ہے۔ اس میں ایک سبق ہے آنکھوں والوں کے لیے)

یہ آیات اس بدیہی (manifest) صداقت کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ کائنات میں بنیادی اصول حرکت ہے، جمود (innertia) نہیں۔ یہاں مسلسل آگے کی طرف بڑھتی ہوئی ایک حرکت اور ایک مستقل تخلیقی بہاؤ ہے، نہ کوئی ٹھہراؤ ہے اور نہ رکاوٹ ہمیشہ ایک پیش قدمی ہے، ہر لمحہ نیا ہے اور ہر لمحہ ایک نئی دنیا سامنے لاتا ہے۔ کائنات متحرک ہے اور مستقلاً حرکت میں رہتی ہے۔ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور ماضی، حال اور مستقبل کی کوئی واضح و صحیح تقسیم نہیں۔ جدید سائنس اس حقیقت کی دریافتوں کے ساتھ شہادت دیتی ہے کہ مادہ (matter) مستقل وجود نہیں رکھتا بلکہ ہمیشہ سیال حالت میں رہتا ہے۔

لیکن کائنات کی تبدیل ہوتی ہوئی حالت کے بارے میں ہمارے علم کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی طرف سے فراہم کی گئی ہے جس میں ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ صرف تغیر مستقل ہے۔ خالق حقیقی ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ صرف اہل بصیرت حالتِ تغیر کو سمجھ سکیں گے بہ الفاظ دیگر نادان مستقل رہتے ہیں اور حالتِ موجود میں خوش و خرم رہتے ہیں اور وہ مستقلاً تبدیل ہوتے ہوئے زمانے اور ہمیشہ برپا رہتی ہوئی تبدیلیوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ وہ یقینا فہم و بصیرت سے محروم ہیں۔

اس فہم کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں حالتِ تغیر کو قبول کرنا ہوگا۔ ہر تغیر ایک لمحہ پہلے مستقل (constant) تھا۔ تسلسل، تغیر کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ حال (present) کے لیے ماضی (past) ضروری ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فطرت میں تغیر اور تسلسل / استقلال (استحکام) پہلو بہ پہلو موجود ہوتے ہیں۔ یہ ایک دائمی قانون ہے جو بتاتا ہے کہ پائیداری اور تغیر کو لازماً ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ صرف حالتِ استحکام (stability) میں موجود رہنے کا مطلب جامد (static) رہنے اور ملیامیٹ ہو جانے کی طرف میلان کا مظہر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ناعاقبت اندیشی سے تبدیلی کر دینا دروازے کے قبضے اکھاڑ دینے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی آدمی استحکام کے ساتھ زنجیر سے بندھا رہے اور مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کا ساتھ نہ دے تو وہ ماضی کی یاد گار بن جائے گا، یا زیادہ بہتر الفاظ استعمال کئے جائیں تو وہ ایک پتھرایا ہوا ڈھانچہ (fossil) کہلا سکے گا۔ اگر وہ صرف تبدیلی کے ہی ساتھ رہے تو وہ ماضی کے استحکام کے ساتھ اپنے نفع بخش روابط منقطع کر بیٹھے گا۔ شواہد کے اس مجموعے سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ تسلسل اورتغیر کائنات کے دو مطلق حقائق ہیں اور ان کامسلسل باہمی انحصار انسانی زندگی کے توازن کی ضمانت ہے۔

اس تغیر کا انسانی اور اخلاقی، سیاق و سباق میں ایک خاص مقصد اور خصوصی مطلب ہے: وہ ہے انسانی تجربات کی تقطیر کرنا۔ فطرت، اس طریق عمل کے ذریعے بنی نوع انسان کو آزمائش میں ڈالتی ہے اور مفید کو غیر مفید سے چھانٹ کر الگ کر دیتی ہے۔ قرآن مجید اس نقطے کو یوں واضح کرتا ہے:

وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللّٰہ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُھَدَاءَ  ۭ(سورۃ آل عمران، آیت: ۱۴۰ )

(ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں تاکہ ہم چھانٹ سکیں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و نظام کو کون سمجھتا ہے اور کون اس کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے)

یہ آیت اس بات کو کافی حد تک واضح کر دیتی ہے کہ جو لوگ تبدیلی کا ساتھ دیتے ہیں وہ بقا پائیں گے۔ حضرت اقبالؒ نے حرکت کے اس تصور کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ شخصیت کا ایک تسلسل ہے جس کے لیے خودی کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔

شخصیت ایک کیفیت اضطراب ہے اور یہ صرف اسی صورت میں جاری رہ سکتی ہے کہ یہ حالت قائم رہے۔ اگر کیفیت اضطراب برقرارنہ رہے تو سکون آنا شروع ہو جائے گا۔ حالت اضطراب انسان کی انتہائی بیش قیمت کامیابی ہے اس لیے اسے اس امر کا اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ حالت سکون کی طرف واپس نہ لوٹ جائے۔ وہ چیز جو کیفیت اضطراب کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں رہتی ہے وہ ہمیں لافانی بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اس طرح اگر ہمارے مشاغل کا رخ اضطراب برقرار رکھنے کی طرف ہے تو موت کا صدمہ اس کو متاثر نہیں کرے گا۔ (تعارفی نوٹ، اسرار خودی از محمد اقبالؒ)

ساحلِ افتادہ گفت گرچہ بے زیستم
ہیچ نہ معلوم شدہ آہ کہ من چیستم
موج ز خود رفتہ، ئی تیز خرامید و گفت
ہستم اگر میروم، گر نروم نیستم

(شکستہ ساحل نے کہا اگرچہ میری زندگی کے دن بیت چکے)

(آہ میں سمجھ نہیں سکا کہ میں کون ہوں)

(آپے سے باہر ہوتی موج نے پاس سے گزرتے ہوئے کہا)

(میں اس وقت تک ہوں جب تک چلتی رہوں، اگر نہ چلی تو مر جاؤں گی)

(زندگی و عمل: پیام مشرق از محمد اقبالؒ)

تسلسل کے ساتھ ہونے والا یہ تغیر ہم سے توجہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ عظیم مسلم فلسفی اور سائنسدان ابن مسکویہ نے کہا ہے کہ کائنات میں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر جہدللبقا (بقا کی کوشش) جاری ہے۔ جس میں صرف اعلیٰ صلاحیتوںوالی انواع بقاپاسکتی ہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جو چارلس ڈارون نے جہد للبقا اور بقائے اصلح کے عنوانات سے لکھے ہیں۔ ہم بطور مسلمان ان حیاتیاتی اصولوں کی تعبیرات سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے۔ بہرحال ہم ان اصولوں کے انسانی اور اخلاقی سطحوں پر عملی اطلاقات کا ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ جو لوگ روحانی اور مادی طور پر ترقی کی منازل طے نہیں کرتے صفحۂ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔

بنی نوع انسان اور انبیاءعلیہم السلام کی تاریخ جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے اس حقیقت کی ایک قابل اعتماد گواہی ہے کہ بنی نوع انسان کا ارتقاء اور اس کی بقا جہدِ مسلسل اور بلند اخلاقی اقدار کا علم بلند رکھنے میں مضمر ہیں۔ قرآن مجید اس کی یوں تاکید کرتا ہے:

كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللّٰہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْھَبُ جُفَاءً وَاَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ. (سورۃ الرعد، آیت: ۱۷ )

(اللہ تعالیٰ حق و باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جاتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نفع دینے والی ہے وہ زمین میں قائم رہتی ہے)

کیا خوبصورت اصول بیان کیا گیا ہے۔ بے کار جھاگ اور غیر مفید چیزیں غائب ہو جاتی ہیں۔ اگر ایک شخص جھاگ جیسا ہے یا اس جیسا ہو جاتا ہے وہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اگر وہ بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہے وہ دوام حاصل کر لیتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی نسل، قوم یا مذہب انسانیت کے لیے بے فائدہ ہو جاتا ہے، اسے صفحاتِ تاریخ سے مٹا دیا جاتا ہے۔ اگر کوئی قوم، نسل یامذہب انسانیت کے لیے نفع بخش ہے، وہ اس وقت تک برقرار رہتا ہے جب تک اپنے اندر افادیت رکھتا ہے۔ حافظ شیرازیؒ بالکل بجا کہتے ہیں:

ہرگز نمیرد آن کہ دلش زندہ باعشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما

(جس کا دل عشق سے زندہ ہو جائے وہ کبھی بھی نہیں مرتا)

(ہم انسانیت کے عشق میں مبتلا ہیں، لہٰذا دنیا کے نقشہ پر ہمیشہ رہیں گے)

(غزلیات از حافظؒ)

انسان کے اندر زندہ رہنے کی صلاحیت، ترقی کرنے اور بقا پانے کی اہلیت اور مقامِ عظمت حاصل کرنے کی استعداد ان اوصاف اور اعمال کے ذریعے نشوونما پاتی ہیں جن کی تفصیل اللہ تعالیٰ نے بتائی ہے۔ مثلاً علم، عبادت، صداقت، دیانت، محبت، انسان کی خدمت، انصاف، گناہ سے نفرت اور دیگر خصوصیات جو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو ودیعت کی ہیں، انہیں فروغ دینے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ ان خصوصیات کے برعکس بھی کچھ خصوصیات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ سخت نا پسند کرتا ہے۔ سچائی ایک قوت ہے اور جھوٹ کمزوری ہے۔ انصاف ایک قوتِ کار ہے اور بے انصافی ایک ضعیفی ہے۔ صرف ایسے لوگ بقا پاتے ہیں جو نیک اعمال کے ذریعے اپنے اندر قوت اور صلاحیتِ زیست پیدا کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید (سورۃ الانبیاء، آیت: ۱۰۵) میں ارشاد فرماتا ہے:

وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُھَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ.

(ہم نے زبور میں (اچھائی اور برائی کے) ذکر کے بعد یہ بات لکھ دی تھی کہ زمین کے وارث وہی لوگ ہوں گے جو اچھے اعمال (قوت والے اعمال) کریں گے)

انیسویں صدی کا جرمن فلسفی نطشے اس تصور کو یوں بیان کرتا ہے: جو چیز بھی زندگی کو بڑھاتی اور اس میں بہتری لاتی ہے، مفید ہے، باقی چیزیں بالکل ردّی ہیں اور انسانی تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دینے کے قابل ہیں۔ بنی نوع انسان کے لیے بیکار چیزوں کو ضائع کر دیئے جانے پر انسانی تاریخ میں کوئی نوحہ نہیں ہے۔

متذکرہ بالا روایات، مذہبی اور دنیاوی، دونوں سے یہ بات کافی حد تک واضح ہو جاتی ہے کہ صرف وہ لوگ اور مذاہب باقی رہ جاتے ہیں جو بنی نوع انسان کے لیے فائدہ مند ہوں، جن میں زندہ رہنے کی صلاحیت ہو۔ علمی معیار رکھتے ہوں۔ سچائی کے حامل ہوں۔ بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں اور عدل گستری کرتے ہوں۔ ظلم، جھوٹ اور انسان سے نفرت پر استوار قوموں اور مذاہب کا تاریخ صفایا کر دیتی ہے۔ لوگوں کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کی اخلاقی اور جسمانی کمزوریاں انہیں نیست و نابود نہیں کریں گی۔ انہیں یقینی طور پر معلو م ہونا چاہیے کہ ان کے لیے موت کا گھنٹہ ضرور بجے گا:

And therefore never send to know for whom the bell tolls;
It tolls for thee. (John Donne, Meditation XVII)

(کسی کو یہ جاننے کے لیے باہر مت بھیجو کہ گھنٹہ کس کے لیے بج رہا ہے)

(یہ تمہارے لیے بج رہا ہے جناب)

تغیر کے ساتھ چلنے والے معاشرے اس گروہ، نسل یا قوم کو لازماً پیچھے چھوڑ دیتے ہیں جس کا قدم آہستہ اٹھتا ہے۔ انگریز رومانوی شاعر کیٹس نے لکھا ہے:

So on our heals a fresh perfection treads,
A power strong in beauty, born of us
And fated to excel us, as we pass
In glory that old darkness. (Hyperion: A fragment book II)

(پس پیچھے پیچھے ہمارے کامل تازہ صاحبان کمال آ رہے ہیں)

(یہ ایک قوت ہیں، حسین بھی ہیں جو ہم سے ہی پیدا ہوئے)

(مقدر ان کا ہے کہ وہ ہم سے آگے نکل جائیں)

(اور ہم دیرینہ تاریکیوں میں شان سے گزرتے ہیں)

اگر کوئی کمزور اور پیچھےمڑمڑ کر دیکھنے والی قوم کسی بحران سے دوچار ہے تو ترقی کی راہ پر گامزن اقوام ایک لمحہ رک کراظہار افسوس کر سکتی ہیں لیکن وہ پھر سے اپنی منزل مقصود کی طرف گامزن ہو جاتی ہیں۔ ہم اس مادی دنیا میں یہی چیز دیکھ رہے ہیں۔ جب کسی گاڑی کو حادثہ پیش آ جاتا ہے تو پیچھے سے آنے والی گاڑیاں لمحہ بھر کے لیے رکتی ہیں اور پھر اپنی منزل کی طرف سفر شروع کر دیتی ہیں۔

(دانش کی دیوی کے) اُلّو کو اپنا سفر ہر حال میں پوہ پھٹنے سے پہلے شروع کر دینا ہوتا ہے۔ حضرت اقبالؒ نے اپنی نظم ٹیپو کی وصیت میں جو الفاظ کہے وہ اس تصور کی بڑی خوبصورتی سے عکاسی کرتے ہیں اور ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ ہم اس تبدیلی کا خوش دلی سے خیر مقدم کریں جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھی ہے۔

تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول
اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

(ضرب کلیم)

حضرت اقبالؒ نے بارہا جدوجہد کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا ہے اس لیے کہ آزادیٔ عمل ایک انعام ہے جسے جیتا جانا چاہیے۔

میارا بزم بر ساحل کہ آنجا
نوای زندگانے نرم خیز است
بہ دریا غلت و باموحبش در آویز
حیاتِ جاودان اندر ستیز است

(ساحل پر بزم آرائی نہ کرو)

(وہاں نغمۂ زندگی بہت دھیما ہے)

(دریا میں غوطہ زن ہو اور موجوں سے زور آزمائی کرو)

(کیونکہ دائمی زندگی جدوجہد میں مضمر ہے)

(لالہ صحرا: پیام مشرق)

چکنم کہ فطرتِ من بہ مقام در نسازد
دل نا صبور دارم چو صبا بہ لالہ زاری

(کیا کروں، میں فطری طور پر زیادہ عرصہ ایک جگہ پر ٹک نہیں سکتا)

(میں دل مضطرب رکھتا ہوں، جوایسے مچلتا ہے جیسے مغرب کی طرف سے آنے والی ہوا سے گلِ لالہ کے کھیتوں میں ہلچل مچتی ہے)

چو نظر قرار گیرد بہ نگارِ خوبروئے
تپد آن زمان دل من پی خوبتر نگاری

(جونہی میری نظریں ایک خوبصورت چہرے سے ٹکراتی ہیں)

(میرا دل اس سے بھی زیادہ خوبصورت چیز کے لیے مچلنے لگتا ہے)

زشرر ستارہ جویم ز ستارہ آفتابی
سرِ منزلی ندارم کہ بمیریم از قراری

(میں چنگاری سے ستارہ تلاش کرتا ہوں اور ستارے سے سورج)

(منزل کا کچھ پتہ ہی نہیں، ٹھہراؤ کی وجہ سے مرا جا رہا ہوں)

چو ز بادہ بہاری قدحی کشیدہ خیزم
غزلی دگر سرایم بہ ہوای نو بہاری

(جب ایک چشمے سے کشید کی ہوئی شراب نوش کرکے اٹھتا ہوں)

(تو دوسرا شعر الاپتے ہوئے ایک اور چشمہ تلاش کرنے لگتا ہوں)

طلبم نہایتِ آن کہ نہایتی ندارد
بہ نگاہِ ناشکیبی بہ دل امیدواری

(میں اس چیز کی انتہا ڈھونڈتا ہوں جس کی کوئی نہایت ہے ہی نہیں)

(بے قرار نظروں اور پر امید دل کے ساتھ جی رہا ہوں)

(حور و شاعر: پیام مشرق)

زندگی کے لیے تغیرو ثبات دونوں ہی نہایت ضروری ہیں۔ تغیر صرف اس صورت میں اچھا ہوتا ہے جب وہ اپنے اندر انسانیت کے لیے کوئی افادیت رکھتا ہو اور بقائے انسانیت کے لیے کوئی کردار صرف وہ قومیں ادا کرسکتی ہیں جو علم کے زیور سے آراستہ ہوں اوربنی نوع انسان کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں۔

ہمیں بحیثیت انسان اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم زمان و مکان میں رونما ہونے والے تغیر و تبدل کا ساتھ دے رہے ہیں؟ کیا ہمارے پاس وہ علم موجود ہے جس کی ہمیں زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ضرورت ہے؟ کیا ہم انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں؟ کیا ہم عہد حاضر کے چیلنجوں کا مناسب جواب دے سکتے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جن کا دورِ جدید کے مؤرخ آرنلڈ ٹائن بی نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب A Study of History (مطالعۂ تاریخ) میں جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب میں وہ پوری تاریخ انسانیت میں قوموں کے عروج و زوال کی وضاحت کرتا ہے۔

ٹائن بی نے تہذیبوں کی فرداً فرداً نشاندہی کرتے ہوئے انہیں اکائیاں (units) قرار دیا ہے اور وہ ہر تہذیب کے لیے ایک للکار (challenge) اور ایک جواب (response) کا تصور پیش کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ تہذیبیں چند شدید مشکلات کے ایک مجموعے اور ان کے جواب کے طو رپر وجود میں آئی ہیں۔ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والی اقلیتوں نے ان کے ایسے حل وضع کئے جنہوں نے ان کے سارے سماج کی از سر نو تشکیل کر دی۔

یہ للکاریں (challenges) اور ان کے جوابات (responses) مادّی و جسمانی تھے جیسا کہ قدیم بابل کے سمیریوں (Sumerians) نے جواب دیا۔ جب انہوں نے جنوبی عراق کے بے قابو دلدلی علاقوں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا اور وہ اس طرح کہ انہوں نے عہد حجری کے آخری دور کے ایسے باشندوں کو اپنے معاشرے میں ضم کر لیا جو بڑے پیمانے کے آبپاشی کے منصوبوں کوعملی جامہ پہنا سکتے تھے۔ (اور ان سے کام لے لیا گیا) جبکہ بعض تہذیبوں نے للکار کا سماجی جواب دیا جیسے کیتھولک چرچ نے بعداز روما کے یورپ میں چھڑنے والی بد نظمی پر اس طرح قابو پایا کہ نئی جرمن خصوصیات رکھنے والی بادشاہتوں کو ایک غیر منقسم مذہبی کمیونٹی کی شکل دے دی۔

جب کسی تہذیب نے پیش آمدہ چیلنج (للکار) کا جواب دیا تو اس نے فروغ پایا۔ تہذیبوں کو اس وقت زوال آیا جب ان کے رہنماؤں نے موجدانہ انداز میں جواب دینا چھوڑا تو وہ قومیت، عسکریت اور مستبدِ اقلیت کے جبر کی وجہ سے ڈوب گئیں۔ ٹائن بی اپنی قوتِ استدلال کی بنا پر دعویٰ کرتا ہے کہ معاشرے قدرتی اسباب کی بہ نسبت خودکشی یا قتل کی وجہ سے زیاد ہ مرتے ہیں۔ خود کشی کے باعث تقریباً ہمیشہ مرتے ہیں۔ وہ تہذیبوں کے عروج و زوال کو ایک روحانی طریق کار کے طور پر دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ انسان جو تہذیب پاتا ہے وہ اعلیٰ درجے کے حیاتیاتی عطیے یا جغرافیائی ماحول کے نتیجے میں وجود میں نہیں آتی بلکہ اس للکار یا چیلنج کا مناسب جواب دینے کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتی ہے جس کا وہ خصوصی نوعیت کی مشکل پیش آنے پر فقید المثال اظہار کرتی ہے۔

(A Study of History by Arnold Toynbee, p.570)

اسلام بطور ایک مذہب فطرت جو فلسفہ پیش کرتا ہے وہ بقول حضرت اقبالؒ یہ ہے:

اسلام ایک ثقافتی تحریک کی حیثیت سے کائنات (universe) کے قدیم جامد نظرئیے کو مسترد کرتے ہوئے ایک متحرک و توانا (dynamic) نظریہ پیش کرتا ہے۔ جملہ زندگی کی حتمی و قطعی روحانی بنیاد جو اسلام کی پیش کردہ ہے دائمی و ابدی ہے اور یہ اپنا اظہار تنوع اور تغیر کی صورت میںکرتی ہے۔ جو معاشرہ حقیقت (reality) کے ایسے تصور پر استوار ہو، اسے اپنی زندگی، دوام اورتغیر کی تمام اقسام کے ساتھ لازماً ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اسے لازماً ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہونا چاہیے تا کہ یہ اپنی اجتماعی زندگی کو منضبط (regulate) کر سکے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جو حی و قیوم ہے ہمیں مستقل تغیرّات کی دنیا میں قدم جمانے کی جگہ عطا کرتا ہے۔ لیکن جب دائمی اصولوں کو یہ سمجھ لیاجائے کہ وہ تغیرّ کے تمام امکانات کو خارج کر دیتے ہیں، جو کہ ازروئے قرآن اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نشانیوںمیں سے ہے۔ یہ ایسے مظہر کو ساکت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش ہے جو اپنی فطرت کے تحت اساسی طور پر متحرک ہے۔ یورپ کی سیاسی اور سماجی علوم میں نا کا می اوّل الذّکر اصول کو روز روشن کی طرح واضح کر دیتی ہے؛ اسلام کی گزشتہ پانچ سو (۵۰۰) سالوں کے دوران حرکت نا پذیری (immobility) مؤخر الذکر اصول کی وضاحت کر دیتی ہے۔ تو پھر اسلام کی تشکیل میں اصولِ تحرک کیا ہے؟ اسے اجتہاد کہا جاتاہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے: ہم کیسے یقین حاصل کریں کہ ہم پہلے ہو چکے ہوئے تغیر سے جا ملیں گے کہ ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ کہ ہم بنی نوع انسان کے لیے نفع بخش ہیں؟ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں اپنے آپ کو جانچنا اور اپنا احتساب کرنا ہوگا۔

اپنا احتساب کرنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں: یہ کام ہم خود کریں یا دوسروں کو اجازت دیں کہ وہ ہمارا احتساب کریں۔ اسلام ہمیں خود احتسابی (self-reckoning) کی تعلیم دیتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے خود احتسابی کے عمل کو پسند فرماتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے:

فَالزّٰجِرٰتِ زَجْرًا. (سورۃ الصافات، آیت:۲)

(پھر قسم ان کی جو جھڑک کر چلاتے ہیں)

یہ تصوّف کی تعلیمات کا ایک لازمی جزو ہے کہ ہر رات سونے سے پہلے ہم اپنے دن بھر کے اعمال پر غور و فکر کریں۔ اپنا محاسبہ کریں اور اپنے آپ کو جانچیں۔ ہر لمحے کے بارے میں سوچیں اور ہر قدم پر غور کریں۔ صوفیاء کرامؒ کے دو اصول ہیں۔ (i) نظر بر قدم (اپنے قدموں کا مشاہدہ کرنا) اور (ii) نگاہ داشت (دھیان رکھنا):

(i)۔     نظر بر قدم (اپنے قدموں کا مشاہدہ کرو): اپنی توجہ کو مسلسل مقصد پر مرکوز رکھو۔ قدموں کا مشاہدہ کرنے کا مقصد اپنے حالات پر نظر رکھنا بھی مراد ہے۔ اس امر کا خیال رکھو کہ اقدام کرنے کے لیے کونسا وقت صحیح ہے؟ کون سا وقت ایسا ہے کہ اقدام نہ کیا جائے اور کون سا وقت توقف کے لیے صحیح ہے؟ بعضوں کا خیال ہے کہ نظر برقدم ایک جملہ ہے جو کسی کے فطری مزاج میں مضمر دانش کا حوالہ دیتا ہے۔

(ii)۔     نگاہ داشت (دھیان رکھنا): تمام اجنبی اور ضعیف خیالات اور اعمال کا مقابلہ کرو۔ ہمیشہ خیال رکھو کہ تم کیا سو چ رہے ہو اور کیا کر رہے ہو؟ تاکہ ہر گزرتے واقعے اور تمہاری روزمرہ کی زندگی کے ہر معاملے پر تمہاری بقائے دائمی کا نقش ثبت ہو سکے۔ خبردار رہو۔ خیال کرو کہ کونسی چیز تمہاری توجہ کو کھینچتی ہے؟ اپنی توجہ کو نا پسندیدہ چیزوں سے واپس موڑنا سیکھو۔ اس امر کا اس طرح بھی اظہار کیا جاتا ہے کہ خیالوں میں چوکنا رہو اور اپنے آپ کو یاد رکھو۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے فکر اور عمل کے ہر پہلو کے بارے میں محتاط اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ یہ مسلسل خود احتسابی بطور فرد اور بطور قوم ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہے۔

صورت شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب

(مسجد قرطبہ: بال جبریل از محمد اقبالؒ)   

اسلام نے تغیر اور ثبات کے دو اساسی اصولوں کو درست قرار دیا ہے۔ اسلام کے اندر بھی چند نظریات ہیں جنہیں محکمات (مستقل) کہا جاتا ہے جو زمان یا مکان کی تبدیلی کے تابع نہیں ہیں۔

ھُوَ الَّذِيْٓ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْہُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ . (سورۃ آل عمران، آیت: ۷)

(وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنی واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور دوسری مشابہ ہیں (جن کے معانی معلوم یا معین نہیں)

مثال کے طو رپر خدا کی وحدانیت پرایمان لانا۔ رسولوں پر ایمان لانا۔ حضور نبی کریمﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایمان۔ قرآن پر ایمان۔ جزا و سزا پر ایمان۔ بنیادی اشیائے ضرورت کے جائز و نا جائز ہونے پر ایمان۔ یہ سب دائمی و مستقل اصول ہیں ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہ بنیادی عقائدِ ایمان ہیں جو اثبات و استحکام کے تقاضے پورے کرتے ہیں اور صحت مند انسانی نفسیات او راجتماعی وجود کے لیے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

اسلام نے تغیر و تبدل کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلنے کے لیے ہمیں اجتہاد کا تصور دیا ہے۔ لفظ اجتہاد عربی کے لفظ جَہَدَسے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں جدوجہد (جہد فی الامر کسی کام کے لیے بہت کوشش کرنا) بالخصوص اجتہاد کے معنی ہیں گہرے غور و فکر کے ذریعے اپنے آپ سے سخت مقابلہ کرنا۔ اسلامی قانون میں اجتہاد کے معنی ہیں ایسے مسائل کی آزادانہ یا فطری و خلقی تعبیر کرنا جن کا قرآن پاک اور سنت (حضور نبی کریمﷺ کی زندگی اور ارشادات) اور اجماع (اہل علم کے اتفاق رائے) میں واضح طور پراور حسب ضرورت ذکر موجود نہیں۔ قرون اولیٰ کی امت مسلمہ میں مناسب استعداد اور اہلیت رکھنے والے ہر قانون دان کو اپنی فکر کو بروئے کار لا کر ان مسائل پر اپنی رائے اور قیاس کے استعمال کا حق ہوتا تھا۔ جن فقہا نے یہ ذہنی کاوشیں کیں انہیں اصطلاحاً مجتہدین کہاجاتا تھا۔ عباسیوں کے دور (750 ء - 1258ء) میں مختلف مذاہب فقہی وجود میں آ گئے تھے۔ بعض سنی علما نے تیسری صدی ہجری کے اواخر میں قرار دیا کہ اجتہاد کے دروازے بند ہوچکے ہیں اور کوئی عالم کبھی بھی مجتہد کی اہلیت حاصل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ طے پایا کہ بعد میں آنے والے فقہا کو صرف تقلید کرنا ہوگی۔ یعنی انہیں اپنے عظیم پیشروؤں کی رائے بلا حیل و حجت مستند سمجھنا ہوگی اور وہ زیادہ سے زیادہ اس امر کے مجاز ہوں گے کہ وہ اپنی قانونی رائے ان مسلمہ نظائر (established precedents) کی روشنی میں قائم کریں۔ اہل تشیع (جو اسلام کے اندر ایک اقلیتی فرقہ ہے) نے اس معاملے میں سنیوں کی کبھی پیرو ی نہیں کی اور وہ اب بھی اپنے سرکردہ فقہا کو مجتہد قرار دیتے ہیں۔ اس کے باوجود متعد د سنّی ممتاز علما مثلاً شیخ ابن تیمیہؒ او رامام جلال الدین سیوّطیؒ نے خود کو مجتہد کے طور پر پیش کرنے کی جرأت کی۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں متعدد اصلاحی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے بڑے زور و شور سے اجتہاد کے احیاء کا مطالبہ کیا اور کہا کہ اسلام کو ان بدعتوں کی ضرر رسانیوں سے نجات دلائی جائے جو صدیوں سے چلی آ رہی ہیں اور ایسی اصلاحات کی جائیں جو اسلام کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے قابل بنا دیں۔

اسلام اپنے بنیادی اصولوں (محکمات) کے تحت ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اجتہاد کے ذریعے ہر نئے چیلنج کا جواب دیں۔ قرآن مجید اور احادیث کی ہر دور کے مطابق تشریح و تعبیر کی ضرورت ہے۔ اگر ہم قرآن پاک یا احادیث میں کسی مسئلے پر اپنی رہنمائی نہیں پاتے تو پھر ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنی ذہانت اور تمثیلی استدلال سے کام لیں۔

حضور نبی کریمﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا قاضی بناکر بھیجا۔ یمن اس وقت ریاست مدینہ کے سیاسی اثر تلے آ گیا تھا۔

آپﷺ نے پوچھا: جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ پیش ہو جائے تو تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے فیصلہ کروں گا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم اللہ تعالیٰ کی کتاب میں وہ مسئلہ نہ پاؤ تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہﷺ کی سنت کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر وہ مسئلہ سنت رسول(ﷺ) میں بھی نہ پاؤ اور کتاب اللہ میں بھی نہ پاؤ تو؟ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کمی کوتاہی نہیں کروں گا۔ حضور نبی کریمﷺ نے ان کے سینہ کو تھپتھپایا اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں۔ جس نے اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ کے قاصد (معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو اس چیز کی توفیق دی، جس سے رسول اللہ (ﷺ) راضی ہیں۔  (سنن ابوداؤد، ج: ۳، رقم الحدیث: ۱۹۹)

اس حدیث شریف سے یہ بالکل واضح ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے چشم تصور سے دیکھ لیا تھا کہ انسانی تہذیب کی مسلسل ترقی کے جاری عمل کی وجہ سے یقیناً ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب مسلمان قرآن و سنت سے براہِ راست رہنمائی حاصل نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے آپﷺ نے معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب کو بے حد پسند فرمایا کہ وہ جن معاملات کے بارے میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل نہیں کر پائیں گے وہ آزادانہ طور پر سوچیں گے اور ایسا کرتے ہوئے قرآن پاک میں مذکور رحم، انصاف، غیر جانبداری اور مساوات کے بنیادی اصولوں کو یقیناً ذہن میں رکھیں گے۔ یہی اجتہاد کے تصور کا ماخذ ہے۔

اس سیاق و سباق میں ایک اور حدیث بھی قابل ذکر ہے۔ جب حضور نبی پاکﷺ مدینہ تشریف لے گئے تو آپﷺ نے کھجور کے درختوں کے عملِ زیرہ پوشی (pollination) کو پسند نہ کیا۔ حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: میں حضور نبی کریمﷺ کے ساتھ تھا۔ ہم چند لوگوں کے پاس سے گزرنے لگے تو وہ اپنی کھجوروں کے بالائی حصے پر کچھ کام کر رہے تھے۔ آپﷺ نے پوچھا یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ (بعض لوگوں نے) جواب دیا: یہ درختوں میں نر حصوں کو مادہ حصوں کے ساتھ ملا کر زیرہ پوشی کرر ہے ہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: میرا نہیں خیال کہ اس سے کوئی فائدہ پہنچے گا۔ انہیں آپﷺ کی بات بتائی گئی اور انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا۔ پھر رسول اللہﷺ کو ان کے یہ کام چھوڑنے سے متعلق مطلع کیا گیا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ ان کو فائدہ پہنچاتا ہے تو پھر انہیں یہ کرنا چاہیے۔ میں نے محض ایک خیال ظاہر کیا تھا، مجھے اظہار خیال پر اس کا ذمہ دار مت ٹھہراؤ۔ جب میں تم سے اللہ تعالیٰ سے متعلق کچھ کہوں اسے قبول کر لو کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھوٹی بات نہیں کہتا۔ آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا اپنی دنیاوی زندگی کے بارے میں تم بہتر جانتے ہو۔ (صحیح مسلم، ج: ۳، رقم الحدیث: ۱۶۲۵، ۱۶۲۶، ۱۶۲۷)

اس سے عام بھلائیوں پر ایمان معروف کا تصور دیا گیا ہے۔ عرف ایک رائج الوقت قاعدے یا رسم کو کہا جاتا ہے جسے لوگوں کا اجتماعی شعور قبول کرتا ہے اور قابل اعتبار ہوتی ہے۔ عربی میں ایک عادت یا رواج جسے وسیع پیمانے پر قبولیت اور احترام حاصل ہو اس کو معروف کہا جاتا ہے۔ معروف ایک اسلامی تصور ہے جس کے معنی ہیں وہ چیز جسے عام طور پر جاناپہچانا جاتا ہو۔ اسے سمجھا، تسلیم کیا جاتا اور قبول کیا جاتا ہو۔ قرآن مجید میں اس کا چالیس سے زیادہ مقامات پر ذکر آیا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث کی رُو سے بنی نوع انسان کا اجتماعی ضمیر جس بات پربھی متفق ہو جائے مسلمانوں کو اسے بطور ایک امرلازم قبول کر لینا چاہیے۔

قرآن پاک اور احادیث کے مطالعہ سے یہ استنباط کیا جا سکتا ہے کہ تمام مسلمانوں کے لیے عصری علوم سے آگاہی حاصل کرنا ایک فریضے کی حیثیت رکھتا ہے اور انہیں اچھے اور مشترکہ طور طریقوں کو قبول کرنا چاہیے۔ اجتہاد اور معروف آنے والی تبدیلیوں کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلنے کے لیے ذرائع اور وسائل ہیں۔ ابتدائی دور کے مسلمانوں نے ان خدائی اصولوں پر عمل پیرا ہو کر بہت سے مسائل کے حل ڈھونڈ لیے تھے۔ درحقیقت انہوں نے نئے نئے شعبہ تعلیم تخلیق کئے اور دنیا کی قیادت کی۔ اس طرح وہ دنیا کے بڑے حصے پر صدیوں حکمرانی کرتے رہے۔

مسلمانوں نے بطور ایک امت عمومی اجتہاد کے دروازے بند رکھے ہوئے ہیں اور معروف پر یقین کرنا بھی ترک کر دیا ہے۔ وہ ماضی کے ساتھ زنجیروں سے بندھے ہوئے ہیں جو غیر متغیر ہیں اور ایک یادگار ماضی بن کر زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے گرد و پیش کی دنیا سے ہم آہنگ اور ہمقدم ہونا چھوڑ چکے ہیں۔ ایک سنجیدہ تجزئیے کی ضرورت ہے تا کہ پتہ چلے کہ آج کے مسلمان کہاں کھڑے ہیں اور وہ کل کہاں چلے جائیں گے؟

جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روحِ اُمم کی حیات، کشمکشِ انقلاب

(مسجد قرطبہ؛ بال جبریل از محمد اقبالؒ)


سرسید احمد خان، قائد اعظم اور مسلم اوقاف

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

متنازعہ اوقاف قوانین کا نفاذ وفاق اور صوبوں میں بتدریج شروع ہوا اور انتہائی خاموشی کے ساتھ ان قوانین نے پورے ملک کا احاطہ کر لیا، حتٰی کہ نئے اوقاف قوانین کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں مساجد و مدارس کی نئی رجسٹریشن کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا، مگر جوں جوں عوامی اور دینی حلقوں میں ان قوانین کی نوعیت اور ان کے اثرات سے آگاہی بڑھتی گئی اضطراب اور بے چینی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اور حکومت کو شدید عوامی احتجاج پر یہ عملدرآمد روکنا پڑا۔ حکومت کی طرف سے ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان‘‘ کی قیادت کے ساتھ مذاکرات میں ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کیا گیا جس پر حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے اسپیکر قومی اسمبلی کی فرمائش پر اوقاف ایکٹ کا متبادل مسودہ مرتب کر کے حکومت کے حوالے کر دیا مگر اس کے بعد سے ’’ڈیڈلاک‘‘ کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے اور متنازعہ قوانین میں ترامیم اور مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے تجویز کردہ مسودہ قانون کو اسمبلی میں پیش کر کے اسے منظو کرانے کی کوئی عملی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔

ملک کے تمام مکاتب فکر کی دینی قیادتوں نے نئے اوقاف قوانین کے بارے میں متفقہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ شرعی احکام کے خلاف ہیں اور ملکی دستور کے تقاضوں اور مسلمہ شہری و انسانی حقوق سے بھی متصادم ہیں جنہیں اس حالت میں کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا، جبکہ ہم اس کے ساتھ ایک بات یہ بھی مسلسل کہتے آ رہے ہیں کہ برطانوی دور حکومت میں مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کے تحفظ کے حوالہ سے جو حقوق تسلیم کیے گئے تھے اور ان پر عملدرآمد ہوتا رہا ان نئے قوانین کے ذریعے وہ بھی واپس لے لیے گئے ہیں، اور اب مسجد و مدرسہ اور عمومی اوقاف مکمل طور پر بیوروکریسی کے کنٹرول اور اس کے ذریعے IMF اور FATF کی نگرانی میں چلے گئے ہیں جو غیر ملکی غلامی کی ایک نئی شکل ہے جسے قبول کرنا مذہبی آزادی سے محروم ہو جانے کے مترادف ہو گا۔

اس دوران ایک اعلیٰ شخصیت نے راقم الحروف سے اس مسئلہ پر بات کی تو میں نے عرض کیا کہ جو مذہبی حقوق سر سید احمد خان مرحوم اور قائد اعظم مرحوم کی مساعی سے برطانوی حکومت نے ہمیں دیے تھے وہ تو ہمارے پاس رہنے دو، تو انہوں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا جبکہ بعض دیگر شخصیات نے بھی اس کی تفصیل معلوم کرنا چاہی ہے۔ تو اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ کی شہادت کے بعد سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت و عملداری کا دور شروع ہوا تھا جو ۱۸۵۷ء کی عوامی بغاوت تک جاری رہا اور ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے نتیجے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ختم ہو کر براہ راست برطانوی حکومت کی عملداری کا آغاز ہو گیا جو ۱۹۴۷ء تک نوے برس چلتی رہی۔

۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے وقت سر سید احمد خان ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم اور اس کی حکومت کا حصہ تھے چنانچہ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی سو سالہ حکومت کے خلاف عوامی بغاوت، جسے ہمارے ہاں جہاد آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس کے اسباب کا جائزہ لیا اور ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ کے عنوان سے ایک کتابچہ شائع کیا جس کے بارے میں ہماری رائے ہے کہ اسے آج کے حالات کے تناظر میں پھر سے پڑھنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ ہماری سول اور عسکری انتظامیہ کے تعلیمی و تربیتی نصاب کا حصہ بننا چاہیے تاکہ رعیت کے جذبات و احساسات تک افسران کی رسائی ہو سکے۔ اس میں سر سید احمد خان نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف عوامی جذبات کی شدت کے دو بڑے سبب بیان کیے ہیں۔ (۱) ایک مذہبی معاملات میں مسلسل مداخلت (۲) دوسرا زمینوں کی ملکیت و تقسیم کے سابقہ نظام کی منسوخی اور نئے قوانین کا نفاذ ہے۔ چنانچہ برطانوی حکومت نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے جہاں مذہب، عبادت اور عبادت گاہوں کی آزادی اور خودمختاری کے قوانین نافذ کیے وہاں خاندانی نظام یعنی نکاح و طلاق اور وراثت وغیرہ میں بھی مذہبی احکام پر عمل کا حق تسلیم کیا، جسے مذہبی آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس پر سرکار کے حمایتی حلقوں نے برٹش گورنمنٹ کا ہر سطح پر شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے برطانوی حکومت کا مسلمانوں پر بڑا احسان قرار دیا جو آج تک ہماری تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ مگر بدقسمتی سے خاندانی نظام اور عبادت گاہوں سمیت بہت سے معاملات نئے بین الاقوامی معاملات کی رو سے بتدریج تبدیل ہوتے جا رہے ہیں، صرف اس فرق کے ساتھ کہ ان نئے قوانین کی تشکیل اور ان کا نفاذ اب بیرونی حکومت کے ٹائٹل کے ساتھ نہیں بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے ذریعے سول و عسکری سروسز کے ہاتھوں ہو رہا ہے۔

اس پس منظر میں برطانوی دور میں وقف قوانین کے حوالہ سے ’’وقف علی الاولاد‘‘ کے شرعی قوانین کے بارے میں جدوجہد کے ایک مرحلہ کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ’’قائد اعظم کے ابتدائی تیس سال‘‘ کے مصنف رضوان احمد لکھتے ہیں کہ وقف علی الاولاد مسلمانوں کا ایک مسلّمہ قانون تھا لیکن ۱۸۷۳ء میں بمبئی ہائیکورٹ نے اس کے خلاف ایک فیصلہ صادر کیا جس کی ضرب اسلامی قوانین پر پڑی اور مسلمانوں میں شدید اضطراب برپا ہوا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد کا وہ زمانہ مسلمانوں کے لیے جس قدر ہولناک تھا اس سے ہم سب باخبر ہیں، مسلمانوں کے لیے انگریزی حکومت یا انگریزی عدالت کے خلاف آواز بلند کرنا آسان نہیں تھا۔ مسلمانوں کی حیثیت انگریزوں کی نظر میں ایک باغی قوم کی تھی اس لیے مسلمان بہت پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے۔ مگر انگریزوں کی حکومت یا عدالت کی طرف سے کوئی نہ کوئی کارروائی ایسی ہوتی رہتی تھی جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے تھے۔ وہ ایسی کارروائیوں کے مقاصد و عزائم کو بھی خوب سمجھتے تھے لیکن حالات ناسازگار تھے۔ آخر ۱۸۷۸ء اور ۱۸۸۲ء کے دوران سرسید احمد خان نے بمبئی ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف احتجاجی تقریر کی، پھر جسٹس امیر علی نے خالص علمی و قانونی انداز سے اس پر تنقید کی اور مضامین لکھے مگر سب سنی ان سنی ہوتی رہی۔ ۱۸۹۴ء تک ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں وقف علی الاولاد کے مسئلہ پر مختلف فیصلے ہوتے رہے یہاں تک کہ عدالتی فیصلوں کے تضاد کو بنیاد بنا کر اسے پریوی کونسل میں لے جایا گیا جہاں جانے کا مطلب یہ تھا کہ اس کی بابت قول فیصل صادر کیا جائے۔ چنانچہ پریوی کونسل نے وقف علی الاولاد کے خلاف قول فیصل صادر کر دیا۔ پریوی کونسل کے اس فیصلے کے معنی یہ تھے کہ ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں اس مسئلہ پر جو مختلف و متضاد فیصلے صادر ہوتے رہے صرف اس تضاد کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ اصل مسئلہ یعنی وقف علی الاولاد کے مسلمہ قانون اسلامی کا بھی خاتمہ ہوگیا۔ یہ گویا ضرب کاری تھی جو مسلمانوں کے قلب و جگر پر لگی، ان کی نظر میں یہ مداخلت فی الدین کا برملا اقدام تھا۔ محڈن ایوسی ایشن کلکتہ نے گورنمنٹ کی توجہ اس طرف مبذول کرائی، یادداشتیں بھیجیں، درخواستیں گزاریں، مسلمانوں کا نقطہ نظر واضح کیا، سبھی کچھ کیا لیکن انگریزوں کی حکومت کو بہرصورت اپنی فرماں روائی کی زمین ہموار کرنی تھی اور صرف ایک دو صوبے یا علاقے میں نہیں بلکہ سارے برعظیم میں کرنی تھی اور اپنے قوانین ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک رائج کرنے تھے جس کی کوشش وہ ایک مدت سے کر رہے تھے۔

جناب رضوان احمد نے یہ اس مرحلہ کا تذکرہ کیا ہے جب وقف علی الاولاد کے شرعی قوانین پر مسلمانوں کے مطالبات و احتجاج کو نظرانداز کرتے ہوئے اس شرعی قانون کا خاتمہ کر دیا گیا۔ جبکہ ’’قائد اعظم اور اسلام‘‘ کے مصنف جناب محمد حنیف شاہد اس سے اگلے مرحلہ کا ذکر کرتے ہیں جس میں قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے ’’سپریم ایمپریل کونسل‘‘ کا ممبر منتخب ہونے کے بعد ۱۹۱۱ء میں ’’مسلم اوقاف‘‘ کو قانونی حیثیت دلوانے کے لیے کونسل میں ایک بل پیش کیا اور مسلسل محنت کے بعد ۱۹۱۳ء میں اسے کونسل سے منظور کروا لیا۔ قائد اعظمؒ نے یہ مسودہ قانون مولانا شبلی نعمانیؒ کے مشورہ سے مرتب کیا اور اپنی قابلیت و محنت کے ذریعے اسے بالآخر منظور کرا لیا۔ اس بل پر بہت اعتراضات ہوئے جن کے جوابات قائد اعظمؒ نے دلیل و منطق کے ساتھ دیے، ان میں سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ

’’اس بل پر ایک اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ یہ عوامی حکمت عملی (public policy) کے خلاف ہے، اس کا جواب بہت آسان ہے، حکومت کا فرض ہے کہ مسلمانوں پر ’’شرع محمدیؐ‘‘ نافذ کرے، عوامی حکمت عملی کا تصور اسلامی فقہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا، لہٰذا اس کو خارج از بحث سمجھنا چاہیے۔ جہاں تک اسلامی فقہ کا تعلق ہے کسی ایسی حکمت عملی کا تصور ممکن نہیں جس کے تقاضے اس بل کے مقاصد کے خلاف ہوں۔‘‘

اس پس منظر میں ہم اپنے موجودہ حکمرانوں سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ مسلمانوں پر ’’شرع محمدیؐ‘‘ کے نفاذ کا جو مطالبہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ۱۹۱۱ء کے دوران برطانوی ہندوستان کی سپریم ایمپیریل کونسل میں کیا تھا اور اسے اپنے پیش کردہ بل کی حد تک منوانے میں کامیاب ہوئے تھے، اس شرع محمدیؐ کا نفاذ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کا بھی حق ہے اور کسی بین الاقوامی ادارے، قانون اور معاہدے کو مسلمانوں کے اس جائز حق کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

اقلیتوں کا بلاتحدید حق تبلیغ مذہب

ڈاکٹر شہزاد اقبال شام

حالیہ چند ہفتوں میں تعلیمی نصاب پر سپریم کورٹ اور یک رکنی سڈل کمیشن کی آراءاخبارات میں بڑی کثرت سے شا یع ہو چکی ہیں اس لیے تفصیلات کو نظرانداز کیا جاتا ہےکہ قارئین ان سے بخوبی باخبر ہیں۔جسٹس تصدق حسین جیلانی اپنے مذکورہ فیصلے میں اقلیتوں کی وکالت میں اتنا آگے نکل گئے کہ انھوں نے پاکستان کی بنیاد اسلام کی جڑ کاٹ کر رکھ دی۔ فرماتے ہیں: ’’تبلیغ کا حق صرف مسلمانوں تک محدود نہیں کہ وہی اپنے مذہب کی تبلیغ کریں بلکہ یہ حق دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مذہب کے لوگوں کو اس کی تبلیغ کریں بلکہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو بھی تبلیغ کریں‘‘۔ اپنے اس فیصلے کی تائید میں وہ اقوام متحدہ کی ۱۹۶۶ء کی ایک قرارداد لائے : " ہرکسی کو فکر، ادراک اور مذہب کی آزادی حاصل ہے۔ اسے اپنے مذہب یا عقیدے کی پیروی کرنے، مشاہدے، عمل اور فروغ دینے اور اس کی تعلیمات عام کرنے کی آزادی ہے‘‘۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سے زیادہ بہتر اور کون جانتا ہے کہ بین الاقوامی اداروں کی قراردادوں کی پیروی کسی ملک کی عدالتوں پرہرگز لازم نہیں ہوتی۔ ملکی انتظامیہ اور پارلیمان بھی ایک حد تک ہی ان کا خیال رکھتے ہیں۔ عدالتیں تو اپنے آئین اور قانون کی تعبیروتشریح اور ان پر عمل کی اسیر ہوا کرتی ہیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا دستور اس بارے میں کیا کہتا ہے:

Subject to Law, public order and morality every citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion (Article 20)

قانون ، امن عامہ اور اخلاقیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہرشہری کو اپنے مذہب پر کاربند رہنے، عمل کرنے اور تبلیغ کا حق حاصل ہے۔

دستور سازوں نے ملکی روایات، آبادی کے تناسب اور مجموعی معاشرت کے پیش نظر تبلیغ مذہب کا یہ ایک خوبصورت گلدستہ دستور کے اندر جڑ دیا جس کا خیال محترم مذہبی اقلیتیں بخوبی رکھتی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ۷۰ء کی دہائی تک مسیحی مشنوں کے تبلیغ مسیحیت بذریعہ خط و کتابت کے اشتہار اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ مسیحی مبلغین کی یہ مشق تقسیم ہند کے بعد کے مجموعی ماحول کے اندر رہ کر تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد آزاد فضا میں پیدا ہونے والی مسلمان نسل کے خاموش پیغام بسلسلہ تبلیغ مذہب کا ادراک کرکے  مسیحی مشنوں نے یہ سلسلہ ختم کردیا۔لیکن قادیانی اقلیت اس تبدیلی کا ادراک نہ کرسکی۔ ۱۹۷۴ء میں نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلبہ قادیانیوں کے شہر ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو قادیانی افراد نے اپنے مبلغین کی تحریریں ان طلبہ میں تقسیم کرنا شروع کر دیں۔ طلبہ مشتعل ہوگئے، مارپیٹ ہوئی اور طلبہ آگے روانہ ہوگئے۔ واپسی پر قادیانیوں نے ’مذہبی تبلیغ‘ کے اسی تسلسل میں باقاعدہ ٹرین روک کر تمام طلبہ کو خوب مارا پیٹا۔ ردعمل میں مسلمانوں نے وہ بھرپور تحریک چلائی کہ آئینی ترمیم کے ذریعے نہ صرف قادیانی غیرمسلم قرار پائے بلکہ تبلیغ مذہب کی حدود بھی واضح ہوگئیں۔

تبلیغ مذہب، ملکی حالات اور باقی دُنیا

جسٹس جیلانی کے اس فیصلے نے جہاں ایک طرف تعلیمی نظام کی چُولیں ہلا کررکھ دی ہیں وہیں اسی فیصلے کے ذریعے انھوں نے اقلیتوں کو وہ حق دیا ہے جس کی نفی پاکستان کا آئین کرتا ہے۔ اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے۔ یہ مذہب پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ ہمارے علم میں دنیا کا کوئی ایک ملک نہیں ہے جو اپنی بنیاد کے خلاف تبلیغ کی اجازت دیتا ہو۔ امریکی دستور اور نظامِ حیات کا خلاصہ مطلق انسانی آزادی کی شکل میں ہے۔ اس انسانی آزادی کی حدود کیا ہیں؟ یہ بات کس کے علم میں نہیں۔ اس آزادی کی تعمیل میں امریکی معاشرت، اقدار اور خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرنے کے قریب جاپہنچا ہےلیکن امریکی ذرائع ابلاغ میں آزادی کو محدود کرنے پر ایک سطر شائع کرنا ممکن نہیں ہے۔

اسرائیل تو اس بارے میں بے حد حساس ہے کہ اپنی بنیادوں میں سے ایک بنیاد_ یہودیوں کی مبینہ اجتماعی نسل کشی (Holocaust)_ کے اعداد و شمار کے تحقیقی انکار کی تبلیغ پر اسرائیل نے دُنیا کے ڈیڑھ درجن ممالک میں یہ قانون سازی کرا رکھی ہے کہ یہودیوں کے شائع کردہ ’مقدس‘ اعداد و شمار کے خلاف قلم کاری یا حرف زنی فوجداری جرم ہوگا۔ ۱۹۸۷ء تا ۲۰۱۵ء کے عرصے میں درجنوں پروفیسروں، سیاست دانوں اور محققین کو محض اس" جرم" میں قید اور جرمانے بھگتنے پڑے کہ ان کی تحقیق یہودیوں کے من گھڑت اعداد و شمار کا پول کھول رہی تھی۔

ملکی حالات کی طرف آئیں۔ ہر روز درجنوں فوجداری جرائم ہوتے ہیں۔ کہیں خبر کا عنصر ہو تو ذرائع ابلاغ میں ان جرائم کو معمولی جگہ مل جاتی ہے۔ لیکن جونہی کبھی کسی مسیحی، ہندو یا بالخصوص قادیانی کو کوئی مسلمان نشانہ بنائے تو بھلے وجہ نزاع مذہب کی بجائے لین دین یا زمین کے جھگڑے پر مبنی ہو، دُنیا بھر کے ذرائع ابلاغ وہ غل مچاتے ہیں کہ توبہ ہی بھلی۔ سال بھر کے ایسے ہی اعداد و شمار جمع کرکے بین الاقوامی ادارے پاکستان کی مسخ شدہ تصویر دُنیا کے سامنے رکھتے ہیں۔ حکومت اور پارلیمان کو جگہ جگہ جواب دہی کرنا پڑتی ہے۔ بعض حالات میں ہمیں اقتصادی پابندیوں کا سامنا تک کرنا پڑتا ہے۔ یورپی یونین کی حالیہ قرارداد اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی کے زیرنظر فیصلے نے تمام اقلیتوں کو ان کے اپنے ہم مذہب افراد کے ساتھ ساتھ مسلمان آبادی میں بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق دےدیا ہے۔ تصور کیجیے کہ کسی یونی ورسٹی میں کسی این جی اوز کے تعاون سے قادیانی اپنے نبی یا اس کے کسی خلیفہ کی برسی، سالگرہ، یا کوئی اور دن منائیں تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ ذرا تصور کریں کہ قادیانی معصوم مسلمان طلبہ و طالبات کو اپنے گھریا مرکز میں افطاری پر بلا کر اپنے گھاگ اور منجھے ہوئے مبلغین کے حوالے کر دیں۔ وہ لوگ ان معصوم افراد سے روابط بڑھا کر جسٹس جیلانی کا عطا کردہ یہ عدالتی حق استعمال کر انھیں اپنے مذہب کا اسیر بنا لیں تو جسٹس جیلانی کا یہ عدالتی حق ۹۶ فی صد مسلم آبادی کے سمندر میں مقیم تین چار فی صد اقلیتوں کیحفاظت کب تک کرے گا؟ کیا مسلمان افراد قادیانیوں کو یہ حق تبلیغ دینے پر راضی ہوں گے۔یہ فیصلہ ملک میں افراتفری ہی کا سبب بنے گا۔

یہی وجہ ہے کہ دستور سازوں نے ہرشہری کو تبلیغ مذہب کا جو آئینی حق دیا ہے اس میں تین عناصر ملتے ہیں: اوّلاً یہ حق قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے استعمال کیا جاسکتا ہے اور قانون سازی کا اختیار ہمارے پارلیمان کو ہے، نہ کہ اقوام متحدہ کو جس کی قراردادوں کے سہارے جسٹس جیلانی نے ہرشہری کو بلاتحدید تبلیغ مذہب کی اجازت دینے کی کوشش کی ہے۔ ثانیاً تبلیغ مذہب کا یہ آئینی حق امن عامہ سے بھی مشروط ہے۔ جسٹس جیلانی کے اس فیصلے کو لےکر قادیانی اور دیگر مذہبی اقلیتوں نے گھرگھر اپنی تبلیغی کتب تقسیم کرنا شروع کیاتو کیا ملک میں مزیدکسی شدت پسندی کی ضرورت رہے گی؟ قانون ساز بےحد حساس ہوتے ہیں۔ قانون معاہدہ شراکت داری ۱۹۳۲ء کے تحت کسی فرم کا ایسا نام جو متعلقہ صوبائی حکومت کی نظر میں ناپسندیدہ ہو تو وہ فرم سے نام تبدیل کرنے کو کہہ سکتی ہے، مثلاً مسلکی کشیدگی کے ماحول میں کوئی شخص اپنے کاروبار کا نام سپاہ صحابہ انٹرپرائزز یا جانثارانِ اہلِ بیت کارپوریشن رکھے تو صوبائی حکومت امن عامہ کے نقطۂ نظر سے اس کی اجازت نہیں دے گی۔

لیکن جسٹس جیلانی امتناع قادیانیت آرڈی ننس کے ملکی قانون کو نظرانداز کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے سہارے قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کا حق بھی دے گزرے۔ کہاں تو یہ ملکی قانون کہ قادیانی، مسلمانوں کی اذان نہیں دے سکتے۔ اپنی عبادت گاہ کو مسجد نہیں کہہ سکتے اور کہاں جسٹس جیلانی کا یہ فیصلہ کہ تمام شہریوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت ہے کیونکہ اقوام متحدہ کی دوقراردادیں یہ حق دیتی ہیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ ہمارا پارلیمان اعلیٰ عدالتوں کے منصفین کی شرائط تقرری پر نظرثانی کرے گا۔

ثالثاً تبلیغ مذہب کا آئینی حق اخلاقیات سے بھی مشروط ہے۔ آئینی تقاضوں میں سے اخلاقی قدروں کی پاسداری بھی ایک اہم شرط ہے۔

جسٹس جیلانی فیصلے کا حالیہ خطرناک موڑ

۲۰۱۴ء میں جسٹس جیلانی نے اقلیتوں کے رضاکار وکیل کے طور پر جو یک طرفہ فیصلہ سنایا تھا، اس میں منجملہ دیگر باتوں کے تعلیمی اُمور سے متعلق حکم تھا کہ اقلیتی آبادیوں سے متعلق نفرت انگیز مواد کو نصابی کتب سے نکالا جائے۔ یہ حکم غیرمتعلق ہی سہی لیکن اصولی طور پر قابلِ عمل تھا اور کسی کو اس امر میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ تحریک پاکستان کے تسلسل میں جب نصابی کتب کے اندر ہندوئوں اور سکھوں کے بارے میں ناروا جملے پڑھنے کو ملیں تو سچ بات تو یہ ہے کہ جملوں کے عموم میں پاکستان کے اندر بسنے والے وہ معصوم ہندو سکھ بھی آجاتے ہیں، جو نہ تو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے حامی ہیں اور نہ ماسٹر تارا سنگھ کے پیروکار ۔ یہ تو وہ مقامی پاکستانی ہیں جنھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد یہیں رہنا پسند کیا۔ یہ شہری حقوق کے اعتبار سے اتنے ہی پاکستانی ہیں جتنے دیگر مسلم غیرمسلم وغیرہ۔ لہٰذا نصابی کتب میں ان لوگوں کے بارے میں ناروا جملے مطلقاً غلط تھے۔

پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ اور تحریک انصاف کی حکومتیں گزشتہ دس سال سے یکساں تعلیمی نصاب کے لیے مسلسل کوشش کرتی رہیں۔ یہ کام ایک دن میں قابلِ عمل نہیں ہوتا۔ بالآخر چاروں صوبائی حکومتیں اور وفاق یکساں تعلیمی نصاب پر متفق ہوگئے۔ ماہرین تعلیم نے دس برسوں میں یہ نصاب اس باریک بینی سے مرتب کیا کہ الحمدللہ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام دیگر مذہبی اقلیتوں کو بھی قبول ہے۔ اسلامیات لازمی کی کتاب اگر مسلمان بچوں کے لیے ہے تو مسیحی، ہندو، سکھ، بُدھ، بچوں کے لیے ان کی اپنی نصابی کتب تیار ہوئیں۔ صرف چترال میں آباد کیلاش قبیلے کے لیے ان کی اپنی مذہببی تعلیمات کی روشنی میں کتب تیار ہوئیں۔ قومی سطح پر قائم سرکاری پاکستان اقلیتی کمیشن کے چیئرمین جناب چیلارام نے متفقہ تعلیمی نظام کو مستحسن قدم قرار دیا اور یک رکنی سڈل کمیشن کی تیار کردہ سفارشات کو واضح الفاظ میں مسترد کر دیا۔

یکساں نصاب کی تیاری کے کام میں جسٹس جیلانی فیصلے کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ ملک بھر کے ماہرین تعلیم کی محنت اور مسلسل بحث و تمحیص کا ثمرہ یوں سامنے آیا کہ نیا متفقہ نصاب ہرکسی کو قبول تھا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جسٹس جیلانی فیصلے کی روشنی میں یک رکنی سڈل کمیشن اس نصاب کا جائزہ لے کر سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرادیتا کہ آپ کے احکام پر عمل درآمد کرتے ہوئے نصابی کتب سے نفرت انگیز مواد نکال دیا گیا ہے۔ یہی قانونی طریق کار ہے۔ یہی آئینی و قانونی تقاضا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ موجودہ چیف جسٹس محترم جناب گلزار احمد کے سامنے سڈل کمیشن نے ہندوئوں اور مسیحی افراد کی مدد سے مرتب رپورٹ پیش کرتے وقت نصابی کتب سے نفرت انگیز مواد نکالنے کی رپورٹ دینے کی بجائے چند نئے سوال اُٹھا دیئے جو ۲۰۱۴ء کے جسٹس جیلانی فیصلے سے بالکل غیرمتعلق تھے۔ ایسے موقع پر عدالتیں غیرمتعلق نکات، اعتراضات، مطالبات، اور دعاوی وغیرہ پر یہی رائے دیتی آئی ہیں کہ اس کے لیے علیحدہ دعویٰ دائر کیا جائے۔

ان مذکورہ لوگوں نے اب سپریم کورٹ کے سامنے یہ دعویٰ رکھا کہ اسلام، اسلامیات نامی مضمون میں صرف مسلمان بچوں کو پڑھایا جائے (نئے نصاب میں ایسے ہی ہے)۔اسلام کی باقی ہرشکل، تاریخ، مطالعہ پاکستان، اُردو انگریزی وغیرہ سے مکمل طور پر نکال دی جائے کیونکہ غیرمسلم بچوں کو اللہ، رسول،حمد، نعت، سیرتِ طیبہ، خلفائے راشدین، تاریخِ اسلام جیسے موضوعات پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ دستور کا آرٹیکل ۲۲ یہی کہتا ہے۔ یہ نکتہ یا مطالبہ ۲۰۱۴ء کے جسٹس جیلانی فیصلے سے مطلقاً غیرمتعلق تھا۔ اس کے لیے الگ سے پٹیشن درکار تھی۔ لیکن فاضل چیف جسٹس گلزار  نے اس قانونی نکتے کو معلوم نہیں کیونکر نظراندازکرکے شعیب سڈل صاحب اور ان کے دیگر ہندو، مسیحی ساتھیوں کے مطالبے پر وزارتِ تعلیم افسران کو طلب کیا۔

محترم چیف جسٹس سے بہتر کون جانتا ہے کہ اگر کوئی شخص دعویٰ دائر کرے کہ فلاں شخص میری رقم واپس نہیں کر رہا تومدعا علیہ سے پوچھا جائے گا۔ مدعا علیہ کہے کہ میں نے واقعی مدعی کے دس لاکھ روپے دینے ہیں لیکن خود مدعی بھی میرےچھ لاکھ کا مقروض ہے۔یہ چھ لاکھ منہا کیے جائیں، میں باقی چار لاکھ ادا کر دیتا ہوں۔عدالت مدعا علیہ کے اقرار کو تسلیم کرتے ہوئے پورے دس لاکھ روپے ادا کرنے کا اسے حکم دے گی۔ رہے مدعا علیہ کے اپنے چھ لاکھ تو ان کے لیے عدالت اسے ہدایت کرے گی کہ اپنی اس رقم کے لیے تم الگ سے دعویٰ دائر کرو۔ یہ اصول دُنیا بھرکی اعلیٰ عدالتوں ہی میں نہیں زیریں ترین سول جج کی عدالت میں بھی خوب تسلیم شدہ ہے۔ ہمارے لیے تعجب کے اظہار کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ محترم چیف جسٹس گلزار احمد صاحب ایک غیرمتعلق مطالبے یا نکتے پر سائل کو نیا دعویٰ کرنے کی ہدایت کرنے کے بجائے جسٹس جیلانی ہی کی طرح سڈل صاحب اور ان کے ہندو اور مسیحی ہم نوائوں کے حق میں کھل کر وکیل کی طرح دلائل دینا شروع کر دیئےَ۔

 جسٹس جیلانی کے جس یک طرفہ فیصلے پر چاروں صوبے عمل کرچکے ہیں۔ اس پر یک رکنی سڈل کمیشن نے اطمینان کا سانس لینے کے بجائے نصابی کتب میں سے اسلام نکالنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اس مطالبے کا عکس ان کی رپورٹ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے وفاقی وزارتِ تعلیم کے افسران طلب کیے تو دیکھا گیا کہ ہندو، مسیحی اور این جی اوز کےلوگ سڈل صاحب کی قیادت میں سپریم کورٹ میں فاتحین کی طرح کھڑے ہیں اور چیف جسٹس صاحب ان ریاستی حکام کی سرزنش کر رہے ہیں جنھوں نے پوری قوم کے اتفاق رائے سے نصابی کتب تیار کرائی تھیں۔ ایسا اتفاق رائے جس میں کم و بیش تمام اقلیتی آبادیاں شامل تھیں۔

جس کا کام اسی کو ساجھے

 اگر جرائم پیشہ افراد کے خلاف پولیس آپریشن کرنا پڑے تو ٹیم کی قیادت ڈی آئی جی کا ہم منصب کسی یونی ورسٹی کا ایسوسی ایٹ پروفیسر کر رہا ہوتوکیا ذرائع ابلاغ کے لیے یہ ایک اَنہونی خبر نہیں ہوگی۔ خبر توخیر تب ہوگی جب وہ ایسوسی ایٹ پروفیسر یہ نازیبا ذمہ داری قبول کرے۔ وطن عزیز میں تعلیم ایک ایسا شعبہ ہے جسے بہتر بنانے پرکسی کی کوئی توجہ نہیںلیکن نازک، پیچیدہ اور حساس تعلیمی اُمور میں مداخلت  ہر فرد کرتا ہے۔ ایک پولیس افسر کو موقع ملا تو نہ صرف اس نے ڈٹ رائے دی بلکہ اپنی یہ راے حرفِ آخر سمجھ کر نافذ بھی کرانا چاہی۔مسئلہ ابھی سپریم کورٹ میں زیرسماعت تھا کہ شعیب سڈل نے پھرتیلے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو اس حکم کے ساتھ رپورٹ بھیجی کہ تمام نصابی کتب سے اسلام نکال دیا جائے۔ اگر حساس تعلیمی اُمور پر جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے والا پولیس افسر ملک بھر کے درجنوں سیکڑوں مسلم و غیرمسلم ماہرین تعلیم کی متفقہ نصابی کتب کو مسترد کر سکتا ہے تو جرائم پیشہ افراد سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹی پروفیسر سے بہتر کوئی شخص نہیں ہوسکتا۔ قارئین کے لیے اس نکتے میں سوچ بچار کا کچھ نہ کچھ سامان موجود ہے۔

اسلام اور عدلیہ کے بدلے ہوئے تیور

نصابی کتاب سے اسلام کو بے دخل کرنے کے لیے جسٹس جیلانی نے فیصلہ سنایا ، سو سنایا لیکن "ریاستی حکام" اس فیصلے کے بعد سو نہیں گئے۔۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ نے یک رکنی شعیب سڈل کمیشن قائم کیا تاکہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کا جائزہ لے۔ اس کمیشن کی معاونت کے لیے ایک ہندو، ایک مسیحی اور جسٹس جیلانی کے ایڈووکیٹ بیٹے پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم کی گئی۔کمیشن کا باقاعدہ سیکرٹریٹ ہے۔ ان تمام افراد کا تعلیم یا مذہب سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقصد پاکستان کی بنیاد، اسلام کو ریاستی اُمور سے لاتعلق کرنا ہے۔ اس پر عمل درآمدکرانے کے لیے مسلمان نہیں بلکہ ہندو، مسیحی اور بے پناہ وسائل والی این جی اوز، کمیشن اور کمیٹی کے معاون ہیں۔ جسٹس جیلانی کے یک طرفہ غیرمتعلق فیصلے کو ساتواں سال ہوچکا ہے جس پر سپریم کورٹ کی اپنی نگرانی میں عمل درآمد کرایا جارہا ہے۔ حالانکہ عدالت کا کام حکم جاری کرنا ہوتا ہے۔

 کسی سرکاری ملازم کی بدعنوانی یا غفلت ثابت ہوجائے توعدالت محض یہ حکم دیا کرتی ہے کہ ملازم کے مجاز افسران اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں۔ اس کے بعد مجاز افسران کا کام شروع اورعدالت کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ ہمارے علم میں کوئی ایک عدالتی فیصلہ ایسا نہیں ہے جس کا تعاقب سپریم کورٹ سات سال سے کررہی ہو۔ مسئلے کی نزاکت تو قارئین سمجھ چکے ہوں گے مگر باعث ِ تعجب امر یہ ہے کہ مسلمان نسل کی نوخیز کلیوں کو اسلام سے دُور رکھنےکے لیے سپریم کورٹ نے اپنی معاونت کے لیے بلایا بھی تو ہندو اور مسیحی افراد کو۔ ایک چیف جسٹس حکم دیتا ہے تو اگلا چیف جسٹس متعلقہ ریاستی حکام سے رپورٹ لینے کے بجائے اسی چیف جسٹس جیلانی کا بیٹا فیصلے پر عمل درآمد کرانے کے لیے مقرر کردیتا ہے۔ ایسا تو کبھی کسی مارشل لا دور میں بھی نہیں ہوا تھا۔

سپریم کورٹ،بھگوت گیتا، اور ہندو توا کا  فروغ

سندھ حکومت نے ۲۰۲۰ میں ہندووں کو ان کی مذہبی کتاب بھگوت گیتا کے دس ہزار نسخے تحفتاًدیئے۔ اس پر ہم نے اگست ۲۰۲۰ء میں روزنامہ پاکستان کے اپنے کالم میں سوال اُٹھایا تھا کہ اگر کسی کے علم میں ہو کہ اتنی تعداد میں سندھ حکومت نے کبھی مسلمانوں کو قرآن کے نسخے دیئے ہوں تو مجھے آگاہ کرے۔ ابھی تک نہ تو سندھ حکومت اور نہ کسی قاری کی طرف سے کوئی اطلاع آئی ہے۔ سندھ کے ان علاقوں کو چھوڑ کرجہاں ہندو آباد ہیں باقی پاکستان میں ایک بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سندھ میں بہت ہندو آباد ہیں۔ مَیں نے نصابی کتب کے حوالے سے وہاں کے ’ہندو‘ ڈاکٹر سونو گھنگھرانی سے تبادلۂ خیال کرتے ہوئے غلطی سے انھیںسونورام کہہ دیا تو انھوں نے فوراً ٹوک کر میری اصلاح کی کہ " میں ’رام‘ نہیں ہوں،نام کے باعث ہندو کہلانا میری مجبوری ہے لیکن میں ہندو نہیں ہوں"۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہ موضوع میری دلچسپی رہا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ سندھ میں ہندو آبادی کے اعداد و شمار واضح کردیئے جائیں۔

 سندھ کے سو ہندوئوں میں سے واقعتاً ہندو افراد صرف پندرہ ہیں۔یہ وہ پندرہ افراد ہیں جنھیں برہمن، کھشنری اور ویش کہا جاتا ہے۔ باقی "ہندوئوں" میں ہندومنت کا آخری زمرہ شودر پانچ تا دس کی تعداد میں ہے۔ تو باقی ۷۵ ، ۸۰ کون لوگ ہوئے؟ یہ وہ ’ہندو‘  ہیں جنھیں دلت یا شیڈولڈ کاسٹ کہا جاتاہے۔ ان میںسے کچھ لوگ کم علمی، جہالت یا ماحول کے باعث خود کو ہندو سمجھتے ہیں لیکن ڈاکٹر سونو گھنگھرانی اور ان جیسے فہمیدہ لوگ ہندومت سے کوسوں دور ہیں۔ان کی کثیر تعداد خود کو صوفی اور نیم مسلمان سمجھتی ہے۔ یہ اپنے مُردے جلاتے نہیں ، دفناتے ہیں۔ مسلمان بزرگوں کی درگاہوں اور مزاروں کے اکثر مجاور یہی لوگ ہیں۔ رمضان میں یہ لوگ روزے رکھتے ہیں۔

 اصل ۱۵  ہندوئوں (برہمن، کھشنری، ویش جیسے اعلیٰ ذات کے ہندو) کی غالب تعداد  آسودہ حال ہے۔ ان میں بڑے کاروباری افراد، صنعت کار، ریاستی حکام اور زمیندار جیسے لوگ ہیں۔ ان ۱۵ فی صد اصل ہندوئوں کی تعداد لاکھوں میں نہیںصرف ہزاروں میں ہے اور انھیں خیرات میں بھگوت گیتا لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تو سندھ حکومت نے بھگوت گیتا کے دس ہزار نسخے دیئےتو کس کو؟ یہ نسخے دراصل باقی ۸۵ فی صدغیرہندو دلت اور شیڈولڈ کاسٹ (نیم مسلمان) کوہندو بنانے کے لیے ہیں۔ اصل ہندوئوں کا ہدف دلت اور غیرہندو طبقات ہیں جن میں ہندومت کی تبلیغ کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سندھ حکومت نے ۹۶ فی صد مسلمانوں کے ٹیکسوں سے ان کی مرضی کے بغیر زرکثیر صرف کیا اور کسی نے نوٹس ہی نہیں لیا۔ سپریم کورٹ کو بھی کوئی فکر نہیں ہوئی کہ اسلامی ریاست نے ہندومت کی تبلیغ کے لیے غیرآئینی حرکت کی ہے۔

ہمیں یہ ’ازخود نوٹس‘ نہ لینا پڑتا بشرطیکہ بھگوت گیتا کے اس معاملے کے آٹھ ماہ بعد اپریل ۲۰۲۱ء میں ہماری سپریم کورٹ بلوچستان حکومت سے جواب نہ طلب کرتی۔بلوچستان حکومت نے کسی دینی مدرسے کی تعمیر کے لیے کچھ رقم دی تو سپریم کورٹ نے جواب طلب کرلیا (روزنامہ جنگ ، ۱۵؍اپریل۲۰۲۱ء)۔دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے فرمایا: ’’جس طرح سے بھی مدرسے کے لیے فنڈز دیئے گئے یہ غلط طریقہ ہے‘‘۔ جسٹس قاضی امین احمد نے کہا: ’’پاکستان میں تمام لوگ مسلمان نہیں ہیں جو پیسہ مدرسے کے لیے دیا گیا وہ ریاست کے ٹیکس کا پیسہ تھا۔ پاکستان میں ہندو، عیسائی [مسیحی] اور دیگر اقلیتیں بھی ٹیکس دیتی ہیں۔ مدرسہ کھولنا ایک اچھا اقدام ہے لیکن ریاست کے پیسے سے نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح تو ہندو برادری بھی مندر کی تزئین و آرائش کے لیے فنڈز مانگیں گے‘‘۔

یہ دونوں محترم و معزز جج اور متعلقہ بنچ کے سربراہ جسٹس مشیرعالم تب بھی سپریم کورٹ میں موجودتھے جب سندھ حکومت نے اسلامی ریاست میں ہندومت کی تبلیغ کے لیے دس ہزار نسخے تحفتاًدیئے لیکن ان میں سے کسی نے سندھ حکومت سے جواب طلب نہیں کیا۔ لیکن جب بلوچستان حکومت نے مدرسے کو کچھ رقم دی تو انھوں نے بلاتاخیر حکومت سے جواب طلب کرلیا۔ یہ محترم و معزز جج اور باقی چودہ جج تب بھی سپریم کورٹ میں موجود تھے جب وزیراعظم نے جولائی ۲۰۲۰ء میں اسلام آباد میں ہندومندر کی تعمیر کے لیے دس کروڑ روپے دیئے۔ اس موقع پر ملک بھر میں کھلبلی مچ گئی لیکن سپریم کورٹ نے کسی حکومت سے کوئی جواب طلب نہیں کیا ۔لیکن ادھر بلوچستان حکومت نے کسی مدرسے کو کچھ رقم دی تو اُدھر اس کی آئینی جواب طلبی۔یہ جواب طلبی بھگوت گیتا اور مندر کی تعمیر کے معاملے میں کیوں نہیں ہوئی؟

خلاصہ کلام اور چند توجہ طلب اُمور

پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ ہمارے علم میں سپریم کورٹ کا کوئی ایک فیصلہ نہیں ہے جس پر عمل درآمد کرانے کے لیے عدلیہ نے کمیشن مقر رکرنے کے بعد اس کاسیکرٹریٹ قائم کیا ہو اورہندو، مسیحی  اور این جی اوز کی مدد سےآٹھویں سال سے اس کی مانٹیرنگ کر رہی ہو۔ لیکن ہندواور مسیحیوں کے چند دیگر مسائل لے کر جسٹس جیلانی نے اوّلاً یہ کام کرکے پورے تعلیمی ڈھانچے کوہلاکر رکھ دیا۔ پھر عمل درآمد کرانے کے لیے مسلمانوں کے کسی نمایندے کو سنے بغیر ہندو اور مسیحی افراد کی معاونت سے نصابِ تعلیم سے ’اسلام‘ کھرچ کھرچ کرنکالنے کا اہتمام، بعد میں آنے والے جج صاحبان نے بخوبی کیا۔ اسلام کے منافی مذہب کی تبلیغ کے لیے سندھ حکومت بھگوت گیتا کے نسخے سرکاری خزانے سے خرید کر دیتی ہے تو سپریم کورٹ میں کوئی ہلچل نہیں مچتی لیکن جونہی بلوچستان حکومت ایک مدرسے کو کچھ رقم دیتی ہے تو اس سے فوری جواب طلبی اور یہ کام خلافِ آئین قرار پاتا ہے۔دلیل کے طور پر جج صاحب کا کہنا ہے کہ کل کو ہندو مندروں کے لیے رقم بھی دینا پڑے گی حالانکہ ہندو مندر کے لیے آٹھ نو ماہ قبل وزیراعظم دس کروڑ روپے دے چکے تھے۔ قانون کے اس طالب علم کے لیے ان تین چار عدالتی احکام کو دستوری تقاضوں کے حسب حال قرار دینا خاصا دشوار کام ہے۔

اگر بھگوت گیتا دینے پر آئین معاون ہے تو مدرسے کو رقم دینا غیرآئینی کیوں ہے؟ اور اگر مدرسے کو رقم دیناغیرآئینی ہے تو مندر کو رقم دینا کیسے آئینی قرار پایا؟

عدلیہ دیگر اداروں کی طرح ایک محترم اور مقدس ادارہ ہے۔ اس کے جج بھی ادارے ہی کی طرح محترم ہیں۔ سب اداروں سے اُوپر ملک کا آئین ان سب سے مقدس ہے۔ اس آئین کے ابتدائی تقاضوں میں سے ایک یہ ہے کہ ملک اسلام کی بنیاد پر قائم ہے۔ ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے۔ کوئی قانون اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہوسکتا۔ ریاست کی ایک آئینی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اسلامی تعلیمات کا اہتمام کرے۔ یہ ذمہ داری پوری کرنے کے لیے وفاقی ماہرین تعلیم ،چاروں صوبوں سے مل کر متفقہ نصابِ تعلیم تیار کرتے ہیں تو ہرپیشی پر سپریم کورٹ کا ان پر اظہارِ برہمی۔جس نصاب کو سیکڑوں ماہرین تعلیم جب بڑی محنت سے اقلیتی آبادیوں کے لیے قابلِ قبول بناتے ہیں تو ایک پولیس آفیسر چند ہندو اورمسیحی افراد سے مل کر سپریم کورٹ کی سرپرستی میں اس نصاب سے اسلام کو یکسر نکال دینےکی کوشش کرتا ہے۔

اُمید کی جاتی ہے کہ فہمیدہ اور دانش مند افراد اس ساری صورتِ حال پر غور کرکے کوئی اجتماعی حل نکالیں گے۔ اس پر غور لازم ہے کہ جج صاحبان نے اس آئین کی حفاظت کا حلف اُٹھایا ہوا ہے جس کا بنیادی پتھر اسلام ہے۔ تو کیا مذکورہ بالا چند مثالوں میں حلف کا کوئی عکس دیکھنے کو ملتا ہے، اُمید ہے اہلِ نظر اس پر غور کرکے عملی قدم اُٹھائیں گے۔

(بشکریہ ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن، جون۲۰۲۱ء)

مستشرقین کے مطالعہ ”دکن میں اشاعتِ اسلام“ کا جائزہ

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(یہ مقالہ 7-8اپریل 2021کومولاناآزادقومی اردویونیورسٹی حیدرآبادکے شعبہ اسلامک اسٹڈیزاورآئی اوایس نئی دہلی کے اشتراک سے عہداسلامی کے دکن میں اسلامی علوم کے موضوع پرمنعقدہ دوروزہ قومی سیمینار/ویبنارمیں پیش کیاگیا)

موضوع کا تعارف:

سن1347ءمیں علاءالدین اسماعیل گنگوبہمن نے دہلی سلطنت سے الگ ہوکرجنوبی ہندمیں بہمنی سلطنت کی بنیاد ڈالی جودوصدیوں تک قائم رہی ۔بعدمیں یہ سلطنت مختلف چھوٹی ریاستوں میں بنٹ گئی جن میں بیجاپور، احمدنگر، برار، بیدر اورگولکنڈہ کی سلطنتیں مشہورہیں۔مغل سلطنت نے ان میں سے اکثرکا خاتمہ کردیاتھا۔ان کے علاوہ اٹھارویں صدی کی ابتداءمیں عہدمغلیہ کی ایک مدبروفرزانہ شخصیت نظام الملک آصف جاہ نے 1720میں مملکت آصفیہ کی تاسیس کی جس کا پایہ تخت حیدرآبادتھا۔( ۱)اس پورے عہدمیں علما وصوفیاءاورمشائخ نے دکن میں نہ صرف اسلام کی اشاعت کی بلکہ اسلامی علوم وفنون پر بھی گراں قدرکام کیا۔

مستشرقین نے عمومی طورپر تمام علوم اسلامیہ کواپنے مطالعہ وتحقیق کی جولان گاہ بنایاہے۔جن میں قرآن، حدیث،فقہ وسیرت وتاریخ کے علاوہ اشاعت اسلام کے موضوع پر بھی انہوں نے مطالعات کیے ہیں۔اس سلسلہ میں تھامس واکرآرنولڈکا نام بہت معروف ہے اوربرصغیرمیں اشاعت اسلام کی تاریخ میں ان کی کتاب ”پریچنگ آف اسلام یااسلام کی دعوت“ ایک ناگزیرعلمی حوالہ بن چکی ہے جوکہ اس سلسلہ کا نقش اول تھی ۔تاریخ دعوت وعزیمت کے مصنف مولاناسیدابوالحسن علی ندوی ؒ نے اس کتاب کوبہت پسند (appreciate)کیاہے۔آرنولڈ اقبال کے بھی استادتھے اوراقبال نے اپنے اس استاد کی یادمیں ایک نظم لکھی بعنوان :نالہ فراق

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں
آہ مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سرزمیں
آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں
ظلمت شب سے ضیاء روز فرقت کم نہیں (۲)

اورخودآرنولڈ بھی اقبال کی عظمتوں کے معترف تھے چنانچہ انہوں نے اقبال کے بارے میں کہا:”ہندوستان میں حرکت ِتجدیدنے اپناممتازترین ظہورسرمحمداقبال کی شاعری میں حاصل کیاہے “(۳)

آرنولڈجب علی گڑھ میں تھے توان سے مولاناشبلی نے بھی استفادہ کیااورانہوں نے شبلی سے ۔علی گڑھ میں اِس کتاب کے چرچے تھے البتہ بعض حلقوں میں اس کتاب کے خلاف ردعمل بھی تھا۔(۴)

اسی طرح مستشرق رچرڈ ایم ایٹن بھی ہندی اسلام کے مختلف پہلووں کے مطالعہ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ان کا مختصرتعارف یہ ہے :

 رچرڈ میکس ویل ایٹن(عمر 80 سال) امریکی تاریخ دان ہیں جوگرینڈ ریپڈس ، مشی گن ، ریاستہائے متحدہ میں 8 دسمبر 1940 کوپیدا ہوئے یونیورسٹی آف وسکانسن،میڈیسن ، ورجینیا یونیورسٹی ، دی کالج آف ووسٹر میں تعلیم پائی۔ ان کی درج ذیل تصنیفات معروف ہیں:

•  The Rise of Islam and the Bengal
•  Essays on Islam and Indian History
•  A social History of Daccan
•  India in the Persianate Age
•  Sufis of Bijapur

 وہ ایریزونا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔انہوں نے جیساکہ گزرا 1800 سے پہلے کی ہندوستانی تاریخ کے حوالے سے کئی قابل ذکر کتابیں لکھی ہیں۔ صوفیاء کے معاشرتی کردار اور عہدمتوسط کے ہندوستان کی ثقافتی تاریخ پر تحقیقی کام کا سہرا ان کے سرہے۔(۵)

ذیل کے مقالہ میں ہم اِنہیں دونوں خاص مستشرقین تھامس واکرآرنولڈاوررچرڈ ایم ایٹن کی کتابوں کے خصوصی حوالہ سے دکن میں اسلام کی اشاعت اوراس میں صوفیاءکرام کے کردارپر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

اپنی کتاب”پریچنگ آف اسلام“ کے آغازمیں پروفیسرآرنولڈبتاتے ہیں کہ ”ہندوستان میں اسلام کی دعوت پر تاریخ میں الگ سے کچھ نہیں لکھاگیا۔کیونکہ مورخین عمومی طورپرجوتصویرپیش کرتے ہیں وہ یہی ہے کہ ہندمیں اشاعت اسلام کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں نے فتوحات کے بعد اپنی مملکت قائم کی اوران کے جانشینوں نے اس کوقائم رکھا۔یعنی ان کی تلوارہی اسلام کی اشاعت کا بھی سبب بنی جس کے لیے محمودغزنوی کے حملے ،اس کے برہمنوں کے قتل عام ،اورنگ زیب عالمگیر،حیدرعلی اورٹیپوکے ذریعہ غیرمسلم مفتوحین کی persecutionکی مثال پیش کی جاتی ہے۔(۶) لیکن آرنولڈ سوال اٹھاتے ہیں کہ جوفاتحین آئے ان کی ذریت اوران کے ساتھ ترک وطن کرنے والے سپاہی وغیرہ بہت کم تھے جوزیادہ ترسلطنت کے انتظام اوراس کی بقاءکی جدوجہد میں لگے رہے۔ توآخربرصغیرمیں کروڑوں کی تعدادمیں مسلمان کہاں سے آئے ؟صرف حملہ آوروں کی نسل توہونے سے رہی ۔اس سوال کے جواب میں انہوں نے اپنی یہ تصنیف لکھی ،وہ کہتے ہیں کہ:” ان مسلمانوں کی اکثریت جواپنے آپ کوغیرملکی مسلم القاب شیخ ، بیگ ،خان اورحتی کہ سیدسے بھی موسوم کرتی ہے ان کی اکثریت مقامی مذہب تبدیل کرنے والوں کی تھی جنہوں نے مختلف وجوہات کے تحت اپنے آپ کو مسلمان اشرافیہ سے وابستہ کرلیاتھا۔(۷)۔اِن میں سے بعض لوگوں نے تو جبراً یامصلحتاًمذہب تبدیل کیاہوگا(۸) مگرزیادہ تراسلام میں خوداپنی مرضی سے داخل ہوئے۔(۹)وہ مزیدکہتے ہیں: ”ہندوستانی مسلمانوں نے یایوروپی مصنفوں نے ملک کی جوتاریخ لکھی ہے وہ صرف جنگوں،خوں ریزمہموں اور بادشاہوں کے کارناموں پر مشتمل ہے ۔مذہبی زندگی کا بیان یہاں کم ہی ملتاہے جس کی کچھ جھلکیاں ہم کوصوفی مشائخ کے تذکروں وسوانح سے مترشح ہوتی ہیں“۔(۱٠)موجودہ زمانے میں شیخ محمداکرام نے اپنے سلسلہ کوثریات، اور مولانا ابوالحسن علی ندوی نے تاریخ دعوت وعزیمت اورعزیز احمدنے ہندکی اسلامی ثقافت پر اپنی وقیع کتاب میں اورخلیق احمد نظامی نے تاریخ مشائخ چشت میں صوفیاءکی دعوتی مساعی کوآشکاراکیاہے۔

دکن میں اسلام:

آرنولڈلکھتے ہیں:”دکن میں بھی بہت سے مسلمان داعیوں نے کامیاب دعوتی کوشش کی ۔ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ عرب تاجرہندکے مغربی ساحلی شہروں میں آتے جاتے تھے۔انہوں نے کونکن کے علاقوں میں شادیاں بھی کیں۔بہمنی مسلم حکمرانوں(1347-1490)اوربیجاپورکے سلطانوں(1489-1686)کے زمانہ میں دکن میں مزیدعرب تارکین وطن آئے۔تاجروں اورسپاہیوں کے ساتھ ہی مبلغین اورداعی بھی آئے۔ انہوں نے تبلیغ اورعملی نمونہ سے دکن کے غیرمسلموں کے دلوں میں  جگہ بنائی۔کیونکہ ہمارے پاس اس بات کا کوئی رکارڈ موجودنہیں کہ ان سلطنتوں کے عہدمیں جبریہ مذہب تبدیل کرایاگیاہوکہ یہ حکمراں خاندان بڑے روادار اور مسامحت پسندتھے ۔(۱۱)اِن داعیوں میں سے ایک داعی کا نام پیرمہابیرکھمبایت تھا (۱۲)جودکن میں 1304میں آئے تھے۔بیجاپورکے کسانوں میں اُن جینیوں کی اولاداب بھی موجودہے جوپیرمعبرکے ذریعہ مسلمان ہوئے ۔(۱۳)اسی صدی میں گلبرگہ میں مشہورصوفی بزرگ سیدمحمدگیسودراز(حضرت چراغ دہلی کے خلیفہ )جن کو مخدوم گیسودرازبھی کہتے ہیں اورجن کی خانقاہ آج بھی جنوبی ہندمیں ایک بڑاتعلیمی مرکزہے یہاں تک کہ اس درگاہ کے تحت ایک یونیورسٹی قائم ہوگئی ہے۔ان کے ہاتھوں پر پونااوربیلگام کے بہت سے ہندومشرف بہ اسلام ہوئے ۔ (۱۴) دھانومیں اسلام کے مشہورصوفی شیخ عبدالقادرجیلانی کے ایک رشتہ دارکے اخلاف ابھی تک قیام پذیر ہیں۔ جنہوں نے علاقہ کونکن میں بہت سے لوگوں کومسلمان بنایا،دہ دھانومیں ہی مدفون ہیں۔(۱۵)

اسی طرح ناسک میں ایک دوسرے بزرگ شاہ محمدصادق سرمست حسینی کے اخلاف پائے جاتے ہیں ۔ جومدینہ سے 1568میں یہاں آئے تھے اورمغربی ہندکے بڑے حصہ کی سیاحت کرتے ہوئے ناسک میں مقیم ہوگئے تھے  ۔ ان سے تقریبا50سال پہلے یہاں خواجہ خون منیرحسینی نے بھی تبلیغی جدوجہدکی تھی (۱۶)بیلگام میں دواورمشائخ کی دعوتی جدوجہدکاتذکرہ کیا جا سکتا ہے یہ تھے: سیدمحمدبن سیدعلی اورعمرعیدروس بشیبان۔(۱۷)تبلیغی ودعوتی جدوجہد کے اس پورے سلسلہ کو پروفیسرآرنولڈنے مختصراًبیان کیاہے۔(۱۸)

ضمنایہ یہاں یہ تبصرہ بھی مناسب ہوگاکہ برصغیراوردکن میں اشاعت اسلام کے بارے میں آرنولڈنے کئی جگہ رواروی میں یہ بات دہرادی ہے کہ محمودغزنوی نے مندرتوڑے اورزبردستی لوگوں کومسلمان بنایا۔اسی طرح دوسرے مورخوں کی طرح وہ بھی اورنگ زیب عالمگیر،حیدرعلی اورسلطان ٹیپوکے بارے میں یہی الزام باربارلگاتے ہیں جس کے لیے انہوں نے تاریخ فرشتہ کا حوالہ دیاہے۔مگراس مسئلہ میں وہ زیادہ بحث نہیں کرتے حالانکہ اِن تینوں حکمرانوں پر اس قسم کے الزامات کا پوراتجزیہ کرناضروری ہے۔

سلطان ٹیپوکے سلسلہ میں جبراًمسلمان بنانے کے لیے آرنولڈنے مالابارکے باغی ہندووں کے نام سلطان کا فرمان نقل کیاہے۔مگرخوداس فرمان کے تجزیہ سے ہی یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ سلطان کا اصل منشا اِن باغیوں کوجبراًمسلمان بنانانہیں بلکہ ان کومطیع فرمان بنانااورعورتوں کے تعلق سے جوان میں انتہائی غیرانسانی اورتہذیب سے گری ہوئی رسمیں جاری تھیں ان کا خاتمہ کرناتھا۔ان لوگوں میں رواج تھاکہ اگرکسی گھرمیں دس بھائی ہوتے توان میں صرف بڑابھائی شادی کرتااورباقی سب اس کی بیوی پر اپناحق سمجھتے ۔اسی طرح ماوں اوربہنوں کونیم عریاں رکھاجاتاان کوشوہرکی چتاکے ساتھ زبردستی جلادیاجاتاوغیرہ۔ان بری رسموں سے خواتین کونجات دلانے اوران باغیوں کومطیع فرمان بنانے کے لیے سلطان نے باربارکی مصالحانہ ومصلحانہ کوششوں کی ناکامی کے بعدایک فرمان جاری کیاتھاجس کا خلاصہ یہ ہے :

”تم لوگ باربارکی بغاوت اورعورتوں کے ساتھ ایسے بہیمانہ سلوک سے جس سے آپ سب لوگ ولدالزنا قرار پائیں مسلسل فہمائش کے بعدبھی بازنہیں  آتے۔ اگرتم لوگ اب بھی اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آئے تومیں تم سب کو اسیربناکرسری رنگاپٹم لے جاوں گااورسب کومسلمان بنالیاجائے گا“۔ ( ۱۹)

یہ ایک بغاوت کا مخصوص کیس ہے اور اس سے کوئی عمومی نتیجہ نکالنادرست نہ ہوگا۔اسی طرح اورنگ زیب عالمگیر کی مہمات وغیرہ اوربعض مندروں کو توڑنا بھی مخصوص کیس ہیں جن کودرست پس منظرمیں دیکھناضروری ہے۔سلطان محمودغزنوی نے باربارہندوستان پر حملے کیے ۔اس کی بت شکنی اورہندووں کے قتل عام کا جوپروپیگنڈاکیا جاتا ہے، اگران کودرست تناظرمیں دیکھاجائے تو اس پروپیگنڈے کی بھی ہوانکل جاتی ہے۔ جیساکہ مشہور و ممتاز مورخ رومیلاتھاپر نے سومناتھ مندرپر اپنی کتاب میں محمود کے حملوں اور بت شکنی کے واقعات کا تجزیہ کرکے ثابت کیا ہے۔تھاپر کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ درباری مورخوں نے بہت سے واقعات کوخواہ مخواہ بڑھاچڑھاکربیان کردیاہے۔ مثلا سومناتھ پر حملہ اوربت شکنی کے واقعات کا جوبیان ابوالقاسم فرشتہ یادوسرے فارسی مصنفین کرتے ہیں اس کا تقابل معاصرسنسکرت اورہندی ،گجراتی وغیرہ کے مصنفین  کے بیانات سے کیاجائے توزبردست فرق محسوس ہوتاہے حالانکہ یہ مفتوح لوگ تھے ،ان کو اپنی مظلومیت کی داستان زیادہ نمک مرچ لگاکربیان کرنی چاہیے تھی،اگرایسانہیں ہے تودرباری مورخوں کے بیانات مشتبہ ہوجاتے ہیں۔ (۲٠)

رچرڈایم ایٹن کا زاویہ نظرتھوڑاسامختلف ہے ۔انہوں نے اپنے مطالعہ میں ایک سوال یہ قائم کیاکہ برصغیرمیں اوربالخصوص دکن میں اسلام تلوارکے زورپر نہیں پھیلابلکہ صوفیاءکرام کے ذریعہ پھیلا۔انہوں نے یہ بھی ثابت کیاکہ صوفیاءبھی بالقصددعوت وتبلیغ کا ہدف نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کے ذریعہ زیادہ تراشاعت اسلام کا کام بالواسطہ اور غیر محسوس طورپر ہوا یعنی اسلام تصوف کا ضمنی حاصل (By Product )ہے۔تاہم سوال یہ ہے کہ اکابرصوفیاءشیخ ابن عربی اوردوسروں کا نظام فکراتنادقیق ،فلسفیانہ اورمتفکرانہ ہے کہ عوام الناس تک ان کی رسائی بڑی مشکل تھی ۔

عہدمتوسط کے متعلق مصنفین ومورخین عموماًیہ توبتاتے ہیں کہ تصوف نے فاتحین اورمسلم بادشاہوں کے رویوں میں  جوشدت تھی اوراس سے عام لوگوں میں اسلام سے جوتنفرتھااورجو دوری تھی اس دوری کومٹانے کی کوشش کی اوراس شدت کوکم کیا۔یعنی تصوف اسلام کی شان جمالی کا اظہارتھا۔اسلامی ہندپر اہم لکھنے والوں جیسے عزیزاحمد،خلیق احمدنظامی ،ایچ کے شیروانی،تاراچند،یوسف حسین خان اورتھامس واکرآرنولڈ،محمدمجیب اور احمدرشید وغیرہ کی کتابیں بھی اسی خیال کا اظہارکرتی ہیں ۔ صوفیاکے ذریعہ نچلی ذات کے ہندو،صفائی کرنے والے کپڑے بننے والے طبقات نے اسلام قبول کیااورصوفیانے الیٹ مسلمانوں کے برعکس ان کے ساتھ انسانی اورمساویانہ سلوک کیا۔واضح رہے کہ مسلم حکمراں اورامراءبھی مسلم غیرمسلم سے قطع نظرمعاشرہ کی اشرافیہ اوراراذل کی جاہلی تقسم کو روارکھے ہوئے تھے ۔البتہ سوال یہ ہے کہ معاشرہ کے ان نچلے طبقوں تک صوفیااوران کی تعلیمات کی رسائی کیسے ہوئی کیونکہ صوفیاءکے بارے میں یہ معلوم ہے کہ :

۱۔وہ مریدوغیرمریدمیں فرق کرتے ہیں اوراپنے احوال وکشف وغیرہ معتمدمریدین پر ہی ظاہرکرتے ہیں

۲۔ وہ اپنے علوم کشفی ووارداتِ شخصی کا اخفاءکرتے ہیں

۳۔ان کا لٹریچرفارسی میں ہے جس سے عام ہندوناواقف محض تھے۔

اور جیساکہ پروفیسرنکلسن بجاطورپریہ کہتے ہیں کہ ”تصوف اسلام کا مذہبی فلسفہ بھی ہے اورمذہب کا عوامی روپ بھی۔ (۱۲) تاہم مذکورہ تمام مصنفین صوفی لٹریچرکا حوالہ تودیتے ہیں مگروہ عوام اورتصوف کے لٹریچریاصوفیاکی تعلیمات کے درمیان رابطہ کیسے ہوااس کی کوئی تشریح نہیں کرتے ۔رچرڈایٹن نے اسی سوال کا جواب اپنے مضمون : Sufi Folk Literature and the Expansion of Indian Islam میں دینے کی کوشش کی ہے۔

ہندوستانی عوام تک اکابرین تصوف کی تعلیمات کیسے پہنچیں اوران کا اتناگہرااثرکیوں کرپڑا؟ اس سوال کے جواب میں رچرڈایٹن بتاتے ہیں کہ” یہ عملاً ان صوفیاءکا کمال ہے جومقامی رنگ میں رچ بس گئے تھے اور مقامی بولیاں انہوں نے اختیارکرلی تھیں ۔جنہوں نے تصوف کی تعلیمات اورمذہب کی اصل روح یعنی ،خداسے محبت ،بندوں کی خدمت ، رواداری اورصلح کل ،مفاہمت ،محبت انسان اورمساوات بنی آدم وغیرہ کا عطرکشیدکرکے ان کوخوداپنے مخاطب عوام کی ان کی اپنی زبان اوربولی ٹھولی اوردیہاتی محاوروں اورلفظوں میں ڈھال کران میں زبردست تاثیراورکشش پیدا کر دی تھیں۔مثال کے طورپر دیہات کے لوگوں کے لیے انہوں نے جورسالے لکھے جولوگوں کی زبانوں پر چڑھ گئے، ان میں چکی نامہ ،چرخانامہ ،شادی نامہ اورسہاگن نامہ وغیرہ ہیں جن کوعورتیں چکی پیستے ہوئے یاچرخاکاتتے ہوئے گایا کرتیں۔اسی طرح شادی کے موقع پر جوگانے گایے جاتے ۔یاشوہرسفروغیرہ پر جاتے توجن بولوں اورگیتوں سے عورتیں اپنے سہاگ کورخصت کرتیں اس کوسہاگن نامہ بولتے ۔ ان لوک گیتوں کے ذریعہ جن کوصوفیاءنے وضع کیا تھا  اپنی تعلیمات کوانہوں نے مقامی سطح پر بہت وسیع حلقوں میں پہنچادیااورپورے دکن میں ان کا رواج ہوگیا“۔(۲۲)

رچرڈ ایٹن لکھتے ہیں:”(میرا)استدلال یہ ہے کہ فوک لٹریچرکے دونوں ذرائع یعنی صوفیاءکے ذریعہ لکھے گئے عوامی رسالوں اوردرگاہوں دونوں نے مل کرعقیدت پر مبنی عوامی اسلام کی تشکیل کی ۔جس سے نان الیٹ طبقے اورخاص کر خواتین اورعام لوگ تصوف کے قریب آئے۔سترہویں صدی سے شروع ہونے والایہ رجحان آج بھی موجودہے۔ چنانچہ درگاہوں پر خواتین زائرزیادہ آتی ہیں۔تاہم واضح رہے کہ جیسے عیسائی مشنریز ہوتے ہیں اسی طرح سے صوفیاء کو اسلامی مشنریزیاپیشہ ورمبلغین نہیں شمارکرسکتے ۔کیونکہ صوفیاءنے کبھی بھی منصوبہ بندطریقہ سے دعوت وتبلیغ کا کام نہیں کیا جیسے کہ مسیحی مشنریز کرتے ہیں۔(بعض اکادکامثالیں استثنائی ہوسکتی ہیں،مقالہ نگار)بیجاپورکے صوفیاءکے حالات سے معلوم ہوتاہے کہ صوفیاءکی کشف وکرامات سے متاثرہوکرنان الیٹ اورخاص کرخواتین،مزدورودستکار مختلف صوفیاءکے ارادت مندہوجاتے تھے ۔بعض لوگ باقاعدہ بیعت بھی ہوتے تھے۔ان کی تبدیلی مذہب کو conversion نہیں کہاجائے گا۔بلکہ اپنے صوفی شیخ کے استرشادمیں آنے سے وہ بتدریج اسلام کے رنگ میں رنگ جاتے مگراپنے رہنے سہنے ،پہننے اوڑھنے اورکھانے پینے کے قدیم طریقوں کوبرقراررکھتے اوروقت گزرتے ان کو اسلامی تہذیبی روایات کا حصہ بنالیتے۔یوں صوفیا کی درگاہوں اور مزارات نے دکن کے عام لوگوں کواسلام کے دامن  میں لانے میں غیرمحسوس طورپرایک بڑاکارنامہ انجام دیا(۲۳)

پروفیسررچرڈایٹن کے مطابق شیخ برہان الدین جانم کے کسی مریدنے چکی نامہ لکھااسی طرح شاہ ہاشم خداوندہادی نے بھی ۔چکی نامہ میں چشتی سلسلہ کے تصور وجود ، تصورخدا،پیراورچکی پیسنے والی مریدکے رشتہ اورخدااورمادی وجودسے اس کے رشتہ کودیہاتی محاورے میں اداکیاگیاہے ۔بعض لائنوں میں شیخ ابن عربی کے فلسفہ تصوف کی چھاپ بھی نظرآتی ہے۔ (۲۴)۔وہ مزیدلکھتے ہیں:

”صوفی فوک لٹریچرکے گیارہ مخطوطے دریافت ہوئے ہیں جن میں زیادہ ترچکی نامہ ہیں۔ان پر تاریخ مندرج نہیں ہے مگر جو دکنی زبان ا ن میں استعمال ہوئی ہے اس کے مدنظران کوسترھویں صدی یااٹھارویں صدی کے اوائل کی طرف منسوب کیاجاسکتاہے۔ایک چکی نامہ سترہویں صدی کے ایک اہم اورآزادمشرب بیجاپوری صوفی شیخ امین الدین علاء(متوفی 1675) کی طرف منسوب ہے۔( ۲۵) )دوسرا چکی نامہ شاہ ہاشم خداوندہادی (متوفی 1704-5) کی طرف منسوب ہے۔یہ شیخ امین الدین علاءکے خلیفہ تھے۔انہیں کے ایک اورمریدشیخ فاروقی نے ایک اورچکی نامہ لکھا۔( ۲۶)دوسرے اورچکی نامے بیجاپورکے ایک صوفی فی الحال قادری (تاریخ نامعلوم)کی طرف منسوب ہیں۔ اور ایک بیلگام کے چشتی صوفی شاہ کمال یاشاہ کمال الدین (متوفی 1809-10)کی طرف منسوب کیاجاتاہے جوانہوں نے اپنی اہلیہ کی فرمائش پر لکھاتھا ( ۲۷)

اسی طرح ایک سہاگن نامہ کا مخطوطہ بھی پایاجاتاہے جسے بیجاپورکے ایک چشتی شیخ راجوقتال(متوفی 1681)نے ترتیب دیاتھا۔( ۲۸ )جوترک وطن کرکے حیدرآبادآگئے تھے (۲۹)ایک چرخانامہ کسی سالارنامی شخص کی طرف منسوب ہے مگراس کی اصلیت معلوم نہیں ہوسکی ۔دواورچکی نامے دکن کے مشہورصوفی شیخ سیدمحمدبندہ نواز کی طرف منسوب ہیں۔تاہم ان کی اصلیت میں اس لیے شک ہے کہ کتاب کے اخیرمیں لکھنے والے کا نام بندہ نواز لکھاہے ۔جبکہ معلوم ہے کہ خواجہ بندہ نوازخوداس نام کواستعمال نہ کرتے تھے ۔یہ لقب توان کودوسروں نے دے دیا ہے۔ ( ۳٠) اوردوسرے اس لیے بھی کہ شیخ بندہ نواز کی وفات کے کوئی ڈیڑھ صدی بعدہی چکی نامے لکھے گئے ہیں۔اِن مخطوطوں سے یہ نتیجہ سامنے آتاہے کہ وہ مستندہوں یاغیرمستند،ہیں وہ سب صوفیاکے وضع کردہ ۔اِن میں جومشترک مضمون ہے وہ (۱)خداکی محبت اوراس کی حمد،(۲)رسول اللہ ﷺ سے عشق،(۳) اپنے صوفی پیرکی عقیدت (۴)گانے والی خاتون کی خوش عقیدگی (۵)اورصوفیانہ اذکارکا وردجوگانے والی کی شخصیت کومنضبط کرتے ہیں۔دوسرے یہ کہ یہ مختصرلوک گیت چشتی سلسلہ کے بزرگوں اوران کے مریدین کے لکھے ہوئے ہیں۔تیسرے دکن کے جوکبارمشائخ مصنف ہیں مثلاً شیخ میران جی شمس العشاق( متوفی 1499)شاہ برہان الدین جانم (متوفی 1597)اورشیخ محمدخوش ذہن (متوفی1617)وغیرہ نے یہ رسائل نہیں لکھے بلکہ یہ اِن مشائخ کے اخلاف ومسترشدین کے وضع کردہ ہیں جو سترہویں صدی یااٹھارویں صدی کے اوائل میں تھے ۔(۳۱)

اس طرح نہ صرف مسلمان مصنفین ومورخین بلکہ خودمستشرقین کے مطالعات بھی یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچادیتے ہیں کہ برصغیرمیں بالعموم اوردکن میں بالخصوص اشاعت ِاسلام میں تلوارکا اورفتوحات کا حصہ بہت کم رہا ہے۔اس سلسلہ میں عرب تاجروں کی دعوت اورصوفیاءکرام کی بالواسطہ اصلاحی ودعوتی مساعی نے ہی اصل کردار ادا کیا۔ اوراگرتاریخ میں جبری تبدیلی مذہب کے اکادکاواقعات کہیں ملتے بھی ہیں توان کی حیثیت استثنائی واقعات کی ہے۔اوراس طریقہ پر جولوگ مسلمان ہوبھی جاتے تھے وہ حالات کا جبرختم ہونے پر جلدہی اپنے سابقہ مذہب کی طرف لوٹ جاتے تھے۔(۳۲)البتہ ابتدائی عرب مسلم غازیوں نے جہاں بھی حملہ کیاانہوں نے جنگ سے پہلے حریف کے سامنے قبول اسلام کرکے اپنے بھائی بن جانے کا آپشن بھی پیش کیا۔اِس کوجبراً اسلام قبول کروانانہیں کہاجاسکتا۔ یہ تواسلام کے آئین جنگ کالازمی حصہ ہے۔(۳۳)

بہرکیف یہ دونوں مستشرقین اس بات پر متفق ہیں کہ دکن میں خصوصاً اورپورے ملک میں عموماً اشاعت اسلام کا کام صوفیاءکرام کے ذریعہ انجام پایا۔ تصوف کے بارے میں عام تصوریہ ہے کہ یہ زندگی سے فرارکا نام اوردنیاسے کٹ کرگوشوں اورکھوہوں میں جابیٹھنے کا نام ہے۔لیکن تصوف کی تاریخ اس تصورکی نفی کرتی ہے۔واقعہ تویہ ہے کہ تصوف کی روایت بھی بڑی وسیع اورمتنوع ہے۔اس میں وجودی صوفیاءبھی ہیں شہودی بھی ۔متشدد بھی ہیں اوروسیع المشرب بھی ،سیف وسنان سے کھیلنے والے بھی ہیں اورقلم کے دھنی بھی ۔خودموجودہ زمانے میں امیر عبدالقادر الجزائری ،سنوسی سلسلہ کے بزرگان،داغستان کے امام شامل کی مثالیں توسامنے کی با ت ہیں۔دکن اور بر صغیر میں بھی بہت سے نام صاحب سیف وقلم صوفیوں کے ہیں۔پروفیسررچرڈایم ایٹن کی کتاب Sufis of Bijapur کے دوسرے باب کا عنوان ہے :The Warrior Sufis (مجاہدصوفیا)اس میں انہوں نے ان صوفیاءکا تذکرہ کیاہے جنہوں نے جہادوشہادت کی داستانیں رقم کی ہیں۔

ان میں سےبعض صوفیاءنے جہاد کیااورشہادت بھی پائی البتہ زیادہ ترحالات میں ان کے جہادکی نوعیت صرف دفاعی تھی یعنی وہ جن علاقوں میں اپنے پیرومرشدکی ایماءپر گئے وہاں کے حکام اورراجاوں نے ان کورہنے کی اجازت نہ دی اوران کے کام میں مزاحم ہوئے توان سے جہادکی نوبت آگئی ۔جیسے سیدابراہیم شہیدجومدینہ سے آئے تھے اور پانڈیا حکمرانوں سے ان کی جنگ ہوئی تھی ،یہاں تک ایک علاقہ پر انہوں نے بارہ سال تک اپنااقتداربھی قائم رکھا مگر بالآخر راجہ کے مقابلہ میں شہیدہوگئے ۔(۳۴)ورنہ زیادہ ترصوفیاءاپنے بالواسطہ طریقہ دعوت اورصلح کل کے طریقوں سے کام لے کرعام لوگوں کویعنی سماج کے دبے کچلے لوگوں،غریبوں،اچھوتوں اورشودروں کواپنے سے قریب کیا۔انہوں نے فقہاءکی سی شدت نہیں دکھائی بلکہ عملی معاملات میں بہت زیادہ لچک دکھائی جس میں بہت دفعہ مبالغہ بھی ہوااورکفرواسلام کا فرق بھی مٹتاہواسامحسوس ہوا۔بہرحال ان بالواسطہ طریقوں نے زیادہ بڑے پیمانے پر لوگوں کواپنی طرف متوجہ کیا۔

حواشی و حوالہ جات:

۱۔مولانامودودی ،تاریخ دولت آصفیہ، یہ کتاب عمومی معنوں میں تاریخ نہیں البتہ اِس میں اورنگ زیب عالمگیرکے بعدسلطنت مغلیہ کی ابتری اوردولت آصفیہ کے قیام کے اسباب پر اچھی روشنی ڈالی گئی ہے۔مطبوعہ فریدبک ڈپونئی دہلی

۲۔کلیات اقبال ص 105خصوصی ایڈیشن ،اقبال اکادمی پاکستان لاہورطبع 1990

۳۔ایضاص ۱۱

۴۔ملاحظہ ہومولاناامین احسن اصلاحی دیباچہ تفسیرنظام القرآن جس میں انہوں نے مولاناحمیدالدین فراہی کا یہ تاثرنقل کیاہے کہ وہ اس کتاب کومسلمانوں کے اندرسے جذبہ جہادکوختم کرنے کی بساط کاایک مہرہ سمجھتے تھے:ص ۱۱،طبع دائرہ حمیدیہ فروری 2009

۵۔رچرڈ ایٹن کی ایک کتاب ہندوستان میں ہندومندروں کے انہدام کے بارے میں ہے۔Desecration of Temples in Muslim India اِس میں انہوں نے بتایاہے کہ محمدبن قاسم سے لے کراخیرمغلیہ عہدتک تقریبااسی (۸٠)مندرڈھائے گئے ۔کس سلطان یاحاکم کے زمانہ میں کس ریاست اورکس پرگنہ میں اورکب یہ تباہ کیے گئے اس کا تفصیلی چارٹ انہوں نے دیاہے۔ان کا کہناہے کہ مندروں کایہ انہدام خالصتاً سیاسی وجوہ سے ہوا مذہبی اغراض کے لیے نہیں۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی بتایاہے کہ کئی مندرمغل سلاطین کی نگرانی وسرپرستی میں تعمیربھی کیے گئے تھے جیسے کہ ہندووں کے مشہورتیرتھ استھان متھرامیں برندابن کا گوونددیوکا مندرجو1550میں تعمیرکیاگیا۔

6۔ ''Thus the missionary spirit of Islam is supposed to show itself in its true light in the brutal massacres of Brahmans by Mahmud of Ghazna, in the persecutions of Aurangzeb, the forcible circumcisions effected by Haydar Ali, Tipu Sultan and the like. The Preaching of Islam Page 193
7- Census of India 1891 General report by J.A Baines P.167 London 1893  اور ایضا صفحہ 126

۸۔ص 194پریچنگ آف اسلام

۹۔ ایضاص194

۱٠۔ایضاص194

۱۱۔The Bombay Gazeteer Vol, x p.132اوردیکھیں یہی گزیٹیرVol, xvi p.75 بحوالہ پریچنگ آف اسلام

۱۲۔شیخ محمداکرام نے پیرمعبری کھندائت لکھاہے۔جوعرب تھے اورمعبر(کارومنڈل )سے 1304میں دکن آئے اس لیے پیرمعبری کہلاتے تھے ان کے علاوہ اوربھی کئی مشائخ کا تذکرہ شیخ اکرام نے کیاہے ملاحظہ ہو: آب کوثرص356

۱۳۔ایضاVol, xxiii p.صفحہ 282

۱۴۔(The Bombay Gazeteer Vol, xviii p.218-223

۱۵۔ایضاVol,xiii part I p.231

۱۶۔ایضاVol,xvi p.75-6

۱۷۔ایضا:Vol,xxi p.203 “

۱۸۔پروفیسرآرنولڈ،پروفیسرآف عربک یونیورسٹی آف لنڈن ،یونیورسٹی کالج ،پریچنگ آف اسلام Second Edition Revised. London Constable & Company Ltd, 1913

۱۹۔ایضا:ص198

۲٠۔ملاحظہ ہو: رومیلاتھاپر:Somnath, The many Voices of a History, Penguin Books

۲۱۔ص 190 )Essay on Islam and India

۲۲۔ص199)Essay on Islam and India

۲۳۔ایضاصفحہ190

۲۴۔ایضا صفحہ196)کتاب میں ایٹن نے اوریجنل دکنی کے اشعارنہیں دیے بلکہ صرف ان کا ترجمہ نقل کرنے پر اکتفاکیاہے ۔اگراصل اشعاربھی دیتے تواس سے ان کی تاثیرکا صحیح اندازہ ہوسکتاتھا۔

۲۵۔ایضاصفحہ 192

۲۶۔ایضاصفحہ 193

۲۷۔سخاوت مرزا،سیدشاہ کمال الدین رسالہ اردواپریل 1939 بحوالہ ایٹن 1993

۲۸۔تذکرہ اولیاءدکن دوجلد،عبدالجبارملک پوری حیدرآباد1912جلداول ص337

۲۹۔ایضاصفحہ ص193، Essay on Islam and India

۳٠۔ایضاصفحہ ص193، Essay on Islam and India

۳۱۔صفحہ 194کتاب :Essays on Islam and Indian History

۳۲۔چنانچہ محمودغزنوی نے جب بلندشہرپر حملہ کیاتووہاں کے راجہ ہری دت نے دس ہزارلوگوں کے ساتھ اسلام قبول کرلیامگربعدمیں وہ اپنے سابقہ مذہب کی طرف لوٹ گیا،ملاحظہ ہو:پریچنگ آف اسلام ص195

۳۳۔مثال کے طورپر جارج ایلیٹ نے اپنی تاریخ میں لکھاہے کہ محمدبن قاسم نے حملہ سے پہلے ہندوراجہ کوقبول اسلام کی دعوت دی اوربعدکے فاتحین بھی ایساہی کرتے تھے(جلداص175-207)۔

۳۴۔شیخ محمداکرام ،آب کوثرص 354


اگست ۲۰۲۱ء

عالمی تہذیبی دباؤ اور مسلمان معاشرےمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۹)ڈاکٹر محی الدین غازی
علمِ رجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۱)مولانا سمیع اللہ سعدی
سوویت یونین، افغانستان اور امریکی اتحادمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
نظام مدارس: روایت اور معاصرت کا اطلاقی جائزہڈاکٹر اکرام الحق یاسین
وحدت ادیان: مکتب روایت کا موقفمارٹن لنگز

عالمی تہذیبی دباؤ اور مسلمان معاشرے

محمد عمار خان ناصر

مختلف تہذیبی افکار اور معاشرتی تصورات وروایات کے اختلاط کے ماحول میں  باہمی تاثیر وتاثر کی صورت حال کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ اس تاثیر وتاثر کی سطح اور حد کا تعین تاریخی حالات سے ہوتا ہے جس میں سیاسی طاقت اور تہذیبی استحکام کا عامل سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر دو تہذیبی روایتوں کا تعامل ایسے حالات میں ہو کہ دونوں کے پیچھے سیاسی طاقت اور تہذیبی روایت مستحکم طور پر کھڑی ہو تو تاثیر وتاثر کی صورت مختلف ہوتی ہے، لیکن اگر ایک تہذیبی روایت اضمحلال وزوال اور سیاسی ادبار کے مرحلے پر جبکہ دوسری عروج واقبال کی طرف گامزن ہو تو تاثیر وتاثر کے سوال سے نبرد آزما ہونا کمزور تہذیب کے لیے بہت ہی مشکل معاملہ بن جاتا ہے۔

مسلم تہذیب اور جدید مغربی تہذیب کا باہمی تعامل بنیادی طور پر ایسے ہی تاریخی حالات میں رونما ہوا ہے اور اس کی سنگینی اس پہلو سے بہت بڑھ جاتی ہے کہ جدید مغربی تہذیب، ماضی کی تہذیبوں کے برعکس، انسانی معاشروں کی تشکیل کی اقدار کے باب میں تعدد وتنوع اور تہذیبی اختلاف کی گنجائش کو قبول نہیں کرتی۔ وہ جن اقدار کی علمبردار ہے، انھیں عقلی دریافت کا نتیجہ سمجھنے کی بنیاد پر آفاقی تصور کرتی ہے اور تمام انسانی معاشروں میں انھی اقدار کو جاری وساری کر دینے کو اپنی ذمہ داری اور فریضہ سمجھتی ہے۔ موجودہ بین الاقوامی نظام میں غیر مغربی معاشروں کی مستقل اور مسلسل نگرانی کا اور انھیں جادہ تہذیب پر گامزن رکھنے کے لیے ڈنڈے اور گاجر کا تمام تر انتظام اسی بنیادی پوزیشن سے پھوٹا ہے۔

سیاسی واقتصادی زبوں حالی کا نتیجہ بین الاقوامی سطح پر مہذب وغیر مہذب اقوام کی تقسیم کے ساتھ ساتھ کمزور معاشروں کی داخلی تقسیم کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے ۔ سیاسی غلبہ اور مادی قوت نفسیاتی اور فکری تاثیر پیدا کرنے کی غیر معمولی استعداد رکھتی ہے۔ اگر سیاسی طاقت ایک تہذیبی ڈھانچہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے ساتھ وابستہ افکار، نظریات، فلسفے اور اخلاقی تصورات وغیرہ عمومی انسانی شعور کے لیے اپنی قبولیت پیدا کرنے میں مزید کسی چیز کے محتاج نہیں ہوتے۔ یہ افکار اور فلسفے کسی بھی فلسفیانہ یا عقلی معیار پر آفاقی نہیں ہوتے اور کسی دوسرے تہذیبی واقداری فریم ورک میں ان کی معیاریت پر تنقیدی سوال اٹھانا عقلا ہمیشہ ممکن ہوتا ہے، تاہم غالب تہذیب کی سیاسی قوت اور تہذیبی استحکام، فکر ودانش کو آسانی سے اس عقلی امکان کی طرف متوجہ نہیں ہونے دیتی اور ناگزیر طور پر غالب فلسفوں کی آفاقیت اور معیاریت کا التباس پیدا ہو جاتا ہے۔ مسلمان معاشرے اس وقت بعینہ اسی صورت حال کے روبرو ہیں۔

مثال کے طور پر  گزشتہ دنوں مرد وعورت کی باہمی رفاقت کے لیے نکاح کے ضروری ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے ملالہ یوسف زئی نے یہ سوال  اٹھایا کہ ’’جنسی تعلق کے لیے عقد نکاح میں بندھنے کی کیا ضرورت ہے اور باہمی مفاہمت پر مبنی رفاقت (پارٹنرشپ) کیوں کافی نہیں“۔ یہ مختصر سوال بہت متنوع، اہم اور بنیادی اخلاقی، قانونی اور تہذیبی سوالات کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے جن کو کھولے اور ان کی تنقیح کیے بغیر اس الجھن  کا درست تجزیہ نہیں کیا جا سکتا۔ مثلا ایک بنیادی  سوال یہ ہے کہ کیا جنسی تعلق کے جواز کے لیے سماجی ضابطہ بندی کا کوئی ایسا آفاقی ڈھانچہ موجود ہے جس کی پابندی کو تمام انسانی معاشرے متفقہ طور پر ضروری مانتے ہوں اور تاریخ وثقافت اور اقدار وعقائد کے اختلافات اس پر اثر انداز نہ ہوتے ہوں؟ انسانی معاشروں اور تاریخ سے ایک سرسری واقفیت رکھنے والا شخص بھی یہ جانتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ ہر تہذیب اور ہر معاشرہ اس کا تعین اپنی خاص اقدار، حالات اور ضروریات کے لحاظ سے کرتا رہا ہے اور کسی بھی خاص مجموعہ ضوابط کی پابندی اس تہذیبی اورمعاشرتی تناظر میں ہی ضروری مانی جاتی رہی ہے جس میں اس کی تشکیل ہوئی۔  شادی کا باقاعدہ معاہدہ کیے بغیر، مرد وعورت کا جنسی رفاقت کا رشتہ بنا لینا اسی نوعیت کی چیز ہے۔ ضروری نہیں کہ دوسرے معاشرے بھی اس مسئلے کو اسی نظر سے دیکھیں جس سے اسلام نے دیکھا ہے، تاہم مسلمان معاشرے اپنی دینی اقدار اور معاشرتی تصورات کی بنیاد پر اس کے جواز کو قبول نہیں کر سکتے۔

اس تناظر میں  decoloniality (رد استعمار)  کی بحث بہت اہم بن جاتی ہے جو  سوشل تھیوری کے میدان میں پچھلی تین چار دہائیوں میں  نمایاں ہوئی ہے۔ اس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاسی مفہوم میں مغربی استعمار کے بظاہر خاتمے کے باوجود انسانی معاشروں کی تاریخ اور تشکیل کو دیکھنے کی وہ ساخت اور وہ فکری تصورات ومفروضات اسی طرح برقرار ہیں جو نشاۃ ثانیہ اور روشن خیالی کے زیراثر مغربی علوم نے قائم کیے ہیں۔ رد استعمار کے موید  اہل فکر کا کہنا ہے کہ اس فکری سانچے کو توڑے بغیر انسانی معاشروں کی ایک متبادل تشکیل کی طرف بڑھنا ممکن نہیں۔ مسلم اہل فکر کی ذمہ داری  بنتی ہے کہ غالب تہذیب اوراس کے علوم وافکار کی تنقید     کا ایسا جامع اور مربوط بیانیہ  سامنے لائیں جو  مسلم معاشروں کی ناگزیر تہذیبی خصوصیات کے تحفظ  کی فکری  اساس فراہم کر سکے۔


اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۷۹)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(263)  اف کا ترجمہ

عربی میں لفظ اف دراصل منھ سے نکلنے والی ایک آواز ہے، جس سے کسی چیز یا بات سے بیزاری اور ناگواری کا اظہار ہوتا ہے۔ ہر زبان میں اس طرح کے الفاظ ہوتے ہیں۔ زمخشری کے بقول: اُفٍّ صوت اذا صوّت بہ علم انّ صاحبہ متضجر (الکشاف)

سورة الاسراءآیت 23 کا ترجمہ کرتے ہوئے تمام لوگوں نے اف کا ترجمہ اف کیا ہے۔ لیکن دوسری دو آیتوں میں اس کا ترجمہ بہت سے لوگوں نے تف کیا ہے۔ تف کا لفظ اف کے مقابلے میں بہت زیادہ سخت ہے اور اس کی معنوی جہت دوسری ہے۔ عربی میں یہ لفظ تھوک کے معنی میں آتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی ہیں: تھوک، لعنت، ملامت، کلمہ نفریں (فرہنگ آصفیہ)۔ اف کا ترجمہ ایسے ہی الفاظ سے کرنا چاہیے جن سے بیزاری اور ناگواری کا اظہار ہوتا ہو، نہ کہ لعنت وملامت کا۔

(۱)  فَلَا تَقُل لَّہُمَا اُفٍّ وَلَا تَنہَرہُمَا۔ (الاسراء:23)

”انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو“۔ (سید مودودی)

”تو ان سے ہُوں، نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا“۔ (احمد رضا خان)

” تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۲) وَالَّذِی قَالَ لِوَالِدَیہِ اُفٍّ لَّکُمَا اَتَعِدَانِنِی اَن اُخرَجَ وَقَد خَلَتِ القُرُونُ مِن قَبلِی۔ (الشوری: 17)

”اور جس شخص نے اپنے والدین سے کہا ،اُف، تنگ کر دیا تم نے، کیا تم مجھے یہ خوف دلاتے ہو کہ میں مرنے کے بعد پھر قبر سے نکالا جاوں گا“۔ (سید مودودی)

”اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم سے میں تنگ آگیا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور رہا وہ جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم پر تف ہے!“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور جس نے اپنے والدین سے کہا تُف ہے تم پر“۔ (محمد حسین نجفی)

(۳) اُفٍّ لَّکُم  وَلِمَا تَعبُدُونَ مِن دُونِ اللَّہِ اَفَلَا تَعقِلُونَ۔ (الانبیاء:67)

”تف ہے تم پر اور ان بتوں پر جن کو اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تمہیں عقل نہیں“۔ (احمد رضا خان)

”تف ہے تم پر اور تمہارے اِن معبُودوں پر جن کی تم اللہ کو چھوڑ کر پوجا کر رہے ہو کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے؟“۔ (سید مودودی)

”تف ہے تم پر اور ان پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تف ہے تم پر اور جن کو تم خدا کے سوا پوجتے ہو ان پر بھی، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟ “۔(فتح محمد جالندھری)

یہاں بھی اف کا ترجمہ تف کرنا درست نہیں ہے۔درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”بیزار ہوں میں تم سے اور جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے، کیا تم کو سمجھ نہیں“۔ (محمود الحسن)

(264)  عَیّ کا مفہوم

لفظ عَی سے مشتق دو الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں۔ وَلَم یَعیَ اور اَفَعَیِینَا۔ اس لفظ کا مطلب بعض لوگوں نے تھکنا بھی بتایا ہے۔ لیکن لغت کے محققین نے عاجز ہونا بتایا ہے۔ آلوسی لکھتے ہیں: والعَیُّ بِالامرِ العَجزُ عَنہُ لا التَّعَبُ، قالَ الکِسائِیُّ:  تَقُولُ: اعیَیتُ مِنَ التَّعَبِ وعَیِیتُ مِنِ انقِطاعِ الحِیلَۃِ والعَجزِ عَنِ الامرِ، وہَذا ہو المَعرُوفُ والافصَحُ۔ زمخشری لکھتے ہیں: عیی  بالامر: اذا لم یہتد لوجہ عملہ۔ اردو کے بیشتر مترجمین نے دونوں مقامات پر تھکنا ترجمہ کیا ہے، بعض نے ایک جگہ تھکنا تو دوسری جگہ عاجز ہونا ترجمہ کیا ہے۔دونوں ہی آیتوں میں صحیح ترجمہ عاجز ہونا ہے، دونوں آیتوں کا سیاق اللہ کی قدرت بتانے کے لیے ہے۔

(۱) اَوَلَم یَرَوا اَنَّ اللَّہَ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالاَرضَ وَلَم یَعیَ بِخَلقِہِنَّ بِقَادِرٍ عَلَیٰ اَن یُحیِیَ المَوتَیٰ بَلَیٰ اِنَّہُ عَلَیٰ کُلِّ شَیئٍ قَدِیر۔ (الاحقاف:33)

”کیا انھوں نے غور نہیں کیا کہ اللہ، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں، وہ مردوں کو زندہ کرنے پر بھی قادر ہے؟ ہاں وہ ہر چیز پر قادر ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور ان کو بناتے ہوئے جو نہ تھکا“۔ (سید مودودی)

” اور ان کے بنانے میں نہ تھکا“۔ (احمد رضا خاں)

”اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور ان کے پیدا کرنے سے وہ نہ تھکا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ان کے پیدا کرنے سے تھکا نہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

مولانا امانت اللہ اصلاحی ترجمہ کرتے ہیں:

”اور ان کے پیدا کرنے میں اسے کوئی دشواری نہیں ہوئی“۔

(۲) اَفَعَیِینَا بِالخَلقِ الاَوَّلِ بَل ہُم فِی لَبسٍ مِّن خَلقٍ جَدِیدٍ۔ (ق: 15)

”کیا پہلی بار کی تخلیق سے ہم عاجز تھے؟ مگر ایک نئی تخلیق کی طرف سے یہ لوگ شک میں پڑے ہوئے ہیں“۔ (سید مودودی)

”تو کیا ہم پہلی بار بناکر تھک گئے بلکہ وہ نئے بننے سے شبہ میں ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”کیا ہم پہلی بار پیدا کرکے تھک گئے ہیں؟ (نہیں) بلکہ یہ ازسرنو پیدا کرنے میں شک میں (پڑے ہوئے) ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کیا ہم پہلی بار کے پیدا کرنے سے تھک گئے؟ بلکہ یہ لوگ نئی پیدائش کی طرف سے شک میں ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کیا ہم پہلی بار پیدا کرنے سے عاجز رہے؟ بلکہ یہ لوگ از سر نو پیدا کیے جانے کے باب میں مبتلائے شک ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

(265) توفیۃ الاعمال کا مفہوم

قرآن مجید میں کہیں یُوَفِّیہِم اُجُورَہُم جیسی تعبیریں آئی ہیں، اور کہیں وَلِیُوَفِّیَہُم اَعمَالَہُم جیسی تعبیریں آئی ہیں۔ یعنی لفظ توفیۃ کے مشتقات کہیں اجر کے ساتھ آئے ہیں اور کہیں اعمال کے ساتھ۔ (ان کے علاوہ کچھ اور استعمالات بھی ہیں) خاص بات یہ ہے کہ توفیہ جہاں بھی اجر کے ساتھ آیا ہے وہاں اہل ایمان کا ذکر ہے یا بشارت کا سیاق ہے۔ جیسے:

وَاَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَیُوَفِّیہِم اُجُورَہُم وَاللَّہُ لَا یُحِبُّ الظَّالِمِینَ۔ (آل عمران: 57)

اور توفیۃ جہاں اعمال کے ساتھ آیا ہے وہاں یا تو کافروں کا ذکر ہے یا عمومی ذکر ہے مگر انذار کا سیاق ہے۔

جہاں توفیۃ ’اعمال‘ کے ساتھ آیا ہے، وہاں مترجمین نے کہیں اعمال پورا کرنے کا ترجمہ کیا ہے اور کہیں اعمال کا پورا بدلہ دینے کا ترجمہ کیا ہے۔ درست ترجمہ اعمال کا پورا بدلہ دینا ہے۔ کیوں کہ قیامت کے دن اعمال پورے کرنے کا کوئی مفہوم نہیں بنتا۔ دنیا میں اس کا مفہوم یہ نکل سکتا ہے کہ ان کو اعمال انجام دینے کا پورا موقع دیا جائے گا، جیسا کہ بعض مفسرین نے بعض آیتوں میں یہ مفہوم لیا ہے، لیکن یہ تعبیر زیادہ تر آخرت کے سیاق میں آئی ہے۔ غرض اعمال پورے کرنے کے بجائے اعمال کا بدلہ دینا وہ مفہوم ہے جو ہر جگہ درست ہوجاتا ہے۔

البتہ مفسرین کو خاص طور سے سورة ہود کی آیت (15) میں یہ اشکال پیدا ہوا کہ قرآن کی بعض آیتوں کی رو سے کافروں کے اعمال تو اکارت ہوجائیں گے تو پھر پورا بدلہ ملنے کی کیا شکل بنے گی۔ (ملاحظہ ہو محمد امین شنقیطی کی کتاب: دفع ایہام الاضطراب عن آیات الکتاب۔)

اس اشکال کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس آیت میں اعمال سے مراد نیکیاں لے لیا۔ حالاں کہ اس طرح کی تمام آیتوں میں ان کے تمام اعمال (نیکیوں اور برائیوں دونوں) کا بدلہ دیا جانا مراد ہے۔ کفر وشرک جیسی بڑی نافرمانیوں کے ساتھ اچھے اعمال کا وزن کتنا رہ جائے گا اور وہ انسان کے کتنے کام آسکیں گے اس کا علم تو اللہ کو ہے۔ لیکن یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ جب وزن کرنے کی نوبت آئے گی تو بڑے گناہوں کی وجہ سے چھوٹی نیکیاں بے وزن اور اکارت ہوجائیں گی۔

بہرحال درج ذیل آیتوں میں صحیح ترجمہ اعمال کا بدلہ دینا ہے نہ کہ اعمال کو پورا کرنا۔ اعمال تو بندہ خود انجام دے چکا ہے، اب تو اس کی جزا یا سزا  ملنے کا موقع ہے، جو اعمال کے عین مطابق ملے گی۔ یُوَفِّیہِم اُجُورَہُم میں توجہ اجر کی طرف ہوتی ہے، کہ اجر پورا ملے گا، اس میں بشارت کا پہلو ابھرا ہوا ہوتا ہے، جب کہ یُوَفِّیہِم اَعمَالَہُم میں اعمال پر توجہ مرکوز ہوتی ہے کہ اعمال کا پورا پورا حساب ہوگا اور اعمال کے عین مطابق بدلہ دیا جائے گا، اس میں انذار کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

(۱) مَن کَانَ یُرِیدُ الحَیَاۃَ الدُّنیَا وَزِینَتَہَا نُوَفِّ اِلَیہِم اَعمَالَہُم فِیہَا۔ (ھود:15)

”جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا میں ہی دے دیتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”جو دنیا کی زندگی اور آرائش چاہتا ہو ہم اس میں ان کا پورا پھل دے دیں گے“۔ (احمد رضا خان)

”جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش چاہتا ہے تو ان کے اعمال ہم یہیں پورے کر دیتے ہیں“۔ (احمد علی لاہوری)

عام طور سے فیہا کا نوفّ سے متعلق مان کر ترجمہ کیا گیا ہے کہ اعمال کا بدلہ اسی دنیا میں پورا مل جائے گا۔ اس آیت میں فیہا کا تعلق اعمال سے بھی ہوسکتا ہے، یعنی اس دنیا کی زندگی میں وہ جو اعمال کریں گے ہم ان کا پورا بدلہ دیں گے۔ اس سے یہ اشکال دور ہوجائے گا کہ ہر شخص کو اس کی نیکیوں یا برائیوں کا بدلہ دنیا میں نہیں ملتا ہے۔

(۲) وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّہُم رَبُّکَ اَعمَالَہُم۔ (ھود:111)

”اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا“۔ (سید مودودی)

”اور بیشک جتنے ہیں ایک ایک کو تمہارا رب اس کا عمل پورا بھردے گا“۔ (احمد رضا خان)

(۳)  وَتُوَفَّیٰ کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (النحل: 111)

”اور ہر جان کو وہی پورا پورا بدلہ میں ملے گا جو اس نے کیا ہوگا“۔ (امین احسن اصلاحی، درست ترجمہ: ”جو اس نے کیا ہوگا اسی کا پورا پورا بدلہ ملے گا“۔)

”اور ہر جان کو اس کا کیا پورا بھردیا جائے گا“۔ (احمد رضا خان)

”اور ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے اعمال کا پورا بدلہ دیا جائے گا“۔(محمد جوناگڑھی)

(۴) وَوُفِّیَت کُلُّ نَفسٍ مَّا عَمِلَت۔ (الزمر: 70)

”اور جس شخص نے جو کچھ کیا ہے بھرپور دے دیا جائے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہر جان کو جوکچھ اس نے کیا ہوگا پورا کیا جائے گا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اورہر شخص کو جو کچھ اس نے کیا تھا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا “۔(احمد علی لاہوری)

(۵) وَلِکُلٍّ دَرَجَات مِّمَّا عَمِلُوا وَلِیُوَفِّیَہُم اَعمَالَہُم۔ (الاحقاف: 19)

”اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کے پورے بدلے دے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہر فرقہ کے کئی درجے ہیں اپنے کیے کاموں کے موافق اور تاکہ پورے دے ان کو کام ان کے“ ۔(محمود الحسن)

بہت سے مقامات کی طرح یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے مترجمین ایک ہی اسلوب کا الگ الگ جگہوں پر مختلف ترجمہ کرتے ہیں۔


علمِ رجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۱)

مولانا سمیع اللہ سعدی

اہل سنت اور اہل تشیع کا حدیثی ذخیرہ متنوع جہات سے تقابلی مطالعے کا متقاضی ہے، ہر دو فریق اس بات کے دعویدار ہیں کہ صدرِ اول کی درست تعبیر، قابلِ اعتماد تاریخ اور اصلی تشریعی ادب ان کی کتبِ حدیث میں منقول ہے، فریقین کے اس دعوے کی صحیح پرکھ اسی صورت میں ممکن ہے، جب مناظرانہ لب و لہجہ سے ہٹ کر ہر دو مکاتب کے حدیثی تراث کا تحقیقی انداز میں تقابل کیا جائے، اس سلسلے میں فریقین کے علم رجال اور علم ِ جرح و تعدیل کا ایک تقابلی مطالعہ پیش کیا جائے گا، یہ ایک خالص علمی سرگرمی ہے، اس لئے اسے فرقہ وارانہ نظر سے دیکھنے کی بجائے علمی مکالمہ کے طور پر لیا جائے، کیونکہ علم و تحقیق پر مبنی مکالمہ علمی ارتقا کا اساسی جز و ہے۔

بحثِ اول: فریقین کا علم رجال، ایک تقابلی مطالعہ

حدیثی تراث کا استناد، ثقاہت اور اس کے صدق و سچائی کا معیار علم رجال ہے، کیونکہ حدیث کی قبل از تدوین حفاظت زیادہ تر رواۃ و رجال کی زبانی کاوشوں کا نتیجہ ہے، ہر دو فریق اپنے حدیثی تراث کی صداقت کے مدعی ہیں، اس لیے اس دعوے کی پرکھ دونوں کے علم رجال کے تقابلی مطالعے سے واضح ہوسکے گی، ذیل میں مختلف حوالوں سے فریقین کے علم رجال کا ایک تقابل پیش کیا جاتا ہے:

1۔ علم رجال کی ابتداء

فریقین کے علم رجال کو پرکھنے کے لئے سب سے ضروری اور اہم ترین بحث یہ ہے کہ ہر دو مکاتب میں علم رجال کی تدوین کب عمل میں لائی گئی ؟اور کس زمانے میں رواۃ ِ حدیث کے احوال و کوائف کو جمع کیا گیا ؟اس کی اہمیت و مرکزیت کی وجہ یہ ہے کہ موضوع حدیث میں اصلا سند میں کوئی فرضی و کذاب راوی داخل کرنا پڑتا ہے یا پورا سلسلہ سند وضع کرنا پڑتا ہے، چنانچہ علامہ ذہبی اپنی کتاب "الموقظۃ فی مصطلح الحدیث" میں موضوع حدیث کی وجوہات میں لکھتے ہیں:

"وکان باسناد مظلم او باسناد مضیئ کالشمس فی اثنائہ رجل کذاب او وضاع"1

یعنی موضوع حدیث تاریک (نامعلوم ) سند کے ساتھ ہوتی ہے، یا سورج کی طرح معلوم و مشہور سند کے ساتھ ہوتی ہے، لیکن ا سکے درمیان جھوٹااور حدیث گڑھنے والا راوی داخل کیا جاتا ہے۔

اس لئے دونوں فریقوں کے بنیادی مصادر ِ حدیث کی تدوین کے وقت یہ دیکھا جائے گا کہ رواۃ و رجال کے احوال و کوائف محفوظ تھے یا نہیں ؟اگر مصادرِ حدیث کی تدوین کے وقت رجال و رواۃ ِ حدیث کے کوائف اور ان کا حدیثی مقام (توثیق و تضعیف ) کا کام ہوچکا تھا ، تو اس کا مطلب ہے کہ ان مصادرِ حدیث کے مصنفین نے وضع اسناد اور فرضی رواۃ کو اپنی کتب کا کم سے کم حصہ بنایا، کیونکہ رواۃ ِ حدیث، ان کے شیوخ و تلامذہ کے معلوم و مدون ہونے کے بعد فرضی رواۃ اسناد کا پتا لگانا چنداں مشکل نہیں ، اور اگر تدوین ِ حدیث کے وقت رواۃ و رجال کے احوال و کوائف محفوظ و مدون نہیں تھے، تو بجا طور پر سوال پیدا ہوگا کہ مدونین ِ حدیث نے روایات کا جو جم غفیر ہزاروں رواۃ سے نقل کیا ہے، ان رواۃ کا حدیثی مقام، ذاتی زندگی، حافظہ اور دینی حیثیت (عدالت ) جب معلوم ہی نہیں ہے، تو ان ہزاروں روایات کو علمی طور پر کیونکر ثابت مانا جاسکتا ہے ؟اب ہم اسی اصول پر فریقین کے علم رجال کی ابتدائی تاریخ کا ایک جائزہ لیتے ہیں کہ علم رجال اور تدوینِ حدیث کا زمانہ ایک ہے یا نہیں ؟

سنی علم رجال کی تدوین کا زمانہ

سنی حدیثی تراث یعنی صحاح ستہ کا زمانہ تدوین دوسری صدی ہجری (194 ھ امام بخاری کی ولادت )کے آخر سے لیکر چوتھی صدی ہجری کے شروع (303ھ امام نسائی کی وفات) تک ہے، اب اگر ہم سنی علم رجال کا زمانہ تدوین دیکھیں، تو علم رجال کے اولین مدونین سارے کے سارے اصحابِ صحاح ستہ کے ہم عصر یا ان کے شیوخ ہیں، بلکہ اصحابِ صحاح ستہ میں سے بعض خود علم رجال کے اولین مدونین میں شامل ہیں، ذیل میں سنی علم رجال کی اولین کاوشوں کا ذکر کیا جاتا ہے، یہ بات ذہن میں رہے کہ یہاں صرف انہی کتب ِ رجال کا ذکر کیا جائے گا، جو ہم تک پہنچی ہیں، تاکہ دستیاب مواد و تراث کی مدد سے اس قضیے کو دیکھا جائے ، تاریخی مفروضوں سے اس بحث کو بچایا جاسکے اور یقینی و موجود حقائق پر اس کی بنیاد رکھی جائے۔جو کتب تاریخ میں صرف نام کے ساتھ محفوظ ہیں، بوجوہ ان کا ذکر نہیں کیا جائے گا، خواہ سنی رجال کی کتب ہو یا شیعی رجال، کیونکہ اس سلسلہ مضامین میں ہم نے کوشش کی ہے کہ واقعاتی حقائق و شواہد کی بنیاد پر فریقین کے دعاوی کو پرکھا جائے:

1۔علم رجال کے اولین مدونین میں خود امام بخاری شامل ہیں، جنہوں نے سنی علم حدیث کی سب سے اصح کتاب لکھی ہے، امام بخاری نے علم رجال کی متعدد کتب لکھی ہیں، لیکن ہم تک امام کی یہ کتب پہنچی ہیں:

2۔علم رجال پر اسی زمانے کی سب سے بڑی تصنیف ابن ابی حاتم رازی کی "الجرح و التعدیل " ہے، جو نو ضخیم جلدوں میں چھپی ہے ابن ابی حاتم(ولادت 240 ھ ) اصحاب صحاح ستہ کے ہم عصر تھے، آپ نے اس کتاب میں اٹھارہ ہزار رواۃ 4کے حالات قلمبند کئے، یعنی صحاح ستہ کے کل رواۃ سے دوگنا رواۃ کے کوائف جمع کئے، یہ کتنی بڑی تعداد ہے، اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ شیعی رجال کی سب سے بڑی کتاب معاصر ایرانی عالم شیخ علی نمازی شاہرودی نے"مستدرکات علم الرجال " کے نام سے لکھی ہے، جس میں بھی اٹھارہ ہزار سے کچھ اوپر رواۃ ہیں، یہ کتاب شیعی علم رجال کی پندرہ سو سالہ تاریخ کی سب سے ضخیم کتاب ہے، چنانچہ حیدر حب اللہ لکھتے ہیں:

"وھذہ اوسع محاولۃ استقصائیۃ لاسماء الرواۃ نشہدھا عند الامامیہ"5

یعنی یہ امامیہ کے ہاں اسماء رواۃ کے احاطے کے اعتبار سے سب سے زیادہ وسیع کتاب ہے، یوں سنی علم رجال کے ہاں جو کتاب تدوینِ حدیث کے زمانے میں ہی لکھی گئی، اس جیسی (مشابہت صرف تعداد رواۃ میں ہے، منہج وا سلوب میں کیا فروق ہیں، یہ ایک مستقل عنوان کے تحت ان شا اللہ آئے گا )کتاب شیعہ مکتب میں تدوینِ حدیث کے بارہ سو سال بعد لکھی گئی، اسی ایک کتاب سے فریقین کے علم رجال میں اساسی فرق کافی حد تک واضح ہوجاتا ہے۔

3۔ ان دو کتب کے علاوہ بھی صحاح ستہ کے زمانے میں علم رجال پر متعدد کتب لکھی گئیں، ذیل میں ہم ان میں سے جو کتب مطبوع ہیں، ان کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں:

تدوین ِ حدیث کے زمانے کی مطبوعہ و موجود کتب میں سے صرف دس مشہور کتب کا انتخاب کیا، ورنہ یہ فہرست اس سے کئی زیادہ لمبی ہے، اس فہرست میں شہروں کے اعتبار سے جمع کئے گئے کوائف رواۃ، کنی و القاب کے اعتبار سے، الموتلف و المختلف، المتفق والمفترق والمتشابہ، وفیات کے اعتبار سے، معاجم شیوخ کی کتب، کتبِ مخصوصہ کے رجال اور اس جیسے دیگر اعتبارات سے لکھی گئی کتبِ رجال شامل نہیں ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سنی علم رجال تدوینِ حدیث کے زمانے میں ہی مکمل طور پر مدون ہوچکا تھا، ہزارہا رواۃ کے احوال و کوائف ، ان کا جرح و تعدیل کے اعتبار سے مقام، ان کے طبقات، سنین وفات اور شیوخ و تلامذہ الغرض ہر اعتبار سے رواۃ کے حالات تدوین میں آچکے تھے اور یہ کتب صرف تاریخ میں نام کی حد تک محفوظ نہیں ہیں، بلکہ ہم تک پہنچ چکی ہیں اور مطبوع ہیں۔

شیعی علم رجال کی تدوین کا زمانہ

شیعہ مصادرِ حدیث کی تصنیف کا زمانہ چوتھی صدی ہجری سے ( الکلینی وفات:329ھ) شروع ہو کر شیخ طوسی (وفات 460ھ ) پانچویں صدی ہجری کے نصف تک پھیلا ہوا ہے، ان چاروں کتب (الکافی، من لا یحضرہ الفقیہ، تہذیب الاحکام، الاستبصار) کے رواۃ کی تعداد ساڑھے پندرہ ہزار کے قریب بنتی ہے، جن کو امام خوئی نے اپنی کتاب "معجم رجال الحدیث" میں جمع کیا ہے6، اب ہم سنی علم رجال کی ترتیب کے مطابق شیعی علم رجال کے زمانہ تدوین پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

1۔شیعی علم رجال پر کوئی بھی تصنیف زمانہ تدوینِ حدیث سے پہلے کی موجود نہیں ہے، چنانچہ حیدر حب اللہ نے اپنی کتاب "دورس فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ " میں علم رجال کے مراحل میں سے پہلے دو مراحل ، زمانہ نبوت سے لے کر تیسری صدی ہجری کے اختتام تک کے بارے میں لکھتے ہیں:

"ان الارث الرجالی لھذا المرحلۃ لم یصلنا مع الاسف الشدید کی نصور من خلالہ المشہد بطریقۃ دقیقۃ، فلم تتوفر بین ایدینا تقریبا سوی المحاولۃ التی ترکھا البرقی فی الطبقات"7

یعنی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رھا ہے کہ اس مرحلے کا رجالی تراث ہم تک نہیں پہنچ سکا، ورنہ ہم اس کی موجودگی میں اس دور کے تراث کا باریک تجزیہ کر سکتے، اس وقت ہمارے پاس اس وقت کچھ بھی موجود نہیں ہے، سوائے اس کوشش کے، جو برقی طبقات کی صورت میں ہمارے پاس چھوڑگئے ہیں۔

رجال البرقی چند صفحات کا ایک رسالہ ہے، جس کے مصنف کے بارے میں چار کے قریب اقوال ہیں، اس میں ائمہ کے شاگردوں کے صرف نام لکھے گئے ہیں اور تقریبا ساڑھے چودہ سو اصحاب ِ ائمہ کے نام لکھے ہیں، باقی یہ کون تھے ؟ان کے شیوخ و تلامذہ کون تھے؟ان کا حدیث میں مقام و رتبہ کیا ہے، اس بارے میں کچھ بھی تفصیلات نہیں ہیں، نیز ان چار اقوال میں سے دو اقوال کے مطابق اس کتاب کی کیا حیثیت بنتی ہے، اس کے بارے میں شیخ حید حب اللہ لکھتے ہیں:

"و علی النظریتین الثالثۃ و الرابعۃ لا یعتمد علی الکتاب لعدم توثیق عبد اللہ و ابنہ احمد عند علماء الجرح و التعدیل"8

یعنی آخری دو اقوال کے مطابق کتاب پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ عبد اللہ اور اس کا بیٹا احمد علمائے جرح و تعدیل کے ہاں قابل اعتماد نہیں ہے، یوں یہ کتاب بعض شیعہ علماء کے نزدیک معتمد ہی نہیں ہے۔

2۔شیخ حیدر حب اللہ نے علم رجال کا تیسرا مرحلہ چوتھی صدی ہجری کے شروع سے لیکر آٹھویں صدی ہجری کے شروع تک بنایا ہے، یعنی کتب اربعہ کی تصنیف کے تین سو سال بعد تک، اس مرحلے میں جو کتبِ رجال ہم تک پہنچی ہیں، وہ یہ ہیں:

رجال البرقی کے بعد شیعہ رجال کی سب سے قدیم ترین چوتھی صدی ہجری کے عالم محمد بن عمرو کشی کی رجال الکشی ہے، لیکن یہ کتاب اصلی شکل میں باقی نہ رہ سکی، آج جو اس کا متداول نسخہ ہے، وہ پانچویں صدی ہجری کے محدث شیخ طوسی کا تیار کردہ نسخہ ہے، جو اختیار معرفۃ الرجال کے نام سے معنون ہے، اس کتاب میں شیخ حید حب اللہ کے بقول 515 ائمہ کے تلامذہ و رواۃ کا ذکر ہے، لیکن اس کتاب کے نسخ و روایات میں بھی بہت سی اغلاط ہیں، چنانچہ حید ر حب اللہ لکھتے ہیں:

"وعلیہ فکتاب اختیار معرفۃ الرجال یحوی مشاکل فی النسخ و بعض من الاخطاء التی تظھر بالمقارنۃ"9

یعنی اس تفصیل کے مطابق کتاب اختیار معرفۃ الرجال کے نسخوں میں متعدد ابہامات ہیں اور نسخ کے مقارنہ سے متعدد اغلاط سامنے آتی ہیں۔

اس مرحلے کی دوسری مشہور کتاب "فہرس النجاشی " ہے، جسے رجال النجاشی بھی کہا جاتا ہے، یہ کتاب اصلا شیعہ مصنفین کی ببلوگرافی ہے، چنانچہ شیخ حید ر حب اللہ لکھتے ہیں:

"یختص الکتاب بذکر مصنفات الشیعہ کما صرح بہ فی مقدمۃ کتابہ"10

یعنی یہ کتاب شیعہ کتب کے ذکر پر مشتمل ہے، جیسا کہ خود مصنف نے اپنی کتاب کے مقدمے میں اس کی تصریح کی ہے، یوں یہ کتاب رجال کی باقاعدہ کتاب نہیں ہے، لیکن مصنفات کے ذیل میں چونکہ مصنفین کا بھی ذکر ہے، اس لئے اسے توسعا رجال کی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، اسی لئے اس کتاب میں رواۃ کا حدیثی مقام اور جرح و تعدیل نہ ہونے کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے شیخ حیدر رقم طراز ہیں:

"لم یکن غرض النجاشی کما بینا حین تالیفہ لکتابہ تقویم رواۃ الحدیث و الرجال الذین یذکرھم فیہ"11

یعنی نجاشی کا مقصد رواۃ حدیث اور دیگر مذکور رجال کا حدیثی مقام بیان کرنا نہیں تھا، اس کتاب میں مذکور رجال کی تعداد 1269 ہے، حالانکہ خود شیخ حید ر حب اللہ کے بقول اس کتاب کی تصنیف میں ستر سے زائد مصادر سے استفادہ کیا گیا ہے۔

اس مرحلے کی تیسری مشہور کتاب "کتاب الضعفاء للغضائری " ہے، جو پانچویں صدی ہجری کے محدث شیخ احمد بن حسین الغضائری کی تصنیف ہے، اس کتاب کے نام سے لگتا ہے کہ یہ باقاعدہ رجال کی جرح و تعدیل پر مشتمل کتاب ہے، لیکن اس کتاب کے بارے میں شیعہ محققین کے ہاں اختلافات کا طومار ہے، مثلا کہ یہ کتاب احمد کی تصنیف ہے یا ان کے والد حسین کی ؟نیز اس کتاب کے راوی کون ہیں ؟کیونکہ ساتویں صدی ہجری (دوسو سال بعد ) کے محدث ابن طاووس کے ہاں پہلی بار اس کتاب کا تذکرہ سامنے آتا ہے، نیزاس کتاب کی تضعیفات قابل اعتماد ہیں یا نہیں ؟اس بارے میں تقریبا چار کے قریب اقوال ہیں ان سب اختلافات کی تفصیل شیخ حیدر حب اللہ اور کتاب کے محققین نے بیان کی ہے، ان متنوع اختلافات کی وجہ دراصل اس کتاب میں بعض معتمد شیعہ رواۃ کی تضعیف ہے، اس لئے اس کتاب کو شیعہ محققین نے شش و پنج میں ڈال دیا، شیخ حیدر حب اللہ بھی اس کے عدمِ اعتماد کی طرف مائل ہیں 12 اس کتاب میں 225 رواۃ کا ذکر ہے۔

اس دور کی سب سے مفصل کتاب شیخ طوسی کی "کتاب الرجال " ہے، اس کتاب میں 6428 رواۃ کا ذکر ہے۔ بظاہر یہ کافی بڑی تعداد ہے، لیکن کتاب ساڑھے چار سو صفحات کی (بعض طبعات میں فہارس وغیرہ ملا کر 600 صفحات )کی اوسط ضخامت کے ساتھ چھپی ہے، کیونکہ اس میں زیادہ تر صرف نام ہیں، شیخ حیدر حب اللہ کے بقول ساڑھے چھ ہزار افراد میں سے صرف 157اشخاص کی توثیق اور 72 اشخاص کی تضعیف کی گئی ہے، جبکہ 50 رواۃ کو مجاہیل قرار دیا گیا ہے، باقی سب کے بارے میں سکوت ہے، نیز شیخ ہی کے بقول اس کتاب میں صرف شیعہ رواۃ نہیں ہیں، بلکہ سنی رواۃ کا بھی ذکر ہے اور اس میں بڑے پیمانے پر تکرار بھی ہے، ان سب کی تفصیل شیخ حیدر حب اللہ نے دی ہے، اسی طرح شیخ طوسی کی ایک اور کتاب "فہرسۃ الطوسی " کو بھی رجال کی کتب میں شامل کیا جاتا ہے، جو نجاشی کی کتاب کی طرح اصلا مصنفات کی فہرست ہے، اس فہرست میں 900 کے قریب مصنفینِ شیعہ کا ذکر ہے۔

اس مرحلے کی ایک اور مشہور کتاب چھٹی صدی ہجری کے محدث ابن شہر آشوب مازندرانی کی "معالم العلماء فی فہرست کتب الشیعہ و اسماء المصنفین قدیماو حدیثا" ہے، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہ بھی مصنفین وکتب کی ایک فہرست ہے، اس کتاب میں 1021 مصنفین کا ذکر ہے۔

سنی و شیعی علم رجال کی ابتدائی تدوین، ایک تقابل

سنی و شیعہ علم رجال کی ابتدائی تاریخ سامنے آچکی ہے، اس کا تقابلی جائزہ لینے سے درجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:

1۔ سنی علم رجال اور علم حدیث کی تدوین بالکل ایک زمانہ میں ہوئی، بلکہ تدوین حدیث کی بعض کتب سے بھی پہلے سنی علم رجال کی مفصل کتب لکھی گئیں (جیسے طبقات ابن سعد و خلیفہ بن خیاط)، جبکہ شیعہ علم رجال میں ہمیں اس طرح مقارن تدوین نظر نہیں آتی۔

2۔سنی علم رجال کی اولین جو کتب لکھی گئیں، وہ اصلا رجال کی کتب ہیں، جیسا کہ امام بخاری کی التاریخ الکبیر اور ابن حاتم کی الجرح و التعدیل، ان میں رواۃ کے شیوخ، تلامذہ، تضعیف و توثیق الغرض تمام اہم معلومات اکٹھی کی گئیں ہیں، جبکہ شیعہ علم رجال کی ابتدائی ساری کتب فہرستِ مصنفین کی کتب ہیں، سوائے ابن الغضائری کی الضعفاء کی، جس کے قابل اعتماد ہونے یا نہ ہونے سے قطع نظر، اس میں صرف 225 رواۃ کا ذکر ہے۔

3۔سنی علم رجال کی ابتدائی کتب میں ہی رجال کا مکمل استقصاء کیا گیا، جیسا کہ ابن ابی حاتم نے اٹھارہ ہزار رواۃ اور امام بخاری نے تیرہ ہزار رواۃ کا ذکر کیا، ان دونوں کتب میں مکمل مشترکات مان بھی لیں، تب بھی اٹھارہ ہزار رواۃ کے کوائف جمع کئےگئے، جبکہ صحاح ستہ کے کل رواۃ ساڑھے آٹھ ہزار کے قریب ہیں، یوں تدوینِ حدیث کے زمانے میں ہی علم رجال اپنے انتہاء کو پہنچ گیا، بعد کی ساری کتب انہی کتب و انہی رجال کی تفصیل، تلخیص، ترتیب، تشریح، توضیح پر مشتمل ہیں، جبکہ اس کے برخلاف شیعہ علم رجال کا جتنا تراث اس ابتدائی دور میں مرتب ہوا، اس میں شیعہ کتب ِ اربعہ کے کل رواۃ کا بمشکل نصف رواۃ(یعنی ساڑھے سات ہزار رواۃ، اگر ہم ان کتب کے سارے رواۃ میں کم سے کم مشترکات فرض کر لیں ) کا ذکر ہے، ( وہ بھی اس صورت میں اگر ہم ان ابتدائی کتب میں موجود مصنفین کو کتبِ اربعہ کے رواۃ فرض کر لیں، جو ظاہر ہے محض مفروضہ ہے )یوں ساڑھے سات ہزار کے قریب رواۃ حدیث کا ذکر نہ کتب اربعہ کی تدوین سے پہلے ہے، نہ اس کے بعد تین سو سال تک، بلکہ اس کے بعد بھی کئی سو سال بعد تک ہمیں ایسی کتاب نظر نہیں آتی، جس میں کتبِ اربعہ کے رواۃکا استقصاء ہو، نیز جن ساڑھے سات ہزار رواۃ(یہ تعداد بھی اس وقت بنتی ہے، جب ہم ان کتب میں مشترکات کم سے کم فرض کر لیں ) کا ذکر اولین تراث میں ہے، اس کا نوے فیصد حصہ محض فہرست کے قبیل سے ہے، ان کے تفصیلی کوائف، حدیثی مقام، شیوخ و تلامذہ وغیرہ جیسے مباحث سے اس دور کا رجالی تراث مکمل طور پر ساکت ہے۔اس موقع پر بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتب اربعہ کے مصنفین نے پندرہ ہزار رواۃ سے جو ہزار ہا روایات لے لی تھیں، یہ رواۃ کون تھے ؟کہاں کے تھے ؟ان کی تضعیف و توثیق کا کیا حال تھا؟یہ کس زمانے اور کس طبقے کے تھے ؟نیز جن ساڑھے سات ہزار رواۃ کے اسماء ہمیں ان اولین کتب میں نظر آتے ہیں، ان کے تفصیلی کوائف کیا تھے؟اس دور کے ائمہ حدیث ان کے بارے میں کس قسم کی معلومات رکھتے تھے ؟یہ سب امور پردہ خفا میں ہیں۔

4۔سنی مدونین ِ حدیث میں سے امام بخاری، امام مسلم اور امام نسائی نے خود رجال پر قابل ِ قدر کتب لکھی ہیں، جن میں رجال کی تضعیف و توثیق کا کماحقہ تجزیہ کیا ہے، جبکہ امام ترمذی نے العلل پر کتاب لکھی ہے، جبکہ اس کے برخلاف شیعہ کتبِ اربعہ کے مصنفین کے ہاں رجال کے حوالے سے اس طرح کی کاوشیں مفقود ہیں، صرف امام طوسی نے فہرست ِ مصنفین و فہرستِ رجال پر کتب لکھی ہیں، لیکن وہ بھی اصلا رجال کی کتب نہیں ہیں، جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں اور اس کے ساتھ ان کتب میں کتبِ اربعہ کے نصف رواۃ سے بھی کم کا ذکر ہے۔

5۔سنی علم رجال کی مکمل تدوین چونکہ تدوینِ حدیث کے زمانے میں ہی ہوگئی، اس لئے شواہد کی بنیاد پر یہ امکان تقریبا معدوم ہوجاتا ہے کہ صحاح ستہ کے مصنفین نے فرضی اسناد، فرضی رواۃ گھڑ لئے ہوں گے، یا صحیح اسناد میں اپنی طرف سے کوئی فرضی راوی داخل کیا ہوگا ؟جبکہ شیعہ علم رجال کی ابتدائی کتب صرف چند ہزار کے رواۃ کے ناموں کی فہرست پر مشتمل ہے، اس طرح کتبِ اربعہ کے آدھے سے زیادہ یعنی ساڑھے سات ہزار رواۃ کا کئی صدیوں تک اتا پتا نہیں چلتا، تو بجا طور پر اس امکان کو تقویت ملتی ہے کہ کتبِ اربعہ کے مصنفین نے فرضی رواۃ و اسناد کا ایک پہاڑ کھڑا کیا، کیونکہ شواہد کی بنیاد پر ان رواۃ کی توثیق و تضعیف اسی زمانے کے محدثین سے ثابت کرنا ناممکن ہے، توثیق و تضعیف تو دور کی بات، صرف ان کے ذاتی کوائف بھی اس زمانے کے تراث میں نظر نہیں آتے، ذاتی تفاصیل سے بھی قطع نظر، ان کے ناموں پر مشتمل کوئی مکمل ڈائریکٹری علم رجال کی ابتدائی سا ت سو سالہ تاریخ میں نہیں ملتی۔

6۔ رواۃ و رجال میں سب سے بنیادی بحث یہ دیکھنی ہوتی ہے کہ ان کے کوائف جمع کرنے والےکا زمانہ ان کے کتنا قریب ہے؟سنی علم رجال کے اولین مصنفین اور رواۃ ِ حدیث کا زمانہ بہت قریب ہے، کچھ ہم عصر تھے، کچھ شیوخ، کچھ تلامذہ، کچھ شیوخ الشیوخ، جبکہ شیعہ علم رجال میں جو کامل کتب لکھی گئیں، جیسے معجم رجال الحدیث وغیرہ، وہ دس بارہ صدیوں کے وقفے کے بعد لکھی گئیں، اولین ابتدائی کتب میں ایک تو مکمل استقصا نہیں ہے، دوسرا وہ صرف فہارس کے قبیل سے ہیں، کما مر۔

7۔ اس سلسلے کی ابتدائی اقساط میں یہ بات آچکی ہے کہ کتبِ اربعہ کی احادیث کے مصادر و ماخذ یا دوسرے لفظوں میں کتبِ اربعہ کی تدوین سے پہلے ان ہزارہا روایات کے تحریری شواہد و ماخذ معدوم ہیں، تو احادیث کے ساتھ رجال و رواۃ کے شواہد یا ان کا تعارفی تراث بھی معدوم ہے، یوں کتبِ اربعہ کے متون و اسناد دونوں تاریخی حوالے سے خفا کے دبیز پردوں میں مستور ہیں، کتب اربعہ سے پہلے ان ہزارہا متون کے کوئی تحریری شواہد نہیں ملتے اور کتبِ اربعہ کے بعد ان ہزار رہا رواۃ کے کسی قسم کے کوائف مکتوب نہیں ہیں، کتبِ اربعہ کے یہی تین مصنفین ( الکلینی، شیخ صدوق اور شیخ طوسی ) کے سوا شیعہ تاریخ میں اور کوئی شخصیت نہیں ہے، جو ان متون اور ان رواۃ سے مکمل طور پر آگاہ ہو، اس لئے تو نہ یہ متون ہمیں ان کتب کی تصنیف سے پہلے کسی جگہ تحریرا ملتے ہیں نہ روایتا (اس کی تفصیل ہم اس سلسلے کی ابتدائی اقساط میں بیان کر چکے ہیں )نہ یہ رواۃ ان کتب سے پہلے اور نہ ان کتب کے بعد کئی صدیوں تک کسی کتاب میں ملتے ہیں، کیا اس تاریخی ابہام سے اس بات کو تقویت نہیں ملتی کہ ان کتب اور ان کے رواۃ کا اکثر حصہ ان تین شخصیات کے دماغی و ذہنی کاوش کا نتیجہ ہے ؟

حواشی

  1. الموقظۃ، شمس الدین ذہبی، مکتب الامکتبات الاسلامیہ، حلب، ص37
  2. علم الرجال نشاتہ و تطورہ، محمد الزہرانی، ص147
  3. دیکیھیے:تہذیب الکمال بتحقیق بشار عواد معروف
  4. علم الرجال نشاتہ و تطورہ، ص153
  5. دروس فی تاریخ علم الرجال، حیدر حب اللہ، ص427
  6. امام خوئی کی اس تالیف کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہر راوی کی کتب اربعہ میں موجود روایات کی نشاندہی کرنا ہے، یوں اس میں کتبِ اربعہ کے جملہ رواۃ موجود ہیں یہ تعداد مکررات کو نکالے بغیر مانی گئی ہے، اگر کتاب سے مکررات نکالیں، تو تعداد اس سے کم ہوسکتی ہے۔
  7. دروس فی تاریخ علم الرجال، حید حب اللہ، ص83
  8. دروس فی تاریخ علم الرجال، ص81
  9. ایضا:ص112
  10. ایضا:ص124
  11. ایضا:125
  12. دیکھیے:ص 142

(جاری)

سوویت یونین، افغانستان اور امریکی اتحاد

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

یہ اس دور کی بات ہے جب افغانستان سے سوویت یونین کی افواج کی واپسی کے بعد امریکہ ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے ’’ابھی اسلام باقی ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر اپنی جنگ کے اگلے راؤنڈ کی نشاندہی کر دی تھی اور جنوبی ایشیا کے حوالہ سے نئے علاقائی ایجنڈے مختلف عالمی حلقوں میں تشکیل پا رہے تھے۔ اسلام آباد میں لیفٹ کے کچھ دانشوروں کے ساتھ ایک نشست میں یہ بات زیربحث آگئی کہ افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی ہے وہ امریکہ کی جنگ تھی جس میں اسلام اور جہاد کے جذبہ کے ساتھ شریک ہو کر قربانیاں دینے والوں نے امریکہ کی یہ جنگ لڑی ہے۔

میرا نقطۂ نظر مختلف تھا، میں نے عرض کیا کہ اس جنگ کا آغاز امریکہ نے نہیں کیا تھا بلکہ افغان عوام نے سوویت یونین کی فوج کشی کے بعد اپنے وطن کی آزادی اور تہذیبی و اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے یہ جنگ شروع کی تھی جس میں دنیا بھر سے ان کے اس موقف کی حمایت کرنے والے لوگ جہاد کے عنوان سے شریک ہو گئے تھے۔ آغاز کے دو چار سال تک اس جنگ کو مذاق بلکہ جنون سمجھا جاتا رہا مگر افغان مجاہدین کو بے سروسامانی کے باوجود مسلسل آگے بڑھتے دیکھ کر امریکی کیمپ نے اس کو تقویت دینے کا فیصلہ کر لیا جو بڑھتے بڑھتے اس جنگ کو ’’ہائی جیک‘‘ کر لینے کی صورت میں سامنے آیا۔ اس موقع پر سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑنے والے افغان مجاہدین کے آٹھ گروپوں کا اتحاد قائم ہوا جس کے سیکرٹری جنرل حرکت انقلاب اسلامی کے مولوی نصر اللہ منصور شہیدؒ تھے جو میرے ذاتی دوستوں میں سے تھے، جبکہ افغان گروپوں کو یکجا کرنے میں ایک موقع پر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور شیخ الحدیث مولانا عبد الحقؒ آف اکوڑہ خٹک کا کردار بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اور اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مغرب کے ساتھ معاملات طے کرنے میں جو کچھ عملاً ہوا، مولانا نصر اللہ منصورؒ کی رائے اس سے مختلف تھی، وہ مکمل خودسپردگی کی بجائے بنیادی معاملات پر اپنا کنٹرول قائم رکھتے ہوئے کچھ شرائط کے ساتھ مغرب کی حمایت و تعاون قبول کرنے کے حق میں تھے، اور اپنی بات نہ مانے جانے پر انہوں نے جنگ سے لا تعلق ہو کر خوداختیاری جلاوطنی کا راستہ اختیار کر لیا تھا۔

اسلام آباد میں لیفٹ کے دانشوروں کے ساتھ مذکورہ نشست میں جب بحث نے طول پکڑا تو میں نے دوستوں سے عرض کیا کہ تھوڑا اور انتظار کر لیں اگر اس خطہ کے لیے امریکہ کے نئے علاقائی ایجنڈے کو افغان مجاہدین نے قبول کر لیا اور اس میں ایڈجسٹ ہو گئے تو میں آپ کا موقف کھلے دل سے تسلیم کر لوں گا کہ افغانوں نے سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی جنگ لڑی ہے۔ اور اگر وہ امریکہ کے ایجنڈے میں سیٹ نہ ہوئے تو آپ دوستوں کو میری بات ماننا ہو گی کہ افغانوں نے اپنی جنگ لڑی ہے جو افغانستان کی آزادی اور افغان قوم کے اسلامی و تہذیبی تشخص کے تحفظ کی جنگ تھی جس میں دنیا کے مختلف حصوں سے مسلم مجاہدین جہاد کے شرعی فریضہ کے احیا کے جذبہ کے ساتھ اس میں جوق در جوق شامل ہوتے چلے گئے، جبکہ امریکہ اس میں اپنے مفاد کے لیے شریک ہوا کہ اسے اس میں اپنے سردجنگ کے حریف روس کی شکست کے امکانات دکھائی دے رہے تھے۔

البتہ باہمی معاملات کے تعین و تشکیل میں افغان مجاہدین ’’دام ہمرنگ زمیں‘‘ کا شکار ہو گئے چنانچہ ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کے عنوان سے افغانستان میں مغرب کا نیا کھیل شروع ہوا جس کے نتیجے میں افغانستان کو ’’جہادِ افغانستان‘‘ کے منطقی ثمرات یعنی نفاذِ شریعت اور غیر ملکی مداخلت سے آزاد قومی خودمختاری سے محروم رکھنے کے لیے خانہ جنگی کے نئے راؤنڈ کا آغاز ہو گیا تو افغان مجاہدین کے انہی گروپوں میں سے نظریاتی اور تہذیبی ایجنڈا رکھنے والے لوگوں نے ’’طالبان‘‘ کے نام سے اپنی نئی تشکیل کی۔ اور چونکہ افغان عوام کی اکثریت کے لیے اپنی طویل جنگ کے نظریاتی اور تہذیبی ثمرات سے محرومی بہرحال ناقابل برداشت تھی اس لیے طالبان نے بڑھتے بڑھتے قندھار اور پھر کابل کا کنٹرول حاصل کر کے جہاد افغانستان کے منطقی ثمرات کا رخ متعین کر دیا جو اس خطہ کے لیے امریکہ اور نیٹو کے ایجنڈے سے متصادم تھا۔

چنانچہ افغان مجاہدین اور سوویت یونین کے درمیان لڑی جانے والی جنگ طالبان اور امریکہ کے درمیان نئی جنگ کی صورت اختیار کر گئی جبکہ ان دونوں جنگوں میں بنیادی فرق یہ تھا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں افغان مجاہدین کو دنیا بھر بالخصوص امریکہ اور عالم اسلام کی بھرپور حمایت حاصل تھی مگر طالبان کو یہ جنگ تنہا لڑنا پڑی۔ اور تاریخ ان کے اس کردار کو کبھی اپنے صفحات سے محو نہیں کر سکے گی کہ انہوں نے بیس سال تک تنہا جنگ لڑ کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مسلح افواج کو یہ کہتے ہوئے واپسی پر مجبور کر دیا کہ ’’ہم جنگ میں فتح حاصل نہیں کر سکے‘‘ جو ارشاد خداوندی ’’تلک الایام نداولھا بین الناس‘‘ کا مصداق ہے۔ اسے افغان قوم کی سخت جانی کہہ لیجئے یا ان کی اسلام کے ساتھ بے لوث وابستگی اور اپنی تہذیبی روایات کے ساتھ بے لچک وفاداری کا کرشمہ سمجھ لیجئے کہ یہ واقعہ ہو چکا ہے، البتہ اس کے نتائج و ثمرات کا رخ ایک بار پھر اپنے اپنے مفادات کی طرف موڑنے کے لیے بہت سی طاقتیں کسی نئے ’’جنیوا معاہدہ‘‘ کا تانابانا بننے میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔

آج اسلام آباد کی مذکورہ نشست میں ہونے والی بحث کا نتیجہ بحمد اللہ تعالیٰ سامنے آ گیا ہے کہ افغان قوم نے جہادِ افغانستان میں امریکہ کی جنگ نہیں لڑی تھی بلکہ امریکہ نے ان کی اس جنگ کو اپنے مقاصد کے لیے ہائی جیک کر لیا تھا جس میں اسے بالآخر ناکامی ہوئی ہے اور افغان قوم اپنی خودمختاری، اسلامیت اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا پرچم آج بھی پورے عزم و استقامت کے ساتھ تھامے کھڑی ہے، البتہ ان کی زیرلب گنگناہٹ کے یہ الفاظ ہر واقفِ حال کو سنائی دے رہے ہیں کہ

’’ہمیں ہمارے دوستوں سے بچالو، دشمنوں سے ہم خود نمٹ لیں گے۔‘‘


نظام مدارس: روایت اور معاصرت کا اطلاقی جائزہ

ڈاکٹر اکرام الحق یاسین

(1)
13؍ جون 2021ء بروز اتوار، دن 11 بجے تا 2 بجے زوار اکیڈمی کراچی کے زیر اہتمام”عصر حاضر اور ہمارے مدارس“ کے موضوع پرایک ویبینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں راقم نے ”نظام مدارس: روایت اور معاصرت کا اطلاقی جائزہ“ کے عنوان کے تحت درج ذیل گفتگو کی:

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ واصحابہ اجمعین

مدارس دینیہ جس ماحول میں قائم کیے گئے تھے، اس کا بظاہر بنیادی مقصد دینی علوم کا تحفظ اور دعوتِ دین کا تسلسل معلوم ہوتا ہے۔ انگریز کے ملک پر مکمل قبضہ کے بعد مدارس کے لیے وقف جائیدادیں تقریباً ضبط کرلی گئی تھیں اور سرکاری سرپرستی کا سلسلہ منقطع ہوگیا تھا۔ لہٰذا عام مسلمانوں کی مدد سے ہر حال میں یہ دونوں مقاصد پورے کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں نہ تو عمارت میسر آنے کا انتظار کیا گیا، نہ طلبہ کے داخلوں کے باقاعدہ اعلان کیے گئے نہ ہی اساتذہ کے تقرر کا اہتمام کیا گیا۔ اُس وقت کے علماء نے جو طے کیا اُس پر ”جہاں ہے جیسا ہے“ کے تحت عمل شروع ہوگیا۔ کسی نے درخت کے نیچے ایک استاذ ایک شاگرد کے ساتھ کام شروع کیا۔ یہ دار العلوم دیوبند کی ابتداء (30؍ مئی 1866ء/ 15؍ محرم الحرام 1283ھ) تھی۔کسی نے اپنے گھر سے ہی اس کی ابتدا کرلی، اور جس کو جو میسر آیا اس مقصد کے لیے، اسے استعمال کرنا شروع کردیا۔ کھانے وغیرہ کی ضروریات کے لیے گھر گھر جا کر مانگنے سے بھی اجتناب نہیں کیا گیا۔ للہیت اس قدر تھی کہ فاقے، مجبوریاں اور بیماریاں بھی اس راہ میں رکاوٹ نہیں بنے۔ نصاب ایسا اختیار کیا گیا کہ جس میں اُس وقت کے جدید علوم بھی شامل رکھے گئے اور مسلم روایت کے قدیم علوم بھی شامل کیے گئے۔ اس نصاب کی تعلیم مکمل کرکے سرکاری ملازمت حاصل کرنا نہ تو مقصد تھا اور نہ ہی اس کے کوئی خاص امکانات موجود تھے۔ ان مدارس کے ساتھ ساتھ علیگڑھ کی تحریک جو 1853ء سے ابھی تک جاری تھی، ایک نئے تعلیمی نظام کے طور پر متعارف ہوچکی تھی۔ دیوبند قائم ہونے کے تقریباً 28 سال بعد 1894ءمیں ندوہ کی علمی تحریک بھی شروع ہوئی۔ اس طرح کے جو نظامہائے تعلیم وجود میں آئے ان کے فضلاء کو ریاستی نظم ونسق میں زیادہ حصہ ملا۔ مدارس دینیہ تحفظ علوم دینیہ اور دعوت الی اللہ کا کام نہایت خوش اسلوبی اور خلوص کے ساتھ سرانجام دیتے رہے۔ یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے عوام کے لیے اقامت شعائر دینیہ اور مسائل دینیہ میں رہنمائی کا کام بھی بخوبی نبھایا۔

یہ کام مدارس اب تک کر رہے ہیں۔ پاکستان بنا تو 27؍ نومبر 1947ء کو اُس وقت کے دار الحکومت کراچی میں قائد اعظم کی سرپرستی میں آل پاکستان ایجوکیشنل کانفرنس منعقد ہوئی۔ یہ کانفرنس مسلسل چھ دن یعنی یکم دسمبر 1947ء تک جاری رہی، اور اس میں پاکستان کے نظام تعلیم کے بارے میں اہم فیصلے کیے گئے۔ ان میں کچھ فیصلے تو فنی تعلیم اور خواتین کی تعلیم کے بارے میں تھے، مگر ایک اصولی اور مشترکہ فیصلہ یہ تھا کہ پورا نظام تعلیم ایسا بنایا جائے گا کہ اس کی اصل روح نظریہ پاکستان سے پھوٹتی ہو اور اس کی بنیادیں اسلام سے بنتی ہوں۔ اس کام کو آسان کرنے کے لیے ایک ادارۂ تحقیقات اسلامی اور ایک پاکستان اکیڈمی قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اصولی فیصلہ کرنے کے بعد اسی کانفرنس میں یہ بھی طے کیا گیا کہ مدارس دینیہ کو اسی نظام تعلیم کا حصہ بنادیا جائے۔ اس سے کچھ ہی عرصہ بعد، مارچ 1948ء میں، پاکستان کے پہلے نظریاتی ادارے ادارہ اسلامی تعمیر نو (Department of Islamic Reconstruction) کا مجلہ ”عرفات“ شائع ہوا تو اس میں ”پاکستان میں ایک مرکزی دار العلوم کا قیام“ کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون شائع ہوا، جس میں نبی کریم ﷺ کے وقت سے لے کر موجودہ زمانے تک نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کی ضروری تفصیلات بیان کی گئیں اور اس مقصد کو جاری رکھنے کے لیے ایک مرکزی دار العلوم کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔

اگر یہ نظام قائم ہوجاتا اور علوم دینیہ دیگر علوم کے ساتھ ساتھ کما حقہ اس نظام کا حصہ بن جاتے تو پاکستان واقعتاً اب ایک اسلامی ریاست بن چکا ہوتا، مگر وجوہات کچھ بھی ہوں، وسائل کی کمی ہو، رجال کار کی کمی ہو، ارادے کی کمزوری ہو، سیاسی حالات ہوں، نوزائیدہ ملک کی دفتر شاہی یا افسر شاہی ہو، تجزیہ جو بھی کرلیا جائے مگر نتیجہ ایک ہی ہے کہ یہ کام نہیں ہوسکا۔ قومی اسمبلی کے مباحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وقتاً فوقتاً علماء کی طرف سے ریاستی بجٹ میں مدارس کا حصہ رکھنے کی بات بھی ہوتی رہی اور حکومتوں کی طرف سے مدارس کو رقوم دینے کا ذکر بھی چلتا رہا، مگر نظام تعلیم کا سلسلہ مربوط نہ ہوسکا، نہ ہی مُلا اور مسٹر کی تفریق ختم ہوسکی۔ ملک میں ندوہ اور علیگڑھ کے نمائندہ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے برابر تھے البتہ دیوبند، سہارنپور اور بریلی یا شیعہ مکتب فکر کے مرکز لکھنؤ کے مدارس خاصی تعداد میں موجود تھے مگر ان سب کا نظام روایتی تھا، معاصر نہیں تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دینی اور دنیوی یا روایتی اور عصری کی تفریق بڑھتی چلی گئی اور ہمارے دونوں نظامہائے تعلیم ایک طرف ملاّ اور ایک طرف مسٹر پیدا کرنے لگے۔ ان کے آپس میں ملنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوسکی۔ کچھ مدارس پر معاصرت کا تجربہ کیا گیا تو وہ بری طرح ناکام ہوا، نہ وہ مدرسے رہے اور نہ ان کے وہ نصاب رہے۔ جامعہ عباسیہ بہاولپور کو اسلامیہ یونیورسٹی میں بدلنا اس کی ایک مثال ہے جہاں اسلام کے نام کے علاوہ باقی ایک مکمل یونیورسٹی بن گئی۔

وقت کے ساتھ ساتھ مدارس دینیہ میں ایک طرف یہ تأثر پختہ ہوتا چلا گیا کہ یہ حکومتیں انگریزی نظام تعلیم کی وارث ہیں اور دوسری طرف نظام ریاست میں جو حصہ تحریک پاکستان سے لے کر علماء ومشائخ نے دستور بننے تک ڈالا تھا نظام کو جاری رکھنے میں، وہ حصہ بھی تقریبا ختم ہوگیا۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے اس وقت ہمارے مدارس دینیہ کے پاس خواہ اس کا مسلک کوئی بھی ہو، بڑی بڑی عمارتیں ہیں، داخلوں کے باقاعدہ اعلان ہوتے ہیں، صرف مقررہ معیار پر پورا اترنے والے طلبہ ہی داخلہ حاصل کرسکتے ہیں، اساتذہ کی تھوڑی یا بہت، ماہانہ تنخواہیں مقرر ہیں۔ حسب توفیق سہولیات مہیا کرنے کا اہتمام یا کم از کم دعویٰ کیا جاتا ہے۔ اکثر مہتمم صاحبان کا معیار زندگی بہت بلند ہے۔ صدقات، زکوٰۃ، عطیات سب ایک بینک میں ہوتے ہیں اور مختلف مصارف کا مسئلہ کتاب الحیل سے حل ہوجاتاہے۔ مدارس کے باقاعدہ وفاق قائم ہیں۔ زمانے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ ان کی ڈگریوں کی اہمیت اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ ایسے میں بہت سے فضلائے مدارس دینیہ کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اچھے مناصب حاصل کرنے کا موقع بھی مل چکا ہے۔ ان میں محکمہ تعلیم زیادہ سرفراز ہے۔ حلال فوڈز، اسلامک بینکنگ، مضاربہ، مشارکہ اور دسیوں کاروبار ایسے ہیں جو مدارس دینیہ کی اسناد کی بنیاد پر چل رہے ہیں۔ ان کی کامیابی یا ناکامی، نیک نامی یا بد نامی ساتھ ساتھ ہی چل رہے ہیں۔

فی زمانہ حالات خلط ملط ہوچکے ہیں۔ مدارس اپنی روایت، اپنی سادگی، دعوت الی اللہ اور حتی کہ روز مرہ کے مسائل میں رہنمائی کا منصب بھی تقریباً کھوچکے ہیں، یا زیادہ بہتر یوں کہا جائے کہ یہ رہنمائی کافی حد تک غیر متعلق ہوچکی ہے۔ معاشرے میں بسنے والے لوگ ایک ہی ہیں، مگر قانون انہیں اور طرح سے مخاطب کرتا اور ان پر احکامات کا اطلاق کرتا ہے اور مدرسے کی تعلیم ان کو اس کے بالکل الٹ مخاطب کرتی اور ان پر احکامات کا اطلاق کرتی ہے۔ مدرسے کا نظام کافی حد تک جدید ہوچکا ہے، مگر نصاب اور اس کا طریقہ تعلیم قرونِ وسطیٰ کی زبان بولتا ہے۔ صَرف اور نحو کو لے لیا جائے تو ضرب زید عمرا سے باہر جانا سلف کی بے ادبی شمار ہوتا ہے اور زید عمرو بکر کے علاوہ کسی کا نام لینا تو حد سے پار ہونے کے مترادف ہے۔ علمِ بلاغت، معانی، بدیع وغیرہ آسمان کی بلندیوں پر ہیں اور جس زبان کی تحسین وتزئین انہوں نے سرانجام دینا تھی وہ زبان کہیں گلیوں اور محلوں میں بھٹکتی پھر رہی ہے۔ سائنسی علوم ویسے ہی تقویٰ کے خلاف شمار ہورہے ہیں، جبکہ منطق وفلسفہ روز مرہ کے محاورے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ فقہی احکام میں گھوڑوں اور خچروں کے تذکرے اور اطلاقی مثالیں ابھی تک نصاب کا حصہ ہیں۔ اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں کے احکام، ذمی اور مسلم کی بحث، جزیہ کے ابواب۔ یہ سب کچھ اپنے تقدس کے ساتھ اب تک ہمارے نصاب کا مرکزی مضمون ہے۔ عبادات کو دیکھیں، تو اسباب اور وسائل کی تبدیلی نے بہت سے نئے مسائل پیدا کردیے ہیں۔ زکوٰۃ کو دیکھیں، تو اس میں نئے اموال جنم لے چکے ہیں۔ وکیلوں کا مشورہ، مصنف کا تصور اور خیال، ای میل کی تجارت، سٹاک ایکسچینج کے شیئرز، مالیات کے معاصر موضوع ہیں، مگر ہمارے نصاب میں ان کا کہیں اتہ پتہ نہیں ہے۔ ”الامامۃ والسیاسۃ“ کے ابواب مطلقاً بدل چکے ہیں۔ ان معروضات کو مثال بنا کر باقی پہلوؤں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ان مدارس کے فضلاء اوّل تو ریاستی نظام سے بالکل الگ تھلگ اپنے منبر ومحراب، مکتب ومدرسہ، جلسہ وجلوس، دھرنا اور مارچ میں مشغول رہتے ہیں اور ایسا موقع بھی آجاتا ہے کہ جہاد کا عَلم بلند کیے ہوئے سر دھڑ کی بازی لگاتے بھی نظر آتے ہیں۔ مگر چونکہ ان تمام چیزوں کا مضمون دور حاضر کی ضروریات اور نظام سے بالکل الگ تھلگ ہوتا ہے، اس لیے یہ سب چیزیں یا تو صدا بصحرا ثابت ہوتی ہیں یا پھر زیادہ تکلیف دِہ بات یہ ہے کہ ریاستی اداروں کو مجبوراً علماء کے مسائل اور ان کے میدان ہائے تقدس کے مطابق ان کی درجہ بندی کر کے دینی پریشر بلڈنگ یا پریشر ریلیزنگ کے لیے انہیں استعمال کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ان کے پاس سکہ رائج الوقت یہی کچھ ہے۔

اب تھوڑی سی بات مسئلے کے حل کے بارے میں کر لیتے ہیں۔ ریاست کی طرف سے یہ کاوشیں کہ یکساں نصابِ تعلیم کے ذریعے مدارس دینیہ بھی مین سٹریم میں آجائیں اور سسٹم کا حصہ بن جائیں، بظاہر قابل عمل نظر نہیں آتیں، جس میں ایک مشکل مالیات کی ہے کہ شاید یہ نظام بدلنے سے چندے کی وہ مقدار حاصل نہ ہو جو دنیا وآخرت کی فلاح وبہبود کے عنوان سے حاصل ہوتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر جو نظم ونسق چل رہا ہے اور پاکستان جس طرح قرضوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے اس میں یہ بھی عین ممکن ہے کہ چندے کا سلسلہ بالکل ہی ختم ہوجائے اور قابل تعزیر جرم قرار پائے۔ وقف بل کی روشنی میں اگر مدارس کے تمام ذرائع اور وسائل حکومتی تحویل میں آجاتے ہیں تو حکومتی خزانے میں اتنے وسائل نہیں کہ مدارس کے روز مرہ اخراجات پورے کرسکیں۔ اس لیے یہ سلسلہ شاید شروع ہی نہ ہوسکے اور اگر شروع ہو بھی جائے تو چلنا محال نظر آتا ہے۔ دوسری مشکل یہ ہوگی کہ نصاب کا دینی حصہ نہ تو مضمون کے لحاظ سے دینی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوگا نہ اس کی تدریس اچھے طریقے سے ہوسکے گی اور اس وقت مدارس میں کم از کم جو روایتی نصوص، متن، اور شروح وغیرہ سمجھنے کی حد تک علم موجود ہے وہ بھی ختم ہوجائے گا۔ تیسری اہم اور سب سے بڑی مشکل یہ ہوگی کہ اگر دینی مدارس بھی گریجویٹ پیدا کرنا شروع کردیں گے جس طرح عصری تعلیمی ادارے کر رہے ہیں تو یہ ملکی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہوگا۔ اس وقت تو مدارس کے فضلاء عذاب ثواب اور جنت جہنم کے فلسفے پر جیسا تیسا گزارہ کر رہے ہیں اور ان کے عوام بھی اپنے اپنے مسلک کو جنت کا ذریعہ سمجھتے ہوئے ان کی مالی مدد کر رہے ہیں اور ان کو بڑے احترام کا مقام دیتے ہیں۔ لیکن مدارس کو مین سٹریم میں لانے سے یہ جن ایسا بے قابو ہوجائے گا کہ بے روزگاری کا ایک بہت بڑا طوفان آجائے گا اور پورا ملک بھی اگر گروی رکھ کر قرضے لیے گئے تو آبادی کا کھانا پینا بھی پورا نہ ہوسکے گا۔

مسائل کا حل یک دم نہیں ہوتا، دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ ان کے حل کے لیے کچھ تجاویز درج ذیل ہیں:

1- مدارس فوری طور پر دعوت الی اللہ اور نجی دینی مسائل میں رہنمائی کا نظام عصر حاضر کے عرف کے مطابق بنائیں، ورنہ امام شامی کا یہ فتویٰ ”من لم يعرف أحوال زمانه فهو جاهل“ سب کی طرف متوجہ ہوگا۔ امام شاطبی کے مقاصد شریعت کے ایک مقصد کو لیتے ہوئے مدارس کے طلبہ وفضلاء کو دور جدید کے نظاموں اور اصطلاحات سے واقف کرنا بہت ضروری ہے۔ فضلائے مدارس کی اصطلاحات اور عام آدمی کی زبان میں بالکل ربط نہیں ہے، اس کے لیے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے دو اداروں شریعہ اکیڈمی اور دعوہ اکیڈمی کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ مختصر مدت کے کورسز جن میں پاکستان کا نظام عدل مفتی صاحبان کے لیے، جدید اسالیبِ دعوت خطباء اور واعظین کے لیے، پاکستان کے احکام معیشت وتجارت اسلامی معیشت کا شوق رکھنے والے مفتی صاحبان کے لیے اور اسی پر قیاس کرتے ہوئے دیگر بہت سے کورسز مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ ہر کورس کے لیے فی الحال دو دو ہفتوں کا وقت کافی ہے۔ ہر شہر کے بڑے بڑے دینی مدارس اس کے لیے جگہ اور ممکنہ سہولیات مہیا کریں اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اس میں سرپرستی کا کردار ادا کرے۔ ہر کورس میں پاکستان کے تمام مکاتب کے طلبہ وفضلاء ہوں جو ایک ہی مدرسے میں جمع ہو کر یہ کورس کریں۔ کسی کورس کا مرکز دیوبندی مدرسہ ہو، کسی کا بریلوی مدرسہ اور کسی کا اہل حدیث مدرسہ ہو۔

2- مدارس کے پورے نصاب کی اصطلاحات کو ایک الگ فہرست کی شکل دے کر اس کی اردو یا اردو میں مستعمل دیگر زبانوں کی اصطلاحات اس کے مترادف کے طور پر مرتب کی جائیں۔ فی الحال مختلف مضامین کی اصطلاحات کا کام مختلف مدارس کے طلبہ وفضلاء کے ذمے لگایا جائے اور انہیں جلد از جلد مرتب کرکے انٹرنیٹ پر اپلوڈ کردیا جائے اور بعد میں اس کو طباعت کے مراحل سے گزارا جائے۔

3- فقہ سے متعلق اس بات کا اہتمام کیا جائے مفتی صاحبان کو ایسے قوانین پر مشتمل کورسز کرائے جائیں جو اس وقت نافذ العمل ہیں اور بار کونسلز کے ساتھ رابطہ کرکے ان مضامین میں تخصص رکھنے والے وکلاء اور مفتی صاحبان کی مقامی مشاورتی کمیٹیاں بنائی جائیں، جس کا مقصد یہ ہو کہ قانون اور فقہی احکام دونوں کے اختلاف کی صورت میں عام آدمی کو نکاح اور طلاق کے نئے طریقے اور مناہج واسالیب سکھائے جائیں جس پر تطبیق کی قدیم اصطلاح صادق آسکے۔ یہی کام تجارت، محاصل اور مالی لین دین کے قوانین کے لیے بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات، جس کی اس سلسلے میں 100 سے زائد مطبوعات شائع ہوچکی ہیں اور ویب سائٹ پر اس کا سرچ انجن بھی موجود ہے اور پی ڈی ایف میں اس کی فائلیں مل جاتی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ تقریباً اسی نہج کا کام ہے۔

4- نصاب اور نظام تعلیم کی مشکل سے نکلنے کے لیے چونکہ ثواب، توکل دنیوی لحاظ سے علماء ہی کا تخصص بنتا ہے۔ اس لیے مہربانی فرما کر پہلی قومی تعلیمی کانفرنس 1947ء اور بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے نصاب کو مد نظر رکھتے ہوئے روایت اور معاصرت کو یکجا کرکے نصابی کتب تیار کروائی جائیں اور عام آگہی کے لیے مختصر کتابچے طبع کرائے جائیں۔ جب یہ ٹرینڈ بن جائے گا تو اس کو نصاب کا حصہ بنانا اور اس پر تحقیق کرنا مشکل نہیں ہوگا۔

5- فی الحال دور جدید کے اسلامی مصنفین کی کتابیں یا ابواب وفاقہائے مدارس کی نصابی کمیٹیوں کے ذریعے قدیم کتب وابواب کی جگہ مقرر کردی جائیں۔ وہبہ زحیلی وغیرہ کی کتابیں فقہ میں اور اسی طرح النحو الواضح وغیرہ اور اسے ملتی جلتی کتابیں صَرف ونحو میں شامل کی جاسکتی ہیں، یا کم از کم ایسا ہو کہ نصاب میں ان پر مشتمل جزوی تبدیلی لائی جائے۔ اس سلسلے میں مصر، شام اور دیگر عرب ممالک کے نصاب ہائے تعلیم سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری نہیں کہ خلوص اور للہیت پر کمپرومائز کریں، بلکہ اسی ماحول میں پڑھائیں جس میں قدیم نصاب پڑھایا جاتاتھا، اساتذہ نماز روزوں کی پابندی کریں اور کرائیں، مطالعہ اور تکرار کا وہی نظام ہو جو پہلے سے چل رہا ہے۔ فنون میں ضرب زید عمرا سے نکل کر جدید عربی عبارات، سیاسی، سماجی اور معاشرتی اصطلاحات پر مشتمل مثالوں کے ذریعے یہ فنون پڑھائے جائیں۔

علوم میں جدید فقہی اصطلاحات کا احاطہ کرنے کے لیے مدارس کو رجال کار کا سخت مسئلہ پیش آئے گا، یہ ایک حقیقت ہے۔ اس کے لیے یا تو ہمت کرکے ریاستی معاہدات کی روشنی میں سعودی عرب، مصر وغیرہ سے حسب ضرورت اساتذہ مبعوثین منگوالیے جائیں یا پھر مختلف اداروں میں پہلے سے موجود عرب اور دیگر اساتذہ کی خدمات لے کر شعبان اور رمضان میں تدریب المعلمین کے کورسز کرائے جائیں۔ مدارسِ دینیہ کے فضلاء اس قدر پختگی اور صلاحیت والے ہیں کہ انہیں دو ماہ کے عرصے تک جو پڑھادیا جائے اسے مزید ترقی دینے میں ان کی اپنی صلاحیتیں ان کی معاون ومددگار ہوں گی۔

6- طویل مدت کے لیے نصاب کو اس نہج پر لانا ضروری ہے کہ جو لوگ دعوتِ دین اور افتاء وارشاد کے میدان میں کام کرنا چاہیں وہ اصول شریعت کے ساتھ فروعِ جدیدہ اور عرفِ حاضر سے اچھی طرح واقف ہوں اور جو لوگ موجودہ ریاستی نظام تعلیم کے تخصصات میں جانا چاہیں ان کے لیے راستے کھلے ہوں۔ بنگلہ دیش کا نظامِ مدارس یہ کام شروع کرنے کے لیے بہت عمدہ لائحہ عمل مہیا کرتا ہے، اس سے استفادہ کرلیا جائے۔ اس میں ضروریات کے مطابق تبدیلی کی جاسکتی ہے۔

7- مدارس دینیہ کے نصاب میں اگر ہوسکے تو کسب معاش کے کچھ فنون کا ابتدائی تعارف بھی شامل کردیا جائے جو ملازمت سے ہٹ کر اپنا کام کرنے میں مددگار ہو، جیسے قدیم نصاب میں طب بہت اہتمام سے پڑھائی جاتی تھی۔


(2)

21؍ جون 2021ء بروز سوموار، 4بجے شام کو تنظیم اساتذہ پاکستان نے، رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آباد، نیشنل ایسوسی ایشین فار ایجوکیشن (نافع) پاکستان اور حرا نیشنل ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے تعاون سے”یکساں قومی نصاب: اہمیت، تقاضے اور خدشات“ کے عنوان سے ایک قومی مشاورتی سیمینار منعقد کیا۔ اس سیمینار میں راقم نے ” یکساں قومی نصاب اور ہمارے مدارس کا نظام“ کے موضوع پر درج ذیل گفتگو کی:


یکساں قومی نصاب اور ہمارے مدارس کا نظام

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم وعلی آلہ وصحبہ اجمعین

جناب پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد صاحب

پروفیسر ڈاکٹر اکرم چوہدری صاحب

پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب

برادر گرامی پروفیسر ڈاکٹر الطاف حسین لنگڑیال صاحب

صدر مجلس

یہ ایک ایسی علمی مجلس ہے جس میں میرے اساتذہ کرام اور میدان تعلیم وتعلم کے اساطین تشریف فرما ہیں۔ میرے لیے لب کشائی کا کوئی موقع نہیں بنتا۔ یہاں بیٹھ کر اپنے بڑوں کی باتیں سن لینا ہی بہت بڑا اعزاز ہوگا۔ تاہم چونکہ پروگرام میں نام شامل ہوگیا ہے اس لیے اپنے اساتذہ کو اُنہی کا دیا ہوا سبق سنانے کی کوشش کروں گا تاکہ اس میں اصلاح ہوسکے۔ خواتین وحضرات! ملک میں تیار ہونے والا یکساں تعلیمی نصاب اپنے اندر بہت سے قابل بحث نقاط اور بہت سے قابل تحقیق گوشے رکھتا ہے۔ مدارس دینیہ کے حوالے سے جو وژن اس نصاب میں نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ مدارس بھی مین سٹریم ایجوکیشن میں شامل ہو کر اپنے فضلا کو ملک اور معاشرے کے لیے مفید تر بناسکیں، انہیں ملازمتیں مل جائیں اور ترقی کرنے کے مواقع میسر ہوں۔ میرے خیال میں نصاب تعلیم اور نظام تعلیم مرتب کرتے وقت مقصدِ تعلیم کو پیش نظر رکھنا از حد ضروری ہے۔ مدارس کے نظام کی بنیادیں ہمیں مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر [م :فروری 1707ء] کے زمانے میں ملتی ہیں جب ملا نظام الدین سہالوی رحمہ اللہ [م :مئی 1748ء] نے اُس وقت کے جدید اور روایتی علوم پر مشتمل یہ نصاب تیار کیا اور تقریباً 150 سال تک حکومتی سرپرستی میں اس نصاب کی تعلیم جاری رہی۔ 1857ء میں ہندوستان پر انگریز کے مکمل قبضے کے بعد جب نظام تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں اور دینی علوم کا حصہ نظام تعلیم میں بہت کم رہ گیا تو اس وقت کے علماء نے ملا نظام الدین سہالویؒ کے نظام کو ہی، جو درس نظامی کے عنوان سے مشہور تھا، الگ دینی مدارس قائم کرکے جاری رکھا اور حسب ضرورت اس میں کچھ تبدیلیاں کردیں۔ ان مدارس کا مقصد معاشی نہیں تھا، دعوتی اور دینی رہنمائی کا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مدارس اسی دعوے کے ساتھ چل رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں مدارس منبر ومحراب، جلسہ وجلوس اور وعظ وارشاد کے ذریعے دعوتی کام بخوبی سرانجام دے رہے ہیں اور نکاح وطلاق، وراثت اور حلال وحرام کی حد تک دینی رہنمائی بھی فراہم کر رہے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم تبدیلی یہ آئی ہے کہ مدارس کی تنظیموں کی رضامندی سے اُنہیں سرکاری ملازمتوں اور معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے بھی اجازت نامے جاری کیے گئے ہیں۔ اب جب یکساں نظام تعلیم کی بات ہوتی ہے تو اس میں دوسرا یعنی معاشی پہلو نمایاں نظر آتا ہے اس میں دعوت وارشاد، وعظ ونصیحت کے پہلو کافی حد تک کمزور نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف وفاقی حکومت کا اوقاف بل بھی محل نزاع بنا ہوا ہے۔ اوقاف بل کا مدارس کے مالیاتی نظام کے ساتھ گہرا تعلق ہے، جس سے خطرہ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ ایک تو مدارس کے نظام اور خصوصاً مالیات میں حکومت کا عمل دخل کلیدی حیثیت حاصل کرجائے گا اور مدارس کی اٹانومی بری طرح متأثر ہوگی اور دوسرے یہ کہ جب چندے جمع کرنے اور وقف وصول کرنے کی نسبت حکومت سے ہوجائے گی تو چندے بھی بند ہوجائیں گے اور زمینیں اور جائیدادیں وقف کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہوجائے گا جس کا لازمی نتیجہ مدارس کی بندش، یا انتہائی مشکلات کی صورت میں ہوگا۔ مدارس کے روایتی کردار کے بارے میں بھی خدشات کا اظہار کیا جا چکا ہے کہ نئے یکساں نصاب میں جان نہیں ہے کہ اس سے یہ کردار ادا کرنے کی توقع کی جاسکے۔

مدارس کے ان خدشات پر تو انتظامی اور ملکی سطح پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ البتہ مدارس کے نصاب کے لحاظ سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جو کردار مدارس صدیوں سے ادا کر رہے ہیں، وہ دور حاضر تک پہنچتے پہنچتے اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ مدارس میں عربی زبان کی تعلیم کو دیکھیں تو صَرف کی گردانوں کے رٹے لگانے اور نحو میں ضرب زيد عمرا کے تکرار سے نہ تو زبان آتی ہے اور نہ ہی موجودہ دور کے عرف کے ساتھ اس کا کوئی ربط قائم ہو پاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عرب دنیا میں بہت سی ایسی کتابیں تصنیف کی جاچکی ہیں جو جدید طریقوں سے عربی زبان بھی سکھاتی ہیں اور قواعد واملا بھی سکھا لیتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دور جدید کی عملی مثالوں اور تعبیرات پر مشتمل ہیں جس سے انسان کو ایک زندہ زبان سیکھنے کا احساس ہوتا ہے۔ موقوف علیہ تک باقی تمام فنون کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ وعظ وارشاد کے لیے قرآن مجید اور سیرت وحدیث بنیادی ذرائع ہیں، مدارس کے نصاب میں قدیم روایتی اردو تراجم اور جلالین شریف اور بیضاوی پر اکتفا کیا جاتا ہے جن سے دور جدید میں قرآن مجید سے کم ہی کوئی اطلاقی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ سیرت تو ویسے بھی نصاب کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ جہاں تک شخصی اور خاندانی مسائل میں رہنمائی کا تعلق ہے تو ایک طرف جدید ایجادات نے نکاح وطلاق کے پورے سسٹم کو بدل کر رکھ دیا ہے اور دوسری طرف قوانین اور قرون وسطیٰ کے فقہی متون اور شروح میں زمین وآسمان کا فرق ہے، مگر ان دونوں کا مخاطب ایک ہی ہے۔ ایک ہی شخص جو شریعت پر چلنا اور جنت میں جانا چاہتا ہے اسے مفتی صاحب بتاتے ہیں کہ آپ کی طلاق ہوگئی اور فلاں فلاں صورتوں کے بغیر آپ کی ازدواجی حیثیت بحال ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے، قانون کہتا ہے کہ آپ کی طلاق نہیں ہوئی۔ ہم یہاں یہ بحث نہیں کر رہے ہیں کہ کون غلط ہے اور کون صحیح ہے، مگر دور جدید کے انسان کا یہ حق بنتا ہے کہ شریعت کی رہنمائی میں اسے بتایا جائے کہ وہ اپنے معاملات میں قانون اور شریعت کو کیسے جمع کرسکتا ہے۔ قوانین میں ترمیم ایک بالکل الگ فیلڈ ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اس کے لیے ایک سے زائد مرتبہ یہ سفارش کرچکی ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں مگر چونکہ یہ قرآن وسنت کے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے اور یہ طلاقِ بدعت شمار ہوتی ہے اس لیے ایسے بدعتی شخص کو تعزیری سزا ہونی چاہیے اور جو وکیل اور منشی اس کی مدد کرے انہیں بھی سزا میں شامل کرنا چاہیے۔ کونسل نے یہ سفارش کئی مرتبہ کی ہے۔ اگر قانون میں ترمیم نہیں ہوتی یا دیر سے ہوتی ہے تو عام آدمی کو مسائل بتاتے وقت اس پر تو تیار کیا جاسکتا ہے کہ بیک تین طلاقوں کے رواج کی حوصلہ شکنی کی جائے بلکہ ممکنہ حد تک قانون کے مطابق طلاق کے نوٹس جاری کریں جس میں یہ احتیاط شامل ہو کہ شرعی حدود کے دائرے کے اندر رہیں۔ کونسل کے کئی اجلاسوں میں ہلکی ہلکی آوازیں اس پر بھی اٹھیں کہ نکاح رجسٹریشن کی طرح طلاق رجسٹریشن کا بھی نظام جاری کیا جائے مگر معاشرتی مشکلات کو دیکھ کر بات آگے نہ بڑھ سکی۔ نکاح نامے کا موجودہ فارمیٹ کئی مرتبہ کونسل میں زیر غور آچکا ہے۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں دی جاسکتی ہیں جن کی تعلیم وتدریس کی مدارس میں ضرورت ہے۔ عرب دنیا میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے بہت بڑا فقہی کام کردیا ہے اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سا لٹریچر اس سلسلے میں میسر ہے۔

ہماری فقہی کتب میں ابھی تک غلاموں اور لونڈیوں کے احکام، گھوڑوں اور جانوروں کی زکوٰۃ اور غیر مسلموں سے جزیہ اور خراج لینے کے احکام پڑھائے جا رہے ہیں۔ چند ہی دن پہلے کی بات ہے، پی ایچ ڈی میں بلاسفیمی لا کے بارے میں ایک مقالہ مدرسے کے ایک فاضل نے لکھا،اس میں روایتی فقہی احکام کی بھرمار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بات دیکھ کر انتہائی پریشانی ہوئی کہ وہ صاحب لکھ رہے ہیں

ان أساء الذمي إلی الرسول ﷺ يفسد عھد ذمتہ

’’اگر کوئی ذمی رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرے گا تو اس کا عہد ذمہ ختم ہوجائے گا۔‘‘

اب جب میں نے پوچھا کہ دور جدید کا ذمی کون ہے اور ذمی کی تعریف کیا ہے، تو کوئی جواب نہیں ملا۔ جب میں نے اس کی جگہ شہریت کی بات کی تو اچھے خاصے اساتذہ کی طرف سے یہ سوال آیا کہ شہریت کے لیے مصدر کیا ہوگا؟ مجھے حیرت تو بہت ہوئی، مگر میں نے معصومیت سے عرض کیا کہ مصدر دستور پاکستان ہوگا، وہ دستور جو مولانا شبیر احمد عثمانی، ڈاکٹر حمید اللہ،مولانا مناظر احسن گیلانی،مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق تھانوی اور مولانا ظفر احمد انصاری نے اپنی علمی تحقیقات کے ذریعے بنوایا۔

میرے خیال میں ایک طرف اساتذہ کی ایسی مجالس کے ذریعے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے دینی علوم کے تحفظ اور تعلیم کی شدید ضرورت ہے، اور دوسری طرف ایسا لٹریچر عام کرنے کی ضرورت ہے جو عام فہم زبان میں ہو اور دور جدید کے عرف کے مطابق دینی ضروریات پوری کرسکتا ہو۔ اس کے لیے شعبان اور رمضان کے شارٹس کورسز، مدارس کی درجہ وار تقسیم، نصاب میں مرحلہ وار تبدیلی اور تعلیمی نظام میں تدریس کے علاوہ تحقیق، علمی اجتماعات اور تبادلہ خیالات کو شامل کرکے اس کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔

وآخر دعوانا انِ الحمد للہ رب العالمین۔


(3)

عالی قدر جناب وفاقی وزیر برائے مذہبی امور حکومت پاکستان نے، 25؍ جون 2021ء کو، مختلف علماء کرام کو خطوط لکھے تھے، جس کی ایک کاپی اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی ارسال کی تھی۔ اس پر جناب چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی فرمائش پر جون 2021ء کے آخر میں راقم نے مدارس کے نظام اور نصاب کے بارے میں درج ذیل تجاویز تحریر کی تھیں۔

تجاویز بابت سماجی معاملات متعلقہ مدارس دینیہ

ان تجاویز کو عملی تدریج کے طور پر درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

أ) فوری اور جلد اقدامات:

1- وفاقہائے مدارس دینیہ اور سربراہان ادارہ جات سے نظام، نصاب اور ماحول کی اصلاح کے لیے تجاویز مانگی جائیں۔

2- مستقبل قریب میں وفاقہائے مدارس دینیہ ( جدید وقدیم)، اوقاف کی مساجد کے ممتاز خطباء، ملک کے دیگر ممتاز علماء ومشائخ، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین اور چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل پر مشتمل ایک مشاورتی اجلاس بلایا جائے، جس کا انتظام وزارت مذہبی امور کرے اور معاونت اسلامی نظریاتی کونسل کرے۔ اس میں صوبائی نمائندگی بھی ہو اور مختلف مکاتب فکر کی نمائندگی بھی ہو۔

3- مدارس میں جو سالانہ اجتماعات ہوتے ہیں، وفاقہائے مدارس دینیہ کی مشاورت سے انہیں تربیتی اجتماعات میں بدلنے کا لائحہ عمل طے کرلیا جائے اور وفاقات اس پر عملدرآمد شروع کرائیں۔

4- وفاقوں کی مشاورت ہی سے مسالک اور مکاتب فکر کی تفریق کے بغیر مختلف مدارس کے آپس میں مطالعاتی دوروں کا سلسلہ شروع کردیا جائے، جہاں ان مدارس کے تعلیمی اور تربیتی لائحہ عمل کے بارے میں بریفنگ اور سوال وجواب کی بھرپور نشستیں ہوں۔

5- مدارس کے ہر تعلیمی مرحلے کی مناسبت سے حکومتی اور ریاستی اداروں کےمطالعاتی دورے بھی کروائے جائیں اور بریفنگ کا انتظام ہو۔ ان اداروں میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت مذہبی امور، شریعہ اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، دعوہ اکیڈمی، فیصل مسجد اسلامک سنٹر، منتخب سرکاری جامعات کے اسلامیات ڈیپارٹمنٹ، بادشاہی مسجد لاہور، علماء اکیڈمی لاہور، کراچی سمیت مختلف شہروں کے ایسے ادارے جو دینی اور معاصر تعلیم بیک وقت مہیا کر رہے ہوں، شامل کیے جائیں۔ وقت، دورانیہ اور ادارے کا انتخاب وفاقات خود کرلیں۔

6- مدارس میں وفاقات کی زیر سرپرستی ادبی مقابلے کروائے جائیں، جن میں سماجی موضوعات پر زیادہ توجہ دی جائے۔ اس میں مضمون نویسی، خطابت، شعری مقابلے اور معلومات عامہ کے مقابلے شامل ہوں۔

7- اسی طرز پر دیگر فوری اقدامات بھی سوچے جاسکتے ہیں، البتہ اصلاحات، پابندی اور رِٹ قائم کرنے کی تعبیرات سے اجتناب کرنا بہتر ہوگا۔ مفاسد کی روک تھام کے لیے فی الحال وفاقات کی قیادت کو متوجہ کرنے پر اکتفا کیا جائے۔

ب) وسط مدتی اقدامات

1- مدارس میں شعبان اور رمضان میں تعطیلات ہوتی ہیں۔ کچھ مدارس میں گرمی سردی کے حساب سے بھی تعطیلات ہوتی ہیں۔ ان دو مہینوں میں کئی مدارس دورہ تفسیر، صَرف اور نحو کا اہتمام کرتے ہیں۔ کچھ مدارس جدید عربی کے دورے بھی کراتے ہیں۔ کہیں کہیں مناظرے اور رَدّ فِرق باطلہ کے عنوان سے بھی دورے ہوتے ہیں۔ ان میں جو جو دورے فنون سے متعلق ہیں، ان کی بجائے جدید عربی اور اردو ادبیات کے دورے کروانا چاہئیں۔ جدید عربی میں عربی کا معلم، تالیف مولانا عبد الستار خان صاحب اور معلم الانشاء، تالیف شدہ علمائے ندوہ، ابتدائی درجات کے طلبہ وطالبات کے لیے، علی جارم کی النحو الواضح للمدارس الابتدائيۃ، متوسط درجات کے طلبہ وطالبات کے لیے اور النحو الواضح للمدارس الثانويۃ، عالیہ تک کے طلبہ وطالبات کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ ان کتابوں میں مثالیں اور تمارین جدید سماجی زبان پر مبنی ہیں اور تعبیر وانشاء پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ اس سے نہ صرف طلبہ اچھی زبان سیکھ سکتے ہیں بلکہ بالواسطہ طور پر ان کے سماجی دائرہ فکر میں بھی وسعت آسکتی ہے۔ مصری، شامی، سعودی اور لبنانی اساتذہ نے بہت سی کتابیں ایسی لکھ دی ہیں جن سے العربيۃ لغير الناطقين بھا کا ایک پورا تعلیمی ڈسپلن قائم ہوگیا ہے۔ ان میں اخلاقی تربیت بھی ہوتی ہے اور سماجی ہم آہنگی کا سامان بھی۔ ایسی کتابوں کی فہرست تیار کرنے میں اسلامی نظریاتی کونسل کے رفقائے کار مدد کرسکتے ہیں۔

یہ دورے کرانے والے اساتذہ کا مسئلہ درپیش آئے گا، ضرب زيد عمرا پر مبنی صَرف، نحو اور بلاغت کے فضلائے کرام شاید یہ کام نہ کرسکیں، اس کے لیے ایک حل تو یہ ہے کہ وفاقہائے مدارس اپنے تحت رجسٹرڈ کچھ مدارس کو خود منتخب کرکے جامعہ ازہر اور دیگر اسلامی ممالک سے بعثات دراسيۃ (Educational Delegations) کے تحت اساتذہ کا تقرر کرسکتے ہیں اور چھٹیوں کی مدت میں انہی اساتذہ سے یہ دورات بھی کروائے جاسکتے ہیں۔ مقامی طور پر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اساتذہ اور فضلاء کی تعداد اب اس درجہ کو پہنچ چکی ہے کہ بڑی آسانی سے ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ یونیورسٹی کے نظام تعلیم میں غیر عربوں کو عربی سکھانے کا ایک عمدہ انتظام ہے اور یہاں کے فضلاء اس سے بخوبی مانوس ہیں۔

2- جو دورے مناظرے اور ردّ فِرق باطلہ کے ہوتے ہیں، ان میں سے جو وفاقہائے مدارس ناگزیر سمجھیں انہیں جاری رکھیں اور اس کے علاوہ مستشرقین کی فکر، انداز تحقیق اور ان کی کتب کے مطالعہ اور رد پر مشتمل دورے کروائے جائیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ مناظرانہ ذوق کی تسکین بھی ہوجائے گی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جدید دور کے مسائل اور ہمارے روایتی افکار پر اٹھنے والے اعتراضات اور سوالات سے واقفیت بھی حاصل ہوجائے گی۔ جوں جوں سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا گھٹن سے پیدا ہونے والی قباحتیں دم توڑتی جائیں گی۔

3- چھٹیوں کے دورات کے علاوہ نصاب تعلیم میں کچھ ایسی تبدیلیاں کی جائیں جس سے مدارس کے تعلیمی مقاصد اور روایتی علوم کے فضلاء کے پیش نظر دینی خدمات کا تصور متأثر نہ ہو، نہ ہی ان کے خلوص، للہیت، فرشی نظام تعلیم اور اساتذہ کے ادب واحترام پر کوئی زد پڑے اور اس کے ساتھ ساتھ انہیں مقاصد سے متعلقہ معاشرے میں جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، ان سے واقفیت کا سامان بھی ہوجائے۔ اس سے علماء کی دینی خدمات معاشرے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس وقت شعائر دینیہ: نماز، روزہ، حج، عمرہ، زکوٰۃ، صدقات، وعظ وتبلیغ اور دعوت وارشاد وغیرہ کی خدمات علماء کے پیش نظر ہیں۔ اس کے علاوہ حلال وحرام اور عائلی مسائل میں علماء سے رجوع کیا جاتا ہے۔ نصاب میں یہ تبدیلی ایسی ہو کہ ان مقاصد کو آگے بڑھانے میں مدد دے۔ ابتدائی طور پر کسی بھی عرب ملک کے سکولوں میں پڑھائی جانے والی معاشرتی علوم (اجتماعيات) کی کتابیں لے لی جائیں، یہ سعودیہ کی بھی ہوسکتی ہیں، متحدہ عرب امارات کی بھی ہوسکتی ہیں اور مصر کی بھی۔ یہ کتابیں مدارس کے ابتدائی مراحل میں ہر درجے کی مناسبت سے پڑھائی جائیں۔ جو چیزیں ہمارے معاشرے سے غیر متعلقہ ہوں انہیں نصاب سے خارج کردیا جائے۔ مدارس کے اساتذہ ان کتابوں سے صیغے نکلوائیں، گردانیں کرائیں، یا تراکیب کروائیں، انہیں اس بات کا اختیار ہو۔ مقصد یہ ہو کہ ان کتابوں کا مضمون اور عربی طلبہ کو اچھی طرح سمجھ میں آجائے۔ اسی طرح عرب ممالک میں اسلامیات کی کتابیں بھی کمال کی ہیں اور ان کی تمارین عملی طور پر مرتب کی گئی ہیں، جن میں ابتدا ہی سے اخذ واستنباط کی مشق کرائی جاتی ہے، ان میں سے کچھ کتب منتخب کرکے شامل کرلی جائیں۔ ان سکولوں کی نصابی کتب کے ساتھ لازما کتاب المعلم بھی چھپتی ہے۔ یہ کتابیں ہفتے دو ہفتے کی ورکشاپ میں ادارے کے متعلقہ اساتذہ کو سمجھا دی جائیں اور پھر حسب ضرورت استعمال کے لیے مہیا بھی کر دی جائیں۔ انہی سکولوں میں میں اللغۃ العربيۃ کا مضمون بھی ہوتا ہے۔ وہ کتابیں بھی انتہائی عملی نقطہ نظر سے لکھی جاتی ہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ ہماری صَرف میر، نحو میر، علم الصیغۃ، میزان منشعب وغیرہ کا کیا ہوگا؟ تو اس بارے میں ایک جامع سبجیکٹ نصاب میں شامل کیا جائے، جس میں ان تمام کتابوں کے مناہج، اسالیب، مصنفین اور دیگر ضروری صفات کا تعارف اور منتخب موضوعات کے خواندگی شامل ہو۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو ان کتابوں اور ان کی مماثل کتابوں کا مطالعہ کرنے میں آسانی ہوگی۔

4- بلاغہ کی عموما تین شاخیں: معانی، بیان اور بدیع پڑھائی جاتی ہیں، جن کی زبان اور مثالیں بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ علم البلاغۃ اور البلاغۃ الواضحۃ کے نام سے عرب اساتذہ نے تمارین پر مشتمل کتابیں لکھی ہیں۔ قدیم کتب کو نکال کر یہ کتب نصاب تعلیم میں شامل کر لی جائیں اور کسی مرحلے پر پر بلاغہ کی تاریخ اور اہم کتب کا تعارف شامل کردیا جائے۔ اس کے لیے نئی کتب تصنیف کرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ مختلف کتب کے مقدمات اور متعلقہ ابواب کی فوٹو سٹیٹ یا انہی منتخبات پر مشتمل مطبوعہ کتاب کافی ہوجائے گی۔ استاذ کی تیاری اچھی ہو تو ان کی تقریر میں باقی ساری چیزوں کا احاطہ ہو جاتا ہے۔

5- فقہ کی ابتدائی کتب میں نور الايضاح یا اسی طرز پر لکھی ہوئی کوئی کتاب شامل ہو جائے اور اس کے بعد بتدریج عبدالفتاح ابوغدہ، عبد الکریم زیدان، یوسف قرضاوی، ڈاکٹر وہبہ زحیلی اور دیگر معاصر مصنفین کی کتب یا ان کے کچھ ابواب شامل ہوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ فقہ، فقہاء کا تعارف اور منتخب کتب کے تعارف پر مشتمل ایک مضمون بھی ہو۔ فقہی مسائل میں بہت تبدیلی آ چکی ہے حتیٰ کہ نکاح وطلاق اور عائلی مسائل اور قوانین میں بہت سی نئی چیزیں شامل ہوچکی ہیں۔ کچھ اہم فقہی ابواب سے متعلقہ قوانین جیسے مسلم عائلی قوانین، حدود قوانین، ثالثی سے متعلقہ قوانین اور جدید عائلی نظام کے بارے میں ابواب بھی ان میں شامل کیے جائیں۔

6- حدیث فہمی کے بارے میں بہت جدید چیزیں عربی میں آچکی ہیں۔ اصول حدیث، تاریخ حدیث، تدوین حدیث، انواع کتب حدیث اور معاجم حدیث پر مشتمل کچھ ابواب بھی نصاب میں شامل کر دیے جائیں۔

7- طلبہ اور طالبات کو خانقاہی نظام سے بہتر انداز میں متعارف کروایا جائے اور اپنے اپنے مکاتب فکر کے مشائخ سے تعلق قائم کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اہل مدارس مشائخ کے ساتھ مضبوط روابط رکھیں اور مشائخ کی میزبانی کو اپنے معمول کے لائحہ عمل میں شامل کریں، تاکہ وقتاً فوقتاً طلبہ کو بزرگان دین کی زیارت اور ان کے وعظ سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے۔

8- سیمینارز اور علمی مذاکروں کو نظام تعلیم کا حصہ بنایا جائے، جن میں بڑے درجہ کے طلبہ کو فقہی لحاظ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لئے مفتی صاحبان، متخصص وکلاء اور ریٹائرڈ جج صاحبان کو دعوت دی جائے اور زندہ مسائل کا انتخاب کیا جائے۔ تربیت کا ایک بہترین طریقہ رابطہ سازی بھی ہے۔ مدارس اور مختلف معاصر اداروں کے درمیان مفاہمتی یادداشتیں مرتب کی جائیں جن کی بنا پر یہ ادارے مشترکہ طور پر علمی سرگرمیاں کرسکیں۔ سماجی خرابیاں عموماً گھٹن کے ماحول سے پیدا ہوتی ہیں، رابطوں سے وسعت آئے گی اور سماجی مسائل میں لازماً کمی واقع ہوگی جس میں مدارس کا اپنا روایتی تربیتی نظام بہت اہم کردار ادا کرے گا۔

ج) طویل المدتی تجاویز

1- وزارت مذہبی امور کے دائرہ کار کو وسعت دے کر اسے ”وزارت مذہبی امور ودینی تعلیم“ بنا دیا جائے۔ بین المذاہب ہم آہنگی اسی عنوان کے تحت خود بخود شامل سمجھی جائے۔

2- وزارت کے کئی ڈویژن اور کئی خود مختار ڈائریکٹریٹ بنائے جائیں۔ وزارت کے دعوہ سیکشن کو دعوہ ڈویژن بنادیا جائے۔ اوقاف کی تمام مساجد اسی ڈویژن کے تحت ہوں۔ تمام ائمہ اور خطباء کے اچھے گریڈ مقرر کئے جائیں جو دیگر سرکاری ملازمین اور افسران کے گریڈوں سے کسی طور کم نہ ہوں۔ قومی تربیتی اداروں میں یہاں کے ملازمین اور افسران کے باقاعدہ تربیتی کورس میں ان کے کورسز بھی شامل کیے جائیں اور ان کے مطابق انہیں ترقیاں دی جائیں۔ یہی حضرات وزارت مذہبی امور کے مبلغین کے فرائض سرانجام دیں اور ٹی وی اور ریڈیو پر ان کے دروس ایک منظم طریقے سے ہوا کریں، جس سے دیگر علماء کے دروس متأثر نہ ہوں۔ اس سلسلے کو آہستہ آہستہ آگے بڑھایا جائے اور نئے سیکٹرز میں مساجد، امام بارگاہوں اور دیگر دینی اصلاحی مراکز کا قیام مذہبی امور کے تحت ہو۔ اگر مزید ضرورت پڑے تو قواعد وضوابط کے تحت پرائیویٹ طور پر بھی مساجد اور دینی مراکز قائم کرنے کی گنجائش ہو۔ وزارت میں ایک تحقیقات اسلامی ڈویژن ہو۔ اگر ممکن ہو تو ادارہ تحقیقات اسلامی کو پھر سے دستوری درجہ دے کر وزارت مذہبی امور کے ساتھ منسلک کیا جائے جس میں جدید دینی موضوعات پر تحقیق بھی ہو اور نصابی پالیسیاں اور نصابی مواد بھی مرتب کئے جائیں جس سے ٹیکسٹ بک بورڈ استفادہ کرسکے۔ اسی طریقے سے جن فقہی جزئیات اور قوانین یا عدالتی ضابطہ کار میں تفاوت پیدا ہوگیا ہے ان پر ایسی تحقیقات کی جائیں جس سے تمام متعلقہ ادارے مثلاً لا کالج، وکلاء، اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت، پاکستان لا کمیشن اور ججز کے تربیتی ادارے فائدہ اٹھا سکیں۔

3- اسی ڈویژن کے تحت وزارت مذہبی امور کے موجودہ ریسرچ اینڈ ریفرنس سیکشن کو مزید وسیع کیا جائے اور اس کی ذمہ داریوں پر از سرنو غور کر کے اسے سہولیات اور اسباب مہیا کیے جائیں۔

4- مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کئی تبدیلیوں سے گزر چکا ہے۔ اسے وزارت مذہبی امور کے تحت Directorate of Religious Education بنادیا جائے، جس کے تحت حالیہ سرکاری دینی مدارس چل رہے ہوں۔ اوقاف کی مساجد میں قائم مدارس اس کے نصاب اور امتحانی ضوابط کی پابندی کریں۔ نئے سیکٹروں میں حکومت کی طرف سے بنائی جانے والی مساجد کے مراکزِ تعلیم القرآن اسی سے منسلک ہوں اور پرائیویٹ دینی مدارس کو اس سے منسلک ہونے کی اجازت ہو۔ اسی ڈائریکٹریٹ کے تحت امتحانات کا نظام ہو خواہ اسے ”دینی تعلیمی بورڈ“ کا نام دے دیا جائے، جیسا کہ پہلے سے ٹیکینکل ایجوکیشن کے الگ بورڈ کام کر رہے ہیں۔ پرائیویٹ دینی مدارس کو اس بورڈ کے ساتھ الحاق پر مجبور نہ کیا جائے البتہ اس بورڈ کی سند کو روایتی تعلیم کی تمام سندات کے برابر کا درجہ دیا جائے اور یہ امتحان پاس کیے بغیر کسی سند کا معادلہ نہ ہو۔ بنگلہ دیش کا مدرسہ تعلیمی نظام اس سلسلے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بورڈ کے تحت امتحان پاس کرنے والے طلبہ کو معادلہ (Equivalence) لینے کی ضرورت نہ ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ماحول میں مثبت انداز سے دینی نظام اور مزاج کی اصلاح کی جاسکتی ہے، انتظامی اور تادیبی اقدامات سے یہ مقصد حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ دینی مدارس کے منتظمین اور مدرسین کی عزت نفس کو قائم رکھ کر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

وزارت میں ایک ڈویژن دینی مطبوعات کے نام سے ہو جس کا کام ریاستی سرپرستی میں دینی مطبوعات کو شائع کرنا بھی ہو اور پرائیویٹ سطح پر شائع ہونے والی مطبوعات کی نگرانی بھی۔ سنسربورڈ یا کسی اور ادارے کے پاس اگر یہ کام ہو تو وہ ادارے یا اس دائرہ کار میں جو کام آتا ہو اسے وزارت میں ضم کر دیا جائے۔

5- اوقاف کا ایک الگ نظام موجود ہے۔ لیکن دستور کا تقاضا یہ ہے کہ اوقاف مساجد اور دینی امور کے ساتھ وابستہ ہو۔ روز اوّل سے معمول بھی یہی رہا ہے۔ اس لئے ڈائریکٹریٹ آف اوقاف اور اسی طرح متروکہ وقف املاک سب کو ملا کر ایک اوقاف ڈویژن بنا دیا جائے، جس کا انتظام وانصرام وزارت مذہبی امور کرے اور مسلم وغیر مسلم دونوں دینی ضروریات پوری کرنے کے لیے وقف کا استعمال کریں۔ وزارت مذہبی امور کی دینی سرگرمیاں اس قدر ہوں کہ لوگوں کے دلوں میں مزید جائیدادیں وقف کرنے کا شوق پیدا ہو جائے۔ مدارس اور مساجد کی پرائیویٹ جائیدادوں اور اوقاف کو انتظامی عمل دخل سے الگ رکھا جائے، البتہ کسی مسجد یا مدرسے کی انتظامیہ خود اپنے وقف کو ڈویژن کے حوالے کرنا چاہے تو وہ کر سکے۔ کویت اور قطر میں برسہا برس کی ریسرچ کے بعد اوقاف کے نظام قائم کیے گئے ہیں اور وہاں نہ صرف مسلم وغیر مسلم سب کے لئے سہولیات مہیا کر رہے ہیں بلکہ مستحقین کی تعلیم، شادی بیاہ اور دیگر امور میں بھی مدد کر رہے ہیں اور جدید وسائل ابلاغ کے ذریعے انہوں نے سمعی اور بصری مراکز قائم کیے ہوئے ہیں۔ برادر مسلم ممالک ہونے کے ناطے نہ صرف ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے بلکہ باقاعدہ مشاورتی اور معاونتی ربط بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔ وقف کنندگان کی تحریروں کا ریکارڈ محفوظ کرنا اور ان کی شرائطِ وقف کو باقاعدہ دستاویزی شکل دینا بھی وقف کی بنیادی ضروریات میں سے ہوں۔

6- ملک کے دینی نظام کو صحیح سمت پر قائم رکھنے کے لیے تجویز یہ ہے کہ پارلیمان کی قرارداد، یا باقاعدہ صدر مملکت کے حکم کے ذریعے، وزیر مذہبی امور کے لیے عالم دین ہونے کی شرط قائم کر دی جائے۔ عالم دین ایسا ہو جس نے دینی نصاب مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ علوم دینیہ میں پی ایچ ڈی کی ہو۔ اسی طریقے سے وزارت مذہبی امور کے تمام ڈویژنز اور ڈائریکٹریٹس کے سربراہ علوم دینیہ کے ماہر ہوں، اس کے لیے نہ صرف روایتی تعلیم کافی ہو بلکہ دینی تعلیم کی جدید ڈگریاں بھی شرط ہوں۔ ان مناصب کے لیے علوم دینیہ کے علاوہ کسی اور شعبے کا تخصص معتبر نہ ہو۔

اگرچہ طویل المدتی تجاویز کا مدارس دینیہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن دینی تعلیم کے حوالے سے سنجیدہ طبقات میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ حکومت یا ریاست کی طرف سےدینی تعلیم کی کوئی اونر شپ نہیں ہے۔ اس لیے مختلف مکاتب فکر کو جہاں سے چندہ ملتا ہے اور جو لوگ ان کا نظام چلانے میں معاونت فراہم کرتے ہیں ان کی مرضی اور فکر کی رعایت سے ہی ان کا نظام چلتا ہے۔ اگر ریاستی سطح پر اس طرح کا انتظام ہو اور اس میں فرقہ واریت کو نمائندگی دینے کی بجائے ریاست کی دینی پالیسی کا زیادہ لحاظ رکھا جائے، جس کی ایک عمدہ مثال افواج پاکستان کے دینی شعبہ کے افسران ہیں، تو ہم پرائیویٹ مدارس کے لیے ایک بہترین مثال بھی پیش کر سکتے ہیں، اہل خیر کو مزید جائیدادیں وقف کرنے کی ترغیب بھی دے سکتے ہیں اور ملک کی دینی ضروریات ریاستی انتظام کے تحت پورا کرنے میں خود کفیل بھی ہوسکتے ہیں۔ اس سے پرائیویٹ دینی مدارس کے لیے نئی جہتیں بھی سامنے آ سکتی ہیں اور ان میں ریاستی نظام کا حصہ بننے کا شوق بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ اس نظام کے تحت نہ صرف یہ کہ عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت مبلغین، مدرسین اور مفتی صاحبان پیدا ہوسکتے ہیں بلکہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ وطالبات جس مرحلے پر چاہیں دیگر تعلیمی اداروں میں جانے کی سہولت بھی ان کو میسر ہوسکتی ہے۔ اب تک جو فکر مندی سامنے آرہی ہے، خواہ محترم احمد جاوید صاحب کے خطابات کی روشنی میں ہو، یکساں نظام تعلیم کی صورت میں ہو، عالی قدر وزیر مذہبی امور کے مراسلے کی صورت میں ہو، پیغام پاکستان کی صورت میں ہو یا کووڈ اور فرقہ واریت کے بارے میں مشترکہ اعلامیوں کی صورت میں ہو، سب کی سب انتظامیات یعنی مینجمنٹ کی کوششیں نظر آتی ہیں۔ اونر شپ، Integration اور مدارس دینیہ یا دینی تعلیم کو بطور سرمایہ استعمال کرنے کے لئے ان کوششو میں کوئی خاص اقدام نظر نہیں آتا۔

تجاویز بابت اجتماعی ماحول متعلقہ مدارس دینیہ

1- درسگاہوں کو کمروں کی بجائے بڑے بڑے ہالوں کی شکل دے دی جائے۔ ہر کلاس کے درمیان مناسب فاصلہ ہو۔

2- دار الاقامہ میں طلبہ کے سامان اور رہائش کے لیے بھی کمروں کی دیواریں نکال کر ہال بنائے جائیں۔ دیواروں میں بڑی بڑی الماریاں کھلی ہوں، جن میں سامان رکھا جائے اور تالے کا بندوبست طلبہ خود کریں۔

3- بہت سینئر اساتذہ کے آرام کے کمرے تدریسی مقامات سے الگ ہوں اور طلبہ کی عمر کی ایک حد مقرر کردی جائے، اس سے کم عمر کے طلبہ خدمت پر مامور نہ ہوں۔

4- نوجوان طلبہ الگ کمروں میں نہ رہیں، ہال میں طلبہ کے گروپوں کے نگران بن کر وہیں آرام کیا کریں۔

5- طلبہ کو کلاس کے لحاظ سے نہیں بلکہ عمر کے لحاظ سے گروپوں میں تقسیم کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کم عمر طلبہ کے نگران بڑی عمر کے اساتذہ ہوں۔ ان گروپوں کو صحابہ کرام اور ائمہ کے نام سے ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ ہوسکے تو مدرسے کے حجم کے مطابق ایک یا ایک سے زیادہ خدام مقرر کیے جائیں جن کی ڈیوٹی صرف رات کی ہو اور سونے کی اجازت نہ ہو۔ وہ اپنے مقررہ مقامات کے آس پاس گھومتے رہیں اور طلبہ کے سونے کے اوقات کی پابندی ملاحظہ کرکے اس کی رپورٹ اپنے مسؤولین کو دیتے رہیں۔

6- مدرسے کے مین گیٹ پر چوکیداری نظام کو مضبوط بنایا جائے، یا باری باری طلبہ کی ڈیوٹی لگائی جائے، البتہ عمارت کے اندر کے دروازے کھلے رہا کریں۔ اگر مدرسہ بہت بڑا ہو تو اسے بلاکوں میں تقسیم کرکے ہر بلاک کا گیٹ ہو اور اس میں یہی ترتیب جاری کی جائے۔

7- ایک ترتیب سی سی ٹی وی کیمروں کی بھی ہوسکتی ہے، مگر اس میں کئی نقصانات بھی ہیں۔ ہر مدرسے کی انتظامیہ اگر اس کے بغیر چارہ نہ دیکھے تو سونے اور تدریس کے کمروں میں کیمرے بھی نصب کیے جاسکتے ہیں، مگر راقم کا اس تجویز پر اصرار کم سے کم ہے۔

8- اسی کی روشنی میں کچھ مزید اقدامات کیے اور سوچے جاسکتے ہیں۔

9- انتظامی اقدامات کے علاوہ تربیت، یاددہانی اور نصیحت کے اپنے اثرات ہیں۔ ترغیب کی احادیث پر مشتمل تالیفات فنِ حدیث کا ایک نمایاں حصہ ہے۔ انتہائی مختصر اور جامع کتاب ”ریاض الصالحین“ جو ہر خاص وعام کی دسترس میں ہے۔ اس سے ذرا مفصل امام منذری کی ”الترغیب والترھیب“ ہے۔ آداب کی کتابوں میں ”الأدب المفرد“ امام بخاریؒ کی بہترین تالیف ہے۔ ”فضائل اعمال“ اور ”سنی فضائل اعمال“ کو بھی اس میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اس موضوع کی کسی کتاب کا انتخاب کرکے اس کی تربیتی احادیث کی تعلیم کو روز مرہ کے معمول کا حصہ بنالیا جائے۔

10- اسباق شروع ہونے سے پہلے ایک تمہیدی اجتماع یا اسمبلی ہو اور اس میں بزرگ اساتذہ کی گفتگو بھی مفید ہوسکتی ہے۔

11- دروس کے دوران زیادہ تر زور عموماً کتاب کی عبارت، مسائل اور مناظراتی پہلو سمجھانے پر ہوتا ہے۔ اساتذہ کرام سے درخواست کی جائے کہ وہ ہر درس میں تربیتی پہلو بھی لازماً شامل کریں۔

12- اخلاقی کمزوریوں کے علاج کا ایک پہلو تخویف اور سزا بھی ہے۔

13- جہاں اخلاقی کمزوری ثابت ہوجائے، وہاں اس کے حجم کے مطابق انتظامیہ خود ہی سزا کا بندوبست کرے جو نصیحت، ڈانٹ ڈپٹ، کلاس کے اوقات میں کلاس کے باہر بیٹھنے، کلاس بدلنے اور مدرسے سے اخراج تک، کچھ بھی ہوسکتی ہے۔

14- سد ذریعہ کے طور پر ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰی إِنَّہٗ كَانَ فَاحِشَۃً وَّسَآءَ سَبِيلًا﴾ (الاسراء: 32) کو بطور اصول اپنایا جائے۔ اساتذہ اور طلبہ میں رویہ تو باپ بیٹے کا ہو مگر لاڈ پیار باپ بیٹے جیسا نہ ہو۔


وحدت ادیان: مکتب روایت کا موقف

مارٹن لنگز

مترجمین : ابرار حسین /عاصم رضا

پس منظر

زیرِنظر اردو ترجمہ کی تقریب یوں ہوئی کہ تقریباً پانچ برس قبل، ہم نے استاد گرامی جناب احمد جاوید صاحب سے مکتب روایت کے وحدت ادیان بارے موقف سے متعلق کچھ سوالات کیے۔ان سوالات کے جواب میں احمد جاوید صاحب نےہمیں مذکورہ مضمون پڑھنے کے لیے تجویز کیا اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کردی کہ ہو سکے تو آپ حضرات اس کا اردو میں ترجمہ بھی کردیں۔ یہ مضمون پہلی دفعہ 1976ء میں شائع ہوا تھا جب کہ اکتوبر 2005ء میں اس کی دو سری اشاعت، جناب سہیل عمر صاحب کے زیر ِادارت، اقبال اکادمی لاہور کے مجلے اقبال ریویو میں ہوئی۔ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر مکتب روایت اور وحدت ادیان کے تعلق کے تناظر میں ادریس آزاد صاحب کی ایک تحریر کے نتیجے میں بحث کا ازسرنو آغاز ہوا۔کچھ دن قبل ہی ادریس آزاد صاحب کی تحریر بعنوان ’’نومسلم رینے گینوں، مکتب روایت اور وحدت ادیان کے تصور پر اہم سوالات‘‘ دانش ویب گاہ پر شائع ہوئی ۔ استاد گرامی جناب احمد جاوید صاحب نے بھی اس سلسلے میں اپنا تحریری موقف بعنوان ’’ مکتب روایت، وحدت ادیان اور میرا موقف‘‘ دانش ویب سائٹ پر شائع کروایا۔انہوں نے اپنی تحریر میں مارٹن لنگز کے اسی مضمون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کی بدولت ہی وہ مکتب روایت کے وحدت ادیان بارے موقف سے وضاحت کے ساتھ روشناس ہوئے۔ظاہر ہے کہ وحدت ادیان کے ضمن میں مکتب روایت کے توثیقی موقف پر یہ بہت بنیادی حوالہ ہے کیونکہ اس باب میں یہ اہل روایت کے ایک رفیق کی طرف سے قلمبند ہونے والا ایک نمائندہ مضمون ہے۔اس حالیہ بحث کے پس منظر میں ہمیں یہ مناسب محسوس ہوتا ہے کہ مارٹن لنگز کے اس مضمون کا اردو ترجمہ افادہ عام کی غرض سے منظر عام پر لایا جائے تاکہ مکتب روایت کے نمائندوں کا وحدت ادیان بارے نکتہ نظر سامنے آسکے۔ زیرِ نظر ترجمہ اس سے پہلے جائزہ نامی ویب گاہ(Jaeza.pk) پر شائع ہو چکا ہے۔

جہاں تک زیرِنظر مضمون کے مشمولات کا تعلق ہے، تو اس حصے کو بطور خاص دقت نظر سے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے جہاں مارٹن لنگز نے قرآن شریف کی آیات سے وحدت ادیان کے حق میں استدلال کیا ہے۔مضمون کے یہ حصے تفسیر بالرائے کا شاہکار ہیں۔ہمارا مانناہے کہ مکتب روایت کے نمائندے اسماعیلی اصول تعبیر کی پیروی کرتے ہیں۔چنانچہ قرآن شریف کی ماثورہ و غیر ماثورہ تفسیری روایت کو پس پشت ڈال کر وہ اس سےمن مانے باطنی معانی اخذ کرتے ہیں اور پھر جیسے چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں ان معانی کا انطباق کر لیتے ہیں۔ان کا یہ اخذوانطباق واضح طور پر تحریف فی القرآن کے زمرے میں آتا ہے۔ مختصراً، اس مضمون میں مارٹن لنگز نے واشگاف اندازسے وحدت ادیان کا اثبات کیا ہے۔ جب کہ مکتب روایت کے پاکستانی نمائندگان اب تک یہ تاثر دیتے آئے ہیں کہ وہ اسلام کو ہی واحد ذریعہ نجات سمجھتے ہیں۔تاہم ان میں سے اکثر روایت پسندوں کے 'شیخ' یعنی مارٹن لنگز بالکل ایسا نہیں سمجھتے۔

دھیان رہے کہ زیر نظر اردو ترجمے کے آخر میں دیے گئے حواشی بھی مارٹن لنگز ہی کے تحریر کردہ ہیں جب کہ آیات کریمہ سے متعلق حواشی کو ترجمہ کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔


مذہب میں راسخ العقیدگی کا ایک معیار یہ ہے کہ وہ درج ذیل حکم ِ ربانی کو بتمام و کمال پورا کرنے کے لیے موزوں وسائل فراہم کرے :

’’تم اپنے مالک و مختار خداوند کو چاہو قلب کے مکمل حضور، ذہن کی کامل یکسوئی، نفس کے پورے انہماک اور وجود کی تما م قوت کے ساتھ‘‘1۔

صاف دکھائی دیتا ہے کہ اِس (حکم ِ ربانی) کے ابتدائی کلمات ہی اس کا اہم ترین حصہ ہیں۔ قلب ِ روحانی ایمان کا خصوصی کارندہ ہے یقین، تعقل اور معرفت اس کے ارفع ممکنات ہیں۔ اِسے قلبِ روحانی اس لیے کہتے ہیں کہ یہ نفس کی جہت سے ویسا ہی مرکزی اور ناگزیر ہے جیسا کہ جسم کی جہت سے قلبِ طبعی۔ ایک طرف بعید از مرکز اجزاء کو اپنی طرف کھینچنے اور انہیں ایک مربوط کُل کی حیثیت سے باہم یکجا رکھنے کے لیے جب کہ دوسری طرف اُن اجزاء کی متفرق صلاحیتوں کے حدود اور احوال کے مطابق انہیں وہ کچھ بہم پہنچانے کی غرض سے جو اِس (قلبِ روحانی کو) وجود کے اُن منطقوں سے میسر آتا ہے جو اس سے برتروبالا ہیں، مرکز یعنی قلبِ روحانی کا عمل ہمیشہ جذب اور تنویر کا عمل ہوتا ہے۔ قلبِ روحانی کے مکمل حضور کو محبت میں صَرف کرنے کا مطلب ہے کامل محبت۔ ذہن اور نفس جو کہ خدا کے ساتھ محبت کے باب میں قلب پر ہی اپنا حتمی انحصار رکھتے ہیں اُن کا اِس حکم ِ ربانی میں الگ سے ذکر صرف اس لیے کیا گیا کہ ہبوطِ آدم کے لمحے میں اُن پر مرکز (یعنی قلبِ روحانی) کا غلبہ محض ایک امکانِ بعید میں ڈھل کر رہ گیا تھا اور اس لیے بھی کہ محبت ِ الہٰیہ کے ضمن میں حضور کی وہ اولین حالت جو اِسے خُلدِ بریں میں حاصل تھی اُس (حالت ) کی طرف روح کے سفرِ واپسیں میں نفس اور ذہن کی حرکتِ حُبی علّت کا کردار ادا کرتی ہے یا کم از کم ایسا محسوس ہوتا ہے، اگرچہ نفس و ذہن کی اِس حرکت ِ حُبی کا وجود احساس میں جاگزیں نہیں ہو سکتا جب تک اِسے روح کی اُس بیداریِ نو کے نتیجے کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے۔ تاثر و تاثیر پر مبنی زیرِ بحث سلسلہ، انسانی کاوش اور رحمتِ الہٰیہ کے باہمی تعامل سے متعلق ہے۔ تاہم تمام مذاہب، اسالیب ِ اظہار میں تفاوت کے باوجود ، اس نکتہ پر متفق ہیں کہ قلبِ روحانی یعنی تنزیہہ کے رخ پر ذہن یا نفس کی طرف سے ادنیٰ کوشش بھی اس قوت کی لازماً مستحق بن جاتی ہے جو قوت حیاتِ نو بخشنے اور افزودگی فراہم کرنے والی ہے۔ یہ قوت انسانی کاوش کے تناسب سے مختلف ہوتی ہے لیکن بایں ھمہ اس انسانی کاوش کو بلا تعطل تکرار کی ضرورت رہتی ہے۔

قلبِ روحانی کے ساتھ بلاواسطہ تعلق کے خاتمے کا نتیجہ اُس جذب ِ دروں کے زیاں کی صورت میں نکلا جو کہ اکیلا ہی بطریق ِ توازن دیگر قوائے ادراکیہ کے مرکز گریز رجحانات کی تعدیل کر سکتا تھا۔ چنانچہ لازم تھا کہ متذکرہ قوائے ادراکیہ اس زیاں کے بعد صرف ذاتی وسائل کے دائرے میں محدود ہو کر مرکز سے اور نتیجتاً ایک دوسرے سے بُعد پیدا کر لیں۔ اگرچہ انسانی تاریخ میں بار بار الوہی مداخلت کی وجہ سے انتشار کا یہ عمل مختصر دورانیوں کے لیے معطل اور منقلب ہوتا رہا مگر ازروئے لزوم اب یہ اپنے انجام کو پہنچنے والا ہے کیونکہ کم و بیش تمام روایتوں کا اتفاق ہے کہ ہم اِس حالیہ دورانِ وقت کے اختتام کو پہنچ رہے ہیں۔ یہ کُلی انتشار جو کہ جدید آدمی کا خاصہ ہے اِس انتشار کا ایک نمایا ں وصف وہ منفرد اور بے مثال ذہنی خودانحصاری ہے جس کی بدولت کثر اذہان بیمارانہ حد تک فعال اور تقریبا ً بازی گرانہ طور پر چست و چالاک ہوگئے ہیں۔ علاوہ ازیں، مرکز یعنی قلبِ روحانی کی یہی عدم موجودگی ہی نتیجہ اخذ کرنے اور قدری حکم لگانے کے باب میں غیر انسانی طور پر عجلت پسندانہ سطحیت کی وجہ بھی ہے۔

ذہن کی اِسی خود انحصاری کا (تنقیدی جائزہ )، فرتھجوف شوآن کی کتاب ’’ منطق اور ماورائیت ‘‘2 (Logic and Transcendence) میں ’’تفہیم اور اعتقاد ‘‘ (Understanding and Believing) نامی باب کو انتہائی اہم اور (موجودہ صورت ِ حال کے تناظر میں ) نہایت بروقت سرگرمی بنا دیتا ہے۔ مصنف ہماری توجہ مابعد الطبیعیاتی حقائق کو صرف قلب ہی نہیں نفس کی جانب سے بھی عقیدے کی تائید کے بغیر محض ذہن کے بل بوتے پر سمجھنے سے متعلق ان ہلاکت خیز مظاہر کی طرف مبذول کرواتا ہے جو کہ اب روزمرہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ اِس (انتشار) کا واحد علاج عمل ِ تالیف ہی ہے کیونکہ نفس کو صرف اسی صورت میں عقل کے قریب ترین دائرہ اثر میں لایا جا سکتا ہے جب مختلف قویٰ باہم مربوط ہوں تاکہ یہ عقیدہ کے اُس نورِ ہدایت کےساتھ فعال تعلق پیدا کر سکے، ذہن جس کا بلاواسطہ مخاطب ہے۔ لیکن عمل ِ تالیف کے بعد پیدا ہونے والے ذہنی فہم کی حیثیت اِس جادۂ بازگشت کے دوسرے اور تیسرے مرحلے کی ہے۔ وہ رکاوٹیں جو ذہن کے لیے عمل ِ تفہیم کو مشکل یا ناممکن بنا دیتی ہے موجودہ تناظر میں ہمیں اُنھی رکاوٹوں کو دور کرنے کے ابتدائی مرحلے سے غرض ہے۔ ذہانت اپنا ایک استحقاق رکھتی ہے اور مذہب کے نمائندوں کی طرف سے اس استحقاق کو ہمیشہ ٹھکرایا نہیں گیا۔ بہرحال ذہنی قویٰ کو بار بار اثبات اور تسکین کی ضرورت رہتی ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے تحت مذہب کے پاس بعض ادھوری سچائیوں کو قربان کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، چہ جائیکہ ان مفروضوں اور خیال آرائیوں کا تذکرہ کیا جائے جنھیں ماضی میں خدا کے ساتھ نفس و وجود کی کلی محبت کے لیے موثر محرکات سمجھا جاتا تھا۔

کسی مذہب کے منفرد طور پر اثر انداز ہونے کے دعویٰ کو ادھوری سچائی ہی کا درجہ دیا جانا چاہیے کیونکہ ایسے اکثر معاملات میں فی الواقع کوئی دوسری صورت وجود نہیں رکھتی3۔ ماضی میں ایک مذہب کا دوسرے مذاہب کی ثقاہت اور اثر اندازی کو لائقِ توجہ سمجھنا ایساہی لایعنی عمل ہوتا تھا جیسا کہ ایک زندگی بچانے والی کشتی سے قریب ہی پانی میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا افراد کے لیے کیے جانے والا یہ اعلا ن کہ وہاں سے پانچ میل کی مسافت پر ایک ویسی ہی مضبوط جان بچانے والی کشتی موجود ہے۔ اس طرح کے کسی بھی اثباتِ غیر کی عدم موجودگی عبادات کے باب میں ذہنوں کو معرض ِ شک میں ڈالنے کی وجہ نہیں بنتی تھی کیونکہ بالعموم ہر ایک روایتی تہذیب دوسرے انسانی گروہوں کی نسبت (ایک نوع کے ) حصارِ تنہائی میں قائم ہوتی تھی۔ مزیدبراں، اِس عمومی تصور میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے کہ بعض مذاہب متروک ہیں اور الوہی مداخلت کی بدولت وہ منسوخ کیے جا چکے ہیں۔ نہ ہی اس بات پر کوئی شک کیا جا سکتا ہے کہ مذاہب ِ باطلہ کا وجود بھی عین ممکن ہے کیونکہ خود مذہبی متون جھوٹے پیغمبروں کی بابت کلام کرتے ہیں ۔ مثلاً قرون ِ وسطیٰ کے ایک عیسائی کو اس بنا پر کسی ذہنی صدمے سے نہیں گزرنا پڑتا تھا کہ وہ یہودیت کو ایک منسوخ شدہ جبکہ اسلام کو ایک باطل مذہب کے طور پر دیکھتا ہے۔ ہر آدمی کو اس بارے میں لاعلم رہنے یا غلطی پر ہونے کا حق حاصل ہے کہ اس کے اپنے مذہبی جغرافیے سے باہر دوسرے مذہبی دائروں میں کیا وقوع پذیر ہوتا ہے۔

لیکن موجودہ زمانے میں (مذہبی معاشروں کو ) جدا کرنے والی دیواریں زیادہ تر منہدم ہو چکی ہیں ۔ بالفاظ ِ دگر، زندگی بچانے والی یہ کشتیاں ایک دوسرے کے لیے حدِ رسائی میں آ چکی ہیں اور غوطہ خوری میں کام آنے والی رسیاں باہم در آویزاں لکیروں کی مانند ایک دوسرے کو قطع کرنے لگی ہیں اور اذہان اُن خیالات کی وجہ سے مبتلائے آزار ہیں ماضی میں جن کی زد سے یہ محفوظ تھے۔ مختصر یہ ہے کہ ذہن کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کرنا مشکل ہو جاتا ہے جب مذہبی ارباب ِ اختیار ایسے دعوے کرنے لگیں جنھیں ذہن مذہب کی تعلیم کردہ فطرت ِ الوہی کے خلاف سمجھتا ہے۔

یہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ صورت حال بین الاقوامی اعتبار سے اگر نئی بھی ہے تو نسبتاً ان چھوٹی اقلیتوں کے حوالے سے یہ ماضی میں بھی موجود رہی ہے جن کی بودوماند تہذیبوں کے ان سرحدی علاقوں میں ہوئی جو ایک مذہبی تہذیب کو دوسری مذہبی تہذیب سے جدا کرتے تھے۔ چنانچہ عیسائی اور مسلمان مشرق ِ قریب میں گذشتہ تیرہ صدیوں سے زائد عرصے تک مل جل کر رہے درآنحالیکہ ہر ایک کے پاس متقابل مذہب کو اپنے مذہب کی طرح برحق مذہب کی حیثیت سے دیکھنے کے کثیر مواقع تھے۔ لیکن حالیہ ادوار تک صاحبان ِ فکر سمیت (اہل مذہب کی ) بھاری اکثریت مکمل ذہنی اطمینان کے ساتھ اس یقین کی بنیاد پر اپنی زندگی بسر کرنے کے قابل تھی کہ اکیلا اس کا مذہب ہی بہ اعتبار ِ صداقت مستند ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب بھی اسی اخراجیت پرستی (Exclusivism) کو طمانیت ذہن کے ساتھ ہم آہنگ کیوں نہیں ہونا چاہیے ؟

اس کا جزوی جواب یہ ہے کہ وہ سرحدیں محض جغرافیائی نہیں ہیں جو ایک (دینی ) تناظر کو دوسرے سے جدا کرتی ہیں۔ ایک دینی تہذیب میں انسان مسلسل ِ خدا اور جہانِ وراء کی یاد دہانی کروانے والوں کے حصار میں گھرے رہتے ہیں اور یہ عمل ِ تذکیر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک نوع کی داخلیت پیدا کر دیتا ہے جو بذات ِ خود ایک قسم کی حدِ فاصل کھینچنے والی ویوار ہے4۔ ایسی دیواروں کا انہدام گو کہ برا ہے لیکن وہ قدریں ناگزیر ہیں جنھیں برقرار رکھنے میں یہ دیواریں معاونت کرتی تھیں اور ان (قدروں ) کو دیگر وسائل کے ذریعے سے تقویت ملنی چاہیے۔ مندرجہ ذیل اقتباس، اگرچہ اس کے اطلاقات زیرِ بحث نکتے کی نسبت زیادہ وسیع ہیں، ان جزوی صداقتوں کے حوالے سے انتہائی بامعنی ہے جو تقوی کی راہ میں ذہنی تعاون کے لیے رکاوٹ ہیں 5۔

’’معمول کے مذہبی دلائل حقیقتِ اشیاء کو مکمل طور پر نہ کھنگالنے اور ماضی میں ایسی کسی تحقیق کی عدم ضرورت کی بدولت نفسیاتی طور پر فرسودگی کا شکار ہو گئے ہیں اور استدلا ل کے کچھ خاص تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے میں ناکامی سے دوچار ہیں۔ اگر ایک طرف انسانی معاشرے ِ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زوال کا شکار ہو جاتے ہیں تو دوسری طرف اپنی قدامت کے باوصف وہ خاطر خواہ تجربات فراہم کر لیتے ہیں اگرچہ ان تجربات میں غلطیوں کی آمیزش ہو سکتی ہے۔ یہ تناقض ایسی چیز ہے کہ مذہب کی کوئی بھی عملی تعلیم جس نے مؤثر ہونے کا قصد کر رکھا ہو اسے (تجربے) کی عمومی غلطی سے نئے احکامات اخذ کرنے کی بجائے برتر درجے کے استدلال کو استعمال کرتے ہوئے جذباتی کی بجائے تعقلاتی تقاضوں کو ملحوظ رکھنا چاہیے‘‘۔

اوسط درجے کے ایک مذہبی تناظر کی تمام تر تفصیلات کو جو کسی فرد کے صالح اجداد کے دینی تشخص کی بنیاد بنی ہو ں جدید دنیا میں برقرار رکھنے کی کوشش کا کم و بیش لازمی نتیجہ ذہنی المیہ ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال حضرت عیسی (علیہ السلام ) پر اس مضمون میں دیکھی جا سکتی ہے جسے لکھنے کی دعوت، حال ہی میں ہمارے صفِ اول کے اخباروں کی طرف سے ایک یہودی ربی کو دی گئی۔ اس کا مقصد ایسی رائے لینا تھا جو تمام راسخ العقیدہ یہودیت کی نمائندہ رائے ہو۔ اس یہودی ربی کی تحریر کی بنیاد یہ سوال تھا کہ حضرت عیسی (علیہ السلام ) کو کس چیز نے یہ دعویٰ کرنے پر اکسایا کہ وہ مسیحا ہیں ؟ اسے اس بات پر اصرار ہے کہ ایک یہودی ہی اپنی قوم کی تاریخ کے بارے میں اپنے خصوصی علم کی بدولت اس سوال کا جواب دینے کی پوری اہلیت رکھتا ہے۔ ایک یہودی کو اپنے اس علم کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحا کی آمد سے متعلق توقعات کبھی بھی اتنی شدید نہیں رہی تھیں جتنی کہ وہ اس خاص زمانے میں تھیں۔ خواہش سے بھرپور ایک طرح کی اجتماعی سوچ عام تھی جس نے اس بات کو تقریبا ناگزیر بنا دیا تھا کہ کوئی شخص خود کو اور دوسروں کو اس بات پر قائل کرے کہ اسے خدا کی طرف سے منصب ِ مسیحائی پر فائز کیا گیا ہے، یہودی ربی آگے چل کر حضرت (علیہ السلام ) کی انسانی حیثیت کے بارے میں بطریقِ احسن کلام کرتا ہے، وہ ان کی بہترین انسانی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اور ان کے مسیحائی دعوؤں سے صرف ِ نظر کرتا ہے۔ یہ مضمون دین ِ عیسوی کے قیام کی خالصتاً نفسیاتی توضیح کی حیثیت سے کسی دوسرے شخص کے لیے راستہ ہموار کر دیتا ہے کہ وہ بعینہ ٰ اسی طرز ِ استدلال کی بنیاد پر یہودیت کو جھٹلا دے۔ دوسرا قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ مصنف باعتبارِ زمان و مکان پہلی صدی کے فلسطین سے آگے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔

وہ عملِ تصلیب کا ذکر ایسے کرتا ہے کہ جیسے اس عمل ِ تصلیب نے مسیحائی کے جھوٹے دعوؤں کی تاریخ کے ایک باب کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہو۔ مگر اس بات کا کیا ہو گا کہ اس ’جھوٹے مسیحا‘ نے روحانی اعتبار سے تین براعظموں کو کلی طور پر جبکہ چوتھے براعظم کو جزوی طور پر مسخر کر لیا ہے بلکہ پانچویں براعظم میں بھی اس کے قابل ِ ذکر اثرات اپنے لیے راستہ ہموار کر رہے ہیں اور پھر اس خدا کے بارے میں کیا کہا جائے گا جس نے اس قدر پھیلی ہوئی پائیدار اور مضبوط گمراہی کو وقوع پذیر ہونے کی اجازت دے رکھی ہے ؟

بالفاظ ِ دگر، کسی دوسرے مذہب کے بُطلان کا ممکنہ اظہار بومرنگ کی طرح پلٹ کر بطلان کرنے والے کے اپنے مذہب کی اصل پر ضرب لگاتا ہے۔ چونکہ خدا ہی ہر مذہب کی اصل ہے اور ایک خدا جو اتنے بڑے پیمانے پر گمراہی کی اجازت دیتا ہو، وہ لائقِ پرستش نہیں رہے گا حتی کہ ان منتخب لوگوں کے لیے بھی جنھیں اُس نے اِس گمراہی سے بچا لیا ہو۔

اس (روایتی اعتقادی) بنیاد پر نفسِ ایمان تبھی قائم رہ سکتا ہے جب ان سلسلہ ہائے فکر کی پیروی نہ کی جائے جن کی پیروی ناگزیر ہے اور کچھ بدیہی نتائج اخذ کرنے سے انکار کر دیا جائے یعنی محبت ِ الہٰیہ تو درکنار، ذہن کی پوری قوت کو بھی مزید استعمال میں نہ لایا جائے۔ ایسا عقیدہ دن بہ دن زیادہ سے زیادہ غیرمحفوظ ہوتا چلا جاتا ہے اور اگر دوسرے مذہب پر اعتراض اٹھانے والا ایک مذہبی آدمی اپنی زندگی آخری دم تک راسخ العقیدگی کے دائرے میں رہ کر گزار بھی لے تو بھی وہ اپنے دوسرے ہم مذہبوں کے عقیدے کو محفوظ رکھنے کے لیے بہت کم وسائل کا حامل ہوتا ہے اور مسلسل اس خطرے سے دوچار رہتا ہے کہ کسی دن اسے یہ دیکھنا پڑے کہ اس کے بیٹے اور بیٹیاں لاادریت اور دہریت کی ذلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ جدید دنیا کے روحانیت دشمن دباؤ کی وجہ سے --- اور اس بات کا اطلاق خاص طور پر جدید تعلیم کے ضمن میں ہوتا ہے – ایک زیادہ آفاقی و روحانی تناظر کے مخالف پلڑے میں وزن زیادہ ہے۔ یہ آفاقی و روحانی تناظر جو کہ واحد برحق راستہ ہے جس کا مطلب ہے روح کے قرب کی طرف مراجعت اور اس لیے بہاؤ کے خلاف اور لہروں کے الٹ حرکت۔ دوسری طرف مذہب کے بارے میں ان غلط توجیہات کے بعد جو عقل پرستی اور جعلی منطق پر مبنی ہیں، لاادریت کی صورت میں یہ باطل حل سیدھا سیدھا مزید زوال کی جانب اگلا قدم ہے۔

ایک یہودی کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت عیسی (علیہ السلام ) کے مسیحائی دعوؤں کو تسلیم کر لینے سے یہ لازم آئے گا کہ یہودیت منسوخ ہو چکی ہے اور عیسائی اسے یہ بتانے کے لیے دروازے پر چوکس کھڑے ہیں کہ ہاں، یہی اصل بات ہے۔ ایک یہودی خود کو عملی اعتبار سے غلط طور پر یہودیت اور عیسائیت میں سے کسی ایک کے انتخاب کے سوال سے نبردآزما متصور کر لیتا ہے۔ مگر یہ ممکن ہے – اور یقینی طور پر یہی ایک حل ہے جسے کچھ راسخ العقیدہ یہودیوں نے انفرادی طور پر اختیار کر رکھا ہے 6۔ ۔۔ کہ کم از کم حضرت عیسی (علیہ السلام ) کے متعلق حتمی قول نہ کیا جائے بلکہ ان کی بعثت ِ اول میں آخری اور تکمیلی مسیحائی ظہور کے پیشگی آثار کو قبول کر لیا جائے درآنحالیکہ تورات اور زبور میں موجود منزل من اللہ امورِ یقینیہ پر اعتقاد کو تسلسل کے ساتھ قائم رکھا جائے۔ اُن یہودیو ں کے لیے جو عیسائیت کے ابتدائی کامیاب ترین دور میں بھی یہودیت پر قائم رہے اِس حقیقت کو کہ مسیحائی مشن ابھی مکمل طور پر پورا نہیں ہوا، اس بات کی علامت کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ یہودیت ابھی مکمل طور پر منسوخ نہیں ہوئی اور یہ بات یہودیوں کے لیے حضرت موسی (علیہ السلام ) کے مذہب پر قائم رہنے کا ایک جواز ہے۔

ایک یہودی کے لیے یہ بات نسبتاً آسان ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کے بارے میں اپنے اصولی موقف کا اظہار نہ کر کے مسلک ِ دوام (religio-perenis) کے تناظر کے قریب پہنچ جائے۔ چونکہ یہودیت عالمی مذہب نہیں ہے اس وجہ سے ایک یہودی اپنے ضمیر کو زیرِ بار کیے بغیر، انسانیت کے دوسرے طبقات کا معاملہ اس یقین کے ساتھ قدرت کے سپرد کر سکتا ہے کہ قدرت خود ان سے نمٹ لے گی۔ اِس کے برخلاف ایک عیسائی جو اس اعتبار سے خود کو قدرت کا ایک منتخب آلہ کار محسوس کرتا ہے --- گو کہ وہ قدرت کا آلہ کار ہے مگر کچھ حدود کے اندر۔اُس کے لیے اِن حدود کو تسلیم کرنے سے چرچ کے انکار کا نتیجہ ایک ایسے تناظر کا قیام ہے جو جدید دنیا میں خطرناک طور پر الحاد کی حدوں کے قریب جا پہنچتا ہے۔

The Call of Minaret نامی کتاب کو شائع ہوئے کئی برس بیت چکے ہیں اور اب یہ سمجھنا ٹھیک ہے کہ تب سے اب تک اِس کتاب کے مصنف کے خیالات ایک زیادہ آفاقی سمت میں گامزن ہو چکے ہیں۔ بہرطور، یہ کتاب اس المیے کی سچی آئینہ دار ہے جو اکثر عیسائیوں کو درپیش ہوتا ہے بالخصوص چرچ کے وہ مذہبی منصب دار اور مشنری اس المیے کا شکار ہوتے ہیں جنھیں اسلا م کے ساتھ قریبی رابطے کا اتفاق ہوتا ہے اور جو بطور مذہب اسلام کی طاقت اور اس کی کاملیت سے گہرے طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک طرف تو ان کے لیے یہ ممکن نہیں رہتا کہ وہ حضرت محمد (ﷺ) کو ’جھوٹا پیغمبر‘ کہنے پر اڑے رہیں اور دوسری جانب وہ اپنے اس دعوی کو چھوڑنے کی جرات نہیں رکھتے یا وہ اسے چھوڑنا نہیں چاہتے کہ ’جذبہ مسیح‘ ہی انسانی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ اس کتاب کے عنوان کی رمز یہ ہے کہ عیسائیوں کو چاہیے کہ وہ اذان کو اپنے دینی فریضے کی یاد دہانی کی حیثیت سے لیں اور وہ فریضہ ہے مسلمانوں میں حضرت عیسی (علیہ السلام) کے بارے میں اس عقیدے کی بازیافت جو مسلمانوں کے ہاں مفقود ہے۔ مصنف مزید لکھتا ہے کہ (عیسائیوں کے ) روایتی عقیدے میں موجود ذاتِ مسیح ایک تاریخی ہستی ہے جس سے فرار اختیار کرنا ناممکن ہے۔ حضرتِ مسیح کی یہی تاریخی شخصیت ہمیں دنیائے اسلام کے سامنے پیش کرنی چاہیے۔ یہ سوال کہ ہم یہ کیسے کریں، اپنی جگہ ایک مشکل امر ہے اور ایک بھاری ذمہ داری۔ (مصنف کے ) یہ آخری الفاظ اس مسئلے کا ناکافی بیان ہیں۔ یہ بات تقریباً ناممکن ہے کہ پختہ عمر کے مسلمانوں سے عیسوی عقیدہ نجات قبول کروا لیا جائے کیونکہ ان کے پاس ایک دوسری شکل میں فضلِ الہی اور رحمت ِ خداوندی کے بارے میں ایک مکمل عقیدہ پہلے سے موجود ہے جس میں حضرت مسیح کی تاریخی شخصیت کوئی کردار نہیں رکھتی، اگرچہ اسلامی عقیدہ میں وہ ایک بہت کریم اور عظیم الشان شاہد کے طور پر موجود رہتے ہیں۔ قرآن کریم اُن کا ذکر کلمتہ اللہ اور روح اللہ کے طور پر کرتا ہے اور حضرت محمد (ﷺ) نے ان کے ظہورِ ثانی کی تصدیق فرمائی ہے۔ ایامِ ملوکیت میں ایک خلیفہ کی درازی عمر کی دعا کرنے کے روایتی طریقوں میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ خلیفہ سے یہ کہا جائے : خدا آپ کو ایسی عمر ِ دراز عطا کرے کہ آپ زمامِ اقتدار خود اپنے ہاتھوں سے حضرت عیسی ابن مریم (علیھما السلام ) کے سپرد کریں۔ مگر حضرت مسیح کو اسلام کی اندرونی ساخت کا حصہ بنانا ناممکن ہو گا کیونکہ یہ عمارت پہلے سے ہی مکمل ہے اور کامل ہے۔ قدرت چودہ سو سال تک اس انتظار میں نہیں لگی رہی کہ کوئی عیسائی مشنری آ کر (اس عمارت کا ) سنگ ِ بنیاد رکھے۔

مذکورہ مصنف ان حوالوں سے کچھ شکوک میں پڑے دکھائی دیتے ہیں اور اُن کے ہاں برہمی کے شعلے وقتا فوقتا لپکتے رہتے ہیں جیسا کہ مصنف کے اقوال ’اسلام عقیدہ مسیح کو بے دخل کرنے والی سب سے بڑی قوت کے طور پر ثابت ہو چکا ہے ‘اور یہ کہ ’عیسوی ذہن کے لیے اسلام کا عروج ہمیشہ ایک تکلیف دہ امر ہو گا ‘۔ اگرچہ اپنے تئیں مصنف غیرمعمولی مشکلات کا ذکر کرتا ہے لیکن فی الواقع اس کتاب میں شروع سے لےکر آخر تک کچھ بھی غیرمعمولی نہیں ہے اور یہی اس کتاب کی کمزوری ہے۔ ایسی کسی بنیاد پر خدا کو ذہن کی پوری قوت کے ساتھ چاہنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

بشپ آف گلڈ فورڈ کی کتاب7 ’’The New Threshold‘‘ پر بعینہٰ یہ تنقید نہیں کی جا سکتی کیونکہ اس کتاب میں سینٹ جسٹن شہید (St. Justin Martyr) کی کتاب ’’Apology ‘‘ سے ایک برمحل اقتباس کی شکل میں آفاقیت تک رسائی کا کم از کم ایک قابل ِ ذکر ذریعہ موجود ہے۔ نجات دہندہ کی حیثیت سے حضرت مسیح کے امتیاز کو سینٹ جسٹن شہید کی کتاب ’’Apology‘‘ میں کلمہ کی سطح پر واضح کیا گیا ہے اور وجود کے ان ادنیٰ دائروں کو اس میں دخل نہیں دیا گیا جو ہمیشہ کثرت کی زد میں رہتے ہیں۔ اِس نقطہ نظر کے اعتبار سے نجات دہندگی کے عمل کا تعلق حضرت مسیح کی الوہی فطرت سے بنتا ہے، نہ کہ ان کی انسانی فطرت کے ساتھ اور چونکہ اس طرح یہ (عمل ِ نجات دہندگی) زمان و مکان سے ماورا ہو جاتا ہے اِس لیے اسے کسی تاریخی واقعے کی حد تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں یہ تعلیم کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح خدا کا ظہورِ اولیں ہیں اور ہم اس کا یقین حاصل کر چکے ہیں کہ وہ کلمتہ اللہ ہیں جس کے سبب سے انسان کی ہر نسل کو فیض پہنچتا ہے۔ وہ لوگ جنھوں نے ماضی میں اس کلمہ کے ساتھ مطابقت پیدا کر لی تھی اگرچہ وہ خدا کے منکر ہی کیوں نہیں تھے جس طرح کہ سقراط، ہیراقلیطوس یا ان کی مثل دوسرے یونانی اور وہ لوگ بھی جو اب اس حالت میں جی رہے ہیں وہ سب عیسائی ہیں خوف سے مامون اور اضطراب سے محفوظ 8۔

عیسائیوں کے لیے دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی نسبت درست ترین نقطہ نظر کی حیثیت سے سینٹ جوسٹن کے نقطہ نظر کی یاد دہانی کروانے کی غرض یہ ہے کہ بشپ آف گلڈ فورڈ واضح طور پر اس نقطہ نظر کے ناقابل ِ فرار ضمنی نتائج پر مہر تصدیق ثبت کر دیتا ہے کہ نجات دہندگی کا عمل دوسرے (مذہبی ) پیرائیوں میں بھی ویسے ہی بروئے کار آتا ہے جس طرح کہ جذبہ مسیح کے عیسوی عقیدہ میں۔ اس نقطہ نظر کے برعکس یہ دعوی کہ عالم کثرت میں رحمت ِ الہٰیہ جو کہ بہ اعتبارِ تعریف ہی لامتناہی ہے اسے کسی واحد موثر عملِ نجات کے دائرے میں بند ہو جانا چاہیے، اصولی اعتبار سے ایسی چیز ہے جسے ایک مابعد الطبیعیاتی مفکر آمادگی کے ساتھ قبول نہیں کر سکتا، اس سے قطع نظر کہ اس دعوی کے خلاف عاجز کر دینے والی ٹھوس شہادت موجود ہے۔ یہ بات تسلیم کیے جانے کے لائق ہے کہ اکثریت کو اقلیت کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا ؛ کچھ دعوے ممکن ہیں جو ماضی میں نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہوں لیکن اکثریت کے لیے اب ان کی حیثیت روز افزوں طور پر مشتبہ ہے جب کہ اہل فکر کی اقلیت کے لیے وہ دعوے مہلک ہیں۔ ایسے عیسائی موجود ہیں جن کے لیے انجیل اور زبور کے بعد سب سے زیادہ مقدس کتاب بھگوت گیتا ہے اور ہندومت کی یہ مذہبی کتاب اس بات کی ناقابل تردید اور بلیغ شہادت دیتی ہے کہ حضرت مسیح کے علاوہ کرشنا کی ذات میں نجات دہندگی کا الوہی ظہور عمل میں آیا ہے اور کرشنا کے وسیلہ سے بدھا سمیت دوسرے ہندو اوتاروں میں جیسا کہ فرتھجوف شوآن رقم طراز ہیں :

’’ہر مذہب کے شرعی مجموعہ قوانین کی صورت گری اس کے اعتقادی تقاضوں اور دوسرے مذاہب کے ساتھ تصادم کی نسبت رکھنے والی اس کی تاریخی بشارتوں کے درمیان عدم تناسب کی بنیاد پر ہوتی ہے کیونکہ یہ اعتقادی تقاضے مطلق ہوتے ہیں جیسا کہ یہ ارادہ الہٰیہ سے ماخوذ ہوتے ہیں اور اس لیے علم ِ الہٰیہ سے بھی۔ جبکہ اس (شرعی مجموعہ قوانین ) کی بشارتیں اضافی چیز ہیں کیونکہ ان کا انحصار ارادہ الہٰیہ پر نہیں ہوتا ہے اور ان کی بنیاد علم ِ الہٰیہ کی بجائے انسانی نقطہ نظر پر ہوتی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ انسانی عقل اور جذبے پر مبنی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر عیسائی مشنریوں کی جانب سے برہمنوں کو مکمل طور پر وہ مذہب چھوڑنے کی دعوت دی جاتی ہے جو کئی ہزار سال تک قائم رہا ہے، اور جس نے بے شمار نسلوں کو روحانی سہارا فراہم کیا ہے اور ہمارے زمانے تک آتے آتے جس نے حکمت و تقدس کے گل ہائے زیبا کو شگفتگی بخشی ہے۔ اس غیرمعمولی تقاضے کو جواز فراہم کرنے کے لیے جو دلائل پیش کیے جاتے ہیں وہ دلائل ا ز روئے دانش مندی اس تقاضے کا منطقی لزوم ہونا ثابت نہیں کرتے۔ مزیدبراں، یہ دعوی جس قدر بڑا ہے اُن دلائل کو اس سے کوئی نسبت نہیں ہے۔ برہمنوں کے پاس اپنے روحانی ورثے کے ساتھ وفادار رہنے کے لیے جو وجوہات ہیں وہ ان سے کہیں مضبوط ہیں جن وجوہات کی بنیاد پر انہیں اپنا مذہبی تشخص ترک کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندو نقطہ نظر سے، برہمنی روایت کے قطعی طور پر حقیقی ہونے اور مخالف مذہبی دلائل کے ناکافی ہونے میں اس قدر عدم تناسب یہ ثابت کرنے کے لیے بالکل کافی ہے کہ اگر خدا نے دنیا کو کسی ایک مذہب کے حوالے کرنے کا ارادہ فرمایا ہوتا تو اس مذہب کے حق میں پیش کیے جانے والے دلائل اس قدر کمزور نہ ہوتے اور نام نہاد مشرک کہلائے جانے والے مذاہب اتنے مضبوط نہ ہوتے۔ اگر خدا کسی ایک مذہبی شریعت کے حق میں ہوتا تو کوئی بھی سلیم الفطرت آدمی اس مذہب کے حق میں دیے جانے والے دلائل کے مقابلے میں مزاحمت کرنے کے قابل نہ ہوتا‘‘9۔

آئیے، عیسائیوں کے لیے ہندومت کی ثقاہت کے اعتراف کی غرض سے لکھے گئے اس اقتباس کے ساتھ، مندرجہ ذیل اقتباس کو ملا کر دیکھتے ہیں جو کہ عیسائیوں کو مخاطب بنا کر اسلام کے اثبات کے لیے لکھا گیا ہے :

’’یہ بات کہ خدا ایک ایسے مذہب کو قائم ہونے کی اجازت دے سکتا ہے جو ایک آدمی نے انسانیت کے ایک حصے کو فتح کرنے اور آباد دنیا کے چوتھے حصے میں ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک خود کو قائم رکھنے کے لیے ایجاد کیا اور یوں محبت، ایمان اور بے شمار مخلص اور مشتاق روحوں کی امید کو دھوکہ دیا۔ یہ بات رحمتِ الہٰیہ کے قوانین کے خلاف ہے یا دوسرے لفظوں میں آفاقی امکان کے اصولوں کے خلاف ہے۔۔۔ اگر حضرتِ مسیح کلمہ کا واحد ظہور ہوتے ، یہ فرض کرتے ہوئے کہ کلمہ کا ایسا ظہور ممکن ہے ، تو ان کی پیدائش کا اثر یہ ہوتا کہ یہ کائنات فوری طور پر راکھ کا ڈھیر ہو جاتی‘‘ 10۔

بعد ازیں، اسلامی شریعت کی حدود کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہودیت اور عیسائیت کے برعکس اسلام اس دورانِ وقت کے آخری مذہب کی حیثیت سے اپنے قلعہِ خاتمیت میں رہ کر دوسرے مذاہب کے لیے فیاضی کا متحمل ہو سکتا ہے۔ مزید براں، اس دوران ِ وقت میں اس کی یہ حیثیت ِ خاتمیت اس پر بطور جامع الادیان یہ ذمہ داری عائد کر دیتی ہے کہ یہ انصاف کے ساتھ ماسبق کو بیان کرے یا کم از کم جن چیزوں کو یہ بالتخصیص بیان نہیں کرتا ، ان کے بارے میں موقف سازی کا دروازہ کھلا رکھے۔

ترجمہ: ’’بے شک، ہم نے آپ (یعنی حضرت محمد ﷺ) سے پہلے پیغمبر بھیجے ہیں جن میں سے بعض کے بارے میں ہم نے آپ کو مطلع کر دیا ہے اور بعض کے بارے میں ہم نے آپ کو کوئی خبر نہیں دی‘‘ (سورۃ المومنون، آیت نمبر 78)۔

ہم اس آیت کریمہ کا حوالہ بھی دے سکتے ہیں :

ترجمہ: ’’ بے شک اہل ایمان (یعنی مسلمان ) اور یہودی اور صابی11 اور عیسائی جو کوئی بھی خدا پر اور آخرت پر ایمان لایا اور جس کسی نے بھی اعمالِ تقوی اختیار کئے، نہ تو ان کو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی کوئی پچھتاوا‘‘ (سورۃ المائدہ، آیت نمبر 69)۔

اسلامی تہذیب کے دائرے میں یہودیت اور عیسائیت دونوں کے لیے جگہ موجود ہے اور مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہیکل اور کلیسا اور یہودیوں اور عیسائیوں کے مقاماتِ مقدسہ کو تحفظ فراہم کریں۔ اندلسی یہودیوں کے لیے یہ ایک آفت تھی جب عیسائیوں نے اندلس کو بارِ دگر فتح کیا تھا۔

تاہم اس کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اسلام کے مقتدرہ طبقات دوسرے مذاہب کے مقتدر طبقات کی نسبت روحانی اور اخلاقی پہلوؤں کی خاطر تعقل کے پہلو کو قربان کرنے کے لیے کم آمادہ نہیں رہے۔ اس امر کو ماننے کے لیے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اکثریت یہ تسلیم کرنے کے لیے بہت پرجوش رہی کہ اسلام نے دوسرے تمام مذاہب کو منسوخ کر دیا ہے اس لیے روئے زمین پر ایک اکیلا اسلام ہی مستند مذہب ہے۔ مسلمان متکلمین اور فقہاء کے دعویٰ اگرچہ کتنے ہی مطلق کیوں نہ ہوں لیکن ان دعوؤں کو وہ رواداری اضافی بنا دیتی ہے جسے اسلام یہودیت اور عیسائیت کے معاملے میں مسلمانوں پر واجب کر دیتا ہے۔ اس کا مکمل شعور اگرچہ معدودوے چند لوگوں کو ہوتا ہے کہ شک کی اس آمیزش کے ساتھ مذکورہ دعوے ضروری طور پر عقل کے لیے ناقابل قبول نہیں ہیں اور لازماً ایک مفکر کو خدا کے ساتھ ازروئے عقل تعلق پیدا کرنے سے نہیں روکتے مگر شرط یہ ہے کہ وہ مفکر اسلامی تہذیب کے دائرے کے اندرہی رہے جو اسے اس اخراجیت پسندی کے تمام اطلاقات بروئے کار لانے سے روکتی ہے۔

لیکن ایک دفعہ جب ہم اسلامی تہذیب کی متعین حدود سے باہر نکلتے ہیں تو صورتحال بدل جاتی ہے۔ ایک پختہ عقل زیادہ سے زیادہ ایسے دعوی قبول کر سکتی ہے جو فطری طور پر اس امر سے منتزع ہوتے ہیں کہ اسلام زمین پر سب سے آخری الوہی مداخلت کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن یہ دعوے لائق توجہ ہونے کے باوجود اضافی ہیں نہ کہ مطلق12 اور اس بات کو تسلیم کئے بغیر ایک مسلمان مفکر جدید دنیا میں ذہنی قرار حاصل نہیں کر پائے گا۔ تاہم ایک مسلمان مفکر کے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قرآن کریم کے وہ حصے جن پر متکلمین کی اخراجیت پسندی کی بنیاد پڑی ہے ان پر ایک ہی نظر ہی اس بات کو ظاہر کر دیتی ہے کہ زیرِ غور آیات عمومی تعبیر کی نسبت ایک زیادہ گہری اور آفاقی تعبیر کا تقاضا کرتی ہیں۔ ان آیات میں سے ایک آیت مندرجہ ذیل ہے :

ترجمہ: ’’خدا ہے وہ ذات جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ وہ اس دین کو دوسرے تمام ادیان پر غالب فرما دے اگرچہ یہ بات مشرکوں کو کتنی ہی بری کیوں نہ لگے ‘‘ (سورۃ التوبہ، آیت نمبر 69)۔

اس آیت کریمہ کی تعبیر محدود یا وسیع دونوں معانی میں کی جا سکتی ہے۔ اس کا فوری مفہوم واضح طور پر محدود مفہوم ہے : پیغمبر سے مراد حضرت محمد (ﷺ) ہیں اور دین ِ حق سے مراد پیغام ِ قرآنی ہے اور مشرکین سے مراد عرب، ایرانی، بربر اور کچھ دوسرے مشرکین ہیں۔ لیکن ان الفاظ کے متعلق کیا کہا جائے گا، ’تاکہ وہ اس دین کو دوسرے تمام ادیان پر غالب فرما دے‘۔ یہ ہے وہ نکتہ جس میں اس سارے معاملے کا جوہر پوشیدہ ہے۔

جدید تعلیم کے نقصانات جو کچھ بھی ہوں مگر یہ دنیا کی تاریخ اور جغرافیے کے متعلق ایک ایسا تصور پیدا کرنے میں معاونت کرتی ہے جو روایتی تہذیبوں کے افراد کے تصور کے مقابلے میں زیادہ عالمگیر ہے۔ روایتی تہذیبیں جیسا کہ ہم نے دیکھ لیا ہے تفریق اور داخل بینی کی طرف زیادہ مائل ہیں ۔ وسعتِ علم رحمت اور زحمت دونوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے مگر جہاں یہ موجود ہو اس کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔ یہ جدید دنیا میں رہنے والے ایک ذہین مسلمان کی تقدیر ہے کہ وہ جلد یا بدیر، اچانک یا بتدریج اس کا ادراک کرے کہ نا صرف یہ کہ پیغام قرآنی کو باقی تمام مذاہب پر غالب نہیں کیا گیا بلکہ یہ بھی کہ ایسا نہ ہونے کی مکمل ذمہ داری خود قدرت کے سر ہے۔ اس اعتراف کا دھچکہ اس کے ایمان کو غارت کر سکتا ہے الا یہ کہ وہ یہ سمجھنے کے قابل ہو کہ محولہ بالا آیت ایک وسیع تر معنویت کی حامل ہے۔ قدرے محدود معنوں میں ’تمام مذاہب‘سے صرف یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ اس خطہ زمین کے تمام مذاہب جہاں سے آپ کا تعلق ہے۔ لیکن اگر ’تمام ادیان ‘کو مطلق معنی میں سمجھا جائے اور اگر’مشرکین‘ میں جرمن اور کیلٹک ( Celtic) لوگوں کو شامل کر لیا جائے جن میں سے اکثر ظہور ِ اسلام کے وقت ابھی مشرک تھے تو پھر ’دین ِ حق‘ کا اطلاق بھی وسیع معنوں میں ہونا چاہیے اور ’باردگر‘ کے الفاظ کو بھی سمجھا جانا چاہیے جس کا مطلب ہے خدا وہ ذات ہے جس نے ایک دفعہ پھر اپنے پیغمبر کو مبعوث فرمایا کیونکہ خدا نے اس سے پہلے بھی پیغمبر بھیجے ہیں اور انہیں بھی حق کے علاوہ کسی اور چیز کے ساتھ نہیں بھیجا۔ خود اسلام کی اصطلاح کی طرح دوسرے تمام سچے ادیان کو اس میں شامل کرنے کے لیے دین حق کو بھی آفاقی معنوں میں لیا جا سکتا ہے۔ قرآن اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ حضرت آدم، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسی ٰ اور حضرت عیسی (علیھم السلام) کے دین کو بھی اس کے لغوی معنوں میں اسلام کہا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے خدا کے سامنے خود سپردگی۔ اس مفہوم میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کر دیا گیا ہے13 لیکن محدود معانی کے اعتبار سے اسلام کو صرف دنیا کے ایک محدود علاقے میں باقی تمام مذاہب پر غالب کیا گیا۔ قرآن کریم کو نازل ہوئے اب چودہ سو برس ہو چکے ہیں اور قدرت نے قرآن کریم کے علاوہ دوسرے ادیان ِ حق کو نصف دنیا سے زائد علاقوں میں پیغام قرآنی کی اشاعت کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر باقی رہنے دیا ہے۔

بعینہٰ، اسی پس نظر میں ان آیات کو سمجھنا چاہیے جو اس بات کا اثبات کرتی ہیں کہ حضرت محمد (ﷺ) کو تمام انسانوں14 کے لیے مبعوث کیا گیا ہے۔ ان آیات کو اُس مفہوم کی نسبت کم تسلط آمیز مفہوم میں سمجھنے کی ضرورت ہے جس مفہوم میں مسلمان دوسرے مذاہب اور ان مذاہب کے پیروکاروں کے بارے میں بہت تھوڑے علم یا مکمل لاعلمی کی بنا پر صدیوں تک ان آیات کو سمجھتے چلے آئے ہیں۔ یہاں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ یہودیت اور ہندومت کے برعکس اسلام عالمی مذہب ہے لیکن قرآن کریم اس کا انکار نہیں کر رہا کہ بدھ مت اور عیسائیت بھی عالمی مذاہب ہیں اور قرآن کریم نے اسے کم از کم اصولی اعتبار سے ہر آدمی کے لیے غیرمتعین چھوڑ دیا ہے۔ یہ آخری الفاظ اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ خدا وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے15 اور ہمارے پاس اس حوالے سے اس کی منشاء کو جاننے کا صرف ایک ذریعہ ہے کہ ہم نتائج16 کے ذریعے سے اس کی منشاء کے بارے میں علم حاصل کریں۔ پچھلے دو ہزار سال میں اقوام کے اعتبار سے دنیا کی جغرافیائی تقسیم جس طرح سے رہی ہے اس کے لحاظ سے ایک دیدۂ بینا رکھنے والے مسلمان اور عیسائی دونوں کے لیے یہ جاننا آسان ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے دنیا کے ایک خاص حصے میں قدرت نے بدھ مت کو محیر العقول پذیرائی بخشی جبکہ اسلام یا عیسائیت کے لیے اس خاص علاقے میں کم اسباب میسر ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ایک مسلمان کو یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ایک دوسرے علاقے میں قدرت نے باقی مذاہب کی نسبت عیسائیت کے لیے زیادہ آسانیاں فراہم کی ہیں اور یہ بات بھی اس کا نکتہ نظر بدلنے کے لیے کافی نہیں ہو گی کہ ان دو علاقوں کے درمیان ایک تیسرے جغرافیائی خطے میں قدرت سب سے بڑھ کر اسلام پر مہربان رہی ہے کیونکہ اگر خدا نے واقعی اسلام یعنی دین محمدی (ﷺ) کو پوری دنیا میں پھیلانے کا ارادہ کیا تھا جیسا کہ ایک مسلمان یقین رکھتا ہے تو پھر اُس (خدا) نے اس قدر وسیع علاقے میں اسلام کی اشاعت کی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹیں کیوں پیدا کیں؟17

قریب ترین مثال لی جائے تو قدرت برطانیہ میں اس وقت شرک کا خاتمہ کر رہی تھی جب قرآن کریم نازل ہو رہا تھا۔ عیسائیت کی صورت میں دین ِ حق کو دوسرے ادیان پر غلبہ دیا جا رہا تھا اگرچہ مشرکین کو یہ بات ناگوار تھی اور چونکہ قدرت کی طرف سے مداخلت معمولی درجہ کی نہیں ہوتی اس لیے عیسائیت کو ایسی مضبوط بنیادوں پر قائم کیا جا رہا تھا تاکہ پیغام قرآنی اسلامی تہذیب کے عروج کے زمانے میں بھی عیسائیت پر غلبہ پانے کے قریب نہ آ سکے۔ اور پھر قدرت کے لیے کچھ سال انتظار کر لینا اور برطانیہ کو نئے مذہب کی طرف پھیر دینا آسان ہوتا بجائے اس کے کہ اس نئے مذہب کے سامنے ایسی رکاوٹ کھڑی کرنی پڑی۔ اگر کسی کو جواب کی ضرورت محسوس ہو تو اس سوال کا جواب اگلی آیت میں پایا جاتا ہے جسے کافی لوگ پیغمبر کی طرف بھیجی جانے والی آخری آیات میں شمار کرتے ہیں اور بہرصورت جس آیت کا تعلق اس دور سے ہے جو دور حضرت محمد (ﷺ) کے فریضہ نبوت کی تکمیل کا دور تھا۔ اس آیت کا نزول بالذات غیرمعمولی اہمیت کے حامل اس دوران ِ وقت کے اس لمحے کے ساتھ جڑا ہوا ہے جو کہ اس دوران ِ وقت کے آخری عرصے میں آسمان سے زمین کی طرف بلاواسطہ نزول ہدایت کا آخری موقع ہے18۔ قرآں کریم کی آخر میں نازل ہونے والی بہت ساری آیات کا تعلق اس نئے مذہب کی تکمیل اور کاملیت کے ساتھ ہے۔ لیکن یہ آیت بہ اعتبارِ کل انسانیت کے لیے آخری اور ابدی پیغام ہے جس میں قرآن کریم وضاحت کے ساتھ زمین پر موجود مختلف راسخ العقیدہ مذاہب کے پیروکاروں کو مخاطب کرتا ہے اور کوئی بھی دوسرا پیغام اس زمانے کے لیے جس میں ہم رہ رہے ہیں اور بالخصوص ان آخری دنوں میں انسان کے ذہنی بحران کے حل کے لیے اس قدر برمحل نہیں ہو سکتا تھا:

ترجمہ: ’’تم میں سے ہر ایک کے لیے ہم نے راستے اور شریعت کا تعین کر دیا ہے اور اگر خدا19 چاہتا تو تمہیں ایک امت بنا دیتا۔ لیکن (اس نے اس کے خلاف چنا ہے ) تاکہ وہ اس میں سے تمہارا امتحان کرے جو کچھ اس نے تمہیں عطا کیا ہے20۔ اس لیے نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ تم سب کو خدا کی طرف لوٹا دیا جائے گا اور جن باتوں میں تم اختلاف کرتے رہے وہ ان کے بارے میں تمہیں مطلع کر دے گا‘‘(سورۃ المائدہ، آیت نمبر 48)۔


حواشی و حوالہ جات

  1. سینٹ مارک (باب پنچم، آیت نمبر تیس )۔ Deuteronomy، (باب ششم، آیت نمبر پانچ )۔ جس کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے وہاں عنصر ذہن کا الگ سے ذکر نہیں کیا گیا جس سے کوئی بنیادی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ٹھیٹھ فنی اصطلاح میں بات کی جائے تو ذہن نفسی قابلیت ہی ہے اور اس لیے نفس کے لفظ میں اس کا مفہوم مخفی طور پر موجود ہے۔ دوسری جانب سینٹ میتھیو (باب بائیس، آیت نمبر سینتیس ) میں عنصر قوت مذکور نہیں ہے اس سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ جسمانی توانائی اور صلاحیت ِ برداشت دونوں پر ارادے کا غلبہ ہوتا ہے اور ارادہ بجائے خود نفسی قابلیت ہے۔
  2. باب نمبر بارہ، Harper and Row، 1975
  3. جیسا کہ فرتھجوف شوآن نے لکھا ہے: ان لوگوں کے لیے جو ایک نئے مذہب کے بانی کے ساتھ بلاواسطہ تعلق میں آجاتے ہیں متبادل کا انتخاب نہ ہو نا خود پیغمبر کی مطلق عظمت کے لازمے کی حیثیت سے مطلقاً ثابت ہو جاتا ہے۔ مزید براں، مذہب کے ابتدائی مگر مختصر زمانہ ِ مطلقیت میں مذہب کا دائرہ اثر کافی حد تک متعین ہو جاتا ہے لیکن گزران ِ وقت کے ساتھ نئے اور پرانے مذہب کے درمیان لازمی طور پر توازن قائم ہو جاتا ہے، جس قدر یہ توازن بڑھتا چلا جائے کچھ لوگوں پر پرانے مذہب کے اثرات کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
  4. گریزاں اور داخل بیں، یہ وہ اسمائے صفات ہیں کینتھ کریگ نے جن کا اطلاق مشرقی چرچ پر کیا ہے۔ Call of the Minaret) ) نامی کتاب میں مشرقی کلیساؤں پر وہ شدید تنقید کرتا ہے کہ عملاً انہوں نے صدیوں تک اسلامی مشرق کو عیسائی بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ لگتا ہے کہ کینتھ کو اس بات کا خیال نہیں رہا کہ مذکورہ خوبیاں برائی کی نسبت اچھائی کے زیادہ قریب ہیں اگرچہ ان میں عیسائی مشنریوں کے لیے بہت کم سہولت ہی کیوں نہ ہو۔ مزید براں، 'الگ تھلگ ہو جاتا' ایک مشکل میدان میں قدم رکھنے سے بچنے کے لیے جزوی طور پر تحت الشعوری غیرآمادگی بھی ہو سکتی ہے۔
  5. فرتھجوف شوآن، اسلام اور حکمت ِ خالدہ، ورلڈ آف اسلام فیسٹیول پبلشنگ کمپنی، لندن 1976۔ اشاعت ِ ثانی (لاہور): سہیل اکیڈمی، 2000، صفحہ نمبر 53
  6. عیسائیت کی جانب یہودیت کے مجموعی مثالی رویے اور اس رویے کے نہ سمجھے جانے کی وجوہات کو جاننے کے لیے دیکھیے، فرتھجوف شوآن کی کتاب ’’اسلام اور حکمت خالدہ‘‘، صفحہ نمبر 58
  7. یہ کتابچہ مسلمان گروہوں کے ساتھ تعلقات کے باب میں چرچ کے لیے ہدایات کے ذیلی عنوان کے ساتھ حال ہی میں ورلڈ آف اسلام فیسٹیول کے موقع پر شائع کیا گیا ہے۔
  8. Logos – First Apology, Section 46 کے ترجمہ کے لیے لفظ (Reason)کی جگہ ہم نے (Intellect) کا لفظ استعمال کیا ہے۔
  9. اس مضمون کا عنوان (With All Thy Mind) فرتھجوف شوآن کے زیادہ تر حوالوں کو لازمی بنا دیتا ہے کیونکہ اس کی تحریریں مذہب کے معاملے میں عقل کو اس کا لازمی مقام دینے کے اعتبارسے رہنما کا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی تحریریں اس حد سے زیادہ عقل تک محدود ہیں جس حد تک خود عقل کو اس کے دائرے تک محدود کیا جا سکتا ہے کیونکہ عقل کے مکمل بروئے کار آنے میں اس کی بلند تر رسائیاں بلاواسطہ قلب پر اپنا انحصار رکھتی ہیں۔ فرتھجوف شوآن کی تحریروں کا تعلق سب سے بڑھ کر ذہن، اعلی اور ادنی ٰ کے درمیان ربط قائم کرنے والی تعقلاتی قوتوں اور قلب سے ہے۔ یعنی ایک ایسے مبحث کے ساتھ جس کا احاطہ ’’منطق اور ماورائیت‘‘ (Logic and Transcendence) کے لفظوں سے کیا گیا ہے اور یہ الفاظ بجا طور پر فرتھجوف شوآن کی زیادہ ترکتابوں کے لیے عنوان کے طور پر کام آ سکتے ہیں جس طرح کہ یہ اس کی ایک کتاب کا عنوان ہے۔ تاہم کسی غلط تاثر سے بچنے کے لیے اس بات کا اضافہ کرنا ضروری ہے کہ نفس کے متعلق جہاں شوآن نے کچھ ایسے ازکار رفتہ انسانی دلائل کو در کیا ہے جو دلائل ماضی میں ’’With All Thy Soul‘‘ کے مقصد کو پورا کرنے میں کام آتے تھے وہاں وہ ان پرانے دلائل کی جگہ ایک بلند تر سطح کے دلائل فراہم بھی کرتا ہے۔ معدودے چند لکھنے والے اس حوالے سے فنون ِ مقدسہ کی اہمیت کو اس وضاحت کے ساتھ ثابت کر سکے ہیں اور حالیہ صدیوں میں اور کون ہے جس نے اتنی گہرائی کے ساتھ اور اخلاقی بنیادوں کے برعکس دوسری بنیادوں پر خیر کی ضرورت کے متعلق لکھا ہو۔
  10. ایضاً، صفحہ نمبر 20
  11. اس بات پر کوئی عمومی اتفاق نہیں ہے کہ یہاں کون سے مذہب کی بات کی جا رہی ہے اور کچھ مسلم حکمرانوں نے انڈیا میں یاادھر ادھر اس نام کو غیر مسلم، غیرعیسائی اور غیر یہودی شہریوں کی طرف رواداری کی بنیاد بنایا ہے۔
  12. مثال کے طور پر ایک راسخ العقیدہ یہودی جسے عبرانی زبور سے بہت محبت ہے وہ اپنے مذہب کو نہ چھوڑنے اور ایسے مذاہب کو قبول نہ کرنے میں حق بجانب ہو گا جن کی مذاہب کی بنیاد اس وحی پر ہے جس وحی کی زبان وہ نہیں جانتا۔ یہاں وہ اپنی تائید کے لیے قرآنی دلیل پیش کر سکتا ہے۔
  13. جس آیت کا ہم یہاں جائزہ لے رہے ہیں وہ آیت حضرت مسیح کے ان الفاظ کے متوازی ہے، ’’آسمانی بادشاہت کا اعلان کرنے والے اس صحیفہ کی تبلیغ تمام دنیا میں کی جائے گی۔ اس کے بعد پھر قیامت واقع ہو جائے گی‘‘۔ یہ الفاظ بھی بعینہٰ محدود اور آفاقی تعبیر کے متحمل ہو سکتے ہیں اِس اعتبار سے کہ دنیا سے کیا مراد لی جاتی ہے۔ وسیع معنوں میں اس بشارت کا پہلا حصہ سچ ثابت ہو چکا ہے جس طرح کہ زمین پر رہنے والی ہر قوم تک اس صحیفہ آسمانی کی رسائی بہت آسان ہو چکی ہے اور صحیفہ آسمانی سے مراد دین ِ حق ہے کم از کم دین حق کا ایک ظہور۔
  14. قرآن کریم، سورت نمبر 34، آیت نمبر 28
  15. قرآن کریم سورت نمبر 2، آیت نمبر 253
  16. جس کا مطلب ہے عظیم الشان اور برقرار رہنے والے وہ نتائج جنھیں صدیوں آزمایا گیا ہے۔
  17. اس سوال کے جواب میں کچھ متکلمین کا پوری سنجیدگی کے ساتھ موقف یہ رہا ہے کہ خدا نے بلاشک و شبہ انسانوں کی اکثریت کو گمراہ کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے اور حکمتِ الہٰیہ کے بارے میں سوال اٹھانا ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتا۔ اس بنیاد پر ایمان منتشر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایسی منطق کی مدد سے ذہن چھپ چھپا کر خود کو محبت سے محروم کر لیتا ہے اور اس وقت وہ خدا جو کہ محبت کا حقیقی معروض ہے اس کی سب سے زیادہ بنیادی صفات کی طرف سے نظر پھیر لیتا ہے۔ دوسری وضاحت جس میں عیسائی بھی شریک ہیں، یہ ہے کہ دین حق اپنے غیر آفاقی معنوں میں بالآخر باقی تمام ادیان پر غالب آ جائے گا۔ بے شک محبت ہی فتح یاب ہوتی ہے۔ لیکن اگر پچھلے ایک ہزار یا اس سے زائد عرصے میں صرف ایک ہی مذہب نگاہِ فلک میں مستند ہوتا تو بھی اس دوران ِ وقت کے اختتام پر اس مذہب حق کی اچانک اور مکمل فتح کی توقع ذہن کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہ ہو سکتی تھی جس کا مطلب ہے کہ یہ فتح فیصلہ کن انداز میں قدرت کو اس بات سے بری الذمہ نہیں کر سکتی تھی کہ اس نے اتنی زیادہ مدت تک اور اتنے بڑے پیمانے پر ایک جھوٹے مذہب کو غالب رہنے کی اجازت دی۔
  18. خدا جو چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ لیکن یہ بات واضح طور پر انسان کے مفاد میں ہے کہ الوہی مداخلت جو ایک نئے مذہب کی بنیاد ڈالتی ہے اسے کھلے طریقے سے بذاتہ قابل پہچان ہو نا چاہیے۔ نئے مذہب کے ساتھ وابستی دعدوں کو بھی عظیم الشان اور ممتاز ہونا چاہیے تاکہ سوائے گمراہوں کے کسی کے لیے شک کی گنجائش نہ رہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کسی طرح کی کچھ چیزیں بچا کر رکھی جانی چاہیے تاکہ وہ اس طرح کے دور کا خصوصی اعزاز بن سکیں۔ قرآن کریم ایسی ہی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے جب وہ اس بات کا اثبات کرتا ہے کہ وہ سوالات جو نزول ِ وحی کے زمانے میں خدا سے کئے گئے ہیں ان کا جواب دیا جائے۔ اس کا ایک مطلب یہ بنتا ہے کہ وحی کے زمانے کے بعد بلاواسطہ طور پر مزید سوالوں کا جواب مہیا نہیں کیا جائے گا۔ یہ ایسے ہے کہ جیسے زمین و آسمان کے درمیان دورِ نبوت میں جو دروازہ کھلا تھا باقی تمام ادوار کے لیے اسے بند کر دیا گیا۔
  19. خدا کی ذات کے بارے میں ضمیر متکلم سے ضمیر غائب کی طرف تبدیلی تکرار کے ساتھ قرآن کریم میں موجود ہے۔
  20. اگر خدا نے آسمان سے وسیع پیمانے پر مختلف مزاج اور قابلتییں رکھنے والی دنیا کی طرف صرف ایک مذہب بھیجا ہوتا تو سب کے لیے یہ ایک جائز امتحان نہ ہوتا۔ اسی لیے خدا نے مختلف مذاہب بھیجے جو کہ خاص طور پر انسانیت کے مختلف طبقات کی ضرورتوں اور خواص کے ساتھ مناسبت رکھتے تھے۔

ستمبر ۲۰۲۱ء

مدرسہ ڈسکورسز : ایک مرحلے کی تکمیلڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۰)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ جامع ترمذی (۴)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۲)مولانا سمیع اللہ سعدی
مسائل حسن و قبح پر معتزلہ و تنویری فلاسفہ کے موقف کا فرقڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
قرآن پر اجماع اور اس کا تواتر، ایمان بالغیب اور متشکک ذہنڈاکٹر عرفان شہزاد
افغانستان کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مدرسہ ڈسکورسز کی اختتامی نشست کا احوالڈاکٹر حافظ محمد رشید

مدرسہ ڈسکورسز : ایک مرحلے کی تکمیل

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

(مدرسہ ڈسکورسز کے سمر انٹنسو ۲۰۲۱ء کی اختتامی نشست میں  گفتگو)

مدرسہ ڈسکورسز کے سمر انٹنسو کا یہ اختتامی سیشن ہے۔ یہ پانچ سال کا پروگرام تھا جس کا پہلا مرحلہ آج مکمل ہو رہا ہے۔ میں اپنے شرکاء کی یاد دہانی اور اپنے مہمان علماء کی معلومات کے لیے اس پراجیکٹ کی ابتدا، مختلف مراحل اور اس کے مقاصد کے بارے میں اختصار سے کچھ معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

 اس پروگرام کی ابتدا  2016 کے آخر اور 2017 کے اوائل میں ڈاکٹر ابراہیم موسی نے کی جو بنیادی طور پر جنوبی افریقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی دینی تعلیم ہندوستان کے بعض بڑے مدارس   جیسے دار العلوم دیوبند  اور  ندوۃ العلماء میں ہوئی۔ اب وہ تقریبا ربع صدی سے امریکی جامعات میں ہیں اور تعلیم و تحقیق کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ پروگرام ان کے دوست، اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سیکریٹری مولانا امین عثمانی صاحب (جن کا گزشتہ سال انتقال ہو چکا ہے) کی باہمی مشاورت بلکہ بقول ڈاکٹر ابراہیم موسی، مولانا امین عثمانی صاحب کی تحریک پر شروع ہوا۔ ڈاکٹر ابراہیم موسی کے مطابق مولانا امین عثمانی صاحب کا ان سے مسلسل تقاضا   اور  اصرار تھا کہ آپ نے دینی مدارس میں دینی علوم کی تحصیل کی، اس کے بعد آپ ایک دوسری علمی دنیا میں چلے گئے، مغربی جامعات میں تعلیم، تحقیق اور تدریس کا ایک لمبا سفر طے کیا، آپ نے ان دونوں دنیاوں کو دیکھا ہے، دونوں جگہ غور و فکر، تعلیم و تحقیق اور پڑھنے پڑھانے کا تجربہ حاصل کیا ہے، آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنے اس علمی تجربے میں مدارس کے فضلاء و اساتذہ کو بھی شریک کریں۔ کوئی ایسی ترتیب بنائیں کہ آپ نے جو کچھ سیکھا ہے اور آپ کے اس علمی دنیا میں جو روابط ہیں  اور اس دنیا میں اسلام کو، مسلمان معاشروں کو، اسلامی تاریخ کو، مسلمانوں کے مسائل کو کیسے دیکھا جاتا ہے، کیسے اس کا مطالعہ کیا جاتا ہے، اس سےایک تعارف اور واقفیت مدارس کے فضلاء و اساتذہ کو بھی حاصل ہو۔

اس پس منظر میں انہوں نے اس پروگرام کی ابتدا کی۔ وہ امریکہ میں مختلف جامعات میں رہے، لیکن جب وہ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی میں آئے تو وہاں ان کو ایسا ماحول  اور وسائل میسر آئے کہ وہ اس طرح کا ایک منصوبہ یا پراجیکٹ شروع کر سکیں۔ ابتدائی طور پر ان کے ذہن میں تھا کہ جنوبی ایشیا کے تینوں ممالک، ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے علماء کی ایک منتخب جماعت کو لیا جائے  اور ان کے لیے تدریس کا ایک آن لائن نظام بنایا جائے۔لیکن بعض وجوہ سے بنگلہ دیش پہلے مرحلے میں شامل نہیں ہو سکا اور پاکستان و ہندوستان میں اس کے آغاز کی ترتیب بنی۔ انڈیا سے ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر وارث مظہری صاحب سے رابطہ کیا گیا جو دیو بند سے فارغ التحصیل ہیں اور اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں، ان کا بھی دینی مدارس کے نصاب  اور طریق  تعلیم  و تدریس  کے ساتھ ایک پرانا شغف ہے۔ مجھ سے بھی ڈاکٹر ابراہیم موسیٰ صاحب  کا تعارف تھا، بلکہ امریکہ کے سفر میں وہ میرے میزبان بھی بنے، اس لیے پاکستان میں انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا  تاکہ  مقامی طور پر پروگرام کی ذمہ داری لینے اور علماء کی ایک جماعت کو منتخب کرنے کے لیے  میں اس میں شریک ہوں۔ اسی طرح امریکہ میں ان کے کچھ معاونین جیسے ڈاکٹر مہان مرزا جو پاکستان کے ہی ایک سکالر ہیں، وہ بھی اس ٹیم کا حصہ تھے۔

اس ٹیم کے ساتھ اور اس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے  2017 میں پاکستان اور انڈیا سے علماء کے ایک گروپ کے ساتھ  اس پروگرام کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان سے تیرہ لوگ تھے اور اسی کے لگ بھگ انڈیا سے علماء شریک تھے۔ ان کے لیے تین سال کا ایک نصاب ترتیب دیا گیا جس کی شکل یہ تھی کہ سال میں دو سمسٹرز میں  ہفتہ وار کچھ منتخب موضوعات پر طے شدہ متون کی روشنی میں ہم علمی مباحث کرتے تھے۔ شرکاء سوالات پوچھتے تھے اور کسی بھی سیشن کے جو معلم تھے، وہ اس پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے  اور اس طرح ان مباحث کی تفہیم کا ایک عمل شروع ہو گیا۔ اس پروگرام میں تین موضوعات یا دائروں کو فوکس کیا گیا۔  ایک بڑا دائرہ اسلامی روایت کےتفصیلی  مطالعہ کا تھا۔  اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کو اپنے دور عروج میں ان مباحث کا سامنا ہوا تو کیا کیا سوالات پیدا ہوئے، کیا کیا بحثیں چھڑیں، ان بحثوں میں اہل علم نے جو اظہار خیال کیا، اس سے کون کون سے مواقف وجود میں آئے، اس تراث کا اس سے کہیں زیادہ تفصیلی مطالعہ کیا گیا جو ہم عام طور پر مدارس میں کرتے ہیں  تاکہ اپنی روایت اور اس کی جہات سے زیادہ گہری اور تفصیلی واقفیت حاصل ہو۔

دوسرا دائرہ یہ تھا کہ مغربی دنیا میں مذہب، تاریخ اور معاشرے  کو دیکھنے کا ایک بالکل متوازی  اور مستقل نظام فکر ہے، اس روایت سے بھی واقفیت حاصل کی جائے۔ فلسفے کے مباحث اور اس میں زیادہ ارتکاز سائنس پر ہو کہ جدید سائنس کیا ہے ؟ یہ قدیم سائنس سے کیسے مختلف ہے ؟ سائنس کام کیسے کرتی ہے ؟سائنس میں نظریات کیسے بنتے ہیں، کیسے ٹوٹتے ہیں ؟اس وقت جو غالب تھیوریز کائنات کی یا انسان کی تفہیم کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، وہ کیا ہیں ؟ اور خاص طورپر یہ کہ جدید سائنس نے مذہب کے لیے، علم کلام اور تھیالوجی کے لیے کیا سوالات کھڑے کیے ہیں ؟ دوسرا بڑا دائرہ یہ تھا، یعنی جدید علم یا مغربی علوم کا تعارف  اور ان کے نتیجے میں سامنے آنے والی مشکلات کو سمجھنا۔

تیسرا بڑا دائرہ یہ تھا کہ جیسے ماضی میں اہل علم نے اپنے دور میں پیدا ہونے والے سوالات کو موضوع بنایا اور ان پر اپنا موقف متعین کیا، استدلالات مرتب کیے، اسی طرح جدید دور میں آنے والی تبدیلی اور پیدا ہونے والے سوالات سے آج کے دور کے اہل علم نے بھی صرف نظر نہیں کیا۔ ان سوالات کو موضوع بنایا گیا، ان کی تفہیم کی کوشش کی گئی اور ان کے بارے میں مواقف سامنے آئے  ہیں۔اس کا بھی مطالعہ کیا گیا کہ دور جدید میں جدیدیت کے تناظر میں اور خاص طور پر برصغیر کی علمی روایت میں ان کو کیسے سمجھا گیا اور ان کے بارے میں کیا مواقف اپنائے گئے۔ ان سب چیزوں کا تنقیدی جائزہ بھی لیا گیا کہ کہاں خلا ہے، کون سی چیز نظر انداز ہو رہی ہے، کہاں چیزوں کی تصحیح کی ضرورت ہے، تاکہ یہ روایت آگے بڑھ سکے۔

یہ تین بنیادی دائرے تھے۔  ایک اور چیز کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ایسے پروگرامز کا ایک فارمیٹ یہ ہوتا ہے کہ کسی صاحب علم نے غو رو فکر کے نتیجے میں کوئی موقف ڈیویلپ کیا ہے، کچھ نتائج اخذ کیے ہیں، تو ایسے کسی پروگرام میں کچھ لوگوں کو وابستہ کر کے  ان کو ان نتائج کی تفہیم کی کوشش کی جاتی۔ اس پروگرام کے لیے یہ طریقہ یا فارمیٹ اختیار نہیں کیا گیا۔ یہ پروگرام ڈاکٹر ابراہیم موسی کے مواقف و آراء  کی تفہیم یا ان کے لیے کوئی قبولیت پیدا کرنے کا کوئی پروگرام نہیں تھا، اسی لیے ہمارے تینوں بیچز کے شرکاء کو یہ شکایت رہی کہ ہمیں پروفیسر ابراہیم موسی صاحب سے استفادے کا بہت کم موقع میسر آیا۔ اس پراجیکٹ کا یہ فارمیٹ تھا کہ کسی ایک موقف یا رائے کی تفہیم، ترویج یا اس کے لیے قبولیت پیدا کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ یہ بحثوں کو سمجھنے کا ایک پلیٹ فارم ہے   جس میں کوئی بھی ایک سوال سامنے رکھ کر مختلف زاویوں سے، مختلف مواقف  اور ان کے استدلالات کو سمجھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ اسی فارمیٹ میں ہمارا یہ پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔ ہمارے پہلے بیج کے دوستوں کو یہ شکایت رہتی تھی کہ جب ساری بحثیں ہو گئیں، ساری رد و قدح کر لی، اب نتیجہ کیا ہے ! کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط ! ہم ہمیشہ یہ معذرت کرتے تھے کہ نتیجہ بتانا یا کوئی ایک موقف بتانا اس پروگرام کا ہدف نہیں ہے۔ اور یہ بھی کوئی ضروری نہیں کہ تمام اساتذہ کے نتائج فکر ایک ہی ہوں، اس لیے کوئی نتیجہ نکال کر ہم آپ کو نہیں دے سکتے۔ اب اس مسئلہ پر اور اس بحث پر غور جاری رکھنا، اس پر مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھنا اور اپنے لیے ایک نتیجہ طے کرنا  یہ آپ کا کام ہے۔

اسی مقصد کے لیے فکری وسائل کے طور پر ایک وسیع دائرے میں متون، کتابیں، ان کے اقتباسات سلیبس کا حصہ بنائے  گئے  تاکہ مطالعہ کا دائرہ وسیع ہو، مختلف مصادر سے واقفیت پیدا ہو۔ ہم ساری کتابیں پوری نہیں پڑھ سکتے لیکن ان کی اہم بحثیں مطالعہ میں آ جائیں اور کتاب کا تعارف ہو جائے، اس طرح فکری وسائل کو وسیع کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے ساتھ اساتذہ  و محققین کے ساتھ تعارف بھی ایک مقصد کے طور پر کورس میں شامل رہا ہے۔ بنیادی طور پر ٹیم میں تین چار اساتذہ ہی شامل تھے لیکن دیگر جن اساتذہ سے استفادے کا موقع شرکاء کو میسر آیا جن میں زیادہ تعداد مغربی جامعات کے اساتذہ ومحققین کی تھی، وہ تقریبا تین درجن کے قریب ہیں  جو اپنے اپنے دائرے میں تخصص کے حامل تھے۔  گویا شرکاء کا مصادر کے ساتھ تعارف بھی مقصود رہا اور جو لوگ مغربی دنیا میں اسلام اور اسلامی موضوعات پر تحقیق کر رہے ہیں، ان تک بھی ان کی رسائی کو ممکن بنانے کی سنجیدہ کوشش کی گئی۔

ان پانچ سالوں میں جو چیزیں ہمیں حاصل ہوئی ہیں، وہ میرے خیال میں دو ہیں۔ ایک بڑا حاصل تو پاکستان و انڈیا کے شرکاء ہیں جن میں ان مباحث کو سمجھنے اور ان سے ڈیل کرنے کی بنیادی صلاحیت پیدا ہو چکی ہے۔ ان کی تعداد سو کے لگ بھگ ہے۔ یہ فضلاء اس عمل کو اپنے طور پر بھی اب آگے بڑھا سکتے ہیں اور ہم بھی کچھ ایسے وسائل و امکانات دیکھ رہے ہیں کہ اس سارے عمل کی کوئی تنظیم کی جائے۔ دوسری چیز جو ہم  نے حاصل کی ہے، وہ ایک اچھا مرتب نصاب ہے۔ ہمارے پاس تین گروپ آئے  تھے، ایک 2017 میں، دوسرا 2018 اور تیسرا 2019 میں۔ ان تینوں کے لیے نصاب کو ہم مسلسل ریویو کرتے رہے، نئے اساتذہ بھی آئے اور نئے موضوعات بھی شامل ہوئے۔ ان سب تجربات کو ہم نے ایک جامع نصاب میں مرتب کر دیا ہے جو کہ اب ایک ماڈل سلیبس ہے جس میں سات آٹھ بنیادی موضوعات ہیں اور جو متون استعمال کیے گئے، ان کی مکمل فہرست ہے، تاکہ اگر اور لوگ بھی ایسا کوئی تجربہ کرنا چاہیں تو ہمارا حاصل تجربہ ان کے پاس ہو جس سے وہ استفادہ کر سکیں۔ گویا دو چیزیں حاصل ہوئی، ایک ایسے شرکاء جو ان بحثوں سے دلچسپی رکھتے ہیں، سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان مطالعات کو جاری رکھنے کا عزم رکھتے ہیں اور دوسرا ایسا نصاب جس سے دوسرے لوگ استفادہ کر سکتے ہیں۔

اس  کام کے تسلسل کے لیے ہم مختلف پہلووں پر غور کر رہے ہیں۔ ہمارے کافی فضلاء اس بات کے لیے پر عزم ہیں کہ جن اساتذہ سے تعارف ہوا ہے، ان سے استفادہ جاری رہے گا اور ہفتہ وار میٹنگز میں ان مطالعات کا تسلسل جاری رکھا جائے  گا۔ اس کے علاوہ کچھ ادارے بھی جو اس پروگرام کو کچھ بدلی ہوئی شکل میں اپنے ہاں شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۰)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(266) وَمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا

وَمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِی اََمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُو عِندَ اللَّہِ وَمَا آتَیْتُم مِّن زَکَاۃٍ تُرِیدُونَ وَجْہَ اللَّہِ فَاَُولَئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُونَ۔ (الروم: 39)

’’جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

’’اور جو تم سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزائش ہو تو خدا کے نزدیک اس میں افزائش نہیں ہوتی اور جو تم زکوٰۃ دیتے ہو اور اُس سے خدا کی رضا مندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجبِ برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دو چند سہ چند کرنے والے ہیں‘‘۔ (فتح محمد جالندھری)

مذکورہ بالا دونوں ترجموں میں ایک غلطی یہ ہے کہ مَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا کا ترجمہ کیا ہے ’جو تم سود دیتے ہو‘، گویا سود لینے والے مال دار کو خطاب نہیں کیا جارہا ہے بلکہ سود دینے والے غریب کو خطاب کیا جارہا ہے ۔ سود دینے والا غریب تو مجبور ہوکر سود دیتا ہے وہ اس نیت سے تو دیتا نہیں ہے کہ اس کے سود دینے سے سود لینے والے مال دار کا مال بڑھے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ آگے مَا آتَیْتُم مِّن زَکَاۃٍ بھی ہے، ظاہر ہے اس کے مخاطب مال دار ہی ہیں اور انھی سے یہ کہا جارہا ہے کہ سودی قرض دینے کے بجائے زکات وصدقات دینے کا راستہ اپناؤ ۔ اس لیے مَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا کا ترجمہ ہوگا ’جو تم سود پر دیتے ہو‘ یا ’جو تم سودی قرض دیتے ہو‘ اس نیت کے ساتھ کہ تمہاری وہ رقم لوگوں کے مال میں شامل ہوکر بڑھ جائے ۔ غرض اس آیت کا روئے خطاب وعتاب سود دینے والے غریب کی طرف نہیں بلکہ سود پر قرض دینے والے مال دار کی طرف ہے ۔

(267) المضعفون

اس آیت کے آخر میں المضعفون ہے جس کا ترجمہ عام طور سے’اپنے مال بڑھانے والے‘ کیا گیا ہے ۔ یہاں ’بڑھانے والے‘ ترجمہ کرنا درست نہیں ہے، بڑھانے والا تو اللہ ہے ۔ یہ بھی سامنے رہے کہ قرآن مجید میں کئی گنا کرنے کے لیے اَضعف کہیں نہیں آیا ہے، ہر جگہ ضاعف آیا ہے اور وہ اللہ کے لیے آیا ہے، یعنی کئی گنا بڑھانے والا اللہ ہے ۔ یہاں مضعفون، اَضعف سے ہے ۔ مُضعِف کا مطلب ہوتا ہے چند در چند پانے والا ۔ زمخشری اس لفظ کی وضاحت کرتے ہیں:

فَاَُولئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُونَ: ذوو الاَضعاف من الحسنات۔ ونظیر المُضعِف: المقوی والموسر، لذی القوّۃ والیسار۔ (تفسیر الکشاف)

پوری آیت کا درست ترجمہ حسب ذیل ہے:

’’جو سُود پر تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت چند در چند پانے والے ہوتے ہیں ‘‘ ۔ (امانت اللہ اصلاحی)

(268) اََوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا فِی اََنفُسِہِم

تفکّر کے معنی غور وفکر کرنے کے ہیں ۔ آدمی کے غور وفکر کرنے کا عمل اس کے اپنے دل میں ہی ہوتا ہے ۔ درج ذیل آیت میں اََوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا کے ساتھ فِی اََنفُسِہِم آیا ہے ۔ اگر اس کا ترجمہ اپنے دل میں کیا جائے تو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوتی ہے، لیکن اگر اس کا ترجمہ اپنے آپ میں یا اپنے وجود میں کیا جائے تو معنویت میں اضافہ ہوجاتا ہے کہ یہاں اپنے وجود میں غور وفکر کرنے کی بات کی جارہی ہے ۔ اور جو آدمی نفس کی نشانیوں میں غور کرتا ہے تو کائنات کی نشانیاں بھی اس کے سامنے روشن ہوجاتی ہیں ۔ آیت کا درج ذیل ترجمہ درست ہے:

اََوَلَمْ یَتَفَکَّرُوا فِی اََنفُسِہِم مَّا خَلَقَ اللَّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْاََرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا الَّا بِالْحَقِّ وَاََجَلٍ مُّسَمًّی وَاِنَّ کَثِیرًا مِّنَ النَّاسِ بِلِقَاءِ رَبِّہِمْ لَکَافِرُونَ۔ (الروم: 9)

’’کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟ اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرّر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں‘‘۔ (سید مودودی)

درج ذیل ترجموں میں مذکورہ بالا خامی پائی جاتی ہے ۔

’’کیا ان لوگوں نے اپنے دل میں یہ غور نہیں کیا؟‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

’’کیا انہوں نے اپنے جی میں نہ سوچا‘‘۔ (احمد رضا خان)

’’کیا اُنہوں نے اپنے دل میں غور نہیں کیا‘ ۔ (فتح محمد جالندھری)

انگریزی زبان میں بھی دونوں طرح سے ترجمہ کیا گیا ہے، درج ذیل میں پہلا ترجمہ بہتر ہے ۔

Have they not pondered upon themselves? (Pickthall)
Do they not reflect in their own minds?  (Yousuf  Ali)

(269) فَاََقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا

یہ الفاظ دو جگہ آئے ہیں :

وَاََنْ اََقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا۔ (یونس: 105)

’’اور یہ کہ اپنا رخ یکسو ہوکر اطاعت کی طرف کرو‘‘ ۔ (امین احسن اصلاحی)

فَاََقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا۔ (الروم: 30)

’’پس تم اپنا رخ، یکسو ہوکر دین حنیفی کی طرف کرو‘‘ ۔ (امین احسن اصلاحی)

اس دوسرے ترجمے میں ایک غلطی یہ ہے کہ حنیف کو دین کی صفت بنادیا ہے، جب کہ وہ حال ہے، اور حنیف کے تمام قرآنی استعمالات جمع کیے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین کی صفت نہیں بلکہ دین پر عمل کرنے والے فرد کی صفت ہے ۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ جب حنیفا کا ترجمہ ’یکسو ہوکر‘ کردیا تو پھر الدین کا ترجمہ ’دین حنیفی‘ کرنے کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے۔ دوسری آیت کا ترجمہ بھی وہی کرنا چاہیے تھا جو پہلی آیت کا کیا ہے ۔ الدین کا ترجمہ دین بھی کیا جاسکتا ہے اور اطاعت بھی ۔

(270) فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا

درج ذیل آیت میں فطرت اللہ منصوب ہے، اس سے لوگوں کا ذہن اس طرف گیا کہ یہ مفعول بہ ہے، چنانچہ اس کے لیے فعل محذوف مان کر ترجمہ کرتے ہیں ، جیسے:

فَاََقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّینِ حَنِیفًا فِطْرَتَ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا۔ (الروم: 30)

’’پس (اے نبی اور نبی کے پیروؤ ) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین کی سمت میں جمادو، قائم ہوجاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے‘‘ ۔ (سید مودودی)

حالاں کہ یہ ایک خاص اسلوب کی خبر ہے جس کا مبتدا ’ھذہ‘ محذوف ہے ۔ یعنی ھذہ فِطْرَتُ اللَّہِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا۔ ترجمہ ہوگا ’’یہ وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔‘‘ یہ اسلوب قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی آیا ہے، جیسے: وَعْدَ اللَّہِ (الروم:6) ’’یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے‘‘ ۔ (سید مودودی)

(271) وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ

قرآن مجید میں جگہ جگہ یہ بات کہی گئی ہے کہ کافروں کا کوئی مددگار نہیں ہے ۔ کہیں کہیں اس کے لیے واحد کا صیغہ ہے، جیسے فرمایا:

فَمَا لَہُ مِن قُوَّۃٍ وَلَا نَاصِرٍ (البروج:10)

’’اُس وقت انسان کے پاس نہ خود اپنا کوئی زور ہوگا اور نہ کوئی اس کی مدد کرنے والا ہوگا‘‘ ۔ (سید مودودی)

تاہم کئی مقامات پر ناصرین (جمع کا صیغہ) آیا ہے ۔ جمع کے صیغے کی معنویت کا خیال ترجمے میں ہونا چاہیے ۔

وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ۔ (الروم:29)

’’اور ان کا کوئی بھی مدد کرنے والا نہیں بنے گا‘‘ ۔ (امین احسن اصلاحی)

یہاں مولانا امانت اللہ اصلاحی درج ذیل ترجمہ تجویز کرتے ہیں :

’’اور کسی طرح کے لوگ ان کی مدد کرنے والے نہیں ہوں گے‘‘ ۔

درج ذیل آیتوں میں بھی اسی طرح ترجمہ کیا جانا چاہئے جس سے جمع کے صیغے کی معنویت نمایاں ہوسکے:

وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ۔ (آل عمران: 22)

’’اور ان کا کوئی مددگار نہیں‘‘۔ (محمد جوناگڑھی)

وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ۔ (آل عمران: 56)

’’اور ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘ ۔ (فتح محمد جالندھری)

وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ ۔ (آل عمران: 91)

’’اور وہ اپنا کوئی مددگار نہ پائیں گے‘‘ ۔ (سید مودودی)

وَمَا لَہُم مِّن نَّاصِرِینَ ۔ (النحل: 37)

’’اور ان کا کوئی مددگار نہیں ‘‘ ۔ (احمد رضا خان)

وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ ۔ (العنکبوت: 25)

’’اور تمہارا کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘ ۔ (محمد جوناگڑھی)

وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ ۔ (الجاثیۃ: 34)

’’اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے‘‘ ۔ (سید مودودی)

(272) عَشِیًّا کا ترجمہ

فَسُبْحَانَ اللَّہِ حِینَ تُمْسُونَ وَحِینَ تُصْبِحُونَ; وَلَہُ الْحَمْدُ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاََرْضِ وَعَشِیًّا وَحِینَ تُظْہِرُونَ ۔ (الروم: 17;18)

’’پس اللہ ہی کی تسبیح کرو جس وقت تم شام کرتے ہو اور جس وقت صبح کرتے ہو اور آسمانوں اور زمین میں اسی کی حمد ہورہی ہے، اور عشاء کے وقت بھی اور اس وقت بھی جب تم ظہر کرتے ہو‘‘ ۔ (امین احسن اصلاحی)

’’پس تسبیح کرو اللہ کی جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو ۔ آسمانوں اور زمین میں اُسی کے لیے حمد ہے اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے‘‘ ۔ (سید مودودی)

مذکورہ بالا آیت میں عشیا کا مطلب عام طور سے دن ڈھلنے کا وقت سمجھا گیا ہے اور اس سے عصر کی نماز مراد لی گئی ہے ۔ زمخشری کے مطابق:

العشیّ: من حین تزول الشمس الی اَن تغیب۔ (تفسیر الکشاف)

لیکن صاحب تدبر عشیا سے عشاء کی نماز مراد لیتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

’’اوقات نماز میں سے فجر اور ظہر کا ذکر تو اس آیت میں نہایت واضح طور پر موجود ہی ہے ۔ تمسون میں عصر اور مغرب دونوں کو شامل کرلیجیے اور عشیا سے عشاء کو مراد لیجیے تو تمام اوقاتِ نماز آجاتے ہیں ۔ لفظ عشی کا اطلاق زوال کے وقت پر بھی ہوتا ہے اور مغرب سے لے کر عشاء کے وقت پر بھی، اس وجہ سے اس سے عشاء کا وقت مراد لینے میں لفظ سے کوئی تجاوز نہیں ہوگا‘‘ ۔ (تدبر قرآن)

لیکن یہ مضبوط بات نہیں ہے ۔ تصبحون کے بالمقابل تمسون ہے، جس میں مغرب اور عشاء دونوں داخل ہیں ۔ عشیا سے عصر کی نماز مراد لینا اس لیے بھی زیادہ مناسب ہے کہ اسے حین تظھرون کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ عشی کا مشہور ومعروف معنی بھی وہی ہے جو عام طور سے لوگوں نے لیا ہے یعنی زوال سے غروب آفتاب تک ۔ مزید یہ کہ عشاء کا وقت تو پوری رات کو محیط ہے، عشی کے اندر اتنی وسعت بہرحال نہیں پائی جاتی کہ رات کی گہرائی بھی اس میں شامل ہوجائے ۔ جب کہ امساء کے اندر یہ بات پائی جاتی ہے، زبیدی لکھتے ہیں : والمَساءُ والمْساءُ: ضِدُّ الصَّباحِ والصْباحِ، وَہُوَ بَعْدَ الظّہْرِ  الَی صلاۃِ المَغْربِ۔ وَقَالَ بعضُہم: الَی نِصْفِ اللیْلِ۔ (تاج العروس)

مطالعہ جامع ترمذی (۴)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

مطیع سید : کھڑے ہوکر پانی پینے کے متعلق مختلف اور متضاد روایات آتی ہیں۔ اس میں درست بات کیا ہے؟

عمار ناصر : جی روایات مختلف ہیں۔ بعض میں تو بہت سخت ناپسندیدگی ظاہر کی گئی ہے جو سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ مثلا صحیح مسلم میں روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر کھڑا ہو کر پانی پینے والے کو پتہ چل جائے کہ اس نے کیا پیا ہے تو وہ قے کردے۔

مطیع سید : حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ایک جگہ پڑھا تھا کہ وہ خاص طورپر کھڑے ہو کر پانی اس لیے پیتے تھے کہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ اس طرح بھی درست ہے۔تو پھر اس کی کیا توجیہ کریں؟

عمار ناصر : احناف کے ہاں یہ رائے ہے کہ آپ ﷺ نے کسی شرعی پہلو سے اس کی ممانعت نہیں کی، بلکہ اس پہلو سے کی ہے کہ کھڑے کھڑے پانی پینے سے کوئی بیماری وغیرہ نہ لاحق ہو جائے۔ یعنی آدمی کو جلدی میں اور کھڑے کھڑے نہیں، بلکہ اطمینان سے بیٹھ کر اور سکون سے پانی پینا چاہیے۔

مطیع سید : ایک روایت میں ہے کہ بخیل جنت میں نہیں جائے گا، (کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی البخیل، حدیث نمبر ۱۹۶۳) لیکن ایک موقع پر آپ ﷺ سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مومن بخیل تو ہوسکتا ہے، لیکن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔

عمار ناصر : ایک بخل تو طبعی ہے جس پر آدمی کا اختیار نہیں ہوتا، لیکن کچھ بخیل ایسے ہیں جو اللہ کے واحب حقوق بھی ادا نہیں کرتے۔ بخل اگر اس درجے کو چلا گیا ہے کہ آپ کے ذمے جو حقوقِ واجبہ ہیں، وہ بھی آپ ادا نہیں کرتے تو وہ قابل ِ مذمت ہے۔

مطیع سید : یہ سوال جامع ترمذی سے ہٹ کر ہے۔کہا جاتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے پکاراجائے گا۔ کیا اس طرح کی کوئی روایت ہے؟

عمار ناصر : نہیں، ایسی کوئی قابل اعتماد روایت نہیں ہے۔ مستند روایات کی رو سے لوگوں کو ان کے والد کے نام سے ہی پکارا جائے گا۔

مطیع سید : آپ ﷺ نے فرمایا کہ معراج کی رات فرشتوں کے جس بھی گروہ کے پاس سے گزرا، انہوں نے مجھے پچھنے لگوانے کا کہا۔(کتاب الطب، باب ما جاء فی الحجامۃ، حدیث نمبر ۲٠۵۲) کیا یہ اتنی اہم چیز تھی کہ فرشتوں نے بھی کہا کہ یہ ضرور لگوائیں؟

عمار ناصر : دیکھیں، عرب کے پاس علاج معالجے کی چند ہی چیزیں تھیں جو میسر تھیں۔ ان کے ماحول میں لگتا ہے کہ پچھنے لگوانا بہت سی بیماریوں کے لئے مفیدتھا۔اب وہ فن بظاہر ختم ہو گیا ہے،یا ممکن ہے کہ اب بھی ہو۔ ہمارے طب ِ نبوی والے حضرات اس کے کچھ فوائد بتاتے ہیں۔ جدید میڈیکل سائنس اس کے بارے میں پتہ نہیں کیا کہتی ہے۔معلوم نہیں، اس کا تصور بھی ہے کہ نہیں۔

مطیع سید : میں ایک ویڈیو میں دیکھ رہاتھا کہ ا ب تو خون کو کھینچنے کے لیے باقاعدہ کپ بنا لیے گئے ہیں۔

عمار ناصر : اس کا مطلب ہے، لوگوں نے کچھ ترقی کی ہے اور یہ فن محفوظ بھی ہے۔

مطیع سید : ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے دو کتابیں اٹھائی ہوئی تھیں اور فرمایا کہ ایک میں جنتیوں کے نام ہیں اور دوسری میں جہنمیوں کے نام ہیں۔(کتاب القدر، باب ما جاء ان اللہ کتب کتابا لاہل الجنۃ ولاہل النار، حدیث نمبر ۲۱۴۱) وہ کتابیں کہاں گئیں؟ کیا وہ واقعی کتابیں تھیں یا غائب ہوگئیں؟ یہ کیا واقعہ ہے؟

عمار ناصر : بظاہر قرین قیاس یہ ہے کہ عالم ِغیب سے تمثیلا آپ کو کچھ دکھایا گیا ہوگا اور اس خاص وقت میں وہ منظر صحابہ کو بھی نظر آ گیا ہوگا۔ فی الواقع ٹھوس شکل میں کوئی کتابیں آپ کو دی گئی ہوں، یہ بعید از قیاس ہے، کیونکہ اس صورت میں واقعتا یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ پھر وہ کتابیں کہاں گئیں۔

مطیع سید : مرجئہ اور قدریہ کے بارے میں یہ روایت کیا درست ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں؟(کتاب القدر، باب ما جاء فی القدریۃ، حدیث نمبر ۲۱۴۹) یا بعدمیں کسی نے ان کی مذمت کے لیے یہ حدیث بنا لی ہے؟

عمار ناصر : ایسا ہی لگتا ہے،کیوں کہ مرجیہ اور قدریہ کو تو یہ لقب اسی وقت ملا جب بعد میں انہوں نے اپنے نظریات پیش کیے۔

مطیع سید : آپ ﷺ نے فرمایا کہ سفر سے واپسی پر رات کے وقت عورتوں کے پا س نہ جا ؤ۔ وضاحت میں امام ترمذی لکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے خلاف ورزی کرتے ہوئے دو آدمی سفر سے واپسی پر رات کو اپنے گھر چلے گئے تو دونوں نے اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پایا۔ (کتاب الاستئذان والآداب، باب ما جاء فی کراہیۃ طروق الرجل اہلہ لیلا، حدیث نمبر ۲۷۱۲) سوال یہ ہے کہ اچانک گھر جانے سے اگر آدمی کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ گھر میں کیا معاملہ چل رہا ہے تو یہ تو اس کے لیے اچھا ہے۔ اس سے کیوں منع کیا گیا ہے؟

عمار ناصر : اصل میں تو یہ ہدایت اس پہلو سے کی گئی ہے کہ بلا اطلاع اچانک گھر نہیں پہنچ جانا چاہیے۔ دیگر احادیث میں اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ گھر والوں کو صفائی ستھرائی اور تیاری کا موقع ملنا چاہیے تاکہ سفر سے آنے والے کا اچھے انداز سے استقبال کیا جا سکے۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ جب سفر سے واپس پہنچو تو شہر سے باہر رک جا ؤ تاکہ اہل خانہ تک اطلاع پہنچ جائے اور وہ استقبال کی تیاری کر لیں۔ یہ پہلو بھی ہے کہ گھر والوں کے متعلق خواہ مخواہ بداعتمادی نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کسی کے ذہن میں ایسی کوئی کھٹک ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میں جا کر اچانک چھاپہ ماروں تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ غیر ضروری شک اور تجسس اپنے اہل خانہ کے متعلق بھی نہیں ہونا چاہیے۔ امام ترمذی نے جو بات ذکر کی ہے، وہ اس ہدایت کی اصل وجہ نہیں ہے، یعنی یہ کہنا مقصود نہیں کہ اس وجہ سے گھر نہ جاؤ کہ وہاں کہیں کوئی آدمی موجود نہ ہو۔ یہ بات محض زجرا کہی گئی ہے کہ جب ان دو آدمیوں نے ہدایت کی خلاف ورزی کی تو پھر یہ نتیجہ دیکھنا پڑا۔

مطیع سید : عبد اللہ ابن ام مکتوم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آئے تو آپ ﷺ نے ازواج کو پردے میں جانے کا حکم دیا۔( کتاب الادب، باب ما جاء فی احتجاب النساء من الرجال، حدیث نمبر ۲۷۷۸) یہ صحابی تو نابینا تھے۔ جب وہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے تو کس سے پردہ مقصود تھا؟

عمار ناصر : دیکھیں، یہ لطیف بات ہے۔ اس میں پردہ اصل مسئلہ نہیں تھا، بلکہ بے تکلفی اور اختلاط کی اس کیفیت کو ختم کرنا مقصود تھا جو ایک ہی مجلس میں موجود ہونے سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ تو ازواج مطہرات کے زاویے سے تھا۔ ابن ام مکتوم کے زاویے سے بھی یہ ہدایت ہو سکتی ہے کہ انھوں نے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی نجی بات کرنی ہے تو ازواج مطہرات کی وہاں موجودگی سے شاید وہ کوئی حجاب محسوس کریں۔ تو اس طرح کی چیزوں کو ان پہلووں سے بھی دیکھنا چاہیے۔ ہر بات کی نوعیت فقہی اور شرعی حکم کی نہیں ہوتی۔

مطیع سید : ابرووں کے بال اکھیڑنے سے آپ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا اور اس کو اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا قرار دیا۔(کتاب الادب، باب ما جاء فی الواصلۃ والمستوصلۃ، حدیث نمبر ۲۷۸۲) کیا عورتوں کے ایسا کرنے کا صرف ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ وہ غیر محرموں کو دکھانے کے لیے ایسا کریں؟ محض زینت کے لیے تو ایساکرنے میں کوئی حرج نہیں لگتا۔

عمار ناصر : یہ دو الگ الگ اصول ہیں۔ غیر محرموں کے لیے تو زینت کا اہتمام کرنا ویسے ہی ممنوع ہے، چاہے وہ زینت فی نفسہ جائز ہو۔ یہاں جس چیز سے منع کیا گیا ہے، وہ اللہ کی تخلیق میں بے وجہ تبدیلی کرنا ہے۔ فقہاء اس میں یہ تفصیل کرتے ہیں کہ اگر تو ابرووں کی بالوں کی وضع ایسی بھدی ہے کہ بدنما لگ رہی ہے تو اس کو ٹھیک کرنا اور بدنمائی کو دور کرنا اور چیز ہے، اس سے منع نہیں کیا گیا۔منع اس سے کیا گیا ہے کہ جیسی ابرو بنی ہوئی ہے اور اس میں کوئی بدنمائی بھی نہیں، لیکن آپ کو وہ وضع پسند نہیں اور آپ چاہ رہے ہیں کہ اس کی کوئی اور وضع بنا لی جائے۔ تو یہ دراصل ایک ذہنی رویے پر تنبیہ ہے۔

مطیع سید : آج کل اعضا کی سرجری بھی ہو تی ہے، مثلا کسی کی ناک ٹھیک نہیں ہے تو اسے ٹھیک کروالیا جاتا ہے۔

عمار ناصر : یہ بھی اسی کے تحت ہے۔ایک صورت یہ ہے کہ ناک کی شکل بگڑی ہوئی ہے یا پیدائشی طور پر ٹھیک نہیں ہے یا اس طرح کا کوئی نقص ہے جسے Abnormalسمجھا جاتا ہے تو اس کا علاج کرنا اور چیز ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ ناک کی وضع آپ کی پسند کی نہیں ہے،مثلا ناک تھوڑی موٹی ہے اور آپ کو ذراباریک چاہیےتو اس مقصد کے لیے سرجری کروانا اسی ممانعت کے تحت ہے۔

مطیع سید : خلوق اور زعفرا ن کی خوشبو سے آپ ﷺ نے منع فرمایا۔ایک صحابی لگا کر آئے تو آپ ﷺنے فرمایا کہ دھو دد۔(کتاب الادب، باب ما جاء فی کراہیۃ التزعفر والخلوق للرجال، حدیث نمبر ۲۸۱۶) حالانکہ خوشبو کسی بھی قسم کی ہو، خوشبو ہی ہوتی ہے۔ ان خوشبوؤ ںمیں کیا مسئلہ تھا؟

عمار ناصر : خلوق اور زعفران میں شاید زرد رنگ کا مسئلہ تھا۔ مردوں کے لیے رنگوں میں بھی یہ مطلوب ہےکہ ان میں زنانہ جھلک نہ ہو۔ یا اگر خوشبو کے پہلو سے ناپسند کیا گیا تو شاید خوشبو میں کوئی ایسی چیز ہو جو آپ ﷺ کے ذوق کے خلاف ہو۔

مطیع سید : روایت میں ہے کہ آپ عبد اللہ بن رواحہ کے اشعار پڑھا کرتے تھے اور مثال کے طور پر اس شعر کا ذکر کیا گیا ہے کہ

ستبدی لک الایام ما کنت جاھلا
ویاتیک بالاخبار من لم تزود

(کتاب الادب، باب ما جاء فی انشاد الشعر، حدیث نمبر ۲۸۴۸)

یہ تو عبد اللہ بن رواحہ کا شعر نہیں ہے۔یہ تو غالبا سبع معلقات کے کسی شاعر کا شعر ہے۔

عمار ناصر : جی، یہ طرفہ بن عبد کا شعر ہے۔ لیکن روایت میں اس کو ابن رواحہ کا شعر نہیں کہا گیا۔ روایت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ابن رواحہ کے اشعار بھی موقع بموقع پڑھا کرتے تھے اور اسی طرح مذکورہ شعر بھی پڑھا کرتے تھے۔ اس شعر کا ذکر الگ سے کیا گیا ہے، عبد اللہ ابن رواحہ کی نسبت سے نہیں کیا گیا۔

مطیع سید : لزوم ِ جماعت کے بارے میں آ پ ﷺنے جو باتیں فرمائی ہیں،(کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ، حدیث نمبر ۲۱۶۵) اس تناظرمیں آپ پربسھی اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ آپ جمہور امت کی رائے سے ہٹ کر باتیں کیوں کرتےہیں۔

عمار ناصر : دیکھیں، لزومِ جماعت کی ہدایت کے دو محل ہو سکتے ہیں۔ آپ کو زیادہ تر روایات میں یہ سیاق ملے گا کہ آپ ﷺ مسلمانوں کی جو سیاسی اجتماعیت ہے، اس کے اندر اختلاف پیدا کرنے والوں کا ساتھ دینے سے منع فرما رہے ہیں اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی کر رہے ہیں کہ طرح طرح کے امیدواراپنے اپنے اقتدار کے لیے اٹھیں اور لوگ ان کا ساتھ دینا شروع کر دیں۔دوسرا محل یہ ہو سکتا ہے کہ اس ہدایت کو آپ دینی لحاظ سے دیکھیں تو وہ بھی صحیح ہے۔ اس طرح کی وارننگ آپﷺ اپنی فورا بعد کی صورتحال کے لیے دے رہے ہیں جس میں ایک طرف صحابہ و تابعین کی صورت میں مسلمانوں کی جماعت ہے جو دینی اور اعتقادی لحاظ سے بالکل صحیح جگہ پر کھڑی ہے اور دوسری طرف بہت سے فرقے ہیں جو اِدھر اُدھر سے نکل رہے ہیں۔ جو لو گ اس اصول کو توسیع دے کر علمی اور فقہی اختلافات پر منطبق کرتے ہیں اور ہر زمانے کے جمہور کے ساتھ اتفاق کو لزوم جماعت کا تقاضا قرار دیتے ہیں،ان کی رائے میرے نزدیک درست نہیں۔ یہ اختلاف تو صحابہ کے دور میں بھی تھا۔ کیاصحابہ میں ایسے لوگ نہیں ہوتے تھے جن کی رائے بہت سے مسائل میں عمومی رائے سے مختلف ہوتی تھی؟

مطیع سید : آپ ﷺ نے دعا فرمائی کہ یا اللہ کسی غیر قوم سے دشمن کو میری امت پر مسلط نہ فرما۔(کتاب الفتن، باب ما جاء فی سوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ثلاثا فی امتہ، حدیث نمبر ۲۱۷۵) کیا یہ دعا قبول ہو ئی؟ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا تو ہوا ہے۔صرف تاتاریوں کی ہی مثال دیکھ لیں۔

عمار ناصر : فتن سے متعلق احادیث میں یہ بات پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک خاص تاریخی دور کے تناظر میں پیش آنے والے حالات کی اطلاع دی گئی ہے۔ اس حدیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے مراد اہل عرب ہیں جن میں آپ کی بعثت ہوئی۔ ان کا تاریخ میں غلبے اور زوال کا ایک خاص دور ہے۔ یہ دعا اس خاص تناظرمیں عربوں سے متعلق ہے اور آپ کے بعد جو ان کے اقتدار اور پھر اس کے زوال کا زمانہ ہے، اس کے حوالے سے ہے۔ مراد یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی طرح اہل عرب کے اقتدار کا خاتمہ اس انداز میں نہ ہو کہ کوئی غیر قوم ان پر مسلط ہو کر انھیں اپنا غلام یا محکوم وغیرہ بنا لے۔ کتاب الفتن میں مروی رسول اللہ ﷺ کی زیادہ تر پیشین گوئیاں اس خاص دور سے متعلق ہیں۔ان کو ہر طرح کے حالات پر منطبق کرنا درست نہیں ہے۔

مطیع سید : خوارج کے بارے میں جو روایات ہیں، ان میں بھی آخری زمانے کے الفاظ آتے ہیں۔ (کتاب الفتن، باب فی صفۃ المارقۃ، حدیث نمبر ۲۱۸۸) کیا وہ بھی اسی مفہوم میں ہیں؟

عمار ناصر : جی، آخری زمانے کے الفاظ آپ کو روایات میں کئی جگہ نظر آئیں گے اور یہ بھی اسی کا قرینہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے خاتمے کے زمانے کی بات نہیں کر رہے۔ آپﷺ کی مراد یہ ہے کہ آپ جس امت میں مبعوث کیے گئے ہیں، اس کے استحکام اور قوت کا دور جب ختم ہونے والا ہوگا تو یہ واقعات وقوع پذیر ہوں گے۔

مطیع سید : عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ میرے والد کے پا س تشریف لائے اور فرمایا کہ آپ میرے ساتھ باغیوں کے خلاف لڑنے کے لیے چلیں۔انہوں نے جواب میں فرمایا کہ حضورﷺ نے فرما یاتھا کہ جب ایسی کوئی صورت حال ہو کہ مسلمان آپس میں لڑ پڑیں تو تم لکڑی کی تلوار بنا لینا اور اور لڑائی میں شریک نہ ہونا، اس لیے میں نے لکڑی کی تلوار بنا لی ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ یہ سن کر چلے گئے اور و ہ ا ن کے ساتھ نہیں گئے۔(کتاب الفتن، باب ما جاء فی اتخاذ سیف من خشب فی الفتنۃ، حدیث نمبر ۲۲۰۳) یہاں سوال یہ ہے کہ قرآن ِحکیم تو واضح طور پر حکم دیتا ہے کہ باغیوں کے ساتھ لڑو اور یہ فرما رہے ہیں کہ انہیں حضور ﷺ نے لڑنے سے منع فرمایا۔

عمار ناصر : دیکھیں، صحابہ کے دور میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی میں دو طرح کی صورت حال پیدا ہوئی۔ ایک صورت حال میں صحابہ کی جماعت مجموعی طور پر ایک طرف تھی اور خوارج وغیرہ کچھ گروہ ان کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس کے متعلق صحابہ کو کوئی شبہ نہیں تھا کہ حق کس طرف ہے اور کس کا ساتھ دینا چاہیے۔ دوسری صورت حال وہ تھی جس میں سیدنا عثمان کی شہادت کے بعد خود صحابہ صورت حال کی نوعیت متعین کرنے میں باہم تقسیم ہو گئے، کیونکہ بالکل واضح طور پر یہ طے کرنا مشکل تھا کہ حق کس طرف ہے۔ حضور ﷺ نے دراصل اس تناظر میں یہ بات کہی تھی کہ مسلمان جب آپس میں لڑنا شروع ہو جائیں تو تم نے لڑائی میں شریک نہیں ہونا۔ گویا عدیسہ کے والد، اہبان حضرت علی اور حضرت معاویہ کی لڑائی کو اسی تناظر میں دیکھ رہے تھے۔

مطیع سید : عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت کی ہے کہ قریش قیامت تک خیر و شر میں لوگوں کے حکمران رہیں گے۔(کتاب الفتن، باب ما جاء ان الخلفاء من قریش الی ان تقوم الساعۃ، حدیث نمبر ۲۲۲۷) یہاں تو قیامت تک کے الفاظ آ گئے ہیں۔کیا یہ وہی تناظر ہے جس کا آپ نے نبی ﷺ کے متصل بعد کے زمانے کے حوالے سے ذکر کیا؟

عمار ناصر : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشین گوئی ایک شرط کے ساتھ بیان فرمائی تھی کہ اگر قریش راہ راست پر قائم رہے تو ان کے اقتدار کا تسلسل بھی قیامت تک قائم رہے گا۔ یہ کوئی غیر مشروط پیشین گوئی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میرے خیال میں فتن کی روایتوں میں راویوں کا فہم بھی کافی شامل ہوگیا ہے۔آپ کو شروع کے دور میں صحابہ کے ہاں بھی یہ تصور ملے گا اور بہت سے لوگ بھی یہی سمجھ رہے تھے کہ جو بھی اس وقت صورت حالات قائم ہے،اسی کے رہتے ہوئے قیامت آجائے گی،یعنی قیامت کو لوگ بہت ہی قریب سمجھ رہے تھے۔اس لیے یہ بعید از قیاس نہیں کہ جو پیشن گوئیاں آپﷺ نے اس مخصوص دور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بیان کی تھیں، لوگوں نے اپنے فہم سے ان کو قیامت تک کے لیے سمجھ لیا ہو اور بالمعنیٰ روایت کرتے ہوئے اس طرح بیان بھی کر دیا ہو۔

مطیع سید : امام مہدی کے بارے میں جو روایات ہیں، (کتاب الفتن، باب ما جاء فی المہدی، حدیث نمبر ۲۲۳۰) کیا وہ ٹھیک ہیں؟ آپ کی ان کے متعلق کیا رائے ہے؟بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان میں بڑا اضطراب ہے اور بڑے مسائل ہیں۔ ان میں سے بعض میں تو بڑی متعین قسم کی تفصیلات بھی بیان کی گئی ہیں۔

عمار ناصر : اگر چہ محدثین ان کو طرق مختلف کی بنیا دپر قبول کرتے ہیں، لیکن مجھے ان میں وضع کا پہلو بڑا نمایاں نظر آتا ہے۔ بعض سند کے لحاظ سے بھی بالکل موضوع ہیں۔زیادہ تر ضعیف ہیں اور ان میں معنوی طور پر بھی کافی مسائل ہیں۔ ان کی صحت پر اطمینان نہیں ہوتا۔ باقی حقیقت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

مطیع سید : آپ ﷺنے لوگوں کو ہنسانے کے لیے بھی جھوٹ بولنے سے منع فرما یا، (کتاب الزہد، باب فی من تکلم بکلمۃ یضحک بہا الناس، حدیث نمبر ۲۳۱۵) جب کہ ہم عام طورپر ایسا کرتے رہتے ہیں۔یہ تو تمام معاشروں میں عام ہوتا ہے، عرب میں بھی ہوتا ہوگا۔اس قدر سختی کیوں ہے؟

عمار ناصر : ایک یہ ہے کہ آپ لطیفہ سنا رہے ہیں اور سننے والے کو بھی پتہ ہے کہ ایک فرضی بات ہے۔یہ تو اور چیز ہے۔لیکن آپ ایک بات اس طرح سنا رہے ہیں کہ لوگ یہ سمجھیں کہ واقعتا ایسا ہوا ہے اور اس غلط بیانی کا مقصد صرف یہ ہو کہ لوگ اس سے محظوظ ہوں۔اس کے متعلق آپﷺنے فرمایا ہے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔

مطیع سید : آپ ﷺ نے زمین پر ایک مربع کھینچا او ر کچھ لائنیں لگائیں اور فرمایا کہ یہ زندگی میں آنے والی آفات ہیں، ان سے اگر آدمی بچ جائے تو بالآخر مو ت سے ہمکنار ہوگا۔(کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، حدیث نمبر ۲۴۵۴) اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ موت کا وقت متعین نہیں، کسی آفت سے انسان اگر بچ گیا تو آخر میں پھر مر ہی جائےگا۔

عمار ناصر : یہ ہمارے حالات کے لحاظ سے ہے۔ اللہ کے علم میں تو طے ہی ہے، لیکن ہمیں نہیں پتہ کہ کب موت آجائے گی۔ہمارے تصور کے لحاظ سے یہ کہا گیا ہے کہ آدمی کو زندگی کی ناپائیداری کا احساس رہنا چاہیے۔

مطیع سید : اسلام غریب تھا اور پھر دوبارہ غریب ہو جائے گا تو غربا ء کے لیے خوشخبری ہے۔(کتاب صفۃ الجنۃ، باب ما جاء ان الاسلام بدا غریبا وسیعود غریبا، حدیث نمبر ۲۶۲۹) یہاں اسلام کے لیے غریب کا لفظ اجنبی کے معنوں میں ہے تو پھر غربا ء کے لیے خوشخبری کا اس سے کیا تعلق ہے؟ یعنی اسلا م کا غربت سے کیا تعلق ہے؟

عمار ناصر : یہاں غرباء سے مراد وہ نہیں جن کے پا س پیسے نہ ہوں۔ عربی میں فقر یا ناداری کے لیے غربت کی تعبیر استعمال نہیں ہوتی۔غرباء سے مراد بھی وہی لوگ ہیں جو حقیقی اسلام پر قائم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں اجنبی بن جائیں گے۔

(جاری)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۲)

مولانا سمیع اللہ سعدی

2۔کتب رجال انواع اقسام

ہر دو مکاتب ِ فکر کے علم رجال کی ابتدائی تاریخ کے تقابل کے بعد دوسری بحث یہ دیکھنے کی ہے کہ دونوں کے ہاں موجود رجالی تراث کا انواع اقسام کے اعتبار سے کیا تقابل بنتا ہے؟اہل علم جانتے ہیں کہ علم رجال کی کتب متنوع اقسام و انواع پر مشتمل ہیں، جن میں مختلف زاویوں سے رواۃِ حدیث پر بحث کی گئی ہے، ذیل میں ہم دونوں گروہوں کے علم رجال کی کتب کا اس اعتبار سے ایک جائزہ لیتے ہیں :

سنی رجالی تراث : انواع و اقسام

اہل سنت کے پاس جو رجالی سرمایہ موجود ہے، وہ بہت سی انواع پر مشتمل ہے، ذیل میں ان انواع اور اس کی نمائندہ کتب کا مختصرا ذکر کیا جاتا ہے:

1. کچھ ایسی کتب ہیں، جو خاص طور پر صحابہ کے تذکرے پر مشتمل ہیں، جیسے:

2. رجالی کتب میں سے کچھ ایسی کتب ہیں، جو صرف ثقہ رواۃ کے تذکرے پر مشتمل ہیں، جیسے:

3. علم رجال کی بعض کتب صرف ضعاف رواۃ کے تذکرے پر مشتمل ہیں، جیسے:

4. رجالی تراث کی ایک قسم ایسی کتب ہیں، جن میں ان رواۃ کا ذکر ہے، جنہیں متکلم فیہ کہا جاتا ہے، یعنی جن کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے، کوئی جرح کی ہو، خواہ وہ جرح موثر ہو یا نہ ہو، جیسے:

5. بعض کتب ایسی ہیں، جن میں ضعفاء و ثقات کی تمییز کئے بغیر سب کا ذکر ہے، جیسے :

6. بعض کتب ایسی ہیں، جو صحاح ستہ یا دیگر کتب ِ احادیث کے رواۃ کے تذکرے پر مشتمل ہیں، جیسے:

7. بعض ایسی کتب ہیں، جن میں صرف مدلسین رواۃ کا ذکر ہے، جیسے:

8. بعض کتب ایسی ہیں، جن میں حفاظ محدثین کا تذکرہ ہے، یعنی وہ محدثین، جنہیں کسی نہ کسی اعتبار سے علمِ حدیث میں امامت کا درجہ حاصل ہے، جیسے:

9. کچھ کتب ایسی ہیں، جو مختلطین رواۃ کے ذکر پر مشتمل ہیں، یعنی ایسے رواۃ جو حافظے کے اعتبار سے معتمد تھے، لیکن پھر کسی بیماری، حادثے یا ضعف عمر کی وجہ سے ان کا حافظہ بگڑ گیا، ان کی تعیین اس لئے ضروری ہے، تاکہ ان کے اوائل عمر و اواخر عمر یا قبل الاختلاط و بعد الاختلاط احادیث کی تمییز رہے، جیسے:

10. بعض کتب میں رواۃ کے طبقات بیان ہوئے ہیں، کہ کونسا راوی کس طبقے اور کس قرن سے تعلق رکھتا ہے ؟جیسے:

11. کچھ کتب میں ان رواۃ کی تفصیل دی گئی ہے، جو کنی و القابات سے معروف ہیں، یہ انتہائی اہم فن ہے، اس میں دس سے زیادہ قسم کے رواۃ کا بیان ہوتا ہے، جن کی کنیت و نام دونوں معروف ہوں، کوئی ایک معروف ہو، ایک سے زیادہ کنیتیں ہوں، پھر ان میں اختلاف ہے یا نہیں، الغرض متعدد قسم کے رواۃ کا ذکر ہوتا ہے جیسے:

12. بعض کتب ایسی ہیں، جن میں ان رواۃ کا ذکر ہے، جن کے نام، والد کے نام یا ان کی کنیت یا نسب خطا یا لفظا ایک ہو، جنہیں المتفق و الممفترق کہا جاتا ہے، جیسے:

13. کچھ کتب ایسی ہیں، جن میں ایسے رواۃ کا ذکر ہے، جن کے نام یا کنیت یا القابات خطا ایک جیسے ہوں، لیکن لفظا مختلف ہو، جیسے سلام تشدید کے ساتھ اور بغیر تشدید کے، اس نوع کی کتابیں، جیسے:

14. کچھ ایسی کتب ہیں، جو ایسے رواۃ کے تذکرے پر مشتمل ہوں، جو پچھلی دو اقسام سے مرکب ہوں1، انہیں متشابہ و مشتبہ کہا جاتا ہے، جیسے:

15. بعض کتب ایسی ہیں، جن میں ان رواۃ کا تذکرہ ہے، جو آپس میں بہن بھائی، بھائی بھائی بنتے ہیں، ایسے رواۃ کے الگ تذکرے کا مقصد یہ ہے تاکہ کسی بھی دو راویوں کے والد کے نام کو یکساں دیکھ کر انہیں بھائی نہ سمجھ لیا جائے، کیونکہ اس سے رواۃ کے طبقات و ازمنہ متاثر ہوتے ہیں، عین ممکن ہے، کچھ رواۃ میں صدیوں کا فرق ہو، لیکن دونوں کے والد کا نام یکساں ہو، اس قسم کی کتب، جیسے:

16. کچھ ایسی کتب ہیں، جن میں ایسے رواۃ کا تذکرہ ہے، جن سے صرف ایک راوی نے روایت لی ہو، ان سے مجاہیل کا پتا چلتا ہے، اس فن کی اہم کتاب امام مسلم نے "المنفردات و الوحدان" کے نام سے لکھی ہے، جو چھپ چکی ہے۔

17. کچھ کتب ایسی ہیں، جن میں ان رواۃ کا تذکرہ ہے، جن کا ہم نام کوئی نہیں ہے، کیونکہ ان کے نام عجیب و مشکل تلفظ والے ہوتے ہیں، جیسے عجیان، اجمد ایسے رواۃ کو المفردات من الاسماء و الالقاب و الکنی کہتے ہیں، اس فن پر چوتھی صدی ہجری کے محدث ابو بکراحمد بن ہارون البردیجی نے "الاسماء المفردۃ" کے نام سے کتاب لکھی ہے۔

18. بعض کتب ایسے رواۃ کے تذکرے پر مشتمل ہیں، جن کےا یک سے زائد القابات، اسماء، کنی اور صفات ہوتے ہیں، تاکہ ایک راوی کو متعدد نہ سمجھا جائے، اس کو خطیب بغدادی نے اپنی کتاب "الموضح لاوہام الجمع و التفریق " میں بیان کیا ہے۔

19. بعض ایسی کتب ہیں، جن میں مبھم رواۃ کی تعیین کی گئی ہے، یعنی وہ رواۃ، جو مختلف اسناد میں رجل، امراۃ یا کسی وصفِ غیر معروف سے مذکور ہوں، اس فن کی کتب جیسے:

20. بعض کتب رواۃ و رجال کے سنین و تواریخ وفات پر لکھی گئیں ہیں، جن کو وفیات کہتے ہیں، یہ انتہائی اہم ترین فن ہے، ان سے رواۃ کے طبقات اور ان کے لقاء و عدم لقاء کا پتا چلتا ہے، یوں اسناد میں انقطاعِ ظاہری یا مخفی کا علم ہوتا ہے، جیسے:

وفیات کی یہ سب کتب چھپی ہوئی ہیں، اس نوع کی اہمیت کی وجہ سے اس کی کتب زیادہ ذکر کیں، آگے (ان شا اللہ )جب شیعی علم رجال کی کتب ذکر ہوں گی، تو وفیات کے اعتبار سے خصوصیت کے ساتھ تقابل کیا جائے گا۔

21. بعض ایسی کتب ہیں، جن میں مخصوص صدی و قرن کے علماء و رواۃ کا ذکر ہوتا ہے، جیسے:

22. کچھ ایسی کتب ہیں، جو مخصوص بلا د و امصار کے رواۃ و رجال کے تذکرے پر مشتمل ہیں، جیسے:

23. کچھ ایسی کتب ہیں، جن میں مخضرمین کا ذکر ہے، یعنی وہ لوگ جنہوں نے زمانہ جاہلیت و زمانہ نبوت پایا، لیکن نبی ﷺ پر آپ کے زمانہ میں ایمان نہیں لائے، یوں وہ زمانہ نبوت میں ہونے کے باوجود تابعی کہلاتے ہیں، ان نوع کی مشہور کتاب برھان الدین سبط ابن العجمی (المتوفی 841ھ)کی "تذكرة الطالب المعلَّم لمن يقال : إنه مخضرم" ہے۔

24. کچھ کتب انساب و قبائل کے اعتبار سے رواۃ کےتذکرے پر مشتمل ہیں، جیسے:

25. بعض کتب ایسی ہیں، جو مشہور محدثین کے شیوخ و اساتذہ اور ان محدثین کے تذکرے پر مشتمل ہیں، جن سے اجازتِ حدیث حاصل ہے، جسے مشیخہ یا معجم الشیوخ کہا جاتا ہے، جیسے:

اس نوع کی کتب کثرت سے لکھی گئیں ہیں، اختصار کے پیشِ نظر صرف تین کتب کا ذکر کیا۔


حواشی

  1. اس لئے تعریفات کی فنی  جامعیت یا مانعیت کا اشکال نہ کیا جائے یہاں  تعریفات مقصد نہیں، صرف اقسام کے تعارف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
  2.  جیسے، کتب عن ابیہ عن اجدہ ،معرفۃ الاکابر من الاصاغر، معرفۃ الابناء من الاباء، معرفۃ الاقران وغیرہ
(جاری)

مسائل حسن و قبح پر معتزلہ و تنویری فلاسفہ کے موقف کا فرق

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

تحریر کا مقصد اسلامی تاریخ کے گروہ "معتزلہ" سے متعلق ہماری  تحریر و تقریر میں درآنے والی ایک عمومی غلط فہمی کی نشاندہی کرنا ہے۔ معتزلہ کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ شاید اسی قبیل کے افکار کا حامل گروہ تھا جیسے کہ جدید مغربی فلاسفہ یا ان سے متاثر جدید مسلم مفکرین کے افکار ہیں۔ یہ تاثر غلط بھی ہے اور غیرمفید  بھی ۔ اس کی غلطی اور غیر افادیت دونوں کو مختصرا چند نکات کی صورت واضح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

غلطی کی نوعیت

معتزلہ کے بارے میں جس بنا پر درج بالا تاثر قائم کیا جاتا ہے، وہ مسئلہ حسن و قبح (good and bad) پر ان کی خاص رائے ہے ۔ اسلامی تاریخ میں اس مسئلے کی نوعیت اس سوال سے متعلق ہے کہ آخرت میں خدا کے سامنے  جوابدہی  کی بنیاد کیاہے؟ اللہ تعالی اپنے بندوں کو کس عمل پر جزا دے گا اور کس پر سزا، انسان یہ کیسے جان سکتا ہے؟ یہ سوال اپنی وضع میں "اخروی" جہت لئے ہوئے ہے، یعنی خیر و شر کا تعلق محض اعمال کے دنیوی نتائج یا دنیوی خصائص کے اعتبار سے ان اعمال کی بناوٹ کے لحاظ سے نہیں بلکہ  آخرت میں نتائج کے اعتبار سے ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں معتزلہ کے موقف کا خلاصہ یہ ہے:

چنانچہ درج بالا نکات سے یہ واضح ہے کہ:

ان امور کے پیش نظر معتزلہ کو مغربی فلاسفہ کی طرح یا بعض سیکولر قسم کے مسلم مفکرین کی طرح قرار دینا نہ صرف غلط ہے بلکہ ان نئے لوگوں کو اسلامی  تاریخ سے ایک بنیاد یا نظیر فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ان نئے قسم کے لوگوں کی بات کے لئے اسلامی تاریخ میں کوئی نظیر موجود نہیں۔ رہا اشاعرہ کا معتزلہ کی اپروچ کو رد کرنا، تو اس بحث کا اپنا الگ مقام و حیثیت ہے لیکن اس تردید کا ان تاثرات سے تعلق نہیں جو عام طورپر معتزلہ کے بارے میں مشہور ہوگئے ہیں۔ یہ بات بھی یادر رکھنا چاہئے کہ محض مجرد اصول کسی کے موقف کو متعین کرنے کے لئے کافی نہیں ہوتے بلکہ یہ بھی دیکھنا لازم ہوتا ہےکہ اس فکر کے حاملین نے ان اصولوں کو کیسے اور کس حد تک برتا۔ چنانچہ حسن و قبح کی بحثوں میں معتزلہ ان اصولوں کو کیسے برتتے ہیں، اس کے لئے اصول فقہ پر ان کے علماء کی نمائندہ کتب دیکھنا چاہئیں  (جیسے کہ قاضی عبد الجبار کی "العمد" نیز ابو الحسین البصری کی "المعتمد") ۔

غیر افادیت کی نوعیت

مسئلہ حسن و قبح پر بحث میں جن امور کے پیش نظر معتزلہ کو تنویری فلاسفہ کے ساتھ ملایا جاتا ہے، ان مسائل میں اصولا علمائے ماتریدیہ کی بھی قریب قریب وہی رائے ہے جو معتزلہ کی ہے۔  چنانچہ علمائے ماتریدیہ بھی اللہ کی حکمت کے پیش نظر اعمال کے خصائص کے قائل ہیں، وہ بھی اعمال کو انہی تین اقسام میں تقسیم کرتے ہیں جو اوپر ذکر کی گئیں نیز  ان کی ایک اکثریت کے نزدیک بھی نبی کی بات پہنچے بغیر بذریعہ عقل اللہ پر ایمان لانا لازم ہے۔ جن اصولوں کے پیش نظر معتزلہ تکلیف مالایطاق کے قائل نہیں، انہی کے پیش نظر ماتریدیہ بھی قائل نہیں۔ معتزلہ کے بارے میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے گویا ان کے نزدیک بعض اعمال کی تکلیف واجب کرنے والی شے عقل ہے حالانکہ ان کا موقف یہ ہے کہ عقل ان کی تکلیف واجب کرنے والی نہیں  بلکہ اس کی کاشف یعنی وضاحت کرنے والی ہے، موجب خدا ہی کی ذات ہے اور یہی موقف ماتریدیہ کا ہے۔  یہ بات معلوم ہے کہ ماتریدی روایت اہل سنت میں احناف  کی روایت ہے۔ نہ صرف ماتریدی علماء بلکہ مسائل حسن و قبح میں علامہ ابن تیمیہ بھی تقریبا علمائے ماتریدیہ والی  رائے ہی رکھتے ہیں اور آپ بھی اللہ کی حکمت کے تقاضوں کے تحت تکلیف مالایطاق  جیسے امور کو ناجائز کہتے ہیں نیز علمائے معتزلہ  و ماتریدیہ کی طرح اعمال کے حسن و قبح کے عقلی ادراک کے لحاظ سے انہیں تین اقسام کے تحت رکھتے ہیں البتہ وہ ان کی تکلیف شرعی کے لئے صرف وحی کو بنیاد بناتے ہیں (علمائے ماتریدیہ  اور آپ کی رائے میں تعلق  و فرق یہ ہے کہ بعض ماتریدیہ کے نزدیک شکر منعم ماقبل شرع بھی واجب ہے جبکہ بعض ماتریدیہ  کے نزدیک یہ  واجب نہیں، اس اعتبار سے علامہ ابن تیمیہ  کی رائے ان دوسرے بعض کی طرح ہے)۔  ان سب کے برعکس علمائے اشاعرہ خیر و شر کے ادراک اور اس کی تکلیف ہر دو میں صرف شرع کو بنیاد بناتے ہیں۔ گوشوارہ نمبر 1 میں مختلف آراء کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔


چنانچہ جب ہم معتزلہ کو ان کے موقف کی بنا پر مغربی فلاسفہ یا سیکولر قسم کے مسلم مفکرین کے ساتھ ملاتے ہیں ، تو انجانے میں نہ صرف خود اہل سنت میں ماتریدی /  حنفی روایت کو غیر معتبر قرار دیتے ہیں بلکہ ان گمراہ فلسفیوں اور مسلم مفکرین کی آراء کو اہل سنت ہی کے اندر سے سند جواز فراہم کردیتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک  غلط فہمی ابو نصر فارابی اور ابن سینا جیسے مسلم فلاسفہ  کو معتزلہ کے ساتھ ملادینا ہے حالانکہ ان دونوں کی اپروچ میں بنیادی نوعیت کا فرق تھا (مثلا یہ کہ مسلم فلاسفہ نیو افلاطونی فکر کے زیر اثر تھے جبکہ معتزلہ اٹامسٹ تھیوری کے قائل تھے اور اسی نظرئیے  کو اشاعرہ و ماتریدیہ نے بھی قبول کیا، اسی طرح مسلم فلاسفہ کا تصور نبوت و معجزہ معتزلہ کے تصور نبوت و معجزہ سے مختلف ہے)۔ امام غزالی رحمہ اللہ کی "تھافت الفلاسفۃ " کے بعد علمائے معتزلہ نے بھی اسی طرز پر مسلم فلاسفہ کے رد پر کتب لکھیں (مثلا ابن الملاحمی کی کتاب "تحفۃ  المتکلمین فی الرد علی الفلاسفۃ")۔

الغرض معتزلہ کے پیش نظر نہ وحی کو رد کرکے من جملہ کسی عقلی اخلاقی نظام کو کھڑا کرنا مقصود تھا  اور نہ ہی ان کے ہاں انفرادی اور اجتماعی زندگی جیسی کوئی ایسی تقسیم موجود تھی جو شرع کو انفرادی زندگی تک محدود کرسکے۔ پس ان امور کے پیش نظر  تنویری فکر کے تناظر میں معتزلہ کے افکار پر گفتگو و بحث کرتے ہوئے ہمیں احتیاط سے کام لینا چاہئے  اور ایسے عمومی بیانات سے گریز کرنا چاہئے جو  نہ صرف یہ کہ علمی طور پر غلط ہیں  بلکہ جدید فاسد خیالات کو تاریخی سند فراہم کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتے ہیں  ۔ اس بے احتیاطی کا ایک بڑا نقصان یہ ہوسکتا ہے کہ اگر ہم معتزلہ کے بارے میں یہ تاثر قائم کرواتے رہے کہ وہ مسائل خیر و شر میں مغربی فلاسفہ جیسے خیالات رکھتے تھے اور پھر  کل کلاں کو مخلص مسلمان اصل ماخذات (یا پھر ثانوی انگریزی ماخذات) سے  یہ جانیں  گے کہ خود اہل سنت میں ماتریدی روایت کے حاملین  اور اسی طرح دیگر اہم افراد بھی تقریبا یہی خیالات رکھتے تھے تو ہم ان مسلمانوں کو اہل سنت ہی کے ایک گروہ سے برگشتہ کرنے کا باعث بن جائیں گے نیز ساتھ ہی ساتھ سیکولر و متجددین قسم کے مسلم مفکرین  کے مدعا کو مضبوط کردیں گے۔ اس ضمن میں زیادہ علمی اور محفوظ طریقہ بحث معتزلہ کو جدید فکر کے حاملین کی صفوں میں  لا کھڑا کرنا نہیں بلکہ ان سے الگ کرنا ہے۔

ہذا ما عندی، واللہ اعلم بالصواب۔

قرآن پر اجماع اور اس کا تواتر، ایمان بالغیب اور متشکک ذہن

ڈاکٹر عرفان شہزاد

اصطلاحات بعض اوقات بڑے بڑے حقائق کے لیے حجاب بن جاتی ہیں۔ خصوصاً ان لوگوں کے لیے جن کی نظر بیان حقائق کی بجائے الفاظ کی نامکمل تفہیم تک محدود رہ جاتی ہے۔

اجماع، تواتر اور ایمان بالغیب، مذہبی حلقوں میں استعمال ہونے والی یہ اصطلاحات محض مذہبی علم و عقائد کی ترسیل و تسلیم کے ذرائع نہیں ہیں جن کا دار و مدار تسلیمِ محض پر ہو۔ حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ انسانی ذرائع علم کا بیان ہوتا ہے۔ مذہب ، کسی بھی دوسرے علم کی طرح انسان کی انھیں فیکلٹیز سے مخاطب ہوکر ان حقائق کی طرف متوجہ کرتا ہے جو ان ذرائع علم کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ ان اصطلاحات کو جدید علم پر منطبق کر کے دکھایا جائے تو بات واضح ہو جائے گی۔

20 جولائی 1969 کو نیل آرم سڑانگ نے چاند پر قدم رکھا۔ یہ واقعہ پوری دنیا کے انسانوں کو اس وقت کے دستیاب ذرائع ابلاغ کی سہولیات کے ساتھ دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چنانچہ تما م دنیا نے اس کے وقوع پر اتفاق کیا۔ اس اتفاق راے کو مذہبی اصطلاح میں اجماع کہتے ہیں۔ چنانچہ چاند سے انسان کے وصال پر اجماع ہوگیا۔ پھر یہ واقعہ دنیا بھر کے  لوگوں نے رپورٹ کیا، اسے تواتر  کہتے ہیں۔ یہ تواتر اگلی نسلوں کو منتقل ہوا اور آج ہمیں اس واقعہ کے وقوع پر ایسا یقین ہے جیسے ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہو۔

آج کا انسان جب اس واقعہ کو سنتا، پڑھتا ہے تو  کسی تفصیل و تفتیش میں پڑے بغیر اس پر یقین کرتا ہے، وجہ یہی کہ سبھی لوگ اس پر یقین کرتے ہیں، اسے بیان کرتے ہیں اور کتابوں میں یہ لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس واقعہ کی سند نہیں مانگی جاتی کہ کس نے بتایا کس کو بتایا، کتنے لوگوں نے بتایا، کس کتاب میں پہلی بار یہ لکھا ہوا ملتا ہے۔ اس پر یقین کی ابتدا آج کے علم و یقین سے ہوتی ہے۔ ماضی کے ایسے تمام واقعات کے بارے میں یہی کیا جاتا ہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ کیا واقعی سکندر اعظم کوئی شخص تھا جس سے اپنے وقت کی معلوم دینا کا آدھا حصہ فتح کر لیا تھا، جو ہندوستان اور پنجاب پر بھی حملہ آور ہوا تھا۔ اجماع و تواتر خود اپنی سند ہوتے ہیں۔ ان کی تصدیق کے لیے ان کی سند اور ڈاکیومنٹیش کی بحث کرنا ایک غیرعلمی حرکت سمجھا جاتا ہے۔ سند اور ڈاکیومنٹیشن کی بحث اختلاف کی صورت میں اور تفصیلات کے حصول کے لیے کی جاتی ہے، اجماع و تواتر سے منتقل ہوئے نفس واقعہ کی تصدیق کے لیے نہیں۔

اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔ ایک طرف  چاند پر انسان کی رسائی کے اس واقعہ پر ہمہ گیر اتفاق ہے، دوسری طرف ہمارے پاس ایسی اختلافی روایات بھی موجود ہیں جو بتاتی ہیں کہ کچھ لوگ اس وقوعہ پر یقین نہیں رکھتے۔ ایسے لوگ اس وقت بھی موجود تھے جنھوں نے اس واقعہ کو ڈرامہ قرار دیا۔ آج کا یا مستقبل کا کوئی "ذہین متشکک" اس واقعہ پرانسانوں کے اس ہمہ گیر  اتفاق یعنی اجماع و تواتر کو نظر انداز کر کے ان اختلافی روایات کی بنیاد پر یہ دعوی کر ڈالے کہ اس واقعہ پر اجماع و تواتر کا دعوی مشکوک ہے، اس پر ہمہ گیر اتفاق کی کوئی حقیقت نہیں اور ثبوت میں وہ بیانات، اخبارات کے کالمز، اور یوٹیوب پر موجود ویڈیوز کے حوالے دے، تو اس عبقریت پر جو جواب اسے ملنا چاہیے معلوم  ہے۔

یہی معاملہ قرآن مجید کا ہے۔ یہ خدا کا کلام ہے یا نہیں، یہ الگ بحث ہے، یہ مابعد الطبیعی دعوی ہے، جس کا تعلق موجودہ ذرائع علم کی بحث سے نہیں ہے۔ لیکن قرآن مجید کے ایک متن پر اِس وقت کے موجود مسلمانوں کا ہمہ گیر اتفاق ایک زندہ اور قابل مشاہدہ حقیقت ہے۔ قرآن مجید کے بارے میں دوسرا ہمہ گیر اتفاق اس پر ہے کہ یہ وہی کلام ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ سے صادر ہوا تھا۔ آج کا یہ اجماع، بغیر تواتر کے ممکن نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ آج کے اس اجماع و تواتر کو مد نظر رکھا جائے گا اور کسی تفصیل میں پڑے بغیر، آنکھوں کے سامنے کھڑی اس حقیقت کو تسلیم کیا جائے گا کہ قرآن مجید کے متن پر کوئی اختلاف نہیں ہے اور اس کا اتنساب محمد رسول اللہ ﷺ سے ہونا بھی قطعی ہے۔

اجماع و تواتر پر کسی فرد یا گروہ کا بس نہیں چلتا۔ نہ ان وہ اسے جاری کر سکتے ہیں نہ روک سکتے ہیں۔ قرآن کے متن پر اتفاق اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے وقت میں نہ ہوتا تو آئندہ یہ کبھی ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ اس وقت کسی فرد کو بالفرض  اپنی کم علمی کی بنا پر قرآن کا کوئی لفظ یا سورت معلوم نہ تھی، تو یہ معاملہ فرد کا تھا جس سے اجماعی علم متاثر نہیں ہوتا۔ ایسے ہی جیسے ہمارے بچوں کو کوئی لفظ پڑھنا نہیں آتا یا انھیں کسی سورت کا علم نہیں ہوتا، یا یہ انھیں معلوم نہیں ہوتا جنھوں نے قرآن نہیں پڑھا ہوتا۔ اس سے قرآن پر مسلمانوں کا اجماع و تواتر متاثر نہیں ہوتے، فرد ہی سے کہا جائے گا کہ اپنا علم اجماع و تواتر کے مطابق درست کرے۔

قرآن پر اجماع اور اس کے تواتر کی بنا پر سند کی بحث نہیں کی جاتی کہ اسے کس نے لکھا، کس کو لکھوایا، کس نے محفوظ کیا، کس نے پھیلایا۔ یہ افراد کا کام نہیں تھا۔ یہ کام پوری امت نے دوسری نسل کے لیے کیا اور انھوں نے آئندہ نسل کے لیے اور یوں سلسلہ چلتا رہا، بالکل ایسے ہی جیسے آج کے مسلمان کرتے ہیں۔ سبھی اپنے بچوں کو ایک ہی  قرآن پڑھاتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ علما اس کا درس دیتے ہیں مفسرین تفسیریں لکھتے ہیں۔ فقہا اس سے مسائل اخذ کرتے ہیں ہر مسلمان اس سے کسی نہ کسی درجے میں جڑا ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دستاویزی بحث بھی قرآن کے بارے میں نہیں کی جا سکتی کہ قرآ ن کا سب سے قدیم نسخہ کون سا ہے۔ یہ بحث ان متون کے بارے میں کی جاتی ہے جن پر اختلاف ہوتا ہے یا وہ جو پہلی دفعہ دریافت ہوتے ہیں۔ مسلمانوں نے قرآن کے قدیم نسخے سنبھالنے کی کوئی ذمہ داری اٹھا نہیں رکھی تھی۔ قدیم نسخے وہ کیوں سنبھالتے جب کہ ہر لمحہ تازہ نسخے تیار ہوتے رہتے تھے۔

اب اس  ہمہ گیر اتفاق یا اجماع و تواتر کے مقابل ہمارے پاس چند اخبار احاد ہیں جو بتاتی ہیں کہ قرآن کے متن میں اختلاف تھا اور ہے۔ یہ تاریخی لڑیچر میں اخبار احاد کی شکل میں موجود ہیں، یعنی کچھ لوگ یہ کہتے تھے، مگر امت کے اجماع و تواتر پر ان روایات نے کبھی کوئی اثر پیدا نہیں کیا۔ مسلمان کبھی کنفیوز نہ ہوئے کہ اجماعی قرآن کے مقابلے میں یہ کہانیاں کیا کہتی ہیں۔ قرآن کا اجماع و تواتر بغیر کسی تردد کے ہمیں آج منتقل ہو گیا۔

قرآن مجید کے متن کی محفوظیت کے معاملے میں سب سے زیادہ متہم اہل تشیع ہیں۔ ان کے لڑیچر میں ایسی روایات موجود ہیں کہ قرآن بدلا گیا، اس میں تحریف کی گئی۔ مگر خود اہل تشیع کے مین اسٹریم، یعنی جمہور اہل علم اور عوام نے قرآن کے متن کی محفوظیت کے خلاف ان روایات کو تسلیم نہیں کیا، انھیں رد کیا یا ان کی تاویل کی۔ شیعہ امت کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہمیشہ سے اسی طرح اپنے بچوں کو پڑھاتے اور حفظ کراتے آ رہے ہیں جیسے باقی مسلمان کرتے ہیں۔ ان کے علما فقہا اس سے ہمیشہ منسلک رہے اور درس دیتے رہے تفساسیر لکھتے رہے، بلکہ اہل تشیع میں قرآن کے حفظ کو ایک مزید حیرت انگیز طریقہ سے کرنے کا رواج ہے اور وہ یہ کہ وہ ترجمہ کے ساتھ حفظ کراتے ہیں۔ بچے کو ہر آیت کا نمبر، جس صفحہ پر آیت ہو، اس کا صفحہ نمبر تک یاد کرایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ انھیں یہ بتائیں کہ فلاں صفحہ پر فلاں نمبر آیت کون سی ہے تو وہ یہ بھی بتا دیں گے۔ جامعہ کوثر میں یہ تجربہ راقم نے خود کیا تھا۔ جس کو تصدیق کرنا ہو وہ جامعہ کوثر جا کر ان بچوں سے مل سکتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ قرآن مجید کے اجماع و تواتر کے باوجود اس  کے متن کی محفوظیت پر شکوک کا اظہار کرنے والا "جری" ذہن، قرآن کے متن کے بارے میں اختلاف بیان کرنے والی ان روایات پر شکوک کا اظہار کیوں نہیں کرتا جو خود مشکوک ہیں؟ یہ افواہ چھوڑ دینا کسی کے لیے کیا مشکل تھا کہ قرآن کے متن پر اتفاق نہیں تھا، یا قرآن کے کسی لفظ کے پڑھنے میں کچھ لوگوں میں اختلاف ہوا تھا، یا یہ کہ فلاں سورت کی جگہ یہ نہیں کوئی اور تھی، یا یہ کہ ایک خلیفہ نے قرآن کے سارے نسخے جلا کر سب کو قرآن کی ایک قراءت پر اکھٹا کیا تھا یا کہ عراق کے ایک گورنر نے قرآن میں گیارہ مقامات میں تبدیلی کرا دی تھی۔ جس حوصلے کے ساتھ قرآن کے اجماع و وتواتر کے خلاف ایک غیر علمی موقف اپنانے کی جلدی کی گئی ہے، اسی حوصلے سے ان روایات پر تنقیدی نظر ڈالنے سے گریز کیوں کیا گیا ہے؟ وہ جو قرآن کے ساتھ احادیث کے ذخیرے ہی کو معتبر تسلیم نہیں کرتے، ان روایات کو کیوں تسلیم کرتے ہیں؟ اسی تنقیدی ذہن سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ کیا وجہ ہے کہ اس ایک خلیفہ کی ایک قرآن پر امت کو جمع کرنے والی رویت کا مدار صرف ایک شخص (شہاب الدین زہری) پر کیوں ہے جب کہ یہ واقعہ پورے عالم اسلام میں ایک ہمہ گیر آپریشن کا ہے، جسے ان گنت لوگوں کو بیان کرنا چاہیے تھا۔ یہ واقعہ تو تواتر سے بیان ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہے۔ کیا محض یہی بات اس کہانی کو مشکوک نہیں بنا دیتی؟

پھر اسی کہانی میں یہ بیان کہ قرآن کے متن کو بغیر اعراب اور نقطوں کے لکھا گیا تھا، اس سے ایک قراءت پر جمع ہونے میں کیا مدد مل سکتی تھی؟

ان روایات پر وہ "ذہانت" (اگر اسے ذہانت کہا جا سکے)، کیوں نہیں آزمائی گئی جس کے ذریعے سے قرآن کے ایک متن پر ہمہ گیر اتفاق جیسی حقیقت کو نظر انداز کرنے کارنامہ سر انجام دے دیا گیا؟

ایک طرف اجماع و تواتر ہیں جو ان کے نزدیک مشکوک ہیں اور دوسری طرف  مشکوک روایات ہیں جو ان کے نزدیک معتبر ہے۔ اس رویے کو کیا نام دینا چاہیے؟ کسی بھی معیار سے یہ علمی رویہ بہرحال نہیں ہے۔

قرآن مجید کے خدا کا کلام ہونے یا نہ ہونے کی بحث تو کی جا سکتی ہے مگر اس کے واحد متن کی محفوظیت پر اعتراض محض علمی غلطی ہی نہیں، بلکہ غیر علمی حرکت ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہ کہنا کہ قرآن کے علاوہ بھی ماضی کی بعض کتب کا ایک ہی متن اور ایک ہی ورژن محفوظ رہا ہے، اس لیے قرآن کے متن کا محفوظ رہ جانا کوئی معجزہ نہیں، چند بنیادی باتوں کو نظر انداز کیے بنا ممکن نہیں۔ قرآن اور دیگر محفوظ کتب کی محفوظیت میں فروق ہیں۔

پہلا یہ کہ ان کتب کے متن کا محفوظ رہ جانا اتفاقی امر ہے۔ اس کا دعوی نہیں کیا گیا تھا کہ ایسا ہوگا۔ جب کہ قرآن مجید نے خود یہ دعوی کیا  تھا کہ یہ محفوظ رہے گا۔ اور یہ دعوی تب کیا گیا جب متن کے محفوظ رہ جانے کے وسائل دستیاب نہ تھے۔ چنانچہ اس کے متن کی حفاظت باقاعدہ منصوبے اور دعوی کا نتیجہ ہے۔ کیا یہ دعوی اور یہ نتیجہ کسی دیانت دار ذہن کو اپیل نہیں کرتا؟ یہ حقیقت اگر کسی ذہن کو متاثر نہیں کرتی تو یہ ذہن دیانت دار نہیں کہا جا سکتا۔ یہ متعصب ذہن ہے جس کا علاج خود اس کے سوا کسی کے پاس نہیں۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ کیا اُن محفوظ رہ جانی والی کتب کے مصنفین سے ان کتب کا انتساب بھی اتنا ہی محفوظ اور قطعی ہے جتنا قرآن کا انتساب اپنے مصدر (دنیا میں محمد رسول اللہ ﷺ) سے؟ علم و دیانت کو اس سوال کا جواب بھی معلوم ہے۔

دوسرا نکتہ ایمان بالغیب کا ہے۔

نظریہ ارتقا اور بیگ بینگ تھیوری اپنے آثار و شواہد کی بنا پر تسلیم کیے گئے ہیں۔ یہی ایمان بالغیب ہے۔ ان پر اب ایسا تیقن ہو چکا ہے کہ ان کا انکار کرنا مضحکہ خیز سمجھا جاتا ہے۔ آثار و شواہد کی بنا پر کسی ایسے نتیجے پر پہنچنا جس سے ان آثار و شواہد و مظاہر کی توجیہ ہو جائے، اور خود اس نتیجہ یا نظریہ کو مشاہدہ اور تجربہ کر کے پرکھا نہ جا سکے، اسے ایمان بالغیب کہتے ہیں۔ خدا پر ایمان لانے کے لیے انسان کی اسی فیکلٹی کو استعمال کیا گیا ہے۔

ہم جانتے ہیں کائنات کا وجود اپنی تخلیق کی توجیہ چاہتا ہے۔ انسان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اس کی توجیہ کرے اور بتائے کہ کس طرح ایک معنی خیز کائنات وجود میں آئی ہے جس کے مختلف اجزا باہم مل کر نہایت پیچیدہ نتائج پیدا کرتے ہیں۔ یہ مشاہدہ ہے کہ کائنات کے مختلف اجزا ایک مہا منصوبے میں باہم بندھے ہوئے ہیں۔ یہ منصوبہ کہیں کامل اور کہیں ناقص ریاضیاتی بنیادوں پر قائم ہے، مگر ہے بے حدپیچیدہ، کرشماتی اور حیرت افزا۔

اس تخلیق اور مہا منصوبے کے پیچھے کسی باشعور ہستی کو فرض کرنا ہے یا بے شعور قوت کو؟ ساری بحث بس یہی ہے۔ انسان جس نتیجے پر بھی پہنچے، وہ ایمان بالغیب ہی کا نتیجہ ہوگا، کیونکہ خدا ہو یا بے شعور قوتیں ان کو یہ سب برپا کرتے ہوئے انسان نے نہیں دیکھا۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ زیادہ معقول بات کیا ہے؟ یہ تخلیق اور منصوبہ کسی ذی شعور ہستی کا ہے یا بے شعور قوتوں  سے پیدا ہونے والا اتفاقی حادثہ؟ اس سوال کا معقول جواب کیا ہونا چاہیے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

 قرآن اسی استدلال پر مبنی ہے کہ یہ سب برپا کرنے والی ایک زندہ باشعور ہستی ہے جس نے یہ سب ایک مقصد کے تحت برپا کیا ہے۔ یہ ایک علمی مقدمہ ہے۔

کوئی اس نتیجے کو مانے یا نہ مانے مگر اس مقدمے کو غیر علمی نہیں کہا جاسکتا۔ کوئی اگر پھر بھی مُصر ہے کہ خدا پر ایمان بالغیب غیر علمی مقدمے کا نتیجہ ہے تو اسے معلوم نہیں کہ علمی مقدمہ ہوتا کیا ہے۔ یہ دیانت دار ذہن نہیں ہے، یہ متعصب ذہن ہے جس کے آزار کا چارہ اس کے سوا کسی اور کے پاس نہیں۔

تیرے آزار کا چارہ نہیں نشتر کے سوا
اور یہ سفاک مسیحا مرے قبضے میں نہیں
اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں
ہاں مگر تیرے سوا تیرے سوا تیرے سوا


افغانستان کی موجودہ صورت حال اور ہماری ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

آج کل افغانستان کی صورتحال دینی اور سیاسی حلقوں میں، تقریباً ہر جگہ زیر بحث ہے اس مناسبت سے دو تین گزارشات میں عرض کرنا چاہوں گا۔

پہلی بات یہ کہ افغان قوم کی عظمت اور حریت پسندی کو سلام ہو کہ اس نے بیرونی دخل اندازی اور غیر ملکی تسلط کو ہمیشہ کی طرح اب بھی مسترد کر دیا ہے۔ افغانستان پر برطانیہ نے قبضہ کی کوشش کی تھی جب انہوں نے متحدہ ہندوستان پر قبضہ کیا تھا تو برطانیہ کو ناکامی ہوئی تھی۔ پھر روسی فوجیں آئیں، یہ تو ہمارے سامنے کا معاملہ ہے، اور اپنا پورا زور صرف کیا مگر افغانستان نے بحیثیت افغان قوم قبول نہیں کیا، سوویت یونین کی افواج کو ناکام واپس جانا پڑا بلکہ اس کے نتیجے میں خود سوویت یونین بکھر کر رہ گئی۔ تیسرا مرحلہ یہ کہ جب امریکی اتحاد کی فوجیں آئیں تو افغان قوم نے اس کو بھی قبول نہیں کیا اور مزاحمت کی، اتنی شاندار مزاحمت کی کہ روس کے خلاف مزاحمت میں افغان قوم کو امریکی بلاک، عالم اسلام اور بہت سے ملکوں کی حمایت حاصل تھی، ایک لحاظ سے پوری دنیا ان کے ساتھ تھی، روس کے سارے مخالفین ان کے ساتھ تھے، لیکن امریکی اتحاد کی فوجی یلغار کے خلاف مزاحمت میں وہ تنہا تھے، ان کو درپردہ کسی کی حمایت حاصل ہوئی ہو تو ہو لیکن بظاہر پوری دنیا ان کی مخالف تھی بلکہ ان کا نام لینا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا، اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا فرمائی۔ اس پر یہ بات ایک دفعہ پھر واضح ہو گئی کہ افغان قوم خود پر کسی دوسرے کا تسلط قبول نہیں کرتی، یہ تیسرا تاریخی واقعہ ہے، افغان قوم کو اس پر سلام۔

دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ یہ تقریباً تین پشتوں کی جنگ تھی، اب جب جنگ انتہا کو پہنچی ہے تو اللہ تعالیٰ نے مہربانی کی ہے کہ کابل کسی نئی خون ریزی سے بچ گیا ہے۔ یہ پوری دنیا کے لیے حیران کن بات ہے کہ طالبان کابل میں پرامن طریقے سے داخل ہوئے ہیں، کابل نے مزاحمت نہیں کی اور بغیر کسی لڑائی کے کابل طالبان کے کنٹرول میں آ گیا ہے، اس پر خوشی کا اظہار الفاظ میں نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تاریخ پر نظر رکھنے والے حضرات ہی جانتے ہیں کہ کتنا بڑا معجزانہ واقعہ ہوا ہے کہ کابل کسی مزاحمت کے بغیر سرنڈر ہو گیا ہے۔

جبکہ پورے افغانستان میں ایسی صورتحال ہے کہ افغانیوں نے عمومی طور پر طالبان کی دوبارہ آمد پر مسرت کا اظہار کیا ہے، پھول پیش کیے جا رہے ہیں اور ان کا خیرمقدم کیا جا رہا ہے۔ یہ افغان قوم کے اجتماعی مزاج کی نشاندہی کرتا ہے کہ افغان قوم جہاں حریت پسند ہے کہ کسی دوسرے کا تسلط قبول نہیں کرتی، اسی طرح افغان قوم نے غیر ملکی تہذیب اور غیر ملکی نظریات کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اسلام کے ساتھ، شریعت کے قوانین کے ساتھ، افغان قوم کی تہذیب و روایات کے ساتھ افغان قوم کی کمٹمنٹ آج بھی قائم ہے اور اس کا ایک بار پھر اظہار ہو گیا ہے۔ یہ خوشی کی بات ہے جس پر ہمیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر ادا کرنا چاہیے ،طالبان کو مبارکباد دینی چاہیے اور افغان قوم کے ساتھ یکجہتی و ہم آہنگی کا اظہار کرنا چاہیے۔

اس کے ساتھ اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ افغانستان کے روشن مستقبل کے حوالے سے دو باتیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ افغانستان کو تقسیم کرنے کی بہت دفعہ کوشش ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوئی کہ تقسیم نہیں ہوا اور افغانستان کی وحدت قائم ہے۔ دوسرا افغان قوم کی شریعت اور اپنی تہذیب کے ساتھ کمٹمنٹ قائم ہے، الحمد للہ۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان کے اس جذبے کو سراہا جائے اور افغانستان کی وحدت و سالمیت کو سپورٹ کیا جائے۔

افغانستان اور افغان قوم کی اس وقت سب سے بڑی ضرورت قومی وحدت کا ماحول قائم کرنا اور قائم رکھنا ہے۔ پہلے بھی افغان قوم کو کئی بار تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی، اب مزید کوششیں ہوں گی، زبان کے حوالے سے، نسل کے حوالے سے، مذہب کے حوالے سے، مسلک کے حوالے سے، فرقے کے حوالے سے، تقسیم کے کئی بیج بوئے جا رہے ہیں۔ میں اپنے بھائیوں سے، اپنے ساتھیوں سے عرض کروں گا کہ افغان قوم کو اپنی وحدت کا ماحول قائم کرنے دیجیے، کسی قسم کی تفریق کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، نہ مذہبی، نہ مسلکی، نہ سیاسی، نہ لسانی، نہ علاقائی۔ اگر قومی وحدت کا ماحول قائم رہے گا تو شریعت کے ساتھ اور افغان قوم کی روایات کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ قائم ہے ، ان کو آگے بڑھنے کا موقع ملے گا، ان شاء اللہ العزیز۔ ہمیں اس وقت ان کے لیے دعا کرنی چاہیے، اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے، ان کی قومی وحدت کو سپورٹ کرنا چاہیے، شریعت اور افغان قوم کی تہذیب کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ کو سلام کرنا چاہیے، اور ان کے خلاف کسی قسم کی سازش میں حصہ نہیں بننا چاہیے، شعوری طور پر بھی نہیں اور غیر شعوری طور پر بھی نہیں۔

تیسری بات، ایک عرصہ سے یہ جنگ چل رہی ہے، نصف صدی تو ہمیں بھی ہو گئی ہے اس جنگ کو دیکھتے ہوئے، کئی پشتوں سے یہ جنگ چل رہی ہے۔ اب یہ ماحول سامنے ہے کہ دنیا بھر سے تنقیدی تبصرے آ رہے ہیں، باقی دنیا تو جو کرتی ہے کرے، مگر افغانستان کے ساتھ، طالبان کے ساتھ، شریعت کے ساتھ اور افغان تہذیب کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے حضرات تو کم از کم اس جال میں نہ پھنسیں۔ سب سے مشکل مرحلہ یہ ہے کہ ہمدردی رکھنے والے دوست بھی جال کا شکار ہو رہے ہیں، کبھی ایک حوالے سے کبھی دوسرے حوالے سے۔ بہت سے حلقے اپنے اپنے فارمولے، اپنی اپنی تجاویز، اپنے اپنے تبصرے پیش کر رہے ہیں، ایک طوفان برپا ہے دنیا میں منفی پراپیگنڈے کا، کردار کشی کا، جس کا ہم بھی حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ میری یہ درخواست ہے اہل دین سے کہ طالبان کو سیٹ ہونے کے لیے وقت دیں۔ ہمارے اپنے اپنے فارمولوں نے ہمارا کیا حشر کر رکھا ہے کہ ہم ان کو مشورہ دیں گے؟ ہم خود ستر سال سے فارمولوں کی جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سب دوستوں سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ خدا کے لیے اپنے ستر سال کے ناکام تجربے ان کے سر مت تھوپیے، ان کو آزادی سے کام کرنے دیجیے، وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں افغانستان کو بھی، اپنے مستقبل کو بھی، قومی تقاضوں کو بھی، اور شریعت کو بھی ہم سے بہتر سمجھتے ہیں، وہ مبتلٰی بہ ہیں اور شرعًا مبتلٰی بہ کی رائے کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔

میں برطانیہ کے چیف آف ڈیفنس سٹاف کے اس بیان کا خیرمقدم کروں گا کہ انہوں نے وہی بات کی ہے جو میں عرض کر رہا ہوں، آج کے اخبارات میں چھپی ہے کہ طالبان کو وقت دیں اور کام کرنے کا موقع دیں۔ میری گزارش ہے کہ روس نے کتنا وقت لیا؟ دس سال۔ امریکہ نے کتنا وقت لیا؟ بیس سال۔ ان غریبوں کو دس سال کا وقت تو دیں کہ اپنی مرضی سے کچھ کر سکیں، اور دیکھیں کہ اپنی ترجیحات کے مطابق وہ کیا کرتے ہیں۔ میں برطانیہ کے کمانڈر کی اس بات کو سراہوں گا اور سب لوگوں سے درخواست کروں گا کہ ’’امارتِ اسلامیہ افغانستان‘‘ کو اپنی قوم کو اعتماد میں لینے کا موقع دیجیے، اپنے نظام کو مرتب کرنے اور نافذ کرنے کا موقع دیجیے، اور چند سال دیکھیے پھر سارے تبصرے کر لینا، جس نے مثبت کرنا ہے مثبت کر لے، جس نے منفی کرنا ہے منفی کر لے۔ فی الوقت ان کو آزادی کے ساتھ اپنے مستقبل کی تشکیل کا موقع دیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی نصیب فرمائیں اور ہمیں ان کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

مدرسہ ڈسکورسز کی اختتامی نشست کا احوال

ڈاکٹر حافظ محمد رشید

مدرسہ ڈسکورسز کا سمر انٹینسو 14 جولائی تا 17 جولائی بھوربن مری میں منعقد کیا گیا۔ ورکشاپ کا عنوان " فلسفہ، کلام اور جدیدیت" تھا۔ ان عنوانات پر ملک کے چنیدہ اہل علم کو اظہار خیال کے لیے مدعو کیا گیا جن میں ڈاکٹر سید محسن نقوی، ڈاکٹر محمد خالد مسعود، ڈاکٹر زاہد صدیق مغل، ڈاکٹر حسن الامین اور خورشید احمد ندیم شامل ہیں۔ ۱۴ جولائی کو پہلے سیشن میں ڈاکٹر سید محسن نقوی کی گفتگو کا عنوان تھا Philosophy in Shi’i Intellectual Tradition۔ اسی دن ظہر کے بعد کے سیشن میں Goodness and Badness in Human Actions کے عنوان پر مولانا ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر، مولانا زید حسن اور ڈاکٹر زاہد صدیق مغل نے اظہار خیال کیا۔ دوسرے دن کے پہلے سیشن میں  Islam and Modernity  کے عنوان پر جناب ڈاکٹر خالد مسعود کا پرمغز لیکچر ہوا جبکہ دوسرے سیشن میں Secularism in Pakistan کے عنوان پر جناب خورشید احمد ندیم نے اور  Post Islamism  کے عنوان پر ڈاکٹر حسن الامین نے شرکاء کی راہنمائی کی۔ تیسرے  دن کے سیشن  میں مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر نے Charles Taylor  کی کتاب A Secular Age  کے منتخب مباحث کا تعارف پیش کیا۔

چوتھا دن ورکشاپ کا اختتامی دن تھا جس میں ممتاز اہل علم کو بطور مہمان خصوصی دعوت دی گئی تھی جن میں چئیرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز، جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد  کے شیخ الحدیث مولانا مفتی محمد زاہد، البصیرہ ٹرسٹ کے چئیرمین جناب ثاقب اکبر، اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ڈاکٹر ابو الحسن محمد شاہ الازہری، انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی سے پروفیسر ادریس احمد آزاد اور الشریعہ اکادمی کے ڈائریکٹر و شیخ الحدیث مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ علامہ زاہد الراشدی شامل تھے۔ اختتامی نشست میں مولانا ڈاکٹر عمار خان ناصر نے مہمان گرامی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کا تفصیلی تعارف پیش کیا، شرکاء میں سے چند احباب نے پورے پروگرام کے حوالے سے اپنے تاثرات بیان کیے اور آخر میں مہمان گرامی نے اپنے وقیع خیالات سے شرکاء کو مستفید کیا۔ اختتام پر سب شرکاء اور مہمانان خصوصی کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔


شرکاء کے تاثرات


مدرسہ ڈسکورسز کے تینوں بیچز کے منتخب شرکاء نے اختتامی نشست میں حسب ذیل تاثرات پیش کیے۔

مولانا عبد الغنی محمدی

میں دو چیزیں بیان کرنا چاہوں گا۔ پہلے وہ چیزیں جو ہم نے یہاں سے سیکھیں اور دوسری وہ چیزیں جو مجھے لگتا ہے کہ اس کورس کے مسائل ہیں۔  ہم نے اس کورس میں انگلش زبان سیکھی جس کا ہمیں معاشرتی زندگی میں بہت فائدہ ہوا۔ کئی جگہ پر جاب کے لیے انٹرویوز اسی بنیاد پر بہت اچھے ہوئے اور کئی دیگر جگہوں پر پروفیشنل فیلڈ میں بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔  اس کورس سے قبل سائنس اور فلسفہ سے ہماری آشنائی نہ ہونے کے برابر تھی، مدرسہ ڈسکورسز کے ذریعہ ان دونوں موضوعات سے بہت اچھی آشنائی ہو گئی۔ورلڈ ویو کیا ہوتا ہے، کیسے بنتا ہے اور کون کون سی چیزیں اس کا حصہ ہوتی ہیں، مختلف ادوار میں کون سے ورلڈ ویو رہے، ان کے اثرات کیا تھے۔ اس سب کا   پہلا تعارف اسی کورس میں ہوا۔ فلسفہ کی تاریخ عا م فہم انداز میں، بڑے بڑے فلاسفہ کا تعارف، فلسفے کے مختلف رجحانات اور مناہج کا تعارف بھی اس کورس کے فوائد میں شامل ہے۔ اپنی تراث ہم مدارس میں پڑھتے ہیں، لیکن مدرسہ ڈسکورسز میں اس کو مختلف انداز و زاویہ سے دیکھنے اور گہرائی سے سمجھنے کا موقع ملا۔  اس سے ہمارے  علم و فکر اور مطالعہ کے موضوعات میں وسعت آئی۔

اس کورس کے مسائل میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ ایسا لگتا رہا کہ یہ سب ابحاث عملیت سے خالی ہیں کہ جن کے آخر میں ہم وہیں کھڑے ہوتے ہیں جہاں پہلے تھے۔ یہ سوال پیدا ہوتا رہا کہ آخر سال بسال ان مباحث کو دہرانے کا فائدہ کیا ہے۔ ایک اور چیز یہ محسوس ہوئی کہ بجائے معاشرے پر کوئی مثبت اثر ڈالنے کے  ہم اسی رائج فکر کے پیچھے چلنے اور اسے قابل قبول بنانے میں اپنا وقت لگا رہے ہیں۔ اسی طرح  عقلی مباحث میں ایسا محسوس ہوتا رہا کہ کسی خاص موقف کے پیچھے ہی تقلیدی انداز میں  چل رہے ہیں۔ ایسا بھی لگا کہ بجائے مذہب کو معاشرے میں قابل قبول بنانے کے لیے اسے عقلی طور پر ثابت کرنے کے ہم خود ہی عملی طور پر مذہب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

اس کے ساتھ اطمینان کے لیے یہ بات بہرحال ذہن میں رہی کہ تہذیبوں کے مسائل  کوئی ایک آدھ نشست میں حل نہیں ہوتے، اس کے لیے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔ اس لیے اس پراسس کا حصہ بننا بہرحال مستقبل میں مفید ثابت ہو گا۔ اسی طرح استاد گرامی مولانا زاہد الراشدی کی ایک بات بھی اطمینان دلاتی رہی کہ جب ہم کسی جدید علمی ڈسکورس کے ساتھ منسلک ہو ں گے تو جہاں علمی ترقی ہو گی، وہیں کچھ ایسے مسائل بھی پیش آئیں گے جو بہرحال کئی حوالوں سے خطرناک ہوں گے لیکن ان خطرات سے گھبرا کر اگر کنارہ کشی اختیار کر لی جائے گی تو اہل علم پر عائد ایک بہت بڑی ذمہ داری سے روگردانی کا ارتکاب ہوگا۔ اس لیے حوصلے و صبر کے ساتھ ان مسائل کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا زید حسن

میں مدرسہ ڈسکورسز کے تجربہ سے متعلق دو باتیں خاص طور پر ذکر  کرنا چاہوں گا۔ مدرسہ ڈسکورسز کے اساتذہ کا انداز تعلیم بہت ہی اہم تھا۔  انہوں نے اپنی کوئی سوچ، کوئی خاص اپروچ یا کوئی خاص نتیجہ طلبہ پر مسلط نہیں کیا  بلکہ ان کے لیے مکمل طور پر سپیس چھوڑی اور عملا یہ کہا کہ چیزوں کو آپ خود سمجھیں، پرکھیں اور جو نتیجہ آپ خود اخذ کریں، وہی نتیجہ آپ کے لیے اہم ہے۔ اس کے ساتھ  علمی میدان میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کا رویہ بھی اساتذہ کے طریق تدریس کا اہم حصہ رہا۔ ہمارا پہلا بیچ تھا، ہمارا تعلق بہ نسبت دوسرے  بیچز کے استاد ابراہیم موسی صاحب سے زیادہ رہا۔ ہم نے ان سے زیادہ چیزیں پڑھیں، ان کا رویہ اور دیگر سب اساتذہ کا رویہ ہمارے ساتھ ایسا تھا کہ بسا اوقات ہم زبان حال سے کہہ رہے ہوتے کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے، ہم میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن وہ کہہ رہے ہوتے کہ نہیں، تم میں بہت صلاحیت ہے، تم یہ کام کر سکتے ہو۔ اس انداز سے انہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی۔

اس کورس کا دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ ہمیں اس میں ہر چیز متحرک نظر آئی، زندہ  نظر آئی۔ صرف ایک چیز کے بارے میں یہ محسوس ہوتا تھا کہ وہ جامد ہے لیکن اس کا جمود بھی دوسری چیزوں کو حرکت دینے کے لیے تھا۔ یہ جمود تکثیریت اور تنوع کا تھا لیکن ظاہری بات ہے کہ اسی تکثیریت اور تنوع نے سارے کے سارے کورس کو متحرک بنا دیا۔ مدرسہ میں پڑھنے اور مدرسہ ڈسکورسز میں پڑھنے میں جو بنیادی فرق مجھے ذاتی طور پر محسوس ہوا، وہ بھی یہی ہے کہ وہاں یہ تنوع نہیں تھا اور یہاں یہ دیکھنے اور برتنے کو ملا۔

مجھے ذاتی طور پر یہ فائدہ بھی ہوا کہ مدرسہ سے نکلنے کے بعد میں کچھ فکری و عملی مسائل کی وجہ سے  بہت زیادہ انگزائٹی اور ڈپریشن میں چلا گیا تھا۔  ان مسائل کو حل کرنے میں مدرسہ ڈسکورسز نے بہت بنیادی کردار ادا کیا۔ وہ مسائل ایسے تھے کہ جن کے زیر اثر میں یا تو سماجی دباو میں رہ کر مدرسہ کی دی ہوئی لائن پر ہی چلتا رہتا یا پھر اس سے بالکل باغی ہو کر روایت پرستی تو ایک طرف، شاید مذہب ہی کو خیر باد کہہ دیتا۔ مدرسہ سے نکلنے کے بعد ان فکری، عملی اور نفسیاتی مسائل کی وجہ سے اپنی روایت سے ایک تنفر پیدا ہو گیا تھا۔میں یہ سمجھ رہا تھا کہ جو کچھ مدرسہ میں پڑھا ہے وہ بالکل فضول ہے اور اس کا عملی دنیا سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز میں اساتذہ نے یہ ادراک پیدا کرنے کی کوشش کی کہ آپ نے جو پڑھا ہے وہ فضول نہیں ہے۔ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے، روایت کو کیسے دیکھنا ہے اس کو کیسے برتنا ہے، یہ سب کچھ ہمیں سکھایا۔ اس مرحلے کی اہم بات یہی ہے کہ یہ بات سمجھاتے ہوئے بھی کوئی بات یا فکر ہم پر مسلط نہیں کی۔ یہ بتا دیا کہ آپ خلاء میں کھڑے نہیں ہو سکتے، آپ کو بہرحال اپنی روایت سے جڑ کر رہنا ہے۔ ہاں جڑنے کا انداز روایت پسندانہ ہو یا روایت پرستانہ یا پھر آپ کوئی الگ اپروچ اپنا لیں لیکن بہرحال روایت کی اہمیت کے پیش نظر اس سے تعلق استوار کرنا بہت ضروری ہے۔

ڈاکٹر فائزہ محمد دین

جیسے زید حسن نے کہا کہ مدرسہ سے نکلنے کے بعد کچھ مسائل کی وجہ سے انسان روایت سے کٹنے لگتا ہے، بالکل ایسے ہی حالات مجھے بھی پیش آئے اور یہ کوئی غیر فطری بات نہیں ہے۔ کیونکہ جب آپ نے جو پڑھا ہے اس کا معاشرے اور عملی زندگی کے ساتھ آپ کو تعلق سمجھ نہ آئے تو ایسا ہو جایا کرتا ہے۔ مدرسہ ڈسکورسز نے اسی علم کو آج کی دنیا اور ماحول سے ریلیونٹ بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ میں جب اس کورس کا حصہ بنی تو اس وقت پی ایچ ڈی کی طالبہ تھی۔ نیپال میں ڈاکٹر سعدیہ یعقوب سے ملاقات ہوئی جو جینڈر ایشوز پر بہت مہارت رکھتی تھیں، ان سے مجھے اپنے پی ایچ ڈی کے کام میں بہت راہنمائی ملی۔  میرا موضوع جینڈر سٹڈیز ہے، مدرسہ ڈسکورسز میں ان ایشوز پر بہت بات ہوتی تھی اور بسا اوقات کافی گرما گرم بحث بھی ہو جایا کرتی تھی، اس کا مجھے بہت فائدہ ہوا۔ میں دیانت داری سے سمجھتی ہوں کہ ابھی بھی جینڈر کے حوالے سے بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں ہر میدان میں عورتوں کا دس فیصد تک ہی حصہ ہے، جب معاشرے میں عورتیں پچاس فیصد ہیں تو ان کا حصہ بھی پچاس فیصد ہی ہونا چاہیے۔ مدرسہ ڈسکورسز میں مجھے یہ چیز نہیں محسوس ہوئی کہ عورتوں کو علمی طور پر ایک کنارے پر کر دیا گیا ہو۔

اسی کورس سے ایک اور چیز بھی سیکھی کہ جیسے رسول اللہ ﷺ نے کچھ کام شروع کیے اور بعد میں مسلمانوں نے ان کو بہت ترقی دی، جیسے ربوٰ کا ایک پراجیکٹ اس دور میں شروع ہوا اور اسی کی بنیاد پر آج مسلمانوں نے بینکنگ کا ایک بہت بڑا سسٹم شروع کر دیا ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اس معاشرے میں عورتوں کی حالت بہتر کرنے کا جو پراجیکٹ شروع کیا تھا، اس کو بھی آگے بڑھانا چاہیے اور ان کو معاشرے میں وہ حیثیت دینی چاہیے جو بطور انسان ان کی  بنتی ہے، یعنی انہیں پہلے عورت کے طور پر نہیں بلکہ پہلے انسان کے طور پر دیکھ کر ان کی حیثیت کا تعین ہونا چاہیے۔  

سیکولرزم پر ہم نے بہت بات کی لیکن میرے خیال میں دو عالمی جنگوں کو ہم بہت کم ڈسکس کر رہے ہیں، میرے خیال میں مغربی دنیا میں مذہب سے جو تنفر پیدا ہوا، وہ انہی  دو جنگوں کی وجہ سے ہوا تھا۔ ان میں جس ظالمانہ طریقے سے عیسائیوں نے عیسائیوں کا اور یہودیوں کا قتل عام کیا تھا، پوری دنیا میں انسانوں نے اس کے نقصانات برداشت کیے تھے، لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو گئی تھیں، ان جنگوں کے بعد لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اگر دنیا میں امن چاہتے ہیں تو ہمیں انسانیت کی بنیاد پر لوگوں کو دیکھنا ہوگا نہ کہ کسی ایک مذہب کی بنیاد پر۔ اسی سے پھر ہیومن رائٹس کی روایت وجود میں آئی۔ اس لیے ان جنگوں کو فوکس کرنا بہت ضروری ہے۔

اسی طرح ہم اصطلاحات کے استعمال میں احتیاط نہیں کر رہے، مثلا جب ہم مغرب یا ویسٹ بولتے ہیں تو اس کو ایک اکائی کے طور پر لیتے ہیں، حالانکہ ایسا ہر گز نہیں۔ ویسٹ میں بہت سے ملک ہیں، بہت سی قومیں ہیں، بہت سے علمی رجحانات ہیں۔ اس لیے اسے اسی تناظر میں دیکھنا اور پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح اسلام کی تفہیم میں بھی یہی کمی نظر آتی ہے، کیونکہ اسلامی دنیا بھی ایک نہیں ہے، اس میں بھی بہت سی Dimensions ہیں۔اس میں انڈونیشیا کی مثال بھی موجود ہے جہاں ہر عورت کے لیے مسجد میں جانا ممکن ہے اور آسان ہے، حالانکہ بہت سے اسلامی ممالک میں عورتوں کو یہ سہولت میسر نہیں۔ اس لیے پوری اسلامی دنیا کو ایک اکائی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔  اس کورس میں مجھے اس چیز کی بہت کمی نظر آتی ہے۔   میری تجویز ہے کہ اس کورس کے اگلے مراحل میں تکثیریت کی اس تفہیم کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

مفتی امجد عباس

مدرسہ ڈسکورسز نے  علمی میدان میں ایک بہت بڑی ضرورت کو پورا کیا ہے، اس نے ہمیں تراث اور روایت کے ساتھ بہت خوبصورت انداز میں جوڑ دیا ہے۔ میرے خیال میں سر سید کے لٹریچر کو کورس کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے،اس سے اسلام یا مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا بلکہ ہمیں معاصر مسائل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ میری دعا ہے کہ یہ سلسلہ جاری و ساری رہے۔

مولانا نعیم الدین الازہری

یہ پروگرام انتہائی مفید پروگرام تھا جس میں شرکت کر کے بہت سے فوائد حاصل ہوئے۔ لیکن جب شروع میں ہم اس پروگرام میں شریک ہوئے تو جیسے ہماری عادت ہے کہ ہمارے سینسر فورا آن ہو جاتے ہیں اور سازش کی بو آنے لگتی ہے۔ انگلش سے اتنی زیادہ واقفیت نہیں تھی، اس لیے جب مدرسہ کے ساتھ ڈسکورس کا لفظ دیکھا تو ذہن میں آیا کہ جس لفظ کے ساتھ ڈس لگ جائے تو ا س میں تو منفی معنی پیدا ہو جاتے ہیں، جیسے Dismiss , Disrespect , Disgrace  ہے، تو میں نے سوچا کہ یہ کہیں مدرسہ کو ڈس مس کرنے کی کوئی سازش تو نہیں ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ یہ ڈس مسنگ نہیں ہے بلکہ ڈسکشن ہے، کہ مدارس کے لوگ مل بیٹھیں اور ان مسائل میں مباحثہ اور گفتگو کریں اور کوئی حل تلاش کریں۔ مدرسہ ڈسکورس کا یہ بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے کہ اس نے ہمارے لیے ڈسکشن کا بند دروازہ کھولا ہے، کیونکہ ہم لوگ مسالک کی چار دیواریوں میں بند ہیں، ایک ٹیبل پر مل بیٹھنے کے لیے تیار نہیں، اور اگر بیٹھ بھی جائیں تو تیوری چڑھی رہتی ہے اور بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اس حوالے سے مدرسہ ڈسکورسز کا یہ بہت بڑا ہم پر احسان ہے۔

دوسری چیز عمار صاحب کے بارے میں میں کہنا چاہوں گا کہ عام طور پر ہماری اپروچ ججمنٹل ہوتی ہے، کسی کے بارے میں ملنے سے پہلے ہی کوئی رائے قائم کر لینا، منفی تاثر بنا لینا۔ لیکن ڈاکٹر عمار صاحب کے مزاج میں جو دھیما پن ہے، ان کا جو نرم رویہ ہے، جو صبر و حوصلہ ہے اور جس انداز میں وہ بڑے بڑے مختلف فیہ مسائل کو لیتے ہیں، یہ قابل داد ہے۔ میں اس کو اکنالج کرنا چاہوں گا کہ اس سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔

مجھے یہاں عبد الوہاب شعرانی ؒ کا طبقات الصوفیہ میں لکھا ہوا ایک قول یاد آتا ہے۔ انہوں نے لکھا : "العلم ثلاثة اشبار، عندما یدخل الرجل  فی الشبر الاول  یتکبر، و عندما یدخل فی الشبر الثانی یتواضع، و عندما یدخل فی الشبر الثالث یقول: انا لاادری "۔ ہم مدارس کے لوگ عام طور پر شبر اول میں ہی ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے ہیں،  میرے جیسا کوئی نہیں والی کیفیت ہوتی ہے کہ میں نے جو بات کہہ دی وہ حرف آخر ہے۔ میری بات پر اگر کسی نے کوئی بات کہہ دی تو فتوی سنے گا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ مدرسہ ڈسکورسز  کا بہت اہم پہلو یہ ہے کہ اس نے ہمیں شبر اول سے شبر ثانی کی طرف منتقل کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے۔

ایک بات مزید یہ کہ ہم Epistemology یا تاریخ العلم سے بالکل آگاہ نہیں تھے، اس سے اور اسی جیسی بہت سی دیگر اصطلاحات سے سے اسی کورس کے ذریعہ واقفیت ہوئی۔ آخری بات یہ کہ یہاں جدیدیت کی بہت بحث ہوئی اور اس تناظر میں ہوئی کہ جیسے ہمیں اب وہی سب کچھ بھگتنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے جو کچھ یورپ ایک زمانے میں بھگت چکا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ تاریخ کے بہت سے ادوار میں ایسا ہوا کہ سیاسی اسلام شکست سے دوچار ہوا اور پھر روحانی اسلام یا صوفی اسلام اس کی مدد کر آیا اور ری وائیول ہوا۔ اس لیے ہمیں جدیدیت کو پڑھتے یا ڈسکس کرتے ہوئے اس پہلو کو بھی ڈسکس کرنے کی ضرورت ہے۔

مولانا ڈاکٹر امیر حمزہ

مدرسہ ڈسکورسز کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ یہ مدرسہ کی ہی ایک ایکسٹینشن ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ مدرسہ کی جو اصل روایت تھی یہ اس کو زندہ کرنے کی ایک کوشش ہے  تو بے جا نہ ہوگا۔  مدرسہ ڈسکورسز میں داخلے  سے ہمارے اندر جو واضح تبدیلی آئی ہے، وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے علم کے جو دو بنیادی رکن ہیں، سوال اور جواب، ان میں سے جواب کی اہمیت سے تو ہم واقف تھے  اور ہماری ساری علمی سرگرمی اسی جواب کی نفسیات کے گرد ہی گھومتی تھی، لیکن سوال کیا ہے ؟ سوال کی کیا اہمیت ہے، یہ کیسے تشکیل پاتا ہے اور اسے کیسے ٹیکل کیا جاتا ہے، علم کے اس دوسرے بڑے رکن، سوال، کی اہمیت احساس ہمیں ڈسکورسز کے بعد  آنے سے ہوا۔ ایک چیز کو مختلف جہتوں سے کیسے دیکھنا ہے، یہ ہم نے یہاں سیکھا ہے۔ اسی طرح شرح صدر کا ایک بہت سادہ سا مفہوم ہمارے ذہن میں تھا کہ جو کچھ سیکھا ہے، اس پر قناعت کر لینے کا نام شرح صدر ہے۔  ڈسکورسز میں شرکت کے بعد ہمیں اس شرح صدر کی حقیقت کا بھی ادراک ہوا کہ جس چیز کو ہم شرح صدر سمجھ رہے تھے، وہ تو حقائق سے نظریں چرانے اور آنکھیں بند کر لینے  کی کیفیت ہے۔ یہاں ہمیں  روایت کو درپیش معاشرتی چیلنجز سے آگاہی دی گئی   اور ان کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایک اور بڑی اہم چیز جو ہمیں یہاں سیکھنے کو ملی، وہ یہ تھی کہ جن لوگوں کے موقف کو ہم دور سے پڑھ کر ان کے بارے میں رائے قائم کر لیا کرتے تھے، ہمیں براہ راست ان سے ان کا موقف سننے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اور یہ کوئی جدید انداز نہیں ہے بلکہ قرآن کریم کا بھی یہی اسلوب ہے۔ قرآن کریم بدترین دشمن، فرعون، کا موقف بھی " وقال فرعون " کہہ کر نقل کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جو آپ کا مخالف بھی ہے اس کا موقف اسی کی زبانی سمجھنا ضروری ہے، مدرسہ ڈسکورسز میں ہمیں یہی چیز سیکھنے کو ملی۔

ڈاکٹر سدرہ  ذوالفقار

مولانا امیر حمزہ صاحب نے جس بات کی طرف اشارہ کیا کہ سوال کی اہمیت معلوم ہوئی، میں اس کے بارے میں یہ کہوں گی کہ آج کل سوال اٹھانا اور ہر چیز پر سوال اٹھا دینا، خواہ وہ سوال غیر متعلق ہی کیوں نہ ہو، ایک فیشن بن چکا ہے اور اسے  کسی کے intellectual ہونے کی نشانی کے طور پر لیا جا رہا ہے، حالانکہ یہ کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ سوال اٹھانا اور متن یا موضوع سے متعلق سوال اٹھانا بہت اہم ہے، مدرسہ ڈسکورسز میں ہم ہر ہفتے اسی مشق سے گزرتے رہے کہ سوال کرنا ہے اور موضوع سے متعلق سوال کرنا ہے جس سے علم میں ترقی ہو اور موضوع سے متعلق کوئی مفید پہلو سامنے آئے۔

ایک اور چیز جو سیکھنے کو ملی کہ ہر نئی چیز کو گھسیٹ کر زبردستی اپنی روایت سے مسلک کرنا سود مند نہیں ہے۔ ہماری روایت کے اپنے معیارات ہیں، ویلیوز ہیں، کچھ حدود ہیں، ان کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ وقت کی دوڑ نے بہت سی چیزوں کو ناگزیر کر دیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہر چیز کو ہی قبول کرتے جائیں۔  جب میں نے مدرسہ ڈسکورسز جوائن کیا تو بقول شخصے میں بہت کٹڑ، متشدد اور اسلامسٹ تھی اور الحمد للہ میں ابھی بھی اسی طرح کٹڑ، متشدد اور اسلامسٹ ہو ں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کورس کے مقاصد میں آپ کو زبردستی مولڈ کرنا یا آپ کو اپنی شناخت سے دور کرنا نہیں رہا۔  یہ ایک علمی سرگرمی ہے اور اسے ایک علمی سرگرمی کے طور پر ہی نبھایا گیا۔


مہمانان گرامی کے تاثرات


اختتامی نشست میں مدعو مہمانان گرامی نے پروگرام سے متعلق حسب ذیل  تاثرات کا اظہار کیا۔

جناب سید ثاقب اکبر

میں مدرسہ ڈسکورسز پروگرام کے غیر حاضر متاثرین میں سے ہوں، کیونکہ مفتی امجد صاحب مجھے کلاس کی ساری روداد سنایا کرتے تھے۔ میں اس  پروگرام  کے بارے میں سابقہ معلومات کی بنا پر بھی اور اس وقت جو شرکاء کے تاثرات ہیں، ان کی بنیاد پر بھی   اس کے نتائج کو بہت معجز آثار اور حیران کن سمجھتا ہوں۔ ہم نے جب مدرسہ میں ہوش سنبھالا تو یہ ماحول دیکھا کہ کہنہ کتابوں کی تدریس، اسلوب بیان اور اسلوب تحریر رائج ہے اور اس میں بدلاؤ پر کوئی بھی تیار نہیں۔ پھر جب  اما م خمینی کی قیادت میں ایران میں انقلاب آیا تو وہاں سے یہ آوازیں اٹھیں کہ حوزہ اور دانش گاہ کے مابین تعلق اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ چونکہ وہاں حکومت کی طرف سے بھی خاصی سرپرستی موجود تھی اس لیے وہاں اس سلسلے میں خاصا ارتقاء دیکھنے میں آیا۔لیکن میرے خیال میں پاکستان کو اس میں تقدم حاصل ہے کہ یہاں اس سے بہت پہلے کچھ تجربات کیے گئے  ہیں جیسے جامعہ بہاولپور اور انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔لیکن مدرسہ ڈسکورسز کے جو نتائج میں دیکھ رہا ہوں اور طلبہ و طالبات کے اظہارات نے مجھے حیران کر دیا ہے  اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس پروگرام کو یونیورسٹی کے نظام تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔

یہ تجربہ اپنے موضوعات کے تنوع اور اہمیت میں، اساتذہ کے طریقہ تدریس میں ممتاز ہے۔ اس میں لوگوں کو کسی خاص مکتبہ فکر کا پابند کرنے کی کوشش نہیں ہوتی  بلکہ افکار پیش کر کے، دلائل سامنے رکھ کے سامعین کو غوروفکر کرکے رائے اختیار کرنے کی آزادی دے دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور دانش و فکر کے فروغ کا یہی خوبصورت راستہ ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی انسان اس ڈسکشن سے گزرے اور یہ کہے کہ مجھ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔  ہمارے مدارس میں یہ ایک کمی ہے کہ وہ ورلڈ ویو کیسے بنتا ہے، اس کو نہیں دیکھتے ہیں۔ اسلام کو تمدن و تہذیب کے چشمے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا ہے۔ ہم عام طور پر یہ نہیں دیکھتے کہ کائنات کی تخلیق و نظام کے بارے میں ہماری معرفت و شناخت  اور جو لوگ دین کو نہیں مانتے، ان کی معرفت و شناخت میں کیا فرق ہے اور اس کے معاشرے پر کیا اثرات ہیں۔  میرے خیال میں مغرب نے بھی انسانیت کو بہت کچھ دیا ہے۔ اس کی آزاد اندیشی یا آزادانہ سوچنے کی قدر کا ہی ہم دین نہیں دے سکتے، اس کی قدر کی جانی چاہیے  اور یہ آزاد اندیشی ہمیں اپنے لوگوں کو بھی دینی چاہیے۔

میرے خیال میں وقت آ گیا ہے کہ جومفید چیز ہم جہاں سے لیں، اسے مذہب یا مسلک یا دین کے عنوان کی بجائے یہ کہہ کر لیں کہ جو چیز ہماری خرد کو اپیل کرتی ہے، وہ پھر ہماری ہے۔ کیونکہ علم کی کوئی سرحد نہیں ہوتی اور وہ خوشبو کی طرح سے پھیلتا ہے۔  لیکن اس میں ہمیں تھوڑا محتاط ہونا چاہیے کیونکہ جدیدیت کے تناظر میں جو مباحث ڈسکس کیے جاتے ہیں، وہ اگر جامد فکر و نظر سے دیکھے جائیں تو وہ آخر کار الحاد کی طرف لے جاتے ہیں، اس لیے ان میں روحانیت کی آمیزش ضرور رکھنی چاہیے تاکہ اس کے مضر اثرات سے بچا جا سکے۔ اس رویے سے ہم مغرب کی مددبھی کر سکتے ہیں۔  اسی طرح قدیم و جدید علم کلام پر بات کرتے ہوئے بھی اسی بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ ایک اور بات جس کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس ساری علمی سرگرمی کو فرقہ وارانہ رنگ سے بچانا چاہیے  اور اس وقت تک مدرسہ ڈسکورسز کی علمی سرگرمی الحمد للہ اس سے بچی ہوئی ہے۔

اسی طرح فلسفہ کو ہماری علمی دانش گاہوں کا حصہ بنانا چاہیے، ہمارے ہاں یا تو فلسفہ یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو واجبی سا۔ طلبہ اسے پڑھتے نہیں اور اساتذہ پڑھانے میں وہ دلچسپی نہیں لیتے۔ اس پروگرام کے ذریعہ اگر دانش گاہوں میں فلسفہ کا احیاء ہو جائے تو بہت اچھا ہو۔

جناب ادریس احمد آزاد

سب سے پہلے میں مولا نا عمار صاحب کو مبارکباد دیتا ہوں کہ اتنا اچھا پروگرام ان کی سربراہی میں پایہ  تکمیل کو پہنچا۔ میں نے  مدرسہ ڈسکورسز کے دو سمسٹرز کو سائنس پڑھائی ہے، اس لیے ساری ہی بات اسی حوالے سے کروں گا۔  میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں بہت کم سائنس پڑھائی گئی  اور میرے حساب سے یہ بہت زیادہ غلط ہوا۔ یہ بات درست ہے کہ فلسفہ و کلام انسان کو بحث و مکالمہ میں بہت ماہر بنا دیتے ہیں۔ یہ پروگرام تحقیق کا پروگرام تھا، اس میں جو کام ہوا وہ تحقیق کے دائرے میں ہی آتا ہے۔ اس پروگرام میں تحقیق کا ایک پہلو ہی سکھایا گیا۔ اس کے وژن میں علماء کی ایک ایسی جماعت تیار کرنا تھا کہ جو تنقیدی و تعمیری سوچ کا ایک فیبرک بن سکتی،  یہ ایک بہت بلند مقصد ہے اور اسی پر اس پورے پروگرام میں کام ہوا۔ مجھے سائنس کے کم ہونے کا گلہ اس لیے ہے کہ سائنس صرف موٹے موٹے مسائل کا نام نہیں ہے، جیسے نیوٹن کا قانون، کشش ثقل کو جان لینا وغیرہ۔ موجود دور میں فلسفہ و کلام اور مذہب کے دائرے سائنس کے دائروں کو چھو بھی نہیں سکتے، اس قدر اس میں وسعت آ چکی ہے۔ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ فلسفہ کتنا بڑھ اور پھیل کر سائنس کے اندر آ گیا ہے۔ اپنے سپیکٹرم میں سائنس فلسفے سے بڑی ہو گئی ہے، اس کا اندازہ کرنا بھی عام ذہن کے لیے ممکن نہیں رہا۔

صرف تصور زمان و مکاں کو لیں یا صرف مابعد الطبیعات کے ان مسائل کو لیں کہ جن کو کانٹ پہلے سائنس سے جدا کر رہا تھا، وہ اب سائنس کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان میں تصور زمان و مکان آ جاتا ہے، اس میں انبیاء کے معجزات آ جاتے ہیں بلکہ انبیاء کے تمام معجزات سے کہیں بڑی باتیں آ جاتی ہیں۔ یہ معجزات بہت چھوٹے رہ جاتے ہیں ان باتوں کے مقابلے میں جو آج سائنس کر رہی ہے۔ صرف Parallel Realitiesکو ہی لے لیں، یہ کسی بھی مذہبی معجزے سے بہت بڑی اور عجیب و غریب بات ہے۔ اور یہی میرا پوائنٹ ہے کہ مدرسہ ڈسکورسز میں سائنس جتنی ہونی چاہیے تھی، اس سے بہت ہی کم پڑھائی گئی ہے۔اس وقت سائنس ایک ایسی قوت ہے جس نے پوری دنیا کے مذاہب کو چت گرا دیا ہے۔ اقبال نے کہا تھا۔ The birth of inductive intellect is the birth of Islam.۔ یعنی اسلام سے پہلے ہم جن چیزوں کو دیوتا سمجھ کر سجدہ کیا کرتے تھے، اسلام کے بعد ہم نے جانا کہ یہ تو ہمارے سامنے سجدہ ریز ہیں۔  رسول اکرم ﷺ کی ذات گرامی بہت بڑی حد فاصل ہے۔ اس سے پہلے کا انسان پتھر، درخت، جانور وغیرہ کو سجدہ کرتا تھا اور اس کے بعد کا انسان اپنے آپ کو ان سب کا مسجود سمجھتا ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔

دوسری بات کہ اقبال کو بہت زیادہ اگنور کیا گیا، اگر آپ اس طرح کے سلیبس میں حسن حنفی اور اقبال کو نظر انداز کرتے ہیں تو مباحث کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔میرے رائے میں ان دو لوگوں کو باہر نکالنے سے آپ نے ان مباحث کو Creativeنہیں رہنے دیا۔ اگر آپ ان مباحث کو کری ایٹیو کرنا چاہتے  تو شاہ ولی اللہ سے لے کر حسن حنفی اور اقبال کو اس کورس میں بہت بڑی جگہ دینی چاہیے تھی۔ میں  بطور استاد یہ تجویز کروں گا کہ اس کورس میں آئندہ کے لیے اقبال کو ایک پورا کورس دیا جائے۔ میرے خیال میں جو مباحث ہم نے قطر میں سنے یا اس پورے کورس میں پڑھتے رہے، اقبال اور حسن حنفی کے بغیر وہ معنی نہیں رکھتے۔

جناب مولانا مفتی محمد زاہد

سب سے پہلے میں شکر گزار ہوں مولانا ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر اور ان کی پوری ٹیم کا کہ انہوں نے آپ حضرات سے ملاقات کی سعادت کا موقع دیا۔ رات مجھ سے کچھ دوست پوچھ رہے تھے کہ آپ مدرسہ ڈسکورسز کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں نے ان کو کہا کہ یہ مدرسہ ڈسکورسز کے کسی بھی پروگرام میں میری پہلی شرکت ہے، اور اتفاق سے یہ اختتامی پروگرام ہے، گویا ہم ختم پڑھنے والوں میں شامل ہیں۔ لیکن ختم برکت کے لیے ہوتا ہے، ختم کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ اس لیے امید ہے کہ یہ سلسلے کسی نہ کسی شکل میں چلتے رہیں گے۔ مجھے کچھ اندازہ تو تھا کہ اس پروگرام میں کس نوعیت کا کام ہو رہا ہے، مزید یہاں پر خصوصا مولانا عمار خان ناصر کی گفتگو میں اس پروگرام کا بڑا عمدہ تعارف اور نچوڑ آ گیا ہے۔ اسی کے ساتھ شرکاء کے تاثرات کے ضمن میں بہت سی باتیں ہمارے سامنے آ گئی ہیں۔ میں انہیں میں سے چند چیزوں کو لے کر کچھ گزارشات پیش کروں گا۔

سب سے پہلے میں مولانا عبد الغنی محمدی کے تاثرات پر بات کروں گا۔ مجھے ان کی گفتگو بہت خوش آئند لگی، انہوں نے شروع میں ہی کہہ دیا کہ میری گفتگو کے دو حصے ہوں گے۔ ایک اس پروگرام کے فوائد کے بارے میں اور دوسرا اس کے مسائل کے بارے میں۔ جب آپ کسی بھی علمی و فکری تعلیمی سلسلے سے وابستہ ہوں تو جہاں آپ کو اس کا احسان شناس ہونا چاہیے، اس کا سپاس گزار ہونا چاہیے، اس کے فوائد کا معترف ہونا چاہیے، وہیں اگر اس پروگرام میں کچھ ایشوز ہیں تو انہیں بھی بیان کرنا چاہیے، اس سے یہ ظاہر ہوگا کہ آپ اس سلسلے کو اون کر رہے ہیں، اسے اپنا سمجھ رہے ہیں اور اپنی چیز کی جھاڑ پونچھ ہمیشہ جاری رہتی ہے، اس کو ہم نظر انداز نہیں کرتے، اس کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں، اس پر نظر رکھتے ہیں کہ اس میں کوئی خرابی تو نہیں آ رہی، بالکل اس طرح کہ جیسے آپ کسی اور کی گاڑی استعمال کر رہے ہیں تو آپ کو اس کی خرابی کی کوئی فکر نہیں ہوگی کیونکہ آپ نے اسے واپس ہی کر دینا ہے، لیکن اگر آپ اپنی گاڑی استعمال کر رہے ہیں تو اس کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ پر نظر رکھتے ہیں اور اس کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس رویے سے کسی بھی سلسلہ تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ اس لیے مجھے مولانا عبد الغنی کی اپروچ بہت عمدہ اور خوش آئند لگی۔

دوسری چیز جس کا مجھے کچھ اطلاعات اور مولانا عمار صاحب کے ذاتی ذوق کے پیش نظر کچھ اندازہ تھا، وہ  یہ کہ اگر بطور مسلمان ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو اپنی تراث کو صحیح اور بھر پور انداز سے سمجھنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ درس نظامی میں ہم تراث ہی پڑھتے ہیں، لیکن جس زمانے میں ہم پڑھ رہے تھے، اس وقت بزرگ اس بات کو بارہا دہراتے تھے کہ یہ جو کتابیں اور فنون آپ پڑھ رہے ہیں، وہ محض آپ کو اس قابل بنانے کے لیے  ہے کہ بعد میں آپ اپنے مطالعہ میں از خود توسیع کر سکیں۔ جس زمانے میں مدارس میں باقاعدہ نصاب بندی نہیں ہوتی تھی، اس وقت جید و کہنہ مشق اساتذہ کا یہ معمول ہوتا تھا  کہ کوئی بھی کتاب پوری نہیں پڑھاتے تھے، بلکہ جب اس کا اسلوب سامنے آ گیا یا اس کا ذائقہ چکھ لیا، اس کی اپروچ جب سمجھ میں آنے لگ گئی تو کہتے کہ باقی تم خود دیکھ لینا اور دوسری کتاب شروع کروا دیا کرتے تھے۔ یہ اس لیے تھا کہ درس نظامی میں تراث کے مختلف شعبے شامل ہوتے ہیں، اورہر شعبے کا تھوڑا تھوڑا ٹچ ہوتا ہے، اس لیے یہ اسلوب اپنایا جاتا تھا۔ تراث کو اس انداز سے ہمارا فاضل سمجھنے کے قابل ہو جائے کہ اسے یہ لگے کہ تراث میرے سامنے وجود میں آ رہی ہے، مثلا فقہ کیسے صحابہ و تابعین سے ہوتے ہوئے، امام شافعی و دیگر ائمہ کے سامنے سے گزرتے ہوئے وجود میں آ رہی ہے۔ بالکل جیسے بڑی بڑی بلڈنگز کے بننے کی موویز ملتی ہیں کہ وہ کیسے بنی ہیں۔  اسی طرح تراث کی بلڈنگ،  اس کی ایک طرح کی مووی ہمارے فاضل کے سامنے آ جائے، اس انداز سے تراث کو پڑھنا ضروری ہے، اس لیے مجھے اندازہ اور امید ہے کہ کم از کم فلسفہ و کلام کے حوالے سے اس پروگرام کے اندر خاطر خواہ پیش رفت ہوئی ہو گی۔

ہمارے ہاں تراث سے جو بغاوت پیدا ہوتی ہے وہ بھی اسی لیے ہوتی ہے کہ ہم نے تراث کا تھوڑا سا ٹچ لیا ہوتا ہے، اسے پوری طور پر سمجھا نہیں ہوتا۔ جب ہم گہرائی میں جاتے ہیں تو اپنے اسلاف کی رائے سے ہم اتفاق نہ بھی کریں لیکن کم از کم ان کی ذہانت کے قائل اور اس سے متاثر ضرور ہوتے ہیں، حتی کہ تراث میں عقل کو سب سے کم استعمال کرنے والاطبقہ اہل ظاہر کا سمجھا جاتا ہے، اور ان کے بعد پھر حنابلہ آ جاتے ہیں، لیکن جب آپ ابن حزم، ابن تیمیہ اور ابن قیم کو دیکھیں گے تو آپ کو لگے گا کہ یہ بھی اپنے وقت کے بہت بڑے بڑے دماغ تھے۔  عام طور پہ درس نظامی پڑھتے ہوئے ہم ان اسلاف کے بارے میں یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ تو بہت ہی سیدھے سادھے لوگ تھے، جب ان کا یہ حال ہے تو جو واقعتا اذکیاء امت شمار کیے گئے ہیں، وہ کس مقام پر فائز ہوں گے۔ تراث فہمی سے ہمیں کم از کم یہ اعتماد تو حاصل ہوگا کہ ہم کوئی غبی دماغوں کے راستے سے یہاں نہیں پہنچے بلکہ بہت اونچے اونچے اور ذہین دماغوں کے راستے سے یہاں تک پہنچے ہیں۔

 میری ایک تجویز ہے، میں رات مولانا عمار صاحب سے کہہ رہا تھا کہ آپ نے ماشاء اللہ دینی مدارس کے فضلاء کی کریم جمع کر لی ہے، ان کی ذہانت و صلاحیتوں کے اعتبا ر سے۔ اس پروگرام میں افراد سازی ہو رہی ہے، اس کے ساتھ اگر تھوڑی سی توجہ کورسز بنانے کی طرف بھی ہو جائے تو بہت اچھا ہے۔ اسی پراجیکٹ سے کوئی چھوٹا پراجیکٹ نکل آئے جیسے آج کل مغرب میں چل رہا ہے کہ غزالی کی آسان تفہیم کرا دی،  ابن رشد کی آسان تفہیم کرادی، اسی انداز سے اپنی تراث کی تفہیم، اس کے نچوڑ یا جیسے اس کی بلڈنگ کی مووی ہوتی ہے، اس انداز کے کورسز  یا لیکچرز یا پھر ڈاکومنٹریز کی طرف بھی توجہ ہونی چاہیے، اس سے اس کا فائدہ زیادہ عام ہو جائے گا۔

کورس کی ایک شریک ڈاکٹر فائزہ  نے یہ بھی بتایا کہ کورس کے دوران گرما گرم بحثیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ ہماری تراث یوں ہی آگے بڑھی ہے۔  امام شافعی ؒ کے کریمانہ اخلاق کی انتہا یہ تھی کہ ان کے ایک شاگرد  غالبا یونس ان کا نام تھا، ان کے ساتھ ان کی کچھ کھٹ پٹ ہو گئی تو امام شافعی ؒ خود ان کے پاس پہنچ گئے اور کہا کہ ہمیں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیے۔  لیکن جب علمی بحث ہوتی تو امام شافعی ؒ کے بارے میں آتا ہے کہ " کانہ سبع یاکلک"  یعنی جیسے ایک شیر ہے  اور وہ جھپٹ کر آپ کو کھا جائے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اخلاقی دائرے میں رہتے ہوئے بحثیں بھی گرما گرم ہونی چاہیے۔ انہیں کی گفتگو میں بار بار جینڈر سٹڈیز کی بات کی گئی  اور اس پر اصرار کیا کہ وہ یہ باتیں کرتی ہی رہیں گی، تو یہ بھی میرے خیال میں اس کورس کی خوبی ہے۔ کورس کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی شریک کا ذاتی رنگ یا ذاتی شیڈ  ختم کر دیا جائے بلکہ ہر کسی کا ذاتی رنگ اور علمی شیڈ برقرار رہنا ضروری ہوتا ہے۔ آخری میں ڈاکٹر ادریس آزاد صاحب کی بات مجھے بہت اچھی لگی کہ سائنس کا حصہ مزید بڑھانا چاہیے، اللہ تعالی اس مفید سلسلے کو جاری و ساری فرمائے۔ آمین

جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز

نحمدہ و نصلی و نسلم علٰی رسولہ الکریم

مدرسہ ڈسکورسز کا ایک بڑا فائدہ مجھے جو نظر آ رہا ہے وہ یہ کہ نعرہ تکبیر کی بجائے تالیاں سننے کو مل رہی ہیں۔ میرے لیے یہ خوشی کا موقع ہے کہ میں ایسے پروگرام میں شریک ہوں جس میں بڑے بڑے علماء اور سکالرز شریک ہیں، مدارس سے بھی اور یونیورسٹیز سے بھی۔  یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ اس پروگرام کے انچارج ڈاکٹر عمار خان ناصر جیسے معتدل اور صاحب علم نوجوان ہیں۔ میں اپنے آپ کو بہت خوش امید اور پرامید انسان سمجھتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے میں اپنے آپ کو مایوسی کی طرف جاتے ہوئے دیکھ رہا ہوں  کیونکہ ہمارے جامعات اور مدارس میں  علمی ڈسکورس جس طرح  کی نئی شکل اختیار کر چکا ہے، وہ یقینا فکری بانجھ پن کی غمازی کرتا ہے  جس کو دیکھ کر مجھ جیسا انسان مایوسی کی طرف جاتا ہے۔ لیکن کل جو گفتگو مدرسہ ڈسکورسز کے منسلکین کے ساتھ ہوئی، اس سے پھر مجھے بہت زیادہ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ایک بہت خوبصورت گروپ تشکیل پا رہا ہے۔ کچھ دوستوں نے کہا کہ یہ ایک پراجیکٹ ہے محدود مدت کا  اور اب ختم ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ وہ قابل قدر لوگ کہ جنہوں نے ہمیں Critical thinkingدی، وہ اگرچہ وفات پا گئے لیکن انہوں نے جو بیچ بویا تھا وہ ایک تناور درخت بنا، پھر اور درخت بنتے گئے اور ایک گلشن بن گیا۔ اس لیے اس پروگرام کے جو  مستفیدین ہیں، اگرچہ یہ پروگرام ختم بھی ہو جائے، لیکن ان میں رویے، فکر اور بیانیے کی جو تبدیلی آئی ہے وہ یقینا آگے بڑھے گی  اور ایک جزیرہ بنتا جائے گا جو عمومی صورتحال سے مختلف ہو گا۔ مدرسہ کی تاریخ تو بہت تابناک ہے جو Critical Thinkingکی اسا س پر قائم تھا۔ آپ کو جو گروہ نظر آتے ہیں، جبریہ، قدریہ، معتزلہ وغیرہ، ان سب کی اساس سوچ و فکر پر تھی، تنوع پر تھی، دلیل پر تھی۔ اگرچہ وہ گروہ ختم ہو گئے لیکن یہ فکر اور زاویہ نظر ابھی تک جاری ہے۔ یہ ایک معاشرتی تسلسل ہے۔ افراد و گروہ چلے جاتے ہیں لیکن فکر و  سو چ کا اسلوب  یا بیانیے باقی رہتے ہیں۔ ہمارے پاس بہت بڑے بڑے نام موجود ہیں جو اسی کریٹیکل تھنکنگ کو پروان چڑھاتے رہے۔ امام ابو حنیفہ فرمایا کرتے تھے کہ میری سوچ میرے نزدیک صحیح ہے، لیکن اس میں خطا کا احتمال ہے۔ ان کے شاگردوں کے مجموعی اقوال سے فقہ حنفی بنی۔ اس کا مطلب ہے کہ وہاں یقینا ڈسکورس تھا اور اسی ڈسکورس کی وجہ سے یہ زبردست فقہ سامنے آئی۔

اسی طرح ہمارے ہاں مولانا عبید اللہ سندھی ؒ ہیں کہ جنہوں نے زمینی صورتحال کا مشاہدہ کیا اور آنے والے ادوار و طوفانوں کا ادراک کر کے بے چین ہو گئے، اتنا بے چین کہ لوگ ان کو ابنارمل کہنے لگے۔ انہوں نے بدلتے حالات کا مشاہدہ کیا، دنیا کے اندر صنعتی انقلاب  کو دیکھا تھا، سیاسی حقیقتوں کو دیکھا تھا  اور اس کی بنیاد پر جو نصائح کیے، ان کو اگرچہ لوگ اس وقت نہیں مان رہے تھے لیکن وقت نے ثابت کیا ان کی باتیں درست تھیں۔  اسی طرح مولانا ابو الکلام آزاد کی 1949 کی تقریر  جو مدارس کے بارے میں تھی، اسے مدرسہ ڈسکورسز کے سلیبس کا حصہ بنانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ  ابتداء مدارس کے اندر محاضرات ہوا کرتے تھے، ان محاضرات نے ایسے افراد پیدا کیے کہ جن کے افکار آج ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ لیکن جب مدرسہ کا محور کتاب بن گیا  تو ان کے مطابق علمی لحاظ سے مدرسہ کے اندر تنزلی کی ابتداء ہوئی۔ اب ہمارا مدارس کا نظام بک سینٹرک ہی ہے، محاضرات کا سلسلہ اس میں ختم ہو گیا۔  اسی طرح علامہ ابن خلدون کا مقدمہ اگر متنا مدارس کے سلیبس میں شامل ہو تو اس سے بھی صورتحال یقینا تبدیل ہو گی۔

یہ پراجیکٹ اگرچہ ختم ہو گیا لیکن اس کے اثرات بہرحال باقی رہیں گے۔ مدرسہ ڈسکورسز کے ساتھ ساتھ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ یونیورسٹی ڈسکورسز ہے۔ میرا تعلق مدرسہ کے ساتھ بھی ہے اور یونیورسٹی کے ساتھ بھی۔ اس  لیے پورے شرح صدر کے ساتھ کہتا ہوں کہ جو آپ کی شکایات مدرسہ سے ہیں، اس سے زیادہ شکایتیں یونیورسٹی سے ممکن ہیں۔ جس کریٹیکل تھنکنگ کے نہ ہونے کی بات آپ مدرسہ میں کر رہے ہیں، یونیورسٹی کے اندر  اس کی کمی مدرسہ سے بھی زیادہ شدید ہے۔ جس جمود کی بات آپ مدرسہ میں کر رہے ہیں، اس سے زیادہ جمود یونیورسٹی کے اندر ہے۔ اگر مدرسہ کے اندر ناقدانہ سوچ  کے عالم بہت کم ہیں تو یونیورسٹی میں اس سے بھی زیادہ کم ہیں۔ آپ سروے کر لیں اور کراچی سے خیبر تک چلے جائیں، آپ اس سوچ کے حامل قابل لوگ  انگلیوں پر گن سکتے ہیں۔ باقی تمام یونیورسٹیاں اس سے خالی ہیں۔ ان میں کوئی بندہ آپ کو ایسا نہیں ملے گا کہ جس کے پاس بیٹھ کر آپ کی علمی پیاس بجھ سکیں یا آپ یہ کہہ سکیں کہ اس کے ساتھ بیٹھک کے بعد میں اپنے آپ کو پہلے سے بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ اس لیے یہ پروگرام بہت زبردست کام ہے۔ ہمارے ہمسائے میں جو صورتحال بننے جا رہی ہے اس حوالے سے بھی اس کورس یا ایسے ڈسکورسز کا جاری رہنا انتہائی ضروری ہے۔

جناب ڈاکٹر ابو الحسن محمد شاہ الازہری

کچھ عرصہ سے اپنے کچھ احباب سے مدرسہ ڈسکورسز کی سرگرمیوں کے متعلق پتہ چلتا رہا  اور یہ جان کر بڑی مسرت ہوئی کہ یہاں بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کے ساتھ خالص علمی رویے پروان چڑھ رہے ہیں۔ میرے والد گرامی پیر کرم شاہ صاحب الازہری ؒ نے ہمیشہ باہمی احترام، تحقیق و جستجو، علمی ترقی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے کبھی اپنے آپ کو فروعی و مسلکی اختلافات میں الجھنے نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ ہمیں مفید کام کرنے اور وقت کے تقاضوں کو سمجھنے کا درس دیا کرتے تھے ۔انہوں نے ایک ایسا نصاب تعلیم مرتب کیا جس میں دینی علوم کے ساتھ معاشیات، انگریزی زبان  اور دیگر معاشرتی علوم کو نصاب کا حصہ بنایا تاکہ اس نصا ب کو پڑھ کر ایسے بالغ نظر علماء تیار ہو سکیں  جو دین کی آفاقی حیثیت کو سمجھتے ہوں اور دین کو ایک قابل عمل نظام کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ یہ باتیں میں اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ ہم اس ضرورت کو شروع سے ہی محسوس کرتے چلے آ رہے ہیں جس ضرورت کے تحت مدرسہ ڈسکورسز کی سرگرمی شروع کی گئی۔

مجھے یہ پتہ چلا کہ مدرسہ ڈسکورسز میں مختلف مکاتب ہائے فکر کے فاضلین کو شامل کورس کیا جاتا ہے اور فلسفہ، جدید علم کلام اور جدیدیت کے تناظر میں  غور و خوض کیا جاتا ہے، جہاں امہات مصادر کے عربی متون کے ساتھ جدید مغربی فکر کے بیانیے کو بھی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ بہت مفید پلیٹ فارم ہے جہاں ایسے رجال کار تیار ہو سکتے ہیں جو جدید ذہن کے اشکالات کو کما حقہ سمجھ کر ان کا حل تلاش کر سکیں۔  ہمارے مدارس کے نظام و نصاب کو طویل عرصے سے ریوائز نہیں کیا گیا۔ مدارس کے طلبہ کو جدید نظاموں کے حوالے سے کوئی سوجھ بوجھ نہیں دی جاتی ۔ مقاصد شریعت، اصول تحقیق،آئین پاکستان،  جدید سیاسی و معاشی نظام، جدید فقہی مسائل جیسے بہت سے مباحث ہیں جن کو طلبہ کے سامنے نہیں لایا جاتا جس کی وجہ سے مدارس سے نکلنے والے فاضلین زمانے کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس پر مستزاد مدارس کا مسلکی گھٹن کا ماحول کہ جس کی وجہ سے دیگر مسالک کے لوگوں سے ہم آہنگی نہیں ہو پاتی اور ان سے کوسوں دور رہا جاتا ہے۔ اس لیے ایسے کورسز ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں۔

مجھے امید ہے کہ اس کورس کی بدولت شرکاء  کو مغربی مفکرین کا طرز استدلال اور بیانیہ سمجھنے میں کامیابی ملی ہو گی۔ ہاں ان جدید افکار کو پڑھتے ہوئے " خذ ما صفا و دع ماکدر " کا اصول ضرور ہمارے ذہن  میں رہنا چاہیے  اور وحی و عقل کے درمیان توازن کو قائم رکھنا چاہیے۔ آخر میں میں اپنی طرف سے، اپنے ادارے کی طرف سے اور برادر مکرم پیر امین الحسنات صاحب کی طرف مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ایسے پروگرامات جاری رہیں گے۔ ہم آپ کو اپنے بھر پور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔

جناب مولانا زاہد الراشدی

مدرسہ ڈسکورسز کے ساتھ  پہلے دن سے منسلک  ہوں، پوری نظر رکھے ہوئے ہوں، وقتا فوقتا شریک بھی ہوتا ہوں،  اور آج اختتامی سیشن میں بھی آپ کے ساتھ ہوں، الحمد للہ۔ میں ایک دو باتیں کہنا چاہوں گا۔  میں فکری و تحریکی دنیا کا آدمی ہوں اور میرے پیچھے دو شخصیتیں کھڑی ہیں  جن کی نمائندگی کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک کا نام شاہ ولی اللہ ہے اور دوسرے کا نام شیخ الہند مولانا محمود حسن ہے۔ رحمہما اللہ تعالیٰ۔ میں اپنے آپ کو ان کی فکری تحریک یا اور تحریکی فکر کے تسلسل میں جڑا ہوا سمجھتا ہوں۔  مدرسہ ڈسکورسز کے حوالے سے میرا تاثر آج بھی وہی ہے جو پہلے دن تھا  کہ یہ ایک ضرورت ہے اور اس ضرورت کو پورا ہونا چاہیے۔ اب اس میں اتنا اضافہ ہے کہ یہ ضرورت بڑھ رہی ہے اور اس تسلسل کا دائرہ بھی وسیع ہونا چاہیے۔

سوال یہ ہے کہ ضرورت کیا ہے ؟ میں اس پر اپنے حوالے سے بات کروں گا۔ ایک دفعہ امریکہ، اٹلانٹا میں بیبٹسٹ فرقے کےسربراہ سے میں نے گفتگو کی۔ میں نے اس میں ایک ضرورت کا اظہار کیا کہ جناب آپ فاضل ہیں، بائبل اور چرچ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ میں مولوی ہوں، قرآن کی نمائندگی کرتا ہوں، مسجد و مدرسہ کی نمائندگی کرتا ہوں۔ ہم دونوں ایک مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں  کہ مذہب، وحی اور آسمانی تعلیمات سے سوسائٹی کٹ گئی ہے، سوسائٹی کو دوبارہ آسمانی تعلیمات سے جوڑنا میری ضرورت بھی ہے  اور آپ کی بھی،  کیا ہم کسی مشترکہ فورم پر بیٹھ کے اس کی پلاننگ کر سکتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ آپ اس کے لیے چرچ میں واپس آ جائیں اور بائبل پکڑ لیں، میں مسجد میں بیٹھا ہوں، قرآن میرے ہاتھ میں ہے، ہم مل کر سوسائٹی کو واپسی آسمانی تعلیمات سے جوڑنے کا کوئی ایجنڈا بناتے ہیں اور مل کر کام کرتے ہیں۔ انہوں نے غور کرنے کا وعدہ کیا۔  کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کام کی ضرورت ہے کہ سوسائٹی کو مذہب کی طرف واپس لانے کا کوئی طریقہ اختیار کیا جائے  اور میرے خیال میں یہ کورس بھی اسی سلسلے کی ایک علمی سرگرمی ہے۔  

اس میں شرکت کرنے والے اکثر فضلاء میرے شاگرد ہیں۔ جو شاگرد نہیں ہیں، ان کا بھی کسی نہ کسی درجے میں تعلق ضرورہے۔ میں اس بات کا جائزہ لیتا رہا ہوں کہ اس میں میرے شاگردوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور ان میں کیا تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ پانچ سال مکمل ہونے کے بعد میں پورے اعتماد سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس مختصر سی جماعت میں خیر کا پہلو غالب ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو نافع بنائے اور ان فضلاء کو دینی روایت کے احیاء کا ذریعہ بنائے۔ آمین

اکتوبر ۲۰۲۱ء

عدت کے شرعی احکام : چند ضروری توضیحاتڈاکٹر محمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۱)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ جامع ترمذی (۵)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۳)مولانا سمیع اللہ سعدی
قومی زبان — عدالتِ عظمٰی اور بیوروکریسیمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
عشرہ دفاعِ وطنمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
اسلام کے عہد اول میں فکری انقلاببیرسٹر ظفر اللہ خان

عدت کے شرعی احکام : چند ضروری توضیحات

ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر

احکام شریعت عموماً‌ دو طرح کے پہلووں کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ ایک پہلو ’’معلل” یعنی کسی قانونی علت پر مبنی ہوتا ہے جس کے وجود یا عدم وجود پر حکم کا مدار رکھا جاتا ہے اور مجتہدین اس کی روشنی میں حکم کے قابل اطلاق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ دوسرا پہلو ’’تعبدی” ہوتا ہے، یعنی جس کی کوئی ظاہری قانونی علت نہیں ہوتی اور اس کی پابندی محض شارع کے امتثال امر کے طور پر کی جاتی ہے۔

طلاق کے احکام میں بھی یہ دونوں پہلو موجود ہیں۔

شریعت میں طلاق یا وفات کی صورت میں عدت کے جو احکام دیے گئے ہیں، ان پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ مبینہ پابندیوں میں ایک سے زائد مقاصد اور حکمتوں کی رعایت کی گئی ہے۔ ان میں اہم ترین چیز تو استبراء رحم یعنی عورت کے پیٹ کی حالت کا واضح ہونا ہے تاکہ بچے کے نسب کا معاملہ کسی اشتباہ اور اختلاط کا شکار نہ ہونے پائے۔ یہی وجہ ہے کہ ازدواجی تعلق قائم ہوئے بغیر طلاق ہو جانے کی صورت میں قرآن نے عدت کی پابندی عائد نہیں کی۔ تاہم یہ اس معاملے کا صرف ایک پہلو ہے۔

طلاق کی صورت میں قرآن نے جو عدت مقرر کی ہے، اس سے واضح ہے کہ حمل کی صورت حال واضح ہونے کے علاوہ شوہر کو رجوع کا موقع دینا بھی اس ہدایت کا ایک مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف ایک ماہواری کے بجائے تین ماہواریاں مقرر کی گئی ہیں، حالانکہ استبراء رحم کے لیے ایک یا دو ماہواریاں بھی کافی تھیں، جیسا کہ بہت سے شرعی نظائر سے ثابت ہے۔ مثلاً‌ لونڈی کی عدت دو ماہواریاں مقرر کی گئی اور نئی خرید کردہ لونڈی سے ہم بستری سے پہلے صرف ایک ماہواری سے استبراء رحم کرنے کو کافی سمجھا گیا۔ اسی تناظر میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ تیسری طلاق کے بعد چونکہ رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے استبراء رحم کے لیے صرف ایک ماہواری کافی ہوگی۔

یہی معاملہ عدت وفات کا ہے۔ قرآن نے جو حکم دیا ہے، اس سے واضح ہے کہ محض استبراء رحم نہیں، بلکہ اس سے زائد بھی کچھ مقصود ہے۔ استبراء رحم کے لیے ایک دو یا تین ماہواریاں گزارنے کا کہا جا سکتا تھا، لیکن قرآن نے یہاں سرے سے اس پہلو کو چھیڑا ہی نہیں، بلکہ یہ کہا کہ چار ماہ دس دن انتظار کیا جائے۔ یہ ایک بالکل ’’تعبدی ” نوعیت کی مدت ہے جس کی کوئی تعلیل نہیں ہو سکتی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیوہ کو ایک متعین عرصے تک نئے نکاح سے روکنا شریعت کا مقصود ہے۔ احادیث میں بیوہ کے لیے سوگ اور ترک زینت کے جو آداب بیان کیے گئے ہیں، ان سے بھی اسی پہلو کی مزید تاکید ہوتی ہے۔

البتہ بیوہ اگر حاملہ ہو تو اس کا معاملہ ذرا پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ قیاسی طور پر اسے استبراء رحم کے لیے وضع حمل کی، جبکہ سوگ کے پہلو سے چار ماہ دس دن کی دونوں عدتیں گزارنی چاہییں۔ تاہم شریعت کا مزاج چونکہ تیسیر اور تخفیف کا ہے، اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی عورتوں پر دوہری پابندی لازم کرنے کے بجائے صرف وضع حمل کو ان کی عدت قرار دیا۔ اس سے عورت کے لیے توازن یوں پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک طرف وضع حمل کا عرصہ چار ماہ دس دن سے متجاوز ہونے کی صورت میں اسے زیادہ عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے تو دوسری طرف وضع حمل جلدی ہو جانے کی صورت میں وہ فوری طور پر عدت کی پابندیوں سے آزاد ہو جاتی ہے۔

عدت کی پابندیوں سے متعلق ایک اور سوال یہ سامنے آتا ہے کہ بیوہ کے لیے زیب وزینت سے اجتناب کی جو ہدایت دی گئی ہے، طلاق یافتہ خاتون پر اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں؟

اس ضمن میں ایک نکتہ تو یہ ملحوظ رہنا چاہیے کہ جس پہلو سے بیوہ کو زیب وزینت سے اجتناب کا پابند کیا گیا ہے، وہ خاوند کی وفات کا سوگ ہے اور اس حالت میں بدیہی طور پر زیب زینت کرنا مناسب نہیں۔ بعض اہل علم نے اس کو سد ذریعہ اور احتیاط کے پہلو سے بھی لیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ ایسی حالت میں نکاح یا پیغام نکاح دینا جائز نہیں، اس لیے عورت کو زیب وزینت سے بھی اجتناب کرنا چاہیے تاکہ اس کی طرف خواہش مندوں کی رغبت کم رہے اور عدت کے آداب کے مجروح ہونے کا امکان پیدا نہ ہو۔

جہاں تک مطلقہ کا تعلق ہے تو اس میں ظاہر ہے، سوگ کا مذکورہ پہلو نہیں پایا جاتا۔ البتہ کچھ دوسرے پہلووں سے مختلف صورتوں میں زیب وزینت کا اہتمام کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں کہ رجعی طلاق کی صورت میں عورت کو زیب وزینت کا اہتمام کر کے شوہر کو اپنی طرف راغب کرنا چاہیے، کیونکہ اس صورت میں شریعت کو یہ مطلوب ہے کہ خاوند، اپنے فیصلے سے رجوع کر لے۔ البتہ خلع، طلاق بائن یا تیسری طلاق کے بعد چونکہ رجوع کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے شوہر کے گھر میں رہتے ہوئے زیب وزینت اور بناو سنگھار کا اہتمام، امکانی فتنے کا موجب ہو سکتا ہے، اس لیے اس سے گریز کرنا چاہیے۔

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خلع یا طلاق بائن وغیرہ کے بعد عورت، شوہر کے گھر کے بجائے دوسری جگہ عدت گزار رہی ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں معمول کی، ہلکی پھلکی زیب وزینت میں کوئی حرج نہیں، خاص طور پر کوئی ایسا التزام شرعاً‌ مطلوب نہیں جو ’’سوگ ” کی کیفیت کا تاثر دے۔ تاہم چونکہ نیا نکاح یا صریح پیغام نکاح اس صورت میں بھی ممنوع ہے، اس لیے ایسی زیب وزینت جو دیکھنے والوں کے لیے باعث رغبت ہو یا اس سے عورت کی رغبت کا اظہار ہوتا ہو، مناسب نہیں۔ اسی طرح اگر عرفی طور پر اسے معیوب سمجھا جاتا ہو تو اس کی رعایت کرنا بھی بہت مناسب ہوگا۔

بیوگی کی عدت کے دوران میں عورت کے لیے کن چیزوں کی پابندی شرعاً‌ ضروری ہے، اس ضمن میں بہت سی غلط فہمیاں عوام میں پھیلی ہوئی ہیں اور اتنی پختہ ہیں کہ ان کی پابندی، اصل شریعت سے بھی زیادہ ضروری سمجھی جاتی ہے۔ خوب یاد رکھنا چاہیے کہ بیوہ کے لیے عدت میں شریعت نے درج ذیل امور کی پابندی بیان کی ہے:

۱۔ وہ شوہر کی وفات سے لے کر چار ماہ دس دن تک سوگ کا عرصہ گزارے گی۔ اس دوران میں اسے ترجیحاً‌ شوہر ہی کے گھر میں رہنا چاہیے اور بلا ضرورت گھر سے باہر کی سرگرمیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔

البتہ جن ملازمت پیشہ خواتین کا کوئی اور معاشی سہارا نہ ہو اور گزر بسر کا بھی کوئی متبادل انتظام نہ ہو، ان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ ضرورت کے اصول پر دوران عدت میں بھی اپنی ملازمت جاری رکھ سکتی ہیں۔

۲۔ عدت کے دوران میں وہ سادہ لباس پہنے اور زیب وزینت سے اجتناب کرے۔ میک اپ، زیورات کا استعمال اور شوخ لباس پہننا نامناسب ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صاف ستھری نہ رہے۔

۳۔ عدت کے عرصے میں اسے نئے نکاح کا واضح پیغام دینے سے اجتناب کیا جائے۔ اشارے کنایے میں مدعا اس تک پہنچایا جا سکتا ہے، لیکن صاف اور صریح پیغام نکاح نہیں دیا جا سکتا۔

عوام میں اس حوالے سے دو غلط فہمیاں بہت عام ہیں۔ ایک یہ کہ اس عرصے میں بیوہ کو گھر کے کسی کمرے میں محصور ہو کر رہنا پڑتا ہے اور وہ گھر کے کام کاج بھی نہیں کر سکتی۔ دوسری یہ کہ اس عرصے میں اس کے لیے پردے کا اہتمام عام معمول سے زیادہ لازم ہے اور وہ گھر کے غیر محرم عزیزوں کے سامنے نہیں آ سکتی۔

یہ دونوں باتیں بالکل بے بنیاد ہیں۔ ایسی کوئی پابندی شریعت نے عائد نہیں کی۔ اگر کوئی خاتون عام معمول کے طور پر خاندان کے تمام غیر محرموں (مثلاً‌ شوہر کے بھائی، بھانجوں بھتیجوں وغیرہ) سے پردہ کرتی ہے تو عدت میں بھی کر سکتی ہے۔ لیکن اگر گھر کے عام ماحول میں ایسے پردے کا التزام نہیں کیا جاتا جو کہ شرعاً‌ لازم بھی نہیں تو دوران عدت میں اس کا کوئی خصوصی اہتمام کرنا شریعت کا تقاضا نہیں۔

ہذا ما عندی واللہ اعلم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۱)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(273) أَن یَقُولُوا آمَنَّا

درج ذیل آیت کا ترجمہ دیکھیں:

أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ۔ (العنکبوت: 2)

”کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟“۔ (سید مودودی)

”کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے، اور ان کی آزمائش نہ ہوگی“۔ (احمد رضا خان)

”کیا لوگ یہ خیال کیے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی“۔ (فتح محمد جالندھری)

”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم ایمان لائے ہیں ہم انہیں بغیر آزمائے ہوئے ہی چھوڑ دیں گے؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ محض یہ کہہ دینے پر چھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟“۔ (امین احسن اصلاحی)

اس آیت کے ترجمے میں عام طور سے لوگوں نے ’بس، صرف، محض اور اتنی بات‘ جیسی تعبیروں کا اضافہ کیا ہے۔ اس اضافے کی ضرورت غالبًا اس لیے محسوس کی گئی کہ لوگوں نے یہ سمجھا کہ أَن یَقُولُوا آمَنَّا سے مراد محض زبانی دعوی ہے، اور محض زبانی دعوے کرنے والوں کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ انھیں بغیر آزمائے نہیں چھوڑے گا۔ بالفاظ دیگر اللہ تعالی زبانی دعوی کرنے والوں کو آزمائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ مولانا امانت اللہ اصلاحی کی رائے کے مطابق آیت کا مفہوم یہ ہے کہ ایمان لے آنا کوئی کھیل نہیں ہے کہ اس کے بعد زندگی بہت آسان رہے گی اور دشمنانِ اسلام یوں ہی چھوڑ دیں گے، بلکہ ان کی طرف سے ستایا جانا یقینی ہے۔ اگر یہ مفہوم لیا جائے تو پھر ان اضافوں کی ضرورت نہیں پڑتی ہے جو عام طور سے کیے گئے۔

ترجمہ ہوگا:

”کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ یہ کہہ دینے پر چھوڑدیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے؟“۔

واضح رہے کہ آزمائش تو اللہ کے اذن سے ہوتی ہے، جس کا آگے ذکر کیا گیا، لیکن اس کی شکل یہی بنتی ہے کہ جیسے ہی کوئی ایمان لانے کا اعلان کرتا ہے دین کے دشمن اسے چھوڑتے نہیں ہیں بلکہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں“۔

(274)  وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ

عربی زبان میں ’مَن‘ واحد کے لیے بھی ہوتا ہے اور جمع کے لیے بھی۔ اور جب ’مَن‘ جمع کے لیے آتا ہے تو اس کے بعد فعل واحد کے صیغے میں بھی آتا ہے اور جمع کے صیغے میں بھی۔ اگر جمع کا صیغہ ہو تب تو یقینی ہوجاتا ہے کہ ایک فرد کے بارے میں نہیں بلکہ گروہ کے بارے میں بات ہورہی ہے۔ درج ذیل آیت کے ترجمے میں بعض لوگوں سے یہ تسامح ہوا کہ انھوں نے واحد کا ترجمہ کیا، اور آگے جہاں جمع کے صیغے کے افعال اور جمع کے ضمائر ہیں وہاں بھی واحد کا ترجمہ کردیا۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُولُ آمَنَّا بِاللَّہِ فَإِذَا أُوذِیَ فِی اللَّہِ جَعَلَ فِتْنۃ النَّاسِ کَعَذَابِ اللَّہِ وَلَثِن جَاءَ نَصْر مِّن رَّبِّکَ لَیَقُولُنَّ إِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ أَوَلَیْسَ اللَّہُ بِأَعْلَمَ بِمَا فِی صُدُورِ الْعَالَمِینَ۔ (العنکبوت:10)

”لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا، اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ ”ہم تو تمہارے ساتھ تھے“ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟“۔ (سید مودودی، لَیَقُولُنَّ جمع کا صیغہ ہے اس کا ترجمہ یہی شخص کیسے ہوسکتا ہے؟)

”اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر ایمان لائے جب اُن کو خدا (کے رستے) میں کوئی ایذا پہنچتی ہے تو لوگوں کی ایذا کو (یوں) سمجھتے ہیں جیسے خدا کا عذاب۔ اگر تمہارے پروردگار کی طرف سے مدد پہنچے تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ تھے۔ کیا جو اہل عالم کے سینوں میں ہے خدا اس سے واقف نہیں؟“۔ (فتح محمد جالندھری)

وَمِنَ النَّاسِ مَن یَقُول کا ترجمہ’لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے‘ کی بجائے ’اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں‘ درست ہے۔

(275)  آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ

درج ذیل آیت میں وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ میں الذی ایک بار ہے، لیکن لوگوں نے ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ جیسے وہ دوبار آیا ہو۔

وَلَا تُجَادِلُوا أَهلَ الْکِتَابِ إِلَّا بِالَّتِی هیَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ  وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِی أُنزِلَ إِلَیْنَا وَأُنزِلَ إِلَیْکُمْ وَإِلَٰہُنَا وَإِلَٰہُکُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ۔  (العنکبوت: 46)

”اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے اُن لوگوں کے جو اُن میں سے ظالم ہوں، اور اُن سے کہو کہ ”ہم ایمان لائے ہیں اُس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اُس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اُسی کے مُسلم (فرماں بردار) ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور کہو ہم ایمان لائے اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو تمہاری طرف اترا“۔(احمد رضا خان)

”اور کہہ دو کہ جو (کتاب) ہم پر اُتری اور جو (کتابیں) تم پر اُتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے اور جو ہم پر اتاری گئی ہے اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور کہو کہ ہم ایمان لائے اس چیز پر جو ہم پر نازل ہوئی اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف اتاری گئی“۔ (امین احسن اصلاحی)

درج ذیل ترجمہ قرآنی الفاظ کے مطابق ہے:

”اور کہہ دو ہم اس پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور تمہاری طرف نازل کیا گیا“۔ (احمد علی لاہوری)

آیت کے الفاظ کے مطابق یہاں یہ نہیں کہا جارہا ہے کہ ہم اس کتاب پر بھی ایمان لائے جو ہماری طرف اتری اور ان کتابوں پر بھی جو اہل کتاب کی طرف اتریں، بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ یہ کتاب جو ہماری طرف بھی اتری ہے اور تمہاری طرف بھی اتری ہے، یعنی ہم سب کے لیے اتری ہے اس پر ہم ایمان لائے۔ یہ دعوت دینے کا نہایت عمدہ طریقہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے اور وہ ساری انسانیت کے لیے ہے، ہم بھی اس کے مخاطب ہیں اور تم بھی اس کے مخاطب ہو۔

(276)  کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ

یہ تعبیر تین مقامات پر آئی ہے۔ اس کا ترجمہ ماضی کا ہونا چاہیے، وہ رہ جانے والوں میں سے تھی یا ہوئی۔ لیکن الگ الگ مقامات پر لوگوں نے الگ الگ ترجمے کیے۔

(۱) فَأَنجَیْنَاہُ وَأَہْلَہُ إِلَّا امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ۔ (الاعراف:83)

”تو ہم نے اسے اور اس کے گھر والوں کو نجات دی مگر اس کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہوئی“۔ (احمد رضا خان)

”تو ہم نے ان کو اور ان کے گھر والوں کو بچا لیا مگر ان کی بی بی (نہ بچی) کہ وہ پیچھے رہنے والوں میں تھی“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں سب نے ماضی کا ترجمہ کیا۔

(۲)  قَالَ إِنَّ فِیہَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَن فِیہَا لَنُنَجِّیَنَّہُ وَأَہْلَہُ إِلَّا امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ۔ (العنکبوت: 32)

”ابراہیم ؑ نے کہا، ”وہاں تو لوط ؑ موجود ہے”انہوں نے کہا“ہم خوب جانتے ہیں کہ وہاں کون کون ہے ہم اُسے، اور اس کی بیوی کے سوا اس کے باقی گھر والوں کو بچا لیں گے“ اس کی بیوی پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی“۔ (سید مودودی)

”مگر اس کی عورت کو، وہ رہ جانے والوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)

”بجز اُن کی بیوی کے وہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں کسی نے حال اور کسی نے مستقبل کا ترجمہ کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اسے فرشتوں کے سابقہ قول کا حصہ سمجھا۔ حالاں کہ اسے اللہ کی طرف سے جملہ مستانفۃ سمجھتے تو ماضی کا ترجمہ کرتے، جو کہ لفظ کا تقاضا ہے۔

(۳)  وَلَمَّا أَن جَاءَتْ رُسُلُنَا لُوطًا سِیءَ بِہِمْ وَضَاقَ بِہِمْ ذَرْعًا وَقَالُوا لَا تَخَفْ وَلَا تَحْزَنْ إِنَّا مُنَجُّوکَ وَأَہْلَکَ إِلَّا امْرَأَتَکَ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِینَ۔ (العنکبوت: 33)

”پھر جب ہمارے فرستادے لوط ؑ کے پاس پہنچے تو ان کی آمد پر وہ سخت پریشان اور دل تنگ ہوا اُنہوں نے کہا،نہ ڈرو اور نہ رنج کرو ہم تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بچا لیں گے، سوائے تمہاری بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے“۔ (سید مودودی)

”مگر آپ کی عورت وہ رہ جانے والوں میں ہے“۔ (احمد رضا خان)

”مگر آپ کی بیوی کہ پیچھے رہنے والوں میں ہوگی“۔ (فتح محمد جالندھری)

یہاں بھی ماضی کا ترجمہ ہونا چاہیے لیکن عام طور سے لوگوں نے حال یا مستقبل کا کیا ہے۔ علامہ آلوسی نے وضاحت کی ہے کہ ان تینوں مقامات پر یہ جملہ مستانفۃ ہے۔یعنی اس سے پہلے والا جملہ پہلے ہی مکمل ہوچکا ہے، اور یہ ایک نیا مستقل جملہ ہے۔

(277)  مکڑی کی مثال

درج ذیل آیت میں تشبیہ مرکب کا اسلوب استعمال ہوا ہے، یعنی ایک چیز کو ایک چیز سے تشبیہ نہیں دی جارہی ہے بلکہ کئی چیزوں سے مل کر پوری ایک صورت حال کو ایک صورت حال سے تشبیہ دی جارہی ہے۔

مَثَلُ الَّذِینَ اتَّخَذُوا مِن دُونِ اللَّہِ أَوْلِیَاءَ کَمَثَلِ الْعَنکَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَیْتًا وَإِنَّ أَوْہَنَ الْبُیُوتِ لَبَیْتُ الْعَنکَبُوتِ  لَوْ کَانُوا یَعْلَمُونَ۔ (العنکبوت:41)

تشبیہ مرکب کے مطابق ترجمہ اس طرح ہوگا:

”ان لوگوں کی مثال جنھوں نے اللہ کے سوا دوسرے کارساز بنائے ہیں ایسے ہی ہے جیسے مکڑی نے گھر بنایا۔ اور بے شک تمام گھروں سے بودا مکڑی کا گھر ہوتا ہے، اگر یہ لوگ جانتے“۔ (امانت اللہ اصلاحی)

ان لوگوں کو مکڑی سے تشبیہ نہیں دی گئی بلکہ تشبیہ اس بات میں ہے کہ جس طرح مکڑی اپنے لعاب سے گھر بناتی ہے اس طرح انھوں نے اپنی طرف سے اللہ کے سوا اولیاء بنالیے ہیں اور جس طرح یہ گھر مکڑی کی حفاظت نہیں کرسکتا اسی طرح ان کے اولیاء ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔

درج ذیل ترجموں سے گمان ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو مکڑی سے تشبیہ دے رہے ہیں، یعنی تشبیہ مرکب کے بجائے تشبیہ بسیط کا ترجمہ کررہے ہیں:

”جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وہ بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں سے زیادہ بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے، کاش! وہ جان لیتے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور مالک بنالیے ہیں مکڑی کی طرح ہے، اس نے جالے کا گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر، کیا اچھا ہوتا اگر جانتے“۔ (احمد رضا خان)

(278) منکر کا ترجمہ

قرآن مجید میں منکر اور فحشاء دو لفظ کہیں ایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں اور کہیں الگ الگ۔ دونوں لفظوں میں فرق اس طرح بتایا گیا ہے کہ فحشاء بے حیائی اور منکر عام برائیوں کے لیے آتا ہے۔ قاضی ابن عطیہ لکھتے ہیں:

و”الفَحْشاءِ“: الزِنی -قالَہُ ابْنُ عَبّاسٍ - وغَیْرُہُ مِنَ المَعاصِی الَّتِی شُنْعَتُہا ظاہِرَۃ، وفاعِلُہا أبَدًا مُتَسَتِّر بِہا، وکَأنَّہم خَصُّوھا بِمَعانِی الفُرُوجِ و”المُنْکَرِ“ أعَمُّ مِنہُ؛ لَأنَّہُ یَعُمُّ جَمِیعَ المَعاصِی والرَذاثلِ والإذایاتِ عَلی اخْتِلافِ أنْواعِہا۔ (المحرر الوجیز)

مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:

”فحشاء کھلی ہوئی بے حیائی اور بدکاری کو کہتے ہیں۔ مثلًا زنا اور لواطت اور اس قبیل کی دوسری برائیاں۔۔۔۔منکر سے مراد وہ باتیں ہوں گی جو معروف اور عقل وعرف کے پسندیدہ طریقہ اور آداب کے خلاف ہوں“۔ (تدبر قرآن)  

لیکن ترجمہ کرتے ہوئے بعض لوگوں کی طرح خود وہ بھی اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھ سکے۔ درج ذیل ترجمے ملاحظہ ہوں:

(۱)  وَیَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ۔  (النحل: 90)

”اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم وزیادتی سے روکتا ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور روکتا ہے بے حیائی، برائی اور سرکشی سے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور بدی و بے حیائی اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے“۔ (سید مودودی، ترتیب الٹ گئی بے حیائی و بدی ہونا چاہیے تھا)

(۲)  إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ۔ (العنکبوت: 45)

”یقینا ً نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے“۔ (سید مودودی)

”بے شک نماز بے حیائی اور منکر سے روکتی ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے“۔ (جوادی، یہاں ترتیب الٹ گئی، بدکاری اور برائی ہونا چاہیے تھا)

(۳) وَتَأْتُونَ فِی نَادِیکُمُ الْمُنکَرَ۔ (العنکبوت:29)

”اور اپنی مجلسوں میں بُرے کام کرتے ہو“۔ (سید مودودی)

”اور اپنی عام مجلسوں میں بے حیائیوں کا کام کرتے ہو؟“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اپنی مجلسوں میں بے حیائی کے مرتکب ہوتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخر کے دونوں ترجموں میں بے حیائی کے بجائے برائی ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ لفظ منکر آیا ہے نہ کہ فحشاء۔

(279)  ارتیاب کا ترجمہ

ارتیاب ایک انفعالی کیفیت (شک میں پڑنے) کا نام ہے، جب کہ ارابة ایک فعل ہوتا ہے، جس کا مطلب ہوتا ہے شک کرنا شک پیدا کرنا۔ درج ذیل مقامات پرارتیاب آیا ہے جس کا زیادہ مناسب ترجمہ شک ہونا یا شک میں پڑنا ہے، نہ کہ شک کرنا، شک لانا یا مین میکھ نکالنا وغیرہ۔  

(۱)   وَمَا کُنتَ تَتْلُو مِن قَبْلِہِ مِن کِتَابٍ وَلَا تَخُطُّہُ بِیَمِینِکَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ۔ (العنکبوت: 48)

”(اے نبیؐ) تم اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو باطل پرست لوگ شک میں پڑ سکتے تھے“۔ (سید مودودی)

”یوں ہوتا تو باطل ضرور شک لاتے“۔ (احمد رضا خان)

”ایسا ہوتا تو اہلِ باطل ضرور شک کرتے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”ایسا ہوتا تو یہ جھٹلانے والے مین میکھ نکالتے“۔ (امین احسن اصلاحی)

(۲) إِنَّمَا یَسْتَأْذِنُکَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَارْتَابَتْ قُلُوبُہُمْ فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ۔ (التوبۃ: 45)

”ایسی درخواستیں تو صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے دلوں میں شک ہے اور وہ اپنے شک ہی میں متردد ہو رہے ہیں“۔ (سید مودودی)

”اور ان کے دل شک میں پڑے ہیں تو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہیں“۔ (احمد رضا خان)

”اور ان کے دل شک میں پڑے ہوئے ہیں۔ سو وہ اپنے شک میں ڈانواں ڈول ہو رہے ہیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

مولانا امانت اللہ اصلاحی نے اس آیت کے آخری جزء فَہُمْ فِی رَیْبِہِمْ یَتَرَدَّدُونَ کا ترجمہ حسب ذیل کیا ہے:

”وہ اپنے شک کی حالت میں پیچ وتاب کھارہے ہیں“۔

(۳)  أَفِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا۔  (النور: 50)

”کیا ان کے دلوں کو (منافقت کا) روگ لگا ہوا ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں؟“۔ (سید مودودی)

(۴)  وَارْتَبْتُمْ۔ (الحدید: 14)

”اور (اسلام میں) شک کیا“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور شک و شبہ کرتے رہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور شک میں پڑے رہے“۔ (سید مودودی)

(۵) وَاللَّاثِی یَثِسْنَ مِنَ الْمَحِیضِ مِن نِّسَاءِکُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُہُنَّ ثَلَاثۃَ أَشْہُرٍ۔ (الطلاق: 4)

”تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہو گئی ہوں، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۶)  ذَٰلِکُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِ وَأَقْوَمُ لِلشَّہَادَۃِ وَأَدْنَیٰ أَلَّا تَرْتَابُوا۔ (البقرۃ: 282)

”یہ بات خدا کے نزدیک نہایت قرین انصاف ہے اور شہادت کے لیے بھی یہ بہت درست طریقہ ہے۔ اس سے تمہیں کسی طرح کا شک وشبہ بھی نہیں پڑے گا“۔(فتح محمد جالندھری)

(۷)  وَلَا یَرْتَابَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ۔  (المدثر: 31)

”اور اہل کتاب اور مومن شک نہ لائیں“۔ (فتح محمد جالندھری)

”اور اہل کتاب اور اہل ایمان شک نہ کریں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور کتاب والوں اور مسلمانوں کو کوئی شک نہ رہے“۔ (احمد رضا خان)

(۸)  إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا۔ (الحجرات: 15)

”حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا“۔ (سید مودودی)

”مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر (پکا) ایمان لائیں پھر شک وشبہ نہ کریں“۔ (محمد جوناگڑھی، یہاں ایک غلطی یہ بھی ہے کہ فعل ماضی کی بجائے فعل مضارع کا ترجمہ کردیا)

”پھر شک نہ کیا“۔ (احمد رضا خان)

”پھر شک میں نہ پڑے“۔ (فتح محمد جالندھری)


مطالعہ جامع ترمذی (۵)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

مطیع سید: حضرت سودہ نے حضرت عائشہ کو اپنی باری کا دن دے دیا، کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں طلاق دے دیں گے۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ النساء، حدیث نمبر ۳۰۴۰) تو آپ ﷺ انہیں کیوں طلاق دینا چاہ رہے تھے؟ ایسی کیا وجہ تھی؟

عمار ناصر: یہ واقعہ روایتوں میں مختلف انداز سے بیان ہوا ہے۔ بعض میں ہے کہ جب حضرت سودہ عمر رسیدہ ہو گئیں تو انھوں نے خود ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے اب تعلق زن وشو کی حاجت نہیں تو آپ میری باری کا دن بھی عائشہ کے پاس قیام فرما لیا کریں۔ بعض میں یہ ہے کہ ان کی کبر سنی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں طلاق دینا چاہی تو انھوں نے کہا کہ میں روز قیامت آپ کی بیویوں میں ہی اٹھنا چاہتی ہوں، اس لیے آپ مجھے طلاق نہ دیں اور میری باری کا دن عائشہ کے ساتھ قیام فرما لیا کریں۔ اب ویسے تو آپ کو یہ حق حاصل تھا کہ اپنی کسی بیوی سے علیحدگی اختیار کر لیں، لیکن یہ بات بظاہر سمجھ میں نہیں آتی کہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے آپ انھیں طلاق دینا چاہتے تھے۔ خاص طور پر اگر یہ واقعہ سورۃ الاحزاب کے احکام کے بعد کا ہے تو پھر یہ بات مزید باعث اشکال ہے، کیونکہ سورۃ الاحزاب میں آپ کی ازواج کے لیے کسی بھی دوسرے شخص سے نکاح کو ممنوع ٹھیرایا گیا ہے۔ ممکن ہے، یہ راویوں کا قیاس ہو اور انھوں نے روایت میں سیدہ سودہ کی کبر سنی کے ذکر سے یہ اندازہ کیا ہو کہ آپ اس وجہ سے انھیں طلاق دینا چاہتے تھے جس پر انھوں نے اپنی باری کا دن سیدہ عائشہ کو دے دیا۔

مطیع سید: حضرت آدم ؑ کے بارے میں روایت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پشت سے ان کی ذریت نکالی اورآپ اپنی ذریت کو دیکھ رہے تھے۔ آپ کو ان میں ایک میں بڑا نور نظر آیا جو حضرت داؤد تھے۔حضرت آدم نے کہا کہ یا اللہ میری عمر کے چالیس سال ان کو دے دیے جائیں۔ پھر جب فرشتہ حضرت آدم کے پاس ان کی روح قبض کرنے کے لیے آیا تو انہوں نے فرمایا کہ ابھی تو میرے چالیس سال رہتے ہیں۔اس پر فرشتے نے یاد دلایا کہ وہ تو آپ نے حضرت داؤد کو دے دیے تھے۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاعراف، حدیث نمبر ۳۰۷۶) توکیا حضرت آدم کو پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ ان کی کتنی عمر ہوگی؟کیا یہ روایت درست ہے؟

عمار ناصر: سندا تو بظاہر ٹھیک ہے اور حضرت آدم کو ان کی عمر کے متعلق پہلے سے بتا دیا گیا ہوتو یہ کوئی بعید تو نہیں۔

مطیع سید: ایک روایت ہے کہ حضرت حوا حاملہ ہوتی تھیں، لیکن بچہ نہیں بچتا تھا، تو شیطان نے کہا کہ بچے کا نام عبد الحارث رکھیں تو بچ جائے گا۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاعراف، حدیث نمبر ۳۰۷۷) کیا یہ روایت ٹھیک ہے؟

عمار ناصر: نہیں، اس روایت پر محدثین نے نقد کیا ہے۔

مطیع سید: روایت میں ہے کہ جنگ بدر میں صحابہ مالِ غنیمت لوٹنے لگے، حالانکہ ابھی اس کو حلال نہیں کیا گیا تھا۔ اس پر قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی کہ لَوْ لَا كِتٰب مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِیْمَا اَخَذْتُمْ عَذَاب عَظِیْم۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الانفال، حدیث نمبر ۳۰۸۵)

عمار ناصر: اس آیت کی شان نزول سے متعلق ایک روایت یہی ہے کہ چونکہ پچھلی شریعتوں میں مالِ غنیمت کا استعمال جائز نہیں ہوتا تھااور ابھی تک مسلمانوں کے لیے بھی جائز نہیں کیا گیا تھا، لیکن مسلمانوں نے اس سے پہلے ہی لوٹنا شروع کر دیا تو یہ تنبیہ نازل کی گئی۔ لیکن آیت کے سیاق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں مالِ غنیمت کے حوالے سے نہیں، بلکہ جنگی قیدی بنانے اور ان سے فدیہ لینے سے متعلق بات ہورہی ہے۔

مطیع سید: تو پھر اس روایت کو کس جگہ رکھیں گے؟

عمار ناصر: اصل میں روایتوں میں یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ اپنےفہم سے اس کا ایک مطلب سمجھ کر، اس کے مطابق واقعے کو بیان کر دیتے ہیں۔شانِ نزول کی روایات میں ایسا بہت ہے۔اب دیکھیں، دو الگ الگ باتیں ہیں جن کو راوی اپنےقیاس سے جوڑ رہاہے۔نبی ﷺ نے یہ بات الگ سے فرمائی کہ پچھلی امتوں پر مالِ غنیمت حلال نہیں تھا۔ وہ بات اپنی جگہ ٹھیک ہے۔اس کو راوی نے اس آیت کے ساتھ ملا کر قیاس کر لیا کہ یہاں اسی بات کا ذکر ہو رہا ہے۔

مطیع سید: حضرت عبد اللہ بن مسعود کو قرآن لکھنے سے الگ رکھا گیا اور انہوں نے زید بن ثابت کے متعلق بڑے سخت الفاظ کہے۔وجہ کیا تھی؟یہ کس دور میں ہوا؟

عمار ناصر: یہ حضرت عثما ن کے دور میں ہوا جب قرآن مجید کا نسخہ مرتب کیا جا رہا تھا۔ان کو الگ رکھے جانے پر ظاہر ہے کوئی تحفظ ہوگا۔ اب کیا وجہ ہوئی، متعین طور پر کہنا مشکل ہے۔عبد اللہ بن مسعود اس وقت کوفے میں تھے۔ ممکن ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ زید بن ثابت مدینے میں ہی موجود ہیں، ان کویہ ذمہ داری سونپ دی گئی ہو۔یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ جمع عثمانی کا بنیادی مقصد قراءت کے اختلاف کے محدود کرنا تھا، جبکہ عبد اللہ بن مسعود اپنی قراءت کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔ ان کا اعتراض بھی یہی تھا کہ مصحف میری قراءت پر کیوں نہیں لکھا گیا۔ شاید اس وجہ سے انھیں مصحف کی تدوین میں شامل نہ کیا گیا ہو۔

مطیع سید: بہت سی جگہوں پر عربی زبان کا رائج رسم الخط اور قرآن کا رسم الخط مختلف ہے۔ قرآن مجید کو خاص رسم الخط میں کیوں لکھا گیا ہے؟ مطیع سید: مثلا کہا جاتا ہے کہ آپ الرحمان ایسے نہیں لکھ سکتے، آپ الرحمٰن لکھیں گے۔

عمار ناصر: عربی زبان کا اِس وقت جو Standard(معیاری)رسم الخط ہے، یہ تو بہت بعد میں جا کر رائج ہوا ہے۔ صحابہ کے دور میں اس طرح کا کوئی Standard رسم الخط نہیں تھا۔

مطیع سید: حضرت عثمان نے جو نسخے تیار کر وائے تھے، کیا انہوں نے کسی خاص رسم الخط کو ملحوظ رکھا تھا؟ اسے کہا بھی عثمانی رسم الخط جاتاہے۔

عمار ناصر: اس وقت کوئی Standardرسم الخط تھا ہی نہیں۔بعض الفاظ جن کے پڑھنے میں فرق تھا، ان کے متعلق حضرت عثمان کی ہدایات منقول ہیں کہ انھیں قریش کے تلفظ کے مطابق لکھا جائے، مثلا تابوت کا لفظ۔ اس کے علاوہ کوئی معیاری رسم الخط نہیں تھا اور کاتبوں نے جیسے ان کو مناسب لگا، لکھ دیا۔

مطیع سید: علماء کہتے ہیں کہ مصحف عثمانی میں قصدا ایسا رسم الخط اختیار کیا گیا جس میں مختلف قراءتیں پڑھی جا سکیں۔ مثلا ملک یوم الدین میں مالک الف کے ساتھ نہیں لکھا گیا۔الف کے بغیر لکھا گیا کہ تاکہ مالک اورملک دونوں طرح سے پڑھا جا سکے۔

عمار ناصر: یہ بعد میں قرآء نے توجیہات کی ہیں۔مجھے اس پر اطمینا ن نہیں ہے۔ مجھے اس قیاس میں کوئی وزن نہیں لگ رہا کہ رسم الخط خاص طور پر ایسا اختیار کیا گیا کہ قراءت کا اختلاف اس میں سمویا جا سکے۔جو رسم الخط کاتبوں کو آتا تھا، اس میں انہوں نے لکھ دیااور جو مختلف نسخے لکھوائے گئے، ان میں بھی آپس میں کئی جگہ رسم الخط کا فرق تھا۔ایسا لگتا ہے کہ وہ بالکل ایک ابتدائی (Primitive) سی چیزتھی۔ لیکن یہ جب انہوں نے ایک دفعہ لکھ دیا اور اس پر امت جمع ہو گئی تو پھر امت نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اسی کو بر قرار رکھنے میں مصلحت ہے اور اس کو اگر ہم بدلیں گے تو مزید مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے، اس کو پھر Sanctifyکردیا کہ اب یہ ایک طرح سے ناقابل تبدیل ہے۔جمہور کی یہی رائے رہی ہے، لیکن یہ کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ایک انتظامی پہلو سے متعلق چیزہے۔

مطیع سید: حضرت عثمان نے جو نسخے لکھوائے تھے، جن کے موازنے کے حوالے سے آپ فرما رہے ہیں کہ ان میں رسم الخط کہیں کہیں فرق بھی تھا، کیا وہ محفوظ ہیں؟

عمار ناصر: بہت سے نسخے موجود ہیں، لیکن ان کے استناد کے بارے میں مجھے زیادہ معلوم نہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ مرحوم نے شاید کچھ کام کیا ہے۔ تاشقند میں ہیں اور کچھ دوسری جگہوں پر بھی ہیں، لیکن ان کے تاریخی استناد کے بارے میں میرے ذہن میں اس وقت کچھ نہیں ہے۔

مطیع سید: حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ ایک بہت خوبرو عورت مسجد نبوی میں نماز پڑھتی تھی تو کچھ لوگ پچھلی صفوں میں کھڑے ہوتے تھے اور رکوع کی حالت میں بغلوں کے نیچے سے اس کو دیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت اتری کہ ولقد علمنا المستقدمین منکم ولقد علمنا المستاخرین۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الحجر، حدیث نمبر ۳۱۲۲) یہ تو عجیب سی بات لگ رہی ہے۔ کیا صحابہ بعد میں صحابہ اپنی طرف سے بھی قیاس کرتے ہیں کہ اس آیت کا مقصود فلاں بات ہوگی؟

عمار ناصر: آیت کا سیاق تو ظاہر ہے، اس سے متعلق نہیں۔ اور شانِ نزول کی روایات میں قیاس اور اس طرح کی دیگر چیزوں کا بہت زیادہ دخل ہوتا ہے۔

مطیع سید: سورۃ بنی اسرائیل میں آیا کہ ہم نے آپ کو خواب اس لیے دکھایا کہ لوگوں کے لیے آزمائش بن جائے۔ عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کا سفر یعنی معراج کا واقعہ ہے۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ بنی اسرائیل، حدیث نمبر ۳۱۳۴) لیکن وہ تو خواب نہیں تھا، کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺ خود تشریف لے گئے تھے۔

عمار ناصر: رویا صرف خواب کو نہیں کہتے بلکہ آنکھ سے دیکھے ہوئے مشاہدات کو بھی رویا کہہ دیا جاتا ہے۔ ابن عباس کے اس اثر میں بھی انھوں نے وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد رویا عینہے، یعنی آنکھوں سے دیکھے ہوئے مناظر۔ اس رویا کو عام طور پر سورت کے شروع جو معراج کے مشاہدات مذکور ہیں، انھی سے جوڑا جاتا ہے۔ عام طورپر مفسرین یہی تشریح کرتے ہیں، لیکن سورت کی ابتدا میں اور اس آیت میں فاصلہ اتنا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ اسی سے متعلق ہو۔ کوئی اور بات بھی ہوسکتی ہے جو اس وقت زیرِ بحث ہو اور سامعین کےعلم میں ہو، اگرچہ قرآن میں تصریحا اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ ان دونوں امکانات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

مطیع سید: یہودآپﷺ کے پاس آئے، مختلف نشانیوں کے بارے میں پوچھا اور آپ کی نبوت کے حق میں گواہی دی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے؟ انہوں نے کہا کہ حضرت داؤد نے دعا کی تھی کہ نبوت ان کی اولاد میں رہےگی، اور اگر ہم آپ پر ایمان لائے تو یہودی ہمیں قتل کر دیں گے۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ بنی اسرائیل، حدیث نمبر ۳۱۴۴) کیا واقعی حضرت داؤد نے ایسی دعا کی تھی؟اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے جس کی بنیادپر انہوں نے اتنی بڑی بات کہہ دی؟

عمار ناصر: نہیں، اس جملے کا مطلب یہ ہے کہ حضرت داود نے یہ دعاکی تھی کہ ان کی اولاد میں نبوت جاری رہے۔ یہ مطلب نہیں کہ نبوت ان کی اولاد میں ہی رہے، کسی دوسری جگہ نہ جائے۔

مطیع سید: قیامت کے دن لوگ مختلف انبیاء کے پاس جائیں گےاورہر نبی ایک عذر پیش کر دیں گے۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ بنی اسرائیل، حدیث نمبر ۳۱۴۸) وہ عذر ایسے ہیں کہ اللہ نے انہیں معاف بھی فرما دیا ہے اور وہ کوئی اتنے بڑے مسئلے بھی نہیں ہیں۔توپھر انبیاء ایسے کیوں عذر پیش کریں گے؟

عمار ناصر: دیکھیں، ہیبت اور خوف کی ایک کیفیت سب پر طاری ہوگی جس میں کوئی بھی بزرگ اپنے اندر حوصلہ نہیں پائیں گےکہ اللہ تعالیٰ کے روبرو جائیں اور کوئی درخواست پیش کریں۔ ایسی کیفیت میں آدمی کو اپنی معمولی لغزشیں اور تقصیر ات بھی بہت بڑی محسوس ہوتی ہیں۔

مطیع سید: حضرت موسی اور خضر کے واقعہ میں راوی سفیا ن کہتے ہیں کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسی ٹیلے کے پاس آبِ حیات کا چشمہ تھا جس کی چھینٹ مچھلی پر پڑی تھی اور وہ زندہ ہوگئی تھی۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الکہف، حدیث نمبر ۳۱۴۹) یہ روایات اسرائیلیات میں سے ہیں یا بس لوگوں میں مشہورباتیں تھیں؟

عمار ناصر: اسرائیلیات میں سے بھی ہو سکتی ہے اور لوگوں میں جو کچھ اساطیری چیزیں پھیلی ہوتی ہیں، ان میں سے بھی ہو سکتی ہے۔

مطیع سید: یاجوج ماجوج کے ہر روز دیوار چاٹنے والی روایت میں ہے کہ آخری دفعہ جب وہ ان شاء اللہ کہیں گے تو پھر دیوار کو توڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔(کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الکہف، حدیث نمبر ۳۱۵۳) بظاہر ان کے کردار سے تو لگ نہیں رہا کہ وہ اہل ایمان ہوں گے، پھر وہ کیوں ان شاء اللہ کیوں کہیں گے؟

عمار ناصر: ہو سکتا ہے، اللہ کو مانتے ہوں۔بہرحال اس روایت کے بارے میں تو بہت تحفظات ہیں۔امام بخاری اور امام ابن کثیر نے بھی اس پر یہ تبصرہ کیا ہے کہ یہ اسرائیلیات میں سے ہے۔

مطیع سید: اہلِ بیت کی اصطلاح کن کے لیے ہے؟

عمار ناصر: یہ صحابہ میں بھی بحث رہی ہے کہ اس سے مرادکون ہیں۔قرآن تو واضح ہے، وہ ازواج مطہرات کو ہی مخاطب کر کے اہل البیت کہتا ہے اور اس کا جو عام لغوی استعمال ہے، وہ بھی یہی ہے۔

مطیع سید: ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک چادر میں حضرت علی، فاطمہ، حسن اورحسین رضی اللہ تعالی عنھم کو لیا۔ حضرت ام سلمہ نے پوچھا کہ یارسول اللہ، میں بھی آؤں تو آپ نے فرمایا کہ نہیں۔بلکہ آپ نے انہیں روک کر فرمایا کہ آپ ایسے ہی ٹھیک ہیں۔اور فرمایا کہ یہ میرے اہل ِ بیت ہیں۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاحزاب، حدیث نمبر ۳۲۰۵۔ کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل فاطمۃ، حدیث نمبر ۳۸۷۱)

عمار ناصر: یہ تو بچوں کے ساتھ اظہار محبت کا ایک سادہ اور فطری واقعہ ہے۔ اہل البیت میں بیویوں کے شامل ہونے کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔اہل البیت میں سب سے پہلے آدمی کے اپنے بیوی بچے ہی ہوتے ہیں۔بیویاں اس میں شامل ہیں، یہ تو زبان کا محاورہ بھی ہے اور قرآن کا بھی سیاق ہے۔اس کے علاوہ اگر آپ نے ان بچوں کو بھی محبت کے اظہار کے لیے اپنے اہل بیت میں شمار کیا تو بالکل قابل فہم ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس لفظ کا جو عام مفہوم ہے، اگر آپ لوگوں کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ نہیں، بلکہ یہ ہے تو یہ وضاحت باہر سب لوگوں کے سامنے کرنی چاہیے نہ کہ گھر کے اندر حضرت ام سلمہ کے سامنے۔

مطیع سید: یعنی بیویاں اور اولاد سب اہل بیت ہیں؟

عمار ناصر: جی، آپﷺ کی ازواج اور اولاد، سب اہل البیت ہیں۔

مطیع سید: نبی ﷺحضرت فاطمہ الزہراکے گھر کے باہر سے گزرتے تو یہ یا اہل البیت کہہ کر نماز کی طرف متوجہ کرتے اوریہ آیت پڑھاکرتے تھے۔ انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت۔ (کتاب تفسیر القرآن، ومن سورۃ الاحزاب، حدیث نمبر ۳۲۰۶)

عمار ناصر: بالکل درست ہے۔ اہل البیت کا دائرہ ازواج تک محدود نہیں۔آپ اس کو بڑھا کر خاندان کے لیے بھی بولنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں۔ بیویوں کے ساتھ جس کو بھی آپ چاہیں شامل کرلیں۔لیکن بیویوں کو نکال دیں اور چچا اور دامادوغیرہ اس میں آجائیں، یہ تو اہل الِبیت کا عجیب مفہوم ہے۔

مطیع سید: یہ چیزیں اہل تشیع میں کب پروان چڑھیں؟ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے بارے میں تو ان کے تحفظات سمجھ میں آتے ہیں کہ وہ حضرت علی کی جگہ خلیفہ بن گئے۔ازواج کے ساتھ اہل تشیع کو کیا مسئلہ تھا؟

عمار ناصر: دیکھیں، حضرت علی کے ساتھ جس کا بھی اختلاف ہوا، بس اس کی خیر نہیں ہے۔حضرت علی کے بارے میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ یہ اہل ِ بیت ہیں اور ان کوخلیفہ ہونا چاہیے۔بس اس میں جس نے اختلاف کیا، وہ مطعون ہے۔ پہلے حضرت عائشہ کے بارے میں منفی رویہ پیدا ہوا کیونکہ انھوں نے حضرت علی کے ساتھ جنگ کی تھی۔پھر آہستہ آہستہ تصورات بنتے چلے گئے۔پہلے صرف خلافت کا مسئلہ تھاکہ ان کو ملنی چاہیے، پھر یہ تصور بھی شامل ہو گیا کہ دین بھی صرف انہی کے پاس ہے۔

مطیع سید: ایک سرگوشی والی روایت بھی آتی ہے۔آپﷺ نے حضرت علی کے کان میں کوئی بات فرمائی۔ صحابہ نے پوچھا تو آپﷺنے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا کہ میں علی کے کان میں سرگوشی کروں۔ حضرت علی نے کسی موقع پر اس کااظہار نہیں کیا کہ کیا سرگوشی ہوئی۔کیا اس وجہ سے بھی اس خیال کو تقویت ملی کہ کچھ خاص چیزیں ہیں جن کا علم صرف حضرت علی کو ملا ہے؟

عمار ناصر: اس طرح کی چیزیں پھر شامل ہوتی چلی جاتی ہیں۔ دیکھیں، آپ ﷺ کے خاندان کے ساتھ آپ کی نسبت سے ایک محبت اور عقیدت ہو، یہ بات تو غیر فطری نہیں ہے۔ کوئی چھوٹی سی تنظیم کا لیڈر بن جائے تو اس کے بچوں میں یہ خواہش پیداہوجاتی ہے کہ قیادت وراثت میں ان کو ملے۔اگر رسول اللہ کی اپنی نرینہ اولاد ہوتی تو یہ مسائل اس کے بارے میں بھی پیداہوتے۔نرینہ اولاد نہیں تھی تو قریب ترین لوگ یہی تھے، حضرت عباس اور حضرت علی۔ان کا یہ خیال ہو کہ ہم اہل بھی ہیں اور ہمیں خلافت ملنی چاہیے تو یہ کوئی بعید بات نہیں ہے۔آپ کے ساتھ نسبت کی وجہ سے یہ تصور پیداہونا اور پھر رسول اللہ ﷺ کا اپنے اہل بیت کی فضیلت کے بارے میں اور اہل بیت کے ساتھ محبت کے حوالےسے تاکید بھی فرمانا، تو یہ چیزیں مل کر، پہلے ایک خواہش کےا نداز میں سامنے آئیں۔ پھر جب یہ خواہش عملی شکل اختیار نہیں کر سکتی تو منفی ذہنیت در آئی کہ خلفاء غاصب تھے اور جو بھی اہل بیت کے ساتھ کسی تنازع کا حصہ بنا، ان کا ایمان اور اخلاص مشکوک ہے۔ پھر یہ چیزیں بڑھتے بڑھتے باقاعدہ کلامی اور اعتقادی موقف کی صورت اختیار کر گئیں۔

(جاری)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۳)

مولانا سمیع اللہ سعدی

شیعی رجالی تراث، انواع و اقسام

شیعی علم رجال کا انواع و اقسام کے اعتبار سے جائزہ ایک کٹھن کام ہے، ان سطور کا راقم یہ لکھنے پر مجبور ہے کہ بلا مبالغہ کئی دن تک سینکڑوں صفحات اور ویب پیجز کھنگالنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ شیعی علم رجال ایک چیستاں ہے، جس کو کماحقہ سمجھنے کے لئے ایک لمبا عرصہ درکار ہے، اولا کتبِ رجال کی درجہ بندی میں حائل مشکلات کا ذکر کیا جاتا ہے، پھر تتبع و تلاش سے شیعی رجالی تراث کی جو اقسام سامنے آئی ہیں، ان کا ذکر ہوگا:

1۔ شیعی رجالی تراث کی منظم تاریخ، مرتب تعارف اور کامل ببلو گرافی موجود نہیں ہے، حیدر حب اللہ نے اپنی کتاب "درس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ" میں، شیخ جعفر سبحانی نے "کلیات فی علم الرجال " میں، عادل ہاشم نے "المباحث الرجالیہ " میں محقق عبد الہادی فضلی نے "اصول علم الرجال میں اور محقق طہرانی نے "مصفی المقال فی مصنفی علم الرجال " میں شیعی علم رجال کی تاریخ لکھنے کی کوشش کی ہے، لیکن ان سب کتب میں شیعی رجالی تراث کی انواع و اقسام کے اعتبار سے کسی قسم کی کوئی تفصیل نہیں ہے، اس کے برخلاف اہل سنت میں صرف ایک کتاب "رواۃ الحدیث، النشاۃ، المصطلحات، المصنفات از عواد بن حمید الرویثی" میں سنی رجالی تراث کی 1000 کے قریب صفحات میں 32 اقسام و انواع(718 کتب ِ رجال ) کا ذکر کیا گیا ہے، جو بھی قاری پچھلی پانچ مصنفین کی کتب اور اس ایک کتاب کا موازنہ کرے گا، اسے انداز ہوجائے گا کہ اہل سنت کے علم رجال کی کتنی مرتب تاریخ لکھی گئی ہے اور شیعہ علم رجال کی تاریخ میں ترتیب و تدوین کے اعتبار سے کتنا بڑے خلا موجود ہیں۔

2۔ شیعی علم رجال کی کتب کی تعداد سرے سے ہی کافی کم ہے، چنانچہ حیدر حب اللہ نے اپنی کتاب "دروس تمہیدیۃ فی تاریخ علم الرجال عند الامامیہ " میں زمانہ نبوت سے لیکر عصر ِ حاضر تک شیعی رجال کی تاریخ اور ہر صدی کی کتبِ رجال کا ذکر کیا ہے، اس پوری کتاب میں مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب کی تعداد 115 کے قریب بنتی ہے، ان میں مطبوعہ کتب بمشکل 35 بنتے ہوں گے، (یہ احتیاطا زیادہ سے زیادہ تعداد ہے ) جبکہ اسی سلسلے کے پچھلی اقساط میں سنی رجالی تراث کی انواع و اقسام کا ذکر کرتے ہوئے 25 انواع کے تحت 90 کے قریب مطبوعہ کتب کا ذکر آچکا ہے، جس میں ہم نے کافی اختصار سے کام لیا، نیز محقق عواد بن حمید الرویثی نے اپنی کتاب "رواۃ الحدیث، النشاۃ، المصطلحات، المصنفات " میں صرف صحاح ستہ کے رجال پر 127 کتب(مطبوعہ و غیر مطبوعہ ) کا ذکر کیا ہے، گویا سنی رجالی تراث میں صرف صحاح ستہ کے رجال پر جو کام ہو اہے، وہ تیرہ صدیوں کی پوری شیعہ علم رجال (مطبوعہ و غیر مطبوعہ )سے زیادہ ہے1، اس لئے اس تھوڑی تعداد میں تنویع و تقسیم کافی مشکل ہے، بلکہ ایک اعتبار سے دیکھیں، تو سنی رجالی تراث کی صرف انواع پورے شیعہ علم رجال کی کتب کے قریب قریب ہیں، کیونکہ محقق عواد نے اپنی کتاب میں 32 کے قریب انواع ذکر کی ہیں، جبکہ محقق حیدر حب اللہ نے اپنی پوری کتاب میں شیعی مطبوعہ کتب ِ رجال تقریبا 35 ذکر کی ہیں۔

3۔ شیعی علم رجال کی جو کتب مطبوع ہیں، ان کی محققانہ اشاعتیں نہ ہونے کے برابر ہیں، محققانہ اشاعت سے مراد ایسی اشاعت، جس کے شروع میں کتاب کے منہج و اسلوب پر مفصل مقدمہ تحقیق ہو، کتاب میں موجود تراجم پر ترقیم ہو، ان تراجم کی دیگر کتبِ رجال سے تخریج ہو، آخر میں متنوع فہارس ہوں، اس قسم کی مطبوعات تقریبا معدوم ہیں، شیعہ مطبوعہ کتب میں محقق خوئی کی معجم رجال الحدیث کی اشاعت ایک مناسب اشاعت ہے، جبکہ دیگر جوامع رجال جیسے جامع الرواۃ للاردبیلی، قہپائی کی مجمع الرجال، شہید ثانی کی التحریر الطاوسی جیسی اساسی کتب کی اشاعتیں تحقیق کے اعتبار سے انتہائی ناقص ہیں، محققانہ اشاعتیں نہ ہونے کی وجہ سے بھی ان بڑی کتب کے منہج و اسلوب اور رجالی تراث میں اس کی درجہ بندی کرنا مشکل اور کٹھن کام ہے۔

4۔ شیعی اساسی کتب ِ رجال اور علمائے جرح و تعدیل پر دراسات وتحقیقات بھی انتہائی قلیل تعداد میں ہیں، جس میں کتاب و صاحبِ کتاب کا مفصل تعارف، منہج، تراجم، امتیازات و خصوصیات، اغلاط و اخطاء، نسخ و مخطوطات، کیفیتِ ذکر ِ تراجم، تعدادِ تراجم وغیرہ جیسے امور شامل ہوں، جبکہ اس کے برخلاف اہل سنت کی کتب ِ رجال پر اس قسم کی دراسات کثیر تعداد میں موجود ہیں، مثلا:

بطورِ نمونہ صرف دس کتب ذکر کیں، ورنہ اہل علم جانتے ہیں کہ اس قسم کی کتب سینکڑوں کی تعداد میں ہیں، شیعی کتب و علمائے رجال پر دراسات و تحقیقات نہ ہونے کی وجہ سے بھی شیعی رجالی تراث کی درجہ بندی مشکل ہے، کیونکہ ان جیسی کتب کی مدد سے کسی بھی کتاب کی درجہ بندی آسان ہوجاتی ہے۔

5۔ سب سے بڑی اور بنیادی مشکل یہ ہے کہ شیعہ علم ِ حدیث کے تین اجزاء، علم مصطلح الحدیث، کتب حدیث اور علم رجال و جرح و التعدیل الگ الگ زمانوں اور غیر مربوط انداز میں مرتب ہوئے، جب کتبِ حدیث کی تدوین ہوتی ہے، تو علم رجال اور مصطلح الحدیث کا وجود نہیں ہوتا، پھر جب کتب رجال لکھنی شروع ہوتی ہیں، تو علم مصطلح الحدیث کی اولین کاوشیں ساتویں صدی ہجری میں سامنے آتی ہیں، اس لئے شیعہ علمائے رجال کے سامنے کتبِ رجال کے وہ مناہج و اسالیب اور انواع و اقسام سامنے نہیں تھے، جن کا بیان عموما علم مصطلح الحدیث میں ہوتا ہے، جبکہ اس کے برخلاف سنی علم حدیث میں یہ تینوں اجزاء ایک زمانے، بلکہ ایک جیسے حضرات سر انجام دیتے ہیں، مثلا امام بخاری حدیث کی کتب بھی لکھتے ہیں، ساتھ رجال پر تفصیلی جوامع بھی تیار کرتے ہیں، امام خطیب بغدادی علم مصطلح الحدیث پر متون بھی تیار کرتے ہیں اور ساتھ رجال پر تفصیلی کتب بھی تحریر کرتے ہیں، ابن حبان حدیث کی کتاب بھی لکھتے ہیں، ساتھ ثقہ رجال کی تدوین بھی کرتے ہیں، الغرض یکساں زمانے اور ایک ہی محدث کی تینوں اجزاء میں کئی گئی کاوشوں کی وجہ سے سنی رجال کی ہر کتاب شروع سے ہی ایک خاص نوع اور خاص منہج وا سلوب کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہے۔

اب موجود شیعی رجالی تراث کی انواع و اقسام کا ذکر کیا جاتا ہے:

 1) شیعہ رجال کی اولین کتب زیادہ تر فہارسِ مصنفین پر مشتمل ہیں، یعنی وہ شیعہ رجال، جنہوں نے کسی بھی فن میں کوئی کتاب لکھی ہے، شیعہ محققین رجالی تراث کی قلت کی وجہ سے ان جیسی کتب کو بھی علم رجال الحدیث کی کتب میں ذکر کرتے ہیں، حالانکہ اہل سنت کے ہاں بھی فہرست ابن ندیم جیسی کتب ہیں، لیکن ان جیسی کتب کو سنی رجالی تراث میں اہل سنت اہل علم شمار نہیں کرتے، کیونکہ مصنفین کو رجال الحدیث سمجھنا محض مفروضہ ہے، اس سلسلے کی اہم شیعہ کتب، جیسے:

 2) بعض کتب رجال ایسی ہیں، جن میں متقدمین کی کتب پر تعلیقات، تلخیص یا ان کی شرح کی گئی ہے، جیسے:

 3) بعض کتب ایسی ہیں، جن میں ائمہ (معصومین ) کے تلامذہ و اصحاب اور طبقاتِ رجال کا بیان ہوا ہے، جیسے:

 4) کچھ ایسی کتب ہیں، جن میں صرف ثقہ رواۃ کا ذکر کیا گیا ہے، جیسے:

 5) بعض کتب ایسی ہیں، جن میں ضعیف رواۃ کی فہرست دی گئی ہے، جیسے:

 6) بعض کتب ایسی ہیں، جن میں متقدمین کی کتبِ رجال کو الف بائی یا کسی اور ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا ہے، جیسے:

 7) بعض ایسی کتب ہیں، جن میں ضعفاء و ممدوحین رجال دونوں کا تذکرہ الگ الگ کیا گیا ہے، جیسے:

 8) بعض کتب ایسی ہیں، جن میں اسماء کے ضبط، صحیح تلفظ اور کتب رجال میں اس سلسلے میں ہونے والی اغلاط کی تصحیح مذکور ہے، جیسے:

 9) کچھ ایسی کتب ہیں، جو جوامع و قوامیس کی درجہ بندی میں آتی ہیں، یعنی وہ کتب، جن میں مصنف نے اپنے سے پہلے تمام رجالی ذخیرہ کو اس میں سمونے کی کوشش کی ہو، جیسے:

 10) بعض کتب صحابہ کے تذکرے پر مشتمل ہیں، شیعہ علم رجال میں صحابہ کے تذکرے پر مشتمل کتب نہ ہونے کے برابر ہیں، ان میں سے ایک رسالہ حر عاملی (المتوفی 1104ھ) نے "رسالہ فی معرفۃ الصحابہ" کے نام سے لکھا ہے، جس میں 500 کے قریب صحابہ و صحابیات کا ذکر کیا گیا ہے۔

(جاری)

قومی زبان — عدالتِ عظمٰی اور بیوروکریسی

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک بار پھر ملک میں اردو کے سرکاری طور پر نفاذ کی صورتحال کا نوٹس لیا ہے اور جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کی سماعت کی ہے جس میں اردو کو فوری طور پر رائج نہ کرنے پر وفاقی حکومت جبکہ پنجابی زبان کو صوبے میں رائج نہ کرنے پر پنجاب حکومت سے جواب طلب کر لیا ہے۔ اس موقع پر جسٹس بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ۲۰۱۵ء میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کا حکم دیا تھا جس کی تعمیل میں وفاقی حکومت ناکام رہی ہے، آئین کے آرٹیکل ۲۵۱ میں قومی زبان کے ساتھ ساتھ علاقائی زبان کا بھی ذکر ہے، پنجابی زبان کے نفاذ نہ کرنے پر ہم پنجاب حکومت کو بھی نوٹس دے رہے ہیں۔ مادری اور قومی زبان کے بغیر ہم اپنی شناخت کھو دیں گے۔ جسٹس بندیال نے کہا کہ میری رائے میں ہمیں اپنے بزرگوں کی طرح فارسی اور عربی زبانیں بھی سیکھنی چاہئیں۔

جسٹس بندیال کا ارشاد اس سلسلہ میں اب تک کی صورتحال واضح کرنے کے لیے کافی ہے اور یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اپنی تہذیب اور زبان کے تحفظ کے فروغ کے لیے سرسید احمد خان سے لے کر ڈاکٹر سید محمد عبد اللہ مرحوم تک قومی راہنماؤں نے جو مسلسل تگ و دو کی تھی اور دستور پاکستان نے اس سلسلہ میں جو وعدہ کیا ہے بلکہ ضمانت دی ہے ہمارے مقتدر حلقے اس کو مکمل طور پر نظرانداز کر کے انگریزی زبان کا تسلط برقرار رکھنے اور مغربی تہذیب کو ملک میں رائج کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان سرگرمیوں میں دن بدن وسعت اور تیزی دکھائی دے رہی ہے۔

زبان اور تہذیب و عقیدہ کسی قوم کی شناخت ہوتا ہے جس سے محروم ہو کر قومیں آزادی اور خودمختاری بھی کھو بیٹھتی ہیں۔ ہمیں اس سلسلہ میں اپنے اردگرد چین، افغانستان اور ایران کو ہی دیکھ لینا چاہیے کہ وہ اپنی تہذیب اور زبان کے تحفظ و بقا اور فروغ کے لیے کس قدر سنجیدہ ہیں اور یہ بات ان کی عزت و وقار اور قومی اعتماد میں اضافہ کا باعث بھی ہے۔

اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کے مذکورہ ریمارکس کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہم قومی زبان تحریک پاکستان کے نائب صدر پروفیسر محمد سلیم ہاشمی کی مندرجہ ذیل تجاویز کی حمایت کرتے ہیں جو انہوں نے حال ہی میں وزیراعظم پاکستان کے نام اپنے خط میں پیش کی ہیں:

’’قرآن پاک کا حکم ہے کہ اپنی قوم کو اس کی زبان میں تعلیم دی جائے (سورہ ابراہیم ۴)۔ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی اور بانی پاکستان کا فیصلہ تھا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ ۱۹۷۳ء کے آئین کی شق ۲۵۱ میں یہ نکتہ شامل کیا گیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے۔ ۸ ستمبر ۲۰۱۵ء کو پاکستان کی عدالتِ عظمٰی نے پاکستان میں ہر شعبہ زندگی میں ہر سطح پر فی الفور اردو نافذ کرنے کا حکم جاری کیا۔

ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ پاکستان میں فوری طور پر اردو کو نافذ کرنے کے احکامات صادر کیے جائیں۔ اس ضمن میں (۱) تمام سرکاری، دفتری اور انتظامی امور کے لیے فوری طور پر نفاذِ اردو کا اعلان کیا جائے۔ (۲) اگلے تعلیمی سال سے اردو کو تعلیمی شعبہ میں ہر سطح پر نافذ کیا جائے۔ (۳) موجودہ سال کو نفاذِ اردو کا سال قرار دیا جائے۔‘‘

ہم عدالتِ عظمٰی سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنے واضح فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے مضبوط موقف اور اقدام کا راستہ اختیار کرے گی، جبکہ حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قومی خودمختاری، شناخت اور دستور کے تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے موثر عملی اقدامات کرے۔

عشرہ دفاعِ وطن

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

ستمبر کے پہلے عشرے کے دوران میں مختلف دینی اجتماعات میں جو گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا ان کا خلاصہ چند نکات کی صورت میں درج ذیل ہے:

اسلام کے عہد اول میں فکری انقلاب

بیرسٹر ظفر اللہ خان

مسلمانوں نے ماضی میں تغیر اور جدوجہد کے دائمی اصولوں کی روشنی میں ہر چیلنج کا جواب دیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کیسے فتوحات کیں اور کس طرح دنیا کے بڑے حصے پر صدیوں شایانِ شان طریقے سے حکمرانی کرتے رہے۔ انہوں نے ہر شعبۂ زندگی میں بنی نوع انسان کے ارتقاء میں نمایاں کردار ادا کیا۔  اس مضمون میں، صرف چند ایک چیلنجوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا جو مسلمانوں کو اپنے دورِ حکمرانی میں پیش آئے اور چندمثالیں پیش کی جائیں گی جو اس امر کو افشا کریں گی کہ اس عہد کے مسلمان اپنے دور کے ان چیلنجوں سے کس طرح نبرد آزماہوئے اور انہوں نے کس طرح دنیا کو اپنی آرزؤوں کے مطابق ڈھال کردکھایا۔ یہ تجزیہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ اس امر کا تعین کرے گا کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ کیا ہم خود احتسابی کے تقاضوں سے استقامت کے ساتھ عہدہ برآ ہو رہے ہیں؟ کیا ہم تغیرات اور اپنے زمان و مکان کے چیلنجوں کا مناسب جواب دے رہے ہیں؟

۱۔ فکر میں تبدیلی

اسلامی عربیہ میں عرب زیادہ تر صحرا نشین تھے۔ ان کے ہاں چند شہری آبادیاں تھیں لیکن ان کے اندر کوئی ترقی یافتہ سیاسی ڈھانچہ نہیں تھا۔ صرف چند ایک مشترک مفادات رکھنے والے چھوٹے چھوٹے گروہوں کی آبادیاں تھیں جیسے مکہ، مدینہ اور طائف۔ قبائلی ڈھانچے کے بنیادی خدّوخال یہ تھے:

(۱) صحرا نشین یا بدو زیادہ تر قبائلی ماحول میں رہتے تھے۔ جس میں چند خاندانوں کا ایک گروہ ایک کنبہ بناتا اور کنبوں کے ایک گروہ سے ایک قبیلہ وجود میں آ جاتا تھا۔ مکہ اور مدینہ کے اندر اور اردگرد متعدد قبیلے تھے اور ہر قبیلے کے اپنے اپنے رسم و رواج او رقواعد و ضوابط تھے۔ جن چیزوں کی ایک قبیلے میں عام اجازت تھی وہ دوسرے قبیلے میں ممنوعہ چیزیں سمجھی جاتی تھیں۔

(۲) متعد د قبیلے ایک دوسرے سے مستقلاً برسرپیکار رہتے تھے۔ ان کی زیادہ لڑائیاں خطے میں وسائل کی قلت کی وجہ سے ہوتی تھیں۔ قبیلوں کے درمیاں لڑائیاں کئی کئی نسلوں سے چلتی آ رہی تھیں۔ قرونِ وسطیٰ کے عرب میں جنگ بسوسi جو دو حریف قبائل کے درمیان ایک طویل چپقلش تھی ایک اونٹ کی ملکیت کے تنازعے پر شروع ہوئی تھی۔ قبیلہ بنو تغلب اور قبیلہ بنو بکر تقریباً چالیس سال آپس میں لڑتے رہے۔ ایک دوسرے کے مستقل دشمن بنے رہے اور انتقام در انتقام کا سلسلہ جاری رہا۔

(۳) یہ قبیلے خون اور نسل کی بنیاد پر بنے تھے۔ اس سے قبائلی شجاعت اور جوانمردانہ صفت نے جنم لیا جسے ’مرّوۃ ‘ کہا جاتا تھا۔ جس نے ان کی زندگیوں میں معانی پیدا کیے اور ان کے اندر جرأت، صبر، حوصلہ، میزبانی اور سخاوت نے جنم لیا۔ اس سے انتقام کا جذبہ بھی پیدا ہو گیا۔

(۴)  کسی قبیلے کے ’شیخ ‘ کا انتخاب بڑوں کی ایک مجلس کرتی تھی۔ شیخ اس شخص کو بنایا جاتا تھا جو اس کام کے لیے موزوں سمجھا جاتا تھا۔ ذہانت، پختہ کاری، جرأت، قیادت، انتظامی صلاحیت، زبان میں روانی اور اعلیٰ تجارتی صلاحیتیں رکھتا ہوتا تھا۔

(۵) شیخ مختار کل تھا جواپنے لوگوں اور ان کے انتظامی امور کو کنٹرول کرتا تھا، وہ قبیلے کی حفاظت کرتا اور جھگڑے نمٹاتا، اشیا و مقبوضات کی تقسیم کرتا اور قبیلے کے کمزور افراد کو تحفظ بھی دیتا تھا۔

(۶) اس وقت جذبۂ حب الوطنی قومی نہیں بلکہ قبائلی ہوتا تھا۔ ہر چیز قبیلے کے مفاد کے تابع تھی جب کہ کسی شخص کی انفرادیت کاکوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا تھا۔

(۷) زمانہ قبل از اسلام کے عرب اپنی شاعری کی وجہ سے پہچانے جاتے تھے اور ان کے شعراء اپنے قبیلے اور اپنے سرداروں کی عظمت کے گیت گاتے تھے لیکن اپنے بتوں کے گیت کبھی کبھار گاتے تھے۔ شاعری کے مقابلے سالانہ بنیاد پر مشہور منڈی ’عکاظ ‘ii میں منعقد ہوتے تھے۔ جیتنے والے کو بہت پیسہ اور معاشرے میں عزت ملتی تھی۔ اس کے بعد سے اس کو سردار مانا جاتا تھا۔

(۸) قبیلے کے ہر فرد کو پورا تحفظ حاصل ہوتاتھا مگر اس تحفظ کو صرف شیخ یا قبیلہ یقینی بناتا تھا۔ اس سیاق و سباق میں انفرادیت کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ فرد قبیلے کا تابع ہوتا تھا۔ کسی کی شخصی بقا قبیلے پر منحصر تھی۔ قبیلے سے ملنے والے تحفظ میں اکثر انتقام مضمر ہوتا تھا۔ ہر قبیلہ اپنے ہر فرد کی موت کاانتقام لیا کر تا تھا۔ اسی وجہ سے قبائلی لڑائیاں نسل در نسل جاری رہتی تھیں۔ نتیجتاً تشدد کا ایک دائمی چکر چلتا رہتا تھا۔

(۹) ان قبیلوں میں ایک نہ ختم ہونے والی مسابقت جاری رہتی تھی۔ توازن قائم کرنے کے لیے اونٹوں، مویشیوں یا اشیا پر قبضے کے لیے چھاپے مارنے کا سلسلہ جاری رہتاتھا۔ دولت اور خوشحالی قبائلی کلچر کا سرمایۂ افتخار تھا۔ اس معاشرتی ڈھانچے میں صرف طاقتور کو بقا حاصل تھی اور کمزور ہمیشہ استحصال کا نشانہ بنے رہتے تھے۔ اس لیے عورتیں، لڑکیاں اور معذور افراد خطرے میں رہتے تھے۔

اسلام کی آمد کے بعد قبائلی ڈھانچے میں مندرجہ ذیل تبدیلیاں آئیں:

(۱) اسلام نے قبائلی وفاداریاں تبدیل کردیں۔ یہ وفاداریاں اسلامی تصورات کے سامنے ماند پڑ گئیں۔ نئے نئے اسلام قبول کرنے والے اپنے قبائلی سرداروں کے وفادار رہے لیکن اب ان کی اوّلین وفاداری اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول حضرت محمدﷺ کے ساتھ تھی۔

(۲) اسلام نے ’مروۃ ‘ کی توثیق کی اوراس کے بہترین حصے کو برقرار رکھا لیکن اس میں توسیع کرکے تمام مسلمانوں کو اس میں شامل کیا نہ کہ صرف کسی فرد کے قبیلے کے ارکان کو شامل کیا گیا۔ ہر فرد کو اپنے لیے، اپنے قبیلے کے لیے، اپنے ساتھی مسلمانوں کے لیے اور پوری انسانیت کے لیے جدوجہد بروئے کار لانا ہوتی تھی۔

(۳) عرب اپنے شیخ کے چناؤ کے لیے قبائلی مساوات کے عادی تھے مگر اس نظام میں کمزوریاں تلاش کی جا سکتی تھیں۔ خاص طور پر اس وقت جب ایک رہنما کو اس کی شہرت کی بنیاد پر منتخب کرنا ہوتا۔ اس کی شہرت رائے دہندہ کی آزادانہ مرضی پر اثر انداز ہوتی تھی۔ یہ رائے ایک قسم کا جبر بن جاتی تھی۔ چنانچہ اس طریقے کی اصلاح اس طرح کی گئی کہ انتخاب کی بنیاد تقویٰ، قابلیت، علم اور شعور ِ خدمت پر رکھ دی گئی۔

(۴) اسلام نے فرد کو اہمیت دی، قطع نظر اس کے کہ وہ کون تھا اور اس کی قبائلی وابستگی کیا تھی؟ ایک وسیع مسلم امہ کا ایک رکن ہونے کی بنا پر شہری ہونے کی حیثیت، محض مقامی قبائلی وفاداری کی بہ نسبت زیادہ اہم قرارپا گئی۔

(۵) اللہ تعالیٰ حتمی منصف قرار پایا۔ عرب خون خرابے اور انتقام کے زیادہ دلدادہ تھے۔ ان کے اس مزاج نے قبائل کے درمیان جنگوں کا سلسلہ جاری کرا دیا جو نسل در نسل چلتی رہتی تھیں۔ جیسا کہ جنگ بسوس تھی۔ اسلام نے انتقام کے تصور سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہوئے مسلمانوں کے ایمان اور عقیدہ تقدیر کو خدا کے قانون (شریعت) کی طرف موڑ دیا تا کہ وہ ذاتی یا قبائلی انتقام کی بجائے قانون کی حکمرانی پر یقین رکھیں۔

(۶)  اگرچہ بدو مستقل مزاج اور محنتی لوگ تھے تاہم ان میں سے بہت سے افراد لوٹ مار اور دیگر اقتصادی جرائم میں ملوث ہوتے تھے۔ حضور نبی کریمﷺ نے ان کی مستقل مزاجی کی حوصلہ افزائی کی لیکن نئے نظامِ سیاسی معیشت کے اندر لا کر انہیں غیر قانونی طریقوں اور نا جائز معاشی سرگرمیوں سے روک دیا۔

۲۔ بادشاہت سے شوریٰ تک

اسلام کی آمد کے زمانے میں جزیرہ نمائے عرب میں جو سیاسی نظام مرّوج تھا وہ نیم قبائلی اور نیم شاہی تھا جبکہ ہمسایہ علاقوں میں موروثیت اور مستبد بادشاہتوں پر مبنی نظام تھا۔ اس ماحول میں عام لوگوں کے کوئی شہری یا سیاسی حقوق نہیں تھے نہ ہی امور مملکت میں ان کی کوئی آواز ہو سکتی تھی۔ حضور نبی پاکﷺ ہجرت کرکے مدینہ آئے تو یہاں ایک ریاست کی رسمی بنیادیں رکھیں۔ حکمرانی کے لیے ایسا نظام وضع کیا جو شراکت اور باہمی مشاورت پر مبنی تھا۔  ’شوریٰ‘ (مشاورت) سیاسی و سماجی تنظیم کے اسلامی تناظر کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ مسلم فقہاء کی اکثریتی رائے یہ ہے کہ ’شوریٰ‘ عظائم الاحکام (Great Commandments) کا حصہ ہے اور ان کی اطاعت کرنا حکمران اور مسلم عوام دونوں کے لیے فرضِ عین ہے۔

(۱) قرآن پاک شوریٰ کو حکمرانی کے ایک اصول کے طور پر پیش کرتا ہے، نہ کہ بطور ایک نظام کے۔ ان دونوں باتوں میں ایک فرق ہے اور وہ بہت اہم ہے۔ اسے نوٹ کیا جانا چاہیے۔ ایسا کرکے قرآن پاک نے یہ امر مسلمانوں کی آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ دیا ہے کہ وہ اصول شوریٰ کو زیادہ سے زیادہ حقیقت آفریں بنانے کی کوششیں جاری رکھیں۔

(۲) قرآن پاک حکم دیتا ہے کہ

وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ  فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰہِ. (۱)

(کام میں ان کے ساتھ مشورہ کیا کریں۔ جب آپﷺ کا ارادہ پختہ ہوجائے تو اللہ پر بھروسہ کریں)

یہ ایک حکم ہے اور اللہ تعالیٰ شوریٰ کو اپنے نبیﷺ کے لیے بھی لازم قرار دیتا ہے۔ رسول اللہﷺ کو غیر معمولی خدائی بصیرت، علم، شفقت اور لوگوں کی بھلائی کا اتنا احساس عطا کیا گیا تھا کہ کسی دوسرے حکمران کو اتنا نہ تھا اور نہ کسی کو ہو سکے گا۔ مزید برآں آپﷺ پر براہ راست وحی نازل ہوتی تھی۔ یہ آپﷺ کی امتیازی فضلیت و خصوصیت تھی جو آپﷺ کے بعد کسی مسلم حکمران کو نہ حاصل تھی اور نہ کبھی حاصل ہو سکے گی۔ لہٰذا اگر شوریٰ حضور نبی کریمﷺ کے لیے لازمی تھی تو بعد کے تمام مسلمان حکمرانوں کے لیے یہ بدرجہ اتم لازمی ہو گئی ہے۔

(۳) شوریٰ کو مومنوں کی ایک لازمی خصوصیت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ

وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰى بَيْنَھُمْ  (۲)

    (ان کے معاملات باہمی مشورے سے چلتے ہیں)

    اس خصوصیت کا دیگر سب مومنانہ خصوصیات کی طرح ذکر کیا گیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی، ادائیگی نماز، (فرض نمازیں) اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا (زکوٰۃ عشر، صدقات وغیرہ)، جو کہ قرآن مجید میں مذہبی فرائض کے طور پر مذکور ہیں۔

(۴) شوریٰ کے معنی ہیں فیصلہ سازی میں موثر طور پر شریک کرنا، نہ کہ محض ایک رسمی کارروائی کرکے خانہ پُری کر دینا۔ قرآن مجید، حضور نبی اکرمﷺ کو جن پر وحی الٰہی نازل ہوتی تھی، مخاطب کرکے کہتا ہے کہ جن معاملات کے بارے میں کوئی خاص وحی نہیں آتی ان کے فیصلے کے لیے شوریٰ پر انحصار کیا جائے۔ تمام اہلِ ایمان کو بطور پکے حکم کے اس ہدایت پر عمل کرنا چاہیے۔ ممتاز اندلسی مفسرِ قرآن ابن عطیہ نے اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوریٰ شریعت کے بنیادی قوانین میں سے ہے اور ایک تاکیدی حکم ہے۔ جس شخص کو سرکاری اختیار دیا گیا ہو اور وہ ان لوگوں سے مشورہ نہیں لیتا جو علم اور خوفِ خدا رکھتے ہیں تو اسے اس منصب سے فارغ کر دیا جانا چاہیے۔

(۵) یہاں شوریٰ کے حوالہ سے دو باتوں کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ پہلا ہے اس کی اشتقاقی صورت، یہ اپنی جڑ ’شاور ‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے باہمی مشاورت جو ایک وسیع ترین دائرۂ کار میں کی جائے۔ یہ ایک اجتماعی سوچ وبچار کا اہتمام ہے جس میں تمام فریقین نے ایک دوسرے کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا ہو۔ اس لحاظ سے شوریٰ کی اصطلاح کو استشراح کی اصطلاح سے ممیز کیا جانا چاہیے۔ جس کے معنی دوسرے آدمی سے صرف مشورہ لینا ہے۔ شوریٰ کا لفظ تشاور سے بھی مختلف ہے جس کا مطلب صرف باہمی مشورہ ہے جبکہ جس بات کا شوریٰ میں تصور کیا گیا ہے، وہ ایک بھرپور قومی شراکت پر مبنی سیاسی مشق ہے۔

(۶) انسان ز مین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ خلیفہ کا مطلب خدا کی طرف سے امت کو تفویض کیا گیا اختیار ہے جسے بروئے کار لا کر وہ زمین پر امن قائم کرے۔ عدل وگستری کرے اور خوشحالی لائے۔ یہ تصور اس لحاظ سے ہمہ گیر ہے کہ امہ کا ہر شخص انفرادی طور پر قانوناً اس امر کا پابند ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ تفویض کردہ اختیار پر کماحقہ عمل درآمد ہو اور نمائندہ حکمرانی جس کے ذریعے یہ اجتماعی ذمہ داری مناسب انداز میں پوری ہوسکے۔ اسلام کی رو سے دستوری طور پر واجب التعمیل ہو جاتی ہے۔ مطلق کائناتی حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے لیکن اس نے بذریعہ حکمِ استخلاف (انسان کو اپنا خلیفہ بناتے ہوئے) زمین پر حاکمیتِ اعلیٰ امت یعنی عوام کو سونپی ہے۔

(۷) منتخب خلفاء (مسلم حکمران) عام لوگوں کے پاس جاتے تھے تا کہ بذریعہ بیعت ان سے رضامندی (حلفِ اطاعت) حاصل کر سکیں۔ بیعت (یا بیعہ) ایک باہمی عہد و پیمان ہوتی ہے۔ حکمران کی طرف سے یہ عہد ہوتاہے کہ وہ اسلامی قانون کی پیروی کرے گا اور پبلک کو مطمئن کرے گا اور عوام کی جانب سے یہ عہد ہوتا ہے کہ وہ حکمران کی پشت پناہی کریں گے اور اس کو مشورے دیں گے۔ خلفاء نے اپنی نامزدگی کے بعد عوام سے بیعت لی تھی۔  ’بیعت‘   بنیادی طور پر منتخب کرنے یا خلیفہ یا چیف ایگزیکٹو کی توثیق کرنے کی ایک شکل تھی۔ یہ دو مرحلوں پر مشتمل تھی۔ پہلے قدم کو بیعۂ خاصہ (خصوصی اظہار وفاداری) کہا جاتا تھا۔ یہ نجی صلاح مشورے کے ذریعے ایک نامزدگی کے مترادف تھی۔ دوسرے قدم کو بیعۂ عامہ (عوامی اظہارِ وفاداری) کہا جاتا تھا۔ یہ نامزد شخص کی عوامی منظوری ہے۔ اس منظوری یا قبولیت کا اظہار نامزد خلیفہ کے ساتھ مصافحے کی صورت میں ہوتا تھا۔ جن لوگوں کو اختلاف ہوتا تھا وہ مصافحہ سے گریز کرنے میں آزاد تھے۔

(۸) دستوری نقطہ نظر سے بیعت کی منسوخی ممکن ہوتی ہے۔ یہ مواخذے یا منصب سے معزولی کے مترادف ہوتی ہے۔ خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتفاق رائے سے خلیفۂ رسول کے طور پر اپنی توثیق ہو جانے کے بعد اس حق کی پُر زور تائید کی تھی۔ انہوں نے پیغمبر حضرت محمدﷺ کی مسجد (مسجد نبوی) میں  ’بیعت‘ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: مجھے تم پر اختیار دے دیا گیا ہے لیکن میں تم میں سے بہترین نہیں ہوں۔ آپ میری اس وقت تک اطاعت کریں جب تک میں تمہارے معاملات میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتاہوں۔ جب میں اس کی اطاعت نہ کروں تو آپ میری اطاعت نہ کریں۔ اسی اصول کی پیروی میں خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ’جب میں صحیح کام کروں تو میری مدد کرنا، اگر میں کچھ غلط کروں تو میری اصلاح کر دینا‘۔

(۹) حضور نبی کریمﷺ کی دنیائے فانی سے رحلت کے بعد امت (مسلم کمیونٹی) کے معاملات عملِ مشاورت سے چلائے جاتے رہے جس میں تمام مسلمان شریک رہتے تھے۔

(۱۰) پہلے بیان کردہ قرآن پاک (۳) سے بالکل واضح ہے کہ ہر فیصلہ شوریٰ کے نتائج پر مبنی ہونا چاہیے۔ تاریخی واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ فیصلے اکثریت کی آراء لے کرکیے جاتے تھے۔ اگرچہ اقلیت یا خواہ ایک فرد کی رائے درست ہی کیوں نہ ہو اور اکثریت کی رائے غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اکثریتی رائے ہی معقول اور قابل قبول ہوتی ہے۔ اسی میں بنی نوع انسان کی بھلائی سمجھی جاتی ہے کیونکہ ایسے کیس میں خطرے کاامکان، انفرادی یا اقلیتی کیس کی بہ نسبت بہت ہی کم ہوتا ہے۔

(۱۱) حضور نبی اکرمﷺ کی حیات مبارکہ کے کئی نظائر اور خلفائے راشدین کے فیصلوں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اکثریت کی آرا کے مطابق ہوئے تھے، اگرچہ وہ امیر کے نظرئیے سے مختلف تھے۔ اسلام ہمیں یہی درس دیتا ہے کہ فرد کو معاشرے یا الجماعت کی پیروی کرنی چاہیے۔ اس کی تعبیر بطور اکثریت کی جا سکتی ہے۔ ذیل کی احادیث اسی اصول کی طرف اشارہ کرتی ہیں:

(ا) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: بلا شبہ میری امت گمراہی پر مجتمع (متفق) نہ ہوگی۔ جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم کا ساتھ دو۔ (۴)

(ب) یقیناً اللہ تعالیٰ میری امت یا محمدﷺ کی امت کو غلط بات پر متفق نہیں ہونے دے گا۔ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ سب سے بڑے اجماع کے ساتھ ہے۔ (۵)

(ج) تم میں سے جو کوئی بھی جنت کے وسط میں جگہ پانا چاہتا ہے، اسے جماعت کے ساتھ پیوستہ رہنا لازمی ہے۔(۶)

(د) جو کوئی جماعت سے علیحدہ ہو گیا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (۷)

(۱۲) اس مشاورت پر مبنی انقلابی سیاسی فکر نے دنیا میں ایک مقبول انقلاب برپا کر دیا۔ عام سے لوگوں اور زیادہ تر نادار عربوں مثلاً حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے غریب لوگوں کو منجنیق کی طرح اچھال کر عالی مرتبت مسندوں پر متمکن کر دیا۔ ایرانی اور رومی سلطنتیں زمیں بوس ہو گئیں۔ مقبول انقلابی طوفانی لہر نے جسے مسلم خلافت نے اداراتی شکل دی تھی، ان کا صفایا کر دیا۔ موروثی شاہی خاندانوں کی جگہ اللہ تعالیٰ کے غلاموں کی حکمرانی نے لے لی۔ پھر تاریخ نے سرِ عام خلفاء کا احتساب ہوتے دیکھا۔

(۱۳) اس کے بعد کیا ہوا؟ ہم رومیوں اور ایرانیوں کے نقش قدم پر چلنے لگے۔ ہم نے ان کے رسم و رواج اختیار کرتے ہوئے موروثی خاندانی حکمرانی قائم کر لی۔ بلا شبہ یہ مسلم بادشاہتیں تھیں لیکن اسلامی حکومتیں نہیں تھیں۔ اسلام کا انقلابی اور جمہوری جذبہ بہت جلد ختم ہو گیا۔ مسلم بادشاہوں نے خود کو زمین پر خدا کا سایہ (ظل اللہ) ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہوتے ہیں۔ اس لیے انہیں خدائی حقوق (Divine rights) حاصل ہیں۔ بہت سے علماء نے بد امنی پھیلنے کے خوف سے ان کے اس سراسر غیر اسلامی تصور کی غیر مشروط تائید کی۔ بد قسمتی سے ہم مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں زیادہ زیر بحث عوام کے حقوق کی بجائے امیر (حکمران) کے بنیادی کردار پر پاتے ہیں۔ عوام کو اطاعت امیر کا درس دیا جاتا تھا۔ یعنی یہ کہ ان پرامیر کی اطاعت ایک فرض کی حیثیت رکھتی ہے اور یہ کہ شوریٰ (پارلیمنٹ) صرف مشورہ دے سکتی ہے جب کہ امیر اس کے مشوروں اور نصیحتوں کو قبول کرنے کا پابند نہیں ہے۔

(۱۴) اس ناقص اور غیر اسلامی سیاسی نظریے نے ہماری مذہبی اور سیاسی زندگی کے ارتقاء پر سنگین اثرات مرتب کیے ہیں۔ میں نے ذیل میں اس کی دو تاریخی مثالیں پیش کی ہیں:

(ا) تقریباً چار سو پچاس (۴۵۰) علمائے وقت (مذہبی سکالرز) نے ابو الفضلiii اور فیضیiv کی قیاد ت میں ایک محضرنامہv مرتب کیا جو بادشاہ اکبرvi کو دنیاوی اور مذہبی اختیارات تفویض کرتا تھا اور رعیت پر بادشاہ کی اطاعت لازم قرار دیتا تھا۔ بادشاہ اکبر نے لادینی کے ایک نئے مذہب کو جنم دیا، جس کا نام ’دین الٰہی‘vii رکھا گیا۔

(ب) جب شیخ احمد سرہندیؒviii اس نئے مذہب کی مخالفت اوراس کے رد کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو بہت سے علماء اور صوفی مغل بادشاہ کی طرفداری کرتے ہوئے شیخ احمد سرہندیؒ کی تحریک کی مخالفت کے لیے کمر بستہ ہو گئے اور انہوں نے دارا شکوہix کی بھی حمایت کی جو شہنشاہ اورنگزیب عالمگیرx کی مخالفت میں نئے مذہب کی حمایت کررہا تھا۔

(ج) مطلق بادشاہت نے مسلم دنیا میں سیاسی جبر کو جنم دیا۔ ہندوستان کے ایک مسلمان حاکم نے کسی شہری سے ناراض ہو کر اسے ہاتھی کے پاوں تلے روندنے کا حکم دیا۔ شام کو جب بادشاہ سلامت مغرب کی نماز پڑھنے لگے تو امام صاحب نے اتفاقاً سورۃ الفیل (جس میں ہاتھی والوں کی بربادی کا ذکر ہے) کی تلاوت کی۔ بادشاہ سلامت برہم ہو گئے کہ امام اس کی تضحیک کر رہا ہے۔ بادشاہ سلامت نے حکم دیا کہ اس امام کو بھی ہاتھی کے پائوں تلے روند دیا جائے۔ حضرت اقبالؒ فرماتے ہیں:

کرتی ہے ملوکیّت آثارِ جنوں پیدا
اللہ کے نشتر ہیں تیمور ہو کہ چنگیز (۸)

۳۔ غلامی سے آزادی تک

اسلام نے انسانی غلامی کی تمام شکلوں اور مظاہر کی شدید مذمت کی ہے اور اس کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ اس نے اس لعنت کوکم اور صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے عملی اقدامات کئے ہیں۔ اس نے انسانیت کو آزادی کا سبق دیا ہے۔ آئیے حضور نبی کریمﷺ کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تاریخی بیان کو یاد کریں۔

حضرت امام ابن الحاکمؒ کی روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کرتے ہیں کہ مصر کا ایک آدمی عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا: اے امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ!  میں نا انصافی سے پناہ مانگنے کے لیے آیا ہوں۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ تم نے کسی کواس پر آمادہ پایا۔ اس شخص نے کہا کہ میں نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے سے مقابلہ کیا تھا اور میں جیت گیا تھا۔ اس نے مجھے کوڑے مارے اور کہا کہ میں عزت دار آدمی کا بیٹا ہوں۔ ا س پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھ کر بیٹے سمیت مدینہ بلایا اور پوچھا کہ وہ مصری کہاں ہے؟ وہ آیا تو انہوں نے اس کو کوڑا دیااور کہا حضرت عمروبن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹے کو اس سے مارو۔ اس شخص نے اس کو مارنا شروع کر دیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم اس شخص نے اسے مارا اور ہمیں اس کا یہ مارنا بہت اچھا لگا۔ پھرحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصری کو کہا اب اس کے باپ (حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی طرف بڑھو۔ مصری نے جواب دیا کہ یا امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے بیٹے نے مجھے مارا تھا۔ میں اس سے بدلہ لے لیا ہے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: تم نے کب سے لوگوں کوغلام بنالیا ہے حالانکہ ان کی ماوں نے انہیں آزاد پیدا کیا ہے۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے اس کے بارے میں معلوم نہ تھا اور نہ ہی مصری میرے پاس شکایت لے کر آیا تھا۔ (۹)

یہ آزادی کا اعلان عہد حاضر کے مشہور فرانسیسی فلسفی اور سیاسی مفکر روسوxi کے اس مشہور نعرہ سے بھی زیادہ جامع ہے کہ

انسان آزاد پیدا ہوا ہے مگر ہر جگہ غلامی کی زنجیروں میں ہے۔

روسو نے محض ایک حقیقت بیان کی تھی جبکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روسو سے ایک ہزار سال پہلے غلامی کی مذمت کی اور سب کے لیے اعلان آزادی کیا تھا۔ غلامی کی مذمت نہ صرف جسمانی غلامی کے خلاف جہاد تھا بلکہ غلامی کی تمام شکلوں اور تمام مظاہر کے خلاف ایک جہاد تھا۔ مذکورہ واقعے میں ’بڑی عزت والے شخص کا بیٹا ہونے کی شیخی بگھارنے کو غلامی کی ایک قسم قراردیا گیا ہے‘۔

اس اصول کو جنگ قادسیہ سے پہلے حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہxii کے ایلچی نے فارس کے جرنیل کے دربار میں زیادہ شاعرانہ طور پر پیش کیا تھا۔ (یہ جنگ 636ء میں عرب مسلم فوج اور ساسانی فارسیوں کے درمیان لڑی گئی تھی)۔ فارسی فوج کے کمانڈر رستم نے مسلم کمانڈر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پیغام بھیجا تھا کہ وہ بات چیت کے لیے اپنا ایلچی بھیجیں جس پر انہوں نے حضرت ربیعہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بطور ایلچی بھیجا۔

رستم نے حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ فارس میں کیوں آئے ہیں اور آپ کا مقصد کیا ہے؟ حضرت ربیعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا: ہم کو اللہ پاک نے اس لیے بھیجا ہے کہ جس کے بارے میں اس کی مرضی ہو، اس کو بندوں کی بندگی سے نجات دلا کر اللہ تعالیٰ کی بندگی میں داخل کریں۔ دنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں پہنچا دیں اور مذاہب کی زیادتیوں سے بچا کر اسلام کے عدل میں لے آئیں۔ (۱۰)

اللہ تعالیٰ کی مکمل اطاعت اور اس کے سامنے اظہار نیاز مندی انسانیت کو غلامی کی تمام شکلوں سے نجات دلاتی ہے۔ حضرت اقبالؒ نے اس تصور کو بڑی خوبصورتی سے شعر میں پیش کیا ہے:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات (۱۱)

انسانوں کو غلام بنانے کے طریق کار اور اس کی تاسیس کے انسانی معاشرے پر بہت دوررس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ یہ انسان کے وقار اور عزتِ نفس کے منافی ہے۔ غلامی میں انسانی سرگرمیوں کا دائرہ سکڑ جاتا ہے جبکہ آزادی میں پھیل جاتا ہے۔ آزادی میں انسان اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کر سکتا ہے اور اس کی تخلیقی اور اختراعی قابلیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ حضرت اقبالؒ نے کتنی خوبصورتی سے اس بات کا اظہار کیا ہے:

بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی (۱۲)

 ہمارے بادشاہوں کو یہ انسانی شرف پسند نہ آیا۔ انہوں نے انسانوں کو جسمانی اور ذہنی طور پر غلام بنانا شروع کر دیا۔غلاموں کی خریدوفروخت ہونے لگی۔ حرم میں باندیوں (slave girls) کا ہجوم بڑھنے لگا۔ علماء نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف فقہ کی کتابوں میں غلاموں اور باندیوں کے مسائل اور جواز کے دلائل دیے۔ اسلام کی حریت کی تعلیم اور شرف انسانی کی تعظیم کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ جس نے بھی ذرہ بھر آواز بلند کی اس کو قید و سلاسل میں ڈال دیا گیا۔ شہید کر دیا گیا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت محمد نفس ذکیہؒxiii، حضرت احمد بن حنبلؒxiv، حضرت امام ابوحنیفہؒxv، حضرت مجدد الف ثانیؒ اورحضرت امام سرخسیؒxvi کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

۴۔ ظلم سے عدل وا حسان تک

نا انصافی اپنی تمام شکلوں کے ساتھ روزمرہ کا ایک چلن تھا۔

(۱) سماجی استحصال عام تھا جو انفرادی، خاندانی اور معاشرتی سطحوں پر ہو رہا تھا۔ انسانی زیست کی ہر سطح پر طبقاتی امتیازات تھے۔

(۲) سیاسی جبر اور جو روستم تھا جو شخصی اقتدار، معاشرتی اور قبائلی حیثیتوں اور شاہی اختیارات پر مبنی تھا۔

(۳) اقتصادی استحصال اور عدم مساوات تھی جو ہوا و ہوس اور نا انصافیوں پر مبنی تھی۔

اسلام نے ناانصافیوں اور استحصال کی تمام شکلوں کی مذمت کی۔ انصاف و مساوات کے اصولوں کا پرچم بلند کیا اور وسیع ترین پیمانے پر ان اصولوں پر عمل درآمد کا اعلان کیا۔اسلام نے ظلم کے معاشرے کے خلاف عدل کا اعلان کیا ہے۔ افلاطونxvii نے ایک نظری بحث کے طور کہا کہ

Justice is virtue and virtue is justice

(انصاف نیکی ہے اور نیکی انصاف ہے)

قرآن پاک نے اس سے بڑھ کر بات کی کہ

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْكِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ. (۱۳)

(دنیا میں انبیاء اور آسمانی کتابیں اس لیے نازل کی گئی ہیں کہ لوگوں کے درمیان انصاف قائم کیا جا سکے)

اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل علیہم السلام(حضرت آدم علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت محمدﷺ) اور اپنی کتابیں (توراۃ، زبور، انجیل اور قرآن مجید) صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے احکامات دے کر نہیں بھیجیں بلکہ انصاف کے قیام اور عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کے لیے بھی بھیجی ہیں۔ ہمارے بعض مذہبی علماء یہ اعلان کرنے تک پہنچ گئے ہیں کہ غیر مسلموں کی منصفانہ حکمرانی مسلمانوں کی غیر منصفانہ حکمرانی سے بہتر ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بیان کیا جاتا ہے:

اَلْمُلکُ یَبْقٰی مَعَ الکفرِ وَلا یَبقٰی مَع الظُّلم.

(کفر کے ساتھ ریاست قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم کے ساتھ نہیں رہ سکتی)

اسلامی فلسفے میں انصاف کا تصور کسی بھی دوسرے نظام کے تصورِ انصاف سے زیادہ جامع ہے۔ مسلمان اہل دانش نے ’ظلم ‘ کادیگر مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا اور اس پر بحث کی ہے۔ ان اہل دانش کے مطابق ’ظلم ‘ کا مطلب کسی چیز کو ایک غلط جگہ پر رکھنا ہے اور ’عدل ‘ کامطلب یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کی صحیح جگہ پر رکھا جائے۔ یہ ’عدل ‘ اور ’ظلم ‘ کی سادہ مگر جامع بلکہ قدرے وسیع تعریف ہے اور انسانی وجود کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہیں۔ یہی حقیقت کہ اہل دانش نے ’انصاف ‘ اور ’نا انصافی‘ کی تشریحات وسیع ترین ممکنہ اصطلاحات میں کی ہیں، اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلم دانشور انصاف کے حقیقی تصور کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

    اسلام ’عدل‘ کے علاوہ ’احسان‘ (Equity) کی وکالت کرتا ہے۔ عدل کا مطلب ہے کہ جو کچھ واجب ہے جبکہ ’احسان‘ کا مطلب ہے ’ واجب سے زائد‘۔ قرآن فرماتا ہے:

    اِنَّ اللّٰہَ یَامُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسِانِ. (۱۴)

    (اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے)

احسان ایک ذریعہ ہے جس سے قانون کا ایک نظام قواعد سازی میں تیقن کی ضرورت کو منفرد حالات میں منصفانہ نتائج حاصل کرنے کی ضرورت کے ساتھ متوازن بناتا ہے۔ یہ ایک اظہار ہے جس سے عموماً اس طریقے کو بیان کیا جاتا ہے جس میں احسان اپنا کام دکھاتے ہوئے عام قانون کی سختی کو کم کر دیتا ہے۔ احسان اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ قانون کا سخت استعمال کسی مخصوص معاملے پر لاگو ہوکراسے غیرمنصفانہ نہ بنا دے۔

اسلام نے نہ صرف انصاف اور احسان کی تبلیغ کی ہے بلکہ انصاف بھی قائم کیا ہے اور اس قدیم معاشرے کے ساتھ احسان کرکے دکھایا ہے جو جزیرہ نمائے عرب میں قائم چلا آ رہا تھا۔ ابتدائی اسلامی معاشرے کے ہر شعبے پر انصاف اپنی تمام سماجی، سیاسی اور اقتصادی شکلوں میں غالب رہا۔

اسلام نے حقوق و فرائض / ذمہ داریوں کا توازن، انفرادیت اور اجتماعی زندگی کاتوازن، شہریوں کے درمیان باہمی توازن، معاشرے اور ریاست کا توازن قائم کیا۔

بعدازاں فاسقانہ سیاسی افکار اور مکروہ عزائم انصاف اور اعتدال پر غالب آ گئے۔ سیاسی اور معاشرتی استحصال شروع ہو گیا اور معاشی ناانصافیوں نے سر اٹھا لیا۔ مسلمان بادشاہوں نے اپنے جبر اور ناانصافیوں کا جواز ثابت کرنے کے لئے علمائے سُو کی خدمات حاصل کر لیں اور عوام پرحکمرانوں کا تسلط قائم ہو گیا۔ بدقسمتی سے اسلامی حکومت کی ساری تاریخ میں با اثر علمائے سوء اور اہل دانش کی ایک بڑی اکثریت نے مالی منفعتوں کے لئے اہل اقتدار کے ساتھ ساز باز کرلی۔ ظلم کے خلاف کسی نے موثر آواز نہ اٹھائی بلکہ ان کی صلاحیتیں حکمرانوں کی بدکاریوں کا جواز پیش کرنے پر صرف ہوتی رہیں۔

فقہ کی کتب میں متعدد ابواب اس موضوع پر ہیں کہ زکوٰۃ اور دیگر لازمی محاصل کی ادائیگی سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بچنے کے لیے بنی اسرائیل کی جو حکمت عملیاں اور حیلہ سازیاں تھیں ان کا اگر مسلمان علماء کے گھڑے ہوئے حربوں اور عذر تراشیوں سے موازنہ کیا جائے تو وہ ماند پڑ جاتی ہیں۔

مختصراً یہ کہ مسلمانوں نے انصاف اور مساوات کے اس درس کو فراموش کر دیا جو قرآن مجید میں دیا گیا تھا۔ وہ ظلم و جبر اور نا انصافیوں کو فروغ دینے لگے۔

۵۔ بنیادی حقوق کی علمبرداری

قدیم تہذیبوں میں انسانوں کو ایسا نہیں سمجھا جا تا تھا جن کے کچھ فطری حقوق ہوں۔ اگرچہ رومن فقہ میں فطری حقوق کا کچھ سراغ ملتا ہے۔ اسلام پہلا مذہب تھا جس نے شہریوں کے حقوق کا علم بلند کیا اور اعلان کیا کہ انسان تمام معاشرتی، سیاسی اورمعاشی حقوق رکھتا ہے کیونکہ وہ ایک بہترین اور عمدہ ترین مخلوق اور ساری تخلیقات کا تاج ہے۔

قرآن مجید نے غیر مبہم الفاظ میں اعلان کیا کہ یہ حقوق انسان کو خلقی طور پر حاصل ہیں۔ یہ کسی بادشاہ یا کسی اور ذی اختیار ادارے یا شخص کے عطا کردہ نہیں ہیں:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰھُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰھُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰھُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا. (۱۵)

(اور بلاشبہ ہم نے آدم کی اولاد کو عزت بخشی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں دیں اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور ہم نے جو مخلوق پیدا کی، ان میں بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا کی)

لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْٓ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ. (۱۶)

(ہم نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے )

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰئكَۃِ اِنِّیْ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِيْفَۃ. (۱۷)

(اور جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوں)

اسلام انسانیت کے لیے مجموعی طور پر چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے۔ ان حقوق کا ہر قسم کے حالات میں التزام اور احترام کیا جانا چاہیے، خواہ کوئی شخص اسلامی ریاست کے اندر کسی علاقے میں ہو یا باہر ہو، خواہ وہ برسِر جنگ ہو یا حالتِ امن میں ہو۔ ان بنیادی حقوق کے اہم خدوخال ذیل کی سطور میں بیان کیے جارہے ہیں:

(۱) انسانی زندگی ہرطرح کے حالات میں مقدس ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کو بلا جواز قتل کرکے زندگی کے تقدس کو پامال کرتا ہے تو قرآن مجید اس اقدام کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرا ر دیتا ہے:

مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ كَتَبْنَا عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَائِيْلَ اَنَّہ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِي الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا. (۱۸)

(اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا کہ جس نے ایک جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیرقتل کیا یا زمین میں فساد پھیلایا تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کیا)

(۲) اسلام میں انسان کی جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دے دی گئی ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے اپنے خطبہ حجتہ الوداع میں ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور مال ایک دوسرے پر حرام ہے جس طرح یہ آج کا (یوم نحر) دن یہ مہینہ (ذوالحجہ) اور یہ شہر حرام (مکہ مکرمہ) ہیں۔ (۱۹)

(۳) اسلام میں انسان کی عزت و آبرو کو تحفظ کر دیا گیا۔قرآن پاک میں ارشاد ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ يَّكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّنْ نِّسَاءٍ عَسٰٓی اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْھُنَّ وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِيْمَانِ وَمَنْ لَّمْ يَتُبْ فَاُولٰئِكَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ  يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِيْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْم وَّلَا تَجَسَّسُوْا وَلَا يَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا اَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ يَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِيْہِ مَيْتًا فَكَرِھْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّاب رَّحِيْم (۲۰)

(اے ایمان والو! ایک مرد دوسرے مرد کا ذاق نہ اڑائے، ہوسکتا ہے کہ وہ اس سے بہتر ہو۔ نہ ہی عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔ ایمان لانے کے بعد نافرمانی کرنا بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے باز نہیں آئیں گے وہ ظالم ہیں۔ اےایمان والو! بدگمانی کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ بہت سی بدگمانیاں گناہ ہوتی ہیں۔ جاسوسی نہ کرو۔ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں کوئی ہے جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے ؟ تم اسے برا سمجھتے ہو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے)

(۴) اسلام انسانی رہائش کو بے جا مداخلت سے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُيُوْتًا غَيْرَ بُيُوْتِكُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓي اَھْلِھَا  ذٰلِكُمْ خَيْر لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ. (۲۱)

(اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں اس وقت تک داخل نہ ہوا کرو، جب تک اجازت نہ لے لو اور ان میں بسنے والوں کو سلام نہ کرلو۔ یہی طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ امید ہے کہ تم خیال رکھو گے)

(۵) اسلام ظلم کے خلاف احتجاج کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن فرماتا ہے:

لَا يُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ. (۲۲)

(اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کی برائی علانیہ زبان پر لائی جائے، الا یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو)

    یعنی مظلوم کو حق پہنچتا ہے کہ ظالم کے خلاف آواز اٹھائے۔

(۶)۔    اسلام میں ضمیر اور عقیدے کی آزادی کے حق کو تحفظ حاصل ہے۔ قرآن کہتا ہے:

    لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ. (۲۳)

    (دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے)

(۷)۔    اسلام میں بنیادی انسانی ضروریاتِ زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:

    وَفِيْٓ اَمْوَالِھِمْ حَقّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ. (۲۴)

    (اور ان کے مال و دولت میں سائلوں اور محروم لوگوں کا (باقاعدہ) حق ہوتا تھا)

    یعنی ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے، دونوں کا حق ہوتا ہے۔

(۸) اسلام میں قانون کی حکمرانی کے سامنے سب برابر ہیں۔ جب ایک عالی نسب خاندان کی عورت چوری کے الزام میں پکڑی گئی تو معاملہ حضور نبی کریمﷺ کے سامنے پیش ہوا۔ سفارش کی گئی کہ اسے چھوڑ دیا جائے کیونکہ معاشرے میں اس کا مقام بہت بلند ہے۔ آپﷺ نے جواب دیا کہ تم سے پہلے جو قومیں اللہ تعالیٰ نے تباہ کی ہیں ان میں عام آدمی کو تو جرم پر سزا دی جاتی تھی لیکن بڑے خاندانوں کے افراد کو ان کے جرائم پر سزا دیئے بغیر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمدﷺ نے یہ جرم کیا ہوتا تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔ (۲۵)

(۹) اسلام میں ہر انسان کو امور ریاست میں حصہ لینے کے حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے:

وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰى بَيْنَھُمْ. (۲۶)

(اور جنہوں نے اپنے پروردگار کی بات مانی ہے اور نماز قائم کی ہے اور ان کے معاملات آپس کے مشورے سے طے ہوتے ہیں)

    حضور نبی کریمﷺ نے تاریخ انسانیت میں پہلی بار انسانی حقوق کا واضح اور جامع منشور دیا۔ مسلمان پورے وثوق کے ساتھ اور بجا طور پر دعویٰ کرسکتے ہیں کہ حقوق انسانی کی تاسیس و تشکیل کا تاریخی اعلان خطبہ حجتہ الوداع میں ہوا تھا۔ اس آخری خطبے کے اہم نقاط درج ذیل ہیں:

(۱) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے انسانوں ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ پاک سب کچھ جاننے والا اور با خبر ہے۔

(۲) تمام نوعِ انسان حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہا السلام کی اولاد ہے۔ ایک عربی کو ایک عجمی پر کوئی فضیلت نہیں، نہ ہی ایک عجمی کو ایک عربی پر کوئی فضیلت ہے۔ اسی طرح سفید فام کو سیاہ فام پر یا سیاہ فام کو سفید فام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔ فضیلت صرف تقویٰ اور اعمالِ صالحہ کی بنا پر ہو سکتی ہے۔

(۳) جان لو کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور مسلمان مل کر اسلامی برادری تشکیل دیتے ہیں۔

(۴) خوب جان لو کہ زمانہ جاہلیت کے تمام طور طریقے اب میرے پاؤں تلے ہیں۔ اس زمانے کے خون کے انتقام معاف کر دیے گئے ہیں۔

(۵) اے لوگو! تمہارا خون، تمہاری جائیداد اور تمہاری آبرو مقدس اور قابلِ احترام ہیں۔ تاوقتیکہ تم اپنے مالک کے پاس پہنچ جاؤ، یہ اتنی مقدس ہیں جتنا تمہارے لیے یہ دن (یوم نحر)، تمہارا یہ مہینہ (ذوالحجہ) اور تمہارا یہ شہر (مکہ مکرمہ) قابل احترام و مقدس ہے۔

(۶) جان لو! استحقاق کا ہر دعویٰ خواہ خون کا ہو یا املاک کا، میرے پاوں تلے ہے۔

(۷)  کسی کونقصان نہ پہنچاؤ تا کہ کوئی تمہیں نقصان نہ پہنچائے۔

(۸)  کسی مسلمان کے لیے وہ چیز حلال نہیں ہے جو اس کے مسلمان بھائی کی ملکیت ہے سوائے اس کے کہ وہ اس نے خوشی اور رضا مندی کے ساتھ دی ہو۔ اس لیے اپنے ساتھ نا انصافی نہ کرو۔

(۹) تمہارے پاس کوئی امانت رکھوائی گئی ہو تو اسے اس کے صحیح مالکوں کو واپس دو۔

(۱۰) اللہ تعالیٰ نے تمہیں سود لینے سے منع کیا ہے۔ اس لیے تمام سودی مطالبات ختم کر دیے جائیں گے۔ اصل رقم تمہاری ہے۔ صرف اسے ہی واپس لے سکتے ہو۔

(۱۱) تم بے انصافی نہ مسلط کرو اور نہ اس کے شکار بنوگے۔

(۱۲) اے لوگو! یومِ حساب تم اس طرح نہ پیش ہونا کہ اس دنیا کے بوجھ تمہاری گردنوں پر ہوں۔

(۱۳) اے لوگو! یہ درست ہے کہ عورتوں پر تمہارے حقوق ہیں لیکن تمہارے ذمہ بھی ان کے حقوق ہیں۔

(۱۴) یاد رکھو کہ تم نے اپنی بیویاں صرف اللہ تعالیٰ کی امانت کے طور پر اور اس کی اجازت کے ساتھ حاصل کی ہیں اگر وہ تمہارے حق کی پابند ہیں، ان کا بھی حق ہے کہ تم ان کو شفقت کے ساتھ نان و نفقہ دو۔

(۱۵) عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آؤ کیونکہ وہ تمہاری شریک حیات اور پُر خلوص مددگار ہیں۔ یہ تمہاراحق ہے کہ وہ کسی ایسے فرد کے ساتھ دوستی نہ کریں جس کو تم پسند نہ کرو اور یہ بھی کہ وہ کبھی آلودہ دامن نہ ہوں۔

(۱۶) اولاد اسی کی ہے جس کے بستر پر پیدا ہوئی ہو۔

(۱۷) اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جو قادرِ مطلق ہے حکم دیا ہے کہ ہر ایک کو وراثت میں سے اس کا حق دیا جائے۔ اس لیے اب کسی وارث کے حق میں خصوصی وصیت کرنے کی ضرورت نہیں۔

(۱۸) اپنی املاک پر عائد ہونے والی زکوٰۃ بلا تاخیر ادا کرو۔

(۱۹) تمام قرضے لازماً واپس لوٹائے جائیں۔ ادھار لی گئی املاک لوٹا دی جائیں۔ تحائف کا بدلہ دیا جائے۔ ضامن کو نقصان کی تلافی کا پورا ہتمام کرنا ہوگا۔

(۲۰) ہر انسان اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے۔ کوئی بچہ اپنے باپ کے جرم کا ذمہ دار نہیں اور نہ ہی کوئی باپ بچے کے جرم کاذمہ دار ہے۔

(۲۱)  کسی مسلمان کے لیے اس کے بھائی کی چیز حلال نہیں ہے ماسوائے اس کے کہ وہ اپنی مرضی سے اس کو دے دے۔ اس لیے اپنے ساتھ برائی نہ کرو۔

(۲۲) اپنے خدام کو ایسی خوراک دو جیسی تم خود کھاتے ہو اورایسے کپڑے پہناؤ جیسے تم خود پہنتے ہو۔

(۲۳) اے لوگو! اپنے امیر کی بات سنو اوراطاعت کرو، خواہ ایک ناک کٹا حبشی تمہارا ’امیر’ بنا دیا جائے۔ بشرطیکہ وہ کتاب اللہ کے احکامات کے مطابق تمہیں ہدایات دے۔

(۲۴) آگاہ رہو کہ دین کے بارے میں جو حدود مقرر ہیں ان سے تجاوز نہ کرنا کیونکہ ان حدود (کی جائز وسعتوں) سے تجاوز کرنے کی وجہ سے ہی تم سے پہلے کی امتیں تباہی سے دوچار ہوئی تھیں۔ (۲۷)

حضور نبی کریمﷺ شہریوں کے حق تعلیم کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ آپﷺ نے غزوہ بدر  کے قیدیوں کو اختیار دیا کہ اگر وہ مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو انہیں آزاد کر دیا جائے گا۔ آپﷺ کو یہ خوف نہیں تھا کہ یہ کافر مسلمانوں کے عقیدے کو خراب کر دیں گے۔ اسلام نہ صرف ان کو مذہبی اعمال کی آزادی دینے کا مطالبہ کرتا ہے بلکہ یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ ان سے دیگر لوگوں کی طرح منصفانہ سلوک کیاجائے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک محسوس ہوتی ہے۔(۲۸) آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی معاہد (ذمی) پر ظلم کیا یا اس پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالا، میں قیامت کے دن اس کا دشمن ہوں گا۔ (۲۹)

مسلم ریاستوں کے علاقوں میں غیر مسلموں کے ساتھ حسنِ سلوک کوغیر مسلم مؤرخین نے وسیع پیمانے پر تسلیم کیا ہے۔ وِل ڈیورانٹxviii نے لکھا ہے:

بنو امیہ کی خلافت کے زمانے میں زیر معاہدہ لوگوں (ذمی) عیسائیوں، زرتشتیوں، یہودیوں اور صابئین لوگوں کے ساتھ ایسا روادارانہ رویہّ اختیار کیا گیا تھا کہ آج کے مسیحی ممالک میں بھی کہیں نہیں پایا جاتا۔ وہ اپنی اپنی مذہبی رسوم آزادی سے ادا کر سکتے تھے ان کے معبدوں اور گرجاؤں کی پوری حفاظت کی جاتی تھی۔ انہیں ان میں خود مختاری حاصل تھی اور وہ اپنے علماء اور ججوں کے بنائے ہوئے مذہبی قوانین کے تابع تھے۔ (۳۰)

آئیے ایک نظر اقتصادی حقوق پر ڈالیں۔ ایک دفعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ معاشی انصاف پر اتنا اصرار کیوں کرتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس کے پاس ایک بکری ہے۔ جس کا آدھا دودھ ان کے لیے ہے اور آدھا ہمسایوں کے لیے۔ پھر انہوں نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:

وَيَسْئَلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ. (۳۱)

(تم سے یہ دریافت کرتے ہیں کیا خرچ کریں؟ آپﷺ فرما دیں اپنی ضرورت سے زائد چیز خرچ کرو)

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیسا خوبصورت جواب دیا: اوصانی خلیلی (میرے دوست رسول اللہﷺ کا یہی حکم ہے)

ایک دفعہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر ساحل فرات پر ایک بھیڑ کا بچہ بھی بھوکا مر گیا تو روزِ قیامت انہیں ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ یہ محض ایک سیاسی نعرہ یا انتخابی منشور نہیں تھا بلکہ اسلام کے اقتصادی اور سیاسی فلسفے کا ایک ضابطۂ کار تھا جس کا انہوں نے اظہار کیا۔ حضور نبی اکرمﷺ نے خود ارشاد فرمایا تھا:

انا ولِی مَنْ لا وَلِیَ لَہ.

(میں اس شخص کا مدد گار اور محافظ ہوں جس کا کوئی مددگار و محافظ نہیں ہے)

حضور نبی کریمﷺ محض ایک اخلاقی اصول نہیں سکھا رہے تھے یا اپنے ذاتی کردار کی وضاحت نہیں کر رہے تھے بلکہ ایک پالیسی کا اعلان کر رہے تھے کہ ریاست معاشرے کے تمام کمزور اور زد پذیر طبقات کی سرپرست اور محافظ ہوگی۔آپﷺ اہلِ ایمان کو بھی ان کی یہ ذمہ داری یاد دلا رہے تھے کہ انہیں معاشرے کے مجبور اور محروم طبقات بشمول محتاج افراد، یتامیٰ، نابالغ بچوں اور بیواؤں کی دستگیری و داد رسی کے سلسلے میں کوشاں رہنا ہوگا۔ یہ اعلیٰ و ارفع تعلیمات تھیں جس نے ایک ایسے مثالی معاشرے کو جنم دیا جو سماجی انصاف پر مبنی تھا جس میں لوگوں کو عزت و وقار اور احترام حاصل تھا۔ بہ الفاظ دیگر اسلام نہ صرف انسانی حقوق کے تصور اور دائرہ عمل کو وسیع و عریض کرنے کا ذمہ دار تھا بلکہ ریاست کو شہریوں کے حقوق کے تحفظ کا کردار سونپنے کا بھی ذمہ دار تھا۔

شواہد کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ بات بلا خوف و خطر کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ دنیا کا منشور عظیم میگنا کارٹاxix، دستاویزِ حقوقxx اور ’تحریک حقوق انسانی‘ نے جذبہ ورہنمائی ان اعلیٰ و ارفع تصورات سے حاصل کی جو قرآن پاک اور خطبہ حجتہ الوداع میں بیان کر دیے گئے تھے۔

۶۔ توہمات سے تجربیت تک

یہ بہت ضروری امر ہے کہ ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ مسلمانوں نے اپنی تاریخ کے ابتدائی عہد میں زمانے کے ذہنی چیلنجوں پر کیسے ردعمل کا اظہار کیا اور ان سے عہدہ برآمد ہونے کے لیے کیا تدابیر اختیار کیں۔ قرآن مجید کے مطابق زمین پر انسانی زندگی کا آغاز علم سے ہوا تھا:

وَاِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰئِكَۃِ اِنِّیْ جَاعِل فِی الْاَرْضِ خَلِيْفَۃً‌ قَالُوْٓا اَتَجْعَلُ فِيْھَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْھَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ  وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ اِنِّیْ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاءَ كُلَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَي الْمَلٰئِكَۃِ فَقَالَ اَنْبِئُوْنِی بِاَسْمَاءِ ھٰٓؤُلَاءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ قَالُوْا سُبْحٰــنَكَ لَاعِلْمَ لَنَآ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ اَنْبِئْـھُمْ بِاَسْمَائِھمْ فَلَمَّآ اَنْبَاَھُمْ بِاَسْمَائھِمْ قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ. (۳۲)

(جب اللہ پاک نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقرر کرنے والے ہیں جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خون ریزیاں کرے گا۔ آپ کی حمدوثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کی تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ فرمایا: میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم کو ساری چیزوں کے نام سکھائے۔ پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا: اگر تمہارا خیال صحیح ہے تو ذرا ان چیزوں کے نام بتاو! انہوں نے عرض کیا: نقص سے پاک تو صرف آپ کی ذات ہے۔ ہم تو بس اتنا ہی علم رکھتے ہیں جتنا آپ نے ہم کو دے دیا ہے۔ حقیقت میں سب کچھ جاننے اور سمجھنے والا آپ کے سوا کوئی نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ تم انہیں ان چیزوں کے نام بتاو۔ جب اس نے ان کو ان سب کے نام بتا دیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی وہ ساری حقیقتیں جانتا ہوں جو تم سے چھپی ہوئی ہیں)

آپ ملاحظہ فرمائیں کہ فرشتوں کی تقدیس و عبادت کے مقابلے میں انسانی علم کو لایا جا رہا ہے۔ علم دے کر آدم علیہ السلام کو فرشتوں سے فضیلت دی گئی۔ علم کو عبادت سے افضل قرار دیا جا رہا ہے۔ شرف آدم علیہ السلام قرار دیا جا رہا ہے۔ علم ہی اللہ تعالیٰ کا نائب بننے کے لیے لازم ہے۔ علم بھی اشیا کا دیا جا رہا ہے جو سائنس کا موضوع ہے، دینیات یا علم الکلام کا نہیں ہے۔

اسلام کا آخری مرحلہ بھی علم سے شروع ہوا۔ حضور نبی کریمﷺ جو پہلی وحی وصول فرمائی وہ یہ تھی:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۔ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ. (۳۳)

(پڑھو! (اے نبیﷺ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو! اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا)

آپ دیکھ لیں کہ نبوت کی ابتدا سائنسی علوم کی طرف مائل کرنے سے ہو رہی ہے۔ خدا کی معرفت کے لیے علم حیاتیات (Biology) کی دلیل لائی جا رہی ہے۔ پھر قلم کی عظمت بیان ہو رہی ہے۔ کائنات کی عام تخلیق کا ذکر کرنے کے بعد خاص طور پر انسان کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے کس کمزور حالت سے اس کی تخلیق کی ابتدا کرکے اسے پورا انسان بنایا۔ یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے انسان کو صاحب علم بنایا جو مخلوقات کی بلند ترین صفت ہے اور صرف صاحب علم ہی نہیں بنایا بلکہ اس کو قلم سے لکھنے کا فن سکھایا جو بڑے پیمانے پر علم کی اشاعت و ترقی کا ذریعہ بنا۔ اگر وہ الہامی طور پر انسان کو لکھنے کا فن نہ دیتا تو انسان کی ترقی رک جاتی اور علم اگلی نسلوں تک منتقل نہ ہوتا۔

فلسفہ مسلمانوں کا علم نہیں ہے۔ اسلام کی بعثت سے پہلے معلوم انسانی تاریخ کے عظیم ترین فلسفی یونان میں پیدا ہو چکے تھے۔ دنیا میں افلاطونی مثالیت (Platonic Idealism) ارسطوxxi کی منطق (Aristotlian Logic) وغیرہ کا غلبہ تھا۔ مسلمانوں نے فلسفہ کو کفر قرار نہ دیا بلکہ اس کی تعلیم حاصل کی۔ ابو نصر محمد بن محمد فارابیxxii پہلا مسلمان عالم تھا جو یونان کے فلسفہ کا شارع بنا اور تاریخ فلسفہ میں ارسطو کو معلم اول اور فارابی کو معلم ثانی کہا جاتا ہے۔

ہمارے علما نے فلسفہ یونان کو سمجھا۔ اس کا عربی میں ترجمہ کیا گیا تاکہ مسلم دنیا میں پڑھا جا سکے اور پھر اس پر عالمانہ تنقید کی۔ امام غزالیؒxxiii نے تہافت الفلاسفہ لکھی۔ اس میں انہوں نے یونان کے فلسفہ پر سخت تنقید کی جس کا جواب یونان کے بجائے مسلم دنیا کے نامور فلسفی ابن رشدxxiv نے دیا۔ ان کی کتاب کا نام تہافت التہافت ہے۔ اس کے بعد امام ابن تیمیہؒ نے فلسفہ یونانی پر کاری ضرب لگائی۔ اس شرح اور تنقید کا یہ نتیجہ نکلا کہ مسلمانوں نے فلسفہ یونان کو پڑھا۔ اسے آگے منتقل کیا لیکن اس سے مرعوب نہ ہوئے۔

یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے یونان کے اس بے بہا علم کو مغرب تک پہنچایا۔ جرمن فلسفی کانٹxxv کی کتاب (Critique of Pure Reason) امام غزالیؒ کے فلسفے کی شرح لگتی ہے۔یہی حال مسلمانوں نے ارسطو کی منطق کے ساتھ کیا۔ مثالیت (Idealism) نے بھی عرب تجربیت (Empiricism) سے اثر قبول کیا۔ پھر کیا ہوا کہ مسلمان سو گئے اور پرانی کتب ہی مدارس میں پڑھاتے رہے جبکہ زمانہ وسطیٰ (Middle Period) کے بعد نئے فلسفے متعارف ہوئے جن کا ہم نے مطالعہ و تدارک نہ کیا۔ تحریک اصلاح (Reformation) اور صنعتی انقلاب کے پیچھے نئی نئی سائنسز اور فلسفوں کا ظہور ہوتا رہا مگر مسلمان ان سے لاپرواہ رہے۔

مسلمان تخیلاتی (speculative) نہیں بلکہ عملی (practical) تھے۔ قران پاک نے انسان کو تجربیت و مشاہدہ (observation) سکھایا۔ قرآن پاک نے بار بار کہا: کیا تم آسمان نہیں دیکھتے؟ کیا تم زمین نہیں دیکھتے؟ کیا تم جانور نہیں دیکھتے؟ یہ وہ تعلیمات تھیں جنہوں نے مسلمانوں کو عملی سائنس کی طرف مائل کیا۔ طبیعات میں ہم نے روشنی کا مطالعہ کیا۔ ابوالہیثمxxvi نے جدید فزکس کی بنیاد رکھی۔ الخوارزمیxxvii نے نویں صدی عیسوی میں دنیا کو جدید ریاضی کا علم دیا۔ ابن سیناxxviii و زہراویxxix نے جدید طب (میڈیسن) اور جراحت (سرجری) کی بنیاد رکھی۔ تفصیل میں جائے بغیر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے دنیا کو جدید سائنس دی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تسخیر کائنات اور تسخیر ذات میں فرق نہ کرتے تھے۔ ان کے ہاں اس دنیا اور اس دنیا کی تفریق نہ تھی۔ وہ مادہ اور روح کی تقسیم کے قائل نہ تھے۔ وہ قدیم و جدید علم کی بحث کو بے خبری سمجھتے تھے۔ سائنسی علوم کی تحصیل سے مسلمان ٹیکنالوجی میں ماہر تھے۔ فرانس کے عظیم بادشاہ شارلیمانxxx کو گھڑی عباسی خلیفہ ہارون الرشیدxxxi نے بھجوائی تھی۔

پھر کیا ہوا؟ جو لوگ مافوق البشری رازوں کے امین، انسانی حقوق کے علمبردار اور جدید سائنس کے اصل خالق تھے خواب غفلت میں کھو گئے۔ وہ یونانی اثرات کی وجہ سے لاحاصل مذہبی بحثوں میں الجھ گئے۔ انہوں نے زندگی کو روحانی اور دنیاوی دائروں میں تقسیم کر دیا اور مادی ترقی و فروغ کو خلاف ِاسلام تحریک قرار دینے لگے۔ انہوں نے فطری علوم (سائنسز) کو نظر انداز کر دیا اور ایسے جھوٹے تصوف کے نشے میں دھت ہو گئے جو خالص وجدانی اور باطنی درجہ بندی کے نظام کو تجربیت (empiricism) کے برعکس ہونے کا پرچار کرتا ہے جو کہ جدید سائنس کی حقیقی بنیاد ہے۔ وہ مذہبی رسوم کی بال کی کھال اتارنے اورلاحاصل مدرسانہ بحثوں میں الجھ گئے۔ جبکہ انہیں جدید دور کے چیلنجوں کا جواب دینے اور علم کی سرحدوں کوآگے بڑھانے کے لیے سنجیدہ ذہنی کاوشیں کرنے کی ضرورت تھی۔ وقت نے ان کا انتظار نہیں کیا اور وہ قوموں کی برادری سے بہت پیچھے رہ گئے۔

عہد اول اور عہد متوسط میں مسلمانوں نے اپنی ذات و کائنات کو بدل ڈالا۔ اس لیے کہ وہ اس کی امنگ رکھتے تھے۔  وہ اس بات کا مصداق تھے:

گر بر فلکم دست بُدی چون یزدان
برداشتمی من این فلک را ز میان
از نو فلکی دگر چنان ساختمی
کازادہ بکام دل رسیدی آسان (۳۴)

(اگر مجھے قدرت ہوتی جیسی کہ خدا کو حاصل ہے)

(میں اس آسمان (حالاتِ دنیا) کو درمیان سے ہٹا دیتا)

(اور آسمان کو نئے سرے سے ترتیب دے کر ایسا بنا دیتا)

(کہ میرے دل کی تمنا پوری ہو جاتی)

بیاتا گل برافشانیم و می در ساغر اندازیم
فلک را سقف بشکافیم و طرحی نو در اندازیم (۳۵)

(آئیں کہ ہم پھول بچھائیں اور شراب پیالوں میں ڈالیں)

(آسمان کی چھت کو توڑ ڈالیں اور نئی دنیا بنائیں)

جب تک یہ امنگ رہی وہ نئی کائناتیں تخلیق کرتے رہے اور پھر یوں ہوا کہ

بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے
مسلماں نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے (۳۶)


حوالہ جات

(۱). القرآن: سورۃ آل عمران، آیت: ۱۵۹

(۲). القرآن: سورۃ الشوریٰ، آیت: ۳۸

(۳). القرآن: سورۃ آل عمران، آیت: ۱۵۹

(۴). ابن ماجہؒ، حضرت حافظ ابی عبداللہ محمد بن یزید (۲۰۱۰)۔ ‘سنن ابن ماجہ’ ترجمہ مولانا محمد قاسم امین (ج: ۳، رقم الحدیث: ۸۳۰)۔ لاہور: مکتبہ العلم۔

(۵). ترمذیؒ، حضرت امام محمد بن عیسیٰ (۲۰۰۶)۔ ‘جامع ترمذی’ ترجمہ مولانا افضل احمد (ج: ۲، رقم الحدیث: ۴۱)۔ کراچی: دارالاشاعت۔

(۶). ترمذیؒ، حضرت امام محمد بن عیسیٰ (۲۰۰۶)۔ ‘جامع ترمذی’ ترجمہ مولانا افضل احمد (ج: ۲، رقم الحدیث: ۴۰)۔ کراچی: دارالاشاعت۔

(۷). مسلمؒ، حضرت امام ابوالحسین مسلم بن الحجاج (۲۰۰۴)۔ ‘صحیح مسلم’ ترجمہ علامہ وحید الزمان (ج: ۳، رقم الحدیث: ۲۸۹)۔ دہلی: مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند۔

(۸). اقبالؒ، محمد (۱۹۳۵)۔ ‘بال جبریل’ (غزلیں)۔ لاہور: تاج کمپنی۔

(۹). ابن حسام الدینؒ، حضرت علاء الدین علی متقی (۲۰۰۹)۔ ‘کنزل العمال’ ترجمہ مولانا احسان اللہ شائق (  ج: ۶، رقم الحدیث: ۵۶۴۰)۔  کراچی: دارالاشاعت۔

(۱۰). طبریؒ، امام ابی جعفر محمد بن جریر (۲۰۰۴)۔ ‘تاریخ الامم والملوک: تاریخ طبری’ ترجمہ ڈاکٹر محمد صدیق ہاشمی (ج: ۲، ص: ۷۰۲)۔ کراچی: نفیس اکیڈمی۔

(۱۱). اقبالؒ، محمد (۱۹۳۶)۔ ‘ضرب کلیم’ (نماز)۔ لاہور: کتب خانہ طلوع اسلام۔

(۱۲). اقبالؒ، محمد (۲۰۱۱)۔ ‘بانگ درا’ (خضرِ راہ)۔ لاہور: سنگ میل۔

(۱۳). القرآن: سورۃ الحدید، آیت: ۲۵

(۱۴). القرآن: سورۃ النحل، آیت: ۹۰

(۱۵). القرآن: سورۃ الاسراء، آیت: ۷۰

(۱۶). القرآن: سورۃ التین، آیت: ۴

(۱۷). القرآن: سورۃ البقرۃ، آیت: ۳۰

(۱۸). القرآن: سورۃ المائدہ، آیت: ۳۲

(۱۹). مسلمؒ، حضرت امام ابوالحسین مسلم بن الحجاج (۲۰۰۴)۔ ‘صحیح مسلم’ ترجمہ علامہ وحید الزمان (ج: ۲، رقم الحدیث: ۴۵۶)۔ دہلی: مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند۔

(۲۰).  القرآن: سورۃ الحجرات، آیت: ۱۱ - ۱۲

(۲۱).  القرآن: سورۃ النور، آیت: ۲۷

(۲۲).  القرآن: سورۃ النساء، آیت: ۱۴۸

(۲۳).  القرآن: سورۃ البقرہ، آیت: ۲۵۶

(۲۴).  القرآن: سورۃ الذاریات، آیت: ۱۹

(۲۵). بخاریؒ، حضرت امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل (۲۰۰۴)۔ ‘صحیح بخاری’ ترجمہ حضرت مولانا محمد داؤد راز (ج: ۲، رقم الحدیث: ۷۳۳)۔ دہلی: مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند۔

(۲۶). القرآن: سورۃ الشوریٰ، آیت: ۳۸

(۲۷). ابن ہشامؒ، حضرت ابو محمد عبدالملک؛ حضرت محمد بن اسحاق بن یسارؒ (۱۹۹۴)۔ ‘سیرت النبیﷺ’ ابن ہشام ترجمہ سید یٰسین علی حسنی نظامی دہلوی (ج: ۳، ص: ۲۳۲ - ۲۳۳)۔ لاہور: ادارہ اسلامیات۔

(۲۸). ابن ماجہؒ، حضرت حافظ ابی عبداللہ محمد بن یزید (۲۰۱۰)۔ ‘سنن ابن ماجہ’ ترجمہ مولانا محمد قاسم امین (ج: ۲، رقم الحدیث: ۸۴۴)۔ لاہور: مکتبہ العلم۔

(۲۹). ابن حسام الدینؒ، حضرت علاء الدین علی متقی (۲۰۰۹)۔ ‘کنزل العمال’ ترجمہ مولانا احسان اللہ شائق (ج: ۳، رقم الحدیث: ۲۵۲۱)۔ کراچی: دارالاشاعت۔

(۳۰).Durant, W. J. (1993). The Story of Civilization (v.13. p. 131-132). New York: MJF Books.

 (۳۱). القرآن: سورۃ البقرۃ، آیت: ۲۱۹

(۳۲). القرآن: سورۃ البقرہ، آیت: ۳۰ - ۳۳

(۳۳). القرآن: سورۃ العلق، آیات: ۱ - ۵

(۳۴). خیامؒ، حکیم عمر نیشابوری (۲۰۰۰)۔ ‘رعبایات عمر خیام’۔ تہران: انتشارات امیر کبیر۔

(۳۵). حافظؒ، محمد شیرازی (۲۰۱۰)۔ ‘دیوان حافظ’ (غزل شمارہ: ۳۷۴)۔ لاہور: پروگریسو بکس۔

(۳۶). اقبالؒ، محمد (۱۹۳۵)۔ ‘بال جبریل’ (ساقی نامہ)۔ لاہور:  تاج کمپنی۔


نومبر ۲۰۲۱ء

مسلح تحریکات اور مولانا مودودی کا فکری منہجمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۲)ڈاکٹر محی الدین غازی
مطالعہ جامع ترمذی (۶)ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۴)مولانا سمیع اللہ سعدی
موجودہ تہذیبی صورتحال اور جامعات کی ذمہ داریمولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مولانا وحید الدین خاںؒمولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

مسلح تحریکات اور مولانا مودودی کا فکری منہج

محمد عمار خان ناصر

(شیبانی فاونڈیشن اسلام آباد کے زیر اہتمام "مولانا مودودی کی دینی فکر اور شدت پسندی کا بیانیہ" کے زیر عنوان آن لائن ورکشاپ میں گفتگو جسے مراد علی صاحب نے مدون کیا)


اس گفتگو میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے  کی کوشش کی جائے گی کہ عصر حاضر  کے ایک معروف اور بلند پایہ مسلمان مفکر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی  نے جو مذہبی  سیاسی فکر  پیش کی اور ریاست و سیاست ، سیاسی طاقت  اور مذہب کے اجتماعی مقاصد  کے باہمی تعلق کے حوالے سے جو افکار پیش کیے ہیں، اس پورے نظامِ فکر کا  آج کے دور میں ایک نمایاں  اور بہت معروف رجحان ، جس کو ہم مذہبی عسکریت پسندی کا عنوان  دیتے ہیں،  اس کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، موجودہ دور میں  پوری دنیا میں اور عالم اسلام میں  جو تشدد  اور عسکریت  پر مبنی فکر دکھائی دیتی ہے اور  غلبۂ دین کے عنوان  اور اسلام  کی بالادستی  قائم کرنے کے عنوان سے عسکری جدوجہد کا جو خاص منہج سامنے آیا ہے، کیا ہم اس کی فکری جڑیں یا اس کی فکری اساسات مولانا مودودی کی مذہبی فکر  میں تلاش کرسکتے ہیں یا اس کو فکری طور پر  کو اس کا ذمہ دار سمجھا جاسکتا ہے؟ یہ سوال اور اس کا تجزیہ  اس گفتگو کا موضوع ہے۔ اس سوال کا جائزہ اس لیے اہم ہے کہ جب بھی مسلم دنیا   یا بین الاقوامی  حلقوں میں عسکریت پسندی کی اس لہر  کا تجزیہ کیا جاتا ہے ،جس کو معروف عنوان دہشتگردی یا مذہبی انتہا پسندی کا  دیا جاتا ہے،  تو اس تجزیے میں جو اس کی فکری جڑی تلاش  کی جاتی ہیں اور  اس کی فکری اساسات متعین کی جاتی ہیں تو اس کو سیاسی اسلام (Political Islam) کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔

سیاسی اسلام کی اصطلاح کا پس منظر

مغرب نے اپنی سیاسی ترجیحات کے لحاظ سے دنیا کے اور عالم اسلام کے، اپنے من پسند نقشے کے مطابق،  کچھ خاص تصورات قائم کیے ہوئے ہیں۔ وہ غیر مغربی معاشروں  کے مذہبی  اور سیاسی رجحانات کا جائزہ لیتے ہوئے  اپنی وضع کردہ اصطلاحات کے تحت سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مثلا عالم اسلام میں کس نوعیت کے رجحانات پائے جاتے ہیں اور کون سا رجحان  اپنی فکری غذا کہاں سے حاصل کرتا ہے۔ سیاسی اسلام (Political Islam) کی اصطلاح بھی مغربی حلقوں نے متعارف کروائی ہے۔ مغربی قوتوں اور سیاسی دانش کی  ترجیحات کے مطابق  دنیا کی فکری اور تہذیبی  تشکیل کے حوالے سے  ان کا مفروضہ یا توقع یہ ہے کہ پوری دنیا  میں  سیاسی لحاظ مغربی اقدار کو غلبہ حاصل ہوجائے  جو جدید دور میں مغرب نے متعارف کروائی ہیں اور ان میں خاص طور پر سیکولر ازم کا تصور ، مذہب کو اجتماعی معاملات سے  لاتعلق کرنے کا تصور بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تصور مغرب میں وہاں  کے تاریخی تجربات کی روشنی میں متعارف ہوا ہے  اور مغربی قوموں نے  بہ تدریج  اس کو اختیار بھی کرلیا ہے، اب یہ وہاں کا سیاسی مذہب  تسلیم کیا جاتا ہے۔ دنیا میں چونکہ تہذیبی، سیاسی، معاشی اور عسکری غلبہ بھی مغربی اقوام کا ہے  تو اس لحاظ سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ  جن سیاسی اقدار کو  مغرب نے  بالاتر اور بہترین سیاسی اقدار کے طور پر  قبول کیا ہے ، باقی دنیا  کی خیر اور فلاح بھی   اسی میں ہے کہ وہ بھی بہ تدریج اپنے آپ کو  اسی قالب میں ڈھال لیں۔ بالخصوص دنیا کے جن معاشروں میں  مذہب  سماجی، معاشی اور تہذیبی طور پر  بہت قوی عامل رہا ہے  ،   وہاں پر  مذہب کو بہ تدریج ان دائروں سے الگ کردیا جائے۔  

اب اس تناظر  میں جب وہ  پوری دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں  تو انھیں مذہب کے عنوان سے  سیاسی نظام کی تشکیل  اور  سیاسی ترجیحات کے تعین کی بحث میں  جو بیانیہ یا فکر سب سے زیادہ  اپنے اس narrative  کےلیے  challenging  محسوس ہوتی ہے ، یا انھیں دکھائی دیتا ہے کہ یہ بیانیہ براہ راست  سیکولر ازم کی فکری  بنیادوں کو چیلنج کررہا ہے، وہ  عالم اسلام کی وہ مختلف تحریکیں ہیں جو  سیکولر ازم کے برعکس فکر  رکھتی ہیں۔ ایسی تحریکات جنھوں نے اپنے بیانیے  تشکیل دیے ہیں اور جنھوں نے مسلمان معاشروں  میں اپنی ایک فکری تاثیر پیدا کی ہے اور جن مطالبہ اور جدوجہد کا ہدف یہ ہے  کہ مسلمان معاشرے  اپنی سیاست، معیشت اور معاشرت کو  مذہب اور شریعت سے الگ  نہیں کرسکتے۔ مسلمان معاشروں کو اپنی سیاسی ترجیحات  کی تشکیل  اور اپنی بین الاقوامی ترجیحات کی تشکیل  مذہبی اساسات پر ہی  کرنی ہو گی۔ اس فکر کا لازمی مطلب یہ ہے  کہ اس طرح کے معاشرے  اور تحریکات  مسلمان معاشروں میں سیکولر ازم  کو بہ طور قدر قبول کرنے کےلیے تیار نہیں ہیں اور وہ چاہتی ہیں کہ جب مسلمان معاشروں میں ایک نظام حکومت قائم  ہو تو وہ داخل میں بھی  مذہبی اقدار پر قائم ہو، مذہبی اقدار کی ترجمانی اور ان  کی حفاظت پر مبنی ہو اور جب بین الاقوامی معاملات  کے دائرے میں مسلمان حکومتیں اپنے فیصلے کریں یا  اپنی پالیسیاں طے کریں  تو ان کی اساس بھی ان مذہبی اقدار پر ہوں۔

گویا یہ  رجحان مغربی قوتوں کی تہذیبی، سیاسی اور اقتصادی  ترجیحات  کا لازمی طور پر حریف  ہے۔  مغرب کے ذہن میں ایک نقشہ ہے کہ دنیا کو اس رخ پر آگے بڑھنا چاہیے، جبکہ یہ فکر اس سے متصادم ہے  تو اس کو identify  کرنے کےلیے  اور اس کو focus  میں لانے کےلیے political Islam کا عنوان دیا  جاتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے  کہ اسلام میں، یا اسلام کے عنوان پر   عالم اسلام میں  مسلمان معاشروں میں  بہت سے طبقے، افکار اور رجحانات موجود ہیں،  لیکن یہ رجحان جو سیاست،حکومت اور اقتدار میں اسلام  کی بالادستی کی بات کرتا ہے  اور جہاں اسلام کو اس دائرے سے ایک  طرح سے  لاتعلق کردیا  گیاہے، وہاں دوبارہ اس کی بحالی کی بات کرتا ہے، یہ ان کے نزدیک  ایک مسئلہ ہے ، کیونکہ یہ جدید دور  میں عالمی تہذیبی ترجیحات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ مغربی اہل دانش سمجھتے ہیں کہ اس رجحان کا تجزیہ ضروری ہے  کہ یہ رجحان کہاں سے پیدا ہورہا ہے۔ جدید دنیا کے جو عمومی رجحانات ہیں، اور خود عالم اسلام میں  خاص طور پر حکمران طبقات میں  سیکولر ازم پر ایمان رکھنے  والا بہت بڑا طبقہ موجود ہے ، تو یہ موقف جو اس سے ہم آہنگ  نہیں ہے اور ایک مسئلہ  پیدا کر رہا ہے تو اس کو ہمیں خاص طو رپر  مطالعے کا موضوع بنایا چاہیے۔

اس تناظر میں  مغربی پیراڈائم میں  سیاسی اسلام  کی فکر کو  اور اس مقصد کے لیے عسکریت  کی حکمت عملی اختیار  کرنے والی تحریکات کو  آپس میں  ملا دیا جاتا ہے  اور دونوں کا تجزیہ اس طرح کیا جاتا ہے  کہ گویا  سیاسی اسلام  وہ فکری اساسات فراہم کرتا ہے یا وہ بنیادی  ڈھانچہ فراہم کرتا ہے  جس سے  مسلمانوں میں یا  اس کے مختلف طبقات  میں یہ  جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلام  کے غلبے کےلیے کوشش کی جائے  اور پھر وہاں سے عسکریت پسندی کی ایک لہر  اور رجحان پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ان دونوں فکری دھاروں کو  آپس میں ملا دیا جاتا  ہے اور یہی بیانیہ  اور یہی تجزیہ  پھر جب وہاں سے پھیلتا ہے تو خود مسلمان معاشروں  میں بھی  اس طرح کے تجزیے فروغ پانے لگتے ہیں۔

عسکری تحریکوں کا انداز فکر

یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے  کہ کیا مولانا مودودی کی  مذہبی سیاسی فکر کےلیے سیاسی اسلام کا  عنوان   مناسب ہے؟ تاہم،  ہم برائے بحث  اس کو  مان لیتے ہیں کہ اس کےلیے سیاسی اسلام کی اصطلاح یا عنوان مناسب ہے۔ ہمیں اب سمجھنا یہ ہے کہ کیا اس  فکر یا بیانیے ( narrative)  کو  کسی بھی لحاظ سے،   براہ راست یا بالواسطہ،  عسکریت پسندی کے رجحان  کا ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے  جس کے نمائندہ  گروہ  موجودہ دنیا  کے بنے ہوئے  نظام کو ، چاہے وہ بین الاقوامی نظام ہو  یا ریاستوں کے اندر بنا ہوا نظام ہو،  چیلنج کرتے ہیں یا اس کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں؟ یہ تحریکیں جو قانون شکنی اور آئین شکنی کے راستے اختیار کرتی ہیں اور بہت ہی انتہا پسندانہ قسم کے مذہبی  بیانیے پیش کرتی ہیں اور اس کےلیے فساد برپا کرنے کی کوشش کرتی ہیں، ہم کہاں تک ان کی اساس یا جڑ  سیاسی اسلام کے تصور کو  قرار دے سکتے ہیں؟ اس کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ  دیکھنا ہوگا کہ سیاسی اسلام کا  مطلب اگر یہ ہے کہ  مسلمانوں کے معاشرے میں  جو اجتماعی نظام قائم کیا جائے ، وہ اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں پر قائم ہو،  اور اسلام کی اجتماعی  مصلحتیں حاصل اور مقاصد  کو پورا کرنے کےلیے  پورے نظام کو استعمال کیا جائے ،  اگر سیاسی اسلام کا یہ مطلب ہے تو تاریخی طور پر  یہ کوئی جدید دور کا  مظہر نہیں ہے یا جدید دور میں سامنے آنے والی  کوئی فکر نہیں ہے۔ اس کو اصل میں  ہم روایتی اسلام کہتے ہیں۔ اسلام کا جو روایتی تصور ہے اور  جو تاریخی اسلام چلا آرہا ہے، یہ اس کے تعارف   یا self-statement  کا بنیادی حصہ ہے۔

مسلمانوں کے پاس اقتدار  ہونا چاہیے، ان کو نظامِ حکومت قائم کرنا چاہیے، یہ پورے روایتی اسلام کا بنیادی مقدمہ ہے۔ اسلام کی تو ابتدا ہی اسی سے ہوئی تھا۔  شروع کے بارہ تیرہ سال کو نکال کر  جو رسول اللہﷺ کی  مکی زندگی کا دور ہے، اسلام اپنے دورِ اول سے  ایک سیاسی مذہب ہے۔ وہ صرف عبادات یا رسومات کا مذہب کا نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی مذہب ہے اور سیاسی مذہب  کا مطلب یہ ہے کہ وہ  مذہبی اقدار   ،  مذہبی  اصولوں   اور  شریعت کے بتائے ہوئے ضابطوں  کے مطابق ایک  معاشرے کی تشکیل کو اپنا ہدف  قرار دیتا ہے اور اس معاشرت کی تشکیل میں  اجتماعی نظام کے تمام پہلو  شامل ہیں۔ اس میں معاشرت بھی ہے، پوری معاشی سرگرمی بھی اس کا حصہ ہے ، اس میں قانون   اور جرم و سزا کا سدّباب  اور اسی طرح بین الاقوامی تعلقات   بھی ہیں۔  غرض اسلام کی ترجیحات کے مطابق  اور دین توحید کی بالادستی اور  اس کے اہداف کے لحاظ سے  پورے نظام کو تشکیل دینا، یہ پورے روایتی اسلام کا  مانا ہوا تصور ہے۔ یہ  ایک معلوم حقیقت ہے، ایسا نہیں ہے  کہ اس کےلیے کسی تاریخی تحقیق کی ضرورت  پیش آئے۔ اسلامی تاریخ، اسلامی روایت اور  اسلامی قانون سے جو آدمی ذرا سی بھی واقفیت رکھتا  ہے، وہ جانتا ہے  کہ حکومت،  سیاست، اقتدار ، نظمِ اجتماعی ، قانون، معیشت، بین الاقوامی معاملات  کو اسلامی تہذیب میں، اسلام کے  تعارف میں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔

دور جدید میں   مغربی اہل دانش  جب اپنے تناظر میں  صورتِ حال کو دیکھتے ہیں تو دو چیزیں انھیں  غالبا اس پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ سیاسی اسلام  کے تصور کو کوئی نئی پیدا ہونے والی چیز  یا ایک غیر متوقع حادثہ باور کریں۔ جیسا کہ عرض کیا گیا،  مغرب کے بڑے  مفکرین کی توقع  اور understanding  یہ رہی ہے  کہ مغربی قوموں نے جو  تہذیبی سفر کیا ہے  اور سیاست و معیشت  کی تنظیم کےلیے جو نئی قدریں  دریافت کی ہیں، اصل میں وہی فطری اور universal  قدریں ہیں۔ اہل مغرب اپنے تاریخی  حالات کے تناظر میں وہاں ذرا جلدی پہنچ گئے ہیں، لیکن وہ پوری دنیا کا  مقدر ہیں، پوری دنیا کو وہیں آنا ہے اور اہل مغرب کی یہ  تہذیبی ذمہ داری ہے  کہ باقی قوموں کو اس پر آمادہ کریں  کہ وہ اس طرف آئیں۔ جب اس مفرضے کے تحت وہ یہ  دیکھتے ہیں کہ  ہماری توقع کے برخلاف  اور ہمارے ذہن میں جو انسانیت  کے سفر کا ایک نقشہ ہے، اس کے برعکس  مسلمان معاشروں میں کچھ طبقے اور تحریکیں ہیں  جو دوبارہ معاشرت، معیشت اور سیاست  کو مذہب پر استوار کرنے کی بات کررہے ہیں،  تو یہ صورت حال ان کی توقعات  اور پیش بینی  سے چونکہ ٹکراتی ہے، اس وجہ سے ان کےلیے حیرانی کا موجب بنتی ہے۔ ان کی  توقعات اور پیشین گوئیوں کے لحاظ سے تو سفر اس طرف ہونا چاہیے تھا  کہ جمہوریت کے ساتھ تعارف  اور آزاد معیشت کے تصور کی بہ دولت  مسلمان معاشرے اس طرف تیزی سے  بڑھیں اور ان کے اوپر مذہب یا بادشاہت یا اس طرح کی دوسری پابندیاں   جو صدیوں سے عائد تھیں،ان سے چھٹکارا حاصل کرکے آگے بڑھیں، لیکن یہ کیا ہوا  کہ مسلمان معاشروں میں اب بھی  یہ جذبہ اتنا توانا ہے  کہ وہ "سیاسی اسلام "جیسے  مظاہر  کی صورت میں  نمودار ہو رہا ہے۔

اس طرزِ فکر کا ادوسرا بنیادی سبب یہ ہے کہ  گذشتہ دو صدیوں کے  عرصے میں  عالمِ اسلام کا  زیادہ تر حصہ استعماری طاقتوں کی لپیٹ میں  آچکا تھا۔   سلطنت عثمانیہ کو  اگر ہم مستثنیٰ کردیں  تو عالم اسلام کے ایک بہت بڑے  حصے میں  مسلمانوں کی حکومتوں کا خاتمہ  ہوگیا تھا۔ مختلف استعماری قوتیں یہاں پر  غالب تھیں  اور ان ہی کے ذریعے سے بنیادی طور پر سارے مسلمان معاشرے  جدید سیاسی تصورات سے  متعارف ہوئے۔  مثلا حق نمائندگی، جمہوریت، قومی ریاست  ، ان سب تصورات  سے  مسلمان استعماری طاقتوں کے ذریعے متعارف ہوئے۔ درمیان کے تعطل کے بعد  جب بیسویں صدی کے وسط میں  مسلمانوں کی قومی ریاستیں  قائم ہونا شروع ہوئیں  تو غالبا مغربی مفکرین توقع کررہے تھے  کہ وہ جو مذہبی حکومتوں کا، یا مذہب کی بنیاد پر قائم سیاسی حکومتوں کا تصور تھا، وہ  غالبا مسلمان معاشروں کے اندر سے محو ہوچکا ہے  اور وہ اپنی تاثیر اور اپیل  کھو چکا ہے۔  اس لحاظ سے یہ ان کےلیے ایک غیر متوقع  چیز تھی کہ مسلمانوں کے اندر ایسے مفکرین پیدا ہوں، ایسی تحریکیں اٹھیں  جو اس بھولے ہوئے سبق  کو دوبارہ یاد  کروائیں اور یہ  دعوت دیں کہ  جدید دور میں بھی ہمیں  اپنی معاشرت اور معیشت کو اسلام کی بنیادوں پر  قائم کرنا ہے۔   

یہ مغربی  تاریخی سیاق سے پیدا ہونے والے توقعات کا نتیجہ ہے۔ اس  وجہ سے یہ بالکل سمجھ میں آتا ہے کہ سیاسی اسلام  کا تصور اور ایک مذہبی فکر کے طور پر  سامنے آنا ان کےلیے  ایک اچنبھے کی چیز اور باعث تعجب امر ہے۔  لیکن اگر مسلمانوں کی تاریخ  ، اسلامی روایت اور اسلامی تہذیب  کے تسلسل میں کھڑے ہوکر دیکھا جائے تو یہ بات سمجھنے میں دقت پیش نہیں آتی کہ "سیاسی اسلام" کا تصور درمیان میں آنے والے ایک  تعطل اور خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور دوبارہ اسلامی روایت اور اسلامی تاریخ سے جڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے  کہ درمیان میں کچھ اسباب سے تعطل  آگیا تھا، مسلمانوں کی حکومتیں ختم ہوگئی تھیں، ان کا اقتدار ختم ہوگیا تھا۔اب جب ہمیں دوبارہ آزادی مل رہی ہے، سیاسی اقتدار اور حکومت مل رہی ہے، تو ہمیں پھر اپنی تہذیب اور تاریخ سے جڑنا ہے  اور ظاہر ہے کہ اس میں اسلام کا کردار  محض ایک عباداتی مذہب کے طور پر نہیں  ہے بلکہ معاشرے کو بنانے والی اور  سیاست و معیشت کے نظام کو تشکیل دینے  والی قوت کے طور پر  ہے۔

ان معروضات سے یہ امر واضح طور پر سامنے آتا ہے کہ سیاسی اسلام   بنیادی طورپر اسلامی تاریخ اور روایت میں  کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ مسلمان جہاں بھی اس پوزیشن میں ہوں کہ ان کی اکثریت ہو  اور وہ اپنا ایک نظم اجتماعی قائم کریں،   وہاں  اس کی ضرورت یا اہمیت کو   پوری اسلامی فکر متفقہ طور پر  بیان کرتی ہے۔ہماری فقہ میں  یوں بیان کیا جاتا ہے کہ  خلافت کا قیام، یعنی حکومت اور اقتدار کی تشکیل  اور ایک نظام حکومت کا قیام   مسلمانوں پر لازم ہے۔ اس لیے کہ ان پر  اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں، ان کو جن احکام شریعت کا پابند ٹھہرایا ہے، ان میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ جب تک مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں ہوگی اور ان کے پاس سیاسی طاقت نہیں ہوگی، وہ ان ذمہ داریوں کو انجام نہیں دے سکتے۔ بنیادی طور پر یہ وہ نقطۂ  نظر ہے  جس کو جدید دور میں نئی اصطلاحات   اور کچھ نئے استدالات کے ساتھ  عالم اسلام میں  مختلف اہل فکر نے  بیان کیا ہے۔ اب اس فکر کی اصطلاحات نئی ہوسکتی ہیں، تعبیرات نئی ہوسکتی ہیں، جو استدلالات پیش کیے گئے ہیں وہ ممکن ہے، روایتی  استدلالات سے مختلف اور  جدید ذہن کےلیے  زیادہ مانوس ہوں،  لیکن بنیادی تصور نیا  نہیں ہے۔

سیاسی اسلام اور عسکریت پسندی  کا اساسی فرق

اگر  مذکورہ بالا  نقطۂ نظر پوری اسلامی روایت کا  نقطہ نظر ہے  اور اسی کو جدید دور میں بعض مذہبی مفکرین، جن میں غالبا مولانا مودودی سب سے نمایاں ہیں،  پیش کررہے ہیں تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جدید دور میں ان دو مظاہر کا باہمی امتیاز کیسے سمجھیں  جن میں سے ایک کو سیاسی اسلام اور  دوسرے کو   جہادی اسلام کہا جاتا ہے۔ عسکریت پسندی کی  جو لہر اور تحریک ہے، وہ بھی ظاہر ہے کہ اسلام کے غلبے کی بات کرتی ہے۔ اس میں بھی اسلام کی حاکمیت قائم کرنے کی بات کی جاتی ہے ، اس میں بھی شریعت کی بالادستی کی بات  کی جاتی ہے، اس میں بھی بین الاقوامی نظام میں مظلوم مسلمانوں کی مدد اور نصرت  اور اسلام کا بول بالا  کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ تو مولانا مودودی کی فکر کو، چاہے  ہم اسے اسلامی روایت کا  بیانیہ قرار دے دیں یا  جدید اصطلاح میں سیاسی اسلام کا عنوان دے دیں ،  اس پوری فکر کو ہم انتہا پسندی یا  عسکریت پسندی کی اس لہر کو کیسے  ممتاز کرسکتے ہیں، ان کے باہمی  فروق کیا ہیں ؟   اس سوال کے تجزیے سے  واضح ہوگا  کہ مولانا مودودی کی فکر یا سیاسی اسلام کو کہاں رکھنا چاہیے، یعنی فکر  ی طور پر اس کا شجرہ نسب  کس سے زیادہ ملتا ہے۔ کیا  اسلامی تہذیب اور روایت  میں آنے والے بیانیے کے ساتھ اس کا تعلق زیادہ بنتا ہے یا اس کے خصائص ، ترجیحات  اور عناصر انتہا پسندی اور عسکریت پسندی  کے بیانیےکے ساتھ زیادہ  موافقت رکھتے ہیں۔

عسکری اسلام  یا عسکریت پسندی کے جو بیانیے ہیں،   ان کے فکری رجحانات  یا ان کے استدلالات کے تین چار مظاہر  یا خصوصیات کو سامنے رکھا جائے تو اس میں سب سے بنیادی خصوصیت یہ نظر آتی ہے کہ وہ اسلام کے غلبے کا جذبہ تو رکھتے ہیں اور انہی آیات   اور فقہ اسلامی اور  شریعت کے انہی اصولوں سے استدلال کرتے ہیں جن میں دین کے غلبے  اور شریعت  کی حاکمیت کی بات کی گئی ہے۔ اس بنیادی تقاضے کےلیے  تو ان کا ماخذ استدلال  اور ہماری روایت کا ماخذ استدلال  یا سیاسی اسلام کا ماخذ استدلال  زیادہ مختلف نہیں ہے۔   لیکن جو چیز ان کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے، وہ  اس سوال کا جواب ہے کہ اس مقصد کے حصول کےلیے  جدوجہد کن اساسات پر کی جائے، حکمت علمی  کیا وضع کی جائے اور   اس کےلیے line of action  کیا بنائی جائے یا جدوجہد کا رخ کیا طے کیا جائے۔  اس میں بہت بنیادی مسئلہ جدید دور میں دنیا کی سیاست اور معیشت میں واقع ہونے والی  تبدیلیوں کا  ہے۔ دنیا کی سیاسی  اور  تہذیبی فکر میں اور سیاسی اور عسکری طاقت کے  توازن میں جوہری  تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جو اب  ایک معروضی حقیقت کا درجہ  رکھتی ہیں۔ ایک ایسی دنیا وجود میں  آچکی ہے کہ نہ اس میں سیاسی توازن وہ ہے جو دو تین سو سال پہلے تھا، اور نہ اس میں اقتصادی طاقت کا توازن وہ ہے۔ سیاسی تصورات  جو دو صدیاں   پہلے دنیا میں  مسلّم   ، جائز اور اخلاقی مانے جاتے تھے ، آج دنیا میں ان کی جگہ کچھ اور تصورات نے لے لی ہے۔ معاشرت میں غیر معمولی تبدیلی آچکی ہے  اور پوری انسانیت کا طرزِ فکر  بالکل  تبدیل ہوچکا ہے  اور یہ ساری تبدیلیاں ایک معروضی حقیقت کے طور پر دنیا میں موجود ہیں۔

اب ظاہر بات ہے کہ کسی  مذہبی یا غیر مذہبی فکر نے اپنے اہداف اور  ideals  کیا طے کرنے ہیں، اس میں تو وہ اس کے پابند نہیں ہیں  کہ اپنے  ideals یا اہداف  وہ زمانے کے رجحانات سے لیں یا ان کی روشنی میں طے کریں۔ قومیں ،تہذیبیں  اور گروہ اپنے اہداف  اور اپنے ideals غیر تاریخی یا تاریخ سے ماورا مآخذ سے  بھی اخذ کرتے ہیں ، لیکن ان کے حصول کےلیے جہدوجہد کی جو حکمت عملی وضع کرنی ہے، اس میں کوئی گروہ، کوئی  بیانیہ، کوئی تحریک  اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتی کہ وہ کس ماحول میں ہے، وہاں پر زمینی حقائق کیا ہیں، پیش رفت کے امکانات کس طرح کے ہیں، کون سی حکمت عملی موثر ہوسکتی ہے اور  رکاوٹیں کس نوعیت کی ہیں۔ ان سب  چیزوں کو ملحوظ رکھے بغیر  اور ان کے ساتھ ایک طرح کی موافقت پیدا کیے بغیر  کوئی جدوجہد  میدان عمل میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔

اس مقام پر ایک بنیادی فرق نظر آتا ہے  کہ عسکریت کی راہ  اختیار کرنے والی جتنی بھی  تحریکیں اور گروہ ہیں،  وہ بنیادی طور پر تاریخ اور تہذیب  میں ان تبدیلیوں کو  جو جدید دور کی ایک حقیقت  واقعہ ہے،  جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا  اور اس سے بچ کر نہیں نکلا جاسکتا،  وہ ان کو ایک امر واقع کے طور پر  قبول کرنے کےلیے  تیار نہیں ہیں۔ پوری دنیا میں طاقت، سیاست، معیشت  اور ایک پورا  نظام بنا ہوا ہے ، تصورات کا ایک پورا مجموعہ ہے جو اس وقت دنیا میں غالب ہے اور لوگ اسی کے تحت سوچتے ہیں۔  لیکن یہ عناصر یا تو ایک جذباتی فضا میں  یا ایک غیر حقیقی انداز فکر سے یا کچھ مذہبی پیشن گوئیوں کو  سامنے رکھ کر  یہ سمجھتے ہیں کہ  ہم اس پورے نظام طاقت اور نظام فکر کو  نظر انداز کرسکتے ہیں  اور اس کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ چیلنج کرسکتے ہیں، اس توقع پر کہ جب ہم ٹکرانے کی کوشش کریں گے تو پھر غیبی طاقتیں اور قوتیں  کام کرنا شروع کردیں گی  اور کچھ ماورائے تاریخ عوامل سامنے آجائیں گے جو حالات کا پانسہ پلٹ دیں گے۔  اس  مفروضے یا تاریخی تفہیم کے ساتھ اور تاریخی تبدیلیوں کے بارے میں  اس اندازِ نظر کے ساتھ  وہ  جب اپنا بیانیہ مرتب کرتے ہیں اور جدوجہد کا  ایک طریقہ اختیار کرتے ہیں تو وہ ان چند نکات کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے :

 سب سے پہلا نکتہ  تو مسلمان معاشروں میں اس وقت جن طبقات کے پاس حکومت اور اقتدار ہے  اور  ریاستی طاقت ہے، فکری بنیادوں پر ان کی تکفیر کرنا ہے، یعنی ان کے متعلق یہ موقف  اختیار کرنا ہے کہ یہ حکمران طبقے  اور ان کا بنایا ہوا پورا نظام کافرانہ ہے  اور اس کو ئی  مذہبی جواز یا مذہبی سند حاصل نہیں۔ اس کی  دلیل یہ ہے کہ  یہ نظام جن سیاسی تصورات پر مبنی ہے، ان میں سے ایک بنیادی تصور جمہوریت ہے اور جمہوریت ایک ایسا نظام ہے کہ کم سے کم موجودہ حالات میں  یہ عناصر جن  مقاصد  کے تحت اور  جس رفتار سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں، جمہوری نظام کے اندر رہتے ہوئے اتنی تیزرفتاری سے اور اس درجے کی تبدیلیاں پیدا کرنابہرحال ممکن نہیں ہے۔ یوں یہ طبقے جمہوریت کی نفی کرنے، اس کوایک کافرانہ نظام قرار دینےاور شریعت سے متصادم قرار دینےمیں یک زبان ہیں۔

پھرپوری دنیا میں بین الاقوامی سیاسی نظام اس وقت قومی ریاست (Nation State) کےتصور پر قائم ہے۔ یعنی اس میں دنیا کے علاقوں کی اور حکومتوں کی مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی گئی،  جیسا کہ ہماری کلاسیکی فکر میں کی گئی تھی کہ دنیا دارالاسلام  اور دارالکفر میں تقسیم ہے۔ آج کا سیاسی نظام اس اصول پر قائم نہیں ہے۔ اس میں قومی ریاست کا تصور ہے جس میں  خطہ(Territory)، جغرافیہ اور وہاں پر رہنے والی قوم(Population)  کو بنیاد مانا گیا ہے اور ہر قومی ریاست کو  اپنے دائرے (Jurisdiction) میں خود مختاری (Sovereignty) حاصل ہے۔ اس میں آبادی کے لحاظ سےمسلمان اور غیر مسلم  دونوں طرح کی ریاستیں ہیں،  لیکن مذہبی وابستگی کی بنیاد پر تمام مسلمان ایک سیاسی نظم کےتحت مجتمع نہیں ہیں۔ عسکریت پسند تحریکوں کے تصور خلافت کے مطابق یہ تمام عناصر خلاف اسلام  ہیں اور  وہ ریاستی حدود کی تقسیم کی بنیاد پر کیے گئے معاہدات اور  نافذ کردہ قانونی پابندیوں کی بھی نفی کرتی ہیں۔ نتیجتا  ان کے پاس جدوجہد کا جو طریقہ باقی رہ جاتا ہے، وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ ان حکومتوں کے ساتھ اور ان سرحدات کی تقسیم پر مبنی بین الاقوامی نظام کے ساتھ براہ راست ٹکرائیں۔

گویا داخلی طور پر مسلمان حکومتوں کے ساتھ الجھنے کا یا تصادم کا طریقہ اختیار کرنا اور بین الاقوامی سطح پر معاہدات کی نفی کرنا، ان کو توڑنا ،اور بین الاقوامی قوتوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے تصادم مول لینا،  ان کے ساتھ جنگ چھیڑنا، یہ ان کا طریقہ اور حکمت عملی  ہے۔ اس کے نتیجے کے حوالے سے ان حضرات  کی جو توقعات ان کی گفتگوؤں سے  اور ان کے لٹریچر سے سمجھ  میں آتی ہیں،   اس کا حاصل یہ ہے کہ  جب وہ اس بنے ہوئے نظام کو چیلنج کریں گے  اور اس نظام میں انتشار ،بدامنی  اور انارکی پیدا ہوگی تو اس سے ایک ماحول بنے گا جس میں اللہ تعالی کچھ ایسے تاریخی واقعات ظاہر کرے گاجن کا مذہبی پیشین گوئیوں میں تذکرہ ملتا ہے۔

مولانا مودودی اور دینی  سیاسی جدوجہد  کا تصور

اب اس پورے بیانیے کوسامنے رکھیں اور دیکھیں کہ مولانا مودودی نے جس دور میں غلبہ دین کی جدوجہد کا اور دین کی سیاسی حاکمیت قائم کرنے کا جو پورا لائحہ عمل  پیش کیا ہے، وہ کیاہے ؟  اس تقابل سے ہمارے سامنے بالکل دو اور دو چار کی طرح یہ بات واضح ہو جائےگی کہ مولانا کی  سیاسی فکر  اورعسکریت پسندی کے بیانیےمیں جوہری فرق کیا ہے۔  اسی طرح عسکریت پسندی کا بیانیہ اپنا جواز کس حد تک  مولانا کی مذہبی فکر سے اخذکرتا ہے، اس سوال کا بھی ہمیں جواب مل سکے گا۔ مولانا مودودی نے بہت تفصیل سے مختلف جگہوں پر اس موضوع پر اظہار خیال کیا ہے۔ خاص طورپر  چونکہ وہ ہندوستان کے خطے کے تھے اور یہیں انہوں نے اپنے سیاسی فکر اور جدوجہد کو منظم کیا، تو پاکستان کے تناظر میں انہوں نے سیاسی دینی جدوجہد کے کچھ اصول واضح کیے  اور بعض  غلط راستوں سے اجتناب کو اپنی حکمت عملی یا اپنی فکر کا بنیادی ستون قرار دیا۔  

سب سے پہلےمولانا مودودی یہ واضح کرتے ہیں کہ ہم آج جس صورت حال میں اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کرنے یا حکومت الہیہ کے قیام کےلیے کام کررہے ہیں، یہ ماحول ہماری توقعات کے مطابق بنا ہوا نہیں ہے۔ یہاں پر استعمار ڈیڑھ سو سال تک مستحکم رہا ہےاور اس دور میں مسلمان معاشرے کی جو تشکیل خاص طور پر میدان سیاست میں  ہوئی ہے اور اس میں جن تصورات کو فروغ ملا ہے، وہ سیکولر طرزِ سیاست ہے۔مسلمانوں نے پچھلے ایک سو سال  میں  اور  خاص طور پر بیسویں صدی کے پہلے نصف عشرے میں  جو سیاسی جدوجہد کی ہے، وہ برطانوی جمہوریت کے متعارف کردہ اصولوں کے تحت کی ہے۔ یہ سیکولر طرز سیاست تھی جس  میں مسلمانوں کی جدوجہد ہندوؤں کے مقابلے میں اپنے حقوق کے تحفظ پر مرکوز رہی ہے۔ اس کے تسلسل میں  جو ملک قائم ہوا ہے،  خود اس کی بانی جماعت مسلم لیگ  کے ہاں، یعنی جس طبقے نے اس سیاسی جدوجہد کی قیادت کی، خود اس طبقے کے ہاں بھی حکومت الہیہ یا  اسلامی حکومت کا وہ تصور نہیں ہے جس کی طرف  مذہبی طبقے یا مولانا مودودی دعوت دے رہے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایسے ماحول میں ہیں   جس میں سیکولرازم اور سیکولر سیاسی تصورات بہت  معروف (Popular) ہوچکے ہیں  اور خود مسلمانوں کے اندرجو سیاسی جدوجہد کرنے والے طبقے ہیں، وہ اس کے ساتھ بہت مانوس ہوچکے ہیں۔ ان کو دوبارہ حکومت الہیہ کے تصور کی طرف لے کر آنا، اس تصور کو دوبارہ متعارف کروانا، اس کےلیے لوگوں کو ذہنی اور قلبی طور پر قائل کرنا، ان کے سوالات اور شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا، یہ ایک بہت بڑا کام ہے اور یہ بنیادی کام ہے۔ اس بنیادی مسئلے کو نظر انداز کر کے کوئی راست اقدام یا کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جاسکتا  ، جس میں کچھ لوگ  جتھہ بندی کریں ، طاقت منظم کر کے چڑھ دوڑیں اور اس کے نتیجے میں اسلامی حکومت قائم کردیں۔  سب سے پہلے تو مولانا اپنی حکمت عملی کی وضاحت میں اس حقیقت کو نمایاں کرتے ہیں کہ یہ معروضی صورتحال میں ممکن نہیں ہے۔1

دوسری بات وہ یہ بتاتے ہیں  کہ جب صورت حال یہ ہے تو ہماری حکمت عملی تین بنیادی  اصولوں پر قائم ہونی  چاہیے۔ جدید سیاست اور معاشرے میں  اسلام کی سیاسی بالادستی ، شریعت کی حاکمیت کے قیام  کےلیے جو حکمت عملی ہم منظم  کریں، اس کے تین  بنیادی اصول ہیں:

    1. سب سے پہلے تو یہ کہ یہ کام دفعتا  نہیں ہوسکتا ، ایک دم سے نہیں ہوگا۔ اس کےلیے ہمیں تدریج کا راستہ اختیار کرنا ہوگا ، درجہ بہ درجہ اس مقصد کےلیے آگے بڑھنا ہوگا۔

    2. دوسری بات یہ کہ  ہم تمام مقاصد پر بھی  بیک وقت توجہ نہیں دے سکتے ، ہمیں الاہم فالاہم کا اصول قائم کرناہوگا۔ مطلب یہ کہ ہم تمام محاذوں پر  اور ہر ہر مسئلے پر  بہ یک وقت جدوجہد  شروع نہیں کرسکتے۔ ہمیں طے کرنا ہوگا کہ زیادہ اہم اور بنیادی چیزیں کون سی ہیں جن کو اگر پہلے حاصل کرلیا جائے  توپھر ان کی بنیاد پر  مزید تبدیلوں کےلیے راہ ہموار ہوگی۔ ہمیں پہلے ترجیحات متعین کرنی پڑیں گی۔

    3. تیسری بڑی اہم بات جو  اپنی حکمت عملی کی بنیاد کے طور پر مولانا بیان کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس پوری جدوجہد میں ہمیں خود مسلمانوں کے اندر ان عناصر  کے ساتھ مزاحمت کی ایک کیفیت  مسلسل درپیش رہے گی جو جدید دور میں مذہب کی بنیاد پر  نظام حکومت یا نظام  ریاست قائم کرنے کو زیادہ قابل عمل  نہیں سمجھتے۔ یہ عناصر  بھی مسلمان معاشرے کا حصہ ہیں، جدید طرزِ حکومت اور نظام میں  صاحب اثر ہیں اور ان کا بڑا  اثر و رسوخ ہے  ، ان کے ساتھ ہمیں تصادم سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ مولانا کے ہاں بہت بنیادی نکتہ ہے کہ ان طبقوں کے ساتھ  ہمیں تصادم کو بہ طورِ  پالیسی اختیار نہیں کرنا، وہ ہمارے مدعو بھی ہیں اور  حکمت عملی سے ہمیں سے بات کرنی ہے۔  ان کی ترجیحات کی مزاحمت بھی کرنی ہے، لیکن ان کے ساتھ تصادم کا طریقہ اختیار نہیں کرنا۔2

مولانا کے مطابق حکمت  عملی   ان تین بنیادی اصولوں پر قائم ہوں گی۔ اس کے بعد مولانا جو ضروری اور اہم بات واضح کرتے ہیں، وہ یہ  ہے کہ جدید دور  میں آپ آئینی  طرزِ جدوجہد اور قانونی انداز  کو چھوڑ کر  خفیہ جدوجہد   کی کوشش کریں گے، خفیہ طور پر انقلاب منظم کرنے کی کوشش کریں گے  تو اس کے نقصانات  اور نتائج کیا ہوں گے۔ مولانا  نے  دو چیزیں اس میں بہت نمایاں کی ہیں :

    1. جیسے ہی آپ اس طرزِ جدوجہد کو اختیار کریں گے  تو سب سے پہلی بات یہ ہوگی کہ یہ چونکہ ایک خفیہ نظام ہوگا، عوامی نہیں ہوگا جس کا محاسبہ اور تجزیہ کیا جاسکے  تو لازما یہ ڈکٹیٹر شپ کے اصول پر مبنی ہوگا۔ اس میں آمریت ہوگی، اس میں کچھ افراد ہوں گے جو فیصلے کریں گے اور  ان کو پوچھ گچھ اور محاسبہ کرنے والا  کوئی نہیں ہوگا۔ وہ جس جتھے  کو  ایک  خواب  دکھا کر اپنے ساتھ جمع کرلیں گے، وہ ان کا اندھا مقلد ہوگا۔ وہ ان کو حکم دیں گے کہ کسی کی جان لے لو تو وہ جان لے لیں گے، کسی کا مال لوٹ لو تو وہ لوٹ لیں گے۔ یہ ڈکٹیٹر شپ کے تحت ایک جتھا سا بن جائے گا  لیکن وہ طرزِ جدوجہد دینی اور اخلاقی  و شرعی اصولوں کے مطابق ہو اور اس کا محاسبہ  کیا جا سکے، اس کا امکان نہیں ہوگا۔3

    2. دوسرا بڑا نقصان اس کا یہ ہوگا  کہ جب آپ ایک بنے ہوئے نظام میں، جس میں جمہوریت کے اصول  پر آپ  کو اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے، اپنی جدوجہد منظم کرنے کا اور  کو آزادی کے ساتھ کھلے ماحول میں اپنا کام کرنے کا موقع میسر ہے، اس راستے کو  چھوڑ کر نظام سے تصادم  کا راستہ اختیار کریں گے  تو آپ قانون شکنی کا ایک ایسا مزاج پیدا کریں گے  جو بعد میں خود آپ کے سنبھالنے میں نہیں آئے گا۔  مولانا ایک بات تو یہ کہتے ہیں کہ آزادی سے کھلے بندوں کام کرنے کے مواقع ہوتے ہوئے  اور جمہوری آزادی ہوتے ہوئے  غیر جمہوری طریقہ اختیار کرنا شرعا ناجائز ہے۔4 یہ  مولانا کا باقاعدہ اصولی موقف ہے۔  دوسرا پہلو  اس نتیجے میں پیدا ہونے والے قانون شکنی کے مزاج کا ہے۔ مولانا اس کےلیے تحریک آزادی کا حوالہ دیتے ہیں  کہ ہم تجربہ کرکے دیکھ چکے ہیں کہ تحریک آزادی  کے دورا ن میں بعض مراحل پر جب مسلمان قائدین  نے جدوجہد کےلیے  آئین شکنی کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کی، حکومتی قوانین کی خلاف ورزی کو سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی  تو اس سے قوم کے اندر  قانون شکنی کا  وہ مزاج پیدا ہوا   جس کو آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔5 آج بھی پُرامن اور   قاعدوں اور ضابطوں کی پابند  سیاست سے ہماری قوم مانوس نہیں ہے اور آج بھی غیر قانونی اور غیر  آئینی راستے اختیار کرنے کو سیاست کا  ایک بنیادی حصہ سمجھا جاتا ہے۔  

مولانا کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ ان طریقوں سے آپ نہ تو وہ اجتماعیت پیدا کرسکتے ہیں  اور نہ وہ معاشرہ  پیدا کرسکتے ہیں جس میں  خدا خوفی  اور حدودکی پابندی ہو اور خدا کی بتائی ہوئی حدود کے اندر  جدوجہد کرنے کا جذبہ راسخ ہو۔

موجودہ بین الاقوامی نظام کی شرعی حیثیت

ایک اور بڑی اہم بات   جس کو مولانا بہت زور دے کر  نمایاں کرتے ہیں ، یہ ہے کہ جدید بین الاقوامی نظام میں کیے گئے باہمی معاہدات کو اخلاقی اور  شرعی جواز اور سند حاصل ہے۔ یعنی عسکری تنظیموں کے بیانیے کے بالکل برعکس جو یہ سمجھتے ہیں کہ  یہ نظام  مغربی قوتوں نے فریب ، جبر ، طاقت کے زور پر مسلط کیا ہوا ہے  اوریہ مسلمانوں کو یا اسلام کے غلبے  کو روکنے کا ایک  طریقہ ہے  ، اس لیے اس کو نہیں ماننا چاہیے ،  مولانا مودودی کہتے ہیں کہ  موجودہ بین الاقوامی نظام، ا س میں مانا گیا  قومی ریاستوں کا تصور  اور ایک ریاست کو  دوسری ریاست  کے  معاملات میں دخل دینے سے روکنے اور اسے ناجائز قرار دینے کا جو اصول قائم کیا گیا ہے، یہ سب بین الاقوامی معاہدات ہیں اور ان معاہدات کی پابندی  مسلمانوں کےلیے صرف مصلحت کے طو رپر نہیں، یعنی صرف مفاد پرستی کے نقطۂ نظر سے نہیں  بلکہ شرعی اور اخلاقی طور پر  بھی لازم ہے۔6 اس بنیاد پر مولانا  کے موقف کے مطابق قومی ریاستیں خلافت کے تصور کے منافی نہیں ہیں۔ یہ بہت ہی اہم فرق ہے کہ عسکریت پسند عناصر اور گروہوں  کے تصور خلافت کے مطابق قومی ریاستوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جبکہ   مولانا اس کے برعکس یہ کہتے ہیں  کہ مسلمانوں کی الگ الگ ریاستیں ہوں، ان کے الگ الگ نظم اجتماعی ہوں، مختلف قومیں مختلف خطوں میں اپنے  حق خود ارادی کو استعمال کررہے ہوں تو یہ اس سے مانع نہیں ہے  کہ وہ مشترک سیاسی مفادات کی  سطح پر، بین الاقوامی  سیاسی تعلقات کی  سطح پر ، خود کو ایک ایسے مربوط سلسلے میں منظم  کرلیں  جس کو ہم خلافت کے تصور کا متبادل قرار دے سکیں۔ مولانا خلافت  کے قیام کےلیے اس  کو لازم نہیں سمجھتے  کہ قومی ریاستوں کو ختم کیا جائے، بلکہ ان کا تصور یہ ہے کہ دونوں   میں باہمی مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔ قومی ریاستیں ہوتے ہوئے  خلافت کا ایک  ماڈل تشکیل دیا جاسکتا ہے۔7 مولانا  بین الاقوامی معاہدات کی نفی کرنے اور ان کی خلاف ورزی کو  درست نہیں سمجھتے بلکہ  میرے علم کی حد تک  اسلامی روایت میں شاید  وہ پہلے عالم ہیں، جنھوں نے سورۃ انفال کی درج ذیل  آیت  کی ایسی تشریح کی ہے جو  بہت ہی برمحل ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ھَاجَرُوْا وَ جٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَ اَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْا اُولٰٓئِكَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یُھَاجِرُوْا مَا لَكُمْ مِّنْ وَّلَایَتِھِمْ مِّنْ شَیْءٍ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا وَ اِنِ اسْتَنْصَرُوْكُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْكُمُ النَّصْرُ اِلَّا عَلٰی قَوْمٍ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ (الانفال ۹:۷۲)

[جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے ، اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی، وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگرہجرت کر کے (دارالاسلام میں) آنہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آجائیں۔ ہاں اگر وہ دین کےمعاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو۔جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُسے دیکھتا ہے۔]

اس آیت سے  جدید  بین الاقوامی  قانون اور بندوبست کی  تائید میں  مولانا یہ نکتہ اخذ کرتے ہیں کہ  اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے  کہ اسلام مسلمانوں پر  ایسی کوئی بین الاقوامی  سیاسی ذمہ داری نہیں ڈالتا  جس کے نتیجے میں وہ  دوسری قوموں یا دوسرے ممالک  میں مقیم مسلمانوں  کو تحفظ دینے یا ان کے  حقوق اور آزادیوں کو یقینی بنانے کےلیے  دخل دینے کے پابند  ہوں، کیونکہ اس سے اتنی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں  کہ بین الاقوامی  معاملات اور تعلقات کو  ایک مستحکم نہج پر استوار رکھنا  ممکن نہیں رہتا۔ مولانا اس سے یہ اخذ کرتے ہیں کہ  قرآن نے یہ ہدایت دے کر  مسلمانوں کو بہت سی  ایسی پیچیدگیوں سے بچایا ہے  جن کا اگر لحاظ نہ رکھا جائے  تو بین الاقوامی تعلقات ہمیشہ ایک  خلفشار کا  منظر پیش کرتے رہیں گے۔8 مولانا بین الاقوامی معاہدات  کی پابندی   کی بہت اہمیت بیان کرتے ہیں، اور پاکستان کی تاریخ میں  دو مواقع  پرانہوں  نے اسی تصور کے تحت جو مذہبی موقف اختیار کیا،   وہ ہمیں ان کا نقطۂ نظر سمجھنے  میں مدد دیتا ہے۔

  1. 1948ء میں  کشمیر میں  وہاں کے مقامی مسلمانوں  نے اپنے طور پر  جہاد شروع کر دیا اور یہاں کے بعض سرحدی قبائل بھی اس میں شریک ہونے لگے ، لیکن حکومت پاکستان نے اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔ اس  ابہام کی کیفیت میں مولانا مودودی سے یہ سوال ہوا  کہ کیا ہم اس جہاد میں  کشمیریوں کی مدد کرسکتے ہیں، یعنی کیا وہاں لوگوں کو لڑنے کےلیے بھیج سکتے ہیں،یا ان کی مادی امداد کی جو دوسری صورتیں ہیں،  وہ اختیار کرسکتے ہیں جب کہ ہماری حکومت  نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا؟  مولانا نے اس پر جو موقف اختیار کیا ، اس پر ان کے اور مولانا شبیر احمد عثمانی کے درمیان  ایک مراسلت بھی ہوئی۔ مولانا کا موقف یہ تھا کہ بین الاقوامی معاملات میں ایک ملک یا ریاست میں رہنے والے مسلمان  اپنی حکومت کے  فیصلوں اور پالیسیوں کے پابندہیں۔ اگر حکومت یہ فیصلہ کرلے کہ  اسے اس معاملے میں کشمیریوں کی مدد کرنی ہے تو  وہ حکومت کا فیصلہ ہوگا اور پھر  عام مسلمان بھی اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق  اس میں حصہ لے سکیں گے۔ لیکن اگر حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ  ہم اس جنگ میں شریک نہیں ہیں اور حکومت پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات  بھی قائم رکھے ہوئے ہیں تو  اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں ملک برسر جنگ نہیں ہیں۔ ایسی کیفیت میں حکومت  طرف سے جنگ کے  اعلان کے بغیر، ہمارے لیے اخلاقی طور پر تو کشمیریوں کی مدد  کرنا درست ہے ، لیکن اگر ہم عملا اس میں شریک ہوں گے  تو یہ معاہدات کی خلاف ورزی کے تحت  آتا ہے اور ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔9
  2. اسی طرح 1979ء میں  جب افغانستان میں روسی افواج کی آمد کا عمل شروع ہوا  تو ابتدا میں یہ واضح نہیں تھا  کہ حکومت پاکستان کا فیصلہ کیا ہے۔ تب بھی یہ سوال مولانا کے سامنے آیا اور مولانا  نے اس موقع پر یہی جواب دیا کہ  ہمارے لیے یہی بہتر ہے  کہ ہم حکومتی پالیسی کا  انتظار کریں۔ اگر حکومت ایک پالیسی طے کرلیں کہ وہ اس جہاد میں  فریق ہے اور افغان کے مسلمانوں کا ساتھ دے رہی ہے تو پھر ہمارے لیے اس میں شریک ہونا درست ہوگا ، لیکن اگر حکومت اپنا علانیہ موقف یہ طے کرے کہ ہم اس جنگ میں شریک اور فریق نہیں ہیں تو پھر ہمارے لیے حکومتی پالیسی کے علی الرغم اور اس کے خلاف کسی جہاد میں شرکت  کرنا  درست نہیں ہوگا۔10

خلاصہ کلام

ان چند نکات سے ہم دیکھ سکتے ہیں  کہ غلبہ دین کی  اور  اسلام کی سیاسی حاکمیت کے قیام کی جدوجہد  کا  جو انداز اور حکمت عملی مولانا مودودی کے ذہن میں ہے ، وہ قطعی طور پر اس بیانیے اور طرزِ جدوجہد سے  مختلف ہے جو کہ عسکریت پسندوں  کی پہچان ہے۔ اسلام کو ایک سیاسی قوت حاصل ہو ، غلبہ حاصل ہو ، شریعت کی حاکمیت قائم ہو ، مسلمان بین الاقومی سطح پر ایک  اجتماعی سیاسی کردار ادا کریں ،  یہ پوری اسلامی تاریخ کا مانا ہوا  مسلمہ ہے۔ اس میں کوئی چیز نئی نہیں ہے۔ یہ بات جو بھی کہتے ہیں، چاہے وہ عسکریت پسندی کے نمائندے ہوں یا سیاسی اسلام کے نمائندے ہوں ، وہ کوئی نئی بات نہیں کر رہے۔ یہ پوری اسلامی روایت کا ایک مانا ہوا تصور ہے۔ اصل چیز جو جدید دور کے تناظر میں فرق قائم کرتی ہے ، وہ یہ ہے کہ ہم  جدید دور میں آنے والی  تبدیلیوں کو،موجودہ بین الاقوامی  نظام کو ، قومی ریاستوں کے تصور کو اور  جمہوریت کے تصور کو  کیسے دیکھتے ہیں۔ آیا ہم ان تصورات کو اپنے نظام فکر میں قابل قبول بناتے ہیں  اور ان کی موافقت کے ساتھ ایک لائحہ عمل بناتے ہیں  یا  ان کو کلیتا رد کر دیتے ہیں، یہاں سے فرق واقع ہوتا ہے۔ مولانا مودودی اور ان سےفکری ہم آہنگی رکھنے والے دوسرے  اہل دانش  بالکل الگ کیمپ میں کھڑے ہیں جو ان تمام تبدیلیوں کو  قبول کرتے ہیں  اور ان کو ایک اخلاقی اور شرعی جواز فراہم کرتے ہیں۔ وہ ان کی پابندی کو ایک بنیادی اصول کے طور پر بیان کرتے ہیں  اور  اس کی خلاف ورزی کے نتائج پر متنبہ کرتے ہیں۔ عسکری تنظیمیں  ان تمام نکات  اور تصورات میں  مولانا کے نقطۂ نظر سے بالکل مختلف بات کہتی ہیں۔ اصل چیز جس سے ہمیں فرق کو سمجھنا چاہیے ، وہ اس حوالے سے ہے کہ جدید دور کی تبدیلیوں کے بارے میں کس کا نقطۂ نظر کیا ہے  اور کوئی گروہ  جو حکمت عملی  یا جدوجہد کا جو لائحہ عمل بناتا ہے، کیا وہ ان تبدیلیوں کو  پیش نظر رکھتا ہے یا ان  کو نظر انداز کرتا ہے۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا کی فکر اور  ان کے بتائے ہوئے راہ نما اصول کسی  بھی لحاظ سے   اور کسی ایک نکتے پر بھی  عسکری بیانیے کی تائید نہیں کرتے بلکہ پوری قوت کے ساتھ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔

یہ چند معروضات آپ کے سامنے پیش کی گئیں  جن  میں ایک تاریخی پس منظر   میں  بات کو سمجھنے کی کوشش کی  گئی ہے۔ ہم نے واضح کیا کہ سیاسی اسلام کیا ہے  اور  اس اصطلاح کے وجود میں آنے کا  پس منظر کیا ہے۔   ہم نے دیکھا کہ یہ اصطلاح مغربی تناظر میں  تو قابل فہم ہے  لیکن ہمارے اپنے تاریخی تناظر میں  اس اصطلاح کی ضرورت نہیں   ہے۔ کیونکہ تاریخ میں اسلام کا کوئی تصور  ایسا نہیں رہا جو سیاسی نہ ہو، پوری اسلامی روایت سیاسی  اسلام کے تصور  پر کھڑی ہے۔ سیاسی اسلام ہماری روایت  میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔فرق جہاں سے واقع ہوتا ہے ، وہ یہ سوال ہے کہ جدید دور میں اسلام کی سیاسی حاکمیت کی جدوجہد کو منظم کرنے کی اساسات اور اصول کیا ہوں گے۔ اس سوال کے تعلق سے ہمیں کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ملتی  جو مولانا مودودی کی مذہبی فکر  میں اور عسکری  بیانیوں میں مشترک پائی جاتی ہو۔اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں  کہ ان دونوں بیانیوں کا  آپس میں تعلق جوڑنا اور انھیں ایک سمجھنا  ایک سطحی  تجزیہ ہے۔  گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ دو بالکل الگ بیانیے ہیں۔


حواشی

  1. ”مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کا طریق فکر“، مرتب: محمد ریاض درانی، جمعیۃ پبلی کیشنز، لاہور، ۲۰۱۱، ص ۱۰۸، ۱۰۹، و ص ۱۱۶، ۱۱۷۔
  2. ”تفہیم الاحادیث“، مرتب: وکیل احمد علوی، ادارہ معارف اسلامی، لاہور، ص  ۴۵۴، ۴۵۵۔
  3. ”تصریحات“، مرتب: سلیم منصور خالد، البدر پبلی کیشنز لاہور،  ص۲۵۷، ۲۵۸۔
  4.  ”تصریحات“،ص ۹۲۔
  5. ”تصریحات“،ص ۲۵۷، ۲۵۸۔
  6. سورۃ الانفال کی آیت ۷۲ کی تفسیر میں مولانا لکھتے ہیں: " میثاق ہر اس چیز کو کہیں گے جس کی بنا پر کوئی قوم بطریق معروف یہ اعتماد کرنے میں حق بجانب ہو کہ ہمارے اور اس کے درمیان جنگ نہیں ہے، قطع نظر اس سے کہ ہمارا اس کے ساتھ صریح طور پر عدم محاربہ کا عہد و پیمان ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔  پھر آیت میں بینکم و بینھم میثاق کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں، یعنی ”تمہارے اور ان کے درمیان معاہدہ ہو“۔ اس سے یہ صاف مترشح ہوتا ہے کہ دارالاسلام کی حکومت نے جو معاہدانہ تعلقات کسی غیر مسلم حکومت سے قائم کیے ہوں وہ صرف دو حکومتوں کے تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دو قوموں کے تعلقات بھی ہیں اور ان کی اخلاق ذمہ داریوں میں مسلمان حکومت کے ساتھ مسلمان قوم اور اس کے افراد بھی شریک ہیں۔ اسلامی شریعت اس بات کو قطعاً جائز نہیں رکھتی کہ مسلم حکومت جو معاملات کسی ملک یا قوم سے طے کرے ان کی اخلاقی ذمہ داریوں سے مسلمان قوم یا اس کے افراد سبک دوش رہیں۔ البتہ حکومت دارالاسلام کے معاہدات کی پابندیاں صرف ان مسلمانوں پر ہی عائد ہوں گی جو اس حکومت کے دائرہ عمل میں رہتے ہوں اس دائرے سے باہر دنیا کے باقی مسلمان کسی طرح بھی ان ذمہ داریوں میں شریک نہ ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیبیہ میں جو صلح نبی ﷺ نے کفار مکہ سے کی تھی اس کی بنا پر کوئی پابندی حضرت ابوبصیر اور ابوجندل اور ان دوسرے مسلمانوں پر عائد نہیں ہوئی جو دارالاسلام کی رعایا نہ تھے۔"
  7. خلافت وملوکیت، ص ۶۵
  8. تفہیم القرآن ۲/۱۶۱، ۲۶۱
  9. تصریحات، ص ۴۷٠
  10. تصریحات ص ۴۵۷، ۴۵۸

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۲)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(280)    خاطؤون کا ترجمہ

خطأ کے معنی غلطی کے ہوتے ہیں، ایک فیصلے اور تدبیر کی غلطی ہوتی ہے جسے چوک کہا جاتا ہے۔ اور ایک گناہ اور جرم والی غلطی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں چوک ہوجانے کے لیے باب افعال سے أخطأ آیا ہے۔ جیسے وَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیمَا أَخْطَأْتُم بِہِ وَلَٰکِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُکُمْ (الاحزاب: 5) ”تم سے بھول چوک میں جو کچھ ہو جائے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں“۔(محمد جوناگڑھی)

قرآن مجید میں لفظ خطأ ثلاثی مجرد سے اسم فاعل جمع مذکر کی صورت میں پانچ جگہ آیا ہے۔ چار جگہ لوگوں نے خطاکار اور گناہ گار ترجمہ کیا ہے، جب کہ پانچویں جگہ پر کئی لوگوں نے چوک ہوجانے کا ترجمہ کیا ہے۔

(۱) لَا یَأْکُلُہُ إِلَّا الْخَاطِؤُونَ۔ (الحاقۃ: 37)

”جسے گناہ گاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”یہ کھانا صرف گناہ گار ہی کھائیں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اسے نہ کھائیں گے مگر خطاکار“۔ (احمد رضا خان)

(۲) وَاسْتَغْفِرِی لِذَنبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنَ الْخَاطِئِینَ۔ (یوسف: 29)

”تو اپنے گناہ سے توبہ کر، بیشک تو گنہگاروں میں سے ہے“۔ (محمد جوناگڑھی)

”تو اپنے قصور کی معافی مانگ، تو ہی اصل میں خطا کار تھی“۔ (سید مودودی)

”اور تو اپنے گناہ کی معافی مانگ، بے شک تو ہی خطاکار ہے“۔ (امین احسن اصلاحی)

آخری دونوں ترجموں میں تو ہی کے بجائے صرف تو ہونا چاہیے کیوں کہ یہاں حصر کی کوئی علامت نہیں ہے۔

(۳) قَالُوا تَاللَّہِ لَقَدْ آثَرَکَ اللَّہُ عَلَیْنَا وَإِن کُنَّا لَخَاطِئینَ۔ (یوسف: 91)

”وہ بولے خدا کی قسم، اللہ نے آپ کو ہم پر برتری بخشی اور بے شک ہم ہی غلطی پر تھے“۔ (امین احسن اصلاحی، ہم ہوگا ہم ہی نہیں۔ یہاں حصر کی نہ علامت ہے نہ اس کا محل ہے، ہم ہی سے تو یہ اشارہ نکلتا ہے کہ لوگ کسی اور کو غلطی پر سمجھ رہے تھے۔)

(۴) قَالُوا یَا أَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا کُنَّا خَاطِئینَ۔ (یوسف: 97)

”انھوں نے درخواست کی کہ ہمارے باپ، ہمارے گناہوں کی مغفرت کے لیے دعا کیجیے، بے شک ہم ہی قصور وار ہوئے“۔ (امین احسن اصلاحی، یہاں بھی ہم ہی کے بجائے ہم ہونا چاہیے۔)

”سب بول اٹھے، ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کریں، واقعی ہم خطا کار تھے“۔ (سید مودودی)

(۵) فَالْتَقَطَہُ آلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُونَ لَہُمْ عَدُوًّا وَحَزَنًا إِنَّ فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَجُنُودَہُمَا کَانُوا خَاطِئینَ۔ (القصص: 8)

”آ خرکار فرعون کے گھر والوں نے اسے (دریا سے) نکال لیا تاکہ وہ ان کا دشمن اور ان کے لیے سببِ رنج بنے، واقعی فرعون اور ہامان اور اس کے لشکر (اپنی تدبیر میں) بڑے غلط کار تھے“۔ (سید مودودی)

”بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر چوکنے والے تھے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”بے شک فرعون وہامان اور ان کے لشکر سے بڑی چوک ہوئی“۔ (امین احسن اصلاحی)

”بے شک فرعون اور ہامان اور اُن کے لشکر چوک گئے“۔ (فتح محمد جالندھری)

”بلاشبہ فرعون اور ہامان اور ان کے تابعین (اس بارے میں) بہت چوکے“۔ (اشرف علی تھانوی)

یہاں خَاطِئینَ کا مطلب اپنی تدبیر میں غلط کار ہونا یا چوک جانا نہیں ہے۔ موسی علیہ السلام کو دریا سے نکالنے والے فرعون کے اہل خانہ تھے، اس میں ہامان اور فرعون وہامان کے لشکر کا کوئی کردار تھا ہی نہیں۔ اور پھر بچے کو دریا سے نکال کر پال لینے میں چوک کی بات کیا ہے۔ دراصل یہاں خَاطِئینَ گناہ گاروں کے معنی میں ہے۔ اور بتایا یہ جارہا ہے کہ یہ سب گناہ گار تھے اور ان گناہ گاروں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے اللہ کی طرف سے ایسا انتظام ہوا کہ فرعون کے گھر والوں نے موسی کو اٹھا کر پالا پوسا اور پھر وہی موسی ان سب کے دشمن اور ان کے لیے سبب رنج بنے۔ اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کیوں کہ وہ سب گناہوں میں لت پت تھے۔

درج ذیل ترجمہ درست ہے:

”بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر خطا کار تھے“۔ (احمد رضا خان)

(281) عَلَا فِی الْأَرْضِ

(۱) إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْأَرْضِ۔ (القصص: 4)

”واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی“۔ (سید مودودی)

”بے شک فرعون نے زمین میں غلبہ پایا تھا“۔ (احمد رضا خان)

پہلا ترجمہ درست ہے دوسرا درست نہیں ہے، کیوں کہ عَلَا فِی الْأَرْضِ غلبہ پانے کے لیے نہیں بلکہ زمین میں سرکشی کرنے کے لیے آتا ہے۔ قرآن میں اس تعبیر کے دیگر استعمالات سے یہ مفہوم اور زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ فرعون ہی کے بارے میں دوسری جگہ یہ تعبیر اختیار کی گئی تو اس کا ترجمہ غلبہ پانا نہیں کیا گیا:

(۲) وَإِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْأَرْضِ وَإِنَّہُ لَمِنَ الْمُسْرِفِینَ۔ (یونس: 83)

”اور بے شک فرعون زمین پر سر اٹھانے والا تھا، اور بے شک وہ حد سے گزر گیا“۔ (احمد رضا خان)

اسی طرح درج ذیل آیت میں بھی غلبہ پانے کا ترجمہ نہیں کیا گیا:

(۳) تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِینَ لَا یُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا۔ (القصص: 83)

اس آیت میں علو فی الارض کا ترجمہ ظلم اور تکبر وغیرہ کیا گیا ہے، غلبہ پانا اس کا ترجمہ نہیں ہوسکتا ہے۔

(282)  شِیَعًا

شیعا جمع ہے، اس کا واحد شیعۃ ہے، اس کے متعدد معانی میں تابع کا معنی بھی ملتا ہے، قرآن مجید میں یہ لفظ یعنی شیعا کئی جگہ آیا ہے اور عام طور سے فرقوں کے معنی میں آیا ہے، پہلی تین آیتوں کے ترجمے دیکھیں:

(۱) أَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا۔ (الانعام: 65)

”یا تمہیں بھڑا دے مختلف گروہ کرکے“۔ (احمد رضا خان)

(۲) إِنَّ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا۔ (الانعام: 159)

”وہ جنہوں نے اپنے دین میں جُدا جُدا راہیں نکالیں اور کئی گروہ ہوگئے“۔ (احمد رضا خان)

(۳) مِنَ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا۔ (الروم: 32)

”ان میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہوگئے گروہ گروہ“۔ (احمد رضا خان)

درج ذیل چوتھی آیت کے ترجمے میں بعض لوگوں سے غلطی ہوئی:

(۴) وَجَعَلَ أَہْلَہَا شِیَعًا۔ (القصص: 4)

”اور کر رکھے تھے وہاں کے لوگوں کے کئی جتھے“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا“۔ (سید مودودی)

”اور اس کے لوگوں کو اپنا تابع بنایا“ (احمد رضا خان)

یہاں آخری ترجمہ درست نہیں ہے۔اول الذکر تینوں مقامات پر شیعا کا ترجمہ گروہ کرکے چوتھی آیت میں اس کا ترجمہ تابع کردیا۔ حالاں کہ یہاں بھی گروہ گروہ بنادینا درست ترجمہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اگر تابع کا معنی ہوتا تو شیعا نہیں بلکہ شیعۃ (واحد کا صیغہ) آتا اور اس کی اضافت اس کی طرف ہوتی یعنی شیعتہ ہوتا۔فیروزابادی  لکھتے ہیں: شیعۃ  الرجل أتباعہ وأنصارہ، والفرقۃ علی حدۃ۔ (القاموس المحیط)

(283) استضعاف

استضعاف ضعف سے ہے، اس کا مطلب ہے کم زور بنانا، دبا کر رکھنا۔ بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ کہیں کہیں ذلیل کرنا کیا ہے، لیکن انھوں نے ہی دوسرے مقام پر کم زور کرنا بھی کیا ہے۔ اس لفظ میں ذلیل کرنے کا مفہوم نہیں ہے۔

(۱) یَسْتَضْعِفُ طَائِفَۃً‌ مِّنْہُمْ۔ (القصص: 4)

”ان میں سے ایک گروہ کو وہ ذلیل کرتا تھا“۔ (سید مودودی)

”ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کر رکھا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”ان میں ایک گروہ کو کمزور دیکھتا“۔ (احمد رضا خان، کم زور دیکھنا نہیں بلکہ کم زور بنانا درست ترجمہ ہے، جیسا کہ دوسرے مقامات پر کیا ہے۔)

(۲) وَنُرِیدُ أَن نَّمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْأَرْضِ۔ (القصص: 5)

”اور ہم یہ ارادہ رکھتے تھے کہ مہربانی کریں ان لوگوں پر جو زمین میں ذلیل کر کے رکھے گئے تھے“۔ (سید مودودی)

”پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کر دیا گیا تھا“۔ (محمد جوناگڑھی)

”اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کر دیئے گئے ہیں اُن پر احسان کریں“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۳) وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِی بَارَکْنَا فِیہَا۔ (الاعراف: 137)

”اور اُن کی جگہ ہم نے اُن لوگوں کو جو کمزور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا“۔ (سید مودودی)

”اور ہم نے اس قوم کو جو دبا لی گئی تھی اس زمین کے پورب پچھم کا وارث کیا جس میں ہم نے برکت رکھی“۔ (احمد رضا خان)

(284) وَیَسْتَحْیِی نِسَاءَہُمْ

فرعون اور اس کی قوم کے سلسلے میں جگہ جگہ یہ آیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرتے اور عورتوں کو قتل نہیں کرتے۔ اس کے لیے استحیاء کا لفظ آیا ہے۔ استحیاء کا مطلب زندہ رہنے دینا ہے، نہ کہ زندہ رکھنا۔ ظاہر ہے زندہ رکھنا تو ان کے بس میں نہیں ہے اور ان آیتوں میں وہ مفہوم مقصود بھی نہیں ہے۔ مقصود تو یہی ہے کہ وہ عورتوں کو قتل نہیں کرتے تھے، بلکہ زندہ رہنے دیتے تھے۔ اس وضاحت کے بعد درج ذیل آیتوں کے مختلف ترجمے ملاحظہ فرمائیں:

(۱) یُذَبِّحُ أَبْنَاءَہُمْ وَیَسْتَحْیِی نِسَاءَہُمْ۔ (القصص: 4)

”ان کے بیٹوں کو ذبح کر چھوڑتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا“۔ (احمد رضا خان)

”اُن کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا اور اُن کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۲) یُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ۔ (البقرۃ: 49)

”تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے“۔ (احمد رضا خان)

”تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

(۳) یُقَتِّلُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ۔ (الاعراف: 141)

”تمہارے بیٹے ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں باقی رکھتے“۔ (احمد رضا خان)

(۴) وَیُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَکُمْ وَیَسْتَحْیُونَ نِسَاءَکُمْ۔ (إبراہیم: 6)

”اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری بیٹیاں زندہ رکھتے“۔ (احمد رضا خان)

”تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۵) قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِینَ آمَنُوا مَعَہُ وَاسْتَحْیُوا نِسَاءَہُمْ۔ (غافر: 25)

”اس کے ساتھ جوایمان والے ہیں ان کے لڑکوں کو تو مار ڈالو اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھو“۔ (محمد جوناگڑھی)

”بولے جو اس پر ایمان لائے ان کے بیٹے قتل کرو اور عورتیں زندہ رکھو“۔ (احمد رضا خان)

”تو کہنے لگے کہ جو اس کے ساتھ (خدا پر) ایمان لائے ہیں ان کے بیٹوں کو قتل کردو اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دو“۔ (فتح محمد جالندھری)

مطالعہ جامع ترمذی (۶)

ڈاکٹر سید مطیع الرحمٰن

مطیع سید: حضرت عائشہ سے روایت آتی ہے کہ آپ ﷺ کی وفات سے پہلے تمام عورتیں آپ کے لیے حلال کر دی گئی تھیں۔ (کتاب التفسیر، ومن سورۃ الاحزاب، حدیث نمبر ۳۲۱۶) قرآنِ حکیم میں ایک مقام پر آپ ﷺ کو منع کیا گیا ہے کہ اب آپ مزید کسی سے شادی نہیں کر سکتے، چاہے کوئی عورت آپ کو کتنی ہی بھا جائے۔ کیا اس روایت میں اس پابندی کو ختم کرنے کا ذکر ہے؟

عمار ناصر: یہ کافی غور طلب روایت ہے۔ سورہ احزاب میں لا یحل لک النساء من بعد (آیت ۵۲) کے جو الفاظ ہیں، ان کی ایک تفسیر یہ ہے کہ اس سے پچھلی آیت میں خواتین کی جن تین چار قسموں سے نکاح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال ٹھہرایا گیا ہے، ان کے علاوہ آپ کسی سے نکاح نہیں کر سکتے۔ لیکن ایک دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ کسی بھی خاتون سے نکاح نہیں کر سکتے۔ اب حضرت عائشہ کا یہ کہنا کہ وفات سے پہلے آپ کے لیے خواتین حلال کر دی گئی تھیں، اگر اس آیت کے حوالے سے ہے تو مطلب یہ بنتا ہے کہ وفات سے پہلے آپ سے یہ پابندی ہٹا لی گئی تھی۔ اگر یہ مراد ہے تو اس کی تائید بظاہر کسی اور روایت سے نہیں ملتی، نہ ہی قرآن میں اس پابندی کے اٹھائے جانے کا ذکر ہوا ہے۔ اور اگر وہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کہنا چاہ رہی ہیں تو کم سے کم روایت کے الفاظ میں اس کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔

مطیع سید: آپﷺ کی کتنی ازواج تھیں جب یہ آیت نازل ہوئی؟

عمار ناصر: حضرت زینب بنت جحش کا نکاح پانچ ہجری کا واقعہ سمجھاجاتا ہے۔ اس وقت حضرت سودہ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت ام سلمہ امہات المومنین میں شامل تھیں، جبکہ حضرت خدیجہ کا مکہ میں اور حضرت زینب بنت خزیمہ کا مدینہ میں انتقال ہو چکا تھا۔باقی ازواج حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، حضرت جویریہ اور حضرت میمونہ اس آیت کے بعد نکاح میں آئیں۔

مطیع سید: کیا حضرت ابن ِ عباس قائل تھے کہ آپ ﷺنے اللہ کو دیکھاہے ؟ (کتاب التفسیر، ومن سورۃ النجم، حدیث نمبر ۳۲۷۸)

عمار ناصر: روایت سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ اسی لیے حضرت عائشہ کو اس بات کی نفی کرنی پڑی اور انھوں نے بتایا کہ سورۃ النجم میں اللہ تعالیٰ کو نہیں، بلکہ حضرت جبریل کو دیکھنے کا ذکر ہے۔

مطیع سید: آپﷺ نے جب ایک ماہ کے لیے اپنی ازواج کے پاس نہ جانے کی قسم کھالی تو حضرت عمر فاروق کو پتہ چلا اور وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے۔ (کتاب التفسیر، ومن سورۃ التحریم، حدیث نمبر ۳۳۱۸) یہ کب کا واقعہ ہے؟ کیاایک ماہ پوراہو چکا تھا تب حضرت عمر کو پتہ چلا ؟حالانکہ وہ اور ان کے انصاری بھائی تو ایک دن چھوڑ کر ایک دن باری باری آپ کی خدمت میں حاضری دیتے تھے۔

عمار ناصر: نہیں، ایک ماہ پورا ہونے کے بعد نہیں،بلکہ جیسےہی آپ ﷺ یہ فیصلہ کرکے ازواج سے الگ ہو گئے، اس کے متصل بعد کا واقعہ ہے۔

مطیع سید: کیا کسی دوسری جگہ جا کر رہنے سے ایک دن میں ہی لوگوں کو یہ محسوس ہو گیا کہ آپﷺ ازواج سے الگ ہو گئے ہیں ؟ اور یہ لوگوں نے کیسے اندازہ کر لیا کہ آپ نے طلاق دے دی ہے؟

عمار ناصر: ظاہر ہے، آپ کا کسی دوسری جگہ رہائش کو منتقل کر لینا ایک خلاف معمول واقعہ تھا اور آپ نے اس کا اظہار نہ بھی کیا ہو تو گھر میں آنے جانے والی خواتین کے ذریعے سے ایسی بات پھیل ہی جاتی ہے۔ البتہ بالکل صحیح صورت حال لوگوں کو معلوم نہیں تھی۔ یہ آپ ﷺکے گھر کا اندرونی معاملہ تھا۔آپ لوگوں کے سامنے صورت حال کی پوری وضاحت کر کے تو نہیں الگ ہوئے تھے۔ گھر کے ماحول میں ایک بات ہوئی،اس کے بعدآپﷺدوسری جگہ منتقل ہوگئے۔لوگوں کو سن گن ملی اور انہوں نے قیاس کر لیا کہ شاید آپ نے ازواج کو طلاق دے دی ہے۔

مطیع سید: یہ شقِ صدر کا جو واقعہ نبی ﷺ کے ساتھ پیش آیا (کتاب التفسیر، ومن سورۃ الم نشرح، حدیث نمبر ۳۳۴۶)، اس سے کیا مقصد تھا؟ کیا اس سے اللہ تعالیٰ ہمیں کوئی پیغام دینا چاہ رہے تھے ؟ورنہ اللہ تعالیٰ تو اپنی تجلی سے ہی آپ کے دل کو نور سے بھر سکتے تھے۔

عمار ناصر: یہ تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے درمیان کے معاملات ہیں،وہی بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ ممکن ہے، اس واقعے کی مدد سے نبوت کی ابتدائی علامات کو لوگوں پر ظاہر کرنا مقصود ہو۔

مطیع سید: نبوت سے پہلے شام کے ایک سفر میں بحیرا راہب سے ملاقات والے قصے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ درست نہیں ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ترمذی کی روایت کے مطابق آنحضرت ﷺ کو حضرت ابو طالب نے حضرت بلال کے ہمراہ واپس بھیج دیا۔ (کتاب المناقب، باب ما جاء فی بدء نبوۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر ۳۶۲۰) اس وقت تو بلال ابھی پیدابھی نہیں ہوئے تھے۔ امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ روایت حسن غریب ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اتنی بات راوی نے بڑھا دی ہوگی،لیکن باقی واقعہ ٹھیک ہے۔

عمار ناصر: حضرت بلال اس واقعے میں موجود تھے یا نہیں، اس کی تو تاریخی طور پر تحقیق ہو سکتی ہے۔ البتہ بحیرا راہب سے ملاقات کا واقعہ ہمارے پرانے سیرت نگاروں کے ہاں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہے۔ جدید سیرت نگاروں کے ہاں یہ مسئلہ بن گیا ہے، اس لیے کہ مستشرقین نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ محمد ﷺ نے ان راہبوں سے دینی علم سیکھا تھا۔ اس کے رد عمل میں یہ رجحان پیدا ہوا کہ واقعے کا انکار کر کے اس دلیل کو جڑ سے ہی ختم کر دیں۔

مطیع سید: آپ ﷺنے عمر بن ہشام (ا بوجہل ) اور عمر بن خطاب کے لیے دعا فرمائی کہ اے اللہ، ان میں سے ایک ہمیں عطا فرما۔ (کتاب المناقب، باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب، حدیث نمبر ۳۶۸۱) دونوں کے لیے کیوں نہیں دعا فرمائی، ایک ہی کو کیوں مانگا ؟

عمار ناصر: دیکھیں دعا کا زوایہ اگر کسی خاص فرد کی طلب ہدایت ہے توپھر یہ سوال بنتا ہے کہ آپﷺ کو دونوں کی ہی ہدایت کی دعا مانگنی چاہیے تھی۔لیکن اگر دعا کازاویہ اسلام کی ضرورت ہے کہ اسلام کو تقویت ملے اور اس کے لیے اس طرح کا ایک اثر ورسوخ والا بندہ چاہیے تو پھر بات ذرا مختلف ہو جاتی ہے۔یہاں اصل میں کسی فرد کی ہدایت کے حوالے سے دعا نہیں ہے۔ اس میں الفاظ ہیں کہ اللھم اعز الاسلام۔یا اللہ،ان دونوں میں سے جو تجھے زیادہ پسند ہے، اس کے ذریعے اسلام کو قوت دے۔ ظاہرہے، زاویہ بدلنے سے بات بدل جاتی ہے۔

مطیع سید: نبی ﷺکے سامنے بچیاں دف بجا کر گانا گا رہی تھیں۔حضرت عمر وہاں آئے تو اسے شیطانی عمل قرار دے کر انھیں روک دیا، اور نبی ﷺ نے بھی یہ کہہ کر اس کو تقویت دی کہ شیطان عمر سے ڈرتا ہے، حالانکہ اس سےپہلے آپﷺ نے خود ان بچیوں کو اجازت دی تھی۔ (کتاب المناقب، باب فی مناقب ابی حفص عمر بن الخطاب، حدیث نمبر ۳۶۹۰)

عمار ناصر: حضرت عمر کے مزاج میں سختی تھی اور انھوں نے اس کو ناپسند کیا کہ لہو قسم کی کوئی چیز خاص طورپر رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں کی جا رہی ہو۔ اسی کو انھوں نے شیطانی عمل سے تعبیر کر دیا، حالانکہ فی نفسہ یہ ایک مباح امر تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اباحت کے پیش نظر گانے والیوں کو نہیں روکا تھا۔

مطیع سید: کیا ایسا ممکن ہے کہ آپ ﷺنے کسی صحابی کو دعا دی اور وہ قبول نہیں ہوئی ؟ مثلاحضرت امیر معاویہ کے بارےمیں دو روایتیں امام ترمذی لائے ہیں۔ ان میں سے ایک میں ہے کہ رسو ل اللہ ﷺنے ان کے لیے دعافرمائی کہ یا اللہ ان کو ہادی و مہدی بنا۔(کتاب المناقب، باب مناقب معاویۃ بن ابی سفیان، حدیث نمبر ۳۸۴۲) لیکن حضرت امیر معاویہ میں ہادی و مہدی ہونا ہمیں نظر نہیں آتا۔ ان کی وجہ سے امت کو کافی نقصا ن بھی ہوا (اللہ ان کو معاف فرمائے )۔تو ان کا ہادی اور مہدی ہونا کس حوالے سے تھا ؟

عمار ناصر: جو جنگیں صحابہ کی آپس میں ہوئی ہیں، ان میں دین کی جو بنیادی چیز ہدایت ہے،اس حوالے سے ان میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نہج البلاغۃ وغیرہ میں یہی اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا ان سے کوئی دین کا اختلاف نہیں ہے۔ان کا رب بھی وہی ہے، ہمارا بھی وہی ہے۔ ہم ان سے ایمان کے حوالےسے کوئی تقاضا نہیں کرتے۔ ہاں، سیدنا ِ عثمان کے قتل کی ذمہ داری کے متعلق یہ جھگڑا پیداہو ا ہے۔ اس میں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم شریک ہیں، درآں حالیکہ ہم اس سےبری ہیں۔ تو مشاجرات کا معاملہ میرا خیال نہیں کہ اس روایت کے منافی ہے۔ حضرت معاویہ اس مفہوم میں ہادی ہیں کہ مسلمانوں کے بڑے پیشواوں میں سے ہیں اور اپنی شخصیت،علم اور کردار کے لحاظ سے دینی راہ نمائی کے منصب پر فائز ہیں۔ پھر انہوں نے اپنے دور ِحکومت میں بھی مسلمانوں کی سربلندی کے لیے غیر معمولی کارنامے سر انجام دیے ہیں۔ان کے دورمیں آپ کو کوئی چیز پھڑکتی دکھائی نہیں دیتی۔امن بھی ہے، سکو ن بھی ہے، انتظام بھی مستحکم ہے اور بہت سے علاقے بھی فتح ہوئے ہیں۔

مطیع سید: حضرت عباس نے آنحضرت ﷺ کو قریش کی شکایت کی تھی کہ یہ لوگ آپس میں تو خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے ہیں، لیکن ہم سے ملتے ہوئے ان کا رویہ مختلف ہوتا ہے۔ آپ ﷺ بھی اس پر ناراض ہوئے۔(کتاب المناقب، باب مناقب ابی الفضل عم النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر ۳۷۵۸) کیا وجہ تھی، لوگ ایسا کیوں کرتے تھے؟

عمار ناصر: قریش کے خاندانوں میں آپس میں ایک رقابت تو موجود تھی۔ اسلام کے بعد وہ اس پہلو سے کچھ بڑھ گئی ہو تو کوئی بعید بات نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاندانی نسبت کی وجہ سے بنو ہاشم کو اب ایک امتیازی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض لوگوں کے رویے میں اس کا اظہار نمایاں تھا۔ غالبا اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف مواقع پر اور خصوصا حجۃ الوداع کے خطبے میں اپنے اہل بیت کے ساتھ اچھے برتاو اور ان کی نسبت کا لحاظ کرنے کی تلقین کرنی پڑی۔

مطیع سید: کیا حضرت عباس فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے ؟

عمار ناصر: جی، اظہار فتح مکہ کے موقع پر ہی کیا تھا، البتہ روایات میں اس کا ذکر ملتا ہےکہ وہ درون خانہ اسلام پہلے سے قبول کر چکے تھے، لیکن مصلحتا اس کا اخفاء کرتے تھے۔

مطیع سید: تو کیا یہ کفار کی طرف سے لڑنے کے لیے آتے رہے ہیں ؟

عمار ناصر: بالکل۔ جنگِ بدر میں آئے تھے اور گرفتار بھی ہوئے۔آپ ﷺ نے پہلے ہی صحابہ کو فرما دیا تھاکہ یہ لوگ اپنی قوم کے دباؤ کی وجہ سے آگئے ہیں، اس لیے دوران جنگ میں انھیں نقصان نہ پہنچایا جائے۔پھر کسی مرحلے پر وہ مسلمان بھی ہو گئے۔ فتح مکہ کے موقع پر ابو سفیان کی جان بچانے والی حضرت عباس ہی تھے۔ اگر وہ ابو سفیا ن کو حضرت عمر سے بچا کر کھینچتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ لے جاتے تو شاید حضرت عمر کے ہاتھوں ابو سفیان کا کام تمام ہو جاتا۔

مطیع سید: کیا ان لوگوں میں ابو سفیان کا نام نہیں تھا جن کو قتل کر دینے کا حکم فتح مکہ کے موقع پر دیا گیا تھا؟

عمار ناصر: نہیں، ان کا نام نہیں تھا، لیکن حضرت عمر کو خاص طور پر ائمۃ الکفر کی تلاش رہتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت ابھی حرم سے باہر ہی ٹھہرے ہوئے تھے جب حضرت عباس، ابو سفیان کو لے کر آپ کے پاس گئے۔

مطیع سید: آپ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا یا اس کو دیکھا جس نے مجھے دیکھا ہے،اس کو آگ نہیں چھوئے گی۔(کتاب المناقب، باب ما جاء فی فضل من رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم وصحبہ، حدیث نمبر ۳۸۵۸) یہ بڑی عجیب سی بات لگتی ہے۔

عمار ناصر: یہ بات میرے خیال میں عموم پر نہیں ہے، کچھ شرائط کے ساتھ ہو گی اور کسی خاص سیاق میں یہ بات کہی جا رہی ہوگی۔ اس طرح کی روایتیں جو اس طرح کے اشکال پیداکرتی ہیں، ان میں عموما ایسا ہی ہوتا ہے۔ ظاہر ہے، رسول اللہ ﷺ تو یہ ذہن میں رکھ کر گفتگو نہیں کرتے تھے کہ بعد میں لوگ جب یہ سنیں گے تو انھیں پوری بات سمجھ میں آجائے۔ یوں کسی خاص تناظر میں جو باتیں برمحل اور قابل فہم تھیں، وہ تناظر وہیں رہ گیا اور الفاظ روایت کی صو رت میں ہم تک پہنچ گئے۔

مطیع سید: یہ جو روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ لا تسبوا اصحابی (کتاب المناقب، باب فی من سب اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث نمبر ۳۸۶۱) میرے اصحاب کو برا مت کہو، یہ بات آپ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید سے فرمائی تھی۔حضرت خالد خود بھی تو صحابی تھے، پھر اس کا کیا مطلب ہے؟

عمار ناصر: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں اصحاب کی تعبیر کا مفہوم اس سے مختلف ہے جو بعد میں مسلمانوں کے ہاں لیا جانے لگا۔ رسول اللہ ﷺ اصحاب کا لفظ بیشتر مواقع پر اپنے دور کے سارے اہل ایمان کے لیے نہیں بولتے، بلکہ اپنے ان ساتھیوں کے لیے بولتے ہیں جو شروع سے ہر سرد و گرم میں آپ کے ساتھ رہے۔ احادیث میں خاص طورپر یہ تعبیر ان لوگوں کے تقابل میں استعمال کی گئی ہے جو بعد کے دور میں نئے نئے اسلام میں آئے تھے۔ اسی پہلو سے آپ نے ایک موقع پر خالد بن ولید کو، جو صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان کسی وقت مسلمان ہوئے تھے، اپنے پرانے ساتھیوں کے متعلق یہ بات فرمائی۔

مطیع سید: اس کا کیا پس منظر تھا ؟

عمار ناصر: خالد بن ولید اور عبد الرحمن بن عوف کے مابین کچھ کھٹ پٹ ہو گئی تھی۔ خالد بن ولید نے ان کے ساتھ کچھ سخت کلامی کی۔ اس پر آپ ﷺ نے خالد بن ولید کو تنبیہ فرمائی۔

مطیع سید: امام ترمذی نے کتاب العلل میں صرف حسن اور غریب کا مفہوم واضح کیا ہے، اور کسی اصطلاح پر بحث نہیں کی۔وہ جس روایت کو منکر قرار دیتے ہیں، کیا ہم وہ لے سکتے ہیں؟

عمار ناصر: نہیں، اگر کسی اور بہتر سند سے وہ روایت نقل نہیں ہوئی تو پھر نہیں لے سکتے۔

مطیع سید: ایک روایت جو صرف ترمذی میں ہے اور یہیں سے صاحبِ مشکوۃ نے بھی لی ہے،وہ منکر روایت ہے۔ جب امام ترمذی نے اس روایت کو منکر کہہ دیا ہے تو انھوں نے اسے کیوں لیا،حالانکہ صاحبِ مشکوٰۃ تو انتخاب کر کے روایت لیتے ہیں؟

عمار ناصر: صاحب مشکوۃ نے صحت کی بنیاد پر تو انتخاب نہیں کیا۔وہ تو مضمون کے لحاظ سے انتخاب کرتے ہیں۔ان کا اپنی ایک ترتیب ہے جس کے تحت وہ ایک باب سے متعلق روایات کو تین فصول میں درج کرتے ہیں۔

(ختم شد)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۴)

مولانا سمیع اللہ سعدی

شیعی سنی رجالی تراث، چند تقابلی ملاحظات

1۔ہر دو مکاتب کے موجود رجالی تراث کی انواع و اقسام سامنے آگئیں ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل سنت کا علم رجال کتنا ایڈوانس اور کتنا جامع و وسیع ہے، اہل سنت محدثین نے علم رجال کو 32 اعتبارات و زاویوں سے مدون کیا، جبکہ اہل تشیع نے صرف 10 اعتبارات کے اعتبار سے کتب لکھیں، ان میں بھی کتب رجال پر حواشی کو مستقل صنف شمار کیا گیا ہے، جو ظاہر ہے الگ درجہ بندی میں نہیں آتیں اور مصنفین کی فہرست کو بھی رجالی کتب گنا گیا ہے، حالانکہ علم رجال حدیث اور مصنفین کی فہرست دونوں الگ الگ دائروں سے متعلق ہیں، اگر ان دو کو نکالیں تو صرف 8 انواع بچتی ہیں، یوں اہل سنت کا علم رجال 24 اعتبارا ت میں اہل تشیع کے علم رجال سے بڑھا ہو اہے۔

2۔ اہل تشیع کے علم رجال کو مقالہ نگار نے از خود کافی تلاش و جستجو کے بعد ان 8 انواع میں تقسیم کیا، شیعہ علم رجال کی تاریخ پر جتنی کتب لکھی گئی ہیں، اس میں سے کسی میں بھی درجہ بندی نہیں کی گئی، نہ ہی علم رجال پر کتب لکھنے والے اہل علم نے اپنی کتب کے مقدمات میں کسی درجہ بندی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کتاب کو کس زاویے سے لکھا جارہا ہے؟گویا رجالی تراث کی درجہ بندی کا موضوع شیعہ اہل علم کے ہاں کبھی رہا ہی نہیں ہے، اس سے علم رجال الحدیث میں اہل تشیع کے تہی دامنی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

3۔شیعہ علم رجال میں معدو م 24 انواع و اقسام میں سے تو بعض انواع، جیسے الکنی و الالقاب، یا مشتبہ اسماء جیسے موضوعات پرتو رجال شیعہ کی کتب میں کچھ نہ کچھ مواد ہے، جیسے متعدد کتب رجال کے آخر میں کنی و القاب والے رواۃ کا ذکر ہے، نیز ان انواع کا نہ ہونا علم رجال پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتا، لیکن بعض انواع ایسے ہیں، جن کے نہ ہونے سے علم رجال کے مقاصد بجا طور پر متاثر ہوتے ہیں، جیسے :

4۔اہل تشیع کے ہاں جو جالی تراث تیار ہوا ہے، اس کا 80 فیصد حصہ (38 کتب میں سے 31 کتب )آٹھویں صدی کے بعد لکھا گیا ہے، یعنی کتبِ حدیث کی تدوین کے ساڑھے تین سو سال بعد، جبکہ 20 فیصد یعنی صرف 7 یا 8 کتب وہ ہیں، جو آٹھویں صدی ہجری سے پہلےلکھی گئیں، جیسا کہ مصنفین کے سنین وفات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے، جبکہ اہل سنت کے ہاں 80 فیصد رجالی تراث (90 میں سے 71 کے قریب کتب ) آٹھویں صدی ہجری سے پہلے لکھی گئیں اور صرف 20 فیصد کتب آٹھویں صدی ہجری کے بعد لکھی گئیں، یوں اہل سنت کا اکثر رجالی تراث کتبِ حدیث کے تدوین کے زمانے کے نہایت قریب ہے، جبکہ اہل تشیع کے ہاں اس کے برعکس ہے۔اس قرب و بعد کا علمائے رجال کا رجال الحدیث کی پہچان اور جر ح و تعدیل پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے، اہل علم پر یہ مخفی نہیں ہے۔

5۔اہل تشیع کے ہاں تقریبا 10 ایسی کتب لکھی گئیں، جن کو ہم جوامع رجال کہہ سکتے ہیں، جن میں ہزاروں رواۃ کا ذکر ہے اور وہ کتب کئی مجلدات میں ہیں، وہ سب کے سب کتب صفوی دور کے بعد لکھی گئیں، یعنی نویں صدی ہجری کے بعد، (ملاحظہ ہو مصنفین کے سنین وفات )صفوی دور سے پہلے جو کتب رجال ہیں وہ نہایت مختصر اور چند سو یا چند ہزار کے رواۃ کے ذکر پر مشتمل ہیں، لیکن ان جوامع رجال میں ہزارہا رواۃ کا ذکر ہے، یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ صفوی دور میں یکدم ایسی کتب کا ظہور ہوتا ہے، جو متقدمین کے برعکس لاکھوں روایات پر مشتمل ہوتی ہیں اور براہ راست ائمہ سے سند کے ساتھ منقو ل ہوتی ہیں، اسی طرح رواۃ پر بھی مشتمل جوامع دھڑا دھڑ سامنے آنے شروع ہوتے ہیں، جو متقدمین کی رجالی کتب سے کئی گنا بڑی اور کئی گنا زیادہ رواۃ کے ذکر پر مشتمل ہوتی ہیں، یہاں بجا طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان ہزاروں رواۃ و روایات کا متقدمین کے ہاں کیوں کسی قسم کا تذکرہ نہیں ملتا؟حالانکہ وہ ائمہ کے زمانہ کے قریب تھے، ان کے پاس اصحابِ ائمہ کا لکھا گیا تراث براہ راست پہنچ گیا تھا اور سات سو سال بعد ان صفوی دور کے شیعہ علماء کے پاس کونسا ایساوسیلہ تھا کہ وہ متقدمین کے برعکس ان ہزار ہا رواۃ و روایات پر مطلع ہوگئے ؟متقدمین اور دورِ صفوی کے شیعہ اہل علم کے ہاں تراث کی کمیت میں یہ عظیم فرق اس شبہ کو بجا طور پر تقویت دیتا ہے کہ اہل تشیع کا اصلی تراث، خواہ روایات کی شکل میں ہو یا رجال و رواۃ کی شکل میں، وہ قلیل تعداد میں تھا، صفوی دور میں اس کی کمیت کو پھیلانے کے لئے باقاعدہ روایات و رواۃ تخلیق کیے گئے ؟ جبکہ اہل سنت کے ہاں حیرت انگیز طور پر اس کے برعکس ترتیب ہے، تدوینِ حدیث ہو یا رواۃ کے کوائف ہوں، اولین اہل علم کے ہاں اس کی کمیت زیادہ ملتی ہے، جبکہ ہاں جتنا زمانہ دور ہوتا گیا، تو کمیت میں کمی آتی گئی، مثلا مسند امام احمد بن حنبل حدیث کی کتب میں، اور ابن ابی حاتم رازی کی الجرح و التعدیل رجال کی کتب میں اولین تراث میں سب سے بڑی کتب ہیں، ان جیسی ضخامت کی کتب اہل سنت کے ہاں بعد کے پورے بارہ سو سالہ تاریخ میں نظر نہیں آتیں، سوائے ان کتب، جن میں متعدد کتب کو اکٹھا گیا ہو۔

6۔اہل تشیع محققین نے علم رجال کی تاریخ لکھتے ہوئے ایسی کتب بھی رجال کی کتب میں شامل کی ہیں، جو علم رجال یا جرح و تعدیل سے متعلق قواعد و اصول اور فوائد و نکات پر مشتمل ہیں، ان کتب میں ضمنا بعض رواۃ حدیث کا بھی تذکرہ ہے، لیکن اصلا وہ اصولی مباحث پر مشتمل ہیں، جیسے بحر العلوم طباطبائی کی الفوائد الرجالیہ، محقق مازندرانی کی الفوائد الرجالیہ یا شیخ جعفر سبحانی کی کلیات فی علم الرجال، کتب رجال کی فہرست میں ان کتب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ وہ تراجمِ رجال و رواۃ کی کتب نہیں ہیں، بلکہ علم رجال کے اصول و ضوابط کی کتب ہیں، نیز اہل سنت کی رجالی تراث میں بھی ایسی کتب کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

7۔اہل تشیع محققین رجال کے ہاں "ترتیب الاسانید " کےنام سے کتب لکھی گئی ہیں، بالخصوص معروف شیعہ عالم سید حسین طباطبائی بروجردی کی ترتیب اسانید الکافی اور محقق میرزا جواد تبریزی کی آٹھ جلدوں پر مشتمل الموسوعۃ االرجالیہ، جس میں کتب اربعہ کی ترتیب الاسانید کو بیان کیا گیا ہے، اس فہرست میں ان جیسی کتب کا بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے، کیونکہ یہ کتب اصلا رجال کے تراجم یا ان کے حدیثی مقام (جرح و تعدیل )کی کتب نہیں ہیں، ان کتب کے لکھنے کی ضرورت اہل تشیع اہل علم کو کیوں پیش آئی، یہ ایک دلچسپ بحث ہے اور شیعہ علم رجال میں موجود بڑے خلا کی طرف مشیر ہے، اس کا ذکر ہم اگلے عنوان میں تفصیل سے کریں گےان شا اللہ

8۔اہل تشیع کا علم رجال انواع و اقسام کے اعتبار سے سنی علم رجال سے فروتر ہونے کے ساتھ ساتھ کمیت میں بھی سنی علم رجال سے کافی کم ہے، پچھلے صفحات میں سنی علم رجال کی انواع و اقسام بیان کرتے ہوئے 25 انواع کےذیل میں 90 کے قریب مطبوعہ کتب رجال کا ذکر آچکا ہے، جبکہ شیعہ علم رجال کے 10 انواع میں صرف 38 مطبوعہ کتب کا، یہ تعداد بھی کافی تلاش و جستجو کے بعد ملی، مقالہ نگار کے تتبع کو ناقص سمجھ کے بھی یہ تعداد زیادہ سے زیادہ 50 بن سکتی ہے، نیز مطبوعہ مواد کے ساتھ اگر غیر مطبوعہ مواد کے اعتبار سے دیکھا جائے، تب بھی سنی رجالی تراث کمیت میں شیعی علم رجال سے کہیں گنا بڑھا ہوا ہے، چنانچہ محقق عواد نے اپنی کتاب "رواۃ الحدیث " میں 32 انواع کے ذیل میں ساڑھے سات سو کے قریب کتب رجال کا ذکر کیا ہے، جبکہ شیعہ محقق حیدر حب اللہ کی کتب میں 120 کے قریب کتب ذکر کی گئی ہیں، حالانکہ شیعہ احادیث کی تعداد سنی احادیث سے کہیں زیادہ ہیں، جس کی تفصیل ہم اس سلسلے کی اولین اقساط میں دے چکے ہیں، تو اس اعتبار سے شیعہ رجال کا حجم سنی رجال سے زیادہ بنتا ہے، تو کتب بھی زیادہ ہونی چاہئیں۔

3۔ کتب رجال منہج و اسلوب

اہل سنت اور اہل تشیع کے رجالی تراث و کتب کا انواع ا قسام کے اعتبار سے ایک موازنہ سامنے آگیا، اس کے بعد یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دو مکاتب کے پاس جو رجالی تراث موجود ہے، اس کا منہج و اسلوب کیا ہے ؟ رواۃ ِ حدیث کے احوال و کوائف اور حدیثی مقام کے جاننے کے بارے میں یہ کتب کتنی ممد و معاون ہیں ؟اہل تشیع کا رجالی تراث کم و کیف دونوں میں اہل سنت کے رجالی ذخیرے سے بہت پیچھے ہے، جیسا کہ پچھلے عنوان میں یہ بات تفصیل سے آچکی ہے، اس لئے بظاہر ہر دو مکاتب کے رجالی تراث کا منہج و اسلوب میں موازنہ نہیں بنتا، حقیقی موازنہ اس وقت بنتا، جب اہل سنت کے رجالی ذخیرے کی 32 اقسام و انواع کا اہل تشیع کے 32 اقسام سے تقابل کیا جاتا، لیکن اہل تشیع کا پورا ذخیرہ رجال آٹھ دس انوا ع سے زیادہ نہیں بنتا، عدمِ مساوات کی وجہ سے ہر دو مکاتب ِ فکر کی اہم کتب کے درمیان موازنہ نہیں ہوسکتا، لیکن نکات کی شکل میں چند امور کا ذکر کیا جاتا ہے، جن سے دونوں مکاتب کے پاس موجود رجالی تراث کی اہم خصوصیات سامنے آجائیں گی ان نکات سے منہج و اسلوب کا موازنہ کافی حد تک ہوجائے گا :

1۔علم رجال کی کتب کے اہم ترین مقاصد میں سے رواۃ کے اساتذہ و تلامذہ کی تعیین ہے، تاکہ ہر راوی کا زمانہ، شیوخ، تلامذہ، طبقہ اور معروف شیوخ حدیث سے لقاء و عدم لقاء کا پتا چل سکے، شیوخ و تلامذہ کی فہرست سے احادیث میں ارسال، انقطاع، تدلیس اور اتصال کا علم ہوتا ہے، چنانچہ اسی وجہ سےاہل سنت کے مراجع رجال میں ہر راوی کے اہم ترین اساتذہ و تلامذہ کی ایسی فہرست مذکور ہے، جن سے اس راوی کا اس جہت سے کافی تعارف ہوجاتا ہے، ذیل میں اس حوالے سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :

أحمد بن نصر بن زياد القرشي، أبو عبد اللہ النيسابوري المقرئ الفقيہ الزاہد.
روی عن: إبراہيم بن الأشعث البخاري، وإبراہيم بن حمزۃ الزبيري، وإبراہيم بن معبد بن شداد المصري، وإبراہيم بن المنذر الحزامي، وإبراہيم بن موسی الرازي الفراء، وأبي مصعب أحمد بن أبي بكر الزہري، وأحمد بن الحسين اللہبي المدني، وأحمد بن أبي الحواري، وأحمد بن محمد بن حنبل، وآدم بن أبي إياس العسقلاني، وأزہر بن سعد السمان، وإسحاق بن إبراہيم الحنينيوإسحاق بن راہويہ، وإسحاق بن محمد الفروي (تم)، وإسماعيل بن أبي أويس، وإسماعيل بن حكيم الخزاعي، وأصبغ بن الفرج المصري، وجعفر بن عون، وحبان بن موسی المروزي، وحجاج بن نصير الفساطيطي، والحسين بن زياد المروزي المتعبد نزيل طرسوس، والحسين بن علي الجعفي، والحسين بن الوليد النيسابوري (كن)، وأبي عمر حفص بن عمر الضرير، والحكم بن موسی القنطري، والحكم بن يزيد الأبلي البصري، وأبي أسامۃ حماد بن أسامۃ، وأبي زيد حماد بن دليل قاضي المدائن، وحماد بن قيراط النيسابوري، وحماد بن مالك الحرستاني، وحماد بن مسعدۃ، وخالد بن خداش، وخلف بن تميم، وخلف بن ہشام البزار، وخلاد بن يحيی، وداود بن سليمان العطار، وداود بن المحبر، وروح بن عبادۃ، وزكريا بن عطيۃ ابن يحيی البصري، وزہير بن عباد الرواسي، وزيد بن الحباب، وسريج بن النعمان الجوہري، وسريج بن يونس، وسعيد بن الحكم ابن أبي مريم المصري، وأبي سعيد بن الربيع الہروي، وسعيد بن عامر الضبعي، وسعيد بن كثير بن عفير المصري، وسعيد بن منصور، وأبي قتيبۃ سلم بن قتيبۃ، وسليمان بن حرب، وسلام بن سليمان الثقفي المدائني، وأبي بدر شجاع بن الوليد السكوني، وشيبان بن فروخ الأبلي البصري، وصالح بن حسين بن صالح الزہري المدني السواق، وصفوان بن عيسی الزہري (ت)، وأبي عاصم الضحاك بن مخلد النبيل، وطارق بن عبد العزيز المكي، وعبد اللہ بن بكر السہمي، وعبد اللہ بن جعفر الرقي، وعبد اللہ بن داود الواسطي، وعبد اللہ بن رجاء الغداني، وعبد اللہ بن السري الأنطاكي، وعبد اللہ بن صالح العجلي، وعبد اللہ بن صالح المصري، وعبد اللہ بن عاصم الحماني، وعبد اللہ بن عبد الجبار الخبائري الحمصي، وعبد اللہ بن عبد الحكم المصري، وعبد اللہ بن غالب العباداني، وأبي بكر عبداللہ بن محمد بن أبي شيبۃ، وعبد اللہ بن مسلمۃ القعنبي، وعبد اللہ بن نافع الصائغ المدني، وعبد اللہ بن نمير الہمداني الكوفي، وعبد اللہ بن الوليد العدني (س)، وعبد اللہ بن يزيد أبي عبد الرحمن المقرئ (س)، وأبي مسہر عبد الاعلی بن مسہر الغساني (ت)، وعبد الجبار بن سعيد بن نوفل بن مساحق المساحقي، وعبد الرحمن بن يحيی بن إسماعيل بن عبيد اللہ بن أبي المہاجر، وعبد الرحيم بن واقد، وعبد الصمد بن عبد الوارث (س)، وعبد العزيز بن الخطاب، وعبد العزيز بن عبد اللہ الأويسي، وعبد العزيز بن المغيرۃ المنقري، وأبي بكر عبد الكبير بن عبد المجيد الحنفي، وعبد الكريم ابن روح البصري، وعبد الملك بن إبراہيم الجدي، وعبد الملك بن عبد العزيز بن الماجشون (كن)، وأبي نصر عبد الملك بن عبد العزيز التمار، وأبي عامر عبد الملك بن عمرو العقدي، وعبد الوہاب بن عطاء الخفاف، وأبي علي عبيد اللہ بن عبد المجيد الحنفي، وعبيد اللہ بن عمر القواريري، وعبيد اللہ بن موسی (س)، وعثمان بن محمد بن أبي شيبۃ، وعثمان بن اليمان، وأبي سليمان عصمۃ بن سليمان الخزاز، وعفان بن مسلم السفار، وعلي بن الحسن بن شقيق المروزي، وعلي بن عاصم الواسطي، وعلي بن عياش الحمصي، وعلي بن معبد بن شداد المصري، وعمر بن سعد أبي داود الحفري، وعمرو بن حكام الأزدي البصري، وعمرو بن محمد الناقد (س)، والعلاء بن عبد الجبار العطار، والعلاء بن عمرو الحنفي، وأبي نعيم الفضل بن دكين، وأبي عبيد القاسم بن سلام، وقبيصۃ بن عقبۃ، وكثير ابن ہشام، ومالك بن سعير بن الخمس، ومحمد بن إسماعيل بن أبي فديك، ومحمد بن بشر العبدي، ومحمد بن حرب المكي، ومحمد ابن حميد الرازي، ومحمد بن سابق البغدادي، ومحمد بن الصباح الدولابي، وأبي جابر محمد بن عبد الملك الأزدي، وأبي ثابت محمدابن عبيد اللہ المديني، ومحمد بن عبيد الطنافسي، وأبي مروان محمد ابن عثمان بن خالد العثماني، ومحمد بن عيسی ابن الطباع، وأبي النعمان محمد بن الفضل عارم (س)، ومحمد بن كثير الصنعاني، ومحمد بن كثير العبدي، وأبي غزيۃ محمد بن موسی المدني، ومصعب بن المقدام، ومطرف بن عبد اللہ المدني، والمعلی بن الفضل الأزدي، ومكي بن إبراہيم البلخي (سي)، وأبي سلمۃ موسی بن إسماعيل التبوذكي، وأبي حذيفۃ موسی بن مسعود النہدي، ومؤمل بن إسماعيل (س)، والنضر بن شميل المروزي، وأبي الأسود النضر بن عبد الجبار المصري، ونعيم بن حماد الخزاعي، وہشام بن إسماعيل العطار الدمشقي، وأبي الوليد ہشام بن عبد الملك الطيالسي، وہشام بن عمار الدمشقي، وہوذۃ بن خليفۃ البكراوي، والہيثم بن جميل الأنطاكي، والہيثم بن خارجۃ الخراساني، والوليد بن سلمۃ الطبراني، ووہب بن جرير بن حازم، ويحيی بن آدم، ويحيی بن إسحاق السيلحيني، ويحيی بن أبي بكير الكرماني (س)، ويحيی بن أبي الحجاج البصري، ويحيی بن عبد اللہ بن بكير المصري، ويحيی بن يحيی النيسابوري، ويزيد بن ہارون، ويعلی بن عبيد الطنافسي، ويوسف بن يعقوب السدوسي، .
روی عنہ: الترمذي، والنسائي، وأحمد بن علي الأبار، وأبو عمرو أحمد بن المبارك المستملي، وأبو العباس أحمد بن محمد بن الأزہر الأزہري، وجعفر بن أحمد بن نصر الحافظ، وحرب بن إسماعيل الكرماني، والحسين بن إدريس الأنصاري الہروي، وداود ابن الحسين البيہقي، وأبو يحيی زكريا بن داود بن بكر الخفاف، وزنجويہ بن محمد بن الحسن اللباد، وسلمۃ بن شبيب النيسابوري وہو من أقرانہ، وعبد اللہ بن ہاجك الہروي الأشناني، وأبو يحيی عبد الرحمن بن محمد بن سلم الرازي، وعلي بن حرب الموصلي وہو أكبر منہ، وعمار بن رجاء الجرجاني وہو من أقرانہ، وأبو عبد اللہ محمد بن أحمد الصواف، ومحمد بن إسحاق بن خزيمۃ، ومحمد بن إسماعيل البخاري في غير الجامع، وأبو سعيد محمد بن شاذان النيسابوري، ومحمد بن الضوء الكرمينی، وأبو الوليد محمد بن عبد اللہ بن أحمد بن محمد بن الوليد الأزرقي المكي صاحب"تاريخ مكۃ"، وأبو منصور محمد بن القاسم العتكي، ومحمد بن نعيم النيسابوري، ومسلم بن الحجاج خارج"الصحيح"، وأبو منصور يحيی بن أحمد بن زياد الشيباني الہروي، وأبو سعد يحيی بن منصور الہروي الزاہد۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال، جمال الدین مزی، رقم الترجمہ:117)

اس ترجمہ میں امام مزی نے احمد بن نصر راوی کے ڈیڑھ سو کے قریب اساتذہ اور تیس کے قریب تلامذہ کو بیان کیا ہے، آپ تہذیب الکمال کا کوئی بھی صفحہ کھولیں، کسی بھی راوی کا تذکرہ لیں، تو یہی لمبی فہرست نظر آئے گی، اسی فہرست میں ایک اور بات قابل غور ہے کہ تلامذہ کا ذکر کرتے ہوئے بعض مقامات پر امام مزی نے "وھو من اقرانہ" کا لفظ بڑھایا ہے کہ یہ محدث مذکورہ راوی کا شاگرد تو ہے، لیکن اس کا ہم عصر ہے، یوں ہم عصر ہونے کے باوجود انہوں نے اس سے حدیث لی ہے، اس کے علاوہ بعض مشہور محدثین جیسے امام بخاری یا امام مسلم کا ذکر کرتے ہوئے اس کی تعیین بھی ہے کہ ان دو ائمہ حدیث نے مذکورہ راوی نے حدیث صحیحین کی بجائے اپنی دیگر کتب میں لی ہیں، یوں ایک مکمل انداز میں شیوخ و تلامذہ کا تعارف کرایا گیا ہے۔

(جاری)

موجودہ تہذیبی صورتحال اور جامعات کی ذمہ داری

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(پنجاب یونیورسٹی کے ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیر اہتمام ’’ریاست مدینہ اور تعلیمی نظام‘‘  پر پہلی قومی کانفرنس میں پیش کی گئی گزارشات)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ قابل صد احترام معززین و سامعین! سب سے پہلے تو شکریہ ادا کروں گا اور خوشی کا اظہار کروں گا کہ ادارہ تعلیم و تحقیق جامعہ پنجاب نے اس سیمینار کا اہتمام کیا۔

پہلی بات تو میں عمومی موضوع کے حوالے سے کہنا چاہوں گا کہ پاکستان اور ریاست مدینہ جسے موجودہ حکومت کا تصور بیان کیا جاتا ہے، جبکہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ بھی یہی بات کرتے رہے ہیں، اور مفکر پاکستان علامہ اقبالؒ بھی یہی بات کرتے رہے ہیں، اس لیے پہلی گزارش یہ کروں گا کہ تحریک پاکستان اور پاکستان کی ریاست کے جو فکری رہنما ہیں، میں سر سید احمد خان سے شروع کروں گا، جسٹس سید امیر علی بھی اس کا حصہ ہیں، ان کے ساتھ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تعلیمات کو تعلیمی نظام میں، ملکی نظام میں، اور معاشرت میں ہمیں بنیاد کے طور پر سامنے رکھنا ہوگا تب ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک ریاست بنا سکیں گے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پاکستان بناتے وقت ہم نے یہ بات طے کر لی تھی کہ پاکستانی ریاست کی نوعیت کیا ہوگی؟ یہ سیکولر ریاست ہوگی؟ خالص جمہوری ریاست ہوگی؟ یا خلافتِ عثمانیہ طرز کی خاندانی ریاست ہو گی؟ یا خالص مذہبی ریاست ہوگی؟ یہ سوالات اور آپشنز ہمارے سامنے تھے، ہم نے اس وقت طے کر لیا تھا جس پر تمام طبقات متفق ہوگئے تھے، علماء بھی متفق تھے، سیاستدان بھی متفق تھے، پارٹیاں بھی متفق تھیں، چنانچہ علماء کرام کے بائیس نکات اور دستور اسی بنیاد پر آئے۔ اس میں تین بنیادی باتیں ہم نے طے کی تھیں جو ریکارڈ پر ہیں۔

ایک بات یہ تھی کہ حاکمیت اعلی اللہ تعالیٰ کی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو حاصل ہے، تیسری بات یہ طے کی تھی کہ قرآن و سنت کے احکامات کی پابندی سب کے لیے ضروری ہے۔ میرے خیال میں ہمیں یہ تین باتیں ہر وقت ذہن میں رکھنی چاہئیں اور اسی پر ہماری تمام پالیسیوں کی بنیاد ہونی چاہیے۔ دستور بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے اور نظریۂ پاکستان بھی اسی کا تقاضا کرتا ہے۔

ان دو تمہیدی باتوں کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جناب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور اس حوالہ سے دو جملے نقل کروں گا، ایک یہ کہ ’’بعثت معلمًا‘‘ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ اور واقعتا دنیا کے سب سے بڑے استاذ اور معلّم اعظم حضورؐ خود تھے۔ یعنی آئیڈیل شخصیت تعلیم میں بھی اور عمل میں بھی۔ دوسری بات جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمائی ’’بعثت لاتمم مکارم الاخلاق‘‘ مجھے اخلاقیات کا معیار اور دائرہ مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اخلاقیات کا جو دائرہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اب تک وہی آئیڈیل ہے اور الحمد للّٰہ قیامت تک یہی معیار رہے گا کہ اس سے بہتر دائرہ اور اس کا عملی نمونہ نہ آج تک کوئی پیش کر سکا ہے نہ ہی قیامت تک پیش کر سکے گا۔

آج گلوبلائزیشن کا عمل بڑھ رہا ہے اور فاصلے سمٹ رہے ہیں، جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا تھا آنے والے دور کے حوالہ سے کہ ’’یتقارب الزمان‘‘ فاصلے سمٹ جائیں گے۔ زبانی فاصلے بھی سمٹتے جا رہے ہیں اور ذہنی بھی، اور ایک گلوبل سوسائٹی وجود میں آرہی ہے جس کا سب سے پہلا دائرہ ہم انسانیت کے حوالہ سے بتا رہے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو پہلا خطاب ہی ’’یا ایھا الناس‘‘ کے عنوان سے تھا۔ جب آپؐ صفا پہاڑی پر کھڑے تھے تو سامنے کون تھا؟ مکی تھے، قریشی تھے، عرب تھے۔ لیکن حضورؐ نے خطاب کس کو کیا؟ اور پھر تئیس سال حضورؐ ’’ایھا الناس‘‘ کے دائرے میں خطاب کرتے رہے اور اصلاح کرتے رہے، اور جب حضور نبی کریمؐ اپنی بائیس سال کی محنت کے نتیجے میں آخری ہدایات دے رہے تھے حجۃ الوداع کے خطبہ میں، جو تین چار خطبوں کا مجموعہ ہے، ان میں ہدایات دے رہے تھے تو وہاں بھی انسانی دائرے کے اصول یا ایس او پیز بیان کر رہے تھے، انفرادی حوالے سے بھی اور اقوام و طبقات کے حوالے سے بھی۔

چنانچہ حضورؐ معلم ہیں اور صرف معلمِ اخلاقیات نہیں بلکہ متمم اخلاقیات ہیں، اخلاقیات کو اپنی انتہا تک پہچانے والی کائنات کی سب سے برتر شخصیت۔ اس کے بعد یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ سب سے پہلا دائرہ انسانی ہے، اس دائرے میں سے جناب نبی کریمؐ کے بیسیوں واقعات میں سے صرف دو واقعات پیش کروں گا کہ انسانی اخلاقیات کا دائرہ کیا ہے؟

بدر کی جنگ میں جب قیدی آئے اور قیدیوں کے بارے میں فیصلے کا موقع آیا تو نبی کریمؐ کو ایک پرانا واقعہ یاد آگیا کہ جب طائف میں پتھر پڑے تھے اور لہولہان ہو کر طائف سے مکہ پہنچے تھے تو راستے میں ایک کافر سردار مطعم ابن عدی نے پناہ دی تھی، ڈیرے کے دروازے کھولے تھے، لڑکوں کو بھگایا تھا، اندر تھوڑی دیر پناہ دی تھی، دشمن ہونے کے باوجود۔ وہ کافر ہی فوت ہوا تھا لیکن حضورؐ کو بدر میں وہ یاد تھا، ایک جملہ کہا کہ اگر وہ مطعم ابن عدی زندہ ہوتا اور ان قیدیوں کی سفارش کرتا تو اس کی خاطر میں ان قیدیوں کو ویسے ہی چھوڑ دیتا۔ انسانیت کا ایک دائرہ یہ ہے کہ کافر کا احسان ہے لیکن حضورؐ کو یاد ہے، اس احسان کی شکر گزاری بھی کر رہے ہیں۔

ایک مدینہ منورہ کا واقعہ ہے۔ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک جنازہ سامنے گزرا۔ آپؐ احتراماً کھڑے ہو گئے، جنازہ گزر گیا، کسی ساتھی نے کہا کہ یا رسول اللہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا، فرمایا ’’الیست نفسًا؟‘‘ کیا انسان نہیں تھا؟ یعنی احترامِ انسان، انسانیت کا دائرہ، جس پر نمونے کے طور پر دو واقعات میں نے عرض کیے ہیں۔

دوسرا دائرہ مسلم امہ کا ہے، اس پر بھی بیسیوں باتیں عرض کی جا سکتی ہیں لیکن میں حجۃ الوداع کے خطبہ میں سے حضورؐ کا وہ فرمان پیش کرنا چاہوں گا جس میں آپؐ نے خطاب کرتے ہوئے تین حرمتوں کا واسطہ دیا تھا۔ (۱) بیت اللہ کی حرمت کا واسطہ دیا (۲) شہر حرام مکہ مکرمہ کی حرمت کا واسطہ دیا (۳) اور حج کے دن کی حرمت کا واسطہ دیا۔ اور یہ جملے فرمائے تھے ’’فان دماء کم واموالکم واعراضکم وابشارکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا فی شھرکم ھذا‘‘۔ بے شک تمہاری جانیں، تمہارے مال، تمہاری آبروئیں اور تمہارے چمڑے آپس میں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس شہر اور اس مہینے میں تمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ یہ مسلم امہ کے دائرے کی بات ہے جو حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمائی۔

اس کے بعد اگلا دائرہ ہے بین الاقوامی۔ آج کا بین الاقوامی ماحول ایک اعتبار سے مثبت بھی ہے کہ اقوام اور تہذیبیں آپس میں گڈمڈ ہو رہی ہیں، ثقافتیں آپس میں مدغم ہو رہی ہیں، تہذیبیں ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ جبکہ بین الاقوامیت کے حوالہ سے ایک جملہ نبی کریمؐ کی آخری وصیتوں میں یہ ہے کہ ’’اجیزوا الوفد کما کنت اجیزہ‘‘ دوسری قوموں کے نمائندے تمہارے پاس آیا کریں گے کافر بھی ہوں گے، ان کا ویسے ہی اکرام کرنا جیسے میں اکرام کرتا ہوں۔ تم نے مجھے دیکھ لیا ہے کہ دشمن کا نمائندہ بھی اگر آیا ہے تو میں نے کیسے اکرام کیا ہے۔ اکرام میں عزت بھی ہے، اکرام میں پاسداری بھی ہے، اکرام میں خدمت بھی ہے، ساری چیزیں شامل ہیں۔ یہ بین الاقوامی ماحول کے بارے میں حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ایک واضح ہدایت کا میں ذکر کیا کرتا ہوں کہ کافر قوموں کے نمائندوں کا اکرام ویسے ہی کرنا ہے جیسے میں کرتا ہوں۔ یہ تیسرا دائرہ ہے۔

اس کے بعد ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ بین الاقوامی ماحول سے ہماری شکایات بھی ہیں اور میں خود شکایات کرنے والوں میں شامل ہوں۔ اگر آپ اس بات پر غور فرمائیں تو میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ دنیا پر اس وقت حکومتوں کی حکومت نہیں ہے بلکہ معاہدات کی حکومت ہے۔ دنیا میں کہیں بھی حکومتوں کی حکومت نہیں، صرف یہ فرق ہے کہ جو قوم یا ملک طاقتور ہے وہ راستہ نکال لیتا ہے، کمزور پھنسا رہتا ہے۔ اس وقت دنیا پر حکومت معاہدات کی ہے جیسا کہ یورپی یونین اس وقت ہم سے کوئی ستائیس معاہدات کی پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے، مجھے بھی شکایات ہیں بین الاقوامی معاہدات سے، اسے بین الاقوامی جبر کہہ لیں، تسلط کہہ لیں، جو مرضی کہہ لیں، مگر میں تعلیمی ماحول میں اپنی یہ بات دہرانا چاہوں گا، پہلے بھی کئی بار یہ بات مختلف جامعات میں عرض کر چکا ہوں کہ آج جو یہ بین الاقوامیت کا ماحول ہے اس کا ایک مثبت پہلو ہے کہ قرب پیدا ہو رہا ہے اور ’’یا ایھا الناس‘‘ کا وہ ماحول پیدا ہو رہا ہے جو نبی کریمؐ نے صفاء پہاڑی پر کھڑے ہو کر کیا تھا اور اس کے عملی تقاضے حجۃ الوداع کے خطبہ میں بیان کیے تھے۔ جبکہ بین الاقوامی معاہدات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس نے کمزور قوموں کو بری طرح جکڑ رکھا ہے۔ اس پر علمی رہنمائی تو جامعات کا ہی کام ہے۔ اور کیسے جکڑا ہوا ہے یہ آپ حضرات کے سامنے عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس تہذیبی کشمکش اور سولائزیشن وار میں جس طرح ویسٹرن سولائزیشن دوسری معاصر تہذیبوں کو کارنر کرتی جا رہی ہے یہ نظر انداز کرنے کا مسئلہ نہیں ہے۔

معاہدات کے زور سے، معاشی دباؤ کے زور سے، اور لابنگ کے زور سے، کس طرح طاقت اپنا راستہ نکالتی جا رہی ہے اور کس طرح تہذیبی غلبہ اور معاصر تہذیبوں کو کارنر کرنے کی باتیں آگے بڑھ رہی ہیں، میرا خیال ہے کہ ہمیں یعنی تعلیمی لوگوں کو اس پر بات کرنی چاہیے۔ رہنمائی کرنا یونیورسٹیوں اور جامعات کا ہی کام ہے، بنیادی علمی فکری رہنمائی فراہم کرنا تعلیمی اداروں کا کام ہے۔ یہ جامعات کی ذمہ داری ہے کہ صورتحال کا تجزیہ کریں البتہ سیاسی کشمکش سے ہٹ کر کریں۔ معروضی صورتحال کا تجزیہ کریں کہ ہم کہاں کہاں پھنسے ہوئے ہیں اور کیسے نکلنا ہے؟ میں ایک عرصہ سے کہہ رہا ہوں کہ عصری تعلیمی مراکز کو اور دینی تعلیمی مراکز کو آپس میں مل بیٹھنا ہوگا۔ ہمارا کام بھی آپ کے تعاون کے بغیر نہیں چل سکتا اور آپ کا کام بھی ہمارے بغیر نہیں چل سکتا۔ ہمیں آپس میں مل بیٹھنا ہوگا، ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھانا ہو گا، اور مل جل کر قوم کی علمی فکری رہنمائی کرنا ہو گی۔ انہی دو باتوں پر میں اپنی بات مکمل کرنا چاہوں گا۔

(۱) تعلیمی اداروں کو اپنی قومی اور ملّی دونوں قسم کی ذمہ داریوں کو محسوس کرنا چاہیے اور سیاسی دائروں سے ہٹ کر خالص علمی فکری سطح پر قوم کی رہنمائی کا کچھ نہ کچھ سامان کرنا چاہیے۔ (۲) اور دینی و عصری دونوں طرف کے تعلیمی اداروں کو آپس میں مل کر کام کرنا چاہیے۔ اللہ کرے کہ ہماری زندگی میں یہ خوشی ہمیں مل جائے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔

مولانا وحید الدین خاںؒ

مولانا ڈاکٹر محمد وارث مظہری

مولانا وحید الدین خان کی وفات علمی وفکری دنیا کے لیے بلاشبہ ایک عظیم خسارہ ہے۔وہ عالمی شہرت و شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے دو سو سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بہت سی کتا بوں کے ترجمے متعدد مقامی اور عالمی زبانوں میں کیے گئےجس نے انہیں عالم اسلام اور مغرب کے علمی وفکری حلقوں میں متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔اپنی کتابوں کے ترجمہ و اشاعت اور اپنی فکر کی ترویج کے لیے انہوں نے تمام ممکنہ وسائل کا استعمال کیا جو خوش قسمتی سے بھرپور طور پر انہیں میسر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ وہ کئی لحاظ سے بہت خوش قسمت لیکن کئی لحاظ سے نہایت ’’بدقسمت‘‘ واقع ہوئے تھے۔خوش قسمتی کا پہلو تو ظاہر ہے۔’’بدقسمتی‘‘ کا پہلو یہ ہے کہ اس قدر طویل اورفعال علمی وفکری زندگی گزارنے کے باوجود ان کی مقبولیت کادائرہ نسبتا محدود رہا۔ ان کی شہرت میں بدنامی کا عنصر غالب رہا۔وہ مسلمانوں کے کسی بھی حلقے میں اپنی کوئی مستقل اور مضبوط جگہ نہیں بناسکے۔ہر حلقے کے’’بے شعور وباشعور‘‘ افراد کو ان کے مختلف نظریات سے شدید اختلاف رہا۔یہی وجہ ہے کہ وہ دوسرے معاصرین کی طرح اپنے رفقا و تلامذہ کی کوئی ایسی ٹیم بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکے جو ان کی فکری وراثت کو سنبھال کر اسے پروان چڑھا سکے۔

مولانا سے میرا تعلق

مولانا وحید الدین خاں ؒ کو میں نے بہت قریب سے دیکھا،برتا اور پرکھا۔ مجھے ان کے ساتھ کچھ عرصے تک کام کرنے کا موقع ملا۔اور اس دوران مجھے ان کے ساتھ طویل علمی صحبتیں میسر آ ئیں۔فکری نشستوں اور پروگراموں میں شرکت کے ساتھ بارہا مختلف موضوعات پر ان کے ساتھ تبادلہ ٔ خیالات کا اتفاق ہوا۔ علاوہ ازیں میں نے مولانا کے لٹریچر کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے۔سالہاسال تک ’’الرسالہ‘‘ کے مطالعے کے جنون میں مبتلا رہا۔ اس طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے مولانا کی شخصیت اور فکر دونوں کا یکساں طور پر مطالعہ کیا ہے۔1995 میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اپنے ذوق عربی کی تسکین کے لیے میں نے ندوۃ العلماء ،لکھنؤکا رخ کیا۔وہاں میرا داخلہ’’ علیا اولی ادب‘‘ میں ہوا۔لیکن دوران سال میں نے ندوے کو خیر آباد کہہ دیا۔ کیوں کہ اس کا ادب عربی کا نصاب مختلف فنون پر مشتمل تھا جن سے میں دیوبند کی طالب علمی کے دورانیے میں گزرچکا تھا۔ میرا مقصود صرف عربی زبان میں تخلیق وترجمے کی اعلی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ ندوے سے لوٹ آنے کے بعد دہلی،علی گڑھ اور بجنور کے علمی گلیاروں کی خاک چھانتا رہا۔پھر 1997 میں بطور مدیر معاون’’ الرسالہ‘‘ سے وابستہ ہوگیاجس کا اشتہار روزنامہ’’ قومی آواز‘‘ نئی دہلی میں شائع ہوا تھا۔کچھ وقفوں کے ساتھ قریبا ایک سال تک مولانا سے رسمی وابستگی رہی۔

مولانا کی صحبت بافیض سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ایک ایسے دور میں جب کہ معاشی مستقبل کے حوالے سے بے اطمینانی کی کیفیت ذہن ودماغ پر چھائی ہوئی تھی اور میں خود کو ایک دوراہے پر کھڑا محسوس کرتا تھا کہ مجھے پہلے اپنے معاشی مستقبل کو بہتر بنانے کی طرف قدم آگے بڑھانا چاہیے یا علم ومطالعے کو پروان چڑھانے کوترجیح دینا چاہیے؛ مولانا کی صحبت نے مجھے دوسرے پہلو پراپنی توجہ کومرکوز رکھنے پر آمادہ کیا۔ مولانا کی صحبت میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں انگریزی نہ جاننے کی وجہ سے نرا جاہل اور جدید دنیا سے نابلد ہوں۔ اب تک میں عربی زبان کے سحر میں مبتلا اور اس کی زلف گرہ گیر کا اسیر تھا۔واقعہ یہ ہوا کہ مولانا کی معیت میں دہلی میں ایک انٹرنیشنل سیمینار میں شرکت ہوئی جس کی ساری کارروائی از اول تا آخر انگریزی میں تھی۔ مجھے کچھ بھی پلے نہیں پڑسکا ۔اس پر میرے لیے ذلت کا سامان یہ ہوا کہ بعض مندوبین نے مجھ سے مخاطب ہوکر انگریزی میں سوالات اچھال دیے جن کا جواب میرے پاس سرکھجانے کے علاوہ کچھ نہ تھا۔میرے تاسف وندامت کودیکھتے ہوئے مولانانے مجھے خود سے انگریزی سیکھنے کے گر بتائے ۔ میں نے اس پر عمل کیا اور کامیاب رہا۔ مولانا کی صحبت کا ایک اثر یہ ہوا کہ میں شعروادب کی بھول بھلیوں سے باہر نکل آیا۔شعروادب کا ذوق مجھےوراثت میں ملا ہے کہ میرے والد ایک اچھے اور قادر الکلام شاعر تھے۔چناں چہ طالب علمی کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی میں خود کوشعرگوئی اور ادب نویسی سے باز نہ رکھ سکا جس کے نتائج ماہنامہ ’’آج کل‘‘ نئی دہلی، ماہنامہ’’ ایوان اردو‘‘،نئی دہلی اور دیگر سرکاری وغیر سرکاری ادبی رسائل میں شایع ہوتے تھے۔لیکن مدتوں سے منھ کو لگی ہوئی یہ کافر مولانا کی صحبت میں چھوٹ گئی۔کیوں کہ مولانا نے اس کی شدید حوصلہ شکنی کی۔

یہ عظیم الشان فائدے مجھے مولانا کی زندگی کوقریب سے دیکھنے اور ان کی نصیحتوں پر کسی قدر عمل پیرا ہونے سے حاصل ہوئے۔تاہم میں یہ چاہتا تھا کہ مولانا میری اس باب میں رہنمائی فرمائیں کہ مجھے کن کتابوں اور کن شخصیات کو ترجیحی طور پر پڑھنا چاہیے؟ کن موضوعات پر مطالعے کو اپنی اس ابتدائی علمی زندگی کے اس مرحلے میں مجھے پیش نظر رکھنا چاہیے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا کے سامنے اس کا خاکہ اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا کہ مجھے’’ الرسالہ‘‘ لٹریچر میں پوری طرح خود کو غرق کردیناچاہیے۔

وہ معاصرین اور دور حاضرکے اصحاب علم وفکر کی کتابوں کوتواس لائق ہی نہیں سمجھتے تھے کہ کسی کوان کے مطالعے کا مشورہ دے سکیں، متقدمین کی کتابوں میں سے چند ایک کے علاوہ(جن میں مقدمہ ابن خلدون سرفہرست ہے) وہ تقریبا پوری اسلامی کلاسکس بالفاظ دیگر اسلامی تراث کودفتر بے معنی سمجھتے ہوئے ’’غرق مے ناب اولی‘‘ تصور کرتے تھے۔مولانا سے دامن کشی کی بنیادی وجہ ان کی افتاد طبع اور ان کے غلو آمیز نظریات تھے۔قائل کرنے کے بجائے اپنے نظریات کومسلط کرنے کا ان کا انداز نہایت ناگوار گزرتا تھا۔ انہیں ایسا معاون چاہیے تھا جو ان کی شخصیت کے آفاق میں اس طرح گم ہو کہ باہر کی پوری دنیا اس کی نظروں سے بالکلیہ اوجھل ہوچکی ہو۔وہ’’ الرسالہ‘‘ تحریک کا ایسا مخلص خادم چاہتے تھے جو اپنی ضروریات ومطالبات سے اوپر اٹھ کر خود کو اس تحریک کے لیے پوری طرح تج دینے اور قربان کردینے کا جذبہ رکھتا ہو۔مجھے بہت جلد محسوس ہونے لگا کہ میں اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتا۔کسی شخصیت کا ضمیمہ بن جانا علمی زندگی اور شناخت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔مولانا کواس کا کوئی ملال بھی نہیں تھاکہ کون ان سے الگ ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟وہ ان احساسات سے بالاتر تھے۔

۲۰۰۰ میں تنظیم ابنائے قدیم دار العلوم دیوبند(نئی دہلی) سے،اس سے نکلنے والے ماہنامے، ’’ترجمان دارالعلوم‘‘ سے بطور مدیر تحریر وابستہ ہوگیا۔اسی سال تنظیم نے بانی دار العلوم دیوبند مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ پر ایک عظیم الشان سیمینار کا انعقاد کیا جس میں شرکت کی مولانا کوبھی دعوت دی گئی۔انہوں نے اس کے لیے مقالہ لکھنے کی یہ شرط رکھی کہ راقم الحروف چند ایام ان کے پاس حاضر ہواوروہ یہ مقالہ اس کو املا کرائیں۔چناں چہ اس شرط کی منظوری کے ساتھ یہ مقالہ تیار اور شایع ہوا۔ اس میں مدارس کی قدرومعنویت اور اصحاب مدارس کے کردار اور کارناموں کو سنجیدہ علمی اسلوب میں نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔لیکن سیمینار میں مولانا کومقالہ پڑھنے نہیں دیا گیا۔ سامعین کے ایک طبقے نے جس میں بعض معروف علما بھی شامل تھے،وہ شور وہنگامہ برپا کیا کہ مولانا کواسٹیج سے اترنا اور مجھے دوران پروگرام مولانا کوان کے گھرچھوڑنا پڑا۔مولانا نے مقالے پر کافی محنت کی تھی۔بقول ان کے اس کی پریزنٹیشن کی انہوں نے باضابطہ ریہرسل کی تھی۔بلاشبہ یہ ناخوش گوار واقعہ تھا لیکن مولانا کی خوبی یہ تھی کہ وہ ایسے تمام ناخوش گوار واقعات کو جھٹک دینے اور برداشت کرجانے کی غیر معمولی نفسیاتی قوت رکھتے تھے۔

نادر و کمیاب خوبیاں

مولانا بڑی اہم خوبیوں کے مالک تھے۔ان کی شخصیت اور ان کے عملی شب وروز میں سیکھنے کی بہت سی چیزیں تھیں:

مولانا کی کشادہ ظرفی

 مولانا بہت سے معاملات میں بہت کشادہ ظرف واقع ہوئے تھے (اگرچہ کچھ دوسرے معاملات میں ذرا تنگ ظرف بھی۔) مولانا سے وابستگی کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے غیر مطبوعہ مضامین کے کئی ضخیم ترین بنڈل یہ کہہ کر میرے حوالے کردیے کہ میں ان میں سے جن کو چاہوں’’ الرسالہ‘‘ میں اشاعت کے لیے منتخب کرلوں اور باقی کو ان سے مشورے کے بغیرکوڑے دان کی نذر کر دوں۔ چناچہ میں نے بمشکل دس فیصد مضامین کےعلاوہ سارے مضامین ضایع کردیے۔ متعدد مضامین کو جو نہایت محنت سے لکھے گئے تھے،میرے اظہار اختلاف کے بعد وہ میرے سامنے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا کرتے تھے۔ مجھے ایسے دو مضامین کی اس وقت یاد آتی ہے: ایک مضمون میں انہوں نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں دعوت کا کام فتوحات کےہجوم میں دب کر رہ گیا۔ میرے اعتراض پر انہوں نے بلا تامل اسے اسی وقت پھاڑ کر پھینک دیا۔ دوسرے مضمون کا عنوان تھا: البادی اظلم (شروع کرنے والا سب سے بڑا ظالم ہے۔) اس میں اس موقف کا اظہار کیا گیا تھا کہ چوں کہ فسادات کی ابتدا ہندوستان میں مسلمان کرتے ہیں، اس لیے وہ زیادہ بڑے ظالم ہیں۔میری تنقید پر انہوں نے مسکرا کر میرے سامنے اسےپھاڑ کرردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔

ان واقعات سے اندازہ ہوا کہ مولانا کے اندر کشادہ ظرفی اور لچک پائی جاتی ہے۔ البتہ وہ اس کے لیے کسی بھی قیمت پر تیار نہیں تھے کہ اپنے کسی نظریے اور موقف کے کسی جز سے بھی دست بردار ہوں۔ان کی کتاب ’’ تجدید دین‘‘ پڑھ کر مجھے شدید تکدر ہوا جس کا اظہار میں نے مولاناکے سامنے کیا۔ مولانا نے فرمایا کہ مولانا رضوان القاسمی ؒ (مہتمم دار العلوم سبیل السلام، حیدر آباد) نے بھی اس کتاب پراسی شدت کے ساتھ تنقید کی ہے۔ مختلف مواقع پر ان کی ’’تسلیم کی خو‘‘ کودیکھتے ہوئے میں نے مولانا کومشورہ دیا کہ وہ ایک ایسی تحریر لکھ دیں جس کامضمون یہ ہوکہ ان کے جونظریات جمہورعلمائے امت سے متصادم ہیں،وہ ان سے اظہار برأت کرتے ہیں۔مولانانے فرمایا کہ میں خود سے یہ تحریر لکھ لوں، مولانا اس پر دستخط کردیں گے۔لیکن انہوں نے اگلے ہی لمحے وضاحت کی کہ :’’یہ محض آپ کے اطمینان خاطر کے لیے ہوگی۔ورنہ جس طرح میں کل ان تمام نظریات ومواقف کودرست تصور کرتا تھا،آج بھی ویسا ہی تصور کرتا ہوں۔ ان سے دست بردار نہیں ہوسکتا‘‘۔میں نے کہا کہ پھر صرف میرے اطمینان کے لیے اس تکلف کی کیا ضرورت ہے؟

مولانا کی خوبی (اور اسی کے ساتھ خامی !)یہ تھی کہ وہ نہایت سنجیدگی اور متانت سے معترض کے اعتراضات کوسنتےاور اپنے نقطہ نظرکی بھرپور طور پر تفہیم کی کوشش کرتے تھے ۔ معترض کی درشت کلامی اور طنز وتشنیع پر بھی قطعاً مشتعل نہیں ہوتےلیکن اس تفہیم پرواقع ہونے والے نہایت وزنی اشکالات واعتراضات کوبالکل خاطر میں نہیں لاتے اورخاموش ہوجاتے یا موضوع گفتگو بدل دیتے تھے۔

مولانا اور ہندوستانی مسلمان: کس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

ہمیں اس پہلوپرغور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ مولانا اور امت مسلمہ کے درمیان جو کشمکش پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں دونوں نے ایک دوسرے کوتقریبا مسترد کردیا، اس کا نقصان کس کے حق میں کیا ہوا؟میرا خیال ہے کہ مولانا اورہندوستانی مسلمان دونوں اس نقصان میں برابر کے شریک ہیں۔مولانااور ان کی ایک مثبت نتیجہ خیزفکری تحریک کویہ خسارہ برداشت کرنا پڑا کہ وہ صرف ایک طبقے تک سمٹ کررہ گئی۔ مولانا کی فکر وقت کی آواز تھی ۔ اس کے اسلوب پیش کش میں قوت وتوانائی تھی جس نے اول وہلے میں ہی اہل علم کومتاثر کیا اور مولانا علمی وفکری دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوگئے لیکن خاص طور پر ملی معاملات میں اپنی’’غیر معتدل‘‘ آرا وبیانات سے خود کواس حدتک متنازعہ بنالیا کہ عوام وخواص کی اکثریت کی نگاہ میں ان کی فکرکی معنویت وافادیت مشتبہ ہوکررہ گئی۔مولانا کی نہایت تعمیری سوچ بھی لوگوں کوتخریبی نظرآنے لگی۔ان کے اعلی اور قیمتی افکار وخدمات پس منظر میں چلے گئیں۔ اور ان کے کمزور اور متنازعہ فیہ بیانات واقوال لوگوں کو ذہنوں پر چھا گئے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مولانا اور ہندوستانی مسلمان، جن میں عوام وخواص دونوں شامل ہیں، نے ایک دوسرے کوسمجھنے میں شدید غلطی کی۔ مولانا سمجھتے تھے کہ پوری ملت یا امت کا فکری شاکلہ (یہ مولانا کی خاص اصطلاح ہے) بگڑگیا ہے۔ اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ لیکن اس تشکیل نوکے کے عمل میں مولانا نے توڑنے اور ڈھانے پرتوجہ زیادہ مرکوز رکھی اور تعمیر پر کم۔کیوں کہ تعمیر ی عمل تدریج اور حکمت عملی چاہتا ہے۔ اپنے مدعویا مخاطب کو آخری حدتک مشتعل اور متنفر کرکے مقصود کوحاصل کرنے کی پالیسی خود مولانا کےاصل الاصول سے ٹکراتی ہے جس کے وہ زندگی بھر مبلغ رہے۔ایک پیغمبر اور داعی اپنی قوم کوسب سے پہلے یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں اور اس سے آخری حد تک قربت ومفاہمت کی راہیں تلاش کرتا ہے تاکہ اس کی آواز سنی جاسکے اور اس کے پیغام پر کان دھراجاسکے۔ افسوس مولانا اس پہلو پرزیادہ غور نہیں کرسکے۔

مولانا سے نفرت اور دوری کے نتیجے میں ملت کا جونقصان ہوا وہ بھی کم نہیں ہے۔اس وقت مسلمانوں کے خلاف ملک میں نفرت وعداوت کی جوآندھی چل رہی ہے اورجس سے مسلمانوں کا ملی وسیاسی وجود ہچکولے کھاتا نظر آتا ہے، اس کا پیشگی احساس وادراک کرنے والوں میں مولانا سرفہرست تھے۔میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہندو فسطائی تنظیموں کے ساتھ مولانا کے قریبی روابط سے ملت میں جوبھی غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت کی پنپتی فضا پر پیش بندی کی ایک کوشش تھی۔اس تعلق سے ان کا ذہن مولانا حسین احمد مدنی ؒ سے متاثر تھا اور وہ ان کے بڑے مداح تھے۔مولانا کی شخصیت اس لحاظ سے ہندوستان کی واحد شخصیت تھی جسے فریق مخالف کا مکمل اعتماد حاصل تھا۔ہندوستانی مسلمانوں سے متعلق امورومعاملات میں بی جے پی کے قائدین اور پالیسی ساز ان سے مشورے کرتے اور ان کی راے کواہمیت دیتے تھے۔

ایک واقعہ مجھے یاد آتا ہے جومولانا نے مجھے بتایا تھا۔۱۹۹۹ میں قندھار طیارہ اغوامعاملہ پیش آیا۔ اغوا کاروں سےہندوستانی حکومت کے اہل کاروں کی گفت وشنید سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ ’’دیوبند‘‘ سےگہری عقیدت رکھتے ہیں اور وہاں کی زیارت کے خواہش مند ہیں۔اس واقعے کے بعد بی جے پی نمائندوں کا ایک وفد مولانا کے پاس حاضر ہوا اوراغوا کاروں کی دار العلوم دیوبندسے فکری مناسبت وہم آہنگی کی حقیقت جاننی چاہی۔ مولانا نے فرمایا کہ :’’میں توخود دیوبندی ہوں‘‘۔ اور پھر انہیں سمجھایا کہ دیوبندیت بریلویت صرف ایک مذہبی گروہی شناخت سے عبارت ہے ۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے واقعات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

مسلم مخالف ہندوتنظیموں اور ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان مولانا ایک بیچ کی کڑی ہوسکتے تھے اور وہ رول ادا کرسکتے تھے جوجنگ احزاب کے موقع پر صحابی رسول حضرت نعیم بن مسعود ؓنے ادا کیا تھا اور جن کی دانش مندانہ ترکیب سے نہایت خطرناک جنگ کی مسلط کردہ وبا مسلمانوں کے سرسے ٹل گئی تھی۔ لیکن افسوس ہندوستان کی مسلم کمیونٹی مولانا کی اس انفرادی حیثیت سے فائدہ نہیں اٹھاسکی۔مولانا مسلسل اس موضوع پر لکھتے رہے کہ مدعو قوم سے نفرت وکشاکش مسلمانوں کے لیے ہلاکت آفریں ہے لیکن مولانا کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔اکثریت سمجھتی رہی کہ مولانا اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے بی جے اور آر ایس ایس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مولانا پر یہ الزام بے بنیاد ہے۔تشددد پسند ہندو تنظیموں سے مولانا کی وابستگی ان کی مخصوص دعوتی ایپروچ کی دین تھی۔وہ اس موقف کا برملا اظہار کرتے تھے کہ ڈائلاگ اور مفاہمت کی کوششیں اصلا تشدد پسند افراد اور جماعتوں کے ساتھ کی جانی چاہییں تاکہ ان کی ذہنیت میں مثبت تبدیلی پیدا ہو،نہ کہ امن پسند افراد کے ساتھ ،جو پہلے ہی ’’بے مسئلہ ‘‘ ہیں۔

ایک دن میں حاضر ہوا تو مولانا کوشدت کے ساتھ اپنا منتظر پایا۔ مولانا نے بتایا کہ : ’’وزیر اعظم واجپائی کی طرف سے ایک اہم میٹنگ میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ میں فیصلہ نہیں کرپارہا ہوں کہ مجھے اس میں شرکت کرنی چاہیے یا نہیں‘‘۔ یہ اپنی نوعیت کی منفرد میٹنگ تھی جس میں شرکت میں مولانا کوتامل تھا ۔ میں نے ذرا ہلکے موڈ میں کہا کہ:’’ مولانا! آپ کی جوبدنامی ہونی تھی وہ توہوچکی۔ اب مزید کیا ہوگی؟‘‘۔(یہ واقعہ اس واقعے کے بعد کا ہے جب آر ایس ایس کی ایک میٹنگ میں مولانا کی پیشانی پر قشقہ لگادیا گیا تھا اور اس کی تصویر میڈیا میں آنے کی وجہ سے مولانا کی شدید بدنامی ہوئی تھی۔) آپ میٹنگ میں شریک ہوں۔میں بھی چلتا ہوں‘‘۔ مولاناکواس پر اطمینان ہوگیا۔ انہوں نے فرمایا کہ:’’ میں اب ضرور شریک ہوں گا۔لیکن آپ کی شرکت اس میں ممکن نہیں ہے‘‘۔ اس واقعے نے مجھے بھی تھوڑی دیر کے لیے سوچنے پر مجبور کیا۔ کیوں کہ مولانا کے ساتھ ہر پروگرام میں مجھے شرکت کی مکمل اجازت پیشگی طور پر حاصل تھی، لیکن بعد کے واقعات نے مجھے اس حقیقت کوسمجھنے میں مدددی کہ یہ مولانا کی مخصوص دعوتی ذہنیت اور فکری مشن کا حصہ تھا۔اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض پنہاں نہیں تھی۔نیتوں کا حال بس خدا کومعلوم ہے۔ خاص طور پر اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ مولانا نے ملت کو اور ملت نے مولانا کوکھودیا۔اس میں ’’ونر‘‘ کوئی نہیں ؛ دونوں ہی کھونے والے ہیں۔

اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف سب سے بلند اور موثر آواز مولانا کی تھی۔’’تعبیر کی غلطی‘‘کے غیر معمولی اثرات مرتب ہوئے۔اقامت دین اور حاکمیت الہ کی اصطلاحوں میں سوچنے والوں کے فکری زاویے بدل گئے۔مولانا علی میاں ندوی ؒ کی ’’عصر حاضر میں دین کی تفہیم وتشریح‘‘ اور اخوان المسلمین کے مرشد عام دوم حسن الہضیبی کی ’’دعاۃ لاقضاۃ‘‘ نے وہ کام نہیں کیا جومولانا کی مذکورہ کتاب نے کیا۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے خلاف مولاناکی کوششیں مزید موثر اور نتیجہ خیز ہوسکتی تھیں اگر ان کوملت کا باضابطہ تعاون حاصل ہوتا۔

مولانا کے کام کی تین اساسی جہات

مولانا وحید الدین خان ؒ کے کام اور خدمات کی میری نظر میں تین اہم اور بنیادی جہات یا رخ ہیں:

 ۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے مخالف بیانیے کی تشکیل

۲۔ اسلامی عقلیات کی تشکیل

۳۔دعوتی لٹریچر کی تالیف واشاعت

۱۔اسلام کی سیاسی تعبیر کے حوالے سے سرسری ذکر اوپر آیا۔جماعت اسلامی سے نکلنے کے بعد مولانا نے اس کواپنی فکر کا مرکز بنایا اور’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ متعدد چھوٹی بڑی تحریریں تسلسل کے ساتھ لکھیں۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اصحاب علم وفکر کی توجہ کا مرکز بنا اور اس پرمباحثات شروع ہوئے۔خود جماعت اسلامی سے وابستگی رکھنے والے مختلف اصحاب علم: مولانا سلطان احمد اصلاحی ؒ ،مولانا عنایت اللہ اسد سبحانی کے افکار پر اس کے اثرات دیکھے جاسکتے ہیں۔خواہ یہ اثرات براہ راست ہوں یا بالواسطہ۔ان دونوں حضرات کی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ مرحوم مولانا اصلاحی کی نظریہ ٔ حاکمیت الہ کی رد میں اورثانی الذکر کی نظریہ ٔ جہاد میں غلو کی رد میں۔ مولانا کی پہلی مضبوط شناخت یہی تھی۔عالم عرب میں بھی سیاسی اسلام کی علمی تنقید کے حوالے سے اس موضوع پرمولانا کی فکری کاوشوں نے اس بحث کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کیا۔ وہاں کے علمی حلقوں پر اس کے اس کے اثرات مرتب ہوئے۔مغربی حلقوں میں اس حوالے سے مولانا کو جوپذیرائی ملی وہ بالکل ظاہراور متوقع تھی۔ جو کمی دوسرے موضوعات کےحوالے سے نظر آتی ہے،وہی کمی یہاں بھی نظر آتی کہ اس فکر کواستحکام عطا کرنے اور پروان چڑھانے والے رفقائے کار اور تلامذہ مولانا کومیسر نہیں آئے۔ مولانا کو جو کچھ کہنا تھا وہ ایک عرصے تک الفاظ وتعبیرات کی تبدیلی کے ساتھ کہہ فارغ ہوگئے۔اس میں اضافہ مولانا کی سرپرستی میں دوسرے افراد کے ذریعہ ہوتا تویہ فکر اور مضبوطی کے ساتھ اپنی جگہ بناتی۔لیکن ’’الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ کام رک گیا۔’’سیاسی اسلام‘‘ کا نظریہ جس تیزی کے ساتھ اپنے پر پھیلاتا رہا، اس تیزی اورشدت کے ساتھ اس کا تعاقب نہیں کیا جاسکا۔’’تعبیر کی غلطی‘‘ کے علاوہ مزید مضبوط اور موثر تحریریں اس موضوع پر نہیں آسکیں۔

۲۔مولانا کےکام کی دوسری اہم جہت اسلامی عقلیات کی تشکیل ہے۔ برصغیر ہند میں سرسید احمد خاں ؒ نام اس کے بنیاد گذاروں میں اہمیت رکھتا ہے۔لیکن ان کی کوششیں اس حوالے سے افراط وتفریط کا شکار ہوکر رہ گئیں۔البتہ اس کے نتیجے میں اس تعلق سے ذہنوں میں سوالات ابھرے اور کام کا داعیہ پیداہوا۔ پھر شبلی نعمانی (الکلام اور علم الکلام) اور علامہ محمد اقبال(The Reconstruction of Religious Thought in Islam ) نے اس حوالے سے جوکام کیا وہ غیر معمولی نوعیت کا ہے۔اس کے اثرات غیرمعمولی طور پر عالم اسلام اور اس کے باہر کے علمی وفکری حلقوں پر مرتب ہوئے۔جدید علم کلام پرگفتگوآگے بڑھی۔مولانا کام کام اس میں اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔مولانا نے جدید سائنس کو اپنا موضوع بنایا۔جدید سائنسی افکار واکتشافات کے حوالے سے مذہبی فکریات اورمذہبی نظریہ ٔ حیات وکائنات( world view) پر عائد کیے جانے والے اعتراضات وتنقیدات کاجائزہ لینے کی کوشش کی۔مذہب کے خلاف سائنسی مفروضات کا علمی رد لکھا جو’’علم جدید کا چیلنج‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اور متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا گیا ۔اس موضوع پر یہ کتاب ایک شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کے علاوہ’’عقلیات اسلام‘‘،مذہب اور سائنس‘‘ اور ’’مذہب اور جدید چیلنجز‘‘ جیسی کتابیں اہم اور قابل مطالعہ ہیں۔یہ کہنا میری نظر میں بہت صحیح نہیں ہے کہ مولانا مغربی فکروفلسفے کا بہت گہرا ادراک رکھتے تھے۔عالم اسلام کیا خود برصغیر ہند میں اس حوالے سےشہرت رکھنے والوں کی ایک تعداد موجود ہے۔(بظاہر مولانا کوفلسفے سے کچھ خاص شغف نہیں تھا) لیکن مولانا نے جس سنجیدہ، سادہ اور مضبوط علمی اسلوب میں اس موضوع پر خامہ فرسائی کی وہ بہت اہم اورنتیجہ خیز تھی۔کاش مولانا نے اس موضوع پر کام کومزید آگے بڑھایا ہوتا لیکن چنداچھے ابتدائی نقوش کے بعد مولانا نے اس کام کوموقوف کردیا یا یہ کہ مولانا کا زاد علم اس حوالے سے ایک حد پر جا کر ختم ہوگیا۔

اس کی ایک وجہ میری نظر میں یہ بھی ہے کہ یہ موضوع بہت زیادہ مطالعہ چاہتا ہے،دوسرے موضوعات پر کاموں کےہجوم میں جس کی فرصت مولانا کو نہیں مل سکتی تھی۔ دوسرے موضوعات پر کام کی مصروفیات کو کم کرکے اس کام کوترجیحی فہرست میں رکھنا چاہیے تھا، لیکن مولانا اس کے لیے خود کوتیار نہیں کرسکے۔یہ کام بھی فرد واحد کا نہیں تھا۔مولانا کوایسے افراد تیار کرنے چاہییں تھے جو اس کام کا بیڑاسنبھال سکیں اور اسے جاری رکھ سکیں۔لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوسکا۔

۳۔ مولانا کے کام کی تیسری جہت دعوہ لٹریچر کی تیاری اور اشاعت ہے۔قرآن،حدیث اور سیرت رسول کو بنیاد بناکر مولانا نے چھوٹے بڑے بہت سے کتب ورسائل لکھے جن کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے۔بلاشبہ یہ لٹریچر دعوتی نقطہ ٔ نظر سے بہت اہم ہے۔قرآن کا انگریزی ترجمہ کافی مقبول ہوا۔’’تذکیر القرآن‘‘ اس لحاظ سے اہم ہے جس میں سادہ انداز میں قرآن کی تعلیمات وپیغام کوواضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح سیرت رسول پر ’’پیغمبر انقلاب ‘‘اس موضوع پر لکھی سینکڑوں کتابوں میں اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔ادھر کم از کم دودہائیوں سے مولاناکی پوری توجہ کام کی اس تیسری جہت پرمرکوز تھی ۔ یعنی سادہ انداز میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو غیر مسلمین کے درمیان عام کرنا۔ اس کے کیا اثرات ونتائج مرتب ہوئے؟ا س کا اگراس تناظر میں جائزہ لیاجائے کہ ان کوپڑھ کر کتنے لوگوں نے اسلام قبول کیاتویہ کوئی بہت معقول بات نہیں ہوگی۔حقیقت یہ ہے کہ مولانا کنورژن کو بنیاد بنا کر کام کرنے کے قائل نہیں تھے۔اس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ یہ کام خدا کا ہے۔ ہمار ا کام صرف ابلاغ ہے اور بس۔اس میں شک نہیں کہ مولانا کے دعوتی لٹریچر میں جابجا افراط وتفریط کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ دین وشریعت کا کوئی پہلو کہیں زیادہ دب گیا ہے اور کہیں زیادہ ابھرگیا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس کی افادیت اور اس سیاق میں مولانا کی انفرادیت مسلم ہے جس کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ باقی اس میں کیا خامیاں اور کمیاں ہیں ان پر بحثیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔

مولانا کے افکاروخدمات کی اور بھی جہات ہیں لیکن یہ تین جہات زیادہ بامعنی اور اہم ہیں۔یہ تینوں جہات اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ یہ کام آگے بڑھنا چاہیے۔ لیکن ’’الرسالہ‘‘ اسلامی مرکز نے اب اپنے ادارے’’ سی پی ایس انٹرنیشنل ‘‘کے تحت صرف تیسری جہت پر اپنی ساری توجہات مرکوز کردی ہیں۔ اس طرح پہلی دو جہتیں جوخالص فکری نوعیت کی ہیں،اس کی متقاضی تھیں کہ مولانا کے بعد ان پر کام کا سلسلہ جاری رہے لیکن بظاہر اب’’ الرسالہ‘‘ تحریک کے تحت یہ ممکن نہیں ۔کیوں کہ وسائل توموجود ہیں ،افراد موجود نہیں ۔

آخری بات: مولانا کی چند کمزوریاں اور ان کے نقصانات

 مولانا کے اپنے ممتاز اوصاف اور نادر خوبیوں اور کمالات کے ساتھ چند کمزوریاں بھی تھیں جن کے مسلسل واقعات مشاہدے میں آئے۔کمزوریوں سے یوں تو بڑی سے بڑی اور عبقری شخصیات بھی خالی نہیں ہوتیں لیکن مولانا کا معاملہ اس باب میں کئی لحاظ سے استثنائی حیثیت رکھتا ہے۔

 میں سمجھتا ہوں کہ مولانا کی فکر کا بے کم و کاست تجزیہ ہونا چاہیے اور ان کے تمام ذہنی ونفسیاتی ، زمانی ومکانی اور دیگراحوال وظروف کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی فکروشخصیت کی قدر پیمائی کی کوشش کی جانی چاہیے۔ ہر زاویے سےان کی پوری فکر کا پھرپور تنقیدی جائزہ لیاجانا چاہیے تاکہ ان کی فکراپنے دائرے میں منقح ہوکر سامنے آجائے۔ مولانا کے تئیں صحیح اور سچی خراج عقیدت یہی ہے اور مولانا نے زندگی بھر اسی پر عمل کیا اور اسی کی لوگوں کوترغیب دی۔اس حوالے سے مولانا کی ایک قیمتی تحریر’’علما اوردور جدید‘‘ کوپیش نظر رکھنا چاہیے جس میں مولانا نے دور جدید میں علما کی فکروکردار کا تفصیلی تنقیدی جائزہ لیا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کی نقاب کشائی کے ساتھ ان سے مرتب ہونے والے مثبت ومنفی اثرات سے بحث کی ہے۔صرف ثناخوانی یا مجرد تنقید فکری زوال کی سب سے بڑی علامت ہے۔اس تحریر کا مقصد نہ تو مولانا کی کمزوریوں کی نقاب کشائی ہے اور نہ ان کے اوصاف وامتیازات کی مدح سرائی۔اس کا مقصد ان کی فکروشخصیت کے خد وخال کو سمجھنا اور ان میں موجود بصیرت کے پہلوؤں کو واشگاف کرنا ہے۔ اس تحریر کو اسی تناظر میں پڑھا جانا چاہیے۔

دسمبر ۲۰۲۱ء

خاندانی نظام اور دور جدید کے رجحاناتمحمد عمار خان ناصر
اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۳)ڈاکٹر محی الدین غازی
علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۵)مولانا سمیع اللہ سعدی
امام شافعی: مستشرقین و ناقدین مستشرقین کی نظر میںڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل
دورحاضرمیں اسلامی فکر : توجہ طلب پہلوڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی
مسلم حکومتیں اور اسلامی نظاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
شرعی احکام اور ہمارا عدالتی نظاممولانا ابوعمار زاہد الراشدی
مجمع العلوم الاسلامیہ: اصولی موقف اور بنیادی اعتراضاتمحمد عرفان ندیم

خاندانی نظام اور دور جدید کے رجحانات

محمد عمار خان ناصر

(حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر اس موضوع کے بعض اہم پہلووں سے متعلق کچھ  معروضات پیش کی گئیں جنھیں ایک مناسب ترتیب سے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔)


قیامت کے قریب رونما ہونے والے مظاہر کا ذکر متعدد احادیث میں کیا گیا ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث میں، جسے امام ترمذی نے نقل کیا ہے،  ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ أمورکم الی نساءکم، یعنی تمھارے معاملات تمھاری خواتین کے سپرد ہو جائیں گے۔ مولانا وحید الدین خانؒ نے  اس پیشین گوئی کو  فیمنزم یا صنفی مساوات کے اس ظاہرے پر منطبق   کیا ہے جو دور جدید   میں نمایاں ہوا ہے۔  اس حوالے سے سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ  فیمنزم کے ظاہرے کا ذکر اس حدیث میں کس پہلو سے ہوا ہے؟ کیونکہ احادیث میں قرب قیامت کی علامات کا ذکر عموما منفی رنگ میں ہوا ہے، یعنی ان کو معاشرت اور رویوں میں اختلال کے پہلو سے بیان کیا گیا ہے۔   

ہمارے خیال میں اس حدیث کا انطباق فیمنزم کے ظہور پر کرنا ذرا غور طلب بات ہے۔ اس مضمون کی دیگر احادیث سے جو بات سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ مرد، جن کے ذمے زیادہ تر معاملات کی انجام دہی رہی ہے، اپنے فیصلوں میں غیر ضروری طور پر اپنی بیویوں کے زیر اثر ہوں، اس طرح کہ ذمہ داریوں کی متوازن ادائیگی میں خلل واقع ہونے لگے۔ یہاں بنیادی طور ہر اس مزاج کی بات نہیں ہو رہی جس کو ہمارے ہاں زن مریدی سے تعبیر کیا جاتا ہے، بلکہ اس سے اخلاقی طور پر ذمہ داریوں کی ادائیگی پر پڑنے والے اثرات، یعنی ناانصافی اور جانبداری وغیرہ کی طرف اشارہ مقصود ہے۔ سمجھنے کے لیے عہد نبوی کا ہی ایک واقعہ پیش نظر رکھا جا سکتا ہے جس میں ایک صحابی نے ایک اہلیہ کی خوشنودی کے لیے صرف اس بچے کو باغ تحفے میں دینے کا ارادہ کر لیا جس کو وہ دلوانا چاہتی تھی، اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تنبیہ فرمانا پڑی۔

یہ پہلو اگر خانگی معاملات سے آگے بڑھ کر عمومی معاشرت میں بھی ظاہر ہونے لگے تو وہ بھی اسی کا مصداق ہوگا۔ اس لحاظ سے فیمنزم کے وہ بیانیے جو ردعمل میں پوری انسانی معاشرت کو اب سر کے بل کھڑا دیکھنا چاہتے ہیں، یقینا اس حدیث کے تحت آتے ہیں۔ حدیث کے الفاظ " أمورکم الی نساءکم" (اگر اس سے واقعتا فیمنزم کے ظاہرے کی نشاندہی مقصود ہے) بھی یہی بتاتے ہیں کہ معاملات کلیتا نسوانی نقطہ نگاہ سے طے کیے جانے لگیں گے اور یوں معاشرت کے فساد پر منتج ہوں گے۔ الفاظ میں اس کی طرف کوئی اشارہ دکھائی نہیں دیتا کہ خواتین کا امور معاشرت میں زیادہ فعال شرکت کرنا یا اپنے حقوق اور مقام سے متعلق زیادہ باشعور ہو جانا بھی کوئی منفی چیز ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس کو ایک مخصوص تاریخی ظاہرے پر سو فیصد منطبق کرنے کے بجائے اس اخلاقی پہلو کو ملحوظ رکھنا چاہیے جس کے پیش نظر امورکم الی نساءکم کو قرب قیامت یعنی اخلاقی ودینی فساد کی ایک علامت شمار کیا گیا ہے۔

سوالات

(مذکورہ معروضات پر کچھ اہم سوالات سامنے آئے جو ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں)

وقاص خان: فیمنزم کے معاملے میں 'انسانی معاشرے کو سر کے بل کھڑا کرنے' کی تعبیر سے بظاہر یہ تاثر ملتا ہے کہ آپ کے ہاں پدر سری سماج دراصل 'سماج کا درست زاویہ' ہے اور نسوانیت جب اسے نشانہ تنقید بنائے تو یہ درست کو نادرست کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہی ہے؟

جواب: خاندان فطری طور پر ایک پدرسری ادارہ ہے۔ اس کی قلب ماہیت نہیں ہو سکتی۔ اس کی ریفلیکشن عمومی معاشرت میں بھی ہونا ناگزیر ہے، لیکن اس کو کم سے کم کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔

وقاص خان: لیکن ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ خاندان کی قدیم صورت تبدیل ہونا ممکن ہو گیا ہے۔ خواتین بچے کی خواہش میں اپنا جسم ہی استعمال کریں، یہ ضروری نہیں رہا۔ اگرچہ یہ پراسس نسبتا سست رفتار ہے، مگر اس کے اثرات میں خاندان کا فطری طور پر پدر سری ہونا شاید حتمی پوزیشن نہیں۔ اس کے ساتھ خاندان کا ایک ہی مفہوم کہ اس کے ذریعے سے نسل آگے بڑھے، اب واحد یا سب کے لیے ہمیشہ سے مرغوب ترین انتخاب بھی نہیں رہا۔ یہ دونوں آپشنز اور ان کے ساتھ خواتین میں پروفیشنلزم کی مقبول شکل کے ہوتے ہوئے آپ کے بنیادی مقدمے کی غیر مذہبی حیثیت کیا رہے گی؟

جواب: فطری کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی کسی دخل اندازی کے بغیر کوئی چیز کیسی ہے۔ اس مفہوم میں خاندان فطری طور پر ہی پدرسری ہے۔ انسان فطرت میں مداخلت کر کے صنفوں کی نئی خصوصیات متعین کر لے تو یہ فطری تو نہیں ہوگا۔ اس کی قبولیت یا عدم قبولیت کا فیصلہ کرنے کی کوئی نیوٹرل اساس نہیں جس کو معیار مانا جائے۔ اہل مذہب اپنی اساسات پر فیصلہ کریں گے، دوسرے لوگ اپنی اساسات پر کر سکتے ہیں۔

سنیہ ڈار: خاندان کا ادارہ اپنی فطرت میں ہے ہی پدر سری ، یعنی خاندان کا ادارہ معاشرے میں قائم رکھنے کے لیے پدر سریت نا گزیر ہے اور فطری ہے؟ یعنی مذہب پدر سریت کو جواز دیتا ہے بلکہ خاندان کا ادارہ بنانے کے لیے اسے ایک لازمی جزو کے طور پر مانتا ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو یہاں آپ ایک انتہا کو تو دین کی أساس پر فطری ٹھہراتے ہیں جبکہ دوسری انتہا کو معاشرت کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

جواب: آپ کے سوال سے پدرسری کا جو مفہوم سامنے آ رہا ہے، وہ اس کا صحیح مفہوم نہیں۔ پدرسری کا مطلب یہ ہے کہ مرد اولاد حاصل کرنے کے لیے عورت کو اپنے نکاح میں لیتا ہے اور کنبے کے سربراہ کے طور پر اس کی کفالت وحفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس میں "ایک انتہا" کون سی ہے جس کو فیمنزم کی دوسری انتہا کے مقابلے میں رکھا جائے؟ ہاں مرد کے اختیار اور حاکمیت میں عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے جیسے خواتین کی جانب فیمنزم کی بعض صورتوں میں ہوتا ہے۔ ان دونوں انتہاؤں کا تقابل کرنا چاہیے۔ پدرسری فی نفسہ کوئی انتہا نہیں ہے، ایک فطری نظام ہے۔

سنیہ ڈار: اس فطری پدر سری نظام میں توازن برقرار رکھنے کے لیے مذہب کے مطابق مرد کے اختیار اور حاکمیت کی حد کیا ہے ؟

جواب: رشتہ نکاح میں زوجین کے حقوق وفرائض شریعت میں بہت وضاحت سے بیان ہوئے ہیں۔ ان کی تفصیل تو وہاں دیکھنی چاہیے۔ البتہ اگر مراد اختیار کا سوء استعمال اور اس کا سدباب ہے تو یہ انتظامی مسئلہ ہے۔ اس میں قرآن نے خاندان کے بااثر افراد کو کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔ اس کے علاوہ معاشرتی سطح پر تعلیم وتربیت اور سماجی دباؤ کے مختلف طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور ریاست بھی اس ضمن میں مددگار پالیسیاں بنانے اور قانونی  اقدامات کی ذمہ دار ہے۔

سنیہ ڈار: آخری سوال یہ ہے کہ کیا مذہب کے مطابق اس فطری پدر سری نظام میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کوئی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے؟ یعنی مذہب کے مطابق یہ نظام ہمیشہ ہر دور میں ایسا ہی رہے گا تو ہی خاندان کا ادارہ برقرار رہے گا اور کسی اور صورت میں اس کی بقا اور نشوونما ہر گز ممکن نہیں ہے؟ ہر دوسری صورت یا تبدیلی انارکی پر منتج ہو گی چنانچہ اسے ہمیشہ ایسے ہی اسی فارم میں قائم رہنا چاہیے؟  مذہب کے مطابق اس حوالے سے کس حد تک لچک کی گنجائش ہے یا سرے سے ہے ہی نہیں؟

جواب:  جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کے ضمن میں  ایک بنیادی سوال کا جواب پہلے طے کرنا ضروری ہے، اور وہ یہ کہ کیا ہم سماجی زندگی کی تشکیل میں کچھ چیزوں کو ثوابت مانتے ہیں یا سب کچھ قابل تبدیل ہے؟ اگر ہر چیز قابل تبدیل ہے تو پھر خاندان کے ادارے کی ہیئت بھی قابل تبدیل ہے، بلکہ شاید خاندان کے ادارے کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے۔ اگر کچھ چیزیں ناقابل تبدیل ہیں تو حد فاصل قائم کرنے میں ہم بطور مسلمان شریعت کو کیا اہمیت دیتے ہیں؟ اگر شریعت ثابت اور متغیر کی تعیین میں ماخذ ہے تو جواب اس کے مطابق ہوگا۔ اگر شریعت ماخذ نہیں ہے تو پھر ثوابت کو طے کرنے کے لیے کوئی اور معیارات وضع کرنے ہوں گے، اگر وہ ممکن ہوں۔

اس سیاق میں ہمارا موقف یہ ہے کہ شریعت ہمارے لیے خاندانی نظام کی تشکیل میں ماخذ ہے اور اس میں دیے گئے ثوابت کی پابندی ہم پر بطور مسلمان لازم ہے۔ بطور مسلمان کی وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ دنیا کی دوسری تہذیبیں اس ضمن میں مختلف تجربات کر سکتی ہیں اور ان کا دنیا میں سیاسی عوامل سے عمومی شیوع بھی ہو سکتا ہے، لیکن مسلمان ان تجربات کو شریعت پر نہیں، بلکہ شریعت کو ان تجربات پر حکم مانیں گے۔

اس بنیادی نکتے کی روشنی میں، مختلف مجوزہ تبدیلیوں کا جائزہ لے کر دیکھا جا سکتا ہے کہ ان میں سے کون سی شرعی اصولوں کے لحاظ سے قبول کی جا سکتی ہے اور کون سی نہیں۔

سنیہ ڈار: یعنی  مسلمانوں کے لیے بھی زمانے اور صورتحال کی بنا پر اس وضع شدہ نظام کے اندر تغیر و تبدل ممکن ہے بشرطیکہ وہ تبدل شریعت سے انحراف پر مبنی نہ ہو؟ اور یہ فطری پدر سری نظام جامد  نہیں ہے کہ اس میں تبدیلی سرے سے ممکن ہی نہیں؟

جواب:  بالکل۔ پدرسری نظام کے جن پہلووں کا تعلق عرف اور کلچر سے ہے، وہ یقینا قابل تبدیل ہیں۔ اسی طرح کسی خاص پابندی کی بنیاد اگر کسی علت پر ہے تو اس کی روشنی میں بھی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ کسی پابندی میں ملحوظ مصلحت اگر تقاضا کر رہی ہو کہ قانون کی ظاہری ہیئت میں کچھ تبدیلیاں کی جائیں تو اس کا راستہ بھی کھلا ہے۔


اسی بحث سے جڑا ہوا  ایک سوال گزشتہ دنوں محترمہ ڈاکٹر عابدہ شریف نے اٹھایا  کہ  آج مغربی سماج میں شادی کے بغیر پیدا ہونے والے بچوں کے والدین پر اس کے باقاعدہ حقوق تسلیم کیے جاتے ہیں، جبکہ اسلامی قانون کی رو سے ایسے بچے کی ولدیت وراثت کے حقوق صرف ماں سے ثابت ہوتے ہیں، یعنی بچے کا باپ اس کی پرورش،  اخراجات اور وراثت وغیرہ تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہے۔   اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں بدکاری کے مواقع عام ہو جانے کی وجہ سے  مائیں، یک طرفہ ذمہ داری سے بچنے کے لیے   ایسے بچوں کو پیدائش کے بعد قتل کر کے پھینک دیتی ہیں۔  تو کیا حالیہ معاشرتی بگاڑ کے تناظر میں ایسے بچوں کی شناخت کو  والد کے ساتھ  نتھی کر کے اسے بچے کی جملہ ذمہ داریوں میں شریک نہیں ٹھہرانا چاہیے؟

اس کے جواب میں عرض کیا گیا کہ ثبوت نسب کے لیے شریعت کا  واضح قانون یہ ہے کہ زنا سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، اس کے لیے رشتہ نکاح کا ہونا ضروری ہے۔ یہاں شریعت میں اہم تر مصلحت کو زیادہ اہمیت دینے کا اصول اختیار کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ  خاندان کے ادارے کی مجموعی مصلحت ایسے بچوں کی انفرادی مصلحت سے مقدم ہے۔ زنا سے نسب ثابت مانا جائے تو خاندان کا پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تجویز کہ ایسے بچوں کو قتل سے بچانے کے لیے ان کی ولدیت قانونا مان لی جائے، مسئلے کا حل نہیں۔  بچے کا قتل یقینا گناہ اور جرم ہے، لیکن کیا زناکار عورت اس لیے ایسا کرتی ہے کہ اس کی ممانعت کا کوئی قانون نہیں بنا ہوا؟ وہ تو اس لیے کرتی ہے کہ اس سے زنا ثابت ہو جائے گا اور یا تو سزا ملے گی یا بدنامی ہوگی اور زندگی مشکل ہو جائے گی۔ ایک ایسا ماحول جس  میں زنا بھی ایک جرم رہے اور ماؤں کو سزا بھی ملتی رہے، لیکن مائیں  بچے کے حق زندگی کا احترام  کرتے ہوئے پھر بھی اسے زندہ رہنے دیں، انفرادی اخلاقیات کا مسئلہ ہے۔ اس میں  معاشرتی قوانین کو یک طرفہ طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اور یہ تجویز کہ چونکہ زنا عملا عام ہو گیا ہے، اس لیے اس کو قانونی تحفظ بھی دے دیا جائے،  تو بالکل ہی ناقابل فہم ہے۔  

مثال کے طور پر  بچوں کی پرورش والد اور والدہ کی ذمہ داری ہے۔ اگر کسی معاشرے میں خود غرضی اتنی عام ہو جائے کہ والد اور والدہ یہ ذمہ داری اٹھانے کے روادار نہ ہوں تو کیا ریاست کو یہ قرار دینا چاہیے کہ آج سے بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری میں شامل نہیں؟ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہوگا۔ ریاست ایک ’’مسئلے’’ کے طور پر یقینا ان بچوں کی پرورش اور کفالت کا انتظام کرے گی جن کے والدین اس ذمہ داری سے فرار اختیار کیے ہوں، لیکن ایک معاشرتی واخلاقی ضابطے کی حیثیت سے اس اصول کو کالعدم قرار نہیں دے گی کہ بچوں کی پرورش والدین کی ذمہ داری ہے۔

یہی نوعیت ناجائز تعلقات سے پیدا ہونے والے بچوں کی ہے۔ ان کو قانونی لحاظ سے نکاح کے تحت پیدا ہونے والے بچوں جیسا قرار دینا ولدیت کے رشتے کے ساتھ وابستہ تقدس اور زنا کے ساتھ وابستہ تنفر کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں۔ یقینا ایسے بچوں کا کوئی قصور نہیں اور ان کے ساتھ ازروئے شریعت، عام سماجی  معاملات میں کوئی امتیاز نہیں برتا جا سکتا، لیکن ولدیت کی شناخت حاصل نہ ہونا ایسے ہی ایک تقدیری معاملہ ہے جیسے مثلا کچھ بچوں کا معذور پیدا ہو جانا۔  یہاں یہ بنیادی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایسے بچوں کو انفرادی طور پر جس محرومی کا  سامنا کرنا پڑتا ہے، اس میں اور خاندانی نظام کی مجموعی مصلحت میں سے کس کو زیادہ اہمیت دی جائے۔ مغربی معاشرے بچوں کے انفرادی حقوق کو جبکہ اسلامی شریعت خاندان اور معاشرے کی مجموعی مصلحت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ ہم بطور مسلمان اسی ترجیح کو قبول کرنے کے پابند ہیں جو شریعت نے قائم کی ہے۔

تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ ولدیت کے رشتے کے علاوہ، باقی معاشرتی وقانونی امور میں اگر ایسے بچوں کے ساتھ ناانصافی یاامتیاز برتا جاتا ہے تو اس کی اصلاح میں مذہب واخلاق اور ریاست کا کوئی کردار نہیں بنتا۔ اس پہلو کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور دراصل اسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر تعلیم وتربیت اور ریاستی اقدامات سے ایسا ماحول بنا دیا جائے جس میں ایسے بچوں کے ساتھ باقی تمام افراد کی طرح ہی برتاو کیا جائے تو ولدیت کی شناخت کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں رہے گا۔ اسی طرح مثال کے طور پر  بچے کے اخراجات زانی پر بطور تعزیر اجتہادا لازم کیے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیاد حق ولدیت پر نہیں، تعزیر کے اصول پر ہوگی۔ اس کے مقابلے میں اگر زنا اور نکاح کو ایک ہی قانونی درجے پر لے آیا جائے تو اس کے مضمرات واضح طور پر مہلک اور تباہ کن ہوں گے۔


مذکورہ مسئلے کے تقابل میں، جن چیزوں میں تمدنی حالات کی تبدیلی کے تحت ایک اجتہادی زاویہ نظر اختیار کیا جانا چاہیے، اس کی  مثال کے طور پر بیویوں کی جسمانی تادیب کے مسئلے کو دیکھا جا سکتا ہے۔  شوہروں کی طرف سے اس اختیار کا سوء استعمال   ایک اہم اور قابل توجہ مسئلہ ہے اور اس سوال کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے کہ  شریعت نے جن شرعی واخلاقی حدود میں   ایک خاص صورت حال میں شوہر کو تادیب  کا اختیار دیا ہے، اگر  معاشرے میں عموما ان حدود کی پابندی نہ کی جا رہی ہو تو  اس کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟   یہ سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی سامنے آیا  تھا اور آپ نے خواتین کی شکایت پر شوہروں کی طرف سے اختیار کے سوء استعمال کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر اس پر پابندی لگا دی۔ تاہم اس کا نتیجہ خواتین کے جری ہو جانے کی صورت میں نکلا اور شوہروں کی طرف سے جوابی شکایت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو انھیں  دوبارہ اس کی اجازت دینا پڑی۔

دور جدید میں بہت سے اہل علم اس تناظر میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ سد ذریعہ کے طور پر  شوہروں کے اس اختیار پر قانونی پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔  ممتاز  تیونسی عالم ابن عاشور  نے اس ضمن میں یہ اہم نکتہ بھی  پیش کیا ہے کہ شوہروں کو اپنی بیویوں کو مارنے کی جو اجازت دی گئی، وہ ان لوگوں کے عرف کے لحاظ سے ہے جو اس کو معیوب نہ سمجھتے ہوں اور ان کے ہاں اسے شوہر کا ایک معمول کا اختیار مانا جاتا ہو۔ ابن عاشور مزید یہ کہتے ہیں کہ یہ چونکہ محض ایک اجازت ہے جو کئی شرائط کے ساتھ مشروط ہے، مثلا ناجائز تعدی نہ کرنا، اور اس میں معاشرتی عرف کا بھی لحاظ ہے، اس لیے حکومت اس اختیار پر پابندی لگا سکتی اور اسے قابل تعزیر عمل قرار دے سکتی ہے۔ (التحریر والتنویر  ۵/۴۴)

بعض دیگر اہل علم اس اختیار کے سوء استعمال کو روکنے کے لیے   بیوی کی تادیب کا اختیار نظم اجتماعی کو تفویض کر دینے کی تائید کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جناب جاوید احمد غامدی  لکھتے ہیں :

’’ اِس آخری چیز کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تمدن کی تبدیلی کے ساتھ ریاست کیا شوہروں کو پابند کر سکتی ہے کہ پہلی دونوں تدابیر اگر موثر نہ ہوں اور سزا کی نوبت آ جائے تو وہ خود کوئی اقدام نہیں کریں گے، بلکہ معاملہ عدالت کے سپرد کر دیں گے؟

ہمارا جواب یہ ہے کہ یقیناًکر سکتی ہے، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر عمل کے لیے یہ محض طریق کار کی تبدیلی ہے، اِس سے کوئی حکم معطل نہیں ہوتا۔ عورت کی اصلاح کے لیے سزا شوہر دے، خاندان کے بزرگ دیں یا عدالت، اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ کا منشا یہ ہے کہ گھر کو بچانے کے لیے اگر سزا بھی دینی پڑے تو دی جائے۔ یہ اصلاح کی ایک تدبیر ہے، اِس سے زیادہ اِس سے کچھ مقصود نہیں ہے۔“

ان دونوں مثالوں سے کافی حد تک یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی نظام سے متعلق شریعت کے احکام میں کون سی چیزیں ہیں  جو اس نظام کے لیے بنیادی اساس کی حیثیت رکھتی ہیں اور جنھیں ان کی جگہ سے ہٹانے سے پورے ڈھانچے کا  زمیں بوس  ہو جانا یقینی ہے، اور کون سی چیزیں ہیں جن کے حوالے سے نظام کی بنیادی عمارت  کو قائم رکھتے ہوئے  تمدنی، سماجی اور قانونی ضرورتوں کے تحت اجتہادی انداز فکر اختیار کیا جا سکتا ہے۔

ہذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم

اردو تراجم قرآن پر ایک نظر (۸۳)

ڈاکٹر محی الدین غازی

(285) تِسْعَۃُ رَھْطٍ کا ترجمہ

قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں تِسْعَۃُ رَھْطٍ آیا ہے۔ رھط اور نفر قریب قریب ہم معنی الفاظ ہیں۔ بخاری اور مسلم میں مذکور حدیث میں بنی اسرائیل کے تین آدمیوں کے واقعہ میں ثلاثۃ نفر کے الفاظ آئے ہیں، جس کا مطلب تین آدمی ہے، اسی طرح تِسْعَۃُ رَہْطٍ کا مطلب نو آدمی ہے۔ لیکن بعض لوگوں نے تِسْعَۃُ رَہْطٍ کا مطلب نو گروہ یا نو خاندان مان کر ترجمہ کیا۔ یہ درست نہیں ہے۔

وَکَانَ فِی الْمَدِینَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُفْسِدُونَ فِی الْأَرْضِ وَلَا یُصْلِحُونَ۔ (النمل: 48)

”اُس شہر میں نو جتھے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے“۔ (سید مودودی، نو آدمیوں کا جتھا صحیح ترجمہ ہے، الفاظ سے یہ بات نہیں نکلتی ہے کہ ان میں سے ہر آدمی کے پاس جتھا تھا۔)

”اور شہر میں نو خاندان تھے“۔ (امین احسن اصلاحی)

”اور (اس) شہر میں نو گروہ تھے“۔ (محمد حسین نجفی)

”اور تھے اس شہر میں نو شخص“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور شہر میں نو شخص تھے“۔ (فتح محمد جالندھری)

آخری دونوں ترجمے درست ہیں۔ درج ذیل انگریزی ترجمے میں بھی یہ غلطی ہے کہ نو اشخاص کو ایک خاندان کا سمجھ لیا گیا ہے، الفاظ میں یہ بات نہیں ہے۔

There were in the city nine men of a family (Yusuf Ali)

عام طور سے مفسرین نے تِسْعَۃُ رَھْطٍ کا مطلب نو اشخاص لیا ہے۔ البتہ رازی نے اس خیال کو ترجیح دی ہے کہ یہاں نو گروہ مراد ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: والأقْرَبُ أنْ یَکُونَ المُرادُ تِسْعَۃَ جَمْعٍ؛ إذِ الظّاہِرُ مِنَ الرَّہْطِ الجَماعَۃُ لا الواحِدُ، ثُمَّ یُحْتَمَلُ أنَّہم کانُوا قَبائلَ (تفسیر رازی) لگتا ہے وہیں سے بعض اردو مترجمین کے یہاں یہ غلطی در آئی۔ لیکن زبان کے قواعد کے لحاظ سے یہ درست نہیں ہے، تِسْعَة کا معدود واحد نہیں بلکہ جمع آتا ہے۔ اگر یہاں رھط گروہ یا قبیلے کے لیے ہوتا تو تِسْعَة أرَهاطٍ آتا۔ جیسے تسعة اقوام کہیں گے، نہ کہ تسعة قوم۔ یہ تو ثلاثة نفر کی طرح تِسْعَة رَہْطٍ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نو افراد جن سے مل کر ایک رھط یعنی گروہ بنا۔

زمخشری کی درج ذیل توجیہ اسلوب کلام کو واضح کردیتی ہے:

وإنما جاز تمییز التسعۃ بالرہط لأنہ فی معنی الجماعۃ، فکأنہ قیل: تسعۃ أنفس. والفرق بین الرہط والنفر: أن الرہط من الثلاثۃ إلی العشرۃ، أو من السبعۃ إلی العشرۃ والنفر من الثلاثۃ إلی التسعۃ۔ (زمخشری)

(286) مطر کا ترجمہ

مطر کا مطلب بارش ہے، جس کے اردو مترادفات میں مینھ اور برساؤ بھی ہیں۔ جب کہ برسات کا مطلب بارش کا موسم ہوتا ہے نہ کہ خود بارش۔ درج ذیل آیتوں میں مطر کا ترجمہ برسات درست نہیں ہے:

(۱) وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِم مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ۔ (النمل: 58)

”اور برسائی اُن لوگوں پر ایک برسات، بہت ہی بری برسات تھی وہ اُن لوگوں کے حق میں جو متنبہ کیے جا چکے تھے“۔ (سید مودودی، دونوں جگہ برسات کے بجائے بارش ہونا چاہیے۔)

”اور برسایا ہم نے ان پر ایک برساؤ برسایا پھر کیا برا برساؤ تھا ڈرائے ہوؤں کا“۔ (شاہ عبدالقادر)

”اور برسایا ہم نے اوپر ان کے مینھ، پس برا تھا مینھ ڈرائے گیوں کا“۔ (شاہ رفیع الدین)

(۲) وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِم مَّطَرًا فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ۔ (الشعراء:173)

”اور ان پر برسائی ایک برسات، بڑی ہی بُری بارش تھی جو اُن ڈرائے جانے والوں پر نازل ہوئی“۔ (سید مودودی، جس طرح موخر الذکر مطر کا ترجمہ بارش کیا ہے، اول الذکر کا بھی بارش کرنا چاہیے۔)

”اور ہم نے ان پر ایک خاص قسم کا مینھ برسایا، پس بہت ہی برا مینھ تھا جو ڈرائے گئے ہوئے لوگوں پر برسا“۔ (محمد جوناگڑھی)

(۳) وَأَمْطَرْنَا عَلَیْہِم مَّطَرًا فَانظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِینَ۔ (الاعراف: 84)

”اور اس قوم پر برسائی ایک بارش، پھر دیکھو کہ اُن مجرموں کا کیا انجام ہوا“۔(سید مودودی، یہاں مطر کا درست ترجمہ کیا ہے۔)

(۴) وَلَقَدْ أَتَوْا عَلَی الْقَرْیَۃِ الَّتِی أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ۔ (الفرقان: 40)

”اور اُس بستی پر تو اِن کا گزر ہو چکا ہے جس پر بدترین بارش برسائی گئی تھی“۔ (سید مودودی، یہاں بھی مطر کا درست ترجمہ کیا ہے۔)

(287) وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃ وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ

وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُہَا جَامِدَۃ وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ (النمل: 88)

مذکورہ بالا عبارت میں تین جملے ہیں، پہلا جملہ تَرَی الْجِبَالَ ہے، دوسرا تَحْسَبُہَا جَامِدَۃ ہے اور تیسرا جملہ وَہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ہے۔ اس میں سے کون سا جملہ زمانہ حال کا ہے اور کون سا جملہ زمانہ مستقبل یعنی قیامت کے برپا ہونے کے وقت کا ہے، یہ طے کرنے سے پوری عبارت کا مفہوم طے ہوتا ہے۔ درج ذیل ترجموں پر غور کریں:

”اور تو دیکھتا ہے پہاڑ جانتا ہے وہ جم رہے ہیں اور وہ چلیں گے جیسے چلے بادل“۔ (شاہ عبدالقادر)

”آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے“۔ (سید مودودی)

”اور آپ پہاڑوں کو دیکھ کر اپنی جگہ جمے ہوئے خیال کرتے ہیں لیکن وہ بھی بادل کی طرح اڑتے پھریں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

مذکورہ بالا تینوں ترجموں میں پہلے دونوں جملوں کو زمانہ حال کا مانا گیا ہے اور تیسرے جملے کو زمانہ مستقبل کا مانا گیا ہے۔ اس توجیہ میں کم زوری یہ ہے کہ تیسرا جملہ حالیہ ہے، لیکن اس کا ترجمہ جملہ حال کا نہیں کیا جارہا ہے۔ مزید یہ کہ لیکن اور مگر مترجم کی طرف سے اضافہ ہے، جس کے لیے عبارت میں کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔

”اور تو دیکھے گا پہاڑوں کو خیال کرے گا کہ وہ جمے ہوئے ہیں اور وہ چلتے ہوں گے بادل کی چال“۔ (احمد رضا خان)

”اور تم پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرو گے کہ وہ ٹکے ہوئے ہیں حالاں کہ وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے“۔ (امین احسن اصلاحی)

مذکورہ بالا دونوں ترجموں میں پوری عبارت یعنی تینوں جملوں کو زمانہ مستقبل کا مان کر ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس میں جملہ حالیہ والا مسئلہ تو نہیں رہتا، لیکن ایک اشکال یہ پیدا ہوجاتا ہے کہ جب وہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے اور آدمی اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ رہا ہوگا تو پھر وہ انھیں جما ہوا کیوں خیال کرے گا؟

مولانا امانت اللہ اصلاحی ایسا ترجمہ تجویز کرتے ہیں جس میں یہ دونوں اشکالات دور ہوجاتے ہیں۔ وہ تیسرے جملے کو پہلے جملے کا حال مان کر دونوں جملوں کو زمانہ مستقبل کا مانتے ہیں، اور دوسرے جملے کو زمانہ حال کا مانتے ہیں، ترجمہ کرتے ہیں:

”اور تم ان پہاڑوں کو بادلوں کی طرح اڑتے ہوئے دیکھو گے جنھیں تم سمجھتے ہو کہ وہ جمے ہوئے ہیں“۔

مطلب یہ ہوا کہ ابھی دنیا میں جن بادلوں کو تم جامد سمجھتے ہو، کیوں کہ وہ بظاہر جامد ہی ہیں انھیں قیامت کے دن بادلوں کی طرح اڑتا ہوا دیکھو گے۔

(288) قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّہِ کا ترجمہ

درج ذیل آیت میں تقاسموا امر کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے اور خبر کا صیغہ بھی۔ امر کی صورت میں وہ قالوا کا مقولہ بنے گا، جب کہ خبر کی صورت میں وہ قالوا کا حال بنے گا۔ مفسرین نے دونوں احتمالات ذکر کیے ہیں۔ زمخشری لکھتے ہیں:  تَقاسَمُوا یحتمل أن یکون أمرا وخبرا فی محل الحال بإضمار قد، أی: قالوا متقاسمین۔

لیکن بعض قرائن کی بنیاد پر اسے خبر مانتے ہوئے مقولہ ماننا زیادہ مناسب ہے۔ ایک تو یہ کہ حال ماننے کی صورت میں تقاسموا سے پہلے وقد محذوف ماننا پڑے گا، جب کہ مقولہ ماننے کی صورت میں کچھ محذوف نہیں ماننا پڑے گا، گویا اپنی اصل صورت میں یہ مقولہ ہی بن رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ کہنا ہو کہ انھوں نے اس بات کا عہد کیا تو پھر قالوا کہنے کی ضرورت نہیں رہ جاتی ہے صرف تقاسموا سے مفہوم ادا ہوجاتا ہے، جیسے سورۃ القلم میں آیا ہے: إِذْ أَقْسَمُوا لَیَصْرِمُنَّہَا مُصْبِحِینَ (آیت:17) ”جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے“۔ (محمد جوناگڑھی)

تیسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید میں قالوا کا استقرا بتاتا ہے کہ قرآن میں ہر جگہ اس کے بعد مقولہ ہی آیا ہے، اگر کہیں حال آیا ہے تو واضح علامت کے ساتھ آیا ہے، جیسے: قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَیْہِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ (یوسف: 71)، آخری بات یہ ہے کہ تقاسموا  کو مقولہ مان لینے سے معنویت بڑھ جاتی ہے، اور یہ بات سامنے آتی ہے کہ انھوں نے کس طرح سازش رچی تھی، کہ پہلے کچھ لوگوں نے منصوبہ بنایا اور اس پر سب سے قسمیں لیں۔ اس گفتگو کے بعد درج ذیل ترجمے دیکھیں:

قَالُوا تَقَاسَمُوا بِاللَّہِ لَنُبَیِّتَنَّہٗ وَأَہْلَہٗ ثُمَّ لَنَقُولَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ أَہْلِہِ وَإِنَّا لَصَادِقُونَ۔ (النمل: 49)

”بولے آپس میں قسم کھاؤ اللہ کی، مقرر رات کو پڑیں ہم اس پر اور اس کے گھر پر، پھر کہہ دیں گے اس کے دعوے کرنے والے کو ہم نے نہیں دیکھا جب تباہ ہوا اس کا گھر اور ہم بے شک سچے ہیں“۔ (شاہ عبدالقادر)

”انہوں نے آپس میں بڑی قسمیں کھا کھا کر عہد کیا کہ رات ہی کو صالح اور اس کے گھر والوں پر ہم چھاپہ ماریں گے، اور اس کے وارثوں سے صاف کہہ دیں گے کہ ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے اور ہم بالکل سچے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”آپس میں اللہ کی قسمیں کھا کر بولے ہم ضرور رات کو چھاپہ ماریں گے صا لح اور اس کے گھر والوں پر پھر اس کے وارث سے کہیں گے اس گھر والوں کے قتل کے وقت ہم حاضر نہ تھے اور بیشک ہم سچے ہیں“۔ (احمد رضا خان)   

”انھوں نے اللہ کی قسم کھاکر عہد کیا کہ ہم اس کو اور اس کے لوگوں کو چپکے سے ہلاک کردیں گے پھر ہم اس کے وارث سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے آدمی کی ہلاکت میں شریک نہیں ہیں اور ہم بالکل سچے ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی، ولی اور وارث میں فرق ہے۔)

پہلے ترجمے میں تقاسموا، قالوا کا مقولہ ہے۔ جب کہ آخری تینوں ترجموں میں تقاسموا، قالوا کا حال ہے۔ قالوا تقاسموا کا پہلا ترجمہ زیادہ مناسب ہے۔

(289) مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ أَہْلِہِ

مذکورہ بالا آیت میں شھدنا  آیا ہے، اس کا مطلب موجود ہونا اور حاضر ہونا ہے نہ کہ شریک ہونا۔ اس لیے درج ذیل دونوں ترجموں میں اول الذکر درست نہیں ہے۔

”ہم اس کے آدمی کی ہلاکت میں شریک نہیں ہیں“۔ (امین احسن اصلاحی)

”ہم اس کے اہل کی ہلاکت کے وقت موجود نہ تھے“۔ (محمد جوناگڑھی)

(290) بطش کا مفہوم

بطش کے معنی سخت گرفت اور شدید پکڑ کے ہوتے ہیں۔ لسان العرب میں ہے:  البَطْش التناول بشدۃ عند الصَّوْلۃ والأَخذُ الشدیدُ فی کل شیء۔ قرآن مجید میں یہ لفظ کئی جگہ استعمال ہوا ہے، بعض مترجمین نے اس کا ترجمہ کہیں کہیں حملہ کرنے اور ضرب لگانے کا کیا ہے۔ لیکن انھوں نے بھی دیگر مقامات پر اس کا ترجمہ پکڑ اور گرفت کیا ہے۔

(1) وَإِذَا بَطَشْتُم بَطَشْتُمْ جَبَّارِینَ۔ (الشعراء: 130)

”اور جس وقت پکڑتے ہو تم پکڑتے ہو سرکش ہوکر“۔ (شاہ رفیع الدین)

”اور جب حملہ کرتے ہو تو نہایت جابرانہ حملہ کرتے ہو“۔ (ذیشان جوادی)

”اور جب بھی تم کسی پر حملہ آور ہوتے ہو تو جبارانہ حملہ آور ہوتے ہو“۔ (امین احسن اصلاحی)

(2) یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرَیٰ إِنَّا مُنتَقِمُونَ۔ (الدخان: 16)

”جس روز ہم بڑی ضرب لگائیں گے وہ دن ہوگا جب ہم تم سے انتقام لیں گے“۔ (سید مودودی)

”جس دن ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے، بالیقین ہم بدلہ لینے والے ہیں“۔ (محمد جوناگڑھی)

”جس دن ہم پکڑیں گے بڑی پکڑ اس دن ہم پورا بدلہ لے کر رہیں گے“۔ (مولانا امین احسن اصلاحی)

(3) فَلَمَّا أَنْ أَرَادَ أَن یَبْطِشَ بِالَّذِی ہُوَ عَدُوٌّ لَّہُمَا۔ (القصص: 19)

”پھر جب موسیٰؑ نے ارادہ کیا کہ دشمن قوم کے آدمی پر حملہ کرے“۔ (سید مودودی)

”پس جب اس نے ارادہ کیا کہ پکڑے اس کو جو ان دونوں کا دشمن تھا“۔ (امین احسن اصلاحی)

(4) أَمْ لَہُمْ أَیْدٍ یَبْطِشُونَ بِہَا۔ (الاعراف: 195)

”کیا یہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ ان سے پکڑیں؟“۔ (سید مودودی)

”حملہ کرنے کے قابل ہاتھ“۔ (ذیشان جوادی)

(5) إِنَّ بَطْشَ رَبِّکَ لَشَدِیدٌ۔ (البروج: 12)

”بے شک آپ کے پروردگار کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے“۔ (ذیشان جوادی)

(6) وَلَقَدْ أَنذَرَہُم بَطْشَتَنَا۔ (القمر: 36)

”وہ ڈرا چکا ان کو ہماری پکڑ سے“۔(شاہ عبدالقادر)

علم ِرجال اورعلمِ جرح و تعدیل (۵)

مولانا سمیع اللہ سعدی

شداد بن سعيد أبو طلحۃ الراسبي روی عن أبي الوازع جابر بن عمرو وغيلان بن جرير وسعيد الجريري روی عنہ أبو معشر البراء وحماد بن زيد وابن المبارك وحرمي بن عمارۃ ومسلم بن إبراہيم وأبو الوليد وسعيد بن سليمان البصري سمعت أبي يقول ذلك.
قال أبو محمد وروی عن قتادۃ ومعاويۃ بن قرۃ ۔ ويزيد بن عبد اللہ بن الشخير روی عنہ إسماعيل ابن عليۃ ووكيع وأبو سعيد مولی بني ہاشم وحجاج بن نصير والنضر بن شميل
حدثنا عبد الرحمن أنا عبد اللہ ابن أحمد [بن حنبل ۔ فيما كتب إلی قال قال أبي: أبو طلحۃ شداد شيخ ثقۃ روی عنہ ابن عليۃ ووكيع.
حدثنا عبد الرحمن قال ذكرہ أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيی بن معين أنہ قال: شداد بن سعيدالراسبی ثقۃ1

اس ترجمہ میں بھی امام ابو حاتم نے مذکورہ راوی کے اہم اساتذہ و تلامذہ کی فہرست دی ہے، اہل سنت کے علم رجال کی کوئی کتاب اٹھائیں، اس میں راوی کے اساتذہ و شیوخ کی فہرست ملے گی، انہی فہارس کی مدد سے محدثین ارسال و انقطاع، اتصال و اسناد، طبقہ و عصر ِ راوی اور شیوخ حدیث سے لقاء و عدم لقاء کا پتا لگاتے ہیں اور ان کی مدد سے احادیث پر احکام لگاتے ہیں ۔

اس کے برعکس جب ہم اہل تشیع کے کتب رجال کو دیکھتے ہیں، تو حیرت انگیز طور پر یہ فہرستیں رجال کی کتب سے غائب ہیں، خال خال کسی استاذ یا شاگرد کا ذکر ملتا ہے، کتب رجال سے شواہد پیش کرنے سے پہلے تین جلیل القدر شیعہ محققین کی اس بابت رائے پیش کی جاتی ہے :

"وربما سقط الراوي من السند من دون أن يكون هناك ما يدلنا عليه، وعلى ذلك يجب أن يكون الكتب الرجالية بصورة توقفنا على طبقات الرواه من حيث المشايخ والتلاميذ، حتى يقف الباحث ببركة التعرف على الطبقات، على نقصان السند وكماله، والحال أن هذه الكتب المؤلفة كتبت على حسب حروف المعجم مبتدأة بالألف ومنتهية بالياء، لا يعرف الانسان عصر الراوي وطبقته في الحديث، ولا أساتذته ولا تلامذته إلا على وجه الاجمال والتبعية، وبصورة قليلة دون الاحصاء"2

ترجمہ :اور کبھی سند سے کوئی راوی گرجاتا ہے، جبکہ کوئی ایسا قرینہ نہیں ہوتا، جو اس راوی کے سقوط پر دلالت کرے، تو اس صورت میں ضروری ہے کہ کتب رجال ہمیں رواۃ کے طبقات اور مشائخ و تلامذہ سے واقف کرا سکیں، تا کہ ان کتب کو دیکھنے والا طبقات مدد سے سند میں موجود نقص یا کمال کا پتا لگا سکے، جبکہ حالت یہ ہے کہ یہ کتب رجال، جو معجم کی طرح الف سے شروع ہو کر یا پر ختم ہوتی ہیں، ان کتب سے راوی کے زمانے اور حدیث میں اس کے طبقے کا کسی کو پتا نہیں چل سکتا، راوی کے اساتذہ نہ تلامذہ، سوائے اجمالی طور پر محض برائے تذکرہ، وہ بھی بہت ہی کم تعداد کا، اساتذہ و تلامذہ کا احاطہ ان کتب میں نہیں کیا گیا ہے ۔

إنّ الحديث عن عدم ذكر الإماميّة لتواريخ الرواة من حيث الوفاة، يمكن القول بأنّه صحيح في الجملة، فالإماميّة يعتمدون في الغالب على تحديد الطبقة من خلال معاصرة الراوي لأحد الأئمة الاثني عشر، كما هي الحال مع كتاب الطبقات للبرقي وكتاب الرجال للشيخ الطوسي، ويذكرون في أحيان كثيرة تاريخ الوفاة، كما يعتمدون أيضاً في تحديد طبقة الراوي على الراوي والمرويّ عنه، وهي طريقة ذكرها المحدّثون من أهل السنّة كابن الصلاح وكان للمزي في تهذيب الكمال خدمات جليلة فيها.وفي تجربتنا الخاصّة في تخريج الأحاديث النبويّة عند الإماميّة لاحظنا إمكانية سدّ هذه الثغرة من خلال الرجوع إلى سائر مصادر التراجم والتاريخ وكتب الرجال عند أهل السنّة والشيعة معاً.3

ترجمہ:یہ بات کہ امامیہ نے رواۃ کے تواریخ وفات ذکر نہیں کئے، فی الجملہ درست قرار دی جاسکتی ہے، لھذا امامیہ رواۃ کے طبقات کی تحدید میں عموما اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ راوی ائمہ (معصومین) میں سے کسی ایک کے معاصر ہے ، جیسا کہ اسی طرح برقی کی کتاب الطبقات اور شیخ طوسی کی کتاب الرجال ہے، بہت سی جگہوں میں تاریخ وفات بھی ذکر کرتے ہیں، نیز طبقہ کی تحدید میں راوی و مروی عنہ پر بھی اعتماد کرتے ہیں، یہ طریقہ اہل سنت محدثین جیسے ابن صلاح اور بالخصوص امام مزی نے تہذیب الکمال میں اس حوالے (راوی و مرونی عنہ کی تعیین )سے گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں، امامیہ کی احادیث کی تخریج کے سلسلے میں ہمارے تجربے کے مطابق اس خلا کو پر کرنا ممکن ہے کہ تراجم، تاریخ اور شیعہ و سنی رجال کی جملہ کتب کی طرف اس سلسلے میں رجوع کیا جائے ۔

اس عبارت میں حیدر حب اللہ نے راوی و مروی عنہ کی تعیین کو اہل سنت محدثین کا طریقہ قرار دیا ہے اور اہل سنت کی کتب کا اس سلسلے میں ذکر کیا ہے، اگر شیعہ کتب رجال میں راوی و مروی عنہ کی تعیین کے حوالے سے وافر مواد موجود ہوتا، تو حیدر حب اللہ اسے صرف اہل سنت محدثین کا طریقہ کار قرار نہ دیتے اور شیعہ کتب کا بھی ذکر کرتے ۔

"ما صنف علماءنا فی فنی الرجال و تمیز المشترکات رایت ان الطائفة الاولی من ھذا الکتب نقائص، لاھمالھا ذکر کثیر ممن تضمنتہ الاسانید من اسماء الرواۃ، وعدم تعرضھا فی تراجم من ذکر فیھا لبیان طبقته و شیوخه الذین روی عنھم و تلامذته الذین تحملو ا عنه، مع ان ھذہ االامورمن اھم ما له دخل فی الغرض من ھذ الفن4

ترجمہ : ہمارے اہل علم نے فن رجال و تمییز المشترکات میں جو کتب لکھی ہیں، ان کتب کے اولین مصادر میں متعدد نقائص ہیں، کیونکہ ان میں اسانید میں موجود بہت سے رواۃ کا ذکر متروک ہے، اور ان تراجم میں راوی کے طبقہ اور اس کے شیوخ و تلامذہ کا ذکر نہیں ہے، حالانکہ ان امور کا فن رجال کے اغراض میں اساسی دخل ہے ۔(یعنی فن رجال کے اہم ترین اغراض میں سے راوی کے طبقہ و شیوخ و تلامذہ کی تعیین ہے )

تین معتمد شیعہ محققین کے اعتراف کے بعد اگرچہ شیعہ کتب رجال سے حوالے پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، لیکن تحقیق کا تقاضا پورا کرنے کی خاطر سنی طرز پر شیعہ کی ایک اولین اور ایک متاخر مصدر رجال سے کچھ عبارات پیش کی جاتی ہیں تاکہ اس بات کی مزید وضاحت ہوجائے کہ شیعہ کتب رجال میں راوی کے اساتذہ و تلامذہ کی تعیین کے حوالے سے کس قدر مواد موجود ہے ۔

الحسین بن اشکیب شیخ لنا خراسانی ثقة مقدم ذكره أبو عمرو في كتاب الرجال في أصحاب أبي الحسن صاحب العسكر ع روى عنهالعياشي فأكثر واعتمد حديثه ثقة ثقة ثبت قال الكشي هو القمي خادم القبر قال شيخنا قال لنا أبو القاسم جعفر بن محمد: كتاب الرد على من زعم أن النبي ص كان على دين قومه والرد على الزيدية للحسين بن إشكيب حدثني بهما محمد بن الوارث عنه وبهذا الاسناد كتابه النوادر5

اس ترجمہ میں شیخ نجاشی نے ایک ایسے راوی کا ذکر کیا ہے، جو ان کے نزدیک بھی ثقہ و معروف شیخ ہیں اور امام عمرو کشی نے بھی ان کو قابل اعتماد قرار دیا ہے، نیز شیخ عیاشی نے ان سے کثرت سے روایات لی ہیں، لیکن اس جیسے معروف شیخ و ثقہ راوی کے تلامذہ و اساتذہ کی کوئی فہرست پیش نہیں کی ہے، ہم نے قصدا ایسا ترجمہ تلاش کیا، جو ایک معروف شیخ، ثقہ راوی کا ہو، تاکہ کوئی ناقد یہ نہ کہہ دے کہ غیر معروف راوی کے اساتذہ و تلامذہ عموما ذکر نہیں کئے جاتے یا قلت حدیث کی وجہ سے اس کے قابل ذکر تلامذہ و شیوخ نہیں ہوتے، لھذا جب ایک معروف ثقاہت کے حامل شیخ کے اساتذہ و شیوخ کی فہرست نہیں دی گئی ہے، تو ان سے فروتر رواۃ کے تلامذہ و شیوخ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمارا دعوی یہ ہر گز نہیں ہے کہ شیخ نجاشی نے کسی بھی راوی کے تلامذہ یا اساتذہ بالکل ذکر نہیں کئے، دو چند تلامذہ و شیوخ کا ذکر بعض رواۃ کے ترجمے میں کرتے ہیں، لیکن ایک تو ہر راوی کے ترجمے میں ایسا نہیں کرتے، بلکہ خال خال کسی راوی کے شیوخ و تلامذہ ذکر کرتے ہیں، جبکہ اہل سنت مصادر، تہذیب الکمال و الجرح والتعدیل میں تقریبا (تقریبا کا لفظ اس لئے کہا کہ عین ممکن ہے، ان دو کتب میں ایسے ایک آدھ رواۃ مل جائیں، جن کے شیوخ و تلامذہ کی فہرست نہ ہو، لیکن ظاہر ہے اعتبار اکثریت کا ہوتا ہے )ہر راوی کے تذکرے میں ایسا کرتے ہیں، دوسرا جب کسی راوی کے شیوخ و تلامذہ ذکر کرتے ہیں، تو اس قدر استیعاب و تفصیل سے ذکر نہیں کرتے جیسا کہ اہل سنت کےمذکورہ دو محدثین تفصیل سے کام لیتے ہیں ۔

• أحمد بن إسحاق بن سعد.
روى عن بكر بن محمد الأزدي، وروى عنه الحسين بن محمد. الكافي: الجزء، ٥، كتاب النكاح ٣. باب أنهن بمنزلة الإماء ٩٥، الحديث ٢، والتهذيب: الجزء ٧باب تفصيل أحكام النكاح، الحديث ١١١٦، والاستبصار: الجزء ٣، باب أنه يجوز الجمع بين أكثر من أربع في المتعة، الحديث ٥٣٥أقول: هو متحد مع ما بعده6.
• إبراهيم الحذاء:
روى عن أحمد بن عبد الله الأسدي، وروى عنه أحمد بن محمد.الكافي: الجزء ٦، الكتاب ٦، باب الخلال ١٣٢، الحديث ٤، وروى عن محمد بن صغير، وروى عنه محمد بن علي. الكافي: الجزء ٢
الكتاب ١، باب ما أخذه الله على المؤمن من الصبر ١٠٥، الحديث ٧. وروى، عنه أحمد بن محمد بن عيسى، باب فضل فقراء المسلمين ١٠٧، الحديث ١٦وروى عن فضيل، عن عثمان، وروى عنه أحمد بن محمد بن عيسى.
، التهذيب: الجزء ٥، باب الذبح، الحديث ٧٦٢ . ورواها في الاستبصار: الجزء ٢باب جواز أكل لحوم الأضاحي بعد ثلاثة أيام، الحديث ٩٧١، وفيه أحمد بن محمدابن عيسى، عن إبراهيم الحذاء، عن فضيل بن عثمان. وهو الموافق للوافي، وفي الوسائل: الفضل بن عثمان.7
• جعفر بن بكر:
روى عن عبد الله بن أبي سهل، وروى عنه علي بن الحسين التيمي.الكافي: الجزء ٥، كتاب المعيشة ٢، باب أن من السعادة أن يكون معيشة الرجلفي بلده ١٢٢، الحديث ٢، والتهذيب: الجزء ٧، باب الزيادات من كتاب التجارات، الحديث ١٠٣٢، إلا أن فيه علي بن الحسين فقط.8

ہم نے بالقصد معجم رجال الحدیث کی مختلف جلدوں سے تین الگ الگ تراجم نقل کئے، تاکہ امام خوئی کا راوی و مروی عنہ کے ذکر کرنے کا منہج ذرا وضاحت کے ساتھ سامنے آئے، امام خوئی نے اپنی کتاب میں راوی کے اساتذہ و شیوخ کا ذکر کرنے کا بڑا اہتمام کیا ہے، لیکن امام خوئی نے اساتذہ و تلامذہ کی یہ فہرست خود کتبِ حدیث سے نقل کی ہے، چنانچہ اسی وجہ سے جب وہ راوی کے کسی شیخ یا شاگرد کاذکر کرتے ہیں، تو اس کے ساتھ کتب اربعہ یا دیگر مصادرِ حدیث سے اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں، امام خوئی کے اس عمل کو منطقی اصطلاح میں "مصادرۃ علی المطلوب " کہا جاتا ہے، مصادرۃ علی المطلوب منطقی مغالطوں میں سے ایک مغالطہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مدعی اپنے دعوی کو ہی دلیل بنا کر پیش کردے، وہ یوں کہ کتبِ حدیث میں جب کوئی محدث سلسلہ سند ذکر کرتا ہے اور اپنی اسناد سے روایات لاتا ہے، تو اس سلسلہ سند میں مذکور رواۃ کے شیوخ و تلامذہ یا دوسرے لفظوں میں راوی و مروی عنہ کو پرکھنے اور جانچنے کے لئے کتبِ رجال کو دیکھا جاتا ہے کہ اس محدث کے ذکر کردہ سلسلہ سند کی جو لڑی بنتی ہے، کیا نفس الامر میں بھی یہی لڑی ہے یا نہیں ؟یوں کتب ِ رجال سے اس راوی کے شیوخ و تلامذہ کی فہرست نکال کے اس محدث کے سلسلہ سند کی تصحیح یا اس کا تخطئہ کیا جاتا ہے، لھذا محدث کا ذکر کردہ سلسلہ سند ایک قسم کا "دعوی " ہوتا ہے اور اس دعوے کی تصدیق یا تکذیب کتبِ رجال سے کی جاتی ہے، جبکہ امام خوئی نے رواۃ کے جو شیوخ و تلامذہ کی فہرستیں دی ہیں، وہ خود کتبِ حدیث سے نقل کی ہیں، یوں مصادرۃ علی المطلوب کرتے ہوئے دعوی یعنی کتبِ حدیث میں مذکورہ سلسلہ اسناد کی مدد سے دلیل یعنی راوی کے شیوخ و اساتذہ کو متعین کیا ہے، اب ترتیب یوں بنی کہ اگر کوئی آدمی کافی کے کسی سلسلہ سند پر سوال کرے کہ اس راوی کا یہ شیخ نفس الامر میں بھی اس کا شیخ ہے یا نہیں ؟اس کی دلیل دو، تو شیعہ حضرات معجم رجال الحدیث کی عبارت پیش کریں گے کہ معجم رجال الحدیث میں امام خوئی نے اس راوی کا یہ شیخ لکھا ہے ، تو سائل جب سوال کرے گا کہ امام خوئی نے اس راوی کا یہ شیخ کیسے معلوم کیا ؟تو شیعہ مجیب جواب دے گا کہ امام خوئی نے الکافی کے اسی سلسلہ سند سے نکالا ہے، یوں بات دعوے سے شروع ہو کر پھر دعوے پر آجائے گی ۔ اس کے برخلاف اہل سنت علمائے رجال نے راوی کے اساتذہ و شیوخ کی فہرستیں کتب ِ حدیث سے مرتب نہیں کیں، بلکہ کتب ِ حدیث کی تصنیف سے قطع نظر اپنے ذرائع و وسائل سے مرتب کی ہیں، جس کے لئے علمائے رجال عموما راوی کے اسفار، معروف شیوخ کے مجالس ِ حدیث میں آنے والے طلبائے حدیث، کسی راوی کے ہم سبق رواۃ وغیرہ کی تحقیق کر کے شیوخ و تلامذہ متعین کرتے تھے، ذیل میں امام ابن ابی حاتم رازی کی الجرح و التعدیل سے نقل کردہ ترجمہ دوبارہ نقل کیا جاتا ہے، جو ہم پچھلے صفحات میں نقل کر آئے ہیں، تاکہ امام خوئی کے منہج سے فرق واضح ہو کر آئے :

شداد بن سعيد أبو طلحة الراسبي روى عن أبي الوازع جابر بن عمرو وغيلان بن جرير وسعيد الجريري روى عنه أبو معشر البراء وحماد بن زيد وابن المبارك وحرمي بن عمارة ومسلم بن إبراهيم وأبو الوليد وسعيد بن سليمان البصري سمعت أبي يقول ذلك.
قال أبو محمد وروى عن قتادة ومعاوية بن قرة ۔ ويزيد بن عبد الله بن الشخير روى عنه إسماعيل ابن علية ووكيع وأبو سعيد مولى بني هاشم وحجاج بن نصير والنضر بن شميل
حدثنا عبد الرحمن أنا عبد الله ابن أحمد [بن حنبل ۔ فيما كتب إلى قال قال أبي: أبو طلحة شداد شيخ ثقة روى عنه ابن علية ووكيع.
حدثنا عبد الرحمن قال ذكره أبي عن إسحاق بن منصور عن يحيى بن معين أنه قال: شداد بن سعيدالراسبى ثقة9

اس ترجمہ میں امام ابن ابی حاتم رازی نے شداد بن سعید کے جتنے شیوخ و تلامذہ ذکر کئے، اس کی دلیل میں علمائے رجال جیسے اپنے والد اور معروف محدث ابو حاتم رازی اور امام بخاری کی تحقیق اور حوالہ ذکر کیا ہے اور کسی کتاب کا سلسلہ سند دلیل بنانے کی بجائے علم رجال کے ماہر ین کی مدد سے راوی کے شیوخ و تلامذہ کی فہرست کو متعین کیا ہے ۔

اہل سنت کے اس منہج کو مزید واضح کرنے کے لئے امام ذہبی کی سیر اعلام النبلاء سے ایک ترجمہ نقل کیا جاتا ہے :

" سفيان بن حسين بن الحسن الواسطي الحافظ، الصدوق، أبو محمد الواسطي.
حدث عن: الحسن، ومحمد بن سيرين، والحكم بن عتيبة، والزهري، وإياس بن معاوية.روى عنه: شعبة، وهشيم، وعباد بن العوام، ويزيد بن هارون، وعمر بن عبد الله بن رزين، وجماعة.
وقد وثقه: جماعة، في سوى ما يرويه عن الزهري، فإنه يضطرب فيه، ويأتي بما ينكر.
روى: عباس، عن ابن معين، قال:ليس به بأس، وليس من أكابر أصحاب الزهري.
وروى: أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين: ثقة، كان يؤدب المهدي، وحديثه عن الزهري فقط ليس بذاك، إنما سمع منه بالموسم.
وقال أبو حاتم: صالح الحديث، ولا يحتج به، هو نحو محمد بن إسحاق.
وقال ابن حبان: الإنصاف في أمره تنكب ما روى عن الزهري، والاحتجاج بما روى عن غيره، وذاك أن صحيفة الزهري اختلطت عليه، فكان يأتي بها على التوهم.قلت: توفي في خلافة أبي جعفر، سنة نيف وخمسين ومائة، ووقع له نحو ثلاث مائة حديث.10

اس ترجمہ میں امام ذہبی نے سفیان بن حسین واسطی کے شیوخ و تلامذہ بیان کئے، ان کے شیوخ میں امام زہری کا ذکر بھی کیا، اس کے بعد امام ابن ابی حاتم و ابن حبان جیسے علمائے رجال سے یہ بات نقل کی کہ امام زہری سفیان واسطی کے باقاعدہ شیخ نہیں رہے ہیں، نہ ہی سفیان واسطی امام زہری کے اکابر تلامذہ میں آتے ہیں، بلکہ سفیان واسطی نے امام زہری سے صرف ایامِ حج میں کچھ سنا ہے (اور ظاہر ہے کہ ایام حج میں علی سبیل الاتفاق ہوتا ہے ) اس لئے زہری سے سفیان واسطی جو روایات نقل کرتے ہیں وہ قابل ِ اعتماد نہیں ہیں، امام ذہبی کی اس عبارت سے اہل سنت علمائے رجال کے منہج کی کافی وضاحت ہوتی ہے کہ اہل سنت اہل علم کتبِ حدیث سے شیوخ و تلامذہ کی تعیین نہیں کرتے تھے، بلکہ اپنے آزاد ذرائع سے راوی کے شیوخ و تلامذہ کی تحقیق کرتے تھے، حالانکہ ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ میں سفیان واسطی امام زہری کے واسطے سے تین روایات آئی ہیں، 11 اس کے باوجود امام ذہبی نے سفیان واسطی کے اساتذہ میں امام زہری پر اعتراض کیا کہ سفیان واسطی نے امام زہری سے جو نقل کیا ہے، وہ روایات قابلِ اعتماد نہیں ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ علمائے رجال شیوخ و تلامذہ کی تحقیق میں کتب ِ حدیث میں مذکور سلسلہ اسناد کو مدار نہیں بناتے تھے، بلکہ اپنے ذرائع سے راوی کے شیوخ و تلامذہ کی تحقیق کر کے کتبِ حدیث میں مذکور سلسلہ اسناد کو اس پر چانچتے اور پرکھتے تھے، شیوخ و تلامذہ کی تعیین میں اس طرح کی گہرائی و گیرائی اہل تشیع کے رجالی تراث میں نظر نہیں آتی، بلکہ اہل تشیع کے رجالی تراث میں اول تو اس چیز کا بیان ہی نہیں ہوا، جیسا کہ ما قبل میں شیعہ محققین کی تصریحات اور شیعہ رجالی کتب سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے، جبکہ امام خوئی و بعض شیعہ علمائے رجال نے شیوخ و تلامذہ کو اگر بیان بھی کیا ہے، تو مصادرۃ علی المطلوب کے مرتکب ہوتے ہوئے خود کتبِ حدیث سے یہ فہرست مرتب کی، جس کا سند کی تحقیق میں کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ دعوی کو دلیل بنا لینے سے مدعا ثابت نہیں ہوتا ۔

حواشی

  1.  الجرح و التعدیل، ابن حاتم رازی، رقم الترجمہ :1446
  2.  کلیات فی علم الرجال، جعفر سبحانی، ص141
  3.  المدخل الی موسوعۃ الحدیث عند الامامیہ، حیدر حب اللہ، ص515
  4.  ترتیب اسانید الکافی، بروجردی ص108 بحوالہ المنہج الرجالی، سید محمد رضا حسینی، ص 134
  5.  رجال النجاشی، احمد بن علی النجاشی، ص47
  6.  معجم رجال الحدیث، ابو القاسم خوئی، ج2، ص49
  7.  معجم رجال الحدیث، ج1، ص326
  8. معجم رجال الحدیث، ج5، ص 27
  9. الجرح و التعدیل، ان ابی حاتم رازی، رقم الترجمہ :1446
  10. سیر اعلام النبلاء، شمس الدین ذہبی، ج7، ص302-3030
  11. تحفۃ الاشراف بمعرفۃ الاطراف، جمال الدین مزی، ج9، ص 330

(جاری)

امام شافعی: مستشرقین و ناقدین مستشرقین کی نظر میں

ڈاکٹر محمد زاہد صدیق مغل

میسر ذرائع کے مطابق امام ابو عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ (م 204ھ / 820ء) کی کتاب "الرسالۃ" علم اصول فقہ کی پہلی کتاب مانی جاتی ہے۔ آپ نے "احکام شریعہ اخذ کرنے کے طریقے" کو الگ سے موضوع بنا کر اسے مدون کرنے کا اہتمام فرمایا جبکہ آپ سے قبل اس موضوع پر باضابطہ تحریر میسر نہیں، اگرچہ متعدد ائمہ مجتہدین فقہی احکام پر اپنا تفصیلی کام پیش کرچکے تھے۔ اسی لئے امام رازی (م 606ھ / 1210ء) کتاب "مناقب الامام الشافعی" میں امام شافعی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اصول فقہ میں آپ کو وہی مقام حاصل ہے جو ارسطو کا علم منطق اور علامہ خلیل کا علم عروض و شعر گوئی میں ہے کہ موخر الذکر سے پہلے لوگ بلاشبہ منطق کے قوانین برتتے تھے اور اشعار بھی کہتے تھے لیکن یہ ایک ذوقی نوعیت کی چیز تھی اور کوئی ایسا پیمانہ مقرر نہ تھا جس پر پرکھ کر منطقی استدلال و شعر کی موزونیت کو جانچا جاسکے اور دوسرے پر حجت قائم کی جاسکے۔ اسی طرح امام شافعی سے قبل لوگوں کے پاس کوئی ایسا منضبط قانون کلی نہ تھا جس کے ذریعے ایک دوسرے کے استدلال کو جانچا جاسکے کہ جس نے جو کہا وہ کیوں کر اور کیسے درست ہے۔

امام شافعی کے حوالے سے ایسی آراء اسلامی تاریخ میں موجود رہی ہیں، تاہم مستشرقین (orientalists) نے اپنے روایتی منہج بحث کو اختیار کرتے ہوئے جہاں یہ تاثر دینے کی کوشش کی سنت و حدیث کا زخیرہ اسلامی قانون کی ابتدائی تشکیل کے بعد (بالخصوص تیسری صدی ہجری) کی پیداوار ہے، ساتھ ہی بعض نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی امام شافعی سے قبل گویا ماخذات شرع کا کوئی واضح تصور مسلمانوں کے ہاں موجود نہ تھا اور مسلمان بے ڈھب طرز پر قانون تشکیل دیتے رہے، یہاں تک کہ امام شافعی نے تقریبا دو صدیوں بعد اخذ قانون کا قاعدہ مقرر کیا۔ ان آراء کے اظہار کا سلسلہ مشہور مستشرق گولڈزیہر سے ہوتی ہوئی جوزف شاخت اور مابعد تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی تناظر میں مشہور مستشرق جوزش شاخت (Schacht,)نے کتاب The Origins of Muhammadan Jurisprudence میں امام شافعی کو اصول فقہ کا "ماسٹر آرکیٹیکٹ" قرار دیا۔ ان کی یہ بات "کلمۃ حق ارید بھا الباطل" کا مصداق تھی کیونکہ ان حضرات کی فکر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں فقہ کی ڈویلپمنٹ کا اصول فقہ سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ نظری علم مسلمانوں نے بعد میں وضع کیا۔ گویا آپ سے قبل امام ابوحنیفہ (م 150 ھ / 767 ء ) و مالک (م 179 ھ/795ء) و دیگر مجتہدین نے فقہ کا جو ذخیرہ چھوڑا، وہ الل ٹپ اور مقامی روایات وغیرہ کے تناظر میں متشکل ہوتا رہا۔

اسلامی قانون کی تشکیل کے بارے میں مستشرقین کے یہ دعوے گمراہ کن تھے اور اسی لئے عالم اسلام کے اہل علم نے ان کا بھرپور تعاقب کیا۔ اس کاوش کے نتیجے میں ابتدائی صدیوں میں سنت و حدیث کی تدوین اور تشریعی حیثیت پر وقیع کام سامنے آیا جس کی ایک طویل لسٹ تیار کی جاسکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اہل علم نے یہ دکھانے کی کوشش بھی کی کہ امام شافعی سے قبل اصول فقہ کے مباحث کا واضح ادراک موجود تھا۔ اسلامی یونیورسٹی کے ایک اہل علم جناب ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری صاحب (م 2016 ء ) نے ابتدائی دو صدیوں کے دوران کوفہ کے علاقے میں اسلامی قانون کی تشکیل پر پی ایچ ڈی کے وقیع مقالے ( Early development of Islamic Fiqh in Kufa with Special Reference to the Works of Abu Yousuf and Shaybani) میں ائمہ احناف کی کتب سے مستشرقین کے اس دعوے کی تردید کی ہے کہ ابتدائی صدیوں میں سنت و حدیث کو ماخذ قانون کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ آپ نے ان کتب کے تفصیلی حوالہ جات کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ ائمہ احناف کے نزدیک حدیث و سنت "خبر لازم" کی حیثیت رکھتی تھی اور اہل کوفہ کے بارے میں "اہل الرائے" کے عمومی پراپیگنڈے کے برعکس حنفی ائمہ کثرت کے ساتھ سنت و حدیث سے استدلال کیا کرتے تھے۔ اسی طرح آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ مصر، شام، مدینہ و کوفہ کی فقہی روایات میں سے بالخصوص کوفہ کی فقہی روایت زیادہ مربوط و منظم تھی اور مختلف فقہی روایات کا یہی کام امام شافعی کی "الرسالۃ" کے لئے پیش خیمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

محترم انصاری صاحب کا یہ مقالہ بہت حد تک متوازن محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ نہیں مانا جاسکتا کہ ایک شخص یوں اچانک اٹھ کر یکدم "الرسالۃ" جیسی اتنی منظم کتاب لکھ دے، یقینا اس کی پشت پر ایک طویل علمی روایت موجود ہوتی ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے ہی چند مخصوص سوالات کو مقرر کرکے ان کا جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مستشرقین کو جواب دیتے ہوئے تاریخی تناظر میں اس نوعیت کا کچھ کام جناب ڈاکٹر فضل الرحمان انصاری صاحب (م 1988ء) نے اپنی کتاب Islamic Methodology in History میں بھی پیش کیا، تاہم حدیث و سنت کے بارے میں ان کی آراء مسلمان اہل علم کی عمومی آراء کی نمائندگی نہیں کرتیں۔

مستشرقین کے کام پر یہ ایک قسم کا رسپانس تھا، اس ضمن میں مستشرقین کے جواب میں ایک اور رسپانس دنیا کے مختلف علاقوں کے اندر اہل علم کے ہاں "اینٹی استشراق" تحریک کی صورت سامنے آیا ، یہ اہل علم مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں۔ ان مصنفین کو مستشرقین سے یہ شکایت ہے کہ یہ لوگ مختلف اہل مذاھب کی ایسی تاریخ لکھتے ہیں جو انہیں احساس کمتری کا شکار کرتی ہے، لہذا ان مستشرقین کو رد کرنا ضروری ہے۔ امام شافعی کے تناظر میں ایسی تحریر لکھنے والے اہل علم میں ایک اہم نام جناب وائل حلاق صاحب کا ہے۔ آپ نے 1993 کے اپنے ایک مقالے (Was al-Shafii the Master Architect of Islamic Jurisprudence?) میں تاریخی تجزیات کی بنیاد پر اس رائے کا اظہار کیا کہ امام شافعی کو اصول فقہ کا ماسٹر آرکیٹکٹ کہنا غلط ہے، آپ کی کتاب "الرسالۃ" کا اصول فقہ کی تشکیل میں نہ خاص کردار ہے اور نہ ہی آپ کے خیالات کو کم از کم 100 سال تک کوئی اہمیت دی گئی۔ آپ کی کتاب الرسالۃ ایک ابتدائی نوعیت کی چیز تھی نہ کہ حرف آخر (یہ دعوی مسلمانوں میں سے کسی نے کیا بھی نہیں کہ آپ کا کام حرف آخر تھا) بلکہ یہ کتاب اصول فقہ کے بجائے اصول حدیث سے متعلق ہے۔ مسلمانوں نے آپ کے بعد اس علم کو مزید ترقی دی اور جسے آج اصول فقہ کہتے ہیں، وہ تیسری و چوتھی صدی ہجری میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی باہمی بحث و تمحیص کے بعد پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں سامنے آیا اور اس ضمن میں وہ قاضی باقلانی (م 403 ھ) کو بنیادی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں۔ تاہم یہ بات سمجھ نہیں آسکی کہ آخر علامہ جصاص (م 370 ھ) کو وہ اس ضمن میں کیونکر اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں جنہوں نے "الفصول فی الاصول" کے نام سے اس فن پر ایک ضخیم کتاب لکھی۔

حلاق صاحب کے اس تجزیے پر مختلف اہل علم، بشمول مستشرقین اور اہل اسلام، کا رد عمل سامنے آیا۔ اس رد عمل کو دو بنیادی نکات میں سمویا جاسکتا ہے:

1) یہ دیکھنا کہ تیسری و چوتھی صدی ہجری کے دوران امام شافعی کو کس قسم کا رسپانس ملا

2) یہ دیکھنا کہ امام شافعی کی "الرسالۃ" اور امام جصاص کی "الفصول" کے درمیانی تقریبا ڑیڑھ سو سالہ دور میں اصول فقہ پر کس نوعیت کا کام ہوا تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ الرسالہ کا ان کے ساتھ کیسا تعلق ہے۔

اس ضمن میں متعدد اہل علم نے اپنی تحقیقات پیش کیں جو حلاق صاحب کے درج بالا مقدمات کی تردید کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان تمام تحریرات کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں، تاہم بحث و جواب کی نوعیت سمجھنے میں احمد الشمسی کی The Canonization of Islamic Law: A Social and Intellectual History نیز احمد تامل صاحب کے پی ایچ ڈی مقالے The Missing Link in the History of Islamic Legal Theory: The Development of Usool al-Fiqh between al-Shāfi and al-Jaṣṣāṣ during the 3rd/9th and Early 4th/10th Centuriesکا مطالعہ سود مندہوگا۔ بدقسمتی سے تیسری و چوتھی صدی ہجری کے دوران اصول فقہ پر لکھی جانے والی اکثر کتب ہمیں میسر نہیں، تاہم پچھلے کچھ عرصے میں محققین مختلف لائبریریز میں محفوظ بعض مخطوطات کو ایڈٹ کرکے سامنے لائے ہیں جیسے شافعی عالم سریج (م 306 ھ / 918 ء )کی فقہ کی کتاب کا وہ حصہ جو اصول فقہ پر مبنی ہےاور اسی طرح چوتھی صدی ھجری کے نصف میں انتقال کرنے والے شافعی عالم الخفاف کی کتاب کا اصولی مقدمہ۔ یہ دونوں مخطوطات احمد الشمسی صاحب نے اپنے مقالے Bridging the Gap: Two Early Texts of Islamic Legal Theory میں جمع کردئیے ہیں۔

امام شافعی کی کتاب "الرسالۃ " کے بارے میں مستشرق نارمین کالڈر (Norman Calder) نے اس رائے کا اظہار بھی کیا کہ یہ کتاب آپ نے نہیں بلکہ بعد کے دور کے کسی شافعی عالم نے تحریر کی ہے، اس کی وجہ محقق کے خیال میں یہ ہے کہ کتاب کے مباحث خاصے ایڈوانس نوعیت کے ہیں جنہیں دوسری صدی ہجری میں پیش کیا جاسکنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اہل علم نے اسلامی علوم کے متعدد داخلی شواھد سے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ رائے غلط ہے۔ مثلا ابو یعقوب بویطی (پیدائش اندازا 170 ھ - متوفی 231 ھ) امام شافعی کے ایک شاگرد تھے۔ آپ نے "مختصر" کے نام سے امام شافعی کے "الرسالۃ" کا خلاصہ لکھا جسے محققین نے کچھ سال قبل مخطوطات سے تصنیف میں ڈھال دیا ہے اور احمد الشمسی نے انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ای طرح مشہور معتزلی عالم جاحظ (م 255ھ) کے رسالے "رد ھاشم علی ادعاء أميۃ البسالۃ" میں اس کتاب کا ذکر موجود ہے۔ الغرض اس نوع کے متعدد نظائر یہ ثابت کرتے ہیں کہ الرسالۃ امام صاحب ہی کی تصنیف تھی۔

ان محققین کو جواب دینے کے لئے حلاق صاحب نے 2019 میں Uṣūl al-Fiqh and Shāfiʿī’s Risāla Revisited کے نام سے ایک تفصیلی مقالہ لکھا۔ اس تحریر میں حلاق صاحب کے استدلال کا حاصل یہ ہے کہ کسی علم کے اصول فقہ کہلائے جانے کے لئے جن پانچ شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے، ان شرائط پر امام شافعی کی الرسالۃ تو کجا پانچویں صدی ہجری کی اکثر کتب بھی ان پر بمشکل پورا اترتی ہیں۔ یہ پانچ شرائچ درج ذیل ہیں:

الف) چار ماخذات دین یعنی قرآن، سنت ، اجماع و قیاس کا واضح تصور ہونا۔ حلاق صاحب نے ایک مستشرق جوزف لوری کی تحقیق (Does Shafi have a Theory of Four Sources of Law?) پر اعتماد کرتے ہوئے اس رائے کو اختیار کیا کہ امام صاحب کے ہاں اس کا تصور موجود نہیں (یہ صراحتا ایک غلط رائے ہے کیونکہ آپ کی کتب "الرسالۃ " و "الام" میں صریح عبارات میں ان چار کا بالترتیب ذکر موجود ہے)

ب) ان چار ماخذات کا ترتیب وار لحاظ کئے جانے کا ادراک ہونا کیونکہ ترتیب بدلنے سے بہت فرق پڑتا ہے۔ حلاق صاحب کی رائے میں اس ترتیب کے وجوب کا واضح ادراک قاضی باقلانی کے ہاں ملتا ہے

ج) ایسے علم کے وجود کا ادراک ہونا جو فقہ سے الگ و بلند تر اصول و قواعد سے بحث کرتا ہو اور اس کے ماہرین کے ہاں "ادلۃ اجمالیۃ" کا واضح تصور پایا جائے

د) اپنی الگ شناخت کا شعور رکھنے والے (یعنی self-conscious)) علم کا وجود ہونا، یعنی ایک ایسا علم جو خود اپنے اصول و قواعد کا جواز و شعور رکھتا ہو کہ اس علم کا مقصد و سکوپ کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ حلاق صاحب کے خیال میں اصول فقہ پر یہ دور جوینی (م 478 ھ) و غزالی (م 505 ھ) و سرخسی (م 483 ھ) تک پہنچ کر آتا ہے۔

ھ) اصول فقہ الگ سے ایک نوع ہو جسے ضبط تحریر میں لانے کا ایک منفرد انداز ہو اور اس کے ماہرین کی منفرد کمیونٹی الگ سے پہچانی جاتی ہو۔ ان کے خیال میں علامہ باقلانی کے دور کے بعد اس نوع کے وجود کی ابتدا ہوئی۔

چنانچہ ان شرائط کو بنیاد بنا کر وہ الرسالۃ کو اصول فقہ کے لئے ایک غیر ضروری نہ سہی تو کم از کم بالکل ابتدائی نوعیت کی ایک چیز دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاہم حلاق صاحب کے اس تجزئیے پر ذہن میں درج ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں:

1) کیا کسی نے امام شافعی کو انہی پانچ شرائط کے معنی میں اصول فقہ کا ماسٹر آرکیٹیکٹ کہا تھا کہ حلاق صاحب نے اسے بنیاد بنا کر یہ مقدمہ رد کیا؟ اگر ایسا کسی نے نہیں کہا تو یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ آخر حلاق صاحب نے رد کس کا لکھا؟ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 1993 کے مقدمے کے دفاع کے لئے انہوں نے ایسی سخت شرائط مقرر کیں۔

2) حلاق صاحب کا 1993 کا مقدمہ زیادہ تر تاریخی نوعیت کا تھا جس پر ناقدین نے تاریخی شواھد کے ذریعے ان کے مقدمے کی غلطی کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ لیکن 2019 میں حلاق صاحب نے تاریخی کے بجائے تجزیاتی گراؤنڈ پر اپنا دفاع کیا کہ جن شواہد کو ناقدین نے پیش کیا وہ کیونکر اصول فقہ کہلانے کے مستحق نہیں۔ اس اعتبار سے حلاق صاحب کے دو مقالہ جات کی بحث میں بظاہر ربط محسوس نہیں ہوتا۔

3) کسی علم کے اصول فقہ کہلائے جانے کے لئے خود ان پانچ شرائط کی علمی حیثیت کیا ہے؟ کیا ماضی کے مسلمان اہل علم میں سے کسی نے ایسی شرائط پیش کیں؟ ممکن ہے حلاق صاحب اس سوال کو غیر ضروروی قرار دیں لیکن اہل اسلام کے روایتی طبقے کے لئے یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس طرح پھر کوئی بھی ماہر اپنی طرف سے ایسی مزید سخت شرائط عائد کرکے اصول فقہ کی ڈویلپمنٹ کو مزید دو تین صدیاں آگے دھکیل سکتا ہے۔

4) حلاق صاحب کا یہ تجزیہ مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب کیسے دیتا ہے کہ "اصول فقہ و فقہ دو الگ قسم کے علوم تھے اور اصول فقہ بہت بعد کی پیداوار ہے"، یہ واضح نہیں ہو پاتا۔ بلکہ ان کی تحقیق سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے چار سو سال تک بغیر کسی واضح تصور اصول کے فقہ کی تشکیل جاری رکھی۔

5) حلاق صاحب کی شرائط کا حاصل یہ ہے: (الف) سڑک کا مطلب 240 فٹ چوڑی سڑک ہے جس کے ہر طرف 3 بسیں بیک وقت کراس کر سکیں، (ب) ایسی سڑک کی تعریف پر پاکستان میں موٹروے پورا اترتی ہے، (ج) پاکستان میں موٹروے 1997 میں بنی، (د) لہذا پاکستان میں سڑک 1997 میں بنی، اس سے پہلے پاکستان میں سڑک نہیں تھی۔

مستشرقین کے جواب میں امام شافعی کے کام کے تناظر میں ایک اہم رائے محترم عمران احسن نیازی صاحب کی بھی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کی گئی کہ جناب ظفر اسحاق انصاری صاحب نے مستشرقین کو جواب دیتے ہوئے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ائمہ احناف کے ہاں ماخذ شرع اور اصول و قواعد کا واضح ادراک پایا جاتا تھا، اگرچہ انہوں نے اس موضوع پر کوئی باضابطہ تحریر نہ لکھی ہو۔ آپ کے شاگرد محترم عمران احسن نیازی صاحب اپنی کتاب Theories of Islamic Law میں آپ کے اس تجزئیے پر یہ اضافہ فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ائمہ احناف و مالکیہ امام شافعی سے قبل اصول وضع فرمارہے تھے بلکہ ان کے کام کی نوعیت امام شافعی کے کام اور ان کے نظریہ اصول سے مختلف نوعیت کی تھی۔ آپ کے نزدیک مستشرقین کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ان دو مناہج اصول کو ایک فرض کرتے ہوئے یہ سمجھا کہ امام شافعی اصول فقہ کے بانی تھے جبکہ امام شافعی صرف اس کے ایک خاص منہج یا نظریے کے بانی تھے جسے وہ "حرفیت پسندی" (لٹرل ازم) کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ان سے قبل فقہائے احناف نے جس نظرئیے کی بنیاد ڈالی اسے وہ نظریہ اصولیت پسندی (theory of general principles) کہتے ہیں اور مشائخ احناف نے بعد میں اپنے ائمہ سے منقول جزئیات سے اپنا اصولی نظام الگ سے وضع کیا۔ تاہم مستشرقین ان دو نظاموں کو الگ کرنے کے بجائے اصول فقہ کو "کلاسیکل اسلامک تھیوری" کے عنوان میں بند کرکے اس غلط فہمی کا شکار ہوئے کہ امام شافعی گویا ہر قسم کے اصول فقہ کے بانی تھے۔ نیازی صاحب کے مطابق امام شافعی کے پیش نظر دین کے اس حصے جسے وہ "فکسڈ پارٹ" کہتے ہیں، اس کے لئے ایسی میتھاڈولوجی وضع کرنا تھا جو نصوص کے ظاہری معنی کے اندر یا اس سے قریب رہتے ہوئے اخذ احکام کو ممکن بنائے جبکہ فقہائے احناف اس سے زیادہ عمومی سطح پر قواعد عامہ اخذ کرنے کا فریم ورک تیار کررہے تھے۔

اس طرز استدلال سے وہ مستشرقین کا یہ تاثر غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام شافعی سے قبل اصول فقہ کا وجود نہ تھا۔ اسلامی تاریخ میں تعبیر نصوص کے دو مناہج رہے ہیں، یہ بات ان معنی میں درست ہے کہ الفاظ و معنی کے فہم کا ایک نظریہ قائلین قیاس کا تھا جبکہ دوسرا نظریہ منکرین قیاس کا (جس کی مثالیں ابتدائی صدیوں میں النظام معتزلی، مکتب اہل تشیع اور گروہ خوارج کی صورت نظر آتی ہیں)۔ چنانچہ محترم نیازی صاحب کے استدلال کے درست ہونے کے لئے یہ لازم ہے کہ امام شافعی کو علمائے ظاہریہ جیسے منکرین قیاس کی صفوں کے قریب کیا جائے تاکہ یہ بات ثابت ہوسکے کہ امام شافعی پوری طرح سے اس اصولی منہج کی نمائندگی نہیں کرتے جس کی بنیاد ائمہ احناف وغیرہ نے ڈالی بلکہ آپ کا نظریہ اصول احناف سے مختلف نوعیت کا تھا۔ اسی لئے نیازی صاحب رماتے ہیں کہ امام شافعی کے خیالات اسی گروہ سے قربت رکھتے ہیں جس میں علامہ داؤد ظاہری آتے ہیں اور اس کی دلیل آپ کے نزدیک یہ ہے کہ امام صاحب کے قیاس کا تصور قیاس اولی اور قیاس شبہ تک محدود ہے، اول الذکر کے قیاس ہونے ہی میں اختلاف ہے کیونکہ احناف اسے دلالۃ النص کہتے ہیں جبکہ موخر الذکر ان کے نزدیک تحقیق مناط سے عبارت ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیاس کا وہ تصور جسے اہل فقہ قیاس علت کہتے ہیں، امام شافعی کے ہاں اس کا ادراک نہیں ملتا۔ آپ کے اصول فقہ میں قیاس کی بحثوں پر یہ اضافہ جات کئی صدیاں بعد امام جوینی و غزالی نے کئے اور اسی لئے آپ فرماتے ہیں کہ امام شافعی کے ہاں "تخریج مناط" کا وہ تصور نہیں پایا جاتا جس کی بات امام غزالی کرتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ آپ کے نزدیک یہ ہے کہ امام شافعی کا اصل منہج لٹرل ازم تھا اور احناف کی طرح جنرل پرنسپلز کی دریافت وغیرہ آپ کے پیش نظر نہ تھا۔ اسی وجہ سے آپ نے استحسان کے حنفی تصور کو رد کیا جو گویا اخذ قواعد کی ایک الگ میتھاڈولوجی کا مظہر تھا۔ چنانچہ یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ امام شافعی نے ایک ایسے اصول فقہ کی بنیاد رکھی جو اپنے سے پیش رو فقہا کے مقابلے میں تنگ تھی اور نیازی صاحب کے مطابق اسی لئے امام شافعی کی فقہ کو ڈویلپ ہونے میں دو صدیوں سے بھی زیادہ وقت لگا اور آپ کے نظریات فقہی مباحث پر زیادہ اثر نہ ڈال سکے، بعد کے دور میں شافعی علماء کے ہاں آپ کے نظریات کو اخذ و ترمیم کے ساتھ قبول کیا گیا۔

امام شافعی کے تصور اصول فقہ کی بحث میں محترم نیازی صاحب کا یہ مقدمہ ایک دلچسپ اضافہ ہے کہ انہوں نے اس کے ذریعے مستشرقین کے مقدمے کا جواب دینے کی کوشش کی (آپ کے مطابق اصول فقہ میں اخذ احکام کی ایک نہیں بلکہ تین تھیوریز پائی جاتی ہیں، درج بالا دو کے سوا تیسری تھیوری امام غزالی نے "مقاصد شریعت" کے تناظر میں وضع کی جسے تاحال پوری طرح برتا نہیں جاسکا)۔ امام شافعی کے بارے میں محترم نیازی صاحب کے اس مقدمے کے حوالے سے تاحال ایسی کوئی تحریر ہماری نظر سے نہیں گزری جس میں اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہو، آپ کی اس کتاب پر جناب ظفر اسحاق انصاری صاحب نے تقریظ لکھتے ہوئے ان کی تحقیق و نتائج فکر کی تحسین فرمائی ہے ۔ تاہم نیازی صاحب کی طرف سے امام شافعی کے تصور قیاس کو انڈر ڈویلپ یا محدود ثابت کرکے انہیں علامہ داؤد ظاہری جیسے حرفیت پسندوں کا پیش رو کہنا اور ان کے منہج اصول کو احناف و مالکیہ کے منہج سے الگ ثابت کرنا محل نظر مقدمات ہیں۔ ان مقدمات کا جائزہ لینے کے لئے اقسام قیاس، مسالک علت و استحسان کی بحثوں کی روشنی میں امام شافعی کی عبارات اور ان کی امثلہ پر بحث کرکے ائمہ و مشائخ احناف کی آراء کے ساتھ اس کے موازنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ساتھ ہی ساتھ یہ دیکھنے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا اسلامی تاریخ میں علمائے شوافع و احناف نے خود ایسی کسی رائے کا اظہار کیا کہ امام شافعی کا منہج علمائے ظاہریہ جیسا تھا نیز آپ کے ہاں قیاس علت جیسے تصورات نہیں پائے جاتے؟ یہ جائزہ ان شاء اللہ الگ تفصیلی تحریر میں پیش کیا جائے گا۔

دورحاضرمیں اسلامی فکر : توجہ طلب پہلو

ڈاکٹر محمد غطریف شہباز ندوی

(نوٹ: مرکز جماعت اسلامی ہند کی تصنیفی اکیڈمی نے خاکسار کو اسی موضوع پر اپنے ورکشاپ منعقدہ ۳۰ نومبر ۲۰۲۱ء میں اظہار خیال کی دعوت دی ہے اسی ورکشاپ کے لیے یہ مقالہ لکھا گیا)


موجودہ دور میں اسلامی فکرکے میدان میں بہت کام ہواہیخاص کرروایتی علوم کے احیاء کے سلسلہ میں۔اس کی پوری قدرکرتے ہوئے اب کام کے نئے میدانوں اورنئی جہات پرتوجہ مبذول کرنے کی ضرورت ہے۔

ذیل کی سطورمیں اختصارکے ساتھ اس کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے گی۔اس مجوزہ علمی کام کی دوسطحیں ہیں ایک عالمی دوسری قومی ومقامی۔لیکن اس تحریرمیں صرف عالمی مسائل سے بحث ہوگی۔البتہ آخرمیں ایک ایسے پہلوکی طرف توجہ دلانی ہے جوعالمی بھی ہے اورمقامی اہمیت بھی رکھتاہے۔اختصارکی خاطربعض نکات کی طرف صرف اشارے کیے گئے ہیں تفصیلی بحث سے گریزکیاگیاہے اوربعض میں تھوڑی تفصیل کردی گئی ہے۔مقالہ میں پیش کیے گئے نکات غوروفکرکے لیے پیش کیے جارہے ہیں،وہ مصنف کی کسی حتمی رائے کا اظہارنہیں کرتے۔

عالمی سطح پر:

سیاسیات: عصرحاضرمیں اسلامی اجتماعیات کے میدان میں سب سے نمایاں اورممتازترین نام مولاناسیدموددوی علیہ الرحمہ کاہے۔

۱۔انہوں نے سیاسیات کے میدان میں بھی ایک تھیوری دی تھی کہ اسلامی سیاست نہ خالص تھیاکریسی ہے اورنہ خالص ڈیموکریسی۔وہ ان دونوں کے بین بین کی چیز ہوگی۔(۱)مولانامعاصرسیاسیات پر گہری نظررکھتے تھے تاہم ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس اصطلاح کے بارے میں ان کا ذہن واضح نہ تھاکیونکہ ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ نام کی یااصطلاح کی کوئی اہمیت نہیں ”اس طرزکی حکومت کوموجودہ زمانہ کی اصطلاحوں میں آپ اسے سیکولرکہیے،ڈیموکریٹک یاتھیوکریٹک ہمیں کسی پراعتراض نہ ہوگا“۔(۲)ڈاکٹراسراراحمدجوعصرحاضرمیں نظام خلافت کے سب سے پرجوش داعی رہے ہیں،نے اِس پر مختصر اضافہ کیااوراس نظام کی کچھ عملی صورتیں تجویزکیں۔مگراس بنیاد پر مضبوط عمارت اٹھانے کی ضرورت ہے جس پرابھی کوئی توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔(۳)

۲۔جمہوریت میں اصل زورعام لوگوں کی شراکت اقتدارپر ہوتاہے اس موضوع پر زیادہ مسلمان اہل علم نے خواہ مخواہ ہی حاکمیت ِالٰہ کی بحث چھیڑدی ہے۔جوسراسرایک اضافی اورRelative مسئلہ ہے۔ظاہرہے کہ مسلم اکثریتی ممالک میں حاکمیتِ الٰہ کونظری طورپرتسلیم نہ کرنے کا کوئی سوال نہیں بحث عملی ہے۔البتہ غیرمسلم اکثریتی ممالک میں حاکمیت الٰہ کا مطالبہ فضول ہوگا۔پہلے توان کوایمان کی دعوت کا مخاطب بنایاجائے گا۔

۳۔ دارالاسلام اوردارالحرب کی بحثوں سے اسلامی فقہ کاذخیرہ بھراپڑاہے مگریہ اصطلاحات اپنے دورمیں Relevant تھیں آج نہیں ہیں۔اب نئی اصطلاحات بنانے کی ضرورت ہے۔مثال کے طورپر مولاناوحیدالدین خاں دارالدعوۃ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں یاعلامہ یوسف القرضاوی دارالعہدکی۔

۴۔اسلامی فقہ میں غیرمسلم شہریوں کے لیے ذمی،مستامن وغیرہ کی اصطلاحیں رائج ہیں مگریہ شہریت کے موجودہ تصورات کے مطابق نہیں ہیں۔جدیدذہن اس جبرکوتسلیم نہیں کرتاکہ شہریوں کومذہب کی بنیادپر اول درجہ اور دوسرے درجہ کے شہریوں میں تقسیم کردیاجائے۔آج کی نیشن اسٹیٹ میں تمام شہریوں کودستوری طورپر یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔(۴)ہاں یہ بات صحیح ہے کہ عملی صورت حال بہت سے ملکوں میں اس کے بالکل برعکس ہے۔

سیکولرزم ایک فکری نظریہ اورعملی رویہ ہے جومذہب کوانسانی زندگی سے خارج کرتایاکم ازکم اس کونجی زندگی تک محدودکرتاہے۔ظاہرہے کہ مسلمان اہل علم میں کوئی بھی اس نظریہ کی تائیدنہیں کرسکتا۔مگرسیکولراسٹیٹ ریاست کے ایک عملی بندوبست کاسوال بھی ہے خاص کران ممالک میں جہاں مختلف مذہبی اکائیاں رہتی ہوں۔ مسلمان اہل فکرعام طورپر دونوں میں خلط ملط کردیتے ہیں اوراس پر گومگوکا شکارہیں۔البتہ عملی صورت حال تضاد فکری کی غماض ہے وہ یوں کہ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں وہ سیکولراسٹیٹ کی بھی جوش وخروش سے مخالفت کرتے ہیں اورجہاں اقلیت میں ہیں وہاں وہ ا س کوباقی رکھناچاہتے ہیں اوراس کا دفاع وتحفظ کرتے ہیں۔ مولانا سعید احمد اکبرآبادی،پروفیسرمشیرالحق،مولاناوحیدالدین خاں اورڈاکٹرعبدالحق انصاری سیکولراسٹیٹ کی تائید کرتے ہیں اوراس کوہندوستان جیسے ملک میں نسبتاً ایک بہترنظام سیاست خیال کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب نہ ہو، وہ کسی مذہب میں مداخلت نہ کرے بلکہ سبھی مذاہب اس کی نظرمیں برابرہوں۔غامدی صاحب نیشن اسٹیٹ میں مطلقا اس کی نفی کرتے ہیں کہ ریاست کا کوئی مذہب ہو۔ (۵)

۵۔حدودکے سلسلہ میں ارتدادکی سزاکا تصورجدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے نزدیک موجودہ زمانہ کی مذہبی آزادی اور اظہاررائے کی آزادی سے متصادم ہے اورقرآن کے صریح نص کے خلاف بھی۔یقیناعلماء اسلام کی اکثریت اسی کی قائل رہی ہے مگراس بارے میں دوسری رائے بھی صدراول سے ہی موجودرہی ہے جوبوجوہ دبی رہی۔کیا آج کے دور میں اس رائے کا اظہار موزوں نہ ہوگا؟اورکیااس پر کھلے بحث ومباحثہ کی ضرورت نہیں ہے؟ (۶)

۶۔توہین رسالت کے قانون اوراس کے اطلاق کوعوامی ہاتھوں میں دینے کا تصورجدیدذہن کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔اس پر گفتگوہونی چاہیے جس کا امکان مسلم معاشروں میں کم ہے۔پاکستان میں 1990 سے اب تک تقریبا 1500لوگ اس قانون کے تحت گرفتارہوئے ہیں۔اورتقریبا700لوگوں کوماوراء عدالت عام لوگوں میں سے کسی نے اٹھ کرقتل کردیاہے۔جب کہ عدالت میں ان میں سے کسی پر بھی جرم ثابت نہ ہوسکاتھااورعدالتوں نے ان کو بری کردیاتھا۔(۷) پاکستان میں کسی پر بھی توہین مذہب کا الزام لگایا جا سکتا ہے اگروہ مذہبی لوگوں کے رویے کو چیلنج کرے۔ پاکستان کے لبرل مفکرین اور دانشور اس روایت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ خطرے کی زد میں رہتے ہیں۔ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو توہین مذہب کے قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرنے پر ایک مذہبی انتہا پسند نے قتل کر دیا تھا۔جس کوآج مذہب پسندوں کی ایک کثیرتعداداپناہیرومانتی ہے۔

توہین مذہب کو جرم قرار دینے والے 71 ممالک میں سے 32 میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ لیکن مختلف ممالک میں اس سزاکا نفاذ مختلف ہے۔بعض ممالک نے ان سزاؤں کوRepeal کردیاہے اوربعض نے ان پر عمل درامدکومنسوخ کردیاہے۔البتہ یہ عجیب وغریب بات ہے کہ ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانایابات کرنامغربی ممالک میں ممنوع اورقابل سزاہے۔ایران، پاکستان، افغانستان، برونائی، موریطانیہ اور سعودی عرب میں توہین مذہب کی سزا موت ہے۔ غیر مسلم اکثریتی ممالک میں توہین مذہب کے سب سے سخت قوانین اٹلی میں ہیں، جہاں زیادہ سے زیادہ سزا تین سال قید ہے۔

ایک طرف تویہ موضوع بہت حساس ہے۔دوسری طرف یہ پہلوبھی سامنے رہے کہ کسی شاتم ِرسول کوقتل کرڈالنے سے اہانت کے کیسوں میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اسلاموفوبیاکی مہم کواس سے اورمسالہ مل جاتاہے۔حالانکہ حنفی فقہ میں شاتم ِرسول کی سزامطلقاموت نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے۔(۸)لیکن برصغیرمیں امام ابن تیمیہ کی رائے کوعمومی طورپر قبول کرلیاگیاہے اوراس پراجماع کا دعوی بھی کیاجاتاہے۔اس سلسلہ میں جتنی بھی روایات آئی ہیں ان کے ظاہری مفہوم پر علما کی اکثریت اصرارکرتی ہے۔اورمسلم اکثریتی ممالک میں اس طرح کے کیسوں میں مسلمانوں کا عمومی ردعمل شاتم کوفوری طورپر کیفرکردارکوپہنچانے کا ہوتاہے جبکہ اقلیتی ممالک میں ان کا ردعمل زیادہ سے زیادہ احتجاجی مظاہروں تک محدودرہتاہے۔اس سے کھل کراختلاف کا اظہارمولاناوحیدالدین خاں، جاویداحمدغامدی صاحب اورعمار خاں ناصرکے علاوہ کسی نے نہیں کیا۔(۹)بہت سے دوسرے علماء بھی یہی رائے رکھتے ہیں مگرعوامی ردعمل کے خوف سے وہ اس کا اظہارنہیں کرتے۔مسلمان اس سلسلہ میں مغرب کی آزادیئ فکر (جوکہ ان کے لیے تقریباایک مذہب ہے اورخیراعلی(sumnum Bonum)سمجھی جاتی ہے)کی حساسیت کونہیں سمجھ پاتے اوراہل مغرب ناموس ِرسالت سے متعلق مسلمانوں کی حساسیت کا ادراک نہیں رکھتے۔اسی لیے ناگزیرہوگیاہے کہ مسلمان اہل علم کے درمیان اس موضوع پر کھل کرگفتگوہواوراہل مغرب سے مکالمہ کی راہ کھولی جائے۔

اسی سے متعلق ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ نظری طورپر اہانت رسول کے قانون میں اللہ تعالیٰ،قرآن پاک،رسول اکرم ﷺ اورکسی بھی نبی کی اہانت شامل ہے اورمغرب میں حضرت عیسیٰ کولے کرخوب اہانت ہوتی ہے مگرمسلمان عملاًصرف رسول اللہ ﷺکی اہانت پر متشددردعمل کا اظہارکرتے ہیں؟اصولی اوراخلاقی طورپر ان کومطلقاًہرنبی کی اہانت پر ردعمل کا اظہارکرناچاہیےے۔

۷۔جزیہ کا آج عملاکوئی بھی اسلامی ملک غیرمسلم شہریوں سے مطالبہ نہیں کرتا۔مگرعلماء کرام اورفقہااپنی تحریروں اورفتووں میں آج بھی اس پر زوردیتے ہیں اوریہی بتارہے ہوتے ہیں کہ وہ غیرمسلموں کی تذلیل کے لیے لگایاجاتاہے۔بعض لوگ دوسری توجیہات بھی کرتے ہیں۔مولاناعنایت اللہ سبحانی نے یہ توجیہ پیش کی ہے کہ جزیہ نہ عام لوگوں پر لاگوہوگااورنہ وہ غیرمسلموں کی تذلیل کا نشان ہے۔ان کا کہناہے کہ جزیہ مغلوب غیرمسلم ریاست سے غالب اسلامی ریاست لے گی (۱۰) ہمارے خیال میں اس رائے پرغورکیاجاناچاہیے۔اورکیامسلم حکومتوں کا تعامل بھی بطورنظیرکام آسکے گا؟

اصل میں جب اسلامی فقہ کی تدوین شروع ہوئی تو اس وقت عالم اسلام وقت کاسپرپاورتھا اورپوری اسلامی ریاست ایک خلیفہ کے ماتحت تھا یاکم ازکم نظری طورپر ایک خلیفہ کی اتھارٹی کو چیلنج نہ کیاجارہاتھا اورمسلم سلاطین اس کی وفاداری کا دم بھرتے تھے،ایسے ماحول میں فقہاء اسلام نے جوسیاسی اصول مدون کیے یامسلم مفکرین سیاست نے جو تحریریں چھوڑیں وہ زیادہ تر نظری باتوں پر مشتمل ہیں اورعصرحاضرکے نت نئے مسائل کا ان میں کوئی مرتب حل نہیں پایاجاتاہے۔مثلااس سوال کا مدون اسلامی فقہ یااسلامی سیاسی فکرجوجواب دیتی ہے کہ اگرکوئی غیرمسلم ریاست جومسلمانوں کے خلاف جارحیت کی مرتکب نہیں ہوتی تو اسلامی ریاست کے تعلقات اس کے ساتھ بھی محاربہ پرمبنی ہوں گے یامسالمہ پر،وہ بہت زیادہ relivantنہیں۔کہ فقہاء کی اکثریت بظاہرپہلی رائے کی حامل ہے جوموجودہ حالات میں قابل عمل نہیں۔(۱۱)مستشرقین اوران کے ہم نوا بعض مسلمان اسکالر وں کے نزدیک اسلامی فقہ تمام تر اسلام کی حکمرانی کی فضاء میں پروان چڑھی۔اسی وجہ سے وہ مسلمانوں کو اس صورت حال کے بارے میں تو تفصیلی رہنمائی دیتی ہے،جب وہ حاکم ہوں،لیکن جب مسلمان خود محکومی کی حالت میں ہوں یا محکومی سے مشابہ حالت ہویا تھوڑے بہت وہ خود بھی اقتدار میں شریک ہوں جیسے کہ ہندوستان میں ہے،تو ایسی صورت حال کے لیے مدون فقہ اسلامی رہنمائی دینے سے قاصر ہے۔فقہ الاقلیات کی بحث اسی عملی صورت حال کی پیداکردہ ہے۔(۱۲)

اسی طرح اقتدارکی منتقلی کا کوئی میکینزم اسلامی فکرمیں نہیں ملتاہے۔جس کی وجہ سے تاریخ اسلام کا بیشترحصہ درباری سازشوں،خلیفہ وزراء اورامراء کی اقتدارکی رسہ کشیوں اوراس کے نتیجہ میں خون ریزی سے بھرا ہوا ہے۔ علامہ یوسف القرضاوی نے خیال ظاہرکیاہے کہ اسلامی سیاسی فکرپر ابھی عصرحاضرکے تناظرمیں بہت کام کیا جانا باقی ہے اوراس سلسلہ میں اجتہادوتجدیدفکرکی ضرورت ہے (۱۳)اِن مسائل پر سوچتے ہوئے اورنئی آراء قائم کرنے کی ضرور ت اس لیے محسو س ہوتی ہے کہ آج ہم تمدنی وتہذیبی طورپراس دنیامیں رہ رہے ہیں جہاں مغرب کا غلبہ ہے۔ اس کے برعکس دنیابنانے کا ہم خواب تودیکھ سکتے ہیں لیکن ابھی واقع میں کوئی نئی اورالگ دنیابنتی دکھائی نہیں دیتی۔

معاشرت:

خواتین کواسلامی فقہ میں قریب قریب مثل باندی بناکرپیش کیاگیاہے۔آج کے دورمیں تملیک وغیرہ کی تعبیرات پرنظرثانی کی ضرورت ہے۔چہرہ کا پردہ کوئی دینی فریضہ نہیں ایک کلچرل مسئلہ ہے۔(۱۴)

ایک مبہم حدیث:عن ابنی بکرہ لما بلغ رسول اللہ ﷺ ان اہل فارس ملکوا علیہم بنت کسری قال: لن یفلح قوم ولوا امرہم امرأۃ، رواہ البخاری (وہ لوگ جنہوں نے اپنے معاملات کا ذمہ دارکسی عورت کوبنادیاہے کامیاب نہ ہوں گے (جوخبرہے یاانشاء یہ ہی طے نہیں)اورناقصات عقل ودین والی روایت کوبنیادبناکرعورت کوعلما ناقص العقل مانتے ہیں آج کا ذہن اِس کوتسلیم نہیں کرتا۔مذہبی حلقوں میں کہاجاتاہے کہ عورت کواعلی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے اس کوتوگھرچلاناہے گھریلوکام کاج کی تربیت دینی چاہیے۔وہ محرم کے بغیرسفرنہیں کرسکتی۔اس کوکسی سیاسی،تعلیمی،معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔اسی طرح عورت کی امامت،عورت کی قیادت وغیرہ کے مسائل ہیں۔بغیرکسی قرآنی بنیادکے یہ مان لیاگیاہے کہ عورت کا دائرہ کارگھرہے اوراس سے باہروہ ضرورت کے وقت ہی نکلے گی۔

عصررسالت میں ایساکوئی ظاہرہ نہیں تھاکہ عورت ڈربہ میں بندنظرآئے وہاں تومعاشرہ میں اس کی چلت پھرت ہے اورخاتون پوری طاقت کے ساتھ معاشرہ کی تمام سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہے۔جنگ کے میدان میں نظرآتی ہے تعلیم وتعلم کے میدان میں اورمارکیٹ میں بھی اپناکرداراداکررہی ہے۔(۱۵)آج جسمانی سے زیادہ عقلی صلاحتیوں کی ضروت ہوتی ہے کیونکہ انسانی زندگی کومشین کنٹرول کررہی ہے جس میں عورت مردسے پیچھے نہیں ہے ایسے میں مردوعورت میں تفریق کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی ہے۔اسلام میں عورتوں کے حقوق وذمہ داریوں کے سلسلہ میں جولٹریچرلکھاگیاہے اُس پر بڑااعتراض یہ ہے کہ وہ ایکPatriarchal(پدرسری)سوسائٹی کا بیانیہ ہے جس میں عورت کی حیثیت دوسرے درجہ کی ہے۔اس سوال کوایڈریس کرنے کی ضروت ہے۔(۱۶)

جدید کاسمولوجی کا چیلنج اور اسلام

موجودہ دورمیں علم کلام کی طرف پھرویسے ہی توجہ واعتناکی ضرورت ہے جیسے کہ ماضی کے ائمہ وعلمانے کی تھی،لیکن آج ہماری ساری توجہ فقہ کی طر ف ہوگئی ہے۔اس چیز کی اہمیت ہمارے سامنے اس وقت واضح ہوتی ہے جب ہم معاصردنیامیں مذہب اورسائنس کے تعامل پر غورکرتے ہیں۔جدید کاسمولوجی جوسائنس وٹیکنالوجی نے تشکیل دی ہے اس نے مذہب کے روایتی موقف پر جوسوال کھڑے کردیے ہیں ان پر غورفکرکرتے ہوئے پہلااصولی مسئلہ یہ سامنے آتاہے کہ آج ارسطوکا وہ ورلڈ ویوجوسترہ صدیوں تک دنیاپر چھایارہا مسترد ہوچکا ہے۔اْس ورلڈویومیں زمین کائنات کامرکز تھی۔ وہ ساکن تھی،سورج اس کے گردچکرلگاتا تھا(پرانی ادبیات میں اسی لیے آسمان کو گردوں کہتے تھے)کائنات ارضی کا مرکزتوجہ،مخدوم اورامین انسان تھا بعض لوگ اس کوخلافت ارضی سے بھی تعبیرکرتے ہیں۔اس ورلڈ ویومیں اسلام کے حامی اورمخالف دونوں ایک ہی پیچ پر تھے۔

آج جوورلڈ ویودنیاکورول کررہاہے وہ گلیلیو،ڈیکارتے،نیوٹن،ہبل اورآئن اسٹائن وغیرہ کے نظریات اورتحقیقات پر مبنی ہے۔اس ورلڈ ویوکے مطابق زمین سورج کے گردگھومتی ہے،سورج اوردوسرے ستارے وسیارے اپنے اپنے محورپر گردش میں ہیں۔انسان کوکوئی خاص پوزیشن اس زمین پر حاصل نہیں۔بلینیوں کہکشاؤں پر محیط اس کائنا ت میں خودزمین ایک نقطہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ارتقاء اوراب بگ ہسٹری کے تصورات نے مذہب کے نظریہ تخلیق اورانسان کی خصوصیت کوختم کرکے رکھ دیاہے۔بگ بینگ یانیچرل ارتقاء پر مبنی یہ تاریخ بتاتی ہے کہ نہ اس کائنات کا کوئی مقصدہے اورنہ انسان کی تخلیق کا کوئی مقصدہے۔یہ کائنا ت ومافیہاسب نیچرکے اندھے قوانین کے تحت وجودمیں آئی اوران ہی قوانین کے تحت اپنے آپ بے مقصدختم بھی ہوجائے گی۔ایسے میں خداکا وجود، حشرنشرآخرت وغیرہ کے تصورات سب غیرسائنسٹفک تصورات قرارپاتے ہیں۔مولاناوحیدالدین خاں کے ہاں اِس کے بارے میں غیرمرتب کام اورابتدائی درجہ کا کام موجودہے مگراس بہت آگے بڑھانے کی ضرورت ہے جس کی طرف انجینئرسیدسعادت اللہ حسینی نے توجہ دلائی ہے۔(۱۷)

مذہب انسان کی جوتاریخ اورکہانی بتاتاہے وہ پانچ چھ ہزارسال سے پیچھے نہیں جاتی جبکہ بگ بینگ اورنیچرل ارتقاء پر مبنی تاریخ عظیم بتاتی ہے کہ کائنا ت کی عمرقریبا۱۳،ارب سال ہے۔اس کے مطابق ہماری زمین سات ارب سال پہلے بنی اوراس پر زندگی کا وجودپانی میں تقریباچارارب سال پہلے ہوا۔لائف نے مختلف ارتقائی منازل سے گزرکربلینوں سال پہلے حیوانی قالب اختیارکیا۔ارلی مین اورنیندرتھیل وجودمیں آتے ہیں لاکھوں سال کے گزرنے اورنیچرل سیلیکشن سے گزرتے ہوئے وہ ہنٹنگ گیدرنگ کے مرحلہ میں پہنچتاہے۔ایک لاکھ نوے ہزارسال ہنٹنگ اورگیدرنگ کے مرحلہ میں رہنے کے بعدوہ آئس ایج،حجری زمانہ سے گزرکرزراعت کے دورمیں داخل ہوااورایک متمدن معاشرہ کی بنیادپڑی۔زراعت کے بعدموجودہ صنعتی معاشرہ وجودمیں آیا۔

تاریخ عظیم کی یہ کہانی بتاتی ہے کہ بایولوجی کے اعتبارسے مردوعورت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔مختلف معاشروں میں ہم جوفرق ان دونوں میں دیکھتے آئے ہیں وہ اصل میں کلچرل مؤثرات کی وجہ سے ہے اس کی کوئی حقیقی وجہ نہیں۔ہوموسپین کے مصنف کا کہناہے کہ:

”انسانی سماج میں مردکے وظائف،عورت کے وظائف اوراس سے بھی آگے بڑھ کرانسانی جسم کے مختلف اعضاء کے بامقصدوظائف کا تصوراَن نیچلرل ہے۔وہ اصل میں مسیحی تھیولوجی سے آیاہے ورنہ بایولوجیکلی کسی چیز کا کوئی مقصداورہدف نہیں ہوتا۔مردقوام ہے اورعورت گھرکی ملکہ ہے وغیرہ تصورات اصل میں انسانی Imagination کے ساختہ ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ انسان بنیادی طورپر چیزوں کوimagine کرتاہے۔چنانچہ یہ انسانی کلچر،ثقافت وتہذیب،مذہب وروحانیت،اخلاقی احساس وغیرہ یہ سب اس کی imagination کا نتیجہ ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں“۔(۱۸)

یہ کاسمولوجی کہتی ہے کہ تاریخ blindly سفرکرتی ہے اوراس کائنات اوراس پر زندگی کا کوئی مقصدنہیں،ایک دن یہ یونہی Blindly ختم بھی ہوجائے گی۔ ظاہرہے کہ یہ جوبیانیہ ہے یہ اپنے اندرمذہب،وجودباری تعالی وغیرہ کے کتنے بڑے چیلنج رکھتاہے اورہماری اس فتنہ سے مقابلہ کی تیاری کیسی ہونی چاہیے یہ کسی پر مخفی نہیں ہوناچاہیےے۔

اورایک مسئلہ مغربی سائنس وٹیکنالوجی کایہ ہے کہ آج جینیٹک انجنیئرنگ کے ذریعہ یعنی انسانی جینوم کوکنٹرول کرنے کے پروگرواموں کے ذریعہ یہ کوشش کی جارہی کہ اپنے من پسندانسان پیداکیے جاسکیں۔کلوننگ کا عمل جوشروع میں ڈولی نامی بھیڑپر کیاگیااوراس کا ہمزاد پیدا کیا گیاتھااب بات اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اورپیڑپودوں،سبزیوں اوراناجوں سے گزرکراب حریم انسانی اس کی زدمیں آیاچاہتاہے۔جاپان میں مردوں کی آخری رسومات ایک روبوٹ انجام دے رہاہے،جرمنی میں چرچ کے اندرایک روبوٹ پادری کلیسائی مذہبی فرائض انجام دے رہاہے یعنی AIآرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعہ روبوٹ اب محض مشینی آلا ت نہ رہ کرانسانی ذہن وشعورکے حامل بھی ہوں گے اوروہ دن دورنہیں جب ہمارے امام ومؤذن روبوٹ ہواکریں گے۔کبھی فلموں میں اورفکشن میں روبوٹک بیویوں کی بات آیاکرتی تھی مگراب تووہ سچائی بن کرانسانوں کے سامنے آنے والی ہے۔ توسوال ہماری فقہ کے سامنے یہ ہوگاکہ روایتی معاشرتی احکام اِن نئے قسم کے اورانوکھی نوعیت کے انسانوں پر کس طرح لاگوہوں گے؟کیاوہ سِرے سے شریعت کے مخاطب بھی رہ جائیں گے یانہیں؟یاان کے لیے کوئی اورہی فقہ ڈولپ کی جائے گی؟(۱۹)

یہ آٹومیشن ایج اب آچکاہے جس میں نانوٹیکنولوجی پر مبنی آلات وسائل انسانی زندگی کوگورن کریں گے۔مسئلہ صرف اس کے مظاہرکے عام لوگوں کے دسترس میں آنے کا ہے جس میں اب زیادہ دیرنہیں لگے گی۔(۲۰)

انسانی زندگی میں مختلف جذبا ت کی بڑی اہمیت ہے اوربہت سے احکام بھی انہیں جذبات مثلاٰمحبت والفت،رحم ومہربانی،نفرت وکراہمیت،غصہ وحسدوغیرہ کی بنیادپر وجودمیں آتے ہیں۔انسانی تہذیب ان کی بنیادپر ترقی کرتی ہے،سماجی رشتے ان سے بنتے بگڑتے ہیں۔اب ڈرگس اوردواؤں کے ذریعہ ان کوجذبات کوختم کرنے،ان کوکنٹرول کرنے یاان کوبدل دینے کی بات کی جارہی ہے۔حتی کہ ایک بڑاپروجیکٹ اس پر تحقیق کررہاہے کہ موت کاخاتمہ انسان کی زندگی سے کردیاجائے۔انسان کی زندگی کا دورانیہ بڑھادیاجائے وہ ہمیشہ جوان رہے اُسے کوئی مرض لاحق نہ ہووغیرہ۔اگرایساکسی بھی درجہ میں ہوجاتاہے تو اس سے روایتی فقہی احکام پر کیااثرپڑے گاکیاان چیزوں کوتغییرِخلق اللہ کی قبیل سے سمجھاجائے گایانہیں؟ہمارے علما گزشتہ سوسال سے بھی زیادہ عرصہ سے تصویرکے مسئلہ سے الجھے ہوئے ہیں کہ آیافوٹومیں کسی شیئی کی حقیقت خودآجاتی ہے یااس کا عکس آتاہے؟تصویراگرسرکٹی ہوتوجائزہوگی یانہیں؟ڈیجیٹل کیمرے سے لیے گئے فوٹوپر حدیث میں آئی وعیدکا اطلاق ہوگایانہیں وغیرہ۔سوال یہ ہے کہ اب سائنس وٹیکنالوجی جس دنیاکوسامنے لارہے ہیں اس میں ہمارے یہ فقہی قواعدوضوابط کچھ کام دیں گے؟فی الحال کیتھولک چرچ کی مخالفت کی وجہ سے اورکچھ اوراسباب سے بعض ملکوں میں سائنس کوکچھ پابندکیاگیاہے اوراس کی تحقیقات پر کچھ قدغنیں عائدکی گئی ہیں مگرتابکے؟جب یہ جن بوتل سے باہرآئے گاتونطشے نے توGod is dead کہ دیاتھامستقبل قریب کا انسان فرعون کی زبان میں کہے گاکہ ”میں پیداکرتاہوں اورمارتاہوں اس لیے میں ہی خداہوں“۔یعنی سائنس داں ہی اناربکم الاعلی کا نعرہ لگائے گا۔

یہ نئی کاسمولوجی اورجدیدٹیکنالوجی کے وہ پہلوہیں جوارتقااورنیچرل ہسٹری کی بنیادپرمذہب کے بالمقابل کائنات کے آغازوارتقاء اورزندگی کی تخلیق کا نیابیانیہ ہمارے سامنے لارہاہے۔(۲۱)یہ چیز اپنے اندرمذہب کے لیے کتنے خطرے لیے ہوئے ہے ہماری معروضات سے یہ بات کسی حدتک سامنے آجاتی ہے۔اب اہل مذہب کوسوچنایہ ہے کہ اس خطرے سے مقابلہ کی کیاتیاری ان کے پاس ہے؟آج کا الحادسائنس کی بنیادپر کھڑاہے،ڈارون کا نظریہ ارتقاء سائنس دانوں کی اکثریت کے نزدیک ثابت شدہ ہے جبکہ مسلمان اہل دانش نے نظریہ ارتقاء کے علمی مطالعہ سے بہت کم اعتناکیاہے۔(۲۲)

ہندوستان:

وطن عزیز ہندوستان میں انڈونیشیاکے بعدمسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی رہتی ہے۔ان کوگوناگوں مسائل ومشکلات کا سامناہے جس کا ایک پہلویہ ہے کہ آج کا پڑھالکھاہندوطبقہ اس بات پر بہت زوردیتاہے کہ ہندودھرم چونکہ کسی کتاب کسی نبی اورکسی شریعہ (قانون)پرمبنی نہیں اس لیے اس میں بڑی رواداری،برداشت،تسامح،وسعت نظری اورفراخ دلی پائی جاتی ہے۔یہ مذہب اپنی نہادمیں سیکولرہے اورمتضادلوگوں اورچیزوں کواپنے میں سمونے اورساتھ لیکرچلنے کی صلاحیت رکھتاہے۔یہاں تک کہ جوشخص خداکونہ مانتاہواورمذہب میں یقین نہ رکھتاہووہ ہندوہوسکتاہے۔ہندومذہب کا یہ بیانیہ سیٹ کرنے میں سیکولراورانتہاپسندہندودونوں ایک ہی پیج پرہیں۔مشرکانہ مذاہب کا یہ تصورکہ وہ کسی institutionalizedمذہبی روایت پر قائم نہیں بہت سے مغربی ملحدوں کوبھی بہت بھاتاہے اوروہ اس کے اس پہلوکی بڑی تعریف کرتے ہیں مثال کے طورپر مشہورمؤرخ اورماہرمستقبلیات یوال نواحراری نے بھی اس کی بڑی تعریف کی ہے اورابراہمی مذاہب کے مقابلہ میں مشرکانہ مذاہب کوفوقیت دی ہے۔(۲۳)یہ تصورجوطرح طرح کی پابندیوں سے عبارت مذہیبت سے بے زارلوگوں کی اکثریت کواپیل کرتاہے حقیقت میں گمراہ کن ہے اس لیے اس نکتہ پر علمی وتاریخی بحث اوراس کی تردیدکی خاص ضرورت ہے۔


حواشی و حوالے:

(۱) ملاحظہ ہو:مولاناسیدابوالاعلی مودودی اسلامی ریاست،مرتبہ خورشیداحمداسلامک پبلیکیشنزپرائیویٹ لمیٹڈای ۱۳ شاہ عالم مارکیٹ لاہورص 502،

(۲) ایضاص 379

(۳) ڈاکٹراسرار مختلف مروجہ نطامہائے سیاست اوران کی ظاہری صورتوں کے بارے میں کہتے ہیں: ”خلافت کا نظام صدارتی نظام سے قریب ترہے ……میں ہمیشہ کہتاآیاہوں کہ پارلیمانی اورصدارتی دونوں نظام جائزہیں،وحدانی unitary نظام وفاقی federalنظام اورکنفیڈرل confideralسب جائز ہیں ……دنیامیں کئی سیاسی نظام چل رہے ہیں وحدانی صدارتی وفاقی صدارتی،وفاقی صدارتی (جیسے امریکہ میں ہے)کنفیڈرل صدارتی،پھرپارلمانی،وفاقی پارلیمانی اورکنفیڈرل پارلیمانی یہ چھ کے چھ جائزہیں“۔دیکھیں ڈاکٹراسراراحمد، پاکستان میں نظام خلافت،امکانات خدوخال اوراس کے قیام کاطریقہ کار صفحہ 36 مطبوعات تنظیم اسلامی پاکستان

(۴) حقوق المواطنہ فی الاسلام میں ڈاکٹرراشدغنوشی نے اِس مبحث کوکافی اجاگرکیاہے اورتیونس میں اسے اختیارکرنے کی کوشش بھی کی ہے مگردوسرے ممالک کی اسلامی تحریکوں میں ابھی اس خیال کی پذیرائی نہیں ہوئی۔البتہ پروفیسرنجات اللہ صدیقی بھی اسی رائے کے حامی ہیں۔ملاحظہ ہو:اسلامی فکرچندتوجہ طلب مسائل،شائع کردہ ہدایت پبلیکیشنز نئی دہلی، مولانا مودودی (اسلامی ریاست)مولاناسیدجلال الدین عمری،(غیرمسلموں کے حقوق مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی،)عبدالکریم زیدان احکام اہل الذمہ فی الاسلام نیز وہبہ الزحیلی (الفقہ الاسلامی وادلتہ جلد۷)کی بحثوں سے جدیدذہن کی تشفی کا سامان نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں یوسف القرضاوی کی آراء (فقہ الجہاد)بہت سے پہلوؤں پر نیاراستہ کھولتی ہیں۔

(۵)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو،ڈاکٹرعبدالحق انصاری،سیکولرازم،جمہوریت اورانتخابات صفحہ 6-7)

Secularism Adn Islam Musheerul haq مکتبہ جامعہ لمیٹڈ

مولاناوحیدالدین خاں،فکراسلامی گڈورڈنظام الدین ویسٹ نئی دہلی،جاویداحمدغامدی، اسلام اورریاست ایک جوابی بیانیہ مقامات طبع 2019المورد(ہند)

(۶) مولاناعنایت اللہ سبحانی،تبدیلی ئمذہب اوراسلام،،ادارہ احیاء دین بلریاگنج،جنوری 2002طہٰ جابرالعلوانی اشکالیۃ الردۃ فی الاسلام،ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی اسلام اورتبدیلی مذہب کا مسئلہ بعض نئے مطالعات کی روشنی میں،اشراق لاہورستمبر2018

Blasphemy Laws Have Turned Muslim Countries into Killing Fields -7

Newageislam12 October 2021(https://www.newageislam.com/)

(۸)تفصیل کے لیے دیکھیں:مولاناعمارخان ناصرحدودوتعزیرات،الموردلاہور

(۹) مولاناوحیدالدین خان شتم رسول کا مسئلہ گڈورڈ نظام الدین نئی دہلی،جاویداحمدغامدی میزان الموردفاؤنڈیشن لاہوراورمولاناعمارخان ناصرحدودوتعزیرات،الموردلاہور

(۱۰) ملاحظہ ہوان کی کتاب: جہاداورروح جہاداورجہاداورآیات جہادہدایت پبلشرزنئی دہلی)

(۱۱) اس پر تفصیلی گفتگوکے لیے دیکھیں:عبدالحمیداحمدابوسلیمان:

Towards An Islamic Theory of International Relations: New Directions for Islamic Methodology and Thought Washington: IIIT, 1993.

اوریوسف القرضاوی:فقہ الجہادالجزء الاول مکتبہ وہبہ

(۱۲) ملاحظہ کریں:الشیخ عبداللہ بن محفوظ بن بیہ مشاہدمن المقاصدرمؤسسۃ الاسلام الیوم الطبعۃ الاولی 2010سعودی عربیہ اورنجات اللہ صدیقی،مقاصدشریعت مرکزی مکتبہ اسلامی نئی دہلی)یوسف القرضاوی کتاب الدین والسیاسۃ،خاص طورپر باب الاقلیات الاسلامیۃ والسیاسۃ

(۱۳) ملاحظہ ہویوسف القرضاوی کتاب الدین والسیاسۃ،خاص طورپر باب الاقلیات الاسلامیۃ والسیاسۃ۔

(۱۴) دیکھیں:تحریرالرسالہ فی عصرالرسالہ،عبدالحلیم ابوشقہ اوراس کی تلخیص (ڈاکٹرعبداللہ الکبیسی)کا اردوترجمہ شائع کردہ جوگائی بائی نئی دہلی نیز شیخ البانی کی کتاب:حجاب المرأۃ المسلمۃ

(۱۵) پروفیسریسین مظہرصدیقی،رسول اکرم اورخواتین ایک سماجی مطالعہ اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی

(۱۶) ضرورت ہے کہ اسلامی فیمنزم کی اسکالر داعیوں امینہ ودود،سعدیہ یعقوب وغیرہ پر فتوے وغیرہ لگانے کی بجائے ان کوengage کیاجائے اوران سے ڈائلاگ کیاجائے۔

(۱۷) ملاحظہ کریں امیرجماعت اسلامی انجینئرسیدسعادت اللہ حسینی کا مقالہ:تحریکی لٹریچراور درپیش علمی معرکہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمارچ 2016

(۱۸) Yuval Noah Harihi Sapiens A brief History of Humankind p:122 Vintage Books London 2011

(۱۹) ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی،کائنات کا آغازوارتقاء:قرآنی بیانات اورسائنسی حقائق میں تطبیق کی راہ(تین قسط)ماہنامہ اشراق (ہند)مئی،جون جولائی 2021 الموردہندفاؤنڈیشن

(۲۰) ملاحظہ ہو:سعادت اللہ حسینی امیرجماعت اسلامی کا مقالہ:تحریکی لٹریچراور درپیش علمی معرکہ ماہنامہ ترجمان القرآن لاہورمارچ 2016اورابویحیٰ کا مقالہ چوتھاصنعتی انقلاب یاآٹومیشن ایج اشراق ستمبر2021

(۲۱) ملاحظہ کریں:غطریف شہبازندوی،جدیدکاسمولوجی کا چیلنج اورفکراسلامی اشراق لاہوراکتوبر2019

(۲۲) دیکھیں:شعیب احمدملک /غطریف شہبازندوی اسلام اورنظریہ ارتقاء:ایک مختصرجائزہ تجدیدشش ماہی جولائی دسمبر2019شمارہ ۲ جلد:۱انسٹی ٹیوٹ آف ریلیجس اینڈسوشل تھاٹ شاہین باغ جامعہ نگرنئی دہلی اورنظریہ ارتقاء کے تفصیلی مطالعہ کے لیے:ڈاکٹرمحمدرضوان ماہنامہ زندگی نو(جنوری 2021اوراس کے بعدکی متعدداقساط)نئی دہلی

(۲۳)۔ملاحظہ کریں Yuval Noah Harihi Sapiens A brief History of Humankind p:239 Vintage Books London 2011

مسلم حکومتیں اور اسلامی نظام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

(۲۶ ستمبر ۲۰۲۱ء  کو ادارۃ النعمان پیپلز کالونی گوجرانوالہ میں ’’تخصص فی الفقہ‘‘ کے طلبہ کے ساتھ گفتگو)


بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج میں آپ حضرات کو موجودہ معروضی حالات میں اسلام کے قانون و نظام کو کسی بھی سطح پر تسلیم کرنے والی مسلم حکومتوں کی صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن کے دستور و قانون میں اسلام کا نام شامل ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی حکومتیں اور ریاستیں ہیں۔ سعودی عرب، پاکستان اور ایران تو سب کے سامنے ہیں البتہ مراکش میں بھی سربراہ مملکت کو امیر المؤمنین کہا جاتا ہے جس کا پس منظر اس وقت میرے سامنے نہیں ہے۔

  1. سعودی عرب کا باقاعدہ نام ’’المملکۃ العربیۃ السعودیۃ‘‘ ہے جو آج سے کم و بیش ایک صدی قبل خلافتِ عثمانیہ کے بکھرنے کے دور میں قائم ہوئی تھی۔ اس ریاست میں ’’آل سعود‘‘ کے زیر اقتدار وہ علاقے شامل ہیں جن میں اس وقت مختلف معاہدات کی صورت میں آل سعود کے دائرۂ اقتدار میں شامل کیا گیا تھا اور ان پر بین الاقوامی طور پر آل سعود کا حق حکمرانی خاندانی اور نسلی بنیاد پر تسلیم کیا گیا تھا، جبکہ آل سعود نے حکمرانی کا حق ملنے کے بعد قرآن کریم کو اپنی مملکت کا ریاستی مذہب اور دستور و قانون کی بنیاد قرار دینے کا اعلان کیا تھا، سعودی عرب کی حکومتی نظام میں الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ کا خاندان بھی ’’آل شیخ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ کے تحت شریک تھے اور ان کے درمیان تقسیم کار چلی آرہی ہے۔
  2. سعودی عرب کا عدالتی نظام مکمل طور پر قرآن و سنت کے تابع ہے جس کی برکات پورے ملک میں دکھائی دے رہی ہیں، البتہ اب موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد نے یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ دستور و قانون کی بنیاد قرآن کریم کے ساتھ حدیث و سنت بھی ہے یا صرف قرآن کریم ہی ریاست و حکومت کی اساس ہے۔ بہرحال خاندانی حکومت ہونے کے باوجود اپنے دستور و قانون کے حوالہ سے ایک اسلامی ریاست ہے اور حالات میں مختلف تغیرات کے باوجود اسلامی ریاست اور حرمین شریفین کے انتظام و خدمت کے حوالہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی عقیدت و احترام سے بہرہ ور ہے۔
    پاکستان ایک سیاسی اور عوامی تحریک کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء کے دوران برطانوی استعمار کے تسلط کے خاتمہ اور متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے موقع پر وجود میں آیا تھا، اور اس نئی مملکت کے قیام کی تحریک چلانے والے قائدین نے واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا مطالبہ مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کے لیے کر رہے ہیں، چنانچہ ملک کے باقاعدہ قیام اور مسلم لیگ کو اقتدار منتقل ہونے کے بعد اس کے ریاستی و حکومتی نظام کی تشکیل کا سوال کھڑا ہوا تو اگرچہ سیکولر حلقوں اور لابیوں نے پوری کوشش کی کہ اس نوزائیدہ مملکت کو ایک سیکولر اور جمہوری ریاست کی حیثیت دے دی جائے مگر دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ کی صورت اس کی نظریاتی بنیاد ہمیشہ کے لیے طے کر دی کہ (۱) حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو گی۔ (۲) حقِ حکمرانی عوام کے منتخب نمائندوں کو ہو گا اور (۳) پارلیمنٹ اور حکومت قرآن و سنت کے احکام کی پابند ہوں گی۔
    ان اصولوں کی تشریح تمام مکاتب فکر کے ۳۱ اکابر علماء کرام نے متفقہ ’’۲۲ دستوری نکات‘‘ کی صورت میں کر دی جن میں سے بیشتر نکات دستورِ پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہیں اور انہی اسلامی دستوری بنیادوں کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ عملی صورتحال شروع سے اب تک اس سے مختلف چلی آرہی ہے اور مقتدر حلقے دستوری صراحتوں کے باوجود عملی طور پر اسلامی احکام و قوانین کو نفاذ و فروغ کا کوئی راستہ نہیں دے رہے۔ البتہ دستوری اساس کے لحاظ سے ہر ایک اسلامی ریاست ہے اور اگر دستور پر تمام ادارے اور طبقے خلوص کے ساتھ عمل کریں تو پاکستان اسلامی ریاست کے طور پر ایک آئیڈیل ملک کی حیثیت سے دنیا کے سامنے آسکتا ہے۔
  3. تیسری طرف ایران نے جناب آیت اللہ خمینی کی قیادت سے مذہبی انقلاب کے بعد خود کو ’’اسلامی جمہوریہ ایران’’ کی شکل دی اور اسلام کو ریاست کا سرکاری دین اور ’’اثنا عشری فقہ‘‘ کو ملک کا ریاستی مذہب قرار دیا، دستور کے مطابق ملک میں حاکمیت اعلیٰ ’’امامِ غائب‘‘ کی تسلیم کی گئی اور ان کی نمائندگی ’’ولایتِ فقیہ‘‘ کے عنوان سے ملک کے سب سے بڑے فقیہ کرتے ہیں جو اپنے دور میں خمینی صاحب تھے، اور اب جناب آیت اللہ خامنہ ای صاحب کو وہ مقام حاصل ہے جو مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ سمیت تمام ریاستی و حکومتی اداروں کے لیے حکمران اعلیٰ اور فائنل اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ نظام حکومت چلانے کے لیے عوام کے منتخب نمائندوں کو ذریعہ بنایا گیا ہے اور پارلیمنٹ اور حکومتی مناصب عوامی الیکشن کے ذریعے وجود میں آتے ہیں۔ گویا ایران میں اہلِ تشیع کے اثنا عشری طبقہ نے اپنے ’’تصور امامت‘‘ کو دستوری اور قانونی حیثیت دے دی ہے جو ان کے دائرہ میں کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے اور وہ اس پر سختی سے قائم ہیں۔

اس پس منظر میں افغانستان اور طالبان پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہئے۔ طالبان نے اب سے دو عشرے قبل اپنے دور اقتدار میں افغانستان کو ’’امارت اسلامی افغانستان‘‘ کا عنوان دیا تھا جس میں امیر المؤمنین کے طور پر ملا محمد عمر مجاہدؒ نے کم و بیش پانچ سال حکومت کی جس کے مثبت ثمرات و نتائج اور برکات کا ابھی تک عالمی سطح پر اعتراف کیا جا رہا ہے، اس کے بعد انہیں امریکی اتحاد کے ساتھ بیس سال تک جنگ لڑنا پڑی جس میں سرخرو ہونے کے بعد اب پھر وہ پورے افغانستان میں برسر اقتدار ہیں اور نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنے اقتدار اور نظام کو حتمی شکل دینے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ اس موقع پر میں باقی تفصیلات سے قطع نظر دو باتوں کا بطور خاص تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔

شرعی احکام اور ہمارا عدالتی نظام

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

روزنامہ دنیا گوجرانوالہ ۲۷ اکتوبر ۲۰۲۱ء کی ایک خبر ملاحظہ فرمائیں:

’’جسٹس فائز عیسیٰ نے سوات میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ کوئی عدالت یا جرگہ وراثتی جائیداد کی تقسیم کے شرعی قانون کو تبدیل نہیں کر سکتی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جرگے کے فیصلے کے ذریعے دین الٰہی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جائیداد کی تقسیم سے متعلق دستاویزات پر سات سالہ بچے کے انگوٹھے کا نشان لگایا گیا، ایسی دستاویزات کے ذریعے قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، پاکستان میں سچ بولنے کے حالات کا سب کو علم ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جس علاقے کی زمینی حقیقت کی آپ بات کر رہے ہیں وہاں تو عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا، زمینی حقائق دیکھتے دیکھتے فوجی آمروں نے ملک میں مارشل لاء لگا دیے۔ فاضل جج نے کہا کہ سعودی عرب میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ایک دن میں ہوتا ہے، پاکستان میں جائیداد کی تقسیم کا فیصلہ ہوتے ہوتے چالیس سال لگ جاتے ہیں، جائیداد کی تقسیم کا اصول ساڑھے چودہ سو سال پہلے طے ہو چکا ہے۔ این، این، آئی کے مطابق عدالت نے سوات کے حبیب اللہ مرحوم کی جائیداد کو تمام قانونی ورثاء کے مابین شرعی اصول کے مطابق تقسیم کرنے کا حکم دیا اور جائیداد کی تقسیم سے متعلق نچلی عدالتوں کے تینوں فیصلے کالعدم قرار دے دیے۔‘‘

یہ خبر خود کو بار بار پڑھنے کا تقاضا کر رہی ہے اور ہمارے ملک میں عدالتی نظام عورتوں کی مظلومیت اور شرعی احکام کو نظر انداز کرنے یا تبدیل کرنے کے حوالہ سے معروضی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ ہم نے قیام پاکستان کے وقت قرآن و سنت کی عملداری اور شرعی قوانین کے نفاذ کا فیصلہ بڑے جوش و جذبہ کے ساتھ کیا تھا مگر اس کے لیے معاشرتی ماحول کو تیار کرنے اور عدالتی نظام کو اس کے تقاضوں کے مطابق از سر نو تشکیل دینے کا کام ابھی تک ہم نہیں کر پائے۔ بلکہ برطانوی دور کا وہی نو آبادیاتی جوڈیشری سسٹم ہمارے ہاں بدستور مصروف کار ہے اور ہم اس میں وقتاً فوقتاً چھوٹے چھوٹے جوڑ لگانے کے علاوہ اس کے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکے۔ فاضل جج نے اپنے ریمارکس میں سعودی عرب میں جائیداد کی تقسیم کا معاملہ ایک دن میں طے ہونے کا ذکر کیا ہے اور پاکستان میں ایسے معاملات میں چالیس چالیس سال گزر جانے کی شکایت کی ہے جو درست اور زمینی حقائق کے مطابق ہے۔ مگر اس کے ساتھ اس وضاحت کی بھی ضرورت ہے کہ سعودی عرب کا عدالتی نظام اسلامی اصولوں کے مطابق شرعی احکام و قوانین کے نفاذ کی ذمہ داری کے ماحول میں تشکیل دیا گیا ہے جس کے باعث نہ صرف مقدمات کے بروقت اور جلد فیصلے ہوتے ہیں بلکہ جرائم اور لاقانونیت کی شرح بھی دوسرے ممالک کی بہ نسبت بہت کم ہے۔ چونکہ وہاں قضا کا نظام ہے اور قرآن و سنت کو بنیادی قانون کی حیثیت حاصل ہے اس لیے وہاں کے عدالتی نظام کا حوالہ دینے کی ایسے ہر موقع پر خود ہمیں بار بار ضرورت پیش آتی ہے۔

اسی طرح جسٹس موصوف کا یہ ارشاد بھی پوری قوم کی خصوصی توجہ کا طالب ہے کہ کوئی جرگہ یا عدالت شرعی قوانین میں ردوبدل کی مجاز نہیں ہے اور شرعی احکام و قوانین وہی ہیں جو ساڑھے چودہ سو سال قبل طے ہوچکے ہیں۔ جبکہ ہمارے ہاں قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل یہ تگ و دو جاری ہے کہ کسی نہ کسی طرح شرعی قوانین اور قرآن و سنت کے احکام کو آج کے عالمی ماحول، ہمارے علاقائی رجحانات اور طبقاتی مفادات کے سانچے میں ڈھال لیا جائے۔ اس کے لیے بین الاقوامی معاہدات کے تحت ہونے والی مسلسل قانون سازی کے علاوہ کم و بیش ہر طبقہ کے کچھ دانشوروں کی طرف سے قرآن و سنت کے قوانین کی تعبیر نو اور بے جا تاویلات و تحریفات کی مشق بھی اسلامی قوانین کی ’’ویسٹرنائزیشن‘‘ کی مہم کا حصہ ہے جس کی طرف راسخ العقیدہ مسلمان دانشوروں کو زیادہ توجہ دینی چاہئے۔

اس کے ساتھ ہی عورت کی مظلومیت کا مسئلہ بھی بطور خاص لائق توجہ ہے کیونکہ ہمارے ہاں عورت ایک طرف مغرب کی مادر پدر آزاد ثقافت کی زد میں ہے اور دوسری طرف علاقائی روایات و رواجات اور قبائلی تقاضوں نے اس مظلوم طبقہ کے گرد پابندیوں اور قدغنوں کا حصار قائم کر رکھا ہے جس سے عورت کو ان دونوں انتہاؤں سے نجات دلا کر اسلامی تعلیمات اور خلافت راشدہ کے ماحول کے مطابق فطری آزادی اور حقوق سے بہرہ ور کرنے کا کام بھی ہمارے ہاں ابھی تشنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان اہم امور کے حوالہ سے اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام دینے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

مجمع العلوم الاسلامیہ: اصولی موقف اور بنیادی اعتراضات

محمد عرفان ندیم

اپنی محبت اور عقیدت کے مراکز پردیانتدارانہ نقد بڑا جان گسل کام ہوتا ہے ۔یہ کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ آپ مولانا وحید الدین خان کی شہرہ آفاق کتاب" تعبیر کی غلطی" سے لگاسکتے ہیں۔ مولانا وحید الدین خان نے مولانا مودودی کےفکر پر نقد کیا تو اس کتاب کے صفحہ اول پر لکھا کہ اس کتاب کی اشاعت مجھ پر کتنی سخت ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کی اشاعت کے بعد میں کسی ایسی جگہ چھپ جاؤں کہ کوئی شخص مجھے نہ دیکھے اورمیں اسی حال میں مر جاؤں۔مجمع العلوم الاسلامیہ پر نقد کے حوالے سے میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔دوسری طرف اذیت کا دردناک پہلو یہ ہے کہ ایک صاحب قلم اگر اظہار مدعا نہ کرے تو گھٹن سے مرجائے۔ اسی تذبذب کی کیفیت میں یہ سطور لکھنے کی جسارت کررہا ہوں۔امید ہے اسے اسی تناظر میں دیکھا جائے گا۔

3 نومبر2021کولاہور میں مجمع العلوم الاسلامیہ کا ایک اہم اجتماع ہوا جس میں جامعۃ الرشید کے فضلاء سمیت ، اس نئےبورڈ سے الحاق کرنے والے مدارس کے ذمہ داران نے بھی شرکت کی ۔حسب روایت یہ شاندار اجتماع تھا جس میں جامعۃ الرشید کے اہم اساتذہ سمیت مقامی علماء نے بھی بھرپور شرکت کی ۔ میں جامعہ کا سابق طالب علم رہ چکا ہوں اور زمانہ طالبعلمی کے بعد سے جامعہ کے کسی فنکشن میں یہ دوسری شرکت تھی ۔ پہلی شرکت 2019 کے سالانہ فضلاء اجتماع میں ہوئی تھی اور دوسری شرکت اس اجتماع میں ہوئی ۔

جب سےمادر علمی جامعۃ الرشید کی طرف سے نئے بورڈ کا قیام عمل میں آیا ہے سنجیدہ مذہبی حلقوں اور ارباب مدارس کی طرف سے اس کے مختلف پہلووں پر گفتگو جاری ہے ۔نئے بورڈ کے قیام سے پہلے تک ، میں مادر علمی کے تعلیمی پروجیکٹ اور تعلیمی تحریک سے متاثرتھا لیکن نئے بورڈ کے قیام کے بعد میں کوشش کے باوجود اس تاثر کو قائم نہیں رکھ سکا، وجوہا ت متعدد ہیں ۔

نئے بورڈ کے قیام کی بنیادی ضرورت مدارس کا موجودہ نصاب و نظام بتایا جاتا ہے ، میں عرصے سے ان موضوعات پر لکھ رہاہوں ، غالبا درجہ رابعہ کا طالب علم تھا جب دینی مداراس کے نصاب و نظام پر موجود تمام دستیاب مواد پڑھ ڈالا تھا اور اس موضوع پر ایک جارحانہ کتاب بھی لکھی تھی ،کتاب کی تقریظ کے لیےاستاد محترم مولانا فضل الرحیم اشرفی صاحب مدظلہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے کتاب کے مندرجات دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کیا اور ایک ہزار روپیہ انعام سے بھی نوازا ۔

میں نے کتاب میں مدارس کے نصاب ونظام پرجارحانہ انداز میں نقد کیا تھا لیکن بعد میں جب اس حوالے سے اہل علم سے ڈسکشنز ہوتی گئیں ، سوچ و بچار کے نئے دروا ہوتے گئے تو مجھے اندازہ ہوا کہ نصاب و نظام پر میرا زاویہ نظر حرف آخر نہیں تھا اور وفاق کے ذمہ داران اور ارباب مدارس اگر اس کو لے کر چل رہے ہیں تو اس کی کچھ وجوہات ہیں ۔کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اس موضوع سے پرانی شناسائی اور موضوع سے دس بارہ سالہ وابستگی کی بناء پر ،میں نئے بورڈ کے قیام کی وجوہات سے مطمئن نہیں ہو سکا ۔

اسی عدم اطمینان کی وجہ سے میرے ذہن میں کچھ سوالات ، تحفظات اور خدشات ہیں جنہیں میں انتہائی ادب کے ساتھ اپنے اساتذہ کرام کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ اس نیت سے کہ اگر میرے یہ تحفظات او ر خدشات دور ہو جائیں اور مجھے شرح صدر ہو جائے تو میں بھی اس قافلے کےہمرکاب ہو جاوں ۔ بصورت دیگر میں جہاں او ر جس جگہ کھڑا ہوں علی وجہ البصیرہ استقامت کے ساتھ اس جگہ کھڑا رہوں اور بڑوں پر اعتماد مزید پختہ ہو جائے ۔

نئے بورڈ کے قیام کی جو وجوہات بتائی جاتی ہیں ان پر کچھ اصولی اور بنیادی نوعیت کے اعتراضات ہوتے ہیں ، میں اپنے اساتذہ اور مادر علمی پر اعتراضات کی جرائت نہیں کر سکتا اس لیے میں انہیں تحفظات اور خدشات کا نام دینا زیادہ مناسب سمجھتا ہوں ۔ مجھے اپنے مادر علمی اور اس کے کارپردازوں کی نیت پر کوئی شک نہیں مگر بسا اوقات اصلاح احوال اور وفور اخلاص میں انسان اجتہادی خطا کر بیٹھتا ہے ۔ اس کی واضح مثال گزشتہ کچھ عرصے سےاختیار کیا جانے والا مولانا عبد العزیز کا طرز عمل ہے،میں نئے بورڈ کے قیام کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے پر مجبور ہوں ۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اگر مدارس کے نصاب و نظام میں تبدیلی ناگزیر تھی کہ جس کو بنیاد بنا کر نیا بورڈ قائم کیا گیا ، اگر اس تبدیلی کی ضرورت پر اتفاق کربھی لیا جائے پھر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وفاق المدارس جو پچھلے کچھ عرصے سے اپنے نصاب ونظام میں مناسب حد تک تبدیلیاں کر چکا ہے انہیں اپنی فکر اور تشویش سے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا ۔ اپنا الگ بورڈ بنانے کی بجائے من حیث المجموع مدارس کے نصاب ونظام میں بہتری کے لیے کیوں اقدامات نہیں اٹھائے گئے ۔ وفاق المدارس کے احباب کو ، اپنے مطلوبہ مقاصد، نصاب میں تبدیلی اور عصری تعلیم کی ضرورت کے حوالے سے اعتماد میں لینے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ ان سارے سوالات کے کیا ثبوت اور شواہد ہیں کہ بات ارباب وفاق تک پہنچائی گئی مگرادھر سے شنوائی نہیں ہوئی، یا انہیں قائل کرنے کی کوشش کی گئی مگرارباب وفاق نے اہمیت نہیں دی اور اس کے بعد مجبور ہو کرایک نئے بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اس اصولی بات کا طے کیا جانا اس لیے اہم ہے کہ اگر یہ بہتری لازم تھی اور من حیث المجموع مدارس کے نصاب و نظام میں بہتری کی گنجائش تھی تو اجتماعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے لیےمحنت اور کوشش کیوں نہیں کی گئی۔ نئے بورڈ کی ضرورت اور اہمیت پر تو بات ہوتی ہے مگر یہ پہلو بھی سامنے آنا لازمی ہے کہ ارباب وفاق کو اس حوالے سے قائل کیا گیا یا نہیں ، اگر قائل کیا گیا تو دوسری طرف سے کیا جواب تھا۔اور اگر قائل کیے بغیر یہ قدم اٹھایا گیا تو اس کی کیا مجبوریاں تھیں ۔

دوسری اصولی بات یہ طے کرنا ضروری ہے کہ یا توکھلے دل سے اس بات کا اعتراف کیا جائے کہ وفاق کا ادارہ مدارس کے نصاب ونظام کو ٹھیک سے نہیں چلا رہاتھا ،ارباب وفاق زمانے کی ضرورتوں کو نہیں سمجھ رہے تھےاور ہم ان ضرورتوں کو مدنظر رکھ کر اصلاح اور بہتری کی نیت سے آگے بڑھےہیں ۔ اور اگر اس اعتراف کی ہمت نہیں تو اپنے اس فعل کو کسی مذموم لفظ سےمنسوب کر لیا جائے ۔ یعنی دونوں چیزیں بیک وقت کیسے صحیح ہو سکتی ہیں ، کیونکہ جن خامیوں اور کمزوریوں کے تدار ک کے لیے آپ بزعم خود آگے بڑھے ہیں وفاق ان کے ساتھ چلنے پر مصر ہے تو یہ دونوں باتیں بیک وقت کیسے صحیح ہو سکتی ہیں ۔اسی طرح وفاق اس راستے کی تحسین کیسے کر سکتا ہے جس پر آپ چل نکلے ہیں ، لہذا کھلے دل سے اس حقیقت کا اعتراف کرلیا جائے اور یہ کہنے کی بجائے کہ ہم وفاق کو مضبوط کرنے آئے ہیں اور یہ وفاق کا ہی ایک ذیلی ادارہ ہے کوئی اور تعبیر ڈھونڈ لی جائے ۔

تیسری اصولی بات یہ ہےکہ جامعۃ الرشید کے پلیٹ فارم اور جامعہ کے متعلقین کی طرف سے وقتا فوقتا حکومت کے حق میں جوبیان بازی اور ذہن سازی ہوتی ہے اس کا تعلق حکومت سے ہے یا ریاست سے ۔اگرچہ جامعہ کی طرف سے عموما اسے ریاست کے حق کا عنوان دی جاتا ہے اور اسی عنوان سے گفتگو کی جاتی ہے مگر بین السطوربات ایک خاص جماعت اورحکومت کی طرف چلی جاتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ ہم من حیث المجموع ریاست کو نوچ رہے ہیں اور ریاست کے حقوق کا شعور اجاگر کرنا اچھی بات ہے مگر یہ ذہن سازی کرتے وقت حکومت و ریاست کا فرق ملحوظ رکھنا بھی اہم ہے۔ حکومت اور ریاست دو الگ الگ ادارے ہیں اور جب آپ کا پلڑا ریاست کی بجائے حکومت کی طرف جھکتا ہے تو سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں ، انگلیاں بھی اٹھتی ہیں اور آپ کی غیر جانبداری بھی مشکوک قرار پاتی ہے ۔اور آخری نتیجے کے طور پر، آپ کی صفائیوں کے باوجود نئے بورڈ کے قیام کو بھی اسی خاص تناظر میں دیکھنے کی سپیس پیدا ہو جاتی ہے ۔

چوتھی اصولی بات یہ ہے کہ اکابر کی مزاج فہمی کی درست تفہیم کر لی جائے ۔ جامعہ الرشید کے دردیوار کے اندر، نشریاتی ذرائع اورمجمع العلوم الاسلامیہ کے اجتماعات میں بھی یہ بات دہرائی جاتی ہے کہ اکابر کی مزاج فہمی کی روشنی میں کیا جانے والا ناگزیر اقدام۔ میرے خیال میں یہ اکابر کے مزاج کی درست تفہیم نہیں ہے، اکابر کا جو مزاج اور خیال تھاکہ نظام تعلیم ایک ہونا چاہئے وہ یہ نہیں تھا کہ مدارس کو ،جو تعلیمی ادارے کے ساتھ ایک خانقاہی ادارہ بھی ہیں ،عصری اور سرکاری اداروں میں کھپانے والے علماء کا بیس کیمپ بنا دیا جائے ۔ بلکہ ان کا منشاء اور مزاج یہ تھا کہ ملک کا مجموعی قومی نظام تعلیم ایسا ہونا چاہئے جس میں دین و دنیا دونوں کو لے کر آگے بڑھا جائے ۔

یعنی وہ ریاست کے مجموعی نظام تعلیم کے ایک ہونے کے خواہاں تھےکیونکہ قوم کے لاکھوںکروڑں بچے ان ریاستی تعلیم گاہوں میں پروان چڑھتے ہیں جہاں لارڈ میکالے اور مغربی تصورات کی بنیاد پر نصاب اور نظام سازی کی جاتی ہے ۔اکابر کا مزاج یہ نہیں تھا کہ عصری ادارے،سکول ، کالجز اور یونیورسٹیاں تو اپنے مزاج اورسیکولر خطوط پر باقی رہیں اور مدارس جو ہماری تہذیب کا آخری مورچہ اور تہذیبی شناخت کا آخری استعارہ ہیں، اپنی تعلیمی و خانقاہی روش سے چھوڑ کر خود کو ماڈریٹ ثابت کرنے اور سرکاری اداروں میں کھپنے والے علماء کی کھیپ تیار کرنے پر لگ جائیں ۔ میرے خیال میں یہ اکابر کے مزاج کی سوء تفہیم ہے جس پر اپنے مطلب کا رنگ چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔ لہذا اس اصولی بات کو بھی طے کر لیا جائے کہ اکابر کے مزاج کی درست تفہیم کیا ہے ۔

پانچویں اصولی بات یہ ہے کہ دینی مداراس کے فضلاء کا عصری اداروں میں کھپنا اور وہاں نوکری حاصل کر لینا خوبی ہے یا خامی ۔ یہ وہ اہم نکتہ ہے جو نئے بورڈ کے منتظمین کی طرف سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ ہمارے اتنے طلباء بری فوج ، نیوی ، فضائیہ،سکول ، کالجز اور یونیورسٹیوں میں کھپ گئے وغیرہ ۔ کیا مدارس کے ذہین اور باصلاحیت طلباء کا واحد مصرف صرف یہی ہے کہ ان کی دینی و سماجی صلاحیتوں کو، دین اور امت کی بجائے محض ایک سرکاری نوکری اور اپنی ذات کی فکر تک محدود کر دیا جائے ۔اپنی بات کی مزید تفہیم کے لیے میں حضرت استاذ صاحب کی زندگی کو ہی بطور مثال پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

یادش بخیر ! جامعۃ الرشید کے مہتمم حضرت استاذ صاحب کی کہانی تو سب نے سنی ہوگی ، نہیں سنی توآج سن لیجیے، حضرت استاذ صاحب دورہ حدیث کے امتحان میں پاکستان بھر میں اول آئے تھے ۔اس امتیاز کی بنا پر انہیں مدینہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے میں چنداں مشکل نہیں تھی اور حضرت استاذ صاحب نے مدینہ یونیورسٹی جانے کا قصد بھی کر لیا تھا ، وہ تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ کراچی میں حضرت مفتی رشید احمد ؒ سے ملاقات ہو گئی اور حضر ت استا ذ صاحب انہی کے ہو کر رہ گئے ۔ اگر استاذ صاحب مدینہ یونیورسٹی چلے جاتے تو آج زیادہ سے زیادہ وہ بہت اچھے پروفیسر ہوتے ، بہترین لائف سٹائل کے ساتھ زندگی گزار رہے ہوتے اورخوبصورت گھر اور گاڑی کے مالک ہوتے۔لیکن وہ اور ان کی نسل یا خاندان میں سے شاید ہی کوئی خدمت دین سے وابستہ ہوتا ۔ یہ مدرسہ اور خانقاہ سے وابستگی ہی تھی جس نے حضرت استاذ صاحب کو خدمت دین کے اتنے بڑے کام کی توفیق دی ۔ سرکاری اداروں میں کھپنےوالے ہزاروں علماء کی بجائے اگر بیس تیس سالوں میں مدرسے کی چٹائی کو اہمیت دینےوالا ایک مفتی عبد الرحیم بھی پیدا ہو جائے تو مدارس کے لیے یہی کافی ہے ۔

برسبیل تذکرہ مولانا اعظم طارق شہید ؒ کی ایک نصحیت بھی یاد آ گئی،اس نصیحت کے راوی اسلام آباد کے ایک مشہور عالم دین ہیں ، وہ بتاتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں مولانا اعظم طارق شہید ؒ جامعہ فریدیہ تشریف لائے ، میں اسی سال دورہ سے فارغ ہوا تھا ، میں نے انہیں نصیحت کی فرمائش کی تو انہوں نے کہا بیٹا کبھی سرکاری نوکری نہ کرنا ۔ میں فوج میں خطیب بھرتی ہونے کے چکر میں تھا اور والدین کو بھی یہی امید تھی کہ فوج میں بھرتی ہو جائے گا تو زندگی سنور جائے گی ، لیکن میں نے حضرت شہید ؒ کی نصحیت کی وجہ سے یہ ارادہ ملتوی کر دیا ، کچھ عرصہ تک بے روزگار رہا مگر ہمت نہیں ہاری، پھر اللہ نے ایسا قبول کیا کہ آج یہ صاحب اسلام آباد میں دینی مدارس کی اہم نمائندہ شخصیت ہیں، پورے اسلام آباد میں خدمت دین ، مساجد ومدارس کا اہم نیٹ ورک چلا رہے ہیں اور اس کے ساتھ ملکی سطح پر بھی کافی متحرک اور سرگرم رہتے ہیں ۔

خلاصہ کلام یہ کہ یہ طے کر لیا جائے کہ مدارس کے فضلاء کا عصری جامعات اور سرکاری اداروں میں کھپنا خوبی ہے یا خامی اور اس کے ممکنہ اثرات و نتائج کیا ہو سکتے ہیں ۔ اس اصولی مقدمے کی بنیاد پر، اپنی بات کی تفہیم کے لیے میں کچھ مزید تفریعات پیش کرنا چاہتا ہوں ۔

دینی مدارس میں آنے والے بچے تین طرح کے طبقات سے تعلق رکھتے ہیں،ایک اپر کلاس، اس کلاس کے بہت کم بچے مدارس کا رخ کرتے ہیں ، اگر آئیں بھی تو والدین کی کوشش ہوتی ہے کہ غبی بچے کو مدرسہ بھیج دیا جائے اور ذہین کو عصری تعلیم دلوائی جائے ۔ دو،مڈل کلاس کے وہ گھرانے جن کا دین سے رشتہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے اور وہ اپنے ذہین اور غبی ہر طرح کے بچوں کو مدارس میں مذہبی تعلیم دلوانا پسند کرتے ہیں۔ تین، لوئر مڈل کلاس کے وہ گھرانے جن کے والدین عصری اداروں کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے اور وہ انہیں مدارس میں بھیج دیتے ہیں ۔ ان تینوں صورتوں کا مجموعی منطقی نتیجہ نکالا جائے تو صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ مدارس میں آنے والے طلباء میں سے صرف مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے بچے ذہین،لیڈر شپ اور وژنری صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں ۔اور یہ دنیا کا مسلمہ اصول ہے کہ ہزاروں لاکھوں میں سے کوئی ایک انسان وژنری اور لیڈر شپ کی خصوصیات کا حامل ہو تا ہے ۔اب ایسی صورت حال میں اگرمدارس میں آنے لاکھوں ہزاروں طلباء میں سے بھی ان چند باصلاحیت اور وژنری طلباکو سرکاری نوکریوں اور عصر ی اداروں میں کھپا دیا جائے تو امت ، مذہب اور مدارس کے حصے میں کیا آئے گا اور آئندہ اس خلا کو کیسے پورا کیا جائے گا ۔ہو سکتا ہے بعض احباب کو یہ بات عام سی لگے مگر میرے لیے یہ پہلواہم ہے ۔

عصری اور سرکاری اداروں میں کھپنے اور وہاں جا کر دین کا کام کرنے کا جو زعم ہے، یہ بھی ضرورت سے زیادہ خوش فہمی پر مبنی ہے ۔اس کی دو وجوہات ہیں ،ا یک اگر آپ اپنی ٹھیٹھ مولویانہ وضع قطع کے ساتھ میڈیا ، یونیوسٹیز اور دیگر عصری اداروں میں جانا چاہتے ہیں تو آپ کی وضع قطع کو دیکھ کر آپ کے بارے میں پہلے ہی ایک خاص پرسیپشن بنا لی جاتی ہے کہ یہ تو مولوی ہے اور اس نے ایسی ہی بات کرنی ہے اور آپ کو سنجیدہ نہیں لیا جاتا ۔دو ،یہ مشاہدے کی بات ہے کہ کوئی عالم دین خواہ کتنا ہی متدین اورراست باز کیوں نہ ہو، جب عصری اداروں اور ان کے ماحول میں جاتا ہے تو ماحول اپنا اثر دکھانا شروع کر دیتا ہے ۔ شروع کے سالوں میں نہ سہی چار پانچ سال کے بعد اتنا فرق تو ضرور پڑ جاتا ہے کہ خدمت دین اور اصلا ح امت کی فکر پس منظر میں چلی جاتی ہے اوراپنا گھر بار اور فکر معاش ابھر کر سامنے آ جاتے اور مقصود بن جاتے ہیں ۔ پھر اس کے بعد وہی ہوتے ہے جو سرکاری خطیبوں ، سرکاری ٹیچروں کی صورت میں ہو رہا ہے ۔ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں مگر ان کا کردار مدرسہ کی روح کے موافق بھی نہیں کہ جس کا بنیادی مقصد ایسے علماء تیار کرنا ہے جو مادی مفادات سے ماوراءہو کر مخلوق کو خالق سے جوڑنے کے لیےوقف ہو جائیں ۔

اگر دینی مدارس کے فضلاء کو عصری اداروں میں کھپانا ہی مقصود ہے تو گویا دینی تعلیم بھی محض حصول روزگار کا ایک ذریعہ بن کررہ جائے گی ، پھر ایک عالم دین سے جو مدرسہ میں دس سال لگاتا ہے یہ سوال فضول ہو جائے گا کہ وہ مدرسہ میں دس سال لگانے کے بعد مذہب اور امت کو کیا لوٹا رہا ہے ۔

میرے خیال میں ارباب جامعہ الرشید کو اس موضوع پر ریسرچ کروانی چاہئے اور اس کے نتائج بھی سامنے لانے چاہیئں کہ اب تک ان کے کتنے فضلاء عصری اداروں میں کھپے ، کتنوں کے عقائد و نظریات اور وضع قطع میں تبدیلی آئی ، ان اداروں میں ان کا کردار کیا رہا اور ان کے وہاں ہونے سے اداروں میں کیا مثبت تبدیلیاں آئیں ۔ جامعۃ الرشید کے ساتھ اگر مجموعی طور پر مدارس کے فضلاء کا عصری اداروں میں کھپنے کا ڈیٹا بھی اکٹھا کر لیا جائے اورا س کا اینالسسز کر لیا جائے تو میرے خیال میں نتائج انتہائی مایوس کن اور ہوش ربا ہوں گے ۔ اگر کوئی اپنے طو ر پر اس موضوع پر کام کرنا چاہے تو اس پر ایم فل پی ایچ ڈی سطح کا مقالہ بھی لکھا جا سکتا ہے ۔

اور سب سے آخر میں اس اصولی بات کی تفہیم ضروری ہے کہ نئے بورڈ کے قیام کی صورت میں ، الحاق کرنے والے مدارس کو خلوص نیت سے ہی سہی مگر کچھ خواب دکھائے گئے ہیں ۔ مثلا ایچ آر ، فائنانس، مینجمنٹ ، فنڈ ریزنگ، ہیومن ریسورس اور اس جیسے دیگر پر کشش الفاظ ، اصطلاحات اور کیپشن وغیرہ ۔اس ضمن میں یہ جاننا اہم ہے کہ کیا ملک کے تمام مدارس کے وسائل و مسائل جامعۃ الرشید جیسے ہیں یا ان وسائل و مسائل میں تفاوت موجود ہے ۔ میری ناقص رائے میں اس طرح کے منصوبے ، اصطلاحات اور کیپشنزکراچی جیسے شہر اور جامعۃ الرشید جیسے ادارے میں بیٹھ کر تو ڈسکس ہو سکتے ہیں مگرملک بھر کے تمام مدارس کے لیے یہی سوچ اپنانازمینی حقائق کو یکسر نظرا نداز کرنے کے مترادف ہے۔

جامعۃ الرشید وسائل کے اعتبار سے ایک آئیڈیل ادارہ ہے اور آئیڈیل کے خواب تو دیکھے جا سکتے ہیں مگر اسے پایا نہیں جا سکتا۔دیگر اکثر مدارس کی صورتحال تو یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنے روزمرہ ا خراجات پورے کرنا مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ ایچ آر ، فائنانس، مینجمنٹ، فنڈ ریزنگ، ہیومن ریسورس وغیرہ کے خوبصورت اور پر کشش کیپشنز کے خواب دیکھیں ۔

نئے بورڈ کے تعارفی کتابچے میں لکھا گیا ہے کہ ہم اپنے طلباء کو تین چار زبانیں سکھانا چاہتے ہیں اور درس نظامی کے موجودہ نصاب و نظام کے ساتھ یہ ممکن نہیں ۔ ، میر ے لیے یہ امر باعث حیرت ہے کہ جن طلباء کو اردو ٹھیک سے لکھنی اور بولنی نہیں آتی ہم انہیں غیر ملکی زبانیں کیوں سکھانا چاہتے ہیں ۔سکول کالج کی طرح اب مدارس کی صورتحال بھی یہ ہے کہ اردو میں ایک صفحے کا مضمون ہمارے طلباء نہیں لکھ سکتے ۔ اگر غیر ملکی زبانیں سکھانا مقصود ہے تو اس کے لیے کچھ خاص اذہان کو چنا جا سکتا ہےمگر وہ بھی درس نظامی کی تکمیل کے بعدجیسا کہ جامعۃ الرشید میں انگلش اور دیگر تخصصات کے شعبے پہلے سے موجود ہیں ۔ درس نظامی کے ساتھ کہ جس کی اپنی زبان عربی ہے اس کے ساتھ ترکش، چائنیز اور انگلش گویا ایک طلباء درس نظامی کے علوم و فنون کی بجائے زبانیں سیکھنے پر ہی مامور ہوں گے ۔

اگر فرض کر لیا جائے کہ درس نظامی کے ساتھ صرف ایک زبان ترکش ، چائنیزیا انگلش سکھائی جائے گی تو میرا ماننا ہے کہ پھر بھی تین زبانوں کا بوجھ ایک طالب علم کو اٹھانا پڑے گا، اردو، عربی تو لازمی ہیں ان کے علاوہ ترکش، چائنیز اور انگلش میں سے کوئی ایک۔ یہ طالب علم کے ساتھ سراسر زیادتی ہے اور اس طرح وہ کسی ایک زبان کے قابل بھی نہیں رہے گا۔ زبان سیکھنا کوئی آسان کام نہیں۔اگر ان زبانوں کے محض ابتدائی اور تعارفی قواعد سکھائے جائیں گے تو بھی فائدہ نہیں کہ جب تک کسی زبان کے ساتھ مستقل ٹچ نہ رہا جائے ، اس کی ووکیبلری مستقل نہ برتی جائے تو اسے سیکھنا سمجھنا ممکن نہیں ہوتا ۔ زبانیں سیکھنے سکھانے کی اس مفروضہ صورتحال کا تعلق جامعۃ الرشید کی چاردیواری کے اندر ہے کہ جامعہ کی چار دیواری کے اندر بھی یہ کوئی قابل عمل صورت نہیں ۔ اگر اس مفروضہ صورتحال کو دوسرے مدارس تک پھیلا دیا جائے تو وہاں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ دوسرے مدارس کے لیے ان زبانوں کے ماہر اساتذہ کرام ڈھونڈنا اور انہیں ہائیر کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔

تعارفی کتابچے میں ہم نصابی اضافات کے ضمن میں جن موضوعات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان میں سے اکثر دینی مدارس میں پہلے سے رائج ہیں ، مثلا ہر مدرسے میں بز م ادب ، تقریری مقابلوں ، خطابت ، تحریر وتقریراور کھیل وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ معلوماتی و تربیتی نشستوں میں جن موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے مثلا وفاقی حکومت کا اسٹرکچر، گورننس، آئین پاکستان ، سی پیک ، اقوام متحدہ ، ایف اے ٹی ایف وغیرہ یہ تمام مقاصد محض تین چار گھنٹے کی ورکشاپ سے حاصل ہو سکتے ہیں ۔نئے بورڈ کے قیام کو اس طرح کی سطحی چیزوں سے استناد مہیا کرنا غیر عقلی اور غیر منطقی رویہ ہے ۔

مجمع العلوم الاسلامیہ کےتعارفی کتابچے کو میں نے بغور پڑھا اور دو تین بار پڑھا ہے ، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نئے بورڈ کے قیام ، اہداف ومقاصد اور پالیسز کا جو تعارف کروایا گیا ہے اس کا نفاذ جامعۃ الرشید کی حدود اور اس جیسے چند بڑے شہری اداروں میں بھی صرف جزوی طورپر تو ممکن ہے مگردور درازاور محروم الوسائل مدارس کے لیے یہ صرف مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ اس کااگر تناسب نکالا جائے تو پانچ فیصد ایسے مدارس ہو سکتے ہیں جن میں یہ ماڈل اپلائی کیا جا سکتا ہے باقی پچانوے فیصد مدارس کے لیے اپنی موجودہ ہیئت کو برقرار رکھنااور موجود ہ نظم کے ساتھ اپنا وجود باقی رکھنا ہی بہت بڑا کام ہے ۔

پچھلے کچھ دنوں سےمسلسل غور وفکر کے بعد ، میں یہ سطور لکھنے پر مجبور ہواہوں۔ امید ہے میرےا حباب اور اساتذہ کرام اسے اسی نظر سے دیکھیں گے ۔ مجھے اپنے اساتذہ اور مادر علمی سے محبت ہے اور اسی محبت کے تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے میں نے ایک نکتہ نظر واضح کرنے کی کوشش کی ہے اورظاہر ہے کہ حرف آخر کوئی بات نہیں ہوتی۔